Pages

Sunday 1 November 2020

Al Risala | November 2020 (الرسالہ،نومبر)

4

-برتر ہستی کا تصور

5

- اللہ کی رؤیت

6

- عقیدۂ خدا اور سائنس

9

- لامحدود کائنات، انسانی محدودیت

10

- خدا کا عقیدہ

15

- حقیقت کی تلاش

18

- فطرت کی پکار

19

- ڈارون کا اعتراف

20

- برتر ہستی کی تلاش

21

- ذہین وجود

22

- خلائی تہذیب

23

- ماورائے انسان ذہانت

24

- ایلین لائف

25

- کون کنٹرول کرے

26

- کویزار

28

- زیادہ عجیب، کمتر عجیب

30

- سائنس اور خدا

31

- حکمت ِ تخلیق

32

- علم کا سفر

33

- سائنس توحید کی طرف

36

- دریافت کی اہمیت

37

- بامعنی کائنات

39

- سب سے بڑا المیہ

40

- معبود کی طلب

43

- ایک داعی کی وفات

44

- خدا ترس شخصیت

46

- ایگو فری شخصیت

47

- جواہر لال نہرو کا واقعہ

48

- دعوتی عمل کی منصوبہ بندی

49

- نامعلوم دنیا کا سفر

50

- دعوت الی اللہ


برتر ہستی کا تصور

ایک تحقیقاتی مطالعے میں بتایا گیا ہے کہ ہم پیدائشی طور پر خدا میں عقیدہ رکھنے والی مخلوق ہیں (we are born believers)۔ انسان کی نفسیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ایک برتر ہستی کا تصور اس کے اندر فطری طور پر موجودہے۔ یہ تصور اتنا قوی ہے کہ کوئی بھی تربیت اس کو ختم نہیں کرسکتی۔ اس حقیقت کو نفسیات کے ایک عالم نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
Belief in God is hardwired in our brain
یہ تحقیق ٹائمس آن لائن میں چھپی ہے، جس کو نئی دہلی کے اخبار ٹائمس آف انڈیا، نے اپنے شمارہ 8 ستمبر 2009 نے نقل کیا ہے۔مگر ماہرین کی رپورٹ میں غلط طور پر انسان کی اس خصوصیت کو نظریۂ ارتقا سے وابستہ کیا گیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ انسانی ذہن کی خدا پر عقیدے کی پروگرامنگ بذریعہ ارتقا ہوئی ہے، تاکہ اپنے اس عقیدے کی بنا پر انسان جہد للبقا کے عمل میں زیادہ بہتر مواقع پاسکے:
Human beings are programmed by evolution to believe in God, because it gives them a better chance of survival.
یہ سرتاسر ایک غیر منطقی بات ہے۔ تحقیق سے جو بات ثابت ہوئی ہے وہ یہ کہ انسان کے اندر پیدائشی طور پر فوق الطبیعی عقیدہ (supernatural belief)موجود ہوتا ہے۔ کوئی مرد یا عورت اس سے خالی نہیں۔ مگر یہ بات سر تاسر غیر ثابت شدہ ہے کہ یہ عقیدہ کسی مفروضہ ارتقا (evolution) کے ذریعے انسان کے اندر خود بخود پیدا ہوا ہے۔
موجودہ زمانے میں مختلف شعبوں میں علمی تحقیقات کی گئی ہیں۔ ہر شعبے کے تحقیقاتی نتائج اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ انسان پیدائشی طور پر ایک بر تر ہستی کا عقیدہ لے کر پیدا ہوتا ہے۔ یہ ذہن ہر انسان کو کسی نہ کسی پہلو سے مذہبی بنا دیتا ہے۔ حتی کہ جو لوگ بظاہر ملحد (atheist) سمجھے جاتے ہیں، ان کے ذہن کے کسی نہ کسی گوشے میں بھی یہ تصور موجود ہوتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

اللہ کی رؤیت

حدیث کی کتابوں میں ایک روایت آئی ہے، جو حدیث جبریل کے نام سے مشہور ہے۔ اس حدیث کا ایک جزء یہ ہے:أَنْ تَعْبُدَ اللَّہَ کَأَنَّکَ تَرَاہُ، فَإِنْ لَمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَإِنَّہُ یَرَاکَ (صحیح البخاری، حدیث نمبر50)۔ یعنی تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو جیسے کہ تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اس کو نہیں دیکھتے ہو تو وہ تم کو دیکھ رہا ہے۔
اس حدیث میں عبادت کی حقیقت کو بتایا گیا ہے۔ اسی کے ساتھ حدیث پر غور کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے لیے اگرچہ براہِ راست اللہ کی رؤیت (دیدار)ممکن نہیں ، لیکن انسان کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ شِبہ رؤیت کے درجے میں اللہ کو پاسکے۔ رؤیت اور شِبہِ رؤیت کے درمیان اگرچہ ظاہر کے اعتبار سے فرق ہے، لیکن حقیقت کے اعتبار سے دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ۔
کسی آدمی کو اللہ کی شِبہِ رؤیت کس طرح حاصل ہوتی ہے۔ اس کا طریقہ ہے اللہ کی تخلیق میں غور وفکر کرنا۔ اللہ اپنی ذات کے اعتبار سے اگرچہ ہمارے سامنے ظاہر نہیں ہے۔ لیکن اپنی صفات کے اعتبار سے وہ اپنی تخلیقات میں پوری طرح نمایاں ہے۔ تخلیق گویا خالق کی معرفت کا آئینہ ہے۔ جس نے تخلیق کو دیکھا، اس نے گویا خالق کو دیکھ لیا۔ ٹھیک اسی طرح جیسے کسی نے آرٹ کو دیکھا تواس نے گویا آرٹسٹ کو دیکھ لیا۔
موجودہ زمانے میں اہلِ سائنس نے یہ دریافت کیا ہے کہ کائنات ایک ذہین کائنات (intelligent universe) ہے۔ یہ دریافت اپنے آپ میں بتاتی ہے کہ کائنات میں ذہن کی کارفرمائی ہے۔ایسا ہے تو یقینی طور پر یہاں کوئی صاحبِ ذہن موجود ہے۔ ذہن کی کارفرمائی سے ذہن کا وجود ثابت ہوتا ہے، اور ذہن کا وجود یہ ثابت کرتا ہے کہ یہاں ایک صاحبِ ذہن ہستی موجود ہے۔ سائنس کی زبان میں یہ کہنا صحیح ہوگا کہ مذکورہ دریافت کے بعد خالق کا وجود پرابیبیلیٹی (probability)کے درجے میں ثابت ہوجاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

عقیدۂ خدا اور سائنس

سائنس اپنی حقیقت کے اعتبار سے عین اسی علم فطرت کا ظہور ہے، جس کی خبر پیشگی طورپر قرآن میں ان الفاظ میں دی گئی ہے— (ترجمہ) ہم لوگوں کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں اورانفس میں۔ یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ حق ہے (41:53)۔ سائنس کی جدیدتحقیقات کی روشنی میں کائنات کی جو نئی تصویر بنی ہے، وہ عین وہی ہے، جو قرآن میں پیشگی طورپر بتا دی گئی تھی۔ اس اعتبار سے جدید سائنسی دریافتیں گویا کتابِ الٰہی کے اشارات کی تفصیل ہیں، اور اسی کے ساتھ اس کی دلیل بھی۔ یہاں مختصر طورپر ان کا ذکر کیاجاتاہے۔جدید دریافت کے مطابق، کائنات کی ابتدا تقریباً13.8 بلین سال پہلے ہوئی۔ اس کے بعد مختلف تدریجی انقلابات سے گزرتےہوئے وہ اپنی موجودہ حالت تک پہنچی۔ اس پورے سفر کی روداد اس موضوع کی کتابوں میں پڑھ کر معلوم کی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ اس کو محسوس طور پر کسی سائنسی پلینٹیریم (Planetarium) میں دیکھا جاسکتاہے۔ میں نے یہ پورا منظر واشنگٹن کے نیشنل پلینٹیریم میں دیکھا ہے۔
سائنسی مطالعہ بتاتا ہے کہ13.8 بلین سال پہلے خلا میں ایک سپر ایٹم ظاہر ہوا۔ یہ ان تمام ذرات (particles) کا مجموعہ تھا ،جو موجودہ کائنات میں پائے جاتے ہیں۔ گویا موجودہ پوری کائنات ایک بہت بڑے فٹ بال جیسے گولے کی صورت میں شدت کے ساتھ باہمی طورپر چمٹی ہوئی تھی۔ اس گولے کے تمام ذرات بے حد طاقت ور کشش کے ساتھ ایک دوسرے سے داخلی طورپر جڑے ہوئے تھے۔ معلوم طبیعیاتی قانون کے مطابق، یہ ناممکن تھاکہ وہ ایک دوسرے سے جدا ہو کر بیرونی سمت میں سفر کریں۔اس وقت اس سُپر ایٹم کے اندر نہایت طاقتور دھماکہ ہوا۔ اس دھماکہ کے فوراً بعد سپر ایٹم کے ذرات بکھر کر تیزی سے بیرونی سمت میں سفر کرنے لگے۔ اس کے بعد یہ ذرات وسیع خلا میں مختلف مجموعوں کی صورت میں اکٹھا ہوگئے۔ انھیں مجموعوں سے خلامیں پائی جانے والی وہ دنیائیں بنیں، جن کو ستارہ، سیارہ، کہکشاں، شمسی نظام، زمین اور چاند جیسے الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے۔
سپر ایٹم کا یہ دھماکہ بیک وقت دو چیزیں ثابت کرتا ہے۔ایک یہ کہ یہاں کائنات سے الگ ایک طاقتور ہستی پہلے سے موجود تھی، جس نے اپنی ارادی مداخلت کے ذریعے یہ غیر معمولی واقعہ کیا کہ سپر ایٹم کے ذرات داخلی رخ پر سفر کے بجائے بیرونی رُخ پر سفر کرنے لگے۔
اس واقعے کا دوسرا عظیم پہلو یہ ہے کہ دھماکہ (explosion)ہمیشہ تخریبی نتائج کا سبب بنتا ہے۔ پٹاخہ سے لے کر بم تک ہر دھماکہ بلا استثنا یہی خاصیت رکھتا ہے۔ مگر سُپر ایٹم کا دھماکہ استثنائی طورپر غیر تخریبی تھا۔ اس نے مکمل طورپر صرف صحت مند اور تعمیری نتائج پیدا کیے۔ یہ استثنائی واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کائنات کا خالق لامحدود قدرت کا مالک ہے۔ وہ یہ استثنائی اختیار رکھتا ہے کہ واقعے کے ساتھ نتائج پر مکمل کنٹرول کرسکے۔مطالعہ بتاتاہے کہ ہماری کائنات ایک پھیلتی ہوئی کائنات (expanding universe) ہے۔ وہ غبارہ کی مانند مسلسل طورپر بیرونی سمت میں پھیل رہی ہے۔اس سے ثابت ہوتاہے کہ کائنات کا ایک متعین آغاز ہے۔ اگر کائنات ابدی ہوتی تو وہ اپنی اس پھیلتی ہوئی نوعیت کی بنا پر اب تک ختم ہوچکی ہوتی۔ یہ ثابت ہوناکہ کائنات کا ایک آغاز ہے، یہ بھی ثابت کردیتا ہے کہ اس کا کوئی آغاز کرنے والا ہے۔ ایک غیر موجودہ چیز کا آغاز اسی وقت ممکن ہے، جب کہ اس سے پہلے کوئی موجود ہو، جو اپنے ارادے سے اُس کا آغاز کرسکے۔
کائنات میں ایسے بے شمار شواہد ہیں جو یہ ثابت کرتےہیں کہ کائنات کا منصوبہ ساز اوراس کا ناظم صرف ایک ہے۔ اگر ایک سے زیادہ ناظم ہوتے تو یقینی طورپرکائنات میں فساد برپا ہوجاتا۔
مثال کے طورپر زمین اور سورج کا فاصلہ تقریباً 9کرور 30 لاکھ میل ہے۔ یہ فاصلہ مسلسل طورپر اپنی حالت پر برقرار رہتا ہے۔ اگر اس فاصلہ میں تبدیلی آجائے تو اس کے مہلک نتائج پیدا ہوں گے۔ مثلاً اگر یہ فاصلہ بڑھ کر 20 کرور میل دور ہوجائے تو زمین پر اتنی ٹھنڈک پیدا ہو کہ پانی، حیاتیات، حیوانات اور انسان سب منجمد ہوجائیں۔ اسی طرح یہ فاصلہ اگر کم ہو کر 5کرور میل ہوجائے تو زمین پر اتنی گرمی پیداہو کہ تمام چیزیں بشمول انسان جل کر ختم ہوجائیں۔
اس سے ثابت ہوتاہے کہ سورج اور زمین دونوں کا خدا ایک ہے۔ اگر دونوں کے خدا الگ الگ ہوتے تو دونوں الگ الگ اپنی مرضی چلاتے اور پھر یقینی طورپر یہ فاصلہ گھٹتا یا بڑھتا رہتا اوراس بے قاعدگی کی بنا پر زمین پر انسانی تہذیب کا وجود ناممکن ہوجاتا۔
نامعلوم حد تک وسیع کائنات میںہمارا زمینی سیارہ ایک نادر استثنا ہے۔ یہاں پانی اور ہوا اور نباتات جیسی ان گنت چیزیں پائی جاتی ہیں جو انسانی زندگی کے لیے لازمی طور پر ضروری ہیں۔ جب کہ وسیع خلا میں معلوم طورپر کوئی بھی ایسی دنیا موجود نہیں جہاں بقائے حیات کا یہ سامان پایا جاتاہو۔ یہ استثنا بتاتا ہے کہ یہ دنیا محض بے شعور مادہ کے ذریعہ نہیں بنی۔ بلکہ وہ ایک باشعور ہستی کا تخلیقی کرشمہ ہے۔ اگر وہ محض مادی قوانین کے بے شعور تعامل کا نتیجہ ہوتی تو کائنات میں بہت سی ایسی زمینیں ہوتیں ،نہ کہ صرف ایک ایسی زمین۔
ہماری دنیا کی ہر چیز انتہائی حد تک با معنی ہے۔ چیزوں کی معنویت یہ ثابت کرتی ہے کہ یہ دنیا ایک باشعور تخلیق کا نتیجہ ہے۔ کوئی دوسرا نظریہ اس حکمت اور معنویت کی توجیہہ نہیں کرسکتا۔ مثلاً زمین کے حجم (size) کو لیجیے۔ زمین کا موجودہ حجم تقریباً 25 ہزار میل کی گولائی میں ہے۔ یہ حجم بے حد با معنی ہے۔ چنانچہ یہ حجم اگر 50ہزار میل ہوتا تو زمین کی کشش اتنی زیادہ بڑھ جاتی کہ وہ انسانی جسم کی بڑھوتری کو روک دیتی۔ اس کے بعد زمین پر صرف بالشتیے قسم کے انسان (dwarf) دکھائی دیتے۔ اس کے برعکس اگر زمین کا حجم گھٹ کر 12 ہزار میل ہوتا تو اس کی قوتِ کشش اتنی کم ہوجاتی کہ وہ انسانی بڑھوتری کو روک نہ سکتی۔ انسان کا قد تاڑ (palm)کی طرح لمبا ہوجاتا۔ اس کے سوا اور بےشمار قسم کے غیر موافق حالات پیدا ہوتے جوانسان کی تمام تمدنی ترقیوں کو ناممکن بنا دیتے۔
مذکورہ پہلوؤں پر غور کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ سائنسی اعتبار سے، یہ مانے بغیر چارہ نہیں کہ اس دنیا کا ایک خالق ہے، اور وہ یقینی طورپر صرف ایک ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے میں ہمارے لیے جوانتخاب ہے، وہ با خدا کائنات (universe with God) اور بے خدا کائنات (universe without God) میں نہیں ہے۔ بلکہ ہمارے لیے حقیقی انتخاب باخدا کائنات (universe with God) اور غیر موجود کائنات (no universe at all) میں ہے۔ یعنی اگر ہم خدا کے وجود کا انکار کریں تو ہم کو کائنات کے وجود کابھی انکار کرنا پڑے گا۔ چوں کہ ہم کائنات کے وجودکا انکار نہیں کرسکتے اس لیے ہم خدا کے وجود کا بھی انکار نہیں کرسکتے۔ اس معاملے میں ہمارے لیے دوسرا ممکن انتخاب موجود نہیں۔
واپس اوپر جائیں

لامحدود کائنات، انسانی محدودیت

پچھلے تقریباً پانچ سو سال سے کائنات کا سائنسی مطالعہ جاری ہے۔ اِس مطالعے میں بڑے بڑے دماغ شامل رہے ہیں۔ آخری بات جہاں یہ سائنسی مطالعہ پہنچا ہے، وہ یہ ہے کہ کائنات اتنی زیادہ وسیع ہے کہ انسان کے لیے اُس کو اپنے احاطے میں لانا بہ ظاہر ناممکن ہے۔ تازہ ترین سائنسی تحقیق کے مطابق، انسان کا علم بہ مشکل کائنات کے صرف پانچ فی صد حصے تک پہنچا ہے۔ اِس پانچ فی صد حصے کے معاملے میں بھی انسانی علم کی محدودیت کا یہ عالم ہے کہ ایک سائنس داں نے کہا کہ ہم جتنا دریافت کرپاتے ہیں، اُس سے صرف یہ معلوم ہوتاہے کہ دریافت شدہ چیزیں بھی ابھی تک غیردریافت شدہ چیزوں کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم کم سے کم کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جان رہے ہیں:
We are knowing more and more about less and less.
تخلیق (creation) کے بارے میں جاننا خالق (Creator) کے بارے میں جاننا ہے۔ مگر تجربہ بتاتا ہے کہ ابھی تک انسان خالق کی تخلیق کے بارے میں بھی صرف چند فی صد جان سکا ہے۔ ایسی حالت میں کسی انسان کا یہ مطالبہ کرنا کہ خالق کے بارے میں ہم کو قطعی معلومات دو، سرتاسر ایک غیرعلمی مطالبے کی حیثیت رکھتا ہے۔ جب انسان کا حال یہ ہے کہ وہ ابھی تک تخلیق کے بارے میں پورا علم حاصل نہ کرسکا تو وہ خالق کے بارے میں پورا علم کیسے حاصل کرسکتا ہے۔
تخلیق کا وجود زمان ومکان(space and time) کے اندر ہے، اور خالق کا وجود ماورائے زمان ومکان(beyond space and time)سے تعلق رکھتا ہے، پھر جو انسان اتنا محدود ہو کہ وہ زمان ومکان کے اندر کی چیزوں کا بھی احاطہ نہ کرسکے، وہ زمان ومکان کے باہر کی حقیقت کو اپنے احاطے میں کس طرح لا سکتا ہے— حقیقت یہ ہے کہ اِس دنیا میں انسان خدا کو صرف عجز کی سطح پر دریافت کرسکتا ہے، نہ کہ علم کی سطح پر۔
واپس اوپر جائیں

خدا کا عقیدہ

کائنات کا ایک خدا ہے، جو اس کا خالق اور مالک ہے۔ اس خدا کے وجود کی سب سے بڑی دلیل خود وہ کائنات ہے، جو ہمارے سامنے پھیلی ہوئی ہے۔ کائنات اپنے پورے وجود کے ساتھ پکار رہی ہے کہ ایک عظیم خدا ہے، جس نے اس کو بنایا ،اور اپنی بے پناہ طاقت سے اس کو چلا رہا ہے۔ ہم مجبور ہیں کہ ہم کائنات کو مانیں، اور اسی لیے ہم مجبور ہیں کہ ہم خدا کو مانیں۔ کیوں کہ کائنات کو ماننا اس وقت تک بے معنی ہے، جب تک اس کے خالق ومالک کو نہ مانا جائے۔ کائنات اتنی حیرت انگیز ہے کہ وہ کسی بنانے والے کے بغیر بن نہیں سکتی ،اور اس کا نظام اتنا عجیب ہے کہ وہ کسی چلانے والے کے بغیر چل نہیں سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ خدا کو ماننے پر آدمی اس طرح مجبور ہے، جس طرح اپنے آپ کو یا کائنات کو ماننے پر۔
آپ سائیکل کے پہیے پر ایک کنکری رکھیں، اور اس کے بعد پیڈل چلا کر پہیے کو تیزی سے گھمائیں تو کنکری دور جاکر گرے گی۔ حالاں کہ سائیکل کے پہیے کی رفتار مشکل سے 25 میل فی گھنٹہ ہے۔ ہماری یہ زمین جس پر ہم رہتے ہیں، وہ بھی ایک بہت بڑے پہیے کی مانند ہے۔ زمین اپنے محور پر مسلسل ایک ہزار میل فی گھنٹے کی رفتار سے دوڑ رہی ہے۔ یہ رفتار سواری کے عام ہوائی جہازوں سے زیادہ ہے۔ ہم اس تیز رفتار زمین پر چلتے پھرتے ہیں۔ گھر اور شہر بناتے ہیں۔ مگر ہمارا وہ حال نہیں ہوتا، جو گھومتے ہوئے پہیے پر رکھی ہوئی کنکری کا ہوتا ہے۔ کیسا عجیب ہے یہ معجزہ۔
سائنسی تحقیق بتاتی ہے کہ زمین پر ہمارے قائم رہنے کی وجہ یہ ہے کہ نیچے سے زمین بہت بڑی طاقت کے ساتھ کھینچ رہی ہے، جس کو قوت کشش کہا جاتا ہے،اور اوپر سے ہوا کا بھاری دباؤ ہم کو زمین کی سطح پر روکے رہتا ہے۔ یہ دو طرفہ عمل ہم کو زمین پر تھامے ہوئے ہے، اور یہی وجہ ہے کہ ہم پہیے کی کنکری کی طرح فضا میں اڑ نہیں جاتے۔ مگر یہ جواب صرف یہ بتاتا ہے کہ ہمارے آس پاس ایک اور اس سے بھی زیادہ بڑا معجزہ موجود ہے۔ زمین میں اتنے بڑے پیمانے پر کھینچنے کی قوت ہونا، اور اس کے چاروں طرف ہوا کا پانچ سو میل موٹا غلاف مسلسل لپٹا رہنا صرف معاملے کی حیرت ناکی کو بڑھاتا ہے، وہ کسی بھی درجے میں اس کو کم نہیں کرتا۔
حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا کی ہر چیز معجزہ ہے۔ آدمی مٹی کے اندر ایک چھوٹا سا دانہ ڈالتا ہے۔ اس کے بعد حیرت انگیز طورپر وہ دیکھتا ہے کہ مٹی کے اندر سے ایک ہری اور سفید مولی نکلی چلی آرہی ہے۔ وہ دوسرا دانہ ڈالتا ہے تو وہ دیکھتا ہے کہ اس کے اندر سے میٹھا گاجر نکلا چلا آرہا ہے۔ اسی طرح بے شمار دوسری چیزیں۔ کسی دانے کو مٹی میں ڈالنے سے امرود نکل رہا ہے۔ کسی دانے کو ڈالنے سے آم۔ کسی دانے سے شیشم کا درخت نکلا چلا آرہا ہے، اور کسی دانے سے چنار کادرخت۔ پھر ان میں سے ہر ایک کی صورت الگ، ہر ایک کا مزہ الگ، ہر ایک کے فائدے الگ، ہر ایک کی خاصیتیں الگ۔ ایک ہی مٹی ہے، اور ناقابلِ لحاظ چھوٹے چھوٹے بیج ہیں، اور ان سے اتنی مختلف چیزیں اتنی مختلف صفتوں کو لیے ہوئے نکل رہی ہے، جن کی گنتی نہیں کی جاسکتی۔
حیرت ناک معجزوں کی ایک پوری کائنات ہمارے چاروں طرف پھیلی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ ایک ایسی دنیا جہاں سارے انسان مل کر ایک ذرے کی بھی تخلیق نہیں کرسکتے وہاں ہر لمحہ بےشمار طرح طرح کی چیزیں پیداہوتی چلی جارہی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب اتنے بڑے معجزے ہیں کہ ان کے کمالات کو انسانی زبان میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ ان کو بتانے کے لیے ہماری لغت کے تمام الفاظ بھی ناکافی ہیں۔ ہمارے الفاظ ان معجزوں کے اتھاہ کمالات کو صرف محدود کرتے ہیں۔ وہ کچھ بھی ان کا اظہار نہیں کرتے۔ کیا یہ معجزہ ایک خدا کے بغیر خود بخود وجود میں آسکتا ہے۔
دنیا کی ہر چیز ایٹم سے بنی ہے۔ ہر چیز اپنے آخری تجزیے میں ایٹموں کا مجموعہ ہے۔ مگر کیسا عجیب معجزہ ہے کہ کہیں ایٹموں کی ایک مقدار جمع ہوتی ہے تو سورج جیسا روشن کرہ بن جاتاہے۔ دوسری جگہ یہی ایٹم جمع ہوتے ہیں تو وہ بہتے ہوئے پانی کی صورت میں رواں ہوجاتےہیں۔ تیسری جگہ ایٹموں کا یہی مجموعہ لطیف ہواؤں کی صورت اختیار کرلیتاہے۔ کسی اور جگہ یہی ایٹم زرخیز زمین کی صورت میں ڈھل جاتے ہیں۔اسی طرح دنیا میں ان گنت چیزیں ہیں۔ سب کی ترکیب ایٹم سے ہوئی ہے۔ مگر سب کی نوعیت اور خاصیت جدا جدا ہے۔ اس قسم کی ایک معجزاتی کائنات اپنی بے شمار سرگرمیوں کے ساتھ انسان کی خدمت میں لگی ہوئی ہے۔ انسان کو اپنی زندگی کے لیے جو کچھ درکار ہے وہ بہت بڑے پیمانے پر دنیا میں جمع کردیا گیا ہے، اور ہر روز جمع کیا جارہا ہے۔ دنیا کو اپنے لیے قابلِ استعمال بنانے کی خاطر انسان کو خودجو کچھ کرنا ہے، وہ بہت تھوڑا ہے۔ کائناتی انتظام کے تحت بے حساب مقدار میں قیمتی رزق پیدا کیا جاتا ہے۔ ہم اس میں صرف اتنا کرتے ہیں کہ اپنا ہاتھ اور منھ چلا کر اس کو اپنے پیٹ میں ڈال لیتے ہیں۔ اس کے بعد ہمارے ارادے کے بغیر خود کار فطری نظام کے تحت غذا ہمارےاندر تحلیل ہوتی ہے، اور گوشت اور خون اور ہڈی اور ناخن اور بال اور دوسری بہت سی چیزوں کی صورت اختیار کرکے ہمارے جسم کا جزء بن جاتی ہے۔
زمین وآسمان کی بے شمار گردشوں کے بعد وہ حیرت انگیز چیز پیدا ہوتی ہے، جس کو تیل کہتےہیں۔ انسان صرف یہ کرتا ہے کہ اس کو نکال کر اپنی مشینوں میں بھر لیتاہے، اور پھر یہ سیال ایندھن انسانی تہذیب کے پورے نظام کو حیرت انگیز طور پر رواں دواں کردیتاہے۔ اسی طرح کائنات کے نظام کے تحت وہ ساری چیزیں بے شمار تعداد اور مقدار میں پیدا کی گئی ہیں، جن پر انسان صرف معمولی عمل کرتاہے، اور اس کے بعد وہ کپڑا، مکان، فرنیچر، آلات، مشینوں، سواریوں اور بےشمار تمدنی ساز وسامان کی صورت میں ڈھل جاتی ہیں۔ کیا یہ واقعات اس بات کے ثبوت کے لیے کافی نہیں کہ اس کا ایک بنانے والا اور چلانے والا ہے۔
اب ایک اور پہلو سے دیکھیے۔ قدرت اپنے طویل اور ناقابلِ بیان عمل کے ذریعے ہر قسم کی چیزیں تیار کرکے ہم کو دے رہی ہے۔ انسان ان کواپنے حق میں کار آمد بنانے کے لیے بے حد تھوڑا حصہ ادا کرتا ہے۔وہ لوہے کو مشین کی صورت میں ڈھالتا ہے، اور تیل کو صاف کرکے اس کو اپنی گاڑی کی ٹنکی میں بھرتاہے۔ مگر اس قسم کے معمولی عمل کا یہ نتیجہ ہے کہ خشکی اور تری فساد سے بھرگئے ہیں۔ قدرت نے ہم کو ایک انتہائی حسین اور خالص دنیادی تھی۔ مگر ہمارے عمل نے ہم کو دھواں، شور، غلاظت، توڑپھوڑ، لڑائی جھگڑا اور طرح طرح کے ناقابلِ حل مسائل سے گھیر لیا ہے۔ ہم اپنے کارخانوں یا تمدّنی سرگرمیوں کی صورت میں جو تھوڑا سا عمل کرتے ہیں، وہی عمل کائنات میں بےحساب گنا زیادہ بڑے پیمانے پر رات دن ہورہا ہے، مگر یہاں کسی قسم کا کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔
زمین مسلسل دو قسم کی دوڑ میں لگی ہوئی ہے۔ ایک، اپنے محور (axis)پراور دوسری، سورج کے گرد اپنے مدار (orbit)پر، مگر وہ کوئی شور برپا نہیں کرتی۔ درخت ایک عظیم الشان کارخانہ کی صورت میں کام کرتے ہیں مگر وہ دھواں نہیں بکھیرتے۔ سمندروں میں بے شمار جانور ہر روز مرتے ہیں مگر وہ پانی کو خراب نہیں کرتے۔ کائنات کا نظام کھرب ہا کھرب سال سے چل رہا ہے۔ مگر اس کا منصوبہ اتنا کامل ہے کہ اس کو کبھی اپنے منصوبہ پر نظر ثانی کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ بے شمار ستارے اور سیارے خلا میں ہر وقت دوڑ رہے ہیں۔ مگر ان کی رفتار میں کبھی فرق نہیں آتا، وہ کبھی آگے پیچھے نہیں ہوتے۔ یہ تمام معجزوں سے بڑا معجزہ اور تمام کرشموں سے بڑا کرشمہ ہے، جو ہر لمحہ ہماری دنیا میں پیش کیا جارہا ہے۔ کیا اس کے بعد کوئی اور ثبوت چاہیے کہ آدمی اس کائنات کے پیچھے ایک عظیم خدائی طاقت کو تسلیم کرے۔
پھر زندگی کو دیکھیے۔ فطرت کا کیسا انوکھا واقعہ ہے کہ چند مادی چیزیں خود بخود ایک جسم میں یک جا ہوتی ہیں، اور پھر ایک ایسی شخصیت وجود میں آجاتی ہے، جو مچھلی بن کر پانی میں تیرتی ہے، جو چڑیا بن کر ہوا میں اڑتی ہے۔ طرح طرح کے جانوروں کی صورت میں زمین پر چلتی پھرتی ہے، انھیں میں وہ جان دار بھی ہے، جس کو انسان کہا جاتا ہے۔ پراسرار اسباب کے تحت ایک موزوں جسم بنتا ہے، اور اس کے اندر ہڈیاں ایک انتہائی با معنی ڈھانچے کی صورت اختیار کرلیتی ہیں۔ پھر اس کے اوپر گوشت چڑھایا جاتا ہے۔اس کے اوپر کھال کی تہیں اوڑھائی جاتی ہیں، بال اور ناخن پیدا کیے جاتے ہیں۔ پھر سارے جسم میں خون کی نہریں جاری کی جاتی ہیں۔ اس طرح ایک خود کار عمل کے ذریعے ایک عجیب وغریب انسان بنتا ہے، جو چلتا ہے، جو پکڑتا ہے، جو دیکھتا ہے، جو سنتا ہے، جو سونگھتا ہے، جو چکھتا ہے، جو سوچتا ہے، جو یاد رکھتا ہے، جو معلومات جمع کرکے ان کو مرتب کرتا ہے، جو لکھتااور بولتا ہے۔ مردہ مادّے سے اس قسم کے ایک حیرت ناک وجود کا بن جانا ایک ایساانوکھا واقعہ ہے کہ معجزے کا لفظ بھی اس کے اعجاز (miracle)کو بتانے کے لیے کافی نہیں۔
اگر کوئی شخص کہے کہ میں نے مٹی کو بولتے ہوئے سنا اور پتھر کو چلتے ہوئے دیکھا تو لوگ حیران ہو کر اس کی تفصیل دریافت کریں گے۔ مگر یہ انسان جو چلتا پھرتاہے، جو بولتا اور دیکھتا ہے آخر مٹی پتھر ہی تو ہے۔ اس کے اجزاء وہی ہیں، جو ’’مٹی اور پـتھر‘‘ کے ہوتے ہیں۔ مٹی اور پتھر کے بولنے اور دیکھنے کی خبر کو ہم جس طرح عجیب سمجھیں گے، اسی طرح بلکہ اس سے زیادہ تعجب ہم کو اس مخلوق پر ہونا چاہیے جس کو انسان کہاجاتاہے۔ بے جان مادّے میں اس قسم کی زندگی اور شعور پیدا ہوجانا کیا اس بات کا ثبوت نہیں کہ یہاں ایک برتر ہستی ہے، جس نے اپنی خصوصی قدرت سے یہ عجیب وغریب معجزہ رونما کیا ہے۔
انسان اگر اپنے اوپر غور کرے تو بہ آسانی وہ خدا کی حقیقت کو سمجھ سکتاہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کی صورت میں ایک ’’میں‘‘ زمین پر موجود ہے۔ اس کی اپنی ایک مستقل ہستی ہے۔ وہ دوسری چیزوں سے الگ اپنا ایک وجود رکھتا ہے۔ یہ ’’میں‘‘ بلا اشتباہ یقین رکھتا ہے کہ وہ ہے۔ وہ سوچتا ہے اور رائے قائم کرتاہے۔ وہ ارادہ کرتاہے، اور اس کو بالفعل نافذ کرتاہے۔ وہ اپنے فیصلہ کے تحت کہیں ایک رویہ اور کہیں دوسرا رویہ اختیار کرتاہے۔ یہی شخصیت اور قوت جس کا ایک آدمی اپنی ’’میں‘‘ کی سطح پر ہر وقت تجربہ کررہا ہے یہی ’’میں‘‘ اگر خدا کی صور ت میں زیادہ بڑےپیمانہ پر موجود ہو تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خدا کو ماننا ایسا ہی ہے جیسے اپنے آپ کو ماننا۔ اسی لیے قرآن میں کہا گیا ہے: بَلِ الْإِنْسَانُ عَلَى نَفْسِہِ بَصِیرَةٌ۔ وَلَوْ أَلْقَى مَعَاذِیرَہُ(75:14-15)۔ آدمی اپنے واسطے آپ دلیل ہے، چاہے وہ کتنی ہی معذرت کرے ۔
لوگ خدا پر اور خدا کے پیغام پر یقین کرنے کے لیے معجزاتی دلیل مانگتے ہیں۔ آخر لوگوں کو اس کے سوا اور کون سا معجزہ درکار ہے، جو ناقابلِ قیاس حد تک بڑے پیمانے پر ساری کائنات میں جاری ہے۔ اگر اتنا بڑا معجزہ آدمی کو جھکانے کے لیے کافی نہ ہو تو دوسرا کوئی معجزہ دیکھ کر وہ کیسے ماننے کے لیے تیار ہوجائیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ خدا کو ماننے اور اس کے آگے اپنے آپ کو سرینڈر کرنے کے لیے جس چیز کی ضرورت ہے، وہ ہر وقت ہر آدمی کے سامنے موجود ہے۔ اس کے باوجود آدمی اگر خدا کو اور اس کے جلال وکمال کو نہ مانے تو یہ اس کا اپنا قصور ہے ،نہ کہ کائنات کا۔
واپس اوپر جائیں

