Pages

Thursday 2 February 2012

Al Risala | February 2012 (الرسالہ,فروری)

2

-امر یکا کا سفر (آخری قسط)

40

- کائنات پر کنٹرول

41

- جنت اور انسان

42

- اللہ کے ساتھ

43

- زیادہ بڑا ایمپائر

44

- مفروضہ دشمن کے خلاف

45

- غلطی کرنے کے بعد

46

- موت کا الارم


امریکا کا سفر

24 جون 2011 کی سہ پہر کو ہم لوگ بذریعہ کار بن سلیم (Bensalem) سے نیویارک کے لیے روانہ ہوئے۔ وہاں ہم کو ڈاکٹر وقار عالم کے یہاں پہنچنا تھا۔ میں نے اپنے ساتھیوں کے ہم راہ اِس سفر کو بذریعہ کار طے کیا۔24 جون 2011 کی شام کو ڈاکٹر وقار عالم کے گھر پر ایک پروگرام ہوا۔ اُن کا گھر اسٹیٹن آئی لینڈ(Staten Island) میں واقع ہے۔ یہاں میں نے جنت کے موضوع پر 40 منٹ کی ایک تقریر کی۔ اس کے بعد سوال وجواب کا پروگرام ہوا۔ میں نے ایک بات یہ کہی کہ جنت کسی کو سفارش (recommendation) کی بنیاد پر ملنے والی نہیں۔ جنت صرف اُن افراد کو ملے گی جو اپنے اندر جنتی شخصیت کی تعمیر کریں۔ اِسی تعمیر ِ شخصیت کو قرآن میں تزکیہ کہا گیا ہے۔
ڈاکٹر وقار عالم کے گھر پر ایک عرب عالم ہشام مصری سے ملاقات ہوئی۔ وہ عربی کے علاوہ انگریزی زبان جانتے تھے۔ اُن سے دیر تک گفتگو ہوتی رہی۔ وہ مسلمانوں کے موجودہ جہاد کو ایک حدیث (مَن رأی منکم منکراً فلیغیرہ بیدہ)کی بنیاد پر درست قرار دیتے تھے۔ میںنے کہا کہ خود اِس حدیث سے ثابت ہے کہ ’’استطاعت‘‘ شرط ہے۔ جہاں استطاعت نہ ہو، وہاں خاموشی اور دعا ہے، نہ کہ متشددانہ ٹکراؤ۔
24 جون2011 کی شام کو ایک روسی ریڈیو چینل کی دو خواتین ملاقات کے لیے آئیں۔ انھوںنے میرااور میرے ساتھیوں کا انٹرویو لیا۔ یہ انٹرویو ہمارے موجودہ امریکی سفر کے بارے میں تھا۔ یہ ریڈیو چینل اُن روسیوں کے لیے ہے جو روس سے باہر امریکا اور دوسرے ملکوں میں رہتے ہیں۔ یہ 450 شہروں میں سنا جاتا ہے۔ ہمارے ساتھیوں نے اِن روسی خواتین کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا۔
ایک تعلیم یافتہ مسلمان سے ملاقات ہوئی۔ وہ پاکستان میں پیداہوئے۔ اب وہ امریکا میں رہتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ میں باقاعدہ آپ کا میگزین اور کتابیں پڑھتا ہوں۔ انھوںنے کہا کہ میں آپ سے پورا اتفاق رکھتاہوں۔ انھوںنے کہا کہ میں اگر پاکستان میں ہوتا تو میں آپ کے نظریے کی صداقت کو سمجھ نہ پاتا۔ کیوںکہ پاکستان میں بہت زیادہ منفی ماحول ہے، جب کہ آپ کا نظریہ مکمل طورپر مثبت بنیاد پر قائم ہے۔ اس کو میںاپنی خوش قسمتی سمجھتا ہوں کہ میں امریکا آیا اور یہاں کے کھلے ماحول میں مجھے آپ کے لٹریچر کو پڑھنے کا موقع ملا۔
25 جون 2011 کی صبح کو نماز فجر کے بعد ڈاکٹر وقار عالم کے گھر پر دوبارہ ایک نشست ہوئی۔ اس نشست میں میں نے ایک گھنٹہ کی تقریر کی۔ اس نشست میں میں نے چار چیزیں بتائیں:
1 - ڈسکوری کے درجہ میں اللہ کو پانا۔
2 - اللہ سے محبت (strong affection) کے درجہ میں تعلق ہونا۔
3 - ہر موقع کو پائنٹ آف ریفرنس بنا کر ذکر ودعا کرنا۔
4 - میں نے اپنا تجربہ بتاتے ہوئے کہا کہ 1983 میں امریکا میں مجھے ایک انتہائی تجربہ ہوا، جب کہ مجھے نیویارک کے ائر پورٹ سے واپس کردیا گیا تھا (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: سفرنامہ، جلد اول، صفحہ 470)۔ لیکن میں نے اس واقعے سے منفی تاثر نہیں لیا، بلکہ یہ دعا کیکہ آخرت میں اگر ایسا ہو کہ جنت کے گیٹ سے مجھے واپس کردیا جائے تو میرا کیا حال ہوگا۔
ایک سوال کے جواب میں میں نے کہا کہ اسوۂ حسنہ کی آیت (33: 21)کو کچھ لوگوں نے بے معنی بحث کا موضوع بنالیا ہے، حالاں کہ اس میں ایک سادہ حقیقت بتائی گئی ہے، یعنی یہ کہ دین کی نظری تعلیم (آئڈیالوجی) قرآن سے لو اور اس کا پریکٹکل ماڈل رسول کی زندگی سے اخذ کرو۔
25 جون 2011کی صبح کو میں ڈاکٹر وقار عالم کے گھر میں بیسمنٹ (basement) میں بیٹھا ہوا تھا، یہاںتک کہ دھوپ اندر آنے لگی۔میں نے پوچھا کہ میں تو بیسمنٹ میں بیٹھا ہوں، اتنی زیادہ دھوپ کہاں سے آرہی ہے۔ لوگوں نے بتایا کہ یہاں دو قسم کے بیسمنٹ بنتے ہیں۔ ایک وہ جو پورا کا پورا انڈر گراؤنڈ ہوتا ہے جس میں دھوپ نہیں آتی۔ بیسمنٹ کا دوسرا طریقہ وہ ہے جس کو بائی لیول (bi-level) کہا جاتا ہے۔ یہ بیسمنٹ آدھا زمین میں اور آدھا اوپر ہوتا ہے۔
25 جون 2011 کی صبح کو 9 بجے امریکا کے ایک انٹرفیتھ انسٹی ٹیوٹ تھنک ٹینک (Interfaith Institute Think Tank) کے لیے میرا ایک انٹرویو تھا۔ چناں چہ انسٹی ٹیوٹ کی طرف سے مز آویت (Awet Andemicael) ڈاکٹر وقار عالم کے گھر پر اپنی ٹیم کے ساتھ آگئیں۔ انھوں نے میرا ایک تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ اس انٹرویو کا موضوع انٹرفیتھ فرینڈ شپ (interfaith friendship) تھا۔ ہمارے ساتھیوں نے ان لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیا۔ اس کو انھوں نے خوشی کے ساتھ قبول کیا۔ مز آویت نے ہماری گفتگو کا مثبت اثر لیا۔ چناں چہ انھوںنے میرے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے خواجہ کلیم الدین صاحب سے کہا:
I learned a great deal from his remarks, and was deeply touched by and will always treasure the blessing he was kind enough to bestow on me.
امریکی کلچر کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ اختلاف کو ہر ایک کا فطری حق سمجھتے ہیں۔ میں نے ایک امریکی پروفیسر سے پوچھا کہ امریکا کی ترقی کا راز کیا ہے۔ اس نے جواب دیا کہ ڈسینٹ (dissent) کا احترام کرنا۔ اس نے کہا کہ ہم ڈسینٹ (اختلاف) کو بُرا نہیں سمجھتے۔ ہم ڈسینٹ کو اُس وقت تک برداشت کرتے ہیں جب تک وہ تشدد نہ بنے۔ میںنے کہا کہ یہ ایک فطری بات ہے اور یہی اسلام کا اصول بھی ہے۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ: اختلاف أمتی رحمۃ (میری امت کا اختلاف رحمت ہے)۔ اِس حدیث رسول میںاختلاف سے مراد وہی چیز ہے جس کو انگریزی زبان میں ڈسینٹ کہا جاتا ہے۔
ملاقات کے دورا ن یہاں کئی لوگوں نے یہ بات کہی کہ ہندوپاک میں مدارس کا جو نظام ہے، اس میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ میں نے کہا کہ یہ مسئلہ تبدیلی کا نہیں ، بلکہ ممکن کا مسئلہ ہے۔ اگر مدارس کے نظام میں تبدیلی کی جائے تو تبدیل شدہ نظام کو چلانے کے لیے ا س کے مطابق اساتذہ درکار ہوں گے۔ موجودہ حالت میں اساتذہ کی تیاری کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔ موجودہ حالات میں صرف یہی ممکن ہے کہ جو لوگ مدارس سے فارغ ہوں، وہی دوبارہ اس میں استاد کی حیثیت سے کام کریں۔ میں نے کہا کہ جو لوگ مدارس کے نظام میں تبدیلی کی بات کرتے ہیں، اُن کو پہلے تربیت کے ادارے قائم کرنا چاہیے، جیسا کہ سیکولر نظامِ تعلیم میں پایا جاتا ہے۔
خواجہ کلیم الدین صاحب نے بتایا کہ امریکا کے مختلف شہروں میں اُن کو ایسے سنجیدہ افراد مل گئے ہیں جو بڑے پیمانے پر غیر مسلموں کے درمیان قرآن کا انگریزی ترجمہ پھیلارہے ہیں۔ مثلاً جارجیا کے امام عامر فہید علی مرکل، وغیرہ۔ یہ لوگ برابر خواجہ کلیم الدین صاحب سے قرآن کا انگریزی ترجمہ منگواتے ہیں اور اس کو لوگوں کے درمیان پھیلاتے ہیں۔
ایک صاحب جو ہمارے مشن کے ہمدرد ہیں، انھوں نے کہا کہ آپ نے بعض قومی اور ملی مسائل کے بارے میں ایسے بیانات دئے ہیں جن کی وجہ سے آپ ملت سے الگ تھلگ ہوگئے ہیں۔ یہ چیز آپ کے مشن کے لیے مفید نہیں۔ آپ کو ملت کے مزاج کی رعایت کرتے ہوئے اپنا کام کرنا چاہیے۔ اپنی قوم کو نظر انداز کرکے کوئی شخص اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔
میںنے کہا کہ آپ پر غالباً یہ بات واضح نہیں کہ میرا نشانہ کیا ہے۔ آپ دوسروں کے نشانے کو جانتے ہیںاور اس کو میرے اوپر چسپاں کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے نشانے اور دوسرے لوگوں کے نشانے میں ایک بنیادی فرق ہے، وہ یہ کہ دوسروں کا نشانہ عملی نتیجہ ہوتا ہے اور ہمارا نشانہ ابلاغ ہے۔دوسروں کی کامیابی اس میں ہے کہ قوم اُن کا ساتھ دے، تاکہ وہ اپنے مطلوب نتیجے کو حاصل کرسکیں۔ اِس نشانے کی بنا پر وہ اِس کو ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ کوئی ایسی بات نہ کہیں جو قوم کے مزاج کے خلاف ہو اور قوم ان سے کٹ جائے۔ اس کے برعکس، ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہم خالصتاً دعوت الی اللہ کے لیے اٹھے ہیں۔ اِس مقصد کی بنا پر ہمارا نشانہ صرف ابلاغ (36: 17)ہے، یعنی اللہ کے پیغام کو ٹھیک ٹھیک لوگوں تک پہنچا دینا۔ ہماری ذمے داری یہ ہے کہ ہم ناصح اور امین کی حیثیت سے اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچا دیں۔ اِس کے بعد یہ دوسروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ عملاً اس کے ساتھ کیا رویہ اختیار کرتے ہیں۔
میں نے کہا کہ دوسری بات یہ ہے کہ مسلم ملت میں دو قسم کے لوگ ہیں— ایک، وہ جو مسلم مفاد کے نام پر ہنگامے کی سیاست چلاتے ہیں۔ اِس گروہ میں کچھ لوگ سوچ کی سطح پر ایسے ہیں اور کچھ لوگ عملی سطح پر۔ اُن کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ملت آج دشمنوں سے اور سازش کرنے والوں سے گھری ہوئی ہے۔ اِس لیے ضروری ہے کہ اُن لوگوں سے مقابلہ کیا جائے۔ میں بلاشبہہ اِس طبقے سے کٹا ہوا ہوں۔ لیکن اِسی کے ساتھ ملت میں دوسرا طبقہ بھی ہے جو سنجیدہ ہے، جو دوسروں کے خلاف منفی ہنگامے کے بجائے خود اپنی اصلاح کو اہمیت دیتا ہے، جو جہاد کے نام پر تشدد کے بجائے پُر امن دعوت الی اللہ میں یقین رکھتا ہے۔ ملت کا یہ دوسرا طبقہ ساری دنیا میں میرے ساتھ ہے، اور اِس طبقے کے تعاون سے آج ہمارا مشن ہر جگہ کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے۔ پھر میں نے ایک عرب شاعر کا یہ شعر پڑھا:
فإن أک فی شرارکم قلیلُ فإنّی فی خیارکم کثیرُ
کچھ لوگوں نے ایسے سوالات کئے جن کو عام زبان میں شوشے کے سوالات کہاجاتا ہے۔ اِس کو سن کر میں نے ان کو یہ حدیث سنائی: سکت عن أشیاء من غیر نسیان فلا تبحثوا عنہا۔ میں نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس چیز کے بارے میں ڈاٹا (data) موجود نہ ہو، اُس پر بحث نہ کرو، کیوں کہ ایسی باتوں میں بحث کرنے سے کنفیوژن کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ میں نے کہا کہ فلسفہ نے ایسی چیزوں میں بحث کی جس کے لیے ڈاٹا موجود نہ تھا۔ اس کے برعکس، سائنس نے اپنی کھوج کو موجود ڈاٹا (available data) تک محدود رکھا۔
26 جون 2011 کی صبح کو ہمارا قافلہ ڈاکٹر وقار عالم کے یہاں سے روانہ ہوا۔ یہاں سے چل کر ہم لوگ نیویارک میںاُس مقام پر پہنچے جس کو آج کل گراؤنڈ زیرو کہاجاتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں پہلے مشہور ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی اونچی عمارت (Twin Tower) قائم تھی۔ پھر 11 ستمبر 2001 کو اڑتے ہوئے جہاز سے ٹکرا کر کچھ انتہا پسند لوگوں نے اس کو ڈھا دیا۔ اب وہاں ایک ناہموار خالی زمین (site) ہے جس کے چاروں طرف گھیرا بنا دیاگیا ہے۔ مجھے یاد آیا کہ میں 1996میں نیویارک آیا تھا۔ 22 اگست 1996 کو اُس وقت میںاِس عمارت کے اوپر بذریعہ لفٹ چڑھا تھا۔ ایک تیز رفتار لفٹ ہم لوگوں کو اوپر لے گئی۔ اوپر سے نیچے جب میں نے سڑک کی طرف دیکھا تو نیچے چلتی ہوئی گاڑیاں ٹوائے کار (toy car) کی طرح معلوم ہوتی تھیں اور انسان بونے (dwarf) دکھائی دیتے تھے۔ مگر آج یہاں اِس عظیم عمارت کا کوئی وجود نہیں۔
اس مقام کو دیکھنے کے بعد ہمارا قافلہ آگے بڑھا۔ ہم کو قریب کی مسجد کے امام فیصل عبد الرؤف (کویت) سے اُن کی رہائش گاہ پر ملاقات کرنا تھا۔ یہاں اُن سے اور ان کی اہلیہ سے ملاقات ہوئی۔ یہ لوگ عربی کے علاوہ انگریزی زبان جانتے تھے۔ ان سے دیر تک انگریزی میں باتیں ہوتی رہیں۔ گفتگو کا موضوع زیادہ تر دو تھا— امریکا میں اسلامی دعوت کے مواقع، اور مسلم دنیا میں مسلمانوں کی حالت۔ امریکا میں اسلامی دعوت کے بارے میں وہ پُرامید تھے، لیکن مسلم دنیا میں مسلمانوں کی حالت کے بارے میںفکر مند تھے۔ ہم لوگوں نے دوپہر کا کھانا انھیں کی رہائش گاہ پر کھایا۔
امریکا اور کینڈا میں جو لوگ الرسالہ مشن کے دعوتی عمل میں سرگرم طور پر اپنا رول ادا کررہے ہیں، ان میں سے ایک مز بشریٰ اقبال (نیو جرسی)، اور مسٹر وسیم ناصر انجینئر (ٹورنٹو، کینڈا) ہیں۔ یہ لوگ مسلسل طور پر ہمارے پروگرام میں شریک رہے۔ یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد ہیں۔ یہ لوگ لمبے عرصے سے امریکا اور کینڈا میں الرسالہ فورم انٹرنیشنل کے تحت دعوتی کام کررہے ہیں۔
امریکا میں مقیم ایک مسلمان سے ملاقات ہوئی۔ انھوںنے کہا کہ اپنے بچوں کے بارے میں ہم کو یہ فکر رہتی ہے کہ ہمارے بعد دینی اعتبار سے اِن بچوں کا کیا حال ہوگا۔ انھوںنے بتایا کہ ہمارے بچے سیکولر اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔ البتہ ہم اپنے گھر پر اسی کے ساتھ بچوں کی دینی تربیت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ امریکا میں اس کو ہوم اسکولنگ (home schooling) کہا جاتا ہے۔
میں نے کہا کہ جب آپ نے امریکا میں رہنے کا فیصلہ کیا تو آپ کو یہ جاننا چاہیے کہ آپ یہاں کے کلچر سے اپنے بچوں کو محفوظ نہیں رکھ سکتے۔اِس کلچرل سیلاب کا مقابلہ ہوم اسکولنگ کے ذریعہ کرنا ایسا ہی ہے جیسے کاغذ کی دیوار سے سیلاب کا مقابلہ کرنا۔ تجربہ بتاتا ہے کہ غالباً کو ئی ایک بچہ بھی ایسا نہیں جس کی مثال کو لے کر یہ کہا جاسکے کہ ہوم اسکولنگ کا طریقہ اپنے مطلوب نشانے کو حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ایسی حالت میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ ایک طرف گھر کے ماحول کو بدلا جائے، اور دوسری طرف بچوں کے اندر دعوتی ذہن پیدا کیا جائے۔ گھر میں سادگی (simplicity)اور بچوں کے اندر دعوتی ذہن پیدا کئے بغیر اِس کلچرل سیلاب کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں ہے۔
