Pages

Thursday 1 August 2002

Al Risala | August 2002 (الرسالہ،اگست)

2

- جودھ پور کا سفر

41

- ایک خط

43

- خبر نامہ اسلامی مرکز


جودھ پور کا سفر

جودھ پور (راجستھان) میں پانی کے مسئلہ پر ۱۰۔ ۱۱ مئی ۲۰۰۲ء کو ایک سمّیلن ہوا۔ اس کا عنوان تھا سرو دھرم جل سمّیلن۔ اس سمّیلن کا اہتمام ترُن بھارت سنگھ اور جَل بھاگیرتھی فاؤنڈیشن دونوں نے مل کر کیا تھا۔ جودھ پور کے مہاراجہ گج سنگھ نے اس سمّیلن کا افتتاح کیا اور میزبانی کے فرائض انجام دئیے۔
مجھے اس سمّیلن میں شرکت کرنے کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ اُس وقت میں سفر کرنے کے قابل نہ تھا۔ میں نے کہا کہ میں صرف اس صورت میں آسکتا ہوں جب کہ آپ کا کوئی شخص مجھ کو میرے گھر سے پک اپ کرے اور واپسی میں مجھ کو میرے گھر پر ڈراپ کرے۔ اُنہوں نے فوراً یہ صورت منظور کرلی اور مسٹر بابو لال شرما (گاندھی پیس فاؤنڈیشن) کے پاس دو ریٹرن ٹکٹ بھیج دیے تاکہ وہ مجھ کو میرے گھر سے لے جائیں اور واپسی میں دوبارہ مجھے میرے گھر تک پہنچا دیں۔
سفر ملکی ہو یا غیر ملکی، وہ ہمیشہ میرے لیے غیر مطلوب چیز کی حیثیت رکھتا ہے۔ میں ہر سفر میں بادِلِ ناخواستہ جاتا ہوں اور جلد سے جلد واپس آنے کی کوشش کرتا ہوں۔ مگر تجربہ بتاتا ہے کہ سفر کے غیرمعمولی فائدے ہیںـــــــنئے مقامات کو دیکھنا، نئے لوگوں سے ملنا، نئے قسم کے واقعات کا پیش آنا، نئی نئی معلومات کاحصول، غرض سفر اپنے اندر بہت سے افادی پہلو رکھتا ہے۔ کتابی مطالعہ آدمی کو بہت کچھ دیتا ہے مگر سفروں کے ذریعہ آدمی کو جو تجربات حاصل ہوتے ہیں وہ لائبریری میں بیٹھ کر کتابوں کے مطالعہ کے ذریعہ حاصل نہیں ہوسکتے۔
بہت سے سفروں کو چھوڑنے کے باوجود اب تک مجھے تقریباً ڈیڑھ سو بار ہوائی جہاز کا سفر پیش آیا ہے۔ جہاں تک دوسرے سفروں کا تعلق ہے، وہ اتنے زیادہ ہیں کہ اُن کی تعداد بتانا مشکل ہے۔ میںجب بھی سفر کرتا ہوں، ہمیشہ کسی کانفرنس کے دعوت نامہ کے تحت کرتا ہوں۔ دورہ کی قسم کا سفر میرے ذوق کے مطابق نہیں اورنہ میں نے کبھی دورہ کے انداز کا کوئی سفر کیا۔
۱۰ مئی ۲۰۰۲ ء کی صبح کو ساڑھے پانچ بجے مسٹر بابو لال شرما کے ساتھ روانگی ہوئی۔ ہماری گاڑی دہلی ایر پورٹ کے قریب پہنچ چکی تھی کہ پیچھے سے ایک زبردست جھٹکا سنائی دیا۔ گاڑی رُک گئی، معلوم ہوا کہ ایک ٹیکسی نے پیچھے سے ٹکر مار دی۔ ٹیکسی ڈرائیور سے پوچھا گیا تو اس نے نہایت اطمینان کے ساتھ جواب دیا کہ بریک نہیں لگی۔ ڈرائیور کے نزدیک اُس کا یہ عذر کافی تھا۔ حالانکہ اس کے اس جواب کے باوجود یہ سوال بدستور اپنی جگہ قائم تھا کہ جب تمہارا بریک ٹھیک نہیں ہے تو اپنی گاڑی سڑک پر کیوں دوڑاتے ہو۔
لوگ اکثر اپنے ذہن کے مطابق، ایک جواب دے کر مطمئن ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ اُن کا جواب صرف کچھ غیر متعلق الفاظ کا مجموعہ ہوتا ہے، نہ کہ حقیقی معنوں میں اصل مسئلہ کا کوئی جواب۔
ہمارا سفر جٹ ایرویز کے ذریعہ ہونے والا تھا۔ دہلی ایر پورٹ پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ فلائٹ ساڑھے تین گھنٹہ لیٹ ہے۔ یہ خبر میرے لیے ایک حادثہ سے کم نہ تھی۔ مگر جلد ہی وقت کا ایک اچھا استعمال مل گیا۔ میں کچھ ہم سفروں کے ساتھ بات چیت میں مشغول ہوگیا۔ اور پھر یہ وقت آسانی کے ساتھ گذر گیا۔
میں ایر پورٹ کی انتظار گاہ میں بیٹھا ہوا تھا۔ اچانک ایک صاحب ایک خاتون کے ساتھ وہاں آکر میرے سامنے بیٹھ گئے ۔ وہ کشمیری مسلمان تھے۔ خاتون کی گود میںایک بچہ تھا۔ آنے والا مسافر میرے لیے اجنبی تھا۔ اُس نے السلام علیکم کے بعد کہا: حضرت ، آپ کوئی بزرگ معلوم ہوتے ہیں۔ میرے بچے کے لیے دعا کیجئے ، اللہ آپ کی دعا کو قبول فرمائے گا۔ اس کے بعد اُنہوں نے اپنا دو سالہ بچہ میرے سامنے کردیا جو پیدائش کے وقت سے ہی کسی نامعلوم بیماری میں مبتلا تھا۔ وہ اس کے علاج کے لیے دہلی آئے تھے۔ ڈاکٹر بچہ کے مرض کی تشخیص نہ کرسکے اس لیے اب وہ واپس ہو کر سری نگر جارہے تھے۔ میں نے بچہ کی صحت کے لیے دعا کی۔دعا ایک اعتبار سے عبادت ہے اور دوسری اعتبار سے وہ تدبیر ہے۔
پچھلے دنوں میری ملاقات دہلی میں ایک صاحب سے ہوئی۔ اُن کا تعلق ایک یونیورسٹی سے تھا۔ اُنہوں نے کہا کہ یونیورسٹیوں میں آج کل ہر جگہ گروپ بندی ہوتی ہے۔ آپ کا کسی ایک گروپ سے وابستہ ہونا ضروری ہے۔ کیوں کہ اگر کوئی مسئلہ پیدا ہو تو یہ گروپ آپ کا ساتھ دیتا ہے۔
میں نے کہا کہ آپ کے مسئلہ کا ایک اور حل بھی ہے۔ وہ یہ کہ آپ گروپ کو ساتھ لینے کے بجائے خدا کو اپنے ساتھ لینے کی کوشش کریں۔ مثلاً آپ کے ڈیپارٹمنٹ کاایک آدمی آپ کے خلاف ہوگیا اور آپ کو بدنام کرنا شروع کردیا۔ توآپ اس معاملہ میں گروپ سے مدد لینے کے بجائے خدا سے مدد لیجئے۔ وہ یہ کہ ایک طرف آپ خدا سے دعا کریں اور دوسری طرف قرآن (حٰم السجدہ ۳۴) کے فارمولا کو استعمال کرتے ہوئے اپنے مخالف کے ساتھ یک طرفہ حسن سلوک کا معاملہ کریں اور اس کے بعد آپ دیکھیں گے کہ آپ کا مسئلہ معجزاتی طورپر حل ہوگیا ہے۔
ایر پورٹ پر مسٹر راجیندر سنگھ سے تفصیلی گفتگو ہوئی۔ وہ جے پرکاش نرائن کے بہت معترف تھے۔ انہوں نے ۱۹۷۷ کے جے پی آندولن میں اُن کا بھر پور ساتھ دیا تھا۔
گفتگو کے دوران انہوں نے کہا کہ جے پرکاش نرائن ایک غم زدہ (sad) انسان کی حیثیت سے دنیا سے گئے۔ میں نے کہا کہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جے پرکاش نرائن اپنے آپ کو ایک ناکام انسان سمجھتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ وہ ایک کامیاب انسان تھے۔ انہوں نے اپنے نان کانگریس ازم کے نشانہ کو اپنی زندگی میں پورا کیا۔
میںنے کہا کہ جے پرکاش نرائن کے اپنے نعرہ کے مطابق، اُن کا مشن پورن سوراج ــــــ(ٹوٹل ریولیوشن) تھا۔ اُن کا نشانہ صرف کانگریس کو اقتدار سے ہٹانا نہیں تھا بلکہ اُس کے بعد ملک میںدوسرا زیادہ بہتر راج لانا تھا۔ جے پرکاش نرائن اپنے مشن کے سلبی پہلو میں تو کامیاب ہوئے مگر وہ اپنے مشن کے ایجابی پہلو میں مکمل طورپر ناکام ہوگئے۔ گویا اُن کا پورن سوراج صرف آدھا سوراج بن کر رہ گیا۔ مسٹر راجیندر سنگھ جے پی کے گہرے عقیدت مند تھے، اس لیے وہ یہ ماننے پر راضی نہ ہوسکے کہ جے پرکاش نرائن کا پورن سوراج صرف ابتدائی آدھے حصہ کے اعتبار سے کامیاب تھا اور بقیہ آدھے حصہ میں وہ پوری طرح ناکام رہا۔ اس طرح کی باتیں ہوتی رہیں یہاں تک کہ ایر پورٹ کے اناؤنسر نے اعلان کیا کہ جودھ پور کی فلائٹ روانگی کے لیے تیار ہے۔ چنانچہ ہم لوگ چل کر جہاز کے اندر داخل ہوگئے۔
جٹ ایر ویز ایک پرائیویٹ ایر ویز ہے۔ ہندستان میں پہلے ہوا بازی صرف سرکاری زمرہ سے تعلق رکھتی تھی۔ لبرلائزیشن کی پالیسی اختیار کرنے کے بعد بہت سی پرائیویٹ ہوائی کمپنیاں بنائی گئیں، مگر اُن میں سے اکثر ناکام رہیں۔ اب صرف چند کمپنیاں زندہ ہیں اور کامیابی کے ساتھ چل رہی ہیں۔
دہلی سے جودھ پور کے لیے روانگی ہوئی۔ پرواز کے دوران فلائٹ میگزین دیکھا۔ اس میں ایک معلوماتی مضمون شامل تھا جس کا عنوان یہ تھا:
Foot prints in the snow
میجر جنرل شرما نے علم گلیشیر(glaciology) میںاعلیٰ ڈگری سوئزر لینڈ سے حاصل کی ہے۔ وہ ہندستانیوں کی اس ٹیم کے لیڈر تھے جو برفانی علاقہ کے مطالعہ کے لیے انٹارکٹکا گئی تھی۔ اُنہوں نے واپسی کے بعد اپنے تجربات کی بنیاد پر ایک کتاب لکھی جس کا نام یہ ہے:
Breaking the Ice in Antarctika
یہ مضمون اُن کی اس کتاب کا تعارف تھا ۔ اس میں انٹارکٹکا کے بارے میںبہت سی باتیں بتائی گئی تھیں۔ مثلاً وہاں کا درجۂ حرارت نقطۂ انجماد سے ۸۹ درجہ نیچے ہوتا ہے۔ وہاں جو گھر بنائے جاتے ہیں وہ مسلسل متحرک رہتے ہیں۔ برفانی علاقہ کی چڑیاپنگوئن (Penguin) اپنے مخصوص مزاج کی بنا پر انسانوں کے قریب آکر بیٹھ جاتی ہے۔
جنرل شرما مہم پسند آدمی ہیں۔ وہ اکثر اس طرح کی مہموں میں جاتے رہتے ہیں۔ اس مضمون کا خاتمہ ان الفاظ میں کیا گیا تھا:
For some men life is all about taking risks.
