Pages

Wednesday 21 November 2018

Al Risala | December 2018 (الرسالہ،دسمبر)

4

-کامیاب زندگی کا طریقہ

5

- آخرت کا معاملہ

6

- حجت کا قانون

7

- ایک حدیث قدسی

8

- کنڈیشننگ کا مسئلہ

9

- ماحول کا اثر

10

- مومن کی فراست

11

- داخلی اصلاح کا نظام

13

- بیدار ذہنی

14

- مطالعے کی افادیت

15

- اتباع کا مطلب

17

- رسوخ فی العلم

18

- ایک نصیحت

19

- سیکھنے کا عمل

20

- غلطی کا اعتراف

21

- اختلاف ایک مثبت ظاہرہ

22

- نزاع کا معاملہ

23

- دعوت میں رُجز

24

- انقلاب کا آغاز

25

- گفتگو کااصول

26

- حکمت کی تعلیم

28

- سمجھدار انسان

29

- تجربہ سے سبق سیکھیے

30

- مثبت سوچ کی ضرورت

31

- ٹیک اوے کیا ہے

32

- رب العالمین کا شکر

33

- سبق کا پہلو

34

- اختلاف رائے

36

- تسفیہ یا تنقید

37

- تنقید کا طریقہ

38

- امت کی بیداری

39

- شخصیت کی تبدیلی

41

- ذہن سازی

42

- زندہ قوم

43

- مشورہ یا باہمی مشاورت

44

- ری ایکشن کا طریقہ

45

- ایک لفظ کا فرق

46

- خبرنامہ اسلامی مر کز


کامیاب زندگی کا طریقہ

ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: مَا طَلَعَتْ شَمْسٌ قَطُّ إِلَّا بُعِثَ بِجَنْبَتَیْہَا مَلَکَانِ یُنَادِیَانِ، یُسْمِعَانِ أَہْلَ الْأَرْضِ إِلَّا الثَّقَلَیْنِ:یَا أَیُّہَا النَّاسُ ہَلُمُّوا إِلَى رَبِّکُمْ فَإِنَّ مَا قَلَّ وَکَفَى خَیْرٌ مِمَّا کَثُرَ وَأَلْہَى(مسند احمد، حدیث نمبر 21721) ۔ یعنی جب سورج طلوع ہوتا ہے تو دو فرشتے اس کے دونوں کناروں پر بھیجے جاتے ہیں۔ وہ دونوںاعلان کرتے ہیں، جس کو جن و انسان کے علاوہ تمام مخلوقات سنتی ہیں: اے لوگو، اپنے رب کی طرف آئو، جو کم ہو، اور کافی ہو، وہ بہتر ہےاس سے جو زیادہ ہو، اور غفلت میں ڈالدے۔
انسان کو زندگی گزارنے کے لیے کچھ مادی سامانِ حیات درکار ہوتا ہے۔ یہ سامان حیات زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے۔ لیکن سامانِ حیات فراہم کرنے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک ہے، بقدرِ ضروت پر اکتفا کرنا، اور دوسرا ہے، ہر خواہش کو پورا کر نے کی کوشش کرنا۔ جو آدمی سامانِ حیات کے معاملے میں بقدرِ ضرورت پر اکتفا کرے، وہ کامیاب انسان ہے، اور جو آدمی ہر خواہش کی تکمیل کو اپنا مقصدِ حیات بنالے، وہ کامیاب زندگی کی تعمیر سے محروم رہے گا۔
جو آدمی سامان حیات کو ضرورت کے درجے میں رکھے، اور اپنی ساری توجہ مقصدِ حیات کو جاننے پر لگائے ، اس کی زندگی کامیاب زندگی ہوگی۔ کیوں کہ ضرورت پر اکتفا کرنے پر اس کو کافی موقع ملےگا کہ وہ زندگی کے اصل مقصد کے حصول کے لیے اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ فارغ کرسکے۔
مثلاً ایسے آدمی کے پاس کافی وقت ہوگا۔ وہ کتابوں کا مطالعہ کرکے زندگی کے مقصد کے بارے میں اپنے علم کو بڑھائے۔ اس کے برعکس، جو آدمی سامانِ حیات کو بذاتِ خود اہم سمجھ لے، وہ سامانِ حیات کی زیادہ سے زیادہ فراہمی میں اتنا وقت لگادے گا کہ اس کے پاس اصل مقصد کے لیے کچھ کرنے کا وقت ہی باقی نہیں رہے گا۔ اس کے پاس سامان حیات کی افراط ہوگی، لیکن انٹلکچول ڈیولپمنٹ کے معاملے میں وہ ذہنی بوناپن کا شکار ہوجائے گا۔
واپس اوپر جائیں

آخرت کا معاملہ

ایک لمبی روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ اس کا ایک جزء یہ ہے ۔ پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا : أَمَّا ہُوَ فَقَدْ جَاءَہُ الیَقِینُ، إِنِّی لَأَرْجُو لَہُ الخَیْرَ مِنَ اللَّہِ،و َاللَّہِ مَا أَدْرِی - وَأَنَا رَسُولُ اللَّہِ - مَا یُفْعَلُ بِی وَلاَ بِکُمْ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 7018)۔یعنی اس کو موت آگئی، اور میں اس کے بارے میں اللہ سے خیر کی امید رکھتا ہوں، خدا کی قسم، میں نہیں جانتا، حالاں کہ میں اللہ کا رسول ہوں، کیا کیا جائے گامیرے ساتھ، اور کیا کیا جائے گا تمھارے ساتھ۔اس حدیث میں جو بات کہی گئی ہے، وہ بظاہر اس آیت کے خلاف ہے: لِیَغْفِرَ لَکَ اللَّہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَأَخَّرَ (48:2)۔ لیکن یہ کوئی تعارض کی بات نہیں۔اس آیت میں جو بات بتائی گئی ہے، وہ خدا کی جانب سےہے۔ اس کے برعکس، ایک انسان کا خدا کی نسبت سے کیا رسپانس ہونا چاہیے، وہ رسول اللہ نے کہا ہے۔ایک سچا انسان جب خدا کے عطیے کو پائے ،اس کے تواضع میں بہت زیادہ اضافہ ہوجائے گا، وہ سجدے میں گرجائے گا، وہ یہ کہے گا کہ خدایا، میں تو اس قابل نہیں تھا، یہ محض تیرا فضل ہے، تیرے ہاتھ میں سب کچھ ہے، اور میں کچھ بھی نہیں۔
مذکورہ روایت میں رسول اللہ نے جو بات کہی، وہ عظمتِ خداوندی کے پہلو سے ہے، جس کو قرآن میں ایک مقام پر ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:وَالْأَمْرُ یَوْمَئِذٍ لِلَّہِ (82:19) ۔جس انسان کو رب العالمین کی عظمتوں کی دریافت ہوجائے، وہ ہر کام کو صرف اللہ رب العالمین کی نسبت سے سوچنے والا بن جاتاہے۔ ہیبتِ خداوندی کی بنا پر اس کا حال یہ ہوجاتاہے کہ وہ اپنے آپ کو لے کر نہیں سوچتا، بلکہ اللہ رب العالمین کو لے کر سوچنے لگتا ہے۔ سچے انسان کو جب اللہ کی دریافت ہوجائے،تو اس کے اندر کامل معنوں میں خدا رخی (God oriented) سوچ بن جاتی ہے۔ وہ اپنے آپ کو’’ بے کچھ‘‘ او ر اللہ رب العالمین کو’’سب کچھ‘‘ سمجھنے لگتاہے۔ اس کی یہ سوچ اس کے تمام اقوال و افعال میں حاوی ہوجاتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

حجت کا قانون

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ نے دنیا کو پیدا کرنے کے بعد یہاں انسان کو آباد کیا، اور پیغمبر اور داعیوں کے ذریعے یہ انتظام فرمایا کہ انسانوں کے پاس مسلسل طور پر ایسے افراد آئیں، جو انسان کو بتائیں کہ خالق کا تخلیقی نقشہ (creation plan) کیا ہے۔ یہ انتظام اس لیے کیا گیا ہے، تاکہ انسان کو پیشگی طور پر پوری بات معلوم ہوجائے، اور وہ اس کے مطابق زندگی گزار کر جنت کے انعام کا اپنے آپ کو مستحق بنائے۔ اسی بات کو مزید تاکید کی زبان میں بتاتے ہوئے یہ کہا گیا: رُسُلًا مُبَشِّرِینَ وَمُنْذِرِینَ لِئَلَّا یَکُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّہِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ (4:165)۔ یعنی اللہ نے رسولوں کو خوش خبری دینے والے اور آگاہ کرنے والا بنا کر بھیجا، تاکہ رسولوں کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلے میں کوئی حجت (excuse)باقی نہ رہے۔
یہ کوئی فقہی نوعیت کا حکم نہیں ہے، یعنی کوئی ایسا حکم جس کا لوگوں میں صرف اعلان کر دینا کافی ہے۔ مثلاً یہ کہ اے لوگو، تم لوگ ہر سال ایک مہینے کا روزہ رکھو۔ بلکہ وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک اجتہادی حکم ہے۔ یعنی ہمیشہ حالات بدلنے کے ساتھ ساتھ حکم کا تطبیقی مفہوم (applied meaning)دریافت کرتے رہنا ہے۔ ہمیشہ حالات کی رعایت کرتے ہوئے حکم کو اس طرح بتاتے رہنا ہے کہ لوگوں کو حکم اپنے زمانے کے لحاظ سے قابلِ اتباع معلوم ہو۔ حکم کی وضاحت اس طرح کرنا ہے کہ ہر زمانے میں انسان کا ذہن برابر ایڈریس ہوتا رہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ آیت کسی جامد مفہوم میں نہیں ہے، بلکہ وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک انفرادی حکم میں ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ بتانے والا ہمیشہ اس کو اس طرح بتائے کہ زمانے کے لوگوں کا ذہن اس سے ایڈریس ہوتا رہے۔ اس حکم میں حجت شامل ہے، یعنی بتانے والا حکم کو اس طرح بتائے کہ جس سے سننے والے کا ذہن مطمئن ہو۔ وہ یقین کی اسپرٹ کے ساتھ اس پر برابر کاربند ہوتا رہے۔
واپس اوپر جائیں

ایک حدیث قدسی

احادیثِ قدسی ان حدیثوں کو کہتے ہیں، جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی سے بیان کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک حدیثِ قدسی ان الفاظ میں آئی ہے: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّہِ عَنِ اللَّہِ جَلَّ وَعَلَا:الْکِبْرِیَاءُ رِدَائِی وَالْعَظَمَةُ إِزَارِی، فَمَنْ نَازَعَنِی فِی شَیْءٍ مِنْہُ أَدْخَلْتُہُ فِی النَّارِ (صحیح ابن حبان، حدیث نمبر 5672)۔ یعنی عبداللہ ابن عباس رسول اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالی نے کہا: کبریا ئی میری چادر ہے، اور عظمت میرا ازار ہے، جس نے بھی ان میں سے کچھ بھی چھیننے کی کوشش کی، میں نے اس کو جہنم میں داخل کیا۔
اس حدیث میں رداء اور ازار کا لفظ تمثیلی طور پر آیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عظمت اور بڑائی تمام تر اللہ رب العالمین کا حق ہے۔ کوئی آدمی جو اپنی بڑائی میں جیے، اور کچھ بھی عظمت کا دعویٰ کرے، تو اللہ اس کو جہنم میں ڈال دے گا۔ یہ بے حد ڈرانے والی حدیث ہے۔ ہر عورت اور مرد کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں بے حد محتاط رہے۔ حقیقی عظمت(real greatness) صرف اللہ رب العالمین کا حق ہے۔ انسان کے لیے تواضع ہے۔ انسان کو اس دنیا میں احساسِ برتری کے ساتھ نہیں رہنا ہے، بلکہ اس کو ہمیشہ احساسِ کمتری کے ساتھ اس دنیا میں زندگی گزارنا ہے۔ جو لوگ حقیقت پسندانہ انداز اختیار کریں، اور حقیقت پسندی کی روش اختیار کرتے ہوئے متواضع انسان بن کر رہیں، ان کو اللہ کی طرف سے انعام ہے۔ وہ اللہ کی طرف سے اس کا اچھا بدلہ پائیں گے۔
اس کے برعکس، جو لوگ حقیقتِ واقعہ کے خلاف دنیا میں بڑے بن کر رہنا چاہیں، ان کا انجام آخر کار ذلت کے سوا اور کچھ نہیں۔ ان کا احساسِ برتری کچھ بھی ان کے کام نہ آئے گا۔ آخر کار وہ دیکھیں گے کہ ان کی خود ساختہ عظمت ان کے کچھ کام نہ آئی۔ وہ ذلت و خواری کا کیس بن کر رہ گئے۔ عزت اس کے لیے ہے، جس کو اللہ رب العالمین عزت دے۔ جو شخص بطور خود اپنے کو عزت والا سمجھ لے، اس کو اللہ کی اس دنیا میں کچھ بھی ملنے والا نہیں۔
واپس اوپر جائیں

کنڈیشننگ کا مسئلہ

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ حضرت موسی نے آلِ فرعون کے سامنے اپنی دعوت کو معجزاتی انداز میں پیش کیا، لیکن وہ اس کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ اس کے جواب میں انھوں نے کہا:مَہْمَا تَأْتِنَا بِہِ مِنْ آیَةٍ لِتَسْحَرَنَا بِہَا فَمَا نَحْنُ لَکَ بِمُؤْمِنِینَ (7:132)۔ یعنی ہم کو مسحور کرنے کے لیے تم خواہ کوئی بھی نشانی لاؤ، ہم تم پر ایمان لانے والے نہیں ہیں۔
اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ حضرت موسیٰ کا استدلال اپنے آپ میں کوئی کمزور استدلال تھا۔ حضرت موسی کا استدلال پوری طرح ایک طاقت ور استدلال تھا۔ لیکن انسان کی یہ کمزوری ہے کہ وہ اپنی کنڈیشننگ کو توڑ کر سوچ نہیں پاتا۔ حقیقت کے اعتبار سے وہ کنڈیشننگ میں جیتا ہے، لیکن بطور خود یہ سمجھتا ہے کہ میں ایک ثابت شدہ حقیقت پر جی رہا ہوں۔ یہ خود فریبی انسان کے لیے ہمیشہ سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوئی ہے۔
حدیث میں اسی حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ انسان اپنی فطرت پر پیدا ہوتا ہے، لیکن اس کے گھر کا ماحول اس کو کنڈیشننگ کا شکار بنادیتا ہے(صحیح البخاری، حدیث نمبر1385)۔ یہ کنڈیشننگ بلاشبہ ہر انسا ن کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ ہر انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنی کنڈیشننگ کو ختم کرے۔ وہ اپنے آپ کو مسٹر کنڈیشنڈ کے بجائے، مسٹر ڈی کنڈیشنڈ بنائے۔ جو آدمی ایسا نہ کرسکے، وہ سچائی کو قبول کرنے میں ناکام ہوجائے گا۔ خواہ رسول کا زمانہ ہو یا رسول کے بعد کا زمانہ ۔
کنڈیشننگ کا ایک نقصان یہ ہے کہ آدمی ذہنی جمود (intellectual stagnation) کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں ڈی کنڈیشنڈ آدمی حالات سے اوپر اٹھ کر سوچتا ہے، اس بنیاد پر وہ سچائی کو اس کی درست شکل میں دیکھتا ہے، اور اس کو قبول کرلیتا ہے۔ہر آدمی کی یہ ایک اہم ذمے داری ہے کہ وہ اپنی کنڈیشننگ کو دریافت کرے، اور وہ سیلف ہیمرنگ کے ذریعے اپنے آپ کو کنڈیشننگ سے فری انسان بنائے۔
واپس اوپر جائیں

ماحول کا اثر

ایک حدیثِ رسول ان الفاظ میں آئی ہے:عَنْ أَبِی ہُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ، قَالَ:قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:کُلُّ مَوْلُودٍ یُولَدُ عَلَى الفِطْرَةِ، فَأَبَوَاہُ یُہَوِّدَانِہِ، أَوْ یُنَصِّرَانِہِ، أَوْ یُمَجِّسَانِہِ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 1385)۔ یعنی ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: ہر پیدا ہونے والا فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اس کو یہودی بنادیتے ہیں، یا نصرانی، یا مجوسی۔
اس حدیثِ رسول میں والدین سے مراد قریبی ماحول ہے۔ ہر آدمی کسی ماحول میں پیدا ہوتا ہے۔ اس وقت وہ صرف ایک بچہ ہوتا ہے، یعنی ناپختہ انسان(immature human being)۔ فطرت کے اعتبار سے ہر آدمی اپنی زندگی کا آغاز ناپختگی سے کرتا ہے۔ اس لیے ہر آدمی ماحول سے اثر قبول کرکے ماحول کی پیداوار (product) بن جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ اپنے فطری حالات کی بنا پرہر انسان لازمی طور پر ایک متاثر ذہن کا انسان (man of conditioning) بن جاتا ہے۔
اس مسئلے کا حل کیا ہے۔ اس کا حل صرف یہ ہے کہ ہر آدمی اپنا بے لاگ محاسبہ (introspection) کرے۔ اس پراسس میں وہ اپنی کنڈیشننگ کو دریافت کرے، اور ایک ایک کرکے اپنی کنڈیشننگ کو توڑے، اور اس طرح اپنے آپ کو کنڈیشننگ سے نکال کر ایک ڈی کنڈیشنڈ انسان بنائے۔ کنڈیشننگ کا یہ واقعہ ہر انسان کی زندگی میں ایک فطری قانون کے تحت پیش آتا ہے۔ لیکن اسی طرح اس معاملے میں اصلاحِ فطرت کا قانون بھی ہے۔ اگر آدمی اس فطری قانون کو استعمال کرے تو خود فطرت اس کی معلم بن جائے گی۔ اس کے ذہن میں اپنے آپ ایک جوابی کنڈیشننگ (counter conditioning) کا عمل شروع ہوجائے گا۔ یہاں تک کہ دھیرے دھیرے وہ مکمل معنوں میں ایک ڈی کنڈیشنڈ انسان بن جائے گا۔
واپس اوپر جائیں

مومن کی فراست

ایک حدیثِ رسول ان الفاظ میں آئی ہے:عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الخُدْرِیِّ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:اتَّقُوا فِرَاسَةَ الْمُؤْمِنِ فَإِنَّہُ یَنْظُرُ بِنُورِ اللہِ(سنن الترمذی، حدیث نمبر 3127)۔یعنی مومن کی فراست سے بچو، کیوں کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔ اس کا مطلب دوسرے الفاظ میں یہ ہے کہ دانش مند آدمی کے ساتھ چالبازی سے بچو۔
مومن وہ ہے جو اللہ رب العالمین کے نقشۂ تخلیق (creation plan) کو دریافت کرتا ہے۔ وہ فطرت کے اصولوں کی بنیاد پر اپنی شخصیت کی تعمیر کرتا ہے۔ اس کا ارتقا اس کو اس قابل بنادیتا ہے کہ وہ چیزوں کو خالق کائنات کی روشنی میں دیکھ سکے۔یہ چیزیں مومن کو اعلیٰ معنوں میں دانش مند بنادیتی ہے۔ وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ حکمت (wisdom) کی روشنی میں اپنے معاملات کو حل کرے۔
دانش مندی کیا ہے۔ دراصل فطرت کے قوانین کی پابندی کرنے کا نام ہے۔ جو آدمی اس معنی میں دانش مند ہو،وہ ایک ناقابلِ تسخیر انسان بن جاتا ہے۔ وہ ان کمزوریوں سے پاک ہوتا ہے جو کسی انسان کو کمزور شخصیت (weak personality) بنانے والی ہیں۔ اس کی بناپر کوئی انسان جذباتیت کا شکار نہیں ہوتا۔ وہ اپنے آپ کو اس سے بچالیتا ہے کہ شیطان اس کو اپنی تزئینات کا شکار کرلے، اوراس کو تباہی کے راستے پرچلنے والا بنادے۔
فراستِ مومن سے مراد وہ فراست ہے جو اللہ رب العالمین کی دریافت سے بنے۔ جو اللہ کے قائم کردہ فطری قوانین پر مبنی ہو۔ ایسا انسان غلط منصوبہ بندی سے بچ جاتا ہے۔ اس بنا پر وہ اس قابل ہوجاتا ہےکہ وہ کسی کی سازش کا شکار ہونے سے بچ جائے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ دانش مند آدمی کسی بھی بات کو ایز اٹ از (as it is) نہیں قبول کرتا، بلکہ وہ اس کو دیکھتا ہے، اس میں غور و فکر کرتا ہے، معاملے کی اسکروٹنی (scrutiny)کرتا ہے، پھر وہ اس کو قبول کرتا یا رد کرتا ہے۔ اس بنا پر وہ اپنے آپ کو غیر ضروری مسائل سے بچالیتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

داخلی اصلاح کا نظام

فطرت (nature) خالق کی ایک تخلیق ہے۔اس موضوع پر قرآن کی مختلف آیتوں کا مطالعہ کرنے کے بعد اس کا جو مطلب سمجھ میں آتا ہے، وہ یہ ہے کہ فطرت کوئی پر اسرار چیز نہیں ، وہ انسان کے لیے ایک معلوم حقیقت ہے۔ فطرت ہر موقعے پر انسان کو الارم دیتی ہے کہ وہ کیا کرے، اور کیا نہ کرے۔ فطرت کے بارے میں قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں:فِطْرَتَ اللَّہِ الَّتِی فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْہَا(30:30)۔ یعنی اللہ کی فطرت جس پر اس نے لوگوں کو بنایا ہے۔ اسی طرح قرآن میں آیا ہے: فَأَلْہَمَہَا فُجُورَہَا وَتَقْوَاہَا (91:8)۔یعنی پھر اس کو سمجھ دی، اس کی بدی کی اور اس کی نیکی کی۔
فطرت ہر موقعے پر انسان کی رہنمائی کرتی ہے۔ لیکن یہ رہنمائی خاموش زبان (unspoken language)میں ہوتی ہے۔ فطرت انسان کی صحیح گائڈ ہے۔ وہ ہر موقعے پر انسان کو آواز دیتی ہے۔ کیوں کہ انسان کے اندر بیک وقت دو فیکلٹی موجود ہیں ، ایک اکاؤنٹیبل پرسنالٹی، اور دوسرا الارمنگ کانشنس(conscience)۔
اگر آدمی بر وقت اس آواز کو سن لے، تو وہ فوراً انسان کی رہنمائی کے لیے متحرک ہوجاتی ہے، اور اگر انسان فوراً متحرک نہ ہو، تو وہ انسان کو اس کے حال پر چھوڑ دیتی ہے۔فطرت کی یہ خاموش زبان اگرچہ انسان نہیں سنتا، لیکن ہر آدمی اس کو غیر واضح انداز میں فوراً محسوس کرلیتا ہے۔یہ واقعہ جو انسان کے اندر پیش آتا ہے، وہ دوسرے الفاظ میںوہی ہے جس کو ضمیر (conscience) کہا جاتا ہے۔
انسان کی شخصیت ایک آزاد شخصیت ہے۔ وہ ردو قبول کا آزادانہ فیصلہ کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔ فطرت یا ضمیرکا کام انسان کو صرف الارم دینا ہے۔ یہ فطری الارم اپنے صحیح وقت پر بجتا ہے، اور انسان یقینی طور پر اس کو سنتا ہے۔ اب یہ انسان کا اپنا چوائس (choice) ہے کہ وہ فطرت کی آواز کو سنے یا اس کا انکار کردے۔ اس حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:فَمَنْ شَاءَ فَلْیُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْیَکْفُرْ ( 18:29)۔ یعنی اور کہو کہ یہ حق ہے تمہارے رب کی طرف سے، پس جو شخص چاہے اسے مانے اور جو شخص چاہے نہ مانے۔
جنت اور جہنم کا معاملہ بھی انھیں دونوں سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ فطرت کا نظام ہے جو ہر انسان کے اندر پیدائشی طور پر موجود رہتا ہے۔ انسان اگر اس نظام کی پیروی کرے تو وہ ہمیشہ درست راستے پر چلے گا۔ وہ کبھی ڈی ریل (derail)ہوکر غلط راستہ اختیار نہیں کرے گا۔اس نظام کو ایک اعتبار سے داخلی اصلاح کا نظام (system of internal correction) کہا جاسکتا ہے۔
ت ت ت ت ت ت ت ت ت ت ت ت ت
اس دنیا میں آدمی جب کوئی کام کرتا ہے تو اگر چہ اس کو شروع کرنے والا وہ خود ہوتا ہے۔ مگر اس کی تکمیل اس وقت ہوتی ہے جب کہ فطرت کا نظام بھی اس کے ساتھ موافقت کرے۔ فطرت کے نظام کی موافقت حاصل کیے بغیر، یہاں کوئی کام کبھی تکمیل کو پہنچنے والا نہیں۔
فطرت کا معاملہ یہ ہے کہ وہ ہمیشہ تدریج کے اصول پر عمل کرتی ہے۔ وہ واقعات کو اچانک ظہور میں نہیں لاتی۔ اب انسان اگر فوراً اور جلد نتیجہ نکالنا چاہے تو وہ عملاً ممکن نہ ہوگا۔ کیوں کہ انسان کی رفتار تیز ہوگی اور فطرت کی رفتار تدریجی قاعدے کی بنا پر سُست۔ ایسی حالت میں آدمی کو اپنے کام میں فطرت کی موافقت حاصل نہ ہوگی۔ اس کا کام بننے کے بجائے صرف بگڑ کر رہ جائے گا۔
آدمی کو چاہیے کہ وہ جو کام بھی کرنا چاہے، سب سے پہلے وہ فطرت کے نظام کا مطالعہ کرے۔ اس کے بارے میں وہ فطرت کے اصول کو معلوم کرے۔ اور پھر اس مطالعہ کی روشنی میں اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرے۔ یہی واحد طریقہ ہے جس کو اختیار کرکے کوئی شخص کامیابی کے ساتھ اپنے مقصد تک پہنچ سکتا ہے۔
کامیابی اورناکامی دونوں کا معاملہ فطرت کے نظام سے جُڑا ہوا ہے۔ اِس دنیا میں فطرت سے مطابقت کرنے کا نام کامیابی ہے، اور فطرت کے خلاف چلنے کا نام ناکامی ۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ پہلے فطرت کے نظام کو سمجھے اور اُس کے بعد اُس کے مطابق، وہ اپنے کام کی منصوبہ بندی کرے۔
واپس اوپر جائیں

بیدار ذہنی

قرآن میں ایک حکم ان الفاظ میں آیا ہے: إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الَّذِینَ یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِہِ صَفًّا کَأَنَّہُمْ بُنْیَانٌ مَرْصُوصٌ (61:4)۔ یعنی اللہ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اس کے راستے میں اس طرح مل کر لڑتے ہیں گویا وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔
اس آیت میں بظاہر قتال کا ذکر ہے۔ لیکن وسیع تر معنی میں اس سے مراد ہر قسم کی دینی جدوجہد ہے۔ وسیع تر معنی میں اس کا مطلب یہ ہے کہ دینی مشن کے لیے اس طرح متحد ہوکر کوشش کرنا کہ آپ کا اختلاف ہرگز اس متحدہ جدو جہد کے لیے رکاوٹ نہ بنے۔
اجتماعی زندگی میں اختلاف کا پیش آنا، ایک فطری امر ہے۔ کوئی بھی اجتماعی معاملہ ہو، اس میں افراد کے درمیان اختلاف کی صورتیں ضرور پیش آتی ہیں۔ لیکن اہلِ ایمان ذہنی ارتقا کے اس درجے پر ہوتے ہیںکہ وہ ہر اختلاف کو مینج کرلیتے ہیں۔ وہ اختلاف کو کسی بھی حال میں دین کی اجتماعی جدو جہد کے لیے رکاوٹ بننے نہیں دیتے۔ اس کی ایک مثال دو صحابی کا یہ واقعہ ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں: عَنْ طَارِقِ بْنِ شِہَابٍ، قَالَ:کَانَ بَیْنَ خَالِدِ بْنِ الْوَلِیدِ، وَبَیْنَ سَعْدٍ کَلَامٌ، قَالَ:فَتَنَاوَلَ رَجُلٌ خَالِدًا عِنْدَ سَعْدٍ، قَالَ:فَقَالَ سَعْدٌ:مَہْ، فَإِنَّ مَا بَیْنَنَا لَمْ یَبْلُغْ دِینَنَا(المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 3810)۔ یعنی طارق بن شہاب روایت کرتے ہیں کہ خالد بن الولید اور سعد بن ابی وقاص کے درمیان کچھ تکرار ہوگئی۔ اس کے بعد ایک آدمی نے سعد کے پاس خالد کا بُرا ذکر کیا ، تو سعد نے کہا: دور ہوجاؤ، ہمارے درمیان جو کچھ ہے، وہ ہمارے دین تک نہیں پہنچے گا۔
اسی اجتماعی اسپرٹ کا نام اختلاف کے باوجود متحد ہونا ہے۔ اس طرح کا کردار مینج کرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ آدمی دو واقعے کو ایک دوسرے سے الگ رکھے، ذاتی اختلاف کا معاملہ الگ، اور مشن کے لیے اتحاد کا معاملہ الگ۔ جو لوگ اس اسپرٹ کے حامل ہوں، ان کا اتحاد کبھی ٹوٹنے والا نہیں۔
واپس اوپر جائیں

مطالعے کی افادیت

کتابوں کا مطالعہ بہت مفید ہے۔ لیکن صرف کتابی مطالعہ کافی نہیں۔ ضروری ہے کہ قاری کی حیثیت ایک تیار ذہن (prepared mind) کی ہو۔ ایسا ہی قاری کتابوں کے مطالعے سے پورا فائدہ حاصل کرسکتاہے۔
مثلاً ابو بکر احمد بن مروان الدینوری المالکی (المتوفى 333ھ) نے اپنی کتاب میں اصحاب رسول کے تعلق سے لکھا ہے: وَکَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللہِ صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَتَّجِرُونَ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (المجالسہ و جواہر العلم ، جزء 7، اثر نمبر754)۔ یعنی اصحابِ رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم خشکی اور تری میں تجارت کیا کرتے تھے۔ اسی بات کو امام الغزالی (450-505ھ)نے اپنی معروف کتاب احیاء علوم الدین میں اس باب کے تحت نقل کیا ہے: فَضْلُ الْکَسْبِ وَالْحَثِّ عَلَیْہِ(کمائی کی فضیلت اور اس پر ابھارنا)۔
صحابہ کرام کی یہ صفت بلاشبہ بہت اہم ہے۔ لیکن اگر آپ ایسا کریں کہ اس بات کو کتاب میں پڑھیں، اور اس کو ایسا ہی لے لیں، جیسا کہ وہ نقل ہوئی ہے، تو آپ اس سے صرف یہ نتیجہ نکالیں گے کہ رزق کے حصول کا افضل طریقہ یہ ہے کہ آدمی تجارت کے ذریعے کمائی کرے۔ مگر یہ مطالعے کا کمتر طریقہ ہے۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ آپ کا مطالعہ اتنا وسیع ہو کہ آپ صحابہ کے بارے میں یہ جانتے ہوں کہ صحابہ آج کل کی اصطلاح میں مین آف مشن (man of mission) تھے۔ پیغمبر ِ اسلام پورے معنوں میں مین آف مشن تھے، اور پیغمبر اسلام کی تعلیم کی بنا پر ہر صحابی عملاً مین آف مشن بنا ہوا تھا۔
اگر آپ اس حقیقت کو جانتے ہوں، تو آپ اقتباس کو پڑھ کر یہ نتیجہ نکالیں گے کہ رسول اللہ  کی دعوت کا طریقہ یہ تھا کہ ہر مومن کو تعلیم و تربیت کے ذریعے پورے معنی میں مین آف مشن بنا دیا جائے، تاکہ آدمی جس فیلڈ میں بھی ہو، وہ مین آف مشن کی طرح زندگی گزارے۔ وہ ہر حال میں بامقصد انسا ن کی حیثیت سے اپنے وجود کو برقرار رکھے۔
واپس اوپر جائیں