امریکا میں کئی ایسے مسلمانوں سے ملاقات ہوئی جو نظامِ خلافت کی باتیں کرتے ہیں۔ میںنے کہا کہ لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ نظام خلافت کی باتیں کرتے ہیں، مگر عملاً وہ نظامِ منافقت پر قائم ہوتے ہیں۔ انھوںنے کہا کہ وہ کیسے۔ میںنے کہا کہ اگر آپ لوگ واقعۃً نظامِ خلافت قائم کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے آپ امریکا کی شہریت کو ختم کردیجئے۔ کیوں کہ شہریت کے فارم پر دستخط کرنے کے بعد اِس قسم کی باتیں کرنا اگر بالاعلان ہو تو وہ ملک سے غداری ہے، اور اگر اعلان کے بغیر ہو تو وہ منافقت ہے۔
میںنے کہا کہ موجودہ زمانے میں ایک نیا فیشن وجودمیں آیا ہے جس کو میں منافقت کا فیشن کہوں گا۔ میں نے کہا عرب دنیامیں الاخوان المسلمون (قائم شدہ: 1928 ) کا فکر کافی پھیلا۔ اِسی طرح برصغیر ہند میں جماعت اسلامی (قائم شدہ: 1941 ) کو کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔ دونوں کا مشترک فکر یہ تھا کہ موجودہ زمانے کاسیاسی اور اقتصادی نظام ایک باطل نظام ہے۔ اِ س نظام کے ساتھ مسلمان کا تعلق منازعت کاہونا چاہیے، نہ کہ مصالحت کا۔ مگر آج عرب دنیااور غیر عرب دنیا دونوں کا حال یہ ہے کہ وہ اِس ’’باطل نظام‘‘ کے تحت مادّی فوائد حاصل کرنے کے لیے عملاً ٹوٹ پڑے ہیں۔ اگرچہ ان کا ذہن بدستور وہی ہے جو پہلے تھا۔ یہ ڈبل اسٹینڈرڈ ہے، اور ڈبل اسٹینڈرڈ ہی کا دوسرا نام منافقت ہے۔
کچھ لوگوں سے بات کرتے ہوئے میںنے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو پہلی وحی اتری تھی، اُس میں دعوت کا حکم شامل تھا۔ یہ وحی تھی: اقرأ (96: 1)۔ اقرأ کا مطلب پڑھنا بھی ہے اور پڑھ کر سنانا بھی، یعنی قاری بھی اور مقری بھی۔ اقرا کا مطلب اگر محض پڑھو ہوتا تو رسول اللہ صرف شخصی طورپر قرآن کی تلاوت کرتے، یا کسی سے لکھنا پڑھنا سیکھتے۔ اِس کے برعکس، آپ نے یہ کیا کہ لوگوں کے پاس جاکر آپ اُن کو قرآن پڑھ کر سناتے تھے۔ اِس سے معلوم ہوتاہے کہ اقراکا مطلب پڑھ کر سنانا تھا، یعنی دعوت بذریعہ قرأتِ قرآن۔ یہی کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا اور یہی کام صحابہ نے کیا۔ اِس کے مطابق،رسول اور اصحابِ رسول مقریِ قرآن تھے۔
موجودہ زمانہ پرنٹنگ پریس کا زمانہ ہے۔ اب قرآن کے مطبوعہ نسخے ہر جگہ دستیاب ہیں۔ ایسی حالت میں اِس سنتِ رسول کا جدید استعمال یہ ہے کہ ہر مسلمان، قرآن کا ڈسٹری بیوٹر (distributor) بن جائے۔ ہر آدمی قرآن کا ترجمہ اپنے پاس رکھے اور جب بھی کسی سے ملاقات ہو تو وہ یہ کہہ کر قرآن کا ایک نسخہ اس کو دے دے—سر، یہ آپ کے لیے اسپریچول گفٹ ہے:
Sir, this is a spiritual gift for you.
26 جون 2011 کو نیویارک سے فلیڈیلفیا جاتے ہوئے ہم لوگ بیٹری ٹنل (Battery Tunnel) سے گزرے۔ یہ ٹنل تقریباً ڈیڑھ میل لمبی ہے۔ وہ بروکلین اور منہاٹن کو جوڑتی ہے اور سمندر کے نیچے بنائی گئی ہے۔اِسی طرح ہم لوگ ایک اور ٹنل سے گزرے۔ اس کا نام ہے — لنکن ٹنل۔ یہ ہیڈسن ندی کے نیچے بنائی گئی ہے۔ یہ ٹنل منہاٹن سے نیو جرسی کو ملاتی ہے۔
دور جدید میںانسان کو جو نئی چیزیں حاصل ہوئی ہیں، اُن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ سمندر کے نیچے ٹنل کی صورت میں سڑکیں بنانا۔ اِس قسم کے زیر سمندر راستے کئی جگہ بنائے گئے ہیں۔ مثلاً بحرین اور سعودی عرب کے درمیان، اور برطانیہ اور فرانس کے درمیان، سویڈن اور ڈنمارک کے درمیان، وغیرہ۔ قدیم زمانے میں اِس کا تصور نہیں کیا جاسکتا تھا، مگر جدید ٹکنالوجی نے اِس کو ممکن بنا دیا ہے۔
امریکا کے سفر میں ایک شادی شدہ خاتون سے ملاقات ہوئی۔ اُن کے ساتھ دو چھوٹے بچے تھے۔ معلوم ہوا کہ یہ خاتون اپنے شوہر سے اختلاف کرکے اپنے بچوں کے ساتھ الگ ایک چھوٹے مکان میںرہتی ہیں۔ میں نے کہا کہ آج کل کے زمانے میں ایک عجیب چیز یہ ہو رہی ہے کہ شوہر کو اپنے بچوں سے محبت ہے، لیکن اس کو اپنی بیوی سے نفرت ہے۔ اِسی طرح بیوی کو اپنے بچوں سے محبت ہے، اور اپنے شوہر سے نفرت۔ یہ تضاد کی بات ہے۔ اور فطرت کے قانون کے مطابق، اِس قسم کی متضاد سوچ (contradictory thinking) اور ذہنی ارتقا دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے۔میںنے کہا کہ آج کل یہ حال ہے کہ شوہر اور بیوی کے لیے اُن کا بچہ عملاً لٹل گاڈ (little god) ہوتا ہے۔ مگر جس شوہر یا جس بیوی کے ذریعے یہ بچہ پیدا ہوا، اُس سے دونوں کو دوری ہوتی ہے۔
26 جون 2011 کی شام کو دوبارہ ہم لوگ بن سلیم (Bensalem) واپس پہنچے، جہاں خواجہ کلیم الدین صاحب کا مکان ہے۔ بن سلیم فلیڈیلفیا کا ایک گاؤں ہے جس کو یہاں کی زبان میں کنٹری سائڈ (countryside) کہاجاتا ہے۔ انڈیا میں گاؤں کا تصور ایک پس ماندہ بستی کا ہوتا ہے، لیکن امریکا میں گاؤں اتنا ہی زیادہ ترقی یافتہ ہوتے ہیں جتنا کہ شہر۔ یہاں کے گاؤں کا انفراسٹرکچر اتنا ہی اچھا ہوتاہے جتنا کہ شہر کا انفراسٹرکچر۔ مزید یہ کہ یہاں گرینری (greenery) بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اِس لیے اکثر لوگ رہائش کے لیے شہر کے مقابلے میں، گاؤں کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔
27 جون2011 کی صبح کو فجر کی نماز کے بعد ساتھیوں کی کلاس ہوئی۔ اِس میں میں نے کچھ تربیتی باتیں کہیں۔ میں نے ایک بات یہ کہی کہ عام طورپر لوگ چیزوں کو فیس ویلو (face value) پر لیتے ہیں۔ وہ چیزوں کو زیادہ گہرائی کے ساتھ نہیں سمجھ پاتے۔ مثلاً اِس سفر میں میری ملاقات ایک صاحب سے ہوئی، جو باہر سے آکر یہاں آباد ہوئے ہیں۔ جدید اصطلاح میں ایسے لوگوں کو امیگرنٹ (immigrant) کہاجاتا ہے۔ یہ امیگرینٹ لوگ زیادہ تر تعلیم یافتہ تھے۔ یہاںآکر وہ یہاں کے مختلف ترقیاتی شعبوں میں سروس کرنے لگے۔ اس کا حوالہ دیتے ہوئے انھوںنے کہا کہ امریکا کو امریکیوں نے ترقی نہیں دی ہے، بلکہ امیگرینٹ لوگوں نے ترقی دی ہے۔ میں نے کہا کہ یہ بات درست نہیں۔ اگر یہ بات صحیح ہے تو یہ امیگرنٹ لوگ خود اپنے ملک کو کیوں ترقی نہ دے سکے۔ میںنے کہا کہ اصل یہ ہے کہ امریکا میں میرٹ (merit) کا اصول ہے۔ یہ اصول لوگوں کے اندر عمل کا محرک (incentive) پیدا کرتا ہے۔ لوگ زیادہ سے زیادہ کام کرتے ہیں، تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ رٹرن (return) پاسکیں۔ ایسی حالت میں یہ کہنا صحیح ہوگا کہ امریکا کو مسٹر امیگرنٹ (Mr Immigrant) نے ترقی نہیں دی، بلکہ امریکا کو مسٹر انسینٹیو (Mr Incentive) نے ترقی دی۔
امریکا کے سفر میں کئی امریکی مسلمانوں سے 9/11 (2001) کے سانحے کے موضوع پر بات ہوئی۔ ہر ایک نے خود ساختہ انداز میں اس کی تاویل کی۔ میں نے کہا کہ آپ لوگوں کا یہ طریقہ دیانت داری (honesty) کے خلاف ہے۔ جب آپ امریکا میں رہتے ہیں اور آپ نے یہاں کی شہریت کے فارم پر اُس کی شرطوں کو قبول کرکے اُس پر دستخط کیا ہے تو اب آپ کو پورے معنوںمیں محب وطن ہونا چاہیے۔اور حب الوطنی کا تقاضا ہے کہ آپ 9/11 کے معاملے میں آفیشیل ورژن (official version) کو قبول کریں۔ اِس سے یہ فائدہ ہوگا کہ آپ تضاد اور کنفیوژن سے بچ جائیں گے اور پھر آپ کے اندر ذہنی ارتقا کا عمل بلا روک جاری رہے گا۔
ایک صاحب سے بات کرتے ہوئے میں نے کہا کہ امریکا کو موجودہ زمانے میںعالمی قیادت کا درجہ مل گیاہے۔ یہ جدید انڈسٹری اور جدید کمیونکیشن کی بناپر ممکن ہوا ہے۔ اکثر مسلمان اِس پہلو سے امریکا کے بارے میں منفی خیال رکھتے ہیں۔ وہ طنز کے انداز میں کہتے ہیں کہ امریکا دنیا کا چودھری بننا چاہتا ہے۔ مسلمانوں کے اندر داعیانہ ذہن ہوتا تو وہ کہتے کہ امریکا کی عالمی قیادت ہمارے لیے ایک سنہرا موقع (golden opportunity) ہے۔ اِس کی بناپر ایساہوا ہے کہ امریکا نے عالمی دعوتی سیٹ کا درجہ حاصل کرلیا ہے۔ اِس لیے ہمارے لیے یہ ممکن ہوگیا ہے کہ ہم امریکا کے مواقع کو استعمال کرتے ہوئے عالمی سطح پر دعوت الی اللہ کا کام کرسکیں۔
ایک صاحب نے کہا کہ امریکا مسلم ملکوں کے معاملات میں دخل کیوں دیتا ہے۔ میں نے کہا کہ اِس مداخلت کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ اِسی وجہ سے آپ لوگوں کو یہ موقع ملا کہ آپ اور آپ کی فیملی امریکا میں آکر سٹل (settle) ہوں اور عزت کے ساتھ یہاں رہ سکیں۔
27 جون 2011 کو خواجہ کلیم الدین صاحب کے یہاں تقریباً 800 بنڈل شپ مینٹ کے ذریعہ آئے۔ یہ قرآن کے انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر کے بنڈل تھے جو انھوں نے انڈیا سے منگوائے تھے۔ جہاز سے اترنے کے بعد ایک بہت بڑے ٹرک میں یہ سامان آیا۔ صرف ایک ڈرائیور اِس ٹرک کو لے کر آیا۔ یہ امریکی ڈرائیور تھا اُسی نے ڈرائیو کیا۔ اُس نے سارا سامان ٹرک سے نکال کر گھر میں رکھا۔ اِس میں تقریباً چار گھنٹے لگے۔ سامان اتارتے وقت ٹرک میں کچھ پرابلم آگئی تھی۔ اُس نے صرف دو لفظ کہا — tough one ۔ اس کے بعد وہ اس کو ٹھیک کرنے میں مشغول ہوگیا۔
27 جون 2011 کی دوپہر کو ہم لوگ واشنگٹن ڈی سی گئے۔ وہاں ہم لوگوں نے وہائٹ ہاؤس (White House) اور دوسری عمارتوں کو دیکھا۔ واشنگٹن ڈی سی میں لوگوں کے پاس بہت زیادہ کاریں ہیں۔ یہاں کی سڑکوں پر مجھے بظاہر ایسا محسوس ہوا جیسے واشنگٹن ڈی سی دو ٹھہری ہوئی چیزوں کانام ہے۔ سڑک کے دونوں طرف ٹھہری ہوئی عمارتیں، اور سڑک کے اوپر ٹھہری ہوئی گاڑیاں۔ واشنگٹن امریکا کا دارالسلطنت ہے جو ریاست کولمبیا میں واقع ہے۔
امریکا کے مختلف شہروں میں میری ملاقات ہندو اورمسلمان دونوں فرقوں کے لوگوں سے ہوئی۔ میںنے پایا کہ دونوں ایک ہی خدشہ (fear) میں مبتلا ہیں، وہ یہ کہ میرے بعد میرے بچوں کا کیا ہوگا۔ اِس سلسلے میں گفتگو کرتے ہوئے میں نے کچھ لوگوں سے کہا کہ یہ بات آپ کو امریکا آنے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا۔ اب جب کہ آپ اپنے بچوں کے ساتھ امریکا میںسیٹل ہوچکے ہیں، یہ سوچ بعد از وقت ہے۔ اب تو بہر حال آپ کو اِس کی قیمت دینی پڑے گی۔ اِس قسم کی سوچ حقیقت پسندی کے خلاف ہے۔
ہرنڈن (واشنگٹن) میں مز عرشیہ کے مکان پر ہم لوگ ٹھہرے۔ یہاں دو پہر کا کھانا کھایا۔ ظہر کی نماز کے بعد ایک مختصر نشست ہوئی۔ میں نے کہا کہ اکثر لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ کئی بار ہماری نماز رُٹین (routine) کی نماز ہوتی ہے۔ ایسی نماز کا کیا فائدہ۔ میںنے کہا کہ رٹین کی نماز میں بھی بڑا فائدہ ہے۔ جب آپ کیفیت والی نماز پڑھیں تو آپ نے شعور کی سطح پر خداکو یاد کیا۔ اور اگر آپ نے رٹین کی نماز پڑھی تو اِس کا بھی فائدہ ہے۔ اِس طرح نفسیاتی سطح پر آپ کو یہ اطمینان حاصل ہوجاتا ہے کہ خدا کی دنیا میں آپ خدا کے باغی نہیں ہیں۔ میں نے کہا کہ نماز کی اصل حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک رمائنڈر (reminder) ہے۔ شعوری نماز پُرکیفیت رمائنڈ ہے، اور رٹین والی نماز فارمل رمائنڈر۔
ایک نوجوان سے ملاقات ہوئی۔ وہ بہت حوصلہ مند (ambitious) تھے۔ اُن سے میں نے پوچھا کہ آپ شادی شدہ ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہاں۔ پھر میں نے پوچھا کہ آپ کی شادی ارینج میریج تھی یا لو میریج۔ انھوںنے کہا کہ لو میریج۔ پھر میں نے کہا کہ کیا یہ صحیح نہیں ہے کہ شادی سے پہلے آپ کی بیوی آپ کو ایک اسپیشل خاتون دکھائی دیتی تھیں اور شادی کے بعد وہ آپ کو ایک عام خاتون دکھائی دیتی ہیں۔ انھوںنے کہا کہ ہاں۔ پھر میںنے کہا کہ یہ ایک واقعہ کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک بہت بڑا سبق دیا ہے۔ اِس تجربے کو آپ جنرلائز کیجئے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ہر چیز جس کو اچھا سمجھ کر آپ حاصل کرنا چاہتے ہیں، اُن سب کا حال یہی ہے۔ وہ چیز آپ کو پُرکشش دکھائی دیتی ہے، مگر پانے کے بعد وہ سرتاسر بے کشش ہوجاتی ہے۔ اِس لیے آپ کو چاہیے کہ دنیا کی چیزوں کو اپنا گول بنانے کے بجائے آپ آخرت کی چیزوں کو اپنا گول بنائیں۔ یہ آپ کے لیے ایک ماسٹر فارمولا ہے۔
ہرنڈن سے ہم لوگ یارڈلے (Yardley) کے لیے روانہ ہوئے۔ یارڈلے میں ڈاکٹر انیس میمن صاحب کے گھر پر ایک پروگرام تھا۔
انڈیا میں سڑک کے دونوں طرف درخت ہوتے ہیں، مگر امریکا میں یہ حال ہے کہ سڑک کے دونوں طرف اتنے زیادہ درخت ہوتے ہیں کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسافر دو طرفہ باغوں کے درمیان سے گزر رہا ہے۔ یہاں جن سڑکوں پر میں نے سفر کیا، تقریباً ہر ایک کا یہی حال تھا۔ یہاں کی سڑکیں عام طورپر بہت زیادہ چوڑی ہوتی ہیں۔ تمام سڑکیں، چاہے وہ شہر کی سڑکیں ہوں یا گاؤں کی سڑکیں، تمام سڑکیں بالکل یکساں ہوتی ہیں۔یہاں خراب یا تنگ سڑکوں کا کوئی تصور نہیں۔ یہاں کے لوگ زیادہ تر کار کے ذریعے سفر کرتے ہیں۔ اِس لیے بار بار مجھے کار کے ذریعے سفر کرنا پڑا۔ مگر پورے زمانۂ قیام میں میںنے ہارن (Horn) کی آواز نہیں سنی۔ یہاں کی سڑکوں پر برابر کاریں دوڑتی رہتی ہیں، لیکن انڈیا کے مقابلے میں، یہاں ہوائی کثافت (air pollution) بہت کم ہے۔
27 جون 2011 کی شام کو میری لینڈ میں میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ایلی کاٹ سٹی (Ellicott City) گیا ۔ یہاں مز زیبا کے گھر پر ایک پروگرام ہوا۔ اِس پروگرام میں امریکا میں مقیم مسلم خاندانوں کے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں نے شرکت کی۔ یہاں میں نے انگریزی میں خطاب کیا۔ میں نے کہا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت ملی تو آپ نے قریش کو جمع کیا اور آپ نے اُن کے سامنے اپنا مشن پیش کیا۔ لیکن کسی نے بھی اس کا مثبت جواب نہیں دیا۔ سب خاموش رہے۔ پھر اِس کے بعد علی بن ابی طالب کھڑے ہوئے جو اُس وقت 11 سال کے تھے۔ انھوںنے کہا کہ میں آپ کا ساتھ دوں گا۔ اس کے بعد ہمیشہ وہ آپ کے ساتھی بنے رہے۔
میںنے کہا کہ اِس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی تاریخ کا آغاز کرنے والے نوجوان لوگ تھے۔ دوسرے صحابہ بھی اکثر نوجوان طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ میں نے کہا کہ آپ کو دورِ جدید میں اِس تاریخ کو دہرانا ہے۔ پھر میں نے اِن نوجوانوں کو ایک ماٹو دیا۔ میں نے کہا کہ:
Make education your profession, and make Dawah your mission.