حقیقت کی تلاش

گلیلیوگلیلی (1564-1642) اپنی سادہ دوربین سے چاند کا صرف سامنے کا رخ دیکھ سکتا تھا۔ آج کا انسان خلائی جہاز میں لگے ہوئے دور بینی کیمروں کی مدد سے چاند کا پچھلا رخ بھی پوری طرح دیکھ رہاہے۔ یہ ایک سادہ سی مثال ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کل اور آج میں علمی اعتبار سے کتنا زیادہ فرق ہوچکا ہے۔
مگر ان جدید معلومات تک پہنچنے کی قیمت بہت مہنگی ہے۔ 10 اکتوبر 1980 کو نیومیکسیکو میں دنیا کی سب سے بڑی دور بین نصب کی گئی۔ اس کی قیمت 78 ملین ڈالر تھی۔امریکا کا ایک خلائی جہاز، وائیجر1(Voyager 1) جو نومبر 1980 میں زحل کے پاس پہنچا اس کی لاگت 340 ملین ڈالر تھی۔ یورپ میں پارٹیکل فزکس کی بین اقوامی لیبوریٹری (CERN) 1981میں مکمل ہوئی ہے، اس کا مقصد اینٹی میٹر کو توڑ کر میٹر میں تبدیل کرنا ہے، اس لیبوریٹری کی لاگت 120 ملین ڈالر ہے۔ یہ ادارہ ایک اور زیادہ بڑی تحقیقی مشین تیار کرنےکا منصوبہ بنا رہا ہے، جس کی لاگت 550 ملین ڈالر ہوگی۔ پروٹان کی تحقیق کے لیے امریکا میں ایک مشین بنائی گئی ہے، جس کی لاگت 275 ملین ڈالر ہے، وغیرہ۔
پارٹیکل فزکس (ذراتی طبیعیات) میں لوگوں کی بڑھتی ہوئی دل چسپی کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ 1927 میں ہونے والی فزکس کانفرنس میں 32 سائنس داں شریک ہوئے تھے، جب کہ 1980 میں ہونے والی فزکس کانفرنس میں شریک ہونے والے سائنس دانوں کی تعداد 800 تھی۔ امریکن فزیکل سوسائٹی (APS) 1899 میں قائم کی گئی۔ اس کے ممبروں کی تعداد 1920 میں 1300 تھی، 1980 میں اس سوسائٹی کے ممبروں کی تعداد 30,000تھی، اور 2020 میں اس کے ممبران کی تعداد 50,000 ہے۔
ان جدید تحقیقاتی کوششوں کا تعلق اسٹرانومی اور پارٹیکل فزکس (ذراتی طبیعیات) سے ہے۔ ان علوم میں تحقیقات کے نتائج بہت دیر میں نکلتے ہیں۔ تقریباً 50 سال بعد یا اس سے بھی زیادہ۔ اگر اس کا لحاظ کیا جائے کہ ان تحقیقات میں لگی ہوئی رقم (جس پر کوئی سود نہیں ملتا) کی قیمت ہر سال کم ہوتی رہتی ہے تو پچاس سال بعد ایک سو ڈالر کی قیمت صرف ایک ڈالر کے بقدر رہ جائے گی۔ بہ ظاہر ایک بے فائدہ مد میں اتنی کثیر رقم خرچ کرنے کی وجہ سے بہت سے لوگ ایسے منصوبوں پر اعتراض کررہے ہیں۔ اس کا جواب دیتے ہوئے امریکی پروفیسر راجر پنروز (Roger Penrose [b. 1931]) نے کہا ہے:
Do economists not share with us the thrill that accompanies each new piece of understanding? Do they not care to know where we have come from, how we are constituted, or why we are here? Do they not have a drive to understand, quite independent of economic gain? Do they not appreciate the beauty in ideas? — A civilisation that stopped inquiring about the universe might stop inquiring about other things as well. A lot else might then die besides particle physics. (SUNDAY Weekly [Calcutta] Nov 30, 1980)
کیا اقتصادیات کے ماہرین اس وجد انگیز مسرت میں ہمارے ساتھ شریک نہیں ہیں، جو علم کے ہر نئے اضافے سے حاصل ہوتی ہے۔ کیا ان کو یہ جاننے کا شوق نہیں ہے کہ ہم کہاں سے آئے ہیں، ہماری پیدائش کیسے ہوئی ہے یا یہ کہ اس زمین پر ہم کیوں ہیں۔ کیا اقتصادی فائدہ سے ہٹ کر ان باتوں کو جاننے کا جذبہ ان کے اندر پیدا نہیں ہوتا۔ کیا وہ نظریات میں حسن کی قیمت کو نہیں سمجھتے۔ کوئی تہذیب جو کائنات کے بارے میں تحقیق سے رک جائے، وہ دوسری چیزوں کے بارے میں تحقیق کو بھی روک دے گی۔ اس کے بعد پارٹیکل فزکس کے علاوہ دوسری بہت سی چیزیں بھی موت کا شکار ہو کر رہ جائیں گی۔
اس اقتباس سے اندازہ ہوتاہے کہ زندگی کی حقیقت جاننے کا مسئلہ کس قدر ضروری ہے۔ وہ انسان جو خدا کی بنیاد پر کائنات کی تشریح نہیں کرنا چاہتا وہ بھی انتہائی بے تاب ہے کہ وہ کوئی ایسی چیز پالے جس کی بنیاد پر وہ اپنی اور کائنات کی تشریح کرسکے۔ حقیقت یہ ہے کہ نظر آنے والی کائنات اور اس کے اندر انسان جیسی ایک مخلوق کا موجود ہونا اس قدر حیران کن ہے کہ انسان اس کی ماہیت کے بارے میں سوچے بغیر نہیں رہ سکتا۔ کوئی بھی دوسری چیز اس کو اس سوال سے بے نیاز کرنے والی ثابت نہیں ہوسکتی۔ حتی کہ بڑی بڑی مادی ترقیاں بھی۔
انسان دیکھتا ہے کہ وہ ایک لامحدود کائنات میں ہے۔ اس کائنات میں تقریباً ایک کھرب کہکشائیں ہیں۔ ہر کہکشاں میں لگ بھگ ایک کھرب بہت بڑے بڑے ستارے ہیں، اور ہر ستارہ دوسرے ستارے سے اتنا زیادہ فاصلہ پر ہے جیسے بحر الکاہل (Pacific Ocean) کے لق ودق سمندر میں چندکشتیاں ایک دوسرے سے دور دور تیر رہی ہوں۔ عظیم کائنات میں پھیلے ہوئے ستاروں کی یہ تعداد اتنی زیادہ ہے کہ اگر ہر ستارہ کا کوئی یک لفظی نام رکھا جائے ،اور کوئی ان ناموں کو بولنا شروع کرے تو صرف تمام ناموں کو دہرانے کے لیے 300 کھرب (30 ٹریلین )سال کی مدت درکار ہوگی (پلین ٹرتھ، جنوری، 1981)۔
اس ناقابلِ قیاس حد تک عظیم کائنات میں انسان سب سے زیادہ حقیر مخلوق ہے۔ وہ کائناتی نقشے میں ان چھوٹے جزیروں سے بھی کم ہے، جو بہت چھوٹے ہونے کی وجہ سے عام طورپر دنیا کے نقشوں میں دکھائی نہیں دیتے۔ یہ انسان اپنے تمام چھوٹے پن کے باوجود کائنات کے فاصلوں کو ناپ رہا ہے۔ وہ طبیعیاتی ذروں سے لے کر کہکشاتی نظاموں تک کی تحقیق کررہاہے۔ وہ ایک ایسا ذہن رکھتا ہے، جو ماضی اور مستقبل کا تصور کرسکے۔ یہ سب کیوں ہورہا ہے اور کیسے ہورہاہے، اور بالآخر اس عجیب وغریب ڈرامے کا کیا انجام ہونے والا ہے۔ یہ سوالات ہر سوچنے والےانسان کے اوپر منڈلا رہے ہیں۔ وہ ان کی حقیقت تک پہنچنا چاہتا ہے۔ مگر انسان کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ ان سوالات کا جواب دور بینی مشاہدات اور لیبوریٹری کے تجربات میں ڈھونڈ رہاہے۔ حالاں کہ ان سوالات کا جواب پیغمبر کے الہام کے سوا کہیں اور موجود نہیں۔
جس کائنات میں اتنی زیادہ دنیائیں ہوں کہ صرف ان کا نام لینے کے لیے تین سو کھرب(30 Trillion) سال سے زیادہ مدت درکارہو۔ اس کی حقیقت کو وہ انسان کیوں کر دریافت کرسکتا ہے، جو پچاس سال یا سو سال زندگی گزار کر مر جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خالق ہی اس راز کو کھول سکتا ہے، اور اسی نے پیغمبر کے ذریعے اس کو کھولا ہے۔
واپس اوپر جائیں

فطرت کی پکار

مسٹر یاکوف زلڈووچ (Yakov Zeldovich) روس کے مشہور سائنس داں ہیں۔ ان کی پیدائش 1914 میں ہوئی، اور وفات 1987 میں ۔ وہ روس کی اکیڈمی آف سائنسز کے ممبر رہ چکے ہیں۔ سوویت یونین کے زمانے میں ماسکو سےشائع ہونے والے انگریزی ماہ نامہ اسپٹنک (Sputnik) شمارہ اگست 1987 میںان کا ایک مضمون چھپا تھا، جس کا عنوان ہے:
Truth, Progress and the Human Soul
اس مضمون میں مسٹر زلڈووچ نے اپنے بارے میں اقرار کیا ہے کہ وہ ایک اتھیسٹ ہیں، وہ خدا اور مذہب کو نہیں مانتے۔ مگر اسی کے ساتھ وہ کہتے ہیں کہ انسانی معاشروں میں مذہب کی موجودگی ایک ثابت شدہ تاریخی حقیقت ہے۔ نیز یہ کہ روحانی تقاضے انسان کے شعور میں گہرائی کے ساتھ پیوست ہیں:
Spiritual needs are deeply embedded in human consciousness.
انسانی فطرت کی یہ نوعیت اتنی واضح اور اتنی قطعی ہے کہ تمام سنجیدہ لوگوں نےاس کا اقرار کیا ہے۔ قدیم ترین زمانے سے لے کر آج تک تمام انسان اس احساس کو لے کر پیدا ہوتےرہے ہیں۔ ملحد معاشروں میں پیدا ہونے والے بچے بھی اپنے آپ کو اس احساس سے خالی نہ کرسکے۔ انسانی فطرت کا یہ تقاضا ایک ایسی مانی ہوئی حقیقت ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔
اس حقیقت کو مان لینے کے بعد صرف یہ سوال باقی رہتاہے کہ اس تقاضے کا جواب کیا ہے۔مذکورہ سائنس داں کا کہنا ہے کہ اس کا جواب نیچرل سائنس ہے۔ مگر یہ جواب اپنی تردید آپ ہے۔ اس لیے کہ نیچرل سائنس ایک مادی چیز ہے، اور انسانی فطرت کا تقاضا ایک روحانی چیز۔ پھر ایک مادی چیز ایک روحانی سوال کا جواب کس طرح بن سکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس سوال کا جواب صرف خداوند تعالی ہے۔ مخلوق اپنے خالق کی تلاش میں ہے، اور خالق کو پانے کے بعد ہی مخلوق کو سکون حاصل ہوسکتاہے:اَلا بِذِکْرِ اللہِ تَطْمَئِنُّ القُلُوبُ(13:28)۔
واپس اوپر جائیں

ڈارون کا اعتراف

چارلس ڈارون (1809-1882) نے یہ نظریہ پیش کیا کہ انسان دوسرے حیوانات ہی کی ترقی یافتہ نسل ہے۔ یہ ایک بے حد عجیب نظریہ تھا۔ کیونکہ انسان انتہائی غیر معمولی حد تک دوسرے جانوروں سے مختلف ہے۔ پھر کیسے یہ ممکن ہوا کہ امیبا کا دماغ ترقی کرتے کرتے انسان کا دماغ بن جائے۔ یہ نظریہ اتنا بعید از قیاس تھا کہ ڈارون خود اپنے اس نظریے کے بارےمیں حیرانی میں مبتلا ہوگیا۔ اس نے اپنی ڈائری (Darwin's Diary, April 1881) میں لکھاہے:
Can the mind of man, which has, as I fully believe, been developed from a mind as low as that possessed by the lowest animal, be trusted when it draws such a grand conclusion?...I cannot pretend to throw the least light on such abstruse problems.
(www.pbs.org/wgbh/evolution/darwin/diary/1881.html. accessed on 01.04.2020)
انسان کا دماغ جس کے متعلق میرا کامل عقیدہ ہے کہ وہ اس معمولی دماغ سے ترقی کرکے بناہے جو انتہائی ادنیٰ حیوانات کو حاصل ہوتا ہے۔ کیا ایسے دماغ پر اس وقت بھروسہ کیا جاسکتا ہے، جب کہ وہ اتنے بڑے بڑے نتائج کررہا ہو۔ میں یہ دکھانے کی جھوٹی کوشش نہیں کروں گا کہ میں اس قسم کے مشکل مسائل پر کچھ بھی روشنی ڈال سکتا ہوں۔
حقیقت یہ ہے کہ زندگی اور کائنات کی تشریح کا مسئلہ ناقابلِ قیاس حد تک بڑا مسئلہ ہے۔ کوئی انسان اپنی محدود عمر اور محدود صلاحیت کے ساتھ اس کی تشریح کا اہل نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ جو شخص بھی اس کی تشریح کرنے بیٹھتا ہے وہ ہمیشہ احساسِ عجز کا شکار رہتاہے۔ خواہ اپنی زبان سے وہ اس کا اقرار کرے یا نہ کرے۔یہ واقعہ اس کا ثبوت ہے کہ زندگی اور کائنات کی حقیقت بتانے کے لیے انسانی دماغ سے برتر ایک دماغ درکار ہے۔ یہ کام صرف خدا کرسکتا ہے، اور خدا نے پیغمبروں کے واسطے سے اس کو انجام دیا ہے۔ یہ ایک قرینہ ہے جو پیغمبرانہ ہدایت کی ضرورت اور واقعیت کو ثابت کرتاہے۔
واپس اوپر جائیں

برتر ہستی کی تلاش

ڈاکٹر جے۔وی۔نارلیکر (Jayant Vishnu Narlikar) انڈیا کے عالمی شہرت یافتہ ماہر فلکی طبیعیات(astrophysicist) ہیں۔ ان کی پیدا ئش 1938 میں ہوئی۔ ان سے ایک انٹرویو میں کہاگیا کہ ’’مذہبی توہمات‘‘ کی پرستش میں سائنس داں دوسرے لوگوں سے پیچھے نہیں ہیں۔ حتی کہ کتنے سائنس داں دیوتاؤں تک میں عقیدہ رکھتے ہیں۔ اس کے جواب میں ڈاکٹر نارلیکر نے کہا:’’مجھے یہ بات بے حد ناپسند ہے۔ عملاً میں دیکھتاہوں کہ بہت سے سائنس داں ، جب اپنی تجربہ گاہ میں کام کررہے ہوتے ہیں تو وہ سائنٹفک نقطۂ نظر کو اپناتے ہیں۔ مگر جب وہ اپنے گھر جاتےہیں تو وہ سائنٹفک طریقے کا بالکل استعمال نہیں کرتے۔ مثال کے طورپر، مغرب کے اعلی تعلیم یافتہ لوگوں میں جیوتش پر عقیدہ پھیل رہا ہے۔ یہ ایک نفسیاتی مسئلہ ہے۔ انسان کی اس خواہش نے اس کو جنم دیا ہے کہ وہ آسان اور فوری تسکین کو پالے۔ یہ حقیقةً ایک ذہنی سہارا ہے‘‘۔(ٹائمس آف انڈیا 30 اپریل 1979)
کوئی شخص خواہ جاہل ہو یا عالم، کامیاب ہو یا ناکام، زندگی میںاس کو بار بار ایسے مرحلے پیش آتے ہیں، جہاں وہ اپنے عجز (helplessness) کا تجربہ کرتاہے۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ وہ بے بس وجود ہے۔ یہ چیز اس کو اپنے سے برتر ہستی کی تلاش کی طرف لے جاتی ہے ،جو اس کی کمیوں کا بدل بن سکے۔ مغرب کے اعلی تعلیم یافتہ لوگ جن کے لیے مادی مواقع کے تمام دروازے کھلے ہوتے ہیں، وہ جب اپنی ’’ذہنی تسکین‘‘ کے لیے ما بعد الطبیعیات عقائد کا سہارا لیتے ہیں تو باعتبارِ حقیقت یہ فرضی نہیںہوتا۔ یہ دراصل اپنی فطرت کی خاموش پکار کا جواب ہوتاہے۔ اگر چہ اپنی تلاش کا صحیح جواب نہ پانے کی وجہ سے وہ ’’جیوتش‘‘ جیسی توہماتی چیزوں میںاٹک جاتے ہیں — خدا کا وجود نہ صرف یقینی ہے ،بلکہ وہ انسان کے لیے اتنا ضروری ہے کہ اس کے بغیر وہ ایک لمحہ بھی نہیں رہ سکتا۔
واپس اوپر جائیں

ذہین وجود

موجودہ زمانے کے سائنس دانوں جن چیزوں کی کھوج میں لگے ہوئے ہیں، ان میں سے ایک ایلین (alien)تہذیب ہے۔ زمین پر انسانی تہذیب کے علاوہ کیا خلا میں کوئی اور تہذیب ہے، جو ہم سے زیادہ ترقی یافتہ ہے۔ پچھلے 25 برسوں کے سائنسی مطالعے نے کافی حد تک یہ امکان ظاہر کیا ہے کہ کائنات میں ہمارے علاوہ دوسری ’’ٹکنکل سولائزیشن‘‘ بھی ہوسکتی ہے۔
اس قیاس کی وجہ یہ ہے کہ سائنس دانوں کو کائنات میں ماورائی ذہانت (extraterrestrial intelligence) کے آثار ملے ہیں۔ ان آثار کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ خدا کے وجود پر لوگوں کا یقین بڑھتا، مگر غیر خدا پرستانہ ذہن کا یہ کرشمہ ہے کہ وہ ماورائی ذہانت کو انسانی ذہانت سمجھ رہے ہیں۔ جو حقیقۃً خدا کا وجود ثابت کررہی ہے، اس کو اس معنی میںلے رہے ہیں کہ کائنات میں کسی سیارہ پر انسانی تہذیب جیسی کوئی اور تہذیب موجود ہے۔ حالاں کہ کائنات میں ’’ذہانت‘‘ کے آثار کا ملنا، اور ذہانت کا نظر نہ آنا، یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ ذہانت اپنی نوعیت کے اعتبار سے غیر انسانی اور غیر مرئی ہے، نہ کہ انسان کی طرح دکھائی دینے والی۔
٭ ٭ ٭٭ ٭
ایک امریکی عالم حیاتیات (Cecil Boyce Hamann [1913-1984])کہتے ہیں: ’’غذا ہضم ہونے اور اس کے بدن کا جزءبننے کے حیرت انگیز عمل کو پہلے خدا کی طرف منسوب کیاجاتا تھا۔ اب جدید مشاہدے میں وہ کیمیائی ردّ ِعمل کا نتیجہ نظر آتا ہے۔ مگر کیا اس کی وجہ سے خدا کے وجود کی نفی ہوگئی۔ آخر وہ کون طاقت ہے جس نے کیمیائی اجزا، کو پابند کیا کہ وہ اس قسم کا مفید ردّ عمل ظاہر کریں۔ غذا انسان کے جسم میں داخل ہونے کے بعد ایک عجیب وغریب خود کار انتظام کے تحت جس طرح مختلف مراحل سے گزرتی ہے، اس کو دیکھنے کے بعد یہ بات بالکل خارج از بحث معلوم ہوتی ہے کہ یہ حیرت انگیز انتظام محض اتفاق سے وجود میں آگیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس مشاہدے کے بعد تو اور زیادہ ضروری ہوگیا ہے کہ ہم یہ مانیں کہ خدا اپنے ان عظیم قوانین کے ذریعے عمل کرتا ہے جس کے تحت اس نے زندگی کو وجود دیا ہے۔‘‘
(The Evidence of God in an Expanding Universe, p. 221)
واپس اوپر جائیں

خلائی تہذیب

بیسویں صدی کے نصف سے مغربی دنیا ایک انوکھی تحقیق میں مشغول ہے۔ خلا میں زندہ مخلوقات کی آواز کو سننا(Listening for life in space)۔ بہ ظاہر اس تلاش کا محرک جدیدعلماء کاوہ مفروضہ ہے، جس کو ارتقاکہاجاتا ہے۔ مغربی علما نے زندگی کی جو ارتقائی توجیہہ کی ہے، اس کے مطابق لازم آتا ہے کہ وسیع خلا میں دوسرے مقامات پر بھی اسی طرح زندگی کی انواع موجود ہوں، جس طرح وہ ہماری زمین پر پائی جاتی ہیں۔خلا میں سفر کا ایک خاص مقصد ان زندگیوں سے ملاقات ہے۔ اس مفروضے پر ان کو اتنا یقین ہے کہ اس کا ایک خاص نام بھی دے دیا گیا ہے، یعنی بالائے خلا زندگی (extraterrestrial life)۔
اس کے علاوہ امریکا میںاور دوسرے ترقی یافتہ ملکوں میں خاص طرح کے بہت بڑے بڑے اینٹینا (antenna) لگائے گئے ہیں، جن کو عام زبان میں ریڈیائی کان (radio ears) کہتے ہیں۔ ان مشینوں سے بالائے خلا میں سگنل بھیجے جاتے ہیں، اور حساس قسم کے آلات ہر وقت تیار رہتے ہیں کہ اوپر سے آنے والے متوقع سگنل کو سن سکیں۔ان کوششوں پر ٹائم میگزین( 21 مارچ 1983) میں ان الفاظ میں تبصرہ کیا گیا ہے— اگر تم واقعةً وہاں ہو تو اپنے دوستوں سے بولو:
If you are really there, please call your friends.
زمین پر زندگی اور شعور کا وجود ساری معلوم کائنات میں ایک انتہائی نادر اور استثنائی واقعہ ہے۔ چونکہ یہ شعور اپنا خالق آپ نہیں، اس لیے اس کا وجود لازمی طورپر تقاضا کرتا ہے کہ یہاں زندگی اور شعور کا ایک اور خزانہ زیادہ بڑی سطح پر موجود ہو، جو زمین کی زندگی اور شعور کا سرچشمہ ہو۔ حقیقت یہ ہےکہ زندہ انسان کی موجودگی زندہ خدا کی موجودگی کا ثبوت ہے۔ جدید انسان اس امکان کو بالواسطہ انداز میں تسلیم کرتا ہے۔ البتہ وہ اس وجود کو خلائی زندگی قرار دے کر یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ یہ وجود ہماری ہی طرح کا ایک وجود ہے، نہ کہ ہم سے برتر کوئی وجود ۔ وہ محض ایک تہذیب ہے ،نہ کہ کوئی خالق اور مالک خدا۔
واپس اوپر جائیں

ماورائے انسان ذہانت

آج کل سائنسی حلقوںمیں بالائے خلا ذہانت (extraterrestrial intelligence) کا بہت چرچا ہے۔ مختلف شعبوں میں ایسے شواہد سامنے آرہے ہیں جو اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ زمین کے علاوہ خلا کے دوسرے حصوںمیں بھی ذہین ہستیاں، اغلباً انسان سے بھی زیادہ ذہین موجود ہیں۔ حتی کہ بہت سے سائنس داں اس سنہری صبح کے منتظر ہیں جب کہ وہ خلائی ریڈیو کا پیغام (extraterrestrial radio message) وصول کرسکیں گے۔
بالائے خلا ذہانت سے سائنس دانوں کی مراد یہ ہوتی ہے کہ زمین کے علاوہ کائنات کے دوسرے مقامات پر بھی ہماری جیسی مخلوقات پائی جاتی ہیں۔ دوامریکی فلکیات دانوں نے دعوی کیا ہے کہ ہماری کہکشاں میں10 بلین ستارے ایسے ہیں، جو نظام شمسی کی مانند سیاراتی نظام رکھتے ہیں۔ ان نظامات میں زندگی کا وجود اسی طرح ممکن ہے جس طرح موجودہ زمین پر۔ اگر چہ عملاً ابھی تک ایسا کوئی کرہ دریافت نہیں ہوا جہاں زمین جیسی زندگیاں پائی جاتی ہوں۔
Hypothetical extraterrestrial life that is capable of thinking, purposeful activity... more than 3,000 extrasolar planets have been detected... These efforts suggest that there could be many worlds on which life, and occasionally intelligent life, might arise. Searches for radio signals or optical flashes from other star systems that would indicate the presence of extraterrestrial intelligence have so far proved fruitless. (www.britannica.com/
science/extraterrestrial-intelligence#ref283898 [on 4th Apr 2020])
سائنسی دریافتوں کا قافلہ بہت تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہاہے۔ سائنس ماورائے انسان ’’ذہانت‘‘ تک پہنچ چکی ہے۔ اگر کسی دن وہ دریافت کرے کہ یہ ماورائے انسان ذہانت اپنی نوعیت کے اعتبار سے اتنی زیادہ ممتاز ہے کہ اس کوانسان جیسی ذہین ہستی کہنے کے بجائے خدا کہنا زیادہ صحیح ہوگا تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔
واپس اوپر جائیں

ایلین لائف

اسٹفن ہاکنگ (Stephen Hawking) موجودہ زمانے کا ایک ممتاز برٹش سائنس داں ہے۔ کائنات کے طویل مطالعے کے بعد اس نے کہا کہ میرا ریاضیاتی ذہن یہ بتاتا ہے کہ زمین کے ماورا بھی انسان کے مانند کوئی ذہین وجود ہونا چاہیے۔ اِس وجود کو اس نے اجنبی زندگی (Alien life) کا نام دیا ہے۔ اِس معاملے میں اسٹفن ہاکنگ کی سادہ منطق یہ ہے کہ ہماری کائنات میں تقریباً ایک سو بلین کہکشائیں ہیں۔ ہر کہکشاں میں کئی سو ملین ستارے ہیں۔ اتنی بڑی کائنات میں یہ بات ناقابلِ قیاس ہے کہ صرف زمین وہ واحد سیارہ ہو، جہاں زندگی کا ارتقا ہوا ہے ۔ میرے ریاضیاتی ذہن کے مطابق، ستاروں کی یہ عظیم تعداد ہی اِس نظریے کو پوری طرح معقول ماننے کے لیے کافی ہے:
Hawking has suggested that extraterrestrials are almost certain to exist. Hawking’s logic on aliens is, for him, unusually simple. The universe has 100 billion galaxies, each containing hundreds of millions of stars. In such a big place, Earth is unlikely to be the only planet where life has evolved. “To my mathematical brain, the numbers alone make thinking about aliens perfectly rational.”
(The Times of India, New Delhi, April 26, 2010, p. 17)
سیارۂ زمین پر ذہین وجود کا ہونا، اولاً جس چیز کو ثابت کرتا ہے، وہ استثنا (exception) ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اِس استثنا کی توجیہہ کیا ہے۔ اسٹفن ہاکنگ نے ارتقا (evolution) کے مفروضہ نظریے کو توجیہہ کی بنیاد قرار دیا ہے۔ مگر زیادہ معقول بات یہ ہے کہ اِس استثنا کی توجیہہ، مداخلت (intervention) کی بنیاد پر کی جائے۔ کیوں کہ مداخلت اپنے آپ میں ثابت ہے، اور جب مداخلت کو مان لیا جائے تو خالق کا وجود اپنے آپ ثابت ہوجاتا ہے۔موجودہ زمانے میں بہت سی نئی حقیقتیں دریافت ہوئی ہیں۔ یہ نئی حقیقتیں خالق کے وجود کو ثابت کررہی تھیں، لیکن ارتقائی مفروضے کے تحت ان کو ارتقائی عمل کا نتیجہ قرار دے دیاگیا۔ مگر یہ محض ایک قیاس ہے، اور ایک قیاس سے دوسرے قیاس کو ثابت کرنا، بلا شبہ ایک غیر منطقی استدلال کی حیثیت رکھتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

کون کنٹرول کرے

سرجولین ہکسلے (Sir Julian Sorell Huxley [1887-1975] ) کی ایک کتاب ہے جس کا نام ’’مذہب بغیر الہام‘‘ ہے:
Julian Huxley: Religion Without Revelation (1957), Harper, p. 393
مصنّف نےاس کتاب میں یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ مذہب (بمعنی انسانی طریقہ) الہام خداوندی کی بنیاد پر قائم کرنے کا دور ختم ہوگیا۔ اب انسان خود اپنا مذہب بنا رہا ہے۔اس مذہب کی بنیاد عقل (ریزن) پر ہے، اور اس کا نام ہیومنزم ہے۔مصنف کے نقطۂ نظر کا خلاصہ اس کے ان الفاظ میں ہے — موجودہ زمانے میں انسان نے بڑی حد تک خارجی فطرت کی طاقتوں کو جاننے، ان کو کنٹرول کرنے اور ان کو استعمال کرنے کی بابت سیکھ لیا ہے۔ اب اس کو خود اپنی فطرت کی طاقتوں کو جاننے اور ان کو کنٹرول کرنے اور ان کو استعمال کرنے کی بابت سیکھنا ہے:
Man has learnt in large measure to understand, control and utilize the forces of external nature: he must now learn to understand, control and utilize the forces of his own nature .
یہی موجودہ زمانے کے اعلی تعلیم یافتہ ملحدین کا عام نظریہ ہے۔ مگر یہ لفظی تک بندی کے سوا اور کچھ نہیں۔حقیقت یہ ہے کر خارجی مادے کوکنٹرول کرناجتنا ممکن تھا، اتنا ہی یہ ناممکن ہے کہ انسان خود اپنی فطرت کو کنٹرول کرے۔
مادہ خود اپنے آپ کو کنٹرول نہیں کرسکتا۔ اسی طرح انسان بھی خود اپنے آپ کو کنٹرول نہیں کرسکتا۔ انسان کے لیے مادہ کوکنٹرول کرنا اس لیے ممکن ہوا کہ انسان کواپنے دماغ کی بنا پر مادہ کے اوپر بالاتری حاصل تھی۔ اسی طرح انسان کو وہ ہستی کنٹرول کرسکتی ہے، جس کو انسان کے اوپر بالاتری حاصل ہو۔ کوئی بھی ہستی اپنے برابر کو کنٹرول نہیں کرسکتی— انسان کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک برتر خدا کا عقیدہ درکار ہے۔ برتر خدائی عقیدے کے سوا کوئی چیز نہیں جو انسان کو قابو میں رکھ سکے۔
واپس اوپر جائیں

کویزار

ایک ارب سورج سے بھی زیادہ روشن
فلکیات (astronomy) میں اجرامِ فلکی (مثلاً، چاند، سیارے، ستارے، نیبولا، گلیکسی، وغیرہ)، اور زمینی کرۂ ہوا‎ کے باہر روُنما ہونے والے واقعات کا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔برسات کے موسم میں جب فضا بالکل صاف ہوتی ہے، آسمان پر لمبے روشنی کے بادل دکھائی دیتےہیں۔ یہ ہماری کہکشاں (Galaxy) ہے، جس کا نام ملکی وے (Milky Way) ہے۔ اس کے اندر ہمارا سولر سسٹم واقع ہے۔ روشنی کے بادل حقیقت میں بادل نہیں ہیں، بلکہ بے شمار ستاروں کے مجموعے ہیں، جو دورہونے کی وجہ سے ملے ملے دکھائی دیتے ہیں۔ اگر آپ دور بین (telescope) سے دیکھیں تو بادل کے بجائے آپ کو الگ الگ ستارے دکھائی دیں گے۔ زمین سے بارہ لاکھ گنا بڑا سورج بظاہر بہت بڑا نظر آتاہے۔ مگر کہکشاں کے اکثر ستارے اس سے بھی زیادہ بڑے ہیں۔ اس طرح کے بےشمار کہکشانی مجموعے کائنات کی وسعتوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔مثلاً فلکیات کی حیران کُن دریافتوں میں سے ایک وہ ہے، جس کو کویزار(Quasar)کہا جاتا ہے:
Quasar, an astrmonomical object of very high luminosity found in the centres of some galaxies and powered by gas spiraling at high velocity into an extremely large black hole. The brightest quasars can outshine all of the stars in the galaxies in which they reside, which makes them visible even at distances of billions of light-years. Quasars are among the most distant and luminous objects known.
(www.britannica.com/science/quasar [accessed on 02.04.2020])
کویزار زمین سے دور دراز فاصلے پر واقع ایک آسمانی جِرم (object) ہے، جس سے ریڈیائی لہریں کثیر مِقدار میں نکلتی ہیں۔ کائنات کے انتہائی بعید کناروں پر واقع یہ شبہ ستارے بے حد روشن ہیں۔ ایک پوری کہکشاں جس میں سورج یا اس سے بڑے بڑے ایک ارب ستارےہوں، جتنی انرجی (روشنی اور حرارت) خارج کرتی ہے، اتنی زیادہ انرجی (energy)تنہا ایک کویزار خارج کرتاہے۔
اس قسم کے ستارے وسیع خلا (space) میں سیکڑوں کی تعداد میں معلوم کیے گئے ہیں۔ مزید عجیب بات یہ پائی گئی ہے کہ یہ ستارے اکثر جوڑے جوڑے ہیں، جو ایک دوسرے کے گرد گھومتےرہتے ہیں۔ کائنات میں انرجی پیدا ہونے کا سب سے طاقت ور عمل جو اب تک سائنس دانوں نے دریافت کیا ہے، وہ تھرمونیوکلیر ری ایکشن (Thermonuclear Reaction) ہے۔ مگر کویزار سے خارج ہونے والی بے پناہ طاقت کی توجیہہ کے لیے وہ ناکافی ہے۔ قیاس ہے کہ کویزار میں انرجی پیدا ہونے کا طریقہ مکمل طورپر کوئی دوسرا طریقہ ہے، جو دیگر ستاروں میں نہیں پایا جاتا۔
A quasar (also known as a quasi-stellar object [QSO]) is an extremely luminous active galactic nucleus (AGN), in which a supermassive black hole with mass ranging from millions to billions of times the mass of the Sun is surrounded by a gaseous accretion disk. As gas in the disk falls towards the black hole, energy is released in the form of electromagnetic radiation, which can be observed across the electromagnetic spectrum. The power radiated by quasars is enormous: the most powerful quasars have luminosities thousands of times greater than a galaxy such as the Milky Way.
(www.en.wikipedia.org/wiki/Quasar [accessed on 02.04.2020])
نعمتوں سے بھری ہوئی یہ زمین اللہ کے جمال کی مظہر (manifestation of beauty) ہے، اور خلا (space) کے دہشت ناک ستارے اللہ کے جلال کا مظہر (manifestation of majesty)ہیں۔ لائف سپورٹ سسٹم والی یہ زمین اگر جنتی زندگی کی علامت ہے تو ستاروں (stars) کی شکل میں دہکتے ہوئے شعلے جہنم کی یاد دلاتےہیں۔ آدمی اگر زمین وآسمان کی ان نشانیوں (signs)پر غور کرے تو اس کا سینہ خدا کی یاد سے بھر جائے گا۔اس حقیقت کی طرف قرآن میں ان الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے: إِنَّ فِی خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ لَآیَاتٍ لِأُولِی الْأَلْبَابِ (3:190)۔ یعنی آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات دن کے باری باری آنے میں عقل والوں کے لیے بہت نشانیاں ہیں۔
واپس اوپر جائیں

