Pages

Sunday 1 September 2019

Al Risala | September 2019 (الرسالہ،ستمبر)

4

-خدا کا منصوبۂ تخلیق

7

- جنت کیا ہے

8

- جنت کا رول

9

- جنت کس کے لیے

11

- نجاتِ آخرت

12

- جنت ، ایک انعام

13

- جنت اور انسان

14

- جنت کی دریافت

17

- جہاد فی اللہ

21

- روحانی ترقی

22

- جنت کا سماج

23

- حسنِ رفاقت کی دنیا

24

- اہلِ جنت

26

- حزن فری جنت

28

- جنت کی زندگی

29

- طالبِ جنت

30

- جنت کا استحقاق

31

- جنت میں داخلہ

32

- اصحابِ اعراف

33

- انسان کا نجام

34

- پر امید آیات و احادیث

35

- امید کا پیغام

36

- فتنہ ٔعام

37

- انسان کی دریافت

39

- یہ تضاد کیوں

43

- اہلِ جنت کے درجات

47

- انتخابِ ڈائری 1985


خدا کا منصوبۂ تخلیق

اللہ نے ایک معیاری دنیا بنائی۔ ہر اعتبار سے یہ ایک پرفکٹ دنیا تھی۔ اللہ نے یہ مقدر کیا کہ اِس معیاری دنیا میں ایسے افراد بسائے جائیںجو ہر اعتبار سے معیاری انسان ہوں۔ اِس مقصد کے لیے اللہ نے انسان کو پیدا کرکے اِس کو سیارۂ ارض پر آباد کیا۔ اس نے انسان کو مکمل آزادی عطا کی۔ موجودہ دنیا اِس منصوبے کے لیے ایک سلیکشن گراؤنڈ کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہاں یہ دیکھا جارہا ہے کہ کون شخص اپنی آزادی کا صحیح استعمال کرتا ہے اور کون شخص اپنی آزادی کا غلط استعمال کرتا ہے۔ تاریخ کے خاتمے پر یہ ہوگا کہ آزادی کا غلط استعمال کرنے والے افراد ریجکٹ کردیے جائیں گے، اور جن افراد نے اپنی آزادی کا صحیح استعمال کیا، اُن کو منتخب کرکے جنت میںآباد کردیا جائے گا۔ جنت کے تصور کوکچھ لوگ انسانی تمناؤں کی خوب صورت نظریہ سازی (beautiful idealization of human wishes) کا نام دیتے ہیں۔ مگر زیادہ صحیح یہ ہے کہ جنت کے تصور کو انسانی تاریخ کی خوب صورت تعبیر(beautiful interpretation of human history) کہا جائے۔
خدا کا تخلیقی منصوبہ
خدا کے اِس تخلیقی منصوبے کے آغاز کا ذکر قرآن کی سورہ البقرہ میں آیا ہے۔ اِن آیات کا ترجمہ یہ ہے:’’اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ فرشتوں نے کہا: کیا تو زمین میںایسے لوگوں کو بسائے گا جو اُس میں فساد برپا کریں اور خون بہائیں، اور ہم تیری حمد کرتے ہیں اور تیری پاکی بیان کرتے ہیں۔ اللہ نے کہا: میں وہ جانتاہوں جو تم نہیں جانتے۔ اور اللہ نے سکھادیے آدم کو سارے نام، پھر ان فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور کہا کہ اگر تم سچے ہو تو مجھے اِن لوگوں کے نام بتاؤ۔ فرشتوں نے کہا کہ تو پاک ہے۔ ہم تو وہی جانتے ہیں جو تو نے ہم کو بتایا۔ بے شک تو ہی علم والا اور حکمت والا ہے‘‘۔ (2:30-32)
اصل یہ ہے کہ فرشتے پورے انسانی مجموعے کو دیکھ کر اپنی رائے بنا رہے تھے۔ اللہ نے ایک مظاہرہ کے ذریعے واضح کیا کہ خدائی تخلیق کا نشانہ مجموعہ نہیں ہے، بلکہ افراد ہیں۔ مجموعے کی سطح پر اگرچہ بگاڑ آئے گا، لیکن افراد کی سطح پر ہمیشہ اچھے افراد وجود میں آتے رہیں گے۔ خدا کے تخلیقی منصوبے کے مطابق، موجودہ دنیا ایک سلیکشن گراؤنڈ (selection ground) ہے، یعنی پورے مجموعے میں سے مطلوب افراد کا انتخاب کرنا۔ تخلیق کا نشانہ یہ نہیں ہے کہ انسان اِسی سیارۂ ارض پر معیاری نظام بنائے، بلکہ تخلیق کا نشانہ یہ ہے کہ ہر دور اور ہر نسل میں سے اُن افراد کو منتخب کیا جائے، جو کامل آزادی کے باوجود اپنے آپ کو بطور خود ضابطۂ خداوندی کا پابند بنا لیں۔
معیاری افراد کا انتخاب
خدا کے اس منصوبۂ تخلیق کے مطابق، خالق نے موجودہ دنیا کو اِس لیے نہیں بنایا ہے کہ یہاں مجموعے کی سطح پر معیاری نظام (ideal system) بنایا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دنیا امتحان کے لیے بنائی گئی ہے۔ یہاں ہر انسان کو کامل آزادی دی گئی ہے، وہ چاہے مصلح بن کر رہے یا مفسد بن کررہے۔ اِس لیے یہاں مجموعہ کی سطح پر کبھی معیاری نظام نہیں بن سکتا۔ معیاری نظام کا مقام صرف جنت ہے، اور وہ جنت ہی میں بنے گا۔
موجودہ دنیا دراصل معیاری افراد کا انتخابی میدان (selection ground) ہے۔ یہاں ہر نسل سے معیاری افراد کا انتخاب کیا جارہا ہے۔ مثلاً آدم کی پہلی نسل میں قابیل، قابلِ رد تھا اور ہابیل، قابلِ قبول۔ یہی معاملہ پوری تاریخ میں پوری طرح جاری ہے۔ ہر دور میں اور ہر نسل میں خدا معیاری افراد کو منتخب کررہا ہے اور غیر معیاری افراد کو رد کررہا ہے۔ ردّوقبول کے اِسی معاملے کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیاہے ثُلَّةٌ مِنَ الْأَوَّلِینَ ، وَثُلَّةٌ مِنَ الْآخِرِینَ (56:39-40)۔ یعنی اگلوں میں سے ایک بڑا گروہ، اور پچھلوں میں سے بھی ایک بڑا گروہ۔
قابلِ قبول اور قابلِ رد انسانوں کی یہ مطلوب فہرست جب مکمل ہوجائے گی تو اس کے بعد خالق کائنات موجودہ دنیا کو ختم کرکے ایک اور دنیا بنائے گا، جہاں وہ معیاری دنیا ہوگی، جس کو جنت کہاجاتاہے۔ قابلِ قبول افراد اِس جنت میں بسا دیے جائیں گے، جہاں وہ ابد تک خوف وحزن سے پاک زندگی گزاریں گے۔ اس کے برعکس، ناقابلِ قبول افراد کو رد کرکے کائناتی کوڑے خانے میں ڈال دیاجائے گا، جہاں وہ ابد تک حسرت کی زندگی گزاریں گے۔
انسان سے مطلوب
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ انسان کو احسن تقویم کی صورت میں پیدا کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ فرمایا کہ انسان کو اسفل سافلین کی حالت میں ڈال دیا گیا ہے(التین،95:4-5)۔ یہ بات لفظی معنی میں نہیں ہوسکتی۔ کیوں کہ خود قرآن سے ثابت ہوتا ہے کہ موجودہ دنیا انسان کے لیے جنت سے مشابہ دنیا ہے (البقرۃ، 2:25)۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ دنیا کی زندگی مادی معنوں میں اسفل نہیں ہے۔ بلکہ وہ نفسیاتی معنی میں احساسِ محرومی کی زندگی ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ انسان کو اعلیٰ ذوق (high taste) کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے۔ اس لیے ایسا ہے کہ موجودہ دنیا کی مادی نعمتیں انسان کو فل فل منٹ (fulfillment) کے درجے میں تسکین نہیں دیتیں۔ خواہ انسان کو دنیوی نعمتیں کتنی ہی زیادہ حاصل ہوجائیں۔ مثلاً امریکا کے بل گیٹس (Bill Gates)کے لیے اس کی دولت تسکین کا ذریعہ نہیں بنی۔چنانچہ انھوں نے اپنی دولت کا بڑا حصہ چیرٹی میں دے دیا۔ امریکا کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ (Donald Trump)کو وائٹ ہاؤس میں پہنچ کر سکون نہیں ملا۔ چنانچہ انھوں نے وائٹ ہاؤس کو کوکون (cocoon) بتایا۔
اس معاملے پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ موجودہ دنیا کو جنت کے مشابہ دنیا کے طور پر دریافت کرے۔ دنیا کی جنت خود جنت نہیں ہے، بلکہ وہ جنت ِ آخرت کا ابتدائی تعارف ہے۔انسان کو چاہیے کہ وہ دنیا کی نعمتوں کودیکھ کر جنت ِ آخرت کو دریافت کرے۔ اس کے اندر شکر کا جذبہ پیدا ہو، اور لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَأَزِیدَنَّکُمْ (14:7) کے مطابق وہ جنتِ ِآخرت کا مستحق بنے، یعنی اگر تم شکر کرو گے تو میں تم کو زیادہ دوں گا۔
واپس اوپر جائیں

جنت کیا ہے

جنت کوئی پر اسرار قسم کی ناقابلِ فہم چیز نہیں۔ جنت انسان کے لیے پوری طرح ایک قابلِ فہم (understandable) نعمت ہے۔ قرآن میں اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: (ترجمہ) جب بھی ان کو جنت کے باغوں میں سے کوئی پھل کھانے کو ملے گا تو وہ کہیں گے یہ وہی ہے جو اس سے پہلے ہم کو دیا گیا تھا، اور ملے گا ان کو ایک دوسرے سے ملتا جلتا(2:25)۔
حقیقت یہ ہے کہ جنت موجودہ دنیا کے متشابہ (similar) ہوگی۔ موجودہ دنیا جنت کا نان پرفکٹ ماڈل (non-perfect model) ہے، اور آخرت کی جنت پرفکٹ ماڈل (perfect model)۔ موجودہ دنیا بھی اسی طرح اللہ رب العالمین کی تخلیق ہے، جس طرح آخرت کی جنت اللہ رب العالمین کی تخلیق ہوگی۔ لیکن موجودہ دنیا میں انسان پہلے سے ایک آزاد مخلوق کی حیثیت سے رہ رہا ہے، اس لیے انسانی فساد کی بنا پر موجودہ دنیا اس کے لیے آلودہ دنیا (polluted world) بن گئی ہے۔ جب کہ آخرت کی جنت پورے معنوں میں غیر آلودہ (non-polluted) جنت ہوگی۔ آخرت کی جنت انسان کے لیے ابدی طور پر خوشیوں کی جنت ہوگی، جب کہ موجودہ دنیا جنت کے ایک تعارفی ماڈل کی حیثیت رکھتی ہے۔
موجودہ دنیا انسانی آلودگی (human pollution) کا مقام ہے۔ جب کہ آخرت کی جنت انسانی آلودگی سے پاک و صاف مقام ہے۔ جنت میں ہر چیز اپنی اعلیٰ صورت میں موجود ہوگی۔ جب کہ موجودہ دنیا کا معاملہ یہ ہے کہ تخلیق کے اعتبار سے وہ بھی مثلِ جنت ہے، لیکن موجودہ دنیا میں انسان جنت کا تصور کرسکتا ہے، اس دنیا میں وہ جنت کے نان پلوٹیڈ ماڈل کو دیکھ نہیں سکتا۔ یہ مشاہدہ صرف ان لوگوں کے لیے ممکن ہوگا، جو آخرت میں جنت کو پانے کے لیے مستحق ممبر قرار دیے جائیں۔ اسی لیے آخرت میں اہلِ جنت کو جنت بطور واقعہ ملے گی، جب کہ موجودہ دنیا میں جنت صرف ایک عقیدہ کے درجے میں حاصل ہوتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

جنت کا رول

جنت کے عقیدے کاانسان کی زندگی میں بہت بڑا رول ہے۔ انسان کے اندرانا (ego) کا جذبہ بہت زیادہ طاقت ور ہے۔ یہ جذبہ انسان کی ساری سرگرمیوں میں کام کرتا ہے۔ انسان کے لیے سب سے بڑی تباہ کن بات یہ ہے کہ وہ انا(ego) کا شکار ہوجائے۔ اس میں بھی سب سے زیادہ خطرناک چیز ہے، مخفی ایگو (hidden ego)۔ مخفی ایگو سے انسان خود اکثر بے خبر رہتا ہے کہ وہ ایگو کا شکار ہوگیا ہے۔یہی انسان کے لیے سب سے زیادہ خطرناک مسئلہ ہے۔ جنت کا عقیدہ اپنی صحیح صورت میں اس کا روک ہے۔ جنت کا عقیدہ واحد طاقت ور محرک ہے، جو انسان کو ایگوئسٹ بننے سے بچاتا ہے۔ جنت کے طاقت ور عقیدے کے بغیر کوئی انسان ایگو کے فتنے سے بچ نہیں سکتا۔
ایگو کے فتنے کا سب سے زیادہ مہلک پہلو یہ ہے کہ انسان اپنے ہر عمل کا ایک جواز (justification) تلاش کرلیتا ہے۔ وہ غلط کام بھی کرتا ہے تو اس کا ایک مبرر (justified reason) اس کے پاس ہوتا ہے۔ وہ غلط کام کو اس یقین کے ساتھ کرتا ہےکہ وہ ایک درست کام ہے۔ یہ ایک خود فریبی کی بدترین صورت ہے۔
صحیح اور درست کام کی سب سے زیادہ واضح پہچان یہ ہے کہ جو عمل" ظلم کے خلاف" آواز کے نام پر کیا جائے، وہ بلاشبہ ایک غلط کام ہے۔ ایسا کام زندگی کے بگاڑ میں صرف اضافہ کرتاہے، وہ اس میں کمی کرنے کا سبب نہیں بنتا۔ ا س کا اصل محرک ایگو ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، صحیح کام وہ ہے، جو مثبت گول (positive goal) کو لے کر کیا جائے، جس کا مقصد کسی مفروضہ ظلم کو مٹانا نہ ہو، بلکہ لوگوں کے اندر مثبت سوچ کو فروغ دینا ہو۔ جب آدمی جنت کے راستے پر چلتا ہے، اگر وہ سنجیدہ ہے، تو اس کا ضمیر اس کو بتائے گا کہ یہ راستہ تم کو جنت سے محروم کردینے والا ہے۔ یعنی جنت کا رسک لے کر تم اس راستے پر آگے بڑھ سکتے ہو۔ ایگو ئسٹ آدمی ضمیر کی بات نہیں سنے گا، لیکن جو آدمی جنت کے معاملے میں سنجیدہ ہو، وہ ضروراس کو سنے گا۔
واپس اوپر جائیں

جنت کس کے لیے

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ جنت کس کے لیےہے۔جنت کا مطلب ہے ابدی عیش (eternal pleasure)کی زندگی۔ یہ ایک بے حد انوکھا تصور ہے۔ میں بہت دنوں سے یہ سوچتا تھا کہ آخر ابدیت کی یہ نعمت کس کو دی جائے گی۔ آخر کار میں نے ایک واقعہ سنا۔ اس سے میری سمجھ میں آیا کہ ابدی جنت کا استحقاق کس کے لیے ہوگا۔
دلی میں ایک تاجر ہیں، جو اب بوڑھے ہوچکے ہیں۔ انھوں نے بزنس میں کافی دولت کمائی۔ مگر ان کا کوئی وارث نہیں تھا، جس کو وہ اپنی دولت دیں۔ آخر کار انھوں نے ایک انوکھا واقعہ کیا۔ ان کا ایک ملازم تھا، جو ساری عمر ان کی خدمت کرتا رہا۔ وہ بے حد وفادار تھا۔ زندگی کے ہر تجربے سے معلوم ہوا کہ وہ ملازم آخری حد تک دل و جان سے ان کا وفادار (loyal) ہے۔ مذکورہ تاجر نے یہ کیا کہ اپنی ساری دولت اس ملازم کو دے دی، اور بڑھاپے کی عمر میں خود بھی جاکر اسی کے گھر میں اس کے ساتھ رہنے لگا۔ اب یہ حال ہے کہ اس کی پوری فیملی دل و جان سے اس تاجر کی خدمت گزاری کررہی ہے۔ اس قصے کو بتاتے ہوئے اس تاجر نے کہا کہ یہ آدمی میرا اتنا زیادہ وفادار ہے کہ ویسا کوئی اپنا بیٹا بھی نہیں ہوسکتا۔ وہ بچپن کی عمر سے میرے ساتھ ہے، اور کبھی اس کی وفاداری میں مجھے شک نہیں ہوا۔ اب جب کہ میں بوڑھا ہوچکا ہوں، یہ آدمی دل و جان سے میری وفاداری کا حق ادا کررہا ہے۔ اس لیے میں نے اپنا سب کچھ اس آدمی کو دے دیا۔ اب میں اتنا زیادہ خوش ہوں کہ شاید ہی کوئی آدمی اتنا زیادہ خوشی کی زندگی گزارتا ہو۔ تادمِ تحریر (31 جنوری 2019) دونوں زندہ ہیں۔ مذکورہ تاجر پہلے دلی کے نظام الدین ویسٹ ;کے علاقے میں رہتے تھے، اور اب دونوں آگرہ کے مضافات (suburb)میں ایک گھر میں ایک ساتھ رہتے ہیں۔
اس واقعے کو جاننے کے بعد مجھے ایک حدیث یاد آئی:خَلَقَ اللَّہُ آدَمَ عَلَى صُورَتِہِ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 6227)۔ یعنی اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا۔ اس حدیث کو لے کر میں نے سوچا تو میری سمجھ میں آیا کہ اس کا مطلب شاید یہ ہے کہ انسان کا مطالعہ کرکے کوئی شخص اللہ کو دریافت کرسکتا ہے۔ اللہ کو شاید سب سے زیادہ جو چیز پسند ہے ، وہ یہ ہے کہ اس کا کوئی بندہ ایسا ہو، جو دل و جان سے اس کا وفادار (loyal)ہو۔ کسی بندے کے بارے میں اگر ثابت ہوجائے کہ وہ آخری حد تک اللہ کا کامل وفادار ہے، تو ایسا بندہ اللہ کو اتنا زیادہ محبوب بن جاتاہے کہ اللہ چاہتا ہے کہ وہ ایسے بندے کو سب کچھ دے دے، حتی کہ ابدی جنت (eternal paradise) بھی۔
کامل وفاداری کسی انسان کی سب سے بڑی صفت (quality) ہے۔ جو آدمی حقیقی معنیٰ (real sense) میں اپنے بارے میں یہ ثابت کردے کہ وہ اپنے رب کا کامل وفادار ہے، وہ دل و جان سے پورے معنیٰ میں اللہ والا انسان ہے۔ یہی وہ کامل وفاداربندہ ہے، جس کے انجام کے بارے میں قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں :فِی مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِیکٍ مُقْتَدِرٍ (54:55) ۔یعنی وہ بیٹھے ہوں گے سچی بیٹھک میں، قدرت والے بادشاہ کے پاس۔
جنت ، خدا کا پڑوس
فرعون کی بیوی آسیہ ایمان لائی تو فرعون غصہ ہوگیا۔اس نے کہا کہ میں تم کو مارڈالوں گا، تم کیوں موسى پر ایمان لائیں۔اس وقت اس خاتون نے کہا تم جو چاہے کرو اب میں تو ایمان لاچکی ہوں۔ قرآن میں ہے کہ اس وقت آسیہ نے ایک دعا کی تھی۔ اس دعا کے الفاظ یہ ہیں: رَبِّ ابْنِ لِی عِنْدَکَ بَیْتًا فِی الْجَنَّةِ(66:11) ۔ یعنی اے میرے رب، میرے لیے اپنے پاس، جنت میں ایک گھر بنادے ۔ اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ توحید سے جنت جڑی ہوئی ہے،اور یہ کہ جنت خدا کے پڑوس کا نام ہے۔
خدا رخی زندگی
خدا رخی زندگی یہ ہے کہ آدمی اللہ رب العالمین کو اس طرح دریافت کرے کہ وہ اس کی زندگی میں شامل ہوجائے۔ وہ خدا کی یاد کے ساتھ سوئے، اور خدا کی یاد کے ساتھ جاگے۔ وہ خدا کی دنیا میں خداوالا بن کر رہے۔ دنیا کی ہر چیز اس کو خدا کی یاد دلانے والی بن جائے۔
واپس اوپر جائیں

