Pages

Thursday 2 July 2009

Al Risala | July 2009 (الرسالہ،جولائی)

2

-گجرات کا سفر

43

- تاثراتِ سفر(لکھنؤ)


گجرات کا سفر

بھاؤ نگر (گجرات) میں ایک مقام مہوا (Mahuva) ہے۔ یہاں ایک فلاحی تنظیم قائم ہے۔ اِس تنظیم کانام سدبھاؤنا فورم (Sadbhavna Forum) ہے۔ اِس تنظیم کے تحت، مہوا میں ایک آل انڈیا کنونشن (convention) ہوا۔ اس کنونشن کی کارروائی 25 فروری 2009 سے27 فروری 2009 تک جاری رہی۔ اس کنونشن کی دعوت پرگجرات کا سفر ہوا۔ یہ سفر ایک قافلے کی صورت میں ہوا۔ ہمارے ساتھ سی پی ایس انٹرنیشنل کی ٹیم کے چار افراد شامل تھے— مولانا محمد ذکوان ندوی، مسٹر رجت ملہوترا، استتھی ملہوترا ،اور سعدیہ خان۔
گجرات انڈیا کی ایک ریاست ہے۔ وہ بحرِ عرب (Arabian Sea) کے کنارے واقع ہے۔ عرب کے تاجر قدیم زمانے سے یہاں آتے رہے ہیں۔ تیرھویں صدی عیسوی میں یہاں واگھیلاخاندان (Vaghela Dynasty) کی حکومت تھی۔ سلطنتِ دہلی کے سلطان علاؤ الدین خلجی (وفات: 1316 ) نے 1298 میں اِس علاقے پر قبضہ کیا اور یہاں اپنی حکومت بنائی۔
اس کے بعد مغل بادشاہ اکبر (وفات: 1605 ) نے 1577 میں یہاںمغل دورِ حکومت کا آغاز کیا۔ اٹھارھویں صدی کے وسط میں مراٹھا (Marathas) کی فوج یہاں داخل ہوئی۔ اس نے اِس علاقے میں مغل حکومت کا خاتمہ کردیا۔ 1818میں گجرات ایسٹ انڈیا کمپنی کے قبضے میںآگیا۔ آزادی کے بعد 1947 سے گجرات میں نیشنل گورنمنٹ کا آغاز ہوا۔
گجرات کے لئے ہمارا سفر 25فروری 2009 کی صبح کو شروع ہوا۔ اُس وقت لوگوں کے درمیان گجرات کے حوالے سے ایک خبر کا کافی چرچا تھا۔ یہ خبر 22 فروری 2009کو تمام اخباروں میں نمایاں طورپر شائع ہوئی تھی۔ و ہ یہ کہ گجرات کی مودی گورنمنٹ نے ریاست میں پولس کے سب سے بڑے عہدے پر ایک مسلمان شبیر حسین شیخ آدم کو مقرر کیا ہے۔ یہ ڈائرکٹر جنرل آف پولیس (DGP) کا عہدہ ہے۔ آزادی کے بعد پہلی بار کسی مسلمان کو یہاں اتنا بڑا عہدہ دیاگیا۔ یہ عہدہ ریاست کی مودی گورنمنٹ نے دیا ہے جو 2002 کے فرقہ وارانہ فساد میں کافی بدنام ہوئی تھی۔
عام رواج کے مطابق، لوگوں نے اِس واقعے کو منفی پہلو سے لیا۔ عام طورپر یہ کہاجانے لگا کہ چوں کہ ہندستانی پارلیامنٹ کا الیکشن بہت جلد ہونے والا ہے، اِس لیے مودی گورنمنٹ نے ریاست کے مسلم ووٹروں کو اپنی پارٹی کی طرف راغب کرنے کے لیے ایسا کیا ہے، یعنی یہ امیج بلڈنگ اسٹریٹجی (image building strategy) کا ایک حصہ ہے۔
میں نے کچھ لوگوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اِس قسم کا منفی تبصرہ صرف ایک غیر دانش مندانہ تبصرہ ہے۔ یہ دنیا فرشتوں کی دنیا نہیں ہے۔ اِس دنیا میں ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ اربابِ اقتدار اپنے سیاسی مصالح کے تحت اقدامات کرتے ہیں۔ دوسروں کا یہ کام ہے کہ وہ دانش مندانہ عمل کے ذریعے اِن اقدامات کو اپنے لیے موافق بنا سکیں۔
اِس دنیا کے لیے فطرت کا قانون یہی ہے کہ یہاں کسی شخص یا گروہ کو جزئی مواقع (partial opportunities)ملیں، کسی کو بھی یہاں کلّی مواقع حاصل نہیں ہوتے۔ اِس لیے دانش مندی یہ ہے کہ ناموافق پہلوؤں کو نظر انداز کیا جائے اور موافق پہلوؤں کو دریافت کرکے اُنھیں استعمال کیا جائے۔
یہی وہ حقیقت ہے جو صحیح البخاری کی ایک روایت میں اِن الفاظ میں بیان کی گئی ہے: اِن اللہ لیؤیّد ہٰذا الدین بالرجل الفاجر(صحیح البخاری، کتاب الجہاد والسیر) اِس حدیث میں ایک قانونِ فطرت کو بتایا گیا ہے، یعنی ایک ’’فاجر‘‘ انسان اپنے ذاتی انٹریسٹ کے لئے ایک اقدام کرتا ہے۔ اِس اقدام سے خود فاجر انسان کا مقصد اپنے ذاتی مفاد کو حاصل کرنا ہوتاہے۔ لیکن اِسی کے ساتھ ایسا ہوتا ہے کہ ایک نئی صورت حال پیداہوتی ہے۔ یہ نئی صورت حال نئے مواقع کھولتی ہے، جن کو استعمال کرکے دوسرے لوگ اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔ اس حدیثِ رسول میں جس ’’تائید ِفاجر‘‘ کا ذکر ہے، اس سے مراد بالواسطہ تائید ہے، نہ کہ براہِ راست تائید۔
روانگی سے صرف ایک دن پہلے (24 فروری2009 ) کے اخبارات میں صفحۂ اوّل کی سب سے بڑی خبر اے آر رحمان (اللہ رکھا رحمان) کی کامیابی کے بارے میں تھی۔ مسٹر رحمان کو نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (24 فروری 2009 ) نے اپنے ایڈیٹوریل میں ایک سچا مسلمان (devout Muslim) لکھا تھا۔ اس کے باوجود مسٹر رحمان نے سب سے بڑا فلمی ایوارڈ حاصل کیا۔
برٹش فلم میکر ڈینی بائل (Danny Boyle) نے ممبئی کے پس ماندہ علاقے کی بنیاد پر ایک فلم بنائی۔ اس کا نام سلم ڈاگ ملینئر (Slumdog Millionaire)تھا۔ اِس فلم کے میوزک ڈائرکٹر اے آر رحمان تھے۔ یہ فلم نیا پن اور تخلیقیت (creativity) کا ایک نمونہ تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ فلم امید اور محبت اورعزم کی جستجو کا ایک اظہار ہے:
Exploration of love, hope and determination.
لاس اینجلز (امریکا) کے مقابلے میں آسکر ایوراڈ (Oscar Award) جیتنے کے بعد مسٹررحمان نے وہاں کی تقریر میں اپنے بارے میں جو بات کہی، وہی اِس معاملے کا سب سے بڑا سبق ہے۔ انھوںنے کہا کہ — پوری زندگی میں میرے سامنے محبت اور نفرت کا چوائس تھا۔ میں نے ہمیشہ محبت کا چوائس لیا، اور اِسی کا یہ نتیجہ ہے کہ آج میںیہاں موجود ہوں:
All my life, I have had the choice of hate and love. And I chose love, and I am here.
مسٹر رحمان نے اِس انعام کو خدا کا فضل بتایا اور کہا:
All fame and glory is for God alone.
اِس خبر پر بات کرتے ہوئے میںنے ایک صاحب سے کہا کہ لوگ اکثر بی فیکٹر (bias factor) کی بات کرتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ سارا معاملہ سی فیکٹر (competence factor) کا ہے۔ اگر آپ حقیقی معنوں میں لیاقت کا ثبوت دے سکیں، تو کوئی تعصب اور امتیاز کام نہیں کرے گا۔ غیرموافق حالات کے باوجود آپ اعلیٰ مقام پر پہنچ جائیں گے۔
25 فروری 2009 کی صبح کو ساڑھے چار بجے ائر پورٹ کے لئے روانگی ہوئی۔ ہمارا قافلہ دوگاڑیوں پر مشتمل تھا۔ میں چوں کہ کارسک (car sick) ہوں، اِس لیے میں ایک گاڑی کی پچھلی سیٹ پر لیٹ گیا۔ اُس وقت میں آنکھ بند کئے ہوئے تھا۔ گاڑی نہایت تیز رفتاری کے ساتھ چل رہی تھی۔ لیکن مجھے ذاتی طورپر ایسا محسوس ہورہا تھا، جیسے گاڑی ٹھیری ہوئی ہے۔
یہی سادہ طورپر نظریۂ اضافیت (Theory of Relativity) ہے۔ہم چیزوں کو صرف ان کی اضافی نسبت کے اعتبار سے جانتے ہیں۔ مثلاً اگر میں اُس وقت گاڑی میں بیٹھا ہوا ہوتا اور باہر کی طرف دیکھ رہا ہوتا تو مجھے محسوس ہوتا کہ گاڑی تیزی کے ساتھ دوڑ رہی ہے۔ چوں کہ باہر کے مناظر ٹھیرے ہوئے تھے اور ان کے درمیان گاڑی تیزی سے چلی جارہی تھی۔ حرکت اور ٹھیراؤ کے درمیان اِس تقابل کی بنا پر میں محسوس کرتاکہ میں تیزی کے ساتھ سفر کررہا ہوں۔ لیکن جب میں نے آنکھیں بند کرلیں تو اُس وقت میںنسبتی مشاہدہ نہیں کررہا تھا۔ اِس لیے مجھے اپنی ذات کی نسبت سے یہی محسوس ہورہا تھا کہ گاڑی ٹھیری ہوئی ہے۔
ہم لوگ دہلی ائر پورٹ پر پہنچے تو وہاں کافی بھیڑ نظر آئی۔ یہاں ہم لوگوں نے فجر کی نماز ادا کی۔ میرے ساتھی بورڈنگ کارڈ اور سامان کی بکنگ کے لیے ائر انڈیا کی ونڈو پر چلے گئے۔ میںایک کرسی پر بیٹھ گیااور ائرپورٹ کے اندر کے مناظر دیکھنے لگا۔ میرے سامنے کی کرسی پر ایک عورت اپنے چھوٹے بچے کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔ بچہ رونے لگا توعورت اس کو لے کر کھڑی ہوئی اور بچے کو گود میںلے کر اس کو چپ کرانے لگی۔
یہ منظر دیکھ کر مجھے حالیہ فلم (Slumdog Millionaire) کا ایک مکالمہ یاد آیا جو مجھ کو کسی نے بتایا تھا۔ اِس مکالمے میںایک دولت مند آدمی ایک غریب بچے سے کہتاہے کہ میرے پاس دولت ہے، میرے پاس شہرت ہے، میرے پاس کاراور بنگلہ ہے، میرے پاس شان دار جاب ہے۔ تمھارے پاس کیا ہے۔ اِس کو سن کر بچہ آہستگی کے ساتھ جواب دیتا ہے: میرے پاس ماں ہے۔
یہ سوچتے ہوئے میری آنکھوںمیں آنسو آگئے۔ میری زبان سے نکلا کہ کیسی عجیب بات ہے کہ اِس بھری ہوئی دنیامیں کوئی شخص یہ کہنے والا نہیں کہ — میرے پاس خدا ہے۔ انسان کو خدا نے پیدا کیا۔ جو کچھ انسان کے پاس ہے، وہ سب کا سب خدا کا دیا ہوا ہے۔ مگر یہی سب سے بڑی حقیقت کسی کو دکھائی نہیں دیتی۔ لوگ مخلوق کو جانتے ہیں، لیکن خالق کو جاننے والا کوئی نہیں ۔ اگر کچھ لوگ خدا کا نام لیتے ہیںتو اُن کے دل میں بھی خدا کے لیے وہ عظیم اعتراف موجود نہیں جوسمندری طوفان کی طرح سینے سے ابل پڑے۔
پانچ بڑے کارٹن (carton) میں ہمارے ساتھ چھپا ہوا اسلامی لٹریچر موجود تھا۔ اس کو ائرپورٹ پر چیک اِن (chek in) کردیاگیا۔ اس کے علاوہ ہمارے ساتھیوں نے اپنے بیگ میں بھی کتابیں رکھ لی تھیں۔ یہ کتابیں اردو، ہندی اور انگریزی زبان میں تھیں۔ لٹریچر کی تقسیم کی صورت میں ائرپورٹ کے اندر داخل ہوتے ہی دعوہ ورک شروع ہوگیا۔ ہمارے ساتھی جس کو بھی لٹریچر دیتے ، وہ اس کو دھنیہ واد، یا تھینک یو کہہ کر خوشی کے ساتھ قبول کرلیتا۔ قرآن کے مطابق،یہ لسانِ قوم (ابراہیم : 4) میں دعوت پہنچانے کے ہم معنی تھا۔
دہلی سے احمد آباد کے لیے ائر انڈیا کی فلائٹ (CD 7617) کے ذریعے روانہ ہوا۔ پہلے اِس کا نام انڈین ائر لائنز ہوتا تھا۔ اب انڈیا کی دونوں سرکاری ہوائی کمپنیوں ائر انڈیا اور انڈین ائر لائنز کو ملاکر اُن کا مشترک نام ائر انڈیا (Air India) کردیاگیا ہے۔
جہاز کے اندر مطالعے کے لیے مختلف اخبارات موجود تھے۔ نئی ہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (25 فروری 2009 ) کے صفحہ 3 پر ایک اشتہار چھپا ہوا تھا۔ یہ ایک تعلیمی ادارہ (MBA Career Launcher) کا اشتہار تھا۔ اِس میں بتایاگیا تھا کہ ہمارے ادارے کے ذریعے ایم بے اے کا کورس کرو اور اعلیٰ ترقی سے ہم کنار ہو۔ اس اشتہار کے اوپر جلی حرفوں میں لکھا ہوا تھا— دوسرا موقع ملنے والا نہیں:
No Second Chance.
