Pages

Thursday 1 December 2011

Al Risala | December 2011 (الرسالہ،دسمبر)

2

-اہلِ جنت کے دو گروہ

3

- جنت کا سودا

4

- خدا اور بندہ

5

- قابلِ رشک افراد

6

- فہرستِ آرزو

7

- جنت کا تصور

8

- فرد، ریاست

9

- قرآن مین

10

- اعلیٰ شکر

11

- امیج کا مسئلہ

12

- مذہب اور عقلیات

26

- ّ جنت : ایک آفاقی تصور

34

- اعتماد کی اہمیت

35

- تجارت کا اصول

36

- اچانک ترقی، تدریجی ترقی

37

- ترجیح کا مسئلہ

38

- سوال وجواب

43

- خبرنامہ اسلامی مرکز— 214


اہلِ جنت کے دو گروہ

قرآن کی سورہ الواقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اہلِ جنت کے دو بڑے طبقے ہوں گے۔ ایک، السابقون (سبقت کرنے والے) اور دوسرے، اصحاب الیمین (دائیں طرف والے) پہلے گروہ کے لیے آخرت میں شاہانہ انعامات ہیں، اور دوسرے گروہ کے لیے عام انعامات (56: 10-27) ۔
درجہ اول اور درجہ دوم میں، یہ فرق کس بنیاد پر ہوگا۔ قرآن کے مطابق، اس کی وجہ فتح (57: 10) ہے۔ جو لوگ فتح سے پہلے کے دور میں حق کو مانیں اور اس کا ساتھ دیں، وہ السابقون کا درجہ پائیں گے۔ اور جو لوگ فتح کے بعد کے دور میں حق کو قبول کریں اور اس کے ساتھی بنیں، وہ اصحاب الیمین کے گروہ میں جگہ پائیں گے۔ یہ محض زمانے کا فرق نہیں، بلکہ نوعیتِ ایمان کا فرق ہے۔
حق جب ظاہر ہوتا ہے تو ابتداء ً وہ مجرّد صورت میں ہوتا ہے۔ اس کی حیثیت ایک ایسی نظری حقیقت کی ہوتی ہے جس کی پشت پر دلائل کی طاقت کے سوا کوئی اور طاقت موجود نہ ہو۔ بعد کے زمانے میں جب حق کی دعوت فتح و غلبہ کے مرحلے میں داخل ہوجاتی ہے تو اُس وقت حق کی حیثیت صرف نظری صداقت کی نہیں ہوتی، اب ہر آنکھ والے کو حق ایک ٹھوس واقعہ کی صورت میں دکھائی دینے لگتا ہے۔
پہلے دور میں حق کو لفظی دلیل سے پہچاننا تھا، دوسرے دور میں حق کی اہمیت کو منوانے کے لیے کھلے ہوئے واقعات موجود ہوتے ہیں۔ پہلے دور میں حق کو مانتے ہی آدمی اپنے ماحول کے اندر اجنبی بن جاتا تھا، دوسرے دور میں حق کے ساتھ وابستہ ہونا آدمی کو عزت اور مقبولیت کا مقام دیتا ہے۔ پہلے دور میں حق کا ساتھ دینے والا صرف کھوتا ہے، دوسرے دور میں حق کا ساتھ مزید پانے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ پہلے دور میں بنیاد کے نیچے دفن ہونا پڑا تھا، دوسرے دور میں گنبد کی بلندیاں مل جاتی ہیں جن کے اوپر آدمی کھڑا ہوسکے۔ معرفت کا یہی وہ فرق ہے جس کی بنا پر پہلے مرحلے میں حق کا ساتھ دینے والے کے لیے درجۂ اول کا مقام ہے اور دوسرے مرحلے میں حق کا ساتھ دینے والے کے لیے درجۂ ثانی کا مقام۔
واپس اوپر جائیں

جنت کا سودا

حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من خاف أدلج، ومن أدلج بلغ المنزل۔ ألا، إن سلعۃ اللہ غالیۃٌ۔ ألا، إنّ سلعۃ اللہ الجنۃ (الترمذی، رقم الحدیث: 2388 ) یعنی جس کو اندیشہ ہوتا ہے، وہ سفر میں اِدلاج کرتا ہے۔ اور جو ادلاج کرتا ہے، وہ منزل پر پہنچتا ہے۔ سن لو، اللہ کا سودا بہت قیمتی ہے۔ سن لو، اللہ کا سودا جنت ہے۔
’ادلاج‘ کا مطلب ہے — رات کے اندھیرے میں سفر شروع کرنا۔ قدیم عرب میں یہ رواج تھا کہ مسافر رات کے اندھیرے سے اپنا سفر شروع کرتا تھا، تاکہ صبح کو دھوپ تیز ہونے سے پہلے وہ اپنی منزل پر پہنچ جائے۔ یہ صحرائی سفر کا طریقہ تھا، کیوں کہ صحرائی سفر میں یہ اندیشہ ہوتا تھا کہ اگر آدمی تیز دھوپ کی زد میں آجائے تو وہ خود بھی مرجائے گا اور اس کا اونٹ بھی ہلاک ہوجائے گا۔
جنت کے طالب کا معاملہ بھی یہی ہے۔ جنت کے طالب کو نہایت دور اندیشی کے ساتھ اپنا منصوبہ بناناہے۔ اس کو اتنی زیادہ تیاری کے ساتھ جنت کے سفر پر روانہ ہونا ہے کہ کوئی قابلِ قیاس یا ناقابلِ قیاس عذر (excuse) اس کے راستے میں رکاوٹ نہ بن سکے۔ کوئی بھی چیز اس کو درمیانی راستے سے منحرف نہ کردے۔ کوئی بھی چیز اس کو سیدھے راستے سے ہٹانے والی ثابت نہ ہو۔
ایک تاجر دنیا کے تجارتی سودے کے لیے آخری حد تک اہتمام کرتا ہے۔ خدا کا سودا جو کہ جنت ہے، وہ تمام سودوں سے زیادہ قیمتی سودا ہے۔ اِس لیے آدمی کو چاہیے کہ وہ جنت کے سفر کی منصوبہ بندی میں آخری حد تک اہتمام کرے، جس طرح وہ دنیا کے سفر میں منصوبہ بندی (planning) کا اہتمام کرتاہے۔ وہ اپنے آپ کو ہر طرح غفلت کا شکار ہونے سے بچائے— جنت کسی انسان کو حقیقی عمل کی بنیاد پر ملے گی، نہ کہ محض خوش فہمیوں کی بنیاد پر۔
منصوبہ بند عمل کامیابی کا ذریعہ ہے۔ دنیا کی کامیابی منصوبہ بند عمل کے ذریعہ ممکن ہوتی ہے۔ اِسی طرح آخرت کی کامیابی بھی منصوبہ بند عمل (Akhirat-oriented planning) کے ذریعہ ہی ممکن ہوگی۔
واپس اوپر جائیں

خدا اور بندہ

علی بن ربیعہ کہتے ہیں کہ میں نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو دیکھا۔ ان کے پاس سواری کے لیے ایک جانور لایا گیا۔ جب انھوں نے اپنا پاؤں اس کے رکاب میں رکھا تو کہا : بسم اللہ۔ پھر جب وہ اس کی پیٹھ پر بیٹھ گئے تو کہا: الحمد للہ، سبحان الذی سخر لنا ہذا وما کنا لہ مقرنین وإنّا إلیٰ ربنا لمنقلبون۔ اس کے بعد انھوں نے تین بار اللہ کی حمد کی اور تین بار اللہ کی تکبیر کی۔ پھر کہا: سُبحانک لا إلٰہ إلا أنت قد ظلمت نفسی فاغفرلی۔راوی کہتے ہیں کہ ا س کے بعد حضرت علی ہنس پڑے۔ میںنے پوچھا کہ اے امیر المومنین، آپ کس بات پر ہنسے۔انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ نے سوار ہوتے ہوئے وہی کہا جو میں نے کہا۔ پھر آپ ہنس پڑے۔ میںنے پوچھا کہ اے خدا کے رسول، آپ کیوں ہنسے۔ آپ نے فرمایا: یعجب الربُّ تبارک وتعالیٰ من عبدہ إذا قال ربّ اغفرلی۔ ویقول علم عبدی أنہ لا یغفر الذنوب غیری۔ (تفسیر ابن کثیر، 4/124 ) بندہ جب کہتا ہے کہ اے میرے رب، مجھے بخش دے تو اللہ تعالیٰ اس پر تعجب کرتا ہے اور خوش ہوتا ہے۔ وہ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے اس کو جانا کہ میرے سوا کوئی بھی گناہوں کو بخشنے والا نہیں۔
رَبِّ اغْفِرلی (میرے رب، مجھے بخش دے) کہنا کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ ایک عظیم ترین دریافت کے نتیجے میں ظاہر ہونے والا کلمہ ہے، جو ایک مومن کی زبان سے نکل پڑتا ہے۔یہ کلمہ کسی کی زبان سے اُس وقت نکلتا ہے جب کہ وہ غیب کے پردے کو پھاڑ کر خدا کی موجودگی (presence of God) کو دریافت کرے۔ یہ آزادی کے باوجود اس بات کا اقرار ہے کہ میں اپنی آزادی کو بے قید استعمال کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ یہ حشر کو دیکھے بغیر حشر کے واقعہ پر یقین لانا ہے۔ یہ اعمال کے اخروی نتائج کی حقیقت کا اُس وقت اقرار کرنا ہے جب کہ ابھی وہ ظاہر نہیں ہوئے۔ یہ خدا کے ظہور سے پہلے خدا کے جلال وجبروت کے آگے جھک جانا ہے۔ یہ کلمہ، معرفت کا کلمہ ہے، اور معرفت بلاشبہہ اِس دنیا کا سب سے بڑا عمل ہے۔
واپس اوپر جائیں

قابلِ رشک افراد

ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میںآئی ہے۔ سنن البیہقی کے الفاظ یہ ہیں: ألا أخبرکم عن أقوام لیسوا بأنبیائَ ولا شہدائَ یغبطہم یوم القیامۃ الأنبیائُ والشہداء بمنازلہم من اللہ عزّوجلّ علی منابر من نور یکونون علیہا۔ قالوا: مَن ہم۔ قال: الذین یحبِّبُون عباد اللہ إلی اللہ، ویحبِّبُون اللہ إلی عبادہ، وہم یمشون علی الأرض نُصحاء (شعب الإیمان، رقم الحدیث: 405 ) یعنی کیا میں تم کو بتاؤں ایسے لوگوں کے بارے میں جو نہ پیغمبر ہوں گے اور نہ شہید، لیکن قیامت کے دن پیغمبراور شہید ان پر رشک کریں گے، اُن کے اُس درجے کی وجہ سے جو اللہ کے یہاں ان کو حاصل ہوگا۔ وہ وہاں نور کے ممبروں پر ہوں گے۔ پوچھا گیا کہ وہ کون لوگ ہوں گے۔ آپ نے فرمایا کہ وہ لوگ جو اللہ کے بندوں کو اللہ سے محبت کرنے والا بنائیں، اور اُن کو اِس قابل بنائیں کہ اللہ اُن سے محبت کرے اور وہ زمین پر چلیں لوگوں کا ناصح (well-wisher)بن کر۔
انبیاء کے لیے قابلِ رشک بننے والے یہ کون لوگ ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کو اِس طرح دریافت کریں کہ اللہ اُن کا محبوب بن جائے۔ وہ اللہ کی محبت میں جینے لگیں۔اللہ سے بڑی کوئی ذات نہیں، اِس لیے اللہ کی محبت سے بڑا کوئی عمل نہیں ہوسکتا۔ جب کسی انسان کا یہ حال ہوگا تو وہ دوسروں کو بھی وہی اعلیٰ ترین چیز دینے کی کوشش کرے گا جو اُس نے خود اپنے لیے پائی ہے۔ وہ اپنی ساری توانائی کو استعمال کرکے یہ کوشش کرے گا کہ دوسرے لوگ بھی خدا کو اُس کی اُس اعلیٰ حیثیت میں دریافت کریں جب کہ خدا کی معرفت اُن کے دلوںمیں اتر جائے، جب کہ خدا اُن کے لیے وہ ہستی بن جائے جس سے وہ سب سے زیادہ محبت کرتے ہوں، جب کہ خدا کی ذات اُن کے لیے وہ اعلیٰ ہستی بن جائے جو اُن کے تمام قلبی جذبات کا مرکز ہو۔ جو لوگ اِس طرح اللہ کو اپنا محبوب بنالیں تو ایسے لوگ خود بھی اللہ کے محبوب بندے بن جاتے ہیں— یہی ایمان کا اعلیٰ ترین درجہ ہے۔
واپس اوپر جائیں

فہرستِ آرزو

کلیری سمپسن (Cleary Simpson) امریکا کی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون ہیں۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد وہ مختلف قسم کے وقتی جاب کرتی رہیں۔یہاں تک کہ ان کی تمناؤں کے مطابق، اُن کو امریکا کے ٹائم میگزین میں اپنی پسند کا کام مل گیا۔ اس وقت وہ ٹائم میگزین کے دفتر (نیویارک) میں ڈائرکٹر (Advertising Sales Director) ہیں۔
ٹائم کے شمارہ 5 اگست 1991 (صفحہ 4 ) میں مذکورہ خاتون کا ہنستا ہوا پُر ابتہاج فوٹو چھپا ہے۔وہ اِس عہدے کے ملنے پر انتہائی خوش ہیں۔ تصویر کے نیچے اُن کا پر مسرت تاثر اِن لفظوں میں درج ہے— ٹائم کے لیے کام کرنا ہمیشہ سے میری فہرستِ آرزو پر تھا:
Working for Time was always on my wish list.
ہر آدمی کسی چیز کو سب سے بڑی چیز سمجھتا ہے، وہ اس کی تمنا میں جیتا ہے، وہ اس کا خواب دیکھتا ہے، وہ اِس انتظار میں رہتا ہے کہ کب وہ دن آئے جب کہ وہ اپنی اِس محبوب چیز کو پالے۔ یہ چیز اس کی فہرستِ آرزو میں سب سے زیادہ اہمیت کے ساتھ درج ہوتی ہے۔ موجودہ دنیا میں کوئی بھی ایسا آدمی نہیں جس کے لیے کوئی نہ کوئی چیز اِس طرح مرکزِ تمنا بنی ہوئی نہ ہو۔
مومن وہ ہے جس نے جنت کو اپنی فہرستِ آرزو (wish list) میں لکھ رکھا ہو، یعنی ابدی اور معیاری نعمتوں کی وہ دنیا جہاں وہ اپنے رب کو دیکھے گا، جہاں سچے انسانوں سے اس کی ملاقات ہوگی، جہاں وہ خدا کی رحمتوں کے سائے میں زندگی گزارے گا، وہ دنیا جو لغو اور تاثیم (56: 25) سے پاک ہوگی، جہاں صَخب (شور) اور نصب (تکان) کو ختم کردیا جائے گا، جس کا ماحول چاروں طرف حمد اور سلامتی سے بھراہوا ہوگا(56: 26) ، جہاں خوف اور حزن (35: 34) کو حذف کیا جاچکا ہوگا، جہاں ایسی آزادی ہوگی جس پر کوئی قید نہیں (76: 20) ، جہاں ایسی لذتیں ہوں گی جن کے ساتھ محدودیت (limitations) شامل نہیں۔
واپس اوپر جائیں

جنت کا تصور

توفیق الحکیم (وفات: 1987 ) مصر کے معروف ادیب تھے۔ خود اپنے بیان کے مطابق، وہ فکری تضاد میں مبتلا تھے۔ انھوںنے اپنے بارے میں لکھا ہے کہ: إنی أعیش فی الظاہر کما یعیش الناس فی ہذہ البلاد۔ أما فی الباطن، فما زالت اٰلہتی وعقائدی ومثلی العُلیا۔ کل آلامی مرجعہا ہذا التناقض بین حیاتی الظاہرۃ وحیاتی الباطنۃ (بظاہر میں ایسی ہی زندگی گزار رہا ہوں جیسا کہ عام لوگ اِن شہروں میں زندگی گزارتے ہیں۔ لیکن میرے باطن میں میرے کچھ معبود وعقائد اور بلند آئڈیلز ہیں۔ میرے سارے کرب کا سبب میری ظاہری اور باطنی زندگی کا یہی تناقص ہے)۔
توفیق الحکیم نے لکھا ہے کہ: إنی لا أستطیع أن أعیش فی جنۃ لا أطّلع فیہا (’’أنا‘‘ لعباس محمود العقّاد، صفحہ 126)یعنی اگر جنت میں مجھ کو اپنی معلومات میں اضافہ کرنے کا موقع نہ ملا، تو ایسی جنت میں قیام میرے لیے ناممکن ہوجائے گا۔
توفیق الحکیم اور اِس طرح کے دوسرے لوگوں کے ذہن میں جنت کا جو تصور ہے، وہ یہ کہ جنت صرف ایک عیش کدہ ہے۔ ذہین انسان کو اِس قسم کا تصورِ جنت زیادہ اپیل نہیں کرتا، کیوں کہ جسمانی راحت کے علاوہ، انسان کی ایک اور ضرورت ہے، اور وہ عقلی تسکین ہے۔ ہمارے علماء اور واعظین عام طورپر جنت کا جو تصور دیتے ہیں، اُس میں یہ ہوتا ہے کہ جنت میں آرام وراحت کا سامان تو وافرمقدار میں ہوگا، لیکن وہاں عقل ودانش کی تسکین کا کوئی سامان نہیں ہوگا۔ جدید ذہن کو جنت کا یہ تصور اپیل نہیں کرتا۔ وہ اس کو اپنی حقیقی طلب سے کم تر سمجھ کر نظر انداز کردیتاہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جنت میںآرام وراحت کا سامان تو صرف اہلِ جنت کی ضیافت کے لیے ہوگا۔ اہلِ جنت کا اصل مشغلہ تو یہ ہوگا کہ وہ کلمات اللہ (31: 27)کو اَن فولڈ کرکے ایک بر تر تہذیب (super civilization) کو وجود میں لائیں گے۔ یہ ایک ربانی تہذیب (divine civilization)یہ ایک پر مسرت ذہنی اور فکری سرگرمی (intellectual activities)کا دور ہوگاجو ابدی طورپر جاری رہے گا۔
واپس اوپر جائیں

فرد، ریاست

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صلّوا کما رأیتمونی أصلی (متفق علیہ؛ مشکاۃ، رقم الحدیث 638 ) یعنی نماز اُس طرح پڑھو جیسا کہ تم مجھ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔ یہ آپ نے نماز کے بارے میں فرمایا۔ لیکن اِسی طرح آپ نے حکومت کے بارے میں نہیں فرمایا کہ— تم میری حکومت کے نمونے کو دیکھو اور تم بھی اُسی طرح حکومت قائم کرو۔ جو الفاظ آپ نے نماز کے بارے میں فرمائے، وہ الفاظ آپ نے حکومت کے بارے میں نہیں فرمائے۔
اِس فرق پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ فرد کا معاملہ الگ ہے اور ریاست کا معاملہ الگ۔ انفرادی رویہ (individual conduct) کے معاملے میں ہمارے سامنے ایک آئڈیل ماڈل ہے اور وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کاماڈل ہے۔ ہر مومن کو اپنے انفرادی رویے کے معاملے میں معیار پسند (idealist) ہونا چاہئے۔ اس کو ہمیشہ یہ کوشش کرنا چاہیے کہ وہ اپنی زندگی کو پیغمبر کے نمونے پر ڈھالے، لیکن سیاسی ڈھانچہ (political set up) کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ سیاسی یا حکومتی ڈھانچے کے معاملے میں ہمیشہ موجود اجتماعی حالات (statusquo)کو دیکھا جائے گا اور اس کی رعایت کرتے ہوئے سیاسی ڈھانچہ بنایا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں خلیفہ کے تقرر کے معاملے کا کوئی ایک ماڈل نہیں۔ حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی اور حضرت عمر بن عبد العزیز۔ اسلام میں یہ پانچ معیاری خلفا مانے گئے ہیں۔ مگر جیسا کہ معلوم ہے، پانچوں کے تقرر کا معاملہ ایک دوسرے سے مختلف ہے۔
بعد کے زمانے کے فقہاء نے دار الاسلام کے نام سے ایک سیاسی ماڈل وضع کیا۔ یہ ایک اجتہادی معاملہ تھا جو درست نہ تھا۔ چناں چہ بعد کے زمانے میں لوگوں نے دارالاسلام کو معیار بنا کر اپنے زمانے کی حکومتوں کو جانچنا شروع کیا اور جب حکومتی نظام کو اس کے مطابق نہیں پایا تو وہ حکمرانوں سے لڑنے لگے۔ اِس قسم کی لڑائیاں بلا شبہہ اسلام کے خلاف تھیں۔ کیوں کہ اسلام میں ڈھانچے کا تعین حالات کے اعتبار سے کیا جائے گا، نہ کہ کسی پیشگی طورپر وضع کردہ معیاری ماڈل سے۔
واپس اوپر جائیں

قرآن مین

خواجہ کلیم الدین صاحب امریکا میںرہتے ہیں۔ وہ ہمارے دعوتی مشن سے وابستہ ہیں۔ وہ امریکا میں بڑے پیمانے پر قرآن کا انگریزی ترجمہ پھیلارہے ہیں۔ دوسرے مختلف اشاعتی طریقوں کے علاوہ، اُن کا ایک طریقہ یہ ہے کہ وہ انٹرنیٹ کے ذریعہ لوگوں کے پتے حاصل کرتے ہیں۔ وہ اُن سے ٹیلی فون کے ذریعے ربط قائم کرتے ہیں۔ پھر وہ پوسٹ کے ذریعے لوگوں کو انگریزی ترجمہ قرآن کے نسخے بھیجتے ہیں۔ بذریعہ پوسٹ قرآن بھیجنے کا یہ سلسلہ برابر جاری رہتا ہے۔
خواجہ کلیم الدین صاحب کے گھر کے پاس جو پوسٹ آفس ہے، اس کے کارکن باربار کے تجربے کے بعد خواجہ کلیم الدین صاحب کو قرآن مین (Quran man) کہنے لگے ہیں۔ پوسٹ آفس والوں کے لیے یہی خواجہ کلیم الدین کی پہچان بن گئی ہے۔ خواجہ کلیم الدین صاحب جب قرآن کے پیکٹ لے امریکا کے مقامی کر پوسٹ آفس میں جاتے ہیں تو اُن کو دیکھ کر پوسٹ آفس کے کارکن کہتے ہیں کہ — دیکھو، قرآن مین آگیا:
Here comes the Quran man.
یہ گویا تاریخ کا اعادہ ہے۔ ساتویں صدی عیسوی میں جب قرآن نازل ہوا، اُس وقت اصحابِ رسول کا طریقہ یہ تھا کہ وہ عرب کے اندر اور عرب کے باہر لوگوں سے مل کر اُن کو قرآن سنانے لگے۔ وہ قرآن کے مُقری (پڑھ کر سنانے والے) بن گئے۔ یہ پرنٹنگ پریس کے زمانے سے قبل کی بات ہے۔ اب پرنٹنگ پریس کے زمانے میں داعی کو قدیم طرز کا مقری نہیں بننا ہے، بلکہ اس کو قرآن کا ڈسٹری بیوٹر (distributer) بننا ہے۔ ساتویں صدی عیسوی میں یہی داعی کی شناخت تھی۔ اکیسویں صدی عیسوی میں بھی یہی داعی کی شناخت ہے، اِس فرق کے ساتھ کہ پچھلے دور میں اُن کو مقری قرآن کا لقب ملا تھا۔ اب موجودہ دور میں اُن کو قرآن مین کہاجاتا ہے۔ یہ دور کا فرق ہے، نہ کہ حقیقتِ واقعہ کا فرق۔
واپس اوپر جائیں

اعلیٰ شکر

شیطانی اغوا کا اصل نشانہ یہ ہے کہ وہ انسان کو شکر کے راستے سے ہٹا دے (7: 17)۔ ہدایت اور گم راہی دونوں کا اصل خلاصہ یہی ہے۔ ہدایت یہ ہے کہ آدمی شکر کے احساس میں جینے والا ہو۔ اِس کے مقابلے میں، گم راہی یہ ہے کہ آدمی کا دل شکر کے جذبات سے خالی ہوجائے۔ شیطان یہی کام ہمیشہ کرتا رہا ہے، لیکن بعد کے زمانے میں شیطان کے لیے یہ ممکن ہوجائے گا کہ وہ لوگوں کو زیادہ بڑے پیمانے پر شکر ِ خداوندی کے راستے سے ہٹا سکے۔ اِسی لیے حدیث میںاِس فتنے کو دجّال یا دجّالیت سے تعبیر کیا گیا ہے۔
شکر کیا ہے۔ شکر دراصل، خدا کی نعمتوں کے اعتراف (acknowledgement) کا دوسرا نام ہے۔ یہ شکر ہر زمانے میں انسان سے مطلوب تھا۔ پچھلے زمانے میں بھی اور موجودہ زمانے میں بھی۔ کسی انعام پر مُنعم کا اعتراف کرنا، ایک فطری انسانی جذبہ ہے۔ لیکن اعتراف کے لیے ہمیشہ کسی پوائنٹ آف ریفرنس (point of reference) کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثلاً جب آپ کھانے کی کوئی چیز کھاتے ہیں، تو آپ کو فوڈ آئٹم کی صورت میں شکر، یا اعتراف کا ایک پوائنٹ آف ریفرنس مل جاتا ہے اور آپ کہتے ہیں کہ خدایا، تیرا شکرہے کہ تو نے مجھے یہ چیز کھانے کے لیے عطا کی۔
لیکن ایک شخص جو جدید علمِ نباتات (Botany) اور جدید علمِ زراعت (Agriculture) اور جدید علمِ باغ بانی (Horticulture) سے واقف ہو، اس کے لیے یہ ممکن ہوجائے گا کہ وہ کسی فوڈ آئٹم کی معنویت کو ہزاروں گُنا زیادہ اہمیت کے ساتھ دریافت کرسکے۔ اِس طرح اس کا احساسِ شکر، عام انسان کے مقابلے میں بہت زیادہ بڑھ جائے گا۔ جب وہ کہے گا کہ خدایا، تیرا شکر ہے کہ تو نے مجھے کھانے کے لیے یہ فوڈ آئٹم دیا، تو وہ ایک عظیم اہتزاز (super thrill) کے جذبے کے تحت، وہ الفاظ بولے گا جس کا تجربہ پہلے کسی انسان کو نہیں ہوسکتا تھا۔پہلا شخص جس حقیقت کو صرف ذائقہ لسانی کی سطح پر جانے گا، دوسرا شخص اس کو وسیع تر علمِ سائنس کی سطح پر دریافت کرے گا۔ پہلے شخص کا اعتراف اگر ایک سادہ اعتراف ہوگا، تو دوسرے شخص کا اعتراف ایک ہمالیائی اعتراف بن جائے گا۔
واپس اوپر جائیں

امیج کا مسئلہ

سی پی ایس (نئی دہلی) کی ایک خاتون ممبر مز نغمہ صدیقی نے جون 2011 میں دہلی سے امریکا کا سفر کیا۔ جہاز میں ان کی ملاقات ایک تعلیم یافتہ مسیحی شخص سے ہوئی۔ نغمہ صدیقی نے اُن کے سامنے سادہ اور پُرامن اندازمیں اسلام کا تعارف پیش کیا۔ گفتگو کے بعد مذکورہ مسیحی شخص نے کہا — تمھاری بات مسلمان جیسی بات نہیں ہے، بلکہ تمھاری بات ایک مسیحی جیسی بات ہے:
You don’t talk like a Muslim. You talk like a Christian.
مذکورہ مسیحی نے ایسا کیوں کہا۔ اِس کا سبب یہ تھا کہ اب تک وہ جن مسلمانوں سے ملا تھا، وہ اسلام کو سیاسی انداز میں پیش کرتے تھے۔ وہ شکایت کی بولی بولتے تھے۔ وہ مسلمانوں کے تشدد کو ظلم کے خلاف جہاد بتا کر اُس کو درست قرار دیتے تھے۔ اِس کے برعکس، نغمہ صدیقی نے جو بات کی، وہ تمام ترمثبت انداز میں تھی، وہ کسی بھی قسم کے منفی جذبے سے خالی مکمل طورپر تھی۔ یہ مذکورہ مسیحی کے لیے ایک نیا تجربہ تھا۔ اِسی احساس کے تحت اُس نے مذکورہ جملہ کہا۔
موجودہ زمانے میں اسلام کا سب سے بڑا مسئلہ امیج (image) کا مسئلہ ہے۔ مسلمان قومی سرگرمیوں میں مشغول ہیں اور وہ اس کو اسلام کا نام دئے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کی اِس غلط روش نے ساری دنیا میں اسلام کی تصویر بگاڑ دی ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی اس روش کو بدلیں، ورنہ وہ اللہ تعالیٰ کی سخت پکڑ میں آجائیں گے۔
قومی سیاست اور تشدد اپنے آپ میں بھی غلط ہے، اور جب قومی سیاست کو اسلامی سیاست کہاجائے اور تشدد کو اسلامی جہاد بتایا جائے تو غلطی صرف غلطی نہیں رہتی، بلکہ وہ سرکشی کا درجہ حاصل کرلیتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمانوںکا کیس صرف غلطی کا کیس نہیں ہے، بلکہ وہ سرکشی کا کیس ہے۔ یہ موجودہ زمانے کا سب سے بڑا منکر ہے اور اِس منکَر کا انکار بلاشبہہ مسلم رہنماؤں کے لیے سب سے بڑے فریضے کی حیثیت رکھتاہے۔
واپس اوپر جائیں

