Pages

Tuesday 2 December 2008

Al Risala | December 2008 (الرسالہ،دسمبر)

2

-عید ِ اضحی کا پیغام

4

- صبح کی تلاوت

5

- سیروسیاحت

6

- دعوت، تذکیر

7

- گمان سے بچنا

8

- انسان کی تلاش

9

- مغز اور چھلکا

10

- کبر ِ خفی کا نقصان

11

- خواہش پرستی، یا اصول پسندی

12

- کتابِ تلاوت، یا کتاب ِاطاعت

13

- انسانی تلاش کا جواب

14

- اسلام کیا ہے

15

- ایک سنگین مغالطہ

16

- ذہن سازی

17

- حد کے اندر رہئے

18

- فخر سے غرورتک

19

- جنت کی تلاش

20

- تمکین فی الارض کا معاملہ

21

- امر ِ موعود، امر ِمقصود

22

- دعوہ ایکٹوزم، پولٹکل اسٹیٹس کو ازم

23

- سیاسی اقتدار کی حیثیت

24

- ِختم فتنہ کا دور

26

- معیاری فرد، معیاری سماج

27

- سیاست کی دو قسم

28

- کم زور دفاع

30

- جموں وکشمیر کا مسئلہ

33

- سنتِ یوسفی

34

- بے فائدہ جنگ

35

- آزادی خیر ِاعلیٰ

36

- بے اطمینانی کا سبب

37

- بحران کا مسئلہ

38

- تعمیر کی طاقت

39

- ذہنی ارتکاز کی اہمیت

40

- خود ساختہ معیار

41

- بے مسئلہ انسان

42

- سوال وجواب

45

- خبرنامہ اسلامی مرکز


عید ِ اضحی کا پیغام

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ نے پوچھا کہ اے خدا کے رسول، یہ قربانیاں کیا ہیں۔ آپ نے جواب دیا کہ تمھارے باپ ابراہیم کا طریقہ (ماہذہ الأضاحی، قال: سنّۃ أبیکم إبراہیم (مسند احمد، جلد 4،صفحہ 368؛ ابن ماجہ، کتاب الأضاحی)۔ اِس حدیثِ رسول سے معلوم ہوتا ہے کہ عید ِاضحی کی حقیقت کیاہے، وہ ہے —حضرت ابراہیم کے طریقے کو علامتی طورپر انجام دے کر اُس کو عملی اعتبار سے اپنی زندگی میں شامل کرنے کا عہد کرنا۔
عید اضحی ہر سال ماہِ ذو الحجہ کی مخصوص تاریخوں میں دہرائی جاتی ہے۔ وہ دراصل حج کی عالمی عبادت کاحصہ ہے۔ حج پورے معنوں میں، حضرت ابراہیم کی زندگی کا علامتی اعادہ (symbolic performance) ہے۔ اِس کا ایک حصہ وہ ہے جو ہر مقام پر عید ِ اضحی کی شکل میں جزئی طورپر انجام دیا جاتا ہے۔
حضرت ابراہیم کا مشن عالمی دعوتی مشن تھا۔ آپ نے اِس مشن کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ کا سفر کیا ۔ آپ نے اپنے اہلِ خاندان کو اِسی کام میں لگایا۔ آپ نے اِس دعوتی مشن کے مرکز کے طورپر کعبہ کی تعمیر کی اور اُس کا طواف کیا۔ آپ نے صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرکے بتایا کہ دنیا میں میری دوڑ دھوپ تمام تراللہ کے لیے ہوگی۔ آپ نے قربانی کرکے اپنے اندر اِس عزم کو پیدا کیا کہ آپ اپنی زندگی کو پوری طرح، اللہ کے کام کے لیے وقف کریں گے۔ آپ نے احرام کی شکل میں سادہ کپڑے پہنے جو اِس بات کی علامت تھے کہ ان کی زندگی مکمل طور سادہ زندگی ہوگی۔ آپ نے شیطان کو کنکریاں مار کر اِس بات کا اظہار کیا کہ وہ اپنے آپ کو شیطان کے بہکاوے سے آخری حد تک بچائیں گے، وغیرہ۔
اِسی ابراہیمی طریقِ زندگی کو جزئی طور پرہر سال عید ِ اضحی کے موقع پر تمام مسلمان اپنے اپنے مقام پر دہراتے ہیں۔ اِس طرح یہ عید ِ اضحی، حضرت ابراہیم کے طریقِ حیات کو اپنی زندگی میںاپنانے کا ایک سالانہ عہد ہے۔ یہی وہ نمونہ ہے جس کو سامنے رکھ کر ہر شخص کو یہ جانچنا چاہیے کہ اُس نے عید ِ اضحی کے دن کو صحیح طور پر منایا، یا صحیح طورپر نہیں منایا۔
عید اضحی کے دن مسلمان اپنے قریب کے لوگوں سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔ یہ ملاقاتیں گویا اُس دعوتی سرگرمی کی تجدید ہیں جو حضرت ابراہیم نے اپنے وقت کی آباد دنیا میں انجام دیں۔ اِسی طرح آج ہر مسلمان کو اپنے زمانے کے لوگوں کے درمیان دعوتی ذمے داریوں کو ادا کرنا ہے۔ پھرہر جگہ کے مسلمان اللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ، لاَ اِلٰہَ اِلاّ اللہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُکہتے ہوئے مسجدوں میں جاتے ہیں اور وہاں دو رکعت نمازِ عید ادا کرتے ہیں اور امام کا خطبہ سنتے ہیں۔ یہ اپنے اندر اِس روح کو زندہ کرنا ہے کہ میں خدا کی پکار پر لبیک کہنے کے لیے تیار ہوں، اور یہ کہ میری پوری زندگی عبادت اور اطاعت کی زندگی ہوگی۔ اِسی کے ساتھ امام کے پیچھے نماز ادا کرنا اور نماز کے بعد خطبہ سننا، اِس بات کا عہد ہے کہ میںاِس دنیامیں اجتماعی زندگی گزاروں گا، نہ کہ متفرق زندگی۔
عید ِ اضحی کے دن قربانی کی جاتی ہے۔ اِس قربانی کے وقت یہ کلمات ادا کیے جاتے ہیں: إنّ صلا تی ونُسکی ومحیای ومماتی للہ ربّ العالمین (الأنعام:161 ) یعنی بے شک، میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا صرف اللہ رب العالمین کے لیے ہوگا۔
قربانی کے وقت ادا کیے جانے والے یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ قربانی کی اصل روح یا اس کی اصل حقیقت کیا ہے۔ قربانی دراصل ایک علامتی عہد (symbolic covenant)ہے۔ اِس علامتی عہد کا تعلق پوری زندگی سے ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ عید اضحی کے دن آدمی علامتی طورپر یہ عہد کرتا ہے کہ اس کی زندگی پورے معنوں میں، خدا رخی زندگی (God-oriented life) ہوگی۔ وہ اپنی زندگی میںعبادتِ الٰہی کو اُس کے تمام تقاضوں کے ساتھ شامل کرے گا۔ وہ اپنے آپ کو خدا کے مشن میں وقف کرے گا۔ وہ دنیا میں سرگرم ہوگا تو خدا کے مشن کے لیے سرگرم ہوگا۔ اُس پر موت آئے گی تو اِس حال میں آئے گی کہ اُس نے اپنے آپ کو پوری طرح خدا کے مشن میں لگا رکھا تھا، وہ پورے معنوںمیں خداوند ِ عالم کا بندہ بناہوا تھا۔ اُس کا جینا خدا کے لیے جینا تھا، نہ کہ خود اپنے لیے جینا۔
واپس اوپر جائیں

صبح کی تلاوت

قرآن کی سورہ نمبر 17 میں نمازِ فجر کی تلاوت کے بارے میںارشاد ہوا ہے: إنّ قرآن الفجر کان مشہوداً (الإسراء: 78 ) یعنی فجر کی قرأت حضوری کی قرأت ہے۔
روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ صبح سویرے کا وقت ایک خصوصی وقت ہے۔ اُس وقت فرشتوں کا زیادہ بڑا اجتماع ہوتا ہے۔ اِس طرح فرشتوں کی زیادہ بڑی تعداد، نمازی کی قرأت کی گواہ بن جاتی ہے۔ صبح کے وقت فرشتوں کا زیادہ بڑا اجتماع کوئی پُراسرار چیز نہیں۔ فرشتوں کا خاص کام یہ ہے کہ وہ انسان کے اندر ربانی کیفیات پیدا کریں۔ صبح کا پُرسکون وقت اِس ملکوتی عمل میں خصوصی طورپر مدد گار بن جاتا ہے۔
اِس معاملے کی ایک توسیعی صورت بھی ہے۔ مثلاً آپ نے اول وقت میں فجر کی نماز ادا کی، اور امام کی زبان سے طویل قر أت کو سنا۔ اس کے بعد تلاوتِ قرآن سے احساس کو لے کر آپ مسجد سے باہر نکلے اور کسی کھلی فضا میں گئے، جہاں سر سبز درخت ہیں اور فطرت کا ماحول ہے۔ اُس وقت جب آپ قرآن کے پیدا کردہ ذہن کو لے کر فطرت پر غور کرتے ہیں تو آپ کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ کی قرآنی سوچ اور خارجی ماحول دونوں ایک ہوگئے ہیں۔ فطرت کے مناظر خاموش زبان میں گواہی دے رہے ہیں کہ قرآنی فکر کے تحت جو کچھ تم سوچ رہے ہو، بلا شبہہ وہ ایک عالمی حقیقت ہے۔
جب ایک شخص صبح کے وقت فطرت کے ماحول میںخدا کی باتوں پر غور کرتا ہے، تو اُس وقت اس کو اپنے ماحول کے اندر خدا کی موجودگی (presence of God) کا احساس ہونے لگتا ہے۔ اُس پر وہ کیفیت طاری ہوتی ہے جس کو حدیث میںاِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ: خدا کی عبادت اِس طرح کرو، جیسے کہ تم اس کو دیکھ رہے ہو (تعبد اللہ کأنک تراہ)۔ یہ کیفیت کوئی انسان خود سے اپنے اندر پیدا نہیں کرسکتا، یہ کیفیت بلا شبہہ فرشتوں کی مدد سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ داخلی سوچ کا خارجی ماحول میں مشاہدہ کرنا ہے۔ یہ ایک اعلیٰ عبادت ہے، اور ایسی عبادت کا تجربہ فرشتوں کی مدد کے بغیر ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں

سیروسیاحت

قرآن میںانسان کی مطلوب صفات میں سے ایک صفت سیرو سیاحت بتائی گئی ہے۔ قرآن کی سورہ نمبر 22 میں بتایاگیا ہے کہ زمین میں سیر اور سفر کرنے سے عقل میںاضافہ ہوتا ہے (الحج: 46)۔ قرآن کی سورہ نمبر 9 میں اہلِ ایمان کی صفات میں سے ایک صفت سیاحت بتائی گئی ہے (التوبۃ: 112)۔
قرآن کے اِن بیانات کے مطابق، سیر و سیاحت ایک اعلیٰ انسانی صفت ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ سیر اور سیاحت کے ذریعے تجربات حاصل ہوتے ہیں، اور تجربات ہر انسان کے لیے ذہنی اور روحانی ترقی کا بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ کتابوں کے مطالعے سے آدمی کو معلومات حاصل ہوتی ہیں، اور تجربات کے ذریعے آدمی کی ذہنی ترقی اور روحانی بصیرت میںاضافہ ہوتا ہے۔
موجودہ زمانے میں سیر وسیاحت(toursim) ایک مستقل انڈسٹری بن گئی ہے۔ لیکن یہ سیروسیاحت زیادہ تر تفریح اور آؤٹنگ (outing) کے لیے ہوتی ہے۔ قرآن کا مطلوب سفر وہ ہے جو دنیا کے واقعات سے سبق لینے کا ذریعہ بن جائے، جو آدمی کی پختگی (maturity) میں اضافہ کرنے والا ہو، جو آدمی کے اندر وہ گہرائی پیدا کرے جس کو بصیرت اور معرفت کہاجاتاہے۔
آدمی اگر سفر نہ کرے تو وہ صرف اپنے مقامی حالات سے باخبر ہوتا ہے، اس کو اپنی تربیت کے صرف محدود مواقع ملتے ہیں، لیکن جب وہ اپنے مقامی ماحول سے نکل کر باہر کی دنیا میں جاتا ہے تو اس کو اپنی تربیت کے عالمی مواقع حاصل ہوجاتے ہیں۔ اس کے اندر آفاقی نظر پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ مختلف قوموں کے واقعات سے عبرت اور نصیحت لینے کے قابل ہوجاتا ہے۔ پہلے اگر اس کا انٹریکشن (interaction) مقامی دائرے تک محدود تھا، تو سفر اس کو بین اقوامی انٹریکشن کے قابل بنا دیتا ہے۔
سفرنہ کرنے کی صورت میںآدمی محدود طورپر صرف اپنے لوگوں میں رہتا ہے۔ لیکن جب وہ سفر کرتا ہے تو اس کا ربط عام انسانوں سے قائم ہوجاتا ہے۔ اب وہ اِس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ عالمی تجربات سے فائدہ اٹھائے، وہ زیادہ بہتر طورپر اپنی زندگی کی تعمیر کرسکے۔
واپس اوپر جائیں

دعوت، تذکیر

اسلامی تحریک کے دو بڑے میدان ہیں— ایک، مسلمانوں میں، اور دوسرا، غیر مسلموں میں۔ یہ دونوں ہی کام اہمیت کے حامل ہیں، لیکن دونوں کی نوعیت ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ اِسی لیے قرآن میں دونوں قسم کے کاموں کے لیے دو الگ الگ الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان اسلامی تحریک کے لیے قرآن میں تذکیر کا لفظ آیا ہے۔ مثلاً: وذکّر فإن الذّکری تنفع المؤمنین (الذّاریات: 55)۔ اِسی طرح، غیر مسلموں میں کام کی نسبت سے قرآن کی ایک آیت یہ ہے: کبُر علی المشرکین ما تدعوہم إلیہ (الشوریٰ: 13 )۔پہلی آیت میں، مسلمانوں کے درمیان اسلامی عمل کو تذکیر کہاگیا ہے اور دوسری آیت میں غیر مسلموں کے درمیان اسلامی عمل کے لیے دعوت کا لفظ استعمال کیاگیا ہے۔
تذکیر کے لفظی معنیٰ ہیں— یاد دہانی (to remind) ۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ ایمان کا اقرار کر کے اسلام کے حلقے میں داخل ہوچکے ہیں، اُن کو اپنے اقرار پر پورا اترنے کی یاد دہانی کرنا، ان کے اندر جب بھی کوئی عملی کمی پیدا ہو، تو ان کو نصیحت اور یاددہانی کے ذریعے اپنے اقرار پر ثابت قدم رہنے کی تلقین کرنا۔ اِس قسم کا کام صرف ان لوگوں کے اوپر کیا جاتا ہے جو اپنے مومن اور مسلم ہونے کا اعلان کرچکے ہوں۔ یہی تذکیر کا مطلب ہے اور اِسی بنا پر اہلِ ایمان کے درمیان اسلامی کام کو تذکیر کہاگیا ہے۔
غیر مسلموں کے درمیان اسلامی کام کے لیے قرآن میں دعوت کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ قرآن کی جن جن آیتوں میں اپنی معاصر قوموں پر پیغمبرانہ عمل کا ذکر ہے، وہاں دعوت کا لفظ استعمال ہواہے، یعنی پیغمبر کا اپنے غیر مسلم مدعو کو خطاب کرنا۔ یہ دعوت کے لفظی معنی کے عین مطابق ہے۔ عربی زبان میں، دعوت کا مطلب ہے— کسی چیز کی طرف بلانا، یا پکارنا (to call, to invite) ۔
عملِ دعوت اور عملِ تذکیر کے اِس فرق کو ملحوظ رکھنا بہت ضروری ہے، ورنہ آدمی کنفیوژن میں رہے گا، وہ دونوں میں سے کسی کام کا حق ادا نہ کرسکے گا۔
واپس اوپر جائیں

گمان سے بچنا

قرآن کی سورہ نمبر 49 میں ایک اخلاقی حکم اِن الفاظ میں آیا ہے: یٰأیّہا الذین آمنوا اجتنبوا کثیراً من الظّن، إنّ بعض الظنّ إثم (الحجرات: 12 ) یعنی اے ایمان والو، بہت سے گمانوں سے بچو، کیوں کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔
ظن کے لفظی معنیٰ گمان (supposition) کے ہیں۔ اِس آیت میں یہ نہیں کہاگیا ہے کہ تمام گمان گناہ ہوتے ہیں، بلکہ یہ فرمایا کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ اِس سے معلوم ہوا کہ گمان کی دو قسم ہے۔ ایک، وہ جو گناہ ہے، دوسرا، وہ جو گناہ نہیںہے۔
گمان یا قیاس کی ایک قسم وہ ہے جس کو مثبت گمان کہہ سکتے ہیں، یعنی کسی کے بارے میں گمان یا قیاس کی بنا پر ایسی بات کہناجس کی نوعیت عیب کی نہ ہو، جس سے آدمی کے بارے میں کوئی بُری رائے قائم نہ ہوتی ہو، جو محض ایک سادہ بیان کی حیثیت رکھتا ہو، جس کو زیر تبصرہ شخص سنے تو وہ اُس کو بُرا نہ مانے۔ ایسا گمان یا قیاس شریعت میں جائز ہے۔
دوسرا گمان وہ ہے جو منفی گمان کی حیثیت رکھتا ہے، یعنی کسی کے بارے میں ایسا ریمارک دینا، جس سے اُس کے اوپر کوئی الزام واقع ہوتا ہو، جس میںاس کی نیت پرحملہ کیاگیا ہو، جو کسی شخص کی کردار کشی (character assasination) کے ہم معنی ہو۔ ایسا گمان منفی گمان ہے اور وہ اسلامی شریعت میں حرام ہے۔
جس سماج میں لوگ ایک دوسرے کے بارے میں منفی گمان کی بنیاد پر بیان دینے لگیں، وہ سماج ایک فاسد سماج بن جائے گا۔ ایسے سماج میں مثبت قدریں (positvie values) فروغ نہیں پائیں گی۔ ایسے سماج میں برائیوں کو فروغ ملے گا، نہ کہ اچھائیوں کو۔ ایسے سماج میں ایک دوسرے پر اعتماد (trust) کرنے کا ماحول ختم ہوجائے گا، حالاں کہ صحت مند سماج کی تعمیرکے لیے اعتماد کا ماحول لازمی طور پر ضروری ہے۔
واپس اوپر جائیں

انسان کی تلاش

ایک فارسی شاعر نے دو شعر میں اپنے ایک دردناک احساس کو بیان کیا ہے۔ اُس نے کہا کہ— کل میںنے دیکھا کہ شیخ ایک چراغ لیے ہوئے شہر کا گشت کر رہے ہیں ۔ انھوں نے بتایا کہ میںآدمیوں سے دکھی ہوں اور مجھے ایک انسان کی تلاش ہے۔ میںنے کہا کہ میںنے تلاش کیا ہے، مگر وہ نہیں ملتا۔ شیخ نے جواب دیا کہ میںاُسی کو چاہتا ہوں جو نہیں ملتا:
دی شیخ باچراغ ہمیں گشت گردِ شہر
کز مردما ملومم وانسانم آرزواست
گفتم کہ یافت می نہ شود، جُستہ ایم ما
گفت آں کہ یافت می نہ شود آنم آرزواست
مجھے نہیں معلوم کہ شاعر کو اور اُس کے زمانے کے شیخ کو کس قسم کے انسان کی تلاش تھی، تاہم میںیہ کہہ سکتاہوں کہ مجھے بھی ساری زندگی کچھ انسانوں کی تلاش رہی ہے، مگر آخر میںمعلوم ہوا کہ ایسے انسان اِس دنیا میں سب سے زیادہ کم یاب چیز کی حیثیت رکھتے ہیں۔
یہ وہ انسان ہیں جن سے اعلیٰ سطح کا تبادلۂ خیال (exchange) کیا جاسکے۔ میں ذاتی طورپر اپنے لیے ایکسچینج پارٹنر(exchange partner) کو سب سے زیادہ قیمتی سمجھتا ہوں، مگر عجیب بات ہے کہ لوگ شاید ایکسچینج پارٹنر کے تصور سے بھی آشنا نہیں۔
ایکسچینج پارٹنر کون ہے۔ حقیقی معنوں میں ایکسچینج پارٹنر صرف وہ شخص بن سکتا ہے جو اعلیٰ علمی ذوق رکھتا ہو، جو سچائی پر کھڑا ہواہو، جو متعصبانہ طرزِ فکر سے پاک ہو، جو تنقید اور تعریف سے اوپر اٹھا ہوا ہو، جو اعتراف کی لذت کو جانتا ہو، جو عذر کی نفسیات سے پوری طرح خالی ہو، جو نفسیاتی پیچیدگی سے آزاد ہو، جو حقیقت شناسی کی صلاحیت رکھتاہو، جو حقیقی معنوں میں متواضع(modest) ہو، جو منفی سوچ سے مکمل طورپر خالی ہو، جو عجز کی نفسیات میں جیتاہو، نہ کہ انا کی نفسیات میں، جس کے لیے معرفتِ اعلیٰ کے سوا، ہر دوسری چیز ثانوی بن جائے— ایک صاحبِ ذوق کے لیے اپنا ایک ایکسچینج پارٹنر پالینا، سب سے بڑی یافت ہے، تمام خزانوں سے بھی زیادہ بڑی یافت۔
واپس اوپر جائیں

مغز اور چھلکا

ایک صاحب نے کہا کہ میں آپ کی تحریروں کا دل دادہ (fan) ہوں۔ میں نے پوچھا کہ آپ نے میری کون سی کتابیں پڑھی ہیں۔ انھوں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ آپ کی کتاب ’’رازِ حیات‘‘ کو تو میں پی گیا ہوں۔ اُس کے صفحے کے صفحے، مجھے یاد ہیں۔ پھر میںنے پوچھا کہ ’’تذکیر القرآن‘‘ آپ نے پڑھی ہے۔ انھوں نے کہا کہ تذکیر القرآن میرے پاس ہے اور میں کبھی کبھی اس کو پڑھتا ہوں۔
الرسالہ کے قارئین میں بہت سے لوگ ہیں جو اِس طرح کی بات کہتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسے لوگوں نے ہمارے مشن کا صرف چھلکا پایا ہے، وہ ہمارے مشن کے مغز سے واقف نہ ہوسکے۔اِسی طرح ایک صاحب نے ایک مرتبہ مجھ سے کہا کہ میںآپ کو مسلمانوں کا ڈیل کارنیگی (وفات: 1955 ) سمجھتا ہوں۔
راقم الحروف کی کتابوں میں— رازِ حیات، تعمیر ِحیات، رہ نمائے حیات، اور کتابِ زندگی جیسی کتابیں مثبت تعمیر کے موضوع پر لکھی گئی ہیں۔ بجائے خود وہ اہم کتابیں ہیں، لیکن ہمارے مشن کا اصل پہلو ربانی ذہن کی تشکیل سے تعلق رکھتا ہے، یعنی انسان کو اِس قابل بنانا کہ وہ شعوری طورپر اپنے رب سے وابستہ ہوجائے۔ رب العالمین سے روحانی وابستگی، دنیا اور آخرت کی تمام کامیابیوں کا خزانہ ہے۔
ہمارے مشن کا اصل مقصد یہ ہے کہ دعوت الی اللہ کو عام کیا جائے۔ اسلام کی تعلیمات کو عصری اسلوب میں پیش کیا جائے۔ لوگوں کو صحیح دینی تصور سے روشناس کیا جائے۔ اسلام کو غلط تعبیرات سے پاک کیا جائے۔ لوگوں کے اندر ربانی شعور بیدارکیا جائے، لوگوں کے اندر مثبت طرزِ فکر پیدا کیاجائے۔ لوگوں کے اندر خدا کی اعلیٰ معرفت اورآخرت رخی زندگی کا شعور لایا جائے۔ لوگوں کے اندر فکری ارتقا کا عمل جاری کیا جائے۔ لوگوں کے اندر شخصیت پرستی کے بجائے، خدا پرستانہ ذہن کی پرورش کی جائے۔ لوگوں کو بتایا جائے کہ دین میںاصل ماڈل پیغمبر اور اصحابِ پیغمبر کا ہے، وغیرہ۔ جن لوگوں نے اِس طرح ہمارے مشن کو پایا، انھیں نے مشن کو پایا، اور جن لوگوں نے اِس طرح اُس کو نہیں پایا، ان کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ — انھوں نے پڑھا، مگر انھوںنے نہیں پڑھا ۔
واپس اوپر جائیں

کبر ِ خفی کا نقصان

ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ جدید معیار کے مطابق، وہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ انسان ہیں۔ گفتگو کے دوران انھوںنے بتایا کہ ان کو مطالعے کا بہت شوق ہے۔ وہ زیادہ تر انگریزی ناولیں پڑھتے ہیں۔ اِسی کے ساتھ وہ سنجیدہ موضوعات پر لکھی ہوئی کتابیں بھی پڑھتے ہیں۔ اُن کا کمرہ انگریزی کتابوں سے بھرا ہوا ہے۔میں نے اُن سے پوچھا کہ آپ نے سیکڑوں ناولیں اور کتابیں پڑھی ہیں۔ اِس مطالعے کے دوران آپ نے بہت سی بامعنی باتیں پڑھی ہوں گی۔ اِس قسم کی کوئی ایک مثال بتائیے۔ وہ بہت جوش و خروش کے ساتھ یہ کہتے رہے کہ میں نے ایسی بہت سی باتیں پڑھی ہیں، مگر وہ کوئی ایک بامعنی بات نہ بتا سکے۔ میں نے کئی مثالیں دے کر بتایا کہ بامعنی بات سے میری مراد کیا ہے، مگر اصرار کے باوجود وہ ایسی کوئی ایک بات بھی نہ بتا سکے۔
اِسی قسم کا تجربہ مجھے بار بار ہوا ہے۔ میں بہت سے ایسے لوگوں سے ملاہوں جو اپنے آپ کو صاحبِ مطالعہ سمجھتے ہیں۔ وہ سفراور حضر میں کتابیں، خاص طورپر ناولیں پڑھتے رہتے ہیں۔ وہ جوش کے ساتھ ان کتابوں کی تعریف کریں گے، لیکن جب یہ پوچھا جائے کہ کوئی ایک سبق کی بات، یا بامعنیٰ بات بتائیے جو آپ نے ان کتابوں کے مطالعے سے پائی ہو تو وہ ایسی کوئی بات نہیں بتا پاتے۔
اِس کا سبب کیا ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ یہ لوگ کتابوں کو تفریح (entertainment) کے لیے پڑھتے ہیں۔ وہ کتابوں کو اِس لیے نہیں پڑھتے کہ اس سے حکمت (wisdom) اور نصیحت کی چیزیں دریافت کریں اور مطالعے کو اپنے ذہنی ارتقا کا ذریعہ بنائیں۔ اور جب مطالعے کا مقصد تفریح ہو، تو وہ حکمت کے حصول کا ذریعہ کیسے بن جائے گا۔ اِن لوگوں سے جب یہ کہا جائے کہ آپ کواپنے مطالعے میں کوئی حکمت کی بات اِس لیے نہیں ملی کہ آپ نے صرف تفریح کے لیے مطالعہ کیا تھا، تو وہ ہر گز اِس کا اعتراف نہیں کریں گے۔ اِس بے اعترافی کا سبب کبرِ خفی ہے۔ یہی کبرِ خفی لوگوں کے ذہنی ارتقا میںسب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
واپس اوپر جائیں

خواہش پرستی، یا اصول پسندی

انسان کو اُس کے پیدا کرنے والے نے اِس طرح پیدا کیا ہے کہ اس کے اندر متضاد صفتیں پائی جاتی ہیں۔ اِس لیے کہاگیا ہے کہ انسان تضادات کا مجموعہ (mixture of opposites) ہے۔ مثلاً انسان کے اندر ایک طرف طاقت ور خواہشیں موجود ہیں، اوردوسری طرف انسان کے اندر اصول (principles) کا گہرا شعور پایا جاتا ہے۔ انسان کی خواہشیں اُس کو سطحی قسم کی خود پرستی کی طرف کھینچتی ہیں، اور اصول کی معرفت اس کے اندر یہ سوچ پیدا کرتی ہے کہ وہ اعلیٰ حقیقتوں کے لیے جیے۔
اِسی طرح ہر انسان کی زندگی دو متضاد تقاضوں کے درمیان ہوتی ہے— خواہش پرستی، اور اصول پسندی۔ خواہش پرستی کا طریقہ اختیار کرکے انسان اپنے آپ کو حیوانیت کی سطح پر گرا لیتا ہے۔ اِس کے برعکس ، اصول پسندی کی زندگی اختیار کرنے والا شخص اپنے آپ کو فرشتوں کی صف میں پہنچا دیتا ہے۔ خواہش پرستی کیا ہے۔ خواہش پرستی یہ ہے کہ آدمی سطحی جذبات کے زیر اثر زندگی گزارے۔ غصہ، انتقام، کینہ، حسد، تشدد، عدم رواداری، خود غرض، لالچ، نفرت، گھمنڈ، انانیت، بے اعترافی اور بددیانتی، وغیرہ۔ یہ سب خواہش کی مختلف صورتیں ہیں۔ سماجی زندگی میں یہ خواہش بار بار آدمی کے اندر ابھرتی ہے۔ جو لوگ اِن خواہشات کا شکار ہوجائیں، ان کی زندگی خواہش پرستی کی زندگی ہوجائے گی۔ وہ بظاہر انسان ہوتے ہوئے بہ اعتبار حقیقت، حیوان کی سطح پر زندگی گزارنے لگیں گے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ انسان ایک بااصول انسان ہو۔ با اصول انسان وہ ہے جو دوسروں سے محبت کرنا جانے، جو وعدہ پورا کرنے والا ہو، جو معاملات میںہمیشہ دیانت داری برتے، جو ہر حال میں سچ بولے، جو دو عملی جیسے رویّے سے پاک ہو، جس کے اندر تواضع پائی جائے، جو دوسروں کا اعتراف کرنا جانتا ہو، جس کے اندر درگزر کرنے کی صفت ہو، جو بے غرض ہو، جس کے اندر اپنی ذمے داریوں کو پورا کرنے کا مزاج ہو۔ ایسا انسان با اصول انسان ہے، اور بااصول انسان ہی حقیقی معنوں میں اس کا مستحق ہے کہ اس کو انسان کہا جائے۔
واپس اوپر جائیں

کتابِ تلاوت، یا کتاب ِاطاعت

مسٹر اے اور مسٹر بی کے درمیان ایک جائداد (property) کو لے کر نزاع ہوئی۔ دونوں کا دعویٰ تھا کہ جائداد میری ہے۔ دونوں مسلمان تھے۔ مسٹر اے نے مسٹر بی سے کہا کہ اگر آپ قرآن کو ہاتھ میں لے کر کہہ دیں کہ یہ جائداد میری ہے، تو میںاپنا دعویٰ واپس لے لوں گا اور جائداد پرآپ کا حق تسلیم کرلوں گا۔ مسٹر بی نے کہا— اِس معاملے کا قرآن سے کیا تعلق۔
مسٹر بی ایک مسلمان شخص تھے، پھر انھوں نے ایسا کیوں کہا۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمان، خدا کی کتاب کو وہی درجہ دے چکے ہیں جس کو قرآن میں کتابِ مہجور (الفرقان: 30 ) کہاگیا ہے۔ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے لیے قرآن برائے تلاوت کتاب بن گیا ہے، نہ کہ برائے اطاعت کتاب۔ یہ ذہن موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں عام ہوچکا ہے۔ مذکورہ واقعہ اِسی ذہن کی ایک مثال ہے۔
بہت سے لوگ جو اسلام کے نام پر ادارے، یا تحریکیں چلا رہے ہیں، میں نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ نے اپنا کام شروع کرنے سے پہلے، قرآن کو بار بار اِس نظر سے پڑھا تھا کہ قرآن کے مطابق، میرے لیے کرنے کا کام کیا ہے۔ مگر غالباً کسی نے بھی یہ جواب نہیں دیا کہ ہاں، میں نے قرآن کو بار بار اِس نظر سے پڑھا اور پھر قرآن سے مجھ کو جو روشنی ملی، اس کے مطابق، میںنے اپنا یہ کام شروع کیا۔
ایسے لوگ بہت ملیں گے جو قرآن کی تفسیر پڑھیں گے، یا عربی زبان سیکھنے کی کوشش کریں گے، تاکہ وہ قرآن براہِ راست سمجھ سکیں۔ لیکن ایسا کوئی شخص مشکل سے ملے گا جو قرآن کو اپنے قول و عمل کے لیے ایک رہ نما کتاب (guide book)بنائے ہوئے ہو۔ یہی موجودہ زمانے کے مسلمانوں کی سب سے بڑی کوتاہی ہے۔ مسلمان جب تک قرآن کو اپنے لیے رہ نما کتاب نہیں بنائیں گے، اُن کا کوئی معاملہ درست ہونے والا نہیں۔
واپس اوپر جائیں