اِس اشتہار میں مذکورہ ادارے کا دعویٰ تو ایک غلط دعویٰ تھا۔ کیوں کہ دنیا میں انسان کو دوسرا موقع(second chance) بار بار ملتا رہتا ہے۔البتہ ایک اور پہلو کے بارے میں یہ بات یقینا درست ہے، اور وہ آخرت کا پہلو ہے۔ آخرت کے اعتبار سے ہر عورت او رمرد کو صرف ایک بار موقع ملتا ہے اوروہ قبل از موت دورِ حیات کا موقع ہے۔ بعد از موت دور حیات میں کسی کو دوسرا موقع ملنے والا نہیں۔
اِس فلائٹ کے کیپٹن مسٹر ولیم تھے۔ وہ خالص امریکی لہجے میں انگریزی بول رہے تھے۔ ہمارے ساتھیوں نے اُن کو ریلٹی آف لائف (The Reality of Life) مطالعے کے لئے دی۔ یہ ایک چھوٹا جہاز تھا ۔ اِس میں صرف دو ائر ہاسٹس کام کررہی تھیں۔ اُن دونوں کو بھی ریلٹی آف لائف دی گئی۔ انھوں نے شکریہ کے ساتھ اس کو قبول کیا۔
دہلی سے احمد آباد کا فاصلہ 916 کلو میٹر ہے۔ سوا گھنٹہ کی پرواز کے بعد ہمارا جہاز احمد آباد کے ائر پورٹ پر اتر گیا۔احمد آباد ائر پورٹ ایک قدیم ائر پورٹ ہے۔ لیکن اب اس کو نئے سرے سے زیادہ اچھا بنایا گیا ہے۔ ہمارے ساتھیوں نے ائر پورٹ کے عملے کو مطالعے کے لیے دعوتی پمفلٹ دیے۔ ائرپورٹ پر مسٹر اروند کمار پنکی دو گاڑیوں کے ساتھ ہماری رہنمائی کے لئے موجود تھے۔ احمد آباد سے مہوا تک کا سفر ہمیں بذریعہ کار طے کرنا تھا۔
احمد آباد گجرات کا مرکزی شہر ہے۔ اس کو سلطان احمد شاہ (وفات: 1443) نے 1411 میں آباد کیا تھا۔ انھیں کے نام پر اس کو احمد آباد کہا جاتا ہے۔احمد آباد کے لیے میرا پہلا سفر 1971 میں ہوا تھا۔ یہ میرا پہلا ہوائی سفر تھا۔ اُس وقت میں پہلی بار انڈین ائر لائنز کے ذریعے احمد آباد سے دہلی آیا تھا۔ اِس سفر نامے کی روداد اُس زمانے میں الجمعیۃ ویکلی (نئی دہلی) کے شمارہ 10 ستمبر 1971 میں شائع ہوئی تھی۔ اِس سفر نامے میں سابرمتی آشرم (قائم شدہ : 1917) کا ذکر کرتے ہوئے میں نے لکھا تھا:
’’رولٹ کمیٹی کی سفارشات (Rowlatt committee’s recommendations) شائع ہوئیں، جس میں ہندستان کے لئے ڈومی نین اسٹیٹس (Dominion Status) کا فیصلہ کیا گیا تھا، گاندھی جی نے اِس فیصلے کو توہین آمیز محسوس کیا۔ چناں چہ ان کی تحریک کے تحت، اپریل 1919 کو اس کے خلاف سول نافرمانی (civil disobediance) کی تحریک اٹھ کھڑی ہوئی۔ اِس سلسلے میں احمد آباد اور دوسرے مقامات پر جو مظاہرے ہوئے، اُن میں عوام نے تشدد کا راستہ اختیار کیا۔ گاندھی جی کو ستیہ گرہ کی رو سے اِس معاملے سے بہت تکلیف پہنچی۔ انھوںنے کہا کہ سول نافرمانی کی تحریک اٹھانا ہمارے لئے ایک عظیم قسم کا غلط اندازہ (Himalayan miscalculation) تھا۔ چناں چہ انھوں نے فوراً سول نافرمانی کی تحریک کو ختم کرنے کا اعلان کردیا‘‘۔ (صفحہ 5 )۔
اِسی قسم کا تجربہ موجودہ زمانے کے مسلم رہنماؤں کے ساتھ بار بار پیش آیا ہے۔ پچھلے دو سو سال کے اندر مسلم رہنماؤں نے بڑی بڑی سیاسی تحریکیں اٹھائیں۔یہ تمام تحریکیں بلا استثناء اپنے نشانے کو حاصل کرنے میں مکمل طورپر ناکام رہیں۔ ناکامی کا یہ واقعہ عرب دنیا میں بھی پیش آیا اور غیر عرب دنیا میں بھی۔ اِس ناکامی کا سبب مشترک طورپر یہ تھا کہ جن مسلم عوام کی بنیاد پر یہ تحریکیں اٹھائی گئی تھیں، وہ مسلم عوام اِس قسم کی تحریک کے لئے فکری اور اخلاقی اعتبار سے بالکل تیار نہ تھے۔ موجودہ زمانے کے مسلمان اِس اعتبار سے ایک غیر تربیت یافتہ گروہ کی حیثیت رکھتے تھے، نہ کہ تربیت یافتہ گروہ کی حیثیت۔ مگر دو سو سال کی تاریخ بتاتی ہے کہ کسی ایک مسلم رہنما نے بھی اپنی غلطی کا کھلا اعلان نہیں کیا۔ مسلم رہنماؤں کی اِسی بے اعترافی کا نتیجہ ہے کہ مسلمانوں کے درمیان تباہ کن سیاست کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ نتیجے کے اعتبار سے شدید ناکامی کے باوجود ابھی تک اُس کا خاتمہ ممکن نہ ہوسکا۔
ہم لوگ ائر پورٹ سے باہر آئے تو ہمارے ساتھ ذاتی سامان کے علاوہ، کتابوں کے پانچ بڑے بڑے کارٹن (carton) تھے۔ یہ سب اسلامی لٹریچر تھا جن کو ہم اجتماع میں لوگوں کو دینے کے لیے لے جارہے تھے۔ مسٹر اروند کمار پنکی جو کہ ایک صنعت کار ہیں اور اسی کے ساتھ وہ مراری باپو کے شاگرد ہیں۔ وہ ہمارے ساتھ ساتھ تھے۔ ائر پورٹ پر میں نے دیکھا کہ مسٹر پنکی نہایت شوق سے کتابوں کے بنڈل اٹھا اٹھا کر گاڑی میں رکھ رہے ہیں۔ یہی منظر دوبارہ مجھے سد بھاؤنا فورم کے کنونشن میں پہنچ کر دکھائی دیا۔ وہاں میں نے دیکھا کہ غیر مسلم حضرات نہایت شوق کے ساتھ ہماری کتابوں کو لوگوں کے درمیان تقسیم کررہے تھے۔ اِس قسم کا منظر مجھے بار بار ملک کے اندر اور ملک کے باہر ہونے والی کانفرنسوں میں دیکھنے کو ملا ہے۔
یہ بلا شبہہ ایک نیا ظاہرہ ہے۔ قدیم زمانہ مذہبی تعصب کا زمانہ تھا۔ قدیم زمانے میں ایسا ہونا ممکن نہ تھا کہ ایک مذہب کے لٹریچر کو دوسرے مذہب کے لوگ ذوق وشوق کے ساتھ دوسروں کو مطالعے کے لئے دے رہے ہوں۔ مذہبی رواداری کا یہ ماحول جدید سائنسی انقلاب کے بنا پر وجود میں آیا ہے۔ قدیم زمانے میں اگر متعصب ہونا کسی آدمی کے لیے اس کے مذہبی ہونے کی علامت ہوتا تھا تو موجودہ زمانے کی قابلِ تعریف بات یہ بن گئی ہے کہ آدمی مذہب کے معاملات میں غیر متعصب ہو۔ وہ ہر ایک کی مذہبی آزادی کا احترام کرے۔
اِس طرح کے منظر کو دیکھ کر میرے اندر غیر معمولی شکر کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ خدایا، تیرا کیسا عجیب احسان ہے کہ تو نے اِس کو ممکن بنادیا کہ دعوت کا کام خود مدعو کے تعاون سے کیا جائے:
Doing Dawah work by the support of Mad‘u.
احمد آبا سے ہمارا قافلہ دو کاروں کی صورت میں مہوا کے لیے روانہ ہوا۔ یہ تقریباً پانچ گھنٹے کا سفر تھا۔ یہ سفر ہمارے لیے کوئی تفریحی سفر نہ تھا، بلکہ وہ ایک تربیتی سفر کے ہم معنی تھا۔ اِس اعتبار سے اس کو متحرک کلاس (class on wheel) کہاجاسکتاہے۔ سفر کے دوران جو باتیں ہوئیں، اُن میں سے ایک بات یہ تھی کہ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ آج کل ساری دنیا کے مسلمان یہ کہتے ہیں کہ اسلام خطرے میں ہے۔ مگریہ ایک بے بنیاد بات ہے۔ صحیح یہ ہے کہ اسلام خطرے میں نہیں، بلکہ مسلمان خود اپنی نادان سیاست کے نتیجے میں خطرے میں ہیں:
Muslims are in danger due to their unwise policies.
احمد آباد کا شہر سابرمتی دریا کے کنارے واقع ہے۔ احمد آباد ائر پورٹ سے تقریباً آدھا گھنٹہ سفر کرنے کے بعد مشہور سابرمتی آشرم آیا۔ یہاں ہم لوگ آشرم کو دیکھنے کے لیے کچھ دیر ٹھہرے۔ یہ آشرم سابرمتی دریا کے کنارے ایک وسیع رقبے میں قائم ہے۔ وہ نہایت سادہ اور منصوبہ بند انداز میں بنایا گیا ہے۔ پورے آشرم میں نظم اور صفائی اور سرسبزی نمایاں طور پر دکھائی دیتی ہے۔
ہمارے ساتھیوں نے آشرم کے اندر اپنا دعوتی کام جاری رکھا۔ انھوں نے یہاں کے لوگوں کو ’’ستّیہ کی کھوج‘‘ نامی ہندی پمفلٹ دیا۔ اِس کے علاوہ، وہاں باہر کے کچھ ٹورسٹ آئے ہوئے تھے، اُن کو انگریزی میں چھپا ہوا پمفلٹ ریلٹی آف لائف(The Reality of Life) مطالعے کے لیے دیا گیا۔ اِس آشرم میں گاندھی جی کی بہت سی یادگاریں موجود ہیں۔
سابرمتی آشرم جولائی 1917میں قائم ہوا۔ مشہور ڈانڈی مارچ (12 مارچ 1930 ) گاندھی جی نے اِسی آشرم سے شروع کیا تھا۔ اُس وقت 40 آدمیوں کا قافلہ یہاں خیمے کے اندر رہتاتھا۔ اب یہ آشرم شہر سے مل گیا ہے۔ مگر اُس وقت وہ شہر سے چار کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ آشرم کا خاص مقصد اُس وقت دستی کرگھے کے ذریعے سوتی کپڑا تیار کرنا تھا۔
سابرمتی آشرم دیکھنے کے بعد ہم لوگ مہوا کے لیے روانہ ہوئے۔ احمد آباد سے مہوا تقریباً تین سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ سڑک ہائی وے نمبر 2 (high way no. 2) تھی۔ سڑک اچھی اور چوڑی بنی ہوئی تھی۔ سڑک کے دونوں طرف کھیتوں کے سرسبز مناظر دکھائی دے رہے تھے۔ یہ زیاہ تر کپاس کے کھیت تھے جس میں روئی (cotton) کے پھول صاف طورپر دکھائی دے رہے تھے۔ کپاس کے علاوہ یہاں گندم اور پیاز کی فصل بھی نظر آرہی تھی۔ اِس طرح گویا کہ یہ سفر دو چیزوں کے دوران طے ہورہا تھا۔ ایک طرف، سڑک اور کار جو صنعتی تہذیب کی علامت ہے۔ اور دوسری طرف، سرسبزکھیت جو فطرت کے عطیات کا مشاہدہ کرارہے تھے۔ پہلا منظر یہ کہہ رہا تھا کہ تاریخ میں انسان کے کنٹری بیوشن (contribution) کا اعتراف کرو۔ اور دوسرا منظر یہ دعوت دے رہا تھا کہ خالق کے عطیات کو محسوس کرتے ہوئے خالق کا اعلیٰ شکر ادا کرو۔
اِس طرح کے پُر کیفیت ماحول میں ہماری گاڑی تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی۔ اتنے میں ہمارے ڈرائیور صاحب نے گاڑی کے اندر اے سی چلا دیا۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے کسی نے ماحول میں بے جا دخل انداز ی کردی ہو۔ میں نے کہا یہ مشینی اے سی بند کردیجئے اور گاڑی کا شیشہ کھول دیجئے، تاکہ فطرت کا اے سی ہم تک پہنچنے لگے۔ میں نے اکثر دیکھا ہے کہ گاڑی یا گھر کے باہر اچھی ہوا چل رہی ہے، لیکن لوگ کھڑیوں کو بند کرکے اے سی چلاتے ہیں اور اُس کے اندر بیٹھنا پسند کرتے ہیں۔
یہ موجودہ زمانے کا اے سی کلچر (AC Cultrue) ہے۔ میں اِس اے سی کلچر کو سخت ناپسند کرتا ہوں۔ موجودہ زمانے میں اِس اے سی کلچر کا یہ نتیجہ ہے کہ لوگ شعوری یا غیر شعوری طورپر فطرت (nature) سے دور اور مشینی تمدن سے قریب ہوگئے ہیں۔ ہر عورت اور مرد کا یہ حال ہے کہ وہ مشینی ترقیوں کی تعریف کرتا رہتا ہے، لیکن خدا کی عظیم تر رحمتوں کے لیے کسی کے سینے میں شکر و اعتراف کا سرچشمہ جاری نہیں ہوتا۔
راستے میں ہماری گاڑی سڑک کے کنارے ایک ہوٹل پر ٹھیری ۔ اِس کا نام ملن رسٹورنٹ تھا۔ یہ ایک ہندو کا ہوٹل تھا۔ اس علاقہ کا نام دَھندُکا (Dhanduka) ہے۔ دھندکا ایک گاؤں ہے۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہاں 14مسجدیں ہیں۔ یہاں قابلِ لحاظ تعداد میں مسلمان موجود ہیں۔ ہوٹل کی ایک کرسی پر ایک حافظ صاحب اپنے ہاتھ میں قرآن لئے ہوئے نظر آئے۔ وہ آہستہ آواز میں وہاں بیٹھے ہوئے قرآن کی تلاوت کررہے تھے۔ انھوں نے اپنا نام حافظ محمد اسماعیل بتایا۔ وہ یہاں کی ایک مسجد میں امام ہیں۔
ہوٹل کے سامنے پان کی ایک دکان تھی۔ وہاں ریکارڈ بج رہا تھا۔ یہ غالباً قوالی تھی۔ اس میں بار بار یہ الفاظ دہرائے جارہے تھے— یہ سب خواجہ کا کرم ہے۔ ایک طرف یہ ریکارڈ تھا اور دوسری طرف ہمارے ساتھ چلنے والے مسٹر اروند کمار پنکی کا یہ حال تھا کہ ہر موقع پر وہ کہتے تھے کہ— یہ سب باپو کی کرپا ہے۔
یہ منظر دیکھ کر ہمارے ایک ساتھی مولانا محمد ذکوان ندوی نے کہا کہ آج کل کے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان حقیقت کے اعتبار سے کوئی فرق دکھائی نہیںدیتا، دونوں میں سے کسی کو بھی خداوند ِ ذوالجلال کی خبر نہیں۔ دونوں صرف غیر خدا کی عظمت کو جانتے ہیں۔ دونوں کے قومی بڑے عملاً اُن کے لیے خدا کا درجہ رکھتے ہیں، دونوں کے درمیان صرف تسمیہ (nomenclature) کا فرق ہے، مسلمانوں کے قومی بڑوں کا نام عربی اور فارسی زبان میں ہے، اور ہندوؤں کے قومی بڑوں کا نام ہندی اور سنسکرت زبان میں۔
سڑک کے دونوں طرف تعمیراتی سرگرمیوں کے مناظردکھائی دئے۔ جگہ جگہ بڑے بڑے مندر اور آشرم بن رہے تھے۔ ایک جگہ دکھائی دیا کہ سمنٹ کی ایک بہت بڑی پختہ ناؤ ہے اور اس کے اندر مندر تعمیر کیا جارہا ہے۔ اِن تعمیراتی مناظر کو دیکھ کر خیال آیا کہ ٹھیک یہی صورتِ حال خود موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ مسلم علاقوں میں ہر جگہ مسجد اور مدرسے کی بڑی بڑی عمارتیں تعمیر کی جارہی ہیں۔ گویا کہ ظاہری فارم میں زبردست ترقی ہورہی ہے۔ لیکن جہاں تک مذہب کی اسپرٹ کا تعلق ہے، وہ ہندوؤں میں بھی مفقود ہے اور مسلمانوں میں بھی مفقود۔ ہندو اور مسلمان دونوں کا مشترک طورپر یہ حال ہے کہ ظواہر کی دھوم کو انھوںنے مذہب سمجھ لیا ہے، لیکن مذہب کی اصل روح نہ ہندوؤں میں پائی جاتی ہے اور نہ مسلمانوں میں۔
یہ صورتِ حال دراصل دورِ جدید کی پیداوار ہے۔ موجودہ زمانے میں تمام لوگوں کا اصل کنسرن (concern) مادی ترقی بن گیا ہے۔داخلی صورت کے اعتبار سے ہر ایک مادہ پرست (materialist) ہے، البتہ فارم کی دھوم مچا کر وہ یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ اُس نے مذہب کو چھوڑا نہیںہے، یہی وہ صورتِ حال ہے جس کا انتباہ پیشگی طورپر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں دیا تھا: مساجد ہم عامرۃٌ، وہی خراب من الہُدیٰ (رواہ البیہقی فی شعب الإیمان) یعنی ان کی مسجدیں بظاہر آبادنظر آئیں گی، مگر وہ ہدایت کے اعتبار سے ویران ہوں گی۔
ہماری گاڑی کا جو ڈرائیور تھا، وہ ایک تجربہ کار آدمی معلوم ہورہا تھا۔ وہ پورے انہماک کے ساتھ گاڑی چلا رہا تھا۔ وہ تقریباً 25 سال سے گاڑی چلا رہا ہے۔ میںنے پوچھا کہ کیا آپ کے ساتھ کبھی ایکسڈنٹ کا واقعہ ہوا۔ اُس نے کہا کہ نہیں۔ میںنے پوچھا کہ اِس کا راز کیا ہے۔ اُس نے گجراتی لہجے میں جواب دیا— دوسرے کو دیکھتے ہوئے اپنی گاڑی کو چلانا۔
میں نے سوچا کہ کامیاب اجتماعی زندگی کے لیے یہی سب سے اچھا فارمولا ہے۔ آدمی سماجی یا اجتماعی زندگی میں اکیلا نہیںہوتا۔ وہ ہمیشہ دوسروں کے درمیان زندگی گزارتا ہے۔ لوگوں کا مزاج عام طورپر یہ ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کی شکایت کرتے رہتے ہیں۔ وہ اپنے ہر نقصان کا ذمہ دار دوسروں کو قرار دیتے ہیں۔ مگر یہ طریقہ غیر مفید بھی ہے اور ناقابلِ عمل بھی۔ کامیاب اجتماعی زندگی کے لیے اِس دنیامیں قابلِ عمل طریقہ صرف ایک ہے، اور وہ ہے دوسروں کی رعایت کرتے ہوئے اپنا کام کرنا۔ اپنے آپ کو یک طرفہ اخلاقیات کا پابند بنا لینا۔