نجاتِ آخرت

پیغمبرِ اسلام کی ایک روایت حدیث کی اکثر کتابوں میں آئی ہے۔ صحیح مسلم کے الفاظ یہ ہیں: لَا یُدْخِلُ أَحَدًا مِنْکُمْ عَمَلُہُ الْجَنَّةَ، وَلَا یُجِیرُہُ مِنَ النَّارِ، وَلَا أَنَا، إِلَّا بِرَحْمَةٍ مِنَ اللہِ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2817)۔ یعنی تم میں سے کسی کو اس کا عمل جنت میں داخل نہیں کرے گا، اور نہ ہی آگ سے پناہ دے گا، اور نہ میں، سوائے اس کے کہ اللہ کی رحمت کے ذریعے ایساہوگا۔
اس قسم کی روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت کسی بھی انسان کے لیے اس کے عمل کا معاوضہ نہیں ہے۔ ایسانہیں ہے کہ اگر کسی چیز کی ضروری قیمت آپ کے جیب میں موجود ہے، تو آپ شاپنگ سینٹر سے اس کو قیمت دے کر خرید سکتے ہیں۔ جنت کا معاملہ کسی بھی درجے میں "خرید و فروخت" جیسا نہیں ہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ جنت کسی شخص کو عمل کے بغیر نہیں ملے گی۔ لیکن فائنل معنوں میں کسی کے لیے جنت کا داخلہ صرف عمل کی بنیاد پر نہ ہوگا، بلکہ اللہ کی رحمت کی بنیاد پر ہوگا۔
اس کا سبب یہ ہے کہ ابدی جنت اتنی زیادہ قیمتی ہے کہ عمل کی کوئی بھی مقدار اس کا معاوضہ نہیں ہوسکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے میں انسانی عمل کی حیثیت ابتدائی استحقاق کے لیے ہے، نہ کہ جنت میں فائنل داخلے کے لیے۔
جنت کا ملنا کسی کے لیے انعامی ٹکٹ کی مانند نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق انسان کی پوری زندگی سے ہے۔ انسان کو ایمان کی توفیق ملنا، استقامت کے ساتھ عمل صالح پر قائم رہنا، غلطی کے بعد سچی توبہ کرنا، عذر کو عذر بنائے بغیر صراطِ مستقیم پر قائم رہنا، ہر صورتِ حال میں اپنے آپ کو منفی جذبات سے پاک رکھنا— اس طرح کے بے شمار مواقع ہیں، جہاں انسان صرف اپنی کوشش سے عمل صالح پر قائم نہیں رہ سکتا۔ اس طرح کے ہر موقعے پر ضرورت ہوتی ہے کہ انسان کو اللہ کی توفیق مسلسل طو رپر حاصل رہے۔ اس لحاظ سے دیکھیے تو یہ معاملہ صرف داخلۂ جنت کا نہیں ہے، بلکہ یہ ہے کہ توفیقِ ایمان سے لے کر موت تک مسلسل طور پر آدمی کو اللہ کی مدد حاصل رہے۔
واپس اوپر جائیں

جنت ، ایک انعام

ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے لَنْ یُدْخِلَ أَحَدًا عَمَلُہُ الجَنَّةَقَالُواوَلاَ أَنْتَ یَا رَسُولَ اللَّہِ؟ قَالَ:لاَ، وَلاَ أَنَا، إِلَّا أَنْ یَتَغَمَّدَنِی اللَّہُ بِفَضْلٍ وَرَحْمَةٍ، فَسَدِّدُوا وَقَارِبُوا (صحیح البخاری، حدیث نمبر 5673)۔ یعنی کسی آدمی کو اس کا عمل جنت میں ہرگز داخل نہیں کرے گا۔ لوگوں نے پوچھا آپ بھی نہیں ، اے خدا کے رسول؟ آپ نے کہا نہیں، میں بھی نہیں، سوائے اس کے کہ اللہ مجھے اپنے فضل اور رحمت سے ڈھانک لے۔ تو تم لوگ درستگی ، اوراعتدال کا طریقہ اختیار کرو۔
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جنت ایک ابدی نعمت ہے، جب کہ انسان کا ہر عمل محدود ہے، اور کوئی محدود عمل، لامحدود نعمت کا عوض(substitute) نہیں بن سکتا۔اس لیے جنت کسی انسان کوفضلِ خداوندی کے طور پر ملے گی ، یعنی جنت مالکِ کائنات کی طرف سے بطور انعا م ہوگی۔ اللہ رب العالمین جس انسان سے راضی ہوجائے، اس کو رضامندی کی علامت کے طور پر جنت دی جائے گی۔ جیسا کہ قرآن میں آیا ہےرَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمْ وَرَضُوا عَنْہُ ذَلِکَ لِمَنْ خَشِیَ رَبَّہُ (98:8)۔ یعنی اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی، یہ اس شخص کے لیے ہے جو اپنے رب سے ڈرے۔ قرآن میں اس رضامندی کی دو علامتیں بتائی گئی ہیں، محبت اور خشیت۔ محبت کے تعلق سے یہ آیت آئی ہے وَالَّذِینَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّہِ(2:165)۔ یعنی اور جو ایمان والے ہیں، وہ سب سے زیادہ اللہ سے محبت رکھنے والے ہیں۔ اسی طرح یہ آیت ہےوَلَمْ یَخْشَ إِلَّا اللَّہَ(9:18)۔ یعنی اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ اپنے جس بندے کو اس حال میں پائے کہ اس نے اپنے رب کی نعمتوں کا بہت زیادہ ادراک کیا ۔ یہاں تک کہ اس کے اندر اللہ کے لیے وہ چیز پیدا ہوگئی، جس کو انسانی زبان میں محبت کہا جاتا ہے۔ اسی طرح جس نے اللہ رب العالمین کو ا س طرح دریافت کیا کہ اس کو اللہ سے خشیت کے درجے میں تعلق پیدا ہوگیا۔ جس انسان کو اللہ رب العالمین، اس حال میں پائے ، اس کے لیے اللہ رب العالمین کی رحمت کا تقاضا ہوگا کہ اس کو ابدی جنت میں داخلہ دیا جائے۔
واپس اوپر جائیں

جنت اور انسان

جنت اور انسان ایک دوسرے کا مثنیٰ (counterpart) ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے تکمیلی (complementary)چیز کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جنت انسان کے لیے بنائی گئی ہے، اور انسان جنت کے لیے۔ حقیقت یہ ہے — جنت مطلوبِ انسان ہے، اور انسان مطلوبِ جنت۔ انسان کے بغیر جنت ادھوری ہے، اور جنت کے بغیر انسان ادھورا۔ یہ بات خود تخلیقی منصوبے میں شامل ہے کہ اِس دنیا میں جنتی انسان تیار ہوں جو جنت کی ابدی دنیا میںبسائے جاسکیں۔
قرآن کی سورہ النساء میں یہ آیت آئی ہے: مَا یَفْعَلُ اللَّہُ بِعَذَابِکُمْ إِنْ شَکَرْتُمْ وَآمَنْتُمْ وَکَانَ اللَّہُ شَاکِرًا عَلِیمًا (4:147)۔یعنی اللہ تم کو عذاب دے کر کیا کرے گا، اگر تم شکر گزاری کرو اور ایمان لاؤ۔اللہ بڑا قدرداں ہے، وہ سب کچھ جاننے والا ہے۔
اِس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے تخلیقی منصوبے کا تقاضا اِس طرح پورا نہیں ہوتا کہ لوگ بُرے اعمال کرکے اپنے آپ کو جہنم کا مستحق بنا لیں۔ اللہ کا تخلیقی منصوبہ یہ چاہتا ہے کہ لوگ اپنے آپ کو جنت کا مستحق ثابت کریں اور پھر آخرت میں پہنچ کروہ جنت کے باغوں میں آباد ہوں۔
مفسر ابوالبرکات النسفی (وفات1310 ء) نے مذکورہ آیت کی تشریح کے تحت لکھا ہے: الإیمانمعرفۃ المنعم، والشکرالاعتراف بالنعمۃ (تفسیر النسفی، 1/259) یعنی ایمان، منعم کی معرفت ہے، اور شکر، نعمت کے اعتراف کا نام ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے سے جُڑی ہوئی ہیں۔ ایمان کا مطلب یہ ہے کہ آدمی شعوری طور پر اپنے رب کو دریافت کرے، وہ مخلوق کے ذریعے خالق کا تعارف حاصل کرے۔ شکر کا مطلب خدا کی نعمتوں کا اعتراف ہے۔ اِس دنیا میں جو کچھ انسان کو ملا ہوا ہے، وہ سب خدائے برتر کا انعام (blessings)ہے۔ اِس انعام کے لیے دل سے منعم (giver)کا معترف ہونا، بلاشبہ کسی انسان کے لیے سب سے بڑی عبادت کی حیثیت رکھتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

جنت کی دریافت

غالباً 1983 کی بات ہے۔ اُس وقت دہلی میں ایک انگریز مسٹر جان بَٹ (John Butt) رہتے تھے۔ اُنہوں نے میری انگریزی کتابیں پڑھی تھیں اور میری فکر سے کافی مانوس ہوچکے تھے۔ ملاقات کے دوران ایک بار میں نے اُن سے کہا کہ قلم میری محبوب چیز ہے۔ میںنے بہت سے قلم استعمال کیے، مگر مجھے اپنی پسند کا قلم ابھی تک نہیں ملا۔ اُنہوں نے کہا کہ میں جلد ہی لندن جانے والا ہوں، وہاں سے میں آپ کے لیے ایک اچھا قلم لے آؤں گا۔
کچھ عرصے کے بعد وہ مجھ سے ملے، اور انگلینڈ کا بنا ہوا ایک قلم مجھے دیتے ہوئے کہا کہ میں نے لندن اور آکسفورڈ کی مارکیٹ میںکافی تلاش کے بعد یہ قلم (فاؤنٹین پین) حاصل کیا ہے۔ تاہم مجھے امید نہیں کہ یہ قلم آپ کی پسند کے مطابق ہوگا۔ میں نے کہا ، کیوں۔ اُنہوں نے کہا کہ میںجانتا ہوں کہ آپ ایک پرفیکشنسٹ(perfectionist) ہیں اور دنیا میں چونکہ کوئی بھی قلم پرفیکٹ قلم نہیں، اس لیے آپ کوکوئی بھی قلم پسند نہیں آئے گا۔اصل یہ ہے کہ ہر آدمی پیدائشی طورپر پرفیکشنسٹ ہے۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ انسان ایک کمال پسند حیوان ہے:
Man is a perfection-seeking animal.
انسانی فطرت کا یہی خاص پہلو ہے جس کی بنا پر ہر آدمی کا یہ حال ہے کہ وہ محرومی (deprivation) کے احساس میںمبتلا رہتا ہے۔ حتیٰ کہ وہ لوگ جو دنیا کا ہر سامان حاصل کرلیتے ہیں وہ بھی محرومی کے احساس سے خالی نہیں ہوتے۔
اس کا سبب یہ ہے کہ انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے پرفیکشنسٹ ہے مگر جس دنیا میں وہ رہتا ہے اُس کی کوئی بھی چیز پرفیکٹ نہیں۔ اس طرح انسان کی طلب اور دنیا کی قابلِ حصول چیزوں کے درمیان ایک عدم مطابقت (incompatibility) پیدا ہوگئی ہے۔ دونوں کے درمیان یہی عدم مطابقت انسان کے اندر محرومی کے احساس کا اصل سبب ہے۔
انسان اپنی آرزوؤں کی تکمیل کے لیے دنیا میں جدوجہد شروع کرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ وقت آتا ہے جب کہ وہ دولت، اقتدار، سازوسامان اور دوسری مطلوب چیزیں حاصل کر لیتا ہے۔ مگر اُس کو محسوس ہوتا ہے کہ اپنی مطلوب چیزوں کو پانے کے بعد بھی وہ بدستور محرومی کے احساس سے دوچار ہے، اب بھی وہ یافت کے احساس تک نہ پہنچ سکا۔
اس کا سبب یہ ہے کہ پانے سے پہلے وہ سمجھتا ہے کہ یہی وہ چیز ہے جس کی آرزو وہ اپنے دل میں لیے ہوئے ہے۔ مگر چیز کو پانے کے بعد اُس کو وہ تسکین نہیں ملتی جو کسی مطلوب چیز کی یافت سے ہونی چاہیے۔ کیوں کہ اُس کے دل میںجو آرزو تھی وہ پرفیکٹ چیز کے لیے تھی۔ جب کہ دنیا کی ہر چیز غیر پرفیکٹ(imperfect) ہے، اور ظاہر ہے کہ کسی پرفیکشنسٹ کو غیر پرفیکٹ میںتسکین نہیں مل سکتی۔
اس مسئلے کا حل صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ آدمی جنت کو اپنا نشانہ بنائے۔ جنت پورے معنوں میں ایک پرفیکٹ ورلڈ (perfect world) ہے، جب کہ اُس کے مقابلے میں موجودہ دنیا صرف ایک اِم پرفیکٹ ورلڈ (imperfect world) کی حیثیت رکھتی ہے۔ انسان اپنی پیدائش کے اعتبار سے جس پرفیکٹ ورلڈ کا طالب ہے، وہ جنت ہے۔ جنت کی معرفت نہ ہونے کی وجہ سے آدمی موجودہ دنیا میں اپنی آرزوئیں تلاش کرنے لگتا ہے اور اپنی فطرت اورخارجی دنیا کے درمیان عدم مطابقت کی بنا پر محرومی کے احساس کا شکار ہوجاتا ہے۔
اس مسئلے کا حل صرف یہ ہے کہ آدمی کے اندر وہ شعوری انقلاب لایا جائے کہ وہ جنت کی معرفت حاصل کرسکے۔ اس معرفت کے حصول کے بعد اُس کی مایوسی کا احساس اپنے آپ ختم ہوجائے گا۔ کیوں کہ وہ جان لے گا کہ جن چیزوں میںوہ اپنی آرزوؤں کی تسکین ڈھونڈھ رہا ہے، اُن میںاُس کے لیے تسکین کا سامان موجود ہی نہیں۔ اس دریافت کے بعد اُس کی توجّہ جنت کی طرف لگ جائے گی۔ اس کے بعد وہ موجودہ دنیا کی چیزوں کو ضرورت کے طورپر لے گا، نہ کہ مطلوب کے طورپر۔ اور جب کسی آدمی کے اندر یہ سوچ پیدا ہوجائے تو اُس کے بعد اُس کا حال یہی ہوگا کہ وہ یافت کے احساس میں جینے لگے گا، نہ کہ محرومی کے احساس میں۔
موجودہ دنیا پانے سے زیادہ کھونے کی جگہ ہے۔ یہاں ہر مرد اور عورت کو بار بار یہ احساس ہوتا ہے کہ فلاں چیز اُس سے کھوئی گئی۔ فلاں موقع اُس کے ہاتھ سے نکل گیا۔ فلاں شخص نے اُس کو نقصان پہنچادیا۔ اس قسم کے چھوٹے یا بڑے حادثات ہر ایک کو بار بار پیش آتے ہیں۔ کسی بھی مرد یا عورت کے لیے ان نقصانات سے بچنا ممکن نہیں۔
اس قسم کے نقصانات ہر ایک کو پیش آتے رہتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ان نقصانات کی تلافی کی صورت کیا ہے۔ اس کی صورت صرف ایک ہے، اور وہ جنت کا یقین ہے۔ جس آدمی کو خدا کی جنت پر یقین ہو اُس کا حال یہ ہوگا کہ ہر نقصان کے بعد وہ یہ کہہ سکے گا کہ دنیا کا یہ نقصان تو بہت چھوٹا ہے۔ جنت کے مقابلے میں اس نقصان کی کوئی حقیقت نہیں۔ دنیا کے ہر نقصان کے بعد وہ اور زیادہ خدا کی طرف متوجہ ہوجائے گا۔ وہ خدا سے اور زیادہ جنت کا طالب بن جائے گا۔
قرآن میں جنت کی یہ صفت بتائی گئی ہے کہ وہاں آباد ہونے والے لوگوں کے لیے نہ خوف ہوگا اور نہ حُزن (البقرہ، 2:38)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں انسان کو جو زندگی ملتی ہے وہ کبھی اور کسی کے لیے خوف اور حُزن سے خالی نہیں ہوتی۔ موجودہ دنیا کا نظام اس ڈھنگ پر بنا ہے کہ یہاں حقیقی معنوں میں خوف اور حزن سے خالی زندگی کا حصول ممکن ہی نہیں۔ ایسی حالت میںآدمی کے لیے واحد درست رویّہ یہ ہے کہ وہ دنیا کو اپنا مقصود نہ بنائے۔ وہ دنیا کو صرف یہ حیثیت دے کہ وہ حقیقی منزل کی طرف جانے کا ایک راستہ ہے۔
اسی حقیقت کو ایک حدیث میں ان الفاظ میں بتایا گیا ہے اللَّہُمَّ لاَ عَیْشَ إِلَّا عَیْشُ الآخِرَہْ (صحیح البخاری، حدیث نمبر2961) ۔ یعنی راحت اور مسرّت کا حصول صرف آخرت میں ممکن ہے۔ دنیا میں راحت و مسرّت تلاش کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی مسافر ریلوے اسٹیشن پر اپنے لیے ایک آرام دہ گھر بنانے کی کوشش کرے۔ ہر مسافر جانتا ہے کہ اسٹیشن گھر بنانے کے لیے نہیںہوتا۔ اسی طرح موجودہ دنیا عملِ جنت کے لیے ہے، نہ کہ تعمیر جنت کے لیے۔ جنت کو اپنی منزل مقصود بنانا صرف عقیدے کی بات نہیں، وہ مقصد حیات کی بات ہے، ایسا مقصد جس کے سوا کوئی اور مقصد انسان کے لیے ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں

جہاد فی اللہ

جہاد کی ایک قسم وہ ہے جس کو قرآن میں جہاد فی اللہ (الحج، 22:78) کہاگیا ہے۔ یعنی اللہ میں جہاد۔ اللہ میں جہاد کیا ہے۔ اللہ میں جہاد ہے آیات اللہ(signs of God) میں غور وفکر کرنا۔تخلیق میں چھپی ہوئی حکمت (wisdom) کو دریافت کرنا۔جہاد فی اللہ کی ایک مثال قرآن میں وہ ہے، جو پیغمبر ابراہیم کے حوالے سے ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے مَلَکُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ (الانعام، 6:75)۔ یعنی آسمان اور زمین کے عجائبات (wonders) ۔ قرآن میں دوسرے مقام پر یہ حقیقت ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے أَوَلَمْ یَنْظُرُوا فِی مَلَکُوتِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا خَلَقَ اللَّہُ مِنْ شَیْءٍ(7:185)۔ یعنی کیا انھوں نے آسمانوں اور زمین کے نظام پرغور نہیں کیا، اور ان چیزوں پر جواللہ نے پیدا کی ہیں۔ اللہ کے پاس عطیات کا خزانہ اتنا بڑا ہے کہ اگر وہ ہر ایک کو اس کی طلب کے مطابق دے دے تب بھی اس کے خزانے میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔
اس حقیقت کو ایک حدیث رسول میں اس طرح بیان کیا گیا ہے  یَا عِبَادِی لَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَآخِرَکُمْ وَإِنْسَکُمْ وَجِنَّکُمْ قَامُوا فِی صَعِیدٍ وَاحِدٍ فَسَأَلُونِی فَأَعْطَیْتُ کُلَّ إِنْسَانٍ مَسْأَلَتَہُ، مَا نَقَصَ ذَلِکَ مِمَّا عِنْدِی إِلَّا کَمَا یَنْقُصُ الْمِخْیَطُ إِذَا أُدْخِلَ الْبَحْر(صحیح مسلم، حدیث نمبر 2577)۔ اے میرے بندو ! اگر تمہارے اگلے پچھلے، جن و انس ایک کھلے میدان میں جمع ہوجائیں، اور مجھ سے سوال کریں پھر میں ہر انسان کو اس کے سوال کے مطابق عطا کروں تو اس سے میرے خزانوں میں اتنی کمی بھی نہیں ہوگی جتنی سوئی کو سمندر میں ڈبونے سے ہوتی ہے۔
غالباً اسی حقیقت کا ادراک (realization) پیغمبر سلیمان کی زبان سے دعا کی صورت میں ہوا تھا، جو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے رَبِّ اغْفِرْ لِی وَہَبْ لِی مُلْکًا لَا یَنْبَغِی لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِی إِنَّکَ أَنْتَ الْوَہَّابُ(38:35) ۔یعنی اے میرے رب، مجھ کو معاف کردے اور مجھ کو ایسی سلطنت دے جو میرے بعد کسی کے لیے سزاوار نہ ہو، بیشک تو بڑا دینے والا ہے۔
سلیمان بن داؤد کو ان کی دعا کے مطابق انوکھےقسم کا سیاسی اقتدار عطا کیاگیا، جو ان کے سوا کسی اور انسان کو کبھی نہیں ملا۔ لیکن خدا کے خزانے میں عطیے کی یہی ایک انوکھی صورت نہیں ہےجو حضرت سلیمان کو عطا ہوئی۔اس کے سوا دوسری ہزاروں صورتیں ہیں، جو تاریخ میں دوسرے انسانوں کو عطا ہوئیں۔ اسی طرح عطیات کے دوسرے بہت سےمیدان ہیں جو دوسرے انسانوں کو عطا ہوئے۔ عطیات کا یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوا۔ آج بھی کسی انسان کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ ایک منفرد عطیۂ الٰہی کا طالب بنے، اور اللہ اس کے استحقاق کو دیکھ کر یہ منفرد عطیہ اس کو دے دے۔
عطیۂ الٰہی کیایک مثال حکمت خداوندی ہے۔ اس کائنات میں حکمت خداوندی (divine wisdom)کے بے شمار آئٹم ہیں۔ اگر کوئی انسان سچے دل سے اس کا طالب بنے کہ اس کو حکمت خداوندی کا ایک ایسا آئٹم دے دیا جائے، جو کسی اور کو نہ ملا ہو تو یقیناً اللہ اس پر قادرہے۔ اس نے جس طرح حکم کی ایک صورت سلیمان بن داؤد کو دی، جو نہ ان سے پہلے کسی کو ملی، نہ ان کے بعد۔ اسی طرح اللہ اس پر قادر ہے کہ وہ کسی طالب کو حکمت خداوندی کا ایک ایسا آئٹم دے دے، جو نہ اس سے پہلے کسی کو ملا ہو، نہ اس کے بعد کسی کو ملے۔ اور اس عطیہ کے باوجوداللہ کے خزانۂ حکمت میں کوئی کمی واقع نہ ہو۔
اسلامی جہاد کا سب سے بڑا میدان تدبر ہے یعنی فکری جہاد (intellectual jihad) ۔ فکری جہاد سے بڑا کوئی جہاد نہیں۔ اسی حقیقت کو ابن عباس اور ابو الدرداءنے ان الفاظ میں بیان کیاہے تَفَکُّرُ سَاعَةٍ خَیْرٌ مِنْ قِیَامِ لَیْلَةٍ (العظمۃ لابی الشیخ الاصبہانی، اثر نمبر 42؛ حلیۃ الاولیاء، جلد 1، صفحہ208)۔ یعنی ایک ساعت کے لیے تفکر کرنا رات میں قیام (اللیل) سے بہتر ہے۔
فکری جہاد سب سے بڑاجہاد اس لیے ہے کہ وہ معرفت اور دعوت سے جڑاہوا ہے۔ فکری جہادکی ایک مثال صحابیٔ رسول ابوذر کی ہے۔ ان کے متعلق روایت میں آیا ہے کہ وہ رات دن سوچتے رہتے تھے(حلیۃ الاولیاء، جلد 1،صفحہ164)۔ یہ فکری جہاد بلا شبہ سب سے بڑا جہاد ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ فکری جہاد کا رشتہ معرفت اوردعوت الی اللہ سے جڑا ہوا ہے۔ فکری جہاد کے ذریعے جب کسی شخص کا ذہنی ارتقا (intellectual development) ہوتا ہے تو وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ آیات اللہ (signs of God) اور آلاء اللہ (Marvels of Nature) کو زیادہ سے زیادہ دریافت کریں اور اس طرح خالق کے بارے میں اپنی معرفت کو بے پناہ حد تک بڑھاتا چلا جائے۔ اسی طرح جو شخص فکری جہاد کرے، وہ اپنے داعیانہ صلاحیت میں بہت اضافہ کرے گا۔ اس کافکری مستوی (intellectual level) بہت بڑھ جائے گا۔ وہ اس قابل ہوجائے گا کہ دعوت الی اللہ کا کام اعلیٰ ترین سطح پر انجام دے سکے۔
فکری جہاد کا فائدہ دنیا سے آخرت تک چلا گیا ہے۔ اس کی ایک مثال قرآن کی پہلی آیت ہے الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ۔ یہ پہلی آیت مومن کے اس درجۂ معرفت کو بتاتی ہے، جو ایک مومن فکری جہاد کے ذریعے دنیا کی زندگی میں حاصل کرتا ہے۔ اسی طرح قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اہلِ جنت جب جنت میں داخل ہوجائیں گے تو جنت میں ان کے آخر قول کو ان الفاظ میں بیان کیا گیاہےوَآخِرُ دَعْوَاہُمْ أَنِ الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ (10:10)۔یعنی اور ان کی آخری بات یہ ہوگی کہ ساری تعریف اللہ کے لیے ہے جو رب ہے سارے جہان کا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ مومن موجودہ دنیا میں فکری جہاد اس لیے کرتا ہے کہ وہ اعلیٰ ترین سطح پر ذہنی ارتقا کا درجہ حاصل کرے۔ قرآن میں جنت کو دارالمتقین (النحل، 16:30) کہاگیا ہے۔ انسانی زبان میں اس کو اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ جنت ایسے انسانوں کا مقام ہے، جو مجلسِ خداوندی میں کلام کرنے کے قابل ہوسکیں۔ دنیا میں فکری جہاد کا اصل مقصد یہی ہے کہ جب آخرت کی دنیا میں پہنچے تو وہاں وہ خداوندی سطح پر کلام کرنے کے قابل ہوچکا ہو۔
اسلام میں جہاد کا مطلب قتال(جنگ) نہیں ہے، بلکہ پرامن جدوجہد ہے۔ اس جدوجہد کا نشانہ کسی دوسرے کی گردن کاٹنا نہیں ہوتا بلکہ خود اپنے آپ کو اللہ کے راستے میں مشقت کے مراحل سے گزارتے ہوئے ثابت قدم رہنا۔ مشقت کے یہ مراحل آدمی کے اندر ایک نفسیاتی ہیجان پیدا کرتے ہیں۔ آدمی دردوکرب کے لمحات سے گزرتے ہوئے اللہ کو پکارتاہے۔
یہ پکار(دعا) سادہ طور پر کچھ الفاظ کو زبان سے دہرا لینا نہیں ہے، بلکہ فکر کے مراحل ہیں، یعنی جب آدمی اس قسم کے لمحات سے گزرتا ہے تو اس کی سوچ میں گہرائی پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کی تخلیقیت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس کے اندر گہری فکر (deep thinking) آجاتی ہے۔ وہ وزڈم کی اس اعلیٰ سطح پر آجاتا ہے جہاں اللہ سے اس کا گہراتعلق قائم ہوجاتا ہے۔ وہ اللہ کا ہوجاتا ہے، اور اللہ اس کا۔
جنت کی سرگرمیاں
جنت کے بارے میں قرآن میں مختلف بیانات آئے ہیں۔ ایک بیان یہ ہے إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ کَانَتْ لَہُمْ جَنَّاتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًا ۔ خَالِدِینَ فِیہَا لَا یَبْغُونَ عَنْہَا حِوَلًا۔ قُلْ لَوْ کَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِکَلِمَاتِ رَبِّی لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَنْ تَنْفَدَ کَلِمَاتُ رَبِّی وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِہِ مَدَدًا (18:107-109)۔ یعنی بیشک جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک عمل کیا، ان کے لیے فردوس کے باغوں کی مہمانی ہے۔ اس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ وہ وہاں سے کبھی نکلنا نہ چاہیں گے۔ کہو کہ اگر سمندر میرے رب کی نشانیوں کو لکھنے کے لیے روشنائی ہوجائے تو سمندر ختم ہوجائے گا اس سے پہلے کہ میرے رب کی باتیں ختم ہوں، اگرچہ ہم اس کے ساتھ اسی کے مانند اور سمندر ملا دیں۔
یہاں قرآن میں بتایا گیا ہے کہ جنت کی زندگی اتنی خوشگوار ہوگی کہ وہ کبھی اس سے نکلنا نہ چاہیں گے۔ اس کے بعد اگلی آیت یہ ہے کہ اللہ کے کلمات اتنے زیادہ ہیں کہ کتنا ہی زیادہ ان کو لکھا جائے، وہ کبھی ختم نہ ہوں گے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت میں اہلِ جنت کا ایک مشغلہ یہ ہوگا کہ وہ کلمات اللہ کا مطالعہ کریں، وہ کلمات اللہ کو دریافت کریں، اور پھر کلمات اللہ کو قلم بند کریں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جنت میں اہلِ جنت کی مشغولیت اسی قسم کی ہوگی، جو موجودہ دنیا میں سائنسدانوں کی ہوتی ہے۔ مشہور برطانی سائنسداںنیوٹن (1643-1727) سے اس کےعلم کے بارے میں پوچھا گیا۔ اس نے کہا کہ جو ہم جانتے ہیں، وہ ایک قطرہ ہے، اور جو کچھ ہم نہیں جانتے ہیں، وہ ایک سمندر ہے
What we know is a drop, what we don't know is an ocean.
یہی تجربہ اہلِ جنت کے ساتھ جنت میں بہت زیادہ اضافہ کے ساتھ ہوگا۔
واپس اوپر جائیں

روحانی ترقی

روحانی ترقی کیا ہے۔ روحانی ترقی اپنی داخلی شخصیت میں ربّانی بیداری لانے کا دوسرا نام ہے۔ مادی خوراک انسان کے جسمانی وجود کو صحت مند بناتی ہے۔ اسی طرح انسان کا روحانی وجود ان لطیف تجربات کے ذریعے صحت مند بنتا ہے جن کو قرآن میں رزقِ رب (ربّانی غذا) کہا گیا ہے۔
16جولائی2004 کا واقعہ ہے۔ اس دن دہلی میں سخت گر می تھی۔ دوپہر بعد دیر تک کے لیے بجلی چلی گئی۔ چھت کا پنکھا بند ہوگیا۔ میں اپنے کمرے میں سخت گرمی کی حالت میں بیٹھا ہوا تھا۔ دیر تک میں اسی حالت میں رہا یہاں تک کہ بجلی آگئی اور پنکھا چلنے لگا۔
یہ ایک اچانک تجربہ کا لمحہ تھا۔ پنکھا چلتے ہی جسم کو ٹھنڈک ملنے لگی۔ ایسا محسوس ہوا جیسے اچانک مصیبت کا دور ختم ہوگیا اور اچانک راحت کا دوسرا دور آگیا۔ اس وقت مجھے پیغمبر اسلام کی وہ حدیثیں یاد آئیں جن میں بتایا گیا ہے کہ دنیا مومن کے لیے مصیبت کی جگہ ہے۔ جب مومن کی موت آئے گی تو اچانک وہ اپنے آپ کو جنت کے باغوں میں پائے گا۔ دنیوی زندگی کا پُر مصیبت دور اچانک ختم ہوجائے گا، اور عین اسی وقت پُر راحت زندگی کا دور شروع ہوجائے گا۔
جب یہ تجربہ گز را تو میری فطرت میں چھپے ہوئے ربّانی احساسات جاگ اٹھے۔ مادی واقعہ روحانی واقعہ میں تبدیل ہوگیا۔ میرے دل نے کہا کہ کاش، خدا میرے ساتھ ایسا ہی معاملہ فرمائے۔ جب میرے لیے دنیا سے رخصت ہونے کا وقت آئے تو وہ ایک ایسا لمحہ ہو جو اچانک دور ِمصیبت سے دورِ راحت میں داخلے کے ہم معنٰی ہوجائے۔
روحانیت در اصل ایک ذہنی سفر ہے، ایک ایسا سفر جو آدمی کو مادیت سے اوپر اُٹھا کر معنویت تک پہنچا دے۔ یہ سفر داخلی سطح پر ہوتا ہے۔ دوسرے لوگ بظاہر اس سفر کو نہیں دیکھتے لیکن خود مسافر انتہائی گہرائی کے ساتھ اس کو محسوس کرتا ہے۔ روحانیت انسان کو انسان بناتی ہے۔ جس آدمی کی زندگی روحانیت سے خالی ہو، اُس میں اور حیوان میں کوئی فرق نہیں۔
واپس اوپر جائیں

جنت کا سماج

جنت کے پڑوسی کیسے ہوں گے، اس کا ذکر قرآن کی ایک آیت میں کیا گیا ہے۔ اس آیت کا ترجمہ یہ ہے: جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گا، وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ نے انعام کیا، یعنی پیغمبر اور صدیق اور شہید اور صالح۔ کیسی اچھی ہے ان کی رفاقت (4:69)۔
جنت کیا ہے۔ جنت وہ معیاری دنیا ہے، جہاں پوری تاریخ کے منتخب افراد آباد کیے جائیں گے۔ ان کی ایک صفت یہ ہوگی کہ ان سے ان کے پڑوسیوں کو حسنِ رفاقت کا تجربہ ہوگا۔وہ ہر اعتبار سے اپنے ساتھیوں کے لیے بہترین پڑوسی ثابت ہوں گے۔ ایسے لوگ جن کے ساتھ رہنا، ہر اعتبار سے خوش گوار تجربہ ثابت ہو۔
ایسے پڑوسی کون لوگ ہیں۔ وہ جو اپنے پڑوسیوں کے لیے قابل پیشین گوئی کردار (predictable character) کے حامل ہوں۔ جن سے دوسروں کو کسی قسم کے نیوسنس (nuisance) کا تجربہ نہ ہو۔ جن کے ساتھ بیٹھنا، جن کے ساتھ بات چیت کرنا، ایک خوش گوار تجربہ کی مانند ہو۔ جن کے پڑوسی ان سے کبھی لغو اور تاثیم (الواقعۃ، 56:25) کی بات نہ سنیں ۔ ایسے لوگ جن کے ساتھ کچھ لمحہ گزارنا، پُر بہار چمنستان کے ماحول میں زندگی گزارنے کے ہم معنی ہو۔
اس بات کو ایک لفظ میں اس طرح بیان کیا جاسکتاہے کہ ایک پڑوسی اپنے دوسرے پڑوسی کے لیے قابل پیشین گوئی کردار کا حامل ثابت ہو۔ ایسا نہ ہو کہ اس نے حسنِ توقع کی بنیاد پر اپنے پڑوسی کے بارے میں کوئی ایک رائے قائم کی ہو، اور عملاً وہ اس کے بجائے دوسرے کردار کا آدمی ثابت ہو۔ ہر پڑوسی اپنے پڑوسی کے لیے اسی طرح اچھا انسان ثابت ہو، جس طرح کہ اس نے پیشگی طور پر اس کے بارے میں رائے قائم کی ہے۔ ایک پڑوسی کو دوسرے پڑوسی سے یہ کہنا نہ پڑے کہ وہ اس سے کس قسم کے ساتھی کی امید رکھتا ہے۔ وہ اپنے پڑوس میں کس قسم کے انسان کو دیکھنا چاہتا ہے۔ دوسرا آدمی خود ہی اس بات کو جانے، اور خود ہی اس کے مطابق زندگی گزارے۔
واپس اوپر جائیں