مذہب اور عقلیات

قدیم ترین زمانے سے مذہب کے دائرے میں یہ کوشش کی جاتی رہی ہے کہ مذہب کے عقائد کو عقلی اصولوں کے مطابق، صحیح ثابت کیا جائے۔ مذہب میں چوں کہ خدا کے عقیدے کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، اِس لیے فطری طورپر بڑے بڑے دماغ اِس میں مصروف رہے ہیں کہ وہ عقلی دلائل کی بنیاد پر خدا کے وجود کو ثابت شدہ بنائیں۔ خدا ہماری دنیا کا خالق اور مالک ہے۔ اِس اعتبار سے بلا شبہہ یہ تمام کاموں میںسب سے زیادہ بڑا کام ہے کہ خدا کے وجود کو انسانی عقل کے معیار پر ثابت شدہ بنایا جائے۔ انسان ہمیشہ عقل کی روشنی میں سوچتا ہے، اِس لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ انسان اپنی عقل کے معیار پر خدا کی معرفت حاصل کرے، تاکہ خدا کے بارے میں وہ اُس اعلیٰ یقین کا درجہ پاسکے جو خداوندِ عالم کی نسبت سے مطلوب ہے۔
مگر عجیب بات ہے کہ پوری انسانی تاریخ اِس معاملے میں ایک مایوس کُن تصویر پیش کرتی ہے۔ بڑے بڑے دماغوں کی کوششوں کے باوجود یہ مقصد اپنے مطلوب معیار پر حاصل نہ ہوسکا۔ اِس کا دوسرا عظیم تر نقصان یہ ہے کہ پوری تاریخ میں، کچھ استثنائی افراد کو چھوڑ کر، عام طورپر انسان خدا کی اعلیٰ معرفت سے محروم رہا ہے۔ خدا کا نام لینے والے تو بے شمار تعداد میں موجود رہے ہیں، اور آج بھی موجودہیں، لیکن وہ انسان جو خدا کی اعلیٰ معرفت سے بہرہ ور ہو، جس کو خدا کی معرفت اُس اعلیٰ درجے میں حاصل ہو، جو سینے کے اندر ایک طوفان برپا کردیتی ہے، جو دل ودماغ کے اندر ایک زلزلہ کے ہم معنیٰ بن جاتی ہے، جب کہ انسان کی زبان سے حمدِ خداوندی کا وہ کلمہ نکلے جو کائناتی میزان کو بھر دینے والا ہو، انسانی تاریخ، تھوڑے سے افراد کو چھوڑ کر، ایسے خدا پرست افراد سے خالی ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ انسان کو اس کے اعلیٰ معیارِ عقل پر خدا کے عقیدہ کو اس کے لیے قابلِ ادراک نہ بنایا جاسکا۔
مذہب اور عقلیات کی یہ کہانی فلاسفہ (philosophers) سے شروع ہوتی ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے دماغ فلسفیانہ غوروفکر میں مشغول رہے ہیں۔ اِن لوگوں نے چاہا کہ وہ خدا کے عقیدے کو اعلیٰ تعقّل کی سطح پر قابلِ فہم بنائیں۔ لیکن وہ سب کے سب اِس مقصد میں ناکام رہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ اِن فلسفیوں کے پاس غور وفکر کے لیے جو فریم ورک (framework) تھا، وہ ایک محدود فریم ورک تھا۔ اِس محدود فریم ورک کے تحت، اُنھیں خداکے عقیدے کو ایک ثابت شدہ حقیقت بنانا تھا، لیکن اُن کا محدود فریم ورک، خدا کو اپنے تصور میں لانے کے لیے بالکل ناکافی تھا۔ اِس لیے غیر معمولی فکری کوشش کے باوجود، وہ خدا کے بارے میں اعلیٰ معرفت کا شعور دینے میں ناکام رہے۔
مثال کے طورپر تمام فلاسفہ کا مشترک ذہن اپنے فلسفیانہ فریم ورک کی بنا پر یہ تھا کہ وہ اعلیٰ حقیقت کو ایک غیر شخصی وجود (impersonal being) تصور کرتے تھے۔ اِس بنا پر انھوں نے خدا کو عالمی روح(world spirit) یا عالمی تصور (world idea) جیسا نام دیا۔ مثلاً برکلے اورکانٹ اور ہیگل، وغیرہ۔ اِس تصور کے تحت، وہ فلسفیانہ فکر پیدا ہوا، جس کو آئڈیل ازم(idealism) کہاجاتا ہے۔ فلسفیانہ الٰہیات(philosophical theology) کا دوسرا نام آئیڈیل ازم ہے۔
اِس کے بعد ساتویں صدی عیسوی میں اسلام کا دور آیا۔ عباسی خلافت کے زمانے میں ایک نیا علم پیداہوا، جوعلمِ کلام(theology) کہاجاتاہے۔ جو لوگ اِس علم میں مشغول ہوئے، وہ متکلمین (theologists) کے نام سے مشہورہیں۔ متکلمین اسلام کے اِس گروہ نے ازسرِ نو یہ کوشش کی کہ وہ مذہبی عقیدہ، یا خدائی عقیدہ کو عقل کی اصطلاحوں میں بیان کریں۔ لیکن ان کی کم زوری یہ تھی کہ اُن کے پاس فریم ورک کے نام سے جو چیز موجود تھی، وہ دوبارہ یونانی منطق (Greek logic) تھی۔
یونانی منطق، دراصل قیاسی منطق (syllogism) کا دوسرا نام ہے۔ یہ منطق کا وہ طریقہ ہے، جو سائنسی منطق (scientific logic) کے ظہور میںآنے سے پہلے استعمال ہوتا تھا۔ مسلم متکلمین کے پاس دلیل قائم کرنے کے لیے یہی قدیم منطق قابلِ حصول تھی۔ یہ منطق، تعقل پسند انسان کو مطمئن کرنے کے لیے ناکافی تھی۔ اِس بنا پر مسلم متکلمین بھی عقلیاتِ اسلام کے سفر کو زیادہ آگے نہ بڑھا سکے۔ وہ بھی اِس معاملے میں اُسی طرح ناکام ثابت ہوئے، جس طرح اُن سے پہلے فلاسفہ (philosophers) اِس معاملے میں ناکام ثابت ہوچکے تھے۔
اِس کے بعد انیسویں صدی اوربیسوی صدی میں جدید سائنس (modern science)کا زمانہ آیا۔ اِس زمانے میں فطرت میں چھپے ہوئے نئے حقائق دریافت ہوئے۔ اِن حقائق نے تاریخ میں پہلی بار وہ علمی بنیاد فراہم کی، جس کی مدد سے الٰہیات (theology) کو ازسرِ نو سائنسی الٰہیات (scientific theology) کے طورپر مرتب کیا جاسکے۔ سائنسی الٰہیات کے ظہور نے اِس بات کو آخری حد تک ممکن بنا دیا کہ خدا پرستانہ عقائد کو خود اُس علمی معیار پر مدلل کیا جاسکے، جس کو انسان کے نزدیک مسلّمہ عقلی معیار کی حیثیت حاصل ہوچکی ہے۔
مگر عجیب بات ہے کہ یہ جدید سائنسی امکان اپنی اعلیٰ ترین صورت میں سامنے آیا، لیکن اُس کو الٰہیات کے شعبے میںاستعمال نہ کیا جاسکا۔ جدید سائنس کے ظہور کے بعد علم کے سیکڑوں شعبوں میںایک انقلاب آگیا۔ ہر شعبے میں یہ کوشش کی گئی کہ علوم کو جدید سائنسی معیار پر ڈیولپ کیا جاسکے۔ علمِ خلیّات (cytology) سے لے کر علمِ فلکیات (astronomy) تک بے شمار علمی شعبوں کو سائنسی ترقی کا درجہ ملا، لیکن الٰہیات کا علم اِس اعتبار سے ایک مستثنیٰ علم بنا رہا۔
بیسویں صدی ، سائنس کی زبردست سرگرمیوں کی صدی ہے، مگر الٰہیات کے اعتبار سے یہ صدی کسی حقیقی سرگرمی سے خالی نظر آتی ہے۔ میرے علم کے مطابق، بیسویں صدی میں دو ایسے آدمی اٹھے، جو ایک طرف تو پورے معنوں میں سائنٹسٹ تھے، اور دوسری طرف، بظاہر وہ اِس بات کا شعور رکھتے تھے کہ اب وقت آگیا ہے کہ الٰہیات کو جدید سائنس کی بنیاد پر مرتب کیا جائے۔ اور اِس طرح، الٰہیات کو وہی درجہ دے دیا جائے جو درجہ دوسرے علومِ انسانی کو حاصل ہے۔ یہ دو آدمی حسب ذیل تھے:
سرجیمز جینزSir James Jeans (1877-1946)
ڈاکٹر عبد السلام Dr. Abdus-Salam (1926-1996)
سر جیمز جینز اور ڈاکٹر عبد السلام، دونوں نے جدید الٰہیات کے موضوع پر کچھ جُزئی، لیکن اہم کام انجام دیا۔ مثلاً سر جیمزجینز نے اپنی کتاب (The Mysterious Universe, 1930) میں خالص سائنسی تجزیہ (Scientific analysis)کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ کائنات اتنی زیادہ با معنیٰ ہے کہ وہ الل ٹپ (at random) طورپر وجود میں نہیں آسکتی، یقینا وہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت وجود میںآئی ہے۔ سر جیمز جینز نے لکھا ہے کہ کائنات کا خالق ایک ریاضیاتی ذہن (mathematical mind) معلوم ہوتا ہے۔
ڈاکٹر عبد السلام ایک پروفیشنل سائنٹسٹ تھے۔ نظریاتی فزکس (theoretical physics) میںانھوں نے کیمبرج یونی ورسٹی (لندن) سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی تھی۔ جدید الٰہیات کے اعتبار سے اُن کا کام بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ جس ریسرچ پر اُن کو فزکس کا نوبل پرائز (1979) ملا، وہ الٰہیات کے اعتبار سے نہایت اہمیت کا حامل تھا۔ زیر نظر موضوع پر ڈاکٹر عبد السلام کی ایک کتاب (Ideal and Realities) ہے، جو پہلی بار 1984 میں چھپی ۔
سرآئزک نیوٹن (وفات: 1727 ) کے زمانے سے یہ سمجھا جاتا رہا ہے کہ چار بنیادی طاقتیں (forces) ہیں، جو پوری کائنات کو کنٹرول کرتی ہیں۔ آئن سٹائن (وفات: 1955 ) نے اِس تعداد کو گھٹانا چاہا، لیکن وہ اِس میں کامیاب نہ ہوسکا۔ ڈاکٹر عبدالسلام نے خالص ریاضیاتی بنیاد پر یہ ثابت کیا کہ کائنات کو کنٹرول کرنے والی طاقتیں چار نہیں ہیں، بلکہ تین ہیں۔ اِس تحقیق پر اُن کو فزکس کا نوبل پرائز دیاگیا۔ بعد کو نظریاتی فزکس کے مشہوربرٹش پروفیسر اسٹفین ہاکنگ (پیدائش: 1942 )نے اِس تعداد کو مزید گھٹایا، اور یہ ثابت کیا کہ کائنات کو کنٹرول کرنے والی طاقت صرف ایک ہے۔ اِس طاقت کو انھوں نے واحد ڈور(single string) کا نام دیا۔
اِس طرح خالص سائنٹفک ریسرچ کے ذریعے یہ ثابت ہوا کہ کائنات میں تعدّد (plurality) نہیں ہے، بلکہ توحید (oneness) ہے۔ گویا کہ کائنات کا نیچر مؤحّدانہ (monotheistic) ہے، اس کا نیچر مشرکانہ (polytheistic) نہیں ہے۔ اِس سائنٹفک تحقیق میں ڈاکٹر عبد السلام کا بہت بڑا حصہ ہے۔ انھوں نے پہلی بار ’’چار طاقتوں‘‘ کے نظریے کو توڑا، اور سائنسی طورپر ’’ایک طاقت‘‘ کو ماننے کا راستہ ہموار کیا۔
سرجیمز جینز اور ڈاکٹر عبدالسلام، دونوں یہ صلاحیت رکھتے تھے کہ وہ سائنسی الٰہیات (scientific theology) کو مرتب کرنے کا عظیم کارنامہ انجام دیں۔ لیکن دونوں اِس موضوع پر صرف جُزئی کام کرسکے، وہ اِس موضوع کا تکمیلی باب نہ لکھ سکے۔بظاہر دونوں کا عذر ایک تھا۔ دونوں ہی اپنی اکیڈمک سرگرمیوں اور پروفیشنل مشغولیت سے اتنا زیادہ وابستہ رہے کہ اُن کو سائنسی الٰہیات کے موضوع پر مزید کام کرنے کا موقع نہیں ملا۔ یہ موضوع، دوسرے تمام اہم موضوعات کی طرح، مکمل ڈیڈی کیشن (dedication) کا تقاضا کرتا ہے۔ دونوں میں سے کوئی بھی اِس کام کی یہ ضروری قیمت نہ دے سکا۔ اِس لیے دونوں میں سے ہرایک اِس کام کو انجام دینے سے قاصر رہا۔
اسلام کو عقلی بنیاد (rational basis) دینے کے لیے کچھ اور لوگوں نے کتابیں تصنیف کیں۔ لیکن اصل ضرورت کے اعتبار سے یہ کتابیں کسی حقیقی اہمیت کی حامل نہ تھیں۔ اصل مقصد جدید سائنٹفک مائنڈ کو ایڈریس کرنا تھا، مگر اِن کتابوں سے یہ مقصد حاصل نہیں ہوا۔ چند کتابوں کے نام یہ ہیں:
1 - حجۃ اللہ البالغۃ،شاہ ولی اللہ دہلوی
2 - تشکیل جدید الٰہیاتِ اسلامیہ، ڈاکٹر محمد اقبال
(The Reconstruction of Religious Thought in Islam)
3 - قصّۃ الإیمان، بین العلم والفلسفۃ والقرآن، شیخ ندیم الجسر
4 - قرآن اور علمِ جدید، ڈاکٹر محمد رفیع الدین
میں نے اِن کتابوں کا، اور اِس طرح کے دوسرے بہت سے مضامین اور مقالات کا مطالعہ کیا۔ مگر میں نے محسوس کیا کہ یہ تمام کتابیں اصل مسئلے کی نسبت سے بہت ناقص ہیں۔ وہ ایک طاقت ور چیلنج کا صرف کم زور جواب ہیں۔ یہاں پہنچ کر میرے اندر ایک نیا احساس جنم لینے لگا۔ میںنے کئی ایسے خواب دیکھے، جو اِس بات کا اشارہ تھے کہ غالباً قضائِ الٰہی کا یہ فیصلہ ہے کہ اپنی تمام کم زوریوں کے باوجود، میں اِس خدمت کو انجام دوں۔
موجودہ زمانے کے تقریباً تمام مسلم رہنما کسی نہ کسی ردّ عمل کے تحت اٹھے۔ ان کی زندگی کا کورس رد عمل کی نفسیات کے تحت بنا۔ مگر میرا معاملہ ایک استثنائی معاملہ تھا۔ کسی قسم کے رد عمل نے میری زندگی کا کورس متعین نہیں کیا، بلکہ فطرت کا ایک واقعہ تھا، جس نے میری زندگی کا رخ متعین کیا۔
یہ واقعہ 27 جولائی 1955 کو پیش آیا۔ اُس وقت میںاعظم گڑھ (یوپی) میںتھا۔ اِس سال اُس علاقے میں نہایت شدید بارش ہوئی تھی۔ قریبی ندی ٹونس (Tons River)کا پانی پھیل کر شہر کی آبادی تک پہنچ گیا۔ برٹش دور میں یہاں 1871 میں شہر کے کنارے ایک بہت بڑا بند بنایا گیا تھا۔ یہی بند سیلاب سے حفاظت کا واحدذریعہ تھا۔ مگر اِس سال سیلاب کا پانی اتنا زیادہ بڑھا کہ لال ڈِگی کا یہ بند اُس کو روکنے کے لیے ناکافی ثابت ہوا۔ یہ میرے لیے ایک بھیانک تجربہ تھا۔ اِس تجربے کو میں نے اُسی زمانے میں قلم بند کیا تھا جو اخبار ’’دعوت‘‘ (نئی دہلی) کے شمارہ 5 ستمبر 1955 میں چھپا تھا۔ اُس میں، میںنے اپنے اِس مشاہدے کو اِن الفاظ میں لکھا تھا:
’’26اور 27 جولائی 1955 کی درمیانی رات کو ضلع کلکٹر (اعظم گڑھ) کی طرف سے لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے یہ اعلان ہوا— ’’لال ڈگی کا بند ابھی ٹوٹنا چاہتا ہے۔ آپ لوگ اپنی جانوں کو بچانے کے لیے اونچی جگہوں پر چلے جائیں‘‘۔ اُس وقت رات کے ایک بجے تھے۔ سارا شہر جاگ اٹھا اور عجیب سنسنی پھیل گئی۔ لوگ اپنے کچے اور پکے گھروں سے نکل کر بند کی طرف دوڑے۔ سیکڑوں آدمیوں نے پھاوڑا اور بوریا لے کر اُس جگہ مٹی ڈالنی شروع کردی، جہاں سے بند پھٹ گیاتھا۔ ایسے ایسے لوگ جنھوں نے شاید زمین پر کبھی ننگے پاؤں قدم بھی نہ رکھا ہوگا، وہ اپنے سروں پر مٹی کا ٹوکرا لے کر ڈھو رہے تھے۔ درجنوں پیٹرومیکس کی روشنی میں ساری رات کام ہوا اور دوسرے دن دوپہر تک ہوتا رہا۔ بالآخر انجینئر نے کہہ دیا کہ اب بند قابو سے باہر ہے۔ آخر کار بارہ بجے دن کے بعد بند ٹوٹ گیا اور پانی سڑکوں پر بہنے لگا۔ سارے شہر میں کہرام مچ گیا۔ دکانیں بند ہوگئیں۔ لوگ اپنے اپنے ٹھکانوں کی طرف بھاگ رہے تھے اور پانی ان کے پیچھے اِس طرح دوڑ رہا تھا کہ گویا وہ اُن کا پیچھا کررہا ہے۔ زندگی کے مسائل سمٹ کر بس سیلاب کے گرد جمع ہوگئے ، اور چند دنوں کے لیے شہر میں قیامت کا منظر دکھائی دینے لگا۔‘‘ (قرآن کا مطلوب انسان، صفحہ 61 )
فطرت کا یہ واقعہ میرے لیے قیامت کی یاد دہانی کے ہم معنیٰ تھا۔ یہ گویا، بڑی قیامت سے پہلے چھوٹی قیامت تھی جو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ اِس واقعے کو دیکھ کر جو تاثر میرے اوپر ہوا، وہ میری پوری زندگی پر چھا گیا۔ اِس کے بعد میری تقریروں اور تحریروں میں اِنذارِ آخرت کا پہلو نمایاں وصف کے طورپر شامل ہوگیا۔ میرے استاد مولانا امین احسن اصلاحی (وفات: 1998 ) سے ایک شخص نے پوچھا کہ قرآن کا خلاصہ کیا ہے۔ انھوںنے جواب دیا کہ— سرگذشتِ انذار۔ میںسمجھتا ہوں کہ یہ بات بلا شبہہ د رست ہے، اور جو لوگ میری تقریر اور تحریر سے واقف ہیں، ان کا کہنا ہے کہ میری تقریر اور تحریر میں یہی انداز غالب نظر آتا ہے۔
اِسی طرح میری زندگی میں ایک اور واقعہ پیش آیا۔ اِس واقعے نے میری تحریر میں سائنسی اسلوب کو گہرائی کے ساتھ شامل کردیا۔ فروری 1955 کا واقعہ ہے۔ لکھنؤ کے امین الدولہ پارک میں جماعتِ اسلامی ہند کے زیر اہتمام ایک اجتماع ہوا۔ اِس موقع پر اسلام کے عقلی اثبات پر راقم الحروف کی ایک تقریر ہوئی۔ تقریر کے بعد جب اعلان کیا گیا کہ وہ چھپی ہوئی صورت میں یہاں بک اسٹال پر موجود ہے، تو انسانوں کا ایک ہجوم اُس کو لینے کے لیے اسٹال پر ٹوٹ پڑا۔ تقریر کے مطبوعہ نسخے ہاٹ کیک (hot cake)کی طرح فروخت ہوگئے۔ بعدکو یہ تقریر پمفلٹ کی صورت میں شائع ہوئی۔ اردو میںاُس کا نام تھا ’’نئے عہد کے دروازے پر‘‘، ہندی میں ’’نو یُک کے پرویش دُوار پر‘‘ اور انگریزی میں:
On the Threshold of a New Era
اِس مقالے کی ترتیب کے دوران میںنے جومطالعہ کیا، اُس سے دعوت کا ایک پہلو زیادہ واضح ہو کر سامنے آیا، وہ یہ کہ جدید سائنسی دریافتوں نے جو نیا مواد (data) فراہم کیا ہے، وہ ہم کو موقع دیتا ہے کہ ہم زیادہ مدلل اور موثر انداز میں دعوتِ حق کا کام کرسکیں۔ اِس اعتبار سے دیکھئے تو سائنس گویا کہ اسلام کا علمِ کلام (theology) ہے۔ سائنسی دریافتوں نے یہ موقع فراہم کیا ہے کہ حق کی دعوت کو ایسے اسلوب میں پیش کیا جائے، جو جدید انسان کے لیے قولِ بلیغ (4: 63) کے ہم معنیٰ بن جائے۔
اِسی زمانے میں مجھ پر قرآن کی ایک آیت کا مفہوم زیادہ واضح انداز میں کھُلا۔ یہ آیت قرآن کی سورہ حم السجدہ میں ہے، مگر عجیب بات ہے کہ پچھلے زمانے میں قرآن کی تفسیریں کثیر تعداد میں لکھی گئیں، لیکن اِس آیت کی گہری معنویت مفسرین سے اوجھل رہی۔ اِس آیت کا ترجمہ یہ ہے: ’’عن قریب لوگوں کو ہم دکھائیں گے اپنی نشانیاں، آفاق میں بھی اور انفس میں بھی، یہاں تک کہ اُن پر یہ کھل جائے گا کہ یہ قرآن حق ہے‘‘ (41: 63) ۔قرآن کی اِس آیت میں دراصل اُس دور کی پیشین گوئی ہے جس کو جدید سائنسی دور کہاجاتا ہے۔ جدید سائنس میں فطرت (nature) کو مطالعے کا موضوع بنایا گیا۔ یہ فطرت پوری کی پوری، خدا کی تخلیق ہے۔ اِس تخلیق کے اندر خالق کی نشانیاں (signs of God)بے شمار تعداد میں موجود تھیں، مگر وہ مخفی انداز میں تھیں۔ جدید سائنس (modern science) نے اِن نشانیوں کو کھولا، یہاں تک کہ یہ نشانیاں انسانی معلومات کے دائرے میںآگئیں۔
فطرت کی اِن نشانیوں کے دوپہلو تھے۔ ایک، اُن کا ظہور۔ اور دوسرے، تبیینِ حق کے لیے اُن کا استعمال۔ اِس معاملے میں پہلا کام سائنس دانوں کو کرنا تھا۔انھوں نے غیر معمولی کوشش کے ذریعے اِس کام کو بھر پور طور پرانجام دے دیا۔ انیسویں صدی اور بیسویں صدی، اِنھیں سائنسی دریافتوں کی صدی ہے۔ یہ دریافتیں کتابوں کی صورت میںچھپ کر ہر جگہ پھیل گئیں۔اِس کے بعد اِس سلسلے میں دوسرا کام یہ تھا کہ مسلم علماء اور اہلِ علم اِن معلومات سے واقفیت حاصل کریں اورمطلوب علمی انداز میں یہ بتائیں کہ یہ معلومات کس طرح اسلامی عقائد کے لیے استدلال کی بنیاد فراہم کرتی ہیں۔ مگر عجیب بات ہے کہ قرآن کی پیشگی خبر کے باوجود دورِ جدید میں اٹھنے والے مسلم علماء اور اہلِ علم اِس جدید امکان سے بے خبر رہے اور نتیجۃً وہ اُس کو تبیین حق کے لیے استعمال بھی نہ کرسکے۔
حدیث میں خواب کو نبوت کا چھیالیسواں درجہ بتایاگیا ہے، یعنی ختمِ نبوت کے بعد بھی الہامِ خداوندی کا ایک درجہ باقی ہے جس کے ذریعے خدا اپنے بندوں کو خصوصی رہنمائی دیتا رہتا ہے۔ یہ خواب کا ذریعہ ہے۔ میرا تجربہ ہے کہ مجھ پر بہت سی باتیں خواب کے ذریعے کھلیں۔ یہ بات بھی مجھ پر خواب کے ذریعہ واضح ہوئی کہ تبیینِ حق کے اِس اہم کام کے لیے مجھ کو اٹھنا ہے، اپنے تمام تر عجز کے باوجود اللہ کے بھروسے پر مجھ کو یہ کام انجام دینا ہے۔ اِسی ذیل کا ایک تجربہ وہ ہے جو گویا کہ مجھے بین النوم والیقظہ پیش آیا:
ستمبر 1963 کی 21 تاریخ تھی۔ راقم الحروف ندوہ (لکھنؤ) کی مسجد میں تھا اور ظہر کی سنتیں پڑھ کر جماعت کے انتظار میں بیٹھا ہوا تھا۔ ذہن میں یہ خیال گھوم رہا تھا کہ اسلام کے تعارف کے لئے آج ایک ایسی کتاب کی ضرورت ہے جو وقت کی زبان اور اسلوب میں لکھی گئی ہو اور جدید انسان کو مطالعہ کے لئے دی جاسکے۔ ’’کاش اللہ تعالیٰ مجھے اِس کتاب کے لکھنے کی توفیق دے‘‘۔ یہ تمنا بے ساختہ دعا کی شکل میں میری زبان سے نکلی اور اس کے بعد یکایک یہ انگریزی لفظ میری زبان پر تھا: God Arises
یہ گویا کتاب کا نام تھا جو اچانک میرے ذہن میں وارد ہوا۔ اِس سے پہلے کبھی یہ فقرہ میرے ذہن میںنہیں آیا تھا، حتی کی کتاب کے نام کی حیثیت سے اس کی معنویت بھی اس وقت پوری طرح مجھ پر واضح نہ تھی۔ شام کو عصر کی نماز کے بعد میںحسب معمول نریندر دیو لائبریری گیا جو ندوہ کے قریب دریائے گومتی کے کنارے واقع ہے۔ وہاں ویبسٹر (Webster)کی لغت میں لفظ arises کے استعمالات دیکھے تو معلوم ہوا کہ یہ لفظ بائبل کی ایک آیت میں استعمال ہوا ہے۔ پورا فقرہ یہ ہے:
Let God arise, let His enemies be scattered,
Let them also that hate Him flee before Him,
As smoke is driven away, so drive them away;
As wax melteth before the fire, so let the
Wicked perish at the presence of God.
(Psalms 68: 1-2)
خدا اٹھے۔ اس کے دشمن تتر بتر ہوں۔ وہ جو اس کا کینہ رکھتے ہیں، اس کے حضور سے بھاگیں۔ جس طرح دھواں پراگندہ ہوتا ہے، اسی طرح تو انھیں پراگندہ کر۔ جس طرح موم آگ پر پگھلتا ہے، شریر خدا کے حضور فناہوں۔
زبور کی یہ دعا حقیقۃً پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی پیشین گوئی ہے۔ یہ اسی منصوبۂ الٰہی کا ذکر ہے جو قرآن میں سورہ صف (آیت: 8-9) اور سورہ فتح (آیت: 28) میں وارد ہوا ہے۔ آپ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ جس عظیم الشان سطح پر اپنے دین کا اظہار کرنے والا تھا، اسرائیلی پیغمبر (داؤد) کی زبان سے بشکل دعا اس کو کہلایا گیا۔ حضرت داؤد نبی آخر الزماں سے ڈیڑھ ہزار برس قبل پیداہوئے تھے۔
اِس طرح گویا اذان اور اقامت کے درمیان مسجد کے اس تجربے میں مجھ کو کتاب کا نام اور اس کا موضوع دونوں بتادیا گیا۔ عمر کی چھٹی دہائی میں پہنچنے کے بعد میری بہترین تمنا یہ تھی کہ میںاسلام پر ایک کتاب تیار کرسکوں جو اردو اور عربی کے علاوہ انگریزی میں God Arises کے نام سے شائع ہو۔
مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو پکار رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ — اے میری امت، خداکے دین کو، وقت کے افکار کی طرف سے بہت بڑا چیلنج در پیش ہے۔ اٹھو، اور اِس چیلنج کا موثر جواب دے کر، خدا کے دین کو دوبارہ سرفرازی عطا کرو۔
عالمِ تصور میں مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے کہ پیغمبر نے بار بار اپنی امت کو پکارا، لیکن امت کا کوئی شخص نہیں اٹھا، جو اس پکار پر لبیک کہے۔ آخر کار، میں اپنے عاجز قدموں کے ساتھ اٹھتا ہوں، اور کہتا ہوں کہ اے اللہ کے رسول، اگر چہ میںآپ کا ایک کم زور امتی ہوں، لیکن میںخدا کے بھروسے پر اِس کام کو انجام دوں گا، اور پھر خدا کے رسول، دوبارہ وہی بات کہتے ہیں جو آپ نے مکہ میں اُس وقت کہی تھی، جب کہ آپ کی پکار کے بعد بڑوں میں سے کوئی نہیں اٹھا، اور بنو ہاشم کے ایک نوجوان نے کہا تھا کہ میںآپ کی پکار پر لبیک کہنے کے لیے تیار ہوں۔ اُس وقت آپ نے فرمایا: أنتَ یا علی، أنتَ یا علی۔
عالمِ تصور میں، خدا کے رسول کا یہ جواب پاکر میرا حوصلہ بڑھا، اور میں نے طے کرلیا کہ مجھے یہ کام انجام دینا ہے۔ میرا سہارا صرف ایک احساس تھا، جو حضرت مسیح کے الفاظ میں یہ تھا— انسان سے تو یہ کام نہیں ہوسکتا، مگر خدا سے ہوسکتا ہے۔
میں نے جب یہ فیصلہ کیا کہ مجھے سائنسی دریافتوں کی مدد سے جدید اسلامی لٹریچر تیار کرنا ہے، تو یہ میرے لیے کوئی معمولی فیصلہ نہ تھا۔ یہ میرے جیسے انسان کے لیے ہمالیہ پہاڑ کو اپنے سر پر اٹھانے سے زیادہ مشکل تھا۔ اِس مقصد کے لیے مجھے انگریزی زبان میں بھر پور قدرت حاصل کرنا تھا۔ جدید افکار (modern thought) کو سمجھنے کے لیے مختلف علوم کو گہرائی کے ساتھ پڑھنا تھا۔ جدید الحاد کا موقف کیا ہے، اس کو براہِ راست مطالعے کے ذریعے جاننا تھا۔
اُس زمانے میں، میںنے مختلف شہروں کے سفر کیے۔ مختلف شخصیتوں سے ملاقاتیں کیں۔ مختلف لائبریروں سے کتابیں حاصل کیں۔ اُس زمانے میں میری دیوانگی کا عالم یہ تھا کہ میں ہر وقت پڑھتا رہتا تھایہاں تک کہ راستہ چلتے ہوئے کتاب میرے ہاتھ میں ہوتی تھی اور میں اس کو کھول کر پڑھتا رہتا تھا۔ میری ماں زیب النسا (وفات: 1985 ) اکثر یہ کہتی تھیں کہ یہ شخص کسی نہ کسی دن سڑک پر چلتے ہوئے کسی گاڑی سے ٹکرا جائے گا اور سڑک ہی پر اس کی موت واقع ہوجائے گی۔ میرے اِس دیوانہ وار مطالعے کی کسی نے بھی حوصلہ افزائی نہیں کی، لیکن میں ہر چیز سے بے پروا ہو کر اپنے کام میں لگا رہا۔
آزادیٔ ہند (1947) کے بارے میں ایک کتاب ہے جو دو مصنفین نے مشترک طورپر لکھی تھی۔اِن میں سے ایک شخص برطانیہ کا تھا، اور دوسرا فرانس کا۔ اِس کتاب کا نام ہے۔ آدھی رات کی آزادی(Freedom at Midnight) ۔
اپنی اِس کتاب کی تیاری میں مذکورہ دونوں مصنفین نے بے شمار چیزوں کا مطالعہ کیا۔ کتاب کے چھپنے کے بعد ایک انٹرویو میںانھوںنے کہا تھا:
We lived like hermits, and we produced ‘Freedom at Midnight’
اسلام پر عصری اسلوب (modern idiom) میں کتاب تیار کرنے کے لیے میرا بھی یہی حال ہوا۔ مذکورہ مثال کو لیتے ہوئے میںیہ کہوں گا کہ — میںنے رہبان کی مانند زندگی گزاری، اور میں نے خدا کے موضوع پر اپنی کتاب تیار کی:
I lived like hermit, and I produced my book on God.
جیسا کہ عرض کیاگیا، موجودہ زمانے میں سائنسی تحقیقات کے ذریعے فطرت کے بارے میں جو معلومات حاصل ہوئی ہیں، وہ گویا کہ خدائی نشانیاں ہیں۔ قرآن کے الفاظ میں، وہ آفاق اور انفس میںایاتِ الہی کے ظہور کے ہم معنیٰ ہیں (41: 53) ۔ اِس سلسلے میں اپنے مطالعے کے نتائج کو میںنے اپنی مختلف کتابوں میںتفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ یہاں مختصر طورپر چند مثالیں درج کی جاتی ہیں
1 - قدیم فلاسفہ اپنے فلسفیانہ فریم ورک کی بنا پر شخصی خدا (personal God) کے طورپر خدا کا ادراک نہیں کرپاتے تھے۔ چناں چہ انھوںنے خدا کو غیر شخصی خدا (impersonal God) بتایا۔ مگر غیر شخصی خدا صرف ایک خیالی خدا تھا، وہ (cosmic rays) یا قوتِ کشش(gravity) کے مانند تھا۔ خدا کے عقیدے کی حیثیت سے اس کی کوئی معنویت نہ تھی۔
لیکن سائنس کی تحقیقات کے بعد ایک نئی دنیا انسان کے سامنے آئی، ایک ایسی دنیا جو لازمی طورپر یہ تقاضا کررہی تھی کہ کائنات کے وجود و بقا کے پیچھے ایک زندہ شعور ہے، نہ کہ صرف مادّی عمل۔ اِس طرح سائنس دانوں نے خدا کا نام لیے بغیر، خدا جیسی ایک ہستی کا اعتراف کرلیا۔ اِس معاملے کو سمجھنے کے لیے درج ذیل کتاب کا مطالعہ کیجئے:
Sir Fred Hoyle, The Intelligent Universe (1983)
اِس طرح، غیر شخصی خدا (Impersonal God) کے فلسفیانہ قیاس کے لیے کوئی علمی بنیاد (Scientific base) باقی نہ رہی۔ سائنس کی نئی دریافتوں نے بتایا کہ خالص علمی اور عقلی اعتبار سے شخصی خدا (personal God) کا تصور زیادہ قابل فہم ہے۔
2 - یہی معاملہ علّۃ العِلل (cause of the causes) کا ہے۔ قدیم متکلمین نے درست طورپر خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے علّۃ العلل کا نظریہ پیش کیا تھا، لیکن ہزار برس پہلے کے زمانے میں جو معلومات انسان کو حاصل تھیں، اُن کے مطابق، علّۃ العلل کی حیثیت صرف ایک قیاس کی حیثیت رکھتا تھا۔ لیکن بیسویں صدی عیسوی میں فلکیاتی تحقیقات کے دوران ایک نئی دریافت ہوئی، جس کو بگ بینگ کہاجاتا ہے۔ بگ بینگ کا نظریہ اب ایک ثابت شدہ نظریہ بن گیا ہے۔
بگ بینگ کے نظریے سے یہ ثابت ہوا ہے کہ تقریباً پندرہ بلین سال پہلے ایک کائناتی گولا (cosmic ball) تھا۔ یہ کائناتی گولا موجودہ کائنات کے تمام ذرات (particles) پر مشتمل تھا۔ اِس کاسمک بال کے باہر، ہر طرف صرف خلا پایا جاتا تھا۔ پھر اچانک ایک وقتِ خاص پر اِس کاسمک بال کے اندر ایک انفجار (explosion) ہوا اور پھر دفعتاً اس کے اَن گنت ذرات وسیع خلا میں پھیل گئے۔ پھر دھیرے دھیرے لمبے عمل کے دوران موجودہ کائنات بنی۔
بگ بینگ کی اِس دریافت کے بعد قدیم متکلمین کا علۃ العلل کا نظریہ محض قیاسی نظریہ نہیں رہا، بلکہ وہ ایک ایسا نظریہ بن گیا ہے، جس کی پشت پر ایک خالص سائنسی بنیاد موجود ہے۔ کاسمک بال میں انفجار سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کوئی خارجی عامل (factor) موجود تھا جس کی مداخلت سے یہ انفجار وجود میں آیا۔ کیوں کہ طبیعیاتی قوانین کے مطابق، خود بخود یا کسی داخلی سبب سے ایسا انفجار ہر گز ممکن نہ تھا۔ اِس طرح، علّۃ العلل کا نظریہ اب ایک ثابت شدہ نظریہ بن چکا ہے، نہ کہ صرف ایک قیاسی نظریہ۔
3 - کائنات میں بظاہر بہت زیادہ تنوع پایا جاتا ہے۔ اِس تنوع کی بنا پر شرک کا عقیدہ پیدا ہوا۔ یہ سمجھ لیا گیا کہ جب تخلیق میں تنوع ہے، تو اس کا خالق بھی کئی ہونا چاہیے۔ نیوٹن کے زمانے میں یہ نظریہ قائم کیاگیا کہ چار طاقتیں ہیں جو پورے عالم کو کنٹرول کرتی ہیں۔ وہ چار طاقتیں ہیں:
1 - قوتِ کشش (gravitational force)
2 - برقی مقناطیسی قوت(electromagnetic force)
3 - طاقت ور نیوکلیر قوت(strong nuclear force)
4 - کم زور نیو کلیر قوت(weak nuclear force)
یہ قدیم سائنسی نظریہ بظاہر شرک کے عقیدے کی موافقت کررہا تھا۔ لیکن سائنس داں اِس قسم کے چار نظریے پر مطمئن نہ تھے۔ ان کو نظر آتا تھا کہ کائنات میںبہت زیادہ ہم آہنگی (harmony) پائی جاتی ہے۔ ایسی ہم آہنگ کائنات میںچار طاقتوں کا نظریہ انھیں بے جوڑ نظر آتا تھا۔ چناں چہ سائنس دانوں کی تحقیق جاری رہی، یہاں تک کہ یہ ثابت ہوگیا کہ کائنات کو کنٹرول کرنے والی طاقت صرف ایک ہے۔ اِس دریافت کو سنگل اسٹرنگ تھیوری (single string theory) کہاجاتا ہے۔
اِس جدید سائنسی دریافت نے شرک (polytheism) کے نظریے کا علمی طورپر خاتمہ کردیا۔ اب علم اور عقل کی بنیاد صرف توحید (monotheism)کے نظریے کو حاصل ہے۔ اب توحید کا نظریہ ایک ثابت شدہ سائنسی نظریے کی حیثیت رکھتا ہے، نہ کہ سادہ طور پر صرف ایک مذہبی عقیدہ۔
4 - قدیم زمانے میں علمائِ الٰہیات، خدا کے وجود کو اِس طرح ثابت کرتے تھے کہ — کائنات کا مطالعہ بتاتاہے کہ یہاں ہر چیز میںکامل ڈزائن پایا جاتا ہے۔ اور جہاں ڈزائن (design) ہو، وہاں ڈزائنر (designer) کا وجود بھی اپنے آپ ثابت ہوجاتا ہے:
When there is a design, there is a designer. and when the designer is proved, God is also proved.
یہ استدلال خالص منطقی اعتبار سے ایک درست استدلال تھا، لیکن قدیم زمانے میں سمجھا جاتا تھا کہ یہ ثانوی (secondary) درجے کا استدلال ہے۔ وہ اوّل درجے کا استدلال نہیں۔ کیوں کہ یہ استدلال ایک استنباط (inference) پر مبنی تھا، نہ کہ براہِ راست مشاہدے کی بنیاد پر۔
سائنسی تحقیق جب تک عالمِ کبیر (macro world) تک محدود تھی، اُس وقت تک یہ استدلال بظاہر درست نظر آتا تھا۔ کیوںکہ اُس وقت یہ سمجھا جاتا تھا کہ تمام حقیقی چیزیں اپنا مادّی جسم رکھتی ہیں، اِس بنا پر وہ قابلِ مشاہدہ (visible) ہیں۔ گویا کہ جو چیز دور بین یا خورد بین کے ذریعے نہ دیکھی جاسکتی ہو، وہ کوئی حقیقی چیز بھی نہیں۔لیکن بیسویں صدی میں سائنس کی تحقیقات، عالمِ کبیر سے گزر کر عالمِ صغیر (microworld) تک پہنچ گئیں۔ یہ سائنس کی دنیا میں ایک عظیم انقلاب تھا۔ اِس کے بعد یہ ثابت ہوا کہ یہاں ایسی چیز بھی موجود ہوسکتی ہے، جونہ خورد بین سے دیکھی جاسکے اور نہ دور بین سے۔ اِس طرح کی چیزوں کو مشاہداتی ذرائع سے معلوم نہیں کیا جاسکتا۔ ایسی چیز کے وجود کو صرف استنباط (inference) کے ذرائع سے معلوم کیا جاسکتا ہے۔
سائنس کی اِس ترقی کے بعد یہ ہوا کہ معقول استدلال (valid argument) کا قدیم تصور ختم ہوگیا ۔ اب علمی طورپر یہ مان لیا گیا کہ استنباطی استدلال (inferential argument) بھی اتنا ہی معقول (valid) ہے، جتنا کہ براہِ راست مشاہدے کی بنیاد پر قائم کیا ہوا استدلال۔
واپس اوپر جائیں