زیادہ عجیب، کمتر عجیب

کہا جاتا ہے کہ خدا کی بنیاد پر کائنات کی توجیہہ کرنا اصل مسئلے کا حل نہیں۔ کیوں کہ پھر فوراً یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ اگر خدانے کائنات کو بنایاتو خدا کو کس نے بنایا۔
مگر یہ ایک غیر منطقی سوال ہے۔ اصل مسئلہ ’’بےسبب‘‘ خدا کو ماننا نہیں ہے۔ بلکہ دو ’’بے سبب‘‘ میں سے ایک بے سبب کو ترجیح دینا ہے۔ صورتِ حال یہ ہے کہ ہمارے سامنے ایک پوری کائنات موجود ہے۔ ہم اس کو دیکھتے ہیں۔ ہم اس کا تجربہ کررہے ہیں۔ ہم کائنات کے وجود کو ماننے پر مجبور ہیں۔ ایک شخص خدا کو نہ مانے، تب بھی عین اسی وقت وہ کائنات کو مان رہا ہوتا ہے۔
اب ایک صورت یہ ہے کہ آدمی کائنات کو بے سبب مانے۔ مگر اس قسم کا عقیدہ ممکن نہیں۔ کیوں کہ کائنات میں تمام واقعات بہ ظاہر اسباب وعلل کی صورت میں پیش آتے ہیں۔ ہر واقعے کے پیچھے ایک سبب کار فرما ہے۔ اس طرح خود کائنات کی اپنی نوعیت ہی یہ چاہتی ہے کہ اس کے وجود کا ایک آخری سبب ہو۔ جب کائنات کے حال کا ایک سبب ہے تو اس کے ماضی کا بھی لازمی طورپر ایک سبب ہونا چاہیے۔ یعنی وہی چیز جس کو علت العلل کہا گیا ہے۔
بے سبب کائنات کو ماننا ممکن نہیں، اس لیے لازم ہے کہ ہم اس کا ایک سبب مانیں۔ کائنات لازمی طورپر اپنا ایک آخری سبب چاہتی ہے۔ یہی منطق اس کو لازمی قرار دیتی ہے کہ ہم خدا کو مانیں۔ اس لا ینحل مسئلہ کو حل کرنے کی دوسری کوئی بھی تدبیر ممکن نہیں۔ جب ہم بے سبب خدا کو مانتےہیں تو ہم دو ممکن ترجیحات میں سے آسان تر کو ترجیح دیتے ہیں۔ بے سبب خدا کو مان کر ہم اپنے آپ کو بے سبب کائنات کو ماننے کے ناممکن عقیدہ سے بچا لیتے ہیں۔
خدا کو ماننا عجیب ہے۔ مگر خدا کو نہ ماننا اس سے بھی زیادہ عجیب ہے۔ خدا کو مان کر ہم صرف زیادہ عجیب کے مقابلے میں کم عجیب کو اختیار کرتےہیں۔
یہ صرف خدا کے وجود کا معاملہ نہیں ۔ خالص سائنسی نقطۂ نظر سے، اس دنیا میں کوئی بھی چیز نہ ثابت(prove) کی جاسکتی، اور نہ غیر ثابت (disprove) کی جاسکتی۔ کسی بھی چیز کو ماننے کے معاملے میں یہاں انتخاب (option) ثابت شدہ (proved) اور غیر ثابت شدہ (unproved)کے درمیان نہیں۔ بلکہ ہر انتخاب ورک ایبل (workable)اور نان ورک ایبل (non-workable) کے درمیان ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر اہلِ سائنس عام طورپر کشش (gravity)کے نظریے کو مانتے ہیں۔ مگر یہ ماننا اس لیے نہیں کہ کشش ثقل کوئی ثابت شدہ نظریہ ہے۔ نیوٹن نے سیب کو درخت سے گرتے ہوئے دیکھ کر یہ سوال کیا تھا کہ سیب نیچے کیوں آیا، اور پھر تحقیق کرکے اس نے کششِ ارض کا نظریہ دریافت کیا۔ مگر ایک سائنس داں نے کہا کہ نیوٹن کو اس پر تعجب ہوا تھا کہ سیب نیچے کیوں آیا۔ مجھے یہ تعجب ہے کہ سیب اوپر کیسے گیا۔درخت کی جڑ نیچے کی طرف جاتی ہے، اور اس کا تنہ اوپر کی طرف۔ اگر جڑ کے نیچے جانے کا سبب یہ بتایا جائے کہ زمین میں کشش ہے تو تنہ اور شاخوں کے اوپر جانے کی توجیہہ کس طرح کی جائے گی۔
یہی معاملہ تمام سائنسی نظریات کا ہے۔ سائنس میں جب بھی کسی نظریے (theory)کو مانا جاتا ہے تو وہ غیرثابت شدہ کے مقابلے میں ثابت شدہ کو ماننا نہیں ہوتا۔ بلکہ نان ورک ایبل تھیری (non-workable theory)کے مقابلے میں ورک ایبل تھیری (workable theory) کو ماننا ہوتا ہے۔ ٹھیک یہی اصول نظریۂ خدا کے معاملے میں بھی چسپاں ہوتاہے۔
کشش کے معاملے میں ہمارے لیے جو انتخاب ہے وہ کشش رکھنے والے مادہ اور بےکشش مادہ میں نہیں ہے۔ بلکہ کشش رکھنے والے مادہ اور غیر موجود مادہ میں ہے۔ چونکہ غیرموجود مادے کا نظریہ ورک ایبل نہیں ہے۔ اس لیے ہم نے کشش رکھنے والے مادہ کا انتخاب لے رکھا ہے، خالص علمی اعتبار سے یہی معاملہ خدا کے عقیدہ کا بھی ہے۔
کائنات کےاندر تخلیق کی صلاحیت نہیں، وہ اپنے اندر کے ایک ذرے کو نہ گھٹا سکتی، اور نہ بڑھا سکتی۔ اس لیے، دوسرے تمام سائنسی نظریات کی طرح، یہاں بھی ہمارے لیے انتخاب با خدا کائنات (universe with God) اور بے خدا کائنات(universe without God) میں نہیں ہے۔ بلکہ با خدا کائنات اور غیر موجود کائنات (non-existent universe) میں ہے۔ چونکہ ہم غیر موجود کائنات کا انتخاب نہیں کرسکتے۔ اس لیے ہم مجبور ہیں کہ باخدا کائنات کے نظریے کا انتخاب کریں۔
واپس اوپر جائیں

سائنس اور خدا

بہ ظاہر سائنس خدا کے بارے میں غیر جانب دار ہے۔ مگر یہ غیر جانب داری سراسر مصنوعی ہے۔ سائنسی مطالعہ واضح طورپر یہ بتاتا ہے کہ کائنات کا نظام ایسے محکم انداز میں بنا ہے کہ اس کے پیچھے ایک خالق کو مانے بغیر اس کی توجیہہ ممکن نہیں۔ سرجیمز جینز نے 1932 میںکہا تھا کہ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ کائنات کا نقشہ ایک خالص ریاضی داں نے تیار کیا ہے:
In 1932, Sir James Jeans, an astrophysicist said: “The universe appears to have been designed by a pure mathematician”. (Encyclopedia Britannica [1984] 15/531)
سر جیمز جینز نے جو بات کہی تھی، دوسرے متعدد سائنس دانوں نے بھی مختلف الفاظ میں اس کا اقرار کیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ کائنات کا ریاضیاتی اصولوں پر بننا، اور اس کا ریاضیاتی اصولوں پر حرکت کرنا، اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کے پیچھے ایک ایسا ذہن کام کررہا ہے، جو ریاضیاتی قوانین کا شعور رکھتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

حکمت ِ تخلیق

12 جون 2009کو میںنے ایک خوا ب دیکھا۔ میںنے دیکھا کہ ایک شخص مجھ سے انگریزی زبان میں کچھ کہہ رہا ہے۔ دورانِ گفتگو اُس نے کہا کہ اگر خدا ہے، اور خدا نے موجودہ دنیا کو پیدا کیا ہے تو ہماری زندگی میں اتنی زیادہ سفرنگ (suffering) کیوں:
If there is a God, and God has created the world, then why there is so much suffering in our lives?
اِس خواب کا سوال مجھے یاد ہے، لیکن اس کا جواب مجھے یاد نہیں۔ تاہم میں کہوں گا کہ دنیا کی زندگی میں ہم کو جو مصیبتیں پیش آتی ہیں، وہ مصیبتیں نہیں ہیں۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ چیلنج ہیں۔ وہ انسانی ذہن کو جگاتی ہیں۔ وہ انسان کی عملی قوتوں کو متحرک کرتی ہیں۔ یہ مصیبتیں ہمارے لیے ایک مثبت تجربہ ہیں، وہ کوئی منفی تجربہ نہیں۔
خدا کی تخلیق کے مطابق، اِس دنیا میں ہر چیز کو پوٹنشیل (potential) کے روپ میں پیدا کیاگیا ہے۔ اِس کے ساتھ انسان کو غیر معمولی دماغ دیاگیا ہے۔ انسان کا کام یہ ہے کہ وہ اپنی دماغی صلاحیتوں کو استعمال کرے، اور پوٹینشیل کو ایکچول (actual) میں تبدیل کرے۔
زندگی کانظام اگر اِس طرح ہو کہ یہاں آدمی کو کوئی مسئلہ پیش نہ آئے تو اس کی زندگی میں کوئی ہلچل پیدانہیں ہوگی، اس کی زندگی میںکوئی طوفان نہیں آئے گا۔ ایسا انسان ایک جامد انسان ہوگا۔ وہ حیوان کی مانند جیے گا، اور حیوان کی مانند زندگی گزار کر مرجائے گا۔ لیکن فطرت کا یہ نقشہ نہیں۔ فطرت کا مطلوب انسان وہ ہے، جو حقیقتوں کا سامنا کرے، جو ہلچل کے واقعات کو اپنی شخصیت کی مثبت تعمیر میں استعمال کرے، جو اپنی ذات میں چھپے ہوئے امکانات کو اپنی جدوجہد سے واقعہ (actual) بنائے۔ جو ناموافق حادثات کو اپنے موافق بنانے کا کارنامہ انجام دے، جو معمولی انسان کی حیثیت سے پیدا ہو، اور جب وہ مرے تو وہ ایک غیر معمولی انسان بن چکا ہو۔
واپس اوپر جائیں

علم کا سفر

قرآن خدا کی کتاب کی حیثیت سے ساتویں صدی عیسوی کے نصف اول میں اترا۔ اس وقت ساری دنیا میں توہم پرستی کا کلچر رائج تھا۔ قرآن کے بعد علمی دریافتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ دور بیسویں صدی عیسوی میں اپنی تکمیل تک پہنچا۔ قرآن کی صداقت کا یہ علمی ثبوت ہے کہ بعد کی علمی تحقیقات قرآن کی باتوں کی تصدیق بنتی چلی گئیں۔ اس سلسلے میں برٹش سائنسداں سرجیمس جینز کا ایک اقتباس یہاں نقل کیا جاتا ہے:
The stream of knowledge is heading towards a non-mechanical reality;kthe universe begins to look more like a great thought than like a great machine. (The Mysterious Universe, James Jeans, p. 137)
یہ بات برٹش سائنسداںنے 1930 میں کہی تھی۔ اس کے بعد کی تمام دریافتیں اس بات کی تصدیق بنتی چلی گئیں کہ حقیقت کا جو تصور قرآن میں دیاگیا ہے، وہی درست تصور ہے۔ اس درمیان سائنسی دریافتوں کے ذریعے ملحدانہ تصورات رد ہوتے چلے گئے، اور موحدانہ تصورات ثابت شدہ بنتے چلے گئے۔
مثلاً قدیم ملحدین یہ سمجھتے تھے کہ کائنات ابدی ہے، وہ جیسی آج ہے ،ویسی ہی وہ ابد سے چلی آرہی ہے، اس لیے کائنات کو خالق کی کوئی ضرورت نہیں۔ مگر بعد کی سائنسی تحقیقات نے یہ ثابت کیا کہ کائنات کا ایک آغاز ہے۔ 13 بلین سال پہلے بگ بینگ (Big Bang) کی صورت میں کائنات کا آغاز ہوا۔اسی طرح قدیم ملحدین مانتے تھے کہ کائنات میں کوئی نظم نہیں،مگر موجودہ زمانے میں سائنسی تحقیقات سے یہ ثابت ہوا کہ کائنات میںایک ذہین ڈیزائن (intelligent design) ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سائنس کی تمام دریافتیں مذہبِ توحید کی تصدیق کرتی ہیں، خواہ براہِ راست طورپرہوں، یا بالواسطہ طورپر۔
واپس اوپر جائیں

سائنس توحید کی طرف

علم طبیعیات میں ، نیوٹن کے بعد سے یہ سمجھا جاتا رہاہے کہ چار قسم کے قوانین یا طاقتیں ہیں، جو فطرت کے مختلف مظاہر کو کنٹرول کرتی ہیں:
1۔ قوت کشش (Gravitational Force)
2۔برقی مقناطیسی قوت (Electromagnetic Force)
3۔ طاقت ور نیو کلیر قوت (Strong Nuclear Force)
4۔ کمزور نیوکلیر قوت (Weak Nuclear Force) ۔
کشش کا قانون، ایک کہانی کے مطابق، نیوٹن نے اس وقت معلوم کیا جب کہ اس نے سیب کے درخت سے سیب کو گرتے ہوئے دیکھا۔ ’’سیب اوپر کی طرف کیوں نہیں گیا، نیچے زمین پر کیوں آیا۔‘‘ اس سوال نے اس کو اس جواب تک پہنچایا کہ زمین میں، اور اسی طرح تمام دوسرے کروں میں، جذب وکشش کی قوت کار فرماہے۔ بعد کو آئن سٹائن نے اس نظریےمیں بعض فنی اصلاحات کیں۔ تاہم اصل نظریہ اب بھی سائنس میں ایک مسلّمہ اصولِ فطرت کے طور پر مانا جاتاہے۔ برقی مقناطیسی قانون کا تجربہ پہلی بار فریڈے (Michael Faraday [1791-1867]) نے 1831میں کیا۔ اس نے دکھایا کہ بجلی کی قوت اور مقناطیس کی قوت ایک دوسرے سے گہرا تعلق رکھتی ہیں۔ مقناطیس اور حرکت کو یکجا کیا جائے تو بجلی پیداہوجاتی ہے، اور مقناطیس اور بجلی کی لہر کو یکجا کریں تو حرکت وجود میں آجاتی ہے ۔
ابتدائی 50 سال تک تمام طبیعی واقعات کی توجیہہ کے لیے مذکورہ دو قوانین کافی سمجھے جاتے تھے۔ مگر موجودہ صدی کے آغاز میں جب ایٹم کے اندرونی ڈھانچے کی بابت معلومات میں اضافہ ہوا،اور یہ معلوم ہوا کہ ایٹم سے بھی چھوٹے ذرات ہیں جو ایٹم کے اندر کام کررہے ہیں تو طبیعی نظریات میں تبدیلی شروع ہوگئی۔ یہیں سے طاقت ور نیوکلیر فورس اور کمزور نیو کلیر فورس کے نظریات پیداہوئے۔ ایٹم کا اندرونی مرکز (نیوکلیس) الکٹران سے گھرا ہوا ہے، جو کہ پروٹان نامی ذرات سے بہت زیادہ چھوٹے اور ہلکے ہیں۔ مگر مطالعہ بتاتا کہ ہر الکٹران وہی چارج رکھتا ہے، جو بھاری پروٹان رکھتے ہیں۔ البتہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ الکٹران میں منفی برقی چارج ہوتاہے، اور پروٹان میں مثبت برقی چارج۔ الکٹران ایٹم کے بیرونی سمت میں اس طرح گردش کرتے ہیں کہ ان کے اور ایٹم کے مرکز (نیوکلیس) کے درمیان بہت زیادہ خلا ہوتا ہے۔مگر منفی چارج اور مثبت چارج دونوں میں برابر برابر ہوتے ہیں، اور اس بنا پر ایٹم بحیثیت مجموعی برقی اعتبار سے نیوٹرل (neutral) اور قائم (stable) رہتا ہے۔
اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ ایٹم کا مرکز بطور خود قائم (stable) کیوں کر رہتا ہے۔ الکٹران اور پروٹان الگ الگ ہو کر بکھر کیوں نہیں جاتے۔ قائم رہنے (stability) کی توجیہہ طبیعیاتی طورپر یہ کی گئی ہے کہ پروٹان اور نیوٹران کے قریب ایک نئی قسم کی طاقتور قوتِ کشش موجود ہوتی ہے۔ یہ قوت ایک قسم کے ذرات سے نکلتی ہے جن کومیسن (Mesons)کہاجاتاہے۔ ایٹم کےاندر پروٹان اور نیوٹران کے ذرات بنیادی طور پر یکساں (identical)سمجھے جاتے ہیں۔ مقناطیس کے دو ٹکڑوں کو لیںاور دونوں کے یکساں رخ (ساؤتھ پول کو ساؤتھ پول سے یا نارتھ پول کو نارتھ پول سے) ملائیں تو وہ ایک دوسرے کو دور پھینکیں گے۔ اس معروف طبیعی اصول کے مطابق پروٹان اور نیوٹران کوایک دوسرے سے بھاگنا چاہیے۔ مگر ایسا نہیں ہوتا۔ کیونکہ پروٹان اور نیوٹران ہر لمحہ بدلتے رہتے ہیں، اوراس بدلنے کے دوران میسن کی صورت میں قوت خارج کرتے ہیں، جوان کو جوڑتی ہے۔ اسی کا نام طاقت ور نیوکلیر فورس ہے۔ اسی طرح سائنس دانوں نے دیکھا کہ بعض ایٹم کے کچھ ذرات (نیوٹران میسن) اچانک ٹوٹ جاتے ہیں۔ یہ صورتِ حال مثلاً ریڈیم میں پیش آتی ہے۔ ایٹم کے ذرات کا اس طرح اچانک ٹوٹنا طبیعیات کے مسلّمہ اصولِ تعلیل (causality) کے خلاف ہے۔ کیوں کہ پیشگی طورپر یہ نہیں بتایا جاسکتاکہ ایٹم کے متعدد ذرات میں سے کون سا ذرہ پہلے ٹوٹے گا۔ اس کا مدار تمام تر اتفاق پر ہے۔ اس مظہر کی توجیہہ کے لیے ایٹم میں جو پر اسرار طاقت فرض کی گئی ہے، اسی کا نام کمزور نیوکلیر فورس ہے۔ سائنس داں یہ یقین کرتے رہے ہیں کہ انھیں چار طاقتوں کے تعامل (interactions) سے کائنات کے تمام واقعات ظہور میں آتےہیں۔ مگر سائنس عین اپنی فطرت کے لحاظ سے ہمیشہ وحدت کی کھوج میں رہتی ہے۔ کائنات کا سائنسی مشاہدہ بتاتا ہے کہ پوری کائنات انتہائی ہم آہنگ ہو کر چل رہی ہے۔ یہ حیرت ناک ہم آہنگی اشارہ کرتی ہے کہ کوئی ایک قانون ہے، جو فطرت کے پورے نظام میں کار فرما ہے۔ چنانچہ طبیعیات مستقل طورپر ایک متحدہ اصول(unified theory)کی تلاش میں ہے۔ سائنس کا ’’ضمیر‘‘ متواتر اس جدوجہد میں رہتاہے کہ وہ قوانینِ فطرت کی تعداد کو کم کرے اور کوئی ایک ایسا اصولِ فطرت (principle of nature) دریافت کرے جو تمام واقعات کی توجیہہ کرنے والا ہو۔
آئن اسٹائن نے مذکورہ قوانین میں سے پہلے دو قوانین کشش اور برقی مقناطیسیت کے اتحاد (unification)کی کوشش کی، اور اس میں 25 سال سے زیادہ مدت تک لگا رہا ،مگر وہ کامیاب نہ ہوسکا۔ کہاجاتاہے کہ اپنی موت سے کچھ پہلے اس نے اپنے لڑکے سے کہا تھاکہ میری تمنا تھی کہ میں اور زیادہ ریاضی جانتا تاکہ اس مسئلے کو حل کرلیتا۔
ڈاکٹر عبد السلام (1926-1996) اور دوسرے دو امریکی سائنس دانوں ،شیلڈن لی گلاشو (Sheldon Lee Glashow [b. 1932]) اور وین برگ(Steven Weinberg [b. 1933]) کو 1979 میں طبیعیات کا جو مشترکہ نوبل انعام ملا ہے، وہ ان کی اسی قسم کی ایک تحقیق پر ہے۔ انھوںنے مذکورہ قوانین فطرت میں سے آخری دو قانون (طاقتور اور کمزور نیو کلیر فورس) کو ایک واحد ریاضیاتی اسکیم میں متحدکردیا۔ اس نظریے کا نام جی ایس ڈبلیو نظریہ (G-S-W Theory) رکھا گیا ہے۔ اس کے ذریعے انھوں نے ثابت کیا ہے کہ دونوں قوانین اصلاً ایک ہیں۔ اس طرح انھوںنے چار کی تعداد کو گھٹا کر تین تک پہنچا دیا ہے۔
سائنس اگرچہ اپنے کو ’’کیاہے‘‘ کے سوال تک محدود رکھتی ہے، وہ ’’کیوں ہے‘‘ کے سوال تک جانے کی کوشش نہیں کرتی۔ تاہم یہ ایک واقعہ ہے کہ سائنس نے جو دنیا دریافت کی ہے، وہ اتنی پیچیدہ اور حیرت ناک ہے کہ اس کو جاننے کے بعد کوئی آدمی ’’کیوں ہے‘‘ کے سوال سے دوچار ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ میکسویل (James Clerk Maxwell [1831-1879]) وہ شخص ہے، جس نے برقی مقناطیسی تعامل (electromagnetic interaction)کے قوانین کو ریاضی کی مساواتوں (equations) میں نہایت کامیابی کے ساتھ بیان کیا۔ انسان سے باہر فطرت کاجو مستقل نظام ہے اس میں کام کرنے والے ایک قانون کا انسانی ذہن کی بنائی ہوئی ریاضیاتی مساوات میں اتنی خوبی کے ساتھ ڈھل جانا اتنا عجیب تھاکہ اس کو دیکھ کر بولٹزمن بے اختیار کہہ اٹھا— کیا یہ خدا تھا جس نے یہ نشانیاں لکھ دیں جو دل میں حیرت انگیز خوشی بھر دیتا ہے :
Was it a God that wrote these signs, revealing the hidden and mysterious forces of nature around me, which fill my heart with quiet joy?
واپس اوپر جائیں

دریافت کی اہمیت

انسان کے لیے سب سے زیادہ اہم چیزدریافت ہے۔ دریافت ہی سے دنیا کی ترقیاں بھی ملتی ہیں، اور دریافت ہی سے آخرت کی ترقیاں بھی۔قرآن کا مطلوب انسان وہ ہے، جو غیب پر ایمان لائے (البقرۃ، 2:3)۔ غیب پر ایمان لانا کیا ہے۔ یہ دوسرے لفظوں میں نامعلوم کو معلوم بنانا ہے۔ یعنی وہی چیز جس کو موجودہ زمانے میں دریافت (discovery) کہا جاتا ہے۔
دنیوی ترقی کے رازوں کو خدا نے زمین وآسمان کے اندر چھپا دیا ہے۔ ان رازوں کو قوانین ِفطرت کہا جاتا ہے۔ سائنس میں انھیں رازوں (یا قوانین فطرت) کو دریافت کیا جاتا ہے۔ جوقوم ان رازوں کو دریافت کرے وہ دوسروں سے آگے بڑھ جاتی ہے۔ جیسا کہ موجودہ زمانے میں ہم مغربی اقوام کو یا ایشیا میں جاپان کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔ ترقی یافتہ قوموں کو تمام ترقیاں انھیں دریافتوں کی بنیاد پر حاصل ہوئی ہیں۔اسی طرح عالم آخرت کو اللہ تعالیٰ نے انسان کی نظروں سے پوشیدہ کردیا ہے۔ اب انسان کو اسے دریافت کرنا ہے۔ جوچیز غیب میں ہے اس کو شہود میں لانا ہے۔ اسی دریافت یا اکتشاف کا نام ایمان ہے۔ جو شخص اس ایمان میں جتنا زیادہ آگے ہوگا، وہ آخرت میں اتنا ہی زیادہ ترقی اور کامیابی حاصل کرے گا۔
واپس اوپر جائیں

بامعنی کائنات

اندازہ کیا گیا ہے کہ ہماری قریبی کہکشاں ایک لاکھ سال نور (light years)کی وسعت میں پھیلی ہوئی ہے۔ اس کہکشاں کے اندر تین لاکھ ملین ستارے پائے جاتے ہیں۔ ہمارا شمسی نظام اس کے مرکز سے 27 ہزار سال نور کے فاصلے پر واقع ہے۔ کہکشاں کے اکثر ستارے ممکن طور پر کسی نہ کسی قسم کے سیاروں (planets)کا سلسلہ رکھتے ہیں۔ مگر ان میں سے اکثر سیارے زندگی کے لیے غیر موزوں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے ستارے سے یا تو بہت زیادہ قریب ہیں یا بہت زیادہ دور ہیں۔ تاہم چوں کہ ستاروں کی تعداد بہت زیادہ ہے، خالص حسابی اعتبار سے یہ امکان ہے کہ بہت سے سورج جیسے ستارے ہوں، اور اسی طرح بہت سے زمین جیسے سیارے:
It is estimated that our Milky Way galaxy, which is 100,000 light years across, is composed of over 300,000 million stars. Our solar system is situated 27,000 light years away from the centre. Most of the stars are likely to have planets of some sort. But most of these planets will be unsuitable for life, because they are either too near or too far from their parent star. Yet because the number of stars is so great, there must, by sheer statistical probability, be many sun-like stars and earth-like planets. (The Hindustan Times, July 31, 1986, p. 9)
تاہم بے شمار سیاروںمیں صرف زمین واحد سیارہ ہے، جہاںلائف سپورٹ سسٹم (life support system)پایا جاتا ہے۔ لائف سپورٹ سسٹم کیا ہے۔ وہ فطری اسٹرکچر اور نظام، جس کے ذریعے زندگی کے لیے لازمی چیزیں مہیا کی جاتی ہیں۔ مثلاً آکسیجن، کاربن ڈائی آکسائڈ، کھانا، پانی، ناکارہ اشیا کی نکاسی، ٹمپریچر اور دباؤ کو مینج کرنا، وغیرہ:
The natural structures and systems that provides all of the elements essential for maintaining physical well being, as for example, oxygen, carbon dioxide, food, water, disposal of body wastes, and control of temperature and pressure, etc.
اسی فطری نظام کی وجہ سے زمین انسانوں جیسی زندہ مخلوق کے لیے قابلِ رہائش ہے۔ اس قسم کا کوئی اور سیاراتی نظام ابھی تک ساری کائنات میں معلوم نہ کیا جاسکا۔ موجودہ زمانے میں سائنس کا ایک مستقل شعبہ وجود میں آیا ہے، جس کو ایس ای ٹی آئی(SETI) کہاجاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے — بالائے خلا ذہانت کی تلاش :
Search for Extra-Terrestrial Intelligence
زندگی کے ارتقائی نظریے کے تحت سائنس دانوں کا گمان ہے کہ کائنات کے دوسرے مقامات پر بھی انسان جیسی ذہین مخلوق ہونی چاہیے۔ کیوں کہ ارتقائی عمل عموم چاہتا ہے، ارتقائی عمل میں استثناکے لیے کوئی جگہ نہیں۔اس فرضی قیاس پر جدید انسان کو اتنا زیادہ یقین ہے کہ ایک امریکن سائنسی مصنف اسحاق اسیمو (Isaac Asimov [1920-1992]) نے حساب لگا کر اعلان کیا ہے کہ ہماری کہکشاں میں چار سو ملین سیارے ایسےہیں، جن میں پودے اور جانور پائے جاتے ہیں یا پائے جاسکتے ہیں۔ مگر یہ سب کا سب محض حسابی قیاس ہے۔
سورج ایک اوسط درجے کا ستارہ ہے۔ اس کا قطر(diameter) آٹھ لاکھ 65 ہزار میل ہے۔ وہ ہماری زمین سے تقریباً بارہ لاکھ گُنا بڑا ہے۔ سورج کی سطح پر جو حرارت ہے اس کا اندازہ بارہ ہزار ڈگری فارن ہائٹ ٹمپریچر کیا گیا ہے۔ زمین سے سورج کا فاصلہ تقریباً نو کرور 30 لاکھ میل ہے۔ یہ فاصلہ حیرت انگیز طورپر مسلسل قائم ہے۔ یہ واقعہ ہمارے لیے بے حد اہمیت رکھتا ہے۔ کیوں کہ اگر یہ فاصلہ گھٹ یا بڑھ جائے تو زمین پر انسان جیسی مخلوق کی آبادکاری ناممکن ہوجائے۔مثلاً اگر ایسا ہو کہ سورج نصف کے بقدر ہم سے قریب ہوجائے تو زمین پر اتنی گرمی پیدا ہو کہ اس کی شدت سے کاغذ جلنے لگے۔ اس کے برعکس، اگر زمین اور سورج کا موجودہ فاصلہ دگنا سے زیادہ ہوجائے تو اتنی ٹھنڈک پیدا ہو کہ زمین پر زندگی جیسی چیز باقی نہ رہے۔ یہی صورت اس وقت پیدا ہوگی، جب کہ موجودہ سورج کی جگہ کوئی دوسرا غیر معمولی ستارہ آجائے۔ مثلاً ایک ستارہ ہے، جس کی گرمی ہمارے سورج سے اسی ہزار گنا زیادہ ہے، اگر وہ سورج کی جگہ ہوتا تو پوری زمین کو آگ کی بھٹی بنا دیتا۔
واپس اوپر جائیں

سب سے بڑا المیہ

انسانی تاریخ کا شاید سب سے بڑا المیہ (tragedy) یہ ہے کہ انسان معرفتِ اعلیٰ کے حصول سے محروم رہا۔ خدا کی معرفت کا ذریعہ، خدا کی تخلیقات میں غور و فکر کرناہے۔ جدید سائنسی دور سے پہلے انسان تخلیقاتِ الٰہی کے بارے میں بہت کم جانتا تھا۔ چنانچہ قدیم زمانے میں معرفتِ اعلیٰ تک پہنچنے کے لیے فریم ورک ہی موجود نہ تھا۔
موجودہ زمانے میں سائنسی انقلاب کے بعد انسان کو اعلیٰ فریم ورک حاصل ہوا۔ جس کی پیشگی خبر قرآن میں ان الفاظ میں دی گئی ہے:سَنُرِیہِمْ آیَاتِنَا فِی الْآفَاقِ وَفِی أَنْفُسِہِمْ حَتَّى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُ الْحَقُّ (41:53)۔ لیکن موجودہ زمانے میں جب یہ آفاقی یا سائنسی فریم ورک ظہور میں آیا تو عین اُسی وقت تمام دنیا کے مسلمان سیاسی ردّ ِعمل کے نتیجے میں منفی سوچ کا شکار ہوگئے۔ اس طرح وہ مثبت سوچ سے محروم رہے۔
قدیم زمانے کے انسان کے لیےسائنسی فریم ورک نہ ہو نے کی بنا پر معرفتِ اعلیٰ تک پہنچنا مشکل تھا۔ موجودہ زمانے میں سائنسی فریم ورک کے ظہور کے باوجود انسان معرفتِ اعلیٰ تک نہیں پہنچا، اور اس کا سبب یہ تھا کہ موجودہ زمانے کا انسان مثبت سوچ سے محروم ہو گیا۔ یہ بلاشبہ انسان کی سب سے بڑی محرومی تھی۔ اللہ کی معرفتِ اعلی کسی انسان کے لیے سب سے بڑی نعمت ہے۔ ہر انسان کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ معرفت اعلی تک پہنچ سکے۔ لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو منفی سوچ سے مکمل طور پر بچائے۔ وہ ہر حال میں مثبت سوچ میں جینے والا بنے۔ جو لوگ اس شرط کو پورا کریں وہ یقیناً معرفتِ اعلی تک پہنچنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
یہ تاریخ کا المیہ ہے کہ بیشتر انسان کسی نہ کسی بات کو لے کر منفی سوچ کا شکار ہوگئے۔ وہ مثبت سوچ (positive thinking) پر قائم نہ رہ سکے۔ اس بنا پر وہ معرفت کا وعایہ (container) نہیں بنے۔ معرفت اعلی سے محرومی کی یہی سب سے بڑی وجہ ہے۔
واپس اوپر جائیں

