Pages

Saturday 1 May 2021

Al Risala | May 2021 (الرسالہ،مئی)

1

-ڈائری سے انتخاب

48

- اعلان


ڈائری سے انتخاب

17 ستمبر 1985
ہر آدمی کے اندر ایک انسان ہے، اور اسی کے ساتھ اس کے اندر ایک شیطان بھی چھپا ہوا ہے۔ اکثر لوگ اپنی نادانی سے انسان کو کھو دیتے ہیں۔ یہ صرف شیطان ہے جو ان کے حصہ میں آتا ہے۔
28اکتوبر 1985
رمضان کے بارے میںمختلف روایتیں حدیث کی کتابوں میں آئی ہیں۔ ان میں سےایک روایت یہ ہے:وَصُفِّدَتِ الشَّیَاطِینُ(صحیح مسلم، حدیث نمبر1079)۔ یعنی اور اس ماہ میں شیاطین قید کردیے جاتے ہیں۔
حدیث کے الفاظ کو اس کے ظاہری مفہوم میں لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ رمضان کے مہینے میں تمام دنیا کے شیاطین علی الاطلاق (absolute sense) قید کردیے جاتے ہیں۔ حالاں کہ یہ بات بداہۃً (prima facie) خلاف واقعہ ہے۔کیوں کہ دیکھنے میں آتا ہے کہ رمضان کے مہینہ میں وہ تمام گناہ بدستور ہوتے رہتے ہیں جو سال کے دوسرے مہینوں میں ہوتے ہیں۔
اس لیے حدیث کا مفہوم قید کے ساتھ لینا ہوگا۔ یعنی یہ کہ سنسیرٹی (sincerity) کے ساتھ روزہ رکھنے والوں کےلیے اللہ کی مدد آتی ہے، اور شیاطین کاان پر غلبہ نہیں ہوپاتاہے۔ یعنی جو لوگ سچی اسپرٹ کے ساتھ روزہ رکھتے ہوں ان کے اندر رمضان میں گناہوں کی تحریک نہیں ہوتی یا بہت کم ہوجاتی ہے۔ اس قسم کے لوگوں کی حالت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: إِنَّ عِبَادِی لَیْسَ لَکَ عَلَیْہِمْ سُلْطَانٌ إِلَّا مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْغَاوِینَ (15:42)۔ یعنی بیشک جو میرے بندے ہیں، ان پر تیرا زور نہیں چلے گا۔ سوا ان کے جو گمراہوں میں سے تیری پیروی کریں۔
حدیث ایک دعوتی اور تربیتی کلام ہے، اور دعوتی اور تربیتی کلام میں یہی انداز زیادہ مؤثر ہے۔ منطقی اسلوب دعوت و تربیت کے لیے مؤثر نہیں۔ اگر یہ کہا جاتا کہ ’’جو روزہ دار پورے شرائط و آداب کے ساتھ روزہ رکھے اس کے شیاطین قید کردئے جائیں گے“ تو کلام کی تاثیر نسبتاً کم ہوجاتی۔
20 نومبر 1985
عبد الرحمٰن بن عبدالقاری تابعی (وفات 80ھ) کہتے ہیں کہ میں رمضان کی ایک رات خلیفہ ثانی عمر بن خطاب کے ساتھ مسجد گیا۔ اس وقت لوگ مختلف حالتوں میں (نماز اداکررہے) تھے۔ کوئی تنہا نماز پڑھ رہا تھا، اور کوئی چند آدمیوں کے ساتھ ۔ حضرت عمر نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ اگر میں ان سب کو ایک امام پر جمع کردوں تو یہ بہت اچھی بات ہوگی۔ پھرمشورہ کرکے آپ نے ابی بن کعب کو ان کا امام بنا دیا۔ دوسری رات کو دوبارہ جب میں حضرت عمر کے ساتھ (مسجد کی طرف) نکلا تو لوگ اپنے امام کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے۔ حضرت عمر نے (یہ دیکھ کر) کہا: کیسی اچھی ہے یہ بدعت (نِعْمَ البِدْعَةُ ہَذِہ) ۔ صحیح البخاری،حدیث نمبر 2010۔
بدعت اسلام میں بری چیز ہے، جب کہ حضرت عمر نے یہاں اس کو اچھا بتایا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں بدعت کے لفظ سے اصطلاحی بدعت مراد نہیں ہے۔ یہاں یہ اپنے لفظی معنی میں ہے، نہ کہ شرعی اصطلاح کے معنی میں۔
یہ ایک سادہ سی مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کسی بات کو سمجھنے کے لیے تفصیلی اور جامع علم بہت ضروری ہوتا ہے۔ جس شخص نے صرف مساجد کے وعظ میں ’’بدعت“ کا لفظ سنا ہو وہ اس حدیث کو صحیح طور پرسمجھ نہیں سکتا۔ اس حدیث میں ’’بدعت“ کا مفہوم سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی اس کے اصطلاحی مفہوم کے ساتھ اس کے لفظی مفہوم کو بھی جانتا ہو۔ صرف ایک مفہوم کو جاننا حدیث کو سمجھنے کے لیے کافی نہیں۔ یہی اصول زندگی کے دوسرے معاملات میں بھی چسپاں ہوتا ہے۔
2 اکتوبر 1985
بعض حدیثیں نقد داخلی ہی کے معیار پر غیر معتبر ثابت ہوجاتی ہیں ۔ مثلاً ایک حدیث ان الفاظ میں آئی ہے: وَفَضْلُ شَہْرِ شَعْبَانَ عَلَى الشُّہُورِ کَفَضْلِی عَلَى سَائِرِ الأَنْبِیَاءِ (المقاصد الحسنہ، حدیث نمبر 740)۔ یعنی شعبان کے مہینہ کو دوسرے مہینوں پر ویسی ہی فضیلت ہے جیسی فضیلت مجھ کو دوسرے انبیا پر۔
مہینوں میں سے کوئی مہینہ اگرافضل ہو تو یہ افضلیت سب سے پہلے رمضان کے مہینہ کو حاصل ہوگی۔ کیوں کہ قرآن سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن رمضان کے مہینہ میں اترا، اور جس مہینہ میں قرآن اترا اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار راتوں سے بہتر ہے۔ ایسی حالت میں کیسے یقین کیا جاسکتاہے کہ کوئی مہینہ رمضان سے بھی زیادہ افضل ہوگا۔
29اکتوبر 1985
ایک حدیث ِ رسول ہے، جس کے الفاظ یہ ہیں:وَلاَ یَزَالُ أَحَدُکُمْ فِی صَلاَةٍ مَا انْتَظَرَ الصَّلاَةَ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 647)۔یعنی ایک شخص اس وقت تک برابر نماز میں رہتا ہے جب تک وہ (مسجد میں) نماز کا منتظر رہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ صرف مسجد میں موجود رہنا ہی ثواب کا باعث بن جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص نفسیات نماز کے ساتھ نماز کے انتظار میں ہو اس کا یہ وقت بھی نماز میں شمار ہوجاتا ہے اور اس کو وہی ثواب ملتا ہے جو نماز پڑھنے والے کو ملتا ہے۔
اس طرح کی حدیثوں کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ کسی پتھر کے مجسمہ یا روبوٹ کے بارے میں نہیں ہیں، بلکہ زندہ انسان کے بارے میں ہیں۔ انسان سوچتا ہے۔ وہ صاحبِ نفسیات مخلوق ہے۔ ایسا انسان جب نماز کے انتظار میں بیٹھا ہو تو اس کا بیٹھنا سادہ قسم کا بیٹھنا نہیں ہوتا۔ وہ اگر سچا نمازی ہے تونماز کے انتظار کے وقت بھی نماز کے بارے میں سوچے گا۔ اس وقت بھی اس کا دل خدا میں لگا رہے گا۔ یہی وہ کیفیت ہے، جو اس کے انتظار نماز کے لمحات کو بھی ادائیگیٔ نماز کے لمحات میں شامل کردیتی ہے۔
30 اکتوبر 1985
عکرمہ نے روایت کیا کہ عبداللہ بن عباس نےقرآن کی سورہ الحدید آیت 23 کے تحت کہا: لَیْسَ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا وَہُوَ یَحْزَنُ وَیَفْرَحُ، وَلَکِنَّ الْمُؤْمِنَ یَجْعَلُ مُصِیبَتَہُ صَبْرًا، وَغَنِیمَتَہُ شُکْرًا(تفسیر القرطبی، جلد17، صفحہ258)۔ یعنی کوئی ایسا شخص نہیں جو غم گین نہ ہوتا ہو اور خوش نہ ہوتا ہو۔ مگر مومن اپنی مصیبت کو صبر بنا لیتا ہے، اور اپنے فائدہ کو شکر بنا لیتا ہے۔
گائے کے اندر گھاس داخل ہوتی ہے تو اس کا اندرونی نظام اس کو دودھ میں تبدیل کردیتا ہے اور گھاس اس کے اندر سے دودھ بن کر نکلتی ہے۔ اسی طرح مومن کے اندر ایک خصوصی نفسیاتی نظام ہوتاہے۔ یہ نظام مصیبت کو خدا کے لیے صبر میں بدل دیتا ہے اور راحت کو خدا کے لیے شکر میں۔ اس طرح دونوں حالتیں اس کے حق میں نعمت بن جاتی ہیں۔ اس روایت میں ـیَجْعَلُ‘‘ کا لفظ بہت بامعنیٰ ہے، یعنی وہ اپنے غم کو منفی راستے پر لگانےکے بجائے صبر میں کنورٹ کرتا ہے۔
31اکتوبر 1985
قرآن میں آیا ہے:فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ کَذَبَ عَلَى اللَّہِ وَکَذَّبَ بِالصِّدْقِ إِذْ جَاءَہُ أَلَیْسَ فِی جَہَنَّمَ مَثْوًى لِلْکَافِرِینَ ۔ وَالَّذِی جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِہِ أُولَئِکَ ہُمُ الْمُتَّقُونَ ۔ لَہُمْ مَا یَشَاءُونَ عِنْدَ رَبِّہِمْ ذَلِکَ جَزَاءُ الْمُحْسِنِینَ (39:32-34)۔ یعنی پھر اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اللہ پر جھوٹ بولا اور اس نے سچی بات کو جھٹلایا جب کہ وہ اس کے پاس آئی۔ کیامنکروں کا ٹھکانا دوزخ میں نہیں۔ اور جو سچی بات لے کر آیا اور جس نے اس کو سچ مانا وہی لوگ ڈرنے والے ہیں۔ ان کے لیے وہ ہے جو وہ چاہیں۔ یہ بدلا ہے نیکی کرنے والوںکا۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ سچائی کا اعتراف کرنا سب سے بڑی نیکی ہے، اور سچائی کاانکارکرنا سب سے بڑاجرم۔ سچائی کا ظہور گویا خود خدا کا ظہور ہے۔ اس لیے سچائی کو نظر انداز کرنا خدا کو نظر انداز کرنا ہے۔ایسے لوگ قیامت کے دن بالکل ذلیل و خوار ہو کر رہ جائیںگے۔
جن لوگوں کے دلوں میں تقویٰ (کھٹک) ہو، ان کے سامنے جب سچائی آتی ہے تو وہ سنجیدگی کے ساتھ اس پر غور کرتے ہیں۔ ان کا سنجیدہ غور وفکر انھیں یہاں تک پہنچاتا ہے کہ وہ سچائی کو پالیں اور اس کا اعتراف کرکے اس کے ساتھی بن جائیں۔
7 اگست 1985
آدمی اپنے بیٹے کی کامیابی پر حسد نہیں کرتا۔ مگر دوسرا کوئی شخص کامیاب ہو تو اس کو دیکھ کر وہ حسد میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بیٹے کی کامیابی کو وہ اپنی کامیابی سمجھتا ہے، اور دوسرے شخص کی کامیابی کو غیر کی کامیابی۔
8 اگست 1985
اولیور وینڈل ہومز (Oliver Wendell Holmes, 1809-1894)نے کہا ہے کہ نوجوان شخص عموم کو دیکھتا ہے، اور عمر رسیدہ شخص استثنا کو:
The young man knows the rules, but the old man knows the exceptions.
زندگی کا سفر ہمیشہ ہموار نہیں ہوتا۔ زندگی میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی اتفاقی رکاوٹ سامنے آکر ہمارے سوچے ہوئے نقشہ کو بگاڑ دیتی ہے۔ اس لیے عقل مند وہ ہے جو صرف عام حالات پر بھروسہ نہ کرے، بلکہ غیر متوقع امکانات کو ذہن میں رکھ کر اپنا منصوبہ بنائے۔
9 اگست 1985
آئرش شاعرآسکر وائلڈ (Oscar Wilde, 1854-1900) نے کہا ہے کہ انسان ایک عقل مند جانور ہے جو ہمیشہ اس وقت برہم ہوجاتا ہے جب کہ اس کو عقل کے مطابق عمل کرنے کے لیے کہا جائے:
Man is a rational animal who always loses his temper when he is called upon to act in accordance with dictates of reason.