کہا جاتا ہے کہ رسک کے بغیر کامیابی نہیں(No risk, no gain) ۔ یہ اصول ہر آدمی کے لیے صحیح ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ کوئی آدمی جتنا بڑا رسک لینے کی ہمت کرے گا اُتنی ہی بڑی کامیابی اُس کو حاصل ہوگی۔ تاہم رسک کو منصوبہ بند رِسک (calculated risk) ہونا چاہیے ، نہ کہ بے سوچی سمجھی چھلانگ۔
پرواز کے دوران جہاز معمول سے کچھ زیادہ ہلتا رہا۔ میں نے سوچا کہ ہوائی جہاز کی ایجاد نے پہلی بار انسان کو ایک خلائی حقیقت کا عملی تجربہ کرایا ہے۔ زمین وسیع خلاء میں ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑ رہی ہے۔ یہ سفر رُکے بغیر مسلسل طورپر جاری ہے۔ مگر وسیع خلاء میں یہ تیز رفتار سفر اتنا زیادہ پُر سکون ہے کہ انسان کو کبھی احساس نہیں ہوتا کہ وہ ایک تیز رفتار سواری کے اوپر حالت سفر میں ہے۔ ہوائی جہاز کا سفر ایک انسان کو اس عظیم قدرت خداوندی کا عملی تجربہ کراتا ہے کہ زمین کو کنٹرول کرنے والی ہستی کتنی عظیم طاقت کی مالک ہے۔ زمین بھی گویا ایک بہت بڑا ہوائی جہاز ہے ۔ زمین اگر ہوائی جہاز کی طرح ہلتی رہتی یا اس کے ساتھ وہ معاملہ پیش آتا جس کو اَپ ڈرافٹ، ڈاؤن ڈرافٹ کہا جاتا ہے تو اس کے اوپر زندگی گزارنا اتنا زیادہ مشکل ہوجاتا جس کا تصور ہی دہشت زدہ کرنے کے لیے کافی ہے۔
اسی طرح ہوائی جہاز اپنے سفر کے دوران نہایت تیز آواز نکالتا ہے ۔ اگر اسی قسم کی آواز زمین میں ہوتی تو زمین پر اتنا زیادہ شور ہوتا کہ زمین پر کوئی بامعنٰی سرگرمی ہی ناممکن ہوجاتی۔ اسی طرح ہوائی جہاز کے وزن کا تقریباً تہائی حصہ پٹرول ہوتا ہے۔ اگر زمین کے ساتھ پٹرول جیسا کوئی ایندھن رکھنا ضروری ہوتا تو اُس کی وجہ سے اتنا بڑامسئلہ پیدا ہوتا کہ زمین کا سارا نظام درہم برہم ہوجاتا۔
اس سفر میں مسٹر بابو لال شرما ایم اے برابر میرے ساتھ رہے۔ وہ ایک برہمن ہیں۔ مگر میں نے دیکھا کہ وہ اچھی اردُو بولتے ہیں۔ مسلمانوں کے بارے میں اُن کے اندر نرم گوشہ (soft corner) ہے۔ مثلاً گجرات کے فرقہ وارانہ فسادات، (جو ۲۷ فروری ۲۰۰۲ کو شروع ہوئے اور مئی ۲۰۰۲کے وسط تک جاری رہے) کے معاملہ میں سب سے زیادہ قصور وار ہندوؤں کو ٹھہراتے تھے، وغیرہ۔
مزید بات چیت سے اندازہ ہوا کہ مسلمانوں کے بارے میں اُن کے اس دوستانہ مزاج کا سبب یہ ہے کہ وہ پُرانی دہلی میں مسلم علاقہ میں پیدا ہوئے۔ اُن کی تعلیم بیگ صاحب کے اسکول (رودگراں) اور دلّی کالج (اجمیری گیٹ) میں ہوئی۔ وہ میر مشتاق اور نورالدین بیرسٹر اور دوسرے مسلمانوں سے کافی قریب رہے۔
میرا تجربہ ہے کہ انڈیا کے ہندوؤں میں دو قسم کے لوگ ہیں۔ ایک وہ ہندو جن کو مسلمانوں کے درمیان رہنے کا موقع ملا، جنہوں نے مسلمانوں کو براہ راست تعلق کے ذریعہ دیکھا اور جانا۔ دوسرے ہندو وہ ہیں جو مسلمانوں کو صرف اخبار یا میڈیا کی خبروں اور رپورٹوں کے ذریعہ جانتے ہیں۔ پہلی قسم کے ہندو عام طورپر مسلمانوں کے لیے دوستانہ اور ہمدردانہ جذبات رکھتے ہیں۔ البتہ دوسری قسم کے ہندو مسلمانوں کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتے، وہ مسلمانوں کے متعلق طرح طرح کی بدگمانیوں میں مبتلاہیں۔
میں نے ایک صاحب سے کہا کہ اس تجربہ کی روشنی میں غور کیجئے تو ۱۹۴۷ سے پہلے جن مسلم لیڈروں نے ہندو ۔مسلم مسئلہ کا حل دو قومی نظریہ اور علیٰحدگی میں تلاش کیا، اُس کا زیادہ بہتر حل یک قومی نظریہ اور اتحاد میںتھا۔ یعنی اُن کو چاہئے تھا کہ وہ مسلمانوں کو یہ مشورہ دیں کہ تم لوگ زیادہ سے زیادہ ہندؤوں کے ساتھ مل جل کر رہو۔ تمہاری کوشش یہ ہونی چاہئے کہ ہندو تم کو صرف میڈیا کے ذریعہ نہ جانیں بلکہ براہ راست عملی تعلقات کے ذریعہ جانیں۔ ایسا کرنے کی صورت میں سارا انڈیا مسلمانوں کے لیے گویا عظیم ترپاکستان ہوتا۔ اقبال جغرافی تقسیم اور پاکستان کے حامی تھے مگر حقیقت یہ ہے کہ اقبال خود اپنے ایک شعر کے مطابق، ایک نادان انسان قرار پاتے ہیں:
تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا ورنہ گلشن میں علاج تنگی ٔداماں بھی ہے
قومیت کے مسئلہ پر ایک صاحب سے بات کرتے ہوئے میں نے کہا کہ آزادی سے پہلے برّصغیر ہند میں اس مسئلہ پر دو نقطۂ نظر تھے۔ ایک اقبال کا۔ اُن کا کہنا تھا کہ قومیت کا تعلق مذہب سے ہے۔ دوسرا نظریہ مولانا حسین احمد مدنی کا تھا۔ اُنہوں نے کہا کہ موجودہ زمانہ میں قومیں اوطان سے بنتی ہیں۔ یعنی عقیدہ کا تعلق مذہب سے ہے اور قومیت کا تعلق وطن سے۔ میرے نزدیک مولانا حسین احمد مدنی کا نظریہ درست تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ مذہب کے اعتبار سے ساری دنیا کے مسلمانوں کا ایک مذہب ہے۔ مگر جہاں تک قومیت کا سوال ہے، اس کا تعلق وطن (homeland) سے ہے، یعنی جس مسلم گروہ کا جو وطن ہے وہی اُس کی قومیت ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ہندستان جیسے ملک پر اگر کوئی مسلم ملک حملہ کرے تو یہ حملہ مسلمانوں کے مذہب پر حملہ نہیں ہوگا بلکہ اُن کے مشترک وطن پر حملہ قرار پائے گا۔ وطن کے خلاف جارحیت کے معاملہ میں مسلمان بھی اُسی طرح دفاع کریں گے جس طرح اُن کے غیر مسلم برادران وطن کریں گے، خواہ یہ حملہ بظاہر کسی مسلم ملک نے کیا ہو یا غیر مسلم ملک نے۔
ڈیڑھ گھنٹہ کی پرواز کے بعد ہمارا جہاز ساڑھے گیارہ بجے جو دھ پورایر پورٹ پر پہنچا۔ حسب معمول میرے ہاتھ میں صرف ایک چھوٹا بیگ تھا۔ میں نے کوئی سامان بُک نہیں کرایا تھا۔ اس لیے کنویر بیلٹ (conveyer belt) پر کھڑے ہونے کی تاخیر کے بغیر میں باہر آگیا۔ یہاں ہمارے میزبان موجود تھے۔ اُن کے ساتھ قیام گاہ کی طرف روانگی ہوئی۔
راستہ میں جودھ پور کے مختلف حصوں کو دیکھنے کا موقع ملا۔ جودھ پور کا شہر سنگی عمارتوں کے ایک جنگل کی صورت میں نظر آیا۔ البتہ درخت اور ہریالی عام شہروں کی بہ نسبت کم تھی۔ دہلی کی طرح چوراہوں پر فقیروں کا گروپ بھی دکھائی نہیں دیا۔ سڑک نہ زیادہ اچھی تھی ، نہ زیادہ خراب۔ اُس کی ظاہری صورت بتا رہی تھی کہ وہ ایک ایسا شہر ہے جو پانی کی کمی کے مسئلہ سے دوچار ہے۔ تاہم ایک چوک پر ایک فوّارہ پانی کا بڑا گلدستہ بناتا ہوا دکھائی دیا۔
آخر کار ہماری گاڑی ایک گیٹ کے اندر داخل ہوئی۔ یہ سی اول فارم ہاؤس (Seoul Farm House) تھا جہاں میرے قیام کا انتظام کیا گیا تھا۔ یہ فارم ہاؤس جودھ پور شہر سے تقریباً بیس کیلو میٹر دو رواقع ہے۔ ہم لوگ اُس کے اندر داخل ہوئے تو گویا صحرا میں نخلستان کا منظر ہمارے سامنے تھا۔ خوبصورت مکانات کے ساتھ درختوں کی قطاریں، سرسبز لان، پھولوں کی کیاریاں، چڑیوں کی آوازیں، چاروں طرف دور تک کھلی فضا، یہ وہ ماحول تھا جس کے اندر سی اول فارم ہاؤس واقع تھا۔
فارم ہاؤس کی جس بلڈنگ میںمجھ کو ٹھہرایا گیا، اس میں جدید طرز کے بنے ہوئے چار وسیع کمرے تھے۔ دو کمرے نیچے او ردو کمرے اوپر۔ منتظمین نے مجھے بوڑھا سمجھ کر نیچے کا کمرہ دینے کا فیصلہ کیا۔ نیچے کے کمرہ میں پہلے سے ایک صاحب موجود تھے، اُس کو خالی کیا جانے لگا۔ مجھ کو معلوم ہوا تو میں نے فوراً منع کردیا۔
میں نے کہا کہ اوپر کا کمرہ میرے لیے زیادہ اچھا ہے۔ آپ لوگ سمجھتے ہیں کہ اوپر ٹھہرنے کی صورت میں مجھ کو سیڑھیوں پر چڑھنا اُترنا ہوگا۔ مگر سیڑھیاں چڑھنا تو میری پسندیدہ ہابی (hobby) ہے۔ یہ میرے لیے ایک بہترین ورزش ہے۔
ہجری کیلنڈر کے لحاظ سے میری عمر تقریباً ۸۲ سال ہے۔ اس عمر میں عام طورپر لوگ آرام کو پسند کرتے ہیں۔ مگر میں خدا کے فضل سے مشقت کو پسند کرتا ہوں۔ سیڑھیاں چڑھنا، اے سی اور کولر کے بغیر کمرہ میں رہنا، سادہ کھانا، روزانہ دیر تک ٹہلنا، اپنا کام خود کرنا، رات کو غیر آرام دہ بستر پر سونا، بے مسئلہ انسان بن کر رہنا، وغیرہ۔
جودھ پور موجودہ راجستھان کا ایک ضلع ہے۔ آزادی سے پہلے وہ راجپوتانہ کی ایک اسٹیٹ کی حیثیت رکھتا تھا۔ جودھ پور کی بنیاد ۱۴۵۹ میں ڈالی گئی۔ اُس کے بانی راؤ جودھا تھے جو اس علاقہ کے ایک راجپوت سردار تھے۔ موجودہ شہر جودھ پور قدیم ریاست جو دھ پور کا مرکزی مقام تھا۔ اٹھارہویں صدی کی ایک بلند دیوار اور دوسری تاریخی عمارتیں جودھ پور کے قدیم دو رکی یاد دلاتی ہیں۔ یہاںایک قدیم قلعہ بھی ہے جس کے اندر میوزیم واقع ہے۔ شہر کے شمال میں اب بھی کچھ کھنڈرات ہیں جو چوتھی صدی عیسوی کے مانڈو کی یادگار ہیں۔ یہ کھنڈر قدیم مارواڑ سلطنت کے بچے ہوئے آثار ہیں۔
جودھ پور موجودہ راجستھان کا دوسرا سب سے بڑا شہر ہے۔ جودھ پور کا واحد دریا لونی ہے۔ اُس سے جودھ پور کے جنوبی حصہ کی آبپاشی کی جاتی ہے۔ موجودہ مہاراجہ کے دادا نے گنگا سے ایک نہر نکال کر جودھ پور تک پہنچایا تھا۔ اس سے جودھ پور کے لوگوں کو پانی کے معاملہ میں کافی راحت ملی۔
۱۰ مئی کی شام کو فارم ہاؤس کے ایک بڑے کمرہ میں ابتدائی میٹنگ ہوئی۔ اس میںموجودہ سیمینار کا تعارف کرایا گیا۔ بتایا گیا کہ راجستھان میں پانی کی قلّت کو دور کرنے کے لیے ایک جَل برادری قائم ہوئی ہے جو بڑے پیمانہ پر پانی کے انتظامات کررہی ہے۔ پچھلے کچھ سالوں میں اُس نے راجستھان میں پانچ ہزار سے زیادہ تالاب کھدائی کے ذریعہ بنائے ہیں۔ اس کام کے لیڈر مسٹر راجندر سنگھ ہیں۔ اُن کو اس کا م پر ۲۰۰۲ء میں بین اقوامی میگ سیسے ایوارڈ (Magsaysay Award) دیا گیاہے۔
بتایا گیا کہ موجودہ سیمینار خاص طورپر اس لیے کیا گیا ہے تاکہ مختلف مذاہب کے نمائندوں کو بُلا کر پانی کے بارے میں ہر مذہب کی رائے معلوم کی جائے۔ مقرر نے کہا کہ پانی انسانی زندگی کا بے حد اہم حصہ ہے۔ یقینا ہر مذہب میں پانی کے بارے میں اعلیٰ ہدایات دی گئی ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہر مذہب کے لوگ اپنے مذہب کے حوالہ سے پانی کی خصوصی اہمیت کے بارے میں اپنا بیان دیں۔ اس سے پانی کے بارے میں ہماری تحریک کو خصوصی تقویت ملے گی۔
۱۹۴۷ سے پہلے جودھ پور کے قریب بھاول پور ریاست تھی۔ بھاول پور کاایک واقعہ یہاں قابل ذکر ہے۔ اس واقعہ میںسبق کے کئی پہلو ہیں۔ اس واقعہ کو مختصر طورپر یہاں درج کیا جاتا ہے۔
انگریزی دور کا واقعہ ہے۔ علاقہ بھاول پور کے ایک مسلمان نے اپنی لڑکی کا نکاح ایک شخص کے ساتھ کیا۔ وہ شخص جلدہی بعد قادیانی ہوگیا۔ باپ نے لڑکی کی رخصتی سے انکار کیا۔ اس نے کہا کہ یہ شخص مرتد ہوگیا ہے، اس لئے مسلمان عورت اس کی زوجہ نہیں ہوسکتی۔ مذکورہ قادیانی نے اپنے آپ کو مسلمان ثابت کرنے کے لئے بھاول پور کی عدالت سے رجوع کیا۔ سات سال تک یہ مقدمہ چلتا رہا۔
مسلمان لڑکی کی طرف سے ہندستان کے بہت سے علماء عدالت میں بطور گواہ پیش ہوئے۔ ان میں سے ایک مولانا انور شاہ کشمیری (۱۹۳۴۔ ۱۸۷۵) بھی تھے۔ مولانا کشمیری نے پانچ دن تک اپنا بیان قلم بند کرایا اور قادیانی وکیلوں کی جرح کے جوابات دئے۔ ۲۵ اگست ۱۹۳۲ کو جسٹس محمد اکبر خاں نے مقدمہ کا فیصلہ دیا۔ انہوں نے ناکح کو مرتد قرار دیتے ہوئے مقدمہ کو خارج کردیا۔
مولانا انوری صاحب مقدمہ بھاول پور کے موقع پر موجود تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ مولانا کشمیری نے قادیانیوں کے کفر پر تقریر کرتے ہوئے ایک بات یہ کہی کہ ’’جو چیز دین میں تواتر سے ثابت ہو، اس کا منکر کافر ہے‘‘۔ اس پر قادیانیوں کے گواہ نے اعتراض کرتے ہوئے کہا: ’’آپ کو چاہیے کہ اس اصول کے مطابق، امام رازی پر بھی کفر کا فتویٰ عائد کریں کیوں کہ فواتح الرحموت شرح مسلّم الثبوت میں علامہ بحر العلوم نے لکھا ہے کہ امام رازی نے تواتر معنوی کا انکار کیا ہے۔
مولانا انوری صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس وقت عدالت میں بہت سے علماء موجود تھے۔ سب کو پریشانی ہوئی۔ فواتح الرحموت اس وقت ان کے پاس موجود نہ ـتھی اس لیے ان کی سمجھ میں نہ آیا کہ اس کا جواب کس طرح دیا جائے۔ اس حیرانی کے عالم میں مولانا کشمیری اٹھے اور بآواز بلند کہا: جج صاحب لکھئے: میں نے ۳۲ سال ہوئے یہ کتاب دیکھی تھی۔ اس وقت ہمارے پاس یہ کتاب نہیں ہے۔ امام رازی نے در اصل یہ لکھا ہے کہ حدیث لاتجتمع امتی علی الضلالۃ تواتر معنوی کے رتبہ کو نہیں پہنچتی۔ لہذا انہوں نے اس حدیث کے لیے تواتر معنوی کا انکار کیا ہے، نہ کہ خود تواتر معنوی کے حجت ہونے کا۔ ان صاحب نے حوالہ پیش کرنے میں دھوکہ سے کام لیا ہے۔ ان سے کہیے کہ وہ اصل عبارت یہاں پیش کریں۔
اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے غلط حوالہ دینا بلا شبہہ ایک اخلاقی جرم ہے اور اسی کے ساتھ بزدلی بھی۔ آدمی کو چاہئے کہ وہ یا تو چپ رہے یا اپنی غلطی کا سیدھی طرح اعتراف کرلے۔
جودھ پور کی کانفرنس میں میرے سوا کچھ اور مسلمان بھی آئے تھے۔ اُن لوگوں سے گفتگو ہوئی۔ ایک صاحب جو ریٹائرڈ پروفیسر تھے، انہوں نے گفتگو کے دوران کہا کہ مجھے اپنی زندگی میں صرف ایک افسوس (regret)ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں ریسرچ کے لیے امریکا گیا۔ وہاں میرے یہودی پروفیسر نے مجھے مشورہ دیا کہ تم اسلام اور کمیونزم پر ریسرچ کرو۔ مگر میں نے اس موضوع کو نہیں لیا۔ اس کے بجائے میں نے جغرافیہ کے ایک موضوع پرر یسرچ کی۔
میں نے کہا کہ آپ کو اس پر افسوس کیوں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر میں اس موضوع کو لیتا تو مجھ کو یہ موقع ملتا کہ میں معاشیات کے بارے میں اسلام کے تصور مساوات اور کمیونزم کے تصور مساوات کا تقابل کروں۔ میں نے پروفیسر صاحب سے کہا کہ میں نے اسلام اور کمیونزم دونوں کو پڑھا ہے۔ میرے مطالعہ کے مطابق، معاشی مساوات کی تعلیم نہ اسلام میں ہے اور نہ کمیونزم (حسب تشریح کا رل مارکس) میں۔ میری بات سن کر وہ خاموش ہوگئے۔
