Pages

Sunday 1 July 2007

Al Risala | July 2007 (الرسالہ،جولائی)

2

- دعا عبادت ہے

7

- ایک اور عبادت

9

- یہ ’مضاہاۃ‘ ہے

13

- پائنٹ آف ریفرنس

20

- ذہنی تحفظ کے بغیر

25

- اہلِ باطل کا طریقہ

28

- ایک انتباہ

31

- گیارہ ستمبر کے بعد

35

- ایک مثال

36

- خدا کی حکومت

37

- قتل یا ڈی کنڈیشننگ

38

- دو قسم کے ماڈل

40

- دنیا اور آخرت

41

- عمل کا مدار نیت پر ہے

42

- اسلاف کا طریقہ

43

- والد محترم کی وفات


دعا عبادت ہے

دعا کے معنیٰ ہیں پکارنا۔ یہ لفظ جب شرعی اصطلاح کے طورپر بولا جائے تو اُس کا مطلب ہوگا اللہ کو پکارنا، اللہ سے التجا کرنا۔ یہ دعا ایک عظیم عبادت ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ ’الدعاء ہو العبادۃ‘ (الترمذی، ابن ماجہ، احمد) یعنی دعا ہی عبادت ہے۔ ایک اور روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الدعاء مخ العبادۃ (الترمذی، کتاب الدعاء) یعنی دعا عبادت کا مغز ہے۔
دعا کا عبادت ہونا بتاتا ہے کہ دعا ایک ذاتی نوعیت کا عمل ہے۔ ہر آدمی کو اپنی دعا آپ کرنا ہے، جس طرح ہر آدمی اپنی عبادت آپ کرتا ہے۔ کوئی شخص ایسا نہیں کرسکتا کہ وہ کسی دوسرے آدمی سے کہے کہ تُم میری طرف سے نماز پڑھ دو، اسی طرح یہ بھی درست نہیں کہ کوئی شخص کسی دوسرے شخص سے کہے کہ تُم میرے لیے دعا کردو۔
قرآن میں اہلِ ایمان کی یہ صفت بتائی گئی ہے: یدعون ربہم خوفاً وطمعا (السجدہ : 16) یعنی وہ لوگ اپنے رب کو پکارتے ہیں خوف کے ساتھ اور امید کے ساتھ۔ کسی آدمی کا اپنے رب کو خوف اور امید کے ساتھ پکارنا ایک انتہائی قسم کا ذاتی عمل ہے۔ یہ دعائیہ واقعہ کسی آدمی کے دل کی انتہائی گہرائیوں کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے۔ اس قسم کی دعا ایک آدمی کو خود کرنا ہے۔ وہ ایسا نہیں کرسکتا کہ کسی دوسرے شخص سے کہے کہ تم میری طرف سے خوف کرلینا یا میری طرف امید کرلینا۔
اس قسم کی دعا کسی انسان کے لیے اس کی عبدیت کا معیار ہے۔ جو شخص اللہ پر ایمان رکھنے کا مدعی ہو اُس کی زندگی میںایسے لمحات آنے چاہئیں جب کہ اُس کی روح اللہ کی یاد سے تڑپ اٹھے۔ اُس کے دل ودماغ میں اللہ کے تصور سے زلزلہ پیدا ہوجائے۔ اُس کے سینے میںتعلق باللہ کا سیلاب اُمنڈ پڑے اور پھر اس زلزلہ خیز کیفیت کے ساتھ وہ سراپا التجا بن کر اللہ سے دعا کرنے لگے۔
جس آدمی کے اندر یہ کیفیت پیدا نہ ہو، اُس کا ایمان ہی اللہ کے نزدیک غیر معتبر ہوجائے گا۔ چنانچہ حدیث میں آیا ہے کہ: من لم یسأل اللہ یغضب علیہ (الترمذی، کتاب الدعوات) یعنی جو شخص اللہ سے سوال نہیں کرتا اللہ اُس پر غضب ناک ہوتا ہے۔
دعا ایک ایسا لطیف عمل ہے جو براہِ راست خدا اوربندے کے درمیان پیش آتاہے۔ اس عمل کے دوران کوئی تیسرا شخص موجود نہیں ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ بہترین دعا وہ ہے جو تنہائیوں میںکسی بندۂ خدا کے سینے سے ابلتی ہے۔ ایک روایت میں جنتی انسان کی ایک صفت یہ بتائی گئی ہے: ذکر اللہ خالیا ففاضت عیناہ (النسائی، مؤطا) یعنی وہ شخص جس نے اللہ کو تنہائی میں یاد کیا اور پھر اُس کی دونوں آنکھیں بہہ پڑیں۔
ان نصوص کی روشنی میں دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ دعا انتہائی ذاتی نوعیت کا ایک لطیف عمل ہے۔ وہ ہر مدعی ٔ ایمان کے لیے اُس کی ربانیت کا اظہار ہے۔ اس حقیقت کو سامنے رکھیے تو معلوم ہوگا کہ دعا ایسی چیز نہیں کہ آپ کسی مفروضہ بزرگ سے مل کر کہیں کہ آپ میرے لیے دعا کردیجیے۔ اس قسم کی درخواست بلاشبہہ دعا کی تصغیر ہے۔ یہ گویا اللہ کی طرف دوڑنے کے بجائے انسان کی طرف دوڑنا ہے۔
اسی طرح لاؤڈاسپیکر پر دعا کرنا بھی ایک مضحکہ خیز بات ہے۔ اس قسم کا مکبّرانہ فعل ایک تقریر ہے نہ کہ دعا۔ حتی کہ یہ بھی حقیقی دعا نہیں کہ آپ کچھ الفاظ کو رٹ لیں اور ہر بار ان رٹے ہوئے الفاظ کو زبان سے دہرادیں۔ دعا، اپنی حقیقت کے اعتبار سے، قلبی تڑپ کا ایک عمل ہے، وہ رسمی الفاظ کے کسی مجموعے کا نام نہیں۔
صحیح البخاری میںکتاب الایمان کے تحت ایک باب کا ترجمۂ باب ان الفاظ میں قائم کیاگیا ہے: دعاؤکم إیمانکم (تمھاری دعا تمھارا ایمان ہے)اس کا مطلب یہ ہے کہ جیسا ایمان ویسی دعا۔ دعا ایمان کو ناپنے کا پیمانہ ہے۔ اگر آدمی کو گہرا ایمان حاصل ہوا ہے تو اس کی دعا بھی دل کی گہرائیوں سے نکلنے والی ایک ربانی آواز ہوگی۔ وہ جب دعا کرے گا تو اس کا پورا وجود اس کی دعاؤں میںشامل ہوجائے گا۔ دعا اس کے لیے اپنے رب سے ملاقات کا لمحہ بن جائے گی۔ اس کی دعا اپنے رب سے سرگوشی (whisper) کے ہم معنی ہوگی، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے: یناجی ربّہ (مسند احمد)
اس کے برعکس، جس کا ایمان قلب میںاترا ہوا نہ ہوبلکہ صرف لفظی اقرار کے ہم معنی ہو، اس کی دعا بھی صرف لفظی اور رسمی دعا ہوگی۔ وہ کچھ رٹے ہوئے الفاظ کو زبان سے دہرائے گا مگر ان الفاظ کا اس کی قلبی کیفیات سے کوئی تعلق نہ ہوگا۔ اس کی دعا صر ف تلفظِ لسانی کے ہم معنی ہوگی نہ کہ روحانی کیفیت کے اظہار کے ہم معنی۔
حدیث میں آیا ہے کہ جب تم اللہ سے دعا مانگو تو خوب لپٹ کر دعا مانگو۔ لپٹ کر دعا مانگنے کا مطلب کیا ہے، اس کو میںایک مثال سے واضح کروں گا۔ یہ مثال بیٹے اور باپ کے معاملے سے تعلق رکھتی ہے۔ مگر اس سے بندے اور خدا کے درمیان دعا کے معاملے کو بھی سمجھا جاسکتا ہے۔
رام پور کا واقعہ ہے۔ وہاں ایک اسکول ماسٹر تھے۔ ان کی آمدنی زیادہ نہ تھی۔ اُن کے بیٹے کو بائیسکل کا شوق ہوا۔ اُس نے اپنے باپ سے کہا کہ میرے لیے ایک بائیسکل لے لیجیے۔ باپ نے کوئی جواب نہ دیا۔ بیٹا کئی دن تک اپنے اس سوال کو دہراتا رہا۔ مگر باپ اُس کو نظر انداز کرتا رہا۔ ایک دن بیٹے نے زیادہ اصرار کیا تو باپ نے غصہ ہوکر کہا کہ میرے پاس بائیسکل خریدنے کے لیے پیسہ نہیں۔اب اگر تم نے بائیسکل کے لیے کہا تم میں تم کو ماروں گا۔ یہ سُن کر بیٹا رونے لگا۔ اُس نے روتے ہوئے کہا کہ— آپ ہی تو ہمارے باپ ہیں، آپ سے نہ کہیں تو کس سے کہیں۔
بیٹے کے یہ الفاظ سُن کر باپ کی آنکھوں میں آنسو آگیے۔ اُس نے کہا کہ اچھا میرے بیٹے، میں ضرورتم کو بائیسکل دوں گا۔ اور پھر پیسہ کا انتظام کرکے اگلے دن اُس نے بائیسکل خریدی اور بیٹے کو دے دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جب بیٹے نے مذکورہ الفاظ کہے تو گویا باپ اور بیٹا دونوں ایک ترازو پر آگیے۔ باپ نے محسوس کیا کہ اگر وہ بائیسکل کا انتظام نہ کرے تو گویا اُس کی پدریت (fatherhood)ہی مشتبہ ہوجائے گی۔
باپ اور بیٹے کا یہ واقعہ بندے اور خدا کے معاملے کو بتاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کون سی دعا ہے جو ضرور قبول ہوتی ہے، جو لوٹائی نہیں جاتی۔ یہ وہ دعا ہے جس میںبندے کی پوری ہستی دعا میںڈھل جاتی ہے۔ جب دعا کا قبول ہونا خدا کے لیے بھی اُتنا ہی بڑا مسئلہ بن جاتا ہے ہے جتنا بڑا انسان کے لیے۔
غالباً دعاکی یہی قسم ہے جس کے بارے میں حدیث میں آیا ہے کہ : رُبّ أشعث أغبر مدفوع بالأبواب لو أقسم علی اللہ لأبرّہ (صحیح مسلم، کتاب البر) یعنی بہت سے لوگ ہیں جن کے بال بکھرے ہوئے ہیں، جن کے کپڑے گرد آلود ہیں، جن کے اوپر لوگوں کے دروازے بند ہیں، اگر وہ اللہ پر قسم کھائیں تو اللہ اُن کی قسم کو پورا کرے گا۔
اس حدیث میںاُس انسان کی تصویر بتائی گئی ہے جو اللہ کے کام میں اتنا زیادہ مشغول ہوا کہ اُس کو بال اور کپڑے کا اہتمام کرنے کی بھی فرصت نہ رہی۔ جو لوگ اپنے آپ کو اللہ کے کام میں اس طرح وقف کردیں اُن کا معاملہ اللہ کا معاملہ بن جاتا ہے ہے۔ وہ جب کسی چیز کے لیے دعا کرتے ہیں تو وہ ایک ایسی چیز کو مانگنا ہوتا ہے جس کی قبولیت کا فیصلہ پیشگی طورپرکیا جاچکا ہے۔
یہ دعا کوئی سادہ چیز نہیں ہے، یہ مومن کے لیے ایک عجیب سرمایہ ہے۔ دعا کے سرمایہ ہونے کے بہت سے پہلو ہیں۔ مثلاً کسی شخص کے خلاف آپ سے کوئی ایسی غلطی ہوگئی جس کی تلافی کی کوئی اور صورت نہ ہو تو آپ اُس کے لیے اللہ سے دعا کرتے ہوئے کہیں کہ اے اللہ، تو میری طرف سے اُس کے حق میں دعائے خیر لکھ دے۔ آپ کے اوپر کسی کا احسان ہے اور آپ اُس کے احسان کا بدلہ نہ دے سکتے ہوں تو آپ اُس کے حق میں بہترین دعائیں کریں۔ آپ کسی معذوری کی بنا پر کوئی دینی کام نہ کرسکیں تو آپ اُن لوگوں کے لیے اللہ کی مدد کی دعا کریں جو اس کام کو انجام دے رہے ہیں۔ آپ کے دل میں کسی کے خلاف شکایت آجائے تو آپ اللہ سے یہ درخواست کریں کہ وہ آپ کے دل سے شکایت کو نکال دے اور اُس کی جگہ خیر خواہی کے جذبات رکھ دے۔
امام ابن تیمیہ کے بارے میں آتا ہے کہ جب قرآن کی کسی آیت کو سمجھنے میں اُنھیں مشکل پیش آتی تو وہ وضو کرکے کسی ویرانے میں چلے جاتے اور دو رکعت نماز پڑھ کر اللہ سے یہ کہتے کہ ائے ابراہیم کو علم دینے والے، مجھے بھی علم دے دے(یا معلم إبراہیم علّمنی)
حقیقت یہ ہے کہ دعا ہر مشکل کے وقت مومن کا سہارا ہے۔ وہ ہر مشکل مسئلے کا حل ہے۔ دعا بلاشبہہ ایک طاقت ہے، سب سے بڑی طاقت۔ دعا اللہ سے ملاقات کا لمحہ ہے۔ مگر یہ لمحہ غافل لوگوں کے حصے میں نہیں آتا۔ یہ قیمتی لمحہ صرف اسی انسان کے لیے مقدر ہے جو اپنے دل کے اندر اعلیٰ ربانی کیفیت کو بیدار کرچکا ہو۔
واپس اوپر جائیں

