Pages

Monday 1 September 2014

Al Risala | September 2014 (الرسالہ،ستمبر)

2

-خدا کا اشارہ پڑھئے

3

- معرفت اور عبادت

4

- سکینہ کیا ہے

5

- دورِ زوال کا ایک ظاہرہ

6

- دلیل، الزام تراشی

7

- توکل کی حقیقت

8

- شاکلۂ انسانی کا مسئلہ

9

- آبا پرستی

10

- اسٹریٹ دعوة یا دعوة اکسپلوزن

12

- وحدت، تنوع

13

- الاخوان المسلمون

15

- کائنات کی توجیہ

17

- کائنات کی وسعت

19

- زندگی اور موت

20

- سبق کی اہمیت

21

- آخرت سے غفلت کیوں؟

22

- عقیدہ آخرت کی طاقت

23

- علم ومعرفت کا حریص

24

- منصوبۂ خداوندی

26

- جانچنے کا معیار

27

- خیر ِ امت یا زوال یافتہ امت

32

- ذاتی عقل، علمی عقل

37

- انسانی وجود کی با معنی توجیہ

39

- مسلم فلسفہ، مسلم الہیات

40

- زندگی کی حقیقت

42

- علمی طرزِ استدلال

43

- علم کی دوقسمیں

44

- سوال وجواب


خدا کا اشارہ پڑھئے

مئی 2014 میں انڈیا کا 16واں جنرل الیکشن ہوا- اس الیکشن میں مسلمانوں نے اپنی ساری طاقت لگا دی کہ بی جے پی اس الیکشن میں کامیاب نہ ہونے پائے، جس کو وہ بطور خود اپنا دشمن سمجھتے ہیں- ایک مسلم اخبار نے اس معاملے میں مسلمانوں کے موقف (stand) کو بتاتے ہوئے درست طورپر لکھا ہے کہ اس الیکشن میں تمام مسلمانوں کا واحد مقصد یہ تھا کہ وہ کسی بھی قیمت پر بی جے پی کو اقتدار میں آنے سے روک دیں-
In this election the prime mission of the whole (Muslim) community was to stop BJP from coming to power, at any cost.
مسلمانوں کے تمام چھوٹے اور بڑے رہنما اِس معاملے میں متفق الرائے ہوگئے تھے- لیکن الیکشن کا نتیجہ مسلمانوں کی کوششوں کے بالکل خلاف نکلا- بی جے پی ہمیشہ سے زیادہ بڑی طاقت بن کر ابھری- حتی کہ بی جے پی کا جو لیڈر تمام مسلمانوں کی نظر میں سب سے زیادہ غیر مطلوب (unwanted) تھا، وہی انڈیا کا پرائم منسٹر بن گیا-
مسلمانوں کے تمام لکھنے اور بولنے والے اس واقعہ پر تبصرہ کررہے ہیں- مگر سب کا تبصرہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے بلا استثنا سیاسی تبصرہ ہے- لیکن اِس معاملے میں سیاسی تبصرہ صرف ایک غلطی پر دوسری غلطی کا اضافہ ہے- صحیح یہ ہے کہ اس واقعہ کو خدائی زاویہ سے دیکھا جائے- اس معاملہ میں خداکے اشارہ کو پڑھا جائے۔غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی مرضی کے عین خلاف پیش آنے والا یہ واقعہ اپنے اندر ایک عظیم خدائی وارننگ رکھتا ہے- وہ مسلمانوں سے کہہ رہا ہے کہ اے مسلمانو، سیاسی طریق کار کو چھوڑو- اور دعوتی طریق کار کو اختیار کرو- سیاسی طریق کار میں تم کو کچھ ملنے والا نہیں کیوں کہ سیاسی طریقِ کار پر کبھی خدا کی نصرت نہیں آتی- البتہ اگر تم دعوتی طریق کار اختیار کرو، تو تم کو وہ سب کچھ مل جائے گا جو تم کو اپنی ملّی زندگی کے لئے اِس دنیا میں درکار ہے-
واپس اوپر جائیں

معرفت اور عبادت

روایات میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ما عرفناک حق معرفتک (روح المعانی، سورة الأنعام: 91) یعنی اے اللہ، ہم اُس طرح تیری معرفت حاصل نہ کرسکے جو کہ تیری معرفت کا حق ہے- اسی طرح ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ آپ نے فرمایا: ما عبد ناک حق عبادتک (المعجم الکبیر للطبرانی، رقم الحدیث:1730) یعنی اے اللہ، ہم تیری عبادت اُس طرح نہ کرسکے جس طرح تیری عبادت کرنے کا حق ہے-
معرفت اور عبادت کی اصل حقیقت عجز ہے- کوئی انسان جب معرفت کا اعلی ادراک کرتاہے، یا کوئی انسان جب عبادت کے آخری درجے تک پہنچتا ہے تو وہ یہ دریافت کرتا ہے کہ انسان عاجز مطلق (all-powerless)ہے اور خدا قادرِ مطلق (all-powerful) - یہی دریافت معرفت اور عبادت کا نقطۂ انتہا (culmination) ہے-
معرفت اور عبادت کا ایک پہلو وہ ہے جو انسان کی نسبت سے ہے اور دوسرا پہلو وہ ہے جو اللہ کی نسبت سےہے- انسان کی نسبت سے عارف یا عابد کا احساس ہمیشہ یہ ہوتاہے کہ وہ معرفت اور عبادت کا حق ادا نہ کرسکا، اور اللہ کی نسبت سے اُس کا احساس ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ اِس سے بلند ہے کہ کوئی انسان کامل طورپر اس کی معرفت اور عبادت کا حق ادا کرسکے-
یہ احساسِ عجز ہر سچے مومن کے اندر لازمی طورپر موجود ہوتا ہے- اِس میں کسی فرد کا کوئی استثنا نہیں، حتی کہ اِس معاملے میں کسی پیغمبر کا بھی کوئی استثنا (exception) نہیں-
یہی وہ مقام ہے جو خالق کو مخلوق سے الگ کرتا ہے- اِس معاملے میں، کسی بھی قسم کی شرکت دین ِ خداوندی میں ناقابلِ قبول ہے- اسلام میں سب سے بڑی حقیقت توحید کی معرفت ہے- توحید کی اعلی معرفت اپنے آپ شرک کی نفی کردیتی ہے- توحید کی اعلی معرفت کے بغیر اعلی مومنانہ شخصیت کی تعمیر ممکن نہیں-
واپس اوپر جائیں

سکینہ کیا ہے

قرآن میں حدیبیہ معاہدے کے تحت جو آیتیں آئی ہیں، اُن میں سے ایک آیت یہ ہے: ہُوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ السَّکِیْنَةَ فِیْ قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِیْنَ لِیَزْدَادُوْٓا اِیْمَانًا مَّعَ اِیْمَانِہِمْ ۭ وَلِلّٰہِ جُنُوْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ وَکَانَ اللّٰہُ عَلِــیْمًا حَکِـیْماً (48:4) یعنی اللہ ہی ہے جس نے اہلِ ایمان کے دلوں میں سکینہ نازل کیا تاکہ اور بڑھ جائے اُن کا ایمان اپنے ایمان کے ساتھ- اور اللہ ہی کے ہیں سب لشکر آسمانوں اور زمین کے اور اللہ ہے خبر دار، حکمت والا-
سکینہ کا لفظی مطلب اطمینان (tranquility) ہے- قرآن کی اِس آیت میں سکینہ کا مطلب یہ ہے کہ حدیبیہ معاہدے کی شرطیں اگرچہ اصحاب رسول کی مرضی کے خلاف تھیں، لیکن اللہ کے حکم کی بنا پر وہ اُس پر راضی ہوگئے- اِس رضامندی کے باعث، اللہ نے اُن پر یہ خصوصی فضل کیا کہ اُن پر اپنی وہ خاص رحمت نازل فرمائی جو اُنھیں قلبی اعتبار سے اُس پر مطمئن کردے اور جس فیصلے پر وہ بظاہر ناگواری کے ساتھ راضی ہوئے تھے، اُس کو اُن کے لیے ایک خوش گوار تجربہ بنادے-
زندگی میں بار بار ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کے ساتھ کوئی ناپسندیدہ صورت پیش آتی ہے- مثلاً کسی عزیز کی موت، کوئی مالی نقصان، کسی کی طرف سے بے عزتی کا معاملہ، وغیرہ- اِس طرح کامعاملہ آدمی کے لیے ہمیشہ صدمہ (shock) کا سبب بنتا ہے- لیکن اگر آدمی اللہ کے حکم (2:155) کی بنا پر صبر کرلے اور رد عمل کا اظہار نہ کرے تو اپنے اِس عمل کی بنا پر وہ اللہ کی خصوصی نصرت کا مستحق بن جاتا ہے، وہ یہ کہ جس چیز کو اُس نے ابتداء ً اپنی طبیعت پر جبر کرکے اختیار کیا تھا، اس کو اس کے لیے ایک خوش گوار واقعہ بنا دیا جائے-
یہی مطلب ہے ’’ایمان پر ایمان کے اضافہ‘‘ کا، یعنی صبر کے معاملہ کو اطمینان کا معاملہ بنادینا- مومن کے دل میں پیدا ہونے والی اِسی کیفیت کو قرآن کی مذکورہ آیت میں ’ازدیادِ ایمان‘ کہاگیا ہے-
واپس اوپر جائیں

دورِ زوال کا ایک ظاہرہ

قرآن کی سورہ آل عمران کی ایک آیت یہ ہے: مَا کَانَ اِبْرٰہِیْمُ یَہُوْدِیًّا وَّلَا نَصْرَانِیًّا وَّلٰکِنْ کَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًا ۭ وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ (3:67) یعنی ابراہیم نہ یہودی تھا اور نہ نصرانی، بلکہ وہ حنیف مسلم تھا اور وہ شرک کرنے والوں میں سے نہ تھا-
قرآن کی اِس آیت کا مقصد حضرت ابراہیم کی براءت نہیں ہے، یعنی اس کا مقصد یہ بتانا نہیں ہے کہ حضرت ابراہیم یہودی یا نصرانی یا مشرک نہ تھے۔ بلکہ اس کا مقصد یہ بتانا ہے کہ یہودی، نصرانی یا مشرک، تینوں گروہ جو حضرت ابراہیم کو اپنے اکابر میں شمار کرتے تھے اور یہ کہ وہ حضرت ابراہیم کے دین پر ہیں، اُن کا ایسا سمجھنا ہرگز درست نہیں۔
اپنے دورِ زوال میں انھوں نے یہ کیا کہ خود ساختہ طورپر اپنے مذہب کا ایک ماڈل بنا لیا۔ وہ درحقیقت اپنے خود ساختہ مذہبی ماڈل پر قائم تھے، لیکن غلط طور پر وہ اس کو حضرت ابراہیم کی طرف منسوب کیے ہوئے تھے۔ اِس طرح غلط انتساب کے ذریعے وہ یہ ظاہر کرتے تھے کہ وہ جس مذہب پر ہیں، وہ وہی مذہب ہے جو اپنے زمانے میں حضرت ابراہیم کا مذہب تھا-
کسی امت پر جب زوال کا دور آتا ہے تو اس کے اندر ہمیشہ یہی نفسیات پیدا ہوجاتی ہیں- اِس میں کسی امت کا کوئی استثنا نہیں- موجودہ زمانے میں مسلم امت کا بھی یہی حال ہوا ہے- انھوں نے خدا کے دین کا ایک خود ساختہ ایڈیشن تیار کیا ہواہے-
یہ ماڈل ایک قومی ماڈل ہے، نہ کہ پیغمبرانہ ماڈل- صرفلفظی انتساب کے ذریعے وہ اِس ماڈل کو اپنے پیغمبر کی طرف منسوب کیے ہوئے ہیں، حالاں کہ اُن کے اِس قومی ماڈل کا پیغمبر کے ماڈل سے کوئی تعلق نہیں- کسی امت کے اندر بعد کے زمانے میں یہ مزاج اپنی قومی روش کی تبریر (justification) کی بنا پر پیدا ہوتا ہے- وہ اِس لیے پیدا ہوتا ہے تاکہ وہ اپنی قومی روش کو عین پیغمبرانہ روش ثابت کرسکیں-
واپس اوپر جائیں

دلیل، الزام تراشی

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ آدم کی تخلیق کے وقت ابلیس نے انحراف کا طریقہ اختیار کیا- اِس کے بعد خدا اور ابلیس کے درمیان ایک مکالمہ ہوا- اِس مکالمے کے دوران ابلیس نے جو باتیں کہیں، اُن میں سے ایک بات یہ تھی: قَالَ رَبِّ بِمَآ اَغْوَیْتَنِیْ لَاُزَیِّنَنَّ لَہُمْ فِی الْاَرْضِ وَلَاُغْوِیَنَّہُمْ اَجْمَعِیْنَ(15:39) یعنی ابلیس نے کہا کہ اے میرے رب، تو نے مجھے بہکایا- قرآن کی اِس آیت میں إغوا کا لفظ ہے- إغوا کا مطلب ہے بہکانا (to mislead, to misguide)- ابلیس نے خدا کی نسبت سے جو بات کہی، وہ بلاشبہہ ایک جھوٹا الزام تھا، وہ کوئی ثابت شدہ دلیل نہ تھی-
اِس مثال سے ابلیس یا شیطان کا ایک طریقہ معلوم ہوتا ہے، وہ یہ کہ اختلاف کے وقت اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے دلیل نہ دینا، بلکہ فریقِ ثانی پر جھوٹ باندھنا اور اُس پر الزام لگانا- اِس طریقے کو اختیار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے اور وہ یہ اعتراف بھی نہیں کرنا چاہتا کہ فریقِ ثانی کا موقف صحیح ہے اور اس کا اپنا موقف غلط- اِس لیے وہ جھوٹ کا سہارا لیتا ہے- وہ الزام تراشی (allegation)کا طریقہ اختیار کرکے غلط طورپر یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ اس کی مخالفت درست ہے-
یہ طریقہ بلا شبہہ شیطان کا طریقہ ہے- جو لوگ ایسا کریں، وہ قرآن کے الفاظ میں، شیطان کے بھائی (إخوان الشیاطین) قرار پائیںگے- جب بھی آپ کو کسی سے اختلاف ہو تو آپ کے لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ آپ مسلّمہ دلائل کے ذریعے اپنے موقف کو واضح کریں-
اِس کے برعکس، اگر آپ ایسا کریں کہ دلیل سے اپنے موقف کو ثابت نہ کرسکیں اور جھوٹے الزام لگا کر فریقِ ثانی کو بدنام کریں تو یہ ایک بے حد خطرناک پوزیشن ہے- ایسا کرنے کی صورت میں شدید اندیشہ ہے کہ آپ اللہ کے یہاں شیطان کے بھائی قرار پائیں اور اللہ کی رحمتوں سے آپ کو محروم کر دیا جائے-
واپس اوپر جائیں