پروگرام کے خاتمے پر سوال وجواب ہوا۔ رات میں ہم لوگوں کا قیام مز گل زیبا کے مکان پر تھا۔ یہاں مختلف لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔پروگرام کے خاتمے پر ہماری ٹیم کے ایک ممبر نے پروگرام میں شریک ایک لڑکی سے پروگرام کے بارے میں اس کا تاثر پوچھا۔ اس نے کہا:
After this session, I have come to know my responsibility towards Dawah work.
28 جون 2011 کی صبح کو فجر کی نماز کے بعد مزگل زیبا کے اہلِ خانہ اور اپنے ساتھیوں کی ایک نشست ہوئی۔ اِس موقع پر میںنے جو باتیں کہیں، اُن میں سے ایک بات یہ تھی کہ ابلیس نے چیلنج دیا تھا کہ وہ سارے انسانوں کو بہکا دے گا، سوائے اللہ کے مخلَص بندوں کے : إلا عبادک منہم المخلَصین (15: 40) ۔ میںنے کہا کہ اِس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کچھ بندوں کو مداخلت کرکے شیطان کے فتنے سے بچائے گا۔ اِس مداخلت کی بنیاد یہ ہوگی کہ جو افراد اتنے باشعور ہوں کہ وہ شیطان کے زیر اثر آنے سے اپنے آپ کو بچا لیں، وہ اللہ کے مخلَص بندے قرار پائیں گے۔
میری لینڈ سے ہم لوگ واشنگٹن ڈی سی کے لیے روانہ ہوئے۔ یہاں 28 جون کی شام کو ڈاکٹر انیس کے گھر پر دوبارہ ایک پروگرام ہوا۔ یہاں خطاب کا موضوع تھا — امریکی مسلمانوں کی دعوتی ذمے داری۔ اِس موضوع پر اظہارِ خیال کے بعد آخر میں سوال وجواب کا پروگرام ہوا۔ ایک سوال کی وضاحت کرتے ہوئے میں نے کہا کہ مسلمانوں میں جو مذہبی اور سیاسی اختلافات ہیں، اُس کا سبب یہ ہے کہ مسلمانوں کا لکھنے اور بولنے والا طبقہ غلط فارمولا اختیار کئے ہوئے ہے۔ اس طبقے کا فارمولا یہ ہے کہ — اختلافات کو مٹاؤ، تاکہ اتحاد قائم ہو۔ یہ درست نہیں۔ صحیح فارمولا یہ ہے کہ — اختلافات کو برداشت کرو، اختلاف کے باوجود اعلیٰ مقصد کے لیے متحد ہو جاؤ۔ اختلاف کا معاملہ اس کو مینیج (manage) کرنے کا معاملہ ہے، نہ کہ اس کو مٹانے کا معاملہ۔
خواجہ کلیم الدین صاحب کے پڑوس میں جو گھر ہے، وہاں 29 جون 2011 کی صبح کو دو بھاری ٹرک آئے۔ اس کے ساتھ مختلف مشینیں تھیں۔ معلوم ہوا کہ یہ لوگ درخت کاٹنے کے لیے آئے ہیں۔ انھوںنے مخصوص ٹیکنک کے ذریعے 4 درخت کاٹے۔ اس کے بعد اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ پھر مشین نے اس کو بھس بنا دیا۔ اس کے بعد ان لوگوں نے اس کو ٹرک پر رکھا اور چلے گئے۔ یہ کام یہاں پرائیویٹ کمپنیاں کرتی ہیں۔ وہ ایک درخت کو کاٹنے کے دو سو ڈالر لیتی ہیں۔
امریکا میں ایک لفظ کیپٹیو آڈینس (captive audience) استعمال ہوتا ہے، یعنی وہ لوگ جو کسی جگہ محصور ہوں اور ان کے پاس مطالعے کے سوا کوئی اور مشغلہ نہ ہو، مثلاً اسپتال میں داخل ہونے والے لوگ، جیل میں داخل ہونے والے لوگ اور سینئر سٹیزنس کے لئے بنائے گئے مقامات (senior citizens’ residence)۔ اِس طرح کے مقامات پر موجود لوگوں کو اگر کتاب یا لٹریچر فراہم کیا جائے تو دوسری مصروفیت نہ ہونے کی بنا پر لوگ ضرور اس کو پڑھتے ہیں۔مسیحی مبلغین اِس موقع کو کافی استعمال کرتے ہیں۔ ہمارے دعوتی مشن سے وابستہ افراد بھی اِس موقع کو استعمال کررہے ہیں۔ یہ دعوت کو پھیلانے کا اچھا طریقہ ہے۔
29 جون 2011 کی صبح کو بن سلیم (Bensalem)میں ڈاکٹر وقار عالم سے ملاقات ہوئی۔ میں نے کہا کہ حدیث میں آیا ہے: الدنیا مزرعۃ الآخرۃ (دنیا آخرت کے لئے تیاری کی جگہ ہے)۔ میںنے پوچھا کہ یہاں ایسے کتنے مسلمان ہوں گے جو اِس قسم کا دینی ذہن رکھتے ہوں۔ انھوںنے کہا کہ اس کا اندازہ آپ اِس بات سے کرسکتے ہیں کہ میں نے ایک صاحب سے آخرت کی بات کی جو کہ ایک اسلامی تنظیم چلا رہے ہیں۔ انھوںنے جواب دیا کہ آخرت کا فیصلہ تو آخرت میں ہوگا، یہاں تو ہمیں دنیا کے اعتبار سے مسلمانوں کی خدمت کرنا ہے۔
اِس واقعے سے اندازہ ہوا کہ موجودہ مسلمانوں نے اسلام کا ایک نیا ورژن دریافت کررکھا ہے۔ بدھ ازم کو بے خدا ریلیجن (godless religion) کہاجاتا ہے۔ اسی طرح مسلمانوں نے بھی ایک بے خدا اسلام (godless Islam) بنا لیا ہے۔ ان کا اسلام ایک لفظ میں، کلچرل ورژن آف اسلام (cultural version of Islam) ہے۔ ان کے یہاں بظاہر اسلام کا ایک فارم ہے، لیکن وہ ایک بے روح فارم (spiritless form) ہے۔ وہ دھوم سے سسٹم کی باتیں کرتے ہیں، لیکن فرد کے تزکیہ کا ان کے یہاں کوئی تصور نہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صرف لیبل کا فرق ہے، ورنہ حقیقت کے اعتبار سے مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ دونوں کا مشترک طورپر یہ حال ہے کہ دنیا کی تعمیر ان کا واحد کنسرن ہے، آخرت کی تعمیر کا تصور دونوںمیں سے کسی کے یہاں نہیں پایا جاتا۔
مغربی ملکوںمیں امریکا واحد ملک ہے جہاں اللہ کے فضل سے الرسالہ کے دعوتی مشن کی ایک ٹیم بن گئی ہے۔ اور باقاعدہ انداز میں دعوت کا کام ہو رہا ہے۔ یہ مجھے خدائی منصوبہ معلوم ہوتاہے۔ کیوں کہ موجودہ زمانہ میں امریکا کو عالمی قیادت کا درجہ حاصل ہوگیاہے۔ اس لحاظ سے عالمی دعوت کے لیے سب سے زیادہ موزوں جگہ امریکا ہے۔ پیغمبرانہ دعوت کا طریقہ ہمیشہ یہ تھا کہ پیغمبر امّ القریٰ (مرکزی شہر) میں مبعوث ہوتے تھے۔ یہی دعوت کا اسلوب ہے۔ ام القریٰ میں دعوت کا کام ہونا بالواسطہ طورپر دوسرے تمام علاقوں میں کام کرنے کے ہم معنی ہے۔
ایک مجلس میں میں نے کہا کہ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں میںقرآن کی ایک تعلیم بالکل گم ہوگئی ہے۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ تمام نبی ہدایت یاب تھے اور ہر نبی کی زندگی میں ہدایت کا نمونہ ہے(6: 90)۔اس کا مطلب یہ ہے کہ مختلف پیغمبرمختلف حالات میں آئے۔ یہ سب اپنے اپنے اعتبار سے نمونہ ہیں۔ جب بھی کسی جگہ کسی پچھلے پیغمبر جیسے حالات پائے جائیں تو وہاں حالات کی نسبت سے اس پیغمبر کا نمونہ قابل انطباق ہوجائے گا، مگر مسلمان اس تعلیم سے فائدہ نہیں اٹھا سکے۔
ایک صاحب سے گفتگو کرتے ہوئے میں نے کہا کہ ایک مشہور قول ہے:
Man proposes, God disposes
یہی بات حضرت علی نے زیادہ بامعنی طورپر اِس طرح کہی ہے: عرفتُ ربی بفسخ العزائم ۔
میں نے کہا کہ مذکورہ قول میں صرف واقعہ کا ذکر ہے، جب کہ حضرت علی کے قول میں اِس قسم کے واقعے سے معرفت کا پہلو اخذ کیا گیا ہے۔
29 جون 2011 کی صبح کو خواجہ کلیم الدین اور ڈاکٹر وقار عالم کو بذریعہ وین (van) شکاگو جانا تھا۔ ان کے علاوہ، ہمارے بقیہ ساتھیوںکو بذریعہ پلین شکاگو جانا تھا۔ فلیڈیلفیا سے شکاگو بذریعہ روڈ تقریباً 15 گھنٹے کا سفر تھا۔ سارا سامان پیک کرکے وین میں رکھ دیا گیا۔ اچانک معلوم ہوا کہ ڈاکٹر فریدہ خانم کا پاسپورٹ نہیں مل رہا ہے۔ تمام سامان جو پیک کرکے وین میں رکھا جاچکا تھا، اُس کو نکال کر پاسپورٹ تلاش کیا گیا، لیکن وہ اس میں نہیں ملا۔ سب لوگ پریشان تھے، کیوں کہ باہر کے ملک میں کوئی آدمی پاسپورٹ کے بغیر کچھ نہیں ہوتا۔ تلاشِ بسیار کے بعد آخر کار ہماری ٹیم کی ایک ممبر نے ایک بیگ میںاس کو دریافت کیا۔ اِس دوران ہماری ٹیم کے سارے ممبر پریشان تھے۔ میں پریشانی کے عالم میں باربار یہ آیت پڑھ رہا تھا: أمن یجیب المضطر إذا دعاہ ویکشف السوء (27: 62) ۔ سب لوگ پریشان تھے، مگر خواجہ کلیم الدین صاحب پوری طرح مطمئن تھے۔ اِس تجربے کے بعد میں نے کہا کہ ہماری ٹیم کے دو ممبران کی مجھے از سرِ نو دریافت ہوئی ہے— خواجہ کلیم الدین صاحب بطور ماسٹر آف کرائسس (master of crisis)، اور استتھی ملہوترا بطور ماسٹر فائنڈر (master finder) ۔
اِس تجربے سے ایک بات یہ سمجھ میں آئی کہ قرآن میں مذکور بعض واقعات جو بظاہر انفرادی قسم کے واقعات ہیں، اُس میں بھی عام انسانوں کے لیے پائنٹ آف رفرنس موجود ہے۔ اس وقت مجھے یاد آیا کہ حضرت سلیمان کے تابع جنات نے ملکۂ سبا کے تخت کو دور کے ملک یمن سے لاکر یروشلم میں رکھ دیا تھا۔ اُس وقت میری زبان سے یہ دعا نکلی کہ خدایا، حضرت سلیمان کے زمانے میں یہ واقعہ تیری نصرت سے ہوا تھا۔ اگر یہ پاسپورٹ ا ئر پورٹ پر یا کہیں اور چھوٹ گیا ہو تو فرشتوں کے ذریعے تو اس کو دوبارہ لاکر ہمارے پاس پہنچا دے۔ ڈاکٹر فریدہ خانم اپنے سامان کو بار بار چیک کرکے مایوس ہوچکی تھیں۔ اِس کے بعد مز استتھی ملہوترا نے دوبارہ اُن کے بیگ کو چیک کیا تو اُس کے اندر کے جیب میں ڈاکٹر فریدہ خانم کا پاسپورٹ رکھا ہوا تھا۔ یہ بلا شبہہ اللہ تعالیٰ کی خصوصی نصرت کا واقعہ تھا۔
29 جون 2011 کو صبح دس بجے خواجہ کلیم الدین اور ڈاکٹر وقار عالم ایک وین لے کر فلیڈیلفیا سے شکاگو جانے کے لیے نکلے۔ یہ لوگ وین میں قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دوسرے اسلامی لٹریچر لے کر نکلے، تاکہ شکاگو میں ہونے والی اسنا کانفرنس (ISNA Conference) میں لوگوں کو یہ لٹریچر دے سکیں۔ ان کو رخصت کرتے ہوئے میں نے کہا کہ اس قسم کے سفر کو سیرت کی کتابوں میں ’سریّہ‘ کہا گیا ہے، یعنی دعوتی وفد کا ایک جگہ سے دوسری جگہ دعوتی مہم کے لیے جانا۔
اسلام میں سریہ کی بہت فضیلت ہے۔ ان شاء اللہ آپ لوگوں کو وہی ثواب ملے گاجوسریّہ کے لیے اللہ تعالی ٰنے لکھ دیاہے۔ قدیم زمانے میں اِس قسم کے دعوتی وفد کو سریّہ کہاجاتا تھا۔ موجودہ زمانے میں اس کو دعوہ آن وھیل (Dawah on Wheels) کہا جاسکتا ہے۔
امریکا میں اِس وقت تقریباً سات ملین مسلمان آباد ہیں۔ آج کل کی اصطلاح میں، یہ لوگ مسلمس اِن ڈائسپورا (Muslims in Diaspora) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اِن مسلمانوں کے کیس کو اگر حدیث میں تلا ش کیا جائے تو وہ صحیح البخاری کی اُس روایت میں ملے گا جس کو اِس کتاب (البخاری) میں پہلی حدیث کے طورپر نقل کیا گیاہے: إنما الأعمال بالنیات (عمل کا تعلق نیت سے ہے)۔ اِس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ جس کی ہجرت اللہ اور رسول کے لیے ہو، اس کی ہجرت اللہ اور رسول کے لیے ہے۔ اور جس کی ہجرت کسی عورت سے نکاح کرنے کے لیے ہو، یا دنیا حاصل کرنے کے لیے ہو، تو اس کی ہجرت اُسی چیز کی طرف ہے جس کے لیے اس نے ہجرت کی۔
جو مسلمان اپنے ملکوں سے نکل کر امریکا آئے اور یہاں آباد ہوئے، عام طورپراُن کا واحد مقصد ڈالر کمانا اور اپنے بچوں کی دنیا کو بہتر بنانا تھا۔ چناں چہ ان لوگوں کو وہی ملا جو انھوں نے چاہا تھا۔ آج یہ مسلمان اور ان کی اولاد مکمل طورپر مادہ پرست (materialist) بنے ہوئے ہیں۔ تاہم یہ مسلمان اب دیکھ رہے ہیں کہ ان کے بچے تیزی سے امریکن کلچر کو اپنا رہے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ ان بچوں کے باپ اور دادا امریکا اِس لیے آئے تھے کہ وہ یہاںاپنے لیے ایک جنت کی تعمیر کریں، مگر عملاً یہ ہوا کہ ان کی پوری نسل تیزی سے جہنم کی طرف چلی جارہی ہے۔ گویا عملاً یہ لوگ تیزرفتار جہنم اکسپریس پر سوار ہیں، لیکن اس کے باہر انھوں نے اُس پر جلی حرفوں میں لکھ دیا ہے — جنت ایکسپریس۔ اس قسم کے شتر مرغ طریقہ (ostrich habit) کا کوئی مثبت فائدہ ملنے والا نہیں۔ اِن مسلمانوں کی نجات کا صرف ایک حل ہے، وہ یہ کہ وہ اِس کا اعتراف کریں کہ وہ غلط نیت کے ساتھ امریکا آئے۔ صحیح طریقہ یہ تھا کہ وہ صحابہ کی طرح دعوت الی اللہ کی نیت سے بیرونی ملکوں میں جاتے۔
اگر امریکی مسلمان اعلان کے ساتھ اِس حقیقت کا اعتراف کرسکیں تو اُن کے درمیان ایک نئی تبدیلی کا آغاز ہوجائے گا۔ مگر شرط یہ ہے کہ وہ اِس اعلان کے بعد عملاً یوٹرن (U Turn) لے سکیں اور اپنی پوری زندگی کو دعوہ اورینٹڈ زندگی (Dawah-oriented life) بنا سکیں۔ امریکی مسلمانوں کی، سنڈے اسکول اور سمر کیمپ (summer camp)جیسی اسلامی سرگرمیاں کسی بھی درجے میں اُن کو کوئی فائدہ پہنچانے والی نہیں۔
امریکا کے اِس سفر میں غیر متوقع طورپر میں نے دریافت کیا کہ یہاں طاقت ور افراد کی ایک پوری ٹیم تیار ہوچکی ہے۔ یہ لوگ منظم طورپر یہاں دعوہ ورک کررہے ہیں، اُن کا کام جدید ترین معیار پر ہورہا ہے۔ ان کے کام کو دیکھ کر میں نے کہا کہ آپ لوگوں نے یہاں ایک پوری دعوہ انڈسٹری (full fledged Dawah industry) کھول دی ہے جس کو ہم نے کبھی سوچا بھی نہیںتھا۔
میں نے دعوت کا کام 1950 میں شروع کیا۔ اُس وقت میں نے اعظم گڑھ میں اگزبیشن میں ایک بک اسٹال لگایا تھا جس کے اوپر ایک بڑے بورڈ پر موٹے حرفوں میں قرآن کی ایک آیت (واللّٰہ یدعوا إلی دارالسلام) کا ترجمہ اِس طرح لکھا ہوا تھا:
And God calls to the home of Peace (10: 25)
یہ اتنے جلی حرفوں میں لکھا تھا کہ وہ اگزبیشن کے انٹرنس (entrance)سے نظر آتا تھا۔ اِس بورڈ کو اعظم گڑھ کے آرٹسٹ محمد یوسف نے تیار کیا تھا۔اس کے بعد مسلسل میں دعوہ ورک میں لگا رہا۔ بار بار میں محسوس کرتا تھا کہ میں اس کام کو صرف شروع کرسکتا ہوں، اس کو آخرتک پہنچانا میری استطاعت سے باہر ہے۔ میں نے اپنا یہ احساس اپنی کتاب ’’الاسلام‘‘ (1977) میں درج کیا تھا جو انگریزی کے ایک ناول (The Story of an African Farm) پر مبنی تھا۔ لیکن عجیب بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری زندگی ہی میں اس دعوہ مشن کو ایک عالمی دعوہ ورک بنا دیا۔پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا موجودہ زمانے کے غیر معمولی مواقع ہیں، لیکن دعوت الی اللہ کے لیے اِن ذرائع کو غالباً پہلی بار ہماری ٹیم شعوری طورپر استعمال کررہی ہے۔ فالحمد للہ علی ذلک۔
امریکا کے سفر میں میری ملاقات بہت سے پاکستانیوں سے ہوئی۔ ان ملاقاتوں کے درمیان ایک حقیقت کاانکشاف ہوا۔ 1947 سے پہلے کے دور میں مسلمانوں کے جلسوں میں میں یہ نعرہ سنتا تھا کہ — پاکستان کا مطلب کیا: لا إلٰہ إلا اللہ! پاکستان 1947 میں بنا، لیکن لا الٰہ الا اللہ پر مبنی نظام وہاں قائم نہ ہوسکا۔ البتہ اس کا انڈائرکٹ نتیجہ یہ ہوا کہ مختلف اسباب سے پاکستان میں اکسوڈس (exodus) ہوا۔ اور پاکستانی مسلمان بڑی تعداد میں پاکستان سے نکل کر دوسرے ملکوں میں آباد ہوگئے ۔ ان غیر مقیم (non-resident) پاکستانی مسلمانوں کے اندر اگر دعوت کا شعور پیداہو جائے تو صرف پاکستانی مسلمان ہی ساری دنیا میں اسلام کی اشاعت کے لیے کافی ہوجائیں گے۔ پاکستان کے قیام میں آغاز سے یہ پوٹنشیل (potential) چھپا ہوا تھا۔ اب تاریخ کو انتظار ہے کہ کب یہ پوٹنشیل واقعہ بنے اور اسلام کی عالمی اشاعت ہو جس کا تاریخ کو لمبی مدت سے انتظار ہے۔
