Pages

Wednesday 2 December 2009

Alrisala December 2009 (الرسالہ دسمبر)

2

-عید ِ اضحی کا پیغام

4

- حج: ایک انتباہ

5

- قربانی اور اسلام

5

- اسلام کے پانچ ارکان

9

- ذبحِ عظیم

15

- حضرت ابراہیم علیہ السلام

16

- علامتی ذبیحہ

18

- قربانی کی حقیقت

20

- حلال اور حرام کا تصور

21

- انسان کی غذائی ضرورت

23

- تاریخ کے فکری مغالطے

26

- استدلال کی نئی بنیاد

31

- غیر فطری نظریہ

32

- انڈیا کے ریفرنس میں

37

- خاتمہ

39

- سوال وجواب

43

- خبر نامہ اسلامی مرکز— 199


عید ِ اضحی کا پیغام

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ نے پوچھا کہ اے خدا کے رسول، یہ قربانیاں کیا ہیں۔ آپ نے جواب دیا کہ تمھارے باپ ابراہیم کا طریقہ (ماہذہ الأضاحی، قال: سنّۃ أبیکم إبراہیم (مسند احمد، جلد 4،صفحہ 368؛ ابن ماجہ، کتاب الأضاحی)۔ اِس حدیثِ رسول سے معلوم ہوتا ہے کہ عید ِاضحی کی حقیقت کیاہے، وہ ہے —حضرت ابراہیم کے طریقے کو علامتی طورپر انجام دے کر اُس کو عملی اعتبار سے اپنی زندگی میں شامل کرنے کا عہد کرنا۔
عید اضحی ہر سال ماہِ ذو الحجہ کی مخصوص تاریخوں میں دہرائی جاتی ہے۔ وہ دراصل حج کی عالمی عبادت کاحصہ ہے۔ حج پورے معنوں میں، حضرت ابراہیم کی زندگی کا علامتی اعادہ (symbolic performance) ہے۔ اِس کا ایک حصہ وہ ہے جو ہر مقام پر عید ِ اضحی کی شکل میں جزئی طورپر انجام دیا جاتا ہے۔
حضرت ابراہیم کا مشن عالمی دعوتی مشن تھا۔ آپ نے اِس مشن کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ کا سفر کیا ۔ آپ نے اپنے اہلِ خاندان کو اِسی کام میں لگایا۔ آپ نے اِس دعوتی مشن کے مرکز کے طورپر کعبہ کی تعمیر کی اور اُس کا طواف کیا۔ آپ نے صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرکے بتایا کہ دنیا میں میری دوڑ دھوپ تمام تراللہ کے لیے ہوگی۔ آپ نے قربانی کرکے اپنے اندر اِس عزم کو پیدا کیا کہ آپ اپنی زندگی کو پوری طرح، اللہ کے کام کے لیے وقف کریں گے۔ آپ نے احرام کی شکل میں سادہ کپڑے پہنے جو اِس بات کی علامت تھے کہ ان کی زندگی مکمل طور سادہ زندگی ہوگی۔ آپ نے شیطان کو کنکریاں مار کر اِس بات کا اظہار کیا کہ وہ اپنے آپ کو شیطان کے بہکاوے سے آخری حد تک بچائیں گے، وغیرہ۔
اِسی ابراہیمی طریقِ زندگی کو جزئی طور پرہر سال عید ِ اضحی کے موقع پر تمام مسلمان اپنے اپنے مقام پر دہراتے ہیں۔ اِس طرح یہ عید ِ اضحی، حضرت ابراہیم کے طریقِ حیات کو اپنی زندگی میںاپنانے کا ایک سالانہ عہد ہے۔ یہی وہ نمونہ ہے جس کو سامنے رکھ کر ہر شخص کو یہ جانچنا چاہیے کہ اُس نے عید ِ اضحی کے دن کو صحیح طور پر منایا، یا صحیح طورپر نہیں منایا۔
عید اضحی کے دن مسلمان اپنے قریب کے لوگوں سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔ یہ ملاقاتیں گویا اُس دعوتی سرگرمی کی تجدید ہیں جو حضرت ابراہیم نے اپنے وقت کی آباد دنیا میں انجام دیں۔ اِسی طرح آج ہر مسلمان کو اپنے زمانے کے لوگوں کے درمیان دعوتی ذمے داریوں کو ادا کرنا ہے۔ پھرہر جگہ کے مسلمان اللّٰہُ أکْبَرُ اللّٰہُ أکْبَرُ، لاَ إلٰہَ إلاّ اللّٰہُ وَاللّٰہُ أکْبَرُ، اللّٰہُ أکْبَرُ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُکہتے ہوئے مسجدوں میں جاتے ہیں اور وہاں دو رکعت نمازِ عید ادا کرتے ہیں اور امام کا خطبہ سنتے ہیں۔ یہ اپنے اندر اِس روح کو زندہ کرنا ہے کہ میں خدا کی پکار پر لبیک کہنے کے لیے تیار ہوں، اور یہ کہ میری پوری زندگی عبادت اور اطاعت کی زندگی ہوگی۔ اِسی کے ساتھ امام کے پیچھے نماز ادا کرنا اور نماز کے بعد خطبہ سننا، اِس بات کا عہد ہے کہ میںاِس دنیامیں اجتماعی زندگی گزاروں گا، نہ کہ متفرق زندگی۔
عید ِ اضحی کے دن قربانی کی جاتی ہے۔ اِس قربانی کے وقت یہ کلمات ادا کیے جاتے ہیں: إنّ صلا تی ونُسکی ومحیای ومماتی للہ ربّ العالمین (الأنعام:161 ) یعنی بے شک، میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا صرف اللہ رب العالمین کے لیے ہوگا۔
قربانی کے وقت ادا کیے جانے والے یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ قربانی کی اصل روح یا اس کی اصل حقیقت کیا ہے۔ قربانی دراصل ایک علامتی عہد (symbolic covenant)ہے۔ اِس علامتی عہد کا تعلق پوری زندگی سے ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ عید اضحی کے دن آدمی علامتی طورپر یہ عہد کرتا ہے کہ اس کی زندگی پورے معنوں میں، خدا رخی زندگی (God-oriented life) ہوگی۔ وہ اپنی زندگی میںعبادتِ الٰہی کو اُس کے تمام تقاضوں کے ساتھ شامل کرے گا۔ وہ اپنے آپ کو خدا کے مشن میں وقف کرے گا۔ وہ دنیا میں سرگرم ہوگا تو خدا کے مشن کے لیے سرگرم ہوگا۔ اُس پر موت آئے گی تو اِس حال میں آئے گی کہ اُس نے اپنے آپ کو پوری طرح خدا کے مشن میں لگا رکھا تھا، وہ پورے معنوںمیں خداوند ِ عالم کا بندہ بناہوا تھا۔ اُس کا جینا خدا کے لیے جینا تھا، نہ کہ خود اپنے لیے جینا۔
واپس اوپر جائیں

حج: ایک انتباہ

حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یأتی علی الناس زمانٌ یحجّ أغنیاء الناس للنزاہۃ، وأوساطہم للتّجارۃ، وقرّاؤہم للرّیاء والسُمعۃ، وفقراء ہم للمسئلۃ (کنز العُمّال، رقم الحدیث: 12363 ) یعنی لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا، جب کہ مال دار لوگ تفریح کے لیے حج کریں گے، اور اُن کے درمیانی درجے کے لوگ تجارت کے لیے حج کریں گے، اور ان کے علماء دکھاوے اور شہرت کے لیے حج کریں گے، اور ان کے غریب لوگ مانگنے کے لیے حج کریں گے۔
یہ حدیث بہت ڈرا دینے والی ہے۔ اس کی روشنی میں موجودہ زمانے کے مسلمانوں کو خاص طور پر اپنا احتساب کرنا چاہیے۔ اُنھیں غور کرنا چاہیے کہ اُن کا حج اِس حدیثِ رسول کا مصداق تونہیں بن گیا ہے۔ مال دار لوگ سوچیں کہ ان کے حج میں تقویٰ کی اسپرٹ ہے ، یا سیر و تفریح (outing) کی اسپرٹ۔ عام لوگ یہ سوچیں کہ وہ دینی فائدے کے لیے حج کرنے جاتے ہیں یا تجارتی فائدے کے لیے۔ علماء غور کریں کہ وہ عبدیت کا سبق لینے کے لیے بیت اللہ جاتے ہیں، یا اپنی پیشوایانہ حیثیت کو بلند کرنے کے لیے۔ اِسی طرح غریب لوگ سوچیں کہ حج کو انھوں نے خدا سے مانگنے کا ذریعہ بنایا ہے، یا انسانوں سے مانگنے کا ذریعہ۔
اِس حدیثِ رسول میں پیشین گوئی کی زبان میں بتایا گیا ہے کہ امت پر جب زوال آئے گا تو اُس وقت لوگوں کا حال کیا ہوگا۔ دورِ عروج میں امت کا حال یہ ہوتا ہے کہ دین کا روحانی پہلو غالب رہتا ہے اور اس کا مادّی پہلو دبا ہوا ہوتا ہے۔ دورِ زوال میں برعکس طورپر یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے درمیان دین کا روحانی پہلو دب جاتا ہے اور اس کا مادّی پہلو ہر طرف نمایاں ہوجاتا ہے۔ پہلے دور میں، تقویٰ کی حیثیت اصل کی ہوتی ہے اور مادّی چیزیں صرف ضرورت کے درجے میں پائی جاتی ہیں۔ اس کے برعکس، دورِزوال میں مادی چیزیں اصل بن جاتی ہیں اور کچھ ظاہری اور نمائشی چیزوں کا نام تقویٰ بن جاتا ہے۔ یہی معاملہ حج اور عمرہ کے ساتھ بھی پیش آتا ہے اور اسلام کی دوسری عبادات کے ساتھ بھی۔
واپس اوپر جائیں

قربانی اور اسلام

حج اور عید اضحی کے موقع پر تمام دنیا کے مسلمان ایک مخصوص دن میں خدا کے نام پر جانور کی قربانی کرتے ہیں۔ یہ قربانی عام زندگی سے کوئی علاحدہ چیز نہیں، اس کا تعلق انسان کی تمام زندگی سے ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ اہلِ ایمان کو چاہیے کہ وہ قربانی کی اسپرٹ کے ساتھ دنیا میں رہیں۔ قربانی کی اسپرٹ تمام اسلامی اعمال کا خلاصہ ہے۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ: وما خلقتُ الجنّ والإنس إلاّ لیعبدون (الذّاریات: 56) یعنی انسان اور جن کو صرف اِس لیے پیدا کیا گیا ہے کہ وہ خداوند ِ عالم کی عبادت کریں ۔ عبادت کیا ہے۔ اس کو ایک حدیثِ رسول میں اِس طرح بیان کیاگیا ہے: تعبد اللہ کانّک تراہ (البخاری ومسلم)۔
اِس حدیث رسول سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کے تصورِ عبادت کے مطابق، انسان کے لیے زندگی کا صحیح طریقہ کیا ہے۔ وہ طریقہ یہ ہے کہ انسان، خدا کی ہستی کو اِس طرح دریافت کرے کہ اُس کو ہر لمحہ خدا کی موجودگی (presence) کا احساس ہونے لگے۔
اس کا شعور اِس معاملے میں اتنا بیدار ہو جائے کہ اس کو ایسا محسوس ہونے لگے گویا کہ وہ خدا کو دیکھ رہا ہے۔ یہ احساس اس کی پوری زندگی کو خدائی رنگ میںرنگ دے۔ اس کے ہر قول اور ہر عمل سے ایسا محسوس ہونے لگے جیسے کہ وہ خدا کو دیکھ رہا ہے، جیسے کہ وہ جو کچھ کر رہا ہے، خدا کی براہِ راست نگرانی کے تحت کررہا ہے۔ اِسی زندہ شعور کے ساتھ زندگی گزارنے کا نام عبادت ہے۔ یہ درجہ کسی آدمی کو صرف اُس وقت ملتا ہے، جب کہ اس نے خدا کو اپنا واحد کنسرن (sole concern) بنالیا ہو۔
واپس اوپر جائیں

اسلام کے پانچ ارکان

عبادت کا تعلق انسان کی پوری زندگی سے ہے۔ ان میں سے پانچ چیزیں بنیادی عبادت کی حیثیت رکھتی ہیں۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بُنی الإسلام علی خمسٍ: شہادۃ أن لا إلٰہ إلااللہ وأنّ محمداً عبد ہ ورسولہ، وإقام الصلوۃ، وإیتاء الزکوۃ، والحج، وصوم رمضان (متفق علیہ) یعنی اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر قائم ہے۔اِس بات کی گواہی دینا کہ ایک خدا کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اور محمد، اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ اور نماز قائم کرنا، اور زکوٰۃ ادا کرنا، اور حج پورا کرنا،اور رمضان کے روزے رکھنا۔
یہ گویا کہ پانچ ستون (pillars) ہیں جن کے اوپر اسلام کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ عمارت ایک دکھائی دینے والی چیز ہے۔اِس حدیث میں عمارتی ڈھانچے کو بطور تمثیل استعمال کرتے ہوئے اسلام کی حقیقت کو بتایا گیا ہے۔ جس طرح ستونوں کے بغیر کوئی عمارت کھڑی نہیں ہوتی، اسی طرح ان پانچ ارکان کے بغیر اسلام کا قیام بھی نہیںہوتا۔ اسلام کو قائم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان پانچ ستونوں کو زندگی میں قائم کیا جائے۔
اسلام کے ان پانچ ارکان کی ایک اسپرٹ ہے، اور ایک اس کا فارم ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اصل اہمیت ہمیشہ اسپرٹ کی ہوتی ہے، لیکن فارم بھی یقینی طورپر ضروری ہے۔ جس طرح جسم کے بغیر روح نہیں، اسی طرح فارم کے بغیر اسلام بھی نہیں۔ اِس معاملے میں بھی اسپرٹ کا اہتمام بہت ضروری ہے، لیکن یہ اہتمام فارم کے ساتھ ہوسکتاہے، فارم کے بغیر نہیں۔
کلمۂ توحید
ان ارکان میں سے پہلا رکن کلمۂ توحید ہے۔ اس کلمہ کا ایک فارم ہے اور اسی کے ساتھ اس کی ایک اسپرٹ ہے۔ اس کا فارم یہ ہے کہ آپ عربی کے مذکورہ الفاظ (کلمۂ شہادت) کو اپنی زبان سے ادا کریں ۔ کلمہ کی اسپرٹ معرفت ہے، یعنی خدا کو دریافت کے درجے میں پالینا۔ کلمۂ توحید کی وہی ادائیگی معتبر ہے جو معرفت کی بنیاد پر ہو۔ معرفت کے بغیر کلمہ پڑھنا صرف کچھ عربی الفاظ کا تلفّظ ہے، وہ حقیقی معنی میں کلمۂ توحید نہیں۔
یونان کے قدیم فلسفی ارشمیدس (Archimedes) کو یہ جستجو تھی کہ کشتی پانی کے اوپر کیسے تیرتی ہے۔ وہ اس کی تلاش میںتھا۔ ایک دن وہ پانی کے حوض میں لیٹا ہوا نہا رہا تھا۔ اچانک اس کو فطرت کے اس قانون کی دریافت ہوئی جس کو بائنسی (law of buoyancy) کہاجاتا ہے۔ اس وقت اس کے اندر اہتزاز(thrill) کی کیفیت پیدا ہوئی۔ وہ اچانک حوض سے نکلا۔ اور یہ کہتا ہوا بھاگا کہ: میں نے پالیا، میں نے پالیا(Eureka, Eureka) ۔
اِس مثال سے سمجھا جاسکتا ہے کہ کلمہ کی ادائیگی کیا ہے۔ کلمۂ توحید کی ادائیگی دراصل داخلی معرفت کا ایک خارجی اظہار ہے۔ یہ حکم بلا شبہہ اسلام کے ارکان میں اولین اہمیت کا حامل ہے، لیکن یہ اہمیت اس کی داخلی معرفت کی بنا پر ہے، نہ کہ صرف لسانی تلفظ کی بنا پر۔
نماز
اسلام کا دوسرا رکن نماز ہے۔ دوسرے ارکان کی طرح نماز کا بھی ایک فارم ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، یہ فارم قیام اور رکوع اور سجود پر مبنی ہے۔ اسی کے ساتھ نماز کی ایک اسپرٹ ہے، وہ اسپرٹ سرنڈر (surrender) ہے، یعنی اپنے آپ کو پوری طرح خدا کے حوالے کردینا۔ خدا کو کامل معنوں میں اپنا مرکز ِ توجہ بنا لینا۔ پورے معنوں میں خدا رخی زندگی (God-oriented life) اختیار کرلینا۔اِسی اسپرٹ کادوسرا نام قرآن میں ذکر ِ کثیر (الأحزاب: 41) ہے، یعنی خدا کو بہت زیادہ یاد کرتے ہوئے زندگی گزارنا۔ نماز کا مقصد بھی قرآن میں ذکر بتایاگیا ہے (طٰہٰ:14 ) ذکر کامطلب رسمی طورپر صرف کسی قسم کی تسبیح خوانی نہیں، بلکہ ہر موقع پر سچے احساس کے ساتھ خدا کو یاد کرتے رہنا ہے۔
آدمی جب دنیا میں زندگی گزارتا ہے تو وہ مختلف قسم کے مشاہدات اور تجربات سے گزرتا ہے۔ اس وقت اس کے اندر وہ چیز پیدا ہونا چاہیے جس کو قرآن میںتوسّم (الحجر:75 ) کہاگیا ہے، یعنی ہر دنیوی تجربے کو خدا ئی تجربے میں کنورٹ کرتے رہنا۔ ہر چیز سے ربّانی غذا حاصل کرتے رہنا۔ حقیقی نماز وہی ہے جو آدمی کے اندر یہ ذہن پیدا کردے کہ وہ ہر چیز سے اپنے لیے توسّم کی غذا حاصل کرتا رہے۔
روزہ
اسلام کے ارکان میں سے تیسرا رُکن روزہ ہے۔ روزہ کا فارم یہ ہے کہ آدمی صبح سے شام تک کھانا اور پینا چھوڑ دے۔ وہ اپنے دن کو بھوک اور پیاس کی حالت میں گزارے۔ روزہ کی اسپرٹ صبر ہے۔ حدیث میںآیا ہے کہ : ہو شہر الصبر(رمضان کا مہینہ صبر کا مہینہ ہے)۔
صبر (patience) کیا ہے۔ صبر کا مطلب یہ ہے کہ آدمی دنیا میں سلف ڈسپلن (self-discipline) کی زندگی گزارنے لگے۔ وہ اپنی خواہشوں پرروک لگائے۔ وہ اشتعال انگیزی کے باوجود مشتعل نہ ہو۔ وہ اپنی انا کو گھمنڈ نہ بننے دے۔ وہ لوگوں کے درمیان نوپرابلم (no problem) انسان بن کر رہے۔ سماجی زندگی میں جب اس کو کوئی شاک (shock) لگے تو وہ اس شاک کو اپنے اوپر سہے، وہ اس کو دسرے تک پہنچنے نہ دے۔
نماز کے فارم کے ساتھ جب یہ اسپرٹ شامل ہوجائے تب کسی آدمی کی نماز حقیقی نماز بنے گی، ورنہ حدیثِ رسول کی زبان میں، اس سے کہہ دیا جائے گا کہ : ارجع فصلّ فإنّک لم تصلِّ ( صحیح البخاری، کتاب الصلاۃ) یعنی جاؤ پھر سے نماز پڑھو، کیوں کہ تم نے نماز نہیں پڑھی۔
زکوٰۃ
اسلام کا چوتھا رکن زکوٰۃ ہے۔ زکوٰۃ کا فارم یہ ہے کہ آدمی اپنی کمائی کے ایک حصے سے اپنی ضرورتوں کو پورا کرے، اور اپنی کمائی کا کچھ حصہ خدا کے حکم کے مطابق، وہ دوسرے انسانوں پر خرچ کرے۔ یہ زکوٰۃ کا فارم ہے۔ زکوٰۃ کی اسپرٹ انسان کی خیر خواہی ہے، یعنی تمام انسانوں کو اپنا سمجھنا۔ حقیقی معنوں میں انسان دوست رویہ (human-friendly behaviour) اختیار کرنا۔ صرف اپنے لیے جینے کے بجائے، ساری انسانیت کے لیے جینا۔ آدمی اگر زکوٰۃ کی رقم دے دے، لیکن دل سے وہ انسانوں کا خیر خواہ نہ بنے تو اس کی زکوٰۃ ادھوری زکوٰۃ مانی جائے گی۔ ایسے آدمی کی زکوٰۃ پورے معنوںمیں زکوٰۃ نہیں ہوگی۔
حج
اسلامی ارکان میںسے پانچواں رکن حج ہے۔ حج کے لفظی معنی ہیں قصد کرکے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا۔ شرعی اصطلاح میں، حج سے مراد وہ عبادتی سفر ہے جس میں آدمی اپنے وطن سے نکل کر مکہ (عرب) جاتا ہے اور وہاں ماہِ ذو الحجّہ کی مقرر تاریخوںمیں حج کے مراسم ادا کرتاہے اور خدا کے نام پر جانور کو قربان کرتا ہے۔ یہ حج کا فارم ہے ۔ حج کی اسپرٹ قربانی (sacrifice) ہے۔ حج کا فارم اور حج کی اسپرٹ دونوں جب کسی کی زندگی میںاکھٹا ہوں تو وہ حج کی عبادت کرنے والا قرار پاتاہے۔
حج کے دوران منٰی کے مقام پر تمام حاجی، جانور کی قربانی پیش کرتے ہیں۔ انھیں تاریخوں میں دنیا بھر میں مختلف مقامات پر مسلمان عید اضحی مناتے ہیں۔ عید اضحی گویا کہ حجکی عبادت میںایک قسم کی جُزئی شرکت ہے۔ عید اضحی کے ذریعے تمام دنیا کے مسلمان مکہ میں کئے جانے والے حج کے ساتھ اپنی وابستگی کا اظہار کرتے ہیں۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ اے خدا کے رسول، یہ قربانیاں کیا ہیں (ما ہذہ الأضاحی یا رسول اللہ)۔ آپ نے فرمایا کہ یہ تمھارے باپ ابراہیم کی سنت ہے (سنۃ أبیکم إبراہیم) اِس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حج کے زمانے میں جو قربانی دی جاتی ہے، وہ اُس طریقے پر عمل کرنے کے لیے ہوتی ہے جس کا نمونہ حضرت ابراہیم نے قائم کیا تھا۔
اِس لیے حج اور قربانی کی حقیقت کو جاننے کے لیے ضروری ہے کہ اس پہلو سے پیغمبر ِ خدا، حضرت ابراہیم کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے۔ اِس مطالعے سے نہ صرف یہ ہوگا کہ ہم کوحج اور قربانی کا تاریخی پس منظر معلوم ہوگا، بلکہ اس کی اصل حقیقت کو سمجھنا بھی ہمارے لیے ممکن ہوجائے گا۔ حج یا عیداضحی میں قربانی دراصل حضرت ابراہیم کی سنت کو دوبارہ زندہ کرنے کا عہد ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ حضرت ابراہیم کی زندگی کی روشنی میں قربانی کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔
واپس اوپر جائیں