کیسا عجیب ہے یہ تضاد جو انسان کی زندگی میں پایا جاتا ہے۔ ہر انسان کا یہ حال ہے کہ دوسروں کے خلاف عقل کو استعمال کرنے میں وہ نہایت ہوشیار ہے، لیکن اگر خود اپنے خلاف عقل کو استعمال کرنا ہو تو وہ ایسا بن جائے گا، جیسے کہ اس کے پاس عقل ہی نہیں، جو کسی بات کو سمجھے، اور کسی معاملہ کی گہرائی تک اتر سکے۔
10 اگست 1985
آدمی دوسروں کے بیٹے کے بارے میں حسد کے ذہن سے سوچتاہے، اور خود اپنے بیٹے کے بارے میں خیر خواہی کے ذہن سے۔ایک شخص کی زندگی برباد ہوگئی ہو تو دوسروں کے بارے میں وہ چاہتا ہے کہ جس طرح میں برباد ہوا ہوں وہ بھی برباد ہوجائیں۔ مگر خود اپنی اولاد کے بارے میں اس کا ذہن اس کے برعکس ہوتا ہے۔ اپنی اولاد کے بارے میں وہ سوچتا ہے — اگر چہ میری زندگی برباد ہوگئی مگر میری اولاد کی زندگی برباد نہ ہونے پائے ۔
12 اگست 1985
بے آمیز حق اس دنیا میں سب سے زیادہ اجنبی چیز ہے۔ ہر دوسری چیز کے گرد انسانوں کی بھیڑ جمع ہوسکتی ہے۔ مگر بے آمیز حق کے گرد چند انسانوں کو اکھٹا کرنا بھی انتہائی حد تک دشوار ہے۔ پیغمبروں کی تاریخ اس کا زندہ ثبوت ہے۔پیغمبر آخر الزماں کو چھوڑ کر تمام معلوم پیغمبروں کی تاریخ بتاتی ہے کہ ان میں سے ہر ایک کو صرف ایسے ہی کچھ افراد مل سکے جو خونی رشتہ کی بنا پر ان سے نفسیاتی تعلق رکھتے تھے۔ خونی رشتہ سے باہر کوئی شخص انھیں نہیںملا جو حقیقی معنوں میں ان کا ساتھی بن سکے۔
حضرت ابراہیم کا ساتھ دینے والے صرف ان کے بھتیجےحضرت لوط اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل تھے۔ حضرت لوط کا ساتھ آخر وقت میں صرف ان کی بیٹیوں نے دیا۔ حضرت موسی کے سچے ساتھی صرف حضرت ہارون ثابت ہوئے جو ان کے بھائی تھے۔ حضرت مسیح کو ان کی ماں کے سوا کوئی دوسرا نہ مل سکا۔ دوسرے لوگ جو ملے تھے وہ سب آخر وقت میں انھیں چھوڑ کر بھاگ گئے، وغیرہ۔
پیغمبروں کی تاریخ میں اس اعتبار سے صرف پیغمبر آخر الزماں کا استثنا(exception) ہے۔ ان کو غیر رشتہ داروںمیں بھی ایسے ساتھی ملے ،جو واقعی ساتھی تھے۔ جو ساتھ چھوڑنے کے تمام ممکن واقعات پیش آنے کے باوجود آخر وقت تک ان کے ساتھی بنے رہے۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہ براہِ راست خدا کے تصرف کے تحت ہوا۔
ہمارے سیرت نگار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معجزہ بیان کرتے ہیں کہ درخت اور پتھر ان کے ساتھ چلنے لگے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ کا سب سے بڑا معجزہ یہ ہے کہ انسان آپ کے ساتھ چلنے لگے تھے، اور یہ معجزہ براہِ راست خدائی نصرت کے تحت پیش آیا جیسا کہ قرآن میںآیا ہے:وَلَکِنَّ اللَّہَ حَبَّبَ إِلَیْکُمُ الْإِیمَانَ وَزَیَّنَہُ فِی قُلُوبِکُمْ وَکَرَّہَ إِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْیَانَ (49:7)۔ یعنی اورلیکن اللہ نے تم کو ایمان کی محبت دی اور اس کو تمہارے دلوں میں مرغوب بنا دیا، اور کفر اور فسق اور نافرمانی سے تم کو متنفر کردیا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ پیغمبرانہ سچائی ہمیشہ مجرد سچائی ہوتی ہے۔ تاریخ سے کٹ کر اور ماحول سے اٹھ کر ہی آدمی پیغمبرانہ سچائی کو پہچان سکتا ہے، اور بدقسمتی سے ایسے لوگ معلوم انسانی تاریخ کے مطابق شاید پیدا ہی نہیںہوئے۔
13 اگست 1985
حدیث میں بتایا گیا ہے کہ انسان کے جسم کے اندر گوشت کا ایک ٹکڑا ہے۔ اگر وہ درست ہو تو پورا جسم درست رہتا ہے۔ اور اگر اس میں بگاڑ آجائے تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے۔ اور یہ قلب ہے (أَلاَ وَإِنَّ فِی الجَسَدِ مُضْغَةً:إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الجَسَدُ کُلُّہُ، وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الجَسَدُ کُلُّہُ، أَلاَ وَہِیَ القَلْبُ)۔ صحیح البخاری، حدیث نمبر 52۔
ا س حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ زندگی کی اصلاح کا دارومدار ’’قلب ‘‘ کی اصلاح پر ہے۔ یہاںقلب کا لفظ عقل کے معنی میں ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہر قسم کی تبدیلیوں کا رازاندرونی تبدیلی میں ہے، یعنی سوچ و فکر کی تبدیلی، نہ کہ بیرونی تبدیلی۔
اس حدیث کی روشنی میں موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کی تمام بڑی بڑی تحریکیں غیر فطری قرار پاتی ہیں۔ کیوں کہ ان تحریکوں کا نشانہ دوسری دوسری چیزوں کی تبدیلیاں تھی، نہ اندرونی تبدیلی۔ کسی کا نشانہ تبدیلی حکومت تھا، اور کسی کا نشانہ تبدیلی جغرافیہ، کسی کا نشانہ تبدیلی قیادت تھا، اور کسی کا نشانہ تبدیلیٔ قانون۔ موجودہ زمانہ کی وہ تمام ہنگامہ خیز تحریکیں جن پر مسلمان فخر کرتے ہیں، وہ سب اسی قسم کی خارجی تبدیلیوں کا نعرہ لے کر اٹھیں۔ ان میںسے کوئی تحریک ایسی نہیں جو تبدیلیٔ قلب (یا تبدیلیٔ انسان) کے منصوبہ کے تحت اٹھائی گئی ہو۔
خارجی تبدیلی کو نشانہ بنا کر جو انقلاب لایا جائے اس کا انجام ہمیشہ صرف ایک ہوتاہے— ایک برائی کو ہٹا کر دوسری شدید تر برائی لے آنا۔ کسی شخص نے نہایت صحیح کہا ہے:
A revolution is a successful effort to replace a bad government with a worse one.
انقلاب اس بات کی ایک کامیاب کوشش ہے کہ ایک بری حکومت سے چھٹکارا پاکر اس سے زیادہ بری حکومت قائم کی جائے۔
14 اگست 1985
شاہ ولی اللہ اور ان کے پیروؤں نے کہا کہ سکھ اور مرہٹہ سے اسلام کو خطرہ ہے۔ سکھ اور مرہٹہ راستہ سے ہٹا دئے گئے۔ مگر اسلام بدستور خطرہ میں باقی رہا۔شاہ عبد العزیزاور ان کے پیروؤں نے کہا کہ انگریز سے اسلام کو خطرہ ہے۔ انگریز کا اقتدار ختم ہوگیا مگر اسلام کا جو مسئلہ تھا وہ حل نہ ہوا۔
محمد علی جناح اور دوسرے مسلم لیڈروں نے کہا کہ ہندو فرقہ سے اسلام کوخطرہ ہے۔ ہندو سے کٹ کر مسلمانوں کی علیحدہ ریاست قائم ہوگئی۔ مگر اس کے باوجود اسلام مسائل سے گھرا رہا۔
مولانا ابو الاعلیٰ مودودی اور ان کے ہم خیال لوگوں نے کہا کہ ایوب اور بھٹو سے اسلام کو خطرہ ہے۔ ایوب اور بھٹو کا اقتدار ختم ہوگیا مگر اسلام کا خطرہ ختم نہیں ہوا۔ مولانا علی میاں اوران کے ماننے والوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کےشاہ بانو کیس کے فیصلہ سے اسلام کو خطرہ ہے۔ پارلیمنٹ نے مسلمانوں کو سپریم کورٹ کے فیصلہ سے آزاد کردیا۔ مگر اسلام بدستور خطرہ میں گھرا رہا۔
یہ مسلمانان ہند کی تقریباً چار سو سال کی تاریخ کا خلاصہ ہے۔ ہر وہ طاقت جس کو مسلمانوں نے اسلام کا دشمن قرار دیا وہ راستے سے ہٹائی جاتی رہی۔ مگر اسلام اور مسلمان بدستور خطرات میں گھرے رہے۔ ہندستان میں بھی، پاکستان میں بھی اور بنگلہ دیش میں بھی۔ یہ طویل تجربہ یہ بتانے کے لیے کافی تھا کہ مسلم قائدین کی نشان دہی غلط تھی۔ مگر مسلمانوں کی بے شعوری کا یہ حال ہے کہ ہر اگلا قائد پچھلے قائدین کا صرف مقلد بنا ہوا ہے۔ ماضی کی نادانیوں نے مسلمانوں کو کوئی سبق نہیں دیا۔
15 اگست 1985
کہاجاتا ہے کہ خلیفہ ہارون رشید نے ایک بار امام شافعی سے پوچھا —خدا کی کتاب کے بارے میں آپ کا علم کیا ہے (ما علمک بکتاب اللہ)۔امام شافعی نے جواب دیا کہ علوم قرآن کی بہت سی قسمیں ہیں۔ آپ کی مراد کس علم سے ہے۔ کیا امثال و اخبار سے، محکمات سے، متشابہات سے، تقدیم و تاخیر سے، ناسخ ومنسوخ سے، باعتبار مکان مکی و مدنی سے یا باعتبار زمان لیلی و نہاری (رات یا دن) سے، صیفی وشتائی (گرمی یا سردی )سے، باعتبار قیام اور سفر و حضر سے، اس کے اعراب اور حروف و الفاظ سے۔ اس طرح امام شافعی نے قرآن کے 73 علوم گنا دیے۔
ہارون رشید نے یہ سن کر کہا کہ آپ نے قرآن کے بہت کافی علوم کو جمع کرلیا ہے (لقد أوعیت من القرآن علماً عظیماً)۔ مرآة الجنان وعبرة الیقظان للیافعی، جلد2، صفحہ17
بظاہر یہ بڑے کمال کی بات معلوم ہوتی ہے۔ لیکن جب اس اعتبار سے دیکھا جائے کہ صحابہ کرام قرآن کے ان ’’73 علوم“ سے واقف نہ تھے تو یہ مہارت اسلام کے بجائے محض ایک فن نظر آنے لگتی ہے۔ کیوں کہ اسلام اگر ان علوم کا نام ہوتا تو صحابہ کرام ضروران علوم کے ماہر ہوتے۔
16 اگست 1985
امریکن رائٹر رالف والڈو ایمرسن(Ralph Waldo Emerson, 1803-1882) نے لکھا ہے کہ تم ایک اچھا چوہے دان بناؤ اور دنیا خود ہی چل کر تمھارے دروازے پر آجائے گی:
Build a better mousetrap and the world would beat a path to your door.
لوگوں کے نزدیک سب سے زیادہ اہم چیز معیار (quality) ہے۔ ہر آدمی یہ چاہتا ہے کہ جو چیز وہ بازار سے خریدے وہ اعلیٰ معیار کی ہو۔ استعمال کے وقت ہر اعتبار سے وہ بہترین ثابت ہو۔
لوگوں کا یہ مزاج ہی کسی آدمی کے لیے موجودہ دنیا میں ترقی کا سب سے بڑا زینہ ہے۔ جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کو دنیا میں عزت اور ترقی کا مقام حاصل ہو اس کو صرف ایک کام کرنا چاہیے۔ وہ جو کام بھی کرے اعلیٰ معیار پر کرے اس کے بعد دنیا خود اسے اس کا مطلوبہ مقام دینے پر مجبور ہوجائے گی۔
دہلی میںاس اصول کی ایک زندہ مثال خلیق احمد ٹونکی (پیدائش 1932) ہیں۔ انھوںنے کتابت کے کام میںایک طویل عمر صرف کردی۔ یہاں تک کہ وہ دہلی کے سب سے اچھے کاتب بن گئے۔ اب یہ حال ہے کہ انھیں کام تلاش کرنے کی ضرورت نہیں۔ دوسرے کاتبوں کے مقابلہ میں وہ چوگنا اجرت لیتے ہیں۔ اس کے باوجود یہ حال ہے کہ ان کے یہاں کام کرانے والوںکی بھیڑ لگی رہتی ہے۔ انھیں کام کی تلاش میں کہیں جانا نہیں پڑتا۔ کام خود ان کو تلاش کرکے ان کے گھر پہنچ جاتا ہے۔
میں نے اپنے تجربہ میںیہ پایا ہے کہ خلیق ٹونکی صاحب انتہائی معیار پسند آدمی ہیں۔ وہ جو بھی لکھتے ہیں اس کو آخری حد تک بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ خواہ کوئی بڑا کام ہو یا چھوٹا کام۔ کم پیسہ والا ہو یا زیادہ پیسے والا۔ اپنے اس ذوق کی وجہ سے ماضی میں انھوں نے بہت نقصان اٹھایا ہے مگر انھیں نقصانات کی وجہ سے انھیں یہ موقع ملا کہ وہ ہندستان کے نمبر ایک کاتب بن گئے۔
17 اگست 1985
کتابیں دو قسم کی ہوتی ہیں۔ ایک وہ جو فخر کی نفسیات کو تسکین دیں۔ دوسری وہ جو نصیحت کے جذبات کو ابھاریں۔ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں نے بے شمار کتابیں لکھی اور چھاپی ہیں۔ مگر یہ کتابیں زیادہ تر پہلے خانہ میں جاتی ہیں۔ وہ کسی نہ کسی اعتبار سے مسلمانوں کے فخر کے جذبات کو تسکین دیتی ہیں۔ ان سے یہ فائدہ حاصل نہیں ہوتا کہ آدمی کے اندر نصیحت کی فکر ابھرے، اس کے دل میں خوداحتسابی کا جذبہ بیدار ہو۔
موجودہ زمانہ میں لکھی جانے والی کتابوں کوجب ایک مسلمان پڑھتا ہے تو کوئی کتاب اس کے ذہن میں سیاسی قصیدہ بن جاتی ہے اور کوئی کتاب فضائلی قصیدہ۔ اس قسم کی باتیں آدمی کے اندر پر فخر اہتزاز تو ضرور پیدا کرتی ہیں اور بعض اوقات ان کے زیر اثر وہ بعض ظاہری عمل بھی کرنے لگتا ہے مگر اس کی کوئی گہری بنیاد نہیںہوتی۔ ایسے قصائد اس کے دل کو نہیں تڑپاتے، وہ اس کے طرز فکر کو نہیں بدلتے، وہ اس کی زندگی میںانقلاب پیدا نہیں کرتے۔
19 اگست 1985
کچھ عباسی خلفا، معتزلی متکلمین کے اثر سے، قرآن کو مخلوق کہتے تھے۔ چنانچہ جولوگ قرآن کو غیرمخلوق کہتے ان کو انھوں نے سخت سزائیں دیں۔ مثلا ًامام احمد بن حنبل (164-241ھ) وغیرہ۔
اس فتنہ کو ختم کرنے میںجن اسباب کا دخل ہے، ان میں بعض لطائف بھی شمار کیے جاسکتے ہیں۔ یہ فتنہ خلیفہ واثق کے زمانہ میں ختم ہوا۔ کہاجاتا ہے کہ خلیفہ واثق عباسی کے زمانہ میں ایک ظریف شخص تھا۔ وہ دربار میں لوگوں کو ہنسایا کرتا تھا۔ ایک روز مذکورہ ظریف دربار میں آیا اور سلام کے بعد سنجیدگی کے ساتھ کہا — اے امیر المومنین، قرآن کی موت پر اللہ آپ کو بڑا اجر دے ( یا أمیر المؤمنین، أعظم اللہ أجرک فی القرآن)۔
خلیفہ نے حیران ہو کر کہا کہ تمھارا برا ہو، قرآن پر بھی کہیں موت آتی ہے (ویلک،القرآن یموت)۔ ظریف نے دوبارہ سادگی کے ساتھ جواب دیا کہ اے امیر المؤمنین ہر مخلوق مرے گی ( یا أمیر المؤمنین، کل مخلوق یموت)۔
اس کے بعد ظریف نے مزید کہا کہ مجھے بڑی فکر اس بات کی ہے کہ قرآن کی موت پر مسلمانوں کی تراویح کا کیا ہوگا۔ خلیفہ واثق اس کو سن کر بے اختیار ہنس پڑا۔ اس نے کہا کہ ٹھہر، خدا تجھے ہلاک کرے ( قاتلک اللہ، أمسک) الطبقات السنیة فی تراجم الحنفیة،صفحہ 90۔
تا ہم یہ لطیفہ خلیفہ واثق پر بہت اثر انداز ہوا۔ وہ سابق خلفا کی طرح اس معاملہ میں زیادہ شدید نہ تھا۔ اب اس کا باقی ماندہ جوش بھی ختم ہوگیا اور خلیفہ کے ٹھنڈا پڑنے سے سارے ملک میں یہ مسئلہ ختم ہوگیا۔ کبھی ایک لطیفہ سے وہ کام ہوجاتا ہے، جو دلائل سے نہ ہوسکا تھا۔
20 اگست 1985
دنیا میں جو چیز سب سے زیادہ ہے، وہ ہے دوسرے کے خلاف سوچنا، اور دنیا میں جو چیز سب سے کم ہے، وہ ہے اپنے خلاف سوچنا۔ دوسرے کے خلاف رائے زنی کرنے کے لیے ہر آدمی ذہانت کی چوٹی پر نظر آتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کے پاس الفاظ کا اتنا بڑا بھنڈار ہے جو کبھی ختم نہ ہو۔
مگر جب معاملہ اپنے خلاف سوچنے کا ہو تو وہی آدمی ایسا بن جاتاہے جیسے کہ اس کے اندر کسی بات کو سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں۔ جوبات اپنے خلاف ہو، جس میں خود اپنی شخصیت زد میں آرہی ہو، اس کو خواہ کتنا ہی طاقت ور دلائل کے ساتھ پیش کیا جائے آدمی اس کو سمجھ نہیں پاتا، اور نہ اس کو ماننے کے لیے تیار ہوتاہے۔
21 اگست1985
چند آدمیوں سے اس موضوع پر گفتگو ہورہی تھی کہ دین کی حقیقت کیا ہے۔ میںنے کہا کہ دین کی اصل حقیقت اپنے آپ کو خدا کے آگے سرنڈر کرنا ہے۔ یہی دین کا اول بھی ہے اور یہی دین کا آخر بھی۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک ایسی مخلوق کی حیثیت سے پیدا کیا ہے جس کا سب سے زیادہ طاقت ور جذبہ انا (ego) کا جذبہ ہے۔ انسان کی انا اپنی نوعیت کے اعتبار سے خدائی انا کی ہم سطح ہے۔ مگر دوسرا پہلو یہ ہے کہ انسان کو کسی بھی قسم کا کوئی اختیار حاصل نہیں۔ انسان، بلا تشبیہہ، ایک خدا ہے۔ مگر وہ ایک ایسا خدا ہے، جو ذاتی اختیار سے مکمل طورپر محروم ہو۔ اس کے تمام اختیارات خدا کی طرف سے عطیہ ہیں۔
یہی وہ مقام ہے جہاں آدمی کا امتحان ہو رہا ہے۔ گویا کہ مجازی خدا کو حقیقی خدا کا اعتراف کرنا ہے۔ یہ بلا شبہ مشکل ترین کام ہے مگر اسی مشکل ترین کام میںانسان کی نجات کا راز چھپا ہوا ہے۔ موجودہ دنیا میں خدا خود سامنے نہیں آتا۔ اس لیے مذکورہ اعتراف براہِ راست خدا کے سامنے نہیں ہوتا، یہ اعتراف عملاً ایک انسان کے سامنے ہوتا ہے۔ جب بھی کوئی انسان دلیلِ حق کے ساتھ کھڑا ہو تو انسان (یا اس دلیل حق) کی حیثیت مخاطبین کے لیے خدا کے نمائندہ کی حیثیت ہوجاتی ہے۔ اس وقت جو شخص جھک گیا، وہ خدا کے سامنے جھکا۔ اس وقت جو شخص نہیں جھکا، اس نے خدا کے سامنے جھکنے سے انکار کیا۔
22 اگست 1985
عربی کا ایک مقولہ ہے:إِذَا تَکَلَّمْتُ بِالکَلِمَةِ مَلَکَتْنِی وإذَا لَمْ أتَکَلَّمُ بِہَا مَلَکْتُہَا (الدر الفرید وبیت القصید للمستعصمی،جلد 6، صفحہ 65)۔ یعنی جب میںنےایک بات کہہ دی تو وہ میرے اوپر اختیار حاصل کرلیتی ہے اور اگر میں بات نہ کہوں تو میں اس کے اوپراختیار رکھتا ہوں۔
شیخ سعدی نے یہی بات کسی قدر مختلف انداز میں اس طرح کہی ہے:
تامرد سخن نہ گفتہ باشد ،عیب و ہنرش نہفتہ باشد
آدمی جب تک بات نہ کہے تو اس کا عیب و ہنر چھپا رہتا ہے
اسی بات کو انگریزی میں کسی نے اس طرح کہا ہےکہ ہم اپنے نہ کہے ہوئے الفاظ کے آقا ہیں، اور ہم ان الفاظ کے غلام ہیں جو ہم اپنی زبان سے کہہ دیں:
We are masters of our unsaid words. And slaves to those we let slip out.