توکل کی حقیقت

قرآن کی سورہ الطلاق میں توکل کے بارے میں یہ الفاظ آئے ہیں: ومن یتوکل علی اللہ فہو حسبہ (65:3) یعنی جو شخص اللہ پر بھروسہ کرے گا، اللہ اُس کے لیے کافی ہے-
توکل علی اللہ اسلام کی ایک نہایت اہم تعلیم ہے- مگر توکل علی اللہ کیا ہے، یہ بظاہر ایک مبہم بات نظر آتی ہے- اِس سلسلے میں ایک حدیث کے مطالعے سے اِس معاملے کی پوری وضاحت ہوجاتی ہے- حدیث کی کتابوں میں ایک ر وایت اِن الفاظ میں آئی ہے: عن عمر بن الخطاب قال: سمعتُ رسولَ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول: لو أنکم توکلّون على اللہ حق توکّلہ، لرزقکم کما یرزق الطیر، تغدوا خماصا وتروح بطانا (الترمذی، رقم الحدیث:2344) یعنی عمر بن الخطاب کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اگر تم اللہ پر توکل کرو جیسا کہ توکل کرنے کا حق ہے، تو اللہ تم کو اُسی طرح رزق دے گا جس طرح وہ چڑیا کو رزق دیتا ہے- چڑیا خالی پیٹ نکلتی ہے اور بھرے پیٹ کے ساتھ واپس آتی ہے-
حدیث میں توکل کے ساتھ ’’حقِ توکلہ‘‘ کا اضافہ ہے- حقِ توکل سے مراد شرائطِ توکل ہے- اِس کی وضاحت چڑیا کی مثال سے ہوتی ہے- چڑیا ایسا نہیں کرتی کہ وہ بھروسہ کرتے ہوئے اپنے گھونسلے میں بیٹھی رہے، بلکہ چڑیا ایسا کرتی ہے کہ وہ سوچتی ہے- وہ منصوبہ بناتی ہے- وہ اپنی آنکھ سے دیکھتی ہے اور اپنے پروں سے اڑتی ہے- اِس طرح وہ اُس مقام پر پہنچتی ہے جہاں فطری طورپر اُس کا رزق موجود ہو-
اِس کا مطلب یہ ہے کہ چڑیا جب اپنی صلاحیتوں کو پوری طرح استعمال کرتی ہے، اپنی عقل اور سمجھ سے بھر پور طور پر کام لیتے ہوئے مبنی بر فطرت منصوبہ بناتی ہے اور اس کے لیے اپنی حاصل شدہ توانائی خرچ کرتی ہے، تو اُس کے بعد ہی یہ ممکن ہوتا ہے کہ دنیا سے اُس کو وہ رزق ملے جو خالق نے اُس کے لیے مقدر کیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

شاکلۂ انسانی کا مسئلہ

شاکلہ کا مسئلہ کیا ہے- اس کے بارے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے: قل کل یعمل علی شاکلتہ، فربکم أعلم بمن ہو أہدی سبیلا(17:84)یعنی کہو کہ ہر کوئی اپنے اپنے طریقے پر عمل کررہا ہے، اب تمھارا رب ہی جانتا ہے کہ کون زیادہ ٹھیک راستے پرہے-
شاکلہ کے لفظی معنی طریقہ کے ہیں- شاکلہ سے مراد وہی چیز ہے جس کو موجودہ زمانے میں مائنڈ سٹ (mindset) کہا جاتا ہے- آیت کا مطلب یہ ہے کہ حالات کے اعتبار سے ہر انسان کا ایک شاکلہ (mindset) بن جاتا ہے- وہ اسی کے مطابق سوچتا ہے اور اسی کے مطابق عمل کرتا ہے- اب سوال یہ ہے کہ کس کا شاکلہ صحیح شاکلہ ہے- اس کوجانچنے کی مستند صورت یہ ہے کہ انسان کے بارے میں خالق کی بیان کردہ گائڈ لائن (guide line) کو معلوم کیا جائے اور اس گائڈلائن کو معیار (criterion) بنا کر اس کی روشنی میں فیصلہ کیا جائے کہ کس کا شاکلہ درست ہے اور کس کا شاکلہ درست نہیں-
انسان کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ وہ اپنے شاکلہ کو درست شاکلہ بنائے- یہ فائدہ گہرے تدبر کے ذریعے حاصل ہوتا ہے- گہرا تدبر آدمی کو ایک طرف درست معلومات دیتا ہے اور دوسری طرف وہ آدمی کو اِس قابل بناتا ہے کہ وہ اپنی ڈی کنڈیشننگ کرسکے- اِس طرح شاکلہ کی تصحیح یا شاکلہ سازی کا ایک لمبا عمل شروع ہوتا ہے- اِس کے بعد ہی یہ ممکن ہوتا ہے کہ آدمی اپنے شخصی شاکلہ کو خدائی شاکلہ کے مطابق بنائے- اِس عمل کو ایک لفظ میں، تعمیرِ شاکلہ کہاجاسکتا ہے- تعمیر ِ شاکلہ کے بغیر آدمی کے اندر صحیح سوچ (right thinking)نہیں آتی اور جس آدمی کے اندر صحیح سوچ نہ ہو، وہ واقعات کا صحیح تجزیہ نہیں کرسکے گا- وہ اپنے عمل کی صحیح منصوبہ بندی میں ناکام رہے گا- حقیقت یہ ہے کہ کسی انسان کے لیے اپنی زندگی کا صحیح آغاز یہ ہے کہ وہ اپنے شاکلہ کو درست شاکلہ بنائے- وہ حالات سے بنے ہوئے شاکلہ پر نہ ٹھہرے، بلکہ بے لاگ غور وفکر کے ذریعے اپنے اندر صحیح تفکیر (right thinking)کی صلاحیت پیدا کرے-
واپس اوپر جائیں

آبا پرستی

پچھلے زمانے کی منکر قوموں کا ذکر کرتے ہوئے اُن کا ایک قول قرآن میں اِن الفاظ میں نقل کیاگیا ہے: بَلْ قَالُـوْٓا اِنَّا وَجَدْنَآ اٰبَاۗءَنَا عَلٰٓی اُمَّةٍ وَّ اِنَّا عَلٰٓی اٰثٰرِہِمْ مُّہْتَدُوْنَ (43:22) یعنی وہ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقے پر پایا ہے اور ہم اُن کے پیچھے چل رہے ہیں-قرآن کی اِس آیت میں ’آباء‘سے مراد قومی اکابر ہیں،اورپیچھے چلنے کا مطلب یہ ہے کہ اِن اکابر نے سوچنے کا جو ٹرینڈ (trend) دیا ہے، ہم اُس پر چلے جارہے ہیں- یہی ہر قوم کا حال ہوتا ہے- کسی قوم کے اکابر سوچنے کا جو انداز پیدا کردیتے ہیں، بعد کے لوگ اُسی پر چلتے رہتے ہیں، وہ اس کی نظرِثانی کی ضرورت نہیں سمجھتے-
اِس کی ایک مثال امتِ مسلمہ میں یہ ہے کہ نوآبادیات (colonialism)کے دور میں جومسلم رہنما پیدا ہوئے، اُن کے اندر رد عمل (reaction) کے تحت ایک ذہن بنا- اُس زمانے کی ان کی تقریریں اور تحریریں تمام تر منفی سوچ کی حامل بن گئیں- بعد کی مسلم نسلوں میں یہی منفی طرز فکر چل پڑا- موجودہ زمانے کے مسلمان عام طورپر مغرب کے بارے میں منفی رائے رکھتے ہیں- یہ اِسی آیت کا مصداق ہے- موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ نوآبادیاتی دور کی اِس سوچ پر نظر ثانی کی جائے، لیکن لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ سوچنے کے اِسی قدیم ماڈل کو درست سمجھتے ہیں، وہ اِس کے لیے تیار نہیں کہ وہ اپنی روایتی منفی سوچ کو بدلیں اور ازسرِ نو مثبت انداز میں اپنے فکر کی تشکیل کریں-
’’اکابر کا طریقہ‘‘ یا ’’منہج ِ سلف‘‘ جیسے الفاظ جو بعد کے زمانے میں مسلمانوں میں رائج ہوئے، وہ دراصل آبا پرستی ہی کے خوب صورت نام ہیں، وہ آبا پرستی ہی کی مختلف تعبیریں ہیں، لیکن اِس طرح کی خوب صورت تعبیرات سے اصل حقیقت بدلی نہیں جاسکتی-
موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کے لیے، کوئی نیا صحیح آغاز صرف اس وقت ہوسکتا ہے جب کہ وہ منہج اکابر کے نام پر ماضی پرستی کو چھوڑیں اور قرآن وسنت کی روشنی میں ازسرنو، اپنے عمل کی منصوبہ بندی کریں- اس کے سوا کوئی اورتدبیر ان کے لئے کارگر ہونے والی نہیں-
واپس اوپر جائیں

اسٹریٹ دعوة یا دعوة اکسپلوزن

جہاں انسان ہے وہاں دعوت ہے— اِس اصول کوالرسالہ مشن کے لوگوں نے مختلف صورتوں میں دریافت کیا ہے۔ وہ ہر ایسے موقع پر پہنچ کر وہاں بک اسٹال لگاتے ہیں جہاں انسان ہوں،اور اس کے ذریعہ وہ قرآن کا ترجمہ اور دوسری کتابیں لوگوں تک پہنچارہے ہیں- انھیں طریقوں میں سے ایک طریقہ وہ ہے جس کو اسٹریٹ دعوة کا نام دیاگیا ہے- الرسالہ مشن کے لوگ مختلف مقامات پر اسٹریٹ دعوة کا یہ طریقہ اختیار کیے ہوئے ہیں- وہ اُس کے ذریعہ دعوت حق کو پھیلانے کا کام کررہے ہیں- اسٹریٹ دعوة کا مطلب ہے روڈ کے کنارے بک اسٹال لگانا اور پرامن اندازمیں لوگوں تک لٹریچر کے ذریعے حق کا پیغام پہنچانا-
اسٹریٹ دعوة کا طریقہ صرف دعوت کا ایک طریقہ نہیں، وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سنت بھی ہے- سیرت کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طریقہ تھا کہ آپ عرب کے اسواق میں جاتے اور وہاں لوگوں کو قرآن پڑھ کر سناتے- اسواق کا لفظ سوق (بازار) کی جمع ہے- آج کل کی زبان میں اس کو قبائلی تیوہار (Tribal Festival) کہاجاسکتا ہے- اِس موقع پر قبیلہ کے لوگ جمع ہوتے، اور قبائلی رسمیں ادا کرتے- جو لوگ اسٹریٹ دعوة کا کام کررہے ہیں، ان کو، ان شاء اللہ، اِس سنتِ رسول کی پیروی کا ثواب ملے گا-
ضرورت ہے کہ اسٹریٹ دعوة کے طریقہ کو ہر جگہ پھیلایا جائے-اسٹریٹ دعوة کے ذریعہ ہرجگہ کے لوگوں تک پہنچا جائے- اسٹریٹ دعوة کے مواقع ہر جگہ موجود ہیں- ہر شہر اور ہر بستی میں اِس طریقہ کو اختیار کیا جاسکتا ہے- اسٹریٹ دعوة، دعوت کی توسیع (extension) ہے- اسٹریٹ دعوة، روڈشو (road show)کا اسلامائزیشن ہے-
موجودہ زمانہ کمیونی کیشن کا زمانہ ہے- اس تقاضہ کے تحت ساری دنیا میں ہرجگہ سڑکیں بنائی گئی ہیں- ان سڑکوں پر رات دن انسانوں کاسفر جاری رہتاہے- ہر وقت لوگ سڑکوں پر متحرک رہتے ہیں- یہ ایک نیا ظاہرہ (phenomenon) ہے- اس کو ہیومنٹی آن دی موو(humanity on the move) کہا جاسکتا ہے-
الرسالہ مشن کے لوگوں نے اس عصری تقاضے کی دعوتی اہمیت کو سمجھا- وہ یہ کررہے ہیں کہ دوسرے ذرائع کے علاوہ سڑکوں کو بھی وہ دعوت کے لئے استعمال کررہے ہیں- جگہ جگہ روڈ کے کنارے وہ بک اسٹال لگاتے ہیں اور اس کے ذریعہ وہ قرآن کا ترجمہ اور دعوتی لٹریچر بڑے پیمانہ پر لوگوں کے درمیان پھیلا رہے ہیں- اس طریقے کے امکانات بہت زیادہ ہیں- اس کے عمومی امکانات کو دیکھتے ہوئے اِس کو دعوة اکسپلوزن کہاجاسکتا ہے-
موجودہ زمانہ میں ہر وقت انسانیت کا قافلہ سڑکوں پر رواں دواں رہتا ہے- دعوتی نقطہ نظر سے یہ سارے انسان مدعو کی حیثیت رکھتے ہیں- ان کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ ان کو سچائی کا پیغام پہنچایا جائے- سچائی کا پیغام ایک نان پولیٹکل (non-political) اور نان کمیونل (non-communal) پیغام ہے- وہ مکمل معنوں میں ایک پرامن پیغام (peaceful message) ہے- وہ ہر ایک کی اپنی ضرورت ہے- اس مشن کی یہ نوعیت اس کو آخری حد تک بے مسئلہ مشن (no problem mission) بنا دیتی ہے- یہ مشن تمام تر ایک دینے والا مشن (giver mission) ہے، نہ کہ لینے والا مشن-
ضرورت ہے کہ اس طریقہ کو آخری حد تک عام کیا جائے- یہاں تک کہ کوئی گزرگاہ ایسی نہ بچے، جہاں گزرنے والے انسانوں کو سچائی کا پیغام پہنچانے کے لیے ایک بک اسٹال موجود نہ ہو-
دعوت الی اللہ کا کام ایک تخلیقی کام (creative work) ہے- داعی کو اتنا زیادہ با شعور ہونا چاہئے کہ وہ خود سوچے اور خود منصوبہ بنائے- انسانی حالات اتنے زیادہ مختلف ہوتے ہیں کہ اُن کی کوئی گنتی نہیں کی جاسکتی ، اِس لئے کوئی لگا بندھا نقشہ، دعوت کے لئے کافی نہیں ہوسکتا- کارگر دعوت اسی وقت ممکن ہوسکتی ہے، جب کہ داعی کے اندر خود فکری (self-thinking) کی صلاحیت موجود ہو- وہ حالات کے مطابق نیا نقشۂ کار بنا سکے-
واپس اوپر جائیں

