Pages

Friday 1 November 2013

Al Risala | November 2013 (الرسالہ،نومبر)

2

-قرآن ایک جامع ہدایت

3

- تعاہُد کیا ہے

4

- دورِ جدید میں سیرت نگاری

5

- مغرب کا کیس

6

- ایک حکیمانہ اصول

9

- اجتہاد کی اہمیت

13

- منصوبۂ خداوندی

21

- اسلام کا انقلابی رول

27

- اسلام اور جنگ

32

- قانونِ شریعت کا نفاذ

36

- خود کشی کا بڑھتا ہوا رجحان

37

- مس ورلڈ

38

- خود کشی کیوں

39

- کسی کی انا کو مت چھیڑیے

40

- سوال وجواب


قرآن ایک جامع ہدایت

قرآن کی سورہ النحل میں قرآن کی ایک خصوصیت اِن الفاظ میں بیان کی گئی ہے: وَنَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیْءٍ وَّہُدًى وَّرَحْمَةً وَّبُشْرٰى لِلْمُسْلِمِیْنَ (16:89) یعنی ہم نے تم پر الکتاب اتاری ہے جس میں ہر چیز کا کھلا بیان ہے- اور ہدایت اور رحمت اور بشارت ہے فرماں برداروں کے لیے-
’تبیانًا لکل شیء‘ کا مطلب کیا ہے- اس کا مطلب ہے —مقصدِ قرآن کی نسبت سے ہر چیز کا بیان- اِس سے مراد عام انسانی فہرست نہیں ہے، بلکہ اِس سے اُس دین کی فہرست ہے جو اللہ کو مطلوب ہے- مشہور عربی لغت لسان العرب میں اِس کی توضیح اِن الفاظ میں کی گئی ہے: بُین لک فیہ کلُّ ما تحتاج إلیہ أنت وأمتک من أمر الدین (68/13) یعنی قرآن میں اُن تمام چیزوں کو بیان کردیا گیا ہے جو امرِ دین کی نسبت سے تمھارے لیے اور تمھاری امت کے لیے ضروری ہیں-
جو لوگ یہ دعوی کرتے ہیں کہ قرآن میں تمام سائنسی مضامین اور تمام عمرانی علوم (social sciences) موجود ہیں، وہ اس سے بے خبر ہیں کہ قرآن کا مقصد نزول کیا ہے-قرآن اِس لیے نہیں اتارا گیاہے کہ وہ انسان کو تمام دنیوی علوم سے واقف کرائے- حدیث میں واضح طورپر اس کی تردید موجود ہے- تابیرِ نخل کے واقعے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس معاملے کو ایک جامع اصول کے طورپر اِن الفاظ میں بیان کیا ہے: أنتم أعلم بأمر دنیاکم (صحیح مسلم، رقم الحدیث:6277 )
اصل یہ ہے کہ قرآن اِس لیے اتارا گیا ہے کہ وہ انسان کو اس کی ابدی فلاح کے معاملے میں رہنمائی دے- اِس ابدی فلاح کا تعلق آخرت کی فلاح سے ہے- قرآن میں اُن رہنما اصولوں کو بتایا گیا ہے جن کی پیروی کرکے انسان آخرت کی ابدی زندگی کو کامیاب بنا سکتا ہے- جہاں تک دنیوی معاملات کا تعلق ہے، اس کے بارے میں انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ اپنی تحقیق اور تجربے کے ذریعے اُن کو معلوم کرے-
واپس اوپر جائیں

تعاہُد کیا ہے

قرآن کے بارے میں ایک روایت اِن الفاظ میں آئی ہے: عن أبی موسى عن النبی صلى اللہ علیہ وسلم قال: تعاہدوا القرآن، فوالذی نفسی بیدہ لہو أشد تفصیًا من الإبل فی عقلہا (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 5033) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم قرآن کی حفاظت کرو، کیوں کہ قرآن اُس سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ نکل جانے والا ہے جس طرح اونٹ اپنی رسی سے چھوٹ کر نکل جاتا ہے-
اِس حدیث میں قرآن کی حفاظت (تعاہد)سے مراد اس کی لفظی حفاظت نہیں ہے، بلکہ اس کی معنوی حفاظت ہے- ’’تعاہد‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ تم قرآن کو مسلسل طو رپر اپنی سوچ کا مرکز بنائے رہو، تمھارے اندر قرآن رخی تفکیر (Quran-oriented thinking) پیدا ہوجائے، تم ہمیشہ قرآن میں نئے نئے معانی تلاش کرتے رہو، تم قرآن کو مسلسل طور پر اپنے ذہن کا حصہ (intellectual part) بنا لو- قرآن کے معانی، بہ الفاظِ دیگر، قرآنی طرزِ فکر، ایک ایسی چیز ہے جو صرف اُس وقت آدمی کے ذہن کا حصہ بنتا ہے جب کہ آدمی اس پر مسلسل طورپر سوچے، جب کہ وہ اس کے تفکیری عمل (thinking process) کا مستقل جز بنا ہوا ہو- اگر ایسا نہ ہوتو قرآن بہت جلد فراموشی کے خانے میں چلا جائے گا- وہ آدمی کے زندہ حافظہ (living memory) میں باقی نہ رہے گا-
اِس کا سبب یہ ہے کہ موجودہ زندگی میں آدمی ہر لمحہ مسائلِ دنیا سے دوچار رہتا ہے- طرح طرح کے دنیوی تقاضے ہر لمحہ آدمی کو اپنی طرف کھینچتے رہتے ہیں- قرآن مکمل طورپر ایک کتاب آخرت ہے، جب کہ انسان مکمل طورپر ایک دنیوی مخلوق ہے- یہی وہ فرق ہے جس کی طرف مذکورہ حدیث رسول میں اشارہ کیاگیا ہے-اِس صورتِ حال میں کسی مومن کے لیے صاحبِ قرآن بننے کی شرط صرف ایک ہے، وہ یہ کہ وہ اپنے اندر تجریدی فکر (detached thinking) کی صلاحیت پیدا کرے- وہ ایک غیر قرآنی دنیا میں قرآنی ذہن کے ساتھ رہ سکے-
واپس اوپر جائیں

دورِ جدید میں سیرت نگاری

موجودہ زمانے میں مسلم اہلِ قلم کے درمیان ایک موضوع بہت مقبو ل ہوا ہے- اِس موضوع کو عام طورپر ’’دورِ جدید میں سیرت نگاری‘‘ کہاجاتا ہے- مگر اِس موضوع پر جو کتابیں چھپی ہیں، اُن کو دیکھنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُن کے مصنفین اِس بات سے بے خبر ہیں کہ دورِ جدید میں سیرت نگار ی کا مطلب کیا ہے-حقیقت یہ ہے کہ اصل موضوع سے اِن کتابوں کا کوئی تعلق نہیں-
اِس موضوع پر شائع شدہ کتابوں کا خلاصہ یہ ہے کہ اُن کے لکھنے والوں نے کچھ مغربی مصنفین کو اسلام کا دشمن فرض کرلیا اور یہ سمجھا کہ وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو ’’مسخ‘‘ کرنے کی کوشش کررہے ہیں- اِس مفروضے کے تحت انھوں نے بطور خود اِن ’’اسلام دشمنوں‘‘ کا جواب دینے کی کوشش کی ہے-اِسی جوابی سیرت نگاری کو وہ بطور خود ’’دورِ جدید میں سیرت نگاری‘‘ سمجھتے ہیں-
اصل یہ ہے کہ موجودہ زمانہ ایک بالکل نیا زمانہ ہے- پچھلے دور کو اگر روایتی دور کہاجائے تو موجودہ دور کو سائنسی دور کہا جائے گا- اب سیرتِ رسول کے اعتبار سے، یہ ضرورت ہے کہ سیرت کو اِس طرح لکھا جائے کہ وہ دورِ جدید سے پوری طرح متعلق (relevant) نظر آئے- موجودہ زمانے کی اصل ضرورت سیرتِ رسول کا یہی ریلونس (relevance)ثابت کرنا ہے، نہ کہ مفروضہ مخالفینِ اسلام کا جواب دینا-
دورِ جدید میں سیرت نگاری ایک اجتہادی موضوع ہے، وہ کوئی روایتی یا تقلیدی موضوع نہیں- اس کام کے لیے ضروری ہے کہ ایک طرف، جدید ذہن کا مطالعہ خالص غیر جانب دارانہ انداز میں کیا جائے اور دوسری طرف، پیغمبر اسلام کی سیرت کو گہرے مطالعے کے ذریعے دوبارہ سمجھنے کی کوشش کی جائے- راقم الحروف کے مطالعے کے مطابق، مغربی مصنفین، اسلام یا پیغمبر اسلام کے مخالف نہیں ہیں، بلکہ اُن کا طریقِ مطالعہ (method of study) مختلف ہے- مسلمان اگر سیرت کا مطالعہ خوش عقیدگی کے ذہن کے تحت کرتے ہیں تو مغربی مصنفین اس کا مطالعہ موضوعی (objective) انداز میں کرتے ہیں- اِسی فرق کو نہ سمجھنے کی وجہ سے مسلمان اِس معاملے میں غلط فہمی کا شکار ہوگئے ہیں-
واپس اوپر جائیں

مغرب کا کیس

ڈاکٹر صہیب حسن (لندن) کا ایک مضمون ایک عرب شیخ صالح الحُصیّن (وفات: 2013)کے بارے میں چھپا ہے-اس میں انھوں نے مغربی تہذیب یا مغرب کے بارے میں شیخ صالح الحصین کا نقطہ نظر بتاتے ہوئے لکھا ہے — اگر ایک مسلمان کو اہلِ مغرب پر تنقید کرنا ہے تو وہ صرف اُن کے عیوب پر تنقید کرے- اہلِ مغرب کی خوبیوں کا نہ صرف اعتراف کرنا چاہئے، بلکہ اس میں ہمیں اُن سے مسابقت کرنا چاہئے اور اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ اسلام میں عدل ہر قیمت پر مطلوب ہے- (ماہ نامہ ’صراطِ مستقیم‘، ستمبر 2013، صفحہ 25، برمنگھم، لندن)
عرب شیخ کے اِس ملفوظ میں غالبًا اہلِ مغرب کی اخلاقی خوبیوں کی طرف اشارہ کیاگیا ہے- مسلمانوں میں اور بھی ایسے کئی لوگ ہیں جو انفرادی سطح پر اہلِ مغرب کی اخلاقی خوبیوں کا اعتراف کرتے ہیں- مگر اس قسم کا اعتراف ایک کم تر اعتراف ہے- اہلِ مغرب کی دوسری اِس سے زیادہ بڑی دین ہے جس کو غالباً مسلم علما نہ جانـتے ہیں اور نہ وہ اس کا اعتراف کرتے ہیں-
اہلِ مغرب کی اصل اہمیت یہ ہے کہ وہ دینِ اسلام کے لیے مُؤید (supporter) کی حیثیت رکھتے ہیں، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ اللہ اِس دین کی تائید سیکولر لوگوں کے ذریعے بھی کرے گا- تائید دین کا یہ کام سب سے زیادہ اہلِ مغرب کے ذریعے انجام پایا ہے- حدیث میں تائید دین کے جس واقعے کی پیشین گوئی کی گئی ہے، بلاشبہہ اہلِ مغرب سب سے زیادہ اس کے مصداق ہیں-
اہلِ مغرب نے پہلی بار فطرت (nature) میں چھپی ہوئی اُن حقیقتوں کو دریافت کیا جو اعلی معرفت کے حصول کا ذریعہ ہیں- اہلِ مغرب کی سائنسی دریافتوں نے تاریخ میں پہلی بار اِس بات کو ممکن بنایا ہے کہ اسلام کے نظریات کو خالص علم انسانی کی سطح پر ثابت شدہ بنایا جاسکے- یہ اہلِ مغرب تھے جو دنیا میں پہلی بار کامل معنوں میں مذہبی آزادی کا دور لائے- ماڈرن کمیونکیشن غیر مشترک طورپر اہلِ مغرب کا عطیہ ہے، جس نے اسلام کی عالمی اشاعت کو ممکن بنادیا ہے، وغیرہ-
واپس اوپر جائیں

ایک حکیمانہ اصول

سلمان فارسی، اصفہان (ایران) میں پیدا ہوئے، پھر وہ مدینہ آئے- یہاں انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا- ان کی وفات مدائن (ایران) میں 35 ہجری (655 عیسوی) میں ہوئی-
ہجرت کے پانچویں سال وہ واقعہ پیش آیا جس کو عام طورپر غزوہ خندق کہاجاتا ہے- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ مکہ کے سرداروں نے مختلف قبائل کے تعاون سے ایک بڑا لشکر تیار کیا ہے- اس کے افراد ;کی تعداد دس ہزار ہے- یہ لشکر مدینہ پر حملہ کرنے کے لیے مکہ سے روانہ ہوچکاہے- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسب معمول مدینہ میں اپنے اصحاب کو جمع کیا اور اُن سے مشورہ کیا کہ اِس طرح کی صورت حال میں ہم کو کیا کرنا چاہیے- یہ بات واضح تھی کہ مسلمان اُس وقت اتنے بڑے لشکر سے جنگی مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہ تھے- اِس لیے سوال یہ تھا کہ اِس لشکر سے مقابلے کے لیے جنگ کے سوا دوسری کون سی تدبیر اختیار کی جائے-
اُس وقت سلمان فارسی کھڑے ہوئے- انھوں نے کہا کہ میرا تعلق فارس (ایران) سےہے- میں نے دیکھا ہے کہ فارس کے حکمراں جب دشمن سے ٹکراؤ کرنا نہیں چاہتے تو وہ اپنے اور دشمن کے درمیان ایک خندق کھود دیتے ہیں- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس تجویز کو پسند فرمایا اور مدینے کے تمام قابلِ کار مسلمان خندق کھودنے میں مصروف ہوگئے، یہاں تک کہ 6 دن کی لگاتار محنت کے بعد خندق تیار ہوگئی- مدینہ اُس وقت تین طرف سے پہاڑوں اور کھجور کے گھنے درختوں سے گھرا ہوا تھا - اِس لیے اِس سمت سے حملہ آور فوج مدینہ میں داخل نہیں ہوسکتی تھی- البتہ مدینہ کا شمال مغربی حصہ خالی تھا- اِس سمت سے کوئی فوج حملہ آور ہوسکتی تھی- مدینے کے اِسی کھلے ہوئے حصے کی طرف خندق کھودی گئی- اِس خندق کی چوڑائی اور گہرائی تقریباً تین تین میٹر تھی- اس کی لمبائی 6 میل (10 کیلومیٹر) تھی-
اہلِ مکہ کی اِس حملہ آور فوج کے سردار ابو سفیان تھے جو بعد کو اسلام میں داخل ہوگئے- دس ہزار کا یہ لشکر جب سفر کرتے ہوئے مدینہ کی سرحد پر پہنچا تو اس وقت تک خندق کھودی جاچکی تھی- اہلِ مکہ کا یہ لشکر اونٹوں اور گھوڑوں پر سوار تھا- قدیم زمانے میں بظاہر اُن کے لیے یہ ناممکن تھا کہ وہ خندق کو پار کرکے مدینہ کے اندر داخل ہوجائیں- چناں چہ جب وہ مدینہ کی سرحد پر پہنچے اور خندق کو دیکھا تو انھوں نے کہا: واللہ إن ہذہ لمکیدة ما کانت العرب تکیدہا (بخدا، یہ ایک ایسی تدبیر ہے جس تدبیر سے اہلِ عرب با خبر نہ تھے)-
یہ خندق، دوسرے لفظوں میں، اُس وقت ایک حاجز (buffer) کی حیثیت رکھتی تھی- وہ ایک ایسی تدبیر تھی جس نے اہلِ اسلام اور ان کے مخالفوں کے درمیان ایک ناقابلِ عبور آڑ قائم کردی تھی- چناں چہ نتیجہ یہ ہوا کہ مخالفین کا لشکر مدینہ کے باہر تقریباً ایک مہینہ تک پڑاؤ ڈالے رہا- وہ اپنے مقام سے مسلمانوں کو آواز دیتے تھے کہ تم مدینہ سے باہر آؤ، مگر مسلمان باہر نہیں آئے- آخر کار مخالفین کا یہ پورا لشکر مایوس ہو کر واپس چلا گیا-
ایک ابدی اصول
خندق کا یہ واقعہ صرف ایک تاریخی واقعہ نہیں، وہ زندگی کا ایک ابدی اصول ہے- انفرادی زندگی کا بھی اور اجتماعی زندگی کا بھی- وہ اصول یہ ہے کہ اگر کوئی فرد یا گروہ تمھارا مخالف بن جائے تو اس سے ٹکراؤ نہ کرو، بلکہ ٹکراؤ کے بجائے تدبیر کا راستہ اختیار کرو- وہ تدبیر یہ ہے کہ اپنے اور حریف کے درمیان ایک آڑ (buffer) قائم کردو- اِس طرح پیش آمدہ مسئلہ اپنے آپ ختم ہوجائے گا- جس مسئلے کو تم ٹکرا کر ختم کرنا چاہتے ہو، وہ مسئلہ ٹکراؤ کے بغیر خود حالات کے نتیجے میں ختم ہوجائے گا، جیسا کہ خود غزوۂ خندق کے موقع پر ہوا-
اِس حاجز یا آڑ کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں- قدیم زمانے میں حاجز قائم کرنے کے لیے دیوار بنانا یا خندق کھودنا پڑتاتھا- موجودہ زمانے میں نئے وسائل کی دریافت نے اِس تدبیر کی نئی نئی صورتیں پیدا کی ہیں- آدمی اگر صورتِ حال پر مشتعل ہونے کے بجائے سنجیدگی کے ساتھ غور کرے تو آسانی کے ساتھ وہ موقع کے لحاظ سے ایک کامیاب تدبیر دریافت کرسکتاہے-
اِس معاملے کی ایک تاریخی مثال یہ ہے کہ 1950کے بعد مصر اور مغربی طاقتوں کے درمیان کشیدگی بڑھی، یہاں تک کہ اُس وقت کے مصری صدر جمال عبد الناصر کے ذہن میں انتہا پسندانہ خیالات آنے لگے، چناں چہ انھوں نے یہ نا عاقبت اندیشانہ اقدام کیا کہ اقوامِ متحدہ کی طرف سے مصر میں مقرر کیے ہوئے پیس کیپنگ فورس (peace-keeping forse) کے دستے کو واپس کردیا- پیس کیپنگ فورس کی حیثیت اُ س وقت فریقین کے درمیان بفر (buffer)کی تھی- اس کو واپس بھیجنا بفر کو ختم کرنے کے ہم معنی تھا-
اس کے بعد 29 اکتوبر 1956 کو جمال عبد الناصر نے تالیوں کی گونج کے درمیان اعلان کیا کہ آج ہم نے نہر سوئز (Suez Canal)کو نیشنلائز کرلیا ہے- یہ اعلان بین الاقوامی اصول کے سرتاسر خلاف تھا- فطری طورپر فریقِ ثانی کے درمیان اِس کا سخت ردِّ عمل ہوا- اِس کے بعد حالات بہت خراب ہو گئے، یہاں تک کہ جون 1967 کی 6 روزہ جنگ پیش آئی، جس کے بعد مصر اور فلسطین کا بڑا حصہ اسرائیل کے قبضے میں چلا گیا-
واپس اوپر جائیں