ایک اور عبادت

نماز ایک عبادت ہے۔ وہ کچھ مخصوص اوقات کے ساتھ مقرر کی گئی ہے (النساء : 103) رات او ردن کے درمیان جب یہ مقرر وقت آتا ہے، اس وقت اہلِ ایمان اس کو ادا کرتے ہیں۔ اسی طرح صبر بھی ایک عبادت ہے جس کا حکم قرآن میںنماز کے ساتھ دیا گیا ہے(البقرہ: 153 ) بلکہ صبر ایک ایسی عظیم عبادت ہے جس کا اجر اس پر عمل کرنے والے کوبلا حساب دیا جائے گا (الزّمر: 10)
صبر اور نماز دونوں اگر چہ عبادت ہیں مگر دونوں میںایک فرق ہے۔ نماز کی عبادت کا وقت رات اور دن کے لمحات میں تبدیلی پر مبنی ہے، مگر صبر کی عبادت کا وقت انسانی حالات کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ یہ دراصل انسان ہے جو ایسے حالات پیدا کرتا ہے جب کہ کسی شخص کے لیے صبر کی عبادت ادا کرنے کا موقع آجائے۔
جب ایک شخص آپ کو غصّہ دلا دے، اس وقت آپ کے لیے یہ موقع پیدا ہوتا ہے کہ آپ مذکورہ شخص کے خلاف غصّہ کو برداشت کرکے صبر کی عبادت انجام دیں۔ اگر مذکورہ شخص آپ کو غصہ نہ دلاتا تو آپ کے لیے صبر کرنے کا موقع ہی نہ آتا۔ کوئی شخص آپ کو ستائے تو اس وقت آپ کے اندر اس کے خلاف انتقام کا جذبہ بھڑک اٹھتا ہے۔ اس وقت اپنے اندر پیدا ہونے والی انتقام کی آگ کو بجھانا ایک عبادت ہے۔ مگر اس عبادت کو انجام دینے کا وقت بھی آپ کے لیے اس وقت آیا جب کہ کسی شخص نے آپ کے خلاف منفی کارروائی کرکے آپ کو انتقام کی نفسیات میں مبتلا کیا۔
اسی طرح جب کوئی شخص آپ سے آگے بڑھ جائے تو اس کا آگے بڑھنا آپ کے اندر حسد کی کیفیت پیدا کرتا ہے۔ اگر وہ آپ سے آگے نہ بڑھتا تو آپ کے اندر اس کے خلاف حسد کی کیفیت نہ پیدا ہوتی، گویا اس شخص نے آگے بڑھ کر آپ کویہ موقع دیا کہ آپ اس کے حاسد نہ بنیں بلکہ آپ اس کے خیر خواہ بنیں۔ آپ اس کی تباہی کے بجائے اس کے لیے مزید ترقی کی دعا کریں۔ اور اس طرح حسد کے موقع کو اپنے لیے نیکی اور عبادت کا موقع بنالیں۔
اسی طرح آپ کچھ لوگوں کے ساتھ ایک اچھے کام میں شریک ہوتے ہیں، بعد کو آپ کے اندر دوسروں کے خلاف شکایت کے جذبات پیداہوتے ہیں۔ اگر دوسروں کے ساتھ آپ کی شرکت نہ ہوتی تو اس قسم کی شکایت کے مواقع بھی نہ آتے۔ مگر اس شکایت اور اختلاف نے آپ کے لیے یہ عظیم موقع فراہم کردیا کہ آپ اپنے آپ کو شکایتی نفسیات سے بچائیں اور شکایت اور اختلاف سے اوپر اٹھ کر حق کی خاطر دوسروں کا ساتھ دیتے رہیں۔ پہلے اگر آپ کو اختلاف کے بغیر اتحاد کا ثواب ملتا تھا تو اب مزید اضافے کے ساتھ آپ کو اختلاف کے باوجود اتحاد کا ثواب ملے گا۔
اگر آپ کے پاس کسی کا مال بطور امانت ہے۔ اس کے بعد ایسا ہوا کہ امانت کا کاغذی ثبوت کسی وجہ سے موجود نہ رہا تو یہ حادثہ آپ کے لیے ایک عظیم موقع ہے۔ کیوں کہ آپ متعلق شخص کی امانت کو حسب وعدہ ادا کرکے زیادہ بڑے ثواب کے مستحق بن سکتے ہیں۔
وقت وقت پر پیش آنے والی عبادتوں کے سوا ایک اور عبادت ہے جو حالات کی نسبت سے پیش آتی ہے۔ جب یہ حالات پیش آئیں تو سمجھ لیجیے کہ ایک اور نماز کی ادائیگی کے لیے ’’اذان‘‘ ہوگئی۔ ایسے موقع پر مومن کو چاہیے کہ وہ اُسی شوق کے ساتھ اِس مطلوب عبادت کو ادا کرے جس شوق کے ساتھ وہ موقوت عبادتوں کو ادا کرتا ہے۔
جس طرح آپ نماز کی اذان سُن کر خوش ہوتے ہیں کہ نماز ادا کرکے ثواب حاصل کرنے کا وقت آگیا۔ اسی طرح آپ کو ان موقعوں پر بھی خوش ہونا چاہیے جب کہ ایک شخص نے اپنی کسی منفی روش سے آپ کے اندر غصّہ اور حسد اور انتقام اور شکایت جیسے جذبات پیدا کردیئے ہوں اور اس طرح اس نے آپ کو یہ موقع دیا ہو کہ آپ اپنے اندر جوابی قسم کی منفی نفسیات پیدا نہ ہونے دیں اور یک طرفہ طورپر مثبت روش اختیار کرکے اپنے آپ کو عظیم تر ثواب کا مستحق بنالیں۔
واپس اوپر جائیں

یہ ’مُضاہاۃ‘ ہے

قرآن کی سورہ نمبر 9 میں اہلِ کتاب کے حوالے سے ارشاد ہوا ہے: اور یہود نے کہا کہ عُزیر اللہ کے بیٹے ہیں اور نصاریٰ نے کہا کہ مسیح اللہ کے بیٹے ہیں۔ یہ اُن کے اپنے منھ کی باتیں ہیں۔ وہ ان لوگوں کی بات کی نقل کررہے ہیں جنھوں نے ان سے پہلے کفر کیا۔ اللہ اُن کو ہلاک کرے، وہ کدھر جارہے ہیں (التوبہ: 30)
اس آیت میں مضاہاۃ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ مضاہاۃ کے معنی مشابہت یا تقلید (imitation) کے ہیں۔ یہ پچھلی اُمتوں کا طریقہ رہا ہے کہ جب اُن کے اندر خدا کا عقیدہ طاقتور عقیدہ کی حیثیت سے باقی نہ رہا تو اُنھوں نے اپنے زمانے کے مروّجہ خیالات و نظریات پر اپنے دین کو ڈھالنا شروع کردیا ۔ اُنھوں نے خدا کے دین کو وقت کے غالب افکار کے رنگ میں رنگ دیا۔
حدیث میںآیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پیشین گوئی فرمائی کہ میری امت بعد کے زمانے میں وہی سب کرے گی جو یہود و نصاریٰ نے اس سے پہلے کیا۔ راقم الحروف کا احساس ہے کہ جس مضاہاۃ میں یہود و نصاریٰ مبتلا ہوئے تھے، مضاہاۃ کی اسی برائی میں موجودہ زمانے کے مسلمان بھی پوری طرح مبتلا ہوچکے ہیں۔
اسی کا ایک پہلو یہ ہے کہ موجودہ زمانے کے تقریباً تمام مسلمان اپنے مسائل و مصائب کا ذمہ دار دوسری قوموں کو قرار دیتے ہیں۔ ہر مسلم قلم اور ہرمسلم زبان یہ بتانے میںمصروف ہے کہ غیر مسلم قومیں اُن کی دشمن ہوگئی ہیں اور موجودہ مسلمان ہر جگہ اُن کی سازش اور ظلم کا شکار ہورہے ہیں۔
قرآن کا مطالعہ کیجئے تو اس میں برعکس طورپر یہ بات ملتی ہے کہ ہر قوم کا زوال اُس کی اپنی داخلی کمزوری کی بنا پر ہوتا ہے۔ مثلاً فرمایا: إن اللہ لا یغیر ما بقوم حتی یغیروا ما بأنفسہم (الرعد: 11)
موجودہ زمانے کے مسلمانوں کو یہ شکایت ہے کہ غیر مسلم قوموں نے اُن کی حکومت چھین لی۔ اُن کے غلبہ کو ختم کردیا۔ حالاں کہ قرآن واضح طورپر اس سوچ کی تردید کرتا ہے۔ قرآن کے مطابق، مسلمانوں کو ماضی میں جو سیاسی غلبہ ملا ہوا تھا وہ اللہ کی طرف سے دی ہوئی ایک نعمت تھی۔ یہ نعمت خدائی قانون کے تحت اُس وقت اُن سے چھن گئی جب کہ وہ داخلی زوال کا شکار ہوگیے۔ یہ تاریخی قانون قرآن میںاس طرح بتایا گیا ہے:
’’یہ اس وجہ سے ہوا کہ اللہ اس انعام کو جو وہ کسی قوم پر کرتا ہے اُس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ اس کو نہ بدل دیں جو ان کے نفسوں میں ہے۔ اور بے شک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے‘‘ (الأنفال: 53)
فطرت کا یہ قانون قرآن میں ایک اور جگہ اس طرح بتایا گیا ہے: و ما أصابکم من مصیبۃ فبما کسبت أیدیکم (الشوریٰ : 30) یعنی جو مصیبت تم کو پہنچتی ہے تو وہ تمھارے ہاتھوں کے کیے ہوئے کاموں کے سبب سے ہوتی ہے۔
مذکورہ قرآنی آیتوں کی روشنی میں اس معاملے میں جو اُصول بنتا ہے وہ یہ اُصول ہے کہ خود اپنے آپ کو الزام دو (blame thyself) مگر موجودہ مسلمانوں نے برعکس طورپر یہ اصول بنا لیا ہے کہ دوسروں کو الزام دو (blame others) ۔
قرآن کا مذکورہ اُصول ظہور اسلام کے بعد ہزار سال تک جاری رہا۔ مسلم علماء ہمیشہ یہی کرتے رہے کہ مسلمانوں کے اوپر جب بھی کوئی قومی مصیبت پڑی تو اُس کا ذمہ دار اُنھوں نے ہمیشہ مسلمانوں کی اپنی داخلی کمزوری کو قرار دیا۔ مثال کے طورپر تیرھویں صدی میں تاتاریوں نے عباسی سلطنت پر حملہ کرکے سمر قند سے لے کر حلب تک مسلم آبادیوں کو تباہ کردیا۔
یہ واقعہ مشہور مؤرخ ابن اثیر کے زمانے میں ہوا۔ ابن اثیر نے اپنی کتاب ’الکامل فی التاریخ‘ کی آخری جلد میں لکھا ہے کہ تاتاریوں کے حملہ کا سبب یہ تھا کہ خوارزم شاہ نے تاتاریوں کے کچھ تاجروں کو قتل کردیا اور اُن کے اموال کو چھین لیا۔ اس کے نتیجے میںاُن کا سردار چنگیز خاں غضبناک ہوگیا اور اُس نے مسلم سلطنت پر حملہ کردیا۔(صفحہ 362)
اسی طرح اٹھارویں صدی کے وسط میں دہلی میں ایک قیامت خیز واقعہ پیش آیا۔ ایران کے حکمراں نادر شاہ نے 17 39 میں ہندستان پر حملہ کیا اور بڑھتا ہوا دہلی پہنچ گیا۔ یہاں اُس وقت مغلوں کی سلطنت قائم تھی۔ نادر شاہ کی فوج جب دہلی میںداخل ہوئی تو اُس کے ایک فوجی کو علیحدہ پاکر کچھ مسلمانوں نے اُس کو قتل کردیا۔
اس کے نتیجے میں نادر شاہ سخت غضبناک ہوگیا اور اُس نے دہلی میں قتل عام کا حکم دے دیا۔ اس واقعہ کے ایک معاصر صوفی شاعر نے اس پر اپنا تبصرہ ان الفاظ میں کیا تھا کہ یہ خود ہماری بد اعمالی تھی جس نے ظالم نادر کی صورت اختیار کرلی:
شامتِ اعمالِ ما صورتِ نادر گرفت
اسلام کے آغاز سے لے کر اٹھارویں صدی تک مسلمانوں میں یہی ذہن جاری رہا۔ اس کے بعد ساری دنیا میں ایک نیا فکری انقلاب آیا۔ اس فکری انقلاب سے متاثر ہو کر مسلمانوں کے اہلِ قلم اور اہلِ زبان شعوری یا غیر شعوری طورپر بدل گیے۔ وہ احتساب خویش کے بجائے احتسابِ غیر کی بولی بولنے لگے۔
یہ دور نمایاں طورپر کارل مارکس سے شروع ہوا۔ کارل مارکس کے تجزیہ کے مطابق، ساری دنیا دو طبقوں میں بٹ گئی تھی۔ تھوڑے سے لوگ استحصالی (exploiter) بن گیے اور زیادہ بڑی تعداد اُن کے استحصال کا شکار ہونے لگی۔ چنانچہ مارکس نے یہ نعرہ دیا کہ اے استحصال کا شکار ہونے والو، اپنے حقوق کے لیے کھڑے ہوجاؤ۔
ماضی میں مذہب کے زیرِ اثر جوبھی تحریک اُ ٹھی وہ مبنی بر ذمہ داری (duty-based) تحریک ہوتی ـتھی۔ مگر اس کے بعد جو تحریکیں اٹھیں وہ سب کی سب مبنی بر حقوق (right-based) تحریکیں تھیں۔ اشتراکی تحریک ، جمہوری تحریک، قومی آزادی کی تحریک، سیلف ڈٹرمنیشن کی تحریک، آزادیٔ نسواں کی تحریک، ہیومن رائٹس کی تحریک، ٹریڈ یونین کی تحریک، غرض مارکس کے بعد دنیا میں جتنی بھی تحریکیں اُٹھیں وہ سب کی سب کسی نہ کسی اعتبار سے حقوق لینے کے نعرہ پر اُٹھیں، نہ کہ اپنی ذمہ داری کی ادائیگی کے عنوان پر۔
ان تحریکوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ دنیا کا تقریباً ہر سماج حقوق شناس (right-conscious) سماج بن گیا۔ فرض شناس (duty conscious) سماج کا تصور عملاً تقریباً معدوم ہوگیا۔ اب اگر کسی سماج میںکچھ حقوق شناسی پائی جاتی ہے تو وہ فطرت کے زور پر ہے، نہ کہ فکری تحریکوں میںسے کسی تحریک کے اثر کے تحت۔
سوچنے کا یہ ڈھانچہ جو بنا وہ ساری دنیا میںاس طرح پھیل گیا کہ مسلم اذہان بھی اُسی انداز میں سوچنے لگے۔ مسلم اہلِ قلم اور اہلِ زبان بھی وہی بولی بولنے لگے جو ساری دنیا میں عملاً معیاری بولی بن چکی تھی۔ یعنی اپنی مصیبتوں کا ذمہ دار دوسروں کو قرار دینا۔ اپنے مسائل کے لیے دوسروں کے خلاف شکایت اور احتجاج کا طوفان کھڑا کرنا۔ اسی مضاہاتی مزاج کا یہ نتیجہ ہے کہ آج مسلمان ساری دنیا میںایک قسم کے احتجاجی گروہ (protestant group) بن کر رہ گئے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