حسنِ رفاقت کی دنیا

قرآن میں جنت کے معاشرے کا نقشہ ان الفاظ میں بتایا گیا ہے: وَمَنْ یُطِعِ اللَّہَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِکَ مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللَّہُ عَلَیْہِمْ مِنَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّہَدَاءِ وَالصَّالِحِینَ وَحَسُنَ أُولَئِکَ رَفِیقًا (4:69)۔ یعنی اور جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گا، وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ نے انعام کیا، یعنی پیغمبر اور صدیق اور شہید اور صالح۔ کیسی اچھی ہے ان کی رفاقت۔
Excellent are they as companions!
جنت کے ماحول کو بتانے کے لیے یہ الفاظ بہت بامعنی ہیں کہ جنت کا معاشرہ حسنِ رفاقت کا معاشرہ ہوگا۔ بہترین ساتھی (excellent companion) کا لفظ بہت جامع معنی میں ہے۔ اس سے مراد ایسے لوگ ہیں، جن کے اندر قابلِ پیشین گوئی کردار (predictable character) ہو۔ جواپنے ساتھی کے لیے مکمل معنوں میں بے مسئلہ انسان(no-problem person) بنے ہوئے ہوں۔ جو ایک دوسرے کے لیے ہمیشہ مددگار بنے رہیں۔ جن کے اندر نفع بخشی کا کردار پایا جاتا ہو۔جو اپنے سماج میں دینے والے انسان (giver person)بن کر رہیں، نہ کہ لینے والے انسان (taker person) بن کر زندگی گزاریں۔ جن کے اندر کامل معنوں میں ایک دوسرے کے لیے خیرخواہی کا مزاج پایا جاتا ہو۔ جو دہرے کردار (double standard) کی صفت سے آخری حد تک خالی ہوں۔
حسنِ رفاقت کا معیار صرف آخرت کے لیے نہیں ہے۔ عین یہی کردار موجودہ دنیا میں بھی مطلوب ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو افراد دنیا کی زندگی میں اس معیار پر پورے اتریں، وہی آخرت کے جنتی سماج کے لیے منتخب کیے جائیں گے۔ آخرت میں حسنِ رفاقت کا سماج دنیا کے منتخب افراد کا مجموعہ ہوگا، جس کو قرآن میں احسن العمل افراد کا مجموعہ (الملک، 67:2) کہا گیا ہے۔ جنت ایک اعلیٰ قسم کی اجتماعی زندگی ہوگی، نہ کہ صرف انفرادی زندگی۔
واپس اوپر جائیں

اہلِ جنت

جنت رب العالمین کا پڑوس ہے (التحریم،66:11)۔جنت ان لوگوں کے لیے ہے، جو دنیا میں خداوند رب العالمین کی یاد میںجینے والے ہوں، وہی لوگ ابدی جنت میں بسائے جائیں گے۔جہاں ان کو خداوندِ رب العالمین کی قربت حاصل ہوگی۔ جو لوگ منفی سوچ (negative thinking) میں جینے والے ہوں، وہ دنیا میں بھی خداوند رب العالمین کی قربت سے محروم رہیں گے، اور آخرت میں بھی۔
موجودہ دنیا تربیت گاہ ہے، اور آخرت کی دنیا تربیت یافتہ لوگوں کا مقام۔ جنت میں صرف منتخب افراد رہائش کا درجہ پائیں گے۔ وہ لوگ جو دنیا کی زندگی میں اپنے آپ کو اس قابل ثابت کریں کہ وہ منظم زندگی گزارنا جانتے ہیں۔ جن کے اندر قابلِ پیشین گوئی کردار موجود ہے۔ جنت میں ان لوگوں کو داخلہ ملے گا، جو اپنے عمل سے یہ ثابت کریں کہ ان کے اندر تخلیقی (creative)صلاحیت موجود ہے۔ جو یہ ثابت کریں کہ وہ آزادی کے باوجود ذمے دارانہ زندگی (disciplined life) گزارنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جنت ان لوگوں کے لیے ہے، جو پورے معنی میں باشعور ہوں۔ جو پورے معنیٰ میں بے مسئلہ انسان ہوں۔ جو اپنے اندر سیلف کنٹرول (self-control) کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ وہ منظم اخلاقیات سے متصف ہوں، وغیرہ۔
اسی طرح جنت کے بارے میں قرآن میں آیا ہے :حَسُنَ أُولَئِکَ رَفِیقًا (4:69)۔ یعنی کیسی اچھی ہے ان کی رفاقت۔ اس سے معلوم ہوا کہ جنت حسنِ رفاقت (excellent companionship) کی دنیا ہے۔ دنیا میں اسی کا امتحان ہورہا ہے۔ یہاں یہ دیکھا جارہا ہے کہ وہ کون شخص ہے، جو اس بات کا ثبوت دیتا ہے کہ اجتماعی زندگی میں اس کے اندر سیلف ڈسپلن کی صفت اعلی درجے میں پائی جاتی ہے، جو کسی کے دباؤ کے بغیر دوسروں کے لیے بہترین ہمسایہ بن کر رہنے والا ہے۔ جس آدمی کے اندر حسن رفاقت کی صفت ہو، جو کسی دباؤ کے بغیر سیلف ڈسپلن کے ساتھ ہر حال میں رہ سکتا ہے، ایسے ہی لوگ ہیں، جو جنت میں داخلے کے لیے منتخب کیے جائیں گے۔
اسی طرح قرآن میں بتایا گیاہے کہ اہل جنت کے لیے جنت کا رزق ایک معلوم رزق ہوگا۔ یعنی جنت ان کے لیے ایک ایسی چیز ہوگی، جس کی دریافت ان کو دنیا میں ہوچکی تھی ۔ اس سلسلے میںقرآن کے الفاظ یہ ہیں وَیُدْخِلُہُمُ الْجَنَّةَ عَرَّفَہَا لَہُمْ ( 47:6) ۔ یعنی اور ان کو جنت میں داخل کرے گا جس کی اس نے انھیں پہچان کرا دی ہے۔ گویا کہ موجودہ دنیا ایک ایسی دنیا ہے جو جنت کے متشابہ دنیا (similar world)کی حیثیت رکھتی ہے ، جیسا کہ قرآن میں ایک دوسرے مقام پر یہ الفاظ آئے ہیں کُلَّمَا رُزِقُوا مِنْہَا مِنْ ثَمَرَةٍ رِزْقًا قَالُوا ہَذَا الَّذِی رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ وَأُتُوا بِہِ مُتَشَابِہًا( 2:25)۔یعنی جب بھی ان کو ان باغوں میں سے کوئی پھل کھانے کو ملے گا تو وہ کہیں گے یہ وہی ہے جو اس سے پہلے ہم کو دیا گیا تھا، اور ملے گا ان کو ایک دوسرے سے ملتا جلتا۔
دوسری طرف حدیث میں آیا ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا :حُجِبَتِ الجَنَّةُ بِالْمَکَارِہِ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 6487)۔ یعنی جنت کو مکارہ سے ڈھانک دیا گیا ہے۔ مکارہ کا مطلب ناپسندیدہ (undesirable) ہے۔ اس پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت ایک ایسی چیز ہے، جس کا تعارفی ماڈل اسی دنیا میں موجود ہے، لیکن وہ مکارہ سے ڈھکا ہوا ہے۔ مومن کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو ذہنی اعتبار سے اتنا زیادہ ارتقا یافتہ بنائے کہ وہ مکارہ کے پردے کو ہٹا کر پیشگی طور پر جنت کو دریافت کرسکے۔
یہ صلاحیت کسی فرد کے اندر کیسے پیدا ہوتی ہے۔ وہ اس طرح پیدا ہوتی ہے کہ آدمی کے اندر موت و حیات کے منصوبے پر گہرا یقین ہو، وہ گہرے یقین کے ساتھ یہ جانے کہ موجودہ دنیامیں ہر لمحہ فرشتوں کے ذریعے اس کا ریکارڈ تیار ہورہا ہے۔ جو مرد یا عورت جنتی اخلاقیات کے معیار پر پورے اتریں، صرف وہ جنت میں داخلہ پائیں گے، اور جو لوگ اس معیار پر پورے نہ اتریں، وہ کائنات کے کوڑے خانے میں پھینک دیے جائیں گے۔ جہاں وہ ابدی طور پر اس حسرت میں تڑپتے رہیں کہ ان کو ایک ہی موقع ملا تھا، اس موقع کو انھوں نے اپنی نادانی سے کھودیا۔
واپس اوپر جائیں

حزن فری جنت

مغفرت کے بعد اہل جنت جب جنت کی ابدی دنیا میں داخلہ پائیں گے، تو ان کی زبان سے یہ الفاظ نکلیں گے: الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی أَذْہَبَ عَنَّا الْحَزَنَ إِنَّ رَبَّنَا لَغَفُورٌ شَکُورٌ (35:34)۔ یعنی حمد ہے اللہ کی جس نے ہم سے غم کو دور کردیا۔ بیشک ہمارا رب معاف کرنے والا، قدر کرنے والا ہے۔
موجودہ دنیا اسباب و علل کی دنیا ہے۔ یہ دنیا بے رحم مادی قوانین کی بنیاد پر چل رہی ہے۔ اس کے مقابلے میں انسان ایک حساس (sensitive) مخلوق ہے۔ اس بنا پر اس دنیا میں انسان کو بار بار کسی نہ کسی تکلیف کا تجربہ ہوتا ہے۔ اس طرح کے تجربات والی دنیا سے گزر کر جب اہل جنت ایک نئی کامل دنیا میں پہنچیں گے، جو جنت کی دنیا ہوگی، تو وہ پائیں گے کہ مادی دنیا کے برعکس، جنت کی دنیا ہر اعتبار سے ایک بے حزن دنیا (suffering-free world) ہے، تو ان کو ایک عجیب قسم کی خوشی حاصل ہوگی۔ پچھلے دورِ حیات کے برعکس، جنت کی حزن فری دنیا ان کو اتنا زیادہ پرمسرت معلوم ہوگی کہ وہ محسوس کریں گے کہ اس بے پایا ں خوشی کے اظہار کے لیے ان کے پاس الفاظ نہیں ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان ایک متلاشیٔ مسرت مخلوق (pleasure-seeking animal) ہے۔ وہ ساری عمر ایک ایسی زندگی کی تلاش میں رہتا ہے، جہاں اس کو ابدی معنوں میں خوشیوں سے بھری زندگی حاصل ہوجائے۔ خوشی کی تلاش انسان کا سب سے بڑا مطلوب ہے، مگر تجربہ بتاتا ہے کہ ہر قسم کی تلاش کے باوجود انسان کو اس دنیا میں کبھی سچی خوشی حاصل نہیں ہوتی۔ حتی کہ ان لوگوں کو بھی نہیں ، جن کے پاس دولت اور اقتدار کے خزانے موجود ہیں۔ ایسی حالت میں جب اہل جنت کو ایک ایسی دنیا ملے گی، جو ہر اعتبار سے سچی مسرت کی دنیا ہوگی، تو ان کو تعجب خیز خوشی (pleasant surprise)کا اعلیٰ تجربہ ہوگا۔ اس وقت وہ چاہیں گے کہ شکر کے گہرے احساس کے تحت سجدے میں گر پڑیں، اور کبھی سر نہ اٹھائیں۔ جنت کی خوشی ایک ناقابلِ بیان خوشی ہے، جو انسانی زبان میں بیان نہیں کی جاسکتی۔
قرآن میں جنت کی نعمتوںکامختلف الفاظ میں بار بار ذکر آیا ہے۔ایک مقام پر یہ الفاظ آئے ہیں  فِی جَنَّاتِ النَّعِیمِ...لَا مَقْطُوعَةٍ وَلَا مَمْنُوعَةٍ (56:12 & 33)۔ یعنی نعمت کے باغوں میں ... کبھی نہ ختم ہونے والی اور بےروک ٹوک ملنے والی ۔
In the Gardens of Bliss...neither interrupted, nor prohibited.
یہ الفاظ بے حد اہم ہیں۔ انسان کی فطرت کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان ایک ایسی مخلوق ہے، جو آخری حد تک مسرت پسند (pleasure-seeking) مخلوق کی حیثیت رکھتا ہے۔ مزید یہ کہ انسان غیر منقطع خوشی (uninterrupted pleasure) کا طالب ہے۔ایسی لامتناہی نعمت تلاش بسیار کے باوجود کسی کو حاصل نہیں ہوتی۔ ایسی نعمتوں والے باغات کسی انسان کو صرف جنت میں مل سکتے ہیں۔ اس جنت کی مزید صفت یہ ہوگی کہ وہ انسان کو ابدی طور پر حاصل رہے گی۔
اس بات کو ایک حدیث رسول میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:یُقَالُ لِأَہْلِ الْجَنَّةِإِنَّ لَکُمْ أَنْ تَصِحُّوا فَلَا تَسْقَمُوا أَبَدًا ،وَإِنَّ لَکُمْ أَنْ تَعِیشُوا فَلَا تَمُوتُوا أَبَدًا،وَإِنَّ لَکُمْ أَنْ تَنْعَمُوا فَلَا تَبْأَسُوا أَبَدًا،وَإِنَّ لَکُمْ أَنْ تَشِبُّوا فَلَا تَہْرَمُوا أَبَدًا (المعجم الصغیر للطبرانی، حدیث نمبر 213؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر 2837)۔ یعنی اہل جنت سے کہا جائے گا: تم صحت مندرہو کبھی بیمار نہیں پڑوگے، تم زندہ رہو تم پر کبھی موت نہیں آئے گی،تم آسائش کی زندگی گزارو کبھی کوئی پریشانی تم کو پیش نہیں آئے گی، تم جوان رہو کبھی تم بوڑھے نہیں ہوگے۔
ایسی دنیا جو ابدی طور پر غم سے خالی ہو۔ وہ بلاشبہ انسان کی سب سے بڑی تمنا ہے۔ جنت انسانی فطرت کی طلب ہے۔ جنت انسانی خوابوں کی تکمیل ہے۔ جنت انسان کی آخری آرزو ہے۔ جنت وہ مقام ہے، جہاں پہنچ کر انسان کی تمام خواہشیں پوری ہوجائیں گی، یہاں تک کہ اس کی کوئی آرزو باقی نہ رہے گی۔ جنت رب العالمین کا قرب ہے، جس سے بڑی کوئی جگہ انسان کے لیے نہیں ہوسکتی۔
واپس اوپر جائیں

جنت کی زندگی

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اہل جنت جب جنت میں پہنچیں گے، تو وہ جنتی زندگی کے بارے میں کہیں گے: وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی أَذْہَبَ عَنَّا الْحَزَنَ إِنَّ رَبَّنَا لَغَفُورٌ شَکُورٌ(35:34)۔ یعنی شکر ہے اللہ کا جس نے ہم سے حزن کو دور کردیا۔ بیشک ہمارا رب معاف کرنے والا، قدر کرنے والا ہے۔
اس آیت میں حزن کا لفظ بہت بامعنی ہے۔ حزن کا مطلب ہے، تکلیف (sorrow)۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان کے لیے سب سے زیادہ ناقابل برداشت چیز حزن ہے۔ حزن کو دورکرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس چیز کو دور کرنا، جو انسان کا سب سے زیادہ ناقابلِ برداشت معاملہ ہوتا ہے۔ انسان ایک کمزور مخلوق ہے۔ انسان سب کچھ برداشت کرلیتا ہے۔ لیکن حزن (تکلیف) اس سے برداشت نہیں ہوتی۔ انسان کی نسبت سے یہ لفظ ایک بے حد نفسیاتی لفظ ہے۔ انسان اگر سوچے تو جنت میں حزن نہ ہونا، اس کے لیے انتہائی پرکشش لفظ ہے۔ کیوں کہ انسان ایسی جگہ کے لیے سب کچھ کر نے کو راضی ہوجائے گا، جہاں حزن نہ ہو۔ اگر اس کو یقین ہوجائے کہ جنت حزن سے خالی جگہ ہے، تو وہ جنت کو پانے کے لیے سب کچھ کرنے کو تیار ہوجائے گا۔جنت کا تصور آدمی کو اسی یقین پر جینے والا بناتا ہے۔
جنت میں حزن نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جسمانی کرب(physical pain) کی ہر قسم سے جنت محفوظ ہوگی۔ آدمی اگر جسمانی حزن سے بچا ہوا ہو، تو اس کو نیند کے وقت اچھی نیند آئے گی، وہ کھانے کے وقت سکون سے کھانا کھائے گا۔ اٹھنا، بیٹھنا، چلنا پھرنا، اس کے لیے آسان ہوجائے گا۔ اس کے لیے زندگی ایک پرسکون زندگی بن جائے گی۔اس کو دن کا سکون بھی حاصل ہوجائے گا، اور رات کا سکون بھی۔ جو کام بھی وہ کرے گا، معتدل انداز میں کرے گا۔ اس کے لیے یہ ممکن ہوجائے گا کہ اپنا ہر کام کامل یکسوئی کے ساتھ انجام دے۔ زندگی اسی کے لیے زندگی ہے، جو حزن کی کیفیت سے بچا ہوا ہو۔ جو آدمی حزن کی کیفیت میں مبتلا ہو، وہ بظاہر زندہ ہوگا، لیکن اس کی زندگی چین سے خالی ہوگی۔
واپس اوپر جائیں