مختلف زبانوں میں اس طرح کے مشابہ اقوال اس بات کا ایک مظاہرہ ہیں کہ تمام انسان حقیقۃً ایک ڈھنگ پر سوچتے ہیں۔ تمام حقیقتیں آفاقی حقیقتیں ہیں۔ فطرت کی سطح پر سب کا انداز فکر ایک ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ کوئی شخص اس کو ایک زبان میں بیان کرتا ہے اور کوئی شخص دوسری زبان میں۔
23 اگست 1985
حضرت عمر بن عبدالعزیز کی ایک دعا عربی ماہ نامہ العربی میں پڑھی۔ وہ دعا یہ ہے:اللَّہُمَّ إِنِّی أَطَعْتُکَ فِی أَحَبِّ الأَشْیَاءِ إِلَیْکَ، وَہُوَ التَّوْحِیدُ، وَلَمْ أَعْصِکَ فِی أَبْغَضِ الأَشْیَاءِ إِلَیْکَ وَہُوَ الْکُفْرُ، فَاغْفِرْ لِی مَا بَیْنَہُمَا(الأخبار الموفقیات للزبیر بن بکار، صفحہ 198)۔ یعنی خدایا، میںنے تیری سب سے زیادہ محبوب چیز میں تیری اطاعت کی ہے، اور وہ توحید ہے۔ اور تیری سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز میں تیری نافرمانی نہیں کی اور وہ کفر ہے۔ پس ان دونوں کے درمیان جو کچھ ہے اس میں تومجھ کو بخش دے۔
24 اگست 1985
’’اقبال کی نظری و عملی شعریت“ ایک مختصر کتاب ہے جس کے مصنف پروفیسر مسعود حسین خاں (پیدائش 1919) ہیں۔ انھوںنے یہ کتاب سری نگر (کشمیر) میں اپنے قیام کے دوران مرتب کی ہے، اور مکتبہ جامعہ نئی دہلی نے اس کو شائع کیا ہے۔کتاب کے آغاز میں ایک دیباچہ ’’حرفے چند“ کے عنوان سے ہے۔ اس میں پروفیسر موصوف لکھتے ہیں:
’’ڈل جھیل کے کنارے نسیم باغ کے چناروں کے سایہ تلے مجھے خدا نہیں تو کم از کم اقبال کو بے نقاب دیکھنے کا موقع ملا‘‘۔
یہ بات جو ایک ادیب نے بے تکلف لکھ دی، یہی ہمارے علما تک کا حال ہے۔ قدرت کی نشانیاں چاروں طرف پھیلی ہوئی ہیں، جو اس لیے ہیں تاکہ ان کو دیکھ کر خدا کے بندے خدا کو پائیں۔ مگر نشانیوں کے ہجوم میں بھی کسی کو خدا دکھائی نہیں دیتا۔ البتہ ’’اقبال“ کو ہر شخص دیکھ لیتا ہے۔ خدا کی ذات کسی کو نظر نہیں آتی۔ مگر انسانی شخصیتیں لوگوں کو خوب نظر آتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ آج ہر مجلس اور ہر اجتماع میں انسانی شخصیتوں کے چرچے ہیں۔ مگر اُس مجلس اور اس اجتماع سے خدا کی زمین خالی ہے، جہاں واقعی معنوں میں خدا کی یاد کی جائے۔ جہاں لوگ اسی طرح خدا کے کمالات سے سرشار ہو کر خداکا تذکرہ کریں، جس طرح وہ انسانوں کے کمالات سے سرشار ہو کر ان کا تذکرہ کرتے ہیں۔
26 اگست 1985
بہت سے لوگوں سے میں نے پوچھاکہ آپ کی زندگی کی خاص دریافت کیا ہے۔ یہ سوال میںنے زیادہ تر ان لوگوں سے پوچھے جو صاحب علم تھے اور جنھوں نے زندگی کا لمبا تجربہ اٹھایا تھا۔مگر عجیب بات ہے کہ اکثر لوگوں نے میرے سوال کا جواب اس انداز میں دیا جیسے کہ ان کی کوئی دریافت ہی نہ ہو، جیسے کہ انھوں نے اپنی زندگی میں کوئی نئی چیز پائی ہی نہ ہو۔
اس کا سبب کیا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بیشتر لوگ روایتی طریقے میں جیتے ہیں۔ جو کچھ دوسرے لوگ کررہے ہیں، وہی وہ بھی کرنے لگتے ہیں، اور اگر کوئی شخص دوسرے کے مقابلہ میں اپنا راستہ بدلتا ہے تو محض ظاہری اور جزئی معنوں میں۔ ایسی حالت میں لوگوں کو کوئی نئی دریافت کیوں کر ہوسکتی ہے۔
27 اگست 1985
اسلامی اصطلاح میں ہجرت کی دوقسمیں ہیں۔ ایک، داخلی ہجرت (الہجرۃ الداخلیۃ) دوسری، خارجی ہجرت (الہجرۃ الخارجیۃ)۔ داخلی ہجرت بڑی ہجرت (الہجرۃ الکبریٰ) ہے، اور خا رجی ہجرت چھوٹی ہجرت (الہجرۃ الصغریٰ) ہے۔
داخلی ہجرت کو مختلف احادیثِ رسول سے سمجھا جاسکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: المُہَاجِرُ مَنْ ہَجَرَ مَا نَہَى اللَّہُ عَنْہُ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 6484)۔ یعنی مہاجر وہ ہے، جو اس کو چھوڑ دے جس سے خدا نے منع کیا ہے۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ آپ سے ایک بار پوچھا گیا : أَیُّ الْہِجْرَةِ أَفْضَلُ؟ قَالَ:أَنْ تَہْجُرَ مَا کَرِہَ رَبُّکَ عَزَّ وَجَلَّ. (مسند احمد، حدیث نمبر 19435)۔ یعنی سب سے افضل ہجرت کون سی ہے؟ آپ نے جواب دیا: یہ کہ تم اس چیز کو چھوڑ دو جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے۔
یہی معاملہ جہاد کا بھی ہے۔داخلی ہجرت اور داخلی جہاد کو ایک حدیثِ رسول میںان الفاظ بیان کیا گیا ہے:وَالْمُہَاجِرُ مَنْ ہَجَرَ الْخَطَایَا وَالذَّنُوبَ، وَالْمُجَاہِدُ مَنْ جَاہَدَ نَفْسَہُ فِی طَاعَةِ اللَّہِ(مسند احمد، حدیث نمبر 23967)۔ یعنی مہاجر وہ ہےجو غلطیوں اور گناہوںکو ترک کردے، اور مجاہد وہ ہے جو اللہ کی فرماں برداری میں اپنے نفس سے لڑے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مختلف مواقع پر داخلی جہاد کی ترغیب دیتے رہتے تھے۔ ان میں سےبعض روایات درج ذیل ہیں:
المُجَاہِدُ مَنْ جَاہَدَ نَفْسَہُ (جامع الترمذی، حدیث نمبر1621)۔ یعنی مجاہد وہ ہے، جو اپنے نفس سے جہاد کرے۔
الْمُجَاہِدُ مَنْ جَاہَدَ نَفْسَہُ لِلَّہِ (مسند احمد، حدیث نمبر 23951)۔ یعنی مجاہد وہ ہے، جو اللہ کے لیے اپنے نفس سے جہاد کرے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ تبوک سے واپس آئے۔ یہ ایک مہم تھی جس میں کوئی جنگ پیش نہیں آئی۔ واپسی کے بعد آپ نے فرمایا کہ ہم چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف واپس آئے ہیں۔ روایت کے الفاظ یہ ہیں:قَدِمْتُمْ مِنَ الْجِہَادِ الأَصْغَرِ إِلَى الْجِہَادِ الأَکْبَرِ . قَالُوا:وَمَا الْجِہَادُ الأَکْبَرُ یَا رَسُولَ اللَّہِ؟ قَالَ:مُجَاہَدَةُ الْعَبْدِ ہَوَاہُ (تاریخ بغداد ، خطیب بغدادی، جلد 13، صفحہ 498۔ البیہقی، الزہد الکبیر، حدیث نمبر 373)۔ تم لوگ چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف واپس آئے ہو۔لوگوں نے کہا: جہاد اکبر کیا ہے، اے خدا کے رسول، آپ نے کہا: بندے کا اپنے نفس سے جہاد کرنا— موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کو دیکھیے تو معلوم ہوگا کہ ہر آدمی ’’چھوٹی ہجرت“ اور ’’چھوٹے جہاد“ کو جاننے کاماہر بنا ہوا ہے۔ مگر بڑی ہجرت اور بڑے جہاد کی کسی کو خبر نہیں۔
28 اگست 1985
سائنس کی تاریخ میں اکثر بڑی دریافتیں اتفاق (chance) کے ذریعہ پیش آئی ہیں۔ چنانچہ سائنس دانوں نے اس کے لیے ایک خاص لفظ وضع کیا ہے، جس کو سرینڈیپٹی (serendipity) کہا جاتا ہے۔ یہ لفظ سرندیپ کی ایک کہانی سے لیاگیا ہے۔ بہت سے لوگ سائنسی دریافتوں کو خوش گوار واقعات (happy accidents) کہتے ہیں۔ مثال کے طور پر اکسرے (X-rays) کی دریافت اتفاقی طورپر ہوئی۔
تاہم یہ کہنا صحیح نہ ہوگا کہ اتفاق بذات خود دریافت تک پہنچاتا ہے۔ ہندستانی سائنس داں سی وی رمن (Chandrasekhara Venkata Raman, 1888-1970)نے صحیح کہا — ایسا اتفاق صرف سائنس داں کو پیش آتا ہے۔ یعنی ایک شخص جو باتوں کو جانتا ہو اور وہ تحقیق میں لگا ہوا ہو، وہی بوقت اتفاق کسی بات کو پکڑ سکتا ہے۔ اسی بات کو پاسچر (Louis Pasteur, 1822-1895) نے ان الفاظ میں کہا تھا—مشاہدات کے میدان میں اتفاق صرف تیار ذہن کے لیے کار آمد ہوتا ہے:
In the field of observation, chance favours only the prepared mind.
اکسرے کا موجد رانٹجن (Wilhelm Conrad Röntgen, 1845-1923) قرار پایا۔ حالاں کہ اس سے پہلے یہ کروکس (William Crookes, 1823-1919) کے مشاہدہ میں آئی تھی۔ مگر اس نے اس کو بے معنی (nonsense) قرار دے کر نظر انداز کردیا، وغیرہ۔
نئی چیز دریافت کرنے کے لیے سب سے اہم چیزیں دو ہیں۔ ایک، تجسس (curiosity)، دوسرے یہ کہ آدمی وہ ضروری معلومات رکھتا ہو جس کے بعد وہ ایک چیز کو دوسری چیز سے وابستہ (link) کرسکے۔
29 اگست1985
انگریزشاعر اور ڈراما نگار ٹامس شیڈول (Thomas Shadwell, 1642-1692)کا قول ہے کہ بے وقوف کی جلد بازی دنیا میں سب سے زیادہ سست رفتار چیز ہے:
The haste of a fool is the slowest thing in the world.