انسانی تلاش کا جواب

آدمی فل فل مینٹ(fulfilment) چاہتا ہے مگر کسی بھی شخص کو اس دنیا میں فل فل مینٹ نہیں ملتا۔ یہ ایک ایسی ٹریجڈی (tragedy) ہے جس میں کسی بھی عورت یا مرد کا کوئی استثنا نہیں۔
انسان لمبی عمر چاہتاہے، لیکن وہ بہت جلد مرجاتا ہے۔ انسان چاہتا ہے کہ اس کی خواہشیں (desires) پوری ہوں، لیکن بظاہر سب کچھ حاصل کرنے کے بعد بھی اس کی خواہشیں پوری نہیں ہوتیں۔ انسان اپنے لیے ایک آئڈیل لائف چاہتا ہے، لیکن کسی بھی انسان کو اس دنیا میں آئڈیل لائف نہیں ملتی۔ آدمی امن چاہتا ہے، وہ انصاف چاہتا ہے، وہ سچے انسانوں کا پڑوس چاہتا ہے، مگر ساری کوشش کے باوجود کسی کو اس کا یہ مطلوب حاصل نہیں ہوتا۔
انسان کی اِس محرومی کا سبب یہ ہے کہ وہ اپنے مطلوب کو ایک ایسے مقام پر ڈھونڈھ رہا ہے، جہاں اس کا ملنا ممکن ہی نہیں۔ اگر کوئی شخص یہ چاہے کہ ہوائی جہاز کے اندر اس کو واک (walk) کرنے کے لیے گارڈن مل جائے تو ایسا ہونا کبھی ممکن نہ ہوگا۔ یہی حال موجودہ دنیا کا ہے۔
اس سوال کا جواب خدا کے تخلیقی پلان (creation plan) میںملتا ہے۔ خدا نے ہماری دنیا کو جوڑے (pair) کی شکل میں بنایا ہے۔ موجودہ دنیا سلکشن گراؤنڈ(selection ground) ہے اور دوسری دنیا فل فل مینٹ (fulfilment) کا مقام۔ موجودہ دنیا اس لیے ہے کہ آدمی یہاں اپنے قول و عمل سے اس بات کا ثبوت دے کہ وہ اگلی دنیا میں بسائے جانے کا اہل ہے۔ اِس طرح اہل لوگ منتخب کرکے اگلی معیاری دنیا میں بسادئے جائیں گے، جہاں وہ ابدی راحتوںمیں مستقل طورپر رہیں گے۔
یہی وہ حقیقت ہے جس کے مطابق، ہر آدمی کو اپنی زندگی کی تعمیر کرنا چاہیے۔ ایسا کرنا ہی کسی انسان کے لیے اس کے کامیاب مستقبل کی ضمانت ہے۔ اس کے سوا کوئی بھی دوسرا فارمولا اس معاملے میں قابلِ انطباق (applicable) نہیں۔انسان کی تلاش کا جواب بلا شبہہ موجودہے، لیکن یہ جواب اُسی انسان کو ملے گا جو اپنی تلاش کو صحیح رخ پر جاری کرے۔
واپس اوپر جائیں

اسلام کیا ہے

اسلام کے لفظی معنیٰ ہیں: سب مشن submission) )، یعنی سب مشن ٹو گاڈ۔سب مشن، دراصل انسان کی طرف سے خدا کے لیے اُس فطری رسپانس کا نام ہے جو خدا کی معرفت کے بعد انسان کے اندر پیدا ہوتاہے۔ اِسی سب مشن سے وہ زندگی بنتی ہے جس کو اسلامی زندگی کہا جاتاہے۔
خدا کی معرفت کیا ہے۔ خدا کی معرفت اُس ہستی کی معرفت ہے جس نے انسان کو پیدا کیا، جس نے انسان کے لیے وسیع کائنات میں زمین جیسا استثنائی کُرہ بنایا، جس نے انسان کو ایک ایسی شخصیت عطا کی، جیسی شخصیت وسیع کائنات میں کسی اور کو عطا نہیں ہوئی، جس نے ہماری دنیا میں وہ انوکھا سسٹم قائم کیا جس کو لائف سپورٹ سسٹم کہا جاتا ہے۔
اُس کی یہ دریافت یہیں تک نہیں رُکتی، بلکہ وہ دریافتوں کے ایک پراسس کی صورت میں اُس کی زندگی میں شامل ہوجاتی ہے۔ اب وہ خدا کے ساتھ اپنے تعلق کو دریافت کرتا ہے۔ وہ اس حقیقت کو دریافت کرتاہے کہ میں آزاد نہیں ہوں، بلکہ میں خداکے حکم کے ماتحت ہوں۔ دریافت کا یہ پراسس (process)آگے بڑھتا ہے۔ وہ اُس کو بتاتا ہے کہ وہ آزادنہیںہے، بلکہ وہ خدا کے سامنے جواب دہ (accountable) ہے۔۔ موت اُس کی زندگی کا خاتمہ نہیں ہے، بلکہ موت کے بعد ایک اور زندگی شروع ہوتی ہے جہاں وہ خدا کے سامنے حاضر ہوجاتا ہے، تاکہ خدا اس کے ابدی مستقبل کے بارے میں اپنے آخری فیصلے کا اعلان کرے۔
یہ پراسس جاری رہتاہے، یہاںتک کہ وہ دریافت کرتاہے کہ زندگی کا خاتمہ یاتو ابدی جنّت کی صورت میں ہونے والا ہے، یا ابدی جہنّم کی صورت میں۔ یہ دریافت اُس کو بے حد سنجیدہ بنادیتی ہے۔ اب وہ اپنی زندگی کی نئی منصوبہ بندی کرتا ہے۔ اب وہ ہرچیز کو ری ڈفائن (redefine)کرتا ہے۔ پہلے اگر اُس کی سرگرمیاں خود رُخی (self-oriented)تھیں تو اب اُس کی تمام سرگرمیاں خدا رُخی (God-oriented)بن جاتی ہیں۔اِسی طرزِ حیات کا نام اسلام ہے۔
واپس اوپر جائیں

ایک سنگین مغالطہ

لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے دنیوی معاملات میں خوب عقل لگاتے ہیں، زیادہ سے زیادہ سوچتے ہیں، ہر پہلو سے سمجھ کر منصوبہ بندی (planning) کرتے ہیں، لیکن دین کے معاملے میں ان کا طریقہ بالکل مختلف ہوتا ہے۔ یہاں وہ سمجھتے ہیں کہ کسی حضرت کی دعا لے لو، کسی درگاہ میں چلے جاؤ، کسی بزرگ کی زیارت کرلو، تسبیح کے دانے پر کچھ الفاظ پڑھ لو، کچھ رسمی اعمال (rituals) کو دہرالو اور پھر تمام دینی معاملات خود بخود درست ہوجائیں گے۔ مگر یہ دو طرفہ طریقہ سر تا سر بے بنیاد ہے۔ اِس طریقے کا کوئی فائدہ کسی کو ملنے والا نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ آدمی جس طرح دنیا کے معاملات میںاپنی عقل لگاتا ہے، اُسی طرح اس کو دین کے معاملے میں بھی اپنی عقل لگانا ہوگا۔ دین کے معاملے میں بھی اس کو اپنے شعور کی پوری طاقت استعمال کرنا ہوگا۔ اِس کے بغیر نہ کوئی شخص حقیقی معنوں میں دین دار ہوسکتا ہے اور نہ وہ جنت کا مستحق بن سکتا ہے۔
دین دار بننے کا عمل پورے معنوں میں، ایک شعوری عمل ہے۔ ہر عورت اور مرد کے لیے لازم ہے کہ وہ شعوری سطح پر دین کو دریافت کرے۔ وہ دین داری کو شعوری دین داری بنائے، نہ کہ رسمی دین داری۔ وہ دین کو پورے معنوں میں، اپنے دل و دماغ کا حصہ بنائے۔ وہ اپنی دینی زندگی کو بھی اُسی طرح ایک باشعور زندگی بنائے جس طرح وہ اپنی دنیا کی زندگی کو ایک باشعور زندگی بنائے ہوئے ہے۔ اِس معاملے میں کسی بھی شخص کا کوئی استثنا نہیں۔
خدا نے انسان کو جو سب سے بڑی چیز دی ہے، وہ اس کا عقل وشعور ہے۔ جو لوگ عقل وشعور کی برتر سطح پر دین کو نہ پائیں اور دین کو اختیار نہ کریں، وہ خدا کے یہاں بے دین قرار پائیں گے، خواہ رسمی سطح پر بظاہر وہ دین دار کیوں نہ بنے ہوئے ہوں۔ دین داری ایک شعوری عمل ہے، نہ کہ صرف ایک رسمی عمل۔
واپس اوپر جائیں

ذہن سازی

مدرسے کی تعلیم کے زمانے میں راقم الحروف کے ایک ساتھی تھے، مولانا انور اعظمی اصلاحی (وفات: 1968 )۔ وہ نہایت ذہین آدمی تھے، اور تعلیم سے فراغت کے بعد جماعت اسلامی سے وابستہ ہوگئے۔ ایک مرتبہ ان کا ایک مضمون شائع ہوا تھا اُس کا عنوان تھا—تحریک اور تعمیر ِافراد۔ اِس مضمون میںبتایا گیا تھا کہ فرد کی تعمیر، تحریکی عمل کے دوران ہوتی ہے۔ وہ اسلامی حکومت کے نظریے کو مانتے تھے۔ چناں چہ انھوں نے اپنے مضمون میں دکھایا تھا کہ آدمی جب سیاسی انقلاب کے لیے سرگرم ہوتا ہے تو اِس طرح کی عملی سرگرمی کے دوران اس کی ذہنی تعمیر ہوتی ہے۔
ذہنی تعمیر کے معاملے کو عملی سرگرمی (physical activities) کے ساتھ جوڑنا، یہی ہر زمانے میں لوگوں کی سوچ رہی ہے۔ کوئی سمجھتا ہے کہ سیاسی سرگرمی کے دوران ذہن کی تعمیر ہوتی ہے، کسی کا خیال ہے کہ سوشل سرگرمی کے دوران ذہن کی تعمیر ہوتی ہے، کوئی سمجھتا ہے کہ چلّہ دینا، فرد سازی کا یقینی ذریعہ ہے۔ اِسی طرح، صوفیا نے یہ سمجھ لیا کہ اوراد ووظائف کے ذریعے ذہن کی تعمیر ہوتی ہے، حالاں کہ اوراد ووظائف کی حیثیت صرف جسمانی عمل کی ہے، اور جسمانی عمل سے ذہنی اور فکری انقلاب پیدا نہیں ہوسکتا۔
حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان ایک خاص ماحول میں پیداہوتا ہے۔ ماحول کے اثر سے ہر انسان کا ایک خاص شاکلہ (framework) بن جاتا ہے۔ فرد کی تعمیر کا آغاز یہاں سے ہوتا ہے کہ اس کے ذہنی شاکلہ کو توڑا جائے۔ اِس عمل کو ایک لفظ میں ذہن کی ری انجینئرنگ (re-engineering of mind) کہہ سکتے ہیں۔فرد سازی کا کام ذہن سازی سے شروع ہوتا ہے۔ آدمی کی سوچ کو بدلنا، اس کے زاویۂ نگاہ (angle of vision) میں تبدیلی لانا، اس کے اندر تجزیہ اور تحلیل (analysis) کی صلاحیت پیدا کرنا، اس کو اِس قابل بنانا کہ وہ چیزوں کو گہرائی کے ساتھ دیکھ سکے، وہ صرف ظاہری مشاہدے کی بنا پر اپنی رائے نہ بنائے، وغیرہ۔ اِس قسم کی فکری صلاحیت پیدا کرنے کے بعد ہی کسی شخص کے اندر ذہنی تعمیر کا عمل شروع ہوتا ہے، اِس کے بغیر ہر گز نہیں۔
واپس اوپر جائیں

حد کے اندر رہئے

ایک شخص آپ پر تنقید کرتا ہے، اور کوئی قابل شکایت بات کردیتا ہے۔ اب اعلیٰ اخلاقی درجہ یہ ہے کہ آپ اس کی طرف سے پیش آنے والی ناخوش گواری کو برداشت کرلیں۔ آپ اس کو نظر انداز کرکے اس کے ساتھ اپنے حسن سلوک کو بدستور باقی رکھیں۔دوسری صورت یہ ہے کہ جب ناخوش گوار بات پیش آئی تو آپ برداشت نہ کرسکے۔ جس طرح اس نے آپ کو سخت الفاظ کہے تھے، آپ نے بھی اس کو سخت الفاظ کہہ دیے۔ یہ برابر کا معاملہ ہے اور یہ بھی اسلام میں جائز ہے (الشوریٰ:45 )۔
تیسری صورت یہ ہے کہ جس آدمی سے آپ کو تکلیف پہنچی ہے، اس کے خلاف آپ کے دل میں کینہ پیدا ہوگیا۔ آپ اس کو دوسروں کے سامنے بے عزت کرنے لگے۔ آپ اس کی کردار کشی اور اس پر الزام تراشی میں لگ گئے۔ آپ کی نفسیات یہ ہوگئی کہ آپ اس کو بے عزت کرکے خوش ہوں،اس کو لوگوں کے سامنے بے آبرو کرکے آپ کو لذت ملے۔ یہ تیسری صورت اسلام میں ناجائز ہے۔ ایسا کرکے آپ اپنے کو اللہ کے سامنے گنہ گار بنارہے ہیں۔
چوتھی صورت یہ ہے کہ آپ صرف بے عزت کرنے پر نہ رکیں۔ بلکہ قابلِ شکایت آدمی کے خلاف تخریب کاری کے منصوبے بنائیں۔ اس کو قتل کرنے پر آمادہ ہوجائیں۔ اس کی جائداد پر قبضہ کریں۔ اس کے اثاثہ کو نقصان پہنچائیں۔ اس کے مستقبل کوتباہ کرنے پر تل جائیں۔یہ چوتھی صورت گنہ گاری پر سرکشی کا اضافہ ہے۔ جوشخص اس حد تک چلا جائے، وہ اپنے عمل سے اس بات کا ثبوت دے رہا ہے کہ وہ اللہ سے آخری حد تک بے خوف ہوچکا ہے۔ اللہ کی پکڑ کا اس کو اتنا اندیشہ بھی نہیں جتنا کسی کو چیونٹی کے کاٹنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ ایسے آدمی کے لیے اللہ کی رحمتوں میں کوئی حصہ نہیں۔
ہر آدمی غلطی کرتا ہے۔ کوئی انسان غلطی سے پاک نہیں۔ مگر غلطی کی ایک حد ہے۔ جو شخص اپنی غلط کاری میں حد کو پار کرجائے وہ خدا کی غیرت کو چیلنج کررہا ہے۔ اور جو شخص خدا کی غیرت کو چیلنج کرے اس کا انجام نہ دنیا میں بہتر ہوسکتا ہے اور نہ آخرت میں۔
واپس اوپر جائیں

فخر سے غرورتک

عام طورپر لوگوں کے اندر فخر (pride)کا مزاج ہوتا ہے— صحت پر فخر، علم پر فخر، خاندان پر فخر، تاریخ پر فخر، وغیرہ۔ عام تصور یہ ہے کہ فخر کا احساس بہت ضروری ہے۔ اِس سے آدمی کے اندر عزتِ نفس (self-respect)، خو د اعتمادی اور حوصلہ جیسی مثبت صفات پیدا ہوتی ہیں۔
لوگوں کا ماننا یہ ہے کہ آدمی کے پاس اگر کوئی چیز فخر کے لیے نہ ہو تو وہ احساسِ کم تری کا شکار ہوجائے گا۔ اس کے اندر لوگوں سے دب کر رہنے کا مزاج پیدا ہوجائے گا۔ وہ اونچی فکر کے ساتھ لوگوں کے درمیان نہ رہ سکے گا۔
مگر فخر کے جواز کی یہ توجیہات درست نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ فخر ایک اخلاقی برائی ہے۔ فخر کوئی علاحدہ صفت نہیں، فخر کے ساتھ دوسری کئی چیزیں لازمی طورپر جڑی ہوئی ہیں۔ مثلاً فخر کے ساتھ خود پرستی آتی ہے، فخر کے ساتھ احساسِ برتری آتا ہے، فخر دھیرے دھیرے غرور (arrogance)کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ فخر در اصل اُسی برائی کا ایک خوب صورت نام ہے جس کو ابلیس نے اِن الفاظ میں بیان کیا تھا: أنا خیرٌ منہ (الأعراف: 12 )یعنی میں اُس سے بہتر ہوں:
I am better than he (7: 12)
فخر کسی مجرد صفت کا نام نہیں، فخر ایک تقابلی (comparative) صفت کا نام ہے۔ فخر ہمیشہ کسی کے مقابلے میں پیدا ہوتا ہے۔فخر کرنے والے کے اندر، شعوری یا غیر شعوری طورپر، یہ احساس رہتا ہے کہ — میںدوسروں سے بہتر ہوں۔
یہ احساس عین وہی چیز ہے جس کا ذکر قرآن میں ابلیس کی نسبت سے کیا گیا ہے۔ فخر کرنے والاآدمی شیطان کے زیر اثر آجاتا ہے۔ ایسا انسان دھیرے دھیرے غرور میں مبتلا ہوجاتا ہے اور بلا شبہہ اس دنیا میں غرور سے زیادہ بُری کوئی چیز نہیں۔ فخر اور غرور میں صرف لفظ کا فرق ہے، حقیقت کے اعتبار سے دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں۔
واپس اوپر جائیں

جنت کی تلاش

ہر آدمی کے ذہن میںایک خوب صورت دنیا بسی ہوئی ہے، ایک ایسی دنیا جو کامل ہو، جو معیاری ہو، جہاں اس کی تمام آرزوئیں پوری ہوسکیں۔ یہی ذہنی تصور ہر آدمی کے لیے اس کے عمل کا سب سے بڑا محرک ہے۔ ہر عورت اور مرد اس کو حاصل کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ اپنی پوری زندگی اور اپنی ساری طاقت اِس کے راستے میں لگا دیتے ہیں، لیکن آخرمیں یہ ہوتا ہے کہ ہر آدمی یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ اپنی مطلوب دنیا کو نہ پاسکا۔ ہر آدمی اپنی زندگی اعلیٰ حوصلے کے ساتھ شروع کرتا ہے، لیکن ہر آدمی اِس احساس کے ساتھ مرجاتا ہے کہ وہ ساری کوشش کے باوجوداپنی مطلوب دنیا کو پانے میں ناکام رہا۔
یہی پوری انسانیت کی تاریخ ہے۔ اِس میں کسی عورت یا کسی مرد کا کوئی استثنا نہیں۔ یہ انسانیت کا سب سے بڑا سوال ہے۔ کیوںایسا ہے کہ لوگ امیدوں اور حوصلوں کے ساتھ اپنی زندگی کا آغاز کرتے ہیں، لیکن وہ محرومی کے احساسات کو لے کرمرجاتے ہیں۔
اِس کا جواب یہ ہے کہ انسان کے ذہن میں جو خوب صورت دنیا بسی ہوئی ہے، وہ خدا کے تخلیقی پلان کے مطابق، جنت کی دنیا ہے۔ اور جنت کسی کو موت کے بعد آنے والے مرحلۂ حیات میں ملے گی، نہ کہ موت سے پہلے والے مرحلۂ حیات میں۔ انسان یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنی مطلوب جنت کو موجودہ دنیا ہی میں پالے، مگر جنت کا حصول موجودہ دنیا میں ممکن نہیں۔
اِس معاملے میں انسان اور جنت کی مثال مچھلی اورپانی جیسی ہے۔ مچھلی کو سکون صرف پانی کے اندر ملتا ہے، پانی کے باہر نہیں۔ اِسی طرح انسان کو صرف جنت میں سکون ملے گا، جنت کے باہر اس کو سکون، یا فل فل مینٹ (fulfilment) ملنے والا نہیں۔
جنت کی تلاش دراصل مستقبل کی تلاش کا دوسرا نام ہے، اور مستقبل صرف مستقبل میںملتا ہے، وہ کسی کو حال میںملنے والا نہیں۔انسان کو اگر اِس حقیقت کی دریافت ہوجائے تو وہ موجودہ دنیا کو مطلوب جنت کی تیاری کی جگہ سمجھے گا، نہ کہ خود مطلوب جنت کو پانے کی جگہ۔
واپس اوپر جائیں

تمکین فی الارض کا معاملہ

قرآن کی سورہ نمبر 22 میںاللہ تعالی نے فرمایا: الّذین إن مکّنّاہم فی الأرض، أقاموا الصلاۃ وآتوا الزّکاۃ، وأمروا بالمعروف، ونہو ا عن المنکر (الحج: 41 )۔ یعنی وہ لوگ جن کواگر ہم زمین میں غلبہ دیں، تو وہ صلاۃ کا اہتمام کریں گے، اور زکات ادا کریں گے، اورمعروف کا حکم دیں گے، اور منکر سے روکیں گے۔
قرآن کی اِس آیت میں پہلی قابلِ غور بات یہ ہے کہ اس میں یہ کہا گیا ہے کہ اگر ہم ان کو زمین میں غلبہ دیں تو وہ فلاں فلاں کام کریں گے۔ اِس آیت میں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ اے مسلمانو، تم جہاد کرکے زمین میں سیاسی غلبہ حاصل کرو، تاکہ تم اسلامی احکام پر مبنی نظام قائم کرو۔ قرآن کی اِس آیت سے سیاسی انقلاب کا نصب العین نکالنا، واضح طورپر ایک بے اصل تفسیر ہے، اس کا اِس آیت سے کوئی تعلق نہیں۔
احکامِ شریعت کے معاملے میں قرآنی اصول تکلیف بقدرِ وسع (البقرۃ: 286 ) پر مبنی ہے، یعنی استطاعت کے بقدر کام کا مکلَّف ہونا۔ کسی موجود صورتِ حال میں مسلمان جن احکامِ شریعت پر بالفعل عمل کرسکتے ہوں، اُسی کو وہ عملاً انجام دیں گے۔ اِس کے بعد ان کی جو ذمے داری ہے، وہ دعوت الی اللہ ہے، یعنی کامل امن پسندی اور یک طرفہ خیر خواہی کے ساتھ وہ کام کرنا جس کو اِنذار اور تبشیر کہاگیا ہے۔
شریعت کے کچھ احکام وہ ہیں جن کا تعلق افراد سے ہے، اور کچھ احکام وہ ہیں جن کا تعلق معاشرے سے۔ ہر مسلمان کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنی ذات کے معاملے میں شریعت کے احکام کو پوری طرح اختیار کرے۔ تاہم جہاں تک اجتماعی احکام، یا معاشرتی احکام کا تعلق ہے، اُن کا معاملہ معاشرے کی داخلی صورتِ حال پر موقوف ہے۔ معاشرہ اگر قبولیت (acceptance) کے لیے تیار ہو، تو اس کے اندر اجتماعی احکام نافذ ہوں گے، اور اگر معاشرہ قبولیت کے لیے تیار نہ ہو، تو اجتماعی احکام کے نفاذ کے لیے انتظار کیا جائے گا۔ یہ انتظار اُس وقت تک جاری رہے گا، جب تک کہ معاشرے کے اندر قبولیتِ احکام کا مزاج پیدا نہ ہوجائے۔
واپس اوپر جائیں

امر ِ موعود، امر ِمقصود

قرآن کی سورہ نمبر 24 میں اجتماعی زندگی کے بارے میں ایک حکم بیان ہوا ہے۔ اِس آیت کا ترجمہ یہ ہے: ’’اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے اُن لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو زمین میںاقتدار عطا کرے گا، جیسا کہ اُن سے پہلے لوگوں کو اقتدار عطا کیا تھا، اوراُن کے لیے ان کے اُس دین کو جمادے گا جس کو ان کے لیے پسند کیا ہے۔ اور ان کے خوف کی حالت کے بعد اس کو امن سے بدل دے گا۔ وہ صرف میری عبادت کریں گے اور کسی چیز کو میرا شریک نہ بنائیں گے۔ اور جو اس کے بعد انکار کرے، تو ایسے ہی لوگ نافرمان ہیں‘‘ (النّور: 55 )۔
قرآ ن کی اِس آیت سے واضح طورپر معلوم ہوتا ہے کہ زمین پر سیاسی اقتدار کی حیثیت امر ِموعود کی ہے، نہ کہ امرِ مقصود کی۔ مسلمانوں کے لیے اپنے عمل کا نشانہ صرف یہ ہے کہ وہ اپنے اندر ایمان اور عملِ صالح کی صفات پیدا کریں، وہ اپنی ساری توجہ اِسی داخلی نشانے پر لگادیں۔
جہاں تک زمین پر سیاسی غلبہ کا معاملہ ہے، اس کا تعلق تمام تر اللہ تعالی سے ہے۔ زمین پر سیاسی غلبہ کا فیصلہ براہِ راست اللہ تعالی کی طرف سے ہوتا ہے، اور وہ اُسی کو ملتا ہے جس کے لیے اللہ نے اس کا فیصلہ کیا ہو(آل عمران: 26 )۔
اِس سے معلوم ہوا کہ سیاسی نظام کے قیام کو نشانہ بنا کر عمل کرنا، ایک مبتدعانہ عمل ہے۔ وہ دین کے نام پر بے دینی ہے۔ وہ اسلام کے نام پر اسلام سے انحراف کرنا ہے۔ اِس قسم کی کوشش کو کبھی خدا کی نصرت نہیں ملے گی، اِس لیے ایسی کوشش کبھی کامیاب ہونے والی نہیں ۔
قرآن اور حدیث کے مطابق، اسلام میں امرِ مقصود، یا نشانۂ مطلوب، ایمان اور عملِ صالح اور دعوت الی اللہ ہے۔ اِس کے سوا جو چیزیں ہیں، وہ سب امرِ موعود سے تعلق رکھتی ہیں، یعنی وہ خدا کے فیصلے سے کسی کو ملیں گی، نہ کہ ان کو نشانہ بنا کر ان کے لیے براہِ راست کوشش کرنے سے۔ اسلام کی پوری تاریخ اِس سنت الٰہی کی تصدیق کرتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

دعوہ ایکٹوزم، پولٹکل اسٹیٹس کو ازم

Dawah Activism, Political Status quoism
قرآن کی سورہ نمبر 74نبوت کے ابتدائی دور کی سورہ ہے۔ اِس میںپیغمبر کو حکم دیاگیا کہ: قُم فأنذر (المدثّر:2 ) یعنی اٹھو اور لوگوں کو آگاہ کردو۔ اِس کے بعد اِسی سورہ میں فرمایا: ولربّک فاصبر، یعنی دوسرے معاملات میںصبر کا طریقہ اختیار کرو۔ یہ پیغمبرانہ لائحہ عمل تھا۔ یہ لائحہ عمل دو بنیادی اصولوں پر مبنی تھا۔ یہ بنیادی اصول دوسرے لفظوں میں یہ تھے — دعوہ ایکٹوزم (dawah activism) اور پولٹکل اسٹیٹس کوازم (plitical status quoism) ۔
اسلام کے دو حصے ہیں۔ ایک، اسلام کا وہ حصہ جس کا تعلق فکر اور عقیدہ سے ہے۔ اس کو اسلام کی آئڈیا لوجی کہاجاسکتا ہے۔ اسلام کادوسرا حصہ وہ ہے جس کا تعلق اِس آئڈیا لوجی کی بنیاد پر بننے والے عملی ڈھانچے سے ہے۔ مثلاً اسلام کا ا جتماعی اور سیاسی نظام۔
نظریاتی معنوں میں، اسلام کی آئڈیالوجی کی بات کی جائے تو دوسروں کے ساتھ کوئی ٹکراؤ پیش نہیں آتا، لیکن اجتماعی اور سیاسی نقشے کا تعلق براہِ راست طورپر دوسروں کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اِس نقشے کو اُس وقت عمل میں لایا جاسکتا ہے، جب کہ دوسرے لوگوں کے اندر اس کی قبولیت (acceptance) پیدا ہوجائے۔ اگر دوسرے لوگوں کے اندر قبولیت پیدا نہ ہوئی ہو، تو اجتماعی نقشے کو بدلنے کی کوشش صرف ٹکراؤ پیدا کرے گی۔اور اِس قسم کا ٹکراؤ ہمیشہ الٹا نتیجہ پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔
ایسی حالت میں حکیمانہ طریقہ صرف یہ ہے کہ عملی نقشے کو علی حالہ باقی رکھتے ہوئے پُرامن دعوتی جدوجہد کی جائے۔ پیغمبرانہ نمونے کے مطابق، یہی اسلامی کام کا صحیح طریقہ ہے۔کسی عمل کی قدر وقیمت کامعیار اس کا نتیجہ ہے، نہ کہ نظریہ۔ ایک کام نظریاتی طورپر اچھا معلوم ہوتا ہے، لیکن اس کا نتیجہ الٹا نکلنے والا ہو تو نظریاتی حسن کے باوجود ایسے کام کو نہیں کیا جائے گا۔ یہی عمل کا واحد دانش مندانہ طریقہ ہے۔
واپس اوپر جائیں

سیاسی اقتدار کی حیثیت

جنگِ بدر (17 رمضان، 2 ہجری) میں مسلمانوں کو اپنے مخالفین کے اوپر فتح حاصل ہوئی۔ اور جنگ اُحد (6 شوال، 3 ہجری) میںاُنھیں اپنے مخالفین کے مقابلے میں شکست ہوگئی۔ اِس پس منظر میں قرآن کی سورہ نمبر 3 میں یہ آیت اتری: تلک الأیام نُداولہا بین النّاس (آل عمران: 140 ) یعنی ہم اِن ایّام کو لوگوں کے دمیان بدلتے رہتے ہیں۔
اِس آیت کا ایک تعلق وقتی حالات کے اعتبارسے ہے، اور دوسرے اعتبار سے اِس میں فطرت کا ایک قانون بتایا گیا ہے، ایک ایسا قانون جس کا تعلق تمام اجتماعی معاملات سے ہے۔ مثلاً فتح وشکست، سیاسی اقتدار کا ملنا اور نہ ملنا، امیری اور غریبی، وغیرہ۔
اصل یہ ہے کہ یہ دنیا دار الامتحان (testing ground) ہے۔ اِس دنیا میں کسی کو جو چیز ملتی ہے، وہ پرچۂ امتحان (test paper) کے طور پر ملتی ہے، نہ کہ رحمت اور انعام کے طورپر۔ یہی معاملہ سیاسی اقتدار کا ہے۔ سیاسی اقتدار بھی ایک پرچۂ امتحان ہے۔ کسی گروہ کو سیاسی اقتدار کا ملنا ہمیشہ امتحان کے لیے ہوتا ہے، نہ کہ انعامِ خداوندی کے طورپر۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی اقتدار پر کسی گروہ کی اجارہ داری (monopoly) نہیں ہوتی۔ خدا کو ہر ایک کی آزمائش کرنا ہے، اِس لیے خدا، سیاسی اقتدار کبھی ایک گروہ کو دیتا ہے اورکبھی دوسرے گروہ کو۔ایسی حالت میں اگر ایسا ہو کہ کسی گروہ کو سیاسی اقتدار ملا اور پھر وہ اُس سے چھن گیا، تو اس کو سمجھنا چاہیے کہ خدا نے پہلے سیاسی اقتدار کے ذریعے میرا امتحان لیا تھا اوراب اُس نے کسی دوسرے گروہ کے امتحان کا فیصلہ کیا ہے۔ سیاسی اقتدار کے چھننے پر شکایت یا احتجاج کرنا صرف اِس بات کا ثبوت دینا ہے کہ میںامتحان میںناکام ہوگیا۔
موجودہ دنیا میں صحیح زندگی گزارنے کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی ہر چیز کو امتحان کا پرچہ سمجھے۔ وہ کسی حالت کو نہ تو انعام سمجھے اور نہ سزا۔ زندگی کا یہی تصور خدا کے تخلیقی پلان کے مطابق ہے۔ اِسی میں دنیا کی کامیابی بھی ہے اور آخرت کی کامیابی بھی۔
واپس اوپر جائیں

ِختم فتنہ کا دور

قرآن کی سورہ نمبر 8 میں رسول اور اصحاب رسول کو یہ حکم دیا گیا کہ: قاتلوہم حتیّٰ لا تکون فتنۃ ویکون الدین کُلُّہ للّٰہ (الأنفال: 39 ) یعنی ان سے لڑو، یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین سب اللہ کے لیے ہوجائے۔ اس آیت میںکوئی سیاسی حکم نہیں بتایا گیا ہے۔ یہ آیت تمام تر مذہب کے معاملے میں اسلام کے اصول کو بتاتی ہے ۔
آیت میں ’فتنہ‘ سے مراد مذہبی جبر(religious persecution) ہے۔ قدیم زمانے میں ہر جگہ بادشاہی نظام قائم تھا۔ بادشاہوں نے یہ مذہبی اصول اختیار کررکھا تھا کہ اسٹیٹ کا جو مذہب ہو، وہی ملک کے تمام باشندوں کا مذہب ہو۔ اُس زمانے میں اسٹیٹ کے مذہب کے سوا کسی اور مذہب کو اختیار کرنا، ریاست سے بغاوت کے ہم معنیٰ سمجھا جاتا تھا اور ایسے لوگوں کے ساتھ وہ معاملہ کیا جاتا تھا جس کو تاریخ میں مذہبی ایذا رسانی (religious persecution) کہاجاتا ہے۔ اِسی بنا پر یہ عمومی مثل بن گئی تھی کہ : الناسُ علیٰ دین مُلوکہم ۔
مذہب کو اسٹیٹ کا معاملہ قرار دینے کا یہ طریقہ خدا کے تخلیقی پلان کے خلاف تھا۔ خداکے تخلیقی پلان (creation plan) کے مطابق، موجودہ دنیا امتحان کی دنیا ہے۔ اس لیے ہر انسان کو آزادی ہے کہ وہ جس دین کو چاہے اختیار کرے۔ یہی بات قرآن کی اِس آیت میںکہی گئی ہے: لا إکراہَ فی الدین (البقرۃ: 256 )۔مذہبی جبر یا مذہب کو ریاست کے تابع قرار دینا، خدا کے تخلیقی پلان کی نفی کے ہم معنی تھا۔اس لیے حکم دیاگیا کہ اِس سیاسی روایت کو ختم کردو، تاکہ انسان آزادی کے ساتھ جو مذہب چاہے، اختیار کرے۔ مذہب کا معاملہ امتحان کا معاملہ ہے، نہ کہ قانونی اور سیاسی معاملہ۔ ختمِ فتنہ کا یہ کام ایک وقتی کام تھا جو رسول اور اصحابِ رسول کے زمانے میں کامل طورپر انجام پاگیا۔جیسا کہ تاریخ بتاتی ہے، یہ واقعہ ساتویں صدی عیسوی میں پیش آیا۔
واقعات بتاتے ہیں کہ تاریخ میں دوبار ایسا ہوا کہ مذہب کو اسٹیٹ کے ماتحت شعبہ قرار دے دیا گیا۔ پہلی بار قدیم بادشاہت کے زمانے میں، اور دوسری بار جدید کمیونسٹ ایمپائر کے زمانے میں۔ یہ دونوں نظام، خدا کے تخلیقی پلان کے خلاف تھے۔ اس لیے خدا نے ایسے حالات پیدا کیے کہ ان دونوں نظاموں کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوگیا۔ قدیم بادشاہت کے تحت قائم ہونے والے نظام کو دورِ اول کے اہلِ اسلام کے ذریعہ ختم کیا گیا تھا، اور جدید کمیونسٹ ایمپائر کے نظام کو ختم کرنے کے لیے امریکا کو ذریعہ بنایا گیا۔ یہ ایک خدائی انتقام تھا کہ تشدد کا استعمال کیے بغیر کمیونسٹ ایمپائر کا خاتمہ ہوگیا۔
اب ساری دنیا میں مذہبی جبر کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ اب ہر ملک میں کامل معنوں میں، مذہبی آزادی (religious freedom) حاصل ہے۔ اقوامِ متحدہ کے حقوقِ انسانی کے چارٹر کے تحت، تمام ملکوں نے اجتماعی طورپر مذہبی آزادی کا حق ہر ایک کے لیے تسلیم کیا ہے۔ اسی کے ساتھ ہر ملک کے دستور میں، بشمول ہندستان، مذہبی آزادی کا حق ہر عورت اور مرد کو مکمل طورپر عطا کیاگیا ہے۔
اس عالمی تبدیلی کے بعد اب جنگ کا دور ختم ہوچکا ہے۔ اب کرنے کا کام صرف یہ ہے کہ اس ملی ہوئی آزادی کو بھر پور طورپر استعمال کیا جائے اور خدا کے دین کو ساری دنیا میں ہر چھوٹے اور بڑے گھر کے اندر پہنچا دیا جائے، جیسا کہ حدیث میں پیشین گوئی کی گئی ہے (لایبقیٰ علی ظہر الأرض بیتُ مدَرٍ ولا وبَرٍ إلا أدخلہ اللّٰہ کلمۃَ الإسلام)۔
قرآن کے مطابق، خدا نے انسان کو ابتلا کے لیے پیدا کیا ہے(الملک: 2) ، یعنی دنیا میں انسان کو بسا کر اس کو کامل آزادی دی گئی ہے، تاکہ وہ جس طرح چاہے رہے اور پھر اپنے عمل کے مطابق، آخرت میں سزا اور انعام پائے۔ قرآن، تخلیق کے اِسی خدائی نقشے کی تفصیل ہے۔
موجودہ دنیا میں فتنہ کی حالت (مذہبی جبر کی حالت) خدا کے تخلیقی پلان کے خلاف ہے۔ وہ خدا کے فطری نظام میں مداخلت ہے۔ خدا اپنی دنیا میں اِس قسم کی مداخلت کو کبھی برداشت نہیں کرسکتا۔ وہ ضرور اس کو ختم کردے گا، کبھی ایک انسانی گروہ کے ذریعے اور کبھی دوسرے انسانی گروہ کے ذریعے۔ یہ معاملہ خدائی آپریشن کا معاملہ ہے۔ اِس قسم کا آپریشن فرشتوں کے ذریعے انجام نہیں دیا جاتا، بلکہ اسباب و علل کا پردہ باقی رکھتے ہوئے، اس کا خاتمہ کیا جاتا ہے۔ مذکورہ دونوں واقعات اِسی کی تاریخی مثالیں ہیں۔
واپس اوپر جائیں