پائنٹ آف ریفرنس

7 فروری 2004 کو ترکی کی باسفورس یونیورسٹی (استنبول) کے پروفیسر ڈاکٹر مارک لنڈلے (Mark Lindley)کی قیادت میںترک طالبات کا ایک وفد اسلامی مرکز میںآیا۔ ان طالبات کے نام حسب ذیل ہیں:
Gagla Orpen
Gunes Muhafiz
Eda Dedelns
Aysegul Turan
ان لوگوں نے راقم الحروف سے اسلام اور پیغمبر اسلام کے بارے میں گفتگو کی۔ اور جدید سیاق میں اسلام کو سمجھنے کی کوشش کی۔ اس سلسلے میں ان سے جو گفتگو ہوئی اس کو کسی قدر اضافے کے ساتھ یہاںنقل کیا جاتا ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش 570 کو مکہ میںہوئی۔ 610 ء میں آپ کو خدا کی طرف سے پہلی وحی آئی۔ اس طرح ساتویں صدی عیسوی کی ابتداء میںاسلام کا آغاز ہوا۔ نبوت ملنے کے بعد آپ 13 سال تک مکہ میں رہے۔ اس کے بعد 622 ء میں آپ ہجرت کرکے مکہ سے مدینہ چلے گیے۔ وہاںآپ دس سال رہے۔ 632 ء میں آپ نے مدینہ میںوفات پائی۔
اس طرح آپ کے پیغمبرانہ مشن کی مدت 23سال ہے۔ اس مدت میں قرآن وقفہ وقفہ سے آپ کے اوپر اترتا رہا، اسی کے ساتھ آپ نے اپنے قول و عمل سے اسلام کی نمائندگی کی۔ آپ کے قول اورعمل کے اسی محفوظ ریکارڈ کو حدیث اور سنت کہاجاتا ہے۔ اسلام کی پہلی جنریشن میںیہی قرآن اورحدیث اسلام کو سمجھنے کا واحد ذریعہ تھا۔ جو شخص بھی اسلام کو سمجھنا چاہتا اس کے لیے ایک ہی پائنٹ آف ریفرنس (point of reference) تھا اور وہ وہی مقدس متن تھا جس کو قرآن اورحدیث کہا جاتا ہے۔
پیغمبر اسلام کی وفات کے بعد اسلام میںایک اور چیز شامل ہوئی اور وہ اسلام کی تاریخ ہے۔ اسلام کو ماننے والوں کی تعداد تیزی سے بڑھتی رہی۔ یہاں تک کہ وہ اس وقت کی آباد دنیا کے بیش تر حصوں میں پھیل گیے۔ ان مسلمانوں نے اپنی سرگرمیوں کے ذریعہ اسلام کی ایک تاریخ بنائی۔ انھوںنے بہت سی بڑی بڑی سلطنتیں قائم کیں۔ مثلاً دولت بنو امیہ، دولت عباسیہ، دولت فاطمیہ، اور پھر دولت مغلیہ، دولت عثمانیہ اور دولت اندلسیہ۔ ان کے علاوہ چھوٹی چھوٹی حکومتیں مختلف علاقوں میں اتنی زیادہ تعداد میں قائم ہوئیں جن کی گنتی سو سے بھی اوپر جاتی ہے۔ تاریخ بننے کا یہ زمانہ تقریباً ایک ہزار سال تک جاری رہا۔
اسلام کے ساتھ تاریخ کے اس اضافہ نے ایک نیا مسئلہ پیدا کیا۔ اب یہ ہوا کہ بعد کے زمانے میں جو لوگ اسلام کا مطالعہ کرنا چاہتے تھے ان کے لیے پائنٹ آف ریفرنس عملاً بد ل گیا۔ اب قریبی پائنٹ آف ریفرنس (immediate point of reference) تاریخ بن گیا نہ کہ قرآن اورحدیث۔ قرآن اور حدیث اسلام کا بے آمیز ماخذ تھا۔ جب کہ تاریخ میں بعد کی مسلم نسلوں کی آمیزش شامل ہوگئی۔
اب جو شخص اسلام کو اس کی واقعی حیثیت میںسمجھنا چاہے اس کو یہ کرنا ہوگا کہ وہ بعد کی بننے والی تاریخ سے گزر کر پہلے دور میںپہنچے اور اسلام کو براہِ راست خدا کی کتاب اور رسول کی سنت کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرے۔
موجودہ مسلم تاریخ، اسلام کو سمجھنے کا مستند ذریعہ نہیں بن سکتی۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ تاریخ قدیم ذوق کے مطابق، انتخابی (selective) انداز میں لکھی گئی ہے۔ قدیم زمانے میں تاریخ نگاری کا جو طریقہ رائج تھا وہ یہ تھا کہ سیاسی واقعات کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی تھی۔ سیاست یا سیاست سے متعلق واقعات ہی کے بیان کا نام تاریخ تھا۔ چنانچہ شعوری یا غیر شعوری طور پر مسلم مورخین نے بھی اسلام کی تاریخ اس نہج پر مرتب کی۔
ابن خلدون ( وفات: 1406 ) نے اس نہج کو بدلنے کی کوشش کی مگر اس وقت تک تاریخ نگاری کا کام اپنی تکمیل کو پہنچ چکا تھا۔ تمام کتابیں اسی قدیم نہج پر لکھی جاچکی تھیں۔ اس لیے یہ نہج بدستور باقی رہا۔ اب اس غلطی کی واحد تلافی یہ ہے کہ اسلام اور پیغمبر اسلام کو تاریخ کے بجائے قرآن اورحدیث کی روشنی میں سمجھا جائے جو کہ اس کا زیادہ مستند اور مکمل ماخذ ہے جب کہ بعد کے مسلمانوں کی لکھی ہوئی تاریخ، اسلام کو سمجھنے کے سلسلے میں ایک جزئی ماخذ کی حیثیت رکھتی ہے۔
اس معاملے کو سمجھنے کے لیے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال لیجیے۔ اسلام پر بعد کے دور میں کتابیں لکھی گئی ہیںان سب میں یہ انداز اختیار کیا گیا ہے کہ سب سے پہلے پیغمبر اسلام کے بارے میں لکھا جاتا ہے۔ اور اس کے بعد سلسلہ وار اگلے واقعات درج کیے جاتے ہیں۔ مگر تاریخ کی ہر کتاب میں ایک مشترک کمی موجود ہے۔ اور وہ ہے پیغمبر اسلام کی غیر سیاسی زندگی کا تذکرہ بہت کم ہونا اور آپ کی زندگی کے سیاسی حصہ کا تذکرہ بہت زیادہ تفصیل کے ساتھ کیا جانا۔
مکہ کی 13 سالہ مدت میں پیغمبراسلام کی زندگی میں بہت سے واقعات پیش آئے مگر یہ سب کے سب غیر سیاسی نوعیت کے واقعات تھے، چنانچہ ان کا ذکر بہت مختصر طورپر ان تاریخی کتابوں میں ملتا ہے۔ اس کے برعکس مدینہ میںآپ صرف دس سال تک رہے مگر ان دس سالوں کے واقعات بہت زیادہ تفصیل کے ساتھ ان کتابوں میں ملتے ہیں۔ یہی فرق ہے جس کی بنا پر لوگوں کی نظر میں پیغمبر اسلام کی حیثیت پیغمبر شمشیر (Prophet of sword) کی بن گئی۔ موجودہ زمانے کے مسلم رہنماؤں کی فکری تشکیل اسی تاریخ کے زیر اثر ہوئی۔ ہر ایک کے افکار میںاسی تاریخ کا نقشہ دکھائی دیتا ہے۔ مثال کے طورپر اقبال نے کہا:
ہر مسلماں رگِ باطل کے لیے نشتر تھا
To every vein of falsehood every Muslim was a knife.
ایک بار میں ایک مسلم پروفیسر کے لکچر میںشریک تھا۔ یہ لکچر انڈیا کے ایک شہر میںہوا۔ لکچر کے بعد حاضرین میں سے ایک شخص نے پوچھا کہ انڈیا میں مسلمان اقلیت میںہیں۔ ایسی حالت میں ہمارے لیے اسلام کی رہنمائی کیا ہے۔ مسلم پروفیسر نے کچھ دیر سوچا اور اس کے بعد کہا کہ اس سوال کا جواب بہت مشکل ہے۔ اس لیے کہ اسلام میں پوزیشن آف اسٹرنتھ (Position of Strength) کا ماڈل تو موجود ہے مگر اسلام میں پوزیشن آف ماڈیسٹی(Position of modesty) کا ماڈل موجود نہیں۔
مذکورہ مسلم پروفیسر نے یہ بات اس لیے کہی کہ اسلام کے حوالے سے وہ صرف بعد کو بننے والی تاریخ کو دیکھ رہے تھے نہ کہ براہِ راست قرآن اور سنت کو۔ اگر وہ تاریخ میں اٹکے بغیر پیغمبر کے زمانے کو دیکھتے تو ان کو معلوم ہوتا کہ اسلام پورا کا پورا پوزیشن آف ماڈسٹی ہی کا ماڈل تھا۔ پیغمبر اسلام نہ صرف ابتدا کے 13 سال کی مدت میں کامل طورپر ماڈسٹی کا نمونہ بنے رہے بلکہ بعد کے زمانے میں جب جنگ اور فتح کے واقعات پیش آئے اس وقت بھی آپ کی روش ماڈسٹی کی روش تھی۔ مثال کے طورپر 8ہجری میں جب مکہ فتح ہوا اور آپ فاتح کی حیثیت سے مکہ میں داخل ہوئے تو اس وقت آپ اپنے اونٹ کی پیٹھ پر اس طرح جھکے ہوئے تھے جیسے کہ آپ سجدے کی حالت میں ہوں۔
مسلمانوں میں بعد کے زمانے میں جو ذہن پیدا ہوا وہ توحید کا ایک غلط تصور تھا۔ عام طورپر مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ فخر کے ساتھ کہتے ہیں کہ ہم موحد ہیں، ہمارا سر ایک خدا کے سوا کسی اور کے آگے جھکنے والا نہیں۔ اس جملے میں ایک مغالطہ چھپا ہوا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ توحید کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کا سر ایک خدا کے سوا کسی اور کے سامنے نہ جھکے مگر یہ بات عبادت کے پہلو سے ہے نہ کہ اخلاق کے پہلو سے۔ عبادت کے پہلو سے مومن کا سر صرف ایک خدا کے سامنے جھکتا ہے مگر اخلاق کے پہلو سے اس کو ہر انسان کے مقابلہ میں تواضع (modesty) کا طریقہ اختیار کرنا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ خدا کے سامنے جھکنا فخر یا اکڑ کی بنا پر نہیں ہوتا بلکہ وہ احساسِ عجز کی بنا پرہوتا ہے اور عجز اور تواضع کی نفسیات جس آدمی کے اندر حقیقی طورپر پیدا ہوجائے وہ ایسا نہیں کرسکتا کہ وہ خدا کے سامنے جھکے اور انسان کے سامنے اکڑ دکھائے۔ اس کی نفسیات دونوں جگہ اس کو جھکا دے گی۔ وہ دونوں ہی پہلوؤں سے ایک متواضع انسان بن جائے گا۔
یہ کہنا صحیح ہوگا کہ انسان کے سامنے جھکنا ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ خدا کے سامنے جھکا ہوا ہے۔ جو شخص بظاہر خدا کے سامنے جھکنے کا مظاہرہ کرے مگر جب انسان سے معاملہ پیش آئے تو وہ فخر اور اکڑ کی روش اختیار کرے ایسے آدمی کے بارے میں کہاجائے گا کہ وہ خدا کے سامنے بھی نہیں جھکا۔ خدا کے آگے جھکنے کے نام سے اس نے جو کچھ کیا وہ ایک مصنوعی مظاہرہ تھا نہ کہ کوئی حقیقی عمل۔
جو لوگ پیغمبر اسلام کی سیرت کوتاریخ کی کتابوں میں پڑھتے ہیں ان کا تصور یہ بنتا ہے کہ پیغمبراسلام گویا پیغمبر شمشیر (Prophet of sword) تھے، لیکن پیغمبر اسلام کی زندگی کو جاننے کا یہ صحیح طریقہ نہیں ہے۔ پیغمبر اسلام کی سیرت کا صحیح اور مستند ریکارڈ وہ ہے جو قرآن اور حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ یہاں اس سلسلے میںکچھ مثالیں قرآن اور حدیث سے نقل کی جاتی ہیں۔
قرآن میں پیغمبر اسلام کی اصل حیثیت کو ان الفاظ میں بتایا گیا ہے: وما أرسلناک إِلاّ رحمۃ للعالمین ( الأنبیاء: 107 ) یعنی خدا نے اپنے پیغمبر کو دنیا والوں کے لیے صرف رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ رحمت (mercy) کا لفظ ایک جامع لفظ ہے۔ اس میں اس نوعیت کی تمام صفات پائی جاتی ہیں۔ مثلاً شفقت ،نرمی، محبت، ٹالرنس، ہمدردی، وغیرہ۔
اس طرح قرآن میں پیغمبر اسلام کوخطاب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ: فذکّر إنما أنت مذکّر، لست علیہم بمسیطر (الغاشیہ: 21-22 ) یعنی تم لوگوں کو یاد دہانی کراؤ۔ تم صرف یاد دہانی کرنے والے ہو، تم لوگوں کے اوپر داروغہ نہیں ہو:
You are only a warner, you are not an enforcer.
پیغمبر اسلام کی یہی تصویر حدیث سے بھی معلوم ہوتی ہے۔ مثلاً پیغمبر اسلام نے اپنے بارے میں کہا: بعثتُ لأتمّم مکارم الأخلاق۔یعنی میں اس لیے بھیجا گیا ہوں کہ میں مکارمِ اخلاق کی تکمیل کروں:
I was sent to establish a society based on higher moral values.
واقعات کے اعتبار سے اسلام کی تاریخ تین دوروں میں تقسیم ہوتی ہے۔ دورِ نبوت، دورِاقتدار، دورِ زوال۔ دورِ نبوت وہ ہے جس کواسلام کی پہلی جنریشن کہاجاسکتا ہے۔ اس زمانے کے مسلمان خدا کی دریافت کے تحت مسلمان بنے تھے۔ اس زمانے کے مسلمانوں میں جو اسپرٹ تھی اس کو ایک لفظ میں تقویٰ اسپرٹ کہا جاسکتا ہے۔ ان کے اندر وہ تمام اعلیٰ صفات تھیں جو تقویٰ کے ذریعہ پیدا ہوتی ہیں۔ یعنی خدا پرستی، سنجیدگی، ذمہ داری کا احساس، حقیقت پسندانہ مزاج، مثبت طرزفکر، انصاف، انسانی مساوات، وغیرہ۔
دوسرا دور وہ ہے جب کہ مسلمانوں کی سلطنت بن گئی اور زمین کے بڑے رقبہ میںان کی سیاسی بالا دستی قائم ہوگئی۔ اس دور کے مسلمانوں میںوہ صفات پیدا ہوگئیں جو اقتدار کی بنا پر پیدا ہوتی ہیں۔ مثلاً فخر، تکبر، عیش پسندی، غیر ذمہ داری، احساس برتری، وغیرہ۔
مسلم تاریخ کا تیسرا دور مغربی قوموں کے اسی عروج سے شروع ہوتا ہے جس کو نو آبادیاتی نظام کہا جاتا ہے۔ اس دور میں مسلمانوں کی سیاسی بر تری ختم ہوگئی۔ وہ ایک قسم کی زیر دستی کی حالت میںپہنچ گیے۔ ان حالات میں ان کے اندر وہ نفسیات پیدا ہوئی جس کو پیرا نوئیا (Paranoia) کہاجاتا ہے۔ یعنی ’پدرم سلطان بود‘ کی نفسیات۔ وہ اس احساس میں جینے لگے کہ کچھ لوگوں نے ان کی عظمت کو ان سے چھین لیا ہے۔
اس نفسیات کے نتیجے میںان کے اندر وہ کمزوریاں پیدا ہوئیں جو زوال کا شکار ہونے والی قوموں کے اندر پیدا ہوتی ہیں یعنی، احساس محرومی، شکایت، احتجاج، ہر ایک کو اپنا دشمن سمجھنا۔ یعنی ہر واقعہ کو منفی رخ سے دیکھنا، ہر طرف سازش نظر آنا۔ انسانوں کا خیر خواہ نہ ہونا، نمائشی فخر، فرضی تمناؤں میں جینا، بہت جلد مشتعل ہوجانا، معمولی بات پر تشدد پر اتر آنا۔ اپنے سوا ہر ایک کو غلط سمجھنا، وغیرہ۔
کچھ لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ اسلام کے قانون پر نظرِ ثانی کی ضرورت ہے تاکہ اس کو جدید تقاضوں کے مطابق بنایا جاسکے۔ اس سلسلے میں بطور مثال وہ کہتے ہیں کہ اسلام میں چار شادیوں کی اجازت ہے۔ آج کی دنیا میں صنفی مساوات(gender equality) کا تصور چھایا ہوا ہے۔ ایسی حالت میں آج کا ذہن چار شادی کے اصول کو تسلیم نہیں کرسکتا۔
مگر یہ صرف ایک غلطی فہمی ہے۔ اسلام میں ایک نکاح کا اصول ہی اصل ہے، ایک سے زیادہ شادی کی اجازت استثنائی صورت حال کے لیے ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ یہ ایک کرائسس مینج مینٹ (crisis management) کا طریقہ ہے نہ کہ کوئی عمومی قانون۔
اصل یہ ہے کہ بعض اوقات معاشرے میں عورتوں کی تعداد مردوں سے زیادہ ہوجاتی ہے۔ مثلاً جنگ پیش آنے کی حالت میں۔ اب سوال یہ ہے کہ جب عورتیں معاشرے میں سرپلس (surplus) ہوجائیں تو اس وقت ان کے لیے کیا اصول مقرر کیا جائے۔ اس بارے میں اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ سرپلس ہونے کی صورت میں جو عورتیں غیر شادی شدہ حالت میں رہنا چاہیں ان کو اس کی اجازت ہے لیکن جو عورتیں نکاح کی خواہش مند ہوں وہ ایک سے زیادہ کی تعداد میں مردوں کے نکاح میںآجائیں اور اس طرح اپنی بقیہ زندگی شرافت کے ساتھ گزاریں۔
مطالعہ بتاتا ہے کہ عورتوں اورمردوں کی تعداد میں فطرت ایک برابری (equilibrium) قائم رکھتی ہے۔ اگر کوئی ہنگامی صورت پیش نہ آئے تو معاشرے کے اندر عورتوں کی تعداد بھی تقریباً اتنی ہوتی ہے جتنی کہ مردوں کی تعداد۔ اس لیے عام حالت میں مردوں کے لیے ایک ہی شادی کا حکم ہے۔
عام حالت میں اگر کوئی مرد ایک سے زیادہ شادی کرتا ہے تو وہ ایک ایسا فعل کرتا ہے جو اس کے لیے حد سے تجاوز کرنے کے ہم معنی ہے۔ کیوں کہ ایسا کرکے وہ فطرت کے مساویانہ نظام میںخلل ڈالتا ہے۔ وہ دوسرے انسانوں کے حق میں تصرف کرتا ہے۔ وہ اپنی خواہش کی تکمیل کے لیے دوسرے کی ضرورت میںرکاوٹ بنتا ہے۔ اس لیے اسلام میںایک سے زیادہ شادی کی اجازت صرف ہنگامی حالت میں ہے نہ کہ عام حالت میں۔
واپس اوپر جائیں