اجتہاد کی اہمیت

اجتہاد کا لفظی مطلب ہے— بھر پور کوشش کرنا (بذل الوسع فی طلب الأمر)- شرعی اصطلاح میں، اجتہاد کا مفہوم یہ ہے کہ نئی صورتِ حال میں اسلام کے کسی اصول کے عملی انطباق کو جاننے کے لیے کامل فکری جدوجہد کی جائے- یہ اجتہاد ایک فطری ضرورت ہے- وہ ہر حال میں جاری رہتاہے- خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اجتہاد کا عمل صحابہ کے درمیان جاری تھا اور بعد کو وہ امت کے اندر مسلسل طورپر جاری رہا-
دورِ جدید ہر اعتبار سے ایک بدلا ہوا دور تھا- فطری طور پر اِس دور میں مسلمانوں کے لیے یہ سوال پیدا ہوا کہ وہ نئے حالات میں اسلام کے اصول کو ازسرِ نو منطبق کریں- یہ ایک اجتہادی تقاضا تھا، مگر دورِ جدید کے مسلم اہلِ علم اِس اجتہاد میں مکمل طورپر ناکام رہے- وہ نئے حالات کی نسبت سے، اسلامی اصولوں کا ازسرِ نو انطباق (re-application) تلاش نہ کرسکے-یہی وہ چیز ہے جس کو موجودہ زمانے میں امتِ مسلمہ کا بحران (crisis) کہاجاتاہے- بحران کیا ہے- بحران دراصل مسئلہ(problem) ہی کا دوسرا نام ہے- مسئلہ زندگی کا لازمی حصہ ہے- جب کسی پیش آمدہ مسئلے کو حل کرلیا جائے تو وہ صرف مسئلہ رہے گا، اور اگر مسئلہ اتنا پیچیدہ ہو کہ وہ بظاہر ایک غیر حل شدہ مسئلہ (unsolved problem) نظر آنے لگے تو اِسی کا دوسرا نام بحران ہے- موجودہ زمانے میں امتِ مسلمہ کا سب سے بڑامسئلہ یہ ہے کہ وہ اِسی قسم کے بحران میں مبتلا ہوگئی ہے-
اسلام کا آغاز 610 عیسوی میں عرب میں ہوا- وہ بہت تیزی سے پھیلا اور صرف نصف صدی کے عرصے میں اس نے ایک عالمی حیثیت حاصل کرلی- پہلے مسلمانوں کی مقامی حکومتیں قائم ہوئیں- عباسی دور میں مسلمان ایک مسلم ایمپائر قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے- سیاسی اقتدار کا یہ دور مختلف قسم کے نشیب وفراز کے ساتھ تقریباً ایک ہزار سال تک جاری رہا-مسلمانوں کے سیاسی عروج کی انتہا اور ان کے سیاسی زوال کا نقطہ آغازاگر متعین کرناہو تو وہ 1799قرار پائے گا- مسلم دنیا میں 1799 میں دو بڑے واقعات پیش آئے- ایک واقعہ بحرِ روم (Mediterranean Sea) میں پیش آیا، اور دوسرا واقعہ میسور (انڈیا) میں- ایک طرف، یہ ہوا کہ یورپی حکومتوں نے 1799 میں ترکی کے طاقت ور بحری بیڑا (naval fleet) پر حملہ کرکے اس کو بحر روم میں تباہ کردیا-یہ واقعہ اتنا بڑا تھاکہ اُس وقت کے انگریز جنرل نے انتہائی خوشی کے عالم میں کہا تھا کہ — آج انڈیا ہمارا ہے(Today India is ours)-
اِس کے بعد رفتہ رفتہ تمام مسلم ملکوں میں مغربی طاقتوں کا دبدبہ قائم ہوگیا- عین اُسی زمانے میں مسلم دنیا میں جوابی تحریکیں شروع ہوئیں- عرب سے عجم تک ہر جگہ مسلم رہنماحرکت میں آگئے- اِن تمام مسلم رہنماؤں کا مشترک نشانہ صرف ایک تھا، اور وہ تھا مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ (past glory) کو واپس لانا- یہ جدوجہد انیسویں صدی کے آغاز میں شروع ہوئی- اب وہ اکیسویں صدی میں پہنچ چکی ہے، لیکن نتیجہ (result)کے اعتبار سے دیکھا جائے تو مسلم رہنماؤں کی کوشش نے صرف مسلمانوں کی تباہی میں اضافہ کیا، وہ کسی بھی درجے میں اپنے مطلوب نشانے کو پورا نہ کرسکے-
دورِ جدید میں مسلمانوں کے لیے جو مسئلہ پیداہوا، اس کے مقابلے میں کامیاب منصوبہ بندی کے لیے پہلی ضرورت یہ تھی کہ مسئلے کی نوعیت کو دریافت کیا جائے- مگر اِس دور کے مسلم رہنما اِس پہلو سے مکمل طورپر بے خبر رہے- اپنے روایتی ذہنی کے مطابق، انھوںنے اِس مسئلے کو دشمن کے حملے کے مقابلے میں، دفاع کا مسئلہ سمجھا، حالاں کہ وہ بدلےہوئے حالات میں نئے اجتہادکا مسئلہ تھا- نوعیتِ مسئلہ کی دریافت میں مسلم رہنماؤں کی ناکامی نے اُن کی جوابی کارروائی کو مکمل طورپر ایک غیرمتعلق کارروائی کا درجہ دے دیا- نتیجہ یہ ہوا کہ دو سوسال کی جان ومال کی عظیم قربانی کے باوجود نتیجہ (result) کے اعتبار سے، امتِ مسلمہ کو کچھ بھی حاصل نہ ہوسکا-
دورِ جدید میں جو اجتہاد درکار تھا، وہ بنیادی طورپر وہی تھا جس کو ’فرقان‘ (8:29) کہاگیا ہے، یعنی ایک معاملے کو دوسرے معاملے سے الگ کرنا- امتِ مسلمہ کا اصل مشن دعوت الی اللہ ہے- یہی وہ کام ہے جس کے بارے میں یہ مطلوب ہے کہ امتِ مسلمہ اس کو ہرحال میں جاری رکھے- اِس کا دوسرا پہلو وہ ہے جس کو سیاسی اقتدار کہاجاسکتا ہے- دعوت الی اللہ، امتِ مسلمہ کا مشن ہے، اور سیاسی اقتدار، امتِ مسلمہ کی تاریخ کا ایک حصہ ہے- موجودہ زمانے میں مسلمان جس بحران کا شکار ہوگئے تھے، اس کا واحد حل یہ تھا کہ مشن اور تاریخ کو ایک دوسرے سے الگ کردیا جائے، مگر ہمارے رہنما بروقت یہ کام نہ کرسکے- نتیجہ یہ ہوا کہ امت مسلسل طورپر بحران کی حالت میں پڑی رہی-
موجودہ زمانے میں بہت سے نئے امکانات پیدا ہوئے تھے- یہ امکانات یا مواقع اسلام کے مشن کے اعتبار سےبے حد مفید تھے- مگر مسلم رہنماؤں پر سیاسی ذہن کا اتنا غلبہ تھاکہ وہ اِن غیر سیاسی مواقع کو دیکھ \نہ سکے- وہ دوسری قوموں سے بے فائدہ سیاسی لڑائی لڑتے رہے اور جدید مواقع کو دعوتی مشن کے لیے استعمال کرنے میں ناکام رہے-
اِس معاملے کی ایک متوازی مثال یہ ہے کہ عین اسی زمانے میں مسیحی چرچ بھی عین اِسی قسم کے بحران میں مبتلا ہوا- مسیحی چرچ جس کا مرکز روم تھا، وہ قدیم زمانے میں تقریباً پورے یورپ میں ایک بے تاج بادشاہ کی حیثیت رکھتا تھا- اُس زمانے میںپوپ (pope)یورپ کا پولٹکل ماسٹر بنا ہوا تھا-
اس زمانے میں یورپ کے سائنس دانوں نے طبیعی دنیا میں نئی حقیقتیں دریافت کیں- یہ دریافتیں مسیحی طرز کے روایتی عقائد سے ٹکراتی تھیں- چناں چہ سائنس دانوں اور مسیحی چرچ کے درمیان شدید ٹکراؤ شروع ہوگیا- اِس تصادم کی تفصیل اِس کتاب میں دیکھی جاسکتی ہے:
History of the Conflict Between Religion and Science by William Draper
اِس مسئلے میں مسیحی چرچ نے حقیقت پسندانہ طریقہ اختیار کیا- وہ چرچ اور اسٹیٹ کی عملی علاحدگی پر راضی ہوگئے- مگر یہ علاحدگی سادہ طور پر مذہب اور سیاست کی علاحدگی کے ہم معنی نہ تھی، بلکہ وہ سیاسی محدودیت کے ہم معنی تھی- دوسرے لفظوں میں یہ کہ پوپ مسیحی ایمپائر کا رقبہ گھٹا کر اس پر راضی ہوگیا کہ اس کا دائرہ اختیار روم کے ایک چھوٹے رقبے تک محدود رہے، جس کو ویٹکن (Vatican) کہاجاتا ہے- ویٹکن پورے معنوں میں ایک خود مختار ریاست ہے- اس کا اپنا آزادانہ نظام ہے- ہر ملک میں اس کے سفارت خانے قائم ہیں-
ویٹکن کی صورت میں ایک محدود مسیحی ریاست کا یہ قیام 1929 میں پیش آیا- یہ معاملہ مسیحی پوپ اور حکومتِ اٹلی کے درمیان ایک معاہدہ کے ذریعے انجام پایا- اِس معاملے کو لیٹران معاملہ (Lateran Treaty) کہا جاتا ہے- اِس معاہدے پر حکومت اٹلی کی طرف سے اُس وقت کے پریمیر (premier)مسولینی (Benito Mussolini)نے دستخط کئے تھے، اور مسیحی چرچ کی طرف سے کاردینال گاسپیری (Cardinal Gasparri) نے اپنے دستخط کئے تھے-اِس معاہدے کے ذریعے مسیحی چرچ نے اپنی حیثیت کو بدستور برقرار رکھا- یہ بلاشبہہ ایک دانش مندانہ تدبیر تھی جو اُسی قسم کے ایک تخلیقی فکر پر مبنی تھی جس کو اجتہاد کہاجاتاہے- بدقسمتی سے، موجودہ زمانے کے مسلم رہنما اِس قسم کا اجتہاد نہ کرسکے- چناں چہ موجودہ زمانے میں انھوں نے صرف ناکامی کی تاریخ بنائی، وہ کامیابی کی تاریخ نہ بناسکے-
موجودہ زمانے میں اِسی قسم کے ’’فرقان‘‘ کا ایک واقعہ سیکولر اعتبار سے پیش آیا- اِس واقعے کا تعلق چین (China) سےہے- چین میں 1919 سے کمیونسٹ پارٹی کی حکومت قائم ہے- کمیونسٹ پارٹی نے اپنے نظریے کے مطابق، وہاں اسٹیٹ اکانمی (state economy) کا نظام قائم کررکھا تھا- اِس نظام کے تحت چین کی اقتصادی ترقی رک گئی تھی-
چین کی کمیونسٹ پارٹی کا ایک رکن ڈینگ زیوپنگ (Deng Xiaoping) تھا- پہلے اس نے روس میں تعلیم پائی- اس کے بعد وہ مزید تعلیم کے لیے فرانس گیا- فرانس کے قیام کے دوران اُس نے دیکھا کہ فرانس میں اقتصادی ترقی ہورہی ہے، لیکن چین اُس قسم کی ترقی سے محروم ہے- فرانس سے واپسی کے بعد ڈینگ زیوپنگ چین کی کمیونسٹ پارٹی کا چیر مین بن گیا- اس کے بعد اس نے ایک انقلابی کام کیا- اس نے چین میں سیاست اور اقتصادیات کے درمیان علاحدگی کا اصول رائج کیا- اس نے یہ کیا کہ سیاسی اقتدار پر کمیونسٹ پارٹی کا قبضہ باقی رکھتے ہوئے اقتصادیات کو مکمل طور پر آزاد کردیا- اِس دانش مندانہ تدبیر کا نتیجہ یہ ہوا کہ چین میں اقتصادی ترقی کا دروازہ کھل گیا- آج یہ حال ہے کہ امریکا کے بعد چین دنیا کی دوسری سب سے بڑی اکانمی سمجھا جاتاہے-(2012)
واپس اوپر جائیں