31 اگست 1985
آج کل کے لوگوں کے حالات کو دیکھیے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی نہیں جو یہ سوچ کر لکھے یا بولے کہ رضائے خداوندی کیا ہے۔ ہر ایک بس یہ سوچ کر لکھتاہے اور بولتا ہے کہ رضائے قوم کیا ہے، رضائے مفاد کیا ہے، رضائے مصلحت کیا ہے، وغیرہ۔
31 اگست 1985
ایک مفکر کا قول نظر سے گزرا کہ ’’جہاں تلوار چلتی ہے وہاں سے ہل غائب ہوجاتے ہیں‘‘۔ یہ نہایت درست بات ہے۔ اور پوری تاریخ اس حقیقت کی تصدیق کرتی ہے۔ جنگ اور تعمیر دونوں کام ساتھ ساتھ نہیں ہوسکتا۔ سچے قائد کی پہچان یہ ہے کہ وہ جنگ اور ٹکراؤ سے آخری حد تک اعراض کرے۔ تاکہ اس کا ’’لوہا“ تلوار بننے میں ضائع نہ ہو، بلکہ وہ ہل بنانے کے کام میںآ سکے۔
2 ستمبر 1985
ایک صاحب ایک مسلم قائد کی عظمت کے بہت زیادہ قائل تھے۔ انھوں نے قائد موصوف کے بارے میں تقریر کرتے ہوئے پر جوش طور پر کہا: وہ سوبار غلطی کرسکتے تھے مگر وہ ایک بار بھی کسی کے ہاتھ بک نہیں سکتے تھے‘‘۔میں نے کہا کہ ’’سو بار“ غلطی کرنا خود بھی بکنے ہی کی ایک صورت ہے۔ یہ خود اپنے ہاتھ بکنا ہے، یہ اپنے نفس کے ہاتھ فروخت ہونا ہے۔
جب بھی آدمی کوئی غلط بات کہتا ہے یا کوئی غلط اقدام کرتا ہے تو بہت جلد مختلف طریقوں سے اس کی غلطی اس پر واضح ہوجاتی ہے۔ اگر آدمی اپنے نفس کے ہاتھ بکا ہوا نہ ہو تو وہ اپنی غلطی کا علی الاعلان اعتراف کرے گا۔ حتی کہ اگروہ قائد ہوتے ہوئے بار بار غلطی کیے چلا جارہا ہے تو وہ اعلان کردے گا کہ میں قیادت کرنے کے قابل نہیںہوں۔ میری فہم وبصیرت اس سے کم ہے کہ میں قوم کی قیادت کرسکوں۔ اس لیے میں قیادت کے کام سے مستعفی ہو رہا ہوں۔
کوئی شخص غلطی پر غلطی کرے اور پھر بھی قیادت کے میدان سے واپس نہ ہو تو یہ واضح طورپر اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کے اوپر اس کا نفس چھایا ہوا ہے۔ ساکھ اور عزت نفس کا سوال اس کو علی الاعلان اپنی قیادتی نا اہلی کا اعتراف کرنے سے روکے ہوئے ہے— اس سے زیادہ بکا ہوا انسان اور کون ہوسکتا ہے، جو پر جوش الفاظ اور حقیقتِ واقعہ میں فرق نہ کرسکے۔
3 ستمبر 1985
غزوۂ طائف (8ھ ) کی روایات میں سے ایک روایت ان الفاظ میں آئی ہے: ثُمَّ سَلَکَ فِی طَرِیقٍ یُقَالُ لَہَا الضَّیْقَةُ، فَلَمَّا تَوَجَّہَ فِیہَا رَسُولُ اللَّہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَأَلَ عَنْ اسْمِہَا، فَقَالَ:مَا اسْمُ ہَذِہِ الطَّرِیقِ؟ فَقِیلَ لَہُ الضَّیْقَةُ، فَقَالَ:بَلْ ہِیَ الْیُسْرَى (سیرت ابن ہشام، جلد2، صفحہ482)۔یعنی پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک راستے پر چلے جس کو ’’تنگ“ کہاجاتا تھا۔ جب آپ اس راستہ پر آئے تو آپ نے اس کے نام کے بارے میں پوچھا۔ آپ نے کہا کہ اس راستہ کا نام کیا ہے۔ کہاگیا کہ ’’تنگ“ آپ نے فرمایا نہیں، بلکہ یہ ’’آسان“ ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ مومن کا مزاج مثبت مزاج ہونا چاہیے۔ مومن تاریکی میں روشنی کو دیکھتا ہے، وہ ڈس ایڈوانٹج میںایڈوانٹج کو دریافت کرتا ہے۔ وہ مشکل کو آسانی کے روپ میں ڈھال دیتا ہے۔ جس چیز کو عام لوگ الضَّیْقَةُ کہتے ہیں وہ مومن کے ذہن میں آکر الْیُسْرَىبن جاتی ہے۔ غالباً یہی وہ چیز ہے، جس کو ٹائن بی نے برتر حل (superior solution)کے لفظ سے تعبیر کیا ہے۔
4 ستمبر 1985
ابو سعید خدری ؓ نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: مَنْ لَمْ یَشْکُرِ النَّاسَ لَمْ یَشْکُرِ اللَّہ (جامع الترمذی، حدیث نمبر 1955)۔ یعنی جو شخص انسانوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ خدا کا شکر بھی ادا نہیں کرسکتا۔
احسان کیے جانے پر احسان مند ہونا اور محسن کا شکر ادا کرنا ایک مزاج اور قلبی کیفیت کی بات ہے۔ ایک شخص کے اندر یہ مزاج حقیقی معنوں میںپیدا ہوجائے تو وہ دونوں معاملات میں شکر ادا کرنے لگے گا۔ جو شخص بندوں کے سلوک پر ان کا شکر گزار ہو وہ خدا کی نعمتوں پر بھی ضرور اس کا شکر گزار ہوگا۔ اسی طرح جب ایک شخص خدا کی نعمتوں کا حقیقی معنوں میں شکر گزار ہوجائے تو بندوں کے سلوک پر بھی وہ ان کا شکر ادا کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔
5 ستمبر 1985
ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےکہا: مَنْ صَنَعَ إِلَیْکُمْ مَعْرُوفًا فَکَافِئُوہُ، فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا مَا تُکَافِئُونَہُ، فَادْعُوا لَہُ حَتَّى تَرَوْا أَنَّکُمْ قَدْ کَافَأْتُمُوہُ(سنن ابو اداؤد، حدیث نمبر 1672)۔ یعنی کوئی شخص تمہارے اوپر احسان کرے تو اس کا بدلہ دو۔ اور اگر تمھارے پاس بدلہ پورا کرنے والی کوئی چیز نہ ہو تو محسن کے لیے دعا کرو۔ اور اس وقت تک دعا کرتے رہو جب تک تم کو خیال ہو کہ تم نے بدلہ پورا کردیا ۔
بہترین انسان وہ ہے جو دوسروں کو دے۔ اگر اس کے پاس کوئی مادی چیز دینے کے لیے نہیں ہے تو وہ اس کے حق میں دعائے خیر کا ہدیہ پیش کرے۔ اسلام یہ چاہتا ہے کہ سماج میں لوگ ایک دوسرے کے خیرخواہ ہوں۔ اور اگر لوگوں کے اندر ایک دوسرے کے لیے دعا کرنے کا مزاج پیدا ہوجائے تو ایسے سماج میں یقیناً خیر خواہی کا جذبہ پرورش پائے گا۔ کیوںکہ کسی کے حق میں سچی دعا اس کے بغیر نہیں نکل سکتی کہ اس کے لیے دعا گو کے دل میں سچی خیر خواہی کی کیفیت موجود ہو۔
6 ستمبر 1985
ڈان پیاٹ(Donn Piatt, 1819-1891) کا قول ہے کہ بڑا آدمی وہ ہے جو اپنے کام کی انجام دہی کے لیے دوسروں کا دماغ استعمال کرسکے:
That man is great who can use the brain of others to carry out his work.
خود کرناآسانی ہے مگر دوسروں سے کروانابہت مشکل ہے۔ مگر صرف اپنے بل پر آدمی کوئی بڑا کام نہیں کرسکتا۔ بڑا کام کرنے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ بہت سے دماغوں کو اس میں مصروف کیا جائے۔ مگر بہت سے دماغوں کو کسی ایک کام میں مصروف کرنے کے لیے زبردست حکمت اور ذہانت درکار ہے۔ جو آدمی اس حکمت اور ذہانت کا ثبوت دے سکے یقینا وہ اس قابل ہے کہ اس کو بڑا آدمی کہا جائے۔
7 ستمبر 1985
مینڈک اگر ہاتھی کو نگلنا چاہے تو ہاتھی کا کچھ نہیں بگڑے گا، البتہ مینڈک کا پیٹ پھٹ جائے گا۔
9 ستمبر 1985
رچرڈ کشنگ (Richard James Cushing, 1895-1970) کا قول ہے کہ مذہبی شخصیتوں کے ساتھ جنت میں رہنا بہت عظیم ہے، مگر ان کے ساتھ زمین پر رہنا ایک مصیبت ہے:
It is great to live with saints in heaven, but it is hell to live with them on earth.
یہ در اصل مذہبی شخصیتوں پر طنز ہے۔ مذہبی لوگ وعظ کہتے ہیں کہ ہمارے بتائے ہوئے راستے پر چلو تو تم کو موت کے بعد کی زندگی میں جنت ملے گی۔ مگر خود ان مذہبی شخصیتوں کا کردار اکثر نہایت برا ہوتا ہے۔ گویا کہ دنیا میں ان کے ساتھ رہنا جہنم میں رہناہے۔ جب کہ ان کے قول کے مطابق ان کے طریقے پر چلنا اگلی زندگی میں جنت میں داخل ہونا ہے— مذہبی شخصیتوں کے قول و عمل کا یہ تضاد اکثر مذاہب میں پایا جاتا ہے۔
10 ستمبر 1985
انگریزی رائٹربرنارڈ شا (George Bernard Shaw, 1856-1950) نے کہا کہ ایک بےصلاحیت آدمی کے لیے مشہور ہونے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ وہ شہید ہوجائے:
Martyrdom is the only way in which a man can become famous without ability.
یہ قول، خاص طورپر موجودہ پریس کے دور میں نہایت درست ہے۔ آج کوئی شخص قوم یا مذہب کے نام پر ایک احمقانہ اقدام کرتا ہے۔ اس کے بعد فوراً اس کا نام چھپنا شروع ہوجاتا ہے۔ وہ تیزی سے شہرت حاصل کرلیتا ہے۔ احمقانہ اقدام کرکے شہید ہونا قوم کو تو کچھ نہیں دیتا، البتہ وہ شخص فوراً شہرت کا مقام پالیتا ہے۔
موجودہ زمانہ میں اس قسم کی شہرت حاصل کرنے والوں کی تعداد شاید سب سے زیادہ مسلمانوں میں ہے۔ موجودہ زمانہ میں لاکھوں مسلمان ہیں جنھوں نے قوم یا مذہب کے نام پر شہید ہو کر غیر معمولی شہرت پائی۔ حالاں کہ ان کی شہادت سے نہ مذہب کو کچھ ملا اور نہ قوم کو۔
دانش مند کی شہادت قوم کے لیے ترقی کا زینہ ہے۔ نادان کی شہادت صرف شہید کے لیے ذاتی شہرت کا ذریعہ۔
11 ستمبر 1985
انسان کے لیے سب سے زیادہ اہم چیزدریافت ہے۔ دریافت ہی سے دنیا کی ترقیاں بھی ملتی ہیں اور دریافت ہی سے آخرت کی ترقیاں بھی۔
قرآن کا مطلوب انسان وہ ہے جو غیب پر ایمان لائے ۔ اس سلسلے میں قرآن کے متعلق الفاظ یہ ہیں:الَّذِینَ یُؤْمِنُونَ بِالْغَیْبِ(2:3)۔ یعنی وہ لوگ جو غیب پر ایمان لاتے ہیں۔ غیب پر ایمان لانا کیا ہے۔ یہ دوسرے لفظوں میں نا معلوم کو معلوم بنانا ہے۔ یعنی وہی چیز جس کو موجودہ زمانہ میں دریافت (discovery) کہا جاتا ہے۔
دنیوی ترقی کے رازوں کو خدا نے زمین وآسمان کے اندر چھپا دیا ہے۔ انھیں رازوں کو قوانینِ فطرت (laws of nature) کہا جاتا ہے۔ سائنس میں انھیں رازوں (یا قوانین فطرت) کو دریافت کیا جاتا ہے۔ جوقوم ان رازوں کو دریافت کرے وہ دوسروں سے آگے بڑھ جاتی ہے۔ جب کہ موجودہ زمانہ میں ہم مغربی اقوام کو یا ایشیا میں جاپان کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔ ترقی یافتہ قوموں (developed countries) کو تمام ترقیاں ان کی انھیں دریافتوں کی بنیاد پر حاصل ہوئی ہیں۔
اسی طرح عالم آخرت کو اللہ تعالیٰ نے انسان کی نظروں سے پوشیدہ کردیا ہے۔ اب انسان کو اسے دریافت کرنا ہے۔ جوچیز غیب میں ہے اس کو شہود میں لانا ہے۔ اسی دریافت یا اکتشاف کا نام ایمان ہے۔ جو شخص اس ایمان میں جتنا زیادہ آگے ہوگا وہ آخرت میں اتنا ہی زیادہ ترقی اور کامیابی حاصل کرے گا۔
12 ستمبر 1985
ایک مسنون دعا ان الفاظ میں آئی ہے:مَنْ أَکَلَ طَعَامًا فَقَالَ:الحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی أَطْعَمَنِی ہَذَا وَرَزَقَنِیہِ مِنْ غَیْرِ حَوْلٍ مِنِّی وَلَا قُوَّةٍ، غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ (جامع الترمذی، حدیث نمبر 3458)۔یعنی جوشخص کوئی چیز کھائے اور کہے کہ شکر اور تعریف اس اللہ کے لیے ہے جس نے مجھےیہ کھلایا اور میری کسی کوشش یا طاقت کے بغیر مجھ کو روزی عطا کی تو اس کے تمام پچھلے گناہ معاف کردئے جائیں گے۔
یہ دعا محض کھانے والے کے الفاظ کو نہیں بتاتی بلکہ دراصل اس احساس کو بتاتی ہے جس کے تحت ایک مومن خدا کے رزق کو کھاتا ہے۔ وہ چیز جس کو ’’کھانا“ کہاجاتا ہے وہ ایک عظیم خدائی تخلیق ہے۔ وہ براہِ راست خدا کی قدرت سے وجود میں آتا ہے۔ جو شخص اس حقیقت کو پالے اس کا احساس انھیں الفاظ میں ڈھل جائے گا جومذکورہ حدیث میں بیان ہوتے ہیں۔ اور جس کا احساس ان الفاظ میں ڈھل جائے وہ یقینا اتنا بڑا عمل کرتا ہے کہ عجب نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کے تمام پچھلے گناہوں کو معاف کردے۔
13 ستمبر 1985
میں نے اپنے تجربے میں پایا ہے کہ بیش تر لوگ مایوسی کا شکار رہتے ہیں۔ وہ مایوسی کے احساس میں جیتے ہیں اور مایوسی میں مرجاتے ہیں۔ اِس المیہ کا بنیادی سبب کیا ہے۔ وہ سبب یہی ہے کہ بیش تر لوگ اپنی زندگی کے لیے صحیح نقطۂ آغاز نہیں پاتے، اور جب آپ صحیح نقطۂ آغاز کو نہ پائیں تو آپ کی تمام سرگرمیاں آپ کے مطلوب کے اعتبار سے بے نتیجہ ہو کر رہ جائیں گی۔
اس دنیا میں قانونِ فطرت کے مطابق، کسی انسان کے لیے جو چیز قابلِ عمل ہے، وہ صرف یہ ہے کہ وہ ممکن اور ناممکن کے درمیان فرق کرے، اور پھر اپنا منصوبہ بنائے، یعنی آئڈیل کو چھوڑ کر پریکٹکل وزڈم کو اختیار کرنا۔ آدمی کے لیے یہی درست نقطۂ آغاز ہے۔
14 ستمبر 1985