طالبِ جنت

ایک حدیث رسول میں طالب جنت کے لیے یہ الفاظ آئے ہیں: مَا رَأَیْتُ... مِثْل الجَنَّةِ نَامَ طَالِبُہَا (سنن الترمذی، حدیث نمبر 2601)۔ یعنی میں نے نہیں دیکھا، جنت جیسی چیز، جس کا طالب سورہا ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ جنت اس کے لیے ہے، جو سراپا طالب جنت بن جائے۔ جو جنت کی حقیقت کو اتنی زیادہ گہرائی کے ساتھ دریافت کرے کہ جنت اس کا انتظار بن جائے۔ وہ جنت کی یاد میں سوئے، اور جنت کی یاد میں جاگے۔ جس کا احساس یہ بن جائے کہ اللہ نے اگر اس کو جنت نہ دی تو اس کا حال کیا ہوگا۔ اگر وہ آخرت میں جنت سے محروم ہوجائے، تو اس کا کتنا زیادہ برا حال ہوجائے گا۔ اس کے لیے زندگی کتنی بڑی مصیبت بن جائے گی۔
جنت کا طالب وہ ہے، جو جنت کو دیکھے بغیر جنت کو دیکھنے لگے۔ جو جنت کو پانے سے پہلے جنت کا طالب حقیقی بن جائے۔ طالب جنت کی تصویر قرآن کی ایک آیت میں اس طرح بیان کی گئی ہے:وَیُدْخِلُہُمُ الْجَنَّةَ عَرَّفَہَا لَہُمْ (47:6)۔ یعنی اور ان کو جنت میں داخل کرے گا جس کی اس نے انھیں پہچان کرا دی ہے۔ اس آیت میں جنت کی معرفت کو اللہ کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ مگر وہ مومن کی صفت ہے۔ مومن وہ ہے، جو جنت کو اس طرح دریافت کرے کہ جنت اس کا شوق بن جائے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جنت کیا ہے، اس سے لوگوں کو پیشگی طور پر آگاہ کردیا گیا ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ صاحبِ ایمان جنت کے بارے میں اپنی معرفت کو اتنا زیادہ بڑھاتا ہے کہ جنت اس کے لیے پیشگی طور پر ایک معلوم چیز بن جاتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جنت ایک ایسا مطلوب ہے، جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے طالبِ جنت کا مثنی (counterpart) ہے۔ وہ فطری طور پر انسان کا ایک معلوم مسکن ہے۔ گویا کہ جنت انسان کے لیے ہے، اور انسان جنت کے لیے۔ لیکن جنت کا شوق جنت کے حصول کے لیے کافی نہیں، اس کے لیے ضروری ہے کہ آدمی ضروری تیاری کرے۔
واپس اوپر جائیں

جنت کا استحقاق

قرآن کی ایک آیت یہ ہے جَزَاؤُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِی مِنْ تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ خَالِدِینَ فِیہَا أَبَدًا رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمْ وَرَضُوا عَنْہُ ذَلِکَ لِمَنْ خَشِیَ رَبَّہُ (98:8)۔ یعنی ان کا بدلہ ان کے رب کے پاس ہمیشہ رہنے والے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، ان میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی، یہ اس شخص کے لیے ہے جو اپنے رب سے ڈرے۔
اس سورہ میں جس دو طرفہ رضامندی کی بات کہی گئی ہے، اس کا مطلب کیا ہے۔اس آیت میں اہل جنت کی کہانی اس طرح بیان کی گئی ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں، جو اللہ سے راضی ہوگئے۔ بندے کا اللہ سے راضی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ رب العالمین کے تخلیقی نقشے کے مطابق، بندے کو زندگی گزارنے کا جو نمونہ ملاتھا، بندے نے دنیا میں اس کے مطابق زندگی گزاری۔ بندہ اللہ کے تخلیقی نقشے پر دل سے راضی ہوا۔ اس کے بعد اللہ بھی اس پر راضی ہوگیا کہ وہ اپنے وعدے کے مطابق، ایسے بندے کے لیے اپنی جنت کے دروازے کھول دے۔
انسان کے لیے جنت کوئی خریداری کا معاملہ نہیں، بلکہ وہ رضامندی کا معاملہ ہے۔یہ اللہ رب العالمین کی رحمت کا معاملہ ہے کہ وہ انسان کے لیے جنت کو رضامندی کا معاملہ قرار دیتا ہے۔اپنی اصل حقیقت کے اعتبار سے جنت انعام کا معاملہ ہے، لیکن انسان کا درجہ بڑھانے کے لیے اللہ نے اس کو رضامندی کا معاملہ قرار دے دیا ہے۔ یہی مطلب ہے اس دوطرفہ رضامندی کا۔
جو بندہ اللہ کے تخلیقی نقشے پر راضی ہوجائے، وہ کامل رضامندی کے ساتھ خدا کے بنائے ہوئے نقشۂ حیات پر چلنے لگے گا۔یہ طریقِ حیات صرف ان لوگوں کے لیے ممکن ہے، جو صرف اللہ سے ڈرنے والے ہوں۔ اس طریقِ زندگی کو اختیار کرنے کا محرک (incentive) صرف خشیتِ رب ہے۔ جو آدمی خشیت رب سے خالی ہو، وہ ایسے طریقِ زندگی کو اختیار نہیں کرے گا۔ چنانچہ ایسے لوگوں کے لیے یہی مقدر ہے کہ اس کے سفر کی آخری منزل ابدی جنت سے محرومی ہو۔
واپس اوپر جائیں

جنت میں داخلہ
قرآن میں ایک حقیقت کچھ لفظی فرق کے ساتھ دو جگہ بیان ہوئی ہے۔ ایک مقام پر یہ الفاظ ہیں: أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا یَأْتِکُمْ مَثَلُ الَّذِینَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِکُمْ مَسَّتْہُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوا حَتَّى یَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِینَ آمَنُوا مَعَہُ مَتَى نَصْرُ اللَّہِ أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللَّہِ قَرِیبٌ (2:214)۔دوسری جگہ اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا یَعْلَمِ اللَّہُ الَّذِینَ جَاہَدُوا مِنْکُمْ وَیَعْلَمَ الصَّابِرِینَ(3:142)۔ اسی طرح قرآن میں دوسرے مقام پر یہ بتایا گیا ہے کہ جنت صرف مزکّی شخصیتوں کے لیے ہے (طہٰ، 20:76) ۔
یہاں یہ سوال ہے کہ تزکیہ کا تعلق سخت حالات سے کیا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ جب تک سخت حالات پیش نہ آئیں، آدمی کا تزکیہ مکمل نہیں ہوتا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ تزکیہ کے عمل میں سب سے زیادہ اہم رول ڈی کنڈیشننگ کا ہے۔ جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے کہ ہر آدمی کے ساتھ یہ پیش آتا ہے کہ اس کے والدین اس کو اپنے آبائی مذہب پر پختہ کردیتے ہیں (صحیح البخاری، حدیث نمبر 1385) ۔ تزکیہ کا سب سے اہم عمل یہ ہے کہ وہ انسان کی پختہ تاثر پذیری کو توڑے۔انسان جو کہ ایمان سے پہلے ماحول کا پروڈکٹ بنا ہوا تھا، وہ ایمان کے اثر سے ربانی شعور کا پروڈکٹ بن جائے۔ اسی کا نام تزکیہ ہے۔ تزکیہ در اصل سیلف ڈی کنڈیشننگ کا دوسرا نام ہے، یعنی اپنی متاثر شخصیت کو غیر متاثر شخصیت بنانا۔ فطرت پر پڑے ہوئے پردے کو پھاڑ کر انسان کو دوبارہ اپنی فطری حالت پر قائم کرنا۔ یہ تزکیہ ہے، اور تزکیہ سخت حالات ہی میں مکمل صورت میں انجام پاتا ہے۔ سخت حالات کے بغیر کسی شخص کے اندر ڈی کنڈیشننگ کا پراسس جاری نہیں ہوتا۔ سخت حالات انسان کو آخری حد تک جھنجھوڑ دیتے ہیں۔ سخت حالات گویا کسی انسان کے لیے "ایپل شاک" کی مانند ہیں۔ نیوٹن کو ایپل شاک کے بغیر زمین کی قوت ِکشش کا ادراک نہیں ہوا۔ اسی طرح مومن کے لیے سخت حالات ایپل شاک کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس تجربے کے بغیر کوئی شخص کامل معنوں میں مزکیّٰ شخصیت نہیں بنتا۔
واپس اوپر جائیں

اصحابِ اعراف

قرآن میں آخرت کے ایک گروہ کا ذکر ہے، جن کو اصحاب الاعراف (الاعراف، 7:46-49) کہا گیا ہے۔اعراف عرف کی جمع ہے۔ اس کا لفظی مطلب عربی زبان میں بلندی کے ہوتے ہیں۔ اعراف والے کا مطلب ہے بلندیوں والے۔یہ کون لوگ ہیں۔ اس سے مراد پیغمبروں اور داعیوں کا گروہ ہے جنہوں نے مختلف وقتوں میں لوگوں کو حق کا پیغام دیا۔ قیامت میں جب لوگوں کا حساب ہوگا اور ہر ایک کو معلوم ہوچکا ہوگا کہ اس کا انجام کیا ہونے والا ہے اور داعیٔ حق کی بات جو وہ دنیا میں کہتا تھا،اس کی سچائی آخری طور پر صحیح ثابت ہوچکی ہوگی اس وقت ہر داعی اپنی قوم کو خطاب کرے گا۔ خدا کے حکم سے آخرت میں ان کے لیے خصوصی اسٹیج مہیا کیا جائے گا، جس پر کھڑے ہو کر پہلےوہ اپنے ماننے والوں کو خطاب کریں گے۔ یہ لوگ ابھی جنت میں داخل نہیں ہوئے ہوں گے، مگر وہ اس کے امید وار ہوں گے۔ اس کے بعد ان داعیانِ حق کا رخ دعوتِ حق جھٹلانے والوں کی طرف کیا جائے گا۔ وہ ان کی بری حالت دیکھ کر کمال عبدیت کی وجہ سے کہہ اٹھیں گے کہ خدایا ہمیں ان ظالموں میں شامل نہ کر۔ وہ گروہ منکرین کے لیڈروں کو ان کے چہرہ کی ہیئت سے پہچان لیں گے، اور ان سے کہیں گے کہ تم کو اپنے جس جتھے اور اپنے جس سازوسامان پربھروسہ تھا، اور جس کی وجہ سے تم نے پیغام حق کو جھٹلا دیا، وہ آج تمہارے کچھ کام نہ آسکا۔
" وہ ابھی جنت میں داخل نہیں ہوئے ہوں گے مگر وہ امید وار ہوں گے۔ـ" اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دوسرے صالحین پہلے جنت میں چلے جائیں گے، اور اصحابِ اعراف بعد کو جائیں گے۔ یہ تقدیم و تاخیر کی بات نہیں ہے، بلکہ آخرت کے اعتبار سے لوگوں کے انجام کی بات ہے۔ جو لوگ دعوت کا کام کریں گے، ان کا معاملہ سادہ معاملہ نہیں ہوگا، بلکہ وہ دنیا کے مفادات سے محرومی کی بنیاد پر انجام پائے گا ۔ یہ وہ لوگ ہوں گے، جو دعوت یا شہادت کی قیمت ادا کرکے دعوت کا اور شہادت کا کام انجام دیں گے، اور پھر آخرت میں اس کا انعام پائیں گے۔
واپس اوپر جائیں

انسان کا انجام

انسان کو قرآن میں مکرم مخلوق (الاسراء، 17:70) کہا گیا ہے۔ انسان پیدا ہوتا ہے ، پھر وہ بچپن اور نوجوانی اور جوانی اور بڑھاپے کے مراحل سے گزرتا ہے۔ آخر کار وہ مرجاتا ہے۔ اس دنیا میں موت ہر آدمی کا آخری مقدر ہے۔ آدمی دنیا کی زندگی میں بہت کچھ حاصل کرتا ہے۔ مگر آخری انجام ہر ایک کا صرف ایک ہے۔ جیسا کہ قرآن میںہے:(ترجمہ) تم ہمارے پاس اکیلے اکیلے آگئے جیسا کہ ہم نے تم کو پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا، اور جو کچھ اسباب ہم نے تم کو دیا تھا، وہ سب کچھ تم پیچھے چھوڑ آئے(6:94)۔
اب سوال یہ ہے کہ انسان کا انجام کیا ہے۔ موت کے بعد انسان کے ساتھ کیا پیش آتا ہے۔جہاں تک میں سمجھتا ہوں، انسان کو ایک کام کرنا ہے۔ وہ یہ کہ اپنے ضمیر (conscience) کو بچا کر رکھے۔ ضمیر کے بارے میں قرآن میں آیا ہے:’’پھر اس کو سمجھ دی، اس کی بدی کی اور اس کی نیکی کی‘‘(91:8)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو حقیقت کا علم پیدائشی طور پر دیا گیا ہے۔ حقیقت کا علم اس کے اندر گہرائی کے ساتھ موجود ہے۔ یہ اتنا زیادہ طاقت ور انداز میں ہے کہ کوئی انسان اس سے انکار نہیں کرسکتا۔مگر اس سے وہی فائدہ اٹھا سکتا ہے، جو اپنے ضمیر کو ہر حال میں زندہ رکھے۔ایسی حالت میں انسان کے لیے کرنے کا ایک کام یہ ہے کہ وہ اپنے ضمیر کو مردہ نہ ہونے دے، تاکہ وہ اپنے ضمیر کی طرف رجوع کرے۔
اگر انسان اپنے ضمیر کو لے کر سوچے گا، تو وہ کبھی راستے سے بھٹک نہیں سکتا۔ ضمیر اس کے لیے ایسا گائڈ بن جائے گا، جو ہر حال میں اس کومنزل تک پہنچائے۔اس کا طریقہ یہ ہے کہ جب ضمیر کسی بات پر ٹوکے، تو وہ فوراً اس کی آواز کو سنے۔ جب تک آدمی ایسا کرے گا، اس کا ضمیر زندہ رہےگا۔ اس کے برعکس، جب ایسا کیا جائے کہ ضمیر کے ٹوکنے کی پرواہ نہ کی جائے، تو دھیرے دھیرے ضمیر بے حس ہوجائے گا۔ اسی کو کہتے ہیں ضمیر کا مردہ ہوجانا۔
واپس اوپر جائیں

پر امید آیات و احادیث

امام سیوطی (وفات 911ھ) نے لکھا ہے کہ قرآن کی پر امید آیتوں کی تعداد دس سے کچھ زیادہ ہے (الاتقان فی علوم القرآن، 4/149) ۔ان میں سے ایک آیت یہ ہے:قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِینَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّہِ إِنَّ اللَّہَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ (39:53)۔ یعنی کہو کہ اے میرے بندو، جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ بیشک اللہ تمام گنا ہوں کو معاف کردیتا ہے، وہ بڑا بخشنے والا، مہربان ہے۔
اسی طرح احادیث میں بھی اس قسم کے پرامید اقوال آئے ہیں۔ ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے:لَمَّا خَلَقَ اللہُ الْخَلْقَ، کَتَبَ کِتَابًا، فَہُوَ عِنْدَہُ فَوْقَ الْعَرْشِ:إِنَّ رَحْمَتِی سَبَقَتْ غَضَبِی (مسند احمد، حدیث نمبر 7528)، و فی روایۃ : إِنَّ رَحْمَتِی غَلَبَتْ غَضَبِی(مسند احمد، حدیث نمبر8127)۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جب اللہ نے مخلوق کو پیدا کیا تو اس نے ایک کتاب لکھی۔ یہ کتاب اس کے پاس عرش کے اوپر ہے: بیشک میری رحمت میرے غضب سے آگے ہے۔ ایک اور روایت میں ہے: بیشک میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے۔
قرآن کی مذکورہ آیت ایک بے حد پرامید آیت ہے۔ اسی طرح حدیث بھی ایک بہت پر امید حدیث ہے۔ دونوں میں جو مشترک بات ہے، وہ یہ ہے کہ اس امید کی بنیاد رحمت ہے۔ اللہ رب العالمین کی صفات میں ایک صفت اس کا رحیم و کریم ہونا ہے۔ وہ اپنے بندوں کے ساتھ ہمیشہ رحمت کا معاملہ فرماتا ہے۔ اللہ رب العالمین کی یہ صفت بندے کے لیے بلاشبہ سب سے زیادہ پر امید صفت ہے۔ اللہ رب العالمین کا رحیم و کریم ہونا، اس کے بندوںکو یہ موقع دیتا ہے کہ وہ ایسے الفاظ میں اپنے رب کو پکاریں، جو اللہ کی رحمت کو انووک کرنے والا ہو۔ اگر بندہ ایسی دعا کرے تو وہ گویا اسم اعظم کے ساتھ اپنے رب کو پکارتا ہے، اور جو آدمی اسم اعظم کے ساتھ اپنے رب کو پکارے تو اللہ رب العالمین اس کی پکار کو ضرور قبول فرماتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

امید کا پیغام

قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: قُلْ یَاعِبَادِیَ الَّذِینَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّہِ إِنَّ اللَّہَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ (39:53)۔ یعنی کہو کہ اے میرے بندو جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ بیشک اللہ تمام گنا ہوں کو معاف کردیتا ہے، وہ بڑا بخشنے والا، مہربان ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان کو دنیا میں طرح طرح کے فتنوں کے درمیان زندگی گزارنا پڑتا ہے۔ اس کو ہمیشہ یہ اندیشہ رہتا ہے کہ کہیں وہ فتنوں کا شکار نہ ہوجائے۔ چنانچہ اکثر صحابہ اور بزرگوں نے اس حیثیت سے قرآن پر غور کیا ہے۔ ان کی رائیںتفسیر کی کتابوں میں آئی ہیں، ان میں سے چند یہ ہیں: وَقَالَ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ: مَا فِی الْقُرْآنِ آیَةٌ أَوْسَعُ مِنْ ہَذِہِ الْآیَةِ... وَقَالَ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ عُمَرَ:وَہَذِہِ أَرْجَى آیَةٍ فِی الْقُرْآنِ فَرَدَّ عَلَیْہِمُ ابْنُ عَبَّاسٍ وَقَالَ أرجى آیة فی القرآن قول تَعَالَى:وَإِنَّ رَبَّکَ لَذُو مَغْفِرَةٍ لِلنَّاسِ عَلى ظُلْمِہِمْ (تفسیر القرطبی،جلد 15، صفحہ 269)۔یعنی علی ابن علی طالب کہتے ہیں کہ قرآن میں اس آیت سے زیادہ وسیع آیت کوئی دوسری نہیں ہے۔ عبد اللہ ابن عمر کہتے ہیں کہ یہ آیت سب سے زیادہ امید والی آیت ہے، ابن عباس نے جب یہ سنا تو کہا کہ اس کے بجائےسب سے زیادہ امید والی آیت یہ ہے: وَإِنَّ رَبَّکَ لَذُو مَغْفِرَةٍ لِلنَّاسِ عَلى ظُلْمِہِم (13:6)۔یعنی تمہارا رب لوگوں کے ظلم کے باوجود ان کو معاف کرنے والا ہے۔
اس سلسلے میں ایک حدیث ان الفاظ میں آئی ہے: لَمَّا قَضَى اللَّہُ الخَلْقَ کَتَبَ فِی کِتَابِہِ فَہُوَ عِنْدَہُ فَوْقَ العَرْشِ إِنَّ رَحْمَتِی غَلَبَتْ غَضَبِی(صحیح البخاری، حدیث نمبر 3194)۔یعنی اللہ نے جب تخلیق کا فیصلہ کیا تو اس نے ایک کتاب اپنے پاس لکھی,یہ اس کے پاس عرش کے اوپر ہے: میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے۔اس طرح کی آیتیں اور حدیثیں انسان کو زندگی کا حوصلہ دیتی ہیں۔
واپس اوپر جائیں