پاکستان اسلام کے نام پر بنا اور سرحد کے دونوں طرف کے لوگوں کو اس کی بھاری قیمت دینی پڑی۔ مگر پاکستان بننے کے بعد یہ ہوا کہ وہاں کے مسلمان، پاکستانی لیڈروں کے دعوے کے مطابق، پاکستان میں اسلامی نظام قائم کرنے کے بجائے باہر کے ملکوں میں چلے گئے۔ ان پاکستانی مسلمانوں پر خدا کی طرف سے ایک قرض ہے۔ ان پر فرض ہے کہ وہ اس قرض کو چکائیں۔ وہ قرض یہ کہ اپنے عہد کے مطابق، اسلام کا جو کام وہ پاکستان میں انجام نہ دے سکے، اس کو وہ اسلام کی عالمی اشاعت کی صورت میں انجام دیں۔ اس کے بغیر یہ پاکستانی مسلمان اللہ کے یہاں بری الذمہ نہیں ہوسکتے۔
فلیڈیلفیا میں مجھ کو جس کمرے میں ٹھہرایا گیا تھا، اس میں مسٹر جسونت سنگھ کی کتاب:
Jinnah, India—Partition, Independence
رکھی ہوئی تھی۔ یہ کتاب 670 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کتاب میں صفحہ 6پرگوپال کرشن گوکھلے کا ایک قول مسٹر جناح کے بارے میں نقل کیا گیاہے۔ اس وقت مسٹر جناح کانگریس میں شامل تھے:
Jinnah is an ambassador of Hindu-Muslim unity
عجیب بات ہے کہ جس مسلم لیڈر کو ابتدا میں سمبل آف ہندو مسلم یونٹی سمجھا گیا تھا، اس نے اپنے بعد کے زمانے میں برعکس مثال قائم کی۔ وہ سمبل آف ڈس یونٹی (symbol of disunity) بن گیا۔ ممکن ہے کچھ لوگوں کو مسٹر محمد علی جناح کا بعدکا رول زیادہ پسند آئے، مگر میرے جیسے انسان کی سوچ کے مطابق، زیادہ بہتر تھا کہ مسٹر محمد علی جناح بر صغیر ہند کی تاریخ میں سمبل آف یونٹی کی حیثیت سے درج کئے جاتے۔
29 جون 2011 کو فلیڈیلفیا میں قیام کا آخری دن تھا۔ کئی لوگ ملاقات کے لئے آئے۔ اقبال شیخ، گل زیبا، ویپل چِپ (vipul chip)اور ان کی وائف آرتی۔ مسٹر شاہ جہاں اپنی بیوی اور اپنی بیٹی کے ساتھ آئے۔ ان لوگوں سے مختلف موضوعات پر باتیں ہوئیں۔
ایک سوال اظہارِ دین کے بارے میں تھا۔ میں نے کہا اظہارِ دین کا مطلب سیاسی معنوں میں، غلبۂ دین نہیں ہے۔ اظہارِ دین کا مطلب ہے— اسلام کا فکری غلبہ۔میں نے کہا سنت اللہ کے مطابق، کوئی واقعہ تدریجی طورپر ہوتا ہے۔ کائنات15 بلین سال میں تدریجی طورپر وجود میں آئی۔ یہی طریقہ اظہارِ دین کا بھی ہے۔رسول اور اصحابِ رسول نے اس کا پراسس جاری کیا۔ مغربی تہذیب اس کا نقطۂ انتہا (culmination) ہے۔ شاہ جہاں صاحب6 سوال لکھ کر لائے تھے۔ اس کو انھوںنے پڑھ کر سنایا۔ میں نے کہا کہ ان سوالات کو آپ الٹی طرف سے لیجئے۔ ان میں سے آخری سوال اظہارِ دین کے بارے میں تھا۔
ویپل چپ (Vipul Chip) سے میں نے کہا کہ اپنا کوئی تجربہ بتائیے۔ ویپل چپ انڈیا میں پیدا ہوئے اور اب وہ امریکا میں سٹل ہوگئے ہیں۔ بار بار پوچھنے کے بعد انھوں نے اپنا ایک واقعہ بتایا۔ انھوں نے بتایا کہ امریکا میں ایک پاکستانی مسلم فیملی رہتی ہے۔ ان کے بیٹے محمد ناصر سے میری دوستی ہوگئی۔ چناں چہ میں ناصر کے گھر جانے لگا۔ جب میں ناصر کے گھر جاتا تو ان کے باپ مجھ سے کنورژن (conversion)کی بات کرتے۔ وہ کہتے کہ تم ہندو مذہب چھوڑ کر اسلام میں آجاؤ، کیوں کہ اسلام سپیریر (superior) مذہب ہے۔ میں اِس کا جواب دئے بغیر ان کی بات کو ٹال دیتا۔ میں جب بھی ناصر کے گھر جاتا تھا، میں وہاں لوگوں کو السلام علیکم کہتا تھا۔ ایک دن بلا قصد میری زبان سے نکل گیا— ہری اوم۔یہ سن کر ناصر کی ماں بہت غصہ ہوئیں۔ اُس کی ماں نے کہا کہ تم میرے بیٹے کو ہندو بنانا چاہتے ہو۔ اِس کے بعد میں نے ناصر کے گھر جانا چھوڑ دیا۔
مسٹر ویپل چب ہمارے ساتھی مسٹر رجت ملہوترا (Rajat Malhotra) کے دوست ہیں۔ بعد کو انھوں نے مسٹر رجت سے گفتگو کرتے ہوئے میرے بارے میں کہا:
‘I truly enjoyed meeting Maulana. He has an effect. There is obviously something special about him.’
یکم جولائی 2011 کی صبح کو فلیڈیلفیا سے شکاگو کے لئے روانگی ہوئی۔ روانگی سے پہلے خواجہ کلیم الدین صاحب کے گھر میں ہمارے سب ساتھی ناشتہ کی میز پر اکھٹا ہوئے۔ میں نے کہا کہ ہماری ٹیم میں خاص بات یہ ہے کہ یہاں کسی بھی قسم کا مٹیریل انٹرسٹ نہیں، نہ براہ راست اور نہ بالواسطہ۔ اس میں نہ کوئی مادی فائدہ ہے اور نہ اسٹیج کا فائدہ اور نہ ہی عزت و شہرت کا فائدہ، پھر بھی ٹیم کا ہر فرد ذاتی جذبے کے تحت متحرک ہے۔ ہر ایک دعوہ ورک کے لیے ہیرو بنا ہوا ہے۔ یہ اس بات کی کھلی ہوئی علامت ہے کہ اس ٹیم کو اللہ کی خصوصی نصرت حاصل ہے۔ٹیم کے ہر فرد کو خدا کے فرشتے متحرک کئے ہوئے ہیں اور وہ ان کی مدد کرتے ہیں۔ اللہ کی خصوصی نصرت کے بغیر کوئی قافلہ اس طرح متحرک نہیں ہوسکتا۔
گل زیبا صاحبہ سے میں نے کہا کہ آپ لوگ جو امریکا میں مقیم ہیں، اس کو اللہ کا منصوبہ سمجھیں۔ آپ لوگوں کا یہاں آنا اور یہاں مقیم ہونا کوئی اتفاقی بات نہیں۔ یہ یقینی طورپر خدا کے منصوبے کے تحت ہوا ہے۔ آپ لوگوں کو خدا یہاں اِس لیے لایا ہے کہ آپ یہاں کے باشندوں کے سامنے دعوت الی اللہ کا کام کریں، یعنی ان لوگوں کو خداکے تخلیقی پلان سے باخبر کریں۔
یکم جولائی 2011کی صبح کو ہم لوگ فجر کے بعد خواجہ کلیم الدین صاحب کے گھر سے نیویارک ائر پورٹ کے لیے روانہ ہوئے۔ مجھ کو مسٹر اقبال شیخ نے اپنی گاڑی پرائرپورٹ پہنچایا۔ انھوںنے سی پی ایس کے مشن کو انٹرنٹ پر لانے میں بہت زیادہ تعاون کیا ہے۔انھوںنے گفتگو کے دوران کئی باتیں کہیں۔ مثلاً یہ کہ وہ اپنی کمپنی کے پروجیکٹ کے تحت کئی بار ایرا ن جاچکے ہیں۔ انھوںنے بتایاکہ شاہ کے زمانے میں ایران اتنا زیادہ ترقی کر رہا تھا کہ میرا جی چاہتا تھا کہ میں امریکا چھوڑ کر ایران میں مستقل رہائش اختیار کرلوں۔ مگر اب وہاں کی صورتِ حال بالکل مختلف ہوچکی ہے۔مسٹر اقبال شیخ نے بتایا کہ اپنے جاب کے تحت وہ اکثر ایران جاتے رہتے ہیں۔ وہاں ایک تعلیم یافتہ ایرانی نے ’’ایرانی انقلاب‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا — پہلے یہاں ٹیلی ویژن تھا، اب یہاں ملاّ ویژن ہے۔
فلیڈیلفیا سے چل کر شکاگو ائر پورٹ پر ہم لوگ اترے تو وہاں خواجہ کلیم الدین صاحب اور ڈاکٹر وقار عالم صاحب موجودتھے۔ وہ ہم سے ایک دن پہلے بذریعہ وین سفر کرکے شکاگو پہنچ چکے تھے۔ اُن کے ساتھ روانہ ہو کر ہم لوگ سب سے پہلے ڈاکٹر عبد اللہ غازی کے مرکز پہنچے۔یہاں ظہر کی نماز پڑھی گئی اور دوپہر کا کھانا کھایا گیا۔ اِس کے بعد ہم لوگ ہوٹل گئے۔ اِس کا انتظام اسنا (ISNA) والوں نے کیاتھا۔ ڈاکٹر عرفان عمر امریکا میں مقیم ہیں۔ وہ یکم جولائی 2011 کی شام کو ملاقات کے لیے آئے۔ اُن سے مختلف موضوعات پر بات ہوئی۔
امریکا کے مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم اِسنا (ISNA) ہے۔ امریکامیں اس کا کام کافی پھیلا ہوا ہے۔ اس تنظیم کا پورا نام اِس طرح ہے:
Islamic Society of North America
جولائی 2011 کے پہلے ہفتے میں اس کا سالانہ پروگرام شکاگو میں ہوا۔ اِس موقع پر ہمارے ساتھیوں نے یہاں بک اسٹال لگایا۔ اِس اسٹال کے ذریعے بڑے پیمانے پر لوگوں کے ساتھ انٹریکشن ہوا اور قرآن اور دوسری کتابوں کی اشاعت ہوئی۔ اسنا (ISNA) کے اِس پروگرام میں مجھے ایک لیکچر دینے کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ یہ لیکچر انگریزی زبان میں تھا۔ اِس لیکچر کا عنوان یہ تھا:
Love of God
اِس پروگرام کا انتظام ایک بڑے ہال میں کیا گیا تھا۔ میرے سوا اِس میں دو اور مقرر تھے، ایک مرد اور ایک خاتون۔ یہ دونوں عرب تھے۔ تقریر کے بعد لوگوں کا عام تاثر یہ تھا کہ مذکورہ دونوں صاحبان کی بات غیر واضح تھی، چناں چہ وہ سمجھ میں نہ آسکی۔ میری تقریر کے بارے میں لوگوں کا تاثر یہ تھا کہ وہ پوری طرح واضح تھی اور وہ بخوبی طور پر سمجھ میں آئی۔
میری تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ خدا سے محبت کا ایک پہلو یہ ہے کہ بندے کو اپنے رب سے گہرا قلبی تعلق (strong affection) ہو۔ اِسی کو قرآن میں أشدّ حبًّا للہ (2: 165)کہاگیا ہے۔ خدا سے محبت کا دوسرا پہلو اتباعِ رسول ہے۔ اِس کو قرآن میں اِن الفاظ میں بتایا گیا ہے: قل إن کنتم تحبون اللہ فاتبعونی، یحببکم اللّٰہ (3: 31) یعنی کہو، اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو تم میری پیروی کرو۔ اللہ تم سے محبت کرے گا۔ اِس سلسلے میں، میں نے کہا کہ اتباعِ رسول کا سب سے بڑا پہلو یہ ہے کہ پیغمبرانہ نمونے کے مطابق، دعوت الی اللہ کا کام کیا جائے۔
2 جولائی 2011 کی صبح کو ناشتہ کے بعد ہوٹل کے کمرے میں میرے سب ساـتھی اکھٹا ہوئے۔ ان سے میں نے کچھ باتیں کیں۔ مثلاً میںنے بتایا کہ آج مجھ کو ہوٹل کے کمرہ سے باہر لے جایا گیا۔ یہ تقریباً آدھا کیلومیٹر کا فاصلہ تھا۔ کئی جگہ لفٹ استعمال ہوئی۔ میں نے کہا کہ پچھلے زمانوں میں نہ لفٹ ہوتی تھی اور نہ بلڈنگ کے فرش کو ہموار بنانے کا رواج تھا۔ یہ سب مغربی تہذیب نے کیا۔ میں نے کہا کہ انڈیا کا بادشاہ ہمایوں سیڑھیوں سے چڑھ کر ایک بلڈنگ سے نیچے اتر رہا تھا، وہ گر پڑا۔ اس کو سخت چوٹ آئی اور اس کی وفات ہوگئی۔ اِس قسم کا واقعہ اب پیش نہیں آتا۔ کیوں کہ آج کل آدمی لفٹ کے ذریعے بآسانی بلڈنگوں پر چڑھتا اترتا ہے۔ میں نے کہا کہ اس تقابل کو سامنے رکھ کر سوچئے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ آپ کو آج قدیم زمانے کے بادشاہوں سے زیادہ سہولتیں ملی ہوئی ہیں۔
اس طرح کی ہزاروں چیزیں جدید مغربی تہذیب سے انسان کو ملی ہیں۔ اس کے باوجود ماضی پر فخر کرنا اور حال پر شکایت کرنا کتنا زیادہ عجیب ہے۔پھر میں نے کہا کہ اس دنیا میں پانے کی سب سے بڑی چیز شکر ہے۔ ایک حدیث کے مطابق، اگر آپ انسانوں کے بارے میں ناشکرگزار بنے ہوئے ہیں تو آپ خدا کے بارے میں بھی شکر گزار نہیں بن سکتے۔
میںنے کہا کہ دنیا کی زندگی میں ہمیشہ منفی تجربات ہوتے ہیں۔ ایسی حالت میںشکر گزاری کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے بہت زیادہ جدوجہد کی ضرورت ہے۔ میںنے کہا کہ مثال کے طورپر آج کل کے مسلمان امریکا کے لیے سخت منفی جذبات رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکا نے عراق اور افغانستان پر بم باری کیوں کی۔ میں نے کہا کہ میں کبھی اس قسم کی بات نہیں کہتا، کیوں کہ مجھے اپنے آپ کو منفی جذبات سے آخری حد تک بچانا ہے۔
الرسالہ مشن سے وابستہ ایک صاحب نے کہا کہ امریکا میں ہم کس طرح کام کریں، وہ ہمیں بتائیے۔ میںنے کہا کہ اصل کام دعوت الی اللہ ہے۔ مگر اِس کام کو کرنے کے لیے کوئی متعین پروگرام نہیں بتایا جاسکتا۔ اس کے لیے تخلیقی ذہن درکار ہے۔اس کے لیے آپ اپنے اندر تخلیقی ذہن پیدا کیجئے۔ اس کے بعد آپ پروگرام ساز داعی بن جائیں گے۔
امریکا میں مقیم الرسالہ کے قاریوں نے اسنا کے فنکشن میں ایک اسٹال لگایا تھا۔ اس کے ذریعہ وہاں الرسالہ مشن کی کتابیں بڑی تعداد میں پھیلیں۔ ایک بار میں وہاں بیٹھا ہواتھا۔ میرے سامنے ایک شخص نے آکر قرآن کا انگریزی ترجمہ دیکھا اور پھر ترجمۂ قرآن کی 10 ہزار کاپی کا آرڈر دیا۔
2 جولائی 2011کی سہ پہر کو مسٹر غوری کی تنظیم کے تحت ایک پروگرام ہوا۔ اس کا موضوع تھا: سوشل ورک کی اہمیت۔ میں نے اپنی تقریر میں کہا کہ سوشل ورک کی بلا شبہہ اہمیت ہے، لیکن اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ لوگوں کے اندر چیلنج کا جذبہ پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔ میں نے مختلف مثالوں کے ذریعہ اس کی وضاحت کی۔ آخر میں حاضرین کی طرف سے کچھ سوالات آئے۔ ایک سوال یہ تھا:
In what way can Muslims in India become a giver community?
اس کا جواب دیتے ہوئے میں نے کہا کہ انڈیا کے مسلمانوں کے لیے ایجوکیشن اور انڈسٹری جیسے سیکولر شعبوں میں بھی کام کرنے کے مواقع ہیں، لیکن دوسرا بڑا موقع یہ ہے کہ وہ دعوہ ورک کریں۔ دعوہ ورک کرنے والوں کا شمار بھی بلاشبہہ گِور گروپ(giver group) میں ہوگا۔
2 جولائی 2011 کو اسنا (ISNA) والوں کی طرف سے ایک بڑے ہال میں لنچ کا فنکشن تھا۔ یہاں بڑے پیمانے پر کھانے کا انتظام کیاگیا تھا۔ میںنے دیکھا کہ بہت زیادہ کھانا میزوں پر بچا ہوا پڑا ہے۔ اسٹیج سے کچھ تقریریں ہوئیں اور اسنا کے لیے فنڈ کی اپیل کی گئی۔ جب کوئی شخص کوئی رقم دینے کی بات کرتا مثلاً 25 ہزار ڈالر یا 50 ہزار ڈالر تو مقرر بلند آواز سے کہتے تکبیر، تکبیر۔ یہ منظر امریکا کے سوا مسلمانوں کے دوسرے اجتماعات میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ یہ فنڈنگ تمام تر کمیونٹی سروس کے لیے تھی۔ لیکن اس کے لیے انفاق فی سبیل اللہ کی آیتیں زور وشور سے پڑھی جارہی تھیں۔
اسلام میں تکبیر کا مطلب اللہ کی بڑائی ہے، مگر موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے اجتماعات میں تکبیر کے نعرے امت کی بڑائی یا اپنی کمیونٹی کی بڑائی کے لیے دھوم کے ساتھ بلند کیے جاتے ہیں، جو کہ عملاً اپنی کمیونٹی کو گلوری فائی کرنے کے ہم معنیٰ ہوتے ہیں۔
2 جولائی 2011 کی شام کو اپنے کچھ ساتھیوں سے بات کرتے ہوئے میں نے کہا کہ دعوت کے معاملے میں ہم کو حقیقت پسند بننا چاہیے۔ ہم جو دعوتی کام کررہے ہیں، اس کے دونشانے ہیں۔ ایک نشانہ ہے— اتمامِ حجت۔ اِس نشانے کو پورا کرنے کے لیے توسیع (expansion) کے اصول پر عمل کرنا ہے۔ دوسرا نشانہ ہے —افراد کو تلاش کرنا اور ان کو تربیت دینا۔ اِس دوسرے نشانے کے لیے ہمیں استحکام (consolidation) کے اصول کو اپنانا چاہیے۔
اِس بار امریکا میں میرا قیام نسبتاً زیادہ دن تک رہا۔ بار بار مختلف شہروں اور مختلف اداروں میں جانے کا اتفاق ہوا۔ میں نے محسوس کیا کہ پہلے امریکا کا نشانہ کمفرٹ (comfort) حاصل کرنا تھا، مگر اب وہ بڑھ کر اینٹی کمفرٹ (anti-comfort) تک پہنچ چکا ہے۔ مثلاً یہاں باتھ روم کے فرش، وغیرہ اتنے چکنے ہوتے ہیں کہ میں کئی بار پھسل گیا۔ یہاں کے کارپیٹ اور گدے اتنے موٹے ہوتے ہیں کہ اُس پر اپنے آپ کو جمانا مشکل ہوتاہے۔ یہاں کی کاریں اس طرح کی ہوتی ہیں کہ آدمی کو اپنے ہاتھ پاؤں بلکہ شاید عقل بھی استعمال نہ کرنا پڑے۔ کاریں تقریباً خود بخود سڑک پر دوڑتی ہیں۔ یہاں کی بلڈنگوں میں ضرورت سے زیاہ کنڈیشننگ کا عام رواج ہے۔ میںنے دیکھا کہ بلڈنگ کے باہر نہایت خوش گوار موسم ہے۔ مگر بلڈنگ میں داخل ہوتے ہی اتنی ٹھنڈک ہوتی تھی کہ میرے جیسا آدمی سخت پریشان ہوجائے۔ یہ بلا شبہہ کمفرٹ سے بڑھ کر اینٹی کمفرٹ اور لگزری سے بڑھ کر اینٹی لگزری ہے۔ میرے نزدیک، یہ ایک غیر فطری کلچر ہے۔