ّ جنت : ایک آفاقی تصور

پیراڈائز (جنت) کا تصور تمام انسانی سماجوں میں پایا گیا ہے۔ پیراڈائز تمام عورتوں اور مردوں کا ایک عالمی خواب ہے۔ ہر انسان جو پیدا ہوتا ہے، وہ ایک خوب صورت دنیا کا تصور لے کر پیدا ہوتا ہے۔ اِسی کو پیراڈائز کہاگیا ہے۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ انسان ایک متلاشی ٔ جنت حیوان (Paradise-seeking animal) ہے۔
مطالعہ بتاتا ہے کہ پیراڈائز کا تصور ہر سماج میں اور ہر کلچر میں ہمیشہ پایا گیا ہے۔ اِس اعتبار سے پیراڈائز ایک عالمی لفظ ہے۔ معمولی تغیر کے ساتھ وہ ہر زبان میں پایا جاتا ہے۔ قرآن کا لفظ فردوس (18: 107)بھی خود پیراڈائز ہی کی ایک معرّب(Arabicized) صورت ہے۔ ذیل میں چندزبانوں کی مثالیں درج کی جاتی ہیں، جس سے پیراڈائز کی عالمی نوعیت کا اندازہ ہوگا:
Avesta : Pairidaêza Persian : Firdaus
Greek : Paradeisas Latin : Paradisus
French : Paradis English : Paradise
Hebrew : Pardes Akkadian : Pardesu
Aramaic : Pardaysa Sanskrit : Paradesha
Arabic : Firdaus
پیراڈائز (جنت) کا تصور انسانی فطرت میںاتنا زیادہ پیوست ہے کہ دونوں کو ایک دوسرے سے جُدا نہیں کیا جاسکتا۔ پیراڈائز کو پانا، ہر عورت اور مرد کا مشترک خواب ہے، خواہ شعوری طور پر ہو یا غیر شعوری طور پر۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہر عورت اور مرد نے عالمِ تصور میں ایک انتہائی خوب صورت دنیا کو پہلے سے دیکھا ہے، اور اب وہ اِس دیکھی ہوئی جنت کو عملی طور پر حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ انسان کی اِس خواہش کے تحت، پیراڈائز کے تقریباً ایک درجن ماڈل بن گئے ہیں۔ ہر انسان اپنے اِس معلوم ماڈل کو واقعاتی طورپر حاصل کرنے میں لگا ہوا ہے۔
پیراڈائز کا مطالعہ میری پوری زندگی میں شامل رہا ہے۔ تاریخ میں پیراڈائز کے جتنے ماڈل بنائے گئے ہیں، تقریباً اُن سب کو میںنے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ میں نے اپنے طویل مطالعے اور تجربے کے بعد پایا ہے کہ پیراڈائز کا صرف وہی ماڈل مطابقِ فطرت ماڈل ہے جو قرآن میں ملتا ہے۔ بقیہ تمام ماڈل یا تو فطرت سے مطابقت نہیں رکھتے، یا وہ صرف جزئی طورپر فطرت کے مطابق ہیں۔ اور یہ دونوں حالتیں اُن کو ناقابلِ قبول قرار دے دیتی ہیں۔
اِس فہرست میں صرف قرآن کا ماڈل واحد قابلِ قبول ماڈل ہے۔ اِسی لیے قرآن میں سچے انسانوں کی بابت یہ ارشاد ہوا ہے کہ خدا اُن کو ایسی جنت میں داخل کرے گا جس کی اُس نے اُنھیں خوب پہچان کرادی ہے: ویُدخلہم الجنّۃ عرّفہا لہم (47: 6) ۔
جنت کے معروف ماڈلوں میں سے کون سا ماڈل درست ہے، اس کا معیار وہی اصول ہے جس کو اِس طرح کے معاملات میں سائنس میں استعمال کیا جاتا ہے، یعنی اصولِ مطابقت (principle of corroboration)۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ کسی نظریے کی صحت کو معلوم کرنے کے لیے یہ کیا جائے گا کہ اُس کو تمام متعلق(relevant) واقعات یا مظاہر کی نسبت سے جانچا جائے گا۔ اگر یہ نظریہ تمام متعلق چیزوں سے مطابقت (corroborate) کررہا ہو تو اس کو درست مان لیا جائے گا اور اگر کوئی ایک واقعہ بھی اس نظریے سے مطابق نہ کرے تو اس نظریے کو غلط قرار دے کر اُس کو رد کر دیا جائے گا۔
یہی واحد اصول ہے جس کی روشنی میں پیراڈائز کے مختلف تصورات کا مطالعہ کرکے یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ اُن میں سے کون سا نظریہ درست نظریہ ہے۔ذیل میںاِسی اصول کی روشنی میں پیراڈائز کے مختلف ماڈلوں کا مطالعہ کیا جاتاہے۔ اِس مطالعے سے واضح ہوجائے گا کہ سائنٹفک طریقِ مطالعہ کے مطابق، اِن میں سے کون سا ماڈل علمی طورپر قابلِ قبول ماڈل ہے۔
بدھسٹ ماڈل
سب سے پہلے بُدھسٹ ماڈل (Buddhist model) کو لیجئے۔ بدھ ازم میں اگرچہ مہایانا (Mahayana) اسکول کو چھوڑ کر، بقیہ کسی اسکول میں پیراڈائز کا لفظ استعمال نہیں کیاجاتا ہے۔ لیکن اصولی طور پر بدھ ازم میں پیراڈائز کا تصور موجود ہے۔ بدھ ازم کے نظریے کے مطابق، انسان پُنر جنم (re-birth) کے ذریعے لمبا ارتقائی سفر کرتا ہے۔اِس ارتقائی سفر کے دوران وہ ہر قسم کی خواہشوں سے مکت ہوتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ انسانی ارتقا کی آخری منزل پر پہنچ جاتا ہے، جو بدھسٹ نظریے کے مطابق، ابدی سعادت (eternal bliss) کی منزل ہے۔
مگر یہ بدھسٹ ماڈل واضح طور پر انسانی فطرت کے مطابق نہیں۔ انسان ایک باشعور مخلوق ہے۔ انسان کے لیے اعلیٰ یافت وہی ہوسکتی ہے جو شعور کی سطح پر اُس کو ملے، لیکن بدھسٹ ماڈل میں لاکھوں سال کا پورا سفر، اور آخری منزل سب بے شعوری کی حالت میں طے ہوتے ہیں۔ انسان نہ تو حالتِ سفر میں شعوری طورپر اِس عمل (process) سے باخبر رہتا ہے اور نہ وہ سفر کے خاتمے پر شعوری طورپر اس کا تجربہ کرتاہے۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ بدھسٹ ماڈل انسان کے لیے ناخوش گوار باتوں سے بے خبری کا سُکھ (blissful ignorance) ہے، وہ انسان کے لیے حقیقی معنوں میں مطلوب سعادت نہیں۔
یہودی ماڈل
اس کے بعد یہودی ماڈل (Jewish model) کو لیجئے۔ اِس ماڈل میں اگر چہ پیراڈائز کا تصور موجود ہے، لیکن اس کا نقص یہ ہے کہ موجودہ یہودیت کے مطابق، اس کی بنیاد ایک مخصوص نسل پر رکھی گئی ہے۔ موجودہ یہود یت کا ماننا ہے کہ یہودی نسل ایک منتخب گروہ (chosen people) کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہی منتخب گروہ پیراڈائز کا حق دار ہے۔ یہ تصور انسان کی آفاقی فطرت کے بالکل خلاف ہے۔ اِس لیے علمی اعتبار سے وہ درست نہیں قرار پاسکتا۔
مسیحی ماڈل
یہی معاملہ کرسچن ماڈل (Christian model) کا ہے۔ موجودہ مسیحیت میں پیراڈائز کے وجود کو مانا گیا ہے۔ لیکن موجودہ مسیحیت کے مطابق، پیراڈائز کا استحقاق عقیدۂ کفّارہ (atonement) سے جڑا ہوا ہے، یعنی آدمی کی خطا کے بعد تمام انسان پیدائشی طورپر گنہ گار اور پیراڈائز سے محروم ہوچکے ہیں۔ اب پیراڈائز صرف ان عورتوں اور مردوں کے لیے ہے، جو اِس عقیدے کو مانیں کہ مسیح مصلوب ہو کر اُن کی طرف سے ان کے تمام گناہوں کا کفّارہ بن گئے ہیں۔
موجودہ مسیحیت کا یہ تصور بھی انسانی فطرت سے مطابقت نہیں رکھتا۔ پیدائشی گناہ (original sin) کا نظریہ ایک فلسفیانہ نکتہ تو ہوسکتا ہے، لیکن وہ انسان کی فطرت کے اعتبار سے بالکل اجنبی ہے۔ انسان کی فطرت یہ چاہتی ہے کہ جو شخص کوئی بُرا عمل کرے، وہی اپنے عمل کی سزا بھگتے۔ گناہ کوئی اور شخص کرے اور اس کی گنہ گاری پیدائشی طور پر کسی اور شخص تک پہنچ جائے، یہ وراثتی گنہ گاری (hereditary sin) ہے۔ اور ورثتی گنہ گاری کا نظریہ انسانی فطرت سے ہر گز مطابقت نہیں رکھتا۔
تہذیبی ماڈل
اِسی طرح ایک ماڈل وہ ہے جس کو تہذیبی ماڈل (civilizational model) کہاجاسکتا ہے۔ تہذیب (civilization) سے مراد ہے — سماجی ترقی کا برتر مرحلہ:
An advanced stage or system of social development.
موجودہ زمانے میں جب تہذیبی ترقی یہاں تک پہنچی کہ نئی قسم کی ٹکنالوجی اور نئی قسم کی ترقی انسان کی دست رس میں آگئی، تو یہ سمجھا جانے لگا کہ اب پیراڈائز کے لیے ایک اور دنیا کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں۔ اب اِسی دنیا میں انسان اپنی پیراڈائز آپ بنا سکتا ہے۔
دوسرے لفظوں میں یہ کہ انسان اب اِس پوزیشن میں ہوگیا ہے کہ وہ اپنی پیراڈائز آپ بنا سکے۔ لیکن جلد ہی یہ خواب منتشر ہوگیا۔ بیسویں صدی عیسوی کے آخر میں پہنچ کر یہ معلوم ہوا کہ پیراڈائز کو تعمیر کرنے والی انڈسٹری اپنے آخری اسٹیج میں پہنچ کر ایک نئے قسم کا جہنم وجود میں لانے کا سبب بن رہی ہے۔ اس نئے جہنم کا نام موجودہ زمانے میں گرین ہاؤس گیس (green house gas) ہے، یعنی دنیا کا ایسی مضر گیسوں سے بھر جانا جس میں انسان کی زندگی ہی ممکن نہ رہے۔
اِس تجربے نے بتایا کہ پیراڈائز کو وجود میں لانے کے لیے بے کثافت انڈسٹری (pollution free industry) درکار ہے، اور تمام تجربات بتاتے ہیں کہ بے کثافت انڈسٹری کو وجود میں لانا انسان کے لیے سرے سے ممکن ہی نہیں۔ اس طرح تہذیبی جنت (civilization paradise) کا نظریہ، پیراڈائز کو وجود میں لانے سے پہلے ہی اپنی آخری ناکامی کے ساتھ ختم ہوگیا۔
بھلاوہ کلچر
پیراڈائز کے معاملے میں ایک اور قسم کا تصور بہت اہم ہے۔ اس کو تمثیل کی زبان میں آسٹرچ پیراڈائز (ostrich paradise) کہاجاسکتاہے۔ یہ اُن لوگوں کا تصور ہے جن کے سامنے پیراڈائز کی بات کہی جائے تو وہ اپنا یہ فارمولاپیش کردیں گے— آج کی بات آج، کل کی بات کل۔ اُن کا کہنا ہے کہ ابھی اور آج جو کچھ مل رہاہے، اُس کو حاصل کرو۔ ایک لفظ میں اُن کا فارمولا یہ ہے:
right here, right now
ان کی زندگی اِس نظریے پر مبنی ہے کہ— محنت سے پیسہ کماؤ اور عیش کی زندگی گزارو:
work, hard, party hard
اِس نظریے کی صحت کو جانچنے کے لیے ہمیں اس کو نتیجہ (result) کے نقطۂ نظر سے دیکھنا ہوگا، اور جب نتیجے کے پہلو سے اِس نظریے کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ سرے سے قابلِ عمل ہی نہیں۔ جولوگ اِس قسم کے الفاظ بولتے ہیں، وہ خود اِس کا مثبت نتیجہ حاصل کرنے میں ناکام ہیں۔ بظاہر یہ خوب صورت الفاظ ہر ایک کے لیے صرف منفی نتیجہ لے کر سامنے آئے ہیں۔
اِس قسم کے لوگ زیادہ پیسہ کماتے ہیں، مگر زیادہ پیسہ صرف ان کے لائف اسٹائل اور ان کی غذائی عادت (food habit) کو بگاڑ دیتا ہے، جس کے نتیجے میں شوگر، بلڈ پریشر اور کینسر جیسی مہلک بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ زیادہ پیسہ کما کر یہ لوگ اپنا اسٹریس (stress) دور کرنے کے لیے آؤٹنگ پر جاتے ہیں، لیکن جب وہ اپنی آؤٹنگ سے لوٹتے ہیں تو ان کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک نیا مسئلہ ہالی ڈے اسٹریس (holiday stress) کی صورت میں لے کر واپس آئے ہیں۔
زیادہ پیسہ کما کر وہ اپنی شاپنگ کو بڑھاتے ہیں، لیکن اُس کا نتیجہ صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ سطحی چیزوں میں اپنی مشغولیت کی وجہ سے اُس چیز سے محروم ہوجاتے ہیں، جس کو اعلیٰ سوچ (high thinking) کہاجاتاہے۔ زیادہ پیسہ کما کر وہ لَو افئر (love affair) کا کلچر چلاتے ہیں، لیکن اس کا نتیجہ برعکس طورپر ہیٹ افئر (hate affair) کی صورت میں نکلتا ہے۔ اس کا آخری نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایسے لوگ فیملی لائف کی خوشی سے یک سر محروم ہو کر رہ جاتے ہیں، وغیرہ۔
بالفرض اِس قسم کا کوئی انسان اپنے نظریے کے منفی انجام سے بچ جائے، تب بھی یہ واقعہ تو ان میں سے ہر ایک کے ساتھ لازمی طور پر پیش آتا ہے کہ وہ سو سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی بوڑھا ہو کر بستر پر پڑجاتا ہے اور اس کا انجام صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ اسپتال میں داخل ہوجائے اور پھر اپنا سب کچھ چھوڑ کر ایک دن اِس دنیا سے چلا جائے۔
اِس کی ایک مثال 12 جنوری 2008 کے اخبارات میں سامنے آئی ہے۔ نیوزی لینڈ کے سرایڈمنڈ ہیلیری نہایت طاقت ور انسان تھے۔ جب وہ کوہ پیمائی کرتے ہوئے دنیا کی سب سے اونچی چوٹی ایورسٹ (Everest) پر پہنچ گئے تو ساری دنیا کے اخباروں میں بڑی بڑی سرخیوں کے ساتھ یہ خبر چھپی۔ وہ فاتحِ ایورسٹ کہے جانے لگے۔ جب انھوںنے ایورسٹ کی چوٹی پر قدم رکھا تھا تو اس وقت اُن کی زبان سے یہ پُر فخر الفاظ نکلے تھے:
To my great delight, I realized we were on top of Mount Everest and the whole world spread out below us. (The Times of India, New Delhi, January 12, 2008, p. 12)
لیکن 11 جنوری 2008 کو جب 88 سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوا تو وہ اسپتال کے بستر پر ایک نہایت کم زور انسان کی حیثیت سے پڑے ہوئے تھے اور ان کے سامنے اس کے سوا کوئی اور انتخاب(option) نہ تھا کہ موت کے فیصلے کو قبول کرتے ہوئے وہ اپنے تمام اثاثے اور اپنی تمام تمناؤں کے ساتھ اِس دنیا کو چھوڑ کر ایک ایسی دنیا میں چلے جائیں، جس کا سامنا کرنے کے لیے اُن کے پاس بظاہر کچھ بھی موجود نہ تھا۔
قرآنی ماڈل
اب پیراڈائز کے بارے میں قرآنی ماڈل (Quranic model) کو لیجئے۔ اِس معاملے میں قرآن کا ماڈل، خدا کے تخلیقی پلان (creation plan of God) پر مبنی ہے۔ قرآن کے مطابق، خداوندِ عالم کا تخلیقی پلان اور پیراڈائز دونوں ایک دوسرے سے پوری طرح جُڑے ہوئے ہیں۔ اِسی لیے قرآن کے مطابق، پیراڈائز کے معاملے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کو خداوندِ عالم کے تخلیقی پلان کی روشنی میں سمجھا جائے۔
قرآن، خدا کی کتاب ہے۔ وہ پوری طرح اپنی اصل حالت میں محفوظ ہے۔ قرآن کے مطابق، خدا نے انسان کو بنایا اور اس کو موجودہ زمین پر آباد کیا۔ یہ آباد کاری بطور امتحان تھی، نہ کہ بطور انعام، یعنی یہ آبادکاری اِس لیے تھی کہ دنیا کی عارضی زندگی میں انسان اپنے آپ کو پیراڈائز کا اہل ثابت کرے اور پھر موت کے بعد آنے والی اگلی دنیا میں اس کو اس کے عمل کے مطابق، پیراڈائز میں بسایا جائے۔
اِس اعتبار سے موجودہ دنیا گویا کہ ایک انتخابی میدان(selection ground)ہے۔ یہاں آدمی کو مختلف قسم کے احوال میں رکھ کر جانچا جارہا ہے کہ کون اپنے عمل سے اِس بات کا ثبوت دے رہا ہے کہ وہ جنت کی معیاری دنیا میں بسائے جانے کے قابل ہے۔ جو لوگ اِس جانچ میں پورے اتریں، ان کو منتخب کرکے جنت کی ابدی دنیا میں داخل کردیا جائے گا۔ اور جو لوگ اِس جانچ میں ناکام ہوگئے، اُن کو ابدی طورپر کائنات کے کوڑے خانے (جہنم) میں ڈال دیا جائے گا۔
قرآن کے مطابق، یہ جنت ابدی ہوگی اور اِسی کے ساتھ ایک معیاری اور آئڈیل جنت۔ یہاں یہ ممکن ہوگا کہ انسان ہر قسم کے خوف اور ہر قسم کے حزن سے بچ کر زندگی گزارے۔ جنت کی یہ دنیاہر قسم کے ناموافق حالات (disadvantages) اور ہر قسم کی محدودیت (limitations) سے خالی ہوگی۔ یہاں انسان وہ سب کچھ پالے گا جس کی تمنا وہ اپنے دل میں محسوس کرتا ہے۔
جنت کی اِس دنیا میںآدمی کی تمام خواہشیں (desires) پوری ہوں گی۔یہاں اُس کو مکمل فلفل مینٹ (fulfilment) حاصل ہوگا۔ موجودہ دنیا میں بھی اگر چہ تمام اچھی چیزیں موجود ہیں، لیکن یہ دنیا ایک غیر معیاری دنیا (imperfect world) ہے، جب کہ جنت کی دنیا ہر اعتبار سے ایک معیاری دنیا (perfect world) ہوگی۔ جنت کی دنیا میں نہ شور ہوگا اور نہ کسی قسم کی کثافت۔ یہ دنیا ہر قسم کی منفی باتوں سے خالی ہوگی۔موجودہ دنیا ایک ناقص دنیا ہے، اور جنت ایک کامل دنیا ہوگی۔ اور کسی معاملے میں ناقص نمونے کا وجود میںآنا، اپنے آپ اِس بات کا ثبوت ہے کہ یہاں کامل نمونہ بھی وجود میں آسکتا ہے۔ یہی ہے جنت کا قرآنی ماڈل۔ یہ ماڈل بلا شبہہ فطرت کے تقاضے سے پوری طرح ہم آہنگ ہے۔ وہ تمام متعلق مظاہر سے مطابقت (corroborate) کر رہا ہے۔
پیراڈائز کے قرآنی ماڈل کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ اُس میں آدمی کامل شعور کے ساتھ اور اپنے مائنڈ کی اعلیٰ ترقیاتی سطح پرجئے گا۔ یہ جنت انسان کے لیے نہ کوئی محدود دنیا ہوگی اور نہ ایسا ہوگا کہ وہ شعور سے کم تر کسی سطح پر اُس کو حاصل ہوگی۔
پیراڈائز کے بارے میں قرآنی ماڈل کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ وہ کوئی پراسرار (mysterious) جگہ نہیں ہوگی، بلکہ وہ ہماری دنیا جیسی ایک جگہ ہوگی۔ قرآن میںواضح طورپر بتایا گیاہے کہ جنت میں وہ تمام اچھی چیزیں اہلِ جنت کو ملیں گی، جو اُنھیں دنیا کی زندگی میں ملی تھیں، مگر یہ تمام چیزیں نہایت اعلیٰ صورت میں ہوں گی۔ اِسی طرح جنت میں اس کے باشندوں کو ہر قسم کی سرگرمیوں کا موقع ہوگا، مگر یہ سرگرمیاں اوّل سے آخر تک پُرکیف ہوں گی۔ وہاں نہ کوئی بورڈم ہوگا اور نہ کوئی تکان۔ مزید یہ کہ دنیا میں آدمی چیزوں سے محظوظ ہونے کی بہت کم طاقت رکھتاہے۔جنت میں ایسا ہوگا کہ وہاں کے باشندوں کو چیزوں سے انجوائے کرنے کی لامحدود طاقت حاصل ہوگی۔ اور سب سے بڑھ کر یہ بات کہ پیراڈائز کے قرآنی ماڈل میںانسان، خدا کے پڑوس میں رہنے کا موقع پالے گا، جو کہ ہر قسم کی خوبیوں اور ہر قسم کے کمالات کا اتھاہ خزانہ ہے۔
واپس اوپر جائیں

اعتماد کی اہمیت

سماجی زندگی میں اعتماد (trust) کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ یہ کسی آدمی کے لیے بہت بڑا سرمایہ (asset) ہے کہ وہ لوگوں کی نظر میں قابلِ اعتماد بن جائے۔ اِس قسم کا اعتماد کسی انسان کو بہت دیر میں حاصل ہوتا ہے۔ لمبے تجربات کے بعد ہی کسی شخص کو یہ درجہ ملتا ہے کہ وہ لوگوں کی نظرمیں ایک قابلِ اعتماد انسان بن سکے۔
کچھ لوگوں کا یہ مزاج ہوتاہے کہ وہ لوگوں کو بے وقوف بنا کر پیسہ کمانا چاہتے ہیں، وہ جھوٹ بول کر لوگوں کا استحصال کرتے ہیں۔ ایسے لوگ زندگی میں کبھی کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کرسکتے۔ بڑی کامیابی ہمیشہ سچائی کی بنیاد پر حاصل ہوتی ہے۔ دھوکا ایک بار کام آسکتا ہے، لیکن سچائی ہزار بار کام آتی ہے۔ دھوکے کی حد ہے، مگر سچائی کی کوئی حد نہیں۔
جو لوگ خوش نما باتیں کرکے پیسہ کمانا چاہتے ہیں، وہ بہت جلد لوگوں کی نظر میں مشتبہ ہوجاتے ہیں۔ آخر کار اُن کا حال یہ ہوتا ہے کہ لوگ ان کی باتوں پر بھروسہ نہیں کرتے، لوگ اُن سے معاملہ (dealing) کرنا چھوڑ دیتے ہیں، لوگوں کو ان کی باتوں پر یقین نہیں ہوتا۔ ایسے لوگ چند بار کچھ حاصل کرلیتے ہیں، لیکن بہت جلد ایسا ہوتا ہے کہ لوگ اُن سے کٹ جاتے ہیں۔ اِس قسم کے انسانوں کے متعلق لوگوں کا ذہن یہ بن جاتا ہے کہ اِن سے دور رہو۔
کامیابی کیا ہے۔ کامیابی ہمیشہ دوسروں کی قیمت پر ہوتی ہے۔ دوسروں سے فائدہ اٹھانے ہی کا دوسرا نام کامیابی ہے۔ لیکن دوسروں سے فائدہ اٹھانا، صرف اُس کے لیے ممکن ہوتا ہے جو خود بھی دوسروں کو فائدہ پہنچائے۔ دوسروں سے فائدہ لینا ہمیشہ دوسروں کو فائدہ پہنچانے کے بعد ہی ممکن ہوتاہے۔ یہ ایک دو طرفہ (bilateral) معاملہ ہے۔ جو آدمی دوسروں کوکوئی حقیقی فائدہ نہ پہنچائے اور یک طرفہ طورپر (unilaterally) وہ خود دوسروں سے فائدہ لینا چاہے، اس کے لیے اِس دنیا میں صرف یہ انجام مقدر ہے کہ وہ کبھی کامیابی اور ترقی حاصل نہ کرسکے۔
واپس اوپر جائیں

تجارت کا اصول

انڈیا کے ایک مسلم نوجوان کا واقعہ ہے۔ انھوں نے شہر میں ایک دکان کھولی۔ وہ وہاں بیٹھنے لگے۔ ایک دن اُن کے دادا اُن کی دکان پر آئے۔ اُس وقت مذکورہ نوجوان اپنی دکان پر بیٹھے ہوئے ایک کتاب پڑھ رہے تھے۔ اُن کے دادا نے ان کے ہاتھ سے کتاب چھین لی اور کہا— یہ دکان ہے، یہ لائبریری نہیں۔
یہ واقعہ بتاتا ہے کہ تجارت کا اصول کیا ہے اور تجارت میں کامیابی کس طرح حاصل ہوتی ہے۔ وہ اصول یہ ہے کہ جب آدمی تجارت کرے تو تجارت ہی کو وہ اپنا سب کچھ بنا لے، وہ تجارت کے سوا ہر دوسری چیز کو ثانوی (secondary) بنا دے۔ یورپ میں مقیم ایک کامیاب تاجر نے اپنے بارے میں کہا کہ جب میں اپنی دکان پر ہوتا ہوں تو اُس وقت میں دوسری ہر چیز کو بھول جاتا ہوں۔ اُس وقت دکان ہی میرا سول کنسرن (sole concern) بن جاتی ہے۔
علم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ — علم تم کو اپنا جز صرف اُس وقت دیتا ہے، جب کہ تم اپنا سب کچھ اُسے دے دو (العلم لا یعطیک جزئَ ہ، حتی تعطیہ کُلَّک)۔ یہ بات تجارت کے بارے میں مزید اضافے کے ساتھ درست ہے۔ علم کو اگر آپ اپنا سب کچھ نہ دیں تو آپ کو صرف جزئی نقصان ہوگا، اور اگر آپ تجارت کو اپنا سب کچھ نہ دیں تو آپ کا سارا سرمایہ ہی ختم ہوجائے گا۔
قدیم زمانے میں، تجارت صرف ایک سادہ کاروبار کی حیثیت رکھتی تھی۔ اُس وقت کوئی شخص جزئی عمل کرکے بھی تاجر بن سکتا تھا، لیکن موجودہ زمانے میں تجارت ایک پیچیدہ کام بن چکی ہے۔ اب تجارت میں کامیابی کے لیے صرف جزئی عمل کافی نہیں۔ موجودہ زمانے کی تجارت اُس میں کلّی شرکت کے بغیر ممکن نہیں، یہ اصول چھوٹے تاجروں کے لیے بھی ہے اور بڑے تاجروں کے لیے بھی۔ جو آدمی تجارت کی اِس شرط کو پورا نہ کرسکتا ہو، اُس کو چاہیے کہ وہ ہر گز تجارت نہ کرے۔ وہ کوئی دوسرا معاشی کام کرے۔ مثلاً کسی ادارے کی ملازمت، وغیرہ۔
واپس اوپر جائیں