منصوبۂ خداوندی

بارش کے موسم میں بارش ہو تو یہ اِس بات کا ایک خاموش اعلان ہوتاہے کہ کسان اٹھیں اور اپنے کھیتوںمیں کام کرکے اُن میں بیچ ڈالیں، تاکہ کھیتوں سے سرسبز وشاداب فصل اگے-لیکن کسان اگر ایسا کرے کہ وہ اپنے گھر سے نکل کر پہاڑ کی طرف جائے اور وہاں وہ کوہ پیمائی (mountaineering) کرنے لگے- کوئی انسان اگر ایسا کرے تو کوششوں اور قربانیوں کے باوجود وہ کوئی نتیجہ حاصل نہ کرسکے گا، کیوں کہ وہ خالق کی مرضی کے خلاف چل رہا ہے-
یہی معاملہ دین کا بھی ہے- دین کے معاملہ میں بھی یہی ہوتاہے کہ اللہ کی طرف سے امکانات کھولے جاتے ہیں- اہلِ ایمان کا کام ہوتاہے کہ وہ اِن امکانات کو پہچانیں اور اُن کو بھر پور طورپر استعمال(avail) کریں- اگر اہلِ ایمان ایسا کریں کہ اللہ نے امکانات تو کہیں اور کھولے ہوں، لیکن اہلِ ایمان کسی دوسرے محاذپر کوشش شروع کردیں- اہلِ ایمان اگر ایسی غلطی کریں تو خواہ وہ کتنی ہی قربانیاں دیں، مگر اس کا کوئی نتیجہ ہر گز برآمد نہیں ہوگا- ایسے لوگ قرآن کے الفاظ میں، حبطت أعمالہم فی الدنیا والآخرة کا مصداق قرار پائیں گے-
اِس دنیا میں کوئی بھی عمل صرف انسان کی کوشش سے کامیاب نہیں ہوسکتا- اِس دنیا میں کسی عمل کی کامیابی کی لازمی شرط یہ ہے کہ اس کو خداکی تائیدحاصل ہو- یہی وہ مقام ہے جہاں انسان کی عقل کا امتحان ہو رہا ہے- خدا کی طرف سے جب بھی کوئی امکان کھولا جاتا ہے تو وہ ہمیشہ ایک خاموش امکان کی صورت میں ہوتا ہے- اس کے ساتھ کبھی آسمان سے آواز نہیں آتی، حتی کہ جب اِس دنیامیں خدا کا کوئی پیغمبر آتا ہے تو بلاشبہہ وہ خدا کا ایک خصوصی منصوبہ ہوتاہے، لیکن اُس وقت بھی آسمان سے یہ آواز نہیں آتی کہ — اے لوگو، یہ خدا کا رسول ہے- اس کو سنو اور اس کا اتباع کرو- یہ ایک دریافت کا معاملہ ہے جو انسان کو اپنی عقل کے استعمال کے ذریعے خود کرنا پڑتاہے-
موجودہ زمانے کے مسلم رہنماؤں کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ اِس معاملے میں مکمل طورپر ناکام رہے- موجودہ زمانے میں خدا نے انتہائی اعلی قسم کے دینی مواقع کھول دئے ہیں، لیکن مسلم رہنما، خواہ وہ عرب رہنما ہوں یا غیر عرب رہنما، سب کے سب اِس معاملے میں بے خبر رہے- وہ خدا کی اسکیم کے خلاف کسی اور میدان میں زور آزمائی کرتے رہے- نتیجہ یہ ہوا کہ 200 سال سے بھی زیادہ مدت تک جان ومال کی قربانیاں دینے کے باوجود اُنھیں کچھ بھی حاصل نہیں ہوا-
خدا کا مقصود کیا ہے
خدا کے نزدیک کرنےکا سب سے بڑا کام یہ ہے کہ انسان کو خدا کے منصوبۂ تخلیق سے باخبر کیا جائے-اِسی مقصد کے لیے خدا نے اپنے تمام رسول بھیجے، اور اِسی مقصد کے لیے آخر میں قرآن بھیجا اور اس کے متن (text) کو مکمل طور پر محفوظ کردیا- قرآن اِس تخلیقی منصوبے کا ایک مستند بیان (authentic statement)ہے- اب ضرورت ہے کہ یہ خدائی بیان ہر دور کے انسانوں تک پہنچتا رہے- اِسی عمل کا نام دعوت الی اللہ ہے-
مقامی دعوت سے عالمی دعوت تک
پچھلے زمانوں میں جن داعیوں نے دعوت الی اللہ کا کام کیا، ان کا کام مقامی دائرے تک محدود رہا- دعوت کا کام ہمیشہ وسائل کی مدد سے ہوتا ہے اور پچھلے زمانے میں عالمی وسائل نہ ہونے کی بناپر زیادہ وسیع دائرہ میں کام نہیں کیا جاسکتا تھا-انسانی آبادی پورے کرہ ارض پر پھیلی ہوئی تھی، لیکن پچھلے زمانے کے داعیوں کا دعوتی کام وسائل کے فقدان کی وجہ سے عملاً مقامی دائرے تک محدود رہا-
تائید کا انتظام
اللہ تعالی نے عالمِ فطرت (nature)کے اندر بالقوہ (potential) طور پر ایسے امکانات رکھے تھے جن کو دریافت کرکے اہلِ ایمان عالمی دائرے میں اپنے دعوتی عمل کو انجام دے سکیں- یہ امکان بنیادی طورپر وہ تھا جس کو کمیونکیشن (communication) کہاجاتاہے- وہ تمام چیزیں جن کو موجودہ زمانے میں ماڈرن کمیونکیشن (modern communication) کہا جاتا ہے، وہ فطرت کے امکانات کو دریافت کرکے ہی وجود میں آئے ہیں— پرنٹنگ پریس، تیز رفتار سواریاں اور ملٹی میڈیا، سب کا سب، عالم فطرت کے امکانات کو دریافت کرکے تیار کیاگیا ہے- یہ تمام مواصلاتی ذرائع اِسی لیے وجود میں آئے ہیں کہ اہلِ ایمان اُن کو بھر پور طورپر استعمال کریں اور اللہ کے پیغام کو پرامن طورپر تمام انسانوں تک پہنچا دیں-
موجودہ مسلمانوں کی ناکامی
اسلام کے ظہور کے بعد اللہ تعالی نے مسلمانوں کو سیاسی اقتدار عطا کیا- یہ سیاسی اقتدار ساتویں صدی عیسوی سے لے کر اٹھارھویں صدی تک کسی نہ کسی طورپر جاری رہا- اِس اقتدار کا مقصد حکومت یا عیش وعشرت نہیں تھا- اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ مسلمان بے خوف ہو کر فطرت (nature) کی تحقیق کریں اور فطرت میں چھپے ہوئے امکانات کو دریافت کرکے وہ مواصلاتی وسائل تیار کریں جن کے ذریعے سے دعوت الی اللہ کے کام کو عالمی طورپر انجام دیا جاسکے-
اِس معاملے میں اللہ تعالی نے ایسے اشارے کردئے تھے جو مسلمانوں کے لیے اپنے رول کو سمجھنے کے لیے کافی ہوسکتے تھے، مگر مسلمان اشارے کی زبان کو سمجھ نہ سکے- مثلاً قرآن میں کثرت سے ایسی آیتیں ہیں جن میں یہ بتایا گیاہے کہ زمین اور آسمان کی تمام چیزیں تمھارے لیے مسخر کردی گئی ہیں - اِس کا مطلب یہ تھا کہ کائنات کی تخلیق اِس طرح ہوئی ہے کہ انسان اُس میں غوروفکر کرکے اس کے اندر چھپے ہوئے موافق امکانات کو دریافت کرے اور اُن کو اپنے حق میں استعمال کرے- وہ چیز جس کو آج مواصلاتی ٹکنالوجی کہاجاتا ہے، وہ سب اِس کے اندر شامل ہے-
دوسرا اہم اشارہ وہ ہے جو اسراء کے واقعے کی صورت میں پیش آیا- مکی دور کے آخر میں یہ واقعہ ہوا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو خصوصی انتظام کے تحت ایک رات کے اندر مسجد حرام (مکہ) سے مسجد اقصی (یروشلم) لے جایا گیا اور پھر واپس اپنے مقام پر پہنچا دیاگیا- اِس واقعے کا ذکر قرآن کی سورہ الاسراء (17) میں کیا گیاہے- واضح ہو کہ مکہ اور یروشلم کے درمیان تقریباً 1250 کلومیٹر کا فاصلہ ہے، یعنی رٹرن جرنی (return journey) کے اعتبار سے 2500کلومیٹر کا فاصلہ-
قرآن کی جس سورہ میں اِس واقعے کا ذکر ہے، اس میں مقصدِ سفر کو اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: لنریہ من آیاتنا (17:1) یعنی تاکہ ہم اس کو اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں:
So that We might show him some of Our signs.
اِس آیت میں جس نشانی کا ذکر ہے، اس سے مراد خود سفر ہے، نہ کہ یروشلم میں واقع کوئی چیز- اللہ تعالی نے اپنے آخری پیغمبر کے ذریعے جو کتاب ہدایت (قرآن) بھیجی، وہ اِس لیے تھی تاکہ وہ کرۂ ارض پر بسنے والے تمام انسانوں تک پہنچے- یہ عالمی پیغام رسانی کیوں کر ممکن ہوگی، اس کے بارے میں اشاراتی طورپر بتایا گیا کہ عالمِ فطرت (nature) میں اللہ نے بالقوہ طورپر تیز رفتار ترسیل (rapid communication) کے امکانات رکھ دئے ہیں جن کو دریافت کرکے واقعہ بناؤ اور اُن کو تمام اہلِ عالم تک پیغام خداوندی (قرآن) کو پہنچانے کے لیے استعمال کرو-
استبدالِ قوم کا اصول
امتِ مسلمہ کو اللہ تعالی نے لمبی مدت تک یہ موقع دیاکہ وہ فطرت کے اِس امکان کو واقعہ بنائے اور قرآن کے سلسلے میں اپنی عالمی ذمے داری کو پورا کرے، لیکن امتِ مسلمہ کے رہنما اور قائدین اِس راز کو نہ سمجھ سکے- وہ دوسرے میدانوں میں سرگرم رہے، لیکن دعوت الی اللہ کے عالمی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے جو عمل مطلوب تھا، اُس عمل کو انجام دینے میں وہ پوری طرح ناکام رہے-
اِس کے بعد اللہ تعالی کی وہ سنت ظاہر ہوئی جس کو قرآن میں استبدالِ قوم (47:38) کہا گیاہے، یعنی ایک خدائی مطلوب کو انجام دینے میں اگر ایک گروہ ناکام ہوجائے تو اس کی جگہ دوسرے گروہ کو لے آنا— موجودہ زمانے میں جن مغربی قوموں نے دورِ مواصلات (age of communication) پیدا کیا ہے، وہ اِسی استبدالِ قوم کی توسیعی صورت ہے-
تائید بذریعہ سیکولر اقوام
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سی پیشین گوئیاں حدیث کی کتابوں میں آئی ہیں- اُن میں سے ایک پیشین گوئی کے الفاظ یہ ہیں: إن اللہ لیؤیّد ہذا الدین بالرجل الفاجر (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 3062) یعنی اللہ یقیناً اِس دین کی تائید فاجر انسان کے ذریعے کرے گا-
اِس حدیث میں ’فاجر‘ سے مراد سیکولر ہے- اِس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب امتِ مسلمہ دعوتِ دین کے عالمی ذرائع کو دریافت کرنے میں ناکام ہوجائے گی تو اُس وقت اللہ تعالیٰ سیکولر لوگوں کو کھڑا کرے گاجو اِس کام کو انجام دیں، یعنی جب دینی محرک (religious incentive)اِس کام کو انجام دینے میں ناکام ہوجائے گا تو اللہ کچھ لوگو ں کو دنیوی محرک (secular incentive) کے ذریعہ اٹھائے گا- وہ فطرت میں تحقیق وجستجو کے ذریعے فطرت میں چھپے ہوئے امکانات کو واقعہ بنائیںگے- یہ اُن لوگوں کی طرف سے امتِ مسلمہ کے لیے ایک سپورٹنگ رول ہوگا-
موجودہ زمانے میں، خاص طورپر انیسویں صدی اور بیسویں صدی میں، اہلِ مغرب نے سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں جو دریافتیں کی ہیں، وہ سب اِسی نوعیت کی ہیں- اِن دریافتوں کے ذریعے اللہ تعالی نے اپنے دعوتی مشن کو انجام دینے کے لیے ایک خارجی سپورٹ کا انتظام کیا ہے-
ملی رہنماؤں کی ناکامی
اہلِ مغرب نے تائید کا جو کام انجام دیا، اُس کے پیچھے کوئی دینی جذبہ نہیں تھا- یہ کام انھوں نے اپنے مادی اور قومی جذبے کے تحت کیا- یہ بالکل فطری تھا- اِس قسم کے ذاتی محرک کے بغیر وہ خارجی سپورٹ فراہم کرنے کا کام انجام نہیں دے سکتے تھے- مزید یہ کہ جب انھوں نے اتنا بڑا تاریخی کام انجام دیا تو یہ بھی فطری تھا کہ اُن کو عالمی دبدبہ حاصل ہوجائے- کسی بڑے رول کے ساتھ دبدبہ اِس طرح جڑا ہوا ہے کہ دونوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا- اِس کے ذریعے اُن کو نہ صرف مادی فائدے حاصل ہوئے، بلکہ اُن کو براہِ راست یا بالواسطہ طورپر سیاسی غلبہ بھی حاصل ہوگیا- یہ اُن کے سپورٹنگ رول کی قیمت تھی- اِس قیمت کے بغیر وہ اپنا سپورٹنگ رول انجام نہیں دے سکتے تھے-
موجودہ زمانے کے مسلم رہنماؤں نے اِس راز کو نہیں سمجھا- وہ ایک چیز اور دوسری چیز کے درمیان فرق کرنے میں عاجز رہے- وہ اِس حکمت (wisdom) کا ثبوت نہ دے سکے جس کو اِن الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے کہ — متعلق حصے کو لینا اور غیر تعلق حصے کو چھوڑدینا-
مغربی قومیں جب جدید طاقتوں کے ساتھ ایشیا اور افریقہ میں داخل ہوئیں تو اِس داخلے کے دو پہلو تھے — ایک، یہ کہ اِن مغربی قوموں نے فطری طورپر اُس وقت کی مسلم دنیا میں سیاسی غلبہ حاصل کرلیا- اِس واقعے کا دوسرا پہلو یہ تھاکہ یہ قومیں اُس عظیم نعمت کو لے کر آئی تھیں جو خود اسلام کا عین مطلوب تھا، جس کا ہزار سال سے تاریخ کو انتظار تھا، یعنی جدید مواصلات (modern communication)-مگر موجودہ زمانے کے مسلم رہنمابر وقت اُس دانش مندی کا ثبوت نہ دے سکے جو اُس وقت اُن سے مطلوب تھی، یعنی سیاسی مسئلے کو عملی طورپر نظر انداز کرنا اور کمیونکیشن کے جدید ذرائع کو بھر پور طور پر دعوت کے لیے استعمال کرنا- موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے تمام مسائل اِسی دانش مندی کے فقدان کا نتیجہ ہیں-
ایک عرب شیخ عبد الرحمن الحبنکہ نے اپنی ایک کتاب میں بتایا ہے کہ اِس وقت امتِ مسلمہ کے تمام مسائل کا اصل سبب تین اژدہے ہیں- مصنف کے نزدیک، یہ تین اژدہے یا یہ تین بڑے سانپ یہ ہیں— استعمار (colonialism)، استشراق (orientalism)، مسیحی مبلغین (Christian missionaries)- یہ کسی ایک مصنف کی بات نہیں، یہی موجودہ زمانے کے تقریباً تمام مسلم رہنماؤں کی سوچ ہے- اسی غلط سوچ کا یہ نتیجہ ہے کہ ساری دنیا کے مسلمان پچھلے 200 سال اِن مفروضہ ’’افاعی‘‘ سے لڑنے اور ان کو ختم کرنے میں مشغول ہیں، لیکن عملی نتیجہ مکمل طورپر برعکس صورت میں ظاہر ہوا ہے-
حقیقت یہ ہے کہ یہ تینوں ’’افاعی‘‘ اپنی حقیقت کے اعتبار سے افاعی نہ تھے، بلکہ مذکورہ حدیثِ رسول کے مطابق، وہ مویدینِ اسلام (supporters of Islam) کی حیثیت رکھتے تھے- یہی وہ لوگ ہیں جن کی کوششوں سے موجودہ زمانے میں وہ چیز وجود میں آئی جس کو جدید مواصلات کہا جاتاہے- جدیدمواصلات کو انھوں نے اپنے مقصد کے لیے ڈیولپ کیا تھا، لیکن جدید مواصلات، عالمی مواصلات ہیں، اُن پر کسی کی اجارہ داری نہیں- اگر مسلم علما ا ور رہنما صرف یہ کرتے کہ وہ اِن مفروضہ افاعی کے خلاف ٹکراؤ کا محاذ نہ کھولتے اور پُرامن طریقِ کار اختیار کرتے تو بلاشبہہ وہ جدید مواصلات کو کامل طورپر اپنے حق میں استعمال کرسکتے تھے اور اسلام کی عالمی دعوت کے اُس منصوبے کو پورا کرسکتے تھے، جس کا تاریخ کو ہزارسال سے انتظار ہے-
ایک تاریخی حوالہ
پروفیسر ٹی ڈبلوآرنلڈ (Thomas Walker Arnold) ایک ممتاز برٹش مستشرق (orientalist) تھے- وہ 1864 میں لندن میں پیداہوئے اور 1930 میں اُن کی وفات ہوئی- انھوںنے اپنے وسیع مطالعہ کی بنیاد پر اسلامی دعوت کے موضوع پر ایک کتاب لکھی تھی- یہ کتاب 508 صفحات پر مشتمل ہے- وہ پہلی بار 1896 میں شائع ہوئی- اِس کتاب کا نام یہ ہے:
The Preaching of Islam
اِس کتاب میں بتایاگیاہے کہ ساتویں صدی عیسوی سے لے کر بعد کے ہزار سال تک مختلف ملکوں میں اسلام کی دعوت کس طرح پھیلی- مثال کے طورپر افریقہ کے بارے میں انھوں نے ایک رپورٹ کے حوالے سے اپنی اِس کتاب میں لکھاہے کہ — اِس وقت جس رفتار سے افریقہ میں اسلام پھیل رہا ہے، اس کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ نائجر دریا کے دونوں کناروں پر 1910 تک مشکل ہی سے کوئی گاؤں بچے گا جو اسلام کے حلقے میں نہ آگیا ہو:
A Christian missionary reports: “When I came out in 1898, there were few Muhammadans to be seen below Iddah. Now they are everywhere, excepting below Abo, and at the present rate of progress there will scarcely be a heathen village on the river (Niger) banks by 1910.” (p. 329)
پروفیسر آرنلڈ نے یہ بات مغربی افریقہ کے نائجر دریا کے دونوں طرف واقع بستیوں کے بارے میں لکھی ہے- واضح ہو کہ نائجر دریاتقریباً چار ہزار دو سو کلو میٹر (4, 180) لمبا ہے- وہ افریقہ کے پانچ ملکوں کے درمیان بہتا ہے، یعنی — گائنا (Guinea)، مالی (Mali)، نائجر(Niger) بینن (Benin)، نائجیریا (Nigeria)- اِسی مثال پر دوسرے ملکوں کے بارے میں قیاس کیا جاسکتاہے-
اسلام کی دعوتی توسیع کا یہ عمل انیسویں صدی میں عین اُس وقت رک گیا، جب کہ پرنٹنگ پریس اور جدید مواصلات کی آمد نے اسلامی دعوت کی عالمی توسیع کا امکان بڑے پیمانے پر کھول دیا تھا— اِس کا سبب یہ تھا کہ انیسویں صدی میں جب یہ نئے امکانات کھلےتو عین اُسی زمانے میں ایک ’’مسئلہ‘‘ بھی پیدا ہوگیا، وہ یہ کہ مغربی تہذیب اور مغربی استعمار (Western Colonialism) نے نئے طریقوں کو استعمال کرتے ہوئے مسلم ملکوں میں اپنا دبدبہ قائم کرلیا-
اُس وقت یہ ہوا کہ تمام دنیا کے مسلمان منفی رد عمل (negative reaction)میں مبتلا ہوگئے- انھوں نے مغربی تہذیب اور مغربی استعمار کے خلاف لڑائی کا محاذ کھول دیا- کچھ لوگ تقریر اور تحریر کے ذریعے اِس قومی مہم میں شریک ہوگئے، اور کچھ لوگوں نے بطور خود اس کو جہاد قرار دے کر اس کے خلاف مسلح جنگ چھیڑدی-
یہ صورتِ حال عملاً آج بھی باقی ہے- دعوت کے مواقع برباد ہورہے ہیں اور مسلمان انتہائی ناکام طورپر قومی اور سیاسی لڑائی میں مشغول ہیں- اب آخری طورپر وہ وقت آگیا ہے جب کہ ساری دنیا کے مسلمان ان تباہ کن سرگرمیوں کو مکمل طورپر ختم کردیں اور پوری یکسوئی کے ساتھ دعوت الی اللہ کے کام میں مشغول ہوجائیں- (2012)
واپس اوپر جائیں