معبود کی طلب

اندرن نکولائیف(Andriyan Grigoryevich Nikolayev) روس کا خلائی مسافر ہے۔ اس کی پیدائش1929 میں ہوئی، اور وفات 2004 میں۔1962 میں اس نے پہلی مرتبہ خلا میں پرواز کیا۔ اس خلائی پرواز سےواپسی کے بعد 21 اگست 1962کو ماسکو میں اس نے ایک پریس کانفرنس میں حصہ لیا۔ اس کانفرنس میں اس نےاپنا خلائی تجربہ بیان کرتے ہوئے کہا:
جب میں زمین پر اترا تو میرا جی چاہتا تھا کہ میں زمین کو چوم لوں۔
انسان جیسی ایک مخلوق کے لیے زمین پر جو بے حساب موافق سامان جمع ہیں، وہ معلوم کائنات میں کہیں بھی نہیں۔ روسی خلا باز جب زمین سے دور خلا میں گیا تو اس نے پایا کہ وسیع خلا میں انسان کے لیے صرف حیرانی اور سرگشتگی ہے۔ وہاںانسان کے سکون اور حاجت براری کا کوئی سامان نہیں۔ اس تجربے کے بعد جب وہ زمین پر اترا تو اس کو زمین کی قیمت کا احساس ہوا، ٹھیک ویسے ہی جیسے شدید پیاس کے بعد آدمی کو پانی کی اہمیت کا احساس ہوتاہے۔ زمین اپنے تمام موافق امکانات کے ساتھ اس کو اتنی محبوب معلوم ہوئی کہ اس کا جی چاہا کہ اس سے لپٹ جائے اور اپنے جذباتِ محبت کو اس کے لیے نثار کردے۔
یہی وہ چیز ہے جس کو شریعت میں الٰہ بنانا کہاگیا ہے۔ آدمی خالق کونہیں دیکھتا، اس لیے وہ مخلوق کو اپنا الٰہ بنا لیتاہے۔ مومن وہ ہے جو ظاہر سے گزر کر باطن تک پہنچ جائے، جو اس حقیقت کو جان لے کہ یہ جو کچھ نظر آرہا ہے یہ کسی کا دیاہوا ہے۔ زمین میں جو کچھ ہے وہ سب کسی برتر ہستی کا پیدا کیا ہوا ہے۔ وہ مخلوق کو دیکھ کر اس کے خالق کو پالے اور خالق کو اپنا سب کچھ بنا لے۔ وہ اپنے تمام بہترین جذبات کو خداکے لیے نثار کردے۔
روسی خلاباز پر جو کیفیت زمین کو پاکر گزری وہی کیفیت مزید اضافہ کے ساتھ آدمی پر خدا کو پاکر گزرنا چاہیے۔ مومن وہ ہے جو سورج کو دیکھے تو اس کی روشنی میں خدا کے نور کو پالے۔ وہ آسمان کی وسعتوں میں خدا کی لامحدودیت کا مشاہدہ کرنے لگے۔ وہ پھول کی خوشبو میں خدا کی مہک کو پائے، اور پانی کی روانی میں خدا کی بخشش کو دیکھے۔ مومن اور غیر مومن کا فرق یہ ہے کہ غیر مومن کی نگاہ مخلوقات میں اٹک کر رہ جاتی ہے، اور مومن مخلوقات سے گزر کر خالق (Creator) تک پہنچ جاتا ہے۔ غیرمومن مخلوقات کے حسن کو خود مخلوقات کا حسن سمجھ کر انھیں میں محو ہو جاتا ہے۔ مومن مخلوقات کے حسن میں خالق کے عجائبات (wonders) دیکھتا ہے،اور اپنے آپ کو خالق کے آگے ڈال دیتا ہے۔ غیرمومن کا سجدہ چیزوں کے لیے ہوتا ہے، اور مومن کا سجدہ چیزوں کے خالق کے لیے۔
خدا کی موجودگی کا تجربہ
اپالو 15 میں امریکا کے جو تین خلا باز چاند پر گئے تھے، ان میں سے ایک کرنل جیمز اِروِن (James Irwin [1930-1991]) تھے۔ انھوںنے ایک انٹرویو میں کہا کہ اگست 1972 کا وہ لمحہ میرے لیے بڑا عجیب تھا، جب میںنے چاند کی سطح پر قدم رکھا۔ میں نے وہاں خدا کی موجودگی (God’s presence) کو محسوس کیا۔ انھوں نے کہا کہ میری روح پر اس وقت وجدانی کیفیت طاری تھی، اور مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے خدا بہت قریب ہو۔ خدا کی عظمت مجھے اپنی آنکھوں سے نظر آرہی تھی۔ چاند کا سفر میرے لیے صرف ایک سائنسی سفر نہیں تھا، بلکہ اس سے مجھے روحانی زندگی نصیب ہوئی (ٹریبون 27 اکتوبر 1972)۔
کرنل جیمز ارون کا یہ تجربہ کوئی انوکھا تجربہ نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ خدا نے جو کچھ پیدا کیا ہے،وہ اتنا حیرتناک ہے کہ اس کو دیکھ کر آدمی خالق کی صناعیوں (wonders)میں ڈوب جائے۔ تخلیق کے کمال میں ہر آن خالق کا چہرہ جھلک رہا ہے۔ مگر ہمارے گردوپیش جو دنیا ہے، اس کو ہم بچپن سے دیکھتے دیکھتے عادی ہوجاتے ہیں۔ اس سے ہم اتنا مانوس ہوجاتے ہیں کہ اس کے انوکھے پن کا ہم کواحساس نہیں ہوتا۔ ہوا اور پانی اور درخت اور چڑیا غرض جو کچھ بھی ہماری دنیا میں ہے، سب کا سب حد درجہ عجیب ہے، ہر چیز اپنے خالق کا آئینہ ہے۔ مگر عادی ہونے کی وجہ سے ہم اس کے عجوبہ پن کو محسوس نہیں کر پاتے۔ مگر ایک شخص جب اچانک چاند کے اوپر اترا، اور پہلی بار وہاں کے تخلیقی منظر کو دیکھا تو وہ اس کے خالق کو محسوس کیے بغیر نہ رہ سکا۔ اس نے تخلیق کے کارنامے میںاس کے خالق کو موجود پایا۔
ہماری موجودہ دنیا جس میں ہم رہتے ہیں، یہاں بھی ’’خدا کی موجودگی‘‘ کا تجربہ اسی طرح ہوسکتا ہے، جس طرح چاند پہنچ کر کرنل اِروِن کو ہوا۔ مگر لوگ موجودہ دنیا کو اس استعجابی نگاہ سے نہیں دیکھ پاتے، جس طرح چاند کا ایک نیامسافر چاند کو دیکھتا ہے۔اگر ہم اپنی دنیا کو اس نظر سے دیکھنے لگیں تو ہر وقت ہم کو اپنے پاس ’’خدا کی موجودگی‘‘ کا تجربہ ہو۔ ہم اس طرح رہنے لگیں جیسے کہ ہم خدا کے پڑوس میں رہ ہے ہیں اور ہر وقت وہ ہماری نظروں کے سامنے ہے۔
اگر ہم ایک اعلی درجے کی مشین کو پہلی بار دیکھیں تو فی الفور ہم اس کے ماہر انجینئر کی موجودگی کو وہاں محسوس کرنے لگتے ہیں۔ اسی طرح اگر ہم دنیا کو اور اس کی چیزوں کو گہرائی کے ساتھ دیکھ سکیں تو اسی وقت ہم وہاں خدا کی موجودگی کو پالیں گے۔ کائنات کی ہر تخلیق خالق کے وجود کی گواہی دیتی ہے۔
موجودہ دنیامیں انسان کی سب سے بڑی یافت یہ ہے کہ وہ خدا کو دیکھنے لگے، وہ اپنے پاس خدا کی موجودگی کو محسوس کرلے۔ اگر آدمی کا احساس زندہ ہو تو سورج کی سنہری کرنوں میں اس کو خدا کا نور جگمگاتاہوا دکھائی دے گا، ہرے بھرے درختوں کے حسین منظر میں وہ خدا کا روپ جھلکتا ہوا پائے  گا۔ ہواؤں کے لطیف جھونکے میں اس کو لَمسِ ربانی(divine touch) کا تجربہ ہوگا۔ اپنی ہتھیلی اور اپنی پیشانی کو زمین پررکھتے ہوئے اس کو ایسا محسوس ہوگا گویا اس نے اپنا وجود اپنے رب کے قدموں میں ڈال دیا ہے۔ خدا اپنی قدرت اور رحمت کے ساتھ ہر جگہ موجود ہے، بشرطیکہ دیکھنے والی نگاہ آدمی کو حاصل ہوجائے۔
واپس اوپر جائیں

ایک داعی کی وفات

جناب ریاض موسی صاحب ملیباری (پیدائش 1942) انڈیا کے ایک مشہور داعی تھے۔ 8جون 2020 کو 78 سال کی عمر میں کیرلا میںان کا انتقال ہوگیا۔ ان کے بیٹے مولانا عمر ریاض عمری جامعی اپنے ایک تاثراتی مکتوب میں لکھتے ہیں:
آغازِ رمضان سے لے کر کل تک والد محترم گھر میں موجود لوگوں سے اور باہر سے ملاقات کے لیے آنے والوں سے ایک ہی سوال کرتے — کیا عمر آیا ہے؟ مگر بدنصیبی یہ ہے کہ انتقال سے پہلے باپ بیٹے کی ملاقات نہ ہوسکی۔عیدالفطر کےایک یا دو دن بعد کی بات ہے کہ ہمارے بڑے بھائی شعیب ریالو کے ہمراہ والد محترم نے کالیکٹ میں اپنے دفن کی جگہ منتخب کی، اور کہا کہ مجھے یہیں دفن کیا جائے ۔
پچھلے تین دنوں سے وہ مسلسل صاحب فراش تھے ،کوئی بات چیت نہیں، کوئی تکلیف نہیں، البتہ کھانا اور پینا کم ہوگیا تھا، پھر کل یعنی 7جون کو پالاکاڈ (Palakkad)سے تیرور (Tirur) کا سفر بذریعہ کار بڑے ہی آرام و اطمینان سے کیا۔قریب رات تین بجے میرے موبائل کی گھنٹی بجی، دیکھتا ہوں تو مدینہ سے برادرم شیخ نکوا پرویز عمری مدنی لائن پر تھے ۔ انھوں نےکہا کہ کیا یہ(شیخ ریاض موسی صاحب کے وفات کی) خبر صحیح ہے؟ یہ سن کر میری نیند اڑگئی، رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ شیخ نے تسلی دی، اور کہا کہ ایک مرتبہ تحقیق کرلیں ۔ چنانچہ میں نے شعیب بھائی کو کال کیا تو سلام کے بعد ان سےیہی سننے کو ملا— إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ !
یہ سنتے ہی ایسا محسوس ہوا کہ زمین پیروںتلے کھسک گئی۔ ایسا لگا کہ چند لمحے کے لیے کائنات ساکت ہوگئی۔کتنے واقعات، اور کارناموں سے بھرپور یادوں کا ایک دور ختم ہوگیا، اوروہ اپنے بعد والوں کے لیے انہیں نشانِ راہ بناکر چلے گئے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے تدفین میں شرکت کا موقع بھی نصیب نہیں ہوا۔ اس وقت ہم کڈپہ (آندھرا )میں ہیں، اور وہ کیرلا میں۔ بس آپ تمام احباب سے دعا کی گزارش کرتا ہوں ۔ اللہ والد محترم کی خدمات کو شرفِ قبولیت سے نوازے، اور انہیں اعلی علیین میں جگہ عطا فرمائے۔آمین (مولانا عمر ریاض عمری جامعی ، آندھرا پردیش)
واپس اوپر جائیں

خدا ترس شخصیت

شیخ ریاض موسی ملیباری عرف ریالو صاحب دعوت الی اللہ کے میدان میں میرے ابتدائی معلم و مربی تھے۔ آپ کے ساتھ مجھے کئی اسفار کے مواقع ملے۔ جن کے ذریعے میں نے ریالو صاحب کو بہت قریب سے جانا ہے ۔ ریالو صاحب ایک planner اور خدا ترس انسان تھے۔ وہ لوگوں کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرتے تھے ، خدا اور آخرت کے ذکر پر خوب رویا کرتے تھے۔ مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے، جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ کتنا زیادہ خدا اور آخرت کی یاد پر رویا کرتے تھے۔
اگست2001 کی بات ہے کہ ریالو صاحب کے ساتھ میرا ایک سفر دہلی کا ہوا، جس میں ہمارے ساتھ مولانا فیاض الدین عمری (گلبرگہ)بھی تھے۔ جب ہم دہلی پہنچے تو سب سے پہلا پروگرام مولاناوحیدالدین خاں سے ملاقات کا بنا۔ مولانا فیاض عمری نےآپ سےفون پر ملاقات کا ٹائم لیا، اور ہم لوگ آپ سے ملنے کی تیاری کرنے لگے ۔اس وقت شیخ ریالو صاحب نے مولانا فیاض الدین عمری سے پوچھا کہ ہم ایک بڑے عالم سے ملنے جا رہے ہیں تو میں چاہتا ہوں کہ ان کو کوئی اچھا تحفہ (gift)دوں، آپ مشورہ دو کہ ان کے لیے کون ساتحفہ مناسب ہوگا تو مولانا فیاض صاحب نے بتایا کہ میں نے مولانا وحید الدین صاحب کی ایک ڈائری میں پڑھا ہے کہ ان کو قلم اور مسواک پسند ہیں۔ ریالو صاحب نے ایک اچھا قلم اور مسواک آپ کو تحفہ میں دینے کے لیے خریدا۔
اس کے بعد ہم لوگ مولانا وحید الدین خاں صاحب سے ملاقات کے لیے ان کے آفس (نظام الدین ویسٹ، نئی دہلی) پہنچے۔ جب ملاقات ہوئی تو ریالو صاحب نے مولانا کو یہ دونوں تحفہ پیش کیا ،اور کہا کہ ہمارے شاگرد فیاض الدین عمری (گلبرگہ،کرناٹک)نے بتایا کہ آپ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ آپ کو قلم اور مسواک پسند ہے۔ اسی لیے ہم نے آپ کو یہ تحفہ پیش کیا ہے ۔
اس وقت مولانا نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ صحیح ہے کہ میں نے ایسا لکھا ہے۔ مگر یہ میری ایک پرانی بات ہے، لیکن آج کل میں کچھ اور سوچتا رہتا ہوں ۔تو ریالو صاحب نے پوچھا کہ وہ کیا ہے؟ تو مولانا نے کہا کہ میں اب اپنی عمر کی آخری منزل پر پہنچ چکا ہوں پتہ نہیں کہ کب موت کا فرشتہ مجھے لینے آجائے اور اللہ کے سامنے حاضر کردے۔ میں خدا کے سامنے حاضر ہوکر اپنی نجات کے لیے کیا پیش کرسکتا ہوں۔
اگر میں یہ کہوں کہ میں نے اسلام پر اتنی کتابیں لکھی ہیں تو ان کی قیمت خدا کے پاس کیا ہوسکتی ہے جب کہ ایک دیا سلائی ان کتابوں کو جلاکر راکھ میں تبدیل کرنے کے لیے کافی ہے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کیفیت بیان کرتے ہوئے ایک بار یہ کہا تھا:لَنْ یُدْخِلَ أَحَدًا مِنْکُمْ عَمَلُہُ الْجَنَّةَ۔ قَالُوا:وَلَا أَنْتَ؟ یَا رَسُولَ اللہِ قَالَ:وَلَا أَنَا، إِلَّا أَنْ یَتَغَمَّدَنِیَ اللہُ مِنْہُ بِفَضْلٍ وَرَحْمَةٍ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2816)۔ یعنی تم میں سے کسی کو اس کا عمل ہرگزجنت میں داخل نہیں کرے گا۔ لوگوں نے کہا:آپ بھی نہیں، اے خدا کے رسول؟ آپ نے کہا:میں بھی نہیں۔ سوا یہ کہ اللہ مجھے اپنی رحمت اور فضل سے ڈھانک لے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خود رسول اللہ اپنے عمل سے نہیں بلکہ خدا کی رحمت سے جنت پائیں گے تو میری اور میری کتابوں کی حیثیت کیا ہوگی۔ بس میں اسی سوچ میں رہتا ہوں کہ میں خدا کی رحمت کا کیسے مستحق بن سکتا ہوں۔ یہ کہہ کر مولانا روئے جارہے تھے، اور مولانا کے ساتھ شیخ ریالو صاحب بھی زار و قطار رونے لگے۔
یہ ملاقات تقریباً ایک گھنٹے کی رہی، جس میں مولانا آخرت کی باتیں کرتے رہے اور شیخ ریالو صاحب روتے رہے ۔ یہ پوری ملاقات رونے پر ہی ختم ہوگئی۔اس واقعے سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کس طرح سے ریالو صاحب خدا اور آخرت کے ذکر پر رویا کرتے تھے بلکہ میں نے ان کو بہت سی راتوں میں تہجد کے وقت روتے ہوئے پایا ہے۔ یہ تھی شیخ ریالو صاحب کی خداترس شخصیت۔ اللہ سے دعا ہے کہ خدا ان کی گریہ و زاری کو قبول فرماکر ان کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔ آمین۔ (مولانا خطیب اسرار الحسن عمری ،چنئی)
واپس اوپر جائیں

ایگو فری شخصیت

مولانا ریاض موسیٰ صاحب ملیباری کا انتقال 8جون 2020 کو ہوا۔تقریباً 1980 سے ریاض موسیٰ صاحب کی شب و روز کی مصروفیت بس ایک ہی تھی— غیر مسلموں میں اسلامی دعوت کے لیے مسلم نوجوانوں کی ذہن سازی اور اس کاز کےلیےان نوجوانوں کی گرومنگ (grooming)۔ اس کام کے لیے انھوں نےاپنے آپ کو پوری طرح ایک ایگوفری شخص( ego free person) بنا لیاتھا۔ وہ کبھی نہ اپنی ایگو(ego) کو جاگنے دیتے اور نہ ہی کسی کی ایگو( ego)کو ہٹ(hit) کرتے۔
ایک مرتبہ کا واقعہ ہے — ریاض موسیٰ صاحب اور میںساؤتھ انڈیا سے لمبا سفر کرتے ہوئے ایک مشہور شخصیت سے ملاقات کےلیے یوپی کے شہر مئوناتھ بھنجن پہونچے۔میزبان موصوف نے اپنے گھر کے صحن میں ہمارے بیٹھنے کا اہتمام کیا، اور ہمارے لیے ضیافت کی تیاری کا اپنے اہلِ خانہ کو حکم دیا۔مگر مقصدِ سفر’’غیر مسلموں میں دعوت‘‘ کی بات پر ہمارے میزبان محترم ہم پر بہت ناراض ہوگئے اور انھوں نے ہمیں اپنے گھر سے فورا ًباہر جانے کا حکم دیا ،اور ہمارے لیے تیار ہورہی ضیافت بھی کینسل کروا دی۔
میں انتظار میں تھا کہ اب استاد محترم کا ردعمل کیا ہو تاہے دیکھوں۔مگر وہ مسلسل ایسے خاموش رہے گویا کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ ہمیں ایک شخص نے اپنے گھر سے باہر نکلوا دیا تھا، اورہمارے لیےتیار کی ہوئی ضیافت کینسل کروا دی تھی۔ انسانی فطرت کے اعتبار سے اس بے عزتی کے واقعہ کی کسک آج بھی میں محسوس کرتا ہوں، مگر ریاض موسیٰ صاحب ملیباری کے چہرے پر میں نے وہی سکون دیکھا جو اس واقعہ سے پہلے میں نےان کے چہرے پر دیکھا تھا۔ اس طرح کے واقعات اس دور میں ہمارے ساتھ اور بھی جگہوں پرپیش آ ئے۔ مگر ہر بار میرا تجربہ یہی تھا کہ وہ کبھی افنڈ( offend) نہیں ہوتے تھے۔
اس قسم کے واقعات کو وہ ایسے لیتے جیسے وہ کوئی قابلِ توجہ بات ہی نہ ہو۔ دوسرے الفاظ میں وہ اس طرح کے ناروا سلوک کو میدانِ دعوت کے ایک نارمل واقعہ کے طور پر لیتے تھے۔ بعدکے دور میں مسلم شخصیات کے پاس اوردینی اداروں میں آپ کو عمومی طور پر جو مقبولیت ملی آپ کی یہی ایگو فری شخصیت کا نتیجہ تھی۔گویاکہ ان کا اصول یہ تھا’’نہ کسی کی ایگو کو ہٹ کرواور نہ ہی اپنی ایگو کو جاگنے دو‘‘ وہ اس حکیمانہ فارمولا پر کاربند تھےجس کو انگریزی میں اس طرح کہا جاتا ہے:
simple living, high thinking
ریاض موسیٰ صاحب کی زندگی ایک سادہ اور بامقصد زندگی تھی۔ ان کی سادگی اور مقصدیت زندگی بھر باقی رہی۔ یہاں تک کہ وہ اپنی طبعی عمر پوری کرکے 8جون 2020کی صبح کی اولین ساعتوں میں اس دنیا سے رخصت ہوگئے،اور کالی کٹ کے ایک قبرستان میں اسی دن صبح کے گیارہ بجے سپرد خاک کر دیے گئے۔اللہ تعالیٰ ان کے اور ہمارے سیئات کو حسنات میں بدل دے اور وہ خدائے ذوالجلال کی خوش نودی کا انعام پائیں۔ آمین ۔(مولانا فیاض الدین عمری، گلبرگہ، کرناٹک )
واپس اوپر جائیں

جواہر لال نہرو کا واقعہ

پنڈت جواہر لال نہرو (1889-1964) بھارت کے پہلے وزیر اعظم تھے۔انھوں نے ایک بار کہا تھا کہ زندگی ایک نہایت پیچیدہ نظام ہے۔ ہم منصوبے بناتے ہیں، اور عمل کے نقشے مقرر کرتے ہیں۔ مگر کم ہی ایسا ہوتاہے کہ نتیجہ ہمارے سوچے ہوئے نقشہ کے مطابق نکلتا ہو۔ اکثر نامعلوم اسباب (unknown factors) ہمارے مفروضات پر بھاری ثابت ہوتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کچھ مخفی طاقتیں ہیں، جو انسان کی تقدیر بناتی ہیں۔
ایک انسان جو خدا میں یقین نہ رکھتا ہو، وہ اتنا ہی کہہ سکتا تھا۔ مگر مذہب اس پر یہ اضافہ کرتا ہے کہ بلاشبہ ایسی ایک مخفی طاقت ہے، جو انسان کی تقدیر بناتی ہے، اور یہ مخفی طاقت خدا ہے۔
واپس اوپر جائیں

دعوتی عمل کی منصوبہ بندی

شیخ ریاض موسی ملیباری صاحب سے پہلی بار جامعہ دارالسلام عمرآباد میں تعارف ہوا ،جب کہ وہ جگہ جگہ مسلمانوں کی دعوتی ذہن سازی کے لیے سفر کیا کرتے تھے۔ اتفاقاً جس سال میری فراغت ہوئی اسی سال باقاعدہ طور پر جامعہ دارالسلام میں ایک سالہ دعوتی کورس کا اعلان کیا گیا، جس میں دعوتی تربیت اور دعوتی دوروں کی ذمہ داری خود شیخ ریاض موسی صاحب نے لے لی ۔ دعوت کو بطور ترجیحی سرگرمی کے اپنانے کا ذہن،اور اس کو عملاً امت میں جاری کرنے کا طریقہ کیا ہوسکتا ہے، وہ میں نے شیخ ریالو صاحب سے سیکھا ہے۔
میرا پہلا دعوتی دورہ 1996میں شیخ ریالو صاحب کے ساتھ شہر آمبور(ضلع ترپاتور، تامل ناڈو) کی مسجد محی الدین پورہ میں ہوا۔اس میں بلیک بورڈ کے ذریعے سے دعوت کے متعلق دروس دیے گئے، جس میں مسلمانوں کو غیر مسلموں میں دعوت الی اللہ کی ترغیب دی گئی۔ غیر مسلموں میں دعوت کے عنوان سے مسجد واری اور مدرسہ واری تحریک جاری کرنے کےلیے شیخ ریالو صاحب زندگی بھر کوششیں کرتے رہے، جس کے سبب ہندوستان میں ایک دعوہ ٹیم وجود میں آئی، جو دعوتی مشن کو لے کر جگہ جگہ جایا کرتی ہے، یعنی دعوتی سیاحت کا عمل وجود میں آیا۔
ریالو صاحب کہا کرتے تھے کہ جس دن امت مسلمہ سے چند افراد دعوت کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے،خاص طور پر تبلیغی جماعت سے تعلق رکھنے والے حضرات کام کرنے کے لیے تیار ہوجائیں گے تو اس دن میں واپس کیرالا چلاجاؤں گا۔ غالباً 2004میں شیخ ریالو صاحب کے ساتھ منگلور (کرناٹکا) گیا ، وہاں ان کے ساتھی ڈاکٹر حبیب الرحمن سے ملاقات ہوئی ۔ڈاکٹر صاحب نے ریالو صاحب سے سوال کیا کہ آج کل آپ کیا کررہے ہیں ۔تو انہوں نے جواب دیا کہ دیکھیے مولوی حضرات کو دین کے سب کام آتے ہیں سوائے غیر مسلموں میں دعوت کے، میں آج کل مدارس کا دورہ کرکےعلما حضرات کو غیر مسلموں میں دعوت دین کا عملی طریقہ سکھارہا ہوں۔
شیخ ریالو صاحب کے ذریعے سے میرے اندر دعوتی شعور پیدا ہوا، آپ کی تربیت اور صحبت کے نتیجے میں دعوت کو میں نے اپنی زندگی میں پرائمری کنسرن بنایا۔ مگر میرے ذہن ودماغ میں دعوتی میدان کے اصولی اور علمی تقاضوں کے متعلق بہت سے سوالات تھے ،مثلاً اعلی تعلیم یافتہ طبقے میں کام کیسے کیاجائے ،دورِ جدید کی نسبت سے دعوتی تقاضےکیا ہیں ؟اسی طرح یہ کہ سائنسی ایج میں علم وایمان کے اثبات میں جو دلائل وجود میں آئے ہیں ان کو دریافت کرنے کا ذہن، مدعو سے یک طرفہ خیر خواہی کرنا، غیرمسلم حضرات کے سارے ہی طبقات کے ساتھ صرف دعوتی سلوک کو صحیح سمجھنا، ملاءِقوم کے ساتھ ناصحانہ رویہ اختیار کرنا، وغیرہ۔
یہ اور اس قسم کے اور بھی سوالات تھے، جن کے لیے مجھے رہنمائی کی ضرورت تھی ۔اللہ کے فضل سے الرسالہ مشن کے ذریعے اس کی تلافی ہوگئی۔ میں نے جس دعوتی جذبے کے تحت ریاض موسی صاحب کا ساتھ دیا تھا، اسی جذبے کے تحت میں نے الرسالہ مشن کو بھی اختیار کیا ہے۔ اللہ تعالی شیخ ریالو صاحب کی مغفرت فرمائے ،اور ہم سب کو جنت الفردوس میں جگہ دے۔ آمین۔(مولانا سید اقبال احمد عمری، عمرآباد، تامل ناڈو)
واپس اوپر جائیں

نامعلوم دنیا کا سفر

موت کیا ہے، موت معلوم دنیا سے نامعلوم دنیا کی طرف چھلانگ ہے۔ موت’’اپنی دنیا‘‘ سے نکل کر’’دوسرے کی دنیا‘‘ میں جانا ہے۔ کیسا چونکادینے والا ہے یہ واقعہ۔ مگر انسان کی یہ غفلت کیسی عجیب ہے کہ وہ اپنے چاروں طرف لوگوں کو مرتے ہوئے دیکھتا ہے، پھر بھی وہ نہیں چونکتا۔ حالاں کہ ہر مرنے والا زبان حال سے دوسروں کو بتارہا ہے کہ جو کچھ مجھ پر گزرا یہی تمھارے اوپر بھی گزرنے والا ہے۔ وہ دن آنے والا ہے جب کہ وہ کامل بے بسی کے ساتھ اپنے آپ کو فرشتوں کے حوالہ کردے۔ موت ہر آدمی کو اسی آنے والے دن کی یاد دلاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

دعوت الی اللہ

ریاض موسی صاحب ملیباری ( 1942-2020)انڈیا کے مشہور داعی تھے۔ ان کی ہمارے دل میں بہت قدر ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے مشن میں ان کا ایک مثبت رول ہے۔ ہمارے دعوتی مشن میں علما کی جو ٹیم شامل ہوئی ہے، وہ لوگ براہِ راست نہیں آئے ہیں، بلکہ ریاض موسی صاحب کے واسطے سے آئے ہیں۔پہلے ریاض موسی صاحب نے ان لوگوں کے اندر دعوتی ذہن پیدا کیا۔اگرچہ ان کا ذہن عین وہی نہیں ہے، جو ہمارا دعوتی ذہن ہے۔ بلکہ کسی قدر مختلف تھا۔ چنانچہ ایک مرتبہ ان سے عمر آباد میں بات ہوئی تو میں نے ان کے طریقِ کار پر کچھ کریٹیکل تبصرہ کیا۔اس کے جواب میں ریاض موسی صاحب نے اپنے ملیالی لہجے میں کہا تھا:ہم دعوت بھی کرے گا، عداوت بھی کرے گا۔ میں نے اس وقت یہ کہاتھا کہ عداوت چھوڑکر دعوت الی اللہ کا کام کرنا ہے۔ دعوت اور عداوت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے ہیں ۔ یہ بات شاید خود ان کی سمجھ میں نہیں آئی، مگر ان کی ٹیم کے کچھ لوگوں کو سمجھ میں آگئی۔ یہ تقریباً وہی لوگ تھے جو بعد میں ہمارے مشن میں شریک ہوئے۔
اصل یہ ہے کہ ریاض موسی صاحب کی تحریک پر جامعہ دار السلام عمر آباد (تامل ناڈو) میں علما کی تربیت کے لیے ایک دعوتی شعبہ کھولا گیا۔ اس میں ان لوگوں نے داخلہ لیا۔ بعد کو یہ لوگ ہمارے پروگرا م میں شریک ہوئے۔ انھوں نے دیکھا کہ ہمارے یہاں دعوت کا مبنی بر نصح تصور ہے۔ ان عمری لوگوں نے ہمارے لٹریچر کو پڑھا، ان لوگوں نے ہمارے پروگرام میں شرکت کی۔ اس طرح دھیرے دھیرے ان کا ذہن بدلا۔ ان لوگوںنے یہ سمجھا کہ دعوت مکمل طور پر ایک مثبت کام ہے۔ دعوت کا عمل اس کا تحمل نہیں کرسکتا کہ اس میں کوئی بھی منفی سوچ شامل کی جائے۔ اس تجربے نے ان کو متاثر کیا، اس طرح ان علما کے اندر ایک اصلاح یافتہ دعوت کا تصور پیدا ہوا۔ ان کےذہن میں مثبت سوچ پر مبنی دعوت کا تصور قائم ہوا، جو ہر قسم کے منفی سوچ سے خالی تھا۔ یہاں تک کہ یہ لوگ باقاعدہ طور پر ہمارے مشن میں شامل ہو گئے۔
واپس اوپر جائیں

Thursday 1 October 2020

Al Risala | October 2020 (الرسالہ،اکتوبر)

4

-افضل ایمان

5

- اعلیٰ حمد

6

- توبہ کی اہمیت

7

- ہوم اسکول

8

- قتل خویش

9

- بااصول انسان

10

- رسول سے تعلق

11

- اوَّلیات، تفردات

12

- نبی منتظَر

13

- عیب خوانی، قصیدہ خوانی

14

- تزئین ِشیطان

16

- پیرویٔ اسلام، تنفیذِ اسلام

19

- دجال کون

23

- اسلامی جہاد

24

- تعلیم، قدیم اور جدید

26

- اسپرٹ آف انکوائری

28

- دین کی عصری تفہیم

29

- ایک واقعہ

30

- عورت کا مقام

31

- فیس بک ایک اسٹڈی کلب

32

- مواقع اویل کرنا

33

- مسائل نہیں

34

- شکایت نہیں

37

- سازش کا مسئلہ

38

- ضمیر، ایگو

42

- ایک سینئر سیٹیزن کی زبانی

46

- خبرنامہ اسلامی مرکز


افضل ایمان

عبد الرحمن ابن سابط (وفات 118ھ) تابعی ہیں۔ ان کا ایک قول ان الفاظ میں آیا ہےعَنِ ابْنِ سَابِطٍ، رِوَایَةً قَالَ:أَفْضَلُکُمْ إِیمَانًا أَفْضَلُکُمْ مَعْرِفَةً(الایمان للعدنی، اثر نمبر70)۔ یعنی ابن سابط کہتے ہیں کہ تم میں سے جو ایمان میں افضل ہے، وہ تم میں سے معرفت میں افضل ہے۔ خدا کی معرفت اہل ایمان کے لیے سب سے اہم ہے۔ کیوں کہ معرفت سے انسان کی خدا کے ساتھ انسیت (nearness) بڑھتی ہے، اور خدا اور بندے کے درمیان اجنبیت کا خاتمہ ہوتا ہے۔خدا سے اجنبیت خدا سے دوری کا سبب ہوتی ہے، اور خدا کی معرفت خدا سے قربت کا سبب ہے۔
معرفت کسی انسان کے اندر کیسے آتی ہے۔اس کا جواب یہ ہے کہ خدا کو براہ راست اس دنیا میں دیکھنا ممکن نہیں ۔ خدا کو بالواسطہ طور پر اس کی تخلیق کے ذریعے پہچانا جاسکتا ہے۔ معرفت کائناتی نشانیوں میں تدبر و تفکر کے ذریعے اندرونی پکار کا جواب پانے کا نام ہے۔ یعنی یہ کہ آپ کے ذہن میں وہ سوال پیدا ہو جو ہر انسان کے ذہن میں فطری طور پر پیدا ہوتا ہے۔ مثلاً میں کون ہوں، میں اس دنیا میں کیوں آیا ہوں۔ مجھے اس دنیا میں کون لایا ہے۔ اس دنیا کو کون چلا رہا ہے۔ کون مجھے کسٹم میڈ طریقے سے ہر چیز مہیا کررہا ہے،وغیرہ۔ انسان کے ذہن میں پیدا ہونے والے اس قسم کے سوالات کا سب سے بنیادی سوال یہ ہے کہ وہ کون ہستی ہے، جو ہمیں اور اس کائنات کو چلارہی ہے۔ ہم اس کو کیسے جان سکتے ہیں۔ یعنی کون میرا خالق ہے، اور اس سے ہم کیسے مل سکتے ہیں۔
یہی معرفت کی پہلی سیڑھی ہے۔ قرآن میں سچائی کے متلاشی (seeker of truth)کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وہ کائنات میں تدبر و تفکر کرکے خدا تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں (آل عمران، 3:190-194)۔ سچے ایمان والے کے اندر پہلی چیز جو آتی ہے، وہ اللہ رب العالمین کی معرفت ہے۔ اس کے بعد معرفت کےنتیجے میں بہت سی دوسری چیزیں پیدا ہوتی ہیں۔ جیسے تقویٰ، سنجیدگی (sincerity)، تواضع(modesty)، وغیرہ۔
واپس اوپر جائیں