اچانک ترقی، تدریجی ترقی

اکثر نوجوانوں کا یہ ذہن ہوتا ہے کہ انھیں کوئی ایسا شارٹ کٹ (shortcut) مل جائے جس کے ذریعے وہ اچانک کوئی بڑی ترقی حاصل کرلیں، لیکن حقیقی دنیا میں ایسا کوئی شارٹ کٹ موجود نہیں۔ چناں چہ ایسے نوجوانوں کا انجام یہ ہوتا ہے کہ وہ کبھی کوئی بڑی ترقی حاصل نہیں کرپاتے۔ اُن کو حقیقت کا علم صرف اُس وقت ہوتا ہے جب کہ اُن کے لیے کام کرنے کا وقت ختم ہوگیا ہو۔ اِسی حقیقت کو ایک شاعر نے اِن الفاظ میں بیان کیا ہے:
زیست کا راز کھلا، گردشِ ایام کے بعد اِس کہانی کا تو آغاز تھا، انجام کے بعد
فطرت کے قانون کے مطابق، اِس دنیا میں کوئی بڑی ترقی صرف تدریجی (gradual) طور پر حاصل ہوتی ہے۔ آدمی کو ابتدا میں معمولی کامیابی پر راضی ہونا پڑتا ہے۔ اِس کے بعد وہ دھیرے دھیرے ترقی کرتے ہوئے بڑی کامیابی تک پہنچتاہے۔ اِس دنیا میں ہر ترقی سے پہلے معمولی کامیابی ہے اور آخر میں بڑی کامیابی۔
ہر نوجوان کو یہ جاننا چاہیے کہ خداکی بنائی ہوئی یہ دنیا اس کی امنگوں (ambitions) پر نہیں چل رہی ہے، بلکہ وہ خود اپنے قوانین پر چل رہی ہے۔ اِس دنیا میں کسی شخص کے لیے کامیابی اور ترقی کا صرف ایک ہی فارمولا ہے، وہ یہ کہ آدمی فطرت کے قانون کو جانے اور اس سے مطابقت کرتے ہوئے وہ آگے بڑھنے کی کوشش کرے۔ اِس کے سوا ہر دوسرا فارمولا بے بنیاد ہے، وہ کسی شخص کو کسی حقیقی انجام تک پہنچانے والا نہیں۔ درخت ہمیشہ بیج سے شروع ہوکر بڑا ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص یہ چاہے کہ اچانک اس کو بڑے بڑے درختوں کا باغ حاصل ہوجائے تو ایسی چھلانگ اِس دنیا میں ممکن نہیں۔ درخت کا سفر جب بھی شروع ہوگا، بیج سے شروع ہو گا ، نہ کہ پورے درخت سے۔ یہی معاملہ انسانی زندگی کا بھی ہے۔ انسان بھی اِس دنیا میں درخت کے مانند بڑھتا ہے۔ درخت گویا کہ فطرت کی طرف سے ایک مظاہرہ (demonstration) ہے جو بتاتا ہے کہ ترقی چاہنے والوں کو ترقی کا سفر کس طرح طے کرنا چاہیے۔
واپس اوپر جائیں

ترجیح کا مسئلہ

ایک تعلیم یافتہ مسلمان اپنے بچوں کے ساتھ یورپ کے ایک ملک میں رہتے ہیں۔ ایک بار وہ اپنے بچوں کو لے کر دہلی آئے۔ انھوںنے کہا کہ میں الرسالہ کا قاری ہوں۔ اب میں چاہتا ہوں کہ میں آپ کی صحبت میں بیٹھ کر آپ سے مزید کچھ سیکھوں، مگر اگلے دن وہ کئی دنوں کے لیے اپنے بچوں کے ساتھ چلے گئے، تاکہ اُنھیں تاریخی عمارات اور یادگاریں دکھائیں۔ میں نے اِ س کا سبب پوچھا تو انھوںنے مسکراتے ہوئے کہا کہ میرے بچے میرے بغیر انجوائے (enjoy) نہیں کرسکتے، اس لیے مجھے اُن کے ساتھ جانا پڑا۔یہی موجودہ زمانے میں تقریباً تمام والدین کا حال ہے۔اِن والدین میں کچھ وہ ہیں جو اعلان کے ساتھ سیکولر ہیں۔ کچھ دوسرے لوگ ہیں جو بہ ظاہر دین دار ہیں، لیکن دین ان کی ترجیح (preority) نہیں۔ جب بھی دین اور فیملی کے درمیان کسی اکی کا چوائس (choice) لینے کا سوال ہوتا ہے تو فوراً اُن کی فیملی ان کا چوائس بن جاتی ہے۔ ایسے موقع پر وہ دین کو اُسی طرح بھول جاتے ہیں، جیسے کہ وہ اُن کی فہرست حیات میں شامل ہی نہیں۔
اِسی کا نام اولاد پرستی ہے، اور اِس اولاد پرستی میں باریش لوگ بھی اتنا ہی مبتلا ہیں، جتنا کہ بے ریش لوگ۔ بے ریش گروہ اور باریش گروہ کے درمیان ظاہر کے اعتبار سے ضرور فرق ہے، لیکن حقیقت کے اعتبار سے دونوں کے درمیان بظاہر کوئی فرق دکھائی نہیں دیتا۔فطرت کی تقسیم میں والدین کو اپنے بچوں کا ’’امام‘‘ بننا تھا، لیکن عملاً وہ خود اپنے بچوں کے ’’مقتدی‘‘ بنے ہوئے ہیں۔
قرآن میں اولاد کو فتنہ (8: 28) بتایاگیا ہے، یعنی آزمائش (test) کا ذریعہ۔ اولاد فتنہ کیوں ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ اولاد کے لیے اُن کے دل میں بہت زیادہ محبت ہوتی ہے۔ اِس بڑھی ہوئی محبت کی بنا پر اولاد اپنے والدین کے لیے فتنہ بن جاتی ہے۔ اِس معاملے میں آزمائش یہ ہے کہ والدین اپنی اولاد کے حق میں اپنی بڑھی ہوئی محبت کو کنٹرول کریں۔ وہ ایسا نہ کریں کہ اولاد کے ساتھ اپنی محبت کو عذر (excuse) بنائیں، بلکہ وہ یہ کریں کہ اس فطری تعلق کے باوجود وہ اپنی محبت کو خدا کے لیے خاص کردیں۔
واپس اوپر جائیں

سوال وجواب

سوال
میرے تجربہ کے مطابق، امریکا کے مسلمانوں میں آج کل ایک لفظ بہت زیادہ رائج ہے، وہ ہے— اہلِ سنت والجماعت۔ اس لفظ کا مفہوم اُن کے نزدیک یہ ہے کہ مسلم ملت عمومی طورپر جس مسلک پر قائم ہے، وہ درست مسلک ہے۔ براہِ کرم واضح فرمائیں کہ اہلِ سنت والجماعت سے کیا مراد ہے۔ اور کیا اہلِ سنت والجماعت کا مذکورہ مفہوم درست ہے۔ (خواجہ کلیم الدین، امریکا)
جواب
اہلِ سنت والجماعت کا مذکورہ مفہوم درست نہیں۔ ذیل میں اِس سوال کی مختصر وضاحت کی جاتی ہے۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’أہل السنۃ والجماعۃ‘‘ کا لفظ پہلی بار عبد اللہ بن عباس نے استعمال کیا( تفسیر ابن کثیر، جلد 1، صفحہ 390) ۔ ’’الجماعۃ‘‘ کے بارے میں مزید یہ کہاگیا ہے کہ اس سے مراد ایک بڑا مجموعہ نہیں، بلکہ اِس سے وہ لوگ مراد ہیں جو حق پر قائم ہیں، حتی کہ اگر صرف ایک شخص بھی حق پر قائم ہے تو وہ حدیث میں بیان کردہ ’’الجماعۃ‘‘ کا مصداق ہے۔ ابن مسعود نے فرمایا ہے : ’’الجماعۃ: ما وافق الحق إن کنتَ وحدک‘‘۔ ’’ولو کان التمسک شخصاً واحداً‘‘ (إغاثۃ اللہفان لابن قیم الجوزیۃ، 1/69 )
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل السنۃ والجماعۃ سے مراد وہی لوگ ہیں جن کے بارے میں حدیث میں یہ الفاظ آئے ہیں: ما أنا علیہ وأصحابی، یعنی صحابہ اور دوسرے وہ لوگ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی سچی پیروی کرنے والے ہیں، یعنی متبعینِ سنت اور اصحابِ رسول۔
سوال
حق کی معرفت کے لیے کیا صرف مطالعہ کی کثرت کافی ہے یا اِس کے لیے کوئی ا ور چیز درکار ہے۔ براہِ کرم ، اس سوال کی وضاحت فرمائیں ۔(عدنان خان، نئی دہلی)
جواب
میں کچھ ایسے افراد سے واقف ہوں جو حق کے متلاشی (seeker) تھے۔ انھوںنے بہت زیادہ مطالعہ کیا، بلکہ وہ ساری عمر مطالعہ ہی کرتے رہے۔ مگر بیش تر لوگ حق تک نہ پہنچ سکے، وہ کنفیوژن کا شکار ہو کر رہ گئے۔اپنے تجربے سے میں نے یہ جانا ہے کہ زیادہ مطالعے کا پلس پوائنٹ بھی ہے اور مائنس پوائنٹ بھی۔ اگر آدمی کے اندر تجزیہ (analysis) کی صلاحیت ہو، تو اس کا زیادہ مطالعہ اُس کو سچائی تک پہنچا دے گا۔ اور اگر اس کے اندر تجزیہ کی صلاحیت نہ ہو، تو اُس کا زیادہ مطالعہ صرف اس کے کنفیوژن میں اضافہ کرے گا۔مجھے ایک ایسے شخص کا علم ہے جس نے بہت زیادہ مطالعہ کیا اور پھر وہ سچائی تک پہنچا، کیوں کہ اس کے اندر تجزیہ کی صلاحیت تھی۔ یہ ایک بنگالی ہندو، ڈاکٹر نشی کانت چٹوپادھیاتھے۔ انھوں نے گہرے مطالعے کے بعد اسلام قبول کرلیا۔ اِس کے برعکس مثال، ڈاکٹر رادھا کرشنن کی ہے۔ انھوںنے بہت زیادہ مطالعہ کیا، لیکن وہ سچائی تک نہ پہنچ سکے۔ آخر میں ان کا حافظہ ختم ہوگیا تھا، وہ کسی کو پہچانتے نہ تھے۔ اُن کا کیس میڈنیس (madness) کا کیس بن گیا۔ اِسی حال میں وہ مرگئے۔ ان کا یہ حال اِس لیے ہوا کہ ان کے اندر تجزیہ کی صلاحیت نہ تھی۔ میں نے ان کی کتابیں پڑھی ہیں۔ ان کی انگریزی بہت اچھی تھی، لیکن اِن کتابوں میں کنفیوژن کے سوا اور کچھ نہیں۔
سوال
پاکستان کے بعض علماء اور مجاہدین کا کہنا ہے کہ حدیث میں مذکور ’’غزوۂ ہند‘‘ کی روایت سے مراد انڈیا اور پاکستان کے درمیان ہونے والی جنگ ہے۔ براہِ کرم، اِس روایت کے الفاظ اور اس کے مفہوم کو واضح فرمائیں (بلال احمد، پاکستان)۔
جواب
یہ روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ سنن البیہقی کے متعلق الفاظ یہ ہیں: عصابتان من أمتی أحرزہما اللہ من النار: عصابۃ تغزو الہند (السنن الکبری للبیہقی، رقم الحدیث: 17118) یعنی میری امت کے دو گروہ ہیں جن کو اللہ نے آگ سے بچالیا ہے—ان میں سے ایک گروہ وہ ہے جو ہند میں غزوہ کرے گا۔
یہ بات بلاشبہہ درست ہے کہ پاکستان کے بعض انتہا پسند لوگ اپنی اُس لڑائی کو اِس روایت کا مصداق سمجھتے ہیں جو انھوںنے انڈیا کے خلاف چھیڑ رکھی ہے۔ مگر یہ سرتا سر ایک بے بنیاد بات ہے۔ پاکستانی لیڈروں نے 1947 سے پہلے دو قومی نظریے کے نام پر ہندوؤں سے نظریاتی لڑائی چھیڑی، مگر وہ اِس میں ہار گئے۔ تقسیم کے بعد جو پاکستان اُن کو ملا، اُس کو قائد پاکستان مسٹر محمد علی جناح نے کٹا پھٹا پاکستان (truncated Pakistan) کہاتھا۔ اِس کے بعد پاکستان نے بار بار انڈیا سے لڑائی کی، مگر وہ ہر بار ناکام رہا— 1948 میں قبائل کے ذریعے کشمیر پر حملہ، 1965 میں باقاعدہ ہندستان پر حملہ، 1971 میں بنگلہ دیش کی لڑائی، اس کے بعد 1999 میں کارگل کی لڑائی، نیز کشمیر میں 1971 کے بعد سے مسلسل طورپر، پراکسی وار(proxy war) کا جنگی سلسلہ جو اب تک جاری ہے۔ اِن تمام جنگوں میں انڈیا کے مقابلے میں پاکستان کو مکمل طورپر شکست ہوئی۔
اِس لمبے تجربے سے دو بات واضح طور پر ثابت ہوتی ہے— ایک، یہ کہ اِس حدیث میں ’’غزوۃ‘‘ سے مراد مسلح جنگ نہیں ہے۔ اگر اِس سے مراد مسلح جنگ ہوتی تو مذکورہ جنگ میں مسلمان ضرور کامیاب ہوجاتے۔ دوسری بات یہ کہ اِس حدیث میں ’’عصابۃ‘‘ سے مراد پاکستانی لوگ ہرگز نہیں ہوسکتے۔ کیوںکہ پاکستانی لوگ انڈیا کے خلاف بار بار اقدام کے باوجود یک طرفہ طورپر شکست کھارہے ہیں۔ اِس سے ثابت ہوتاہے کہ اِس معاملے میں پاکستان کو اللہ کی نصرت حاصل نہیں۔
سوال
علماء اور اہلِ مدارس کے لیے الرسالہ مشن کی اہمیت کیا ہے۔ براہِ کرم، اِس کو واضح فرمائیں (مولانا سید اقبال احمد عمری، عمر آباد، تمل ناڈو)۔
جواب
جدید تعلیم یافتہ طبقے کے علاوہ، ہمارے دعوتی مشن کے اصل مخاطب علماء اور مدارسِ عربیہ کے لوگ ہیں، کیوں کہ امکانی طورپر وہ قرآن اور حدیث پر مبنی مشن کے لیے تیار ذہن (prepared mind) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اِس کی شرط صرف ایک ہے، وہ یہ کہ مدارسِ عربیہ کے لوگ اپنی ڈی کنڈیشننگ کرسکیں۔ سیکولر اداروں میں پڑھے ہوئے لوگ ہمارے دعوتی مشن کو بھر پور طور پر سمجھ نہیں سکتے۔ وہ اُن اصطلاحوں سے مانوس نہیں ہوتے جن میں ہم کلام کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ گہرے علمی اور خالص دینی موضوعات پر میں صرف ان لوگوں سے گفتگو کرپاتا ہوں جن کا تعلیمی بیک گراؤنڈ عربی ہو۔ کیوں کہ جن لوگوںکا تعلیمی بیک گراؤنڈ عربی نہ ہو، اُن سے دینی موضوعات پر بات کرتے ہوئے ان کی ایک حد آجاتی ہے اور ان سے گفتگو جاری نہیں رہ پاتی۔اہلِ مدارس کی ڈی کنڈیشننگ کیا ہے، وہ اصلاً صرف ایک ہے، یہ کہ وہ شخصیت پرستی کے خول سے باہر آجائیں۔ وہ چیزوں کو اپنے اکابر کے بجائے اصول کی حیثیت سے دیکھنے لگیں۔ اہلِ مدارس اگر ایسا کرسکیں تو اُن کے لیے اعلیٰ معرفت کا دروازہ پوری طرح کھل جائے گا۔ اہلِ مدارس کو دوسروں کے مقابلے میں، دوچیزیں خصوصی طورپر حاصل رہتی ہیں— ایک، حقائقِ دینیہ سے مانوس ہونا۔ اور دوسرے اصطلاحاتِ دینیہ سے آشنا ہونا۔
مزید یہ کہ حدیث کے مطابق، ایک مومن کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے زمانے سے باخبر ہو (أن یکون بصیرا بزمانہ)۔ علماء اور اہلِ مدارس، دینی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کے باعث، اسلام کے روایتی علم سے آشنا ہوتے ہیں۔ لیکن عام طورپر وہ اُس صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں جس کو مذکورہ حدیث رسول میں ’’بصیرتِ زمانہ‘‘ کہاگیا ہے، یعنی اپنے زمانے سے باخبر ہونا۔ ایسی حالت میں علماء اور اہلِ مدارس کے لیے ضروری ہے کہ وہ الرسالہ مشن کے تحت تیار کردہ لٹریچر کا مطالعہ کریں۔ کیوں کہ یہ لٹریچر بصیرتِ زمانہ کی اِسی کمی کی تلافی کے لیے تیار کیا گیاہے۔
سوال
مسلم امت کے بحران کے موضوع پر ایک کتاب نگاہ سے گزری۔ میںنے اِس کتاب کو کئی بار پڑھا، مگر اِس کتاب میں متعین طورپر نہ یہ بتایا گیا ہے کہ وہ کیاچیز ہے جس کو ’’امت کا بحران‘‘ کہاجاتاہے، اور نہ اِس بحران کا کوئی متعین لائحہ عمل اِس کتاب میں پیش کیا گیا ہے۔ پوری کتاب بیانیہ انداز میں ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مصنف متعین زبان (specific language) میں کلام کرنا جانتے ہی نہیں، وہ صرف طویل اِدّعائی اسلوب کلام سے واقف ہیں۔موجودہ زمانے میں امت کا بحران کیا ہے اور اس بحران سے نکلنے کا طریقہ کیا ہے، براہِ کرم، اس سوال کی وضاحت فرمائیں۔ (ابوالحکم محمد دانیال، پٹنہ)
جواب
مسلم امت کا بحران موجودہ زمانے کا ایک اہم موضوع ہے۔ اِس موضوع کی تحقیق اور اس کی درست توجیہہ ہی کے ذریعے یہ ممکن ہے کہ دورِ جدید میں امت کے لیے صحیح لائحہ عمل (line of action) متعین کیاجائے۔ اِس لحاظ سے یہ موضوع، احیائِ امت کے لیے بنیادی موضوع کی حیثیت رکھتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ مسئلہ (problem) زندگی کا لازمی جز ہے۔ جب مسئلہ پیدا ہواور آپ بروقت اس کا درست حل دریافت کرلیں تو مسئلہ آپ کے لیے مسئلہ نہیں رہے گا، بلکہ وہ عملاً آپ کے سفرِ ترقی کا نیا زینہ بن جائے گا۔ اِس کے برعکس، اگر آپ مسئلے کا درست حل دریافت کرنے میں ناکام رہیں تو مسئلہ آپ کے لیے ایک غیر حل شدہ مسئلہ (unsolved problem) بن جائے گا۔ غیر حل شدہ مسئلے سے پیدا ہونے والی اِسی صورت حال کا دوسرا نام بحران (crisis) ہے۔
مسلم امت کے موجودہ بحران کی اصل جڑ یہ ہے کہ دورِ جدید میں مغربی قوموں کی طرف سے اُس کو نئے قسم کے چیلنج پیش آئے۔ اپنے قدیم ذہن کی بنا پر مسلم رہنما اِس چیلنج کی نوعیت کو سمجھ نہ سکے اور غیر ضروری طور پر اپنے روایتی ہتھیاروں کے ذریعے اس سے لڑائی شروع کردی۔ طویل قربانی کے بعد جب اُنھیں اِس جنگ میں ناکامی ہوئی تو اب وہ آخری چارۂ کار کے طور پر مفروضہ دشمن کے خلاف خودکش بم باری کرنے لگے۔ اِس کا نتیجہ تباہی میں اضافے کے سوا اور کچھ نہ تھا۔
اب کرنے کا کام یہ ہے کہ ٹکراؤ کی سیاست کو مکمل طورپر موقوف کردیا جائے اور خالص غیرجانب دارانہ انداز میں پورے معاملے کی ازسرِ نو تحقیق کی جائے اور پھر مبنی بر حقیقت لائحہ عمل طے کیا جائے۔ اِس لائحہ عمل کی درستگی کا معیار صرف ایک ہوگا، اور وہ یہ کہ اس پر عمل کرنے سے مثبت نتیجہ برآمد ہونے والا ہو۔ ٹکراؤ کی سیاست کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان اپنے مقصدِ اصلی کو بھول گئے ، اور وہ دعوت الی اللہ ہے۔ دعوت الی اللہ مسلم امت کا واحد نشانہ ہے۔ اِسی نشانے کو اختیار کرنے کی صورت میں، اُن کے کام بنیں گے، اور اِس نشانے کو چھوڑنے کی صورت میں، اُن کے تمام کام بگڑ جائیں گے۔ امت کا موجودہ بحران اِسی کا ایک نتیجہ ہے۔
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز— 214

1 - برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے ایک ادارہ قائم کیا ہے۔ اس ادارے کا نام یہ ہے:
Tony Blair Faith Foundation
اِس ادارے کا صدر دفتر لندن میں ہے۔ اس ادارے کی طرف سے نئی دہلی کے ہوٹل تاج محل میں 27 ستمبر 2011 کو ایک سیمنار ہوا۔ اِس میں تمام مذاہب کے نمائندے شریک ہوئے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اورانٹرفیتھ (interfaith) کے موضوع پر انگریزی زبان میں ایک تقریر کی۔ اِس موقع پر مسٹر ٹونی بلیئر اور سیمنار کے دوسرے شرکاء کو پرافٹ آف پیس اور قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔
2 - امریکا کے لیے صدر اسلامی مرکز کے ٹیلی فونی خطاب کا سلسلہ جاری ہے۔ پروگرام کی تفصیل درج ذیل ہے:
2 اکتوبر 2011 ، موضوع:Prophetic Guidance for the Modern Man
16 اکتوبر 2011 ، موضوع: Freedom of Conscience in Islam
یہ خطاب آدھ گھنٹے پر مشتمل تھے۔ آخر میں سوال وجواب کا پروگرام ہوا۔ اِس کو امریکا کے مختلف شہروں میں سنا گیا۔
3 ۔ فرینکفرٹ (جرمنی) میں 12-16 اکتوبر 2011 کے درمیان ایک بک فیئر ہوا۔ اِس میں گڈ ورڈ بکس (نئی دہلی) نے حصہ لیا۔ یہاں کافی تعداد میں وزیٹرس آئے۔ لوگوں نے بڑی تعداد میں یہاں سے قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر حاصل کیا۔ اِس موقع پر انگریزی پمفلٹ (The Reality of Life) کا جرمن ترجمہ ایک بک لٹ کی صورت میں لوگوں کو دیاگیا۔یہاں معلوم ہوا کہ پیرس (فرانس) کے پبلشر (Librairie Al-Azhar) کے تحت، صدر اسلامی مرکز کی دو کتابیں —پیغمبر انقلاب ا ور عظمتِ قرآن— فرانسیسی زبان میں شائع ہوچکی ہیں، اور مزید دوسری کتابوں کا فرانسیسی ترجمہ جلد شائع ہونے والا ہے۔
4 - برہما کماری مشن کی طرف سے اس کی 75 ویں جبلی (Platinum Jubilee) کے موقع پر اس کے کئی پروگرام انڈیا اور انڈیا کے باہر کے مقامات پر ہوئے۔اِس سلسلے میں نئی دہلی کے پچھم وہار میں 12 اکتوبر 2011 کو ہوٹل ریڈی سن بلو (Radisson Blu) کے آڈی ٹوریم میں ایک پروگرام ہوا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اپنی ٹیم کے کئی افراد کے ساتھ اِس میں شرکت کی اور حسب ذیل موضوع پر ایک تقریر کی:
Spirituality for Universal Brotherhood.
تقریر کے بعد سوال وجواب کا پروگرام ہوا۔ اِس موقع پر حاضرین کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔ اِس طرح کے تمام دعوتی موقعوں پر سی پی ایس کے ممبران اپنی طرف سے دعوتی لٹریچر خرید کر لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔
5 - مہاویر جینتی کے موقع پر 12 اکتوبر 2011 کو مہاویر کالج (گیتا کالونی، نئی دہلی ) میں وہاں کے طلبا اور اساتذہ کو سی پی ایس دہلی فیلڈ ٹیم کی طرف سے 200 ترجمہ قرآن اور دعوتی لٹریچر دیاگیا۔ لوگوں نے اس کو بہت شوق سے لیا۔
6 - سویڈن (یورپ) میں ایک ادارہ ’’مرکز البحوث الإسلامیۃ‘‘ قائم ہے۔ اس کے ڈائرکٹر عبد الحق الترکمانی ہیں۔ وہ صدر اسلامی مرکز کی تحریروں کے بہت قدر داں ہیں۔ وہ اپنے ادارے سے صدر اسلامی مرکز کی دو کتابیں— تعبیر کی غلطی، اور دین کی سیاسی تعبیر، عربی زبان میں چھاپنا چاہتے ہیں۔ اِس سلسلے میں ان کا خط یہاں نقل کیا جاتاہے:
العلامۃ والمفکر والبحاثۃ العالمی الکبیر مولانا وحید الدین خان، حفظہ اللہ تعالیٰ ورعاہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
أمّا بعدُ: فإنّی أدعو اللہ تعالیٰ أن تصلکم رسالتی ہذہ وأنتم بخیرٍ وعافیۃ فی الدین والدّنیا، وأن یجزیکم خیراً علی ما بذلتموہ خلال مسیرتکم العلمیّۃ الحافلۃ فی نصرۃ الإسلام، وبیان حقیقۃ التوحید والعبادۃ للّٰہ الواحد الأحد، ونفی الشرک والوثنیۃ۔ وأن یبارک فی عمرکم، ویوفّقکم لما فیہ مرضاتہ من صدق الإیمان وخشیتہ ومراقبتہ والالتزام بأحکام دینہ، ویحسن خاتمتکم علی التوحید والسنۃ۔أنا کاتب وباحث فی العلوم الشرعیۃ۔ أصلی من ترکمان العراق، وقد انتقلت إلی السوید منذ سنۃ (1997)، وأسست ہنا (مرکز البحوث الإسلامیۃ) لخدمۃ العلوم الشرعیۃ والدعوۃ إلی اللہ تعالی۔ إننی معجب جدًّا بکتبکم التی قرأتہا باللغۃ العربیۃ، وأہمہا کتابان، الأول: (التفسیر السیاسی للدین)، والثانی: (خطأ فی تفسیر الدین)؛ فقد قدّمتم للأمّۃ وللأجیال القادمۃ انجازاً علمیًّا وفکریًّا مہماً فی الکشف عن خطر التفسیر الجدید للدین، فأدّیتم بذلک واجبکم أمام اللہ تعالیٰ، وأحسنتم فی النصیحۃ والتحذیر، جزاکم اللہ خیراً، وجعل ما لقیتم من الإساء ۃ من المتعصبین والمتحزِّبین فی میزان حسناتکم، بمنّہ وکرمہ۔إنّ عملکم الموفَّق لم یکن لحدثٍ عابرٍ ولا لشأنٍ عارضٍ، وإنما لقضیَّۃٍ مرکزیَّۃٍ تتعلَّق بدین الأمۃ وعقیدتہا ورسالتہا۔ لہذا فإنّ الحاجۃ إلیہ ما زالت قائمۃ، وستستمرُّ ما بقی التفسیر المنحرف للدین وحقائقہ۔ ومن ہنا فانَّنی أکتب إلی حضرتکم راجیًا منکم منحی إذنًا بطباعۃ ونشر الکتابین باللغۃ العربیۃ۔ وأتعہد لکم بإخراج الکتابین فی طبعۃ أنیقۃٍ، بکلِّ دقّۃٍ وأمانۃٍ، وسأکتفی بکتابۃ مقدمۃ دراسیۃ لکل کتاب۔ وہذا المشروع خیریٌّ دعویٌّ ولیس لہ أیُّ ہدفٍ مادِّی۔ کما أرجو منکم التفضل بتزویدی بآخر طبعۃ من الکتابین باللغۃ الإنکلیزیۃ أو الأردیۃ۔ ویسرنی أن أہدیکم نسخۃ من کتابی: (الدخول فی أمان غیر المسلمین وآثارہ فی الفقہ الإسلامی)۔وتفضلوا بقبول وافر الشکر والتقدیر، والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ (عبد الحق الترکمانی)۔ اس خط کے مطابق، مطلوبہ کتابیں موصوف کے پتے پر روانہ کردی گئی ہیں۔
7 - ویٹکن (اٹلی) کے تحت 27 اکتوبر 2011 کو ویٹکن میں حسب ذیل موضوع کے تحت ایک انٹرنیشنل سیمنارہوا : World Day of Prayer for Peace
اس میں مختلف مذاہب کے لوگوں کو شرکت کی دعوت دی گئی۔صدر اسلامی مرکز کو بھی اِس میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ مگر بعض وجوہ سے وہ اس میں شرکت نہ کرسکے۔ البتہ اس موضوع پر صدر اسلامی مرکز کا مقالہ اور مطبوعہ لٹریچر ان کو بھیج دیا گیاہے۔
-8 ٹائمس آف انڈیا (نئی دہلی) اور انگریزی کے دیگر اخبار اور میگزین میں مسلسل صدر اسلامی مرکز کے مضامین شائع ہورہے ہیں۔ یہ تمام مضامین سی پی ایس انٹرنیشنل کے ویب سائٹ (www.cpsglobal.org) پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ یہاں ٹائمس آف انڈیا (16 ستمبر 2011) میں صدر اسلامی مرکز کے شائع شدہ مضمون “How to Eradicate Corruption” پر قارئین کے چند تاثرات نقل کئے جاتے ہیں:
“Very correct and beautifully said. The materialistic way of life has to be modified and education at the early stages should be appropriately programmed.” - Alekhacharan Tripa
“Well said Maulana ji. We live in a society, which is predominantly materialistic. Our materialistic life-style is an impediment to our spiritual evolution. There are myriads of temptations that are all around us which tempt us to corruption...” - Pran Rangan
“Very valid thoughts. An evolved mind will result in evolved actions for the maximum welfare of maximum people - superseding personal whims and fancies. High moral rectitude, in a way, comes naturally to most spiritually aware persons...” - Rupa Anand
“Absolute facts projected in article. Spirituality is individualistic and materialism is a mass activity. Therefore corruption which starts in mind can be stopped only by changing the Mind or the way of thinking of groups and individuals...” - Upendra Solapurkar
“A very thoughtful Blog, indeed! As said rightly by him, corruption can be eradicated by changing the value system in the field of education at school level itself, slowly and steadily.” - Shakuntala Vibhute
“Maulana Wahiduddin Khan has very impressively commented on spirituality for routing out corruption. By that he means genuine spirituality not hypocritical spirituality as is found with many people, politicians and even many spiritual gurus. He has very rightly said, any genuinely spiritual person can be known by his own predictable character as well as concern and empathy for others. This concern and empathy for others in addition to spirituality that can rout out corruption.” - Amiya Kumar Satpat
“To me, there was total clarity. The Message was, do not be passive, try to spread spirituality as much as possible. This will lead to more evolved beings, and corruption will become less and less...” Ramesh Jeswani
9 - قرآن کے انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر کے متعلق قارئین کے چند تاثرات ملاحظہ ہوں:
I am deeply impressed by the logic and explanation of Moulana Wahiduddin Khan. I am postgraduate student of Politics and International Studies. The way he communicates is simple but full of sincerity and compassion. May he live long. I feel great regard for him. We need such kind of human beings on this earth—peace loving! I love such people! (Tasawar Hussain, Endcliffe England)
I am fully engrossed and enjoying every word and message from the Quran. On page 76 now, and looking forward to the rest. Thanks for gifting this wonderful translation of the Quran. I am eternally grateful. (Rock Furtado, Ritan Books, New Delhi)
I belong to such a profession where weeping is cowardice. So, I have such strong nerves that I never became emotional but my eyes became wet perhaps first time in my life when Stuthi Malhotra gave her introduction in “Dawah Meet-Kashmir” on 5th Feb, 2011 and I wept badly on the introduction of Rajat Malhotra. The couple unanimously said that they would not have been in the “Dawah Meet” had Maulana’s thinking been similar to those Muslims who believe that Quran will be disgraced if given to non Muslims. I have similar experience in my own vicinity where highly educated Muslims stopped me from gifting Quran to Non-Muslim students. (Firdous Dar, Sopore, Kashmir)
Today ( September 29, 2011), I attended a conference organized by the Uttrakhand Chapter of Indian Society For Training & Development. The Department of Management Studies [DoMS] of IIT Roorkee was the organizer. I utilized this opportunity for Dawah and some copies of the Quran were given to senior management and Professors from various industries and other institutes including IIT. Almost everybody accepted the Quran with great love, respect and affection. (Sajid Anwar, Head-Manufacturing, Asahi India Glass Ltd.)
واپس اوپر جائیں

Friday 1 July 2011

Al Risala | July 2011(الرسالہ،جولائی )