اسلام کا انقلابی رول

مورخ ابنِ کثیر نے اپنی مشہور کتاب البدایة والنہایة میں ابنِ اسحاق کے حوالے سے ایک روایت نقل کی ہے- اِس روایت میں ایک واقعے کا ذکر ہے جو نبوت کے دسویں سال مکہ میں پیش آیا - وہ واقعہ یہ ہے کہ : ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب اپنی آخر عمر میں جب بیمارہوئے اور اُن کا مرض بڑھ گیا تو قبیلہ قریش کے لوگوں نے آپس میں کہا کہ حمزہ اور عمر نے اسلام قبول کرلیا اور محمد کا امر (دین) پورے قبیلہ قریش میں پھیل گیا- آؤ ہم ابو طالب کے پاس چلیں- وہ ہم سے عہد لے لیں اپنے بھتیجے کے بارے میں اور بھتیجے سے عہد لے لیں ہمارے بارے میں- کیوں کہ خدا کی قسم، ہم اِس سے مامون نہیں ہیں کہ وہ ہمارے امر(دین) پر غالب آجائے- چناں چہ قریش کے سردار ابو طالب کے پاس آئے اور اُن سے بات کی- یہ تھے— عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ابو جہل بن ہشام، امیہ بن خلف، ابو سفیان بن حرب، وغیرہ- انھوں نے کہا کہ اے ابو طالب، آپ کا ہمارے نزدیک جو درجہ ہے، وہ آپ کو معلوم ہے- آپ پر جو وقت آچکا ہے، وہ آپ خود دیکھ رہے ہیں- آپ کے بارے میں ہمیں تشویش ہے-ہمارے اور آپ کے بھتیجے کے درمیان جو معاملہ ہے، اُس سے آپ باخبر ہیں- آپ ان کو بلائیے- اُن سے ہمارے بارے میں عہد لے لیجئے اور ہم سے ان کے بارے میں عہد لے لیجئے، تاکہ وہ ہم سے باز رہیں اور ہم اُن سے باز رہیں، تاکہ وہ ہمارے دین سے تعرض نہ کریں اور ہم ان کے دین سے تعرض نہ کریں- پھر ابو طالب نے رسول اللہ کو بلایا اور آپ ان کے پاس آئے- ابو طالب نے آپ سے کہا کہ اے میرے بھتیجے، یہ تمھاری قوم کے بڑے لوگ ہیں- یہ تمھارے پاس جمع ہوئے ہیں، تاکہ تمھارے اور ان کے درمیان معاہدہ ہوجائے- اُس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: ’’یاعمّ، کلمة واحدة تعطونہا تملکون بہا العرب وتدین لکم بہا العجم (البدایةوالنہایة 3/123) یعنی اے میرے چچا، میں اُن سے صرف ایک کلمہ چاہتا ہوں جس کو اگر وہ دے دیںتو وہ عرب کے مالک بن جائیں گے اور عجم تمھارے تابع ہو جائیں گے-
اس کے بعد آپ نے بتایاکہ وہ کلمہ یہ ہے کہ تم کہو کہ اللہ کے سوا کوئی الہ نہیں اور تم چھوڑ دو اُن چیزوں کو جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتےہو(تقولون لا إلہ إلا اللہ وتخلعون ما تعبدون من دونہ) پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس قول میں ایک تاریخی بات کو مخاطبین کی مانوس زبان میں کہاگیا ہے- اِس کا مطلب یہ ہے کہ یہ مشن کوئی محدود مشن نہیں ہے- یہ خالق کی ایک عظیم منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے- یہ ایک د ور کو ختم کرکے دوسرے دور کو لانے کا منصوبہ ہے- اگر تم اُس کا ساتھ دو تو یہ تمھارے لیے سرفرازی کا باعث ہوگا- اِس مشن کا ساتھ دے کر تم ایک نئے دورِ تاریخ کے نقیب (harbinger) بن سکتے ہو-
توحید کے مشن کے ذریعے بعد کی تاریخ میں یہ انقلابی دور آیا- اُس نے انسانی تاریخ کے رخ کو بدل دیا- مگر عجیب بات ہے کہ مسلم علما اور مورخین نے اِس واقعے کو صرف امتِ مسلمہ کے ایک سیاسی فخر (political glory) کے طور پر لیا- وہ اِس انقلاب کے وسیع تر پہلوؤں کو سمجھنے سے قاصر رہے- لیکن سیکولر مورخین نے اِس پہلو کو دریافت کیا اور کھلے طورپر اس کا اعتراف کیا- انھیں میں سے ایک فرانس کا مورخ ہنری پرین (وفات: 1935) ہے- ہنری پرین نے اِس حقیقت کا اظہار اِن الفاظ میں کیا ہے— اسلام نے زمین کے نقشے کو بدل دیا- تاریخ کا روایتی ڈھانچہ توڑ دیا گیا:
Islam changed the face of the globe. The traditional order of history was overthrown.
اِس تاریخی واقعے کی اصل اہمیت اِس اعتبار سے نہیں تھی کہ اس کے نتیجے میں ایک مسلم ایمپائر وجود میں آئے- اِس واقعے کی اصل اہمیت یہ تھی کہ اُس نے انسانی تاریخ کے سفر کو صحیح رخ کی طرف موڑ دیا، اس نے انسانی تاریخ کو خدائی منصوبے کے ساتھ ہم آہنگ کردیا-
اللہ تعالی نے انسان کو پیدا کیا اور اس کو زمین پر بسایا اور اس کو ہر طرح کی آزادی دی- اِس تخلیق کا مقصد یہ نہیں تھا کہ انسان موجودہ دنیا میں آئڈیل حکومت بنائے یا آئڈیل سماج قائم کرے- انسان کی آزادی کی بنا پر دنیا میں وہی ہونا تھا جس کو فرشتوں نے فساد (2:30) سے تعبیر کیا تھا- تخلیق کے اعتبار سے، فساد کا لفظ کوئی منفی لفظ نہیں- اِس کا مطلب یہ ہے کہ زمین میں مختلف قسم کے ناموافق حالات پیدا ہوں، تاکہ انسان کے لیے مسلسل طورپر چیلنج کی صورت حال باقی رہے- چیلنج کی یہ صورتِ حال عین مقصودِ تخلیق ہے، کیوں کہ اِسی صورتِ حال کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ افراد کے لیےامتحان کا ماحول جاری رہے اور مطلوب افرادکا انتخاب ممکن ہوسکے-
قرآن کی سورہ الانعام میں انسان کو خطاب کرتے ہوئے کہا گیا ہے: وَلَقَدْ جِئْتُمُوْنَا فُرَادٰی ى(6:94)-قرآن کے اِن الفاظ کا لفظی ترجمہ شاہ عبد القادر دہلوی نے اِس طرح کیا ہے— اور آئے تم ہمارے پاس ایک ایک- شاہ عبد القادر دہلوی کا یہ ترجمہ قرآن کی مذکورہ آیت کا نہایت صحیح ترجمہ ہے- ’فرادى‘ کا لفظ ’فرد‘ کی جمع ہے، یعنی افراد- قرآن کی یہ آیت خدا کے تخلیقی منصوبے کے ایک اہم پہلو کی طرف اشارہ کرتی ہے- اللہ نے انسان کو پیدا کرنے کے بعد اس کو زمین پر بسایا- اِس آبادکاری کا مقصد یہ نہیں تھا کہ انسان دنیا میں بہتر سماجی نظام بنائے- بہتر سماجی نظام کی جگہ صرف جنت ہے-
خدا کے تخلیقی منصوبے کے مطابق، موجودہ دنیا اقامتِ نظام کے لیے نہیں ہے، بلکہ انتخابِ افراد کے لیے ہے- حقیقت یہ ہے کہ انسان کی آزادی کی بنا پر اِس دنیا میں کسی معیاری نظام کا بننا ممکن ہی نہیں- پوری تاریخ میں تقریباً تمام ذہن، مسلم اور غیر مسلم دونوں، ایک ہی مشترک غلطی میں مبتلا رہے ہیں- انھوں نے بہتر سماجی نظام قائم کرنے کو اپنی جدوجہد کا نشانہ بنایا- مگر بلا استثنا سب کے سب اِس مقصد میں ناکام رہے- اس کا سبب یہ تھا کہ اِس قسم کا نشانہ عملی طورپر ممکن ہی نہ تھا، کیوں کہ وہ منصوبہ خداوندی کے خلاف تھا-
خالق نے اپنے منصوبے کے مطابق، دنیا کو اِس طرح بنایا ہے کہ وہ ہمیشہ ’دار الکبد‘ بنی رہے- اِس طرح یہ ممکن ہوتا ہے کہ دنیا میں ہر قسم کے حالات پیدا ہوں- لوگوں کو بار بار نقصان (2:155) کا تجربہ ہو- طرح طرح کے حادثات پیش آئیں- انسان اور شیطان کی طرف سے آزادی کے غلط استعمال کی بنا پر لوگوں کے درمیان کشمکش جاری رہے- یہ ناموافق حالات عین مطلوب ہیں- کیوں کہ اِسی صورتِ حال کی بنا پر یہ ممکن ہوتا ہے کہ ہر انسان کے بارے میں یہ دیکھا جائے کہ مختلف حالات کے درمیان اس نے کیسا رسپانس دیا- اُس نے حالات کو اپنی شخصیت کی تعمیر کے لیے استعمال کیا یا منفی رد عمل میں اپنا وقت ضائع کردیا-
امتحانی صورتِ حال کے اِس نتیجے کا تعلق افراد سے ہے- ہر فرد الگ الگ حالتِ امتحان میں ہے- ہر فرد الگ الگ اپنا ریکارڈ تیار کررہا ہے- ہر فرد الگ الگ یہ بتا رہا ہے کہ وہ جنت کی معیاری دنیا میں بسائے جانے کے قابل ہے یا نہیں-
اسلامی انقلاب کا مقصد
رسول اور اصحابِ رسول کے ذریعے جو انقلاب آیا اور آخر کار اس کے نتیجے میں دنیا کا نقشہ بدل گیا، وہ اِسی لیے تھا کہ مذکورہ قسم کی حالت دنیا میں غیر منقطع طورپر جاری رہے- اسلامی انقلاب کا مقصد نہ کوئی ایمپائر قائم کرنا تھا اور نہ کوئی بہتر سیاسی یا سماجی نظام- اِس انقلاب کا واحد مقصد یہ تھا کہ فرد کے لیے اپنی شخصیت کی تعمیر کے مواقع لامحدود طور پر کھل جائیں- جو فرد یہ چاہے کہ اس کو حقیقتِ اعلی کو دریافت کرنا ہے، اُس کو اپنی شخصیت کو جنتی شخصیت کے طورپر ڈیولپ کرنا ہے، اِسی کے ساتھ اُس کو دعوت الی الخیر (3:104) کے مشن کو اپنی زندگی کا مشن بنانا ہے، جو فرد یا افراد ایسا چاہیں، اُن کے لیے ہر قسم کے مواقع پوری طرح کھلے رہیں-
اسلامی انقلاب کا مقصد اصلاً یہی تھا- اسلامی انقلاب کا مقصد یہ تھا کہ زمین پر عالمی مواقع کی ایک دنیا (world of universal opportunities) وجود میں آئے- اِس قسم کی ایک دنیا صرف لمبے عمل کے ذریعے بن سکتی تھی- چناں چہ ایسا ہی ہوا- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے بعد تاریخ میں جو پراسس جاری ہوا تھا، وہ تقریباً ہزار سال تک اپنا کام کرتا رہا، یہاں تک کہ بیسویں صدی میں وہ اپنی آخری تکمیل تک پہنچ گیا-
عجیب بات ہے کہ اسلامی انقلاب کی اِس نوعیت کو نہ مسلم مفکرین نے سمجھا اور نہ غیر مسلم مفکرین نے- دونوں کے لیے اس کا مشترک سبب یہ تھا کہ وہ تاریخ کا مطالعہ اللہ کے تخلیقی منصوبے کی روشنی میں نہ کرسکے- وہ خود اپنے خود ساختہ ذہن کے تحت تاریخ کا مطالعہ کرتے رہے- اِس بنا پر دونوں گروہوں کا حال یہ ہوا کہ وہ اُس خدائی حکمت (divine wisdom) سے بے خبر رہے جو انسانی تاریخ کے درمیان مسلسل طورپر اور موثر طورپر جاری رہی-
دورِ آزادی
اسلام کا ظہور تاریخ میں ایک انقلاب کا ظہور تھا- رسول اور اصحابِ رسول کی کوششوں کے ذریعے تاریخ انسانی میں پہلی بار آزادی کا دور آیا- اِس سے پہلے ہزاروں سال سے دنیا میں شخصی سلطنت کا مستبدانہ نظام (despotism) قائم تھا- اس کی جڑیں اتنی مضبوط ہوچکی تھیں کہ بظاہر اُن کو ختم کرنا ناممکن ہوگیا تھا- رسول اور اصحاب رسول کی قربانیوں سے تاریخ میں ایک ایسا طاقت ور پراسس جاری ہوا جس نے شخصی مطلق العنانی کے نظامِ حکومت کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا-قرآن میں اِس انقلابی واقعے کی طرف اِن الفاظ میںاشارہ کیا گیا ہے: وَلَیُبَدِّلَنَّہُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِہِمْ اَمْنًا(24:55) یعنی ایسا لازماً ہونا ہے کہ دنیا سے دورِ خوف کا خاتمہ ہو اور دورِ امن ابدی طورپر دنیا میں آجائے-
حضرت عمر فاروق نے ایک عظیم سلطنت کے حکمراں کی حیثیت سے اپنے عہد خلافت میں اِسی حقیقت کا اظہار کیا تھا، جب کہ انھوں نے ایک واقعے کے بعد مصر کے مسلم گورنر کو خطاب کرتےہوئے کہا: یا عمرو، متى استعبدتم الناس وقد ولدتہم أمہاتہم أحرارا(سیرة عمر بن الخطاب، علی محمد الصلاّبی: 1/306) یعنی اے عمرو، تم نے کب سے لوگوں کو غلام بنالیا، جب کہ ان کی ماؤں نے اُن کو آزاد پیدا کیا تھا-
یہ انقلابی عمل تاریخ میں جاری رہا، یہاں تک کہ وہ سفر کرتے ہوئے یورپ تک پہنچ گیا- گیارہ سو سال کے بعدفرانس کے جمہوری مفکر روسو(Rousseau) نے اپنی کتاب' سوشل کنٹریکٹ''میں لکھا کہ — انسان آزاد پیدا ہوا تھا، لیکن میں اس کو زنجیروں میں جکڑا ہوا دیکھتا ہوں:
Man was born free, but I see him in chains.
اِسی انقلابی عمل (revolutionary process)کے بعد کے مرحلے میں 1789 میں فرانسیسی انقلاب (French Revolution) کا واقعہ ہوا- اِس انقلابی عمل کی تکمیل 1948 میں ہوئی جب کہ دنیا کی تمام قوموں کے اتفاق سے اقوامِ متحدہ (UNO) کی عالمی تنظیم وجود میں آئی-
انسانی تاریخ میں آزادی کے دور کا آنا کوئی سادہ بات نہ تھی- یہ گویا کہ تاریخ میں ایک شاہ ضرب (master stroke) کا معاملہ تھا جس کے نتیجے میں اُن تمام امکانیات کی انفولڈنگ (unfolding) شروع ہوگئی جس کو خالق نے انسان کے لیے مقدر کیا تھا-
اِس دورِ آزادی کا پہلا فائدہ یہ تھا کہ اللہ کے تخلیقی نقشے کے مطابق، انسانی زندگی میں آزادی کا وہ دور شروع ہوا جب کہ کھلے ماحول میں ہر عورت اور مرد کا امتحان (test) ممکن ہوسکے- اِسی کے نتیجے میں دنیا کی سیاست میں سیکولرازم اور جمہوریت کا زمانہ آیا جس نے تاریخ میں پہلی بارمذہبی جبر کا مکمل خاتمہ کردیا- اِسی کے بعد یہ ممکن ہوا کہ انسان ہر قسم کے توہمات (superstitions) سے آزاد ہو کر فطرت کا مطالعہ کرے- اِسی مطالعے کا نتیجہ سائنسی علوم کا ظہور تھا جس نے پہلی بار انسان کے لیے اعلی معرفت (higher realization) کا دروازہ کھول دیا- اِسی کے نتیجے میں پرنٹنگ پریس اور جدید مواصلات کی دریافت ہوئی جس نے تاریخ میں پہلی بار عالمی دعوت کو ممکن بنا دیا، وغیرہ-
موجودہ زمانے میں آزادی کو خیر اعلی کہاجاتا ہے- یہ بات بالکل درست ہے-لیکن موجودہ دنیا میں آزادی کے ساتھ آزادی کے غلط استعمال (misuse of freedom)کا امکان ہمیشہ موجود رہتا ہے- اِس بنا پر آزادی کی قدر وقیمت کو صرف اُس وقت سمجھا جاسکتا ہے، جب کہ لوگوں کی طرف سے آزادی کے غلط استعمال کے پہلو کو الگ کرکے اس کا مطالعہ کیا جائے- ( 2013)
واپس اوپر جائیں