معیاری فرد، معیاری سماج

اِس دنیا میں معیاری فرد کا بننا ممکن ہے، لیکن معیاری سماج کا وجود میں آنا ممکن نہیں۔ کوئی آدمی اپنے ذاتی فیصلے کے تحت، اپنی شخصیت کی تعمیر کرتاہے۔ ایک انسان کے بننے کے لیے یہ کافی ہے کہ اس کے اندر انفرادی قوتِ ارادی(will power) پیدا ہوجائے، لیکن پورے سماج کے ساتھ ایسا نہیں ہوسکتا۔ کیوںکہ قوتِ ارادی ایک فرد کے اندر ہوتی ہے، پورے سماج کے اندر اجتماعی قوتِ ارادی (collective will) صرف ایک خیالی تصور ہے، عملی طورپر اس کا کوئی وجود نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ تاریخ میںبار بار ایسے افراد پیدا ہوئے جو اپنی ذات کے اعتبار سے معیاری کردار کے حامل تھے، مگر ایسا کبھی نہیں ہوا کہ پورا سماج، یا پورا اجتماعی نظام اپنے کردار کے اعتبار سے، معیاری سماج یا معیاری نظام بن جائے۔ خدا کے تخلیقی پلان کے مطابق، ایسا ہونا ممکن نہیں۔
خدا نے اپنے تخلیقی پلان کے مطابق، ہر عورت اور ہر مرد کو مکمل آزادی عطا فرمائی ہے۔ کوئی بھی شخص یا حکومت اِس آزادی کو منسوخ نہیں کرسکتا۔ آزادی کا مطلب ہے— ایک سے زیادہ اختیار (options) کا ممکن ہونا۔ اِس اختیار کی بنا پر ہمیشہ ایسا ہوگا کہ کچھ افراد آزادی کا صحیح استعمال کریں گے اور کچھ افراد آزادی کا غلط استعمال کریں گے۔ یہی واقعہ پورے سماج کی سطح پر معیاری نظام قائم کرنے کو عملاً ناممکن بنا دیتا ہے۔
اِسی بنا پر ایسا ہے کہ اسلام میں فرد کو عمل کا نشانہ قرار دیا گیاہے، نہ کہ سماج کو۔ افراد اگر بڑی تعداد میں اصلاح یافتہ ہوجائیں، تو اِس کا اثر سماج تک بھی پہنچے گا۔ اِس معاملے کی مثالیں تاریخ میں کثرت سے موجود ہیں، اسلامی سماج میں بھی اور سیکولر سماج میں بھی۔ حقیقت یہ ہے کہ معیاری سماج، آخرت کی دنیا میں بنے گا، نہ کہ موجودہ دنیا میں۔موجودہ دنیا میں معیاری سماج بنانے کے لیے لازمی طورپر ضروری ہے کہ لوگوں سے ان کی آزادی سلب کرلی جائے۔ اور ایسا صرف اس وقت ہوگا جب کہ خدا کے حکم سے فرشتہ اسرافیل قیامت کا صور پھونک دے۔
واپس اوپر جائیں

سیاست کی دو قسم

سیاست (politics) کا لفظ عام طورپر اُن سرگرمیوں کے لیے بولا جاتا ہے جو کسی مقام پر اجتماعی طاقت کے حصول کے لیے کی جائیں۔ چوں کہ اجتماعی طاقت پر ہمیشہ کسی فرد یا گروہ کا قبضہ ہوتاہے، اِس لیے سیاسی عمل میں اُس کے شروع ہی سے ٹکراؤ کا تصور شامل ہوجاتا ہے، یعنی قابض گروہ کو ہٹا کر اس کی جگہ خود قبضہ حاصل کرنا۔
سیاست کے اِس تصور کی بناپر عام طورپر تبدیلی کی سیاست (politics of change) کو سیاست سمجھا جاتاہے۔ لیکن اِس سے بھی زیادہ بڑی سیاست وہ ہے عدم تبدیلی کی سیاست (plitics of no-change) کے اصول پر قائم ہے۔
تبدیلی کی سیاست میں یہ ہوتا ہے کہ ایک منفی نشانہ (negative target) آدمی کا نشانہ بن جاتا ہے۔ اور مثبت نشانہ (positive target) اُس وقت تک کے لیے موخر ہوجاتا ہے، جب تک کہ منفی نشانہ راستے سے ہٹ نہ جائے۔ تبدیلی کی یہ سیاست آدمی کو دوچیزوں کا تحفہ دیتی ہے— منفی سوچ، اور تخریبی عمل۔ انسان اِنھیںدو چیزوں میں گھرا رہتا ہے اور موجود مواقع کو استعمال کیے بغیر وہ ناکامی کے احساس کے ساتھ مرجاتا ہے۔
اِس کے مقابلے میں عدم تبدیلی کی سیاست، اوّل سے آخر تک، کامیابی کی سیاست ہے۔ وہ آدمی کو مثبت سوچ دیتی ہے۔ وہ آدمی کو تعمیری نشانہ عطا کرتی ہے۔ وہ آدمی کو اِس قابل بناتی ہے کہ وہ اپنے وقت اور اپنی طاقت کو بے فائدہ سرگرمیوں سے بچائے اور مکمل طورپر نتیجہ خیز عمل میں اپنے آپ کو لگا دے— تبدیلی کی سیاست کا نشانہ تخریبِ غیر ہوتا ہے، اورعدم تبدیلی کی سیاست کا نشانہ تعمیر ِ خویش۔
عدم تبدیلی کا مطلب بے تبدیلی نہیں ہے، اِس کا مطلب یہ ہے کہ حالتِ موجودہ سے عملی ٹکراؤ کیے بغیر اپنا مقصد حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔ حالتِ موجودہ سے ٹکراؤ اکثر حالات میں صرف اپنے وقت اور اپنی طاقت کے ضیاع کے ہم معنیٰ ہوتا ہے۔ ایسا عمل اپنے نتیجے کے اعتبار سے بے عملی کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔
واپس اوپر جائیں

کم زور دفاع

ایک صاحب جو جاہل اور غریب عوام میں کام کرتے ہیں، انھوںنے کہا کہ میںبہت سالوں سے اِس طبقے میں کام کررہا ہوں۔ میںنے پایا کہ یہ لوگ بہت زیادہ جھوٹ بولتے ہیں۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ جھوٹ ہی ان کا کلچر ہے۔ میں نے سوچا کہ ایسا کیوں ہے۔ آخر کار میری سمجھ میں آیا کہ یہ لوگ دفاع کے طورپر جھوٹ بولتے ہیں۔ اِس طبقے کا کوئی شخص جب ایک غلطی کرتاہے اور اس کا آقا اُس سے باز پُرس کرتا ہے، تو وہ اپنی کم زوری کی بنا پر محسوس کرتا ہے کہ وہ کسی اور انداز سے اپنا دفاع نہیں کرسکتا، اِس لیے وہ فوراً جھوٹ بول دیتا ہے اورکہتا ہے کہ میںنے ایسا نہیںکیا۔
کم زور دفاع کا یہ طریقہ صرف جاہل عوام کی اجارہ داری نہیں، وہ پڑھے لکھے لوگوں میں بھی عام طورپر پایا جاتاہے۔ اِس معاملے کا ایک تجربہ مجھے ذاتی طورپر پیش آیا۔میںتقریباً پچاس سال سے ایک مشن چلا رہا ہوں بعض لوگوں کو کسی سبب سے مجھ سے اختلاف ہوگیا۔ انھوں نے تقریر اور تحریر کے ذریعے میرے خلاف زبردست مہم شروع کردی۔ آپ اِن لوگوں کی تقریروں اور تحریروں کو پڑھیے، آپ پائیں گے کہ اِن میں سے کوئی ایک شخص بھی نہیں جس نے علمی دلائل کے ذریعے، راقم الحروف کے نقطۂ نظر کا تجزیہ کیا ہو۔ اِن میں سے ہر ایک صرف ایک کام کررہا ہے، اوروہ ہے کوئی منفی شوشہ نکال کر مجھ کو اور میرے مشن کو بدنام کرنا۔
یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ کم زور دفاع کاایک معاملہ ہے۔ یہ لوگ محسوس کرتے ہیں کہ دلیل کے میدان میں وہ شکست کھاچکے ہیں۔ خالص علمی دلائل کے ذریعے وہ میرے نقطۂنظر کو غلط ثابت نہیں کرسکتے، اِس لیے وہ عیب زنی اور الزام تراشی کے ذریعے مجھ کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ طریقہ نہ صرف غیرمتقیانہ ہے، بلکہ وہ علمی ذوق کے اعتبار سے نہایت پست طریقہ ہے۔ یہ دفاع کے نام پر خود اپنی شکست کااعلان کرنا ہے۔
یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ کسی شخص کے پاس اپنے دشمن کو مارنے کے لیے اگر بم ہو، تو وہ ہرگز ایسا نہیں کرے گا کہ وہ کنکری سے اپنے دشمن کو مارنے لگے۔ یہی معاملہ تنقید کا ہے۔ ایک ناقد کے پاس اگر علمی دلیل ہو، تو یہ ممکن نہیں کہ وہ عیب زنی اورالزام تراشی کے ذریعے اپنے حریف کا مقابلہ کرے۔ ایسا آدمی لازمی طورپر علمی دلائل کے ذریعے تنقید کرے گا۔ اِس لیے جو لوگ ہمارے مشن کے خلاف الزام تراشی کا طریقہ اختیار کیے ہوئے ہیں، وہ خود اپنے بارے میں یہ اعلان کررہے ہیں کہ ان کے پاس علمی دلائل موجود نہیں ہیں۔ اگر ان کے پاس علمی دلائل موجود ہوتے، تووہ ہر گز کم زور دفاع کا موجودہ طریقہ اختیار نہ کرتے۔
اِسی طرح کی ایک مثال موجودہ زمانے کے مسلم علماء کے یہاں ملتی ہے۔ یہ علماء کچھ لوگوں کو گُم راہ، یا بددین سمجھتے ہیں۔ وہ ان کے خلاف تقریر اور تحریر کی مہم چلائے ہوئے ہیں۔مثلاً منکرینِ حدیث، منکرینِ ختم نبوت، وغیرہ۔ مسلم علماء اِن ’’منکرین‘‘ کے خلاف کتابیں چھاپتے ہیں اور جلسے کرتے ہیں اور احتجاج کرتے ہیں، مگر یہ سب میرے نزدیک کم زور دفاع کی مثالیں ہیں۔ اِس طرح کے لفظی ہنگاموں، یا مخالفانہ فتویٰ شائع کرنے سے ’’منکر‘‘ گروہوں کا نہ اب تک کوئی نقصان ہوا ہے اور نہ آئندہ اِس سے ان کا کوئی نقصان ہوگا۔
اصل کام یہ ہے کہ اِن ’’منکرین‘‘ کے نظریے کا گہرا مطالعہ کرکے، اُن کے اُس نظریے کو سمجھا جائے جس کے اوپر انھوںنے اپنی بنیاد کھڑی کی ہے اور پھر علمی دلائل کے ذریعے اِس نظریے کا باطل ہوناثابت کیا جائے۔ علماء کا موجودہ طریقہ بلاشبہہ ایک کم زور دفاع ہے، اور کم زور دفاع کا یقینی طورپر کوئی فائدہ نہیں۔ کم زور دفاع خود اپنی کم زوری کا اعلان ہے، نہ کہ دوسرے کی تردید یا دفاع۔
مقابلے کی اِس دنیا میں آدمی کے لیے صرف دو میں سے ایک کا انتخاب (choice) ہے— صبر یا حقیقی دفاع۔ آدمی یا تو نتیجہ خیز دفاع کرے، اور اگر وہ نتیجہ خیز دفاع کی پوزیشن میں نہ ہو تو وہ صبر کرلے۔ اِس دنیا کا قانون یہ ہے کہ اگر آدمی نزاعی معاملے میں یک طرفہ طورپر صبر کرے، تو حالات خود بخود اس کی طرف سے خاموش دفاع کرنے لگتے ہیں۔ ایسی حالت میںبے نتیجہ دفاع کرنا، فطرت کے عمل کو روکنے کے ہم معنیٰ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بے نتیجہ دفاع صرف ایک نادانی ہے، نہ کہ حقیقی معنوں میں کوئی دفاعی عمل۔
واپس اوپر جائیں

جموں وکشمیر کا مسئلہ

امرناتھ شرائن بورڈ کی زمین کو لے کر جموں وکشمیر میںجولائی 2008 میں ایجی ٹیشن (agitation) شروع ہوا۔ ایک مہینے سے زیادہ مدت گزرنے کے باوجود، اب تک وہ شدید طورپر جاری ہے۔ پہلے مرحلے میں، مسلم انتہا پسند (Muslim extremists) گروپ نے یہ ایجی ٹیشن چلایا تھا۔ اب دوسرے مرحلے میں، ہندوانتہا پسند (Hindu extremists)گروپ یہ ایجی ٹیشن چلا رہا ہے۔ اِس کے نتیجے میں ریاست کے باشندے شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ ریل اور روڈ کے تمام راستے بند ہیں۔ ضروری اشیا کی آمدو رفت نہیں ہورہی ہے۔ تجارتی سرگرمیاں منقطع ہیں۔ اِس کے نتیجے میں لوگوں کو ناقابلِ برداشت قسم کے انسانی مسائل کا سامنا ہے۔
ہمارے ملک میں جمہوریت ہے، آزادی ہے، سیکولرازم ہے، یہاں ہر شخص کو حق ہے کہ وہ اپنے جائز حقوق کے لیے کوشش کرے۔ لیکن اِس کوشش کی کچھ شرطیں ہیں۔ اِن شرطوں کو اگر ملحوظ نہ رکھا جائے، تو ملک میں فساد پھیلے گا اور جمہوریت ایک قسم کی انارکی (anarchy) بن جائے گی۔ وہ شرط یہ ہے کہ ہر شخص اور ہر گروہ یہ تسلیم کرے کہ ہر حق سے اوپر ملک کا حق ہے۔ملک کو نقصان پہنچانے کی قیمت پر کسی کو بھی اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرنا جائز نہیں۔
اپنے حقوق (rights) کے لیے کوشش کی جائز صورت صرف یہ ہے کہ اُس کو امن اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کیا جائے۔ جو لوگ امن اور قانون کو توڑ کر اپنی تحریک چلائیں، اُن کو ملک کا خیر خواہ (well-wisher) نہیں کہا جاسکتا۔
جموں کے علاقے میں، امرناتھ یاترا کو زیادہ منظم انداز میں انجام دینے کے لیے امرناتھ شرائن بورڈنے گورنمنٹ سے سوایکڑ (800 کنال) کی ایک زمین حاصل کی۔یہ زمین پہلے سے امرناتھ یاتریوں کے لیے استعمال ہوتی تھی۔ اب اُس کو مزید بہتر بنانے کے لیے یہ اقدام کیا گیا۔ امرناتھ شرائن بورڈمیں کچھ ممبر، ریاست جموں وکشمیر سے تعلق رکھتے تھے۔ اور کچھ ممبر، ریاست جموں وکشمیر کے باہر سے اُس میں شامل کئے گئے تھے۔اِس کو لے کر کشمیر کے مسلمانوں نے اعتراض کیا۔ انھوںنے کہا کہ ریاست جموں وکشمیر میں صرف ریاست کے باشندے خرید وفروخت کرسکتے ہیں۔ دستورِ ہند کی دفعہ 370 کے مطابق، ریاست کے باہر کا کوئی آدمی یہاں پراپرٹی خریدنے کا حق نہیں رکھتا۔
یہ ایک دستوری معاملہ تھا۔ اور دستوری معاملے کا فیصلہ کرنے کے لیے صحیح جگہ انڈیا کا سپریم کورٹ ہے۔ اِن کشمیری مسلمانوں کو چاہیے تھا کہ وہ سپریم کورٹ سے رجوع کریں اور خالص قانونی انداز سے اپنا کیس پیش کرکے، وہاں سے اپنے حق میں فیصلہ حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ مگر حریت کانفرنس کی کال پر کشمیر کے مسلمان سڑکوں پر نکل آئے اور انھوںنے ہنگامہ آرائی شروع کردی۔ اِس کے بعد کشمیر میں سنگین صورتِ حال پیدا ہوئی، یہاں تک کہ ریاست کی کولیشن گورنمنٹ ٹوٹ گئی۔ آخر کار یہ ہوا کہ ریاست کے گورنر نے لینڈ کے سابقہ سودے کو منسوخ کردیا۔
اب ریاست کے مسلمانوں نے فتح کی خوشیاں منائیں۔ مگر واقعات بتاتے ہیں کہ یہ فتح بلاشبہہ شکست سے بھی بد تر تھی۔ اِس کے بعد یہ ہوا کہ ہندو انتہا پسند گروپ کو موقع مل گیا۔ وہ بھی سڑکوں پر آگئے اور انھوں نے ایک نیا ایجی ٹیشن شروع کردیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ لینڈ کی یہ منسوخی ایک سیاسی منسوخی ہے۔ ایسا مسلمانوں کو خوش کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ اب وہ ایک نیا مطالبہ لے کر اٹھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ لینڈ کی ڈیلنگ کو بحال کیا جائے اور اس کو امرناتھ شرائن بورڈ کے قبضے میں دے دیا جائے، یہ ایک مذہبی معاملہ ہے اور اِس میں حکومت کو کوئی دخل نہیں دینا چاہیے۔
یہ دوسرا ایجی ٹیشن، پہلے ایجی ٹیشن سے بھی زیادہ شدید تھا۔ تادمِ تحریر یہ دوسرا ایجی ٹیشن شدت کے ساتھ جاری ہے۔ اطلاعات کے مطابق، جان ومال کا شدید نقصان ہورہا ہے۔ ریاست کے باشندے ناقابلِ برداشت قسم کی مشکلات کا شکار ہیں۔ ذمہ دار افراد کی کوششوں کے باوجود بظاہر حالات قابو میں نہیں آرہے ہیں۔
راقم الحروف کے نزدیک، اِس معاملے میں پہلی غلطی کشمیر کے مسلم لیڈروں کی تھی۔ اُن کو جاننا چاہیے تھا کہ دستورِ ہند کا معاملہ سپریم کورٹ آف انڈیا کے دائرے میں آتا ہے۔ کسی شخص یا گروہ کو اگر کوئی دستوری اعتراض ہے، تو اُس کو اپنا معاملہ سپریم کورٹ آف انڈیا کے سامنے لے جانا چاہیے۔ کشمیری لیڈر اپنا معاملہ سپریم کورٹ میں نہیں لے گئے، بلکہ وہ اُس کو لے کر پُر جوش طورپر سڑکوں پر نکل آئے۔ یہ ایک سنگین غلطی تھی۔ موجودہ صورتِ حال اِسی کی ایک قیمت ہے جس کو کشمیر کے مسلمان ادا کررہے ہیں۔
جہاں تک میں جانتا ہوں، جموں کی متنازعہ زمین بہت پہلے سے امرناتھ کے یاتریوں کے لیے استعمال ہورہی تھی۔ عملاً وہ پہلے بھی امرناتھ شرائن بورڈ کے استعمال میں تھی۔ نئی بات صرف یہ ہوئی تھی کہ اِس انتظام کو زیادہ بہتر بنانے کے لیے اس کو قانونی شکل دے دی گئی تھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ کشمیر کے مسلمانوں کو اِس معاملے میں اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔ اُنھیں دل سے راضی ہوجانا چاہیے کہ وہ زمین بدستور، امرناتھ یاتریوں کے لیے استعمال ہوتی رہے، جیسا کہ وہ پہلے استعمال ہورہی تھی۔
اِس زمین کو زیادہ بہتر طورپر یاتریوں کے استعمال میں لانا، کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں۔ کشمیر کے مسلمانوں کو خیر سگالی کے جذبے کے تحت، اِس پر راضی ہوجانا چاہیے۔ اِس زمین کو قانونی شکل دینے کے لیے اگرکچھ فنی یا ٹکنکل رکاوٹیں ہیں، تو اُن کو دور کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔ دونوں فریق کو چاہیے کہ وہ باہمی طورپر پُر امن گفتگو کے ذریعہ اِن فنی رکاوٹوں کو دور کردیں، تاکہ اِس معاملے میں ڈیڈلاک ختم ہوجائے اور مذکورہ زمین امرناتھ یاتریوں کے لیے خوش گوار ماحول میں استعمال ہونے لگے، جیسا کہ وہ ماضی قدیم سے استعمال ہورہی تھی۔
دونوں فریقوں کو اِس معاملے میں سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا چاہیے۔ دونوں کو چاہیے کہ وہ ملک اور ملک کے دستور کو اعلیٰ مقام دیں۔ وہ اپنی کوشش کو پُر امن دائرے تک محدود رکھیں، وہ کسی حال میں تشدد یا قانون شکنی کا طریقہ نہ اختیار کریں، وہ کوئی بھی ایسا اقدام نہ کریں جس کے نتیجے میں کشمیری باشندوں کے حقوق پامال ہونے لگیں اور ملک کا وقار مجروح ہو (9 اگست2008 ) ۔
واپس اوپر جائیں

سنتِ یوسفی

جمہوری دور میں جو نئی چیزیں دنیا میں آئیں، اُن میں سے ایک وہ ہے جس کو اپوزیشن کی پالٹکس (politics of opposition) کہا جاتا ہے، یعنی حکومت کو بدلنے کے لیے اس کے خلاف سیاسی تحریک چلانا۔ موجودہ زمانے میں ’’اسلام پسندوں‘‘ نے اسلام کے نام پر اِسی سیاسی طریقِ کار کو اپنایا۔ اِس میں وہ انتہاپسندی، بلکہ تشدد کی حد تک پہنچ گئے۔ اِس طرح، اسلام پسند جماعتوں اور حکم رانوں کے درمیان ٹکراؤ ہوا۔ اِس ٹکراؤ کے بعد حکم رانوں نے انتہا پسند لیڈروں کو گرفتار کرکے اُنھیں جیل میں ڈال دیا۔ اِس طرح کے واقعات کو یہ اسلام پسند لوگ ’’سنتِ یوسفی‘‘ کا نام دیتے ہیں۔
یہ بلاشبہہ، سنتِ یوسفی کے لفظ کا غلط استعمال ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کو ایک غیر سیاسی نوعیت کی غلط فہمی کے تحت، وقت کے حکم راں نے جیل میںڈالا تھا، کسی قسم کی سیاسی اپوزیشن تحریک کے نتیجے میں ایسا نہیں ہوا تھا، جب کہ یہ ایک واقعہ ہے کہ موجودہ زمانے کے نام نہاد اسلام پسند، سیاسی اپوزیشن کے نتیجے میں جیل میں ڈالے گئے۔
جیسا کہ قرآن سے معلوم ہوتا ہے، حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانے کا مصری حکم راں ایک مشرک تھا، مگر حضرت یوسف نے کبھی اِس مشرک حکم راں کے خلاف کوئی سیاسی تحریک نہیں چلائی۔ اِس کے برعکس، حضرت یوسف نے یہ کیا کہ مشرک بادشاہ کے سیاسی اقتدار کو تسلیم کرتے ہوئے اُس کے تحت، انھوں نے ایک سرکاری عہدہ قبول کرلیا۔ جدید اصطلاح کے اعتبار سے اِس عہدے کو وزارتِ غذا کا عہدہ کہاجاسکتا ہے۔
ایسی حالت میں حقیقی سنتِ یوسفی یہ ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلم رہ نما اپنی سیاسی اپوزیشن کی تحریک کو غیر پیغمبرانہ تحریک قرار دیں اور حضرت یوسف کی سنت کی پیروی کرتے ہوئے وہ وقت کے حکم راں کے ساتھ تعاون کا اندازاختیار کریں، وہ سیاسی ٹکراؤ سے کامل پرہیز کرتے ہوئے اپنے دینی عمل کا نقشہ بنائیں— سنتِ یوسفی، حکم راں کے ساتھ تعاون کرنے کا نام ہے، نہ کہ حکم راں کے ساتھ سیاسی ٹکراؤ کرنے کا نام۔
واپس اوپر جائیں

بے فائدہ جنگ

جارج بش جونئر کی صدارت میں امریکا نے 2003 میں عراق پر حملہ کیا۔ مبصرین کے اندازہ کے مطابق، امریکا کے لیے یہ جنگ ایک تباہ کن جنگ ثابت ہوئی۔ اِس جنگ میں براہِ راست طورپر امریکا کے تین ٹریلین ڈالر خرچ ہوئے۔ اِس کے علاوہ، بالواسطہ خرچ کی مقدار دو ٹریلین ڈالر تھی، یعنی مجموعی طورپر پانچ ٹریلین ڈالر۔ اِس جنگ پر بہت سی کتابیں چھپی ہیں، ان میں سے ایک کتاب یہ ہے:
The Three Trillion Dollar War by: The True Cost of the Iraq Conflict. by Joseph Stiglitz, Linda Bilmes.
اِس کتاب پر مسٹر ایم کے بھندرا کمار(M.K. Bhandra Kumar) نے تبصرہ کیا ہے۔ یہ تبصرہ، انگریزی اخبار ہندو (The Hindu) کے شمارہ 24 جون 2008 میں چھپا ہے۔ اِس تبصرے کا عنوان درست طورپر یہ ہے:
An Unaffordable War
تبصرہ نگار نے اپنے مضمون کو اِن الفاظ پر ختم کیا ہے— بلاشبہہ بش ایڈمنسٹریشن اِس جنگ کے فوائد کا اندازہ کرنے میں غلطی پر تھا۔ اِس سے بھی زیادہ تباہ کن بات امریکی شہریوں کے لیے یہ ہے کہ عمداً اِس جنگ کا کم تر اندازہ کیا گیا، تاکہ اس کو ایک قابلِ عمل جنگ کی صورت میں ظاہر کیا جاسکے:
No doubt, the Bush administration was wrong about the benifits of this war, but even more disastrous for the American citizen is that it wilfully underestimated the cost of the war so as to make it appear a doable war. (p. 16)
امریکا کے پاس دنیا کا سب سے بڑا تھنک تینک (think tank) ہے۔ وہ سب سے زیادہ دولت مند ملک ہے۔ اس کی فوجی طاقت بھی سب سے زیادہ ہے۔ لیکن جنگ اس کو مطلوب نتیجہ نہ دے سکی۔ یہ واقعہ آخری طورپر یہ اِس عوامی خیال کو بے بنیاد (baseless)ثابت کررہا ہے کہ — جنگیں اقتصادیات کے لیے مفید ہیں:
Wars are good for the economy.
واپس اوپر جائیں

آزادی خیر ِاعلیٰ

جان اسٹوارٹ مل (John Stuart Mill) انیسویں صدی عیسوی کا مشہور انگلش فلاسفر ہے۔ وہ 1806 میں پیدا ہوا، اور 1873 میں اس کی وفات ہوئی۔ فرد (individual)کے مقابلے میں اجتماع (society) کی آزادی (liberty) کا تصور سب سے پہلے اُس نے باقاعدہ صورت میں پیش کیا۔ اِس سلسلے میں اس کی حسب ذیل کتاب بہت مشہور ہوئی:
Essay on Liberty (1859)
اِس کے بعد اِ س موضوع پر بہت زیادہ لکھا گیا اوراس کی حمایت میں بڑی بڑی تحریکیں اٹھیں، مغربی دنیا میں بھی اور مشرقی دنیا میں بھی، یہاں تک کہ عمومی طورپر یہ مان لیا گیا کہ فرد کی آزادی اُس کے لیے خیر اعلیٰ (summum bonum) کی حیثیت رکھتی ہے۔
فردکی آزادی بلا شبہہ ایک اچھی چیز ہے، لیکن آزادی کو خیر اعلیٰ سمجھ لینا، سخت تباہ کن ہے۔ موجودہ دنیا میں انسان بیک وقت دو چیزوں کے درمیان ہوتا ہے۔ ایک طرف، خالق کا قائم کردہ فطرت کا نظام، اور دوسری طرف، انسانوں پر مشتمل سماجی نظام۔ فرد پر لازم ہے کہ وہ اِن دونوں سے موافقت کرکے زندگی گزارے۔ اِس کے سوا کوئی اور طرزِ زندگی یہاں ممکن نہیں۔ فطرت کے نظام سے عدم موافت کا نتیجہ اپنی ہلاکت ہے، اور اجتماعی نظام سے عدم موافقت کا نتیجہ سماجی اِباحیت (social permissiveness) ۔ اور فرد کی آزادی کے یہ دونوں نتیجے تباہ کن حدتک ناقابلِ عمل ہیں۔
فرد کے لیے مطلق آزادی کا تصور بلاشبہہ تباہ کن ہے۔ البتہ محدود آزادی کا تصور ایک صحت بخش تصور ہے، وہ انسان کی ترقی کے لیے لازمی طورپر ضروری ہے۔اِس دنیا میں انسان کو آزادی حاصل ہے۔ آزادی ہر انسان کا پیدائشی حق ہے، لیکن سماجی زندگی میں بے قید آزادی قابلِ عمل نہیں۔ سماجی زندگی میں جو چیز ممکن ہے، وہ محدود آزادی ہے، نہ کہ بے قید آزادی۔ بے قید آزادی کا نتیجہ انارکی (anarchy) ہے، اور محدود آزادی کا نتیجہ صحت مند ترقی۔
واپس اوپر جائیں

بے اطمینانی کا سبب

ٹاٹا انڈسٹری کے چئرمین مسٹر رتن ٹاٹا (72 سال) نے لمبی کوشش کے بعد ایک نئی چھوٹی کار بنائی ہے۔ اِس کار کا نام نانو(Nano) ہے۔ اِس کی قیمت صرف ایک لاکھ روپیے ہے۔ اس کو دنیا کی سب سے سستی کار(cheapest car on earth) کہاجاتا ہے۔
نئی دہلی (پرگتی میدان) میںاِس کار کی نمائش کی گئی تو اس کو دیکھنے کے لیے بہت بڑی بھیڑ اکھٹا ہوگئی۔ مگر عجیب بات ہے کہ مسر رتن ٹاٹا نے بظاہر بے شمار نئے لوگوں کے لیے سستی کار کی شکل میں ایک پُر مسرت تحفہ دیا، لیکن خود رتن ٹاٹا کو روحانی خوشی حاصل نہیں۔ ٹائمس آف انڈیا (11 جنوری 2008 ) کی رپورٹ کے مطابق، انھوںنے کہا کہ — میںاپنے آپ کو اپنی زندگی کے بہت زیادہ تنہائی کے دور میں پاتا ہوں:
I am in a very lonely phase of my life (p. 1)
یہ کوئی انفرادی مثال نہیں۔ یہی اُن تمام لوگوں کی کہانی ہے جو اپنی ساری توانائی مادّی چیزوں کے حصول میں لگادیتے ہیں۔ جو اِس طرح رہتے ہیں گویا کہ زندگی کا مقصد مادی ترقی کے سوا اور کچھ نہیں۔ ایسے لوگ جب اپنی عمر کے آخری حصے میں پہنچتے ہیں، تو اُن کو محسوس ہوتا ہے کہ بظاہر مادی کامیابی حاصل کرنے کے باوجود اُن کو اندرونی خوشی حاصل نہیں۔ وہ اِسی طرح جیتے ہیں ، یہاں تک کہ مایوسی (despair) کی حالت میں مرجاتے ہیں۔
اِس کا سبب یہ ہے کہ انسان کی روح کے لیے سب سے زیادہ ربّانی غذا کی ضرورت ہے۔ صرف مادی غذا انسان کی فطرت کو ایڈریس نہیں کرتی۔ بظاہر خوش خوراکی کے باوجود اس کی داخلی شخصیت، روحانی فاقہ (spiritual starvation) میں مبتلا رہتی ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو قرآن میںاِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: ألا بذکر اللّٰہ تطمئن القلوب (الرّعد: 28 ) یعنی سن لو کہ اللہ کی یاد ہی سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتاہے۔
واپس اوپر جائیں