فتنہ ٔعام

ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہےسَتَکُونُ فِتَنٌ، القَاعِدُ فِیہَا خَیْرٌ مِنَ القَائِمِ، وَالقَائِمُ خَیْرٌ مِنَ المَاشِی، وَالمَاشِی فِیہَا خَیْرٌ مِنَ السَّاعِی، مَنْ تَشَرَّفَ لَہَا تَسْتَشْرِفْہُ، فَمَنْ وَجَدَ مَلْجَأً أَوْ مَعَاذًا، فَلْیَعُذْ بِہِ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 7082)۔ یعنی عنقریب فتنے ہوں گے۔ اس میں بیٹھنے والا، کھڑے رہنے والے سے بہتر ہوگا، اور کھڑا رہنے والا، چلنے والے سے بہتر ہوگا، اور چلنے والا کوشش کرنے والے سے بہتر ہوگا، جو اس کی طرف جھانکے گا، وہ اس میں واقع ہو جائے گا، تو جو بھی کوئی پناگاہ یا بچنے کی جگہ پائے، تو وہ اس میں پناہ لے لے۔
اس حدیث میں ایک عمومی فتنہ کا ذکر ہے۔ اس سے مراد غالباً وہ دور ہے، جب کہ ٹکنالوجی کی دریافت کے نتیجے میں مواقع (opportunities) بہت زیادہ بڑھ جائیں گی۔ ہر آدمی کو دکھائی دے گا کہ وہ بھی ان سب چیزوں کو پاسکتا ہے، جو بظاہر دوسرا آدمی پائے ہوئے ہے۔ مال کے اعتبار سے، سیاسی عہدے کے اعتبار سے، مادی فائدے کے اعتبار سے امکانات اتنے زیادہ بڑھ جائیں گے کہ اس کی رسائی ہر آدمی تک ہو جائے گی۔ گھر کے معاملے میں، اپنی فیملی کے معاملے میں، اپنے بچوں کے معاملے میں ،ہر آدمی بڑی بڑی ترقی کا خواب دیکھنے لگے گا۔ یہ فتنہ ہر آدمی کو مادہ پرست بنا دے گا۔ ہر آدمی پر ایک ہی شوق غالب ہوگا کہ وہ اور اس کی فیملی زیادہ سے زیادہ دنیوی ترقی حاصل کرے۔
مادی ترقی کی دوڑ اس زمانے میں اتنا زیادہ عام ہوجائے گی کہ دوسری چیز آدمی کو نظر ہی نہیں آئے گی۔ دنیا پرستی کا کلچر مکمل طور پر آخرت پسندی کے اوپر غالب آجائے گا۔ آدمی کو نظر آئے گا کہ جنت جب مجھ کو اسی دنیا میں مل رہی ہے، تو میں جنت کو پانے کے لیے آخرت کا انتظار کیوں کروں۔ کوئی آدمی اگر خود دنیا کی ترقی حاصل نہ کرسکا، تو وہ اپنی اولاد کو ترقی کی اس دوڑ میں ہمہ تن شامل کردے گا۔
واپس اوپر جائیں

انسان کی دریافت

خدا تمام خوبیوں کا سرچشمہ ہے—
God is the eternal source of all kinds of beauty and goodness.
خدا نے انسان کو بنایا۔ انسان اپنی ذات میں ایک مکمل وجود ہے۔ اس کے اندر ہر قسم کی اعلیٰ صلاحیتیں کمال درجہ میں موجود ہیں۔ انسان کے دماغ (brain) میں 100 million billion billion پارٹیکل ہیں۔ یہ واقعہ اس بات کی علامت ہے کہ انسان کے خالق نے انسان کے اندر لامحدود صلاحیتیں رکھ دی ہیں۔
اسی کے ساتھ انسان کو ایک ایسی انوکھی چیزدی گئی ہے، جو وسیع کائنات میں کسی کو حاصل نہیں۔ یہ ہے احساسِ مسرَت۔ انسان اس کائنات میں واحد مخلوق ہے جو pleasure کا احساس رکھتا ہے اوروہ pleasure سے انجوائے کرنے کی لامحدود capacity رکھتا ہے۔ انسان کے لیے ہر چیز امکانی طور پَر خوشی کا ذریعہ ہے۔
خدا نے اسی قسم کی انوکھی صلاحیتوں کے ساتھ انسان کو پیدا کیا ۔ اس کے بعد خدا نے ایک حسین دنیا بنائی جس کا نام اس نے جنت رکھا۔ جنت ایک perfect world ہے، جس میں ہر قسم کا pleasure اپنی آخری perfectصورت میں موجود ہے۔ انسان اور یہ جنت دونوں گویا ایک دوسرے کا مثنیٰ (کاؤنٹر پارٹ) ہیں۔ انسان جنت کے لیے ہے اور جنت انسان کے لیے۔ جنت وہ جگہ ہے جہاں انسان کو پورا fulfillment ملے۔ جنت گویا انسان کی تکمیل ہے۔ جنت کے بغیر انسان بے معنی ہے، اور انسان کے بغیر جنت بے معنٰی۔ جنت کے بغیر انسان کی زندگی ادھوری ہے، اور انسان کے بغیر جنت ادھوری۔
انسان اس جنت کا امکانی باشندہ ہے، مگر یہ جنت کسی انسان کو پیدائشی یا نسلی حق کے طورپر نہیں ملتی۔ جنت میں داخلہ کی شرط یہ ہے کہ انسان یہ ثابت کرے کہ وہ اپنی خصوصیات کے اعتبار سے اس کا مستحق ہے۔
موجودہ دنیا کو خدا نے اسی مقصد کے لیے selection ground کے طور پر بنایا ہے۔ موجودہ دنیا کے حالات اس طرح بنائے گئے ہیں کہ یہاں کا ہر جز انسان کے لیے ایک ٹسٹ پیپر کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہاں انسان ہر لمحہ trial پر ہے۔ خدا ہر انسان کے قول و عمل کا record تیار کر رہا ہے۔ اسی recordکی بنیاد پر یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ وہ کون عورت اور مرد ہیں ،جو جنت میں بسانے کے لیے اہل باشندہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
انسان کو اس دنیا میں مکمل آزادی ملی ہوئی ہے۔ یہ آزادی انعام کے طورپر نہیں بلکہ test کے طور پر ہے۔ خدا یہ دیکھ رہا ہے کہ انسان اپنی آزادی کو کس طرح استعمال کرتا ہے۔ جو عورت اور مرد اپنی آزادی کو خدا کے نقشہ کے مطابق درست طورپر استعمال کریں، ان کو جنّت میں بسانے کے لیے چُنا جائے گا اور جو لوگ آزادی کو misuse کریں وہ Day of Judgement میںقابلِ رد (rejected lot) قرار پائیں گے۔
انسان کی زندگی دو دوروں میں تقسیم ہے۔ قبل ازموت دور (pre-death period) اور بعد ازموت دور (post-death period) ۔قبل از موت دور امتحانی دور(trial period)ہے، اور بعد ازموت دور انعام پانے کا دور (reward period) ۔ یہی وہ سب سے بڑی حقیقت ہے، جس کو جاننے اور اختیار کرنے میں انسان کی کامیابی اور ناکامی کا راز چھپا ہوا ہے۔
ôôôôô
جنت کے حصول کا مدارجس چیز پر ہے، وہ ہے اپنی خواہشوں پر کنٹرول کرنا اور اپنی عقل کو ترقی دینا ۔ انسان کے اندر بہت سی خواہشیں ہیں۔ اِسی خواہش کے راستے سے شیطان نے آدم کے اوپر حملہ کیا، اور وہ کامیاب ہوگیا۔ ہر خواہش انسان کے اندر شیطان کے داخلے کا دروازہ ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنی خواہش کے ہر دروازے پر چوکی دار بنا رہے، تاکہ شیطان اس کے اندر داخل ہو کر اُس کو خدا کی رحمت سے دور نہ کرسکے۔
واپس اوپر جائیں

یہ تضاد کیوں

شیلے(Percy Bysshe Shelley) ایک انگلش شاعر ہے۔ وہ 1792ءمیں پیدا ہوا، اور 1822ءمیں اس کی وفات ہوئی۔ اس نے ایک بار کہا تھا کہ ہمارے سب سے زیادہ شیریں نغمے وہ ہیں جو سب سے زیادہ غم ناک نغمے ہیں:
Our sweetest songs are those that tell of saddest thought.
یہ ایک عام تجربے کی بات ہے ۔ ہر عورت اور مرد کا یہ حال ہے کہ اس کو دردناک کہانیاں یا غم انگیز اشعار زیادہ پسند آتے ہیں۔ اکثر مقبول ناول وہ ہیں جو طَربیہ نہیں ہیں بلکہ المیہ ہیں۔ اسی طرح اکثر ایسا ہوتا ہے کہ وہ گیت کار زیادہ مقبول ہوتے ہیں جو پُر سوز لہجے میں گانے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ ایسا کیوں ہے۔ کیا وجہ ہے کہ پُر سوز اشعاریا پُر سوز کہانیاں انسان کے دل کے تاروں کو چھیڑنے میں زیادہ کامیاب ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہر انسان عملاً محرومی یا عدم یافت کی نفسیات میں جیتا ہے۔ ایسی حالت میں خوشی کی بات اس کو غیر واقعی معلوم ہوتی ہے۔اس کے مقابلے میں غم کی بات اس کو زیادہ مبنی بَر واقعہ نظر آتی ہیں۔
زیادہ گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیجیے تو معلوم ہوگا کہ انسان ایک لذت پسند حیوان ہے:
Man is a pleasure-seeking animal.
ناقابلِ پیمائش حد تک وسیع کائنات کے اندر انسان ایک استثنائی مخلوق ہے۔ اِس عالم میں انسان ایک واحد مخلوق ہے، جو احساس لذّت کی صفت رکھتا ہے۔ یہ انسان کی انوکھی صفت ہے کہ وہ مختلف قسم کی لذّتوں کا احساس رکھتا ہے اور اس سے لطف اندوز ہوسکتا ہے۔ وسیع کائنات میں بے شمار مخلوقات ہیں مگر لذت سے لطف اندوز ہونے کی صفت استثنائی طورپر صرف انسان کے اندر پائی جاتی ہے۔
انسان کے لیے سوچنا بھی لذت ہے، دیکھنا بھی لذّت ہے، سننا بھی لذت ہے، بولنا بھی لذّت ہے، کھانا اور پینا بھی لذت ہے، سونگھنا بھی لذت ہے اور چھونا بھی لذت ہے، حتی کہ ہری گھاس کا لان ہواور اس پرآپ ننگے پاؤں چلیں تو اِس لمس میں بھی آپ کو بے پناہ لذت محسوس ہوگی۔
مگر یہاں ایک عجیب تضاد پایا جاتا ہے۔ انسان کے اندر لذت کااحساس تو انتہا درجے میں موجود ہے، مگر لذت سے لطف اندوز ہونا اس دنیا میں اس کے لیے ممکن نہیں۔ میں ایک بار کشمیر گیا، وہاں پہلگام کے علاقے میں ایک پہاڑی دریا ہے، جو پہاڑوں کے اوپر برف پگھلنے سے جاری ہونے والے چشموں کے ذریعہ سے بنتا ہے۔اس کا پانی انتہائی خالص پانی ہے۔ جب میں پہلگام پہنچا اور وہاں دریا کے صاف و شفاف پانی کو دیکھا تو مجھے خواہش ہوئی کہ میںاس کا پانی پیوں۔ میں نے بہتے ہوئے دریا سے ایک گلاس پانی لے کر پیا تو وہ مجھے بہت زیادہ اچھا لگا، تمام مشروبات سے زیادہ اچھا۔ میں نے ایک گلاس کے بعد دوسرا گلاس پیا، یہاں تک کہ میں چھ گلاس پانی پی گیا۔
چھٹے گلاس کے بعد بھی میرا اشتیاق باقی تھا، مگر میںمزید پانی نہ پی سکا۔ اب میرے سر میں سخت درد شروع ہوگیا ۔ درد اتنا شدید تھا کہ مجھے فوراً وہاں سے واپس ہونا پڑا۔ میں واپس ہوکر سری نگر پہنچا۔ سری نگر میں ایک کشمیری تاجر کے یہاں میرے شام کے کھانے کا انتظام تھا۔ کئی اور لوگ اِس موقع پر بلائے گئے تھے۔ میں وہاں پہنچا تو میرے سر میں اتنا شدید درد ہو رہا تھا کہ میں کھانے میں شریک نہ ہوسکا۔ بلکہ ایک اور کمرے میں جاکر لیٹ گیا۔
یہی حال دنیا کی تمام لذتوں کا ہے۔ انسان دولت کماتا ہے۔ اقتدار حاصل کرتا ہے۔ اپنی پسند کی شادی کرتا ہے۔ اپنے لیے شان دار گھر بناتا ہے۔ عیش کے تمام سامان اکھٹا کرتا ہے۔ مگر جب وہ یہ سب کچھ کر چکا ہوتا ہے، تو اس کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے اور لذتوں کے درمیان ایک حتمی رکاوٹ حائل ہے۔ کسی بھی لذت سے وہ اپنی خواہش کے مطابق لطف اندوز نہیں ہوسکتا۔ لذت کے تمام سامان بھی اس کو خوشی اور سکون دینے میں ناکام رہتے ہیں۔
لذتوں کے بارے میں انسان کی خواہش لامحدود ہے۔ مگر لذتوں کو استعمال کرنے کے لیے وہ خود ایک محدودصلاحیت رکھنے والا انسان ہے۔ انسان کی یہی محدودیت ہر جگہ اس کے اور سامانِ لذت کے درمیان حائل ہوجاتی ہے۔ سب کچھ پانے کے بعد بھی وہ بدستور احساسِ محرومی میں مبتلا رہتاہے۔ انسان کی جسمانی کمزوری، جوانی کا زوال، بڑھاپا، بیماری، حادثات اور آخر میںموت، مسلسل طورپر اس کی خواہشوں کی نفی کرتے رہتے ہیں۔ لذت کا سامان حاصل کرلینے کے باوجود یہ ہوتاہے کہ جب وہ اس کو استعمال کرنا چاہتا ہے تو خواہش کی تکمیل سے پہلے ہی اس کی طاقت کی حد آجاتی ہے۔ وہ ایک ختم شدہ طاقت(spent force) کی مانند بن کر رہ جاتا ہے۔
اس تضاد کو لے کر مزید مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ تضاد در اصل تضاد نہیں ہے، بلکہ وہ ترتیب کے فرق کا نتیجہ ہے۔ وہ فرق یہ ہے کہ فطرت کے نظام کے تحت، انسان کے لیے یہ مقدر کیاگیا ہے کہ وہ موت سے قبل کے دَور میں اپنی مطلوب لذتوں کا صرف تعارف حاصل کرے، اور موت کے بعد کے دَور میں ان لذتوں کو حقیقی طورپر اور مکمل طورپر حاصل کرے۔
یہ ترتیب اتفاقی نہیں ہے، وہ خود فطرت کا حصہ ہے، وہ فطرت کے پورے نظام میں پائی جاتی ہے۔ اِس دنیا میں انسان کو جو کامیابی بھی ملتی ہے، وہ اسی ترتیب کے اصول کے تحت ملتی ہے۔ اس دنیا کی کوئی بھی کامیابی ترتیب کے اس اصول سے مستثنیٰ نہیں۔
زراعت میں پہلے بونا ہوتا ہے، اس کے بعد کاٹنا۔ باغبانی میںپہلے پَودا اُگانا ہوتا ہے، اور اس کے بعد اس کا پھل حاصل کرنا۔ لوہے کو پہلے پگھلانا ہوتا ہے، اور اس کے بعد اس کو اسٹیل بنانا۔ غرض اس دنیا میں جتنی بھی چیزیں ہیں، ان میں سے ہرایک کے ساتھ یہی ترتیب اور تدریج کا معاملہ ہوتا ہے۔ ہر چیز پہلے اپنے ابتدائی دَور سے گزرتی ہے، اور پھر وہ اپنے انتہائی مرحلے تک پہنچتی ہے۔ فطرت کے اِس اصول میں کسی بھی چیزکا کوئی استثنا نہیں۔
یہی معاملہ انسان کا ہے۔ انسان کو لذت کا لامحدود احساس دیا گیا ہے،مگر لذتوں سے لامحدود طور پر تمتُّع کرنے کا سامان موت کے بعد آنے والی اگلی دنیا میں رکھ دیا گیا ہے۔ موجودہ دنیا میں آدمی اپنی لذت طلبی کی صلاحیت کو دریافت کرتا ہے اور اگلی دنیا میں وہ اپنی لذت طلبی کے مطابق، لذت کے تمام سامانوں کو حاصل کرے گا۔ موت سے پہلے کے مرحلۂ حیات میں لذت کا احساس، اور موت کے بعد کے مرحلۂ حیات میں لذت سے تمتع۔
خالقِ کائنات نے اپنے تخلیقی نقشے کے مطابق، ایسا کیا ہے کہ موجودہ دنیا میں وہ انسان کو ممکن لذتوں کاابتدائی تعارف کراتا ہے۔ اس طرح وہ انسان کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ اگر تم اِن لذتوں سے ابدی طورپر اور کامل طورپر متمتّع ہونا چاہتے ہو تو اپنے اندراس کا استحقاق پیدا کرو۔
یہ استحقاق کیا ہے۔ یہ استحقاق، ایک لفظ میں یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو پاکیزہ روح (purified soul) بنائے (طہ، 20:76)۔یعنی وہ اپنے آپ کو ہر قسم کے منفی احساسات سے پاک کرے۔ وہ اپنے آپ کو لالچ، خود غرضی، حسد، بددیانتی، جھوٹ، غصّہ، انتقام، تشدّد اور نفرت جیسے تمام غیر انسانی جذبات کا شکار ہونے سے بچائے۔ وہ اپنے اندر وہ اعلیٰ انسانی شخصیت پیدا کرے جو مکمل طورپر مثبت شخصیت ہو۔ جو اپنے اعلیٰ اوصاف کے اعتبار سے اس قابل ہو کہ وہ خدا کے پڑوس میں رہ سکے۔ جو شیطانی انسان سے اوپر اٹھ کر ملکوتی انسان (divine personality) بن جائے۔
انسان کی زندگی دو مرحلوں میں تقسیم ہے،—موت سے پہلے اور موت کے بعد۔ اس مرحلۂ حیات کا نسبتاً مختصر حصّہ موت سے پہلے کے دو رمیں رکھا گیا ہے، اور اس کا زیادہ طویل عرصہ موت کے بعد کے دَور میں۔ انسان کی کہانی کو اگر صرف موت سے پہلے کے مرحلۂ حیات کی نسبت سے دیکھا جائے تو وہ ایک المیہ(tragedy) نظر آئے گی۔ لیکن اگر انسان کی کہانی کو موت کے بعد کے مرحلۂ حیات کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو وہ مکمل طورپر ایک (comedy) نظر آنے لگے گی۔
فطرت کے اس تخلیقی نقشہ (creation plan) کے مطابق، انسان ایک انتہائی نازک مقام پر کھڑا ہوا ہے۔ وہ ایک ایسے مقام پر ہے جہاں اس کو دو ممکن انتخابات میںسے ایک کا انتخاب کرنا ہے— موجودہ دنیا کے مواقع کو فطرت کے نقشے کے مطابق استعمال کرنا، اور پھر ابدی لذتوں میں جینے کا مستحق بن جانا۔ یا موجودہ دنیا میں غفلت کی زندگی گذارنا، اوربعد کے دورِ حیات میں ابدی طورپر لذتوں سے محروم ہوجانا۔
واپس اوپر جائیں

