Pages

Sunday 1 November 2020

Al Risala | November 2020 (الرسالہ،نومبر)

4

-برتر ہستی کا تصور

5

- اللہ کی رؤیت

6

- عقیدۂ خدا اور سائنس

9

- لامحدود کائنات، انسانی محدودیت

10

- خدا کا عقیدہ

15

- حقیقت کی تلاش

18

- فطرت کی پکار

19

- ڈارون کا اعتراف

20

- برتر ہستی کی تلاش

21

- ذہین وجود

22

- خلائی تہذیب

23

- ماورائے انسان ذہانت

24

- ایلین لائف

25

- کون کنٹرول کرے

26

- کویزار

28

- زیادہ عجیب، کمتر عجیب

30

- سائنس اور خدا

31

- حکمت ِ تخلیق

32

- علم کا سفر

33

- سائنس توحید کی طرف

36

- دریافت کی اہمیت

37

- بامعنی کائنات

39

- سب سے بڑا المیہ

40

- معبود کی طلب

43

- ایک داعی کی وفات

44

- خدا ترس شخصیت

46

- ایگو فری شخصیت

47

- جواہر لال نہرو کا واقعہ

48

- دعوتی عمل کی منصوبہ بندی

49

- نامعلوم دنیا کا سفر

50

- دعوت الی اللہ


برتر ہستی کا تصور

ایک تحقیقاتی مطالعے میں بتایا گیا ہے کہ ہم پیدائشی طور پر خدا میں عقیدہ رکھنے والی مخلوق ہیں (we are born believers)۔ انسان کی نفسیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ایک برتر ہستی کا تصور اس کے اندر فطری طور پر موجودہے۔ یہ تصور اتنا قوی ہے کہ کوئی بھی تربیت اس کو ختم نہیں کرسکتی۔ اس حقیقت کو نفسیات کے ایک عالم نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
Belief in God is hardwired in our brain
یہ تحقیق ٹائمس آن لائن میں چھپی ہے، جس کو نئی دہلی کے اخبار ٹائمس آف انڈیا، نے اپنے شمارہ 8 ستمبر 2009 نے نقل کیا ہے۔مگر ماہرین کی رپورٹ میں غلط طور پر انسان کی اس خصوصیت کو نظریۂ ارتقا سے وابستہ کیا گیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ انسانی ذہن کی خدا پر عقیدے کی پروگرامنگ بذریعہ ارتقا ہوئی ہے، تاکہ اپنے اس عقیدے کی بنا پر انسان جہد للبقا کے عمل میں زیادہ بہتر مواقع پاسکے:
Human beings are programmed by evolution to believe in God, because it gives them a better chance of survival.
یہ سرتاسر ایک غیر منطقی بات ہے۔ تحقیق سے جو بات ثابت ہوئی ہے وہ یہ کہ انسان کے اندر پیدائشی طور پر فوق الطبیعی عقیدہ (supernatural belief)موجود ہوتا ہے۔ کوئی مرد یا عورت اس سے خالی نہیں۔ مگر یہ بات سر تاسر غیر ثابت شدہ ہے کہ یہ عقیدہ کسی مفروضہ ارتقا (evolution) کے ذریعے انسان کے اندر خود بخود پیدا ہوا ہے۔
موجودہ زمانے میں مختلف شعبوں میں علمی تحقیقات کی گئی ہیں۔ ہر شعبے کے تحقیقاتی نتائج اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ انسان پیدائشی طور پر ایک بر تر ہستی کا عقیدہ لے کر پیدا ہوتا ہے۔ یہ ذہن ہر انسان کو کسی نہ کسی پہلو سے مذہبی بنا دیتا ہے۔ حتی کہ جو لوگ بظاہر ملحد (atheist) سمجھے جاتے ہیں، ان کے ذہن کے کسی نہ کسی گوشے میں بھی یہ تصور موجود ہوتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

اللہ کی رؤیت

حدیث کی کتابوں میں ایک روایت آئی ہے، جو حدیث جبریل کے نام سے مشہور ہے۔ اس حدیث کا ایک جزء یہ ہے:أَنْ تَعْبُدَ اللَّہَ کَأَنَّکَ تَرَاہُ، فَإِنْ لَمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَإِنَّہُ یَرَاکَ (صحیح البخاری، حدیث نمبر50)۔ یعنی تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو جیسے کہ تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اس کو نہیں دیکھتے ہو تو وہ تم کو دیکھ رہا ہے۔
اس حدیث میں عبادت کی حقیقت کو بتایا گیا ہے۔ اسی کے ساتھ حدیث پر غور کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے لیے اگرچہ براہِ راست اللہ کی رؤیت (دیدار)ممکن نہیں ، لیکن انسان کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ شِبہ رؤیت کے درجے میں اللہ کو پاسکے۔ رؤیت اور شِبہِ رؤیت کے درمیان اگرچہ ظاہر کے اعتبار سے فرق ہے، لیکن حقیقت کے اعتبار سے دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ۔
کسی آدمی کو اللہ کی شِبہِ رؤیت کس طرح حاصل ہوتی ہے۔ اس کا طریقہ ہے اللہ کی تخلیق میں غور وفکر کرنا۔ اللہ اپنی ذات کے اعتبار سے اگرچہ ہمارے سامنے ظاہر نہیں ہے۔ لیکن اپنی صفات کے اعتبار سے وہ اپنی تخلیقات میں پوری طرح نمایاں ہے۔ تخلیق گویا خالق کی معرفت کا آئینہ ہے۔ جس نے تخلیق کو دیکھا، اس نے گویا خالق کو دیکھ لیا۔ ٹھیک اسی طرح جیسے کسی نے آرٹ کو دیکھا تواس نے گویا آرٹسٹ کو دیکھ لیا۔
موجودہ زمانے میں اہلِ سائنس نے یہ دریافت کیا ہے کہ کائنات ایک ذہین کائنات (intelligent universe) ہے۔ یہ دریافت اپنے آپ میں بتاتی ہے کہ کائنات میں ذہن کی کارفرمائی ہے۔ایسا ہے تو یقینی طور پر یہاں کوئی صاحبِ ذہن موجود ہے۔ ذہن کی کارفرمائی سے ذہن کا وجود ثابت ہوتا ہے، اور ذہن کا وجود یہ ثابت کرتا ہے کہ یہاں ایک صاحبِ ذہن ہستی موجود ہے۔ سائنس کی زبان میں یہ کہنا صحیح ہوگا کہ مذکورہ دریافت کے بعد خالق کا وجود پرابیبیلیٹی (probability)کے درجے میں ثابت ہوجاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

عقیدۂ خدا اور سائنس

سائنس اپنی حقیقت کے اعتبار سے عین اسی علم فطرت کا ظہور ہے، جس کی خبر پیشگی طورپر قرآن میں ان الفاظ میں دی گئی ہے— (ترجمہ) ہم لوگوں کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں اورانفس میں۔ یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ حق ہے (41:53)۔ سائنس کی جدیدتحقیقات کی روشنی میں کائنات کی جو نئی تصویر بنی ہے، وہ عین وہی ہے، جو قرآن میں پیشگی طورپر بتا دی گئی تھی۔ اس اعتبار سے جدید سائنسی دریافتیں گویا کتابِ الٰہی کے اشارات کی تفصیل ہیں، اور اسی کے ساتھ اس کی دلیل بھی۔ یہاں مختصر طورپر ان کا ذکر کیاجاتاہے۔جدید دریافت کے مطابق، کائنات کی ابتدا تقریباً13.8 بلین سال پہلے ہوئی۔ اس کے بعد مختلف تدریجی انقلابات سے گزرتےہوئے وہ اپنی موجودہ حالت تک پہنچی۔ اس پورے سفر کی روداد اس موضوع کی کتابوں میں پڑھ کر معلوم کی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ اس کو محسوس طور پر کسی سائنسی پلینٹیریم (Planetarium) میں دیکھا جاسکتاہے۔ میں نے یہ پورا منظر واشنگٹن کے نیشنل پلینٹیریم میں دیکھا ہے۔
سائنسی مطالعہ بتاتا ہے کہ13.8 بلین سال پہلے خلا میں ایک سپر ایٹم ظاہر ہوا۔ یہ ان تمام ذرات (particles) کا مجموعہ تھا ،جو موجودہ کائنات میں پائے جاتے ہیں۔ گویا موجودہ پوری کائنات ایک بہت بڑے فٹ بال جیسے گولے کی صورت میں شدت کے ساتھ باہمی طورپر چمٹی ہوئی تھی۔ اس گولے کے تمام ذرات بے حد طاقت ور کشش کے ساتھ ایک دوسرے سے داخلی طورپر جڑے ہوئے تھے۔ معلوم طبیعیاتی قانون کے مطابق، یہ ناممکن تھاکہ وہ ایک دوسرے سے جدا ہو کر بیرونی سمت میں سفر کریں۔اس وقت اس سُپر ایٹم کے اندر نہایت طاقتور دھماکہ ہوا۔ اس دھماکہ کے فوراً بعد سپر ایٹم کے ذرات بکھر کر تیزی سے بیرونی سمت میں سفر کرنے لگے۔ اس کے بعد یہ ذرات وسیع خلا میں مختلف مجموعوں کی صورت میں اکٹھا ہوگئے۔ انھیں مجموعوں سے خلامیں پائی جانے والی وہ دنیائیں بنیں، جن کو ستارہ، سیارہ، کہکشاں، شمسی نظام، زمین اور چاند جیسے الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے۔
سپر ایٹم کا یہ دھماکہ بیک وقت دو چیزیں ثابت کرتا ہے۔ایک یہ کہ یہاں کائنات سے الگ ایک طاقتور ہستی پہلے سے موجود تھی، جس نے اپنی ارادی مداخلت کے ذریعے یہ غیر معمولی واقعہ کیا کہ سپر ایٹم کے ذرات داخلی رخ پر سفر کے بجائے بیرونی رُخ پر سفر کرنے لگے۔
اس واقعے کا دوسرا عظیم پہلو یہ ہے کہ دھماکہ (explosion)ہمیشہ تخریبی نتائج کا سبب بنتا ہے۔ پٹاخہ سے لے کر بم تک ہر دھماکہ بلا استثنا یہی خاصیت رکھتا ہے۔ مگر سُپر ایٹم کا دھماکہ استثنائی طورپر غیر تخریبی تھا۔ اس نے مکمل طورپر صرف صحت مند اور تعمیری نتائج پیدا کیے۔ یہ استثنائی واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کائنات کا خالق لامحدود قدرت کا مالک ہے۔ وہ یہ استثنائی اختیار رکھتا ہے کہ واقعے کے ساتھ نتائج پر مکمل کنٹرول کرسکے۔مطالعہ بتاتاہے کہ ہماری کائنات ایک پھیلتی ہوئی کائنات (expanding universe) ہے۔ وہ غبارہ کی مانند مسلسل طورپر بیرونی سمت میں پھیل رہی ہے۔اس سے ثابت ہوتاہے کہ کائنات کا ایک متعین آغاز ہے۔ اگر کائنات ابدی ہوتی تو وہ اپنی اس پھیلتی ہوئی نوعیت کی بنا پر اب تک ختم ہوچکی ہوتی۔ یہ ثابت ہوناکہ کائنات کا ایک آغاز ہے، یہ بھی ثابت کردیتا ہے کہ اس کا کوئی آغاز کرنے والا ہے۔ ایک غیر موجودہ چیز کا آغاز اسی وقت ممکن ہے، جب کہ اس سے پہلے کوئی موجود ہو، جو اپنے ارادے سے اُس کا آغاز کرسکے۔
کائنات میں ایسے بے شمار شواہد ہیں جو یہ ثابت کرتےہیں کہ کائنات کا منصوبہ ساز اوراس کا ناظم صرف ایک ہے۔ اگر ایک سے زیادہ ناظم ہوتے تو یقینی طورپرکائنات میں فساد برپا ہوجاتا۔
مثال کے طورپر زمین اور سورج کا فاصلہ تقریباً 9کرور 30 لاکھ میل ہے۔ یہ فاصلہ مسلسل طورپر اپنی حالت پر برقرار رہتا ہے۔ اگر اس فاصلہ میں تبدیلی آجائے تو اس کے مہلک نتائج پیدا ہوں گے۔ مثلاً اگر یہ فاصلہ بڑھ کر 20 کرور میل دور ہوجائے تو زمین پر اتنی ٹھنڈک پیدا ہو کہ پانی، حیاتیات، حیوانات اور انسان سب منجمد ہوجائیں۔ اسی طرح یہ فاصلہ اگر کم ہو کر 5کرور میل ہوجائے تو زمین پر اتنی گرمی پیداہو کہ تمام چیزیں بشمول انسان جل کر ختم ہوجائیں۔
اس سے ثابت ہوتاہے کہ سورج اور زمین دونوں کا خدا ایک ہے۔ اگر دونوں کے خدا الگ الگ ہوتے تو دونوں الگ الگ اپنی مرضی چلاتے اور پھر یقینی طورپر یہ فاصلہ گھٹتا یا بڑھتا رہتا اوراس بے قاعدگی کی بنا پر زمین پر انسانی تہذیب کا وجود ناممکن ہوجاتا۔
نامعلوم حد تک وسیع کائنات میںہمارا زمینی سیارہ ایک نادر استثنا ہے۔ یہاں پانی اور ہوا اور نباتات جیسی ان گنت چیزیں پائی جاتی ہیں جو انسانی زندگی کے لیے لازمی طور پر ضروری ہیں۔ جب کہ وسیع خلا میں معلوم طورپر کوئی بھی ایسی دنیا موجود نہیں جہاں بقائے حیات کا یہ سامان پایا جاتاہو۔ یہ استثنا بتاتا ہے کہ یہ دنیا محض بے شعور مادہ کے ذریعہ نہیں بنی۔ بلکہ وہ ایک باشعور ہستی کا تخلیقی کرشمہ ہے۔ اگر وہ محض مادی قوانین کے بے شعور تعامل کا نتیجہ ہوتی تو کائنات میں بہت سی ایسی زمینیں ہوتیں ،نہ کہ صرف ایک ایسی زمین۔
ہماری دنیا کی ہر چیز انتہائی حد تک با معنی ہے۔ چیزوں کی معنویت یہ ثابت کرتی ہے کہ یہ دنیا ایک باشعور تخلیق کا نتیجہ ہے۔ کوئی دوسرا نظریہ اس حکمت اور معنویت کی توجیہہ نہیں کرسکتا۔ مثلاً زمین کے حجم (size) کو لیجیے۔ زمین کا موجودہ حجم تقریباً 25 ہزار میل کی گولائی میں ہے۔ یہ حجم بے حد با معنی ہے۔ چنانچہ یہ حجم اگر 50ہزار میل ہوتا تو زمین کی کشش اتنی زیادہ بڑھ جاتی کہ وہ انسانی جسم کی بڑھوتری کو روک دیتی۔ اس کے بعد زمین پر صرف بالشتیے قسم کے انسان (dwarf) دکھائی دیتے۔ اس کے برعکس اگر زمین کا حجم گھٹ کر 12 ہزار میل ہوتا تو اس کی قوتِ کشش اتنی کم ہوجاتی کہ وہ انسانی بڑھوتری کو روک نہ سکتی۔ انسان کا قد تاڑ (palm)کی طرح لمبا ہوجاتا۔ اس کے سوا اور بےشمار قسم کے غیر موافق حالات پیدا ہوتے جوانسان کی تمام تمدنی ترقیوں کو ناممکن بنا دیتے۔
مذکورہ پہلوؤں پر غور کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ سائنسی اعتبار سے، یہ مانے بغیر چارہ نہیں کہ اس دنیا کا ایک خالق ہے، اور وہ یقینی طورپر صرف ایک ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے میں ہمارے لیے جوانتخاب ہے، وہ با خدا کائنات (universe with God) اور بے خدا کائنات (universe without God) میں نہیں ہے۔ بلکہ ہمارے لیے حقیقی انتخاب باخدا کائنات (universe with God) اور غیر موجود کائنات (no universe at all) میں ہے۔ یعنی اگر ہم خدا کے وجود کا انکار کریں تو ہم کو کائنات کے وجود کابھی انکار کرنا پڑے گا۔ چوں کہ ہم کائنات کے وجودکا انکار نہیں کرسکتے اس لیے ہم خدا کے وجود کا بھی انکار نہیں کرسکتے۔ اس معاملے میں ہمارے لیے دوسرا ممکن انتخاب موجود نہیں۔
واپس اوپر جائیں