میںنے کہا کہ میں نے کمیونزم کو سمجھنے کے لیے دس ہزار صفحات پڑھے ہیں۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ کمیونزم کا مقصد معاشی مساوات کو قائم کرنا نہیں ہے بلکہ مارکسی تشریح کے مطابق، معاشی استحصال (exploitation)کو ختم کرنا ہے۔ جہاں تک اسلام کا تعلق ہے، اسلام معاشی مساوات کا مبلّغ نہیں۔ کیونکہ معاشی مساوات ایک غیر فطری تصور ہے جو عملاً ممکن ہی نہیں۔ اسلام کا معاشی نشانہ در اصل دولت کی یک طرفہ گردش کو روکنا ہے۔ جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے: کَی لاَیَکُونَ دولۃ بَینَ الأغنیاء منکم (الحشر ۷)
ایک اور مسلمان بزرگ سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے پہلے مجھے نہیں پہچانا تھا۔ بعد کو معلوم ہوا تووہ بہت خوش ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ میں ماہنامہ الرسالہ پڑھتا رہا ہوں۔ اس کے بہت سے شمارے میرے پاس محفوظ ہیں۔ اور میں اکثر انہیں دیکھتا رہتا ہوں۔ اور اُن سے معرفت اور سبق حاصل کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ آپ مسائل کے ضمن میں جو بات کہتے ہیں وہ بظاہر کڑوی گولی معلوم ہوتی ہے۔ مگر اپنے انجام کے اعتبار سے وہ ایک میٹھی خوراک ہے:
صبر تلخ است ولیکن برِ شیریں دارد
۱۰ مئی کی شام کو آٹھ بجے جودھ پور کے چوپاسنی اسکول میں افتتاحی اجلاس ہوا۔ یہ ایک تاریخی اسکول ہے جس کو آزادی سے پہلے مہاراجہ جودھ پور نے بڑے ذوق و شوق کے ساتھ بنوایا تھا۔ اُس کے وسیع اور پر شکوہ ہال میں نشست ہوئی۔میں ہال کے اندر بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک باہر سے شہنائی کی آواز آنے لگی۔ کچھ دیر کے بعد مہاراجہ جودھ پور اپنے آدمیوں کے ساتھ اندر داخل ہوئے۔ معلوم ہوا کہ ریاست اگر چہ ختم ہوچکی ہے مگر مہاراجہ کے قدیم آداب ابھی تک باقی ہیں۔
مہاراجہ جودھ پور کی نشست ٹھیک میرے دائیں طرف تھی۔ اُن کی عمر صرف ۵۵ سال ہے۔ مگر میں نے دیکھا کہ اُن کے پاس ایک اگال دان رکھا ہوا ہے۔ وہ بار بار اس میں اپنا گلا صاف کر رہے ہیں اور ایک ہاتھ میں ٹِشوپیپر(tissue paper) ہے جس سے وہ اپنا منھ صاف کرتے ہیں۔ میں نے سوچا کہ مہاراجہ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی جسمانی عوارض سے پاک ہو۔ اگر فرق ہے تو صرف یہ کہ عام آدمی سستے قسم کا اگال دان استعمال کرے گا اور نواب یا مہاراجہ چاندی اور سونے کا اگال دان۔
یہاں مسٹر راجیندر سنگھ سے ملاقات ہوئی۔ وہ پہلے گورنمنٹ میں پروجیکٹ افسر تھے۔ چھ سال سروس کرنے کے بعد انہوں نے استعفا دے دیا۔ راجستھان میں پانی کی زبردست کمی ہے۔ انہوں نے اس کمی کو دور کرنے کو اپنی زندگی کا مشن بنا لیا۔ وہ بیس سال سے اس کام میںلگے ہوئے ہیں۔ اس سلسلہ میں انہوں نے راجستھان کے مختلف دیہاتوں میں رضاکارانہ محنت کے ذریعہ ساڑھے پانچ ہزار تالاب کھود کر تیار کرائے ہیں۔ انہوں نے راجستھان کو پانی مہیا کرنے کے لیے عوام کی مدد سے ایک پوری تحریک چلا رکھی ہے۔ یہ پورا کام حکومت کی مدد کے بغیر ہورہا ہے۔
ہندو اس قسم کے رفاہی کام بہت بڑے پیمانہ پر کررہے ہیں۔ مگر عجیب بات ہے کہ اس میں مسلمانوں کا کوئی حصہ نہیں۔ اس ملک میں ہندو اور عیسائی وغیرہ بڑے پیمانہ پر سوشل سروس کا کام کرتے ہیں۔ مگر مسلمانوں میں سوشل ورک کا رواج نہیں۔ مسلم لیڈروں کو صرف ایک ہی کام معلوم ہے، اور وہ ہے، اپنے فرقہ کے بارے میں شکایتی جلسہ کرنا، اپنے فرقہ کی حق تلفی کے نام پر احتجاجی مظاہرہ کرنا۔ اس کے باوجود مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ وہ خیر امت ہیں۔ حالاں کہ حدیث میں آیا ہے کہ: خیر الناس من ینفع الناس۔ اس کے مطابق، خیر امت کا کام دوسروں کو نفع پہنچانا ہونا چاہئے، نہ کہ اپنے نقصان کے نام پر آندولن چلانا۔
۱۱ مئی کو میں صبح سویرے اُٹھا۔ اوّل وقت پر فجر کی نماز پڑھی ۔ یہ نہایت سہانا وقت تھا۔ چاروں طرف فطرت کی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ اس میں صرف چڑیوں کی آوازیں سنائی دیتی تھیں۔ میں نیچے اُترا تاکہ کھلے میدان میں کچھ دیر چہل قدمی کروں۔ نیچے آیا تو یہاںایک صاحب ایک چھوٹی میز کے سامنے کُرسی پر بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ صبح کی چائے کا اہتمام کررہے تھے۔ اُنہوں نے آواز دے کر مجھے بلایا اور چائے کی پیشکش کی۔ میں کچھ دیر کے لیے اُن کے پاس بیٹھ گیا۔
یہ ایک ریٹائرڈ پروفیسر تھے۔ بات چیت کے دوران میں نے پوچھا کہ آپ اپنی زندگی کے کچھ تجربات بتائیے۔ عجیب بات ہے کہ وہ کوئی خاص تجربہ نہ بتا سکے۔ بس یہ بتایا کہ میں صبح کی چائے کا عادی ہوںاور خصوصی اہتمام کے ساتھ خود اپنے ہاتھ سے چائے بناتا ہوں۔ میں نے کہا کہ میں لوگوں کا ساتھ دینے کے لیے چائے پی لیتا ہوں مگر میں چائے کا عادی نہیں۔ بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح، مجھے چائے کا خصوصی ذوق نہیں۔
میں نے کہا کہ میں کسی بھی چیز، بشمول چائے کا عادی نہیںہوں۔ اس طرحکی عادتیں میر ے نزدیک ایک قسم کے ذہنی انتشار (distraction) کا سبب بنتی ہیں۔ میں نے کہا کہ میں اپنے لیے جس چیز کو سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہوں وہ یہ کہ میرے ذہن میں سوچ کا عمل (thinking process) کسی روک کے بغیر مسلسل جاری رہے۔ صحت مند فکری عمل کو میں کسی انسان کا سب سے بڑا سرمایہ سمجھتا ہوں۔ تاہم میں نے محسوس کیا کہ مذکورہ پروفیسر صاحب کو اس قسم کی سنجیدہ باتوں سے غالباً زیادہ دلچسپی نہیں ہے۔ چنانچہ کچھ دیر کے بعد میں وہاں سے اُٹھ گیا اور کھلے مقام پر جاکر ٹہلنے لگا۔
ٹہلنا، خاص طورپر صبح کے وقت ٹہلنا بہت مفید ہے۔ وہ جسمانی صحت کے لیے بھی مفید ہے اورذہنی صحت کے لیے بھی۔ ڈیکنس (Dickens) نے درست طورپر کہا ہے کہــــــساری بات کا خلاصہ یہ ہے کہ چہل قدمی کرو اور خوش رہو،چہل قدمی کرو اور تندرست رہو:
The sum of the whole is this: Walk and be happy. Walk and be healthy.
مسٹر بابو لال شرما نے بتایا کہ پُرانی دلّی میں زیادہ عمر کے ایک ہندو ہیں۔ اُن کا نام روپ نرائن ہے۔ وہ کھلے طورپر کہتے ہیں کہ آج کے آزاد ہندستان کے مقابلہ میں انگریزی دو رکا ہندستان زیادہ بہتر تھا۔ اس سلسلہ میں وہ اپنے بہت سے ذاتی تجربے بتاتے ہیں۔
مثلاً اُنہوں نے کہا کہ ۱۹۴۷ء سے پہلے کے زمانہ میں میں پرانی دلّی کے علاقہ چرخی والان میں رہتا تھا۔ ایک روز میں نے دیکھا کہ انگریز ڈپٹی کمشنر گھوڑے پر سوار وہاں سے گذر رہا ہے۔ میں جاکر اُس کے گھوڑے کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ میں نے کہا کہ اس علاقہ کے لوگ دو چیزوں سے بہت پریشان ہیں۔ ایک، فلاں ہندو بنیا، وہ کم تولتا ہے اور اس طرح وہ لوگوں کو لوٹ رہا ہے۔دوسرا مسئلہ یہاں کا ڈلاؤ ہے۔ یہاں بہت دنوں سے کوڑا پڑا ہوا ہے جس کی وجہ سے بدبو پھیل رہی ہے۔
انگریز ڈپٹی کمشنر نے ٹھہر کر میری بات سُنی اورپھرکچھ جواب دیے بغیر آگے بڑھ گیا۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ اُسی دن شام کو پولس آئی اور مذکورہ ہندو بنیا کو گرفتار کر کے لے گئی۔ دوسری طرف اُسی دن شام کو میونسپلٹی کی گاڑی آئی اور ڈلاؤ کا سارا کوڑا اُٹھا کر اس کو صاف کردیا۔روپ نرائن صاحب اس طرح کے واقعات بتا کر کہتے ہیں کہ آج اس طرح کے مسائل پہلے سے بھی زیادہ ہیں۔ مگر آج یہ حالت ہے کہ افسروں سے شکایت کیجیے اور دفتروں کا چکر لگائیے مگر کوئی ایکشن لینے والا نہیں۔
جودھ پور کے سفر میں مجھ کو وہاں کے سی اول فارم ہاؤس (Seoul Farm House) میں ٹھہرایا گیا تھا۔ یہ جودھ پور شہر سے تقریباً بیس کیلو میٹر دور ہے۔ درختوں کے ماحول میں بناہوا یہ خوبصورت فارم ہاؤس رہنے کے لیے آئیڈیل جگہ معلوم ہوتی ہے۔ پہلے دن جب میں یہاں آکر ٹھہرا تو ایسا محسوس ہوا کہ گویا میں دنیا کی جنت میں ٹھہرا ہوا ہوں۔ مگر ایک ہی دن کے قیام کے بعد طبیعت گھبرا گئی۔ میری ساری دلچسپی ختم ہوگئی۔ اس فارم ہاؤس میں میں ۱۰ مئی ۲۰۰۲ کو پہنچا تھا اور ۱۲ مئی ۲۰۰۲ء تک وہاںمقیم رہا۔
حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں جنتی زندگی کا حصول ممکن نہیں۔ اس دنیا میں خواہ کتنی ہی خوبصورت جگہ بنائی جائے مگر وہ انسان کو حقیقی خوشی نہ دے سکے گی۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی حقیقت کی طرف اس طرح اشارہ فرمایا ہے: اللہم لا عیش الا عیش الآخرۃ۔
جودھ پور کے فارم ہاؤس میں جب میں ٹھہرا ہوا تھا، وہاں ایک عجیب تجربہ ہوا۔ میںنے دیکھا کہ تمام لوگ صبح کو بہت دیر تک ایر کنڈیشنڈ کمروں میں سوتے رہتے تھے۔ یہاں تک کہ سورج نکل آتا تھا۔ حالاں کہ ان کمروں کے باہر فطرت کے مناظر اور صبح کی خوش گوار ہوا موجود ہوتی تھی۔ چڑیوں کے نغمے سنائی دیتے تھے۔ میں اپنی عادت کے مطابق، صبح سویرے اٹھتا اور اوّل وقت میں فجر کی نماز پڑھ کر باہر ٹہلنے لگتا۔ میں نے سوچا کہ لوگوں کا ذوق کتنا زیاہ بگڑا ہوا ہے۔ وہ مصنوعی تمدن میںجیتے ہیں۔ فطرت کی حسین تر دنیا اُن کے آس پاس موجود ہوتی ہے مگر وہ اُس سے محظوظ ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ یہ بد ذوقی کی کیسی عجیب مثال ہے۔
جودھ پور کے زمانہ قیام میں بہت سے لوگوں سے بات چیت اور تبادلۂ خیال کا موقع ملا۔ فارم ہاؤس میں، اجتماع گاہ میں، نیز شہر کے اندر۔ ان گفتگوؤں کا ایک خلاصہ اس سفر نامہ میں قارئین کو ملے گا۔ ان گفتگوؤں کا تعلق ہر قسم کے معاملات سے تھا، مذہبی بھی اور عملی بھی اور قومی بھی۔ کچھ لوگوں نے میرا پتا لکھا اور بعد کو بھی گفتگو کا سلسلہ جاری رکھنے کی خواہش ظاہر کی۔
یہاں ایک تعلیم یافتہ مسلمان سے بات کرتے ہوئے میں نے کہا کہ مسلمانوں کا کوئی ملّی مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو وہ فوراً جلسہ و جلوس کی صورت میں دوسروں کے خلاف تحریک چلانے لگتے ہیں۔ مثلاً شاہ بانو کی تحریک، وغیرہ۔ میں نے کہا کہ مسلمانوں کے لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنے ملّی مسائل کو داخلی کوشش سے حل کریں۔ جیسا کہ امریکہ وغیرہ میں وہاں کے مسلمان بالفعل کررہے ہیں۔ جہاں تک عوامی تحریک کا تعلق ہے، وہ صرف مشترک ملکی ایشوز پر چلائی جائے۔
سنجیدہ انسان اور غیر سنجیدہ انسان کی ایک پہچان یہ ہے کہ سنجیدہ انسان غلطی کو اپنے اندر ڈھونڈھتا ہے اور غیر سنجیدہ انسان غلطی کو دوسروں کے اندر تلاش کرتا ہے۔ ایک بار میں ریڈیو سن رہا تھا۔ اُس میں ایک فلم اسٹا رکا انٹرویو آنے لگا۔ انٹرویو ر نے پوچھا کہ اپنی فلمی زندگی کا کوئی واقعہ بتائیے۔
اُس نے کہا کہ ایک بار میں ایک فلم میں ایک شخص کا رول اداکر رہا تھا۔ یہ ایک ایسا شخص تھا جو جسمانی اعتبار سے بڑا ہوچکا تھا مگر اسی کے ساتھ وہ ذہنی معذور (mental handicap) تھا۔ ریکارڈنگ شروع ہونے کے کچھ دیر بعد ڈائرکٹر نے ریکارڈنگ رکوادی۔ میں حیران ہوکر ڈائرکٹر کے پاس گیا اور اُس سے سبب پوچھا۔ ڈائرکٹر نے کہا کہ تمہارا رول مجھے کچھ ٹھیک معلوم نہیں ہورہا ہے۔
فلم ایکٹر نے اس کے بعد ڈائرکٹر کے خلاف سوچنے کے بجائے خود اپنے خلاف سوچنا شروع کردیا۔ وہ کمرہ میں گیا اوروہاں اُس نے اپنے آپ کو آئینہ میں دیکھا۔ اب اُس نے اپنی غلطی دریافت کرلی۔ اُس کو معلوم ہوا کہ آج صبح وہ تاج محل سیلون میں جاکر اپنے بال درست کروائے تھے اور شیمپو لگوایا تھا۔ اس کی وجہ سے اُس کا چہرہ اچھا تو دکھائی دینے لگا مگر وہ اپنا مطلوب رول کرنے کے قابل نہ رہا، کیوں کہ فلمی رول میں اُس کو ایک کم عقل انسان کا رول ادا کرنا تھا، نہ کہ ہوش مند انسان کا۔
اس کے بعد فلم ایکٹر نے ایک قینچی لی اور وہ کام کیا جس کو وائلڈ ہیر کٹ (wild hair-cut) کہا جاتا ہے۔ اُس نے آئینہ دیکھے بغیر بے ترتیب طورپر اپنے بال ادھر اُدھر سے کاٹ لیے اور پھر اپنے بالوں میں مٹی لگالی۔ اس کے بعد دوبارہ جب وہ اپنا رول کرنے کے لیے آیا تو فلم ڈائریکٹر بہت خوش ہوگیا۔ اس نے کہا کہ اب تم اپنے رول کے لیے پوری طرح موزوں ہو۔
کامیاب انسان وہ ہے جو غلطی پیش آنے کے بعد اُس کا سبب دوسروں کے اندر تلاش نہ کرے بلکہ غلطی کا سبب خود اپنے اندر تلاش کرے۔ جس آدمی کے اندر یہ صفت ہو، وہی سنجیدہ انسان ہے اور ایسا ہی انسان موجودہ دنیا میں اعلیٰ کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔ اس کے برعکس جولوگ اپنی غلطی کا الزام دوسروں پر ڈالنے کی کوشش کریں وہ اپنے اس عمل کے ذریعہ اپنے آپ کوغیر سنجیدہ انسان ثابت کرتے ہیں۔ ایسے لوگ کبھی کسی اعلیٰ کامیابی تک پہنچنے والے نہیں۔
کچھ لوگوں سے گفتگو کرتے ہوئے میں نے کہا کہ آزادی کے بعدکے زمانہ میں ہندستان کے مسلمانوں کو عام طورپر ایک قسم کا بوجھ (liability) سمجھا جانے لگا ۔ مگر آزادی سے پہلے کے دور میں وہ اس ملک میں ایک سرمایہ (asset) کی حیثیت رکھتے تھے۔ اس سلسلہ میں میں نے سوامی وویکا نند کا تجربہ بتایا۔
سوامی وویکانند ایک مشہور ہندو پیشوا ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ایک بار ایک مسلم فقیر نے اُن کی جان بچائی جس کا نام ذوالفقار علی تھا۔ سوامی وویکا نند نے اعتراف کیا ہے کہ وہ کچھ مسلمانوں سے ملے جنہوں نے اُن کے روحانی اُفق میں اضافہ کیا۔ وہ اس حقیقت سے بہت متاثر تھے کہ قرآن ہزار سال سے زیادہ مدت گزرنے کے باوجود اپنے ابتدائی متن کو پوری طرح باقی رکھے ہوئے ہے:
Vivakananda would often talk feelingly of a Muslim fakir, Zulfiqar Ali, who once saved his life. Vivekananda had several intellectual encounters with muslim theologians and confessed to these having widened his spritual horizons. He was impressed by the fact that the Qur’an had retained its pristine purity despite the lapse of more than a thousand years.