اتباع کا مطلب

اکثر سلفی حضرات یہ اصول بیان کرتے ہیں کہ کُلُّ خَیْرٍ فِی اتِّبَاعِ مَنْ سَلَف، وَکُلُّ شَرٍ فی ابْتـدَاعِ مِـنْ خَلَـفْ(تمام خیر سلف کی اتباع میں ہے، اور تمام برائی بعد میں آنے والوں کی ایجاد کردہ باتوں میں ہے)۔ اس کی حقیقت کیا ہے۔ وضاحت فرمائیں۔ (حافظ سید اقبال احمدعمری، چنئی، تامل ناڈو)۔
اس کے جواب میں یہاں ایک حدیث رسول ، اور خود ائمہ سلف میں سے ایک امام کا قول نقل کیا جاتا ہے۔حدیث رسول یہ ہے:تَرَکْتُ فِیکُمْ أَمْرَیْنِ، لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّکْتُمْ بِہِمَا:کِتَابَ اللَّہِ وَسُنَّةَ نَبِیِّہِ(موطا امام مالک، حدیث نمبر 2618)۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ میں تمھارے درمیان دو چیزیں چھوڑ رہا ہوں، تم ہرگز گمراہ نہیں ہوگے جب تک تم اس کو پکڑے رہو، وہ ہے اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت۔
اسی کے مثل امام احمد بن حنبل (وفات241:ھ)نے مسئلۂ خلقِ قرآن کے تعلق سے خلیفہ معتصم باللہ (وفات227:ھ) سےکہا تھا:یا أمیر المؤمنین، أعطُونی شیئًا من کتاب اللہ أو سنّة رسول اللہ حتّى أقول بہ (تاریخ الاسلام للذہبی، بیروت، 1993، 18/103)۔یعنی اے امیر المومنین، آپ مجھے کوئی ایسی چیز لاکر دیجیے جو کتاب اللہ یا سنت رسول میں ہو، تاکہ میں اس کو مان لوں۔
حدیثِ رسول اور امام احمد کے بیان کردہ اصول کی روشنی میں سلفی حضرات کے مذکورہ قول کودیکھنا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس قول کو اگر معتدل معنی میں لیا جائے تو وہ صرف یہ ہے کہ آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنے عمل یا نظریہ کا انتخاب کرتے ہوئے، دوسرے علما سے استفادہ کرے۔ اس قول کو اس معنی میں لیا جائے تو اس میں کوئی قباحت پیدا نہیں ہوگی، لیکن اگر اس کو غلو تک پہنچا دیا جائے، تو پھر اس میں قباحت کا آغاز ہوجاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہر قول میں ایک سچائی کا عنصر ہوتا ہے۔ اس عنصر کو ملحوظ رکھتے ہوئے، جب اس پر عمل کیا جائے، تو وہ اعتدال کا معاملہ رہتا ہے، لیکن جب اس کو منطقی حد (logical end) تک پہنچا دیا جائے، تو اس میں مشکلات کا آغاز ہوجائے گا۔
مثلاً اگر ایک عالم کہتا ہے کہ وضو کے وقت تمام اعضا کو ٹھیک سے دھونا چاہیے۔ سادہ مفہوم کے لحاظ سے یہ قول بالکل درست قول ہے۔ لیکن اگر اس کو منطقی حد تک پہنچایا جائے، اور یہ کہا جائے کہ ہر بال کی جڑ تک پانی کو پہنچانا ضروری ہے، یا آنکھ کے اندر ونی حصے کو دھونا ضروری ہے، تو یہ غلو کا معاملہ ہوگا، اور دین کے نام پر شدت تک پہنچ جائے گا، جو دین میں مطلوب نہیں— دین میں اعتدال مطلوب ہے، اور غلو غیر مطلوب۔
٭ ٭ ٭ ٭٭٭ ٭ ٭
قرآن کے مطابق، ہمارا دشمن صرف شیطان ہے جس کو قرآن میں طاغوت کہا گیا ہے۔ ہماری لڑائی صرف شیطان سے ہے، کسی اور سے نہیں۔انسان کے اندر امتحان کے مقصد سے مختلف قسم کے جذبات رکھے گئے ہیں۔ مثلاً غصہ اور انتقام، وغیرہ۔ اِن جذبات کو غلط رُخ دے کر شیطان ہم کو صحیح راستے سے ہٹانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی وہ مواقع ہیں جب کہ ہمیں شیطان سے لڑنا ہے۔ شیطان کی تزئین (الحجر، 15:39) سے بچنے ہی کا نام تزکیہ ہے اور جو لوگ اِس اعتبار سے اپنا تزکیہ کریں، وہی وہ لوگ ہیں جن کو جنت میں داخلہ ملے گا (طٰہٰ، 20:76) شیطان کے خلاف انسان کی لڑائی صرف نفسیات کی سطح پر ہوتی ہے، تشدّد اور ہتھیار کی سطح پر نہیں۔جہاں تک انسان کا معاملہ ہے، قرآن کے مطابق، انسان ہمارا مدعو ہے۔ وہ ہمارا حریف یا دشمن نہیں۔ انسان کے ساتھ ہمارا تعلق داعی اور مدعو کا ہے، دشمن یا مدّ ِمقابل کا نہیں۔ انسان کے مقابلے میں ہماری ذمے داری یہ ہے کہ ہم اُس کو پر امن طور پر خدا کا پیغام پہنچائیں۔ پیغام رسانی کا یہ کام صرف وہ لوگ کرسکتے ہیں جو نفرت اور عداوت کے جذبات سے مکمل طورپر خالی ہوں۔ نفر ت اور دعوت دونوں ایک سینے کے اندر جمع نہیں ہوسکتے۔
واپس اوپر جائیں

رسوخ فی العلم

قرآن کی ایک آیت کا ترجمہ یہ ہے: وہی ہے جس نے تمہارے اوپر کتاب اتاری۔ اس میں بعض آیتیں محکم ہیں، وہ کتاب کی اصل ہیں۔ اور دوسری آیتیں متشابہ ہیں۔ پس جن کے دلوں میں ٹیڑھ ہے، وہ متشابہ آیتوں کے پیچھے پڑجاتے ہیں فتنہ کی تلاش میں اور اس کے مطلب کی تلاش میں۔ حالاں کہ ان کا مطلب اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اور جو لوگ راسخ علم والے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہم ان پر ایمان لائے۔ سب ہمارے رب کی طرف سے ہے۔ اور نصیحت وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو عقل والے ہیں (آل عمران، 2:7)۔
اس آیت میں متشابہ کا مطلب مشتبہ نہیں ہے۔ بلکہ متشابہات کا مطلب متماثلات ہے۔ یعنی کچھ آیتیں جو امور ِغیب سے تعلق رکھتی ہیں، وہ فطری طور پر تمثیل کی زبان میں ہیں۔ جو لوگ زیادہ گہرائی کے ساتھ مطالعہ کریں، وہ اس حقیقت کو جان لیتے ہیں کہ اس قسم کی آیتیں تمثیل (symbolism) کی زبان میں ہیں۔ انھیں ان آیتوں کے بارے میں شبہ واقع نہیں ہوتا۔ وہ جس طرح محکم آٰیتوں کا مفہوم غیر مشتبہ طور پر سمجھ لیتے ہیں، اسی طرح ان آیتو ں کا مفہوم بھی سمجھ لیتے ہیں، جو تمثیل کی زبان میں آئی ہیں۔
رسوخ کا لفظ یہاں نتیجہ کے اعتبار سے ہے،نہ کہ طریقہ کے اعتبار سے ۔ یعنی یہ کہ زیادہ مطالعہ اور گہرے غور وفکر کی بنا پر ایک شخص شبہات سے بلند ہوجائے۔ وہ کنفیوزن (confusion)میں نہ رہے، بلکہ فکری وضوح (intellectual clarity) کا درجہ پالے— اسی کا نام رسوخ فی العلم ہے۔ رسوخ فی العلم کوئی پیدائشی صفت نہیں ہے۔ کوئی بھی شخص جس کو اپنے حالات کے اعتبار سےیہ موقع ملے کہ وہ موضوع کا گہرا مطالعہ کرے، وہ زیادہ غور و فکر کےساتھ بات کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ ایسا آدمی کنفیوزن سے اوپر اٹھ جاتا ہے۔ وہ یقین کے درجے میں وضوح (clarity) کے ساتھ مذکورہ بات کو سمجھنے کے قابل ہوجاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

ایک نصیحت

ہر انسان کو پہلا کام یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے آپ کودریافت(discover) کرے۔ یہ کسی آدمی کے لیے اس کی زندگی کی ابتدا ہے۔ اگر آپ سیلف ڈسکوری کے بغیر اپنی زندگی میں کوئی چوائس لے لیں۔ تو ایسےچوائس کے لیے مقدر ہے کہ وہ آپ کو غیر مطلوب انجام کی طرف لے جائے ۔ اس منفی ریزلٹ کے بعد آپ چاہیں گے کہ آپ سیکنڈ چوائس لیں ۔ لیکن سیکنڈ چوائس آپ کو دوسری ناکامی کی طرف لے جاسکتی ہے۔ اس سے بچنے کا صرف ایک راستہ ہے۔ وہ ہے کہ آپ ریلسٹک اپروچ کو اختیار کریں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ آئڈیلزم ہمیشہ ناکامی کی طرف لے جاتا ہے ، جب کہ پریگمیٹک اپروچ کامیابی کی طرف۔ لیکن یہ آئیڈیل ٹرم میں نہیں ہوتا، بلکہ یہ پریگمیٹزم کے سنس میں ہوتا ہے۔
جب آپ کوئی کام شروع کریں اور اس میں آپ کامیاب نہ ہوں، تو کبھی یہ غلطی نہ کیجیے کہ اپنی ناکامی کا الزام آپ دوسروں کو دینے لگیں۔ ناکامی جب بھی ہوتی ہے، آپ کی اپنی کسی کوتاہی کی بنا پر ہوتی ہے۔ اگر آپ اپنی کوتا ہی کو دریافت کرلیں تو آپ کے لیے یہ ممکن ہوجاتا ہے کہ اپنی زندگی کی دوسری پلاننگ (replanning) زیادہ صحیح بنیادوں پر کریں، اور اس طرح پہلی بار کی ہار کو دوسری بار جیت میں تبدیل کرلیں۔
اپنی غلطی کا ذمہ دار دوسروں کا قرار دینا، ایک بے فائدہ کام ہے۔ اس کے برعکس، جب آپ اپنی ناکامی کا سبب خود اپنے اندر تلاش کریں تو یہ کوشش آپ کو اس قابل بناتی ہے کہ آپ دوسری بار اپنے کام کی زیادہ بہتر منصوبہ بندی کرکے اپنے آپ کو کامیاب بناسکیں۔ جو آدمی آپ کی ناکامی کا الزام کسی دوسرے شخص کو دے ، وہ آپ کا دشمن ہے۔ ایسا آدمی آپ کو اس قابل بننے سے روکتا ہے کہ آپ اپنی غلطی کی اصلاح کریں، آئندہ اپنی غلطیوں کو دہرانے سے بچیں۔ اپنی غلطی کا الزام دوسروں کو دینا صرف وقت کا ضیاع ہے۔ بزدل آدمی اپنی غلطی کا الزام دوسروں کو دیتا ہے، اور بہادر آدمی اپنی غلطی کو مان کر اپنے آپ کوزیادہ صحیح پلاننگ کے قابل بنا لیتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

سیکھنے کا عمل

عام طور پر لوگوں کا مزاج ہے کہ وہ اپنی غلطی کو تسلیم نہیں کرتے۔ وہ اپنی غلطی کی صفائی پیش کرتے رہتے ہیں۔وہ کوئی نہ کوئی پہلو نکال کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ غلطی میری نہیں تھی، بلکہ دوسروں کی تھی۔ وہ غلطی کا اعتراف کرنے کے بجائےہمیشہ غلطی کی توجیہہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ غلطی کے اعتراف کو وہ اپنی کمزوری سمجھتے ہیں، اور غلطی کا اعتراف نہ کرنے کو اپنی بڑائی۔ غلطی کا اعتراف نہ کرنے کو سمجھتے ہیں کہ انھوں نے اپنی بڑائی کو برقرار رکھا۔
مگر یہ دانش مندی کی بات نہیں۔ دانش مندی یہ ہے کہ آدمی اپنی غلطی کو جانے۔ وہ غلطی کرنے کے بعد فوراً یہ کہہ دے کہ میں غلطی پر تھا(I was wrong)۔ غلطی کو نہ ماننا گویا غلطی کے اوپر قائم رہنا ہے، اور غلطی کو مان لینا یہ ہے کہ آدمی نے غلطی کرنے کے بعد فوراً اپنی اصلاح کرلی، اور اس طرح اپنے لیے شخصیت کے ارتقا (personality development) کے پراسس کو نان اسٹاپ (non stop) طور پر جاری رکھا۔
بڑی بات یہ نہیں ہے کہ آپ اپنے آپ کو بے خطا ثابت کریں۔ اگر آپ اپنے کو بے خطا ثابت کرنے میں کامیاب ہوجائیں، تو اس کا نقصان یہ ہوگا کہ آپ جہاں پہلے تھے، وہیں اب بھی باقی رہیں گے۔ اس لیے زیادہ بڑی بات یہ ہے کہ آپ کے اندر اپنی غلطی کو ماننے کا مزاج ہو۔ آپ بے جھجھک یہ کہہ سکیں کہ میں غلطی پر تھا۔
اس مزاج کا فائدہ یہ ہے کہ آپ ہمیشہ نئی بات سیکھتے ہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ آپ کی شخصیت کا ارتقا (personality development) بلا رکاوٹ ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ غلطی نہ ماننے کا مطلب یہ ہے کہ آپ جہاں کل تھے، وہیں آج بھی بر قرار ہیں۔ اس کے برعکس، غلطی ماننے کا یہ فائدہ ہے کہ آپ کی ترقی کا سفر ہمیشہ جاری رہے گا۔ آپ کے اندر لرننگ (learning)کے پراسس میں کبھی جمود نہ آئے گا۔
واپس اوپر جائیں

غلطی کا اعتراف

اگر آپ اسلام کے موضوع پر ایک کتاب لکھتے ہیں۔ اس کتاب میں آپ قلم کی پوری طاقت کے ساتھ یہ بتاتے ہیں کہ اسلام کا مقصد یہ ہے کہ سر دھڑ کی بازی لگا کر دنیا میں حکومت الٰہیہ (Islamic State)قائم کی جائے۔ بعد کو آپ پر یہ واضح ہو کہ حکومت الٰہیہ یا اسلامک اسٹیٹ قائم کرنے کا حکم سارے قرآن میں کہیں موجود نہیں ہے، یہ آپ کی ایک اختراع ہے۔ اس وقت آپ کے لیے دو آپشنس (options)ہیں۔ ایک یہ کہ آپ صاف لفظوں میں یہ کھلا اعلان کردیں کہ میں غلطی پر تھا، آپ اپنی کتاب میں تصحیح (correction)کرلیں،اور اس کے بعد دوبارہ اس قسم کی بات کہنا چھوڑ دیں۔ یہ درست طریقہ ہے۔ اگر آپ ایسا کریں تو آپ کو دو سری بات کا کریڈٹ مل جائے گا، یعنی توبہ کا کریڈٹ یا غلطی کے اعتراف کا کریڈٹ۔
دوسرا آپشن یہ ہے کہ آپ اپنی غلطی کا اعتراف نہ کریں۔ بلکہ غیر متعلق باتیں کرکے یہ ظاہر کریں کہ آپ نے پہلے جو کہا تھا، وہ درست تھا، وہ قرآن و سنت کے مطابق تھا، اور اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے بے بنیاد تاویلیں پیش کریں،تو یہ ایک غلطی پر دوسری غلطی کا اضافہ ہے۔ آپ کا یہ طریقہ آپ کی صفائی نہیں بنے گا، بلکہ آپ کی غلطی میں اضافہ کرتا چلا جائے گا۔
غلطی کو نہ ماننا، یا گھما پھرا کربات کرنا کوئی نیکی کا کام نہیں ہے، بلکہ وہ ایک غلطی پر دوسری غلطی کا اضافہ ہے۔ مزید یہ کہ جو لوگ ایسا کریں، وہ لوگ اپنے عمل سے یہ ثابت کررہے ہیں کہ ان کا دل خوفِ خدا سے خالی ہے۔ وہ اپنے آپ کو اللہ کے سامنے جواب دہ (accountable) نہیں سمجھتے۔ ان کا گما ن ہے کہ اگر وہ دنیا والوں کے سامنے اپنے آپ کو بری الذمہ ثابت کردیں تو آخرت میں بھی وہ بری الذمہ قرار پائیں گے ۔ یہ اللہ رب العالمین کو انڈر اسٹیمٹ (underestimate) کرنا ہے۔ غلطی کا اعتراف اللہ کے یہاں قابلِ قبول ہے، لیکن مذکورہ قسم کی روش اللہ کے یہاں قابل قبول نہیں ۔
واپس اوپر جائیں

اختلاف ایک مثبت ظاہرہ

ایک قول بطور حدیثِ رسول مختلف کتابوں میںنقل کیا گیا ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں: اخْتِلَافُ أمتِی رَحْمَة (کنز العمال، حدیث نمبر 28686)۔ یعنی میری امت کا اختلاف ایک رحمت ہے۔ محدثین عام طور پر اس قول کوبے اصل ( لَا أصل لَہُ)مانتے ہیں(المقاصد الحسنۃ، حدیث نمبر 39)۔ محدثانہ اصول کے مطابق یہ قول ایک بے اصل قول ہوسکتا ہے۔ لیکن قانونِ فطرت کے اعتبار سے بلاشبہ وہ ایک درست قول ہے۔
اختلاف (difference) فطرت کے قانون کے مطابق ایک مثبت ظاہرہ ہے۔ وہ کوئی غیر مطلوب ظاہرہ نہیں۔ اختلاف اگر سنجیدہ اختلاف ہو تو وہ ڈسکشن کا دروازہ کھولتا ہے۔ لوگ اس پر سنجیدہ اظہارِ رائے کرتے ہیں، جس سے زیر بحث مسئلے کے نئے نئے پہلو سامنے آتے ہیں۔ بیسویں صدی کے مشہور امریکی رائٹر اور صحافی والٹر لپ مین (Walter Lippmann) نے نہایت درست طور پر کہا ہے کہ جہاں تمام لوگ یکساں طور پر سوچیں تو وہاں کوئی بھی زیادہ نہیں سوچتا:
Where all think alike, no one thinks very much
جب دو پتھر آپس میں ٹکرائیں تو اس سے ایک تیسری چیز ایمرج کرتی ہے، اور وہ چنگاری ہے۔ یہی حال انسان کا ہے۔ جب دو دماغ کسی اختلافی موضوع پر آپس میں گفتگو کریں تو اس سے ایک تیسرا خیال وجود میں آتا ہے، جو کہ دونوں کے ذہنی ارتقا (intellectual development)کا ذریعہ بنتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اختلاف ایک رحمت ہے۔ اختلاف کو اگر سنجیدگی کے ساتھ لیا جائےتو اس سے غور و فکر کا نیا دروازہ کھلتا ہے، معاملے کےنئے پہلو سامنے آتے ہیں۔ البتہ اس کی یہ شرط ہے کہ گفتگو کو ہار جیت کے معنی میں نہ لیا جائے، بلکہ موضوع کی تحقیق کےمعنی میں لیا جائے۔بحث کے دونوں فریق اپنی ذات کو الگ کرکے زیرِ بحث مسئلے پر تبادلۂ خیال کریں۔
واپس اوپر جائیں

نزاع کا معاملہ

یہ دیکھا گیا ہے کہ جب بھی دو یا زیادہ آدمیوں کے درمیان کوئی نزاع ہو، تو معمولی بات پر وہ بھڑک اٹھتا ہے، اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آخری حد تک پہنچنے سے پہلے وہ ختم نہیں ہوتا۔ یہ ایک ایسی نادانی ہے، جو پوری تاریخ میں ایک ہی انداز پرجاری رہی ہے، اور آج بھی جاری ہے۔ تجربہ بتاتا ہےکہ جب تک نزاع کی صورت پیدا نہ ہو، فریقین نارمل انسان نظر آتے ہیں۔ لیکن اختلاف کی صورت پیدا ہونے کے بعد اچانک دونوں فریق غیر نارمل بن جاتے ہیں۔ پھر وہ اس کے لیے تیار نہیں ہوتے کہ نارمل انداز میں سوچیں، اور پرامن بات چیت سے نزاع کو ختم کرلیں۔
اس کا سبب یہ ہے کہ نزاع سے پہلے معاملہ عقل کے درمیان ہوتا ہے، لیکن نزاع شروع ہونے کے بعد عقل پس پشت چلی جاتی ہے،ا ور دونوں فریق ایگو کے زیرِ اثر آجاتے ہیں۔ پہلے اگر وہ نتیجہ کو سامنے رکھ کر سوچتے تھے، تو اب وہ جذبات کے زیر اثر سوچنے لگتے ہیں۔ اس معاملے میں بہترین تدبیر یہ ہے کہ معاملے کو عقل کی حد میں رکھا جائے، اس کو جذبات تک پہنچنے نہ دیا جائے۔ اس معاملے میں فارمولا یہ ہے :
When one's ego is touched, it turns into super ego, and the result is breakdown.
اگر فریقین ٹھنڈے ذہن کے ساتھ نتیجہ کو لے کر سوچیں تو ان کو سمجھ میں آجائے گا کہ نزاع جاری رکھنے کا انجام دونوں کے حق میں برا نکلے گا۔ دونوں کے حق میں صرف نقصان آئے گا۔ دونوں میں سے کسی کو بھی کوئی فائدہ ملنے والا نہیں۔ معاملے پر عقلی انداز میں سوچنا، دونوں کو ایک ہی انجام تک پہنچاتا ہے۔وہ یہ کہ نزاع کا جاری رکھنا، کسی کے حق میں اچھا نہیں ۔ جب کہ نزاع کو پہلی فرصت میں ختم کرلینا، دونوں کے لیے مفید ہے۔ نزاع کا واحد حل صرف یہ ہے کہ نزاع کو پہلی فرصت میں بلاشرط ختم کردیا جائے ۔ اس حکمت کو ملحوظ رکھا جائے تو انسان بہت سے نقصانات سے بچ جائے گا۔ یہ نزاع کے مسئلے کا سب سے زیادہ آسان حل ہے۔
واپس اوپر جائیں

دعوت میں رُجز

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ایک مین آف مشن تھے۔ آپ کی پوری زندگی مشن کی زندگی تھی۔ قرآن میں پیغمبر اسلام کو دعوت کا حکم دیتے ہوئے ایک بنیادی اصول یہ بتایا گیا: وَالرُّجْزَ فَاہْجُرْ (74:5)۔ یعنی رجز کو چھوڑ دو۔ رجز کا لفظی مطلب گندگی (dirty practice)ہے۔ پیغمبر اسلام نے نبوت سے پہلے مکہ میں چالیس سال گزارے تھے۔ پیغمبر اسلام حنفاء میں سے تھے، انھوں نے اس پوری مدت میں کوئی غیر اخلاقی کام نہیں کیا،کبھی کسی قسم کی گندگی کے فعل یا بُری عادت میں مبتلا نہیں ہوئے۔ پھر گندگی چھوڑنے کا مطلب کیا ہے۔
اس آیت کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ گندگی کو چھوڑ دو۔ یہاں رجز (گندگی ) سے وہی چیز مراد لی جائے جو آپ نے عملاً اختیار فرمائی ۔ وہ یہ کہ رد عمل (reaction) کا طریقہ اختیار نہ کرو۔ جب آپ نے مکہ میں اپنا مشن شروع کیا تو وہاں کے لوگوں میں شرک کی برائی عام تھی۔ ایسی حالت میں ایک عام انسان یہ کرے گا کہ وہ سماجی طور پر پھیلی برائی کے خلاف ردعمل کا طریقہ اختیار کرے گا۔ مگر آپ کو یہ حکم دیا گیا کہ تم صرف مثبت طریقے پر قائم رہو، اور ردعمل کا طریقہ اختیار نہ کرو۔
پیغمبر اسلام نے مکہ میں جو روش اختیار کی، وہ عمل یہی تھا۔ یعنی موجود برائی کے خلاف ردعمل کا طریقہ اختیار نہ کرنا، اور امن پر قائم رہتے ہوئے مثبت انداز میں توحید کی طرف لوگوں کو بلانا۔ قرآن کی یہ آیت (وَالرُّجْزَ فَاہْجُر) اسلامی مشن کا بنیادی اصول بتاتی ہے۔ وہ یہ کہ ردعمل کی روش سے کامل طور پر دور رہنا، اور کامل طور پر امن اور خیر خواہی کی روش پر قائم رہتے ہوئے لوگوںکو حق کی طرف بلانا۔
بعض مفسرین نے وَالرُّجْزَ فَاہْجُر کی شرح یہ کی ہے کہ بتوں کی گندگی سے دور رہیے، جیسے اب تک دور ہیں۔ مگر یہ ایک غیر ضروری تکلف ہے۔ صحیح یہ ہے کہ رسول اللہ کے عمل کی بنیاد پر اس کی تفسیر کی جائے، اور وہ یہی ہے کہ بتوں کے معاملے میں رد عمل کا طریقہ اختیار نہ کرو، بلکہ ان سے اعراض کرتے ہوئے مثبت انداز میں دعوت کا کام جاری رکھو۔
واپس اوپر جائیں

انقلاب کا آغاز

انسانی زندگی میں کسی بڑے انقلاب کا آغاز اس وقت ہوتا ہے، جب کہ انسان کے اندر کوئی بریک تھرو (breakthrough) کا واقعہ پیش آئے۔ کوئی ایسا واقعہ جو انسان کے اندر وہ نفسیاتی بھونچال پیدا کرے جس کو برین اسٹارمنگ (brainstorming)کہا جاتاہے۔ ایسا واقعہ جو انسان کی پوری شخصیت کو ہلادے۔
اصل یہ ہے کہ عام حالت میں انسان کے ذہن کی تمام کھڑکیاں بند رہتی ہیں۔ اس بنا پر اس کی تمام صلاحیتیں بالقوۃ حالت میں پڑی رہتی ہیں، ان کو بالفعل بنانے کے لیے ایک انقلابی حرکت درکار ہے۔ اس انقلابی حرکت کا نقطہ آغاز صرف ایک ہے، اور وہ ہے اعترافِ خطا۔ یعنی یہ کہہ سکنے کی ہمت کہ میں غلطی پر تھا:
I was wrong.
یہ اعترافِ خطا جتنا زیادہ شدید ہوگا، اتنا ہی زیادہ بڑا نقلاب آدمی کی شخصیت میں آئے گا۔ اس اعترافِ خطا کے اعلی درجہ کو قرآن میں توبۂ نصوح (التحریم66:8,) کہا گیا ہے۔ کوئی انسان اس وقت تک ٹھہرا ہوا پانی ہے، جب تک اس کے اندر اعترافِ خطا کا بھونچال نہ آئے۔ اعترافِ خطا کی مثال ایسی ہے،جیسے ٹھہرے ہوئے پانی میں کوئی بڑا پتھر پھینک دیا جائے۔ یہ پتھر پانی کے پورے تالاب کو متحرک کر دیتا ہے۔ یہی توبۂ نصوح ہے،اور توبۂ نصوح کے بغیر زندگی میں وہ اعلیٰ شخصیت نہیں ابھرتی جس کو قرآن میں احسن العمل (الملک67:2,) والی شخصیت کہا گیا ہے۔ نفسیات کی زبان میں اس کو اعلیٰ درجے کی ترقی یافتہ شخصیت (highly developed personality) کہا جاسکتا ہے۔
انسان عزت نفس (self respect) کے نام پر اکثر یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنی غلطی کا اعتراف کیے بغیر اعلیٰ درجے تک پہنچ جائے۔ اس کو عام طور پر لوگ عزتِ نفس کہتے ہیں۔ عزتِ نفس سے آدمی کو فرضی تسکین تو مل سکتی ہے، مگر شخصیت کے ارتقا کا پراسس جاری نہیں ہوسکتا۔
واپس اوپر جائیں

گفتگو کااصول

عام طو رپر ایسا ہوتا ہے کہ کسی سے کوئی گفتگو کی جائے، اور درمیان میں کوئی ایسی بات آجائے جو بظاہر صاحبِ گفتگو کے نقطۂ نظر کے خلاف ہو، تووہ فوراً اس کے دفاع میں بولنے لگتا ہے۔ یہ طریقہ علمی گفتگو کا طریقہ نہیں۔علمی گفتگو کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ دونوں فریق ایک دوسرے کی بات کو درمیان میں کاٹے بغیر غیر جانبدارانہ انداز میں سنیں۔ دونوں ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ گفتگو کا مقصد میوچول لرننگ (mutual learning) ہو، نہ کہ دوسرے کی بات کو کاٹنا، اور اپنی بات کو صحیح ثابت کرنا۔
گفتگو کا معیار (criterion) یہ ہونا چاہیے کہ دونوں فریق نے اپنے علم میں کیا اضافہ کیا۔ دونوں فریق نے کیا نئی بات سیکھی۔ دونوں فریق نے گفتگو کے موقع کو کس طرح ذہنی ارتقا (intellectual development) کے لیے استعمال کیا۔
دو آدمیوں کے درمیان گفتگو کا مقصدمناظرہ (debate)نہیں ہوتا، بلکہ شخصیت کا ارتقا (personality development) ہوتا ہے۔ کوئی آدمی جتنا جانتا ہے، وہی جاننے کی حد نہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ جاننے کا سمندر بہت وسیع ہے۔ اس لیے انسان کو چاہیے کہ وہ ہر گفتگو کو اس مقصد کے لیے استعمال کرے ، جس سےاس کے علم میں اور اضافہ ہو، اس کی تخلیقی فکر (creative thinking) اور زیادہ ہوجائے۔
اس کے تجربات کی فہرست میں نئےآئٹم شامل ہوں۔ زندگی کی منصوبہ بندی (planning) کے لیے اس کا دائرہ (vista) اور وسیع ہوجائے۔ اس کے اندر ایک نئی شخصیت ایمرج (emerge) کرے۔ وہ پہلے سے زیادہ پختہ انسان (mature person)بن کر ابھرے۔ وہ اپنے بارے میں اور دوسرے کے بارے میں زیادہ واقفیت حاصل کرے۔وہ ماضی اور حال کے بارے میں زیادہ جاننے والا بن جائے۔
واپس اوپر جائیں

حکمت کی تعلیم

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ کا رسول انسانوں کو اللہ کی کتاب دیتا ہے، جس میں اللہ کے قوانین درج ہیں، اور اسی کے ساتھ وہ انسان کوحکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ یہاں ایک سوال ہے کہ حکمت کی تعلیم سے کیا چیز مراد ہے۔اصل یہ ہے کہ قرآن کی تعلیم پر عمل کرنا،کوئی سادہ بات نہیں ۔ ایسا نہیں ہے کہ دنیا ایک میدان ہے، اور اس میں ہر انسان آزاد ہے کہ وہ جو کچھ کرنا چاہے، بلا روک ٹوک اپنی مرضی کے مطابق انجام دے سکے۔ بلکہ صورت حال یہ ہے کہ دنیا میں دوسرے بہت سے انسان آباد ہیں۔ ہر ایک کے اپنے منصوبے ہیں، ہر ایک کا اپنا الگ الگ ایجنڈا ہے۔ ایسی حالت میں یہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ دوسروں کی رعایت کرتے ہوئے اپنا منصوبہ بنائے۔ اگر لوگ ایسا نہ کریں تو سارے لوگ آپس میں لڑیں گے، اور کوئی بھی شخص اپنا کام درست طور پر انجام نہ دے سکے گا۔
ایسی حالت میں انسان کو اپنا کام انجام دینے کے لیے دانش مندانہ منصوبہ بنانا پڑتا ہے۔ اس دانش مندانہ منصوبے کو ایک لفظ میں پریکٹکل وزڈم کہا جاسکتا ہے۔ اس اعتبار سے قرآن کی ان آیات میں حکمت سے مراد عملی دانش مندی (practical wisdom) ہے۔ یعنی دوسروں سے ٹکراؤ کیے بغیر اپنے منصوبے کو مکمل کرنا۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ مکہ میں جب آپ نے توحید کا مشن شروع کیا تو وہاں کی اکثر آبادی شرک پر قائم تھی۔ رسول اللہ کو یہ کرنا تھا کہ مشرکین سے ٹکراؤ کیے بغیر اپنا توحید کا منصوبہ پر امن انداز میں عمل میں لائیں۔ توحید کا اصول ایک مطلق اصول ہے۔ اس کے مقابلے میں توحیدکو زیر عمل لانا، دانش مندانہ منصوبے کا تقاضا کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹکراؤ کیے بغیر توحید کے منصوبے کو زیر عمل لانے کے لیے اس حکمت کو اختیار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، جس کو پریکٹکل وزڈم کہاجاتاہے۔ پیغمبر یہ کرتا ہے کہ وہ ایک طرف توحید کے اصول لوگوں کو بتا تا ہے، اور دوسری طرف وہ پریکٹکل وزڈم یعنی اس کے اختیار کرنے کے عملی پہلوؤں سے لوگوں کو آگاہ کرتا ہے تاکہ وہ کوئی نیا مسئلہ کھڑا کیے بغیر توحید کے عامل بن سکیں۔
غور و تدبر سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن میں رسول کی نسبت سے جس چیز کو حکمت کہا گیا ہے۔ اس سے مراد یہی پریکٹکل وزڈم ہے۔ پیغمبر نے اپنی پوری زندگی میں اس پریکٹکل وزڈم کو اختیار کیا۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو رسول اور اصحابِ رسول لڑائی اور ٹکراؤ کی تاریخ بناتے، نہ کہ توحید کی اشاعت کی تاریخ۔
مثال کے طور پر رسول اللہ نے مکہ میں توحید کا پیغام دینا شروع کیا تو آپ نے کعبہ سے اس کا آغاز کیا۔ اس وقت کعبہ میں سینکڑوں کی تعداد میںمشرکین نے اپنے بت رکھ دیے تھے۔ اگر آپ اپنے مشن کا آغاز بتوں کو کعبہ سے نکالنے سے شروع کرتے تو یقینا آپ کا مشرکین کے ساتھ ٹکراؤ شروع ہوجاتا، اور کوئی مثبت کام انجام نہ پاتا۔ اسی طرح ہجرت کے وقت ایسا نہ ہوتا کہ آپ پرامن طور پر مکہ کو چھوڑ کر مدینہ چلے جاتے اورنہ ہی مدینہ میں اپنے مشن کی ری پلاننگ کرتے۔ اسی طرح حدیبیہ کے موقع پر ایسا نہ ہوتا کہ آپ کے اور مشرکین کے درمیان ناجنگ معاہدہ تشکیل پاتا، بلکہ دونوں فریق حدیبیہ کو جنگ کا میدان بنا لیتے، وغیرہ۔
پیغمبر کی نسبت سے حکمت کا لفظ سمجھنے کے لیے ہم کو یہ طریقہ اختیار کرنا پڑے گا کہ پیغمبر نے عملاً اس حکمت کو مکہ اور مدینہ میں کس طرح اختیار کیا۔ اس معاملے میں رسول اللہ کا عملی نمونہ بتائے گا کہ وہ چیز کیا تھی، جس کو قرآن میں آپ کی نسبت سے حکمت کہا گیا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اس آیت کی تفسیر یہ بنتی ہے کہ الکتاب، رسول اللہ کی تعلیمات کو جاننے کا نظری ماخذ ہے، اور توحید کے مشن کو عرب میں جاری کرنے کے لیے آپ نے جو طریقہ کار اختیار فرمایا، وہ آپ کا عمل ہے،جس کو قرآن میں حکمت کہا گیا ہے۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ الکتاب سے مراد اسلام کی نظری تعلیم ہے، اور حکمت سے مراد اس کا عملی پہلو ہے۔ دوسرے لفظ میں حکمت سے مراد وہی چیز ہے ، جس کو پریکٹکل وزڈم (practical wisdom)کہا جاتا ہے۔ یعنی نظری تعلیم کو عمل کی صورت میں ڈھالنا۔
واپس اوپر جائیں

