Pages

Sunday 1 July 2012

Al Risala | July 2012 (الرسالہ,جولائی)


خصوصی شمارہ ۔ انسانی تاریخ کی تعبیر

(Interpretation of Human History)
تاریخ کیا ہے، تاریخ گزرے ہوئے ماضی کی سرگزشت کا دوسرا نام ہے۔ تاریخ کے موضوع پر جو کتابیں لکھی جاتی ہیں، وہ عام طور پر گزرے ہوئے واقعات کا ریکارڈ ہوتی ہیں۔ لیکن تاریخ کا ایک ضمنی موضوع وہ ہے جس کو فلسفہ تاریخ (philosophy of history) یا تعبیر تاریخ (interpretation of history) کہا جاتا ہے۔ اِس موضوع کا مقصد یہ ہے کہ تاریخ انسانی کے واقعات کی ایک ایسی توجیہہ تلاش کی جائے جس میں مختلف واقعات کے درمیان ایک قابلِ فہم ربط دریافت کیاجاسکے۔ تاریخ کے پہلے موضوع (تاریخ نگاری) پر بڑی تعداد میں کتابیں موجود ہیں، لیکن جہاں تک تعبیر تاریخ کے موضوع کا تعلق ہے، اس موضوع پر کوئی ایسی کتاب موجود نہیں جس کو تاریخ کی قابلِ فہم توجیہہ قرار دیا جاسکے۔
اِس کا سبب ڈاکٹر الکسس کیرل نے اپنی کتاب ’’انسان نامعلوم‘‘ (Man the Unknown) میں درست طورپر یہ بتایا ہے کہ تعبیر تاریخ کا موضوع براہِ راست طور پر انسان کی آزادی سے تعلق رکھتاہے۔ انسان قابلِ پیشین گوئی نہیں، اِس لیے اس کے عمل کی کوئی جامع توجیہہ بھی ممکن نہیں۔ ہر انسان آزاد ہے کہ وہ جو چاہے کرے اور جو چاہے نہ کرے، اِس لیے انسانی تاریخ کی مجموعی تعبیر سخت مشکل کام ہے۔
اصل یہ ہے کہ انسان کی تاریخ دو متضاد تقاضوں کے درمیان سفر کرتی ہے۔ اِن دونوں تقاضوں کو آزادی اور جبر (freedom and determinism) کہاجاسکتا ہے۔ میرے علم کے مطابق، کوئی مورخ اِن دو متضاد تقاضوں کے درمیان ربط قائم کرنے کا کوئی اصول دریافت نہ کرسکا، اِس لیے وہ انسانی تاریخ کی کوئی کامیاب تعبیر بھی پیش نہ کرسکا۔
راقم الحروف نے اِس موضوع پر کافی غور وفکر کیا اور تعبیر تاریخ کا اصول دریافت کرنے کی کوشش کی۔ آخر کار مجھے قرآن کی ایک آیت میں یہ اصول دریافت ہوا۔ وہ آیت یہ ہے: وعلی اللہ قصد السبیل ومنہا جائر، ولو شاء لہداکم أجمعین (16: 9) یعنی اللہ کے اوپر ہے (انسانیت کو) صراطِ مستقیم پر قائم رکھنا، اور کچھ راستے منحرف راستے ہیں۔ اور اگر اللہ چاہتا تو وہ سارے انسانوں کو ہدایت دے دیتا۔
اِس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ اپنے منصوبۂ تخلیق (creation plan) کے مطابق، انسان کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے تاریخ کو مینج (manage) کررہا ہے۔ خدا، انسان کو آزادی بھی دئے ہوئے ہے اور اِسی کے ساتھ وہ اِس کی نگرانی بھی کررہا ہے کہ انسانی قافلہ بھٹک کر صراطِ مستقیم سے بہت دور نہ چلا جائے۔ تاریخ کے بارے میں اِس خدائی اصول کو ایک لفظ میںاِس طرح بیان کیا جاسکتاہے کہ— انسان کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے تاریخ کی تنظیم کرنا:
It is to manage history while maintaining human freedom.
تاریخ اور تعبیر تاریخ
تاریخ سادہ طورپر واقعہ نگاری (narration of events) کا نام ہے۔ تعبیر تاریخ (interpretation of history)کا تعلق فلسفۂ تاریخ سے ہے، یعنی اُن قوانین کو دریافت کرنا جو تاریخ کے عمل میں کام کررہے ہیں۔ اِس سلسلے میں مختلف نظریات پیش کئے گئے ہیں، مگر یہ تمام نظریات محض انسانی قیاس پر مبنی ہیں۔ تاریخ کی صحیح تعبیر وہ ہے جو انسان کے بارے میں خالق کے نقشۂ تخلیق (creation plan)کے مطابق ہو۔
قدیم زمانے میں بادشاہ کو تاریخ کا مرکزی کردار سمجھا جاتا تھا۔ اِس لیے تاریخ عملاً بادشاہوں کی تاریخ بن گئی۔ یورپ کی نشاۃِ ثانیہ کے بعد دنیا میں جمہوریت کا دور آیا۔ اب تاریخ کا مرکزی کردار فرد کے بجائے سوسائٹی کو سمجھا جانے لگا۔ اب سماجی افکار کی روشنی میں تاریخ لکھی جانے لگی۔ اِس میں ایک نمایاں نام جرمن مفکر کارل مارکس (وفات: 1883 ) کا ہے۔ مارکس نے تاریخ کا ایک نیا تصور پیش کیا جس کو تاریخی مادیت کہا جاتا ہے۔ یہ تصورِ تاریخ بنیادی طورپر یہ تھا کہ انسان کا شعور تاریخ کی صورت گری نہیںکرتا، بلکہ مادی حالات تاریخ کی صورت گری کرتے ہیں:
The mode of production in material life determines the general character of the social, political, and spiritual process of human life.
تاریخ کا ایک تصور وہ ہے جو نیشن (nation) پر مبنی ہے۔ کسی نیشن کی مختلف سرگرمیوں کے ریکارڈ کو اس کی تاریخ سمجھا جاتا ہے۔ مثلاً انڈین نیشن کی تاریخ، جرمن نیشن کی تاریخ، وغیرہ۔
ایک اور تاریخی نظریہ وہ ہے جس کو برٹش مورخ آرنلڈ ٹائن بی (وفات:1975 ) نے پیش کیا۔ اُس نے اِس موضوع پر ایک مکمل کتاب 12 جلدوں میں لکھی جس کا نام یہ ہے:
A Study of History
ٹائن بی نے تاریخ کا یہ تصور پیش کیا کہ تاریخ، تہذیب کے ارتقائی مراحل کے ساتھ سفر کرتی ہے۔ تہذیبوں کے معمار ہی تاریخ کے معمار ہوتے ہیں۔ مثلاً ایک زمانے میں رومی تہذیب نے تاریخ سازی کا رول ادا کیا۔ اِس کے بعد مسلم تہذیب، تاریخ ساز تہذیب کی حیثیت سے ابھری۔ اس کے بعد برٹش تہذیب کو تاریخ سازی کا یہ مقام ملا، وغیرہ۔
دوسرا تصورِ تاریخ وہ ہے جس کو مذہبی تاریخ کہا جاتاہے۔ مذہبی تصور تاریخ کو علمی اعتبار سے، کوئی مستند درجہ نہیں ملا، حتی کہ موجودہ زمانے میں اس کو بالکل ناقابلِ حوالہ سمجھ لیا گیا۔انسائکلو پیڈیا برٹینکا کے مقالہ نگار (Patrick Lancaster Gardinar)نے اپنے مقالہ فلسفۂ تاریخ (Philosophy of History) کے تحت لکھاہے کہ — مذہبی اور مابعد الطبیعی قیاسات کی روشنی میں، انسانی تقدیر کے معاملات کی تعبیر کا دور، جدید مورخین کے نزدیک، اب ختم ہوچکا ہے:
The age of religious and metaphysical conjectures concerning the destiny of human affairs had, in their opinion, come to a close (EB. 8/962, 1974)
یہ بات بلا شبہہ بے بنیاد ہے۔ یہ بات اُسی طرح غیر علمی ہے جس طرح یہ کہا جاتا ہے کہ خدا کا دور ختم ہوگیا (God is dead) ، یا یہ کہ پیغمبر کی وحی صرف ایک شاعرانہ تجربہ (poetic experience) تھی، یا یہ کہ مذہب کی کوئی بنیاد نہیں، وہ صرف ایک سماجی ظاہرہ (social phenomenon) ہے، وغیرہ۔
خدا کا منصوبۂ تخلیق
اللہ نے ایک معیاری دنیا بنائی۔ یہ دنیا ہر اعتبار سے ایک پرفکٹ دنیا تھی۔ اللہ نے یہ مقدر کیا کہ اِس معیاری دنیا میں ایسے افراد بسائے جائیںجو ہر اعتبار سے معیاری انسان ہوں۔ اِس مقصد کے لیے اللہ نے انسان کو پیدا کرکے اس کو سیارہ ارض پر آباد کیا۔ اس نے انسان کو مکمل آزادی عطا کی۔ موجودہ دنیا اِس منصوبے کے لیے ایک سلیکشن گراؤنڈ کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہاں یہ دیکھا جارہا ہے کہ کون شخص اپنی آزادی کا صحیح استعمال کرتا ہے اور کون شخص اپنی آزادی کا غلط استعمال کرتا ہے۔ تاریخ کے خاتمے پر یہ ہوگا کہ آزادی کا غلط استعمال کرنے والے افراد رد کردئے جائیں گے اور جن افراد نے اپنی آزادی کا صحیح استعمال کیا، اُن کو منتخب کرکے اُنھیں جنت میںآباد کردیا جائے گا۔ جنت کے تصور کو ملحد مفکرین انسانی تمناؤں کی خوب صورت نظریہ سازی (beautiful idealization of human wishes) کا نام دیتے ہیں۔ مگر زیادہ صحیح یہ ہے کہ جنت کے تصور کو انسانی تاریخ کی خوب صورت تعبیر (beautiful interpretation of human history) کہا جائے۔
یہ ایک پیچیدہ منصوبہ ہے۔ اِس کا ایک جُز یہ ہے کہ انسان کی آزادی پوری طرح برقرار رہے۔ اِس کا دوسرا جز یہ ہے کہ اللہ اس منصوبے کی تکمیل تک اپنے علم کے مطابق، اس کی تنظیم کرتا رہے۔ اِس طرح یہ دو طرفہ تقاضے کو منیج کرنے کا ایک معاملہ ہے۔ تاریخ کی کوئی قابلِ فہم تعبیر صرف اُس وقت ممکن ہے جب کہ تاریخ کو اِس دوطرفہ تقاضے کی روشنی میں دیکھا جائے ۔ تعبیر تاریخ کا یہی درست اصول ہے۔ اِس اصول کو نظر انداز کرنے کے بعد تاریخ کی تعبیر کسی بھی شخص کے لیے ممکن نہیں۔
انسانی تاریخ کی تعبیر کا کام انسان کرتاہے، مگر انسان کا خالق خود انسان نہیں، انسان کا خالق اللہ ہے۔ اِس لیے تاریخ کی تعبیر کا رہنما اصول (guiding principle) صرف یہ ہوسکتاہے کہ مورخ سب سے پہلے خالق کے منصوبۂ تخلیق (creation plan of the Creator) کو معلوم کرے۔ یہی اِس معاملے میں ماسٹر پرنسپل (master principle)ہے۔ اِس ماسٹر پرنسپل کو ذہن میں رکھے بغیر کوئی شخص تاریخ کی درست تعبیر نہیں کرسکتا — زیر نظر مقالے میں اِسی اصول کی روشنی میں تاریخ کی ایک قابلِ فہم تعبیر تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
مطلوب افراد کا انتخاب
خدا کے اِس تخلیقی منصوبہ کا ذکر قرآن کی سورہ البقرہ میں آیا ہے۔ اِن آیات کا ترجمہ یہ ہے: ’’اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ فرشتوں نے کہا: کیا تو زمین میںایسے لوگوں کو بسائے گا جو اُس میں فساد برپا کریں اور خون بہائیں، اور ہم تیری حمد کرتے ہیں اور تیری پاکی بیان کرتے ہیں۔ اللہ نے کہا: میں وہ جانتاہوں جو تم نہیں جانتے۔ اور اللہ نے سکھادئے آدم کو سارے نام، پھر ان کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور کہا کہ اگر تم سچے ہو تو مجھے اِن لوگوں کے نام بتاؤ۔ فرشتوں نے کہا کہ تو پاک ہے۔ ہم تو وہی جانتے ہیں جو تو نے ہم کو بتایا۔ بے شک تو ہی علم والا اور حکمت والا ہے‘‘۔ (2: 30-32)
فرشتوں کو یہ معلوم تھا کہ تمام موجودات مکمل طورپر خدا کے تابع فرمان ہیں، مگر انسان کو آزادی دے کر زمین پر بسایا جارہا ہے۔ ایسی حالت میں یہ ہوگا کہ لوگ آزادی کا غلط استعمال کریں گے اور وہ زمین میں فساد اور خوں ریزی برپا کریں گے۔ اُس وقت اللہ تعالیٰ نے ایک مظاہرہ کے ذریعے فرشتوں کو بتایا کہ اگر چہ انسانوں کی بڑی تعداد آزادی کا غلط استعمال کرکے مفسد بن جائے گی، لیکن انھیں میں سے ایسے افراد بھی نکلیںگے جو صالح افراد ہوں گے۔ آدم نے فرشتوں کے سامنے انھیں صالح افراد کا تعارف کرایا اور پھر فرشتے مطمئن ہوگئے۔
اصل یہ ہے کہ فرشتے پورے انسانی مجموعے کو دیکھ کر اپنی رائے بنا رہے تھے۔ اللہ نے ایک مظاہرہ کے ذریعے واضح کیا کہ خدائی تخلیق کا نشانہ مجموعہ نہیں ہے، بلکہ افراد ہیں۔ مجموعے کی سطح پر اگرچہ بگاڑ آئے گا، لیکن افراد کی سطح پر ہمیشہ اچھے افراد وجود میں آتے رہیں گے۔ خدا کے تخلیقی منصوبے کے مطابق، موجودہ دنیا ایک سلیکشن گراؤنڈ (selection ground) ہے، یعنی پورے مجموعے میں سے مطلوب افراد کا انتخاب کرنا۔ تخلیق کا نشانہ یہ نہیں ہے کہ انسان اِسی سیارۂ ارض پر معیاری نظام بنائے، بلکہ تخلیق کا نشانہ یہ ہے کہ ہر دور اور ہر نسل میں سے اُن افراد کو منتخب کیا جائے جو کامل آزادی کے باوجود اپنے آپ کو بطور خود ضابطۂ خداوندی کا پابند بنا لیں۔
تاریخ کے چند اوراق
خالق کے تخلیقی منصوبے کے مطابق، انسانی تاریخ کے سفر کو چند بڑے ادوار میں تقسیم کیاجاسکتا ہے۔ یہ ادوار یا یہ تاریخی مراحل حسب ذیل ہیں:
1 - پہلا دور نبیوں کے ذریعے اعلان کا دور ہے۔ یہ دور حضرت آدم سے لے کر حضرت محمد تک پھیلا ہوا ہے۔ اِس دور میں بہت سے پیغمبر آئے، لیکن اُن کا مشن اعلان کے مرحلے تک محدود رہا، وہ انقلاب کے مرحلے تک نہیں پہنچا۔
2 - دوسرا مرحلہ وہ ہے جو حضرت اسماعیل بن ابراہیم سے شروع ہوتاہے۔ اِس مرحلے میں ایک ایسی امت تیار ہوئی جو خدا کی کتاب کی حامل امت بن سکے۔
3 - حاملِ کتاب امت کے وجود میں آنے کے بعد جو اہم واقعہ ہوا، وہ یہ کہ قرآن خدا کی ہدایت کے مستند متن (authentic text) کی حیثیت سے محفوظ ہوگیا۔
4 - اصحاب رسول کے ذریعے تاریخ میں جو نیا دور آیا، اُس کا ایک اہم جُز آزادیٔ رائے (freedom of thought) تھا۔ ساتویں صدی عیسوی میں اِس کا آغاز ایک پراسس (process) کی شکل میں ہوا۔ ہزاروں سال بعد مغربی تہذیب کی صورت میں وہ اپنے کمال کو پہنچا۔
5 - اس تاریخی عمل میں مغربی تہذیب کا ایک سپورٹنگ رول ہے۔ مغربی تہذیب کی حیثیت اِس تاریخی سفر میں ایک سیکولر مؤید (secular supporter) کی ہے۔
6 - دورِ جدید میں سائنس کی حیثیت اِ س تاریخی سفر میں ایک مؤید عنصر (supportive element) کی ہے۔ جدید سائنس نے نیچر کی انفولڈنگ کرکے اُن خدائی نشانیوں کو کھولا جن کو قرآن میںآیات (signs) کہاگیا ہے (41: 53)۔
7 - جدید دور کو ایج آف کمیونکیشن کہاجاتا ہے۔ یہ ایج دراصل موافقِ دعوت ایج ہے۔ گلوبل کمیونکیشن نے پہلی بار گلوبل دعوہ کو ممکن بنادیا ہے۔
8 - پچھلی ہزار سالہ تاریخ میں پہلی بار دعوت الی اللہ کا ایک نیا امکان پیداہوا ہے۔ اس امکان کو جو لوگ استعمال کریں گے، اُن کو حدیث میں اخوانِ رسول کہاگیا ہے(صحیح مسلم)۔اخوانِ رسول کا لفظ فضیلت کو نہیں، بلکہ رول کو بتاتا ہے۔ اصحابِ رسول وہ لوگ تھے جنھوں نے ساتویں صدی میں اُس وقت کے امکانات کو استعمال کیا۔ اخوانِ رسول وہ لوگ ہوں گے جو اکیسویں صدی کے امکانات کو دعوت الی اللہ کے لیے استعمال کریں۔