25 فروری 2009 کو ہم لوگ تقریباً 2 بجے مہوا کے آشرم میں پہنچے۔ اِس کے بانی مراری باپو (63 سال) ہیں۔ اس کانام یہ ہے— کیلاش گروکُل۔ اِس کا کیمپس کافی بڑا اور وسیع ہے۔ اِس گروکل میں غریب طلبا کے قیام وطعام اور ان کی تربیت کا انتظام ہے۔ وہ دن کے اوقات میں مہوا کے اسکول میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اور اس کے بعد وہ گروکل کے ہاسٹل میں آکر قیام کرتے ہیں۔ اُن کو تمام ضروریاتِ زندگی آشرم کی طرف سے فراہم کی جاتی ہیں۔
یہ پورا آشرم جدید طرز پر ایک منصوبہ بند انداز میں بنایاگیا ہے۔ یہاں ایسا نہیں ہے کہ پورا آشرم ایک ہی بڑی عمارت میں ہو۔ اِس کے بجائے یہاں کا نقشہ یہ ہے کہ بہت سی عمارتیں الگ الگ بنائی گئی ہیں۔ اُن کے درمیان کھلے علاقے ہیں جہاں درخت اور سبزہ اُگا ہوا ہے۔ پورے آشرم میںناریل کے درختوں کی سرسبز قطاریں پھیلی ہوئی ہیں۔ صاف ہوا اور کھلی فضا یہاں کی خصوصیت ہے۔ فضائی کثافت نہ ہونے کی وجہ سے رات کے وقت آسمان میں ستارے جگ مگ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
ہم لوگوں کو قیام کے لیے ایک مستقل عمارت دی گئی تھی۔ اِس کا نام ’’رادِھکا کُٹیر‘‘ تھا۔ یہ جدید طرز کی ایک خوب صورت عمارت تھی۔ یہ پوری عمارت ہم لوگوں کے استعمال میں تھی۔ اس کے فرسٹ فلورپر ایک بڑا ہال اور کئی مختلف اور وسیع کمرے تھے۔ اس کے اوپر کھلی چھت پر ایک کشادہ کمرہ تھا۔ یہ یہاں کا گیسٹ ہاؤس تھا۔ اس میں ضرورت کی تمام چیزیں اعلیٰ معیاری صورت میں موجود تھیں۔
یہ ادارہ بنانے کا جدید تصور ہے، یعنی فطرت کے کھلے ماحول میں ادارے کی منصوبہ بندتعمیر۔ قدیم تصور کے مطابق، ادارہ صرف عمارتوں کا نام ہوا کرتا تھا۔ لیکن موجودہ زمانے میں ادارے کا یہ تصور متروک ہوچکا ہے۔ اب ادارہ ایک ایسی خوب صورت دنیا کا نام ہوتاہے، جہاں منصوبہ بند عمارتیں ہوں۔ کھلی جگہیں ہوں اور سرسبز وشاداب ماحول ہو۔ وہ عمارتوں کا جنگل نہ ہو، بلکہ فطرت کے شاداب ماحول میں بنا ہوا ایک چھوٹا سا منصوبہ بند شہر ہو۔ اِس سفر میں ہم نے دو آشرم دیکھے— سابرمتی آشرم، اور مراری باپو کا آشرم۔ ہم نے پایا کہ دونوں آشرم اِسی جدید تصور کے مطابق بنائے گئے ہیں۔
فطرت کے ماحول میں آشرم یا ادارہ بنانے کا ایک اور فائدہ ہے، وہ یہ کہ ایسے مقامات پر کثرت سے بیرونی سیاح اور فارنر (foreigner) آتے ہیں۔ مغربی دنیا دن بہ دن تمدن کا جنگل بنتی جارہی ہے۔ فطرت کا سکون وہاں کے ماحول میں موجود نہیں۔ اِس سے اکتا کر مغربی دنیا کے لوگ بڑی تعداد میں مشرقی دنیا میں آتے ہیں۔ اُن کو عمارتوں کے جنگل سے کوئی دل چسپی نہیں ہوتی۔ وہ روحانی سکون چاہتے ہیں جو اُنھیں فطرت کے ماحول میں ملتا ہے۔
چناں چہ مذکورہ قسم کے ہندو آشرم میں اکثر فارنر گھومتے ہوئے نظر آتے ہیں۔مگر مسلم اداروں میں اِس قسم کے مغربی سیاح دکھائی نہیں دیتے۔ کیوںکہ مسلم ادارے عام طور پر اپنے روایتی ذوق کی بنا پر عمارتوں کا جنگل ہوتے ہیں، نہ کہ فطرت کے ماحول میں بنی ہوئی دنیا۔
جب میں آشرم میں پہنچا اور وہاں کے فطری ماحول کو دیکھا تو میںنے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ یہ سادہ طورپر صرف ایک آشرم نہیں ہے، بلکہ وہ ایک اسپریچول گارڈن (spiritual garden) ہے۔ اسپریچول گارڈن کا ایک پہلو یہ ہے کہ وہاں روحانی باتیں بتائی جائیں اور روحانیت کے موضوع پر تقریر کی جائے۔ لیکن صرف یہ بات کافی نہیں۔ کسی اسپریچول گارڈن کو جو چیز اسپریچول گارڈن بناتی ہے، اُس میں سب سے زیادہ دخل اس بات کا ہوتا ہے کہ اس کو فطرت کے ماحول میں بنایا گیاہو، یعنی ایک ایسا ماحول جہاں کوئی بولنے والا جب روحانیت کی بات بولے تو وہاں کا فطری ماحول اس کی عملی تصدیق بن گیا ہو۔
25 فروری 2009کو ہم لوگ آشرم میں پہنچے۔ یہ دوپہر کا وقت تھا۔ ہم لوگوں نے یہ طے کیا کہ سب سے پہلے ظہر کی نماز ادا کی جائے۔ ہم لوگ پانچ آدمی تھے۔ ہم نے وہاں کے مہمان خانے میں باجماعت نماز ادا کی۔ کسی نئے ماحول میں پہلی بار نماز ادا کرنا ایک انوکھا تجربہ ہوتا ہے۔ یہ احساس کہ اِس وقت میںاُس مقام پر خداوند ِ برتر کے آگے سجدہ کررہا ہوں، جہاں مجھ سے پہلے کسی نے سجدہ نہیں کیا۔ یہ احساس دل کے اندر ایک عجیب عبادتی کیفیت پیدا کرتا ہے جس کو انسانی الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔
صحابہ کا طریقہ یہ تھا کہ وہ ایسا نہیں کرتے تھے کہ نماز کی ادائیگی کے بعد فوراً اٹھ کر چلے جائیں۔ وہ نماز کے مقام پر کچھ دیر بیٹھے رہتے تھے اورپھر خاموشی کے ساتھ اٹھ کر چلے جاتے تھے۔ ہم لوگ بھی نماز کی ادائیگی کے بعد کچھ دیر وہاں بیٹھے رہے۔ اُس وقت میں نے نماز کے بارے میں کچھ باتیں کہیں۔
میںنے کہا کہ نماز کیا ہے۔ نماز کوئی رسمی عمل نہیں۔ نماز دراصل اپنی عبدیت کا عملی اعتراف ہے۔ نماز کے ذریعے ایک مومن خدا کے سامنے جھک کر اپنی تواضع (modesty) کو اسٹیبلش (establish) کرتا ہے۔ اُس وقت ہمارے اردگرد صرف فطرت کا ماحول تھا— درخت، چڑیاں، ہوائیں، سورج کی روشنی، وغیرہ۔ اُس وقت ایسا محسوس ہوا جیسے پورا عالمِ فطرت اپنے خالق کے آگے جھکا ہوا ہے۔ ناقابلِ مشاہدہ فرشتے بھی اِس عبادتی کلچر کا حصہ ہیں۔ ایسی حالت میں اگر انسان خدا کے سامنے نہ جھکے تو وہ پوری کائنات کے اندر کائنات کے ایک باغی فرد کی مانند ہوجاتا ہے۔ نماز یہ ہے کہ انسان اِس عبادت گزار کائنات میں خود بھی عابد بن کر اِس کائناتی کلچر میں شریک ہوجائے۔
عبادت کے بارے میں ایک حدیث اِن الفاظ میں آئی ہے: إنّ الرجل لینطلق إلی المسجد فیصلی ، وصلاتہُ لا تعدل جناح بعوضۃ۔ وإنّ الرجل لیأتی إلی المسجد فیصلی، وصلاتہ تعدل جبل أحد، إذا کان أحسنہماعقلاً (کنز العمّال ، رقم الحدیث: 7049 ) یعنی ایک شخص مسجد کی طرف جاتا ہے اور وہاں نماز پڑھتا ہے اور اس کی نماز خدا کے نزدیک مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں ہوتی۔ اور ایک شخص مسجد میںآتا ہے اور نماز ادا کرتا ہے اور اس کی نماز خدا کے نزدیک احدپہاڑ کے برابر ہوتی ہے، جب کہ دوسرا شخص پہلے کے مقابلے میں عقل کے اعتبار سے زیادہ بہتر ہو۔
یہ حدیث روحِ نماز کو بتاتی ہے۔ قرآن کے مطابق، حقیقی نماز وہ ہے جس میں خشوع پایا جاتا ہو۔ اِسی طرح مشہور حدیث جبرئیل میں بتایاگیا ہے کہ اعلیٰ نماز وہ ہے جس میں آدمی کو خدا کی موجودگی (presence of God) کا تجربہ ہونے لگے (تعبد اللہ کأنک تراہ)۔ یہ دونوں باتیں، یعنی خشوع اور خدا کی موجودگی، کوئی پراسرار چیز نہیں ہے۔ اِس کا براہِ راست تعلق عقل اور شعور سے ہے۔ عقل کی سطح پر جب آدمی خدا کو دریافت کرتاہے تو اِس شعوری دریافت کے نتیجے میںوہ کیفیت پیدا ہوتی ہے جس کو خشو ع یا خدا کی موجودگی کا تجربہ کہا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نماز اپنی اصل حقیقت کے اعتبار سے ایک شعوری عمل ہے، نہ کہ محض اعضا وجوارح کا ایک بے شعور عمل۔
اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی جب نماز پڑھنا شروع کرے تو اس وقت وہ اپنی عقل کا استعمال بھی شروع کردے۔ اس قسم کا وقتی استعمال سرتاسر غیر فطری ہے ۔ اصل یہ ہے کہ جوشخص رات اور دن اپنی مسلسل زندگی میں اپنی عقل کو معرفتِ الٰہی کے حصول میں لگائے رہتا ہے، اُسی کو یہ توفیق ملتی ہے کہ اس کی نماز عقل وشعور کی نماز بن جائے۔ نماز سے پہلے عقل کا استعمال یادِ الٰہی کے لئے ہوتا ہے۔ نماز کے دوران عقل کے استعمال کا مطلب یہ ہے کہ آدمی جب شعوری اعتبار سے تیار ذہن کا مالک ہوتاہے تو اس کی نماز میں شعوری معرفت کا عنصر شامل ہوجاتا ہے۔ اس کی نماز رسمی نماز نہیں رہتی، بلکہ پورے معنوں میں وہ ایک زندہ نماز بن جاتی ہے۔
ہم لوگوں کے کھانے کا انتظام یہاں کے مہمان خانے کے ایک حصے میں علاحدہ طورپر کیا گیا تھا۔ نماز سے فراغت کے بعد ہم لوگ وہاں گئے اور دوپہر کا کھانا کھایا۔ یہ سادہ قسم کا ویجٹیرین (vegetarian) کھانا تھا۔ اِس موقع پر ہم لوگوں نے گجراتی اخلاقیات کا تجربہ کیا۔ یہ کئی لوگ تھے جو تواضع کا پیکر بنے ہوئے تھے اور نہایت انہماک کے ساتھ کھانا کھلا رہے تھے۔ یہ عام لوگ نہیں تھے، بلکہ وہ دہلی اور گجرات کے بڑے بڑے تاجر تھے۔ وہ اتنے ذوق وشوق سے کھانا کھلارہے تھے جیسے کہ ہم لوگ کوئی وی آئی پی گیسٹ (VIP guest) ہوں۔
گجراتیوں میں، بلکہ عمومی طورپر ہندوؤں میں یہی اخلاق پایا جاتا ہے۔ میں نے تجربہ کیا ہے کہ یہ لوگ نہایت عزت و احترام کا سلوک کرتے ہیں اور اپنے مہمانوں کے ساتھ خصوصی قدردانی کا معاملہ کرتے ہیں۔ یہ سب اُن کے بڑے کرتے ہیں، جب کہ مسلمانوں کے یہاں یہ رواج ہے کہ عام طورپر ’’خادم‘‘ کے درجے کے لوگ اِس قسم کا کام کرتے ہیں۔
یہاں گجرات کے کئی مسلمانوں سے ملاقات ہوئی۔ ایک صاحب نے کہا کہ ایک بار وہ ایک بڑے مدرسے میں گئے۔ وہاں ان کی ملاقات مدرسے کے ایک استاد سے ہوئی۔ یہ استاد راقم الحروف کے بارے میں کچھ منفی خیالات رکھتے تھے۔ تاہم انھوںنے میری کتاب ’’مذہب اور جدید چیلنج‘‘ کی تعریف کی اور میرے بارے میں کہا کہ اِس شخص کو اگر جنت ملے گی تو وہ اس کی ’’مذہب اور جدید چیلنج‘‘ کی بدولت ملے گی۔
میںنے کہاکہ اِس قسم کی بات خدا کی عظمت کی تصغیر کے ہم معنیٰ ہے۔ خدا اِس سے برتر ہے کہ کسی کی کوئی کتاب اُس کے یہاں انعام کا ذریعہ بنے۔ خدا کے یہاں جو تحفہ قابلِ قدر پائے گا، وہ کتاب کا تحفہ نہیں ہے، بلکہ عجز کا تحفہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خدا اور انسان کے درمیان قادرِ مطلق اور عاجز ِ مطلق کی نسبت ہے۔ انسان اگر کوئی چیز اپنے رب کو پیش کرسکتا ہے تو وہ صرف عجز ہے، حقیقی عجز کے سوا کوئی بھی دوسری چیز خداوند ِ ذوالجلال کے یہاں کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔
دوپہر کے بعد ہم لوگ مہمان خانے میں تھے۔ آشرم کے ایک شخص نے آکر بتایا کہ مُراری باپو آپ سے ملنے کے لئے آرہے ہیں۔ اتنے میں مراری باپو اندر داخل ہوئے۔ وہ دونوں ہاتھ جوڑے ہوئے تھے، جیسا کہ ہندو لوگوں کا طریقہ ہے۔ انھوں نے ہم لوگوں کی خیریت دریافت کی اور پوچھا کہ آپ لوگ یہاں کمفرٹبل (comfortable) ہیں۔ انھوںنے غایت احترام کا مظاہرہ کیا۔ مراری باپو مشہور کتھا کار ہیں۔ ہندستان میں اور ہندستان کے باہر اُن کی کتھائیں بہت مقبول ہوتی ہیں۔ اُن کے ماننے والوں کا حلقہ بہت وسیع ہے۔
مراری باپو کی واپسی کے بعد میںنے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ مراری باپو ہندوؤں کے نزدیک ایک ٹاپ کے گرو کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اِس طرح کے لوگ عام طورپر خود کسی سے ملنے نہیں جاتے ۔ اِس وقت مراری باپو کا یہاں آنا کوئی سادہ بات نہ تھی۔ اِن لوگوں کا طریقہ یہ ہے کہ جب وہ چاہتے ہیں کہ منتظمین کسی مہمان کے ساتھ خصوصی اکرام اور اہتمام کا معاملہ کریں تو وہ خود اس کے پاس چلے جاتے ہیں۔ اُن کا اِس طرح جانا منتظمین کے لیے ایک خاموش ہدایت ہوتی ہے۔ چناں چہ ہم نے دیکھا کہ ہمارے قیام کی پوری مدت میں وہاں کے لوگوں نے ہمارے ساتھ خصوصی معاملہ کیا۔
یہاں جن لوگوں سے ملاقات ہوئی، وہ مراری باپو کو سب سے بڑے گرو کا درجہ دیتے تھے۔ مزید یہ کہ اُن کے نزدیک گرو اور بھگوان میںکوئی فرق نہیں۔ اُن کا خیال تھا کہ جو گرو ہے، وہی بھگوان ہے۔ یہی معاملہ تقریباً تمام ہندوؤں کا ہے۔ ہندو لوگوں کا عام عقیدہ ہے کہ جو گروہ ہے وہی بھگوان۔ ان کے نزدیک گرو اور بھگوان میںکوئی فرق نہیں۔
اِس معاملے پر میں نے غور کیا کہ آخر یہ لوگ گرو کو بھگوان کا درجہ کیوں دیتے ہیں۔ غور کرنے کے بعد سمجھ میں آیا کہ یہ دراصل وحدتِ وجود کے نظریے کا فطری نتیجہ ہے۔ توحید (monotheism) اور وحدتِ وجود (monism)دونوں دو الگ الگ نظریے ہیں۔ توحید کا عقیدہ پرسنل گاڈ (personal God) کو مانتا ہے۔ اِس کے برعکس، وحدتِ وجود کا نظریہ غیر شخصی خدا (impersonal God) پر مبنی ہے۔
توحیدکے نظریے میں خدا کو خالق مانا جاتا ہے۔ اِس طرح توحید میںتمام واقعات کی توجیہہ مل جاتی ہے۔ لیکن وحدت وجود میںکوئی الگ ذات واقعا ت کی توجیہہ کے لیے موجود نہیں ہوتی۔ چناں چہ وحدتِ وجود کو ماننے والے لوگ جب ایک شخص کو گرو کے طورپر دیکھتے ہیں تو وہ مان لیتے ہیں کہ یہی شخص تمام واقعات کو وجود میں لانے کا سبب ہے۔
ہندوؤں میں وحدتِ وجود کا نظریہ’’ادُوئت واد‘‘ کے نام سے رائج ہوا۔ چناں چہ انھوں نے گرو کو خدا کا درجہ دے دیا۔ ٹھیک یہی نظریہ صوفیوں کے ذریعے مسلمانوں میںرائج ہوا۔ چناں چہ مسلمانوں میں بھی اِسی قسم کے عقائد پھیل گئے۔ مسلمانوں میں صوفیوں کو عملاً وہی خدائی درجہ دے دیاگیا جو ہندوؤں میںگرو کے لیے سمجھا جاتا تھا۔ اِس نظریے کے زیر اثر مسلمانوں میں قطب اور اَبدال جیسے نظریات پیدا ہوئے، جو بلا شبہہ سر تا سر ایک باطل نظریہ ہے۔
جس وقت ہم لوگ مہمان خانے میں تھے، وہاں بمبئی کی ایک جدید تعلیم یافتہ خاتون ملاقات کے لئے آئیں۔ وہ انگریزی میں گفتگو کررہی تھیں۔ انھوںنے بتایا کہ وہ مراری باپو کی عقیدت مندوں میں سے ہیں۔ ہمارے ساتھیوں نے اُن سے کچھ دعوتی باتیں کیں اور ان کو انگریزی زبان میں چھپا ہوا اسلامی لٹریچر مطالعے کے لیے دیا۔