بحران کا مسئلہ

ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ آپ اکثر آرٹ آف کرائسس مینج منٹ (art of crisis management) کی بات کرتے ہیں۔ یہ نہایت اہم موضوع ہے۔ یہ ہر آدمی کا ایک ذاتی مسئلہ ہے۔ ہر آدمی کبھی نہ کبھی کرائسس میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ مگر سوا ل یہ ہے کہ اِس کا کارگرفارمولا کیا ہے۔ میںنے کہا کہ اِس کا کارگر فارمولا صرف ایک ہے، اور وہ یہ ہے کہ جب زندگی میں کوئی کرائسس پیش آئے، تو اس کو خدا کے حوالے کردیا جائے۔
یہی وہ حقیقت ہے جس کی بابت، صحابیٔ رسول، حضرت علی بن ابی طالب نے فرمایا: الخیر فیما وقع،یعنی جو کچھ پیش آئے، اس کو آدمی خدا کی طرف سے سمجھے اور اس پر راضی ہوجائے۔ اِسی حقیقت کو ایک فارسی مقولے میںاِس طرح بیان کیاگیا ہے کہ:
دشمن اگر قوی است، نگہباں قوی تر است
یعنی دشمن اگر قوی ہے، تو نگہبان اس سے بھی زیادہ قوی ہے:
If enemy is strong, the savier is stronger.
حقیقت یہ ہے کہ اِس دنیا میں جو کچھ پیش آتا ہے، وہ براہِ راست طورپر خدا کی طرف سے ہوتا ہے۔ انسان کا حصہ اُس میں صرف یہ ہے کہ وہ منفی رسپانس (negative response) دیتا ہے، یا مثبت رسپانس (positive response) ۔ حالات کا اہتمام خدا کی طرف سے کیا جاتا ہے۔ انسان کا حصہ اُس میں صرف یہ ہے کہ وہ یا تو ایک قسم کا رسپانس دے کر کریڈٹ (credit) پاتا ہے، یا دوسرے قسم کا رسپانس دے کر اپنے آپ کو ڈس کریڈٹ (discredit) کرلیتا ہے۔
ایسی حالت میں انسان کے بارے میں بہترین طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو بے صبری سے بچائے اور بہتر انجام کے لیے خدا سے دعا کرتا رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس دنیا میں صبر بھی ایک عمل ہے اور دعا بھی ایک عمل۔
واپس اوپر جائیں

تعمیر کی طاقت

جاپانی اخبار یومیوری(Yomiuri) میں ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے، جس کو نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (21 جولائی 2008 ) نے نقل کیا ہے۔ اِس رپورٹ کی سرخی یہ ہے:
Nasa May buy spacecraft from Japan.
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکا کا سائنسی ادارہ ناسا (NASA) ، جاپان کے خلائی ادارہ (Japan's Space Agency) سے خلائی جہاز (spacecraft) خریدنے والا ہے۔ امریکا کو اپنے خلائی اسٹیشن میں خوراک اور دیگر ضروری سامان بھیجنے کے لیے ایک بار بردار راکیٹ کی ضرورت ہے۔ جاپان اِس امریکی ضرورت کو پورا کرسکتا ہے:
Nasa has began unofficial negotiations with Japan’s space agency on purchasing units of an unmanned cargo transfer spacecraft as the successor to its space shuttles, the Yomiuri newspaper said on Sunday. Such a deal would be the biggest in Japan’s 50 years space development history, the paper added. Behind the move is Nasa’s concern that the retirement of its space shuttles in 2010 will make it difficult for US to deliver water, food and materials for scientific experiments to the International Space Station, the paper said. (p. 19)
دوسری عالمی جنگ کے زمانے میں امریکا نے 1945 میں جاپان کے دو بڑے شہروں، ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرایا۔ اِس کے نتیجے میں جاپان کی صنعت تباہ ہوگئی۔ جاپان نے امریکا کے خلاف کوئی انتقامی کارروائی نہیں کی، بلکہ ماضی کو بھلا کر، وہ دوبارہ اپنی تعمیر میںلگ گیا۔ اُس نے اپنی ساری طاقت ایجوکیشن اور انڈسٹری میںلگا دی۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جاپان چالیس سال کے اندر اقتصادی سپرپاور (economic superpower) بن گیا۔ پہلے امریکا کو اسپیس سائنس میںبرتری حاصل تھی، مگر جاپان اب اِس میدان میں اتنا زیادہ ترقی کرچکا ہے کہ اب وہ خود امریکا کو خلائی جہاز فراہم کررہا ہے— یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تخریب کے مقابلے میں تعمیر کی طاقت بہت زیادہ ہے۔
واپس اوپر جائیں

ذہنی ارتکاز کی اہمیت

مہابھارت میں ارجن کی بہت سی کہانیاں ہیں۔ اُن میں سے ایک کہانی یہ ہے کہ ارجن ایک راج کمار تھے ۔ وہ اپنے چار بھائیوں کے ساتھ ایک گرو سے تیر اندازی کا فن سیکھ رہے تھے۔ کچھ دنوں کے بعد گرو نے چاہا کہ وہ اپنے شاگردوں کا امتحان لیں۔ انھوںنے مٹی کی ایک چڑیا بنائی۔اِس چڑیا کو انھوںنے ایک درخت کے اوپر رکھ دیا۔ پھر انھوںنے ہر ایک سے کہا کہ چڑیا کی آنکھ پر نشانہ لگاؤ۔
گرو نے پہلے، دوسرے بھائیوں سے پوچھا کہ تم کو اوپر کیا چیز دکھائی دے رہی ہے۔ ہر ایک نے کئی چیزیں بتائیں۔ مثلاً درخت، پتی، شاخ، چڑیا، وغیرہ۔ گرو نے اِن سب شاگردوں کو فیل کردیا۔ اِس کے بعد انھوں نے ارجن سے کہا کہ تم نشانہ لگاؤ۔ پھر انھوںنے ارجن سے پوچھا کہ تم کو اوپرکیا دکھائی دے رہا ہے۔ ارجن نے کہا کہ چڑیا کی آنکھ۔ ہر بار جب گرو نے سوال کیا تو انھوں نے یہی جواب دیا۔ اِس کے بعد گرو نے ارجن کو امتحان میں پاس کردیا اور کہا کہ — لکش کو پانے کے لیے، لکش ہی پر سارا دھیان کیندرت کرنا چاہیے۔
کسی مقصد میںکامیابی کے لیے یہ اصول بہت ضروری ہے۔ یہ وہی چیز ہے جس کو ذہنی ارتکاز (concentration) کہاجاتا ہے، یعنی یہ صلاحیت کہ آدمی اپنی تمام توجہ اور کوشش کوایک نشانے پر لگا سکے، وہ دوسری چیزوں پر سوچنا بند کردے:
Concentration: The ability to direct all your effort and attentionon one thing, without thinking of other things.
کسی مقصد کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ آدمی پوری یک سوئی کے ساتھ اپنے ذہن کو ایک نشانے پر لگا دے۔ اِس کے بغیر اِس دنیا میں کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کی جاسکتی، خواہ وہ دنیوی مقصد کا معاملہ ہو یا اُخروی مقصد کا معاملہ۔یہی وہ واحد قیمت ہے جو کسی مقصد کے حصول کے لیے درکار ہوتی ہے۔ جو آدمی اِس قیمت کو دینے کے لیے تیار نہ ہو، اس کو مقصد کے حصول کی تمنا بھی نہیں کرنا چاہیے۔
واپس اوپر جائیں

خود ساختہ معیار

ایک مقام سے دو نوجوان دہلی آئے— مسٹر اے اور مسٹر بی۔ یہ لوگ کئی سال سے دہلی میں رہتے ہیں۔ میری ملاقات مسٹر اے سے ہوئی۔ انھوں نے خود اپنی تو بہت تعریف کی، لیکن انھوں نے مسٹر بی کو کنڈم کیا۔ انھوںنے کہا کہ مسٹر بی اگرچہ میرے ہم وطن ہیں، لیکن وہ ایک سست آدمی ہیں۔ وہ دہلی میں رہتے ہیں، لیکن وہ یہاں کوئی ترقی نہ کرسکے۔
میں ذاتی طورپر مسٹر بی کو جانتا ہوں۔ انھوںنے دہلی آکر یہاں ایک تعلیمی ادارے سے ایم اے کیا۔ اِس کے بعد انھوںنے چھوٹے پیمانے سے ایک بزنس شروع کیا۔
اب انھوں نے دہلی میں اپنا ذاتی گھر بنا لیا ہے۔ یہاں وہ اپنے بچوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ میرے تجربے کے مطابق، وہ ایک متواضع (modest) انسان ہیں۔ میںنے انھیں کبھی بڑی بڑی باتیں کرتے ہوئے نہیں پایا۔
اِس کے مقابلے میں مسٹر اے کا حال یہ ہے کہ وہ دہلی میں ایک کرایے کے مکان میں رہتے ہیں۔ وہ ابھی تک یہاں کوئی مستقل جاب (job) حاصل نہ کرسکے۔ میں نے سوچا کہ اِس فرق کے باوجود کیوں ایسا ہے کہ مسٹر اے اپنے کو اونچا سمجھتے ہیں اور مسٹر بی کو اپنے سے کم تر سمجھتے ہیں۔
اِس کا سبب یہ ہے کہ انھوں نے خود ساختہ طورپر بڑائی کا ایک معیار (criterion) بنا لیا ہے۔ وہ یہ کہ مسٹر بی نے ایم اے کرنے کے بعد آگے تعلیم جاری نہیں رکھی۔ اِس کے برعکس، مسٹر اے نے مزید تعلیم جاری رکھی اور لسانیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی۔ چناں چہ ان کے نام کے ساتھ ڈاکٹر لکھا جاتا ہے، جب کہ مسٹر بی کے نام کے ساتھ ڈاکٹر نہیں لکھا جاتا ۔
اِسی کا نام خود ساختہ معیار ہے۔ کامیابی کا حقیقی معیار یہ ہے کہ آدمی کے اندر تواضع(modesty) ہو۔ وہ ضروری حد تک تعلیم حاصل کرے اور اپنے لیے ایک خود کفیل زندگی بنا سکے۔ مگر خود ساختہ معیار، ضروری کو غیر ضروری اور حقیقی کو غیر حقیقی بنا دیتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

بے مسئلہ انسان

اِس دنیا میںکامیاب زندگی کے دو اہم اصول ہیں— یا تودوسروں کے لیے نفع بخش (useful) انسان بنئے، یا دوسروں کے لیے بے مسئلہ انسان (no problem person) بن جائیے۔ اِس دنیا میں کامیاب زندگی حاصل کرنے کے یہی دو اصول ہیں، اِن کے سوا کوئی تیسرا اصول نہیں۔ اگر کوئی تیسرا اصول ہے تو وہ ہلاکت ہے، نہ کہ کامیابی۔
ایک شخص جب دوسروں کے لیے نفع بخش بنتا ہے تو وہ دوسروں کی نظر میں محبوب بن جاتاہے۔ یہ فطرت کا تقاضا ہے۔ انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے مجبور ہے کہ وہ دینے والے کا احسان مانے، وہ فائدہ پہنچانے والے کا اعتراف کرے۔ جو اُس کے کام آئے، اس کا دل اُس کے لیے جھک جائے۔ جب کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے لیے نفع بخش بنتا ہے تو وہ فطرت کی اِس سطح پر دوسرے انسان کا مطلوب شخص (wanted person)بن جاتا ہے۔
اِس نفع بخشی کا تعلق صرف بڑی بڑی چیزوں سے نہیں، کسی کو چھوٹی چیز دے کر بھی آپ اس کا دل جیت سکتے ہیں، اور اگر آپ کے پاس کچھ بھی دوسروں کو دینے کے لیے نہ ہو تو آپ صرف اتنا کیجئے کہ آپ دوسروں سے میٹھا بول بولیے، آپ دوسروں کے ساتھ اچھا سلوک کیجیے، دوسروں کے حق میں خدا سے دعا کیجئے، یہ سب چیزیں بھی نفع بخشی کا درجہ رکھتی ہیں۔
اگر آپ دوسروں کے لیے کچھ بھی نہ کرسکیں ، تب بھی آپ کے لیے ایک کام ہر حال میں ممکن ہوتا ہے، وہ یہ کہ آپ دوسروں کے لیے بے مسئلہ انسان (no problem person) بن جائیے۔ اگر آپ دوسروں کو فائدہ نہیں پہنچا سکتے تو آپ دوسروں کو نقصان بھی نہ پہنچائیے۔ آپ اِس کا اہتمام کیجئے کہ آپ اپنے ساتھی یا اپنے پڑوسی کے لیے کسی بھی اعتبار سے ناگواری (nuisance) کا سبب نہ بنیں۔ اگر آپ صرف اتنا کریں کہ اپنے کام سے کام رکھیں اور دوسروں کے کام میں دخل نہ دیں، تب بھی آپ دوسروں کے لیے باعث رحمت بن جائیں گے۔
واپس اوپر جائیں

سوال وجواب

سوال
عرض ہے کہ میں ازدواجی زندگی کے مسائل میں گھرا ہوا ہوں۔ مجھ کو اپنی بیوی کی طرف سے مسلسل شکایت رہتی ہے۔ وہ خود کو بدلنے کے لیے تیار نہیں۔ ان کا ذہنی معیار بہت پست ہے۔ اِس لیے گھر میں طرح طرح کے مسائل پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ اِس کی وجہ سے میں سخت قسم کے ذہنی تناؤ میںمبتلا ہوں۔ براہِ مہربانی، میرے اِس مسئلے کا کوئی حل تجویز فرمائیں (ایک قاری الرسالہ، جموں و کشمیر)۔
جواب
آپ جس ذہنی تناؤ میں مبتلا ہیں، اس کا حل صرف ایک ہے، اور وہ ہے اِس کا سبب خود اپنے اندر ڈھونڈنا۔ اب تک آپ اس کا سبب فریقِ ثانی کے اندر ڈھونڈتے رہے۔ اب آپ یہ کیجیے کہ اس کا سبب اپنے اندر تلاش کیجیے اور خود اپنے آپ کو بدلیے۔ آپ کے مسئلے کا یہی واحد حل ہے، اِس کے سوا کوئی اور ممکن حل موجود نہیں۔
اصل یہ ہے کہ آدمی کی زندگی میںجب بھی کوئی مسئلہ پیش آتا ہے، تو وہ فوراً یہ کرتا ہے کہ خود اپنے ذہنی معیار کے مطابق، اُس کا حل تلاش کرنے لگتا ہے۔ مگر جب اس کے خود ساختہ فارمولے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا، تو وہ فریقِ ثانی کو الزام دینے لگتا ہے۔ اس کی سوچ یہ بن جاتی ہے کہ میں تو صحیح ہوں، یہ دراصل دوسرا فریق ہے جو مسئلہ پیدا کررہا ہے۔ یہ آئڈیل ازم (idealism) کا طریقہ ہے، مگر اِس دنیا کا قانون یہ ہے کہ —یہاں آئڈیل ازم کبھی حاصل نہیں ہوتا:
Idealism can not be achieved in this world.
آپ کے لیے ذہنی تناؤ سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے، اور وہ پریکٹکل طریقہ ہے، یعنی یہ دیکھنا کہ موجودہ صورتِ حال میں عملی طورپر کیا ممکن ہے، نہ یہ کہ معیاری اعتبار سے کیا ہونا چاہئے۔ اسی طریقے کا نام حکمت ہے۔ اور ہر مسئلہ صرف حکمت کے ذریعے حل ہوتا ہے۔
پریکٹکل طریقہ اختیار کرنے کا مطلب پسپا ہونا یا شکست قبول کرنا نہیں ہے، بلکہ اِس کا مقصد اپنے لیے فرصتِ عمل تلاش کرناہے۔ ذہنی تناؤ کے ساتھ کوئی شخص، مواقع کو استعمال (avail) نہیں کرسکتا۔ اِس لیے عقل مندی یہ ہے کہ آدمی یک طرفہ طورپر ایڈجسٹ کرلے، تاکہ وہ مواقع کو زیادہ بہتر طورپر استعمال کرنے کے قابل ہوسکے۔
ذہنی تناؤ ایک قسم کی نفسیاتی خود کُشی ہے۔ ذہنی تناؤ ہمیشہ کسی خارجی سبب سے پیداہوتاہے۔ اور آدمی اُس سے متاثر ہو کر خود اپنے آپ کو اس کی سزا دینے لگتا ہے۔ ایسی نادانی آپ کیوں کریں۔ اس خود اختیارکردہ سزا سے بچنے کی آسان تدبیر یہ ہے کہ آدمی آئڈیل ازم کو چھوڑ دے، وہ پریکٹکل بن جائے۔ وہ اُس فارمولے کو اختیار کرے جس کو ایک شخص نے مثال کی صورت میں اِس طرح بیان کیا ہے: ’’اگر تم چوکور ہو، اور تم کسی گول خانے پڑجاؤ تواپنے آپ کو گول بنالو‘‘۔ یہ شکست کا فارمولا نہیں ہے، بلکہ وہ فتح کا فارمولا ہے۔ کیوں کہ ایسا کرکے آدمی اپنے آپ کو نفسیاتی ہلاکت سے بچا لیتا ہے۔
سوال
میں کافی عرصے سے مستقل طورپر آپ کے مؤقر علمی اور دعوتی مجلہ ماہ نامہ الرسالہ کا مطالعہ کررہا ہوں۔ میں نے ہر لحاظ سے الرسالہ کو مفید اورچشم کشا پایا ہے۔مدرسہ کے دیگر اساتذہ بھی الرسالہ سے برابر استفادہ کررہے ہیں۔ ادارے کے بہت سے نزاعی امور کو حل کرنے میں بھی الرسالہ نے ہمیں خالص عملی رہ نمائی دی اور کئی نازک مسائل نہایت احسن طریقے سے حل ہوگئے۔ تاہم ایک چیز جو مجھے آپ سے عرض کرنا ہے، وہ یہ کہ بسا اوقات آپ ایک انگریزی عبارت نقل کرتے ہیں، مگراس کا ترجمہ درج نہیں ہوتا۔ اِس سے پوری بات سمجھنے میں دشواری پیش آتی ہے۔ اگر آپ ہر انگریزی عبارت کا ترجمہ بھی تحریر فرمادیں تو ہم جیسے لوگوں کے لیے الرسالہ سے مزید استفادہ کرنا آسان ہوجائے گا (مولانا محمد شاہد قاسمی، ہریانہ)۔
جواب
ماہ نامہ الرسالہ میںانگریزی عبارتیں بھی ہوتی ہیں اور قرآن اورحدیث کے حوالے بھی۔ اکثر ان کا ترجمہ ساتھ ساتھ موجود رہتا ہے، مگر کبھی کبھی ایسا نہیں ہوتا۔ ایسا بھول کر نہیں ہوتا، بلکہ ایسا بالقصد کیا جاتا ہے۔ ایسا ایک مقصد کے تحت کیا جاتا ہے۔ الرسالہ کے قارئین کو چاہیے کہ وہ اِس مقصد کو سمجھیں اور اس سے فائدہ اٹھائیں۔
جیسا کہ عرض کیاگیا، الرسالہ ایک مشن ہے۔ مشن لازمی طورپر انٹریکشن (interaction) چاہتا ہے۔ بعض اوقات ترجمہ نہ دینے کا مقصد قارئین کے لیے انٹریکشن کے اِنھیں مواقع کو پیداکرنا ہے۔ مثلاً جب الرسالہ میںکوئی انگریزی لفظ یا انگریزی جملے ہوں اوران کا ترجمہ وہاں موجود نہ ہو، تو غیر انگریزی داں قاری کو چاہیے کہ وہ الرسالہ کو لے کر آس پا س کے کسی انگریزی داں آدمی سے ملے، اور اُس کے ذریعے سے انگریزی عبارت کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ اِس طرح، قارئین الرسالہ کی ملاقات دوسرے لوگوں سے ہوگی اورنتیجۃً ایسی ملاقات مشن کی توسیع کا ذریعہ بن جائے گی۔
اِسی طرح، جب کبھی الرسالہ میں قرآن اور حدیث کا کوئی حوالہ ہو اور وہاں اس کا ترجمہ موجود نہ ہو، تو غیر عربی داں قاری کو چاہیے کہ وہ الرسالہ کو لے کر قریب کے کسی عالم سے ملے۔ وہ اُس عالم کی مدد سے اس کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ اِس طرح یہ ہوگا کہ الرسالہ کے قارئین کا تعلق علما سے بڑھے گا اور اس کے نتیجے میں ان کو بہت سے دینی فوائد حاصل ہوں گے۔
الرسالہ کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد یہ ہے کہ اِس کے قارئین کا عمومی انٹریکشن بڑھے، جدید تعلیم یافتہ طبقے کے لوگوں کا تعلق علما سے قائم ہو، اور اِسی طرح، علما کاتعلق جدید تعلیم یافتہ طبقے کے لوگوں سے قائم ہو۔ اِس طرح، دونوں کے اجتماع سے دینی اور دعوتی فوائد کے علاوہ، ان کے لیے ذہنی ارتقا کا دروازہ کھلے اور وہ زیادہ بہتر طورپر الرسالہ کے دعوتی مشن کو آگے بڑھانے میں اپنا رول ادا کرسکیں۔
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز— 190

-1 15 اگست 2008 کی شام کو گڑگاؤں کی ایک کالونی (گرین وڈ کالونی) میں ایک صاحب کے مکان پر ایک تربیتی اجتماع ہوا۔ اِس اجتماع میں الرسالہ مشن سے وابستہ افراد شریک ہوئے۔ یہ پورا پروگرام نیچر کے ماحول میں ہوا۔ پروگرام کے آخر میں تمام شرکا سے فرداً فرداً اُن کا تاثر معلوم کیاگیا۔ انھوںنے اِس دن کے پروگرام سے سیکھی ہوئی ایک ایک نئی بات بتائی۔ آخر میں عصر کی نماز باجماعت ادا کی گئی اور دعا پر پروگرام کا اختتام ہوا۔
-2 16 اگست 2008 کی شام کو گڈورڈ (Goodword)اور سی پی ایس انٹرنیشنل (CPS International)کی طرف سے انڈیا انٹرنیشنل سنٹر (لودھی روڈ، نئی دہلی) میںایک پروگرام رکھاگیا۔ یہ پروگرام صدر اسلامی مرکز کے خطاب کے لیے منعقد کیاگیا تھا۔ اِس کا عنوان یہ تھا— روحانی شخصیت کی تعمیر:
How to develope a spiritual personality.
اِس عنوان کے تحت، صدر اسلامی نے ایک گھنٹہ تقریر کی اور روحانی شخصیت کی تعمیر کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ تقریر کے بعد آدھ گھنٹے سوال وجواب کا پروگرام ہوا۔ اِس پروگرام میں لوگ بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔ حاضرین میں ہندو اور مسلم دونوں طبقے کے لوگ موجود تھے، البتہ اعلیٰ تعلیم یافتہ سینئر ہندو افراد کی اکثریت تھی۔ حاضرین میں اٹلی اور لندن اور برطانیہ کے افراد بھی شریک تھے۔ پروگرام کے اختتام پر تمام لوگوں نے اپنے گہرے تاثرات کا اظہار کیا۔ حاضرین کے درمیان انگریزی میں چھپا ہوا خوب صورت بروشر اور پمفلٹ تقسیم کیا گیا۔ لوگوں نے اس کو بہت شوق سے لیا، اور اپنی دل چسپی کا اظہار کیا۔
-3 20 اگست 2008 کو سائی انٹرنیشنل سنٹر (لودھی روڈ، نئی دہلی) میں ایک پروگرام تھا۔ یہ پروگرام انڈیا کے مختلف نوودیہ ودیالیہ کے پرنسپل حضرات کے لیے کیاگیا تھا۔ اِس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اِس پروگرام میںشرکت کی اور حسب ذیل موضوع پر ایک تقریر کی — اسلام میں بنیادی انسانی اقدار:
Basic Human Values in Islam
تقریر کے بعد سوال وجواب کا پروگرام ہوا۔ پروگرام کے خاتمہ پر حاضرین کے درمیان اسلامی مرکز کے تحت چھپا ہوا خوب صورت انگریزی لٹریچر تقسیم کیاگیا۔ لوگوں نے اس کو بہت شوق سے لیا۔
-4 اٹلی کی ایک مسیحی تنظیم (Community of St. Egidio) کے تقریبا 20 ممبر ان دہلی آئے۔ ان کی درخواست پر انڈیا انٹرنیشنل سنٹر (نئی دہلی) کے کانفرنس روم نمبر 3 میں ایک خصوصی اجتماع کیاگیا۔ یہ پروگرام 23 اگست 2008 کی شام کو ہوا۔ اِس میں مذکورہ ممبران کے علاوہ، دہلی کے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد بھی شریک ہوئے۔ اِس کے تحت، صدر اسلامی مرکز نے ’’تعارفِ اسلام‘‘ کے موضوع پر ایک تقریر کی۔ تقریر کے بعد سوال وجواب کا پروگرام ہوا۔ پروگرام کے خاتمہ پر حاضرین کے درمیان انگریزی ترجمۂ قرآن اور اسلامی لٹریچر تقسیم کیاگیا۔
-5 نئی دہلی کے ہفت روزہ انگریزی میگزین (The Sunday Indian) کے نمائندہ مسٹر رنجیت بھوشن نے 25 اگست 2008 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ یہ انٹرویومسلم ایکسٹریم ازم (Muslim Extremism) کے موضوع پر تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ مسلم ایکسٹریم ازم دراصل موجودہ سیاسی حالات کا ایک ردّ عمل ہے۔ اِس میں شدت اِس لیے آئی کہ کچھ لوگوں نے اسلام کا پولٹکل انٹرپریٹیشن کرکے اس کو عقیدہ کا مسئلہ بنادیا۔ انھوںنے مسلمانوں کے اندر یہ ذہن پیدا کیا کہ اِس کے بغیر اُن کوجنت نہیں ملے گی۔ بتایا گیا کہ ہمارا مشن خاص طورپر یہی ہے کہ اِس ایکسٹریم ازم کو نظریاتی اعتبار سے ختم کیاجائے۔
-6 نئی دہلی کے ٹی وی پی ایس بی ٹی (PSBT) کے زیر اہتمام انڈیا ہیبی ٹیٹ سنٹر میں 16 ستمبر 2008 کی شام کو ایک پروگرام ہوا۔ اِس میں دہلی کے اعلی تعلیم یافتہ افراد شریک ہوئے ۔ اِس کا موضوع ’صوفی ازم‘ (Sufism) تھا۔ اس کی دعوت پر صد اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور آدھ گھنٹے کی ایک تقریر کی۔ تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ صوفی ازم کے دو خاص پہلو ہیں جو آج بھی بہت اہمیت رکھتے ہیں— اسپریچویلٹی (spirituality)اور پیس(peace)۔ اسپریچویلٹی کا تعلق فرد سے ہے، اور پیس کا تعلق سماج سے۔
-7 نئی دہلی کے ڈی ڈی نیوز(DD News) ٹی وی نے 16 ستمبر 2008 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک ویڈیو ریکارڈ کیا۔ انٹرویور مسٹر ونود کمار چودھری تھے۔ اس تفصیلی انٹرویو کا موضوع تھا— رمضان کا پیغام، اور تشدد کے بارے میں اسلام کی تعلیم۔ اِن دونوں موضوعات پر قرآن اور حدیث کی روشنی میں تفصیل کے ساتھ اظہار خیال کیا گیا۔
-8 ماہ نامہ الرسالہ کا شمارہ اکتوبر 2008 صومِ رمضان کے موضوع پرشائع ہوا ہے۔ اِس شمارے سے رمضان کے مختلف پہلوؤں پر چار بروشر بنائے گئے— روزہ کی حقیقت، روزہ اور قرآن ، روزہ اور اخلاق، عید الفطر اور رمضان۔ اردو زبان میں چھپے ہوئے یہ خوب صورت بروشر رمضان کے مہینے میں بڑی تعداد میںمختلف مساجد میں تقسیم کیے گئے۔ لوگوں نے اس کو بہت شوق سے لیا۔
-9 ایک خط : محترم مولانا وحید الدین خاں صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ
میں پہلے دن سے الرسالہ پڑھتا ہوں۔ اللہ کے فضل سے، الرسالہ کا مقصد بخوبی طورپر جانتا ہوں۔ میری زندگی میں اِس کے کئی واقعات ہیں۔ اُس میں سے ایک واقعہ جو حال میں پیش آیا، وہ آپ کو لکھ رہا ہوں۔ میری تھوڑی سی کھیتی ہے۔ آپ بھی 1975 میں وہاں آچکے ہیں۔ میری اِسی کھیتی میں ایک آدمی کئی دن سے چھپ چھپ کر اپنا جانور چَرا رہا تھا۔ ایک دن اتفاق سے میں وہاں پہنچ گیا۔ یہ منظر دیکھ کر مجھے بہت غصہ آیا۔ میں غصے سے بے قابو ہوگیا۔ میں نے اُس آدمی کو برا بھلا کہنا شروع کردیا۔ اس کے ہاتھ میںایک ریڈیو تھا۔ وہ میں نے اُس کے ہاتھ سے چھین لیا اوروہاں سے اُس کو بھگا دیا۔کچھ دیر کے بعد جب میرا غصہ ٹھنڈا ہوا تو میرے دل نے کہا کہ تم نے یہ غلط کام کیا ہے۔ اب میرے سامنے وہ آدمی نہیں رہا، بلکہ خدا میرے سامنے آگیا۔ میں سوچنے لگا کہ میں تقریباً تیس سال سے الرسالہ پڑھ رہا ہوں۔ میں قرآن کو پڑھتا ہوں۔ مجھ میں اور اُس گنوار آدمی میں کیا فرق رہا۔ یہ سوچ کر میں بے چین ہوگیا۔ میںاُس آدمی کے گھر گیا۔ میںنے اُس سے معافی مانگی اور اس کا ریڈیو اس کو واپس کردیا—یہ سب الرسالہ کی مثبت تربیت کا نتیجہ تھا کہ میں نے بلا جھجھک اُس آدمی سے معافی مانگ لی اور خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا (کشن جے ونت راؤ پاٹل، مکھیڑ، مہاراشٹر، یکم ستمبر 2008)۔
10- My heartfelt appreciation of Maulana Wahiduddin Khan’s excellent analysis of “Modern Atheism” (Al-Risala, August 2008, Page 23). In many years this is the first Urdu article on a complex subject that has provided our Urdu readers with a to-the-point analysis of the trends that are confusing Man’s intellectual horizons. Maulana Wahiduddin Saheb has covered in less than three pages the entire history of intellectual journey of different philosophical theories which in a stand alone position appeared to be an enormous truth, but in their own self analysis did not provide any logical compelling reason for that “Cause”. I will pray for the health, and longevity of Maulana Saheb. May Allah enhance his darajat and bless him with the sense of His ‘eternal knowledge’. Ameen. If you permit me, I would then give it to a respectable Urdu newspaper. The English translation would also be very helpful to that young generation of Muslim Americans that does not know Urdu. (Syed Wahajuddin Ahmed, Chicago, July 21, 2008)
11 - دہلی میں الرسالہ مشن کے بعض ساتھیوں نے دعوت کا ایک نیا تجربہ کیا۔ وہ اپنے علاقے کے قریبی بینک، میڈیکل اسٹور اور اے ٹی ایم (ATM) کے ذمے داروں سے ملے۔ انھوںنے ذمے داروں کو ہمارے یہاں سے چھپا ہوا لٹریچر پیش کیا اور کہا کہ سر، اگر آپ اجازت دیں تو ہم ’’پیس اور اسپریچولٹی‘‘ پر مشتمل یہ لٹریچر آپ کے یہاں رکھ دیں، تاکہ دوسرے لوگ بھی اس سے فائدہ اٹھائیں۔ انھوں نے بہت خوشی سے اجازت دے دی۔ اب ہمارے ساتھیوں نے یہ کیا کہ مارکیٹ سے انھوں نے ایک خوب صورت ٹرانس پیرنٹ اسٹینڈ حاصل کیا اور اس میں بروشر اور لیفلٹس رکھ کر اُن جگہوں پر پہنچا دیا۔ یہ تجربہ بہت کامیاب ثابت ہوا۔ معلوم ہوا کہ صبح کو جو لٹریچر رکھاگیا تھا، وہ شام تک ختم ہوگیا۔ ہمارے دوسرے ساتھیوں کو چاہیے کہ وہ اِس دعوتی تجربے سے فائدہ اٹھائیں اور زیادہ سے زیادہ لوگوں تک خدا کا پیغام پہنچانے کی کوشش کریں۔ البتہ جو لوگ اِس کا م کو شروع کریں، ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ کامل ذمے داری اور ڈسپلن کے ساتھ اِس کو انجام دیںاور ان مقامات کی مسلسل نگرانی کریں۔ مثلاً لٹریچر ختم ہوجانے کی صورت میں وہ اپنی ذمے داری پر دوبارہ وہاں لٹریچر پہنچائیں۔
واپس اوپر جائیں

Sunday 2 November 2008

Al Risala | November 2008 (الرسالہ،نومبر)