مقصد ِ تخلیق
فلاسفہ اورمفکرین کے یہاں زیر بحث سوالات میں سے ایک اہم سوال یہ ہے کہ تخلیق کی غایتِ اصلی (raison d’être) کیا ہے۔ سیکولر مفکرین نے اس کا جواب مختلف انداز سے دینے کی کوشش کی ہے۔ مثلاً یہ کہ تخلیق کا مقصد یہ ہے کہ اس کے ذریعے خالق خود اپنی تکمیل چاہتا ہے۔ قرآن میںاِس سوال کا جواب ایک آیت میں اِس طرح دیاگیا ہے: وما خلقتُ الجن والإنس إلا لیعبدون (51:56) یعنی میں نے جن اور انس کو صرف اِس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔
صحابی مفسر عبد اللہ بن عباس نے اِس آیت کی تشریح اِس طرح کی ہے کہ اِس آیت میں ’لیعبدون‘ سے مراد ’لیعرفون‘ ہے، یعنی خدا کی عبادت کرنے سے مراد ہے خدا کی معرفت حاصل کرنا۔
خالق کی معرفت کوئی سادہ بات نہیں۔ انسان اپنے خالق کو براہِ راست نہیں دیکھ سکتا، لیکن تخلیق کا مطالعہ اور صاحبِ تخلیق کی کتاب (قرآن) کا مطالعہ کرکے آدمی یقینی طورپر خالق کی عظمتوں کو دریافت کرسکتا ہے۔ تخلیق کی اعلیٰ معنویت خالق کا اعلیٰ تعارف ہے۔ تخلیق کے مطالعے سے آدمی خالق کا جو علم حاصل کرتاہے، اُسی کا نام معرفت ہے۔
کسی آدمی کو جب خالق کی یہ معرفت حاصل ہوتی ہے تو یہ اُس کے لیے سپر تھرل (super thrill) کا ایک تجربہ ہوتا ہے۔ یہ تجربہ آدمی کی شخصیت میں ایک عظیم انقلاب پیدا کردیتا ہے۔ اِس کے بعد فطری طورپر ایسا ہوتاہے کہ آدمی کی سوچ خدا رخی سوچ بن جاتی ہے، آدمی کا کلام خدا رخی کلام بن جاتا ہے، آدمی کا سلوک خدا رخی سلوک بن جاتا ہے۔ قرآن کے الفاظ میں، آدمی کی پوری زندگی خدا کے رنگ میں رنگ جاتی ہے (2: 138) ۔
یہی معرفت مزید وسعت پاکر دعوت الی اللہ بن جاتی ہے۔ دعوت الی اللہ کیا ہے۔ وہ آدمی کی معرفتِ خدا کی توسیع یا اس کا خارجی ظہور ہے۔ جو آدمی گہرائی کے ساتھ خدا کی معرفت حاصل کرے، اس کے اندر شدید طورپر یہ جذبہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ اِس معرفت میں دوسروں کو حصے دار بنائے۔ اِسی واقعے کا دوسرا نام دعوت الی اللہ ہے۔
خدا کی معرفت ایک فرد کے اندر متحقق ہوتی ہے، نہ کہ کسی مجموعے کے اندر۔ جب ایک بڑی تعداد خدا کے عارفوں پر مشتمل ہو جائے تو اُس وقت پورے مجموعے یا اس کی بڑی تعداد معرفت کی حامل بن جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دعوت الی اللہ کا کام اصلاً فرد پر مبنی کام ہے، نہ کہ مجموعے پر مبنی کام۔ دعوت الی اللہ کا نشانہ اصلاً کسی سسٹم یا کسی اجتماعی نظام کے وجود میں لانا نہیں ہے، بلکہ فرد فرد کو معرفتِ خداوندی کا حامل بنانا ہے۔ اِس کے بعد جو واقعات پیش آتے ہیں، وہ اصل نشانے کے بالواسطہ نتائج ہیں، نہ کہ اصل نشانہ۔
تاریخ کی با معنی تعبیر
ایک بڑی انڈسٹری قائم کی جائے تو بظاہر اُس میں بہت سے اجزا اور بہت سی سرگرمیاں دکھائی دیں گی، لیکن انڈسٹری کا مقصودِ اصلی صرف ایک ہوگا، اور وہ ہے— کوئی خاص پروڈکٹ (product) نکالنا، یہی پروڈکٹ انڈسٹری کا حقیقی جُز ہوگااور بقیہ تمام چیزیں انڈسٹری کے اضافی اجزا قرار پائیں گے۔ یہی وہ واحد اصول ہے جس پر انڈسٹری کی صحتِ کارکردگی کو جانچا جائے گا۔
یہی معاملہ انسانی تاریخ کا ہے۔ انسانی تاریخ کے بظاہر بہت سے اجزا ہیں۔ اس میں بظاہر بہت سی سرگرمیاں کام کرتی ہوئی نظر آتی ہیں، لیکن تاریخ کی توجیہہ کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے یہ معلوم کیا جائے کہ تاریخ کے معاملے میں خالق کا منصوبہ کیا ہے اور خالق کے منصوبے کے مطابق، اِس عظیم کارخانۂ تاریخ سے کون سا پروڈکٹ نکالنا مقصود ہے۔ اِس کے سوا، کوئی دوسرا نقطۂ نظر تاریخ کی درست توجیہہ میں کار آمد نہیں ہوسکتا۔
قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتاہے کہ تاریخ کی مختلف سرگرمیوں کے دوران خالق کو جو پروڈکٹ وجود میں لانا مقصود ہے، وہ صرف ایک ہے۔ اِس پروڈکٹ کو قرآن میں ربانی انسان (3: 79) کہاگیا ہے، یعنی ایک فرد کے اندر ربانی شخصیت کی تعمیر۔ یہی ربانی افراد خدا کے منصوبۂ تخلیق کی اصل غایت (raison d’être) ہیں۔ جب تک یہ ربانی افراد بنتے رہیں گے، اُس وقت تک تاریخ کے ہنگامے جاری رہیں گے، اور جب اِس قسم کے افراد پیدا ہونا بند ہوجا ئیں تو اِس کے بعد وہ وقت آجائے گا، جب کہ تاریخ کے موجودہ دور کو ختم کرکے اس کے دوسرے دور کا آغاز کردیا جائے۔
خالق کے منصوبے کے مطابق، انسانی تاریخ کو عادلانہ اجتماعی نظام (just social system) کی اصطلاح میں جانچنا درست نہیں۔ خالق کا منصوبہ یہ نہیں ہے کہ موجودہ دنیا میں عادلانہ نظام قائم ہو، بلکہ خالق کا منصوبہ یہ ہے کہ موجودہ دنیا کی تجربہ گاہ میں عادل افراد پیداہوں اور پھر اِن عادل افراد کو منتخب کرکے اُنھیں یہ موقع دیا جائے کہ وہ جنت کی معیاری دنیا میں ابدی طورپر رہ سکیں۔ تاریخ کی بامعنی تعبیر (meaningful interpretation of history) صرف اُس وقت ممکن ہے جب کہ مذکورہ اصول کی روشنی میں تاریخ کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ کوئی دوسرااصول، تاریخ کی معنویت (meaning)کو واضح کرنے کے لیے کار آمد نہیں۔
افراد، نہ کہ مجموعہ
حقیقت یہ ہے کہ تاریخ کی صحیح تعبیر صرف وہ ہے جو خالق کے تخلیقی پلان کی روشنی میں کی جائے۔ تعبیر تاریخ کے اِس موضوع پر، قرآن کو ایک مستند ماخذ کا درجہ حاصل ہے۔ قرآن کا مطالعہ بتاتا ہے کہ خدا کے منصوبۂ تخلیق کے مطابق، تاریخ کی تعبیر کیا ہونا چاہئے۔ پچھلے ادوار میں ہزاروں مورخین پیدا ہوئے، مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ اِن تمام مورخین کی تیار کردہ کتابیں صرف تاریخی واقعات کا دفتر (chronicles) ہیں، وہ انسانی تاریخ کی معنویت کو واضح نہیں کرتیں۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ کتبِ تاریخ کی روشنی میں تاریخ صرف بے معنی واقعات کا ایک جنگل نظر آتی ہے۔ اِسی حقیقت کو انگریزمورخ ایڈورڈ گبن (وفات: 1794 ) نے اِن الفاظ میں بیان کیا ہے— انسانیت کی تاریخ، جرائم، حماقت اور بد قسمتی کے رجسٹر سے کچھ ہی زیادہ ہے:
History, which is, indeed, little more than the register of crimes, follies and misfortunes of mankind.
تعبیر تاریخ کے اعتبار سے، سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ تمام مورخین تاریخ کو مجموعہ کے اعتبار سے دیکھتے ہیں اور وہ مجموعہ کے اعتبار سے، اس کے حسن وقبح کا فیصلہ کرتے ہیں۔ مگر خدائی تخلیق کے مطابق،تعبیر تاریخ کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ مجموعۂ انسانیت کو دیکھ کر تاریخ کی تعبیر نہ کی جائے، بلکہ افرادِ انسانی کو دیکھ کر اس کی تعبیر کی جائے۔ مجموعہ کے اعتبار سے دیکھنے کی صورت میں یہ ہوتا ہے کہ تاریخ کا کوئی عہد عہد زریں (golden age) نظر نہیں آتا۔ لیکن اگر افراد کے اعتبار سے، تاریخ کو دیکھاجائے تو ہر عہد، زریں افراد (golden individuals) کا عہد نظر آئے گا۔
معیاری افراد کا انتخاب
اصل یہ ہے کہ خالق نے موجودہ دنیا کو اِس لیے نہیں بنایا کہ یہاں مجموعہ کی سطح پر معیاری نظام (ideal system) بنایا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دنیا امتحان کے لیے بنائی گئی ہے۔ یہاں ہر انسان کو کامل آزادی دی گئی ہے، وہ چاہے مصلح بن کر رہے یا مفسد بن کررہے۔ اِس لیے یہاں مجموعہ کی سطح پر کبھی معیاری نظام نہیں بن سکتا۔ معیاری نظام کا مقام صرف جنت ہے اور وہ جنت ہی میں بنے گا۔
موجودہ دنیا دراصل معیاری افراد کا انتخابی میدان (selection ground) ہے۔ یہاں ہر نسل سے معیاری افراد کا انتخاب کیا جارہا ہے۔ مثلاً آدم کی پہلی نسل میں قابیل، قابلِ رد تھا اور ہابیل، قابلِ قبول۔ یہی معاملہ پوری تاریخ میں جاری ہے۔ ہر دور میں اور ہر نسل میں خدا معیاری افراد کو منتخب کررہا ہے اور غیر معیاری افراد کو رد کررہا ہے۔ ردوقبول کے اِسی معاملے کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیاہے: ثلّۃ من الأولین وثلّۃ من الآخرین (56: 39-40) یعنی اگلوں میں سے ایک بڑا گروہ اور پچھلوں میں سے بھی ایک بڑا گروہ۔
قابلِ قبول اور قابلِ رد انسانوں کی یہ مطلوب فہرست جب مکمل ہوجائے گی تو اس کے بعد خالق کائنات موجودہ دنیا کو ختم کرکے ایک اور دنیا بنائے گا، جہاں وہ معیاری دنیا ہوگی جس کو جنت کہاجاتاہے۔ قابلِ قبول افراد اِس جنت میں بسا دئے جائیں گے، جہاں وہ ابد تک خوف وحزن سے پاک زندگی گزاریں گے۔ اور ناقابلِ قبول افراد کو رد کرکے کائناتی کوڑے خانے میں ڈال دیاجائے گا، جہاں وہ ابد تک حسرت کی زندگی گزاریں گے۔
معیارِ تاریخ
یہی تاریخ کو دیکھنے کا صحیح معیار ہے۔ اِس معیار سے تاریخ کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ فساد کے جنگل میں ہمیشہ اعلیٰ درجے کے صالح افراد پیدا ہوتے رہے ہیں۔ اِسی جنگل میں آدم کے بیٹے ہابیل بھی تھے جنھوں نے اپنے قاتل سے کہا: لئن بسطتَ إلَیّ یدک لتقتلنی ما أنا بباسط یدی إلیک لأقتلک۔ إنی أخاف اللہ ربّ العالمین (5: 28) یعنی اگر تم مجھ کو قتل کرنے کے لیے ہاتھ اٹھاؤگے تو میں تم کو قتل کرنے کے لیے تم پر ہاتھ نہیں اٹھاؤں گا۔ میں ڈرتا ہوں اللہ سے جو سارے جہان کا رب ہے۔ ہابیل کا یہ قول امن کا قول تھا۔ ہابیل نے اپنی اِس روش سے امن پسندی کی وہ اعلیٰ ترین مثال قائم کی جس کے آگے امن پسندی کا کوئی اور درجہ نہیں۔
اِسی طرح، تاریخ کے اِس جنگل میں ہاجرہ اُمّ اسماعیل جیسی خاتون پیدا ہوئیں۔ انھوں نے ڈھائی ہزار سال پہلے، خدا کے منصوبے کے مطابق، ایک نئی نسل برپا کرنے کے لیے یہ قربانی دی کہ وہ اپنے چھوٹے بچے (اسماعیل) کو لے کر عرب کے صحرا میں آباد ہوگئیں۔ اُس وقت اُن کی زبان سے یہ تاریخی کلمہ نکلا کہ جب خدا کا یہی منصوبہ ہے تو خدا ہم کو ہر گز ضائع نہیں کرے گا (إذن لا یضیّعنا اللہ)۔ ہاجرہ کی اِسی قربانی کے نتیجے میں بنو اسماعیل کی وہ نسل پیدا ہوئی جو اعلیٰ انسانی اوصاف کی حامل تھی۔ ایک مغربی اسکالر پروفیسر ڈی ایس مارگولیتھ (وفات: 1940 ) نے اِس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے بنو اسماعیل کی اِس نسل کو ہیروؤں کی ایک قوم (a nation of heroes) قرار دیا تھا۔
اِسی طرح، تاریخ کے اِس جنگل میں ابوبکر اور عمر جیسے افراد پیداہوئے جن کو اقتدار ملا، لیکن انھوں نے اپنے آپ کو بگاڑ سے کامل طورپر بچایا۔ مہاتما گاندھی نے ابوبکر ا ور عمر کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا تھا کہ — اگرچہ وہ بہت بڑی سلطنت کے حاکم تھے، مگر انھوںنے فقیروں جیسی زندگی گزاری:
Though, they were masters of vast empire, yet they lived the life of paupers. (Harijan, July 27, 1937)
انسان کو پیدا کرنے والا خداہے۔ خدانے انسان کی فطرت میں جنت کا تصور ودیعت کردیاہے۔ اِسی لیے ہر عورت اور مرد جو پیدا ہوتے ہیں، وہ تمناؤں اور خواہشوں (desires) کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ ہر انسان کے اندر فطری طورپر ایک تصوراتی دنیا بسی ہوئی ہے۔ اس اعتبار سے، انسان ایک طالبِ جنت مخلوق (paradise-seeking animal) ہے۔
اِسی فطرت کی بنا پر ایسا ہے کہ ہر پیدا ہونے والا انسان اپنے لیے ایک معیاری دنیا کی تعمیر میں لگ جاتاہے۔ ہر آدمی کا یہ حال ہے کہ وہ اپنی طاقت اور اپنے تمام وسائل کو ایک ایسی دنیا کے حصول میں لگا دیتاہے، جو اس کے لیے خوشی اور سکون کی دنیا ہو، جہاں اس کو پورے معنوں میں فل فل مینٹ (fulfilment) مل سکے۔مگر اسی کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر آدمی جو اِس دنیا میں آیا، وہ اپنی مطلوب دنیا کی تعمیر میں ناکام رہا، اور مایوسی کی نفسیات میں مر کر اِس دنیا سے چلا گیا۔ اِس عموم میں کسی بھی شخص کا کوئی استثنا نہیں۔ راقم الحروف نے ایک بار انٹرنیٹ کے ذریعے ایسے تقریباً 400 ممتاز افراد کے بارے میں یہ معلوم کیا کہ ان کے آخری ایام کیا تھے۔ تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ بلا استثنا اُن میں سے ہر شخص سخت مایوسی (despair) کی حالت میں مرا۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان کے ذہن میں جو معیاری دنیا بسی ہوئی ہے، وہ جنت ہے۔ مگر جنت کو پانے کا مقام آخرت ہے، نہ کہ موجودہ دنیا۔ خدا کے تخلیقی پلان کے مطابق، انسان کو یہ کرنا چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو جنت میں بسائے جانے کے قابل بنائے۔ مگر ساری تاریخ میں انسان نے یہ کیا کہ ہر ایک موجودہ دنیا ہی میں اپنی جنت کی تعمیر کرنے لگا۔ ایسا کرنا خداکے تخلیقی منصوبے کے خلاف تھا۔ اِس لیے ہر انسان صرف ناکامی کی ایک مثال بن کر رہ گیا۔مفکرین اور مصلحین نے عام طورپر اپنا نشانہ یہ بنا یا کہ وہ اِس دنیا میں انصاف اور انسانی اقدار (human values) کے اعتبار سے ایک معیاری دنیا بنائیں۔ مگر اُن کا نشانہ خدا کے تخلیقی منصوبے کے خلاف تھا، اِس لیے وہ کبھی واقعہ نہ بن سکا۔ خدا کا تخلیقی نشانہ یہ نہیں ہے کہ موجودہ دنیا میں معیاری نظام (ideal system) وجو د میں لایا جائے، بلکہ خدا کا تخلیقی نشانہ یہ ہے کہ معیاری افراد وجود میںآئیں۔ اِس قسم کے معیاری افراد تاریخ میں بکھرے ہوئے ہیں۔ آخرت میں یہ ہوگا کہ اِن افراد کو منتخب کرکے اُنھیں جنت کی معیاری دنیا میں بسادیا جائے گا۔