2

-فہمِ دین میں تقویٰ کی اہمیت

3

- اصلاحی عمل کا نقطۂ آغاز

4

- تائیدِ دین: تین دور

5

- مصادرِ شریعت

6

- قرآن کی سائنسی تفسیر

7

- متبادل نظام

8

- نفاق کی علامت

10

- عروج وزوال کا قانون

12

- تاریخ کے فیصلے کو بدلنا

14

- تمثیلی اسلوب

15

- تنقید کی دوقسمیں

16

- دعوت اور حکمت

17

- ایک غیر سائنسی بیان

18

- اسلامی رومانیت

19

- اتحادِ ملت

19

- ناممکن کی سیاست

20

- عظمتِ خویش کانفرنس

21

- نظر ِثانی کی ضرورت

22

- خدا کی طرف

28

- حسنِ جواب

29

- ذہنی تناؤ کا مسئلہ

30

- اپنے آپ کو بچائیے

31

- اکّالُ الرجال

32

- ایک خط

33

- سوال وجواب

40

- خبر نامہ اسلامی مرکز


فہمِ دین میں تقویٰ کی اہمیت

قرآن کی سورہ الانفال میں ارشاد ہوا ہے: یٰاأیہا الذین آمنوا إن تتّقوا اللہ یجعل لکم فرقاناً (8: 29) یعنی اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم اللہ سے ڈرو تو اللہ تمھارے لیے ایک فرقان بہم پہنچا دے گا۔
اِس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ دین کا صحیح فہم کسی آدمی کو اُس وقت ملتا ہے، جب کہ اس کو اللہ کی معرفت اتنی گہرائی کے ساتھ حاصل ہو کہ وہ اللہ سے ڈرنے لگے، وہ اللہ کے معاملے میں بہت زیادہ محتاط (mindful) بن جائے۔ جب آپ کسی معاملے کی علمی تشریح کریں تو اُس میں ڈر شامل نہیں ہوتا۔ آپ کی نفسیات یہ نہیں ہوتی کہ اگر میں نے غلط تشریح کردی تو میں سخت طورپر خدا کی پکڑ میں آجاؤں گا۔ لیکن جب آپ کے اندر متقیانہ ذہن پیدا ہوجائے تو آپ کا احساس یہ ہوتا ہے کہ میں اِس کا تحمل نہیں کرسکتا کہ میں کسی دینی امر کا مفہوم اِس طرح بیان کروں جو ادنیٰ درجے میں بھی حق سے ہٹا ہوا ہو:
I can not afford slightest deviation from the right meaning.
مذکورہ آیت میں فرقان کا لفظ آیا ہے۔ فرقان کے لفظ میں فرق کا مفہوم مبالغے کے ساتھ شامل ہے۔ اِس کا مطلب ہے دو چیزوں کے درمیان فرق (differentiate) کرنے کی گہری صلاحیت (الفصل بین الشیئین)۔ اِس صلاحیت کا ایک درجہ یہ ہے کہ آدمی علمی بنیاد پر فرق کرنا جانتا ہو۔ لیکن یہ صرف ایک ابتدائی بنیاد ہے۔ فرق کرنے کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ آدمی کے اندر داخلی بصیرت کے درجے میں فرق کرنے کی صلاحیت پیدا ہوجائے۔ اِسی کا نام فرقان ہے۔ ایسے آدمی کے لیے دین کی صحیح تشریح کرنے کا معاملہ ذاتی نجات کا معاملہ بن جاتا ہے۔ اس کے لیے ناممکن ہوجاتا ہے کہ وہ دین کی ایسی تشریح کرے جو آخر کار اللہ کے سامنے رد(reject) ہوجانے والی ہو۔ جو آدمی دین کی تشریح میں محتاط ہو، وہ لازمی طورپر دینی عمل میں بھی آخری حد تک محتاط ہوجائے گا۔
واپس اوپر جائیں

اصلاحی عمل کا نقطۂ آغاز

قدیم زمانے میں جب یہود پر سیاسی زوال آیا تو اُن کے اندر یہ مزاج پیداہوا کہ وہ لڑکر دوبارہ اپنا سیاسی اقتدار قائم کریں۔ اُس وقت، بائبل کے بیان کے مطابق، یہود کے پیغمبر یرمیاہ نے اُن سے کہا— بادشاہ اور اس کی والدہ سے کہو کہ عاجزی کرو اور نیچے بیٹھو، کیوں کہ تمھاری بزرگی کا تاج تمھارے سر پر سے اتار لیا گیا ہے:
Say to the king and to the queen mother, “Humble yourselves; sit down, for your rule shall collapse, the crown of your glory.” (Jeremiah 13: 18)
یہاں یہود کی مثال کی صورت میں یہ بتایا گیا ہے کہ قوموں پر عروج کے بعد زوال آتا ہے، سیاسی بالادستی کے بعد انھیں سیاسی زیردستی کا تجربہ پیش آتا ہے۔ یہ معاملہ قانونِ فطرت کے تحت پیش آتا ہے۔ اُس وقت قوم کو چاہیے کہ وہ اِس تبدیلی کو تسلیم کرے۔ کیوں کہ اُس وقت اِس تبدیلی کو تسلیم نہ کرنا اپنے آپ کو مزید تباہی کی طرف لے جانے کے ہم معنیٰ ہوتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ سیاسی اقتدار (political power)کسی گروہ کی قومی اجارہ داری (monopoly)نہیں۔ سیاسی اقتدار کا حصول اس کی ضروری اہلیت کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ قوم کے اندر جب تک صلاحیت پائی جائے، سیاسی اقتدار بھی اُس کو حاصل رہے گا۔ صلاحیت کے فقدان کے بعد سیاسی اقتدار بھی اس سے چھن جائے گا۔ جب ایسا ہو تو قوم کو چاہیے کہ وہ دوبارہ اپنے اندر ضروری صلاحیت پیدا کرے، نہ کہ وہ فریق ثانی کے خلاف بے فائدہ جنگ چھیڑ دے۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ ما بقوم میں تغیر ہمیشہ مابأنفس میں تغیر کا نتیجہ ہوتا ہے (13:11) مابقوم سے مراد اجتماعی حالت ہے، اور ما بأنفسسے مراد انفرادی حالت۔ جب بھی کسی قوم کی اجتماعی سطح پر زوال آئے تو اس کو اپنے افراد کی سطح پر اس کا سبب ڈھونڈنا چاہیے۔ کیوں کہ قوم کے افراد کی حالت کو بدلنے کے بعد ہی قوم کی اجتماعی حالت بدل سکتی ہے، اس کے بغیر ہر گز نہیں— عمل کا آغاز افراد کی سطح سے ہوتا ہے، نہ کہ اجتماع کی سطح سے۔اجتماع کی سطح پر جو آغاز ہوتا ہے، وہ صرف لیڈری ہے، نہ کہ کوئی حقیقی عمل۔
واپس اوپر جائیں

تائیدِ دین: تین دور

ایک مفسر قرآن سے پوچھا گیا کہ قرآن کا خلاصہ کیا ہے۔ انھوں نے جواب دیا کہ — سرگزشتِ انذار۔ یہ بات جزئی طور پر درست ہے، لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ قرآن سرگزشتِ دعوت ہے۔ انسانی تاریخ میں پیغمبروں کے ذریعے دعوتِ دین کا جو کام ہوا، قرآن اس کی براہِ راست یا بالواسطہ سرگزشت کا مجموعہ ہے۔ دعوت کا کام اصلاً خدائی پیغام کی پیغام رسانی کا کام ہے۔ مگر اس کام کی انجام دہی کے لیے خصوصی تائید ضروری ہے۔ اِس تائید کے تین بڑے دور ہیں:
1 - تائید دین بذریعہ معجزہ۔ 2 - تائید ِ دین بذریعہ سکینہ۔
3 - تائید ِ دین بذریعہ مذہبی آزادی۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے خدا کے جو پیغمبر آئے، اُن کی تائید اللہ تعالیٰ نے معجزات کے ذریعے کی۔ ہر پیغمبر کو اپنے زمانے کے حالات کے اعتبار سے معجزہ دیاگیا۔ قرآن کے مطابق، پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو اِس قسم کا حسّی معجزہ نہیں دیاگیا (17: 59) ، البتہ آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو خصوصی تائید کے طور پر وہ چیز دی گئی جس کو قرآن میںسکینہ (9: 26) کہاگیا ہے۔
سکینہ سے مراد سکونِ قلب (tranquility) ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کو دعوت کے راستے میں غیر معمولی قسم کے شدائد کا سامنا کرنا پڑا۔ بھوک، بائیکاٹ، جلاوطنی، قتال، وغیرہ۔ یہ شدائد اتنے زیادہ سخت تھے کہ عام انسان اُن کا تحمل نہیں کرسکتا۔ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر اور اصحابِ پیغمبر کو خصوصی طورپر سکونِ قلب عطا کیا، جس کو خدائی سکون (divine calm) کہاجاسکتا ہے۔ اِسی خصوصی تائید کی بنا پر پیغمبر اور اصحابِ پیغمبر اپنے مشن کی تکمیل کرسکے۔
تیسری تائید وہ ہے جو موجودہ زمانے کے اہلِ ایمان کو حاصل ہوئی ہے۔ یہ مذہبی آزادی (religious freedom) کا ناقابلِ تنسیخ حق ہے جو موجودہ زمانے میں عالمی طورپر حاصل ہوا ہے۔ اب دعوت کا کام کسی بھی قسم کی رکاوٹ کے بغیر آزادانہ طورپر انجام دیاجاسکتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

مصادرِ شریعت

فقہاء کا یہ ماننا ہے کہ اسلامی شریعت کے مصادر (sources) چار ہیں — قرآن، سنت، اجماع، قیاس، مگر یہ درست نہیں۔ یہ نظریہ تمام تر ذاتی قیاس کی بنیاد پر بنایاگیا ہے۔ قرآن اور سنت کی بنیاد پر اگر مصادرِ شریعت کو متعین کیا جائے تو وہ صرف تین ہوں گے۔ پہلا دو مصدر تو واضح طورپر قرآن اور سنت ہے۔ جہاں تک تیسرے مصدر کا تعلق ہے، اس کے لیے قرآن میں استنباط (4: 83) اور حدیث میں اجتہاد (صحیح البخاری) کا لفظ آیا ہے۔ نص کی بنیاد پر دیکھا جائے تو اصلاً اسلامی شریعت کے یہی تین مصادرہیں۔ اِن کے سوا کسی چوتھے مصدر کا اضافہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک بدعت ہے، اس کی کوئی منصوص بنیاد نہیں۔
عام طورپر فقہاء نے اجماع (consensus) کو شریعت کا ایک مستقل مصدر قرار دیا ہے، مگر یہ یقینی طورپر ایک بے بنیاد نظریہ ہے۔ شریعت کا مستقل مصدر صرف کوئی نصِ قطعی ہوسکتا ہے۔ نص قطعی کی غیر موجودگی میں کسی چیز کو شریعت کا مستقل مصدر قرار دینا، یقینی طورپر ایک بے بنیاد بات ہے۔ اجماع کی بلاشبہہ ایک اہمیت ہے، لیکن وہ اہمیت صرف یہ ہے کہ کسی خاص موقع پر اجماع کسی پیش آمدہ مسئلے کا ایک عملی حل ہوتاہے۔ یہ حل یقینی طورپر ایک وقتی حل ہوتا ہے، نہ کہ شریعت کا ابدی مصدر۔
یہ کوئی سادہ بات نہیں، یہ ایک بے حداہم بات ہے۔ ضرورت ہے کہ اہلِ علم اِس موضوع پر سنجیدگی کے ساتھ غور کریں اور پورے معاملے پر نظر ثانی کرتے ہوئے دوبارہ اس مسئلے کی ایسی تشریح کریں جو ایک طرف قرآن وسنت کے نصوص کے مطابق ہو۔ اور دوسری طرف اُس میں دورِ جدیدکے بدلے ہوئے حالات میں مسلمانوں کے لیے قابلِ عمل رہنمائی موجودہو۔ آج کی ایک ضرورت یہ ہے کہ اسلام کے تعلق (relevance) کو جدید دور کی نسبت سے ثابت کیا جائے، اور یہ کام مذکورہ معاملے کی تشریح کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے بہت سے فکری مسائل کا حل اِس معاملے کی تشریحِ نو سے منسلک ہے۔
واپس اوپر جائیں

قرآن کی سائنسی تفسیر

بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ قرآن میں تمام سائنسی مضامین موجود ہیں اور اِن حوالوں کو لے کر قرآن کی سائنسی تفسیرکی جاسکتی ہے۔ اِس معاملے میں کچھ لوگ اِس حد تک گئے ہیں جس کو صرف غیرعلمی نقطۂ نظر کہاجاسکتا ہے۔ مثلاًاُن کا یہ کہنا کہ ألم نشرح لک صدرک(94: 1) میں علم تشریح الابدان (anatomy) کا حوالہ ہے۔اور فکشفنا عنک غطائک فبصرک الیوم حدید (50:22)میں علم امراضِ چشم کا بیان ہے، وغیرہ۔
قرآن میں سائنسی مضامین کا یہ نظریہ بلاشبہہ ایک بے بنیاد نظریہ ہے۔ قرآن ان معنوں میں ہر گز کوئی سائنسی کتاب نہیں۔ لیکن ایک اور اعتبار سے یہ بات بالکل درست ہے، وہ یہ کہ جدید سائنسی تحقیقات فہمِ قرآن میں مدد گار کی حیثیت رکھتی ہیں۔
مثلاً قرآن کی سورہ المومنون میں بتایا گیا ہے کہ : وجعلنا من الماء کلَّ شیٔ حیّ (21: 30)۔ یہ بات پچھلے دور کا قاریٔ قرآن بھی ابتدائی طور پر جانتا تھا، مگر موجودہ زمانے کا قاریٔ قرآن جب اِس آیت کو سائنس کی نئی دریافتوں کے ساتھ ملا کرپڑھتا ہے تو وہ اس کی مزید تفصیل جان لیتا ہے۔اِس بنا پر قرآن کی صداقت کے بارے میں اس کا یقین بڑھ جاتا ہے۔
اِسی طرح قرآن کی سورہ یاسین میں یہ آیت ہے: وکلٌّ فی فلک یسبحون (36: 40)۔ اِس آیت میں اجرامِ سماوی کی گردش کے بارے میں جوبات کہی گئی ہے، اُسے قدیم زمانے کا قاریٔ قرآن بھی سمجھ سکتا تھا، لیکن آج کا ایک قاریٔ قرآن جب جدید سائنسی دریافتوں کو لے کر اِس آیت کو پڑھتا ہے تو وہ مزید اضافے کے ساتھ اِس آیت کو سمجھنے لگتاہے۔ اِس طرح قرآن کی صداقت کے بارے میں اس کا یقین بڑھ جاتا ہے۔
قرآن کی سائنسی تفسیر کا ایک تصور غلو پر مبنی ہے، قرآن کی سائنسی تفسیر کا دوسرا تصور حقیقت پر مبنی ہے۔ پہلا تصور یقینی طورپر غلط ہے، اور دوسرا تصور یقینی طورپر درست۔
واپس اوپر جائیں

متبادل نظام

قرآن کی سورہ الحج میں ارشاد ہوا ہے: الذین إن مکّنّاہم فی الأرض أقاموا الصلوٰۃ، واٰتوا الزکاۃَ، وأمروا بالمعروف، ونہوا عن المنکر، وللہ عاقبۃ الأمور(22: 41) یعنی اہلِ ایمان کو اگر ہم زمین میں غلبہ دیں تو وہ نماز قائم کریں گے، اور زکات ادا کریں گے، وہ معروف کا حکم دیں گے، اور منکر سے روکیں گے، اور سب کاموں کا انجام اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔
قرآن کی اِس آیت میں اہلِ اسلام کی اُس حالت کا بیان ہے جس کو سیاسی اقتدار کہاجاتا ہے۔ لیکن اِس آیت کے مطابق، یہ لوگ سیاسی اقتدار پاکر جو کام انجام دیں گے، وہ عین وہی کام ہے جس کو وہ سیاسی اقتدار سے پہلے بھی انجام دے رہے تھے، یعنی نماز کی اقامت، زکات کو ادا کرنا اور لوگوں کو برائی سے روکنا اور انھیں بھلائی کی تلقین کرنا۔ یہ سب وہی کام ہیں جو ہر مومن اقتدار کے بغیر بھی انجام دیتا ہے اور انھیں کاموں کو اُسے اقتدار پانے کے بعد بھی کرنے کے لیے بتایا گیا ہے۔
اِس سے معلوم ہوا کہ اسلام کے مطابق، سیاسی اقتدار کا وہ مقصد نہیں ہے جس کو کہ کچھ لوگ نہایت جوش کے ساتھ بیان کرتے ہیں، یعنی غریبی ہٹانا، اقتصادی استحصال کو ختم کرنا، سماج کے اندر مادی خوش حالی لانا، آئڈیل نظام قائم کرنا، وغیرہ۔ موجودہ زمانے کے کچھ سیاست پسند مسلمان یہ کہتے ہیں کہ اسلام دنیا کو ایک متبادل نظام (alternative system) دیتا ہے۔ یہ عین وہی چیز ہے جس کو قرآن میں مضاہاۃ (9: 30) کہاگیا ہے۔
موجودہ زمانے میں کچھ سیکولر مفکرین نے کہا کہ اشتراکیت(Communism) سرمایہ دارانہ نظام کا بدل (alternative) ہے۔ اِسی طرح کچھ سیکولر مفکرین نے کہا کہ جمہوریت، بادشاہی نظام کا بدل ہے۔ اِسی کی نقل میں کچھ مسلم مفکرین نے یہ کہنا شروع کردیا کہ اسلام سیکولر نظام کا ایک بدل ہے، وہ دنیا کو متبادل سیاسی اور معاشی نظام پیش کرتا ہے۔ مگر اِس تصور کا ماخذ قرآن نہیںہے، بلکہ اس کا ماخذصرف اہلِ زمانہ کی تقلید ہے، اِس سے زیادہ اس کی کوئی اور حقیقت نہیں۔
واپس اوپر جائیں

نفاق کی علامت

عبد اللہ بن عمرو سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أربع مَن کن فیہ کان منافقا خالصاً۔ ومن کانت فیہ خصلۃ منہن کانت فیہ خصلۃ من النفاق حتی یدَعَہا: إذا ئتُمِنَ خانَ، وإذا حدّث کذب، وإذا عاہد غدر، وإذا خاصم فجرَ (صحیح البخاری، کتاب الإیمان، باب علامۃ المنافق) یعنی چار خصلتیں ہیں جس کے اندر وہ خصلتیں ہوں، وہ خالص منافق ہے۔ اور جس شخص کے اندر اُن میں سے کوئی ایک خصلت پائی جائے، اُس کے اندر نفاق کی ایک خصلت ہوگی، یہاں تک کہ وہ اس خصلت کو چھوڑ دے— جب اس کو امین بنایا جائے تو وہ خیانت کرے، جب وہ بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وہ عہد کرے تو وہ اُس عہد سے پھر جائے، اور جب نزاع پیدا ہو تو وہ جھگڑنے لگے۔
اِس حدیث میں منافق کے کردار کو بتایا گیا ہے۔ منافق انسان وہ ہے جو عدم تقویٰ کی بنا پر حق اور ناحق کے معاملے میں غیر حساس (insensitive) ہوجائے۔ ایسا انسان ایک بے اصول انسان بن جاتا ہے۔ اس کے اندر مسئولیت (accountability) کا احساس باقی نہیں رہتا۔ اس کی روش ذاتی مفاد کے تابع ہوتی ہے، نہ کہ اصولِ حق کے تابع۔ اخلاقی معیار کی اہمیت اس کے اندر سے ختم ہوجاتی ہے، وغیرہ۔
اِس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اگر اس کو کوئی امانت سونپی جائے تو وہ نہایت آسانی سے اس کے معاملے میں خیانت کا مرتکب ہوجاتا ہے۔ جب وہ بات کرتاہے تو اپنے آپ کو سچ بولنے کا پابند نہیں سمجھتا، وہ نہایت آسانی کے ساتھ ایسی بات کہہ دیتا ہے جو حقیقت واقعہ کے خلاف ہو۔ ایسا آدمی عہد کا پابند نہیں ہوتا، وہ نہایت آسانی کے ساتھ عہد کرنے کے باوجود اُس عہد کو توڑ دیتا ہے۔
اِسی طرح ایسے انسان کا یہ حال ہوتا ہے کہ اگر کسی شخص سے اس کا اختلاف یا نزاع ہوجائے تو وہ اس کے معاملے میں انصاف پر قائم نہیں رہتا۔ وہ علمی گفتگو کے بجائے الزام تراشی کی زبان بولنا شروع کردیتا ہے۔ سنجیدہ تبادلۂ خیال کے بجائے، وہ جھگڑے کا انداز اختیار کرلیتا ہے۔ گفتگو کو دلائل تک محدود رکھنے کے بجائے، وہ زیر تنقید شخص کی نیت پر حملہ کردیتاہے۔ علمی تجزیہ (analysis) کے بجائے، وہ منفی ریمارک (negative remark) دینا شروع کردیتا ہے۔ حقائق کے حوالے سے بات کرنے کے بجائے، وہ قیاسات کے حوالے سے بات کرنا شروع کر دیتاہے۔ معاملے کو اصول تک محدود رکھنے کے بجائے، وہ مفروضات کے حوالے سیگفتگو کرنا شروع کردیتاہے۔ اصولی بنیاد پر بحث کرنے کے بجائے، وہ ذاتی نوعیت کی چیزوں سے بحث شروع کردیتا ہے، یہاں تک کہ وہ فریقِ ثانی کی طرف ایسی بات منسوب کرنے لگتاہے جو کہ اُس نے کبھی نہ کہی ہو۔ وہ اپنے موقف کی حمایت میں ایسی باتیں بولنے لگتاہے جو صرف سنی سنائی ہوتی ہیں، اُن کی کوئی اصل نہیں ہوتی، وغیرہ۔
منافق کی جن خصلتوں کا ذکر مذکورہ حدیثِ رسول میں کیاگیاہے، وہ بے حد سنگین خصلتیں ہیں۔ اِن کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ جو لوگ اِن خصلتوں کے حامل ہوں، اُن کے اندر کمزور شخصیت (weak personality) پرورش پاتی ہے۔ ایسا آدمی اُس عظیم نعمت اسے محروم ہوجاتا ہے جس کو اسٹرانگ شخصیت (strong personality) کہاجاتاہے۔
اِس خصلت کا مزید نقصان یہ ہوتاہے کہ ایسے آدمی کو فرشتوں کی صحبت نہیں ملتی۔ اس کو ربانی الہامات (divine inspirations) نہیں پہنچتے۔ وہ اعلیٰ معرفت کی غذا نہیں پاتا۔ خدا سے اس کار بط قائم نہیں ہوتا۔ ایسے آدمی کا ذہنی ارتقا (intellectual development) رک جاتا ہے۔ وہ تزکیہ کی نعمت سے محروم ہوجاتا ہے۔ ایمان کی روشنی اس کے داخل تک نہیں پہنچتی۔
کمزور شخصیت والا آدمی ہمیشہ شیطان کے زیر اثر رہتا ہے۔ اِس کے مقابلے میں، اسٹرانگ شخصیت والے آدمی کے ساتھ وہ ملکوتی تجربہ گزرتا ہے جس کو قرآن میں اِس طرح بیان کیا گیا ہے: إن الذین قالوا ربنا اللہ ثم استقاموا تتنزل علیہم الملائکۃ أن لا تخافوا ولا تحزنوا وأبشروا بالجنۃ التی کنتم توعدون (41: 30)
واپس اوپر جائیں

عروج وزوال کا قانون

قرآن کی سورہ الحدیدمیں امت کے عروج وزوال کا قانون بتایا گیا ہے۔ اِس سلسلے میں دو متعلق آیتوں کا ترجمہ یہاں نقل کیا جاتا ہے: ’’کیا ایمان والوں کے لیے وہ وقت نہیں آیا کہ اُن کے دل اللہ کی نصیحت کے آگے اور اُس حق کے آگے جھک جائیں جو نازل ہوچکا ہے۔ اور وہ اُن لوگوں کی طرح نہ ہوجائیں جن کو پہلے کتاب دی گئی تھی، پھر اُن پر لمبی مدت گزر گئی تو اُن کے دل سخت ہوگئے۔ اور ان میں سے اکثر لوگ نافرمان ہیں۔ جان لو کہ اللہ زمین کو زندگی دیتا ہے اُس کے مردہ ہونے کے بعد۔ ہم نے تمھارے لیے نشانیاں بیان کردی ہیں، تاکہ تم سمجھو‘‘۔ (57: 16-17)
اِن آیات میں فطرت کا ایک قانون بتایا گیا ہے، مگر عجیب بات ہے کہ قرآن کے مفسرین میں سے غالباً کوئی بھی اس مفہوم کو واضح نہ کرسکا۔ مثال کے طورپر سید قطب (وفات:1966 ) نے اِس آیت کی تفسیر میں لکھاہے: ولا بدّ من الیقظۃ الدائمۃ کی لا یصیبہ التبلّد والقساوۃ (فی ظلال القرآن، جلد 6، صفحہ 3489) یعنی لازم ہے کہ قلب دائمی طورپر بیدار رہے، تاکہ اس کے اندر سستی اور بے حسی نہ پیدا ہو۔ یہ تفسیر بلا شبہہ خلافِ فطرت ہے۔ اِس تفسیر کا مطلب یہ ہے کہ امت پر دورِ زوال نہ آنے پائے، حالاں کہ دورِ زوال کا آنا ایک فطری تقاضا ہے، کوئی بھی امت اس سے مستثنیٰ نہیں، نہ یہود اور نہ مسلمان۔اِن آیتوں میں دراصل فطرت کے اُس قانون کو بتایا گیا ہے جس کو ڈی جنریشن (degeneration) کہاجاتا ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ امتِ مسلمہ کی بعد کی نسلوں میں قساوت کی وہی کمزوری پوری طرح آجائے گی جو اِس سے پہلے یہود کے اندر آچکی ہے۔ اِس کے بعد تمثیل کی زبان میں یہ بتایا گیا ہے کہ جب ایسا ہو تو علمائِ امت کو کیا کرنا چاہیے۔ ان کو وہی کرنا چاہیے جو کسان اپنی بنجر زمین پر کرتا ہے۔ وہ پہلے زمین کو تیار کرتا ہے، اس کے بعد وہ اس میں بیج ڈالتا ہے۔ اِسی طرح علماء اور مصلحین کو یہ کرنا چاہیے کہ وہ پہلے امت کے اندر شعوری بیداری لائیں اور اس کے بعد عملی پروگرام کا نفاذ کریں۔ زوال کے بعد یہی صحیح نقطہ آغاز (starting point) ہے۔
شعوری بیداری کے بغیر عملی پروگرام کا نفاذ کبھی نتیجہ خیز (result-oriented)نہیں ہوسکتا۔ شعوری بیداری کیا ہے۔ شعوری بیداری کا مطلب ہے — امت کے افراد کے لیے اسلام کو اُن کی ری ڈسکوری (re-discovery) بنانا، ان کے اندر فکری انقلاب لانا، ان کے سامنے اسلام کی تعلیمات کو اِس طرح پیش کرنا جو اُن کے مائنڈ کو ایڈریس کرنے والا ہو، جو اُن کی بے حسی (قساوت) کو دوبارہ حساسیت میں تبدیل کردے۔
مثال کے طورپر مسلمانوں کی موجودہ نسلوں میں عام طورپر زوال کی وہی حالت طاری ہوچکی ہے جس کا ذکر قرآن کی مذکورہ آیت میں کیاگیا ہے۔ اِس کا سبب کیا ہے۔ اِس کا سبب بنیادی طورپر یہ ہے کہ موجودہ زمانہ عقل (reason) کا زمانہ ہے۔ موجودہ زمانے کا انسان کسی بات کو صرف اُس وقت سمجھ پاتاہے جب کہ وہ اس کو ریزن آؤٹ (reason out) کرسکے۔ اِس کے بغیر وہ اُس بات کا عصری ریلیونس (contemporary relevance) دریافت نہیں کر پاتا، اِس لیے وہ زندہ شعور کے ساتھ اُس کو اخذ (grasp)بھی نہیں کرپاتا۔
اب صورت حال یہ ہے کہ قدیم زمانے میں جو کتابیں لکھی گئیں، وہ سب روایتی اسلوب میں تھیں، جب کہ موجودہ ذہن سائنٹفک ذہن ہے۔ اِس بنا پر قدیم روایتی لٹریچر جدید ذہن کو اپیل نہیں کرتا۔ ایسا لٹریچر جدید ذہن کو ایک غیر متعلق لٹریچر نظر آتا ہے۔
موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے فکری زوال کا اصل سبب یہی ہے۔ موجودہ زمانے میں مسلم دنیا میں سیکڑوں بڑی بڑی تحریکیں اٹھیں، لیکن وہ زوال یافتہ امت کو دوبارہ زندہ امت نہ بنا سکیں۔ اِس کا سبب یہ تھا کہ اِن تحریکوں نے مسلمانوں کو روایتی اسلوب میں خطاب کیا، وہ عصری اسلوب میں اُن کو خطاب نہ کرسکیں۔ انھوں نے ذہنی انقلاب کے بغیر امت کے سامنے عملی پروگرام پیش کردیا۔ اِس قسم کا طریقِ کار یقینی طور پر بے نتیجہ ہونے والا تھا، کیوں کہ یہ گھوڑے کے آگے گاڑی رکھنا (putting the cart before the horse) کا معاملہ تھا۔ فطری قانون کے مطابق، اِس طریقِ کار کے لیے یہی مقدر تھا کہ وہ عملاً بے نتیجہ ہو کر رہ جائے۔
واپس اوپر جائیں

تاریخ کے فیصلے کو بدلنا

کعبہ کو تقریباً چار ہزار سال پہلے حضرت ابراہیم نے مکہ میں بنایا تھا۔ اُس وقت کعبہ مستطیل (rectangle) صورت میں تھا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے قریش مکہ نے کعبہ کی نئی تعمیر کی۔ اُس وقت انھوں نے کعبہ کی لمبائی کو کم کرکے اس کو مربّع (square) صورت میں تعمیر کیا۔ کعبہ اِس مربع صورت میں آج تک موجود ہے۔
روایات میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اہلیہ عائشہ سے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ کعبہ کی عمارت کو دوبارہ میں ابراہیمی بنیاد پر بناؤں، مگر آپ اِس سے باز رہے، کیوں کہ عملی اسباب کے تحت اب ایسا ہونا ممکن نہ تھا (صحیح البخاری، کتاب الحج، باب فضل مکۃ وبنیانہا)
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس واقعے سے ایک اہم اصول معلوم ہوتاہے، وہ یہ کہ تاریخ کے پہیے کو دوبارہ الٹی طرف نہیں چلایا جاسکتا:
The wheel of history cannot be put in the reverse gear.
یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ اِس پیغمبرانہ واقعے سے فطرت کا ایک قانون معلوم ہوتا ہے، وہ یہ کہ تاریخ کا سفر ہمیشہ ماضی سے حال اور حال سے مستقبل کی طرف ہوتا ہے۔
تاریخ میں یو ٹرن (U turn) لینا ممکن نہیں ہوتا۔ یہ انسان کی طاقت سے باہر ہے کہ وہ تاریخ کے سفر کو مستقبل سے حال کی طرف اور حال سے ماضی کی طرف جاری کردے۔ تاریخ کے معاملے میں موجود صورت حال (statusquo) کو مان کر منصوبہ بنایا جاتا ہے، نہ کہ اس کا انکار کرکے۔
کعبہ کی تاریخ اِس معاملے کی ایک مثال ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فطرت کے اِس قانون کو تسلیم کرتے ہوئے سابق ابراہیمی بنیاد پر کعبہ کو دوبارہ تعمیر کرنے کی کوشش نہیں کی۔ بعد کو عبد اللہ بن زبیر (وفات: 692 ء) کا زمانہ آیا تو انھوں نے کعبہ کی عمارت کو توڑ کر اس کو دوبارہ ابراہیمی بنیاد پر بنایا، لیکن عبد اللہ بن زبیر کی وفات کے فوراً بعد حجاج بن یوسف الثقفی (وفات:714 ء) نے اس کو توڑ دیا اور دوبارہ کعبہ کو اس کی سابق بنیاد پر تعمیر کردیا۔ موجودہ زمانے کے مسلمان اِس اصول سے مکمل طور پر بے خبر ہیں۔ اِس لیے وہ بار بار اِس اصول کی خلاف ورزی کرتے ہیںاور اس کے نتیجے میں وہ صرف اپنی تباہی میں مزید اضافہ کرلیتے ہیں۔
بیسویں صدی کے ربع اول میں خلافت تحریک، بیسویں صدی کے نصف ثانی میں فلسطینی تحریک، بیسویں صدی کے نصف آخر میں کشمیری تحریک اور اِس قسم کی دوسری تحریکیں اِسی کا ثبوت ہیں۔ اِن تحریکوں کے لیڈروں نے تاریخ کے فیصلے کو بدلنے کی کوشش کی، مگر تاریخ کا فیصلہ نہیں بدلا، البتہ نادانی کی اِس سیاست نے مسلمانوں کی تباہی میں مزید اضافہ کردیا۔
وہ لمحہ جب کہ تاریخ کا فیصلہ ہورہا ہو، اُس وقت آپ اپنی دانش مندانہ پالیسی کے ذریعے فیصلے پر اثر انداز ہوسکتے ہیں، لیکن جب فیصلہ ہوگیا تو اُس کے بعد فیصلے کو بدلنے کی کوشش کرنا عملاً خود کشی کے سوا اور کچھ نہیں۔
واپس اوپر جائیں