ذبحِ عظیم

قرآن کی سورہ نمبر 37 میں حضرت ابراہیم کے واقعے کا ذِکر ہے۔ آپ نے اپنے ایک خواب کے مطابق، اپنے بیٹے اسماعیل کو ذبح کرنے کے لیے زمین پر لٹا دیا۔ اُس وقت، اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتے نے بتایا کہ تمھاری قربانی قبول ہوگئی، اب تم بیٹے کے بدلے ایک دنبہ ذبح کردو۔ چناں چہ آپ نے ایسا ہی کیا۔ اُس موقع پر قرآن میں یہ آیت آئی ہے: وفدیناہ بذِبحٍ عظیم (الصّافات: 107 ) یعنی ہم نے اسماعیل کو ایک عظیم قربانی کے ذریعے بچا لیا۔
اِس آیت میں ذِبح عظیم (عظیم قربانی) کا لفظ اسماعیل کے لیے آیا ہے، نہ کہ دنبہ کے لیے۔ دنبہ کو حضرت ابراہیم نے بطور فدیہ ذبح کیا، اور اسماعیل کو ایک عظیم تر قربانی کے لیے منتخب کرلیا گیا۔ یہ عظیم تر قربانی کیا تھی، وہ یہ تھی کہ اِس کے بعد اسماعیل کو اپنی ماں ہاجرہ کے ساتھ مکہ کے صحرا میں آباد کر دیا گیا، تاکہ اُن کے ذریعے سے ایک نئی نسل تیار ہو۔ اُس وقت یہ علاقہ صرف صحرا کی حیثیت رکھتا تھا۔ وہاں اسبابِ حیات میں سے کوئی چیز موجود نہ تھی۔ اِس لیے اس کو قرآن میں ذبحِ عظیم کا درجہ دیاگیا ۔
یہ عظیم قربانی، اللہ تعالیٰ کا ایک منصوبہ تھا، جس کو فرزند ِ ابراہیم (اسماعیل) کے ذریعے عرب کے صحرا میں عمل میں لایا گیا۔ قرآن (إبراہیم: 37 ) میںاِس واقعے کا ذکر مختصر اشارے کے طورپر آیا ہے اور حدیث میںاس کا ذکر تفصیل کے ساتھ ملتا ہے۔
ہاجرہ پیغمبر ابراہیم کی بیوی تھیں۔ اُن سے ایک اولاد پیدا ہوئی جس کا نام اسماعیل رکھا گیا۔ ایک خدائی منصوبہ کے تحت، حضرت ابراہیم نے ہاجرہ اوراُن کے چھوٹے بچے (اسماعیل) کو عرب میں مکہ کے مقام پر لے جاکر بسا دیا جو اُس وقت بالکل غیر آباد تھا۔ اس واقعہ کے بارہ میں قرآن میںمختصرطورپر یہ حوالہ ملتا ہے:
’’اور جب ابراہیم نے کہا، اے میرے رب، اس شہر کو امن والا بنا اور مجھ کو اور میری اولاد کو اس سے دور رکھ کہ ہم بتوں کی عبادت کریں۔ اے میرے رب، ان بتوں نے بہت لوگوں کو گمراہ کردیا۔ پس جس نے میری پیروی کی وہ میرا ہے۔ اور جس نے میرا کہا نہ مانا تو تو بخشنے والا، مہربان ہے۔ اے ہمارے رب، میں نے اپنی اولاد کو ایک بے کھیتی کی وادی میں تیرے محترم گھر کے پاس بسایا ہے۔ اے ہمارے رب، تاکہ وہ نماز قائم کریں۔ پس تو لوگوں کے دل ان کی طرف مائل کردے اور اُن کو پھلوں کی روز ی عطا فرما، تاکہ وہ شکر کریں‘‘۔ (إبراہیم :35-37 )۔
ہاجرہ کے بارے میں قرآن میں صرف مختصر اشارہ آیا ہے۔ تاہم حدیث کی مشہور کتاب صحیح البخاری میں ہاجرہ کے بارے میں تفصیلی روایت موجود ہے۔ یہ روایت یہاں نقل کی جاتی ہے:
’’عبد اللہ بن عباس کہتے ہیں کہ عورتوں میں سب سے پہلے ہاجرہ نے کمر پٹّہ باندھا تاکہ سارہ کو اُن کے بارے میں خبر نہ ہوسکے۔ پھر ابراہیم، ہاجرہ اور اُن کے بچے اسماعیل کو مکہ میں لے آئے ۔ اُس وقت ہاجرہ اسماعیل کو دودھ پلاتی تھیں۔ ابراہیم نے ان دونوں کو مسجد کے اوپری حصہ میں ایک بڑے درخت کے نیچے بٹھا دیا جہاں زمزم ہے۔ اُس وقت مکہ میں ایک شخص بھی موجود نہ تھا اور نہ ہی وہاں پانی تھا۔ ابراہیم نے کھجور کا ایک تھیلا اور پانی کی ایک مشک وہاں رکھ دیا اور خود وہاں سے روانہ ہوئے۔ ہاجرہ اُن کے پیچھے نکلیں اور کہا کہ اے ابراہیم، ہم کو اس وادی میں چھوڑ کر آپ کہاں جارہے ہیں، جہاں نہ کوئی انسان ہے اور نہ کوئی اور چیز۔ ہاجرہ نے ابراہیم علیہ السلام سے یہ بات کئی بار کہی اور ابراہیم نے ہاجرہ کی بات پر کوئی دھیان نہیں دیا۔ ہاجرہ نے ابراہیم سے کہا کہ کیا اللہ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے۔ ابراہیم نے کہا کہ ہاں۔ ہاجرہ نے کہا پھر تو اللہ ہم کوضائع نہیں کرے گا (إذن لا یُضَیِّعُنَا)۔ ہاجرہ لوٹ آئیں۔ ابراہیم جانے لگے۔ یہاں تک کہ جب وہ مقامِ ثنیہ پر پہنچے جہاں سے وہ دکھائی نہیں دیتے تھے تو اُنہوں نے اپنا رخ ادھر کیا جہاں اب کعبہ ہے اور اپنے دونوں ہاتھ اُٹھا کر یہ دعا کی کہ: اے ہمارے رب، میںنے اپنی اولاد کو ایک ایسی وادی میں بسایا ہے جہاں کچھ نہیں اُگتا، یہاں تک کہ آپ دعا کرتے ہوئے لفظ یشکرون تک پہنچے۔
ہاجرہ اسماعیل کو دودھ پلاتیں اور مشک میں سے پانی پیتیں۔ یہاںتک کہ جب مشک کا پانی ختم ہوگیا تو وہ پیاسی ہوئیں اور ان کے بیٹے کو بھی پیاس لگی۔ انھوں نے بیٹے کی طرف دیکھا تو وہ پیاس سے بے چین تھا۔ بیٹے کی اس حالت کو دیکھ کر وہ مجبور ہو کر نکلیں۔ انھوں نے سب سے قریب پہاڑ صفا کو پایا۔ چناںچہ وہ پہاڑ پر چڑھیں اور وادی کی طرف دیکھنے لگیں کہ کوئی شخص نظر آجائے۔ وہ کسی کو نہ دیکھ سکیں۔ وہ صفا سے اتریں۔ یہاں تک کہ جب وہ وادی تک پہنچیں تو اپنے کُرتہ کا ایک حصہ اُٹھایا پھر وہ تھکاوٹ سے چور انسان کی طرح دوڑیں۔ وادی کو پار کرکے وہ مروہ پہاڑ پر آئیں۔ اُس پر کھڑے ہو کر اُنہوں نے دیکھا تو کوئی انسان نظر نہ آیا۔ اس طرح اُنھوں نے صفا و مروہ کے درمیان سات چکر لگائے۔ عبد اللہ بن عباس کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگ ان دونوں کے درمیان سعی کرتے ہیں۔ پھر وہ مروہ پر چڑھیں۔ اُنہوں نے ایک آواز سُنی۔ وہ اپنے آپ سے کہنے لگیں کہ چپ رہ۔ پھر سُننا چاہا تو وہی آواز سُنی۔ اُنہوں نے کہا کہ تو نے اپنی آواز مجھ کو سنا دی تو اس وقت ہماری مدد کرسکتا ہے۔ دیکھا تو مقام زمزم کے پاس ایک فرشتہ ہے۔ فرشتہ نے اپنی ایڑی یا پنکھ زمین پرمارا، پانی نکل آیا۔ ہاجرہ اُس کو حوض کی طرح بنانے لگیں اور ہاتھ سے اُس کے گرد مینڈ کھینچنے لگیں۔ وہ پانی چلّو سے لے کر اپنی مشک میں بھرتیں۔ وہ جس قدر پانی بھرتیں چشمہ اُتنا ہی زیادہ اُبلتا۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ ہاجرہ پر رحم کرے، اگر وہ زمزم کو اپنے حال پر چھوڑ دیتیں، یا آپ نے یہ فرمایا کہ اگر وہ چلّو بھر کرپانی نہ لیتیں تو زمزم ایک بہتا چشمہ ہوتا۔ہاجرہ نے پانی پیا اور اپنے بیٹے کو پلایا۔ فرشتہ نے ہاجرہ سے کہا کہ تم ضائع ہونے کا اندیشہ نہ کرو۔ یہ اللہ کا گھر ہے۔ یہ بچہ اور اُس کے باپ دونوں اس گھر کو بنائیں گے اور اللہ اپنے گھر والوں کو ضائع نہیں کرتا۔ اُس وقت گھر (کعبہ) ٹیلے کی طرح زمین سے اونچا تھا۔ سیلاب آتا اور وہ اس کے دائیں بائیں جانب سے نکل جاتا۔ کچھ دنوں تک ہاجرہ نے اسی طرح زندگی گزاری۔ یہاںتک کہ جُرہُم قبیلہ کے کچھ لوگ یا جرہم کے گھر والے کدا کے راستہ سے آرہے تھے۔ وہ مکہ کے نشیبی حصہ میں اُترے۔ اُنھوں نے وہاںایک پرندہ کو دیکھا جو گھوم رہا تھا۔ وہ کہنے لگے کہ یہ پرندہ تو پانی پر گھومتا ہے۔ ہم اس وادی میں رہے ہیں اور یہاں پانی نہ تھا۔ اُنہوں نے ایک یا دو آدمی کو خبر لینے کے لیے وہاں بھیجا۔ اُنہوں نے پانی دیکھا۔ وہ واپس لوٹ کر گئے اورلوگوں کو پانی کی خبر دی۔ وہ لوگ بھی آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاجرہ پانی کے پاس تھیں۔ اُنہوں نے ہاجرہ سے کہا کہ کیا تم ہم کو یہاں ٹھہرنے کی اجازت دیتی ہو۔ ہاجرہ نے کہا کہ ہاں لیکن پانی پر تمہارا کوئی حق نہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ ہاں۔ عبد اللہ بن عباس کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاجرہ خود چاہتی تھیں کہ یہاں انسان آباد ہوں۔ اُن لوگوں نے یہاں پر قیام کیا اور اپنے گھر والوں کو بھی بُلا بھیجا، وہ بھی یہیں ٹھہرے۔ جب مکہ میں کئی گھر بن گئے اور اسماعیل جوان ہوگئے اور اسماعیل نے جرہم والوں سے عربی زبان سیکھ لی۔ جرہم کے لوگ اُن سے محبت کرنے لگے تو اُنہوں نے اپنی ایک لڑکی سے اُن کا نکاح کردیا۔ ہاجرہ کا انتقال ہوگیا۔ جب اسماعیل کا نکاح ہوچکا تو ابراہیم اپنی اولاد کو دیکھنے آئے۔ اُنہوں نے وہاں اسماعیل کو نہیں پایا۔ چنانچہ اُن کی بیوی سے اُن کے بارہ میں پوچھا۔ اُس نے کہا کہ وہ ہمارے لیے رزق کی تلاش میں نکلے ہیں۔ ابراہیم نے اُس سے اُن کے گزر بسر اور حالت کے بارہ میں پوچھا۔ اُس نے کہا کہ ہم تکلیف میں ہیں۔ ہم بہت زیادہ تنگی میں ہیں۔ اُس نے ابراہیم سے شکایت کی۔ ابراہیم نے کہا کہ جب تمہارے شوہر آئیں تو تم اُن کو میرا سلام کہنا اور اُن سے یہ بھی کہنا کہ وہ اپنے دروازہ کی چوکھٹ کو بدل دیں۔ جب اسماعیل آئے۔ اُنھوں نے کچھ محسوس کرلیا تھا۔ اُنھوں نے کہاکہ کیا تمہارے پاس کوئی آیا تھا۔ اُس نے کہا کہ ہاں۔ ایک بوڑھا شخص اس اس صورت کا آیا تھا۔ اُنہوں نے آپ کے بارہ میں پوچھا، میں نے اُن کو بتایا۔ اُنہوں نے مجھ سے پوچھا کہ ہماری گزرکیسے ہوتی ہے۔ میں نے کہا کہ بڑی تکلیف اور تنگی سے۔ اسماعیل نے کہا کہ کیا اُنہوں نے تم سے اور کچھ کہا ہے ۔ اُس نے کہا کہ ہاں۔ اُنھوں نے مجھ سے آپ کو سلام کہا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ اپنے دروازہ کی چوکھٹ کو بدل دو۔ اسماعیل نے کہا کہ وہ میرے باپ تھے۔ انھوں نے مجھ کو حکم دیا ہے کہ میں تم کو چھوڑ دوں۔ تم اپنے گھر والوں میں چلی جاؤ۔ اسماعیل نے اُس کو طلاق دے دی۔ اور جرہم کی ایک دوسری عورت سے اُنہوں نے نکاح کرلیا۔ ابراہیم اپنے ملک میں ٹھہرے رہے جس قدر اللہ نے چاہا۔ اس کے بعد ابراہیم اسماعیل کے یہاں آئے تو پھر اُن کو نہیں پایا۔ وہ اسماعیل کی بیوی کے پاس آئے اور اُس سے اسماعیل کے بارہ میں پوچھا۔ اُس نے کہا کہ وہ ہمارے لیے رزق کی تلاش میں نکلے ہیں۔ ابراہیم نے کہا کہ تم لوگ کیسے ہو۔ اس نے کہا کہ ہم لوگ خیریت سے ہیں اورکشادگی کی حالت میں ہیں۔ اُس نے اللہ عزّوجل کی تعریف کی۔ ابراہیم نے کہا کہ تمہارا کھانا کیا ہے۔ اُس نے کہا کہ گوشت۔ ابراہیم نے کہا کہ تم کیا پیتے ہو۔ اُس نے کہا کہ پانی۔ ابراہیم نے دعا کی کہ اے اللہ، تو اُن کے گوشت اور پانی میں برکت دے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اُس وقت مکہ میں اناج نہ تھا۔ اور اگر وہاںاناج ہوتا تو ابراہیم اس میں بھی برکت کی دعا کرتے۔ مکہ کے علاوہ کسی دوسرے ملک کے لوگ اگر گوشت اور پانی پر گزر کریں تو وہ اُن کو موافق نہ آئے۔ ابراہیم نے کہا کہ جب تمہارے شوہر آئیں تو تم اُن کو میرا سلام کہنااور میری طرف سے اُن کو یہ حکم دینا کہ وہ اپنے دروازے کی چوکھٹ کو باقی رکھیں۔ پس جب اسماعیل آئے تو اُنہوں نے کہا کہ کیا تمہارے پاس کوئی شخص آیا تھا۔ اُس نے کہا کہ ہاں، ہمارے پاس ایک اچھی صورت کے بزرگ آئے تھے اور اُس نے آنے والے کی تعریف کی۔ اُنہوں نے مجھ سے آپ کے بارہ میں پوچھا تو میں نے اُنہیں بتایا۔ اُنہوں نے مجھ سے دوبارہ ہمارے گزر بسر کے بارہ میں پوچھا۔ میںنے اُنھیں بتایا کہ ہم خیریت سے ہیں۔ اسماعیل نے کہا کہ کیا انھوں نے تم سے کچھ اور بھی کہا ہے۔ اُس نے کہا کہ ہاں۔ اُنہوں نے آپ کو سلام کہا ہے اور آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ اپنے دروازہ کی چوکھٹ کو باقی رکھیں۔ اسماعیل نے کہا کہ وہ میرے باپ تھے اور تم چوکھٹ ہو۔ اُنھوں نے مجھ کو حکم دیا ہے کہ میں تمہیں اپنے پاس باقی رکھوں۔ پھر ابراہیم اپنے ملک میں ٹھہرے رہے جب تک اللہ نے چاہا۔ اس کے بعد وہ آئے اور اسماعیل زمزم سے قریب ایک درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے اپنے تیر درست کررہے تھے۔ جب اسماعیل نے ابراہیم کو دیکھا تو وہ کھڑے ہوگئے۔ پس انھوںنے وہی کیا جو ایک باپ اپنے بیٹے سے اور ایک بیٹا اپنے باپ سے کرتا ہے۔ ابراہیم نے کہا کہ اے اسماعیل، اللہ نے مجھ کو ایک حکم دیا ہے۔ اسماعیل نے کہا کہ پھر جو آپ کے رب نے حکم دیا ہے اُسے کر ڈالیے۔ ابراہیم نے کہا کہ کیا تم میری مدد کروگے۔ اسماعیل نے کہا کہ میں آپ کی مدد کروں گا۔ ابراہیم نے کہا کہ اللہ نے مجھ کو یہ حکم دیا ہے کہ میں یہاں ایک گھر بناؤں اور ابراہیم نے اس کے گرد ایک بلند ٹیلہ کی طرف اشارہ کیا۔ اُس وقت اُن دونوں نے گھر کی بنیاد اٹھائی۔ اسماعیل پتھر لاتے تھے اور ابراہیم تعمیر کرتے تھے، یہاں تک کہ جب دیوار اونچی ہوگئی تو اسماعیل یہ پتھر (حجر اسود) لائے اور اُس کو وہاں رکھ دیا۔ ابراہیم اُس پتھر پر کھڑے ہو کر تعمیر کرتے تھے اور اسماعیل اُن کو پتھر دیتے تھے۔ اور وہ دونوں کہتے تھے کہ —اے ہمارے رب، تو ہماری طرف سے یہ قبول کر، بیشک تو بہت زیادہ سننے والا اور بہت زیادہ جاننے والا ہے۔ پس وہ دونوں تعمیر کرتے اور اس گھر کے ارد گرد یہ کہتے ہوئے چکر لگاتے کہ اے ہمارے رب، تو ہماری طرف سے یہ قبول کر۔ بیشک تو بہت زیادہ سننے والا اور بہت زیادہ جاننے والا ہے‘‘۔
صحیح البخاری، کتاب الانبیاء، باب قول اللہ تعالیٰ واتّخذ اللہ ابراہیم خلیلاً
(رقم الحدیث : 3364 )
ہاجرہ کے شوہر حضرت ابراہیم بن آزر تقریباً ساڑھے چار ہزار سال پہلے عراق میں پیدا ہوئے اور 175 سال کی عمر پا کر اُن کی وفات ہوئی۔ اُنہوں نے اپنے زمانہ کے لوگوں کو توحید کی دعوت دی۔ مگر شرک اور بُت پرستی کا غلبہ ان لوگوں کے ذہن پر اتنا زیادہ ہوگیا تھا کہ وہ توحید کے پیغام کو قبول نہ کر سکے۔ حضرت ابراہیم نے ایک سے زیادہ جنریشن تک لوگوں کو توحید کا پیغام دیا۔ مگر اس زمانہ میں شرک ایک تہذیب کی صورت اختیار کرکے لوگوں کی زندگی میں اس طرح شامل ہوچکا تھا کہ وہ اس سے الگ ہو کر سوچ نہیں سکتے تھے۔ پیدا ہوتے ہی ہر آدمی کو شرک کا سبق ملنے لگتا تھا۔ یہاں تک کہ ماحول کے اثر سے اُس کا ذہن پوری طرح شرک میں کنڈیشنڈ ہوجاتا تھا۔
اُس وقت اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت ابراہیم نے ایک نیا منصوبہ بنایا۔ وہ منصوبہ یہ تھا کہ متمدّن شہروں سے باہر غیر آباد صحرا میں ایک نسل تیار کی جائے۔ اسی مقصد کے لیے حضرت ابراہیم نے ہاجرہ اور اسماعیل کو مکہ میں آباد کیا۔
واپس اوپر جائیں

حضرت ابراہیم علیہ السلام

حضرت ابراہیم 1985ق م میں عراق کے قدیم شہر اُر (Ur) میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے 175 سال سے زیادہ عمر پائی۔ ’’اُر‘‘ قدیم عراق کی راجدھانی تھا۔ مزید یہ کہ یہ علاقہ قدیم آباد دنیا (میسو پوٹامیا) کا مرکز تھا۔ حضرت ابراہیم نے اپنی تمام اعلیٰ صلاحیتوں اور کامل درد مندی کے ساتھ اپنے معاصرین کو توحید کی طرف بلایا۔ اس وقت کے عراقی بادشاہ نمرود (Nemrud) تک بھی اپنی دعوت پہنچائی۔ لیکن کوئی بھی شخص آپ کی دعوت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہوا، حتی کہ آپ جب اتمامِ حجت کے بعد عراق سے نکلے تو آپ کے ساتھ صرف دو انسان تھے— آپ کے بھتیجے او ر آپ کی اہلیہ۔
حضرت ابر اہیم سے پہلے، مختلف زمانوں اور مختلف علاقوں میں خدا کے پیغمبر آتے رہے اور لوگوں کو توحید کی دعوت دیتے رہے۔ لیکن ان تمام پیغمبروں کے ساتھ یکساں طورپر یہ ہوا کہ لوگ ان کا انکار کرتے رہے۔ انھوںنے پیغمبروں کا استقبال استہزا( یٰسٓ: 30 )کے ساتھ کیا۔
حضرت ابراہیم کے اوپر پیغمبر کی تاریخ کا ایک دور ختم ہوگیا۔ اب ضرورت تھی کہ دعوت الی اللہ کی نئی منصوبہ بندی کی جائے۔ اس منصوبہ کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کا انتخاب کیا۔ چناںچہ حضرت ابراہیم عراق سے نکلے اور مختلف شہروں سے گزرتے ہوئے آخر کار وہاں پہنچے جہاں آج مکہ آباد ہے۔ جیسا کہ صحیح البخاری کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے، آپ کا یہ سفر فرشتہ جبرئیل کی رہنمائی میںطے ہوا۔
واپس اوپر جائیں

علامتی ذبیحہ

اسی دوران یہ واقعہ پیش آیا کہ حضرت ابراہیم نے خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے اسماعیل کو اپنے ہاتھ سے ذبح کررہے ہیں۔ اس خواب کے مطابق، حضرت ابراہیم اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کے لیے تیار ہوگئے۔ لیکن یہ ایک تمثیلی خواب تھا، یعنی اس کا مطلب یہ تھا کہ اب خدائی منصوبہ کے مطابق، اپنے بیٹے کو توحید کے مشن کے لیے وقف (dedicate) کردو، ایک ایسا مشن جو عرب کے بے آب وگیاہ صحرا میں شروع ہونے والا تھا۔
قرآن میںحضرت ابراہیم کے اس خواب کا ذکر سورہ نمبر 37 میںآیا ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ پیغمبر ابراہیم نے خواب کے بعد جب اپنے بیٹے کو قربان کرنا چاہا تو اس وقت خدا کے فرشتے نے آپ کو بتایا کہ آپ بیٹے کے فدیہ کے طورپر ایک دنبہ ذبح کردیں۔ چناں چہ حضرت ابراہیم نے ایسا ہی کیا۔ اس بات کو بتاتے ہوئے قر آن میں ارشاد ہوا ہے: وفدیناہ بذبح عظیم (الصّافات: 107 )۔
جیسا کہ صحیح البخاری کی روایت سے معلوم ہوتا ہے، اس کے بعد حضرت ابراہیم نے اپنی بیوی ہاجرہ اور اپنے بیٹے اسماعیل کو عرب کے ایک صحرائی مقام میں آباد کردیا۔ یہ وہی مقام تھا جہاں اب مکہ آباد ہے۔ اسی مقام پر بعد کو حضرت ابراہیم اور آپ کے بیٹے اسماعیل نے کعبہ کی تعمیر کی، اور حج کا نظام قائم فرمایا۔
ہاجرہ اوراسماعیل کو صحرا میں اس طرح آباد کرنے کا مقصد کیا تھا۔ اس کا مقصد تھا ایک نئی نسل بنانا۔ اس زمانہ کی شہری آبادیوں میں مشرکانہ کلچر مکمل طورپر چھاچکا تھا۔اس ماحول میں جو بھی پیدا ہوتا وہ مشرکانہ کنڈیشننگ کا شکار ہوجاتا۔ اس بنا پر اس کے لیے توحید کے پیغام کو سمجھنا ممکن نہ رہتا۔ متمدن شہروں سے دور صحرا میں ہاجرہ اور اسماعیل کو اس لیے بسایا گیا تاکہ یہاں فطرت کے ماحول میںان کے ذریعہ سے ایک نئی نسل تیار ہو، ایک ایسی نسل جو مشرکانہ کنڈیشننگ سے پوری طرح پاک ہو۔ تو الد وتناسل کے ذریعہ یہ کام جاری رہا یہاںتک کہ بنو اسماعیل کی قوم وجود میں آئی۔
اسی قوم کے اندر 570 ء میں پیغمبر اسلام محمد بن عبداللہ بن عبد المطلب پیدا ہوئے۔ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو 610 ء میں اللہ تعالیٰ نے نبی مقرر کیا۔ اس کے بعد آپ نے توحید کے مشن کا آغاز کیا۔ بنو اسماعیل کے اندر سے آپ کو وہ قیمتی افراد ملے جن کو اصحابِ رسول کہاجاتا ہے۔ ان لوگوں کو ساتھ لے کر آپ نے تاریخ میں پہلی بار یہ کیا کہ توحید کی دعوت کو فکری مرحلے سے آگے بڑھا کر انقلاب کے مرحلہ تک پہنچایا۔
حضرت ابراہیم کے ذریعہ جو عظیم دعوتی منصوبہ زیر عمل آیا، حج کی عبادت گویا اسی کاایک ریہرسل ہے۔ ذو الحجہ کے مہینہ کی مخصوص تاریخوں میں ساری دنیا کے مسلمان اکھٹا ہو کر ریہرسل کے روپ میں اس تاریخ کو دہراتے ہیں جو حضرت ابراہیم اور ان کی اولاد کے ساتھ پیش آئی۔
اس طرح تمام دنیا کے مسلمان ہر سال اپنے اندر یہ عزم تازہ کرتے ہیں کہ وہ پیغمبر کے اس نمونہ کو اپنے حالات کے مطابق، مسلسل دہراتے رہیں گے۔ ہر زمانہ میں وہ دعوت الی اللہ کے اس عمل کو مسلسل زندہ رکھیں گے، یہاں تک کہ قیامت آجائے۔
اس ابراہیمی عمل میں قربانی کو مرکزی درجہ حاصل ہے۔ یہ ایک عظیم عمل ہے جس کی کامیاب ادائیگی کے لیے قربانی کی اسپرٹ ناگزیر طورپر ضروری ہے۔ اس قربانی کی اسپرٹ کو مسلسل طورپر زندہ رکھنے کے لیے حج کے زمانہ میں منیٰ میں، اورعیداضحی کی صورت میں تمام دنیا کے مسلمان اپنے اپنے مقام پرجانور کی قربانی کرتے ہیں اور خدا کو گواہ بنا کر اس اسپرٹ کو زندہ رکھنے کا عہد کرتے ہیں۔
حج اور عید اضحی کے موقع پر جانور کی جو قربانی کی جاتی ہے، وہ دراصل جسمانی قربانی کی صورت میں با مقصد قربانی کے عزم کے ہم معنی ہے۔ یہ دراصل داخلی اسپرٹ کا خارجی مظاہرہ ہے:
It is an external manifestation of internal spirit.
آدمی کے اندر پانچ قسم کے حواس (senses)پائے جاتے ہیں۔ نفسیاتی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ جب کوئی ایسا معاملہ پیش آئے جس میں انسان کے تمام حواس شامل ہوں تو وہ بات انسان کے دماغ میں زیادہ گہرائی کے ساتھ بیٹھ جاتی ہے۔ قربانی کی اسپرٹ کو اگر آدمی صرف مجرد شکل میں سوچے تو وہ آدمی کے دماغ میں بہت زیادہ ذہن نشین نہیں ہوگی۔ قربانی اسی کمی کی تلافی ہے۔
جب آدمی اپنے آپ کو وقف کرنے کے تحت جانور کی قربانی کرتا ہے تو اس میں عملاً اس کے تمام حواس شامل ہوجاتے ہیں۔ وہ دماغ سے سوچتا ہے، وہ آنکھ سے دیکھتا ہے، وہ کان سے سنتا ہے، وہ ہاتھ سے چھوتا ہے، وہ قربانی کے بعد اس کے ذائقے کا تجربہ بھی کرتا ہے۔ اس طرح اس معاملہ میں اس کے تمام حواس شامل ہوجاتے ہیں۔ وہ زیادہ گہرائی کے ساتھ قربانی کی اسپرٹ کو محسوس کرتا ہے، وہ اِس قابل ہوجاتا ہے کہ قربانی کی اسپرٹ اس کے اندر بھر پور طورپر داخل ہوجائے، وہ اس کے گوشت کا اور اس کے خون کا حصہ بن جائے۔
واپس اوپر جائیں