اُن کے جانے کے بعد میرے ایک ساتھی نے سوال کیا کہ اِس طرح کے انگریزی تعلیم یافتہ لوگ کیسے کسی گرو کے عقیدت مند بن جاتے ہیں۔ یہ بات سمجھ میں نہیںآتی۔ میں نے کہا کہ اصل یہ ہے کہ ہر انسان کے اندر فطری طورپر خدا کی طلب موجود رہتی ہے۔ ہر انسان خدا کو پانا چاہتا ہے۔ مگر خدا کو ماننے کی صورت میں آدمی کو سرینڈر کرنا پڑتا ہے۔ اس کو اپنی آزادی پرپابندی لگانی پڑتی ہے۔ جدید تعلیم یافتہ انسان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ سرینڈر کرنا نہیں چاہتا۔ اس کو ایسا خدا نہیں چاہئے جو اس کی آزادی پر پابندی عائد کرے۔ ایسی حالت میں یہ لوگ کسی انسان کو خدا کا درجہ دے دیتے ہیں۔ اِس طرح کے کسی انسان کو خدا کا درجہ دینے سے ان کے فطری جذبے کو فرضی تسکین (false satisfaction)مل جاتی ہے، اور اِسی کے ساتھ اُن کی آزادی بھی باقی رہتی ہے۔
مراری باپو کے عقیدت مندوں کا حلقہ بہت وسیع ہے۔ 25 فروری 2009 کی شام کو مراری باپو کے کچھ عقیدت مند ہم لوگوں سے ملاقات کے لئے آئے۔ یہ لوگ دہلی اور بمبئی اور گجرات سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ کافی دیر تک مراری باپو کی کرامات کے بارے میں پُراسرار قصے سناتے رہے۔ پھر میں نے پوچھا کہ آپ لوگ بہت دنوں سے مراری باپو کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔آپ کو اُن سے کون سی خاص سیکھ (learning) حاصل ہوئی۔ میںنے یہ سوال اُن میں سے ہر ایک سے کیا، لیکن اُن میں سے کوئی بھی اِس سوال کا متعین جواب نہ دے سکا، بس یہ کہا کہ یہ سمجھ لیجئے کہ ہم لوگوں کو آنند ہی آنند مل رہا ہے۔ گرو جی کو دیکھتے ہی ہماری آتما گد گد ہوجاتی ہے۔
میرا تجربہ ہے کہ خود مسلمانوں کا حال بھی یہی ہے ۔ وہ لوگ جو مسلم تحریکوں اور مسلم شخصیتوں سے جڑے ہوئے ہیں، جو اُن کے اجتماعات میںشریک ہوتے رہتے ہیں، اُن سے میں اکثر یہ پوچھتا رہتا ہوں کہ آپ کو وہاں جانے سے کیا چیز ملی، آپ نے وہاں کیا خاص سبق سیکھا۔ مگر کسی شخص کے پاس کوئی خاص بات بتانے کے لیے نہیں ہوتی۔ ہر ایک ایسی بولی بولتا ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہاں جانے سے ہمارے دل کے اندر نور پیدا ہوا، وہاں جانے سے ہماری روح کو سکون حاصل ہوا، وغیرہ۔
اِس قسم کے تاثرات جو ہندو اور مسلمان دونوں بتاتے ہیں،وہ بلا شبہہ بے حقیقت ہیں۔ اِس لیے کہ میںاِس قسم کے سوالات جس سے کرتاہوں، وہ ایک انسان ہوتاہے۔ انسان ایک شعوری مخلوق (conscious being) ہے۔ شعور ہی انسان کے وجود کی اصل ہے۔ اِس لیے انسان کے لیے پانا یہ ہے کہ وہ شعور کی سطح پر کچھ پائے۔ جو یافت شعوری یافت نہ ہو، وہ کسی حیوان کے لیے اہم ہو سکتی ہے، لیکن ایک انسان کی نسبت سے اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ ایک انسان کے لیے کوئی چیز اس کی یافت صرف اس وقت بنتی ہے، جب کہ وہ شعور کی سطح پر اس کو ملے۔جوچیز شعور کی سطح پر نہ ملے، اس کی حیثیت صرف ایک موہوم خیال کی ہے، نہ کہ حقیقی معنوں میں کسی یافت کی۔
گجرات کے اِس آشرم میں قیام کے دوران بہت سے ہندوؤں سے ملاقات ہوئی۔ ہر ہندو کا حال یہ تھا کہ وہ ’’گروجی‘‘ کی بڑائی کا چرچا کرتا تھا۔ ہر ایک یہ سمجھتا تھا کہ اُس کو جو کچھ مل رہا ہے، وہ سب گروجی کے آشیرواد سے مل رہا ہے۔ کسی کو میں نے خدا کا چرچا کرتے ہوئے نہیں سنا۔ میں بہت سے آشرموں میں گیاہوں۔ ہر جگہ میں نے پایا کہ لوگ اپنے گروجی کی عظمت میں گم ہیں۔ گروجی سے اوپر کسی طاقت کی عظمت کی اُنھیں خبر نہیں۔
عجیب بات ہے کہ اِس معاملے میں خود مسلمانوں کا حال بھی یہی ہے۔ مسلم جماعتوں اور مسلم اداروںمیں ہر جگہ اپنے اکابر کا چرچا ہوتاہے۔ کچھ شخصیتوں کو انھوںنے بڑا سمجھ لیا ہے اور ان کی بڑائی کا اظہار کرکے وہ خوش ہوتے رہتے ہیں۔ غالباً کوئی بھی مسلم جماعت یا مسلم ادارہ ایسا نہیں ہے، جہاں حقیقی معنوں میں خدا کی بڑائی کا چرچا کیا جاتا ہو۔
ایک بار میں ایک مشہور مسلم خانقاہ میںگیا۔ اِس خانقاہ میںذکر بالجہر کا رواج تھا۔ میںنے دیکھا کہ رات دن کے ہر حصے میں کوئی نہ کوئی شخص اللہ، اللہ کے الفاظ مخصوص انداز میں بول کر بظاہر خدا کا چرچا کررہا ہے۔ مگر اِس رسمی ذکر بالجہر کے سوا، وہاں کی مجلسوں میںانسانی اکابر کا چرچا ہوتاتھا۔ یہ انسانی اکابر اتنے زیادہ محترم سمجھے جاتے تھے کہ اُن کا نام لینا بھی بے ادبی تھی۔ جب بھی کسی شخص کو اُن کا حوالہ دینا ہوتا تھا تو ہ ہمیشہ ’’حضرت‘‘ کا لفظ بول کر اُن کا حوالہ دیتا تھا، حتی کہ بعض اوقات میرے لیے یہ سمجھنا مشکل ہوتا تھا کہ’’ حضرت‘‘ سے کون شخص مراد ہے۔
اِس اعتبار سے دیکھئے تو موجودہ زمانے میں مسلم اورغیر مسلم میں صرف نام کا فرق ہے (لایبقی من الاسلام إلاّ اسمہ)۔ حقیقت کے اعتبار سے دونوں ہی ’’دینِ اکابر‘‘ پر کھڑے ہوئے ہیں۔ البتہ دونوں میں یہ فرق ہے کہ غیرمسلموںکے پاس کوئی محفوظ الہامی کتاب موجود نہیں، جب کہ مسلمانوں کے یہاں محفوظ خدائی کتاب موجود ہے۔ یہاںایک شخص ایسا کرسکتا ہے کہ وہ قرآن کو پڑھ کر یہ جان سکے کہ خدا کاوہ حقیقی دین کیا ہے جس کو اُس نے اپنے پیغمبر کے اوپر نازل کیا تھا۔
آشرم میںایک ہندو تاجر سے ملاقات ہوئی۔ بظاہر وہ بہت مطمئن نظر آتے تھے۔ گفتگو کے دوران انھوںنے اپنے گروجی کی کئی کرامتیں بتائیں۔ یہ کسی ایک ہندو کی بات نہیں۔ تمام ہندو حتی کہ سیکولر ہندو بھی کسی گرو سے وابستہ ہوتے ہیں اور وہ ان کی کرامتیں بیان کرتے رہتے ہیں ۔ اِس معاملے میں ٹھیک یہی حال خود مسلمانوں کا بھی ہے۔ مسلمان بھی اولیاء کی کرامتوں اور پیغمبر کے معجزوں کے تصور میںگُم رہتے ہیں۔ ان کو خدا کے اعلیٰ معجزات کی خبر نہیں۔
اصل یہ ہے کہ اِس کائنات میں سارا اختیار صرف خدا کو ہے۔ جو کچھ ہوتا ہے، وہ صرف خدا کے حکم کے تحت ہوتاہے، حتی کہ جو معجزے کسی پیغمبر سے منسوب ہیں، وہ بھی خدا کے معجزے ہیں۔ یہ بلاشبہہ ایک کھلا ہوا اندھا پن ہے کہ آپ معجزاتِ انسانی میں گم رہیں اور معجزاتِ خداوندی کو دریافت نہ کرسکیں۔ کیسی عجیب بات ہے کہ لوگ خدائی معجزات کو کسی انسان سے منسوب کرکے اُس انسان کی عظمت کا چرچا کرتے ہیں۔ خدا کی عظمتوں کو نہ انھوں نے دریافت کیا اور نہ اُن کی تقریروں اور تحریروں میںکہیں اُس کا چرچا دکھائی دیتاہے۔
26 فروری 2009 کو یہاں کے جلسے میںمیری تقریر تھی۔ مجھے ایک گھنٹے کاوقت دیاگیا تھا۔ یہاں ہر ایک کو یہ موضوع دیاگیا تھا کہ وہ اپنے مذہب کی روشنی میں اپنے خیالات کا اظہار کرے۔ میری تقریر کا موضوع یہ تھا:
Fragrance of our Religions in Context of Islam.
اِس جلسے میں راقم الحروف کے علاوہ اسٹیج پر تین اور صاحبان موجود تھے۔
Prof. Ramjee Singh, Dr. Rudolf Haredia, Prof. Narottam Palan
میں نے اپنی تقریر میں کلمۂ سواء کے اصول کے مطابق، اسلام کا مثبت تعارف پیش کیا۔ میںنے قرآن اور حدیث اور سیرتِ رسول کی روشنی میں بتایا کہ اسلام امن اور شانتی اور روحانیت کا مذہب ہے۔ اسلام میں کٹر پن اور تشدد کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق، تمام مرد اور عورت ایک ماں باپ کی اولاد ہیں۔ وہ باہم ایک دوسرے کے لیے خونی بھائی (blood brothers) اور خونی بہن (blood sisters) کی حیثیت رکھتے ہیں۔
اِس جلسے کے صدر پروفیسر رام جی سنگھ تھے۔ سب سے پہلے انھوںنے تقریر کی۔ وہ میری تحریریں پڑھے ہوئے تھے۔ انھوںنے اپنی تقریر میںبار بار میری تحریروں کا حوالہ دیا۔ انھوںنے کہاکہ میںنے مولانا وحید الدین خاں صاحب کی کتاب (True Jihad) کا مطالعہ کیا ہے۔ میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ مولانا صاحب نے جہاد کی جو تشریح اپنی کتاب میں کی ہے، وہی اصل جہاد ہے، یعنی کسی اعلیٰ مقصد کے حصول کے لیے پرامن جدوجہد۔میں اپنے اِس مطالعے کی روشنی میں کہہ سکتاہوں کہ اسلام امن اور شانتی کا مذہب ہے، اسلام میں تشدد اور دہشت گردی کے لئے کوئی جگہ نہیں۔ انھوں نے کہا کہ میں آپ لوگوں سے کہوں گا کہ اگر آپ صحیح اسلام کوسمجھنا چاہتے ہیں تو آپ مولانا صاحب کے لٹریچر کا مطالعہ کریں۔
پروفیسر رام جی سنگھ کے اِس کھلے اعتراف کا اتنا اثر ہوا کہ پروگرام کے خاتمے پر جب اسٹیج سے یہ اعلان کیا گیا کہ یہاں راقم الحروف کی کتابیں موجود ہیں، جو لوگ دل چسپی رکھتے ہوں، وہ یہاں سے اُن کتابوں کو حاصل کرلیں۔ اِس اعلان کے بعد لوگ ہماری کتابوں پر ٹوٹ پڑے۔ ہمارے ساتھیوں کے ہم راہ اردو، ہندی اور انگریزی میںچھپے ہوئے دعوتی پمفلٹ اور کتابیں تھیں۔ اِسی کے ساتھ قرآن کا ہندی اور انگریزی ترجمہ بھی ان کے پاس تھا۔ حاضرین نے اِس لٹریچر کو نہایت ذوق وشوق کے ساتھ لیا۔ پروگرام کے ہندو منتظمین نے ہمارے ساتھیوں سے کہا کہ آپ لوگ زحمت نہ کریں، ہم خود لوگوں تک اِن کتابوں کو پہنچائیں گے۔ چناںچہ وہ لوگ حاضرین کے پاس جاکر شوق سے اُنھیں دعوتی لٹریچر دے رہے تھے۔
لوگوں کے شوق کا یہ حال تھا کہ تھوڑی ہی دیر میں کتابوں کے کئی پیکٹ ختم ہوگئے۔ ہمارے ساتھیوں کے پاس قرآن کے جو نسخے تھے، وہ بھی سب حاضرین کے درمیان تقسیم ہوگئے۔ لوگ سب سے زیادہ جو چیز مانگ رہے تھے، وہ قرآن کا انگریزی ترجمہ تھا۔ قرآن کے انگریزی ترجمے کے نسخے ختم ہونے کے بعد بہت سے لوگوں نے ہمارے ساتھیوں کو اپنا پتہ نوٹ کرایا۔ انھوں نے کہا کہ آپ دہلی جاکر ہم کو قرآن کا انگریز ی ترجمہ بھیجیں۔ ہماری دلی خواہش ہے کہ ہم براہِ راست قرآن کو پڑھیں۔ ہمارے ساتھیوں نے جلسے کے خصوصی مہمانوں کو دعوتی پمفلٹ اور قرآن کے انگریزی ترجمے کے علاوہ، اُنھیں حسب ذیل کتابیں دیں:
The Ideology of Peace
The True Jihad
پروفیسر رام جی سنگھ حاضرین کے نزدیک اُن کے بڑے کی حیثیت رکھتے تھے۔ اُن کے اِس اعتراف کے بعد لوگوں نے راقم الحروف کی کتابوں کے معاملے میںجس ذوق وشوق کا اظہار کیا، اُس میںایک بہت بڑا سبق موجود ہے۔ وہ یہ کہ کسی قوم کے بڑوں کا اعتراف اُس کے چھوٹوں کے لیے رہنمائی کا ذریعہ بن جاتا ہے، اور ان کے بڑوں کی بے اعترافی ان کے چھوٹوں کے لیے بھٹکاؤ کا ذریعہ۔ قرآن کے مطابق، سچائی کے معاملے میں بڑوں کی خاموشی اُنھیں دہرے عذاب (الأحزاب: 68 ) تک پہنچانے والی ہے، وہ ہر گز اُنھیں نجات دلانے والی نہیں۔
اِس جلسے میںمراری باپو بھی موجود تھے۔ وہ حاضرین کے ساتھ فرش پر بیٹھے ہوئے تھے۔ میری تقریر سے پہلے اپنے طریقے کے مطابق، انھوں نے مجھ کو ہاتھ کے ذریعہ کتے ہوئے سوت کی مالا اور دستی طورپر بنی ہوئی سوتی چادر اڑھائی۔ مگر انھوںنے ایسا نہیں کیا کہ وہ اچانک میرے پاس آئیں اور مجھ کو مالا پہنادیں۔ اِس کے برعکس، انھوںنے یہ کیا کہ پہلے میرے ساتھیوں سے اجازت لی۔ اس کے بعد انھوں نے مجھ کو مالا پہنایا اور چادر اڑھائی۔ میںنے اُسی وقت اُن کا شکریہ ادا کرتے ہوئے مالا اور چادر اتار کر اپنے ساتھی کو دے دیا۔
بعض لوگ اِس قسم کی چیزوں کو مذہبی نوعیت کی چیز سمجھتے ہیں اوراِس سے اُنھیں محسوس ہوتاہے کہ اُن کا ایمان خطرہ میں ہے۔ مگر یہ سرتا سر ایک نادانی کی بات ہے۔ اصل یہ ہے کہ اس طرح کی چیزوں کا تعلق مذہب سے نہیں ہے، بلکہ وہ کلچرل نوعیت کی چیزیں ہیں۔ اور کلچرل نوعیت کی چیزوں کے بارے میں اسلام کا اصول تالیفِ قلب ہے، نہ کہ کٹرپن ۔ ایک داعی کو چاہیے کہ وہ اِس قسم کی چیزوں کو تالیف قلب کے طورپر قبول کرے۔ یہی دعوت کا تقاضا ہے۔
تجارتی اخلاقیات میں جس چیز کو کسٹمز فرینڈلی بہیوئر(customer-friendly behaviour) کہا جاتا ہے، دعوتی اخلاقیات میں اُسی کو تالیف قلب کہا جاتا ہے، یعنی مدعو فرینڈلی بہیوئر (mad‘u-friendly behaviour) ۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ تالیفِ قلب ایک ابدی اصول ہے۔ آپ کی زندگی میں تالیفِ قلب کی بہت سی مثالیں پائی جاتی ہیں۔ مثلاً حدیبیہ کے موقع پر قریش کے سردار حلیس بن علقمہ کی آمد پر قربانی (ھَدْی) کے جانوروں کے ذریعے ان کا استقبال کرنا، واضح طورپر تالیفِ قلب کا ایک واقعہ تھا۔
آشرم کے تجربے کے تحت میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ تالیفِ قلب کوئی وقتی چیز نہیں، وہ دعوت کا ایک ابدی اصول ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ عملی اعتبار سے پنچانوے فی صد تالیف قلب ہے، اور پانچ فی صد دعوہ ورک۔ مزید یہ کہ تالیفِ قلب کسی ایک چیز کا نام نہیں۔ اس کی سیکڑوں صورتیں ہیں۔ اگر آپ کے اندر دعوت کا درد ہے توآپ خود بخود ہر موقع کے لحاظ سے تالیف قلب کا اصول جان لیں گے۔
میں نے کہا کہ غزوۂ حنین (8 ہجری ) کے بعد کچھ لوگوں کو تالیف قلب کے طور پر بھیڑ بکری اور اونٹ دئے گئے تھے۔ یہاں کے آشرم میں اگر آپ بھیڑ بکری اور اونٹ کا تحفہ لائیں تو یہاں کے لوگ اُس کو ایک مسئلہ (problem) سمجھیں گے اور تالیف قلب کا مقصد حاصل نہ ہوگا۔
اس کے بجائے اللہ تعالیٰ کی توفیق سے یہاں ایسا ہوا کہ ان کے اسٹیج سے مجھے ایک گھنٹہ کی تقریر کرنے کا موقع ملا۔ میںنے یہ تقریر تالیف قلب کے اصول پر کی۔ اِس کا اثر اتنا زیادہ ہوا کہ ہم جو دعوتی لٹریچر کئی کارٹن میں پیک کرکے یہاں لائے تھے، اُس کو خود اِنھیں لوگوں نے ہم سے لے کر سب کے درمیان تقسیم کیا۔ اگر آپ تالیف قلب کی اِس حکمت کو سمجھ لیں تو آپ دورِ جدید کا ایک عظیم امکان دریافت کریں گے، اور وہ ہے مدعو کی قیمت پر دعوہ ورک کرنا:
Doing Dawah work at the cost of mad‘u.