اسلام اور جنگ

ایک حدیثِ رسول میں، قرآن کی بابت بتایا گیا ہے کہ: لکلّ آیة منہا ظَہر وبطن (صحیح ابن حبان، رقم الحدیث: 75) یعنی قرآن کی ہر آیت کا ایک مفہوم وہ ہے جو سطور (lines) میں ہے اور دوسرا وہ ہے جو اس کے بین السطور میں پایا جاتا ہے- یہ حدیث اگر چہ قرآن کے بارے میں ہے، لیکن توسیعی مفہوم کے اعتبار سے حدیثِ رسول بھی اس میں شامل ہے- یہ ایک حقیقت ہےکہ قرآن اور حدیث کے متن میں تفسیری اور تشریحی اضافہ کرنا پڑتا ہے- اِس اضافے کے بغیر، قرآن وحدیث کی معنویت واضح نہیں ہوتی-
مثال کے طورپر قرآن کی ایک آیت یہ ہے: ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ (30:41)- قرآن کی اِس آیت کا لفظی ترجمہ یہ ہے: ’’خشکی اور تری میں فساد پھیل گیا، لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی کے سبب سے‘‘- مگر اِس لفظی ترجمے سے آیت کا اصل مفہوم واضح نہیں ہوتا- آیت کے اصل مفہوم کو جاننے کے لیے اس میں یہ تشریحی اضافہ کرنا پڑے گا کہ — خشکی اور تری میں فساد پھیل گیا، اس لیے کہ لوگوں نے اپنی آزادی کا غلط استعمال کیا-
اِسی طرح ایک حدیثِ رسول اِن الفاظ میں آئی ہے: مَن قال لا إلہ إلا اللہ، دخل الجنة- اس حدیث کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ جس شخص نے کہا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ جنت میں داخل ہوگا- حدیث کا یہ ترجمہ حدیث کے اصل مفہوم کو واضح نہیں کرتا- حدیث کے اصل مفہوم کو واضح کرنے کے لیے اس میں یہ اضافہ کرنا پڑے گا کہ —جس شخص نے اِ س حقیقت کا اقرار کیا کہ اللہ کے سواکوئی معبود نہیں اور اس کے مطابق اس نے عمل کیا، وہ جنت میں داخل ہوگا-
جنگ کا مسئلہ
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو آگاہ کرتے ہوئےفرمایا تھا: إذا وضع السیفُ فی أمتی، لم یُرفع عنہم إلى یوم القیامة(مسند احمد، جلد 5، صفحہ 278) - اِس حدیث کا لفظی ترجمہ یہ ہے— جب میری امت کے اندر تلوار داخل ہوجائے تو قیامت تک وہ اُس سے اٹھائی نہیں جائے گی- مذکورہ حدیثِ رسول کا یہ ترجمہ لفظی طورپر ایک صحیح ترجمہ ہے- لیکن صرف یہ ترجمہ، حدیث کی اصل معنویت کو ظاہر نہیں کرتا-
بظاہر اس حدیث میں امت کے اندر تلوار کے اُس داخلے کا ذکر ہے جو عہد رسالت کے بعد پیش آئے گا- لیکن تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو امت کےاندر تلوار کا داخلہ خود زمانہ رسول میں پیش آچکا تھا- جیسا کہ معلوم ہے، غزوۂ بدر، غزوۂ حنین، غزوۂ خیبر کے مواقع پر امتِ محمدی نے تلوار اٹھائی، جب کہ اِن چاروں مواقع پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم باحیات تھے- اس کے علاوہ، قرآن کی متعدد آیتوں میں خود زمانہ رسول میں قتال کا ذکر ہے- بظاہر یہ ایک تضاد کی صورت حال ہے- اِس لیے ہمیں کوئی ایسا اصول دریافت کرنا پڑے گا جو اِس ظاہری تضاد کو رفع کرنے والاہو -
جنگ کی دو قسمیں
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جو جنگ پیش آئی، اس کی نوعیت کیا تھی، وہ قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتی ہے: وَقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَةٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ (8:39) یعنی تم اُن سے قتال کرو، یہاںتک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین سب کا سب، اللہ کے لیے ہوجائے-
اِس آیت میں ’فتنہ‘ سے مراد مذہبی جبر (religious persecution) ہے- قدیم زمانے میں اُس وقت کے سیاسی فلسفہ (political philosophy) کی بنا پر، ساری دنیا میں مذہبی جبر کا کلچر قائم تھا- اِس کلچر نے قدیم زمانے میں پُرامن دعوت (peaceful Dawah) کو عملاً ناممکن بنا دیا تھا- یہ تصور، خدا کے تخلیقی پلان کےخلاف تھا، کیوں کہ خدا نے اپنے تخلیقی پلان کے تحت، ہر انسان کو فکر اور اظہارِ خیال کی کامل آزادی عطا کی ہے-
مذہبی جبر پر مبنی مذکورہ سیاسی فلسفہ خدا کی دی ہوئی آزادی کو منسوخ کرنے کے ہم معنی تھا- خدا کو مطلوب تھاکہ مذہبی جبر کا یہ مصنوعی نظام ختم ہو اور مذہبی آزادی کا فطری نظام قائم ہوجائے- اِس لیے اللہ تعالی نے رسول اور اصحابِ رسول کو یہ حکم دیا کہ ہر قیمت پر اِس مصنوعی نظام کو ختم کرو، خواہ اس کے لیے تم کو جنگ کرنا پڑے- رسول اور اصحابِ رسول نے اِس حکمِ خداوندی کی تعمیل کی، یہاں تک کہ اِس جبری نظام کا خاتمہ ہوگیا-
اِس معاملے کو سمجھنے کے لیے عبد اللہ بن عمر کی ایک روایت کا مطالعہ مفید ہوگا- عبد اللہ بن عمر (وفات: 73 ہجری) کے زمانے میں وہ جنگ پیش آئی جس کے قائد ایک طرف، عبد اللہ بن زبیر تھے اور دوسری طرف،اموی حاکم حجاج بن یوسف الثقفی- یہ واقعہ تاریخ میں ’’فتنۂ عبد اللہ بن زبیر‘‘ کے نام سے مشہور ہے-
عبد اللہ بن عمر اِس جنگ میں شریک نہیں ہوئے تھے- دو مسلمان اُن کے پاس آئے اور اُن کو عار دلاتے ہوئے کہا کہ آپ اِس جنگ میں شریک نہیں ہیں، حالاں کہ اللہ تعالی نے قرآن میں حکم دیا ہے کہ: وَقَاتِلُوْہُمْ حَتَّی لَا تَکُوْنَ فِتْنَةٌ(8:29)- عبد اللہ بن عمر نے کہا: قاتلنا حتى لم تکن فتنة، وکان الدین للہ- وأنتم تریدون أن تقاتلوا حتى تکون فتنة، ویکون الدین لغیر اللہ (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 4513) یعنی ہم نے جنگ کی یہاں تک کہ فتنہ ختم ہوگیا، اور دین اللہ کے لیے ہوگیا- اور تم چاہتے ہوکہ جنگ کرو، یہاں تک کہ فتنہ دوبارہ واپس آجائے اور دین غیراللہ کے لیے ہوجائے-
عبد اللہ بن عمر کے اِس قول کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کی آیت میں ’فتنہ‘ سے مراد مذہبی جبر تھا- ہم نے لڑ کر اس مذہبی جبر کو ختم کردیا- اب فطرت کے نظام کے مطابق، مذہب کے معاملے میں انسان کو آزادی حاصل ہوگئی، جب کہ تم لوگ اپنے سیاسی مفاد کے لیے جنگ کررہے ہو اور اِس طرح دوبارہ ایک نئے قسم کا فتنہ برپا کررہے ہو-
ایک دورکا خاتمہ، دوسرے دورکا آغاز
اللہ نے انسان کو اِس دنیا میں امتحان (test) کے لیے رکھا ہے- امتحان کی اِس مصلحت کی بنا پر اللہ نے انسان کو کامل آزادی دی ہے- اس کو اِس دنیا میں فریڈم آف چوائس (freedom of choice) حاصل ہے- یہ آزادی اگر باقی نہ رہے تو اللہ کا تخلیقی پلان درہم برہم ہوجائے گا- اِسی مصنوعی صورت ِ حال کو قرآن میں فتنہ کہا گیا ہے، اور فتنہ کی اِسی صورتِ حال کو ختم کرنے کے لیے رسول اور اصحابِ رسول کو جنگ کا حکم دیاگیا-
اِس معاملے کی تفصیل یہ ہے کہ قدیم زمانے میں مذہب پر مبنی قومیت (nationality based on religion) کا اصول رائج تھا- اِس اصول کی بنا پر مذہب، اسٹیٹ کا معاملہ قرار پاگیا تھا- اسٹیٹ کا مذہب، اسٹیٹ سے وفاداری کی علامت بن گیا تھا- یہی وجہ ہے کہ مذہب کے معاملے میں اسٹیٹ سے مختلف عقیدہ رکھنا، اسٹیٹ سے بغاوت کے ہم معنی بن گیاتھا- یہی وہ صورتِ حال ہے جس نے قدیم زمانے میں مذہبی جبر (religious persecution) کا نظام قائم کررکھا تھا-
ساتویں صدی عیسوی کے نصف آخر میں جو انقلاب آیا، اُس نے اسٹیٹ کے تحت قائم شدہ مذہبی جبر کا خاتمہ کردیا- مذہبی جبر کے خاتمے کے بعد تاریخ میں ایک نئے سیاسی نظریے کا آغاز ہوا- اِس کے بعد جو پراسس شروع ہوا، اس کی تکمیل انیسویں صدی میں یورپ میں ہوئی- اب مبنی برمذہب قومیت آخری طورپر متروک قرار پائی- اِس کے بعد قومیت کا وہ نظام بنا جس کو وطن پر مبنی قومیت (nationality based on homeland) کہاجاتاہے-
یہ ایک فطری حقیقت ہے کہ انسان کے اندر اپنے وطن سے محبت کا جذبہ پایا جاتا ہے- یہ ایک عملی معاملہ ہے، نہ کہ کوئی اعتقادی معاملہ- قدیم زمانے میں مبنی برمذہب قومیت نے اِس معاملے کو مذہبی عقیدے کا درجہ دے رکھا تھا- اِس لحاظ سے، مبنی برمذہب قومیت کا نظریہ ایک فطری تصور تھا- ایسی حالت میں ضرورت تھی کہ اِس تعلق کو فطری بنیاد پر قائم کیا جائے- موجودہ زمانے میں مبنی بروطن قومیت کے نظریے نے یہی کام انجام دیا ہے- اب تمام دنیا میں اِس اصول کو مان لیا گیا ہے کہ قومیت کا تعلق وطن سے ہے، نہ کہ مذہبی عقیدے سے- یہی نظام، فطرت کے مطابق ہے، اور اسلام دینِ فطرت ہونے کی حیثیت سے اِسی نظریے کی تائید کرتا ہے-
قومیت ایک سیاسی نظریہ ہے، اور مذہب ایک غیر سیاسی عقیدہ- قدیم ریاستی نظریے کے تحت مذہبی جبر کا تصور پیداہوا- اِس تصور نے دینِ توحید اور اس کی دعوت کے لیے غیر ضروری مسئلہ پیدا کردیا تھا- موجودہ زمانے میں وطن پر مبنی قومیت کے نظریے نے یہ ایک درست کام انجام دیا ہے کہ اس نے قومیت کی بنیاد مذہب کے بجائے وطن پر قائم کردی ہے- یہ تبدیلی عین اسلام کے مطابق ہے- اس نے موجودہ زمانے میں پُرامن دعوتی عمل کے لیے لامحدود دروازے کھول دئے ہیں-
قدیم زمانے میں اسلام اور اُس وقت کی حکومتوں کے درمیان جو جنگ پیش آئی، وہ ایک ناگزیر ضرورت کے تحت پیش آئی- کیوں کہ اہلِ اسلام جب توحید کی دعوت دیتے تھے تو اُس زمانے کے مبنی بر مذہب قومیت نظریے کی بنا پر اہلِ اقتدار یہ سمجھتے تھے کہ توحید کی دعوت، ریاست سے بغاوت کے ہم معنی ہے- اِس بنا پر وہ داعیانِ توحید کو اپنا حریف (rival) سمجھ لیتے تھے، جس کا نتیجہ جنگ ہوتا تھا- یہ جنگ قدیم نظام کی طرف سے جارحانہ طور پر ہوتی تھی اور اہلِ توحید کی طرف سے اس کی حیثیت ناگزیر دفاع کے ہم معنی تھی-
موجودہ زمانے میں وطن پر مبنی سیاسی تصور نے مذہب اور سیاست کے درمیان ٹکراؤ کا خاتمہ کردیا ہے- یہی وجہ ہے کہ اب مذہبی جبر (religious persecution)کا قدیم نظام باقی نہیں رہا اور داعیانِ توحید کو یہ موقع مل گیا کہ وہ ریاست سے ٹکراؤ کا خطرہ مول لئے بغیر اپنے پُرامن دعوتی عمل کو بلا رکاوٹ جاری رکھ سکیں- (2012)
واپس اوپر جائیں