وحدت، تنوع

وسیع تقسیم کے اعتبار سے، علوم کی دو قسمیں ہیں — علومِ طبیعی (physical sciences) اور علوم انسانی (human sciences)- علوم طبیعی کی بنیاد تجرباتی علم (experimental knowledge) پر ہے، اِس لیے علومِ طبیعی میں قطعیت (certainty)تک پہنچنا ممکن ہوتا ہے- علومِ انسانی میں تجرباتی علم جیسی بنیاد قابلِ حصول نہیں، اِسی بنا پر یہ صورتِ حال نظر آتی ہے کہ جو لوگ علومِ انسانی کے شعبے میں کام کرتے ہیں، اُن کے درمیان ہمیشہ رائے کا اختلاف پیدا ہوجاتا ہے- علومِ طبیعی کی طرح علومِ انسانی میں قطعیت تک پہنچنا ممکن نہیں ہوتا-
یہی وہ مسئلہ ہے جس کی بناپر اللہ تعالی نے وحی (revelation) کا سلسلہ قائم کیا- مبنی بر وحی علم (revealed knowledge)ہم کو وہ یقینی بنیاد عطاکرتا ہے جو انسانی موضوعات کے معاملے میں ایک مسلّمہ بنیاد (axiom) کی حیثیت رکھتی ہے- وحی کے ذریعے ہم کو ایسے قطعی مسلّمات حاصل ہوجاتے ہیں جن پر غور وفکر کرکے انسانی زندگی کا قابلِ اعتماد نقشہ بنایا جاسکے-
تاہم یہاں ایک فرق ہے- علومِ طبیعی میں ہمیشہ ایک پہلو ہوتا ہے، یعنی یہ کہ ظاہر کے اعتبار سے کسی چیز کا نقشہ (structure) کیا ہے- لیکن علومِ انسانی کا معاملہ اِس سے مختلف ہے- یہاں ہمیشہ چیزوں کے دو پہلو ہوتے ہیں —ایک، اسپرٹ اور دوسرے، فارم(form) - اِسی بنا پر وحی الہی میں چیزوں کیتقسیم دو طرح سے کردی گئی ہے — اسپرٹ اور فارم-
وحی الہی کے مطابق، اسپرٹ میں وحدت مطلوب ہے- اِس کے برعکس، فارم کے معاملے میں تنوع (diversity) کو مطلوب کا درجہ دیا گیا ہے- اِس تقسیم کے مطابق، تقوی (divine consciousness) کو اسپرٹ کا درجہ دیاگیا ہے، اور عبادت ،اخلاق اور معاملات کے شعبوں میں اصولی طورپر تنوع کو تسلیم کیا گیا ہے-اسلام ایک مبنی بر وحی مذہب ہے- اسلام کے نقشے میں اِسی اصول کو اختیار کیاگیا ہے-
واپس اوپر جائیں

الاخوان المسلمون

الاخوان المسلمون کے بانی حسن البنا تھے- انھوں نے 1928میں اِس تحریک کو قائم کیا- اِس مدت میں پوری عرب دنیا براہِ راست طورپر اور بقیہ دنیا بالواسطہ طورپر الاخوان المسلمون کی حقانیت پر متحد ہوگئی- لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ صدر جمال عبدالناصر(وفات: 1971) کے زمانے سے لے کر جنرل السیسی تک مسلسل طورپر اُن کے خلاف وہ واقعہ ہو رہا ہے جس کو تمام مسلم رہنما اور تمام مسلم علماء ظلم قرار دیتے ہیں- اِس معاملے میں مجھے اپنے سوا کسی اور کا استثنا(exception) معلوم نہیں-
لیکن ظلم کا یہ نظریہ یقینی طورپر قرآن کی تردید ہے- قرآن میں بار بار یہ بات بتائی گئی ہے کہ اللہ اُن لوگوںکی ضرور نصرت کرتا ہے جو حق کے راستے پر چلنے والے ہوں- ایسی حالت میں سوال یہ نہیں ہے کہ اہلِ حق پر ظلم ہورہا ہے، بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ ظلم کے باوجود اللہ کی نصرت کیوں نہیں آرہی ہے؟
مصر میں ڈاکٹر محمد مرسی کی حکومت کو ایک سال کے بعد 3 جولائی 2013 کو ختم کردیا گیا- اس کے بعد مصر سے مختلف قسم کی خبریں آتی رہیں- تازہ خبر یہ ہے کہ مصر کی طالبات نے ایک مہم چلائی ہے جس کا نام ہے— طالبات ضد الانقلاب- اِس مہم کا عنوان یہ ہے: صلاة الفجر، بدایة النصر- یعنی فجر کی نماز نصرت الہی کا آغاز ہے- (ملاحظہ ہو: تعمیرحیات، لکھنؤ، 25 اپریل 2014، صفحہ: 15)
اِس سلسلے میں سوال یہ ہے کہ رپورٹ کے مطابق، الاخوان المسلمون کے تمام عورت اور مرد نمازوں کی پابندی کرتے ہیں- اِس میں بلا شبہہ فجر کی نماز بھی شامل ہے- اِس کا مطلب یہ ہے کہ یہ عمل الاخوان المسلمون کے آغاز ہی سے اس کے اندر جاری ہے، پھر اللہ کی نصرت کیوں نہیں آئی؟
یہ تجربہ بتاتا ہے کہ الاخوان المسلمون کا کیس وہ نہیں ہے جس کو اخوانی حضرات نے بطور خود سمجھا ہے، بلکہ اُن کا کیس وہ ہے جو ایک حدیث رسول سے معلوم ہوتا ہے- اس کے الفاظ یہ ہیں: عن عائشة قالت دخل علی النبی صلى اللہ علیہ وسلم فعرفت فی وجہہ أن قد حضرہ شیء، فتوضأ وما کلّم أحداً فلصقت بالحجرة أسمع ما یقول فقعد على المنبر فحمدا للہ وأثنى علیہ، وقال: أیہا الناس، إن اللہ تعالى یقول لکم مروا بالمعروف وانہوا عن المنکر قبل أن تدعوا فلا أجیب لکم وتسألونی فلا أعطیکم وتستنصرونی فلا أنصرکم، فما زاد علیہن حتى نزل (صحیح ابن حبان، رقم الحدیث: 290) یعنی حضرت عائشہ سے روایت ہے- وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے - میں نے آپ کے چہرے کو دیکھ کر محسوس کیا کہ کوئی بات پیش آئی ہے- پھر آپ نے وضو کیا اور آپ نے کسی سے بات نہیں کی- چناں چہ میں حجرے کی دیوار کے پاس کھڑی ہو کر سننے لگی کہ آپ کیا کہتے ہیں- پھر آپ ممبر پر کھڑے ہوئے اور حمدوثنا کے بعد فرمایا: اے لوگو، اللہ تم سے کہتا ہے کہ تم معروف کا حکم کرو اور منکر سے روکو، اِس سے پہلے کہ تم مجھ سے دعا کروں اور میں تمھاری دعا قبول نہ کروں، اور تم مجھ سے سوال کرو اور میں تمھاری حاجت روائی نہ کروں،اور تم مجھ سے مدد طلب کرو اور میں تمھاری نصرت نہ کروں- آپ نے اِس کے بعد مزید کچھ نہیں فرمایا اور منبر سے اتر گئے-
اِس حدیث رسول پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس میں امتِ مسلمہ کے اُس دورِ زوال کا ذکر ہے جب کہ امت صراطِ مستقیم سے ہٹ چکی ہوگی، لیکن قانونِ فطرت کے مطابق، ان کے اندر نماز اور دعا کا کلچر بظاہر باقی رہے گا- جب امت کا یہ حال ہوجائے تو اُس وقت علماء کا کام یہ ہوگا کہ وہ اس کو دوبارہ صراطِ مستقیم پر لانے کی کوشش کریں- دعا اور عبادت کے ظاہر کلچر کی بنا پر ایسا نہیں ہوسکتا کہ اُن پر اللہ کی نصرت آجائے-
اِس اصول کے مطابق، الاخوان المسلمون کا کیس یہ ہے کہ اُن پر امر بالمعروف کے تقاضے پورے کیے جائیں، نہ کہ دعا ونماز کے نام پر قومی کلچر کا احیا- الاخوان المسلمون کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کی اساس غلط طورپر سیاسی اسلام پر رکھی گئی ہے- ان کی تمام سرگرمیاں اِسی کا اظہار ہیں-یہی ان کی اصل غلطی ہے- الاخوان المسلمون پر اللہ کی نصرت اِسی اصولی غلطی کی اصلاح پر آئے گی، کوئی اور تدبیر اُن کو نصرتِ الہی کا مستحق بنانے والی نہیں-
واپس اوپر جائیں

کائنات کی توجیہ

طبیعیات کے جدیدمطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ تقریباً 14 بلین سال پہلے خلا میں ایک دھماکہ ہوا جس کو بگ بینگ کہاجاتاہے- یہ کائنات کا آغاز تھا- مطالعہ مزید بتاتاہے کہ دھماکے کے بعد ایک سیکنڈ کے اندر ایک اور واقعہ ہوا جس نے ذروں کو نہایت تیز رفتاری کے ساتھ خلا کی وسعت میں پھیلا دیا- اس کے بعد تدریجی طور پر موجودہ کائنات بنی-
یہ انوکھے واقعات کیسے پیش آئے- اتفاق (accident) جیسے الفاظ اس کی توجیہ نہیں کرسکتے- یہ ایک بے حد بامعنی واقعہ تھا اور صرف ایک بامعنی توجیہ (meaningful explanation) ہی اِس واقعے کی تشریح کرسکتی ہے- حقیقت یہ ہے کہ اِس قسم کی دریافتیں انسان کو معرفتِ الہی کے عین دروازے تک پہنچا چکی ہیں- اب صرف اتنا ہی باقی ہے کہ لفظی طورپر اس کا اعتراف کرلیا جائے-
Universe Origins: Giant Boost for Big Bang Theory
London: An international team of astrophysicists has discovered the signal left in the sky by the super-rapid expansion of space that would have occurred fractions of a second after everything came into being following the Big Bang. Announcing their finding over a global press call, scientists from Harvard Smithsonian Centre for Astrophysics said researchers from the BICEP2 (Background Imaging of Cosmic Extragalactic Polarization) collaboration have found this first direct evidence for this cosmic inflation, a theory pioneered by Prof Alan Guth among others. Almost 14 billion years ago the universe burst into existence in an extraordinary event that initiated the Big Bang, they said. It has been theorized that in the first fleeting fraction of a second the universe expanded exponentially in what is described as the first tremors of the Big Bang, stretching far beyond the view of our best telescopes. Their data also represents the first images of gravitational waves or ripples in space-time. The team analysed their data for more than three years in an effort to rule out any errors.They also considered whether dust in our galaxy could produce the observed pattern, but the data suggest this is highly unlikely. Harvard theorist Avi Loeb said, This work offers new insights into some of our most basic questions: Why do we exist? How did the universe begin? These results are not only a smoking gun for inflation, they also tell us when inflation took place and how powerful the process was. These ground breaking results came from observations by the BICEP2 telescope of the cosmic microwave background a faint glow left over from the Big Bang.
(The Times of India, New Delhi, March 19, 2014, p. 23)
واپس اوپر جائیں

کائنات کی وسعت

جب سے خلا کے دور بینی مشاہدے کا دور آیا ہے، بار بار نئی کہکشاؤں اور نئے ستاروں کا انکشاف ہوتا رہتا ہے- حال میں اِس قسم کا ایک نیا خلائی انکشاف سامنے آیا ہے- مغربی سائنس دانوں کی ایک ٹیم جو فرانس کی رصد گاہ (Cote d’Azur Observatory) کے تحت خلائی مشاہدہ کررہی تھی، اُس نے ایک ایسا نیا ستارہ دریافت کیا ہے جو ہمارے سورج سے تیرہ سو گنا بڑا ہے اور زمین سے بارہ ہزار سال نور کے فاصلے پر واقع ہے- وہ سورج سے تقریباً ایک میلین گنا زیادہ روشن ہے-
خورد بین اور دوربین جیسے آلات کی دریافت سے پہلے انسان کو دنیا کے عجائبات کے بارے میں بہت کم معلوم تھا- بیسویں صدی کا زمانہ معلوماتی انفجار (knowledge explosion) کا زمانہ ہے- اِس دور میں کائنات کے بارے میں بے شمار انوکھی باتیں دریافت ہوئیں جن کا سلسلہ اب تک جاری ہے-
اب وہ وقت آگیا ہے کہ انسان خالق کی معرفت کو زیادہ بڑے پیمانے پر دریافت کرے- وہ خالق کی عظمتوں کا نیا برتر ادراک حاصل کرے- وہ آیات اللہ (signs of God)، آلاء اللہ (wonders of God) کے نئے پہلوؤں کو دریافت کرے- وہ عظمتِ خداوندی کے نئے احساس کے تحت کہہ اٹھے— الحمد للہ رب العالمین-
ایک حدیث میں قرآن کے بارے میں آیا ہے: لا تنقضی عجائبہ (قرآن کے عجائب کبھی ختم نہ ہوں گے)- یہ عجائب کتاب کے عجائب نہیں، بلکہ وہ صاحب کتاب کے عجائب ہیں- بعد کے زمانے کی تمام کائناتی دریافتیں اِسی پیشین گوئی کی تفصیل ہیں، وہ خالق کی لا محدود عظمت کا بیان ہیں-
اِس خلائی دریافت کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ نیا دریافت شدہ ستارہ اور سورج دونوں ایک ہی فیملی سے تعلق رکھتے ہیں- نیا دریافت شدہ ستارہ جس طرح ایک ستارہ ہے، اُسی طرح سورج بھی ایک ستارہ ہے- البتہ نیا دریافت شدہ ستارہ سورج کے مقابلے میں تیرہ سو گنا زیادہ بڑاہے- اگر ایسا ہوتا کہ نیا دریافت شدہ ستارہ سورج کی جگہ پر ہوتا اور سورج نئے ستارے کی جگہ پر، تو زمین پر اتنی زیادہ گرمی ہوتی کہ زندگی کی کوئی بھی قسم یہاں موجود نہ ہوتی، نہ پانی ہوتا اور نہ نباتات حیوانات اور نہ انسان-
ستاروں کی یہ پوزیشن نہایت بامعنی ہے- قرآن میں اِس خلائی حقیقت کو اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: فلا أقسم بمواقع النجوم، وإنہ لقسم لو تعلمون عظیم (56:75-76) یعنی پس نہیں، میں قسم کھاتاہوں ستاروں کے مواقع کی- اور اگر تم جانو یہ بہت بڑی قسم ہے-
اِس آیت میں قسم کا مطلب گواہی ہے- اور مواقع کا مطلب وقوع (placement) ہے، یعنی وسیع خلا میں ستاروں کو نہایت درست مقام پر رکھنا ایک عظیم شہادت ہے جو خالق کی بے پناہ قدرت اور بے پناہ حکمت کو بتاتی ہے- وسیع خلا میں ستاروں کا وقوع اتفاقاً نہیں ہوسکتا- یہ بامعنی وقوع(meaningful placement) گواہی دے رہا ہے کہ اِس کائنات کا خالق ایک عظیم ہستی ہے اور اس نے عظیم قدرت کے ذریعے یہ نظام قائم کیا ہے- اِس عظیم کائناتی واقعے کی اِس کے سوا کوئی اور توجیہہ ممکن نہیں-
Found: A yellow star that is 1,300 times bigger than Sun
The largest ever yellow star,measuring 1,300 times the size of our Sun,has been discovered nearly 12,000 light-years from Earth.The star,dubbed HR 5171 A, located in the constellation Centaurus is the largest known member of the family of yellow stars to which our Sun belongs.It is also one of the 10 largest stars found so far 50% larger than the famous red supergiant Betelgeuse and about one million times brighter than the Sun.The team led by Oliver Chesneau of the Cote dAzur Observatory in Nice,France,found that the yellow hypergiant star is much bigger,measuring 1,300 times the diameter of the Sun. (The Times of India, New Delhi, 14 March, 2014, p. 19)
واپس اوپر جائیں