(The Times of India, New Delhi, 14 May 2002, P.10)
ایک صاحب جو انسانی حقوق (Human Rights) کے ایک گروپ سے تعلق رکھتے تھے، ان سے بات کرـتے ہوئے میں نے کہا کہ آپ جیسے لوگ ہمیشہ معاملات کو آئیڈیل کے نقطۂ نظر سے دیکھتے ہیں۔ حالانکہ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ معاملات کو پریکٹیکل کے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے۔ کیونکہ اصل اہمیت اس بات کی نہیں ہے کہ جو کچھ ہوا اس کاخالص منصفانہ انداز سے تجزیہ کیا جائے۔ بلکہ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ مسئلہ کا حل کیا ہے۔ اور مسئلہ کا حل ہمیشہ پریکٹیکل بنیاد پر نکلتا ہے ، نہ کہ آئیڈیل بنیاد پر۔
وہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ آدمی تھے۔ انہوں نے فوراً کہا کہ آئیڈیل سوسائٹی کہا ں بنتی ہے۔ مشہور مقولہ ہے کہ آئیڈیل کبھی قابل حصول نہیں ہوتا۔
Ideal cannot be achieved.
یہی ذہین لوگوں کی کمزوری ہے۔وہ جب کسی بات کو اپنے خلاف پاتے ہیں تو شعوری یا غیرشعوری طور پر ایک نکتہ نکال کر بات کے رخ کو بدل دیتے ہیں۔ میں نے جو بات کہی تھی وہ آئیڈیل حل (ideal solution) کے بارہ میں تھی، نہ کہ آئیڈیل سماج (ideal society) کے بارہ میں ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ عمومی اور کلّی معنوں میں آئیڈیل سماج کبھی بن نہیں سکتا ،کیوں کہ فطرت کے قوانین کے تحت ایساہونا ممکن نہیں۔ لیکن کسی فرد یا گروپ کے لئے اس کے کسی مسئلہ کا حل اگر ممکن ہے تو وہ صرف پریکٹیکل بنیاد پر ممکن ہے، نہ کہ آئیڈیل کی بنیاد پر۔
یہاں ایک صاحب نے خاموش اکثریت (silent majority)کا ذکر کیا۔ اس سلسلہ میں میں نے بتایا کہ ہمارے یہاں ایک صاحب خاموش اکثریت کے نظریہ سے بہت متاثر تھے۔ اُن کا خیال تھا کہ خاموش اکثریت کو ساتھ لے کر ملک و قوم کی تعمیر کا کام زیادہ مؤثر انداز میں کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے اس مقصد کے لیے ملک کا دورہ کیا۔ مگر حیرت کی بات ہے کہ ملک بھر کا دورہ کرنے کے باوجود مفروضہ خاموش اکثریت سے اُن کی کہیں ملاقات نہ ہوسکی۔
خاموش اکثریت کا نظریہ، اس قسم کے دوسرے نظریات کی طرح صرف تعلیم یافتہ طبقہ کی ایک ذہنی اُپج ہے۔ سمجھا جاتا ہے کہ ملک میں بیشتر لوگ ملک اور قوم کے بارہ میں سنجیدہ سوچ اور تعمیری جذبہ رکھتے ہیں، اگر چہ وہ خاموش رہنے کی وجہ سے نمایاں نہیں ہوتے۔
یہ نظریہ صرف ایک خوبصورت مفروضہ ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں۔ اصل یہ ہے کہ وہ چیز جس کو خاموش اکثریت کہا جاتا ہے وہ زیادہ صحیح الفاظ میں، غیر جانبدار اکثریت (indifferent majority) ہے۔
یہ وہ لوگ ہیں جن کا واحد کنسرن ان کا ذاتی مفاد ہے۔ یعنی قومی معاملات سے غیر متعلق رہ کر ہر ممکن طریقہ سے کمانا اور اپنے بچوں کی بہتری کے لیے اُس کو خرچ کرنا۔ یہ اپنے خول (cell) میں رہنے والے لوگ ہیں، ان کو قومی معنوں میں خاموش اکثریت کہنا اُن کو ایسا کریڈٹ دینا ہے جس کے وہ مستحق نہیں۔ کوئی شخص اگر انسانیت کا حقیقی درد رکھتا ہو تو نفسیاتی اعتبار سے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ بس خاموش تماشائی بنا رہے۔
جودھ پور کے اجتماع میں کچھ مسلمان بھی آئے ہوئے تھے۔ ایک مسلمان نے مجھ سے ایک شکایت بیان کی۔ اُنہوں نے کہا کہ پانی کے مسئلہ پر یہاں اتنا بڑا فنکشن کیا جارہا ہے مگر مسلمانوں کے مسئلہ پر کوئی توجہ نہیں دیتا۔ اُنہوں نے کہا کہ یہاں ایک مسلمان ایک ہندو کمپنی میں کام کررہا تھا۔ ایک موقع پر اُس نے مسلمانوں کی حمایت میں کچھ بات کہہ دی۔ اس کے بعد ایک وجہ نکال کر اُس مسلمان کو کمپنی کی سروس سے علیٰحدہ کردیا گیا۔ اب وہ مسلمان بے روزگاری کی حالت میں ہے۔
میں نے کہا کہ آپ لوگ صرف شکایت اور احتجاج کے انداز میں سوچنا جانتے ہیں۔ جب بھی اس قسم کا کوئی مسئلہ پیش آتا ہے تو فوراً منفی انداز اختیارکر لیتے ہیں ۔ آپ کی یہی سوچ آپ کا اصل مسئلہ ہے۔ اس کے بجائے اگر آپ لوگ مثبت انداز اختیار کریں تو آپ جانیں گے کہ مسئلہ پیدا بھی ہوتا ہے اور مسئلہ ختم بھی ہوجاتا ہے، بشرطیکہ اُس کو حکمت کے ساتھ حل کرنے کی کوشش کی جائے۔
میں نے کہا کہ میرے علم میں اس قسم کی بہت سی مثبت مثالیں ہیں۔ میں آپ کو ایک تازہ مثال بتاتا ہوں۔ دہلی میںایک مسلم نوجوان ہیں جن کا نام محمد خالد انصاری ہے۔ اُنہوں نے انگلش جنرلزم میں ایم اے کیا۔ اس کے بعد اُنہیں ایک بڑے انگریزی روزنامہ میں سروس مل گئی۔ چھ مہینہ پہلے اُنہیں اسی قسم کے ایک واقعہ کی بنا پر اخبار کی ملازمت سے علیٰحدہ کردیا گیا۔ اس کے بعد اگر وہ جذباتی قسم کے مسلم لیڈروں سے رجوع کرتے تو اپنی عادت کے مطابق، وہ اُن سے کہتے کہ یہی تو ہمارا کہنا ہے کہ اس ملک میں مسلمانوں کے ساتھ امتیاز ی سلوک کیاجاتا ہے۔ اس طرح وہ مسٹر خالد انصاری کو مایوسانہ سوچ کا تحفہ دے کر اُنہیں واپس کردیتے۔
مگر حسن اتفاق سے وہ میرے پاس آگئے۔ میں نے کہا کہ آپ ہر گز مایوس نہ ہوں اور دوبارہ کوشش (try, try, try again) کے اُصول پر عمل کریں۔ اس کے بعد اُنہوں نے مذکورہ اخبار کے چیرمین سے ملاقات کی۔ چند ملاقاتوں کے بعد چیر مین نے اخبار کے ذمہ داروں کو ایک خط لکھ دیا کہ مسٹر خالد کو دوبارہ موقع دیا جائے۔
اس کے بعد مسٹر محمد خالد انصاری میرے پاس آئے۔ میںنے کہا کہ آپ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے دوبارہ نئے عزم کے ساتھ اخبار کا کام شروع کردیجئے۔ آپ کو اپنے سامنے صرف ایک بات رکھنا چاہئے، وہ یہ کہ آپ اتنا زیادہ محنت کے ساتھ کام کریں کہ آپ اخبار کی ضرورت بن جائیں۔ چنانچہ ایساہی ہوا۔ ان کو مذکورہ اخبار کے انٹر نیٹ شعبہ (Online tabloid)میں جگہ دی گئی۔
اُن کو ہر ہفتہ دو اسٹوری بنانا تھا۔ اُنہوں نے نہایت محنت کے ساتھ اپنا کام شروع کردیا۔ روزانہ بارہ گھنٹے سے بھی زیادہ کام کرکے اپنی ہر اسٹوری کو اتنا دلچسپ اور معلوماتی بنایا کہ اُن کو ساری دنیا میں انٹرنیٹ پر کثرت سے پڑھا جانے لگا۔ چند دن پہلے محمد خالد انصاری نے مجھ کو بتایا کہ اُن کے باس (Boss) نے اُنہیں بلایا اور مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ تمہاری اسٹوری ستّر ہزار تک ہٹ(hit) ہورہی ہے ،جب کہ تمہارے شعبہ کے دوسرے لوگوں کی کوئی اسٹوری اب تک پندرہ ہزار سے زیادہ ہٹ نہیں ہوئی۔
While the stories done by others for the Online HT Tabloid news received not more than 18 thousand hits, the stories done by you received a whopping response, recording over 70 thousand hits.
ہٹ کا مطلب ہے کہ کوئی اسٹوری جتنی با رپڑھی جائے اُتنا ہی وہ ہٹ ہوئی۔ حقیقت یہ ہے کہ کبھی کسی کا راستہ بند نہیں ہوتا۔ جہاں بظاہر راستہ بند دکھائی دے، وہاں بھی آگے بڑھنے کے امکانات موجود ہوتے ہیں، بشرطیکہ آدمی ہمت نہ ہارے اور مثبت ذہن کے تحت نیا راستہ تلاش کرے۔ کسی بھی صورت حال میں آدمی کے لیے اصل مسئلہ اس کی اپنی منفی سوچ ہے، نہ کہ باہر کی کوئی رکاوٹ۔زندگی کے ہر مرحلہ پر ہمیشہ کاما لگا ہوتا ہے، زندگی میںکبھی فل اسٹاپ نہیں آتا۔
ایک مسلم بزرگ سے بات کرتے ہوئے میں نے کہا کہ جنت کے بارے میں آج کل کے مسلمانوں میں ایسی باتیں پھیلی ہوئی ہیں جن کا جنت سے کوئی تعلق نہیں۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ بڑوں کا دامن تھام لو اور جنت کو یقینی بنا لو۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ کچھ ظاہری اعمال ہیں جن میں پر اسرار فضیلتیں چھپی ہوئی ہیں، بس ان اعمال کی شکلوں کو دہرالو اور جنت کے مستحق بن جاؤ۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ سیاسی جہاد کا ہنگامہ کھڑا کرو اور تم سیدھے جنت میں پہنچ جاؤگے، وغیرہ۔
مگر یہ تمام وہی چیزیں ہیں جن کو قرآن میں امانی (النساء ۱۲۳) کہا گیا ہے، یعنی خوش خیالیاں۔ جنت ایک حقیقی چیز ہے، اورجنت صرف حقیقی عمل کے نتیجہ میں ملے گی۔ خود ساختہ قسم کی خوش خیالیوں سے کسی کو جنت ملنے والی نہیں۔
جودھ پور کی کانفرنس میں اجمیر کے کچھ مسلمان بھی آئے تھے۔ ایک ہندو نے مجھ کو دیکھ کر کہا، کیا آپ اجمیر شریف سے آئے ہیں۔ میں نے کہا کہ نہیں۔ اُن سے گفتگو کے دوران ایک بات میری سمجھ میں آئی۔ وہ یہ کہ کیا وجہ ہے کہ ہندو اور مسلمان بڑی تعداد میں بزرگوں کی قبروں کی بہت زیادہ تعظیم کرتے ہیں، اُن سے مرادیں مانگتے ہیں، حتیٰ کہ انہیں سجدہ کرتے ہیں۔
گفتگو کے دوران اس کا راز میری سمجھ میںآیا۔ اصل یہ ہے کہ یہ ہندو اور مسلمان ان بزرگوں کی موت کو ’’وصال‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ اُن کا عقیدہ ہے کہ یہ لوگ موت کے بعد خدا سے مل گئے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ موت نے انہیںزیادہ اونچے مقام پر پہنچا دیا ہے۔ پہلے اگر وہ بظاہر انسان تھے تو اب وہ خدا کے درجہ میں پہنچ گئے۔ اب اُنہیں مزید طاقت حاصل ہوگئی۔ وہ اس حیثیت میں ہوگئے کہ وہ ہماری مرادیں پوری کریں، وہ ہماری حاجتوں میں ہمارے کام آئیں۔ شعوری یا غیرشعوری طورپر، وصال کا یہی نظریہ قبر پرستی کے پیچھے کام کررہا ہے، حالانکہ اس نظریہ کی کوئی شرعی بنیاد نہیں۔اسلام میں وفات کا تصور ہے، نہ کہ وصال کا تصور۔
بابو لال شرما شَکر کے مستقل مریض ہیں۔ اُنہوں نے بتایا کہ پہلے وہ اس سلسلہ میں ٹیبلٹ کا استعمال کرتے تھے۔ مگر اس سے فائدہ نہیں ہوا۔ اب وہ ڈاکٹر کے مشورہ کے مطابق، ہر دن دو بار انسولین کا انجکشن لیتے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ صبح اور شام دونوں وقت وہ خود اپنے ہاتھ سے انجکشن لگاتے ہیں، یعنی ایک ہاتھ کے ذریعہ دوسرے ہاتھ میں۔
یہ منظر میرے لیے بڑا عجیب تھا۔ مگر میں نے دیکھا کہ وہ نہایت اطمینان کے ساتھ اپنے ایک ہاتھ میں سرنج لے کر دوسرے ہاتھ میںانسولین کا انجکشن لگا رہے ہیں اور اس طرح مطمئن ہیں جیسے کہ یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ میںنے اُن سے پوچھا کہ آپ اپنی اس حالت کے باوجود کس طرح خوش اور مطمئن رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک انگریزی مقولہ کے مطابق، میرا اصول یہ ہے کہ ــــــاس کو نارمل طور پر لو:
Take it easy.