تمثیلی اسلوب

مولانا جلال الدین رومی (وفات: 1273ء) نے اپنی مشہور ’’مثنوی‘‘ جس زمانے میں لکھی، وہ تمثیلی اسلوب کا زمانہ تھا۔ قدیم زمانے میں عام طورپر یہی اسلوب رائج تھا، یعنی اپنی بات کو فرضی مثالوں اور فرضی کہانیوں کی زبان میں بیان کرنا۔ اِسی زمانی اثر کے تحت، مولانا رومی نے اپنی مثنوی تمثیلی اسلوب کے تحت لکھی۔ تمثیلی ادب کا یہ اسلوب نیوٹن (وفات: 1727ء) کے ظہور کے بعد ختم ہوگیا۔ موجودہ زمانے میں تمثیل کا اسلوب ایک غیر علمی اسلوب سمجھا جاتا ہے، علمی اعتبار سے وہ کوئی معتبر اسلوب نہیں۔
مسلمانوں کے ساتھ یہ حادثہ ہوا کہ وہ عہد کی اِس تبدیلی سے بے بہرہ رہے اور اِس بنا پر قدیم زمانے میں مثنوی مولانا روم جس طرح اُن کے یہاں عمومی طورپر رائج تھی، اُسی طرح بعد کے زمانے میں بھی وہ ان کے درمیان رائج رہی۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں میں جدید علمی اسلوب فروغ نہ پاسکا۔ چناں چہ آج بھی اُن کی تقریروتحریر میں مثنوی مولانا روم کے اشعار اِس طرح نقل کئے جاتے ہیں جیسے کہ وہ ایک مستند علمی بیان کی حیثیت رکھتے ہوں۔
یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ اسلوبِ کلام کا براہِ راست تعلق متکلم کے طرزِ فکر سے ہے۔ متکلم اگر فرضی کہانیوں اور غیر واقعی مثالوں کے ذریعے اپنی بات کہنے کا عادی ہو تو اس کی سوچ بھی اِسی قسم کی غیرواقعی سوچ بن جائے گی۔ وہ مفروضات اور یقینیات میں فرق نہ کرسکے گا۔ وہ خیالی تمثیلات کی بنیاد پر ایک بات کہے گا اور یہ سمجھے گا کہ اُس نے جو بات کہی ہے، وہ حقائق کی بنیاد پر قائم ہے۔ اس کے اندر مبنی بر حقیقت تفکیر (realistic approach) کا ارتقا نہ ہوسکے گا۔ وہ شاعرانہ تخئیل اور مبنی بر حقیقت تفکیرکے فرق کو سمجھنے سے قاصر رہے گا۔
اِس طرزِ فکر کا مزید نقصان یہ ہوگا کہ ایسا آدمی زندگی کے معاملات میں حقیقت پسندانہ رائے قائم نہ کرسکے گا۔ اس کی منصوبہ بندی جذبات پر مبنی ہوگی، نہ کہ عقل و خرد کی بنیاد پر۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ایسے لوگوں کا کیس فکر اور عمل دونوں اعتبار سے صرف تباہی کا کیس بن کر رہ جائے گا۔
واپس اوپر جائیں

تنقید کی دوقسمیں

تنقید (criticism) کا ایک طریقہ یہ ہے کہ زیر تنقید شخص نے جو بات کہی ہے، اس کو اچھی طرح سمجھا جائے اور پھر اس کے اصل نقطۂ نظر کو لے کر اس پر تنقید کی جائے۔ یہ تنقید کا صحیح اور علمی طریقہ ہے۔تنقید کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ زیر تنقید شخص نے جو بات کہی ہے، اُس سے خود ساختہ طور پر ایک مفہوم نکالا جائے اور اِسی خود ساختہ مفہوم کو زیر تنقید شخص کی طرف منسوب کرکے اُس پر تنقید کی جائے۔ یہ دوسرا طریقہ تنقید کا غلط اور غیر علمی طریقہ ہے۔
موجودہ زمانے میں، تنقید کا یہ دوسرا طریقہ بہت زیادہ عام ہوگیا ہے۔ موجودہ زمانے میں لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ تنقید کو حقوقِ انسانی کا ایک حصہ سمجھتے ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ تنقید کرنا، اُن کا ذاتی حق ہے۔ یہ ایک مغالطہ آمیز بات ہے۔ تنقید بلا شبہہ ہر انسان کا حق ہے، لیکن یہ کسی بھی شخص کا حق نہیں کہ وہ زیر تنقید شخص کے کلام سے ایک خود ساختہ مفہوم نکالے اور اِس خود ساختہ مفہوم کو زیر تنقیدشخص کی طرف منسوب کرکے وہ اس پر پُرشور تنقید شروع کردے۔
تنقید دراصل علمی تجزیہ (scientific analysis) کا دوسرا نام ہے۔ تنقید حقیقتاً وہی ہے جو علمی تجزیہ کے اسلوب میں کی جائے۔ جو تنقید علمی تجزیہ سے خالی ہو، وہ بلا شبہہ عیب جوئی اور الزام تراشی کے ہم معنیٰ ہے۔ اِس قسم کی تنقید علمی اعتبار سے بے بنیاد ہے، اور شرعی اعتبار سے بلاشبہہ ایسی تنقید ایک سنگین گناہ کی حیثیت رکھتی ہے۔
علمی تجزیہ طرفین کے لیے مفید ہے، ناقد کے لیے بھی اور زیر تنقید شخص کے لیے بھی۔ علمی تنقید کے ذریعے ناقد کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ زیرِ بحث موضوع کا ازسرِ نو مطالعہ کرے۔ اِسی طرح زیر تنقید شخص کو اُس سے یہ موقع ملتاہے کہ وہ اپنی رائے کا از سرِ نو جائزہ لے۔ اِس کے برعکس، غیر علمی تنقید اِس طرح کے کسی مثبت فائدے سے مکمل طورپر خالی ہوتی ہے —علمی تنقید ذہنی ارتقا کا ذریعہ ہے، جب کہ غیرعلمی تنقید صرف آدمی کے ذہنی انحطاط کا ذریعہ۔
واپس اوپر جائیں

دعوت اور حکمت

حیدرآباد کے ایک تعلیم یافتہ مسلمان ہیں۔ وہ الرسالہ کے دعوتی مشن سے جڑے ہوئے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ وہ وہاں الرسالہ مطبوعات کے ذریعے دعوتی کام کررہے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ایک دین دار مسلمان سے اِس سلسلے میں ان کی بات ہوتی تھی۔ مذکورہ مسلمان، الرسالہ مطبوعات کے سخت خلاف تھے۔ انھوںنے اِس مسئلے پر ٹھنڈے ذہن کے ساتھ سوچا۔ اِس کے بعد ایک بات ان کی سمجھ میں آئی۔ وہ مذکورہ دین دار مسلمان سے ملے اور ان سے کہا کہ یہاں کچھ تعلیم یافتہ نوجوان ہیں۔ وہ اسلام کا مطالعہ کرنا چاہتے ہیں۔ اُن کے لیے آپ کوئی ایسی کتاب بتائے جو جدید اسلوب میں لکھی گئی ہو اور وہ ان کے ذہن کو مطمئن کرے۔ انھوں نے جواب دیا کہ مجھے ایسی کسی کتاب کا علم نہیں۔ پھر انھوںنے اُن کو الرسالہ مطبوعات میں سے ’’اسلام اور عصر حاضر‘‘ مطالعے کے لیے دی۔ اِس کتاب کو پڑھ کر مذکورہ دین دار مسلمان بہت خوش ہوئے۔ انھوں نے کہا کہ اِس ادارے کی اور کتابیں ہمیں پڑھنے کے لیے دیجئے۔
اِسی طرح کا ایک اور واقعہ یہ ہے کہ الرسالہ مشن کے مذکورہ ممبر ایک مسلم لائبریری میں گئے۔ وہاں انھوں نے لائبریری کے ذمے دار سے کہا کہ آپ دوسرے اداروں کی کتابیں اپنے یہاں رکھتے ہیں، آپ کو چاہیے کہ آپ الرسالہ مطبوعات کو بھی اپنے یہاں رکھیں۔ ناظمِ کتب خانہ نے اِس مشورے کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ پھر انھوں نے پوچھا کہ جدید ذہن کو مطمئن کرنے والی کون سی کتابیں آپ کے کتب خانے میں ہیں۔ ناظم کتب خانہ نے کہا کہ ایسی کوئی کتاب ہمارے کتب خانے میں نہیں ہے۔ اِس کے بعد انھوں نے الرسالہ مطبوعات میں سے بعض کتابیں ان کو پڑھنے کے لیے دیں۔ اس کو پڑھ کر ناظمِ کتب خانہ کی رائے بدل گئی۔ انھوں نے کہا کہ جدید ذہن کے لیے یہ کتابیں بہت مفید ہیں، اور پھر اپنے کتب خانے میں الرسالہ کی تمام مطبوعات کو رکھنے کا فیصلہ کرلیا — اِسی کا نام حکیمانہ اسلوب ہے۔ کامیاب دعوتی عمل کے لیے حکیمانہ اسلوب بے حد ضروری ہے۔
واپس اوپر جائیں

ایک غیر سائنسی بیان

موجودہ زمانہ کے مشہور برٹش سائنس داں اسٹفن ہاکنگ (Stephen Hawking) کا ایک بیان اخبارات میں آیا ہے۔ ایک انٹرویو کے دوران انھوں نے کہا کہ — جنت یا زندگی بعد موت کا کوئی وجود نہیں، یہ سب پریوں کی کہانی ہے:
There is no heaven or afterlife, that is a fairy story. (The Times of India, N. Delhi, May 17, 2011, p. 19)
یہ سائنس داں کی زبان سے ایک غیر سائنسی بیان ہے۔ ایک شخص جو جنت کو نہ مانتا ہو، وہ سائنسی زبان میں صرف یہ کہہ سکتا ہے کہ معلوم طبیعی قوانین کے مطابق، یہاں جنت کا کوئی وجود نہیں:
According to the known physical laws, Paradise has no existence.
مگر بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ اِس معاملے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ سائنس کے جدید ترین مطالعے کے مطابق، کائنات کے مادّے کا صرف 5 فی صد حصہ ہمارے مشاہدے میں آتا ہے۔ کائنات کا بقیہ 95 فی صد مادّہ سرے سے قابلِ مشاہدہ (observable) ہی نہیں۔ ایسی حالت میں خالص سائنسی بیان یہ ہوگا کہ — قیاساً اِس دنیا میں جنت کا کوئی وجود نہیں:
Probably, Paradise has no physical existence.
سائنس (science) مطالعے کا ایک خصوصی طریقہ ہے۔ سائنس کی رسائی صرف اُن حقائق تک ہوتی ہے جو اس کی دور بین (telescope) یا خورد بین (microscope) کے مشاہدے میں آتے ہوں۔ جب خود سائنسی مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ ممکن طورپر کائنات کے قابلِ مشاہدہ مادّے کا زیادہ بڑا حصہ موجودہ سائنسی آلات کے مطابق، قابلِ مشاہدہ نہیں۔ ایسی حالت میں، سائنس کے حوالے سے یہ کہنا بلا شبہہ ایک غیر سائنسی بیان ہے کہ — کائنات میں جنت کا کوئی وجود نہیں۔قدیم زمانے میں علمی بیان کی کوئی محدّد تعریف موجود نہ تھی، مگر موجودہ زمانے میں علمی بیان صرف اُس کو کہاجاتا ہے جو محدَّد زبان (specific language) میں ہو۔ اِس علمی تعریف کا لحاظ یقینا سائنس داں کو بھی کرنا ہے اور غیر سائنس داں کو بھی۔
واپس اوپر جائیں

اسلامی رومانیت

موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے کیس کو اگر ایک لفظ میں بتانا ہو تو وہ غالباً اسلامی رومانیت (Islamic romanticism) ہوگا۔ موجودہ زمانے کے تقریباً تمام مسلمان اِسی اسلامی رومانیت میں جی رہے ہیں— ماضی میں گزری ہوئی مسلم شخصیتوں کی کہانیاں، کشف وکرامات کے قصے، جہاد کے واقعات، مفروضہ معیاری نظام، وغیرہ۔ اِنھیں چیزوں نے موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا ذہن بنایا ہے۔ ان کی ہر مجلس میں اِس طرح کی باتوں کا چرچا ہوتاہے۔ ہر مسلمان یہ سوچتا ہے کہ قدیم پُرفخر سیاسی دور کس طرح دوبارہ واپس لایا جائے۔
اِس اسلامی رومانیت کی سب سے زیادہ تباہ کن مثال سیاسی رومانیت ہے۔ موجودہ زمانے کے مسلم رہنماؤں نے بہت سی سیاسی لڑائیاں چھیڑیں۔ یہ سیاسی لڑائیاں مختلف ملکوں میں وہاں کے اقتدار کے خلاف لڑی گئیں۔ اِن لڑائیوں کے دوران مسلمانوں میں عجیب وغریب قسم کی پراسرار کہانیاں پھیلائی جاتی رہیں۔ہر لڑائی میں پر اسرار طورپر فتح کی داستانیں پھیلائی جاتی رہیں، مگر آخر میں معلوم ہوا کہ ہر لڑائی یک طرفہ طورپر صرف مسلمانوں کی تباہی پر ختم ہونے والی تھی۔
یہ اسلامی رومانیت آج بھی مختلف صورتوں میں جاری ہے، مسلم اکثریت والے ملکوں میں بھی اور اُن ملکوں میں بھی جہاں مسلمان اکثریت میں نہیں ہیں۔ اِسی رومانیت کو قرآن میںامانی (2: 78) کہاگیا ہے، یعنی خوش فہمیاں (wishful thinking) ۔
موجودہ زمانے کے تقریباً تمام مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ وہ کسی نہ کسی قسم کی خوش فہمی میں مبتلا ہیں۔ خوش فہمی کے اِس مزاج کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ اُن کے اندر حقیقت پسندانہ سوچ ختم ہوگئی ہے، وہ مفروضات میں جیتے ہیں،وہ تصوراتی دنیا میں اپنی خیالی دنیا تعمیر کرتے رہتے ہیں، وہ توہماتی عقائد کو اپنا سہارا بنائے ہوئے ہیں۔ یہ غیر حقیقت پسندانہ مزاج دنیا کے اعتبار سے بھی ہلاکت خیز ہے اور آخرت کے اعتبار سے بھی ہلاکت خیز۔
واپس اوپر جائیں

اتحادِ ملت

اتحاد یا تضامن (unity) ہماری ایک اہم ضرورت ہے۔ پرنٹنگ پریس کے جدید دور میں غالباً سب سے زیادہ جس موضوع پر لکھا گیا ہے، وہ اتحاد ہے، براہِ راست طورپر یا بالواسطہ طورپر۔ مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلمانوں میں اتحاد موجود نہیں۔ اِس کا سبب کیا ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ ہمارے رہنماؤں نے مذہب کے حوالے سے اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کی، مگر ساری کوششوں کے باوجود ملت کے اندر اتحاد پیدا نہ ہوسکا۔ حقیقت یہ ہے کہ اتحاد ایک عملی ضرورت ہے، اور پریکٹکل وزڈم (practical wisdom) کے شعور ہی سے اتحاد پیدا کیا جاسکتا ہے۔
مذہب کے معاملے میں یکسانیت کبھی ممکن نہیں۔ مذہب کے پہلو سے ہمیشہ لوگوں میں اختلاف رہا ہے اور ہمیشہ اختلاف رہے گا۔ اِس لیے جب بھی مذہب کے حوالے سے اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی تو اُس کا نتیجہ صرف یہ ہوگا کہ اختلاف میں مزید اضافہ ہوجائے، جیسا کہ بالفعل پیش آیا ہے۔ اتحاد کی بنیاد صرف ایک ہے اور وہ یہ ہے کہ لوگوں کے اندر اِس عملی ضرورت کا گہرا شعور پیدا ہوجائے کہ اتحاد کے بغیر قرآن کے الفاظ میں، ان کی ہوا اکھڑ جائے گی (8: 46) ۔ مشہور مقولے کے مطابق، اتحاد کسی گروہ کو مستحکم کرتا ہے، اور اختلاف اس کے زوال کا باعث ہوتا ہے:
United we stand, divided we fall.
اتحاد کا واحد عملی فارمولا یہ ہے کہ لوگوں کے اندر یہ شعور پیدا کیا جائے کہ اختلاف ایک فطری ظاہرہ ہے، وہ کبھی ختم ہونے والا نہیں۔ اِس لیے اختلاف کے باوجود مل کر رہنا سیکھو۔ اتحاد کے معاملے میں یہ چیز نقطۂ اتحاد نہیں بن سکتی کہ سب کی سوچ ایک ہوجائے۔ البتہ ایک اور چیز سب کے لیے نقطۂ اتحاد بن سکتی ہے، اور وہ مشترک مفاد (mutual interest) ہے۔ اتحاد ایک عملی ضرورت ہے اور اس کو عملی ضرورت کے حوالے ہی سے قائم کیا جاسکتا ہے۔ اِسی اصول کا نام ڈی لنکنگ پالیسی (delinking policy) ہے۔ اور اِس معاملے میں ڈی لنکنگ پالیسی ہی واحد قابلِ عمل فارمولے کی حیثیت رکھتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

ناممکن کی سیاست

موجودہ زمانے کے مسلم رہنما ہر جگہ سیاست کے ہنگامے جاری کئے ہوئے ہیں۔جہاںبھی کچھ مسلمان ہیں، وہاں اِس کی مثال دیکھی جاسکتی ہے۔ مگر یہ تمام سیاسی ہنگامے مکمل طورپر بے نتیجہ ثابت ہورہے ہیں۔ اِس کا مشترک سبب یہ ہے کہ یہ تمام مسلم رہنما ناممکن کی سیاست چلا رہے ہیں، یعنی ایک ایسی چیز کے نام پر سیاست جو سرے سے قابلِ حصول ہی نہیں۔ ایسی سیاست کا نتیجہ یہی ہوسکتاہے کہ وہ عملاً بے نتیجہ ہو کر رہ جائے۔
موجودہ زمانے میں اِس قسم کی سیاست ہر مسلم علاقے میں دیکھی جاسکتی ہے — فلسطین میں یہ نعرہ کہ فلسطین پر یہودی قبضے کو ختم کرو اور وہاں دوبارہ عرب حکومت قائم کرو۔ اِسی طرح کشمیر میں یہ سیاست کہ وہاں سے انڈیا کا غلبہ ختم کیا جائے اور کشمیر کو پاکستان کا حصہ قرار دیا جائے۔ اِسی طرح سنکیانگ (چین) اور فلپائن جیسے مقامات پر یہ مطالبہ کہ یہاں دوبارہ مسلم رول قائم کرو، جیسا کہ وہ پہلے وہاں قائم تھا، وغیرہ۔اِس قسم کی ہر سیاست ناممکن کی سیاست ہے۔ اِس کا کوئی مثبت نتیجہ ہر گزملنے والا نہیں۔ اِس قسم کی ناممکن سیاست کا واحد انجام یہ ہے کہ جو کچھ ملا ہوا ہے، وہ بھی چھن جائے اور مزید کچھ حاصل نہ ہو۔ ناممکن کی سیاست عقل کے خلاف بھی ہے اور اسلام کے خلاف بھی۔ سیاست کے معاملے میں عقل اور اسلام دونوں کا تقاضا صرف ایک ہے، وہ یہ کہ اس کو نتیجہ خیز ہونا چاہیے۔ جہاں مثبت نتیجہ ملنے کی امید نہ ہو، وہاں ملے ہوئے پر قناعت کرنا ہے، نہ کہ نہ ملے ہوئے کے لیے لڑائی چھیڑنا۔ ناممکن کی سیاست ہمیشہ صرف لیڈروں کے لیے مفید ہوتی ہے، عوام کے لیے اس کا کوئی فائدہ نہیں۔
ناممکن کی سیاست لیڈر کے لیے استحصال (exploitation) کی سیاست ہے اور عوام کے لیے صرف نادانی کی سیاست۔ ناممکن کی سیاست کے لیے کم سے کم جو لفظ استعمال کیا جاسکتا ہے، وہ خود کشی کی سیاست ہے۔ خود کشی سے کم کوئی لفظ اِس تباہ کن سیاست کو بیان کرنے کے لیے کافی نہیں۔ مزید یہ کہ ناممکن کی سیاست صرف ایک فرد کی خود کشی نہیں ہے، بلکہ وہ پوری قوم کی خود کشی ہے۔
واپس اوپر جائیں

عظمتِ خویش کانفرنس

آج کل ’’عظمت‘‘ کے نام پر ہر جگہ شان دار کانفرنس ہورہی ہیں— عظمت اسلام کانفرنس، عظمتِ قرآن کانفرنس، عظمتِ رسول کانفرنس، عظمتِ صحابہ کانفرنس، وغیرہ۔ عظمت کے نام پر آج کل اِس قسم کی کانفرنسوں کی بہت زیادہ دھوم ہے۔ اِن مختلف کانفرنسوں کا اگر ایک مشترک نام دینا ہو تو وہ صرف ایک ہوگا، اور وہ ہے عظمتِ خویش کانفرنس۔ اِس قسم کی تمام کانفرنسیں دراصل دین کے نام پر اپنے دنیوی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ہوتی ہیں۔ یہ عین وہی برائی ہے جس سے یہود کو اِن الفاظ میں منع کیاگیا تھا: ولا تشتروا باٰیاتی ثمناً قلیلاً (2:41) ۔
دورِ زوال میں یہود کا یہ حال ہوگیا تھا کہ وہ دین کے نام پر دنیا حاصل کرنے لگے۔ حدیث کی پیشین گوئی کے مطابق، آج یہی حال موجودہ مسلمانوں کا ہوچکا ہے۔ موجودہ مسلمانوں کے یہاں دین کے نام پر بڑے بڑے نمائشی کام ہورہے ہیں، مگر حقیقت کے اعتبار سے، اُن کا نشانہ صرف یہ ہوتا ہے کہ دین کے نام پر دنیوی مقصد کو حاصل کیا جائے۔ مثلاً دولت، شہرت، عزت، عہدہ، اقتدار، وغیرہ۔
حدیث میں آیا ہے کہ قدیم اہلِ کتاب 72 فرقوں میں بٹ گئے اور امتِ مسلمہ 73 فرقوں میں بٹ جائے گی (سنن أبی داؤد، رقم الحدیث: 4597 )۔ اِس روایت میں، 72 فرقہ اور 73 فرقہ کا لفظ علامتی ہے۔ اِس کا مطلب دراصل یہ ہے کہ قدیم اہلِ کتاب میں 72 درجے کا بگاڑ آیا تھا اور امتِ مسلمہ میں 73 درجے کا بگاڑ آئے گا۔ دونوں کے درمیان اِس فرق کا سبب زمانی ہے۔ قدیم اہلِ کتاب کا زمانہ دورِ ترقی کے پہلے کا زمانہ ہے۔ اِس بنا پر اُن کے زمانے میں بگاڑ کے اسباب بہت محدود تھے۔ امتِ مسلمہ کا زمانہ ممتد (extend) ہو کر دورِ ترقی تک پہنچ جائے گا۔ اِس بنا پر اُس کے لیے بگاڑ کے اسباب بھی بہت زیادہ بڑھ جائیںگے۔ مثلاً قدیم اہلِ کتاب اسٹیج کی دھوم سے نا آشنا تھے۔ اب امتِ مسلمہ کے افراد کے لیے ممکن ہوگیا ہے کہ وہ دین کے نام پر اسٹیج کی دھوم مچائیںاور اُس کے بڑے بڑے دنیوی فائدے حاصل کریں۔
واپس اوپر جائیں

نظر ِثانی کی ضرورت

مسلم دنیا کے ایک مشہور عرب عالم کو ہندستان بلایا گیا۔ یہاں تین دن کے اندر اُن کے مختلف پروگرام ہوئے، دہلی میں بھی اور دہلی سے باہر بھی۔ اِن پروگراموں میں دہلی کے مسلمانوں کے علاوہ، اطراف کے مسلمان بھی بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔
مذکورہ عرب عالم کا خصوصی پروگرام 27 مارچ 2011 کو دہلی کی شاہی جامع مسجد میں ہوا۔ یہاں انھوں نے ایک لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کے مجمع میں عربی زبان میں ایک تقریر کی۔ اُن کی اِس تقریر کی رپورٹ دہلی کے اردو اخبار راشٹریہ سہارا (28 مارچ 2011 ) میں چھپی ہے۔ اِس تقریر کا عنوان یہ ہے: ’’قرآن اور تعلیماتِ رسول میں مسلمانوں کے مسائل کا حل‘‘
یہ عنوان مذکورہ تقریر کا خلاصہ ہے۔مگر اِس تقریر میں مسلمانوں کے لیے کسی متعین راہِ عمل کی نشان دہی موجود نہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ ساری دنیا کے مسلمان پچھلے دو سو سال سے قرآن اور تعلیماتِ رسول کے نام پر بے شمار سرگرمیاں جاری کئے ہوئے ہیں۔ ہر مسجد، ہر مدرسہ، ہر مسلم ادارہ، ہر مسلم اسٹیج پر اِسی کا چرچا ہے۔ ایسی حالت میں، اصل سوال یہ نہیں ہے کہ قرآن اور تعلیماتِ رسول میں مسلمانوں کے مسائل کا حل موجود ہے، بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ قرآن اور تعلیماتِ رسول کے نام پر زبردست سرگرمیوں کے باوجود کیا وجہ ہے کہ مسلمانوں کے مسائل حل نہیں ہوئے۔
دو سوسال پہلے جس طرح مسلم رہنما ساری دنیا میں سازش اور ظلم کی بات کرتے تھے، آج بھی تمام مسلم رہنما ظلم اور سازش کی شکایت کررہے ہیں۔ ایسی حالت میں اصل کام ماضی کی مسلم سرگرمیوں کا تنقیدی جائزہ ہے، اور جب اِن سرگرمیوں کا تنقیدی جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتاہے کہ اِن مسلم رہنماؤں نے قرآن اور سنت کے نام پر پُرجوش تقریریں کیں، لیکن وہ صحیح راہِ عمل کی نشان دہی نہ کرسکے۔ یہصحیح راہِ عمل ہے — مسائل (problems) کا چرچا کرنے کے بجائے مواقع (opportunities) کو دریافت کرنا اور دانش مندی کے ساتھ اِن مواقع کو اپنے حق میں استعمال کرنا۔
واپس اوپر جائیں