قانونِ شریعت کا نفاذ

موجودہ زمانے میں مختلف مسلم ملکوں میں قانونِ شریعت کے نفاذ کی تحریکیں چلائی گئیں۔ مثلاً افغانستان، ایران، سوڈان اور پاکستان وغیرہ۔ ہر جگہ تقریباً ایک ہی قسم کی صورتِ حال نظر آتی ہے۔ ہرجگہ کے مسلمان دو گروہوں میں بٹ گئے— حاکم اور محکوم۔ اِن دونوں گروہوں کے درمیان ٹکراؤ شروع ہوگیا۔ اِس کے نتیجے میں زبردست نقصان پیش آیا۔ اِن ملکوں میں شریعت کا قانون تو نافذ نہ ہوسکا، البتہ نفرت اور جبر اور تشدد کا ماحول ہر جگہ قائم ہوگیا۔
اسلامی قانون کے نفاذ کی تحریک اِس طرح الٹا نتیجہ پیدا کرنے کا سبب (counter productive) کیوں بن گئی۔ اِس کا راز یہ ہے کہ ہر جگہ نفاذِ شریعت کا نعرہ تو دیاگیا، لیکن نفاذِ شریعت کے لیے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کی پیروی نہیں کی گئی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، پیغمبر کی حیثیت سے دنیا میں 23 سال رہے۔ آپ کے مشن کا ایک پہلو یہ تھا کہ آپ عرب میں اسلامی شریعت کو نافذ کریں اور بالفعل آپ نے کامیابی کے ساتھ ایسا کیا۔ لیکن اُس زمانے کے عرب سماج میں ہم یہ نہیں دیکھتے کہ مسلمان، نفاذِ شریعت کے نام پر دوگروہ بن کر آپس میں لڑ رہے ہوں، جیسا کہ موجودہ زمانے میں مسلم ملکوں میں پیش آیا۔
اِس سوال کا جواب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ عائشہ کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ قرآن میں پہلے وہ سورتیں اُتریں جن کو مفصّل کہاجاتا ہے، یعنی وہ سورتیں جن میں جنت اور جہنم کا ذکر ہے، یہاں تک کہ جب لوگ رجوع ہو کر اسلام پر آگئے، اُس وقت حلال اور حرام والے احکام اترے (حتّی إذا ثاب الناس إلی الإسلام، نزل الحلال والحرام) اگر شروع میں یہ اترتا کہ شراب نہ پیو، تو وہ ضرور یہ کہتے کہ ہم توشراب کبھی نہیں چھوڑیں گے۔ اور اگر شروع میں یہ اترتا کہ زنا نہ کرو، تو وہ ضرور یہ کہتے کہ ہم تو کبھی زنا نہیں چھوڑیں گے (صحیح البخاری، کتاب فضائل القرآن، باب تالیف القرآن)۔
اِس روایت میں ثاب کا لفظ آیا ہے۔ ثاب یثوب کے معنی ہیں: حالتِ اصلی کی طرف لوٹنا۔ مشہور عالمِ لغت راغب الاصفہانی (وفات: 1108ء) نے اِس لفظ کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے: رجوع الشیٔ إلی حالتہ الأولی التی کان علیہا( المفردات، صفحہ 83 ) یعنی کسی چیز کا اپنی اُس سابقہ حالت کی طرف لوٹنا جس پر وہ پہلے قائم تھی۔
اِسی بات کو اگر لفظ بدل کر بیان کیا جائے، تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ اِ س کا مطلب ہے— حالت فطری کی طرف واپسی۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے، ہر انسان صحیح فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر ماحول کے اثر سے وہ دھیرے دھیرے اپنی اصل فطرت سے ہٹ جاتا ہے۔ اِسی کا نام بگاڑ ہے۔ صحیح معاشرہ قائم کرنے کا عمل، اِسی بگاڑ کو درست کرنے سے شروع ہوتا ہے، یعنی فطرت سے انحراف کی حالت کو ختم کرنا اور دوبارہ لوگوں کو ان کی حالتِ فطری پر قائم کرنا۔ ایک لفظ میں اِس عمل کو ڈی کنڈیشننگ (de-conditioning) کہاجاسکتا ہے۔
حضرت عائشہ کی مذکورہ روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ یہ تھا کہ— انسان کی ڈی کنڈیشننگ کرکے اُس کو حالتِ فطری کی طرف واپس لاؤ۔ جب ایسا ہوگا تو اس کے بعد انسان کے اندر احکام کو قبول کرنے کی استعداد پیدا ہوجائے گی، اور نفاذِ شریعت کا کام بہ سہولت انجام پاسکے گا۔ گویا کہ پیغمبر اسلام کے طریقے کے مطابق، کسی سوسائٹی میں نفاذِ شریعت کے عمل کا آغاز، فکری تطہیر سے ہوتا ہے، نہ کہ قانون کے عملی نفاذ سے۔
موجودہ زمانے میں 57 مسلم ملک ہیں۔ ہر مسلم ملک میں مسلم رہنماؤں نے شریعت کے نفاذ کی تحریک چلائی، مگر لمبی جدوجہد کے باوجود کسی بھی ملک میں یہ تحریکیں اپنے مطلوب مقصد میں کامیاب نہیں ہوئیں۔ ہر ملک میں اِن تحریکوں نے صرف تشدد اور جبر کی روایتیں قائم کیں۔
اِس اعتبار سے مسلم ملکوںکو دو گروپ میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک قسم کے ملک وہ ہیں، جہاں حکم راں اور عوام کے درمیان پُرتشدد مقابلہ جاری ہے۔ دوسری قسم کے مسلم ملک وہ ہیں جہاں جبر کا نظام قائم ہوگیا ہے۔ یہ وہ ملک ہیں جہاں حکم راں طبقے نے نفاذِ شریعت کی تحریکوں کو مقہور کرلیا اور جبر کے زور پر اپنی حکم رانی قائم کرلی۔ اور ظاہر ہے کہ یہ دونوں حالتیں، اسلامی نقطۂ نظر سے غیر مطلوب حالتیں ہیں۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ سنت کے مطابق، مسلم ملکوں میں کام کرنے کا صحیح طریقہ یہ تھا کہ مسلم رہنما اپنے کام کا آغاز غیر سیاسی میدان میں کرتے ۔ وہ پُرامن تعلیم وتربیت کے ذریعے لوگوں کے ذہن اور ان کے کردار کو بدلتے۔
اِس تعمیری عمل کے دوران وہ ملک کے سیاسی نظام کے معاملے میں اسٹیٹس کوازم (statusquoism) کا طریقہ اختیار کرتے ۔وہ یہ پالیسی اختیار کرتے کہ سیاست اور حکومت کے معاملے کو جمہوری عمل (democratic process) کے حوالے کردیتے۔ سیاست کے معاملے میں وہ لوگوں کو موقع دیتے کہ پُرامن الیکشن کے ذریعے وہ جس کو چاہیں منتخب کریں اور پھر یہ منتخب لوگ ملک کا سیاسی نظام چلائیں۔مسلم رہنما اگر اس دو طرفہ حکمت کو اختیار کرتے، تو یقینی طورپر ایسا ہوتا کہ بتدریج ملک کے حالات بدل جاتے ۔ اِن ملکوںمیں پہلے ذہن اور کردار کے اعتبارسے انقلاب آتا، اور پھر دھیرے دھیرے سیاست اور حکومت کے میدان میں بھی انقلاب آجاتا۔ مگر حکمتِ نبوی کو اختیار نہ کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلم رہ نما جو کچھ حاصل کرنا چاہتے تھے، اُس کو تو وہ حاصل نہ کر سکے، البتہ انھوںنے مسلم سماج کے اندر بہت سے نئے نقصانات کا اضافہ کردیا۔
حدیث کی کتابوں میں کثرت سے ایسی روایتیں آ ئی ہیں جن میں مسلمانوں کو شدت کے ساتھ یہ حکم دیا گیا ہے کہ حکم رانوں میں بگاڑ کے وقت اُن کا رویہ کیا ہونا چاہیے۔ اِن روایتوں میں شدت کے ساتھ یہ حکم دیا گیا ہے کہ اپنے حکم رانوں میں تم خواہ کتنا ہی بگاڑ دیکھو، تم ہر گز اُن سے ٹکراؤ کا طریقہ اختیار مت کرو۔ اگر تم ضروری سمجھو، تو صرف تنہائی میں نصیحت پر اکتفا کرو، عملی ٹکراؤ یا حکم رانوں کو بدلنے کی تحریکیں ہر گز نہ چلاؤ۔
عدم ٹکراؤ کی اِس پالیسی کا مطلب سرینڈر کرنا نہیں ہے۔ یہ دراصل یہ بتانے کے لیے ہے کہ سیاسی بگاڑ کے حالات میں تمھارے عمل کا نقطۂ آغاز کیا ہونا چاہیے۔ ایسے حالات میں تمھارے عمل کا نقطۂ آغاز یہ ہونا چاہیے کہ تم انتہائی حد تک پُرامن رہتے ہوئے، غیر سیاسی دائرہ کار میں لوگوں کو ایجوکیٹ(educate) کرنے کی کوشش کرتے رہو۔ یہ کوشش مسلسل جاری رکھو، یہاں تک کہ حالات اِس حد تک بدل جائیں کہ پُرامن طورپر تبدیلی ممکن ہوجائے۔
اسلام کی پالیسی ہر معاملے میں نتیجہ خیز عمل (result oriented action) کے اصول پر ہوتی ہے۔ عمل کا مثبت نتیجہ نکلے تو عمل کرو، اور اگر مثبت نتیجہ نکلنے والا نہ ہو، تو سیاست سے مکمل طورپر الگ رہتے ہوئے پُرامن اصلاح کا طریقہ اختیار کرو، اِس طریقے کو اختیار کرنے سے ہمیشہ امن قائم ہوتا ہے، اور اِس طریقے کے خلاف عمل کا نتیجہ ہمیشہ تشدد کی صورت میں نکلتا ہے۔(2009)
واپس اوپر جائیں