اہلِ جنت کے درجات

قرآن کی سورہ الحدید میں جنت کا ذکر کرتے ہوئے یہ الفاظ آئے ہیں سَابِقُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّکُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُہَا کَعَرْضِ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ(57:21)۔ یعنی لوگو، دوڑو اپنے رب کی معافی کی طرف اور ایسی جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان اور زمین کی وسعت کے برابر ہے۔ دوسری جگہ اہل جنت کی زبان سے یہ خبر دی گئی ہے  وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی صَدَقَنَا وَعْدَہُ وَأَوْرَثَنَا الْأَرْضَ نَتَبَوَّأُ مِنَ الْجَنَّةِ حَیْثُ نَشَاءُ فَنِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِینَ (39:74)۔یعنی اوروہ کہیں گے کہ شکر ہے اُس اللہ کا جس نے ہمارے ساتھ اپنا وعدہ سچ کر دکھایا اور ہم کواس زمین کا وارث بنادیا۔ ہم جنت میںجہاں چاہیں مقام کریں۔ پس کیا خوب بدلہ ہے عمل کرنے والوں کا ۔
قرآن کے اس بیان سے اندازہ ہوتاہے کہ جنت ایک ایسی دنیا ہوگی جو تمام جنتیوں کے لیے کھلی ہوئی ہوگی۔ کوئی جنتی انسان اس وسیع دنیا میں جہاں چاہے گا اپنا مبوّأ (اقامت گاہ) بنا سکے گا۔ اقامت یا سکونت کے اعتبار سے ہرجنتی کو یکساں آزادی حاصل ہوگی۔
دوسری آیتوں اورحدیثوں سے یہ ثابت ہے کہ جنت میں فرق مراتب ہوگا۔ کچھ جنتی افراد دوسرے جنتیوں کے مقابلے میںزیادہ اونچی جنت کے مالک ہوں گے۔ مثلاً قرآن کے مطابق، اُن میں سے کچھ سابق ہوں گے، اور کچھ مقتصد (الفاطر، 35:32)۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ فرق مراتب کس اعتبار سے ہوگا۔ غور کرنے سے یہ سمجھ میںآتا ہے کہ یہ فرق استمتاع (enjoyment) کے اعتبار سے ہوگا۔ جنت اپنے ظواہر کے اعتبار سے غالباً ہر ایک کے لیے یکساں ہوگی، مگر جنت کی نعمتوں سے محظوظ ہونے کا جو معاملہ ہے، وہ ہر ایک کے لیے یکساں نہ ہوگا۔ کسی کو جنت کی نعمتوں سے زیادہ حظّ ملے گا، اورکسی کو نسبتاً کم۔
محظوظیت کا یہ فرق معرفت یا شعور کے فرق کی بنیاد پر ہوگا۔ دنیا کی زندگی میں جو شخص شعور یا معرفت کے جس درجے پر پہنچا ہوگا، اُسی درجے کے برابر وہ جنت کی نعمتوں سے محظوظ ہوسکے گا۔ گویا مکانی اعتبار سے جنت کے تمام افراد یکساں طورپر اقامت میں شریک ہوں گے، مگر جو شخص شعوری اعتبار سے ارتقا کے جس درجے پر ہوگا اُسی نسبت سے وہ جنت کی نعمتوں سے متمتع ہوسکے گا۔
اس معاملے کو سمجھنے کے لیے ایک حدیث کا مطالعہ کیجیے۔ محدث البیہقی نے ایک روایت ان الفاظ میں نقل کی ہے:أَنَّ عَبْدَ اللہِ بْنَ رَوَاحَةَ قَالَ لِصَاحِبٍ لَہُ تَعَالَ حَتَّى نُؤْمِنَ سَاعَةً . قَالَأَوَلَسْنَا بِمُؤْمِنَیْنِ؟ قَالَ:بَلَى، وَلَکِنَّا نَذْکُرُ اللہَ فَنَزْدَادُ إِیمَانًا(شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر 49)۔ یعنی عبداللہ ابن رواحہ صحابی نے اپنے ایک ساتھی سے کہا کہ آؤ، ہم ایک ساعت کے لیے ایمان لائیں۔ ساتھی نے کہا کہ کیا ہم مومن نہیں ہیں؟ ابن رواحہ نے کہا کہ ہاں، مگر جب ہم اللہ کو یاد کرتے ہیں تو ہم اپنے ایمان میںاضافہ کرتے ہیں۔
اس روایت سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک انسان وہ ہے جو کلمۂ توحید کا اقرار کرنے کے بعد یہ سمجھے کہ وہ صاحب ایمان ہوگیا، جو ایمان اُس کو ملنا تھا وہ اُسے مل گیا۔ ایمان یا عقیدہ کے اعتبار سے اب اُسے کچھ اور پانا نہیں ہے۔ اس کے مقابلے میںدوسرا انسان وہ ہے جو بار بار اللہ کو یاد کرے، وہ اللہ پر غور و فکر کرے۔ اور اس طرح وہ اپنی معرفت ایمانی کو بڑھاتا رہے۔ اُس کا ایمان مسلسل شعوری ترقی کرتا رہے۔
اس مثال سے اندازہ ہوتا ہے کہ اصحاب ایمان میں معرفت کے اعتبار سے درجات ہوتے ہیں۔ کوئی اعلیٰ معرفت کے درجے پر ہوتا ہے اورکوئی اُس سے کم معرفت کے درجے پر۔ معرفتِ حق کا یہ فرق جنت میں استمتاع کے اعتبار سے فرق پیدا کردے گا۔
ایک مومن وہ ہے جس نے قرآن میں الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ پڑھا، تو اُس نے کسی شک اورتردد کے بغیر اس حقیقت کو مان لیا۔ اُس نے یقین (conviction) کے درجے میں اُس کو قبول کرلیا۔ قرآن کا دوسرا قاری وہ ہے کہ جب اُس نے الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ پڑھا تو اس آیت میں تخلیق الٰہی کے ایسے گہرے معانی اُس کے ذہن میں تازہ ہوگئے کہ اُس کے اندر اہتزاز (thrill) کی کیفیت پیدا ہوگئی۔ وہ حمد خداوندی کے جذبے سے سرشار ہوگیا۔
اسی طرح ایک مومن وہ ہے جس کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جائے تو وہ اُس کو ایک سچائی مان کر اُس کو قبول کرلے۔ مثلاً چھینک آنے پرایک شخص اگر کہے :الْحَمْدُ لِلَّہِ ، تو اُس کو سن کر اُس کی زبان پر یہ کلمہ آجائے کہ یرحمک اللہ۔ اس کے مقابلے میں دوسرا مومن وہ ہے جس کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جائے تو اپنی بڑھی ہوئی معرفت کی بنا پر اُس کا یہ حال ہوکہ اللہ کی عظمت کے احساس سے اُس کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں۔ اللہ کی کبریائی کو سوچ کر اُس کا دل دہل اُٹھے، جیسا کہ قرآن میں ہے إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِینَ إِذَا ذُکِرَ اللَّہُ وَجِلَتْ قُلُوبُہُمْ وَإِذَا تُلِیَتْ عَلَیْہِمْ آیَاتُہُ زَادَتْہُمْ إِیمَانًا وَعَلَى رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُونَ (8:2)۔یعنی ایمان والے تو وہ ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل دہل جائیں اور جب اللہ کی آیتیں ان کے سامنے پڑھی جائیں تو وہ ان کا ایمان بڑھا دیتی ہیں اور وہ اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہیں۔
اسی طرح ایک مومن وہ ہے جس نے قرآن میںیہ آیت پڑھی:وَالَّذِی ہُوَ یُطْعِمُنِی وَیَسْقِینِ (26:79)۔ یعنی اور جو مجھ کو کھلاتا ہے اور پلاتا ہے۔ اُس نے اس آیت کو اُس کے ظاہری مفہوم کے اعتبار سے لیا اور اُس کی زبان پر شکر کے الفاظ آگئے۔ دوسرا مومن وہ ہے جو اس آیت کو پڑھے تو اُس کے ذہن میںحقائق کاایک دفتر کھل جائے۔ وہ سوچے کہ زمین وآسمان کے اندر بے شمار سرگرمیاں ظہور میں آئیں۔ اُس کے بعد یہ ممکن ہوا کہ وہ چیز بن کر تیار ہوجس کو ہم کھانا اور پانی کہتے ہیں اور جو زندگی کی بقا کے لیے لازمی طورپر ضروری ہے۔ یہ سوچ کر اُس کے سینے میں کمالاتِ خداوندی کے اعتراف کا ایک سمندر موجزن ہوجائے۔ حتیٰ کہ یہ احساس اُس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی شکل میں بہہ پڑے۔
یہ دونوں ہی مومن حمد خدا وندی کے احساس کے حامل ہیں۔ مگر معرفت کے فرق کے اعتبار سے دونوں کے درمیان اتنا زیادہ فرق پیدا ہوگیا ہے کہ اُس کو لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں۔
قرآن وحدیث سے ثابت ہے کہ جو لوگ سچے دل کے ساتھ ایمان لائیں، جن کی نیتیں درست ہوں۔ جو بقدر استطاعت اللہ کے احکام کی پابندی کریں، وہ جنت میں جائیں گے۔ مگر یہ ایمان کا ابتدائی درجہ ہے۔ ایمان کا اعلیٰ درجہ وہ ہے جو معرفت کے سفر کے ساتھ ترقی کرتا رہتا ہے۔ جو ربّانی سمندر میں فکری غوطہ لگانے سے حاصل ہوتا ہے۔ اس میںشک نہیں کہ دونوں قسم کے اصحابِ ایمان کے لیے جنت ہے۔ مگر جنت کی نعمتوں سے محظوظ ہونے کے معاملہ میںایک مومن اوردوسرے مومن کے درمیان وہی فرق ہوجائے گا، جو دنیا میںمعرفت حق کے اعتبار سے دونوں کے درمیان پایا جاتا تھا۔
واپس اوپر جائیں