2

-کتابِ مہجور

3

- آنے والا کل

4

- ایمان، ایمان پلَس

5

- ذکر ایک تفکیری عمل

6

- ڈر والے اور بے ڈر والے

7

- اشجارِ ممنوعہ کا جنگل

8

- خدائی قانون

9

- اِقرا کلچر

10

- ربانیت، رہبانیت

11

- متشابہ دنیا

12

- توبۂ نصوح

13

- عمومی بگاڑ کا دور

14

- اکرام یا تکلف

15

- سچا عمل، سچی دعا

16

- معرفتِ اعلیٰ

17

- بے ادبی کا تصور

18

- موت ایک یاد دہانی

20

- انسان اور شیطان

21

- جنت کی قیمت

22

- شادابی لوٹ آ ئی

23

- انعام، یا آزمائش

24

- دین یا کلچر

25

- فخر اور شکر

26

- بے نتیجہ بھیڑ

28

- کشمیر کا خواب

29

- مقامِ نزاع سے پیچھے ہٹنا

30

- ردّ ِعمل اسلام میں نہیں

31

- نفرت کا بم

32

- منفی تأثر، مثبت تأثر

33

- دولت کافی نہیں

34

- مادّی ترقی، روحانی موت

35

- شخصیت کی تعمیر

36

- حقیقت پسندانہ عمل، یا چھلانگ

37

- زیادہ ذہین، زیادہ دُور

38

- ماضی میں جینا

39

- سوال وجواب

46

- خبرنامہ اسلامی مرکز


کتابِ مہجور

قرآن کی سورہ نمبر 25 میں قیامت کا ایک منظر بیان ہوا ہے۔ قرآن کے اِس حصے کا ترجمہ یہ ہے: ’’اور جس دن آسمان بادل سے پھٹ جائے گا، اور فرشتے لگاتار اتارے جائیں گے۔ اُس دن حقیقی بادشاہی صرف رحمان کی ہوگی، اور وہ دن منکروں پر بڑا سخت ہوگا۔ اور جس دن ظالم اپنے ہاتھوں کو کاٹے گا، وہ کہے گا— کاش، میں نے رسول کی معیت میں راہ اختیار کی ہوتی۔ ہائے میری شامت، کاش، میں فلاں شخص کو اپنا دوست نہ بناتا۔ اُس نے مجھ کو نصیحت سے بھٹکا دیا، بعد اِس کے کہ وہ میرے پاس آچکی تھی، اور شیطان ہے ہی انسان کو دغا دینے والا۔ اور رسول کہے گا کہ — اے میرے رب، میری قوم نے اِس قرآن کو مہجور کتاب بنا دیا( الفرقان: 25-30 )۔
اِس آیت میں مہجور سے مراد متروک ہے، یعنی قرآن کو ماننے کے باوجود اُس کو ایک متروک کتاب (discarded book) بنا دینا۔ قرآن کے الفاظ پر غور کیجئے، تو اِس میں دوگروہوں کا ذکر ہے— قومِ کفر، اور قومِ رسول۔ قومِ کفر سے مراد وہ لوگ ہیں جنھوںنے پیغمبر کی دعوت نہیں مانی اور آخروقت تک انکار کی روش پر قائم رہے۔ قومِ رسول سے مراد وہ لوگ ہیں جنھوں نے پیغمبر کی دعوت کو قبول کیا، مگر ان کے بعد کی نسلیں اُس پر قائم نہ رہ سکیں۔
قیامت میں پیغمبر دونوں گروہوں کے بارے میں خدا کی عدالت میں اپنا بیان دے گا۔ ایک گروہ کے بارے میں پیغمبر اپنا بیان دیتے ہوئے کہے گا کہ انھوں نے میری دعوت کو نہیں مانا، وہ اہلِ انکار کے گروہ میں شامل ہوگئے۔ اِسی کے ساتھ اُن میں ایسے لوگ بھی تھے جنھوں نے میری دعوت کو قبول کیا اور اِس طرح وہ اہلِ اقرار کے گروہ میں شامل ہوگئے۔ لیکن ان کی بعد کی نسلیں اِس ایمانی روش پر قائم نہ رہیں۔ بظاہر وہ خدا کی کتاب کو مانتے تھے، لیکن عملاً وہ خدا کی کتاب سے بہت دور چلے گئے —جولوگ زبان سے قرآن کو مانیں، مگر عملی طورپر وہ اس کو ترک کیے ہوئے ہوں، وہی وہ لوگ ہیں جنھوںنے قرآن کو کتابِ مہجور بنادیا۔
واپس اوپر جائیں

آنے والا کل

قرآن کی سورہ نمبر 75 کی ایک آیت یہ ہے: کلّا بل تحبّون العاجلۃ، وتذرون الآخرۃ (القیامۃ: 20-21) یعنی ہرگز نہیں، بلکہ اصل یہ ہے کہ تم عاجلہ سے محبت کرتے ہو، اور تم آخرت کو نظر انداز کیے ہوئے ہو:
Nay, but you love the present life, and neglect the hereafter.
کوئی انسان جب پیدا ہو کر اس دنیا میں آتا ہے، تو وہ دیکھتا ہے کہ اِس دنیا میں ہر طرف اس کے لیے مختلف قسم کے مواقع (opportunities) موجود ہیں۔ وہ اِن مواقع کو استعمال کرنے کے لیے اُن کے اوپر ٹوٹ پڑتا ہے، ٹھیک اُسی طرح جیسے کوئی جانور ہری گھاس کو دیکھ کر اس کے اوپر ٹوٹ پڑتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اِن مواقع کے ذریعے وہ اپنے لیے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرلے۔
یہ سب سے بڑی بھول ہے، جس میں ہر انسان مبتلا ہے۔ موجودہ دنیا کے مواقع اِس لیے نہیں ہیں کہ اُن کے ذریعے صرف وقتی قسم کے دنیوی فائدے حاصل کیے جائیں، بلکہ یہ مواقع اِس لیے ہیں، تاکہ انسان اُن کی مدد سے وہ اعلیٰ کام کرے، جو آخرت میںاُس کے لیے مفید بننے والا ہو۔ مثلاً کسی کے پاس مال ہے تو وہ اِس لیے نہیں ہے کہ وہ اُس کے ذریعے اپنی خواہشوں کو پورا کرے۔ وہ سماج کے اندر اپنے اسٹیٹس (status) کو زیادہ سے زیادہ بڑھائے۔ وہ اعلیٰ معیار کے مطابق اپنی زندگی گزارے۔ بلکہ مال کا صحیح مصرف یہ ہے کہ — بقدر ضرورت وہ اس کو اپنے پاس رکھے، اور بقیہ مال کو وہ خدا کی راہ میں خرچ کرے۔ مثلاً دعوت الی اللہ کا کام۔
موجودہ دنیا عارضی ہے، اور بعد کو آنے والی دنیا ابدی۔ مگر عجیب بات ہے کہ آدمی اپنا سب کچھ عارضی دنیا کی ترقی اور خوش حالی میں لگا دیتا ہے، لیکن آخرت کی ابدی زندگی کے معاملے کو وہ اِس طرح چھوڑے ہوئے ہوتا ہے، جیسے کہ وہ کبھی پیش آنے والا ہی نہیں۔دانش مند وہ ہے جو آخرت کی فکر میں جیے، اور نادان وہ ہے جو آخرت کی فکر سے غافل ہوجائے۔
واپس اوپر جائیں

ایمان، ایمان پلَس

قرآن کی سورہ نمبر 4 میں کہاگیا ہے: یٓأیہا الذین آمنوا، آمنوا (النساء: 136 ) یعنی اے ایمان والو، ایمان لاؤ۔ ایمان کے بعد ایمان کیا ہے۔ اِس کا جواب خود قرآن کی اِس آیت میں موجود ہے: قالتِ الأعراب آمنّا، قُل لم تؤمنوا ولٰکن قوُلوا أسلمنا، ولمّا یدخل الإیمانُ فی قلوبکم (الحجرات: 14) یعنی اَعراب نے کہا کہ ہم ایمان لائے۔ اُن کو بتادو کہ تم ایمان نہیں لائے، بلکہ یہ کہو کہ ہم اسلام لائے، اور ابھی تک ایمان تمھارے دلوں کے اندر داخل نہیںہوا۔
دونوں آیتوں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان کے بعد ایمان کا مطلب یہ ہے کہ ایمان باللّسان کے بعد اپنے ایمان کو داخلُ القلب ایمان بناؤ، وہ ایمان جو تمھاری پوری شخصیت میں شامل ہوجائے، جس طرح رنگ پانی کے اندر پوری طرح شامل ہوجاتاہے (البقرۃ:138 ) اِس بات کو دوسرے الفاظ میں، اِس طرح کہاجاسکتا ہے کہ اپنے ایمان کو ایمان پلس (ایمان مزید) بناؤ، سادہ ایمان کو ایمانِ معرفت کے درجے تک پہنچاؤ۔ اِسی حقیقت کو قرآن میں اِزدیادِ ایمان (الفتح: 4 ) کہا گیا ہے۔ یعنی اپنے ایمان پر مزید ایمان کا اضافہ کرو۔اِس ایمانِ مزید کے حصول کے دو ذریعے ہیں— آیاتِ وحی، اور آیاتِ کائنات۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک سچے انسان کے لیے، آیاتِ وحی میں تدبر کرنا، معرفتِ حق (المائدۃ:83 ) کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اِسی طرح، قرآن کے مطابق، آیاتِ کائنات میں غور وفکر کرنے سے تبیینِ حق (حٰمٓ السجدۃ: 53 ) کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔
قرآن اور حدیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان، یا معرفتِ حق کے دو درجے ہیں— ابتدائی معرفت، اور اعلیٰ معرفت۔ اِسی اعتبار سے، جنت کے بھی دو بڑے درجے ہیں (الرحمن: 62)۔ اعلیٰ معرفت والوں کے لیے قرآن میں ’السابقون الأوّلون‘ (الواقعۃ:10 ) کا لفظ آیا ہے، اور ابتدائی معرفت والوں کے لیے ’أصحاب الیمین‘ (الواقعۃ:27 ) کا لفظ۔ معرفتِ حق کے یہی دو درجے ہیں، اِس کے سوا معرفت کا کوئی اور درجہ نہیں۔
واپس اوپر جائیں

ذکر ایک تفکیری عمل

قرآن میںامر کی زبان میں جو احکام دیے گئے ہیں، اُن میں سے ایک حکم وہ ہے جس کے لیے ذکر ِ کثیر کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ حکم قرآن کی مختلف آیتوں میں ہے۔ اُن میں سے ایک آیت یہ ہے: یٰأیّہا الذین آمنوا اذکروا اللہ ذِکراً کثیراً (الأحزاب:41 ) یعنی اے ایمان والو، خدا کا بہت زیادہ ذکر کرو۔
ذکر کے لفظی معنیٰ ہیں— یاد کرنا(to remember) ۔ یاد ایک معنوی حقیقت ہے، نہ کہ صرف ایک لفظی حقیقت۔ یہ ایک واقعہ ہے کہ انسان جب کسی کو یاد کرتا ہے تو وہ اس کو الفاظ کے وسیلے سے یاد کرتاہے۔ مثلاً جب زید کو یاد کرنا ہو تو پہلے آدمی کے ذہن میں زید کا لفظ آئے گا۔ مگر یاد کے معاملے میں لفظ کی حیثیت صرف اضافی (relative) ہے، نہ کہ حقیقی (real) ۔ اِسی طرح، جب آپ زید کو یاد کریں تو آپ کے ذہن میںایک انسان کا تصور آئے گا۔ اور جب آپ خداوند ِ ذوالجلال کو یادکریں تو فطری طورپر آپ کے ذہن میں اُس عظیم ہستی کا تصور آئے گا جو سارے زمین وآسمان کا خالق اور مالک ہے، جس کے آلاء (الأعراف:74 ) اتنے زیادہ ہیں جن کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا۔ اِس طرح، ذکر میں اپنے آپ تفکر اور تدبر اور تعقل کا مفہوم شامل ہو جاتا ہے۔
حدیث کی مختلف کتابوں میںحضرت عائشہ کی یہ روایت آئی ہے کہ: کان رسول اللّہ صلی اللّہ علیہ وسلم یذکر اللہَ علیٰ کل أحیانہ (صحیح البخاری، کتاب الأذان، باب: ہل یَتَتبّعُ المؤذّن) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر موقع (occasion) پر اللہ کو یاد کرتے تھے۔ اِس روایت کے مطابق، ذکر ِکثیر یہ ہے کہ ہر تجربہ اور مشاہدہ آدمی کے اندر خدا کی سوچ پیدا کردے، اس کے اندر خدا رخی سوچ (God-oriented thinking) پیدا ہوجائے۔ پورا عالمِ کون (nature) اس کے لیے خدا کی یاد دلانے والا بن جائے۔یہ ذکر ِ کثیر کسی قسم کے تکرارِ الفاظ کا نام نہیں۔ ذکر ِکثیر کا فطری طریقہ یہ ہے کہ آدمی اپنے ذہن کو اتنا زیادہ بیدار کرے کہ زندگی کے مختلف حالات کے درمیان وہ ہر چیز میں خدا کی یاد کا تجربہ کرنے لگے، ہر چیز اس کے لیے یادِ الٰہی کا ذریعہ بن جائے۔
واپس اوپر جائیں

ڈر والے اور بے ڈر والے

قرآن کی سورہ نمبر 84 میں بتایا گیا ہے کہ قیامت میںجن لوگوں کو اُن کے عملِ صالح کی بنیاد پر جنت میں داخلہ ملے گا، ان کا اعمال نامہ ان کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا۔ وہ اس کو پاکر خدا کا شکر ادا کریں گے اور خوشی خوشی اپنے اہل وعیال کی طرف لوٹیں گے( الإنشقاق: 9-7 )۔ یہ وہ لوگ ہیں جو قرآن کے مطابق، اپنے گھر والوں کے درمیان خدا سے ڈر کر رہتے تھے (الطّور: 26 )۔
جو شخص دنیا میں خدا کی پکڑ سے ڈرا، آخرت میں وہ ڈر والی زندگی سے محفوظ رہے گا اور اپنے صالح اہل و عیال کے ساتھ جنت کی بے خوف زندگی گزارے گا۔ اِس کے برعکس حال اُن لوگوں کا ہوگا جو دنیا میں خدا سے بے خوف تھے اور آخرت کی پکڑ سے بے پروا ہو کر اپنے اہل وعیال کے درمیان مگن رہتے تھے (المطففین: 31 )۔ جن لوگوں کا دنیا میں یہ حال تھا، ان کو ان کا اعمال نامہ ان کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔ خدا کے فرشتے ان کو پکڑ کر جہنم میں ڈال دیں گے، جہاں انھیں دوبارہ خوشی حاصل نہ ہوگی۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ ایک شخص اگر دنیا میں صالح زندگی اختیار کرے اور اپنے آپ کو جنت کے اعلیٰ درجے کا مستحق بنائے، تو اس کی صالح ذریت کو اَپ گریڈ (upgrade) کرکے یک جا طور پر جنت کے اعلیٰ درجات میں داخل کردیا جائے گا (الطّور: 21 )۔
دنیا میں زندگی گزارنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک، یہ کہ اپنے گھر والوں کے درمیان آخرت کا فکر مند بن کر رہنا۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کو آخرت میںجنت کی بے خوف دنیا میں داخلے کا موقع ملے گا۔ اِس کے برعکس، جو لوگ اپنے گھر والوں کے درمیان اِس طرح رہیںکہ ان کو آخرت کی کوئی پروا نہ ہو، وہ خدا کی پکڑ سے بے خوف ہوکر اپنے گھر والوں کے درمیان خوش و خرم زندگی گزاریں، وہ آخرت کی دنیا میں دوبارہ خوشیوں کی زندگی سے محروم رہیں گے— جو شخص دنیا میں ڈرا، اس کو آخرت میںدوبارہ ڈرایا نہیں جائے گا۔
واپس اوپر جائیں

اشجارِ ممنوعہ کا جنگل

خدا نے جب انسانِ اوّل آدم کو پیدا کیا تو اُن کو ابتداء ً ایک جنت (باغ) میں بسایا گیا۔ اُن سے کہا گیا کہ یہاںتم آزادی کے ساتھ رہو، لیکن تم فلاں درخت کے پاس نہ جانا اور اس کا پھل نہ کھانا (البقرۃ: 35)۔ یہ آدم کی ابتدائی قیام گاہ کا شجر ِ ممنوعہ تھا، مگر قرآن کے بیان کے مطابق، آدم صبر نہ کرسکے اور انھوں نے ممنوعہ درخت کا پھل کھا لیا (طٰہٰ: 121)۔ اِس کے نتیجے میں وہ جنت سے نکال کر موجودہ زمین پر بھیج دیے گئے۔
تاہم جہاں تک آزمائش کا تعلق ہے، وہ بدستور باقی ہے، البتہ دونوں میں یہ فرق ہے کہ ابتدائی جنت میں ایک شجرِ ممنوعہ تھا، جب کہ موجودہ زمین پر اشجارِ ممنوعہ کا ایک جنگل اگا ہوا ہے۔ جنت کی طرف انسان کی دوبارہ واپسی اِسی شرط پر ہوگی کہ وہ ممنوعہ درخت کا پھیل نہ کھائے۔ انسان کو اِس شرط پر پورا اترنے کے لیے بہت زیادہ محتاط (cautious) بننا ضروری ہے۔ کیوں کہ پہلے اگر ایک درخت سے دور رہنا تھا، تو اب درختوں کے جنگل سے دور رہنا اس کے لیے ضروری ہے۔
موجودہ دنیا میں انسان کو جن حرام چیزوں سے بچنا ہے، ان کی ایک فہرست وہ ہے جو باقاعدہ نام کے ساتھ قرآن اور حدیث میں دے دی گئی ہے۔ لیکن موجودہ زمانے میں ایسی چیزوں کی فہرست بہت لمبی ہوگئی ہے جو انسان کو بھٹکانے والی اور اس کو صراطِ مستقیم سے دور کردینے والی ہیں۔
اِن ممنوعہ چیزوں کی کوئی کامل فہرست نہیں دی جاسکتی۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ نہایت ہوش مندی کے ساتھ دنیا میں رہے اور جب بھی اس کے سامنے کوئی ایسی چیز آئے جو اس کے لیے صراطِ مستقیم سے انحراف (distraction) کا ذریعہ بننے والی ہو، تو وہ اس کو پہچان لے اور اس سے کامل طورپر دور رہے۔
اِس دنیا میں ہر وہ چیز شجر ِممنوعہ کی حیثیت رکھتی ہے جو آدمی کو خدا کی یاد سے ہٹائے اور آخرت کی پکڑ سے اس کو غافل کردے۔ جو آدمی اپنا محاسب آپ بنے، وہی اِن اشجارِ ممنوعہ سے بچ سکتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

خدائی قانون

قرآن کی سورہ نمبر 17 میںایک خدائی قانون کا ذکر ہے۔ قرآن کی اِس آیت کا ترجمہ یہ ہے: ’’اور جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں تو اُس کے خوش حال لوگوں کو حکم دیتے ہیں، پھر وہ اُس بستی میں نافرمانی کرتے ہیں۔ تب اُن پر بات ثابت ہوجاتی ہے، پھر ہم اُس بستی کو تباہ و برباد کردیتے ہیں‘‘ (الإسراء: 16 )۔
قرآن کی اِس آیت میں ’فسق‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ فسق کے لفظی معنیٰ— انحراف (deviation) کے ہیں، یعنی فطرت کے مقرر راستے سے ہٹ جانا۔ اِس آیت میں بتایا گیا ہے کہ انسان کے اوپر خدا کا عذاب کب آتا ہے۔ اُس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ سماج کے خوش حال افراد بے خوفی کا شکار ہو کر، خدا کے مقرر راستے سے ہٹ جاتے ہیں، وہ خدا کے نافرمان بن جاتے ہیں۔ اِس انحراف کا آغاز سماج کے خوش حال طبقے سے ہوتاہے۔ اس کے بعد وہ عام لوگوں تک پھیل جاتا ہے۔ جب ایسا ہوتا ہے تو وہ انسانی گروہ اِس بات کا جواز (justification)کھو دیتا ہے کہ اُس کو اِس زمین پر مزیدزندگی گزارنے کا موقع دیا جائے۔ چناں چہ پیغمبروں کی طرف سے اتمامِ حجت کے بعد اُس کو تباہ کردیا جاتا ہے۔
یہ اصول موجودہ زمانے میں زیادہ بڑے پیمانے پر قابلِ انطباق ہوگیاہے۔ موجودہ زمانے میں انسان کے انحراف نے ایک مکمل تہذیب کا درجہ اختیار کرلیا ہے۔ اب انسان نے اپنے منحرفانہ طرزِحیات کے لیے پورا ایک فلسفہ وضع کرلیا ہے۔ اِس طرح، انسان کا فسق اب اپنے آخری اور عالمی درجے تک پہنچ چکا ہے۔بظاہراب انسان نے اپنا یہ حق کھو دیا ہے کہ وہ موجودہ زمین پر مزید عرصے کے لیے باقی رہے۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پہلے جو تدمیر (destruction)علاقائی سطح پر ہوتی تھی، اب وہ عالمی سطح پر ہونے والی ہے، یعنی وہی وقت جس کو قرآن میں قیامت کہا گیا ہے۔ قیامت کا مطلب ہے— امتحانی دورِ حیات کا خاتمہ اور اُس دوسرے دورِ حیات کا آغاز جب کہ ہر عورت اور مرد کو اس کے عمل کے مطابق، سزا یا انعام دیا جائے۔
واپس اوپر جائیں

اِقرا کلچر

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی 610 عیسوی میں اتری۔ اُس کے الفاظ یہ تھے: إقرأ باسم ربّک الّذی خلق (العلق: 1 ) اقرأکے لفظی معنٰی ہیں— پڑھو، لیکن اِس میں پڑھاؤ کا مفہوم بھی شامل ہے۔ کیوں کہ جب آدمی سچائی کو دریافت کرتا ہے تو فطری طورپر وہ چاہتا ہے کہ اِس سچائی سے وہ دوسروں کو بھی آگاہ کرے۔ اِس اعتبار سے، اِس آیت کا مطلب ہے— پڑھو اور پڑھاؤ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی طریقہ تھا۔ آپ، لوگوں کو اسلام کی دعوت پیش کرتے اور ان کے سامنے قرآن پڑھ کر سناتے (فعرضَ علیہم الإسلام، وقرأ علیہم القرآن)۔ گویا کہ آپ قرآن کے قاری بھی تھے اور اُس کے مقری بھی۔ ہجرت سے پہلے، صحابی ٔ رسول مصعب بن زبیر (وفات: 690 ء) دعوتی مشن کے تحت، مدینہ گئے۔ وہاں اُن کا طریقہ یہ تھا کہ وہ قرآن کو یاد رکھتے اور اُس کو پڑھ کر لوگوں کو سناتے۔ چناںچہ وہ مقری کہے جانے لگے (وکان یُدعیٰ المُقرئ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب بیک وقت قاری بھی تھے اور مقری بھی۔
اب پرنٹنگ پریس کا زمانہ آگیا ہے۔ اب یہی کام ہم کو مطبوعہ دعوتی لٹریچر کے ذریعہ کرنا ہے، ایسا دعوتی لٹریچر جو وقت کی زبان میں ہو، جو جدید ذہن کو ایڈریس کرے۔ اِس قسم کا لٹریچر، بروشر اور پمفلٹ، موجودہ زمانے میں دعوت کا سب سے زیادہ موثر ذریعہ ہے۔ ہر مسلمان کا یہ دعوتی فرض ہے کہ اُس کی جیب میں، یا اس کے بیگ میں اِس قسم کا خوب صورت چھپا ہوا لٹریچر موجودہو اور جب اُس کو کوئی شخص ملے، تو وہ فوراً اُس کواس لٹریچر کی ایک کاپی پیش کردے۔ یہ کام ہر مسلم عورت اور ہر مسلم مرد کو کرنا ہے، اور ساری دنیا میں کرنا ہے۔
دعوتی فریضے کی ادائیگی کی یہ کم سے کم صورت ہے۔ مسلمان، ختمِ نبوت کے بعد مقامِ نبوت پر ہیں۔ اگر وہ دعوت الی اللہ کا پیغمبرانہ فریضہ ادا نہ کریں، تو دوسری کوئی بھی چیز اُن کو خدا کی پکڑ سے بچانے والی نہیں۔
واپس اوپر جائیں

ربانیت، رہبانیت

قرآن کی سورہ نمبر 57 میں بتایا گیا ہے کہ مسیحی لوگوں نے بعد کے زمانے میں رہبانیت کا طریقہ اختیار کرلیا، جس کی تعلیم ان کو پیغمبر کے ذریعے نہیں دی گئی تھی (الحدید: 27 )۔
رہبانیت (monasticism) کیا ہے۔ رہبانیت دراصل، خدا کی طلب میں دنیا کو چھوڑنے کا نام ہے۔ اِسی لیے ایسے افراد کو تارک الدنیا کہا جاتا ہے۔ رہبانیت کا فلسفہ یہ ہے کہ ترکِ دنیا سے خدا کی قربت حاصل ہوتی ہے۔اِسی ذہن کے تحت لوگوں نے وہ طریقے ایجاد کیے جن کو تجرد اور میڈی ٹیشن اور مراقبہ، وغیرہ کہا جاتا ہے۔ اِسی ذہن کی انتہا پسندانہ صورت یہ ہے کہ آدمی انسانی آبادیوں کو چھوڑ کر جنگلوں اور پہاڑوں میں چلاجائے اور وہاں وہ روحانی ورزشوں کے ذریعے خدا کی قربت تلاش کرے۔ اِسی کے اثر سے، مسلمانوں کے اندر تصوف یا صوفی ازم کا نظریہ پیدا ہوا۔
اسلام میں اِس قسم کی رہبانیت نہیں (لارَہبانیّۃَ فی الإسلام۔مسند احمد، جلد 6، صفحہ 226)۔ اسلام کی رہبانیت فکری رہبانیت ہے، نہ کہ جسمانی یا مقامی رہبانیت، یعنی ذکر و فکر کی سطح پر خدا سے تعلق قائم کرنا، دنیا میں رہتے ہوئے دنیا سے بے رغبت ہو کر زندگی گزارنا۔ اِسی کو قرآن میں ربانیت (آلِ عمران: 79) کہاگیا ہے، یعنی خدا رخی سوچ (God-oriented thinking) کے ساتھ دنیا میں زندگی گزارنا۔
قرآن کے مطابق، موجودہ دنیا کی زندگی امتحان کی زندگی ہے (الملک: 2 )۔ یہاں ملنا بھی آزمائش ہے اور نہ ملنا بھی آزمائش۔ اسلامی رہبانیت یہ ہے کہ آدمی کی سوچ اتنی بلند ہوجائے کہ وہ دونوں حالتوں پر یکساں طورپر راضی رہے، وہ منفی تجربات کو بھی مثبت تجربے میں تبدیل کرسکے، وہ دنیا میں رہتے ہوئے مکمل طورپر آخرت کا طالب بن جائے، وہ انسانوں کے درمیان اِس طرح رہے کہ ہر چیز اُس کو خدا کی یاد دلانے والی بنی ہوئی ہو۔ ایسے افراد کو قرآن میں النفس المطمئنۃ (الفجر:27 ) کہاگیا ہے، اوریہی وہ نفوس ہیں جن کو آخرت کی دنیا میں خدا کا پڑوس ملے گا۔ وہ جنت کے باغوں میں داخل کیے جائیں گے، جہاں وہ ہمیشہ راحتوں اورخوشیوں کی زندگی گزاریں گے۔
واپس اوپر جائیں

متشابہ دنیا

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اہلِ جنت کو جب جنت میں داخل کیا جائے گا اور ان کو وہاں کا رزق دیا جائے گا تو اُس کو پاکر وہ کہیں گے کہ—یہ تو وہی ہے جو ہم کو اِس سے پہلے دنیا میں دیا گیا تھا۔ اور اُن کو جنت میں متشابہ رزق دیا جائے گا (البقرۃ: 25 )۔
اصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دو دنیائیں ایک دوسرے کے مشابہ پیدا کیں۔ ایک موجودہ دنیا، اوردوسری جنت والی دنیا۔ موجودہ دنیا امتحان (test) کے لیے ہے اور اگلی دنیا انجام (reward) کے لیے۔ موجودہ دنیا ناقص ہے اور آخرت کی دنیا کامل۔ یہ غیر معیاری ہے اور وہ معیاری۔ یہ ناپائدار ہے اور وہ پائدار۔ قرآن کے الفاظ میں، یہاں خوف اور حزن ہے اور دوسری دنیا خوف اور حزن سے مکمل طورپر خالی ہے۔
موجودہ دنیا میں آدمی کو بار بار یہ تجربہ ہوتا ہے کہ جو کچھ وہ چاہتا ہے وہ بظاہر یہاں موجود ہے، اِس کے باوجود وہ آدمی کے لیے قابلِ حصول نہیں۔ آدمی صحت چاہتا ہے، مگر بیماری، حادثہ اور بڑھاپا اُس کی تمناؤں کی نفی کردیتے ہیں۔ آدمی لذت چاہتا ہے، مگر ہزار کوشش کے بعد جب وہ سامانِ لذت کو حاصل کرلیتا ہے تو اس پر کھُلتا ہے کہ وہ اُس سے انجوائے نہیں کرسکتا۔ آدمی خوشیوں سے بھری ہوئی زندگی چاہتا ہے، مگر خوشیوں کے باغ میں داخل ہو کر وہ دریافت کرتا ہے کہ یہاں خوشیوں کا باغ طرح طرح کے کانٹوں سے بھرا ہوا ہے۔
ایسا اس لیے ہے کہ آدمی کو یہاں جنت کاتعارف صرف دور سے دیا جاتا ہے۔ یہاں آدمی کو جنت کی ایک جھلک تو دکھائی جاتی ہے مگر اسی کے ساتھ اس کو یہ بتایاجاتا ہے کہ جنت تمھیںاس دنیا میں نہیں مل سکتی۔ تمھارے لیے مقدر ہے کہ یہاں تم جنت کے لیے کوشش کرو اور اگلے مرحلۂ حیات میں جنت کو عملاً حاصل کرو۔ موجودہ دنیا میں آدمی سے عمل مطلوب ہے۔ اسی کے ساتھ ابتدائی جھلک کی صورت میں اُس کو دکھا دیا جاتا ہے کہ اگر تم عمل میں پورے اترے تو وہ کون سی دنیا ہے جہاں تمھیں اس کے نتیجے میں داخلہ دیا جائے گا، موجودہ دنیا تعارفِ جنت کا مقام ہے اور اگلی دنیا حصولِ جنت کا مقام۔
واپس اوپر جائیں

توبۂ نصوح

قرآن کی سورہ نمبر 66 میں بتایا گیا ہے کہ توبۂ نَصوح کیا ہے۔ اِس سلسلے میںارشاد ہوا ہے: ااے ایمان والو، اللہ کے آگے توبۂ نصوح کرو۔ امید ہے کہ تمھارا رب تمھارے گناہ معاف کردے اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کرے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ جس دن اللہ، نبی کو اور اس کے ساتھ ایمان والوں کو رسوا نہیں کرے گا۔ ان کی روشنی ان کے آگے اور ان کے دائیں طرف دوڑ رہی ہوگی۔ وہ کہہ رہے ہوں گے کہ اے ہمارے رب، ہمارے لیے ہماری روشنی کو کامل کردے اور ہماری مغفرت فرما، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے (التحریم:8 )
نصوح یا ناصح کے معنی خالص کے ہیں۔ کہاجاتا ہے : ہذا عسل ناصحٌ، یعنی یہ خالص شہد ہے۔ توبۂ نصوح کا مطلب خالص توبہ یا سچی توبہ ہے۔مفسر القرطبی نے لکھا ہے کہ علما نے توبۂ نصوح کے23معانی بتائے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ 23 مختلف معانی نہیں بلکہ وہ خالص توبہ کے مختلف مظاہر ہیں۔ یہ مظاہر صرف 23 تک محدود نہیں۔ وہ اس سے بہت زیادہ ہیں، حتی کہ وہ 23 ہزار بھی ہوسکتے ہیں۔
آدمی کسی گناہ میں مبتلا ہوجائے۔ اس کے بعد اس کو اپنی گنہ گاری کا احساس ہو۔ وہ اپنے دل میں شدید طور پر شرمندہ (repentant)ہو اور پختہ عزم کے ساتھ وہ خدا کی طرف رجوع کرلے تو اسی کا نام توبۂ نصوح ہے۔
آدمی اگر حقیقی طورپر توبۂ نصوح کرے تو اس کے بعد اس کی پوری زندگی بدل جائے گی۔ اس کی سوچ کا رخ پہلے اگر غیر اللہ کی طرف تھا تو اب وہ اللہ کی طرف ہوجائے گا۔ پہلے اگر وہ غیر سنجیدہ تھا تو اب وہ سنجیدہ ہوجائے گا۔ پہلے اگر وہ غیر ذمے دارانہ زندگی گزارتا تھا تو اب وہ ذمے دارانہ زندگی گزارنے لگے گا۔ پہلے اگر وہ اپنے قول و عمل میںآزاد تھا تو اب وہ اپنے قول و عمل کا سخت پابند ہوجائے گا۔ پہلے اگر وہ آخرت سے بے خوف تھا تو اب وہ آخرت کے اندیشے میں زندگی گزارنے لگے گا— حقیقی توبہ آدمی کو بدل دیتی ہے اور جو توبہ آدمی کو بدل ڈالے، وہی توبۂ نصوح ہے۔
واپس اوپر جائیں