خدا کی طرف

Road to God
کہا جاتا ہے کہ حجری دور (stone age) میں ایک بار ایسا ہوا کہ دو آدمی کسی بات پر غصہ ہوگئے۔ وہ ایک دوسری کے طرف پتھر پھینکنے لگے۔ اتفاق سے ایک شخص کا پتھر دوسرے شخص کے پتھر سے ٹکرا گیا۔ اُس وقت دو پتھر کے ٹکرانے سے اسپارکنگ (sparking) ہوئی۔ پتھر سے ایک چنگاری نکلی۔ اِس چنگاری کو دیکھ کر دونوں آدمی اپنا غصہ بھول گئے۔ دونوں آدمی اپنے اپنے پتھر کو لے کر اس کو دیکھنے لگے، تاکہ وہ چنگاری کا راز دریافت کریں۔
کہا جاتا ہے کہ یہی وہ واقعہ ہے جہاں سے سچائی کی تلاش کا آغاز ہوا۔ لوگ اِس سوال پر غور کرنے لگے کہ کیا یہاں انسان اور مادہ (matter) کے سوا کوئی اور طاقت موجود ہے۔ یہ سوال دھیرے دھیرے خدا کے تصور تک پہنچا۔ یہ سیکولر مفکرین کا نظریہ ہے۔ مگر اسلام کا تصور یہ ہے کہ پہلے انسان (آدم) ہی سے خالق کے وجود کا تصور انسان کے علم میں آچکا تھا۔ پتھر کے ٹکرانے کا واقعہ اگر درست ہو تو یہ فطرت کے قانون کو تلاش کرنے کا آغاز تھا، نہ کہ خدا کو تلاش کرنے کا آغاز۔ ہر پیغمبر نے یہی بتایا کہ اِس عالمِ موجودات کا ایک خدا ہے اور انسان کو چاہیے کہ وہ اُسی خدا کو اپنا معبود بنائے اور اُسی کی عبادت کرے۔
قرآن اِس پیغمبرانہ الہام کا ایک محفوظ ومستندمجموعہ ہے۔ قرآن کی سورہ الذاریات میں انسان کے مقصد تخلیق کو اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: وما خلقت الجن والانس إلا لیعبدون (51: 56) یعنی میں نے جن کواور انسان کو صرف اِس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی عبد اللہ بن عباس کا قول ہے کہ اِس آیت میں لیعبدون سے مراد لیعرفون ہے، یعنی اِس آیت میں، اللہ کی عبادت سے مراد اللہ کی معرفت حاصل کرنا ہے۔
خدا کی معرفت کیا ہے۔ خدا اِس کائنات کا خالق ہے۔ اُس کی معرفت یہ ہے کہ تخلیق میں خالق کو دریافت (discover) کیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ تخلیق اپنے آپ میں خالق کا مکمل تعارف ہے۔ ہمیشہ انسان تخلیق میں خالق کو دیکھتا رہاہے۔ موجودہ زمانے میں نیچر کے بارے میں سائنس کی دریافتوں نے تعارف کے اِس دائرے کو ہزاروں گنا زیادہ حد تک بڑھا دیا ہے۔
یہاں اس سلسلے میں ایک بنیادی پہلو کا ذکر کیا جاتا ہے۔اِس بنیادی پہلو کو سامنے رکھنا بہت ضروری ہے، ورنہ اندیشہ ہے کہ خدا کے بارے میں انسان کا مطالعہ اس کو یقین کے بجائے کنفیوژن تک پہنچا دے، وہ خدا کی طرف سفر کرتے ہوئے کسی غیر خدا کی منزل تک پہنچ جائے۔
موجودہ زمانے میں سائنس کے حوالے سے خدا کے وجود (existence of God) کو ثابت کرنے کے لیے بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ مثلاً:
Nature and Science Speaks about God
The Evidence of God in an Expanding Universe
اللہ یتجلی فی عصر العلم (انگریزی سے ترجمہ)
مگر سائنس کے بارے میں یہ بات متفق علیہ ہے کہ سائنس کامل علم کا نام نہیں۔ سائنس اپنی دریافتوں کے باوجود جہاں تک پہنچی ہے یا پہنچ سکتی ہے، وہ صرف یہ ہے کہ وہ کسی بھی موضوع پر صرف جزئی علم دے سکے۔ اِس حقیقت کو جے این سلیون (JN Sullivan) نے اِن الفاظ میں بیان کیا ہے:
Science gives us but a partial knowledge of reality.
حقیقت یہ ہے کہ خدا کی دریافت کا سفر بنیادی طورپر دو مرحلوں میں طے ہوتا ہے۔ پہلا مرحلہ وہ ہے جو عقلی غوروفکر اور سائنسی معلومات کے ذریعے طے ہوتا ہے۔ یہ ذریعہ بلا شبہہ نہایت اعلیٰ ذریعہ ہے۔ لیکن وہ اپنے آخری درجے میں بھی ایک مسافرِ حق کو جہاں پہنچاتا ہے، وہ صرف احتمال (probability) ہے، یعنی— امکانی طورپر یہاں ایک خدا کا وجود ہے:
Probably there is a God.
یہاں احتمال (probability) سے مراد سادہ طور پر صرف احتمال نہیں ہے، بلکہ اُس سے مراد اعلیٰ عقلی احتمال ہے۔ اعلیٰ عقلی احتمال کو دوسرے لفظوں میں شِبہہِ یقین (semi-conviction) کہاجاسکتا ہے۔ احتمال کا یہ مقام وہ مقام ہے جہاں آدمی شک (doubt) کے لمبے راستے کو طے کرکے آخر کار پہنچتا ہے۔ یہ احتمال دراصل درمیان کا ایک مقام ہے۔ اس کے پیچھے کی طرف شک ہوتا ہے اور آگے کی طرف یقین۔ مگر یہ احتمال اتنا زیادہ قوی ہوتا ہے کہ اب شک کی طرف دوبارہ واپسی اس کے لیے ممکن نہیں ہوتی۔ وہ مجبور ہوتا ہے کہ وہ آگے یقین (conviction) کی طرف بڑھے۔
ایسا ایک آدمی جب پیچھے کی طرف راستہ بند پاکر آگے کی طرف جانا چاہتا ہے تو آگے کی طرف ایک قدم بڑھاتے ہی اس کو ایک نیا تجربہ ہوتا ہے۔ اچانک اس کو محسوس ہوتا ہے کہ میرے اندر وجدان (intuition) کی سطح پر معرفت کا ایک نیا دروازہ کھل گیا ہے۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ جس علم کا ادراک اب تک مجھے خارجی معلومات (external data) کے ذریعے ہو رہا تھا، اُس علمی معرفت تک اب میری براہِ راست رسائی ہوگئی ہے۔ جس علم کو اِس سے پہلے میں اپنی خارجی بصارت (objective observation) کے ذریعے جاننے کی کوشش کررہا تھا، وہ علم اب میرے لیے داخلی بصیرت (inner perception) کا حصہ بن گیا۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ عقلی غور وفکر کی حد خلا (vacuum) پر ختم نہیں ہوتی، بلکہ اس کے بعد فوراً دریافت کا ایک نیا دروازہ کھل جاتا ہے۔ یہ وجدان کا دروازہ ہے۔
آدمی کے اندر بیک وقت دو صفتیں ہیں — عقل (reason)، اور وجدان (intuition) ۔ عقل کسی مجہول چیز کا نام نہیں۔ اِسی طرح وجدان بھی کسی مجہول چیز کا نام نہیں۔ باعتبار واقعہ دونوں ہی مسلّمہ حقائق پر مبنی ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ عقل خارجی حقائق کی بنیاد پر کام کرتی ہے، جب کہ وجدان براہِ راست طور پر داخلی حقیقت سے جڑا ہوا ہے۔ عقل جس چیز کو خارجی شواہد کے ذریعے معلوم کرتی ہے، وجدان اُسی چیز کو داخلی فطرت کے ذریعے جان لیتا ہے۔ عقل کا سفر زمان ومکان (time & space) تک محدود ہے، لیکن وجدان کا سفر زمان ومکان سے باہر (beyond time & space) تک وسیع ہے۔
احتمال سے یقین تک پہنچنے کا یہ معاملہ کسی خوش فہمی (wishful thinking) پر مبنی نہیں، وہ تمام تر علم کے اوپر مبنی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب ایک شخص پوری سنجیدگی کے ساتھ احتمال کے درجے تک پہنچتا ہے تو وہ اُس کے لیے ایک ایسا فطری واقعہ ہوتا ہے جو اُس انسان کے ساتھ لازماً پیش آتا ہے جو حقیقی معنوں میں احتمال کے مقام تک پہنچ گیا ہو۔
یہاں یہ سوال ہے کہ وجدان کے ذریعے حاصل ہونے والے علم کو کیوں کر مستند علم سمجھا جائے۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ جس آدمی کے اوپر وجدان کا یہ دروازہ کھل جائے، وہ اپنی داخلی بصیرت کے تحت ایسی باتوں کو جاننے لگتا ہے جس کا علم اُس کو پہلے حاصل نہ تھا۔ بعد کو خارجی حقائق بالواسطہ طور پر یہ ثابت کرتے ہیں کہ اُس کو اپنے وجدان کے ذریعے جو علم حاصل ہوا تھا، وہ ایک حقیقی علم تھا، وہ کوئی فرضی واہمہ نہ تھا۔ راقم الحروف کو ذاتی طورپر بار بار اِس کا تجربہ ہوا ہے۔
موجودہ زمانے میں سائنسی طریقہ (sientific method) کو مستند طریقہ سمجھا جاتا ہے۔ کسی چیز کودریافت (discover) کرنے کے لیے سائنس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ — پہلے مفروضہ، اس کے بعد مشاہدہ، اور پھر تصدیق:
Hypothesis, Observation, Verification
اِس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے ایک سوچنے والے دماغ میں ایک تصوراتی مفروضہ آتا ہے۔ اس کے بعد وہ متعلق شواہد کی تحقیق کرتا ہے۔ اگر یہ شواہد اس کے مفروضہ کی تصدیق کریں تو اس کے بعد اس کا مفروضہ ایک مسلّمہ حقیقت بن جاتا ہے۔ یہی معاملہ وجدان کے ذریعہ دریافت ہونے والی حقیقت کا ہے۔ یہاں بھی یہی ہوتاہے کہ پہلے ایک سچے متلاشی (true seeker) کے دماغ میں ایک تصور آتا ہے۔ اِس کے بعد وہ متعلقہ حوالوں (relevant reference) کی روشنی میں اس کی مزید تحقیق کرتاہے، یہاں تک کہ ثابت ہوجاتاہے کہ اس کا مفروضہ درست تھا۔
راقم الحروف کو اپنی تلاش کے دوران بار بار ایسے تجربات پیش آئے ہیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ صوفیا کے حلقے میں ایک قول کا حدیثِ قدسی کی حیثیت سے بہت چرچا ہے۔ وہ قول یہ ہے: کنتُ کنزاً مخفیا، فأحببتُ أن اُعرف، فخلقتُ خلقاً، فبی عرفونی (کشف الخفاء، 2/1011 ) یعنی میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا، پھر میں نے چاہا کہ میں جانا جاؤں، پھر میں نے ایک مخلوق (انسان) کو پیدا کیا، پھر انسان نے مجھ کو پہچانا۔
میرا بے آمیز وجدان کہتا تھا کہ یہ قول بالکل درست ہے۔ یہ معرفت کے معاملے کی بالکل صحیح تعبیر ہے۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اِس روایت کی کوئی قابلِ اعتماد سند موجود نہیں۔ اِس لیے علما عام طور پر اِس کو مستند نہیں مانتے۔ تاہم میں اس کی تحقیق کرتا رہا۔ چناں چہ میں اِس دریافت تک پہنچا کہ خود قرآن میں اِس تصور کی اصل موجود ہے۔ قرآن کی سورہ الذاریات میں یہ آیت آئی ہے: وما خلقتُ الجن والإنس إلا لیعبدون (51: 56) ۔ مشہور صحابی رسول عبد اللہ بن عباس نے اِس آیت میں ’’عبادت‘‘ سے مراد معرفت لیا ہے۔ انھوںنے اِس آیت کی تفسیر اِن الفاظ میں کی ہے: وماخلقت الجن والإنس إلا لیعرفون۔
اِس مثال میں، میرے وجدان نے مجھ کو ایک علم تک پہنچایا، وہ یہ کہ اس کی اصل خود قرآن میں موجود ہے۔ اِس کے بعد میںنے مزید غور کیا تو میں اِس دریافت تک پہنچا کہ مذکورہ قول دراصل ایک تفسیری قول ہے جس کو قائل نے آیتِ قرآنی کی رعایت سے، حدیثِ قدسی کی زبان میں بیان کردیا۔ اِس قول کے الفاظ اگر بدل دئے جائیں اور اس کو ایک تفسیری قول کی شکل دے دی جائے تو وہ اِس طرح ہوگا: کان اللہ کنزاً مخفیا، فأحبّ أن یُعرف، فخلق الخلق۔
حقیقت یہ ہے کہ ایک سچے متلاشی کا وجدان، عقلی بنیاد سے بھی زیادہ مضبوط بنیاد ہے۔ عقلی بنیاد آدمی کو صرف فنی سطح کے ظاہری علم تک پہنچاتی ہے، لیکن ایک سچے متلاشی کا وجدان مزید اضافے کے ساتھ حقیقت شناسی (realization of truth) کی سطح پر قائم ہوتا ہے۔ یہی وہ سطح ہے جب کہ ایک ترقی یافتہ ذہن ادراکِ حقیقت کی ایک ایسی سطح پر کھڑا ہوجاتا ہے جہاں سے وہ حقیقت کو براہِ راست دیکھ سکے، وہ اِس درجے تک پہنچ جائے کہ وہ حقیقت کو کسی دلیل کے بغیر پہچاننے لگے۔
اِس معاملے کا ایک ثبوت یہ ہے کہ وجدان کی سطح پر جو یقین حاصل ہوتا ہے، وہ ہمیشہ بڑھتا رہتاہے۔ اور یہ ایک واقعہ ہے کہ کوئی غیر حقیقی چیز کبھی اضافہ پذیر نہیں ہوتی۔ واہمہ اور حقیقی وجدان میں یہ فرق ہے کہ واہمہ ہمیشہ بے ثبات ہوتا ہے۔ وہ صرف وقتی طورپر آدمی کو متاثر کرتا ہے اور پھر دھیرے دھیرے وہ ختم ہوجاتا ہے۔ اِس کے برعکس، اگر کسی شخص کی رسائی حقیقی وجدان تک ہوجائے تو اُس پر کبھی زوال نہیںآتا۔ حقیقی وجدان ہمیشہ ترقی کرتارہتا ہے، اس کے یقین کا سفر کبھی ختم نہیںہوتا، وہ ہمیشہ آگے بڑھتا رہتا ہے۔
واہمہ ایک مجہول چیز ہے، اس کی کوئی شعوری بنیاد نہیں۔ اِس کے برعکس، وجدان پوری طرح شعور پر مبنی ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وجدان خود شعور کا ایک اعلیٰ درجہ ہے۔ وہ شعور کی تکمیل ہے۔ آدمی اگر سنجیدگی کے ساتھ سوچے تو اس کا داخلی احساس خود بتا دے گا کہ کون سی بات صرف واہمہ ہے اور کون سی بات وجدانی علم سے تعلق رکھتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ عقل اور وجدان دونوں تلاش کی منزلیں ہیں۔ آدمی کی عقل اُس کو وجدان تک پہنچاتی ہے اور وجدان اس کو حقیقت کے اعلیٰ مرتبے تک پہنچا دیتا ہے۔ جو آدمی اِس اعلیٰ مرتبے تک پہنچتا ہے، اس کے لیے عقل اور وجدان کا فرق ختم ہوجاتا ہے۔ اس کی عقل مکمل طور پر وجدان ہوتی ہے، اور اس کا وجدان مکمل طورپر عقل۔ یہی وہ مقام ہے جس کو معرفتِ حق کا اعلیٰ درجہ کہاجاتا ہے۔
تاہم عقلی دریافت اور وجدانی دریافت میں یہ فرق ہے کہ عقلی دریافت ایک موضوعی دریافت (objective discovery) ہے۔ اِس کے مقابلے میں، وجدانی دریافت کی حیثیت ایک داخلی دریافت (subjective discovery) کی ہے۔ اِس بنا پر دونوں دریافتوں کے درمیان بظاہر یہ فرق باقی رہتا ہے کہ عقلی دریافت ایک قابلِ مظاہرہ (demonstrable) دریافت ہے۔ اِس کے مقابلے میں، وجدانی دریافت خارجی طورپر قابلِ مظاہرہ نہیں۔مگر یہ فرق کوئی حتمی فرق نہیں۔ جہاں تک صاحبِ وجدان کا معاملہ ہے، اس کے اپنے لیے دونوں قسم کی دریافتیں یکساں طورپر قابلِ یقین ہوتی ہیں، صرف اِس فرق کے ساتھ کہ ایک چیز کو وہ پیشانی کی آنکھ سے دیکھتا ہے اور دوسری چیز کا مشاہدہ وہ دماغ کی آنکھ سے کرتا ہے۔
تاہم یہ فرق آخری فرق نہیں۔ ایک شخص جس کو حقیقی معنوں میں وجدانی دریافت ہو، وہ اِس کے نتیجے میں عام انسان سے واضح طورپر مختلف (different) بن جاتا ہے۔ اس کی سوچ، اس کا بولنا، اس کا سلوک، اس کے اخلاق، اس کے آداب واطوار، ہر چیز دوسرے انسانوں سے اتنا زیادہ مختلف ہوجاتے ہیںکہ وہ حقیقی معنوں میں ایک مختلف انسان (man with a difference) بن جاتاہے۔ اس کی شخصیت کا یہ فرق اہلِ نظر کے لیے وہی درجہ رکھتا ہے جس کو عقل اور منطق کی زبان میں دلیل کہاجاتاہے۔
واپس اوپر جائیں

حسنِ جواب

حضرت نظام الدین اولیاء (وفات:1325 ء) کے ملفوظات میں آیا ہے کہ انھوں نے ایک مجلس میں کہا کہ خیر وشر دونوں کا خالق اللہ ہے۔ جس کو جو کچھ پہنچتا ہے، اسی کی مشیت سے پہنچتا ہے۔ اِس کے بعد انھوں نے مشہور ایرانی صوفی ابو سعید ابو الخیر (وفات: 1049 ء) کا یہ واقعہ بیان کیا کہ ایک دن وہ کہیں جارہے تھے کہ راستہ میں ایک نادان آدمی نے پیچھے سے ان کے سر پر ہاتھ سے مار دیا۔ انھوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو اس نادان آدمی نے کہا، مجھے کیا دیکھتے ہو، کیا تم یہ نہیں کہا کرتے تھے کہ کسی کو جو کچھ پہنچتا ہے، خدا کی طرف سے پہنچتا ہے۔ اس کے جواب میں شیخ ابوسعید نے یہ جملہ کہا:
’’فرمود کہ ہم چنیں است ولے آں می بینم کہ کدام بد بخت را نامزد این کار کردہ اند‘‘۔ یعنی یہ بات ایسی ہی ہے، لیکن میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ خدا نے کس بد نصیب کو اِس کام کے لیے نامزد کیا ہے۔ (فوائد الفوائد، صفحہ 247)
یہ واقعہ حسن جواب کی ایک مثال ہے۔ اِسی بات کو قرآن کی ایک آیت میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: واصبر علی ما یقولون واہجرہم ہجراً جمیلاً (73: 10)یعنی جو کچھ یہ لوگ کہتے ہیں، اُس پر صبر کرو اور خوب صورتی کے ساتھ ان سے الگ ہوجاؤ:
Bear patiently with what they say, and ignore them politely.
اگر مخاطب سنجیدہ ہے اور وہ بات کو سمجھنا چاہتا ہے تو اس کو دلیل کی زبان میں سمجھائیے، اور اگر آپ محسوس کریں کہ مخاطب سمجھنے کے موڈ میں نہیں ہے تو اس کو حسنِ جواب سے ٹال دیجئے۔ یہی ’ہجر ِ جمیل‘ ہے۔ یہ دعوتی عمل کا اہم اصول ہے۔
داعی کو چاہیے کہ وہ مذکورہ دونوں قسم کے انسانوں میں فرق کرے، ورنہ وہ غیر ضروری طورپر لوگوں سے الجھ جائے گا اور اپنے وقت اور اپنی توانائی کو ضائع کرے گا۔ بعض اوقات حسنِ جواب اُس سے زیادہ اہم ہوتا ہے جتنا کہ باقاعدہ قسم کا علمی جواب۔
واپس اوپر جائیں

ذہنی تناؤ کا مسئلہ

ایک خبر کے مطابق، ذہنی تناؤ (mental tension) کا علاج شاک تھیریپی کے ذریعے معلوم کیا گیا ہے۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ— ہلکی برقی رو خارج کرنے والا ایک آلہ سونے کے دوران استعمال کیا جائے تو اس سے ذہنی تناؤ اور مایوسی کی کیفیت سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔ سیل فون (cell phone)کے سائز کا یہ آلہ سوتے وقت ماتھے سے لگا دیا جاتا ہے۔ اس میں پیدا ہونے والی برقی رو اتنی ہلکی ہوتی ہے کہ اِس سے نیند خراب نہیںہوتی ہے۔ رات بھر خارج ہونے والی برقی رو انسان کے اعصابی نظام کو متاثر کرتی ہے، جس سے منفی کیفیات اور ذہنی تناؤ سے چھٹکارا پانے میں مدد ملتی ہے۔ (پندرہ روزہ ’’مستقبل‘‘ نئی دہلی، دسمبر 2010 ، صفحہ 6 )
مگر یہ صحیح نہیں۔ ذہنی تناؤ ایک فکری مسئلہ ہے اور فکری مسئلہ کو صرف فکری تدبیر کے ذریعے حل کیا جاسکتا ہے، کوئی ٹکنکل تدبیر اِس معاملے میں کار آمد نہیں ہوسکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ ذہنی تناؤ کوئی واقعی مسئلہ نہیں، وہ صرف غیر حقیقت پسندانہ سوچ کا نتیجہ ہے۔ اپنی سوچ کو درست کر لیجئے، اِس کے بعد آپ کو ذہنی تناؤ کی شکایت نہ ہوگی۔
سوچ کی درستگی کیا ہے۔ وہ ہے اپنی سوچ کو عالمِ خارجی کے مطابق بنانا۔ جس صورت ِ حال کو آپ بدل نہیں سکتے، اس کو خوش دلی کے ساتھ قبول کرلینا، اِس حقیقت کو مان لینا کہ آپ دنیا کو بدل نہیں سکتے، اِس لیے آپ کو چاہیے کہ خود اپنے آپ کو بدل لیں۔
حقیقت پسندی یہ ہے کہ آپ اپنی ذات کے معاملے میں معیار پسند (idealist) بنیں، اور خارجی دنیا کے معاملے میں آپ پریکٹکل (practical) بن جائیں۔ یہی دانش مندی (wisdom) کا تقاضا ہے۔ ذہنی تناؤ دراصل یہ ہے کہ آدمی اپنے ذاتی معیار اور خارجی واقعہ کے درمیان مفاہمت (adjustment) دریافت نہ کرسکے— ذہنی تناؤ کا حل صرف فکری تھریپی (intellecutal therapy) کے ذریعے ممکن ہے، نہ کہ ٹکنکل تھریپی (technical therapy) کے ذریعے۔
واپس اوپر جائیں

اپنے آپ کو بچائیے

مدر ٹریسا، مقدونیہ (یورپ) میں 1910 میں پیدا ہوئیں اور 1997کلکتہ میں ان کا انتقال ہوا۔ ان کی سماجی خدمات پر ان کو غیر معمولی شہرت حاصل ہوئی۔ ان کو 1979 میں نوبل پرائز دیاگیا۔ لیکن مدر ٹریسا کے بارے میں ان کے سوانح نگار نے لکھا ہے کہ — وہ ذہنی کرب کی حالت میں مریں:
She died in agony.
یہی تقریباً تمام مصلحین (reformers) کا حال ہوا ہے۔ انھوںنے اپنے اصلاحی کام کا آغاز امیدوں کے ساتھ کیا، لیکن جب ان کا آخر وقت آیا تو ہر ایک صرف ناامیدی کی موت مرا۔
اِس کا سبب کیا ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ ہر مصلح خارجی لوگوں کی اصلاح کو اپنا نشانہ بناتا ہے، اور جب خارجی لوگوں کی اصلاح نہیں ہوتی تو وہ مایوسی کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی مطلوب اصلاح کے لیے خود اپنی ذات کو نشانہ بنائے۔ ایسی حالت میں یقینی طورپر ہر شخص کامیاب ہوگا، کوئی بھی شخص مایوسی میں مبتلا نہ ہوگا۔
خارجی اصلاح کو نشانہ بنانا، اپنے آپ میں درست ہے، لیکن آئڈیل معنوں میں خارج کی اصلاح کبھی نہیں ہوتی۔ اِس لیے آدمی کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے خود اپنی ذات کو نشانہ بنائے۔ دوسرے لوگ کسی انسان کے قبضے میں نہیں ہوتے، لیکن آدمی کی اپنی ذات یقینی طور پر اس کے قبضے میں ہے۔ ہر آدمی کو اپنی ذات پر کامل اختیار حاصل ہے۔ ایسی حالت میں اصلاح کے لیے اپنی ذات کو نشانہ بنانا، قابلِ حصول کو نشانہ بناناہے، اور قابلِ حصول نشانے کو اپنا نشانہ بنانے والا کبھی ناکام نہیں ہوتا۔
اگر آپ دوسروں کو نہ بچا سکیں تو اپنے آپ کو بچائیے، اپنے آپ کو منفی نفسیات سے مکمل طورپر محفوظ رکھیے، اپنے اندر مثبت شخصیت کی تشکیل کیجئے۔ اگر آپ اپنی ذات کے اوپر کامیاب ہوگئے تو آپ دوسروں کے اوپر بھی ضرور کامیابی حاصل کرلیں گے۔
واپس اوپر جائیں

اکّالُ الرجال

خواجہ الطاف حسین حالی (وفات:1914 ) نے اپنی ایک نظم میں ہندستان کو خطاب کرتے ہوئے لکھا ہے: تونے اے غارت گرِ اقوام واکّال الامم
اکّال کا لفظ آکِل کا مبالغہ ہے۔ اکّال کے معنی ہیں — بہت زیادہ کھانے والا (glutton) ۔ میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ زمانے کا مسلم معاشرہ ایک ایسا معاشرہ بن چکا ہے جس کو اکّال الرجال کہنا چاہیے، یعنی شخصیتوں کو کھاجانے والا، اعلیٰ قابلیت کے افراد کو تباہ کردینے والا۔
پچھلے دو سوسال کا زمانہ ایک بالکل نیا زمانہ تھا۔ اِس زمانے میں مسلم شخصیتوں کے لیے کرنے کا کام یہ تھا کہ وہ جدید دور کو سمجھیں اور جدید تقاضے کے مطابق، لوگوں کے سامنے اسلام کا تعارف پیش کریں۔ مگر پورے دو سو سال میں کوئی بھی مسلمان نظر نہیں آتا جس نے دورِ جدید کی نسبت سے حقیقی معنوں میں کوئی قابلِ ذکر کام کیا ہو۔ یہ بلاشبہہ مسلم تاریخ کا سب سے بڑا المیہ ہے۔
موجودہ زمانے میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے اندر نہایت اعلیٰ صلاحیت والے افراد پیدا کئے، عربوں میں بھی اور غیر عربوں میں بھی۔ مگر یہ افراد دورِ جدید کا مطلوب کام نہ کرسکے۔ اِس کا سبب یہ تھا کہ موجودہ زمانے کا مسلم معاشرہ پوری طرح زوال کا شکار ہوچکا تھا۔ اِس زوال یافتہ معاشرے میں جو افراد پیدا ہوئے، وہ اِس فارسی شعر کا مصداق بن گئے کہ — جو چیز نمک کی کان میں جاتی ہے، وہ خود بھی نمک بن جاتی ہے: ہر چیز کہ درکانِ نمک رفت، نمک شد
ڈاکٹر اقبال نے شاعری کو چھوڑ کر علم کے میدان میں کام کرنا چاہا تھا، مگر اُن کے احباب نے ان کو شاعری میں مشغول کردیا۔ یہی دورِ جدید میں تمام باصلاحیت افراد کا حال ہوا ہے۔ کوئی معاشرہ کے اثر سے ادب اور شاعری میں مشغول ہوگیا، کوئی نام نہاد ملی مسائل میں الجھ گیا، کوئی مسلمانوں کی سیاسی رومانیت کا شکار ہوگیا، کوئی مسلمانوں کی فخرپسندانہ نفسیات کو غذا دینے لگا۔ غرض ہر ایک زوال یافتہ مسلم معاشرے کا ایک فرد بن گیا، بجائے اس کے کہ وہ مسلمانوں کو اِس زوال سے نکالنے کی کوئی حقیقی کوشش کرے۔
واپس اوپر جائیں

ایک خط

برادرمحترم محمد حسن جو ہر صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ
آپ کے خط کے ساتھ آپ کی کتاب ’’خطابِ نو‘‘ (صفحات 264 ) موصول ہوئی۔اِس کتاب کو دیکھنے کے بعد میرا جو پہلا تاثر تھا، وہ یہ تھا کہ — یہ کتاب ایک ایسے مصنف کا تعارف پیش کرتی ہے جو قلبی درد اور ذہنی سنجیدگی کی صفات اپنے اندر رکھتا ہے۔ کتاب کا یہ پہلو بلا شبہہ کتاب کے اصل موضوع سے بھی زیادہ اہم ہے۔
آپ نے کتاب کے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ: ’’اگر’اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد‘ کا مطلب یہ بھی ہے کہ مسلمان بیدار ہوتا ہے کسی بڑی ٹریجڈی کے بعد، تو کیا ایسا اب بھی ہو نہیں چکا‘‘۔ آپ کا یہ جملہ دراصل فطرت کے ایک قانون کو بیان کرتا ہے۔ موجودہ دنیا کو پیداکرنے والے نے اُس کا نظام جس اصول پر قائم کیا ہے، اُس کو مورخ آرنلڈ ٹائن بی (وفات: 1975 ) نے بجا طورپر چیلنج- رسپانس میکانزم (challenge-response mechanism) کے الفاظ میں بیان کیا ہے۔
آرنلڈ ٹائن بی کے مطابق، اگر قوم باشعور ہو تو وہ پیش آمدہ چیلنج کا مثبت جواب (positive response) دیتی ہے۔ اِس طرح اس کی تخلیقیت (creativity) میں اضافہ ہوتا ہے۔ چیلنج اُس کے لیے ترقی کا زینہ (stepping stone) بن جاتا ہے۔ اِس کے برعکس، جس قوم کے رہنماؤں نے اس کو بے شعور بنا رکھا ہو، وہ پیش آمدہ چیلنج کا صرف منفی جواب (negative response) دے گی۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ خدا کی اس دنیا میں صرف ایک احتجاجی گروپ(protestant group) بن کر رہ جائے۔ ایسی قوم خدا کے لیے بھی غیر مطلوب ہے، اور انسانوں کے لیے بھی غیر مطلوب۔
نئی دہلی، 25 مارچ 2011 دعا گو
وحید الدین
واپس اوپر جائیں