سمجھدار انسان

سقراط (Socrates ) 399 قبل مسیح کا مشہور یونانی فلسفی ہے۔ اس کی زبان یونانی زبان تھی۔ اس کے ایک قول کا عربی زبان میں اس طرح ترجمہ کیا گیا ہے:الإنسان الذکی یتعلم من کل شیء ومن کل أحد۔ یعنی سمجھ دار انسان ہر چیز سے ، اور ہر ایک سے سیکھتا ہے۔
سمجھدار (ذکی)انسان وہ ہے جو ذہنی اعتبار سے ایک تیار ذہن (prepared mind) ہو۔ جو ذہنی ارتقا کے مراحل کو طے کرچکا ہو۔ ایسے آدمی کا حال یہ ہوتا ہے کہ اس کی اخذ (grasp)کی طاقت بہت بڑھی ہوئی ہوتی ہے۔ وہ باتوں کو سنتے ہی اس کے گہرے مفہوم تک پہنچ جاتا ہے۔ وہ ظاہری معنی سے گزرکر بات کے گہرے پہلووں کو دریافت کرلیتا ہے ۔
کوئی آدمی سمجھدار کیسے بن سکتا ہے۔ اس کا سب سے بڑا ذریعہ یہ ہے کہ آدمی اپنی کمیوں کو دریافت کرنے کا زیادہ سے زیادہ شائق بن جائے۔ اپنی کمیوں کو دریافت کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ آدمی کے اندر تعلم (learning) کی صفت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ آدمی کے اندر تواضع (modesty) کی صفت پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کی وجہ سے وہ کسی نفسیاتی رکاوٹ کے بغیر دوسروں سے سیکھنے لگتا ہے۔ کسی قسم کی بڑائی کا جذبہ اس کے لیے ذہنی ترقی میں رکاوٹ نہیں رہتا۔ وہ اتنا زیادہ متلاشی (seeker) بن جاتا ہے کہ جب بھی کوئی وزڈم کی بات اس کے سامنے آتی ہے، تو وہ کسی رکاوٹ کے بغیر فوراً اس کو قبول کرلیتا ہے۔
نفسیاتی رکاوٹ یہ ہے کہ آدمی کے اندر یہ ذہن بن جائے کہ وہ جانتا ہے۔ یہ ذہن مزید سیکھنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ دانش مند انسان وہ ہے، جو اپنے’’نہیں‘‘ کو جانے۔ جو آدمی ’’نہیں‘‘ کو جانے گا، وہ گویا پیشگی طور پر وزڈم کو قبول کرنے کے لیے تیار ہے۔ ایسا آدمی ہر ایک سے سیکھے گا، ایسا آدمی ہر تجربے کو پکڑے گا، ایسا آدمی ’’میں جانتا ہوں‘‘کی نفسیات سے پاک ہوگا۔ اس لیے وہ ہر وقت جاننے اور سیکھنے کے لیے تیار رہے گا۔
واپس اوپر جائیں

تجربہ سے سبق سیکھیے

تجربہ (experience) ہمیشہ سبق کے لیے ہوتا ہے۔ لیکن بہت کم لوگ ہیں، جو اپنے تجربے کو سبق بنا سکیں۔ تجربہ ہر انسان کی زندگی کا ایک سبق آموز واقعہ ہوتا ہے۔ تجربہ انسان کے لیے ذہنی ارتقا (intellectual development) کا ذریعہ ہے۔ لیکن عام طور پر لوگ تجربہ سے مثبت فائدہ حاصل نہیں کر پاتے۔ اس لیے کہ وہ تجربہ کو شکایت کے خانے میں ڈال دیتے ہیں۔
یہ فطرت کا قانون ہے کہ جب بھی کسی کے ساتھ کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش آتا ہے تو وہ صرف دوسرے کی غلطی کی بنا پر نہیں ہوتا۔ ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ ایسے کسی واقعے میں دونوں فریق کا حصہ ہوتا ہے، کسی کا کم کسی کا زیادہ۔ عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ لوگوں کے ساتھ جب کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش آتا ہے تو وہ اس کو یک طرفہ طور پر دیکھتے ہیں۔ وہ اپنی غلطی کو حذف کرکے سارے معاملے کو دوسرے کی غلطی کے خانے میں ڈال دیتے ہیں۔ یہی تقریباًننانوے فیصد مثالوں (cases) میں پیش آتا ہے۔
مگر اس طرح یک طرفہ رائے قائم کرنا،قانونِ فطرت کے خلاف ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اصحابِ رسول جیسے سارے لوگ ہوں، تب بھی ناخوش گوار واقعات میں کچھ نہ کچھ اپنا حصہ شامل رہتا ہے۔ اس کی ایک مثال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں غزوہ احد کا واقعہ ہے۔ اس غزوہ میں اصحاب رسول کو ابتداءاً کامیابی ہوئی، لیکن بعد کو خود اپنی ایک غلطی سے سخت نقصان اٹھانا پڑا (آل عمران152-153:) ۔
تجربے کو سبق (lesson) بنائیے، تجربے کو شکایت(complaint) نہ بنائیے۔ تجربے کو سبق بنانے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی نے اپنی زندگی کے ایک منفی واقعہ کو مثبت واقعہ میں تبدیل کردیا، آدمی نے اپنے نقصان کو دوبارہ اپنے لیے فائدہ بنالیا۔ اس کے برعکس، جو لوگ تجربے کو شکایت اور نفرت کا ذریعہ بنا لیں، انھوں نے گویا نقصان کے بعد ملنے والے فائدہ سے بھی اپنے کو محروم کرلیا۔ انھوں نے پہلے موقع کو بھی کھویا، اور دوسرےموقع کو بھی کھو دیا۔
واپس اوپر جائیں

مثبت سوچ کی ضرورت

مثبت سوچ (positive thinking) کا مطلب کیا ہے۔ اس سے مراد وہ سوچ ہے جو ہر قسم کے منفی جذبات سے خالی ہو۔ جس میں شکایت اور احتجاج کے بجائے، مکمل طور پر حقیقت واقعہ کی بنا پر رائے قائم کی جائے۔ مثبت سوچ وہ ہے جو ہر قسم کے فخر اور تعصب سے خالی ہو۔ مثبت سوچ دوسرے الفاظ میں مبنی بر حقیقت سوچ کا نام ہے۔
مثبت سوچ کا تعلق انسان کی پوری زندگی سے ہے۔ منفی سوچ سے منفی شخصیت بنتی ہے، اور مثبت سوچ سے مثبت شخصیت۔ مثبت سوچ فطرت کی آواز ہوتی ہے، اور منفی سوچ ابلیس کی آواز۔ مثبت سوچ انسان کو پاکیزہ شخصیت بناتی ہے، اور منفی سوچ اس کی شخصیت کو آلودہ شخصیت بنادیتی ہے۔ مثبت سوچ والے آدمی کو جنت میں بسانے کے لیے منتخب کیا جائے گا، اور منفی سوچ والا آدمی ہمیشہ کے لیے جنت میں داخلہ سے محروم رہے گا۔
منفی سوچ سے بچنا ، اور مثبت سوچ کا طریقہ اختیارکرنا، اتفاق سے نہیں ہوتا۔ یہ خصوصیت آدمی کے اندر اس وقت پیدا ہوتی ہے، جب کہ وہ اس معاملہ میں بہت زیادہ باشعور ہو، جب وہ شعوری طور پر اپنے آپ کو ایسا بنانے کی کوشش کرے۔ اس کے لیے ضرورت ہوتی ہے کہ آدمی برابر اپنا محاسبہ کرتا رہے۔
مثبت سوچ کا معاملہ، مثبت سوچ برائے مثبت سوچ نہیں ہے۔ یعنی مثبت سوچ بذاتِ خود اصل مقصود نہیں ہے، بلکہ مثبت سوچ کا فائدہ یہ ہے کہ مثبت سوچ والا آدمی ہر قسم کے ڈسٹریکشن سے بچ جاتا ہے۔ اس کا ذہن اس مقصد کے لیے خالی ہوجاتا ہے کہ وہ صرف ضروری باتوں میں اپنے ذہن کو مشغول کرے، وہ غیر ضروری باتوں میں اپنے وقت کو ضائع نہ کرے۔ مثبت سوچ آدمی کو بامقصد انسان بناتی ہے۔ مثبت سوچ آدمی کو ایسی مصروفیت سے بچاتی ہے جس کا کوئی فائدہ ، نہ دنیا میں ہے اور نہ آخرت میں۔
واپس اوپر جائیں

ٹیک اوے کیاہے

ایک بار میں لندن کی ایک سڑک پر چل رہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ ایک دکان کے سامنے ایک بورڈ لگا ہوا ہے، اس بورڈ پر جلی حرفوں میں لکھا ہوا تھا، ٹیک اوے(takeaway)۔ ٹیک اوے کا لفظی مطلب ہے، لے کر جانا۔ پہلے یہ لفظ دکان کے لیے بولا جاتا تھا کہ آپ دکان پرجائیں، اور آپ وہاں اپنا مطلوب سامان مثلاً کھانے کا پیکٹ قیمت ادا کرکے لیں اور چلے جائیں۔ بعد کویہ لفظ عام ہوکر اِس مفہوم میں بولا جانے لگا کہ آپ کسی میٹنگ میں شرکت کریں، اور وہاں سے آپ کوئی آئڈیا یا نئی بات لے کر واپس آئیں:
A key fact, point, or idea to be remembered, typically one emerging from a discussion or meeting.
کوئی تقریر یا تحریر کامیاب تقریر یا تحریر اس وقت ہے، جب ایسا ہو کہ آپ اس تحریر کو پڑھیں یا کسی اجتماع میں اس تقریر کو سنیں، اوراس سے آپ کو کوئی کام کی بات یا کوئی مفید آئڈیا ملے، اور اس کو لے کر آپ واپس جائیں۔ تقریر یا تحریر کی کامیابی کا یہی معیار ہے۔ اگر اس کے برعکس معاملہ ہو، یعنی جس تقریر یا تحریر سے کوئی ایسی بات نہ ملے جو لے جانے کے قابل ہو ، تو آپ نے اپنا وقت ضائع کیا۔ آپ کا پڑھنا بھی بے فائدہ تھا، اور سننا بھی بے فائدہ ۔
مقرر ہو یا محرر ، دونوں کو چاہیے کہ وہ بولنے یا لکھنے سے پہلے اچھی طرح سوچے، اور کوئی ایسی بات متعین کرے، جو دوسروں کو دینے کے قابل ہو۔ پھر یہ بھی ہے کہ وہ بات آپ واضح انداز میں بیان کرسکیں۔ اگر ایسا ہو کہ آپ نے لکھا یا کہا تو اس سے پڑھنے یا سننے والے کو کوئی لے جانے کی بات نہیں ملی تو ایسا لکھنا بھی بیکار ہے، اور پڑھنا بھی بیکار ہے۔
کسی تقریر یا تحریر کی کامیابی کا معیار یہ ہے کہ اس میں پڑھنے یا سننے والے کے لیے حقیقی معنی میں کوئی ٹیک اوے ہو۔ پڑھنے یا سننے والے کو کوئی ایسی بات ملے ، جس کے ذریعے وہ اپنی زندگی کو زیادہ مفید بنا سکے، جو اس کے شخصی ارتقا میں مددگار ثابت ہو۔
واپس اوپر جائیں

رب العالمین کا شکر

اس دنیا میں انسان کے لیے بقدر ضرورت چیزیں رکھی گئی ہیں، نہ کہ بقدر اشتہا، تو انسان اس دنیا میں کس طرح خدا کا شکر گزار بن سکتا ہے۔(مولانا عبد الباسط عمری، قطر)
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ موجودہ حالت میں انسان صرف بقدر ضرورت چیزوں کا تحمل کرسکتا ہے۔ بقدر اشتہا چیزوں کا تحمل انسا ن کے لیے موجودہ دنیا میں ممکن نہیں۔ ایسی حالت میں موجودہ دنیا میں کسی انسان کے لیے بقدر اشتہا کا طالب ہونا، ایک غیر فطری بات ہے۔ وہ انسان کی فطرت کا حقیقی تقاضا نہیں۔
اس حقیقت کا اعتراف موجودہ دنیا کے اپنے وقت کے سب سے زیادہ امیر آدمی امریکا کے مسٹر بل گیٹس (پیدائش1955 ) نے کیا ہے۔ انھوں نے اپنی ایک تقریر میں کہا— اگر تم ایک ملین ڈالر سے زیادہ حاصل کرلو، تب بھی تمھاری ضرورت ایک ہمبرگر ہی رہے گی۔
Once you get beyond a million dollars, it's still the same hamburger.
اس معاملے میں شکر گزاری یہ ہے کہ آپ اللہ کی اس رحمت کا اعتراف کریں کہ انسان کی جو حقیقی ضرورت تھی، وہ اللہ نے انسان کو عطا کیا۔ اگر اللہ ایساکرتا کہ انسان کو اس کی حقیقی ضرورت سے زائد دیتا تو ایسی حالت میں انسان کے اندر فساد پیدا ہوتا، نہ کہ شکر۔ یہ اللہ کی رحمت ہے کہ اس نے انسان کو اس کی فطرت کے مطابق دیا، نہ کہ اس کی خواہش کے مطابق۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اللہ کی اس حکمت کو دریافت کرے، اور اس صورتِ حال کو شکر کا مسئلہ بنائے، نہ کہ شکایت کا مسئلہ۔
بل گیٹس کی مثال بتاتی ہے کہ اس کے پاس ضرورت سے زیادہ دولت آئی، تو اس نے پایا کہ اس کے بچے بگاڑ میں مبتلا ہوگئے۔ اس بنا پر بل گیٹس نے اپنی دولت کا بڑا حصہ چیریٹی میں دے دیا، کیوں کہ اس نے دیکھا کہ ضرورت کے بقدر دولت انسا ن کواپنی حد پر رکھتی ہے۔ اس کے برعکس، اگر انسان کو ضرورت سے زیادہ دولت مل جائے، تو وہ بگاڑ کا شکار ہوجاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

سبق کا پہلو

راقم الحروف کا ایک آرٹیکل نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا، 16 مارچ 2018 میں شائع ہوا ۔ اس کا عنوان ہے:
The Hawking Effect: Triumph of Human Spirit
یہ آرٹیکل برٹش سائنس داں اسٹیفن ہاکنگ کے بارے میں ہے، جس کی وفات 14 مارچ 2018 کو 76 سال کی عمر میں ہوگئی۔ اس مضمون پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک عرب عالم نے کہا : ھل یناسب ھذا الکلام عن احد اکبر دعاۃ الالحاد و محاربۃ اللہ فی ھذا العصر۔ یعنی کیا اس طرح کا کلام اس آدمی کے بارے میں مناسب ہے جو موجودہ زمانے میں الحاد کا ایک بڑا داعی اور خدا کے وجود کا مخالف ہے۔
میرے آرٹیکل کے بارے میں یہ تبصرہ ایک غیر واقعی تبصرہ ہے۔ راقم الحروف کا یہ مضمون انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ کوئی بھی شخص مذکورہ عنوان کے تحت اس آرٹیکل کو پڑھ سکتا ہے۔ اس آرٹیکل کا کوئی تعلق اسٹیفن ہاکنگ کے ذاتی مدح یا ذم سے نہیں ہے۔ بلکہ اس کی زندگی کے ایک پہلو کو سادہ طور پر بیان کیا گیاہے۔ اس پہلو میں دو قسم کے سبق موجود ہیں۔ ایک یہ کہ اس دنیا میں یہ ممکن ہے کہ معذور شخص بھی ایک بڑا کام کرسکے، اور دوسر ایہ کہ کائنات میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ اس لیے کائنات میں واحد کنٹرول کا نظام ہونا چاہیے۔ اسٹیفن ہاکنگ نے اس پر کام کیا ہے، جس کو سنگل اسٹرنگ تھیَری کے نام سے جانا جاتا ہے، سنگل اسٹرنگ تھیَری باعتبار حقیقت توحید کی سائنسی تصدیق کے ہم معنی ہے۔
قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ سبق کے لیے کسی بھی چیز کا حوالہ دیا جاسکتا ہے ۔ جہاں سبق کا پہلو ہو، وہاں بات کو مطلوب سبق (lesson) کے اعتبار سے دیکھا جائے گا، بات کا دوسرا پہلو وہاں حذف ہوجائے گا۔ اس اصول کو قرآن (البقرۃ،2:26) کے مطالعے سے معلوم کیا جاسکتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

اختلافِ رائے

مغرب کے سفر میں میری ملاقات ایک بڑے مغربی اسکالر سے ہوئی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ مغرب (West) کی ترقی کا راز کیا ہے۔ انھوںنے جواب دیا— اختلافِ رائے کو انسان کا ناقابل تنسیخ حق سمجھنا:
To accept dissent as an absolute human right.
مغربی اسکالر کے اس جواب کو سننے کے بعد میں نے اس موضوع کا تفصیلی مطالعہ کیا۔ مجھے معلوم ہوا کہ اس موضوع پر کثرت سے کتابیں لکھی گئی ہیں،مثلاً:
— Dissent: The History of an American Idea, by Ralph Young
— On Liberty, by John Stuart Mill
— The Constitution of Liberty, by F. A. Hayek
اس موضوع پر اپنے مطالعے کے نتیجے میں میں اس رائے کی صداقت پر مطمئن ہوگیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ مغربی تہذیب سے پہلے انسانی تاریخ میں اختلاف رائے کو انسانی حق (human right) کا درجہ حاصل نہ تھا۔ یہ صرف مغربی تہذیب کے بعد ہوا ہے کہ اختلاف رائے کو متفقہ طور پر ایک یونیورسل نارم کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے۔
اختلاف رائے کو ڈیسنٹ (dissent) کا نام دینا مغربی تہذیب کا ظاہرہ ہے۔ مغربی تہذیب سے پہلے یہ لفظ موجود نہ تھا۔ ڈیسنٹ ایک نیوٹرل لفظ ہے، اور میں سمجھتا ہوں کہ مثبت اختلاف کے لیے یہ ایک صحیح ترین لفظ ہے۔ مثبت اختلاف صرف اختلاف ہوتا ہے، وہ نہ موافق ہوتا ہے، اور نہ مخالف۔ میں سمجھتا ہوں کہ مثبت اختلاف اجتماعی ترقی کے لیے شرط لازم ہے۔
اختلاف اگر صرف اختلاف ہو تو وہ نہایت آسانی سے مخالفت کی شکل اختیار کرلیتا ہے، اور مخالفت صرف ایک منفی سرگرمی ہے۔ مخالفت کو مثبت سرگرمی بنانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کو مثبت معنی دے دیا جائے۔ یعنی اختلاف کو ڈیسنٹ کا معنی قرار دینا۔ مثبت اختلافِ طرفین کے لیے ذہنی ارتقا کا ذریعہ ہے، جب کہ منفی اختلاف کا دونوں میں سے کسی کے لیے کوئی فائدہ نہیں ہے۔
میں ذاتی طور پر اختلاف رائے کو یہی درجہ دیتا ہوں۔ میں نے اپنے ذاتی تجربے سے یہ سمجھا ہے کہ اختلافِ رائے کو نہ ماننا خود اپنے ساتھ دشمنی کرنا ہے۔ اس لیے کہ اختلاف رائے کے ذریعہ زیرِ بحث مسئلے کے مختلف پہلو کھلتے ہیں۔ اس کے مختلف گوشے سامنے آتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اختلاف رائے کسی انسان کے لیے ذہنی ارتقا (intellectual development) کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ میں اپنے ذاتی تجربے کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ جو آدمی اختلاف رائے کو برداشت نہ کرے، وہ یقینی طور پر ایک بہت بڑی نعمت سے محروم ہوگیا، اوروہ نعمت ہے ذہنی ارتقا۔
کسی نے درست طور پر کہا ہے:من ھو ناصحک، خیر لک ممن ھو مادحک(جو شخص تمہیں نصیحت کرے، وہ اس سے بہتر ہے جو تمھاری تعریف کرے )۔ جو آدمی حقیقت پسند ہو ، وہ یقیناً تنقید یا اختلاف رائے کو اپنے لیے ایک نعمت سمجھے گا۔ کیوں کہ تنقید اور اختلاف رائے ہمیشہ فکر کے نئے دروازے کھولنے والا ہے۔
تنقید یا اختلاف رائے کو کھلے ذہن کے ساتھ سننا میرے نزدیک کوئی تقویٰ کی بات نہیں ہے، بلکہ وہ خالص علمی بات ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آدمی کے اندر سائنٹفک ٹمپر (scientific temper)موجود ہے۔ سائنٹفک ٹمپر اپنی اصل کے اعتبار سے یہ ہے کہ آدمی کے اندر اعتراف ِحقیقت (acceptance of reality) کا مزاج ہو۔ جب آپ اپنا یہ حق سمجھتے ہیں کہ آپ آزادانہ سوچیں، اور آزادانہ رائے قائم کریں تو فطرت کے قانون کے مطابق آپ کو یہ بھی ماننا چاہیے کہ دوسرے شخص کو بھی یکساں طور پر اپنی رائے رکھنے اور اس کے اظہار کا حق حاصل ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اختلاف رائے کو کھلے ذہن کے ساتھ سننا، گویا حقیقت ِواقعہ کا اعتراف کرنا ہے۔ اسی اعتراف کا دوسرا نام سائنٹفک اسپرٹ ہے۔
٭ ٭ ٭ ٭٭٭ ٭
اس دنیا میں صرف دو چیزیں ہیں جوآدمی کو متواضع بناتی ہیں۔ ایک، سائنٹفک ذہن، دوسرے متقیانہ مزاج۔ سائنٹفک ذہن علم کی معرفت سے بنتا ہے اور متقیانہ ذہن خدا کی معرفت سے۔
واپس اوپر جائیں

تسفیہ یا تنقید

ایک مضمون نگار نے ہندستانی مسلمانوں پر ایک مقالہ شائع کیا ہے۔ اس کا ایک حصہ یہ ہے:اس سے زیادہ بے عقلی کی کوئی بات نہیں ہے کہ یہ کہا جائے کہ(انڈیا میں) ’’مسلمان ترقی کررہے ہیں‘‘۔ ایسی بات اسی شخص کی زبان سے نکل سکتی ہے جو ذہنی اور فکری طور پر مفلس ہوگیاہو یا غباوت کی بلند ترین چوٹی پر ہو (جولائی- اگست 2016) ۔اس پیراگراف میں جو جملے ہیں، وہ باعتبار گرامر درست ہیں۔ لیکن اپنے معنی کے اعتبار سے وہ درست نہیں کہے جاسکتے۔
حقیقت کے اعتبار سے دیکھیے تو ترقی عطیے کی چیز نہیں۔ وہ ایک خود حاصل کردہ چیز کا نام ہے۔ اس دنیا میں ہر قسم کے مواقع پھیلے ہوئے ہیں۔ جو فرد یا گروہ ان مواقع کو پہچانے، اور ان کو درست طور پر استعمال کرے، وہ ترقی کرے گا، اور جو فرد یا گروہ ان مواقع کو نہ پہچانے، اور درست منصوبہ کے ذریعہ ان کو حاصل کرنے کی کوشش نہ کرے، وہ ترقی سے محروم رہے گا۔
فطرت کے قانون کےمطابق، اس دنیا کا اصول یہ ہے کہ جیسا بونا ویسا کاٹنا۔ اصل یہ ہے کہ ترقی کرنا، انسان کا اپنا کام ہے۔دوسراانسان اس کو نہ تو ترقی دے سکتا، اور نہ ترقی سے محروم کرسکتا۔موجودہ زمانے میں ایک نیا دور آیا ہے، اس کو ترقی کا انفجار کہا جاسکتا ہے۔ موجودہ زمانے میں ترقی کے مواقع اتنے زیادہ کھل چکے ہیں کہ کوئی شخص ترقی سے محروم نہیں رہ سکتا، الا یہ کہ وہ ترقی کرنا نہ چاہتا ہو۔ موجودہ زمانہ ایک مختلف زمانہ ہے۔ اس زمانے میں اجارہ داری (monopoly) کا تصور ختم ہوچکا ہے۔ اب آزادی کا دور ہے، نہ کہ اجارہ داری کا دور۔
ایک دن ایک صاحب مجھ سےملنے کے لیے آئے، وہ میرے گاؤں کے رہنے والے تھے۔ میں ان سے پوچھا کہ دہلی میں کیسے آنا ہوا۔ انھوں نے کہا کہ میرا پوتا انگلینڈ جارہا ہے، اس کو پہنچانے کے لیے آیا ہوں۔ اس طرح کے تجربے مجھے بار بار ہوتے رہتے ہیں۔ ایک آدمی جس کے پاس پہلے کوئی روزگار نہیں تھا۔ اب وہ روزگار کے نئے طریقوں کو حاصل کرکے ترقی کر رہا ہے، وغیرہ۔
واپس اوپر جائیں

تنقید کا طریقہ

تنقید اگر ثابت شدہ مثال کے ساتھ ہو، تو وہ علمی تنقید ہے۔ اس کے برعکس، اگر تنقید ثابت شدہ مثال کے بغیر ہو، تو وہ ایک الزام (allegation) ہے۔ علمی تنقید ایک جائز فعل ہے۔ ہر شخص کو حق ہے کہ وہ کسی شخص کے اوپر ایک با اصول تنقید کرے۔ لیکن ثابت شدہ مثال کے بغیر کسی کے اوپر تنقید کرنا، تنقیص ہے، جو کہ ایک ناقابلِ قبول فعل ہے۔ اس قسم کی تنقید کا فائدہ نہ ناقد کو ملتا ہے، اور نہ زیرِ تنقید شخص کو۔
جائز تنقید ایک صحت مند علمی سرگرمی ہے۔ صحت مند تنقید وہ ہے، جو ثابت شدہ مثال کی بنیاد پر کی گئی ہو۔ ایسی تنقید ہر اعتبار سے مفید ہے۔ اس کے برعکس، غیر صحت مند تنقید جس میں کسی ثابت شدہ مثال کا حوالہ موجو دنہ ہو، وہ ایک علمی فساد ہے، اس کے سوا اور کچھ نہیں۔
مثلاً اگر آپ یہ کہیں کہ فلاں شخص کا کوئی کنٹری بیوشن علم کی دنیا میں نہیں ہے۔ تو یہ تنقید صرف اس وقت درست قرار پائے گی، جب کہ اس میں ثابت شدہ مثال کا حوالہ دیا گیا ہو۔ ثابت شدہ مثال کے بغیر کی ہوئی تنقید بے بنیاد الزام (false allegation)کے سوا او ر کچھ نہیں۔ ایسی تنقید مفسدانہ علمی سرگرمی کے برابر ہے۔ لیکن اگر اس میں ثابت شدہ مثال دی گئی ہو، تو بلاشبہ وہ ایک صحت مندعلمی سرگرمی ہے، اور صحت مند علمی سرگرمی نہایت ضروری ہے۔ صحت مند علمی سرگرمی لوگوں کو ذہنی جمود (intellectual stagnation) سے بچاتی ہے۔
تنقید کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ دعوی کے مطابق، ثابت شدہ مثال دے کر اس کا علمی تجزیہ کیا جائے۔ اس قسم کا علمی تجزیہ صحت مند علمی سرگرمی کو بڑھاتا ہے۔ وہ صحت مند علمی سرگرمی کو فروغ دینے کا ذریعہ ہے۔ صحت مند تنقید اگر مذہب کے میدان میں ہو تو اس سے لوگوں کے ایمان میں اضافہ ہوگا۔ اسی طرح اگر اس قسم کی تنقید سیکولر میدان میں ہو تو اس سے علم کے میدان میںترقی ہوگی۔
﴿ تعلیم کی اصل اہمیت یہ ہے کہ تعلیم آدمی کو باشعور بناتی ہے﴾
واپس اوپر جائیں

امت کی بیداری

امت کی بیداری ایک عام موضوع ہے، جس پر تمام لوگ کچھ نہ کچھ لکھتے رہتے ہیں۔ اگر ان تحریروں اور تقریروں کو یکجا کیا جائے تو غالباً سب کا خلاصہ ایک ہوگا، اور وہ ہے امت کو جوش دلا کر عمل پر ابھارنا۔ مثلاً امیر شکیب ارسلان کی کتاب لماذا تأخر المسلمون ولماذا تقدم غیرہم (1939ء)، کا موضوع مسلمانوں میں بیداری لانا ہے۔ مگر پوری کتاب جوش دلانے کے انداز میں لکھی گئی ہے، اس میں کوئی ریشنل پوائنٹ نہیں ہے۔ صرف جوش دلا کر ابھارنے کا انداز ہے۔ اسی طرح اقبال کا کلام مسلمانوں کو جوش دلانے کے انداز میں ہے۔ مثلاً ان کا نمائندہ ایک شعر یہ ہے:
نوارا تلخ تر می زن چو ذوق نغمہ کم یابی حدی را تیز تر می خواں چو محمل را گراں بینی
یعنی اگر ذوق نغمہ کم ہوگیا ہے تو اپنے گیت کوتیز کردے۔ اگر اونٹ پر بوجھ زیادہ ہو تو حْدی خواں اپنی لَے اور تیز کردیتے ہیں۔
ایک امت جب اپنے دورِ زوال میں پہنچ جائے تو جذباتی شعلہ بیانی کا کوئی کام نہیں رہتا ۔ اس وقت کرنےکا کام یہ ہوتا ہے کہ افراد کو ذہنی غذا دی جائے۔ افراد کو عروج و زوال کے قوانین بتائے جائیں۔ اس معاملےمیں قرآن کی دو رہنما آیتوں کا ترجمہ یہ ہے: کیا ایمان والوں کے لیے وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کی نصیحت کے آگے جھک جائیں۔ اور اس حق کے آگے جو نازل ہوچکا ہے۔ اور وہ ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائیں جن کو پہلے کتاب دی گئی تھی، پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہوگئے۔ اور ان میں سے اکثر لوگ نافرمان ہیں۔ جان لو کہ اللہ زمین کو زندگی دیتا ہے اس کی موت کے بعد، ہم نے تمہارے لیے نشانیاں بیان کردی ہیں، تاکہ تم سمجھو (57:16-17) ۔قرآن کی ان آیتوں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ زوال یافتہ امت کو دوبارہ زندہ کرنے کا آغاز افراد کو خاشع بنانے سے ہوتا ہے، نہ کہ جذبات کی بنیاد پر کئے گئے اقدام سے۔
واپس اوپر جائیں

شخصیت کی تبدیلی

رسول اللہ کے بہت سے اصحاب کے بارے میں کتابوں میں آتا ہے کہ اسلام سے پہلے وہ ایک مختلف انسان تھے، اسلام قبول کرنے کے بعد وہ بالکل دوسرےانسان بن گئے۔ مثلاً پہلے سخت تھے، تو اب نرم ہوگئے۔ پہلے ان کے اندر نفرت کا جذبہ تھا، تو اب وہ انسان سے محبت کرنے والے بن گئے، وغیرہ۔
صحابہ کے اندر یہ تبدیلی کسی کرامت کی بنا پر نہیں ہوئی، بلکہ معلوم سبب سے ہوئی۔ اسلام قبول کرنے کے بعد ان کے دلوں میں اللہ کا ڈر پیدا ہوگیا۔ پہلے وہ بے فکری کی زندگی گزارتے تھے، اب وہ آخرت کو سوچ کر فکر مند زندگی گزارنے لگے، وغیرہ۔ ان چیزوں کے نتیجے میں ان کے اندر نئی سوچ جاگی۔ وہ آخرت کی جواب دہی کے بارے میں سوچنے لگے۔ ان کے اندر جنت کا شوق پیدا ہوگیا۔ اس طرح ان کے اندر ایک نیا فکری عمل (thinking process) جاری ہوگیا۔ اس فکری عمل کے نتیجے میں دھیرے دھیرے ان کی سوچ بدلی۔ سوچ کی اس تبدیلی کے نتیجے میں وہ تبدیلی آئی، جس کو اب ہم سیرت کی کتابوں میں پڑھتے ہیں۔
اس طرح کی تبدیلی کسی کرامت کے نتیجے میں نہیں پیدا ہوتی۔ بلکہ وہ فکری انقلاب کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ انسان پہلے ذہن کی سطح پر بدلتا ہے۔ اس کے بعد اس کے اخلاق اور کردار میں تبدیلی آتی ہے۔ آدمی کی فکر میں اگر تبدیلی نہ آئے، تو اس کے اندر عمل کے اعتبار سے تبدیلی بھی نہیں آئے گی۔ آدمی پہلے شعور کی سطح پر بدلتا ہے، اس کے بعد وہ عمل کی سطح پرایک نیا انسان بن جاتا ہے۔ یہ ایک خاموش پراسس (silent process) ہے، جو ہر اس انسان کی زندگی میں پیدا ہوتا ہے، جو سوچ سمجھ کر اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کا فیصلہ کرے۔
ایسے لوگوں کا کیس یہ تھا کہ پہلے وہ بے خبری کی زندگی گزار رہے تھے۔ بعد کو جب انھیں حقیقت کی دریافت ہوئی، تو ان کا ذہن جاگ اٹھا۔ وہ اپنے ماضی اور مستقبل کے بارے میں سوچنے لگے۔ وہ اپنے بارے میں یہ سوچنے لگے کہ انھوں نے زندگی میں کیا کھویا، اور کیا پایا۔ انھوںنے اپنا محاسبہ شروع کردیا۔وہ زیادہ گہرائی کے ساتھ اپنے حال اور اپنے مستقبل پر غور کرنے لگے۔ وہ زیادہ بے لاگ انداز میں اپنا جائزہ لینے لگے۔ اس سوچ نے ان کے اندر ایک فکری انقلاب پیدا کردیا۔ ان کے اندر یہ سوچ پیدا ہوئی کہ اگرچہ انھوں نے اپنے ماضی کو کھویا ہے، لیکن مستقبل اب بھی ان کے پاس ہے۔ ان کو یہ کرنا چاہیے کہ درست پلاننگ کے ذریعے اپنے مستقبل کو بچائیں۔ پیچھے کی بربادی کی تلافی آگے کی نتیجہ خیز پلاننگ کے ذریعے کریں۔ یہی فکر تھی، جس نے ان کو ایک نیا انسان بنا دیا۔
صحابہ تمام مسلمانوں کے لیے نمونہ ہیں۔ یہ نمونہ وہ اس لیے نہیں ہیں کہ وہ مقدس تھے۔ بلکہ وہ اس لیے نمونہ ہیں کہ انھوں نے اپنے زندگی کی نئی منصوبہ بندی کی۔ انھوں نے اپنی کمی کو دریافت کیا، انھوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا، اور درست منصوبہ بندی کے ذریعے اپنی زندگی کی نئی تعمیر کی۔
٭ ٭ ٭ ٭٭٭ ٭
خلافت یانظام صالح کوئی ایسی چیز نہیں جو کاغذ سے نکل کر زمین پر قائم ہوجائے۔ اس دنیا میں صالح نظام کو قائم کرنے کے لیے ہمیشہ صالح افراد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر صالح افراد موجود نہ ہوں تو خلافت یا نظام صالح کا نام لینے سے کوئی صالح نظام قائم نہیں ہوسکتا۔ یہ عمل اور نتیجے کے درمیان فرق کا معاملہ ہے۔ اگر آپ پھل چاہتے ہوں تو پہلے آپ کو شجر کاری پر عمل کرنا ہوگا۔ شجر کاری کے میدان میں ضروری عمل کیے بغیر کبھی کوئی شخص پھل کا مالک نہیں بن سکتا۔یہی معاملہ خلافت یا نظام صالح کے قیام کا بھی ہے۔ کرنے والوں کو سب سے پہلے یہ کرنا ہے کہ وہ افراد کے اندر اعلیٰ ایمانی شعور جگائیں۔ وہ لوگوں کے اندر بلند کرداری پیدا کریں۔ وہ ایسے افراد تیار کریں جو ہر قسم کے نفسانی محرکات سے اوپر اٹھ کر لوگوں سے معاملہ کرنے والے ہوں۔ جن کے اندر یہ استعدادپیدا ہو چکی ہو کہ وہ اقتدار پاکر بھی متواضع بنے رہیں۔ زمین کے خزانے ان کے ہاتھوں میں آئیں مگر وہ مال کی محبت میں مبتلا نہ ہوں۔ لوگوں کی طرف سے ان کی اناکو چوٹ لگے، اس کے باوجود وہ انصاف کے اصول پر قائم رہیں۔ ایسے افراد ہی کوئی صالح نظام قائم کرتے ہیں۔ ایسے افراد کے بغیر خلافت یا صالح نظام کا نعرہ لگانا صرف فساد فی الارض ہے، نہ کہ حقیقی معنی میں کوئی نتیجہ خیز عمل۔
واپس اوپر جائیں