لامحدود کائنات، انسانی محدودیت

پچھلے تقریباً پانچ سو سال سے کائنات کا سائنسی مطالعہ جاری ہے۔ اِس مطالعے میں بڑے بڑے دماغ شامل رہے ہیں۔ آخری بات جہاں یہ سائنسی مطالعہ پہنچا ہے، وہ یہ ہے کہ کائنات اتنی زیادہ وسیع ہے کہ انسان کے لیے اُس کو اپنے احاطے میں لانا بہ ظاہر ناممکن ہے۔ تازہ ترین سائنسی تحقیق کے مطابق، انسان کا علم بہ مشکل کائنات کے صرف پانچ فی صد حصے تک پہنچا ہے۔ اِس پانچ فی صد حصے کے معاملے میں بھی انسانی علم کی محدودیت کا یہ عالم ہے کہ ایک سائنس داں نے کہا کہ ہم جتنا دریافت کرپاتے ہیں، اُس سے صرف یہ معلوم ہوتاہے کہ دریافت شدہ چیزیں بھی ابھی تک غیردریافت شدہ چیزوں کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم کم سے کم کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جان رہے ہیں:
We are knowing more and more about less and less.
تخلیق (creation) کے بارے میں جاننا خالق (Creator) کے بارے میں جاننا ہے۔ مگر تجربہ بتاتا ہے کہ ابھی تک انسان خالق کی تخلیق کے بارے میں بھی صرف چند فی صد جان سکا ہے۔ ایسی حالت میں کسی انسان کا یہ مطالبہ کرنا کہ خالق کے بارے میں ہم کو قطعی معلومات دو، سرتاسر ایک غیرعلمی مطالبے کی حیثیت رکھتا ہے۔ جب انسان کا حال یہ ہے کہ وہ ابھی تک تخلیق کے بارے میں پورا علم حاصل نہ کرسکا تو وہ خالق کے بارے میں پورا علم کیسے حاصل کرسکتا ہے۔
تخلیق کا وجود زمان ومکان(space and time) کے اندر ہے، اور خالق کا وجود ماورائے زمان ومکان(beyond space and time)سے تعلق رکھتا ہے، پھر جو انسان اتنا محدود ہو کہ وہ زمان ومکان کے اندر کی چیزوں کا بھی احاطہ نہ کرسکے، وہ زمان ومکان کے باہر کی حقیقت کو اپنے احاطے میں کس طرح لا سکتا ہے— حقیقت یہ ہے کہ اِس دنیا میں انسان خدا کو صرف عجز کی سطح پر دریافت کرسکتا ہے، نہ کہ علم کی سطح پر۔
واپس اوپر جائیں

خدا کا عقیدہ

کائنات کا ایک خدا ہے، جو اس کا خالق اور مالک ہے۔ اس خدا کے وجود کی سب سے بڑی دلیل خود وہ کائنات ہے، جو ہمارے سامنے پھیلی ہوئی ہے۔ کائنات اپنے پورے وجود کے ساتھ پکار رہی ہے کہ ایک عظیم خدا ہے، جس نے اس کو بنایا ،اور اپنی بے پناہ طاقت سے اس کو چلا رہا ہے۔ ہم مجبور ہیں کہ ہم کائنات کو مانیں، اور اسی لیے ہم مجبور ہیں کہ ہم خدا کو مانیں۔ کیوں کہ کائنات کو ماننا اس وقت تک بے معنی ہے، جب تک اس کے خالق ومالک کو نہ مانا جائے۔ کائنات اتنی حیرت انگیز ہے کہ وہ کسی بنانے والے کے بغیر بن نہیں سکتی ،اور اس کا نظام اتنا عجیب ہے کہ وہ کسی چلانے والے کے بغیر چل نہیں سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ خدا کو ماننے پر آدمی اس طرح مجبور ہے، جس طرح اپنے آپ کو یا کائنات کو ماننے پر۔
آپ سائیکل کے پہیے پر ایک کنکری رکھیں، اور اس کے بعد پیڈل چلا کر پہیے کو تیزی سے گھمائیں تو کنکری دور جاکر گرے گی۔ حالاں کہ سائیکل کے پہیے کی رفتار مشکل سے 25 میل فی گھنٹہ ہے۔ ہماری یہ زمین جس پر ہم رہتے ہیں، وہ بھی ایک بہت بڑے پہیے کی مانند ہے۔ زمین اپنے محور پر مسلسل ایک ہزار میل فی گھنٹے کی رفتار سے دوڑ رہی ہے۔ یہ رفتار سواری کے عام ہوائی جہازوں سے زیادہ ہے۔ ہم اس تیز رفتار زمین پر چلتے پھرتے ہیں۔ گھر اور شہر بناتے ہیں۔ مگر ہمارا وہ حال نہیں ہوتا، جو گھومتے ہوئے پہیے پر رکھی ہوئی کنکری کا ہوتا ہے۔ کیسا عجیب ہے یہ معجزہ۔
سائنسی تحقیق بتاتی ہے کہ زمین پر ہمارے قائم رہنے کی وجہ یہ ہے کہ نیچے سے زمین بہت بڑی طاقت کے ساتھ کھینچ رہی ہے، جس کو قوت کشش کہا جاتا ہے،اور اوپر سے ہوا کا بھاری دباؤ ہم کو زمین کی سطح پر روکے رہتا ہے۔ یہ دو طرفہ عمل ہم کو زمین پر تھامے ہوئے ہے، اور یہی وجہ ہے کہ ہم پہیے کی کنکری کی طرح فضا میں اڑ نہیں جاتے۔ مگر یہ جواب صرف یہ بتاتا ہے کہ ہمارے آس پاس ایک اور اس سے بھی زیادہ بڑا معجزہ موجود ہے۔ زمین میں اتنے بڑے پیمانے پر کھینچنے کی قوت ہونا، اور اس کے چاروں طرف ہوا کا پانچ سو میل موٹا غلاف مسلسل لپٹا رہنا صرف معاملے کی حیرت ناکی کو بڑھاتا ہے، وہ کسی بھی درجے میں اس کو کم نہیں کرتا۔
حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا کی ہر چیز معجزہ ہے۔ آدمی مٹی کے اندر ایک چھوٹا سا دانہ ڈالتا ہے۔ اس کے بعد حیرت انگیز طورپر وہ دیکھتا ہے کہ مٹی کے اندر سے ایک ہری اور سفید مولی نکلی چلی آرہی ہے۔ وہ دوسرا دانہ ڈالتا ہے تو وہ دیکھتا ہے کہ اس کے اندر سے میٹھا گاجر نکلا چلا آرہا ہے۔ اسی طرح بے شمار دوسری چیزیں۔ کسی دانے کو مٹی میں ڈالنے سے امرود نکل رہا ہے۔ کسی دانے کو ڈالنے سے آم۔ کسی دانے سے شیشم کا درخت نکلا چلا آرہا ہے، اور کسی دانے سے چنار کادرخت۔ پھر ان میں سے ہر ایک کی صورت الگ، ہر ایک کا مزہ الگ، ہر ایک کے فائدے الگ، ہر ایک کی خاصیتیں الگ۔ ایک ہی مٹی ہے، اور ناقابلِ لحاظ چھوٹے چھوٹے بیج ہیں، اور ان سے اتنی مختلف چیزیں اتنی مختلف صفتوں کو لیے ہوئے نکل رہی ہے، جن کی گنتی نہیں کی جاسکتی۔
حیرت ناک معجزوں کی ایک پوری کائنات ہمارے چاروں طرف پھیلی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ ایک ایسی دنیا جہاں سارے انسان مل کر ایک ذرے کی بھی تخلیق نہیں کرسکتے وہاں ہر لمحہ بےشمار طرح طرح کی چیزیں پیداہوتی چلی جارہی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب اتنے بڑے معجزے ہیں کہ ان کے کمالات کو انسانی زبان میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ ان کو بتانے کے لیے ہماری لغت کے تمام الفاظ بھی ناکافی ہیں۔ ہمارے الفاظ ان معجزوں کے اتھاہ کمالات کو صرف محدود کرتے ہیں۔ وہ کچھ بھی ان کا اظہار نہیں کرتے۔ کیا یہ معجزہ ایک خدا کے بغیر خود بخود وجود میں آسکتا ہے۔
دنیا کی ہر چیز ایٹم سے بنی ہے۔ ہر چیز اپنے آخری تجزیے میں ایٹموں کا مجموعہ ہے۔ مگر کیسا عجیب معجزہ ہے کہ کہیں ایٹموں کی ایک مقدار جمع ہوتی ہے تو سورج جیسا روشن کرہ بن جاتاہے۔ دوسری جگہ یہی ایٹم جمع ہوتے ہیں تو وہ بہتے ہوئے پانی کی صورت میں رواں ہوجاتےہیں۔ تیسری جگہ ایٹموں کا یہی مجموعہ لطیف ہواؤں کی صورت اختیار کرلیتاہے۔ کسی اور جگہ یہی ایٹم زرخیز زمین کی صورت میں ڈھل جاتے ہیں۔اسی طرح دنیا میں ان گنت چیزیں ہیں۔ سب کی ترکیب ایٹم سے ہوئی ہے۔ مگر سب کی نوعیت اور خاصیت جدا جدا ہے۔ اس قسم کی ایک معجزاتی کائنات اپنی بے شمار سرگرمیوں کے ساتھ انسان کی خدمت میں لگی ہوئی ہے۔ انسان کو اپنی زندگی کے لیے جو کچھ درکار ہے وہ بہت بڑے پیمانے پر دنیا میں جمع کردیا گیا ہے، اور ہر روز جمع کیا جارہا ہے۔ دنیا کو اپنے لیے قابلِ استعمال بنانے کی خاطر انسان کو خودجو کچھ کرنا ہے، وہ بہت تھوڑا ہے۔ کائناتی انتظام کے تحت بے حساب مقدار میں قیمتی رزق پیدا کیا جاتا ہے۔ ہم اس میں صرف اتنا کرتے ہیں کہ اپنا ہاتھ اور منھ چلا کر اس کو اپنے پیٹ میں ڈال لیتے ہیں۔ اس کے بعد ہمارے ارادے کے بغیر خود کار فطری نظام کے تحت غذا ہمارےاندر تحلیل ہوتی ہے، اور گوشت اور خون اور ہڈی اور ناخن اور بال اور دوسری بہت سی چیزوں کی صورت اختیار کرکے ہمارے جسم کا جزء بن جاتی ہے۔
زمین وآسمان کی بے شمار گردشوں کے بعد وہ حیرت انگیز چیز پیدا ہوتی ہے، جس کو تیل کہتےہیں۔ انسان صرف یہ کرتا ہے کہ اس کو نکال کر اپنی مشینوں میں بھر لیتاہے، اور پھر یہ سیال ایندھن انسانی تہذیب کے پورے نظام کو حیرت انگیز طور پر رواں دواں کردیتاہے۔ اسی طرح کائنات کے نظام کے تحت وہ ساری چیزیں بے شمار تعداد اور مقدار میں پیدا کی گئی ہیں، جن پر انسان صرف معمولی عمل کرتاہے، اور اس کے بعد وہ کپڑا، مکان، فرنیچر، آلات، مشینوں، سواریوں اور بےشمار تمدنی ساز وسامان کی صورت میں ڈھل جاتی ہیں۔ کیا یہ واقعات اس بات کے ثبوت کے لیے کافی نہیں کہ اس کا ایک بنانے والا اور چلانے والا ہے۔
اب ایک اور پہلو سے دیکھیے۔ قدرت اپنے طویل اور ناقابلِ بیان عمل کے ذریعے ہر قسم کی چیزیں تیار کرکے ہم کو دے رہی ہے۔ انسان ان کواپنے حق میں کار آمد بنانے کے لیے بے حد تھوڑا حصہ ادا کرتا ہے۔وہ لوہے کو مشین کی صورت میں ڈھالتا ہے، اور تیل کو صاف کرکے اس کو اپنی گاڑی کی ٹنکی میں بھرتاہے۔ مگر اس قسم کے معمولی عمل کا یہ نتیجہ ہے کہ خشکی اور تری فساد سے بھرگئے ہیں۔ قدرت نے ہم کو ایک انتہائی حسین اور خالص دنیادی تھی۔ مگر ہمارے عمل نے ہم کو دھواں، شور، غلاظت، توڑپھوڑ، لڑائی جھگڑا اور طرح طرح کے ناقابلِ حل مسائل سے گھیر لیا ہے۔ ہم اپنے کارخانوں یا تمدّنی سرگرمیوں کی صورت میں جو تھوڑا سا عمل کرتے ہیں، وہی عمل کائنات میں بےحساب گنا زیادہ بڑے پیمانے پر رات دن ہورہا ہے، مگر یہاں کسی قسم کا کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔
زمین مسلسل دو قسم کی دوڑ میں لگی ہوئی ہے۔ ایک، اپنے محور (axis)پراور دوسری، سورج کے گرد اپنے مدار (orbit)پر، مگر وہ کوئی شور برپا نہیں کرتی۔ درخت ایک عظیم الشان کارخانہ کی صورت میں کام کرتے ہیں مگر وہ دھواں نہیں بکھیرتے۔ سمندروں میں بے شمار جانور ہر روز مرتے ہیں مگر وہ پانی کو خراب نہیں کرتے۔ کائنات کا نظام کھرب ہا کھرب سال سے چل رہا ہے۔ مگر اس کا منصوبہ اتنا کامل ہے کہ اس کو کبھی اپنے منصوبہ پر نظر ثانی کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ بے شمار ستارے اور سیارے خلا میں ہر وقت دوڑ رہے ہیں۔ مگر ان کی رفتار میں کبھی فرق نہیں آتا، وہ کبھی آگے پیچھے نہیں ہوتے۔ یہ تمام معجزوں سے بڑا معجزہ اور تمام کرشموں سے بڑا کرشمہ ہے، جو ہر لمحہ ہماری دنیا میں پیش کیا جارہا ہے۔ کیا اس کے بعد کوئی اور ثبوت چاہیے کہ آدمی اس کائنات کے پیچھے ایک عظیم خدائی طاقت کو تسلیم کرے۔
پھر زندگی کو دیکھیے۔ فطرت کا کیسا انوکھا واقعہ ہے کہ چند مادی چیزیں خود بخود ایک جسم میں یک جا ہوتی ہیں، اور پھر ایک ایسی شخصیت وجود میں آجاتی ہے، جو مچھلی بن کر پانی میں تیرتی ہے، جو چڑیا بن کر ہوا میں اڑتی ہے۔ طرح طرح کے جانوروں کی صورت میں زمین پر چلتی پھرتی ہے، انھیں میں وہ جان دار بھی ہے، جس کو انسان کہا جاتا ہے۔ پراسرار اسباب کے تحت ایک موزوں جسم بنتا ہے، اور اس کے اندر ہڈیاں ایک انتہائی با معنی ڈھانچے کی صورت اختیار کرلیتی ہیں۔ پھر اس کے اوپر گوشت چڑھایا جاتا ہے۔اس کے اوپر کھال کی تہیں اوڑھائی جاتی ہیں، بال اور ناخن پیدا کیے جاتے ہیں۔ پھر سارے جسم میں خون کی نہریں جاری کی جاتی ہیں۔ اس طرح ایک خود کار عمل کے ذریعے ایک عجیب وغریب انسان بنتا ہے، جو چلتا ہے، جو پکڑتا ہے، جو دیکھتا ہے، جو سنتا ہے، جو سونگھتا ہے، جو چکھتا ہے، جو سوچتا ہے، جو یاد رکھتا ہے، جو معلومات جمع کرکے ان کو مرتب کرتا ہے، جو لکھتااور بولتا ہے۔ مردہ مادّے سے اس قسم کے ایک حیرت ناک وجود کا بن جانا ایک ایساانوکھا واقعہ ہے کہ معجزے کا لفظ بھی اس کے اعجاز (miracle)کو بتانے کے لیے کافی نہیں۔
اگر کوئی شخص کہے کہ میں نے مٹی کو بولتے ہوئے سنا اور پتھر کو چلتے ہوئے دیکھا تو لوگ حیران ہو کر اس کی تفصیل دریافت کریں گے۔ مگر یہ انسان جو چلتا پھرتاہے، جو بولتا اور دیکھتا ہے آخر مٹی پتھر ہی تو ہے۔ اس کے اجزاء وہی ہیں، جو ’’مٹی اور پـتھر‘‘ کے ہوتے ہیں۔ مٹی اور پتھر کے بولنے اور دیکھنے کی خبر کو ہم جس طرح عجیب سمجھیں گے، اسی طرح بلکہ اس سے زیادہ تعجب ہم کو اس مخلوق پر ہونا چاہیے جس کو انسان کہاجاتاہے۔ بے جان مادّے میں اس قسم کی زندگی اور شعور پیدا ہوجانا کیا اس بات کا ثبوت نہیں کہ یہاں ایک برتر ہستی ہے، جس نے اپنی خصوصی قدرت سے یہ عجیب وغریب معجزہ رونما کیا ہے۔
انسان اگر اپنے اوپر غور کرے تو بہ آسانی وہ خدا کی حقیقت کو سمجھ سکتاہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کی صورت میں ایک ’’میں‘‘ زمین پر موجود ہے۔ اس کی اپنی ایک مستقل ہستی ہے۔ وہ دوسری چیزوں سے الگ اپنا ایک وجود رکھتا ہے۔ یہ ’’میں‘‘ بلا اشتباہ یقین رکھتا ہے کہ وہ ہے۔ وہ سوچتا ہے اور رائے قائم کرتاہے۔ وہ ارادہ کرتاہے، اور اس کو بالفعل نافذ کرتاہے۔ وہ اپنے فیصلہ کے تحت کہیں ایک رویہ اور کہیں دوسرا رویہ اختیار کرتاہے۔ یہی شخصیت اور قوت جس کا ایک آدمی اپنی ’’میں‘‘ کی سطح پر ہر وقت تجربہ کررہا ہے یہی ’’میں‘‘ اگر خدا کی صور ت میں زیادہ بڑےپیمانہ پر موجود ہو تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خدا کو ماننا ایسا ہی ہے جیسے اپنے آپ کو ماننا۔ اسی لیے قرآن میں کہا گیا ہے: بَلِ الْإِنْسَانُ عَلَى نَفْسِہِ بَصِیرَةٌ۔ وَلَوْ أَلْقَى مَعَاذِیرَہُ(75:14-15)۔ آدمی اپنے واسطے آپ دلیل ہے، چاہے وہ کتنی ہی معذرت کرے ۔
لوگ خدا پر اور خدا کے پیغام پر یقین کرنے کے لیے معجزاتی دلیل مانگتے ہیں۔ آخر لوگوں کو اس کے سوا اور کون سا معجزہ درکار ہے، جو ناقابلِ قیاس حد تک بڑے پیمانے پر ساری کائنات میں جاری ہے۔ اگر اتنا بڑا معجزہ آدمی کو جھکانے کے لیے کافی نہ ہو تو دوسرا کوئی معجزہ دیکھ کر وہ کیسے ماننے کے لیے تیار ہوجائیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ خدا کو ماننے اور اس کے آگے اپنے آپ کو سرینڈر کرنے کے لیے جس چیز کی ضرورت ہے، وہ ہر وقت ہر آدمی کے سامنے موجود ہے۔ اس کے باوجود آدمی اگر خدا کو اور اس کے جلال وکمال کو نہ مانے تو یہ اس کا اپنا قصور ہے ،نہ کہ کائنات کا۔
واپس اوپر جائیں