زندگی اور موت

گوپی ناتھ منڈے انڈیا کے مشہور لیڈر تھے- انڈیا کی نئی حکومت میں مرکزی وزیر کی حیثیت سے اُن کا تقرر ہوچکا تھا- 4 جون 2014 کو وہ نئی دہلی میں اپنا عہدہ سنبھالنے والے تھے، مگر اُس سے صرف ایک دن پہلے 3 جون کو نئی دہلی میں روڈ ایکسیڈنٹ کے ایک واقعے میں ان کی وفات ہوگئی- بوقت وفات ان کی عمر 64 سال تھی-
یہ صرف ایک شخص کا معاملہ نہیں- ہر آدمی جو اِس دنیا میں پیدا ہوتا ہے، خواہ وہ کتنی ہی بڑی پوزیشن حاصل کرلے، اُس کو بہر حال اِس دنیا میں جینے کا محدود وقت ملتاہے- علامتی طورپر اس کو ’’64 سال‘‘ کہہ سکتے ہیں- مگر عجیب بات ہے کہ کوئی بھی شخص شعوری طورپر اِس حقیقت کو نہیں جانتا-
گوپی ناتھ منڈے کے ساتھ جس دن مذکورہ واقعہ پیش آیا، اس وقت وہ ایک وکٹری ریلی (victory rally) میں شرکت کے لیے جارہے تھے، لیکن شرکت سے پہلے ان کی زندگی کا آخری لمحہ آگیا- یہی معاملہ اِس دنیا میں ہر شخص کا ہے- ہر آدمی بطور خود کسی ’’وکٹری ریلی‘‘ میں شرکت کے لیے سفرکررہا ہے، لیکن اپنی مطلوب منزل پر پہنچنے سے پہلے اس کا آخری وقت آجاتاہے- وہ اپنی فتح کا جشن منائے بغیر اچانک آخرت کی دنیا میں داخل ہوجاتا ہے، ایسی حالت میں جب کہ اس نے آخرت کی دنیا کے لیے کوئی تیاری نہیں کی تھی-
اعدادوشمار کے مطابق، ہر دن ساری دنیا میں ایک لاکھ سے زیادہ آدمی مر جاتے ہیں- ہر مرنے والا اپنے پیچھے ایک خاموش پیغام چھوڑ جاتا ہے- ہر مرنے والا اپنے بعد جینے والوں کو یہ خاموش پیغام دیتا ہے— اے جینے والو، موت کی تیاری کرو- اے دنیا کی تعمیر کرنے والو، آخرت کی تعمیر کی کوشش کرو- اے بے خبری میںجینے والو، اپنے آپ کو باخبر جینے والا بناؤ- اے دنیا میں اپنی حیثیت تلاش کرنے والو، آخرت کی جنت کے لیے اپنے آپ کو مستحق بناؤ-یہی زندگی کی اصل حقیقت ہے- جو لوگ اِس سے باخبر ہوں ، وہی علم والے ہیں اور جو لوگ اس سے باخبر نہ ہوں، اُن کا علم سے کوئی تعلق نہیں-
واپس اوپر جائیں

سبق کی اہمیت

ولیم ہنری بِل گیٹس (William Henry Bill Gates III, b. 1955) مشہور امریکی دولت مند ہے- اس نے اپنی زندگی کے تجربات کی روشنی میں کہا کہ— اپنی خوشی کا جشن منانا اچھا ہے، مگر اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ آپ اپنی ناکامی سے سبق سیکھیں:
It is fine to celebrate success, but it is more important to heed lessons of failure.
کامیابی کا جشن منانا صرف پائے ہوئے کو لے کر اُس پر خوش ہونا ہے- اِس کے برعکس، جب آپ اپنی ناکامی پر غور کرکے اُس سے سبق حاصل کریں تو اِس سے آپ کو بہت سے نئے فائدے حاصل ہوتے ہیں- مثلاً ذہنی ارتقا (intellectual development) ، مستقبل کی منصوبہ بندی کے لیے زیادہ کارگر اصول کی دریافت ، تخلیقی فکر (creative thinking) میں اضافہ، وغیرہ-
ناکامی کو عام طورپر لوگ منفی معنی میں لیتے ہیں، مگر ہر ناکامی میں ہمیشہ کوئی مثبت پہلو چھپا ہوا ہوتا ہے- وہ یہ کہ ہر ناکامی آپ کے لیے ایک یاد دہانی (reminder) ہے- ناکامی کے واقعے کو اگر معتدل ذہن کے ساتھ لیا جائے تو آدمی ناکامی کا واقعہ پیش آنے کے بعد مایوس نہیں ہوگا- بلکہ وہ اُس پر غور کرے گا کہ اس کے منصوبے میں کہاں غلطی ہوگئی- اِس طرح کی سوچ آدمی کو اس کی غلطی سے باخبر کرے گی- اِس طرح وہ اِس قابل ہوجائے گا کہ اپنی اگلی منصوبہ بندی زیادہ درست طورپر کرے اور زیادہ صحیح طریقہ اختیار کرکے ماضی کی ناکامی کو مستقبل کی کامیابی میں تبدیل کردے- حقیقت یہ ہے کہ ہر منفی تجربے میں ایک مثبت پہلو موجود ہوتاہے- اِس مثبت پہلو کو دریافت کیجئے اور پھر آپ کبھی مایوسی کا شکار نہیں ہوں گے-زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت، اِس بات کی ہے کہ آدمی سبق لینا سیکھے-آدمی کو ذہنی طورپر اتنا زیادہ تیار ہونا چاہئے کہ جب کوئی صورت حال اُس کے سامنے آئے تو وہ فوراً اُس کے اندر چھپے ہوئے سبق کے پہلو کو دریافت کرلے-
واپس اوپر جائیں

آخرت سے غفلت کیوں؟

قرآن کی سورہ الروم میں ایک آیت اِن الفاظ میں آئی ہے:یَعْلَمُوْنَ ظَاہِرًا مِّنَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ښ وَہُمْ عَنِ الْاٰخِرَةِ ہُمْ غٰفِلُوْنَ (30:7) یعنی وہ دنیا کی زندگی کے صرف ظاہر کو جانتے ہیں اور آخرت سے بے خبر ہیں-
یہ واقعہ کیسے پیش آتا ہے کہ انسان آخرت سے غافل ہوجاتا ہے- اس کا سبب یہ ہے کہ انسان ہر لمحہ اپنے آپ کو ایک دنیا میں پاتاہے- اُس کا ہر تجربہ بتاتا ہے کہ وہ آخرت کے سوا ایک اور دنیا کے اندر ہے- اس کے تمام تعلقات اِسی معلوم دنیا کے ساتھ ہوتے ہیں- صبح سے شام تک اور شام سے صبح تک اس کی پوری زندگی اِسی دنیا کے اندر گزرتی ہے- اِس طرح وہ موجودہ دنیا کے ساتھ اتنا زیادہ مانوس ہوجاتا ہے کہ وہ شعوری یا غیر شعوری طورپر یہ سمجھ لیتا ہے کہ بظاہر جو کچھ ہے، وہی کُل دنیا ہے، اِس کے آگے اور کچھ نہیں، حتی کے وہ لوگ جو رسمی عقیدے کے طورپر آخرت کومانتے ہیں، وہ بھی عملاً پوری طرح اِس کا مصداق ہوتے ہیں-
ایسی حالت میں آخرت پر زندہ یقین صرف اُس شخص کو حاصل ہوسکتا ہے جو اپنے اندر تجریدی فکر (detached thinking) پیدا کرے، یعنی دنیا میں رہتے ہوئے دنیا سے الگ ہو کر سوچنا، جسمانی اعتبار سے بظاہر اِسی دنیا میں ہونا، لیکن سوچ کے اعتبار سے آخرت کی دنیا میں پہنچ جانا- یہی تجریدی فکر کا طریقہ واحد طریقہ ہے جو کسی آدمی کو آخرت کی یاد میں جینے والا بنا سکتا ہے- یہی آخرت رخی سوچ وہ چیز ہے جس سے آدمی کے اندر حقیقی معنوں میں ربانی شخصیت کی تعمیر ہوتی ہے- اِس کے سوا کوئی اور طریقہ ربانی شخصیت کی تعمیر کا نہیں-
ربانی انسان بننے کی شرط صرف یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو ’النفس المطمئنة‘ (complex free soul) بنائے(89:27)- ایسے ہی انسان کو اللہ کی توفیق حاصل ہوتی ہے اور یہ صرف اللہ کی توفیق ہے جو کسی انسان کو ربانی انسان بناتی ہے-
واپس اوپر جائیں

عقیدہ آخرت کی طاقت

قدیم عراق کا سلجوقی حکمراں ملک شاہ (وفات: 1092ء) کا ایک واقعہ ہے- ایک دن ملک شاہ گھوڑے پر سوار ہو کر ایک پل سے گزر رہا تھا - اس کے سامنے ایک بوڑھی عورت آکر کھڑی ہوگئی- اس کے لڑکے کو ملک شاہ کے کسی سپاہی نے بیگار کے طورپر پکڑ لیا تھا- بوڑھی عورت نے سلطان کو مخاطب کرتے ہوئے اس سے فریاد کی اور کہا کہ تمھارا ایک سپاہی میرے لڑکے کو بلاوجہ پکڑ لے گیا ہے، سلطان نے کہا کہ تم دربار میں استغاثہ پیش کرو- بوڑھی عور ت نے کہا کہ ملک شاہ! میرا فیصلہ تم کو اِسی وقت اور اِسی پل پر کرنا ہوگا، یا پھر کل اُس پل (پل صراط) پر فیصلہ ہوگا- بوڑھی عورت کی یہ بات سن کر سلطان کے رونگٹے کھڑے ہوگئے اور اس نے اُسی وقت اس کی فریاد رسی کی- (مجلہ الشارق، اعظم گڑھ، مارچ، اپریل 2014)
آخرت کا عقیدہ بلا شبہہ تمام دوسرے عقائد سے زیادہ بڑا انقلابی عقیدہ ہے- جس آدمی کو آخرت کی دریافت ہوجائے، وہ اِس عقیدے کی دریافت کے بعد ویسا نہیں رہے گا جیسا کہ وہ اِس عقیدے کی دریافت سے پہلے تھا- آخرت کی دریافت کا واقعہ اس کے لیے ایک بھونچال بن جائے گا- اِس دریافت کے لازمی نتیجے کے طورپر اس کی سوچ بدل جائے گی، اس کا مزاج بدل جائے گا، اس کے بولنے کا انداز بدل جائے گا، لوگوں کے ساتھ اس کا سلوک بدل جائے گا، غرض، زندگی کے ہر پہلو کے اعتبار سے وہ ایک نیا انسان بن جائے گا-
اِس معاملے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگر ایک ایسا معاشرہ تیار کیا جائے، جس کے افراد آخرت کے عقیدے پر زندہ یقین رکھتے ہوں، تو ایسے معاشرے کے ہر فرد کے پاس ایک ایسی طاقت ہوگی جو بظاہر دکھائی نہیں دے گی، لیکن اپنے نتیجے کے اعتبار سے وہ ایک ناقابلِ تسخیر طاقت ہوگی- ایسے معاشرے میں کسی آدمی کو آخرت کی عدالت کی یاد دلانا اُس کے لیے گن اور بم سے زیادہ موثر ہوگا- آخرت کا عقیدہ ایک کمزور آدمی کو بھی سب سے بڑی طاقت کا مالک بنا دیتا ہے-
واپس اوپر جائیں

علم ومعرفت کا حریص

ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: منہومان لا یشبعان: منہوم فی العلم لا یشبع منہ،منہوم فی الدنیا لا یشبع منہا( المستدرک للحاکم، رقم الحدیث: 312 ) یعنی دو قسم کے حریص ہیں جو کبھی آسودہ نہیں ہوتے— ایک علم کا حریص جو کبھی اُس سے آسودہ نہیں ہوتا، اور دوسرا دنیا کا حریص جو کبھی اس سے آسودہ نہیں ہوتا-
’منہوم‘ کا مطلب حریص (greedy) ہے، اور علم سے مراد علمِ معرفت ہے- اِس حدیث رسول کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح طالب دنیا کبھی دنیا کے معاملے میں آسودہ نہیں ہوتا، خواہ وہ کتنا ہی زیادہ اس کو حاصل کرلے- یہی معاملہ طالب علم ومعرفت کا ہے جو آدمی حقیقی معنوں میں علم ومعرفت کا طالب ہو، وہ کبھی اُس سے آسودہ نہیں ہوگا، خواہ وہ کتنا ہی زیادہ اس کو حاصل کرلے-
تاہم دونوں قسم کی طلب میں ایک فرق ہے- طالب دنیا خواہ کتنا ہی زیادہ دنیا کی چیزیں اکھٹا کرلے، اس کو کبھی ذہنی سکون (peace of mind) حاصل نہیں ہوسکتا- کیوں کہ انسان کے اندر فطری طورپر جو طلب رکھی گئی ہے، وہ معرفتِ خداوندی کی طلب ہے- جو آدمی اپنی اِس طلب کو حصولِ دنیا میں لگاتاہے، وہ اپنی فطری طلب کا غلط استعمال کرتا ہے- اِس کے برعکس، جو آدمی اپنی فطری طلب کو حصولِ علم ومعرفت میں لگائے، وہ اپنی فطری طلب کا صحیح استعمال کرتا ہے- اِس لیے  عدم قناعت (discontent) کے باوجود اس کو ہمیشہ ایک اعلی قسم کا ذہنی اور روحانی سکون (intellectual satisfaction) حاصل رہتاہے-
بہ اعتبارِ فطرت جو چیز انسان کا مطلوب نہ ہو، وہ خواہ کم ملے یا زیادہ، ہر حال میں انسان کی فطرت اس سے غیر مطمئن رہے گی- اِس کے برعکس، جو چیز انسان کی فطری طلب ہو، وہ انسان کو کم ملے تب بھی وہ اس کے لیے اطمینان کا ذریعہ بنے گی اور اگر زیادہ ملے تب بھی وہ اس کے لیے اطمینان کا ذریعہ ثابت ہوگی- (9 اپریل 2014)
واپس اوپر جائیں