تعبیر تاریخ کی مثالیں
تاریخ کی تعبیر (interpretation of history) ایک مستقل سبجکٹ ہے، مگر اِس موضوع پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں، وہ سب کی سب کنفیوژن کا کیس ہیں۔ میرے علم کے مطابق، کوئی بھی شخص اِس موضوع پر اب تک ایسی کتاب نہ لکھ سکا جس میں انسانی تاریخ کی قابلِ فہم تعبیر پیش کی گئی ہو۔
اِس موضوع پر سب سے زیادہ نمایاں نام غالباً کارل مارکس (وفات: 1883 ) کا ہے۔ اس نے بطور خود تاریخ کی ایک متعین تعبیر دینے کی کوشش کی۔ مارکس کی اِس تعبیر تاریخ کو مادی تعبیر تاریخ (material interpretation of history)یا تاریخی مادیت (historical materialism) کہا جاتا ہے۔ کارل مارکس نے یہ کیا کہ اس نے نیوٹن کے دریافت کردہ قانون فطرت (law of nature) کو انسانی تاریخ پر منطبق کردیا، مگر مارکس کی یہ تعبیر تاریخ پہلی ہی نسل میں اہل علم کے درمیان قابلِ رد قرار پاگئی۔ انسان ایک صاحب اختیار مخلوق ہے۔ اِس کے برعکس، مادہ کوئی ذاتی اختیار نہیں رکھتا۔ ایسی حالت میں ایک کے قانون کو دوسرے کے اوپر چسپاں کرنا قیاس مع الفارق ہے، جو کہ عملاً ممکن نہیں۔
پہلی عالمی جنگ (1914-1918) کا واقعہ اس مارکسی نظریے کی عملی آزمائش تھا۔ یہ نظریہ اِس پہلی ہی آزمائش میں مکمل طور پر رد ہوگیا۔ اِس کی تفصیل یہ ہے کہ مشہور کمیونسٹ لیڈر ولادمیر لینن (وفات: 1924 ) نے 1919 میں کمیونسٹ انٹرنیشنل (comintern) قائم کی۔ اُس کا نظریہ تھا کہ ساری دنیا کے مزدور ایک طرف ہیں اور تمام دنیا کے سرمایہ دار ایک طرف۔ اس کے بعد 1939 میں دوسری عالمی جنگ شروع ہوئی۔ یہ جنگ جن ملکوں کے درمیان ہوئی، اُن ملکوں کے سربراہ مارکسی تصور کے مطابق، سرمایہ دار طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ مارکسی تصور کے مطابق، یہ فرض کرلیا گیا کہ اِن ملکوں کے مزدور اپنے ملکوں کی سرمایہ دار حکومتوں کا ساتھ نہیں دیں گے، بلکہ وہ عالمی مزدور طبقہ (class)کا ساتھ دیں گے، مگر عملاً ایسا نہیں ہوا۔ ہر ملک کے مزدوروں نے خود اپنے ملک کی حکومتوں کا ساتھ دیا۔ اِس طرح تاریخی مادیت یا جدلیاتی مادیت کا نظریہ اپنے پہلے ہی تجربے میں ختم ہوگیا۔
اِسی طرح کچھ اور اہل علم نے انسانی تاریخ کو ایک تعبیر دینے کی کوشش کی۔ مگر عملاً وہ بھی کنفیوژن کا شکار ہو کر رہ گئے۔ اِس کی ایک مثال کیمبرج کے پروفیسر ایچ بٹر فیلڈ(H. Butterfield) کی ہے۔ انھوں نے اِس موضوع پر ایک کتاب لکھی ہے جو 146 صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب 1931میں لندن سے چھپی ہے۔ اِس کتاب کا نام یہ ہے:
The Whig Interpretation of History
اِس کتاب میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ کسی یونی ورسل مارل کوڈ (universal moral code) کی روشنی میں پوری تاریخ کو ایک اخلاقی تعبیر دی جائے، مگر خود مصنف نے یہ اعتراف کیا ہے کہ تاریخ کی عملی تصویر کے مطابق، اِس قسم کی تعبیر ممکن نہیں۔
اِسی طرح ایک مثال مشہور برطانی رائٹر جارج برناڈ شا (وفات: 1950 ) کی ہے۔ اِس سلسلے میں اس کی ایک کتاب ’’مین اینڈ سپر مین‘‘ (Man and Superman) ہے۔ اِس کتاب میں اُس نے مفروضہ ارتقائی اصول کی روشنی میں تاریخ کی ایک تعبیر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اُس کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان لازمی ارتقائی قانون کے مطابق، بشر (man) سے فوق البشر (superman) کی طرف سفر کررہا ہے۔ مگر اس کا یہ نظریہ صرف ایک خیالی کہانی ہے۔ خالص علمی اعتبار سے اس کا کوئی وزن نہیں۔
منفی تصورِ تاریخ
انسانی تاریخ کے بارے میں عام طور پر اہلِ علم کا نقطۂ نظر منفی ہوتا ہے۔ مثلاً مشہور انگریز مورخ ایڈورڈ گبن (Edward Gibbon) نے لکھا ہے کہ — انسانیت کی تاریخ جرائم، حماقت اور بدقسمتی کے رجسٹر سے کچھ ہی زیادہ ہے:
History, which is, indeed, little more than the register of crimes, follies and misfortunes of mankind.
مختلف زبانوں میں جو بڑے بڑے ناول لکھے گئے ہیں،وہ سب کے سب المیہ (tragedy) ہیں،نہ کہ طربیہ (comedy) ۔ انسانی تاریخ کے بارے میں اِس قسم کا منفی تصور کیوں ہے۔ اِس کا سبب دراصل تاریخ کا غیر فطری طریق مطالعہ ہے۔ تاریخ کا فطری طریقِ مطالعہ یہ ہے کہ سب سے پہلے تاریخ کے بارے میں خالق کے نقشہ (model) کو دریافت کیا جائے، اور اس کے بعد اِس خدائی نقشے کی روشنی میں تاریخ کا جائزہ لیا جائے۔
جو لوگ تاریخ کے بارے میں منفی نقطۂ نظر رکھتے ہیں، اُن سب کی مشترک غلطی یہ ہے کہ وہ اپنے مفروضہ نقشے کی روشنی میں تاریخ کو سمجھنا چاہتے ہیں، اور جب تاریخ ان کے مفروضہ نقشے کے مطابق، بامعنی نظر نہیں آتی تو وہ تاریخ کے بارے میں منفی سوچ کا شکار ہوجاتے ہیں۔
تاریخ کے بارے میں اِسی منفی نقطۂ نظر کے تحت ایک مغربی مفکر نے کہا کہ —اِس دنیا میں ہر چیز حسین ہے، صرف ایک چیز حسین نہیں، اور وہ انسان ہے:
In this world everything is beautiful except man.
یہ تبصرہ غلط معیار کا نتیجہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کے سوا بقیہ دنیا جتنی حسین ہے، اُس سے بھی زیادہ انسانی دنیا حسین ہے۔ انسان مقصدِ کائنات ہے، پھر وہ غیر حسین کیسے ہوسکتا ہے۔ انسانی تاریخ
یہ تبصرہ دراصل ایک غلط معیار کا نتیجہ ہے۔ مذکورہ مبصر نے مادی دنیا کو دیکھا۔ اس کو نظر آیا کہ مادی دنیا میں پورے مجموعے کی سطح پر حسن پایا جاتا ہے۔ اس نے چاہاکہ یہی مجموعی حسن اس کو انسانی دنیا میں بھی نظر آئے۔ جب اُس نے پایا کہ انسانی دنیا میں اِس قسم کا مجموعی حسن نہیں ہے، تو اُس نے مذکورہ قسم کا ریمارک (remark) دے دیا۔
خالق کے منصوبے کے مطابق، انسانی دنیا اور بقیہ مادی دنیا کے درمیان ایک فرق پایا جاتاہے۔ وہ فرق یہ ہے کہ انسان کے سوا بقیہ کائنات میں مجموعی نظم (collective discipline) درکار ہے، کیوں کہ بقیہ دنیا امتحان (test) کے لیے نہیں پیدا کی گئی ہے، بلکہ وہ انسان کے لیے ایک معاون ذریعے کے طور پر پیدا کی گئی ہے، مجموعی نظم کے بغیر یہ مقصد حاصل نہیں ہوسکتا۔
اِس کے برعکس، انسان کا معاملہ فرد فرد کا معاملہ ہے۔ یہاں مجموعی حسن مطلوب نہیں، بلکہ یہاں انفرادی حسن مطلوب ہے۔ انسانی دنیا میں ہر فرد کو الگ الگ جانچا جارہا ہے۔ ہر فرد کو الگ الگ یہ موقع دیاجارہاہے کہ وہ اپنی آزادی کا صحیح استعمال کرکے اپنے آپ کو جنت کے معاشرے کا ایک کامیاب ممبر بناسکے۔ اِسی منصوبۂ تخلیق کی بنا پر دونوں کی جانچ کا الگ الگ معیار ہوگا۔ انسان کو فرد کی سطح پر جانچنا چاہئے اور بقیہ کائنات کو مجموعے کی سطح پر۔ حقیقت یہ ہے کہ تخلیق کی دونوں مثالیں شاہ کار ہیں، انسان بھی اور بقیہ کائنات بھی، مگر دونوں کو جانچنے کا معیار ایک دوسرے سے الگ ہے۔
تاریخ کے مطالعے کے بارے میں جو لوگ منفی نقطہ نظر رکھتے ہیں، ان کی مشترک غلطی یہ ہے کہ وہ پورے انسانی معاشرے یا پورے انسانی مجموعے کو دیکھ کر اپنی رائے بناتے ہیں۔ چوں کہ مجموعے کی سطح پر اُنھیں مطلوب معیاری سماج نظر نہیں آتا، اِس لیے وہ کہہ دیتے ہیں کہ انسانی دنیا میں برائی (evil) کے سوا کچھ اور نہیں، حالاں کہ اُنھیں یہ کہنا چاہیے کہ انسانی دنیا میں اگرچہ مجموعہ کی سطح پر برائی ہے، لیکن افراد کی سطح پر خیر موجود ہے۔مذکورہ منفی سوچ کے تحت ’پرابلم آف اِول‘(problem of evil) جیسا نظریہ وجود میں آیاہے، جو کہ موجودہ زمانے میں عام طورپر اہلِ علم کے ذہن پر چھایا ہوا ہے۔
انسانی دنیا کو مجموعی سطح پر معیاری بنانے کے لیے ضروری ہے کہ انسانی آزادی کو منسوخ کردیا جائے، کیوں کہ انسانی سماج میں تمام برائیوں کا سبب صرف ایک ہے، اور وہ انسان کی طرف سے آزادی کا غلط استعمال (misuse of freedom) ہے۔ مگر انسان کی آزادی کو منسوخ کرنا خود خالق کے منصوبے کو منسوخ کرنے کے ہم معنی ہے۔ اِس لیے خالق نے اپنے منصوبے کی اِس طرح تشکیل کی کہ اس نے انسان کے معاملے کو مبنی بر مجموعہ (collective-based) نہیں بنایا، بلکہ اس کو مبنی برفرد(individual-based) بنایا۔ اپنے تخلیقی نقشے کے مطابق، خدا کا کنسرن (concern) یہ نہیں ہے کہ پورے مجموعۂ انسانی میں لازماً معیاری نظام قائم ہو۔ ایسا صرف اُس وقت ہوسکتا تھا جب کہ انسان کی آزادی کو کلی طورپر منسوخ کردیا جاتا، اور خالق کے تخلیقی منصوبے کے مطابق، ایسا ہونا ممکن نہیں۔
اِس منصوبۂ تخلیق کے مطابق، پورے اجتماع یا پورے مجموعے کی سطح پر معیار (ideal) کا حصول ممکن نہیں، لیکن یہ عین ممکن ہے کہ انسانوں کی بھیڑ میں ایسے معیاری افراد وجود میں آتے رہیں جو اپنی ذات کی سطح پر سچائی کو دریافت کریں اور اپنے آپ کو اس کے مطابق ڈھال لیں، یہی استثنائی افراد خالق کو مطلوب ہیں— یہی مطلب ہے انسان کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے مطلوب کے مطابق، تاریخ کو مینج (manage) کرنے کا۔
خالقِ کائنات کی یہ اسکیم قرآن کے مطالعے سے واضح طورپر معلوم ہوتی ہے۔ اِس سلسلے میں قرآن کی سورہ النساء کی دو آیتوں کا ترجمہ یہ ہے: ’’اور جو شخص اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گا، وہ اُن لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ نے انعام کیا ہے، یعنی نبی اور صدیق اور شہید اور صالح۔ کیسی اچھی ہے ان کی رفاقت۔ یہ فضل ہے اللہ کی طرف سے، اور اللہ کا علم کافی ہے‘‘ ۔(4: 69-70)
قرآن کے اِس بیان سے معلوم ہوتاہے کہ وہ کون سے منتخب افراد ہوں گے جن کے مجموعے سے جنت کا معاشرہ وجود میں آئے گا۔ اِن افراد کو بتانے کے لیے یہاں چار الفاظ استعمال کئے گئے ہیں— نبی، صدیق، شاہد، صالح۔ نبی سے مراد صاحب وحی انسان (revealed person) ہے۔ صدیق سے مراد وہ انسان ہے جو حق کے ساتھ اپنے آپ کو اتنا زیادہ وابستہ کرے کہ اس کو پیغمبر کے ساتھ مزاجی مناسبت حاصل ہوجائے۔شہید یا شاہد سے مراد وہ انسان ہے جس کی زندگی میں حق اتنا زیادہ متشکّل ہوجائے کہ وہ اپنے پورے وجود کے ساتھ لوگوں کے درمیان حق کا گواہ بن جائے۔ صالح سے مراد وہ انسان ہے جس کی زندگی میں فکروعمل کی مطابقت کامل درجے میں پائی جائے۔
بنیادی طورپر یہی چار قسم کے افراد ہیں جن کے مجموعے سے وہ معیاری معاشرہ تشکیل پائے گا جس کو جنت کہاجاتاہے۔ اِن افراد کا تعلق کسی ایک زمانے یا کسی ایک معاشرے سے نہیں ہوگا، بلکہ وہ مختلف غیر معیاری معاشروں کے منتخب کئے ہوئے افراد ہوں گے۔ خالق کی اِس اسکیم کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اِس دنیا میں صرف انفرادی کامیابی (individual achievement) ممکن ہے۔ جہاں تک اجتماعی کامیابی (social achievement) کا تعلق ہے، وہ امتحان کی اس دنیا میں سرے سے ممکن ہی نہیں۔
موجودہ دنیامیں درست روش پر قائم ہونے کے لئے مثبت ذہن ضروری ہے۔ مگر مثبت ذہن کے ساتھ جینا کوئی سادہ بات نہیں۔ مثبت ذہن کے ساتھ جینے کے لئے آدمی کو ایک لازمی امتحان سے گزرنا پڑتا ہے۔ وہ ہے دو متضاد رجحانات کو مینج (manage) کرتے ہوئے زندگی گزارنا۔
اصل یہ ہے کہ آدمی پیدائشی طورپر ایک معیار پسند مخلوق ہے، مگر عملاً اس کو ایک غیر معیاری دنیا میں رہنا پڑتاہے۔ اس حقیقت سے شعوری طورپر با خبر ہونا بہت ضروری ہے۔ ورنہ یہ ہوگا کہ اس کا معیار پسند ذہن دنیا کے غیر معیاری تجربات کی بناپر رد عمل کا شکار ہوتا رہے گا اور نتیجۃً وہ مثبت ذہن سے محروم ہوجائے گا، اور مثبت ذہن سے محروم ہونا ہر چیز سے محروم ہونے کے ہم معنی ہے۔