خود کشی کا بڑھتا ہوا رجحان

امریکا میں بیماری اور اس پر کنٹرول کے لیے ایک ادارہ قائم ہے- اِس ادارے کا نام یہ ہے:
US Centre for Disease Control and Prevention
اِس ادارے کے تحت جو اعداد وشمار جمع کیے گئے ہیں، اس کے مطابق، امریکا میں خودکشی کرنے والوں کی تعداد دن بہ دن بڑھ رہی ہے- مثلاً 2010 میں روڈ حادثے میں مرنے والوں کی تعداد 33,687 تھی- اِس کے مقابلے میں، اِسی سال امریکا میں خودکشی کرنے والوں کی تعداد 38,364 تھی- (ٹائمس آف انڈیا، نئی دہلی، 4 مئی 2013، صفحہ 21)
یہ معاملہ صرف امریکا کا نہیں ہے، بلکہ تمام ترقی یافتہ ملکوں کا ہے- جرمنی، فرانس، اسپین، جاپان اور چین ہر جگہ خود کشی کرنے والے انسانوں کی تعداد ہر سال بڑھ رہی ہے- اعداد وشمار کے مطابق، خود کشی کرنے و الوں کی تعداد ترقی یافتہ ملکوں میں زیادہ ہے-
ایسا کیوں ہے- اِس کا سبب یہ ہےکہ موجودہ زمانے میں جب مادی ترقی کا دور آیا تو انسان نے یہ سمجھا کہ اب وہ دنیا ہی میں اپنی جنت بنا سکتا ہے- وہ اپنی تمام خواہشوں (desires) کو آخری حد تک پورا کرسکتا ہے، مگر عملاً ایسا نہیں ہوا، بظاہر مادی ترقیوں کے باوجود انسان کو فل فل مینٹ (fulfilment) حاصل نہ ہوسکا-
جب انسان بقدر ضرورت (need)کی سطح پر جی رہا تھا، تو اس کو فل فل مینٹ حاصل نہ تھا- اُس وقت اس نے سمجھا کہ جب آرام (comfort) کی سطح پر جینا نصیب ہوگا تو اس کو فل فل مینٹ حاصل ہوجائے گا، مگر ایسا نہ ہوسکا- پھر لگژری (luxury) کا دور آیا، مگر انسان اب بھی فل فل مینٹ (fulfilment) سے محروم تھا- اب انسان مایوسی کی حالت میں جی رہا ہے اور اِسی مایوسی کا ایک ظاہرہ خود کشی کی بڑھتی ہوئی رفتار ہے-
واپس اوپر جائیں

مس ورلڈ

نونیت کور (Navneet Kaur Dhillon) چندی گڑھ میں 1992 میں پیدا ہوئی- بیوٹی کے ایک مقابلے میں وہ کامیاب ہوئی اور مس انڈیا کا ٹائٹل حاصل کیا- اب وہ مس ورلڈ (Miss World)کے مقابلے کے لیے تیاری کر رہی ہے- اس نے اپنے آپ کو پوری طرح اِس تیاری کے کام میں لگا دیا ہے- ایک انٹرویو کے دوران اس نے کہا کہ — میں مس ورلڈ کے تصور میں جیتی ہوں، مس ورلڈ کے تصور میں سانس لیتی ہوں، اب صرف یہ باقی ہے کہ مجھے مس ورلڈ کا تاج پہنایا جائے:
I am living, breathing Miss World; only the crowning is left.
ٹائمس آف انڈیا (2 ستمبر 2013) میں اِس خبر کو پڑھ کر میں نے سوچا کہ کیا وجہ ہے کہ بہت سے لوگ مس ورلڈ اور مسٹر ورلڈ کا ٹائٹل حاصل کرنے کے لیے ہیرو، بلکہ سپر ہیرو بن جاتے ہیں، مگر یہی بے تابانہ شوق لوگوں کے اندر جنت (paradise) کے لیے نہیں ہوتا- دنیا میں بے شمار لوگ ہیں، لیکن اُن میں سے کوئی مس پیراڈائز اور مسٹر پیراڈائز کا درجہ حاصل کرنے کے لیے ہیرو بننے پر تیار نہیں-
میں نے غور کیا تو خود مذکورہ رپورٹ میں اِس کا جواب موجود تھا- نونیت کور جو رات دن اپنی تیاری میں لگی ہوئی ہے، اُس نے اِس مقصد کے لیے اپنی بے پناہ محنت کی توجیہ کرتے ہوئے کہا — یہ ایک ایسا موقع ہے جو پوری زندگی میں صرف ایک بار آئے گا اور مجھے بہر حال اس کو حاصل کرنا ہے:
This is a once-in-a lifetime chance. I have to do it.
مس ورلڈ بننے کا چانس اُس کے لیے صرف ایک بار ہے — یہی وہ چیز ہے جو مذکورہ خاتون کو ہیرو بنائے ہوئے ہے- جب اُس نے دیکھا کہ اِس کا چانس میرے لیے دوبارہ آنے والا نہیں ہے تو اس کے دل میں یہ جذبہ ابھرا کہ وہ اس کی تیاری میں اپنی ساری طاقت لگا دے- یہی دریافت اگر کسی عورت یا مرد کو جنت کے بارے میں ہوجائے تو وہ بھی اِسی طرح مس پیراڈائز یا مسٹر پیراڈائز بن جائے گا-
واپس اوپر جائیں

خود کشی کیوں

بالی وڈ کی ایک ایکٹرس جِیا خان نے 3 جون 2013 کوممبئی میں خود کشی کرلی- اس وقت اس کی عمر 25 سال تھی- وہ جوہو کے ایک فلیٹ میں رہتی تھی- وہاں کوئی سوسائڈ نوٹ (suicide note)نہیں پایا گیا- فلم ڈائرکٹر رام گوپال ورما نے بتایا کہ ضیا خان کو تین سال سے کوئی کام نہیں ملا تھا- اس نے رام گوپال ورما سے ایک ملاقات میں کہا تھاکہ اس کے قریب کا ہر آدمی اس کو یہ احساس دلاتا ہے کہ وہ ناکام ہے:
The last time I met her, Jiah told me that everyone around her makes her feel like a failure.
ضیا خان نے جو کہا، وہ خود کشی کے لیے کوئی عذر (excuse) نہیں ہے- انسان کو چاہئے کہ وہ خود اپنے آپ کو دریافت کرے، نہ یہ کہ وہ اپنے آپ کو ویسا سمجھے جیسا کہ دوسرے لوگ اس کو بتارہے ہیں- حقیقت یہ ہے کہ دنیا غیر ہمدرد (unsympathetic) لوگوں سے بھری ہوئی ہے- اس دنیا میںحقیقی معنوںمیں کوئی شخص دوسرے کا خیر خواہ(well-wisher) نہیں ہوتا، حقیقی معنوں میں کوئی شخص کسی کا اعتراف (acknowledgement)نہیں کرتا- یہ کام آدمی کو خود کرنا ہے کہ وہ اپنے بے لاگ جائزہ سے اپنی قدروقیمت کو متعین کرے- وہ اپنے ذاتی یقین پر کھڑا ہو، نہ کہ دوسروں کے ماننے یا نہ ماننے پر-
عقل مند آدمی وہ ہے جو دوسروں کی تعریف سے خوش نہ ہو اور دوسروں کی تنقید اُس کو غمگین نہ کرے- دوسروں کی تعریف پر خوش ہونے والا آدمی اپنے بارے میں زیادہ اندازہ (overestimation) میں مبتلا ہوجاتا ہے- اِسی طرح دوسروں کی تنقید پر غمگین ہونے والا آدمی اپنے بارے میں کم تر اندازہ (underestimation) کا شکار ہوجاتا ہے- اور دونوں قسم کا مزاج بلا شبہہ آدمی کے لیے یکساں طورپر مہلک ہے-
واپس اوپر جائیں

کسی کی انا کو مت چھیڑیے

ہر آدمی کی ایک انا ہوتی ہے- کوئی آدمی اُسی وقت تک معتدل (normal) رہتا ہے جب تک اس کی انا سوئی ہوئی ہو- جیسے ہی آپ اس کی انا کو چھیڑیں، اس کا اعتدال ختم ہوجائے گا- اِسی حقیقت کا اظہار ایک انگریزی مثل میں اس طرح کیاگیا ہے— ہر گز کسی کو فارگرانٹیڈ نہ لو:
Never take someone for granted.
ہر عورت اور مرد پیدائشی طور پر انا کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں- انا (ego) ہر انسان کی شخصیت کا لازمی حصہ ہے، حتى کہ ایسے افراد جو بظاہر متواضع (modest) دکھائی دیتے ہوں، وہ بھی اتنا ہی زیادہ انا کی نفسیات لیےہوئے ہوتے ہیں جتنا کہ بظاہر غیر متواضع انسان- دونوں کے درمیان فرق صرف یہ ہے کہ پہلا شخص اُس وقت انانیت (egoism) کا کیس بنتا ہے جب کہ اس کی انا پر ضرب لگادی جائے، جب کہ دوسری قسم کا انسان ہر وقت کبر (arrogance) کی تصویر بنا رہتا ہے-
ایسی حالت میں سماج کےاندر عافیت کی زندگی گزارنے کا ایک ہی طریقہ ہے، وہ یہ کہ آپ لوگوں کے ساتھ معاملہ کرنے میں بے حد محتاط رہیں اور کبھی کوئی ایسی بات اپنی زبان سے نہ نکالیں جس سے دوسرے کی انا پر ضرب پڑتی ہو-
یہ ایک عملی حقیقت ہے کہ آدمی سماج کے اندر سب سے لڑ کر نہیں رہ سکتا- ایسی حالت میں سماج کے اندر باعافیت زندگی گزارنے کی ایک ہی صورت ہے، اور وہ ہے — دوسروں کے جذبات کی رعایت کرتے ہوئے اس سے معاملہ کرنا-
اِس معاملے میں آدمی کے پاس صرف دو میں سے ایک کا اختیار (choice) ہے، یا تو دوسروں سے  لڑکراپنی زندگی کو غیر ضروری طورپر مشکل بنا لینا، یا اپنے کو بے مسئلہ انسان (no-problem person) بنا کر دوسروں کے شر سے اپنے آپ کو بچالینا- جو آدمی اپنے آپ کو بے مسئلہ بنالے، وہ اِس سے بچ جاتاہے کہ دوسرے انسان اس کے لیے مسئلہ (problem) بنیں-
واپس اوپر جائیں