ذہن سازی

ذہن دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک، علمی ذہن، اور دوسرا وہ جس کو شخصیت پرستی (personality cult) کا ذہن کہا جاتا ہے۔علمی ذہن وہ ہے جس میں ساری گفتگو علم کی بنیاد پر کی جائے۔ جس میں فیصلے کی بنیاد صرف مسلمہ علم ہو، نہ کہ کوئی اور چیز۔ جس میں مسلمہ علم کی بنیاد پر کوئی چیز قبول کی جائے، اور مسلمہ علم کی بنیاد پر کسی چیز کو ردّ کردیا جائے۔
جہاں علمی ذہن ہو، وہاں ہمیشہ ذہنی ترقی کا سفربرابر جاری رہتا ہے۔ وہاں ترقی کا سفر کبھی جمود (stagnation) کا شکار نہیں ہوگا۔ یہ مزاج کیا ہے، اس کو برطانوی رائٹر اور نقاد برنارڈ شا نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے— میرا قد شیکسپیئر سے چھوٹا ہے، لیکن میں شیکسپیئر کے کندھے پر کھڑا ہوا ہوں:
Shakepear is a far taller man than I am, but I stand on his shoulders. (The Oxford Companion to Shakespeare, Shaw, George Bernard, p. 499)
اس کے برعکس، شخصیت پرستی کا معاملہ ہے۔ شخصیت پرستی ہمیشہ ذہنی جمود (intellectual stagnation) پیدا کرتی ہے۔ جہاں شخصیت پرستی ہو، وہاں لوگوں کے اندروہ سوچ پیدا ہوگی ، جس کو ایک قدیم جاہلی شاعر، عنترہ بن شداد نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
ہَل غادَرَ الشُعَراءُ مِن مُتَرَدَّمِ
کیا شعرا نے کوئی پیوند لگانے کی کوئی جگہ چھوڑی ہے۔ شعرا سے مراد ان کے نزدیک بڑےشاعر تھے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ عرب کے بڑے شعرا نے سب کچھ کہہ دیا ہے، اب کوئی چیز کہنے کے لیے باقی نہیں رہی۔ پرسنالٹی کلٹ کیا ہے۔ کسی مشہور شخصیت کے بارے میں غلو آمیز انداز میں تعریف یا اس سے وابستگی:
Personality cult is excessive public admiration for or devotion to a famous person.
واپس اوپر جائیں

زندہ قوم

جب اموی خلیفہ عبد الملک بن مروان کی وفات (86ھ)ہوئی، تو اس کے لڑکے ہشام نے یہ شعر پڑھا:
فما کان قیس ہلکہ ہلک واحد ولکنہ بنیان قوم تہدما
قیس کی وفات ایک شخص کی وفات نہیں تھی، بلکہ اس کی وفات سے ایک پوری قوم کی بنیاد ہل گئی۔یہ سن کر الولید بن عبدالملک اموی نے کہا، چپ ہو جاؤ، کیوں کہ تم شیطان کی زبان سے بول رہے ہو (فإنک تتکلم بلسان شیطان)۔ تم نے یہ کیوں نہیں کہا جو اوس بن حجر نےکہا تھا:
إذا مقرم منا ذرا حد نابہ تخمط منا ناب آخر مقرم
جب ہم میں سے ایک سردار ہلاک ہوجاتا ہے، تواس کی جگہ دوسرا سردار آجاتا ہے۔ (الکامل فی التاریخ، بیروت، 1997، 3/532)۔ اسی بات کو ایک اور شاعر نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
إذا مات منا سید قام بعدہ لہ خلف یکفی السیادة بارع
یہ واقعہ بتاتا ہے کہ اسلام میں افراد کے لیےبڑے بڑے القاب کا طریقہ نہیں ہے۔ مثلاً آپ اگر ایک شخص کو قائد اکبر کا خطاب دے دیں تو شعوری یا غیر شعوری طور پر یہ ذہن بنے گا کہ قائد اکبر تو وہی ایک آدمی تھا، اس کے مرنے کے بعد جو لوگ ہیں، سب قائد اصغر ہیں۔ اسی طرح آپ اپنے ایک شخص کو مفکرِ اعظم کا ٹائٹل دے دیں، تو شعوری یا غیر شعوری طور پر یہ ذہن بنے گا کہ مفکر اعظم تو ایک ہی تھا، اس کے بعد جو لوگ ہیں، وہ سب مفکر اصغر ہیں۔
اسلام میں اخلاقی احترام ہے، اسلام میں شخصی عظمت کا تصور نہیں ۔ اسلام میں ایک دوسرے کی خیرخواہی کا تصور ہے، لیکن یہ تصور اسلام میں نہیں ہےکہ کسی ایک شخص کو اکبر اور اعظم جیسا ٹائٹل دیا جائے ۔ کیوں کہ اس سے شخصیت پرستی کا ذہن پیدا ہوتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

مشورہ یا باہمی مشاورت

مشورہ ایک دوطرفہ عمل ہے۔مشورہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک باہمی مشاورت ہے، یعنی دوسرے کو کچھ دینا اور دوسرے سے کچھ لینا۔مشورہ اگر حقیقی اسپرٹ کے ساتھ کیا جائے تو دونوں پارٹیوں کے لیے ذہنی ترقی (intellectual development) کا ذریعہ بن جاتا ہے۔مشورہ کی اصل اسپرٹ باہمی مشاورت (mutual consultation) ہے۔
مشورہ میں دو پارٹیاں ہوتی ہیں۔ اس میں بظاہر ایک پارٹی دینے والی (giver) اور دوسری پارٹی لینے والی (taker) ہوتی ہے۔ مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ دو طرفہ لین دین (mutual exchange) کا معاملہ ہے۔ مشورہ صرف مشورہ نہیں، بلکہ وہ باہمی لین دین (mutual exchange) کا معاملہ ہے۔ مشورہ کی صحیح اسپرٹ ہو تو جو بظاہر دینے والا ہے، وہ عین اسی وقت لینے والا بھی ہوگا، اور جو لینے والا ہے، وہ عین اسی وقت دینے والا بھی ہوگا۔
حضرت عمر فاروق کے بارے میں کہا جاتاہے کہ کان یتعلم من کل احد(وہ ہر ایک سے سیکھتے تھے)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انٹرایکشن کے وقت وہ باہمی لین دین کی اسپرٹ کے ساتھ انٹرایکشن کرتے تھے۔ اس طرح ہر انٹرایکشن دو طرفہ بن جاتا تھا۔ وہ ہر انٹرایکشن میں دوسرے سے کچھ لیتے تھے، اور عین اسی وقت وہ دوسرے کو کچھ دیتے تھے۔ یہی مطلب ہے میچول کنسلٹیشن کا ۔
موجودہ زمانے میں اسی عمل کو ڈائلاگ کہا جاتاہے۔ ڈائلاگ مباحثہ یا مناظرہ سے الگ ہوتا ہے۔ ڈائلاگ ایک تخلیقی عمل (creative practice) ہے۔ صحیح ڈائلاگ اس وقت وجود میں آتا ہے، جب کہ دونوں پارٹیوں میں اس قسم کی دو طرفہ اسپرٹ پائی جاتی ہو۔ ڈائلاگ اگر مباحثہ اور مناظرہ بن جائے، تو اس سے کسی پارٹی کو کچھ نہیں ملے گا۔ اس کے برعکس، اگر ڈائلاگ میں دو طرفہ تعلم (mutual learning) کی اسپرٹ موجود ہو، تو ڈائلاگ دونوں فریقوں کے لیے ذہنی ارتقا کا ذریعہ بن جائے گا۔
واپس اوپر جائیں

ری ایکشن کا طریقہ

زندگی کے معاملے میں اصولی بات یہ ہے کہ تشدد کا طریقہ دراصل ری ایکشن کا طریقہ ہے، اور ری ایکشن کا طریقہ کبھی بھی کسی مثبت نتیجہ تک نہیں پہنچتا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہمیشہ ایک ری ایکشن کے بعد دوسرا ری ایکشن پیدا ہوتا ہے، اور اس طریق کار کے نتیجہ میں جو چیز وجود میں آتی ہے، وہ چین ری ایکشن (chain reaction)ہے، نہ کہ ری ایکشن کا خاتمہ۔ قدیم زمانے میں ٹرائبل ایج میں ایسا ہی ہوتا تھا۔ لوگ برابر لڑتے رہتے تھے۔ اسلام نے یہ کیا کہ یک طرفہ طور پر امن کا طریقہ اختیار کرکے چین ری ایکشن کو ختم کردیا۔ اس کے بعد دنیا میں امن کا دور آیا۔
اس سلسلے میں قرآن کی ایک متعلق آیت کا ترجمہ یہ ہے: اور بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں، تم جواب میں وہ کہو جو اس سے بہتر ہو پھر تم دیکھو گے کہ تم میں اور جس میں دشمنی تھی، وہ ایسا ہوگیا جیسے کوئی دوست قرابت والا(41:34)۔ قرآن کی اس آیت میں جس طریقِ کا ر کا ذکر کیا گیا ہے، اس کو دوبارہ اختیار کیا جائے تو دوبارہ وہی نتیجہ حاصل ہوگا، جس کا مذکورہ آیت میں ذکر کیا گیا ہے، یعنی جو بظاہر دشمن نظر آتا ہے ا س کا دوست بن جانا۔
لوگ اکثر اپنے حریف کی شکایت کرتے ہیں۔ لیکن غور کیجیے تو یہ ظلم نہیں ہوتا، بلکہ وہ چین ری ایکشن کا نتیجہ ہوتا ہے۔ آپ نے اپنے حریف کو پتھر مارا، اس کے بعد اس نے آپ کو بم مارا۔ آپ نے دوبارہ حریف کے خلاف کوئی کارروائی کی، اس کے جواب میں اس نے بھی کوئی کارروائی کی۔ اس طرح ایک چین ری ایکشن شروع ہوگیا، جو کبھی ختم نہیں ہوتا۔
تشدد کا خاتمہ جوابی تشددسے نہیں ہوتا۔ تشدد کے خاتمہ کی صرف ایک صورت ہے۔ وہ یہ ہے کہ آپ یک طرفہ طور پر تشدد کی کارروائی کرنا چھوڑدیں، آپ یک طرفہ طور پر خاموش ہوجائیں، آپ یک طرفہ طور پر امن کا طریقہ اختیار کرلیں۔
﴿ تاریخ کے اکثر نزاعات بدگمانی کی بنیاد پر ہوئے ہیں﴾
واپس اوپر جائیں

ایک لفظ کا فرق

ایک صاحب جن کی تعلیم ایک مدرسہ میں ہوئی ہے۔ 12 دسمبر 2017 کوان سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ اس سے پہلے 2005 میں میں آپ سے ملا تھا۔ اس وقت میں نے کہا تھا کہ میرے اندر احساسِ کمتری بہت زیادہ ہے۔ اس کا کوئی حل بتائیے ۔ میں نے کہا کہ آپ صرف ایک لفظ بدل دیجیے۔ ابھی تک آپ احساسِ کمتری کا لفظ بولتے ہیں۔ آج سے آپ احساسِ غلطی کا لفظ بولنا شروع کردیجیے۔ اس کے بعد ان شاء اللہ آپ کا سارا معاملہ درست ہوجائے گا۔
آج کی ملاقات میں انھوں نے بتایا کہ یہ بات آپ نے ایک ڈائری میں لکھی اور وہ ڈائری مجھ کو دے دی۔ اسی وقت سے میںنے اس نصیحت کو پکڑلیا ہے۔ اب میں یہ کرتا ہوں کہ ہمیشہ اپنی غلطی کو دریافت کرتا ہوں، اور اس کی اصلاح کی کوشش کرتا ہوں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میرے سارے معاملات درست ہوگئے۔ گھر کے معاملات بھی، پڑوسیوں کے معاملات بھی، اور مسجد اور مدرسے کے معاملات بھی۔ پہلے میں برابر ٹینشن میں رہتا تھا، اب مجھے کوئی ٹینشن نہیں۔ کسی سے کوئی شکایت نہیں۔ کسی سےکوئی جھگڑا نہیں۔ اب میں یہ کرتا ہوں کہ کوئی مسئلہ پیش آتا ہے تو میں خود ہی سوچ کر اس کو درست کرلیتا ہوں۔ اب سب لوگ مجھ سے خوش رہتے ہیں۔ جب کہ پہلے ہر شخص کو مجھ سے شکایت ہوتی تھی۔
یہ کرشمہ صرف ایک پر حکمت بات کا تھا ۔ وہ یہ کہ اس سے پہلے و ہ غلط تقابل (comparison)کا شکار تھے۔ اب انھوں نے احساس کمتری کے جملے کو بدل کر احساسِ غلطی بنا لیا۔ پہلے وہ دوسروں کے خلاف سوچا کرتے تھے، اب وہ اپنی اصلاح آپ کے انداز میں سوچنے لگے۔ بظاہر یہ ایک لفظ کا فرق تھا، لیکن یہ لفظ اتنا زیادہ پرحکمت تھا کہ اس نے ان کی پوری زندگی کو بدل دیا۔ ان کو منفی شخصیت (negative personality)سے نکال کر مثبت شخصیت (positive personality) بنا دیا۔
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مر کز- 265

— جون30 اور یکم جولائی 2018 سی پی ایس ممبئی ٹیم کے زیر اہتمام ایک دعوتی سفر ہوا۔ اس سفر میں ناگپور، پونے، مالیگاؤں اور اورنگ آباد کے ممبران نے حصہ لیا۔اسی طرح چنئی سے مولانا حافظ سید اقبال احمد عمری اور گلبرگہ سے مولانا حافظ فیاض عمری صاحبان بھی شریک رہے ۔ اس سفر میں چوپڑا شہر کے مشنری اسکول اور ڈگری کالج میں لوگوں سے ملاقات اور انٹرایکشن ہوا۔ ان سے گفتگو انتہائی خوش گوار ماحول میں اور تفصیل سےہوئی۔اس کے بعد یکم جولائی کو جلگاؤں میں اقرا ایجوکیشن سوسائٹی کے زیر اہتمام چلنے والے H G Thim کالج میں شہر کے مخصوص افراد اور ادارہ کے اسٹاف کے ساتھ دعوتی نشست رکھی گئی۔ اس کے بعد سوال جواب کا سیشن تھا۔ پروگرام نہایت کامیاب رہا۔ حاضرین نے جذباتی تاثرات پیش کئے۔ آخر میں تمام حضرات کو مراٹھی قرآن اور دوسرے دعوتی لٹریچر دئے گئے۔ دونوں جگہ الرسالہ کے قارئین پر مشتمل دعوتی ٹیم بھی تیار کی گئی ہیں۔
— 3 جولائی 2018کو مز شبنم پوپٹ(ساؤتھ افریقہ) نے صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کے لیے دہلی کا سفر کیا۔ انھوں نےصدر اسلامی مرکز کی کتابیں اور ترجمہ قرآن پڑھا ہے، اور اس سے متاثر ہو کر انھوں نے یہ سفر کیا تھا۔ کافی دیر تک صدر اسلامی مرکز سے ان کا انٹرایکشن ہوا۔ انھوں نے جب اپنے سچائی کی تلاش کا قصہ سنایا تو جذباتی ہوگئیں اور رونے لگیں۔ انھوں نے وزیٹر رجسٹر میںاپنا تاثر ان الفاظ میں نقل کیا:
Maulana's books have brought peace and guidance to me, I thank him deeply, His knowledge and guidance are extremely helpful.
— 15 جولائی 2018کو سی پی ایس جمشید پور کے جناب ایاز احمد کے گھر پر محکمہ بجلی کے دو ملازمین مسٹر اومیش کمار اور مسٹر پپو کمار میٹر ریڈنگ کے لیے آئے۔ ان کی نظربک اسٹینڈ پر رکھے ہوئے ہندی ترجمۂ قرآن پر پڑی۔ انھوں نے پوچھا کہ کیا یہ برائے فروخت ہیں۔ جب ان کو بتایا گیا کہ نہیں، یہ آپ کے لیے بطور اسپریچول گفٹ ہے، تو وہ بہت خوش ہوئے۔ جب ان کو قرآن کا ہندی ترجمہ اورہندی کتابچہ جیون کا اُدیش دیا گیا،تو انھوں نے بہت ہی خوشی کے ساتھ ان کو لیا، اورشکریہ ادا کیا۔
— 13 جولائی 2018 کو امریکا کے مسٹر مائیکل نے صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کی۔ اس وقت خواجہ کلیم الدین صاحب (سی پی ایس امریکا) اور شفیع احمد ڈار صاحب(کشمیر ٹیم) بھی موجودتھے۔ انھوں نے صدر اسلامی مرکز سے عالمی امن پر اسلامی تعلیمات کو سمجھنے کی کوشش کی۔ آخر میں ان کو قرآن اور دوسرے دعوتی لٹریچر دئیے گئے، جوانھوں نے بخوشی قبول کیا۔ مسٹر مائیکل امریکا کی ایک یونیورسٹی میں اسلامک اسٹڈیز کے پروفیسر ہیں۔
— 17 جولائی 2018 کو زی سلام کے پروگرام ’’راہِ نجات‘‘ میں سی پی ایس سہارن پور کے سرپرست ڈاکٹر محمد اسلم خان نے لوگوں کو کنفیوزن سے نکلنے کے لئے یہ مشورہ دیا کہ وہ صدر اسلامی مرکز کی کتابیں پڑھیں، خاص طورپر انگلش کتاب ’’اِن سرچ آف گاڈ‘‘۔اس کے بعد 22 جولائی 2018 کو ڈاکٹر محمد اسلم خان نے اپنی فیملی کے ساتھ بنگلور کا سفر کیا۔ اس سفر میں انھوں نے بنگلور سی پی ایس ٹیم کے ساتھ دعوتی ملاقات کی۔ اس وقت مس سارہ فاطمہ اور مولانا عنایت عمری کے زیر انتظام بنگلور اور سہارنپور ٹیم نے دعوہ اکسپیرینس شیئرنگ کے لئے ایک میٹنگ بنگلورو میں منعقد کی گئی۔ ڈاکٹر محمد اسلم خان نے اجتماع کو خطاب کیا اور سوالات کے جواب دئے۔
— 23 جولائی 2018 کو دی پالیسی ٹائم نے صدر اسلامی مرکز کا اسلام، امن اور ہندستانی مسلمانوں پر ایک اہم انٹرویو لیا۔ صدر اسلامی مرکز نے اسلام کی پر امن تعلیمات کو واضح کیا۔ ساتھ ہی ہندستانی مسلمانوں کے بارے میں بتایا کہ اب تعلیم اور امن پسندی کی طرف ان کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ ان کا معیار زندگی پہلے کے مقابلے میں کافی بہتر ہوا ہے۔ لہذا ان کے مستقبل کے تعلق سے کسی طرح کا اندیشہ کرنے کی ضرورت نہیں۔
— ملیشیا کی موجودہ حکمراں جماعت کےٹریزرر مسٹر ہوسم موسى(Husam Musa) صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کے لئے 23 جولائی 2018 کو اسلامی مرکز کی آفس نظام الدین ویسٹ آئے۔ ان سے عالمی مسائل اور امن کے تعلق سے تفصیلی گفتگو ہوئی۔ آخر میں ان کو صدر اسلامی مرکز کی کتابوں کا ایک سٹ دیا گیا،نیز ملیشیا کےموجودہ وزیر اعظم ماثر بن محمد کے لئے صدر اسلامی مرکز کی کتابوں کا ایک سٹ انھیں دیا گیا۔
— ڈاکٹر رفیق انجم نے حال ہی میں اسلامک اسٹڈیز میں اپنی پی ایچ ڈی یونیورسٹی آف کشمیر (سری نگر) سے پروفیسر نسیم احمد شا کی زیر نگرانی مکمل کی ہے۔ ان کی ریسرچ کا موضوع ’’ریلیجس تھاٹ آف مولانا وحید الدین خان— این اینالیٹکل اسٹڈی ‘‘تھا۔ انھوں نےصدر اسلامی مرکز کے نظریات اور ان کے مشن کے بارے میں تفصیل سے بحث کی ہے، نیز موجودہ حالات میں دوسرے علماء اور اسکالرس کے مقابل صدر اسلامی مرکز کے نظریات کے ریلیونس پر روشنی ڈالی ہے۔
— ذیل میں پاکستان میں موجود الرسالہ قارئین کے تاثرات نقل کیے جارہے ہیں:
v مجھے بہت غصہ آتا تھا۔اکثر مایوس بھی ہو جاتا تھا۔ 2012 میں مولانا کی تصانیف کا مطالعہ کرنے کا موقعہ ملا۔اس سے مجھے زندگی بسر کرنے کا ایک نیا ولولہ ملا۔خصوصاً فلسفہ اعراض (avoidance)نے مجھے کئی بار غلط فیصلوں سے بچایا ہے۔وقت کی قدر بھی مجھے مولانا کی تصانیف سے حاصل ہوئی۔ (فضل الرحمن، لاہور)
v اس میں کوئی شک نہیں کہ مولانا صاحب کی زبان میں اللہ تعالیٰ نے جو تاثیر رکھی ہے وہ اب بہت ہی کم لوگوں میں پائی جاتی ہے، مولانا صاحب کی ہر بات سائنس اور تجربے کی بنیاد پر ہی ہوتی ہے، ہر بات انسان کے احساسات اور جذبات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہوتی ہے، جس سے سننے والے پر گہرا اثر پڑ تا ہے اورمثبت تحریک ملتی ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مولانا صاحب کو ہمیشہ صحت مند اور توانا رکھے آمین۔ (محمد فرحان، کراچی)
v مولانا صاحب کی تحریروں کا اثر ہے کہ اب میں عام طور پر بولنے سے پہلے سوچتا ہوں کہ کیا بولنا چاہیے، اور کتنا بولنا ہے۔ (ندیم خان، کراچی)
v مولانا کی تحریروں نے میری زندگی میں تبدیلیاں پیدا کی ہیں۔ ان میں سے چندیہ ہیں:(۱) وقت کو پہچان کر درست وقت پر درست اقدام کرنا۔وقت کی حقیقت۔ وقت کی طاقت۔ لہٰذا میں ہر طرح کے وقت کا شکر گزار بنتا جا رہا ہوں ۔ ( ۲) کائنات میں موجود اشیاء کی قیمت کا اندازہ ہونا شروع ہو گیا ہے۔ اب میں زیادہ قیمت کی چیز کی قیمت کم اور کم کی زیادہ قیمت نہیں لگاتا۔ (۳) سب سے بڑھ کر یہ سیکھا کہ ’’صبر‘‘ سب سے بڑی ’’تحریک‘‘ ہے۔ جزاک اللہ۔ (عادل درانی، ہری پور)
v مولانا صاحب سے میں نے یہ سیکھا کہ صبر بزدلی کا نام نہیں، صبر بہادری کا نام ہے،صبر ایک ایسی طاقت ہے جسے کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ (ابوبکر، فیصل آباد)
v مولانا سے تعارف کامیرا رشتہ زیادہ پرانا نہیں ہے، بلکہ وہ تقریباً تین سالوں پہ محیط ہے، اور اس وقت میری لائبریری میںمولانا کی تقریباً بیس کتابیں موجود ہیں۔ان میں سے ایک اہم کتاب راز حیات ہے۔حقیقت یہ ہے کہ میں نے کئی موٹی ویشنل (motivational)بکس کا مطالعہ کیا اور تقاریر بھی سنیں، مگر مولانا کا کام بے مثل ہے۔اس کتاب سے میرے اندر نمایاں تبدیلی آئی ہے۔ اس کتاب سے ایک سبق جو مجھے ملا ہے ، وہ یہ ہے کہ تصادم کی فضا کو چھوڑکر عمل اور امن کی راہ اختیار کرنا ہے۔اس کتاب کو ایک بارمکمل پڑھ لینے کے باوجود اسے روزانہ پڑھنا میرا معمول ہے۔ اب تک تقریباً سو سے زائد لوگوں کو اس کتاب کے پڑھنے پر آمادہ کرچکا ہوں۔ (عثمان غنی رعد، اردو ڈیپارٹمنٹ، نمل، اسلام آباد)
v پاکستان میں الیکشن سے پہلے میں سیاسی مباحثوں میں پڑ گیا تھا۔ ان مناظروں کے دوران میں نے محسوس کیا کہ میرے اندر منفی توانائیاں پروان چڑھ رہی ہیں۔ اُن دنوںمیں بہت ڈپریس رہا، اور اس کے اثرات الیکشن کے بعد بھی میرے ذہن پر نقش تھے۔ اب دوبارہ میں نے مولانا کی تحریریں پڑھنا شروع کر دی ہیں، اور میں واضح طور سے محسوس کر رہا ہوں کے میرے وجود اور میرے رویے سے مثبت توانائیاں پھر سے خارج ہونا شروع ہو گئیں ہیں۔ (محمد نوید، کے پی کے)
v مجھے مولانا سے صحیح فہم دین ملا ،اور عملی طور پر میرا کردار تعمیر ہوا،شخصیت سازی ہوئی۔ سوچنے، غور کرنے اور تجزیہ کرنے کی صلاحیت پیدا ہوئی۔ یوں سمجھیے کہ مثبت و تعمیری سوچ پیدا ہوئی۔ ان سے میں نے صبر سیکھا، اور شکر سیکھ رہے ہیں۔ معرفت خدا وندی عطا ہوئی۔ خود آگہی ہوئی، اپنے آپ کی پہچان عطا ہوئی۔ دنیا پرستی سے گریز اور آخرت پرستی کے شوق نے جنم لیا۔ذوق مطالعہ پیدا ہوا۔ بہت سی چیزوں کے نئے مفہوم کا ادراک حاصل ہوا۔ بس تجربات اتنے زیادہ ہوئے کہ چند سطروں میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ کبھی کہیں کوئی نشست جمی اور بیان کا موقع ملا تو ضرور اظہار خیال کروں گا۔(خواجہ مظہر نواز صدیقی کالم نگار روزنامہ نوائے وقت ملتان)
w I used to consider religion as more of an external change in society than an inner discovery. Maulana was the person who taught me that religious journey begins as a discovery by the mind and proceeds to the development of a purified personality. I never thought that complaining over oppression, injustice, discrimination and accusing others of evil in the world are negative aspects of thinking which deprive us of all virtues of positive thinking. After reading and listening to Maulana, I have tried to do away with negative thinking. Doing this I have realized that I am very calm. Earlier, I used to stick to a literal and technical interpretation of scriptures. Maulana taught me that we have to learn to read and understand scripture by understanding the nature of Man, and that there are seas of lessons in the Quran for someone prepared to contemplate. I used to think that meditation is the path to spirituality. Maulana taught me that contemplation is the path to spirituality. He is the one person who completely changed my worldview. (Mohammad Talha, Lahore)
w Recently, a traffic warden stopped me for not having driving license. Instead of getting angry, I went the next day to procure my license. I realized that I was driving without having permission from the state, although I am answerable to God in regard to following state rules. This major shift in my attitude came after listening to Maulana’s lectures. Second, I learned to practice avoidance of confrontation whenever there is a conflict of interest. Third, I learned that spirituality lies not in meditation or yoga, rather it is attained through observation and contemplation of things around us, for example, trees and their mechanism of growth, the variety of products yielded by the same soil. All this shows God’s greatness, which increases gratefulness and love for God. (Ansa Riaz, Islamabad)
— رمضان کے موقع پر سی پی ایس پاکستان نے دعوت کے تعلق سے جو عہد اور پلاننگ کی تھی، وہ ہر ایک کے لیے اس قابل ہے کہ وہ اس قسم کی کوششیں کرے، اور خدا کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے میں پھیلانے میں اہم کردار ادا کرے۔ انھوں نے جو پلاننگ اور عہد کیا تھا ، وہ یہ ہیں:
w Ramzan is the month of the Quran. In this month, we are launching a new initiative to take our mission to the next level towards fulfilling our core responsibility of continuing the Prophetic Mission, i.e., Dawah Work. We will be setting up a separate organization, or NGO, only for the purpose of Dawah work. Its task would be to educate people about Dawah work and its importance in current times and to engage in Quran distribution in Pakistan and around the world. We will be joining hands with CPS International and CPS USA to reach out to the world. Quran translations are already available in 27 languages. We need to engage people in Pakistan for Dawah work and will be using their connections in the world to disseminate the Quran all over the world. Last year, in Turkey alone 100,000 Quran copies were distributed in various languages. In India, CPS International is already doing Dawah in various states. In the US, Khaja Kaleemuddin Sb and Viqar Alam Sb are doing Quran distribution since past several years, but the demand is very high and we need more helping hands. I spoke to Dr. Saniyasnain Khan Sb from CPS International and he told me that he is receiving so many requests from all over the world that he needs to double the amount of printing and distribution. We learned through our experience at Book Fairs and interaction at various places that Dawah according to the Quranic concept is not well-known to people here and they are not familiar with this idea. We need to work here to explain the importance of Dawah work through literature and then engage people to participate in distributing Quran and supporting such activities. We have a very big plan in this regard — we will be connecting with people, building our offices in all cities, supporting the work of translation of the Quran in remaining languages, printing and distribution of copies of the Quran and providing support to all new Daees. We believe that Allah will make this enormous task easy for us, Inshallah. To start this work we need your full support. We will be requiring active members for this organization who will be involved in this work and we will also need people to support this initiative. We will be updating you with our work requirement and will need your guidance and support. The starting point is to finalize the name of the Organization. We recommend the following names: 1. Dawah International 2. Quran for Everyone 3. Quran for Peace. Please suggest more names (we will check the domain availability). Let us pray to Allah for guidance and for the success of this mission. Salaam (Tariq Badar, Coordinator, CPS Pakistan)
— ہر ہفتہ صدر اسلامی مرکزکا تین تربیتی پروگرام ہواکرتا ہے۔ بروز سنیچر (5:30pm)،بروز اتوار (10:30am) ، نیز ہفتے میں کسی ایک دن (8:00pm) ۔ ان تمام پروگرا موں کو فیس بک (Facebook)پر لائیو (live) نیز بعد میں سناجاسکتا ہے، اور لائیو سنتے ہوئےکمنٹ باکس میں تاثرات اور سوال بھی کیے جاسکتے ہیں۔ ان تمام پروگرام کو فیس بک پرسننے کے لیے ایڈریس ہے : www.facebook.com/maulanawkhan
واپس اوپر جائیں

Tuesday 16 October 2018

Al Risala | November 2018 (الرسالہ،نومبر)