قربانی کی حقیقت

حج یا عید ِاضحی کے موقع پر جانور کی قربانی دی جاتی ہے۔ اس قربانی کے دو پہلو ہیں۔ ایک اس کی اسپرٹ، اور دوسرے اس کی ظاہری صورت۔اسپرٹ کے اعتبار سے قربانی ایک قسم کا عہد (pledge) ہے۔ قربانی کی صورت میں عہد کا مطلب ہے عملی عہد (pledge in action) ۔ عہد کے اس طریقہ کی اہمیت کو عمومی طورپر تسلیم کیاجاتا ہے۔ اس میں کسی کو بھی کوئی اختلاف نہیں۔
یہاں اس نوعیت کی ایک مثال دی جاتی ہے، جس سے اندازہ ہوگا کہ قربانی کا مطلب کیا ہے۔ نومبر 1962 کا واقعہ ہے۔ ہندستان کی مشرقی سرحد پر ایک پڑوسی طاقت کی جارحیت کی وجہ سے زبردست خطرہ پیداہو گیا تھا۔ سارے ملک میں سنسنی خیزی کی کیفیت چھائی ہوئی تھی۔
اُس وقت قوم کی طرف سے جو مظاہرے ہوئے، اس میں سے ایک واقعہ یہ تھا کہ احمد آباد کے 25 ہزار نوجوانوں نے مشترکہ طورپر یہ عزم کیا کہ وہ ملک کے بچاؤ کے لیے لڑیں گے اورملک کے خلاف باہر کے حملہ کا مقابلہ کریں گے، خواہ اسی راہ میں ان کو اپنی جان دے دینی پڑے۔ یہ فیصلہ کرنے کے بعد انھوں نے یہ کیا کہ ان میں سے ہر شخص نے اپنے پاس سے ایک ایک پیسہ دیا اور اس طرح 25 ہزار پیسے جمع ہوگئے۔ اس کے بعد انھوںنے اپنے ان پیسوں کو اس وقت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کی خدمت میں پیش کیا۔ پیسہ دیتے ہوئے انھوںنے ہندستانی وزیر اعظم سے کہا کہ یہ 25 ہزار پیسے ہم 25 ہزار نوجوانوں کی طرف سے اپنے آپ کو آپ کے حوالے کرنے کا نشان ہیں:
To give ourselves to you
مذکورہ نوجوانوں نے اپنی قربانی کا علامتی اظہار 25 ہزار پیسوں کی شکل میں کیا۔ 25 ہزار پیسے خود اصل قربانی نہیں تھے۔ وہ اصل قربانی کی صرف ایک علامت(token) تھے۔ یہی معاملہ جانور کی قربانی کا ہے۔ قربانی کے عمل میں جانور کی حیثیت صرف علامتی ہے۔ جانور کی قربانی کے ذریعے ایک مومن علامتی طورپر اس بات کاعہد کرتا ہے کہ وہ اسی طرح اپنی زندگی کو خدا کی راہ میں پوری طرح لگادے گا۔ اسی لیے قربانی کے وقت یہ کہا جاتا ہے کہ: اللہم منک ولک،یعنی اے خدا یہ تو نے ہی دیا تھا، اب میں اس کو تیرے سپرد کرتا ہوں۔
جہاں تک قربانی کی اسپرٹ کا سوال ہے، اس میں کسی کو کوئی اختلاف نہیںہوسکتا۔ یہ ایک عالمی طورپر تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ اس قسم کی اسپرٹ کے بغیر کبھی کوئی بڑا کام نہیں ہوسکتا۔ البتہ جہاں تک قربانی کی شکل کا تعلق ہے، یعنی جانور کا ذبیحہ، اس پر کچھ لوگ شک و شبہہ کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جانور کو ذبح کرنا تو ایک بے رحمی کی بات ہے، پھر ایسے ایک بے رحمی کے عمل کو ایک مقدس عبادت میں کیوں شامل کیا جاتا ہے۔
اس معاملہ پر غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ یہ کوئی حقیقی اعتراض نہیں۔ یہ صرف ایک بے اصل بات ہے جو توہمانہ کنڈیشننگ (superstitious conditioning) کے نتیجہ میں پیدا ہوئی ہے، اس کے پیچھے کوئی علمی بنیاد نہیں۔
واپس اوپر جائیں

حلال اور حرام کا تصور

کھانے پینے کے معاملے میں کچھ چیزیں انسان کے لیے حلال ہیں اور کچھ چیزیں حرام ہیں۔ حلال اور حرام کا یہ فرق کس بنیادپر قائم ہوتا ہے۔ایک طبقہ کا یہ کہنا ہے کہ اصل حرام فعل یہ ہے کہ کسی زندگی کو ہلاک کیا جائے۔ اس معاملہ میں ان کا فارمولا یہ ہے— ایک حسّاس زندگی کو مارنا حرام ہے، اور حسّاس زندگی کو نہ مارنا سب سے بڑی نیکی ہے:
Killing of a sensation is sin and vice versa.
یہ نظریہ بلاشبہہ ایک بے بنیاد نظریہ ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ موجودہ دنیا میں یہ سرے سے قابل عمل ہی نہیں، جیسا کہ اس مضمون میں دوسرے مقام پر واضح کیا جائے گا ۔ زندگی کو مارنا ہمارا اختیار (option) نہیں۔ انسان جب تک زندہ ہے، وہ شعوری یا غیر شعوری طورپر بے شمار زندگیوں کو ہلاک کرتا رہتا ہے۔ جو آدمی اس ’’گناہ‘‘ سے بچنا چاہے، اس کے لیے دو چیزوں میں سے ایک کا اختیار (option) ہے، یا تو وہ خود کشی کرکے اپنے آپ کو ختم کرلے، یا وہ ایک اور دنیا کی تخلیق کرے جس کے قوانین اس سے مختلف ہوں جو موجودہ دنیا کے قوانین ہیں۔
اسلام میں غذاؤں میںحلال اور حرام کا اصول بنیادی طورپر یہ ہے کہ چند مخصوص چیزوں کو اسلام میں حرام قرار دیاگیا ہے۔ ان کے علاوہ بقیہ تمام چیزیں اسلام میں جائز خوراک کی حیثیت رکھتی ہیں۔
حرام اور حلال کا یہ اصول جو اسلام نے بتایا ہے، وہ فطرت کے قوانین پر مبنی ہے۔ چناں چہ آج بھی ایک محدود گروہ کو چھوڑ کر ساری دنیا حرام و حلال کے اسی اصول کا اتباع کررہی ہے۔ یہ محدود گروہ بھی صرف کہنے کے لیے اپنا نظریہ بتاتا ہے، ورنہ جہاں تک عمل کا تعلق ہے، وہ بھی بالفعل اسی فطری اصول پر قائم ہے۔ مثلاً یہ تمام لوگ عام طورپر دودھ اور دہی وغیرہ استعمال کرتے ہیں۔ پہلے یہ لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ دودھ اور دہی وغیرہ غیر حیوانی غذائیں ہیں۔ مگر اب قطعیت کے ساتھ یہ ثابت ہوچکا ہے کہ یہ سب بھی پورے معنی میں حیوانی غذائیں ہیں۔ جس آدمی کو اس بات پر شک ہو، وہ کسی بھی قریبی تجربہ گاہ (laboratory) میں جاکر خورد بین (microscope)میں دودھ اور دہی کا مشاہدہ کرے۔ ایک ہی نظر میں وہ جان لے گا کہ اس معاملہ میں حقیقت کیا ہے۔
اسلام میں حلال جانور اور حرام جانور کی جو تفریق کی گئی ہے، وہ بنیادی طورپر اس اصول پر مبنی ہے کہ لحمی غذاکھانے والے جانور حرام ہیں اور غیر لحمی غذا کھانے والے جانور حلال ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ جو جانور براہِ راست حیوانات کو کھا کر اپنی خوراک بناتے ہیں، ان کا گوشت انسان کے لیے باعتبار صحت موزوں نہیں ہوتا۔ دوسرے جانوروں کا معاملہ یہ ہے کہ ان کے اندر مخصوص فطری نظام ہوتا ہے جس کے مطابق، ایسا ہوتا ہے کہ جو زرعی غذا وہ کھاتے ہیں اس کو وہ مخصوص عمل کے ذریعہ پروٹین میں تبدیل کرتے ہیں ، چناں چہ وہ ہمارے لیے صحت بخش اور زود ہضم بن جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

انسان کی غذائی ضرورت

غذا انسان کی لازمی ضرورت ہے۔ قدیم زمانہ میں غذا کا مطلب صرف دو ہوا کرتا تھا— ذائقہ لینا اور بھوک مٹانا۔ لیکن موجودہ زمانہ میں یہ دونوں چیزیں اضافی بن چکی ہیں۔ موجودہ زمانہ میں سائنسی تحقیقات کے بعد یہ معلوم ہوا کہ خوراک کا مقصد ہے کہ جسم کو ایسی غذا فراہم کرنا جس کو موجودہ زمانہ میں متوازن غذا(balanced diet) کہاجاتا ہے جس میں بنیادی طور پر چھ اجزا شامل ہیں:
A balanced diet is one which contains carbohydrate, protein, fat, vitamins, mineral salts and fibre in the correct proportions.
ان اجزاء میں سے پروٹین (protein) کی اہمیت بہت زیادہ ہے کیوں کہ پروٹین کا ہمارے جسم کی بناوٹ میں بنیادی حصہ ہے:
Protein is the main building block of our body.
پروٹین کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ لحمی غذا ہے۔ لحمی غذا سے ہم کو اعلیٰ پروٹین حاصل ہوتی ہے۔ غیر لحمی غذاؤں سے بھی کچھ پروٹین ملتی ہے لیکن وہ نسبتًا ناقص پروٹین ہوتی ہے:
Meat is the best source for high-quality protein. Plant protein is of a lower biological value.
مزید یہ کہ لحمی پروٹین اور غیر لحمی پروٹین کی تقسیم بھی صرف تقریب فہم کے لیے ہے، وہ حقیقی تقسیم نہیں۔ اس لیے کہ خوردبین کی دریافت کے بعد سائنس کے میدان میں جو مطالعہ کیا گیا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام غذائی اشیاء کے اندر بے شمار بیکٹیریا موجود رہتے ہیں جو مکمل طورپر زندہ اجسام کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جن غیر لحمی غذاؤں کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ ان میں بڑی مقدار میں پروٹین ہوتا ہے مثلاً دودھ، دہی، پنیر وغیرہ، وہ سب بیکٹیریا کے ناقابلِ مشاہدہ پراسس کے ذریعہ انجام پاتا ہے۔ بیکٹیریا کا عمل اگر اس کے اندر نہ ہو تو کسی بھی غیر لحمی غذا سے پروٹین حاصل نہیںکیا جاسکتا۔
بیکٹیریا کو علمی زبان میں مائیکرو آرگنزم (micro-organism) کہاجاتا ہے، یعنی اجسام صغیر۔ اس کے مقابلہ میں حیوانات مثلاً بکری اور بھیڑ وغیرہ کی حیثیت میکرو آرگنزم (macro organism) کی ہے، یعنی اجسام کبیر۔ اس حقیقت کو سامنے رکھئے تو یہ کہنا بالکل صحیح ہوگا کہ ہر آدمی عملاً لحمی غذا کھارہا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ نام نہاد ویجیٹیرین اس کو اجسام صغیر کی صورت میں لے رہے ہیں اور نان ویجیٹیرین لوگ اس کو اجسام کبیر کی صورت میں لے رہے ہیں۔
دوسرے لفظوں میں یہ کہ ہر انسان کا معدہ ایک عظیم مذبح (slaughter house) کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس غیر مرئی مذبح میں ہر روز ملین اینڈ ملین اجسام صغیر ختم ہوتے رہتے ہیں۔ ان کی تعداد اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ ساری دنیا میں اجسام کبیر کے جومذبح خانے ہیں ان کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ۔
اس سارے معاملے کا تعلق خالق کے تخلیقی نظام سے ہے۔ خالق نے تخلیق کا جو نظام مقرر کیاہے، وہ یہی ہے کہ انسان کے جسم کی غذائی ضرورت زندہ اجسام (living organism) کے ذریعے پوری ہو۔ فطرت کے نقشہ کے مطابق، زندہ اجسام کو اپنے اندر داخل کیے بغیر کوئی مرد یا عورت اپنی زندگی کو باقی نہیں رکھ سکتا۔ خالق کے نقشہ کے مطابق، زندہ چیزیں ہی زندہ وجود کی خوراک بنتی ہیں۔ جن چیزوں میں زندگی نہ ہو، وہ زندہ لوگوں کے لیے خوراک کی ضرورت فراہم نہیں کرسکتیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ویجیٹیرین ازم (vegetarianism)اور نان ویجیٹیرین ازم (non-vegetarianism) کی اصطلاحیں صرف ادبی اصطلاحیں ہیں، وہ سائنسی اصطلاحیں نہیں۔
اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں آدمی کے لیے اس کے سواکوئی چوائس (choice)نہیں کہ وہ نان ویجیٹیرین بننے پر راضی ہو۔ جو آدمی خالص ویجیٹیرین بن کر زندہ رہنا چاہتا ہو، اس کو یاتو اپنے آپ کو موت کے حوالے کرنا ہوگا یا پھر اس کو ایک اور عالم تخلیق کرنا ہوگا جہاں کے قوانین موجودہ دنیا کے قوانین سے مختلف ہوں۔ ان دو کے سوا کوئی دوسرا چوائس کسی انسان کے لیے نہیں۔
واپس اوپر جائیں

تاریخ کے فکری مغالطے

فلسفہ قیاسی علوم (speculative sciences) میں سے ایک علم ہے۔ فلسفہ قدیم ترین شعبۂ علم ہے۔ دنیاکے بڑے بڑے دماغ فلسفیانہ غور وفکر میں مشغول رہے ہیں۔ لیکن لمبی تاریخ کے باوجود فلاسفہ کا گروہ انسان کو کوئی مثبت چیز نہ دے سکا، بلکہ فلسفے نے صرف انسان کی فکری پیچیدگیوں میںاضافہ کیا۔ فارسی شاعر نے بالکل درست طور پر کہا ہے:
فلسفی سِرِّ حقیقت نہ توانست کشود گشت رازِ دگر آں راز کہ افشامی کرد
فلسفہ نے انسان کو جو چیزیں دیں، ان کو ایک لفظ میں فکری مغالطہ کہا جاسکتا ہے، یعنی ایسے قیاسات جو حقیقت واقعہ پر مبنی نہ ہوں۔ افکار کی تاریخ ان مثالوں سے بھری ہوئی ہے۔
تمام فلسفیوں کی مشترک غلطی یہ رہی ہے کہ ہر ایک کے ذہن میں چیزوں کا ایک معیاری ماڈل (ideal model) بسا ہوا تھا، جو کبھی اور کسی دور میں حاصل نہ ہوسکا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ فلسفیوں کا یہ ماڈل دنیا کے بارے میں خالق کے تخلیقی نقشہ سے مطابقت نہ رکھتا تھا۔ خالق نے موجودہ دنیا کو امتحان کے لیے پیدا کیا ہے، نہ کہ انعام کے لیے۔ اسی امتحان کے لیے انسان کو آزادی دی گئی ہے۔ یہ امتحانی آزادی اس راہ میں رکاوٹ ہے کہ اس دنیا میں کبھی کوئی معیاری نظام بن سکے۔
معیاری نظام صرف اس وقت بن سکتا ہے جب کہ تمام لوگ بغیر استثناء اپنی آزادی کو بالکل صحیح صورت میں استعمال کریں، تاہم مختلف اسباب سے ایسا ہونا کبھی ممکن نہیں۔ اس لیے اس دنیا میں معیاری نظام کا بننا بھی کبھی ممکن نہیں۔ تاریخ کے تمام فلسفی اس حقیقت سے بے خبر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام فلسفی اپنے ذہنی ماڈل کے مطابق، معیاری نظام کا خواب دیکھتے رہے۔ مگر فطرت کے قانون کے مطابق، ان کا یہ خواب کبھی پورا نہ ہوسکا۔ یہاں بطور نمونہ چند مثالیں درج کی جاتی ہیں:
1 - افلاطون (Plato) قدیم یونان کا مشہور فلسفی ہے۔ اس نے 387 ق م میںایتھنز (Athens)میںایک رائل اکیڈمی قائم کی۔ اس کا مقصد حکمراں طبقہ (ruling elite) کو ایجوکیٹ کرکے فلاسفر کنگ بنانا تھا۔ اس کا نشانہ یہ تھا کہ اس اکیڈمی میںتیار شدہ فلاسفر کنگ یونان میں آئڈیل اسٹیٹ قائم کریں گے جو ساری دنیا کے لیے ایک نمونہ کی اسٹیٹ ہوگی۔ شہزادہ الگزنڈر (Alexander) افلاطون کا محبوب شاگرد تھا۔ اپنے باپ فلپ کے مرنے کے بعد 336 میں وہ یونان کا بادشاہ بنا۔ لیکن شاہی تخت پر بیٹھنے کے بعد ہی وہ فلاسفر کنگ کے بجائے اکسپلائٹر کنگ (exploiter king) بن گیا۔ آیڈیل اسٹیٹ قائم کرنے کے بجائے اس کا نشانہ یہ ہوگیا کہ وہ ساری دنیا میں اپنا عالمی اقتدار قائم کرے۔ افلاطون کے خواب کے بجائے وہ لارڈ ایکٹن کے اس قول کا مصداق بن گیا:
Power corrupts and abslute power corrupts absolutely.
آئڈیل ازم کا یہ فلسفیانہ تصور پوری تاریخ میں چھایا رہا ہے۔ آئڈیل اسٹیٹ، آئڈیل سماج، آئڈیل نظام کا نشانہ ہمیشہ تمام فلسفیوں اور مفکروں کا خوب صورت خواب رہا ہے، مگر یہ خواب کبھی پورا نہ ہوسکا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ یہ خواب اس غلط فکری پر مبنی تھا کہ موجودہ دنیا میں آئڈیل زندگی صرف جنت میں قابل حصول ہے۔ موجودہ دنیا صرف اس لیے بنی ہے کہ انسان یہاں اپنے آپ کو جنت کا اہل ثابت کرے، تاکہ وہ مرنے کے بعد جنت کی آئڈیل دنیا میں جگہ پاسکے۔ جس طرح ایک طالب علم کو امتحان ہال کے اندر اپنا مطلوب جاب نہیں مل سکتا، اس طرح موجودہ دنیا میں کسی انسان کو آئڈیل جنت بھی ملنے والی نہیں۔
2 - انیسویں صدی عیسوی میں جب سائنسی مشاہدے کا طریقہ دنیا میں رائج ہوا تو فلسفیوں کے اندر ایک نیا فکر پیدا ہوا جس کا یہ کہنا تھا کہ حقیقت وہی ہے جو قابلِ مشاہدہ (observable) ہو، جو معلوم سائنسی طریقوں کے مطابق قابل تصدیق (verifiable) ہو۔ اسی سوچ کے تحت مختلف اسکول آف تھاٹ بنے۔ مثلاً انیسویں صدی کا فرنچ فلسفی آگسٹ کامٹے(Auguste Comte) کا پازیٹیوازم (Positivism) اوربیسویں صدی کے جرمن فلاسفر رڈولف کارنیپ (Rudolf Carnap) کا لاجیکل پازی ٹیوازم وغیرہ۔
اس قسم کے مفکروں اور فلسفیوں نے تقریباً سوسال تک دنیا بھر کے ذہنوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ جو چیز مشاہدہ میں نہ آئے وہ حقیقت بھی نہیں۔ ان نظریات کے تحت وہ فلسفہ پیدا ہوا جس کو سائنسی الحاد(scientific atheism) کہاجاتا ہے۔ ان نظریات کے مطابق، خدا اور مذہب کا عقیدہ علمی اعتبار سے بے بنیاد ثابت ہوگیا۔
علمی حلقوں میں سائنسی الحاد پر چرچا جاری تھا کہ خود سائنس نے اس نظریے کو بے بنیاد ثابت کردیا۔سائنس میں یہ تبدیلی اس وقت آئی جب کہ سائنس دانوں نے اس حقیقت کو دریافت کیا جس کو کوانٹم میکینکس (quantum mechanics) کہاجاتا ہے۔ اس دریافت کو عظیم ترین فکری فتح (greatest intellectual triumph) کہاجاتا ہے۔ اس سائنسی نظریہ کا ایک نتیجہ یہ تھا کہ ایٹمی ذرات کو امواج (waves) سمجھا جانے لگا۔ اس سائنسی دریافت میں خاص طورپر حسب ذیل سائنس دانوں کے نام شامل ہیں:
Paul Dirac, Heisenberg, Jordan, Schrodinger, Einstein
اس سائنسی دریافت نے قدیم نیوٹانین میکینکس کو علمی طورپر قابل رد قرار دے دیا۔ اب علم کا دریا عالمِ کبیر (macro world) سے گزر کر عالمِ صغیر (micro world) تک پہنچ گیا، یعنی دکھائی دینے والی چیزوں کے علاوہ نہ دکھائی دینے والی چیزیں بھی علم کا موضوع بن گئیں۔
واپس اوپر جائیں