عمومی بگاڑ کا دور

روایات میں آیا ہے کہ ایک شخص، پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیااور یہ سوال کیا کہ قیامت کب آئے گی (متی الساعۃ)۔ آپ نے جواب دیا کہ — جب امانت ضائع کی جانے لگے تو اُس وقت تم قیامت کا انتظار کرو (فإذا ضُیّعت الأمانۃ فانتظر السّاعۃ )۔ آنے والے نے پوچھا کہ امانت ضائع کیا جانا کیا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ جب عہدے نا اہل لوگوں کو دیے جانے لگیں، تو اس وقت تم قیامت کا انتظار کرو (إذا وُسّد الأمر إلی غیر أہلہ فانتظر الساعۃ) صحیح البخاری، کتاب العلم، باب مَن سُئل علماً۔
اِس حدیث پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس میںاُس آخری دور کا ذکر ہے، جب کہ دنیا میں عمومی بگاڑ آجائے گا۔ اِسی عمومی بگاڑ کا یہ نتیجہ ہوگا کہ تمام عہدوں پر نا اہل افراد قابض ہوجائیں گے۔ وہ اپنے منصب کو ذاتی مفاد کے لیے استعمال کریں گے، نہ کہ اپنی ذمے داری کو پورا کرنے کے لیے۔ ایسا کب ہوگا۔ ایسا اُس وقت ہوگا جب کہ سماج میں صرف نا اہل افراد باقی رہ جائیں۔
اِس حدیث میں دراصل اُس وقت کا ذکر ہے، جب کہ عمومی بگاڑ اپنی آخری حد پر پہنچ جائے گا، جب کہ غلط کام کرنے والا اپنے غلط کام کو اچھا سمجھے گا، جب غلط کام کرنے والوں کو کوئی روکنے والا نہ ہوگا، جب منافقانہ باتوں کا عمومی رواج ہوجائے گا، جب غلط قسم کے لوگوں کو سماج میں غلبہ حاصل ہوجائے گا، جب لوگ صرف اپنے ذاتی مفاد کو جانیں گے، نہ کہ اپنی ذمہ داریوں کو۔
موجودہ زمانے میں وہ حالات پوری طرح ظاہر ہوچکے ہیں جن کو قربِ قیامت کی علامت کہاجاسکتا ہے۔ موجودہ زمانے میں پہلی بار ایسا ہوا کہ نظریاتی جواز (ideological justification) کے تحت، برائیاں کی جارہی ہیں۔ بظاہر اب اِس کا امکان ختم ہوچکا ہے کہ لوگ اپنے رویّے پر نظر ثانی کریں اور اپنی اصلاح کریں۔ جب انسان کا یہ حال ہوجائے تو موجودہ زمین پر انسان کی آبادی کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔ اِس کے بعد جو اگلا مرحلہ ہے، وہ وہی ہے جس کو قیامت اور روزِ جزا (Day of Judgement) کہاجاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

اکرام یا تکلف

موجودہ زمانے میں یہ عام رواج ہے کہ لوگ اپنے مہمان کے کھانے پینے کے لیے غیر معمولی اہتمام کرتے ہیں اور اُس پر بہت زیادہ پیسہ خرچ کرتے ہیں۔ اگر اُن سے کہا جائے کہ یہ اسراف ہے اور وہ اپنے وقت اور مال کا ضیاع ہے، تووہ کہیں گے کہ یہ تو شریعت کی تعلیم ہے۔ شریعت میں ’اکرامِ ضیف‘ کا حکم دیا گیا ہے، اِس لیے ہم ایسا کرتے ہیں۔
مگر یہ سرتا سر ایک بے بنیاد بات ہے۔ شریعت میں جس اکرامِ ضیف کا حکم ہے، وہ صرف بقدرِ ضرورت ہے، نہ کہ بقدرِ تکلف۔ یہ صحیح ہے کہ حدیث میںاکرامِ ضیف کی تعلیم دی گئی ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اللہ پر اور آخرت کے دن پر یقین رکھتا ہو، اُس کو چاہیے کہ وہ اپنے مہمان کا اکرام کرے (مَن کان یؤمن باللہ والیوم الآخرفلْیکرم ضیفہ) ۔ مگر اکرام کا مطلب ہر گز تکلف نہیں۔ اکرام سادہ معنوں میں ایک انسانی اور اخلاقی نوعیت کی چیز ہے، نہ کہ کوئی نمائش اور تکلف کی چیز۔
مہمان کے لیے اکرام کے نام پر تکلف کرنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحت کے ساتھ منع فرمایا ہے۔ چناں چہ حضرت سلمان کہتے ہیں کہ : نہیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أن نتکلف للضّیف (الجامع الصغیر ، جلد 2 ، صفحہ 1159 ) یعنی رسول اللہ نے ہم کو اِس بات سے منع فرمایا کہ ہم مہمان کے لیے تکلف کریں۔ اِسی طرح، ایک اورروایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أناوأتقیائُ أمّتی بُرآئُ من التکلف ( کشف الخفاء، جلد 1، صفحہ 236) یعنی میں اور میری امت کے متقی لوگ تکلف سے بہت زیادہ دور رہنے والے ہیں۔
نفسیاتی اعتبار سے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ مہمان کی آمد کے موقع پر جوتکلف کیا جاتا ہے، وہ حقیقۃً لوگوں کے نزدیک، خود اپنے اکرام کی ایک صورت ہوتی ہے، نہ کہ مہمان کے اکرام کی صورت۔ حقیقت یہ ہے کہ جس آدمی کے اندر تقویٰ کی صفت موجود ہو، وہ کبھی تکلف جیسی نمائشی چیز کا تحمل نہیں کرسکتا۔
واپس اوپر جائیں

سچا عمل، سچی دعا

ہر انسان جو اِس دنیا میں پیدا ہوتاہے، وہ بہر حال ایک مختصر مدت کے بعد مرنے والا ہے۔ اِس کے بعد ہر عورت اور ہر مرد کو خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے۔ اِس کے بعد خدا ہر ایک کے ابدی مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرے گا۔ یہ ابدی مستقبل، یا تو جنت کی صورت میں ہوگا، یا جہنم کی صورت میں۔ اِس معاملے کو نجات (salvation) کہاجاتا ہے۔
یہ نجات اُن لوگوں کو ملے گی جو خدا کے یہاں اِس حال میں پہنچیں کہ اُن کے پاس دو میں سے کوئی ایک چیز اپنی اعلیٰ صورت میں موجود ہو۔وہ دو چیزیں یہ ہیں— سچا عمل، یا سچی دعا۔ سچا عمل وہ ہے جو خالص رضائِ الٰہی کے لیے کیا جائے۔ اور سچی دعا وہ ہے جو کامل عجز کی سطح پر کی گئی ہو:
The criterion of true ‘amal’ is that it is performed purely for the sake of God. And the criterion of true ‘dua’ is that it is performed with a sense of total helplessness.
سچے عمل کی توفیق اس کو ملتی ہے جو اپنے آپ کو منافقت سے کامل طورپر پاک کرے، جس کے قول اور جس کے عمل میں کوئی فرق باقی نہ رہے، جو اپنے آپ کو کم زور شخصیت (weak personality) بننے سے بچائے، جس کے لیے اس کا عمل اس کی پوری شخصیت کا اظہار بن جائے۔
اِسی طرح، سچی دعا کی توفیق اُس انسان کو ملتی ہے جو اپنے شعور کو اتنا زیادہ ترقی دے کہ وہ خدا کی قدرتِ کاملہ کے مقابلے میں، اپنے عجزِ کامل کو دریافت کرے۔ شعور کی اِسی سطح پر پہنچ کر کسی کو وہ دعا حاصل ہوتی ہے جس کو سچی دعا کہاجاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ سچی دعا اور سچا عمل دونوں ایک دوسرے سے الگ نہیں ہیں۔ سچی دعا میں سچا عمل شامل ہے، اور سچا عمل ہمیشہ سچی دعا کی زمین پر پیدا ہوتا ہے۔ نفسیاتی اعتبار سے، سچے عمل اور سچی دعا کو ایک دوسرے الگ نہیں کیا جاسکتا۔سچا عمل دراصل، حقیقی عمل کا دوسرا نام ہے۔ اور سچی دعا حقیقی دعا کا دوسرا نام۔
واپس اوپر جائیں

معرفتِ اعلیٰ

اعلیٰ معرفت ہمیشہ اعلیٰ سوچ(high thinking) کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔ خدا کے بارے میں، خدا کے کلام کے بارے میں، خداکی تخلیقات کے بارے میں، آدمی جتنا زیادہ گہرائی کے ساتھ سوچے، اتنا ہی زیادہ گہری معرفت تک وہ پہنچے گا۔ معرفت کا فامولا ایک لفظ میں یہ ہے— جتنی گہری سوچ، اتنی ہی گہری معرفت۔
قرآن میں اِس گہری سوچ کے لیے مختلف الفاظ آئے ہیں۔ مثلاً تفکّر، تدبّر، توسم اور تعقل، وغیرہ۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی ہر چیز کے اندر غور وفکر کا سامان موجود ہے، خواہ وہ چھوٹی ہو یا بڑی۔ اگر چیزوں کو سادہ طورپر نہ لیا جائے، بلکہ اُن پر سنجیدگی کے ساتھ غور کیا جائے تو ہر چیز آدمی کے لیے معرفت کی غذا بن جائے گی۔ اِسی حقیقت کو ایک فارسی شاعر نے اِن الفاظ میں بیان کیا ہے:
برگِ درختانِ سبز، در نظرِ ہوشیار ہر ورقے دفترے است، معرفتِ کردگار
مثلاً آدمی روزانہ زمین پر چلتا ہے، مگر وہ سوچتا نہیں۔ اگر وہ سوچے تو یہ چلنا اس کے لیے معرفت کا خزانہ بن جائے۔ زمین پر چلنا بظاہر ایک سادہ بات ہے، مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے، وہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ چلنے کا یہ واقعہ خالق کا ایک انوکھا معجزہ ہے۔ یہ چلنا اِس لیے ممکن ہوتاہے کہ بے شمار اسباب نہایت ہم آہنگی کے ساتھ ہماری مدد کررہے ہوتے ہیں— زمین کی بے حد متوازن قوت کشش (well balanced gravity) ، ہمارے جسم کے اوپر چاروں طرف سے ہوا کا دباؤ۔ ہواکا یہ دباؤ ہمارے جسم کے ہر مربع انچ پر تقریباً آٹھ کلو گرام کے برابر ہوتا ہے، اور پورے جسم پر مجموعی طور پر تقریباً 10 ہزار کلو گرام کے برابر۔ جب انسان زمین پر چلتا ہے تو اُس کو غیر منقطع طورپر مسلسل آکسیجن فراہم کیا جارہا ہوتا ہے، وسیع خلا سے سورج ہماری راہوں کو روشن کرتا رہتا ہے۔ اِس طرح کے ان گنت اسباب ہیں جو براہِ راست یا بالواسطہ طورپر ہمارے مدد گار بنے رہتے ہیں، تب یہ ممکن ہوتا ہے کہ انسان زمین پر چلے اور کامیابی کے ساتھ اپنی منزل پر پہنچ جائے۔ ہماری دنیا میںاِس طرح کی بے شمار چیزیں ہیں۔ اِن چیزوں پر غوروفکر کرنا ہی اعلیٰ معرفت کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
واپس اوپر جائیں

بے ادبی کا تصور

ایک شہر میں، میں ایک تعلیم یافتہ مسلمان کے یہاں گیا۔ وہ ایک فلیٹ میں رہتے تھے۔ اُس سے ملاہوا غیر مسلموں کا فلیٹ تھا۔ مسلمان نے کہا کہ ہم لوگ اِس گھر میں پریشان رہتے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ اِس گھر میں کچھ آسیب کا اثر ہے۔ میں نے کہا کہ یہ سب توہم پرستی (superstition) ہے۔ پھر میں نے اُن سے قرآن مانگا، تاکہ اِس معاملے میں، میںاُن کو قرآن کی ایک آیت دکھاؤں۔ معلوم ہوا کہ ان کے گھر میں قرآن کا کوئی نسخہ موجودنہیں ہے۔ میںنے پوچھا کہ ایسا کیوں ہے۔ صاحبِ خانہ نے جواب دیا کہ پہلے یہاں قرآن کا ایک نسخہ موجود تھا، پھر ہم نے اُس کو بے ادبی کے ڈر سے مسجد میں رکھوا دیا۔
یہ واقعہ بتاتا ہے کہ قرآن کے بارے میں موجود زمانے کے مسلمانوں کا مزاج کیا ہے۔ قرآن کو وہ شعو ری طورپر اپنے لیے رہ نمائی کی کتاب نہیں سمجھتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ قرآن ایک مقدس کتاب ہے اور اُس کا سب سے بڑا حق یہ ہے کہ اُس کو مفروضہ ’’بے ادبی‘‘ سے بچایا جائے۔
بے ادبی کیا ہے۔ مسلم تصور کے مطابق، بے ادبی یہ ہے کہ قرآننیچے ہو اور آپ اوپر بیٹھ جائیں۔ وضو کیے بغیر کوئی شخص قرآن کو چھولے۔ کوئی غیر مسلم، قرآن کو اٹھا کر اُسے دیکھنے لگے۔ قرآن غلاف میں لپٹا ہوا نہ ہو۔ قرآن ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گر جائے۔ قرآنکھلا ہو ا رہ جائے، کیوں کہ ایسا ہوگا تو شیطان اس کو پڑھے گا۔ قرآن کے اوپر کوئی اور کتاب، یا کوئی اور چیز رکھ دی جائے، وغیرہ۔
یہ سب بے اصل باتیں ہیں۔ اِن خود ساختہ نظریات نے مسلمانوں کو قرآن سے دور کردیا ہے۔ قرآن کا حق یہ ہے کہ قرآن کو پڑھا جائے۔ اُس سے نصیحت لی جائے۔ اُس سے اپنے معاملات میں رہ نمائی حاصل کی جائے۔ قرآن پر غور کیا جائے اور اس کو سمجھ کر پڑھا جائے۔ اُس سے اپنی زندگی میں روشنی حاصل کی جائے— قرآن، ہدایت کے لیے بھیجا گیا ہے اور یہی اُس کا حق ہے کہ لوگ اُس سے ہدایت حاصل کریں۔
واپس اوپر جائیں

موت ایک یاد دہانی

ایک دن میںاپنے معاصرین (contemporaries) کے بارے میں سوچنے لگا۔ وہ افراد جو میرے زمانے میں پیداہوئے، جن کے ساتھ میںنے زندگی کا سفر طے کیا، جن کے ساتھ میں زمین پر چلتا پھرتا رہا— مسٹر اے کو میںنے زندہ حالت میں دیکھا تھا، مگر آج وہ اِس دنیا میں نہیں ہیں۔ مسٹر بی، مسٹر سی، مسٹر ڈی، مسٹر ای، سب کا یہی انجام ہوچکا ہے۔اِس طرح میں اپنے جاننے والوںمیں سے ایک ایک شخص کو یاد کرتا رہا۔ مجھے یاد آیا کہ یہ سارے لوگ اب وفات پاچکے ہیں۔ یہاں تک کہ پچھلے دنوں مجھے خبر ملی کہ مسٹر وائی کی بھی وفات ہوگئی۔ میں گہری سوچ میں پڑ گیا۔ میری زبان سے نکلا کہ —میری باری بہت قریب آگئی:
The countdown has reached the last but one number.
پھر میں نے سوچا کہ یہ معاملہ صرف میرا ذاتی معاملہ نہیں، حقیقت یہ ہے کہ یہی معاملہ ہر عورت اور مرد کا معاملہ ہے۔ ہر ایک روزانہ دیکھ رہا ہے کہ اس کے آس پاس کے لوگ مرتے جارہے ہیں۔ میڈیا کے ذریعہ ہر ایک، دور دور کے لوگوں کے بارے میں بھی اِسی طرح موت کی خبریں سنتا رہتا ہے۔ مگر عجیب بات یہ ہے کہ کوئی شخص یہی بات خود اپنے بارے میں نہیں سوچتا۔ کوئی عورت یا مرد سنجیدگی کے ساتھ یہ غور نہیں کرتا کہ اِسی طرح میں خود بھی بہت جلد مرنے والا ہوں۔ وہ موت سے پہلے کی زندگی کے مسائل کے بارے میں تو ہر وقت سوچتا ہے،لیکن موت کے بعد کے مسائل کے بارے میں کوئی غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔جاننے کے باوجود نہ جاننے کے اِس عجیب ظاہرہ کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہر عورت ا ور مرد اپنے ڈی این اے (DNA) سے کنٹرول ہوتا ہے۔ آدمی اپنا ہر چھوٹا یا بڑا کام ڈی این اے کی رہ نمائی میں کرتا ہے۔ مگر یہاں معاملہ یہ ہے کہ زندگی کے بارے میں تو ہر ایک کے ڈی این اے میں سب کچھ تفصیل کے ساتھ لکھا ہوا ہے۔ مگر ایک بات کسی کے ڈی این اے میں سرے سے درج نہیں۔ اور وہ موت(death) کا معاملہ ہے۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ زندگی کے تمام معاملات تو ڈی این اے کے کوڈ میں درج ہیں۔ اُنھیں کی مسلسل طور پر ڈی کوڈنگ (de-coding) ہوتی رہتی ہے، مگر موت کا تعلق ڈی این اے سے نہیں۔ ہر ایک کی موت براہِ راست طورپر خالق کے حکم سے آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر ایک کے لیے موت کا وقت الگ الگ ہے۔ لوگوں کی موت کا کوئی یکساں وقت نہیں۔
انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ موت کے بارے میں خود شعوری (self-consciousness)کی صلاحیت اپنے اندر پیدا کرے۔ وہ اِس معاملے میں اپنے ڈی این اے سے باہر آکر سوچے۔ ایسا کرنے کی صورت ہی میں آدمی موت کی حقیقت کو اپنے ذہن میں تازہ کرے گا۔ ایسا کرنے کی صورت ہی میں یہ ممکن ہوگا کہ وہ موت کے سنگین معاملے کو سمجھے۔ وہ موت سے پہلے کے دورِ حیات میں موت کے بعد کے دورِ حیات کی تیاری کرے۔
انسان ایک ابدی مخلوق ہے۔ ڈی این اے اس ابدیت (eternity) کی تصدیق کرتا ہے۔ مگر خالق نے اپنے تخلیقی پلان کے مطابق، انسان کی طویل زندگی کو دو دوروں میں بانٹ دیا ہے— موت سے پہلے کا دورِ حیات، اور موت کے بعد کا دورِ حیات۔ اِس کری ایشن پلان کے مطابق، موت سے پہلے کا مختصر دورِ حیات امتحان (test) کے لیے ہے۔ اور موت کے بعد کا طویل تر دورِ حیات ٹسٹ پیریڈ کے ریکارڈ کے مطابق، اپنے عمل کا ابدی انجام پانے کے لیے۔
اِس وقت تمام لوگ وقتی خوشی (right here, right now)کے تصور کے تحت جی رہے ہیں۔ وہ حال رخی (present-oriented) زندگی گزار رہے ہیں۔ لیکن اگر انھیں حقیقتِ واقعہ کا شعور ہوجائے تو ان کی زندگی کا نقشہ بالکل بدل جائے۔ اب آنے والادن ان کا سب سے بڑا کنسرن بن جائے۔ ہر ایک مستقبل رخی(future-oriented) زندگی گزارنے لگے۔ حال رخی زندگی، تعمیر ِ دنیا کے اصول پر قائم ہے، جب کہ مستقبل رخی زندگی آخرت کے لیے تیاری کے اصول پر قائم ہوتی ہے— جو لوگ اِس حقیقت کو جان لیں، وہی کامیاب ہیں اور جو لوگ اِس حقیقت سے بے خبر رہیں، وہی ناکام۔
واپس اوپر جائیں

انسان اور شیطان

انسان کے اندر بیک وقت دو قسم کے جذبات ہیں— دوستی کا جذبہ، اور دشمنی کا جذبہ۔ یہ دونوں جذبات فطری ہیں اور وہ ہر عورت اور مرد کے اندر پیدائشی طورپر پائے جاتے ہیں، کوئی بھی شخص اِن جذبات سے خالی نہیں۔
مگر اِن دونوں جذبات کے استعمال کا رخ الگ الگ ہے۔ دوستی کا جذبہ، انسان کے لیے ہے اور دشمنی کاجذبہ شیطان کے لیے۔ شیطان اوّل دن سے انسان کا دشمن ہے۔ مگر انسان کا معاملہ اِس سے مختلف ہے۔ انسان پیدائشی طورپر دوسرے انسانوں کا دشمن نہیں۔ یہ دراصل شیطان ہے جو انسان کو انسان کا دشمن بنا دیتا ہے۔ شیطان کی ساری کوشش یہ ہے کہ انسان کے اندر دشمنی کے جو جذبات ہیں، وہ ان کو پھیر کر انسان کی طرف کردے۔ وہ شیطان کا دشمن بننے کے بجائے انسان کا دشمن بن جائے۔
یہی انسان کا امتحان ہے۔ جب کبھی کسی عورت یا مرد کو محسوس ہو کہ اس کے اندر کسی انسان کے لیے دشمنی کے جذبات پیدا ہورہے ہیں تو وہ اس کو شیطان کا وسوسہ سمجھے اور فوراً ہی کوشش کر کے اپنے منفی احساسات کو مثبت احساس میں تبدیل کرے۔قرآن کی سورہ نمبر 5 میں بتایا گیا ہے کہ: إنما یرید الشیطان أن یوقع بینکم العداوۃ والبغضاء (المائدۃ: 91 ) یعنی شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ وہ تمھارے درمیان دشمنی اور بغض ڈال دے:
Satan seeks to stir up enmity and hatred among you (5: 19).
دنیا میں زندگی گزارتے ہوئے بار بار ایسا ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کے خلاف شکایت کے اسباب پیدا ہوجاتے ہیں۔ اِس قسم کے مواقع شیطان کو انسان کے اندر داخل ہونے کا راستہ دے دیتے ہیں۔ اب شیطان یہ کرتا ہے کہ وہ اِن شکایتی اسباب کو خوب بڑھاتا ہے، وہ شکایت کو نفرت تک پہنچا دیتا ہے اور پھر نفرت کو تشدد تک۔ انسان کو چاہیے کہ وہ شیطان کو یہ موقع نہ دے کہ وہ اِن منفی لمحات کو اپنے حق میںاستعمال کرے اور ایک انسان کو دوسرے انسان کے خلاف بھڑکا دے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو شیطان کا معمول (object) بننے سے بچائے۔
واپس اوپر جائیں

جنت کی قیمت

جنت خدا کی بنائی ہوئی ایک انوکھی دنیا ہے۔ جنت میں اعلیٰ معیار کی حد تک ہر قسم کی راحت اور خوشی موجود ہے۔ جنت وہ جگہ ہے جہاں انسان کو ہرقسم کا فُل فِل مینٹ(fulfillment) ہمیشہ کے لیے حاصل ہوگا (حٰمٓ السجدۃ: 31 )۔
جنت کی یہ انوکھی دنیا کس کو ملے گی۔ جنت کی یہ دنیا موت کے بعد کی ابدی زندگی میںاس عورت یا مرد کو ملے گی جو اس کی قیمت ادا کرے۔ جنت اُس کے لیے ہے جو حقیقی معنوں میں ربانی انسان یا خدا والا انسان بن جائے، جو بظاہر خدا سے دور ہوتے ہوئے معرفت کی سطح پر خدا سے قریب ہوجائے۔ جنت خدا کے پڑوس کا نام ہے۔ آخرت کی دنیا میں خدا کا پڑوس صرف اُس شخص کو ملے گا جو آخرت سے پہلے کی دنیا میں خدا کے پڑوس میںجینے لگے۔
انسان اپنے آپ کو پیدا کئے جانے کی صورت میں دیکھتا ہے، خدا کو اُسے لم یلد ولم یولد کی صورت میں دریافت (discover) کرنا ہے۔ موجودہ دنیامیں انسان دیکھ کر چیزوں کے اوپر یقین کرتا ہے، خدا کے اوپر اس کو دیکھے بغیر یقین کرنا ہے۔ انسان مال اور اولاد جیسی چیزوں سے بے پناہ محبت کرتا ہے، اس کو خدا کے ساتھ ایسا تعلق قائم کرنا ہے، جب کہ وہ سب سے زیادہ خدا سے ڈرنے لگے اور سب سے زیادہ خدا سے محبت کرنے لگے۔
انسان آج کی چیزوں میں جیتا ہے اور وہ آج کی چیزوں کو اہمیت دیتا ہے، جنت اُس انسان کے لیے ہے جو آج کی چیزوں سے اوپر اٹھ جائے اور صرف ایک خدا کو اپنا سپریم کنسرن بنالے۔ انسان کا یہ حال ہے کہ وہ بھر پور دل چسپی کا تعلق اپنے لوگوں سے رکھتا ہے اور خدا کے ساتھ اس کا تعلق صرف رسمی اور ظاہری سطح پر ہوتا ہے، ایسے لوگوں کو جنت میں داخلہ ملنے والا نہیں۔ جنت میں داخلہ صرف وہ لوگ پائیں گے جن کا حال یہ ہوجائے کہ خدا کے سوا دوسری تمام چیزوں سے ان کا تعلق صرف دنیوی ضرورت کے طورپر ہو اور دل چسپی اور قلبی لگاؤ کے اعتبار سے ان کا تعلق تمام تر خدا سے ہوجائے۔
واپس اوپر جائیں

شادابی لوٹ آ ئی

دہلی میںمیری رہائش گاہ کے پاس ایک درخت ہے۔ اس کو میں اسپریچول ٹری (spiritual tree) کہتا ہوں۔ اس کے نیچے میںدیر تک بیٹھتا ہوں۔ اس سے مجھے روحانی سکون ملتا ہے۔
برسات کے موسم سے پہلے یہ درخت بالکل سوکھ گیا تھا۔ بظاہر وہ ٹھنٹھ (stem) دکھائی دیتا تھا۔ میں سمجھتا تھا کہ درخت کی عمر شاید ختم ہوگئی ہے، وہ دوبارہ شاداب ہونے والا نہیں، مگر برسات کا موسم آنے کے بعد وہ دوبارہ ہرا ہونے لگا۔ اس کی شاخوں پر ہری پتیاں نکلنے لگیں، یہاںتک کہ اگست کے آخر تک دوبارہ وہ پوری طرح ہرا بھرا ہوگیا۔اس کی شادابی مکمل طورپر لوٹ آئی۔
یہ تمثیل کے روپ میں انسان کے لیے ایک سبق ہے۔ انسان کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ انسان کی روحانی زندگی کے لیے ضرورت ہے کہ اس کو ’’پانی‘‘ ملتا رہے۔ جو انسان اس پانی سے محروم جائے، اس کی شخصیت سوکھے درخت جیسی ہو جائے گی۔
انسانی زندگی کے لیے یہ حیات بخش پانی خدائی فیضان (divine inspiration)ہے۔ انسان کو چاہئے کہ وہ خدا وند ِذوالجلال سے مسلسل روحانی ربط قائم رکھے۔ اسی ربط سے اس کو شادابی ملے گی۔ یہ ربط کسی وجہ سے ٹوٹ جائے تو وہ سوکھے درخت کی مانند ہو کر رہ جائے گا۔
خداوندذوالجلال سے اِس ربط کا ذریعہ ذکر ہے۔خداوند ِ ذوالجلال کو یاد کرنا کیا ہے۔ وہ کسی قسم کے اوراد کا نام نہیں ہے۔ وہ مختلف حالات میں اس کو بار بار یاد کرنا ہے۔ مثلاً مذکورہ قسم کے درخت کو آپ نے دیکھا تو اُس کے اندر آپ کو خدا کا کرشمہ نظر آیا۔ آپ نے تڑپتے ہوئے دل کے ساتھ کہا کہ خدایا: تو نے جس طرح اِس درخت کو شاداب کیا ہے، اُسی طرح تو مجھے بھی شاداب کردے۔ میں ایک سوکھا ہوا درخت ہوں، تو اپنے فیضانِ رحمت سے مجھ کو ایک شاداب درخت بنا دے—اِس تجربے کا تعلق کسی ایک چیز سے نہیں، اس کا تعلق تمام چیزوں سے ہے۔ اِس دنیا کی ہر چیز میں یہی ربانی غذا موجود ہے۔ دانش مند انسان وہ ہے جو اِس ربانی غذا کو لیتے ہوئے اِس دنیا میں زندگی گزارے۔
واپس اوپر جائیں

انعام، یا آزمائش

ایک صنعتی شہر کا واقعہ ہے۔ وہاں کے ایک مسلم نوجوان نے ٹکنکل ایجوکیشن حاصل کی ۔ اِس کے بعد ان کو مقامی طورپر ایک اچھا جاب (job)مل گیا۔ اِس درمیان ان کا ربط ایک دینی حلقے سے قائم ہوا۔ انھوںنے دینی کتابیں پڑھیں اور دینی شخصیتوں سے استفادہ کیا۔ وہ کافی متاثر ہوئے، یہاںتک کہ انھوںنے رو کر کہا کہ — میںنے اپنی عمر کا ایک حصہ ضائع کردیا۔ کاش، یہ دینی ماحول مجھے اور پہلے مل گیا ہوتا۔
اِس کے بعد مذکورہ نوجوان کے اندر ایک تبدیلی واقع ہوئی۔ مذکورہ نوجوان کے ایک رشتے دار ایک ’’فارین‘‘ کنٹری میں رہتے تھے۔ انھوں نے ان کے لیے ہوائی جہاز کا ایک ٹکٹ بھیج دیا اور کہا کہ تم وزٹ ویزا (visit visa) لے کر یہاں میرے پاس آجاؤ اور جاب ہنٹنگ (job hunting) کرو۔ ہوسکتا ہے، تم کو یہاں زیادہ اچھا جاب مل جائے۔ اِس کے بعد نوجوان کا ذہن بدل گیا۔ وہ پہلی فرصت میں باہر کے ملک میں جاب ہنٹنگ کے لیے چلے گئے۔
یہ کسی ایک نوجوان کی بات نہیں۔ یہی موجودہ زمانے میں تقریباً تمام لوگوں کا حال ہے۔ بظاہر ایک آدمی دین داری کی بات کرے گا۔ وہ اسلام کو اپنی منزل بتائے گا۔ لیکن اگر اس کو کسی قسم کی مادّی ترقی (worldly progress)حاصل ہوجائے، تو اچانک وہ بدل جائے گا۔ وہ تمام باتوں کو بھلاکر مادّی ترقی ہی کو اپنا سب کچھ بنا لے گا۔
ایسے کسی آدمی کے سامنے جب کوئی مادّی ترقی کا موقع آتا ہے، تو وہ اس کے لیے کوئی انعام کی بات نہیں ہوتی، بلکہ وہ تمام تر اس کی آزمائش (test) کے لیے ہوتی ہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ تمام لوگ اُس کو انعام کا معاملہ سمجھ لیتے ہیں، تمام لوگ اِس خدائی آزمائش میں ناکام ثابت ہوتے ہیں۔ دین داری کسی رُٹین کا نام نہیں، دین دار وہ ہے جو اِس جانچ (test) میں پورا اُترے— اپنے دین کی حفاظت کیجئے، ورنہ شیطان کسی بھی وقت اس کو اچک لے جائے گا۔
واپس اوپر جائیں

دین یا کلچر

ایک مستشرق (orientalist) نے مختلف مذاہب کا مطالعہ کیا، پھر اُس نے ایک کتاب لکھی۔ اِس کتاب میں اُس نے اپنے مطالعہ کا خلاصہ بتاتے ہوئے کہا کہ— ہر مذہب کاآغاز ایک آئڈیالوجی کے طور پر ہوتا ہے، لیکن بعد کی نسلوں میں وہ صرف ایک کلچر بن کر رہ جاتا ہے:
Every religion begins as an ideology, but after some generations it is reduced to a culture.
یہ ایک حقیقت ہے کہ بعد کے زمانے میں ہر مذہب کا یہی حال ہوا ہے۔ تاہم یہ صرف دوسرے مذاہب کا معاملہ نہیں، یہی معاملہ خود اسلام کے ساتھ بھی بعد کے زمانے میں پیش آیا ہے۔ اسلام اپنے متن (text) کے لحاظ سے بلاشبہ ایک محفوظ مذہب ہے۔ اسلام کی تعلیمات آج بھی پوری طرح محفوظ حالت میں موجود ہیں، لیکن جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے، موجودہ زمانے کے مسلمان عملاً مذکورہ عمومی صورتِ حال کا مصداق بن چکے ہیں۔ موجودہ زمانے کے مسلمان جس ’’دین‘‘ پر ہیں، وہ دراصل ایک کلچر ہے، نہ کہ حقیقی معنوں میں خدا کابھیجا ہوا دین۔
دین کا تعلق وحیِ الٰہی سے ہے، اور جہاں تک کلچر کا تعلق ہے، وہ جغرافی حالات کے اعتبار سے بنتا ہے۔ بعد کے زمانے میں جو قومیں اسلام میں داخل ہوئیں، ان کا اپنا ایک علاقائی کلچر تھا۔ اِن قوموں نے جب اسلام کو اختیار کیا، تو انھوں نے اسلام کے کلمہ کو تو لے لیا، مگر اپنے کلچر کو نہیں چھوڑا۔ انھوںنے صرف یہ کیا کہ قدیم کلچر کو اسلامائز (Islamize) کرکے اُس کو کم و بیش اپنی زندگیوں میںباقی رکھا— یہ صورتِ حال تقریباً ہر جگہ پائی جاتی ہے۔
یہ احیائِ اسلام کا موضوع ہے۔ اوراِس احیاء کی ضرورت ہر ملک اور ہر علاقے میں پائی جاتی ہے۔ ایک صبر آزما کوشش ہی کے ذریعے احیائِ اسلام کے اِس کام کو انجام دیا جاسکتا ہے— آج خود مسلمانوں کو اسلامائز کرنے کی ضرورت ہے، نہ کہ خارجی دنیا کو اسلامائز کرنے کی۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو قرآن میںاِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: یٰأیّہا الذین آمنوا، آمنوا (النساء: 136 )
واپس اوپر جائیں