اِس مصنوعی اور غیر فطری کلچر نے امریکا کو دو بڑے نقصان سے دوچار کیا ہے— ایک ہے افراد کے اندر ذہنی ارتقا(intellectual development) کے عمل کارک جانا، اور دوسرا ہے قومی اور سیاسی برتری (political supremacy) کے حصول کے لیے ساری دنیا کو پرابلم میں مبتلا کردینا۔
اِس قسم کے مصنوعی کلچر کو باقی رکھنے کے لیے بھاری قیمت درکار ہوتی ہے۔ اس کے لیے امریکا کو یہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ اپنی انڈسٹری کی مشین کو ضرورت سے زیادہ چلاتا ہے۔ اس کا نتیجہ خطرناک فضائی آلودگی (air pollution) کی صورت میں نکل رہا ہے۔
یہاں اپنے مشن کے ساتھیوں کی ایک مجلس میں میں نے کہا کہ آپ لوگوں کو ایک معاملے میں بہت زیادہ حساس ہونا چاہیے۔ وہ ہے— اپنے آپ کو بچاؤ (save yourself) کا اصول۔ میں نے کہا کہ تحریکوں کی تاریخ، مذہبی اور سیکولر، دونوں بتاتی ہے کہ قابلِ کار افراد صرف پہلے مرحلے میں ملتے ہیں، بعد کے مرحلے میں نہیں۔ مثلاً کمیونسٹ تحریک میں پہلے مرحلے میں اینجلز اور لینن جیسے لوگ ملے، مگر بعد کو ایسے لوگ کمیونسٹ تحریک کو نہ مل سکے۔ ہندستان کی تحریکِ آزادی میں پہلے مرحلے میں گاندھی اور نہرو جیسے لوگ ملے، مگر بعد کی تاریخ میں ایسے لوگ نہ مل سکے، وغیرہ۔
یہی حال اسلامی تاریخ کا بھی ہے۔ مثلاً پہلے مرحلے میں ابوبکر وعمر جیسے لوگ ملے، مگر بعد کے مرحلے میں ایسے لوگ نہ مل سکے۔ اِس معاملے میں ہماری دعوتی تحریک کوئی استثنا نہیں۔ اِس وقت ہماری تحریک پہلے مرحلے میں ہے۔ اِس وقت جو لوگ اِس تحریک کو ملے ہیں، وہی آخری لوگ ہیں، بعد کے مرحلے میں ایسے لوگ دوبارہ ملنے والے نہیں۔ اِس لیے آپ لوگ اپنی قیمت کو پہچانئے۔ آپ کسی بھی دوسرے تقاضے کے دباؤ کو ہرگز قبو ل نہ کیجئے، خواہ وہ خاندانی دباؤ ہو یاخاندان سے باہر کا کوئی دباؤ۔ آپ لوگ اِس دعوتی تحریک کا واحد سرمایہ (asset) ہیں۔ اِس مشن میں آپ کو ایک تاریخی رول ادا کرنا ہے۔ صحابہ کے واقعات بتاتے ہیں کہ وہ اِس راز کو جانتے تھے۔ چناں چہ انھوںنے اپنے مقصد کے سوا کسی بھی دوسرے تقاضے کا ہرگز اثر نہیں لیا۔ صحابہ کی یہی وہ صفت ہے جس کو قرآن میں أشداء علی الکفارکہا گیا ہے۔ اِس آیت میں أشداء کا مطلب معروف معنی میں، شدید نہیں ہے، بلکہ یہ غیر اثر پذیری کے معنی میں ہے، یعنی اصحابِ رسول کسی بھی حال میں کسی خارجی اثر یا دباؤ (pressure) کو قبول نہیں کرتے تھے۔
3 جولائی 2011 کی صبح کو میں ہوٹل ہییٹ (Hyat) میں اپنے کمرے کے باہر دھوپ میں بیٹھا ہوا تھا۔اُس وقت خواجہ کلیم الدین صاحب اور ڈاکٹر وقار عالم صاحب آئے۔ کلیم الدین صاحب نے مجھ کو دھوپ میں بیٹھا ہوا دیکھ کر کہا کہ درختوں کو فوٹو سنتھیسس (photo synthesis) کے عمل کے لیے دھوپ کا انتظار رہتا ہے۔ اِسی طرح آپ کو بھی دھوپ کا انتظار رہتا ہے، تاکہ آپ اسپریچول فوٹو سنتھیسس (spiritual photo synthesis) کاعمل انجام دے سکیں۔
دھوپ میں بیٹھنا مجھے پیدائشی طورپر پسند ہے۔ میں بچپن سے دھوپ میں بیٹھتا رہا ہوں۔ بچپن میں جب میں یوپی کے ایک گاؤں میں رہتا تھا، اُس وقت بھی میں گاؤں کے باہر بنے ہوئے ایک پل پر صبح شام جاکر دھوپ میں بیٹھا کرتا تھا۔ بعد کو مطالعے کے ذریعے مجھ کو معلو م ہوا کہ دھوپ میں بیٹھنا صحت کے لیے بہت مفید ہے۔ آج کل کی زبان میں اس کو غسلِ آفتابی (sun bath) کہتے ہیں۔
3 جولائی 2011 کی سہ پہر کو اسنا(ISNA) کے تحت یہاں کے ایک ہال میں ایک خصوصی پروگرام تھا۔ اس میں تین مصنفین کی کتابیں ٹیبل پر رکھی گئی تھیں اور اُن کو موقع دیاگیا تھا کہ وہ اپنی اپنی کتابوں پر تعارفی تقریر کریں اور اس کے بعد سوالات کا جواب دیں۔ پروگرام کا آخری جُز یہ تھا کہ لوگ کتابیں خرید کر مصنف سے اس کا آٹو گراف لیں۔ میرے پاس لوگوں کی لائن لگ گئی۔ بہت سے لوگوں نے یہاں سے میری انگریزی کتابیں خرید یں اور اُن پر میرا آٹو گراف لیا۔
شکاگو کے پروگرام میں میرے ساتھیوں نے وہاں ایک بک اسٹال لگایا۔ 4 دن کے اِس پروگرام میں کافی لوگ اسٹال پر آئے۔انھوںنے یہاں سے کتابیں خریدیں۔ یہاں بہت سے ایسے لوگ ملے جو مجھ کو پہلے سے جانتے تھے۔ یہ بہت بڑا پروگرام تھا۔ غیر معمولی طورپر وسیع ہال لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ ہر ملک کے مسلمان یہاں دکھائی دئے۔ مگر میرے تجربے کے مطابق، تقریباً سب کے سب لوگ یا تو انٹرٹینمنٹ کے لیے یہاںآئے تھے، یا شاپنگ کے لیے یا ڈونیشن کے لیے۔ میرے علم کے مطابق، یہاں صرف ہمارے ساتھیوں کا اسٹال مشن کے لیے تھا۔
یہاں ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انھوںنے بتایا کہ میرے ایک دوست کے لڑکے کا آج نکاح ہے۔ اس میں شرکت کے لیے میں شکاگو آیا ہوں۔ میں نے اُن کو بطور گفٹ دینے کے لیے تذکیر القرآن (انگریزی) لیا ہے۔ میں نے مزید اُن صاحب کو اپنی ایک نئی کتاب (The Secret of a Successful Family Life) دی۔ اِس کتاب پر میں نے حسب ذیل جملہ لکھ کر مذکورہ صاحب کو دے دیا:
Marriage is adjustment, and love marriage is extra adjustment.
یہاں ایک بک اسٹال پر میں بیٹھا ہوا تھا۔ دو مسلم نوجوان ملاقات کے لیے آئے۔ گفتگو کے دوران انھوںنے بتایا کہ 6 مہینے پہلے ان کا نکاح ہوا ہے، لیکن ہم دونوں روزانہ ایک دوسرے پر غصہ ہوتے ہیںاور باہم آرگومینٹ (argument) ہوتا رہتا ہے۔ اِس کی وجہ سے ہماری زندگی میں سکون نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہم د ونوں پانچ وقت کی نماز پڑھتے ہیں، اِس کے باوجود جھگڑا ختم نہیں ہوتا۔
میںنے کہا کہ آپ لوگ ریچول عبادت (ritual prayer) کرتے ہیں۔ آپ لوگ اسپریچول عبادت (spiritual prayer)نہیں کرتے۔ پھر میں نے کہا کہ اسپریچول عبادت کیا ہے۔ میں نے کہا کہ نماز میں آپ بار بار اللہ اکبر کہتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے — اللہ بڑا ہے۔ مگر اِس میں ایک اور بات چھپی ہوئی ہے، اور وہ یہ کہ میں بڑا نہیں ہوں۔میں نے کہا کہ اِس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے اندر ماڈسٹی (modesty) پیدا ہو۔ اگر ماڈسٹی آجائے تو جھگڑا اپنے آپ ختم ہوجائے گا۔
3 جولائی 2011 کی شام کو کئی لوگ ملاقات کے لیے ہوٹل میں آگئے۔ ان سے دیر تک گفتگو ہوتی رہی۔ میںنے ایک بات یہ کہی کہ عام طور پر لوگ ناقص رپورٹنگ کرتے ہیں۔ مثلاً میاں بیوی کے درمیان جھگڑے ہوتے ہیں۔ مگر جب وہ رپورٹ کرتے ہیں تو ہمیشہ یک طرفہ رپورٹ کرتے ہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سارا مسئلہ صرف کسی ایک فریق کی غلطی کی وجہ سے ہوا ہے۔ حالاں کہ اِس دنیا میں کبھی کوئی مسئلہ یک طرفہ نہیں ہوتا، مسائل ہمیشہ دو طرفہ سبب سے پیدا ہوتے ہیں۔ اِسی غلط ذہنیت کا نتیجہ ہے کہ مسئلہ کبھی ختم نہیں ہوتا، بلکہ وہ ہمیشہ بڑھتا رہتا ہے۔
اسنا (ISNA) کے اِس فنکشن میںایک بہت بڑے ہال کے اندر بازار لگا ہوا تھا۔ یہاں بہت سے اسٹال تھے، جس میں طرح طرح کی چیزیں فروخت ہورہی تھیں۔ یہاں اسٹال کے نام عجیب وغریب تھے۔ مثلاً ایک اسٹال کا نام اسلام فیشن (Islam Fashion) تھا۔ ایک اور اسٹال کانام قرآن اسمارٹ (Quran Smart) تھا۔ ایک اور اسٹال پر اللہ اکبر، لا الٰہ الا اللہ کی دھن میں گیت بج رہا تھا۔ اِسی طرح یہاں مختلف ناموں سے لوگ ڈونیشن لے رہے تھے۔ کوئی اسکول کے نام سے، کوئی مسجد کے نام سے، کوئی ریلیف ورک کے نام سے، وغیرہ۔ اِسی طرح کے ایک اسٹال پر یہ بورڈ لگا ہوا تھا:
Ummah Relief International
اِس سے اندازہ ہو اکہ آج کل مسلمانوں کے درمیان اسلام کے نام پر بہت سے کام ہورہے ہیں، مگر اسلام کی اسپرٹ بظاہر کہیں دکھائی نہیں دیتی۔
اسنا(ISNA) کے فنکشن میں ایک انوکھی بات یہ دکھائی دی کہ اس میں کثرت سے ایسے مسلمان ملے جو نو مسلم تھے۔ اِس میں سیاہ فام اور سفید فام دونوں طرح کے لوگ تھے۔ کہاجاتا ہے کہ امریکا میں لوگ کثرت سے اسلام قبول کررہے ہیں۔
ہوٹل کے کمرہ میں 4 جولائی 2011 کی صبح کو میری آنکھ کھلی۔ ابھی میں بستر پر تھا اور لیٹے لیٹے سفر کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ اچانک خیال آیا کہ انسان عجیب وغریب طورپر دو مختلف چیزوں کا مجموعہ ہے — ایک، دماغ اور دوسرے، جسم۔ ایک طرف، اس کے اندر سوچنے والا دماغ (thinking mind) ہے، اور دوسری طرف اس کا ورکنگ جسم (working body) ہے۔
یہ انسان کے ساتھ خالق کا عجیب معاملہ ہے۔ کائنات میں ایک طرف پہاڑ اور دریا جیسی مادی چیزیں ہیں۔ ان کے پاس گویا صرف ورکنگ باڈی ہے۔ اِس کے بعد حیوانات ہیں۔ ان کے پاس ورکنگ باڈی ہے، اور سوچنے کی طاقت اتنی کم ہے کہ ان کا دماغ بھی گویا ورکنگ دماغ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے بعد انسان ہے جس کے پاس پورے معنوں میں ایک تھنکنگ دماغ ہے اور پورے معنوں میں ایک ورکنگ باڈی ۔ انسان کی یہی امتیازی صفت ہے جس کی بنا پر قرآن میں انسان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس کو احسنِ تقویم کے ساتھ پیدا کیاگیا ہے۔ اِسی احسنِ تقویم کی بنا پر انسان کے لیے دو چیزیں ممکن ہوتی ہیں — پہلے پلاننگ کرنا اور پھر اس کو عمل میں لانا۔ بیک وقت یہ دونوں چیزیں انسان کے سوا کسی دوسری مخلوق میں نہیں پائی جاتیں۔
امریکا کے اِس سفر میں، میں مختلف مقامات پر گیا اور کثرت سے لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ اِس سے اندازہ ہوا کہ امریکا میں بہت بڑی تعداد میں ایسے لوگ ہیں جو مجھ کو جانتے ہیں۔ اِن جاننے والوں میں ہندو بھی ہیں اورمسلمان بھی اور عیسائی بھی اور یہودی بھی۔ مگر تقریباً ہر ایک ’’ڈالر کلچر‘‘ میں اتنا زیادہ گم ہے کہ اس کو ہمارے دعوتی مشن میں اس کا ساتھ دینے کا موقع نہیں۔ وہ لفظی طورپر ہمارے مشن کی خوب تعریفیں کرسکتا ہے، مگر عملی طورپر کچھ کرنے کے لیے اس کے پاس وقت نہیں۔
امریکا کے اِس سفرمیں ایک بات کا مجھ کو شدت کے ساتھ احساس ہوا، وہ یہ کہ لوگوں میں دو قسم کے ذہن ہوتے ہیں — معمولی ذہن اور غیر معمولی ذہن۔ یہاں مجھے کئی ایسے لوگ ملے جو بظاہر دین کے کام میں لگے ہوئے تھے، مگر عام طورپر وہ اوسط ذہن کے تھے۔ جو زیادہ ذہین لوگ ہیں، وہ تقریباً سب کے سب مادی کلچر میں غرق ہیں۔ اُن کو دین کے بارے میں سوچنے کا موقع نہیں۔
اِس معاملے پر غور کرتے ہوئے مجھ کو حضرت عمر فاروق کا ایک قول یاد آیا۔ حضرت عمر نے لمبے تجربے کے بعد کہا تھا: اللہم إنی أعوذ بک من ضعف الأمین، وخیانۃ القوی (خدایا، میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں امانت دار شخص کے ضعف سے، اور قوی انسان کی خیانت سے)۔ گویا جو لوگ دین دار ہیں، وہ عام طور پر ضعیف العقل اور کمزور ہیں۔ اور جو قوی العقل ہیں، وہ دین دار نہیں۔
امریکا جانے سے پہلے، دہلی میں میں نے کئی لوگوں سے پوچھا کہ اس وقت امریکا کا موسم کیا ہے۔ سب لوگوں نے بتایا کہ یہاں اس وقت گرمی کا موسم ہے۔ چناں چہ میں اپنے ساتھ گرم کپڑے نہیں لایا۔ مگر امریکا آنے کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ باہر کی دنیا میں تو ضرور گرمی ہے، مگر بلڈنگوں کی دنیا میں ائرکنڈیشننگ کی وجہ سے سردی۔ اس تجربہ کے بعد میں نے سوچا کہ انسان کی پلاننگ کیوں ناقص ہوتی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ وہ معاملہ کے صرف کچھ پہلوؤں کو جان پاتا ہے اور کچھ دوسرے پہلوؤں سے وہ بے خبر رہتا ہے۔ ہر پہلو سے کامل واقفیت کے بعد منصوبہ بندی کرنا صرف خدائے عالم الغیب کے لیے ممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی دنیا میں ہمیشہ ناقص پلاننگ کے نتائج دکھائی دیتے ہیں، جب کہ نیچر میں منصوبہ بندی اتنی کامل ہے کہ اس میں کسی بھی قسم کا کوئی خلا اب تک دریافت نہ ہوسکا۔
ہوٹل میں جس اسٹوری (منزل) میں میراکمرہ تھا، اس میں میں نے دیکھا کہ 212 کے بعد 214 نمبر آگیا۔ درمیان میں 213 نمبر کمرہ موجود نہیں۔ میںنے یہاں کے لوگوں سے پوچھا کہ کمرہ نمبر 213 کیوں موجود نہیں۔ معلوم ہوا کہ امریکا میں 13 کے عدد کو منحوس عدد سمجھا جاتا ہے۔ اِس وجہ سے بلڈنگوں میں اسٹوری نمبر 13 نہیں ہوتی۔ اِسی طرح یہاں روم نمبر 13 بھی نہیں ہوتا۔
یہ یقینی طورپر توہم پرستی (superstition) کی بات ہے۔ امریکا جیسے ملک میں اِس قسم کی توہم پرستی عجیب ہے، مگر وہ بہت زیادہ عام ہے — صدر رونالڈ ریگن امریکا کے پریزیڈنٹ تھے ،لیکن ان کا یہ حال تھا کہ وہ سونے کا نعل اپنی کوٹ کی اندرونی جیب میں ہمیشہ رکھتے تھے۔ وہ اس کو اپنے لیے اچھا شگون (good omen) سمجھتے تھے۔ اِس قسم کی توہم پرستی ساری دنیا میں عام ہے، حتی کہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں بھی اِس طرح کی توہم پرستی کی مثالیں کثرت سے پائی جاتی ہیں۔
اصل یہ ہے کہ زندگی میں بار بار انسان یہ تجربہ کرتاہے کہ یہاں کوئی نامعلوم عامل (unknown factor) ہے جو ہمارے کنٹرول سے باہر ہے۔ خدا پرسچا عقیدہ رکھنے والا اُس کو خدا سے منسوب کرکے توجیہہ کرلیتاہے، لیکن جو لوگ خدا کو نہ مانیں، وہ اس کی توجیہہ نہیں کر پاتے۔ نتیجہ یہ ہوتاہے وہ توہم پرستانہ نظریات کے تحت اس کی توجیہہ کرنے لگتے ہیں۔
4 جولائی 2011 کی صبح کو اسنا (ISNA) کے بانی ڈاکٹر سید سعید (70 سال) ہوٹل میں مجھ سے ملاقات کے لیے آئے۔ وہ میرے مشن سے اور میرے حالات سے واقف تھے۔ انھوں نے میری استقامت کا اعتراف کیا۔ انھوںنے کہا کہ آپ کے بعض نظریات کی بہت زیادہ مخالفت ہوئی، لیکن آپ اپنے اصول پر قائم رہے۔ اب یہ حال ہے کہ عام طورپر لوگ آپ کے نظریات سے اتفاق کررہے ہیں۔ گفتگو کے دوران انھوںنے کہا کہ ہمارے پاس انفراسٹرکچر ہے اور آپ کے پاس لٹریچر ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے اور آپ کے درمیان تعاون کی صورت پیدا ہو۔ اِس سے دعوتی اعتبار سے دونوں کو فائدہ ہوگا۔ انھوںنے ہمارے مشن سے پوری طرح اتفاق کیا۔ انھوںنے دعوت دی کہ میں دوبارہ امریکا آؤں اور اسنا (ISNA) کے پروگرام میں شرکت کروں۔