آدمی کو شعوری طورپر یہ جاننا چاہیے کہ اس کا معیار پسند ذہن اس لئے ہے کہ وہ جنت کی معیاری دنیا کا طالب بنے، نہ یہ کہ وہ اسی موجودہ دنیا میں جنتی زندگی یا جنتی معاشرہ کو حاصل کرنے لگے۔ موجودہ دنیا جنتی انسان بنانے کے لئے ہے، نہ کہ جنتی معاشرہ بنانے کے لئے۔ جو آدمی شعوری طورپر اس راز کو جان لے کہ موجودہ دنیامیں اس کو اپنے اندر جنتی شخصیت کی تعمیر کرنا ہے وہ کامیاب ہوا۔ اور جو آدمی موجودہ دنیا ہی کو جنتی دنیا بنانے کی کوشش میں لگ جائے، وہ ناکام ونامراد رہا۔ کیوں کہ موجودہ دنیا میں جنتی شخصیت بننا تو ممکن ہے، مگر جنتی نظام بننا ممکن نہیں۔
تاریخ کی خدائی تنظیم
قرآن میں تاریخ کا جو تصور پیش کیاگیا ہے، اس کے مطابق، انسانی تاریخ آدم سے شروع ہوتی ہے، جو کہ پہلے انسان (first man) تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آدم کو اور ان کی بیوی حوا کو پیدا کرکے اُنھیں جنت میں آباد کیا۔ خدا کی طرف سے اُن کو صرف ایک ہدایت دی گئی تھی، وہ یہ کہ : اے آدم، تم اور تمھاری بیوی دونوں جنت میں رہو اور اس سے کھاؤ آسودگی کے ساتھ، جہاں سے چاہو۔ اور اس درخت کے قریب مت جانا، ورنہ تم ظالموں میں سے ہوجاؤ گے‘‘۔ (2: 35)
آدم کے ساتھ ان کی بیوی کو پیدا کرنے میں اِس بات کا اشارہ تھا کہ انسان کی پیدائش سے اللہ تعالیٰ کو جو چیز مطلوب ہے، وہ صرف ایک انسانی فرد نہیں، بلکہ ایک انسانی نسل ہے۔ انسان کے لیے جنت کا مستحق ہونے کی شرط صرف ایک تھی، یہ کہ وہ خود انضباطی کردار (self-disciplined character) کا پابند رہے، وہ آزادی کا غلط استعمال نہ کرے۔ مگر آدم اور حوا اِس شرط پر پورے نہیں اترے۔ اِس لیے انھیں جنت سے نکال کر سیارۂ ارض پر آباد کردیا گیا۔
اِس کا مطلب یہ تھا کہ پہلے انسان کو یہ موقع دیاگیا تھا کہ انسان عمومی بنیاد (general basis) پر جنت میں رہے، یعنی ہر پیدا ہونے والے عورت اور مرد کو جنت کی زندگی حاصل ہو۔ لیکن جب انسان اِس اعتماد پر پورا نہیں اترا تو اس کے بعد اللہ نے یہ فیصلہ کیا کہ انسان کی آزادی تو برقرار رہے گی، لیکن اب عمومی بنیاد پر نہیں، بلکہ انتخابی بنیاد پر صرف مستحق افراد کو جنت میں داخلہ دیا جائے گا۔ یہ انسان کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے تاریخ کو خدا کی طرف سے مینج (manage) کرنے کا پہلا واقعہ تھا۔
موجودہ زمین اِس تخلیقی مقصد کے لیے سلیکشن گراؤنڈ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اب یہ ہوگا کہ قیامت کے بعد فرشتوں کے ریکارڈ کے مطابق، صرف منتخب عورتوں اور مردوں ، قرآن کے الفاظ میں احسن العمل (67:2) افراد کو، یہ خوش نصیبی حاصل ہوگی کہ وہ جنت کی معیاری دنیا میں آباد ہوسکیں۔
زمین پر لائف سپورٹ سسٹم کا انتظام تو خدا کی طرف سے کیا گیا تھا، مگر انسان کو اپنے قول وعمل کی مکمل آزادی حاصل تھی، لیکن دوبارہ انسان نے اپنی آزادی کا غلط استعمال کیا۔ دھیرے دھیرے یہ ہوا کہ عمومی طورپر انسانی نسل شرک یا فطرت پرستی (nature worship) میں مبتلا ہوگئی۔ گویا کہ پہلے انسان نے ’’درخت‘‘ کا صرف پھل کھایا تھا، اب انسان نے ’’درخت‘‘ کو معبود قرار دے کر اس کی پرستش شروع کردی۔
تاہم منصوبۂ تخلیق (creation plan) کے مطابق، یہ ممکن نہیں تھا کہ انسان کی آزادی کو منسوخ کردیا جائے، اِس لیے اللہ نے انسان کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے اس کو مینج (manage) کرنے کا طریقہ اختیار کیا۔ اللہ نے یہ کیا کہ انسانوں میں سے کسی فرد کو منتخب کرکے اُس کو اپنا پیغمبر بنایا۔ اُس کو وحی (revelation) کے ذریعے اپنی رہنمائی بھیجی۔ اِن پیغمبروں نے انسانوں کو بتایا کہ عبادت کے قابل صرف ایک اللہ ہے۔ تم ایک اللہ کی عبادت کرو اور خود ساختہ معبودوں کی عبادت چھوڑ دو۔
مگر انسانوں کی بڑی تعداد ایسا نہ کرسکی۔ اللہ کی عبادت کا معاملہ ناقابلِ مشاہدہ (unobservable) ہستی کو معبود بنانے کا معاملہ تھا۔ انسان نے اپنی ظاہر پرستی کی بناپر نیچر کو اپنا معبود بنا لیا، جو کہ اس کے لیے ایک قابلِ مشاہدہ (observable) معبود کی حیثیت رکھتا تھا۔ اِسی نیچر ورشپ کا دوسرا نام شرک ہے۔
پیغمبروں کی آمد کے باوجود انسان کے لیے آزادیٔ اختیار (freedom of choice) کا موقع بدستور باقی تھا۔ اِس لیے انسان پیغمبروں کا انکار کرتا رہا۔ یہ معاملہ نسل درنسل جاری رہا، یہاں تک کہ شرک انسان کے لیے غالب کلچر بن گیا، تاریخ میں شرک کا تسلسل قائم ہوگیا۔
مشرکانہ کلچر کے عمومی غلبہ کا مزید نتیجہ یہ ہوا کہ وقت کی حکومتوں نے شرک کو اسٹیٹ کے مذہب کے طور پر اختیار کرلیا۔ اِس طرح شرک کو ہر جگہ سیاسی طاقت کی سرپرستی حاصل ہوگئی۔ پہلے اگر شرک سادہ معنوں میں ایک اعتقادی برائی تھی تو اب وہ ایک طاقت ور برائی بن گئی۔ مشرکانہ اقتدار کا کلچر بڑھتا رہا، یہاں تک کہ وہ برائی پیدا ہوئی جس کو فرانسیسی مورخ ہنری پرین نے مطلق شہنشاہیت (absolute imperialism) کا نام دیا ہے۔
شرک کی اِسی سیاسی سرپرستی کے نتیجے میں وہ جارحانہ مذہبیت پیدا ہوئی جس کو تاریخ میں، مذہبی جبر (religious persecution) کہا جاتاہے۔ سیاسی حاکموں نے ایسا ماحول قائم کیا جس کے نتیجے میں لوگوں کے لیے صرف ایک ہی آپشن باقی رہا، اور وہ مشرکانہ مذہب تھا۔ توحید کامذہب اختیار کرنے والوں کے لیے یہ انجام مقدر ہوگیا کہ وہ یا تو ریاست کے مذہب کو اختیار کرلیں، یا وہ قتل کردئے جائیں۔ دورِ قدیم کی یہی وہ صورتِ حال ہے جس کی طرف قرآن کی سورہ البروج کی آیات (85: 4-8) میں اشارہ کیاگیا ہے۔
اِس صورت حال سے یہ واضح ہوگیا کہ اب مذہبِ حق کا صرف اعلان کافی نہیں ہے۔ اب پہلی ضرورت یہ ہے کہ مذہب کو سیاسی اقتدار سے جدا کردیا جائے، تاکہ انسان کے لیے آزادی کے ساتھ اپنے عقیدے کا فیصلہ کرنا ممکن ہوجائے۔
تخلیقِ آدم
اللہ تعالیٰ نے پہلے لمبے تدریجی عمل (gradual process) کے ذریعے مادی کائنات بنائی۔ آخر میں اُس نے سیارہ ارض پر انسان کو ایک آزاد مخلوق کی حیثیت سے آباد کیا۔اللہ تعالیٰ نے جب انسانِ اوّل (آدم) کو پیدا کرنے کا ارادہ کیا تو اُس وقت اللہ اور فرشتوں کے درمیان ایک مکالمہ ہوا۔ یہ واقعہ قرآن کی سورہ البقرہ میں آیا ہے۔ یہاں متعلق آیات کا ترجمہ نقل کیا جاتا ہے:
’’اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ فرشتوں نے کہا: کیا تو زمین میں ایسے لوگوں کو بسائے گا جو اُس میں فساد کریں اور خون بہائیں۔ اور ہم تیری حمد کرتے ہیں اور تیری پاکی بیان کرتے ہیں۔ اللہ نے کہا کہ میں وہ جانتاہوں جو تم نہیں جانتے۔ اوراللہ نے سکھائے آدم کو سارے نام، پھر اُن کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور کہا کہ اگر تم سچے ہو تو مجھے اُن لوگوں کے نام بتاؤ۔ فرشتوں نے کہا کہ تو پاک ہے۔ ہم تو وہی جانتے ہیں جو تو نے ہم کو بتایا۔ بے شک تو ہی علم والا اور حکمت والا ہے۔ اللہ نے کہا: اے آدم، ان کو بتاؤ اُن لوگوں کے نام، تو جب آدم نے بتائے اُن کو اُن لوگوں کے نام تو اللہ نے کہا: کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ آسمانوں اور زمین کے بھید کو میں ہی جانتا ہوں، اور مجھ کو معلوم ہے جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ تم چھپاتے ہو‘‘ (2: 30-33) ۔
یہاں یہ سوال ہے کہ فرشتوں نے آدم کے بارے میں جس شک کا اظہار کیا تھا، وہ کیا تھا، اور اللہ تعالیٰ کے وضاحتی جواب کے بعد فرشتے جس چیز پر مطمئن ہوئے، وہ چیز کیا تھی۔ یہ بات قرآن میں بطور اشارہ موجودہے۔ اِس اشارے کی تفصیل جاننے کے بعد ہی معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی تخلیق کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا منصوبہ کیا تھا اور وہ کس طرح اپنی تکمیل تک پہنچا۔
یہ اشارہ قرآن کی ایک اور سورہ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے۔ قرآن کی سورہ التین میں ارشاد ہوا ہے: لقد خلقنا الإنسان فی أحسن تقویم، ثم رددناہ أسفل سافلین، إلاّ الذین اٰمنوا وعملوا الصالحات فلہم أجرٌ غیر ممنون (95: 4-6) یعنی ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا، پھر اُس کو سب سے نیچے پھینک دیا۔ لیکن جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کئے تو اُن کے لیے کبھی نہ ختم ہونے والا اجر ہے۔
اِس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے ساتھ ایک عظیم احسان کا معاملہ کیا جس کو قرآن میں تکریم (17: 70) کہاگیا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کو اعلیٰ صلاحیت کے ساتھ پیدا کیا، اُس کو کامل آزادی دی، اس کو یہ موقع دیا کہ وہ خود اپنے آزادانہ انتخاب (choice) سے اپنی زندگی کے لیے درست روش کو اختیار کرے۔اور پھر اللہ تعالیٰ یہ کہہ کر اس کے لیے جنت کا فیصلہ کرے کہ یہ تیرے اپنے عمل کی جزا ہے جو تونے دنیا میں کیا۔ مگر انسانوں کی اکثریت نے اِس منصوبۂ الٰہی کو نہیں سمجھا۔ انھوں نے اپنی آزادی کا غلط استعمال کیا اور اِس طرح انھوں نے جنت کا استحقاق کھو دیا۔ البتہ اِس عموم میں کچھ مستثنیٰ افراد پیدا ہوئے جنھوں نے اِس منصوبۂ الٰہی کو سمجھا اور اپنی آزادی کا صحیح استعمال کرکے انھوں نے اپنے آپ کو جنت کا مستحق بنالیا۔
اِس قرآنی بیان کی روشنی میں غور کیجئے تو سورہ البقرہ کے مذکورہ بیان کا مطلب یہ ہے کہ فرشتوں نے پوری انسانی نسل (total human race) کو لے کر سوچا تو وہ اِس رائے پر پہنچے کہ کامل آزادی انسان کے اندر بگاڑ پیدا کرے گی۔ وہ ظلم اور فساد جیسے کاموں میں ملوث ہوجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک مظاہرہ کی صورت میں اس کا جواب دیتے ہوئے بتایا کہ انسانوں کی مجموعی تعداد کے اعتبار سے بلا شبہہ اُن کے اندر بگاڑ آئے گا، لیکن اِس مجموعے میں ایسے مستثنیٰ افراد بھی پیدا ہوتے رہیں گے جو اپنی آزادی کا صحیح استعمال کریں گے، اور اِس طرح وہ ابدی رحمتِ خداوندی کے مستحق قرار پائیں گے۔
قرآن کی مذکورہ آیت میں بتایا گیا ہے کہ اللہ نے ایک مظاہرہ کے ذریعے انسانی تاریخ کے اِن مستثنیٰ افراد کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا۔ یہ دیکھ کر فرشتے مطمئن ہوگئے۔ یہ دیکھ کر فرشتوں نے جانا کہ اُن کا اشکال انسانوں کے پورے مجموعے کی نسبت سے تھا، جب کہ اللہ کا یہ منصوبہ نہیں۔ اللہ کا منصوبہ مبنی بر افراد (individual-based) ہے، وہ مبنی بر مجموعہ (totality-based) نہیں۔
اللہ تعالیٰ کو یہ معلوم تھا کہ کامل آزادی دینے کی بنا پر انسانی دنیا ظلم وفساد کا جنگل بن جائے گی، مگر اِس عموم میں استثنا بھی ہوگا۔ انسانوں کے پھیلے ہوئے جنگل میں ایسے استثنائی افراد بھی پیدا ہوں گے جو ظلم وفساد کے جنگل میں ربانی پھول کے مانند ہوں گے۔ اللہ کی نظر اِنھیں ربانی پھولوں پر تھی۔ اللہ کو یہ کرنا تھا کہ وہ فرشتوں کے ذریعے پوری انسانی تاریخ کا ریکارڈ تیار کرے، پھر اِن ربانی افراد کو منتخب کرکے اُنھیں انسانوں کی عمومی بھیڑ سے الگ کیا جائے اور پھر ان کو جنت کے ابدی باغوں میں بسایا جائے۔
جنت سادہ معنوں میں کوئی عیش کدہ نہیں۔ جنت وہ اعلیٰ مقام ہے جہاں تاریخ انسانی کے منتخب افراد کا معاشرہ بنایا جائے۔ وہاں اُن کو ہر قسم کا بہترین انفراسٹرکچر (infrastructure) حاصل ہو۔ تاریخ انسانیت کے یہ منتخب افراد یہاں فرشتوں کے تعاون سے ایک برتر تہذیب (super civilization) وجود میں لائیں۔ موجودہ دنیا میں جو تہذیب بنی، وہ قوانین فطرت (laws of nature) کی جزئی دریافت سے بنائی گئی۔ آخرت میں جو مافوق تہذیب بنے گی، وہ کلمات اللہ کی کلّی انفولڈنگ کے ذریعے تشکیل پائے گی۔
اِس معاملے کی مزید وضاحت قرآن کی دوسری آیتوں سے ہوتی ہے۔ اِس سلسلے کی ایک آیت یہ ہے: ولو أن ما فی الأرض من شجرۃ أقلام والبحر یمدّہ من بعدہ سبعۃ ابحر، مانفدت کلمات اللہ، إن اللہ عزیز حکیم (31: 27) یعنی اگر زمین میں جو درخت ہیں، وہ قلم بن جائیں اور سمندر سات مزید سمندروں کے ساتھ روشنائی بن جائیں، تب بھی اللہ کے کلمات ختم نہ ہوں گے۔ بے شک اللہ زبردست ہے، حکمت والا ہے۔
قرآن کی یہ آیت بظاہر خبر کے اسلوب میں ہے، مگر حقیقت میں وہ انشا ہے، یعنی اِس میں کلمات اللہ کے بارے میں صرف ایک موجود امکان کو نہیں بتایا گیا ہے، بلکہ اُس میں مخصوص قرآنی اسلوب کے تحت یہ بتایاگیا ہے کہ ایک وقت آنے والا ہے جب کہ اِن لامحدود کلمات اللہ کی انفولڈنگ کی جائے۔ یہ کام جنت کے ابدی ماحول میں انجام پا ئے گا۔ وہاں پوری تاریخ بشری کے منتخب افراد اکھٹا ہوں گے اور وہ اعلیٰ ترین مواقع کے درمیان کلمات اللہ کی انفولڈنگ کا کام انجام دیں گے۔ یہ ایک لامحدود کام ہوگا جو ابد تک جاری رہے گا۔ اِس عمل کو قرآن میں شغلِ فاکہ (35: 55) یعنی پُرمسرت سرگرمی (joyful activity) کا نام دیا گیا ہے۔
فردِ انسانی، مجموعۂ انسانی