سوال وجواب

سوال
ماہ نامہ الرسالہ (جون 2007 ) میں مسیح کی آمد ثانی سے مراد، مسیح کے رول کی آمد ثانی بتایا گیا ہے۔ براہِ کرم، اِس معاملے کو واضح فرمائیں۔(حافظ ابو الحکم محمد دانیال، بی ایس سی، پٹنہ)۔
جواب
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ قرآن کے بیانات دو قسم کے ہیں— ایک، محکمات۔ دوسرے، متشابہات (3:7) ۔ محکم آیات سے مراد وہ آیتیں ہیں جن میں مدعا کو غیر مشتبہ زبان (exact language) میں بیان کیاگیا ہو۔ مثلاً رمضان کے مہینے میں روزہ رکھنا (2: 283) ۔ متشابہ آیات سے مراد وہ آیتیں ہیں جن میں مدعا کو مشتبہ زبان یا غیر متعین الفاظ (inexact language) میں بیان کیا گیا ہو۔ مثلاً قرآن میں بتایا گیا ہے کہ — نماز قائم کرو (أقیموا الصلاۃ)۔ مگر اس میں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ نماز کو 24 گھنٹوں کے درمیان کن مخصوص اوقات میں ادا کرو۔
متشابہ اسلوب سے وہی اسلوبِ بیان مراد ہے جس کو فنِ تعلیم میں ڈسکوری متھڈ (discovery method) کہا جاتا ہے، یعنی مسئلہ کو غیر واضح صورت میں طالبِ علم کے سامنے رکھ دینا اور طالب علم کو یہ موقع دینا ہے کہ وہ اپنی قوتِ فکر کو استعمال کرکے غیر واضح مسئلے کو واضح صورت میں دریافت کرے۔
مسیح کی آمد ثانی کو بیان کرنے کے لیے قرآن اور حدیث میں یہی متشابہ اسلوب اختیار کیاگیا ہے، قرآن میں اشارات کی زبان میں، اور حدیث میں نسبتاً صراحت کی زبان میں۔ مثال کے طورپر قرآن کی سورہ الانعام میں 18 نبیوں، بشمول حضرت مسیح، کا ذکر کرنے کے بعد ارشاد ہوا ہے: أولئک الذین ہدی اللہ فبہداہم اقتدہ (6: 90) یعنی یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت دی، پس تم بھی ان کے طریقے پر چلو۔
قرآن کی سورہ الصف میں یہ اشارہ نام کی صراحت کے ساتھ بیان کیاگیا ہے۔ چناں چہ فرمایا کہ : ’’اے ایمان والو، تم اللہ کے مدد گار بنو جیسا کہ عیسیٰ بن مریم نے حواریوں سے کہا، کون اللہ کے واسطے میرا مددگار ہوتا ہے۔ حواریوں نے کہا ہم ہیں اللہ کے مددگار۔ پس بنی اسر ائیل میں سے کچھ لوگ ایمان لائے اور کچھ لوگوں نے انکار کیا۔ پھر ہم نے ایمان لانے والوں کی، اُن کے دشمنوں کے مقابلے میں، مدد کی۔ پس وہ غالب ہو گئے‘‘۔ (61: 14)
قرآن کی اِس آیت میں اہلِ اسلام کو خطاب کیاگیا ہے۔ اُن سے کہاگیا ہے کہ تم اللہ کی نصرت کرنے والے بنو جس طرح تم سے پہلے عیسیٰ کے حواری، اللہ کی نصرت کرنے والے بنے تھے۔ آیت میں مزید یہ بتایا گیا ہے کہ نصرتِ الٰہی کا یہی پیٹرن تمھارے لیے فتح وکامیابی کا ذریعہ ہوگا۔ اِس سے مراد تاریخِ انسانی کا بعد کا زمانہ ہے، یعنی بعد کے زمانے میں مسیحی ماڈل فتح وکامیابی کا ذریعہ بن جائے گا۔
مسیحی ماڈل عین وہی ماڈل ہے جس کا نمونہ ہم کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مکی دور میں ملتا ہے۔ مکی دور میں رسول اور اصحاب رسول نے اپنے خلاف کئے جانے والے تشدد کے جواب میں یک طرفہ صبر کا ثبوت دیا ۔ اِس اعتبار سے مسیحی ماڈل اور پیغمبر اسلام کا مکی ماڈل دونوں ہم معنی الفاظ ہیں، مگر چوں کہ یہ اندیشہ تھا کہ بعد کے زمانے کے مسلمان مکی ماڈل کی اہمیت سے غافل ہوجائیں گے، اِس لیے اِس دعوتی ماڈل کو قرآن میں مسیحی ماڈل کے حوالے سے بیان کیاگیا۔ کیوں کہ حضرت مسیح کی زندگی میں صرف مکی ماڈل ہے، اُن کے یہاں مدنی ماڈل سرے سے موجود نہیں۔
مسیحی ماڈل یا مکی ماڈل سے مراد کوئی پراسرار چیز نہیں ہے۔ اُس سے مراد عین وہی چیز ہے جس کو دوسرے الفاظ میں دعوت کا پرامن طریقہ (peaceful method of dawah) کہا جاسکتا ہے۔ مسیح کے حوالے سے اِس ماڈل کو بیان کرنا صرف تقریبِ فہم کے لیے ہے، نہ کہ حصر کے لیے۔
اصل یہ ہے کہ قدیم زمانہ مذہبی جبر کا زمانہ تھا۔ اُس زمانے میں مدعو کی طرف سے شدید رد عمل کا اظہار ہوتا تھا، حتی کہ بشرطِ استطاعت، تشدد اور قتال کی نوبت آجاتی تھی۔ ’’مدنی دور‘‘ دراصل اِسی دورِ تشدد کی ایک علامت ہے۔ مدنی دور میں رسول اور اصحابِ رسول نے قتال کے جواب میں قتال کے ذریعہ اپنا دفاع کیا۔ مگر یہ قتال بلاشبہہ ایک زمانی ظاہر ہ تھا، نہ کہ مستقل معنوں میں پیغمبرانہ طریقِ کار کا ظاہرہ۔
اسلامی تاریخ کے بعد کے زمانے میں یہ ہونے والا تھا کہ عالمی حالات میںتبدیلی کے نتیجے میں قتال کا طریقہ ایک متروک طریقہ بن جائے۔ حالات میں ایسا انقلاب آئے کہ پُرامن طریقِ کار پوری طرح نہ صرف ممکن ہوجائے، بلکہ وہ واحد موثر طریقے کی حیثیت اختیار کرلے۔ صرف پُرامن دعوت کے ذریعے وہ سب کچھ قابلِ حصول بن جائے جو قدیم زمانے میں صرف جنگ وقتال کے ذریعے قابلِ حصول سمجھا جاتا تھا۔
پُرامن طریقِ دعوت کی مثال خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں مکی دور میں پوری طرح موجود ہے۔ مگر حالات کے تقاضے کے تحت ایساہوا کہ بعد کے زمانے میں پیغمبر اسلام کو دفاعی طورپر جنگ میں حصہ لینا پڑا۔ اِس طرح پیغمبر اسلام کی زندگی میں دونوں طرح کی مثالیں شامل ہوگئیں ۔ اب ضرورت تھی کہ بعد کے زمانے کی نسبت سے، پرامن طریقِ کار کو ممیَّز طورپر (distinctively) بیان کیاجائے۔ دراصل یہی مقصد ہے جس کے لیے مسیح کی آمد ثانی (second coming of Christ) کی پیشین گوئی کی گئی ہے۔ مسیح کی آمد ثانی سے مراد دراصل مسیحی ماڈل کی آمد ثانی ہے۔ یہ بات دراصل دورِ آخر کے تبدیل شدہ حالات کی نسبت سے کہی گئی ہے۔ اِس میں دراصل داعی کو یہ بتایا گیا ہے کہ وہ تاریخ کے بعد کے زمانے میں مسلح طریقِ کار سے کامل پرہیز کرے، دعوت کے لیے وہ صرف پرامن طریقِ کار کو استعمال کرے جو کہ دعوتی مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے واحد موثر طریقہ بن جائے گا۔
حدیث میں مستقبل کے جس واقعے کو مسیح کی آمد ثانی کے الفاظ میں بیان کیاگیا ہے، اُس واقعے کو بالفاظِ دیگر، مکی ماڈل کی آمد ثانی کہاجاسکتا ہے۔ حقیقت کے اعتبار سے، پہلے بیان اور دوسرے بیان میں کوئی فرق نہیں۔
اصل یہ ہے کہ قرآن میں جن انبیا کا ذکر ہے، اُن میں سے ہر ایک مختلف حالات میں آیا۔ ہر ایک نے اپنے زمانی حالات کے اعتبار سے، ایک طریقہ اختیار کیا۔ اِسی حقیقت کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیاگیاہے: لکلّ جعلنا منکم شرعۃً ومنہاجا(5: 48)۔ ان میں سے ہر نبی کا نمونہ ایک معیاری نمونہ ہے۔ حالات جس نمونے کا تقاضا کررہے ہوں، اُس نمونے کو اختیار کرلیا جائے گا۔ ایسا کرنا بالکل درست قرار پائے گا، خواہ وہ نمونہ کسی بھی پیغمبر سے تعلق رکھتا ہو۔
حضرت مسیح نے اپنے حالات کے لحاظ سے خالص پُرامن دعوتی عمل کا طریقہ اختیار کیا۔ اِس اعتبار سے حضرت مسیح پرامن دعوتی عمل کے لیے ایک امتیازی ماڈل بن گئے۔ تاریخی طورپر ان کے ماڈل میں پرامن طریقے کے سوا کوئی اور طریقہ شامل نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بعد کے دور کے حالات میں پرامن دعوتی عمل کے لیے مسیحی ماڈل کو بطور حوالہ (reference) استعمال کیا گیا۔
سوال
اسلام میں ترکِ دنیا کا تصور کیا ہے، تزکیہ سے اس کاکیا ربط ہے، نیزدنیا سے تعلق کی نوعیت کیا ہے، براہِ کرم، اِس کو واضح فرمائیں (شارق حسین، دہلی)
جواب
دنیا سے تعلق کی تین صورتیں ہیں— دنیا میں ملوث ہونا، دنیا کو ترک کرنا، دنیا کو اعلیٰ مقصد کے لئے استعمال کرنا۔پہلی صورت، دنیا میں پوری طرح ملوث ہونا ہے۔ اس کو دنیا پرستی بھی کہا جاتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا کی چیزوں ہی کو اپنا مقصود بنا لیں، جو اپنی تمام صلاحیتیں دنیا کو پانے کے لیے وقف کردیں، جو دنیا کی کامیابی کو کامیابی سمجھیں اور دنیا کی ناکامی کو ناکامی۔ قرآن کے مطابق، یہ پورے معنوں میں بھٹکے ہوئے لوگ ہیں (17: 103-104)۔
اس معاملے میں دوسری قسم وہ ہے جس کو ترکِ دنیا کہا جاتا ہے، یعنی دنیا کے لوگوں سے اور دنیا کی چیزوں سے کنارہ کشی کرکے الگ تھلگ زندگی گزارنا۔ یہ لوگ بطور خود اس کو بہتر سمجھتے ہیں، مگر یہ صرف غلو (extremism) ہے اور غلو اسلام میں نہیں ہے (لاغلوَّ فی الإسلام)۔
تیسری صورت ہے —دنیا کو اعلیٰ ربانی مقصد کے لیے استعمال کرنا۔ دنیا سے تعلق کی یہی صورت درست ہے اور یہی اسلام کی تعلیمات کے مطابق ہے۔
ترکِ دنیا، ترکِ دعوت ہے۔ دنیا کیا ہے ، دنیا خدا کی تخلیق ہے۔ اور جو چیز خدا کی تخلیق ہو، وہ اصلاً برائی نہیں ہوسکتی۔ حدیث میںآیا ہے: إن الدنیا خُلقت لکم، وأنکم خُلقتم للآخرۃ (تخریج الإحیاء للعراقی، 3/252 )۔ اس حدیث سے دنیا کی صحیح نوعیت معلوم ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تزکیہ کا راستہ دنیا سے ہو کر گزرتا ہے۔ دنیا کی چیزوں کا صحیح استعمال ہی تزکیہ کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
سوال
سوال یہ ہے کہ جب ہم سب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امّت سے ہیں، ہم سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھتے ہیں،تو پھر اس کی کیا وجہ ہے کہ ہم نے الگ الگ فرقے اور مسلک بنا لئے ہیں۔ (ایس امین باشا، کرناٹک)
جواب
مسلمانوں میں مسلک کی بنیاد پر جو مختلف گروہ ہیں، حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی ، سلفی، یہ تمام گروہ بعد کے زمانے میں بنے ہیں۔ صحابہ اور تابعین کے زمانے میں یہ گروہ موجود نہ تھے۔ جو گروہ بندی دورِ اول میں نہ ہو اور بعد کے زمانے میں وجود میں آئی ہو، وہ اپنے آپ میں قابل رد ہے۔ یہ مختلف گروہ فقہی مسلک کی بنیاد پر بنے ہیں، لیکن کوئی بھی گروہ کسی بنیادی اختلاف کے تحت نہیں بنا ہے، بلکہ وہ صرف جزئیات میں اختلاف کے تحت بنا ہے۔ یہ جزئی اختلافات بے اصل نہیں ہیں، وہ خود صحابہ کے درمیان موجود تھے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ صحابہ کے زمانے میں اِن جزئیات کی بنا پر الگ الگ گروہ نہیں بنے، مگر بعد کے زمانے میں انھیں جزئیات کو لے کر الگ الگ گروہ بن گئے۔
اِس فرق کا سبب جزئیات میں غلو (extremism) ہے۔صحابہ اور تابعین کے زمانے میں یہ تصور تھاکہ جزئیات میں توسع ہے، یعنی اُن میں سے جس پر چاہو، عمل کرسکتے ہو، تم ہدایت پر رہو گے (بأیہم اقتدیتم اہتدیتم)۔ لیکن عباسی دور کے فقہاء نے جزئیات کے معاملے میں غلو کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے کہا کہ ان میں سے ہر ایک درست نہیںہوسکتا، ایک درست ہوگا تو دوسرا غلط ہوگا۔ انھوں نے غیر ضروری بحثوں کے ذریعے تعدّد میں توحّد پیدا کرنے کی کوشش کی، یعنی کئی کو ایک بنانا۔ جزئیات میں اِسی غلو یا تشدد کی بنا پر مختلف فقہی گروہ بن گئے۔
قرآن اور حدیث میں واضح طورپر بتایا گیا ہے کہ غلو اسلام میں نہیں ہے۔ اِس مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ مسلمان، صحابہ اور تابعین کے دور کی طرف لوٹیں۔ وہ اِس اصول کو مان لیں کہ یہ مختلف فقہی مسالک مبتدعانہ طورپر وجود میں آئے ہیں۔ وہ قابلِ ترک ہیں، نہ کہ قابل پیروی۔
سوال
نصاب زکوٰۃ کے تعلق سے قرآن وحدیث کی روشنی میں علمائِ کرام وائمہ دین کے فتویٰ سے مندرجہ ذیل سوال کی عامۃ المسلمین کی ہدایت ورہنمائی کے لئے تصریح فرما کر مشکور فرمائیں:
1 - نصاب زکوٰۃ کا تعین 7.5 تولہ سونا یا 52.5 تولہ چاندی یا ان کی مالیت کے بقدر کیش سے کیا جاتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ گذشتہ زمانہ میں 7.5 تولہ سونا کی قیمت 52.5 تولہ چاندی کے مساوی رہی ہو، لیکن فی زمانہ اِن دھاتوں کی قیمت میں تقریباً 1.40 کا تناسب ہے، یعنی 7.5 تولہ سونا کی قیمت 7.5 x 21,000 = 1,57,000 روپئے اور 52.5 x 600 = 31,500 روپئے۔
اب تک علماء کرام 52.5 چاندی یا اس کی قیمت کو ہی نصاب زکوٰۃ مقرر کرتے رہے ہیں۔ موجودہ حالات میں:
الف: 7.5 تولہ سونا کی قیمت کو نصاب کیوں نہ مانا جائے۔
ب: 7.5 تولہ سونا اور 52.5 تولہ چاندی کی قیمت کے اوسط (تقریباً 90 ہزار روپئے) کو معیار تسلیم کیوں نہ معیار تسلیم کیاجائے۔
2 - شافعی مسلک میں استعمالی زیورات زکوٰۃ سے مستثنیٰ ہیں، جب کہ حنفی مسلک میں استعمالی زیورات پر بھی زکوٰۃ واجب ہے۔ موجودہ دور میں عام مسلمان کو نہ تو مسالک کا علم ہے اور نہ ہی وہ اس کی ضرورت محسوس کرتاہے۔ اس لئے شافعی مسلک کو اختیار کرنے میں کیا قباحت ہے۔
3 - لڑکی کو بوقت نکاح اس کے والدین اور شوہر کی طرف سے زیورات جہیز یا تحفہ میں دئے جاتے ہیںاور وہ صاحب نصاب ہوجاتی ہے۔لیکن زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے کسی آمدنی کے ذریعہ کا مالک نہیں بنایا جاتا۔ شوہر بیوی کے سرمایہ کی زکوٰۃ کیوں دے۔ اور اگر شوہر کی آمدنی زکوٰۃ ادا کرنے کی متحمل ہو تو ایسی حالت میںکیا کیا جائے۔
الف: متوسط کلاس میں زیورپشت درپشت چلتا ہے۔ اگر زیور فروخت کرکے زکوٰۃ دی جاتی ہے تو وہ روپیہ ایک سال میں ہی خرچ ہوجائے گا اور فیملی مفلس ہوجائے گی، نیز اپنے بچوں کی شادی کے وقت مقروض ۔ اِن حالات میں شرعی احکامات کیا ہیں۔
4 - متوسط طبقہ میں مشترکہ خاندانی نظام قائم ہے۔ شادی شدہ جوڑے کے پاس نصاب کے مطابق زیور ہے، لیکن آمدنی بہت قلیل ہے۔ ضروریات زندگی کا بار بھی والدین کے ذمہ ہے۔ اس صورت میں کیا کفالت کرنے والے ان کی زکوٰۃ بھی ادا کریں یا یہ جوڑا زکوٰۃ سے مستثنیٰ قرار دیا جاسکتا ہے۔
5 - علی کے پاس نصاب کے مطابق کیش تھا۔ اس نے قسط اسکیم کے تحت مکان؍زمین ؍کار خرید لی اور وہ کئی سال کے لئے زکوٰۃ سے بری ہوگیا۔ دوسری طرف حسین کے پاس بھی روپیہ ہے، لیکن وہ یک مشت قیمت دے کر مکان؍زمین؍کار خریدنا چاہتا ہے۔ اس کے لئے وہ ہر سال کچھ رقم پس انداز کرتا ہے۔ کیا اس پر زکوٰۃ واجب ہوگی یا وہ علی کی طرح زکوٰۃ سے بری۔(شجاع الدین، علی گڑھ)
جواب
عرض ہے کہ مذکورہ قسم کے مسائل میں محتاط طریقہ یہ ہے کہ آپ کو مروّجہ مسالک میں سے جس مسلک پر اطمینان ہو، آپ اُس پر عمل کریں۔ بالفرض آپ کو کسی مسلک پر اطمینان نہ ہو تو صحیح طریقہ یہ ہے کہ آپ ذاتی طورپر اپنی دریافت کے مطابق عمل کریں۔ اِس معاملے کو بحث کا موضوع بنانا صرف اختلاف میں اضافہ کرے گا، اور اسلام میں ہر وہ اقدام غلط ہے جو اختلاف میں اضافے کا سبب بنے (الخلاف شر) ۔ وہ اصلاح، اصلاح نہیںجس کا نتیجہ مزید اختلاف کی صورت میں نکلنے والا ہو۔
واپس اوپر جائیں

خبر نامہ اسلامی مرکز— 211

1 - امام حرم مکی ڈاکٹر عبد الرحمن السدیس کی آمد (مارچ 2011) کے موقع پر دہلی (رام لیلا میدان،جامع مسجد) میں مختلف مقامات بڑے اجتماعات ہوئے۔ سی پی ایس کے ممبران نے اِس موقع پر لوگوں کو دعوتی لٹریچر دیا۔ خاص طور پر سی پی ایس کے دو ممبران مسٹر رامش صدیقی (نئی دہلی) اور ڈاکٹر محمد اسلم خان (سہارن پور) نے امام حرم سے ملاقات کی۔ ملاقات کے دوران امام حرم نے بتایا کہ اس وقت صدر اسلامی مرکز کی دو کتابیں اُن کے زیر مطالعہ ہیں: الإسلام یتحدی اور التذکیر القویم فی تفسیر القرآن الحکیم۔
2 - سہارن پور (یوپی )کے جے وی جین (J.V. Jain) کالج کے ہال میں 12-13 مارچ 2011 کو ایک انٹرنیشنل سیمنار ہوا۔ یہ سیمنار اے ایس ای اے این (Association of South East Asian) کی طرف سے کیاگیا تھا۔اِس سیمنار میں انڈیا کے صنعتی اور اقتصادی ماہرین کے علاوہ، انڈونیشیا، ملیشیا، برونائی، فلپائن، میانمار، کمبوڈیا، لائوس، تھائی لینڈ، تائی وان اور کوریا کے نمائندے شریک ہوئے۔ اِس موقع پر سی پی ایس سے وابستہ سہارن پور کے افراد نے حاضرین کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیا۔ تمام نمائندوں نے اِس کو بے حد خوشی کے ساتھ قبول کیا۔
3 - سی پی ایس کے تحت چلائے جانے والے القرآن مشن (Al-Quran Mission)سے وابستہ مسٹر علی (کلکتہ) نے مارچ 2011 کے آخری ہفتے میں افریقہ اور برازیل (ساؤتھ امریکا) کا سفر کیا۔ اِس موقع پر انھوں نے وہاں کے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا۔
4 - نئی دہلی کے انڈیا ہیبی ٹیٹ سنٹر میں 25 مارچ 2011 کو حسبِ ذیل موضوع پرایک پینل ڈسکشن ہوا:
The Story is the Distance Between You and the Truth
یہاں ایک اسٹوری بک کے مجموعہ (Teaching Stories) کا افتتاح کیاگیا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اپنی ٹیم کے ساتھ اس میں شرکت کی اور موضوع پر انگریزی زبان میں آدھ گھنٹہ تقریر کی۔ اِس موقع پر حاضرین کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیاگیا۔
5 - مارچ 2011 کے آخری ہفتے میں کولمبو انٹرنیشنل اسکول (سری لنکا) میں ایک پروگرام ہوا۔ اِس میں سی پی ایس (ممبئی) سے وابستہ مسٹر ہارون شیخ نے لوگوں تک قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دیگر دعوتی لٹریچر پہنچایا۔ یہاں دوسرے ممالک کے نمائندے بھی موجود تھے۔ اِن لوگوں نے خوشی کے ساتھ قرآن کو حاصل کیا۔
6 - سہارن پور (یوپی) کے حلقہ سی پی ایس نے 24 اپریل 2011 کو پیس ہال میں ایک دعوتی اجتماع کیا۔ اِس اجتماع میںکچھ خاص لوگوں نے بھی شرکت کی۔ مثلاً پنڈت مان کرشن (دھام پور)، مسٹر جیونت راؤ پاٹل (مہاراشٹرا)، سوامی جے پرکاش (ہری دوار)، وغیرہ۔ یہاں دعوتی موضوع پر خطاب ہوا۔ خطاب کے بعد خصوصی مہمانوں نے اپنے تاثرات بیان کئے۔ اِس موقع پر حاضرین کو قرآن کا ہندی اور انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیاگیا۔
7 - الحکمہ فاؤنڈیشن (نئی دہلی) کے تحت 27 مارچ 2011 کو غالب اکیڈمی (بستی حضرت نظام الدین) کے آڈی ٹوریم میں سیرت النبی کے موضوع پر ایک کانفرنس ہوئی۔ فاؤنڈیشن کی دعوت پر سی پی ایس کے ممبران نے اس میں شرکت کی۔ اِس موقع پر حاضرین کو قرآن کا اردو اور انگریزی ترجمہ اور دعوتی پمفلٹ دیاگیا۔
8 - سہارن پور(یوپی) کے نیشنل میڈیکل کالج کے سالانہ جلسہ تقسیم اسناد کے موقع پر3 اپریل 2011 کو مقامی لوگوں کے علاوہ، یوپی گورنمنٹ کے منسٹر اور ایجوکیشنل ڈپارٹمنٹ کے دیگر نمائندوں کو قرآن کاانگریزی ترجمہ دیاگیا۔ اِسی طرح 10 اپریل 2011 کو مذکورہ کالج میں ڈاکٹر ہینی مین ڈے کے موقع پر بھی آئے ہوئے مہمانوں کو کالج کے پرنسپل ڈاکٹر اسلم خان کی طرف سے قرآن کا ترجمہ دیاگیا۔
9 - سی پی ایس (نئی دہلی) کی طرف سے 5 اپریل 2011 کو نئی دہلی کے لودھی گارڈن میں اسپریچول آؤٹنگ کا ایک پروگرام ہوا۔ اِس میں سی پی ایس دہلی اور دیگر مقامات کے افراد شریک ہوئے۔ صدر اسلامی مرکز نے یہاں فطرت کے ماحول میں ایک تربیتی خطاب کیا۔ گارڈن میں مغرب کی نمازِ باجماعت کے ساتھ یہ پروگرام ختم ہوا۔
10 - سہارن پور (یوپی) کے ’’پیس ہال‘‘ میں 14 اپریل 2011 کو ذیابیطس (Diabetes) کے موضوع پر ایک ورک شاپ رکھی گئی۔ اس میں دیگر ڈاکٹروں کے علاوہ، سہارن پور کے مشہور ڈاکٹر سنجے ملگانی نے شرکت کی۔ اِس موقع پر تمام شرکا اور ڈاکٹروں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔
11 - لندن (Earl’s Court) میں 11-13 اپریل 2011 کو لندن بک فئر (London Book Fair) ہوا۔ نئی دہلی سے اِس بک فئر میں گڈورڈ بکس نے حصہ لیا۔ یہاں گڈورڈ اور تحریک ترسیل قرآن (نیویارک، امریکا) کی طرف سے بڑے پیمانے پر غیرمسلموں کو صدر اسلامی مرکز کا انگریزی ترجمہ قرآن دیاگیا۔ اِس موقع پر برطانیہ کے حسب ذیل تین اداروں میں پرافٹ آف پیس، تذکیر القرآن (انگریزی) اور قرآن کا انگریزی ترجمہ رکھوایاگیا:
آکسفورڈ سنٹر آف اسلامک اسٹڈیز (Oxford Centre of Islamic Studies) ۔
مارک فیلڈ سنٹر، لیسٹر (Markfield Centre, Leicester) ۔
ایس او ایس، لندن یونی ورسٹی (School of Oriental and African Studies)
12 - دوردرشن (DD-1) کے اسٹوڈیو (نئی دہلی) میں 19 اپریل 20011 کو ایک تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیاگیا۔ یہ خصوصی انٹرویو ایک گھنٹہ تک جاری رہا۔ اس کا موضوع امن اور اسلام (Islam and Peace) تھا۔ اس پروگرام کی اینکر مز گورا دھون لال تھیں۔ اِس انٹرویو میں دیگر سوالات کے علاوہ، سنٹر فار پیس اینڈ اسپریچویلٹی (CPS) کے بارے میں بھی سوالات کئے گئے۔ اِس سلسلے میں بتایا گیاکہ:
Peace and spirituality are two phases of a single coin— peace is external culture of spirituality, and spirituality is internal culture of peace.
13 - جیو ٹی وی (اسلام آباد، پاکستان) کی طرف سے دبئی (عرب امارات) میں مختلف موضوعات پر صدر اسلامی مرکز کے پروگرام کی ریکارڈنگ کا ایک پروگرام 24-30 اپریل 2011 کے درمیان کیاگیا۔ اِس پروگرام میں پاکستان کے مولانا جاوید احمد غامدی بطور مہمانِ خصوصی شریک تھے۔ اِس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے ٹیم کے 6 افراد کے ساتھ دبئی کا سفر کیا۔ سفر کے دوران دبئی اوقاف کے آڈی ٹوریم میں 29 اپریل 2011 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک خطاب ہوا۔ یہ ایک دعوتی خطاب تھا۔ اِس میں دبئی کے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں نے شرکت کی۔ سفر کے دوران سی پی ایس کی ٹیم کے افراد نے مقامی اور غیر ملکی لوگوں سے انٹریکشن کیا اور ان کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیا۔
14 - نئی دہلی کے ٹی وی چینل ’’زی سلام‘‘ کے تحت، صدر اسلامی مرکز کے پروگرام ’’اسلامی زندگی‘‘ کی ریکارڈنگ جاری ہے۔ یہ پروگرام روزانہ زی سلام کے چینل پر نشر ہوتے ہیں۔ پروگرام کی تفصیل موضوع کے ساتھ درج ذیل ہے:
سنتِ رسول، ختم نبوت، آزادیٔ فکر اور اسلام (12 اپریل 2011 )
عورت دورِ جدید میں، توکل علی اللہ، اسلام اور مساوات (20 اپریل 2011 )
دعوت الی اللہ، طلاق اسلام میں، اسلامی جہاد کیا ہے (3 مئی 2011 )
15 - سی این این (CNN) کے نمائندہ مسٹر ہرمیت (Harmeet Singh) نے 2 مئی 2011 کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو ریکارڈ کیا۔ یہ انٹرویو اسامہ بن لادن کی موت (2مئی 2011 ) کے موضوع پر تھا۔ سوالات کے دوران بتایا گیا کہ اسامہ کی موت صرف ایک ختم شدہ طاقت کا اعلان ہے۔
16 - دور درشن (انگریزی) چینل کی ٹیم نے 4 مئی 2011 کو صدر اسلامی مرکز کی ویڈیو ریکارڈنگ کی ۔ یہ انٹرویو ایک گھنٹے تک جاری رہا۔ سوالات کا تعلق اسلام کے مختلف پہلوؤں سے تھا۔ مثلاً شتم رسول کا مسئلہ، ارتداد کی سزا، وغیرہ۔ یہ انٹرویو انگریزی زبان میں ہوا۔
17 - پرگیا ٹی وی (نئی دہلی) نے 4 مئی 2011 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ ان کا ایک چینل ہے جس کو سکسس اسٹوری (Success Story) کہا جاتا ہے۔ اِس کے تحت وہ مختلف افراد سے ان کی کامیابی کے تجربات نقل کرتے ہیں۔ اِس ریکارڈنگ کا موضوع یہی تھا۔ گڈورڈ اور سی پی ایس کے بارے میں انھوں نے اِس پہلو سے بہت سے سوالات کئے جن کا انھیں جواب دیا گیا۔ ٹیم کے لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔
18 - سی پی ایس (نئی دہلی) کی ٹیم نے 10 مئی 2010 کو دہلی کے لودھی گارڈن میں اسپریچول آؤٹنگ کا ایک پروگرام کیا۔ یہ ٹیم کے افراد کے لیے ایک تربیتی پروگرام تھا۔ یہاں صدر اسلامی مرکز نے ٹیم کی دعوتی ذمے داری کے موضوع پر ایک تقریر کی۔ تقریر کے بعد مغرب کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کی گئی۔
19 - نئی دہلی کے ایم سی سی ایس (Media Content & Communications Services) ٹی وی چینل کے نمائندہ مسٹر روی کانت نے 14 مئی 2011 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا۔ اِس انٹرویو کا موضوع تھا— اسلام اور کلچر۔ سوالات کے دوران موضوع کی وضاحت کی گئی۔
20. Mr. Sajid Anwar, Roorki, Uttra Khand: Recently I was on a business trip to Europe. This journey was utilized for Dawah purpose. I visited 3 countries – Belgium, Iceland and Germany during 28th March to 2nd April, 2011. During the travel, I gave the Quran, The prophet of Peace and other dawah literature to many people, mainly technical experts, there. The people accepted with thanks. Comments of some of the recipients are as below:
ک I can not attend the meeting in the evening as today in the morning I have got a copy of the Quran which I have to read. (Prof Valdimer, Iceland)
ک I was planning to buy Quran for long. Thanks for presenting. I will definitely read this and other books and send you my comments. (Mr. Thor, Director, Iceland)
ک After reading the chapter “Negative Thinking Alien to Islam” of The Prophet of Peace, she commented – Truly nice, excellent!. So clearly explained without any ambiguity. (Ms. Shifa Modak, England)
21 - برمنگھم کے ادارہ آئی پی سی آئی (IPCI: Islamic Vision, Birmingham) نے دو بڑے دعوتی پروگرام شروع کئے ہیں— ایک، غیر مسلموں کے درمیان قرآن کے انگریزی ترجمے کا بڑے پیمانے پر ڈسٹری بیوشن۔ اور دوسرے، اسلامی نمائش (IslamicExperience Exhibition) ۔ یہ نمائش برمنگھم میں مستقل طورپر جاری رہے گی۔ اس کے ذریعے مقامی لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا جارہا ہے اور ان کو اسلام سے متعارف کرانے کا باقاعدہ سلسلہ قائم ہے۔ اِس نمائش میں برطانیہ کے تمام طبقوں کے لوگ کثرت سے شرکت کررہے ہیں۔
22 - ترکی کے ایک پریس کے ذریعے صدر اسلامی مرکز کا انگریزی ترجمہ قرآن وہاں سے شائع ہورہا ہے، تاکہ اُسے ترکی میں آنے والے سیاحوں کو دیا جاسکے۔ یہ ترجمہ ترکی کے مختلف سیاحتی مقامات پر بھی رکھوایا جارہا ہے۔
24 ۔ صدر اسلامی مرکز کا لٹریچر جدید طبقہ تک پہنچایا جارہا ہے۔ اس سلسلے میں یہاں دو تاثرات ملاحظہ ہوں:
1- I wanted to thank Maulana Wahiduddin Khan for his tireless effort to address us first as human beings then as religious creatures. (Joseph Salomonsen, lecturer Comparative Religion, Norway)
2- I found a book written by Maulana Wahiduddin Khan in my house. It was in the library, and someone else must have been reading it. Anyway, now I am reading it. It's called - The Reality of Life. I've already read bits of it, and really like it. Maulana speaks with so much practical wisdom. (Gaurja Prashar, Jesus and Mary College, Delhi University)
23 - الرسالہ مشن سے وابستہ دو کشمیری ساتھیوں کے تاثرات یہاں مختصراً نقل کئے جاتے ہیں:
ک غالباً 1985 کی بات ہے۔ مجھے الرسالہ کا پہلا شمارہ اپنے ایک ساتھی نور الاسلام خاں کے ذریعے انجینئرنگ کالج کے ہوسٹل میں ملا۔ میں نے جب الرسالہ کی ورق گردانی شروع کی تو ’’درخت‘‘ کے موضوع پر لکھے گئے ایک مضمون نے مجھ کو بے حد متاثر کیا۔ اِس میں ایک اہم سبق یہ تھا کہ ہمیں درخت کی طرح کاربن ڈائی آکسائڈ لے کر دوسروں کو آکسیجن مہیا کرنا چاہئے۔ بعد میں میری زندگی تقریباً اسی اصول پر چلتی رہی اور اِس طرح نہ صرف میری خاندانی زندگی، بلکہ سوشل لائف بھی مستحکم رہی۔ کشمیر میں کشیدہ صورت حال کے دوران الرسالہ نے ہمیں کم از کم ذہنی طورپر زندہ رکھا۔ صاحب الرسالہ نے 1975 میں اپنی کتاب ’’الاسلام‘‘ میں لکھا تھا کہ: ’’میرے اطمینان کے لئے یہ کافی ہے کہ میں نے سچائی کو کم ازکم فکری طور پر دریافت کرلیا۔ اب شاید میں یہ کہتے ہوئے مرسکتا ہوں کہ : ’’میرے بعد آنے والے کو پچھلی سیڑھیاں نہیں بنانی پڑیں گی‘‘ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ صاحب الرسالہ ابھی ہمارے درمیان موجود ہیں اور اب اِس دعوتی مہم کی کامیابی کا انحصار تمام تر ہماری انفرادی کوششوں پر ہے، کیوں کہ صاحب الرسالہ نے اپنا حق ادا کردیا۔ ایسے لٹریچر کی فراہمی جو کسی بھی انسان کو اپنے نیچر کی آواز محسوس ہوتی ہے، ایسے لٹریچر کی فراہمی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام آج کی چیز ہے۔ سائنٹفک اسلوب میں دعوتی لٹریچر کی فراہمی یقینا ایک ایسا کارنامہ ہے جس کے لئے پوری انسانیت صاحب الرسالہ کی احسان مند ہے۔(انجینئر الطاف حسین شاہ،کشمیر)
ک میں بچپن سے تلاشِ حق میں سرگرداں تھا۔ میرے کالج کے تین سال اِس طرح گزرے کہ بے چینی اور بے قراری کے عالم میں رونا میرا معمول بن چکا تھا۔ ایک دن بک اسٹال پر میری نظر ماہ نامہ الرسالہ پر پڑی۔ الرسالہ کو ہاتھ میں لیا اور اس کے مضامین دیکھے تو اچانک مجھ پر یہ احساس غالب ہوا کہ خدا نے میرے لئے ہدایت اور روشنی کا دروازہ کھول دیا ہے۔ اس کے فوراً بعد میں نے الرسالہ کی ایجنسی لی۔ کیوں کہ میں اِس نتیجہ پر پہنچا کہ الرسالہ سے وابستہ ہونے کا مطلب الرسالہ کی دعوتی مہم میں شریک ہونا ہے۔ الرسالہ سے پہلے، شاعری اور افسانہ کی طرف میرا رجحان تھا۔ اب میں شاعری بھی بھول گیا اور افسانہ بھی۔ الرسالہ سے پہلے میں بحث و تکرار کا عادی تھا۔ الرسالہ نے مجھے الفاظ سے نکال کر معنی کی دنیا میں پہنچا دیا۔ الرسالہ فکر کیا ہے۔ الرسالہ فکر دراصل پیغمبرانہ مشن کی صحیح ترین تعبیر اورتشریح ہے جو عقل وفطرت کے ناقابلِ تردید دلائل اور شواہد پر مشتمل ہے۔ اِس تعبیر اور تشریح کی بنیاد قرآن وحدیث اور سیرتِ رسول ہے۔ فکرِ الرسالہ، قرآن کے مرکزی تصور، توحید، رسالت، آخرت اور دعوت کی تفسیر ہے۔الرسالہ فکر کے اجزائے ترکیبی ہیں— سچائی کی تلاش، بے آمیز حق کی دریافت، معرفتِ خداوندی، عجز، تزکیۂ نفس اور دعوت الی اللہ۔ ان مرحلوں سے گزرے بغیر کوئی بھی شخص حقیقی معنوں میں خدا والا نہیں بن سکتا۔سچائی کیا ہے۔ ایک سوال کانام نہیں ہے، بلکہ ہزاروں سوالوں کے مجموعے کا نام ہے۔ الرسالہ فکر اِن تمام سوالوں کا جواب ہے۔ الرسالہ فکر آدمی کے ذہن سے تمام پردوں کو ہٹا دیتا ہے، یہاں تک کہ آدمی ظاہری دنیا میں، باطنی دنیا کو دیکھنے لگتا ہے۔فکر الرسالہ ربانی حکمت اور ایمانی بصیرت کا خزانہ ہے جس میں دنیا کی حقیقی کامیابی اور آخرت کی حقیقی کامیابی کے راز پوشیدہ ہیں۔ الرسالہ فکرآدمی کے جینے کی سطح کو بدل دیتا ہے۔ وہ آدمی کو حقیقی اور لازوال خدا سے ملاتا ہے۔ اس گہرے تعلق باللہ کی علامت کے طورپرآدمی کو عینِ خاشع، یعنی گریہ والی آنکھ حاصل ہوتی ہے۔ اِس کے بارے میں صاحبِ الرسالہ کا ایک قول یہ ہے: ’’اللہ کا ڈر آدمی کی آنکھوں کو اشک آلود کردیتا ہے۔ مگر اللہ کے لئے بھیگی ہوئی آنکھ ہی وہ آنکھ ہے جس کے لئے یہ مقدر ہے کہ اُس کو ٹھنڈک حاصل ہو، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی‘‘۔
مجھے الرسالہ کے آتشیں الفاظ میں صاحبِ الرسالہ کے دل کی دھڑکنیں صاف سنائی دے رہی ہیں۔ اتنے اعلیٰ الفاظ میں کلام کرنا ایک سچے داعیِ حق اور عارف باللہ کے سوا کسی اور کے لئے ممکن نہیں۔ کیا آپ الرسالہ کے مضامین میں اُن آتشیں کیفیات کو محسوس کررہے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ صاحبِ الرسالہ بے پناہ دردوغم میں پگھل رہا ہے۔ کیا آپ الرسالہ کے اوراق میں جا بجا اُن لاتعداد بھونچالوں کی شدت محسوس کررہے ہیں جو صاحبِ الرسالہ کے سینے میں امنڈ رہے ہیں۔ خدا نے ہمارے لئے مشکل ترین کام کو آسان ترین بنایا ہے۔ خدا نے دورِ جدید میں مولانا وحید الدین خاں صاحب سے تجدید واحیائِ دین کا کام لیا ہے۔ ان کے ذریعے قرآن وحدیث اور اُس سے متعلق انتہائی طاقتور لٹریچر وجود میں آگیاہے، جو دنیا کے ذہین اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں پر حجت قائم کرنے کے لئے کافی ہے۔داعیانِ حق کی جماعت میں شامل ہونے کے لئے ہمیں صرف یہ کرنا ہے کہ ہم اس لٹریچر کو حق سے غافل یا حق سے بے خبر بندگانِ خدا تک پہنچا دیں، تاکہ ہم خدا کی بارگاہ میں بری الذمہ ہوں اور لوگوں کے لئے عذر کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے۔ ہمارے لئے اِس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ہم اِس خدائی کام کو اپنا ذاتی مسئلہ بنائیں، بلکہ اِس سے بڑھ کر ہم اس کو اپنی زندگی اور موت کا مسئلہ بنا لیں۔ اگر ہمارا یہ واقعی فیصلہ ہے تو ہمیں اپنے آپ سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ آج تک ہم اِس دعوتی مہم میں اپنی آمدنی کا کتنا حصہ خرچ کرچکے ہیں۔ اگر ہمارا جواب نفی میںہو، تو آج سے ہمیں شعوری طورپر یہ طے کرنا چاہیے کہ ہم اپنی آمدنی اور وسائل کا کتنا حصہ اس خدائی کام کے لئے وقف کرنے کو تیار ہیں۔ خدا کی بارگاہ میں ’’کرنے‘‘ کی قیمت ہے، نہ کہ صرف ’’کہنے‘‘ کی۔ (نذیر الاسلام، کشمیر)
واپس اوپر جائیں