9/11 کے بعد عام طورپر مسلمانوں کو شبہہ کی نظر سے دیکھا جانے لگا۔ اُن کو محسوس ہوا کہ اِس سے پہلے ہم امریکا میں عزت کے ساتھ رہ رہے تھے، اب ہم کو ذلت کے ساتھ رہنا پڑے گا۔ اِس وقت یہاں کے مسلمانوں میں ایک نیا ذہن پیدا ہوا ہے۔ انھوں نے اب بھی مسلم ملٹنسی کو کھلے طورپر کنڈم نہیں کیا ہے، البتہ انھوںنے یہ کیا ہے کہ پیچ اپ (patch up) کرکے ایک درمیانی راستہ نکالا ہے۔ مثلاً کرسچن پڑوسی کو پھول کا تحفہ پیش کرنا، انٹر فیتھ ڈائلاگ کرکے اس میں خوش نما تقریریں کرنا، اکیڈمیوں میں داخل ہو کر ٹالرنس کے موضوع پر مقالات لکھنا اور لکچر دینا، کچھ ظاہری کارروائی کرکے یہ ظاہر کرنا کہ ہم امریکا کے وفادار شہری ہیں۔ اِسی طرح امریکا کے بڑے بڑے لیڈروں کو مسلم اداروں میں بلا کرتقریریں کروانا، امن کے موضوعات پر ڈاکومنٹری بنانا،وغیرہ۔
ایک مسلمان سے ملاقات ہوئی۔ میں نے پوچھا کہ آج کل امریکی مسلمانوں کی کوششوں کا خاص نشانہ کیا ہے۔ انھوںنے کہا کہ — ہم چاہتے ہیں کہ امریکا میں اسلام کو باعزت جگہ ملے:
We want a dignified presence of Islam in America.
میں نے کہا اِس قسم کی نمائشی تدبیروں سے کچھ ہونے والا نہیں۔ اصل یہ ہے کہ آپ مسلم ملٹنسی کو کھلے طورپر کنڈم کریں۔ ماضی کی غلطی کو مانتے ہوئے صحیح معنوں میں امن پسند بنیں۔ مزید یہ کہ آپ پُرامن دعوہ ورک کریں۔ دعوہ ورک آپ کو اِس ملک میں دینے والا گروپ (giver group) بنا دے گا۔ جب تک آپ دینے والے (giver) نہ بنیں، آپ کو عزت کا مقام ملنے والا نہیں۔
میں نے کہا کہ مذکورہ جملے میں ’’اسلام‘‘ کی جگہ ’’مسلم‘‘ رکھ دیجئے تو یہاں کے مسلمانوں کی سرگرمیوں کا مشترک ٹائٹل مل جاتا ہے۔ ان سرگرمیوں کا اصل نشانہ امریکی مسلمانوں کو باعزت زندگی دلانا ہے، لیکن اس کو اسلام کا نام دے دیاگیا ہے۔ اس قسم کی کلچرل سرگرمیوں سے مسلمانوں کو باعزت زندگی حاصل ہونے والی نہیں۔ باعزت زندگی کا راز صرف ایک ہے، اور وہ ہے دعوت الی اللہ کاکام انجام دینا۔
عرصہ ہوا امریکا میںایک ادارہ قائم ہوا تھا۔ اِس ادارے کا نام یہ تھا:
Islamization of Knowledge
اِس ادارے کو مسلمانوں کا بڑاتعاون حاصل ہوا۔ اِس ادارے کے ایک ممبر سے ملاقات ہوئی۔ میںنے اُن سے پوچھا کہ آپ کو لمبی مدت تک کام کرنے کا موقع ملا۔ یہ بتائیے کہ اس کا مثبت نتیجہ کیا نکلا۔ مگر وہ کوئی خاص بات نہ بتا سکے۔موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ اُن کاموں میں خوب تعاون کرتے ہیں جس میں اُن کو مسلم فخر کی غذا ملتی ہو۔ مثلاً اسلامائزیشن آف نالج، اسلامائزیشن آف بینکنگ، اسلامائزیشن آف پالٹکل سسٹم، وغیرہ۔ حقیقت یہ ہے کہ اصل کام اسلامائزیشن آف مین (Islamization of man) ہے، یعنی اسلامی بنیادوں پر ربانی شخصیت کی تعمیر، مگر اِس کام سے غالباً کسی مسلمان کو کوئی دلچسپی نہیں۔
میرے ہوٹل کے کمرے میںایک بڑے سائز کا ٹی وی رکھا ہوا تھا۔ ہمارے ساتھی نے ایک بار اس کو کھولا تو اسکرین پر بڑے حروف میں یہ الفاظ لکھے ہوئے تھے:
Welcome Maulana Wahiduddin Khan to the Hyat Regency.
ہوٹل کے ایک رکن نے بتایا کہ ہمارے ہوٹل میں جب کسی ملک کی کسی خاص شخصیت کا قیام ہوتا ہے تو ہم اِس طرح اس کا استقبال کرتے ہیں، تاکہ ہوٹل میں قیام پذیر لوگوں کو اِس کا علم ہوجائے۔
ایک صاحب جو پاکستان سے آکر یہاں مقیم ہوئے ہیں، انھوںنے کہا کہ میں نے سنا ہے کہ آپ یہ کہتے ہیں کہ امریکا میں مقیم مسلمانوں کے اندر حبِ وطن کا جذبہ نہیں ہے۔ آپ کا یہ کہنا صحیح نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہاں کے مسلمانوں کے اندر امریکا کے لیے حب وطن کا جذبہ پوری طرح موجود ہے۔ میں اس کا ثبوت دیتاہوں۔ میری ایک بیٹی جو امریکا میں پیداہوئی، وہ میرے ساتھ پاکستان گئی۔ وہاں اس نے کہا کہ میں امریکا کو مِس (miss) کر رہی ہوں۔
میں نے کہا کہ یہ آپ کی غلط فہمی ہے۔ آپ کی بیٹی امریکا کو مس نہیں کررہی تھی، بلکہ وہ اُس پرعافیت زندگی کو مس کررہی تھی جو اُس کو پاکستان میں حاصل نہیں تھی۔ میںنے کہا کہ آپ لوگ حقیقتِ واقعہ کو نہیں مانتے، اور حقیقتِ واقعہ کو نہ ماننا ہمیشہ ڈبل اسٹینڈرڈ بننے کی قیمت پر ہوتا ہے۔ اور بلاشبہہ اِس سے زیادہ بری کوئی اور چیز نہیں۔
4 جولائی 2011 کی سہ پہر کو ہم لوگ شکاگو کا مشہور سیرس ٹاور(Sears Tower) دیکھنے گئے۔ اِس ٹاور کا موجودہ نام ولس ٹاور (Willis Tower) ہے۔ اِس کی 103 منزلیں ہیں۔ نیویارک کا ورلڈ ٹریڈ ٹاور، ٹون ٹاور (Twin Tower) تھا۔ شکاگو کا یہ ٹاور، سنگل ٹاور (Single Tower) ہے۔
لفٹ کے ذریعے ہم لوگ اس ٹاور کے اوپر گئے۔ اوپر سے دیکھنے میں نیچے کی چیزیںچھوٹی نظر آتی ہیں۔ اِس ٹاور کے اوپر پہنچ کر مجھے یاد آیا کہ 11 ستمبر 2001 کو امریکا کے کچھ مخالفین نے نیویارک کے ٹاور کو ہوائی جہاز سے ٹکرا کر ڈھادیا۔مگر شکاگو ٹاور اپنی شان وشوکت کے ساتھ اب بھی موجود ہے۔ اُس وقت مجھے یاد آیا کہ جب برطانیہ کاکوئی بادشاہ مرتاہے تو وہ کہتے ہیں:
The king is dead, long live the king!
یعنی بادشاہ مرگیا، بادشاہ ہمیشہ زندہ رہے۔ اِسی طرح یہ کہنا درست ہوگا کہ:
American tower is demolished, long live the American tower.
سیرس ٹاور (Sears Tower) کی بلڈنگ کو ایک مسلمان نے بنایا تھا۔ اُن کا نام یہ تھا— فضل الرحمن خاں۔ ٹاور کے فرسٹ فلور پر مٹل (metal) کا ایک اسٹیچو فضل الرحمن خاں کا بنا ہوا تھا۔ اس اسٹیچو کے نیچے یہ الفاظ لکھے ہوئے تھے:
The Structural Engineers Association of Illinois Recognizes Fazlur Rahman Khan as one of the great structural engineers of our time. (Chicago, April, 1988)
فضل الرحمن خاں آرکیٹیکچرل انجینئر تھے۔ وہ بنگلہ دیش میں پیدا ہوئے۔ 1982 میں ان کا انتقال ہوگیا، جب کہ اُن کی عمر صرف 52 سال تھی۔ ان کا انتقال ہارٹ اٹیک میں ہوا تھا۔ ہارٹ اٹیک کا سبب اکثر اسٹریس (stress) ہوتا ہے، اور اسٹرس کا سبب اسپریچویلٹی سے محرومی ہے۔ فضل الرحمن خاں کے اسٹریس کا سبب غالباً یہ تھا کہ وہ معیار پسندی کی حد تک ہیومنسٹ (Humanist) تھے۔ میں نے سوچا کہ فضل الرحمن خاں نے فزیکل ٹاور بنایا، لیکن وہ غالباً اسپریچول ٹاور نہ بنا سکے۔ یہ ایک عجیب سبق ہے جو اُن کی زندگی سے ملتاہے۔
انجینئر فضل الرحمن خاں کے معاملے میں امریکا نے جس اعلیٰ اعتراف اور قدردانی کا ثبوت دیا ہے، اُس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکا کی ترقی کا راز کیا ہے۔ وہ راز ایک لفظ میں امتیاز (excellence) ہے۔ امریکا میں امتیازی لیاقت کو فوقیت دی جاتی ہے۔ جس شخص کے اندر یہ صلاحیت ہو، وہ خواہ کسی بھی گروہ سے تعلق رکھتا ہو، اس کو امریکا میں اپنی صلاحیت کی بھر پور قیمت ملے گی۔
سیرس ٹاور سے واپسی کے بعد میں ہوٹل ہییت سے ہلٹن ہوٹل میں چلا گیا۔ کیوں کہ ہمارے دوسرے ساتھی اِسی ہوٹل میں مقیم تھے۔ ایک رات ہلٹن میں رہ کر صبح کو دہلی کے لیے روانگی ہوئی۔
5 جولائی 2011 کو صبح کا وقت ہے۔ میں ہلٹن ہوٹل کی ایک بڑی کھڑکی کے پاس بیٹھا ہوں۔ سورج کی روشنی میں باہر کی تمام چیزیں صاف دکھائی دے رہی ہیں۔ یہ ہوٹل شکاگو ائر پورٹ کے بہت قریب ہے، اس لیے یہاں جہاز کی پرواز بہت نیچی ہوجاتی ہے۔ ایک طرف سڑکوں پر کاریں دوڑتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ دوسری طرف ہوائی جہاز فضا میں چڑیوں کی طرح اوپر اڑتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کل میں سمندر کے کنارے گیا تھا۔ وہاں ساحل پر سمندر کے کنارے ہر طرف بحری جہاز دکھائی دے رہے تھے۔ اِن مناظر کو دیکھ کر مجھ کو قرآن کی یہ آیت یاد آئی: ولقد کرمنا بنی آدم وحملناہم فی البر والبحر (17: 70)
امریکا کے سفر میں میں جہاں بھی گیا، ہرجگہ ہندستان اور پاکستان کے لوگ کثرت سے ملے۔ دونوں ملکوں کے لوگ بڑی تعداد میں آکر یہاں آباد ہوئے ہیں اور اکثر وہ اپنی فیملی کے ساتھ یہاں رہتے ہیں۔ یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ 1947سے پہلے انڈیا اور پاکستان دونوں جگہ کے رہنما رومانٹک باتیں کرتے تھے۔ انڈیا کے لیڈر یہ کہتے تھے کہ آزادی کے بعد وہ انڈیا میں سوشلسٹ نظام بنائیں گے، اور پاکستان کے لیڈریہ کہتے تھے کہ پاکستان بننے کے بعد وہاں اسلامی نظام بنایا جائے گا۔ دونوں جگہ کے لیڈر مشترک طورپر امریکی ماڈل کے خلاف بولتے تھے، جو کہ اُن کے نزدیک سرمایہ داری اور پرائیویٹ اکانمی کے اصول پر مبنی تھا۔ مگر 1947 کے بعد دونوں جگہ کے لوگ بڑی تعداد میں اپنے ملک کو چھوڑ کر امریکا چلے گئے۔مگر امریکا میں مقیم انڈیا اور پاکستان کے لوگوں میں سے کوئی بھی شخص مجھے نہیں ملا جو یہ مانے کہ 1947 سے پہلے ہم غلطی پر تھے۔ سب کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے لیڈروں کی غلطی کو مانے بغیر امریکا میں اپنی فیملی کے لیے جگہ بنانے میں مشغول ہیں۔ یہ لوگ اگر اپنی غلطی کو مان لیتے تو ان کے لیے یہاں رہناجائز ہوتا۔ لیکن اپنی غلطی کو مانے بغیر اس طرح امریکا میں آباد ہونا صرف دہرا پن ہے، اور دہرا پن بلا شبہہ اعلیٰ شخصیت کی تعمیر میں سب سے بڑی رکاوٹ کی حیثیت رکھتا ہے۔
5 جولائی 2011 کو ہم لوگ صبح کو 11 بجے ہلٹن ہوٹل سے نکل کر ائر پورٹ کے لیے روانہ ہوئے۔ یہ ہوٹل، ائر پورٹ سے بہت قریب ہے۔ ائر پورٹ پر اقبال صاحب اور ان کی فیملی کے دوسرے ممبران ملاقات کے لیے آئے۔ وہ سب کے لیے کھانا لے کر آئے تھے۔ کھانے سے فراغت کے بعد یہاں ایک مختصر کلاس ہوئی۔ تقریباً 15 افراد تھے۔ ان میں عورتیں اور مرد دونوں تھے۔ میں نے حدیث: ذاق طعم الإیمان، مَن رضی باللہ ربًّا، وبالإسلام دینًا، وبمحمد رسولاً (صحیح مسلم،رقم الحدیث: 34) کی روشنی میں آدھ گھنٹہ تقریر کی۔ اِس میں تزکیہ اور تربیت کے اعتبار سے میں نے چند باتیں کہیں۔ یہ تقریر اُسی وقت رکارڈ کر لی گئی۔
شکاگو سے دہلی کے لیے ڈائرکٹ فلائٹ ہے جو تقریباً 13 گھنٹے میں دہلی پہنچتی ہے۔ یہ فاصلہ تقریباً 13 ہزار کلو میٹر ہے۔ یہ ایک نان اسٹاپ پرواز ہے۔ راستے میں مجھ کو نیند آگئی۔ بہت دیر تک میں سوتا رہا۔ اِس طرح آسانی کے ساتھ راستہ طے ہوگیا۔
دہلی سے شکاگو کے سفر میں ایک واقعہ پیش آیا۔ ہمارے قریب بزنس کلاس کی تین سیٹ ایک شخص کے پاس تھی— اُس کے لیے، اُس کی بیوی کے لیے اور اس کے چھوٹے بچے کے لیے۔ بچہ غالباً دو سال کا تھا۔ بچہ کسی وجہ سے مسلسل روتا چلاتا رہا۔ اس کی ماں گھنٹوں اس کو گود میں لے کر بہلاتی رہی، لیکن وہ چپ نہیں ہوتا تھا۔ گھنٹوں کے بعد غالباً بچہ تھک کر سوگیا۔ اس کی ماں ذرا بھی غصہ نہ ہوئی اور نہ اس نے کسی قسم کی پریشانی کا اظہار کیا۔ وہ نارمل طریقے سے بچے کو چپ کرانے کی کوشش کرتی رہی۔ جہاز جب دہلی ائرپورٹ پر اترا تو ڈاکٹر فریدہ خانم، قرآن کے انگریزی ترجمے کا ایک نسخہ لے کر اُس عورت کے پاس گئیں۔ انھوںنے اس کو قرآن کا ترجمہ دیااور کہا:
I admire your patience. Here is a gift for you.
اُس عورت نے نہایت شوق سے قرآن کا نسخہ لیا۔ عورت انڈین تھی اور اس کا شوہر امریکن تھا۔
یہ ایک سادہ واقعہ ہے، لیکن اس میں بہت بڑا سبق ہے، وہ یہ کہ قرآن کا انگریزی ترجمہ جب چھپ کر تیار ہوچکا ہے تو اس کے بعد کسی کو کچھ زیادہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ اب آدمی کو صرف یہ کرنا ہے کہ وہ موقع کے لحاظ سے تالیفِ قلب کا ایک جملہ بولے اور قرآن کا ایک نسخہ مخاطَب کو پیش کردے۔
15 جون 2011 کو میں دہلی سے امریکا گیا۔ 6 جولائی 2011 کو دوبارہ دہلی واپسی ہوئی۔ تین ہفتہ کے سفر کے بعد جب میں دہلی واپس آیا تو میں نے پایا کہ سفر سے پہلے جو کچھ مجھے دہلی میں ملا ہوا تھا، وہ دوبارہ میرے لئے اُسی طرح یہاں موجود تھا۔ اِس تجربے سے میری سمجھ میں آیا کہ کیا وجہ ہے کہ لوگ موت کے واقعہ سے بالکل بے خبر رہتے ہیں۔ وہ ہر سفر کے بعد جب واپس آتے ہیں تو وہ دیکھتے ہیں کہ سب کچھ پہلے کی طرح یہاں ان کے لیے موجود ہے۔ اِس طرح غیر شعوری طورپر ان کے ذہن میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ موت کے بعد بھی اُن کو وہ سب کچھ اسی طرح حاصل رہے گا جو موت سے پہلے ان کو یہاں حاصل تھا۔
آدمی شام کے وقت سوتا ہے پھر صبح کے وقت جب وہ اٹھتاہے تو وہ پاتا ہے کہ وہ سب کچھ دوبارہ یہاں اس کے لیے موجود ہے جو شام کو سونے سے پہلے اس کو ملا ہوا تھا۔ وہ صبح کو اپنی زندگی کا ایک سفر شروع کرتا ہے اور جب شام ہوتی ہے تو وہ دیکھتا ہے کہ جو کچھ اس کو صبح کے وقت ملا ہوا تھا، وہ شام کے وقت دوبارہ اس کو ملا ہوا ہے۔ یہ صورتِ حال آدمی کے اوپر روزانہ گزرتی ہے۔ یہ گویا ایک کنڈیشننگ ہے جو ہر عورت اور مرد کے ساتھ روزانہ پیش آتی ہے۔ یہی کنڈیشننگ موت سے غفلت کی سب سے بڑی وجہ ہے، حتی کہ لوگ دوسر وں کو مرتے ہوئے دیکھتے ہیں تب بھی وہ خود اپنے بارے میں سوچ نہیں پاتے کہ انھیں بھی ایک دن مرنا ہے اور مرنے کے بعد سب کچھ چھوڑ کر دنیاسے چلے جانا ہے۔
حدیث میں آیا ہے کہ موت کو بہت زیادہ یاد کرو۔ اس کا مطلب دوسرے لفظوں میں یہ ہے کہ موت کے بارے میں اپنے کنڈیشنڈ مائنڈ (conditioned mind) کی بہت زیادہ ڈی کنڈیشننگ (deconditioning) کرو۔ ہر آدمی کو چاہیے کہ وہ اِس معاملے میںاپنے شعور کو بیدار کرے، وہ اِس معاملے میں اپنی کنڈیشننگ کو بہت زیادہ توڑے۔
تین ہفتے کے بیرونی سفر کے بعد6 جولائی 2011 کی شام کو جب میں اپنے وطن دہلی واپس آیا تو یہ میرے لیے وہ تجربہ تھا جس کو ہوم کمنگ (home coming) کہاجاتا ہے۔ سچے اہل ایمان کے لیے موت کے بعد آخرت کی دنیا میں داخل ہونا بھی اِسی طرح ہوم کمنگ کا ایک تجربہ ہوگا۔ انسان کو اللہ نے ایک جنتی مخلوق کی حیثیت سے پیدا کیا ہے اور موجودہ دنیا میں اس کو امتحان کے لیے رکھ دیا ہے۔ جو لوگ اِس امتحان میں پورے اتریں، وہ موت کے بعد جنت میںاِس طرح داخل ہوں گے، جیسے کوئی مسافر لمبے سفر کے بعد اپنے مانوس گھر میں داخل ہوتا ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو ایک حدیثِ رسول میں اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: والذی نفسی بیدہ، أن أحدہم بمنزلہ فی الجنۃ أہدی منہ بمنزلہ الذی کان فی الدنیا (دنیا میں کوئی شخص جس طرح اپنے گھر کو پہچانتا ہے، جنت میں جانے والا شخص اُس سے زیادہ وہاں اپنے گھر کو پہچان لے گا)۔
واپس اوپر جائیں