منصوبۂ خداوندی

خلیفہ ثانی عمر بن الخطاب نے 15 ہجری (636ء) میں مدینہ سے فلسطین کا سفر کیا تھا- اِس سفر کے بارے میں ایک روایت ہے جس کو مؤرخ الطبری نے اِن الفاظ میں نقل کیا ہے: لما استمد أہل الشام عمر على أہل فلسطین، استخلف علیا، وخرج ممدا لہم، فقال علی: أین تخرج بنفسک! إنک ترید عدوا کلبا، فقال: إنی أبادر بجہاد العدو موت العباس، إنکم لو قد فقدتم العباس لانتقض بکم الشر کما ینتقض أول الحبل(تاریخ الأمم والملوک للطبری: 248/2 ) یعنی عدی بن سہل سے روایت ہے- وہ کہتے ہیں کہ جب اہلِ شام نے فلسطین والوں کے خلاف عمر سے مدد طلب کی تو آپ نے (مدینہ میں) علی کو اپنا جانشین بنایا اور ان کی مدد کے لیے روانہ ہوئے- علی نے کہا: آپ خود کہاں جارہے ہیں، آپ ایک سخت دشمن کا قصد کررہے ہیں- عمر نے کہا کہ میں عباس کی موت سے پہلے جلد دشمن سے جہاد کرنا چاہتا ہوں، کیوں کہ اگر تم نے عباس کو کھو دیا تو شر تمھارے درمیان اُسی طرح پھیل جائے گا جس طرح رسی کی پہلی گرہ کھل جاتی ہے-
اِس روایت کے بارے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہےکہ حضرت عمر نے اِس معاملے میں حضرت عباس بن عبد المطلب کا حوالہ کیوں دیا- غور کرنے سے سمجھ میں آتا ہے کہ یہ حضرت عمر فاروق کی ایک اجتہادی رائے تھی- ان کی زندگی کے مختلف واقعات سے معلوم ہوتاہے کہ وہ اہلِ بیتِ رسول کو خصوصی اہمیت دیتے تھے-مثلاً انھوں نے اپنے دورِ خلافت میں اہلِ بیت کا وظیفہ دوسروں سے زیادہ مقرر کیا- قحط کے زمانے میں انھوں نے حضرت عباس کا واسطہ دے کر اللہ تعالی سے بارش کی دعا کی، وغیرہ-
حضرت عمر فاروق کی یہ رائے بلاشبہ ان کی ذاتی رائے تھی- مزید یہ کہ یہ خاتم النبیین کے بارے میں منصوبہ الہی کا کم تر اندازہ (under estimation)کے ہم معنی تھا- قرآن سے ثابت ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کی تکمیل ;کاتعلق براہِ راست منصوبۂ الہی سے تھا، نہ کہ اہلِ بیت سے-چنانچہ قرآن میں اِ س سلسلے میں مختلف آیتیں آئی ہیں، اِس سلسلے میں ایک آیت کے الفاظ یہ ہیں: واللہ متم نورہ ولو کرہ الکافرون (61:8)-
حضرت عباس بن عبد المطلب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا تھے- ان کی وفات 32 ہجری (653ء) میں ہوئی- تاریخ بتاتی ہے کہ اس کے بعد اعداءِ اسلام کی طرف سے مسلسل مخالفانہ واقعات پیش آتے رہے جن کا سلسلہ اب تک جاری ہے- لیکن اِن مخالفانہ سرگرمیوں کے باوجود اسلام اپنی اصل حالت پر قائم ہے- اس کا سبب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے خود اسلام کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے-
اہلِ بیت کا احترام اپنی جگہ مسلَّم ہے، لیکن تاریخ میں اللہ کی منصوبہ بندی ہرگز کسی شخص یا خاندان کی بنیاد پر نہیں ہوتی، بلکہ وہ برتر انسانی مصالح کی بنیاد پر ہوتی ہے- خاتم النبیین کے ظہور کے بعد اللہ تعالی کو یہ مطلوب تھا کہ خدا کا دین ابدی طورپر قائم ہوجائے- قرآن وسنت کا متن محفوظ ہوجائے- دین کا ایک مستند ماڈل وجود میں آجائے- قیامت تک پیدا ہونے والے انسانوں کے لیے یہ ممکن ہوجائے کہ جو شخص ہدایت الہی کو جاننا چاہے، وہ بلا اشتباہ اُس کو جان سکے-
یہ تاریخ کے بارے میں اللہ کا منصوبہ تھا- اِس منصوبے کو اس طرح مکمل ہونا تھاکہ انسان کی آزادی برقرار رہے اور دین کی حفاظت کا مقصد بھی پوری طرح حاصل ہوجائے- دوسرے الفاظ میں یہ کہ اعدا (مخالفین) کی سرگرمیوں کو آزادانہ طورپر باقی رکھتے ہوئے دین کے بارے میں اللہ کے منصوبے کو تکمیل تک پہنچانا- یہ واقعہ منصوبہ خداوندی کے مطابق، پوری طرح انجام پایا-
یہ خدا کے منصوبے کا کم تر اندازہ ہوگاکہ اس کی تکمیل کے لیے کسی فرد یا خاندان کی موجودگی کو ضروری سمجھا جائے- فرد یا خاندان کے لیے اللہ کا قانون الگ ہے اور اپنے منصوبے کی تکمیل کے لیے اللہ کا قانون الگ- دونوں کو ایک دوسرے سے ملا کر نہیں دیکھا جاسکتا- (26 مارچ 2014)
واپس اوپر جائیں

جانچنے کا معیار

ایک تعلیم یافتہ مسلمان سے گفتگو ہوئی- گفتگو کا موضوع مصر کی سیاسی صورتِ حال تھی- مصر میں الیکشن ہوا اس کے بعد وہاں الاخوان المسلمون کے لیڈر ڈاکٹر محمد مرسی مصر کے منتخب صدر بن گئے- مگر ایک سال کے بعد مصرکی فوج نے ڈاکٹر مرسی کو قیادت سے ہٹادیا- اس کے بعد سے مصری فوج اور الاخوان المسلمون کے درمیان متشددانہ ٹکراؤ جاری ہے- اِس ٹکراؤ میں صرف جان ومال کا نقصان ہورہا ہے- اس کا کوئی مثبت نتیجہ اب تک سامنے نہ آسکا- اِس موضوع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے مذکورہ مسلمان نے کہا کہ الاخوان المسلمون دہشت گرد تنظیم نہیں ہے:
Muslim Brotherhood is not a terrorist organization
میں نے کہا کہ آپ کا یہ تبصرہ درست نہیں- آپ کے بیان کے مطابق، الاخوان المسلمون کا کیس اسلام کا کیس ہے- وہ مصر میں اسلام لانا چاہتے ہیںاور دشمن طاقتیں ان کے منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی ہیں- میں نے کہا کہ قرآن میں واضح طورپر بتایا گیا ہے کہ اللہ ہمیشہ اہلِ ایمان کے ساتھ ہوتاہے- پھر اگر الاخوان المسلمون کا کیس اسلام کا کیس ہے تو اللہ کی مدد ان کے لیے کیوں نہیں آتی- ایسی حالت میں زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ یہ کہاجائے کہ اللہ نے الاخوان المسلمون کے دشمن کے مقابلے میں ان کی حمایت نہیں کی:
God is not at the side of Muslim Brotherhood.
اللہ نے اِس دنیا کو پیدا کیا ہے، وہی اِس دنیا کو چلا رہا ہے- اِس دنیا کا چلانے والا کوئی انسان نہیں ہے، بلکہ اللہ رب العالمین براہِ راست طورپر اِس دنیا کی تنظیم کررہا ہے، اِس لیے دنیا میں پیش آنے والے واقعات کی توجیہہ کے لیے آدمی کو یہ کرنا چاہیے کہ وہ دنیا کے بارے میں قانونِ خداوندی کو دریافت کرے اور اس کی روشنی میں دنیا میں ہونے والے واقعات کی توجیہہ کرے- اِس کے سوا کوئی اور طریقہ انسان کو درست رائے تک نہیں پہنچا سکتا- دوسرا طریقہ اندھیرے میں بھٹکنے کا راستہ ہے، نہ کہ روشنی میں سفر کرنے کا راستہ-
واپس اوپر جائیں