اعلیٰ حمد

قرآن میںفرعون کی بیوی آسیہ بنت مزاحم کی دعا کا ذکر ہوا ہے ۔دعا کے الفاظ یہ ہیں  رَبِّ ابْنِ لِی عِنْدَکَ بَیْتًا فِی الْجَنَّةِ (66:11)۔ یعنی اے میرے رب، میرے لیے اپنے پاس جنت میں ایک گھر بنادے ۔ یہ دعا اللہ کی گہری دریافت سے نکلی ہوئی دعا ہے۔ جب آسیہ کو دنیا کی زندگی میں اعلیٰ حمد کا موقع نہیں مل سکا تو اس نے یہ دعا کی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دنیا میں معرفت کا جو اعلی کلچر رائج ہونا چاہیے تھا، وہ رائج نہ ہوسکا۔اب سوال یہ ہے کہ یہ اعلیٰ عارفانہ تہذیب کب قائم ہوگی۔ قرآن کے مطابق، یہ اعلیٰ عارفانہ تہذیب آخرت میں جنت کی دنیا میں قائم ہوگی۔یہ ان انسانوں کو ملے گی، جو دنیا کے اندر معرفتِ خداوندی کی کوشش کرتے رہے۔
اعلیٰ معرفت کیا ہے، اس کا ذکر قرآن میں دو مقامات پر آیا ہے۔سورہ الکہف میں یہ الفاظ آئے ہیں کہو کہ اگر سمندر میرے رب کی نشانیوں کو لکھنے کے لیے روشنائی ہوجائے تو سمندر ختم ہوجائے گا اس سے پہلے کہ میرے رب کی باتیں ختم ہوں، اگرچہ ہم اس کے ساتھ اسی کے مانند اور سمندر ملا دیں۔ (18:109)۔سورہ لقمان میں اس طرح آیا ہے اور اگر زمین میں جو درخت ہیں وہ قلم بن جائیں اور سمندر، سات مزید سمندروں کے ساتھ روشنائی بن جائیں، تب بھی اللہ کی باتیں ختم نہ ہوں۔ بیشک اللہ زبردست ہے، حکمت والا ہے(31:27)۔
ان دونوں آیات میں سمندر کے ختم ہونے کا ذکر موجودہ دنیا کے ریفرینس میں ہے۔ مگر آخرت کی جنت میں یہ محدودیت نہیں ہوگی۔ وہاں پر انسانوں کو لامحدود طور پر حمد اور معرفت کا موقع ملے گا۔ اس حقیقت کو قرآن میں اس طرح بیان کیا گیا ہےکہ جنت میں ان کا قول ہوگا  اے اللہ تو پاک ہے۔ اوروہ ملتے وقت ایک دوسرے کو سلامتی (کی دعا) دیں گے۔ اور ان کی آخری بات یہ ہوگی کہ ساری تعریف اللہ کے لیے ہے جو رب ہے سارے جہان کا(10:10)۔ یعنی اہل جنت کو ہرلمحہ لامحدود طور پر حمد کلچر میں جینے کا موقع ملے گا۔
واپس اوپر جائیں

توبہ کی اہمیت

ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں:وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَوْ لَمْ تُذْنِبُوا لَذَہَبَ اللہُ بِکُمْ، وَلَجَاءَ بِقَوْمٍ یُذْنِبُونَ، فَیَسْتَغْفِرُونَ اللہَ فَیَغْفِرُ لَہُمْ(صحیح مسلم، حدیث نمبر2749)۔یعنی اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم گناہ نہ کرو تو اللہ تمہیں لےجائے گااور ایسی قوم لائے گا جو گناہ کرے پھر اللہ سے مغفرت طلب کرے تو اللہ انہیں معاف فرما دے۔
موجودہ دنیا اس ڈھنگ پر بنی ہے کہ یہاں آدمی سے ضرور کوئی نہ کوئی غلطی صادر ہوجاتی ہے۔ اس غلطی کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ فطری نظام کے تحت آدمی کے اندر غلطی کے بعد شرمندگی (repentance) کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اس سے آدمی کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ اپنی غلطی کی اصلاح کرے، اور اس معاملے میں اللہ سے مدد کا طالب ہو۔
اس طرح غلطی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی کے اندر ذاتی اصلاح (self correction) کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ آدمی کے اندر نئی فکر بیدار ہوتی ہے۔ اس کی سوچ مزید شدت کے ساتھ متحرک ہوجاتی ہے۔ اس طر ح آدمی کے اندر جو عمل (process)جاری ہوتا ہے، وہ اس کے لیے ذہنی ارتقا (intellectual development) کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ یہ عمل اگر طاقت کے ساتھ باربار جاری رہے تو وہ آدمی کے لیے اعلیٰ ترقی کا زینہ بن جاتا ہے۔
معتدل حالات میں انسان کے اندر کوئی بڑی اصلاح نہیں ہوتی۔ بڑی اصلاح، یا بڑی سوچ کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کو سخت قسم کا شاک (shock)لگے۔اس کے اندر برین اسٹارمنگ (brainstorming)آئے۔ آدمی کے اندر طاقت ور انداز میں محاسبہ کا مزاج پیدا ہو، اور یہی وہ چیزیں ہیں، جو غلطی کے بعد آدمی کے اندر جاگ اٹھتی ہیں۔ اس طرح غلطی انسان کے اندر اصلاح کا ذریعہ بن جاتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

ہوم اسکول

حیدرآباد کی ایک فیملی کا واقعہ ہے۔وہ روایتی معنوں میں ایک مذہبی فیملی تھی۔ مگر ان کے گھر میں مذہب کا چرچا نہیں ہوا کرتا تھا، بلکہ اکثر اوقات ان کے گھر میں شکایت کی باتیں ہوا کرتی تھیں، جیسا کہ بیشتر گھروں میں ہوتا ہے۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ ان کو ایک سینئر عالم دین نے مشورہ دیا کہ آپ شکایتی ذہن فوراًختم کردیجیے، اور اپنے گھر کو ہوم اسکول بنا لیجیے۔ جہاں پر آپ اپنی بیوی بچوں سمیت انگریزی زبان سیکھیے، اور مثبت طرز فکر کی کتابیں پڑھیے۔
انھوں نے ایسا ہی کیا۔ کچھ دنوں کے بعد ٹیلیفون پر انھوں نے اپنے حالات بتائے۔ انھوں نے کہا کہ اب یہ ہوگیا ہے کہ ہمارے گھر میں ہر ایک کی زندگی بامعنی (meaningful) زندگی ہوگئی ہے۔ گھر کا ہرفرد (والدین اور بچے) اپنا اپنا رول سمجھنے لگا ہے۔ اس سے پہلے ایسا نہیں تھا۔ اس تعلق سے ایک تجربہ یہ ہوا کہ میں نے ایک اردو کتاب کو انگریزی میں سمجھنا چاہا تو اپنے بچوں سے اس کا ترجمہ کروایا۔بچوں نے پوری لگن کے ساتھ اس کا ترجمہ کیا۔ اس طرح مجھے انگریزی میں ترجمہ مل گیا، اور بچوں نے خدا کا منصوبۂ تخلیق سمجھ لیا۔ میری بیوی کہتی ہے کہ میری نظر میں کہیں ایسا نہیں ہے کہ گھر کے بچے بھی اپنے رول کو سمجھیں۔ والدین کو ہمیشہ یہ شکایت رہتی ہے کہ بچے ان کی بات نہیں مانتے ۔ مگر اس نئی شروعات سے بچوں میں ایک نیا رجحان دیکھنے کو ملا ہے، اپنے رول کو سمجھنے کا رجحان۔
اب ان کے گھر میں منفی باتوں اور شکایتی باتوں کا ماحول ختم ہو گیا ہے۔ اس کے بجائے مثبت موضوعات اور خدا کی معرفت کا چرچا ہونے لگا ہے۔ اس طرح ان کے گھر کا ماحول بدل گیا۔ بچوں نے نئے ماحول میں اپنے آپ کو ایڈجسٹ کرلیا۔ اس طرح ان لوگوں کی معلومات میں اضافہ ہوا، اور نفسیاتی طور پر تعمیری سوچ ان کے اندر آئی۔ یہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے قرآن کی اِس آیت کی توسیعی تطبیق ہے:وَاجْعَلُوا بُیُوتَکُمْ قِبْلَةً وَأَقِیمُوا الصَّلَاةَ(10:87)۔ یعنی اور اپنے ان گھروں کو قبلہ بناؤ اور نماز قائم کرو۔
واپس اوپر جائیں

قتل خویش

دورِ قدیم کے یہود کا ایک واقعہ قرآن میں ان الفاظ میں بیان ہوا ہے: وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِہِ یَاقَوْمِ إِنَّکُمْ ظَلَمْتُمْ أَنْفُسَکُمْ بِاتِّخَاذِکُمُ الْعِجْلَ فَتُوبُوا إِلَى بَارِئِکُمْ فَاقْتُلُوا أَنْفُسَکُمْ ذَلِکُمْ خَیْرٌ لَکُمْ عِنْدَ بَارِئِکُمْ فَتَابَ عَلَیْکُمْ إِنَّہُ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ (2:54)۔ یعنی اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم ، تم نے بچھڑے کو معبود بنا کر اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے۔پس اپنے خالق کے آگے توبہ کرو، اور اپنےنفسوں کو قتل کرو۔ یہ تمہارے لیے تمہارے پیدا کرنے والے کے نزدیک بہتر ہے۔ تو اللہ نے تمہاری توبہ قبو ل کی۔ بیشک وہی توبہ قبول کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔
قرآن کی اس آیت میں قدیم زمانے کے یہود کا ایک واقعہ بیان ہوا ہے، جو خروج مصر کے بعد پیش آیا تھا۔ اس زمانے میں کچھ یہود نے شرک جلی کا ارتکاب کیا۔ اس پران کے پیغمبر موسیٰ نے کہا کہ تم لوگ اللہ کے آگے توبہ کرو، اور اپنے آپ کو قتل کرو۔ تو اللہ نے ان کی توبہ قبول کرلی۔آیت کے ان الفاظ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں توبہ قتل خویش کے معنی میں ہے۔ آیت یہ بھی بتاتی ہے کہ انھوں نے توبہ کی اور اللہ نے ان کی توبہ قبول کرلی۔ ایسا ہونے کے بعد ان کو جسمانی طور پرقتل کرنا، شریعت کا تقاضا نہیں ہوسکتا۔ اس لیے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ یہاں قتلِ نفس کا لفظ شدت توبہ کے معنی میں آیا ہے۔ یعنی ایسی توبہ جو نفسیاتی طور پر سیلف کیلنگ (self killing) کے ہم معنی بن جائے۔
بندہ پر جب گناہ کے بعد اس قسم کی شدید ندامت طاری ہو، اور وہ اس طرح اللہ کے سامنے گریہ و زاری کرے، جیسے کہ وہ اپنے آپ کو ہلاک کرڈالے گا ۔ تو ایسی توبہ ہمیشہ گناہ سے معافی کا سبب بن جاتی ہے۔ اس طرح کی شدید توبہ کے بعد کسی کو قتل کرنا، شریعت خداوندی کے مطابق نہیں۔ ایسی شدید توبہ کے بعد انسان ایک اعلیٰ درجے کا متقی بن کر ظاہر ہوتا ہے۔ اس کے بعد وہ وقت آتا ہے کہ وہ زیادہ اعلیٰ درجے کا مومن بن جائے۔ اس کو جسمانی قتل کرکے ختم کرنا، حکمت خداوندی کے مطابق نہیں۔
واپس اوپر جائیں

بااصول انسان

با اصول انسان (man of principle) ایک جامع لفظ ہے۔ یہ لفظ زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ قدیم زمانے میں تقسیم کی زبان میں سوچنے کا طریقہ رائج تھا۔ مثلاً خدا کا حق، بندوں کا حق، پڑوسی کا حق، ازدواجی زندگی کا حق،وغیرہ۔ یہ سب تقسیمات موجودہ سائنسی دور میں اب ختم ہوچکی ہیں۔ اسٹیفن ہاکنگ اور دوسرے سائنس دانوں نے اس تصور کو ایک لفظ میں ا س طرح بیان کیا ہے— سنگل اسٹرنگ تھیوری۔
اسی طرح آدمی کو چاہیے کہ وہ بااصول انسان بن کر دنیا میں جیے۔ وہ کسی بھی معاملے میں بےاصولی کا طریقہ اختیار نہ کرے۔ بااصول زندگی ضرورت کا تقاضا نہیں ہے، بلکہ وہ حقیقت پسندی کا تقاضا ہے۔ مثلا روڈ پر آپ اپنی گاڑی چلائیں، تو آپ کیپ رائٹ (keep right)یا کیپ لفٹ (keep left)کا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ یہ کیا ہے۔ یہ اصول پسندی کی بات ہے۔ اس معاملے میں اصول پسندی یہ ہے کہ آپ خود بھی روڈ پر چلیں، اور دوسروں کو بھی روڈ پر چلنے کا موقع دیں۔
اسی دو طرفہ تقاضے کی بنیاد پر ٹریفک کا اصول وضع ہوا ہے۔ ٹریفک کے اس اصول کا تعلق صرف روڈ سے نہیں ہے، بلکہ زندگی کے تمام معاملات سے ہے۔ حتی کہ اگر آپ ایک جوائنٹ فیملی میں رہتے ہیں،تو آپ چاہیں گے کہ آپ کی زندگی ٹکراؤ کی زندگی نہ ہو، بلکہ میل ملاپ کی زندگی ہو۔ اس مقصد کے لیے آپ یہ کریں گے کہ زندگی کا جو طریقہ خود اپنے لیے اختیار کریں گے، دوسروں کو بھی یہ موقع دیں گے کہ وہ بھی اس دو طرفہ زندگی کو اختیار کرکے کامیاب زندگی گزارے۔ اسی کانام بااصول زندگی ہے۔ زندگی کے اصول کو سمجھنے کے لیے آپ یہ کرسکتے ہیں کہ اس کو مختلف ذیلی کٹیگری میںتقسیم کرکے بیان کریں۔مثلاً سادگی، مثبت سوچ ، لرننگ، صبر، شکایات فری ہونا، وغیرہ۔
اصول ہمیشہ ایک ہوتا ہے۔ بیان کرنے والے اس کو خانوں میں تقسیم کرکے بیان کرتے ہیں۔ یہ تقسیم سامع کی رعایت سے ہوتی ہے، نہ کہ اصل حقیقت کے اعتبار سے۔
واپس اوپر جائیں

رسول سے تعلق

رسول سے تعلق کے بارے میں قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے:قُلْ إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّہَ فَاتَّبِعُونِی یُحْبِبْکُمُ اللَّہُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَاللَّہُ غَفُورٌ رَحِیمٌ (3:31)۔ یعنی کہو، اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا۔ اور تمہارے گناہوں کو معاف کردے گا۔ اللہ بڑا معاف کرنے والا، بڑا مہربان ہے۔ قرآن کی اس آیت میں اتباعِ رسول کا مطلب رسول کو اپنا رہنما بنانا ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص اللہ کے راستے پر چلنا چاہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ رسول کے نمونے سے اپنے لیے رہنمائی حاصل کرے۔ اللہ کے راستے کا مسافر رسول کی رہنمائی سے بے نیاز نہیں ہوسکتا۔
رسول کا معاملہ ایک اعتبار سے یہ ہے کہ رسول، اللہ کا متلاشی تھا۔ پھر اس کو اللہ نے اپنا راستہ دکھایا۔ وحی کے ذریعہ رسول کو بتایا کہ اللہ کے راستے پر چلنے کا مستند طریقہ کیا ہے۔ رسول کا یہ نمونہ احادیث کی صورت میں مختلف کتابوں میں ریکارڈ ہوچکا ہے، اور وہ قیامت تک اللہ کے راستے کے مسافر کے لیے واحد مستند رہنما ہے۔
حدیث اور سنت کے مطالعے سے آدمی کو حکمت خداوندی کا علم ہوتا ہے۔ پھر جب آدمی اس حکمت کو عملاً اختیار کرتا ہے تو وہ اللہ کی رحمت کا مستحق بن جاتا ہے۔ اس کو ہر مرحلے میں اللہ کی نصرت ملنےلگتی ہے۔ وہ بھٹکے بغیر اللہ کے راستے پر چلتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ آخری منزل پر پہنچ جاتا ہے، جس کا دوسرا نام جنت ہے۔
رسول کا اتباع موجودہ زمانے میں اسی طرح مطلوب ہے، جس طرح وہ پہلے زمانے میں مطلوب تھا۔ تاہم رسول کے پیرو (follower)کے لیے ضروری ہے کہ وہ نئے حالات کے اعتبار سے رسول کے نمونے کا انطباق نو (reapplication) دریافت کرے۔تاکہ وہ صحیح اسپرٹ کے ساتھ رسول کا متبع بن سکے۔ سچے طالب کے لیے اس قسم کا انطباق نو دریافت کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔
واپس اوپر جائیں

اوَّلیات، تفردات

خلیفہ دوم عمر فاروق نے بعض چیزوں میں نئے فیصلے لیے۔ جن کی مثال ان سے پہلے مسلمانوں میں موجود نہ تھی۔ ان کے اس قسم کے فیصلوں کو اولیات عمر کہا جاتا ہے۔ اسی طرح ابن تیمیہ الحرانی نے کچھ امور میں ائمہ اربعہ کی رائے سے الگ فتویٰ دیا۔ ایسے فتاویٰ کو تفرداتِ ابن تیمیہ کہا جاتا ہے۔
اولیات یا تفردات کایہ لفظ غلط فہمی پیدا کرنے والا ہے۔ صحیح یہ ہے کہ ایسے امور کو اجتہاد کہا جائے۔ اولیات اور تفردات جیسے الفاظ بولنے سے کوئی مسلمہ اصول نہیں ملتا، جس کی روشنی میں ان کے اوپر کوئی شرعی حکم لگایا جاسکے۔ اس کے برعکس، اگر ان امور کے لیے اجتہادِ عمر اور اجتہادِ ابن تیمیہ کی اصطلاح استعمال کی جائے تو ان کے بارے میں شرعی حکم لگانے کے لیے ہمیں ایک اصول مل جائے گا، وہ اجتہاد کا اصول ہے۔ حتیٰ کہ اگر مجتہد نے اجتہاد میں خطا کی ہو تب بھی ہمارے پاس ایک شرعی اصول ہوتا ہے جس کی روشنی میں ہم ان رایوں کو جان سکیں۔ اگر کوئی اجتہاد قرآن و سنت کے مطابق ہے تو اس کو صحیح اجتہاد کہا جائے گا، اور اگر وہ قرآن و سنت کے مطابق نہ ہو تو اس کو اجتہادی خطا کہا جائے گا، اور جیسا کہ معلوم ہے شریعت میں اجتہادی خطا پر بھی ایک ثواب ملتاہے۔
اصل یہ ہے کہ اسلام کے بعد کے زمانے میں اجتہاد کا جو تصور قائم ہوا، وہ عملاً محدود فقہی اجتہاد کے ہم معنی تھا۔ ائمہ اربعہ جن کو مجتہد کہا جاتا ہے، وہ سب کے سب اسی معنی میں مجتہد تھے۔ ان میں سے ہر ایک جزئی مسئلہ میں مجتہد تھا، نہ کہ کلی مسئلہ میں۔
اسلام میں اجتہاد کی ایک ہی قسم ہے— مطلق اجتہاد ۔ مقید اجتہاد کی اصطلاحیں لوگوں نے بطور خود وضع کر لیں۔ ورنہ اجتہاد ایک ہے۔ البتہ یہ فرق ہے کہ کبھی جزئی مسئلہ میں اجتہاد کیا جاتا ہے، اور کبھی کلی مسئلہ میں ۔ اجتہاد کوئی بدعت نہیں۔ اجتہاد یہ ہے کہ نئی صورت حال میں از سر نوحکم شرعی کو معلوم کرنا۔ اجتہاد کو اگر اولیات یا تفردات کا نام دیا جائے تو وہ عملاً ایک شخصی چیز بن جائے گا، نہ کہ شرعی حدود میں اجتہادی رائے قائم کرنے کی ایک مثال ۔
واپس اوپر جائیں

نبی منتظَر

یہود اپنی کتابوں کی بنیاد پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی منتظَر مانتے تھے، یعنی وہ نبی جو مستقبل میں آنے والا ہے۔ قرآن کی آیت : وَکَانُوا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُون (2:89) کے تحت یہاں مفسرین کے حوالے نقل کیے جاتے ہیں۔وکانوا ینتظرون خروج النبیّ (بحر العلوم للسمرقندی، 1/49) کانوا ینتظرون نبیا (تفسیر المنار، 1/315)۔ یعنی وہ نبی کے ظاہر ہونے کا انتظار کررہے تھے۔دوسرے الفاظ میں، یہود کے لیے پیغمبر اسلام کی حیثیت نبی منتظر کی تھی۔ لیکن جب آپ آئے تو یہود نے آپ کو ماننے سے انکار کردیا:فَلَمَّا جَاءَہُمْ مَا عَرَفُوا کَفَرُوا بِہِ (2:89) ۔ یہ بات مخصوص طور پر قوم یہود کی نہیں ہے، بلکہ وہ عمومی معنی میں زوال یافتہ قوم کی نفسیات کو بتاتی ہے۔ اس معاملے میں یہود کا حوالہ ایک مثال کے طور پر ہے، نہ کہ اس معنی میں کہ اس قسم کا واقعہ صرف یہود کے ساتھ پیش آیا، کسی اور کے ساتھ ایسا پیش آنےوالا نہیں۔
خود مسلمانوں کے بارے میں یہ عین ممکن ہے کہ اپنے دورِ زوال میں وہ اُسی کے منکر ہوجائیں، جس کا وہ انتظار کرر ہے تھے، اور ان کو اس بات کا شعور بھی نہ ہو کہ ان کا یہ انکار قومِ یہود کی اتباع کے ہم معنی ہے۔ اصل یہ ہے کہ زوال یافتہ قوم ہمیشہ فرضی فخر (false pride) میں جینے والی بن جاتی ہے۔ ایسی قوم کے لیے اپنے گروہ کا آدمی تو قابل فہم ہوتا ہے، لیکن آدمی کا تعلق اگر دوسرے گروہ سے ہو تو وہ اپنی پُر فخر قومی نفسیات کی بنا پر اس کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں، اور اس بنا پر وہ اس کے منکر بن جاتے ہیں۔ زوال یافتہ قوم چیزوں کو میرٹ (merit) کی نسبت سے نہیں دیکھتی، بلکہ وہ اس کو خود اپنی نسبت سے دیکھتی ہے۔’’اپنی قوم‘‘ کا آدمی چوں کہ ان کے قومی فخر کی تصدیق کرنے والا دکھائی دیتا ہے، اس لیے وہ اس کو مان لیتے ہیں۔ لیکن دوسرے گروہ کا آدمی ان کو” غیر قوم“ کا آدمی دکھائی دیتاہے، جو ان کی قومی فخر کی تصدیق نہیں کرتا ۔ اس لیے وہ اس کا انکار کردیتے ہیں۔ اس طرح اپنی زوال یافتہ نفسیات کی بنا پر وہ لوگوںکو دو گروہوں میں بانٹ دیتے ہیں— غیر قوم کا آدمی اور اپنی قوم کا آدمی۔
واپس اوپر جائیں

عیب خوانی، قصیدہ خوانی

مسلمانوں کے لکھنے اور بولنے والے لوگ موجودہ زمانے میں صرف دو کلچر کو جانتے ہیں، عیب خوانی یا قصیدہ خوانی۔ اپنے مفروضہ اکابر، خواہ وہ زندہ ہوںیا مردہ،ان کے بارے میں صرف قصیدہ خوانی، اور دوسروں کے بارے میں صرف عیب خوانی۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں میں یہ کلچر اتنا عام ہے کہ شاید ہی اس میں کوئی استثنا پایا جائے۔تاہم نہ ان کی قصیدہ خوانی دلائل پر مبنی ہوتی ہے، اور نہ ان کی عیب خوانی دلائل کی زبان میں ہوتی ہے۔ وہ اپنوں کے بارے میں صرف تعریف کی زبان جانتے ہیں، اور دوسروں کے بارے میں صرف تنقیص کی زبان ۔
یہ امت کے دورِ زوال کا ظاہرہ ہے۔ امت جب اپنے زمانۂ عروج میں ہو تو وہ ہر شخص کو میرٹ کے اعتبار سے جانچتی ہے۔ وہ ہر ایک کے بارے میں میرٹ کی بنیاد پر غیر متعصبانہ رائے قائم کرتی ہے۔ خواہ وہ اپنا ہو یا اپنے دائرے سے باہر کوئی شخص۔ مگر جب امت دورِ زوال میں پہنچ جائے تو اس وقت اس کا حال یہ ہوجاتا ہے کہ وہ انسانوں کو اپنے اور غیر میں تقسیم کردیتی ہے۔ اپنوں کے بارے میں اس کے پاس صرف اچھے الفاظ ہوتے ہیں، اور غیروں کے بارے میں صرف برے الفاظ۔
جب امت میں انسانوں کو میرٹ (merit)پر جانچنے کا رواج ہو، تو سمجھیے کہ امت زندہ ہے، اور جب امت کے لکھنے اور بولنے والے لوگ لفظی مدح اورلفظی ذمّ کی زبان بولنے لگیں تو سمجھیے کہ امت مردہ ہوچکی ہے۔ جب امت پر یہ وقت آجائے تو کرنے کا صرف ایک کام باقی رہتا ہے۔ وہ ہے مبنی بر افراد اصلاح۔ امت جب زندہ ہو تو مبنی بر اجتماع انداز کا ر آمد ہوسکتا ہے، لیکن جب امت اپنے دورِ زوال میں پہنچ جائے تو اس وقت افراد کو تلاش کیجیے اور افراد کی اصلاح پر اپنے کام کو مرتکز کردیجیے۔اس کے سوا کوئی اور طریقہ ہرگز نتیجہ خیز نہیں ہوسکتا۔ جو لوگ امت کے دورِ زوال میں مبنی بر امت سیاسی یا سماجی انقلاب کے پروگرام بنائیں، وہ بلاشبہ فطرت کے قانون سے آخری حد تک ناواقف ہیں۔ ایسے مصلحین خود قابلِ اصلاح ہیں، وہ امت کے مصلح نہیں بن سکتے۔
واپس اوپر جائیں

تزئین ِشیطان

قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے قَالَ رَبِّ بِمَا أَغْوَیْتَنِی لَأُزَیِّنَنَّ لَہُمْ فِی الْأَرْضِ وَلَأُغْوِیَنَّہُمْ أَجْمَعِینَ (15:39)۔ یعنی ابلیس نے کہا، اے میرے رب، جیسا تو نے مجھ کو گمراہ کیا ہے اسی طرح میں زمین میں ان کے لیے مزین کروں گا اور سب کو گمراہ کر دوں گا۔یہ تزئین شیطان کیا ہے۔تزئین کا مطلب ہے سجانا، آراستہ کرنا، مزین کرنا(to beautify)۔
تزئینِ شیطان یہ ہے کہ وہ انسان کو ایک ایسے گول کی طرف لگادے، جس کا حصول ممکن نہ ہو۔ یعنی غیرمطلوب کام میں انسان کو الجھا دے۔ انسان اس کے پیچھے صرف اس سوچ کی بنیاد پر لگ جائے کہ وہ بہت اہم کام ہے۔ اگرچہ وہ نتیجہ خیز کام نہ ہو۔ اس کو آج کی زبان میں شفٹ آف ایمفیسس (shift of emphasis)کہا جاسکتا ہے۔ یعنی جس پر زور دینا چاہیے، اس پر زور نہ دینا۔ اس کے بجائے اس پر زور دینا جو غیر مطلوب ہے یا جو قابلِ عمل نہ ہو۔ یہی شیطان کافریب ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع کیا ہے۔ آپ نے کہا یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّکُمْ لَنْ تَفْعَلُوا، وَلَنْ تُطِیقُوا کُلَّ مَا أُمِرْتُمْ بِہِ، وَلَکِنْ سَدِّدُوا وَأَبْشِرُوا(مسند احمد، حدیث نمبر 17856) ۔ یعنی اے لوگو ، تم ہرگز نہیں کرسکتے، اور نہ طاقت رکھتے ہو، وہ سب کچھ کرنےکا جس کا تم کو حکم دیا گیا ہے، اس لیے تم اعتدال پر قائم رہو، اور ہمیشہ اللہ سے اچھی امیدیں رکھو۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جو کام قابلِ حصول یا نتیجہ رخی ہے ، اس کو اختیار کرو، اور جوکام ناقابلِ حصول یا کاؤنٹر پروڈکٹیو ہو، اس کو اختیار نہ کرو۔ مثلاً دین کی اسپرٹ (تقویٰ ، محبت الٰہی، معرفتِ خداوندی ، اخلاق، وغیرہ)پر اگر زور دیا جائے تو اس سے اختلاف پیدا نہیں ہوتا ہے، لیکن فارم (آمین بالجہر، رفع الیدین، تراویح کی رکعتیں، وغیرہ)پر زور دیا جائے تو نزاع پیدا ہوتا ہے۔اس طرح حکومت الٰہیہ کے معاملے کو لیجیے۔ آپ فرد کی تربیت پر زور دیں تو یہ ممکن عمل ہے، لیکن اگر آپ اس کے برعکس یہ کریں کہ موجودہ حکومت کو غیر اسلامی قرار دے کر ایک اسلامی حکومت لانے کی کوشش کریںتو یہ ایسا عمل ہے، جس کا حصول ممکن نہیں۔ یہ دیکھنے میں بہ ظاہر اچھا لگتا ہے، لیکن یہ بے نتیجہ عمل ہے،اور آپس میں نزاع (conflict) پیدا کردیتا ہے۔
شیطان تزئین کا کام کس طرح کرتا ہے۔ اُس کا جواب ’اغوا‘ کے لفظ میں موجود ہے، جس کو ابلیس نے خدا کو چیلنج کرتے ہوئےاستعمال کیا تھا۔اغوا کا لفظی مطلب انحراف (deviation) ہے۔ یہی ابلیس کا طریقہ ہے، یعنی انسان کی توجہ کو پھیرنا (distraction) ۔ اِس کوشش میںاُس کا انحصار تزئین پر ہوتا ہے۔ مثلاً ابلیس نے اپنی تزئین کے ذریعے مسلمانوں کو غیر دعوتی کاموں کی طرف متوجہ کردیا، یعنی اسلامی حکومت کا حصول ، وغیرہ۔ اِس بنا پر دعوتی عمل مسلمانوں کی مین اسٹریم میں داخل نہ ہوسکا۔شیطان کی تزئین سے بچائو کا ذریعہ دانش مندی کے ساتھ پلاننگ کرنا ہے۔
دانش مندی کیا ہے۔دراصل فطرت کے قوانین کی پابندی کرنے کا نام ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چیزوں کو متاثر ذہن (conditioned mind)کے ساتھ دیکھنے کے بجائےاس معاملے میں سوچنا اور تجزیہ کرنا، اس کے بعد کوئی عمل کرنا۔ یعنی دانش مند آدمی کسی بھی بات کو ایز اٹ از (as it is) نہیں قبول کرتا، بلکہ وہ اس کو دیکھتا ہے، اس میں غور و فکر کرتا ہے، معاملے کی اسکروٹنی (scrutiny) کرتا ہے، پھر وہ اس کو قبول کرتا ہے یا رد (reject)کرتا ہے۔اس بنا پر وہ اس قابل ہوجاتا ہےکہ وہ کسی کی فریب کا شکار ہونے سے بچ جائے۔ اس بنا پر وہ اپنے آپ کو غیر ضروری مسائل سے بچالیتا ہے۔
جو آدمی اس معنی میں دانش مند ہو،وہ ایک ناقابلِ تسخیر انسان بن جاتا ہے۔ وہ ان کمزوریوں سے پاک ہوتا ہے، جو کسی انسان کو کمزور شخصیت (weak personality) بنانے والی ہیں۔وہ جذباتیت کا شکار نہیں ہوتا۔ اس بنا پر وہ اپنے آپ کو اس سے بچالیتا ہے کہ شیطان اس کو اپنی تزئینات کا شکار کرے، اور تباہی کے راستے پرچلا دے — عقل مند انسان وہ ہے، جو مسائل (problems) میں الجھ کر وقت ضائع کرنے کے بجائے امکان (opportunity) تلاش کرے، اور اس کو اویل (avail) کرے۔
واپس اوپر جائیں