یہ بلا شبہہ بہترین اصول ہے۔ زندگی میں ہر شخص کو ایسے تجربات سے دوچار ہونا پڑتاہے جو اُس کو پسند نہیںہوتے۔ اس قسم کی ناخوشگوار صورت حال ہرایک کے ساتھ پیش آتی ہے۔ اب اگر اس کو زیادہ سنجیدگی کے ساتھ لیا جائے تو زندگی دو بھر ہوجائے گی۔ ایسی حالت میںاس کا آسان حل یہ ہے کہ اس کو اپنے ذہن کا بوجھ نہ بننے دیا جائے، اُس کو اسی طرح معمول کی ایک چیز سمجھ لیا جائے جس طرح دوسری بہت سی چیزوں کو ہر آدمی سمجھتا ہے۔
مسٹر راجیندر سنگھ جو بیس سال سے زیادہ مدت سے پانی کے انتظام (water resource management) کے شعبہ میں قابل تعریف کام کررہے ہیں۔ اُنہوں نے ایک ملاقات میںبتایا کہ کئی لوگ اُن کے مخالف ہوگئے ہیں او ر اُن پر طرح طرح کے الزام لگاتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ آپ بیرونی طاقتوں سے پیسہ لیتے ہیں۔ آپ مہاراجہ کے ایجنٹ بنے ہوئے ہیں، آپ سرمایہ داروں کے مفاد میں کام کرتے ہیں۔ اُنہوں نے بتایا کہ اس قسم کے الزامات کی وجہ سے میں بہت پریشان رہتا ہوں۔
میں نے کہا کہ یہ الزام نہیںہے۔ اصل یہ ہے کہ جب بھی کوئی شخص کوئی اچھا کام کرتا ہے تو فطری طورپر وہ لوگوں کی نظر میں نمایاں ہوجاتا ہے۔ میڈیا میں اس کا چرچا ہونے لگتا ہے۔ اس کو اسٹیج پر بلایا جاتا ہے۔ اس قسم کی چیزوں کو دیکھ کر اُن لوگوں کے دل میں جلن ہونے لگتی ہے جن کو یہ چیزیں نہیں ملیں۔ میں نے کچھ مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ اس سلسلہ میں آپ صرف ایک کام کیجیے، اور وہ یہ کہ کچھ نہ کیجئے۔ آپ سادہ طورپر، ایسے لوگوں کو نظر انداز کرتے رہیے ۔ وہ کچھ بھی کہیں، آپ اُن کا کوئی جواب نہ دیجئے۔ آپ بس اپنا کام کرتے رہیے۔ اس کے بعد اس قسم کے لوگ خودہی چپ ہو جائیں گے۔ میںنے اُن کو حالی کا یہ شعر سُنایا:
کیا پوچھتے ہوکیوں کر سب نکتہ چیں ہوئے چُپ سب کچھ کہا انہوں نے پر ہم نے دَم نہ مارا
مسٹر راجیندر سنگھ میرے مشورہ کو سن کر بہت خوش ہوئے۔ اُنہوں نے کہا کہ آج آپ نے میرے سر کا بوجھ اتار دیا۔ اُنہوں نے دعوت دی کہ آپ دوبارہ راجستھان آئیے اور ہمارے کام کو قریب سے دیکھئے اور ہم کو مزید مشورے دیجیے۔
ایک صاحب نے گفتگو کے دوران کہا کہ میرے ذہن میں ایک سوال ہے۔ آپ اُن کا حل بتائیے۔ اُنہوں نے کہا کہ دنیا میں یہ فرق کیوں ہے کہ ایک طرف غریب لوگ ہیں اور دوسری طرف امیر لوگ۔ اگر ایک ہی خدا سب کو بنانے والا ہے تو اُس نے یہ فرق کیوں رکھا۔ اُس نے تمام لوگوں کو یکساں کیوں نہیں بنایا۔
میں نے کہا کہ آپ جیسے لوگ امیری کو بڑی چیزسمجھتے ہیں اور غریبی کو چھوٹی چیز۔ حالانکہ معاملہ اس کا اُلٹا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ غریبی بڑی چیز ہے اور امیری چھوٹی چیز ۔میں نے کہا کہ انسان کی خوش قسمتی کو ناپنے کا معیار اگر یہ ہو کہ کون زیادہ اچھا کپڑا پہنے ہوئے ہے اور کس کا جسم زیادہ فربہ ہے تو زیادہ پیسہ والے لوگ خوش قسمت نظر آئیں گے۔ مگر زیادہ صحیح معیار یہ ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ ذہنی ارتقاء میں کون زیادہ آگے ہے۔
میںنے کہا کہ یہ عام مشاہدہ کی بات ہے ۔ اور باقاعدہ سروے کے ذریعہ بھی معلوم ہوا ہے کہ کم پیسہ والوں کا ذہنی ارتقاء زیادہ ہوتا ہے اور زیادہ پیسہ والوں کا ذہنی ارتقاء کم۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق، امریکہ میں ایک نئی بیماری پیدا ہوئی ہے جس کا تعلق خوشحالی(affluence) سے ہے۔ اس لیے اُس کو افلوائنزا(affluenza) کہا جاتا ہے۔ ایسے لوگ جسمانی اعتبار سے فربہ مگر ذہنی اعتبار سے طرح طرح کی کمیوں کا شکار رہتے ہیں۔
جلسہ میں کچھ خاص لوگوں کو مہاراجہ جودھ پور نے خود اپنے ہاتھ سے ایک تحفہ دیا۔ یہ تحفہ ایک چادر اور ایک ناریل کی صورت میں تھا۔ ہندو روایات میں جب کسی کو عزت دینا ہو تو اُس کو چادر اوڑھاتے ہیں۔ اسی طرح ناریل ہندو روایات کے مطابق، ایک مقدس پھل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مندروں میں اکثر ناریل کا پھل چڑھایا جاتا ہے۔
واپسی میں ایک عجیب معاملہ پیش آیا۔ میں نے ناریل کو اپنے بیگ میں رکھ لیا تھا۔ جودھ پور ایر پورٹ پر چیکنگ ہوئی تو عملہ کے لوگوں نے ناریل کو بیگ سے نکال لیا۔ اُنہوں نے کہا کہ یہ ناریل آپ کو دہلی ایر پورٹ پر مل جائے گا۔ اس کا سبب غالباً یہ تھا کہ جہاز کو ہائی جیک کرنے والے دوسری چیزوں کے ساتھ، ناریل جیسی سخت چیز کو بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ وہ جہاز کے پائلٹ کو اس سے ڈرانے دھمکانے کا کام لے سکتے ہیں۔
ایک صاحب سے بات کرتے ہوئے میں نے کہا کہ خوشی کا کوئی تعلق دولت سے نہیں ہے۔ دولت آپ کو مادی سازوسامان دے سکتی ہے مگر دولت آپ کو خوشی نہیں دے سکتی۔ لندن اسکول آف اکنامکس کی قیادت میں ایک ریسرچ کی گئی ہے۔ اس ریسرچ کا موضوع یہ تھا کہ یہ معلوم کیا جائے کہ خوشی کے اعتبار سے کون سا ملک کس درجہ پر ہے۔ اس ریسرچ کا جو نتیجہ چھپا ہے اُس سے معلوم ہوتا ہے کہ خوشی کے اعتبار سے برطانیہ کے لوگ نمبر ۳۲ پر ہیں اور امریکہ کے لوگ نمبر ۴۶ پر اور ہندستان کے لوگ نمبر ۵ پر۔
اس ریسرچ کی سب سے زیادہ دلچسپ اور سنسنی خیز بات یہ ہے کہ دنیا بھر کے تمام ملکوں میں سب سے زیادہ خوش رہنے والے لوگ وہ ہیں جو بنگلہ دیش میں رہتے ہیں۔ بنگلہ دیش کو عام طورپر سب سے زیادہ غریب ملک سمجھا جاتا ہے۔ مگر موجودہ سروے کے مطابق، بنگلہ دیش کے لوگ سب سے زیادہ خوشیوں میں جینے والے لوگ ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ :
According to recent research led by the London School of Economics, the happiest place in the world is, would you believe?, Bangladesh.
جون ۲۰۰۱ء میں ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے میںبنگلہ دیش گیا تھا۔ اس دوران مجھے کچھ بنگلہ دیشی گھروں میں جانے کا اتفاق ہوا۔ میںنے پایا کہ وہاں گھر کا ہر فرد نہایت خوش تھا اور اکثر ہنستا رہتا تھا۔ اس خوشی کا راز یہ تھا کہ اُن کے پاس جو کچھ تھا اُسی پر وہ مطمئن تھے۔ مزید کی حرص انہیں پریشان نہیں رکھتی تھی۔ میں نے دیکھا کہ میری تواضع کے لیے اُنہوں نے کوئی اہتمام نہیں کیا۔ جو کچھ گھر میں تھا بس اُسی کو اُنہوں نے بے تکلف پیش کردیا۔ اُن کے گھر بھی نہایت سادہ تھے۔ ضرورت کے سوا کوئی اور چیز گھر کے اندر نظر نہ آئی۔
ایک تعلیم یافتہ ہندو نے کہا کہ آپ لوگ خدا کو ایک الگ اور مستقل شئے مانتے ہیں، کیا آپ خدا کا تجربہ کرتے ہیں۔ میںنے کہا کہ ہاں، میں تو تقریباً روزانہ ہی خدا کا تجربہ کرتا ہوں۔ اُنہوں نے کہا کہ کیا آپ اس تجربہ کو ہمیں دکھاسکتے ہیں۔ میں نے کہا کہ یہ ایک داخلی (subjective)تجربہ ہے، ایسے تجربہ کا مظاہرہ خارجی طورپر نہیں کیا جاسکتا ۔
انہوں نے کہا کہ پھر ہم کیسے اس پر یقین کریں۔ میںنے کہا کہ آپ اور ہر شخص اپنے بیٹے سے محبت کرتا ہے۔ آپ کو بار بار اپنے بیٹے کی محبت کا قلبی تجربہ ہوتا ہے۔ کیا آپ اپنے اس تجربہ کو خارجی طورپر دکھاسکتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ بیٹا تو ظاہری طورپر دکھائی دے رہا ہے، جب کہ خدا اس طرح ظاہری طورپر دکھائی نہیں دیتا۔
میں نے کہا کہ یہ صرف ایک مغالطہ ہے۔ آپ کا بیٹا بھی آپ کو دکھائی نہیں دیتا۔ آپ بیٹے کی جس چیز کو دیکھ رہے ہیں وہ اُس کا جسم ہے۔ اگر یہی جسم آپ کا بیٹا ہے تو مرنے کے بعد آپ اپنے اس بیٹے کو کیوں جلا کر پھینک دیتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ آپ کا بیٹا ظاہری جسم کے ماوراء ایک اَن دیکھی چیز ہے جو آپ کو ان آنکھوں سے نظر نہیں آتی۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جس بیٹے کی محبت کا آـپ تجربہ کررہے ہیں، وہ بیٹا بھی اسی طرح دیکھنے میں نہیں آتا جس طرح خدا دیکھنے میں نہیں آتا۔ پھر جس طرح ایک باپ اپنے نہ دکھائی دینے والے بیٹے کی محبت کا تجربہ کرتا ہے، اسی طرح ایک مومن بھی ایک نہ دکھائی دینے والے خدا کے تعلق کا تجربہ کرتا ہے۔ اپنی نوعیت کے اعتبار سے دونوں میں کوئی فرق نہیں۔
جودھ پور کے اس سیمینار کے تین اجلاس ہوئے۔ دو چوپاسنی اسکول میں، اور ایک گیتا بھون میں۔ چوپاسنی اسکول مہاراجہ جودھ پور کا بنوایا ہوا ہے۔ یہ ایک محل نما عمارت میں واقع ہے۔ اُس کا ہال، جس میں سیمینار ہوا، غیر معمولی طورپر بڑا اور شاندار نظر آیا۔
ان اجتماعات میں ہر مذہب کے لوگ شریک ہوئے۔ اس کے علاوہ علمی حلقوں کے لوگ بھی بڑی تعداد میں موجود تھے۔ ہر ایک نے اپنی روایات کے پس منظر میں پانی کی اہمیت کو بیان کیا۔ مہاراجہ جودھ پور نے مارواڑی زبان میں تقریر کی، وہ پوری طرح میری سمجھ میں نہ آسکی۔
ہر مقرر نے اپنے اپنے نقطۂ نظر سے موضوع پر روشنی ڈالی۔ کچھ لوگوں نے علمی اسلوب میںتقریر کی۔ کچھ لوگوں نے قصّے کہانیوں کے اندازمیں خطاب کیا۔ ایک صاحب نے ایک قصہ بتایا۔ اُنہوں نے کہا کہ ایک گرو کے دو شاگرد تھے۔ دونوں شاگرد گرو کے پاؤں کی سیوا کرتے تھے۔ دونوں نے گرو کا ایک ایک پاؤں بانٹ کر لے لیا تھا۔ ایک شاگرد داہنے پاؤں کی سیوا کرتا تھا اور دوسرا شاگرد بائیں پاؤں کی سیوا۔
ایک بار ایسا ہوا کہ بائیں پاؤں کی سیوا کرنے والا شاگرد کہیں چلا گیا۔ دوسرے شاگرد نے اپنے حصّہ کے مطابق، دائیں پاؤں کی سیوا کی۔ اس درمیان میں ایسا ہوا کہ گروجی نے داہنی طرف کروٹ بدلی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بایاں پاؤں دائیں پاؤں کے اوپر آگیا۔ شاگرد کو برداشت نہیں ہوا کہ اُس کے حصہ کا پاؤں نیچے ہواور دوسرے شاگرد کے حصہ کا پاؤں اوپر۔ چنانچہ وہ ایک لکڑی لایا اور گروجی کے بائیں پاؤں پر زور سے مارا۔
اس کے بعد گروجی نے اپنے شاگرد سے کہا کہ أے مورکھ، جس پاؤں کو تم نے مارا وہ بھی تو میرا ہی پاؤں تھا۔ اس قصہ کو بتا کر مقرر یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ کچھ لوگ اتنے نادان ہوتے ہیں کہ وہ باتوں کو گہرائی سے نہیں سمجھتے۔ وہ ایک شخص کو گرومانتے ہوئے بھی اُس کا پورا حق ادا نہیں کرپاتے۔
مقرر کی زبان سے اس فرضی قصہ کو سُن کر بہت سے لوگوں نے تالیاں بجائیں۔ مگر میں اس قسم کے استدلال سے مانوس نہیںہوں۔ میرے نزدیک ایک حقیقی بات کو ثابت کرنے کے لیے ایک حقیقی واقعہ درکار ہے۔ ایک حقیقی دعویٰ کسی فرضی قصّہ سے ثابت نہیںہوتا۔
آج کل ایک مشہور تحریک چل رہی ہے جس کا نام آرٹ آف لیونگ (Art of Living) ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ملک کے اندر اور ملک کے باہر لاکھوں لوگ اس تحریک سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس تحریک کے ایک خصوصی نمائندہ بھی جودھ پور کے سیمینار میں آئے تھے۔ اُن کو دوبار اسٹیج پر آنے کا موقع دیا گیا۔ دونوں بار اُنہوں نے صرف بھجن سنایا، اس کے سوا اور کوئی بات اُنہوں نے نہیں کی۔
جلسہ کے بعد میں نے اُن سے پوچھا کہ آرٹ آف لیونگ کا کچھ پریچے مجھے بتائیے۔ اُنہوں نے جو کچھ بتایا اُس کا خلاصہ یہ تھا کہ یوگا کے انداز میںکچھ جسمانی اکسرسائز کرنا۔ مثلاً سوچ کو روک کر اپنے ذہن کو خالی کرلینا۔ کچھ دیر کے لیے آنکھ اور ناک بند کرلینا، وغیرہ۔ اُن کے کہنے کے مطابق، یہ ورزشیں آدمی کے ٹینشن کو بالکل ختم کردیتی ہیں۔
میں نے کہا کہ ٹینشن تو ایک ذہنی مسئلہ ہے۔ اُس کو آپ جسمانی ورزش کے ذریعہ کیسے ختم کرسکتے ہیں۔ ذہنی مسئلہ ذہنی عمل سے ختم ہوگا، نہ کہ جسمانی عمل سے۔آرٹ آف لیونگ کے سینٹر دنیا بھر میں کھلے ہوئے ہیں۔ یہاں لوگ ذہنی ٹینشن کے علاج کے لیے آتے ہیں۔ یہاں مخصوص تربیت کے ذریعہ آدمی کو اس قابل بنایا جاتا ہے کہ وہ اپنے ذہنی ٹینشن کو اندر ہی اندر دبا دیں۔
میں نے کہا کہ یہ تو ٹینشن کا علاج نہیں ہے بلکہ ایک قسم کا عملِ تخدیر (anaesthesia) ہے۔ ذہن کو سُن کرنا جرّاحی (آپریشن) کے لیے مفید ہے، لیکن اگر اس طریقہ کو ٹینشن کے علاج کے لیے استعمال کیا جائے تو اُس کا نقصان یہ ہوگا کہ تفکیری عمل رک جائے گا اور آدمی کا بھر پور ذہنی ارتقاء نہ ہوسکے گا۔
ایک صاحب نے کہا کہ واٹر ریسورس مینیجمنٹ(water resource management) کے بارے میں اصولی رہنمائی گاندھیائی فلسفہ میں موجودہے۔ اس سلسلہ میں اُنہوںنے جو باتیں کہیں اُن میں سے ایک یہ واقعہ تھا کہ ایک بار سیوا گرام میں کچھ لوگوں نے کھانا کھایا۔ کھانے کے بعد وہ اُٹھ کر اپنا ہاتھ دھونے لگے۔ وہ زمین پر پانی بہا رہے تھے۔
گاندھی جی نے کہا کہ دیکھیے، یہاں بہت سے پیڑ پودے موجود ہیں۔ اگر آپ ان پیڑ پودوں کی جڑوں میں ہاتھ دھوئیں تو اس طرح آپ کا بہایا ہوا پانی دوبارہ استعمال ہو جائے گا۔ وہ گر کر ضائع نہیں ہوگا۔
اس سیمینار میں مجھ کو دوبار تقریر کرنے کا موقع ملا۔ مجھے پانی کی اہمیت پر اسلام کے حوالہ سے بولنا تھا۔ میں نے کچھ آیتوں اور حدیثوں کی روشنی میں تقریر کی، مثلاً:
۱۔ زندگی کے لیے پانی بے حد اہم ہے۔ قرآن کے مطابق، تمام زندہ چیزیں پانی سے بنائی گئی ہیں۔ (وجعلنا من الماء کل شی ٔ حی)
۲۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے زیادہ پسندیدہ صدقہ پانی کا صدقہ ہے(اَعْجَبُ الصدقۃ الماء)۔
۳۔ ایک اور روایت کے مطابق، آپ نے فرمایا کہ پانی سے کسی کو روکنا جائز نہیں (لا یحل منع الماء)۔
۴۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کو بیچنے سے منع فرمایا (نہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن بیع الماء)۔
۵۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پانی میں پیشاب نہ کیا جائے(لایبال فی الماء)۔
۶۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ فضول خرچی کے ساتھ پانی بہا رہا ہے۔ آپ نے اس سے منع فرمایا اور کہا کہ پانی میں فضول خرچی نہ کرو خواہ تم بہتے ہوئے دریا کے کنارے ہو (ولو کنت علی نہر جار)۔
قرآن و حدیث کے ان حوالوں کی روشنی میں میں نے جو کچھ کہا اس کا خلاصہ یہ تھا کہ جب پانی کی اتنی زیادہ اہمیت ہے کہ وہ مدار حیات ہے تو اُس کاتحفظ ہر لحاظ سے ضروری ہو جاتا ہے۔ پانی کو لوگوں تک پہنچانا صدقہ جیسے نیک عمل کی حیثیت رکھتا ہے۔ پانی کی ضرورت ہر امیرو غریب کو ہے اس لیے اُس کی فراہمی مفت ہونی چاہئے۔ کوئی ایسی سرگرمی درست نہیں جو وہ چیز پیدا کرے جس کو پانی کی کثافت (water pollution) کہاجاتا ہے۔ پانی سے استفادہ کو ہر ایک کے لیے کھلا رہنا چاہئے، پانی پرروک ٹوک جائز نہیں۔ پانی کا استعمال انتہائی کفایت کے ساتھ ہونا چاہئے۔ حتیٰ کہ لوگوں کے اندر یہ مزاج ہونا چاہئے کہ پانی بظاہر زیادہ ہو تب بھی وہ اُس کا استعمال کفایت شعاری کے ساتھ کریں۔
پانی انسان جیسی مخلوق کے لیے بے حد اہم ہے۔ ہمارے جسم کا اسّی فیصد سے زیادہ حصہ پانی ہوتا ہے۔ نیز جن چیزوں کو ہم خوراک بناتے ہیں وہ سب بھی پانی کے ذریعہ تیار ہوتی ہیں۔ میں نے ایک بار ایک ڈاکٹر کے یہاں ایک شخص کو دیکھا۔ اُس کا پورا جسم بھُس کی طرح کُھردرا ہورہا تھا۔ ڈاکٹرصاحب نے بتایا کہ اس کو ایک عجیب قسم کی بیمار ی ہے جس کی وجہ سے وہ پانی نہیں پی سکتا۔ اس لیے اس کا جسم ایسا ہوگیا۔
پانی کے بارے میں قدیم انسان بہت کم جانتا تھا۔ ارسطو سے لے کر نیوٹن تک لوگ یہ جانتے تھے کہ مادی عناصر (elements) کی تعداد چار ہیــــآگ، ہوا، مٹی، اور پانی۔ صرف انیسویں صدی کے نصف آخر میں یہ معلوم ہو سکا کہ مادّی عناصر کی تعداد ۱۰۵ ہے (اگر چہ تحقیق ابھی جاری ہے)۔
عناصر کی ترکیب ایٹم سے ہوتی ہے۔ پانی ایک بے رنگ رقیق چیز ہے۔ پانی کا سالمہ ہائیڈروجن اور آکسیجن کے ایٹموں سے مل کر بنتا ہے۔ موجودہ زمانہ میں پانی کے موضوع پر بہت زیادہ ریسرچ کی گئی ہے اور بے شمار کتابیں لکھی گئی ہیں۔ اس سلسلہ میںایک مشہور اور جامع کتاب یہ ہے:
The Structure and Properties of Water, by D. Eisenberg and W. Kauzmann.