تاریخ میں جتنے مفکر اور مصلح گزرے ہیں، وہ سب کے سب آئڈیلسٹ (idealist) تھے۔ اُن میں سے ہر ایک پوری انسانیت کی سطح پر معیاری نظام (ideal system)قائم کرنا چاہتا تھا۔قدیم یونان کے فلسفی افلاطون اور ارسطو کا خواب یہ تھا کہ دنیا میں آئڈیل سوسائٹی بنے۔ برٹش فلسفی برٹرینڈرسل چاہتا تھا کہ ایک پرامن دنیا وجود میں آئے۔ انڈیا کے لیڈر مہاتما گاندھی کا نشانہ یہ تھا کہ آزادی کے بعد انڈیا میں مبنی برخدمت سماج (سیواسماج) تشکیل پائے، وغیرہ۔ یہ سب انسانی زندگی کے معیاری تصورات تھے۔ مگر واقعات بتاتے ہیں کہ عملاً تمام کے تمام مفکرین اور مصلحین معیاری دنیا (ideal world)کو وجود میں لانے میں ناکام رہے۔
اِس کا سبب یہ تھا کہ ہر مفکر اور ہر مصلح نے اپنے دماغ سے سوچا۔ کسی نے یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کہ اِس معاملے میں خالق کی اسکیم (scheme of things) کیا ہے۔ مفکرین اور مصلحین کا منصوبہ خالق کے منصوبے سے مطابقت نہ رکھتا تھا، اِس لیے وہ مکمل طور پر ناکام رہا۔
خالق نے ہر انسان کو آزادیٔ اختیار (freedom of choice) دی ہے۔ یہ آزادیٔ اختیار قیامت سے پہلے، ہر گز منسوخ ہونے والی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اِس دنیا میں مجموعۂ انسانی کی سطح پر کسی معیاری نظام کا بننا ممکن نہیں۔ یہاں معیاری فرد تو وجود میں آسکتا ہے، لیکن مجموعے کی سطح پر کوئی معیاری نظام کبھی وجود میں نہیں آسکتا۔ معیاری افراد کا وجود میں آنا تو ممکن ہے، مگر معیاری سماجی نظام کا وجود میں آنا ممکن نہیں۔
واقعات بتاتے ہیں کہ اِس دنیا میں مجموعۂ انسانیت کی سطح پر کوئی معیاری نظام تو کبھی وجود میں نہ آسکا، لیکن عین اسی وقت ہر زمانے میں فرد (individual) کی سطح پر معیاری انسان وجود میں آتے رہے۔ خالق کے نقشے کے مطابق، یہ ممکن نہیں کہ موجودہ دنیا میں پورے سماج کی سطح پر کوئی معیاری نظام تشکیل پائے۔ لیکن عین اِسی وقت پوری تاریخ میں ایک واقعہ مسلسل پیش آرہا ہے، وہ یہ کہ ہر دور میں معیاری افراد بن رہے ہیں۔ خالق کی اسکیم کے مطابق، جو ہونے والا ہے، وہ یہ کہ مختلف زمانوں میں پیدا ہونے والے اِن معیاری افراد کو چن کر الگ کرلیا جائے اور پھر مختلف زمانوں میں پیدا ہونے والے اِن معیاری افراد کے اجتماع سے ایک آئڈیل سوسائٹی بنائی جائے۔ اِسی معیاری سماج کا نام مذہبی اصطلاح میں جنت (paradise) ہے۔
حضرت نوح کا رول
آدم پہلے انسان تھے اور پہلے نبی بھی۔اُن کو اور ان کی بیوی حوا کو غالباً عراق کے اُس مقام پر بسایا گیا جس کو قدیم زبان میں میسوپوٹامیا (Mesopotamia) کہا جاتاتھا۔ آدم اور حوا کی نسل سے جو لوگ پیدا ہوئے، وہ کئی نسل تک شریعتِ آدم پر قائم رہے، پھر دھیرے دھیرے اُن کے اندر بگاڑ پیدا ہوا اور تقریباً تمام نسل شرک میں مبتلا ہوگئی۔ انھوںنے اپنے بڑوں (وَدّ، سُواع، یغوث، یعوق، نسر) کو اپنا معبود بنالیا۔ پھر اِسی علاقہ (میسوپوٹامیا) میں حضرت نوح پیدا ہوئے۔ انھوںنے لمبی مدت تک نسلِ آدم کو توحید کا پیغام دیا۔ مگر ان کی قوم کے بہت کم لوگ اُن پر ایمان لائے (11: 40) ۔ بعض روایات کے مطابق، ایمان لانے والے مردوں اور عورتوں کی تعداد 80 تھی۔ اُن کی قوم کے بقیہ تمام افراد اصرار کے ساتھ شرک پر قائم رہے۔
حضرت نوح نے اِسرار واعلان (71: 9) کی تمام صورتیں اختیار کیں۔ لیکن آخر کار اُن پر یہ واضح ہوا کہ معاشرے کی کنڈیشننگ (conditioning) اتنی زیادہ بڑھ چکی ہے کہ اب قوم کے اندر جو بچہ پیدا ہوگا، وہ آخر کار قوم ہی کے مذہب کو اختیار کرے گا۔ جب بگاڑ اِس حد تک پہنچ چکا تو اللہ نے یہ فیصلہ کیا کہ مومنینِ نوح کو بچا کر بقیہ قوم کو ہلاک کردیا جائے۔
اُس وقت حضرت نوح نے اللہ کے حکم سے ایک بڑی کشتی بنائی۔ اِس کشتی میں ایمان لانے والے 80 مردوں اور عورتوں کو سوار کیاگیا۔ اِس کے بعد اُس علاقے میں ایک سیلاب آیا۔ یہ سیلاب اتنا بڑا تھا کہ اُس علاقے کی پہاڑیاں بھی پانی کے اندر ڈوب گئیں۔ حضرت نوح کی کشتی تیرتی ہوئی جودی پہاڑ پر رُکی (11: 44) ۔ یہ واقعہ تقریباً 5 ہزار سال پہلے پیش آیا۔ اِس پہاڑ کا موجودہ نام ارارات (Mount Ararat) ہے۔ جدید دریافت کے مطابق، وہ مشرقی ترکی میں واقع ہے۔
کسی قوم کو عذاب دینے کا واقعہ تاریخ میں کئی بار پیش آیا ہے، لیکن ایک عظیم سیلاب کے ذریعے عذاب دینے کا واقعہ صرف ایک بار پیش آیا۔ یہ واقعہ بھی خدا کی طرف سے تاریخ کی تنظیم سے تعلق رکھتا ہے۔ اِس بنا پر یہ ممکن ہوا کہ کشتی میں سوار اہلِ ایمان دور کے علاقے میں پہنچ جائیں۔ چناں چہ یہی بچے ہوئے اہلِ ایمان تھے جن کی وجہ سے دنیا کے مختلف حصوں میں انسان کی آبادیاں قائم ہوئیں۔ حضرت نوح کے زمانے تک انسان کی نسل صرف میسو پوٹامیا (عراق) کے محدود علاقے میں پائی جاتی تھی، لیکن طوفانِ نوح کے بعد انسان کی نسل زمین کے مختلف حصوں میں پھیل گئی۔
تاریخ کے دو دھارے
قرآن کے بیان کے مطابق، انسانی تاریخ کے آغاز ہی سے انسانی زندگی کے دو دھارے بن گئے— ایک، اتباعِ ابلیس کا دھارا، اور دوسرا، اتباعِ ملائکہ کا دھارا۔ زندگی میں ہمیشہ مثبت اور منفی دونوں قسم کے پہلو موجود ہوتے ہیں۔ اتباعِ ابلیس یہ ہے کہ آدمی مثبت پہلو کو نظر انداز کرکے منفی پہلو کو اختیار کرے۔ اس کے برعکس، اتباعِ ملائکہ یہ ہے کہ آدمی منفی پہلو کو نظر اندازکرکے مثبت پہلو پر فوکس کرے۔ پوری انسانی تاریخ اِسی دو قسم کے اتباع کی کہانی ہے۔ ایک روش کو اتباع ابلیس کا کلچر کہہ سکتے ہیں اور دوسری روش کو اتباعِ ملائکہ کا کلچر۔
خالق نے انسان کو مکمل آزادی دے دی ہے، خواہ اِس آزادی کی بنا پر بگاڑ کی وہ صورت پیدا ہوجائے جس کو قرآن میں اِن الفاظ میںبیان کیا گیا ہے: ظہر الفساد فی البر والبحر بما کسبت أیدی الناس (30: 30) ، مگر خالق نے انسان کی آزادی منسوخ نہیں کی، البتہ خالق نے اِس کا اہتمام کیا کہ اصل مقصد تخلیق میں کوئی رکاوٹ نہ آئے۔ خالق نے انسان کو آزادی بھی دے دی ہے اور اِسی کے ساتھ وہ تاریخ کو اِس طرح مینج (manage) کررہا ہے کہ مجموعے کی سطح پر بگاڑ کے باوجود مطلوب افراد کی پیدائش کا سلسلہ برابر جاری رہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جو تاریخ کی معنویت کو واضح کرتا ہے۔
تاریخ میں ایسے انسانوں کی مثالیں کم ہیں جنھوںنے اپنی آزادی کا صحیح استعمال کیا۔ زیادہ مثالیں وہ ہیں، جب کہ انسان نے اپنی آزادی کا غلط استعمال کیا۔ بظاہر یہ تاریخ کی ایک منفی تصویر ہے، مگر اِس منفی تصویر کا بھی ایک مثبت پہلو ہے، وہ یہ کہ اِسی ماحول کے دوران وہ حالات پیدا ہوتے ہیں جب کہ انسانوں کا امتحان لے کر مطلوب افراد کا انتخاب کیا جاسکے۔ مزید یہ کہ یہ نظام مطلق معنوں میں شر نہیں ہے، بلکہ اس میں خیر کا بھی ایک پہلو پایا جاتاہے، وہ یہ کہ آزادی کی بنا پر جب ایسا ہوتاہے کہ ہر آدمی اپنی اپنی سرگرمیاں جاری کرتاہے تو اِس سے لوگوں کو طرح طرح کی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لوگوں کو طرح طرح کے نقصانات پیش آتے ہیں۔ یہ سب گویا ایک طرح کا شاک ٹریٹمنٹ (shock treatment) ہوتا ہے۔ اِس طرح کے ناخوش گوار تجربات کی بنا پر افراد کے اندر وہ ذہنی سرگرمیاں جاری ہوتی ہیں جس کو نفسیات کی اصطلاح میں برین اسٹارمنگ (brain storming) کہاجاتاہے— نفسیاتی مطالعے کے مطابق، یہی برین اسٹارمنگ ہر قسم کی ذہنی ترقیوں کا ذریعہ ہے۔
معتدل حالات میں آدمی بڑے بڑے کام نہیں کرتا۔ بڑے بڑے کام صرف اُس وقت کئے جاتے ہیں، جب کہ غیر معتدل حالات پیدا ہوں۔ غیر معتدل حالات کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی کے اندر شدید قوتِ عمل جاگتی ہے۔ اس کے اندر شدید محرک (strong incentive) پیدا ہوتا ہے۔ یہی شدید محرک تمام بڑے بڑے واقعات کو رونما کرنے کا سبب ہے۔
مثلاً صلیبی جنگوں کے ذریعے وہ حالات پیدا ہوئے جن کے ذریعے اہلِ یورپ میں نیچر کی طاقتوں کی دریافت کا شدید جذبہ پیدا ہوا۔ پہلی عالمی جنگ کے زمانے میں اِسی طرح کاشدید جذبہ پیدا ہوا، جس کے نتیجے میں ہوا بازی (aviation) کو ترقی ہوئی۔ اِسی طرح دوسری عالمی جنگ کے زمانے میں وہ شدیدمحرک پیدا ہوا جس کی بنا پر کمیونکیشن کو ترقی ہوئی، وغیرہ۔
نئی منصوبہ بندی
منصوبۂ تخلیق کے مطابق، یہ ممکن نہیں تھا کہ انسان کی آزادی کو منسوخ کیاجائے۔ اِس لیے اب اللہ تعالیٰ نے تاریخ میں بالواسطہ طورپر ایک دخل دیا۔اللہ نے یہ فیصلہ کیا کہ ایک ایسا گروہ پیدا کیا جائے جو مذہب اور سیاسی اقتدار کو ایک دوسرے سے الگ کردے، تاکہ انسانی تاریخ اپنے صحیح رخ پر سفر کرسکے، بغیر اس کے کہ انسانی آزادی کو منسوخ کیاگیاہو۔ اِس نئے منصوبے کا مقصد یہ تھا کہ انسانوں کا مجموعہ خواہ آزادی کا صحیح استعمال نہ کرنے کی بناپر غلط رخ پرچلتا رہے، لیکن پھر بھی افراد کو یہ موقع حاصل رہے کہ وہ اپنے ضمیر کے مطابق، صحیح مذہب کو اختیار کرسکیں۔
اِس نئے منصوبے کا آغاز چار ہزار سال پہلے حضرت ابراہیم کے ذریعے ہوا۔ حضرت ابراہیم کا مقامِ عمل قدیم عراق تھا۔ یہاں اُس وقت مشرکانہ کلچر کا غلبہ تھا۔ حضرت ابراہیم نے لمبی مدت تک اُنھیں توحید کی دعوت دی، مگر وہ لوگ اپنی کنڈیشننگ کی بنا پر توحید کی فکر کو قبول نہ کرسکے، یہاں تک کہ انھوں نے حضرت ابراہیم کو قتل کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ اِس صورتِ حال کا تقاضا ہوا کہ حضرت ابراہیم اپنے مقامِ عمل کو بدل دیں۔ چناں چہ وہ اپنی اہلیہ ہاجرہ اوراپنے فرزند اسماعیل کو لے کر مکہ کے قریب آگئے جواُس وقت صرف ایک ویران صحرا کی حیثیت رکھتا تھا۔
اِس صحرائی ماحول میں توالد وتناسل کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا جس کے نتیجے میں وہ گروہ وجود میں آیا جس کو بنو اسماعیل کہاجاتا ہے۔ صحرائی ڈی کنڈیشننگ کے ماحول میں ایک نئی قوم بنانے کا یہ عمل تقریباً ڈھائی ہزار سال تک جاری رہا۔ پھر بنو اسماعیل کے اِسی گروہ میں پیغمبر اسلام محمد بن عبد اللہ بن عبدالمطلب پیدا ہوئے۔ پیغمبر اسلام کی 23 سالہ جدوجہد کے نتیجے میں یہ ہوا کہ بنو اسماعیل کے صالح افراد بڑی تعداد میں آپ کے گرد جمع ہوگئے، یہاں تک کہ وہ گروہ بنا جس کو اصحاب رسول کہاجاتاہے۔
اصحابِ رسول کا زمانۂ عمل ساتویں صدی عیسوی ہے۔ اُن کے ذریعے منصوبہ خداوندی کے مختلف کام انجام پائے۔ مثلاً کتاب الٰہی (قرآن) کا محفوظ ہوجانا۔ دینِ خداوندی کا ایک عملی ماڈل قائم ہوجانا۔ دین خداوندی جو پچھلے انبیا کے زمانے میں زیادہ تر فکری مرحلے تک محدود تھا، وہ اب انقلابی مرحلے میں پہنچ گیا۔ اِن تبدیلیوں کی بنا پر یہ ممکن ہوگیا کہ پیغمبروں کی آمد کا سلسلہ ختم کردیا جائے۔ تاریخ میں انفرادی پیغمبر کا دور ختم ہوجائے اور اجتماعی امت کا دور شروع ہوجائے ، وغیرہ۔
اللہ کی خصوصی نصرت سے، اصحاب رسول کے ذریعے جو انقلابی کام انجام پایا، اُس کا ایک خاص پہلو وہ تھا جس کا ذکر قرآن کی اِس آیت میں کیاگیا ہے: وقاتلوہم حتی لا تکون فتنۃ، ویکون الدین کلّہ للہ (8:39) ۔ اِس آیت میں ’فتنہ‘ سے مراد وہ جارحانہ نظام ہے جو قدیم طرز کی شہنشاہیت (imperialism) کی سرپرستی میں قائم تھا۔ اِس شہنشاہی نظام نے ایک ایسا نظام قائم کررکھا تھا جو خدا کے تخلیقی منصوبے کی تنسیخ کے ہم معنی تھا، یعنی آزادیٔ فکر کا خاتمہ۔ اِس لیے خدا کو یہ مطلوب تھا کہ اِس جبری شہنشاہی نظام کو توڑ دیا جائے، تاکہ انسانی قافلے کے سفر میں کوئی مصنوعی رکاوٹ حائل نہ رہے۔
ساتویں صدی عیسوی میں اِس جبری شہنشاہیت کے دو بڑے نمائندے تھے — ایک ساسانی ایمپائر (Sassanid Empire) اور دوسرے، رومن ایمپائر یا بازنتینی ایمپائر(Byzantine Empire)۔ یہ دونوں ایمپائر اتنا زیادہ طاقت ور تھے کہ اصحابِ رسول کے ذریعے ان کو مغلوب کرنا عملاً ناممکن تھا۔ عین اُس زمانے میں ایک معاون واقعہ پیش آیا، یعنی دونوں سیاسی چٹانوں کے درمیان باہمی ٹکراؤ۔ چناں چہ دونوں ایمپائر ایک دوسرے سے لڑ گئے۔ پہلے ساسانی ایمپائر نے رومن ایمپائر کو تباہ کیا، اس کے بعد رومن ایمپائر نے ساسانی ایمپائر کا زور توڑ دیا۔ اِس کے بعد یہ ممکن ہوگیا کہ خدائی منصوبے کے مطابق، اصحابِ رسول اُن کو مغلوب کرسکیں۔ یہ تاریخی واقعہ پیشگی طورپر منصوبۂ الٰہی میں مقدر کردیا گیا تھا۔ یہی وہ واقعہ ہے جس کی طرف بائبل میں پیشین گوئی کے طورپر ان الفاظ میں اشارہ کیاگیا تھا — اُس نے نگاہ کی اور قومیں پراگندہ ہوگئیں۔ ازلی پہاڑ پارہ پارہ ہوگئے۔ قدیم ٹیلے جھک گئے:
He looked and startled the nations. And the everlasting mountains were scattered. (Habakkuk, 3: 6)