انتخابِ ڈائری 1985

26 جنوری 1985
لارڈ میو نے اپنا ایک واقعہ لکھا ہے کہ وہ ایک بار ایک جزیرے میں تھے۔ وہاںانھیں غروب آفتاب کا منظر دیکھنے کا موقع ملا۔ وہ لکھتے ہیں کہ یہ منظر اتنا حسین تھا کہ میں نے چاہا کہ اس کو ہمیشہ دیکھتا رہوں:
I wish I could see this sunset forever.
نیچر بے حد حسین ہے۔ اس کو دیکھنے سے کبھی آدمی کا جی نہیں بھرتا۔ آدمی چاہتا ہے کہ نیچر کو مستقل طور پر دیکھتا رہے۔ مگر زندگی کے تقاضے اس کو مجبور کرتے ہیں، اور اس سے سیر ہوئے بغیر وہ اس کو چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔
نیچر (nature)موجودہ دنیا میں جنت کی نمائندہ ہے۔ وہ آخرت کی جنت کی ایک جھلک ہے۔ جنت میں جو لطافت، جو حسن، جو بے پناہ کشش ہوگی، اس کا ایک دور کا مشاہدہ موجودہ دنیا میں نیچر کی صورت میں ہوتا ہے۔ نیچر ہم کو جنت کی یاد دلاتی ہے۔ وہ ہم کو بتاتی ہے کہ دنیا میں جنت والے عمل کرو تاکہ آخرت میں خدا کی جنت کو پاسکو۔ دنیا میں آدمی جنت کی جھلک سے بھی پوری طرح لطف اندوز نہیں ہوسکتا۔ مگر آخرت کی کامل دنیا میںآدمی کے لیے ممکن ہوگا کہ وہ جنت سے آخری حد تک لطف اندوز ہوسکے۔
6 مئی 1985
آخرت میںخدا کی جنت کے دروازے ان لوگوں کے لیے کھولے جائیں گے، جو دنیا میں اپنے دل کے دروازے خدا کی نصیحت کے لیے کھولیں۔
جنت اور جہنم کا فیصلہ دراصل دل کی دنیا میں ہوتا ہے۔ خدا اپنے کسی بندے کے ذریعہ آدمی کے دل کے دروازہ پر دستک دیتا ہے۔ وہ کسی بندۂ خاص کے ذریعے اس کے پاس اپنا پیغام بھیجتا ہے۔ یہ لمحہ کسی انسان کی زندگی میں نازک ترین لمحہ ہوتا ہے۔ اگر وہ اس وقت اپنے دل کے دروازے کھول دے تو گویا کہ اس نے اپنی جنت کا دروازہ کھول لیا۔ اگر وہ اس وقت اپنے دل کے دروازے بند رکھے تو گویا اس نے اپنے اوپر جنت کے دروازے کو بند کرلیا— اس دنیا میں حق کو قبول کرنا یا حق کا انکار کرنا ہی وہ خاص لمحہ ہے جب کہ آدمی کے لیے ابدی جنت یا ابدی جہنم کا فیصلہ ہوتا ہے۔
23 مئی 1985
غالباً 1970 میں مجھے تاج محل دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ تاج محل کو دیکھنے سے پہلے تاج محل کے بارے میں بہت سے مضامین پڑھے تھے۔ ان مضامین میں تاج محل مجھے بہت عظیم محسوس ہوتا تھا۔ مگر جب میںنے تاج محل کو دیکھا تو وہ اس سے بہت کم تھا جو میںاپنے ذہن میں سمجھ رکھا تھا۔
یہی حال تمام انسانی مصنوعات کا ہے۔ انسانی ساخت کی کسی چیز کے بارے میں اسے دیکھنے سے پہلے جو میری رائے تھی وہ اس کو دیکھنے کے بعد باقی نہ رہی۔ ہر انسانی چیز دیکھتے ہی اس سے کم نظر آئی جو دیکھنے سے پہلے محسوس ہوتی تھی۔مگر فطرت کے مناظر کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ کوئی فطری واقعہ اس سے بہت زیادہ عظیم ہے جو دیکھنے سے پہلے سن کر یا پڑھ کر میں سمجھ رہا تھا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ فطرت کا ہر واقعہ اتھاہ حد تک عظیم اور حسین ہے، انسانی الفاظ اس کو پوری طرح بیان نہیں کرپاتے۔ یہاں ہر بولا ہوا لفظ اصل حقیقت سے بہت کم ہوتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ فطرت دیکھنے میں اس سے زیادہ نظر آتی ہے جتنا کہ وہ پڑھنے یا سننے میں محسوس ہو رہی تھی۔
19 ستمبر 1985
موجودہ زمانے کے ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ انسان کے دماغ (brain) میں جو پارٹیکل ہیں وہ پوری کائنات کے مجموعی پارٹیکل سے بھی زیادہ ہیں۔ انسانی دماغ کی استعداد بے پناہ ہے مگر کوئی بڑے سے بڑا انسان بھی اب تک اپنے دماغ کو دس فی صد سے زیادہ ا ستعمال نہ کرسکا۔
حقیقت یہ ہے کہ آدمی ایک امکان ہے۔ مگر موجودہ دنیا اپنی محدودیتوں کے ساتھ اس امکان کے ظہور کے لیے ناکافی ہے۔ انسانی امکان کے ظہور میں آنے کے یے ایک لامحدود اور وسیع تر دنیا درکار ہے— جنت کی دنیا، ایک اعتبار سے، اسی لیے بنائی گئی ہے کہ وہاں آدمی کے امکانات پوری طرح ظہور میں آسکیں۔
14 اکتوبر 1985
جنت کے بارے میں قرآن میں ’’عندکَ‘‘ (تمھارے پاس) اور ’’عند ربّہم‘‘ (ان کے رب کے پاس)کے الفاظ آئے ہیں۔ اس سے میں یہ سمجھا ہوں کہ جنت مجلسِ خداوندی میں جگہ پانے کا دوسرا نام ہے۔ خدا کی صفت خاص یہ ہے کہ وہ پرفکٹ (perfect) ہے۔ خدا کے قریب جو دنیا ہوگی وہاں ہر چیز پرفکٹ ہوگی۔ وہاں پرفکٹ باتیں ہوں گی۔ پرفکٹ سلوک ہوگا۔ پرفکٹ سامان ہوںگے۔یہ ایک پرفکٹ ماحول ہوگا، اور پرفکٹ ماحول میں جینے ہی کا نام جنت ہے۔
یہ پرفکٹ دنیا اتنی زیادہ قیمتی ہے کہ انسان کا کوئی بھی عمل، خواہ وہ کتنی ہی مقدار میں ہو، اس کی قیمت نہیں بن سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی شخص کو اپنے عمل کی قیمت پر جنت میں جگہ نہیں مل سکتی۔ تاہم ایک چیز ہے جو جنت کی قیمت ہے۔ اوروہ ہے پرفکٹ تھنکنگ۔ آدمی عمل کی سطح پر پرفکٹ نہیں بن سکتا۔ مگر سوچ (تھنکنگ) کی سطح پر وہ پرفکٹ بن سکتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو موجودہ دنیا میں آدمی کو حاصل کرنا ہے، اور یہی وہ چیز ہے جو کسی آدمی کو جنت میں داخلے کا مستحق بنائے گی۔
19 اکتوبر 1985
جنت صبر کے اُس پار ہے، مگر اکثر لوگ جنت کو صبر کے اِس پار تلاش کرنے لگتے ہیں۔
6 نومبر 1985
قرآن میں اہل جنت کے بارہ میں آیا ہے کہ وہ با اقتدار بادشاہ کے پاس سچی نشستوں پر بیٹھے ہوئے ہوں گے ( فِی مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِیکٍ مُقْتَدِرٍ )54:55۔
موجودہ دنیا میں آدمی جھوٹی نشستوں پر بیٹھا ہوا ہے۔ آخرت میں آدمی سچی نشستوں پر بٹھایا جائے گا۔ ہر آدمی فریب اور استحصال کے ذریعہ اونچی جگہ پائے ہوئے ہے۔ یہاں ہم کو ایسے لوگوں کے درمیان زندگی گزارنا پڑتا ہے، جو اپنے آپ کو اس کا پابند نہیں سمجھتے کہ وہ اپنے اختیار کو صرف عدل کے دا ئرے میں استعمال کریں۔
آخرت کا معاملہ اس سے مختلف ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کو ہر قسم کا کامل اختیار حاصل ہے۔ مگر اس نے اپنے آپ کو اس کا پابند بنا رکھا ہے کہ وہ عدل اور رحمت کے دائرہ ہی میں اپنے اعلیٰ اختیارات کو استعمال کرے ( کَتَبَ عَلَى نَفْسِہِ الرَّحْمَةَ [6:12]) اسی کے ساتھ وہ ایک ایسی ہستی ہے، جو اعلیٰ ترین معیاری ذوق رکھتا ہے۔ وہ پرفکٹ سے کم پر کبھی راضی نہیں ہوتا۔ ایسے شہنشاہ کے پڑوس میں جگہ پانا کس قدر پر مسرت اور لذیذ ہوگا اس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔
22 نومبر 1985
قرآن میں اہلِ جنت کی صفات میں سے ایک صفت یہ بیان ہوئی ہے کہ وہ اس دن کی مصیبت سے ڈرتے ہیں جو ہر طرف پھیل پڑے گی۔ وہ اللہ کی محبت میں محتاج کو اور یتیم کو اور قیدی کو کھلاتے ہیں۔ (اور یہ کہتے ہیں) کہ ہم جو تم کو کھلاتے ہیں تو صرف اللہ کی خوشی چاہنے کے لیے کھلاتے ہیں۔ ہم تم سے نہ بدلا چاہتے ہیں، اور نہ شکر گزاری۔ ہم اپنے رب سے ایک ایسے دن کے بارے میں ڈرتے ہیں جو بڑی اداسی والا اور سختی والا ہوگا(76:7-10)۔ان آیات کو پڑھ کر ایک صاحب نے کہا کہ ایسے موقع پر یہ الفاظ عربی میں کہنا چاہیے یا اس کو اپنی زبان میں بھی کہا جاسکتا ہے۔
میں نے کہا کہ آپ اس آیت کا مطلب نہیں سمجھے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جب کسی حاجت مند کی مدد کی جائے تو اس وقت زبان سے یہ الفاظ دہرائے جاتے رہیں۔ اس سے مراد الفاظ نہیں بلکہ احساسات ہیں۔ یعنی جب کسی کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے تو آدمی کے دل میں یہ احساس طاری ہونا چاہیے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ان الفاظ کو یاد کرلے اور ہر ایسے موقع پر ان الفاظ کو دہرادیا کرے۔ کبھی زبان سے کچھ الفاظ بھی نکل پڑتے ہیں مگر اصلاً یہاں جس چیز کا ذکر ہے وہ احساسات ہی ہیں۔
19 دسمبر1985
قرآن میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر رحمت کو لکھ رکھا ہے ( کَتَبَ عَلَى نَفْسِہِ الرَّحْمَةَ [6:12]) ۔موجودہ دنیا میں انسان کے پاس اقتدار ہے۔ مگر اس نے اپنے آپ کو رحمت اور عدل کا پابند نہیںکیا ہے، اس لیے موجودہ دنیا فساد اور خرابیوں سے بھر گئی ہے۔مگر آخرت میں سارا اقتدار صرف ایک اللہ کے پاس ہوگا، اور اللہ نے ہر قسم کا مطلق اختیار رکھنے کے باوجود اپنے آپ کو رحمت اور عدل کا پابند کر رکھا ہے۔ اس لیے آخرت کی دنیا سراپا خیر ہوگی۔ وہاں صرف وہی ہوگا جو از روئے حق ہونا چاہیے، اور وہ نہ ہوسکے گا جو از روئے حق نہیں ہونا چاہیے— آخرت کی یہ خصوصیت آخرت کو ایک معیاری دنیا بنا دے گی۔ اسی معیاری دنیا کا دوسرا نام جنت ہے۔
24 مئی 1985
بہت سی باتیں اس وقت سمجھ میں آتی ہیں جب کہ آدمی کا دل زندہ ہو اور اس کا شعور بیدار ہو۔ مسلمان موجودہ زمانے میں ایک ایسی قوم بن گئے ہیں، جو دل ودماغ کی زندگی سے محروم ہو۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان بہت سی باتوں کو سمجھ نہیں پاتے اور بدقسمتی سے جن باتوں کو وہ نہیں سمجھتے وہی وہ باتیں ہیں جو زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔
مثلاً کبھی نہ کرنے کا نام کرنا ہوتا ہے۔ کبھی بولنا اس کا نام ہوتا ہے کہ آدمی چپ رہے۔ یہ بلاشبہ زندگی کی سب سے زیادہ گہری حقیقت ہے مگر وہ ایک ایسی چیز ہے جس کے لیے بہت زیادہ گہری شخصیت درکار ہے۔
آدمی ایک ایسی مخلوق ہے جو لازماً مشغول رہنا چاہتا ہے۔وہ عین اپنی فطرت کے تحت ہر وقت کچھ نہ کچھ کرنے پر مجبور ہے۔ اس لیے نہ کرنے پر وہی شخص راضی ہوسکتا ہے جس کے پاس نہ کرنے کے وقت بھی کچھ کرنے کے لیے ہو۔ وہی انسان چپ رہ سکتا ہے جو خاموشی کے وقت بھی اپنے پاس بولنے کا سامان رکھتا ہو۔
الرسالہ میں یہ باتیں کہی جاتی ہیں تو موجودہ مسلمان کو وہ معمہ معلوم ہوتی ہیں۔ اگر یہ مسلمان اندر سے خالی نہ ہوتے بلکہ ان کے اندر کا وجود خدا کی یافت سے ایک زندہ وجود بن چکا ہوتا تو انھیں یہ بات معمہ نہ معلوم ہوتی۔
اس وقت وہ جان لیتے کہ آدمی جب چپ ہوتا ہے تو وہ اپنے خدا سے سرگوشیاں کرنے لگتا ہے۔ باہر کی دنیا میں جب بظاہر اس کے قدم رک جاتے ہیں تو وہ اپنے اندر ہی اندر مارچ کرنے لگتا ہے۔ خارجی تدبیروں سے جب وہ منقطع ہوجاتا ہے تو اس کا رشتہ قوت کے اس لازوال سرچشمے سے جڑ جاتا ہے جو کسی واقعے کو ظہور میں لانے کے لیے خارجی تدبیروں کا محتاج نہیں۔
1 جون 1985
انسان کی اعلیٰ ترین تعریف میرے نزدیک یہ ہے کہ وہ دلیل کے آگے جھک جائے، وہ طاقت کے بغیر محض دلیل کی بنیاد پر امر واقعہ کا اعتراف کرلے۔
مگر میری زندگی کا سب سے زیادہ تلخ تجربہ یہ ہے کہ آدمی دلیل کے آگے نہیں جھکتا۔ وہ صرف طاقت کے زور کو جانتا ہے، وہ دلیل کے زور کو نہیں جانتا۔
موجودہ دنیا میں آدمی دلیل کا انکار کرکے خوش ہوجاتا ہے اور طاقت کا اعتراف کرکے اپنے کو عقل مند سمجھتا ہے۔ مگر یہ کسی انسان کا وہ سب سے بڑا جرم ہے جو سب سے زیادہ خدا کے غضب کو دعوت دینے والا ہے۔
جو لوگ موجودہ دنیا میں دلیل کے آگے نہ جھکیں وہ اپنے آپ کو اس خطرے میں مبتلا کرتے ہیں کہ آخرت کی دنیا میں انھیں فرشتوں کی طاقت کے آگے جھکایا جائے۔ مگر اُس دن کا جھکنا کسی کے کچھ کام نہ آئے گا۔ دلیل کے آگے جھکنا آدمی کے لیے جنت کا دروازہ کھولتا ہے۔ جب کہ طاقت کہ آگے جھکنا صرف اس لیے ہوتا ہے کہ آدمی کو مجبور کرکے جہنم کے گڑھے میںدھکیل دیا جائے۔
دلیل کے آگے جھکنا خدا کے آگے جھکنا ہے۔ جو لوگ دلیل کے آگے نہ جھکیں وہ گویا خدا کے آگے سرکشی کررہے ہیں۔ جو لوگ خدا کے آگے سرکشی کریں اور پھر اسی حال میں مر جائیں ان کو خدا کبھی معاف نہیں کرے گا۔
12 جون 1985
تقسیم ہند (1947) کے وقت لاہور کی کل آبادی گیارہ لاکھ تھی۔ اس میں پانچ لاکھ مسلمان تھے اور پانچ لاکھ سکھ۔ اور ایک لاکھ ہندو تھے۔ پاکستان بننے کے بعد وہاں کے مسلمانوں نے لاہور کو سکھوںاور ہندوؤں سے خالی کرالیا۔ موجودہ لاہور تمام تر مسلمانوں کا شہر ہے۔
اسی طرح دہلی میں مسلمان تقسیم سے پہلے چھائے ہوئے تھے۔ مگر 1947 کے ہنگامہ میںمسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو دہلی چھوڑ کر پاکستان جانا پڑا۔ تاہم اب بھی دہلی میںمسلمان بڑی تعداد میں آباد ہیں۔1947 میں دہلی کی آبادی تقریبا اتنی ہی تھی جتنی اس وقت لاہور کی تھی۔ مگر آزادی کے بعد اس کی آبادی تیزی سے بڑھنا شروع ہوئی۔ 1951 میں دہلی کی آبادی 17 لاکھ ہوگئی۔ 1985 میں دہلی کی آبادی 77 لاکھ تک پہنچ گئی۔ اس میں مسلمانوں کی تعداد تقریباً 10 فی صد ہے۔
دہلی میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہوا اس پر مسلمان شکایتیں کرتے ہیں۔ مگر یہی معاملہ اس سے زیادہ بڑے پیمانہ پر خود مسلمانوں نے ہندوؤں اور سکھوں کے ساتھ کیا، اس کو وہ بالکل نظر انداز کیے ہوئے ہیں۔
یہ دہرا طریقہ سراسر باطل ہے۔ یہ اسلامی تعلیم کے خلاف ہے۔ حدیث میں اہلِ جنت کی خصوصیت یہ بتائی گئی ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے دوسروں کے بارے میں وہی فیصلہ کیا جو فیصلہ ان کا خود اپنے بارے میں تھا (وَحَکَمُوا لِلنَّاسِ کَحُکْمِہِمْ لِأَنْفُسِہِمْ)مسند احمد، حدیث نمبر 24379۔ پھر مذکورہ طرزِ عمل کے بعد وہ کیسے امید کرتے ہیں کہ آخرت میں وہ اللہ کے محبوب بندے قرار دیے جائیں گے۔
19 جون 1985
ہر دو آدمی کے درمیان ان کا خدا کھڑا ہوا ہے۔ خدا ہر وقت ہر آدمی کی بات سن رہا ہے تاکہ اس کے مطابق لوگوں کے درمیان انصاف کرے۔
اگر آدمی کو اس واقعے کا احساس ہو تو اس کا وہی حال ہوگا جو ایک آدمی کا عدالت میں ہوتا ہے۔ عدالت میںہر آدمی بالکل ناپ تول کر بولتا ہے۔ کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ اگر کوئی بات خلاف قاعدہ منھ سے نکل گئی تو وہ فوراً عدالت کی پکڑ میںآجائے گا۔ اسی طرح اللہ پر عقیدہ رکھنے والا جو کچھ بولتا ہے اس احساس کے تحت بولتا ہے کہ خدا اس کو سن رہا ہے۔ یہ احساس اس کو مجبور کردیتا ہے کہ وہ کوئی غلط بات اپنے منھ سے نہ نکالے۔
انسان سے اگر غلطی ہوجائے اور وہ فوراً اس کا اعتراف کرلے توگویا کہ اس نے خدا کے سامنے اعتراف کیا۔ اور اگر وہ غلطی کا اعتراف نہ کرے تو گویا کہ اس نے خدا کے سامنے اپنی غلطی کا اعتراف نہیں کیا۔
حقیقت یہ ہے کہ سارا معاملہ خدا کا معاملہ ہے۔ لوگ معاملات کو انسان کا معاملہ سمجھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ سرکشی اور بے انصافی کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ غلطی کرکے بھی غلطی کا اعتراف نہیں کرتے۔
میرا مزاج یہ ہے کہ اگر میں کوئی خلافِ حق بات کہہ دوں اور اس کے بعد مجھے معلوم ہو کہ یہ بات حق کے خلاف تھی تو میں اس کو افورڈ (afford )نہیں کرسکتا کہ میں اس کا اعتراف نہ کروں۔ میں حق کے آگے جھک نہ جاؤں۔ اگر میں ایسا نہ کروں تو مجھے ایسا محسوس ہوا ہے کہ خدا خود ظاہر ہو کر میرے سامنے آیا اور کہا کہ میرے سامنے جھک جا اس کے باوجود میں خدا کے سامنے نہیں جھکا۔
حق کے سامنے نہ جھکنا ایسا ہی ہے جیسے کسی کے سامنے خدا آیا ا ور وہ اس کے سامنے نہیں جھکا۔
9 ستمبر 1985
رچرڈ کشنگ (Richard Cardinal Cushing) کا قول ہے کہ مذہبی شخصیتوں کے ساتھ جنت میں رہنا بہت عظیم ہے، مگر ان کے ساتھ زمین پر رہنا ایک مصیبت ہے:
It is great to live with saints in heaven, but it is hell to live with them on earth.
یہ در اصل مذہبی شخصیتوں پر طنز ہے۔ مذہبی لوگ وعظ کہتے ہیں کہ ہمارے بتائے ہوئے راستے پر چلو تو تم کو موت کے بعد کی زندگی میں جنت ملے گی۔ مگر خود ان مذہبی شخصیتوں کا کردار اکثر نہایت برا ہوتا ہے۔ گویا کہ دنیا میں ان کے ساتھ رہنا جہنم میں رہناہے۔ جب کہ ان کے قول کے مطابق ان کے طریقے پر چلنا اگلی زندگی میں جنت میں داخل ہونا ہے— مذہبی شخصیتوں کے قول و عمل کا یہ تضاد اکثر مذاہب میں پایا جاتا ہے۔
17 اکتوبر 1985
حدیث میں آیا ہے :الدُّنْیَا سِجْنُ المُؤْمِنِ وَجَنَّةُ الکَافِرِ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2956)۔ یعنی دنیا مومن کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ مومن خدا کے پڑوس میں رہناچاہتا ہے اور دنیامیں اس کو انسانوں کے پڑوس میں رہنا پڑتا ہے۔ اس کی نظروں میں ’’پرفکٹ‘‘ سمایا ہوا ہوتاہے اور دنیا میں اس کو ’’امپرفکٹ‘‘ سے نباہ کرناپڑتا ہے۔وہ کامل سچائی کا طلب گار ہوتا ہے اور دنیا میں وہ دیکھتا ہے کہ جھوٹ اور ناانصافی اور دھاندلی کی حکمرانی ہے۔ وہ اصول پسند ہوتا ہے جب کہ دنیا میں اس کو ہر طرف بے اصولی کا راج دکھائی دیتا ہے۔
غیر مومن با اصول یا آئیڈیلسٹ نہیں ہوتا۔ اس کے سامنے صرف اپنا ذاتی مفاد ہوتا ہے، خواہ وہ جس طرح بھی ملے۔ وہ ہر صورتِ حال میں ڈھل کر اپنا مفاد محفوظ کرلیتا ہے۔ وہ صحیح اور غلط کے جھنجھٹ میں نہیں پڑتا اسی لیے اسے کوئی پریشانی بھی لاحق نہیں ہوتی۔
13 نومبر 1985
شیطان کی شیطانی سے بچنا ممکن ہے، مگر انسان کی شیطانی سے بچنا ممکن نہیں۔ کیوں شیطان صرف بہکاتا ہے مگر انسان عملی طور پر آپ کے اوپر حملہ آور ہوتا ہے۔ شیطان صوتی کثافت (noise pollution) پیدا نہیں کرتا، جب کہ انسان لاؤڈاسپیکر لگا کر شور کرتا ہے، اور آپ کے سکون کو درہم برہم کردیتا ہے۔ شیطان آپ کے اثاثہ پر قبضہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتا، جب کہ انسان آپ کے اثاثہ پر ناجائز قبضہ کرتا ہے، اور آپ کو جھگڑے اور مقدمات میں الجھا کر آپ کے سارے تعمیری منصوبہ کو ملیامیٹ کردیتا ہے۔ ابلیس ’’بے سلطان‘‘شیطان ہے۔ مگر انسان وہ شیطان ہے جس کو وقتی طورپر سلطان بھی دے دیا گیاہے۔
آخرت میں اگر کوئی جہنم کا سب سے برا درجہ ہے تو وہ یقینا انسان کے لیے ہوگا نہ کہ شیطان کے لیے۔ انسان کا جرم شیطان سے بہت زیادہ بڑھا ہوا ہے اس لیے انسان کی جہنم بھی شیطان کے مقابلہ میں زیادہ ہولناک ہونی چاہیے۔ شاید اسی لیے قرآن میں آیا ہے  إِنَّ الْمُنَافِقِینَ فِی الدَّرْکِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ (4:145)۔ یعنی بیشک منافقین دوزخ کے سب سے نیچے کے طبقے میں ہوں گے۔
14 نومبر 1985
دنیا میں آدمی کو بہت سی چیزیں حاصل ہیں— اس کا اپنا وجود، اس کا گھر اور جائداد، اس کے دوست اور راشتہ دار، اور دوسرے اسباب اور سامان۔
یہ جو کچھ انسان کو موجودہ دنیا میں حاصل ہے، ان کے بارے میں دو نقطۂ نظر ہوسکتا ہے— ایک یہ کہ یہ سب چیزیں ہماری ہیں، ہم ان کے مالک ہیں۔ دوسرا یہ کہ ہم ان میں سے کسی چیز کے خود مالک نہیں۔ ہر چیز خدا کی ہے۔ جو کچھ ہمارے پاس ہے وہ سامانِ امتحان کے طورپر ہے نہ کہ سامانِ ملکیت کے طورپر۔
پہلا ذہن ناشکری کا ذہن ہے اور دوسرا ذہن شکر گزاری کا ذہن۔ پہلے ذہن کے تحت جو زندگی بنتی ہے اس کا نام کفر ہے اور دوسرے ذہن کے تحت جو زندگی بنتی ہے اس کا نام اسلام ہے۔ پہلے ذہن کے تحت زندگی گزارنے والے کے لیے جہنم ہے اور دوسرے ذہن کے تحت زندگی گزارنے والے کے لیے جنت۔
واپس اوپر جائیں