ایک تعلیم یافتہ ہندو نے یہاںایک انگریزی کتاب اپنے دستخط کے ساتھ مجھ کو دی۔ یہ کتاب ۲۷۵ صفحات پر مشتمل تھی۔ یہ کتاب پہلی بار ۲۰۰۱ میں چھپی۔ کتاب کا نام اور مصنف کا نام یہ ہے:
The Science of God by Dr. Shreesh Kumar Gupta
میں نے دیکھا تو یہ پوری کتاب ژولیدہ فکری (confused thinking) کی عجیب و غریب مثال تھی۔ اُس کا ایک نمونہ یہ ہے کہ اُنہوں نے لکھا ہے کہ خدا نے ایک ہی مذہب بنایا ہے۔ قرآن اس دوامی مذہب کو اسلام کا نام دیتا ہے۔ قرآن کے مطابق، یہ مذہب سناتن دھرم ہے، یعنی دین قیّم۔ وید کو پڑھو، قرآن کو پڑھو، بنیادی تعلیم ایک ہی ہے (۳۵)۔ پہلی مقدس کتاب وید اور آخری مقدس کتاب قرآن ایک ہی مذہب کو بتاتے ہیں۔ پھر کیوں اتنے سب مذہب ہیں اور ہر ایک کی تعلیم الگ الگ ہے۔ مسلمان صرف چودہ سو سال قدیم مذہبی فرقہ ہیں۔ مگر اس تقریباً ڈیڑھ ہزار سال کی مدت میں بھی تبدیلی داخل ہوگئی۔ چنانچہ وہ قرآن کو پڑھتے ہیں اور اُس کا مفہوم نہیں سمجھتے (۳۶):
They read Qur’an but do not understand its meaning.
یہ ایک عجیب و غریب دعویٰ ہے۔ مصنف کو یہ بتانا چاہیے تھا کہ کیوںایسا ہوا کہ مسلمان قرآن کو سمجھ نہ سکے مگر وہ خود قرآن کو سمجھ گئے۔ اس قسم کے دعوے اکثر لوگ کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ خود مسلمانوں میں بھی ایسے لوگ ہیں جو مختلف انداز میں یہی دعویٰ کررہے ہیں۔
جودھ پور میں ۱۲۸ صفحہ کی ایک انگریزی کتاب ہم لوگوں کو دی گئی۔ اس با تصویر کتاب کا نام یہ تھا:
Ripples of the society
اس کتاب میں راجستھان کے بارے میں بہت سی معلومات درج تھیں۔ مثلاً یہ کہ آزادی سے پہلے راجستھان ۲۱ ریاستوں کا مجموعہ تھا، اب راجستھان ۲۱ ضلعوں کی ایک ریاست ہے۔ اُس کا ایک حصہ سرسبز ہے اور دوسرا حصہ ریگستان۔ اُس کے ایک خاکہ میں بتایا گیا تھا کہ ریگستانی علاقہ میں کس طرح سوکھے درخت ہیں اور گاؤں کی عورتیں پینے کا پانی لینے کے لیے اپنے سر پر مٹکا رکھے ہوئے دور دور تک جاتی ہیں۔
ایک تعلیم یافتہ ہندو سے بات کرتے ہوئے میں نے کہا کہ آج کل تین چیزوں کے بارے میں لوگوں کو بہت زیادہ بتانے کی ضرورت ہیــــــٹررزم، ڈیموکریسی، جسٹس۔
میں نے کہا کہ ٹررزم یا آتنک واد کا مطلب ہیـــــ غیر حکومتی تنظیموں کا مسلّح جنگ چھیڑنا ۔ یعنی وہ چیز جس کو آج کل گوریلا وار کہا جاتا ہے۔ اسلام میں جنگ صرف حکومت کی ذمہ داری ہے، اس لیے گوریلا وار اسلام میں سراسرحرام ہے۔ حکومت کے لیے بھی در پردہ جنگ جائز نہیں، اس لیے پراکسی وار بھی اسلام میں ناجائز قرار پاتی ہے۔
ڈیموکریسی کا مطلب ہے، ہر ایک کے لیے آزادی۔ مگر آزادی کی ایک حد ہے۔ وہ حد یہ ہے کہ میری آزادی وہاں ختم ہو جاتی ہے جہاں سے میرے پڑوسی کی آزادی شروع ہوتی ہے۔
My freedom ends where the freedom of my neighbour begins.
آج کل لوگوں کاحال یہ ہے کہ جس کو بھی محسوس ہوتا ہے کہ اُس کو جسٹس نہیں مل رہا ہے وہ فوراً اُس کے لیے سنگھرش شروع کردیتا ہے۔ حالانکہ جسٹس کبھی کسی کے سنگھرش سے نہیں ملتا۔ انصاف یا حقوق خود اپنے عمل سے ملتے ہیں، نہ کہ دوسروں کے خلاف سنگھرش کرنے سے۔
ایک ہندو جو سرکاری افسر تھے، انہوں نے کہا کہ اسلام کی کوئی ایسی تعلیم بتائیے جس میں ہمارے جیسے لوگوں کو بھی کچھ ملتا ہو۔میں نے کہا کہ حال میں میری ملاقات ایک صاحب سے ہوئی۔ وہ ایک بڑی کمپنی میں ڈپٹی جنرل مینیجر ہیں۔
اُنہوں نے بتایا کہ حال میں ہمارے یہاں پرموشن ہوا۔ میری سطح کے تین آدمی تھے۔ میرے سوا ان دونوں کو پرموشن دے دیا گیا۔ یہ ایک کھلا ہوا تعصب تھا۔ مجھ کو بہت جھٹکا لگا۔ عجیب قسم کی مایوسی اور جھنجھلاہٹ دل میں آگئی۔
میں نے اُن سے کہا کہ میںآپ کو قرآن کی ایک آیت بتاتا ہوں، آپ اس پر عمل کریں۔ وہ آیت یہ ہے: لئن شکرتم لازیدنکم۔ (اگر تم شکر کروگے تو تم کو اور زیادہ دیا جائے گا) یعنی آپ ڈپٹی جنرل مینیجر ہونے پر شکر کیجئے تو آپ کو جنرل مینیجر کا عہدہ بھی مل جائے گا۔ گویا اللہ کے قانون میں نہ ملے ہوئے کو پانے کا راز یہ ہے کہ ملے ہوئے پرشکر ادا کیا جائے۔
اس تعلیم کے دو فائدے ہیں۔ ایک تویہ کہ آپ کے دل کا بوجھ اتر جاتا ہے۔ اور دوسرے یہ کہ اس نصیحت کو ماننے کے نتیجہ میں یہ ہوتا ہے کہ فطرت کے قوانین کو بلا روک اپنا کام کرنے کا موقع مل جاتا ہے جس کا نتیجہ آخر کار آپ کے حق میں نکلتا ہے۔
جودھ پور کی مہاراجہ فیملی راٹھور راجپوت سے تعلق رکھتی ہے۔ راٹھور راجپوت اس علاقہ میں ۱۲۱۱ء میں آئے۔ یہ اُس وقت کی بات ہے جب کہ سلطان محمد غوری نے قنّوج کے مقام پر اُنہیں شکست دی تھی۔ راٹھور راجپوتوں کے تعلقات مغل سے بہت اچھے تھے۔ جودھ پور قدیم زمانہ میں دہلی۔گجرات کی تجارتی شاہراہ پر قائم تھا اس لیے اُس کو کافی خوشحالی حاصل ہوئی۔
۱۹۴۷ میں جب ریاست کا زمانہ ختم ہوا، اُس وقت مہاراجہ جودھ پور کے پاس کئی بڑے بڑے محل تھے۔ ان لوگوں نے ریاستی اقتدار سے محرومی پر شکایت اور احتجاج میںوقت ضائع نہیں کیا۔ اُنہوں نے نئی تبدیلیوں کو قبول کرتے ہوئے نئے حالات میں دوبارہ اپنی جگہ بنانے کی کوشش کی۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ اُنہوں نے اپنے کئی محل کو فائیو اسٹار ہوٹل میں تبدیل کردیا۔ مثلاً ان کا ایک محل ۳۴۷ کمروں پر مشتمل تھا۔ اُس کو نئی شکل دے کر ۹۸ کمروں کا ایک ہوٹل بنادیا گیا۔
جودھ پور سے مسلم قیادت کی ایک انوکھی داستان وابستہ ہے۔ ۱۹۴۶ میں جب یہ فیصلہ ہوگیا کہ برصغیر ہند کی تقسیم ہوگی اور یہاں انڈیا اور پاکستان دو الگ الگ ملک بنیں گے تو مسٹر محمد علی جناح جودھ پور آئے اور موجودہ مہاراجہ کے والد سے ملاقات کی۔ مہاراجہ نے ایک مسلم خاتون سے شادی کی تھی۔ وہ مسلمانوں کے بارے میں اپنے اندر نرم گوشہ (soft corner) رکھتے تھے۔
جودھ پور کی آبادی میںمسلمان اگر چہ صرف ۲۰ فیصد تھے مگر جودھ پور ریاست کی سرحد پاکستان سے ملتی تھی۔ مسٹر محمدعلی جناح نے جودھ پور کے مہاراجہ سے ملاقات کرکے اُن سے کہا کہ آپ پاکستان سے الحاق کرلیں۔ پاکستان میں مہاراجہ کی حیثیت سے آپ کے تمام حقوق محفوظ رہیں گے۔ اس واقعہ کی خبر سردار پٹیل کو ہوئی جو ریاستوں کے محکمہ کے وزیر تھے۔ وہ فوراً جودھ پور آئے اور مہاراجہ سے ملاقات کرکے اُنہیں راضی کر لیا کہ وہ انڈیا کے ساتھ الحاق کریں۔ چنانچہ مہاراجہ نے حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے انڈیا کے ساتھ الحاق پر دستخط کردیئے۔
یہ واقعہ پاکستانی قیادت کی اُس غلطی کو بتاتا ہے جس کے نتیجہ میں اُنہوںنے ریاست کشمیر کو غیرضروری طورپر کھو دیا۔ ریاست کشمیر میں مسلمانوں کی عظیم اکثریت تھی اس لیے فطری طورپر وہ پاکستان کا حصہ ہوسکتا تھا ۔مگر پاکستان کی لیڈر شپ نے ناقابل فہم طورپر یہ کیا کہ اس نے اسی کے ساتھ تین اور ریاستوں کو پاکستان کے ساتھ الحاق کا منصوبہ بنایاـــــــجونا گڈھ اور حیدرآباد اور جودھ پور۔ حالانکہ یہ سراسر غیر حقیقت پسندانہ بات تھی ،کیوں کہ جونا گڈھ اور حید آباد اور جودھ پور میں ہندوؤں کی عظیم اکثریت آباد تھی۔ اس لیے آبادی اور جغرافیہ دونوں اعتبار سے ان ریاستوں کا پاکستان کے ساتھ الحاق سرے سے ممکن ہی نہ تھا۔
آبادی کے اصول پر الحاق کے اصول کو جب پاکستانی لیڈروں نے توڑنا چاہا تو فطری طور پر وہ دونوں فریقوں کے لیے ٹوٹ گیا۔ اب فطرت کا اصول ٹوٹ گیا اور اس کے بجائے ردّ عمل کا جذبہ غالب آگیا۔ اس ناخوش گوار صورت حال کی ذمہ داری بلاشبہہ یک طرفہ طورپر صرف پاکستانی لیڈروں پر ہے۔
اس معاملہ میں پاکستانی لیڈر شپ کی غلطی یہ تھی کہ اُس نے قابل حصول اور ناقابل حصول کے فرق کو نہیں سمجھا۔ اُس نے ممکن کے ساتھ ناممکن کو بھی اپنے قبضہ میں لینا چاہا۔ چنانچہ پاکستانی لیڈر شپ کا انجام وہ ہوا جس کو ایک مشہور مقولہ میں اس طرح بیان کیاگیا ہیــــــجو آدمی دو خرگوشوں کے پیچھے دوڑے وہ ایک کو بھی نہیں پکڑ سکتا۔
ایک صاحب سے ہندستان کے سیاست دانوں پر گفتگو ہوئی۔ وہ ہندستان کے سیاست دانوں سے بہت نالاں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہندستان کے سیاسی لیڈر سب کے سب نکمّے ہیں۔ آزادی کے ۵۵ سال بعد بھی وہ ملک کو ترقی نہ دے سکے۔ میںنے کہا کہ یہ بات کُلّی طورپر درست نہیں۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ آزادی کے بعد پہلے مرحلہ میں ملک کو جو لیڈر ملے وہ بہت دیانتدار اور دیش بھکت تھے۔ مگر کوئی لیڈر قومی ترقی میںاعلیٰ کردار صرف اس وقت ادا کرسکتا ہے جب کہ اس کے اندر بیک وقت دو صفتیں ہوں ــــــکیریکٹر اور صحیح آئیڈیالوجی۔
بد قسمتی سے ہمارے فاؤنڈر لیڈروں میں بیک وقت یہ دونوں چیزیں موجود نہ تھیں۔ میں نے پنڈت جواہر لال نہرو کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ نہرو اپنی دیش بھکتی اور اپنے کردار کے لحاظ سے بلاشبہہ ممتاز حیثیت رکھتے تھے۔ اس سلسلہ میں ان کے بہت سے واقعات میں سے ایک واقعہ یہ ہے کہ آزادی کے بعد جب کہ نہرو وزیر اعظم بن چکے تھے وہ دہلی سے باہر کسی سفر پر گئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کہ ملک کا وزیر اعظم اسپیشل ہوائی جہاز سے سفر نہیں کرتا تھا۔ اس کے آنے جانے پر لمبی موٹر کیڈ (motorcade) بھی نہیں ہوا کرتی تھی اور نہ ہی اس کے ساتھ سیکورٹی کا جتھا ہوتا تھا۔ واپسی میں نہرو کا جہاز جب دہلی ائر اسپیس پر پہنچا تو وہ ہوائی اڈہ پر اترنے کے بجائے فضا میں گردش کرنے لگا جس کو اصطلاح میں آربٹنگ (orbiting) یا سرکلنگ (circling) کہتے ہیں۔
اس پر نہرو کو تعجب ہوا۔ وہ پائلٹ کے پاس گئے اور اس سے پوچھا کہ جہاز لینڈ کیوں نہیں کر رہا ہے۔ پائلٹ نے کہا کہ ائر پورٹ سے ہم کو یہ مسیج ملا ہے کہ پرائم منسٹر کی گاڑی ابھی ائر پورٹ نہیںپہنچی ہے اس لئے تم تھوڑی دیر کے لئے انتظار کرو۔ یہ سن کر نہرو غصہ ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ کیا تم سمجھتے ہو کہ میں پیدل نہیں چل سکتا۔ تم فوراً جہاز کو لینڈ کرو۔ اس کے بعد جہاز نیچے اترا تو جواہر لال نہرو ہوائی اڈہ سے نکل کر پیدل اپنی رہائش گاہ کی طرف روانہ ہوگئے۔
اس طرح کے واقعات بتاتے ہیں کہ جواہر لال نہرو اپنی دیش بھکتی اور اپنے کردار کے اونچے مرتبہ پر تھے۔ اس کے باوجود نہرو ایسا نہ کرسکے کہ وہ ملک کو ایک ایسی سمت دے سکیں جو ملک کے لئے بہتر مستقبل کا ضامن ہو۔
اس کا سبب یہ تھا کہ جواہر لال نہرو اگر چہ عملی اعتبار سے ایک باکردار آدمی تھے۔ مگر ان کی آئیڈیالوجی تخیلات پر مبنی تھی، نہ کہ حقائق پر۔ وہ اپنی سوچ کے اعتبارسے پورے معنوں میں ایک سوشلسٹ تھے اور تجربات بتاتے ہیں کہ سوشلزم ایک تخیلاتی رومانیت تھی، نہ کہ حقائق پر مبنی کوئی تعمیری نظریہ۔