ذہنی تحفّظ کے بغیر

ہندستان کے مشہور رہنما مہاتما گاندھی (وفات : 1948 ) نے ایک بار کلام کرتے ہوئے اپنے بارے میں کہا تھاکہ: میں اپنے گھر کی کھڑکیوں کو کھلا رکھنا چاہتا ہوں تا کہ باہر کی تازہ ہوا میرے گھر کے اندر آسکے۔ مگر میں نہیں چاہوں گا کہ ہوا اتنی زیادہ آئے کہ وہ میرے گھر کو اڑا لے جائے:
I want th windows of my house open so that fresh air may blow in but I would not like my house to be blown away.
مہاتما گاندھی کے اس قول کی روشنی میں غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ لوگ عام طور پر دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو کامل طورپر متعصب ہوں۔ وہ کسی ایک کے اس طرح اندھے مقلد بن جائیں کہ اس کے سوا کوئی اور چیز انھیں سرے سے نظر ہی نہ آئے۔ اس کو مکمل ذہنی جمود کی حالت کہا جاسکتا ہے۔ دوسری قسم اُن لوگوں کی ہے جو جزئی طورپر جامد اور جزئی طورپر غیر جامد ہوں۔ وہ دوسرے افکار کو اپنے ذہن کے اندر آنے کی اجازت دیں۔ مگر اسی کے ساتھ وہ اپنے مزاج میںاتنے پختہ ہوچکے ہوں کہ صرف جزئی تبدیلی کو وہ قبول کرسکیں۔ وہ اپنے اندر کسی انقلابی تبدیلی کے لیے راضی نہ ہوں۔
یہ دونوں قسم کے لوگ بظاہر ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ مگر حقیقت کے اعتبار سے دونوں میں زیادہ فرق نہیں۔ کیوں کہ اصل مقصود کامل سچائی ہے۔ اور جہاں تک کامل سچائی کا تعلق ہے، دونوں ہی اُس سے یکساں طورپر محروم رہیںگے۔ اور جو شخص کامل سچائی سے محروم ہو اُس کے اندر ذہنی ارتقاء کا عمل بھی اپنی پوری رفتار کے ساتھ جاری نہیں ہوسکتا۔
کسی آدمی کے لیے کامل سچائی وہ ہے جس کو اُس نے کسی تحفظ ذہنی کے بغیر ہر اعتبار سے کھلے طورپر جانچا ہو۔ اور پھر زندہ شعور کے تحت اُس کا ذہن اس پر مطمئن ہوا ہو کہ اُس نے جس چیز کو اختیار کیا ہے وہ کسی اشتباہ کے بغیر بلا شبہہ کامل سچائی ہے۔ جس چیز کی وہ ہر اعتبار سے جانچ ہی نہ کرے وہ خود اُس کے اپنے اقرار کے مطابق، اُس کے لیے کامل سچائی نہیں۔ اُس نے جس چیز کو سچائی کے طورپر لیا ہے وہ اُس کا ایک مانوس عقیدہ ہے، نہ کہ شعوری اعتبار سے ہر جانچ میں پورا اُترا ہوا عقیدہ۔ اس قسم کے جمود کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ آدمی عین اُس چیز سے محروم ہوجائے جو اُس کے لیے سب سے بڑی چیز ہے، یعنی اُس کے ذہن میں فکری ارتقاء کا عمل کسی روک کے بغیر جاری ہونا۔
عام طورپر لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ سیکولر موضوعات پر تو کسی حد تک کھُلے ذہن کے تحت سوچنے پر آمادہ ہوتے ہیں۔ مگر جب معاملہ مذہبی موضوعات کا ہو تو وہ کسی بھی طرح غیر متعصبانہ انداز میں سوچنے پر راضی نہیں ہوتے۔ حتی کہ جو لوگ سیکولر موضوعات پر بظاہر اپنے ذہن کی کھڑکیاں کھلی رکھے ہوئے ہیں وہ بھی اس وقت سختی کے ساتھ اپنے ذہن کی کھڑکیوں کو بند کرلیتے ہیں جب کہ کوئی مذہبی موضوع زیر بحث آگیا ہو۔
میں نے اللہ کے فضل سے تمام مذاہب کا مطالعہ کیا ہے۔ میں خالص علمی مطالعے کے نتیجے میں اس پر مطمئن ہوگیا ہوں کہ اسلام ہی واحد مستند اور معتبر مذہب ہے۔ ملاحظہ ہو راقم الحروف کی کتاب، ’اسلام ری ڈسکورڈ‘(Islam Rediscovered)
مگر اسلام کو واحد مستند مذہب مانتے ہوئے بھی میں کہتا ہوں کہ ہم دوسرے مذاہب کا مطالعہ غیر متعصبانہ انداز میں کرسکتے ہیں اور اس مطالعے سے وہ فائدہ حاصل کرسکتے ہیں جس کو ایک حدیث میں اس طرح بیان کیاگیا ہے: الحکمۃ ضالۃ المؤمن حیث وجدھا فہو أحق بہا (حکمت مومن کا گُم شدہ مال ہے، وہ جہاں اس کو پائے وہ اُسی کا ہے)۔
مثال کے طورپر میں کہوں گا کہ آپ اپنے والد کو عزت کا اعلیٰ مقام دیتے ہوئے دوسرے انسانوں کو بھی قابلِ احترام سمجھ سکتے ہیں۔ اس سے اپنے والد کے حق میں آپ کا اعلیٰ جذبہ کسی بھی طورپر متاثر نہیںہوگا۔ اسی طرح ایک مومن دین اسلام کو واحد مستند دین مانتے ہوئے دوسرے مذاہب کا نہ صرف احترام کرسکتا ہے بلکہ اُن کے مطالعے کووہ اپنے ذہنی ارتقاء میںمددگار بنا سکتا ہے۔
مذاہب کا تقابلی مطالعہ (comparative study) ایک مقبول موضوع ہے۔ مگر میرے علم کے مطابق، یہ مطالعہ زیادہ صحت مند انداز میں نہیں کیا جاتا۔ مثلاً عیسائی اور یہودی علماء اپنے تقابلی مطالعے میںزیادہ تر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلام کوئی مستقل مذہب نہیں، وہ بائبل سے اخذ کیا ہوا ایک مذہب ہے۔
اسی طرح ہندو علماء جب مذاہب کا تقابلی مطالعہ کرتے ہیں تو وہ اپنی ساری کوشش یہ ثابت کرنے پر لگا دیتے ہیں کہ تمام مذاہب ایک ہیں۔ اور ہر مذہب یکساں طورپر سچا اور برحق ہے۔ اسی طرح مسلم علماء جب مختلف مذاہب کا تقابلی مطالعہ کرتے ہیں تو اُن کی ساری کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ یہ ثابت کرسکیں کہ صرف اسلام سچّا مذہب ہے۔ باقی تمام مذاہب باطل اور قابل رد ہیں۔ اس قسم کا مطالعہ جذباتی تسکین کا ذریعہ تو ہوسکتا ہے مگر وہ ذہنی ارتقاء کا ذریعہ ہر گز نہیں بن سکتا۔
صحیح اور علمی طریقہ یہ ہے کہ مذاہب کا تقابلی مطالعہ اس لیے کیا جائے کہ وہ خود صاحب مطالعہ کے ذہنی ارتقاء کا ذریعہ بن جائے ۔ وہ صاحب مطالعہ کے ذہنی افق کو وسیع کرکے اُسے زیادہ سے زیادہ بُلند ذہنی سطح تک پہنچانے میں مددگار بن سکے۔ یہاںاس معاملے کی چند مثالیں نقل کی جاتی ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح مختلف مذاہب کا مطالعہ کسی آدمی کے ذہنی ارتقاء کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
1 - کنفیوشش (Confucious) چین کا مشہور فلسفی اور مذہبی اخلاقی مفکر ہے۔ اُس کا ایک قول ان الفاظ میں نقل کیا گیا ہے: جس کو ہارنا آجائے اُس کو کوئی ہرا نہیں سکتا۔ کنفیوشش کے اس قول کی معنویت اُس وقت سمجھ میں آتی ہے جب کہ اُس کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں پیش آنے والی صلح حدیبیہ کی روشنی میںدیکھا جائے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ صُلح حدیبیہ فریقِ ثانی کے مقابلے میں گویا شکست قبول کرنے کے ہم معنیٰ تھی۔ مگر صرف دو سال کی محدود مدت میں اس شکست سے عظیم فتح ظاہرہوئی۔
کنفیوشش کے مذکورہ قول میں ہار ماننا در اصل ایک قسم کی تدبیر ہے۔ اس تدبیر کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی کو یہ موقع مل جاتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو زیادہ مستحکم بنا سکے، یہاں تک کہ اُس کا برتر استحکام ہی اُس کے لیے فتح کی ضمانت بن جائے، جیسا کہ صلح حدیبیہ کی صورت میں پیش آیا۔
2 - حضرت مسیح نے اپنے شاگردوں کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ تم اپنے دشمن سے محبت رکھو۔ (لُوقا، باب 6) حضرت مسیح کی یہ بے حد بنیادی تعلیم ہے۔ مگر اس قول کی پوری معنویت اُس وقت سمجھ میں آتی ہے جب کہ اُن کے اس قول کا مطالعہ قرآن کی ایک آیت کو سامنے رکھ کر کیا جائے۔
قرآن کی سورہ نمبر 41میںارشاد ہوا ہے: اور بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں، تم جواب میں وہ کہو جو اس سے بہتر ہو، پھر تم دیکھو گے کہ تم میںاور جس میں دشمنی تھی، وہ ایسا ہوگیا جیسے کوئی دوست قرابت والا۔ (حٰم السجدہ: 34)
قرآن کی یہ آیت حضرت مسیح کے مذکورہ قول کی معنویت کوواضح کررہی ہے۔ اس کے مطابق، دشمن سے محبت کرنا دشمنی کو ختم کرنے کی ایک برتر تدبیر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر دشمن انسان کے اندر امکانی طورپر ایک دوست انسان چھپا ہوا ہے۔ یک طرفہ حسنِ سلوک کے ذریعہ اس دشمن انسان کو دریافت کرو اور اس کے بعد مسئلہ اپنے آپ ختم ہوجائے گا۔
3 - حضرت مسیح نے اپنے شاگردوں کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ جوشخص تمھارا کُرتا لینا چاہے اُس کو تم اپنا چغہ بھی دے دو۔ (لوقا، باب 6)
حضرت مسیح کے اس قول کی اہمیت اُس وقت معلوم ہوتی ہے جب کہ اُس کو قرآن کی ایک آیت سے ملا کر دیکھا جائے۔ وہ آیت یہ ہے: فلا ینازعنک فی الأمر وادع إلی ربّک (الحج: 67) یعنی پس وہ اس معاملے میں تم سے جھگڑا نہ کریں۔ اور تم اپنے رب کی طرف بلاتے رہو۔
اس کے مطابق، حضرت مسیح کا مذکورہ قول آدابِ دعوت سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک داعی کو چاہیے کہ اگر مدعو سے کسی معاملے میں اُس کی نزاع پیدا ہو تو وہ یک طرفہ طورپر اُسے ختم کردے تاکہ داعی اور مدعو کے درمیان وہ معتدل فضا برہم نہ ہونے پائے جو موثر دعوتی عمل کے لیے ضروری ہے۔
4 - رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے کہا کہ مجھے ایک ایسی کلیدی بات بتائیے جس کے ذریعہ میں اپنے تمام معاملات کو درست کرسکوں۔ آپ نے مختصر الفاظ میںاُس کا جواب دیتے ہوئے کہا: لاتغضب (تم غصہ نہ کرو)۔ اس قولِ رسول کی معنویت ہم کو رسول اور اصحابِ رسول کی زندگی میں ملتی ہے۔ تاہم دوسرے مذاہب میںبھی اس کی مثالیں ہیں جو اس معاملے کی وضاحت میںمدد دیتی ہیں۔
مثال کے طورپر ہندو پیشوا سوامی وویکا نند کا واقعہ ہے کہ اُن کے ایک مسیحی دوست نے اُن کا امتحان لینا چاہا۔ اُس نے سوامی جی کو اپنے گھر پر مدعو کیا۔ سوامی جی جب وہاں پہنچے تو اُن کے مسیحی دوست اُن کو ایک کمرے میں لے گیے۔ یہاں ایک میز پر مختلف مذاہب کی مقدس کتابیں نیچے اوپر کی ترتیب میںرکھی ہوئی تھیں۔ سب سے نیچے ہندو مذہب کی مقدس کتاب گیتا تھی اور سب سے اوپر مسیحی مذہب کی مقدس کتاب بائبل۔
سوامی جی جب اُس کمرے میں پہنچے تو اُن کے مسیحی دوست نے کتابوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سوامی جی، اس کے بارے میں آپ کا تبصرہ کیا ہے۔ سوامی وویکا نند کے لیے بظاہر یہ ایک بے عزتی کامعاملہ تھا، کیوں کہ اُن کی مقدس کتاب سب سے نیچے تھی اور مسیحیت کی مقدس کتاب سب سے اوپر۔ سوامی جی نے اس منظر کو دیکھا اور پھر مسکراتے ہوئے کہا— بنیاد تو بہت اچھی ہے:
The foundation is realy good.
یہ واقعہ بتاتا ہے کہ آدمی اگر غصہ نہ ہو تو اُس کا ذہن پوری طرح کام کرے گا۔ وہ زیادہ مؤثر انداز میں اپنا دفاع کرسکے گا۔ یہاںتک کہ غصہ کے وقت غصہ نہ ہونا آدمی کو اس قابل بنا دیتا ہے کہ وہ اپنے مائنس کو پلس میں تبدیل کرسکے، جیسا کہ مذکورہ واقعے میں سوامی وویکا نند نے کیا۔
واپس اوپر جائیں