پیرویٔ اسلام، تنفیذِ اسلام

پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری زمانے میں امت کو نصیحت کرتے ہوئے کہا: تَرَکْتُ فِیکُمْ أَمْرَیْنِ، لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّکْتُمْ بِہِمَا:کِتَابَ اللَّہِ وَسُنَّةَ نَبِیِّہِ (مؤطا امام مالک، حدیث نمبر1874 )۔ یعنی میں نے تمھارے درمیان دو چیزیں چھوڑی ہیں، تم گمراہ نہ ہوگے، جب تک ان دونوں کو پکڑے رہو گے۔وہ اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت ہے۔اس حدیث میں تمسک کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، تمسک کا مطلب ہے مضبوطی سے پکڑنا (holding fast)۔ یہ گریمر کی اصطلاح فعل لازم ( intransitive verb) ہے۔ یہی امت کے افراد کی اصل ذمے داری ہے۔ امت محمدی کے ہر فرد کو یہ کرنا ہے کہ وہ دین کو دریافت کرے،وہ مطالعہ اور تدبر کے ذریعے اپنی معرفت میں اضافہ کرے، اور اس طرح اپنے آپ کو پوری طرح دین کا پیرو بنالے۔امت کے افراد جب تک تمسک بالکتاب والسنہ کے اس اصول کو پکڑے رہیں گے، وہ کبھی گمراہ نہ ہوں گے۔یعنی خود اختیاری کے ساتھ اسلام پر عمل کرنا، اور دوسروں تک اسلام کو بطور دعوت پہنچانا (ہود، 11:88)۔
اس کے برعکس ، امت اس تعلیم کو لازم کے صیغہ ( intransitive form) میں لینے کے بجائے متعدی کے صیغہ (transitive form) میں لینے لگےتو اس کے بعدگمراہی کا آغاز ہو جائے گا۔ یعنی متمسک بنو کے بجائے بزور متمسک بناؤ ۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ دین کی پیروی اختیار کرو کا نظریہ لوگوں کو ہدایت پر قائم کرتا ہے، اور دین کی تنفیذ کرو کا نظریہ لوگوں کوہدایت کے راستے سے دور کر دیتا ہے۔موجودہ زمانے میں امت کے اندر جو تشدد پیدا ہوا، اس کا سبب یہی ہے۔
بیسویں صدی میں کچھ ایسے مسلم رہنما اٹھے جنھوں نے اسلام کی سیاسی تعبیر ( political interpretation) پیش کی ۔ انھوں نے قرآن و سنت کی خود ساختہ تشریح کرکے یہ نظریہ بنایا کہ اسلام ایک مکمل نظام (complete system) ہے، اور امت کی ذمے داری یہ ہے کہ وہ اس نظام کو مکمل اعتبار سے زمین پر نافذ کرے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ جو دین مبنی بر فرد دین تھا، اس کو مبنی بر نظام (system-based) بنادیا۔
مگر یہ سادہ بات نہ تھی۔ جب بھی آپ دین کو پیروی کے بجائے تنفیذ کا موضوع بنائیں گے تو فورًا تشدد شروع ہوجائے گا۔کیوںکہ تنفیذ (enforcement) کے لیے حکومتی ادارے کا ہونا ضروری ہے۔یہاں پہلے سے کچھ لوگ ہوں گے جو تنفیذ کے اداروں پر قابض ہوں گے۔ اب آپ کا ذہن یہ کہے گا کہ مجھے ان قابض افراد کو ہٹانا ہے، ان کو قوتِ نافذہ کے مقام سے ہٹائے بغیر میں اپنی پسند کا نظام نافذ نہیں کرسکتا۔یہاں سے حکومت کے خلاف نزاع شروع ہوگا۔ اسلام کی سیاسی تعبیر کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ امت کے لیے دنیا اپنے اور غیر (we and they) میں تقسیم ہوگئی۔اس طرح امت کے اندر دوسروں کو اپنا دشمن سمجھنے کا مزاج پیدا ہوا۔وہ اپنے مفروضہ دشمنوں کو اقتدار سے ہٹانے کی کوشش کرنے لگے۔
اسی طرح اسلام کی سیاسی تعبیر ایک نظریہ ہے، لیکن اس نظریے کی بنیاد پر جو مائنڈ سٹ (mindset) بنتا ہے، وہ عملاًایک متشددانہ مائنڈ سٹ ہوتا ہے۔چنانچہ اس مائنڈ سٹ کا نتیجہ یہ ہوا کہ مفروضہ دشمنوں کے خلاف جنگ شروع ہوگئی، اور جب جنگ میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی تو امت کے اندر نفرت کا ایک پورا جنگل اگ آیا۔فطری طور پر وہ اپنی نفرت میں اتنے اندھے ہوگئے کہ وہ اپنے مفروضہ دشمنوں کو شکست دینے کے لیے سب کچھ کرنے کو تیار ہوگئے، خواہ جائز ہو یا ناجائز۔ اسی نفرت کا ایک ظاہرہ وہ ہے، جس کو خود کش بمباری (suicide bombing)کہا جاتا ہے۔ خودکش بمباری بلاشبہ ایک حرام فعل ہے، لیکن لوگوں نے اس کو استشہاد (طلب شہادت ) کا نام دے کر جائز کرلیا۔قرآن و سنت کے مطابق جو فعل جہنم میں لے جانے والا تھا، اس کو خودساختہ طور پر یہ حیثیت دے دی کہ وہ ان کو سیدھا جنت میں لے جانے والا ہے۔
موجودہ زمانے میں جو مسلم تشدد (Muslim militancy) پیدا ہوئی، وہ اسی سیاسی تعبیردین کا براہِ راست نتیجہ ہے۔ موجودہ مسلم تشدد کو جوابی تشدد سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔اس کو ختم کرنے کے لیے جوابی آئڈیالوجی درکار ہے۔جوابی تشدد ان کو صرف ہلاک کر سکتا ہے، مگر اپنے مفروضہ عقیدے کے مطابق وہ یہ سمجھتے رہیں گے کہ وہ شہید ہوکر جنت میں جارہے ہیں۔ اس مفروضہ حقیقت کی بنا پر تشدد کے ذریعے اس کا خاتمہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے خاتمے کی صورت صرف یہ ہے کہ ایک طاقت ور دلیل کے ذریعے بتایا جائے کہ اسلام کی سیاسی تعبیر ایک باطل تعبیر ہے۔ اسلام کی اصل تعلیمات سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ موجودہ مسلم تشدد کو ختم کرنے کے لیے ایک نظریاتی مہم درکار ہے۔ اس کے سوا کوئی اور چیز اس کا خاتمہ کرنے والی نہیں۔
حدیث میں بتایا گیا ہے کہ دورِ آخر میں امت کے اندر ایک بے حد خطرناک فتنہ پیدا ہوگا، یہ دجالیت کا فتنہ ہوگا(مسند احمد، حدیث نمبر 16265)۔دجالیت سے مرادغالباً یہی پرفریب سیاسی تعبیرِ دین کا نظریہ ہے۔یعنی اس نظریے کو ایسے خوشنما الفاظ میں پیش کیا جائے گا کہ لوگ اس کو باطل سمجھنے سے عاجز رہیں گے۔ اسلام کو مکمل نظام کا خوبصورت نام دے کر لوگوں کو دھوکے میں ڈالاجائے۔لوگوں کے اندر یہ ذہن بنایا جائے کہ اسلام ذاتی پیروی کا دین نہیں ہے، بلکہ وہ بزور نافذ کرنے کا دین ہے ۔ اس کو زمین پر مکمل معنوں میں نافذ کیا جائے۔اس طرح اسلام معرفت کا دین نہ رہا، بلکہ وہ جنگ اور تشددکا دین بن گیا۔یہی دجالیت ہے۔ موجودہ زمانے میں مسلم تشدد کا اصل سبب یہی دجالیت ہے۔ اس تشدد کو صرف اس وقت ختم کیا جا سکتا ہے ، جب کہ لوگوں کو دلیل کے ذریعے یہ بتایا جائے کہ مکمل نظام کا نظریہ ایک پرفریب نظریہ ہے، اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
اس نظریے کا ایک خطرناک نتیجہ یہ ہوا کہ امت سے دعوت کا مزاج ختم ہوگیا۔ اصل دینی تصور کے مطابق امت مسلمہ داعی ہے اور دوسری قومیں مدعو ۔ اب داعی اور مدعو کے بجائے حریف اور دشمن کی نسبت قائم ہو گئی۔اس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ امت کا اصل مشن دعوت الی اللہ عملاً حذف ہوگیا۔ کیوں کہ دعوت کے لیے نصح (خیرخواہی) کا ذہن درکار ہے۔ دشمنی اور دعوت دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے۔
واپس اوپر جائیں

دجال کون

حدیث کی اکثر کتابوں میں آیا ہے کہ قیامت سے پہلے ایک شخص ظاہر ہوگا، جس کو حدیث میں دجال کہا گیا ہے(مسند احمد، حدیث نمبر 25089)۔ اسی کے ساتھ حدیثوں میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ تیس ایسے لوگ آئیں گے جو دجال کذّاب ہوں گے (صحیح البخاری، حدیث نمبر 7121)۔ انگریزی میں دجال کو امپوسٹر (imposter) کہہ سکتے ہیں۔ دجال کا لفظ اگر چہ قرآن میں نہیں آیا ہے، لیکن معنی کے اعتبار سے وہ قرآن میں موجود ہے۔ شیطان کے بارے میں قرآن میں آیا ہے کہ وہ تزئین کرتا ہے۔ اس لحاظ سے غالباً یہ کہنا صحیح ہوگا کہ دجال قرآن کی زبان میں مُزَیِّن اکبر ہوگا۔
دجال امت مسلمہ کا ایک فرد ہوگا، لیکن وہ امت کے بعد کے زمانے میں آئے گا۔ گویا کہ تاریخی طور پر اس زمانے میں جب کہ امت زوال کا شکار ہوچکی ہوگی۔ زوال کے زمانے میں کسی امت کے اندر جو نفسیات بنتی ہے، وہ شکست خوردگی کی نفسیات (defeatist mentality) ہوتی ہے۔ یہ زمانہ وہ ہوتا ہے جب کہ امت اس قابل نہیں رہتی کہ وہ عملاً اپنی شکست کو فتح میں تبدیل کرسکے۔ اس وقت امت کے اندر ایسے افراد ابھرتے ہیں، جو امت کو فرضی فخر (false pride) کی غذا دیتے ہیں۔ ان کی دل فریب باتوں سے متاثر ہوکر امت یہ سمجھ لیتی ہے کہ وہ لوگ اس کے مخالفین کے مقابلے میں ڈیفنڈر (defender) کا رول ادا کررہے ہیں۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ امت کے دورِ زوال میں جو شخص ڈیفنڈر کی حیثیت سے ابھرے گا۔ وہ حقیقی معنوں یا مثبت معنوں میں ڈیفنڈر کا رول ادا کرنے والا نہ ہوگا، بلکہ وہ صاحبِ دجل (deceiver) ہوگا۔ یعنی امت دھوکہ کھاکر اس کو اپنا ڈیفنڈر سمجھ لے گی۔حالاں کہ وہ ڈیفنڈر نہیں ہوگا، وہ ڈیسیور ہوگا۔اس کی پرسنالٹی استحصال (exploitation) پر مبنی پرسنالٹی ہوگی۔
احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں امت کا ایک شخص ظاہر ہوگا، جو دجال کو قتل کرے گا۔ غور کرنے سے سمجھ میں آتا ہے کہ یہ قتل جسمانی قتل نہ ہوگا، بلکہ وہ نظریاتی قتل ہوگا۔ یعنی اس معنی میں کہ وہ شخص دلائل کے ذریعہ اکسپوز (expose) کرکے بتائے گا کہ یہ شخص ڈیفنڈر نہیں ہے، بلکہ وہ امپوسٹر (imposter)ہے۔
حدیث میں آیا ہے کہ دجال ایک نہیں ہوگا، بلکہ بڑے دجال سے پہلےتیس دجال ظاہر ہوں گے۔ اس کا مطلب غالباً یہ ہے کہ دجال ایک انفرادی کردار نہیں ہوگا، بلکہ وہ ایک تسلسل کا نقطۂ انتہا (culmination) ہوگا۔ دجال سے پہلے مختلف قسم کے افراد اٹھیں گے، جو گویا بڑے دجال کے لیے ابتدائی زمین تیار کریںگے۔ مثلاً پہلے مناظر (debater) قسم کے افراد ابھریں گے، اس کے بعد ایسے افراد ابھریں گے جن کو ملت اپنے دشمنوں کے مقابلے میں ڈیفنڈر کا درجہ دے گی۔ آخر میں بڑا دجال ظاہر ہوگا، جس کو لوگ اپنا نجات دہندہ (saviour) سمجھیں گے۔
بڑا دجال کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ذاتی اعتبار سے غیر معمولی شخصیت کا مالک ہوگا۔بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ًاس کے زمانے میں ایسے حالات اور وسائل پیدا ہوں گے ، جو اس کو موقع دیں گے کہ وہ عملاً بڑے دجال کا درجہ حاصل کرلے۔ مثلاً یہ کہ اس کے زمانے میں عالمی کمیونی کیشن وجود میں آجائے گا۔جیسا کہ ایک موقوف حدیث میں آیا ہے :یُنَادى بصَوْتٍ لَہُ یُسْمِعُ بِہِ مَا بَیْنَ الْخَافِقَیْنِ (کنزالعمال، حدیث نمبر 39709)۔ یعنی دجال اپنی ایک ایسی آواز سے پکارے گا، جو مشرق اور مغرب کے دونوں سروں کے درمیان سنائی دے گی۔
مزید غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دجال کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ عام انسان جیسا نہیں ہوگا، بلکہ وہ کوئی ہمالیائی شخصیت ہوگا ۔ بلکہ اس سے مراد امت کے زوال کی ایک حالت ہے۔ اپنے زوال کی بنا پر دجال کی باتیں امت کی نفسیات کو ایڈریس کریں گی۔ دجال کی مقبولیت اس بنا پر نہیں ہوگی کہ وہ جسمانی اعتبار سےکوئی غیر معمولی انسان ہوگا۔ بلکہ اس کا سبب امت کی زوال یافتہ نفسیات ہوگی۔ جو اپنے بگڑے ہوئے نفسیات کی بنا پر فرضی طور پر دجال کو اپنا نجات دہندہ سمجھ لے گی۔
آخری زمانے کے بارے میں پیغمبر اسلام کی ایک پیشین گوئی ان الفاظ میں آئی ہے :لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى لَا یُقَالَ فِی الْأَرْضِ:اللہُ،اللہُ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 148)۔ یعنی قیامت نہیں آئےگی، یہاں تک کہ زمین پر اللہ اللہ نہیں کہا جائے گا۔ اس سے مراد دنیا کی عام قومیں نہیں ہیں، بلکہ اس سے مراد امت مسلمہ ہے۔ اللہ اللہ نہ کہنے کا مطلب زبان سے دہرانا بند کرنا نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا امت مسلمہ کے لیے پرائم کنسرن کی حیثیت سے باقی نہیں رہے گا۔بلکہ دوسری دوسری چیزیں ان کے نزدیک پرائم کنسرن کی حیثیت اختیار کرلیں گی۔
اللہ سے حقیقی تعلق کا ختم ہونا ایک تاریخی عمل (historical process) کا معاملہ ہے۔ اسلام کے دورِ اول میں ایشیا اور افریقہ میںجب مسلمانوں کی بڑی بڑی سلطنتیں قائم نہیں ہوئی تھیں، اس وقت مسلمانوں کا اعتماد صرف اللہ پر ہوتا تھا۔ اس کے بعد جب مسلمانوں کی سلطنتیں قائم ہوگئیں تو مسلمانوں کا اعتماد اللہ پر کمزور ہوگیا۔ اب وہ مسلم سلطنتوں پر شعوری یا غیر شعوری طور پر اعتماد کرنے لگے۔یہ شفٹ آف ایمفیسس کا معاملہ تھا، یعنی ٹرانسفر آف سیٹ فرام گاڈ ٹو مسلم پولٹکل پاور :
transfer of seat from God to Muslim political power
اس کے بعد انیسویں صدی اور بیسویں صدی میں جب مغربی قوموں کو عروج حاصل ہوا، اور مغل ایمپائر اور ٹرکش ایمپائر جیسی مسلم سلطنتیں ختم ہوگئیں۔ اس کے بعدمسلمان عملاً مسلم امت کی صورت میں باقی رہے، جس کے سیاسی غلبے کا خاتمہ ہوچکا تھا۔ سیاسی خلا کا نتیجہ یہ ہوا کہ خوف کی نفسیات مسلمانوں کے لیے بائنڈنگ فورس بن گئی۔ اب ان کا اعتماد صرف اپنی ملت پر قائم ہوگیا۔
اس سیاسی خلا کو پر کرنے کے لیے مسلمان زیادہ سے زیادہ اپنی ملت کی طرف مائل ہونے لگے۔ ان کے اندر شعوری یا غیر شعوری طور پر یہ ذہن بنا کہ ان کے لیے اب اعتماد کا ذریعہ ان کی اپنی ملت ہے۔ اس طرح مسلمان نفسیاتی اعتبار سے دوسری قوموں سے دور اور مسلمانوں سے قریب آنے لگے۔اس کے نتیجے میں فطری طور پر مسلمانوں کا یہ مزاج بنا کہ مسلم اور غیرمسلم کے اعتبار سے جو آدمی مسلمانوں کی یک طرفہ حمایت کرے، وہ ان کا اپنا آدمی ہے، اور جو مسلمانوں کی یک طرفہ حمایت نہ کرے، وہ عملاً ان کے مفروضہ دشمن کا ساتھی ہے۔
یہی وہ قومی فضا ہے جس میں دجال ابھرے گا۔ وہ مسلمانوں کی اس نفسیات کو فیڈ (feed) کرے گا۔ وہ تمام مسائل میں یک طرفہ طور پر غیر مسلم قوموں کو اور غیر مسلم میڈیا کو ذمہ دار ٹھہرائے گا، اور مسلمانوں کو یک طرفہ طور پر بے قصور ظاہر کرے گا۔ اس بنا پر مسلمان یہ سمجھیں گے کہ وہی ان کا حقیقی رہنماہے۔ وہی ان کے مفاد کی حٖفاظت کرنے والا ہے۔ یہ مزاج بڑھ کر یہاں تک پہنچے گا کہ وہ دجا ل کو اپنا نجات دہندہ سمجھ لیں گے۔
دجال کے فعل کو دجل (to deceive) کیوں کہا گیا ۔ کیوں کہ وہ اسلام کے نام پر مسلمانوں کو بھٹکائے گا۔ وہ اسلام کے نام پر غیر اسلام کو فروغ دے گا۔ دجال کی پوری سرگرمیوں کا مرکز یہ ہوگا کہ وہ مسلمانوں کے مفروضہ دشمنوں کو عوامی زبان میں للکارے گا۔ وہ اسٹیج کے میدان میں بظاہر مفروضہ دشمنوں کو شکست دے گا۔ غلط طور پر مسلمانوںکو یہ باور کرائے گاکہ ہم نے تمھارے دشمنوں کو زیر کردیا ہے۔ مگر دجال کا یہ سارا معاملہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے اسلام دشمنی کا معاملہ ہوگا۔ کیوں کہ اس کی باتیں مسلمانوںکی توجہ کو اللہ کے بجائے ، غیر اللہ کی طرف مائل کردیں گی۔
مسلمانوں کی صحیح رہنمائی کرنے والا وہ ہے، جس کی رہنمائی سے مسلمانوں میں اللہ پر یقین بڑھے۔ ان کے اندر اللہ کا تقویٰ پیدا ہو، وہ سب سے زیادہ اللہ سے محبت کرنے والے بن جائیں۔ ان کو سب سے زیادہ شوق جنت کا ہو۔ ان کا سب سے زیادہ اہتمام آخرت کے لیے ہوجائے۔ وہ اپنی زندگی میں وَلَمْ یَخْشَ إِلَّا اللَّہَ (9:18)کے مصداق بن جائیں۔ یعنی اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرنا۔
مگر دجال کی منفی (negative)باتوں سے فریب خوردہ ہو کر ان کا حال برعکس طور پر یہ بن جائے گا کہ وہ دوسری قوموں سے نفرت کرنے لگیں گے۔ دجال ان کے اندر سے انسانی خیرخواہی کا کلی خاتمہ کردے گا۔وہ دوسری قوموں کو اپنا دشمن اور سازشی سمجھنے لگیں گے۔ وہ غلط طور پر یہ فرض کرلیں گے کہ ان کے ہر مسئلے کی ذمہ دار دوسری قومیں ہیں۔اس طرح وہ اسلام کے نام پر غیر اسلامی سرگرمیوں میں مبتلا ہو جائیں گے۔ اس کے نتیجے میں ان کے اندر دعوت الی اللہ کا ذہن بالکل ختم ہوجائے گا۔ کیوں کہ دعوت الی اللہ کی اسپرٹ اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کہ مسلمانوں کے اندر عام انسان کے لیے یک طرفہ طور پر خیرخواہی کا جذبہ ہو۔
واپس اوپر جائیں

اسلامی جہاد

جہاد کا لفظی مطلب کوشش (struggle) ہے۔ اس کوشش کا تعلق کسی سسٹم سے نہیں۔ یعنی جہاد کا یہ نشانہ نہیں ہے کہ ایک سسٹم کو توڑ کر اس کی جگہ دوسرا سسٹم قائم کیا جائے۔بلکہ جہاد کا نشانہ انسان کی سوچ (way of thinking) بدلناہے (الفرقان، 25:52)، یعنی دنیا رخی طرز فکر کو بدل کر اس کی جگہ خدا رخی طرز فکر انسان کے اندر پیدا کرنا (آل عمران، 3:79)۔ جہا دکا نشانہ اسلامائزیشن آف سسٹم (Islamization of system) نہیں ہے ، بلکہ اسلامائزیشن آف فرد (Islamization of individual) ہے۔
زندگی کے نظام میں اصل اہمیت فرد کی ہے۔ جیسا فرد ویسا نظام۔ انسان جیسا سوچتا ہے ، ویسا ہی وہ بن جاتا ہے۔ سوچ کو بدلنے سے انسان بنتے ہیں، اور انسان کے بدلنے سے اجتماعی زندگی میں انقلاب آتا ہے۔ انقلاب کی ابتدا (beginning) فرد کی تبدیلی سےشروع ہوتی ہے، اور افراد کی تبدیلی سے سماج میں انقلاب آتا ہے۔
اصلاح کے نام پر سسٹم کے خلاف لڑائی کا مطلب ہے عملاً اتھاریٹی (authority)کے خلاف لڑائی ہے، اور اتھاریٹی کے خلاف لڑائی ہمیشہ کاؤنٹر پروڈکٹو (counterproductive) ثابت ہوتی ہے۔ اتھاریٹی کے خلاف لڑائی صرف مسائل میں اضافہ کرتی ہے، وہ کسی مسئلے کو حل کرنے والی نہیں۔اس حقیقت کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:إِنَّ اللہَ رَفِیقٌ یُحِبُّ الرِّفْقَ، وَیُعْطِی عَلَى الرِّفْقِ مَا لَا یُعْطِی عَلَى الْعُنْفِ، وَمَا لَا یُعْطِی عَلَى مَا سِوَاہُ(صحیح مسلم، حدیث نمبر2593)۔ یعنی اللہ نرم ہے، وہ نرمی کو پسند کرتا ہے، اور وہ نرمی پروہ چیز دیتا ہے، جو وہ سختی پر نہیں دیتا، اور نہ وہ اس کے سوا کسی اور چیز پر دیتا ہے۔ یہ اللہ کا مقرر کیا ہوا فطرت کا قانون (law of nature)ہے۔ اس دنیا میں کوئی انسان یا گروہ اس قانون کی پیروی کرکے سب کچھ پاسکتا ہے۔ لیکن جو فرد یا گروہ اس قانون کی خلاف ورزی کرے، اس کو اس دنیا میں کچھ ملنے والا نہیں۔
واپس اوپر جائیں

تعلیم، قدیم اور جدید

قدیم زمانے میں عام طورپر علم برائے علم کا رواج تھا۔ قدیم زمانے میں علم یا تعلیم کا رشتہ معاش سے کم اور زندگی سے زیادہ جڑا ہوا تھا۔ لوگ علم کی خاطر علم حاصل کیا کرتے تھے۔ قدیم زرعی دور میں معاش کا تعلق جسمانی محنت سے زیادہ تھا، اور دماغی محنت سے کم۔ اس صورت حال نے علم کو معاش کے بجائے زیادہ تر خود علم سے جوڑ رکھا تھا۔مگر جدید دور میں صورتِ حال بدل چکی ہے۔
قدیم زمانےمیں تعلیم اپنے آپ کو تیار کرنے کے لیے نہیں ہوتی تھی۔ لیکن موجودہ زمانے میں تعلیم کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اپنے آپ کو وقت کے تقاضے کے مطابق تیار کیا جائے۔ تاکہ انسان ترقی کی دوڑ میں اپنا سفر جاری رکھ سکے۔ قدیم زمانے میں تعلیم عملاً ایک جامد ڈسپلن کی حیثیت رکھتی تھی۔ موجودہ زمانے میں تعلیم ایک تخلیقی سرگرمی (creative activity) کا نام ہے۔ قدیم زمانے میں تعلیم کا تعلق کچھ محدود لوگوں سے ہوتا تھا۔قدیم دور میں تعلیم کا دائرہ سماج اور قبیلے تک محدود ہوا کرتا تھا، یعنی اپنے سماج یا قبیلے کی روایت کو مینٹین (maintain) کرنا ۔ موجودہ زمانے میں تعلیم کا تعلق زندگی کے تمام شعبوں سے ہوگیا ہے۔ قدیم زمانے میں تعلیم کا نشانہ یہ نہیں ہوتا تھا کہ نئی نئی چیزوں کو دریافت کیا جائے،تاکہ تہذیب کے ارتقا میں ان کا استعمال ہو۔ موجودہ زمانے میں تعلیم ایک انقلابی عمل کی حیثیت رکھتی ہے۔
جدید دور میں ساری دنیا تک تعلیم کا دائرہ پھیلا ہوا ہے۔ ماڈرن ایجوکیشن کا مقصد ہے انسان کے اندر سائنس اور ٹکنالوجی کی صلاحیت ڈیولپ کرنا، اس کے اندر تخلیقیت (creativity) پیدا کرنا، تاکہ وہ دنیا کو کچھ نیا دے سکے۔قدیم دور میں تعلیم قیاس پر مبنی ہوا کرتی تھی، جس میں خیالی کہانیوں وغیرہ کے ذریعے بچوں میں سماجی اقدار و آداب منتقل کیے جاتے تھے۔ جدید دور سائنسی تجربات پر مبنی تعلیم کا دور ہے۔ آج خیالی کہانیوں اور مثالوں کے بجائے حقیقی واقعات و تجربات پر مبنی تعلیم پر زور دیا جاتا ہے۔
موجودہ زمانے میں کسی بھی شعبے میں ترقی کے لیے علم اور تعلیم کی اہمیت بے حد بنیادی ہوچکی ہے، سیکولر شعبوں میں بھی اور مذہبی شعبوں میں بھی۔تعلیم کی اِس اہمیت کا سبب موجودہ زمانے میں سائنس اور ٹکنالوجی کا فروغ ہے۔ٹکنالوجی کی ترقی نے قدیم روایتی دَور کو بالکل بدل دیا ہے۔ مثلاً قدیم زمانے میں سواری کا ذریعہ یہ تھا کہ جنگل میں خچر، گھوڑے اور اونٹ فطری طورپر بڑی تعداد میں موجود تھے۔ آدمی ان کو پکڑتا اور انھیں سواری اور باربرداری کے لیے استعمال کرتا۔ مگر آج سواری، مشینی سواریوں کا نام ہوگیا ہے، اور مشینی سواریاں علم کے بغیر نہ بنائی جاسکتی ہیں، اور نہ انھیں استعمال کیا جاسکتاہے۔
جدید دَور میں سائنسی تحقیقات کے نتیجے میں تمام علوم کو از سرِ نو مدوَّن کیاگیا ہے۔ مثلاً قدیم زمانے میں سمجھا جاتا تھا کہ آسمان کے ستارے اتنے ہی بڑے ہیں جتنے بڑے کہ وہ آنکھوں سے دکھائی دیتے ہیں۔ مگر موجودہ زمانے میں دور بینی مطالعے نے بتایا کہ آسمان کے ستارے بہت زیادہ بڑے ہیں، اور تعداد میں بھی وہ اس سے بہت زیادہ ہیں جتنا کہ بہ ظاہر وہ دکھائی دیتے ہیں۔ اِس طرح موجودہ زمانے میں بے شمار نئی معلومات حاصل ہوئی ہیں۔ان نئی معلومات کی روشنی میں دنیا کو جاننے کے لیے علم کی ضرورت ہے۔ آج بے علم آدمی صرف ایک ناخواندہ انسان نہیں ہے، بلکہ وہ حقائق کی دنیا سے بے خبر انسان کی حیثیت رکھتا ہے۔
موجودہ زمانے میں تعلیم کو اپڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ یعنی تعلیم کو وقت کی ضرورت کے مطابق بنانا۔ تعلیم کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ انسان کو وقت کی ضرورت سے مسلح کرنا۔ انسان کو اس قابل بنانا کہ وہ آج کے حالات کے مطابق، زندگی کی تعمیر کرسکے۔ زمانی تبدیلی سے باخبرہونازندگی کے عام معاملات کے لیے بھی ضروری ہے۔ اسی کے ساتھ دین کو زمانے کی نسبت سے سمجھنے کے لیے بھی۔اس حقیقت کو طویل حدیث میں صحابی رسول ابوذر الغفاری کے حوالے سےان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:وَعَلَى الْعَاقِلِ أَنْ یَکُونَ بَصِیرًا بِزَمَانِہِ(صحیح ابن حبان، حدیث نمبر361)۔ یعنی دانش مند (مومن)کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے زمانے سے باخبر ہو۔
واپس اوپر جائیں

اسپرٹ آف انکوائری

اسپرٹ آف انکوائری کیا ہے۔ یہ تجسس کا مزاج ہے
Spirit of enquiry is a persistent sense of curiosity.
اسپرٹ آف انکوائری کو میں نے ایک تجربے سے سمجھا ہے۔ یہ واقعہ میری طالب علمی کے دور کا ہے۔ میری تعلیم جامعۃ الاصلاح (سرائے میر، اعظم گڑھ) میں ہوئی۔ میرے تفسیر کے استاد کا نام مولانا امین احسن اصلاحی تھا۔اسپرٹ آف انکوائری کا پہلا سبق مجھے میرے استادمولانا امین احسن اصلاحی سے ملا۔ ایک روز قرآن کی کلاس میں یہ آیت سامنے آئی:أَفَلَا یَنْظُرُونَ إِلَى الْإِبِلِ کَیْفَ خُلِقَت (88:17)۔ یعنی کیا وہ اونٹ کو نہیں دیکھتے کہ وہ کیسے پیدا کیا گیا۔
استاذ نے اس موقع پر طلبہ سے پوچھا کہ اونٹ کا سُم (hoof) پھٹا ہوتا ہے یا جڑا ہوتا ہے۔ یعنی بیل کی مانند پھٹا ہوتا ہے یا گھوڑے کی مانندجڑاہوتا ہے۔ اس وقت ہماری جماعت میں تقریباً 20 طالب علم تھے۔ مگر کوئی بھی شخص یقین کے ساتھ اس کا جواب نہ دے سکا۔ ہر ایک اٹکل بچو سے کبھی ایک جواب دیتا، اور کبھی دوسرا جواب۔
اس موقع پر استاد نے بتایا کہ تمھارے جوابات سے اندازہ ہو تاہے کہ تم لوگ اونٹ کے سم کی نوعیت نہیں جانتے۔ پھر انھوں نے مشہور تابعی عامربن شراحیل الشعبی (وفات 103 ھ) کا مقولہ سنایا:لَا أَدْرِی نِصْفُ الْعِلْمِ(سنن الدارمی، اثر نمبر 186)۔ یعنی’’میں نہیں جانتا ‘‘کہنا ،آدھا علم ہے۔ اس کی تشریح انھوں نے کی کہ اگر تم لوگ یہ جانتے کہ تم اونٹ کے سم کے بارے میں بے خبر ہو تو گویا کہ اس معاملہ میں تمھارے پاس آدھا علم ہوتا۔ کیوں کہ اپنی لاعلمی کو جاننے کے بعد تمھارے اندر یہ شوق پیدا ہوتا کہ تم اپنے علم کو مکمل کرنے کے لیے یہ معلوم کرو کہ اونٹ کے سم کیسے ہوتے ہیں۔ اگر لاادری (میں نہیں جانتا) کا شعور تمھارے اندر بیدار ہوتا تو اونٹ پر نظر پڑتے ہی تم اس کے سُم کو غور سے دیکھتے، اور پھر تم اس کے نہ جاننے کو جاننا بنا لیتے۔
مدرسہ کا یہ واقعہ میرے لیے اتنا موثر ثابت ہوا کہ یہ میرا عمومی مزاج بن گیا کہ میں ہر معاملے میں اپنی ناواقفیت کو جانوں، تاکہ میں اس کو واقفیت بنا سکوں۔ علمی تلاش کا یہ جذبہ مجھے ابتداء ً مدرسہ سے ملا تھا۔ بعد کو میں نے اس موضوع پر مغربی مصنفین کی کچھ کتابیں پڑھیں، مثلاً اسپرٹ آف انکوائری (spirit of enquiry)۔ ان سے معلوم ہوا کہ تجسس کا یہی جذبہ تمام علمی ترقیوں کی اصل بنیاد ہے۔ اس کی ایک مشہور مثال یہ ہے کہ ہزاروں لوگوں نے سیب کو درخت سے گرتے دیکھا تھا۔ مگر اس معاملہ میں وہ اپنے ’’لا ادری‘‘ کو نہیں جانتے تھے، اس لیے وہ حقیقت سے بے خبر رہے۔ نیوٹن پہلا شخص ہے، جس نے اس معاملہ میں اپنے ’’لاادری‘‘ کو جانا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ’’ادری‘‘ کے درجہ تک پہنچ گیا۔ یعنی کششِ ثقل (gravitation) کو دریافت کیا۔
اس کے برعکس، ہمارے لوگوں کا معاملہ کیا ہے۔ وہ دور جدید کو نہیں جانتے تھے۔ اس کے باوجود انھوں نے یہ اعلان کردیاکہ دور ِجدید اسلام کا مخالف ہے۔جب کہ انھیں کہنا یہ چاہیے تھاکہ لاادری ما ھوالعصر الجدید (میں نہیں جانتا کہ دورجدید کیا ہے )۔ اس کے بعد وہ اس قابل ہوتے کہ دور جدید کو جانیں اور اس سے فائدہ اٹھائیں۔
جب انھوں نے دور جدید کو جانے بغیر یہ اقدام کیا کہ انھوں نے، اس ادری (میں جانتا ہوں) کلچر کی بنا پر، ہر چیز کو مخالفِ اسلام قرار دے دیا۔ یہی وہ چیز ہے جس کی بنا پر وہ دور جدید میں دوسری قوموں سے پیچھے رہ گئے۔اس کے برعکس،راقم الحروف کا معاملہ یہ ہے کہ میں ہر چیز کو سب سے پہلے لاادری (میں نہیں جانتا ہوں)کے خانے میں ڈالتا ہوں۔ اس کے بعد موضوعی اعتبار سےیہ معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ اصل حقیقت کیا ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ کہا تھا جب معلوم نہ ہو تو معلوم کرنا چاہیے ۔ یقیناً نہ جاننے کاعلاج دریافت کرنا ہے(أَلَا سَأَلُوا إِذْ لَمْ یَعْلَمُوا فَإِنَّمَا شِفَاءُ الْعِیِّ السُّؤَالُ)سنن ا بوداؤد، حدیث نمبر336۔ اسپرٹ آف انکوائری بہت زیادہ اہم ہے۔ گویا یہ اپنے نہ جاننے کو جاننا بنانے کا آرٹ ہے۔ یہ تمام انسانی ترقیوں کے لیے قوتِ محرکہ ہے۔
واپس اوپر جائیں