استدلال کی نئی بنیاد

یہ ایک دور رس فکری انقلاب تھا جو بیسویں صدی کے نصف اول میں پیش آیا۔ اس کے نتیجہ میں جو نظریاتی تبدیلیاں ہوئیں، ان میں سے ایک اہم تبدیلی یہ تھی کہ استدلال کا اصول (principle of reason) بدل گیا۔ اس فکری انقلاب سے پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ جائز استدلال (valid argument) وہی ہے جو براہِ راست استدلال (direct argument) ہو، یعنی مشاہدہ اور تجربہ پر مبنی استدلال۔ مگر اب استنباطی استدلال (inferential argument) بھی یکساں طورپر جائز استدلال بن گیا۔ جب جوہری ذرّات (subatomic particles) ناقابل مشاہدہ ہونے کے باوجود صرف استنباطی استدلال کی بنیاد پر ایک سائنسی واقعہ تسلیم کر لیے گئے تو لازمی طور پر اس کا مطلب یہ بھی تھا کہ استنباطی استدلال کی بنیاد پر خدا کا استدلال بھی عین اسی طرح جائز سائنسی استدلال ہے۔
علمائِ الٰہیات خدا کے وجود پر ایک دلیل وہ دیتے تھے جس کو ڈزائن سے استدلال (argument from design) کہاجاتا ہے۔ یعنی جب ڈزائن ہے تو ضروری ہے کہ اس کا ایک ڈزائنر ہو۔ اس استدلال کو پہلے ثانوی استدلال (secondary rationalism) مانا جاتا تھا۔ مگراب جدید سائنسی انقلاب کے بعد یہ استدلال بھی اسی طرح ابتدائی استدلال (primary rationalism) کی فہرست میںآچکا ہے، جیسا کہ دوسرے معروف سائنسی استدلالات۔
3 - انھیں فکری مغالطوںمیں سے ایک مغالطہ وہ ہے جس کو ڈارونزم (Darwinism) کہا جاتا ہے۔ اس فکر کو موجودہ زمانہ میں بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ اس نظریہ کے بارے میں بے شمار کتابیں لکھی گئی ہیں اور تمام یونیور سٹیوں میں اس کو باقاعدہ نصاب میں داخل کیاگیا ہے۔ لیکن اس کا سائنٹفک تجزیہ کیجیے تو وہ ایک خوب صورت مغالطہ کے سوا اور کچھ نہیں۔ ڈارونزم کے نظریہ کو دوسرے لفظوں میں عضویاتی ارتقاء (organic evolution) کہاجاتا ہے۔
اس کا خلاصہ یہ ہے کہ بہت پہلے زندگی ایک سادہ زندگی سے شروع ہوئی۔ پھر توالد وتناسل کے ذریعہ وہ بڑھتی رہی۔ حالات کے اثر سے اس میں مسلسل تغیر ہوتا رہا۔ یہ تغیرات مسلسل ارتقائی سفر کرتے رہے۔ اس طرح ایک ابتدائی نوع مختلف انواع (species) میںتبدیل ہوتی چلی گئی۔ اس لمبے عمل کے دوران ایک مادی قانون اس کی رہنمائی کرتا رہا۔ یہ مادی قانون ڈارون کے الفاظ میں نیچرل سلکشن تھا۔ اس نظریہ میں بنیادی خامی یہ ہے کہ وہ دو مشابہہ نوع کا حوالہ دیتا ہے اور پھر یہ دعویٰ کرتا ہے کہ لمبے حیاتیاتی ارتقا کے ذریعہ ایک نوع دوسری نوع میں تبدیل ہوگئی۔ مثلاً بکری دھیرے دھیرے زرافہ بن گئی،وغیرہ۔
یہ نظریہ بکری اور زرافہ کو تو ہمیں دکھاتا ہے، لیکن وہ درمیانی انواع اس کی فہرست میں موجودنہیں ہیں جو تبدیلی کے سفر کو عملی طورپر دکھائیں۔ نظریۂ ارتقا کے وکیل ان درمیانی کڑیوں کو مسنگ لنک (missing link) کہتے ہیں۔ لیکن یہ مسنگ لنک صرف ایک قیاسی لنک ہے۔ مشاہدہ اور تجربہ کے اعتبار سے سرے سے ان کا کوئی وجود نہیں۔
اس نظریہ کی مقبولیت کا راز صرف یہ تھا کہ وہ سیکولر اہل علم کو ایک کام چلاؤ نظریہ (workable theory) دکھائی دیا۔ لیکن کوئی نظریہ اس طرح کے قیاس سے ثابت نہیں ہوتا۔ کسی نظریہ کو ثابت شدہ نظریہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی پشت پر معلوم حقائق موجود ہوںجو اس کی تصدیق کرتے ہوں، لیکن ڈارونزم کی تائید کے لیے ایسے حقائق موجود نہیں۔ مثال کے طورپر، ڈارونزم کے مطابق، حیاتی ارتقا کے لیے بہت زیادہ لمبی مدت درکار ہے۔ سائنسی دریافت کے مطابق موجودہ زمین کی عمر اس کے مقابلہ میں بہت زیادہ کم ہے۔ایسی حالت میں بالفرض اگر ارتقاء حیات کا ڈرامہ ڈاروینی نظریہ کے مطابق پیش آیا ہو تو وہ موجودہ محدود زمین کے اوپر کبھی واقع نہیں ہوسکتا۔
زمین کی محدود عمر کے بارے میں جب سائنس کی دریافت سامنے آئی تو اس کے بعد ارتقاء کے وکیلوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ زندگی باہر کسی اور سیارہ پر پیدا ہوئی، پھر وہاں سے سفر کرکے زمین پر آئی۔ اس ارتقائی نظریہ کو انھوںنے مفروضہ طورپر پینس پرمیا (Panspermia) کا نام دیا۔ اب دور بینوں اور خلائی سفروں کے ذریعہ خلا میں کچھ مفروضہ سیاروں کی دریافت شروع ہوئی۔ مگر بے شمار کوششوں کے باوجود اب تک یہ مفروضہ سیارہ دریافت نہ ہوسکا۔
4 - اسی قسم کا فکری مغالطہ وہ ہے جس کو ہیومنزم (Humanism) کہاجاتا ہے۔ یعنی مبنی برانسان توجیہہ کائنات(human-based explanation of universe)۔ اس فلسفہ کے تحت خدا کے عقیدہ کو حذف کرکے صرف انسان کی بنیاد پر زندگی کی توجیہہ کی جاتی ہے۔ اس نظریہ کا خلاصہ ان الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے— سیٹ کا خدا سے ٹرانسفر ہوکر انسان کو دے دینا:
Transfer of seat from God to man.
اس نظریہ کی حمایت میں بیسویں صدی عیسوی میں بہت سی کتابیں لکھی گئیں۔ انھیں میں سے ایک کتاب وہ ہے جو انگریزفلسفی جولین ہکسلے (وفات: 1975 )نے تیار کرکے شائع کی۔ کتاب کے موضوع کے مطابق، اس کا ٹائٹل یہ تھا:
Man stands alone
یہ کتاب پوری کی پوری صرف دعویٰ اور قیاس پر مبنی ہے۔ اس میں کوئی حقیقی دلیل موجود نہیں۔ مثلاً اس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ اب انسان کو وحی کی ضرورت نہیں، اب انسان کی رہنمائی کے لیے عقل بالکل کافی ہے۔ مگر اس دعوی کی تائید میں کتاب کے اندر کوئی حقیقی دلیل موجود نہیں۔ امریکی سائنس داں کریسی ماریسن (وفات: 1951 ) نے خالص علمی انداز میں اس کتاب کا جواب دیا۔ یہ کتاب جولین ہکسلے کے دعوی کو بالکل بے بنیاد ثابت کرتی ہے:
Man does not stand alone
5 - بدھ ازم کو موجودہ زمانہ میں سیکولرطبقہ کے درمیان کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس کو یہ مقبولیت کسی سائنسی بنیاد پر نہیں ہوئی ہے بلکہ صرف ایک مغالطہ کی بنیاد پر ہوئی ہے۔ عام طور پر لوگ چیزوں کا سائنسی تجزیہ کرکے اس کی حقیقت تک پہنچنے کی کوشش نہیں کرتے۔ اس بنا پر اکثر لوگ مغالطہ آمیز فکر کا شکار ہوتے ہیں۔ بدھ ازم کی موجودہ مقبولیت بھی انھیں میں سے ایک ہے۔
بدھسٹ فلسفہ کے مطابق انسان نسل درنسل ایک لمبا سفر کررہا ہے۔ اس کی آخری منزل نروان ہے۔ اس آخری منزل تک پہنچنے کا ایک حتمی کورس ہے۔ یہ علت اور سبب کا کورس ہے۔ ہر عورت یا مرد اپنے عمل کے مطابق، ایک جنم کے بعد دوسرے جنم میں پیدا ہوتے رہتے ہیں، کبھی اچھی حالت میں اور کبھی بری حالت میں۔ اس نظریہ کو پنر جنم کہا جاتا ہے۔ اور پھر کئی ملین سال تک یہ سفر کرتے کرتے وہ نجات (salvation) تک پہنچتے ہیں جس کو بدھ ازم میں’’ نروان‘‘ کا نام دیاگیا ہے:
They all hold in common a doctrine of Karman (efftects), the law of cause and effect, which states that what one does in this present life will have its effect in the next life. (EB/VIII: 488)
یہ فلسفہ صرف ایک مغالطہ ہے۔ پنر جنم کا یہ نظریہ کہتا ہے کہ آدمی اپنے پچھلے جنم میں کئے ہوئے کرم کے مطابق اگلے جنم میں اچھی حالت یا بری حالت میںپیدا ہوتا ہے۔ اگر یہ بات درست ہے تو ہرایک کو اپنے پچھلے جنم کا حال یاد رہنا چاہیے جس طرح جیل میں سزا پانے والے ایک قیدی کو اپنے پچھلے دنوں کا جرم یاد رہتاہے، یا ترقی پر پہنچنے والے ایک شخص کو اپنے پچھلے زمانہ کی وہ کوششیں یاد رہتی ہیں جس کی وجہ سے وہ اس عہدے تک پہنچا۔ لیکن جیسا کہ معلوم ہے، دنیا بھر میں بسنے والے عورتوں اور مردوں کو اپنے پچھلے جنم کے بارے میں کچھ بھی یاد نہیں۔
یہ واقعہ پنر جنم کے فلسفہ کو سراسر غیر علمی ثابت کررہا ہے۔ موجودہ زمانہ میں نفسیات کے تحت انسان کا نہایت تفصیلی مطالعہ کیاگیا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوا ہے کہ یاد داشت (memory) انسان کی شخصیت (personality) کا لاینفک حصہ ہے۔ انسانی شخصیت کو اس کی یادداشت سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن پنر جنم کے معاملہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہر آدمی کی شخصیت ایک جنم سے دوسرے جنم کی طرف اس طرح سفر کرتی ہے کہ اپنے پچھلے زمانہ کے بارے میں اس کی یادداشت اس کے ساتھ موجود نہیں ہوتی۔ کسی آدمی کے اگلے جنم میں اگر اس کی پچھلی شخصیت منتقل ہوتی ہے تو اس کی یاد داشت بھی اس کے ساتھ لازماً موجود رہنی چاہیے۔ یہ واقعہ اس پورے نظریہ کو سرتاسر بے بنیاد ثابت کررہا ہے۔
قبل سائنسی دور میں فرضی قیاس کے تحت اس قسم کا نظریہ مانا جاسکتا تھا۔ لیکن سائنسی دور میں وہ بالکل ناقابل قبول ہوچکا ہے۔ جدید سائنس نے جس طرح دوسرے تمام فرضی تصورات کو بے بنیاد ثابت کردیا ہے، اسی طرح پنر جنم کا تصور بھی اب بلا شبہہ بے بنیاد قرار پائے گا۔
6 - انھیں فکری مغالطوں میں سے ایک مغالطہ وہ ہے جو ویجیٹیرین ازم (vegetarianism) کے نام سے معروف ہے۔یہاں اِس معاملے کی مختصر وضاحت کی جاتی ہے۔
لوہے اور پتھر جیسی چیزیں غیر ذی روح مادہ(dead matter) کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کے وجود کے لیے زندہ اجسام کی ضرورت نہیں۔ مگر انسان کی حیثیت ایک زندہ وجود کی ہے۔ زندگی کی بقا کے لیے زندگی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اپنے وجود کو باقی رکھنے کے لیے اسے ہر لمحہ زندگی بخش غذاؤں کی ضرورت ہے۔ یہ غذا انسان کو سبزی اورپھل اور اناج وغیرہ کی صورت میں حاصل ہوتی ہے۔ ان غذائی اجزا کو کھا کر پیٹ میں ڈالنا ہی کافی نہیں۔ اس کے بعد ایک اور عمل درکار ہے جس کو عمل ہضم کہاجاتا ہے۔ یہ عمل ایک پیچیدہ نظام ہضم (digestive system) کے تحت انجام پاتا ہے۔ اس کے بعد ہی یہ غذائی اجزاء جسم کا جزء بنتے ہیں۔ اس ہضمیاتی عمل (digestive process) میں اصل حصہ زندہ بیکٹیریا کا ہوتا ہے۔ بیکٹیریا اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ وہ آنکھوں سے دکھائی نہیں دیتے۔ لیکن وہ مکمل معنوں میں ایک زندہ وجود ہیں۔ یہ بیکٹیریا بے شمار تعداد میں انسان کے جسم میں داخل ہو کر ہضمیاتی عمل کی تکمیل کرتے ہیں۔ اگر بیکٹیریا کی مدد نہ ملے تو کوئی بھی غذا انسان کے لیے صحت بخش غذا نہ بن سکے۔
اس معاملے کو سمجھنے کے لیے ایک مثال لیجئے۔ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (26دسمبر 2007 ) کے صفحہ اول پر ایک نمایاں اور رنگین اشتہار چھپا ہے۔ اس کا عنوان جلی الفاظ میں یہ ہے— ڈیلی پیو، ہیلدی جیو:
Daily piyo, healthy jiyo
یہ ایک انٹرنیشنل مشروب کا اشتہار ہے جس کو صحت بخش مشروب (pro-biotic drink) بتایا گیا ہے اور اس کا نام یاکلٹ(Yakult) ہے۔ یہ 1935 میں بنایا گیا اور 30 ملکوں میں استعمال کیا جارہا ہے۔ اب انڈیا میں بھی اس کا استعمال شروع کیا گیا ہے۔
اس اشتہار میں اس کی سائنٹفک تشریح کرتے ہوئے یہ بتایا گیا ہے کہ اس میں مفید بیکٹیریا بہت بڑی تعداد میں موجود ہوتے ہیں جو ہضم کے عمل میں بے حد معاون ہوتے ہیں، وہ مختلف پہلوؤں سے انسان کو طاقت دیتے ہیں:
Yakult is a probiotic drink that contains special beneficial bacteria, lactobacillus casie strain shirota. Every 65 ml bottle of Yakult contains over 6.5 billion friendly bacteria. Yakult's bacteria are unique and reach the intestines alive to impart various health benefits. Yakult aids digestion, builds immunity, and prevents infection.
زندگی بخش بیکٹیریا ہر آن انسان کے جسم میں مختلف طریقوں سے داخل ہوتے رہتے ہیں۔ مذکورہ مشروب اسی عمل کو تیز تر کرنے کی ایک تدبیر ہے۔
معلوم ہوا کہ لحمی غذا انسان کے لیے اختیاری بات نہیں، وہ انسان کی مجبورانہ ضرورت ہے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ غذا انسان کے لیے ضروری ہے۔ اس معاملہ میں ویجٹیرین فوڈ اور نان ویجٹیرین فوڈ کی تقسیم صرف ایک اعتباری تقسیم ہے، وہ حقیقی تقسیم نہیں۔ کیوں کہ اصل حقیقت کے اعتبار سے ہر غذا آخر کار ایک لحمی غذا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ نان ویجیٹیرین فوڈ میں اس کا لحمی ہونا آنکھوں سے دکھائی دیتا ہے۔ ویجیٹیرین فوڈ میں بھی لحمی عنصر مکمل طورپر شامل رہتا ہے، اگر چہ وہ آنکھوں سے دکھائی نہیں دیتا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ نان ویجیٹیرین آدمی حیوانِ کبیر (macro organism) کو اپنی غذا بناتا ہے اور نام نہاد ویجیٹیرین آدمی حیوانِ صغیر (micro organism) کو اپنی غذا بنا رہا ہے۔ بظاہر دونوں ایک دوسرے سے مختلف دکھائی دیتے ہیں، لیکن حقیقت کے اعتبار سے دونوں میں کوئی فرق نہیں۔
واپس اوپر جائیں

غیر فطری نظریہ

جو لوگ کہتے ہیں کہ ویجیٹیرین فوڈ ہی انسان کے لیے صحیح فوڈ ہے، وہ ایک ایسی بات کہتے ہیں جو صرف ان کے اپنے ذہن کی پیداوار ہے۔ ان کے اپنے ذہن کے باہر اس کی کوئی دلیل موجود نہیں۔ جیسا کہ عرض کیا گیا، ان لوگوں کا کلمہ یہ ہے— احساس کو مارنا گناہ ہے، اس کے برعکس احساس کو زندگی دینا نیکی:
Killing of a sensation is sin and vice versa.
یہ ایک خود ساختہ فارمولا ہے اس کی کوئی بنیاد (base) نہ تو فطرت کے قانون میں ہے اور نہ سائنس کی دریافتوں میں ۔ یہ نظریہ مکمل طورپر ایک غیر فطری نظریہ ہے۔ مثلاً یہ لوگ انسانی دانت کی ساخت کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ انسان کے دانت درندہ جانور سے مختلف ہیں، اِس لیے وہ سبزی خور حیوان (herbivorous) ہے، وہ گوشت خور حیوان (carnivorous) نہیں۔ مگر یہ بات درست نہیں۔
اصل یہ ہے کہ انسان کے دانت درندہ جانور سے مختلف نہیں بلکہ مشابہ ہوتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ درندے جانور کے گوشت کو کچا کھاتے ہیں، اس لیے ان کے دانت مختلف بنائے گئے ہیں۔ لیکن انسان گوشت کو پکا کرکھاتا ہے، اس لیے انسان کے دانت درندہ جانور سے جزئی طور پرمشابہ تو ضرور ہیں لیکن وہ عین اس کے مطابق نہیں۔
جیسا کہ معلوم ہے، سیارۂ زمین کا تقریباً 71 فی صد حصہ سمندر ہے جو کہ پانی سے بھرا ہوا ہے۔ زمین میں خشکی کا حصہ نسبتاً بہت کم ہے۔ جب کہ زرعی پیداوار حاصل کرنے کے لیے خشک زمین ضروری ہے۔ زمین کا یہ دستیاب خشک حصہ تمام انسانوں کے لیے زرعی خوراک فراہم کرنے کے لیے بالکل ناکافی ہے۔ جب کہ اسی محدود خشک حصہ پر انسانی آبادیاں ہیں، بڑے بڑے کارخانے ہیں۔ جنگل اور صحرا اور پہاڑاور جھیل اور دریائیں ہیں۔ ایسی حالت میں اگر صرف زرعی خوراک پر انحصار کرنا ہو تو انسانوں کے بڑے حصے کو فاقہ کشی کا شکار ہونا پڑے گا۔
واضح ہو کہ اس وقت کرہ زمین کے اوپر ساتبلین سے زیادہ انسان آباد ہیں۔ ایسی حالت میں زرعی خوراک کی یہ کمی صرف لحمی خوراک سے پوری کی جاسکتی ہے جیسا کہ دنیا میں ہورہا ہے۔ خالق کو یہ بات معلوم تھی۔ چناں چہ اس نے سمندروں میں نان ویجیٹیرین فوڈ کا بہت بڑا ذخیرہ رکھ دیا۔ اسی کے ساتھ خدا نے فضاؤں میں اڑنے والی چڑیاں بنائیں اور جنگلوں میں مختلف حیوانات پیدا کردیے۔ یہ سب اس لیے ہوا، تاکہ انسان زرعی خوراک کی کمی کو لحمی خوراک کے ذریعے پورا کرسکے۔
واپس اوپر جائیں

انڈیا کے ریفرنس میں

ڈاکٹر ایم ایس سوامی ناتھن (پیدائش : 1925 ) انڈیا کے مشہور زرعی سائنٹسٹ ہیں۔ وہ انڈیا میںگرین ریولیوشن (green revolution) کے بانی سمجھے جاتے ہیں۔ ان کو انٹرنیشنل ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔ نئی دہلی کے انگریزی اخبار اسٹیٹس مین کے شمارہ 4 ستمبر 1967 میں سوامی ناتھن کا ایک خصوصی انٹرویو چھپا جو انھوںنے یواین آئی کے نمائندہ کو دیا تھا۔ ا س میں یہ انتباہ دیاگیا تھا کہ انڈیا کے لوگ اپنی غذائی عادتوں کی بنا پر پروٹینی فاقہ (protein hunger) کے خطرہ سے دوچار ہیں۔ اس بیان میں کہاگیا تھا کہ:
’’اگلے دو دہوں میںہندستان کو بہت بڑے پیمانہ پر ذہنی بونا پن (intellectual dwarfism) کے خطرہ کا سامنا کرنا ہوگا، اگر پروٹینی فاقہ کا مسئلہ حل نہیںہوا‘‘۔ یہ الفاظ ڈاکٹر ایم، ایم، سوامی ناتھن نے یو این آئی کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہے تھے جو انڈین ایگری کلچرل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (نئی دہلی) کے ڈائرکٹر رہ چکے ہیں۔انھوںنے کہا تھا کہ متوازن غذا کا تصور اگر چہ نیا نہیں ہے، مگر دماغ کے ارتقا ء کے سلسلہ میں اس کی اہمیت ایک نئی حیاتیاتی دریافت کی ہے۔ اب یہ بات قطعی ہے کہ چار سال کی عمر میں انسانی دماغ 80 فی صدسے لے کر 90 فیصد تک اپنے پورے وزن کو پہنچ جاتا ہے۔ اور اگر اس نازک مدت میں بچّہ کو مناسب پروٹین نہ مل رہی ہو تو دماغ اچھی طرح نشوونما نہیں پاسکتا— ڈاکٹر سوامی ناتھن نے کہا کہ مختلف نسلی گروہوں کے ذہنی فرق کا تقابلی مطالعہ مستقبل میںاس نقطۂ نظر سے بھی کرنا چاہیے۔اگر ناقص تغذیہ اور پروٹینی فاقہ کے مسئلہ پر جلد توجہ نہ دی گئی تو اگلے دو دہوں میں ہمیں یہ منظر دیکھنا پڑے گا کہ ایک طرف متمدن قوموں کی ذہنی طاقت (intellectual power) میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور دوسری طرف ہمارے ملک میں ذہنی بونا پن بڑھ رہا ہے۔نوجوان نسل کو پروٹینی فاقہ سے نکالنے میں اگر ہم نے جلدی نہ کی تو نتیجہ یہ ہوگا کہ ہر روز ہمارے یہاں دس لاکھ ذہنی بونے (intellectual dwarfs) وجود میں آئیں گے۔ اس کا بہت کچھ اثر ہماری نسلوں پر تو حالیہ برسوں ہی میں پڑ چکا ہوگا۔
پوچھا گیا کہ اس مسئلہ کا حل کیا ہے۔ ڈاکٹر سوامی ناتھن نے جواب دیا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنی کارروائیوں کے ذریعہ عوام کے اندر پروٹینی شعور(protein-consciousness) پیدا کرے۔ اور اس سلسلہ میں رائے عامہ کو بیدار کرے۔
غیر لحمی غذاؤں میں دالیں پروٹین حاصل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ اور حیوانی غذاؤں مثلاً دودھ میں زیادہ اعلیٰ قسم کا پروٹین پایا جاتا ہے۔ پروٹین کی ضرورت کا تخمینہ مقدار اور نوعیت دونوں کے اعتبار سے کرنا چاہیے۔ اوسط نشوونما کے لیے پروٹین کے مرکبات میں 80 قسم کے امینوایسڈ (amino acid) ہونا ضروری ہیں۔ انھوںنے کہا کہ غیر لحمی غذاؤں میں بعض قسم کے ایسڈ مثلاً لائسین (Lysine) اور میتھیونین(Methionine) کا موجود ہونا عام ہے، جب کہ جوار میں لائسین کی زیادتی اُن علاقوں میں بیماری کا سبب رہی ہے جہاں کی خاص غذا یہی اناج ہے۔
اگرچہ حیوانی غذا (دودھ) کا بڑے پیمانے پر حصول پسندیدہ چیز ہے، مگر ان کا حصول بہت مہنگا ہے۔ کیوں کہ نباتاتی غذا کو حیوانی غذا کی شکل دینے کے لیے بہت زیادہ قوت ضائع کرنی پڑتی ہے۔ ایگری کلچرل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں دنیا کے تمام حصوں سے گیہوں اور جوار کی قسمیں منگواکر جمع کی گئیں اور اس اعتبار سے ان کا تجزیہ کیاگیا کہ کس قسم میں کتنے امینو ایسڈ پائے جاتے ہیں۔ تحقیق سے ان میں دلچسپ فرق معلوم ہوا۔ ان میں پروٹین کی مقدار 7 فی صدسے لے کر 16 فی صد تک موجود تھی۔یہ بھی معلوم ہوا کہ نائٹروجن کی کھاد استعمال کرکے نصف کے قریب تک ان کا پروٹین بڑھایا جاسکتا ہے۔
کسانوں کے اندر پروٹینی شعور پیدا کرنے کے لیے ڈاکٹر سوامی ناتھن نے یہ تجویز بتائی تھی کہ گیہوں کی خریداری کے لیے قیمتوں کا تعین اس بنیاد پر کیا جائے کہ کس قسم میں کتنا پروٹین پایا جاتا ہے۔ انھوںنے بتایا کہ ایگری کلچرل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ غلّہ کے بعض بازاروں میں پروٹین جانچ کی ایک سروس جاری کرے گا اور جب اطمینان بخش حقائق جمع ہوجائیں گے تو یہ معیار (criterion) تعینِ قیمت کی پالیسی میں شامل کیا جاسکے گا۔ غلّے کی مقدار کو بڑھانے اور اس کی قسم (quality) کو بہتر بنانے کے دو طرفہ کام کو نسلی طورپر اس طرح مربوط کیا جاسکتا ہے کہ زیادہ فصل دینے والے اور زیادہ بہتر قسم کے اناج، باجرے اور دالوںکی کاشت کی جائے۔ذہنی بونے پن (intellectual dwarfism) کا جو خطرہ ہمیں درپیش ہے، اس کا مقابلہ کرنے کا یہ سب سے کم خرچ اور فوری طور پر قابلِ عمل طریقہ ہے‘‘۔ (اسٹیٹس مین ، دہلی ، 4 ستمبر1967)
ڈاکٹر سوامی ناتھن کے مذکورہ بیان کی اشاعت کے بعد مختلف اخبارات و رسائل میںاس پر تبصرے کیے گیے۔ نئی دہلی کے انگریزی اخبار انڈین اکسپریس (7 ستمبر 1967) نے اپنے اداریے میں جو کچھ لکھا تھا، اس کا ترجمہ یہاں نقل کیا جاتا ہے:
’’انڈسٹری کی طرح زراعت میں بھی ہمیشہ یہ ممکن نہیںہوتا کہ ایک متحرک پالیسی کے نتائج کا شروع ہی میں اندازہ کیا جاسکے۔ اس طرح جب مرکزی حکومت نے اناج کی قیمت کے سلسلے میں تائیدی پالیسی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا تو مشکل ہی سے یہ شبہہ کیا جاسکتا تھا کہ غلے کی بہتات کے باوجود پروٹینی فاقہ (protein hunger) کا مسئلہ سامنے آجائے گا— جیسا کہ انڈین ایگری کلچرل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر سوامی ناتھن نے نشاندہی کی ہے۔ غلوں پر زیادہ اعتماد سے ایسی صورت حال پیدا ہوگی جس سے اچھے کھاتے پیتے لوگ بھی ناقص تغذیہ (malnutrition) میں مبتلا ہوجائیں گے۔ جو لوگ پروٹینی فاقہ سے دوچار ہوں گے، جسمانی تکلیفات کے علاوہ ان کے ذہنوں پر بھی اثرات پڑیں گے۔ ڈاکٹر سوامی ناتھن کے بیان کے مطابق، یہ ہوگا کہ بچوںکی ذہنی صلاحیت پوری طرح نشو ونما نہیں پائے گی۔ چوں کہ انسانی دماغ اپنے وزن کا 80 فی صد سے لے کر 90 فی صد تک چار سال کی عمر کو پہنچتے پہنچتے پورا کرلیتا ہے، اس لیے اس کمی کے نتیجے میںایک بڑا نقصان حالیہ برسوں ہی میں ہوچکا ہوگا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہمارے ملک میں ذہنی بونا پن(intellectual dwarfism) وجود میں آجائے گا۔ اس چیز کو دیکھتے ہوئے موجودہ زرعی پالیسی پر نظر ثانی ضروری ہے۔
مگر وہ حد بندیاں (limitations) بھی بہت زیادہ ہیں جن میں حکومت کو عمل کرنا ہوگا۔ سب سے پہلے یہ کہ زرعی پیداوار کو حیوانی پروٹین میں تبدیل کرنا بے حد مہنگا ہے۔ حکومت نے اگرچہ متوازن خوراک (balanced diet) اور گوشت، انڈے اور مچھلی کے زیادہ استعمال کی ایک مہم چلائی ہے، مگر اس کے باوجود عوام اپنی غذائی عادتوں (food habits) کو بدلنے میں بہت سُست ہیں۔
عمومی طورپر بھوک کا مسئلہ جانوروں کو پالنے کی مہم چلانے میں اخراجات کا مسئلہ اور لوگوں کی غذائی عادتوں (food habits) کو بدلنے کی مشکلات وہ اسباب ہیں جن کی وجہ سے حکومت کو زراعت کی بنیاد پر اپنی پالیسی بنانی پڑتی ہے۔ مگر مستقبل قریب کو دیکھتے ہوئے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکومت سوامی ناتھن کی وارننگ کو نظر انداز نہ کرسکے گی۔ دُور رس نتائج کے اعتبار سے زراعتی پالیسی کی مشکلات کو، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اقتصادیات نہیں بلکہ سائنس حل کرے گی۔ تجربات سے معلوم ہوا ہے کہ اناج خاص طور پر گیہوں کو پروٹین سے مالا مال کیا جاسکتا ہے۔ کھاد جو کہ پیداوار بڑھانے کے لیے استعمال ہوتی ہے، وہ بھی گیہوں کے اندر پروٹین کے جزو کو بڑھاتی ہے۔
تاہم یہ امر مشتبہ ہے کہ صرف غلہ کی کاشت کے طریقہ میںتبدیلی اس مسئلہ کا جواب فراہم کرے گی۔ جب تک پروٹین کی اونچی اقسام رکھنے والے گیہوں دریافت نہ ہوجائیں۔ جب تک ایسا نہ ہو گورنمنٹ کو چاہیے کہ دالوں اور حیوانی پیداوار کی اسی طرح حوصلہ افزائی کرے جس طرح وہ اناج کی حوصلہ افزائی کررہی ہے‘‘۔(انڈین اکسپریس، 7 ستمبر 1967)
جیسا کہ معلوم ہے، ہندستان کو اگلے بیس برسوں میں ایک نیا انتہائی بھیانک خطرہ درپیش ہے، یہ خطرہ زرعی تحقیق کے ادارہ کے ڈائریکٹر کے الفاظ میں ’’ذہنی بونا پن‘ ‘ کا خطرہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری آ ئندہ نسلیں بظاہر جسمانی اعتبار سے دوسروں کے برابر ہوں گی، مگر ذہنی استعداد کے اعتبار سے ہم دنیا کی دوسری متمدن قوموں سے پست ہوچکے ہوں گے۔
یہ خطرہ جو ہمیں در پیش ہے، اس کی وجہ ڈاکٹر سوامی ناتھن کے الفاظ میں یہ ہے کہ ہماری غذا میں پروٹین کا جزء بہت کم ہوتا ہے، یہاں کی آبادی ایک قسم کے پروٹینی فاقہ میں مبتلا ہوتی جارہی ہے۔
پروٹین ایک غذائی جُز ہے جو انسانی جسم کی صحیح نشونما کے لیے ضروری ہے ۔ یہ پروٹین اپنی اعلیٰ ترین شکل میں گوشت سے حاصل ہوتا ہے۔ گوشت کا پروٹین نہ صرف قسم میں اعلیٰ ہوتا ہے، بلکہ وہ انتہائی وافر اور سستی مقدار میں دنیا کے اندر موجود ہے۔
واپس اوپر جائیں