اہلِ باطل کا طریقہ

حق پرست انسان اور باطل پرست انسان کے درمیان جس طرح عقیدہ اور نظریہ میں فرق ہوتا ہے اسی طرح دونوں کی عملی روش میں واضح فرق پایا جاتا ہے۔ یہ فرق اُس وقت بہت زیادہ نمایاں ہوجاتا ہے جب کہ اختلاف اور نزاع کی صورت پیدا ہوجائے۔ یہاں اس سلسلے میں اہلِ باطل کے بعض طریقوں کا ذکر کیا جاتا ہے جن کو قرآن میں بیان کیاگیا ہے۔
مذاق اڑانا
قرآن کی سورہ نمبر 45میں اہل باطل کی ایک روش کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے:
اُسے ہماری آیتوں میں سے کسی چیز علم ہوتا ہے تو وہ اُس کو مذاق بنا لیتا ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے ذلت کا عذاب ہے۔(الجاثیہ: 9)
یہاں یہ سوال ہے کہ قرآن تو سرتا پا حق ہے۔ پھر کسی شخص کو قرآن میں ایسی کوئی (شی ٔ) کیسے مل جاتی ہے جس کا وہ مذاق اڑائے اور استہزا کرے۔ جواب یہ ہے کہ اس قسم کی چیز اللہ سے بے خوف انسان کے ذہن میں ہوتی ہے نہ کہ خود کتاب اللہ میں۔ جو لوگ غیر سنجیدہ ہوں اور جن کو یہ ڈر نہ ہو کہ اللہ کو ان کی ہر بات کا علم ہے اور وہ آخرت میں پکڑے جانے والے ہیں، وہ اپنی بے خوفی اور اپنی غیر سنجیدگی کی بنا پر ہر کتا ب میں اس قسم کے شوشے تلاش کرلیتے ہیں، خواہ وہ قرآن جیسی سچی کتاب ہی کیوں نہ ہو۔
اس قسم کے بعض شوشے کی مثالیں تفسیر کی کتابوں میںآئی ہیں۔ مثلاً قرآن کی ایک آیت ہے جس میں کہاگیا ہے کہ جہنم پر اُنیس فرشتے مقرر ہیں۔ (المدثر: 30 ) یہ آیت جب قرآن میں اُتری تو مکہ کے ایک پہلوان نے کہا کہ جہنم پر اگر صرف انیس فرشتے ہیں تو اُن کو زیر کرنے کے لیے میں اکیلا ہی کافی ہوں۔ (إن کانوا تسعۃ عشر فأنا القاہم وحدی) تفسیر القرطبی 16/159
مکہ کے مذکورہ پہلوان نے قرآن کی اس آیت میں سے صرف عدد 19 (تسعۃ عشر) لے لیا اور اس کو نظر انداز کردیا کہ یہ 19اُس کے جیسے انسان نہیں ہیں بلکہ وہ غیر معمولی طاقت رکھنے والے فرشتے ہیں۔ مذکورہ پہلوان اگر پوری بات کو ذہن میں رکھتا تو وہ کانپ اٹھتا۔ وہ کہتا کہ خدا کا تو ایک ہی فرشتہ سارے انسانوں کو مغلوب کرنے کے لیے کافی ہے، پھر انیس فرشتوں کا مقابلہ کون کرسکتا ہے۔ مگر اُس نے جب مذکورہ بات کو خود ساختہ معنوں میں لیا تو اس کو شوشہ بنانے کا موقع مل گیا۔
عیب جوئی اور الزام تراشی
قرآن کی سورہ نمبر 41 میںارشاد ہوا ہے: اور کفر کرنے والوں نے کہا کہ اس قرآن کو نہ سنو اور اُس میں خلل ڈالو، تاکہ تم غالب رہو(حم السجدہ: 26)۔اس آیت میں ’والغوا فیہ‘ کا لفظ ہے۔ اُس کی تشریح حضرت عبد اللہ بن عباس نے اس طرح کی ہے کہ: عیّبوہ(تفسیر ابن کثیر، تفسیر القرطبی)
یہ اُن لوگوں کی روش کا ذکر ہے جو قرآن کے منکر تھے اور قرآن اور صاحب قرآن کو زیر کرنا چاہتے تھے۔ اُنھوں نے محسوس کیا کہ وہ دلائل کے ذریعے قرآن کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ چنانچہ اُنھوں نے یہ طے کیا کہ قرآن اور صاحب قرآن کے خلاف وہ عیب جوئی اور الزام تراشی کی مہم چلائیں۔ اپنے جس منفی مقصد کو وہ دلیل کے زور پر حاصل نہیں کرسکتے اُس کو وہ سبّ و شتم کے زور پر حاصل کریں اور اسی طرح عوام کو قرآنی تحریک سے دور کردیں۔
کسی بات یا کسی شخص کے بارے میں اظہار رائے کے دو طریقے ہیں۔ ایک تنقید، دوسرا تعییب۔ تنقید کا مطلب ہے حقائق کی بنیاد پر زیر بحث امر کا تجزیہ کرنا۔اس کے برعکس تعییب یہ ہے کہ آدمی زیر بحث مسئلہ پر دلائل پیش نہ کرے۔ وہ صرف اس میں عیب نکالے وہ اس پر الزام لگا کر اس کو مطعون کرے۔ تنقید کا طریقہ سراسر جائز طریقہ ہے، مگر تعییب کا طریقہ سراسر ناجائز طریقہ۔
جو لوگ کسی کی مخالفت میں یہ کریں کہ وہ دلیل کے طریقہ کو چھوڑ کر عیب جوئی اور کردار کُشی کا طریقہ اختیار کریں، وہ اپنے مفروضہ حریف کو بدنام کرنے کی مہم چلائیں، ایسے لوگوں کو ڈرنا چاہیے کہ قرآن کے مطابق، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اللہ کے یہاں اہلِ کفر کی روش اختیار کرنے والے قرار پائیں۔
متعصبانہ ضد
قرآن کی سورہ نمبر 48 میں اُن مشرکین مکہ کا ذکر ہے جنھوں نے حدیبیہ کے موقع پر متعصبانہ ضد کا طریقہ اختیار کیا۔ اس سلسلے میں ارشاد ہوا ہے:
جب انکار کرنے والوں نے اپنے دلوں میں حمیت پیدا کی، جاہلیت کی حمیت، پھر اللہ نے اپنی طرف سے سکینت نازل فرمائی اپنے رسول پر، اور ایمان لانے والوں پر، اور اللہ نے اُن کو نقویٰ کی بات پر جمائے رکھا اور وہ اس کے زیادہ حق دار اور اُس کے اہل تھے۔ اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔ (الفتح : 26)
نزاع کے وقت اگر آدمی ایسا کرے کہ اُس کے سامنے حق پیش کیا جائے مگر متعصبانہ ضد کی بنا پر وہ اس حق کا اعتراف نہ کرے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ’ حمیّتِ جاہلیہ‘ کی بیماری میں مبتلا ہے۔ وہ معاملات کو حق اور ناحق کے نقطۂ نظر سے نہیں دیکھتا بلکہ وہ اُس کو اپنے اور غیر کی نظر سے دیکھتاہے۔ اُس کے ذہن پر تعصب کا رنگ چڑھا ہوا ہے۔
قتل پر انعام
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کہ بعد تیرہ سال تک مکہ میں رہے۔ جب مشرکین کی طرف سے آپ کی مخالفت بہت بڑھ گئی، حتی کہ وہ تشدد پر اُتر آئے۔ اُس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے مدنیہ کی طرف ہجرت فرمائی۔
مکہ سے آپ رات کے وقت ہجرت کے لیے نکلے۔ صبح کے وقت جب مکہ کے مشرکین کو اس واقعہ کی خبر ہوئی تو اُنھوں نے چاہا کہ وہ آپ کے تعاقب میں اپنے آدمیوں کو دوڑائیں۔ اور آپ کو مدینہ جانے سے روک دیں۔ چنانچہ قریش نے اعلان کیا کہ اُس شخص کو سو اونٹ انعام دیا جائے گا جو محمد کو پکڑ کر لائے(جعلت قریش فیہ مأۃ ناقۃ لمن ردہ علیہم) سیرۃ ابن ہشام، جلد 2، صفحہ 102
اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ کسی شخص سے اختلاف پیش آنے کے بعد یہ کرنا کہ اُس کے سر پر انعام مقرر کرنا اور لوگوں کو اکسانا کہ وہ اُس کو قتل کردیں تو وہ اتنا انعام پائیں گے۔ یہ اہل کفر اور اہلِ شرک کا طریقہ ہے، وہ اہلِ ایمان کا طریقہ نہیں۔ رسول اور اصحابِ رسول نے کبھی ایسا نہیں کیاکہ وہ انعام مقرر کرکے کسی کو قتل کرانے کی کوشش کریں۔ جولوگ ایسا کریں وہ بلاشبہہ اللہ کے نزدیک سخت مجرم ہیں۔
واپس اوپر جائیں

ایک انتباہ

موجودہ زمانے میںمختلف مقامات کے مسلمان جہاد کے نام پر مسلح سرگرمیاں جاری کیے ہوئے ہیں۔ ان سرگرمیوں میں اگر چہ عملاً ایک محدود طبقہ ہی شریک ہے مگر دنیا کے تقریباً تمام مسلمان بالواسطہ انداز میں اس کے ساتھ شریک ہیں۔ ان میں خود مسلم حکومتیں بھی شامل ہیں۔ ان میں سے کوئی اس خودساختہ جہاد کواخلاقی سپورٹ دے رہا ہے، کوئی مالی سپورٹ، کوئی قولی سپورٹ اور کوئی ڈپلومیٹک سپورٹ۔
کچھ لوگ وہ ہیں جو بظاہر اس قسم کی سپورٹ نہیں دیتے مگر وہ اس کے بارے میں خاموش رہ کر اس کی عملی تصدیق کررہے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا بلا مبالغہ درست ہے کہ اسلام کے نام پر اس غیر اسلامی جہاد میں تقریباً پوری ملت شریک ہے، صرف اس فرق کے ساتھ کہ کچھ لوگ اس میں براہِ راست طورپر شریک ہیں اور کچھ لوگ بالواسطہ طور پر شریک۔ مگر شرعی اعتبار سے دونوں یکساں طورپر اس نا محمود فعل کے ذمہ دار قرار پاتے ہیں۔
اب اس معاملے کی دو ممکن صورتیں ہیں۔ یا تو یہ جو کچھ آج کی دنیا میں ہورہا ہے وہ واقعۃً اسلامی جہاد ہے، یا یہ کہ وہ اسلامی جہاد نہیں ہے اور غلط طورپر اس کو اسلامی جہاد کا نام دیا جارہا ہے۔ ان دونوں ہی صورتوں میں امت مسلمہ شدید طورپر گنہگار قرار پاتی ہے۔ وہ اس بات کی مجرم بن رہی ہے کہ از روئے شریعت جو کچھ اسے کرنا چاہیے تھا وہ اس نے نہیں کیا۔
اب اگر مسلمانوں کی یہ لڑائیاں واقعۃً جہاد کی حیثیت رکھتی ہوں تو مسئلہ یہ ہے کہ یہ جہاد عملاً شدید طورپر ناکام ہور ہا ہے۔ جہاد کا ہر محاذ مسلمانوں کی یک طرفہ ہلاکت کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ ایسی حالت میں بقیہ مسلمانوں پر فرض کے درجہ میں ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ جہاد کے ان میدانوں میں کود پڑیں۔ وہ تربص کا طریقہ چھوڑ کر عملی شرکت کا طریقہ اختیار کریں۔ موجودہ حالت میں اخلاقی یا مالی سپورٹ دینا ان کے لیے ہرگز کافی نہیں۔ جہاد میں عملی شرکت سے کم درجہ کی کوئی چیز ان سے قبول نہیں کی جائے گی۔
اور اگر یہ لڑائیاں اسلامی جہاد کی حیثیت نہ رکھتی ہوں تب بھی بقیہ مسلمانوں پر ایک اور فریضہ لازمی طورپر عائد ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ وہ صاف طورپر اس کی مذمت کریں۔ وہ کھلے طورپر یہ اعلان کریں کہ یہ اسلامی جہاد نہیں ہے اور یہ کہ اللہ اور اس کے رسول اس سے بری ہیں۔ بقیہ مسلمان اگر اس قسم کا اعلان برأت نہ کریں تو یہ دوسرا گروہ بھی شریعت کی نظر میں اُسی طرح مجرم ہے جس طرح پہلا گروہ۔
جیسا کہ معلوم ہے، جہاد حکماً ہر شخص پر فرض نہیں ہے بلکہ وہ فرض علی الکفایۃ ہے۔ یعنی جس مقصد کے لیے جہاد مطلوب ہے، اگر امت کے کچھ لوگ جہاد کرکے اس مقصد کو حاصل کرلیں تو بقیہ افرادجو اس میں شریک نہیں ہوسکے تھے وہ اللہ کے نزدیک بر ی الذمہ قرار پائیں گے۔ کیوں کہ فرض علی الکفایہ میں نشانہ کی تکمیل اصل مقصود ہوتا ہے نہ کہ ہر شخص کا فرداً فرداً اس میں شریک ہونا۔
اب اس شرعی اصول کو موجودہ صورت حال پر چسپاں کیجیے۔موجودہ زمانے میں مسلمانوں کی طرف سے جاری کردہ جہاد کو جہاد کہنا کوئی سادہ بات نہیں، یہ ایک سنگین ذمہ داری کا معاملہ ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، موجودہ تمام جہاد عملاً تباہی پر منتج ہورہے ہیں۔ ہر جگہ مسلم مجاہدین سخت قسم کی تباہی اور ناکامی سے دوچار ہورہے ہیں۔
ایسی حالت میں صرف یہ کافی نہیں کہ اُس کو جہاد بتا یا جائے اور کچھ مالی یا اخلاقی سپورٹ دے دی جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ تمام لوگ جو ان مسلح سرگرمیوں کو جہاد بتاتے ہیں، موجودہ حالت میں اُن پر فرض کے درجہ میں ضروری ہوگیا ہے کہ وہ اپنے مال اور اولاد کے ساتھ اس جہادی عمل میں براہِ راست شریک ہوجائیں، خواہ اس کے نتیجہ میں وہ خود بھی ہلاک ہوں اور اُن کے مال اور اولاد بھی۔
حدیث میں آیا ہے کہ سات چیزیں موبقات (مہلکات) کی حیثیت رکھتی ہیں۔ان میں سے ایک ’الفرار من الزّحف یا التّولی من الزّحف‘ ہے (صحیح البخاری، صحیح مسلم، ابوداؤد، النسائی، الترمذی، احمد) یعنی میدان ِ جنگ سے بھاگنا۔
واضح ہو کہ’ فرار من الزحف‘ صرف یہی نہیں ہے کہ آدمی جنگ کے میدان میں موجود ہو اور پھر وہاں سے بھاگ کھڑا ہو۔ یہ حالت بھی فرار من الزحف کے حکم میں داخل ہے کہ معرکۂ جہاد ناکام ہورہا ہو اور دوسرے لوگ باہر رہ کر صرف اُس کے تماشائی بنے رہیں۔ ایسی حالت میں ان لوگوں کو عملاً جنگ میں شریک ہونا پڑے گا ورنہ وہ فرار من الزحف کا مصداق قرار پائیں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے میں مسلمانوں کے لیے صرف دو میں سے ایک کا انتخاب ہے۔ اگر وہ ان معرکوں کو جہاد نہیں سمجھتے تو وہ کھلے طورپر اُس کی مذمت کریں۔ اور تباہی کے اس عمل کو بند کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ اس خونی کھیل میں اُن کے لیے نہ چُپ رہنا جائز ہے اور نہ غیر جانب دار بن جانا۔
دوسری صور ت یہ ہے کہ یہ بقیہ مسلمان اس خونی عمل کو اسلامی جہاد سمجھتے ہوں۔ ایسی حالت میں اُن کے عقیدہ کی بنا پر اُن کے اوپر فرض ہوجاتا ہے کہ وہ ان مجاہدین کے ساتھ عملاً شریک جنگ ہوجائیں۔ اس معاملے کو جہاد بتانا اور مجاہدین کی مسلسل تباہی کے باوجود اُس میں عملاً شریک نہ ہونا بلاشبہہ سخت گناہ ہے اور وہ حدیث کے الفاظ میں، ’موبقات‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔
مذکورہ دو صورتوں کے علاوہ تیسری صورت جس کو مسلمانوں کے عوام اور خواص اختیار کیے ہوئے ہیں، وہ سرے سے کوئی صورت ہی نہیں۔ ایسے لوگوں کی موجودہ روش کے بارے میں سخت اندیشہ ہے کہ وہ قرآن کی اس آیت کا مصداق ٹھہریں: یحبّون أن یحمدوا بما لم یفعلوا، فلا تحسبنّہم بمفازۃ من العذاب(آل عمران : 188) یعنی یہ لوگ چاہتے ہیں کہ جو کام اُنھوں نے نہیں کیا اُس پر اُن کی تعریف ہو۔ اُن کوعذاب سے بری نہ سمجھو۔
واپس اوپر جائیں