فخر اور شکر

ایک تعلیم یافتہ مسلمان نے پُر اعتماد لہجے میں کہا کہ — میں پورے فخر اور شکر کے ساتھ کہتا ہوں کہ اللہ تعالی نے مجھے فلاں دینی ماحول میں پیدا کیا، اور اس نے مجھے فلاں ادارے میں تعلیم وتربیت حاصل کرنے کا موقع عطا فرمایا، وغیرہ۔
یہ کسی ایک شخص کی بات نہیں۔ اِس قسم کی بات بہت سے لوگ اپنے اپنے انداز میں کہتے ہیں۔ یہ الفاظ بظاہر خوب صورت معلوم ہوتے ہیں، لیکن وہ انتہائی بے معنیٰ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ فخر اور شکر دونوں دو مختلف جذبات ہیں۔ جہاں فخر ہوگا، وہاں شکر نہیں ہوگا اور جہاں شکر ہوگا، وہاں فخر نہیں ہوگا۔ جو لوگ ایسے الفاظ بولیں، ان کے اندر فخر تو ہوسکتا ہے، لیکن حقیقی شکر کا جذبہ ان کے اندر ہرگز موجود نہیں ہوسکتا۔
شکر کیا ہے۔ شکر دراصل، خداوند ِ ذوالجلال کی نعمتوں کا اعتراف ہے۔ خداوند ِ ذوالجلال کی نعمت کا احساس فوراً ہی آدمی کے اندر اپنی بے مائگی کا احساس پیدا کردیتا ہے اور اپنی بے مائگی کے احساس کے بعد کوئی شخص کبھی فخر کا تحمل نہیں کرسکتا۔ اِس قسم کے احساس کے بعد آدمی اپنے آپ کو ’’بے کچھ‘‘ کے مقام پر پاتا ہے اور خداوندذوالجلال کو ’’سب کچھ‘‘ کے مقام پر۔ جو آدمی اس قسم کی نفسیات کا حامل ہو، اس کے لیے فخر ایک مضحکہ خیز لفظ بن جائے گا۔ ایسا آدمی سب کچھ بھول کر شکر ِ خداوندی کے اُس جذبے سے سرشار ہوجائے گا، جس کے اندر ذاتی فخر جیسی چیز کے لیے کوئی جگہ نہ ہو۔ شکر کی توفیق ہمیشہ عجز کامل کی سطح پر ہوتی ہے جس آدمی کے اندر عجز کامل کی اعلیٰ ربانی صفت نہ ہو، وہ شکر کا تجربہ بھی نہیں کرسکتا۔
فخر کے ساتھ شکر کا لفظ بولنا، بتاتا ہے کہ ایسا آدمی، امتحان کی اصطلاح میں، مائنس مارکنگ (minus marking) کا مستحق ہے۔ ایسا کہنے والا شخص اِس بات کا ثبوت دے رہا ہے کہ وہ فخر اور شکر دونوں کی اصل حقیقت سے بے خبر ہے۔ وہ نہ فخر کی نفسیات کو جانتا ہے اور نہ شکر کی نفسیات کو۔ اگر وہ دونوں کی حقیقت سے باخبر ہوتا تو وہ اِس طرح، فخر اور شکر کے متضاد الفاظ کو ایک ساتھ نہ بولتا۔ حقیقت یہ ہے کہ شکر ہمیشہ نفیِ فخر کی زمین پر پیدا ہوتا ہے، نہ کہ اثباتِ فخر کی زمین پر۔
واپس اوپر جائیں

بے نتیجہ بھیڑ

میں نے ایک مشہور مسلم اسپیکر کا انٹرویو پڑھا۔ اِس انٹرویو میں انھوںنے پُر مسرت انداز میں اپنے ایک پروگرام کا ذکر کیا تھا۔ انھوںنے اس کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ — منتظمین نے مجھ سے بتایا تھا کہ وہ اِس پبلک لیکچر میںتین ہزار لوگوں کی شرکت کی امیدرکھتے ہیں، لیکن ماشاء اللہ، وہاں تقریباً بیس ہزار آدمی تھے جنھوں نے لیکچر میں شرکت کی:
The organizers had told me that they expected around three thousand for the public lecture, but masha allah, there were some twenty thousand who attended the lecture. (The Muslims World League Journal, April 2008, p. 16).
عام طورپر لوگوں کا رجحان یہ ہے کہ وہ بھیڑ (crowd) کو جلسے کی کامیابی کا معیار سمجھتے ہیں، حالاں کہ کسی جلسے کی کامیابی کا معیار وہ نتیجہ ہے جو افراد کی سطح پر ظاہر ہوتا ہے۔ میںنے باربار اِس کا تجربہ کیا ہے کہ جو لوگ بھیڑ والے جلسوں میں شرکت کرتے ہیں، اُن سے جب پوچھا جائے تو وہ شان دار الفاظ میں جلسے کی تعریف کریں گے، لیکن اگر اُن سے یہ سوال کیا جائے کہ تم ذاتی طورپر وہاں سے کیا پیغام لے کر لوٹے، یعنی تمھارا اپنا ٹیک اوے (take away) کیا تھا۔ اِس سوال کے جواب میں آدمی کے پاس کچھ بھی کہنے کے لیے نہیں ہوتا۔ وہ بار بار جوش کے ساتھ یہ کہے گا کہ ہم کو بہت کچھ ملا، لیکن اگر پوچھا جائے کہ متعین (specific) طورپر کوئی ایک بات بتاؤ، تو وہ اِس کے جواب میں کچھ بھی نہیں بتا پاتا۔
ایسا کیوں ہے۔ ایسا اِس لیے ہے کہ فرد کی نفسیات الگ ہوتی ہے، اور مجمع کی نفسیات الگ۔ اگر آپ ایک، یا چند آدمی سے براہِ راست طورپر کوئی بات کہیں، تو وہ آدمی اپنے آپ کو اس کا مخاطب سمجھے گا اور بات کو بخوبی طورپر پکڑے گا، لیکن جب ایک مقرر شان دار اسٹیج پر لاؤڈاسپیکر کے سامنے کھڑا ہوتا ہے اور ایک بھیڑ کو مخاطب کرتا ہے، تو ایسے عمومی ماحول میں مقرر کی بات فضا میں بکھر جاتی ہے۔ کوئی بھی ایک شخص اپنے آپ کو اس کا مخاطب نہیں سمجھتا۔ اِس لیے اِس قسم کی بھیڑ میں کسی فرد کا مائنڈ ایڈریس نہیں ہوتا۔
یہی وجہ ہے کہ ہم یہ منظر دیکھتے ہیں کہ جب سے پریس اور اسٹیج اور میڈیا کا زمانہ آیا ہے، بڑے بڑے مقرر پیدا ہوئے۔ انھوںنے ہزاروں مواقع پر شان دار ماحول میں بڑی بڑی بھیڑ کو خطاب کیا ہے، لیکن نتیجے کے اعتبار سے یہ تمام خطابات صفر کے درجے میں بے نتیجہ رہے۔ اِس طرح کے خطابات کے نتیجے میں چند انسان بھی بن کر تیار نہیں ہوئے۔ ایسے مقرریں کو خود تو مقبولیت حال ہوجاتی ہے، لیکن جن لوگوں کی بھیڑ کو وہ خطاب کرتے ہیں، وہ لوگ بدستور اپنی سابقہ حالت پر پڑے رہتے ہیں۔
اِسی قسم کے ایک مشہور مقرر کے بارے میں میں جانتا ہوں۔ وہ پچاس سال تک بڑی بڑی بھیڑ کو خطاب کرتے رہے، لیکن آخر عمر میںاُن کو محسوس ہوا کہ وہ شان دار خطابات کے باوجود چند آدمی کو بھی اپنا حقیقی ساتھی نہ بنا سکے۔ وہ بھیڑ کے اندر اپنے آپ کو تنہا پاتے تھے۔ اپنی عمر کے آخری زمانے میں اپنے ایک قریبی ساتھی کے نام انھوں نے ایک نجی خط (personal letter) میں اپنے اِس غم انگیز احساس کا ذکر کیا اور اپنے آپ کو اِس شعر کا مصداق بتایا:
وہ محرومِ تمنا کیوں نہ سوئے آسماں دیکھے کہ جو لمحہ بہ لمحہ اپنی کوشش رائگاں دیکھے
اِس معاملے میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ بھیڑ کو ایڈریس کرنے کے بجائے، افراد کو ایڈریس کیاجائے۔ یہی واحد طریقہ ہے جس کے ذریعے لوگوں کے اندر حقیقی تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ ایک ایسا پولٹکل لیڈر جس کی ضرورت صرف یہ ہو کہ الیکشن کے وقتی موقع پر لوگ اس کو ووٹ دے دیں، وہ ضرور بھیڑ کو اہمیت دے سکتا ہے۔ لیکن ایک حقیقی مُصلح (reformer) کے لیے ضروری ہے کہ وہ فرد فرد کی اصلاح کرکے اپنی ایک ٹیم بنائے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اِسی اصول کے مطابق، اپنی ایک ٹیم بنائی تھی جس کو اصحابِ رسول کہا جاتا ہے۔ اصحاب، یا صحابہ دراصل ٹیم کا دوسرا نام ہے۔ یہ ٹیم سازی بھی ایک عظیم سنتِ رسول ہے۔ امت کے مصلحین کو ہر زمانے میں یہ کرنا چاہیے کہ وہ اپنی مقبولیت کی قربانی دے کر اِس قسم کی ٹیم بنائیں یہ ٹیم ہی مشن کے تسلسل کی ضامن ہے۔ بھیڑ صرف ایک وقتی نمائش ہے۔ مستقل فائدہ صرف ٹیم کے ذریعے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ بھیڑ کا طریقہ صرف ایک سیاسی طریقہ ہے، وہ اسلام کا طریقہ نہیں۔
واپس اوپر جائیں

کشمیر کا خواب

ایک مسلم نوجوان شاہ عمران حسن (پیدائش: 1982 ) اگست 2008 میں کشمیر گئے۔ وہاں وہ تین ہفتہ رہے۔ ان کی عادت ہے کہ وہ روزانہ اپنی ڈائری لکھتے ہیں۔ وہ کشمیر سے واپس آئے تو انھوںنے مجھ کو اپنی ڈائری دکھائی۔ ان کی اِس ڈائری کا ایک اندراج یہ تھا:
’’4 اگست 2008 کی ایک رات کو میرا قیام ادارہ ’’اپنا گھر‘‘ میں تھا۔ وہاں ادارے کے ایک طالب علم جاوید احمد (19 سال) بھی موجود تھے۔ صبح کو میں بیدار ہوا تو جاوید احمد نے ماہ نامہ الرسالہ سے متعلق اپنا ایک خواب بیان کیا، جو اُنھیں کے الفاظ میں اِس طرح تھا: ’’میں نے دیکھا کہ ایک بوڑھا شخص ہے۔ اس کے چہرے پر ہلکی ہلکی سفید داڑھی ہے۔ وہ ان پڑھ ہے۔ وہ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ — مجھے الرسالہ کا ممبر بناؤ ، مجھے الرسالہ کا ممبر بناؤ۔‘‘
اِس خواب میں مذکورہ بوڑھا آدمی گویا کہ کشمیر کی روح ہے۔ کشمیر کی روح چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ جو منفی افکار میرے درمیان پھیلائے جارہے ہیں، اُن سے میں بے زار ہوں، ان کو بند کرو۔ میرے درمیان الرسالہ کو پھیلاؤ، میرے درمیان الرسالہ والے مثبت افکار کو عام کرو۔
کشمیر میں اکتوبر 1989 میں متشددانہ جہاد کا آغاز ہوا۔ یہ سلسلہ مختلف صورتوں میں، تادمِ تحریر جاری ہے۔ اِس نام نہاد جہاد کے دوران کشمیر میں جان و مال کا بے حساب نقصان ہوا ہے۔ اِس خود ساختہ جہاد نے کشمیر کو تباہی کے سوا اور کچھ نہیں دیا۔
اب کشمیر کی سلامتی کی صرف ایک صورت ہے، اور وہ یہ ہے کہ کشمیر میںاُن افکار کو زیادہ سے زیادہ پھیلایا جائے جس کا پیغام ماہ نامہ الرسالہ میں مسلسل طورپر دیا جارہا ہے۔ اِسی میں کشمیر کے لیے زندگی ہے۔ اِس کے سوا جو کچھ ہے، وہ موت اور تباہی کے سوا کچھ اور نہیں۔ نام نہاد کشمیری تحریک سے کچھ لیڈروں کو فائدہ ہوسکتا ہے، لیکن خود کشمیر یا کشمیری عوام کا اس میں کچھ فائدہ نہیں— اب آخری وقت آگیا ہے کہ اِس معاملے میں نظر ثانی کی جائے اور جذباتیت کو چھوڑ کر حقیقت پسندی کا طریقہ اختیار کیا جائے۔
واپس اوپر جائیں

مقامِ نزاع سے پیچھے ہٹنا

تجربہ بتاتا ہے کہ جب دو فریقوں کے درمیان کسی مسئلے پر نزاع پیدا ہوجائے ، تو آگے جانے کا راستہ ہمیشہ بند ہوجاتا ہے۔ البتہ پیچھے لوٹنے کا راستہ ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔ ایسے موقع پر آگے بڑھنے کی کوشش کرنا، صرف اپنے نقصان میں اضافہ کرنے کے ہم معنی ہوتا ہے۔ ایسے موقع پر آدمی کے لیے صرف ایک ہی چوائس باقی رہتا ہے، اور وہ یو ٹرن (U-Turn) کا چوائس ہے، یعنی پیچھے کی طرف لوٹ جانا۔
ایسے موقع پر پیچھے کی طرف لوٹنے کا مطلب پسپائی نہیں، بلکہ یہ تدبیر کا ایک معاملہ ہے۔ یہ پیچھے ہٹ کر دوبارہ آگے بڑھنے کی ایک تدبیر ہے۔ عقل مند آدمی ہمیشہ ایسے موقع پر یوٹرن کا چوائس لیتا ہے۔ مثال کے طورپر 1799 میں سلطان ٹیپو اور انگریزوں کے درمیان نزاع پیدا ہوئی۔ سلطان ٹیپو نے یوٹرن کا چوائس نہیں لیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی پوریسلطنت تباہ ہوگئی۔ اِس کے برعکس، حیدرآباد کی مسلم ریاست نے اِسی طرح کی صورتِ حال میں، انگریزوں کے مقابلے میں یوٹرن کا چوائس لے لیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ سو سال تک کامیابی کے ساتھ باقی رہی۔
عقل مند انسان وہ ہے جو نزاع کی صورتِ حال کو تجربہ کے خانے میں ڈالے۔ وہ نتیجہ (result) کی بنیاد پر اپنے عمل کی نئی منصوبہ بندی کرے۔ وہ اپنے جذبات کو اپنا رہ نما نہ بنائے، بلکہ عملی حالات کی بنیاد پر اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرے ۔ وہ پیچھے کی طرف مارچ کرنے کو بھی اتنا ہی اہم سمجھے، جتنا کہ اِس سے پہلے وہ آگے کی طرف مارچ کو اہم سمجھے ہوئے تھا۔
ایسا کرنے والا آج کے دن کو کھو کر، کل کے دن کو پالیتا ہے اور جو ایسا نہ کرے، وہ آج کے دن کو بھی کھوئے گا اور کل کے دن کو بھی۔ زندگی میںاکثر ایساہوتا ہے کہ پیش قدمی کا راستہ پچھلے مقام پر ہوتا ہے، مگر آدمی اُس کو اگلے مقام پر ڈھونڈنے لگتا ہے۔ حالاں کہ قانونِ فطرت کے مطابق، ایسا ہونا ممکن نہیں — مقامِ نزاع سے پیچھے ہٹنا، دانش مندی بھی ہے اور بہادری بھی۔ اس کے برعکس، مقامِ نزاع پر ٹکراؤ شروع کردینا، نہ دانش مندی ہے اور نہ بہادری۔
واپس اوپر جائیں

ردّ ِعمل اسلام میں نہیں

بہت سے لوگ جنگ اور تشدد میںمبتلا ہیں، انفرادی سطح پر بھی اور اجتماعی سطح پر بھی۔ اُن سے کہا جائے کہ تم یہ تباہ کُن کام کیوں کررہے ہو، تو وہ یہ جواب دیں گے کہ— یہ تو ایک فطری ردّ عمل ہے۔ جب کسی گروہ کے خلاف ظلم اور نا انصافی کا واقعہ پیش آئے گا، تو اس کے اندر ضرور جوابی ردّ عمل (reaction) پیدا ہوگا۔ وہ گن اور بم استعمال کرے گا۔ یہاںتک کہ آخر کار وہ خوکُش بم باری (suicide bombing) کا طریقہ اختیار کرے گا۔ اگر ہمارے متشددانہ ردّ عمل کو ختم کرنا ہے، تو فریقِ ثانی کی طرف سے کیے جانے والے ظلم اور ناانصافی کو ختم کرنا ہوگا، ورنہ ہماری طرف سے متشددانہ کارروائیوں کا سلسلہ برابر جاری رہے گا۔ ردّ عمل (reaction) کو ختم کرنا ہے تو پہلے عمل (action) کو ختم کیجیے۔ اِس معاملے میںیک طرفہ نصیحت سے کوئی فائدہ ہونے والا نہیں۔
ردّ عمل کا یہ فلسفہ سرتاسر غیر فطری ہے۔ ایسے لوگوں کی اصل غلطی یہ ہے کہ انھوں نے اپنے ذہنوں میں عمل کا غلط معیار قائم کرلیا ہے۔ عمل کا صحیح معیار یہ ہے کہ عمل کے بعد پیش آنے والے نتیجہ (result) کو دیکھا جائے۔ صحیح عمل کی پہچان یہ ہے کہ وہ عمل کرنے والوں کے لیے مفید نتیجہ پیدا کرے۔ جو عمل مفید نتیجہ پیدا نہ کرے، وہ سرے سے قابلِ ترک ہے۔
یہ ایک فطری حقیقت ہے کہ کوئی عمل یا تو مفید نتیجہ پیدا کرتا ہے، یا وہ عمل کرنے والوں کے لیے کاؤنٹر پروڈکٹیو (counter productive) ثابت ہوتا ہے۔ اِس معاملے میں تیسری کوئی صورت نہیں۔ عملی اقدام وہی درست ہے جو نتیجہ خیز ہو۔ جو عملی اقدام نتیجہ خیز نہ ہو، وہ صرف اپنی تباہی میںاضافے کے ہم معنیٰ ہے، اور اپنی تباہی میں اضافہ کبھی کسی دانش مند کا کام نہیں ہوسکتا۔
کسی عمل کے مقابلے میں جذباتی ردّ عمل، اُس عمل کا جواب نہیں۔ عمل کا حقیقی جواب یہ ہے کہ پہلے صورتِ حال کا جائزہ لیا جائے، مثبت ذہن کے ساتھ نتیجہ خیز منصوبہ بندی کی جائے، پھر ٹکراؤ کے بجائے تعمیر کے اصول پر اپنے عمل کا آغاز کیا جائے۔ یہی صحیح اسلامی طریقہ ہے۔
واپس اوپر جائیں

نفرت کا بم

ہر آدمی کے اندر ایک شیطان چھپا ہوا ہے۔ یہ شیطان، نفرت کا بم (hate bomb)ہے۔ ہر آدمی امکانی طورپر نفرت کا بم اپنے اندر لیے ہوئے ہے۔ نفرت کا یہ بم عام حالات میں، انسان کے اندر سویا ہوا ہوتا ہے۔ لیکن اگر کسی طرح اُس کو جگا دیا جائے، تو اچانک وہ بے پناہ ہو کر بھڑک اٹھتا ہے۔ واقعات بتاتے ہیں کہ اِس معاملے میں کسی عورت یا مرد کا کوئی استثنا نہیں۔
اِس صورتِ حال کا مطلب دوسرے لفظوں میں، یہ ہے کہ ہر انسان ایک انتہائی آتش گیر (highly inflammable) مادّہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ کسی سماج میں اگر دس ہزار آدمی ہیں، تو وہ گویا کہ دس ہزار چلتے پھرتے آتش گیر مادّے کا مجموعہ ہیں۔ یہ دراصل ذاتی مفاد (personal interest) ہے جو لوگوں کو مزاجاً متشدد ہونے کے باوجود، مجبورانہ طور پر امن پسند بنائے رہتا ہے۔ ایسی صورت میں قیادت (leadership) کا کام ایک بے حد مشکل کام ہے۔ جس قائد کے پاس صرف شکایت اور احتجاج کا نعرہ ہو، اُس کو ہر گز میدان میںنہیں آنا چاہیے۔ کیوں کہ اس کا منفی نعرہ لوگوں کو بھڑکائے گا اور آخرکار، سماج کا وہ حال ہوجائے گا، جیسے ایک مقام پر بہت سے آتش گیر مادّے ہوں اور وہ اچانک بھڑک اٹھیں۔
قائد پر لازم ہے کہ اگر اس کے پاس محبت کا نعرہ ہے، تب تو وہ اپنی تحریک لے کر سماج میں آئے۔ اور اگر اُس کے پاس صرف نفرت اور شکایت کی باتیں ہوں، تو اس کے لیے فرض کے درجے میں ضروری ہے کہ وہ اجتماعی تحریک ہر گز نہ شرو ع کرے۔ اس کے بجائے، وہ اپنے آپ کو اپنے گھر کے اندر محصور کرلے۔ یہی اس کے لیے نجات کی واحد صورت ہے۔
اجتماعی تحریکیں دو قسم کی ہوتی ہیں— مثبت تحریک، اور منفی تحریک۔ مثبت تحریک وہ ہے جو ذاتی ذمّے داری (duty) کی بنیاد پر اٹھائی جائے۔ ایسی تحریک ایک صالح تحریک ہے۔ منفی تحریک وہ ہے جو حقوق طلبی اور احتجاج کی بنیاد پر اٹھائی جائے۔ ایسی تحریک ایک غیر صالح تحریک ہے۔ صالح تحریک کا نتیجہ ہمیشہ اچھا نکلتا ہے، اور غیر صالح تحریک ہمیشہ بُرے انجام پر ختم ہوتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

منفی تأثر، مثبت تأثر

ایک صاحب نے ایم بی اے (ماسٹر آف بزنس ایڈ منسٹریشن) کاکورس کیا۔ اِس کے بعد اُن کو دہلی میں ایک ملٹی نیشنل کمپنی میںاچھی سروس مل گئی۔ انھوں نے اِس سروس کی بنیاد پر ہاؤس لون لے کر اپنا ایک گھر بنا لیا۔ اِسی طرح انھوں نے کار لون لے کر اپنے لیے ایک کار حاصل کرلی۔بظاہر اُن کے معاملات درست تھے۔ ایک عرصے کے بعد وہ مجھ سے ملے۔ وہ اُس وقت غصے میں تھے۔ انھوںنے بتایا کہ کمپنی والوں نے میرے ساتھ ایک بے انصافی کی ہے۔ انھوں نے میرے ایک جونیئر کا پروموشن کردیا۔ میں اس کے مقابلے میں سینئر تھا، مگر میرا پروموشن نہیں ہوا۔ میں اِس کو برداشت نہیں کرسکتا۔ میں نے کہا کہ اِسی کمپنی کی ملازمت کی وجہ سے شہر میں آپ کا گھر ہوگیا اور آپ کو کار مل گئی۔ اِس کا آپ نے کبھی اعتراف نہیں کیا، اور آپ کا پروموشن نہیں ہوا تو آپ اِس پر غصہ ہورہے ہیں۔
یہی عام طورپر تمام عورتوں اور مردوں کا مزاج ہوتا ہے۔ وہ اپنے موافق باتوں کا چرچا نہیں کرتے، لیکن اُن کے مخالف کوئی بات ہوجائے، تو وہ اس کا چرچا خوب کرتے ہیں۔ یہ مزاج انسانی شخصیت کے لیے قاتل ہے۔ ہر انسان کو بہت زیادہ اِس مزاج سے بچنا چاہئے۔
انسان کا مزاج یہ ہے کہ اگر سو میںننانوے مثبت باتیں ہوں، تووہ اس کی شخصیت کا حصہ نہیں بنیں گی، لیکن اگر ایک منفی بات ہو تووہی اس کی شخصیت کا حصہ بن جائے گی۔ پانی کے گلاس میں اگر آپ پتھر کا ایک ٹکڑا ڈالیں تو وہ صرف ایک ٹکڑا بن کر پانی میں رہے گا، لیکن اگر آپ اس کے اندر رنگ ڈال دیں تو رنگ پورے پانی میں پھیل جائے گا۔ یہی معاملہ انسان کا ہے۔ انسان جب کسی واقعے سے منفی تاثر لے گاتو وہ تاثر اس کی پوری شخصیت کا حصہ بن جائے گا، لیکن اُس کے ساتھ کوئی مثبت واقعہ پیش آئے تو وہ اس کی شخصیت کا صرف ایک محدود جز بن کر پڑا رہے گا۔ یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ منفی تاثر فوراً انسان کے فعّال حافظے کا جز بن جاتا ہے۔ اس کے برعکس، مثبت تاثر بہت جلد فراموشی کے خانے میںچلا جاتا ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ جب کوئی منفی تاثرپیش آئے تو فوراً وہ اس کو بھلا دے، ورنہ اس کو منفی شخصیت کی صورت میں اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔
واپس اوپر جائیں

دولت کافی نہیں

امریکا کے بل گیٹس (Bill Gates) کو سافٹ وئرجائنٹ (software giant)کہاجاتا ہے۔اُ ن کے پاس کوئی بڑی تعلیمی ڈگری نہیں۔ وہ امریکا کی ہارورڈ یونی ورسٹی میں پڑھ رہے تھے، پھر انھوں نے فراغت سے پہلے تعلیم چھوڑ دی، مگر جلد ہی وہ کرۂ ارض کے سب سے زیادہ دولت مند انسان بن گئے۔ 1999 میں ان کی دولت کا اندازہ ایک سو بلین ڈالر سے زیادہ تھا:
The Harvard dropout was the wealthiest person on the planet for years worth more than $ 100 billion in 1999.
کمپیوٹر ٹکنالوجی میںانھو ںنے نئی ترقیاں کیں۔ ان کا کاروبار ساری دنیا میں اتنا بڑھا کہ وہ کمپیوٹر کنگ کہے جانے لگے۔ لیکن یہ ترقیاں ان کو قلبی سکون نہ دے سکیں۔ اب انھوں نے انسانی مواسات (philanthropy) کو اپنا میدان بنانے کا فیصلہ کیا۔ اِس سلسلے میں انھو ںنے ایک ادارہ قائم کیا اور اپنی دولت کا تقریباً آدھا حصہ اس میں دے دیا۔ اِس ادارے کا نام یہ ہے:
Bill and Melinda Gates Foundation
27 جون 2008 کو جب کہ ان کی عمر 52 سال تھی، انھوں نے کمپیوٹر بزنس سے رٹائر ہونے کا اعلان کردیا۔ اب وہ اپنی بقیہ زندگی زیادہ تر، صحت اور تعلیم کے میدان میں صرف کریں گے اور اپنی کمپنی سے صرف رسمی تعلق باقی رکھیں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی مادّی سامان یا مادّی ترقی، انسان کو حقیقی سکون نہیں دے سکتی۔ موجودہ دنیا کو اس کے بنانے والے نے اِس لیے نہیں بنایاکہ یہاں انسان اپنی تمام خواہشیں پوری کرے اور پورے معنوں میں وہ فل فل مینٹ (fulfillment) حاصل کرے۔
موجودہ دنیا ایک محدود دنیا ہے۔ وہ صرف اِس لیے ہے کہ انسان اپنی ضرورتوں کو پورا کرتے ہوئے اعلیٰ ربانی مقصد میں اپنی توانائی صرف کرے، تاکہ وہ آخرت میں خدا کے ابدی انعام (reward)کا مستحق ٹھہرے۔
واپس اوپر جائیں

مادّی ترقی، روحانی موت

نئی دہلی کے انگریزی روزنامہ ’ہندو‘ (The Hindu) کے شمارہ 2 ستمبر 2008 میں ایک سبق آموز رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ یہ رپورٹ مشہور کھلاڑی ابھنو بندرا (Abhinav Bindra) کے بارے میں ہے۔ابھنو بندرا ایک ہندستانی کھلاڑی ہیں۔ بیجنگ (چین)میں ہونے والے اولمپک گیم (اگست 2008 ) میںانھوںنے شوٹنگ میں گولڈ میڈل حاصل کیا ہے۔ اُن کے بارے میں مذکورہ رپورٹ حسب ذیل عنوان کے تحت اخبارمیں شائع ہوئی ہے— میں صرف ہارا ہواایک انسان ہوں:
I am quite a loser
رپورٹ کے مطابق، ابھنو بندرا نے کہا کہ — وہ اپنے آپ کو زندگی میں ایک ہارا ہوا انسان (loser) سمجھتے ہیں، کیوں کہ انھوں نے شوٹنگ کے سوا کچھ اور نہیں کیا۔ میری تمام زندگی شوٹنگ میں گزری۔ میںنے اپنی زندگی میں کچھ نہیں کیا۔ میں صرف ایک کھونے والا انسان ہوں۔ میں صرف سوتا ہوں اور دوڑتا ہوں اور شوٹنگ کے سوا کچھ اور نہیں کرتا۔ بندرا نے یہ بات بی بی سی کے تحت ’’ایک ملاقات‘‘ کے پروگرام میں کہی۔ انھوں نے کہا کہ اسپورٹ، زندگی کا صرف ایک حصہ ہے۔ زندگی میں اور بھی بہت سی چیزیں ہیں، لیکن میں نے کچھ اور نہیں کیا:
New Delhi: Abhinav Bindra says he considers himself a “loser” in life, as he has done nothing except shooting at ranges. “All my life has been shooting. I have done nothing in my life. I am quite a loser. I just sleep, run and do nothing except shooting.” Bindra told BBC’s “Ek Mulaqat” programme. “Sport is one part of life. There are so many other things to life, but I have done nothing”, he added. — PTI (p. 22)
انسانی شخصیت کے دو حصے ہیں— مادّی حصہ، اور روحانی حصہ۔ آدمی اگر اپنی شخصیت کے صرف مادّی حصے کو فیڈ (feed) کرے، تو وہ مذکورہ قسم کے احساسِ محرومی کا شکار رہے گا۔ اور اگر مادّی حصے کے ساتھ، وہ اپنی شخصیت کے روحانی حصے کو بھی فیڈ کرے، تو وہ کبھی احساسِ محرومی کا شکار نہ ہوگا۔
واپس اوپر جائیں

شخصیت کی تعمیر

خدا، انسان کا خالق ہے۔ ذہنی اور جسمانی اعتبار سے انسان جو کچھ ہے، وہ تمام تر خدائی تخلیق کا نتیجہ ہے۔ لیکن موجودہ دنیا میں انسان کی جو شخصیت بنتی ہے، وہ انسان کی خود اپنی تعمیر کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اِس اعتبار سے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ انسان پچاس فی صد، خدا کی تخلیق ہے اور پچاس فی صدخود اپنی تعمیر:
Every human being is fifty percent God-made, and fifty percent self-made.
انسان فطری طور پر ہر قسم کی صلاحیت لے کر پیدا ہوتا ہے، لیکن یہ صلاحیتیں اس کے اندر بالقوہ(potential) کے طورپر ہوتی ہیں۔ اِس بالقوہ کو بالفعل (actual) بنانا، انسان کا اپنا کام ہے۔ یہ ایک عظیم موقع(opportunity) ہے جو ہر عورت اورہر مرد کو ملی ہوئی ہے۔ یہ تمام تر انسان کا اپنا کام ہے کہ وہ اپنے بالقوہ کو بالفعل بنائے، یا اس کے بغیر ہی ایک ناکام انسان کے طورپر مرجائے۔
بالقوہ کو بالفعل بنانا ایک مسلسل عمل (process) ہے جو تاحیات جاری رہتا ہے۔ اِس عمل کا آغاز سنجیدہ غور وفکر سے ہوتاہے۔ سنجیدہ غور وفکر کے ذریعے آدمی سچائی کی معرفت تک پہنچتا ہے۔ اس کے بعد آدمی کو ہر دن اپنا محاسبہ (introspection) کرنا پڑتا ہے۔ اس کو یہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ اپنی کمیوں اور کوتاہیوں کو تلاش کرے اور ان کی اصلاح کرکے اپنے اندر ذہنی اور روحانی ارتقا کے عمل کوجاری رکھے۔
شخصیت کی تعمیر (prsonality building)کا یہ عمل آدمی خود کرتا ہے، لیکن اِس عمل کو درست طورپر جاری رکھنے کے لیے ضرورت ہوتی ہے کہ اُس کو مسلسل طورپر خدا کی مدد حاصل رہے۔ اِس مدد کے حصول کا ذریعہ دعا ہے۔ دعا میں جینے والا آدمی ہی اپنی شخصیت کی تعمیر میںکامیاب ہوتا ہے۔ دعا کے بغیر یہ کام اپنی تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا۔انسان جب پیدا ہوتا ہے تو وہ خام لوہا (ore) کی مانند ہوتا ہے۔ ہر آدمی کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے خام لوہے کوترقی دے کر اسٹیل (steel) بنائے۔ یہ کام ہر ایک کو کرنا ہے۔ اِس میں کسی بھی عورت یا مرد کا کوئی استثنا نہیں۔
واپس اوپر جائیں

حقیقت پسندانہ عمل، یا چھلانگ

ایک صاحب نے ایک دکان کھولی۔ دکان سے اتنی آمدنی ہوتی تھی کہ اُن کا ضروری خرچ چل جائے۔ مگر انھوں نے اپنے گھر کا خرچ بڑھالیا۔ اِس سے مسئلہ پیدا ہوا۔ اب انھوں نے بینک سے قرض لیا، تاکہ اپنی آمدنی کو بڑھائیں۔ مگر قرض کے بعدان کی مشکلات اور زیادہ بڑھ گئیں۔ یہ ان کے لیے ایک چھلانگ تھی، جو نتیجے کے اعتبار سے الٹی ثابت ہوئی۔ اگر وہ یہ کرتے کہ اپنے خرچ پر کنٹرول کرتے اور محنت کرکے دھیرے دھیرے ترقی کی کوشش کرتے، تو وہ چند سال میںکامیاب ہوسکتے تھے۔ مگر اچانک ترقی کی کوشش اُن کے لیے ایک ایسی چھلانگ تھی جس نے مسئلہ حل کرنے کے بجائے، مسئلے میں اور زیادہ اضافہ کردیا۔
چھلانگ کا طریقہ جس طرح فرد کے لیے نقصان دہ ہے، اِسی طرح وہ قوموں کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔ عراق کے اوپر امریکا کا حملہ(2003) اِسی قسم کی ایک چھلانگ تھا۔ سپرپاور ہونے کے باوجود یہ حملہ امریکا کے لیے الٹا نتیجہ پیدا کرنے والا ثابت ہوا۔
حملہ شروع ہونے سے دو سال پہلے، میں نے اِس موضوع پر ایک انٹرویو دیا تھا، جو نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (16 ستمبر2001 ) میں چھپا تھا۔ اِس انٹرویومیں، میںنے پیشگی طورپر کہا تھا کہ — امریکا نے اگر عراق پر حملہ کیا، تو وہ اُس کے لیے الٹا نتیجہ پیدا کرنے والا ثابت ہوگا:
US aggression would be counter-productive.
چناں چہ اِس حملے کے بعد امریکا سخت مشکلوں کا شکار ہوگیا۔ عراق پر حملہ، امریکا کے لیے ایک بہت بڑے دلدل میںکودنے کے ہم معنٰی ثابت ہوا۔
کام کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ حقیقت پسندانہ منصوبے کے تحت عمل کیا جائے۔ چھلانگ کا طریقہ ہرگز اختیارنہ کیا جائے۔ حقیقت پسندانہ عمل میں انسان کی رہ نما اس کی عقل ہوتی ہے، اور چھلانگ کا عمل ہمیشہ جذبات کے زیر اثر پیش آتا ہے۔ عقل سے سوچ کر کیا ہوا عمل ہمیشہ کامیاب ہوتا ہے، اور جذبات کے تحت کئے جانے والے عمل کا نتیجہ ہمیشہ ناکامی کی صورت میں نکلتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