4

- اسلام کا رول

5

- ایک تقابل

6

- بڑھاپے کا دور

8

- دین اور تاریخ

9

- خدا موجود ہے

10

- سائنسی تحقیقات

11

- اولاد ایک فتنہ

12

- کنڈیشننگ کا مسئلہ

14

- دورِ امن کی طرف

16

- دورِ زوال کی ایک علامت

17

- دعوت کا اصول

18

- تزکیہ اور دعوت

20

- درسِ قرآن

21

- کفالت کا انتظام

22

- دعا، شعور دعا

23

- فضیلت کا تصور

25

- حدیثِ جبریل کا پیغام

26

- دین کے تقاضے

28

- خدا کی پہچان

30

- عصری اسلوب، غیر عصری اسلوب

32

- ما کان و ما یکون

33

- مشرق سے مغرب کی طرف

34

- مذہبی انتہا پسندی

36

- ظالم اور مظلوم کا معاملہ

37

- باقی ماندہ پر پلاننگ

40

- دو قسم کے مسئلے

41

- صحیح طرزِ فکر

42

- سلیقہ ٔ حیات

43

- ہر انسان کا معاملہ

44

- منصوبہ بند کام

46

- چپ کا راز

47

- انٹلکچول پارٹنر

48

- ترقی کا سفر

49

- آزادی کا دور

50

- ایک نصیحت


اسلام کا رول

قدیم زمانے میں ہزاروں سال سے دنیا میں شرک کا غلبہ تھا۔ شرک کیا ہے۔ شرک دراصل فطرت کی پرستش (nature worship) کا دوسرا نام ہے۔ اس حقیقت کی طرف قرآن کی اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے: لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّہِ الَّذِی خَلَقَہُنَّ (41:37) ۔ خالق نے فطرت (nature) کے اندر عظیم ٹکنالوجی رکھی تھی۔ یہ ٹکنالوجی گویا سویلائزیشن کا انفراسٹرکچر تھا۔ مگر انسان لمبی مدت تک اس نعمت سے بے خبر رہا۔
اسلام کے ذریعے جو مبنی بر توحید انقلاب آیا۔ اس نے تاریخ میں پہلی بار یہ کیا کہ نیچر اور ورشپ دونوںکو ایک دوسرے سے الگ (delink) کردیا۔ اس کے بعد تاریخ میں ایک نیا پراسس جاری ہوا۔ اب نیچر تحقیق کا موضوع (object of investigation) بن گئی، جو کہ اسلام سے پہلے پرستش کا موضوع (object of worship) بنی ہوئی تھی۔ اسی پراسس کے آخری مرحلے میں وہ چیز ظہور میں آئی جس کوماڈرن تہذیب کہا جاتا ہے۔ اس انقلاب سے پہلے اقتصادیات کا بنیادی ذریعہ زراعتی زمین (agricultural land) تھی۔ اسی زرعی زمین سے انسان کو سب کچھ ملتا تھا۔ قدیم زمانے میں جو لڑائیاں ہوتی رہیں، وہ اسی زرعی زمین پر قبضے کے لیے ہوا کرتی تھیں۔
جدید تہذیب کے نتیجے میں ایک نیا دور آیا۔ جس کو صنعتی دور (industrial age)کہا جاتا ہے۔ اب اقتصادیات کا سب سے بڑا ذریعہ انڈسٹری بن گئی، اور صنعت کے لیے زمین پر سیاسی قبضے کی ضرورت نہیں ۔ اس طرح جدید صنعتی دور نے عملی طور پر جنگ کو بےفائدہ بنا دیا، اور دنیا میں ایک نیا دور آیا، جس کو دورِ امن (age of peace) کہا جاتا ہے۔اس دورِ امن کو پیدا کرنے کا ذریعہ بظاہر صنعتی انقلاب تھا۔ مگر صنعتی انقلاب (industrial revolution) کو جس چیز نے پیدا کیا، وہ اسلام تھا۔ اسلام اس دورِ امن کا نظریاتی بانی ہے، اور جدید سویلائزیشن اس دور کو عملی طور پر وجود میں لانے والا ہے۔
واپس اوپر جائیں

ایک تقابل

قرآن میں انسان کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ غیب کی بات کو نہیں جانتا: قُلْ لَا أَمْلِکُ لِنَفْسِی نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّہُ وَلَوْ کُنْتُ أَعْلَمُ الْغَیْبَ لَاسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ وَمَا مَسَّنِیَ السُّوءُ (7:188)۔ یعنی کہو، میں مالک نہیں اپنی جان کے بھلے کا اور نہ برے کا مگر جو اللہ چاہے۔ اور اگر میں غیب کو جانتا تو میں بہت سے فائدے اپنے حاصل کرلیتا اور مجھے کوئی نقصان نہ پہنچتا۔
یہ انسان کا معاملہ ہے۔ انسان خواہ وہ عام انسان ہو یا پیغمبر ،وہ غیب (unseen) کو نہیں جانتا۔ یعنی کل کیا ہوگا، اس سے انسان بے خبر ہوتا ہے۔ انسان آج کے علم کے تحت ایک کام کرتا ہے، لیکن کل کیا ہونے والا ہے، اس سے انسان مکمل طو رپر بے خبر ہوتا ہے۔ انسان کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ آئندہ آنے والے نقصان سے خود کو بچالے۔
اس کے مقابلے میں اللہ کا معاملہ یہ ہے کہ وہ علام الغیوب ہے۔ انسان اور خدا کے درمیان اس فرق سے ایک تقابل کا اصول ملتا ہے۔انسان کا کوئی کام خالی از نقص (free from defect) نہیں ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، اللہ رب العالمین کی تخلیق کے جو نمونے ہمارے سامنے ہیں، وہ کامل معنوں میں نقص سے خالی ہیں۔ انسان کی کوئی بھی انڈسٹری نقص (defect) سے پاک نہیں ہوتی، لیکن اللہ رب العالمین کا بنایا ہوا، شمسی نظام (solar system) مکمل طو رپر زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ (zero defect management) کا نمونہ ہے۔ یہ فرق خالق کے وجود کا ایک یقینی ثبوت ہے۔
اس لیے بیسویں صدی میں ترقی یافتہ ملکوں نے بہت زیادہ کوشش کی کہ وہ اپنی انڈسٹری میں زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ کا نظام قائم کریں، جیسا کہ وہ فطرت (nature) کی دنیا میں عملاً قائم ہیں۔ مگر اس معاملے میں ان کو مکمل ناکامی ہوئی، اور آخر میں یہ مان لیا گیا کہ انسان کا بنایا ہوا کوئی نظام زیرو ڈیفکٹ نظام نہیں ہوسکتا۔ یہ فرق خالق کے وجود کا ایک یقینی ثبوت ہے۔
واپس اوپر جائیں

بڑھاپے کا دور

زندگی میں آدمی کے لیے بہت سے مسئلے آتے ہیں۔ مثلاً بیماری، حادثہ، نقصان، وغیرہ۔ لیکن بڑھاپا ایک بالکل مختلف قسم کا مسئلہ ہے۔ بڑھاپا گویا خاتمۂ حیات کا نام ہے۔ بڑھاپا ہمیشہ پائنٹ آف نو ریٹرن (point of no return) پر آتا ہے۔ بڑھاپا ہر اعتبار سے انسان کے لیے صرف ایک مسئلہ ہے۔
لیکن بڑھاپے کا ایک مثبت پہلو ہے، جو صرف بڑھاپے سے حاصل ہوتا ہے، اور وہ عجز (helplessness)کی دریافت ہے۔ عجز کی دریافت دوسرے اسباب سے بھی جزئی طور پر ہوتی رہتی ہے، لیکن کامل معنوں میں عجز کی دریافت صرف بڑھاپے سے حاصل ہوتی ہے۔ کیوں کہ بڑھاپاکسی آدمی کو اس وقت آتا ہے، جب کہ اس کا جسم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے۔انسان کا جسم فطری طور پرایک بہترین ساخت پر قائم ہے۔ اس جسم کو تقریباً 80 آرگن (organs)نہایت اعلیٰ مینجمنٹ کے ساتھ چلارہے ہیں۔ عمر کے بڑھنے کے ساتھ یہ آرگن جزئی یا کلی طور پر اپنا فنکشن بند کردیتے ہیں۔اس فنکشن کو دوبارہ جاری نہیں کیاجا سکتا۔ کسی آرگن کے فیل ہونے کا آخری نتیجہ موت ہوتا ہے۔
عجز بلاشبہ حقیقت اعلیٰ کی دریافت ہے۔ حقیقت اعلیٰ کی دریافت کے بغیر انسان کی شخصیت ایک ناقص شخصیت ہوتی ہے۔ ناقص شخصیت کا مکمل ہونا، صرف اس وقت ہوتا ہے، جب کہ انسان بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائے۔ بڑھاپے کا دور سب سے بڑی دریافت کا دور ہے۔ لیکن عملاً یہ ہوتا ہے کہ بوڑھا انسان صرف ایک بات کو جان پاتاہے۔ وہ یہ ہے کہ اس کو نظر انداز (neglect)کیا جارہا ہے۔ بوڑھا انسان مسلسل طور پر صرف شکایت (complaint) میں جیتا ہے۔ کم از کم میں نے کسی بوڑھے انسان کو نہیں پایا، جو بڑھاپے کی عمر کو پہنچنے کے باوجود شکایت کی نفسیات سے بچا ہوا ہو۔
اگر غور سے دیکھا جائے تو اکثر حالت میں ایسا ہوتا ہے کہ مادی اعتبار سے انسان کا جسم اگرچہ بوڑھا ہوجاتا ہے، لیکن اس کا ذہن بدستور کام کرتا رہتا ہے۔ مزید یہ کہ اس کا ذہن پہلے سے بہتر ہوجاتا ہے۔ کیوں کہ اس کے ذہن میں تجربات کا اضافہ ہوجا تاہے۔ انسا ن اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ زیادہ گہرے انداز میں معاملات پر رائے قائم کرسکے۔ پہلے اگر وہ صرف جاننے والا تھا، اب وہ ایک دانش مند انسان بن جاتا ہے۔ وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ زیادہ بصیرت افروز انداز میں معاملات پر اپنی رائے دے سکے۔ وہ لوگوں کو زیادہ صائب (rational) انداز میں درست مشورہ دے سکے۔ بوڑھا انسان ایک پختہ (mature) انسان ہوتا ہے۔ وہ اپنے تجربات کی بنا پر اس قابل ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کو زیادہ نتیجہ خیز رہنمائی دے سکے۔
انسان کی سب سے بڑی دریافت یہ ہے کہ وہ اپنے خالق کو ڈسکور کرے۔ یہ دریافت ہر لمحے ہوسکتی ہے۔ لیکن عملاً یہ ہوتا ہے کہ آدمی بڑھاپے سے پہلے بُھلاوَہ کلچر میں جیتا ہے۔ وہ بھلاوہ کلچر سے صرف اُس وقت باہر نکلتا ہے، جب کہ وہ بڑھاپے کی عمر کو پہنچے۔ جب اس کے آرگن کام کرنا بند کرنے لگیں۔ یہی اصلی عجز کی دریافت کا وقت ہوتا ہے، اور یہی وہ وقت ہوتا ہے، جب کہ انسان شعوری طور پر قادرِ مطلق خدا کو دریافت کرے، لیکن انسان اپنی بے خبری کی بنا پر یہ کرتاہے کہ اپنی زندگی کے پہلے دور میں وہ بے خبری (unawareness) میں جیتا ہے، اور دوسرے دور میں شکایت کی نفسیات میں۔ اس طرح انسان اپنی طاقت کے دور کو بھی کھودیتا ہے، اور اپنے ضعف کے دور کو بھی۔
بڑھاپے کی عمر پختگی (maturity) کی عمر ہوتی ہے۔ اس زمانے میں انسان کا تجربہ (experience) بڑھ جاتاہے۔ انسان اس قابل ہوتا ہے کہ وہ زیادہ معلومات کی روشنی میں غور وفکر کرے۔ یہ چیزیں انسان کی عقل میں اضافہ کرتی ہیں۔ انسان اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ لوگوں کو زیادہ دانش مندانہ رائے دے سکے۔ عمر رسیدہ آدمی سماج میں اس قابل ہوتا ہے کہ وہ زیادہ دینے والا (giver) بن کر رہ سکے۔ بوڑھا آدمی اگر صرف ایک کام کرے کہ وہ ایک ایسی کتاب لکھے، جس میں اس نے اپنی زندگی کے تجربات بیان کیے ہوں، تو ہر آدمی اپنی سوسائٹی کا ایک عظیم دینے والا (great giver) بن کر دنیا سے رخصت ہوگا۔
واپس اوپر جائیں

دین اور تاریخ

قرآن میں حج کا حکم دیتے ہوئے ایک بات آئی ہے۔ اس آیت کا ترجمہ یہ ہے: لوگوں میں حج کا اعلان کردو، وہ تمہارے پاس آئیں گے۔ پیروں پر چل کر اور دبلے اونٹوں پر سوار ہو کر جو کہ دور دراز راستوں سے آئیں گے (22:27)۔ قرآن کی اس آیت میں حج کے لیے پیدل یااونٹ یا اونٹنی کی سواری کا ذکر زمانی سبب سے ہے، یعنی یہ الفاظ قدیم زمانے کی نسبت سے ہیں، وہ علی الاطلاق طور پر حج کی عبادت کا حصہ نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ زمانے میں جب ہوائی جہاز کا دور آیا، تو تمام علما نے ہوائی جہاز کے ذریعے حج کا سفر شروع کردیا، اور کسی کو اس پر اعتراض نہیں ہوا۔
قرآن میں اس طرح کے اور بھی احکام ہیں، جو زمانی سبب سے ہیں، نہ کہ نماز اور روزہ کی طرح عبادت کے طور پر۔ اسی فہرست میں جہاد بمعنی قتال بھی شامل ہے۔ پیغمبر اسلام کی آمد جس زمانے میں ہوئی، اس زمانے میں کسی بڑے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے مسلح جدو جہد کا عام رواج تھا۔ اس بنا پر صحابہ کو قتال کے عمل میں شریک ہونا پڑا۔ اس کے بعد دنیا میں بہت بڑے بڑے انقلابات ہوئے، یہاں تک کہ اب ساری دنیا میں امن کا دور آگیا۔ اب کسی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے پرامن جدو جہد کی ضرورت ہوتی ہے، اب قتال اس معاملے میں غیرمتعلق لفظ بن چکا ہے۔
دوسری عالمی جنگ کا خاتمہ ، دورِ جنگ کا خاتمہ تھا۔ 1945 میں اقوام متحدہ (UNO) قائم ہوئی، جو گویا جنگ کے خاتمےکا عالمی اعلان تھا۔ دوسری عالمی جنگ میں جن قوموں نے عملا ً جنگی سرگرمیوں میں حصہ لیا تھا، ان سب نے دورِ جنگ کے خاتمے کے چارٹر پر اپنا دستخط ثبت کردیا۔ مثلا ً فرانس، برطانیہ، جرمنی، جاپان، وغیرہ۔ اب اگر دنیا میں کہیں جنگ ہوتی ہے، تو وہ صرف دفاع (defence) کے لیے ہوتی ہے۔ اب اقدامی جنگ (offensive war) عملاً مکمل طور پر ختم ہوچکی ہے— اب مقابلے کا میدان سائنس اور ٹکنالوجی ہے۔ اب انڈسٹری، اور اقتصادیات جیسے میدانوں میں قوموں کے فیصلے ہوتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

خدا موجود ہے

نظام الدین ویسٹ میں ہمارے آفس کے قریب ایک پارک ہے۔ ایک عورت وہاں اپنے بچوں کے ساتھ آئی۔ کچھ دیر وہ پارک میں ٹھہری، پھر بچوں کو چھوڑ کر کسی کام سے باہر جانے لگی۔ اس وقت چھوٹی لڑکی اماں اماں کہہ کر رونے لگی۔ لڑکے نے کہا کہ کیوں روتی ہو۔ لڑکی نے جواب دیا کہ میری ماں چلی گئی۔ اس کے جواب میں لڑکے نے کہا : ماں کے جانے پر روتی کیوں ہو، میں جو ہوں۔
تمثیل کی زبان میں یہ واقعہ مسلمانوں کی موجودہ حالت کو بتاتا ہے۔ مسلمان ساری دنیا میں براہ راست یا بالواسطہ طور پر شکایت کی بولی بول رہے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو مظلوم بتاکر احتجاج کررہے ہیں۔ یہ حال دنیا کے تمام مسلمانوں کا ہے۔ مسلمان اس وقت ساری دنیا میں تقریباً ایک سو بیس کروڑ ہیں۔ مگر اس معاملے میں شاید کسی مسلمان کا کوئی استثناء نہیں۔
قرآن میں آیا ہے کہ اللہ تمھارے قریب ہے۔ تم اللہ کو پکارو وہ تمھاری پکار کا جواب دے گا (غافر ، 40:60)۔ قرآن کی یہ آیت گویا خاموش زبان میں کہہ رہی ہے کہ تم مظلومیت کی فریاد کیوں کر رہے ہو۔ اللہ موجود ہے، تم اللہ رب العالمین کو پکارو، وہ تمھاری پکار کا جواب دے گا۔قرآن کی اس طرح کی آیات کی موجودگی کے باوجود جو لوگ احساسِ مظلومیت یا احساس محرومی میں جی رہے ہوں، وہ بلاشبہ قرآن کی اس آیت کے مصداق ہیں: وَمَنْ کَانَ فِی ہَذِہِ أَعْمَى فَہُوَ فِی الْآخِرَةِ أَعْمَى وَأَضَلُّ سَبِیلًا (17:72)۔ یعنی جو شخص اس دنیا میں اندھا رہا، وہ آخرت میں بھی اندھا رہے گا اور وہ بہت دور پڑا ہوگا راستے سے۔
مسلمانوں کا اس طرح اپنی مظلومیت کی داستان بیان کرنا، کوئی سادہ بات نہیں۔ وہ اللہ پر بے اعتمادی کا اظہار ہے۔ وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ لوگوں نے اللہ کی معرفت حاصل نہیں کی، وہ اللہ کے بارے میں یقین سے محروم ہیں۔ ایسے لوگوں کو خود اپنی اصلاح کرنی چاہیے ، نہ کہ دوسروں کے خلاف احتجاج۔
واپس اوپر جائیں

سائنسی تحقیقات

الرسالہ کے ایک قاری لکھتے ہیں: قرآن کی ایک آیت ہے، جس میں یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ ابتدائے تخلیق کیسے ہوئی، اس پر غور و فکر کریں: قُلْ سِیرُوا فِی الْأَرْضِ فَانْظُرُوا کَیْفَ بَدَأَ الْخَلْق (29:20) ۔ یعنی کہو کہ زمین میں چلو پھرو، پھر دیکھو کہ اللہ نے کس طرح خلق کو شروع کیا۔اس پر علمی ڈیٹا تو دورِ جدید میں میسر ہوا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کے خطاب کو سمجھنے کے لیے سائنسی تحقیقات کی بھی اہمیت ہے۔ ایسا سمجھنا کہاں تک درست ہے۔ (حافظ سید اقبال احمد عمری، چنئی، تامل ناڈو)
اس معاملے میں آپ نے لفظ’’بھی‘‘ استعمال کیا ہے۔ مجھے اس سے اتفاق نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے میں سائنس پر مبنی جو تحقیقات ہوئی ہیں، وہ سب بلاشبہ اسلام کا حصہ ہیں۔ یہ تحقیقات جو تمام ترمیتھمیٹکس پر مبنی ہوتی ہیں، وہ بلاشبہ قرآن کے اس حکم کی تعمیل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ حدیث کی مختلف کتابوں میں یہ روایت آئی ہےکہ غیر اہلِ ایمان دین کی تائید کریں گے (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 14640)۔ مبنی بر میتھمیٹکس اہل سائنس کی تحقیقات اسی تائیدِ دین کا حصہ ہیں۔ سائنس کی ایک تحقیقات وہ ہیں، جوریاضیات (mathematics) پر مبنی ہیں، ان کو ایکزیکٹ سائنسز (exact sciences) کہا جاتا ہے۔ اس نوعیت کی تحقیقات بلاشبہ اسلامی تحقیقات کا حصہ ہیں۔ ان تحقیقات کو قرآن فہمی کا ذریعہ بنانا، اسی طرح درست ہے، جس طرح دوسرے فنون کو قرآن فہمی کے لیے بجا طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
میرے نزدیک ان سائنسی تحقیقات میں نظریۂ ارتقا شامل نہیں ۔ نظریۂ ارتقا ایکزیکٹ سائنسز کا حصہ نہیں ہے۔ کیوں کہ وہ میتھ میٹکس پر مبنی کوئی علم نہیں۔ اس کی بنیاد کچھ ایسی چیزوں پر مبنی ہے، جو اپنی حقیقت کے اعتبار سے قیاس کا درجہ رکھتی ہیں۔ محققین نظریۂ ارتقا کو میتھمیٹیکل سائنس کا درجہ نہیں دیتے، بلکہ اس کو قیاسی علم کا درجہ دیتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

اولاد ایک فتنہ

قرآن کے مطابق مومن وہ ہے جس کے لیے اللہ رب العالمین اس کا واحد کنسرن بن جائے۔ کوئی بھی دوسری چیز جو انسان کو حبِّ شدید میں مبتلا کردے، وہ اس کے لیے فتنہ ہے، اور قرآن میں حکم دیا گیا ہے کہ انسان اس فتنہ کا شکار ہونے سے بچے۔ اس سلسلہ کی ایک متعلق آیت یہ ہے:یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنَّ مِنْ أَزْوَاجِکُمْ وَأَوْلَادِکُمْ عَدُوًّا لَکُمْ فَاحْذَرُوہُمْ (64:14)۔ یعنی اے ایمان والو، تمہاری بعض بیویاں اور بعض اولاد تمہارے دشمن ہیں، پس تم ان سے ہوشیار رہو۔
اولاد کیوں ایسی چیز ہے جس سے آدمی کو پر حذر (beware) رہنےکا حکم دیا گیا ہے۔ ایسا کیوں ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انسان سے سب سے زیادہ جو چیز مطلوب ہے۔ وہ یہ ہے کہ انسان اللہ رب العالمین کو اپنا سول کنسرن (sole concern) بنائے۔ اس کو حب شدید کا تعلق صرف اللہ رب العالمین سے ہو۔ کسی اور سے حب شدید کا تعلق ہونا، بلاشبہ شرک کی قسموں میں سے ایک قسم ہے۔
کسی عورت یا مرد کے پاس دوسرے کو دینے کے لیے جو سب سے بڑی چیز ہے، وہ حب شدید (البقرۃ، 2:165) ہے۔ کسی انسان کے پاس اس کا سب سے بڑا تحفہ محبت ہے۔ اگر وہ اپنے دوست کو سب کچھ دے، لیکن قلبی محبت نہ دے تو اس نے اپنے دوست کو وہی چیز نہ دی، جو سب سے زیادہ دینے کے قابل چیز تھی۔
اس لیے کسی شخص کا اصل معبود وہی ہے جس کو اس نے اپنے حب شدید کا مرکز بنایا۔ جس نے کسی کو اپنے قلبی تعلق کا تحفہ دیا، وہی اس کا معبود ہے۔ ایسا آدمی اگر زبان سے اللہ کو اپنا معبود بتاتا ہے، لیکن اس کا قلبی تعلق کسی اور سے ہے تو وہ لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ (الصف، 61:2)کا مصداق ہے۔ قلبی تعلق کسی اور کو دینا، اور زبان سے اللہ کو اپنا معبود بتانا ایک ایسی چیز ہے ،جو اللہ کے یہاں قبولیت کا درجہ پانے والی نہیں۔ محبت کا معیار قلبی تعلق ہے، نہ کہ زبانی الفاظ ۔
واپس اوپر جائیں

کنڈیشننگ کا مسئلہ

ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: کُلُّ مَوْلُودٍ یُولَدُ عَلَى الفِطْرَةِ، فَأَبَوَاہُ یُہَوِّدَانِہِ، أَوْ یُنَصِّرَانِہِ، أَوْ یُمَجِّسَانِہِ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 1385)۔ یعنی ہر پیدا ہونے والا، فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اس کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔ اس حدیث رسول میں زندگی کی ایک حقیقت کو تمثیل کی زبان میں بتایا گیا ہے۔ اس اعتبار سے یہ حدیث ہر انسان کے لیے ہے، وہ صرف یہودی یا نصرانی یا مجوسی کے لیے نہیں ہے۔
علم نفسیات کے مطابق، ہرانسان کنڈیشننگ کا کیس ہوتا ہے۔ پیدا ہونے کے اعتبار سے وہ فطرت صحیح پر پیدا ہوتا ہے، لیکن پیدا ہوتے ہی وہ اپنے ماحول سے متاثر ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ اس اثرپذیری (conditioning) کا نتیجہ آخر کار یہ ہوتا ہے کہ ابتدا میں اگر وہ مسٹر نیچر (Mr. Nature) تھا تو جلد ہی بعد وہ مسٹر کنڈیشنڈ (Mr. Conditioned) کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ دھیرے دھیرے وہ ماحول سے متاثر ہو کر ماحول کا پروڈکٹ بن جاتا ہے۔
اس نفسیاتی حقیقت کا تقاضا ہے کہ ہر آدمی سب سے پہلے اپنے تاثر پذیری کو ختم کرے۔ وہ اپنے آپ کو مسٹر کنڈیشنڈ کی حالت سے نکال کر مسٹر ڈی کنڈیشنڈ (Mr. Deconditioned) بنائے ۔ یہ عمل پہلے اس کے ماں باپ کو کرنا ہے، اور اس کے بعد خود ہر آدمی کا یہ کام ہے کہ وہ اس عمل کو اس کے تکمیلی مرحلے تک پہنچائے۔
کوئی انسان جب اپنی ماںکے پیٹ سے نکل کر باہر کی دنیا میں آتا ہے، تو وہ اپنی فطری حالت پر ہوتا ہے۔ پورے معنوں میں اس وقت وہ نیچر کا پروڈکٹ ہوتا ہے۔ لیکن پیدائش کے بعد اس کو جو دنیا ملتی ہے، وہ ایک بالکل مختلف دنیا ہوتی ہے۔ دنیا میں اس کوایک انسانی کلچر کے درمیان رہنا پڑتا ہے۔ وہ ہر لمحہ اس خارجی دنیا سے متاثر ہوتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ جسمانی اعتبار سے اگرچہ بظاہر فطری انسان ہوتا ہے، لیکن عادات اور اپنی سوچ کے اعتبار سے وہ ایک ایسا انسان بن جاتا ہے، جو پورے معنوں میں ماحول کی پیداوار (product) ہوتا ہے۔
انسان کا پہلا دور حیات وہ ہے، جب کہ وہ ماں کے پیٹ میں بن کر تیار ہوتا ہے۔ اس کا دوسرا دورِ حیات وہ ہے، جو ماں کے پیٹ کے باہر انسانوں کی تیار کی ہوئی دنیا میں بنتا ہے۔ اس دوسرے دورحیات میں ہر انسان کی پہلی ڈیوٹی یہ ہے کہ وہ اس حقیقت کو شعوری طور پر دریافت کرے۔ اس دریافت کے بعد ہی یہ ممکن ہے کہ آدمی اپنے اندر مطلوب شخصیت کی تعمیر کرے۔ وہ اپنے آپ کو مسٹر کنڈیشنڈ کی حالت سے نکال کر مسٹر ڈی کنڈیشنڈ کی حالت میں پہنچائے۔
مسٹر ڈی کنڈیشنڈ بننا ایک سخت قسم کا تربیتی عمل ہے۔ اس تربیتی عمل کو کامیابی کے ساتھ چلانے کے لیے آدمی کو اپنا محاسب آپ بننا پڑتا ہے۔ اس عمل کی کامیابی کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ آدمی اپنے اندر اینٹی سیلف تھنکنگ (anti-self thinking) کی صلاحیت پیدا کرے، وہ اپنی ہیمرنگ (hammering)آپ کرنے کا فن جانے۔ وہ اپنا آئینہ خود اپنے آپ کو بنائے۔
اپنا محاسبہ آپ کے معاملے میں تربیت کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کا بے رحم محاسب بن جائے۔ اپنی تربیت کا آغاز خودی اور اسرار خودی کا فلسفہ جاننے سے نہیں ہوتا ، بلکہ اپنی کمیوں کو جاننے سے ہوتا ہے۔ اپنی تعریف سننے سے نہیں ہوتا، بلکہ اپنے خلاف شدید تنقید سننے سے ہوتا ہے۔ اس عمل کو میں اپنے الفاظ میں سیلف ہیمرنگ (self hammering) سے تعبیر کروں گا۔ سیلف ہیمرنگ واحد عمل ہے، جو انسان کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو کنڈیشننگ سے باہر لائے، وہ اپنے آپ کو کنڈیشننگ سے نکال کر ایک نیا انسان بنائے۔
ایک انسان وہ ہے جو ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے۔ لیکن یہی مکمل انسان نہیں۔ اس کے بعد انسان کا خود اپنا کام ہے کہ وہ اپنے کو فطرتِ خداوندی پر قائم کرے۔ یہ کام اسی وقت ہوسکتا ہے کہ جب انسان اپنا محاسب آپ بن جائے۔ اس کام کے بغیر ہر انسان ایک نامکمل انسان ہے، وہ مکمل انسان نہیں۔ یہ گویا اپنی تعمیر آپ کرنے کا کام ہے۔
واپس اوپر جائیں

دورِ امن کی طرف

قرآن میں اصحاب رسول کو ایک حکم اِن الفاظ میں دیاگیا تھا:وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّى لَا تَکُونَ فِتْنَةٌ وَیَکُونَ الدِّینُ کُلُّہُ لِلَّہِ (8:39)۔ یعنی ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ نہ رہے اور دین سب اللہ کا ہو جائے۔ قرآن کی اس آیت کے دو حصے ہیں۔ پہلے حصہ میں کہاگیا ہے کہ’’ جنگ کرو تاکہ فتنہ نہ رہے‘‘،اور دوسرے حصہ کے الفاظ یہ ہیں کہ ’’ دین سب اللہ کا ہو جائے‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ پہلے مطلوب کے لیے لڑنا ہوگا اور اس کے بعد دوسرا مطلوب اپنے آپ حاصل ہوجائے گا۔
غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ ابتدائی تخلیق کے مطابق انسانی دنیا میں حالت فطری قائم تھی، اور حالتِ فطری امن کی حالت ہے۔ بعد کو دنیامیں مطلق العنان بادشاہوں (despotic kings) کا زمانہ آیا۔ انھوں نے یہ کیا کہ حالتِ فطری کو ختم کرکے اس کی جگہ غیر فطری حالت قائم کردی، یعنی مذہبی جبروتشدد کی حالت۔ یہ حالت اللہ کو منظور نہ تھی۔ اللہ نےاصحابِ رسول کو حکم دیا کہ جن لوگوں نے انسانی دنیا میں خود ساختہ طورپر جبر وتشدد کی حالت قائم کررکھی ہے، اس کو بزور ختم کردو تاکہ دوبارہ انسانی دنیا میں حالتِ فطری قائم ہوجائے۔
قدیم زمانے میں مذہبی تشدد (religious persecution) اِس بنا پر قائم تھا۔ اصحابِ رسول نے اپنے زمانے کے ارباب اقتدار سے جنگ کی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دنیا میں ایک نیادور آگیا۔ یعنی جنگ کے دور کے بجائے امن کا دور۔ تاریخ میں کوئی بڑا واقعہ اچانک نہیں ہوتا بلکہ وہ تاریخی عمل (historical process) کی صورت میں ابتدائی حالت سے شروع ہو کر تکمیل کی حالت تک پہنچتا ہے۔ تاریخ میں اس دور امن کا آغاز اہل اسلام نے کیا تھا۔ بعد کے زمانہ میں آزادی اور جمہوریت (freedom and democracy) کا جو دور آیا وہ اسی آغاز کا منتہا (culmination) ہے۔
اکیسویں صدی میں اب ہم اسی دور امن میں جی رہے ہیں۔ اب قرآن کے الفاظ میں ’’دین سب کا سب اللہ کے لیے‘‘ ہوچکا ہے۔ یعنی یہ ممکن ہوگیا ہے کہ یہ امن کے طریقِ کار (peaceful method) کو استعمال کرتے ہوئے ہر مقصد کو نارمل کورس (normal course) میں حاصل کرلیا جائے۔اسلام ایک مشن ہے، توحید کا مشن ۔قدیم زمانہ میں اس مشن کو جاری کرنے کے لیے سخت رکاوٹیں پیش آتی تھیں۔ اب یہ ممکن ہوگیا ہے کہ رکاوٹوں کے بغیر اسلام کے مشن کو جاری کیا جائے۔ موجودہ زمانہ میں جو لوگ اسلام کا نام لیتے ہیں اور اسی کے ساتھ جنگ اور تشدد کا طریقہ اختیار کرتےہیں وہ اپنے اس عمل سے یہ ثبوت دے رہے ہیں کہ وہ دورِ جدید سے پوری طرح بے خبر (unaware) ہیں۔ ان کا کیس جہاد کا کیس نہیں ہے ،بلکہ بے خبری(unawareness)کا کیس ہے۔
قرآن کی مذکورہ آیت میں قتال کا لفظ مطلق معنوں میں نہیں ہے۔ یعنی اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اپنے گھر سے تلوار لے کر نکلو اور سب کو مارنا شروع کردو۔ جنگ در اصل آخری چارۂ کار کانام ہے۔ چنانچہ عرب میں ایسا نہیں ہوا کہ قرآن اترتے ہی رسول اللہ نے فوراً تلوار سنبھالی اور جنگ شروع کردی۔بلکہ جو واقعہ پیش آیا، وہ یہ ہے کہ نبوت ملنے کے بعد آپ نے اس مشن کو ممکن دائرے میں شروع کیا، مثلاً پہلے خاموشی کے ساتھ ممکن دائرے میں لوگوں کو سمجھانا بجھانا۔ اس کے بعد ٹکراؤ سے اعراض (avoid) کرتے ہوئے لمبی مدت تک پرامن انداز میں تبلیغ و دعوت کا کام کرنا۔ اگر فریقِ ثانی جنگ چھیڑنا چاہتا ہے توخاموش منصوبہ بندی کے ذریعے ایسا طریقہ اختیار کرنا کہ جھڑپ (skirmishes) پر معاملہ ختم ہوجائے۔ خون بہانا، اور متشددانہ کارروائی کرنے سے آپ نے آخری حد تک پرہیز کیا۔ گہرائی کے ساتھ دیکھا جائے تو آپ کی قربانی سب سے زیادہ صبر کرنے کی قربانی تھی، نہ کہ جنگ و قتال کرنا۔ آپ کے مشن میں قتال بطور اقدام نہیں تھا، بلکہ بطور دفاع تھا۔
* *** * *****
ایک مستشرق نے پیغمبر اسلام کے بارے میں کہا ہے کہ پیغمبر اسلام نے دشواریوں کا مقابلہ اِس عزم کے ساتھ کیا کہ آپ نے ناکامی سے کامیابی کو نچوڑلیا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے پرابلم کے درمیان موجود مواقع کو تلاش کیا، پھر مواقع کو استعمال کرکے پرابلم کو اپنے ترقیاتی سفر کا زینہ بنالیا۔
واپس اوپر جائیں