خاتمہ

ہسٹری آف تھاٹ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ افکار کے اعتبار سے انسانی تاریخ کے دو دور ہیں۔ ایک قبل سائنس دور (pre-scientific era) اور دوسرا ،بعد سائنس دور (post-scientific era)۔ قبل سائنس دور میں لوگوں کو اشیا کی حقیقت معلوم نہ تھی، اس لیے محض قیاس آرائی کے تحت چیزوں کے بارے میں رائے قائم کرلی گئی۔ اس لیے قبل سائنس دور کو توہماتی دور (age of superstition) کہاجاتا ہے۔ مذکورہ اعتراض دراصل اسی قدیم دور کی ایک یادگار ہے۔ یہ اعتراض دراصل توہماتی افکار کی کنڈیشننگ کے تحت پیدا ہوا، جو روایتی طورپر اب تک چلا جارہا ہے۔
قدیم توہماتی دور میں بہت سے ایسے خیالات رائج ہوگئے جو حقیقت کے اعتبار سے بے بنیاد تھے۔ سائنسی دور آنے کے بعد ان خیالات کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ مثلاً شمسی نظام کے بارے میں قدیم جیوسنٹرک (geocentric) تھیوری ختم ہوگئی اور اس کی جگہ ہیلیو سنٹرک (heliocentric) تھیوری آگئی۔ اسی طرح ماڈرن کیمسٹری کے ظہور کے بعد قدیم آلکیمی ختم ہوگئی۔ اسی طرح ماڈرن ایسٹرانمی کے ظہور کے بعد قدیم اسٹرالوجی (astrology)کا خاتمہ ہوگیا، وغیرہ۔ مذکورہ اعتراض بھی اسی نوعیت کا ایک اعتراض ہے، اور اب یقینی طورپر اس کا خاتمہ ہوجانا چاہیے۔
گلیلیو سترھویںصدی عیسوی کا اٹیلین سائنٹسٹ تھا۔ اس نے قدیم ٹالمی کے نظریے سے اختلاف کرتے ہوئے یہ کہا کہ زمین شمسی نظام کے سنٹر میں نہیں ہے، بلکہ زمین ایک سیارہ ہے جو سورج کے گرد مسلسل گھوم رہا ہے۔ یہ نظریہ مسیحی چرچ کے عقیدہ کے خلاف تھا۔ اس وقت مسیحی چرچ کو پورے یورپ میں غلبہ حاصل تھا۔ چناںچہ مسیحی عدالت (inquisition) میں گلیلیو کو بلایا گیا اور سماعت کرنے کے بعد اس کو سخت سزا دی گئی۔ بعد کو اس کی سزا میں تخفیف کرکے اس کو اپنے گھر میں نظر بند (house arrest) کردیاگیا۔ گلیلیو اسی حال میں 8 سال تک رہا، یہاں تک کہ 1642ء میں وہ اندھا ہوکر مر گیا۔
اس واقعہ کے تقریباً 400 سال بعد مسیحی چرچ نے اپنے عقیدہ پر نظر ثانی کی۔ اس کو محسوس ہوا کہ گلیلیو کانظریہ صحیح تھا، اور مسیحی چرچ کا عقیدہ غلط تھا۔ اس کے بعد مسیحی چرچ نے سائنٹفک کمیونٹی سے معافی مانگی اور اپنی غلطی کا اعلان کردیا۔ یہی کام ان لوگوں کو کرنا چاہیے جو غلو آمیز ویجیٹیرین ازم (extremist vegetarianism) کے وکیل بنے ہوئے ہیں۔ یہ نظریہ اب سائنسی تحقیقات کے نتیجہ میں غلط ثابت ہوچکا ہے۔ اب ان حضرات کو چاہیے کہ وہ اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے سابق نظریہ سے رجوع کرلیں، ورنہ ان کے بارے میں کہا جائے گا کہ وہ سائنسی دور میں بھی توہم پرست (superstitious)بنے ہوئے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

سوال وجواب

سوال
ماہ نامہ الرسالہ، اکتوبر 2009 میں ’’فلسطین کا مسئلہ‘‘ کے عنوان سے لکھے گئے مضمون کو غور کے ساتھ پڑھا۔ اس میں فلسطین کی تاریخ کو بہت ہی اچھے اور معلوماتی انداز میں سلسلے وار بیان کیاگیا ہے جو قارئین کو قیمتی معلومات کے ساتھ ساتھ حقیقت سے آگاہ کرنے کا ذریعہ ہے۔ اِس مضمون کو پڑھ کر بہت سی غلط فہمیاں دور ہوئیں۔یہاں حسب ذیل سوالوں کا جواب مطلوب ہے:
1 - مسجد اقصی کے کیمپس میں صخرہ ایک چوکو رچٹان ہے۔ اِسی چٹان کو یہودی اپنے لئے مقدس سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہی وہ صخرہ ہے جس پر حضرت ابراہیم نے اپنے بیٹے اسحاق کی قربانی پیش کی تھی۔ اسلامی تاریخ میںاس قربانی کا مقام منیٰ بتایا گیا ہے۔ یہودیوں کے اس عقیدہ اور تاریخ کی بنیاد کیا ہے۔ کیا تورات میںاس کا ذکر موجود ہے۔
2 - مسجد اقصیٰ کو آپ نے یروشلم کی یہودی عبادت گاہ (ہیکل) بتایا ہے۔ قرآن میں مسجد اقصیٰ کا ذکر ہے جس کے معنی آپ نے دور کی مسجد (farthest place of worship) کے بتائے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ کون سا مقام یا مسجد ہے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کے موقع پر انبیائِ سابقین کو امامت کے ساتھ نماز پڑھائی تھی۔
3 - مسجد اقصیٰ میں نماز ادا کرنے پر، اور مسجدوں کے مقابلے میں 25 ہزار ، مسجد نبوی میں 50 ہزار اور مسجد حرام میں ایک لاکھ درجہ ثواب بتایا جاتا ہے۔ اس مسجد اقصیٰ سے کیا مراد ہے۔ (ابرار حسین قریشی، مدھیہ پردیش)
جواب
1 - یہ ایک عقیدے کی بات ہے، نہ کہ تاریخ کی۔ مسلمان، حضرت اسماعیل کو ذبیح مانتے ہیں اور منیٰ (مکہ) کو قربانی کا مقام قرار دیتے ہیں۔ اِس کے برعکس یہود، حضرت اسحاق کو ذبیح مانتے ہیں اور صخرہ (یروشلم) کو اس قربانی کا مقام قرار دیتے ہیں۔ حضرت اسحاق کے ذبیح ہونے کا ذکر یہود کے مقدس صحیفہ تورات کی کتاب پیدائش (Genesis) کے باب 22 میں موجود ہے۔
2 - پیغمبر آخر الزماں محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب (صلی اللہ علیہ وسلم) کی امامت میں انبیائِ سابقین کی نماز کا ذکر حدیث میں آیا ہے (صحیح مسلم، کتاب الإیمان، باب ذکر المسیح، رقم الحدیث: 278 ) یہ واقعہ غالباً 621 عیسوی میں پیش آیا۔ تاریخی شواہد کے مطابق، اُس وقت وہاں مسجد اقصیٰ کی موجودہ عمارت موجود نہ تھی۔ اُس وقت یہ مقام کھنڈر کی صورت میں تھا۔ اِس لیے یہ ماننا ہوگا کہ یہ نماز مسجد اقصٰی کی سائٹ (site) پر ہوئی، نہ کہ مسقَّف عمارت کے اندر۔
3 - قرآن میں مسجد اقصیٰ سے مراد مسجد کی سائٹ (site) ہے۔ حدیث میں جس اقصیٰ کا ذکر ہے، وہ حال کے اعتبار سے سائٹ کے معنی میں ہے اور مستقبل کے اعتبار سے مسقف مسجد کے معنی میں۔
جہاں تک نماز کی فضیلت کی بات ہے، اس کا تعلق مجرد طورپر صرف مقامات سے نہیں ہے، بلکہ ان مقامات کی تاریخی حیثیت سے ہے۔ مسجد حرام کی اہمیت یہ ہے کہ اس سے حضرت ابراہیم کی تاریخ وابستہ ہے۔ جب کوئی شخص مکہ جاکر مسجد حرام میں نماز ادا کرتا ہے تو اس کو اِس ابراہیمی تاریخ کی یاد آتی ہے۔ اِس بنا پر اس کی نماز میں غیر معمولی کیفیات پیدا ہوجاتی ہیں۔ اِنھیں بڑھی ہوئی کیفیات کی بنا پر مسجد حرام میں نماز کی اہمیت ہے، نہ کہ صرف درودیوار کے اعتبار سے۔
اِسی طرح مسجد نبوی سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ وابستہ ہے۔ وہاں جب آدمی نماز، پڑھتا ہے تو اس تاریخ کی یاد آدمی کے اندر غیر معمولی کیفیت پیدا کردیتی ہے۔ اِنھیں کیفیات کی بناپر مسجد نبوی کی نماز دوسری مساجد کی نماز سے بہت زیادہ مختلف ہوجاتی ہے۔
اِسی طرح مسجد اقصی سے اسرائیلی پیغمبروں کی تاریخ وابستہ ہے۔ جب کو ئی شخص مسجد اقصی میں نماز ادا کرتا ہے تو اِس تاریخ کی یاد اس کے اندر خصوصی کیفیات پیدا کردیتی ہے۔ اِس طرح یہاں ادا کی ہوئی نماز دوسری مسجدوں کی نماز سے مختلف ہوجاتی ہے۔
موجودہ زمانے میں عرب علماء نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ جب تک مسجد اقصی پر یہود کا قبضہ باقی ہے، اُس وقت تک باہر کے مسلمانوں کے لیے جائز نہیں کہ وہ سفر کرکے وہاں جائیں اور مسجد اقصی میں نماز ادا کریں۔ یہ فتویٰ بالکل بے بنیاد ہے، اس فتوے کی کوئی شرعی اہمیت نہیں۔ مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یروشلم کا سفر کیا اور وہاں نماز ادا کی، اُس وقت یہ جگہ رومیوں کے قبضے میں تھی۔ اگر رومیوں کے قبضہ کے باوجود مسجد اقصی کے مقام پر نماز پڑھنا جائز تھا تو یہود کے ’’قبضہ‘‘ کے وقت وہاں نماز ادا کرنا کیوں ناجائز ہوجائے گا۔ اِس قسم کے فتوے بلا شبہہ سیاسی فتوے ہیں، نہ کہ شرعی فتوے۔
موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں یہ افواہ پھیلی ہوئی ہے کہ اسرائیلی فوجی مسلمانوں کو مسجد اقصی کے اندر جانے نہیں دیتے، وہ مسلمانوں کو اِس عظیم سعادت سے محروم کئے ہوئے ہیں کہ وہ مسجد اقصیٰ میں جاکر نماز ادا کریں۔ یہ بلاشبہہ ایک خلافِ واقعہ بات ہے۔ مسجد اقصی میں مسلمانوں کے لیے نماز اداکرنے پر اسرائیل کی طرف سے کوئی پابندی نہیں۔ اگر پابندی ہے تو وہ سیاسی مظاہرہ کرنے پر ہے، نہ کہ وہاں نماز ادا کرنے پر۔ جو لوگ اِس قسم کی بے بنیاد باتیں کہیں، اُنھیں سوچنا چاہیے کہ کہیں وہ خدا کے یہاں مقعد ِ صدق (القمر: 55 ) پر جگہ پانے سے محروم نہ ہوجائیں، اور بلا شبہہ اِس سے بڑی کوئی محرومی نہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ آخرت کی دنیا میں صداقت کے مقام پر کھڑے ہونے کی سعادت صرف انھیں لوگوں کو ملے گی جنھوں نے اِس دنیا کی زندگی میں صداقت پر کھڑے ہونے کا ثبوت دیا ہو۔
سوال
الرسالہ نے میری زندگی بالکل بدل دی ہے۔ میں نے الرسالہ کے مختلف مضامین کا کئی بار مطالعہ کیا۔ الرسالہ کے ذریعے مجھے زندگی کا ایک راستہ ملا، اور یہ راستہ ان شاء اللہ جنت الفردوس تک جاکرختم ہوگا۔ آپ کے مضامین میں ایک لفظ نے مجھے برابر سوچنے پر مجبور کیا ہے، وہ لفظ ہے — اعراض۔ آپ اس لفظ کا استعمال الرسالہ میں اکثر کرتے ہیں۔ کیا اعراض پر آپ کی کوئی مکمل کتاب بھی ہے۔ اگر ہاں، تو نام ضرور بتائیں (فاروق عبد اللہ، چمپارن، بہار)
جواب
اعراض (avoidance) کی اہمیت کو سمجھنے میں اکثر لوگوں کو دقت پیش آتی ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ وہ اپنے غلط تصور کی بنا پر اعراض کو پسپائی کا ایک فعل سمجھتے ہیں، حالاں کہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے، اعراض ایک عبادت ہے۔ اعراض کرتے ہوئے اگر آدمی کو یہ احساس ہو کہ وہ عبادت کا ایک فعل کررہا ہے تو وہ اعراض کی پالیسی کو اطمینانِ قلب کے ساتھ قبول کرے گا۔ وہ کبھی اُس کے بارے میں کنفیوژن (confusion) کا شکار نہ ہوگا۔
اعراض کیا ہے۔ اعراض خدا کے فیصلے پر راضی ہونے کا دوسرا نام ہے۔ خدا نے دنیا کا نظام اِس طرح بنایا ہے کہ یہاں ہر ایک کو کامل آزادی حاصل ہے۔ کیوں کہ اِس دنیا میں انسان ٹسٹ (امتحان) کے لیے رکھا گیا ہے، اور آزادی کے بغیر کسی کا ٹسٹ نہیں لیا جاسکتا۔
اِسی آزادی کی بنا پر وہ مسائل پیدا ہوئے ہیں جن میں اعراض کا حکم دیاگیا ہے— کوئی اپنی آزادی کا غلط استعمال کرتا ہے، کوئی شخص اپنی بے جاروش سے ایسے اسباب پیدا کرتا ہے جس کے نتیجے میں لوگ بھڑک اٹھیں، کوئی شخص نفرت اور تشدد کی بولی بول کر دوسروں کو بھی نفرت اور تشدد میں مبتلا کردیتا ہے۔ یہی وہ مواقع ہیں جہاں اعراض کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔اعراض در اصل یہ ہے کہ نا خوش گوار حالات میں اپنے آپ کو ردّ عمل کی نفسیات سے بچایا جائے ، نا خوش گواریوں کے باوجود اپنے آپ کو اعتدال کی حالت پر قائم رکھا جائے۔
اعراض کی یہ روش اِس لیے ضروری ہے کہ اپنے آپ کو منفی راہوں میں بھٹک جانے سے بچایا جائے، اور اپنے آپ کو ہر حال میں مثبت عمل پر قائم رکھا جائے۔
اعراض کا طریقہ اختیار کرنے میں مشکل پیش آنے کی وجہ یہ ہے کہ کسی آدمی کے سامنے جب اِس طرح کی صورتِ حال آتی ہے تو وہ اس کو خدا کے تخلیقی پلان (creation plan of God) سے جوڑ کر دیکھ نہیں پاتا۔ وہ پیدا شدہ مسئلے کو صرف ایک انسان کا پیدا کردہ مسئلہ سمجھتا ہے، اِس بنا پر وہ اُس انسان کے خلاف منفی ذہن کا شکار ہوجاتا ہے۔ اِس کے برعکس، اگر آدمی یہ سوچے کہ یہ مسئلہ خدا کی دی ہوئی آزادی کی بنا پر پیش آیا ہے تو فوراً اس کا ذہن معتدل ہوجائے گا۔ جس مسئلے کو وہ پہلے ایک انسان کا پیدا کردہ مسئلہ سمجھ رہا تھا، اس کو معلوم ہوگا کہ وہ خود خدا کے تخلیقی پلان کے مطابق پیش آنے والا ایک مسئلہ ہے، وہ سادہ طورپر صرف کسی انسان کا پیدا کردہ مسئلہ نہیں۔
واپس اوپر جائیں

خبر نامہ اسلامی مرکز— 199

1 - جامعہ ملیہ اسلامیہ (نئی دہلی) میں یکم تا 9 اگست 2009 ایک بک فئر لگایا گیا۔ اِس میں گڈ ورڈ بکس (نئی دہلی) نے بھی اپنا اسٹال لگایا۔ اِس اسٹال پر کافی وزٹرس آئے ۔ یہاں بڑی تعداد میں لوگوں کو دعوتی لٹریچر دیاگیا۔
2 - انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (نئی دہلی) نے 16ستمبر 2009 کو اپنے دفتر واقع بہادر شاہ ظفر مارگ میں اسلام اور ہندوازم کے موضوع پر ایک ڈائلاگ کا انتظام کیا۔ اسلام کی نمائندگی صدر اسلامی مرکز نے کی اور ہندوازم کی نمائندگی شری شری روی شنکر نے کی۔ یہ ڈائلاگ ویڈیو کانفرنسنگ کی صورت میں ہوا۔ صدر اسلامی مرکز ٹائمس آف انڈیا کے آفس( نئی دہلی) میں تھے، اور شری شری روی شنکر بنگلور سے بول رہے تھے۔ اس ڈائلاگ میں دونوں نے حسب ذیل موضوعات پر اپنے اپنے مذہب کی نمائندگی کی— جہاد اور کروک شیتر کی مہابھارت،خدا کا تصور ،اسلام اور ہندوازم میں اور ڈیلی لائف کے لیے اسلام اور ہندو ازم کی تعلیمات ، وغیرہ۔ اخبار کے اسٹاف نے اِس ڈائلاگ کا ریکارڈ تیار کیا۔ وہ ٹائمس آف انڈیا کے ایک خصوصی شمارہ (The Crest Edition 26 Sep-2 Oct, 2009, p. 31) میں شائع کیا جائے گا۔ ڈائلاگ کے بعد اسٹاف کے لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔
3 - سرودھرم سنسد (نئی دہلی) کی طرف سے 17 ستمبر 2009 کو سری فورٹ آڈی ٹوریم (نئی دہلی)میں ایک آل انڈیا کانفرنس ہوئی۔ یہ کانفرنس عالمی امن کے موضوع پر تھی۔ اِس میں تقریباً 3 ہزار اعلیٰ تعلیم یافتہ غیرمسلم حضرات موجود تھے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اپنی ٹیم کے 12 افراد کے ساتھ اس میں شرکت کی اور موضوع پر ایک تقریر کی۔ سی پی ایس کی طرف سے حاضرین کو دعوتی لٹریچر اور قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔
4 - رمضان 1430 ہجری کے آخری جمعہ (18 ستمبر 2009) کو الرسالہ مشن سے وابستہ افراد نے دہلی اوراطراف کی مسجدوں کے علاوہ یوپی، بہار اور دیگر صوبوں میں رمضان کے موضوع پر اردو میں چھپے ہوئے بروشر تقسیم کئے۔ رمضان کے مہینے میں سی پی ایس کی طرف سے مختلف مساجدمیں ’’تذکیر القرآن‘‘ پہنچایا گیا۔ خاص طور پر پٹنہ اور پھلواری شریف (بہار) کی تقریباً 100 مساجد میں وہاں کے ساتھیوں نے تذکیر القرآن پہنچایا۔
5 - شری ستیہ سائی سیوا سمیتی کی طرف سے 19 ستمبر 2009 کو ’’روزہ اور عید الفطر‘‘ کے موضوع پر نوئیڈا کے سائی سنٹر (سیکٹر 21) میں ایک پروگرام ہوا۔ صدر اسلامی مرکز کو اس میں چیف گیسٹ کے طورپر بلایا گیا تھا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے سی پی ایس کی ٹیم کے افراد کے ساتھ اس پر وگرام میں شرکت کی اور روزہ و عید الفطر کے متعلق تعارفی انداز میں اسلام کی تعلیمات پر روشنی ڈالی۔ افطار کے بعد سائی سنٹر کے آشرم میں مغرب کی نماز با جماعت ادا کی گئی۔ یہاں افطار میں کچھ مقامی مسلمان بھی موجود تھے۔ اِس موقع پر حاضرین کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا گیا۔ مسلم افراد نے یہاں سے اردو لٹریچر اور تذکیر القرآن کے نسخے حاصل کیے۔سائی سیوا سمیتی کے ذمے داروں نے بڑے پیمانے پر قرآن کا انگریزی ترجمہ خرید کر اپنی لکھنؤ برانچ کو بھیجا ہے ۔
6 - سائی انٹرنیشنل سنٹر (نئی دہلی) میں 23 ستمبر 2009 کو حسب ذیل موضوع پر ایک پروگرام ہوا:
Basic Human Values in Islam
اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بنیادی اقدارِ انسانی کے موضوع پر ایک گھنٹہ تقریر کی۔ تقریر کے بعد سوال و جواب کا پروگرام ہوا۔ اِس موقع پر انڈیا کے مختلف مقامات کے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہندو پرنسپل موجود تھے۔ سی پی ایس کی طرف سے اُن کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔ پروگرام کے بعد ایک پرنسپل نے کھڑے ہو کر اِس ترجمہ قرآن کے لیے سی پی ایس کا شکریہ اداکیا۔ جنرل چھبر نے پرنسپل حضرات سے پرجوش طورپر کہا کہ —اِس کو پڑھیے اور دوسروں تک پھیلائیے۔
7 - بحرین کے ایگزی بیشن سنٹر (مناما) میں 30 ستمبر تا 9 اکتوبر 2009 ایک انٹرنیشنل بک فئر لگایا گیا۔ اِس بک فئر کوبحرین کے اخبار الایّام نے اسپانسر کیا تھا۔ یہاں گڈ ورڈ بکس (نئی دہلی) نے بھی اپنا اسٹال لگایا۔ اِس موقع پر بڑے پیمانے پر لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیاگیا۔ میڈیا نے اس کو نمایاں طورپر کور (cover)کیا۔
8 - سی پی ایس کی طرف سے بڑے پیمانے پر غیر مسلم حضرات تک قرآن کے انگریزی ترجمہ پہنچانے کا کام جاری ہے۔ ہمارے ساتھی مختلف مذاہب کے نمائندوں اور سیاسی رہنماؤں اور دیگر عالمی شخصیات سے رابطہ کرکے انھیں قرآن پہنچارہے ہیں۔ مثلاً یکم اکتوبر 2009 کوانڈیا کے مشہور سائنٹسٹ ڈاکٹر سوامی ناتھن کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔ اِسی طرح نیوجرسی (امریکا) کی خاتون ایسٹرڈ (Astrid Thoening) کو ان کے سو سالہ یومِ پیدائش کے موقع پر بذریعہ ڈاک انگریزی قرآن کا ایک نسخہ روانہ کیاگیا۔
9 - نئی دہلی کے تھنکرس فورم (Thinkers' Forum on Peace and Non-Violence) کی طرف سے یکم اکتوبر 2009 کو ایک سیمنار ہوا۔ یہ سیمنار یو این ڈی پی بلڈنگ (لودھی اسٹیٹ، نئی دہلی) کے یو این کانفرنس ہال میں کیاگیا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ سیمنار کا موضوع یہ تھا:
Challenges to Peace and Coexistence: The Option of Non-violence
انگریزی زبان میں صدر اسلامی مرکز کی آدھ گھنٹے کی تقریر کے بعد سوال وجواب کا پروگرام ہوا۔ اِس موقع پر سی پی ایس انٹرنیشنل (نئی دہلی) کی طرف سے حاضرین کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا گیا۔ حاضرین میں ہندو اور مسیحی مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ موجودتھے۔ انھوں نے شکریہ کے ساتھ قرآن کے نسخے حاصل کیے۔ کئی لوگوں نے قرآن کی تین تین کاپیاں لیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ نسخے ہم اپنے ساتھیوں کو دیں گے۔
10 - انڈین بدھسٹ سوسائٹی (ISBS) کی طرف سے کشمیر یونی ورسٹی میں 5-7 اکتوبر 2009 کو ایک کانفرنس ہوئی۔ یہ کانفرنس امن کے موضوع پر تھی۔ اِس موقع پر کشمیر کے حلقہ الرسالہ سے وابستہ افراد نے بڑے پیمانے پر حاضرین کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا۔
11 - جامعہ کمیونٹی سنٹر (نئی دہلی) میں 9 اکتوبر 2009 کی شام کو نکاح کی ایک تقریب تھی۔ اس کی دعوت پر صدراسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ یہاں سی پی ایس کی طرف سے حاضرین کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور اسلامی لٹریچر دیاگیا۔
12 -کرزن روڈ(نئی دہلی) پر واقع مسجد کستوربا گاندھی مارگ کے احاطے میں 10 اکتوبر 2009 کو ایک تعزیتی پروگرام ہوا۔ یہ پروگرام مولانا جمیل احمد الیاسی (وفات 18 اگست 2009) کے بارے میں تھا۔ اِس پروگرام میں دہلی اور اطراف کے ائمہ مساجد کے علاوہ مختلف مذاہب کے مذہبی اور سیاسی رہنما موجود تھے۔ سی پی ایس کے کچھ افراد نے اِس پروگرام میں شرکت کی اورحاضرین کو مطالعے کے لیے حسب ذیل لٹریچر دیاگیا —انگریزی ترجمہ قرآن، پوتر قرآن (ہندی)، آخرت کا سفر، مقصد حیات، اپنی تعمیر آپ، مسلمان کی اصل حیثیت، با اصول زندگی، ستیہ کی کھوج، ریلٹی آف لائف۔ اِس موقع پر ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی کو بھی قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا ۔
13 - انڈیا اسلامک کلچرل سنٹر (نئی دہلی) میں 10 اکتوبر 2009 کو ایک فنکشن ہوا۔ یہ فنکشن ویب وار تا (webvarta) کے افتتاح کے طورپر کیاگیا جو ایک آن لائن نیوز ایجنسی ہے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور ایک مختصر تقریر کی۔ سی پی ایس کے ممبروں نے اِس موقع پر حاضرین کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور اسلامی لٹریچر مطالعے کے لیے دیا۔
14 - شری مدھیہ بھارت ہندی سمیتی گراؤنڈ (اندور) میں 12-20 ستمبر 2009 ایک بک فئر لگایا گیا۔ اِس موقع پر گڈ ورڈ بکس (نئی دہلی) نے اپنابک اسٹال لگایا۔ اسٹال پر بڑی تعداد میں وزٹرس (visitors)آئے۔ یہاں آنے والے لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی پمفلٹ اور بروشر دیاگیا۔
15 - فرینکفرٹ (جرمنی) میں 14-18 اکتوبر 2009 کے درمیان ایک انٹرنیشنل بک فئر لگایا گیا۔ اِس موقع پر گڈورڈ بکس (نئی دہلی) نے بھی اپنا اسٹال لگایا۔ یہاں دنیا بھر سے پبلشنگ ٹریڈ (publishing trade) سے وابستہ لوگ آئے ہوئے تھے۔ بک فئر میں بڑی تعداد میں لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔ لوگوں نے بہت شوق سے اس کو لیا۔ ایک صاحب کو قرآن کا نسخہ دیاگیا تو انھوں نے کہا:
I love to read the Quran, as it is so much in the news.
16 - سی پی ایس کے کچھ افراد 20 اکتوبر 2009 کو نئی دہلی کے نہروپلینٹیریم (Nehru Planetarium) گئے۔ یہاں انھوں نے لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیا۔
17 - مرکز الدوحۃ الدولی لحوار الادیان (Doha International Center for Interfaith Dialogue) کی طرف سے 20-21 اکتوبر 2009 کو دوحہ (قطر) میں التضامن الإنسانی (Human Solidarity) کے موضوع پر ایک انٹرنیشنل کانفرنس ہوئی۔ اِس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اِس کانفرنس میں شرکت کی۔ اِس سفر کی تفصیل ان شاء اللہ سفر نامے کے تحت الرسالہ میں شائع کردی جائے گی۔
واپس اوپر جائیں