خیر ِ امت یا زوال یافتہ امت

حدیث میں امتِ مسلمہ کے بارے میں آیا ہے کہ: لتتبعن سنن من کان قبلکم (صحیح مسلم، رقم الحدیث: 2669) - اِس حدیث کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ تم پچھلی امتوںکے راستے پر چلوگے- اِس حدیث میں دراصل قانونِ زوال کو بتایا گیاہے- اِس کا مطلب یہ ہےکہ امتِ مسلمہ اپنے بعد کے زمانے میں اُسی طرح زوال کا شکار ہوگی جس طرح دوسری امتیں زوال کا شکار ہوچکی ہیں- زوال کا قانون اتنا زیادہ عام ہے کہ اس میں کسی امت کا کوئی استثنا نہیں-
یہی معاملہ قرآن کی دو آیتوں میں اِس طرح بتایا گیاہے: اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُہُمْ لِذِکْرِ اللّٰہِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ ۙ وَلَا یَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَیْہِمُ الْاَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوْبُہُمْ ۭ وَکَثِیْرٌ مِّنْہُمْ فٰسِقُوْنَ ؀اِعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ یُـحْیِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا ۭ قَدْ بَیَّنَّا لَکُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ (57:16-17)یعنی کیا ایمان والوں کے لیے وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کی نصیحت کے آگے اور اُس حق کے آگے جھک جائیں جو نازل ہوچکا ہے- اور وہ اُن لوگوں کی طرح نہ ہوجائیں جن کو پہلے کتاب دی گئی تھی، پھر اُن پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہوگئے- اور ان میں سے اکثر لوگ نافرمان ہیں- جان لو کہ اللہ زمین کو زندگی دیتاہے اس کی موت کے بعد، ہم نے تمھارے لیے نشانیاں بیان کردی ہیں، تاکہ تم سمجھو-
قرآن کی اِن آیات میں بتایا گیا ہےکہ امتوں میں ’طولِ اَمد‘ کے بعد قساوت پیدا ہو جاتی ہے، یعنی امت کی بعد کی نسلوں میں دینی زوال آجاتا ہے- زوال کا مطلب ہے ظاہری ڈھانچے کا باقی رہنا اور داخلی اسپرٹ کا ختم ہوجانا- مذکورہ آیت میں اِسی حالتِ زوال کو فسق سے تعبیر کیا گیا ہے-
’فسق‘ کے مادّے سے مختلف الفاظ بنے ہیں- اُن میں سے ایک فویسقة ہے جو فاسقة کی تصغیر ہے- چوہیا کو فویسقة اِس لیے کہاجاتاہے کہ وہ اپنے آپ کو بِل میں چھپائے رہتی ہے- اِس سے فاسق آدمی کا کردار معلوم ہوتاہے- فسق دراصل عملی کفر کا نام ہے- فسق اور کفر میں یہ فرق ہے کہ فسق کے کیس میں آدمی زبان سے انکار نہیں کرتا، مگر اپنے عمل سے وہ انکار کی روش پر قائم رہتا ہے- اِس کے برعکس، کفر کے کیس میں آدمی زبان سے بھی انکار کرتاہے اور عمل کے اعتبار سے بھی وہ انکار کی روش پر قائم ہوتاہے-
فسق کا لفظ درست طورپر امت کی حالتِ زوال کو بتاتا ہے- کسی امت پر جب زوال آتاہے تو ایسا نہیں ہوتا کہ وہ کھلے طورپر اپنے دین کا انکار کرنے لگے- یہود پر جب زوال آیا تو انھوں نے کبھی اِس قسم کا انکار نہیں کیا، اور نہ امتِ مسلمہ کبھی اِس طرح انکار کرے گی- عملاً جو ہوتا ہے، وہ یہ کہ امت کے لوگ خود ساختہ طورپر دین کا ایسا ماڈل بنالیتے ہیں جو اُن کی زوال یافتہ حالت پر پوری طرح منطبق ہوتا ہو، جس میں اُن کو اپنی زوال یافتہ حالت عین دینی حالت دکھائی دے-
اِس خود ساختہ ماڈل کی صورت یہ ہوتی ہے کہ مبنی براسپرٹ دین کو مبنی بر فارم دین کی صورت میں ڈھال لیا جاتا ہے- قومی سرگرمیوں کو دینی اصطلاح میں بیان کیاجاتا ہے- لوگ عملاً اپنی خواہش پر چلنے لگتے ہیں، لیکن دین کے نام پر کچھ رسمی چیزوں کی دھوم مچا کر وہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ اپنے دین پر عمل کررہے ہیں- ان کی زندگی پوری طرح دنیا دارانہ ہوتی ہے، لیکن دین کے نام پر کچھ ظاہری کام کرکے وہ مطمئن ہوجاتے ہیں کہ وہ اب بھی پوری طرح دین پر قائم ہیں، وغیرہ-
فسق کو ایک لفظ میں، غیر اسلامی کو اسلامی بنانا (Islamization of non-Islam) کہاجاسکتا ہے- اِس فاسقانہ روش کی آخری صورت یہ ہے کہ لوگوں کے اندر سرکشی کا مزاج آجاتاہے- دین کے خود ساختہ ماڈل کو اختیار کرکے وہ شعوری یا غیر شعوری طورپر سمجھ لیتے ہیں کہ ہم اصلِ دین پر قائم ہیں- یہ فرضی یقین (false conviction) اُن کو ہر برائی کے لیے سرکش بنا دیتا ہے- یہ وہ حالت ہے جو ایسے لوگوںکو آمادہ کرتی ہے کہ وہ جس کو اپنا مخالف سمجھیں، اُس کو جڑ سے اکھاڑ نے کے لیے ہر غلط کارروائی کو اپنے لیے جائز ٹھہرالیں-
اصلاح کا طریقہ
مذکورہ قرآنی آیتوں میں سے دوسری آیت یہ بتاتی ہے کہ جب امت کا یہ حال ہوجائے تو اُس وقت اس کی اصلاح کے لیے کیا کرنا چاہئے- آیت کے مطابق، اُس وقت ایک مصلح کو وہی کرنا چاہیے جو ایک کسان کسی مردہ زمین کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے اختیار کرتاہے، یعنی پہلے زمین کو تیار کرنا اور اس کے بعد اس میں فصل اگانا- اِسی طرح امت کے زوال کے بعد ایک مصلح کو یہ کرنا ہے کہ وہ امت کے اندر دوبارہ معرفتِ دین پیدا کرے، وہ امت کے افراد میں دوبارہ ذہنی بیداری لائے، امت کے افراد جو پیدائشی دین پر کھڑے ہوئے ہیں، ان کے لیے دین کو اُن کی از سرِ نو دریافت (rediscovery) بنادے، وغیرہ-
موجودہ زمانے کے مسلمان مکمل طورپر اِس زوال کی حالت پر پہنچ چکےہیں- ان کے اندر بظاہر کچھ دینی شکلیں دکھائی دیتی ہیں، لیکن ان کے افراد روحِ دین سے خالی ہیں- یہی وہ مسلمان ہیں جن کے بارے میں حدیث میں آیا ہے کہ اُن کی مسجدیں بھر ہوئی ہوں گی، لیکن وہ ہدایت کے اعتبار سے خالی ہوں گی(مساجدہم عامرة، وہی خراب من الہدى)جامع الأحادیث للسیوطی، 13182- ایک اور حدیث میں بتایا گیا ہے کہ بظاہر مسلمان ایک بڑی بھیڑ کی شکل میں ہوں گے، لیکن ان کے اندر ایک بھی خاشع شخص موجود نہیں ہوگا( حتى لا ترى فیہا خاشعا)کنز العمال، 5890- اِن مسلمانوں کے درمیان اصلاحی کام کا آغاز اُن کو خیرِ امت فرض کرکے نہیں ہوسکتا- ان کے درمیان موثر اصلاحی کام صرف اس طرح ہوسکتاہے کہ پہلے ان کو زوال یافتہ امت تسلیم کیا جائے اور پھر بالکل آغاز سے ان کی اصلاح کی منصوبہ بندی کی جائے، یعنی تجویز سے پہلے تشخیص-
قرآنی سورتوں کی ترتیب
قرآن کی سورتوں کی موجودہ ترتیب کا نہایت گہرا تعلق امت کی اصلاح کے مسئلے سے ہے- جیساکہ معلوم ہے، قرآن کی سورتوں کی موجودہ ترتیب اُن کے نزول کی ترتیب کے مطابق نہیں ہے، بلکہ وہ اس سے مختلف ہے- عمومی طورپر یہ کہاجاسکتاہے کہ مکہ میں قرآن کی جو سورتیں نازل ہوئیں، اُن کو ترتیب میں مصحف کے آخر میں رکھ دیا گیا، اور جو سورتیں بعد کو مدینہ میں اتریں، ان کو ترتیب میں مصحف کے ابتدائی حصے میں رکھ دیاگیا- ترتیب میں یہ تبدیلی اتفاقی نہیں ہے، بلکہ اس کو بالقصد طورپر اختیار کیا گیا ہے-
اصل یہ ہے کہ مکی دور میں جب قرآن اترنا شروع ہوااُس وقت امتِ مسلمہ بحیثیت ’’امت‘‘ موجود نہ تھی- اُس وقت مکہ میں اور اطرافِ مکہ میں دعوت کا کام کیاگیا- اِس کے نتیجے میں لوگ اسلام میں داخل ہونے لگے، یہاں تک کہ وہ گروہ تیار ہوا جس کو امتِ مسلمہ کہا جاتاہے- گویا کہ مکی دور میں اسلام کا سفر غیر اسلام سے اسلام کی طرف یا غیر امتِ مسلمہ سے امتِ مسلمہ کی طرف ہوا-
لیکن مدنی دور میں یہ ہوا کہ عملاً وہ گروہ وجود میں آگیا جس کو امتِ مسلمہ کہاجاتا ہے- جب امتِ مسلمہ کے نام سے ایک امت وجود میں آگئی تو اب تاریخ کے سفرکی نوعیت بد ل گئی- پہلے یہ ہوا تھا کہ تاریخ کا سفر امتِ غیر مسلمہ سے امتِ مسلمہ کی طرف ہوا تھا، لیکن امت بننے کے بعدایک نیا تاریخی عمل (process) شروع ہوگیا، اور وہ تھا— عروج سے زوال کی طرف یا تشکیلِ امت سے امت کے تنزّل(degeneration) کی طرف-
مکی د ور میں اسلام کی دعوت کا طریقِ کار یہ تھا کہ اسلام کے نہ ماننے والوں کو اسلام کی اہمیت بتا کر انھیں اسلام کی طرف راغب کیا جائے- لیکن مدنی دور کے بعد یہ ہونے والا تھا کہ صرف تین نسل (قرونِ ثلاثہ) کے بعد امت میں زوال کا دور آجائے- قانونِ فطرت کے مطابق، یہ تبدیلی لازم تھی- اِس کے لیے ضرورت تھی کہ امت کے مصلحین کو یہ بتایا جائے کہ امت کے زوال (degeneration) کے بعد امت کے احیاء ِ نو (regeneration)کا طریقِ کار کیا ہوگا-
یہی وہ حکمت ہے جس کی بنا پر قرآن کی سورتوں کی وہ ترتیب اختیار کی گئی جس کو توقیفی ترتیب کہاجاتا ہے- یہ ترتیب اتفاقی نہیں، بلکہ وہ خود فرشتۂ وحی (جبرئیل) کی ہدایت کے مطابق کی گئی- اِس حکمتِ ترتیب میں یہ ہوا کہ عمومی طورپر مدنی سورتوں کو مصحف میں پہلے رکھ دیاگیا ا ور مکی سورتوں کو مؤخر کردیا گیا-اِس ترتیب کی حکمت بالکل واضح ہے- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ میں تھے تو وہاں صرف مشرک قبیلے آباد تھے، لیکن جب آپ نبوت کے 13 سال کے بعد ہجرت کرکے مدینہ گئے تو یہاں کی صورتِ حال مختلف تھی- مدینہ کی آبادی کا تناسب اِس طرح تھا کہ دو عرب قبیلےتھے: اوس اور خزرج، اور تین یہودی قبیلے تھے: بنو نضیر، بنو قضاعہ، بنو قینُقاع-
اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کےمخاطبین میں ایک نیا مخاطب گروہ (یہود) وجود میں آگیا- اب ایسا ہواکہ مسلسل طورپر یہود سے انٹرایکشن ہونے لگا- یہود کے سامنے آپ دینِ اسلام پیش کرنے لگے- یہود کے سوالات کا جواب دیا جانے لگا- یہود، جن کی حیثیت امتِ موسی کی تھی، اُن کے احوال برابر قرآن میں زیر بحث آنے لگے- اِسی کا نتیجہ ہے کہ مدنی سورتوں کا بڑا حصہ یہود ونصاری کے تذکرے پر مشتمل ہے-
یہ یہود ونصاری کون تھے- وہ دراصل دورِ قدیم کی زوال یافتہ امت تھے- یہود ونصاری کے حال میں امتِ مسلمہ کا مستقبل دکھائی دیتا تھا- اِسی لیے قرآن کی مصحفی ترتیب میں مدنی سورتوں کو پہلے کردیا گیا، کیو ں کہ انھیں زوال یافتہ حالات کی روشنی میں وہ لائحہ عمل تیار ہونا تھا جو امتِ مسلمہ کی بعد کی نسلوں کی اصلاح کے لیے درکار تھا-
اِس کا مطلب یہ تھا کہ بعد کی مسلم نسلوں کو خیر امت فرض کرکے کام کا آغاز نہیں کرنا ہے، بلکہ اِس واقعے کو تسلیم کرکے اس کے اندر اصلاح کا کام کرنا ہے کہ یہ امت زوال کے اُس مرحلے میں پہنچ چکی ہے جہاں یہود ونصاری پہنچے تھے- اِس بنا پر اُن کی اصلاح کے لیے وہی اسلوب اختیار کرنا ہے جو قرآن کی سورہ الحدید کی مذکورہ آیت میں بتایا گیا ہے، یعنی پہلے امت میں ذہنی بیداری لانا اور اس کے بعد اس کی عملی اصلاح کرنا-
واپس اوپر جائیں

ذاتی عقل، علمی عقل

2 مارچ 2009 کو نئی دہلی کے انٹرنیشنل سنٹر (لودھی روڈ) میں ایک سیمنار ہوا- اِس سیمنار میں جدید تعلیم یافتہ افراد شریک ہوئے- اس کا موضوع آزادی اظہار رائے (freedom of expression) تھا- اِس موضوع کے تحت، اِس سیمنار میں حسب ذیل سوال پر مذاکرہ ہوا:
Is Quran subject to Rational Scrutiny?
سیمنار کی دعوت پر راقم الحروف نے بھی اس میں شرکت کی- میںنے دیکھا کہ کانفرنس کے تمام شرکاء پرجوش طورپر اِس نظریے کی وکالت کررہے ہیں کہ قرآن کوئی منزَّہ عن الخطاء کتاب (infallible book) نہیں ہے- ہم کو یہ حق ہونا چاہئے کہ ہم اپنی عقل کو استعمال کرتے ہوئے قرآن پر فکری تنقید کرسکیں-
اِس مذاکرہ اور اِس قسم کے دوسرے مذاکروں میں شرکت کے بعد میرا احساس یہ ہے کہ لوگ عقل (reason) کا لفظ تو بہت بولتے ہیں، لیکن لوگوں کو شاید یہ نہیں معلوم کہ عقل کے حدود کیا ہیں اور عقل کے استعمال سے کیا مراد ہے- اصل یہ ہے کہ عقل کے استعمال کی دو صورتیں ہیں- ایک ہے، ذاتی عقل (personal reason) کے تحت بولنا- اور دوسرا ہے، علمی طورپر ثابت شدہ حقائق کی روشنی میں عقل کا استعمال کرنا- علمی اعتبار سے ذاتی عقل کی کوئی اہمیت نہیں، عقل کا صرف وہی استعمال درست ہے جو ثابت شدہ حقائق کی بنیاد پر کیاگیا ہو:
One's reason is only the capacity to understand. Reason itself is not an authority. The scientific method in this regard is that if one has some idea, one has to examine it on the basis of scientifically established facts. Only after this, one's idea will be regarded as correct. Otherwise, it is simply personal reason or pure reason. In this sense, reason is of two kinds:
1. Reason verified by scientific facts.
2. Reason unsupported by such verification.
مذکورہ سیمنار میں، میںنے یہ بات کہی تو وہاں کوئی شخص اس کو رد نہ کرسکا- تاہم ایک صاحب نے کہا کہ اگر کوئی شخص اپنی ذاتی عقل سے کوئی رائے بنائے تو اس کی قدروقیمت کیا ہے-
What, if any, is the validity of reason unsupported by scientific verification?
میں نے کہا کہ محض ذاتی عقل کی بنیاد پر جورائے قائم کی جائے، وہ دوسروں کے لئے ناقابلِ قبول ہوگی- کسی شخص کی ذاتی رائے دوسروں کے لئے اسی وقت قابلِ قبول ہوسکتی ہے جب کہ وہ ثابت کرے کہ اس کی رائے مسلّمہ علمی بنیاد پر قائم ہے:
Personal reason unsupported by scientific data is invalid. If one wishes to follow his personal reason, he may do so. But he certainly should not expect that others will subscribe to such kind of thought. If you want to convince others you will have to substantiate your personal views on the basis of scientifically established data.
قرآن کی صداقت
میرے تجربے کے مطابق، قرآن کے ذیل میں ریشنل اسکروٹنی (rational scrutiny) کا لفظ ایک غیر متعلق (irrelevant) لفظ ہے- قرآن کے ذیل میں زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اس کے لیے ریشنل اسٹڈی (rational study) کا لفظ استعمال کیا جائے- قرآن نے اِس معاملے میں مطالعے کا جو اصول مقرر کیا ہے، وہ بلا شبہہ ایک علمی اصول ہے-
اِس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے: لو کان من عند غیر اللہ لوجدوا فیہ اختلافاً کثیرا (4:82) یعنی اگر یہ (قرآن) اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو وہ اس کے اندر بڑا اختلاف پاتے-
اِس آیت کے مطابق، قرآن کی صداقت(veracity) کو جاننے کا معیار یہ ہے کہ قرآن کے بیانات کو علمی مسلّمات (scientific facts) سے تقابل کرکے دیکھا جائے- اگر دونوں میں کوئی ٹکراؤ نہ ہو تو وہ اِس بات کا ثبوت ہوگا کہ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جس کی صداقت عقلی معیار پر ثابت ہورہی ہے- یہی قرآن کے عقلی مطالعے کا واحد طریقہ ہے-
قرآن کے بیان کا ایک حصہ وہ ہے جس میں زمین وآسمان، یعنی فزیکل ورلڈ(physical world) کے بارے میں کچھ بیانات دئے گئے- یہ موضوع،قرآن اور سائنس کے درمیان مشترک ہے- قرآن پر عقلی غور وفکر کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ مشترک موضوعات میں قرآن نے جو حوالے دئے ہیں، وہ سائنس کے مسلمات سے مطابقت رکھتے ہیں یا اُس سے ٹکرارہے ہیں- راقم الحروف نے اِس حیثیت سے تفصیلی مطالعہ کیا ہے- میں نے اپنی دوسری کتابوں (مذہب اور جدید چیلنج، عقلیات اسلام، وغیرہ) میں مثالوں کے ذریعہ یہ واضح کیا ہے کہ اِن مشترک موضوعات میں قرآن کے بیان اور سائنس کے بیان میں کوئی ٹکراؤ نہیں-
یہ واقعہ قرآن کی صداقت (veracity) کا ایک عقلی ثبوت ہے- مشترک موضوعات میں قرآن کے بیان کے درست ہونے سے ہم کو یہ قرینہ (probability)ملتا ہے کہ ہم یہ قیاس کرسکیں کہ غیر مشترک موضوعات میں بھی قرآن کے بیانات درست ہیں- اِس طریقِ استدلال کو سائنس میں معقول (valid) قرار دیا گیا ہے اور اِس کو استدلال بذریعہ احتمال (argument from probability) کہاجاتا ہے، یعنی معلوم دنیا کے بارے میں قرآن کے بیانات کے درست ثابت ہونے سے یہ قرینہ ملتا ہے کہ غیر معلوم دنیا کے بارے میں بھی قرآن کے بیانات احتمالی طورپر (probably) درست ہیں- اِس اصولِ استدلال کے بارے میں مزید معلومات کے لیے حسب ذیل کتابیں ملاحظہ فرمائیں-
Science and the Unseen World by Arthur Eddington
Human Knowledge by Bertrand Russell
علم کی دو قسمیں
عقل کا استعمال کسی خلا میں نہیں ہوتا، بلکہ وہ موجودہ دنیا میں ہوتاہے جس دنیاکے اندر ہم زندگی گزارتے ہیں، مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس دنیا کی تمام چیزیں ایک قسم کی نہیں ہیں، بلکہ یہاںتنوع (diversity)پایا جاتا ہے- چنانچہ فلاسفہ نے علم کی دوقسمیں کی ہیں — چیزوں کا علم(knowledge of things)، سچائی کا علم (knowledge of truths) -
انسان کے پاس صرف ایک ہی ذریعہ ہے جس سے وہ اِن علوم تک پہنچ سکتا ہے اور وہ عقل (reason) ہے- آدمی اپنی عقل کو استعمال کرکے دونوں قسموں کے علم تک رسائی حاصل کرسکتا ہے- انسان کےپاس ذاتی طورپر، عقل کے سوا، کوئی دوسرا ذریعہ نہیں جس سے وہ اِن علوم سے واقفیت حاصل کرسکے-
تاہم جس طرح علوم کی دو قسمیں ہیں، اُسی طرح عقل کے استعمال کی بھی دو قسمیں ہیں- جہاں تک چیزوں کو جاننے کا معاملہ ہے، اُن کے سلسلے میں مشاہدہ (observation) اور تجربہ (experience) کے ذریعہ کو استعمال کرنا ممکن ہے، طبیعی علوم (physical sciences) کے مطالعے کا دائرہ چیزیں (things) ہیں، اِس لیے طبیعی علوم میں اصلاً مشاہدہ اور تجربہ کے ذریعہ کو استعمال کیا جاتا ہے-
اب سوال یہ ہے کہ علم کا دوسرا دائرہ، یعنی سچائیوںتک کس طرح پہنچا جائے- موجودہ زمانے کے علماءِ سائنس کا اِس پر اتفاق ہے کہ وہ چیز جس کو سچائی کہا جاتا ہے، اُس تک پہنچنے کا صرف ایک ذریعہ ہے اور وہ استنباط (inference) ہے، یعنی مشاہداتی حقائق کے حوالے سے، غیر مشاہداتی حقائق کے علم تک پہنچنا-
بیسویں صدی کے نصف اول تک طبیعی سائنس (physical science) کی دنیا میں عام طورپر یہ سمجھا جاتا تھا کہ علم وہی ہے جو مشاہداتی ذرائع سے معلوم ہو- لیکن علم کا سفر جب عالمِ کبیر (macro world)سے گزر کر عالمِ صغیر (micro world) تک پہنچا تو یہ مفروضہ ٹوٹ گیا- اب یہ تسلیم کرلیا گیا کہ استنباط بھی علم کے حصول کا ایک ذریعہ ہے، شرط یہ ہے کہ وہ مسلّمہ علمی قواعد کی بنیاد پر کیاگیا ہو- یہی وہ مقام ہے جہاں عقلی طریقِ مطالعہ اور اسلامی طریقِ مطالعہ کا فرق ختم ہوجاتا ہے- عقلی طریقِ مطالعہ، اسلام کے مطالعے کے لیے بھی اتنا ہی مفید بن جاتا ہے جتنا کہ دوسرے علوم کے لیے-
اسلام کے عقائد کا تعلق عالمِ غیب (unseen world) سے ہے، اِس لیے بظاہر وہ عقلی مطالعے سے باہر کی چیز معلوم ہوتا ہے، لیکن استنباط کو مستندطریقِ مطالعہ ماننے کے بعد یہ فرق باقی نہیں رہتا- مثال کے طورپر وحی (revelation) کو لیجیے- اسلام کےمطابق، قرآن وحی پر مبنی ایک کتاب ہے- وحی مشاہدے سے باہر کی چیز ہے، اِس بنا پر بیسویں صدی کے نصف اول تک یہ سمجھا جاتا تھاکہ قرآن صرف ایک عقیدے کی کتاب ہے، اس کی صداقت کو عقلی بنیاد پر ثابت نہیں کیا جاسکتا- لیکن اب جب کہ استنباطی استدلال کو مستند استدلال سمجھا جاچکا ہے، اب اصولی طورپر یہ فرق باقی نہیں رہا-
قرآن میں ایسے بیانات موجود ہیں جو استنباطی اصول کے مطابق، یہ ثابت کرتے ہیں کہ قرآن کا تعلق ایک ایسے ماخذ (source) سے ہے جو انسانی علم سے ماورا اپناوجود رکھتا ہے- اس معاملے کی ایک مثال وہ ہے جو قدیم مصر کے فرعون (Pharaoh Ramesses II) کے جسم سے تعلق رکھتا ہے-(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: راقم الحروف کی کتاب ’’عظمتِ قرآن‘‘ )
واپس اوپر جائیں