یہ ساتویں صدی عیسوی کا واقعہ ہے۔ اِس کے بعد یہ ہوا کہ اہلِ اسلام کو وہ سیاسی غلبہ حاصل ہوگیا جو اس سے پہلے صرف اُن سیاسی نظاموں کو حاصل تھا جو مشرکانہ کلچر کی سرپرستی کرتے تھے۔ مسلمانوں کے سیاسی غلبہ کے تحت تاریخ میں ایک نیا عمل (process) شروع ہوا۔ اِس عمل کا نشانہ تھا — فطرت (nature) کو موضوعِ تحقیق (object of investigation) بنانا، جو اَب تک انسان کے لیے صرف موضوعِ پرستش (object of worship) بنی ہوئی تھی۔ انسان کو مکمل آزادی عطا کرکے اس کے لیے ذہنی ارتقا کا راستہ کھولنا، فطرت میں چھپے ہوئے اُن وسائل کو وقوع میں لانا جو عالمی دعوت کو ممکن بنانے والے ہوں، وغیرہ۔
انسانی آزادی کی بنا پر اِس دنیا میں تمام واقعات اسباب کے ماحول میں پیش آتے ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان علمی تحقیق کا کام خاص طورپر عباسی دور میں شروع ہوا۔ یہ وہ وقت تھا جب کہ ایشیا اور افریقہ کے بڑے رقبے میں مسلمانوں کی عظیم سلطنت قائم ہوچکی تھی۔ اِس بنا پر علمی تحقیق کی طرف مسلمان صرف جزئی طورپر متوجہ ہوسکے۔ مسلمانوں کی توانائی کا بڑا حصہ سیاسی سرگرمیوں میںلگا ہوا تھا۔ ان کی توانائی کا صرف محدود حصہ علمی تحقیق کے میدان میں صرف ہورہا تھا۔ یہ تناسب ناکافی تھا۔ علمی تحقیق کا یہ کام بہت بڑا کام تھا۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ مسلمان اپنی طاقت کو پوری یکسوئی کے ساتھ علمی تحقیق کے میدان میں وقف کردیں۔ مگر سیاسی اقتدار اِس قسم کی علمی یکسوئی میں رکاوٹ بنا ہواتھا۔
اِس کے برعکس، صلیبی جنگوں کے بعد علمی تحقیق کا کام جب یورپ کی مسیحی قوموں میں شر وع ہوا تو سیاسی اقتدار اُن کے لیے رکاوٹ نہ بن سکا، کیوں کہ عملاً وہ اُن کے پاس موجود ہی نہ تھا۔ چناں چہ مسیحی قوموں کے اعلیٰ ذہن بڑی تعداد میں علمی تحقیق کے میدان میں مصروف ہوگئے۔ انھوںنے پوری یکسوئی کے ساتھ علمی تحقیق کا کام شروع کردیا۔
یہ بھی انسانی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے تاریخ کو مینج (manage) کرنے کا معاملہ تھا۔ جب خالق نے دیکھا کہ مسلم دنیا کے حالات علمی تحقیق کو زیادہ بڑے پیمانے پر انجام دینے میں رکاوٹ بن رہے ہیں، تو اُس نے علمی تحقیق کے کام کو مسلم دنیا سے نکال کر مسیحی دنیا کی طرف منتقل کردیا، جہاں اِس قسم کی رکاوٹ والے اسباب موجود نہیںتھے۔
مشرق سے مغرب کی طرف
اسلام کا آغاز 610 عیسوی میں ہوا۔ حالات کی موافقت کی بنا پر اس کی توسیع اتنی تیز رفتاری کے ساتھ ہوئی کہ 50 سال کے اندر اہلِ اسلام کا ایک ایمپائر قائم ہوگیا۔ اب یہ مطلوب تھا کہ امتِ محمدی تسخیرِ فطرت اور سماجی انقلا ب کے وہ مطلوب کام انجام دے جس کے لیے اُس کو سیاسی غلبہ عطا کیاگیا تھا۔ مگر مسلمان بہت جلد آپس کے سیاسی ٹکراؤ میں مشغول ہوگئے اور مطلوب کام کی طرف وہ زیادہ پیش قدمی نہ کرسکے۔
اب خدائی منصوبے کے مطابق، تاریخ میں وہ واقعہ پیش آیا۔ جس کو قرآن کی سورہ محمد میں استبدالِ قوم (47: 38) کے الفاظ میں بیان کیاگیا ہے۔ استبدال (replacement) کا مطلب یہ تھا کہ مذکورہ منصوبے کی تکمیل کے لیے مسلمانوں کے بجائے ایک اور قوم کو کھڑا کرنا۔ صلیبی جنگوں (Crusades) کے ذریعے استبدال کا یہی معاملہ پیش آیا۔
خلیفہ ثانی عمر فاروق کے زمانے میں یہ واقعہ پیش آیا کہ مسلمانوں نے فلسطین کو مسیحیوں سے چھین لیااور اُس پر اپنا اقتدار قائم کرلیا۔ فلسطین مسیحی قوموں کے لیے ایک مقدس سرزمین (holy land) کی حیثیت رکھتا تھا۔ چناں چہ مسیحی قومیں اِس قبضے کو کبھی قبول نہ کرسکیں۔ یہ نزاع باقی رہی، یہاںتک کہ یورپ کی مسیحی سلطنتوں نے یہ منصوبہ بنایا کہ فوجی کارروائی کے ذریعے وہ شام اور فلسطین کے علاقے کو دوبارہ اپنے قبضے میں لے لیں۔
صلیبی جنگوں کا یہ سلسلہ 1095 ء میں شروع ہوا۔ تقریباً 200 سال کے اندر دونوں قوموں کے درمیان وقفے وقفے سے 9 بار خوں ریز لڑائیاں ہوئیں، مگر یورپ کی مسیحی سلطنتوں کی متحدہ کوشش کے باوجود اُن کو زبردست ناکامی ہوئی۔ اِس کے بعد وہ اِس نتیجے پر پہنچے کہ مسلّح جنگ کے ذریعے مسلمانوں کو شکست دینا اُن کے لیے ممکن نہیں۔ چناں چہ مسیحی قوموں میں ایک نیا ذہن شروع ہوا۔ اس نئی جدوجہد کا نام اسپریچول کروسیڈ (spiritual crusades) تھا۔ اسپریچول کروسیڈ سے مراد دراصل انٹلکچول کروسیڈ(intellectual crusades) تھا۔ چناں چہ مسیحی قوموں نے اب اپنی کوششوں کو علمی ترقی کی طرف موڑ دیا۔ یونانی فلسفیوں اور مسلم فلسفیوں کی کتابوں کے ترجمے وسیع پیمانے پر لاتینی زبان میں کئے جانے لگے۔ یہی وہ زمانہ ہے جب کہ یورپ میں تعلیم اور علمی رسرچ کی سرگرمیاں بڑے پیمانے پر جاری ہوئیں۔ چناں چہ اِس کی دو مثالیں یہ ہیں کہ ’’اسپریچول کروسیڈ‘‘کے سینٹر کے طورپر 1096 میں برطانیہ میں آکسفورڈ یونی ورسٹی قائم ہوئی اور 1209 میں کیمبرج یونی ورسٹی قائم کی گئی، وغیرہ۔
اس کے بعد چودھویں صدی اور سولھویں صدی عیسوی کے درمیان یورپ میں وہ انقلاب آیا جس کو نشاۃِ ثانیہ (Renaissance) کہاجاتاہے۔ اب اسپریچول کروسیڈس نے مزید ترقی کرکے نیچرل کروسیڈس (natural crusades) کی حیثیت اختیارکرلی۔
مغرب میں اسپریچول کروسیڈ اور نیچرل کروسیڈ ابتداء ً منفی ذہن کے تحت پیدا ہوئی۔ مغربی قوموں کو جس چیز نے ابتداء ً متحرک کیا تھا، وہ یہ تھاکہ مسلمانوں کے خلاف ہتھیار کے میدان میں ہاری ہوئی جنگ کو دوبارہ علم کے میدان میں کامیاب بنایا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اہلِ مغرب کی اس منفی نفسیات کو محرک (incentive) کے طورپر استعمال کیا۔ اللہ نے اہلِ مغرب کو اِس کا ذریعہ بنایا کہ وہ نیچر میں چھپے ہوئے اسرار کو دریافت کریں اور ایک ایسی دنیا وجود میں لائیں جو اسلامی مشن کے لیے تائید کا ذریعہ ثابت ہو۔
اہلِ مغرب کے ذریعے یہ تائیدی واقعہ جو اپنی پوری صورت میں بیسویں صدی میں ظہور میں آیا، اس کی پیشگی خبر قرآن کی ایک آیت میں دی گئی تھی: سنریہم اٰیاتنا فی الاٰفاق وفی أنفسہم حتی یتبین لہم أنہ الحق (41: 53) یعنی مستقبل میں ہم اُن کو اپنی آیات دکھائیں گے، آفاق میں بھی اور انفس میں بھی۔ یہاںتک کہ اُن کے اوپر یہ آشکارا ہوجائے گا کہ یہ قرآن حق ہے۔
اہلِ مغرب کے اِس رول کا تذکرہ حدیث میں بھی بطور پیشین گوئی موجود ہے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں: إن اللہ لیؤیّد ہذا الدین بالرجل الفاجر (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 3062 ) یعنی اللہ اِس دین کی تائید فاجر انسان کے ذریعے بھی کرے گا۔
اِس حدیث میں ’فاجر‘ کا لفظ سیکولر کے معنیٰ میں استعمال ہوا ہے۔ واقعات سے ظاہر ہوتاہے کہ اِن سیکولر مؤیدین سے مراد مغربی دنیاکے وہ لوگ ہیں جن کی کوششوں سے جدید تہذیب (modern civilization) وجود میں آئی اور اس کے ذریعے آفاق وانفس کی آیات دریافت ہوئیں۔ اہلِ مغرب کے اندر انتقام کی جو نفسیات پیداہوئی، وہ فطری طور پر نہایت شدید تھی۔ اِس شدید محرک کو اللہ نے رموزِ فطرت کی دریافت کے لیے استعمال کیا۔
رموزِ فطرت کی دریافت کا یہ کام ایک بے حد مشکل کام تھا۔ اُس میںاپنے آپ کو ڈیڈی کیٹ (dedicate) کرنے کے لیے نہایت شدید محرک (strong incentive) درکار تھا۔ صلیبی جنگوں میں اہلِ مغرب کی توہین آمیز شکست (humiliating defeat) نے اُن کے اندر یہی شدید محرک پیدا کیا۔ اِس کی ایک مثال یہ ہے کہ بیسویں صدی کے آغاز میں برطانیہ کی ایک سائنٹفک ٹیم نے یہ منصوبہ بنایا کہ وہ انٹارکٹکا (Antarctica) کی دریافت کریں۔ یہ ایک نہایت جان جوکھم کا کام تھا۔ ٹیم کے سربراہ سر ارنسٹ شیکلٹن (Sir Ernest Shackleton) نے 1900ء میں لندن کے اخبار ٹائمس (The Times) میں ایک اشتہار چھپوایا۔ اس کے الفاظ یہ تھے:
“Men wanted for hazardous journey. Small wages, bitter cold, long months of complete darkness, constant dangers, safe return doubtful. Honour and recognition in case of success.”
یعنی ایک پر خطر سفر کے لیے آدمی درکار ہیں۔ بہت کم معاوضہ، شدید ٹھنڈک، لگاتارتاریکی کے لمبے مہینے، مسلسل خطرہ، محفوظ واپسی مشتبہ، کامیابی کی صورت میں عزت اور اعتراف۔
یہ اشتہار جب ٹائمس میں چھپا تو اس میں شرکت کے لیے اتنے زیادہ افراد کی درخواستیں آئیں کہ سلیکشن (selection) کی بنیاد پر اُن میں سے صرف منتخب افراد کو لیا گیا — یہی وہ مجنونانہ اسپرٹ تھی جس نے اہلِ مغرب کو یہ موقع دیا کہ وہ جدید دور کو وجود میں لاسکیں۔
فطرت کا ایک قانون
اہلِ مغرب، اصلاً خدائی دین کے مؤید کے طور پر ابھرے تھے، لیکن رد عمل کی نفسیات کی بنا پر موجودہ زمانے کے مسلمانوںنے اِس خدائی منصوبے کو نہیں سمجھا۔ انھوںنے غیر ضروری طورپر اہلِ مغرب کو اپنا دشمن سمجھ لیا اور اُن سے لڑنے کے لیے کھڑے ہوگئے۔ انیسویں صدی اور بیسویں صدی کی دوسو سالہ تاریخ اِس غیر ضروری لڑائی میں ضائع ہوگئی۔
تاریخ کے اِس ارتقائی سفر کو جاری رکھنے کے لیے ہمیشہ ایک قائد درکار ہوتاہے۔ اہلِ مغرب اِسی قسم کے ایک قائد تھے۔ اِس سے پہلے اہلِ اسلام کو قیادت کا یہ موقع ملا تھا۔ موجودہ زمانے میں منصوبۂ الٰہی کے تحت یہ موقع اہلِ مغرب کے حصے میںآیا۔
ساتویں صدی عیسوی میں اصحاب رسول جب ایران میں داخل ہوئے تو اہلِ ایران اُن سے خائف ہوگئے۔ انھوںنے اصحابِ رسول کے طاقت ور داخلے کو دیکھ کر کہا: دیواں آمدند، دیواں آمدند (دیو آگئے، دیو آگئے)۔ اہلِ ایران نے اصحابِ رسول کے داخلے کو منفی معنوں میں لیا، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ وہ لوگ ایک نئی تہذیب کے نقیب (harbinger) تھے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کا اظہار ایک صحابی رسول ربعی بن عامرنے ایران کے سپہ سالار رستم سے گفتگو کرتے ہوئے اِن الفاظ میں بیان کیا تھا: اللہ ابتعثنا لنخرج من شاء من عبادۃ العباد إلی عبادۃ اللہ ( البدایۃ والنہایۃ، 7/46 ) یعنی اللہ نے ہم کو بھیجا ہے، تاکہ وہ جس کو چاہے، ہم اُس کو بندوں کی بندگی سے نکال کر خدا کی عبادت کی طرف لے آئیں۔
ساتویں صدی میں اٹھنے والے اصحاب رسول کی اصل حیثیت یہی تھی کہ وہ اُس زمانے میں ایک نئے دور کے نقیب تھے۔ یہ فطرت کا اصول ہے کہ جو گروہ نئے دور کا نقیب بن کر ابھرتا ہے، اس کو دوسروں کے اوپر قیادت (leadership) کا درجہ حاصل ہوجاتا ہے۔ یہ قیادت کسی سازش یا دشمنی کے سبب وجود میں نہیں آتی، بلکہ وہ فطرت کے لازمی تقاضے کے طور پر وجود میں آتی ہے۔
یہی معاملہ موجودہ زمانے میںاہلِ مغرب کے ساتھ پیش آیا۔ اہلِ مغرب اصلاً ایک نئی تہذیب کے نقیب (harbinger) تھے۔ لیکن فطری تقاضے کے طورپر مزید یہ ہوا کہ اُن کو اپنی ہم عصر قوموں کے اوپر قیادت حاصل ہوگئی۔ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کو چاہئے تھا کہ وہ اہلِ مغرب کی اس قیادت کو ایک فطری واقعہ سمجھ کر قبول کرلیں، جیسا کہ اِس سے پہلے دنیا کی قوموں نے مسلم قیادت کو قبول کرلیا تھا۔ مگر موجودہ زمانے کے مسلمان اِس راز کو سمجھنے سے قاصر رہے۔ انھوںنے مغربی تہذیب کو دشمنی اور سازش کا کیس قرار دے دیا۔ وہ اُن سے نفرت کرنے لگے، یہاںتک کہ ہر جگہ وہ اُن سے لڑنے لگے۔ یہ لڑائی جو جہاد کے نام پر کی گئی تھی، وہ قانونِ فطرت کے خلاف تھی، اِس لیے وہ غیر معمولی قربانیوں کے باوجود مکمل طورپرناکام ثابت ہوئی۔ اِس ناکامی کی ذمے داری مکمل طور پر خود مسلمانوں کے اوپر ہے۔ مسلمانوں نے اہلِ مغرب کے خلاف جو جنگ چھیڑی، وہ اُن کے خیال کے مطابق، اہلِ مغرب کے خلاف جنگ تھی، مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ منصوبۂ الٰہی کے خلاف جنگ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ جنگ مکمل طورپر ناکام ہوئی، اُس کا انجام اِس کے سوا کچھ اور نہیں نکلا کہ مسلمانوں کی تباہی میں مزید اضافہ ہوگیا۔
خلافتِ آدم
قرآن کے مطابق، اللہ تعالیٰ نے جب آدم (انسانِ اول) کو پیدا کیا، اُس وقت آدم کے علاوہ دو اور مخلوقات تھیں— جن اور ملائکہ۔ اللہ تعالیٰ نے جن اور ملائکہ سے کہا کہ تم آدم کے آگے جھک جاؤ۔ اُس وقت فرشتے آدم کے سامنے جھک گئے، لیکن جنات کا سردار ابلیس نہیں جھکا۔ ابلیس نے کہا کہ میں آدم سے برترہوں، کیوں کہ تو نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا ہے اور آدم کو مٹی سے۔
ایسا کیوں ہوا۔ اصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب زمین بنائی تو پہلے اس کو جنات کے چارج میں دے دیا۔ مگر جنات نے سرکشی کی اور باہم لڑ کر فساد برپا کیا۔ اِس طرح جنات زمین کا انچارج بننے کے لیے نااہل ہوگئے۔ اِس کے بعد اللہ نے جنات کو معزول کردیا اور ان کی جگہ انسان کو پیدا کرکے زمین کو انسان کے چارج میں دے دیا۔ اِس تبدیلی کو جنات نے قبول نہیں کیا، اس لیے جنات کے سردار ابلیس نے آدم کے سامنے جھکنے سے انکار کردیا۔