دین کی عصری تفہیم

ایک حدیثِ رسول ان الفاظ میں آئی ہے :وَعَلَى الْعَاقِلِ أَنْ یَکُونَ بَصِیرًا بِزَمَانِہِ(صحیح ابن حبان، حدیث نمبر361)۔ یعنی دانش مند کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے زمانے سے باخبر ہو۔ بصیرتِ زمانی کی یہ صفت زندگی کے عام معاملات کے لیے بھی ہے، اسی کے ساتھ دین کو زمانے کی نسبت سے سمجھنے کے لیے بھی۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات مومنِ مجتہد کے لیے کہی گئی ہے۔ اجتہاد اہل اسلام کی ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ اس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ اجتہاد کی خاص شرط کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ مومن مجتہد قرآن و سنت کی گہری واقفیت کے ساتھ اپنے زمانے کے حالات سے بھی بخوبی طور پر واقف ہو۔ تاکہ وہ زمانے کے تقاضے کے مطابق اسلامی تعلیم کی نئی تشریح کرسکے۔ ایسی تشریح جس میں اسلام کی تعلیمات کی بھرپور طور پر تعمیل موجود ہو، اور اسی کے ساتھ اس میں زمانے کے حالات کےمطابق اہل اسلام کو درست رہنمائی حاصل ہوتی ہو۔
اجتہاد دوسرے الفاظ میں اسلام کی دانش مندانہ تعبیر ہے۔ جس آدمی کا حال یہ ہو کہ وہ قرآن و سنت سے واقف ہو لیکن اس کے اندر دانش مندی کی صفت نہ ہو تو وہ دین کو درست طور پر نہیں سمجھے گا۔ وہ درست طو رپر لوگوں کو دینی رہنمائی نہ دےسکے گا۔وہ دین کو تطبیقی انداز (applied way) میں پیش نہ کرسکے گا۔
دین کی عصری تفہیم کا مطلب صرف یہ ہے کہ ابدی دین کو وقت کے اسلوب (idiom of the time) میں بیان کرنا۔ دینی متن کا ترجمہ اگر صرف ترجمہ ہے تو اس کی عصری تفہیم کا مطلب ترجمہ پلس (translation plus) ہے۔ یعنی سطور (lines) کے ساتھ بین السطور (between the lines) کا اضافہ۔ ایک اگر اکیڈمک ڈکشنری (academic dictionary)کی زبان میں ہے تو دوسرا عصری ڈکشنری کی زبان میں ۔
واپس اوپر جائیں

ایک واقعہ

جب میں لکھنؤ میں تھا، اس وقت میری ملاقات ایک صاحب سے ہوئی۔ ان کانام تھا ڈاکٹر سمیع اللہ خاں۔ یہ ملاقات لکھنؤ میں گومتی کے پل پر ہوئی تھی۔ فلسفے میں انھوں نے ڈاکٹریٹ کیا تھا، اور برٹرینڈ رسل پر ریسرچ کیا تھا۔ وہ اپنی تعلیم کے بعدملحد ہوچکے تھے۔ اس گفتگو کا موضوع خدا کا وجود تھا۔ یعنی یہ کہ اس کائنات کا ایک خالق ہے۔ گفتگو کے دوران انھوں نے کہا خدا کو ثابت کرنے کے لیے آپ کے پاس کرائٹیرین کیا ہے۔ میری زبان سے نکلا، وہی کرائٹیرین (criterion)جو آپ کے پاس کوئی چیز ثابت کرنے کے لیے ہو۔ وہ آدمی بہت زیادہ پڑھا لکھا تھا۔ وہ ایک جملے میں چپ ہوگیا۔ اس کے بعد میری اس سے دوبارہ ملاقات نہیں ہوئی۔
میرے جواب کا جو پس منظر تھا، اس سے وہ بخوبی طور پر واقف تھے۔ وہ پس منظر یہ تھا کہ سائنس نے حقیقت کی دریافت کا ایک لمبا سفر کیا ہے۔ اس سفر کا موجودہ مقام وہ ہے، جس کو کوانٹم فزکس یا کوانٹم میکانکس کہا جاتاہے۔ کوانٹم فزکس جس آخری تحقیق پر پہنچی ہے، وہ یہ ہے کہ میٹر (matter) اپنے آخری تجزیے میں کمیت کے اعتبار سے غیر مرئی (invisible) ہوجاتا ہے۔ وہ اتنا زیادہ غیر مرئی ہوجاتا ہے کہ اس کے وجود کو نہ براہ راست دیکھا جاسکتا ہے، اور نہ ہی مائکرو اسکوپ کے ذریعے۔ اس کو صرف اس کے اثر (effect) کے ذریعے پہچانا جاتا ہے۔ اس بنا پر اس کو امکان کی لہریں (waves of probability ) کا نام دیا گیا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ یہ قصہ صرف ایک انسان کا نہیں، یہ جدید دور کے تمام انسانوں کا ہے۔ آج کا انسان جس نے سائنس اور جدید دریافتوں کا مطالعہ کیا ہے، وہ اس بات کو جان چکا ہے کہ جس دلیل کے ذریعے انسان میٹر تک پہنچتا ہے، ٹھیک اسی دلیل سے انسان خالق تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ بد قسمتی سے موجودہ زمانے میں اس معاملے میں نیگیٹو سوچ رکاوٹ بن گئی ہے۔ اگر نیگیٹو سوچ حائل نہ ہو تو جدید دور کا انسان وہی بات کہے گا، جو ڈاکٹر سمیع اللہ نے امکانی طو رپر کہی ہے۔
واپس اوپر جائیں

عورت کا مقام

عام طو رپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اسلامی معاشرے میں عورت کا مقام گھر سنبھالنا ہے۔ مرد کا درجہ قوّامیت کا درجہ ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ مرد کمانے والا فرد ہے۔ اس اصول کا ماخذ قرآن کی یہ آیت ہے الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّہُ بَعْضَہُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِہِمْ(344) ۔یعنی مرد، عورتوں کے اوپر قوّام ہیں، اس بنا پر کہ اللہ نے ایک کو دوسرے پر بڑائی دی ہے اور اس بنا پر کہ مرد نے اپنے مال خرچ کیے۔
راقم الحروف کا خیال یہ ہے کہ عورت کے بارے میں یہ کوئی حتمی بات نہیں ہے۔ خود مذکورہ آیت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے۔ قرآن کی مذکورہ آیت کے اصل الفاظ یہ ہیں وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِہِم (اور اس بنا پر کہ مرد نے اپنے مال خرچ کیے)۔ اگراس آیت کا حتمی مفہوم ہوتا ہے تو الفاظ مختلف ہوناچاہیے تھا۔ مثلاً یہ کہ وبما ینفقون من اموالھم(اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال میں سے خرچ کرتے ہیںیا کریں گے)۔ اس اسلوب کی بنا پر اس آیت میں تاویل کی گنجائش موجود ہے۔
آیت کے الفاظ پر غور کرنے کے بعد راقم الحروف کا خیال ہے کہ یہ جملہ(sentence) عورت کے بارے میں کسی حکم شرعی کو نہیں بتاتا ، بلکہ وہ صرف یہ بتاتا ہے کہ معاشرتی حالات کے لحاظ سے عورت کا سماج میں ایک کردار یہ بھی ہے۔ موجودہ زمانے میں معاشرتی اقدار بہت زیادہ بدل گئے ہیں۔ موجودہ حالات میں یہ ایک عملی ضرورت بن گئی ہے کہ شوہر کے ساتھ بیوی بھی کمانے والی فرد بن کر اپنا کردارادا کرے۔ مثلاً موجودہ زمانے میں مہنگائی کی بنا پر یہ عام طور پر صورتِ حال ہے کہ مرد کی اکیلی کمائی گھر کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے کافی نہیں ہوتی۔ اس لیے ضرورت ہوتی ہے کہ عورت بھی کمائی میں حصہ دار بنے۔ بما انفقو من اموالھم کے معاملے میں بقدر استطاعت عورت بھی مرد کی شریکِ حال بنے۔ سیکولر سوسائٹی میں یہ طریقہ عام طور پر رائج ہوچکا ہے۔ مسلم سماج میں اس طریقہ کو اگر اختیار کیا جائے تو اس میں بہ ظاہر کوئی قباحت نہیں ہے۔
واپس اوپر جائیں

فیس بک ایک اسٹڈی کلب

موجودہ زمانے میں ذرائع ابلاغ کے بہت سے نئے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک سوشل میڈیا ہے۔سوشل میڈیا الکٹرانک کمیونی کیشن اور سماجی رابطہ کا طریقہ ہے، جس کے ذریعے انسان انٹرنیٹ پر ایک کمیونٹی بناتا ہے، تاکہ اس کے ذریعے وہ انفارمیشن، آئڈیا اور پرسنل پیغام، وغیرہ ایک دوسرے کے ساتھ ایکسنچ کرسکے۔ مثلاً فیس بک (Facebook) ، ٹوئٹر، وغیرہ۔
فیس بک مشہور سوشل میڈیا پلیٹ فارم ہے۔ اس کو 2004ء میں مارک زکربرگ(پیدائش 1984) نے اپنےدوستوں کے ساتھ مل کر امریکا میں لانچ کیا۔ ابتدا میں اس کا مقصد یونیورسٹی اور اسکول سے تعلق رکھنے والے اساتذہ اور طالب علموںکو ایک دوسرے کے ساتھ تبادلۂ خیال کا موقع فراہم کرنا تھا۔ 2006ء میں اسے عام لوگوں کے لیے اوپن (open) کیا گیا۔
فیس بک اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک اسٹڈی کلب ہے۔فیس بک پر ایک انسان دوسرے انسان سے بطور دوست تعلق قائم کر سکتا ہے۔ تبادلۂ خیال کر سکتا ہے،اور دوسرے لوگوں کی سرگرمیوں کی اطلاعات موصول کر سکتا ہے۔ ان سب کے علاوہ وہ اپنی پسند اور دلچسپی کی بنیاد پر گروپ میں شامل ہو سکتا ہے، جو افراد، اسکول، کام کی جگہ، دلچسپیاں اور دوسرے موضوعات پر مشتمل ہوتے ہیں۔یہ گویا دوسرے کی عقل اور تجربات کو اویل (avail) کرنے کا عمدہ پلیٹ فارم ہے۔ بلاشبہ وہ ایک ایسا ذریعہ ہے، جس سے بہت زیادہ فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔
موجودہ زمانے میں فیس بک کو بڑے پیمانے پر استعمال کیا جارہا ہے۔ لیکن تعمیری مقصد کے لیے نہیں، بلکہ زیادہ تر نتیجے کے اعتبا ر سے تخریبی مقصد کے لیے۔ فیس بک کااستعمال عملاًفری ہوتا ہے۔ اس لیے اس کو زیادہ تر وہ لوگ استعمال کررہے ہیں، جن کے اندر اعلیٰ ذوق نہیں ہوتا۔ جہاں تک میں جانتا ہوں،لوگ فیس بک کا استعمال عموماً شکایت اوربے بنیاد یا غیر مصدقہ خبروں کو پھیلانے کے لیے کرتے ہیں۔ اس طر ح یہ ان کے لیے عملا ً غیر مفید بن گیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

مواقع اویل کرنا

قرآن میں ایک حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا (94:6)۔ یعنی بیشک مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ اصل یہ ہے کہ زندگی میں ہمیشہ دو مختلف قسم کی چیزیں موجود رہتی ہیں— مسائل (problems) اور مواقع ۔ جس طرح زندگی میں ہمیشہ مسائل موجود رہتے ہیں، اسی طرح زندگی میں ہمیشہ مواقع بھی موجود رہتے ہیں۔ ایسی حالت میں دانش مندی کا طریقہ یہ ہےکہ مسائل کو نظر انداز کیا جائے اور مواقع (opportunities) کو استعمال کیا جائے۔ مسائل سے الجھنا، صرف اپنے وقت کو ضائع کرنا ہے ، اور ضائع شدہ وقت دوبارہ ہاتھ آتا نہیں۔
مسائل اور مواقع کو میری زندگی کے تجربے سے سمجھا جاسکتا ہے۔نومبر 2000 کے پہلے ہفتے میں میرا بہار کےلیے سفر ہوا۔ اس سفر میں انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا کی خاتون نمائندہ سنجیدہ بانو نے انٹرویو لیاتھا۔ ان کا ایک سوال یہ تھا کہ آپ بھی ایک عالم ہیں، مگر روایتی علماء اور آپ کے درمیان فرق ہے، ایسا کیوں۔ اس کا جواب دیتے ہوئے میں نے کہا کہ جہاں تک اسلام اور قرآن وحدیث کا تعلق ہے میرےاور ان کے درمیان عقیدہ وعمل کا کوئی اختلاف نہیں۔ اس اعتبار سے دونوں کا دین مکمل طورپر ایک ہے۔ میرے اور ان کے درمیان جو فرق ہے وہ نظریہ کا نہیں بلکہ طریق کار کا ہے۔
میرا معاملہ یہ ہے کہ میں نے مدرسہ میں عربی اور دینی تعلیم کے حصول کے بعد ذاتی محنت سے انگریزی پڑھی اور جدید علوم کا تفصیلی مطالعہ کیا۔ اس سے میں نے سمجھا کہ اسلام کی ابدی صداقت کو جدید اسلوب میں پیش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ آج کے انسان کے لیے زیادہ قابل فہم ہوسکے۔ اس کے برعکس، دوسرے علما شکایت اور احتجاج میں لگے رہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میں اسلام کو عصری اسلوب میں پیش کرتا ہوں، دوسرے لوگ ایسا نہیں کرتے۔دوسرے الفاظ میں، میں نے مسائل کے درمیان مواقع کودیکھا، اور اس کے مطابق تیاری کی، جب کہ دوسرے لوگ مسائل میں الجھے رہے، اس لیے وہ جدید دور میں پیچھے رہ گئے۔
واپس اوپر جائیں

مسائل نہیں

موجودہ دنیا میں ہر انسان کے لیے مسائل (problems) بھی ہیں، اور اسی کے ساتھ مواقع (opportunities) بھی۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مسائل انسان کی پیداوار ہیں۔ اس کے مقابلے میں مواقع خالق کا عطیہ ہیں۔ آپ اس معاملے میں مثبت ذہن پیدا کیجیے، آپ یہ کیجیے کہ مسائل کو نظر انداز کیجیے اور مواقع کو تلاش کرکے ان کو اپنے لیے استعمال کیجیے، اور پھر آپ کو کسی سے کوئی شکایت نہ ہوگی۔
مثال کے طور پر ہماری فضا میں ہوا موجود ہے، جو ہماری زندگی کے لیے بے حد مفید ہے۔ اسی کے ساتھ ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں فضائی آلودگی (air pollution) بھی موجود ہے۔ ہوا خالق کا عطیہ ہے۔ اس کے مقابلے میں فضائی آلودگی انسان کا اضافہ۔ ہر آدمی یہ کرتا ہے کہ وہ فضائی آلودگی کو نظر انداز کرکے ہوا کو اپنے لیے استعمال کرتا ہے۔ اسی طرح ہم کو چاہیے کہ ہم مسائل کو نظر انداز کریں، اور مواقع کو تلاش کرکے، ان کو اپنے حق میں استعمال کریں۔ یہی موجودہ دنیا میں کامیابی کا واحد راز ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ زندگی ناموافق حالات سے بھری ہوئی ہے۔ کامیاب وہ ہے جو ناموافق حالات میں اپنے لیے موافق راستہ دریافت کرلے۔ یہی اس دنیا میں کامیابی کا واحد راز ہے۔ اگر آپ چاہیں کہ آپ کو ایسی زندگی مل جائے، جس میں ناموافق اسباب موجود نہ ہوں تو ایسی زندگی کا پانا بلاشبہ ناممکن ہے۔
ایسی حالت میں دانش مندی یہ ہے کہ آدمی شکایت اور احتجاج سے بچے، اور حقیقت پسندی کی زندگی اختیار کرے۔ شکایت اور احتجاج کا طریقہ صرف وقت کو ضائع کرنے کا طریقہ ہے۔ دانش مند آدمی وہ ہے جو اپنے وقت کو بھر پور طور پر استعمال کرے۔ وہ ناقابل حصول کو اگنور کرے، اور قابل حصول کو پانے کے لیے اپنی ساری قوت لگا دے۔
واپس اوپر جائیں

شکایت نہیں

امریکی مصنف مائکل ہارٹ نے اپنی کتاب دی ہنڈریڈ (The 100)میں تاریخ کے 100کامیاب ترین انسانوں کا تذکرہ کیا ہے۔ ان کامیاب انسانوں میں اس نے پیغمبر اسلام کو پہلا مقام دیا ہے۔ اس کا ریزن کیا ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کون سا طریقہ اختیار کیا، جس کی وجہ سے ان کو اتنی عظیم کامیابی حاصل ہوئی۔ یہ کوئی پراسرار واقعہ نہیں۔ قرآن میں کئی مقام پر آیا ہے کہ خدا نے آپ کو کتاب اور حکمت کے ساتھ بھیجا ہے۔ کتاب سے مراد ہے اللہ کا کلام یعنی قرآن۔اور حکمت کا مطلب ہے پریکٹکل وزڈم۔دوسرے الفاظ میں، پیغمبر اسلام نے انسانوں کو دو چیزیں دی ہیں نظریاتی طور پر اللہ کی کتاب، اور عملی سطح پر حکمت ( practical wisdom) ۔ رسول اللہ کی کامیابی کا جو خاص راز ہے، وہ ہے پریکٹکل وزڈم ۔پریکٹکل وزڈم کا مطلب عملی پہلوؤں پر غور و فکر کرنا، اور عملی تقاضے جو ہیں، اس کو کنسیڈر (consider)کرکے آگے بڑھنا۔
مثلاً یہ کہ جب پیغمبر اسلام نے 610 عیسوی میں اپنا توحید کا مشن شروع کیا تو بڑے پیمانے پر آپ کی مخالفت کی گئی۔ آپ کو مختلف قسم کے ناموں سے پکارا گیا— مجنون (دیوانہ)،مذمم ، وغیرہ۔ مگر آپ نے ان باتوں کا کوئی منفی اثر نہیں لیا۔ حدیث اور سیرت کی کتابوں سے واضح طورپر یہ معلوم ہوتاہے کہ رسول اور اصحابِ رسول نے کبھی اُس کے خلاف احتجاج اور شکایت کا طریقہ اختیار نہیں کیا۔
اس کے برعکس، آپ نے جو کیا، وہ یہ تھا کہ آپ نے مسائل کو اگنور کیا، اور مواقع پر فوکس کیا۔ مسائل کیا تھے، مثلاً مخالفین کی جانب سے آپ کو برے ناموں سے پکارا گیا۔ مگر آپ نے اس کا کوئی منفی نوٹس نہیں لیا۔پیغمبر اسلام کا طریقہ یہ تھا کہ وہ ہمیشہ منفی واقعات کے اندر مثبت پہلو تلاش کرتے تھے۔ اس سلسلے میں ایک روایت حدیث کی کتابوں میں اس طرح آئی ہے، پیغمبر اسلام نے کہا :أَلاَ تَعْجَبُونَ کَیْفَ یَصْرِفُ اللَّہُ عَنِّی شَتْمَ قُرَیْشٍ وَلَعْنَہُمْ، یَشْتِمُونَ مُذَمَّمًا، وَیَلْعَنُونَ مُذَمَّمًا وَأَنَا مُحَمَّدٌ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 3533)۔ یعنی کیا تم کو یہ بات عجیب نہیں معلوم ہوتی کہ اللہ مجھ سے قریش کے سب وشتم اور لعنت کو کس طرح دور کررہا ہے ۔ مجھے وہ مذمم کہہ کر شتم کرتے ہیں، مذمم کہہ کر وہ مجھ پر لعنت بھیجتے ہیں۔ حالانکہ میں تو محمد ہوں۔
اس سے معلوم ہوا کہ پیغمبر اسلام کا طریقہ سب و شتم پر مشتعل ہونا نہیں ہے، اور نہ فریقِ مخالف کے خلاف شکایت اور احتجاج کرنا ہے۔ بلکہ اس سے اعراض کرنا ہے۔ یہ بلند اخلاقی کا معاملہ ہے، نہ کہ قانونی سزا کا معاملہ۔یہ اعلیٰ سوچ کی ایک انوکھی مثال ہے۔چنانچہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ ممکن ہوا کہ آپ مسائل کے درمیان مواقع کو دیکھ سکیں، اور ان کو اویل کریں۔ اس کو کہتے ہیں— حالات سے اوپر اٹھ کر سوچنا۔
وہ مواقع کیا تھے۔ مثلاً یہ کہ قدیم کعبہ جو توحید کا سینٹر ہونے کے باوجود بتوں کا مرکز بن گیا تھا۔ یہ بات توحید کے پیغمبر کے لیے ناقابلِ برداشت تھی کہ وہ ایسا ہوتے ہوئے دیکھے، اور اس کے خلاف احتجاج نہ کرے۔ مگر پیغمبر اسلام کی سیرت کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتاہے کہ آپ نے ان بتوں کو کعبہ سے ہٹانے کی کوئی بات نہیں کی۔ اس کے برعکس، آپ نے حالات سے اوپر اٹھ کر عمل کیا۔ یعنی آپ نے گہرے مطالعے کے بعد سمجھا کہ جس کعبہ میں بت رکھے ہوئے ہیں، اسی بت کی وجہ سے پورے عرب سے روزانہ بڑی تعداد میں زائرین آتے ہیں، جو پوٹنشل آڈینس کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر بتوں کے خلاف آواز اٹھائی جائے، تو بت نہیں ہٹے گا، مگر نقصان یہ ہوگا کہ زائرین ، یعنی پوٹنشل آڈینس کا آنا بھی بند ہوجائے گا۔ اس کے برخلاف، جب بتوں کے خلاف ہنگامہ نہ کیا جائے تو زائرین ، یعنی آڈینس آئیں گے، جن کو آسانی سے اپنا پیغام پہنچایا جاسکتا ہے۔ پیغمبر اسلام نے یہی طریقہ اختیار کیا، اور سارا عرب آپ کے لیے توحید کا آڈینس بن گیا۔اس طرح آپ نے بتوں کے اجتماع کو مینج کرکے اس کو توحید کا آڈینس بنا دیا۔
اسی طرح یہ کہ پیغمبر اسلام نے اپنا مشن قدیم مکہ میں شروع کیا۔ وہاں آپ کی شدید مخالفت ہوئی۔ یہاں تک کہ انھوں نے آپ کو الٹی میٹم دے دیا کہ آپ مکہ کو چھوڑ دیں، ورنہ ہم آپ کو قتل کردیں گے۔ ان حالات میں آپ نے مکہ کو چھوڑدیا، اور خاموشی کے ساتھ مدینہ آکر وہاں رہائش اختیارکرلی۔عام رواج کے مطابق کوئی شخص آسانی سے اپنا وطن نہیں چھوڑتا، بلکہ اس فیصلہ کو بدلوانے کی ہر کوشش شروع کردیتا ہے۔ مگر پیغمبر اسلام نےقدیم مکہ کے سرداروں کے اس فیصلہ کو قبول کرلیا، اور خاموشی سے مدینہ آکر آباد ہوگئے۔اپنےنتیجے کے اعتبار سے دیکھیے تو یہ ایک نہایت حکیمانہ عمل تھا۔
ایسے حالات میں عام طور پر لوگ جوابی ذہن کے تحت سوچتے ہیں، اور ٹکراؤ کا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ لیکن پیغمبر اسلام نے مسائل پر احتجاج کا طریقہ اختیار کرنے کے بجائے ملے ہوئے مواقع کو اویل کیا۔تاریخ بتاتی ہے کہ آپ کا منصوبہ مکمل طور پر کامیاب رہا۔ آپ کا یہ طریقہ اتنا کامیاب ہوا کہ صرف دس سال کے اندر پہلے مکہ اور پھر سارا عرب آپ کے دائرے میں آگیا۔
یہ اسوۂ رسول ہے۔ اس حقیقت کو سامنے رکھ کر موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا مطالعہ کیجیے تو معلوم ہوگا کہ تمام دنیا کے مسلمان پیغمبر اسلام کا طریقہ اختیار کرنے کے بجائےنفرت اور شکایت اور احتجاج کی نفسیات میں جیتے ہیں۔ یہ نفسیات اتنا زیادہ عام ہے کہ مسلمانو ںکے ہر طبقہ، تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ دونوں کے درمیان یکساں طور پر پائی جاتی ہے۔ مسلمانوںکا یہ منفی ذہن (negative mind) بظاہر دوسروں کے خلاف ہے۔ مگر عملی نتیجہ کے اعتبار سے خود اپنے خلاف ہے۔ ایسا انسان نفرت اور جھنجھلاہٹ میں جیے گا۔اس قسم کا مزاج انسان کے اندر تخلیقی صلاحیت میں رکاوٹ ہے۔میں نے 15 ستمبر 1997 میں ٹائمس آف انڈیا میں ایک مضمون لکھا تھا۔ جس کا موضوع تھا
Not By Grievances Alone: Indian Muslims’ Failure
تقریباً سوسال سے مسلمانوں کی جو سیاست رہی ہے، اس پر یہ ایک جامع تبصرہ ہے۔ اس مضمون میں بتایا گیا تھا کہ رسول اللہ نے امت کو پریکٹکل وزڈم کا نمونہ دکھایا تھا۔ پریکٹکل وزڈم کا مطلب ہے، حالات کے خلاف احتجاج مت کرو، بلکہ حالات کو مینج کرکے موافق (favourable) بناؤ۔ لیکن امت اس نمونے پر چلی نہیں۔ اس لیے وہ مسائل میں پھنسی ہوئی ہے۔
واپس اوپر جائیں

سازش کا مسئلہ

موجودہ زمانے میں اکثر یہ بات کہی جاتی ہے کہ مسلمان اغیار کی سازش کا شکار ہیں۔ ان سازشوں کے نتیجے میں مسلمان ایک قسم کے محاصرہ (under siege)کی حالت میں ہیں۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے خلاف نئے نئے طریقے اختیار کیے جارہے ہیں، مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ان سازشوں کو جانیں اور ان کے خاتمے کے لیے جوابی کارروائی کے لیے موثر تدابیر اختیار کریں۔
سازش کی بات ایک بے بنیاد بات ہے۔ یہ فطرت کےقانون کے خلاف ہے۔ موجودہ دنیا میں ہر انسان آزاد ہے۔ ابلیس بھی اپنی تمام فوجوں کے ساتھ آزاد ہے۔ ایسی حالت میں سازش کا خاتمہ عملاً ناممکن ہے۔ جب تمام لوگ خالق کے نظام کے تحت آزاد ہیں ، تو وہ اپنی آزادی کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کریں گے۔ اس کےنتیجے میں کسی گروہ کے لیے اگر مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے لیے کرنے کا کام یہ نہیں ہے کہ وہ سازش کے خلاف احتجاج کرے۔اس کے لیے کرنے کا کام صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ اپنے آپ کو وہ اس طرح تیار کرے کہ وہ دوسروں کی سازش کا شکار نہ ہونے پائے۔ دوسروں کی سازش کا شکار نہ ہونا تو یقیناً ممکن ہے۔ لیکن یہ بات ناممکن ہےکہ اس دنیا میں سازش کا وجود ہی باقی نہ رہے۔یعنی دنیا سے کبھی سازش ختم نہیں ہوگی، آپ سازش سے بچنے کی کوشش کیجیے۔
سازش سے بچنے کا سب سے آسان نسخہ یہ ہےکہ اس کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے تمام کوشش اپنی تعمیر (self development) کے محاذ پر لگائی جائے۔ علم اور عمل کے تمام شعبوں میں اپنے آپ کو مستحکم بنایا جائے۔ سب ے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ملے ہوئے افراد کو ذہنی اعتبار سے اتنا زیادہ تیار کیا جائے کہ وہ ہر بات کا تجزیہ کرکے اس کو پہلے ہی مرحلے میں ڈیفیوز (defuse) کردے۔ سب سے پہلا مرحلہ فکر کا مرحلہ ہوتا ہے۔ فکر کے مرحلے پر اگر کسی چیز کو ختم کردیا جائے تو وہ عملاً بے اثر ہوکر رہ جائے گی۔
واپس اوپر جائیں