زیادہ ذہین، زیادہ دُور

انسانوں میںفطری طورپر کچھ لوگ زیادہ ذہین ہوتے ہیں اور کچھ لوگ کم ذہین۔ پوری تاریخ کا یہ تجربہ ہے کہ زیادہ ذہین لوگوں میں بہت کم ایسے افراد ہوتے ہیں جو خدا کے دین کی طرف راغب ہوں ۔ یہ ایک واقعہ ہے کہ ہر زمانے میں صرف کم تر ذہانت کے لوگ اپنے آپ کو دینی کام میں لگاتے ہیں۔ زیادہ ذہانت رکھنے والے لوگوں میں بہت کم ایسے افراد نکلے جو اپنی صلاحیتوں کو حقیقی معنوں میں، خدا کے دین کے لیے وقف کرسکیں۔
ایسا کیوں ہے، اِس کا سبب وہی ہے جس کو قرآن میں حبِّ عاجلہ (القیامۃ:20 ) کہاگیا ہے، یعنی فوری فائدہ(immediate gain) کی کشش۔ زیادہ ذہین لوگ بہت جلد منی مارکیٹ (money market) میں اپنے لیے ایک نفع بخش جاب (job) پالیتے ہیں، جب کہ دینی کام کا فائدہ آخرت سے جڑا ہوا ہے۔ منی مارکیٹ میں ان کو فوراً دولت اور شہرت اور اقتدار ملتا ہوا نظر آتا ہے، جب کہ دینی کام میں اُنھیں محسوس ہوتا ہے کہ اپنے عمل کا انعام پانے کے لیے اُنھیں موت کے بعد آنے والی دنیا کا انتظار کرنا پڑے گا ۔ تاریخ کے اِس تجربے کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ جو شخص زیادہ ذہین ہوتاہے، وہ عملی طورپر اتنا ہی زیادہ نادان ثابت ہوتا ہے۔ ایسے افراد وقتی فائدے کی خاطر، ابدی فائدے کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ وہ دنیا کی جھوٹی خوشی کے بدلے، جنت کی سچی خوشی سے خود کو محروم کرلیتے ہیں۔
زیادہ ذہین آدمی کی ایک کم زوری یہ ہے کہ وہ انانیت پسند (egoist) ہوتا ہے اور دینی کام میں انانیت پسندی کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ دینی کام ہمیشہ تواضع (modesty) کی بنیاد پر ہوتا ہے، نہ کہ فخر اور برتری کی بنیاد پر۔ زیادہ ذہین لوگ اپنی انا کو کچل نہیں پاتے، اِس لیے وہ دینی کام سے اپنے آپ کو ہم آہنگ نہیں کرپاتے ۔ دینی کام دراصل، خدائی کام ہے۔ دینی کام وہی لوگ کرسکتے ہیں جو خدا کے مقابلے میں اپنے آپ کو پوری طرح سرینڈر کیے ہوئے ہوں۔ اِس مزاج میںادنی کمی بھی کسی آدمی کو دینی کام کے لیے نااہل (incompetent) بنادیتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

ماضی میں جینا

لوگوں سے بات کیجیے تو اکثر لوگ، بلکہ شاید سبھی لوگ کسی نہ کسی کے خلاف کوئی شکایت لے کر منفی احساسات میں مبتلا رہتے ہیں۔ پورے معنوں میں مثبت سوچ(positive thinking) والا آدمی شاید کوئی بھی آج کی دنیا میں موجود نہیں۔
اِس قسم کی سوچ آدمی کے اندر منفی شخصیت (negative personality) پیدا کرتی ہے۔ اور منفی شخصیت کسی بھی عورت یامرد کے لیے خود کُشی سے کم نہیں۔ عام خود کشی اگر جسمانی خود کشی (physical suicide) ہے، تو منفی سوچ بلاشبہہ نفسیاتی خود کشی (psychological suicide) ہے۔
اِس معاملے میں لوگوں سے پوچھ گچھ(scrutiny) کیجئے تو معلوم ہوگا کہ ان کی شکایت کسی نہ کسی ایسے واقعے پر مبنی ہے جس کا تعلق گزرے ہوئے ماضی سے ہے۔ لوگوں کی یہ ایک تباہ کن عادت ہے کہ اگر اُن کے ساتھ کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش آجائے، تو وہ دوسروں سے اس کا چرچا کرتے ہیں، وہ ہمیشہ اس کو اپنی یاد (memory)میں لیے رہتے ہیں۔ یہی عادت کسی عورت یا مرد کے اندر منفی شخصیت کی تشکیل کا سب سے بڑا سبب ہے۔
ہر عورت اور ہر مرد کو چاہیے کہ جب بھی اس کے ساتھ کوئی نا خوش گوار واقعہ پیش آئے، تو اُسی وقت وہ اس کو فراموشی کے خانے میں ڈال دے۔ وہ ہرگز دوسروںسے اس کا چرچا نہ کرے، بلکہ وہ کوشش کرکے ناخوش گوار واقعہ کے کسی خوش گوار پہلو کو تلاش کرے۔ اِس طرح وہ ایک منفی تجربے کو، مثبت تجربے میں تبدیل کردے، ٹھیک اُسی طرح جیسے ایک مسافر کے پاؤں میںکانٹا چبھ جائے، تو وہ اُسی وقت اس کانٹے کو نکال کر باہرپھینک دیتا ہے۔ وہ اس کو اپنی زندہ یادداشت (living memory) کا جز نہیں بناتا۔
دانش مند انسان وہ ہے جو ماضی کی تلخ یادوں کو بھلا دے۔ وہ اپنے ذہن کو ماضی کی ناخو ش گوار یادوں کا جنگل نہ بننے دے۔ اِس دنیا میں کامیاب زندگی کی اِس کے سوا کوئی اور صورت نہیں۔
واپس اوپر جائیں

سوال وجواب

سوال
میں ایک جدید تعلیم یافتہ مسلمان ہوں۔ میں پانچ وقت نماز پڑھتا ہوںاورروزہ بھی رکھتا ہوں، لیکن یہ تراویح جو ہر سال پڑھی جاتی ہے، اس کا کوئی فائدہ میری سمجھ میں نہیں آتا۔براہِ کرم، اِس کی وضاحت فرمائیں (ایک قاری، الرسالہ، حیدر آباد)
جواب
تراویح کوئی رسم نہیں ہے۔تراویح دراصل، قرآن کا اجتماعی مطالعہ (collective study) ہے۔ تراویح کا مطلب یہ ہے کہ نماز کی حالت میں کھڑے ہو کر قرآن کو سنا جائے اور اس کا اجتماعی مطالعہ کیا جائے۔تراویح کی بہترین صورت یہ ہے کہ کسی دن قرآن کا جو حصہ پڑھا جانے والا ہو، تمام نمازی پیشگی طورپر قرآن کے اُس حصے کا ترجمہ پڑھیں اور اس کے مضمون کو اپنے ذہن میں بٹھائیں۔ اِس کے بعد وہ مسجد میں جاکر تراویح پڑھیں۔ اِس طرح جب وہ تراویح پڑھیں گے تو وہ قرآن کو سنیں گے بھی اور اُس پر غور بھی کریں گے۔ یہ اُن کے لیے قرآن کا ایک اجتماعی مطالعہ ہوگا جس سے انھیں غیرمعمولی فائدے حاصل ہوں گے۔حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جب زیادہ لوگ جمع ہو کر اللہ کا ذکر کریں اور اللہ کا چرچا کریں تو اُس وقت وہاں فرشتے بہت زیادہ تعداد میں آجاتے ہیں۔ فرشتوں کی آمد سے اُس مقام پر ایک روحانی ماحول پیدا ہوجاتا ہے۔ تراویح، اِسی قسم کا ایک اجتماعی ذکر اور اجتماعی مطالعہ قرآن ہے۔ اُس کو اگر صحیح طورپر انجام دیا جائے تو اُس سے غیر معمولی فوائد حاصل ہوںگے۔
سوال
میری عمر اس وقت 48 سال ہے۔ میری تعلیم ایک دینی مدرسے میں ہوئی۔ تعلیمی زندگی میں مدرسے کے اندر کچھ ایسے واقعات پیش آئے کہ میںاس ماحول سے متنفّرہوگیا، نہ صرف اس ماحول سے بلکہ مذہب کے تعلق سے ایسی بیزاری ہوئی کہ روزہ نماز بھی چھوڑ دیا۔ برسوں یہ سلسلہ چلتا رہا پھر ایک دوست کے ذریعے ماہ نامہ الرسالہ سے تعارف ہوا۔ الرسالہ کے مضامین پسند آئے۔ لیکن اس لیے نہیں کہ اس میں معرفت والا دین بتایا گیا ہے، بلکہ اس لیے کہ اس میں ڈھیر ساری معلومات ہوتی ہیں جس کے سہارے مختلف لوگوں سے بحث کی جاسکتی ہے،لیکن کب تک؟سچائی سر چڑھ کر بولتی ہے۔ الرسالہ کے مضامین نے دھیرے دھیرے متاثر کرنا شروع کردیا۔ اور میں نے سنجیدگی سے الرسالہ کی باتوں پر غور کرنا شروع کیا۔ میں نے پایا کہ یہ واحد ذریعہ ہے دین کو سمجھنے کا۔ اورخداکی توفیق سے یہ سمجھ میں آیا کہ اللہ اپنے بندوں سے کیا چاہتا ہے۔
میںآپ کی تحریک (دعوت الی اللہ) سے پوری طرح متفق ہوں اور چاہتاہوں کہ اس تحریک میں اپنا حصہ ادا کرکے اپنے گناہوں اور کوتاہیوں کا کفّارہ ادا کر سکوں۔ گو کہ میں روحانی اعتبار سے خود کو انتہائی کمزور پاتا ہوں۔ میری شدید خواہش ہے کہ کم ازکم چالیس 40 دن آپ کے زیر سایہ رہنے کا موقع ملے، تاکہ میری کنڈیشننگ ٹوٹے اور میں اپنی ڈی کنڈیشننگ کرسکوں۔ میری خواہش ہے کہ میں دوبارہ آپ کے ذریعہ کلمہ پڑھ کر اسلام قبول کروں اور آپ کے زیر سایہ کچھ دن تربیت حاصل کرسکوں۔
میرے ساتھیوںکا مختصر تعارف حسب ذیل ہے:
1 - حافظ صلاح الدین عمر 25 سال
انھوںنے تعلیمی فراغت کے بعد پانچ سال تک ایک مسجد میں امامت کی۔ تبلیغی جماعت سے وابستہ رہے، لیکن روایتی شاکلہ (framework)سے مطمئن نہیں تھے۔ آخر انھوںنے سب کچھ چھوڑ دیا۔ اور ایک کارخانے میں مینجر ہیں۔ الرسالہ مشن سے پوری طرح اتفاق رکھتے ہیں۔
2 - شفیق بھائی (میڈیکل اسٹور کے مالک) الرسالہ سے اتفاق رکھتے ہیں، لیکن بابری مسجد جیسے موضوع پر وہ آپ کے موقف سے مطمئن نہیں۔
3 - مسٹر سہراب اعظمی (اعظمی بیکری)یہ سیاسی سرگرمیوں میں زیادہ دل چسپی لیتے ہیں۔ میں نے اُن سے بارہا کہا کہ دین کے کاموں میں آگے آئیں، اللہ آپ کی دنیا و آخرت دونوں کو بہتر کرے گا۔ وہ الرسالہ کو پسند کرتے ہیں لیکن اُن کا اختلاف اس بات پر ہے کہ مولانا، مسلمانوں کو مکی زندگی کی ترغیب دیتے ہیں، جب کہ اس وقت مسلمانوں کو مدنی زندگی کے قیام کی کوشش کرنا چاہیے۔ میںنے اُن کو دلائل سے مطمئن کرنے کی کوشش کی کہ مکی زندگی کے بغیر مدنی زندگی کا تصور ہی فضول ہے۔
4 - جاوید اکبر صاحب (ریٹائرڈ گورنمنٹ سرونٹ) یہ الرسالہ مشن اور دوسری تحریکوں میں فرق کرنا ہی نہیں جانتے ۔وہ دونوں کو یکساں سمجھتے ہیں۔
5 - مولانا مسعود۔ یہ جھاڑ پھونک کرتے ہیں۔ وہ میری باتوں کے جواب میں الٹے سیدھے سوال کرکے اُلجھا دیتے ہیں۔ مثلاً ان کا کہنا ہے کہ انسان کے تین جسم ہیں— روح، جسم اور نفس۔ مرنے کے بعدروح، اللہ کے پاس چلی جائے گی کیوں کہ وہ پاک ہے اور جسم مٹی میں مل جائے گا، عذاب نفس کو ہوگا۔ جواب میں میں نے کہا کہ روح، جسم اور نفس کے مجموعے کا نام انسان ہے اور اپنے عمل کا وہی ذمہ دار ہے (محمد سلیم، حافظ صلاح الدین، مالے گاؤں)۔
جواب
1 - یہ معلوم کرکے خوشی ہوئی کہ آپ کو ہمارے مشن سے پورا اتفاق ہے۔ ہمارے مشن میں حصہ لینے کی صورت یہ ہے کہ آپ اپنے مقام پر، اپنی استطاعت کے بقدر، بلا تاخیر کام شروع کردیں۔ مثلاً آپ ایک لائبریری قائم کریں۔ ہم خیال لوگوں کو لے کر ہفتے وار اجتماع کریں۔ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو الرسالہ کا قاری بنائیں اور ہمارے یہاں کی چھپی ہوئی کتابیں اور پمفلٹ لوگوں کے درمیان پھیلائیں۔ حسب مقدور دعوتی کام کریں۔
2 - آپ جانتے ہیں کہ موجودہ زمانہ کمیونکیشن کا زمانہ ہے۔ آج کمیونکیشن کے ذریعے وہ فائدہ بالواسطہ طورپر حاصل کیا جاسکتا ہے جو پچھلے زمانے میں براہِ راست طورپر صحبت کے ذریعے حاصل ہوتا تھا۔ ملک کے اندر اور ملک کے باہر کئی افراد اِس طرح کام کررہے ہیں۔ وہ بار بار ٹیلی فون کے ذریعے تبادلۂ خیال کرتے ہیں۔ وہ اپنے یہاں ٹیلی فونی خطاب کا انتظام کرتے ہیں۔ وہ ماڈرن کمیونکیشن کے ذریعے مسلسل طورپر ربط میں رہتے ہیں۔ اِس طرح وہ دور رہتے ہوئے صحبت کا فائدہ حاصل کررہے ہیں۔ آپ بھی یہی طریقہ اختیار کرسکتے ہیں۔
3 - آپ کے ساتھیوں کے بارے میں میرا قیاس ہے کہ وہ الرسالہ کو صرف ایک بار پڑھ لیتے ہیں۔ اِس لیے ان کا ذہن ابھی تک صاف نہیں ہوا۔ آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو چاہیے کہ وہ تذکیر القرآن کو اور دوسری کتابوں کو بار بار پڑھیں۔ اِس کے بعد اُن کے تمام اشکالات اپنے آپ ختم ہوجائیں گے۔
4 - مکی اور مدنی زندگی کے بارے میں آپ نے ایک صاحب کا جواشکال نقل کیا ہے، وہ بھی مطالعے کی کمی کا نتیجہ ہے۔ اگر وہ ہماری کتابوں کو غور کے ساتھ پڑھیں، تو ان کا اشکال بھی اپنے آپ ختم ہوجائے گا۔ لوگوں کے تصور کے مطابق، مکی زندگی پُر امن دعوت کی علامت ہے، اور مدنی زندگی مسلّح جہاد کی علامت۔ پچھلے دو سو سال سے ساری دنیا کے مسلمان جگہ جگہ مسلح جہاد کررہے ہیں۔ یہ جہاد اب تک جاری ہے، لیکن بے شمار قربانیوں کے باوجود اِس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔
ہمارا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میںمسلح جہاد کے مواقع یک سر مفقود ہیں، جب کہ پُر امن دعوت کے مواقع پوری طرح کھلے ہوئے ہیں۔ ایسی حالت میں بلاشبہہ یہ بدترین نادانی ہے کہ پرامن دعوت کے مواقع کو استعمال نہ کیا جائے اور جہاد کے نام سے تباہ کن سرگرمیاں جاری رکھی جائیں۔ خود آپ کے ساتھی اور ان کے جیسے بہت سے لوگ عملاً اِسی طریقے کو اختیار کئے ہوئے ہیں۔ وہ پُر امن مواقع کے درمیان اپنا کام کررہے ہیں، نہ کہ متشددانہ ماحول کے درمیان۔
5 - الرسالہ مشن اور دوسری تحریکوں میںایک واضح فرق ہے۔ وہ فرق یہ ہے کہ الرسالہ مشن خالص دعوتی تحریک ہے، جب کہ دوسری تحریکیں ملّی تحریک کی حیثیت رکھتی ہیں۔ دعوتی تحریک وہ ہے جو انسانیتِ عامہ کے لیے اِنذار و تبشیر کی بنیاد پر اٹھے، جوکسی قومی یا مادّی مفاد کے بغیر، خدا کے ابدی پیغام کو بے آمیز انداز میں لوگوں کی قابلِ فہم زبان میںاُن کو پہنچائے۔ یہ پیغمبرانہ نوعیت کا کام ہے۔ اور یہ کام موجودہ زمانے میں صرف الرسالہ مشن کے تحت انجام پارہا ہے۔
ملی تحریکوں کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ اُن میںسے کسی کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو فخر کی غذا فراہم کی جائے، کسی کا مقصد ہے سیاسی اقتدار کو قائم کرنا، کوئی مسلمانوں کی مادّی یا اقتصادی خدمت کررہا ہے، کوئی مسلمانوں کے قومی مطالبات کو لے کر احتجاجی مہم چلا رہا ہے، کوئی مسلمانوں کی ملی اور روایتی ضرورتوں کو پورا کرنا چاہتا ہے، وغیرہ۔ اِس قسم کے کاموں کو ملی خدمت تو کہا جاسکتا ہے، لیکن اُن کو دعوت الی اللہ کا کام نہیں کہا جاسکتا۔
7 - آپ کے جو ساتھی انسان کو روح اور جسم اور نفس میں تقسیم کرتے ہیں، اور اِس تقسیم کی بنیاد پر اپنا نظریے پیش کرتے ہیں، اُن سے آپ کوئی اور بحث نہ کریں، اُن سے آپ صرف یہ پوچھیے کہ اُن کے اِس نظریہ کا ماخذ قرآ ن میں کہاں ہے۔ اپنے نظریے کے ثبوت میں جب تک وہ کوئی صریح آیت نہ پیش کریں، اُن سے آپ امام احمد کی زبان میں کہیے: إیتونی شیئا من کتاب اللہ حتی أقول۔
سوال
عرض ہے کہ مجھے یہاںایک ساتھی مل گیا ہے، دعوتی کام کرنے کے لیے۔ میرے اِس ساتھی کا نام عبد القیوم شیخ محبوب ہے۔ وہ ناندیڑ کے رہنے والے ہیں۔ میرے ساتھی کا کہنا ہے کہ مجھے اپنی زندگی کے لیے رات دن کام کرنے کا نصاب قرآن اور حدیث کی روشنی میں بتائیے۔ اُن کے اِس کہنے پر میں نے اپنی معلومات کے مطابق، اُن سے کہا کہ اِس کا طریقہ یہ ہے کہ ہم الرسالہ مشن سے جُڑجائیں، تاہم اُن کو میری اِس بات پر سو فی صد اطمینان نہیںہو رہا ہے۔ اس لیے آپ سے گزارش ہے کہ میںاُن کو کس طرح مطمئن کرسکتا ہوں۔ اِس بارے میں ہماری رہ نمائی فرمائیں۔ (کِشن جیونت راؤ پاٹل، مکھیڑ، ناندیڑ، مہاراشٹر)۔
جواب
یہ معلوم کرکے خوشی ہوئی کہ آپ کو اپنے مقام پر ایک ساتھی مل گیا۔ اب آپ دونوں مل کر مشن کواچھی طرح چلا سکتے ہیں۔ آپ دونوں کو میری یہ نصیحت ہے کہ آپ خالص غیر تنقیدی انداز میں کام کریں، کسی بھی حال میں آپ تنقیدی انداز نہ اختیار کریں۔ عام لوگوں کے لیے تنقید کا طریقہ ہر گز جائز نہیں۔آپ دونوں کامل طورپر صبر کا فارمولا اختیار کریں۔ صبر کا فارمولا یہ ہے کہ— پوری طرح مثبت انداز میںکام کیا جائے، کسی بھی حال میں منفی انداز نہ اختیار کیا جائے۔
آپ کے ساتھی کاکہنا ہے کہ اُن کو چوبیس گھنٹے کی دینی مشغولیت کے لیے ایک نصاب چاہیے۔ زندگی کے لیے اِس قسم کا نصاب بتانے کی چیز نہیں ہے، بلکہ وہ دریافت کرنے کی چیز ہے۔ آپ کے ساتھی اگر فی الواقع ایسا ہمہ وقتی نصاب چاہتے ہیں، تو اُن کو یہ کرنا ہوگا کہ وہ گہرا مطالعہ کریں۔ وہ تذکیر القرآن کو بار بار پڑھیں۔ وہ مطالعۂ سیرت اور پیغمبر انقلاب کا بار بار مطالعہ کریں۔ وہ ماہ نامہ الرسالہ کا بار بار مطالعہ کریں۔ وہ ہمارے یہاں کی چھپی ہوئی کتابوں کا باربار گہرا مطالعہ کریں۔ اِس طرح کے گہرے مطالعے کے بعد اُن کو اپنے آپ وہ چیز حاصل ہوجائے گی جس کو وہ ہمہ وقتی نصاب کہتے ہیں۔ اِس قسم کا نصاب پوچھ کر جاننے کی چیز نہیں ہے، بلکہ وہ مطالعہ کے ذریعے دریافت کرنے کی چیز ہے۔
عملی پروگرام کے اعتبار سے، سب سے پہلے آپ لوگوں کو صرف ایک کام کرنا ہے، وہ یہ کہ آپ اپنے مقام پر مطبوعاتِ الرسالہ پر مشتمل ایک لائبریری قائم کریں۔ اور لوگوں کو آمادہ کریں کہ وہ اس لائبریری سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں۔ اِس کے علاوہ، کسی دن ایک مقرر وقت پر آپ لوگ ہفتے وار اجتماع کریں۔ اِس اجتماع میںالرسالہ مشن سے وابستہ افراد کو اکھٹا کریں۔ اُن میں سے کوئی شخص ایک ہفتے تک باقاعدہ تیاری اور گہرے مطالعے کے بعد لوگوں کے سامنے دعوتی اور تربیتی موضوعات پر گفتگو کرے، یا حاضرین کی نسبت سے، وہ اِس موضوع پر اُن کے سامنے ہمارے یہاں کی چھپی ہوئی کسی کتاب کو پڑھ کر سنائے۔ اجتماع کے بعد دعوت کے کام کو مزید آگے بڑھانے کے لیے باہمی مشورہ کیا جائے۔ اِس پروگرام میں بنیادی چیز صرف ایک ہے، اوروہ ہے ماہ نامہ الرسالہ اور یہاں سے چھپے ہوئے دعوتی لٹریچر کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانا۔اگر اِس طرح، سنجیدگی اور کامل صبر کے ساتھ کام کیا جائے، تو ان شاء اللہ چند دنوں میں اس کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے اور اللہ تعالی کام کے مزید راستے کھول دے گا۔
سوال
الرسالہ مشن سے وابستہ کچھ افراد کی جانب سے صاحب ِالرسالہ کی جانب منسوب کرتے ہوئے یہ بات مستقل طورپر سننے میں آرہی ہے کہ مسلمانوں یا کم ازکم مولویوں کو سی پی ایس کا پیغام نہ پہنچایا جائے۔ انھیں ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ کیا صاحب الرسالہ کی جانب منسوب کی گئی یہ بات درست ہے یا پھر یہ غلط نمائندگی کا کیس ہے۔ براہِ کرم اِس معاملے کی وضاحت فرمائیں(شکیل احمد، سہارن پور)۔
جواب
مذکورہ بات اگر کسی نے کہی ہے تو وہ بلا شبہہ ہماری غلط نمائندگی ہے۔ ہمارا نقطۂ نظر ہرگز وہ نہیں ہے جو مذکورہ الفاظ سے بظاہر معلوم ہوتا ہے۔ ہمارا مشن دعوت کا مشن ہے، اور دعوت کے مشن میں مذکورہ قسم کی تفریق درست نہیں ہوتی۔ دعوت کا طریقہ یہ ہے کہ ہر ایک کو مخاطب کیا جائے، البتہ اِس خطاب میں افراد کے مزاج اور علمی معیار کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔
اِس سلسلے میں دوسری بات یہ ہے کہ دعوتی عمل میںمناظرہ (debate) نہیں کیا جاتا۔ مناظرہ، دعوت کی اسپرٹ کے خلاف ہے اگر داعی یہ محسوس کرے کہ وہ خود زیادہ موثر گفتگو کرنے کی پوزیشن میںنہیں ہے، تو اس کو چاہیے کہ وہ مدعو کو دعوتی لٹریچر دینے پر اکتفا کرے، وہ بے فائدہ بحث و مباحثہ سے اپنے آپ کو بچائے۔
آپ کا یہ طریقہ نہایت مستحسن طریقہ ہے کہ آپ نے ہمارے بارے میں جو بات سنی، اس کو براہِ راست طورپر ہمارے پا س لکھ کراس کی تحقیق کی۔ آپ نے ایسا نہیں کیا کہ سنی ہوئی بات کو بلا تحقیق بیان کرنے لگیں۔ اِس بارے میں ہر شخص کو یہ حدیث یاد رکھنا چاہیے: کفیٰ بالمرء کذباً أن یحدّث بکل ما سمع(صحیح مسلم) یعنی کسی آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات کو بلا تحقیق دوسروں سے بیان کرنے لگے۔
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز — 189

1 - جون-جولائی 2008 میں گڈورڈ بکس (نئی دہلی) کی طرف سے شاہ عمران حسن کا صوبہ گجرات (انڈیا) کا سفر ہوا۔ یہ سفر تقریباً ایک ماہ پر مشتمل تھا۔ شاہ عمران حسن نے اطلاع دی ہے کہ گجرات کے دو بڑے شہروں، احمد آباد اور سورت میں، بڑی تعداد میں لوگ ماہ نامہ الرسالہ کے ممبر بنے ۔ احمد آباد اور سورت میں حلقہ الرسالہ سے وابستہ احباب نے اپنا پوراتعاون دیا۔مسٹر الطاف ایم رفعت گجراتی زبان کے رائٹر (writer) ہیں۔ انھوںنے صدر اسلامی مرکز کی کتاب ’’انسان اپنے آپ کو پہچان‘‘ کا ترجمہ گجراتی زبان میں کیا ہے۔ جلد ہی یہ کتاب گڈ ورڈ بکس سے شائع ہوگی۔ اس کا گجراتی نام یہ ہے: Manav Olakh Tari Jaat Ne (مانو آلوکھ تاری جات نی)
2 - الرسالہ مشن کے دعوتی پروگرام کے تحت کشمیر کا سفر ہوا۔ یہ سفر 30 جولائی 2008 کو شروع ہوا اور 31 اگست کوواپسی ہوئی۔ ہمارے پاس الرسالہ کی کاپیاں اورمولانا وحیدالدین خاں کی20 مختلف موضوعات پر CDs تھیں۔ بڑی تعداد میں لوگ ماہ نامہ الرسالہ کے Subscriber بنے اور CDsحاصل کیں۔ وادی کشمیر میں بہت زیادہ لوگ الرسالہ مشن سے وابستہ ہیں اور وہ اس کو پھیلانے میں تگ و دو کر رہے ہیں۔ (شاہ عمران حسن)۔
3 - دور درشن (نئی دہلی) کی ٹیم اور زی نیوز (نئی دہلی) کی ٹیم نے 29 جولائی 2008 کو صدر اسلامی مرکز کا ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ ٹی وی کی ان دونوں ٹیموں کا موضوع ایک تھا اور وہ تھا حالیہ دونوں میں بنگلور اور احمد آباد وغیرہ میںبم دھماکے کے واقعات۔ سوالات کے دوران بتایا گیا کہ اس قسم کے بم دھماکے اسلامی شریعت میں مکمل طورپر حرام ہیں۔ یہ جہاد نہیں ہے بلکہ فساد ہے۔ ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ ایک معصوم انسان کو مارنا اتنا بڑا جرم ہے جیسے کہ سارے انسانوں کو مارڈالنا(المائدۃ: 32) تاہم ان واقعات کی صرف مذمت کرنا کافی نہیں ضرورت ہے کہ جو لوگ اس طرح کے واقعات میںملوث ہیں، ان کو عبرت ناک سزا (deterrent punishment) دی جائے۔ سزا کے بغیر اس قسم کے جرائم بند ہونے والے نہیں۔
4 - 30 جولائی 2008 کو اسلامی مرکز (نئی دہلی) کے آڈی ٹوریم میںایک پریس کانفرنس ہوئی۔ اِس کانفرنس میںمختلف ملکی اور غیرملکی ٹی وی اور اخبار کے نمائندے شریک تھے۔ سب سے پہلے صدر اسلامی مرکز نے ’’اسلام اور دہشت گردی‘‘ کے موضوع پر خطاب کیا۔خطاب کے بعد سوال وجواب ہوا۔ اورپرسنل انٹرویو کی صورت میں ٹی وی اور اخبار کے نمائندوں کے سامنے اسلام کا نقطۂ نظر واضح کیاگیا۔ آخر میں تمام نمائندوں کے درمیان اسلامی لٹریچر تقسیم کیا گیا۔ پریس کانفرنس کی پوری کارروائی انگریزی زبان میں ہوئی۔ مختلف نمائندوں کی تعداد تقریباً بیس تھی۔میڈیا میںاِس کو نمایاں طورپر کور (cover) کیاگیا ہے۔ انگریزی رپورٹنگ کا ایک حصہ یہاںنقل کیا جاتاہے:
1. New Delhi, July 30 - A leading Muslim scholar Wednesday said a new ideology and stricter laws are needed to counter the militant face of Islam.
‘Violence begins from mind and every violence has an ideology. The solution is to counter it by evolving another counter-ideology,’ said Maulana Wahiduddin Khan at a press conference organised by Centre for Peace and Spirituality here Wednesday. ‘We need to dispel their wrong notions and tell them that killing innocent people in the name of Jihad will send them to hell and not heaven,’ he said. Maulana Wahiduddin Khan is a noted Islamic scholar and has authored more than 200 books on Islam. He established the Islamic centre in 1970 and CPS International in 2001 for bringing out the true face of Islam and to promote peace among nations. ‘After 60 years of freedom, we are - living under the shadow of bomb. My vocabulary fails to give me appropriate words to condemn the inhuman act of bomb blasts in Bangalore and Ahmedabad,’ said Maulana Wednesday. ‘One needs to differentiate between Islam and Muslim. You need to judge Muslim in the light of Islam, and not vice versa,’ he added. ‘When Islam came into the world in 7th century, there were only two literatures, Quran - and Hadith -. Muslims had a huge empire in the world and for nearly 1,000 years during their rule other literature was developed which was, however, influenced by political ideas,’ he added. ‘It was during this time that Muslims developed a psyche of supremacy, considering their Prophet as superior among all messengers of gods and their religion supreme among all others. However, this is nowhere written in Quran,’ said Maulana. ‘They entered modern period with this legacy but the condition today is not same and they don't have the same empire. This has led to Muslims living in despair and frustration, trying for political supremacy. Now out of frustrations, they have started suicide bombings,’ Maulana stated. He suggested that Muslim leaders and reformers take on the baton and educate their brethren all over the world. (IANS)
2. NEW DELHI, July 31 (Bernama) -- A renowned Indian Muslim scholar has urged Muslim leaders to promote counter-ideology to stem terrorism, as mere condemnation will not stop the growing menace, which continues to rear its ugly head in all corners of the earth. “All the educated people, both religious and secular, are engaged in condemning this act (terrorism).” “And this is not a new phenomenon. I can say that we are engaged in this kind of condemnation for half a century. This has failed to yield positive result,” Maulana Wahiduddin Khan, president of the New Delhi Islamic Centre, told reporters. “We have to tell Muslims that according to Islamic Shariah, this kind of violence is haram (unlawful). Islamic ideology is completely based on peaceful method. We have to introduce this ideology to the misguided Muslims,” hesaid. India needed to reassess its strategy to discover the root cause of this violent culture that is threatening the entire country. (BERNAMA)
5 - صدر اسلامی مرکز کی ایک نئی کتاب’حکمت اسلام‘ کے نام سے چھپ کر گڈورڈ بکس (نئی دہلی) سے شائع ہوگئی ہے۔ یہ کتاب 348 صفحات پر مشتمل ہے۔ اِس کتاب میں اسلامی تعلیمات کا مطالعہ حکیمانہ پہلو سے کیاگیا ہے۔ اِس کتاب میں یہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اسلام ہر دور کے انسان کے مائنڈ کو ایڈریس کرتا ہے۔ وہ ہر دور کے عقلی معیار پر پورا اترتا ہے۔
واپس اوپر جائیں