انسانی وجود کی با معنی توجیہ

ایک شخص کہتا ہےکہ چاند کا سائز ہمارے ایک فٹ بال کے حجم کے برابر ہے- دوسرا شخص کہتا ہے کہ چاند کا سائز ہماری زمین کے چوتھائی حجم کے برابر ہے- اِن دو مختلف بیانات میںسے کون سا بیان درست ہے- اِس کو جاننے کے لیے ہمارے پاس ایک قابلِ اعتماد معیار (criterion) موجود ہے- یہ سائنٹفک معیار ہے- اِس سائنٹفک معیار کو منطبق کرکے ہم حتمی طورپر معلوم کرسکتے ہیں کہ دونوں میںسے پہلا بیان نادرست ہے اور صرف دوسرا بیان درست ہے-
اب دوسری مثال لیجئے- فرانس کے مشہور فلسفی رینے ڈیکارٹ (Rene Descartes) نے کہا تھا کہ — میں سوچتا ہوں، اِس لیے میں ہوں:
I think, therefore, I exist.
وجودی فلسفہ (existentialism) کے بانی جین پال سارترے (Jean Paul Sartre) نے اِس تصور کو الٹ دیا- اس نے کہا کہ — میں ہوں، اِس لیے میں سوچتا ہوں:
I exist, therefore, I think.
ڈیکارٹ اور سارترے کے بیانات ایک دوسرے سے مختلف ہیں- پھر کیسے فیصلہ کیا جائے کہ دونوں میں سے کون سا بیان د رست ہے اور کون سا بیان درست نہیں- اِس دوسری مثال کے معاملے میں سائنٹفک معیا ر قابلِ انطباق نہیں- تاہم یہاں ایک اور متبادل معیار موجود ہے جس کو منطبق کرکے ہم اِس دوسرے معاملے میں بھی درست جواب حاصل کرسکتے ہیں-
برٹرنڈرسل (وفات: 1970) نے درست طورپر لکھا ہےکہ علم کی دو قسمیں ہیں — چیزوں کا علم (knowledge of things) ، اور سچائیوں کا علم (knowledge of truths) - چیزوں کے علم کے معاملے میں ہمیشہ فزیکل کرائٹیرین (physical criterion)قابلِ انطباق (applicable) ہوتا ہے- لیکن جہاں تک سچائی کا معاملہ ہے، اُس میں فزیکل کرائٹیرین قابلِ انطباق نہیں- تاہم سچائی کے علم کے معاملے میں فیصلہ کرنے کے لیے ایک اور کرائٹیرین موجود ہے، وہ ترجیح (preference) کا کرائٹیرین ہے، یعنی دو امکانات میں سے کسی ایک امکان کو اضافی قرینہ کی بنیاد پر ترجیح دینا-
مذکورہ فلسفیانہ بحث میں ہمارے سامنے دو رائیں (proposition) موجود ہیں- ایک، ڈیکارٹ اور دوسرے، سارترے کی رائے- دونوں میں یہ بات مشترک ہے کہ ان میں انسانی زندگی کی کوئی با معنی توجیہہ نہیں ملتی- اِس اعتبار سے، دونوں کے اوپر البرٹ کامو (Albert Camus)کا تبصرہ یکساں طورپر صادق آتا ہے- اُس نے انسانی زندگی کے بارے میں کہا کہ — ہم سب اِس لغو دنیا میں کیوں ہیں ، کیا صرف مرنے کے لیے-
ڈیکارٹ اور سارترے کے مذکورہ اقوال اِس بنیادی سوال کا جواب نہیں دیتے کہ انسانی وجود کا مقصد کیا ہے- انسان کس طرح اپنی زندگی کو کامیاب بنا سکتا ہے- موت سے پہلے کیا ہے اور موت کے بعد کیا- ایسی حالت میں اُس دوسری رائے کو ترجیح کے اصول کی بنیاد پردرست مانا جائے گا جس میں انسانی زندگی کی بامعنی توجیہہ پائی جاتی ہو- یہ رائے وہی ہے جو وحی (revelation) کے ذریعے معلوم ہوتی ہے- یہ رائے زندگی کی بامعنی توجیہہ پیش کرتی ہے اور یہ معنویت اِس بات کا ثبوت ہے کہ یہی رائے درست ہے-
وحی پر مبنی اِس رائے کے مطابق، اِس سوال کا جواب یہ ہے کہ — میں ایک خالق کی تخلیق ہوں- یہی خالق ہے جس نے مجھ کو وجود دیا ہے- یہی خالق ہے جس نے مجھ کو سوچنے کی طاقت دی ہے- اِس خالق کی رحمت کے بغیر میرا کوئی وجود نہیں:
I am a creation of a Creator. It was this Creator Who gave me existence. It was this Creator Who gave me thinking power. I was nothing without the blessing of this Creator.
واپس اوپر جائیں

مسلم فلسفہ، مسلم الہیات

مسلم الہیات (Muslim Theology) اور مسلم فلسفہ (Muslim Philosophy) دونوں معروف اصطلاحیں ہیں، لیکن دونوں میں ایک فرق ہے- مسلم الہیات کی اصطلاح ایک علمی اصطلاح ہے، جب کہ مسلم فلسفہ کی اصطلاح کوئی علمی اصطلاح نہیں-الہیات مبنی بر وحی علم کا نام ہے، جب کہ فلسفہ ایک ایسے علم کا نام ہے جو مکمل طورپر مبنی بر عقل (reason-based) ہوتا ہے- اسلام میں عقل کو وحی کے تابع قرار دیاگیا ہے، جب کہ فلسفہ میں عقل کو مکمل طور پر آزاد سمجھا جاتا ہے-
فلسفہ ایک مستقل علمی شعبہ ہے- تاریخ کے بڑے بڑے دماغ فلسفہ کے موضوع پر غور وفکر کرتے رہے ہیں- فلسفہ کی تعریف (definition) یہ ہے — کائنات کی حقیقت کی تلاش آزاد طورپر صرف عقل کی روشنی میں:
Pursuit of the ultimate nature of the universe purely through rational analysis.
یہ فلسفیانہ تصور اسلام کے تصورِ علم کے مطابق نہیں- اسلام کے تصور کے مطابق، انسان اپنے آزاد عقلی غور فکر کے ذریعے صرف محدود علم تک پہنچ سکتا ہے، کلی حقیقت تک نہیں(17:85)- فلسفہ کا تصورِ علم اِس کے بالکل مختلف ہے- فلسفہ اِس تصورِ علم پر مبنی ہے کہ انسان اپنی عقل کے ذریعے تمام حقیقتوں تک پہنچ سکتا ہے، حقیقتِ کائنات کی دریافت صرف عقل کے ذریعے ممکن ہے-
عباسی دور میں مسلم فلسفہ وجود میں آیا- مسلم فلسفہ کا تصور صرف مرعوبانہ ذہن کی پیداوار تھا، کیوں کہ اُس زمانے میں فلسفہ کو سب سے بڑا علم (Queen of Art) سمجھا جاتا تھا- حقیقت یہ کہ اسلام میں فلسفہ نہیں، بلکہ الہیات ہے- اسلام میں علمِ کلام، اِسی مقصد کے لیے وجود میں آیا تھا، لیکن قدیم زمانے سے مسلم متکلمین اپنے غیر سائنسی ذہن کی بنا پر اس کو صحیح نہج پر ڈیولپ (develop) نہ کرسکے-
واپس اوپر جائیں

زندگی کی حقیقت

مطالعہ بتاتا ہے کہ ہماری دنیا جوڑے (pairs) کے اصول پر بنی ہے۔ یہاں ہر چیز جوڑے جوڑے کی صورت میں ہے— الکٹران اور پروٹان، میل پلانٹ اور فی میل پلانٹ (male plant- female plant)، ہی اینمل اور شی اینمل (he animal-she animal) عورت اور مرد، اسی طرح خود دنیا (world) جوڑے کی صورت میں ہے، نیگٹیو ورلڈاور پازیٹیو ورلڈ۔
دنیا کا ایک جوڑا وہ ہے، جو آئیڈیل اور پرفیکٹ ہے۔ وہ ہر قسم کی محدودیت (limitations)سے پاک ہے۔ وہاں انسان کی تمام تمنائیں اپنی کامل صورت میں پوری ہوں گی۔ یہ کامل دنیا صرف منتخب لوگوں کو استحقاق (merit) کی بنیاد پر ملے گی۔ استحقاق کے بغیر کوئی اس دنیا میں داخلہ پانے والا نہیں۔
موجودہ دنیا اسی منصوبہ کا ابتدائی اور عارضی حصہ ہے۔ اس منصوبہ کے تحت، موجودہ دنیا انتخابی میدان (selective ground) کے طورپر بنائی گئی ہے۔ یہاں جو لوگ پیداکئے جاتے ہیں، وہ اس لیے پیدا کئے جاتے ہیں، تاکہ یہاں کے حالات میں رکھ کر دیکھا جائے کہ ان میں سے کون اگلی کامل دینا میں بسائے جانے کا اہل ہے اور کون اس کا اہل نہیں۔ اہل افراد کو منتخب کرکے اگلی کامل دنیا میں ہمیشہ کے لیے آباد کردیا جائے گا اور بقیہ لوگ جو اس جانچ میں پورے نہیں اتریں گے وہ قابلِ رد (rejected lot) قرار پائیں گے۔
لوگوں کا یہ انتخاب (selection) کس بنیاد پر ہوگا۔ خالق کے منصوبہ کے مطابق، اس کی بنیاد صرف ایک ہے، وہ یہ کہ کس نے آزادی کا غلط استعمال کیا اور کس نے اس کا صحیح استعمال کیا۔ ملی ہوئی آزادی کا صحیح استعمال یا غلط استعمال ہی وہ واحد معیار ہے جس کے مطابق، لوگوں کے ابدی مستقبل کا فیصلہ کیا جائے گا۔
خالق کے منصوبہ کے مطابق، صحیح انسان وہ ہے جو اپنے آپ کو ماحول کی کنڈیشننگ سے بچائے۔ جو خالق کے بتائے ہوئے نقشہ کے مطابق زندگی گزارے، جو موت سے پہلے کے مرحلۂ حیات میں، موت کے بعد کے مرحلۂ حیات کے مطابق، اپنے آپ کو تیار کرے۔
موجودہ دنیا میں ہر عورت اور مرد اسی جانچ (test) پر ہیں۔ خالق کے منصوبہ کے مطابق ہرعورت اور مرد کا ریکارڈ تیار کیا جارہا ہے۔ جب تاریخ کے خاتمہ پر انسان کا اگلا دور شروع ہوگا، اس وقت انسانوں کا خالق ظاہر ہو کر سامنے آجائے گا۔
یہ فیصلہ کا دن ہوگا۔ اس وقت تمام پیدا ہونے والے عورت اورمرد خالق کے سامنے حاضر کئے جائیں گے۔ اس وقت خالق اپنے تیار کئے ہوئے ریکارڈ کے مطابق، ہر ایک کے ابدی مستقبل کا فیصلہ کرے گا۔ یہ فیصلہ تمام تر انصاف کی بنیاد پر ہوگا۔ اور پھر کسی کو ابدی جنت میں آباد کیا جائے گا اور کسی کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ حالات بتاتے ہیں کہ یہ آنے والا دن بہت قریب آچکا ہے۔ اب آخری وقت آگیا ہے جب کہ انسان جاگے اور آنے والے ابدی دورِ حیات کی تیاری کرے۔
واپس اوپر جائیں