تالیف قلب دراصل بالواسطہ انداز میں دعوہ ورک ہے۔ پہلے بالواسطہ دعوہ ورک کیا جاتا ہے، اس کے بعد یہ ممکن ہوجاتا ہے کہ براہِ راست زیادہ موثر طورپر دعوہ ورک کیا جاسکے۔
ایک سوال کے جواب میں میںنے کہا کہ مصلحت اور دعوتی حکمت میں بہت بڑا فرق ہے۔ مصلحت اُس فعل کا نام ہے جو دنیوی مفاد کے لئے کیا جائے۔ اِس کے برعکس، دعوتی حکمت یہ ہے کہ دعوت کو فروغ دینے کے لیے دانش مندی کا کوئی طریقہ اختیار کیا جائے۔ مصلحت ذاتی مفاد کے لیے ہوتی ہے، اور حکمت دعوہ ورک کی ترقی کے لیے۔
26 فروری 2009 کے جلسے میں میری تقریر تھی۔ اِس جلسے میں احمد آباد اور اطراف کے کچھ مسلمان بھی شریک تھے۔ تقریر کے بعد ایک تعلیم یافتہ مسلمان نے مجھ سے کہا کہ آپ نے یہاں اسلام کو اس کی مکمل صورت میں پیش نہیں کیا۔ آپ کو چاہئے تھا کہ آپ اِن لوگوں کے سامنے اسلام کو اس کی ٹوٹیلٹی (totality) میں پیش کرتے، تاکہ حاضرین کو اسلام کے بارے میں مکمل معلومات حاصل ہوسکتیں۔
میں نے کہا کہ یہ بات آپ خود اپنے ذہنی معیار کی بنا پر کہہ رہے ہیں۔ قرآن اور حدیث کے مطابق، یہ بات درست نہیں۔ اِس نظر سے آپ قرآن اور حدیث کا مطالعہ کیجئے تو آپ پائیں گے کہ دعوتی کلام ہمیشہ حقیقی صورت ِ حال کے مطابق ہوتا ہے، نہ کہ فہرست ِ احکام کے مطابق۔ اگر فہرست احکام کے مطابق دعوت مطلوب ہوتی تو قرآن 23 سال کے دوران نجماً نجماً نہ اترتا، بلکہ پورا قرآن بیک وقت اتار دیا جاتا۔
26 فروری 2009 کو ای ٹی وی اردو (ETV Urdu) کی ٹیم نے راقم الحروف کا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا۔ انٹرویو کے دوران جو سوالات کیے گئے، اُن میں سے ایک سوال یہ تھا کہ لوک سبھا کا الیکشن قریب ہے۔ اِس موقع پر آپ مسلمانوں کو کیا مشورہ دیں گے۔
میںنے کہا کہ میرا مشورہ یہ ہے کہ مسلمان اِس معاملے میں اپنی سابقہ سیاسی روش کو چھوڑیں اور نئی سیاسی روش اختیار کریں۔ میںنے کہا کہ مسلمان اب تک یہ کرتے رہے ہیں کہ وہ ہمیشہ نگیٹیو ووٹنگ (negative voting)کرتے ہیں، یعنی کسی پارٹی کو اینٹی مسلم (anti-Muslim)قرار دے کر اُس کو ووٹ نہ دینا، اور کسی پارٹی کو پرومسلم (pro-Muslim)قرار دے کر اس کو ووٹ دینا۔ مسلمانوں کو اِس معاملے میں جمہوری طریقہ اختیار کرنا چاہئے، نہ کہ فرقہ وارانہ طریقہ۔ اِسی غلط ذہن کی وجہ سے مسلمان اب تک انڈیا کے جمہوری نظام سے فائدہ نہیں اٹھا سکے۔ وہ ہمیشہ دوسروں کے خلاف تقریر کرتے ہیں، حالاں کہ اُن کو خود اپنا محاسبہ کرناچاہئے۔
جلسہ کے خاتمے پر ہم لوگ آشرم کے مہمان خانے میں آگئے۔ یہاں ہم نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ظہر کی با جماعت نماز ادا کی۔ نماز کے بعد میںنے اپنے ساتھیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عبادت کے بارے میں حدیث میں یہ الفاظ آئے ہیں: تعبد اللّٰہ کأنک تراہ۔یعنی تم اللہ کی عبادت اِس طرح کرو جیسے کہ تم اُس کو دیکھ رہے ہو۔ میںنے کہا کہ اِس حدیث میں رُویت کا لفظ ہے۔ لیکن رویت سے مراد رویتِ عینی نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد نفسیاتی رویت ہے۔ یہ ایک لطیف روحانی تجربہ ہے، نہ کہ سادہ معنوں میں کوئی مشاہداتی تجربہ۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ بندے پر خدا کی موجودگی (presence of God) کا تجربہ اتنا شدید ہوکہ اُس کو ایسا محسوس ہونے لگے جیسے کہ وہ خدا کو دیکھ رہا ہے۔
دعوت کے موضوعپر گفتگو کرتے ہوئے میںنے کہا کہ قرآن کی سورہ نمبر 3میں دعوت کے اسلوب کو بتاتے ہوئے کلمۂ سواء (آل عمران: 64 ) کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ یہ دعوت کا ایک اہم اصول ہے۔ ہمارے مفسرین نے عام طورپر اس کو محدود طورپر اہلِ کتاب سے متعلق قرار دیا ہے۔ مگر یہ ایک حکیمانہ تعلیم ہے اور اُس کا تعلق عمومی طورپر داعی اور مدعو سے ہے، نہ کہ محدود طور پر صرف پیغمبر اسلام کے معاصر اہلِ کتاب سے۔ اِس سے مراد صرف کلمۂ سواء بین الیہود والمسلمین نہیں ہے، بلکہ اُس کا تعلق کلمۂ سواء بین الداعی والمدعو سے ہے۔
اِس کنونشن میں ہماری ملاقات مہادیو دیسائی کے بیٹے نارائن مہادیو دیسائی (پیدائش 1924 ) سے ہوئی۔ نارائن دیسائی نے اپنی یادداشتوں پر مشتمل گجراتی زبان میں ایک کتاب لکھی ہے۔ اِس کا نام یہ ہے— باپو کی گود میں۔ نارائن دیسائی نے اپنی یادداشتوں پر مشتمل گجراتی زبان میں ایک کتاب لکھی ہے۔ اِس کا نام یہ ہے— باپو کی گود میں۔
مہادیو دیسائی (وفات : 1942 ) ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص تھے۔ وہ اپنا کام چھوڑ کر مہاتما گاندھی کے سکریٹری بن گئے۔وہ لمبی مدت تک سیوا گرام (مہاراشٹر) میں مہاتماگاندھی کے ساتھ رہے۔
مسٹر دیسائی سے میری ملاقات شام کے وقت کھانے کی میز پر ہوئی ۔ اِس ملاقات میںان کے سوا جسٹس ادھکاری بھی وہاں موجود تھے۔میںنے مسٹر نارائن دیسائی سے پوچھا کہ آپ نے مہاتما گاندھی کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ ان کی کوئی خاص بات بتائیے۔ انھوںنے کہا کہ 1946میں مشرقی بنگال (نواکھلی) کے علاقے میں فرقہ وارانہ فساد پھیل گیا۔ اُس وقت مہاتما گاندھی دہلی سے نوا کھلی گئے اور گاؤں گاؤں دورہ کرکے لوگوں کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔ اُس وقت انھوںنے گجرات کے ایک کانگریس ورکر کے نام ایک خط لکھا تھا۔ یہ تاریخی خط اب تک محفوظ ہے۔ اِس خط میں مہاتما گاندھی نے لکھا تھا —میں جہاں ہوں، وہاں ہر طرف آگ اور خون کا منظر ہے، لیکن میرے من میں شانتی ہے۔
گجرات کی ریاست بحرِ عرب کے ساحل پر واقع ہے۔ مہوا سے ساحل بہت قریب تھا، یعنی کار کے ذریعے پندرہ منٹ کا راستہ۔ 26 فروری 2009 کی شام کو ہم لوگ ساحل پر گئے۔ ہم لوگ وہاں کچھ دیر ٹھیر کر سمندر کا منظر دیکھتے رہے۔ ساحل پر ایک تاریخی مندر ہے۔ اس کو بھوانی کا مندر کہاجاتا ہے۔ ہمارے ساتھیوں نے ساحل پر لوگوں کو دعوتی لٹریچر مطالعے کے لیے دیا۔ یہاں کئی چھوٹے چھوٹے ہوٹل اور کچے ناریل کی دکانیں تھیں۔ ہمارے ساتھ آشرم کے ایک کارکُن ناتھ جی تھے۔ وہ ہمارے ساتھیوں سے ہندی پملفلٹ (ستیہ کی کھوج) لے کر ساحل پر موجود دکان داروں اور وہاں کے مندر میں موجود زائرین کو دے رہے تھے۔
سمندر کو دیکھنے کے بعد میرے ایک ساتھی نے کہا کہ ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے خدا کی عظمت و کبریائی کے اظہار کے لیے جو الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں، وہ صرف خدا کی تصغیر (underestimation) کے ہم معنیٰ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ خدا کی عظمت اِس سے بہت زیادہ ہے کہ الفاظ کا کوئی ذخیرہ اُس کا احاطہ کرسکے۔
ہم لوگ ساحل سے مہوا کے آشرم میں لوٹے تو مغرب کا وقت ہورہا تھا۔ ہم لوگوں نے یہاں جماعت کے ساتھ نماز ادا کی۔ نماز کے بعد میرے ایک ساتھی نے کہا کہ آج جب میں نے نماز کی نیت باندھنے کے لیے اپنا ہاتھ اٹھاتے ہوئے اللہ اکبر کہا تو ایسا محسوس ہوا جیسے خدا کی عظمت اور اس کی کبریائی کا دائرہ لامحدود حد تک وسیع ہوگیا ہے۔ ٹھاٹھیں مارتا ہوا بحرِ بے کراں میری نگاہوں کے سامنے گھوم گیا۔ میں نے سوچا کہ وہ خدا کتنا عظیم ہوگا جو اِس سمندر کا خالق ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنی موجودہ محدودیت کے ساتھ خدا کی لامتناہی عظمت کا تصور نہیںکرسکتا۔
آشرم میں میں نے اپنے ساتھیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگوںکو ایک برائی سے بہت زیادہ بچنا ہے۔ یہ بے اعترافی کی برائی ہے۔ موجودہ زمانہ میںبے اعترافی کا مزاج اتنا زیادہ عام ہوچکا ہے کہ تقریباً ہر آدمی بے اعترافی کی نفسیات میں جیتا ہے۔ لوگ اس معاملے میں اتنا زیادہ کنڈیشنڈ ہوگئے ہیں کہ اُن کو یہ احساس بھی نہیں کہ بے اعترافی ایک مہلک برائی کی حیثیت رکھتی ہے۔
مثال کے طورپر میںنے پایا ہے کہ جب ایک تنظیم یا ادارہ کوئی سیمنار یا کانفرنس کرتاہے تو وہ اُس میں شرکت کے لیے مختلف لوگوں کو دعوت دیتا ہے۔ اِن لوگوں کے لیے ہر قسم کا انتظام کیاجاتا ہے۔ کانفرنس کے شرکاء جب اس کا ذکر کرتے ہیں تو عام طورپر اُن اجزا کا ذکر کرتے ہیں جن میں خود ان کی اپنی شان بڑھتی ہو۔ مثلاً ائر پورٹ پر شان دار استقبال۔ مگر جہاں تک منتظمین کا ذکر ہے، اُن کا حقیقی اعتراف میں نے لوگوں کی تحریر وتقریر میں نہیں پایا۔
اِس معاملے پر غور کرتے ہوئے میری سمجھ میں آیا کہ لمبی مدت تک ایک خاص طرح کی زندگی گزارتے ہوئے لوگ اب بے اعترافی سے اتنا زیادہ مانوس ہوچکے ہیں کہ بے اعترافی اُن کے لیے معمول کی ایک چیزبن چکی ہے۔ بے اعترافی کا کلمہ بولتے ہوئے اُنھیں یہ محسوس نہیںہوتا کہ وہ کوئی غلط بات بول رہے ہیں۔ بے اعترافی کے الفاظ اُن کے لیے اُسی طرح سہل الادا ہوگئے ہیں جس طرح کسی کے لیے تکیۂ کلام۔ اِس برائی سے بچنے کا ایک طریقہ ہے، وہ یہ کہ اپنا اتنا زیادہ محاسبہ (introspection) کیا جائے کہ اعتراف آدمی کے لیے مانوس چیز بن جائے، اور بے اعترافی اس کے لیے ایک نامانوس چیز۔
اِس کنونشن میں مقامی لوگوں کے علاوہ بیرونی مقامات کے بہت سے لوگ آئے تھے۔ جاتے ہوئے انھوں نے ہمارے ساتھیوں سے یہ کہہ کر مزید لٹریچر حاصل کیا کہ ہم اِس کو اپنے مقام پر لوگوں کو پڑھنے کے لیے دیں گے۔ اِس طرح یہ اسلامی لٹریچر بالواسطہ طورپر بہت سے دوسرے مقامات کے لوگوں تک پہنچ گیا۔
ایک نشست میں بات کرتے ہوئے میںنے کہا کہ عام طورپر موجودہ زمانے کے مسلمان یہ کہتے ہیں کہ اسلام کو ’’اَغیار‘‘ کی طرف سے خطرہ ہے۔ وہ تحفظِ اسلام کے نام پر بڑی بڑی کانفرنسیں کرتے ہیں۔ مگر اس قسم کی باتوں کا خدا کے دین سے کوئی تعلق نہیں۔ قرآن سے واضح طورپر معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے اپنے آخری دین کی حفاظت کی ذمہ داری خود لے لی ہے۔ ایسی حالت میںخطرہ اگر ہوسکتا ہے تو وہ خود مسلمانوں کوایک گروہ کی حیثیت سے ہوسکتا ہے۔ اسلام کو خدا کا آخری دین ہونے کی حیثیت سے کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمان خود اپنے قومی خطرے کی طرف منسوب کرکے یہ کہتے ہیں کہ خدا کے دین کو خطرہ ہے۔ مگر یہ بات مضحکہ خیز حد تک خلافِ واقعہ ہے۔ مسلمان جس چیزکو ملی خطرہ کہتے ہیں، اس کا واحد حل صرف دعوت الی اللہ ہے۔اگر وہ دعوت الی اللہ کی ذمے داری کو درست طورپر ادا کرنے لگیں تو ’’خطرہ‘‘ کا تصور اپنے آپ ختم ہوجائے گا۔
میں نے اِس سلسلے میں اپنے تین دعوتی تجربات کا ذکر کیا۔ میںنے کہا کہ گزشتہ چار مہینوں میں میں نے تین مقامات کا سفر کیا ہے اور تین مذاہب کی کانفرنس میں شرکت کی ہے— فلسطین میں یہودیوں کی طرف سے منعقد ہونے والی کانفرنس (اکتوبر 2008 ) ، قبرص میں عیسائیوں کی طرف سے منعقد ہونے والی کانفرنس (نومبر 2008)، اور یہاں گجرات میں ہندوؤں کی طرف سے منعقد ہونے والی موجودہ کانفرنس (فروری 2009 )۔اِن تینوں مقامات پر میںنے اور میرے ساتھیوں نے کھلے طورپر اسلامی دعوت کا کام کیا۔ مگر کسی مقام پر ہم کو نہ کسی تعصب کا سامنا کرنا پڑا اور نہ کسی مخالفت کا، بلکہ ہر جگہ ہمارے ساتھ مکمل تعاون کا معاملہ کیا گیا۔
اِس قسم کا تجربہ مجھ کو اور میرے ساتھیوں کو بار بار پیش آیا ہے۔ میں نے اِس کے سبب پر غور کیا ۔ میری سمجھ میں آیا کہ ایسا معاملہ ہمارے ساتھ کسی اتفاق کے نتیجے میں پیش نہیں آیا، بلکہ یہ تمام تر روحِ عصر (spirit of the age) کے نتیجے میں پیش آیاہے۔ اصل یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں مذہبی رواداری (religious tolerance) ایک مسلمہ جمہوری اصول (democratic norm) بن چکا ہے۔ آج کا انسان اِس بات کا تحمل نہیں کرسکتا کہ اُس پر مذہب کے معاملے میں عدم رواداری کا الزام لگایا جائے۔ اِس قسم کا الزام اُس کے لیے اپنی حیثیت عُرفی کو کھونے کے ہم معنٰی ہے۔ اِس لیے جب آج کا انسان کسی دوسرے مذہب کے لوگوں کے ساتھ رواداری کا سلوک کرتا ہے تو وہ خود اپنی حیثیت عُرفی کو ثابت شدہ بنانا ہے۔