کائنات پر کنٹرول

قرآن کی پہلی آیت یہ ہے: الحمد للہ رب العالمین (1:1) یعنی ساری حمد اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔ یہ دراصل وہ کلمہ ہے جو آدمی کی زبان سے اُس وقت بے اختیارانہ طورپر نکل پڑتا ہے، جب کہ وہ کائنات کا مشاہدہ کرے۔ دور بینی مشاہدہ بتاتا ہے کہ کائنات ناقابلِ قیاس حد تک وسیع اور عظیم ہے۔ دوسری طرف، خورد بینی مطالعہ بتاتاہے کہ ناقابلِ مشاہدہ کائنات بھی اتنا ہی زیادہ عظیم ہے جتنا کہ قابلِ مشاہدہ کائنات۔ ساری ترقیوں کے باوجود ابھی تک انسان نہ کائنات کی وسعتوں کا اندازہ کرسکا ہے اور نہ وہ کائنات کی عظمتوں کو دریافت کرنے میں کامیاب ہوسکا ہے۔
یہ وسیع اور عظیم کائنات مسلسل طورپر متحرک ہے۔ اس کے اندر ہر لمحہ انتہائی با معنی قسم کی سرگرمیاں (meaningful activities)جاری ہیں۔ مطالعہ مزید بتاتاہے کہ یہ اتھاہ کائنات مکمل طور پر ایک بے نقص کائنات (faultless universe) ہے۔ بے نقص حالت میں کائنات کا اِس طرح قائم رہنا صرف اُس وقت ممکن ہے، جب کہ اِس نظام میں کوئی ادنیٰ تغیّر (alteration) نہ آئے۔ کائنات کے اندر ایک ادنیٰ تغیر بھی اس کے پورے نظام کو درہم برہم کرسکتا ہے۔
جدید مطالعہ بتاتا ہے کہ کائنات ناقابل قیاس حد تک وسیع ہونے کے باوجود آخری حد تک ایک ہم آہنگ (harmonious)کائنات ہے۔ وہ مکمل طورپر ایک واحد فورس سے کنٹرول ہورہی ہے۔ اس کے تمام اجزا ایک دوسرے سے کامل طور پر جڑے ہوئے ہیں۔
کائنات کی اِس عالمی ہم آہنگی پر تمام سائنس داں حیرت زدہ ہیں۔ ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ اِس غیر معمولی ہم آہنگی کی توجیہہ کس طرح کی جائے۔ کائنات کے اندر یہ بے پناہ نظم اِس بات کا ثبوت ہے کہ یہ کائنات ایک قادرِ مطلق خدا کے زیرانتظام ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو پوری کائنات ایک لمحے کے اندر منتشر ہو کر رہ جائے۔ کائنات کے اندر یہ کامل ہم آہنگی صرف اُس وقت ممکن ہے، جب کہ اُس کا ناظم اپنے اندر قدرتِ کاملہ کی صفت رکھتا ہو۔
واپس اوپر جائیں