اپنے بس میں صرف برداشت ہے۔ اس کے سوا جو کچھ ہے صرف دوسروں کے بس میں ہے۔ ایسی حالت میںآدمی کے لیے ایک ہی ممکن طریق کار ہے۔ وہ اپنے بس والے مقام سے آغاز کرے۔ اگر اس نے وہاں سے آغاز کرنا چاہا جو دوسرے کے بس میں ہے تو وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ کیوں کہ اس نے حقیقۃً آغاز ہی نہیں کیا، اور جو شخص آغاز نہ کرے، وہ اختتام کو کس طرح پہنچ سکتا ہے۔
15 ستمبر 1985
نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (15 ستمبر 1985) نے ہندستان کے معاشی اور سیاسی حالات پر ایک مضمون شائع کیا ہے۔ اس کا عنوان ہے:
Ours is a Story of Missed Opportunities
ہماری کہانی کھوئے ہوئے مواقع کی کہانی ہے۔
یہ بات ملک سے زیادہ مسلمانوں پر صادق آتی ہے۔ مسلمانوں نے موجودہ زمانے میں سب سے بڑی نادانی یہ کی ہے کہ انھوںنے مواقع اور امکانات کو نہیں پہچانا۔ وہ انتہائی قیمتی مواقع کو انتہائی بے دردی کے ساتھ ضائع کرتے رہے۔ اس کا نتیجہ ان کی وہ ناکامی ہے جس سے آج وہ دوچار ہیں۔
16 ستمبر 1985
اس دنیا کا قانون یہ ہے کہ یہاں دینے والا پاتا ہے۔ اگر آپ کے پاس دوسروں کو دینے کے لیے کچھ نہ ہو تو آپ بھی دوسروں سے کچھ نہیں پاسکتے۔
دوسروں کے لیے نفع بخش بنئے، اور اگر آپ نفع بخش نہیں بن سکتے تو دوسروں کو اپنے ضرر سے بچائیے۔ دوسروں کو اپنے ضرر سے بچانا بھی انھیں کچھ دینا ہے۔ اگر آپ دوسروں کو نہیں دے سکتے تو دوسروں سے چھیننے کی بھی کوشش نہ کیجیے۔
18 ستمبر 1985
جولائی 1402 ء میں انگورہ (Angora) کے میدان میں دو مسلم بادشاہوں کی لڑائی ہوئی۔ ایک طرف تیموری سلطنت کا بانی سلطان تیمور (1336-1405ء) تھا، دوسری طرف عثمانی سلطان بایزید اول (1360-1403ء)۔ یہ ایک نہایت خوف ناک جنگ تھی۔اس میں تیمور کی فوج کے ایک لاکھ آدمی قتل ہوئے اور بایزید کی فوج کے صرف پچاس ہزار آدمی مارے گئے۔ اس کے باوجود شکست سلطان با یزید کے حصہ میں آ ئی۔
اس کی وجہ کیا تھی۔ اس کی سادہ وجہ یہ تھی کہ سلطان تیمور کی فوج میں پانچ لاکھ سپاہی تھے۔ جب کہ سلطان بایزید کی فوج میں کل ایک لاکھ سپاہی تھے۔ اس طرح سلطان تیمور کی فوج کے ایک لاکھ آدمی قتل ہونے کے بعد بھی اس میں چار لاکھ آدمی باقی تھے، اور سلطان با یزید کی فوج میں کل ایک لاکھ آدمی تھے۔ چنانچہ پچاس ہزار آدمیوں کے قتل ہوجانے کے بعد اس میں صرف پچاس ہزار آدمی باقی رہ گئے۔
سلطان با یزید بے حد بہادر آدمی تھا۔ مگر کیفیت (quality)کی زیادتی کمیت (quantity) کی کمی کو ایک حد تک ہی پورا کرسکتی ہے۔ اگر فریقَین کے درمیان کمیت کے تناسب میں غیر معمولی فرق واقع ہوجائے تو کیفیت کی زیادتی کمیت کی کمی کی تلافی کے لیے کافی نہیں ہوسکتی۔
19 ستمبر 1985
موجودہ زمانے کے ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ انسان کے دماغ (brain) میں جو پارٹیکل ہیں، وہ پوری کائنات کے مجموعی پارٹیکل سے بھی زیادہ ہیں۔ انسانی دماغ کی استعداد بے پناہ ہے، مگر کوئی بڑے سے بڑا انسان بھی اب تک اپنے دماغ کو دس فی صد سے زیادہ ا ستعمال نہ کرسکا۔
حقیقت یہ ہے کہ آدمی ایک امکان ہے۔ مگر موجودہ دنیا اپنی محدودیتوں کے ساتھ اس امکان کے ظہور کے لیے ناکافی ہے۔ انسانی امکان کے ظہور میں آنے کے لیے ایک لامحدود اور وسیع تر دنیا درکار ہے— جنت کی دنیا، ایک اعتبار سے، اسی لیے بنائی گئی ہے کہ وہاں آدمی کے امکانات پوری طرح ظہور میں آسکیں۔
20 ستمبر 1985
اناتول فرانس(Anatole France, 1844-1924) کا قول ہے کہ یہ آدمی کی فطرت ہے کہ وہ دانش مندانہ طورپر سوچتا ہے، مگر بیوقوفی کے ساتھ عمل کرتا ہے:
It is human nature to think wisely and act foolishly.
یہ بات بذاتِ خود صحیح ہے۔ مگر اس کی وجہ انسانی فطرت نہیں، بلکہ انسانی عادت ہے۔ انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ وہ معاملات میں دانش مندانہ طورپر سوچ سکے۔ مگر عمل کرتے وقت وہ بے وقوف بن جاتا ہے۔ کیوں کہ وہ سوچ کے وقت تو غیر جانب دار رہتا ہے۔ مگر عمل کے وقت اپنی غیر جانب داری کو باقی نہیں رکھ پاتا— صحیح عمل اکثر اپنی ذات کی نفی پر ہوتا ہے۔ آدمی اپنی ذات کی نفی پر راضی نہیںہوتا، اس لیے وہ صحیح عمل بھی نہیں کرپاتا۔
21 ستمبر 1985
اجتماعی زندگی میں وہ انسان بہت قیمتی ہوتا ہے جو بلاشرط کسی مشن کا ساتھ دے۔ جو ساتھ دینے کے بعد مسائل کا جنگل نہ کھڑا کرے۔صحابہ کرام نے تاریخ کا سب سے بڑا انقلاب برپا کیا۔ ان کی تحریکی صفات کو اگر ایک لفظ میں بتانا ہو تو کہا جاسکتا ہے — وہ بے مسئلہ لوگ (no-problem person) تھے۔ وہ اختلاف کو بھول کر مشن سے وابستہ رہتے تھے۔ وہ ذاتی شکایت کو نظرانداز کرکے قیادت کے حکم کی پابندی کرتے تھے۔ وہ انفرادی احساسات کو کچل کر اجتماعی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے تیار رہتے تھے۔حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ بے مسئلہ انسان ہوں، وہی دنیا کا مسئلہ حل کرتے ہیں۔ جولوگ خود مسائل میں مبتلا ہوجائیں، وہ صرف دنیا کے مسائل میں اضافہ کرتے ہیں، وہ کسی بھی درجے میں دنیا کے مسائل کو کم نہیں کرتے۔
23 ستمبر 1985
شہر کی تعمیرات اور اس کے تمدنی مظاہر کو دیکھ کر میری زبان سے نکلا:’’انسان کے بغیر یہ تمدن نہیں، اسی طرح خدا کے بغیر یہ کائنات نہیں“ ۔
24 ستمبر 1985
نادر شاہ افشار(1688-1747)ایران کا بادشاہ تھا۔ وہ 1736 سے 1747تک ایران کا بادشاہ رہا ۔ ایک مرتبہ اس کو یہ شبہ ہوا کہ اس کا لڑکا یہ سازش کررہا ہے کہ وہ باپ کو ہٹا کر خود تخت پر بیٹھ جائے۔ نادر شاہ نے اپنےجوان لڑکے کو گرفتار کیا اور اس کی آنکھیں نکال کر اس کو اندھا کردیا۔مگر نادرشاہ کی یہ بے رحمی اس کو اقتدار پر باقی رکھنے میں معاون نہ ہوسکی۔ جلد ہی اس کی فوج میں اس کے مخالفین پیداہوگئے، اور نادر شاہ خوداپنے فوجیوں کے ہاتھوں قتل کردیاگیا۔
اِس طرح کے بے شمار واقعات تاریخ میں موجود ہیں۔ مگر کوئی ان سے سبق نہیں لیتا۔ ہر آدمی اپنے دائرے میں دوبارہ وہی کرتا ہے، جو نادر شاہ نے اپنے دائرے میں کیا تھا۔
25 ستمبر 1985
ایک صاحب نے الرسالہ کے مشن سے پورا اتفاق کیا۔ میں نے کہا کہ جب آپ کو الرسالہ سے اتفاق ہے تو اس کی ایجنسی لے کر اس کو پھیلائیے۔ انھوں نے کہا کہ ابھی تو میں صرف خود پڑھتا ہوں۔ آئندہ ایسا بھی کروں گا کہ ایجنسی لے کر اس کو دوسروں تک پہنچاؤں۔
میںنے کہا کہ کرنے کا کام آج کیا جاتا ہے، کل نہیں کیاجاتا۔ جس شخص نے معاملے کو کل (tomorrow) کے خانہ میں ڈالا، اس نے معاملہ کو نہیں کے خانے میں ڈال دیا۔
26 ستمبر 1985
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا، قَالَ:قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِیہِمَا کَثِیرٌ مِنَ النَّاسِ:الصِّحَّةُ وَالفَرَاغُ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 6412)۔ یعنی عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: دو نعمتیں ہیں جن میں انسانوں میں سے بہت سے لوگ دھوکا کھاتے ہیں— تندرستی اور فرصت ۔
یعنی آدمی ایک کام کو کرنے کا کام سمجھتا ہے۔ مگر وہ سوچتا رہتا ہے کہ جب تندرستی ہوگی تو کرلوں گا یا جب فرصت ہوگی کر لوں گا۔ حالاں کہ یہ زبردست بھول ہے۔ جو آدمی عذر کے فریب میں رہے وہ کبھی کوئی کام نہیں کرسکتا۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ عذر کو نظر انداز کرکے کام کیاجائے۔
ایک انگریزی مقولہ اس حدیث کی بہترین تشریح ہے۔ وہ مقولہ یہ ہے کہ اگر تمھارے پاس ایک اچھا عذر ہے تب بھی اس کو استعمال نہ کرو:
If you have a good excuse, don't use it.
27 ستمبر 1985
مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسی کے زمانے میں بنی اسرائیل کا جو حال تھا، وہی حال اس وقت مسلمانوں کا ہے۔ مسلمان اب ایک مردہ قوم بن چکے ہیں، وہ کسی گہرے تعمیری کام کا حامل بننے کی طاقت نہیں رکھتے۔
بنی اسرائیل کا یہی حال ہوگیا تھا۔ چنانچہ حضرت موسیٰ ان کو صحرا ئے سینا میں لے گئے۔جب ان کی ابتدائی نسل ختم ہوگئی اور نئی نسل صحراکے ماحول میں پرورش پاکر تیار ہوئی تو اسی نے دوبارہ کام کیا۔مجھے ایسا محسوس ہوتاہے کہ موجودہ زمانہ میں ہندستان مسلمانوں کا ’’صحرائے سینا‘‘ ہے۔ ہندستان وہ مقام ہے جہاں وہ عمل جاری ہے، جو بنی اسرائیل کے ساتھ صحرائے سینا میں انجام پایا تھا۔ اس بنا پر مجھے صرف ہندستان سے یہ امید معلوم ہوتی ہے کہ آئندہ کسی وقت یہاں کے مسلمان کسی زندہ اسلامی دعوت کے علم بردار بن سکیں۔ ہندستان میں بہت بڑے پیمانہ پر یہ عمل جاری ہے کہ یہاں کے لوگوں کو تربیت کے سخت کورس سے گزارا جارہا ہے۔ یہ کورس جب مکمل ہوگاتو یہاں کے مسلم افراد میں، ان شاء اللہ، وہ سنجیدگی اور حقیقت پسندی آچکی ہوگی، جو اسلام کی دعوت کا حامل بننے کے لیے ضروری ہے۔
28 ستمبر 1985
پیسہ خرچ کرنے کے سلسلے میں قرآن میں اعتدال کا حکم دیاگیا ہے:وَلَا تَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُولَةً إِلَى عُنُقِکَ وَلَا تَبْسُطْہَا کُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَحْسُورًا (17:29)۔یعنی اور نہ تو اپنا ہاتھ گردن سے باندھ لو اور نہ اس کو بالکل کھلا چھوڑ دو کہ تم ملامت زدہ اور عاجز بن کر رہ جاؤ۔ حدیث میں آیا ہے:مَا عَالَ مَنِ اقْتَصَد (مسند احمد، حدیث نمبر 4269)۔ یعنی جس نے میانہ روی اختیار کی وہ محتاج نہیں ہوا۔
اکثر پریشانیوں کا سبب یہ ہوتا ہے کہ آدمی اخراجات میںاعتدال کی حد پر قائم نہیں رہتا۔ شادی کرنا، گھر بنانا، اور اس طرح کے دوسرے اخراجات کا مسئلہ سامنے آتا ہے تو وہ اپنی طاقت سے زیادہ خرچ کر ڈالتاہے۔ اگر ایسے مواقع پر اپنی وسعت کو دیکھا جائے، نہ کہ کسی مفروضہ معیار کو، تو کبھی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
30 ستمبر 1985
اینڈریو کارنیگی (1835-1919)نے اسٹیل کی صنعت میں کافی ترقی کی۔ 1889 میں اس نے ایک مقالہ شائع کیا جس کا نام تھا دولت کی بائبل (The Gospel of Wealth) ۔ اس مقالہ میں اس نے بتایا کہ دولت مند آدمی جب دولت حاصل کرے تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنی دولت کو رفاہ عام کے کام میں لگائے:
A rich man should, after acquiring his wealth, distribute the surplus for the general welfare. (Andrew Carnegie)
یہ ایک نہایت اہم اصول ہے۔ اینڈریو کارنیگی نے جو بات سماجی اصطلاح میں کہی وہی بات پیغمبر اسلام نے مذہبی اصطلاح میں اس طرح کہی ہے کہ خدا تمھیں دولت دے تو تم دائیں بائیں اور آگے پیچھے خرچ کرو (صحیح مسلم، حدیث نمبر 990)۔
یہ اصول نہ صرف آخرت کی فلاح کا ضامن ہے بلکہ دنیا کی ترقی بھی اسی سے ملتی ہے۔ موجودہ زمانے میں کئی ملکوں میں بیرونی افراد کے خلاف سخت ناراضگی پیداہوئی۔ مثلاً افریقن ملک یوگنڈا میںایشیائی لوگوں کے خلاف، سری لنکا میں تامل والوں کے خلاف، پاکستان میں مہاجرین کے خلاف، وغیرہ۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ ان لوگوں نے اپنی کمائی ہوئی دولت کو صرف اپنی ذات پر خرچ کیا، مقامی آبادی پر خرچ نہیں کیا۔
جو تجارتی قومیں اس راز سے واقف ہیں وہ اپنی آمدنی کا ایک حصہ مستقل طور پر مقامی آبادی کی فلاح پرخرچ کرتی ہیں۔ چنانچہ وہ نہایت کامیاب ہیں۔ مثال کے طورپر ہندستان میں جینی فرقہ اور پارسی فرقہ۔ یہ لوگ بہت چھوٹی اقلیت ہیں۔ اس کے باوجود ملک کی دولت کا بڑا حصہ ان کے قبضہ میں ہے۔ مگر آج تک ان کے خلاف کوئی رد عمل نہیں ہوا۔ اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی کمائی کاایک حصہ ہر سال دوسروں کے اوپر خرچ کرتے ہیں۔ مثلاً اسکول، اسپتال، تعلیمی وظائف وغیرہ وغیرہ۔
1 اکتوبر 1985
علمائے تفسیر کا کہنا ہے کہ قرآن کی تفسیر کا مصدرِ اول خود قرآن ہے۔ اور قرآن کی تفسیر کا مصدرِدوم وہ حدیث کو قرار دیتے ہیں۔
مثلاً سورہ فاتحہ میں ہے:غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّالِّینَ (1:7) ۔ یعنی ان کا راستہ نہیں جن پر تیرا غضب ہوا، اور نہ ان لوگوں کا راستہ جو راستے سے بھٹک گئے۔ یہاں سوال ہے کہ اس سے مراد کون لوگ ہیں۔ حدیث رسول سے معلوم ہوتا ہے کہ مغضوب علیہم سے مراد یہود ہیں اور ضالین سے مراد نصاریٰ(مسند احمد، حدیث نمبر 19381)۔
اسی طرح قرآن میں ہے :وَأَعِدُّوا لَہُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّة (8:60)۔ یعنی اور ان کے لیے جس قدر تم سے ہو سکے تیار رکھو قوت۔ یہاں قوت سے کیا مراد ہے۔ اس سلسلہ میں حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:أَلَا إِنَّ الْقُوَّةَ الرَّمْیُ، أَلَا إِنَّ الْقُوَّةَ الرَّمْیُ، أَلَا إِنَّ الْقُوَّةَ الرَّمْیُ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 1917)۔جان لو کہ قوت سے مراد تیر اندازی ہے، جان لو کہ قوت سے مراد تیر اندازی ہے، جان لو کہ قوت سے مراد تیر اندازی ہے۔
تاہم ان مصادر (sources)کے ساتھ ایک اور چیز انتہائی ضروری ہے، اوروہ ہے تفقہ (حکمت و بصیرت)۔ اگر تفقہ نہ ہو تو آدمی فرسٹ مصدر اور سیکنڈ مصدر کا ماہر ہونے کے باوجود قرآن کی د رست تفسیر نہ کرسکے گا۔ مثلاً پہلی آیت (الفاتحہ، 1:7) کی تفسیر میں مذکور حدیث میں صرف آدھی بات ہے۔ مکمل بات ایک دوسری حدیث کو ملانے سےسمجھ میں آتی ہے۔ ایک دوسری حدیث میں امتِ مسلمہ کے بارے میں آیا ہے:لَتَتْبَعُنَّ سَنَنَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ، شِبْرًا شِبْرًا وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ، حَتَّى لَوْ دَخَلُوا جُحْرَ ضَبٍّ تَبِعْتُمُوہُمْ، قُلْنَا: یَا رَسُولَ اللَّہِ، الیَہُودُ وَالنَّصَارَى؟ قَالَ: فَمَنْ (صحیح البخاری، حدیث نمبر7320)۔ یعنی تم ضرور پچھلی امتوں کی پیروی کروگے، قدم بہ قدم، یہاں تک کہ اگر وہ کسی گوہ کے بل میں داخل ہوئے ہیں تو تم بھی ضرور اس میں داخل ہوجاؤ گے، ہم نے کہا: اے خدا کے رسول، یہود ونصاری، آپ نے کہا: اور کون۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ یہود و نصاری نے بگاڑ پیدا ہونے کے بعد جو کچھ کیا وہی سب مسلمان بھی بعد کے زمانے میں کریں گے۔ ان دونوں حدیثوں کو سامنے رکھ کر غور کیا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ آیت میں مغضوب اور ضالین سے مراد وہ لوگ ہیں جو اپنے زوال یافتہ ذہنیت کی وجہ سے خدا کی ناراضگی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ قدیم زمانے میں یہود و نصاری نے ایسا کیا تھا، بعد کے زمانے میں امت محمدی پر ایسا وقت آسکتا ہے۔
اسی طرح دوسری آیت (الانفال،8:60) کی تفسیر میں مذکور حدیث کو بھی بالکل لفظی معنی میں لے لیا جائے تو اسلام ایسی سائیکل کی مانند بن جائے گا، جس کا ہینڈل کَس دیا گیا ہو، اور وہ سائیکل دائیں بائیں گھوم نہیں سکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ دوسری آیت کی یہ تفسیر ایک زمانی تفسیر ہے، نہ کہ ابدی تفسیر۔ اگر اس تفسیر کو ابدی تفسیر قرار دیا جائے تو بعد کے ادوار میں مسلمانوں نے فوجی قوت کے لیے جو نئے نئے اضافے کیے، وہ سب غیر اسلامی قرار پائیں گے۔ یا کم ازکم یہ کہ بدلتے ہوئے زمانہ کے لحاظ سے دفاعی قوت کی فراہمی کے لیے قرآن سے انحراف ضروری ہوگا۔ ورنہ ہم اپنے دور کے لحاظ سے اپنے کو طاقت ور نہیں بنا سکتے۔
3 اکتوبر 1985
مسز انیس جنگ کی ایک انگریزی کتاب 1985میں پنگوئن بکس کے تحت چھپی ہے، جس کا نام ہے ’’ہندستان بے نقاب“ (Unveiling India) ۔ مصنفہ نے ہندستان میں عورتوں کے حالات کی تحقیق کے لیے ملک کے مختلف حصوںکے سفر کیے۔ بیدر میں ان کی ملاقات جلال الدین چنگیزی سے ہوئی۔ مصنفہ کے بیان کے مطابق، جلال الدین چنگیزی نے کہا کہ قرآن میںعورت کو فتنہ بتایا گیا ہے، وہ جو مرد کو بہکائے اور اس کو مصیبت میں مبتلا کرے:
In the Koran she is described as a fitna, one who tempts man and brings trouble (p. 30)
یہ حوالہ صحیح نہیں۔ کیوں کہ قرآن میں ایسی کوئی آیت نہیں جس میں عورت کو فتنہ کہا گیا ہو۔ البتہ ایک حدیث ہے اور اس کے الفاظ یہ ہیں:مَا تَرَکْتُ بَعْدِی فِتْنَةً أَضَرَّ عَلَى الرِّجَالِ مِنَ النِّسَاءِ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 5096)۔ یعنی اپنے بعد میں نے سب سے زیادہ مضر فتنہ جو مردوں کے اوپر چھوڑا ہے وہ عورتیں ہیں۔
حدیث کے الفاظ بتاتے ہیں کہ اس میں مستقبل کے بارے میں ایک پیشین گوئی کی گئی ہے۔ اور وہ یہ کہ آئندہ آنے والے دور میں انسانی سماج میں سب سے زیادہ ضرر کا سبب عورتیں بنیں گی۔ اس دور میں عورتیں مردوں کے لیے سب سے بڑی آزمائش بن جائیں گی۔
جس زمانے میں محترمہ انیس جنگ نے اپنی کتاب لکھی ہے، اس زمانے میں یہ پیشین گوئی اپنی کامل صورت میں سامنے آچکی ہے۔ یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ جدید دنیا کے معاشرتی بگاڑ کا سب سے بڑا سبب ’’جدید عورت“ ہے۔ آج آزادیٔ نسواں کے نام پر عورت کا جوحال کیاگیا ہے اس نے جدید معاشرہ کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔
اس حدیث میں یہ نہیں ہے کہ عورت باعتبار تخلیق کوئی بری چیز ہے۔ اس میں صرف عورت کے اس غلط استعمال کا ذکر ہے جس کے نتیجہ میں عورت سماج کے لیے خطرہ بن جاتی ہے۔
4 اکتوبر 1985
مولانا امیراللہ خاں قاسمی ایک عربی مدرسہ چلاتے ہیں۔ انھوں نے اپنا ایک دلچسپ واقعہ بتایا۔ ایک سفر میں ان کی ملاقات ایک عرب سے ہوئی۔ عرب نے گفتگو کے دوران کہا:
چَنْسُکَ جَیِّدٌ
مولانا امیر اللہ صاحب اس جملہ کو سمجھ نہ سکے۔ انھوں نے عرب سے دوبارہ پوچھا کہ ’’چنسک“ کا مطلب کیا ہے۔ اس نے کاغذ پر لکھ کر بتایا تو معلوم ہوا کہ وہ کہہ رہا ہے: تمھارا چانس (chance) بہت اچھا ہے— عربوں میں انگریزی الفاظ کتنے زیادہ عام ہوگئے ہیں، اس کی یہ ایک دلچسپ مثال ہے۔
5اکتوبر 1985
قرآن کے سلسلہ میںایک مسئلہ اختلافِ قرأت کا ہے۔مگر اختلافِ قرأت کا مطلب اختلافِ متن نہیں ہے۔قرآن میں جو اختلافِ قرأت ہے وہ دو قسم کا ہے۔ ایک وہ اختلاف جو لہجہ (accent) کے فرق کا نتیجہ ہے۔ چوں کہ عرب کے مختلف قبائل میںالفاظ کی ادائیگی میں بعض فرق پایا جاتاتھا، اسی بناپر قرآن کی قرأت میں بھی بعض مقامات پر فرق ہوگیا۔ مثلاً مَالِکِ یَوْمِ الدِّینِ (1:4) کے بجائے مَلِکِ یَوْمِ الدِّینِ (میم کے بعد الف کے بغیر)یا قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ (114:1) کی جگہ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاتِ ، وغیرہ۔ اس قسم کا فرق صرف پڑھنے کا فرق ہے، ان میں کتابت کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں۔
اختلافِ قرأت کی دوسری صورت وہ ہے جس میں لفظ کا فرق پایا جاتا ہے۔ مثلاً قرآن میں ہے:أَوْ یَکُونَ لَکَ بَیْتٌ مِنْ زُخْرُفٍ(17:93)۔ یعنی یا تمہارے پاس سونے کا کوئی گھر ہوجائے۔ اس آیت کو حضرت عبد اللہ بن مسعود نے پڑھا:أَوْ یَکُونَ لَکَ بَیْتٌ مِنْ ذَہَبٍ(تفسیر ابن کثیر، جلد5 ، صفحہ120)۔یا مثلاً سورہ الجمعہ میں ہے: فَاسْعَوْا إِلَى ذِکْرِ اللَّہِ (62:9) ۔یعنی اللہ کی یاد کی طرف چل پڑو۔ اس کو بعض صحابہ نے اس طرح پڑھا: فَامْضُوا إِلَى ذِکْرِ اللَّہِ(تفسیر ابن کثیر، جلد8، صفحہ 120)۔ یا مثلاًسور البقرۃ میں ہے: لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّکُمْ (2:198)۔ یعنی تم پر اس میں کوئی گناہ نہیں کہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو۔اس کو ا بن عباس نے اس طرح پڑھا ہے: لَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّکُمْ فِی مَوَاسِمِ الْحَجِّ(فضائل القرآن للقاسم بن سلام، صفحہ 325)۔یعنی تم پر اس میں کوئی گناہ نہیں کہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو حج کے زمانے میں۔
اختلاف قرأت کی یہ دوسری مثالیں قرآن کا حصہ نہیں ہیں۔ وہ تفسیر کی قبیل سے ہیں۔ یعنی صحابی نے آیت کی تشریح کرتے ہوئے ایک نیا لفظ استعمال کیا تاکہ مخاطب اس کو سمجھ سکے۔ ورنہ دنیامیں ایسا کوئی قرآن موجود نہیں جس میں متن کی کتابت اس دوسرے طریقے سے کی گئی ہو۔
کسی عبارت کے مفہوم کو کھولنے کے لیے اس کے لفظ کو بدلنا پڑتا ہے۔ اختلاف قرأت کی دوسری قسم کا مطلب یہی ہے، صحابہ نے تفہیم کے مقصد سے لفظ بدل کر پڑھا۔
7 اکتوبر 1985
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں آپ کے حکم سے کئی مؤذنوں کی تقرریاں ہوئی تھیں۔ کہاجاتا ہے کہ حضرت بلال ان مؤذنوں کے صدر تھے۔ جب کوئی حکم ہوتا تو حضرت بلال کے واسطے سے تمام دوسرے لوگوں کو اس سے آگاہ کردیا جاتا۔ مثلاً ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں: أَمَرَ بِلَالًا أَنْ یَشْفَعَ الْأَذَانَ، وَأَنْ یُوتِرَ الْإِقَامَةَ (سنن النسائی، حدیث نمبر 627) ۔ یعنی آپ نے بلال کو حکم دیا کہ وہ اذا ن میں تشفیع کرے اور اقامت میں ایتا ر کرے۔
اس قسم کی روایتوں کا مطلب احناف اس طرح بتاتے ہیں :أن یکون المراد من أن یشفع الأذان:بالصوت، فیأتی بصوتین صوتین، ویوتر الإقامة فی الصوت (تجرید القدوری، جلد1، صفحہ419)۔ یعنی اس سے مراد یہ ہے کہ وہ اذان میں شفع کرے، اس کو دو دو (اونچی) آواز میں ادا کرے، اور اقامت کو اکہرے (نیچی) آواز میں ادا کرے۔ فمحمول على إیتار صوتہا بأن یحدر فیہا ...لا إیتار ألفاظہا(البحر الرائق، جلد1، صفحہ447)۔ یعنی اس کا مطلب ہے کہ اس کی آواز میں ایتار ہو، یعنی وہ اقامت میں جلدی جلدی پڑھے، نہ کہ الفاظ میں ایتار (ایک ایک مرتبہ)۔اس کے برعکس شوافع وغیرہ کا کہنا ہے کہ یہاں تشفیع اور ایتار کا مطلب یہ ہے کہ اذان کے کلمات دوبار ادا کیے جائیں اور اقامت کے کلمات ایک بار— حدیث میں تعمق اورتدقیق (hair-splitting) نے کیسے عجیب عجیب اختلافات پیدا کردیے ہیں۔
8 اکتوبر 1985
جناب فرید الوحیدی صاحب جدہ میں رہتے ہیں۔ ان کا قدیم وطن دیوبند تھا۔ اب وہ سعودی شہری ہوچکے ہیں اور وہاں کے ایک کامیاب تاجر ہیں۔ انھوںنے اپنی زندگی کا تجربہ ان الفاظ میں بیان کیا:
جوچیونٹی بن کر رہتاہے وہ شکر کھاتا ہے جوشیر بن کر رہتا ہے وہ گولی کھاتا ہے
9 اکتوبر 1985
ایک عرب سے ملاقات ہوئی۔ ان کو میںنے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول سنایا: إِنَّ لِلَّہِ عِبَادًا یُمِیتُونَ الْبَاطِلَ بِہَجْرِہ(حلیۃ الاولیاء، جلد1، صفحہ 55)۔ یعنی بے شک اللہ کے کچھ بندے ہیں، جو باطل کو مٹاتے ہیں، اس کو ترک کرکے۔
انھوںنے اس کو پسند کرتے ہوئے کہاکہ اسی مفہوم کا ایک مقولہ عربوں میں رائج ہے جو کہ اس طرح ہے:لَوْ أَنَّ الْکَلَامَ مِنْ فِضَّةٍ لَکَانَ السُّکُوتُ مِنْ ذَہَبٍ(الزھد لابن ابی عاصم، اثر نمبر 33)۔ یعنی بولنا اگر چاندی ہو تو چپ رہنا سونا (gold) ہے۔
10 اکتوبر 1985
سترھویں صدی کے فرنچ رائٹر اور مفکر جین دی لا بروییر(Jean de La Bruyère, 1645-1696)کا قول ہے کہ اس دنیامیں صرف دو طریقے ہیں جن کے ذریعے آدمی اپنے آپ کو اوپر اٹھا سکتا ہے۔ یا تو اپنی ذاتی محنت سے یا دوسروں کی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر:
In the world there are only two ways of raising one self, either by one's own industry or by the weakness of others.
اس کی ایک مثال ہندستان ہے، اور دوسری مثال جاپان کی جدید تاریخ ہے۔ ہندستان نے 1947 میں جو آزادی حاصل کی، وہ دراصل دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ کی کمزوری سے فائدہ اٹھانا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جاپان نے زبردست ترقی حاصل کی۔ اس کا راز جاپانی قوم کی وہ محنت تھی جو اس نے جنگ میں شکست کے بعد مسلسل انجام دی۔
11 اکتوبر 1985
میرا خیال یہ ہے کہ ہندستان کے مسلمانوں کے پاس قومی حیثیت سے مثبت احساس موجود نہیں ہے۔ واحد چیز جو ان کے پاس ہے وہ مخالف ہندو احساس (anti-Hindu feeling) ہے۔ اسی پر موجودہ زمانہ کے مسلمان کھڑے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی مسلمانوں کے اندر کوئی ایسی تحریک اٹھتی ہے جس میں ہندو کے خلاف جذبات کے لیے اپیل ہو تو فوراً مسلمانوں کی بھیڑ کی بھیڑ اکھٹا ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور دعوت پر ان کی بھیڑ جمع نہیں ہوتی۔
موجودہ زمانے کے قائدین نے مسلمانوں کے اس احساس کو بھر پور طورپر استعمال کیا ہے۔ ہر وہ مسلم قائد جس نے موجودہ زمانے میں بڑی مقبولیت حاصل کی ہے، ا س نے یہ مقبولیت اسی مخالفانہ احساس کو استعمال کرکے حاصل کی ہے۔ مگر میں اس قسم کی قیادت کو سراسر باطل سمجھتا ہوں۔ کسی قوم کو مثبت نفسیات پر اٹھانا قیادت ہے، اور کسی قوم کو منفی نفسیات پر اٹھانا ہلاکت۔
12 اکتوبر 1985
مسلم رہنماؤں نے ملک کی تقسیم (1947) اس لیے کرائی تھی کہ اس سے ہندو مسلم مسئلہ ختم ہوجائے گا۔ مگر نتیجہ ان کے اندازے کے بالکل برعکس نکلا۔ تقسیم نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے اختلافات کو اور بڑھادیا۔ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (1984) نے بالکل درست لکھا ہے:
After Partition of the Subcontinent into India and Pakistan, the political controversies between India and Pakistan constituted a complication (EB. 8/907)
یعنی انڈیا اور پاکستان کی صورت میں برصغیر کی تقسیم کے بعد دونوں ملکوں میں سیاسی اختلافات پہلے سے بھی زیادہ ہوگئے۔
اس نتیجہ کو بطورِ واقعہ خود مسلم قائدین بھی تسلیم کرتے ہیں۔ البتہ اس کی ذمہ داری وہ یک طرفہ طورپر ہندو اکثریت پر ڈالتے ہیں۔ ان کی یہ روش بھی کس قدر عجیب ہے۔ جو نتیجہ ان کی اپنی سیاسی فکر کو غلط ثابت کررہا تھا، اس کو انھوں نے دوبارہ دوسروں کو ملزم ٹھہرانے کا ذریعہ بنالیا۔ سوال یہ ہے کہ تقسیم کے آپریشن کے باوجود اگر حالات کی باگ ڈور بدستور ’’ہندو“ کے ہاتھ میں ہے تو اس ہولناک آپریشن کی کیا ضرورت۔
14 اکتوبر 1985
جنت کے بارے میں قرآن میں ’’عِنْدَکَ‘‘ اور ’’عِنْدَ رَبِّہِمْ‘‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اس سے میں یہ سمجھا ہوں کہ جنت مجلسِ خداوندی میں جگہ پانے کا دوسرا نام ہے۔ خدا کی صفت خاص یہ ہے کہ وہ پرفکٹ (perfect) ہے۔ خدا کے قریب جو دنیا ہوگی وہاں ہر چیز پرفکٹ ہوگی۔ وہاں پرفکٹ باتیں ہوں گی۔ پرفکٹ سلوک ہوگا۔ پرفکٹ سامان ہوںگے۔یہ ایک پرفکٹ ماحول ہوگا، اور پرفکٹ ماحول میں جینے ہی کا نام جنت ہے۔
یہ پرفکٹ دنیا (perfect world) اتنی زیادہ قیمتی ہے کہ انسان کا کوئی بھی عمل، خواہ وہ کتنی ہی مقدار میں ہو، اس کی قیمت نہیں بن سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی شخص کو اپنے عمل کی قیمت پر جنت میں جگہ نہیں مل سکتی۔ صرف ایک چیز ہے جو جنت کی قیمت ہے۔ اوروہ ہے پرفکٹ تھنکنگ۔ آدمی عمل کی سطح پر پرفکٹ نہیں بن سکتا۔ مگر سوچ (thinking) کی سطح پر وہ پرفکٹ بن سکتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو موجودہ دنیا میں آدمی کو حاصل کرنا ہے، اور یہی وہ چیز ہے جو کسی آدمی کو جنت میں داخلےکا مستحق بنائے گی۔
15 اکتوبر 1985
عربی زبان میں غیر معمولی طورپر یہ صلاحیت ہے کہ وسیع مضامین کو مختصر لفظوں میں ادا کرسکے۔ غالباً کسی اور زبان میں یہ صلاحیت اتنی زیادہ نہیں۔
ماہنامہ العربی (کویت) کی اشاعت اکتوبر 1985میں صفحہ 32 پر ایک تصویرہے۔ اس تصویر میں ایک عرب شیخ اپنے مخصوص حلیہ میں چھڑی لیے ہوئے کھڑا ہے۔ اس کے پیچھے ایک ہرے بھرے فارم کی تصویر ہے جس میں کھیت اور باغ دکھائی دے رہے ہیں۔ اس تصویر کے اوپر (فارمر کی زبان سے) لکھا ہوا ہے—انھوں نے بویا تو ہم نے کھایا، ہم بوتے ہیں تاکہ وہ کھائیں:
زرعوا فأکلنا، ونزرع لیأکلوا
یعنی ہماری پچھلی نسلوں نے درخت لگائے جن کا پھل ہم کو ملا۔ اب ہم درخت لگا رہے ہیں تاکہ ہمارے بعد کی نسلیں اس کا پھل پاسکیں۔ جو لوگ عربی زبان اوراس کے ساتھ دوسری زبانیں جانتے ہیں وہ سمجھ سکتے ہیں کہ اس تصور کو اتنے کم الفاظ میں اتنی خوبصورتی کے ساتھ اداکرنا کسی اور زبان میں شاید ممکن نہیں۔
16 اکتوبر 1985
ایمان ایک دریافت ہے، اور دعوت اس دریافت کا ایک خارجی اظہار۔ شرعی اعتبار سے دعوت ایک خدائی حکم کی تعمیل ہے۔ اور نفسیاتی اعتبار سے ایک اندرونی تپش کا بے قرارانہ اظہار۔ دعوت کے ایک خدائی حکم ہونے کا شعور نہ ہو توآدمی استقلال کے ساتھ اس پر قائم نہیں رہ سکتا۔ اور اگر دعوت کے پیچھے نفسیاتی انقلاب کی زمین موجود نہ ہو تو اس کے اندر وہ کیفیت اور وہ زور پیدا نہیں ہوسکتا جو سننے والے کو ہلائے اور اس کو اپنی سوچ بدلنے پر مجبور کردے۔
17 اکتوبر 1985
حدیث میں آیا ہے :الدُّنْیَا سِجْنُ المُؤْمِنِ وَجَنَّةُ الکَافِرِ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2956)۔ یعنی دنیا مومن کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ مومن خدا کے پڑوس میں رہناچاہتا ہے اور دنیامیں اس کو انسانوں کے پڑوس میں رہنا پڑتا ہے۔ اس کی نظروں میں ’’پرفکٹ“ سمایا ہوا ہوتاہے اور دنیا میں اس کو ’’امپرفکٹ“ سے نباہ کرناپڑتا ہے۔وہ کامل سچائی کا طلب گار ہوتا ہے اور دنیا میں وہ دیکھتا ہے کہ جھوٹ اور ناانصافی اور دھاندلی کی حکمرانی ہے۔ وہ اصول پسند ہوتا ہے جب کہ دنیا میں اس کو ہر طرف بے اصولی کا راج دکھائی دیتا ہے۔
غیر مومن با اصول یا آئیڈیلسٹ نہیں ہوتا۔ اس کے سامنے صرف اپنا ذاتی مفاد ہوتا ہے، خواہ وہ جس طرح بھی ملے۔ وہ ہر صورتِ حال میں ڈھل کر اپنا مفاد محفوظ کرلیتا ہے۔ وہ صحیح اور غلط کے جھنجھٹ میں نہیں پڑتا اسی لیے اسے کوئی پریشانی بھی لاحق نہیں ہوتی۔
18 اکتوبر 1985
خواجہ غلام الثقلین نے بیرونی ملکوں میں مسلمانوں کا تبلیغی مشن بھیجنے کی تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے لکھا تھا:
فرض کیجیے کہ کچھ حضرات یہ مشن لے کر جاتے ہیں اور دوسرے مذاہب کے پیروؤں کے سامنے اسلامی تعلیمات کو پیش کرتے ہیں کہ اسلام ہمیں سچائی، انصاف، کاروبار میں دیانت داری، روز مرہ زندگی میں باہمی تعاون، غریبوں کی مدد کرنا، شراب نوشی اور سود خواری سے دور رہنا سکھاتا ہے۔ تب ممکن ہے کہ وہ لوگ یہ دریافت کریں کہ کیوں صاحب، ہندستان کے مسلمان تو عام طورپر دیانت دار ہوں گے۔ آپ کے معاشرہ میں اقتصادی مساوات ہوں گی۔ اور وہاں نہ کوئی مسلمان شراب پیتا ہوگا اور نہ سود کھاتا ہوگا۔ اگر ہمارے مبلغین نے راست گوئی سے کام لیا تو انھیں کہنا پڑے گاکہ نہیں بھائی، ہمارے یہاں بھی یہ انفرادی واجتماعی خرابیاں موجود ہیں۔ تو پھر وہ ضرور یہ کہیں گے کہ آپ اپنے ملک واپس جاکر مسلمانوں میں اسلام کی تبلیغ کریں۔ اور جب وہ صحیح معنی میں مسلمان بن جائیں تو پھر آپ ہمارے پاس آکر تلقین کریں۔ چنانچہ مسلمان کا پہلا فرض یہ ہے کہ وہ پہلے اپنے آپ کو سچا مسلمان بنانے کی کوشش کرے۔
خواجہ صاحب کی یہ تنقید صحیح نہیں۔ کیوںکہ تبلیغ کا مقصد لوگوں کو ’’مسلم معاشرہ“ کی طرف بلانا نہیں ہے، بلکہ خدا کی طرف بلانا ہے۔ تبلیغ کا مقصد لوگوں کو حقیقت آخرت سے باخبر کرنا ہے، نہ کہ کسی دنیوی سماج سے باخبر کرنا۔
19 اکتوبر 1985
جنت صبر کے اُس پار ہے، مگر اکثر لوگ جنت کو صبر کے اِس پار تلاش کرنے لگتے ہیں۔
21 اکتوبر 1985
ایک صاحب تھے۔ وہ کسی سابق نواب کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ نوابی تو ختم ہوچکی تھی، مگر ’’پدرم سلطان بود“ (میں بھی بادشاہ تھا) کی نفسیات ان کے اندر پوری طرح باقی تھیں۔ ان کی ایک لڑکی تھی۔ اس کا رشتہ کئی جگہ سے آیا مگر انھوںنے انکار کردیا۔ کیوں کہ یہ رشتے ان کے خیال سے ان کے شایان شان نہ تھے، اور جس رشتہ کو وہ اپنے شایان شان سمجھتے تھے، وہ انھیں مل نہ سکا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی لڑکی کی شادی نہ ہوسکی۔
یہی کیس زیادہ بڑی شکل میں موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا ہے۔ مسلمانوں کی گزری ہوئی تاریخ نے ان کوایک قسم کے احساس فخر میں مبتلا کردیا ہے۔ اس احساس فخر کا یہ نتیجہ ہے کہ کوئی چھوٹا کام انھیں اپنے شایانِ شان نظر نہیں آتا۔ ہمیشہ بڑے کام کی طرف دوڑتے ہیں، کیوں کہ وہی کام ان کو اپنے شایانِ شان نظر آتاہے جس کو بڑے بڑے لفظوں میں بیان کیا جاسکتا ہو۔
اسی احساسِ فخر کی نفسیات نے موجودہ زمانے کے تمام مسلم رہنماؤں کی کوششوں کو بے نتیجہ بنادیا۔ موجودہ زمانے میں جو بھی مسلم رہنما اٹھا، اس نے ہمیشہ کسی بڑے کام کا نعرہ لگایا— ہر آدمی نے مینار پر کھڑا ہونا چاہا، کوئی بھی زمین پر کھڑا ہونے کے لیے تیار نہ ہوا۔ یہی سب سے بڑی وجہ ہے کہ بے شمار ہنگامہ خیز تحریکوں کے باوجود موجودہ زمانے میں مسلمانوں کی ملی تعمیر واقعہ نہ بن سکی۔ کیوں کہ حقیقی تعمیر کے لیے ہمیشہ چھوٹی سطح سے آغاز کرنا پڑتا ہے، مسلم رہنماؤں نے اپنی پر فخر نفسیات کی بنا پر چھوٹی سطح کے کام کواپنے شایان شان نہ سمجھا، اس لیے وہ کوئی حقیقی تعمیری کام بھی انجام نہ دے سکے۔
22 اکتوبر 1985
زندگی دو متضاد پہلوؤں کے درمیان نباہ کرنے کا نام ہے۔ زندگی کا سفر ایک اعتبار سے تنی ہوئی رسی پر چلنے (tight-rope walking) کی مانند ہے۔ آدمی کو بیک وقت دو سمتوں کی رعایت کرتے ہوئے چلنا پڑتا ہے۔ اس دو طرفہ توازن میں اگر فرق آجائے تو زندگی کا سارا معاملہ بگڑ کر رہ جائے گا۔
23 اکتوبر 1985
قدیم زمانے میں اپنی محبوب شخصیت کو بڑھانے اور اپنی ناپسندیدہ شخصیت کو گھٹانے کے لیے بہت سے قصے گھڑے گئے۔ ایک مثال یہ ہے:
کہاجاتا ہے کہ امام ابو حنیفہ (80-150ھ) تحصیلِ علم کے لیے مدینہ گئے۔ وہاں ان کی ملاقات امام باقر (57-114ھ) سے ہوئی۔ تعارف کے بعد امام باقر نے کہا۔ کیا تم ہی قیاس کی بنا پر ہمارے دادا کی حدیثوں کی مخالفت کرتے ہو۔ ابو حنیفہ نے کہا عیاذ باللہ، حدیث کی کون مخالفت کرسکتا ہے۔ پھر مختصر گفتگو کے بعد دونوں میں حسب ذیل مکالمہ ہوا:
ابو حنیفہ : مرد ضعیف ہے یا عورت
امام باقر: عورت
ابو حنفیہ : وراثت میں مرد کا حصہ زیادہ ہے یا عورت کا۔
امام باقر: مرد کا
ابو حنیفہ: اگر میں قیاس لگاتا تو کہتا کہ عورت کو زیادہ حصہ دیا جائے۔ کیوں کہ ظاہر قیاس کی بناپر ضعیف کو زیادہ ملنا چاہیے۔