جو لوگ اِس معاملے کی حقیقت نہیں سمجھتے، وہ اپنی بے خبری کی بنا پر اِس طرح کے معاملے کو سازش کا معاملہ سمجھنے لگتے ہیں، حالاں کہ اِس طرح کے معاملے کو سازش کہنا خود اپنی بے خبری کااعلان ہے، نہ کہ دوسرے کے بارے میں کسی حقیقت کا اظہار ۔ایسے لوگوں کے بارے میں صرف یہ کہا جاسکتا ہے کہ نہ اُن کے اندر خدا کا اتنا خوف ہے کہ وہ خدا کی پکڑ کے اندیشے سے چپ رہیں، اور نہ اُن کے پاس اتنی عقل ہے کہ وہ اِس معاملے کو اس کی اصل حقیقت کے اعتبار سے سمجھ سکیں۔
ایک مسلمان سے بات کرتے ہوئے میں نے کہا کہ آج کل کے مسلمان عام طورپر دوسری قوموں کو اپنا دشمن بتاتے ہیں اور ان سے نفرت کرتے ہیں۔ مگر یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ اِس لیے کہ اِس قسم کی سوچ ایک قیمت چاہتی ہے۔ اگر آپ وہ قیمت ادا نہ کریں تو آپ کو منافقت کا طریقہ اختیار کرنا پڑتا ہے، یعنی ایک چیز کوبرا مانتے ہوئے ذاتی مفاد کی بنا پر اس کے ساتھ مصالحت کرلینا۔ میںنے کہا مثال کے طورپر ساری دنیا کے مسلمان امریکا کواسلام کا دشمن نمبر ایک سمجھتے ہیں، اِس کے باوجود امریکا میں تقریباً سات ملین مسلمان رہ رہے ہیں۔
میںنے امریکا میں مقیم ایک پاکستانی مسلمان سے کہا کہ آپ لوگ امریکا کو اسلام کا دشمن بتاتے ہیں اور پھر یہیں آکر رہتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے۔ انھوںنے کہا کہ یہ تو روزی کا معاملہ ہے ۔ آدمی کی روزی جہاں لکھی رہے گی، وہاں وہ جائے گا۔ میںنے کہا کہ خدا نے آپ کی روزی ’’پاک لینڈ‘‘ میں نہیں لکھی، اُس نے آپ کی روزی ’’ناپاک لینڈ‘‘ میں لکھ دی— یہی موجودہ زمانے میں تقریباً تمام مسلمانوں کا مزاج ہے۔
یہاں ماہ نامہ الرسالہ کے ایک قاری سے ملاقات ہوئی۔ وہ بنگلور کے رہنے والے ہیں۔ میںنے اُن سے پوچھا کہ آپ لمبی مدت سے الرسالہ کا مطالعہ کررہے ہیں، یہ بتائیے کہ آپ کو اِس مطالعے سے کیا ملا۔ انھوں نے کہا کہ اگر میں مختصر الفاظ میں اِس کا جواب دوں تو وہ یہ ہوگا کہ الرسالہ کے مطالعے سے پہلے میں بے شعوری کی زندگی گزار رہا تھا، الرسالہ کے مطالعے کے بعد میں شعور کی طرف آیا ہوں۔ الرسالہ کا مطالعہ میرے لیے ایک ذہنی سفر تھا، یعنی بے شعوری سے شعور کی طرف سفر۔
شعوری زندگی کا حصول ہر آدمی کی ایک لازمی ضرورت ہے۔ بے شعور آدمی ایسا ہی ہوتا ہے جیسے کہ کوئی حیوان۔ وہ اپنے فطری تقاضوں کے تحت کماتا ہے اور کھاتا ہے اور پھر مر جاتاہے۔ اِس کے مقابلے میں، باشعور انسان ہی حقیقی انسان ہے۔ یہ صرف شعور ہے جو ایک انسان کو حیوانات سے الگ کرتا ہے۔بے شعوری کی زندگی یہ ہے کہ آدمی ما ألفینا علیہ اٰبائنا (البقرۃ: 170 ) کی سطح پر جیتا ہو۔ ماحول سے اُس نے جو کچھ سیکھا، آس پاس کی دنیا سے اُس کو جو باتیں ملیں، اُن کو وہ مانتا چلا گیا۔ ایسا انسان اپنے ماحول کی پیداوار ہوتا ہے۔ ایسے ہی انسان کو بے شعور انسان کہا جاتا ہے۔
باشعور انسان وہ ہے جو خود اپنے شعور کی تربیت کرے، جو براہِ راست مطالعے کے ذریعے چیزوں کو جانے، جو سوچے سمجھے فیصلے کے تحت دنیا میں زندہ رہنا سیکھے۔ دین اور دنیا دونوں اعتبار سے یہی باشعور انسان حقیقی معنوں میں انسان کی حیثیت رکھتا ہے۔ باشعور انسان کو دوسرے لفظوںمیں سیلف میڈ مین (self -made man) کہاجاسکتا ہے۔
باشعور زندگی کا تعلق دین سے بھی ہے اور دنیا سے بھی۔ دین کے اعتبار سے دیکھئے تو زندہ عقیدہ اور زندہ عبادت اور زندہ اخلاق صرف اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب کہ آدمی بے شعوری سے نکل کر اپنے آپ کو باشعور بنا چکا ہو۔ شعوری دریافت کے بغیر دین صرف بے روح رسموںکا مجموعہ ہے، اِس کے سوا اورکچھ نہیں۔ یہی معاملہ دنیا کے اعتبار سے بھی ہے۔ بے شعور آدمی ہمیشہ شکایتوںمیں جیتا ہے۔ وہ کبھی ترقی نہیں کر پاتا۔ اِس کے برعکس، باشعور آدمی شکایتوں سے اوپر اٹھ جاتا ہے، وہ مثبت شعور کے تحت اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرکے اعلیٰ کامیابی تک پہنچ جاتاہے۔
مہوا کے اِس آشرم میں بہت سے ایسے لوگوں سے ملاقات ہوئی جو اپنے گرو کی زیارت کے لیے آئے تھے۔ یہ لوگ اکثر اِس طرح کے جملے بولتے تھے کہ ہم کو جو کچھ ملا ہے، وہ گروجی کی کرپا سے ملا ہے۔ ٹھیک یہی مثال خود مسلمانوں میں پائی جاتی ہے۔ وہ مسلمان جو کسی درگاہ سے یا کسی بزرگ سے وابستہ ہیں، وہ بھی اِس قسم کے الفاظ کہتے ہیں کہ ہم کو جو کچھ ملا ہے، وہ سب حضرت کی دعاؤں کے طفیل ملا ہے۔
یہ ایک مشترک گم راہی ہے جو ہندو اور مسلمان دونوں میںمشترک طورپر پائی جاتی ہے۔ دنیوی چیزیں ہر ایک کو ملتی ہیں۔ جو شخص بھی اِس دنیا میں پیدا ہوتا ہے، اُس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمام مادّی چیزیں دی جاتی ہیں، کیوں کہ اِن مادّی چیزوں کے بغیر کسی کا امتحان ممکن نہیں۔ مادی چیزوں کو پرچہ امتحان کے بجائے بزرگوں کا فیض سمجھ لینا بلا شبہہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے شرک ہے۔ مزید یہ کہ اِس قسم کی سوچ ہمیشہ ذہنی جمود پیدا کرتی ہے۔ جس ماحول میںاِس قسم کی سوچ ہو، وہاں ذہنی ارتقا کا عمل رک جائے گا۔
ایک صاحب نے سوال کیا کہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ ہندو اور مسلمان دونوں کو اپنے بزرگوں سے والہانہ محبت ہوتی ہے، ایسی محبت جس کا مشاہدہ خدا کے معاملہ میں نظرنہیں آتا ۔ ایسا کیوں ہے۔ میںنے کہا کہ اِس کا سبب صرف ایک ہے، اور وہ ہے فطرت میںچھپے ہوئے ربانی جذبات کو کسی غیرخدا سے منسوب کرلینا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر انسان کی فطرت میں خدا کی طلب بے پناہ حد تک موجود ہوتی ہے۔ لیکن قلتِ معرفت کی بنا پر وہ خدا کی غیر مشہود عظمت کو دریافت نہیں کر پاتا، اِس لیے وہ انسان کی مشہود عظمت کو اپنا مرکز ِ توجہ بنا لیتا ہے۔ وہ قرآن کے الفاظ میں، یحبّونہم کحبّ اللہ (البقرۃ: 165 ) کا مصداق بن جاتا ہے۔
گجرات جانے سے پہلے کنونشن کے مقامی ذمے داروں سے ہمارے ساتھیوں نے وہاں کے موسم کے بارے میں پوچھا، انھوںنے بتایا کہ اِس وقت گجرات میں بہت گرمی ہورہی ہے۔ پھر بھی ہم لوگوں نے احتیاطاً اپنے ساتھ گرم کپڑے رکھ لیے۔ وہاں جانے پر معلوم ہوا کہ رات میں وہاں سردی ہور ہی ہے۔ مقامی لوگوں کے کہنے پر اگر ہم لوگ اپنے ساتھ گرم کپڑے نہ رکھتے تو ہمیں سردی کا سامنا کرنا پڑتا۔
میرا تجربہ ہے کہ اکثر لوگوں کا مشاہدہ بہت کم زور ہوتا ہے۔ وہ اس طرح کے معاملات میںدرست رائے نہیں دے پاتے۔ میرے تجربے کے مطابق، لوگ یا تو بات کو گھٹا کر کہتے ہیںیا وہ بات کو بڑھا کر کہتے ہیں۔ ٹھیک ٹھیک رائے دینا ایک نادرصفت ہے، اور یہ نادر صفت بہت کم لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ مزید یہ کہ لوگ ایسا بھی نہیں کرتے کہ وہ صاف طورپر کہہ دیں کہ ہمیں اس کا علم نہیں۔ لوگوں کا عام مزاج یہ ہے کہ وہ صرف بولنا جانتے ہیں۔ چپ رہنا بھی ایک عمل ہے، لیکن لوگ عام طورپر عمل کی اِس قسم سے بالکل بے خبر ہیں۔
کیلاش آشرم کے چاروں طرف ناریل کے ہرے بھرے درخت دور تک پھیلے ہوئے تھے۔ بظاہر ایسا معلوم نہیں ہوتا تھا کہ اِن درختوں کے درمیان کوئی بستی موجود ہے۔ عشاء کے وقت اذان کی آواز سنائی دی۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہاں ہمارے بالکل پڑوس میں ایک بستی ہے۔ اس کانام مہوا ہے۔ مہوا کو گجرات کا کشمیر کہا جاتا ہے۔ وہ اپنے قدرتی حسن اور فطری مناظر کی وجہ سے کافی مشہور ہے۔
27 فروری 2009 کو مولانا محمد ذکوان ندوی نے یہ پروگرام بنایا کہ وہ فجر کی نماز مہوا میں ادا کریں گے۔ چناں چہ وہ ایک مقامی ساتھی حافظ محمد شبیر صاحب (برم گاؤں) کو اپنے ساتھ لے کر فجر کے وقت مہوا گئے ۔ وہاں انھوںنے مختلف لوگوں سے ملاقاتیں کیں اور اُن کو دعوتی لٹریچر دیا۔ مہوا میں14 مسجدیں ہیں۔ یہاں ہندو اور مسلم دونوں طبقے کے لوگ باہم محبت اور بھائی چارے کے ساتھ رہتے ہیں۔ مولانا محمد ذکوان ندوی نے مہوا کی مختلف مسجدوں میں جاکر ان کے ائمہ سے ملاقات کی، اور اُن کو مطالعہ کے لئے ماہ نامہ الرسالہ کے متفرق شمارے اور تذکیر القرآن (اردو) دیا۔ مقامی لوگوں نے ہمارے ساتھیوں کے ساتھ بے حد خلوص اور محبت کا سلوک کیا۔
ان میں سے ایک یادگار ملاقات وہ تھی جو مہوا کی جامع مسجد کے امام مولانا عبد الواحد پالن پوری سے ہوئی۔ مہوا کی جامع مسجد ایک کشادہ اور وسیع مسجد ہے۔ وہ سنگڑیا بازار میں چوک کے قریب واقع ہے۔ مولانا عبد الواحد صاحب ایک سنجیدہ انسان ہیں۔ یہاں ان کا بہت اثر ورسوخ ہے۔ انھوںنے ہمارے ساتھی کا بھر پور تعاون کیا اور مہوا کی مختلف مسجدوں میں’’تذکیر القرآن‘‘ پہنچانے میںہماری مدد کی۔ روانگی سے قبل مہوا کے علماء اور ائمہ حضرات آشرم میںہم لوگوں سے ملاقات کے لئے آئے۔ انھوںنے الرسالہ مشن سے اپنی گہری دل چسپی کا اظہار کیا۔ انھوںنے کہا کہ یہ وقت کی آواز ہے اور ہم اِس آواز کو دوسروں تک پہنچائیں گے۔
میں نے کہا کہ مسلم ملّت آج ایک بڑی ملت کی حیثیت رکھتی ہے۔ اُس کے افراد کی تعداد ایک بلین سے زیادہ ہے۔ ملت کے اندر مختلف قسم کے کام مطلوب ہیں۔ مثلاً تعلیم، دعوت، دینی اصلاح، اصلاحِ ذاتُ البین، وغیرہ۔ اِن میںسے ہر کام کی اہمیت ہے اور یہ بالکل فطری بات ہے کہ ملت کے اندر مختلف حلقے اور تنظیمیں ہوں جو مختلف دائرے میں اپنی ذمے داریاں انجام دیں۔
اِس طرح کی تقسیم کار (division of work) بالکل فطری ہے اور ملت کی مجموعی اصلاح کے لیے ضروری ہے۔ لیکن اِس معاملے کو بہتر طورپر انجام دینے کے لیے ایک ضروری شرط ہے، وہ شرط ہے— باہمی اعتراف (mutual acknowledgement) ۔
صحیح طریقہ یہ ہے کہ لوگ اپنے اپنے ممکن دائرے میں اپنی صلاحیت اور اپنے وسائل کے مطابق کام کریں۔ ہر ایک اپنی ذمے داریوں کو انجام دے اور اِسی کے ساتھ ہر ایک دوسرے کا اعتراف کرے۔ باہمی اعتراف کے ساتھ تقسیم کار، یہی اِس معاملے میں صحیح اور قابلِ عمل طریقہ ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ملت کی مجموعی ترقی کے لیے تقسم کار کا اصول لازمی طورپر ضروری ہے۔ لیکن تقسیم کار کا اصول اُسی وقت مفید ہوسکتا ہے، جب کہ ہر گروہ دوسرے کا اعتراف کرے، ہر گروہ کے لوگوں میں دوسرے گروہ کے لیے خیر خواہی ہو، ہر گروہ دوسرے گروہ کی اُسی طرح قدر دانی کرے جس طرح وہ خود اپنی قدر دانی چاہتا ہے۔
اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مختلف گروہوں کے درمیان اختلاف ختم ہوجائے گا۔ اختلاف فطرت کا ایک اصول ہے، وہ کبھی ختم ہونے والا نہیں۔ جوچیز مطلوب ہے، وہ اختلافات کا خاتمہ نہیں ہے، بلکہ اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کا خیر خواہ ہونا ہے، اختلاف کے باوجود متحد ہو کر کام کرنا ہے۔ جس طرح ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے، اُسی طرح تقسیم کار کی بھی ایک قیمت ہے، وہ قیمت یہ ہے—کام کی تقسیم کے باوجود دلوں کی تقسیم نہ ہونا۔
آشرم کے قریب ایک بستی ہے۔ اُس کا نام مہوا ہے۔ اِسی بستی میں مراری باپو کا قیام رہتا ہے۔ بستی کے کچھ مسلمانوںنے بتایا کہ گودھرا فساد(2002) کے بعد گجرات کے مختلف علاقوں میں فرقہ وارانہ فساد شروع ہوگیا تھا۔ اِس موقع پر کچھ ہندو بلوائی مہوا بھی آگئے۔ وہ چاہتے تھے کہ یہاں بھی فساد ہو۔ اُس وقت مراری باپو نے بہت بڑا رول ادا کیا۔ وہ اپنے گھر سے نکل کر باہر آئے۔ انھوںنے فسادیوں کو سختی سے روکا، اور کہا کہ تم لوگ یہاں سے چلے جاؤ، ہم اپنی بستی میں فساد نہیں ہونے دیں گے۔ اِس کے بعد وہ لوگ مایوس ہو کر مہوا سے چلے گئے۔
یہی وہ چیز ہے جس کو قرآن اور حدیث میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کہاگیا ہے۔ امربالمعروف اور نہی عن المنکر نہ تو اسٹیج سے عوامی خطاب کرنے کا نام ہے، اور نہ وہ یہ ہے کہ حکومت پر قبضہ کرنے کے لیے سیاسی تحریک چلائی جائے اور یہ کہاجائے کہ ہم حکومت کے زور پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا چاہتے ہیں۔ یہ دونوں ہی غیر متعلق طریقے ہیں۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر یہ ہے کہ متعین اور مشخَّص طورپر اس کام کو انجام دیا جائے۔ پیش آمدہ صورتِ حال میں قوم کے سربر آوردہ افراد کھڑے ہوجائیں۔ وہ موقع پر پہنچ کر کہیں کہ ہم ایسا ہونے نہیں دیں گے۔ تم کو ہر حال میں اپنے شر سے باز ہونا پڑے گا۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام فوری طورپر اور متعین طورپر مداخلت کے ذریعے انجام دیا جاتا ہے۔ اِس کا م کا تعلق نہ تو اسٹیج کی تقریر سے ہے اور نہ سیاسی ہنگامہ آرائیوں سے۔