دورِ زوال کی ایک علامت

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ان الفاظ میں آئی ہے:یَخْرُجُ فِیکُمْ قَوْمٌ تَحْقِرُونَ صَلاَتَکُمْ مَعَ صَلاَتِہِمْ، وَصِیَامَکُمْ مَعَ صِیَامِہِمْ، وَعَمَلَکُمْ مَعَ عَمَلِہِمْ، وَیَقْرَءُونَ القُرْآنَ لاَ یُجَاوِزُ حَنَاجِرَہُمْ، یَمْرُقُونَ مِنَ الدِّینِ کَمَا یَمْرُقُ السَّہْمُ مِنَ الرَّمِیَّةِ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 5058)۔ یعنی ابو سعید الخدری سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے کہا تمھارے درمیان ایسے لوگ ظاہر ہوںگے، جن کی نمازوں کے آگے تم اپنی نمازوں کو،اور اپنے روزوں کو ان کے روزوں کے آگے، اور اپنے اعمال کو ان کے اعمال کےآگے کمتر سمجھوگے۔ وہ قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نہیں اترے گا، وہ لوگ دین سے نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکلتا ہے۔
یہ حدیث رسول ایک قسم کی پیشین گوئی ہے۔ یہ ظاہرہ ہے، جو اس وقت پیدا ہوتا ہے، جب کہ امت کے افراد میں اسپرٹ کا خاتمہ ہوجائے، اور فارم کی دھوم دھام اپنی آخری حد تک بڑھ جائے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے، جب کہ امت کے افراد داخلی اسپرٹ کی کمی کی تلافی خارجی ظواہر کے اضافے سے کرنے لگیں۔جب معانی کی کمی الفاظ میں اضافہ کی صورت اختیار کرلے، جب لوگ خاموشی کی اہمیت سے بے خبر ہوجائیں، اور کلام کی اہمیتِ کثرت کو اس کا بدل سمجھ لیں۔ جب لوگوں کے اندر داخلی محاسبہ (internal introspection) کا شعور باقی نہ رہے، البتہ خارجی اظہار کی نمائش میں خوب اضافہ ہوجائے، جب انسان چپ رہنے کو کم سمجھے، اور بولنے کو بڑی چیز سمجھنے لگے۔
حدیث میں آیا ہے کہ تم (اصحاب رسول)اپنے اعمال کو ان کے اعمال کے سامنے کمتر سمجھوگے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صاحب ِمعرفت ایسا سمجھنے لگیں گے۔ بلکہ یہ بات در اصل ان لوگوں کی نسبت سے کہی گئی ہے، جو اپنے شعور کی کمی کی بنا پر ظاہر اور باطن میں فرق نہ کر سکیں گے۔ وہ ظواہر کی کثرت کو دیکھ کر یہ گمان کرلیں گے کہ ان کے اندر داخلی حقیقت بھی موجود ہے۔
واپس اوپر جائیں

دعوت کا اصول

دعوت کے ابتدائی دور میں سورہ المدثر نازل ہوئی۔ اس میں رسول اللہ کو حکم دیتے ہوئے یہ الفاظ آئے ہیں:وَالرُّجْزَ فَاہْجُر(74:5)۔ یعنی اور گندگی کو چھوڑ دو۔رُجز کا لفظی مطلب گندگی ہے۔ یہاں رجز اپنے لفظی معنی میں نہیں ہے۔ بلکہ اس معنی میں ہے کہ ایسے فعل سے اعراض کرو، جو باعتبارِ نتیجہ رجز تک پہنچنے والا ہو۔ امام رازی نے اس آیت کی تفسیران الفاظ میںکی ہے:کُلَّ مَا یُؤَدِّی إِلَى الرُّجْزِ فَاہْجُرْہُ (تفسیر الرازی، 30/699)۔ یعنی ہر وہ چیز جو رجز تک پہنچانے والی ہو، اس کو چھوڑ دو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس آیت میں رجز کا لفظ باعتبار نتیجہ ( in terms of result) ہے۔ یعنی جو چیز بظاہر غلط نہ ہو، لیکن نتیجہ کے اعتبار سے وہ غلط انجام تک پہنچانے والی ہو، ا س کو چھوڑ دو۔
مثلاً جب پیغمبر اسلام نے توحید کا مشن مکہ میں شروع کیا۔ اس وقت کعبہ میں تقریباً تین سو ساٹھ بت رکھے ہوئے تھے۔ یہ پیغمبرِ توحید کے لیے بظاہر ایک ناقابل قبول بات تھی۔ لیکن پیغمبر اسلام اگر ان بتوں کے خلاف کوئی سخت طریقہ اختیار کرتے تو یقیناً اس سے لوگوں کے جذبات بھڑک اٹھتے۔ وہ اس کے ری ایکشن میں تشدد کا طریقہ اختیار کرتے۔ اس طرح مکہ میں امن کا ماحول ختم ہوجاتا، اور دعوت کے بجائے ٹکراؤ کا ماحول شروع ہوجاتا۔ اس کے نتیجے میں ایک رجز وجود میں آتا، یعنی مکہ میں ٹکراؤ کا ماحول قائم ہوجانا ۔ اس کے بعد یہ ہوتا کہ بتوں کی زیارت کے نام سے جو مکہ میں پورے عرب سے آمدو رفت ہوا کرتی تھی، بند ہوجاتی۔ اس طرح پیغمبر اسلام کو سارے عرب کے آڈینس (audience)مکہ میں نہیں مل پاتے، اور عملاً پرامن دعوت کا خاتمہ ہوجاتا۔
کسی عمل کی صحت کا معیار یہ ہے کہ وہ الٹا نتیجہ والا (counter-productive) ثابت نہ ہو۔ وہ مطلوب نتیجہ تک پہنچے، نہ کہ غیر مطلوب نتیجہ تک۔ وہ پرابلم کو ختم کرے، نہ کہ پرابلم میںاور اضافہ کرے۔اس لیے ضروری ہے کہ ہر اقدام سے پہلے، اس کی بہت سوچی سمجھی منصوبہ بندی کی جائے۔ بغیر سوچے سمجھے اقدام کرنا، اسلام میں جائز نہیں ۔
واپس اوپر جائیں

تزکیہ اور دعوت

مولانا محمود حسن دیوبندی کا واقعہ ہے۔ وہ 1920 ءمیں مالٹا کی جلاوطنی سے واپس آئے۔ اس کے بعد دیوبند میں ان کی ایک مجلس ہوئی۔ اس مجلس میں انھوں نے درسِ قرآن کی بات کہی ۔ان کے شاگرد رشید مفتی محمد شفیع صاحب اُس مجلس کی روداد اِن الفاظ میںبیان کرتے ہیں:
مالٹا کی قید سے واپس آنے کے بعدایک رات بعدِ عشاء (حضرت) دارالعلوم (دیوبند) میں تشریف فرما تھے۔ علما کا بڑا مجمع سامنے تھا، اس وقت فرمایا کہ’’ہم نے مالٹا کی زندگی میں دو سبق سیکھے ہیں ...میں نے جہاں تک جیل کی تنہائیوں میں اس پر غور کیا کہ پوری دنیا میں مسلمان دینی اور دنیوی ہر حیثیت سے کیوں تباہ ہورہے ہیں تو اس کے دو سبب معلوم ہوئے۔ ایک، ان کا قرآن کو چھوڑدینا، اوردوسرا، آپس کے اختلاف اور خانہ جنگی۔ اس لیے میں وہیں سے یہ عزم لے کر آیاہوں کہ اپنی باقی زندگی اس کام میں صرف کروں کہ قرآن کریم کو لفظاً اور معناً عام کیا جائے، بچوں کے لیے لفظی تعلیم کے مکاتب ہر بستی میں قائم کیے جائیں، بڑوں کو عوامی درس قرآن کی صورت میں اس کے معنی سے روشناس کرایا جائے، اور قرآنی تعلیمات پر عمل کے لیے آمادہ کیاجائے ۔ٗٗ(جماعت شیخ الہند اور تنظیم اسلامی، ڈاکٹر اسرار احمد، صفحہ 346)۔
شیخ الہند کے ان الفاظ پر اب تقریباً سو سال گزر چکے ہیں۔ اس مدت میں شیخ الہند کی مذکورہ رہنمائی کو بے شمار لوگوں نے اختیار کیا، اور سارے ملک میں قرآن پر مبنی تحریکیں چلائی گئیں۔ لیکن اگر بے لاگ انداز میں نتیجے کا جائزہ لیا جائے تو نتیجے کے اعتبار سے یہ تحریکیں صفر (zero) ثابت ہوئیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ نظریے کے اعتبار سے غالباً کسی بھی قابلِ ذکر واقعے کی نشاندہی نہیںکی جاسکتی۔
اس کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب خود تشخیص کی غلطی ہے۔ یعنی قرآن کی اشاعت کے جس پیٹرن کو اختیار کیا گیا، وہ یہ تھا کہ قدیم کتب میں تفسیرِ قرآن کے لیے جو انداز اختیار کیا گیا ہے،ا س کو ایز اٹ از (as it is) عوام میں پھیلانا۔ قدیم کتابوں میں تفسیر قرآن کا جو پیٹرن پایا جاتا ہے، وہ درس و تدریس کے لیے موزوں ہے، لیکن اصلاح و تربیت کے لیے یہ پیٹرن موزوں نہیں۔
اصلاح و تربیت کے لیے جو پیٹرن مفید ہے، وہ صرف ایک ہے، اور وہ ہے تطبیقی انداز (applied pattern)۔ اب ہم ایک نئے زمانے میں جی رہے ہیں، نئے زمانے کے لحاظ سے مفید پیٹرن صرف وہ ہے، جو نئے حالات میں پیدا ہونے والے اذہان کو ایڈریس کرنے والا ہو۔ بعض حضرات، جنہوں نے قدیم پیٹرن کو بدلا، وہ صرف یہ تھا کہ انھوں نے فنی انداز کے بجائے سیاسی انداز (political pattern) اختیار کرلیا۔ اس قسم کی تبدیلی منفی نتائج تو پیدا کرسکتی تھی، لیکن مثبت نتائج کبھی بھی سیاسی پیٹرن سے حاصل نہیں کئے جاسکتے۔
مثلاً جن لوگوں نے تفسیرِ قرآن کا سیاسی پیٹرن اختیار کیا، انھوں نے یہ کیا کہ جہاد و قتال سے متعلق قرآن کی آیتوں کو برٹش ایمپائر اور مغربی تہذیب پر منطبق کرکے پر زور تحریکیں چلائیں، اور سیاسی جدو جہد کو قرآ ن کا مطلوب کام قرار دیا۔ یہ اسلوب بلاشبہ آخری حد تک غیر متعلق (irrelevant) تھا۔ اس لیے اس کا مثبت نتیجہ نہ نکلنے والا تھا، اور نہ نکلا۔اس کے برعکس، اگر یہ حضرات دعوت کا اسلوب اختیار کرتے تو یقیناً ان کی کوششوں کے مثبت نتائج بر آمد ہوتے۔
مسلم رہنماؤ ں نے قرآن کے درس کا دعوتی انداز اختیار نہیں کیا۔ البتہ میرے علم کے مطابق ایک برطانی مستشرق پروفیسر ٹی ڈبلیو آرنلڈ نے 388صفحات پر مشتمل ایک جامع کتاب تیار کی، جو دی پریچنگ آف اسلام (The Preaching of Islam) کے نام سے 1896 میں شائع ہوئی۔ اس کتاب کا مقصد یہ تھا کہ اس زمانے کے مسلمانوں کو راغب کیا جائے کہ وہ اسلام کی اشاعت کے لیے پرامن دعوتی اسلوب کو اختیار کریں۔مگر عجیب بات ہے کہ اس درست مشورے کو کسی قابل ذکر آدمی نے اختیار نہیں کیا، بلکہ ا س کو برطانی سازش کا حصہ سمجھ کر ردکردیا۔
قرآن کی روشنی میں اسلام کا مقصد اصلاً صرف یہ ہے— اپنے لیے تزکیہ اور دوسروں کے لیے دعوت الی اللہ۔
واپس اوپر جائیں

درسِ قرآن

قرآن میں ایک حکم ان الفاظ میں آیا ہے: وَلَا تَسُبُّوا الَّذِینَ یَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّہِ فَیَسُبُّوا اللَّہَ عَدْوًا بِغَیْرِ عِلْمٍ(6:108)۔ یعنی اور اللہ کے سوا جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں، ان کو گالی نہ دو ورنہ یہ لوگ حد سے گزر کر جہالت کی بنا پر اللہ کو گالیاں دینے لگیں گے۔
اس آیت میں سبّ نہ کرنے کا یہ حکم اصحاب رسول کو دیا گیا تھا۔ یہ بات واضح ہے کہ اصحاب رسول مشرکین کے الٰہ کے خلاف سب و شتم کی زبان استعمال نہیں کرسکتے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مشرکین کے الٰہ کے خلاف ایسی باتیں کہنےسے بچا جائے،جو ان کے نزدیک شتم کے ہم معنی ہو، جس کو سن کر وہ اشتعال انگیزی کرنے لگیں۔ جب ایسا ہوگا تو اس کےجواب میں تم بھی کچھ کہو گے۔ اس طرح چین ری ایکشن (chain reaction) شروع ہوجائے گا۔ اور پھریہ ہوگا کہ دعوت الی اللہ کا کام ہونے کے بجائے ایک دوسرے کے خلاف ضد، اور نفرت، اور تشدد شروع ہوجائے گا۔ اس طرح دعوت کا پرامن ماحول ختم ہوجائے گا۔ اس لیے اس غیر مطلوب انجام سے بچو تاکہ دعوت کا کام معتدل انداز میں جاری رہے۔
قرآن کے اس طریقۂ درس کو اپلائڈ (applied)درس قرآن کہا جاسکتا ہے۔ عام طور پر ایسا ہوتا کہ درس قرآن کےحلقوںمیں یہ انداز اختیارنہیں کیا جاتا ۔ اس لیے درس قرآن کو سن کر عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ لوگوں کے اندر غیر مطلوب مزاج پیدا ہوجاتا ہے،یا عدم وضوح کی بنا پر سرے سے کوئی مزاج ہی نہیں بنتا۔ درس قرآن ایک خالص مثبت کام ہے۔اس کو وضوح (clarity)کی زبان میں ہونا چاہیے۔ یہ کام موثر انداز میں صرف اس وقت ہوسکتا ہے، جب کہ لوگوں کے اندر تیار ذہن موجود ہو۔ ورنہ لوگ درس کو خود اپنے ذہن کے ساتھ سنیں گے، اور ہر درس ان کے لیے خود اپنے کنڈیشنڈ ذہن کی تقویت کا ذریعہ بن جائے گا۔درس قرآن کا مقصد برکت کا حصول نہیں ہے، بلکہ یہ ہے کہ لوگوں کو واضح ہدایت ملے۔ لوگ اپنے ر وزمرہ کے مسائل میں روشنی حاصل کریں۔
واپس اوپر جائیں

کفالت کا انتظام

حضرت مریم بنت عمران کا ذکر قرآن میں تفصیل سے آیا ہے۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالی نے حضرت مریم کے ساتھ خصوصی نصرت کا معاملہ کیا۔ اسی میں سے ایک نصرت وہ ہے جس کے لیے قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں:وَکَفَّلَہَا زَکَرِیَّا (3:37)۔ یعنی زکریا پیغمبر نے حضرت مریم کی کفالت (معاشی ضروریات کا انتظام)کیا۔ قدیم زمانہ زراعت کا زمانہ تھا۔ قدیم زمانے میں وسائل اس کے پاس ہوتے تھے، جس کے پاس زراعت ہو۔ جو شخص اپنی کفالت آپ کرنا چاہتا تھا، وہ بھیڑ بکری پالنے جیسا کام کرتا تھا۔ جیسا کہ حضرت موسی کے قصے میں مدین کے شیخ کبیر (القصص،28:23)کا واقعہ بیان ہوا ہے۔
موجودہ زمانہ اس اعتبار سے ایک نیا زمانہ ہے۔ موجودہ زمانے میں صنعتی انفجار (industrial explosion) کی وجہ سے ایک نیا وسیع تر معاشی نظام وجود میں آیا ہے۔ اس نئے نظام کے تحت ہر شخص کے لیے یہ موقع پیدا ہو گیا ہے کہ وہ کچھ نہ کچھ کام کرکے اپنے لیے معاشیات کا انتظام کرے۔ مثلاً بزنس ، کمپنی کی ملازمت، آفس کی ملازمت، مختلف قسم کے اداروں کی ملازمت، وغیرہ۔ اسی طرح فری لانسنگ کےذریعے کمانے کے بہت سے طریقے وجود میں آئے ہیں۔ آج کل تقریباً ہر شخص اپنے لیے کوئی نہ کوئی روزگار پارہا ہے، جس میںکام کرکے وہ اپنی ضروریات فراہم کرتا ہے، بشرطیکہ اس کے اندر کسی نوعیت کی پروفیشنل صلاحیت موجود ہو۔
یہ آج کے انسان کے لیے شکر کا ایک آئٹم ہے۔ قدیم زمانے میں یہ آئٹم موجود نہ تھا، یا اگر موجود تھا تو بہت زیادہ محدود اعتبار سے۔ موجودہ زمانے میں کامل وسعت کے ساتھ یہ مواقع کھل گئے ہیں۔ اس طرح انسان کی کوششوں کے ذریعہ آج کی دنیا میں شکر خداوندی کا ایک نیا آئٹم پیدا ہوا ہے۔ یہ مختلف قسم کے تاریخی انقلابات کا نتیجہ ہے۔ لوگوں کو چاہیے کہ وہ اس اعتبار سے اللہ رب العالمین کا شکر کرنا سیکھیں، اور اس طرح اپنے آپ کو مثبت سوچ والا انسان بنائیں۔
واپس اوپر جائیں

دعا، شعور دعا

دعا اسلام میں ایک عظیم عمل ہے۔ دعا کے بارے میں حدیث میں مختلف الفاظ آئے ہیں۔ مثلاً بے شک دعا ہی عبادت ہے (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3828)۔ایک روایت کا ترجمہ یہ ہے: دعا عبادت کا مغز (مُخّ)ہے(سنن الترمذی، حدیث نمبر 3371) ۔ایک روایت میں یہ ہے:لَا یَرُدُّ الْقَدَرَ إِلَّا الدُّعَاءُ (مسند احمد، حدیث نمبر 22044)۔ یعنی تقدیر کو دعا ٹال دیتی ہے۔ایک حدیث کا ترجمہ یہ ہے: دعا مومن کا ہتھیار(الدُّعَاءُ سِلَاحُ الْمُؤْمِنِ)ہے، دین کا ستون ہے، اور آسمانوں اور زمین کا نور ہے (مستدرک الحاکم، حدیث نمبر1812)۔ ایک حدیث کےالفاظ یہ ہیں:الدُّعَاءَ یَنْفَعُ مِمَّا نَزَلَ وَمِمَّا لَمْ یَنْزِلْ، فَعَلَیْکُمْ بِالدُّعَاءِ عِبَادَ اللہ (مسند احمد، حدیث نمبر 22044)۔یعنی دعا فائدہ دیتی ہے، ان چیزوں میں جو نازل ہوئی ہے، اور ان میں بھی جو نہیں ہوئی، تو اللہ کے بندو، تم ضرور دعا کرو۔
مگر دعا صرف الفاظِ دعا کی تکرار کا نام نہیں ہے۔ بلکہ دعا کے ساتھ دعا کرنے والے کے اندر ایک پراسس شروع ہوجاتا ہے۔ مثلاً بندے اور خدا کے درمیان مناجات، بندے کے اندر رب کی یاد، بندے کی روحانیت میں اضافہ، بندے کے اندر ایمانی ارتقا،اپنے رب سے قربت، وغیرہ۔ اس پورے عمل کو ایک لفظ میں حرکیات دعا (dynamics of dua) کہا جاسکتا ہے۔ یہاں تک کہ کبھی اللہ جبریل سے کہہ دیتا ہے کہ اے جبریل میرے بندے کی دعا قبول کرنے میں جلدی نہ کر۔ کیوں کہ مجھے اس کی آواز پسند ہے۔ یعنی بندے کے اندر دعا کا عمل اضافہ پذیر حالت میں جاری ہے۔
قرآن و حدیث کے حوالے سے معلوم ہوتا ہے کہ دعا صرف مانگنے اور پانے کا نام نہیں ، بلکہ دعا روحانی ارتقا کا ایک عمل ہے۔ کامیاب دعا وہ ہے، جس کے اندر دعا کا شعور شامل ہو۔ کامل دعا وہ ہے، جو اعلی ذہنی ارتقا کے نتیجہ میں ظہور میں آئے۔ کامل دعا وہ ہے، جس میں بندہ صرف اپنی حاجت کو نہ جانے، بلکہ وہ اپنے رب کی معرفت حاصل کرے۔حقیقی دعا وہی دعا ہے، جب کہ دعابندۂ عارف کے لیے ایک اعلی تجربہ کی حیثیت اختیار کرلے،جب کہ بندے کا وجود خود بھی دعا میں ڈھل گیا ہو۔
واپس اوپر جائیں

فضیلت کا تصور
کسی عمل کے افضل عمل ہونے کا تصور قرآن میں موجود نہیں ہے۔ قرآن کے مطابق، کوئی عمل اپنی داخلی اسپرٹ کے اعتبار سے بڑا عمل ہوسکتا ہے، محض فارم کے اعتبار سے کوئی عمل بڑا عمل نہیں۔ عمل پر فضیلت کا ذکر حدیث میں آیا ہے، لیکن وہ زیادہ مستند نہیں۔ خود محدثین کے اعتراف کے مطابق فضلیت کی روایتوں کو زیادہ قابل اعتماد نہیں سمجھا جاسکتا۔
جیسا کہ معلوم ہے محدثین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی روایت کو لینے کے بارے میں بہت زیادہ سخت ہیں۔ مثلاً امام بخاری نے 600,000 حدیثیں جمع کی ، لیکن اپنی مشہور کتاب صحیح البخاری میں انھوں نے ان میں سے صرف کچھ ہزار احادیث کو لیا،جن کی تعداد ابن الصلاح اور النوی کے مطابق 7275ہے۔ مگر فضیلت کی روایتوں کے بارے میں محدثین نے ایسا رویہ اختیار نہیں کیا۔
تیسری صدی ہجری کے مشہور محدث عبد الرحمن ابن مہدی (وفات 198:ھ)نے محدثین کے مسلک کو بیان کرتے ہوئے کہا:إِذَا رَوِینَا، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْحَلَالِ، وَالْحَرَامِ، وَالْأَحْکَامِ، شَدَّدْنَا فِی الْأَسَانِیدِ، وَانْتَقَدْنَا الرِّجَالَ، وَإِذَا رَوِینَا فِی فَضَائِلِ الْأَعْمَالِ وَالثَّوَابِ، وَالْعِقَابِ، وَالْمُبَاحَاتِ، وَالدَّعَوَاتِ تَسَاہَلْنَا فِی الْأَسَانِیدِ(مستدرک الحاکم، حدیث نمبر 1801)۔ یعنی جب ہم نے نبی صلى اللہ علیہ وسلم سے حلال و حرام اور احکام کی روایتیں لیں، تو ہم نےاسانید کے معاملے میں سختی سے کام لیا، رجال پر نقد کیا، اور جب ہم نے فضائل اعمال، ثواب و عقاب، مباحات و دعا کی روایتیں بیان کی تو اس کی اسناد میں تساہل سے کام لیا۔
دو قسم کی حدیثوں کے معاملے میں محدثین کا یہ مسلک علمی اعتبار سے ناقابل تسلیم ہے۔ اس لیے کہ جب کسی قول کو حدیث رسول بتایا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ قول امت کے لیے یکساں طور پر رسول اللہ کا قول بن جاتا ہے۔ خواہ وہ ایک حکم کے بارے میں ہو یا دوسرے حکم کے بارے میں۔ ایسی حالت میں کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ حدیث کے معاملے میں اس قسم کی تفریق کو درست قرار دے۔ ایک قسم کی حدیث کے معاملے میں شدت، اور دوسری قسم کی حدیث کے معاملے میں تساہل ۔ جہاں تک میں جانتا ہوں اس تفریق کو درست قرار دینے کے لیے قرآن یا حدیث میں کوئی حوالہ موجود نہیں۔ اصولی طور پر یہ بات بلااختلاف درست ہے کہ رسول اللہ کی تمام حدیثوں کو یکساں معیار پر جانچنا چاہیے۔
حدیث کے معاملے میں اس قسم کا تساہل اختیارکیا گیا تاکہ اس سے لوگوں کو عمل کے لیے ترغیب ملےگی۔ مگر یہ قیاس درست نہیں۔ اس لیے کہ انسانی نفسیات کے اعتبار سے دیکھا جائے تو اس سے ان کے اندر الٹا مزاج پیدا ہوگیا۔ ان کے اندر سہل پسندی (easygoing attitude) کا مزاج پیدا ہوگیا۔ یعنی وہ چھوٹے چھوٹے اعمال پر بڑے بڑے انعام کی امید قائم کرنے لگے، جس کو قرآن میں امانی کہا گیا ہے۔
مزید غور کیجیے، فضائل کی روایتوں میں تساہل کا معاملہ عملاً کس قسم کی روایتوں کے بارے میں آتا ہے۔ وہ اعمال کی داخلی روح کے بارے میں نہیں آتا، بلکہ اعمال کے ظواہر کے بارے میں آتا ہے۔ مثلاً اس طرح کی کتابوں میں جو ابواب ہوتے ہیں، وہ محبتِ خدا کی فضیلت یا رسول کی فضیلت یا دعوت کے لیے باخع (الشعراء، 26:3)بن جانے کی فضیلت کے بارے میں نہیں ہیں۔
اس کے برعکس ، فضائل اعمال کی روایتیں معمولی قسم کے اعمال کے بارے میں آتی ہیں۔ مثلاً فلاں وقت نماز پڑھنے کی فضیلت، فلاں دن روزے رکھنے کی فضلیت، فلاں کلمہ اتنی بار پڑھ لینے سے جنت مل جائے گی،وغیرہ ۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
اگر کسی شخص کے پاؤں میں کانٹا چبھ جائے تو اس کے بعد وہ ہر لمحہ اس کے درد کو محسوس کرتا رہے گا۔ اِسی طرح انسان کو ہر لمحہ خدا کی کسی نہ کسی رحمت کا تجربہ ہوتا ہے۔ صبح وشام کا کوئی لمحہ بھی اِن تجربوں سے خالی نہیں ہوتا۔ جس آدمی کو خدا کی شعوری معرفت حاصل ہوجائے، وہ ہر لمحہ اِن ربانی تجربات کو محسوس کرتا رہے گا۔ یہ تجربہ ہر لمحہ خدا کی یاد میں ڈھلنے لگے گا۔خدا کی اسی دوامی یاد کا نام ذکر کثیر ہے۔
واپس اوپر جائیں

حدیث ِ جبریل کا پیغام

حدیث کی کتابوں میں ایک حدیث، حدیث جبریل کے نام سے مشہور ہے۔ ،معروف سعودی عالم ابن عثیمین نے تحقیق کر کے بتایا ہے کہ حدیث جبریل کا واقعہ مدینہ میں پیش آیا تھا۔ واقعات بتاتے ہیں کہ وہ زمانہ اہل اسلام کے لیے ہر اعتبار سے مظلومیت کا زمانہ تھا۔ جن چیزوں کو آج مظلومیت کا نام دیا جاتا ہے، وہ سب وہاں پورے معنوں میں موجود تھے، مگر آپ حدیث رسول کےمطابق دیکھیے تو اس میں مظلومیت کا کوئی ادنیٰ اشارہ آپ کو نہیں ملے گا۔
اس حدیث میں اسلام، ایمان، احسان، اور علامات قیامت کا ذکر ہے، لیکن مظلومیت کا اشارے کے درجے میں بھی کوئی ذکر نہیں۔ حالاں کہ حدیث میں رسول اللہ کی زبان سےیہ الفاظ ہیں : ذَاکَ جِبْرِیلُ أَتَاکُمْ یُعَلِّمُکُمْ أَمْرَ دِینِکُمْ(سنن الترمذی، حدیث نمبر2610)۔ یعنی وہ جبریل تھے، جوآئےتاکہ تم کو تمھارے دین کی تعلیم دیں ۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مظلومیت کی بات امر ِدین میں سے نہیں ہے۔ اس کا تعلق قومی شکایت سے ہوسکتا ہے، لیکن خدا اور رسول کے دین سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ موجودہ زمانے میں مفروضہ مظلومیت کے حوالے سے مسلمان اپنے مفروضہ ظالموں کے خلاف جو بددعائیں کرتے ہیں، ان کا بھی دین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اسی طرح موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا حال دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ براہ راست طور پر جبریل کی شرکت سے جو اجتماع مدینہ میں ہوا تھا، اس میں سب سے زیادہ اہمیت کے ساتھ خلافت کے موضوع پر تذکرہ ہونا چاہیے تھا۔ لیکن آپ حدیث جبریل کو بار بار پڑھیے، آپ حیرت انگیز طور پر یہ دیکھیں گے کہ اس حدیث میں اشارہ اور کنایہ کے انداز میں بھی خلافت کے مسئلے کا کوئی ذکر نہیں۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خلافت کا معاملہ مسلمانوں کی اپنی ایجاد ہے، نہ کہ دینِ اسلام کا کوئی حکم یا تقاضا۔
واپس اوپر جائیں

دین کے تقاضے

قرآن کا مطالعہ کیا جائے تو ایک مسلم کے لیے متعین طور پر دین کے تین تقاضے معلوم ہوتے ہیں۔ وہ تین تقاضے یہ ہیں— (1) معرفت، (2) اقامت، (3) شہادت۔ یہ تینوں تقاضے قرآن اور حدیث میں واضح طور پر موجود ہیں۔ اس سلسلے میں یہاں قرآن کی کچھ آیتیں نقل کی جاتی ہیں۔
(1)معرفت کے سلسلے میں قرآن کی متعلق آیات یہ ہیں:وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَى الرَّسُولِ تَرَى أَعْیُنَہُمْ تَفِیضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الْحَقِّ یَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاکْتُبْنَا مَعَ الشَّاہِدِینَ ۔ وَمَا لَنَا لَانُؤْمِنُ بِاللَّہِ وَمَا جَاءَنَا مِنَ الْحَقِّ وَنَطْمَعُ أَنْ یُدْخِلَنَا رَبُّنَا مَعَ الْقَوْمِ الصَّالِحِینَ (5:83-84)۔ یعنی اور جب وہ اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول پر اتارا گیا ہے تو تم دیکھو گے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں، اس سبب سے کہ انھوں نے حق کو پہچان لیا۔ وہ پکار اٹھتے ہیں کہ اے ہمارے، رب ہم ایمان لائے۔ پس تو ہم کو گواہی دینے والوں میں لکھ لے۔ اور ہم کیوں نہ ایمان لائیں اللہ پر اور اس حق پر جو ہمیں پہنچا ہے جب کہ ہم یہ آرزو رکھتے ہیں کہ ہمارا رب ہم کو صالح لوگوں کے ساتھ شامل کرے۔
ایک شخص کے لیے ایمان کا آغاز یہ ہے کہ و ہ پوری سنجیدگی کے ساتھ قرآن کا مطالعہ کرے۔ اس مطالعے کے ذریعہ اس کو اسلام کی معرفت(دریافت) حاصل ہو۔ یہ معرفت اتنی گہری ہو کہ اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ پڑیں۔ اس کا ذہن اس طرح ایڈریس ہو کہ اس کو محسوس ہو کہ میں نے اپنی تلاش کا جواب پا لیا ہے۔ یہ دریافت اتنی گہری ہو کہ وہ اس کی سچائی کا گواہ بن جائے۔
(2) اقامت دین کےسلسلے میں قابلِ مطالعہ آیت یہ ہے: شَرَعَ لَکُمْ مِنَ الدِّینِ مَا وَصَّى بِہِ نُوحًا وَالَّذِی أَوْحَیْنَا إِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہِ إِبْرَاہِیمَ وَمُوسَى وَعِیسَى أَنْ أَقِیمُوا الدِّینَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِیہِ (42:13)۔ یعنی اللہ نے تمہارے لیے وہی دین مقرر کیا ہے جس کا اس نے نوح کو حکم دیا تھا اور جس کی وحی ہم نے تمہاری طرف کی ہے اور جس کا حکم ہم نے ابراہیم کو اور موسیٰ کو اور عیسیٰ کو دیا تھا کہ دین کو قائم رکھو اور اس میں اختلاف نہ ڈالو۔
یہاں اقامت کا مطلب پیروی ہے۔ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ دین جو مشترک طور پر تمام پیغمبروں کو دیا گیا، وہ ایک ہی دین ہے۔ وہ توحید پر مبنی ہے۔ ہر فرد مسلم کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مشترک دین کو مانے، اور بھرپور طور پر اس کی پیروی کرے۔
(3)مومن کی تیسری ذمہ داری قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتی ہے:وَکَذَلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَکُونُوا شُہَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَیَکُونَ الرَّسُولُ عَلَیْکُمْ شَہِیدًا (2:143)۔ یعنی اور اس طرح ہم نے تم کو بیچ کی امت بنا دیا تاکہ تم ہو بتانے والے لوگوں پر، اور رسول ہو تم پر بتانے والا۔ قرآن کی اس آیت کے مطابق، امت محمدی بیچ کی امت ہے۔ یعنی امت محمدی کو یہ کرنا ہے کہ وہ خدا کی ہدایت کو پیغمبر اسلام سے لے کر تمام انسانوں تک اس کی قابلِ فہم زبان میں پہنچائے۔
ان پہلوؤں میں دعوت کا پہلو ایک ایسا پہلو ہے، جو جتنا دوسروں سے تعلق رکھتا ہے، اتنا ہی وہ اپنے آپ سے تعلق رکھتا ہے۔ دعوت کے کام میں انٹریکشن کا عمل بھی بار بار پیش آتا ہے۔ یہ انٹرایکشن آدمی کو موقع دیتا ہے کہ وہ اپنا مطالعہ کرے۔ وہ اپنی شخصیت کی تعمیر کرے۔ وہ سیکھنے اور سکھانے (mutual learning) کے عمل کو لامتناہی طور پر بڑھاتا رہے۔ دعوت کا کام صرف اناؤنسمنٹ (announcement) کا کام نہیں ہے، وہ ایک ہمہ جہتی عمل ہے۔ اس میں براہ راست یا بالواسطہ طور پر زندگی کا ہر پہلو شامل ہوجاتا ہے۔ دعوت ایک ایسا کام ہے، جو آدمی کو ایک زندہ درس گاہ کا رکن بنا دیتا ہے۔
یہ تین پہلو تین نکاتی معیار ہیں۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ ان تین پہلوؤں سے اپنے آپ کو جانچتا رہے۔ وہ ان تین پہلوؤں کے اعتبار سے اپنا محاسبہ (introspection)کرتا رہے۔ بلکہ زیادہ اچھا یہ ہے کہ ہر عورت اور مرد اپنے پاس ایک ڈائری رکھے۔ اس ڈائری میں وہ اپنا جائزہ لکھتا رہے۔ یہ ڈائری اس کے لیے ایک آئینہ ہوگی، جو اس کو بتائے گی کہ اس نے ہر دن کیا کھویا اور کیا پایا۔اس نے ہر دن کیا سیکھا ،اور کیا سیکھنے سے وہ محروم رہا۔
واپس اوپر جائیں