کہا جاتا ہے کہ ایک سیاح ہندستان آیا۔ یہاں وہ فائیو اسٹار ہوٹل میں ٹھہرا اور لال قلعہ اور تاج محل دیکھ کر واپس چلا گیا۔ واپسی کے بعد اس نے لکھا کہ ہندستان کے لوگ بہت خوش قسمت ہیں۔ وہ جب زندہ رہتے ہیں تو لال قلعہ میں زندگی گزارتے ہیں۔ اور جب مرتے ہیں تو تاج محل میں دفن ہوتے ہیں۔ جودھ پور آنے کے بعد اگر میں یہ کرتا کہ سی اول گسٹ ہاؤس میں ٹھہرتا اور پھر یہیں سے دہلی واپس چلا جاتا تو شاید میں سمجھتا کہ جود ھ پور کے لوگ بہت خوش قسمت ہیں۔ وہ شاندار گھروں میں آرام کے ساتھ رہتے ہیں، عمدہ کھانے کھاتے ہیں، زندگی کے مسائل انہیں پیش ہی نہیں آتے۔ مگر میں جہاں بھی جاتا ہوںاپنے مزاج کے مطابق، اس کو زیادہ سے زیادہ دیکھنے اور جاننے کی کوشش کرتا ہوں۔
جودھ پور میں بھی میں نے ایسا ہی کیا۔ چنانچہ جب میں جودھ پور کے اندرونی حصوں میں گیا تو معلوم ہوا کہ یہاں ایک ایسی دنیا ہے جو ’’سی اول گسٹ ہاؤس‘‘ سے بالکل مختلف ہے۔ یہاں تنگ راستے ہیں، چھوٹے مکانات ہیں۔ بجلی، پانی اور صفائی کے مسائل ہیں۔ یہاں ایسے لوگ ہیں جو کم آمدنی کے گروپ سے تعلق رکھتے ہیں،وغیرہ۔
میرے ایک ساتھی نے مجھ سے سوال کیا کہ دنیا میں امیری اور غریبی کا جو فرق ہے وہ کیوں ہے۔ اسلام میں اس کو کس طرح بیان کیا گیا ہے۔ میںنے کہاکہ اسلام کے مطابق، امیری اور غریبی دونوں ہی یکساں ہیں۔کیوں کہ دونوں ہی یکساں طورپر امتحان (test) کے پرچے ہیں۔ ایک طالب علم جو امتحان کا پرچہ کررہا ہو اس کے لئے یہ ایک اضافی بات ہے کہ اس نے اپنے تین گھنٹے ائرکنڈیشنڈ ہال میں گزارے یا ایسے ہال میںجو ائرکنڈیشنڈ نہیں۔
ایک اور لحاظ سے دیکھئے تو آرام کی زندگی کے مقابلہ میں مشقت کی زندگی زیادہ بڑی نعمت ہے۔ مشقت کی زندگی کا یہ فائدہ ہے کہ وہ آدمی کو کٹ ٹو سائز (cut to size) کرکے حقیقت پسند بناتا ہے۔ وہ آدمی کے اندر تواضع (modesty) اور خود احتسابی (introspection) جیسی اعلیٰ صفات پیدا کرتا ہے۔ اس کے برعکس جو لوگ امیری میں جئیں وہ اپنے بارے میں زیادہ اندازہ (over-estimation) کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان کے اندر اَنا اور خود پسندی جیسی خرابیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔
تاہم امیری اور غریبی دونوں میںسے کوئی بھی ابدی حالت نہیں۔ اس دنیا میں ہر روز یہ منظر دکھائی دیتا ہے کہ ایک غریب آدمی امیر بن جاتا ہے اور ایک امیر آدمی غریب ہو جاتا ہے۔ کوئی آدمی نہ پیدائش سے امیر ہوتا ہے اور نہ پیدائش سے غریب۔ ایک غریب آدمی محنت کرکے امیر بن جاتا ہے اور ایک امیر آدمی کاہلی کرکے غریبی کے درجہ کو پہنچ جاتا ہے۔ یہ آدمی کی اپنی کوشش کا مسئلہ ہے، نہ کہ تقدیر کا مسئلہ۔
قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ: وآتاکم من کل ما سألتموہ(ابراہیم ۳۴) یعنی اللہ نے انسان کو وہ ساری چیزیں دے دیں جن کی ضرورت اسے دنیا میں زندگی گزارنے کے لئے تھی۔ موجودہ زمانہ کی سائنسی دریافتیں اورایجادیں قرآن کے اس بیان کی عملی تصدیق ہیں۔ آیت کے نزول کے ۱۴ سو سال بعد اس کی یہ غیر معمولی تصدیق قرآن کے کتاب الٰہی ہونے کا ایک زندہ ثبوت ہے۔
موجودہ زمانہ میںجو چیزیں قرآن کے اس بیان کی تصدیق بن کر ظاہر ہوئی ہیں انہی میں سے ایک کمپیوٹر بھی ہے۔ کمپیوٹر کے نظام میں جس چیز کو انٹرنٹ(internet) کہا جاتا ہے اُس کا ایک چھوٹا سا تجربہ مجھے اپنے موجودہ سفر کے دوران ہوا۔ مجھ کو جب جودھ پور کا سفر پیش آیا تو میں نے مسٹر خالد انصاری سے کہا کہ آپ انٹرنٹ سے جودھ پور کے بارے میں معلومات نکال کر دے دیں۔ ان کا تعلق اسی شعبہ سے ہے۔ انہوں نے اپنے کمپیوٹر پر جو دھ پور کا لفظ ٹائپ کیا اور اس کے بعد اس کا مخصوص سوئچ دبایا اور اچانک ان کے کمپیوٹر نے ’’عالمی لائبریری‘‘ سے لے کر جودھ پور کے بارے میں ٹائپ شدہ ۱۳ صفحات کا ایک پورا معلوماتی دفتر ان کے سامنے رکھ دیا۔ اس میں جودھ پور کی تاریخ، اس کا جغرافیہ، اور اس سے متعلق دوسری معلومات تفصیل کے ساتھ موجود تھیں۔
انٹر نیٹ کے ذریعہ جودھ پور کے بارے میں جو معلومات مجھے حاصل ہوئیں اُن میں سے ایک یہ تھی کہ موجودہ شہر ۱۴۵۹ ء میں مارواڑ کی راجدھانی کے طورپر بنایا گیا۔ اُس کے بانی راؤ جودھا تھے جن کا دعویٰ تھا کہ وہ رام کی ذرّیت ہیں:
The former capital of Marwar state, was founded in 1459 by Rao Jodha who claimed descendant of Lord Ram.
انسانی دماغ بھی زیادہ پیچیدہ قسم کا ایک زندہ کمپیوٹر ہے۔ اس کا تجربہ بھی مجھے اسی سفر کے دوران پیش آیا۔ میںنے جودھ پور کا سفر کیا تو میرے ذہن میں یہ نہ تھا کہ مجھے اس کا سفر نامہ لکھنا ہے۔ سفر نامہ کے لیے میرا طریقہ یہ ہے کہ یا تو سفر کے دوران ساتھ ساتھ لکھتا رہتا ہوں یا مختلف تجربات ومشاہدات کو اشارات کی صورت میں لکھ لیتا ہوں ۔اور پھر واپسی کے بعد اُن کو تفصیلی صورت میں مرتب کرتا ہوں۔ مگر جودھ پور کے تین روزہ سفر میں میں نے نہ سفر نامہ مرتب کیا اور نہ اشارات لکھے۔ حتیٰ کہ سفر کی باتوں کو ذہن میںبھی شعوری طور پر محفوظ کرنے کی کوشش نہیںکی۔
سفر سے واپسی کے بعد ایک اتفاقی واقعہ پیش آیا۔ اس کے بعد خیال ہوا کہ مجھے جودھ پور کا سفر نامہ لکھنا چاہئے۔ یہ میری پوری زندگی میں پہلا موقع تھا کہ میں ایک سفرنامہ کو تحریری یادداشت کے بغیر مرتب کرنے کی کوشش کروں۔ اب میں نے ایک نیا تجربہ کیا۔ میں اپنے ساتھی برادرم ندیم احمد کے ساتھ اس طرح بیٹھ گیا کہ میں بولتا جاتاتھا اور وہ اُس کو لکھتے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ تقریباً ۴۰ صفحہ کا پورا ایک سفر نامہ تیار ہوگیا۔
اس تجربہ کے ذریعہ ایک نئی حقیقت کا انکشاف ہوا۔ جیسا کہ نفسیاتی ریسرچ سے معلوم ہوا ہے ، انسان کا شعور(conscious mind) اگر کسی بات کو سننے اور دیکھنے کے باوجود نہ پکڑے تب بھی اس کا تحت شعور(sub-conscious mind) اُس کو پوری طرح محفوظ کرلیتا ہے۔ اور کسی خاص موقع پر اُس کو دہرا سکتا ہے۔ میرے ساتھ یہی پیش آیا۔
جب میں جودھ پور کا سفر نامہ لکھوانے لگا تو میرے ذہن کا کمپیوٹر اسی طرح ساری معلومات مجھے یاد دلانے لگا۔ یہاں تک کہ چند دن میں پورا سفر نامہ تیار ہوگیا۔
جودھ پور راجستھان کا دوسرا سب سے بڑا شہر ہے (پہلا شہر جے پورہے)۔ اس کا طرز تعمیر قدیم وجدید کا نمونہ دکھائی دیتا ہے۔ یہاں کا چنتا منی قلعہ (مہران گڈھ) ۱۴۵۹ ء میں بنایا گیا تھا۔ اس قلعہ میں ایک میوزیم بھی واقع ہے۔ یہاں کے مشہور امید بھون پیلیس کی بنیاد ۱۹۲۹ میں رکھی گئی۔ ۱۹۴۳ میں وہ بن کر تیار ہوا۔ ۱۹۴۴ء سے وہ راجہ فیملی کے لوگوں کی قیام گاہ ہے۔
اس کا ذکر کرتے ہوئے میں نے ایک صاحب سے کہا کہ جودھ پور کے مقابلہ میں حیدر آباد بہت بڑی ریاست تھی۔ جودھ پور گویا ایک شہر تھا اور حیدر آباد ایک پورا ملک۔ مگر جودھ پور آج بھی اپنی شان وشوکت کے ساتھ باقی ہے اور حیدر آباد کی ریاستی حیثیت ختم ہوگئی۔
دونوں میں اس فرق کا سب سے بڑا سبب قیادت کا فرق ہے۔ حیدرآباد میںقاسم رضوی جیسا غیر حقیقت پسند لیڈر پیداہوا جس نے قوم کوایک ناقابل حصول نشانہ پر کھڑا کر دیا، یعنی آزاد ریاست ۔ دوسری طرف جودھ پور کے مہاراجہ نے حقیقت پسندی کا انداز اختیار کیا۔ انہوں نے ممکن کے دائرہ میں اپنے مستقبل کی نئی منصوبہ بندی کی اور وہ پوری طرح کامیاب رہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ۱۹۴۷ میں نئی دہلی نے ریاست حیدرآباد کو داخلی اٹانومی کی پیشکش کی تھی، بشرطیکہ وہ ’’آزادحیدرآباد‘‘ کا خیال چھوڑ دے۔ ریاست حیدرآباد کے ذمہ داروں نے اگر اس پیش کش کو قبول کر لیاہوتا تو یقینا آج اُس کی حیثیت جودھ پور سے بہت زیادہ بہتر ہوتی۔
۱۲ مئی ۲۰۰۲ء کی صبح کو جودھ پور سے واپسی ہوئی۔ واپسی کے اس سفر میںدوآدمیوں کا ساتھ رہاــــــــبابو لال شرما اور نیتن لمے۔ ان لوگوں سے راستہ میں مختلف قسم کی باتیں ہوئیں۔ بابو لال شرما کا تعلق گاندھی پیس فاؤنڈیشن سے ہے۔ اور نیتن لِمے کا تعلق آرٹ آف لیونگ سے۔ دونوں کے تجربہ کا میدان الگ الگ ہے۔ سفر میںجو فائدے ہیں اُن کا ایک خاص پہلو یہ ہے کہ نئے نئے لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے اور اُن کے ذریعہ مختلف شعبوں کی معلومات حاصل ہوتی ہیں۔
تاہم معلومات حاصل کرنے کا خاص راز یہ ہے کہ آدمی سوال کرنا جانتا ہو۔ خلیفۂ دوم حضرت عمر فاروق کے بارے میں آتا ہے کہ: کان یتعلم من کل أحد۔ میں عرصہ تک سوچتا رہا کہ حضرت عمر ہر ایک سے کس طرح علم سیکھتے تھے۔ اس کا جواب مجھے یہ ملا کہ وہ ہر ایک سے اُس کے دائرہ کا سوال کرتے تھے۔ اور اس طرح سوالات کرکے ہر ایک کو یہ موقع دیتے تھے کہ وہ اپنی معلومات بیان کرے۔ یہی طریقہ میںنے خدا کے فضل سے اختیار کیا ہے۔ ایسے مواقع پر میں یہ کرتا ہوں کہ لوگوں سے پوچھوں اور اُن کی باتوں کو سُنوں۔
واپسی کا سفر بھی دوبارہ جٹ ایر ویز کے ذریعہ ہوا۔ دوران پرواز انگریزی اخبار ایشین ایج(The Asian Age) کا شمارہ ۱۲ مئی ۲۰۰۲ء دیکھا۔ اس کے صفحۂ اول پر ایک دلچسپ خبر تھی۔ اس خبر میں بتایا گیا تھا کہ اجودھیا کی ایک ہندو تنظیم نے یہ پیش کش کی ہے کہ اگر مسلمان بابری مسجد کو جگہ بدل کر دوسرے مقام پر بنانے کے لیے راضی ہوجائیں تو وہ بھی رام مندر کو موجودہ متنازعہ جگہ کے بجائے دوسرے مقام پر بنانے کے لیے راضی ہو سکتے ہیں:
Samiti offers to shift Ram Temple
Lucknow: Sri Ram Janmbhoomi Punaruddahn Samiti, a party in the Ram Janmbhoomi title deed case, on Saturday said it was ready to shift the Ram Temple at Ayodhya from the disputed site if the Muslims too agreed to build the mosque elsewhere. Samiti leader Anand Swarup said here that Ram Temple issue should not be exploited for creating discord among Hindus and Muslims. (12 May, 2002)
۱۲ مئی ۲۰۰۲ کو دوپہر سے کچھ پہلے ہمارا جہاز دہلی پہنچ گیا۔ دہلی ایر پورٹ پر بظاہر تاخیر کی کوئی وجہ نہ تھی مگر جٹ ایرویز کے عملہ نے ناریل کی واپسی میںدیر کی۔ حالانکہ جے پور ایر پورٹ پر انہوں نے کہا تھا کہ ناریل آپ کو دہلی ایرپورٹ پر پہنچتے ہی مل جائے گاــــــقانون کو دوسرے کے اوپر چلانا بہت آسان ہے، مگر قانون کو خود اپنے اوپر چلانا بہت زیادہ مشکل۔
واپس اوپر جائیں

ایک خط

برادر محترم عبد السلام اکبانی صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ
۱۴ مارچ ۲۰۰۲ ء کو آپ سے ٹیلی فون پر گفتگو ہوئی۔ آپ نے ملّی اتحاد کے مسئلہ پر زور دیا۔ اس معاملہ پر غور کرنے کے بعد میری سمجھ میں آتا ہے کہ ہمارا اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ مسلمانوں کے اندر اتحاد نہیں۔ بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اتحاد کی بڑی بڑی کوششو ں کے باوجود مسلمان متحد نہ ہوسکے۔