حقیقت کی تلاش

گلیلیوگلیلی (1564-1642) اپنی سادہ دوربین سے چاند کا صرف سامنے کا رخ دیکھ سکتا تھا۔ آج کا انسان خلائی جہاز میں لگے ہوئے دور بینی کیمروں کی مدد سے چاند کا پچھلا رخ بھی پوری طرح دیکھ رہاہے۔ یہ ایک سادہ سی مثال ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کل اور آج میں علمی اعتبار سے کتنا زیادہ فرق ہوچکا ہے۔
مگر ان جدید معلومات تک پہنچنے کی قیمت بہت مہنگی ہے۔ 10 اکتوبر 1980 کو نیومیکسیکو میں دنیا کی سب سے بڑی دور بین نصب کی گئی۔ اس کی قیمت 78 ملین ڈالر تھی۔امریکا کا ایک خلائی جہاز، وائیجر1(Voyager 1) جو نومبر 1980 میں زحل کے پاس پہنچا اس کی لاگت 340 ملین ڈالر تھی۔ یورپ میں پارٹیکل فزکس کی بین اقوامی لیبوریٹری (CERN) 1981میں مکمل ہوئی ہے، اس کا مقصد اینٹی میٹر کو توڑ کر میٹر میں تبدیل کرنا ہے، اس لیبوریٹری کی لاگت 120 ملین ڈالر ہے۔ یہ ادارہ ایک اور زیادہ بڑی تحقیقی مشین تیار کرنےکا منصوبہ بنا رہا ہے، جس کی لاگت 550 ملین ڈالر ہوگی۔ پروٹان کی تحقیق کے لیے امریکا میں ایک مشین بنائی گئی ہے، جس کی لاگت 275 ملین ڈالر ہے، وغیرہ۔
پارٹیکل فزکس (ذراتی طبیعیات) میں لوگوں کی بڑھتی ہوئی دل چسپی کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ 1927 میں ہونے والی فزکس کانفرنس میں 32 سائنس داں شریک ہوئے تھے، جب کہ 1980 میں ہونے والی فزکس کانفرنس میں شریک ہونے والے سائنس دانوں کی تعداد 800 تھی۔ امریکن فزیکل سوسائٹی (APS) 1899 میں قائم کی گئی۔ اس کے ممبروں کی تعداد 1920 میں 1300 تھی، 1980 میں اس سوسائٹی کے ممبروں کی تعداد 30,000تھی، اور 2020 میں اس کے ممبران کی تعداد 50,000 ہے۔
ان جدید تحقیقاتی کوششوں کا تعلق اسٹرانومی اور پارٹیکل فزکس (ذراتی طبیعیات) سے ہے۔ ان علوم میں تحقیقات کے نتائج بہت دیر میں نکلتے ہیں۔ تقریباً 50 سال بعد یا اس سے بھی زیادہ۔ اگر اس کا لحاظ کیا جائے کہ ان تحقیقات میں لگی ہوئی رقم (جس پر کوئی سود نہیں ملتا) کی قیمت ہر سال کم ہوتی رہتی ہے تو پچاس سال بعد ایک سو ڈالر کی قیمت صرف ایک ڈالر کے بقدر رہ جائے گی۔ بہ ظاہر ایک بے فائدہ مد میں اتنی کثیر رقم خرچ کرنے کی وجہ سے بہت سے لوگ ایسے منصوبوں پر اعتراض کررہے ہیں۔ اس کا جواب دیتے ہوئے امریکی پروفیسر راجر پنروز (Roger Penrose [b. 1931]) نے کہا ہے:
Do economists not share with us the thrill that accompanies each new piece of understanding? Do they not care to know where we have come from, how we are constituted, or why we are here? Do they not have a drive to understand, quite independent of economic gain? Do they not appreciate the beauty in ideas? — A civilisation that stopped inquiring about the universe might stop inquiring about other things as well. A lot else might then die besides particle physics. (SUNDAY Weekly [Calcutta] Nov 30, 1980)
کیا اقتصادیات کے ماہرین اس وجد انگیز مسرت میں ہمارے ساتھ شریک نہیں ہیں، جو علم کے ہر نئے اضافے سے حاصل ہوتی ہے۔ کیا ان کو یہ جاننے کا شوق نہیں ہے کہ ہم کہاں سے آئے ہیں، ہماری پیدائش کیسے ہوئی ہے یا یہ کہ اس زمین پر ہم کیوں ہیں۔ کیا اقتصادی فائدہ سے ہٹ کر ان باتوں کو جاننے کا جذبہ ان کے اندر پیدا نہیں ہوتا۔ کیا وہ نظریات میں حسن کی قیمت کو نہیں سمجھتے۔ کوئی تہذیب جو کائنات کے بارے میں تحقیق سے رک جائے، وہ دوسری چیزوں کے بارے میں تحقیق کو بھی روک دے گی۔ اس کے بعد پارٹیکل فزکس کے علاوہ دوسری بہت سی چیزیں بھی موت کا شکار ہو کر رہ جائیں گی۔
اس اقتباس سے اندازہ ہوتاہے کہ زندگی کی حقیقت جاننے کا مسئلہ کس قدر ضروری ہے۔ وہ انسان جو خدا کی بنیاد پر کائنات کی تشریح نہیں کرنا چاہتا وہ بھی انتہائی بے تاب ہے کہ وہ کوئی ایسی چیز پالے جس کی بنیاد پر وہ اپنی اور کائنات کی تشریح کرسکے۔ حقیقت یہ ہے کہ نظر آنے والی کائنات اور اس کے اندر انسان جیسی ایک مخلوق کا موجود ہونا اس قدر حیران کن ہے کہ انسان اس کی ماہیت کے بارے میں سوچے بغیر نہیں رہ سکتا۔ کوئی بھی دوسری چیز اس کو اس سوال سے بے نیاز کرنے والی ثابت نہیں ہوسکتی۔ حتی کہ بڑی بڑی مادی ترقیاں بھی۔
انسان دیکھتا ہے کہ وہ ایک لامحدود کائنات میں ہے۔ اس کائنات میں تقریباً ایک کھرب کہکشائیں ہیں۔ ہر کہکشاں میں لگ بھگ ایک کھرب بہت بڑے بڑے ستارے ہیں، اور ہر ستارہ دوسرے ستارے سے اتنا زیادہ فاصلہ پر ہے جیسے بحر الکاہل (Pacific Ocean) کے لق ودق سمندر میں چندکشتیاں ایک دوسرے سے دور دور تیر رہی ہوں۔ عظیم کائنات میں پھیلے ہوئے ستاروں کی یہ تعداد اتنی زیادہ ہے کہ اگر ہر ستارہ کا کوئی یک لفظی نام رکھا جائے ،اور کوئی ان ناموں کو بولنا شروع کرے تو صرف تمام ناموں کو دہرانے کے لیے 300 کھرب (30 ٹریلین )سال کی مدت درکار ہوگی (پلین ٹرتھ، جنوری، 1981)۔
اس ناقابلِ قیاس حد تک عظیم کائنات میں انسان سب سے زیادہ حقیر مخلوق ہے۔ وہ کائناتی نقشے میں ان چھوٹے جزیروں سے بھی کم ہے، جو بہت چھوٹے ہونے کی وجہ سے عام طورپر دنیا کے نقشوں میں دکھائی نہیں دیتے۔ یہ انسان اپنے تمام چھوٹے پن کے باوجود کائنات کے فاصلوں کو ناپ رہا ہے۔ وہ طبیعیاتی ذروں سے لے کر کہکشاتی نظاموں تک کی تحقیق کررہاہے۔ وہ ایک ایسا ذہن رکھتا ہے، جو ماضی اور مستقبل کا تصور کرسکے۔ یہ سب کیوں ہورہا ہے اور کیسے ہورہاہے، اور بالآخر اس عجیب وغریب ڈرامے کا کیا انجام ہونے والا ہے۔ یہ سوالات ہر سوچنے والےانسان کے اوپر منڈلا رہے ہیں۔ وہ ان کی حقیقت تک پہنچنا چاہتا ہے۔ مگر انسان کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ ان سوالات کا جواب دور بینی مشاہدات اور لیبوریٹری کے تجربات میں ڈھونڈ رہاہے۔ حالاں کہ ان سوالات کا جواب پیغمبر کے الہام کے سوا کہیں اور موجود نہیں۔
جس کائنات میں اتنی زیادہ دنیائیں ہوں کہ صرف ان کا نام لینے کے لیے تین سو کھرب(30 Trillion) سال سے زیادہ مدت درکارہو۔ اس کی حقیقت کو وہ انسان کیوں کر دریافت کرسکتا ہے، جو پچاس سال یا سو سال زندگی گزار کر مر جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خالق ہی اس راز کو کھول سکتا ہے، اور اسی نے پیغمبر کے ذریعے اس کو کھولا ہے۔
واپس اوپر جائیں

فطرت کی پکار

مسٹر یاکوف زلڈووچ (Yakov Zeldovich) روس کے مشہور سائنس داں ہیں۔ ان کی پیدائش 1914 میں ہوئی، اور وفات 1987 میں ۔ وہ روس کی اکیڈمی آف سائنسز کے ممبر رہ چکے ہیں۔ سوویت یونین کے زمانے میں ماسکو سےشائع ہونے والے انگریزی ماہ نامہ اسپٹنک (Sputnik) شمارہ اگست 1987 میںان کا ایک مضمون چھپا تھا، جس کا عنوان ہے:
Truth, Progress and the Human Soul
اس مضمون میں مسٹر زلڈووچ نے اپنے بارے میں اقرار کیا ہے کہ وہ ایک اتھیسٹ ہیں، وہ خدا اور مذہب کو نہیں مانتے۔ مگر اسی کے ساتھ وہ کہتے ہیں کہ انسانی معاشروں میں مذہب کی موجودگی ایک ثابت شدہ تاریخی حقیقت ہے۔ نیز یہ کہ روحانی تقاضے انسان کے شعور میں گہرائی کے ساتھ پیوست ہیں:
Spiritual needs are deeply embedded in human consciousness.
انسانی فطرت کی یہ نوعیت اتنی واضح اور اتنی قطعی ہے کہ تمام سنجیدہ لوگوں نےاس کا اقرار کیا ہے۔ قدیم ترین زمانے سے لے کر آج تک تمام انسان اس احساس کو لے کر پیدا ہوتےرہے ہیں۔ ملحد معاشروں میں پیدا ہونے والے بچے بھی اپنے آپ کو اس احساس سے خالی نہ کرسکے۔ انسانی فطرت کا یہ تقاضا ایک ایسی مانی ہوئی حقیقت ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔
اس حقیقت کو مان لینے کے بعد صرف یہ سوال باقی رہتاہے کہ اس تقاضے کا جواب کیا ہے۔مذکورہ سائنس داں کا کہنا ہے کہ اس کا جواب نیچرل سائنس ہے۔ مگر یہ جواب اپنی تردید آپ ہے۔ اس لیے کہ نیچرل سائنس ایک مادی چیز ہے، اور انسانی فطرت کا تقاضا ایک روحانی چیز۔ پھر ایک مادی چیز ایک روحانی سوال کا جواب کس طرح بن سکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس سوال کا جواب صرف خداوند تعالی ہے۔ مخلوق اپنے خالق کی تلاش میں ہے، اور خالق کو پانے کے بعد ہی مخلوق کو سکون حاصل ہوسکتاہے:اَلا بِذِکْرِ اللہِ تَطْمَئِنُّ القُلُوبُ(13:28)۔
واپس اوپر جائیں

ڈارون کا اعتراف

چارلس ڈارون (1809-1882) نے یہ نظریہ پیش کیا کہ انسان دوسرے حیوانات ہی کی ترقی یافتہ نسل ہے۔ یہ ایک بے حد عجیب نظریہ تھا۔ کیونکہ انسان انتہائی غیر معمولی حد تک دوسرے جانوروں سے مختلف ہے۔ پھر کیسے یہ ممکن ہوا کہ امیبا کا دماغ ترقی کرتے کرتے انسان کا دماغ بن جائے۔ یہ نظریہ اتنا بعید از قیاس تھا کہ ڈارون خود اپنے اس نظریے کے بارےمیں حیرانی میں مبتلا ہوگیا۔ اس نے اپنی ڈائری (Darwin's Diary, April 1881) میں لکھاہے:
Can the mind of man, which has, as I fully believe, been developed from a mind as low as that possessed by the lowest animal, be trusted when it draws such a grand conclusion?...I cannot pretend to throw the least light on such abstruse problems.
(www.pbs.org/wgbh/evolution/darwin/diary/1881.html. accessed on 01.04.2020)
انسان کا دماغ جس کے متعلق میرا کامل عقیدہ ہے کہ وہ اس معمولی دماغ سے ترقی کرکے بناہے جو انتہائی ادنیٰ حیوانات کو حاصل ہوتا ہے۔ کیا ایسے دماغ پر اس وقت بھروسہ کیا جاسکتا ہے، جب کہ وہ اتنے بڑے بڑے نتائج کررہا ہو۔ میں یہ دکھانے کی جھوٹی کوشش نہیں کروں گا کہ میں اس قسم کے مشکل مسائل پر کچھ بھی روشنی ڈال سکتا ہوں۔
حقیقت یہ ہے کہ زندگی اور کائنات کی تشریح کا مسئلہ ناقابلِ قیاس حد تک بڑا مسئلہ ہے۔ کوئی انسان اپنی محدود عمر اور محدود صلاحیت کے ساتھ اس کی تشریح کا اہل نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ جو شخص بھی اس کی تشریح کرنے بیٹھتا ہے وہ ہمیشہ احساسِ عجز کا شکار رہتاہے۔ خواہ اپنی زبان سے وہ اس کا اقرار کرے یا نہ کرے۔یہ واقعہ اس کا ثبوت ہے کہ زندگی اور کائنات کی حقیقت بتانے کے لیے انسانی دماغ سے برتر ایک دماغ درکار ہے۔ یہ کام صرف خدا کرسکتا ہے، اور خدا نے پیغمبروں کے واسطے سے اس کو انجام دیا ہے۔ یہ ایک قرینہ ہے جو پیغمبرانہ ہدایت کی ضرورت اور واقعیت کو ثابت کرتاہے۔
واپس اوپر جائیں

برتر ہستی کی تلاش

ڈاکٹر جے۔وی۔نارلیکر (Jayant Vishnu Narlikar) انڈیا کے عالمی شہرت یافتہ ماہر فلکی طبیعیات(astrophysicist) ہیں۔ ان کی پیدا ئش 1938 میں ہوئی۔ ان سے ایک انٹرویو میں کہاگیا کہ ’’مذہبی توہمات‘‘ کی پرستش میں سائنس داں دوسرے لوگوں سے پیچھے نہیں ہیں۔ حتی کہ کتنے سائنس داں دیوتاؤں تک میں عقیدہ رکھتے ہیں۔ اس کے جواب میں ڈاکٹر نارلیکر نے کہا:’’مجھے یہ بات بے حد ناپسند ہے۔ عملاً میں دیکھتاہوں کہ بہت سے سائنس داں ، جب اپنی تجربہ گاہ میں کام کررہے ہوتے ہیں تو وہ سائنٹفک نقطۂ نظر کو اپناتے ہیں۔ مگر جب وہ اپنے گھر جاتےہیں تو وہ سائنٹفک طریقے کا بالکل استعمال نہیں کرتے۔ مثال کے طورپر، مغرب کے اعلی تعلیم یافتہ لوگوں میں جیوتش پر عقیدہ پھیل رہا ہے۔ یہ ایک نفسیاتی مسئلہ ہے۔ انسان کی اس خواہش نے اس کو جنم دیا ہے کہ وہ آسان اور فوری تسکین کو پالے۔ یہ حقیقةً ایک ذہنی سہارا ہے‘‘۔(ٹائمس آف انڈیا 30 اپریل 1979)
کوئی شخص خواہ جاہل ہو یا عالم، کامیاب ہو یا ناکام، زندگی میںاس کو بار بار ایسے مرحلے پیش آتے ہیں، جہاں وہ اپنے عجز (helplessness) کا تجربہ کرتاہے۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ وہ بے بس وجود ہے۔ یہ چیز اس کو اپنے سے برتر ہستی کی تلاش کی طرف لے جاتی ہے ،جو اس کی کمیوں کا بدل بن سکے۔ مغرب کے اعلی تعلیم یافتہ لوگ جن کے لیے مادی مواقع کے تمام دروازے کھلے ہوتے ہیں، وہ جب اپنی ’’ذہنی تسکین‘‘ کے لیے ما بعد الطبیعیات عقائد کا سہارا لیتے ہیں تو باعتبارِ حقیقت یہ فرضی نہیںہوتا۔ یہ دراصل اپنی فطرت کی خاموش پکار کا جواب ہوتاہے۔ اگر چہ اپنی تلاش کا صحیح جواب نہ پانے کی وجہ سے وہ ’’جیوتش‘‘ جیسی توہماتی چیزوں میںاٹک جاتے ہیں — خدا کا وجود نہ صرف یقینی ہے ،بلکہ وہ انسان کے لیے اتنا ضروری ہے کہ اس کے بغیر وہ ایک لمحہ بھی نہیں رہ سکتا۔
واپس اوپر جائیں

ذہین وجود

موجودہ زمانے کے سائنس دانوں جن چیزوں کی کھوج میں لگے ہوئے ہیں، ان میں سے ایک ایلین (alien)تہذیب ہے۔ زمین پر انسانی تہذیب کے علاوہ کیا خلا میں کوئی اور تہذیب ہے، جو ہم سے زیادہ ترقی یافتہ ہے۔ پچھلے 25 برسوں کے سائنسی مطالعے نے کافی حد تک یہ امکان ظاہر کیا ہے کہ کائنات میں ہمارے علاوہ دوسری ’’ٹکنکل سولائزیشن‘‘ بھی ہوسکتی ہے۔
اس قیاس کی وجہ یہ ہے کہ سائنس دانوں کو کائنات میں ماورائی ذہانت (extraterrestrial intelligence) کے آثار ملے ہیں۔ ان آثار کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ خدا کے وجود پر لوگوں کا یقین بڑھتا، مگر غیر خدا پرستانہ ذہن کا یہ کرشمہ ہے کہ وہ ماورائی ذہانت کو انسانی ذہانت سمجھ رہے ہیں۔ جو حقیقۃً خدا کا وجود ثابت کررہی ہے، اس کو اس معنی میںلے رہے ہیں کہ کائنات میں کسی سیارہ پر انسانی تہذیب جیسی کوئی اور تہذیب موجود ہے۔ حالاں کہ کائنات میں ’’ذہانت‘‘ کے آثار کا ملنا، اور ذہانت کا نظر نہ آنا، یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ ذہانت اپنی نوعیت کے اعتبار سے غیر انسانی اور غیر مرئی ہے، نہ کہ انسان کی طرح دکھائی دینے والی۔
٭ ٭ ٭٭ ٭
ایک امریکی عالم حیاتیات (Cecil Boyce Hamann [1913-1984])کہتے ہیں: ’’غذا ہضم ہونے اور اس کے بدن کا جزءبننے کے حیرت انگیز عمل کو پہلے خدا کی طرف منسوب کیاجاتا تھا۔ اب جدید مشاہدے میں وہ کیمیائی ردّ ِعمل کا نتیجہ نظر آتا ہے۔ مگر کیا اس کی وجہ سے خدا کے وجود کی نفی ہوگئی۔ آخر وہ کون طاقت ہے جس نے کیمیائی اجزا، کو پابند کیا کہ وہ اس قسم کا مفید ردّ عمل ظاہر کریں۔ غذا انسان کے جسم میں داخل ہونے کے بعد ایک عجیب وغریب خود کار انتظام کے تحت جس طرح مختلف مراحل سے گزرتی ہے، اس کو دیکھنے کے بعد یہ بات بالکل خارج از بحث معلوم ہوتی ہے کہ یہ حیرت انگیز انتظام محض اتفاق سے وجود میں آگیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس مشاہدے کے بعد تو اور زیادہ ضروری ہوگیا ہے کہ ہم یہ مانیں کہ خدا اپنے ان عظیم قوانین کے ذریعے عمل کرتا ہے جس کے تحت اس نے زندگی کو وجود دیا ہے۔‘‘
(The Evidence of God in an Expanding Universe, p. 221)
واپس اوپر جائیں

خلائی تہذیب

بیسویں صدی کے نصف سے مغربی دنیا ایک انوکھی تحقیق میں مشغول ہے۔ خلا میں زندہ مخلوقات کی آواز کو سننا(Listening for life in space)۔ بہ ظاہر اس تلاش کا محرک جدیدعلماء کاوہ مفروضہ ہے، جس کو ارتقاکہاجاتا ہے۔ مغربی علما نے زندگی کی جو ارتقائی توجیہہ کی ہے، اس کے مطابق لازم آتا ہے کہ وسیع خلا میں دوسرے مقامات پر بھی اسی طرح زندگی کی انواع موجود ہوں، جس طرح وہ ہماری زمین پر پائی جاتی ہیں۔خلا میں سفر کا ایک خاص مقصد ان زندگیوں سے ملاقات ہے۔ اس مفروضے پر ان کو اتنا یقین ہے کہ اس کا ایک خاص نام بھی دے دیا گیا ہے، یعنی بالائے خلا زندگی (extraterrestrial life)۔
اس کے علاوہ امریکا میںاور دوسرے ترقی یافتہ ملکوں میں خاص طرح کے بہت بڑے بڑے اینٹینا (antenna) لگائے گئے ہیں، جن کو عام زبان میں ریڈیائی کان (radio ears) کہتے ہیں۔ ان مشینوں سے بالائے خلا میں سگنل بھیجے جاتے ہیں، اور حساس قسم کے آلات ہر وقت تیار رہتے ہیں کہ اوپر سے آنے والے متوقع سگنل کو سن سکیں۔ان کوششوں پر ٹائم میگزین( 21 مارچ 1983) میں ان الفاظ میں تبصرہ کیا گیا ہے— اگر تم واقعةً وہاں ہو تو اپنے دوستوں سے بولو:
If you are really there, please call your friends.
زمین پر زندگی اور شعور کا وجود ساری معلوم کائنات میں ایک انتہائی نادر اور استثنائی واقعہ ہے۔ چونکہ یہ شعور اپنا خالق آپ نہیں، اس لیے اس کا وجود لازمی طورپر تقاضا کرتا ہے کہ یہاں زندگی اور شعور کا ایک اور خزانہ زیادہ بڑی سطح پر موجود ہو، جو زمین کی زندگی اور شعور کا سرچشمہ ہو۔ حقیقت یہ ہےکہ زندہ انسان کی موجودگی زندہ خدا کی موجودگی کا ثبوت ہے۔ جدید انسان اس امکان کو بالواسطہ انداز میں تسلیم کرتا ہے۔ البتہ وہ اس وجود کو خلائی زندگی قرار دے کر یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ یہ وجود ہماری ہی طرح کا ایک وجود ہے، نہ کہ ہم سے برتر کوئی وجود ۔ وہ محض ایک تہذیب ہے ،نہ کہ کوئی خالق اور مالک خدا۔
واپس اوپر جائیں

ماورائے انسان ذہانت

آج کل سائنسی حلقوںمیں بالائے خلا ذہانت (extraterrestrial intelligence) کا بہت چرچا ہے۔ مختلف شعبوں میں ایسے شواہد سامنے آرہے ہیں جو اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ زمین کے علاوہ خلا کے دوسرے حصوںمیں بھی ذہین ہستیاں، اغلباً انسان سے بھی زیادہ ذہین موجود ہیں۔ حتی کہ بہت سے سائنس داں اس سنہری صبح کے منتظر ہیں جب کہ وہ خلائی ریڈیو کا پیغام (extraterrestrial radio message) وصول کرسکیں گے۔
بالائے خلا ذہانت سے سائنس دانوں کی مراد یہ ہوتی ہے کہ زمین کے علاوہ کائنات کے دوسرے مقامات پر بھی ہماری جیسی مخلوقات پائی جاتی ہیں۔ دوامریکی فلکیات دانوں نے دعوی کیا ہے کہ ہماری کہکشاں میں10 بلین ستارے ایسے ہیں، جو نظام شمسی کی مانند سیاراتی نظام رکھتے ہیں۔ ان نظامات میں زندگی کا وجود اسی طرح ممکن ہے جس طرح موجودہ زمین پر۔ اگر چہ عملاً ابھی تک ایسا کوئی کرہ دریافت نہیں ہوا جہاں زمین جیسی زندگیاں پائی جاتی ہوں۔
Hypothetical extraterrestrial life that is capable of thinking, purposeful activity... more than 3,000 extrasolar planets have been detected... These efforts suggest that there could be many worlds on which life, and occasionally intelligent life, might arise. Searches for radio signals or optical flashes from other star systems that would indicate the presence of extraterrestrial intelligence have so far proved fruitless. (www.britannica.com/
science/extraterrestrial-intelligence#ref283898 [on 4th Apr 2020])
سائنسی دریافتوں کا قافلہ بہت تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہاہے۔ سائنس ماورائے انسان ’’ذہانت‘‘ تک پہنچ چکی ہے۔ اگر کسی دن وہ دریافت کرے کہ یہ ماورائے انسان ذہانت اپنی نوعیت کے اعتبار سے اتنی زیادہ ممتاز ہے کہ اس کوانسان جیسی ذہین ہستی کہنے کے بجائے خدا کہنا زیادہ صحیح ہوگا تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔
واپس اوپر جائیں

ایلین لائف

اسٹفن ہاکنگ (Stephen Hawking) موجودہ زمانے کا ایک ممتاز برٹش سائنس داں ہے۔ کائنات کے طویل مطالعے کے بعد اس نے کہا کہ میرا ریاضیاتی ذہن یہ بتاتا ہے کہ زمین کے ماورا بھی انسان کے مانند کوئی ذہین وجود ہونا چاہیے۔ اِس وجود کو اس نے اجنبی زندگی (Alien life) کا نام دیا ہے۔ اِس معاملے میں اسٹفن ہاکنگ کی سادہ منطق یہ ہے کہ ہماری کائنات میں تقریباً ایک سو بلین کہکشائیں ہیں۔ ہر کہکشاں میں کئی سو ملین ستارے ہیں۔ اتنی بڑی کائنات میں یہ بات ناقابلِ قیاس ہے کہ صرف زمین وہ واحد سیارہ ہو، جہاں زندگی کا ارتقا ہوا ہے ۔ میرے ریاضیاتی ذہن کے مطابق، ستاروں کی یہ عظیم تعداد ہی اِس نظریے کو پوری طرح معقول ماننے کے لیے کافی ہے:
Hawking has suggested that extraterrestrials are almost certain to exist. Hawking’s logic on aliens is, for him, unusually simple. The universe has 100 billion galaxies, each containing hundreds of millions of stars. In such a big place, Earth is unlikely to be the only planet where life has evolved. “To my mathematical brain, the numbers alone make thinking about aliens perfectly rational.”
(The Times of India, New Delhi, April 26, 2010, p. 17)
سیارۂ زمین پر ذہین وجود کا ہونا، اولاً جس چیز کو ثابت کرتا ہے، وہ استثنا (exception) ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اِس استثنا کی توجیہہ کیا ہے۔ اسٹفن ہاکنگ نے ارتقا (evolution) کے مفروضہ نظریے کو توجیہہ کی بنیاد قرار دیا ہے۔ مگر زیادہ معقول بات یہ ہے کہ اِس استثنا کی توجیہہ، مداخلت (intervention) کی بنیاد پر کی جائے۔ کیوں کہ مداخلت اپنے آپ میں ثابت ہے، اور جب مداخلت کو مان لیا جائے تو خالق کا وجود اپنے آپ ثابت ہوجاتا ہے۔موجودہ زمانے میں بہت سی نئی حقیقتیں دریافت ہوئی ہیں۔ یہ نئی حقیقتیں خالق کے وجود کو ثابت کررہی تھیں، لیکن ارتقائی مفروضے کے تحت ان کو ارتقائی عمل کا نتیجہ قرار دے دیاگیا۔ مگر یہ محض ایک قیاس ہے، اور ایک قیاس سے دوسرے قیاس کو ثابت کرنا، بلا شبہ ایک غیر منطقی استدلال کی حیثیت رکھتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

کون کنٹرول کرے

سرجولین ہکسلے (Sir Julian Sorell Huxley [1887-1975] ) کی ایک کتاب ہے جس کا نام ’’مذہب بغیر الہام‘‘ ہے:
Julian Huxley: Religion Without Revelation (1957), Harper, p. 393
مصنّف نےاس کتاب میں یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ مذہب (بمعنی انسانی طریقہ) الہام خداوندی کی بنیاد پر قائم کرنے کا دور ختم ہوگیا۔ اب انسان خود اپنا مذہب بنا رہا ہے۔اس مذہب کی بنیاد عقل (ریزن) پر ہے، اور اس کا نام ہیومنزم ہے۔مصنف کے نقطۂ نظر کا خلاصہ اس کے ان الفاظ میں ہے — موجودہ زمانے میں انسان نے بڑی حد تک خارجی فطرت کی طاقتوں کو جاننے، ان کو کنٹرول کرنے اور ان کو استعمال کرنے کی بابت سیکھ لیا ہے۔ اب اس کو خود اپنی فطرت کی طاقتوں کو جاننے اور ان کو کنٹرول کرنے اور ان کو استعمال کرنے کی بابت سیکھنا ہے:
Man has learnt in large measure to understand, control and utilize the forces of external nature: he must now learn to understand, control and utilize the forces of his own nature .
یہی موجودہ زمانے کے اعلی تعلیم یافتہ ملحدین کا عام نظریہ ہے۔ مگر یہ لفظی تک بندی کے سوا اور کچھ نہیں۔حقیقت یہ ہے کر خارجی مادے کوکنٹرول کرناجتنا ممکن تھا، اتنا ہی یہ ناممکن ہے کہ انسان خود اپنی فطرت کو کنٹرول کرے۔
مادہ خود اپنے آپ کو کنٹرول نہیں کرسکتا۔ اسی طرح انسان بھی خود اپنے آپ کو کنٹرول نہیں کرسکتا۔ انسان کے لیے مادہ کوکنٹرول کرنا اس لیے ممکن ہوا کہ انسان کواپنے دماغ کی بنا پر مادہ کے اوپر بالاتری حاصل تھی۔ اسی طرح انسان کو وہ ہستی کنٹرول کرسکتی ہے، جس کو انسان کے اوپر بالاتری حاصل ہو۔ کوئی بھی ہستی اپنے برابر کو کنٹرول نہیں کرسکتی— انسان کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک برتر خدا کا عقیدہ درکار ہے۔ برتر خدائی عقیدے کے سوا کوئی چیز نہیں جو انسان کو قابو میں رکھ سکے۔
واپس اوپر جائیں

کویزار

ایک ارب سورج سے بھی زیادہ روشن
فلکیات (astronomy) میں اجرامِ فلکی (مثلاً، چاند، سیارے، ستارے، نیبولا، گلیکسی، وغیرہ)، اور زمینی کرۂ ہوا‎ کے باہر روُنما ہونے والے واقعات کا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔برسات کے موسم میں جب فضا بالکل صاف ہوتی ہے، آسمان پر لمبے روشنی کے بادل دکھائی دیتےہیں۔ یہ ہماری کہکشاں (Galaxy) ہے، جس کا نام ملکی وے (Milky Way) ہے۔ اس کے اندر ہمارا سولر سسٹم واقع ہے۔ روشنی کے بادل حقیقت میں بادل نہیں ہیں، بلکہ بے شمار ستاروں کے مجموعے ہیں، جو دورہونے کی وجہ سے ملے ملے دکھائی دیتے ہیں۔ اگر آپ دور بین (telescope) سے دیکھیں تو بادل کے بجائے آپ کو الگ الگ ستارے دکھائی دیں گے۔ زمین سے بارہ لاکھ گنا بڑا سورج بظاہر بہت بڑا نظر آتاہے۔ مگر کہکشاں کے اکثر ستارے اس سے بھی زیادہ بڑے ہیں۔ اس طرح کے بےشمار کہکشانی مجموعے کائنات کی وسعتوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔مثلاً فلکیات کی حیران کُن دریافتوں میں سے ایک وہ ہے، جس کو کویزار(Quasar)کہا جاتا ہے:
Quasar, an astrmonomical object of very high luminosity found in the centres of some galaxies and powered by gas spiraling at high velocity into an extremely large black hole. The brightest quasars can outshine all of the stars in the galaxies in which they reside, which makes them visible even at distances of billions of light-years. Quasars are among the most distant and luminous objects known.
(www.britannica.com/science/quasar [accessed on 02.04.2020])
کویزار زمین سے دور دراز فاصلے پر واقع ایک آسمانی جِرم (object) ہے، جس سے ریڈیائی لہریں کثیر مِقدار میں نکلتی ہیں۔ کائنات کے انتہائی بعید کناروں پر واقع یہ شبہ ستارے بے حد روشن ہیں۔ ایک پوری کہکشاں جس میں سورج یا اس سے بڑے بڑے ایک ارب ستارےہوں، جتنی انرجی (روشنی اور حرارت) خارج کرتی ہے، اتنی زیادہ انرجی (energy)تنہا ایک کویزار خارج کرتاہے۔
اس قسم کے ستارے وسیع خلا (space) میں سیکڑوں کی تعداد میں معلوم کیے گئے ہیں۔ مزید عجیب بات یہ پائی گئی ہے کہ یہ ستارے اکثر جوڑے جوڑے ہیں، جو ایک دوسرے کے گرد گھومتےرہتے ہیں۔ کائنات میں انرجی پیدا ہونے کا سب سے طاقت ور عمل جو اب تک سائنس دانوں نے دریافت کیا ہے، وہ تھرمونیوکلیر ری ایکشن (Thermonuclear Reaction) ہے۔ مگر کویزار سے خارج ہونے والی بے پناہ طاقت کی توجیہہ کے لیے وہ ناکافی ہے۔ قیاس ہے کہ کویزار میں انرجی پیدا ہونے کا طریقہ مکمل طورپر کوئی دوسرا طریقہ ہے، جو دیگر ستاروں میں نہیں پایا جاتا۔
A quasar (also known as a quasi-stellar object [QSO]) is an extremely luminous active galactic nucleus (AGN), in which a supermassive black hole with mass ranging from millions to billions of times the mass of the Sun is surrounded by a gaseous accretion disk. As gas in the disk falls towards the black hole, energy is released in the form of electromagnetic radiation, which can be observed across the electromagnetic spectrum. The power radiated by quasars is enormous: the most powerful quasars have luminosities thousands of times greater than a galaxy such as the Milky Way.
(www.en.wikipedia.org/wiki/Quasar [accessed on 02.04.2020])
نعمتوں سے بھری ہوئی یہ زمین اللہ کے جمال کی مظہر (manifestation of beauty) ہے، اور خلا (space) کے دہشت ناک ستارے اللہ کے جلال کا مظہر (manifestation of majesty)ہیں۔ لائف سپورٹ سسٹم والی یہ زمین اگر جنتی زندگی کی علامت ہے تو ستاروں (stars) کی شکل میں دہکتے ہوئے شعلے جہنم کی یاد دلاتےہیں۔ آدمی اگر زمین وآسمان کی ان نشانیوں (signs)پر غور کرے تو اس کا سینہ خدا کی یاد سے بھر جائے گا۔اس حقیقت کی طرف قرآن میں ان الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے: إِنَّ فِی خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ لَآیَاتٍ لِأُولِی الْأَلْبَابِ (3:190)۔ یعنی آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات دن کے باری باری آنے میں عقل والوں کے لیے بہت نشانیاں ہیں۔
واپس اوپر جائیں

زیادہ عجیب، کمتر عجیب

کہا جاتا ہے کہ خدا کی بنیاد پر کائنات کی توجیہہ کرنا اصل مسئلے کا حل نہیں۔ کیوں کہ پھر فوراً یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ اگر خدانے کائنات کو بنایاتو خدا کو کس نے بنایا۔
مگر یہ ایک غیر منطقی سوال ہے۔ اصل مسئلہ ’’بےسبب‘‘ خدا کو ماننا نہیں ہے۔ بلکہ دو ’’بے سبب‘‘ میں سے ایک بے سبب کو ترجیح دینا ہے۔ صورتِ حال یہ ہے کہ ہمارے سامنے ایک پوری کائنات موجود ہے۔ ہم اس کو دیکھتے ہیں۔ ہم اس کا تجربہ کررہے ہیں۔ ہم کائنات کے وجود کو ماننے پر مجبور ہیں۔ ایک شخص خدا کو نہ مانے، تب بھی عین اسی وقت وہ کائنات کو مان رہا ہوتا ہے۔
اب ایک صورت یہ ہے کہ آدمی کائنات کو بے سبب مانے۔ مگر اس قسم کا عقیدہ ممکن نہیں۔ کیوں کہ کائنات میں تمام واقعات بہ ظاہر اسباب وعلل کی صورت میں پیش آتے ہیں۔ ہر واقعے کے پیچھے ایک سبب کار فرما ہے۔ اس طرح خود کائنات کی اپنی نوعیت ہی یہ چاہتی ہے کہ اس کے وجود کا ایک آخری سبب ہو۔ جب کائنات کے حال کا ایک سبب ہے تو اس کے ماضی کا بھی لازمی طورپر ایک سبب ہونا چاہیے۔ یعنی وہی چیز جس کو علت العلل کہا گیا ہے۔
بے سبب کائنات کو ماننا ممکن نہیں، اس لیے لازم ہے کہ ہم اس کا ایک سبب مانیں۔ کائنات لازمی طورپر اپنا ایک آخری سبب چاہتی ہے۔ یہی منطق اس کو لازمی قرار دیتی ہے کہ ہم خدا کو مانیں۔ اس لا ینحل مسئلہ کو حل کرنے کی دوسری کوئی بھی تدبیر ممکن نہیں۔ جب ہم بے سبب خدا کو مانتےہیں تو ہم دو ممکن ترجیحات میں سے آسان تر کو ترجیح دیتے ہیں۔ بے سبب خدا کو مان کر ہم اپنے آپ کو بے سبب کائنات کو ماننے کے ناممکن عقیدہ سے بچا لیتے ہیں۔
خدا کو ماننا عجیب ہے۔ مگر خدا کو نہ ماننا اس سے بھی زیادہ عجیب ہے۔ خدا کو مان کر ہم صرف زیادہ عجیب کے مقابلے میں کم عجیب کو اختیار کرتےہیں۔
یہ صرف خدا کے وجود کا معاملہ نہیں ۔ خالص سائنسی نقطۂ نظر سے، اس دنیا میں کوئی بھی چیز نہ ثابت(prove) کی جاسکتی، اور نہ غیر ثابت (disprove) کی جاسکتی۔ کسی بھی چیز کو ماننے کے معاملے میں یہاں انتخاب (option) ثابت شدہ (proved) اور غیر ثابت شدہ (unproved)کے درمیان نہیں۔ بلکہ ہر انتخاب ورک ایبل (workable)اور نان ورک ایبل (non-workable) کے درمیان ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر اہلِ سائنس عام طورپر کشش (gravity)کے نظریے کو مانتے ہیں۔ مگر یہ ماننا اس لیے نہیں کہ کشش ثقل کوئی ثابت شدہ نظریہ ہے۔ نیوٹن نے سیب کو درخت سے گرتے ہوئے دیکھ کر یہ سوال کیا تھا کہ سیب نیچے کیوں آیا، اور پھر تحقیق کرکے اس نے کششِ ارض کا نظریہ دریافت کیا۔ مگر ایک سائنس داں نے کہا کہ نیوٹن کو اس پر تعجب ہوا تھا کہ سیب نیچے کیوں آیا۔ مجھے یہ تعجب ہے کہ سیب اوپر کیسے گیا۔درخت کی جڑ نیچے کی طرف جاتی ہے، اور اس کا تنہ اوپر کی طرف۔ اگر جڑ کے نیچے جانے کا سبب یہ بتایا جائے کہ زمین میں کشش ہے تو تنہ اور شاخوں کے اوپر جانے کی توجیہہ کس طرح کی جائے گی۔
یہی معاملہ تمام سائنسی نظریات کا ہے۔ سائنس میں جب بھی کسی نظریے (theory)کو مانا جاتا ہے تو وہ غیرثابت شدہ کے مقابلے میں ثابت شدہ کو ماننا نہیں ہوتا۔ بلکہ نان ورک ایبل تھیری (non-workable theory)کے مقابلے میں ورک ایبل تھیری (workable theory) کو ماننا ہوتا ہے۔ ٹھیک یہی اصول نظریۂ خدا کے معاملے میں بھی چسپاں ہوتاہے۔
کشش کے معاملے میں ہمارے لیے جو انتخاب ہے وہ کشش رکھنے والے مادہ اور بےکشش مادہ میں نہیں ہے۔ بلکہ کشش رکھنے والے مادہ اور غیر موجود مادہ میں ہے۔ چونکہ غیرموجود مادے کا نظریہ ورک ایبل نہیں ہے۔ اس لیے ہم نے کشش رکھنے والے مادہ کا انتخاب لے رکھا ہے، خالص علمی اعتبار سے یہی معاملہ خدا کے عقیدہ کا بھی ہے۔
کائنات کےاندر تخلیق کی صلاحیت نہیں، وہ اپنے اندر کے ایک ذرے کو نہ گھٹا سکتی، اور نہ بڑھا سکتی۔ اس لیے، دوسرے تمام سائنسی نظریات کی طرح، یہاں بھی ہمارے لیے انتخاب با خدا کائنات (universe with God) اور بے خدا کائنات(universe without God) میں نہیں ہے۔ بلکہ با خدا کائنات اور غیر موجود کائنات (non-existent universe) میں ہے۔ چونکہ ہم غیر موجود کائنات کا انتخاب نہیں کرسکتے۔ اس لیے ہم مجبور ہیں کہ باخدا کائنات کے نظریے کا انتخاب کریں۔
واپس اوپر جائیں

سائنس اور خدا

بہ ظاہر سائنس خدا کے بارے میں غیر جانب دار ہے۔ مگر یہ غیر جانب داری سراسر مصنوعی ہے۔ سائنسی مطالعہ واضح طورپر یہ بتاتا ہے کہ کائنات کا نظام ایسے محکم انداز میں بنا ہے کہ اس کے پیچھے ایک خالق کو مانے بغیر اس کی توجیہہ ممکن نہیں۔ سرجیمز جینز نے 1932 میںکہا تھا کہ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ کائنات کا نقشہ ایک خالص ریاضی داں نے تیار کیا ہے:
In 1932, Sir James Jeans, an astrophysicist said: “The universe appears to have been designed by a pure mathematician”. (Encyclopedia Britannica [1984] 15/531)
سر جیمز جینز نے جو بات کہی تھی، دوسرے متعدد سائنس دانوں نے بھی مختلف الفاظ میں اس کا اقرار کیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ کائنات کا ریاضیاتی اصولوں پر بننا، اور اس کا ریاضیاتی اصولوں پر حرکت کرنا، اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کے پیچھے ایک ایسا ذہن کام کررہا ہے، جو ریاضیاتی قوانین کا شعور رکھتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

حکمت ِ تخلیق

12 جون 2009کو میںنے ایک خوا ب دیکھا۔ میںنے دیکھا کہ ایک شخص مجھ سے انگریزی زبان میں کچھ کہہ رہا ہے۔ دورانِ گفتگو اُس نے کہا کہ اگر خدا ہے، اور خدا نے موجودہ دنیا کو پیدا کیا ہے تو ہماری زندگی میں اتنی زیادہ سفرنگ (suffering) کیوں:
If there is a God, and God has created the world, then why there is so much suffering in our lives?
اِس خواب کا سوال مجھے یاد ہے، لیکن اس کا جواب مجھے یاد نہیں۔ تاہم میں کہوں گا کہ دنیا کی زندگی میں ہم کو جو مصیبتیں پیش آتی ہیں، وہ مصیبتیں نہیں ہیں۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ چیلنج ہیں۔ وہ انسانی ذہن کو جگاتی ہیں۔ وہ انسان کی عملی قوتوں کو متحرک کرتی ہیں۔ یہ مصیبتیں ہمارے لیے ایک مثبت تجربہ ہیں، وہ کوئی منفی تجربہ نہیں۔
خدا کی تخلیق کے مطابق، اِس دنیا میں ہر چیز کو پوٹنشیل (potential) کے روپ میں پیدا کیاگیا ہے۔ اِس کے ساتھ انسان کو غیر معمولی دماغ دیاگیا ہے۔ انسان کا کام یہ ہے کہ وہ اپنی دماغی صلاحیتوں کو استعمال کرے، اور پوٹینشیل کو ایکچول (actual) میں تبدیل کرے۔
زندگی کانظام اگر اِس طرح ہو کہ یہاں آدمی کو کوئی مسئلہ پیش نہ آئے تو اس کی زندگی میں کوئی ہلچل پیدانہیں ہوگی، اس کی زندگی میںکوئی طوفان نہیں آئے گا۔ ایسا انسان ایک جامد انسان ہوگا۔ وہ حیوان کی مانند جیے گا، اور حیوان کی مانند زندگی گزار کر مرجائے گا۔ لیکن فطرت کا یہ نقشہ نہیں۔ فطرت کا مطلوب انسان وہ ہے، جو حقیقتوں کا سامنا کرے، جو ہلچل کے واقعات کو اپنی شخصیت کی مثبت تعمیر میں استعمال کرے، جو اپنی ذات میں چھپے ہوئے امکانات کو اپنی جدوجہد سے واقعہ (actual) بنائے۔ جو ناموافق حادثات کو اپنے موافق بنانے کا کارنامہ انجام دے، جو معمولی انسان کی حیثیت سے پیدا ہو، اور جب وہ مرے تو وہ ایک غیر معمولی انسان بن چکا ہو۔
واپس اوپر جائیں

علم کا سفر

قرآن خدا کی کتاب کی حیثیت سے ساتویں صدی عیسوی کے نصف اول میں اترا۔ اس وقت ساری دنیا میں توہم پرستی کا کلچر رائج تھا۔ قرآن کے بعد علمی دریافتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ دور بیسویں صدی عیسوی میں اپنی تکمیل تک پہنچا۔ قرآن کی صداقت کا یہ علمی ثبوت ہے کہ بعد کی علمی تحقیقات قرآن کی باتوں کی تصدیق بنتی چلی گئیں۔ اس سلسلے میں برٹش سائنسداں سرجیمس جینز کا ایک اقتباس یہاں نقل کیا جاتا ہے:
The stream of knowledge is heading towards a non-mechanical reality;kthe universe begins to look more like a great thought than like a great machine. (The Mysterious Universe, James Jeans, p. 137)
یہ بات برٹش سائنسداںنے 1930 میں کہی تھی۔ اس کے بعد کی تمام دریافتیں اس بات کی تصدیق بنتی چلی گئیں کہ حقیقت کا جو تصور قرآن میں دیاگیا ہے، وہی درست تصور ہے۔ اس درمیان سائنسی دریافتوں کے ذریعے ملحدانہ تصورات رد ہوتے چلے گئے، اور موحدانہ تصورات ثابت شدہ بنتے چلے گئے۔
مثلاً قدیم ملحدین یہ سمجھتے تھے کہ کائنات ابدی ہے، وہ جیسی آج ہے ،ویسی ہی وہ ابد سے چلی آرہی ہے، اس لیے کائنات کو خالق کی کوئی ضرورت نہیں۔ مگر بعد کی سائنسی تحقیقات نے یہ ثابت کیا کہ کائنات کا ایک آغاز ہے۔ 13 بلین سال پہلے بگ بینگ (Big Bang) کی صورت میں کائنات کا آغاز ہوا۔اسی طرح قدیم ملحدین مانتے تھے کہ کائنات میں کوئی نظم نہیں،مگر موجودہ زمانے میں سائنسی تحقیقات سے یہ ثابت ہوا کہ کائنات میںایک ذہین ڈیزائن (intelligent design) ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سائنس کی تمام دریافتیں مذہبِ توحید کی تصدیق کرتی ہیں، خواہ براہِ راست طورپرہوں، یا بالواسطہ طورپر۔
واپس اوپر جائیں

سائنس توحید کی طرف

علم طبیعیات میں ، نیوٹن کے بعد سے یہ سمجھا جاتا رہاہے کہ چار قسم کے قوانین یا طاقتیں ہیں، جو فطرت کے مختلف مظاہر کو کنٹرول کرتی ہیں:
1۔ قوت کشش (Gravitational Force)
2۔برقی مقناطیسی قوت (Electromagnetic Force)
3۔ طاقت ور نیو کلیر قوت (Strong Nuclear Force)
4۔ کمزور نیوکلیر قوت (Weak Nuclear Force) ۔
کشش کا قانون، ایک کہانی کے مطابق، نیوٹن نے اس وقت معلوم کیا جب کہ اس نے سیب کے درخت سے سیب کو گرتے ہوئے دیکھا۔ ’’سیب اوپر کی طرف کیوں نہیں گیا، نیچے زمین پر کیوں آیا۔‘‘ اس سوال نے اس کو اس جواب تک پہنچایا کہ زمین میں، اور اسی طرح تمام دوسرے کروں میں، جذب وکشش کی قوت کار فرماہے۔ بعد کو آئن سٹائن نے اس نظریےمیں بعض فنی اصلاحات کیں۔ تاہم اصل نظریہ اب بھی سائنس میں ایک مسلّمہ اصولِ فطرت کے طور پر مانا جاتاہے۔ برقی مقناطیسی قانون کا تجربہ پہلی بار فریڈے (Michael Faraday [1791-1867]) نے 1831میں کیا۔ اس نے دکھایا کہ بجلی کی قوت اور مقناطیس کی قوت ایک دوسرے سے گہرا تعلق رکھتی ہیں۔ مقناطیس اور حرکت کو یکجا کیا جائے تو بجلی پیداہوجاتی ہے، اور مقناطیس اور بجلی کی لہر کو یکجا کریں تو حرکت وجود میں آجاتی ہے ۔
ابتدائی 50 سال تک تمام طبیعی واقعات کی توجیہہ کے لیے مذکورہ دو قوانین کافی سمجھے جاتے تھے۔ مگر موجودہ صدی کے آغاز میں جب ایٹم کے اندرونی ڈھانچے کی بابت معلومات میں اضافہ ہوا،اور یہ معلوم ہوا کہ ایٹم سے بھی چھوٹے ذرات ہیں جو ایٹم کے اندر کام کررہے ہیں تو طبیعی نظریات میں تبدیلی شروع ہوگئی۔ یہیں سے طاقت ور نیوکلیر فورس اور کمزور نیو کلیر فورس کے نظریات پیداہوئے۔ ایٹم کا اندرونی مرکز (نیوکلیس) الکٹران سے گھرا ہوا ہے، جو کہ پروٹان نامی ذرات سے بہت زیادہ چھوٹے اور ہلکے ہیں۔ مگر مطالعہ بتاتا کہ ہر الکٹران وہی چارج رکھتا ہے، جو بھاری پروٹان رکھتے ہیں۔ البتہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ الکٹران میں منفی برقی چارج ہوتاہے، اور پروٹان میں مثبت برقی چارج۔ الکٹران ایٹم کے بیرونی سمت میں اس طرح گردش کرتے ہیں کہ ان کے اور ایٹم کے مرکز (نیوکلیس) کے درمیان بہت زیادہ خلا ہوتا ہے۔مگر منفی چارج اور مثبت چارج دونوں میں برابر برابر ہوتے ہیں، اور اس بنا پر ایٹم بحیثیت مجموعی برقی اعتبار سے نیوٹرل (neutral) اور قائم (stable) رہتا ہے۔
اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ ایٹم کا مرکز بطور خود قائم (stable) کیوں کر رہتا ہے۔ الکٹران اور پروٹان الگ الگ ہو کر بکھر کیوں نہیں جاتے۔ قائم رہنے (stability) کی توجیہہ طبیعیاتی طورپر یہ کی گئی ہے کہ پروٹان اور نیوٹران کے قریب ایک نئی قسم کی طاقتور قوتِ کشش موجود ہوتی ہے۔ یہ قوت ایک قسم کے ذرات سے نکلتی ہے جن کومیسن (Mesons)کہاجاتاہے۔ ایٹم کےاندر پروٹان اور نیوٹران کے ذرات بنیادی طور پر یکساں (identical)سمجھے جاتے ہیں۔ مقناطیس کے دو ٹکڑوں کو لیںاور دونوں کے یکساں رخ (ساؤتھ پول کو ساؤتھ پول سے یا نارتھ پول کو نارتھ پول سے) ملائیں تو وہ ایک دوسرے کو دور پھینکیں گے۔ اس معروف طبیعی اصول کے مطابق پروٹان اور نیوٹران کوایک دوسرے سے بھاگنا چاہیے۔ مگر ایسا نہیں ہوتا۔ کیونکہ پروٹان اور نیوٹران ہر لمحہ بدلتے رہتے ہیں، اوراس بدلنے کے دوران میسن کی صورت میں قوت خارج کرتے ہیں، جوان کو جوڑتی ہے۔ اسی کا نام طاقت ور نیوکلیر فورس ہے۔ اسی طرح سائنس دانوں نے دیکھا کہ بعض ایٹم کے کچھ ذرات (نیوٹران میسن) اچانک ٹوٹ جاتے ہیں۔ یہ صورتِ حال مثلاً ریڈیم میں پیش آتی ہے۔ ایٹم کے ذرات کا اس طرح اچانک ٹوٹنا طبیعیات کے مسلّمہ اصولِ تعلیل (causality) کے خلاف ہے۔ کیوں کہ پیشگی طورپر یہ نہیں بتایا جاسکتاکہ ایٹم کے متعدد ذرات میں سے کون سا ذرہ پہلے ٹوٹے گا۔ اس کا مدار تمام تر اتفاق پر ہے۔ اس مظہر کی توجیہہ کے لیے ایٹم میں جو پر اسرار طاقت فرض کی گئی ہے، اسی کا نام کمزور نیوکلیر فورس ہے۔ سائنس داں یہ یقین کرتے رہے ہیں کہ انھیں چار طاقتوں کے تعامل (interactions) سے کائنات کے تمام واقعات ظہور میں آتےہیں۔ مگر سائنس عین اپنی فطرت کے لحاظ سے ہمیشہ وحدت کی کھوج میں رہتی ہے۔ کائنات کا سائنسی مشاہدہ بتاتا ہے کہ پوری کائنات انتہائی ہم آہنگ ہو کر چل رہی ہے۔ یہ حیرت ناک ہم آہنگی اشارہ کرتی ہے کہ کوئی ایک قانون ہے، جو فطرت کے پورے نظام میں کار فرما ہے۔ چنانچہ طبیعیات مستقل طورپر ایک متحدہ اصول(unified theory)کی تلاش میں ہے۔ سائنس کا ’’ضمیر‘‘ متواتر اس جدوجہد میں رہتاہے کہ وہ قوانینِ فطرت کی تعداد کو کم کرے اور کوئی ایک ایسا اصولِ فطرت (principle of nature) دریافت کرے جو تمام واقعات کی توجیہہ کرنے والا ہو۔
آئن اسٹائن نے مذکورہ قوانین میں سے پہلے دو قوانین کشش اور برقی مقناطیسیت کے اتحاد (unification)کی کوشش کی، اور اس میں 25 سال سے زیادہ مدت تک لگا رہا ،مگر وہ کامیاب نہ ہوسکا۔ کہاجاتاہے کہ اپنی موت سے کچھ پہلے اس نے اپنے لڑکے سے کہا تھاکہ میری تمنا تھی کہ میں اور زیادہ ریاضی جانتا تاکہ اس مسئلے کو حل کرلیتا۔
ڈاکٹر عبد السلام (1926-1996) اور دوسرے دو امریکی سائنس دانوں ،شیلڈن لی گلاشو (Sheldon Lee Glashow [b. 1932]) اور وین برگ(Steven Weinberg [b. 1933]) کو 1979 میں طبیعیات کا جو مشترکہ نوبل انعام ملا ہے، وہ ان کی اسی قسم کی ایک تحقیق پر ہے۔ انھوںنے مذکورہ قوانین فطرت میں سے آخری دو قانون (طاقتور اور کمزور نیو کلیر فورس) کو ایک واحد ریاضیاتی اسکیم میں متحدکردیا۔ اس نظریے کا نام جی ایس ڈبلیو نظریہ (G-S-W Theory) رکھا گیا ہے۔ اس کے ذریعے انھوں نے ثابت کیا ہے کہ دونوں قوانین اصلاً ایک ہیں۔ اس طرح انھوںنے چار کی تعداد کو گھٹا کر تین تک پہنچا دیا ہے۔
سائنس اگرچہ اپنے کو ’’کیاہے‘‘ کے سوال تک محدود رکھتی ہے، وہ ’’کیوں ہے‘‘ کے سوال تک جانے کی کوشش نہیں کرتی۔ تاہم یہ ایک واقعہ ہے کہ سائنس نے جو دنیا دریافت کی ہے، وہ اتنی پیچیدہ اور حیرت ناک ہے کہ اس کو جاننے کے بعد کوئی آدمی ’’کیوں ہے‘‘ کے سوال سے دوچار ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ میکسویل (James Clerk Maxwell [1831-1879]) وہ شخص ہے، جس نے برقی مقناطیسی تعامل (electromagnetic interaction)کے قوانین کو ریاضی کی مساواتوں (equations) میں نہایت کامیابی کے ساتھ بیان کیا۔ انسان سے باہر فطرت کاجو مستقل نظام ہے اس میں کام کرنے والے ایک قانون کا انسانی ذہن کی بنائی ہوئی ریاضیاتی مساوات میں اتنی خوبی کے ساتھ ڈھل جانا اتنا عجیب تھاکہ اس کو دیکھ کر بولٹزمن بے اختیار کہہ اٹھا— کیا یہ خدا تھا جس نے یہ نشانیاں لکھ دیں جو دل میں حیرت انگیز خوشی بھر دیتا ہے :
Was it a God that wrote these signs, revealing the hidden and mysterious forces of nature around me, which fill my heart with quiet joy?
واپس اوپر جائیں

دریافت کی اہمیت

انسان کے لیے سب سے زیادہ اہم چیزدریافت ہے۔ دریافت ہی سے دنیا کی ترقیاں بھی ملتی ہیں، اور دریافت ہی سے آخرت کی ترقیاں بھی۔قرآن کا مطلوب انسان وہ ہے، جو غیب پر ایمان لائے (البقرۃ، 2:3)۔ غیب پر ایمان لانا کیا ہے۔ یہ دوسرے لفظوں میں نامعلوم کو معلوم بنانا ہے۔ یعنی وہی چیز جس کو موجودہ زمانے میں دریافت (discovery) کہا جاتا ہے۔
دنیوی ترقی کے رازوں کو خدا نے زمین وآسمان کے اندر چھپا دیا ہے۔ ان رازوں کو قوانین ِفطرت کہا جاتا ہے۔ سائنس میں انھیں رازوں (یا قوانین فطرت) کو دریافت کیا جاتا ہے۔ جوقوم ان رازوں کو دریافت کرے وہ دوسروں سے آگے بڑھ جاتی ہے۔ جیسا کہ موجودہ زمانے میں ہم مغربی اقوام کو یا ایشیا میں جاپان کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔ ترقی یافتہ قوموں کو تمام ترقیاں انھیں دریافتوں کی بنیاد پر حاصل ہوئی ہیں۔اسی طرح عالم آخرت کو اللہ تعالیٰ نے انسان کی نظروں سے پوشیدہ کردیا ہے۔ اب انسان کو اسے دریافت کرنا ہے۔ جوچیز غیب میں ہے اس کو شہود میں لانا ہے۔ اسی دریافت یا اکتشاف کا نام ایمان ہے۔ جو شخص اس ایمان میں جتنا زیادہ آگے ہوگا، وہ آخرت میں اتنا ہی زیادہ ترقی اور کامیابی حاصل کرے گا۔
واپس اوپر جائیں

بامعنی کائنات

اندازہ کیا گیا ہے کہ ہماری قریبی کہکشاں ایک لاکھ سال نور (light years)کی وسعت میں پھیلی ہوئی ہے۔ اس کہکشاں کے اندر تین لاکھ ملین ستارے پائے جاتے ہیں۔ ہمارا شمسی نظام اس کے مرکز سے 27 ہزار سال نور کے فاصلے پر واقع ہے۔ کہکشاں کے اکثر ستارے ممکن طور پر کسی نہ کسی قسم کے سیاروں (planets)کا سلسلہ رکھتے ہیں۔ مگر ان میں سے اکثر سیارے زندگی کے لیے غیر موزوں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے ستارے سے یا تو بہت زیادہ قریب ہیں یا بہت زیادہ دور ہیں۔ تاہم چوں کہ ستاروں کی تعداد بہت زیادہ ہے، خالص حسابی اعتبار سے یہ امکان ہے کہ بہت سے سورج جیسے ستارے ہوں، اور اسی طرح بہت سے زمین جیسے سیارے:
It is estimated that our Milky Way galaxy, which is 100,000 light years across, is composed of over 300,000 million stars. Our solar system is situated 27,000 light years away from the centre. Most of the stars are likely to have planets of some sort. But most of these planets will be unsuitable for life, because they are either too near or too far from their parent star. Yet because the number of stars is so great, there must, by sheer statistical probability, be many sun-like stars and earth-like planets. (The Hindustan Times, July 31, 1986, p. 9)
تاہم بے شمار سیاروںمیں صرف زمین واحد سیارہ ہے، جہاںلائف سپورٹ سسٹم (life support system)پایا جاتا ہے۔ لائف سپورٹ سسٹم کیا ہے۔ وہ فطری اسٹرکچر اور نظام، جس کے ذریعے زندگی کے لیے لازمی چیزیں مہیا کی جاتی ہیں۔ مثلاً آکسیجن، کاربن ڈائی آکسائڈ، کھانا، پانی، ناکارہ اشیا کی نکاسی، ٹمپریچر اور دباؤ کو مینج کرنا، وغیرہ:
The natural structures and systems that provides all of the elements essential for maintaining physical well being, as for example, oxygen, carbon dioxide, food, water, disposal of body wastes, and control of temperature and pressure, etc.
اسی فطری نظام کی وجہ سے زمین انسانوں جیسی زندہ مخلوق کے لیے قابلِ رہائش ہے۔ اس قسم کا کوئی اور سیاراتی نظام ابھی تک ساری کائنات میں معلوم نہ کیا جاسکا۔ موجودہ زمانے میں سائنس کا ایک مستقل شعبہ وجود میں آیا ہے، جس کو ایس ای ٹی آئی(SETI) کہاجاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے — بالائے خلا ذہانت کی تلاش :
Search for Extra-Terrestrial Intelligence
زندگی کے ارتقائی نظریے کے تحت سائنس دانوں کا گمان ہے کہ کائنات کے دوسرے مقامات پر بھی انسان جیسی ذہین مخلوق ہونی چاہیے۔ کیوں کہ ارتقائی عمل عموم چاہتا ہے، ارتقائی عمل میں استثناکے لیے کوئی جگہ نہیں۔اس فرضی قیاس پر جدید انسان کو اتنا زیادہ یقین ہے کہ ایک امریکن سائنسی مصنف اسحاق اسیمو (Isaac Asimov [1920-1992]) نے حساب لگا کر اعلان کیا ہے کہ ہماری کہکشاں میں چار سو ملین سیارے ایسےہیں، جن میں پودے اور جانور پائے جاتے ہیں یا پائے جاسکتے ہیں۔ مگر یہ سب کا سب محض حسابی قیاس ہے۔
سورج ایک اوسط درجے کا ستارہ ہے۔ اس کا قطر(diameter) آٹھ لاکھ 65 ہزار میل ہے۔ وہ ہماری زمین سے تقریباً بارہ لاکھ گُنا بڑا ہے۔ سورج کی سطح پر جو حرارت ہے اس کا اندازہ بارہ ہزار ڈگری فارن ہائٹ ٹمپریچر کیا گیا ہے۔ زمین سے سورج کا فاصلہ تقریباً نو کرور 30 لاکھ میل ہے۔ یہ فاصلہ حیرت انگیز طورپر مسلسل قائم ہے۔ یہ واقعہ ہمارے لیے بے حد اہمیت رکھتا ہے۔ کیوں کہ اگر یہ فاصلہ گھٹ یا بڑھ جائے تو زمین پر انسان جیسی مخلوق کی آبادکاری ناممکن ہوجائے۔مثلاً اگر ایسا ہو کہ سورج نصف کے بقدر ہم سے قریب ہوجائے تو زمین پر اتنی گرمی پیدا ہو کہ اس کی شدت سے کاغذ جلنے لگے۔ اس کے برعکس، اگر زمین اور سورج کا موجودہ فاصلہ دگنا سے زیادہ ہوجائے تو اتنی ٹھنڈک پیدا ہو کہ زمین پر زندگی جیسی چیز باقی نہ رہے۔ یہی صورت اس وقت پیدا ہوگی، جب کہ موجودہ سورج کی جگہ کوئی دوسرا غیر معمولی ستارہ آجائے۔ مثلاً ایک ستارہ ہے، جس کی گرمی ہمارے سورج سے اسی ہزار گنا زیادہ ہے، اگر وہ سورج کی جگہ ہوتا تو پوری زمین کو آگ کی بھٹی بنا دیتا۔
واپس اوپر جائیں

سب سے بڑا المیہ

انسانی تاریخ کا شاید سب سے بڑا المیہ (tragedy) یہ ہے کہ انسان معرفتِ اعلیٰ کے حصول سے محروم رہا۔ خدا کی معرفت کا ذریعہ، خدا کی تخلیقات میں غور و فکر کرناہے۔ جدید سائنسی دور سے پہلے انسان تخلیقاتِ الٰہی کے بارے میں بہت کم جانتا تھا۔ چنانچہ قدیم زمانے میں معرفتِ اعلیٰ تک پہنچنے کے لیے فریم ورک ہی موجود نہ تھا۔
موجودہ زمانے میں سائنسی انقلاب کے بعد انسان کو اعلیٰ فریم ورک حاصل ہوا۔ جس کی پیشگی خبر قرآن میں ان الفاظ میں دی گئی ہے:سَنُرِیہِمْ آیَاتِنَا فِی الْآفَاقِ وَفِی أَنْفُسِہِمْ حَتَّى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُ الْحَقُّ (41:53)۔ لیکن موجودہ زمانے میں جب یہ آفاقی یا سائنسی فریم ورک ظہور میں آیا تو عین اُسی وقت تمام دنیا کے مسلمان سیاسی ردّ ِعمل کے نتیجے میں منفی سوچ کا شکار ہوگئے۔ اس طرح وہ مثبت سوچ سے محروم رہے۔
قدیم زمانے کے انسان کے لیےسائنسی فریم ورک نہ ہو نے کی بنا پر معرفتِ اعلیٰ تک پہنچنا مشکل تھا۔ موجودہ زمانے میں سائنسی فریم ورک کے ظہور کے باوجود انسان معرفتِ اعلیٰ تک نہیں پہنچا، اور اس کا سبب یہ تھا کہ موجودہ زمانے کا انسان مثبت سوچ سے محروم ہو گیا۔ یہ بلاشبہ انسان کی سب سے بڑی محرومی تھی۔ اللہ کی معرفتِ اعلی کسی انسان کے لیے سب سے بڑی نعمت ہے۔ ہر انسان کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ معرفت اعلی تک پہنچ سکے۔ لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو منفی سوچ سے مکمل طور پر بچائے۔ وہ ہر حال میں مثبت سوچ میں جینے والا بنے۔ جو لوگ اس شرط کو پورا کریں وہ یقیناً معرفتِ اعلی تک پہنچنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
یہ تاریخ کا المیہ ہے کہ بیشتر انسان کسی نہ کسی بات کو لے کر منفی سوچ کا شکار ہوگئے۔ وہ مثبت سوچ (positive thinking) پر قائم نہ رہ سکے۔ اس بنا پر وہ معرفت کا وعایہ (container) نہیں بنے۔ معرفت اعلی سے محرومی کی یہی سب سے بڑی وجہ ہے۔
واپس اوپر جائیں

معبود کی طلب

اندرن نکولائیف(Andriyan Grigoryevich Nikolayev) روس کا خلائی مسافر ہے۔ اس کی پیدائش1929 میں ہوئی، اور وفات 2004 میں۔1962 میں اس نے پہلی مرتبہ خلا میں پرواز کیا۔ اس خلائی پرواز سےواپسی کے بعد 21 اگست 1962کو ماسکو میں اس نے ایک پریس کانفرنس میں حصہ لیا۔ اس کانفرنس میں اس نےاپنا خلائی تجربہ بیان کرتے ہوئے کہا:
جب میں زمین پر اترا تو میرا جی چاہتا تھا کہ میں زمین کو چوم لوں۔
انسان جیسی ایک مخلوق کے لیے زمین پر جو بے حساب موافق سامان جمع ہیں، وہ معلوم کائنات میں کہیں بھی نہیں۔ روسی خلا باز جب زمین سے دور خلا میں گیا تو اس نے پایا کہ وسیع خلا میں انسان کے لیے صرف حیرانی اور سرگشتگی ہے۔ وہاںانسان کے سکون اور حاجت براری کا کوئی سامان نہیں۔ اس تجربے کے بعد جب وہ زمین پر اترا تو اس کو زمین کی قیمت کا احساس ہوا، ٹھیک ویسے ہی جیسے شدید پیاس کے بعد آدمی کو پانی کی اہمیت کا احساس ہوتاہے۔ زمین اپنے تمام موافق امکانات کے ساتھ اس کو اتنی محبوب معلوم ہوئی کہ اس کا جی چاہا کہ اس سے لپٹ جائے اور اپنے جذباتِ محبت کو اس کے لیے نثار کردے۔
یہی وہ چیز ہے جس کو شریعت میں الٰہ بنانا کہاگیا ہے۔ آدمی خالق کونہیں دیکھتا، اس لیے وہ مخلوق کو اپنا الٰہ بنا لیتاہے۔ مومن وہ ہے جو ظاہر سے گزر کر باطن تک پہنچ جائے، جو اس حقیقت کو جان لے کہ یہ جو کچھ نظر آرہا ہے یہ کسی کا دیاہوا ہے۔ زمین میں جو کچھ ہے وہ سب کسی برتر ہستی کا پیدا کیا ہوا ہے۔ وہ مخلوق کو دیکھ کر اس کے خالق کو پالے اور خالق کو اپنا سب کچھ بنا لے۔ وہ اپنے تمام بہترین جذبات کو خداکے لیے نثار کردے۔
روسی خلاباز پر جو کیفیت زمین کو پاکر گزری وہی کیفیت مزید اضافہ کے ساتھ آدمی پر خدا کو پاکر گزرنا چاہیے۔ مومن وہ ہے جو سورج کو دیکھے تو اس کی روشنی میں خدا کے نور کو پالے۔ وہ آسمان کی وسعتوں میں خدا کی لامحدودیت کا مشاہدہ کرنے لگے۔ وہ پھول کی خوشبو میں خدا کی مہک کو پائے، اور پانی کی روانی میں خدا کی بخشش کو دیکھے۔ مومن اور غیر مومن کا فرق یہ ہے کہ غیر مومن کی نگاہ مخلوقات میں اٹک کر رہ جاتی ہے، اور مومن مخلوقات سے گزر کر خالق (Creator) تک پہنچ جاتا ہے۔ غیرمومن مخلوقات کے حسن کو خود مخلوقات کا حسن سمجھ کر انھیں میں محو ہو جاتا ہے۔ مومن مخلوقات کے حسن میں خالق کے عجائبات (wonders) دیکھتا ہے،اور اپنے آپ کو خالق کے آگے ڈال دیتا ہے۔ غیرمومن کا سجدہ چیزوں کے لیے ہوتا ہے، اور مومن کا سجدہ چیزوں کے خالق کے لیے۔
خدا کی موجودگی کا تجربہ
اپالو 15 میں امریکا کے جو تین خلا باز چاند پر گئے تھے، ان میں سے ایک کرنل جیمز اِروِن (James Irwin [1930-1991]) تھے۔ انھوںنے ایک انٹرویو میں کہا کہ اگست 1972 کا وہ لمحہ میرے لیے بڑا عجیب تھا، جب میںنے چاند کی سطح پر قدم رکھا۔ میں نے وہاں خدا کی موجودگی (God’s presence) کو محسوس کیا۔ انھوں نے کہا کہ میری روح پر اس وقت وجدانی کیفیت طاری تھی، اور مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے خدا بہت قریب ہو۔ خدا کی عظمت مجھے اپنی آنکھوں سے نظر آرہی تھی۔ چاند کا سفر میرے لیے صرف ایک سائنسی سفر نہیں تھا، بلکہ اس سے مجھے روحانی زندگی نصیب ہوئی (ٹریبون 27 اکتوبر 1972)۔
کرنل جیمز ارون کا یہ تجربہ کوئی انوکھا تجربہ نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ خدا نے جو کچھ پیدا کیا ہے،وہ اتنا حیرتناک ہے کہ اس کو دیکھ کر آدمی خالق کی صناعیوں (wonders)میں ڈوب جائے۔ تخلیق کے کمال میں ہر آن خالق کا چہرہ جھلک رہا ہے۔ مگر ہمارے گردوپیش جو دنیا ہے، اس کو ہم بچپن سے دیکھتے دیکھتے عادی ہوجاتے ہیں۔ اس سے ہم اتنا مانوس ہوجاتے ہیں کہ اس کے انوکھے پن کا ہم کواحساس نہیں ہوتا۔ ہوا اور پانی اور درخت اور چڑیا غرض جو کچھ بھی ہماری دنیا میں ہے، سب کا سب حد درجہ عجیب ہے، ہر چیز اپنے خالق کا آئینہ ہے۔ مگر عادی ہونے کی وجہ سے ہم اس کے عجوبہ پن کو محسوس نہیں کر پاتے۔ مگر ایک شخص جب اچانک چاند کے اوپر اترا، اور پہلی بار وہاں کے تخلیقی منظر کو دیکھا تو وہ اس کے خالق کو محسوس کیے بغیر نہ رہ سکا۔ اس نے تخلیق کے کارنامے میںاس کے خالق کو موجود پایا۔
ہماری موجودہ دنیا جس میں ہم رہتے ہیں، یہاں بھی ’’خدا کی موجودگی‘‘ کا تجربہ اسی طرح ہوسکتا ہے، جس طرح چاند پہنچ کر کرنل اِروِن کو ہوا۔ مگر لوگ موجودہ دنیا کو اس استعجابی نگاہ سے نہیں دیکھ پاتے، جس طرح چاند کا ایک نیامسافر چاند کو دیکھتا ہے۔اگر ہم اپنی دنیا کو اس نظر سے دیکھنے لگیں تو ہر وقت ہم کو اپنے پاس ’’خدا کی موجودگی‘‘ کا تجربہ ہو۔ ہم اس طرح رہنے لگیں جیسے کہ ہم خدا کے پڑوس میں رہ ہے ہیں اور ہر وقت وہ ہماری نظروں کے سامنے ہے۔
اگر ہم ایک اعلی درجے کی مشین کو پہلی بار دیکھیں تو فی الفور ہم اس کے ماہر انجینئر کی موجودگی کو وہاں محسوس کرنے لگتے ہیں۔ اسی طرح اگر ہم دنیا کو اور اس کی چیزوں کو گہرائی کے ساتھ دیکھ سکیں تو اسی وقت ہم وہاں خدا کی موجودگی کو پالیں گے۔ کائنات کی ہر تخلیق خالق کے وجود کی گواہی دیتی ہے۔
موجودہ دنیامیں انسان کی سب سے بڑی یافت یہ ہے کہ وہ خدا کو دیکھنے لگے، وہ اپنے پاس خدا کی موجودگی کو محسوس کرلے۔ اگر آدمی کا احساس زندہ ہو تو سورج کی سنہری کرنوں میں اس کو خدا کا نور جگمگاتاہوا دکھائی دے گا، ہرے بھرے درختوں کے حسین منظر میں وہ خدا کا روپ جھلکتا ہوا پائے  گا۔ ہواؤں کے لطیف جھونکے میں اس کو لَمسِ ربانی(divine touch) کا تجربہ ہوگا۔ اپنی ہتھیلی اور اپنی پیشانی کو زمین پررکھتے ہوئے اس کو ایسا محسوس ہوگا گویا اس نے اپنا وجود اپنے رب کے قدموں میں ڈال دیا ہے۔ خدا اپنی قدرت اور رحمت کے ساتھ ہر جگہ موجود ہے، بشرطیکہ دیکھنے والی نگاہ آدمی کو حاصل ہوجائے۔
واپس اوپر جائیں

ایک داعی کی وفات

جناب ریاض موسی صاحب ملیباری (پیدائش 1942) انڈیا کے ایک مشہور داعی تھے۔ 8جون 2020 کو 78 سال کی عمر میں کیرلا میںان کا انتقال ہوگیا۔ ان کے بیٹے مولانا عمر ریاض عمری جامعی اپنے ایک تاثراتی مکتوب میں لکھتے ہیں:
آغازِ رمضان سے لے کر کل تک والد محترم گھر میں موجود لوگوں سے اور باہر سے ملاقات کے لیے آنے والوں سے ایک ہی سوال کرتے — کیا عمر آیا ہے؟ مگر بدنصیبی یہ ہے کہ انتقال سے پہلے باپ بیٹے کی ملاقات نہ ہوسکی۔عیدالفطر کےایک یا دو دن بعد کی بات ہے کہ ہمارے بڑے بھائی شعیب ریالو کے ہمراہ والد محترم نے کالیکٹ میں اپنے دفن کی جگہ منتخب کی، اور کہا کہ مجھے یہیں دفن کیا جائے ۔
پچھلے تین دنوں سے وہ مسلسل صاحب فراش تھے ،کوئی بات چیت نہیں، کوئی تکلیف نہیں، البتہ کھانا اور پینا کم ہوگیا تھا، پھر کل یعنی 7جون کو پالاکاڈ (Palakkad)سے تیرور (Tirur) کا سفر بذریعہ کار بڑے ہی آرام و اطمینان سے کیا۔قریب رات تین بجے میرے موبائل کی گھنٹی بجی، دیکھتا ہوں تو مدینہ سے برادرم شیخ نکوا پرویز عمری مدنی لائن پر تھے ۔ انھوں نےکہا کہ کیا یہ(شیخ ریاض موسی صاحب کے وفات کی) خبر صحیح ہے؟ یہ سن کر میری نیند اڑگئی، رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ شیخ نے تسلی دی، اور کہا کہ ایک مرتبہ تحقیق کرلیں ۔ چنانچہ میں نے شعیب بھائی کو کال کیا تو سلام کے بعد ان سےیہی سننے کو ملا— إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ !
یہ سنتے ہی ایسا محسوس ہوا کہ زمین پیروںتلے کھسک گئی۔ ایسا لگا کہ چند لمحے کے لیے کائنات ساکت ہوگئی۔کتنے واقعات، اور کارناموں سے بھرپور یادوں کا ایک دور ختم ہوگیا، اوروہ اپنے بعد والوں کے لیے انہیں نشانِ راہ بناکر چلے گئے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے تدفین میں شرکت کا موقع بھی نصیب نہیں ہوا۔ اس وقت ہم کڈپہ (آندھرا )میں ہیں، اور وہ کیرلا میں۔ بس آپ تمام احباب سے دعا کی گزارش کرتا ہوں ۔ اللہ والد محترم کی خدمات کو شرفِ قبولیت سے نوازے، اور انہیں اعلی علیین میں جگہ عطا فرمائے۔آمین (مولانا عمر ریاض عمری جامعی ، آندھرا پردیش)
واپس اوپر جائیں

خدا ترس شخصیت

شیخ ریاض موسی ملیباری عرف ریالو صاحب دعوت الی اللہ کے میدان میں میرے ابتدائی معلم و مربی تھے۔ آپ کے ساتھ مجھے کئی اسفار کے مواقع ملے۔ جن کے ذریعے میں نے ریالو صاحب کو بہت قریب سے جانا ہے ۔ ریالو صاحب ایک planner اور خدا ترس انسان تھے۔ وہ لوگوں کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرتے تھے ، خدا اور آخرت کے ذکر پر خوب رویا کرتے تھے۔ مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے، جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ کتنا زیادہ خدا اور آخرت کی یاد پر رویا کرتے تھے۔
اگست2001 کی بات ہے کہ ریالو صاحب کے ساتھ میرا ایک سفر دہلی کا ہوا، جس میں ہمارے ساتھ مولانا فیاض الدین عمری (گلبرگہ)بھی تھے۔ جب ہم دہلی پہنچے تو سب سے پہلا پروگرام مولاناوحیدالدین خاں سے ملاقات کا بنا۔ مولانا فیاض عمری نےآپ سےفون پر ملاقات کا ٹائم لیا، اور ہم لوگ آپ سے ملنے کی تیاری کرنے لگے ۔اس وقت شیخ ریالو صاحب نے مولانا فیاض الدین عمری سے پوچھا کہ ہم ایک بڑے عالم سے ملنے جا رہے ہیں تو میں چاہتا ہوں کہ ان کو کوئی اچھا تحفہ (gift)دوں، آپ مشورہ دو کہ ان کے لیے کون ساتحفہ مناسب ہوگا تو مولانا فیاض صاحب نے بتایا کہ میں نے مولانا وحید الدین صاحب کی ایک ڈائری میں پڑھا ہے کہ ان کو قلم اور مسواک پسند ہیں۔ ریالو صاحب نے ایک اچھا قلم اور مسواک آپ کو تحفہ میں دینے کے لیے خریدا۔
اس کے بعد ہم لوگ مولانا وحید الدین خاں صاحب سے ملاقات کے لیے ان کے آفس (نظام الدین ویسٹ، نئی دہلی) پہنچے۔ جب ملاقات ہوئی تو ریالو صاحب نے مولانا کو یہ دونوں تحفہ پیش کیا ،اور کہا کہ ہمارے شاگرد فیاض الدین عمری (گلبرگہ،کرناٹک)نے بتایا کہ آپ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ آپ کو قلم اور مسواک پسند ہے۔ اسی لیے ہم نے آپ کو یہ تحفہ پیش کیا ہے ۔
اس وقت مولانا نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ صحیح ہے کہ میں نے ایسا لکھا ہے۔ مگر یہ میری ایک پرانی بات ہے، لیکن آج کل میں کچھ اور سوچتا رہتا ہوں ۔تو ریالو صاحب نے پوچھا کہ وہ کیا ہے؟ تو مولانا نے کہا کہ میں اب اپنی عمر کی آخری منزل پر پہنچ چکا ہوں پتہ نہیں کہ کب موت کا فرشتہ مجھے لینے آجائے اور اللہ کے سامنے حاضر کردے۔ میں خدا کے سامنے حاضر ہوکر اپنی نجات کے لیے کیا پیش کرسکتا ہوں۔
اگر میں یہ کہوں کہ میں نے اسلام پر اتنی کتابیں لکھی ہیں تو ان کی قیمت خدا کے پاس کیا ہوسکتی ہے جب کہ ایک دیا سلائی ان کتابوں کو جلاکر راکھ میں تبدیل کرنے کے لیے کافی ہے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کیفیت بیان کرتے ہوئے ایک بار یہ کہا تھا:لَنْ یُدْخِلَ أَحَدًا مِنْکُمْ عَمَلُہُ الْجَنَّةَ۔ قَالُوا:وَلَا أَنْتَ؟ یَا رَسُولَ اللہِ قَالَ:وَلَا أَنَا، إِلَّا أَنْ یَتَغَمَّدَنِیَ اللہُ مِنْہُ بِفَضْلٍ وَرَحْمَةٍ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2816)۔ یعنی تم میں سے کسی کو اس کا عمل ہرگزجنت میں داخل نہیں کرے گا۔ لوگوں نے کہا:آپ بھی نہیں، اے خدا کے رسول؟ آپ نے کہا:میں بھی نہیں۔ سوا یہ کہ اللہ مجھے اپنی رحمت اور فضل سے ڈھانک لے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خود رسول اللہ اپنے عمل سے نہیں بلکہ خدا کی رحمت سے جنت پائیں گے تو میری اور میری کتابوں کی حیثیت کیا ہوگی۔ بس میں اسی سوچ میں رہتا ہوں کہ میں خدا کی رحمت کا کیسے مستحق بن سکتا ہوں۔ یہ کہہ کر مولانا روئے جارہے تھے، اور مولانا کے ساتھ شیخ ریالو صاحب بھی زار و قطار رونے لگے۔
یہ ملاقات تقریباً ایک گھنٹے کی رہی، جس میں مولانا آخرت کی باتیں کرتے رہے اور شیخ ریالو صاحب روتے رہے ۔ یہ پوری ملاقات رونے پر ہی ختم ہوگئی۔اس واقعے سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کس طرح سے ریالو صاحب خدا اور آخرت کے ذکر پر رویا کرتے تھے بلکہ میں نے ان کو بہت سی راتوں میں تہجد کے وقت روتے ہوئے پایا ہے۔ یہ تھی شیخ ریالو صاحب کی خداترس شخصیت۔ اللہ سے دعا ہے کہ خدا ان کی گریہ و زاری کو قبول فرماکر ان کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔ آمین۔ (مولانا خطیب اسرار الحسن عمری ،چنئی)
واپس اوپر جائیں

ایگو فری شخصیت

مولانا ریاض موسیٰ صاحب ملیباری کا انتقال 8جون 2020 کو ہوا۔تقریباً 1980 سے ریاض موسیٰ صاحب کی شب و روز کی مصروفیت بس ایک ہی تھی— غیر مسلموں میں اسلامی دعوت کے لیے مسلم نوجوانوں کی ذہن سازی اور اس کاز کےلیےان نوجوانوں کی گرومنگ (grooming)۔ اس کام کے لیے انھوں نےاپنے آپ کو پوری طرح ایک ایگوفری شخص( ego free person) بنا لیاتھا۔ وہ کبھی نہ اپنی ایگو(ego) کو جاگنے دیتے اور نہ ہی کسی کی ایگو( ego)کو ہٹ(hit) کرتے۔
ایک مرتبہ کا واقعہ ہے — ریاض موسیٰ صاحب اور میںساؤتھ انڈیا سے لمبا سفر کرتے ہوئے ایک مشہور شخصیت سے ملاقات کےلیے یوپی کے شہر مئوناتھ بھنجن پہونچے۔میزبان موصوف نے اپنے گھر کے صحن میں ہمارے بیٹھنے کا اہتمام کیا، اور ہمارے لیے ضیافت کی تیاری کا اپنے اہلِ خانہ کو حکم دیا۔مگر مقصدِ سفر’’غیر مسلموں میں دعوت‘‘ کی بات پر ہمارے میزبان محترم ہم پر بہت ناراض ہوگئے اور انھوں نے ہمیں اپنے گھر سے فورا ًباہر جانے کا حکم دیا ،اور ہمارے لیے تیار ہورہی ضیافت بھی کینسل کروا دی۔
میں انتظار میں تھا کہ اب استاد محترم کا ردعمل کیا ہو تاہے دیکھوں۔مگر وہ مسلسل ایسے خاموش رہے گویا کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ ہمیں ایک شخص نے اپنے گھر سے باہر نکلوا دیا تھا، اورہمارے لیےتیار کی ہوئی ضیافت کینسل کروا دی تھی۔ انسانی فطرت کے اعتبار سے اس بے عزتی کے واقعہ کی کسک آج بھی میں محسوس کرتا ہوں، مگر ریاض موسیٰ صاحب ملیباری کے چہرے پر میں نے وہی سکون دیکھا جو اس واقعہ سے پہلے میں نےان کے چہرے پر دیکھا تھا۔ اس طرح کے واقعات اس دور میں ہمارے ساتھ اور بھی جگہوں پرپیش آ ئے۔ مگر ہر بار میرا تجربہ یہی تھا کہ وہ کبھی افنڈ( offend) نہیں ہوتے تھے۔
اس قسم کے واقعات کو وہ ایسے لیتے جیسے وہ کوئی قابلِ توجہ بات ہی نہ ہو۔ دوسرے الفاظ میں وہ اس طرح کے ناروا سلوک کو میدانِ دعوت کے ایک نارمل واقعہ کے طور پر لیتے تھے۔ بعدکے دور میں مسلم شخصیات کے پاس اوردینی اداروں میں آپ کو عمومی طور پر جو مقبولیت ملی آپ کی یہی ایگو فری شخصیت کا نتیجہ تھی۔گویاکہ ان کا اصول یہ تھا’’نہ کسی کی ایگو کو ہٹ کرواور نہ ہی اپنی ایگو کو جاگنے دو‘‘ وہ اس حکیمانہ فارمولا پر کاربند تھےجس کو انگریزی میں اس طرح کہا جاتا ہے:
simple living, high thinking
ریاض موسیٰ صاحب کی زندگی ایک سادہ اور بامقصد زندگی تھی۔ ان کی سادگی اور مقصدیت زندگی بھر باقی رہی۔ یہاں تک کہ وہ اپنی طبعی عمر پوری کرکے 8جون 2020کی صبح کی اولین ساعتوں میں اس دنیا سے رخصت ہوگئے،اور کالی کٹ کے ایک قبرستان میں اسی دن صبح کے گیارہ بجے سپرد خاک کر دیے گئے۔اللہ تعالیٰ ان کے اور ہمارے سیئات کو حسنات میں بدل دے اور وہ خدائے ذوالجلال کی خوش نودی کا انعام پائیں۔ آمین ۔(مولانا فیاض الدین عمری، گلبرگہ، کرناٹک )
واپس اوپر جائیں

جواہر لال نہرو کا واقعہ

پنڈت جواہر لال نہرو (1889-1964) بھارت کے پہلے وزیر اعظم تھے۔انھوں نے ایک بار کہا تھا کہ زندگی ایک نہایت پیچیدہ نظام ہے۔ ہم منصوبے بناتے ہیں، اور عمل کے نقشے مقرر کرتے ہیں۔ مگر کم ہی ایسا ہوتاہے کہ نتیجہ ہمارے سوچے ہوئے نقشہ کے مطابق نکلتا ہو۔ اکثر نامعلوم اسباب (unknown factors) ہمارے مفروضات پر بھاری ثابت ہوتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کچھ مخفی طاقتیں ہیں، جو انسان کی تقدیر بناتی ہیں۔
ایک انسان جو خدا میں یقین نہ رکھتا ہو، وہ اتنا ہی کہہ سکتا تھا۔ مگر مذہب اس پر یہ اضافہ کرتا ہے کہ بلاشبہ ایسی ایک مخفی طاقت ہے، جو انسان کی تقدیر بناتی ہے، اور یہ مخفی طاقت خدا ہے۔
واپس اوپر جائیں

دعوتی عمل کی منصوبہ بندی

شیخ ریاض موسی ملیباری صاحب سے پہلی بار جامعہ دارالسلام عمرآباد میں تعارف ہوا ،جب کہ وہ جگہ جگہ مسلمانوں کی دعوتی ذہن سازی کے لیے سفر کیا کرتے تھے۔ اتفاقاً جس سال میری فراغت ہوئی اسی سال باقاعدہ طور پر جامعہ دارالسلام میں ایک سالہ دعوتی کورس کا اعلان کیا گیا، جس میں دعوتی تربیت اور دعوتی دوروں کی ذمہ داری خود شیخ ریاض موسی صاحب نے لے لی ۔ دعوت کو بطور ترجیحی سرگرمی کے اپنانے کا ذہن،اور اس کو عملاً امت میں جاری کرنے کا طریقہ کیا ہوسکتا ہے، وہ میں نے شیخ ریالو صاحب سے سیکھا ہے۔
میرا پہلا دعوتی دورہ 1996میں شیخ ریالو صاحب کے ساتھ شہر آمبور(ضلع ترپاتور، تامل ناڈو) کی مسجد محی الدین پورہ میں ہوا۔اس میں بلیک بورڈ کے ذریعے سے دعوت کے متعلق دروس دیے گئے، جس میں مسلمانوں کو غیر مسلموں میں دعوت الی اللہ کی ترغیب دی گئی۔ غیر مسلموں میں دعوت کے عنوان سے مسجد واری اور مدرسہ واری تحریک جاری کرنے کےلیے شیخ ریالو صاحب زندگی بھر کوششیں کرتے رہے، جس کے سبب ہندوستان میں ایک دعوہ ٹیم وجود میں آئی، جو دعوتی مشن کو لے کر جگہ جگہ جایا کرتی ہے، یعنی دعوتی سیاحت کا عمل وجود میں آیا۔
ریالو صاحب کہا کرتے تھے کہ جس دن امت مسلمہ سے چند افراد دعوت کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے،خاص طور پر تبلیغی جماعت سے تعلق رکھنے والے حضرات کام کرنے کے لیے تیار ہوجائیں گے تو اس دن میں واپس کیرالا چلاجاؤں گا۔ غالباً 2004میں شیخ ریالو صاحب کے ساتھ منگلور (کرناٹکا) گیا ، وہاں ان کے ساتھی ڈاکٹر حبیب الرحمن سے ملاقات ہوئی ۔ڈاکٹر صاحب نے ریالو صاحب سے سوال کیا کہ آج کل آپ کیا کررہے ہیں ۔تو انہوں نے جواب دیا کہ دیکھیے مولوی حضرات کو دین کے سب کام آتے ہیں سوائے غیر مسلموں میں دعوت کے، میں آج کل مدارس کا دورہ کرکےعلما حضرات کو غیر مسلموں میں دعوت دین کا عملی طریقہ سکھارہا ہوں۔
شیخ ریالو صاحب کے ذریعے سے میرے اندر دعوتی شعور پیدا ہوا، آپ کی تربیت اور صحبت کے نتیجے میں دعوت کو میں نے اپنی زندگی میں پرائمری کنسرن بنایا۔ مگر میرے ذہن ودماغ میں دعوتی میدان کے اصولی اور علمی تقاضوں کے متعلق بہت سے سوالات تھے ،مثلاً اعلی تعلیم یافتہ طبقے میں کام کیسے کیاجائے ،دورِ جدید کی نسبت سے دعوتی تقاضےکیا ہیں ؟اسی طرح یہ کہ سائنسی ایج میں علم وایمان کے اثبات میں جو دلائل وجود میں آئے ہیں ان کو دریافت کرنے کا ذہن، مدعو سے یک طرفہ خیر خواہی کرنا، غیرمسلم حضرات کے سارے ہی طبقات کے ساتھ صرف دعوتی سلوک کو صحیح سمجھنا، ملاءِقوم کے ساتھ ناصحانہ رویہ اختیار کرنا، وغیرہ۔
یہ اور اس قسم کے اور بھی سوالات تھے، جن کے لیے مجھے رہنمائی کی ضرورت تھی ۔اللہ کے فضل سے الرسالہ مشن کے ذریعے اس کی تلافی ہوگئی۔ میں نے جس دعوتی جذبے کے تحت ریاض موسی صاحب کا ساتھ دیا تھا، اسی جذبے کے تحت میں نے الرسالہ مشن کو بھی اختیار کیا ہے۔ اللہ تعالی شیخ ریالو صاحب کی مغفرت فرمائے ،اور ہم سب کو جنت الفردوس میں جگہ دے۔ آمین۔(مولانا سید اقبال احمد عمری، عمرآباد، تامل ناڈو)
واپس اوپر جائیں

نامعلوم دنیا کا سفر

موت کیا ہے، موت معلوم دنیا سے نامعلوم دنیا کی طرف چھلانگ ہے۔ موت’’اپنی دنیا‘‘ سے نکل کر’’دوسرے کی دنیا‘‘ میں جانا ہے۔ کیسا چونکادینے والا ہے یہ واقعہ۔ مگر انسان کی یہ غفلت کیسی عجیب ہے کہ وہ اپنے چاروں طرف لوگوں کو مرتے ہوئے دیکھتا ہے، پھر بھی وہ نہیں چونکتا۔ حالاں کہ ہر مرنے والا زبان حال سے دوسروں کو بتارہا ہے کہ جو کچھ مجھ پر گزرا یہی تمھارے اوپر بھی گزرنے والا ہے۔ وہ دن آنے والا ہے جب کہ وہ کامل بے بسی کے ساتھ اپنے آپ کو فرشتوں کے حوالہ کردے۔ موت ہر آدمی کو اسی آنے والے دن کی یاد دلاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

دعوت الی اللہ

ریاض موسی صاحب ملیباری ( 1942-2020)انڈیا کے مشہور داعی تھے۔ ان کی ہمارے دل میں بہت قدر ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے مشن میں ان کا ایک مثبت رول ہے۔ ہمارے دعوتی مشن میں علما کی جو ٹیم شامل ہوئی ہے، وہ لوگ براہِ راست نہیں آئے ہیں، بلکہ ریاض موسی صاحب کے واسطے سے آئے ہیں۔پہلے ریاض موسی صاحب نے ان لوگوں کے اندر دعوتی ذہن پیدا کیا۔اگرچہ ان کا ذہن عین وہی نہیں ہے، جو ہمارا دعوتی ذہن ہے۔ بلکہ کسی قدر مختلف تھا۔ چنانچہ ایک مرتبہ ان سے عمر آباد میں بات ہوئی تو میں نے ان کے طریقِ کار پر کچھ کریٹیکل تبصرہ کیا۔اس کے جواب میں ریاض موسی صاحب نے اپنے ملیالی لہجے میں کہا تھا:ہم دعوت بھی کرے گا، عداوت بھی کرے گا۔ میں نے اس وقت یہ کہاتھا کہ عداوت چھوڑکر دعوت الی اللہ کا کام کرنا ہے۔ دعوت اور عداوت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے ہیں ۔ یہ بات شاید خود ان کی سمجھ میں نہیں آئی، مگر ان کی ٹیم کے کچھ لوگوں کو سمجھ میں آگئی۔ یہ تقریباً وہی لوگ تھے جو بعد میں ہمارے مشن میں شریک ہوئے۔
اصل یہ ہے کہ ریاض موسی صاحب کی تحریک پر جامعہ دار السلام عمر آباد (تامل ناڈو) میں علما کی تربیت کے لیے ایک دعوتی شعبہ کھولا گیا۔ اس میں ان لوگوں نے داخلہ لیا۔ بعد کو یہ لوگ ہمارے پروگرا م میں شریک ہوئے۔ انھوں نے دیکھا کہ ہمارے یہاں دعوت کا مبنی بر نصح تصور ہے۔ ان عمری لوگوں نے ہمارے لٹریچر کو پڑھا، ان لوگوں نے ہمارے پروگرام میں شرکت کی۔ اس طرح دھیرے دھیرے ان کا ذہن بدلا۔ ان لوگوںنے یہ سمجھا کہ دعوت مکمل طور پر ایک مثبت کام ہے۔ دعوت کا عمل اس کا تحمل نہیں کرسکتا کہ اس میں کوئی بھی منفی سوچ شامل کی جائے۔ اس تجربے نے ان کو متاثر کیا، اس طرح ان علما کے اندر ایک اصلاح یافتہ دعوت کا تصور پیدا ہوا۔ ان کےذہن میں مثبت سوچ پر مبنی دعوت کا تصور قائم ہوا، جو ہر قسم کے منفی سوچ سے خالی تھا۔ یہاں تک کہ یہ لوگ باقاعدہ طور پر ہمارے مشن میں شامل ہو گئے۔
واپس اوپر جائیں