سوال وجواب

سوال
مسلمانوں کے زوال اور انحطاط کا بنیادی سبب کیا ہے؟ اس زوال وانحطاط کا منبع کہاں ہے- اصلاحِ احوال کی ہر کوشش کیوں ناکام ہوگئی- اور یہ سوال کہ اس زوال وانحطاط کے منبع کو بند کرنے کی تدبیر کیا ہونی چاہئے- کیا اس کا سب سے بنیادی سبب ہمارے بیچ کئی لاکھ حدیث ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وفات کے دو سو سال بعد مرتب کی گئی ہے یا کوئی دوسری وجہ ہے، براہِ کرم رہنمائی فرمائیں- (سید ثاقب علی ہاشمی، پٹنہ، بہار)
جواب
1- امتِ مسلمہ کا زوال کسی پراسرار سبب کی بنا پر نہیں ہے- یہ ایک عام فطری قانون کی بنا پر ہے اور وہ وہی ہے جس کو ابنِ خلدون (وفات: 1406 ) نے اِن الفاظ میں بیان کیا ہے: للأقوام أعمار، کما للأفراد أعمار- جن گروہ کا کوئی نظریہ (ideology) نہ ہو، جس کا مقصد صرف کھانا کمانا ہو، اُس کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ عام حالات میں زوال کا شکار نہ ہو، لیکن ایسا گروہ جوایک نظریہ یا آئڈیالوجی کی بنیاد پر بنے، اُس کے لیے ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ اس کی بعد کی نسلوں میں نظریاتی ضعف آجاتا ہے- وہ ایک نظریاتی گر وہ کے بجائے صرف ایک قومی گروہ بن کر رہ جاتا ہے- اِسی حالت کا نام زوال ہے-
یہی موجودہ زمانے میں مسلمانوں کا حال ہوا ہے- موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں اسلام بطورنظریہ یا اسپرٹ باقی نہیں رہا، اب وہ صرف ایک کلچر کے طور پر باقی ہے، جیساکہ زوال یافتہ قوموں کے درمیان ہمیشہ ہوتا ہے- موجودہ زمانے کے مسلمان ایک کلچرل گروپ کی حیثیت سے زندہ ہیں، نہ کہ ایک نظریاتی گروپ کی حیثیت سے-
موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے درمیان بہت سی اصلاحی تحریکیں اٹھیں، مگر وہ سب کی سب اپنے نشانے کو حاصل کرنے میں ناکام رہیں- اِس ناکامی کا سبب یہ تھاکہ موجودہ زمانے کے مسلم رہنماؤں نے اِس مفروضے کے ساتھ اپنا کام شروع کیا کہ یہاں ایک ’’خیرِامت‘‘ موجود ہے اور اس کو زندہ کرنے کے لیے صرف یہ کرنا ہے کہ اس کے اندر جوش وولولہ پیدا کردیا جائے- اقبال کا یہ شعر اِسی ذہن کی نمائندگی کرتاہے:
نوا را تلخ تر می زن چو ذوقِ نغمہ کم یابی حدی را تیز تر می خواں چو محمل را گراں بینی
احیاءِ امت کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے اِس بات کو تسلیم کیا جائے کہ موجودہ زمانے کے مسلمان خیر امت نہیں ہیں، بلکہ وہ ایک زوال یافتہ امت (degenerated community) ہیں- اِس اعتراف کے بعد آپ کو صحیح نقطہ آغاز مل جائے گا، یعنی لوگوں کے اندر سب سے پہلے ایمانی شعور پیدا کرنا- مزید یہ کہ اصلاحِ امت کا کام اصلاحِ افراد سے شروع ہوگا، اِس طرح نہیں کہ مسلمانوں کی بھیڑ جمع کرکے اسٹیج سے اُن کے سامنے پرجوش تقریر کی جائے- یہ بھی صحیح آغاز نہیں کہ اسلام کے نام سے بڑے بڑے ادارے یا مسلم حکومتیں قائم کی جائیں- اِس قسم کی کوششوں کی مثال ایسی ہی ہے جیسے دیمک زدہ لکڑی پر کوئی عمارت کھڑی کرنا- ایسا منصوبہ اِس دنیا میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا-
بعض جماعتوں نے اصلاحِ ایمان کے نام سے تحریکیں چلائیں، لیکن اصل نشانے کے اعتبار سے وہ بھی ناکام ہوگئیں- اِس ناکامی کا سبب یہ تھا کہ انھوں نے فضائل کی کہانیاں سنا کر امت کو بیدار کرنا چاہا- یہ ایسا ہی تھا جیسے امانی (2:78) کی بنیاد پر کسی قوم کو اٹھایا جائے- مگر فضائل کی کہانیوں یا امانی کی داستانوں کے ذریعے کسی زوال یافتہ قوم کو دوبارہ زندہ نہیں کیا جاسکتا-
زوال یافتہ امت کو دوبارہ زندہ کرنے کا صحیح طریقہ وہ ہے جو کہ مبنی بر افراد ہو، نہ کہ مبنی بر قوم- اِس طریقے کو قرآن میں بتا دیا گیا ہے- اِس کو سمجھنے کے لیے آپ قرآن کی سورہ الحدید کی آیت 17 کا مطالعہ کیجئے- (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو راقم الحروف کی کتاب ’’قیادت نامہ‘‘، صفحہ: 180-183)-
2- حدیث کی بنیاد پر مسلمانوں کے درمیان اختلاف پیدا ہونا کوئی مسئلہ نہیں ہے، نہ اُس کا کوئی تعلق زوالِ امت سے ہے (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ’’تجدید دین‘‘، صفحہ 21-38) حقیقت یہ ہے کہ اختلاف ایک امرِ فطری ہے، وہ ہمیشہ ہوگا، اختلاف خالق کے تخلیقی منصوبے کا لازمی حصہ ہے- اختلاف کو ختم کرنا کسی انسان کے لیے ممکن نہیں-
موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا اصل مسئلہ اختلاف کی موجودگی نہیں ہے، بلکہ برداشت کی عدم موجودگی ہے- زوال یافتہ نفسیات کی بنا پر موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا حال یہ ہوا ہے کہ وہ اختلاف کو ڈسکشن کا موضوع نہیں بناتے، اختلاف پیش آتے ہی وہ بر ہم ہوجاتے ہیں، یہ برہمی اتنی زیادہ بڑھتی ہے کہ ٹکراؤ اور جنگ کی نوبت آجاتی ہے- اگر آپ کو مسلمانوں کی اصلاح کرنا ہے تو اختلاف کے خاتمے کی ناممکن الحصول کوشش نہ کیجئے، بلکہ اُن کے اندر برداشت اور تحمل کی صفت پیدا کیجئے- اس کے بعد آپ دیکھیں گے کہ اختلاف ان کے لیے رحمت بن گیا ہے- اختلاف کو اگر ڈسکشن (discussion) کا موضوع بنایا جائے تو اِس سے ذہنی ارتقا ہوتا ہے اور اگر اختلاف کو ختم کرنےکی کوشش کی جائے تو اختلاف تو ختم نہ ہوگا، البتہ قوم برباد ہو کر رہ جائے گی-
سوال
میں ماہ نامہ الرسالہ کا ایک عرصۂ دراز سے مستقل خریدار اور قاری ہوں- آپ کی تحریر کردہ بہت سی کتابیں میں نے پڑھی ہیں- زکوة کے مصارف میں ’’فی سبیل اللہ‘‘ کی مد میں ’’تملیک‘‘ کے ذریعہ زکوة اور فطرہ وغیرہ کی رقم کا استعمال ایک عام بات ہوگئی ہے-
میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ دور میں آپ جیسا عالمِ دین ہی غیر جانبداری کے ساتھ ایک تحقیقی مقالہ یا کتاب اِس موضوع پر تحریر کرسکتا ہے جس میں تملیک کی تعریف ، شرعی حیثیت، ابتدا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام اور تابعین کے دور میں تملیک کی موجودگی اور اس پر عمل آوری جیسے سوالات کا تشفی بخش جواب تحریر ہو اور غیر جانبدارانہ تجزیہ بھی ہو- (اقبال حسین، اجین، مدھیہ پردیش)
جواب
زکات کے موضوع پر کافی لکھا گیا ہے- اِس سلسلے میں میں آپ کو تین کتابیں پڑھنے کا مشورہ دوں گا— زکات کا اجتماعی نظام (مولانا ابو الکلام آزاد)، فقہ الزکات (ڈاکٹر یوسف القرضاوی)، مسئلہ تملیک کی شرعی حیثیت (مولانا شہاب الدین ندوی)-
زکات کے معاملے میں ’’لامِ تملیک‘‘ کی بحث صرف ایک فنی بحث ہے، اس کی بنیاد قرآن اور حدیث کے کسی واضح حکم پر مبنی نہیں ہے- جن علمانے لامِ تملیک کا مسئلہ وضع کیا ہے، وہ اُن کا صرف ذاتی استنباط ہے اور استنباط کے معاملے میں ہمیشہ اختلاف کی گنجائش رہتی ہے- آپ کو یہ حق ہے کہ آپ چاہیں تو اِس استنباط کو مانیں، یا اگر آپ کے پاس کوئی دلیل شرعی موجود ہو تو آپ جائز طور پر یہ حق رکھتے ہیں کہ آپ اِس استنباط کو نہ مانیں-
خود ماہ نامہ الرسالہ میں اِس موضوع (زکات کا مسئلہ) پر ایک مضمون چھپ چکا ہے- آپ اس کو بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں (ماہ نامہ الرسالہ، جنوری 1997، صفحہ:14-18)-
سوال
عرض ہے کہ میں نے جولائی 2013 کا الرسالہ ملاحظہ کیا- ہمیشہ کی طرح معنی خیز اور علمی باتوں سے مزین ہے اور ہمیشہ کی طرح کچھ نہ کچھ اختلافی باتیں ذہن میں کھٹک پیدا کرنے والی ہیں-آپ نے تبلیغی جماعت کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ تحریک لوگوں کو نماز پر کھڑا کرنے کے لیے شروع کی گئی تھی اور بعد کو اس میں غلو اور تعصب آگیا (صفحہ: 15)- پہلی بات تو یہ کہ آپ نے اس کا تعارف غلط پیش کیا ہے- مولانا الیاس کے بقول، وہ اِس تحریک سے یہ چاہتے تھے کہ امت اُسی سطح پر آجائے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو چھوڑ کر گئے تھے- یہ آپ کے قول کے برخلاف، ایک ہمہ گیر عنوان ہے جو اُسی فکر ومنہج کے ساتھ اب تک چلا آتا ہے اور انشاء اللہ چلتا رہےگا- کچھ لوگوں کے ذاتی کردار کو کسی تحریک پر تبصرہ کی شکل میں پیش نہیں کیا جاسکتا، ٹھیک اُسی طرح جیسے کوئی مسلمانوں کے اعمال سے اسلام پر تبصرہ کرے- میں ایک سال کی جماعت سے حال ہی میں لوٹا ہوں، میں نے اِس شجر کی کچھ شاخوں کو تو باغی ضرور پایا ہے، لیکن جڑیں معمولی تغیر کے ساتھ اب بھی مضبوط ہیں، اور اگر آپ کی نظر میں کوئی چیز غلط ہے تو اس کی وضاحت کریں- (عبد الحسیب، کیرانہ،یوپی)
جواب
تبلیغی جماعت کے بارے میں الرسالہ میں جو بات میں نےلکھی ہے، وہ کوئی ذاتی رائے نہیں ہے- مولانا انعام الحسن کاندھلوی (وفات: 2006) جو تبلیغ میں تیسرے ’’حضرت جی‘‘کی حیثیت رکھتے ہیں، وہ مبینہ طور پر کہتے تھے کہ تبلیغی تحریک ایک مسجد وار تحریک ہے- مولانا انعام الحسن کاندھلوی کا یہ بیان کوئی مخفی بیان نہیں ہے، تبلیغ کے سبھی لوگ اس سے واقف ہیں-
دوسری بات یہ کہ میں خود جماعت میں گیا ہوں- میں نے اپنے ذاتی تجربے میں یہی پایا ہے کہ ہر بار مسجد میں ایک ہی قسم کی باتیں کہی جاتی ہیں- ایک ہی قسم کی کتاب پڑھ کر ہمیشہ سنائی جاتی ہے اور تقریر میں ہمیشہ تقریباً ایک ہی قسم کی باتیں کہی جاتی ہیں- میں نے الرسالہ میں جو کچھ لکھا ہے، وہ ایک واقعہ ہے، وہ کوئی ذاتی تبصرہ نہیں-
غلو کی بات جو میں نے لکھی ہے، وہ ایک عام مشاہدے کی بات ہے- مجھ سے بہت سے لوگوں نے یہ بات کہی کہ تبلیغی جماعت میں غلو کا مزاج آگیا ہے- یہ وہ لوگ ہیں جو تبلیغی جماعت سے وابستہ ہیں، وہ اس کے مخالف نہیں- غلو کیا چیز ہے- غلو دراصل جمود (stagnation) کا نام ہے اور یہ ظاہرہ ہر تحریک میں بعد کو پیدا ہوجاتا ہے- تبلیغی جماعت اِس معاملے میں کوئی مستثنیٰ جماعت نہیں-
آپ نے مولانا الیاس کاندھلوی (وفات: 1944) کے جس ملفوظ کا ذکر کیا ہے، وہ ملفوظ بجائے خود درست ہوسکتا ہے، لیکن تحریکیں کسی ملفوظ پر نہیں چلتیں، تحریکوں کے ارتقا کے اپنے اسباب وعوامل (factors) ہوتے ہیں- یہی اسباب وعوامل ہیں جو تحریکوں کے حال اور مستقبل کا فیصلہ کرتے ہیں، نہ کہ کوئی ملفوظ-
سوال
1980 کے شروع کا کوئی مہینہ ہوگا جب میں نے الرسالہ اور مولانا صاحب کی بعض تصانیف دیکھی تھیں- پہلے میںنے الرسالہ کی ایک کاپی اٹھائی اور اس کے اوراق الٹ پلٹ کرکے دیکھا تو اس میں اس وقت چند آیتوں کا ترجمہ اور تفسیر تھی جو میں نے پڑھی اور کافی پسند آئی، پھر میںنے وہ الرسالہ خرید لیا اور اس وقت سے لے کر آج تک الرسالہ خریدتا آرہا ہوں اور بغور پڑھتا آرہا ہوں- الرسالہ ہاتھ میں آنے کے بعد جب تک اس کو پڑھ کر مکمل نہ کرلوں، چین نہیں ملتا - الرسالہ کے ساتھ ساتھ مولانا صاحب کی دیگر تصانیف میں سے 70% کتابیں بھی منگاکر پڑھ چکا ہوں- اس وقت مطالعہ میں جو کتاب چل رہی ہے، وہ ہے ’’کتاب معرفت‘‘-میری تعلیم بہت کم ہے، لیکن الرسالہ کے مسلسل مطالعے سےجو میں نے اثرات قبول کئے، وہ درج ذیل ہیں-
1- سب سے پہلا الرسالہ پڑھ کر محسوس کیا کہ الرسالہ میرے احساس کی علمی پیاس بجھانے والا ایک ذریعہ ہے- الرسالہ کا مطالعہ شروع کرنے سے پہلے میں ہر دینی اجتماع میں شریک ہو کر دینی باتیں سنتا تھا، مگر علمی ذوق تشنہ رہتا تھا- جب الرسالہ کے ساتھ ساتھ دیگر کتابیں بھی پڑھ لیں تو ایسا لگا کہ اب تلاش حق کا ذریعہ الرسالہ اور مولانا کی دیگر تصانیف ہیں- الرسالہ کا مطالعہ کرنے سے پہلے میرا ذہن بند تھا اور پھر محسوس ہواکہ الرسالہ سے پہلے حق کی پکڈنڈیوں پر چل رہا تھا اور اب شاہ راہ پرچلنے لگا ہوں-
2- الرسالہ کا مطالعہ کرنے پہلے میرے ذہن کی یہ حالت تھی کہ میں اگر کسی موضوع پر غور کرتا تو کچھ سوچنے کے بعد میرا ذہن آگے سوچنے سے رک جاتا تھا- اور ایک طرح کی پریشانی محسوس ہوتی تھی- لیکن جب سے الرسالہ پڑھنا شروع کیا، آہستہ آہستہ میرا ذہن کھلتا گیا اور کسی بھی بات پر غور کرنا آسان ہوتا گیا، یہاں تک کہ اب کوئی بھی بات یا مسئلہ آسانی سے سمجھ میں آجاتا ہے- میں نے صرف الرسالہ پر ہی اکتفا نہیں کیا، بلکہ میں نے آپ کی دیگر تصانیف کا بھی مطالعہ کیا-جیسے ’’الاسلام‘‘، ’’تجدید دین‘‘ وغیرہ-
3- ہر ماہ کے الرسالہ کا انتظار رہتا ہے اور ملتے ہی پڑھناشروع کردیتا ہوںاور جب تک ختم نہ کرلوں، چین نہیں ملتا-یہی حال باقی کتابوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے-
4- الرسالہ کے مطالعہ سے دین اور دنیا کی اہم معلومات حاصل ہوتی رہتی ہیں-
5- الرسالہ کو مسلسل پڑھتے رہنے سے خود ایسا احساس ہوتاہے کہ آپ خودبھی ڈگری یافتہ ہوگئے ہیں- جن حضرات نے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ دی ہو، وہ مولانا کا لٹریچر پڑھیں-
6- الرسالہ کے مطالعہ سے ذہن کا ارتقا ہوتا ہے- ذہن میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے، اور ہم خود ہی غور فکر کرنے لگتے ہیں-
7- الرسالہ کے مسلسل پڑھتے رہنے سے آدمی اپنی گفتگو میں مثبت انداز اختیار کرتا ہے-
8- الرسالہ کے متواتر مطالعہ سے اپنے اندر کی جھجھک بھی دور ہوجاتی ہے- کسی مسئلہ پر چند صاحبان کے درمیان خود بھی کچھ بولنے کی ہمت پیدا ہوجاتی ہے-
9- الرسالہ کے پڑھنے والوں کے اندر سنجیدگی پیدا ہوجاتی ہے-
10- الرسالہ پڑھنے والے حضرات لایعنی باتوں سے پرہیز کرتے ہیں اور اپنے آپ خاموشی سے غور وفکر میں مشغول ہوتے ہیں الرسالہ کا مشن ہی یہ ہے کہ ہر مسلمان آخرت پسند بنے-
11- الرسالہ کے لگاتار پڑھنے سے سب سے بڑا فائدہ قرآن وحدیث کی تفسیر پڑھنے سے ملتا ہے - گویا الرسالہ کے مطالعہ سے ہم تفسیر کا مطالعہ بھی جاری رکھے ہوتے ہیں-
12- الرسالہ کے مسلسل مطالعے کے ذریعہ ہمارے ذہن میں پیدا ہونے والے سوالوں کے جوابات بھی ملتے رہتے ہیں-
13- الرسالہ کے مسلسل مطالعے سے اپنی اردو کے ساتھ انگریزی بھی ٹھیک ہوجاتی ہے- جن الفاظ کے معنی ہم ڈکشنری میں نہیں دیکھ سکتے، وہ الرسالہ میں مل جاتے ہیں-
14- ڈگری یافتہ حضرات کے لئے صرف ڈگری کافی نہیں ہوتی، ان کو چاہئےکہ وہ کسی عالمِ دین کے لٹریچر کا مطالعہ کریں- مطالعہ کے لئے مولانا صاحب کا لٹریچر بہترین لٹریچر ہے- ساتھ میں الرسالہ کا بھی مطالعہ جاری رکھیں-
آخر میں مولانا صاحب کا شکریہ اداکرنا چاہتا ہوں جنھوں نے الرسالہ کے ذریعے اور اپنی تصانیف اور لٹریچر سے ہم کو ایک اچھا مسلمان اور ہندستان کے لئے ایک اچھا شہری بننے میں بہت مدد دی ہے- (سرفراز الدین، ٹیلر ماسٹر، بنگلور)
جواب
یہ تحریر اِس بات کی ایک اچھی مثال ہے کہ دعوت کا نشانۂ عمل متلاشی افراد (individual seekers) ہیں، نہ کہ بھیڑ ایکٹوزم (crowd activism) ، یعنی متلاشی افراد کو لے کر اُن پر محنت کرنا، نہ کہ بھیڑ اکھٹا کرکے اُن کے سامنے تقریریں کرنا-
ہر سماج میں ایسے افراد موجود ہوتے ہیں جن کے اندر روحِ تجسس (spirit of inquiry) پائی جاتی ہے، جو افکار کے جنگل میں یہ جاننا چاہتے ہیں کہ سچائی کیا ہے- دعوت کا عمل ابتداء ً عمومی انداز میں شروع ہوتا ہے، لیکن اِس عمل کا مقصد متجسس افراد کو دریافت کرنا ہے- جب داعی کو ایسے افراد مل جائیں تو اس کو چاہئے کہ وہ ایسے افراد پر اپنی ساری طاقت خرچ کرے-
اِس معاملے میں داعی کا مزاج چیونٹی جیسا مزاج ہوتاہے- چیونٹی جب کسی ڈھیر کو پاتی ہے تووہ یہ نہیں دیکھتی کہ وہاں دوسری کیا کیا چیزیں موجودہیں- وہ صرف شکر (sugar)کے دانوں کو دیکھتی ہے اور اپنی پوری توجہ شکر کے اِنھیں دانوں پر لگا دیتی ہے- یہی داعی کا طریقہ ہے- داعی کو چاہئے کہ وہ اِسی چیونٹی کلچر کو اختیار کرے-
اجتماعی حالات خواہ کتنے ہی زیادہ بگڑے ہوئےہوں، لیکن ہر سماج میں متلاشی حق افراد ضرور موجود ہوتے ہیں- ایسے ہی افراد داعی کا اصل سرمایہ ہیں- یہ افراد تعلیم یافتہ بھی ہوسکتے ہیں اور غیر تعلیم یافتہ بھی- وہ سند اور ڈگری رکھنے والے بھی ہوسکتے ہیں اور سند اور ڈگری نہ رکھنے والے بھی— مذکورہ خط اِس معاملے کی ایک اچھی مثال ہے-
واپس اوپر جائیں