جنت اور انسان

جنت اور انسان ایک دوسرے کا مثنیٰ (counterpart) ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے تکمیلی (complementary) چیز کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جنت انسان کے لیے بنائی گئی ہے اور انسان جنت کے لیے۔ حقیقت یہ ہے کہ — جنت مطلوبِ انسان ہے اور انسان مطلوبِ جنت۔ انسان کے بغیر جنت ادھوری ہے، اور جنت کے بغیر انسان ادھورا۔ یہ بات خود تخلیقی منصوبے میں شامل ہے کہ اِس دنیا میں جنتی انسان تیار ہوں جو جنت کی ابدی دنیا میںبسائے جاسکیں۔
قرآن کی سورہ النساء میں یہ آیت آئی ہے: ما یفعل اللہ بعذابکم إن شکرتم واٰمنتم، وکان اللہ شاکراً علیما (4: 147) یعنی اللہ تم کو عذاب دے کر کیا کرے گا، اگر تم شکر گزاری کرو اور ایمان لاؤ۔اللہ بڑا قدرداں ہے، وہ سب کچھ جاننے والا ہے۔
اِس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے تخلیقی منصوبے کا تقاضا اِس طرح پورا نہیں ہوتا کہ لوگ بُرے اعمال کرکے اپنے آپ کو جہنم کا مستحق بنا لیں۔ اللہ کا تخلیقی منصوبہ یہ چاہتا ہے کہ لوگ اپنے آپ کو جنت کا مستحق ثابت کریں اور پھر آخرت میں پہنچ کروہ جنت کے باغوں میں آباد ہوں۔
مفسر ابوالبرکات النسفی (وفات: 1310 ء) نے مذکورہ آیت کی تشریح کے تحت لکھا ہے: الإیمان: معرفۃ المنعم، والشکر: الاعتراف بالنعمۃ (تفسیر النسفی، 1/259 ) یعنی ایمان، منعم کی معرفت ہے، اور شکر، نعمت کے اعتراف کا نام ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے سے جُڑی ہوئی ہیں۔ ایمان کا مطلب یہ ہے کہ آدمی شعوری طور پر اپنے رب کو دریافت کرے، وہ مخلوق کے ذریعے خالق کا تعارف حاصل کرے۔ شکر کا مطلب خدا کی نعمتوں کا اعتراف ہے۔ اِس دنیا میں جو کچھ انسان کو ملا ہوا ہے، وہ سب خدائے برتر کا انعام (blessings)ہے۔ اِس انعام کے لیے دل سے منعم (giver)کا معترف ہونا، بلاشبہہ کسی انسان کے لیے سب سے بڑی عبادت کی حیثیت رکھتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

اللہ کے ساتھ

عربی زبان میں بہت سے مضامین اور کتابیں چھپی ہیں جن کا ٹائٹل اِس قسم کا ہوتا ہے—ایک ساعت فلاں کے ساتھ (ساعۃٌ مع فلان)۔ اِس طرح کا ٹائٹل بظاہر درست ہے، مگر عجیب بات یہ ہے کہ کوئی لکھنے والا اِس طرح کے ٹائٹل کے ساتھ کیوں نہیں لکھتا کہ — ایک ساعت اللہ کے ساتھ (ساعۃٌ مع اللہ)۔ یہ واقعہ اِس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے لکھنے والوں کو انسان کی صحبت تو ملی، مگر اُن کو اللہ کی صحبت نہیں ملی۔
حدیث میں آیا ہے کہ مومن پر ایسا لمحہ گزرنا چاہیے، جب کہ وہ اپنے رب سے سرگوشی کررہا ہو: ساعۃٌ یناجی فیہا ربَّہ(حلیۃ الأولیاء لأبی نُعیم1/221 )۔ سر گوشی (whisper) ایک ایسے تجربے کا نام ہے جب کہ انسان اپنے آپ کو اپنے رب سے قریب پاتا ہے، اتنا زیادہ قریب کہ وہ سرگوشی کے انداز میں اپنے رب سے کلام کرنے لگتا ہے۔
قرآن سے ثابت ہے کہ خدا اپنے بندے سے بہت قریب ہے (2: 286) ۔ اِسی طرح قرآن میں بتایا گیا ہے کہ سجدہ کے وقت انسان، خدا سے قربت کا تجربہ کرتاہے (96: 19)
یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ جب ایک انسان اپنے رب کو دریافت کرتا ہے، وہ آفاق وانفُس میں گہرائی کے ساتھ غور کرتاہے تو بار بار وہ محسوس کرتاہے کہ وہ اپنے رب کے انتہائی قریب پہنچ گیا ہے۔ اُس وقت اس کا دل تڑپ اٹھتا ہے، اس کی آنکھیں اشک بار ہوجاتی ہے، وہ محسوس کرتا ہے کہ وہ ربانی فیضان (divine inspiration) کی سطح پر خدا سے جڑ گیا ہے۔ اُس وقت آدمی کی زبان سے غیرمتوقع طورپر اعلیٰ ربانی کلمات ادا ہونے لگتے ہیں، اس کا پورا وجود ایک روحانی تجربے میں غرق ہوجاتا ہے۔ وہ دیکھے بغیر خدا کو دیکھنے لگتا ہے، وہ ہم کلام ہوئے بغیر خدا سے بات کرنے لگتاہے، بظاہر دوری کے باوجود وہ خدا سے آخری حد تک قریب ہوجاتا ہے—اِس دنیا میںخدا کی قربت یہ ہے کہ کوئی شخص روحانی سطح پر اِس طرح اپنے رب کو پالے۔
واپس اوپر جائیں

زیادہ بڑا ایمپائر

ایک صاحب کے یہاں اعلی صلاحیت کا ایک بیٹا پیدا ہوا۔ اس کے غیر معمولی اوصاف کودیکھ کر باپ نے کہا کہ —میرا بیٹا مستقبل میں ایک ایمپائر بنائے گا:
My son will be an empire builder.
باپ کا یہ اندازہ صحیح ثابت ہوا۔ بیٹا جب بڑا ہوا تو اس نے ایک بزنس شروع کیا۔ اس کی خداداد صلاحیت کی بناپر اس کے کام میں غیر معمولی ترقی ہوئی، یہاں تک کہ وہ اپنا ایک بزنس ایمپائر بنانے میں کامیاب ہوگیا۔ لیکن یہ ایمپائر زیادہ دن تک اس کا ساتھ نہ دے سکا۔ آخر کار ایک محدود مدت کے بعد وہ بھی مرکر اس دنیا سے اُسی طرح چلا گیا جس طرح دوسرے لوگ اِس دنیا میں آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔
یہ مادی ایمپائر (material empire) کی بات ہے۔ مادی ایمپائر صرف مختصر مدت تک آدمی کا ساتھ دیتا ہے، لیکن یہاں ایک اور ایمپائر ہے جو ہمیشہ کے لیے آدمی کے ساتھ رہتاہے۔ یہ فکری ایمپائر (intellectual empire) ہے۔ فکری ایمپائر سے مراد ہے — ذہنی ارتقا، روحانی دریافت، شخصیت کی تعمیر، انسانی امکانات (potentials) کو واقعہ (actual) بنانا۔ یہی وہ انسان ہے جس کومذہب کی زبان میںربانی انسان کہاجاتا ہے۔
ربانی انسان وہ ہے جو اپنے خالق کو دریافت کرے، جو اپنی عقلی صلاحیتوں کو استعمال کرکے خداکی معرفت حاصل کرے، جو خداکے تخلیقی پلان کوجانے اور اس کے مطابق، اپنی زندگی کو ڈھالنے کی کوشش کرے، جو اپنے آپ کو جنتی کردار والا انسان بنائے، یعنی ایسا انسان جس کو موت کے بعد کی دنیا میں ابدی جنت میں بسایا جائے گا۔ دوسرے لوگ اگر مادی دنیا میں اپنا ایک خارجی ایمپائر بناتے ہیں تو ایسا شخص خود اپنے اندر ایک داخلی ایمپائر بناتاہے۔ مادی ایمپائر صرف کچھ مدت تک کسی آدمی کا ساتھ دیتاہے، لیکن روحانی ایمپائر (spiritual empire)وہ ہے جو ہمیشہ ہمیشہ تک کسی آدمی کو حاصل رہے گا۔ اول الذکر ایمپائر اگر وقتی خوشی کا ذریعہ ہے، تو ثانی الذکر ایمپائر ابدی خوشی کا ذریعہ۔
واپس اوپر جائیں

مفروضہ دشمن کے خلاف

انسان کے اندر سب سے زیادہ طاقت ور جذبہ نفرت کا جذبہ ہے۔ بہت جلد ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص کو دوسرے شخص سے، ایک گروہ کو دوسرے گروہ سے شکایت پیدا ہوجاتی ہے۔ یہ شکایت بڑھ کر نفرت بن جاتی ہے، پھرا س میں مزید اضافہ ہوتا ہے اور وہ دشمنی بن جاتی ہے۔ یہ دشمن اپنی حقیقت کے اعتبار سے اگر چہ ایک مفروضہ دشمن ہوتا ہے، لیکن عام مزاج کے مطابق، لوگ اس کو حقیقی دشمن سمجھ لیتے ہیں اور اُس کے خلاف وہ ساری منفی کارروائی شروع کردیتے ہیں جو کسی واقعی دشمن کے خلاف کی جاتی ہیں۔
مفروضہ دشمن کے خلاف پہلے منفی پروپیگنڈہ شروع کیا جاتاہے۔ اس کے بعد یہ کوشش ہونے لگتی ہے کہ اُس کو مادّی نقصان پہنچایا جائے۔ جب اس قسم کی مخالفانہ کوششوں میں کامیابی نظر نہیںآتی تو اس کے بعد یہ ہوتا ہے کہ مفروضہ دشمن کے خلاف متشددانہ عمل شروع کردیا جاتا ہے۔ اِس متشددانہ عمل کی آخری حد خود کش بم باری ہے، یعنی دشمن کو مارنے کے لیے خود اپنے آپ کو مار لینا۔
مفروضہ دشمن کا یہ ظاہرہ ایک عمومی ظاہرہ ہے۔ اِس کو پوری تاریخ میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اس کا علاج صرف یہ ہے کہ آغاز ہی میں اس کو کچل کر ختم کردیا جائے۔ اِس قسم کی دشمنی کا آغاز ہمیشہ غلط فہمی سے ہوتا ہے۔ جب کسی کے بارے میں کوئی غلط فہمی پیدا ہو تو آدمی کو چاہیے کہ وہ اُس غلط فہمی کو بڑھنے نہ دے۔ وہ پہلے ہی مرحلے میںاس کا خاتمہ کردے۔ غلط فہمی کو ختم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ یا تو ایسا کریں کہ اُس کو سنتے ہی اس کو بھلا دیں، اس کے بارے میں نہ سوچیں اور نہ کسی سے اس کا چرچا کریں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ آپ متعلق شخص سے براہِ راست ملاقات کریں۔ اُس سے مل کر معاملے کو سمجھنے کی کوشش کریں اور متعصبانہ ذہن کے بغیر اس کا تجزیہ کریں۔ ایسا کرنے کی صورت میں یقینی طورپر غلط فہمی کا خاتمہ ہوجائے گا۔ کیوں کہ غلط فہمی ہمیشہ بے بنیاد ہوتی ہے۔ جس آدمی کے اندر دونوں میں سے کوئی ایک بات بھی نہ ہو، وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک حیوان ہے، خواہ بظاہر وہ انسانی صورت میں دکھائی دیتا ہو۔
واپس اوپر جائیں

غلطی کرنے کے بعد

انسان سے ہمیشہ غلطیاں ہوتی ہیں۔ عربی زبان میں یہ مقولہ ہے: الإنسان مرکب من الخطأ والنسیان (انسان غلطی اور بھول کا مجموعہ ہے)۔ انگریزی زبان میں کہا جاتاہے— to err is human
ایسی حالت میں انسان کو کیا کرنا چاہیے۔ اس کا جواب ایک حدیثِ رسول میں ملتاہے۔ پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کلّ ابن آدم خطّائٌ وخیر الخطّائین التوابین (الترمذی، کتاب القیامۃ) یعنی انسان ہمیشہ غلطی کرتاہے اور بہتر غلطی کرنے والا وہ ہے جو غلطی کے بعد توبہ کرے۔
غلطی کرنے کے بعد انسان کو ایسا نہیں کرنا چاہئے کہ وہ کسی دوسرے کو اِس معاملے کا ذمے دار ٹھہرا کر اس کی شکایت کرنے لگے۔اِس قسم کا رد عمل سراسر بے فائدہ ہے۔
آدمی کو چاہیے کہ وہ ایسے موقع پر خود اپنا محاسبہ (introspection) کرے، وہ اپنی کوتاہی کو د ریافت کرکے اپنی زندگی کی نئی منصوبہ بندی کرے۔ اُس کا ذہن یہ ہونا چاہیے کہ جو کچھ کھویا گیا، وہ اب مجھے واپس نہیں مل سکتا۔ اِس لیے اب مجھے یہ کرنا ہے کہ میںاپنی اصلاح کرکے اپنے آپ کو مزید نقصان سے بچاؤں۔
اِس معاملے کادوسرا پہلو وہ ہے جو آخرت سے تعلق رکھتا ہے۔ ہر غلطی کے بعد آدمی کو یہ کوشش کرنا چاہیے کہ اس کی دنیا کی غلطی اُس کے لیے آخرت کے نقصان کا سبب نہ بن جائے۔ آپ کی غلطی اگر آپ کے اندر منفی نفسیات پیداکردے تو یہی وہ چیز ہے جو آخرت کے نقصان کا باعث بن جاتی ہے۔
غلطی کے بعد اپنے آپ کو اِس سے بچائیے کہ آپ دوسروں سے نفرت کرنے لگیں۔ آپ کے اندر مایوسی کے جذبات پیدا ہوجائیں، آپ معتدل انداز میں سوچنے کے قابل نہ رہیں، آپ کے اندر خدا رخی سوچ کے بجائے انسان رخی سوچ بن جائے، آپ کچھ اور کرنے کا حوصلہ کھو دیں— اِس قسم کی تمام چیزیں انسان کی آخرت کو تباہ کرنے والی ہیں۔ انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو ہر قیمت پر اِس قسم کی منفی احساسات (negative feelings) سے بچائے۔
واپس اوپر جائیں

موت کا الارم

اکتوبر 2011 میں کئی مشہور افراد کی موت ہوئی۔ مثلاً کینڈا کا سائنس داں رالف اسٹین مین (Ralph Steinman) ۔ 3 اکتوبر 2011 کو ان کا انتقال ہوا، جب کہ ان کی عمر 68 سال تھی۔ اُن کو میڈیسن پر نوبل پرائز ملنے والا تھا۔ نوبل پرائز کے اعلان سے صرف تین دن پہلے ان کا انتقال ہوگیا:
He died just three days before he could be told of his award.
اِسی طرح امریکا کے کمپیوٹر ایکسپرٹ اسٹیو جابس (Steve Jobs) کی وفات 6 اکتوبر 2011 کو ہوئی، جب کہ ان کی عمر 56 سال تھی۔ وہ امریکی کمپنی ایپل (Apple) کے سابق چیف ایگزیکٹیو اور اس کے شریک بانی تھے۔ انھوں نے آئی فون اور آئی پوڈ سے دنیا کو متعارف کرایا۔ ان کی موت ایپل کی طرف سے آئی فون کا نیا ماڈل 4-S جاری کئے جانے کے صرف ایک ماہ بعد ہوئی۔
اِسی طرح انڈیا کے مشہور سنگر (singer) جگ جیت سنگھ جن کو کنگ آف غزل کہاجاتا تھا، اپنے کیریر کے عین عروج کے زمانے میں 10 اکتوبر 2011 کو اچانک ان کا انتقال ہوگیا۔ بوقتِ وفات ان کی عمر 70 سال تھی۔ ایک حادثے میں اپنے بیٹے کی موت کے بعد انھوں نے یہ شعر گایا تھا جو اُن کی موت کے بعد خود اُن پر صاق آگیا :
چٹھی نہ کوئی سندیش، جانے وہ کون سا دیش، جہاں تم چلے گئے!
موت کا یہ واقعہ جو ہر دن کسی نہ کسی عورت یا مرد کے ساتھ پیش آتا ہے، وہ ہر ایک کے لیے ایک الارم ہے۔ موت یہ بتاتی ہے کہ اِس دنیا میں انسان کے لیے صرف محدود مدت تک رہنا مقدر ہے، اِس کے بعد وہ اپنے خالق کے پاس چلا جاتا ہے، تاکہ وہ اپنے ابدی انجام کا فیصلہ سنے۔ ہر انسان کو سب سے پہلے یہ کرنا ہے کہ وہ اپنی زندگی اور موت کے بارے میں اپنے خالق کے تخلیقی منصوبہ کو جانے، وہ خالق کی منشا کے مطابق، اِس دنیا میں اپنی زندگی گزارے، تاکہ موت کے بعد آنے والی اگلی دنیا میں وہ اپنے خالق کا انعام پاسکے، یعنی ابدی جنت کا انعام۔
واپس اوپر جائیں