خدا کی پہچان

حضرت موسی بنی اسرائیل کے ایک پیغمبر تھے۔ ان کو طور پہاڑپر خدا سے کلام کا تجربہ ہوا۔ قرآن کے مطابق، اس وقت انھوں نے کہا : رَبِّ أَرِنِی أَنْظُرْ إِلَیْکَ(7:143)۔ یعنی اے میرے رب مجھے اپنے آپ کو دکھا کہ میں تجھ کو دیکھوں:
My Lord, show Yourself to me so that I may look at You.
تاریخ کا تجربہ ہے کہ ہر پیدا ہونے والا انسان شعوری یا غیر شعوری طو رپر ایک طلب لے کر پیدا ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ انسان اپنے خالق (creator) کو دیکھے۔ حتٰی کہ پیغمبر بھی اس معاملے میں مستثنیٰ نہیں۔ مگر انسان کی آنکھ اپنے جیسی مخلوق کو دیکھ سکتی ہے، لیکن خالق کو براہ راست دیکھنا،اس کے لیے ممکن نہیں۔ خالق کو موجودہ دنیا میں براہ راست دیکھنے کے لیے انسان کو دوسرا خدا بننا پڑے گا، اور دوسرا خدا بننا کسی انسان کے لیےممکن نہیں۔ حتی کہ پیغمبر کے لیے بھی نہیں۔
اس سلسلے میں ایک روایت ان الفاظ میں آئی ہے:عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ:قُلْتُ لِعَائِشَةَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا: یَا أُمَّتَاہْ ہَلْ رَأَى مُحَمَّدٌ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَبَّہُ؟ فَقَالَتْ:لَقَدْ قَفَّ شَعَرِی مِمَّا قُلْتَ، أَیْنَ أَنْتَ مِنْ ثَلاَثٍ، مَنْ حَدَّثَکَہُنَّ فَقَدْ کَذَبَ ، مَنْ حَدَّثَکَ أَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَأَى رَبَّہُ فَقَدْ کَذَبَ، ثُمَّ قَرَأَتْ:لاَ تُدْرِکُہُ الأَبْصَارُ وَہُوَ یُدْرِکُ الأَبْصَارَ وَہُوَ اللَّطِیفُ الخَبِیرُ [6:103]، وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ أَنْ یُکَلِّمَہُ اللَّہُ إِلَّا وَحْیًا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ [42:51](صحیح البخاری، حدیث نمبر 4855)۔ یعنی مسروق (تابعی)کہتے ہیں کہ میں نے عائشہ سے کہا کہ اے ماں ، کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے۔عائشہ نےکہا: تم نے جو کہا اس سے میرے بال کھڑے ہوگئے۔ تین باتوں کے بارے میں تم کہاں ہو، جس نے تم سے یہ تین باتیں کہیں، اس نے جھوٹ کہا۔ (ان میں سے ایک یہ کہ ) جو تم سے یہ کہے کہ رسول اللہ نے اپنے رب کو دیکھا ہے ، اس نے جھوٹ کہا۔ پھر یہ آیت پڑھی: نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرتیں، مگر وہ نگاہوں کا ادراک کر تا ہے۔ وہ بڑا باریک بیں اور بڑا باخبر ہے۔ اس کے بعد یہ آیت پڑھی: اور کسی آدمی کی یہ طاقت نہیں کہ اللہ اس سے کلام کرے، مگر وحی کے ذریعہ سے یا پردے کے پیچھے سے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان اپنے خالق کو براہ راست طو رپر دیکھ نہیں سکتا۔ مگر انسان یقینی طور پر دیکھنے جیسے تجربہ کے ذریعہ خالق کے وجود پر تیقن حاصل کرسکتا ہے۔ اس کے لیے خالق نے ایک ماڈل پیدا کیا ہے۔ یہ ماڈل تیقن بغیر رویت (conviction without observation) کا ماڈل ہے۔ یہ ماڈل وہی ہے، جس کو ہم ماں (mother) کہتے ہیں۔ ہر انسان کامل تیقن کے ساتھ اپنی ماں کو ماں سمجھتا ہے، حالاں کہ کسی نے بھی یہ نہیں دیکھا کہ وہ اپنے ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر بچہ پیدا ہونے کے وقت بظاہر آنکھ لے کر پیدا ہوتا ہے، لیکن پیدا ئش کے وقت وہ اپنی آنکھ سے کسی چیز کو دیکھنے کے قابل نہیں ہوتا۔
ماں کا تجربہ ہر انسان کے لیے ایک معلوم ماڈل ہے۔ کوئی بھی انسان اس ماڈل سے بے خبر نہیں۔ اس ماڈل کی صورت میں ہر پیدا ہونے والاانسان، عورت ہو یا مرد، یہ جانتا ہے کہ فلاں عورت میری ماں ہے۔ یہ یقین ایک ایسے ماڈل کے ذریعہ ہوتا ہے، جو ہرمشاہدے سے بلند ہے۔ یہ ماڈل ہے یقین بغیر رویت (conviction without observation) کا ماڈل ۔ یہ ماڈل اتنا زیادہ یقینی ہے کہ کوئی شخص اپنی فطرت پر قائم رہتے ہوئے، اس سے انکار نہیں کرسکتا۔ اسی لیے حضرت عائشہ نے وہ بات کہی، جو مذکورہ روایت کی صورت میں حدیث کی کتابوں میںموجود ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ ماڈل اتنا زیادہ مبنی بر حق ماڈل ہے کہ ایک سچا مومن اس کو سنے تو اس کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں۔ اس ماڈل کے باوجود جو عورت یا مرد یہ مطالبہ کرے کہ خدا اگر ہے تو اس کو مجھے براہ راست دکھاؤ۔ یہ مطالبہ اتنا زیادہ بے بنیاد اوراتنا زیادہ غیر منطقی (illogical) ہے کہ اس کو سن کر ایک سچے انسان کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں۔اس کے بدن پر لرزہ طاری ہوجائے، وہ کھڑا ہے تو گر پڑے، وہ بول رہا ہے تو خاموش ہوجائے، اس کی زبان بولنے سے عاجز ہوجائے۔
واپس اوپر جائیں

عصری اسلوب، غیر عصری اسلوب

ایک صاحب نے یہ سوال کیا ہے کہ اسلام کا عصری اسلوب کیا ہے، اور غیر عصری اسلوب کیا ہے۔ اس کی وضاحت فرمائیں۔(حافظ سید اقبال احمد عمری، عمر آباد، تامل ناڈو)
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ عصری اسلوب کسی نئے اسلوب کا نام نہیں ہے۔ یہ درحقیقت قدیم مسئلے کو جدید الفاظ میں بیان کرنا ہے۔ یہ وہی چیز ہے، جس کو سابق مہتمم دار العلوم دیوبند، مولانا قاری محمد طیب صاحب (1897-1983ء) نے ان الفاظ میں بیان کیا تھا: مسائل قدیم ہوں، اور دلائل جدید ہوں۔ قاری محمد طیب صاحب کا یہ جواب بالکل صحیح جواب تھا۔ کیوں کہ ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ بیان کرنے کا اسلوب بدلتا ہے، جہاں تک اصل بات کا تعلق ہے، وہ بدستور اپنی اصل حالت پر باقی رہتی ہے۔
مثال کے طور پر گرہن (eclipse) کا واقعہ لیجیے۔ زمین پر سورج گرہن اس وقت لگتا ہے جب چاند دورانِ گردش زمین اور سورج کے درمیان آ جاتا ہے، جس کی وجہ سے سورج کا مکمل یا کچھ حصہ دکھائی دینا بند ہو جاتا ہے۔اسی طرح زمین کا وہ سایہ جو زمین کی گردش کے باعث کرہ زمین کے چاند اور سورج کے درمیان آ جانے سے چاند کی سطح پر پڑتا ہے اور چاند تاریک نظر آنے لگتا ہے۔ یہی چاند گرہن کہلاتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ زمین اور چاند تاریک کرے ہیں۔ اور یہ دونوں سورج سے روشنی حاصل کرتے ہیں۔ زمین سورج کے گرد اپنے مدار پر گھومتی ہے اور چاند زمین کے گرد اپنے مدار پر گھومتا ہے۔ یہ سال میں دو مرتبہ ایک دوسرے کے سامنے آ جاتے ہیں جس سے ایک کا سایہ دوسرے پر پڑتا ہے۔ چاند پر سایہ پڑتا ہے تو چاند گرہن اور سورج پر پڑتا ہے تو سورج گرہن کہلاتا ہے۔
رسول کے زمانے میں ایک بار گرہن کا واقعہ پیش آیا، اتفاق سے اسی دن رسول اللہ کے صاحبزادے ابراہیم کی وفات ہوئی تھی۔ اس وقت لوگوں نے قدیم ذہن کے تحت کہا کہ یہ گرہن پیغمبر کے بیٹے کی وفات کی وجہ سے لگا ہے۔ رسول اللہ کو معلوم ہوا تو آپ نے لوگوں کو مسجد میں اکٹھا کیا، اور کہا:إِنَّ الشَّمْسَ وَالقَمَرَ آیَتَانِ مِنْ آیَاتِ اللَّہِ، لاَ یَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلاَ لِحَیَاتِہِ، فَإِذَا رَأَیْتُمْ ذَلِکَ فَاذْکُرُوا اللَّہَ (صحیح البخاری،حدیث نمبر 5197)۔ یعنی سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، یہ دونوں گرہن زدہ نہیں ہوتے ہیں کسی کی موت یا زندگی پر۔ جب تم اس کو دیکھو تو اللہ (کی قدرت )کو یاد کرو۔
رسول اللہ نے جس بات کو آیت کی زبان میں بیان کیا تھا،اسی کو آج معنی خیز الائنمنٹ (alignment) کی زبان میں بیان کیا جائے گا۔یعنی گرہن کا واقعہ تین متحرک باڈی(سورج، زمین، چاند) کے ایک سیدھ میں آجانے کی بنا پر پیش آتا ہے۔ بیک وقت تین متحرک غیر مساوی کروں کا معنی خیز انداز میں ایک سیدھ میں آجانا، بلاشبہ خالقِ کائنات کا ایک انوکھا معجزہ ہے، اور اس اعتبار سے وہ ایک عظیم نشانی ہے۔
٭ ٭ ٭٭٭٭٭
موجودہ دنیا اِس ڈھنگ پر بنی ہے کہ یہاں ہمیشہ مسائل موجود رہتے ہیں۔ مسائل، زندگی کا ایک ایسا حصہ ہیں جن کوکسی بھی حال میں زندگی سے جُدا نہیںکیا جاسکتا۔ ایس حالت میں صحیح طریقہ یہ نہیں ہے کہ مسائل سے بے فائدہ طورپر لڑائی جاری رکھی جائے، بلکہ صحیح طریقہ یہ ہے کہ حُسنِ تدبیر سے مسائل کو مواقع میں تبدیل کردیا جائے۔ پیغمبر اسلام کی پوری زندگی حُسن تدبیر کی مثال ہے۔ اِس معاملے کی تفصیل جاننے کے لیے ملاحظہ ہو راقم الحروف کی کتاب— مطالعۂ سیرت:
The Prophet Muhammad: A Simple Guide to His Life
واپس اوپر جائیں

ما کان و ما یکون

ایک روایت الفاظ کے فرق کے ساتھ مختلف کتب حدیث میں آئی ہے۔ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں:صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللہِ الْفَجْرَ، وَصَعِدَ الْمِنْبَرَ فَخَطَبَنَا حَتَّى حَضَرَتِ الظُّہْرُ، فَنَزَلَ فَصَلَّى، ثُمَّ صَعِدَ الْمِنْبَرَ، فَخَطَبَنَا حَتَّى حَضَرَتِ الْعَصْرُ، ثُمَّ نَزَلَ فَصَلَّى، ثُمَّ صَعِدَ الْمِنْبَرَ، فَخَطَبَنَا حَتَّى غَرَبَتِ الشَّمْسُ، فَأَخْبَرَنَا بِمَا کَانَ وَبِمَا ہُوَ کَائِنٌ(صحیح مسلم، حدیث نمبر 2892)۔ یعنی رسول اللہ نے ہم کو فجر کی نماز پڑھائی، اور منبر پر چڑھے اور ہمیں خطبہ دیا۔ یہاں تک کہ ظہر کا وقت آگیا۔ آپ اترے۔ نماز پڑھی پھر منبر پر چڑھے، پھر ہم کو خطبہ دیا، یہاں تک کہ عصر کا وقت آگیا۔ پھر اترے، نماز پڑھی، پھر منبر پر چڑھے، اور ہم کو خطبہ دیا۔ یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا۔ (اس میں) آپ نے ہمیں ماکان و مایکون (جو ہو چکا ہے، اور جو کچھ ہونے والا ہے) کی خبر دی۔
یہ حدیث رسول پوری انسانی تاریخ یا کائنات کی پوری تاریخ کے بارے میں نہیں ہے۔ یہ دراصل امت مسلمہ کے لیے بطورِ نصیحت ہے۔ وہ اس لیے ہے کہ رسول اللہ کی وفات کے بعد امت مسلمہ میں جو حالات پیش آئیں گے، اس میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے۔ مزید یہ کہ یہ حالات دوسری روایتوں میںکتب حدیث کے مختلف ابواب میںمتفرق طور پر بیان ہوچکے ہیں۔ غالباً اس روایت کے مطابق ایسا ہوا کہ آپ نے ان واقعات کو ایک دن اجمالی طور پر بیان کردیا۔
پیغمبر اسلام نے امت کے بعد کے حالات کو کیوں اتنا زیادہ بیان کیا ۔ اس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ آپ کے بعد کوئی اورنبی آنے والا نہ تھا، جو پیغمبرانہ سطح پر حالات کے بارے میں بر وقت رہنمائی دے۔ اس لیے آپ نے ماکان و ما یکون کو اپنے اصحاب کے واسطے سے پوری امت کو پیشگی طور پر بتا دیا تاکہ امت متنبہ ہوجائے، اور ہر صورتِ حال میں غور وفکر کرکے اپنے لیے رہنمائی دریافت کرلے۔تاہم ان روایتوں میں کچھ باتیں تمثیلی اسلوب میں ہیں، اور کچھ باتیں غیر تمثیلی اسلوب میں۔ ان روایتوں کوسمجھنے کےلیے اس حقیقت کو جاننا بہت زیادہ ضروری ہے۔
واپس اوپر جائیں

مشرق سے مغرب کی طرف

آخری زمانے میں پیدا ہونے والے واقعے کا ذکر ایک حدیث آیا ہے، اس کا ترجمہ یہ ہے: ایک آگ مشرق سے نکلے گی، اور لوگوں کو جمع کرکے لے جائے گی مغرب کی طرف(مسند احمد، حدیث نمبر12057)۔یہ حدیث ایک بڑے واقعے کا حصہ ہے۔غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ شیطان کے اس چیلنج کا ایک حصہ ہے، جو اس نے آغازِ حیات میں کیا تھا۔ آیت کا ترجمہ یہ ہے: اس نے کہا، ذرا دیکھ، یہ شخص جس کو تو نے مجھ پر عزت دی ہے اگر تو مجھ کو قیامت کے دن تک مہلت دے تو میں تھوڑے لوگوں کے سوا اس کی تمام اولاد کو کھا جاؤں گا (17:62)۔
قرآن کی اس آیت کی روشنی میں انسانی تاریخ پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ شیطان نے انسان کو بہکانے کے لیے تاریخ میں دو بڑے فتنے کھڑے کیے ہیں۔ ایک وہ جس کا ذکر قرآن میں میں آیا ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے: میرے رب، انھوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا ہے (14:36)۔ قرآن کی اس آیت میں گمراہی کے پہلے دور کا ذکر ہے، جب کہ شیطان نے لوگوں کو نیچر ورشپ (nature-worship) کے فتنے میں ڈالا، یعنی لوگوں کو یہ یقین دلایا کہ نیچر میں خدائیت (divinity) ہے۔ دورِ اول میں رسول اور اصحاب رسول نے یہ کیا کہ ایک ایسا انقلاب برپا کیا جس نے نیچر اور ڈیونیٹی (nature and divinity) کو ایک دوسرے سے ڈی لنک کردیا۔ اس طرح نیچر ورشپ کا دور نظری طور پر ہمیشہ کے لیے دنیا سے ختم ہوگیا۔
اس ضمن میں دوسرا فتنہ یہ ہے کہ اللہ نے سائنس کو پیدا کیا دین کی معرفت کے طور پر۔ لیکن ابلیس نے سائنس کے دو پہلو کردیے۔ ایک، نظری سائنس (basic science) ، جس سے خدا کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میں دوسراہے اپلائڈ سائنس۔ تمام مادی فائدے اپلائڈ سائنس سے حاصل ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے سارے لوگ اپلائڈ سائنس کی طرف جارہے ہیں، اب بہت کم لوگ نظری سائنس کی طرف جاتے ہیں ۔ کیوں کہ اس میں مادی فائدہ نہیں۔
واپس اوپر جائیں

مذہبی انتہا پسندی

مذہبی انتہاپسندی (religious extremism) کیا ہے۔ مذہبی انتہاپسندی در اصل نتیجہ ہے شفٹ آف ایمفیسس (shift of emphasis) کا ۔ مذہب کی ایک اسپرٹ ہے۔ مثلاً نماز کی اسپرٹ خشوع ہے۔ خشوع پر خواہ جتنا زیادہ زور دیا جائے، اس سے مسائل نہیں پیدا ہوں  گے۔اسی کے ساتھ مذہب کا ایک فارم ہے۔مثلاً رفع یدین اور ترک رفع یدین، یہ مسئلہ فارم کا مسئلہ ہے۔ اس پر اگر زور دیا جائے تو لوگوں میں شدید اختلاف پیدا ہوجائے گا۔یعنی مذہب کی اسپرٹ پر اگر زور دیا جائے تو اس سے کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ لیکن اگر مذہب کے فارم پر زور دیا جانے لگے تو اس سے مذہبی انتہا پسندی پیدا ہوگی، جو بڑھ کر تشدد کی صورت اختیار کر لے گی۔
اسلام کی تاریخ میں اس کی مثال یہ ہے کہ فقہ میں عبادت کے فارم پر زور دیا گیا تو اس سے مختلف فقہی مسالک بن گیے۔ جو بڑھتے بڑھتے متشددانہ فرقوں میں تقسیم ہو گئے۔ دوسر ی مثال ، اس کے مقابلے میں یہ ہے کہ صوفیا نے عبادت کی اسپرٹ پر زور دیا ۔ مگر تصوف کے حلقوں میں انتہا پسندی نہیں آئی۔ حالاں کہ یہاں بھی تصوف کے مختلف حلقے اور گروہ موجود تھے۔
قرآن کو آپ پڑھیں تو قرآن میں سارا زور اسپرٹ پر دکھائی دے گا، فارم پر نہیں۔ بلکہ قرآن میں فارم کا ذکر اتنا کم ہے ، گویا کہ نہیں ہے۔ اس لیے قرآن کی بنیاد پر فرقے نہ بن سکے، جب کہ فقہ کی بنیاد پر کثرت سے فرقے بن گیے۔
اس مذہبی انتہاپسندی کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ عقیدہ کے معاملہ میں تکفیر اور تفسیق کا طریقہ رائج ہو جائے۔ ایک عقیدہ والے کو کافر بتایا جائے، اور دوسرے عقیدہ والے کو مسلم کہا جائے۔ یہ بھی شفٹ آف ایمفیسس (shift of emphasis)کی ایک صورت ہے۔ چنانچہ جن لوگوں نے ایسا کیا، انھوں نے مسلم ملت میں کوئی تعمیری اضافہ تو نہیں کیا۔ البتہ ایک گروہ کو کافر بتانا اور دوسرے گروہ کو مشرک بتانے کے طریقہ نے ملت واحدہ کو امت متفرقہ بنا دیا۔
مذہب کے دائرہ میں اختلافات اسی طرح پیدا ہوتے ہیں، جس طرح زندگی کے دوسرے دائروں میں۔ لیکن صحیح یہ ہے کہ اختلاف کو ڈسکشن اور ڈائیلاگ کا موضوع بنایا جائے، نہ کہ ردّو قبول کا موضوع۔ اختلاف کے معاملے میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ اس کو آزادیٔ رائے (freedom of expression) کا ظاہرہ سمجھا جائے، نہ کہ حق و باطل کا ظاہرہ۔
حقیقت یہ ہے مذہب کا ایک فارم ہے اور ایک اس کی اسپرٹ ہے۔ جب مذہب کے فارم پر زور دیا جائے تو اس سے مذہبی انتہا پسندی(religious extremism) پیدا ہوتی ہے۔ اب کچھ لوگ ایک فارم پر زور دیتے ہیں، اور کچھ لوگ دوسرے فارم پر۔ اسی سے مذہبی انتہا پسندی پیدا ہوتی ہے، جو بڑھ کر تشدد تک پہنچ جاتی ہے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ مذہب میں سارا زور اسپرٹ پر دیا جائے۔ اسپرٹ اصل ہو، اور فارم کی حیثیت اضافی ہو۔ جب ایسا ہو تو مذہب میں رواداری (tolerance) آئے گی۔ لوگ فارم کےاختلاف کے بارے میں توسع پسند بن جائیں گے۔ ان کا ذہن یہ ہوگا کہ یہ بھی ٹھیک ہے، وہ بھی ٹھیک ہے۔ مثلاً نماز میں آمین بالسر بھی ٹھیک ہے، اور آمین بالجہر بھی ٹھیک ہے۔ اس توسع پسندی سے لوگوں میں روادار ی آئے گی، اور انتہاپسندانہ مزاج کا خاتمہ ہوگا۔
پہلے زمانے میں مذہبی انتہا پسندی کا مزاج زیادہ تر فقہی مسائل کے بارے میں ہوتا تھا۔ موجودہ زمانے میں یہ مسئلہ سیاست تک پھیل گیا ہے۔ سیاست میں اگر یہ مزاج ہو کہ ایک سیاسی ڈھانچہ بھی ٹھیک ہے، اور دوسرا سیاسی ڈھانچہ بھی ٹھیک ہے۔ مثلاًسیاسی نظام میں انتخابی ڈھانچہ بھی درست ہے، اور غیر انتخابی ڈھانچہ بھی درست۔ تو لوگوں کے اندر سیاسی رواداری پیدا ہوگی۔ اور اگر لوگوں کے اندر یہ مزاج بنادیا جائے کہ ایک سیاسی ڈھانچہ صحیح ہے، اور دوسرا سیاسی ڈھانچہ غلط ۔ اس کے نتیجے میں سیاسی عدم رواداری پیدا ہوگی، جو آخر کار تشدد تک پہنچ جائے گی۔
*************
یہ فطرت کا قانون ہے کہ منفی عمل سے کبھی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوسکتا۔
واپس اوپر جائیں

ظالم اور مظلوم کا معاملہ

قرآن کی ایک آیت میں مظلوم کا معاملہ بیان کیا گیا ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں:لَا یُحِبُّ اللَّہُ الْجَہْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَنْ ظُلِمَ وَکَانَ اللَّہُ سَمِیعًا عَلِیمًا (4:148)۔ یعنی اللہ پسند نہیں کرتا ظاہر کرنا بری بات، مگر جس پر ظلم ہوا ہو ، اور اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔قرآن کی اس آیت کے مطابق مظلوم کے لیے جائز ہے کہ وہ ظالم کے خلاف بولے۔ مگر یہ جواز رخصت کے درجے میں ہے، عزیمت کے درجے میں نہیں۔ اگر کوئی شخص ظلم پر بدلہ لینا چاہے تو اس کے لیے لازم ہوگا کہ وہ ٹھیک اتنا ہی بدلہ لے جتنا کہ اس پر ظلم کیا گیا ہے۔اگر وہ ظلم سے زیادہ کرے گا تو خدا کی نظر میں وہ خود ظالم بن جائے گا۔
اسی لیے رسول اور اصحابِ رسول نے کبھی ظلم پر بدلہ نہیں لیا، بلکہ ان کا رویہ قرآن کے اس حکم کے تحت تھا : وَإِذَا مَا غَضِبُوا ہُمْ یَغْفِرُونَ (42:37)۔ یعنی اور جب ان کو غصہ آتا ہے تو وہ معاف کردیتے ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ ایمان کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ آدمی ظالم کو معاف کردے۔یہی اعلیٰ اخلاق ہے۔ اعلیٰ اخلاق کا فائدہ یہ ہے کہ آدمی ظالم کو معاف کرکے اس کو اپنے لیے نیکی میں کنورٹ کردیتا ہے۔ اعلیٰ اخلاق کی نسبت سے دیکھا جائے تو مظلومیت نیکی کمانے کا ایک موقع ہے۔ ظلم کے باوجود ظالم کو معاف کردینا، بلاشبہ ایک عظیم نیکی ہے۔
دعوت اور داعی کی نسبت سے دیکھا جائے تو یہ اورزیادہ اہم بات ہے۔ داعی اگر ظالم کو معاف کردے تو اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ مظلوم اور ظالم کے درمیان معتدل ماحول قائم ہوجاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پہلے اگر دونوں کے درمیان ظالم اور مظلوم کا تعلق تھا، تو اب دونوں کے درمیان داعی اور مدعو کا تعلق قائم ہوجاتا ہے۔ ظالم کو معاف کرنا، عملاً دعوت کے مواقع کھول دیتا ہے۔ظلم پر فریاد کرنا صرف ایک رخصت کا معاملہ ہے۔ جب کہ ظلم کو معاف کردینا، داعی کا اخلاق ہے، یعنی با اصول انسان کا اخلاق۔
واپس اوپر جائیں

باقی ماندہ پر پلاننگ

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ انسان کو ہمیشہ کوئی نہ کوئی نقصان (loss) پیش آتا ہے۔اسی میں سے ایک ہے مال و جائداد کا نقصان (البقرۃ ، 2:155)۔عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ اس طرح کی صورت حال پیش آنے پر لوگ صرف ایک ہی بات جانتے ہیں، اور وہ ہے کھوئے ہوئے کو دوبارہ حاصل کرنا۔ اس طریقے کو اختیار کرنے میں یہ ہوتا ہے کہ آدمی کو اپنے عمل کا آغاز ہمیشہ ٹکراؤ (confrontation) سے کرنا پڑتا ہے۔ یعنی قابض سے لڑکر کھوئے ہوئے کو دوبارہ حاصل کرنا، اور پھر اپنی تعمیر کا کام کرنا۔ اس طریقۂ کار کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی کے وقت اور توانائی کا ایک بڑا حصہ منفی سرگرمیوں میں گزرجاتا ہے، اور مثبت تعمیر کے لیے اس کے پاس کم وقت بچتا ہے۔
اس مسئلے کا حل کیا ہے۔ اس مسئلے کا حل اسلام میں یہ بتایا گیا ہے کہ باقی ماندہ حصہ پر پلاننگ (planning on the basis of the remaining part) کا طریقہ اختیار کیا جائے۔ یہ مسئلہ اللہ کی نظر میں اتنا زیادہ اہم ہے کہ اس کو ایک ابدی اصول کی صورت میں مکہ میں کعبہ کی تاریخ کے ساتھ قائم کردیا گیا۔ قرآن میں حج کا حکم دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ لوگ حج کے لیے مکہ آئیں، اور یہاں اپنے نفع کا مشاہدہ کریں۔ قرآن میں حج کا حکم دیتے ہوئے یہ بیان آیا ہے: وَأَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَأْتُوکَ رِجَالًا وَعَلَى کُلِّ ضَامِرٍ یَأْتِینَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیق۔ لِیَشْہَدُوا مَنَافِعَ لَہُمْ (22:27-28)۔ یعنی اور لوگوں میں حج کا اعلان کردو، وہ تمہارے پاس آئیں گے۔ پیروں پر چل کر اور دبلے اونٹوں پر سوار ہو کر جو کہ دور دراز راستوں سے آئیں گے۔ تاکہ وہ ان فوائد کو دیکھیں۔
قرآن کی اس آیت کو جب کعبہ کی تاریخ کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جائے، تومعلوم ہوتا ہے کہ یہ منافع (benefits) کیا ہیں، جن کا مشاہدہ حاجی کو مکہ میں کرنا ہے۔جیسا کہ معلوم ہے کعبہ کو عالمی عبادت کے مرکز کے طور پر پیغمبر ابراہیم نے چار ہزار سال پہلے مکہ میں بنایا تھا۔ بعد کو جب رسول اللہ کی عمر 35 سال تھی، اس وقت قدرتی آفات اور حادثات کی وجہ سے کعبہ کی عمارت بہت بوسیدہ ہوچکی تھی۔ اس وقت قریشِ مکہ نے کعبہ کو دوبارہ تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا۔لیکن جب قریش نے کعبہ کی تعمیر کا کام کیا تو انھوں نے کعبہ کی ابراہیمی عمارت میں سے دو تہائی حصے پر ہی کعبہ کی عمارت بنائی، اوربقیہ ایک تہائی (1/3) حصہ خالی چھوڑ دیا ۔ اسی خالی حصے کو حطیم کہا جاتا ہے۔موجودہ کعبہ کی عمارت قریش ِمکہ کےتعمیر کے مطابق ہے۔
پیغمبر اسلام کو 8 ہجری میں مکہ پر فتح حاصل ہوئی، تو آپ نے کعبہ کی اس تعمیر کو بدستور باقی رکھا، جو قریش ِ مکہ نے کی تھی( صحیح البخاری، حدیث نمبر 1584؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر 1333)۔اب ساری دنیا کے حاجی جس کعبہ کا طوا ف کرتے ہیں، وہ پیغمبر ابراہیم اور پیغمبر اسماعیل کا تعمیر کردہ ابتدائی کعبہ نہیں ہے، بلکہ اصل کعبہ کا باقی ماندہ پارٹ ہے، جس کو قریشِ مکہ نے حالتِ شرک میں تعمیر کیا تھا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پورے مشن میں اسی اصول کی پیروی کی۔ پیغمبر اسلام کو جب مکہ سے ہجرت کرنا پڑا ، اور مدینہ کو آپ نے اپنا مرکز بنایا تو یہ گویا ارض مقدس کے باقی ماندہ حصہ (remaining part) کی بنیاد پر اپنے مشن کو جاری رکھنا تھا۔ یہ طریقہ نتیجہ کے اعتبار سے نہایت کامیاب رہا۔پیغمبر اسلام کو جب حالات کے تحت مکہ کو چھوڑ کرمدینہ جانا پڑا، اس وقت آپ نے شکایت کی کوئی بات نہیں کہی، بلکہ آپ نے برعکس طور پر یہ کہا: أُمِرْتُ بِقَرْیَةٍ تَأْکُلُ القُرَى، یَقُولُونَ یَثْرِبُ، وَہِیَ المَدِینَةُ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 1871)۔ یعنی مجھے ایک بستی کا حکم دیا گیا، جو بستیوں کو کھا جائے گی، لوگ اس کو یثرب کہتے ہیں، اور وہ مدینہ ہے۔
اس حدیث میں مدینہ کا حوالہ شہرِ مدینہ کی فضیلت کے طور پر نہیں ہے، بلکہ وہ باقی ماندہ پر پلاننگ کی اہمیت کے طور پر ہے۔ یعنی مکہ سے ہجرت کے بعد جو کچھ ملے گا، وہی ساری دنیا میں خدائی مشن کے پھیلنے کا ذریعے بنے گا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ بتاتی ہے کہ مدینہ آکر یہاں کے آزادانہ ماحول میں آپ نے اپنے مشن کی ری پلاننگ (replanning) کی۔ یعنی باقی ماندہ حصہ (remaining part) کی بنیاد پر پلاننگ ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ یہ طریقہ نہایت کامیاب رہا۔
باقی ماندہ پر پلاننگ (planning on the remaining part) کے اصول کی یہ ایک مذہبی مثال تھی۔ اگر گہرائی کے ساتھ دیکھا جائے تو سیکولر تاریخ میں فطرت کے اس اصول کی مثالیں موجود ہیں۔ حالیہ تاریخ میں اس کی ایک کامیاب مثال جرمنی کی ہے۔
جیسا کہ معلوم ہے، دوسری عالمی جنگ (1939-1945) ہوئی تو جرمنی اس جنگ کا سب سے زیادہ سرگرم ممبر تھا۔ مگر جنگ ختم ہوئی تو جرمنی ایک شکست خوردہ ملک تھا۔ حتی کے جرمنی نے اپنے ملک کا ایک تہائی حصہ کھودیا تھا، جو اب ایسٹ جرمنی کے نام پر اس کے دشمنوں کے قبضے میں جاچکا تھا۔ مگرجنگ کے بعد جرمنی نے ایسا نہیں کیا کہ جرمنی کے کھوئے ہوئے حصہ کو پانے کے لیے نفرت اور تشدد کا ایک نیا سلسلہ شروع کردے۔ اس کے برعکس، یہ ہوا کہ جرمنی نے اپنے باقی ماندہ حصہ (remaining part of Germany) کو اپنی توجہ کا مرکز بنالیا۔ اس نے پوری یکسوئی کے ساتھ ویسٹ جرمنی کی تعمیر نو شروع کردی۔ یہاں تک کہ بہت جلد یہ انقلابی واقعہ پیش آیا کہ جرمنی ایک نئی صنعتی طاقت بن کر ابھرا۔ یہاں تک کہ یوروپ کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک بن گیا۔
موجودہ زمانے کے مسلم رہنما تقریباً سب کے سب شکایت اور احتجاج کی بولی بولنے میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ یہ اعلان کررہے ہیں کہ وہ دوسری قوموں کے ظلم کا شکار ہیں۔ ان کے خلاف سازشیں کی جارہی ہیں، اور اس بنا پر وہ آج کی دنیا میں اپنا جائز مقام پانے سے محروم ہوگئے ہیں۔ مظلومیت پر فریاد کا یہ ذہن اتنا عام ہے کہ شاید پوری مسلم دنیا میں اس میں کوئی استثنا نہیں ہے۔ مگر اصل واقعہ اس کے برعکس ہے ۔ موجودہ زمانے کے مسلمانوں نے نہ کعبہ کے پیغام کو اپنایا، اور نہ قوموں کی سیکولر تاریخ سے سبق سیکھا۔
مسلمان موجودہ زمانے میں جس محرومی کی شکایت کررہے ہیں، اس کا سبب صرف ایک ہے، اور وہ ہے خود اپنی غفلت کی قیمت ادا کرنا۔ یعنی مسلمانوں نے یہ نہیں کیا کہ وہ حاصل شدہ حصہ کو لے کر اپنی قومی تعمیر کی پلاننگ کریں۔ بلکہ جو کچھ ان کے ہاتھ سے نکل چکا ہے، ان کو لے کر وہ پلاننگ کررہے ہیں۔موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ پیش آرہا ہے، وہ صرف اسی غلطی کا نتیجہ ہے۔ وہ ہرگز کسی کی دشمنی یا سازش کا نتیجہ نہیں۔
واپس اوپر جائیں