امام باقر اس گفتگو کو سن کر بہت خوش ہوئے اور اٹھ کر ان کی پیشانی چومی۔
نقدِ داخلی بتا رہا ہے کہ یہ ایک بناوٹی قصہ ہے۔ امام باقر نے امام ابوحنیفہ پر جو الزام لگایا وہ حدیث کو رد کرنے کا تھا، نہ کہ قرآن کو رد کرنے کا۔ جب کہ مذکورہ گفتگو کے مطابق امام ابو حنیفہ نے جو مسئلہ بیان کیا، وہ قرآن سے ثابت ہے۔ اس کا انحصار حدیث پر نہیں۔ امام ابو حنیفہ جیسا ذہین آدمی یہ نہیں کرسکتا کہ سوال حدیث کے بارے میں کیا جائے اور وہ جواب قرآن کے بارے میں دینے لگے۔
اس قسم کے جھوٹے قصے کہانیوں نے ہمارے بیشتر لٹریچر کو غیر سائنٹفک بنا دیا ہے۔ ان سے عقیدت مندی کا مزاج رکھنے والا آدمی تو فائدہ اٹھا سکتا ہے مگرعلمی ذوق رکھنے والے آدمی کے لیے اس کی افادیت بہت کم ہے۔
24 اکتوبر 1985
خوارج کا یہ کہنا تھاکہ خلافت کسی قوم یا قبیلے کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ ہر وہ شخص خلیفہ بن سکتا ہے جس کے اندر خلافت کی شرطیں پائی جائیں۔بظاہر یہ ایک صحیح بات معلوم ہوتی ہے۔ مگر یہ صحابی رسول علی ابن ابی طالب کے الفاظ میں کَلِمَةُ حَقٍّ أُرِیدَ بِہَا بَاطِلٌ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 1066) کی مثال ہے، یعنی ایک حق بات جس سے باطل مطلوب ہے۔
اصل یہ ہے کہ عرب دو بڑے قبائلی گروہوں میں منقسم تھے —مُضَر اور ربیعہ۔ قریش کا تعلق مضر سے تھا ، اورخوارج زیادہ تر قبیلہ ربیعہ سے تعلق رکھتے تھے۔ قبیلہ مضر اور قبیلہ ربیعہ میں جاہلیت کے زمانے سے عداوت چلی آرہی تھی۔ صحابہ کرام نے جب عرب کے حالات کی رعایت کرتے ہوئے قریش میں سے خلیفہ کا انتخاب کیا تو قبیلہ ربیعہ کے لوگ بگڑ گئے۔ کیوں کہ قریش کا تعلق قبیلہ مضر سے تھا۔ ایسی حالت میں خوارج جو اصول پیش کرتے تھے، اس کا مقصد اپنے قبیلے کے حق میں خلافت کا استحقاق ثابت کرنا تھا، نہ کہ اہل تر شخص کے حق میں اس کا استحقاق ثابت کرنا۔
25 اکتوبر 1985
عہدِ وسطیٰ میں شہنشاہ اور پوپ کے درمیان جو جھگڑے ہوئے، ان میں ساری بحث اس پر تھی کہ حضرت عیسیٰ (یا خدا) نے دنیا کی حکومت پوپ کے سپرد کی ہے یا شہنشاہ کے، او راگر ان دونوں میںاختلاف ہو تو قوم کو کس کے حکم پر چلنا چاہیے۔
آج یہ بحث بڑی عجیب معلوم ہوتی ہے۔ کیوںکہ آج حکومت و سیاست کے معاملات میں نہ ’’مسیح“ کا دخل ہے اور نہ ’’پوپ‘‘کا۔ آج ان معاملات میں ساری حیثیت عوام کی مانی جاتی ہے یا عوام کے منتخب نمائندوں کی۔
یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ زمانی حالات کتنا زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ کسی فکر کی عمومی کامیابی کا انحصار تمام تر اسی پر ہوتا ہے کہ زمانی حالات اس کے موافق ہیں یا اس کے خلاف۔ آدمی اگر حکومت کے نظام میںتبدیلی لانا چاہتا ہے تو اس سے پہلے اس کو لوگوں کی سوچ میں تبدیلی لانا ہوگا۔ اس کے بعد ہی وہ حکومت کے نظام میں کوئی حقیقی تبدیلی لانے میں کامیاب ہوسکتا ہے۔
26 اکتوبر 1985
ٹکراؤ کے میدان سے ہٹنا آدمی کو تعمیر کا وقفہ عطا کرتا ہے۔ اور اس دنیا میں وقفۂ تعمیر کو پانا ہی کسی آدمی کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ایک پچھڑے ہوئے گروہ کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ وہ اپنے لیے وقفہ تعمیر کو پالے۔ اس وقفہ تعمیرکو حاصل کرنے کی واحد لازمی قیمت یہ ہے کہ پچھڑا ہوا گروہ نزاع کے مقام سے اپنے آپ کو ہٹائے۔
اِس دنیا میں آدمی ہمیشہ دو چیزوں کے درمیان ہوتا ہے— مسائل اور مواقع۔ عقلمند وہ ہے جو مسائل کو مستقبل کے خانے میں ڈال دے اور اپنی ساری طاقت مواقع کو استعمال کرنے میں لگائے۔ مسائل میں الجھ کر وہ دونوں کو کھوئے گا ،جب کہ مواقع کواستعمال کرکے وہ بالآخر دونوں کو پالے گا۔ یہی بات ہے جس کو ایک مفکر نے ان الفاظ میں اداکیا ہے—مسائل کو بھوکا رکھو، مواقع کو کھلاؤ:
Starve the Problems, Feed the Opportunities.
1 نومبر 1985
انسانوں میں کچھ کم صلاحیت کے لوگ ہوتے ہیں اور کچھ اعلیٰ صلاحیت کے لوگ۔اس حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَرَفَعْنَا بَعْضَہُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِیَتَّخِذَ بَعْضُہُمْ بَعْضًا سُخْرِیًّا (43:32)۔ یعنی اور ہم نے ایک کو دوسرے پر فوقیت دی ہے تاکہ وہ ایک دوسرے سے کام لیں۔
کم تر صلاحیت کے لوگ اس لیے ہوتے ہیں کہ وہ کسی کے پیچھے چلیں ۔ یہ صرف اعلیٰ صلاحیت کے افراد ہیں جو تاریخ بناتے ہیں۔اونچی صلاحیت کے افراد کوئی بڑا کام صرف اس وقت کر پاتے ہیں جب کہ وہ ’’صبر ‘‘ کی سطح پر کام کرنے کے لیے راضی ہوں۔ اس سلسلے میں قرآن کے الفاظ یہ ہیں: وَجَعَلْنَا مِنْہُمْ أَئِمَّةً یَہْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا (32:24)۔ یعنی اور ہم نے ان میں پیشوا بنائے جو ہمارے حکم سے لوگوں کی رہنمائی کرتے تھے، جب کہ انھوں نے صبر کیا۔
بڑا کام کرنے کا واحد راز یہ ہے کہ آدمی چھوٹا کام کرنے پر اپنے آپ کو راضی کرسکے۔ زندگی کی تعمیر میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کو گم نامی میں جانا پڑتاہے۔ اس کو کبھی آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے ہٹنا پڑتا ہے۔ اس کو ایسا کام کرنا پڑتا ہے جس میں اس پر بز دلی اور مصالحت کا الزام لگایا جائے۔
موجودہ زمانے میں بہت سے اعلیٰ صلاحیت کے افراد پیدا ہوئے۔ مگر ان میں سے ہر شخص کا یہ حال ہوا کہ اس کا اپنا شخصی گنبد تو کھڑا ہوگیا مگر اس کے ذریعہ سے ملت کا محل تعمیر نہ ہوسکا۔ اس کی واحد سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کی حوصلہ مندی ان کے لیے ’’چھوٹا کام“ کرنے میں مانع ہوگئی۔ ان میں سے ہر شخص ایسے کاموں کے پیچھے دوڑتا رہا جن کو بڑے بڑے الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہو— ایسا عمل صرف شخصیتیں بناتا ہے، وہ قوموں کی تعمیر نہیں کرتا۔
2 نومبر 1985
میںاکثر سوچتا تھا کہ درخت اتنے زیادہ حسین کیوں معلوم ہوتے ہیں۔ آخر اس کی وجہ یہ سمجھ میں آئی کہ درخت دوسروں کی زندگی میں دخل نہیں دیتے۔ ہر درخت اپنے آپ میں جیتا ہے۔ ہر درخت اپنا رزق خود حاصل کرتا ہے۔ مزید یہ کہ وہ دنیا سے جتنا لیتا ہے اس سے زیادہ وہ دنیا کو لوٹاتا ہے۔ وہ دنیا سے ’’مٹی اور پانی“ جیسی چیزیں لیتا ہے مگر وہ اس کو ہریالی اور پھول اور پھل کی صورت میں واپس کرتا ہے۔
انسان کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ انسان دوسروں کی زندگی میں مداخلت کرکے انھیں مشتعل کرتا ہے۔ وہ دوسروں کا استحصال کرتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ دوسروں کو کچھ نہ دے اور دوسروں سے ان کا سب کچھ لے لے۔یہی فرق ہے جس نے درخت کو ہر ایک کے لیے پرکشش بنا دیا ہے۔ اور انسان کو ایسا بنا دیا ہے جس میں دوسروں کے لیے کوئی کشش نہیں۔
4 نومبر 1985
ہندستانی مسلمانوں کی تقریریں اور تحریریں پڑھیے تو ایسا معلوم ہوگا گویا کہ وہی ہیں جنھوںنے ہندستان کو آزادی دلائی۔ وہی ہیں جنھوں نے سردھڑ کی بازی لگا کر ہندستان کو بیرونی سیاسی قبضہ سے آزاد کیا۔ مگر آزادی کے بعد لکھنے والوں نے ہندستان کی جو تاریخ لکھی ہے اس میں مسلمانوں کی کوئی حیثیت نہیں۔ تاریخ آزادی ٔ ہند میںمسلمان صرف تاریخ کے فوٹ نوٹ (footnote of history) بن کر رہ گئے ہیں۔
بڑا کام وہ ہے جس کا اعتراف کرنے پر دوسرے لوگ مجبور ہوجائیں۔ جو کام ہمارے اپنے ذہنی سانچہ میں بڑاہو، اور اس سے باہر جاتے ہی وہ چھوٹا ہوجائے وہ دراصل بڑا کام تھا ہی نہیں۔
5 نومبر1985
ہر انسان کے اوپر فطرت کا ایک چوکی دار مقرر ہے، جو اس کو برائی سے روکتا ہے۔ یہ حیا اور شرم کا جذبہ ہے ۔ جس آدمی کے اندر حیا نہ رہے، اس کے اندر گویا برائی کا آخری روک باقی نہ رہا۔ حیا کے سلسلے میں دو روایتیں یہ ہیں:
قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:إِنَّ مِمَّا أَدْرَکَ النَّاسُ مِنْ کَلاَمِ النُّبُوَّةِ، إِذَا لَمْ تَسْتَحْیِ فَافْعَلْ مَا شِئْتَ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 3483)۔یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: نبوت کے ذریعہ لوگوں کو جو بات ملی، ان میں سے ایک بات یہ ہے: جب تمھارے اندر شرم نہ رہے تو جو چاہے کرو۔
علقمہ بن عُلاثہ نے سے کہا :یَا رَسُولَ اللَّہِ عِظْنِی. فَقَالَ النَّبِیُّ - صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ- اسْتَحِ مِنْ اللَّہِ تَعَالَى اسْتِحْیَاءَک مِنْ ذَوِی الْہَیْبَةِ مِنْ قَوْمِک (ادب الدنیا والدین للماوردی، صفحہ249)۔ یعنی اے خدا کے رسول! مجھے نصیحت کیجیے۔ آپ نے فرمایا: اللہ سے اس طرح حیا کرو جس طرح تم اپنی قوم کی پر ہیبت شخصیتوں سے حیا کرتے ہو۔
واپس اوپر جائیں

اعلان

انسانیت کی تعمیر میں عورت کا ایک اہم رول ہے۔ مگر پوری تاریخ میں عورتوں کو انڈر یوٹیلائز ڈ (underutilized)کیا گیا ہے۔ مولاناوحید الدین خاں صاحب نےاسلامی تاریخ میں حضرت ہاجرہ اور دوسری خواتین کے رول کو دریافت کیا، اور اس کو ایکسپلین کرکے عورتوں کو ترغیب دی کہ وہ ان کے نقش قدم پر چلیں، اور اپنے potential کو ایکچولائز (actualize)کرکے وہ تاریخ دہرائیں، جو تاریخ اُن خواتین نے بنائی تھی۔ اس سلسلے میں انھوں نے قرآن و سنت اور تاریخ کے حوالے سے کئی کتابیں لکھی ہیں، جیسے ’’عورت معمارِ انسانیت‘‘ ، ’’خاتون اسلام‘‘ ۔ اب ان کی رہنمائی میں سی پی ایس لیڈیز نے ایک دعوتی گروپ شروع کیا جس کا نام ہے:
CPS Ladies International
اس گروپ میں انڈیا اور انڈیا کے باہر کی خواتین شامل ہیں۔ یہاں وہ اسلام کے مختلف پہلوؤں پراپنی ضرورت کے اعتبار سے ڈسکشن کرتی ہیں، جس سے ان کو دین کی گہری معرفت (deeper realization)حاصل ہوتی ہے، اور ان کا انٹلکچول ڈولپمنٹ ہوتا ہے۔یہ گروپ 29 اکتوبر 2020 کو شروع ہوا، اور اتنے کم وقت میں خواتین نے جو فیڈ بیک دیا، وہ بہت ہی حیرت انگیز (amazing) ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ان کی زندگی میں مثبت تبدیلی آئی۔ انھوں نے اس گروپ کو جوائن کرکے حقیقی اسلام کو سمجھا ہے ۔ اس سے پہلے ان کے نزدیک اسلام کا مطلب کچھ سماجی رسوم تھا، نہ کہ وہ اسلام جو اللہ نے اپنے پیغمبر کے ذریعےبھیجا ہے۔
اب ہم لوگوں نے آن لائن قرآن کلاس کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس وقت ہماری ہفتہ وار آن لائن قرآن کلاس شروع ہوچکی ہے۔اس سے ہمیں قرآن کے پیغام کو تذکیری اعتبار سےسمجھنے اور عملی زندگی میں اپنانے کا موقع ملتا ہے۔ اللہ نے چاہا تو یہ گروپ جدید سائنسی دور میں ہاجرہ کلچر کے اِحیا (revive) کا ذریعہ بنے گا، یعنی بےمثال جدوجہدکے ذریعے خدائی دین کو جدید معیار پر ثابت شدہ بنانا۔
سی پی ایس لیڈیز انٹرنیشنل سےاگر کوئی خاتون جڑنا چاہتی ہیں تواس ای میل یا واٹس ایپ پر اپنا نام اور نمبر بھیجیں:
fahmidakhan245@gmail.com
واٹس ایپ 09453215285
واپس اوپر جائیں