Monday 2 November 2009

Al Risala | November 2009 (الرسالہ،نومبر)

2

-ایک آیت

3

- بے خوفی کی نفسیات

4

- جنت یا جہانِ لذت

5

- عقل اور دین

6

- اعلیٰ معرفت

7

- معرفت کاسفر

8

- خدا کا وجود

9

- موت سے پہلے، موت کے بعد

10

- نماز اور قرآن

13

- تکفیر یا تبلیغ

14

- ایک اجتماعی ضرورت

15

- فطرت کا نظام

16

- بے اعترافی کا مزاج

17

- ردّ عمل، انتہا پسندی

18

- شکایت کا مزاج

19

- دو عظیم فکری انقلابات

26

- تباہ کن غلط فہمی

27

- فخر اور نفرت

28

- مسلمان عالمی محاصرہ میں

29

- شریعتِ محمدی کا نفاذ

30

- ارتقاء یا مغالطہ

31

- تاریخ کے تین دور

32

- اصلاحِ نصاب، یا اصلاحِ ماحول

34

- ہر گھر بگاڑ کا کارخانہ

35

- خدا کا اعتراف نہیں

36

- بچوں کا قبرستان

37

- بحران کا مثبت پہلو

38

- انفرادی آداب، اجتماعی آداب

39

- حرص، قناعت

40

- خیر خواہی یا بد خواہی

41

- سوال وجواب

43

- خبرنامہ اسلامی مرکز


ایک آیت

قرآن کی سورہ نمبر 4 میں ارشاد ہوا ہے: وإن مّن أہل الکتاب إلاَّ لیؤمننّ بہ قبل موتہ (النساء: 159) یعنی اہل کتاب میں سے کوئی شخص ایسا نہیں ہے جو اپنی موت سے پہلے اس (قرآن) پر ایمان نہ لے آئے۔
اِس آیت میں ایک متعین حوالہ (particular reference) کی روشنی میں ایک عمومی (general) بات کہی گئی ہے، وہ یہ کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی ایک سچائی کا انکار کرتا رہتا ہے، لیکن اپنے آخری زمانے میں جب کہ وہ اپنی موت کے قریب پہنچ جاتا ہے،اُس وقت وہ محسوس کرتا ہے کہ میرا انکار درست نہ تھا۔ آخر وقت میںاُس کا دل اُس بات کو داخلی طور پر مان لیتا ہے جس کا وہ اپنی پوری زندگی میں انکار کرتا رہا۔
اِس کا سبب یہ ہے کہ سچائی اپنی حقیقت کے اعتبارسے ہر آدمی کے دل کی آواز ہوتی ہے۔ وہ شعوری یا غیر شعوری طورپر اس کی صداقت کو محسوس کرتارہتا ہے۔ لیکن جوانی کی عمرمیں اس کو اپنے اوپر اتنا زیادہ اعتماد رہتا ہے کہ وہ سچائی کے معاملے پر غور کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتا۔ وہ سمجھتا رہتا ہے کہ میرا راستہ درست راستہ ہے۔ وہ اپنی بڑائی کو باقی رکھنے کے لیے سچائی کا اعتراف کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔
لیکن جب اُس پر بڑھاپا آتا ہے، جب وہ ذہنی اور جسمانی کم زوری کا شکار ہوجاتاہے، جب وہ دیکھتا ہے کہ جلد ہی میری موت آنے والی ہے، اُس وقت حالات کے اثر سے اس کے اندر نظر ثانی کا مزاج پیداہوجاتاہے۔ اس کی دبی ہوئی فطرت ابھر آتی ہے۔ وہ محسوس کرنے لگتا ہے کہ سچائی وہی تھی جس کا میں انکار کرتا رہا، لیکن عزتِ نفس (self-respect)کا خیال اس کو اس سے روک دیتا ہے کہ وہ کھلے طورپر اپنی غلطی کا اعتراف کرے۔ رشید کوثر فاروقی (وفات: 2007 ) نے اپنے ایک شعر میں اِس حقیقت کا اعتراف اِن الفاظ میں کیا ہے:
زیست کا راز کھلا، گردشِ ایام کے بعد اِس کہانی کا تو آغاز تھا، انجام کے بعد
واپس اوپر جائیں

بے خوفی کی نفسیات

آج کل مسلمانوں میں ہر جگہ اسلام کی دھوم ہے۔ مشرق سے مغرب تک ہر جگہ دین کے نام پر بے شمار سرگرمیاں جاری ہیں۔ مگر اِن ہنگامہ خیز سرگرمیوں میں وہی چیز غائب ہے جو دین کی اصل ہے، یعنی اللہ کا خوف جس کو قرآن اور حدیث میں تقویٰ کہاگیا ہے۔
آج کل مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ اگر اُنھیں قیامت کی خبر دی جائے تو وہ ایسا جواب دیں گے، جیسے کہ انھیں قیامت کے آنے کاکوئی ڈر نہیں، اس لیے کہ ان کو ’’شفیع المذنبین‘‘ کا وسیلہ حاصل ہے۔ قیامت اگر آئی بھی تو وہ صرف دوسروں کے لیے ہوگی، نہ کہ مسلمانوں کے لیے۔
مسلمانوں کو قیامت سے ڈرائیے تو اُن میں سے کوئی شخص کہے گا کہ ابھی قیامت کہاں، ابھی تو مسیح نازل نہیں ہوئے۔ ابھی تو مہدی نہیں آئے۔ ابھی تو دجال ظاہر نہیں ہوا۔ کوئی کہے گا کہ حدیث میں آیا ہے: مَن مات فقد قامت قیامتہ۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ انفرادی قیامت تو ہر روز آرہی ہے۔ اِسی طرح ایک دن اجتماعی قیامت بھی آجائے گی، پھر اس کے بارے میں فکر مند ہونے کے کیا معنیٰ۔ کوئی کہے گا کہ دنیا اور آخرت کی تمام سعادتیں مسلمانوں کے لیے لکھ دی گئی ہیں، پھر ایسی حالت میں قیامت سے ڈرنے کی کیا ضرورت، وغیرہ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بعثتُ أنا والساعۃ جمیعًا (مسند احمد، جلد 5، صفحہ 348) یعنی میں اور قیامت دونوں ساتھ ساتھ بھیجے گئے ہیں۔ اِس کو سن کر اصحابِ رسول کا یہ حال ہوا کہ اگر آندھی بھی آجاتی تو وہ ڈر جاتے کہ شاید قیامت آگئی۔ مگر آج کل مسلمانوں کی بے خوفی کا یہ حال ہے کہ اُن سے کچھ بھی کہیے، لیکن ان کے اندر ڈر کی نفسیات نہیں پیدا ہوگی، وہ بدستور بے خوفی کی زندگی گزارتے رہیں گے۔یہ حالت صرف عام مسلمانوں کی نہیں ہے، بلکہ ان لوگوں کی بھی یہی حالت ہے جن کی ظاہری وضع قطع کو دیکھ کر ان کو دین دار مسلمان ہونے کا لقب دیا جاتاہے۔ یہ گراوٹ کا آخری درجہ ہے، اس کے بعد گراوٹ کاکوئی اور درجہ نہیں۔
واپس اوپر جائیں

جنت یا جہانِ لذت

قرآن کی سورہ نمبر 14 میںدنیا کے بارے میں یہ الفاظ آئے ہیں: وآتاکم من کلّ ما سألتموہ (إبراہیم:34 )اِس کے مقابلے میں، جنت کے بارے میں قرآن کی سورہ نمبر 42 میں یہ الفاظ آئے ہیں: ولکم فیہا ما تشتہی أنفسکم (حم السجدۃ:31) اِن دونوں آیتوں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ دنیا میں انسان کو تمام چیزیں بقدرِ ضرورت دی گئی ہیں۔ اِس کے مقابلے میں جنت میںانسان کو تمام چیزیں بقدر خواہش دی جائیں گی۔
انسان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک لذت طلب حیوان (pleasure-seeking animal) ہے۔ لذت ایک انوکھی صفت ہے جو صرف انسان کے اندر پائی جاتی ہے۔ انسان کے اندر ہر قسم کی لذتوں کی بے پناہ طلب موجود ہے۔ لیکن موجودہ دنیا میں کسی بھی عورت یا مرد کی خواہشیں پوری نہیں ہوتیں۔ ہر ایک کے ساتھ یہ ہوتاہے کہ وہ کامل فُل فِل مینٹ (fulfilment) کے حصول کے بغیر مرکر اِس دنیا سے چلا جاتاہے، خواہ وہ امیر ہو یا غریب، خواہ وہ عالم ہو یا جاہل، خواہ وہ عام انسان ہو یا کوئی بادشاہ۔
انسان کی لذتوں کی فہرست بہت لمبی ہے— لذتِ فکر، لذتِ بصارت، لذت سماعت، لذتِ ذائقہ، لذتِ لمس، لذتِ گفتگو، لذتِ رفاقت، لذتِ مطالعہ، لذتِ دریافت، لذتِ مسرت، وغیرہ۔ اِن تمام لذتوں کی طلب انسان کے اندر بے پناہ حد تک موجود ہے، لیکن موجودہ دنیا میں انسان اپنی اِن لذتوں کی تکمیل نہیں کر پاتا۔ وہ اِسی کی تلاش میں رہتا ہے، مگر بہت جلد اس کو موت آجاتی ہے۔ موجودہ دنیا میں اُس کو احساسِ لذت کا تجربہ تو ہوتا ہے، لیکن تکمیلِ لذت کا تجربہ اس کو حاصل نہیں ہوتا۔
ایک ملحدفلسفی نے جنت کو ’’خوش خیالی‘‘ قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ جنت انسانی تمناؤں کی خوب صورت تخئیل (beautiful idealization of human wishes) ہے۔ مگر زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ جنت انسان کی خوب صورت تمناؤں کا پوری طرح وقوع میں آنا (beautiful actualization of human wishes) ہے۔
واپس اوپر جائیں

عقل اور دین

قرآن کی سورہ نمبر 38 میں قرآن کے بارے میں یہ آیت آئی ہے: کتابٌ أنزلناہ إلیک مبارک لیدّبّرواآیاتہ ولیتذکر أولوا الألباب(ص: 29 ) یعنی یہ ایک مبارک کتاب ہے جو ہم نے تمھاری طرف اتاری ہے، تاکہ لوگ اس کی آیتوں پر غور کریں اور تاکہ عقل والے اس سے نصیحت حاصل کریں۔
اِس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن لفظی تلاوت(recitation) کے لیے نہیں ہے، بلکہ وہ اِس لیے ہے کہ پڑھنے والا اپنی عقل کو استعمال کرتے ہوئے اس کی آیتوں پر غور کرے اور اُس سے وہ نصیحت حاصل کرے جو آیتوں کے اندر چھپی ہوئی ہے۔
عقل کی اہمیت کے بارے میں پیغمبر اسلام ﷺکی بہت سی روایتیں آئی ہیں۔ اِن میں سے ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں: لکلّ شییٔ دِعامۃ، ودعامۃ المؤمن عقلہ ( مسند الحارث للہیثمی، رقم الحدیث: 840 ) یعنی ہر چیز کا ایک ستون ہوتا ہے، اور مومن کا ستون اس کی عقل ہے۔
اِس معاملے کی وضاحت ایک اور حدیث سے ہوتی ہے۔ ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کے بارے میں فرمایا کہ قرآن کی ہر آیت کا ایک ظاہرہے اور ایک اس کا باطن ہے (لکل آیۃ منہا ظہر وبطن)۔
قرآن کی آیتوں کا ظاہری مفہوم تو اس کی آیتوں کے ترجمے سے معلوم ہوجاتا ہے، لیکن آیتوں کا جو باطن، یعنی اس کا جو گہرا مفہوم ہے، وہ صرف عقل کے استعمال کے ذریعے ہی معلوم ہوتاہے۔ عقل کے ذریعے آدمی الفاظ پر مزید غور وفکر کرتا ہے۔ اِس غور وفکر کے ذریعے وہ آیتوں کے اندر چھپے ہوئے گہرے معانی تک پہنچتا ہے۔ قرآن کی یہ گہری معرفت ہی آدمی کے اندر اعلیٰ ایمانی کیفیت پیدا کرتی ہے— عقل کے استعمال کے بغیر کسی آدمی کو جو دین حاصل ہوتا ہے، وہ دین کا چھلکا ہے اور عقل کے استعمال کے بعد کسی آدمی کو جو دین حاصل ہوتاہے، وہ دین کا مغز ہے۔
واپس اوپر جائیں

اعلیٰ معرفت

اعلیٰ معرفت بلا شبہہ کسی انسان کا سب سے بڑا سرمایہ ہے۔یہ دراصل اعلیٰ معرفت ہے جو انسان کو حیوان سے ممیّز کرتی ہے۔ اعلیٰ معرفت کو حاصل کرنا، اتنا ہی ممکن ہے جتنا کہ کسی اور چیز کو حاصل کرنا۔ شرط صرف یہ ہے کہ آدمی اس کی قیمت ادا کرے۔ ضروری قیمت ادا کئے بغیر اِس دنیا میں کوئی چیز کسی کو نہیں ملتی، اور اِسی طرح اعلیٰ معرفت بھی۔
اعلیٰ معرفت کے حصول کی قیمت کیا ہے، وہ صرف ایک ہے— معرفت کو اپنی زندگی میں اوّلین درجہ دینا اور بقیہ تمام چیزوں کو ثانوی بنادینا۔ جو عورت یا مرد یہ قیمت اداکریں، وہ ضرور اعلیٰ معرفت کے درجے تک پہنچیں گے۔ اور جو لوگ یہ قیمت ادا نہ کریں، وہ کسی بھی حال میں اعلیٰ معرفت کے درجے تک نہیں پہنچ سکتے، خواہ کسی اور اعتبار سے انھوں نے کتنا ہی زیادہ عمل کیاہو۔
اصل یہ ہے کہ زندگی میں بار بار ایسے مواقع آتے ہیں، جب کہ آدمی اپنے آپ کو دو تقاضوں کے درمیان پاتا ہے، دین کا تقاضا اور دنیا کا تقاضا۔ ایسے موقع پر آدمی اگر یہ کرے کہ وہ دین کے تقاضے کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے دنیوی تقاضے کی طرف جھک جائے، تو ایک بار ایسا کرنا بھی آدمی کے لیے ہلاکت کا سبب بن جاتا ہے۔
اِس طرح شیطان کو یہ موقع مل جاتا ہے کہ وہ آدمی کے سفرِ معرفت کو روک کر اس کو پیچھے کی طرف دھکیل دے۔ یہی وہ حقیقت ہے جو قرآن میں اِس طرح بیان کی گئی ہے:
’’جو لوگ ڈر رکھتے ہیں، جب کبھی اُنھیں کوئی شیطانی خیال چھو جاتاہے تو وہ فوراً چونک پڑتے ہیں، اور پھر اُسی وقت اُن کو سوجھ آجاتی ہے۔ اور جو شیطان کے بھائی ہیں، وہ اُن کو گم راہی میں کھینچے چلے جاتے ہیں، پھر وہ کمی نہیں کرتے۔‘‘ (الأعراف: 201-202 )
حقیقت یہ ہے کہ معرفت کا سفر ایک مسلسل سفر ہے۔ ایک دن کے لیے بھی اگر آدمی نے اپنے سفرِ معرفت کو روکا تو وہ سالوں کے لیے پیچھے چلا جائے گا۔
واپس اوپر جائیں

معرفت کاسفر

گورنمنٹ سروس میں ایک ضابطہ ہے جس کو بریک اِن سروس (break in service) کہاجاتا ہے۔ اگر آپ گورنمنٹ سروس میں ہوں اور آپ بیس سال تک سروس کرتے رہیں، اِس کے بعد اچانک آپ بلا سبب اور بلا اجازت ڈیوٹی پر نہ آئیں تو آپ کی ساری سینئرٹی (seniority) ختم ہوجائے گی۔ آپ پیچھے لوٹ کر دوبارہ وہاں پہنچ جائیں گے،جہاں سے آپ نے سروس شروع کی تھی۔ اِس معاملے کو اصطلاح میں بریک ان سروس کہاجاتا ہے۔
یہی معاملہ معرفت (realization of God) کے سفرکا بھی ہے۔ اگر آپ معرفت کا سفر شروع کریں اور ایک مدت تک آپ مسلسل اُس پر چلتے رہیں، پھر آپ ایک عذر (excuse) لے کر وقتی طورپر معرفت کے سفر کو روک دیں، تو یہ رکنا صرف ایک وقتی رکنا نہ ہوگا، بلکہ وہ بریک اِن معرفت کے ہم معنیٰ بن جائے گا، یعنی آپ پیچھے لوٹ کر دوبارہ اُس ابتدائی مقام پر پہنچ جائیں گے جہاں سے آپ نے اپنا سفرِ معرفت شروع کیا تھا۔
آدمی پر حقیقت کھلتی ہے اور وہ معرفت کا مسافر بن جاتاہے، پھر درمیان میں کچھ غیر متعلق تقاضے پیش آتے ہیں جن کو عذر بنا کر آدمی اپنے سفرِ معرفت کو روک دیتا ہے۔ مثلاً خاندانی تقاضا، مادّی منفعت کا تقاضا، ذاتی رجحان کا تقاضا، وغیرہ۔
ایسے موقع پر آدمی کو چاہئے کہ وہ اِس قسم کے کسی تقاضے کو ہر گز اپنے لیے عذر نہ بنائے۔ وہ دوسرے تمام تقاضوں کو نظر انداز کرتے ہوئے معرفت کے سفر کو جاری رکھے۔ ایسا ہی شخص منزل تک پہنچے گا۔ اور جس آدمی نے کسی غیر متعلق تقاضے کو لے کر اس کو اپنے لیے عذر بنا لیا تو وہ اُس کے لیے بریک اِن معرفت کا واقعہ بن جائے گا۔
یہ ایک نہایت سنگین معاملہ ہے۔ معرفتِ حق کے مسافر کو ایسی غلطی کبھی نہیں کرنا چاہیے، ورنہ وہ ایسے نقصان سے دوچار ہوگا جس کی تلافی دوبارہ ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں

خدا کا وجود

پچھلے تقریباً پانچ سو سال سے کائنات کا سائنسی مطالعہ جاری ہے۔ اِس مطالعے میں بڑے بڑے دماغ شامل رہے ہیں۔ آخری بات جہاں یہ سائنسی مطالعہ پہنچا ہے، وہ یہ ہے کہ کائنات اتنی زیادہ وسیع ہے کہ انسان کے لیے اُس کو اپنے احاطے میں لانا بظاہر ناممکن ہے۔ تازہ ترین سائنسی تحقیق کے مطابق، انسان کا علم بہ مشکل کائنات کے صرف پانچ فی صد حصے تک پہنچا ہے۔ اِس پانچ فی صد حصے کے معاملے میں بھی انسانی علم کی محدودیت کا یہ عالم ہے کہ ایک سائنس داں نے کہا کہ ہم جتنا دریافت کرپاتے ہیں، اُس سے صرف یہ معلوم ہوتاہے کہ دریافت شدہ چیزیں بھی ابھی تک غیردریافت شدہ چیزوں کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم کم سے کم کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جان رہے ہیں:
We are knowing more and more about less and less.
خدا کے بارے میں جاننا خالق (Creator) کے بارے میں جاننا ہے۔ مگر تجربہ بتاتا ہے کہ ابھی تک انسان خالق کی تخلیق (creation) کے بارے میں بھی صرف چند فی صد جان سکا ہے۔ ایسی حالت میں کسی انسان کا یہ مطالبہ کرنا کہ خالق کے بارے میں ہم کو قطعی معلومات دو، سرتاسر ایک غیر علمی مطالبے کی حیثیت رکھتا ہے۔ جب انسان کا حال یہ ہے کہ وہ ابھی تک تخلیق کے بارے میں پورا علم حاصل نہ کرسکا تو وہ خالق کے بارے میں پورا علم کیسے حاصل کرسکتا ہے۔
تخلیق کا وجود زمان ومکان(space and time) کے اندر ہے، اور خالق کا وجود ماورائے زمان ومکان(beyond space and time) سے تعلق رکھتا ہے، پھر جو انسان اتنا محدود ہو کہ وہ زمان ومکان کے اندر کی چیزوں کا بھی احاطہ نہ کرسکے، وہ زمان ومکان کے باہر کی حقیقت کو اپنے احاطے میں کس طرح لا سکتا ہے— حقیقت یہ ہے کہ اِس دنیا میں انسان خدا کو صرف عجز کی سطح پر دریافت کرسکتا ہے، نہ کہ علم کی سطح پر۔
واپس اوپر جائیں

موت سے پہلے، موت کے بعد

پوری انسانی تاریخ میں انسان جس سب سے بڑی فراموشی میں مبتلا رہا ہے، وہ صرف ایک ہے، اور وہ موت کا معاملہ ہے۔اِس معاملے میں انسان کی غفلت کا یہ عالم ہے کہ مشکل سے چند ایسے افراد دریافت کیے جاسکتے ہیں جو اِس معاملے میں فراموشی کا شکار نہ ہوں۔
موجودہ دنیادار الامتحان (testing ground)ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ دنیا میں انسان کو جو کچھ ملا ہوا ہے، وہ سب کا سب سامانِ امتحان کے طورپر ملا ہوا ہے۔ موت اِس مدتِ امتحان کو ختم کرتی ہے۔ اِس لیے موت کے آتے ہی ہر انسان سے وہ تمام چیزیں اچانک چھن جائیں گی جو اُس کو یہاں امتحان کے طور پر ملی ہوئی تھی۔
موت کے بعد آدمی اچانک ایک نئی دنیا میں داخل ہوجاتا ہے۔ یہ دنیا اپنے عمل کے نتائج پانے کی دنیا ہے۔ موت سے پہلے آدمی اگر سامانِ امتحان میں جی رہا تھا تو موت کے بعد اُس کو اپنے عمل کے نتائج کے درمیان جینا پڑے گا۔ موت سے پہلے کی زندگی عارضی زندگی ہے، یعنی بہ مشکل سو سال، لیکن موت کے بعد کی زندگی ابدی زندگی ہے، اُس کا کبھی خاتمہ ہونے والا نہیں۔
موت سے پہلے کی زندگی میںانسان کو بے شمار چیزیں ملی ہوئی ہیں۔ یہ تمام چیزیں پیدا ہوتے ہی اُس کو اپنے آپ حاصل ہوجاتی ہیں۔ اِس لیے آدمی اِن چیزوں کو فار گرانٹیڈ (for granted) طور پر لیتا رہتا ہے۔ وہ سوچ نہیں پاتا کہ یہ تمام عطیات اچانک اس سے منقطع ہوجائیںگے۔ موت کے بعد آدمی اچانک اپنے آپ کو اِس حال میں پائے گا کہ وہ بالکل تنہا اور بے سہارا ہوگیا۔
اِس سنگین حقیقت کے بارے میں سوچنا انسان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ لیکن آدمی بے فکری کی حالت میں پڑا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اچانک مر کر اِس دنیا سے چلا جاتا ہے۔ وہ اِس حدیث رسول کا مصداق بن جاتاہے: ما رأیتُ مثلَ النار نام ہاربہا، وما رأیت مثل الجنۃ نام طالبہا (الترمذی، کتاب صفۃ جہنم)۔
واپس اوپر جائیں

نماز اور قرآن

اسلوبِ کلام کی دو قسمیں ہیں— دعوتی اسلوب اور قانونی اسلوب۔ دعوتی اسلوب میں صرف بنیادی باتیں اصولی زبان میں بیان کی جاتی ہیں۔ اس کے برعکس، قانونی اسلوب میں محدَّد اور متعین زبان (specific language) استعمال ہوتی ہے۔ قرآن اور حدیث کے درمیان یہی فرق ہے۔ قرآن میں عام طورپر دعوتی اسلوب ہے۔ اور حدیث میں دعوتی اسلوب کے علاوہ، قانونی اسلوب بھی پایا جاتا ہے۔ مثلاً نماز کے بارے میں قرآن میں حافظوا علی الصلوات کا لفظ آیا ہے۔ اور حدیث میں تعین کے ساتھ الصلوات الخمس (صحیح البخاری، کتاب الإیمان) کا لفظ استعمال ہوا ہے۔
قرآن میں دین کے تمام اصول (principles) بیان کیے گئے ہیں، لیکن قرآن میں کسی بھی اصول کو محدّد اسلوب میں بیان نہیں کیا گیا ہے۔ مثلاً قرآن میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغمبر بنانے کا ذکرہے، لیکن قرآن سے معلوم نہیں ہوتا کہ آپ کو یہ پیغمبری کب دی گئی۔ قرآن میں ہجرت کا حکم موجود ہے، لیکن مکہ میں دعوتی کام کس طرح ہوا اور مدینہ میں دعوتی کام کس طرح ہوا، اس کی کوئی تفصیل قرآن میں موجود نہیں۔ قرآن میں فتحِ مبین (الفتح: 1 ) کا ذکر ہے، لیکن قرآن میں فتحِ مبین کی متعین تفصیل موجود نہیں۔ قرآن میں بتایاگیا ہے کہ لوگ فوج درفوج خدا کے دین میں داخل ہوں گے (النصر:2 ) لیکن تعینات کی زبان میں اس کا کوئی ذکر قرآن میں موجود نہیں، وغیرہ۔ ان تمام چیزوں کی تفصیل صرف حدیث سے معلوم ہوتی ہے، نہ کہ قرآن سے۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ انسان کو صرف عبادتِ الٰہی کے لیے پیدا کیا گیا ہے (الذاریات: 56) یہ بلا شبہہ انسانی زندگی کے مقصد کو جاننے کے اعتبار سے نہایت اہم آیت ہے، لیکن عبادت کے متعین طریقے کیا ہوں، اِس کا علم صرف حدیث سے ہوتا ہے، نہ کہ قرآن سے۔
یہی معاملہ نماز کا ہے۔ قرآن میں نماز کا بنیادی حکم موجود ہے، مثلاً أقم الصلاۃ لذکری (طٰہٰ: 14) تاہم جہاں تک نماز کی محدّد تفصیلات کا معاملہ ہے، وہ قرآن کے عام اصول کے مطابق، قرآن میں موجود نہیں، البتہ حدیث میں اس کی تفصیلات موجود ہیں۔
اِس پہلو سے قرآن کا مطالعہ کیجئے تو معلوم ہوگا کہ نماز کے تمام بنیادی اَجزا قرآن میں مذکور ہیں۔ مثلاً قرأت (الإسراء: 78 ) قیام (المزّمل : 20 )، رکوع (البقرۃ: 43 ) ، سجدہ (البقرۃ:125 )، جماعت کے ساتھ نماز (البقرۃ: 43 )، وغیرہ۔ اب یہ سوال ہے کہ اِن اجزائِ نماز کی مجموعی صورت کیا ہے۔ جب آپ اِن اجزا کو لے کر نماز کی مجموعی شکل بنانا چاہیں تو آپ نماز کی موجودہ شکل کے سوا کوئی اور شکل نہیں بنا سکتے۔ یہ ایک عجیب بات ہے کہ خدا کی پیدا کی ہوئی دنیا میں ہر چیز اپنے فائنل ماڈل پر ہے۔ اِسی طرح نماز بھی اپنے فائنل ماڈل پر ہے۔ یہی واقعہ اِس بات کے ثبوت کے لیے کافی ہے کہ نماز کے جو اجزا قرآن میںبتائے گئے ہیں، ان کی مجموعی شکل موجودہ نماز کے سوا کوئی اور نہیں ہوسکتی۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پانچ وقت کی نماز کا حکم استنباطی طورپر قرآن میں موجود ہے۔ یہ حکم قرآن کی سورہ نمبر 2 کی اِس آیت میں ملتا ہے: حافظوا علی الصلوات والصلاۃ الوسطیٰ (البقرۃ: 238) یعنی نمازوں کی پابندی کرو، اور بیچ کی نماز کی۔ اِس آیت میں ’’صلوات‘‘ کا لفظ آیاہے۔ عربی قاعدے کے مطابق، صلوات کا اطلاق تین یا اس سے زیادہ عدد پر ہوتا ہے، اس کو دو کے معنی میں نہیں لیاجاسکتا۔ اس کو تین یا تین سے زیادہ کے معنی ہی میں لینا ممکن ہے۔
آیت کے الفاظ کے مطابق، اُس کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ — تم نمازوں کی پابندی کرو، اور اُس نماز کی پابندی کرو جو اِن نمازوں کے درمیان میں آتی ہے۔ اب اگر صلوات سے صرف تین نمازیں مراد لی جائیں تو ایسی صورت میں ان کی کوئی درمیانی نماز نہیں بنے گی، کیوں کہ تین نمازوں کی صورت میں ایک طرف ایک نماز ہوگی اور دوسری طرف دو نماز۔ ایسی حالت میں ممکن صورت صرف یہ ہے کہ صلوات سے چار نمازیں مراد لی جائیں۔ اِس سے چار نماز مراد لینے کی صورت میں ایسا ممکن ہوجاتا ہے کہ اُن میںایک اور نماز اِس طرح شامل کی جائے کہ وہ بیچ کی نماز بن جائے۔ ایسی صورت میں بیچ کی نماز کے ایک طرف دو نماز ہوتی ہے، اور دوسری طرف بھی دو نماز— اِس طرح مجموعی طورپر کل پانچ نمازیں بن جاتی ہیں۔ ذیل میں اِس کا نقشہ ملاحظہ ہو:
نماز نماز نماز
نماز نماز نماز نماز
قرآن کی اِس آیت کی یہ تشریح ایک حدیث رسول سے معلوم ہوتی ہے۔ سنن ابی داؤد کی ایک روایت میں بتایا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار ظہر کی نماز پڑھی۔ اور پھر آپ نے فرمایا: إنّ قبلہا صلاتین وبعدہا صلاتین (کتاب الصلاۃ، باب فی وقت صلاۃ العصر، رقم الحدیث411 ) یعنی اِس نماز سے پہلے دو نمازیں ہیں، اور اِس نماز کے بعد دو نمازیں، یعنی ظہر کی نماز بیچ کی نماز ہے۔ اس کے ایک طرف عشاء اور فجر کی دو نمازیں ہیں، اور اس کے دوسری طرف عصر اور مغرب کی دو نمازیں۔ ملاحظہ ہو ذیل کا نقشہ :
عشاء فجر ظہر عصر مغرب
واپس اوپر جائیں

تکفیر یا تبلیغ

ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ صحیح البخاری کے الفاظ یہ ہیں: إذا قال الرجل لأخیہ یا کافر، فقد باء بہ أحدہما (کتاب الأدب، باب مَن أکفر أخاہ) یعنی جب ایک شخص اپنے بھائی کے بارے میں کہے کہ اے کافر، تو یہ قول دونوں میں سے کسی ایک کی طرف ضرور لوٹے گا۔ یعنی مخاطب اگر کافر نہ ہو، تو خود قائل خدا کے نزدیک کافر ہوجائے گا۔
صحیح مسلم میں کتاب الایمان کے تحت، اِس معاملے کی وضاحت کرتے ہوئے امام النووی نے لکھا ہے کہ : واعلم أن مذہب أہل الحق أنہ لا یُکفّر أحد من أہل القبلۃ بذنب (شرح النووی ، جلد1، صفحہ 150) یعنی اہلِ حق کا یہ مسلک ہے کہ کسی بھی گناہ پر اہلِ قبلہ میں سے کسی شخص کی ہر گز تکفیر نہیں کی جائے گی، یعنی جو شخص کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑے، اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی۔
حقیقت یہ ہے کہ کسی انسان کو کافر قرار دینا صرف خدا کا کام ہے، وہ کسی انسان کا کام نہیں۔ ایمان اور کفر دونوں کا تحقق نیت پر ہوتا ہے، اور نیت کا علم خدا کے سوا کسی اور کو نہیں۔ اِس لیے یہ صرف خدا کا کام ہے کہ وہ کسی کے بارے میں کافر یا مومن ہونے کا فیصلہ فرمائے۔ انسان کا کام صرف یہ ہے کہ وہ کسی کو غلطی پر دیکھے تو وہ اس کو دل سوزی کے ساتھ تبلیغ اور نصیحت کرے، وہ اس کی اصلاح کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرے۔ تکفیر گویا کہ خدا کے دائرے میں داخل ہونا ہے، اور خدا کے دائرے میںداخل ہونے کا حق کسی کو بھی نہیں۔
جو شخص دوسرے کو کافر بتائے، وہ خود اپنے بارے میں یہ اعلان کررہا ہے کہ میرے سینے میں لرزاں اور ترساں قلب نہیں۔ جو آدمی حقیقی معنوں میں اللہ سے ڈرتا ہو، وہ کبھی ایسا نہیں کرسکتا کہ وہ کسی کے بارے میں کفر کا اعلان کرے، جب کہ یہ قطعی اندیشہ ہے کہ اگر مخاطب کافر نہ ہو تو خود کہنے والا شخص خدا کے نزدیک کافر قرار پاجائے گا۔ کوئی بھی اللہ سے ڈرنے والا انسان یہ خطرناک رِسک (risk) لینے کا تحمل نہیں کرسکتا۔
واپس اوپر جائیں

ایک اجتماعی ضرورت

حضرت مقدام بن معدیکرب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إذا أحبّ الرجلُ أخاہ فلیخبرہ أنہ یحبّہ (أبو داؤد، کتاب الأدب؛ الترمذی، کتاب الزہد) یعنی جب کسی شخص کو اپنے بھائی سے محبت ہو تو وہ اُس کو بتادے کہ وہ اُس سے محبت کرتا ہے۔
اِس حدیث رسول میں محبت سے مراد مخلصانہ محبت یا حقیقی محبت ہے، نہ کہ منافقانہ محبت۔ مخلصانہ محبت ایک قابلِ اجر عمل ہے، جب کہ منافقانہ محبت صرف ایک گناہ کا عمل۔ منافقانہ محبت کا اظہار آدمی کو مزید گنہ گار بناتا ہے، وہ اس کو اجر کا مستحق نہیں بناتا۔
مخلصانہ محبت یا حقیقی محبت ایک عظیم دینی عمل ہے۔ مخلصانہ محبت کوئی آسان کام نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر ذاتی بنیاد پر دو آدمیوں کے درمیان محبت ہو تو وہ بہت جلد ٹوٹ جاتی ہے۔ مخلصانہ محبت وہ ہے جو خدا کے لیے ہو، اور جب دو آدمیوں کے درمیان خدا کے لیے محبت ہو تو وہ ہمیشہ باقی رہتی ہے، وہ کبھی ٹوٹنے والی نہیں۔
اِس حدیث میں محبت سے مراد محبت اور اُس کے تمام لوازم ہیں۔ مثلاً اعتراف، وغیرہ۔ محبت یا لوازِم محبت کو بتانے کی حکمت یہ ہے کہ اِس سے دو افراد کے درمیان مثبت تعلق قائم ہوتاہے۔ اگر محبت یا لوازمِ محبت کو نہ بتایا جائے تو اِس سے غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں، اور غلط فہمی جب دیر تک باقی رہے تو وہ پختہ ہوجاتی ہے اور قلبی محبت کے باوجود دونوں فریق ایک دوسرے کے خلاف منفی نفسیات کا شکار ہوجاتے ہیں۔
منافقانہ طورپر اظہارِ محبت یا اظہارِ اعتراف جتنا زیادہ برا ہے، مخلصانہ طورپر اظہارِ محبت یا اظہارِاعتراف اتنا ہی زیادہ ضروری ہے۔ اِس مسئلے کی اہمیت شرعی نہیں، بلکہ نفسیاتی ہے۔ یہ اجتماعی زندگی کو صالح بنیادوں پر قائم کرنے کے لیے ضروری ہے، کیوں کہ دل کی حالت کا علم صرف خدا کو ہوتا ہے۔ انسان کسی کے دل کو نہیں پڑھ سکتا، وہ صرف بتانے کے بعد ہی اس کو جانتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

فطرت کا نظام

حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إنّ اللہ لیؤید ہذا الدین بالرجل الفاجر (صحیح البخاری، کتاب الجہاد والسیر، با ب إن اللہ یؤیّد الدین) یعنی اللہ بے شک اِس دین کی تائید فاجر شخص کے ذریعے بھی کرے گا۔
اِس حدیث کا تعلق سادہ طورپر صرف دینِ اسلام سے نہیںہے۔ اِس حدیث میں در اصل فطرت کے ایک قانون کو بتایا گیا ہے۔ یہ قانون ابدی بھی ہے اور ہر ایک کے لیے عام بھی۔
اصل یہ ہے کہ خالق نے اِس دنیا کا نظام باہمی انحصار(interdependence) کے اصول پر قائم کیا ہے۔ اِس دنیا میں ہر انسان بالواسطہ یا براہِ راست طورپر دوسرے انسانوں سے جڑا ہوا ہے۔ جب بھی کوئی شخص ایک کام کرتا ہے تو اس میں یقینی طورپر دوسروں کا بھی حصہ ہوتا ہے۔ اِس دنیا میں ہر کامیابی کا تعلق مشترک عمل سے ہوتاہے، خواہ وہ دینی کامیابی ہو یا دنیوی کامیابی۔
فطرت کا یہ نظام اِس لیے ہے، تاکہ لوگوں کے اندر ایک دوسرے کے لیے اعتراف کا جذبہ پیدا ہو، تاکہ لوگ ایک دوسرے کو اپنا خیر خواہ سمجھیں، تاکہ پوری دنیا ایک بڑے خاندان کے مانند ہوجائے، تاکہ ہر ایک دوسرے کو اپنے بھائی اور بہن کے روپ میںدیکھنے لگے۔
باہمی تعاون کے اِس عالمی نظام کے باوجود کیوں ایسا ہے کہ لوگوں میں ایک دوسرے کا اعتراف نہیں۔ اِس کا بنیادی سبب لوگوں کی فخر پسندی (pride) ہے۔ ہر عورت اور مرد کا یہ حال ہے کہ وہ فخر میں جی رہے ہیں۔ فخر کے جذبے کی تسکین صرف اُس وقت ہوتی ہے، جب کہ آدمی یہ سمجھے کہ جو کچھ اُس کو ملا ہے، وہ اس کی اپنی ذاتی صلاحیت کی بنیاد پر ملا ہے۔ فخر کا جذبہ اپنی تسکین کے لیے سارا کریڈٹ خود لینا چاہتا ہے۔ اِس بنا پر وہ دوسروں کا اعتراف نہیں کر پاتا۔ یہ رویہ سرتاسر فطرت کے خلاف ہے۔ اِس سے غیر حقیقت پسندانہ (unrealistic) مزاج پیدا ہوتا ہے، اور غیر حقیقت پسندانہ مزاج سے زیادہ تباہ کن کوئی اور چیز اِس دنیا میں نہیں۔
واپس اوپر جائیں

بے اعترافی کا مزاج

ابلیس نے تخلیقِ آدم کے وقت اپنے اِس منصوبے کا اعلان کیا تھا کہ وہ نسلِ انسانی کی بڑی تعداد کو گم راہی میں ڈال دے گا (الإسراء: 62 )۔ یہ گم راہی کیا ہے۔ یہ گم راہی خود شیطان کے رویّے سے معلوم ہوتی ہے۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ تخلیقِ آدم کے وقت ابلیس نے آدم کا اعتراف نہیں کیا، یہاں تک کہ وہ ابدی طورپر ساری نسلِ انسانی کا دشمن بن گیا (یوسف: 5 )
جیسا کہ قرآن سے معلوم ہوتا ہے، ہر انسان کے ساتھ غیر مرئی طور پر (invisibly) ایک شیطان لگاہوا ہے۔ وہ ہر وقت اور ہر موقع پر آدمی کے اندر اپنے منصوبے کے مطابق، بے اعترافی کا مزاج پیدا کرتا رہتا ہے۔ شیطان کا یہ منصوبہ پوری تاریخ میں کامیاب رہا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر عورت اور مرد کا یہ حال ہے کہ اُن کے اندر بے اعترافی کا مزاج (non-appreciating nature) پیدا ہو گیا ہے۔ ہرایک کا یہ حال ہے کہ اگر ننانوے فی صد مثبت بات ہو اور کوئی ایک منفی بات ہو تو لوگ مثبت پہلوؤں کو چھوڑ کر ایک منفی بات کولے لیں گے اور فوراً دوسرے کے بارے میں منفی نفسیات کا شکار ہوجائیں گے۔
یہ ہر انسان کی زندگی کا وہ پہلو ہے جہاں اُس کو سب سے زیادہ الرٹ(alert) رہنا چاہئے۔ جب بھی کسی موقع پر دوسروں کے بارے میں منفی خیال آئے تو فوراً یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ شیطان کا بہکاوا ہے۔ آدمی کو چاہئے کہ وہ فوراً اپنی ارادی طاقت (will-power) کو عمل میں لاتے ہوئے اُس کو مکمل طورپر اپنے دماغ سے نکال دے۔
اعتراف ایک ملکوتی مزاج ہے، اور بے اعترافی ایک شیطانی مزاج۔ اعتراف سے آدمی کے اندر تواضع (modesty) کا مزاج پیدا ہوتا ہے، اور بے اعترافی سے اِس کے برعکس غیر متواضع مزاج پیدا ہوتا ہے۔ آدمی ہر لمحہ اِن دو امکانات کے درمیان ہوتا ہے۔ ایک رویہ اختیار کرنے سے وہ متواضع انسان بن جاتا ہے، جو کسی انسان کی سب سے بڑی صفت ہے۔ اور دوسرا رویہ اختیار کرنے سے وہ ایک غیر متواضع انسان بن جاتا ہے، جوکسی انسان کے لیے سب سے بُری صفت ہے۔
واپس اوپر جائیں

ردّ عمل، انتہا پسندی

یہ ایک عام تجربہ ہے کہ جب کوئی شخص رد عمل کی نفسیات کے تحت سوچے تو ہمیشہ اس کی سوچ انتہا پسندانہ سوچ بن جاتی ہے۔ ایسا انسان کبھی معتدل انداز میں نہیں سوچ سکتا:
Thinking out of reaction, always takes the form of extremist thinking.
اِس معاملے کی مثالیں مذہب اور غیر مذہب دونوں دائروں میں کثرت سے پائی جاتی ہیں۔ یہ معاملہ اتنا زیادہ عام ہے کہ شاید اِس میں کوئی استثناء (exception) نہیں۔
مثلاً ترکی میں جب 1923 میں عثمانی خلافت کا خاتمہ ہوا تو اُس کو ہمارے علماء اور ہمارے رہنماؤں نے الغائِ خلافت کا نام دیاتھا، یعنی خلافت کے سیاسی ادارے کو ایبالش (abolish) کرنا۔ یہ رد عمل کا کلمہ تھا۔ چناں چہ اِس کے نتیجے میں مسلمانوں کے اندر خلافت کے دوبارہ قیام کے لیے متشددانہ تحریک چل پڑی۔
اِس کے برعکس، اگر اس کو سقوطِ خلافت کا نام دیا جاتا، یعنی خلافت کا ختم ہوجانا تو ایسا نہ ہوتا۔ اِسی طرح اسلام کو جب شریعت کے نفاذ کا معاملہ بتایا جاتا ہے تو وہ رد عمل کی نفسیات کا نتیجہ ہوتا ہے۔ چناں چہ اس کے نتیجے میں مسلح جہاد شروع ہوجاتا ہے۔ اِس کے برعکس، اگر شریعت کی پیروی کا لفظ بولا جائے تو اس سے متشددانہ تحریک نہیں ابھرے گی۔
رد عمل کی سوچ دوسروں کے رویّے کو دیکھ کر جوابی طور پر ابھرتی ہے۔ اِس لیے اس میں ہمیشہ منفی محرک موجود رہتا ہے، جو اس کو تشدد کی طرف لے جاتا ہے۔ اس کے برعکس، مثبت سوچ کے تحت جو ذہن بنتا ہے، وہ ہمیشہ خود احتسابی (self-introspection) کا ذہن ہوتا ہے۔ اس میں اپنی اصلاح آپ کا جذبہ ابھرتا ہے، نہ کہ دوسروں کے خلاف تشدد کا جذبہ۔اِس دنیا کا قانون یہ ہے کہ — جیسی سوچ، ویسا عمل۔ سوچ اگر درست ہوگی تو عمل بھی درست ہوگا۔ اور اگر سوچ غلط ہو تو عمل بھی غلط ہو کر رہ جائے گا۔
واپس اوپر جائیں

شکایت کا مزاج

ایک شخص نے کسی کے بارے میں کچھ شکایت کی بات کی۔ میںنے کہا کہ شکایت قاتلِ روحانیت ہے۔ شکایت اتنی زیادہ بری چیز ہے کہ آپ کو مطلقاً اُس سے دور رہنا چاہیے۔ انھوںنے کہا کہ شکایت سے مطلقاً کیسے بچاجاسکتا ہے، کیوں کہ شکایت کے اسباب اِس دنیا میں ہمیشہ پیش آتے رہتے ہیں۔ میں نے کہا کہ یہی تو آپ کا امتحان ہے کہ آپ شکایت کے باوجود بے شکایت بن کر اِس دنیا میں رہیں،منفی تجربات کے باوجود آپ مثبت نفسیات میں جینا سیکھیں۔یہی اِس دنیا میں انسان کا امتحانی پرچہ (test-paper) ہے۔ ہرایک کو اِس امتحان سے گزر نا ہے۔ اِس امتحان میں کامیاب ہونے والا ہی کامیاب ہے، اور اِس امتحان میں ناکام ہونے والا ہی ناکام۔ مزید یہ کہ یہ ناکامی بھی ابدی ہے، اور یہ کامیابی بھی ابدی۔
شکایت کوئی سادہ چیز نہیں۔ شکایت کے ساتھ ناشکری جڑی ہوئی ہے۔ جس دل میں شکایت ہوگی، وہ شکر کے جذبات سے محروم ہوجائے گا۔ مزید یہ کہ شکایت گندگی کے مانند ہے۔ گندگی کی ایک بوند پانی کے پورے ٹب کو گندا کردیتی ہے۔ اِسی طرح شکایت کی تھوڑی مقدار بھی شکر کی نفسیات سے آدمی کو محروم کردیتی ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ اِس معاملے میں اتنا زیادہ حساس ہو کہ وہ کسی بھی حال میں شکر کا ایروژن (erosion) گوارا نہ کرسکے۔ وہ شکایت کی باتوں کو نظرانداز کرتا رہے، تاکہ اس کے شاکرانہ مزاج میں کوئی کمی نہ آنے پائے۔
اِس مہلک برائی سے بچنے کا طریقہ صرف ایک ہے، اور وہ ہے آغاز ہی میں اُس کا خاتمہ کردینا— تھوڑی سی شکایت کو بھی اتنا گھٹائیے، اتنا گھٹائیے کہ اس کو زیرو کے درجے تک پہنچا دیجئے۔ اور شکر کی تھوڑی سی بات کو بھی اتنا بڑھائیے، اتنا بڑھائیے کہ اس کو صد فی صد تک پہنچا دیجئے۔ یہی واحد تدبیر ہے جس کے ذریعے آپ اپنی شخصیت کو ایسا بنا سکتے ہیں کہ آپ کے اندر صرف شکر ہی شکر ہو، ناشکری کا ایک ذرہ بھی آپ کی شخصیت کے اندر باقی نہ رہے۔ شکر کے احساس میںجینے والوں کے لیے ابدی جنت ہے، اور ناشکری کے احساس میں جینے والوں کے لیے ابدی جہنم۔
واپس اوپر جائیں