قرآن سے معلوم ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان سے پہلے جنات کو پیدا کیا تھا (15:27 (۔ اِس لحاظ سے انسان زمین پر جنات کا جانشین، یعنی خلیفۃ الجن ہے۔ کچھ لوگ خلافت کی آیت (إنی جاعل فی الأرض خلیفۃ) سے یہ نظریہ اخذ کرتے ہیں کہ انسان زمین پر خدا کا خلیفہ (خلیفۃ اللہ) ہے۔ یہ نظریہ بلاشبہہ ایک بے بنیاد نظریہ ہے۔ قرآن اور حدیث میں اس کی کوئی اصل موجود نہیں۔
انسان کو زمین میں خلیفہ بنانے کا مطلب کیا ہے، اِس کو قرآن کی دوسری آیتوں کے مطالعے سے سمجھا جاتاہے۔ یہاں اِس قسم کی دو آیتوں کا ترجمہ نقل کیا جاتاہے:
1 - ’’کہو کہ اگر سمندر میرے رب کی نشانیوں کو لکھنے کے لیے روشنائی ہوجائے تو سمندر ختم ہوجائے گا، اِس سے پہلے کہ میرے رب کہ باتیں ختم ہوں، اگر چہ ہم اس کے ساتھ اِسی کے مانند اور سمندر ملادیں‘‘ (15: 109)
2 - ’’اور اگر زمین میں جو درخت ہیں، وہ قلم بن جائیں اور سمندر سات مزید سمندروں کے ساتھ روشنائی بن جائیں، تب بھی اللہ کی باتیں ختم نہ ہوں ۔ بے شک اللہ زبردست ہے، حکمت والا ہے‘‘۔31:27
قرآن کی اِن آیتوں میں جن لامحدود کلماتِ الٰہی کا بیان ہے، وہ صرف بطور خبر نہیں ہے، بلکہ وہ بطور انشاء ہے۔ اِن آیتوں میں اشارۃً یہ بات بتائی گئی ہے کہ اللہ کو یہ مطلوب ہے کہ کائنات میں چھپے ہوئے اِن کلمات کو دریافت کیا جائے اور ان کو ’’قلم‘‘ سے لکھا جائے، تاکہ انسان اللہ کی عظمتوں سے واقف ہو اور اعلیٰ درجۂ معرفت کے ساتھ الحمد للہ کہہ سکے۔
اللہ کے منصوبے کے مطابق، کلمات اللہ کی دریافت (discovery) اور ان کو قلم بند کرنے کا پراسس (process) موجودہ دنیا میں شروع ہوتا ہے اور آخرت میں دوبارہ جاری رہ کر وہ تکمیل کے منازل طے کرتا ہے۔ موجودہ دنیا میں اِس عمل کے ذریعے ظہور میں آنے والے واقعے کا نام انسانی تہذیب (human civilization) ہے۔ جدید انسانی تہذیب اپنی نوعیت کے اعتبار سے، دراصل، فطرت (nature) میں چھپے ہوئے کلماتِ الٰہی کو دریافت کرنے ہی کا دوسرا نام ہے۔ یہ عمل ابتدائی طورپر اِسی دنیا میں انجام پاچکا ہے اور اِسی کا نام جدید تہذیب ہے۔ یہی وہ واقعہ ہے جس کا ذکر قرآن کی اِس آیت میں پیشگی طورپر کیا گیا ہے: سنریہم اٰیاتنا فی الاٰفاق وفی أنفسہم حتی یتبین لہم أنہ الحق (41: 53)۔
کلمات اللہ کے اِس دنیوی اظہار کا کام زیادہ تر سیکولر اہلِ علم نے کیا ہے۔ یہی وہ واقعہ ہے جس کا ذکر ایک حدیث رسول میںاِن الفاظ میں کیاگیا ہے: إن اللہ لیؤید ہذا الدین بالرجل الفاجر (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 3062)۔ اِس حدیث میں، ’’رجل فاجر‘‘ سے مراد موجودہ زمانے کے سیکولر اہلِ علم ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنھوں نے غیر معمولی محنت کے ذریعے جدید تہذیب کو وجود دیا ہے جو کہ ’’کلمات اللہ‘‘ کی جزئی انفولڈنگ (unfolding) کے ہم معنی ہے۔
کلمات اللہ لامحدود ہیں اور موجودہ دنیا کے امکانات محدود۔ اِس لیے موجودہ دنیا میں کلمات اللہ کی انفولڈنگ صرف محدود طورپر ہی ہوسکتی ہے۔ کلمات اللہ کی کامل انفولڈنگ کے لیے ایک اور وسیع تر دنیا درکار ہے۔ اِسی وسیع تر دنیا کا نام آخرت ہے۔ آخرت میں یہ ہوگا کہ پوری انسانی تاریخ سے، لائق افراد منتخب کئے جائیں گے اور اِن منتخب افراد کو آخرت کی ابدی دنیا میں بسایا جائے گا۔ وہاں یہ منتخب افراد کلمات اللہ کی مزید انفولڈنگ کا کام انجام دیں گے۔ یہ انفولڈنگ ابد تک جاری رہے گی، وہ کبھی ختم نہ ہوگی۔ آخرت میں کلمات اللہ کی انفولڈنگ کے ذریعے ایک برتر تہذیب وجود میں آئے گی۔ اِس کو خدائی تہذیب (divine civilization) کہاجاسکتا ہے۔ کلمات اللہ کی اِس لامحدود انفولڈنگ کو قرآن میں: وأشرقت الأرض بنور ربہا (39: 69) کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔
قرآن کی پہلی سورہ کی پہلی آیت یہ ہے: الحمد للہ رب العالمین۔ یہ حمد خداوندی کا ابتدائی درجہ ہے جو موجودہ دنیا میں کلمات اللہ کی جزئی انفولڈنگ کے دوران ادا ہوگا۔ٹھیک یہی کلمہ (الحمد للہ رب العالمین) قرآن کی سورہ الزمر میںآیا ہے (39: 75) ۔ سورہ الفاتحہ میں حمدخداوندی کے اُس درجے کا بیان تھا جو کہ دنیا میں کلمات اللہ کی ابتدائی انفولڈنگ کے وقت ادا ہوا۔ اور سورہ الزمر میں اُس حمد خداوندی کا ذکر ہے جو کہ آخرت میں کلمات اللہ کی انتہائی انفولڈنگ کے وقت اہلِ جنت کی زبان سے ادا ہوگا۔
موجودہ دنیا وہ جگہ تھی جہاں انسان کو تمام چیزیں بقدر ضرورت دی گئی تھیں (14: 34) ۔ آخرت کی جنت وہ جگہ ہوگی جہاں اس کے باشندوں کو تمام اعلیٰ نعمتیں درجۂ اشتہاء (41:31) میں حاصل ہوں گی۔ آخرت کی جنت میں یہ تمام نعمتیں اس کے باشندوں کو خدائی میزبانی (divine hospitality) کے طور پر حاصل ہوں گی۔ آخرت میں اہلِ جنت کا سب سے زیادہ محبوب مشغلہ یہ ہوگا کہ وہ لامحدود کلمات اللہ کی بقیہ انفولڈنگ کریںاور ایک برتر تہذیب (super civilization) کو وجود میں لائیں۔ کلمات اللہ کی انفولڈنگ کا یہ کام ابد تک جاری رہے گا۔ اس لیے اہلِ جنت کا دورِ مسرت بھی ابد تک جاری رہے گا، وہ کبھی ختم نہ ہوگا۔
اسلام کی تاریخ
خدا نے انسان کو مکمل آزادی دی ہے۔ اِسی کے ساتھ خدا عام تاریخ کو نیز اسلامی تاریخ کو مینج (manage) کررہاہے، تاکہ تخلیق کا خدائی مقصد یقینی طور پر حاصل ہوتا رہے۔ خدائی سنت کے مطابق، اس مینج مینٹ کی تکمیل ہمیشہ کچھ افراد کے ذریعے ہوتی ہے۔ اِس خدائی مینج مینٹ کی چار بڑی صورتیں ہیں:
1 - ادارتی رول (institutional role)
2 - انقلابی رول (revolutionary role)
3 - علمی رول (academic role)
4 - انفرادی رول (individual role)
ادارتی رول کی ایک معلوم تاریخی مثال حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہے۔ انھوں نے تقریباً چار ہزار سال پہلے مکہ میں کعبہ (بیت اللہ) کی تعمیر کی۔ یہ کعبہ گویا کہ مذہبِ توحید کا ایک ادارتی مرکز (institutional centre) ہے۔ کعبہ سارے عالم کے موحدین کا مرکز ہے اور قیامت تک وہ موحدین کا مرکز بنا رہے گا۔
خدا کے دین کی لمبی تاریخ میں پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم (وفات: 632 ء) کا رول ایک انقلابی رول ہے۔ آپ نے تاریخ انسانی کو ایک نئے دور میں داخل کیا۔ اِس انقلابی عمل میںصحابہ اور تابعین کا رول مددگار رول (supporting role) کی حیثیت رکھتا ہے۔ اِس انقلاب کے اثرات تاریخ میں آج تک جاری ہیں اور قیامت تک جاری رہیں گے۔
علمی رول یا اکیڈمک رول کی حیثیت سے محدثین کا نام سب سے زیادہ نمایاں ہے۔ محدثین نے یہ کیا کہ انھوں نے دینِ خداوندی کے دوسرے مستند ماخذ حدیثِ رسول کو اِس طرح مدوّن کردیا کہ وہ بعد کی تمام نسلوں کے لیے خدا کے رسول کی رہنمائی کو جاننے کا قابلِ اعتبار ماخذ بنا۔ ابتدائی دور کے ان محدثین کا زمانہ نویں صدی عیسوی ہے۔
انفرادی رول کی حیثیت سے نمایاں نام اموی خلیفہ عمر بن عبد العزیز (وفات: 720 ء) کا ہے۔ وہ 717 عیسوی میں بنو امیہ کے خلیفہ منتخب ہوئے جن کا دارالسلطنت دمشق تھا۔ ان کی خلافت کی مدت صرف ڈھائی سال ہے۔ انھوں نے اِس مختصر مدت میں ایک بہت بڑا تجدیدی کام کیا، مگر اُن کا یہ رول ایک انفرادی رول تھا جو اُن کی زندگی تک باقی رہا اور ان کی وفات پر عملاً ختم ہوگیا۔
مذکورہ چار تاریخی ماڈل میں ابتدائی تین ماڈل صرف ایک بار کے لیے تھے۔ بعد کی نسلوں کے لیے یہ رہنمائی حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں، لیکن اب ان کا اعادہ ممکن نہیں۔ البتہ چوتھا رول (انفرادی رول) بدستور جاری ہے۔ بعد کی نسلوں میں بھی یہ ممکن ہے کہ اُن کے درمیان کوئی فرد اٹھے اور اپنے حالات کی نسبت سے کوئی مطلوب انفرادی رول ادا کرے۔ مگر اصلاً یہ ایک شخص کا رول ہوگا جو عملاً اس کی شخصی زندگی تک جاری رہے گا اور اس کے بعد ختم ہوجائے گا۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ کسی پہلو سے اس کا اثر حسب حالات بعد کے زمانے میں بھی باقی رہے۔
واضح ہو کہ اگر اس قسم کا کوئی فرد اپنے زمانے میں ایک تنظیم بنائے اور وہ تنظیم اس کی وفات کے بعد باقی رہے تو یہ تنظیم اس فرد کے رول کے استمرار (continuation) کے ہم معنی ہوگی، بلکہ وہ ایک ایسے ڈھانچہ کے استمرار کے ہم معنی ہوگا جو متوفیّٰ کے نام پر اس کے بعد بھی جاری رہے گا۔ ایسی کوئی تنظیم بعد کو اگر باقی رہتی ہے تو وہ کسی مادی بنیاد پر باقی رہتی ہے، نہ کہ مشن کی اصل اسپرٹ کی بنیاد پر۔
اخوانِ رسول کا رول
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک روایت حدیث کی کتابوں میں اِس طرح آئی ہے: وددتُ أنا قد رأینا إخواننا، قالوا: أولسنا إخوانک یا رسول اللہ، قال: أنتم أصحابی، وإخواننا الذین لم یأتوا بعد (صحیح مسلم، رقم الحدیث: 249) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری خواہش ہے کہ ہم اپنے اخوان (بھائیوں) کو دیکھیں۔ صحابہ نے کہا کہ اے خدا کے رسول، کیا ہم آپ کے اخوان نہیںہیں۔ آپ نے فرمایا کہ تم میرے اصحاب ہو، ہمارے اخوان وہ ہیں جو ابھی نہیں آئے۔
مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی تاریخ میں دو اہم رول مقدر تھے — ایک، اصحابِ رسول کا رول، اور دوسرے، اخوانِ رسول کا رول۔ اصحابِ رسول کا رول یہ تھا کہ وہ انسانی تاریخ میں ایک نئے عمل (process) کا آغاز کریں، ایک ایسا عمل جب کہ قدیم دور ختم ہو اور ایک نیا دور نئے مواقع اور نئے امکانات کے ساتھ ظہور میں آئے۔ اِس بات کو سمجھنے کے لیے اِس طرح کہا جاسکتا ہے کہ پہلے دور سے مراد روایتی دور ہے، اور دوسرے دور سے مراد سائنٹفک دور۔
اصحاب رسول اور اخوانِ رسول دونوں ہی کا نشانہ ایک ہوگا اور وہ ہے دعوت الی اللہ۔ اِس دعوت الی اللہ کے دو بڑے دور ہیں— ایک ہے عالمی کمیونکیشن سے پہلے کا دور۔ دوسرا ہے، عالمی کمیونکیشن کے بعد کا دور۔ اصولی طورپر یہ کہا جاسکتا ہے کہ عالمی کمیونکیشن کے ظہور سے پہلے جو مواقع تھے ، اصحابِ رسول نے اُن کا بھر پور استعمال کیا۔ بعد کو عالمی کمیونکیشن کے زمانے میں جو مواقعِ دعوت پیدا ہوں گے، اُن کو جو لوگ بھر پور طورپر استعمال کریں، وہی وہ لوگ ہیں جن کو حدیث میں اخوانِ رسول کہاگیا ہے۔اخوانِ رسول کسی پراسرار گروہ کا نام نہیں۔
جنت کی دنیا
انسانی تاریخ ایک عورت اور ایک مرد سے شروع ہوئی، پھر لوگ پیدا ہوتے رہے او ر مرتے رہے۔ اِس طرح یہ سلسلہ نسل درنسل ہزاروں سال سے قائم ہے۔ اکیسویں صدی کے رُبع اوّل میں پورے کرۂ ارض پر انسانوں کی تعداد سات بلین سے زیادہ ہوچکی ہے۔ اس سے پہلے جو لوگ مرگئے، وہ بھی معدوم نہیں ہوئے، بلکہ وہ آخرت کی دنیا میں بدستور زندہ موجود ہیں۔
جس طرح انسانی تاریخ کا ایک آغاز ہے، اُسی طرح اس کا ایک اختتام بھی ہے۔ انسانی تاریخ کے خاتمے کے بعد ایک اور دنیا بنے گی۔ یہ دنیا کامل معنوں میں ایک معیاری دنیا ہوگی۔ اِس معیاری دنیا میں پوری تاریخ کے منتخب افراد آباد کئے جائیںگے۔ قرآن میں اِس حقیقت کو اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: إن الأرض یرثہا عبادی الصالحون (21: 105) یعنی زمین کے وارث میرے صالح بندے ہوںگے۔
یہ حقیقت پچھلی آسمانی کتابوںمیں بھی بیان ہوئی ہے۔ موجودہ بائبل میں اِس سلسلے میں یہ الفاظ آئے ہیں— بدی کو چھوڑ دے اور نیکی کر اور ہمیشہ تک آباد رہ ، کیوں کہ خداوند انصاف کو پسند کرتا ہے اور وہ اپنے مقدسوں کو ترک نہیں کرتا، وہ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہیں،پر شریروں کی نسل کاٹ ڈالی جائے گی۔ صادق زمین کے وارث ہوں گے اوراس میں ہمیشہ آباد رہیں گے:
Depart from evil, and do good; And dwell forevermore. For the Lord loves justice, And does not forsake His saints; They are preserved forever, But the descendants of the wicked shall be cut off. The righteous shall inherit the land, and dwell in it forever. (Psalm 37: 27-29)
قرآن کی بہت سی آیتیں ہیں جن سے معلوم ہوتاہے کہ جنت میں کیسا معیاری ماحول ہوگا اور وہاں ہر قسم کے اعلیٰ سامان وافرمقدار میں موجود ہوں گے۔ اِس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے: وإذا رأیتَ ثَمَّ رأیتَ نعیماً ومُلکاً کبیراً (76:20) یعنی تم جہاں دیکھو گے، وہیں عظیم نعمت اور عظیم بادشاہی دیکھو گے:
Wherever you look, you will see bliss and a great kingdom.