گیارہ ستمبر کے بعد

11ستمبر 2001ء کو امریکا میںغیر متوقع نوعیت کا ایک بھیانک واقعہ ہوا۔ ایک خود کُش ٹیم نے امریکا کے چار ہوائی جہازوں کو ہائی جیک کرلیا۔ اور اُن کو اُڑاتے ہوئے لے جاکر نیو یارک اور واشنگٹن کے اسکائی اسکریپرس (بلند بالا عمارتوں) سے ٹکرا دیا۔ اس کے نتیجہ میں ہولناک تباہی برپا ہوئی۔ تقریباً سات ہزار آدمی اچانک ہلاک ہوگیے، وغیرہ ۔
یہ گویا امریکا پر ایک فضائی حملہ تھا۔ اس کے بعد امریکا نے انتقامی کارروائی کے طورپر 8؍ اکتوبر 2001 کو افغانستان کے اوپر بم باری شروع کردی۔ کیوں کہ امریکا کے نزدیک 11 ستمبر کے واقعہ کا ماسٹر مائنڈ اُسامہ بن لادن ہے جس کو افغانی طالبان کی پوری حمایت حاصل ہے۔ اور جو افغانستان میںاپنا ہیڈ کوارٹر بنا کر امریکا کے خلاف پُر تشدد کارروائیاں چلا رہا ہے۔
8 اکتوبر 2001 کو امریکا نے افغانستان کے خلاف جو کارروائی کی وہ انٹرنیشنل نارم کے مطابق درست تھی۔ کیوں کہ وہ ڈیفنس کے طورپر کی گئی۔ اس کے باوجود ایسا ہوا کہ ساری دنیا میں امریکا کو برا کہا جانے لگا۔ امریکا کے خلاف لوگوں کی نفرت بہت زیادہ بڑھ گئی۔
اب ایک اور متوازی واقعہ لیجیے۔ منگول سردار چنگیز خاں (وفات : 1227ء) نے اسی افغانستان پر 1218ء میں اپنی فوجیں داخل کردیں اور بہت سے لوگوں کو ہلاک کیا۔ اسی طرح چنگیز خاں کے سفیر کو خوارزم شاہ نے قتل کردیا تھا۔ اس کا انتقام لینے کے لیے اُس نے سمرقند سے لے کر حلب تک ایک بہت بڑے علاقے کو تباہ کرڈالا۔
مگر عجیب بات ہے کہ مذکورہ واقعہ پر ساری دنیا میں امریکا کے خلاف نفرت پھیل گئی، جب کہ اسی قسم کا واقعہ تقریباً 800 سال پہلے منگول حکمراں نے کیا تھا۔ مگر اُس کے خلاف عالمی نفرت نہ پہلے تھی اور نہ آج پائی جاتی ہے۔
اصل یہ ہے کہ 800 سال پہلے کی دنیا میں جدید میڈیا کا کوئی وجود نہ تھا۔ اس لیے وہ واقعہ صرف مقامی لوگوں کے علم میں آسکا۔ وسیع تر دنیا کو اُس کی کوئی خبر ہی نہ ہوسکی۔ اور جس واقعہ کی لوگوں کو خبر ہی نہ ہو اُس سے وہ نفرت کیوں کر کریں گے۔
منگول حکمراں کا واحد ایڈوانٹیج یہ تھا کہ اُس کو میڈیا سے پہلے کا دور ملا۔ اس کے مقابلہ میں امریکی حکمرانوں کا ڈس ایڈوانٹیج یہ ہے کہ وہ پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے دور میں ہیں۔ اس بنا پر اُن کی ہر متشددانہ کارروائی فی الفور تمام دنیا کے علم میںآجاتی ہے۔ اس فرق کے پیچھے صرف زمانی عامل (age factor) ہے، اس کے سوا اور کچھ نہیں۔
مزید یہ کہ ماڈرن میڈیا کا ایک خاص ذوق ہے اور اس ذوق کی بھاری قیمت امریکا کو ادا کرنی پڑی ہے۔ وہ یہ کہ یہ میڈیا سلیکٹیورپورٹنگ کی ایک ایسی انڈسٹری ہے جس کو گڈ نیوز سے کوئی دلچسپی نہیں۔ وہ ہمیشہ بیڈ نیوز کو نمایاں کرتی ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ امریکہ میں ہزاروں قسم کی گڈ نیوزہیں۔ امریکا نے مسلمانوں سمیت ساری دنیا کو بہت سی مفید چیزیں دی ہیں۔ مثلاً موجودہ زمانے میں سائنٹفک ریسرچ کا کام سب سے زیادہ امریکا میںہوا ہے جس کا فائدہ مختلف شکلوں میں ساری دنیا کو پہنچا ہے۔ امریکا میںاس قسم کے بہت پلس پائنٹ ہیں مگر ان چیزوںکو زیادہ تر صرف اسکالر قسم کے لوگ جانتے ہیں۔ عام انسان کے علم میں امریکا کی وہی چیزیں آتی ہیں جو ٹی وی کے ذریعہ نمایاں کی جاتی ہیں اور یہ زیادہ تر وہی ہے جس کو ہم نے بیڈ نیوز کا نام دیا ہے۔
11 ستمبر 2001 کو امریکا کو جو سخت تجربہ ہوا اس کے نتیجہ میںامریکا کی اکثریت غصہ اور انتقام سے بھر گئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ 8 اکتوبر 2001 سے افغانستان کے اوپر بم باری شروع کردی گئی جہاں اسامہ بن لادن چھپا ہوا تھا جس نے امریکا کی انٹیلی جنس کے مطابق، 11 ستمبر کے واقعہ کا ماسٹرمائنڈتھا۔
مگر میںنے 8 اکتوبر کے فوراً بعد یہ کہا تھا اور اب بھی کہتا ہوں کہ بم باری اس مسئلے کا جواب نہیں۔امریکی مدبرین اس مسئلہ کو سادہ طورپر صرف ٹررزم کا ایک مسئلہ سمجھتے ہیں۔ اس بنا پر ان کا خیال ہے کہ وہ بمبارڈمنٹ کے ذریعہ اس کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔ مگر یہ اصل معاملے کا صرف ایک کم تراندازہ ہے۔
اصل یہ ہے کہ ’’اسلامک ٹررزم‘‘ ایک ایسے ٹررزم کا نام ہے جس کو ایک مقدس آئڈیالوجی کے ذریعہ درست ثابت کیا گیا ہو۔ جو مسلمان سوسائیڈل بم دھماکہ کرکے امریکا کو چیلنج کررہے ہیں وہ دیوانے لوگ نہیں ہیں۔ ان کے اس غیر معمولی اقدام کا سبب یہ ہے کہ ان کے عقیدہ نے انھیں یہ بتایا ہے کہ جہاد کرکے مرجاؤ تو تم سیدھے جنت میں جاؤگے۔ یہی وہ عقیدہ ہے جس نے ان کو اتنا زیادہ جری بنا دیا ہے کہ وہ یہ کہنے لگے ہیں کہ تم کو زندگی سے جتنا پیار ہے اُس سے زیادہ ہم کو موت سے پیار ہے۔
یہ آئڈیالوجی بلا شبہہ صد فیصد غلط ہے۔ اسلام سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ مگر اس کے پیچھے سوسال سے زیادہ مدت کی لمبی تاریخ ہے۔ سید جمال الدین افغانی، حسن البنا، سید قطب، محمد اقبال، آیۃ اللہ خمینی ، سید ابو الاعلیٰ مودودی جیسے بہت سے لوگوں نے اسلام کا پولیٹکل انٹرپریٹیشن کرکے انھیں باور کرایا ہے کہ اسلام کا سب سے بڑا عمل جہاد ہے، جہاد کرو اور سیدھے جنت میں پہنچ جاؤ۔
حقیقت یہ ہے کہ اس مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ اسلام کی غلط تعبیر پر قائم شدہ اس پولیٹکل آئڈیالوجی کو ڈسٹرائے کیا جائے۔ یہ گن ورسز گن کا معاملہ نہیں بلکہ گن ورسز آئڈیالوجی کا معاملہ ہے اور اس بے بنیاد آئڈیالوجی کو ڈسٹرائے کرکے ہی ہم اسلام کے نام پر کیے جانے والے ٹررزم کو ختم کرسکتے ہیں۔
کوئی انسان پیدائشی طورپر ٹررسٹ نہیں ہوتا۔ ہر انسان پیدائشی طورپر امن پسند ہی ہوتا ہے۔ کوئی آدمی ٹررسٹ اس وقت بنتا ہے جب کہ اس کے مائنڈ میں کسی غلط نظریہ کے ذریعہ یہ بٹھا دیا جائے کہ ٹررزم میںاس کے لیے نجات ہے۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ جب دلائل کے زور سے اس سوچ کو غلط ثابت کردیا جائے تو آدمی اپنی فطرت پر آجاتا ہے۔ اور فطرت کی سطح پر ہر آدمی امن پسند ہی ہے۔ میںنے ذاتی طورپر ہزاروں لوگوں پر اس کا تجربہ کیا ہے۔ میںکہہ سکتا ہوں کہ میںنے ذاتی طورپر ہزاروں لوگوں کو مسٹر ٹررسٹ کے بجائے مسٹر نیچر بنانے میںکامیابی حاصل کی ہے۔
اسلام کے نام پر موجودہ زمانے میں جو ملیٹنسی چلائی جارہی ہے، اُس کا تعلق حقیقی اسلام سے نہیں۔ یہ تمام تر اُس جدید لٹریچر کا نتیجہ ہے جس میں اسلام کا پولیٹسائزڈ ورژن (politisized version) پیش کیا گیا ہے۔ اب ضرورت ہے کہ اس کو دوبارہ ڈی پولیٹسائزڈ (de-politisize) کیا جائے۔ اسلام کو اُس کی اوریجنل صورت میں پیش کرنا ہی اس مسئلے کا واحد حل ہے۔ اس کے سوا اس مسئلے کا کوئی اور حل نہیں۔
واپس اوپر جائیں

ایک مثال

سرسید احمد خاں (وفات: 1898) کا زمانہ برطانیہ کے غلبہ کا زمانہ ہے۔ انھوں نے مسلمانوں کو یہ پیغام دیا کہ اس وقت ہمارا سب سے بڑا کام یہ ہے کہ جدید تقاضوں کے مطابق، اپنی نسلوں کو تعلیم یافتہ بنائیں۔ مسلمان مستقبل کے بارے میں اپنی تمناؤں کو اسی وقت پورا کرسکتے ہیں جب کہ وہ جدید معیار پر تعلیم یافتہ بن چکے ہوں۔ اس کے بغیر وہ کسی شاندار مستقبل کے مالک نہیں بن سکتے۔
یہ زمانہ وہ تھا جب کہ بہت سے مسلم رہنما برطانیہ کے خلاف سیاسی لڑائی میں مشغول تھے۔ انھوں نے کہا کہ سرسید انگریزوں کے ایجنٹ ہیں اور انگریزوں کے اشارے پر وہ یہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کو سیاسی محاذ سے ہٹا دیں، حتی کہ کچھ لوگوں نے سرسید کے کفر کا فتویٰ بھی شائع کردیا۔
مولانا شبلی نعمانی (وفات: 1914) سرسید کے ہم عصر تھے۔ انھوں نے سرسید کو قریب سے دیکھا تھا۔ وہ اس بات کو اچھی طرح جانتے تھے کہ سرسید کا اصل منصوبہ مسلمانوں کو سیاسی محاذ سے ہٹانا نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کو تیار کرکے اس قابل بنا نا ہے کہ وہ زیادہ کامیابی کے ساتھ زندگی کا وہ مقابلہ کرسکیں جس کو اِس وقت وہ ناکامی کے ساتھ انجام دے رہے ہیں۔ مولانا شبلی نے اس زمانے میں سرسید کے دفاع میںایک مضمون لکھا تھا۔ اس کا ایک فقرہ یہ تھا کہ جو لوگ سرسید پر سیاسی اعتراضات کررہے ہیں انھوں نے سرسید کے سیاسی شاہ نامہ میں سے صرف ’’مُنیژہ مَنم‘‘ یاد کررکھا ہے۔ فردوسی کا شاہ نامہ ایک بہت موٹی کتاب ہے۔ اس میں 60ہزار اشعار ہیں۔ ان میں سے ایک شعر یہ ہے جو فردوسی نے افراسیاب کی لڑکی کی زبان میں کہا ہے:
منیژہ منم دختِ افراسیاب برہنہ ندیدہ تنم آفتاب
مولانا شبلی نعمانی کی یہ بات ہر اس مصلح پر چسپاں ہوتی ہے جو کوئی گہرا منصوبہ لے کر اٹھے۔ عام لوگ صرف سطحی باتوں کو جان پاتے ہیں وہ کسی گہری اسکیم کو سمجھ نہیں پاتے۔ اس لیے وہ ایسے مصلحین کے خلاف اس قسم کا الزام دینے لگتے ہیں جو سرسید کو ان کے مخالفین نے دیا۔ مگر مستقبل کی تاریخ ہمیشہ یہ بتاتی ہے کہ کون شخص حقیقۃً قوم کو آگے لے جانا چاہتا تھا اور وہ کون شخص تھا جو یہ چاہتا تھا کہ آگے بڑھانے کے نام پر وہ قوم کو کچھ اور پیچھے ڈھکیل دے۔
واپس اوپر جائیں