ضمیر، ایگو

دہلی کے جسولا ویہار کے علاقہ میں ایک تقریری پروگرام کے تحت جانا ہوا۔ نظام الدین سےاوکھلا ویہار تک کے اس سفر میں مندرجہ ذیل افراد میرے ساتھ تھے: برادرم محمد خالد ندوی، مسجد کے امام قاری محمد سمیع اللہ صاحب، اور واحد علی انجینئر صاحب ۔
10 جون 1998 کی شام کو میں اس مسجد میں پہنچا، جس کو عام طور پر جسولا ویہار کی مسجد کہا جاتا ہے۔ اس مسجد کو میں نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا، اور نہ اس کے بارےمیں مجھے کوئی واقفیت تھی۔ عشاء کے وقت جب میں وہاں پہنچا تو یہ میرے لیے ایک غیر متوقع منظر تھا۔ میں نے دیکھا کہ یہ مسجد جس کا نام اقرأ مسجد ہے کسی آبادی میں نہیں ہے، بلکہ وہ ایک کھلی جگہ پر ہے۔ گفتگو کے دوران معلوم ہوا کہ یہاں مسجد کے چاروں طرف مسلمانوں کی ایک بڑی کالونی تھی اس کالونی کے اندر انھوں نے مسجد بنائی تھی۔ مگر یہ کالونی غیر قانونی تھی اور دلی کے ماسٹر پلان کے خلاف بنائی گئی تھی۔ چنانچہ 1989 میں راجیوگاندھی کی حکومت کے زمانہ میں اس قسم کی دوسری بہت سی کالونیوں کی طرح اس کو بھی مکمل طور پر توڑ دیاگیا۔دہلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی(ڈی ڈی اے) کے عملہ نے بلڈوزر کے ذریعہ مسلمانوں کے ہزاروں مکانوں کو ڈھا دیا۔
آخر میں مسجد کی باری تھی مگر یہاں ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ D.D.A. کا ایک ملازم جس کا نام پنڈت شرما تھا، وہ بلڈوزر کا آپریٹر تھا۔ اس نے مسجد کو بلڈوز کرنے سے انکار کردیا۔ اس کے افسر نے سختی کے ساتھ حکم دیا ،مگر وہ راضی نہیں ہوا۔ افسر نے دھمکی دی کہ میں تم کو ملازمت سے برخواست کردوں گا۔پنڈت شرما نے کہا کہ آپ جو چاہیں کریں، مگر میں مسجد پر اپنا بلڈوزر نہیں چلا سکتا۔ چنانچہ پوری کالونی مکمل طورپر ڈھادی گئی۔ مگر یہ مسجد اکیلی عمارت کی حیثیت سے کھڑی رہی۔ ایک عرصہ تک یہ مسجد غیر آباد پڑی ہوئی تھی۔ اب قاری محمد سمیع اللہ صاحب نے اس کو آبادکیا ہے۔ انھوں نے اس کی نئی تعمیر کرکے وہاں ایک مدرسہ بھی قائم کردیا ہے، جس کا نام مدرسة الحراء ہے۔
ایک طرف جسولا ویہار کی یہ مسجد ہے جس کو توڑنے سے ہندو انکار کردیتا ہے، دوسری طرف ایودھیاکی مسجد ہے جس کو ہندو اقدام کرکے توڑ ڈالتاہے۔ یہ فرق کیوں۔ اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ جسولاویہار کا ہندو ایک نارمل ہندو تھا۔ جب کہ ایودھیا کا ہندو ایک غیر نارمل ہندو تھا، جس کی انا کو نااہل مسلم لیڈروں نے اپنی اشتعال انگیز تقریروں سے بھڑکا دیا تھا۔ گویا کہ جسولا ویہار کا ہندو اگر مسٹر ہندو تھا تو ایودھیا کا ہندو مسٹر ایگو تھا۔ سیکڑوں سال کی تاریخ بتاتی ہے کہ مسٹر ہندو نے کبھی کسی مسجد کو نہیں توڑا۔ مگر جب مسٹر ہندو کو بھڑکاکر مسٹر ایگو بنا دیا جائے تو اس کے بعد وہ ہوگا، جو 6 دسمبر 1992 کو ایودھیا میں پیش آیا۔
اجتماعی زندگی میں کامیابی کا راز یہ ہے کہ آپ دوسروں کی انا (ego) کو نہ بھڑکائیں۔ جس انسان کا ایگو بھڑکایا نہ گیا ہو وہ اپنے ضمیر کے تابع ہوتاہے ،اور جس انسان کا ایگو بھڑکا دیا جائے، وہ اپنے نفس امارہ (یوسف، 12:53)کے تابع بن جاتا ہے، اور جو انسان اپنی نفس امارہ کے تابع بن جائے،وہ گویا ایک حیوان ہے، اگرچہ بہ ظاہر وہ ایک انسان دکھائی دیتا ہو۔مذکورہ واقعہ گویا اس آیت کی تفسیر ہے، جس میں یہ کہا گیاہے کہ: اگر تم صبر کرو اور اللہ سے ڈرو توان کی کوئی تدبیر تم کو نقصان نہیں پہنچائے گی۔ وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا یَضُرُّکُمْ کَیْدُہُمْ شَیْئًا (3:120)۔
اس آیت کے مطابق، اس دنیامیں اصل مسئلہ کید (سازش) کی موجودگی نہیں ہے، بلکہ صبر کی غیر موجودگی ہے۔ اہل ایمان اگر صبر کی روش اختیار کریں تو ان کے لیے خداکی ضمانت ہے کہ ان کے خلاف سازش کرنے والوں کی سازش یقینی طورپر بے اثر ہو کر رہ جائے گی۔ البتہ اگر اہل ایمان بےصبری کی روش اختیار کریں تو سخت اندیشہ ہے کہ وہ فریقِ ثانی کی سازش کی زد میں آجائیں۔
مذکورہ دونوں مثالیں اس کا کھلاہوا نمونہ ہیں۔ ایودھیا کی مسجد کے معاملہ میں جذباتی لیڈروں کی رہنمائی میں مسلمانو ں نے غیر صابرانہ روش اختیار کی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایودھیا کی مسجد کو کچھ مشتعل ہندوؤں نے توڑ دیا۔ اس کے برعکس، دہلی کی مسجد کے معاملہ میں کوئی جذباتی لیڈر اشتعال دلانے کے لیے موجود نہ تھا۔ یہاں فطرت نے مسلمانوں کی رہنمائی کی۔ چنانچہ انھوں نے صبر اور خاموشی کی روش اختیار کرلی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دہلی کی مسجد جہاں تھی وہیں بدستور قائم رہی، بلکہ سرکاری حکم کے باوجود ہندو نے اس کو توڑنے سے انکار کردیا۔
جسولا ویہار کی مسجد اور ایودھیا کی مسجد کا تقابل کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دونوں کلّی طورپر ایک دوسرے کے مشابہ ہیں۔ تمثیل یا تقابل کا یہ مطلب کبھی نہیں ہوتا کہ دونوں کے درمیان کلی یکسانیت پائی جائے۔تمثیل یا تقابل ہمیشہ دو چیزوں کے درمیان جزئی مشابہت کے اعتبار سے ہوتا ہے، نہ کہ کلی مشابہت کے اعتبار سے۔ جسولا ویہار کی مسجد اور ایودھیا کی مسجد کے درمیان جو تقابل کیا گیا ہے، وہ صرف ایک پہلو کے اعتبارسے ہے، اور وہ یہ ہے کہ دونوں مسجدوں کا معاملہ یکساں طورپر ہندو کے ساتھ پیش آتا ہے، مگر ایک ہندو مسجد کو توڑ ڈالتاہے اور دوسرا ہندو مسجد کو نہیں توڑتا۔
زندگی کے معاملات کو سمجھنے کے لیے تقابل (comparison)کا طریقہ نہایت اہم ہے۔ تقابل ہی سے زندگی کی زیادہ گہری حقیقتیں سمجھ میں آتی ہیں۔ بشرطیکہ کہ تقابلی مطالعہ کرنے والا آدمی کھلے ذہن کے ساتھ یہ مطالعہ کرے۔ اور مطالعہ کا جو نتیجہ نکلے اس کو وہ بلا بحث مان لے، خواہ یہ نتیجہ اس کے خلاف ہو، اور خواہ یہ نتیجہ اس کے پورے نظریاتی ڈھانچہ کو ڈھا دینے والا ہو— کوئی آدمی جب ایک سچائی کا انکار کرتاہے تو وہ سمجھتاہے کہ میں ایک خارجی چیز کا انکار کررہا ہوں، حالانکہ وہ خود اپنا انکار کررہا ہوتا ہے، اگرچہ وہ اپنی نادانی کی بنا پر اس کو نہیں جانتا۔
ایک مثال
مشرقی یوپی کے ایک شہر کا واقعہ ہے۔ اس شہر میں ایک مسلمان نےاپنے لیے گھر بنایا۔مکان کے ساتھ ایک خالی زمین بھی ان کے پاس میں تھی۔ اُن کے پڑوس میں ایک ہندو ٹھیکہ دار تھا۔ اس ہندو ٹھیکہ دار کا دعوی تھا کہ یہ زمین اُس کی ہے۔ چنانچہ اُس نے شہر کے کٹر ہندوؤں سے مل کر انھیں بھڑکایا۔ یہاں تک کہ ایک دن ہندوؤں کی ایک بھیڑ گھر کے سامنے سڑک پر اکٹھا ہوگئی، اور نعرے لگانے لگی۔
مذکورہ مسلمان کے پاس اُس وقت دو بندوقیں تھی۔ مگر انھوں نے بندوق نہیں اٹھائی۔ وہ تنہا اور خالی ہاتھ گھر سے نکل کر باہر آئے۔ انھوں نے نعرہ لگانے والی بھیڑ سے کچھ نہیں کہا۔ اُنھوں نے صرف یہ پوچھا کہ آپ کا لیڈر کون ہے۔ ایک صاحب جن کا نام مسٹر سونڈ تھا، آگے بڑھے اور کہا، وہ میں ہوں، بتائیے کہ آپ کو کیا کہنا ہے۔ مسلمان نے بھیڑ سےکہا کہ آپ لوگ یہاں ٹھہریے اور مسٹر سونڈ کو لے کر گھر کے اندر آگئے۔ اُن کو کمرہ میں لا کر اُنھیں کرسی پر بٹھا دیا۔
اس کے بعد مسلمان نے کہا کہ مسٹر سونڈ آپ لوگ کس سلسلہ میں یہاں آئے۔ مسٹر سونڈ نے غصہ میں کہا کہ آپ نے ایک ہندو بھائی کی زمین پر قبضہ کرلیا ہے، ہم اسی کے لیے یہاں آئے ہیں۔ مسلمان نے نرمی کے ساتھ کہا کہ آپ جانتےہیں کہ زمین کاغذ پر ہوتی ہے۔ زمین کا فیصلہ کاغذ کو دیکھ کر کیا جاتا ہے۔ آپ ایسا کیجیے کہ میرے پاس جو کاغذات ہیں، ان کو لے لیجیے، اور ٹھیکہ دار صاحب کے پاس جو کاغذات ہیں ،اُن کو بھی لے لیجیے، اور پھر نہایت اطمینان کے ساتھ اپنے گھر چلے جائیے۔ اس معاملہ میں میں آپ ہی کو جج بناتا ہوں۔ آپ کاغذات کو دیکھنے کے بعد جو بھی فیصلہ کردیں وہ مجھے بلا شرط منظور ہوگا۔
یہ سن کر مسٹر سونڈ بالکل نارمل ہوگئے۔ وہ غصہ کی حالت میں اندر گئے تھے، اور ہنستے ہوئے باہر نکلے۔ اُنھوں نے سڑک پر کھڑی ہوئی بھیڑ سے کہا کہ تم لوگ اپنے گھروں کو واپس جاؤ۔ میاں جی نےخود ہم کو جج بنا دیا ہے۔ اب ہم دونوں کے کاغذات دیکھ فیصلہ کریں گے۔ مسٹر سونڈ نے اس کے بعد گھر جاکر دونوں کے کاغذات کو دیکھا اور معاملہ کو اچھی طرح سمجھا۔ چند دن کے بعد اُنھوں نے صدفی صد مسلمان کے حق میں اپنا فیصلہ دے دیا۔
مذکورہ مسلمان اگر اپنی بندوق کو لے کر بھیڑ کے اوپر گولی چلاتے تو وہ بھیڑ کے نفس امارہ (انانیت) کو جگا دیتے۔ اور پھر یقینی طورپر سارا معاملہ مسلمان کے خلاف ہوجاتا۔ مگر جب انھوں نے گن(gun) کے بجائے معقولیت کو استعمال کیا تو اُس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں کا نفس لوّامہ (القیامۃ، 75:2) جاگ اٹھا ، نفس لوامہ یعنی ضمیر۔ اور جب ضمیر جاگ اٹھے تو اس کا فیصلہ ہمیشہ انصاف کے حق میں ہوتا ہے، ضمیر کبھی ظلم اور بے انصافی کا فیصلہ نہیں کرتا۔
واپس اوپر جائیں

ایک سینئر سیٹیزن کی زبانی

میری پیدائش یکم جنوری 1925ء کو یوپی میں ہوئی۔ میں برٹش انڈیا میں پیدا ہوا، اور اب اس کے ایک سینئر سیٹیزن کی حیثیت سے آزاد انڈیا میں پہنچ گیا ہوں۔ میری پیدائش ایک ایسے گھرانے میں ہوئی، جو فریڈم فائٹر کی حیثیت رکھتا تھا۔ میرے بڑے بھائی اقبال احمدخاں سہیل (ایم اے، ایل ایل بی)ایڈوکیٹ (1884-1955) ایک شاعر تھے۔ انھوں نے اپنی ایک نظم میں کہا تھا
غلط ہے یہ کہ فقط ہندوؤں کا لیڈر تھا
کہ تھا تمام جہاں بھر کا رہنما گاندھی
اقبال احمد خاں سہیل نے 1936 کے یوپی کے الیکشن میں حصہ لیا تھا، اور الیکشن جیت کر یوپی اسمبلی کے ممبر بنے تھے۔ اس کے بعد جب میں بڑا ہوا، تو مجھے سوامی وویکانندا (1863-1902) کی کتاب لیٹرس آف وویکانندا پڑھنے کو ملی۔ اس کتاب کے لیٹر نمبر 271 میں سوامی وویکانند نے اپنے ایک فرینڈ کو ایک خط مورخہ 10 جون 1898 ءمیں لکھا تھا۔ اس خط میں سوامی وویکانند نے آزاد انڈیا کے بارے میں اپنے ویزن کو ان الفاظ میں بیان کیا تھا 
For our own motherland a junction of the two great systems, Hinduism and Islam—Vedanta brain and Islam body—is the only hope. I see in my mind’s eye the future perfect India rising out of this chaos and strife, glorious and invincible, with Vedanta brain and Islam body. (Letters of Swami Vivekananda, p. 427)
انھیں سہانی یادوں کے ساتھ میرے دن گزرتے رہے۔ میں اپنے دائرے میں آزادی کی سرگرمیوں میں شریک رہا۔ مثلاً میں نے آزادی سے پہلے مئو (یوپی)جاکر جواہر لال نہرو (1889-1964)کی تقریر سنی۔ مجھے یاد ہے کہ لوگ ٹرینوں اور بسوں کی چھت پر بیٹھ کر مئو پہنچے تھے۔ اسی طرح میں نے پھولپور (اعظم گڑھ)کے ایک جلسہ میں شریک ہوکر سبھاش چندر بوس (1897-1945) کی تقریر سنی۔جیسا کہ معلوم ہے کہ سبھاش چندر بوس نے آزاد ہند فوج 1942 میں بنائی تھی۔ ان کا نعرہ یہ تھا
Give me blood, I will give you freedom
اسی طرح میں نے ایک سوشلسٹ اجتماع (gathering) میں شریک ہوکر جے پرکاش نارائن (1902-1979) کی تقریر سنی۔یہ جلسہ اعظم گڑھ میں ہوا تھا۔ جیسا کہ معلوم ہے جے پرکاش نارائن بعد کو لوک نائک کے خطاب سے مشہور ہوئے۔ اس طرح میری نوجوانی کے دن گزر رہے تھے۔ یہاں تک کہ 15اگست 1947ء کا دن آگیا۔ 15اگست 1947ء کی رات کو میں نے وہ تاریخی تقریر تو نہیں سنی، جس میں اس وقت کے وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن (1900-1979) نے رات کو 12 بج کر ایک منٹ پرآل انڈیا ریڈیو سے اعلان کیا تھا
Today India is free
میں وائسرائے کی تقریر کو ریڈیو پر تو نہیں سن سکا، لیکن بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح اگلے دن صبح کو اخبار میں پڑھا۔ 15اگست 1947ء کو میں اعظم گڑھ میں تھا۔ مجھے یاد ہے کہ رات کے وقت جب میں اپنی قیام گاہ سے باہر نکلا، اور شہر کی سڑکوں پر پہنچا تو میرے چاروں طرف خوشی کے دیے جل رہے تھے۔ پورا شہر روشنی میں ڈوبا ہوا تھا۔
اب وہ روشنی بجھ چکی ہے، لیکن اب وقت آگیا ہے کہ ہم سب لوگ مل کرایک نئے دور کے آغاز کا دیا جلائیں— وہ ہے انڈیا کی نئی تعمیر کا دور۔ وہ دور جس کا خواب سوامی وویکانندا نے دیکھا تھا۔ وہ دور جس کی یاد میں مہاتما گاندھی نے اپنی جان دے دی۔ وہ دور جس کا آخری صفحہ لکھنے کے لیے شاید انڈیا کا مؤرخ انتظار کر رہا ہے۔
میں اب 90 پلس ہوچکا ہوں۔ لیکن میری امیدیں ابھی تک باقی ہیں۔ میرا معمول ہے کہ میں روزانہ صبح کو اپنے کمرے سے نکل کر باہر بیٹھ جاتا ہوں، اور صبح کے سورج کے نکلنے کا انتظار کرتا رہتا ہوں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ 15اگست پر ہونے والے ایک پروگرام میں مَیں نے کسی شاعر کی زبان سے سنا تھا
برج مِحن سے نکلا سورج روشن اپنا مستقبل ہے
میں روزانہ طلوع سورج (sunrise) کا منظر اس امید سے دیکھتا ہوں کہ شاید آج کی صبح وہی صبح ہو، جس کے اشتیاق میں ایک فریڈم فائٹر نے ایک کتاب لکھی تھی، جس کا ٹائٹل تھا روشن مستقبل۔میں ہر دن نکلنے والے سورج کا استقبال ان الفاظ میں کرتا ہوں— وہ صبح کبھی تو آئے گی، وہ صبح کبھی تو آئے گی۔
انڈیا نے پیس فل اسٹرگل (peaceful struggle) کے ذریعے اپنی تاریخی آزادی حاصل کی تھی۔ اب انڈیا کی تعمیر نو کا کام بھی صرف پیس فل ا سٹرگل کے ذریعے انجام دیا جاسکتا ہے۔ انڈیا نے پیس فل اسٹرگل کے ذریعے آزادی حاصل کرکے ایک تاریخ بنائی تھی، اب دوبارہ وقت آگیا ہے کہ انڈیا کی تعمیر نو کا کام پیس فل اسٹرگل کے ذریعے انجام دیا جائے۔انڈیا کی طاقت پہلے بھی امن تھی، آج بھی امن(peace)ہے، اور آئندہ بھی امن ہی اس کی طاقت بنی رہے گی۔
15 اگست 2020 کو انڈیا نے اپنا چوہترواں (74th)یوم آزادی منایا۔ اب آخری وقت آگیا ہے کہ ہم آزاد انڈیا کی حیثیت سے اپنا رخ متعین کریں۔ یوم آزادی ہمارے لیے ٹرینڈ سیٹر(trend-setter) ہونا چاہیے۔ موجودہ سال، یعنی 2020 ء کو ہمیں ٹرینڈ سیٹر سال کے طور پر منانا چاہیے۔ سوچ سمجھ کر ہمیں آخری طور پر یہ طے کرنا چاہیے کہ آزاد نیشن کی حیثیت سے ہمارا نشانہ کیا ہے۔
سوامی وویکانندا نے یہ کہا تھا کہ انڈیا کے بارے میں ان کا خواب یہ ہے کہ آزادی کے بعد انڈیا اسپریچول سوپر پاور بن کر ابھرے۔ انڈیا پوٹنشل طور پر بلاشبہ اسپریچول سوپر پاور ہے۔ اس پوٹنشل کو ایکچول بنانے کے لیے صرف ایک چیز کی ضرورت ہے، اور وہ ہے جمہوری نظام کے تحت متحد ہوکر کوشش کرنا۔
میں 90 پلس ہوں، اس لحاظ سے مجھے زندگی کا لمبا تجربہ ہوا ہے۔ میں اپنے تجربے کی روشنی میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ انڈیا کے ڈیولپمنٹ کے لیے صرف ایک ہی ماڈل ہے ، جو ورکیبل ماڈل ہے۔ وہ وہی فطری ماڈل ہے، جس کو امریکن ماڈل کہا جاسکتاہے۔ امریکن ماڈل فری کمپٹیشن پر بیس (base) کرتا ہے، یعنی ایسا ماحول پیدا کرنا، جس میں میرٹ کی بنیاد پر کسی کو ترقی حاصل ہو، نہ کہ فیور (favour) کی بنیاد پر۔ ترقی کے لیے اصل چیز کامپیٹیشن ہے، نہ کہ فیور۔ امریکا میں ہر میدان میں یہ اصول ہے کہ کمپیٹ یا پیرش (compete or perish)، یعنی مقابلہ کرو، یا ختم ہوجاؤ۔ عام زبان میں اس کو کرو یا مرو(do or die) کہاجاتا ہے۔
فطرت کے قانون کے مطابق، اس دنیا میں کوئی گروہ فیور (favour) کے ذریعے ترقی نہیں کرسکتا۔ وہ صرف مقابلہ (competition) میں اپنے آپ کو اہل ثابت کرکے کامیاب ہوسکتا ہے۔یہ کمپٹیشن ہے، جوانسان کو مین (man)سے اٹھا کر سوپر مین (super-man) بناتی ہے۔ کیوں کہ خالق نے اس دنیا کوچیلنج - رسپانس (challenge-response) کے اصول پر بنایا ہے۔ فرد کی ترقی یا سماج کی ترقی کا راز یہ ہے کہ فطرت کو آزادانہ طور پر کام کرنے کا موقع دیا جائے۔اس کے سوا ہر دوسرا اصول انسان کا خود ساختہ اصول ہوگا، جو کبھی عمل میں آنے والا نہیں۔
یہی ماڈل نیچرل ماڈل ہے۔ کمپٹیشن کا ماڈل ماٹیویٹنگ ماڈل (motivating model) ہے۔ اس کے برعکس، نہرو نے رشین ماڈل کو اختیار کیا، جس کو وہ سوشلسٹ ماڈل کا نام دیتے تھے۔ مگر عملاً یہ ماڈل ڈی ماٹیویٹنگ ماڈل (demotivating model)ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اس ماڈل کو اختیار کریں، جو ماٹیویشن پر مبنی ہے، اوراس ماڈل کو مکمل طور پر چھوڑ دیں، جو عملا ڈی ماٹیویشن کا ماڈل بن جاتا ہے۔ اب آخری وقت آگیا ہے کہ ہم انڈیا کے ڈیولپمنٹ کی ری پلاننگ کریں۔
انڈیا میں امریکا کے سابق سفیر گالبریتھ ( John Kenneth Galbraith) نے ایک مرتبہ اپنے ایک بیان میں کہا تھا— انڈیا ایک فنکشننگ انارکی ہے (India is a functioning anarchy)۔ میں اس بیان کوکریٹیسزم کے طور پر نہیں لیتا، بلکہ چیلنج کے طور پر لیتا ہوں، اور یہ دعا کرتا ہوں کہ انڈیا ایک آئڈیل ڈیموکریسی بنے۔
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز- 273

سی پی ایس انٹرنیشنل کا مشن ہے تمام انسانوں کو ان کی قابل فہم زبان میں قرآن پہنچانا۔چنانچہ دنیا کےمختلف حصوں سے قرآن کا مطالعہ کرنے کے خواہش مند لوگ سی پی ایس انٹرنیشنل (www.cpsglobal.org) یا گڈورڈبکس (www.goodwordbooks.com) کی ویب سائٹ پر جاکر اپنے لیے قرآن کا ترجمہ آڈر کرتے ہیں۔ ان کو ترجمہ قرآن کا ایک نسخہ بلاقیمت بھیجا جاتا ہے۔ ذیل میں ایسے کچھ تاثرات درج کیے جاتے ہے
— The Quran I have received is in good condition. I have also received new books from Goodword. I use these books to know about Islam. I like to read the Quran because it has a lot of spiritual values. Keep up the good work. Thank you. (Mr. Hariharan Raja, Mayiladuthurai, TN, India(
— I like reading the daily devotional book, Quranic Wisdom. It is full of interesting themes. And the translation of the Quran is very smooth to read, and easy to understand. (Mr. Iain Dixon, Manchester, UK)
— I just wanted to ask if there is already an Italian translation of Wahiduddin Khan’s English translation of the Quran? I had the chance to read the English translation of Wahiduddin Khan which was gifted to me in Istanbul, at the Yeni mosque, several years ago in 2011. It was one of the reasons why I then became Muslim. Unfortunately, of course this is my personal view, I don't think the current Italian translations of the Quran renders the same message which Wahiduddin Khan’s translation does. I think Italian translation of the Quran would be much needed because of the problems Muslims face in my country, and also for Muslims who can't read English and understand Quranic Arabic. If the Italian translation of Wahiduddin Khan’s English translation has not been done, are you planning to do it in the future? (An Italian reader)
— ڈاکٹر محمد اسلم خان (سی پی ایس انٹرنیشنل سہارن پور)کو میکسیکو یونیورسٹی کی جانب سے میڈیکل سائنس میں ڈاکٹریٹ کی اعزای ڈگری دی گئی تھی۔ یہ ڈگری ان کو 25 جنوری 2020 کو ہوٹل گرینڈ نیو دہلی میں منعقد پروگرام میں دی گئی۔ انڈیا سے 12 آدمیوں کو یہ اعزازی ڈگری دی گئی تھی۔اس موقع پر ساؤتھ افریقہ، صومالیہ، یوگینڈا، نائجیریا، اور بنگلہ دیش سے بھی تقریبا 400 لوگ آئے تھے۔ ان تمام کو ڈاکٹر محمد اسلم خان، اور ان کی ٹیم نے انگریزی ترجمۂ قرآن اور دعوتی لٹریچر دیا۔ تمام لوگوں نے خوشی کے ساتھ اسپریچول گفٹ قبول کیا۔
— پونا (مہاراشٹر) کے قریب ستارا ضلع میںایک مشہور ہل اسٹیشن ہے۔ اس کا نام مہابلیشور ہے۔یہ ہندوؤں کا مقدس مقام بھی ہے۔ وہاں پر 17 فروری 2020 کو ایک بک ایکسپو کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اس میں عبدالصمد صاحب کے تعاون سے مسٹر اکبر حسین صاحب نے ایکسپو میں آنے والے تمام لوگوں کےمراٹھی ترجمہ قرآن اور دوسری مراٹھی کتابیں تقسیم کی۔ کتابوں کی ڈیمانڈ اتنی زیادہ تھی کہ کتابیں فوراًختم ہوگئیں، پھر مسٹر اکبر حسین صاحب نے بعد میں آنے والوں کے نام اور ایڈریس لیے تاکہ وہ ان کو بعد میں قرآن کا ترجمہ اور کتابیں بھجوائیں گے۔
— On February 3, an interfaith dialogue was held at Indian Institute of Spirituality Bangalore. Three hours were assigned to Islam on the topic The Role of the Prophets: The Islamic Perspective. There was an audience of seventy people who were students and staff of the Theology department. Their profound questions at the end of the session were a proof of their intellectual level. God bless them all. The following verbal feedback was received in the concluding part of the session: “We are very grateful for this important clarification and clear explanation about Prophet Muhammad being a prophet of peace, and Islam being a religion of peace.” We also received the following email from the Dean of the Institute the next day: “Thank you Madam. It was a graceful time with you, and all were taken up by your inspiring talks and presence. It touched our hearts and challenged us to live as peace bearers. Thank you very much. Father Sibichen.” (Ms. Sarah Fathima, Bengaluru)
— CPS Mumbai Team’s New Zealand Dawah Trip (March 11-18, 2020): The Mumbai team comprising of three members, Ms. Husna Sajid Anwar, Mr. A R Shaikh and I, had travelled to New Zealand. We reached Christchurch on March 11 and returned on March 18. The team joined Mr. Khwaja Kaleemuddin who had arrived from the US the same day. It was his fourth trip after the tragedy that had occurred at Christchurch mosques on March 15, 2019. 10,000 copies of the Quran and Discover Islam booklets in English had already arrived in shrink-wrapped packets before our arrival and were ready for distribution (This was arranged by Mr. Kaleemuddin and Dr. Saniyasnain Khan). The CPS team met the NZIC (New Zealand Islamic Information Centre) team from Auckland at the Linwood mosque on March 12. They are also engaged in the distribution of Quran copies in various languages and other literature, mainly leaflets, prepared on different topics. The teams introduced themselves to one another. At the end, they enquired if we had the Quran in Hindi and Punjabi languages for distribution. Mr. Kaleemuddin said that he would arrange Quran copies for them in these languages at the earliest. The Friday prayer on March 13 was arranged in Horncastle Arena, an indoor stadium. Almost all the Muslims of Christchurch were present. Relatives of slain and injured persons gave speeches and emphasized that Islam taught love, mercy, compassion and forgiveness. They also expressed thanks to New Zealand government, especially the Prime Minister Jacinda Arden, and the people of the country for showing their solidarity and support during the hour of crisis, which was truly exceptional. We couldn’t distribute Quran there, as it wasn’t allowed. The Sunday program, the first anniversary of the tragic event, was held on March 15 in both the mosques. We divided ourselves into two teams so that Quran distribution could be done at both the mosques - Al-Noor and Linwood. Ms. Husna Sajid and Mr. A R Shaikh took responsibility of the distribution at the main mosque, Al-Noor, while I went to Linwood mosque. Mr. Kaleemuddin was overseeing the arrangement at both places and thus was frequenting between these two mosques. We saw open and clear sign of God’s help throughout this dawah trip. Two incidents are worth mentioning here. On March 14 when we were thinking how and where to arrange the literature for next day’s program, we saw a fully prepared nice tent right at the entrance of Al-Noor mosque’s gate. Mr. Kaleemuddin inquired from Br Murray Stirling, treasurer of the mosque, regarding permission for using the tent temporarily. He immediately contacted the person who had put up the tent and got the permission for our use on Saturday. But on Sunday also the tent’s owner didn’t turn up and we continued to use the tent for Quran distribution. This seemed as if the tent was put up especially for us to perform dawah. My wife, Husna Sajid, can barely speak English but with the grace of God she along with Mr. Shaikh distributed more than 400 copies of the Quran and other literature to visitors at the Al-Noor mosque. All visitors were English-speaking. The manner and enthusiasm with which CPS members interacted with visitors and gifted the Quran impressed members of other teams, for example, IERA from England and Voice of Islam from Auckland, both of whom later adopted the same method at the end of the day. We met a number of influential Muslims like Imams of both mosques, Chairman of the mosque trust, members of the mosque committees, etc. Tazkirul Quran along with other English books of Maulana were given to most of them. Some were given Urdu books and Al-Islam Yatahadda as well. Maulana Abdul Lateef, a Nigerian educated in Pakistan for nine years, is the Imam of Linwood mosque. He had helped in receiving and storing the Quran consignment. He expressed his plan to travel to various cities of New Zealand with the literature and inspiring the heads of mosques and Islamic centers for Quran distribution. He also agreed to spread Al-Risala and Spirit of Islam as well. We also availed the dawah opportunities during the journey by distributing Quran copies and literature to the airline staff who accepted the gift very happily. This trip was another proof of what Maulana has been saying repeatedly over the years that this is the age of dawah, and the entire globe is available for this. We just have to stand up and Allah will send His angles to do the rest. (Mr. Sajid Anwar, Mumbai)
— مولانا سے ملاقات کے بعد علم وفکر میں جو اضافہ ہوا ہے، اس کو یہاں درج کیا جاتا ہے:دور جدید میں عقلی استدلال کامنہج معلوم ہوا۔اسلامی دعوت کے حق میں دور جدید کا رول اور اس کا استعمال۔ امن ہی مطلوب الٰہی ہے، جنگ ایک استثنائی عمل ہے۔ قرآن وحدیث کے تطبیقِ نو اور اس کی توسیعی تطبیق کا منہج معلوم ہوا۔’’میڈیٹیشن کے بجائے کائنات پر غور وفکر(contemplation) کرنے سے تزکیہ کا حصول ممکن ہے۔‘‘ اس کی وضاحت ملی۔ اشراط الساعۃ کے بارے میں تمثیلی ہونے کا علم ملا۔ تجدیدِ ایمان اور ازدیادِ ایمان کی اہمیت معلوم ہوئی۔ تجدیدِ دین کا مطلب دین کا تطبیق نو (reapplication of religion)ہے، نہ کہ کوئی نیادین لانا۔ شکایت فری زندگی مطلوب ہے۔ صبر بطور مجبوری نہیں، بلکہ بطور اصول اپنانا ہے۔ اسی طرح آپ نے ایک اہم رہنمائی یہ کی ہےکہ خدا کے مشن میں رہنا گویا ہر وقت خدا کو منھ دکھانے کا اظہار ہے ۔اگر داعی انا سے خالی (ego-free)نہ ہو تو وہ ایگو کا مشن لیے ہوئےہے، نہ کہ خدا کا مشن۔ خدا کے مشن میں خدا کو پرائمری پوزیشن حاصل ہے۔ ایگو کو پرائمری پوزیشن دینے کی سوچیں گے تو مشن سارا جیوپرڈائز ہوجائے گا۔ اس لیے جب ایگو کے حالات پیدا ہوں توخدا کے لیے پیچھے ہٹنا ہی ایگو کو کچلنا ہے۔اگر ایسا نہ کریں تو سارا معاملہ بگڑ جائے گا۔مولانا میں خدائی مشن کی خاطر اور خدا کو منھ دکھا نے لیے اپنے ایگو کو کچلتا ہوں۔ (مولانا سید اقبال احمدعمری، عمر آباد، تامل ناڈو، انڈیا)
— The book, Discovering God, explains the practical and mandatory aspects of spiritualism. I've learnt that realization of God/marifah is not optional, but mandatory for every person, for two reasons: to act according to Creator's plan and to be able to fulfil one's very purpose of life. It is beautifully written. Sometimes I found repetitions, but then good things need to be repeated to enhance retention. (Ms. Sarah Farooq)
— میں مولانا کی ڈائری سے روزانہ چند صفحات کا مطالعہ ضرور کرتا ہوں ۔ یہ ڈائریاں مولانا کی شخصیت اور فکر دونوں کی آئینہ دار ہیں ۔ مولانا کی کتابوں کے مقابلے میں ان کی نوعیت مختلف ہے ۔ روزمرہ کے تجربات، مشاہدے، مطالعے اور مکالموں کے ذریعے حکمت و دانائی کی وسیع تر دنیا آباد کردینا مولانا کا وصفِ خاص ہے ۔مولانا کی تمام ڈائریوں کو اصل میں’’اوراق حکمت‘‘ کہنا چاہیے ۔ ان میں دانائی کی وہ بڑی بڑی باتیں پائی جاتی ہیں، جن کو حاصل کرنے کے لیے ایک سچا متلاشی اپنی عمر گنوا دیتا ہے ۔ بلا شبہ یہ ڈائریاں ہمارے اندر سلیقۂ فکر پیدا کرتی ہیں ۔ صحیح اور غلط کے فیصلہ کن تجزیے سے آشنا کراتی ہیں ۔یہ سنجیدگی پیدا کرتی ہیں ۔ کلی طور پر ہماری فکری ساخت کو تبدیل کردیتی ہیں ۔ سی،پی،ایس انٹرنیشنل کے تمام احباب کے لیے میں مولانا کی دیگر کتابوں کے ساتھ ساتھ ڈائریوں کے روزانہ مطالعے کو بھی ناگزیر سمجھتا ہوں ۔ کیونکہ اس کی نظیر کہیں اور دیکھی نہیں جا سکتی۔(فیض قادری،کوئمبتور، انڈیا)
— محترم مولانا وحید الدین خان صاحب کی ضخیم کتاب ’’اسفار ہند‘‘ کے مطالعہ کے بعد تاثرات :(1) مختلف مذاہب کے لوگوں کے ساتھ مولانا کے مکالمات اور واقعات پڑھ کر مولانا کی غیر معمولی ذہانت کا اندازہ ہوتا ہے۔ (2) مولانا کی شخصیت ایک قرآنی شخصیت کے طور پر نظر آتی ہے ۔ آپ کا ذہن ہر وقت اور ہر سفر میں رب العزت کی قدرتوں کے مشاہدہ میں مصروف نظر آتا ہے۔(3) مسلمانوں کے تعلق سے مولانا نے سب سے اہم بات کتاب کے صفحہ نمبر 368 میں بیان کی ہے، جو ، میرے خیال میں،مولانا کی تعلیمات کے خلاصہ میں سے ہے۔ مولانا لکھتے ہیں:’’ایک تعلیم یافتہ مسلمان نے کہا کہ آپ ہمیشہ مسلم رہنمائوں کی مخالفت کرتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟میں نے کہا میں مسلم رہنمائوں کا مخالف نہیں۔ البتہ کئی بار میں نے ان کی ترجیحات پر تنقید کی ہے۔ کیوں کہ میں دیکھتا ہوں کہ اکثر وہ نان اشو (non-issue) کو اشو (issue)بنا لیتے ہیں۔ اس کا نتیجہ عام مسلمانوں کے لیے مایوسی اور ہلاکت کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔تقسیم کے بعد انھوں نے کئی بار ایسا کیا ہے کہ ایک اشو کو اٹھایا اور مسلمانوں کو یہ تاثر دے کر بھڑکایا کہ یہ نہیں تو تمہارا وجود بھی نہیں۔ کبھی اردو، کبھی مسلم یونیورسٹی ، کبھی پرسنل لاء، کبھی ملی تشخص، کبھی نفقہ مطلقہ ، کبھی بابری مسجد، کبھی تطلیقات ثلاثہ۔میرے نزدیک مسلمانوں کی قسمت اس قسم کے مسائل سے وابستہ نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو بابری مسجد کے ڈھائے جانے کے بعد مسلم ملت بھی ڈھ گئی ہوتی۔ اس قسم کی باتیں مسلمانوں کے ذہن کو بگاڑنے کے ہم معنی ہیں۔ہمارے لیے صحیح ترجیح یہ ہے— تعلیم اور اقتصادیات اور اخلاق۔ مسلم رہنمائوں کو چاہیے کہ وہ سارا زور ان ا صل مسائل پر دیں۔ مسلمانوں کو تعلیم یافتہ بنانے کی تدبیریں کریں۔ مسلمانوں کو اقتصادیات میں آگے لے آئیں۔ مسلمانوں کے اندر اعلی کردار پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ یہ سب جڑ والے کام ہیں۔‘‘(4) یہ کتاب علم اور حکمت سے لبریز ہے، جس کے مطالعے سے وقت کا زیاں نہیں ہو سکتا۔(5) ایک اور اہم بات یہ کہ محترم مولانا کا تعلق مسلمانوں کے علاوہ اعلی اور متوسط طبقہ کے ہندوئوں کے ساتھ رہا لیکن آپ نے کبھی نفرت کی باتیں نہیں کیں، جس کی وجہ سے ایک اعلیٰ مسلم رہنماکے طور پر آپ شناخت کی برقرار ہے۔ میری نظر میں محترم مولانا کی یہ علمی خدمات اعلی درجے کا باقی رہنے والا کام ہے۔(سید عمران علی کراچی، پاکستان)
واپس اوپر جائیں