دو قسم کے مسئلے

اجتماعی زندگی میں جو مسئلے پیش آتے ہیں، وہ عام طور پر دو قسم کے ہوتے ہیں— مبنی بر غصہ، مبنی بر انٹرسٹ۔ ایک قسم کامسئلہ وہ ہے، جو اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ آپس کے تعلقات میں کبھی کوئی بات ایک شخص کو بری لگتی ہے، اور وہ افنڈ (offend) ہوجاتا ہے۔ ایسا غصہ ہمیشہ وقتی ہوتا ہے۔ آپ صرف یہ کیجیے کہ اعراض (avoidance)کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے وقت گزرنے دیجیے۔ وقت کے گزرنے پر وہ اپنے آپ ختم ہوجائے گا۔ وہ ایسا ہوجائے گا، جیسے کہ وہ تھا ہی نہیں۔ ایسے مسئلے کے لیے صرف یہ کافی ہے کہ آدمی وقتی طور پر چپ ہوجائے۔ جو مسئلہ صرف چپ ہوجانے سے ختم ہوجانے والا ہو، اس میں الجھ کر انسان کیوں اس کو سنجیدہ انداز میں لے، اور اس کو لمبا بنائے۔
دوسرا مسئلہ وہ ہے جو مبنی بر انٹرسٹ ہوتا ہے۔ یعنی ایک آدمی آپ سے اس لیے غصہ ہوتا ہے کہ آپ اس کو وہ چیز نہیں دے رہے ہیں، جو چیز وہ چاہتا ہے کہ اس کو ملے۔ ایسا غصہ بہت دیر پا ہوتا ہے۔ وہ صرف اس وقت ختم ہوتا ہے، جب کہ فریقِ ثانی کو ا س کی مطلوب چیز مل جائے۔ اس طرح کے مسئلے میں دانش مندی کی بات یہ ہے کہ آدمی اصولی طور پر پریکٹکل وزڈم (practical wisdom)کا طریقہ اختیار کرے۔یعنی وہ فوراً یک طرفہ (unilateral)بنیاد پر معاملے کو ختم کردے۔ وہ اس کو اپنے حق(right) کامسئلہ نہ سمجھے۔ بلکہ اس معاملے میں غیر ضروری ٹکراؤ سے بچ کر اپنے آپ کو مزید نقصان سے بچالے۔
ایسے معاملے میں دیکھنے کی چیز صرف یہ ہوتی ہے کہ کیا قابل عمل ہے، اور کیا قابل عمل نہیں۔ جو قابل عمل ہو، اس کو اختیار کیجیے، خواہ بظاہر وہ آپ کے موافق ہو یا آپ کے خلاف۔ ایسے معاملے میں صرف یہ دیکھنا چاہیے کہ نتیجہ کے اعتبار سے کیا طریقہ ممکن ہے، اور کیا طریقہ ممکن نہیں۔ ایسے معاملے میں آپ صرف یہ کیجیے کہ ممکن کو اپنا لیجیے، اور جو عملاً ناممکن ہے، اس کو چھوڑ دیجیے۔ کیوں کہ ناممکن پر اصرار کرنے سے صرف نزاع میں اضافہ ہوتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

صحیح طرزِ فکر

صحیح طرز فکر (right thinking) حکیمانہ طرز فکر کی ایک اعلیٰ قسم ہے۔ اصل یہ ہے کہ ہم جس دنیا میں جیتے ہیں، یا صبح و شام گزارتے ہیں، اس میں چیزیں الگ الگ نہیں ہیں، بلکہ مخلوط (mixed) حالت میں ہیں۔ اس بنا پر بظاہر چیزوں کے بارے میں صحیح رائے قائم کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ چیزوں کے بارے میں صحیح رائے اس وقت قائم ہوتی ہے، جب کہ آپ چیزوں کو الگ الگ کرکے دیکھ سکیں۔ اس تجزیاتی مطالعے کے بغیر آدمی کے اندر صحتِ فکر پیدا نہیں ہوسکتی، وہ مبنی بر واقعہ سوچ کا حامل نہیں بن سکتا۔
مثلاً ایک شخص اپنے بارے میں یا اپنی کمیونٹی کے بارے میں یہی کہے گا کہ ہمارے اوپر ظلم ہورہا ہے۔ اگر اس سے یہ کہا جائے کہ تمھارے باپ دادا کا جو اسٹینڈرڈ تھا، کیا تمھارا اسٹینڈرڈ اس سے کم ہے۔ وہ جواب دے گا کہ نہیں اس سے تو بہت اچھا ہے۔ مثلاً میرے باپ دادا بائیسکل پر سفر کرتے تھے، آج میں کار پر سفر کرتا ہوں۔ میرے دادا کے زمانے میں بچے معمولی مدرسے میں پڑھتے تھے، آج وہ شہر کے ایک اچھے انگریزی اسکول میں پڑھ رہے ہیں۔ میرے دادا کچے گھر میں رہتے تھے، آج میں اور میرے بچے پکے گھر میں رہ رہے ہیں، وغیرہ۔ اب اگر آپ اس سے پوچھیں کہ جب تمھاری فیملی کا اسٹینڈرڈ پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ بہتر ہے، تو ظلم کہاں ہورہا ہے۔ اب وہ حیران ہوجائے گا، اور کہے گاکہ میں نے اس اعتبار سے کبھی نہیں سوچا۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اصل مسئلہ کہاں ہے۔ اصل مسئلہ خارج میں نہیں ہے، بلکہ داخل میں ہے۔ لوگوں کے اندر صحیح طرز فکر نہیں ہے۔ اس لیے لوگ شکایت میں جی رہے ہیں، حالاں کہ انھیں شکر میں جینا چاہیے۔ صحیح طرزِ فکر تجزیاتی فکر کا نام ہے۔ اگر آپ کے اندر ڈی ٹیچڈ تھنکنگ (detached thinking)ہو، اگر آپ تجزیاتی انداز میں سوچنا جانتے ہوں، تو آپ درست طرزِ فکرکے حامل بن سکتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

سلیقہ ٔ حیات

مسلم رہنماؤں کی شاید سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ انھوں نے امت کو حرام و حلال کا مسئلہ تو بتایا، لیکن یہ بتانے میں ناکام ہوگئے کہ جینے کا سلیقہ کیا ہے۔ جس طریقہ کو سیکولرزم کہہ کر مسلمان اس سے نفرت کرتے ہیں، وہ کوئی حرام و حلال کی چیز نہیں ہے، بلکہ یہ ہے کہ لوگوں کو جینے کا پرامن سلیقہ بتایا جائے۔ زندگی میں یہی کافی نہیں ہے کہ آپ حرام و حلال کو جانیں، بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ آپ جینے کا سلیقہ جانیں۔
مثلاً ایک شخص آپ کے رسول کے خلاف کوئی ایسی بات کہے، جو آپ کو پسند نہ ہو تو آپ یہ مت کہیے کہ وہ شاتم ہے، بلکہ یہ کہیے کہ اس کی رائے میری رائے سے مختلف ہے۔ کوئی شخص آپ کی رائے سے الگ اپنی رائے بنائے تو آپ اس کے قتل کا فتویٰ مت دیجیے، بلکہ اس کو صرف اختلاف رائے کے درجے میں رکھیے، اور اس کو پرامن انداز میں سمجھانے کی کوشش کیجیے۔
یہ عجیب بات ہے کہ یہ غلطی ان لوگوں نے کی جو امت میں ٹرینڈ سیٹر (trendsetter)کی حیثیت رکھتے تھے۔ مثلاً ایک بڑے عالم نے ایک کتاب لکھی۔ اس کا ٹائٹل یہ مقرر کیا: الصارم المسلول علی شاتم الرسول۔ اس کتاب نے امت کو یہ اصول دیا کہ جہاں تم دیکھو کہ کوئی شخص تمھارے رسول کے خلاف شتم کر رہا ہے تو اس کے خلاف تلوار لے کر کھڑے ہوجاؤ۔ یہ اصول بلاشبہ اسلام کے دعوتی تصور کے خلاف ہے۔
دعوت وتبلیغ کے اصول کا یہ تقاضا ہےکہ اگر کوئی شخص آپ کو ایسا ملے جو آپ کے پیغمبر کے خلاف کلام کررہا ہو تو آپ اس سے مل کر اس کے نقطۂ نظر کو معلوم کریں۔ اس کو دلیل سے اپنی بات سمجھائیں۔ اس کی سوچ کو درست کرنے کی کوشش کریں، نہ کہ اس کی گردن کو اس کے جسم سے جدا کردیں۔ پر امن طریقہ (peaceful method) درست طریقۂ حیات ہے۔ اس کے برعکس، زور و جبر اور نفرت کا طریقہ سلیقہ مندی کے خلاف ہے۔
واپس اوپر جائیں

ہر انسان کا معاملہ

ہر انسان پر وہ وقت آنے والا ہے، جب کہ وہ موجودہ دنیا میں نہ رہے۔ ہر آدمی پر وہ وقت آئے گا، جب کہ وہ اپنے آپ کو ایسے حال میں پائے، جہاں ایک طرف اس کی ماضی کی یادیں ہوں، جو اس کا ساتھ چھوڑ کر چلی گئیں، اور دوسری طرف آگے کی وہ دنیا ہو، جو اس کے سامنے انفولڈ (unfold) ہورہی ہو۔ آج انسان ماضی اور حال کے درمیان جی رہا ہے۔ پھر وہ وقت آنے والا ہے، جب کہ ماضی اور حال دونوں اس کا ساتھ چھوڑ دیں گے۔ وہ ایک بھولی ہوئی کہانی بن کر رہ جائے گا۔ اردو کے ایک شاعر تھے میر تقی میر(1723-1810) ،انھوں نے ایک شعر کہا تھا:
صبحِ پیری شام ہونے آئی میر تو نہ چیتایاں بہت دن کم رہا
یہ شعر انھوں نے اپنے بارے میں کہا تھا، جب کہ وہ عمر کا بڑا حصہ گزار کر اپنے آخری دور میں پہنچ چکے تھے۔ تمثیل کی زبان میں ہر آدمی کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ پیدا ہوکر وہ بڑھاپے کی عمر کو پہنچا، اور پھر اس پر موت کا فیصلہ آیا، اور وہ اپنی زندگی کے دورِ اول کو چھوڑ کر اپنی زندگی کے دوسرے دور میں پہنچ گیا۔
زندگی کا یہ سفر کیا ہے۔ انسان کہاں سے آتا ہے، اور وہ کہاں چلا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان ایک آغاز اور ایک انجام کے درمیان ہے۔ لیکن کوئی نہیں جانتا کہ یہ آغاز کیا ہے، اور اس کا انجام کیا ہوگا۔ہر انسان کا پہلا کام یہ ہے کہ وہ زندگی کے اِس سفر کے بارے میں سوچے۔ وہ زندگی کی کہانی پڑھ کر اس کی حقیقت کو دریافت کرے۔ وہ جانے کہ زندگی کے سفر میں آج وہ کہاں کھڑا ہوا ہے، اور کل اپنے آپ کو وہ کس مقام پر پائے گا۔
اس دریافت کے بعد ہر آدمی کے لیے دوسرا کام یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کی نتیجہ خیز پلاننگ کرے۔ وہ اپنے آج کو اپنے کل کے لیے استعمال کرے۔ آدمی اپنی زندگی کا ایسا منصوبہ بنائے کہ اس کا حال اس کے مستقبل کے لیے مفید ثابت ہو۔
واپس اوپر جائیں

منصوبہ بند کام

انجینیرٔ س انڈیا لیمیٹیڈ (Engineers India Limited) ایک پبلک سیکٹر کمپنی ہے۔ اس کا قیام 1965 میں عمل میں آیا۔ یہ ایک انٹرنیشنل ادارہ ہے، اس کا ہیڈ آفس دہلی میں ہے۔ یہ ادارہ عالمی سطح پر پٹرولیم مصنوعات وغیرہ کے میدان میں انجینیرٔ نگ اور ٹکنیکل سروس مہیا کرتا ہے۔ غالباً 1970 ء کی بات ہے، میری ملاقات اس ادارے کے ایک سینئر افسر سے ہوئی۔ وہ گرین پارک (نئی دہلی) میں رہتے تھے۔ بات چیت کے دوران میں نے کہا کہ ترقی کے لیے سب سے زیادہ اہم چیز ہارڈ ورک (hard work) ہے۔ انھوں نے جواب دیا:نہیں، یہ پرانے زمانے کا تصور (concept) ہے۔ آج کے زمانے میں ترقی کے لیے سب سے زیادہ اہم چیز پلاننگ ہے۔ اب ترقی کا راز منصوبہ بندی ہے، نہ کہ صرف ہارڈ ورک۔
یہ نہایت درست بات ہے۔ پہلے زندگی سادہ تھی۔ کام کا دائرہ محدود ہوتا تھا۔ آدمی اپنے قریبی دائرے میں محنت کرکے کمائی کرسکتا تھا۔ مگر آج زندگی کا دائرہ بہت وسیع ہوچکا ہے۔ آج کی سوسائٹی ایک کامپلکس سوسائٹی ہے۔ آج انسان کو مسابقت میں جینا پڑتا ہے۔ آج بہت سے نئے تقاضے وجود میں آئے ہیں، جن کو پورا کیے بغیر کوئی شخص بڑی کامیابی حاصل نہیں کرسکتا۔
مثلاً انڈیا کو لیجیے۔ انڈیا کو 1947 میں آزادی ملی۔ اس کے بعد عام تصور کے مطابق، مسلمانوں کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ ایسے ماحول میں مسلمانوں کے جو رہنما اٹھے، وہ سب کے سب ری ایکشن کی بولی بولنے لگے۔ ہر ایک یہ کہنے لگا کہ مسلمانوں پر ظلم ہورہا ہے، مسلمان امتیاز (discrimination) کا شکار ہورہے ہیں، مسلمان ایک مظلوم کمیونٹی کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔ اس سوچ کے ساتھ آزادی کے بعد پچاس برس تک بہت کام کیا گیا۔ مگر سب کا سب بے فائدہ رہا۔ بظاہر’’ہارڈ ورک‘‘ کے باوجود مسلمانوںکو کوئی فائدہ نہ مل سکا۔
اس کا سبب یہ ہے کہ مسلم رہنما ؤں نے بظاہر ہارڈ ورک تو بہت کیا، لیکن ان کے ہارڈ ورک میں منصوبہ بندی شامل نہ تھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان صرف قربانیاں دیتے رہے، لیکن ان کے حصے میں کچھ نہ آیا۔ ا س کا راز یہ ہے کہ مسلم رہنماؤں نے مسلمانوں کو منصوبہ بندی کا طریقہ نہیں بتایا۔ منصوبہ بند کام کا طریقہ یہ تھا کہ مسلم رہنما حالات کا گہرا مطالعہ کرتے۔ وہ یہ دریافت کرتے کہ انڈیا میں قانون فطرت کے مطابق، مسائل (problems)کے ساتھ کیا کیا مواقع پائے جاتے ہیں۔ فطرت کے اس قانون کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا (94:6)۔ یعنی بیشک مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔
مثال کے طور پر انڈیا میں مسلمانوں کے لیے بظاہر کچھ مشکلات تھیں، لیکن اسی کے ساتھ انڈیا میں کچھ ایسے میدان تھے، جو پوری طرح مسلمانوں کے لیے کھلے ہوئے تھے۔جیسے ایجوکیشن کا میدان۔ یہ میدان مسلمانوں کے لیے اسی طرح مکمل طور پر کھلا ہوا تھا، جس طرح دوسرے گروہوں کے لیے۔ مگر مسلم رہنماؤں نے انتہائی بے خبری کے ساتھ یہ کیا کہ وہ ریزرویشن کا جھنڈا لے کر کھڑے ہوگئے۔ ان کا نعرہ یہ تھا کہ مسلمانوں کو ریزرویشن دو، کیوں کہ مسلمان اس ملک میں ریزرویشن کے بغیر ترقی نہیں کرسکتے۔ یہ نعرہ فطرت کے قانون کے خلاف تھا۔ کیوں کہ اس دنیا میں کوئی گروہ فیور (favour) کے ذریعے ترقی نہیں کرسکتا۔ وہ صرف کامپٹیشن میں اپنے آپ کو اہل ثابت کرکے کامیاب ہوسکتا ہے۔
دنیا کے بنانے والے نے اس دنیا کو چیلنج (challenge) کے اصول پر بنایا ہے۔ اس کے سوا ہر دوسرا اصول انسان کا خود ساختہ اصول ہوگا، جو کبھی عمل میں آنے والا نہیں۔ مسلمانوں کے لکھنے اور بولنے والے طبقے کو صرف یہ کرنا تھا کہ وہ مسلمانوں کو چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کرے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ منصوبہ بند طریقے سے اپنے آپ کو اتنا زیادہ تیار کریں کہ وہ ہر چیلنج کا مقابلہ مثبت انداز میں کرسکیں۔ یہ طریقِ کار اس وقت کامیاب ہوسکتا ہے، جب کہ مسلمان ری ایکشن اور شکایت کا طریقہ مکمل طو رپر چھوڑ دیں۔وہ اپنی حالت کی ذمے داری خود قبول کریں، نہ کہ اس کو دوسرے کے اوپر ڈالیں۔
واپس اوپر جائیں

چپ کا راز

ایک بار ایک سفر کے دوران میں کسی ایر پورٹ پر تھا۔ وہاں ایک جاپانی مسافر سے ملاقات ہوئی، وہ ایک نوجوان تھا، اور کسی یونیورسٹی میں ریسرچ کر رہا تھا۔ گفتگو کے دوران اس نے کہا کہ میرے ریسرچ کا موضوع خاموشی (silence) ہے۔ پھر اس نے کہا کہ کیا آپ اسلام سے خاموشی کے موضوع پر کوئی ریفرینس بتا سکتے ہیں۔میں نے کہا ، ہاں۔ میں نے کہا کہ اس موضوع پر میں پیغمبر اسلام کا ایک قول آپ کو سناتا ہوں، پھر میں نے یہ حدیث اس کو سنائی: مَنْ صَمَتَ نَجَا (سنن الترمذی، حدیث نمبر 2501)۔ یعنی جس نے خاموشی اختیار کی، وہ نجات پاگیا۔جاپانی نوجوان اس بات کو سن کر بہت خوش ہوا۔ اس نے اس حدیث کو فوراً اپنی ڈائری میں نوٹ کیا، اور کہا کہ اس حوالے کو میں اپنے تھیسِس میں شامل کروں گا۔
چپ رہنا کوئی سادہ بات نہیں ۔ چپ رہنا دو آپشن میں سے ایک آپشن کو چھوڑنا،ا ور دوسرے آپشن کو اختیار کرنا ہے۔ یعنی بولنے کا آپشن نہ لینا، اورخاموشی کا طریقہ اختیار کرنا۔جب کوئی آدمی ایسا کرتا ہے تو وہ در اصل بولنے کے بجائےسوچنے کا طریقہ اختیار کرتا ہے۔ وہ دوسروں کی بات سن کر ان کے تجربے سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ وہ اپنی عقل میں اضافہ کرتا ہے۔ وہ رد عمل کے طریقے کو چھوڑ کر مثبت عمل کا طریقہ اختیار کرتا ہے۔ جب آپ نہیں بولتے ہیں، تو آپ سوچتے ہیں، اور جب آپ سوچتے ہیں تو آپ اپنے ذہنی ارتقا (intellectual development) میں اضافہ کرتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ بولنا آسان ہے، مگر نہ بولنا ایک مشکل کام ہے۔ بولنے کے لیے سوچنے کی ضرورت نہیں۔ جو بھی آپ کے حافظے میں الفاظ ہیں، ان کو دہرانا شروع کردیجیے، اور پھر نطق وجود میں آجائے گا۔ لیکن جب آپ نہ بولیں، تو آپ کا ذہن فوراً سوچنا شروع کردیتا ہے، وہ مختلف باتوں کا موازنہ کرتا ہے۔ وہ حال کے ساتھ مستقبل کو اپنی سوچ میں شامل کرتا ہے۔ وہ اقدام کے ساتھ انجام پر غور کرتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

انٹلکچول پارٹنر

خاموشی کی صفت کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ کسی عورت اور مرد کے لیے ایک دریافت کا ذریعہ ہے۔ جب آپ نہ بولیں،تو فطری طور پر آپ اپنا انٹلکچول پارٹنر تلاش کرنے لگتے ہیں۔ اس وقت آپ دریافت کرتے ہیں کہ آپ کے قریب آپ کا ایک انٹلکچول پارٹنر ہر وقت موجود ہے۔ یہ آپ کی زندگی کا ساتھی (آپ کی رفیقۂ حیات) ہے۔ اس طرح خاموشی آپ کو ایک نئی دریافت تک پہنچا دیتی ہے۔ حالات کے تقاضے کے تحت مرد اپنی رفیقۂ حیات کو، اور عورت اپنے رفیقِ حیات کو از سرِ نو دریافت (rediscover) کرتے ہیں۔ اس طرح دونوں اپنا ایک نیا ساتھی دریافت کرتے ہیں، جو اگر چہ ان کے پاس موجود تھا، لیکن وہ اس کو دریافت کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے تھے۔ یہ دریافت بلاشبہ تمام دریافتوں سے بڑی دریافت ہے۔
تبادلۂ خیال (discussion) ایک نہایت قیمتی چیز ہے۔ اس سے آدمی اپنے علم اور تجربے میں اضافہ کرتا ہے۔ اس سے آدمی اپنی شخصیت کو زیادہ بامعنی بناتا ہے۔ اس ڈسکشن کے لیے آپ کے پاس ہر وقت ایک معاون موجود ہے۔ خاموشی کے لمحات آپ کو بتاتے ہیں کہ وہ قیمتی ساتھی آپ کے پاس ہر وقت موجود ہے ۔ آپ اس موقع کو بھر پور طور پر اویل (avail) کیجیے۔
ہر عورت اور مرد کے پاس اس کے رفیقِ حیات کی صورت میں زندگی کا ایک سب سے زیادہ قیمتی سرمایہ ہے، مگر عجیب بات ہے کہ اسی سرمائے سے تمام لوگ بے خبر رہتے ہیں۔ نکاح کا نظام ایک فطری نظام ہے۔ جو ہر آدمی کو ایک فطری نظام کے تحت یہ موقع دیتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کا ایک ساتھی پالے۔ ایک ایسا ساتھی جو اس کا سب سے زیادہ قریبی ساتھی ہو، اور زندگی کے آخری لمحہ تک اس کا ساتھی بنا رہے۔ انسان کو فطری نظام کے تحت ایک ایسا ساتھی درکار ہے، جو اس کے لیے سب سے بڑا راز دارِ حیات ہو، جو اس کے لیے خوشی او ر غم میں شریک ہو، جو ہر صور تِ حال میں اس کا قریبی مدد گار ہو۔ نکاح کا نظام ہر عورت اور مرد کو یہی ساتھی عطا کرتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

ترقی کا سفر

اسلام چھٹی صدی عیسوی کے نصف اول میں عرب میں آیا۔ اس وقت مذہبی جبر (religious persecution)کا زمانہ تھا۔ اس کے برعکس، موجودہ زمانے میں کامل مذہبی آزادی کا دور ہے۔ابتدائی زمانہ میں موجود سبب (age factor) کی بنا پر اسلام کی تاریخ میں کچھ ایسی باتیں شامل ہوگئیں، جو صرف وقتی تھیں، ابدی نہ تھیں۔ آج جو شخص اسلام کی تاریخ کا مطالعہ کرے ، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس فرق کو سمجھے، اوراس فرق کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرے۔
مثلاً آج کسی شخص یا جماعت کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ کسی کے اوپر تشدد کرے۔ خواہ وہ شخص اس کے مخالف بول رہا ہویا اس کے موافق۔ آج ہر شخص کو کامل آزادی ہے کہ وہ اپنے نقطۂ نظر کا اظہار کرے۔ آزادیٔ اظہار رائے (freedom of expression) آج کا ایک ناقابل تنسیخ حق ہے۔ یہ حق ہر شخص کو کسی پیشگی معاہدے کے بغیر حاصل ہے۔ یہ حق بلاشبہ دور جدید کی بہت بڑی نعمت ہے۔ کسی صاحب مشن کے لیے یہ ایک ایسی نعمت ہے، جو تاریخ میں پہلی بار حاصل ہوئی ہے۔ البتہ اس کی ایک شرط (condition) ہے۔ وہ یہ کہ آپ کامل طور پر پرامن انداز میں اپنا کام کریں۔ کسی دوسرے کے اوپر ہرگز کسی بھی قسم کا تشد د نہ کریں، نہ لفظی اور نہ عملی۔
اس سے بحث نہیں کہ دوسرا شخص اپنے خیالات کے اظہار کے لیے کون سی زبان استعمال کرتا ہے۔ زبان یا الفاظ کے استعمال کے لیے ہر شخص کو کامل آزادی حاصل ہے۔ مشہور امریکن مقولے کے مطابق،اس کی یہ آزادی صرف اس وقت ختم ہوتی ہے، جب کہ وہ آپ کی’’ناکـ ‘‘کو ٹچ کرے:
Your freedom ends where my nose begins
یہ آزادی اہل مشن کے لیے بلاشبہ ایک عظیم نعمت ہے۔بشرطیکہ وہ ا س کی شرط کو پورا کرتے ہوئے اس کا استعمال کرے۔
واپس اوپر جائیں

آزادی کا دور

ایک مرتبہ مغرب کے ایک سفر کے دوران میری ملاقات ایک مغربی اسکالر سے ہوئی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ دنیا میں تہذیب کا دور جو آیا ہے، وہ کیسے آیا ۔ اس نے کہا کہ فرانس میں جمہوریت کا دور آنے کے بعد اس انقلاب کے بعد پہلی بار یہ ہوا کہ اختلاف رائے (dissent) کو ایک ناقابل تنسیخ حق کا درجہ مل گیا۔ جب ایسا ہوا تو دنیا میں آزادیٔ فکر کا دور آگیا۔ اس آزادیٔ فکر سے تمام ترقیاں وجود میں آئیں۔ اس آزادیٔ فکر سے لوگوں کو موقع ملا کہ وہ ہر شعبے میں آزادانہ طور پر تلاش و جستجو کریں، اس طرح علم کے بند دروازے کھل گئے، اور ہر قسم کی ترقیاں بلاروک ٹوک ہونے لگیں۔
ترقی ایک فکری عمل ہے۔ فکری عمل کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ انسان کو آزادانہ طور پر اپنا عمل کرنے کا موقع ملے۔ آزادیٔ فکر کے بغیر علم کے تمام دروازے بند رہتے ہیں، جب کہ آزادیٔ فکر کے ماحول میں علم کے تمام دروازے کھل جاتے ہیں۔ قدیم زمانے میں لمبی مدت تک علم کو ترقی نہیں ہوئی۔ اس کا سبب یہی تھا کہ اہل علم کے لیے آزادانہ جستجو کے مواقع حاصل نہ تھے۔ جدید دور میں جب آزادانہ فکر کے مواقع کھلے تو ہر شخص مسابقت کی دوڑ میں مشغول ہوگیا۔ اس طرح تدریجی پراسس کے تحت علم کی دنیا میں ترقیاں ممکن ہوگئیں۔
علمی ترقی دراصل انسان کے پوٹنشل (potential)کو بروئے کار لانے کا نام ہے، اور پوٹنشل کو بروئے کار لانے کا یہ معاملہ صرف آزادانہ ماحول میں ممکن ہوتا ہے۔ جہاں آزادی نہ ہو، وہاں علمی اور فکری ترقی بھی رک جائے گی۔اس معاملے میں کسی کے خلاف جارحیت ایک ایسی چیز ہے، جس پر پابندی لگائی جائے ۔ اس معاملے میں صحیح اصول یہ ہے کہ جب تک آپ پرامن انداز میں اپنا کام کررہے ہیں،تو آپ کو کامل آزادی حاصل رہے گی، آپ کی آزادی پر باپندی صرف اس وقت لگ سکتی ہے، جب کہ آپ کسی دوسرے شخص کے خلاف جارحیت کا انداز اختیار کریں۔ مثلا ًمارنا، پیٹنا، یا تشدد کرنا، وغیرہ۔
واپس اوپر جائیں

ایک نصیحت

29جولائی 2018 کو ایک نوجوان سے ملاقات ہوئی۔ ان کو نصیحت کرتے ہوئے میں نے کہا: میری پہلی نصیحت آپ کو یہ ہے کہ اگر آپ کے پاس کوئی اچھا عذر ہو تب بھی آپ اس کو استعمال نہ کیجیے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ فرض کیجیے کہ آپ سے ایک غلطی ہوگئی، اور آپ کا احساس یہ ہے کہ اس کی ایک معقول وجہ تھی۔ ایسے موقعے پر عام طور سے یہ ہوتا ہے کہ لوگ فوراً عذر پیش کرنے لگتے ہیں کہ فلاں وجہ سے ایسا ہوا، اور فلاں وجہ سے ایسا ہوا— ہوئی تقصیر تو کچھ باعث تقصیر بھی تھا۔
یہ طریقہ مکمل طور پر تر ک کرنا ہے۔ آپ صرف یہ دیکھیے کہ کیا دوسرے لوگ اس کو غلطی بتا رہے ہیں۔ اگر آپ کے نزدیک وہ غلطی نہ ہو، تب بھی فوراً اس کو مان لیجیے۔ کوئی عذر پیش کرکے اپنے آپ کو بری الذمہ ثابت کرنے کی کوشش نہ کیجیے۔ جب بھی کسی شخص کو آپ سے شکایت ہوجائے تو ہمیشہ اپنی غلطی کو آپ دریافت کیجیے۔ دوسرے کی غلطی بتانے کے بجائے، خود اپنی غلطی کو دریافت کرنے کا طریقہ اختیار کیجیے۔ایسے موقعے پر اگر کچھ اور آپ کی سمجھ میں نہ آئے تو آپ دوسرے شخص کے لیے دعا کرنا شروع کردیجیے۔ یہ بھی نہ ہوسکے تو اپنے آپ سے یہ بتائیے کہ دوسرے شخص نے آپ کے ساتھ جو قابل شکایت بات کی ہے، وہ جان بوجھ کر نہیں کی ہے، بلکہ بے خبری کی بنا پر کی ہے۔
یہ سمجھ لیجیے کہ دوسرے کی غلطی بتانے سے کبھی شکایت کا ماحول ختم نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس، اگر اعتراف کا طریقہ اختیار کریں، تو اس کا فوری فائدہ آپ کو یہ حاصل ہوتا ہے کہ آپ اور دوسرے شخص کے درمیان چین ری ایکشن (chain reaction) کی صورت حال بننے نہیں پاتی۔ بلکہ بات وہیں کہ وہیں ختم ہوجاتی ہے۔یاد رکھیے، زندگی جینے کے لیے ہے، اور اعتراف کا طریقہ آپ کو یہ موقع دیتا ہے کہ آپ کسی رکاوٹ کے بغیر زندگی کے مواقع کو آخری حد تک اَویل (avail)کرسکیں۔ زندگی ایک چانس ہے۔ کوئی اس کو افورڈ نہیں کرسکتا کہ وہ اس چانس کو کھودے۔ یہ چانس آپ کے دروازے کو صرف ایک بار کھٹکھٹاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں