Pages

Sunday 1 March 2020

Al Risala | March 2020 (الرسالہ،مارچ)

4

-فئۃ قلیلۃ، فئۃ کثیرۃ

5

- چیلنج، مواقع

6

- کتاب اور حکمت

7

- فرقان کیا ہے

8

- حالات کی رعایت

9

- محفوظ کا تحفظ

10

- دین کی عصری تفہیم

11

- اجتہاد کیا ہے

14

- فارم ، اسپرٹ

15

- دعوتی حکمت

16

- قولِ بلیغ

17

- آج کی نوجوان نسلیں

18

- ظلم کا بدلہ

19

- جدید مائنڈ سٹ

20

- فاجر کے ذریعے تائید ِ دین

21

- ایک تجربہ

22

- مسلم اور غیر مسلم تعلقات

23

- فکری آزادی کا فارمولا

25

- اسلام دورِ جدید میں

28

- مذہبی برداشت

29

- دو قرآنی آیات

31

- مسلح جہاد

32

- مسلمانوں کا مسئلہ

34

- وطن سے محبت

40

- جدید اسلوب کا ایک پہلو

41

- فریم ورک کا مسئلہ

43

- مثال کے بغیر

44

- بے خبری کا کیس

45

- جمہوریت کا نظام

46

- اتحاد ملت

47

- کفر، تکذیب

48

- میل ملاپ کا سماج

49

- مثبت لٹریچر کی ضرورت

50

- ملت کا احیاء


فئۃ قلیلۃ، فئۃ کثیرۃ

قرآن معروف معنوں میں صرف شریعت کی ایک کتاب نہیں ہے۔ بلکہ وہ فطرت کی کتاب ہے،اور اس اعتبار سےتخلیق کے تمام قوانین کا اس سے تعلق ہے، خواہ براہِ راست ہو یا بالواسطہ۔ انھیں قوانین فطرت میں سے ایک قانون وہ ہے، جو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیاگیا ہے:کَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِیلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً کَثِیرَةً بِإِذْنِ اللَّہِ (2:249)۔یعنی کتنی ہی چھوٹی جماعتیں اللہ کے حکم سے بڑی جماعتوں پر غالب آئی ہیں۔
اس آیت کے مطابق، اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ کون گروہ عددی اعتبار سے اقلیت میں ہے، اور کون گروہ عددی اعتبار سے اکثریت میں ہے۔ بلکہ فطرت کے قانون کے مطابق، عددی اکثریت اور عددی اقلیت دونوں اضافی (relative) الفاظ ہیں۔ اس دنیا میں اصل فیصلہ اذن اللہ (فطرت کا قانون) کرتاہے۔ جو گروہ اذن اللہ (فطرت کے قانون) کے مطابق اپنی درست منصوبہ بندی کرے گا، وہ زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھ جائے گا، اور جو فریق فطرت کے قانون کے مطابق درست منصوبہ بندی میں ناکام رہے گا، وہ بظاہر حالات کا مالک ہوتے ہوئے بھی زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جائے گا۔
وہ قانون فطرت کیا ہے۔ وہ ایک محرک عمل ہے۔مطالعہ بتاتا ہے کہ جوگروہ عددی اعتبار سے بظاہر اقلیت میں ہو، اس کے افراد میں ایک فطری اسپرٹ جاگتی ہے۔ اس اسپرٹ کو داعیہ یا محرک (incentive)کہا جاتا ہے۔ یہ داعیہ ہر اقلیتی گروہ میں لازمی طور پر پیداہوتا ہے، بشرطیکہ رہنمائی کرنے والے غلط رہنمائی(mislead) کرکے لوگوں کے ذہن کو بگاڑ نہ دیں۔انسانی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اگر لوگوں کے ذہن کو بگاڑا نہ جائےتو فطرت ضرور اپنا عمل کرتی ہے، اور جب فطرت درست انداز میں اپنا عمل کرتی ہے، تو عددی اقلیت والے افراد اپنے آپ غیر تخلیقی گروہ سے ترقی کرکے تخلیقی گروہ بننا شروع ہو جاتے ہیں، اور اگر کوئی رہنما مس لیڈ (mislead) نہ کرے، تو یہ عمل جاری رہتاہے۔ یہاں تک کہ فئة قلیلة ترقی کرتے ہوئے فئة کثیرة بن جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

چیلنج، مواقع

اکثر لوگ حالات کا ذکر کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ حالات ہمارے لیے موافق نہیں ہیں۔ ایسے مقام پر کیا کرنا چاہیے۔ میں کہوں گا کہ قرآن میں آیا ہے : لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ کَبَدٍ (90:4)۔ یعنی ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے ۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ مشکلات (hardship)انسانی زندگی کا لازمی حصہ ہیں۔ وہ ہمیشہ موجود رہیں گے۔ ایسی حالت میں مشکلات کے حوالے سے سوچنا بجائے خود درست نہیں۔
انسان کو کبد یا عُسر(hardship)کے اندر پیدا کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کبد زندگی کا لازمی حصہ ہے۔ اس لیے انسان کو چاہیے کہ وہ کبد کو لے کر اپنی زندگی کا منصوبہ نہ بنائے، بلکہ کبد کے اندر جو موافق امکانات موجود ہیں، ان کو لے کر اپنی زندگی کی پلاننگ کرے۔ انسان کا منصوبہ مبنی برغیرموافق حالات نہیں ہونا چاہیے، بلکہ مبنی بر موافق حالات ہونا چاہیے۔
انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان کے لیے اس دنیا میں صرف مشقت ہی مشقت ہے، اس کے لیے اس دنیا میں آسانی کی کوئی بات نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو ایک ایسی دنیا میں پیدا کیا گیا ہے، جہاں انسان کے لیے مواقع (opportunities) تو بہت زیادہ ہیں، لیکن ان مواقع کے ساتھ چیلنجز بھی موجود ہیں۔ آدمی سے یہ مطلوب ہے کہ وہ چیلنج کے درمیان مواقع کو تلاش کرنا سیکھے، وہ چیلنج کو مینج (manage)کرکے اپنی دنیا بنائے۔ ایسا اس لیے ہے تاکہ انسان کو یہ موقع دیا جائے کہ وہ اپنی عقل کو زیادہ سے زیادہ استعمال کرے، وہ اپنی شخصیت کو زیادہ سے زیادہ ترقی یافتہ بنائے۔
چیلنج کا مقابلہ کرکے جب انسان اپنا مقصد حاصل کرتا ہے، تو وہ ایسے مراحل سے گزرتا ہے، جو اس کے اندر تخلیقیت (creativity) پیدا کرنے والی ہیں، جو انسان کو مین (man)سے اٹھا کر سوپر مین (super-man) بنانے والی ہیں۔
واپس اوپر جائیں

کتاب اور حکمت

قرآن میں متعدد مقامات پر بتایا گیا ہے کہ اللہ نے اپنے رسول کو دو چیزیں دے کر بھیجا ہے— کتاب اور حکمت(البقرۃ،2:129، آل عمران،3:164، النساء،4:113، الاحزاب، 33:34، الجمعۃ، 62:2، وغیرہ)۔کتاب سے مراد ہے اللہ کی آخری کتابِ ہدایت قرآن ہے، اور حکمت سے مراد یہ ہے کہ اس کتاب کو بطور مشن لے کر اٹھنے کی صورت میں جو حالات پیدا ہوں گے، ان کو کس طرح حکمت کے ساتھ مینج کرتے ہوئے آخری منزل تک پہنچایا جائے۔
رسول اللہ کی 23 سالہ زندگی اس بات کا عملی نمونہ ہے۔ اس پیغمبرانہ وزڈم کا ایک اصول حضرت عائشہ نے ان الفاظ میں بیان کیا مَا خُیِّرَ النَّبِیُّ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَ أَمْرَیْنِ إِلَّا اخْتَارَ أَیْسَرَہُمَا(صحیح البخاری، حدیث نمبر 6786)۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی دو معاملے کے درمیان اختیار دیا گیا، تو آپ نے آسان تر کا انتخاب کیا۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ایسر سے مراد پرامن، یعنی غیر نزاعی طریقہ ہے۔ اجتماعی زندگی میں ڈیلنگ کے عملاً دو طریقے ہیں— نزاعی اور غیر نزاعی (non-confrontational method)۔ پیغمبر اسلام کا طریقہ نزاعی طریقہ نہیں تھا۔ بلکہ مکمل طور پر غیر نزاعی طریقہ تھا۔ غیر نزاعی طریقے کا فائدہ یہ ہے کہ فوراً اسٹارٹنگ پوائنٹ مل جائے، اور مشن کسی رکاوٹ کا شکار ہوئے بغیر اسموتھ (smooth)انداز میں اپنے راستے پر چلتا رہے۔
اس طریق کا ر کو دوسرے انداز میں اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ راستے کی رکاوٹ سے ٹکراؤ کرنے کے بجائے اس کو مینج کرکے اپنا راستہ نکالنا۔ مثلاً کعبہ کے بت بظاہر داعیٔ توحید کے لیے ایک رکاوٹ تھے، مگر آپ نے اس رکاوٹ کو مینج کیا۔ آپ نے کعبہ کے پاس جمع ہونے والے بت پرستوں کے مجمع کو اپنے لیے آڈینس(audience) بنا لیا، اور اس طرح سارے عرب میں نہایت پیس فل انداز میں توحید کی دعوت کو پھیلا دیا۔ اسی طریقے کا نام حکمت ہے۔
واپس اوپر جائیں

فرقان کیا ہے

مومن کےلیے ایک خدائی عطیہ وہ ہے، جس کو قرآن میں فرقان کہا گیا ہے۔ اس سلسلے میں قرآن کی متعلق آیت ان الفاظ میں آئی ہے: یَاأَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللَّہَ یَجْعَلْ لَکُمْ فُرْقَانًا (8:29)۔ یعنی اے ایمان والو، اگر تم اللہ سے ڈرو ، تو اللہ تمہارے لیے فرقان عطا کرے گا۔
فرقان کا لفظی مطلب ہے فرق کرنے والا، یعنی انسان کی یہ صلاحیت جس کے ذریعے وہ ایک چیز اور دوسری چیز کے درمیان فرق (differentiate)کرسکے۔ یہ فرق دو قسم کا ہوتا ہے۔ ایک، مادی فرق اور دوسرا، معنوی فرق۔ مادی فرق کو جاننا بہت آسان ہے۔ کیوں کہ اس معاملے میں ایک چیز سخت ہوتی ہے، اور دوسری چیز نرم، ایک چیز گرم ہوتی ہے، اور دوسری چیز ٹھنڈی، ایک چیز کھانے کے قابل ہوتی ہے، اور دوسری چیز کھانے کے قابل نہیں ہوتی۔ لیکن معنوی فرق کا معاملہ بالکل الگ ہے۔ یہاں فرق کو جاننے کا صرف ایک ہی ذریعہ ہے۔ وہ یہ ہے کہ آدمی کے اندر فرق کو سمجھنے کا اکیوٹ سنس (acute sense)موجود ہو۔ اسی کے ساتھ آدمی کے اندر وہ ذوق موجود ہو، جو اس کو مجبور کرے کہ وہ اس فرق کو اپنے معاملات میں استعمال کرے۔
مثلا ًمبنی بر عداوت تحریک، اور مبنی بر دعوت تحریک۔ دونوں ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ کیوں کہ دعوتی عمل خیرخواہی کی بنیاد پر چلتا ہے، اور خیر خواہی عداوت کی ضد ہے۔جو آدمی اس معاملے میں حساس (sensitive) نہ ہو، وہ دعوت کی بات کرے گا، اور اسی کے ساتھ وہ عداوت کا طریقہ بھی اختیارکرے گا۔ اس کے برعکس، جو آدمی اس معاملے میں حساس ہو، وہ اس کا تحمل نہیں کرسکتا کہ وہ صاحبِ دعوت ہونے کا دعویٰ کرے، اور اسی کے ساتھ وہ لوگوں کے خلاف عداوت کی باتیں بھی کرتا رہے۔وہ یہ بھی کہے کہ مسلمان کو لوگوں کے درمیان نافع (giver group) بن کر رہنا چاہیے، اور اسی کے ساتھ وہ شکایت اور ظلم کی باتیں لے کر پرجوش تقریریں بھی کرے۔ فرقان کی یہ صلاحیت صحیح معنوں میں اس وقت پیدا ہوتی ہے، جب کہ آدمی اپنے آپ کو اللہ کے سامنے جواب دہ سمجھتا ہو۔
واپس اوپر جائیں

حالات کی رعایت

مسلمانوں میں عام طو رپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہمیں دو چیزوں کی پیروی کرتے ہوئے اپنا کام کرنا چاہیے، اور وہ ہے قرآن اور سنت۔ مگر عملی اعتبار سےیہ مکمل بات نہیں۔ بلاشبہ مسلمان کے لیے قرآن و سنت واحد ماخذ کی حیثیت رکھتے ہیں،لیکن اسی کے ساتھ یہ ضروری ہے کہ مسلمان وقت کے تقاضے کو سمجھیں، اور وقت کے تقاضوں کا پورا لحاظ رکھتے ہوئے اپنی دینی پلاننگ انجام دیں۔
مثلاً جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو اس سفر کے لیے آپ نے ایک مشرک کو اپنے سفر کا رہنما بنایا۔سیرت کی کتابوں میں اس کا نام عبد اللہ بن اُرَیقِط یا أَرْقَط (سیرت ابن ہشام،جلد1، صفحہ488) بتایا گیا ہے۔ یہ ایک طریقے کی بات تھی، جو قرآن میں پہلے سے لکھا ہوا موجود نہ تھا، وہ حالات کا تقاضا تھا۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حالات کے تقاضے کی رعایت کرنا، کام کی درستگی کا ذریعہ ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اس تیسرے عمل ، یعنی حالات کےتقاضے کو سمجھیں، ورنہ وہ اپنی منصوبہ بندی میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔
حالات کے تقاضے کو سمجھنا، اور اس کی رعایت کرنا، منصوبہ بندی کو کامیاب کرتا ہے۔ یہ اس وقت ممکن ہے، جب کہ انسان کھلے ذہن کے ساتھ حالات کو سمجھنے کی کوشش کرے، اور بغیر کسی ریزرویشن کے حالات کے مطابق اپنے کام کو آگے بڑھائے۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں نے اس راز کو نہیں سمجھا کہ موجودہ زمانہ جدید ٹکنالوجی کا زمانہ ہے۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کو یہ کرنا ہے کہ وہ جدید تقاضوں کو سمجھیں، اور اس کو اپنی تعمیر میں استعمال کریں۔
پیغمبر ِ اسلام کی سنت سے یہ ثابت ہوتاہے کہ آپ نے ایک طرف وحی کی پیروی کی، اور دوسری طرف حالات کے تقاضے کو سمجھ کر ہمیشہ حکمت پر مبنی پلاننگ کی۔ آپ نے ہمیشہ ٹکراؤ سے اعراض کرتے ہوئے اپنے عمل کا نقشہ بنایا۔ آپ ہمیشہ دوسروںکےلیے ناصح (خیرخواہ) بنے رہے۔ آپ نے اس حکمت کو اتنا زیادہ اختیار کیا کہ آپ نے آخری حد تک خیر خواہی کا حق ادا کردیا۔
واپس اوپر جائیں

محفوظ کا تحفظ

دیوبند کے دو عالم ملاقات کے لیے آئے۔ان کے ساتھ میں نے جو گفتگو کی، اس کا خلاصہ میں نے اپنی ڈائری میں ان الفاظ میں نقل کیا ہے ’’ان سے گفتگو کرتے ہوئے میں نے کہا کہ آج کل جگہ جگہ تحفظ ِختم ِنبوت کانفرنس ہو رہی ہے۔ میں اس قسم کی کانفرنسوں کو بالکل بے معنی سمجھتا ہوں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے تحفظِ آفتاب کانفرنس منعقد کی جائے۔ سورج براہ راست خدا کی طاقت سے قائم ہے، اس کے لیے تحفظ آفتاب کانفرنس کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اسی طرح نبوت کی حفاظت بھی خدا نے اپنے ذمہ لے رکھی ہے۔ اس کے لیےبھی یہ ضرورت نہیں کہ تحفظ نبوت کانفرنس منعقد کی جائے۔ مسلمانوں کی اصل ذمے داری پیغام نبوت کی پیغام رسانی ہے۔ یعنی پیغمبر نے اپنے بعد جو دین چھوڑا ہے، اس کو دنیا کی تمام قوموں تک پہنچانا۔ موجودہ زمانے کے مسلمان دعوتِ نبوت کا کام نہیں کرتے، البتہ وہ تحفظِ نبوت کی کانفرنس کر رہے ہیں۔ اس قسم کا فعل مسلمانوں کی اصل مسئولیت کا کسی بھی درجے میں بدل نہیں۔‘‘(ڈائری، 5 دسمبر 1989)
تحفظ ختم نبوت کا مطلب کیا ہے۔ بظاہر اس کا مطلب یہ ہے کہ ختم نبوت کا عقیدہ خطرے میں ہے، اس کو بچاؤ۔ مگر سوال یہ ہے کہ کہاں خطرے میں ہے، اور کون اس کو خطرے میں ڈالے ہوئے ہیں۔ اس کا حقیقی جواب کسی کے پاس نہیں۔ یہ ایک مفروضہ خطرے پر کانفرنس منعقد کرنا ہے۔ اس مسئلے پر اگر کچھ کام کرنا ہے،تو وہ نبوت کے عقیدے پر ایسی کتابیں لکھنا ہے، جو علمی اور تاریخی دلائل کی بنیاد پر تیار کی گئی ہوں۔ ایسی کتابیں ، جن سے لوگوں کو پیغمبر کی رہنمائی پر یقین حاصل ہو۔ ایسی کتابیں، جو لوگوں کے ایمان میں اضافہ کرنے والی ہوں۔ ایسی کتابیں ، جو موجودہ عقلی دور میں لوگوں کے لیے عقل کی بنیاد پر اس عقیدے کو قابل فہم بنائیں۔ یہ کتابیں سب و شتم کی زبان میں نہیں ہونا چاہیے، بلکہ عقلی دلائل کی روشنی میں ہونا چاہیے۔ یہ زمانہ عقلی تفہیم و تبیین کا زمانہ ہے۔ کوئی اور اسلوب آج کے انسان کے لیے مؤثر نہیں ہوسکتا۔
واپس اوپر جائیں

دین کی عصری تفہیم

ایک لمبی روایت صحابی رسول کے حوالے سےحدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ اس کا ایک جز یہ ہے۔ آپ نے کہا:وَعَلَى الْعَاقِلِ أَنْ یَکُونَ بَصِیرًا بِزَمَانِہِ(صحیح ابن حبان، حدیث نمبر361)۔ یعنی دانش مند کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے زمانے سے باخبر ہو۔ بصیرت زمانی کی یہ صفت زندگی کے عام معاملات کے لیے بھی ہے، اسی کے ساتھ دین کو زمانے کی نسبت سے سمجھنے کے لیے بھی۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات مومنِ مجتہد کے لیے کہی گئی ہے۔ اجتہاد اہلِ اسلام کی ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ اس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ اجتہاد کی خاص شرط کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ مومن مجتہد قرآن و سنت کی گہری واقفیت کے ساتھ اپنے زمانے کے حالات سے بھی بخوبی طور پر واقف ہو۔ تاکہ وہ زمانے کے تقاضے کے مطابق اسلامی تعلیم کی نئی تشریح کرسکے۔ ایسی تشریح جس میں اسلام کی تعلیمات کی بھرپور طور پر تعمیل موجود ہو، اور اسی کے ساتھ اس میں زمانے کے حالات کےمطابق اہل اسلام کو درست رہنمائی حاصل ہوتی ہو۔
اجتہاد دوسرے الفاظ میں اسلام کی دانش مندانہ تعبیر ہے۔ جس آدمی کا حال یہ ہو کہ وہ قرآن و سنت سے واقف ہو، لیکن اس کے اندر دانش مندی کی صفت نہ ہو ،تو وہ دین کو درست طور پر نہیں سمجھے گا۔ وہ درست طو رپر لوگوں کو دینی رہنمائی نہ دےسکے گا۔وہ دین کو تطبیقی انداز (applied way) میں پیش نہ کرسکے گا۔
دین کی عصری تفہیم کا مطلب صرف یہ ہے کہ ابدی دین کو وقت کے اسلوب (idiom) میں بیان کرنا۔ دینی متن (religious text)کا ترجمہ اگر صرف ترجمہ ہے تو اس کی عصری تفہیم کا مطلب ترجمہ پلس (translation plus) ہے، یعنی سطور (lines) کے ساتھ بین السطور (between the lines)کا بیان۔
واپس اوپر جائیں

اجتہاد کیا ہے

اجتہاد کیا ہے۔ اجتہاد یہ ہے — کسی حکم شرعی پر عمل کرنے میں جب حالات کی تبدیلی کی بنا پر فرق واقع ہوجائے، تو اس وقت حکم کو ظاہری صورت کے اعتبار سے دیکھنے کے بجائےحکم کو ری ڈیفائن کرنا تاکہ اسپرٹ پوری طرح باقی رہے،لیکن فارم کو اس طرح بدلا جائے کہ وہ مطابقِ حال ہو جائے۔
اس کی ایک رہنما مثال پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مدنی دور کا ایک واقعہ ہے۔ آپ نےایک بار مدینہ سے صحابہ کی ایک جماعت کو بنو قریظہ کی طرف بھیجا۔ بنو قریظہ ایک یہودی قبیلہ (Jewish tribe)تھا۔یہ قبیلہ مدینہ سے جنوب کی جانب آباد تھا۔ اس واقعے کا ذکر روایتوں میں آیا ہے، اس کا متعلق جز یہ ہے: لما انصرف المشرکون عَن الخندق وَرَجَعَ رَسُول اللَّہِ - صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ - فَدَخَلَ بیت عَائِشَة أتاہ جبریل فوقف عند موضع الجنائز فَقَالَ:عذیرک مِن محارب! فخرج إِلَیْہِ رَسُول اللَّہِ - صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ -[فزعا فَقَالَ:إن اللہ یأمرک أن تسیر إلى بنی قریظة فإنی عامد إلیہم فمزلزل بہم حصونہم. فَدَعَا رَسُولُ اللَّہِ - صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ - علیا. رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ. فدفع إِلَیْہِ لواءہ وبعث بلالا] فنادى فِی النَّاسُ إِنَّ رَسُول اللَّہِ - صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ - یأمرکم ألا تصلوا العصر إلا فِی بنی قریظة (الطبقات الکبریٰ لابن سعد، 2/57)۔ بعض روایتوں میں یہ اضافہ ہے : فَأَدْرَکَ بَعْضَہُمُ العَصْرُ فِی الطَّرِیقِ، فَقَالَ بَعْضُہُمْ: لاَ نُصَلِّی حَتَّى نَأْتِیَہَا، وَقَالَ بَعْضُہُمْ: بَلْ نُصَلِّی، لَمْ یُرَدْ مِنَّا ذَلِکَ، فَذُکِرَ لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ یُعَنِّفْ وَاحِدًا مِنْہُمْ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 946)۔ان میں جن لوگوں نے نماز پڑھی ان لوگوں نے یہ کہا :لم یرد رسول اللہ ترک الصلاة، إنما أراد تعجیل السیر (الفصول فی السیرة، أبو الفداء ابن کثیر ، 1/171)۔
ان روایتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ نے صحابہ کی ایک جماعت کو غزوۂ خندق کے بعد بنوقریظہ کی طرف بھیجا، اور بھیجتے ہوئے آپ نے تاکید کے ساتھ یہ کہا کہ تم لوگ عصر کی نماز بنو قریظہ کی بستی میں پہنچ کر ہی ادا کرنا۔ مگر بنو قریظہ کی بستی تک پہنچنے سے پہلے عصر کی نماز کا وقت آگیا۔ یہاں تک کہ ایسا لگنے لگا کہ بنو قریظہ تک پہنچنے سے پہلے عصر کا وقت ختم ہوجائے گا۔ اس لیے کچھ لوگوں نے بنوقریظہ تک پہنچنے سے پہلے ہی عصر کی نماز پڑھ لی۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو جب معلوم ہوا تو آپ نے کسی کے خلاف کچھ نہیں کہا۔ نماز پڑھنے والے صحابہ نے کہا رسول اللہ کی مراد نماز ترک کرنا نہیں تھا،بلکہ آپ کی مراد تیزی کے ساتھ سفر کرنا تھا۔
فَذُکِرَ لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ یُعَنِّفْ وَاحِدًا مِنْہُمْ (پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو جب معلوم ہوا تو آپ نے کسی کے خلاف کچھ نہیں کہا)۔رسول اللہ کےاس عمل سے یہ اخذ ہوتا ہے کہ آپ نے جو کچھ کیا، اس کا مفہوم یہ تھا کہ تم دونوں درست ہو کہ تم میں سے ایک گروہ نے حکم کی لفظی پیروی کی، اور تم میں سے دوسرے گروہ نے حکم کی اجتہادی پیروی کی ہے۔
تجدیدی کام
مشہور حنفی فقیہ زین الدین ابن نجیم (926-970ھ) نے اپنی کتاب الْأَشْبَاہُ وَالنَّظَائِر میں لکھا ہے:قَالَ بَعْضُ الْمَشَایِخِ:الْعُلُومُ ثَلَاثَةٌ:عِلْمٌ نَضِجَ وَمَا احْتَرَقَ؛ وَہُوَ عِلْمُ النَّحْوِ، وَعِلْمُ الْأُصُولِ. وَعِلْمٌ لَا نَضِجَ وَلَا احْتَرَقَ؛ وَہُوَ عِلْمُ الْبَیَانِ وَالتَّفْسِیرِ. وَعِلْمٌ نَضِجَ وَاحْتَرَقَ؛ وَہُوَ عِلْمُ الْفِقْہِ وَالْحَدِیثِ( الْأَشْبَاہُ وَالنَّظَائِرُ عَلَى مَذْہَبِ أَبِیْ حَنِیْفَةَ النُّعْمَانِ لابن نجیم المصری ،دار الکتب العلمیة، بیروت ، 1999 ،صفحہ 330)۔ یعنی بعض مشائخ نے کہا ہے کہ علم تین ہیں، ایک وہ علم، جو نضج کو پہنچ گیا، مگرفنا نہیں ہوا۔ یہ نحو اور اصول کا علم ہے۔ دوسرا وہ علم ہے، جو نہ نضج کو پہنچا، اور نہ فنا ہوا۔ یہ بیان اور تفسیر کا علم ہے۔ تیسرا وہ علم جو نضج کو پہنچ گیا، اور فنا ہوگیا۔ یہ فقہ اور حدیث کا علم ہے۔ یہ بات شافعی فقیہ بدر الدین محمد بن عبد اللہ الزرکشی (وفات 794ھ) نے بھی اپنی کتاب میں لکھا ہے(المنثور فی القواعد الفقہیة ، وزارة الأوقاف الکویتیة، 1985، جلد 1، صفحہ 72) ۔
نضج کا مطلب ہے پختگی کی حد کو پہنچ جانا (fully developed)۔ راقم الحروف کا اپنے مطالعے کے مطابق، یہ خیال ہے کہ تمام وہ علوم جو اسلامی علوم کہے جاتے ہیں، انطباق کے اعتبار سے ان کے دو درجے ہیں — روایتی انطباق (traditional application)، عصری انطباق (contemporary application) ۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ روایتی اعتبار سے تمام علوم پر اتنا کام ہوا ہے کہ وہ نضج کے درجے تک پہنچ گئے ہیں۔ لیکن دورِ سائنس، جو روایتی دور سے بالکل مختلف ہے، اس دور کے اعتبار سے یہ ضرورت ابھی باقی ہے کہ تمام علوم کو دورِ جدید کے معیار پر دوبارہ مدون کیا جائے۔ اس دوسرے پہلو سے تمام علوم ابھی تک غیر نضج کی حالت میں ہیں۔ غالباً کوئی بھی علم نضج کے درجے تک نہیں پہنچا۔
مثلاً عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ فقہ کا علم نضج کے درجے تک پہنچ چکا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ فقہ اس معاملےمیں مستثنیٰ (exception) نہیں۔ مثال کے طور پرکئی عمل ایسے ہیں،جن کے بارے میں فقہاء یہ کہتے ہیں کہ یقتل حدا(بطور حد قتل کیا جائے گا)۔جیسے ترک صلاۃ، ارتداد، شتم رسول، وغیرہ ۔ اسی طرح فقہا نے دنیا کو دار الاسلام اور دارالحرب کے خانوں میں تقسیم کررکھا ہے، وغیرہ۔
اپنی حقیقت کے اعتبار سے اس قسم کے فتاویٰ زمانی تقاضے کے تحت بنے ہیں، جو موجودہ زمانے میں غیر متعلق (irrelevant) ہوچکے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ خود علما کے عمومی مسلک کے مطابق اس قسم کے فتاوى پر نظر ثانی کی جائے۔ علما کے اس مسلک کی نمائندگی کرتے ہوئے ابن القیم (1292-1350ء)نے اپنی کتاب إعلام الموقعین عن رب العالمین میں ایک مستقل باب لکھا ہے، اس باب کا عنوان یہ ہے فَصْلٌ فِی تَغْیِیرِالْفَتْوَى،وَاخْتِلَافِہَا بِحَسَبِ تَغَیُّرِ الْأَزْمِنَةِ وَالْأَمْکِنَةِ وَالْأَحْوَالِ وَالنِّیَّاتِ وَالْعَوَائِدِ (فصل زمانہ، مقامات، حالات، نیتوں اور ضروریات کے بدل جانے کی بنیاد پرفتوی کی تبدیلی، اور ان میں فرق)۔
واپس اوپر جائیں

فارم ، اسپرٹ

عباسی دور میں فقہ کی تدوین ہوئی۔صحابہ کے دوراور تابعین کے دور میں عام طور پر مبنی براسپرٹ دیں کا تصور پایا جاتا تھا، لیکن فقہاء کے دورمیں بعض اسباب سے مبنی بر فارم دین کا تصور عام ہوگیا۔ یہاں تک کہ اس بارے میں لوگ غلو (انتہا پسندی) کی حد تک پہنچ گئے۔ صحابہ اور تابعین کے زمانے میں دین میں اصل اہمیت اسپرٹ کی ہوتی تھی۔ اس بنا پر اس زمانے میں جزئی نوعیت کے طرق عبادت میں تنوع کا تصور پایا جاتا تھا۔ یہ تصور اس حدیث پر مبنی تھا:أَصْحَابِی کَالنُّجُومِ فَبِأَیِّہِمُ اقْتَدَیْتُمُ اہْتَدَیْتُمْ(جامع بیان العلم و فضلہ، حدیث نمبر 1684) ۔ یعنی میرے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں،تم ان میں سے جن کی بھی اقتدا کرو گے، ہدایت پر رہوگے۔
لیکن بعد کے زمانے میں جب کہ طرق عبادت میں تعدد کا ذہن ختم ہوگیا، اور فارم میں توحد پر زور دیا جانے لگاتو اس قسم کا ذہن ختم ہوگیا۔ مگر یہ طریقہ بلاشبہ درست طریقہ نہیں۔ کیوں کہ اس روایت کے علاوہ بھی ایسی صحیح روایات ہیں، جس میں تعدد کا ثبوت ملتا ہے۔ مثلاً رسول اللہ کے زمانے میں ایک صحابی کا بلند آواز سے کہنا :رَبَّنَا وَلَکَ الحَمْدُ حَمْدًا کَثِیرًا طَیِّبًا مُبَارَکًا فِیہِ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 799) ۔روایت کے مطابق، یہ کلمہ سن کر آپ نے اس کی تحسین کی، جب کہ رسول اللہ نے پہلے کبھی اس کی تعلیم نہیں دی تھی۔
حقیقت یہ ہے کہ عبادت کے جزئی طریقوں میں اسپرٹ اصل ہے۔ اس معاملے میں اگر اسپرٹ کو اصل مانا جائے تو اپنے آپ فرقہ بندی کا دروازہ بند ہوجاتا ہے۔ اس کے برعکس، اگر عبادت کے جزئی طریقوں میں فارم پر زور دیا جانے لگے تو فرقہ بندی کا دروازہ کھل جاتا ہے، جو کبھی بند نہیں ہوتا۔ عہدِ رسالت میں عبادت کا صرف ایک تصور پایا جاتا تھا، وہ ہے عبادت میں اسپرٹ پر زور۔ عبادت میں فارم پر زور دینے کا تصور بعد کے زمانے میں پیدا ہوا، اور پھر تاریخ میں عام ہوگیا۔ تاہم مبنی براسپرٹ عبادت ہی اصل عبادت ہے(صحیح البخاری، حدیث نمبر 757)۔
واپس اوپر جائیں

دعوتی حکمت

ہر زمانے میں کام کی صورتیں مختلف ہوتی ہیں۔ مثلاً قدیم عرب میں مختلف مقامات پر اصنام (idols)ہوا کرتےتھے۔ لوگ ان اصنام کے نام پر سفر کیا کرتے تھے۔ اس طرح عرب میں ایک قسم کا سیاحت کلچر (tourist culture) رائج ہوگیا تھا۔ رسول اور اصحابِ رسول نے اس سیاحت کلچر کو بڑے پیمانے پر دعوتی مقصد کے لیے استعمال کیا۔ اس بنا پر ایسا ہوا کہ تھوڑے وقت میں دین توحید کا پیغام سارے عرب میں پھیل گیا۔
موجودہ زمانے میں ایک نیا کلچر رائج ہوا ہے، جس کو لیڈیز فرسٹ (ladies first) کہا جاتا ہے۔ اس کلچر کے تحت ایسا ہوا ہے کہ اجتماعی مواقع پر عورتوں کو ترجیح (preference) دی جاتی ہے، ان کو پہلے موقع دیا جاتا ہے۔ یہ کلچر دعوت کے کام کے لیے بہت مفید ہے۔ چنانچہ ہمارے ساتھی جب قرآن یا لٹریچر پھیلانے کے لیے کہیں جاتے ہیں، اور وہ دیکھتے ہیں کہ وہاںلوگوں کی تعدادبہت زیادہ ہے، تو خواتین آگے بڑھ کر دعوتی کام میں حصہ لیتی ہیں۔تمام لوگ بہت عزت کے ساتھ ترجمۂ قرآن اور تعارفِ اسلام پر مشتمل لٹریچر لیتے ہیں۔ اس طرح دعوت کے کام میں بہت آسانی پیدا ہوجاتی ہے۔
اسی کا نام حکمت ہے۔ جو لوگ دعوتی کام کررہے ہیں، ان کو چاہیے کہ موقع کے لحاظ سے دعوت کے لیے حکمت کا طریقہ اختیار کریں۔ دعوتی حکمت کس طرح دریافت ہوتی ہے، اس کا جواب ایک پرانی مثل میں ملتا ہے جوئِندہ یابِندہ ، یعنی ڈھونڈنے والا پاتا ہے— ڈھونڈنے والے بنئے،چیزیں آپ کو اپنے آپ مل جائیں گی۔ مطلوب چیزوں کی کوئی فہرست نہیں بنتی۔وہ ہمیشہ اپنے آپ مل جاتی ہیں۔ آدمی کو صرف یہ کرنا ہے کہ وہ ڈھونڈنے والا بنے۔ اس کے بعد اپنے آپ اس کے اندر جستجو کی اسپرٹ پیدا ہوگی۔ وہ اپنے آپ متلاشی انسان بن جائے گا۔ دعوتی حکمت اختیار کرنے کے لیے کس چیز سے بچنا چاہیے۔ اس کے لیے سب سے ضروری چیز ہے، اپنے آپ کو بھٹکاؤ (distraction) سے بچانا، اوریکسوئی کے ساتھ اپنے مطلوب کی تلاش میں لگے رہنا۔
واپس اوپر جائیں

قولِ بلیغ

ایک مسلم نوجوان جو نیوزی لینڈ میں رہتے ہیں، انھوں نےاپنا تجربہ بیان کیا: نیوزی لینڈ کے باشندے بہت اچھے ہیں۔ مگر یہاں کی نئی نسل میں ایک خرابی یہ دیکھنے کو ملتی ہے کہ یہ لوگ خدا کے تعلق سے زیادہ سنجیدہ نہیں ہیں، نہ ہی خدا کا نام لیتے ہیں۔ بلکہ اگر ان کے سامنے خدا کا نام لیا جائے تو وہ اس کو پسند نہیں کرتے۔ ایسی صورت حال میں ان کے درمیان دعوت کا کام کیسے کیا جائے۔
جس مزاج کا ذکر آپ نے کیا، اس مزاج کے لوگ آج کی دنیا میں کافی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ میں نے ایسے لوگوں کے کیس کو بہت زیادہ سمجھنے کی کوشش کی۔ میری سمجھ میں آیا کہ یہ لوگ آزادی کو خیر اعلیٰ (summum bonum)سمجھتے ہیں۔ وہ سب کچھ کرنے کے لیے تیار ہیں، لیکن خود اپنی آزادانہ رائے سے، نہ کہ کسی بر تر ہستی کے حکم سے۔ ان کے لیے یہ بات ناقابل قبول ہے کہ وہ کسی کے آگے سرینڈر کریں، اور ان کی ماتحتی قبول کرتے ہوئے اچھے کام کریں۔ وہ اچھے کام کرنے کے لیے تیار ہیں، لیکن خود اپنے آزادانہ فیصلے کے تحت، نہ کہ اپنے سے باہر کسی حکم کے تحت۔
ان کے ذہن کو ایڈریس کرنے کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ ان کو ملحد اور منکر بتایا جائے۔ ان سے یہ کہنا چاہیے کہ آپ کے اندر سب کچھ ہے، لیکن آپ کے اندر حقیقت پسندانہ فکر (realistic approach) موجود نہیں۔ اپنے خالق کو ماننا یا نہ ماننا، محدود معنوں میں ایک مذہبی رویہ نہیں ہے، بلکہ وہ غیر حقیقت پسندانہ سوچ (unrealistic approach)ہے، اور غیر حقیقت پسندانہ سوچ اتنی زیادہ غیر عقلی (irrational) ہے کہ کوئی صاحب عقل انسان اس کا تحمل نہیں کرسکتا۔
خدا کے پیدا کیے ہوئے وجود کی صورت میں جینا اور خدا سے بے خبر رہنا، خدا کی پیدا کی ہوئی دنیا میں جینا مگر خدا کا اقرار نہ کرنا، خدا کی دی ہوئی عقل سے سوچنا اور خدا کا اعتراف نہ کرنا، ایک ایسا تضاد ہے جس کا ایک صاحب فکر آدمی تحمل نہیں کرسکتا۔ ایسے لوگوں کو اگر ان کے اس فکری تضاد سے باخبر کردیا جائےتو یقیناً وہ سوچنے پر مجبور ہوجائیں گے۔
واپس اوپر جائیں

آج کی نوجوان نسلیں

موجودہ زمانے کے نوجوانوں کا مسئلہ صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ ان کے ذہن میں کچھ مثبت سوالات ہیں۔ مگر ہمارے رہنما ان سوالات کے جوابات منفی انداز میں پیش کررہے ہیں۔ یہ ایک تضاد کی صورت حال ہے، اور یہی تضاد آج کے نوجوانوں کا اصل مسئلہ ہے۔ آج کا نوجوان بھٹکا ہوا نوجوان نہیں ہے، بلکہ وہ متلاشی (seeker) نوجوان ہے۔
بے لاگ تجزیہ بتاتا ہے کہ آج کل کے نوجوانوں کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان کے بزرگوں نے ان کو یہ بتایا کہ دور جدید ایک مخالفِ مذہب دور ہے۔ اس سوچ کے تحت ہمارے بزرگوں نے نوجوانوں کو یہ ٹارگٹ دیا کہ وہ دور جدید کو بدلیں۔ اس بنا پر ہماری کئی نسلیں خود ساختہ نظریے کے تحت دور جدید سے لڑتی رہیں۔ لیکن عملاً ان کو ناکامی کے سوا کچھ اورنہیں ملا۔
اس مسئلے کا حل صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ ہمارے بزرگ کھلے طور پر اعتراف کریں کہ ان کی نشاندہی غلط تھی۔ وہ اعلان کریں کہ دور جدید جو سائنس کی دریافتوں کے تحت بنا ہے، وہ ایک موافق مذہب دور تھا، لیکن ہمارے بزرگوں نے خلاف واقعہ طور پر اس کو مخالف مذہب دور کی حیثیت دے دی، اور ہماری جدید نسل نےبے فائدہ طور پر اس کے خلاف نظری یا عملی جنگ چھیڑ دی۔ اس کے نتیجہ میں مایوسی کے سوا ان کو کچھ اور نہیں ملا۔
اب کرنے کا کام صرف یہ ہے کہ آج کے نوجوانوں کو یہ بتایا جائے کہ جدید دور ایک موافق مذہب دور ہے۔ جدید تہذیب ایک موافق مذہب تہذیب ہے۔ جدید دور نے ہمارے لیے نئے مواقع کھول دیے ہیں، جن کو اویل کرکے ہم تاریخ کی سب سے بڑی کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ مثلاً قدیم دور توہمات کا دور (age of superstitions)تھا، آج کا دور حقائق کا دور ہے۔ قدیم دور جبر کا دور تھا، آج کا دور آزادی کا دور ہے، وغیرہ۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سے ہم نوجوانوں کو ایک امید بھرانیا آغاز دے سکتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

ظلم کا بدلہ

قرآن کی ایک آیت میں مظلوم کا معاملہ بیان کیا گیا ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں:لَا یُحِبُّ اللَّہُ الْجَہْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَنْ ظُلِمَ وَکَانَ اللَّہُ سَمِیعًا عَلِیمًا (4:148)۔ یعنی اللہ پسند نہیں کرتا ظاہر کرنا بری بات، مگر جس پر ظلم ہوا ہو ، اور اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔قرآن کی اس آیت کے مطابق، مظلوم کے لیے جائز ہے کہ وہ ظالم کے خلاف بولے۔ مگر یہ جواز رخصت کے درجے میں ہے، عزیمت کے درجے میں نہیں۔ اگر کوئی شخص ظلم پر بدلہ لینا چاہے تو اس کے لیے لازم ہوگا کہ وہ ٹھیک اتنا ہی بدلہ لے جتنا کہ اس پر ظلم کیا گیا ہے۔اگر وہ ظلم سے زیادہ کرے گا تو خدا کی نظر میں وہ خود ظالم بن جائے گا(النحل، 16:126، الشورى 42:40)۔
اسی لیے رسول اور اصحابِ رسول نے کبھی ظلم پر بدلہ نہیں لیا، بلکہ ان کا رویہ قرآن کے اس حکم کے تحت تھا  وَإِذَا مَا غَضِبُوا ہُمْ یَغْفِرُونَ (42:37)۔ یعنی اور جب ان کو غصہ آتا ہے تو وہ معاف کردیتے ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ ایمان کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ آدمی ظالم کو معاف کردے (الشوریٰ، 42:43)۔یہی اعلیٰ اخلاق ہے۔ اعلیٰ اخلاق کا فائدہ یہ ہے کہ آدمی ظالم کو معاف کرکے اس کو اپنے لیے نیکی میں کنورٹ کردیتا ہے۔ اعلیٰ اخلاق کی نسبت سے دیکھا جائے تو مظلومیت نیکی کمانے کا ایک موقع ہے۔ ظلم کے باوجود ظالم کو معاف کردینا، بلاشبہ ایک عظیم نیکی ہے۔
دعوت اور داعی کی نسبت سے دیکھا جائے تو یہ اورزیادہ اہم بات ہے۔ داعی اگر ظالم کو معاف کردے تو اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ مظلوم اور ظالم کے درمیان معتدل ماحول قائم ہوجاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پہلے اگر دونوں کے درمیان ظالم اور مظلوم کا تعلق تھا، تو اب دونوں کے درمیان داعی اور مدعو کا تعلق قائم ہوجاتا ہے۔ ظالم کو معاف کرنا، عملاً دعوت کے مواقع کھول دیتا ہے۔ظلم پر فریاد کرنا صرف ایک رخصت کا معاملہ ہے۔ جب کہ ظلم کو معاف کردینا، داعی کا اخلاق ہے، یعنی با اصول انسان کا اخلاق ہے۔
واپس اوپر جائیں

جدید مائنڈ سٹ

میں کئی مہینے سے بیماری کے دور سے گزر رہا تھا۔ آخر کار ہمارے ساتھیوں نےستمبر2019 کے پہلے عشرےمیں یہ فیصلہ کیا کہ مجھ کو دلی کے سب سے اچھے اسپتال میں لے جائیں۔میں اس کےلیے راضی نہیں تھا۔ کیوں کہ نوجوانی کی عمر سے میں یہ سنتا تھا کہ اسپتال انسان کے لیے کوئی اچھی جگہ نہیں ہے۔ مثلا ًمشہور اردو شاعر اکبر الہ آبادی نے جدید دور کے بارے میں طنزیہ انداز میں لکھا تھا
ہوئے اس قدر مہذب کبھی گھر کا منہ نہ دیکھا
کٹی عمر ہوٹلوں میں مرے اسپتال جا کر
انڈیا کے ایک معروف عالم دین کے قریبی لوگ بتاتے ہیں کہ وہ یہ کہا کرتے تھے کہ اللہ سے یہ دعا کرنی چاہیے کہ اللہ اسپتال کی زندگی سے بچائے۔ مجھے دو بزرگوں کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ علاج کے لیے امریکا گئے۔ جب وہ روانہ ہونے لگے، تو ان کے معتقدین نے ان کو مشورہ دیا کہ حضرت آپ یہودی ڈاکٹر وںسے علاج مت کیجیے گا۔ کیوں کہ یہودی مسلمانوں کے دشمن ہوتے ہیں۔
مسلمانوں کے درمیان اس قسم کا ماحول اس بات کے لیے رکاوٹ بن گیا ہے کہ وہ جدید ترقیوں سے فائدہ اٹھائیں۔ وہ اپنے مائنڈ سیٹ کے مطابق جدید ترقیوں سے الرجک ہوگئے ہیں۔ان حضرات کو یہ معلوم ہی نہیں کہ موجودہ زمانہ پروفیشنلزم(professionalism) کا زمانہ ہے۔ اب یہودی ڈاکٹر یہود کی حیثیت سے علاج نہیں کرتے، اب کرشچن ڈاکٹر کرشچن کی حیثیت سے کسی انسان کا طبی معاینہ نہیں کرتا، بلکہ خالص پروفیشنل انداز میں وہ اس کام کو انجام دیتا ہے۔
جدید ترقی کیا ہے۔ وہ دراصل خدا کے پیدا کردہ امکانات کو دریافت کرکے ان کو استعمال کرنا ہے۔ یہ ترقی غیر اسلامی ترقی نہیں، بلکہ وہ خود خدا کی تخلیق کا حصہ ہے۔ مسلمانوں نے اس حقیقت کو سمجھنے میں بہت زیادہ دیر کی ۔ اب انھیں بلاتاخیراس حقیقت کو سمجھنا چاہیے، تاکہ وہ مزید نقصان سے بچ جائیں۔( 11 ستمبر2019)
واپس اوپر جائیں

فاجر کے ذریعے تائید ِ دین

ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ صحیح بخاری کے الفاظ یہ ہیں وَإِنَّ اللَّہَ لَیُؤَیِّدُ ہَذَا الدِّینَ بِالرَّجُلِ الفَاجِرِ(صحیح البخاری، حدیث نمبر3062)۔ یعنی بے شک اللہ ضرور اس دین کی تائید فاجر آدمی کے ذریعے کرے گا۔ صحی بخاری کی شرح میں ابن حجر نے رجل کے لفظ کو جنس کے معنی میں لیا ہے (یُحْتَمَلُ أَنْ تَکُونَ لِلْجِنْسِ )فتح الباری، جلد 7، صفحہ 473۔ یعنی رجال (افراد)۔ راقم الحروف کا خیال ہے کہ یہاں رجل سے مراد سیکولر افراد ہیں، یعنی اللہ تعالی اس دین کی تائید سیکولر افراد کے ذریعے کرے گا۔
سیکولر افرادکے ذریعے دین کی تائید کا مطلب کیا ہے۔ غالباً اس کا مطلب یہ ہے کہ سیکولر لوگوں کے درمیان غور و فکر کا کام نان اسٹاپ (non-stop) انداز میں جاری رہتا ہے۔ اگر آپ افکار کی تاریخ دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ مسلم اہلِ علم کے درمیان غور وفکر کا کام نان اسٹاپ انداز میں جاری نہیں تھا۔ اہلِ دین کے درمیان چوں کہ ڈائکاٹمس تھنکنگ (dichotomous thinking) کا طریقہ ہوتا ہے، یعنی سچائی دو کے درمیان ہے۔ یہ لوگ غلط اور صحیح ، جائز اور ناجائز کے درمیان سوچتے ہیں۔ اس لیے ان کے یہاں بہت جلد بحث ایک حد پر پہنچ کر رک جاتی ہے۔
اس کے برعکس، سیکولر لوگ اختلاف کے بجائے ڈسنٹ (dissent) کو مانتے ہیں۔ اختلاف کے مقابلے میں ڈسنٹ کا لفظ نیوٹرل (neutral) معنی میں ہے، یعنی کسی ایک سائڈ کو لیے بغیر اظہارِ رائے کرنا۔ اختلاف کے ذہن سے سوچنے والے لوگوں کے یہاں کوئی بحث مسلسل طور پر جاری نہیں رہتی۔ اس کے برعکس، ڈسنٹ کے تصور کے ساتھ جو لوگ ڈائلاگ کرتے ہیں، ان کے یہاں ممکن ہوتا ہے کہ ان کے یہاں ڈائلاگ جاری رہے۔ اس طرح سیکولر لوگوں کے یہاں یہ ممکن ہوتا ہے کہ کسی موضوع پر زیادہ سے زیاد ہ بحث و مباحثہ ہو۔ اس مزاج کی وجہ سے سیکولر لوگ دین کے زیادہ پہلوؤں پر اپنی رائے دے سکتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

ایک تجربہ

آج دسمبر 2019 کی 3 تاریخ ہے۔ اس وقت میں نظام الدین ویسٹ میں ایک پارک میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ بیٹھا ہوا ہوں۔ دھوپ نکلی ہوئی ہے، اور موسم نہایت خوشگوار ہے۔ یہاں پارک میں بیٹھ کر میں نے مولانا عبد السلام عمری (حیدر آباد) سے موبائل پر گفتگو کی۔گفتگو کرتے ہوئے میں نے سوچا کہ میں نے پہلی بار حیدر آباد کا سفر غالباً 1948 میں کیا تھا۔ اس وقت میں ٹرین کا سفر کرکے حیدر آباد پہنچا تھا۔ اس زمانے میں دلی سے حیدر آباد کا کمیونی کیشن بہت محدود معنوں میں ہوسکتا تھا۔ اب اللہ کے فضل سے کمپوٹر ایج آچکا ہے، اور یہ ممکن ہوگیا ہے کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ بہ آسانی رابطہ قائم کیا جاسکے۔
1925 میں جب میں پیدا ہوا، اس وقت دنیا میں برٹش ایمپائر موجود تھا۔ یہ ایک پولٹکل ایمپائر تھا۔ اس وقت ایمپائر قائم کرنے کی صرف ایک صورت تھی، اور وہ یہ کہ صاحبِ ایمپائر کے پاس فوج کی طاقت موجود ہو۔ مگر آج فوج کی کوئی ضرورت نہیں۔ آج کی دنیا میں اقوامِ متحدہ (UNO)کا نظام ہر ایک کو عالمی سطح پر مکمل امن دے رہا ہے۔ اگر آدمی خود سے اپنی کسی غلطی کی بنا پر اس امن کو درہم برہم نہ کرے، تو وہ پائے گا کہ ساری دنیا اس کی اپنی دنیا ہے۔ ساری دنیا اس کے لیے مکمل طور پر کھلی ہوئی ہے۔
اب ہر پرامن انسان کے لیے وہ عالمی دور آچکا ہے، جس کی پیشین گوئی پیغمبر اسلام نے ان الفاظ میں کی تھیلَیَبْلُغَنَّ ہَذَا الْأَمْرُ مَا بَلَغَ اللَّیْلُ وَالنَّہَارُ(مسند احمد، حدیث نمبر 16957)۔ یعنی یہ امر وہاں تک پہنچے گا، جہاں تک دن اور رات پہنچتے ہیں۔ میں اس وقت اپنے ساتھی کے ساتھ نظام الدین ویسٹ کے پارک میں بیٹھا ہوں، ہمارے پاس لیپ ٹاپ اور موبائل فون انٹرنیٹ کے ساتھ موجود ہے۔ پوٹنشلی (potentially) ہم ساری دنیا سے مکمل طور پر مربوط ہیں۔ کیسی عجیب ہے، اللہ کی یہ نعمت، وَلَکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُونَ (40:57)۔یعنی لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

مسلم اور غیر مسلم تعلقات

مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان تعلقات کی اصولی بنیاد کیا ہے۔ اس کو مسلم اور ذمّی یا مسلم اور حربی جیسی اصطلاحوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ اس قسم کے فقہی الفاظ صرف وقتی تعلق کو بتاتے ہیں، وہ دونوں کے درمیان مستقل یا اصولی تعلق کو نہیں بتاتے۔
مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان تعلق کی فطری بنیاد یہ ہے کہ دونوں یکساں طورپر انسان ہیں۔ دونوں کے درمیان انسانیت کا ابدی رشتہ قائم ہے۔ انسانیت کا تعلق دونوں کے درمیان وہ فطری تعلق ہے، جو کبھی اور کسی حال میں ٹوٹنے والا نہیں۔ ہر سماج میں اور ہر ملک میں یہ انسانی رشتہ یکساں طورپر برقرار رہتا ہے۔ یہ رشتہ وہ ہے، جو پیدائش کے ساتھ ہی دونوں گروہوں کے درمیان اپنے آپ قائم ہوجاتا ہے۔ یہ ایک ایسا اٹل رشتہ ہے، جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں۔
مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان دوسرا رشتہ وہ ہے، جو عقیدے کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔ اسلامی عقیدے کے مطابق، مسلمان ایک صاحب مشن گروہ ہے۔ یہ مشن وہی ہے، جو پیغمبرکا مشن تھا، یعنی خدا کے پیغام کو پُر امن طورپر دوسرے لوگوں تک پہنچانا۔ اس اعتبار سے زیادہ صحیح طورپر، مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان تعلق کو ان الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے——داعی اور مدعو، شاہد اور مشہود، ناصح اور منصوح۔
انسان کی نسبت سے مسلمانوں کے اوپر دوسرے لوگوں کے لیے وہ تمام فرائض عائد ہوتے ہیں، جو اخلاق کے عنوان سے ضروری سمجھے جاتے ہیں۔ انسانی اخلاقیات کی پابندی جس طرح دوسرے لوگوں کے لیے ضروری ہے، اسی طرح مسلمانوں کے لیے بھی ضروری ہے۔ داعی کی حیثیت سے مسلمانوں کی اخلاقی ذمے داری مزید بڑھ جاتی ہے۔ اب ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ دوسروں کے ساتھ یک طرفہ طورپر حسن اخلاق کا ثبوت دیں، تاکہ داعی اور مدعو کے درمیان معتدل تعلقات قائم رہیں، جو کہ مؤثر دعوتی عمل کے لیے لازمی طورپر ضروری ہے۔
واپس اوپر جائیں

فکری آزادی کا فارمولا

سائنس نام ہے نیچرل سائنس کا ۔ نیچرل سائنس ساری کی ساری اس پر مبنی ہے کہ خالق کی بنائی ہوئی دنیا کن اصولوں پر کام کرتی ہے۔ اسی دریافت (discovery)کو جب منظم انداز میں بیان کردیا جائے، تو اسی کا نام سائنس ہے۔ یہ مبنی بر فطرت قوانین عملاًتقریبا تیرہ بلین سال سے موجود تھے، جب کہ بگ بینگ سے کائنات کا آغاز ہوا۔ پھر کیوں ایسا ہوا کہ فطرت کے ان قوانین کو دریافت کرنے میں بہت زیادہ دیر لگی۔ حالاں کہ اس پر غور و فکر بہت پہلے سے جاری ہے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ فطرت کا علم یقینی طور پر مدون شکل میں موجود نہ تھا۔ بلکہ اس کو ریسرچ کرکے دریافت کرنا تھا۔ دریافت کے اس عمل میں بہت سے دماغ شامل تھے۔ ہر دماغ اپنے مطابق سوچتا تھا، اور اس کو بیان کرتا تھا۔ اس کے باوجود فطرت کا علم آگے نہیں بڑھا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ مختلف دماغوں کو ایک سوچ پر لانے کے لیے کوئی فارمولا موجود نہ تھا۔
آخر کار مغرب کے اہل دماغ نے اس پر غور کیا۔ انھوںنے پایا کہ علوم فطرت کی دریافت کے لیے فری تھنکنگ (free thinking) بہت ضروری ہے۔ لیکن بے قید فری تھنکنگ کی صورت میں اگریمنٹ (agreement)ہونا عملاً ناممکن بن گیا ہے۔ اس لیے اہل مغرب نے اس معاملے میں ایک قابل عمل اصول دریافت کیا۔ وہ اصول تھاڈسنٹ (dissent) کا اصول۔ ڈسنٹ کا لفظ ایک نیوٹرل ٹرم (neutral term) ہے۔ جب کہ ہر آدمی کی ایک اوپینین (opinion) ہے۔ اوپینین کوصحیح اور غلط کے معیار سے جانچنے کے بجائے مجرد طور پر آزادیٔ فکر (freedom of opinion) کا اصول تسلیم کیا جائے۔ اس سے ایک نیوٹرل ٹرم وضع ہوا، جس کو ڈسنٹ (dissent) کہا جاتا ہے۔ یعنی یہ نظریہ کہ اپنے آپ کو صحیح سمجھتے ہوئے دوسرے کے لیے یہ امکان تسلیم کرنا کہ وہ یکساں طور پر برسر حق ہوسکتا ہے۔ اس اصول سے فکر ی عمل مکمل طور پر آزاد ہوگیا۔اب ہر آدمی کو یہ موقع مل گیا کہ وہ اپنی رائے کو آزادانہ طور پر ظاہر کرے، بغیر اس کے کہ وہ دوسرے کی رائے کو غلط یا صحیح بتائے۔
کہا جاتا ہے کہ مشرقی دنیا میں فکری جمود کا مسئلہ ہے۔ مشرقی فکرکے مفروضہ جمود کا سبب یہ ہے کہ اہل مشرق آزادی فکر کا کوئی قابل عمل (workable)فارمولا دریافت نہ کرسکے۔ مغرب میںفکری عمل بھر پور طور پر جاری ہوا، لیکن مشرق میں فکری عمل تنگ حالت میں پڑا رہا۔ جس چیز کو فکری جمود کہا جاتا ہے، وہ نتیجہ ہےفکری عمل کے ورکیبل (workable) فارمولےکودریافت کرنے میں ناکام رہنا۔ کیوں کہ مشرق میں تعدد فکر(diversity of thought ) کے بجائے توحد فکر (unity of thought)کو اپنایا گیا۔ اہل مشرق چیزوں کو حلال وحرام کے ٹرم میں دیکھتے رہے،جس کی وجہ سے ان کے یہاں فری تھنکنگ عملاً رواج نہ پاسکی۔ہر بار جب ایک شخص نے کوئی فکری فارمولا دریافت کیا، تو دوسرا شخص جوابی ذہن لے کر کھڑا ہوگیا کہ یہ غلط ہے،یہ ناجائز ہے،یہ حرام ہے، وغیرہ۔ مشرق میں کسی کے لیے بھی فری تھنکنگ کو اپناکر جمہور سے الگ رائے اختیار کرنا ممکن نہ تھا۔ چنانچہ ان کے یہاں فکرو تحقیق کا کام تعطل کی حالت میں پڑا رہ گیا۔
مغرب میں فکری آزادی کا ڈیولپمنٹ واقعہ بن گیا، لیکن مشرق میں یہ واقعہ نہیں بن سکا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ اس معاملے میں اصل رکاوٹ اتھاریٹی کا نظریہ تھا، یعنی باتوں کو ریزن کی بنیاد پر سننے کے بجائے ’’اکابر‘‘کی بنیاد پر سننا۔ قدیم زمانے میں ساری دنیا میں اتھاریٹی کا تصور چھایا ہوا تھا۔ تاہم مغرب میں سائنس اور چرچ کے ٹکراؤ کے نتیجے میں اتھاریٹی کا تصور کمزورہوا، پھر اس کا خاتمہ ہوگیا۔ اس کے بعد مغرب نے نسبتاً آسانی کے ساتھ ڈسنٹ (dissent) کا نیوٹرل نظریہ اختیار کرلیا۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب میں پوپ ڈم (popedom) کا مستند تصور ایک مدت کے رواج کے بعد ختم ہوگیا۔ اس کے برعکس، مشرق کا حال یہ ہے کہ وہاں اس قسم کا تصور اعتقادی سطح پر موجود ہے۔ مشرق میں اتھاریٹی کا تصور عقیدے پر مبنی ہے، یعنی ’’اکابر‘‘کی اتھاریٹی۔ اس لیے وہ ختم نہ ہوسکا۔ بلکہ آج تک وہ موجود چلا آرہا ہے۔ یہاں ہر آدمی عملا ًیہ مانتا ہے کہ ’’اکابر‘‘ کی رائے عقیدہ سے تعلق رکھتی ہے، اور عقیدے کے معاملے میں حرام و حلال کو دیکھا جاتا ہے، نہ کہ ریزن کو۔
آزادی فکر اپنے آپ میں تنوع (diversity)چاہتی ہے۔ اس لیے آزادی فکر اور توحدِ فکر دونوں یکجا نہیں ہوسکتے۔ دونوں کو یکجا کرنے کا یہ نتیجہ نکلے گا کہ آزادی فکر کا حصول عملا ًناممکن ہوجائے گا۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ اس معاملے کے لیے ایک نیوٹرل فارمولا دریافت کیا جائے۔ یعنی ہر ایک یہ کرے کہ وہ اپنے آپ کو صحیح سمجھتے ہوئے دوسرے کو بھی یکساں درجے میں صحیح سمجھنے کا حق دے۔ اسی نیوٹرل آزادی فکر کا نام ہے ڈسنٹ، جو آزادیٔ فکر کا واحد قابل عمل فارمولا ہے۔ آزادی فکر ایک میوچول پراسس (mutual process)ہے،وہ یونی لیٹرل (unilateral)نوعیت کا پراسس نہیں۔
٭٭٭٭٭٭
دور جدید میں جن مثبت باتوں کا آغاز ہوا ہے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ اب بذریعہ تلوار اختلاف کو دور کرنے کا زمانہ ختم ہوچکاہے ، اوربذریعہ ڈسینٹ (dissent) اختلاف کو اوائڈ کرنے آغاز ہوا ہے۔قدیم زمانے میں جب اختلاف پیدا ہوتا تھا، تواس کا خاتمہ صرف تلوار کے ذریعے ہوا کرتا تھا۔مثلاً قدیم عرب میں یہ سمجھا جاتا تھا  القتل انفی للقتل (قتل ، قتل کے لیے سب سے بڑا روک ہے)۔
مگر اب یہ فریم ورک (framework)بدل چکا ہے۔ موجودہ دور میں اختلاف کے خاتمے کا سپورٹنگ اسٹرکچر (supporting structure)بدل گیا ہے۔ اب وسیع تباہی کے ہتھیاروں (weapons of mass destruction) نے دونوں فریقوں کو اس بات پر مجبور کردیا ہے کہ دونوں فریق اختلاف کا خاتمہ گفتگو کی میز پر کریں۔اب جو اختلاف ختم ہوا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کو’’تلوار‘‘ کی بنیاد پر فیصلےکا بدل مل گیا ہے، اور وہ ہے ڈسنٹ (dissent)۔ انسان کی عقل نے یہ ریلائز کرلیا ہے کہ اختلاف کا خاتمہ ریزن کی سطح پر ہوسکتا ہے۔پہلے زمانے میںحالت یہ تھی کہ اختلاف کی وجہ سے اگر کوئی فریق نہ لڑنا چاہے، تب بھی اس کو جان و مال کی قربانی دینی پڑتی تھی۔ اس کے برعکس، موجودہ دور میں ریزن (reason) کی سطح پر اختلاف کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

اسلام دورِ جدید میں

دورِ جدید میں مسلمان جن مسائل سے دو چار ہیں، ان میں سے ایک مسئلہ وہ ہے، جس کو جدید تہذیب کا مسئلہ کہا جاتا ہے۔ یہ مسئلہ اپنی پوری شدت کے ساتھ انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے وسط میں پیدا ہوا، اور اب اس کے اوپر ایک صدی سے زیادہ کا وقت گزرچکاہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ اس مسئلہ سے نمٹنا تو درکنار ابھی تک ہم یہ بھی سمجھ نہ سکے کہ یہ مسئلہ کیا ہے، اور اس مسئلہ میں کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔
اسلام کے نقطۂ نظر سے جدید تہذیب کا مسئلہ اصلاً یہ مسئلہ نہیں تھا کہ ماڈرن انسان ایک خاص قسم کا لباس پہنتے ہیں، اور ہم اسے پہنیں یا نہ پہنیں ،یایہ کہ گھروں میں استعمال کے لیے انھوں نے ایک خاص قسم کا فرنیچر تیار کیا ہے،اور ہم اپنے گھروں کو ان سے سجائیں یا نہ سجائیں، وغیرہ۔ یہ سوالات اسلامی یا مذہبی نہیں تھے۔ بلکہ تمدنی اور جغرافی سوالات تھے، اور تمدنی ذوق اور جغرافی حالات کے لحاظ سے ان کے بارے میں کوئی فیصلہ کیا جا سکتا تھا۔ اسلام کی نسبت سے جدید تہذیب کے مسائل حقیقۃ ً صرف دو تھے:
1 - یورپ میں جدید تہذیب اور چرچ کے درمیان تصادم نے غلط طور پر جدید علوم کا رخ لامذہبیت کی طرف کردیا۔ چنانچہ اس تصادم کا یہ نتیجہ ہے (نہ کہ بذاتِ خودجدید تہذیب کا) کہ اس تہذیب کے ذریعے جو علوم پیدا ہورہے ہیں، یا جو معاشرہ بن رہا ہے، وہ مذہب سے بیزاری کی طرف جارہا ہے۔
جدید تہذیب، صنعتی تہذیب کے معنی میں ، وقت کی ایک دریافت تھی، اور یقیناً اس قابل تھی کہ اس سے فائدہ اٹھایا جائے۔ مگر جدید تہذیب نے مغربی قوموں کو جس طرح طاقت ور بنادیا، اور جدید تہذیب اور مسیحیت کے درمیان ٹکراؤ نےجس طرح اس کا رخ الحاد کی طرف کردیا، وہ اسلام کے لیے فکری چیلنج تھا، اور یہاں ضرورت تھی کہ اس کا جواب مہیا کیاجائے۔ بدقسمتی سے اسلامی دنیا بروقت اس کا ثبوت نہ دے سکی کہ وہ ان باتوں کا واضح جواب رکھتی ہے۔اس لیے نہ تو جدیدتہذیب سے صحیح استفادہ ہوسکا، اور نہ اس چیلنج کا صحیح جواب مہیا کیا جاسکا۔
2 -اس سلسلے میں دوسرا کام جو سمجھنے کا تھا، وہ یہ کہ جدید تہذیب کے ذریعے وہ مواقع (opportunities)پیدا ہوئے، جن کو استعمال کرکے عالمی سطح پر دینِ اسلام کی اشاعت کا مطلوب کام انجام دیا جاسکے۔ دینِ اسلام کی اس عالمی اشاعت کے لیے ابتدائی زمانےمیں حالات موافق نہ تھے۔ جدیدتہذیب نے بالواسطہ طور پر ناموافق حالات کو مکمل طور پر موافق بنا دیا ہے۔
اس جدید تہذیب کے نتیجے میں بہت سی مثبت چیزیں پیدا ہوئیں۔ مثلاً جدید تعلیم کا فروغ، حقیقت پسندانہ طرزِ فکر (realistic thinking) کا رواج، فکری جمود کا ٹوٹنا، دنیا میں پہلی بار کامل معنوں میں کھلاپن (openness) کا دور آنا، جدید وسائل کو کسی ریزرویشن کے بغیر رواج دینا، جدید کمیونی کیشن کے نتیجے میں عالمی انٹریکشن (global interaction) کا عمومی پھیلاؤ، دنیا میں پہلی بار یہ ممکن ہوا کہ ہر آدمی کے لیے مواقع کے دروازے مکمل طور پر کھل گئے۔
دنیا میں پرنٹنگ پریس اور مواصلاتی دور (age of communication) وجود میں آیا۔ فطرت (nature)میں چھپے ہوئےموافق اسلام سائنسی حقائق دریافت ہوئے، اور عمومی طور پر وہ ہر ایک کی دسترس میں آگئے۔ دنیا میں مکمل معنوں میں مذہبی آزادی کا دور آیا،جس میں ہر ایک کو یہ موقع تھا کہ وہ جس مذہب کو چاہیں اختیار کرے، اور اس کی تبلیغ کرے، صرف ایک شرط کے ساتھ کہ آدمی تشدد (violence) سے مکمل طور پر پرہیز کرے۔
جدید تہذیب مسلمانوں کے لیے حدیث کی زبان میں مؤید دین تہذیب ( صحیح البخاری، حدیث نمبر 3062، مسند احمد، حدیث نمبر 20454، المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 14640) تھی۔ وہ مسلمانوں کے لیے ایک عظیم موقع (great opportunity) تھا، جس کو استعمال کرکے مسلمان جدید معیار کے مطابق زیادہ مؤثر انداز میں اسلام کی اشاعت کا کام کرسکتے تھے۔ جدیدتہذیب نے یہ کیا کہ اجارہ داری کے دور کو ختم کردیا۔ اس طرح انسانی آزادی کا وہ مطلوب ماحول پیدا ہوگیا، جو خدا کے نقشۂ تخلیق کے مطابق درکار تھا۔
واپس اوپر جائیں

مذہبی برداشت

مذہبی معاملات میں برداشت کا معاملہ سب سے زیادہ نازک معاملہ ہوتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ معاملہ اگر سیکولر میدان کا ہوتو آسانی سے آدمی اس کے لیے راضی ہوجاتا ہے کہ وہ خود ایک راستے پر چلے، اور دوسرے کو دوسرے راستے پر چلنے دے۔ مگر جب معاملہ مذہبی ہو تو دونوں فریق اپنے آپ کو برحق سمجھنے لگتے ہیں، دونوں میں سے کوئی لچک (flexibility)دکھانے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ یہ بےلچک انداز مذہبی معاملات میں برداشت یا رواداری کو ختم کردیتا ہے۔ یہی بنیادی سبب ہے، جس کی بنا پر سیکولر معاملے میں آسانی کے ساتھ برداشت کا طریقہ اختیار کرلیا جاتا ہے، اور جب کہ مذہبی معاملے میں رواداری ایک حرام طریقہ نظر آنے لگتا ہے۔ آدمی کو سمجھ میں ہی نہیں آتا کہ وہ کیسے ایسا کرے کہ حرام راستہ پر چلنے کے لیے راضی ہوجائے۔
اس مسئلے کا آسان حل یہ ہے کہ دونوں فریق باہمی احترام(mutual respect) کا طریقہ اختیار کریں۔ پیش آمدہ معاملے کو اخلاق کا معاملہ بنادیں، نہ کہ عقیدے کا معاملہ۔ کسی معاملے کو آپ مذہبی عقیدے کا معاملہ سمجھیں، تو ایسا معاملہ بہت جلد حرام و حلال کا معاملہ بن جاتا ہے۔ آپ کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک طریقہ حرام ہے، اور دوسرا طریقہ حلال۔ اب آپ کو سمجھ میں نہیں آتا کہ حلال طریقے کو چھوڑ کر حرام طریقہ کیسے اختیار کریں۔ اس کے برعکس،پیش آمدہ معاملہ جب آپ کے لیے اخلاق کا معاملہ ہو جائے ، تو اس وقت برداشت کا طریقہ اختیار کرنا آسان ہوجا تا ہے۔ کیوں کہ ایسی صورت میں آپ کو نظر آتا ہے کہ بیجا پسپائی اختیار کیے بغیر آپ بھی اپنے راستے پر چلتے رہیں، اور دوسرا بھی اپنے راستے پر چلتے ہوئے اپنے مقام تک پہنچ جائے۔
برداشت کا طریقہ اختیار کرنے میں باہمی افہام و تفہیم کا راستہ کھل جاتا ہے۔ جب کہ اس کا برعکس راستہ اختیار کرنے میں باہمی افہام و تفہیم کا راستہ بند پڑا رہتا ہے۔ دانش مندی یہ ہے کہ معاملات کو حرام و حلال کا مسئلہ بنانے کے بجائے عملی مفاہمت کا راستہ بنا دیا جائے۔
واپس اوپر جائیں

دوقرآنی آیات

قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِی الْأَرْضِ فَکَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیعًا وَمَنْ أَحْیَاہَا فَکَأَنَّمَا أَحْیَا النَّاسَ جَمِیعًا(5:32)۔ یعنی جو شخص کسی کو قتل کرے، بغیر اس کے کہ اس نے کسی کو قتل کیا ہو یا زمین میں فساد برپا کیا ہو تو گویا اس نے سارے آدمیوں کو قتل کر ڈالا اور جس نے ایک شخص کو بچایا تو گویا اس نے سارے آدمیوں کو بچا لیا۔
قرآن کی اس آیت کے مطابق، انسان کو قتل کرنا، سب سے بڑا سوشل کرائم (social crime)ہے۔ اس معاملے میں استثنا صرف یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے ایک انسان کو عمداً (intentionally) قتل کردیا، تو وہ قابلِ گردن زدنی قرار پائے گا۔ اس سلسلے میں دوسری چیز فساد فی الارض ہے۔ تفسیر المنار میں فساد فی الارض کی تفسیر سلب ِامن سے کی گئی ہے(تفسیر المنار، جلد6، صفحہ288)۔ یعنی ایسا فعل انجام دینا ، جس سے امن عامہ ختم ہوتا ہو۔ گویا قتلِ نفس سے مراد انفرادی قتل ہے، اور فساد فی الارض سے مراد اجتماعی قتل ہے۔
قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہےوَقَاتِلُوہُمْ حَتَّى لَا تَکُونَ فِتْنَةٌ وَیَکُونَ الدِّینُ کُلُّہُ لِلَّہِ فَإِنِ انْتَہَوْا فَإِنَّ اللَّہَ بِمَا یَعْمَلُونَ بَصِیرٌ (8:39)۔یعنی اور ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین سب اللہ کے لیے ہوجائے۔ پھر اگر وہ باز آجائیں تو اللہ دیکھنے والا ہے ان کے عمل کا۔ اس آیت میں فتنہ سے مراد مذہبی جبر (religious persecution) ہے۔ قرآن میں اس جرم پر قتال(war) کا حکم دیا گیا ہے۔کیوں کہ مذہبی جبر کا فعل عام طور پر حکومت کی طرف سے ہوتاہے۔اس لیے یہ حکم دیا گیا کہ ان سے جنگ کرو، یہاں تک کہ فتنہ کی یہ حالت ختم ہوجائے۔
قرآن کی یہ آیت بتاتی ہے کہ اسلام میں جنگ کا تصور کیا ہے۔ اس آیت میں لَا تَکُونَ فِتْنَةٌاور وَیَکُونَ الدِّینُ کُلُّہُ لِلَّہِ دونوں ایک ہی حکم کے دو پہلو ہیں۔ ایک منفی پہلو، اور دوسرا مثبت پہلو۔ فتنہ سے مراد نظام فطرت میں مداخلت ہے، یعنی مذہبی جبر، اور وَیَکُونَ الدِّینُ کُلُّہُ لِلَّہِ سے مراد ہے کہ فتنہ ، مذہبی جبر سے قبل جو حالتِ فطری تھی، وہ لوٹ آئے۔ اس آیت کے مطابق، جنگ کا مقصد کسی حکومت کا قیام نہیں ہے، بلکہ حکومت کی سرپرستی میں جاری مذہبی جبر کو ختم کرکے نظام فطری کو وجود میں لانا ہے، جس میں ہر ایک کو اپنے ارادے اور اختیار سے عمل کی آزادی حاصل ہو۔ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 7095)دوسرے لفظوں میں، ہر انسان کو پرامن دائرے میں اپنا کام کرنے کا موقع مل جائے۔ تاکہ آخرت میں ہر انسان کے لیے اس کے اختیارانہ عمل کے مطابق، جزا و سزا کا فیصلہ کیا جائے۔
یہ آیت کسی محدود سیاسی معنی میں نہیں ہے، بلکہ وہ تاریخی پراسس کے معنی میں ہے۔ وسیع تر معنی میں اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا سے قدیم قبائلی طرز کا دور ختم ہو،جس میں اختلافات کافیصلہ تلوار سے کیا جاتا تھا، اور دنیا میں تہذیب کا دور (civilizational age) آئے۔تاریخ میں ایک نیا پراسس جاری ہو، جس کا منتہیٰ (culmination) یہ ہو کہ نیچر میں چھپی ہوئی ٹکنالوجی دریافت ہو۔ دنیا میں ایج آف کمیونی کیشن آئے۔ آفاق و انفس میں جو موافقِ دین حقیقتیں چھپی ہوئی ہیں، ان کی دریافت ہو۔ یہاں تک کہ مکمل معنوں میں دنیا میں تبیینِ حق کا دور آجائے(فصلت، 41:53)۔
یہ دراصل انبیاء کے مشن کی تکمیل ہے۔ انبیاء کا مشن یہ تھا کہ انسان جو غیر اللہ کی پرستش میں الجھا ہوا تھا، وہ ایک اللہ کی عبادت میں جینے لگے۔ فطرت کا نظام اس طرح کھل جائے کہ انسان خالق کی محبت میں اور خالق کی خشیت میں جینے لگے(البقرۃ، 2:165، التوبۃ، 9:18)۔
اس قسم کی آیات کا غور سے مطالعہ کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قرآن میں موجود قتال کی آیتوں کا مخصوص پس منظر ہے، اور شرائط ہیں۔ان کا لحاظ کیا جائے، تو آج قتال کی ضرورت باقی نہیں رہتی ہے۔ لیکن مسلمان ان کا لحاظ نہیں کرتے ہیں، اس وجہ سے وہ جنگ و قتال میں لگے ہوئے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

مسلح جہاد

اسلام کے کچھ احکام وقتی ہوتے ہیں، یعنی وقتی حالات کی نسبت سے مطلوب ہوتے ہیں۔ مثلاً قرآن میں حج کے سفر کے ذیل میں یہ آیا ہے وَأَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَأْتُوکَ رِجَالًا وَعَلَى کُلِّ ضَامِرٍ یَأْتِینَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیقٍ (22:27)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بروقت پیدل اور اونٹ پر سفر کرکے حج کیا جائے۔ لیکن جب ہوائی جہاز کا زمانہ آجائے، تو ہوائی جہاز کے ذریعے سفر کرکے حج کیا جائے۔
اسی طرح قرآن میں مسلح جہاد کا حکم وقتی ہے، یعنی جب تک دنیا میں وائلنٹ ایکٹوزم کا دور ہے، تو تم بھی بطور دفاع وائلنٹ ایکٹوزم کا طریقہ اختیار کرو۔ جب دنیا میں پیس فل ایکٹوزم کا دور آجائے، تو اس وقت مسلح جہاد مطلوب نہیں رہے گا۔ اس وقت زمانے کے تقاضے کے لحاظ سے پیس فل جہاد مطلوب ہوجائے گا۔ کیوں کہ بعد کے زمانے میں ایسے اسباب پیدا ہوں گے کہ مسلح جدو جہد غیر مطلوب ہوجائے گا۔ اس وقت سے پہلے کے دور میں مسلح عمل سے جو چیز حاصل کی جاتی تھی، وہ سب مزید اضافے کے ساتھ پیس فل طریقہ کار کے ذریعہ قابلِ حصول ہوجائے گا۔
پہلے زمانے میں طاقت کا نشان صرف تلوار ہوتی تھی۔ چنانچہ کہا جاتا تھا ہر کہ شمشیر زند سکہ بنامش خوانند۔ مگر سائنسی انقلاب کے بعد ساری اہمیت علم، ٹکنالوجی اور انڈسٹری کو حاصل ہوگئی ہے۔یہ واقعہ جنگ عظیم ثانی (1939-1945)کے بعد پیش آیا ہے۔ اس حقیقت کی طرف ایک حدیثِ رسول میں ان الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے  لَا ہِجْرَةَ بَعْدَ الْفَتْحِ(صحیح البخاری، حدیث نمبر2783)۔ یعنی فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہجرت کے بعد ایک ایسا دور آنے والا تھا، جب کہ اسلام پر عمل کرنے کے لیے ہجرت کرنا غیر ضروری ہوجائے گا۔کیوں کہ اس کے بعد سب کچھ پرامن ذرائع سے حل کرنا ممکن ہوجائے گا، یعنی وہ دور ایسا ہوگا کہ اس میں دعوتی جہاد کا عمل پر امن طریقے سے انجام دیا جائے گا— اسلام میں اصل مطلوب مقصد ہے، نہ کہ ذریعہ ۔
واپس اوپر جائیں

مسلمانوں کا مسئلہ

مسلمان اور مغربی قوموں کے درمیان طویل مدت تک ایک جنگی سلسلہ چلا۔ یہ جنگی سلسلہ 1096ء شروع ہوا، اورتقریباً دو سو سال تک وقفے وقفے کے ساتھ جاری رہا۔ اس کو تاریخ میں صلیبی جنگ (Crusades)کے نام سے یاد کیا جاتاہے۔ اس میں مسلمانوں کو مکمل فتح ، اور مغربی قوموں کو ذلت آمیز شکست ہوئی۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ مسلمان فتح کی خوشی منانے میں مشغول ہوگئے۔ دوسری طرف مسیحی یورپ کے اندر موضوعی انداز (objective way)میںری پلاننگ (re-planning) کا ذہن پیدا ہوا۔ انھوں نے یہ سوچنا شروع کیاکہ کس طرح میدانِ جنگ کی شکست کو کسی اور میدان میں کامیابی میں تبدیل کیا جاسکتاہے۔ آخر کار انھوں نے یہ دریافت کیا کہ ان کے لیے ایک اور زیادہ بہتر میدان موجود ہے، اور وہ ہے جنگی کروسیڈ س کے بجائے اسپریچول کروسیڈس۔ یعنی فطرت کے قوانین کو دریافت کرکے اس کے ذریعے دوبارہ فتح حاصل کرنا۔
اس منصوبہ بندی میں انھوں نے سو سال سے زیادہ کا عرصہ لگایا۔ یہاں تک کہ مسیحی یورپ نے واقعۃً عمل کا نیا میدان دریافت کرلیا۔ یہ دریافت فطرت کے قوانین (laws of nature) کی دریافت تھی۔ اس دریافت نے مسیحی یورپ کو ایک نئی طاقت دے دی، جس سے اب تک دنیا ناواقف تھی۔ وہ ہے جنگی طاقت کے بجائےفطرت کےقوانین کی تسخیر۔ یہ ایک انوکھی دریافت تھی۔ کیوں کہ اس نے مسیحی یورپ کو یہ موقع دے دیا کہ وہ جنگ کیے بغیر امن کی طاقت سے دنیا پر غلبہ حاصل کرلیں۔ اس دریافت کو عام زبان میں صنعتی انقلاب (industrial revolution) کہا جاتا ہے۔
مسیحی یورپ کی اس دریافت نے مسلمانوں کو بھی ایک عظیم رہنمائی دی ہے، وہ یہ کہ مسلمان مسلح جہاد کے بجائے، پر امن میدان جہاد کو اختیار کریں۔وہ تخریب کے بجائے تعمیر کی طاقت کے ذریعے جینے کا راز دریافت کریں۔ وہ سیاسی غلبہ کی اصطلاح میں سوچنے کے بجائےانسانیت کی تعمیر (development) کی اصطلاح میں سوچیں۔
قدیم زمانہ اور جدید زمانے میں بنیادی فرق یہ ہے کہ قدیم زمانے میں جسمانی طاقت (muscle power) کی اہمیت ہوتی تھی۔ اب ٹکنالوجیکل پاور کی اہمیت ہے۔ قدیم زمانے میں قتل و قتال کی اہمیت تھی، موجودہ زمانے میں آرگنائزیشن کی اہمیت ہے۔ قدیم زمانے میں اہمیت یہ تھی کہ بادشاہ کے سر سے اس کا تاج چھین لیا جائے، موجودہ زمانے میں ساری اہمیت سائنس اور تعلیم کی ہوگئی ہے۔ قدیم زمانے میںکامیابی حاصل کرنے کے لیے محنت اہم ہوا کرتی تھی، موجودہ زمانے میں پلاننگ کی اہمیت زیادہ ہے۔ قدیم زمانے میں خطابت کی اہمیت تھی، موجودہ زمانے میں علم کی اہمیت ہے۔ قدیم زمانے میں شعر و شاعری اور انشاپردازی کی اہمیت تھی، موجودہ زمانے میں فیکٹ (fact)کی اہمیت ہے۔ قدیم زمانے میں باتوں کا فیصلہ میدانِ جنگ میں ہوا کرتا تھا، موجودہ زمانے میں باتوں کا فیصلہ گفتگو کی میز پر ہوا کرتا ہے۔ قدیم زمانے میں الفاظ کی اہمیت ہوا کرتی تھی، موجودہ زمانے میں ساری اہمیت معانی کی ہوتی ہے۔
آج مسلمانوں کو جو اصل کام کرنا ہے، وہ یہ ہے کہ وہ زمانے کے فرق کو پہچانیں، وہ شاعری، ادب اور خطابت کے دور سے باہر نکلیں، اور علم کے دور میں جینے کا طریقہ سیکھیں۔ وہ ماضی کی فتوحات کو دہرانے کا کلچر چھوڑ دیں، اور حال کے معیار کو سمجھیں، اور اس کے مطابق اپنی تعمیرِ نو کریں۔ وہ اس بات کو جانیں کہ زندگی کا راز قومی فخر میں جینا نہیں ہے، بلکہ ساری دنیا کے ساتھ ترقی کے عمل میں شریک ہونے کا نام زندگی ہے۔ مسلمانوں کو جاننا چاہیے کہ ماضی کے جس دور پر وہ فخر کرتے ہیں، وہ دور اب مکمل طور پر ختم ہوچکاہے۔ وہ جس چیز کو اپنا فخر بنائے ہوئے ہیں، وہ فرضی فخر (false pride) کے سوا اور کچھ نہیں۔ مسلمان آج بھی خلافت کے نام سے ایمپائر کے دور میں جی رہے ہیں ۔ حالاں کہ موجودہ زمانہ نیشن اسٹیٹ کا زمانہ ہے، جس نے ایمپائر کے دور کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کردیا ہے۔ مسلمانوں کا کیس ایک لفظ میں پیرانوئیا (paranoia) کا کیس ہے۔پیرانوئیا کا مطلب ہے، فریب خوردگی (delusion) میں جینا۔ اس خود فریبی سے نکلنے ہی میں ان کے لیے نئی زندگی کا راز چھپا ہوا ہے۔
واپس اوپر جائیں

وطن سے محبت

28 مارچ 1998 کو انڈیا انٹرنیشنل سنٹر (نئی دہلی) میں ایک سیمینار تھا۔ اس کا اہتمام اردو اکادمی، دہلی کی طرف سے کیا گیا تھا۔اس موقع پر میں نے بھی ایک تقریر کی۔ میں نے جو باتیں کہیں ان میں سے ایک حب الوطنی کا مسئلہ تھا۔
میں نے کہا کہ 20 ویں صدی میں لمبی مدت تک مسلم مفکرین کسی نہ کسی طور پر اس نظریہ سے متاثر رہے ہیں، جس کو عام طورپر پان اسلامزم (pan islamism)کہاجاتا ہے۔ اس میں دور جدید کے بہت سے مسلم مفکرین کےنام شامل ہیں۔یہ لوگ مسلمانوں کو ایک بین اقوامی برادری سمجھتے تھے، اور مسلمانوں کو ایک عالمی قومیت کا رکن بتاتے تھے۔ اپنے اس نظریے کی بنیاد پر ان کا کہنا تھاکہ قومیت (nationhood) کی بنیاد مذہب پر ہے، نہ کہ وطن پر۔
میں نے کہا کہ میری عمر ہجری کیلنڈر کے لحاظ سے 78 سال ہور ہی ہے۔ میں نے اپنی عمر کا بیشتر حصہ اسلام اوراسلام سے متعلق علوم کے مطالعے میں گزارا ہے۔ میں پورے اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ قومیت کو مذہب پر مبنی قرار دینا کوئی اسلامی نظریہ نہیں۔ یہ سراسر ایک سیاسی نظریہ ہے، جو مخصوص حالات میں پیداہوا۔ 20 ویں صدی کے نصف اول میں مسلمان قائدین یورپی استعمار کے خلاف تمام دنیا کے مسلمانوں کو ابھارنا چاہتے تھے۔ اپنے اس سیاسی مقصد کے نظریاتی جواز کے لیے انھوں نے مذہبی قومیت کا مذکورہ نظریہ پیش کیا۔ یہ اسلام کا سیاسی استحصال تھا، نہ کہ اسلام کی حقیقی ترجمانی۔
اس معاملہ میں اسلام کا نقطۂ نظر وہی ہے، جو پولیٹکل سائنس کا نقطۂ نظر ہے، اور جس کو تمام دنیا میں نظری یا عملی طورپر قبول کرلیا گیا ہے۔ وہ یہ کہ قومیت (nationhood) کی بنیاد وطن (motherland) پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام دنیا میں پاسپورٹ پر کسی آدمی کی قومیت (nationality) وہی لکھی جاتی ہے، جو وطن کی نسبت سےاس کی ہے، خواہ وہ ایک مذہب سے تعلق رکھنے والا ہو، یا دوسرے مذہب سے۔ مثلاً انڈیا میں ہر مسلمان یا غیر مسلمان پاسپورٹ میں اپنے آپ کو انڈین لکھتا ہے، برطانیہ میں برٹش، امریکا میں امریکن، وغیرہ۔
مبنی بروطن قومیت کا یہ نظریہ اسلام کے عین مطابق ہے۔ اس معاملہ میں اسلام اور بقیہ دنیا میں کوئی اختلاف یا ٹکراؤ نہیں۔ مولانا سید حسین احمد مدنی نے کہا تھا کہ موجودہ زمانے میں قومیں اوطان سے بنتی ہیں۔ اس پر کچھ لوگوں نے یہ اضافہ کرنے کی کوشش کی ہے کہ مولانا مدنی کا یہ جملہ خبر ہے، وہ انشاء نہیں۔ یعنی یہ ایک واقعہ ہے کہ بقیہ دنیا میں وطن کو قومیت کی بنیاد مان لیا گیا ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسلام میں بھی قومیت کی بنیاد وطن پر قائم ہے۔
مگر یہ تشریح درست نہیں۔ اس سلسلے میں یہاں میں چند باتیں عرض کروں گا۔ فقہ کا ایک مستقل اصول یہ ہے کہ چیزوں کی اصل ان کا مباح ہونا ہے (الأصل فی الأشیاء الإباحة):
Everything is lawful unless it is declared unlawful.
یہ ایک واضح بات ہے کہ اس مسئلے کے بارے میں قرآن وحدیث میں کوئی براہِ راست ہدایت موجود نہیں۔ قرآن وحدیث میں نہ یہ کہا گیاہے کہ قومیت کی بنیاد مذہب پر ہے، اور نہ یہ کہ اس کی بنیاد وطن پر ہے۔ اس لیے اس معاملے کو ان امور سے متعلق سمجھا جائے گا ،جن کی بابت پیغمبر اسلام نے کہا:أَنْتُمْ أَعْلَمُ بِأَمْرِ دُنْیَاکُمْ (صحیح مسلم، حدیث نمبر2363)۔ یعنی تم اپنی دنیا کے معاملہ کو زیادہ جانتے ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جہاں تک عقیدہ ،عبادت اور آخرت کے معاملات کا تعلق ہے، ان میں مسلمان پابند ہیں کہ وہ شریعت کی رہنمائی کو تاویل کے بغیر قبول کریں، مگر جو امورانتظام دنیا سے تعلق رکھنے والے ہیں، ان میں انسان کو اختیار ہے کہ وہ اپنے حالات کے لحاظ سے جس طریقہ کو درست سمجھے اس کو اختیار کرے۔
اس معاملے میں ایک پیغمبرانہ واقعے سے مزید رہنمائی ملتی ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یمن میں ایک شخص نے نبوت کا دعوی کیا اس کا نام مسیلمہ تھا۔ اس نے دو آدمیوں پر مشتمل اپنا ایک سفارتی وفد مدینہ بھیجا ۔انھوں نے مدینہ آکر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی، اور مدعی نبوت کا یہ تحریری پیغام پہنچایا کہ میں نبوت میں آپ کے ساتھ شریک کیا گیا ہوں (فَإِنِّی قَدْ أُشْرِکْتُ فِی الْأَمْرِ مَعَکَ)۔ سفارتی امور پر گفتگو کرنے کے بعد آپ نے ان دونوں سفیروںسے پوچھا کہ اس بارے میں تمہاری ذاتی رائے کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہماری بھی وہی رائے ہے جو ہمارے صاحب کی رائے ہے۔ یہ سن کر آپ نے کہا کہ خدا کی قسم اگر ایسا نہ ہوتا کہ سفیروں کو قتل نہیں کیا جاتا تو میں تم دونوں کو قتل کردیتا (أَمَا وَاَللَّہِ لَوْلَا أَنَّ الرُّسُلَ لَا تُقْتَلُ لَضَرَبْتُ أَعْنَاقَکُمَا) سیرة ابن ہشام، جلد2، صفحہ 600۔
پیغمبرِ اسلام کے اس واقعہ سے اسلام کا ایک اصول معلوم ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ بین اقوامی معاملات میں شریعت کا طریقہ بھی وہی ہوگا، جو دوسری قوموں کا طر یقہ ہے۔ دوسری قوموں میں اگر سفیر کی جان کو ہر حال میں محترم سمجھا جاتا ہے، تو اسلام میں بھی اس کو ہر حال میں محترم سمجھا جائے گا۔ اسی طرح اس پر قیاس کرتےہوئے یہ کہنا بھی بالکل درست ہے کہ وطنیت کے معاملہ میں دنیا میں جس اصول کو عمومی طور پر مان لیا جائے وہی شریعت میں بھی اختیار کرلیا جائے گا۔ اس معاملہ کو غیر ضروری طورپر عقیدہ اور مذہب کا مسئلہ نہیں بنایا جائے گا۔
ایک بار میں ایک جلسہ میں شریک تھا۔ وہاں ایک صاحب نے اپنی تقریر میں حب وطن کی اہمیت بیان کی، اور کہا کہ اسلام میں بھی اس کی اہمیت کو تسلیم کیاگیا ہے۔ چنانچہ حدیث میں آیاہے : حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الإِیمَانِ (الدرر المنتثرۃ للسیوطی،حدیث نمبر 190)۔یعنی وطن سے محبت کرنا ایمان کا ایک حصہ ہے۔ ایک عالم جو اس وقت جلسے میں موجود تھے، انھوں نے اس کی تردید کرتےہوئے کہا کہحُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الإِیمَانِ کوئی حدیث نہیں ہے، یہ تو صرف ایک عربی مقولہ ہے۔
میں نے کہا کہ یہ درست ہے کہ حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الإِیمَانِ حدیث نہیں۔مگر وہ سادہ طورپر صرف عربی کا ایک مقولہ نہیں، بلکہ وہ فطرت کا ایک مقولہ ہے ،جو انسانی نفسیات کی ترجمانی کرتاہے۔ محدثین عام طورپر اِس قول کو حدیثِ رسول نہیں مانتے، وہ اِس کو ضعیف یا موضوع قرار دیتے ہیں۔ تاہم کچھ علماء نے اس قول کو معنوی اعتبار سے درست قرار دیا ہے۔ مثلاً آٹھویں صدی ہجری کے مشہور عالم محمد بن عبد الرحمن السخاوی (وفات1497ء) نے اِس قول کو ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے:لم أقف علیہ، ومعناہ صحیح (المقاصد الحسنۃ، حدیث نمبر386) ۔ یعنی میں اِس سے واقف نہیں، لیکن اس کا مفہوم درست ہے۔ محدثین کے اصول کے مطابق، السخاوی کے قول کا مطلب یہ ہے کہ یہ قول حدیثِ رسول کے طورپر ان کو نہیں ملا، لیکن دینِ اسلام میں اس کی اصل پائی جاتی ہے۔کتابوں کے ذخیرے میں بہت سی چیزیں ہیں، جو خواہ حدیث رسول نہ ہوں، لیکن وہ یقینی طور پر حدیثِ فطرت ہیں۔ اس بات کو بتانے کے لیے محدثین نے وہ اصول بنایا ہے، جس کو السخاوی کے حوالے سے اوپر بیان کیا گیا ۔
راقم الحروف کا خیال یہ ہے کہ یہ قول اگر کلامِ رسول کے طور پر ثابت شدہ نہ ہو، تب بھی وہ حدیث ِ فطرت ہے۔ جو آدمی حُبّ الوطنی کو فطرت کا جز نہ سمجھتا ہو، وہ جانتا ہی نہیں کہ فطرت کیا چیز ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وطن سے محبت انسانی فطرت کا ایک لازمی تقاضا ہے، اور فطرت کا تقاضا ہونا ہی اس بات کے لیے کافی ہے کہ حُبّ الوطنی (patriotism) کو اسلام کا ایک حصہ سمجھا جائے۔
میں نے کہا کہ اسلام دین فطرت ہے۔ اس لیے فطرتِ انسانی کا ہر صحیح تقاضا بھی عین اسلام کا تقاضا ہے۔ مثال کے طورپر حدیث میں کہیں یہ نہیں آیا ہے کہ حب الام من الایمان (ماں کی محبت ایمان کا حصہ ہے) ۔اس کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ ہر مسلمان اس کو اپنا فرض سمجھتاہے کہ اس کے دل میں اپنی ماں سے محبت ہو۔ جس آدمی کے دل میں اپنی ماں کی محبت نہ ہو، وہ اپنے ایمان میں بھی کامل نہ ہوگا کیونکہ فطرت اور ایمان میں کوئی تضاد نہیں۔
وطن سے محبت بھی بلاشبہ ہر مسلمان کے لیے ایک ایمانی تقاضے کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ آدمی جس ملک میں پیدا ہوا، جہاں اُس کی پرورش ہوئی، جہاں کی ہوا میں اس نے سانس لیا، جہاں کے لوگوں سے اس کے تعلقات قائم ہوئے، جہاں اُس نے اپنی زندگی کی تعمیر کی، ایسے ملک سے محبت کرنا انسانی شرافت کا تقاضا ہے، اور اِسی طرح وہ انسان کے ایمان واسلام کا بھی تقاضا ۔
میں نے کہا کہ جو چیز فطرتِ انسانی کا جز ہو، اس کو قرآن وحدیث میں لکھنے کی ضرورت نہیں وہ قرآن وحدیث میں لکھے بغیر ہی شریعت کا ایک لازمی جز ہے۔ قرآن وحدیث میں یہ حکم نہیں دیا گیا کہ اے مسلمانو، تم اپنی ماں سےمحبت کرو۔ کیونکہ یہ چیز حکم کے بغیر اپنے آپ ہی فطرت کے زور پر حاصل تھی۔ اسی طرح قرآن وحدیث میں یہ لکھنے کی ضرورت بھی نہیں کہ اے مسلمانو، تم اپنے وطن سے محبت کرو۔ کیونکہ وطن سے محبت انسانی شرافت کا تقاضا ہے، وہ انسان ایک پست انسان ہے جس کے دل میں اپنے وطن کے لیے محبت نہ ہو۔ ایسے گہرے فطری تقاضے کے لیے شریعت میں کسی لفظی حکم کی ضرورت نہیں، وہ اپنے آپ ہر مومن کے دل میں پہلے ہی سے موجود ہوتاہے۔
یہاں ایک معاملے کی وضاحت ضروری ہے۔ بعض انتہا پسند لوگوں نے لکھا ہے کہ ہندستان کے عیسائی اور مسلمان سچے محب وطن نہیں ہوسکتے۔ اس لیےکہ محب وطن ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس وطن یا اس جغرافی خطہ کو آدمی مقدس سمجھتا ہو، جہاں وہ پیداہوا ہے۔ ہندو چونکہ اپنے وطن (ماتر بھومی) کو مقدس سمجھتا ہے، اور اس کو معبود کا درجہ دیتاہے۔ اس لیے وہی بھارت کا سچا محبِ وطن (دیش بھکت) ہے۔ عیسائی اور مسلمان چونکہ اپنے مخصوص عقیدے کی بنا پر زمین یا کسی زمینی خطے کو معبود کی طرح مقدس نہیں سمجھ سکتے، اسی لیے وہ بھارت کے سچے دیش بھکت بھی نہیں ہو سکتے۔
یہ ایک بے بنیاد بات ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے خود ساختہ عقیدے کی بناپر اپنی ماں کو معبود مان لے، اور اس کی پر ستش کرنے لگے، تو اس بنا پر اس کو یہ کہنے کا لائسنس نہیں مل جائے گا کہ اس کے سوا بقیہ لوگ اپنی ماں سے محبت نہیں کرتے، کیونکہ وہ اپنی ماں کو معبود نہیں سمجھتے۔ کسی شخص یا گروہ کو بلاشبہ یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ اپنی ماں کو یا اپنے وطن کو معبود سمجھنے لگے۔ مگر کسی بھی قانون یا اصول کی بنا پرایسے لوگوں کو یہ حق نہیں دیا جاسکتا کہ وہ دوسروں کے بارےمیں یہ حکم لگائیں کہ وہ اپنی ماں کو یا اپنے وطن کو معبود مانیں، ورنہ وہ اپنی ماں سے محبت کرنے والے قرار پائیں گے، اور نہ اپنے وطن سے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے معاملات کا تعلق عالمی سطح پر مانے ہوئے رواج سے ہے، نہ کہ کسی شخص یا گروہ کے اپنے مفروضہ سے۔ عالمی اور بین اقوامی سطح پر جب یہ مان لیا گیا ہے کہ قومیت کی بنیاد وطن پر ہے، اور وطن سے مرادمعروف معنوں میں جغرافی وحدت ہے، نہ کہ پُراسرار معنوں میں تقدیسی وحدت۔ اس لیے حب الوطنی (patriotism)کا معیار ہر ایک کے لیے یہی ہوگا۔ البتہ ہر ایک کو یہ آزادی حاصل رہے گی کہ وہ اس کے علاوہ کوئی اورعقیدہ پسند کرتا ہو تو اس کو اپنے لیے اختیار کرلے۔
مادرِ وطن کہنا
ایک صاحب نے بذریعہ ای میل یہ سوال کیا کہ انڈیا کو مادرِ وطن کہنا جائز ہے، یا ناجائز۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ مادرِ وطن کو جائزیا ناجائز کی اصطلاح میں بیان کرنا اس کو غیر ضروری طور پر شرعی مسئلہ بنانا ہے۔ یہ انتہاپسندی ہے کہ ہر چیز کو جائزیا ناجائز کا مسئلہ بنایا جائے۔ اس مزاج کو شریعت میں غلو کہا گیا ہے، اور قرآن و سنت میں غلو کی ممانعت کی گئی ہے۔ ایک مرتبہ ایک صحابی وابصۃالاسدی رسول اللہ کے پاس آئے۔ وہ بہت سا سوال کرنا چاہتے تھے۔ رسول اللہ نے ان کے سوالوں کا جواب نہیں دیا۔ بلکہ یہ کہا:اسْتَفْتِ قَلْبَکَ (مسند احمد، حدیث نمبر18006)۔ یعنی اپنے دل سے فتویٰ پوچھو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر بات کو شرعی مسئلہ نہ بنائو۔ بلکہ اپنی فطرت کی آواز کی پیروی کرو۔
جو لوگ انڈیا کو مادرِ وطن کہتے ہیں۔ وہ اس معنی میں نہیں کہتے کہ وہ اسی جغرافیہ کے بطن سے پیدا ہوکر نکلے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ استعارہ (metaphor) کی زبان ہے۔ اصل یہ ہے کہ مادر وطن سے مراد وہی چیز ہے، جس کو دوسرے الفاظ میں وطن مالوف، مسقط ِرأس، ہوم لینڈ (homeland)، مقامِ پیدائش (birth place) ، جنم بھومی، وغیرہ کہا جاتا ہے۔ اگر بالفرض کچھ لوگ مادر وطن کا لفظ اس معنی میں بولیں کہ وہ وطن کے پیٹ سے اسی طرح پیدا ہوئے ہیں، جس طرح کوئی شخص ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے۔ تو یہ ان کا اپنا معاملہ ہوگا، نہ کہ آپ کا معاملہ۔ آپ مادرِ وطن کا لفظ اپنے مفہوم میں بولیے۔ دوسرے لوگوں کو چھوڑ دیجیے کہ وہ کس معنی میں اس لفظ کا استعمال کرتے ہیں۔ یہ بھی زندگی کی ایک حکمت ہے کہ کسی بات کو اس کی منطقی حد (logical end) تک نہ پہنچایا جائے۔
مادر وطن (بھارت ماتا) کی اصطلاح انیسویں صدی کے آخری زمانے میں شروع کی گئی۔ یہ آزادی کی تحریک چلانے والے لیڈروں نے سیاسی مقصد کے تحت استعمال کیا تھا۔ اس اصطلاح کا کوئی مذہبی پس منظر نہیں۔
واپس اوپر جائیں

جدید اسلوب کا ایک پہلو

ایک مسلم رائٹر کسی شخص کے بارے میں لکھے گا تو وہ اس طرح لکھے گا کہ شیخ الاسلام تقی الدین احمد بن عبد الحلیم ابن تیمیہ ان ذی علم ہستیوں میں سے ایک تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی تجدید کے لیے پیدا فرمایا۔ دین کے مجددین کی فہرست میں انہیں خصوصی مقام حاصل ہے۔
لیکن سیکولر رائٹر کی زبان یہ نہیں ہوتی۔ سیکولر رائٹر کسی چیز کو اس کے میرٹ پر جانچتا ہے، وہ اس کو اس کے تاریخی پہلو سے دیکھتا ہے۔ اس کا معیار یہ ہوتا ہے کہ آبجیکٹیو (objective) انداز میں جو کچھ ثابت ہو، وہی قابل حوالہ ہے، اور جو چیز آبجیکٹیو انداز میں ثابت نہ ہو، وہ عقیدے کا موضوع ہے، نہ کہ علم کا۔ رائٹر(writer) کے لیے اس اصول کو ملحوظ رکھنا بہت ضروری ہے۔ ورنہ اس کی تحریریں کچھ صاحب عقیدہ لوگوں کے لیے قابل مطالعہ ہوسکتی ہیں، لیکن دوسرے لوگوں کے لیے ان کی کوئی حیثیت نہ ہوگی۔
عام دینی علما اور مستشرق اہل علم کے درمیان یہی فرق ہے۔ مستشرق عالم ایسی باتوں کی بنیاد پر لکھتا ہے، جو دینی مآخذ کے باہر آزادانہ حوالوں سے ثابت شدہ قرار پاتی ہوں۔جو باتیں آزادانہ حوالوں سے ثابت شدہ نہ ہوں، وہ مستشرقین کے لیے قابل حوالہ نہیں۔
خواہ لکھنے کا معاملہ ہو، یا بولنے کا معاملہ ۔ صحیح اسلوب یہ ہے کہ آدمی حقیقت نگاری کا طریقہ اختیار کرے۔ تعریف نگاری اوربلادلیل تنقید، دونوں سے وہ دور رہے۔ اس معاملے میں سب سے زیادہ غلط رواج وہ ہے، جس میں افراد کو فضیلت کی زبان میں بیان کیا جاتاہے۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ افراد کو اسی نام سے یاد کیا جائے، جو ان کا اصل نام ہے۔ ان کے نام کے ساتھ بڑے بڑے القاب اور فضیلت کا اسلوب ہرگز اختیار نہ کیا جائے۔ صحابہ کے زمانے میں یہی طریقہ رائج تھا۔ بڑھا چڑھا کر نام لینا، اور نام کے ساتھ فضیلت کے القاب شامل کرنا، یہ سب صحابہ کے زمانے میں نہیں تھا۔ صحیح اسلوب حقیقت نگاری کا اسلو ب ہے، نہ کم ، نہ زیادہ۔
واپس اوپر جائیں

فریم ورک کا مسئلہ

ایک اعلی تعلیم یافتہ مصنف کی کتاب ہے، جس کا نام یہ ہے:
A Modern Approach to Islam by Dr A. A. Faizi (1899-1981)
میں نے اس کتاب کو مکمل طو رپر پڑھا ہے۔ اس پر ایک تبصرہ بھی لکھا ہے۔ میرے مطالعہ کے مطابق، اس کتاب میں مسئلہ کی صحیح ترجمانی نہیں ہے۔ موجودہ زمانے میں اسلام کا اصل مسئلہ ماڈرن اپروچ کا مسئلہ نہیں ہے۔ بلکہ یہ ہے کہ سائنٹفک انقلاب کے بعد اسلوب کے اعتبار سےفریم ورک (framework) بدل گیا ہے۔ ضرورت ہے کہ اسلام کی دعوت کو جدید فریم ورک کے اعتبار سے پیش کیا جائے۔ مثلاً موجودہ زمانے میں ادبی اسلوب ایک متروک اسلوب بن چکا ہے۔ اب دنیا میں سائنٹفک اسلوب کا رواج ہے۔ تبدیلیٔ اسلوب کے سلسلہ میں تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو حسب ذیل کتاب:
The Great Intellectual Revolution by John Frederick West (J. Murray, 1965, pp.132)
اس کتاب کاایک چیپٹراس عنوان سے ہے :تمثیلی اسلوب کا خاتمہ (The Death of Metaphor)۔ یہ چیپٹر اس موضوع پر بحث کرتا ہے۔ تمثیلی اسلوب (metaphor) میں ادبی اسلوب بھی شامل ہے۔ یہاں ادبی اسلوب کی ایک مثال درج کی جاتی ہے۔ ایک معروف عالم دین اور مورخ نے اپنی دینی کتاب سیرت النبی کے دیباچہ میں یہ بتایا ہے کہ اسلام عرب میں کیوں آیا۔ اس میں وہ لکھتے ہیں: معمورۂ عالم کے صفحےنقشہائے باطل سے ڈھک چکے تھے۔ اب ایک سادہ ، بے رنگ ، ہر قسم کے نقش و نگار سے مُعَرّیٰ ورق درکار تھا، جس پر طُغرائے حق لکھا جائے۔
یہ ادبی اسلوب کی مثال تھی۔ اب ماڈرن سائنٹفک فریم ورک کے اعتبار سے یہ کہاجائے گا کہ یہ پوری عبارت ادبی اسلوب میں ہے۔ اس سے متعین (specific) انداز میں معلوم نہیں ہوتا کہ جو واقعہ ہوا، وہ کیا تھا۔ اس کے برعکس، اس واقعہ کو سائنٹفک اسلوب میں کہا جائے تو وہ یہ ہوگا کہ اسلام کے ظہور کا معاملہ دو فیزز (phases) سے تعلق رکھتا ہے۔ پیغمبر ابراہیم نے اپنی اہلیہ ہاجرہ اور اپنے بیٹے اسماعیل کو اس صحرائی مقام پر بسایا جہاں اب مکہ واقع ہے۔ یہ گویا ڈزرٹ تھرپی (desert therapy) کا معاملہ تھا۔ اس صحرائی ماحول میں دوہزار سالہ توالد وتناسل کے ذریعہ ایک نسل بنو اسماعیل تیار ہوئی، جو ماحول کی کنڈیشننگ سے پاک تھی۔ یہ ڈی کنڈیشنڈ قوم (deconditioned nation) بڑی حد تک اپنی فطرت پر قائم تھی۔ اس ڈی کنڈیشنڈ نسل میں پیغمبر اسلام نے اپنا مشن شروع کیا۔ پیغمبر ابراہیم نے اس مشن کو باعتبار تربیت شروع کیا، اور پیغمبر اسلام نے اس مشن کو عملی اعتبار سے تکمیل تک پہنچایا۔
مذکورہ عالم ِ دین نے عرب قوم کے بارے میں جو کچھ کہا، وہ ایک ادبی اسلوب تھا، اور ادبی اسلوب جدید فریم ورک کے خلاف ہے۔ اس کے برعکس، اوپر جو لکھا گیا، وہ جدید فریم ورک کے اسلوب کی مثال ہے۔ ہمارے مصنفین کی کتابوں میں اصل کمی یہی ہے۔ میرے تجربے کے مطابق، ان میں سے کوئی کتاب ایسی نہیں ہے، جو جدید فریم ورک کے مطابق ہو۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کتابیں عصری ذہن کو ایڈریس نہیں کرتیں۔ ان کتابوں میں عصری ذہن کو کوئی ٹیک اوے (takeaway) نہیں ملتا۔ اور جب پڑھنے والے کو ٹیک اوے نہ ملے تو ایسی تحریروں کو پڑھنا، اور نہ پڑھنا برابر ہوجاتا ہے۔ مسلم مصنفین کی جو کتابیں ہمارے کتب خانے میں موجود ہیں، ان کا بڑا حصہ اسی قسم کا ہے جو جدید علمی معیار پر پورا نہیں اترتا۔
واپس اوپر جائیں

مثال کے بغیر

بینکنگ (banking)کی اصطلاح میں ایک لفظ ہے ڈَڈ چیک (dud cheque)۔ یعنی ایسا چیک جس کے حق میں بینک میں ضروری رقم (cash)موجود نہ ہو۔ ایسی ہی مثال اس مضمون یا کتاب کی ہے، جس میں بڑی بڑی باتیں بیانیہ انداز میں ہوں، مگر ان باتوں کے حق میں کوئی ثابت شدہ دلیل موجود نہ ہو۔
مثال کے بغیر تحریر کا یہ انداز قدیم دور میں عام تھا۔ جب سائنس کا زمانہ آیا، تو لوگوںکو معلوم ہوا کہ متعین مثال کے بغیر کوئی تقریر یا تحریر اتنی ہی بے قیمت ہے، جتنا کہ بینک کی اصطلاح میں ڈَڈ چیک (dud cheque)۔ مثلاً آپ کہیں کہ شبلی نعمانی اور سید سلیمان ندوی عالم ادب کے آفتاب و ماہتاب تھے، یا محمد اقبال اور محمد علی جناح برصغیر کی مسلم سیاست میں عہد ساز مفکر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ تو ایسا بیان علمی اعتبار سے ڈڈ چیک کی حیثیت رکھتا ہے۔ کیوں کہ ان بیانات میں جو بات کہی گئی ہے، وہ بیانیہ انداز میں ہے، دلیل کے انداز میں نہیں ۔
جو لوگ اس طرح کے بیان کی کمزوری کو نہ جانتے ہوں، ان سے میں کہوں گا کہ وہ ایک کتاب کے صرف ایک باب کو پڑھ لیں۔ یہاں کتاب کام نام اور اس باب کا نام لکھا جاتا ہے
The Great Intellectual Revolution, by John Frederick West, (Chapter: The Death of Metaphor) J. Murray, 1965, pp. 132.
جیسا کہ معلوم ہے کہ بینک کسی ڈڈ چیک پر لکھے ہوئے اماؤنٹ (amount)پر کوئی ادائیگی نہیں کرتا، جب تک اس چیک کے حق میں بینک میں ضروری رقم موجود نہ ہو۔ اسی طرح ایسا مضمون جو دعوی کی زبان میں ہو، لیکن اس میں کوئی مثال نہ دی گئی ہو، ایسے مضمون کو پڑھنے سے قاری کو کوئی ٹیک اوے (takeaway)نہیں ملتا ہے۔ ایسا مضمون صرف ڈڈ چیک کی مانند ہے۔ اس میں نہ لکھنے والے کے لیے کچھ ہوتا ہے، اور نہ پڑھنے والے کے لیے کچھ ۔ ایسا مضمون لکھنا اور پڑھنا، دونوں صرف وقت کا ضیاع ہے، اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔
واپس اوپر جائیں

بے خبری کا کیس

آج کل جس مسلمان سے بات کیجیے، وہ ہمیشہ ایک ہی بات کو دہرائے گا، اور وہ مسلمانوں پر ظلم کی بات ہے۔ اگر ان سے مزید گفتگو کیجیے تو وہ اخباری نیوز کا حوالہ دیں گے۔ اخباری نیوز کیا ہیں، وہ یک طرفہ خبر رسانی کی مثالیں ہیں۔ قرآن کے مطابق، ایسی خبروں کو مان لینا درست نہیں ہے، بلکہ رائے بنانے سے پہلےغیر جانبدارانہ انداز میں ان کی تحقیق کرنا چاہیے۔
جولوگ ظلم کی داستان سناتے ہیں، یا اسلامو فوبیا (Islamophobia) کی باتیں کرتے ہیں، ان سب پر قرآن کی یہ آیت صادق آتی ہے: یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنْ جَاءَکُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَیَّنُوا أَنْ تُصِیبُوا قَوْمًا بِجَہَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِینَ (49:6)۔ یعنی اے ایمان والو، اگر کوئی فاسق تمہارے پاس خبر لائے تو تم اچھی طرح تحقیق کرلو، کہیں ایسانہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانی سے کوئی نقصان پہنچا دو ، پھر تم کو اپنے کیےپر پچھتانا پڑے۔
اخبار (newspaper)یا میڈیا کیا ہے۔میڈیا منتخب خبروں (selective news) کی انڈسٹری ہے۔ میڈیا کا کام نیوز کو فروخت (sell) کرنا ہے۔ اسی کو صحافت کی دنیا کہا جاتا ہے۔میڈیا کو معلوم ہے کہ لوگ سنسنی خیز خبروں کو پڑھنا پسند کرتے ہیں۔ اس لیے میڈیا سنسنی خیز خبروں کو اکٹھا کرکے ان کو چھاپتا ہے۔ لوگوں میں انھیں خبروں کا چرچا ہوتا ہے، پھر لوگ اسی قسم کی خبروں کو لے کر اپنی رائے بناتے ہیں۔ آج کل لوگوں کا حال یہ ہے کہ صحافت ان کے لیے ذہن سازی کا ذریعہ بنا ہوا ہے۔ لوگوں کی منفی سوچ کا سبب یہی ہے۔
لوگوں کو یہ جاننا چاہیے کہ اس قسم کی خبروں کو ماننا،گویا سنی سنائی خبروں کو لے کر اپنا ذہن بنانا ہے۔ یہ بات عملاً ناممکن ہے کہ لوگوں کے درمیان اس قسم کی خبروں کا چرچا نہ ہو۔ البتہ ایک ذمے دار انسان یہ کرسکتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس قسم کی خبروں سے بچائے، وہ اخباری نیوز پر یقین نہ کرے، وہ خود اپنی سوچ کے مطابق اپنا ذہن بنائے۔ آپ اپنے آپ کو غیر متاثر ذہن کے ساتھ رہنا سیکھ لیں۔
واپس اوپر جائیں

جمہوریت کا نظام

جمہوریت (democracy) کے بارے میں اکثر لوگ منفی رائے رکھتے ہیں۔ اس کا سبب یہ نہیں ہے کہ جمہوریت کا نظام ایک غلط نظام ہے۔ بلکہ اس کا سبب یہ ہے کہ لکھنے اور بولنے والے، جمہوریت کو غلط معیار (yardstick) سے ناپتے ہیں ۔ حالاں کہ جمہوریت کو ایک معیاری نظام قرار دے کر اس کو آٗئیڈیل سے ناپنا بجائے خود غلط ہے۔ حقیقت یہ ہےکہ جمہوریت ایک قابل عمل نظام ہے، نہ کہ آئیڈیل نظام۔
کسی سماج میں سیاسی نظام قائم کرنا، ایک ایسا کام ہے، جو کبھی آٗئیڈیل پیمانے پر نہیں ہوسکتا۔ آپ ایسا کرسکتے ہیں کہ آپ لوہے یا پتھر کا ایک پل (bridge) بنانے کے لیے اس کا ایک پیشگی نقشہ بنائیں، اور پھر ضروری سامان اکٹھا کرکے اپنے نقشے کے مطابق لوہے یا پتھر کا ایک پل بنائیں۔ لیکن یہ ناممکن ہے کہ آپ لوگوں کو مجبور کریں کہ وہ پل یا سڑک کے اوپر ہمیشہ ایک انداز سے سفر کریں، وہ کبھی اس سے گزرنے کے لیے غیر معیاری انداز اختیار نہ کریں۔ پل ہمیشہ مٹیریل کے ذریعے بنتا ہے، اور پل یا روڈ پر چلنے والے زندہ انسان ہوتے ہیں۔ آپ کوئی مادی عمارت مقررہ نقشے پر تعمیر کرسکتے ہیں ، لیکن زندہ انسان کا ایک واحد نقشہ بنانا ممکن نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت کا نظام پریکٹکل وزڈم (practical wisdom) کے اصول پربنتا ہے، نہ کہ آئیڈیل وزڈم(ideal wisdom) کے اصول پر۔ جو چیز پریکٹکل وزڈم پر بنائی جائے، اس کو آئیڈیل وزڈم کے معیار پر ناپنا اصولی طور پر ایک غلطی ہے۔ ایسی غلطی کبھی درست فیصلے تک پہنچانے والی نہیں۔
یہ دانش مندی ہے کہ جب آئیڈلزم (idealism)کا حصول ممکن نہ ہو، تو پریکٹکل وزڈم کے اصول پر زندگی کا نقشہ بنایا جائے۔ جو لوگ ایسا نہ کریں، وہ ہمیشہ ناقد بنے رہیں گے۔ وہ نہ کبھی مثبت رائے تک پہنچیں گے، اور نہ کبھی مثبت انجام تک۔
واپس اوپر جائیں

اتحاد ملّت

ملت میں اتحاد ایک بے ٛحد مطلوب چیز ہے۔ لیکن اتحاد کا راز صرف ایک ہے— اختلاف کے باوجود متحد ہونا۔ اتحاد (unity) کبھی اس طرح پیدا نہیں ہوتا کہ سب لوگوں کی رائے بالکل ایک ہوجائے۔ رایوں کا اختلاف ایک فطری امر ہے۔ اختلاف ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ فطرت کے قانون کے مطابق یہ بالکل ناممکن ہے کہ اختلاف سرے سے موجود نہ رہے۔اتحاد ایک بہت بڑی عبادت ہے۔ لیکن اتحاد ایک عملی ضرورت ہے، نہ کہ اعتقادی ضرورت۔
انسان ایک سوچنے والی مخلوق ہے۔ مختلف انسانوں کی سوچ کبھی یکساں نہیں ہوسکتی۔ یہ فطرت کا تقاضا ہے کہ لوگوں کی سوچ میں یکسانیت (uniformity)نہ ہو۔ اس لیے اختلاف کو مٹاکر اتحاد کو قائم کرنے کی شرط ایک ناممکن شرط ہے۔ اختلاف کو مٹاکر اتحاد قائم کرنا، ہمیشہ کاؤنٹر پروڈکٹو (counter-productive)ثابت ہوتا ہے۔ اگر آپ اختلاف کو ختم کرکے اتحاد پیدا کرنا چاہیں ، تو ایسی کوشش ہمیشہ الٹا نتیجہ پیدا کرے گی۔ اس لیے اگر آپ اتحاد پیدا کرنا چاہتے ہیں، تو لوگوں کے اندر برداشت اور رواداری کی صفت پیدا کیجیے۔ لوگوں کو بتائیے کہ اختلاف کے باوجود متحد ہونا، یہی اتحاد ہے۔ تمام لوگوں کو ہم خیال کرکے اتحاد پیدا کرنا، ایک ناممکن چیز کی کوشش کرنا ہے۔
کسی گروہ میں اگر اختلاف رائے پیدا ہو، تو اس کو ایک صحت مند علامت سمجھیے— لوگوں سے ڈسکشن کیجیے، لوگوں سے پرامن ڈائلاگ کیجیے، ڈسکشن کے بعد اگر لوگ اپنی رائے بدل لیں، تو اس پر اللہ کا شکر کیجیے، اور اگر لوگ رائے بدلنے پر تیار نہ ہوں، تو آپ بذاتِ خود اختلاف کے باوجود متحد ہوکر رہنے کا طریقہ اختیار کیجیے، اور اسی کو خیر سمجھیے۔
اختلافِ رائے کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے اندر تخلیقی فکر (creative thinking) موجود ہو۔ لوگوں کے اندر کھل کر سوچنے کا مزاج موجود ہو اور لوگ فکری جمود کی برائی سے بچے ہوئے ہوں۔ اگر ایسا ہے تو یہ شکر کی بات ہے، نہ کہ ٹکراؤ کی بات۔
واپس اوپر جائیں

کفر، تکذیب

قرآن میں ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: وَالَّذِینَ کَفَرُوا وَکَذَّبُوا بِآیَاتِنَا أُولَئِکَ أَصْحَابُ الْجَحِیمِ (5:10)۔ یعنی اور جنھوں نے کفر کیا اور ہماری نشانیوں کی تکذیب کی، ایسے لوگ دوزخ والے ہیں۔ اس طرح کی آیتوں میں کفر اور تکذیب بآیات اللہ کا کیا مطلب ہے۔ متداول تفسیروں کے مطابق اس قسم کی آیتوں میں کفر سے مراد ہے نبوت کا انکار۔ اب سوال یہ ہے کہ تکذیب آیات کا کیا مطلب ہے۔ اس پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں میں ایک ہی حقیقت کو دو پہلوؤں سے بیان کیا گیا ہے۔ کفر سے مراد ہے، نبوت کا بحیثیت عقیدہ انکار، اور تکذیب آیات سے مراد ہے، اس مسئلے پر بیان کردہ دلائل کو خود ساختہ توجیہات کے ذریعے ناقابلِ قبول قرار دینا۔
مثلاً یہ ماننا کہ انبیا ہمیشہ بنی اسرائیل کی نسل میں پیدا ہوئے۔ اس لیے بنی اسماعیل میں نبی کا پیدا ہونا قابل قبول بات نہیں ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہوا تو یہود نے آپ کو نبی بر حق ماننے سے انکار کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اللہ کی طرف سے جو نبی آئے، وہ سب کے سب بنی اسرائیل میں آئے، یعنی قبیلۂ یہود میں۔ پیغمبر عربی اس کے برعکس، بنی اسماعیل میں پیدا ہوئے ہیں، ان کا تعلق بنی اسرائیل سے نہیں ہے۔ اس لیے وہ نبی بر حق کے طور پر قابلِ قبول نہیں ہوسکتے۔
اسی طرح یہود کے روایتی عقیدے کے مطابق، ہدایت ایک نسلی حقیقت تھی، یعنی ایک مخصوص نسل میں پیدا ہونے سے آدمی کو ہدایت مل جاتی تھی۔ پیغمبر اسلام نے ہدایت کو ایک پیدائشی چیز کے بجائے، ذاتی انتخاب (choice) کی چیز بتا یا۔ یہ بات بھی یہود کے لیے اپنے روایتی عقیدے کے مطابق ناقابلِ فہم تھی۔اس بنا پر وہ بیک وقت دو جرم کے مرتکب قرار پائے، نبوت کا بطور عقیدہ انکار کرنا،ا ور اس معاملے میں بیان کردہ دلیل کو نہ ماننا۔ اس بنا پر ان کا کیس کفر کاکیس بھی تھا، اور تکذیب کا کیس بھی۔ مسلمانوں نے اس سے مشابہ یہ غلطی کی کہ انھوں نے سچائی کو اپنے اپنے مسالک اور فرقوںسے منسوب کردیا، اور اس معاملے میں کسی بھی دلیل کو ماننے سے انکار کردیا۔
واپس اوپر جائیں

میل ملاپ کا سماج

کلدیپ نائر (Kuldip Nayar) 1923 میں سیالکوٹ (پاکستان) میں پیدا ہوئے، اور 2018 میں انڈیا میں ان کی وفات ہوئی۔ تقسیم کے وقت وہ سیالکوٹ چھوڑ کر انڈیا آگئے۔ یہاں انھوں نے انگلش جرنلزم میں نمایاں پوزیشن حاصل کی۔ اپنے ابتدائی زمانے میں وہ اردو زبان میں لکھا کرتے تھے۔ انڈیا آنے کے بعد وہ دہلی کے اردو اخبار (وحدت)میں کام کرنے لگے۔ اس زمانے میں ان کی ملاقات حسرت موہانی (1878-1951)سے ہوئی، جو کہ اردو کے شاعر تھے۔ انھوں نے کلدیپ نائر میں انگلش کی صلاحیت محسوس کی۔ انھوں نے مشورہ دیا کہ وہ انگلش صحافت میں اپنا کیریر بنائیں۔ کلدیپ نائر نے حسرت موہانی کے مشورے کو مان لیا، اور پھر انگلش اخباروں میں لکھنا شروع کیا، یہاں تک کہ وہ انگلش کے ممتاز صحافی بن گئے، اور ترقی کرتے کرتے انڈیا میں کئی اعلیٰ مناصب حاصل کیے۔ کلدیپ نائر کے تعلقات ہندو مسلم دونوں سے بہت اچھے تھے۔
تقسیم (1947) سے پہلے بر صغیر ہند میں میل ملاپ کا سماج تھا۔ ہندوؤں کو مسلمانوں سے فائدہ پہنچتا تھا، اور مسلمانوں کو ہندوؤں سے فائدہ ملتا تھا۔ اس طرح دونوں کے درمیان اچھے تعلقات قائم تھے۔ اچھے تعلقات کے نتیجے میں دونوں کو ایک دوسرے سے فائدہ پہنچتا تھا، اور دونوں ترقی کر رہے تھے۔ تقسیم کے بعد دونوں فرقوں کے درمیان تعلقات خراب ہوگئے۔ اب مصلحین نے یہ کوشش کی کہ اجلاس اور سیمیناروں کے ذریعے دونوں کے درمیان دوبارہ بہتر تعلقات قائم کیے جائیں۔ مگر اس کوشش میں کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ اس کا سبب یہ ہے کہ بہتر سماجی تعلقات فطری طور پر قائم ہوتے ہیں۔ وہ جلسہ اور سیمینار کے ذریعے قائم نہیں ہوتے۔ ملک کی تقسیم سے پہلے دونوں کے درمیان فطری عمل کے ذریعے اچھے تعلقات قائم تھے۔ مگر تقسیم کے بعد جب یہ فطرت پر مبنی تعلقات ٹوٹ گئے، تو وہ دوبارہ پہلے کی طرح قائم نہ ہوسکے۔ حقیقت یہ ہے کہ بہتر سماجی تعلقات فطری عمل کے ذریعے بنتے ہیں، نہ کہ مصنوعی تدبیروں کے ذریعے۔
واپس اوپر جائیں

مثبت لٹریچر کی ضرورت

ایک مدرسہ کے طالب علم نے کراچی بک فیر 2019 میںسی پی ایس انٹرنیشنل کے اسٹال پر آکر اپنا تاثر ان الفاظ میں نقل کیا ہےچار سال قبل میں عورتوں کے بارے میں عرب کے دورِ جاہلیت سے بھی بدتر سوچتا تھا۔ میرے بڑے بھائی نے مولانا (وحید الدین خاں)صاحب کی کتابوں کے مطالعہ پر زور دیا۔ اس وقت میری ذہنی حالت بدتر ہورہی تھی ، میں سوچ سوچ کر اتنا پریشان ہوگیا کہ میں نے خودکشی کرنے کا ارادہ کرلیا۔ ایک دن میں بڑے بھائی کی لائبریری گیا، کتابیں دیکھتے ہوئے میری نظر مولانا صاحب کی کتاب ’’انسان کی منزل‘‘ پر پڑی۔ میں نےاس کتاب کا مطالعہ کیا۔ اس کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد ایسا محسوس ہوا کہ جیسے میرے ذہن سےبوجھ اتر گیاہو۔اس کے بعد مجھے مولانا صاحب کی مزید کتابیں پڑھنے کا شوق پیدا ہوا۔ اس وقت کسی نے مجھے عورت کے بارے میں اسلام کا غلط تصور بتایا کہ اسلام عورتوں کوکمتر درجہ دیتا ہے۔ اب میں عورتوں کے بارے میں اسلام سے کچھ حوالہ چاہتا تھا۔ میں چاہتا تھا کہ انھیں قید کرنے کی اسلام میں مجھے اجازت مل جائے گی۔ میں نے اسی نیت سے مطالعہ شروع کیا۔ لیکن جب میں نے کتاب پڑھی، تو انسانوں کے درمیان مجھے اپنا وجود جنگلی محسوس ہونے لگا۔ پہلے میں سوچتا تھا کہ مرد افضل ہے عورت سے۔ مطالعہ کرنے کے بعد میری سوچ کا پیمانہ بدل گیا۔ میں نے یہ کتابیں پڑھیں— خاتونِ اسلام، خاتونِ جنت، عورت معمارِ انسانیت، وغیرہ۔ ان کتابوں کا مطالعہ کرنے کے بعد میں نے دوسروں کا احتساب کرنے کے بجائے خود کا احتساب شروع کیا۔ گھر میں عورتوں کے ساتھ میں نے غلط رویہ ختم کردیا۔ میرے اندر بدلاؤ آیا تو میں نے اس نظر سے دیکھنا شروع کیا کہ عورت کا بھی درجہ ہے، وہ بھی اللہ کی مخلوق ہے، جیسے کہ مرد۔ اب گھر میں میں عورتوں سے جھگڑا نہیں کرتا ہوں۔ میں اب یہ سمجھتا ہوں کہ مجھے رب نے دوبارہ زندگی عطا کی ہے۔ (محمود السلام قاسمی، کراچی، 8 دسمبر2019)
اس تاثر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آج کے نوجوان طبقے کی رہنما ئی کے لیے مثبت لٹریچرکی کتنی زیادہ ضرورت ہے۔
واپس اوپر جائیں

ملّت کا احیا

ملّت کی بعد کی نسلوں میں قانونِ فطرت کے مطابق، زوال آتا ہے۔ زوال آنے کے بعد ملت کے اندر احیائے نو کا کام کس طرح کیا جائے، اس کا طریقہ قرآن میں پیشگی طور پر بتادیا گیا ہے۔ قرآن کی اس آیت کا ترجمہ یہ ہے: جان لو کہ اللہ زمین کو زندہ کرتا ہے اس کی موت کے بعد، ہم نے تمہارے لیے نشانیاں بیان کردی ہیں، تاکہ تم سمجھو (الحدید،57:17)۔
یہاں ایک فطری تمثیل کے ذریعے ملت کے احیائے نو کا طریقہ بتایا گیا ہے۔ فطرت کے قانون کے مطابق زمین پر دو موسم آتے ہیں، سوکھے کا موسم اور بارش کا موسم۔ سوکھےکے موسم میں کھیت سوکھ جاتے ہیں، کھیت کی ہریالی باقی نہیں رہتی۔ اس وقت کسان یہ کرتا ہے کہ بارش کا موسم آتے ہی وہ دوبارہ پانی اور کھاد کو استعمال کرکے اپنے کھیت کو تیار کرتا ہے۔ یہاں تک کہ دیکھنے والے دیکھتے ہیں کہ سوکھی زمین دوبارہ ہری بھری زمین بن گئی۔
فطرت کی یہ مثال بتاتی ہے کہ ملت کے رہنماؤں کو ملت کے احیاء نو کے لیے کیا کرنا چاہیے۔ وہ ایسا نہ کریں کہ سوکھی زمین کو کسی دشمن کی سازش کا نتیجہ بتا کر احتجاج کی تحریک شروع کردیں۔ بلکہ وہ کسان کی طرح یہ کریں کہ ملت کی زمین کو فرد کی سطح پر دوبارہ ہموار کریں، اور ملت کے پودے، یعنی ہر ہر فرد کی فکری اعتبار سے تعمیر کریں۔
وہ زراعت کے اصول کو ملّت کے معاملے میں اپلائی (apply) کرتے ہوئے،ملت کو دوبارہ شاداب بنائیں۔جس طرح کسان کی محنت مبنی بر پودا ہوتی ہے، اسی طرح ملت کے رہنماؤ ں کی ساری محنت مبنی بر افراد ہونی چاہیے۔ ملت کا زوال دراصل افراد کے زوال کا نام ہے۔ ایسا وقت آنے پر ملت کے رہنماؤں کو یہ کرناہے کہ وہ افراد کی تعمیر کا کام کرنے کی کوشش کریں۔ اسی سے ملت کو دوبارہ زندگی ملے گی۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ ملت کے احیا کا کام افراد کے احیا سے شروع ہوتا ہے۔افراد کے اندر اسپرٹ کو زندہ کرنے کے بعد ملت اپنے آپ زندہ ہوجاتی ہے۔
واپس اوپر جائیں