مولانا محمد علی جوہر نے خلافت کے نام پر بظاہر سارے برّ صغیر ہند کے مسلمانوں میں اتحاد پیدا کردیا تھا۔ مگر یہ اتحاد بہت جلد ریت کے ڈھیر کی طرح بکھر گیا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کی صورت میں بظاہر مسلمانوں کا بہت بڑا اتحاد قائم ہوا ،مگر پاکستان بننے کے بعد ہی یہ اتحاد ٹوٹ پھوٹ کر منتشر ہوگیا۔ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کی صورت میں بظاہر پورے ملک کے مسلمانوں کا اتحاد قائم ہوگیا مگر اُس سے بھی جلسہ جلوس کے وقتی دھوم کے سوا مسلمانوں کو کچھ اور نہیں ملا۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے نام سے بڑے بڑے اتحادی جلسے کئے گئے مگر ملّت ایک متحد گروہ نہ بن سکی۔ بابری مسجد کے نام پر بڑی تعداد میں اتحادی مظاہرے ہوئے مگر وہ غیر متّحد ملت کو متحد ملت نہ بنا سکے، وغیرہ۔
مذکورہ اتحادی کوششوں کے درمیان ہمارا ہر لیڈر بڑے بڑے الفاظ بولتا رہا۔ اس لحاظ سے جائزہ لیجئے تو یہ محسوس ہوگا کہ ہمارے لیڈروں کو شاید یہ خبرہی نہ تھی کہ اتحاد کیسے قائم ہوتا ہے اور اتحاد کیسے باقی رہتا ہے۔
مثلاً ہمارے لیڈر بظاہر اس حقیقت سے بالکل بے خبر تھے کہ بھیڑ اور اتحاد میں فرق ہے۔ خطرہ کی گھنٹی بجاکر کوئی بھی شخص وقتی بھیڑ اکٹھا کر سکتا ہے مگر حقیقی اتحاد ایک مثبت واقعہ ہے جو صرف شعوری بیداری کے نتیجہ میں کسی قوم کے اندرپیدا ہوتا ہے۔ ان تمام لوگوں نے بھیڑ کو اتحاد سمجھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اتحاد کو شعوری طورپر جانتے بھی نہ تھے۔ پھر جو لوگ اتحاد کی حقیقت سے بے خبرہوں، وہ کیوں کرعملی اتحاد قائم کریں گے۔
دوسری بات یہ کہ اکثر اتحاد اپنے رہنماؤں کے اختلاف کی بنا پر ختم ہوا۔ مثلاً آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے رہنماؤں کا باہمی اختلاف۔ یہ لوگ اس ابتدائی حقیقت سے بے خبر تھے کہ اتحاد ہمیشہ اختلاف کے باوجود قائم ہوتا ہے، نہ کہ اختلاف کے بغیر۔ ایسے بے شعور لوگوں سے یہ اُمید کرنا ہی بے سود ہے کہ وہ ملت کو ایک متحد ملت بنائیں گے۔
میرے نزدیک اتحاد کا آغاز اتحاد کانفرنس سے نہیں ہو سکتا بلکہ وہ شعوری بیداری کے ذریعہ ہوتا ہے۔ موجودہ مسلمانوں میں سب سے پہلے شعوری بیداری پیدا کرنا ہے۔ اُن کے اندر وسیع پیمانہ پر ملّی صحافت وجود میں لانا ہے۔ اُن کے اندر تعمیری معنوں میں ایک قیادت برپا کرنا ہے۔ اُن کے اندر صبر اور تحمل کا مزاج پیدا کرنا ہے۔اُن کے اندر انفرادی سوچ کے بجائے اجتماعی سوچ لانا ہے۔ اس قسم کی ابتدائی کوششوں کے بغیر جو اتحادی کانفرنس ہوگی وہ نشستند و گفتند و برخاستند کے سوا کوئی اور مثال قائم نہیں کرسکتی۔
اس وقت ہندستان کے مسلمان ذہنی اعتبار سے جس مقام پر ہیں وہ یہ ہے کہ اُن کے پاس صرف منفی سوچ کا سرمایہ ہے، مثبت سوچ کا فکری سرمایہ اُن کے پاس موجود نہیں۔ وہ صرف اپنی ملّت کے سطحی مفاد کو جانتے ہیں۔ اُن کی موجودہ تمام سرگرمیاں کمیونٹی ایکٹوزم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ وسیع تر انسانیت کے درد سے اُن کے سینے خالی ہیں۔ اعترافِ حقیقت کی اہم ترین انسانی قدر اُن کے اندر اتنی کم ہے کہ شاید اس کا کوئی وجود ہی نہیں۔ ذاتی مفاد اور ذاتی مصالح سے اوپر اُٹھ کر سوچنے کی اہمیت نہ اُن کے اصاغر کو معلوم ہے اور نہ اُن کے اکابر کو۔ زمانہ کی تبدیلیوں سے اُن کے دانشور اور علماء دونوں اتنا زیادہ بے خبر ہیں کہ دنیا کی کوئی قوم شاید اتنی زیادہ بے خبر نہیں ہوگی۔ اُن کا ذہنی ارتقاء اتنا کم ہوا ہے کہ اُن کے درمیان یا تو برکت اور فضیلت پر مبنی تحریکیں مقبول ہوتی ہیں یا جذباتی سیاست پر مبنی تحریکیں۔ ایسی حالت میں اتحاد ملت عمومی معنوں میں ایک ایسا خواب ہے جس کی کوئی تعبیر مستقبل قریب میں ممکن ہی نہیں۔
۱۵ مارچ ۲۰۰۲ء دعا گو وحید الدین
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز ۱۵۵

۱ کشمیر کے ایک نوجوان اپنے خط مورخہ ۱۱ نومبر ۲۰۰۱ ء میں لکھتے ہیں کہ کشمیر میںالرسالہ کا نقطۂ نظر تیزی سے پھیل رہا ہے۔ لوگ عام طورپر اُس کو قبول کرتے جارہے ہیں۔ اور اُس کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں۔ ایک بہت بڑے سیمینار میںمیں نے آپ کا نام لے کر الرسالہ کے نقطۂ نظر کو برملا پیش کیا تو قدیم روایت کے خلاف کوئی شخص بھی تردید کے لیے نہ اُٹھا۔
۲ ہندی اخبار ویر ارجن (دہلی) کے نمائندہ سنجے رائے نے ۱ فروری ۲۰۰۲ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ اجودھیا کے مسئلہ پر کوئی فریق سنجیدہ نہیں اسی لیے یہ مسئلہ اب تک حل نہ ہوسکا۔ کسی مسئلہ کے حل کے لیے سنجیدگی لازمی شرط ہے۔
۳ نئی دہلی کے ایجوکیشن میگزین (Educare) کی اسسٹنٹ ایڈیٹر مس میہا مہتا نے ۲۶ اپریل ۲۰۰۲ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر اس مسئلہ سے تھا کہ ہندستان میں جو فرقہ وارانہ فسادات ہوتے ہیں اس میں تعلیم یا تعلیم یافتہ افراد کا رول کیا ہے۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ اس مسئلہ کا اصل سبب تعلیم میں پچھڑا پن ہے۔ تعلیم عورت اور مرد کو باشعور بناتی ہے۔ اور باشعور انسان اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ معاملات میں جذباتی کارروائی نہ کرے بلکہ سوچ سمجھ کر مسئلہ کو ختم کرے۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ جب کوئی مسئلہ پیدا ہو تو تعلیم یافتہ افراد غیر جانب دار نہ رہیں بلکہ موقع پر پہنچ کر تناؤ کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔
۴ گاندھی سمیتی (برلا بھون، نئی دہلی) میں ۲۷ اپریل ۲۰۰۲ کو ایک جلسہ ہوا۔ اس کا موضوع تھا کہ ملک میں امن واتحاد کیسے قائم کیا جائے۔ صدر اسلامی مرکز نے اس کی دعوت پر اس میں شرکت کی اور امن و اتحاد کے سوال پر ایک تقریر کی۔ تقریر کے دوران انہوں نے یہ حدیث سنائی: المسلم من سلم الناس من لسانہ ویدہ (مسلمان وہ ہے جس کی زبان سے اور جس کے ہاتھ سے لوگ محفوظ ہوں)
۵ وشو ہندی پرتشٹھان،کرن بھون، نئی دہلی میں ۲۷ اپریل ۲۰۰۲ کو ڈاکٹر ستیہ بھارگو کی کتاب ’’راشٹریہ ایکتا میں سنگیت کی بھومیکا‘‘ کے اجراء کے لیے ایک فنکشن ہوا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور راشٹریہ ایکتا کے موضوع پر ایک تقریر کی۔
۶ اٹلی کے ادارہ کلچرل اسوسی ایشن آف آرمونیا (Cultural Association of Armonia) کی طرف سے وینس میں ۳۔۵ مئی ۲۰۰۲ کو ایک انٹرنیشنل کانفرنس ہوئی۔ اس کا موضوع تھا امن اور روحانیت(Peace and Spirituality)۔ اس کانفرنس میں شرکت کے لئے صدر اسلامی مرکز کو مدعو کیا گیا تھا۔ مگر وہ اپنی بعض مصروفیات کی بنا پر اس میں شرکت نہ کرسکے۔ البتہ موضوع سے متعلق ایک پیپر انہیں ای۔میل کے ذریعہ بھیج دیا گیا۔
۷ تریوندرم (کیرلا) میں ۴۔۶ مئی ۲۰۰۲ کو ایک آل انڈیا کانفرنس ہوئی۔ اس کانفرنس کا انتظام شانتی گری آشرم کی طرف سے کیا گیا تھا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور امن اور روحانیت کے موضوع پر اپنے خیالات کا مفصل اظہار کیا۔
۸ تَرُن بھارت سَنگھ اور بھاگیرتھی فاؤنڈیشن کے تعاون کے تحت جودھ پور میں ۱۰۔۱۱ مئی ۲۰۰۲ کو ایک نیشنل سیمینار ہوا۔ اس کا موضوع تھاــــــمذہب اور پانی (Religion & Water) ۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور مذکورہ موضوع پر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تقریر کی۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں بتایا گیا کہ پانی اللہ کی ایک نعمت ہے۔ مختلف حدیثوں کے حوالے دئیے گئے۔ مثلاً: ’’سب سے اچھا صدقہ پانی ہے‘‘۔ ’’پانی کو فروخت نہ کرو‘‘۔ ’’پانی کو گندہ نہ کرو‘‘۔ ’’پانی سے کسی کو نہ روکو‘‘۔ ’’پانی کو مسرفانہ طورپر خرچ نہ کرو خواہ تم ایک بہتے ہوئے دریا کے کنارے ہو۔‘‘
۹ جودھ پور کے سفر میں ۱۱ مئی ۲۰۰۲ کو آل انڈیا ریڈیو اور اسٹار ٹی وی نے صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ دونوں کے سوالات کا تعلق زیادہ تر اس مسئلہ سے تھا کہ فطرت (Nature) کے متوازن استعمال کے لئے اسلام کی تعلیمات کیا ہیں۔ قرآن نے اس سلسلہ میں جو احکام دئے ہیں ان میں سے ایک اصولی حکم یہ ہے: لا تفسدو ا فی الارض بعد اصلاحھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا نے زمین کو اصلاح یافتہ صورت میں بنایا ہے۔ اس کی ہر چیزنہایت صحیح تناسب (right proportion) میں ہے۔ فطرت کے اس توازن کو برقرار رکھو۔ اس توازن کو بگڑنے نہ دو۔
۱۰ نئی دہلی کے ہندی اخبار راشٹریہ سہارا کے نمائندہ مسٹر ونے کمار ٹھاکر نے ۱۲ مئی ۲۰۰۲ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر مسلم پرسنل لا سے تھا۔ ایک سوال کے جواب میں کہا گیا کہ نکاح و طلاق کے معاملات میں اصولاً مسلم جج کو فیصلہ دینا چاہئے مگر جب مسلم جج قابل حصول نہ ہو تو سیکولر عدالت کے جج کے ذریعہ انصاف کا حصول تتغیر الاحکام بتغیر الزمان والمکان کے تحت جائز قرار پائے گا۔
۱۱ جین ٹی وی (نئی دہلی) کی ٹیم نے ۱۹ مئی ۲۰۰۲ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو ریکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر اسلام میں نکاح و طلاق کے مسائل سے تھا۔ ایک سوال کے جواب میں کہا گیا کہ اسلام کا قانون اپنے آپ میں مکمل اور ابدی ہے۔ البتہ مسلمان اس کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ اس لیے ریفارم کی ضرورت مسلمانوں کے لیے ہے، نہ کہ اسلام کے لیے۔
۱۲ ای ٹی وی (نئی دہلی) کے نمائندہ مسٹر اے۔ باری مسعود نے ۲۰ مئی ۲۰۰۲ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو ریکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی اور جنگ کے امکانات سے تھا۔ ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ دونوں کے درمیان جنگ نہیں ہوگی۔ مزید یہ کہ موجودہ زمانہ میں جنگ ہارنے والے کے لیے بھی تباہی ہے اور جیتنے والے کے لیے بھی تباہی۔
۱۳ آل انڈیا ریڈیو (نئی دہلی) نے ۵ جون ۲۰۰۲ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ موضوع یہ تھا: اسلام میں امن اور اتحاد کی تعلیم۔ ایک سوال کے جواب میں یہ حدیث بتائی گئی کہ المؤمن من أمنہ الناس (مومن وہ ہے جس سے لوگ امن میں ہوں)۔
۱۴ جامعہ ہمدرد (دہلی) میں ۱۵ جون ۲۰۰۲ کو ایک سیمنار ہوا۔ اس میں جامعہ کے طلبہ اور اساتذہ شریک ہوئے۔ اس کا موضوع قرآ ن تھا۔ صدر اسلامی مرکز نے اس کی دعوت پر اس میں شرکت کی۔ تقریر میں یہ بتایا گیا کہ قرآن عام انسان کی کیا رہنمائی کرتا ہے۔
۱۵ عظیم الدین ضیفی صاحب (گیا) لکھـتے ہیں کہ ناسک سینٹرل جیل میں ایک ذریعہ سے ہندی کتابیں بھجوائی گئیں۔ قیدیوں نے ان کتابوں کو پڑھا اور دلچسپی کا اظہار کیا۔ اس کے بعد اُنہیں مزید کتابیں بھجوائی جارہی ہیں۔ لٹریچر پہنچانے کا یہ کام مانوتا نرمان کیندر کے تحت انجام دیا جارہا ہے۔ جیل کے ان قیدیوں نے جب ان کتابوں کا مطالعہ کیا تو اُنہوں نے اپنے اندر کے انسان کو پہچان لیا اور اپنے اچھے تاثرات کو بذریعہ خط ہمیں روانہ کیا۔ اُن کوجو کتابیں بھیجی گئی تھیں اُن میں ’’ انسان اپنے آپ کو پہچان‘‘ بھی شامل تھی۔
۱۶ دین وشریعت کے نام سے ایک جامع کتاب تیار ہوکر زیر طبع ہے۔ انشاء اللہ وہ جلد ہی چھپ کر آجائے گی۔ اس کتاب میں دین اور شریعت کے تمام پہلوؤں کا تفصیلی مطالعہ کیا گیا ہے۔
واپس اوپر جائیں