خدا کی حکومت

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کا مشن یہ ہے کہ وہ دنیا میں خدا کی حکومت قائم کریں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ خدا کی حکومت بروقت ہی کامل طورپر قائم ہے اور مومن وہ ہے جو خدا کی اس قائم شدہ حکومت کا اعتراف کرکے اس کے آگے آزادانہ طورپر سرنڈر کر دے۔ وہ اپنے آپ کو خدا کی اس قائم شدہ حکومت کا متقیانہ شہری بنا لے۔ اسی اختیاری اطاعت کا دوسرا نام ایمان ہے۔
قرآن میں ارشاد ہوا ہے: أفغیر دین اللہ یبغون ولہ أسلم من فی السموات والأرض طوعاً و کرہا وإلیہ یُرجعون (آل عمران : 83) یعنی کیا یہ لوگ اللہ کے دین کے سوا کوئی اور دین چاہتے ہیں۔ حالاں کہ اسی کے حکم میں ہے جو کوئی آسمان اور زمین میںہے، خوشی سے یا ناخوشی سے اور سب اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے اپنا دین ساری کائنات میں جبراً قائم کررکھا ہے۔ انسان کو یہی دین اپنے ذاتی فیصلہ کے تحت اختیار کرنا ہے۔ اس اختیار کا تعلق اصلاً فرد سے ہے نہ کہ نظام سے۔ اگر بالفرض کسی انسانی نظام کے اوپر اللہ کا دین قاہرانہ طاقت کے ذریعہ نافذ کردیا جائے تب بھی اللہ کا مطلوب پورا نہ ہوگا۔ کیوں کہ اللہ کے منصوبہ کے مطابق، جو چیز مطلوب ہے وہ یہ کہ ہر فرد اپنے آزادانہ اختیار کے تحت اللہ کا مطیع بن جائے۔
قرآن میںمختلف انداز سے یہ بات کہی گئی ہے کہ اللہ نے اپنے پیغمبر کے ذریعہ حق اور باطل کو واضح طورپر بیان کردیا ہے۔ اب جو شخص چاہے اُس کا مومن بنے اور جوشخص چاہے اُس کا انکار کردے (فمن شاء فلیومن ومن شاء فلیکفر، الکہف : 29) اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کا تخلیقی منصوبہ یہ ہے کہ وہ لوگوں کو اپنی منشا کا علم دے کر آزاد چھوڑدے اور پھر دیکھے کہ کون شخص آزادانہ اطاعت کا ثبوت دے کر انعام کا مستحق بنتا ہے، اور کون شخص آزادانہ نافرمانی میںمبتلا ہوکر سزا کا مستحق قرار پاتا ہے۔
خدا کی اطاعت کا قاہرانہ نظام اس تخلیقی منصوبہ کی نفی ہے، اس لیے وہ خدا کا مطلوب دین نہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ اس طرح قاہرانہ اطاعت کا نظام پوری انسانی تاریخ میںکبھی اس دنیا میں قائم نہیں ہوا، اور اُس کی وجہ یہ تھی کہ وہ خدا کا مطلوب ہی نہ تھا۔
واپس اوپر جائیں

قتل یا ڈی کنڈیشننگ

اپنے تجربے سے مجھے ایک نئی بات معلوم ہوئی جس کو میں نے اِس سے پہلے نہ سنا تھا اور نہ پڑھا تھا۔ وہ یہ کہ انگریزی تعلیم یافتہ نوجوان، لڑکے اور لڑکیاں دونوں، بظاہر غیر مذہبی معلوم ہوتے ہیں لیکن وہ حقیقت میں ’غیر مذہبی ‘ نہیں ہیں۔ زیادہ صحیح لفظوں میں وہ ’غیر روایتی‘ ہیں۔ اُن کے گھر اور ان کے ماحول نے اُن کے اندر اپنے آبائی مذہب کے لیے جو عقیدت پیدا کی تھی، اُس کو جدید انگریزی تعلیم نے ختم کردیا، گویا کہ ان کی فطرت کے اوپر جو روایتی پردہ پڑ گیا تھا، وہ ہٹ گیا اور وہ اپنی اصل فطرت کے قریب آگیے۔
اِس تجربے سے میں نے یہ سمجھا ہے کہ ماڈرن ایجوکیشن کے ادارے اپنی حقیقت کے اعتبار سے ’قتل گاہ‘ نہیں ہیں، بلکہ وہ تطہیر ذہن کے ادارے ہیں۔ اِس نتیجے کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ دراصل ڈی کنڈیشننگ کے ادارے (institutions of deconditioning) ہیں۔ ذہنی تطہیر کے اِس عمل کی بنا پر ایسے لوگ اِس قابل ہوگیے ہیں کہ وہ کسی بات کو زیادہ کھلے ذہن کے ساتھ سمجھ سکیں۔
ایک حدیث کے مطابق، ہر پیدا ہونے والااپنی فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر اُس کو اس کے والدین اپنے اپنے مذہب میں ڈھال لیتے ہیں۔(کلّ مولود یولد علی الفطرۃ، فأبواہ یہوّدانہ، أو ینصّرانہ، أو یمجّسانہ، البخاری) یہ ایک مذہبی کنڈیشننگ کا معاملہ ہے۔ یہ مذہبی کنڈیشننگ دعوتِ حق کے مشن کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس کنڈیشننگ کی ڈی کنڈیشننگ دعوت کی کامیابی کا پہلا مرحلہ ہے۔ موجودہ سیکولر تعلیم کا نظام، ڈی کنڈیشننگ کے اِسی عمل کو انجام دے رہا ہے۔ گویا کہ جن نوجوانوں کے متعلق یہ سمجھا جاتا تھا کہ جدید تعلیم کے بعد وہ مذہب سے پھر گیے ہیں، برعکس طورپر جدید تعلیم نے اُن کو حقیقی مذہب سے قریب کردیا ہے۔ یہ ایک نیا امکان ہے جو جدید تعلیم نے پیدا کیا ہے۔ اِس امکان کو استعمال کرنا، دعوتی منصوبہ بندی کا پہلا اصول ہے۔
قرآن میں فطرت کا یہ اصول بتایا گیا ہے کہ ناپسندیدہ صورت حال میں بھی ایک موقع موجود رہتا ہے۔ (البقرہ: 216 ) موجودہ تعلیمی نظام کا یہ پہلو اِسی فطری قانون کی ایک مثال ہے۔
واپس اوپر جائیں

دو قسم کے ماڈل

انسان دنیا میں کس طرح زندگی گزارے، اس کے لیے قرآن میں دو قسم کے ماڈل بتائے گیے ہیں۔ ایک جنتی ماڈل اور دوسرا جہنمی ماڈل۔ جنتی ماڈل ملکوتی کردار پر مبنی ہے اور جہنمی ماڈل وہ ہے جس کا نمونہ ابلیس کی مثال میں ملتا ہے۔ موجودہ دنیا میں جو لوگ ملکوتی کردار کو اپنائیں اگلی دنیا میںان کے لیے ابدی راحت ہے اور اس کے برعکس، جو لوگ ابلیسی ماڈل کو اپنائیں اگلے دور حیات میں وہ ابدی عذاب میں ڈال دیے جائیں گے۔
فرشتوں کا نمونہ کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ انھوںنے تخلیق آدم کے وقت خدا کے سامنے اپنا شبہہ ظاہر کیا۔ انھوں نے کہا— کیا تو ایسی مخلوق کو پیداکر رہا ہے جو زمین میںفساد کرے اور وہاں خون بہائے۔ یہ ایک نہایت سنگین نوعیت کا سوال تھا۔ مگر جب خدا نے آدم کے ذریعہ اس کی وضاحت کی تو فوراً فرشتوں نے اپنا شبہہ واپس لیتے ہوئے کہا کہ لاعلم لنا إلا ما علمتنا (البقرہ: 32) گویا انھوں نے یہ اعتراف کرلیا کہ ہمارے شبہہ کی بنیاد خود ہماری کم علمی تھی نہ کہ اصل منصوبہ کا کوئی نقص۔
موجودہ دنیا میں یہی انسان کا خاص امتحان ہے۔ یہاںبار بار ایک انسان کو دوسرے انسان کے بارے میں شبہات اور اختلافات پیدا ہوتے ہیں۔ ایسے موقع پر ملکوتی کردار یہ ہے کہ جب معاملے کی وضاحت کی جائے تو فوراً آدمی اپنی غلطی کا اعتراف کرے۔ وہ کھلے طور پر اعلان کرے کہ میں اپنی کم علمی کا شکار ہوا۔ دوسرے شخص پر میںنے جو اعتراض یا الزام عائد کیا وہ سراسر بے بنیاد تھا نہ کہ کوئی واقعی حقیقت۔
دوسرا ماڈل جو قرآن میں بتایا گیا ہے وہ ابلیس کا ماڈل ہے۔ ابلیس کو بھی خدائی تخلیق پر اعتراض ہوا۔ مگر معاملے کی وضاحت کے باوجود اس نے اپنی غلطی کا اعتراف نہیں کیا۔ وہ یہ سوچ کر اپنی رائے پر اکڑ گیا کہ میں آدم سے بہتر ہوں (الأعراف: 12) ایسی حالت میں کیوں میں اعتراف کرکے آدم کے سامنے جھکوں۔
فرشتوں کے کردار اور ابلیس کے کردار میںاس فرق کا نفسیاتی سبب کیا تھا۔ وہ یہ تھا کہ جب اختلاف پیدا ہوا تو ابلیس نے معاملے کو اپنے اور آدم کے درمیان سمجھا ۔ اس طرح اس کو نظر آیا کہ میںتو آدم سے بہتر ہوں۔ حالاں کہ صحیح یہ تھا کہ وہ معاملے کواپنے اور خدا کے درمیان کا معاملہ بنائے۔ اگر وہ ایسا کرتا تو اس کو معلوم ہوتا کہ مجھے اپنی غلطی ماننا چاہیے۔ کیوں کہ اگر میں اپنی غلطی نہ مانوں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ میںاس کو خدا پر ڈال رہا ہوںاور خدا کی طرف وہ لوٹنے والی نہیں۔ اس کے برعکس، فرشتوں نے معاملے کو اپنے اور خدا کے درمیان کا معاملہ قرار دیا۔ اس لیے انھیں اپنی غلطی کے اعتراف میں کوئی دیر نہیں لگی۔
یہی امتحان آج بھی ہر انسان کا ہر لمحہ ہورہا ہے۔ جب بھی دو آدمیوںیا دو گروہوں کے درمیان اختلافی معاملہ پیش آئے اس وقت اگر انسان معاملے کو اپنے اور دوسرے انسان کا معاملہ سمجھے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ ابلیس والی نفسیات کا شکار ہوجائے گا۔ اس کے برعکس، اگر وہ معاملے کو اپنے اور خدا کے درمیان سمجھے تو وہ فوراً جھک کر اپنی غلطی کااعتراف کرلے گا— اس دنیا میں ہر اکڑ خدا کے خلاف ہے نہ کہ کسی انسان کے خلاف۔
واپس اوپر جائیں

دنیا اور آخرت

قرآن میں یہ دعا بتائی گئی ہے کہ اے ہمارے رب، ہم کو دنیا میں حسنہ دے، اور ہم کو آخرت میں حسنہ دے (ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ و فی الآخرۃ حسنۃ، البقرۃ: 201)
اس کا مطلب کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم کو دونوں دنیاؤں کا فائدہ دے۔ یعنی دنیا میںمال دے اور آخرت میں جنت۔ ایک مسلم صحافی نے اس نظریہ کے تحت ایک ماہانہ پرچہ نکالا اور اس کا نام رکھ دیا: ’فلاح دین‘ و دنیا۔ مگر اس قرآنی دعا کا یہ مطلب نہیں۔اس دعا میں حسنہ سے مراد وہ حسنہ ہے جو اللہ کے نزدیک حسنہ کی حیثیت رکھتی ہو، نہ کہ وہ چیز جس کو آدمی بطور خود حسنہ سمجھ لے۔ اس لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس دنیا میں جنتی اعمال کی توفیق اور آخرت میں جنت کے اندر داخلہ ۔
ایک انسان کے لیے دنیا کا حسنہ یہ ہے کہ اس کو خدا کی معرفت حاصل ہو۔ وہ دین کو اس کے صحیح مفہوم کے ساتھ سمجھ سکے۔ اور رسول کو اپنا غیر مشروط رہنما بنا سکے۔اور صحابہ کرام کی زندگی کی صورت میں جو معیاری دینی نمونہ قائم کیا گیا ہے اس کو رضا و رغبت کے ساتھ پوری طرح قبول کرے۔ اس میں یہ بھی شامل ہے کہ خدا اس کو ہر قسم کی ذہنی برائیوں سے بچائے وہ دین کی غلط تعبیرات سے بچ کر دین کو اس کے صحیح مفہوم کے ساتھ اختیار کرے۔ اسی طرح وہ اس گمراہی سے محفوظ رہے کہ ذاتی مفاد، ذاتی خواہشیں یا کوئی اور ذاتی رجحان اس کو دین کی شاہراہ سے ہٹا دے۔ اس دنیا میں وہ نہ سرکش بنے اور نہ دین کے نام پر بے دینی کو اختیار کرنے والا بن جائے۔
ہم کو آخرت میںحسنہ دے — اس کا مطلب یہ ہے کہ آخرت کے انعامات میں ہم کو حصہ دار بنا۔ آخرت میںجنت کی صورت میںایک ایسی دنیا بننے والی ہے جو آخری حد تک معیاری دنیا ہوگی۔ وہاں آدمی خدا کی رحمت اور مہربانی کے سائے میں جئے گا اور ابدی طورپر ایک ایسی با معنی زندگی حاصل کرے گا جو معنویت اور مسرت اور راحت سے بھر پورہوگی۔یہی جنتی زندگی انسان کی اعلیٰ ترین منزل ہے۔ اُس دعا کا مطلب یہ ہے کہ خدایا، تو مجھے دنیا میںاس مطلوب زندگی کی توفیق دے جو مجھ کو آخرت کی جنت کو پانے کا مستحق بنا دے۔
واپس اوپر جائیں

عمل کا مدار نیت پر ہے

صحیح البخاری کی پہلی روایت ان الفاظ میں آئی ہے: عن عمر بن الخطاب قال: سمعت رسول اللہ ﷺ یقول: إنما الأعمال بالنیات، وإنما لکل امریئٍ ما نویٰ: فمن کانت ہجرتہ إلی دنیایصیبہا أو امرأۃٍ ینکحہا فہجرتہ إلی ما ہاجر إلیہ۔
یعنی حضرت عمر فاروق نے کہا کہ میںنے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ عمل کا مدار نیت پر ہے اور ہر آدمی کے لیے وہی ہے جس کی وہ نیت کرے، پس جس کی ہجرت دنیا کو پانے کے لیے ہو یا کسی عورت سے نکاح کرنے کے لیے ہو تو اُس کی ہجرت اُسی کے لیے ہے جس کی طرف اُس نے ہجرت کی۔
نیت کے معنی قصد اور ارادہ (intention) کے ہیں۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خدا کسی کے ظاہری عمل کو نہیںدیکھتا بلکہ وہ یہ دیکھتا ہے کہ آدمی نے جو عمل کیا ہے اُس کو اُس نے کس ارادے کے تحت کیا ہے۔ کسی کے عمل کی قیمت خدا کے یہاں اس کے داخلی ارادے کے اعتبار سے ہوگی، نہ کہ اُس کے ظاہرکے اعتبار سے۔
اصل یہ ہے کہ ہر عمل کی ایک داخلی اسپرٹ ہوتی ہے، اور ایک اُس کی ظاہری صورت۔ اسلام میں اصل اعتبار داخلی اسپرٹ کا ہے، نہ کہ ظاہری فارم کا۔ داخلی اسپرٹ کے بغیر ظاہری فارم بے قیمت ہے، خواہ بظاہر وہ کتنا ہی مکمل دکھائی دیتا ہو۔ خدا کے یہاں وہی عمل قبول کیا جائے گا جس کے اندر اسلام کی مطلوب اسپرٹ موجود ہو، خواہ دیکھنے والوں کو بظاہر وہ عظیم نہ دکھائی دیتا ہو۔
داخلی اسپرٹ یہ ہے کہ آدمی کا عمل قلبی جذبے کے تحت صادر ہوا ہو۔ کوئی آدمی اُس کے عمل کو دیکھنے والا نہ ہو تب بھی وہ اس عمل میںمشغول ہو۔ کسی قسم کا مادی فائدہ نہ ملنے والا ہو تب بھی وہ اپنا عمل کرتا رہے۔ یہ وہ عمل ہے جو آدمی کی داخلی شخصیت کا خارجی اظہار ہو۔ جس میںاُس کی اندرونی شخصیت بے تابانہ طورپر ظاہر ہوگئی ہو۔ جس کا محرّک صرف خدا کا خوف اور محبت ہو، کوئی بھی دوسرا محرک اُس کے عمل میں نہ پایا جاتا ہو۔
واپس اوپر جائیں