جنت میں اہلِ جنت کے لیے جو اعلیٰ انتظامات ہوں گے، اُن کا خلاصہ قرآن کے اِن الفاظ میں بیان کردیاگیا ہے —نعیم، اور ملکِ کبیر۔ نعیم سے مراد ہر قسم کی نعمتیں (blessings) ہیں۔ انسان جو کچھ چاہے گا، وہ سب وہاں اُس کے لیے کامل صورت میں موجود ہوگا (41: 32) ۔ ملکِ کبیر سے مراد مکمل آزادی ہے، یعنی کسی بھی قسم کی پابندی کے بغیر زندگی گزارنے کا موقع حاصل ہونا۔ اِس مکمل آزادی کی نعمت اُن خوش قسمت افراد کو حاصل ہوگی جنھوں نے موجودہ دنیامیں یہ ثبوت دیا تھا کہ وہ آزادی کے باوجود اپنی آزادی کا صرف صحیح استعمال کرنے والے ہیں۔
جنت کی وسعتوں کو بتاتے ہوئے قرآن میں یہ بات آئی ہے: وسارعوا إلیٰ مغفرۃ من ربکم وجنۃ عرضہا السموات والأرض، أعدت للمتقین (3: 133) یعنی دوڑو اپنے رب کی مغفرت کی طرف اور اُس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان اور زمین کی طرح ہے۔ اِس سلسلے میں قرآن کی ایک اور آیت کے الفاظ یہ ہیں: وقالوا الحمد للہ الذی صدقنا وعدہ، وأورثنا الأرض نتبوّأ من الجنۃ حیث نشاء، فنعم أجر العاملین (39: 74) یعنی اہلِ جنت کہیں گے کہ شکر ہے اس اللہ کا جس نے ہمارے ساتھ اپنا وعدہ سچ کردکھایا اور ہم کو زمین کا وارث بنا دیا، ہم جنت میں جہاں چاہیں، مقام کریں۔ پس کیا خوب بدلہ ہے عمل کرنے والوں کا۔
جنت کی یہ وسعت موجودہ زمانے میں ایک قابلِ فہم واقعہ بن چکی ہے۔ جدید دوربینوں کے مشاہدے سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ کائنات کی وسعتوں میں ایسے قابلِ آباد کاری سیارے (habitable planets) بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ صرف ہماری کہکشاں (Milky Way) کے اندر کئی بلین کی تعداد میں اِس طرح کے سیارے موجود ہیں۔
اِس نئی دریافت کو لے کرغور کیا جائے تو جنت کے بارے میں عجیب قسم کا پراہتزاز تصور (thrilling concept) معلوم ہوتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ غالباً جنت بے شمار ہرے بھرے سیاروں کا ایک کائناتی مجمع الجزائر (universal archipelago) ہے۔ تمام جزیرے اپنی اپنی جگہ پر مکمل دنیائیں ہیں۔ اِسی کے ساتھ وہ انتہائی اعلیٰ قسم کے کمیونکیشن کے ذریعے باہم جڑے ہوئے ہیں۔ آخرت کے دور میں شاید ایسا ہوگا کہ ہر جنتی کو زندگی گزارنے کے لیے مستقل دنیائیں حاصل ہوں گی۔ اِسی کے ساتھ وہ دوسرے جنتی باشندوں سے معیاری کمیونکیشن کے ذریعے ہر لمحہ مربوط ہوگا۔ جنت میں ہر قسم کی نعمتیں بھی ہوں گی اور کامل آزادی بھی۔ اِسی کے ساتھ جنت گویا اعلیٰ انسانوں پر مبنی ایک کائناتی سماج ہوگا، جہاں ہر انسان کو کامل معنوں میں فل فل مینٹ (fulfilment) حاصل ہوگا۔
ابدی جنت کی یہ ناقابلِ بیان حد تک اعلیٰ نعمتیں اہلِ جنت کو تمام تر اور یک طرفہ طورپر اللہ کی رحمت کے ذریعے حاصل ہوں گی، لیکن اہلِ جنت کے اعزاز کے لیے اللہ کی طرف سے یہ اعلان کیا جائے گا کہ : وتلک الجنۃ التی أورثتموہا بما کنتم تعملون (43: 72) یعنی یہ وہ جنت ہے جس کے تم مالک بنا دئے گئے ہو، اُس عمل کی وجہ سے جو تم کرتے تھے۔
قرآن کا تصورِ تاریخ
قرآن کے بارے میں ایک لمبی حدیث کتابوں میں آئی ہے۔ اس کا ایک حصہ یہ ہے: کتاب اللہ، فیہ نبأ ما قبلکم، وخبر ما بعدکم (الترمذی، رقم الحدیث:2906) یعنی قرآن اللہ کی کتاب ہے۔ اس میں تم سے پہلے کے لوگوں کی باتیں ہیں اور اس میں تمھارے بعد کے لوگوں کی خبریں ہیں۔ ایک صحابی رسول عبد اللہ بن مسعود نے قرآن کے بارے میں فرمایا: فیہ علم الأوّلین والاٰخرین (البیہقی، شعب الإیمان، رقم الحدیث: 1808) یعنی قرآن میں پچھلے لوگوں کا بھی علم ہے اور بعد کے لوگوں کا بھی علم ہے۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قرآن جامع معنوں میں انسانی نسلوں کی کوئی تفصیلی تاریخ ہے۔ اِس کا مطلب صرف یہ ہے کہ قرآن میں تاریخِ بشری کے نمائندہ واقعات موجود ہیں، یعنی ایسے تاریخی حوالے جن پر غور کرکے پورے دورِ تاریخ کی ایک جامع تصویر بنائی جاسکتی ہے۔
تاریخ کا ایک مطلب یہ ہے کہ وہ گزرے ہوئے واقعات کا سلسلہ وار بیان (chronicle) ہو۔ یہ تاریخ کا معروف مؤرخانہ تصور ہے۔ تاریخ کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ تاریخی واقعات کو اِس اعتبار سے بیان کیا جائے کہ وہ خالق کے نقشۂ تخلیق کو بتانے والا ہو۔ تاریخ کے پہلے تصور میں تمام واقعات کا احاطہ مقصود ہوتاہے۔ تاریخ کے دوسرے تصور میں تاریخ کے صرف منتخب اور نمائندہ اجزا بیان کئے جاتے ہیں۔
یہی دوسرا طریقہ قرآن کے تصورِ تاریخ کے مطابق ہے۔ مگر یہ ملحوظ رکھنا چاہئے کہ تاریخ کے نمائندہ واقعات بھی قرآن میں مروّجہ تاریخی اسلوب میں نہیں ہوتے، وہ صرف حوالہ (reference) کے اسلوب میں ہوتے ہیں۔ اِس معاملے میں قرآن کا طریقہ یہ ہے کہ اس میں جن تاریخی حوالوں کا ذکر کیا جاتا ہے، وہ اشارے کی زبان میں ہوتے ہیں۔ یہ قاری کے اوپر چھوڑ دیاجاتاہے کہ وہ ایسا کرے کہ قرآن کے باہر جو تاریخی ریکارڈ موجود ہے، اُس سے ضروری اجزا لے کر وہ قرآن کے اشارات کی تفصیل کرے۔ وہ بظاہر غیر متعین زبان میں کہی ہوئی بات کو متعین اسلوب میں مدوّن کرے۔
اِس کی ایک مثال یہ ہے کہ حضرت آدم کے بعد ان کی نسل میسوپوٹامیا (Mesopotamia) کے علاقے میں آباد ہوئی۔ یہ نسل شریعتِ آدم پر قائم تھی۔ بعد کے زمانے میں جب اُن کے اندر بگاڑ آیا تو تقریباً پانچ ہزار سال پہلے پیغمبر نوح پیدا ہوئے۔ انھوںنے لمبی مدت تک لوگوں کو توحید کی دعوت دی۔ کچھ افراد نے آپ کی دعوت کومانا، لیکن بیش تر افراد نے اس کو ماننے سے انکار کردیا۔ اِس کے بعد اِس علاقے میں ایک بڑا طوفان آیا۔ اِس موقع پر ایمان لانے والے افراد ایک کشتی کے ذریعے بچا لئے گئے اور بقیہ تمام افراد ہلاک کردئے گئے۔
اِس کشتی کے بارہ میں قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں: فأنجیناہ وأصحاب السفینۃ وجعلناہا اٰیۃ للعالمین (29:15) یعنی پھر ہم نے نوح کو اور کشتی والوں کو بچا لیا۔ اور ہم نے اس کو دنیا والوں کے لیے ایک نشانی بنادیا۔ قرآن کی ایک اور آیت میں اس واقعے کا ذکر اِن الفاظ میں آیاہے: ولقد ترکناہا اٰیۃً (54:15) اِس آیت کا ترجمہ شاہ عبدالقادر دہلوی نے اِن الفاظ میں کیا ہے — اور اس کو ہم نے رہنے دیا نشان کے لیے (We have left it as a sign)
حضرت نوح کا واقعہ ایک پورے دورِ تاریخ سے تعلق رکھتا ہے جو حضرت آدم کے بعد تقریباً ایک ہزار سال تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کا ایک نمائندہ جُز کشتی ٔ نوح (Noah’s Ark) ہے۔ کشتی ٔ نوح کے بارہ میں قرآن نے بتایا کہ اُس کو اللہ نے عبرت کے طورپر باقی رکھا ہے۔ ساتویں صدی کے ربع اول میں بوقتِ نزولِ قرآن کسی کو اِس کشتی کا علم نہ تھا۔ موجودہ زمانے میں گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں پہاڑوں کے اوپر جمی ہوئی برف بڑے پیمانے پر پگھلنے لگی۔ اس کے بعد ہوائی سروے کے ذریعے یہ معلوم ہوا کہ ترکی کے مشرقی علاقے میں کوہِ ارارات (Mount Ararat) کے اوپر وہ کشتی برف کی موٹی تہ کے نیچے دبی ہوئی موجود تھی جو اکیسویں صدی میں سامنے آگئی۔
قرآن میں کشتی نوح کا ذکر مختصر طورپر موجود تھا۔ اب بعد کو دریافت کردہ معلومات کی روشنی میں یہ ممکن ہوگیا کہ تاریخ بشری کے اس باب کو زیادہ تفصیل کے ساتھ مرتب کیا جائے اور اس کو قرآن کی تاریخی تفہیم کے لیے استعمال کیا جائے۔
اِس قسم کا ایک اور تاریخی حوالہ وہ ہے جو پیغمبر موسیٰ کے دورِ تاریخ سے تعلق رکھتاہے۔ تقریباً تین ہزار سال پہلے مصر میں یہ واقعہ ہوا کہ پیغمبر موسیٰ کے معاصر بادشاہ فرعون کو خدا نے بحرِ قلزم (Red Sea) میں غرق کردیا۔ اس کے بارے میں قرآن میں یہ آیت آئی ہے کہ بوقتِ غرق اللہ نے فرمایا:
فالیوم ننجیک ببدنک لتکون لمن خلفک اٰیۃ(10:92)یعنی آج ہم تیرے بدن کو بچائیں گے، تاکہ تو اپنے بعد والوں کے لیے نشانی بنے۔
فرعون کا یہ واقعہ بھی ایک پورے دورِ تاریخ کی علامت ہے۔ مگر ساتویں صدی عیسوی میں جب کہ قرآن نازل ہوا، یہ بات کسی کو معلوم نہ تھی کہ فرعون کی لاش کہاںمحفوظ ہے۔ انیسویں صدی کے آخر میں یورپ کے کچھ مستشرقین (orientalists) نے دریافت کیا کہ مذکورہ فرعون کی لاش محفوظ حالت میں اہرامِ مصر میں موجود ہے۔ اب یہ لاش اہرامِ مصر سے نکال کر قاہرہ کے میوزیم میں رکھ دی گئی ہے۔ اِس واقعے کی تفصیل ڈاکٹر موریس بکائی کی کتاب (The Bible, The Quran and Science) میں دیکھی جاسکتی ہے۔
قرآن نے انسانی تاریخ کا جو تصور دیا ہے، اس کے مطابق، ایسے علامتی واقعات قرآن میں موجود ہیں جن کو مزید معلوم تاریخ کے اضافے سے از اول تا آخر مدون کیا جاسکتاہے۔ قرآن میں پچھلی تاریخ کے بارے میں علامتی واقعات ملتے ہیں اور بعد کی تاریخ کے بارے میں ایسی پیشین گوئیاں موجود ہیں جو قیامت تک کی پوری تاریخِ انسانی کا احاطہ کررہی ہیں۔ قرآن میں موجود اِن تاریخی حوالوں کی حیثیت صرف عنوانات کی ہے۔ اِن عنوانات کی روشنی میں اگر دیگر حاصل شدہ معلومات کو شامل کیا جائے، تو اس کے ذریعے قرآن کے تصورِ تاریخ کے مطابق، انسانی تاریخ کی پوری تصویر بنائی جاسکتی ہے۔
خلاصۂ کلام
مورخین کے یہاں مختلف قسم کے تاریخی تصورات پائے جاتے ہیں۔مثلاً خاندانی بادشاہت کے اعتبار سے تاریخ کی تدوین، قوموں کے عروج و زوال کے اعتبار سے تاریخ کی تدوین، مختلف تہذیبوں (civilizations) کے اعتبار سے تاریخ کی تدوین، وغیرہ۔ مگر خدائی تصورِ تاریخ (divine concept of history) اِس سے مختلف ہے۔ خدائی تصورِ تاریخ کیا ہے، اس کو قرآن کے مطالعے سے سمجھا جاسکتاہے۔
خدائی تصورِ تاریخ کے مطابق، اللہ نے انسان کو پیداکیا۔ اس کے بعد انسان کو یہ موقع دیا کہ وہ توالد وتناسل کے ذریعے اپنی تعداد بڑھائے۔ اس کی نسلیں کرۂ ارض (planet earth) کے مختلف حصوں میں آباد ہوں۔ اللہ نے انسان کو مکمل آزای عطا کی۔ اللہ نے انسان کو یہ موقع دیا کہ خواہ وہ اپنی آزادی کا صحیح استعمال کرے یا وہ اس کا غلط استعمال کرے، وہ زمین میںاصلاح کرے یا وہ زمین میں فساد برپا کرے، وہ اپنی زندگی کو عدل پر قائم کرے یا بے انصافی پر قائم کرے، حتی کہ انسان کو یہ بھی آزادی حاصل ہے کہ چاہے تو وہ اللہ کا اقرار کرے اور چاہے تو وہ اللہ کا انکار کرکے سرکش بن جائے۔ اللہ کے منصوبے کے مطابق، آزادی کی یہ صورتِ حال قیامت تک جاری رہے گی۔
اِس پورے تاریخی عمل کے دوران اللہ کا مطلوب صرف ایک ہے، اور وہ ہے صالح افراد کا انتخاب۔ یہ افراد وہ ہیں جو ہر قسم کے ہنگاموں کے باوجود اپنے آپ کو آزادی کے صحیح استعمال پر قائم رکھیں، جو اپنی ذہنی قوتوں کو استعمال کرتے ہوئے اور نبیوں کی ہدایت سے استفادہ کرتے ہوئے اللہ کودریافت کریں اور اپنی زندگی کو ہدایتِ الٰہی کے مطابق بنائیں۔ اِسی قسم کے صالح افراد اللہ کو مطلوب ہیں۔ اللہ اپنے خصوصی انتظام کے تحت پوری تاریخ میں مسلسل طورپر ایسے ہی صالح افراد کا انتخاب کررہا ہے۔
آدم سے لے کر قیامت تک کے پورے تاریخی عمل کے دوران اللہ کی سنت یہ ہے کہ انسان کی آزادی کو منسوخ نہ کیا جائے، البتہ انسان کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے تاریخ کو اِس طرح مینج (manage) کیا جائے کہ اللہ کا اصل مطلوب (صالح افراد کی پیداوار) کا عمل برابر جاری رہے۔
دوسرے مورخین تاریخ کو مجموعے کی صورت میں دیکھتے ہیں، جب کہ خدائی تصور کے مطابق، صحیح یہ ہے کہ تاریخ کو افراد کے اعتبار سے دیکھا جائے۔ انسانی مجموعے کو لے کر تاریخی رائے قائم کرنا مورخین کا طریقہ ہے، جب کہ خدائی تصور کے مطابق، صحیح طریقہ یہ ہے کہ انسانی افراد کو لے کر تاریخ کے بارے میں رائے قائم کی جائے۔ (20 اپریل 2012 )
واپس اوپر جائیں