آج کل یہ حالت ہے کہ کہیں کوئی منفی واقعہ پیش آئے تو لوگ اخباری بیانات دیتے ہیں۔ ہندو لکھنے اور بولنے والے لوگ مسلمانوں کے خلاف لکھتے اور بولتے ہیں۔ اورمسلمان لکھنے اور بولنے والے لوگ ہندوؤں کے خلاف لکھتے اور بولتے ہیں۔ اِس قسم کی چیزیں سر تا سر لیڈری ہے۔ اُن کا کچھ بھی تعلق امربالمعروف اور نہی عن المنکر جیسے مطلوب کام سے نہیں۔ فرقہ وارانہ فساد کے موقع پر کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ مسلم رہنما مسلمانوں کے مفسد عناصر کے خلاف بولیں، اور ہندو رہنما ہندوؤں کے مفسد عناصر کے خلاف بولیں۔ اِس طرح فرقہ وارانہ فسادات پر روک لگ سکتی ہے۔ اِس کے سوا کوئی اور صورت فرقہ وارانہ فساد ات کو ختم کرنے والی نہیں۔
مسلمانوں کے درمیان لمبی مدت سے اصلاحِ معاشر ہ کے نام پر تحریکیں چل رہی ہیں۔لیکن اِن تحریکوںکا عملاً کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ یہ تحریکیں ہمیشہ عمومی انداز میں خطاب کرتی ہیں۔ اصلاحِ معاشرہ کا کام کبھی بھی عمومی انداز میں موثر نہیںہوسکتا۔ اِس کام کے صرف دو طریقے ہیں— ایک، متعین مداخلت۔ اور دوسرا، متعین نشان دہی۔ اگر آپ صاحب ِ اثر ہیں تو موقع پر پہنچ کر متعلق افراد پر دباؤ ڈالیے اور اُنھیں برائی سے روکیے، اور اگر آپ صاحبِ اثر نہیں ہیں تو کم ازکم آپ کو یہ کرنا ہے کہ آپ برائی کی متعین نشان دہی کریں، یعنی جو افراد برائی میں ملوث ہیں، اُن کا نام لے کر اُن کی مذمت کریں۔ اِن دو طریقوں کے سواکوئی تیسرا طریقہ اِس کام کو انجام دینے کا نہیں۔
27 فروری 2009 کو روانگی کا دن تھا۔ سب سے پہلے مراری باپو کے بھائی دیوا کا کا ملاقات کے لیے ہماری قیام گاہ پر آئے۔ یہ ان کی طرف سے رخصتی ملاقات تھی۔ انھوں نے ہمارے ہر ساتھی کو گفٹ (gift) پیش کیا اور مراری باپو کی طرف سے شکریہ ادا کیا۔ اس کے بعد جب چلنے کا وقت ہوا تو مراری باپو ملاقات کے لیے خود ہماری قیام گاہ پر آئے۔ انھوںنے ہم لوگوں کا شکریہ ادا کیا اورکہا کہ آپ لوگ یہاں آئے، اِس کے لیے ہم آپ کے بہت شکر گزار ہیں۔
یہاں کا ایک واقعہ قابلِ ذکر ہے۔ ہمارے ایک نئے ساتھی اپنی اہلیہ کے ساتھ اِس سفر میں شریک تھے۔ وہ اسلام سے کافی دل چسپی رکھتے ہیں اور آج کل وہ قرآن کا مطالعہ کررہے ہیں۔ اُن کی والدہ ایک قدیم مذہبی خاتون ہیں۔ اسلام کے مطالعے کی وجہ سے اُن کے گھر میں کشیدگی کا ماحول تھا۔ گجرات کے سفر میں مراری باپو نے ہمارے مذکورہ ساتھی کی اہلیہ کو گفٹ کے طورپر ایک قیمتی ساڑی پیش کی اور ہمارے ساتھی کے ساتھ اپنی تصویر کھنچوائی۔
ہمارے ساتھی نے اپنی والدہ کی تالیف قلب کے طورپر یہ ساڑی ان کو دکھاتے ہوئے کہا، یہ مراری باپو کا آشیرواد ہے۔ انھوں نے اپنی والدہ کو مراری باپو کے ساتھ اپنی تصویر بھی دکھائی۔ ان کی والدہ مراری باپو کی بہت عقیدت مند تھیں۔ اُن پر اِس واقعے کا بہت اثر ہوا کہ مراری باپو نے میرے بیٹے کے ساتھ کھڑے ہو کر تصویر کھنچوائی اور خود اپنے ہاتھ سے میری بہو کو ساڑی کا تحفہ پیش کیا۔ وہ بہت خوش ہوئیں اور گھر کے ماحول میں جو کشیدگی تھی، وہ ختم ہوگئی۔
اس واقعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ دعوت کاکام اگر حکمت کے ساتھ کیا جائے تو کس طرح ہر موقع پر اللہ تعالیٰ کی مدد آتی ہے اور سارے معاملات خودبخوددرست ہوتے چلے جاتے ہیں۔ مگر اِس قسم کی نصرت صرف اُس دعوتی کام پر آتی ہے جو تالیفِ قلب کے قرآنی اصول پر حکمت کے ساتھ خیر خواہانہ انداز میں انجام دی جائے۔
27 فروری 2009 کو ظہر کی نماز پڑھ کر آشرم سے واپسی ہوئی۔ مہوا سے احمد آباد ائرپورٹ تک کا یہ سفر پانچ گھنٹے کا سفر تھا۔ میرا یہ طریقہ ہے کہ میں سفر میں ہر صورتِ حال کو ذہنی تربیت کے لیے پوائنٹ آف ریفرنس کے طورپر استعمال کرتا ہوں۔ میرے نزدیک یہی طریقہ تربیت کا صحیح طریقہ ہے۔ تربیت گاہ اور تربیتی پروگرام کی شکل میں جو رسمی تربیت دی جاتی ہے، وہ اپنے نتیجے کے اعتبار سے بالکل بے فائدہ ہے۔
تربیت حقیقت میں دو چیزوں کا نام ہے— ایک ایسا شخص جو پورے معنوں میں معلمِ تربیت ہو۔ اور دوسرے، ایسے افراد جو اپنے اندر ذاتی اصلاح کا جذبہ رکھتے ہوں اور پھر مربی ہر موقع کو اصلاحِ فکر کے لیے استعمال کرے۔ حقیقی تربیت ہمیشہ پوائنٹ آف ریفرنس کے حوالے سے ہوتی ہے، نہ کہ رسمی نوعیت کے تربیتی نظام کے ذریعہ۔
مثلاً جب ہماری کار سڑک پر دوڑ رہی تھی تو میںنے اپنے ساتھی سے کہا کہ اِس واقعے کی اہمیت کو آپ صرف اُس وقت سمجھ سکتے ہیں، جب کہ آپ اس کو تقابلی طورپر دیکھ سکیں۔ میں نے کہاکہ آج سے 80 سال پہلے میرے بچپن میںنہ ایسی سڑکیں ہوتی تھیں اور نہ ایسی کار۔ اُس وقت کے ماحول میں میںنے جو پہلا سفر کیا، وہ کچے راستے پر پیدل کی صورت میں تھا۔ اِس کے بعد مختلف قسم کے سفر پیش آتے رہے— بیل گاڑی پر سفر، یکہ اور تانگہ پر سفر، بائسکل پر سفر، بس پر سفر، ٹرین پر سفر، بحری جہاز پر سفر، پھر آخر میں جدید کار اور تیز رفتار ہوائی جہاز پر سفر۔
میں نے کہا کہ میں غور کرتا ہوں تو مجھے اپنے سفر میں انسانی تہذیب (civilization) کا سفر دکھائی دینے لگتا ہے۔ آغاز میںانسانی زندگی بالکل سادہ تھی۔ اس کے بعد ہزاروں سال تک نسل در نسل بے شمار لوگوں نے محنتیں کیں، اس کے بعد یہ تمام سواریاں اور دوسرے ترقیاتی ذرائع وجود میں آئے۔ اِس واقعے پر غور کیا جائے تو ایسا معلوم ہوگا کہ پوری نسلِ انسانی نسل در نسل مسلسل محنت کرتی رہی، اس کے بعد یہ ممکن ہوا کہ جدید طرز کی سڑکیں اور جدید طرز کی سواریاں وجود میں آئیںجن پر میرے جیسا آدمی بہ آسانی سفر کرسکے۔
میںہر معاملے میںاِسی طرح غور کرتا ہوں۔ چناں چہ میرے دل میں انسان کے لئے کوئی نفرت یا شکایت کا جذبہ موجود نہیں، جیسا کہ لوگوں کا حال ہے۔ میںپوری انسانیت کو اپنا محسن سمجھتا ہوں۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پورا انسانی قافلہ مسلسل سرگرمی کے ذریعے انسانی تہذیب کو ترقی دیتا رہا، یہاں تک کہ موجودہ ترقیاں وجود میں آئیں جن سے تمام لوگ فائدہ اٹھارہے ہیں۔
اسی کا نام تربیت ہے۔ دینی تربیت کا لفظ علماء میں اور اسلامی جماعتوں میں بہت بولا جاتا ہے۔ مگر یہ لوگ اِس سے بے خبر ہیں کہ تربیت کیا چیز ہے۔ اِن لوگوں کے نزدیک تربیت کا تصور یہ ہے کہ تربیتی پروگرام کے تحت لوگوں کو ایک مقام پر اکھٹاکیا جائے۔ وہاں تربیت کے عنوان پر تقریریں کی جائیں اور قرآن وحدیث کا درس دیا جائے۔ یہ تربیت کا رسمی طریقہ ہے، اور رسمی تربیت کے ذریعے کبھی کسی کی تربیت نہیں ہوتی۔
تربیت یہ ہے کہ مختلف مواقع کو بطور ریفرنس استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو تربیت کی غذا دی جائے۔ جب ایساکوئی موقع پیدا ہوتا ہے تو اُس وقت انسان سننے کے لیے بالکل تیار ہوجاتا ہے۔ اُس وقت حکیمانہ انداز میں اُس موقع کو پوائنٹ آف ریفرنس (point of reference) کے طورپر استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو ذہنی غذا دینا، یہی تربیت کا اصل طریقہ ہے۔
میں نے اپنے ساتھیوں سے بات کرتے ہوئے کہاکہ اصحابِ رسول نے اپنے زمانے میں انتہائی سخت حالات میں دعوت کا کام کیا۔ بعد کے زمانے میں جو لوگ دعوت کا کام کریں گے، اُن کو خدا کی خصوصی نصرت حاصل ہوگی۔ اِس کے نتیجے میںاُن کا سفر ایک شاہانہ سفر بن جائے گا۔ اِس حقیقت کو بتائے ہوئے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اُن کا حال اِس طرح ہوگا، جیسے کہ بادشاہ تختوں پر بیٹھے ہوئے (کالملوک علی الأَسِرَّۃ)۔
میں نے کہا کہ اِس حدیث ِ رسول میںنئے دورِ دعوت کی پیشین گوئی موجود ہے۔ اِس حدیث میں ’’کالملوک‘‘ کی تمثیل بہت با معنیٰ ہے۔ اُس کا مطلب شاہانہ مواقع ہیں، نہ کہ لفظی معنی میں شاہی تخت۔ اِس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بعد کے زمانے میں جب مذہبی جبر کا دور ختم ہوگا، آزادی کا دور آئے گااور صنعتی ترقیوں کے نتیجے میں جدید امکانات کھل جائیں گے، اُس وقت جو لوگ اِن امکانات کو دعوت الی اللہ کے لیے استعمال کریں، وہ بظاہر اگر چہ سیاسی اقتدار کی کرسی پر بیٹھے ہوئے نہیں ہوں گے لیکن عملاً ان کے لئے وہ تمام مواقع عالمی سطح پر پوری طرح کھل جائیں گے جن کا استعمال قدیم زمانے میں صرف کسی بادشاہ کے لیے ممکن ہوتا تھا۔
دعوت الی اللہ کے یہ شاہانہ مواقع صرف اُن لوگوںکے حصے میں آئیں گے، جن کا حال یہ ہو کہ وہ اِس قسم کے واقعے سے فخر کی غذا نہ لیں، بلکہ ان کے احساسِ عجز میں اور اضافہ ہوجائے، وہ اس کو پوری طرح خدا کے خانے میں ڈال سکیں۔ اُن کی پوری شخصیت شکر اور حمد کے اُس ربانی احساس میں ڈھل جائے جس کو ایک حدیثِ رسول میں اہلِ جنت کی صفت کے طورپر اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: یُلہَمون التسبیحَ والحمدَ کما تُلہمون النَّفس (صحیح مسلم، کتاب الجنۃ) یعنی آدمی کے اندر جس طرح سانس آتی جاتی ہے، اُسی طرح اس کے اندر مسلسل طورپر حمد ِ خدا وندی کا چشمہ جاری ہوجائے گا، پورا ماحول حمدِ خداوندی کے لیے کامل معنوں میں پوائنٹ آف ریفرنس بن جائے گا۔
یہ کوئی سادہ بات نہیں، اِس کے لیے وہ گہرا عمل درکار ہے جس کو حدیث میں جہاد بالنفس کہاگیا ہے۔ اصل یہ ہے کہ اِس قسم کی حمد کے لیے وہ شخصیت درکار ہوتی ہے جو کامل معنوں میں مثبت شخصیت ہو، جس کے اندر منفی احساس کا ایک ذرہ بھی باقی نہ رہے۔ ایسی شخصیت لمبی جدوجہد کے بعد بنتی ہے۔ ایسی شخصیت کی تعمیر کے لیے وہ اعلیٰ شعور درکار ہے جو منفی تجربے کو مثبت احساس میں کنورٹ کرسکے۔ اِسی قسم کی مثبت شخصیت کو اعلیٰ حمد کی توفیق ملتی ہے، اور اسی قسم کی مثبت شخصیت کو جنت میں داخلہ دیا جائے گا۔
مہوا اور احمد آباد کے راستے میں باگودرا (Bagodra) کے مقام پر ہماری گاڑی رکی۔ یہاں مسافروں کے لیے مختلف قسم کی دکانیں اور ہوٹل تھے۔ یہاں عنبر نام کا ایک بڑا رسٹورنٹ تھا۔ ہم لوگوں نے وہاں چائے پی۔ ہمارے ساتھیوں نے رسٹورنٹ کے مالک اور دیگر مسافروں کو انگریزی اور ہندی زبان میں چھپا ہوا دعوتی لٹریچر دیا۔
27 فروری 2009 کی شام کو 6 بجے ہم لوگ احمد آباد ائرپورٹ پہنچے۔ 25 فروری 2009 کو جب ہم لوگ احمد آباد کے ائرپورٹ پر اترے تھے، اُس وقت ہمارے ساتھ دعوتی لٹریچر کے 5 بڑے بڑے کارٹن (carton) تھے۔ آج جب کنونشن سے واپس ہو کر ہم لوگ یہاں آئے تو ہمارے ساتھ کوئی کارٹن نہیں تھا، کیوں کہ یہ سارا لٹریچر دعوتی مقصد کے تحت لوگوں کو مطالعے کے لیے دیا جاچکا تھا اور لوگوں نے بخوشی اُن کو لے لیا تھا۔
ائرپورٹ پر ہمارے ساتھیوں کی دعوتی سرگرمی جاری رہی۔ یہاں انھوںنے ائر پورٹ کے عملہ (staff) سے مل کر اُن کو اسلامی پمفلٹ اور بروشر دیے۔ ائر پورٹ میں داخل ہو کر ہم لوگ لاؤنج (lounge)میںبیٹھ گئے۔ وہاں بھی ہمارے ساتھیوں نے لوگوں سے مل کر اُن کو ہندی اور انگریزی میں چھپا ہوا پمفلٹ دیا۔ لوگوں نے اس کو نہایت شوق سے لیا اور ہم لوگوں کا شکریہ ادا کیا۔
ہم لوگ جب احمد آباد ائر پورٹ کے لاؤنج میں بیٹھے ہوئے تھے، اُس وقت ایک واقعہ ہوا۔ ہمارے ایک ساتھی چیونگ گم (chewing gum) کا پیکٹ خرید کر لائے۔ وہ خود بھی چیونگ گم کھارہے تھے۔ انھوں نے اپنے ایک دوسرے ساتھی کی طرف چیونگ گم کا پیکٹ بڑھاتے ہوئے کہاکہ آپ بھی لیجئے۔ مجھ کو معلوم ہوا تو میں نے کہا کہ فوراً اِس کو اپنے منہ سے نکالیے اور اس کا بقیہ پیکٹ واپس کیجئے۔ یہ کوئی حقیقی ضرورت کی چیز نہیں۔ یہ صرف ایک عادت ہے۔ اور عادت میںہمیشہ کاما (comma)لگا رہتا ہے، اس میں کبھی فل اسٹاپ نہیںآتا۔ ہماری ٹیم ایسی کسی چیز کا تحمل نہیں کرسکتی جو صرف ایک غیر ضروری چیز کی حیثیت رکھتی ہو۔
عادت کیا ہے۔ عادت یہ ہے کہ کوئی کام آدمی باربار کرتا رہے۔ یہاں تک کہ وہ اس کے لاشعور کا حصہ بن جائے۔ جب ایسا ہوتا ہے تو آدمی اُس کام کو سوچے سمجھے بغیر خود بخور کرتا رہتا ہے۔ اُس کو یہ احساس بھی نہیں ہوتا کہ میںفلاں غیر ضروری کام کررہاں ہوں۔ مثلاً ہاتھ کی انگلیاں توڑنا، کرسی پر بیٹھ کر پاؤں ہلانا، ہنسی مذاق کرنا، جوک (joke) چھوڑنا، زیادہ بولنا، بناوٹی بات کرنا، جھوٹ بولنا، بلا ضرورت اورزور زور سے ہنسنا، دورانِ کلام بیچ میں بولنا، ٹیلی فون پر زور سے بات کرنا، پانی اور لائٹ کا بے جا استعمال کرنا، وغیرہ۔