علمی طرزِ استدلال

استدلال کی دو قسمیں ہیں — قیاسی استدلال اور علمی استدلال- قیاسی استدلال وہ ہے جس میں ایک مفروضہ کو بنیاد بنا کر اپنی بات ثابت کی گئی ہو- مثال کے طور پر ایک شخص یہ کہے کہ مسلمان کا منصب یہ ہے کہ وہ عالمی قیادت حاصل کرے- یہ کہہ کر وہ عالمی قیادت کے حصول کی تحریک چلا دے-اِس قسم کا استدلال ایک قیاسی استدلال ہے اور اِس بنا پر وہ بے بنیاد استدلال کی حیثیت رکھتا ہے- کیوں کہ سارے قرآن میں کہیں بھی یہ لکھا ہوا نہیں ہے کہ مسلمان کا منصب عالمی قیادت ہے- اِس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ عالمی قیادت کے حصول کی کوشش کریں- اِس قسم کا استدلال بھی بے بنیاد ہے اور اِس قسم کے استدلال کو لے کر جو تحریک کھڑی کی جائے، وہ بھی بے بنیاد -
علمی استدلال وہ ہے جو کسی ثابت شدہ حقیقت پر قائم ہو- مثلاً اگر آپ یہ کہیں کہ مسلمان کا فرضِ منصبی شہادت علی الناس ہے اور اِس بنا پر مسلمانوں کو یہ کرنا چاہیے کہ وہ اہلِ عالم کے سامنے دینِ خداوندی کے گواہ بن کر کھڑے ہوں- یہ استدلال ایک علمی استدلال کہاجائے گا اور یہ تسلیم کیا جائے گا کہ وہ ایک حقیقی بنیاد پر قائم ہے- کیوں کہ اِس استدلال کے حق میں واضح قرآنی آیات موجود ہیں- یہ آیات غیر مشتبہ طور پر ثابت کرتی ہیں کہ مسلمان کا یا امتِ مسلمہ کا منصب یہی ہے-
دعوی کبھی مبنی بر عقل ہوتا ہے اور کبھی مبنی بر نقل- اگر دعوے کا تعلق ایسے معاملے سے ہو جو عقل (reason) سے تعلق رکھتا ہو تو ایسی بات کو ثابت کرنے کے لیے ضروری ہوگا کہ اُس کے حق میں کوئی ایسا عقلی ثبوت (rational proof) دیا جائے جو عقلی تجزیہ کے اصول پر ایک ثابت شدہ حقیقت کی حیثیت رکھتا ہو- اِس طرح اگر دعوی نقل سے تعلق رکھتا ہو تو ضروری ہوگا کہ نقل کے مستند ذرائع، یعنی قرآن وسنت کے حوالوں سے وہ غیر مشتبہ طورپر ثابت ہورہا ہو- نقل سے متعلق جس دعوے کے حق میں قرآن وسنت کا واضح حوالہ موجود نہ ہو، وہ ایک غیر علمی استدلال مانا جائے گا اور اس کو رد کردیا جائے گا-
واپس اوپر جائیں

علم کی دوقسمیں

علم کی دو قسمیں ہیں — ایک وہ علم جس کا تعلق انسانی فکر اور انسانی زندگی سے ہوتا ہے- ایسے علم کو اصطلاح میں علمِ انسانی (humanities) کہا جاتا ہے- دوسرا علم وہ ہے جس کا تعلق مادی شعبہ سے ہے- ایسے علوم کو سائنسی علوم کہاجاتا ہے- دونوں قسم کے علم کے مطالعے کے طریقے الگ الگ ہیں- ایک علم کے طریقے کو دوسرے علم کے معاملے میں استعمال نہیں کیا جاسکتا-
مثلاً سائنسی علوم کی بنیاد ریاضیات (mathematics) پر ہے- ایسے علوم میں قطعی استدلال یا ناقابلِ انکار استدلال ممکن ہوتا ہے- ان کو دو اور دوچار کی طرح ثابت کیا جاسکتا ہے- اِس لیے سائنسی علوم میں اختلاف نہیں پایا جاتا-
سائنسی علوم میں یہ ممکن ہوتا ہے کہ کسی موضوع پر مختلف اہلِ علم کا اتفاقِ رائے حاصل کرلیا جائے- مگر علمِ انسانی (humanities) میں اِس قسم کا ریاضیاتی استدلال ممکن نہیں- اِس لیے علمِ انسانی کے معاملے میں لازمی اتفاقِ رائے بھی ممکن نہیں-
دونوں قسم کے علوم میں اِس فرق سے ایک اہم اصول معلوم ہوتا ہے، وہ یہ کہ جو شخص علمِ انسانی یا مذہب کے معاملے میں یقین کا درجہ حاصل کرنا چاہے، اُس کو یہ توقع نہیں رکھنا چاہئے کہ یہاں سائنسی علوم کی مانند ریاضیاتی استدلال ممکن ہوجائے گا- حقیقت یہ ہے کہ انسانی علوم کا معاملہ ففٹی ففٹی کے اصول پر مبنی ہے- پچاس فی صد استدلال (reasoning) اور پچاس فی صد وجدان (intuition)-
پہلے جزء کا تعلق معلومات (information) سے ہے، اور دوسرا جزء معرفت یا حقیقت شناسی (realization of truth) سے تعلق رکھتا ہے- جو آدمی صرف معلومات کو جانتا ہو، مگر اس کے اندر حقیقت شناسی کی صلاحیت موجود نہ ہو، وہ ہمیشہ ذہنی انتشار (confusion) میں مبتلا رہے گا، وہ کبھی سچائی تک پہنچ نہ سکے گا-
واپس اوپر جائیں

سوال وجواب

سوال
آپ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ— ’’ قرآن ایک اعتبار سے، کتاب وحی ہے اور دوسرے  اعتبارسے کتابِ انقلاب ہے- پہلے اعتبارسے، وہ رہنما اصول (guiding principles) کا مجموعہ ہے اور دوسرے اعتبار سے، اس کے ذریعے ایک ایسا عمل (process) جاری ہوا جو اپنے تکمیلی مرحلے میں پہنچ کر معرفتِ اعلی کا ذریعہ بن گیا‘‘-اِس کی مزید وضاحت فرمائیں-(ایک قاری الرسالہ، نئی دہلی)
جواب
اِس معاملے کو سمجھنے کے لیے قرآن کے حسب ذیل دو ارشادات کا مطالعہ کیجئے:
1- اَلْیَوْمَ اَ کْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا (5:3) یعنی آج میں نے تمھارے لیے تمھارے دین کو پورا کردیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کردی اور تمھارے لیے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کرلیا-
2- وَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ سَیُرِیْکُمْ اٰیٰتِہٖ فَتَعْرِفُوْنَہَا(27:93) یعنی کہو کہ تمام حمد اللہ کے لیے ہے- وہ تم کو اپنی نشانیاں دکھائے گا تو تم اُن کو پہچان لوگے-
قرآن کی اِن آیتوں میں ایک خاص فرق ہے، وہ یہ کہ پہلی آیت میں جو بات کہی گئی ہے،وہ صیغۂ حال (present tense)میں ہے- اور دوسری بات صیغۂ استقبال (future tense) میں کہی گئی ہے- اِس فرق سے واضح طورپر معلوم ہوتا ہے کہ پہلی آیت میں جو بات کہی گئی ہے، وہ ایک ایسی بات ہے جو نزولِ قرآن کے زمانے میں حاصل ہوگئی- اِس کے برعکس، دوسری آیت میں جو بات کہی گئی ہے، وہ بعد کے زمانے میں حاصل ہوگی، یعنی آفاق وانفس میں ظہورِ آیات-
سوال
الرسالہ میں آپ بار بار لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کو سیاسی ماڈل کے بجائے دعوتی ماڈل اختیار کرنا چاہیے- دعوتی ماڈل سے آپ کی مراد کیاہے، اِس کو واضح فرمائیں-(محمد امان اللہ، دہلی)
جواب
آج کل یہ حال ہے کہ جس شخص کے دل میں بھی کام کا جذبہ پیداہوتا ہے، وہ فوراً سیاسی انداز میں کام کرنا شروع کردیتاہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں کام کا سیاسی ماڈل بہت زیادہ معروف ہوگیا ہے۔ اِس بنا پر لوگوں کا یہ حال ہے کہ وہ سیاسی ماڈل کے سوا کسی اور ماڈل کا تصور نہیں کرپاتے۔مگر حقیقت یہ ہے کہ کام کا سب سے زیادہ بہتر، اور سب سے زیادہ نتیجہ خیز ماڈل وہ ہے جس کو دعوتی ماڈل کہاجاسکتا ہے۔ دعوتی ماڈل سے مراد نظریاتی ماڈل ہے، یعنی ایک فکر یا ایک آئڈیالوجی کی بنیاد پر پُرامن جدوجہد کرنا۔ انسان ایک سوچنے والا وجود (thinking being)ہے۔ اِس لیے فکری ماڈل فوراً اس کو اپیل کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ داعی کے پاس اگر ایک حقیقی آئڈیالوجی ہو تو وہ انتہائی حد تک طاقت ور بن جائے گا۔ حقیقت پر مبنی فکر گویا ایک نظریاتی بم (ideological bomb) کی حیثیت رکھتا ہے، جو تمام طاقت ور چیزوں سے زیادہ طاقت ور ہے۔
سوال
الرسالہ میں آپ نے کئی بار لکھا ہے کہ مسلمانوں کو اپوزیشن کی سیاست سے بچنا چاہیے- براہِ کرم، اِس معاملے کی مزید وضاحت فرمائیں (محمدشارق، سری نگر)
جواب
سیاست چلتی ہے ٹکراؤ پر— یہ مقولہ سیاست یا پولٹکل ایکٹوزم (political activism) کو درست طور پر بتاتا ہے ۔ سیاست ٹکراؤ کا کلچر ہے۔ سیاست میں ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ ایک مد مقابل (rival) بنا کر اُس کے خلاف مہم چلائی جاتی ہے۔ ابتداء ً یہ مہم پرامن طورپر شروع ہوتی ہے۔ بعد کو دھیرے دھیرے وہ نفرت اور تشدد اور جنگ تک پہنچ جاتی ہے، حتی کہ جب مقصد حاصل نہیں ہوتا تو وہ خودکش بم باری (suicide bombing) جیسی تباہ کن صورتِ حال اختیار کرلیتی ہے۔
اپوزیشن کی سیاست (politics of opposition) بلاشبہہ شیطان کی سنت ہے۔ آدم کی تخلیق کے وقت ابلیس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مقابلے میں جو روش اختیار کی اور جس طرح اُس نے آدم کے آگے جھکنے سے انکار کیا، وہ آج کل کی زبان میں گویا اپوزیشن کی سیاست تھی۔ اِس روش کا نتیجہ یہ ہوا کہ شیطان ابدی طورپر اللہ کی رحمت سے محروم ہوگیا۔ اُس کے لیے یہ مقدر ہوگیا کہ وہ ہمیشہ کے لیے نفرت اور عداوت میں جئے اور کبھی وہ اُس سے نکل نہ سکے۔ابلیس کا یہ انجام انسانی نسلوں کے لیے ایک سبق ہے۔ انسانوں میں سے جو لوگ اپوزیشن کی سیاست کریں، وہ ابلیس کی اِسی سنت پر چل رہے ہیں۔ اپوزیشن کی سیاست دوسرے لفظوں میں، منفی سیاست ہے، اور منفی سیاست سے کبھی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوسکتا، نہ سیاسی لیڈروں کے لیے اور نہ اُن لوگوں کے لیے جو ایسے لیڈروں کا ساتھ دیں۔کشمیر اور دوسرے مقامات کے مسلمان جو اپوزیشن کی سیاست میں مشغول ہیں، وہ ایسا کرکے ایک بہت بڑا رِسک (risk) لے رہے ہیں۔ یہ اللہ کی رحمت سے محرومی کا رِسک (خطرہ) ہے۔ اور بلاشبہہ اللہ کی رحمت سے محرومی اتنی بری چیز ہے کہ اُس سے زیادہ بری چیز اور کوئی نہیں۔
سوال
پیغمبر کے زمانے کے لوگوں کو پیغمبر کی صحبت کے ذریعے اللہ کی معرفت مل گئی تھی- سوال یہ ہے کہ پیغمبر کے بعد کے لوگوں کو یہ معرفت کیسے حاصل ہوگی- (ایک قاری الرسالہ، نئی دہلی)
جواب
کسی انسان کی سب سے بڑی دریافت یہ ہے کہ وہ اللہ کی معرفت حاصل کرے- اللہ کی معرفت کوئی پراسرار چیز نہیں- یہ علمِ انسانی (human knowledge) کا اعلی ترین درجہ ہے- جس آدمی کو حقیقی معنوں میں اللہ کی معرفت حاصل ہوجائے، وہ اس کی پوری زندگی میں شامل ہوجائے گی- وہ فکر سے لے کر عمل تک اس کی پوری شخصیت کی تشکیل کرے گی-غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ معرفت کے دو درجے ہیں — ایک ہے مبنی بر صحبت معرفت اور دوسرا ہے مبنی بر علم معرفت- پیغمبر کی زندگی میں جو لوگ پیغمبر پر ایمان لاتے ہیں، ان کو صحبتِ رسول کے ذریعے اللہ کی معرفت کا رزق حاصل ہوتا ہے- پیغمبر کے بعد بھی معرفت کی حیثیت ایک اعلی ایمانی مطلوب کی ہوتی ہے، لیکن پیغمبر کے بعد معرفت کے حصول کا ذریعہ علم ہے- علمِ وحی بھی اور علمِ انسانی بھی-
واپس اوپر جائیں