اَسلاف کا طریقہ

روی عن خارجۃ بن زید بن ثابت قال: ’’کان زید إذا سئل عن شیئٍ، قال: ہل وقع؟ فإن قالوا لہ: لم یقع، لم یخبرہم۔ وإن قالوا: قد وقع، أخبرہم‘‘ (ابن القیم، أعلام الموقعین، جلد اوّل، صفحہ 61 )
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے لڑکے خارجہ کہتے ہیں کہ جب زید سے کوئی بات پوچھی جاتی تو وہ دریافت کرتے: کیا ایسا ہوچکا ہے۔ اگر انھیں نفی میں جواب دیا جاتا تو وہ مسئلہ نہ بتاتے۔ اور اگر یہ کہا جاتا کہ ایسا واقعہ بالفعل ہوچکا ہے، تو وہ سائل کو مسئلہ بتا دیتے۔
و عن مسروقٍ قال: ’’کنت أمشی مع أبیّ بن کعب فقال لہ رجل یا عماہ کذا و کذالک۔ فقال: یا ابن أخی أکان ہذا؟ قال: لا، قال : فأعفنا حتی یکون‘‘ (حوالۂ مذکورہ)
مسروق (تابعی) سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میںابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے ساتھ چل رہا تھا تو ایک آدمی نے آکر پوچھا : اے چچا، اگر ایسا اور ایسا ہو تو (یعنی کوئی فرضی مسئلہ دریافت کیا)۔ ابی بن کعب ؓ نے کہا: اے میرے بھائی کے لڑکے، کیا ایسا واقعۃً ہو چکا ہے۔ اس نے کہا کہ نہیں۔ یہ سن کر انھوںنے جواب دیا: پھر ہمیں اس وقت تک معاف رکھیں جب تک ایسا عملاً واقع نہ ہوجائے۔
یہ دونوں واقعات بتاتے ہیں کہ سوال یا استفتا کے بارے میں علماء سلف کا طریقہ کیا تھا، وہ ایسا نہیں کرتے تھے کہ محض سوال یا استفتا پر شرعی مسئلہ بیان کرنے لگیں بلکہ وہ سائل یا مستفتی سے یہ پوچھتے تھے کہ جس معاملے کے بارے میں تم مسئلہ پوچھتے ہو وہ معاملہ بالفعل پیش آچکا ہے۔ اگر وہ کہتا کہ ہاں تو شرعی مسئلہ بیان کرتے، بصورتِ دیگر وہ سائل سے کہتے کہ فرضی سوالات مت کرو۔ صرف انھیں امورمیں شرعی مسئلہ دریافت کرو جو عملاً پیش آچکے ہیں۔
یہ تھا علمائے سلف کا طریقہ اور بلا شبہہ یہی صحیح اسلامی طریقہ ہے۔
واپس اوپر جائیں

والد ِ محترم کی وفات

18 اپریل 2007 کو راقم الحروف (محمدذکوان ندوی) کے والدعثمان صاحب کا لکھنؤ میں انتقال ہوگیا۔ انتقال کے وقت ان کی عمر 65 سال تھی۔ 18 اپریل کو ظہر کی نماز کے بعد میں نے ان کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔ اوراندرا نگر، لکھنؤکے قبرستان اَمَرپالی میں ان کی تدفین ہوئی۔
ان کی صحت عموماً ٹھیک رہتی تھی۔ تاہم جنوری 2007 میں ان کو ٹھنڈک لگ گئی اور پھر وہ بڑھ کر خطرناک شکل اختیار کرگئی۔ کوئی علاج اس میں مفید ثابت نہ ہوسکا۔تکلیف کی شدت کی وجہ سے وہ کئی ماہ سے بالکل لیٹ نہیں سکتے تھے۔ ان کی ساری رات دعا اور مناجات میں بیٹھ کر گذرجاتی تھی۔آخری دونوں میں ان کی صحت بہتر ہوگئی تھی۔ 3 اپریل کو برادرِ محترم مولانا امان اللہ قاسمی کے پاس وہ جے پورگئے ہوئے تھے۔ وہاں پہنچ کر ان کے ساتھ ایک حادثہ پیش آگیا ۔اس کی وجہ سے ان کی تکلیف مزید شدت اختیار کرگئی۔
13 اپریل کو دہلی سے روانہ ہوکر رات کو میں جے پور پہنچا۔ کافی دیر تک اُن سے دینی موضوعات پر باتیںہوتی رہیں۔ دینی موضوعات پر تبادلۂ خیال کرنا ان کو بہت محبوب تھا۔ صبح کو اچانک ان کی طبیعت زیادہ بگڑ گئی۔ میں ان کو ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔ ڈاکٹر نے انھیں دوبارہ دکھانے کے لیے کہا۔ میں نے اگلے دن ڈاکٹر کے پاس چلنے کے لیے کہا تو انھوں نے منع کردیا۔ میںنے بہت اصرار کیا تو انھوں نے کہا نہیں، میں اب کسی ڈاکٹر کے پاس نہیں جاؤں گا، اب میں صرف اللہ کے پاس جاؤں گا۔میں نے دوبارہ اصرار کیا تو انھوں نے سختی سے منع کرتے ہوئے کہا کہ بس اب مجھ کو کسی طرح لکھنؤ پہنچا دو۔ میں نے برادرم مولانامحمد حسان ندوی کو لکھنؤ سے جے پور بلایا۔ اور 16 اپریل کی شام کو ہم انھیں لے کر لکھنؤ کے لیے روانہ ہوئے اوربارہ گھنٹے کا طویل سفر طے کر کے اگلے دن صبح کو لکھنؤ پہنچ گیے۔
لکھنؤ پہنچ کر ان کی طبیعت میںایک عجیب اطمینان پیدا ہوگیا تھا۔ اس کے آثار ان کے چہرے پر نمایاں تھے۔ البتہ کمزوری اب بہت بڑھ گئی تھی۔ او ران پر ایک طرح کی یکسوئی کی کیفیت طاری تھی۔ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ اب ان کو دنیا کی کسی چیز سے کوئی دل چسپی باقی نہیں رہ گئی ہے۔ سخت بے چینی کے عالم میں انھوں نے مجھ سے کہا کہ اب مجھے کسی اور چیز کی فکر نہیں ہے۔ بس دعا کرو کہ ایمان پر خاتمہ ہوجائے۔ میںنے اطمینان دلانا چاہا تو کہنے لگے کہ کیا خبرخدا کے یہاں کیا معاملہ ہو، خدا بہت بے نیاز ہے۔
ان کی تکلیف بڑھتی جارہی تھی، مگر شدید تکلیف کے باوجود وہ سراپا صبر وشکر بنے ہوئے تھے۔ دعا اور استغفار کے سوا اور کوئی لفظ میںنے ان کی زبان سے نہیں سُنا۔ بیماری کے ذریعے خدا نے ان کو عجز کے شعوری مقام تک پہنچا دیا تھا۔ اور شعوری سطح پر عجز کا تجربہ بلا شبہہ سب سے بڑی چیز ہے۔ بار بار وہ آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کر کہتے تھے کہ—خدایا، میںنے جان لیا کہ سب کچھ صرف تیرے اختیار میں ہے، کچھ بھی اپنے بس میں نہیں۔خدایا، میں اِس سے زیادہ تکلیف کا مستحق ہوں۔ تو ارحم الراحمین ہے۔ مجھ پر رحم فرمااور مجھ کو معاف کردے۔ مغرب کے بعد سے ان کی زبان پر مسلسل ذکر اور دعا کے الفاظ جاری تھے۔ یا ربّ لک الحمد کما ینبغی لجلال وجہک ولعظیم سلطانک ۔ جزَی اللّٰہ عنّا محمدًا ما ہو اہلُہ صلی اللہ علیہ وسلم۔یہ ان کی پسندیدہ دعا تھی۔ یہ دعا بار بار ان کی زبان پر آرہی تھی۔
عشاکے بعدان کے اندر بولنے کی طاقت بہت کم رہ گئی تھی۔ وہ صرف اشارے سے کوئی بات کہہ سکتے تھے۔ ان کی آنکھیں مسلسل طورپر بند تھیں۔ میںان کے سرہانے بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے دیکھا کہ اچانک وہ آنکھیں پھاڑ کر اوپر دیکھنے لگے۔ میںنے سورہ یاسین کی تلاوت شروع کردی۔ ابھی میں علیٰ صراطٍ مستقیم تک پہنچا تھا کہ ان کی روح نکل گئی۔ إنا للہ وإنا إلیہ راجعون۔
ان کی تعلیم اگر چہ کالج میں ہوئی تھی، لیکن وہ مکمل طورپر دینی مزاج کے آدمی تھے۔ مادیت سے ان کو دل چسپی نہیںتھی۔ سادگی اور زہد ان کی فطرت کا حصہ تھا۔ وہ بہت صاف گو آدمی تھے۔ مزاجی طور پر ان کے اندر غصہ بہت تھا، مگر وہ حق کے آگے جھکنے کا حوصلہ رکھتے تھے۔ اپنے چھوٹوں سے بھی معافی مانگنے میں وہ کبھی عار محسوس نہیں کرتے تھے۔ خداکی یاد اور شکر کی وہ ایک زندہ مثال تھے۔ ہر دن اُن پر ایسا لمحہ ضرور طاری ہوتا تھا جب کہ وہ سراپا شکر بن جاتے۔ خدا کی یاد ان کی زبان سے ابلنے لگتی، آنکھیں نم ہوجاتیں اور پھر وہ ایک ایک نعمت کو سوچ سوچ کر اس پر خدا کا شکر ادا کرتے۔
ان کی زندگی کا سب سے زیادہ نمایاں پہلو اپنی اولاد کے دینی مستقبل کی فکر تھی۔ یہ ان کا سب سے بڑا کنسرن تھا کہ ان کی اولاد صراطِ مستقیم پر قائم رہے اور اس کی زندگی آخرت رُخی زندگی ہو۔ اِسی کو وہ اپنا سب سے بڑا سرمایہ سمجھتے تھے اور رات دن اسی فکر میں جیتے تھے۔ نماز کے معاملے میں وہ ہم لوگوں کے ساتھ بالکل رعایت نہیں کرتے تھے۔ خدا کی نعمتوں کو یاد دلا کر وہ کہتے کہ ہم پر خدا کے بے پناہ احسانات ہیں۔ کیا احسان شناسی کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ ہم خدا کے سامنے جھک کر اس کا شکر اور اس کا اعتراف کریں۔ان کا طریقہ لاڈ پیار کا طریقہ نہیں تھا۔ انھوںنے ہمیشہ ہم لوگوں کو ڈانٹ کر رکھا۔ وہ ہم لوگوں کو ہمیشہ اِس کی تعلیم دیتے تھے کہ مادیت کے فتنے سے بچنا اور ہر لمحہ آخرت کو اپنے سامنے رکھنا۔انھوں نے ہم لوگوں کے لیے کبھی پراپرٹی بنانے اور بینک بیلنس کرنے کی فکر نہیں کی۔ وہ کہتے تھے کہ میرا کام صرف تعلیم و تربیت ہے۔آگے تم لوگ خود محنت کرو اور خدا کے اوپر بھروسہ رکھو۔ وہ دعوتی مزاج کے آدمی تھے۔وہ بہت تاکید کے ساتھ بار بار مجھ سے کہتے تھے کہ میں دینی تعلیم صرف اس لیے دلا رہا ہوں تاکہ خدا تم سے دین کا کام لے اور تم کو انسانوں کی ہدایت کا ذریعہ بنائے۔ ان کی زبان پر ہمیشہ یہ دعا جاری رہتی تھی کہ— خدایا، قیامت تک آنے والی میری نسلوں سے تودین کا کام لے لے۔ ربَّنَا ہَبْ لَنَا مِن أزواجِنَا وذُرّیّاتِنَا قُرَّۃَ أَعیُن، واجْعلناَ للمتقین إمامًا (الفرقان: 74 ) یہ ان کی روزانہ کی محبوب دعا تھی۔
یہ انھیں کی دعا اور تربیت کا نتیجہ تھا کہ میں الرسالہ کے دعوتی مشن سے وابستہ ہوسکا۔ وہ کہتے تھے کہ اب خدا نے تم کو اُس کام میں لگا دیا ہے جس کے لیے میں نے تم کو پڑھایا تھا۔وہ ایک ذہین اور وسیع الفکر آدمی تھے۔ انھوں نے پہلی بار جب مولانا وحید الدین خاں صاحب کی ایک مختصر تحریر پڑھی تو مجھ سے کہا کہ — مولانا کا کیس، معروف معنوں میں، ہر گز کسی انحراف کا کیس نہیں ہے۔ ان کا کیس حسد کا کیس ہے۔ جو شخص اتنے اعلیٰ درجے کی ربّانی تحریر لکھے، لوگ ضرور اس سے حسد کریں گے۔ لوگ کسی ایسی چیز کا اعتراف نہیں کرپاتے جس کا اعتراف اپنی نفی کے ہم معنی ہو، اس لیے وہ اپنی بے اعترافی کو چھپانے کے لیے داعی ٔ حق کی جھوٹی مخالفت کرنا شروع کردیتے ہیں۔ انبیاء کی پوری تاریخ اس تلخ حقیقت کا زندہ ثبوت ہے۔
ان کا معمول تھا کہ وہ فجر کے بعد ترجمہ و تفسیر کے ساتھ قرآن کی تلاوت کرتے تھے۔ انھوں نے تفسیرِقرآن کے کئی دور پورے کر لیے تھے۔ اِدھر کئی برس سے وہ اہتمام کے ساتھ ’تذکیرالقرآن‘ کا مطالعہ کرتے تھے۔ ایک بار انھوں نے مجھ سے کہا کہ ’تذکیر القرآن‘ پڑھنے کے بعد مجھے ایسا لگا جیسے میں نے اپنی ساری عمر ضائع کردی ہواور اب مجھ کو خدا کی معرفت کا راستہ ملا ہے۔ گویا میں پہلی بار معرفتِ خداوندی کا تجربہ کررہا ہوں۔
میرے لیے اطمینان کی سب سے بڑی بات یہی ہے کہ وہ اِس دنیا سے ایمان کے ساتھ رخصت ہوئے۔ اس دنیا کی رفاقت اور جدائی کی کوئی حقیقت نہیں۔ اصل رفاقت صرف آخرت کی رفاقت ہے۔ ان کی وفات نے موت کو میرے لیے ایک زندہ حقیقت بنادیا ہے۔ یہی اِس حادثے کا سب سے بڑا سبق ہے۔ خدا کی رحمت سے امید ہے کہ وہ ان کو اپنے مومن بندوں میں شامل کرے گا۔ اور ان کو جنت کے ابدی باغوں میں جگہ عطا فرمائے گا۔ ( 25 اپریل 2007)
واپس اوپر جائیں