اِس موقع پر میںنے اپنے ساتھیوں کو ایک حدیث سنائی۔ اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں: مِن حُسنِ اسلام المرئِ تَرکُہ ما لا یعنیہ (الترمذی، کتاب الزہد) یعنی آدمی کا حسنِ اسلام یہ ہے کہ وہ لا یعنی چیزوں کو ترک کردے۔
میں نے کہا کہ اِس حدیث کے مطابق، ایک اسلام وہ ہے جو صرف رسمی نوعیت کا اسلام ہو۔ اور دوسرا اسلام وہ ہے جو ’’حسنِ اسلام‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایمان اور اسلام کا اعلیٰ ذائقہ صرف اُسی انسان کو مل سکتا ہے جو حسنِ اسلام کو اپنا کنسرن (concern)بنائے اور غیر حسنِ اسلام کو شعوری فیصلے کے تحت مکمل طورپر چھوڑدے۔احمد آباد سے جیٹ ائرویز کی فلائٹ (9W0706) کے ذریعے دہلی کے لیے روانگی ہوئی۔ احمد آباد سے جہاز ٹھیک ٹائم (8:30 ) پر روانہ ہوا۔ جہاز کے اندر بھی ہمارے ساتھیوں کی دعوتی سرگرمیاں جاری تھیں۔ یہاںبھی انھوں نے لوگوں کو دعوتی پمفلٹ دیا۔ انھوں نے جہاز کے عملہ اور اس کے کیپٹن مسٹر ارونِد سنگھ کوریلٹی آف لائف (The Reality of Life) کی ایک ایک کاپی دی۔ انھوںنے نہایت خوشی اور شکریہ کے ساتھ اس دعوتی پمفلٹ کو قبول کیا۔
ڈیڑھ گھنٹے کی پرواز کے بعد ہمارا جہاز دہلی کے اندرا گاندھی انٹرنیشنل ائرپورٹ پر اتر گیا۔ ہم لوگ جہاز سے نکل کر ائرپورٹ کے اندر داخل ہوئے۔ یہاں دوبارہ ہمارے ساتھیوں نے دعوتی سرگرمی شروع کردی۔وہ لوگوں سے ملتے تھے اور انھیں مطالعے کے لیے اسلامی لٹریچر دیتے ـتھے۔ لوگ نہایت خوشی کے ساتھ اس کو قبول کررہے تھے۔ وہ بار بار تھینک یو (thank you) کہہ کر اپنی خوشی کا اظہار کررہے تھے۔
ہم لوگ ائر پورٹ سے باہر آئے تو یہاں مسٹر اشوک کار کے ساتھ موجود تھے۔ ہم لوگ اُن کے ساتھ کار پر بیٹھ کر روانہ ہوئے اور 11 بجے رات کو نظام الدین ویسٹ (نئی دہلی) پہنچ گئے۔
(یہ سفر نامہ مولانا محمد ذکوان ندوی کے تعاون سے تیار کیاگیا)۔
واپس اوپر جائیں

تاثراتِ سفر

محمد ذکوان ندوی
مارچ 2009 کے دوسرے ہفتے میں میں نے لکھنؤ کا سفر کیا۔ اِس دوران میں دار العلوم ندوۃ العلماء بھی گیا۔ یہاں میں اِس سلسلے میں ندوہ کے کچھ تجربات کا ذکر کروںگا۔ 16 مارچ کو میں نے عصر کی نماز ندوہ کی مسجد میں ادا کی۔ نماز کے بعد میں اپنے ایک استاد سے گفتگو کررہا تھا۔اِسی دوران ندوہ کے کئی اساتذہ وہاں اکھٹا ہوگئے۔ گفتگو کے دوران یہ حضرات مجھ سے فرمانے لگے— ہمیں تم سے ایک شکایت ہے۔ تم ہمارے پاس الرسالہ کیوں نہیں بھیجتے۔ اِس کے بعد کئی اساتذہ نے مجھ کو اپنا پتہ لکھ کر دیا او رکہا کہ تم مجھے ضرور الرسالہ بھجواؤ۔ یہی تجربہ ندوہ کے طلبا سے ملاقات کے دوران پیش آیا۔
ندوہ کے ایک استاد جو کئی سال سے الرسالہ پڑھ رہے ہیں۔ وہ بھی وہاں موجود تھے- گفتگو کے دوران انھوںنے کہا کہ مختلف زبانوں میں اِس وقت جرائد ورسائل کی بھر مار ہے۔ مگر جدید اسلوب میں تذکیری نوعیت کا قابلِ مطالعہ مواد (readable material) صرف الرسالہ میں ملتا ہے۔ الرسالہ کے مضامین براہِ راست انسانی فطرت کو ایڈریس کرتے ہیں۔ ندوہ کے ایک دوسرے استاد سے گفتگو ہوئی تو انھوںنے کہا کہ میرے تجربے کے مطابق، اُن لوگوں کوالرسالہ کا باقاعدہ مطالعہ کرنا چاہئے جو اُس کو پڑھنے اور سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ اسلام کے تذکیری پہلو سے واقفیت کے لیے الرسالہ کا مطالعہ ضروری ہے- اِسی طرح الرسالہ کی وہ چیزیں بھی اہم ہیں جو زمانی بصیرت سے تعلق رکھتی ہیں۔
ندوۃ العلماء میرا محسنِ علمی ہے۔ جب میں لکھنؤجاتا ہوں تو اپنے ساتھیوںاور اپنے اساتذہ سے ملاقات کے لیے ندوہ بھی جاتا ہوں۔ یہاں میں اس سلسلے کی صرف تین ملاقاتوں کا ذکر کروں گا۔
16 مارچ 2009 کی شام کو میںنے ناظم ندوۃ العلماء مولانا محمد رابع حسنی ندوی (1929) سے ملاقات کی۔ مولانا محترم میرے استاد ہیں۔ میںنے اُن سے عربی ادب پڑھا ہے۔ ندوہ کے زمانہ قیام(1995-1998)کے دوران میں نے مولانا کے ایک سفر نامہ (سمرقند و بخارا کی بازیافت) کی کتابت بھی کی تھی۔2001 میں میرا نکاح بھی مولانا ہی نے پڑھایا تھا۔تقریباً ایک گھنٹے تک مولانا محترم سے مختلف علمی اور دینی موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی۔ الرسالہ سے وابستگی کے بارے میں گفتگو ہوئی تو میں نے کہا کہ مولانا سید ابو الحسن علی ندوی (وفات: 1999 ) نے ندوۃ العلماء کے مسلک کو ایک لفظ میں ’’قدیم صالح، اور جدید نافع‘‘ کہا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ: تاسست ندوۃ العلماء علی الجمع بین القدیم الصالح والجدید النافع۔ ایسی حالت میں شاید یہ کہنا غلط نہ ہوگاکہ الرسالہ سے جڑ کر میں گویا ندوۃ العلماء کے اِسی مسلک (قدیم صالح، جدید نافع) پر کھڑا ہوا ہوں۔ ندوۃ العلماء کے مسلک کے مطابق، ’’قدیم صالح‘‘ کی معرفت میں نے ندوہ سے حاصل کی تھی، اور اب ’’جدید نافع‘‘ کی معرفت میں الرسالہ سے حاصل کررہا ہوں۔
میری بات سن کر مولانارابع حسنی صاحب بے ساختہ طور پر مسکرائے۔ انھوں نے کہا کہ طالب علمی کے زمانے ہی سے چوں کہ آپ سے قریبی تعلق ہے، اِس لیے مجھے خوشی ہورہی ہے کہ آپ معتدل ذہن کے ساتھ کام کررہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ سے مزید کام لے اور خصوصی توفیق عطا فرمائے۔
گفتگو کے دوران میںنے صدر اسلامی مرکز مولانا وحیدالدین خاں کی ذاتی زندگی کے کئی واقعات مولانا محمد رابع حسنی ندوی صاحب کو بتائے۔ یہ واقعات سادگی اور روحانیت (Spirituality)سے تعلق رکھنے والے واقعات تھے۔
میں نے ایک بات یہ کہی کہ مولانا کو میں نے بہت قریب سے دیکھا ہے۔ میںنے پایا کہ مولانا کی تحریر میں جس سادگی کا ذکر ہے، ان کی ذاتی زندگی میں بھی وہی سادگی پائی جاتی ہے، اِس اعتبار سے، دونوں ایک دوسرے سے پوری طرح ہم آہنگ ہیں، دونوں کے درمیان کوئی فرق میرے علم میں نہیں۔ اِسی طرح جس جنت کی طرف وہ لوگوں کوبلاتے ہیں، اُس کے وہ خودحریص دکھائی دیتے ہیں۔ جس جہنم سے وہ لوگوں کو ڈراتے ہیں، اس سے وہ خود ڈرنے والے نظر آتے ہیں(ولا أزکّی على اللہ أحداً-وما شہدنا إلا بما علمنا، وما کنا للغیب حافظین)۔ اِس اعتبار سے ان کی بعض تحریریں خود ان کی اپنی زندگی کا عکس ہیں، وہ دُور کے کسی شخص کا تعارف نہیں۔
میںنے اِس سلسلے میں مولانا کی زندگی کے کئی چشم دید واقعات بیان کیے۔اِن واقعات کو سن کر مولانا نے کہا کہ آپ نے مولانا وحید الدین خاں کے بارے میں جو باتیں بتائیں، وہ میرے علم میں نہیں تھیں۔ اِن واقعات کو سن کر میرے دل میں مولانا کی مزید قدر پیدا ہوگئی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو قبول کرے اور اُنھیں صحت وعافیت عطا فرمائے۔
مولانا وحید الدین خاں کی ایک کتاب (ہند- پاک ڈائری) میں نے مولانا کی خدمت میں پیش کی۔ مولانا نے نہایت خوشی کے ساتھ اُس کو لیا اورکہا کہ میںضرور اِس کو دیکھوں گا۔ میںنے مولانا سے دریافت کیا کہ آپ کے پتے پر الرسالہ موصول ہو رہا ہے؟ مولانا نے فرمایاکہ ہاں، الرسالہ پابندی سے مل رہا ہے۔ آخر میں مولانا رابع حسنی ندوی نے سیرتِ رسول کے موضوع پر اپنی ایک تازہ تصنیف اپنے دستخط کے ساتھ مجھ کو عنایت فرمائی۔ اِس کتاب کا نام یہ ہے — رہبرِ انسانیت۔
مغرب کی نماز کے بعد مہتمم دار العلوم ندوة العلماء مولانا سعید الرحمن الاعظمی ندوی (1934) سے ملاقات کے لیے میں ندوہ سے متصل ان کی رہائش گاہ (مکارم نگر) پہنچا۔مولانا محترم میرے استاد ہیں۔ میں نے اُن سے عربی ادب اور انشاء پڑھی ہے۔ اس کے علاوہ، مولانا سے میرے خاندانی نوعیت کے قریبی تعلقات ہیں۔ ندوہ کے زمانۂ طالبِ علمی میں میںنے مولانا کے کچھ مضامین کی کتابت کی تھی۔ یہ مضامین ایک کتاب کی صورت میں شائع ہوگئے ہیں۔ اُس کتاب کا نام ہے — اُسوۂ حسنہ کے آئینے میں ۔ ملاقات کے دوران میرے ساتھ ڈاکٹر سکندر علی اصلاحی، اور مولانا محمد آفتاب عالم ندوی (القرآن انسٹی ٹیوٹ، امین آباد ،لکھنؤ) بھی موجود تھے۔
میںنے مولانا سعید الرحمن الاعظمی ندوی سے معلوم کیا کہ آپ کو الرسالہ موصول ہو رہا ہے؟ مولانا نے کہا کہ ہاں، الرسالہ پابندی سے مل رہا ہے۔ مولانا نے پوچھا کہ کیا مولانا وحید الدین خاں ہروقت غور وفکر کرتے رہتے ہیں۔ میںنے کہا کہ لکھنے پڑھنے کے اوقات کے علاوہ، اصلاً مولانا کا مشغلہ عام طور پر صرف ایک ہے، اور وہ یہی غوروفکرہے۔
میں نے کہا کہ اپنے براہِ راست ذاتی مشاہدے کی بنا پر میں کہہ سکتا ہوں کہ مولانا کا سب سے بڑا مشغلہ’’التفکر والاعتبار‘‘ہے۔ میری بات سن کر مولانا سعید الرحمن الاعظمی نے کہا کہ اِسی تدبر و تفکر کا نتیجہ ہے کہ الرسالہ میں اِس قدر متنوع فکری اور تذکیری مضامین ہوتے ہیں۔ گہرے غور وفکر کے بغیر اِس طرح کے تخلیقی مضامین نہیں لکھے جاسکتے۔
مولانا سعید الرحمن الاعظمی ندوی نے کہا کہ اِس میں کوئی شک نہیں کہ مولانا وحید الدین خاں المفکر الاسلامی ہیں۔ وہ بلاشبہہ المفکر الاسلامی المُنتِج المُبدِعکی حیثیت رکھتے ہیں۔ مولانا نے کہا کہ اُن کی تحریروں میں دو چیزیں میں نے خاص طورپر دیکھی ہیں— ایک، یہ کہ وہ ہر چیز کو عبرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اُس سے خدا کی معرفت اخذ کرتے ہیں۔ دوسرے، یہ کہ وہ بظاہر سیکولر قسم کے واقعات میں بھی اسلام کی ابدیت اوراس کی حقانیت کا مثبت پہلو دریافت کرنے کا خصوصی ملکہ رکھتے ہیں۔
گفتگو کے دوران مولانا سعید الرحمن الاعظمی ندوی نے ایک واقعہ بتایا- انھوں نے کہاکہ 1984 میں جامعہ اسلامیہ (مدینہ) میں اسلام اور عصری تحدیات کے موضوع پر مولانا وحیدالدین خاں کے کچھ محاضرات ہوئے تھے۔ اس موقع پر میں بھی جامعہ اسلامیہ میں موجود تھا۔ میرا اور مولانا کا قیام ایک ہی ہوٹل میں تھا۔ میں نے دیکھا کہ عرب شیوخ اور علماء جو اُن کی کتاب الاسلام یتحدى سے واقف تھے، وہ مولانا وحید الدین خاں سے ملاقات کے لیے ہوٹل آرہے ہیں۔ یہ لوگ ہوٹل میں داخل ہو کر پوچھتے: فی أیّ غُرفۃ المفکر الاسلامی؟۔
عشاء سے کچھ پہلے میں مکہ گنج (سیتا پور روڈ) کے لیے روانہ ہوا۔وہاں میںنے استادِ محترم مولانا ابو سحبان روح القدس ندوی (1954) سے ان کی رہائش گاہ (مؤسسۃ القدس) پر ملاقات کی۔ مولانا میرے استادِ حدیث ہیں۔ اُن سے میںنے الترمذی ثانی کا درس لیا ہے۔ مولانا کے پتے پر الرسالہ بھجوایا گیا تھا۔ ملاقات کے دوران مولانا نے بتایا کہ الرسالہ اُن کو پابندی سے مل رہا ہے۔
مولانا ابو سحبان روح القدس ندوی نے کہا کہ بہت دنوں سے میرے ذہن میں یہ سوال تھا کہ مفکر (thinker)کس کو کہتے ہیں۔ الرسالہ پڑھنے کے بعد مجھے اس سوال کا جواب مل گیا۔ میں نے الرسالہ کے صفحات میں واضح طورپر مفکرانہ بصیرت کا مطالعہ کیا۔ بعض چیزوں میں الرسالہ سے مجھ کو فکری رہنمائی ملی۔ الرسالہ پڑھ کر بعض جدید امور کے متعلق میرا کنفیوژن دور ہوگیا۔
مولانا نے بتایا کہ اُن کے بچے انگلش میڈیم اسکول میں پڑھتے ہیں۔ روایتی اسلوب میں پیش کی جانے والی مذہبی تعلیم ان کے مائنڈ کو ایڈریس نہیں کرتی تھی۔ اب میں اُنھیں الرسالہ کے بعض سبق آموز مضامین پڑھواتا ہوں۔ وہ اِن مضامین سے متاثر ہورہے ہیں۔ وہ الرسالہ میں شائع ہونے والی اس قسم کی باتوں کو فوراً اخذ (grasp) کرلیتے ہیں۔
مولانا ابو سحبان روح القدس ندوی نے کہا کہ اپنے مطالعے کی بنا پر اگر میں ایک لفظ میں مولانا وحید الدین خاں کے متعلق اپنا تاثر بیان کروں تو میں کہوں گا کہ اسلام کے تذکیری پہلو کے اعتبار سے، وہ گویا ’’مجدّد الفکر الاسلامی‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ جو آدمی وقت کے اسلوب میں اسلام کا تذکیری مطالعہ کرنا چاہے، اُس کو چاہیے کہ وہ مولانا وحید الدین خاں کی کتابوں سے استفادہ کرے۔ آخر میں مولانا ابوسحبان ندوی نے اپنی چند کتابیں مجھے عنایت فرمائیں۔ مثلاً تخریج الحدیث اور سیرتِ نبوی کا تربیتی پہلو، وغیرہ۔ ( محمد ذکوان ندوی)
واپس اوپر جائیں