دو عظیم فکری انقلابات

Two Great Intellectual Revolutions
مذہبی نقطۂ نظر سے انسانی تاریخ میں دو بڑے فکری انقلابات پیش آئے ہیں۔ ایک انقلاب وہ ہے جو اپنی آخری صورت میں ساتویں صدی عیسوی میں پیش آیا۔ اِس انقلاب کے ہیرو وہ لوگ تھے جن کو اسلامی تاریخ میں ’اصحابِ رسول‘ کہاجاتا ہے۔ دوسرا فکری انقلاب لانے والوں کو حدیث میں ’اخوانِ رسول‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اصحاب رسول نے شرک (polytheism) کے فکری غلبہ کو ختم کیا تھا اور توحید (monotheism) کے بند دروازوں کو کھولا تھا۔ اخوانِ رسول کے لیے یہ مقدر ہے کہ وہ موجودہ زمانے میں الحاد کے فکری غلبہ کو ختم کرکے دوبارہ توحید کو اس کا غالب مقام عطا کریں۔
امت کے دو گروہ ایسے ہیں جن کو خصوصی تاریخی درجہ حاصل ہے— اصحابِ رسول، اور اخوانِ رسول۔ یہ دونوں پُراسر ار الفاظ نہیں ہیں اور نہ کسی پر اسرار فضیلت کی بنا پر اُن کویہ امتیازی درجہ عطا ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں گروہ اسلام کی تاریخ میں دو بڑے کارنامے انجام دیں گے۔ اِسی کارنامے کی بناپر وہ بڑا درجہ پائیں گے— اصحابِ رسول کے کارنامے کا تعلق، اسلام کے دورِ اول سے ہے، اور اخوانِ رسول وہ لوگ ہیں جو اسلام کے دورِ آخر میں اپنا کارنامہ انجام دیںگے۔
اصل یہ ہے کہ تاریخ کے دو دور ہیں۔ پہلا، دورِ شرک اور دوسرا، دورِ الحاد۔ قدیم بادشاہت کے زمانے میں شرک کو ریاستی مذہب (state religion) کی حیثیت حاصل ہوگئی تھی۔ اِس بنا پر قدیم زمانے میں مذہبی جبر (religious persecution) کے حالات پیدا ہوئے۔ اصحابِ رسول نے یہ کیا کہ غیرمعمولی جدوجہد اور قربانی کے ذریعے شرک کا رشتہ سیاسی اقتدار سے منقطع کردیا اور اِس طرح شرک کو مکمل طورپر ایک بے زور عقیدہ بنا دیا، اصحابِ رسول کا یہی وہ غیر معمولی عمل تھا جس کی بنا پر دنیا میں مذہبی آزادی (religious freedom) کا دور آیا اور شرک محض ایک بے زور شخصی عقیدہ بن کر رہ گیا۔
بعد کے زمانے میں ایک نیا فتنہ پیداہوا جس کو سائنسی الحاد کہاجاسکتا ہے۔ الحاد (atheism) ہمیشہ سے دنیا میں پایا جاتا رہا ہے۔ لیکن موجودہ زمانے میں ملحد مفکرین کو یہ موقع ملا کہ وہ بظاہر سائنسی دلائل کے ذریعے الحاد کو نئی طاقت کے ساتھ لوگوں کے سامنے پیش کرسکیں۔ مثال کے طورپر ڈارون ازم (Darwinism) کو الحاد کی حمایت میں سائنسی دلیل کے طورپر پیش کرنا۔
موجودہ زمانے کا سائنسی الحاد اصلاً سائنسی الحاد نہیں ہے، بلکہ وہ مغالطہ آمیز قسم کے بظاہر سائنسی دلائل کی بنیاد پر الحادی فکر کی عمارت کھڑی کرنا ہے۔ اب اُن لوگوں کو اخوانِ رسول کا درجہ ملے گا جو اِس فریب کا پردہ چاک کریں اور الحاد کا رشتہ مفروضہ دلائل سے منقطع کردیں، اور اِس طرح الحاد کو بے دلیل اور علمی اعتبار سے بے وزن بنا دیں۔
پچھلے دور میںاصحابِ رسول نے جو کارنامہ انجام دیا، اُس کے لیے اللہ تعالیٰ نے سیکڑوں سال کے عمل کے دوران مخصوص تاریخی حالات پیدا کیے تھے۔ یہ تاریخی حالات وہ مواقع تھے جن کو اصحاب رسول نے سمجھا اور اُن کو دانش مندانہ طورپر استعمال کرکے مطلوب انقلاب برپا کیا۔ اِسی طرح بعد کے زمانے میں اخوانِ رسول کے ذریعے جو فکری انقلاب واقع ہوگا، اس کے لیے ضروری مواقع بھی خدا کی طرف سے پیدا کیے جانے والے ہیں۔ اخوانِ رسول کا کام بھی یہی ہے کہ وہ اپنے دور میں پیدا ہونے والے مواقع کو سمجھیں اوراُن کو دانش مندانہ طورپر استعمال کرکے اُس تاریخی عمل کو انجام دیں جس کو ظہور میں لانا اُن کے لیے مقدر کیاگیا ہے۔ ذیل میں دوسرے دور کے حالات کا مختصر طورپر ذکر کیا جاتاہے۔
جدید الحاد
الحاد (atheism) کوئی نیا ظاہرہ نہیں۔ قدیم زمانے میں بھی کسی نہ کسی صورت میں الحادی فکر پایا جاتا رہا ہے۔ لیکن قدیم زمانے میں الحاد کے لیے کوئی فکری بنیاد (rational base) موجود نہ تھی۔اِس لیے قدیم زمانے میں الحاد کو زیادہ فروغ حاصل نہ ہوسکا۔
موجودہ زمانے میں جب سائنسی تحقیقات سامنے آئیں تو دورِ جدید کے ملحدین نے محسوس کیا کہ وہ سائنسی تحقیقات کو اپنے حق میں ایک علمی ثبوت کے طورپر استعمال کرسکتے ہیں۔ اِس طرح وہ فلسفہ وجود میں آیا جس کو سائنسی فلسفہ (scientific philosophy) کہاجاتا ہے۔ سائنسی فلسفہ کیا ہے۔ سائنسی فلسفہ دراصل مبنی بر سائنس الحاد (science-based atheism) کا دوسرانام ہے۔ اِس طرح بیسویں صدی عیسوی میں بہت سے فلسفی اٹھے جنھوں نے سائنسی تحقیقات کو ملحدانہ فلسفے کے حق میں استعمال کیا۔ اِس طرح وہ جدید الحاد وجود میں آیا جس کو سائنسی الحاد کہاجاسکتاہے۔ اِس موضوع پر کثیر تعداد میں کتابیں لکھی گئیں ہیں۔ بطور مثال یہاں صرف ایک کتاب کا نام درج کیا جاتا ہے:
Julian Huxley, Religion Without Revelation (1967)
سائنسی الحاد، خالص منطقی اعتبار سے، ایک غیر علمی الحاد ہے۔ سائنسی الحاد کے داعیوں نے غیرعلمی طورپر سائنسی حقیقتوں کو اپنے حق میں پیش کرنے کی کوشش کی تھی۔ چناں چہ اِسی زمانے میں ایک اور طبقہ پیدا ہوا جو نسبتاً زیادہ سنجیدہ تھا۔ وہ سائنسی حقائق کے غیر علمی استعمال کے خلاف تھا۔ اِس دوسرے طبقے نے کوشش کی کہ سائنسی حقائق کو اس کے صحیح تناظر (perspective) میں پیش کیا جائے۔ یہ دوسرا طبقہ اپنے اعلان کی حد تک مذہبی نہیں تھا، وہ بظاہر سیکولر تھا۔ لیکن اُس نے یہ اہم کام انجام دیا کہ اس نے جدید ملحدین کو خالص علمی اعتبار سے مکمل طورپر رد کردیا۔ اِس معاملے کے چند خاص پہلو ہیں۔
1 - اُس کا ایک پہلو یہ ہے کہ جدید سائنس (physical science) نے اپنا میدان تمام تر مادّی اشیاء کی تحقیق کو بنایا۔ اِس کے نتیجے میں بڑی بڑی مادی حقیقتیں دریافت ہوئیں اور مادی نظریات قائم ہوئے۔ اِس صورتِ حال کو استعمال کرتے ہوئے جدید ملحدین نے یہ کیا کہ انھوں نے سچائی کی مادّی تعبیر (material interpretation of truth) کا نظریہ وضع کیا۔ انھوں نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ حقیقت وہی ہے جو مادی اصطلاحوں میں بیان کی جاسکے، جو چیز مادی اصطلاحوں میں بیان نہ کی جاسکے، وہ حقیقت بھی نہیں۔ اِس نظریے کے رد میں کئی مفکرین نے قیمتی کتابیں لکھیں۔ بطور مثال ایک کتاب کا نام یہ ہے:
Bertrand Russell, Human Knowledge (1948)
2 - اِس معاملے کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ فزیکل سائنس کے مطالعے سے معلوم ہوا کہ دنیا میں جوواقعات ہوتے ہیں، اُن کے پیچھے کوئی سبب (cause)کارفرما ہوتا ہے۔ مثلاً پانی کو گرم کرنے سے اسٹیم کا وجود میں آنا۔ سائنس کے اس پہلو کو لے کر وہ الحاد موافق نظریہ وضع کیاگیا جس کو اصولِ تعلیل (principle of causation) کہاجاتا ہے۔ اِس نظریے کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا گیا کہ ہماری دنیا میں جو واقعات وجود میں آتے ہیں، وہ کسی مادی سبب کا نتیجہ ہوتے ہیں، نہ کہ کسی خالق کی کارفرمائی کا نتیجہ۔ اِس نظریہ کی تردید میں متعدد قیمتی کتابیں لکھی گئیں۔ مثال کے طورپر اُن میں سے ایک کتاب کا نام یہاں درج کیا جاتا ہے:
James Jeans, The Mysterious Universe (1930)
3 - اِس معاملے میں غالباً سب سے زیادہ گم راہ کن رول چارلس ڈارون (وفات:1882 ) کا ہے۔ اس نے حیاتیاتی نمونوں کے مطالعے کے دوران یہ پایا کہ مختلف حیاتیاتی نمونوں کے درمیان مشابہت (similarity) پائی جاتی ہے۔ اِس کو لے کر اس نے یہ دعویٰ کیا کہ تمام ذی حیات اشیاء ایک ہی مشترک اصل سے نکلی ہیں۔ یہ تصور نظریۂ ارتقا(theory of evolution) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ نظریہ جدید دور میں بہت زیادہ پھیلا۔ اس کے بارے میں بے شمار کتابیں لکھی گئیں، یہاں تک کہ جدید علمی حلقے میں اس کو عمومی مقبولیت (general acceptance) حاصل ہوگئی۔
اپنی حقیقت کے اعتبار سے، یہ نظریہ تمام تر علمی مغالطے پر قائم ہے۔ چناں چہ اس کے بارے میں سیکولر علماء نے تحقیق کی اور اِس نظریے کی تردید میں متعدد قیمتی کتابیں شائع ہوئیں۔ مثال کے طورپر اُن میں سے ایک کتاب کا نام یہ ہے:
Arnold Lunn, Revolt Against Reason (1951)
دورِ جدید کے یہ اہلِ علم جن کو ہم نے سیکولر اہلِ علم کہا ہے، انھوںنے بہت بڑا تائیدی رول انجام دیا ہے۔ قدیم زمانے میں بہت سے لوگوں نے عظیم تائیدی رول انجام دیا تھا۔ انھوں نے وہ مواقع پیدا کیے تھے جن کو استعمال کرکے اصحابِ رسول نے شرک کے رد اور توحید کے اثبات کا تاریخی کارنامہ انجام دیا۔ اِسی طرح موجودہ زمانے کے مذکورہ سیکولر اہلِ علم نے ایک عظیم تائیدی رول ادا کیا ہے۔ انھوں نے وہ مواقع پیدا کیے ہیں جن کو استعمال کرکے دوبارہ الحاد کے رد اور توحید کے اثبات کا مطلوب عمل انجام دیا جاسکے۔ بعد میں اٹھنے والے جس گر وہ کو حدیث میںاخوانِ رسول کہاگیا ہے، اُس کا کام غالباً یہی ہوگا کہ وہ جدید مواقع کو پہچانے اوران کو دانش مندانہ استعمال کے ذریعے دوبارہ الحاد کی تردید اور توحید کے اثبات کا مطلوب کارنامہ انجام دے۔
سائنس، الحاد کی تردید
جیسا کہ اوپر عرض کیاگیا، قدیم زمانے میں یہ مطلوب تھا کہ شرک کو رد کرکے توحید کا اثبات کیا جائے۔ یہ کارنامہ اصحابِ رسول نے اپنی کامل صورت میں ساتویں صدی عیسوی میں انجام دیا۔ انھوںنے اپنے زمانے میں پیدا شدہ مواقع کو استعمال کرتے ہوئے ایک ایسا انقلاب برپا کیا جس نے انسانی تاریخ میں ایک نئے عمل (process) کا مؤثر آغاز کیا۔ یہ عمل جاری رہا، یہاں تک کہ شرک، نظریاتی بنیاد (ideological base) سے محروم ہوگیا۔ اب وہ صرف ایک بے روح رسم کے طورپر کچھ توہم پسند لوگوں میں باقی ہے، عملی اعتبار سے وہ ایک زندہ قوت کے طورپر کہیں موجود نہیں۔
یہی معاملہ الحاد کا ہے۔ بیسویں صدی عیسوی میں الحاد بظاہر سائنسی دلائل کے زور پر ابھرا تھا۔ لیکن جلد ہی خود سیکولر حلقے میں ایسے مفکرین پیدا ہوئے جنھوں نے عملی طورپر الحاد کی بظاہر اِس سائنسی بنیاد کو ڈھا دیا اور حقیقت کے اعتبار سے الحاد کو ایک بے دلیل نظریے کی حیثیت دے دی۔ اِس طرح موجودہ زمانے میں دوبارہ امکانی طورپر وہ موافق حالات پیدا ہوئے ہیں جن کو لے کر کچھ لوگ الحاد کو مکمل طورپر رد کردیں اور اس کے بجائے توحید کو ایک ثابت شدہ نظریہ بنادیں، اور اِس طرح وہ اُس رول کو انجام دیں جس کو اخوانِ رسول کے ساتھ منسوب کیا گیا ہے۔
یہ حالات پیدا ہوچکے تھے اور میں اکثر ان کے بارے میں غور کرتا تھا۔ آخر کار 1963 میں ایک واقعہ پیش آیا جو میرے لیے گویا کہ ایک رہنما واقعے کی حیثیت رکھتا تھا۔ اِس واقعے کا ذکر میں نے اپنی کتاب ’’ظہورِ اسلام‘‘ کے آغاز میں اس طرح کیا ہے:
’’ستمبر 1963 کی 21 تاریخ تھی۔ راقم الحروف ندوہ (لکھنؤ) کی مسجد میں تھا اور ظہر کی سنتیں پڑھ کر جماعت کے انتظار میں بیٹھا ہوا تھا۔ ذہن میں خیال گھوم رہا تھا کہ اسلام کے تعارف کے لئے آج ایک ایسی کتاب کی ضرورت ہے جو وقت کی زبان اور اسلوب (modern idiom) میں لکھی گئی ہو اور جدید انسان کو مطالعہ کے لیے دی جاسکے۔ ’’کاش اللہ تعالیٰ مجھے اِس کتاب کے لکھنے کی توفیق دے‘‘ یہ تمنا بے ساختہ دعا کی شکل میں میری زبان سے نکلی اور اس کے بعد یکایک یہ انگریزی لفظ میری زبان پر تھا:
God Arises
یہ گویا کتاب کا نام تھا جو اچانک میرے ذہن میں وارد ہوا۔ اس سے پہلے کبھی یہ فقرہ میرے ذہن میں نہیں آیا تھا، حتی کہ کتاب کے نام کی حیثیت سے اس کی معنویت بھی اُس وقت پوری طرح واضح نہ تھی۔ شام کو عصرکی نماز کے بعد میں حسب معمول لکھنؤ کی نریندر دیو لائبریری گیا جو ندوہ کے قریب دریائے گومتی کے کنارے واقع ہے۔ وہاں ویبسٹر کی لغت میں لفظ Arises کے استعمال دیکھے تو معلوم ہوا کہ یہ لفظ بائبل کی ایک آیت میں استعمال ہوا ہے۔ پورا فقرہ یہ ہے:
Let God arise, let His enemies be scattered.
Let them also that hate Him flee before Him.
As smoke is driven away, so drive them away;
As wax melteth before the fire, so let
the wicked perish at the presence of God
(Psalm 68: 1-2)
’’خدا اٹھے، اس کے دشمن تتر بتر ہوں۔ وہ جو اس کا کینہ رکھتے ہیں، اس کے حضور سے بھاگیں، جس طرح دھواں پراگندہ ہوتا ہے، اسی طرح تو انھیں پراگندہ کر۔ جس طرح موم آگ پر پگھلتا ہے، شریر خدا کے حضور فنا ہوں‘‘۔
یہ میرے لیے ایک انسپریشن (inspiration) تھا۔ یہ گویا ایک قسم کا الہامی تجربہ تھا جو مسجد کے اندر اذان اور اقامت کے درمیان پیش آیا۔ اِس پر غور کرنے کے بعد میںنے سمجھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک اشارہ ہے، تاکہ میں پیدا شدہ جدید علمی مواقع کا جائزہ لوں اوراُن کو الحاد کی تردید اور توحیدکے علمی اثبات کے لیے استعمال کروں۔ یہ گویا سیکولر اہلِ علم کے پیدا کردہ علمی امکانات کو اسلامائزکرنا تھا۔ اور جدید دور میں اظہارِ دین کے اُس علمی واقعے کو بروئے کار لانا تھا جس کے امکانات وقوع میں آچکے ہیں، لیکن ابھی ان کو استعمال نہ کیا جاسکا۔
اِس موضوع پر میں پہلے بھی کام کر رہا تھا۔ لیکن مذکورہ تجربے کے بعد میرے شعور میں ایک نئی بیداری آئی اور میں اِس قابل ہوگیا کہ زیادہ حوصلے کے ساتھ اِس علمی خدمت کو انجام دوں۔ آخر کار، طویل کوشش کے بعد وہ کتاب وجود میں آئی جو مذکورہ تجربے کی روشنی میں گاڈ ارائزز (God Arises) کے نام سے 1985 میں شائع ہوئی۔ اِس سے پہلے یہ کتاب اردو اور عربی زبان میں چھپ چکی تھی۔ لیکن مذکورہ انگریزی ایڈیشن مزید اضافے کے ساتھ اس کا زیادہ جامع ایڈیشن تھا۔
اِس کے بعد یہی موضوع (modern challenges to Islam) میرا مستقل موضوع بن گیا۔ اس کے بعدمضامین اور کتابوں کی شکل میں میری سیکڑوں کوششیں مختلف زبانوں میں شائع ہوئیں۔ میری اِن تمام تحریروں کا موضوع مشترک طورپر صرف ایک تھا، اور وہ اسلام اور عصری تحدیات تھا۔ بعد کے زمانے میںبراہِ راست یا بالواسطہ طورپر یہی میری زندگی کا مستقل موضوع بن گیا۔
واپس اوپر جائیں

تباہ کن غلط فہمی

عباسی دورمیں مسلمانوں کے اندر دینی زوال آیا۔اس زمانہ میں مسلمانوں کا یہ حال ہوا کہ کچھ رسمی اعمال ا ور مخصوص وضع قطع دینداری کی علامت بن گئے۔
اسی زمانہ میں قُصّاص (story tellers) پیدا ہوئے۔ وہ ان رسمی اعمال کے پراسرار فضائل پر خود ساختہ کہانیاں لوگوں کو سنانے لگے۔ اس طرح لوگ اس رسمی دین داری پر مزید پختہ ہوگئے۔ اپنا محاسبہ (introspection) کرنے کا جذبہ ختم ہوگیا۔
موجودہ زمانہ میں یہی خرابی مزید اضافہ کے ساتھ ظہورمیںآئی ہے۔ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں نے ان رسمی اعمال کو دین داری سمجھ لیا۔ دوبارہ ان کے درمیان ایسی شخصیتیں اور ایسی جماعتیں پیدا ہوئی ہیں جو ان رسمی اعمال کے فضائل کے بارے میں لوگوں کو پر اسرار قسم کے قصے کہانی سنارہے ہیں۔ اس طرح وہ مسلمانوں کے اندر محاسبہ کا مزاج تو پیدا نہیں کرتے، البتہ فضیلت کی کہانیوں کے ذریعے وہ ان کے اندر یہ فرضی یقین پیدا کررہے ہیں کہ تمھاری رسمی دین داری ہی اصل دین داری ہے۔ اور اسی کے ذریعہ تم خدا کی نصرتوں کو حاصل کروگے اور آخر کار جنت میں پہنچ جاؤگے۔
یہ بلا شبہہ گم راہی ہے۔ جو لوگ اس گم راہی سے بے خبر ہیں، وہ اندھے پن کا شکار ہیں اور جو لوگ اس سے باخبر ہیں لیکن وہ اس کے بارے میں خاموش ہیں، وہ حدیث کے الفاظ میں ’’گونگے شیطان‘‘ بنے ہوئے ہیں۔ موجودہ زمانہ میں اصلاح امت کا سب سے بڑا کام یہی ہے کہ مسلمانوں کو اس تباہ کن غلط فہمی سے باہر لایا جائے۔
پچھلی امتیں جس بگاڑ کا شکار ہوئیں، اُس بگاڑ کو قرآن میں امانی (البقرۃ: 78 ) کہاگیا ہے۔ امانی سے مراد خوش فہمی (wishful-thinking) ہے، یعنی کچھ رسمی اعمال کرنا اور اُس پر بڑے بڑے انعامات کی امید قائم کرلینا۔ یہی پچھلی امتوں کا بگاڑ تھا، اور حدیث کی پیشین گوئی کے مطابق، یہی خود مسلمانوں کے ساتھ بھی دورِ آخر میں پیش آئے گا۔
واپس اوپر جائیں

فخر اور نفرت

انسان کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ہر عورت اور ہر مرد کے اندر ایک نفسیات مشترک طور موجود رہتی ہے — فخر اور نفرت۔ فخر کا جذبہ اپنے لیے، اورنفرت کا جذبہ دوسروں کے لیے۔ ہرآدمی اِنھیں دو احساسات کے درمیان جیتاہے اور اِنھیں دو احساسات کے درمیان مرجاتاہے۔
یہ دونوں جذبات اتنے قوی ہیں کہ فخر کا اگر صرف ایک ذرہ اسے مل جائے تواس کو لے کروہ اپنے فخر کا گنبد کھڑا کردیتا ہے۔ اِس طرح اگر اُس کو نفرت کا ایک ذرہ مل جائے تو اُس کو لے کر وہ دوسروں کو نفرت کا موضوع بنا لیتاہے۔ یہ دونوں جذبے اتنا زیادہ عام ہیں کہ اُس کو انسان کا عالمی مزاج کہاجاسکتاہے۔
اِس مزاج کا یہ نتیجہ ہے کہ ہر آدمی اپنے بارے میں فخر کی نفسیات میں جیتا ہے، اور دوسرے کے بارے میں نفرت کی نفسیات میں۔ یہ دونوں جذبات دھیرے دھیرے انسان کے لاشعور کا حصہ بن جاتے ہیں، یہاں تک کہ انسان کا یہ حال ہوجاتا ہے کہ اُس کو اِس معاملے میں سوچنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ہر صورتِ حال میں یہ چیزیں اپنے آپ اس کے اندر پیدا ہوتی رہتی ہیں۔ ہر صورتِ حال اپنے آپ اُ س کو اپنے لیے فخر کی غذا دینے والی بن جاتی ہے۔
اِس طرح ہر صورتِ حال اپنے آپ اُس کو دوسروں کے بارے میں نفرت کی غذا دیتی رہتی ہے۔ یہ دو طرفہ نفسیاتی عمل آدمی کے اندر اِس طرح مسلسل طورپر جاری رہتا ہے کہ اِس میں اس کی کنڈیشننگ ہوجاتی ہے۔
یہ برائی آدمی کے اندر سوچے بغیر اپنے آپ پیدا ہوتی ہے۔ لیکن جب اُس کو ختم کرنا ہو تو آدمی کو سوچ کر اسے ختم کرنا ہوتا ہے۔ یہ اِس معاملے کا سب سے زیادہ نازک پہلو ہے۔ اِس معاملے میں کوئی شخص اپنی اصلاح اُسی وقت کرسکتا ہے، جب کہ وہ شعوری طورپر اس کو دریافت کرلے، وہ شعوری طورپر اپنے اوپر اصلاح کا عمل کرنے لگے۔
واپس اوپر جائیں

مسلمان عالمی محاصرہ میں

موجودہ زمانے کے تعلیم یافتہ مسلمانوں کا عام مزاج یہ ہے کہ مسلمان عالمی سطح پر زیر محاصرہ (under seige) ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ تمام قومیں مسلمانوں کی مخالف ہیں۔ تمام قوموں نے مسلمانوں کے خلاف سازش کر رکھی ہے۔ تمام قومیں متفقہ طور پر یہ چاہتی ہیں کہ مسلمان دوبارہ ابھرنے نہ پائیں، چناں چہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہر سطح پر مسلمانوں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں۔
یہ سوچ سرتاسر ایک بے بنیاد سوچ ہے۔ خالص علمی اعتبار سے اِس کی کوئی حقیقت نہیں۔اصل یہ ہے کہ موجودہ دنیا کا نظام خود خالق کے نقشے کے مطابق، مسابقت (competition) اور چیلنج پر قائم ہے۔ یہ فطرت کا نظام ہے۔ اس نظام کے بناپر کوئی آگے بڑھتا ہے اورکوئی پیچھے ہوجاتاہے، کوئی پانے والا بنتا ہے اور کوئی کھونے والا۔یہ نظام اِس لیے ہے تاکہ زندگی کی سرگرمیاں جاری رہیں، تاکہ ہر فرد اور ہر گروہ کو عمل کا محرک (incentive) ملتا رہے۔
فطرت کے اِس نظام کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ ایک گروہ اپنی کوشش کے ذریعے آگے بڑھ جاتا ہے اور وہ دوسرے گروہ کو پیچھے چھوڑ دیتاہے۔ ایسی حالت میں پچھڑے ہوئے گروہ کو چاہئے کہ وہ اپنے عمل کی نئی منصوبہ بندی کرے، وہ کھوئی ہوئی بازی کو دوبارہ جیتنے کے لیے اپنی ساری توانائی خرچ کردے۔ زندگی کو چیلنج سمجھنا آدمی کو نیا جذبۂ عمل دیتا ہے۔ اِس کے برعکس، سازش اور دشمنی کا نظریہ آدمی کو منفی نفسیات میں مبتلا کرکے اس کو زندگی کی دوڑ میں پیچھے ڈال دیتا ہے۔
موجودہ زمانے کیمسلمانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنے رہنماؤں کی غلط رہنمائی کے نتیجے میں چیلنج کو محاصرہ سمجھ لیا۔ انھوںنے ایک مثبت واقعے کو خالص منفی رخ دے دیا۔ مسلمانوں کی یہی غلط سوچ ہے جس کی اصلاح میں ان کی ترقی کا راز چھپا ہوا ہے۔یہی وہ مقام ہے جہاں موجودہ زمانے کے مسلمان زوال کا شکار ہوئے ہیں۔ اور یہی وہ مقام ہے جہاں وہ اپنی اصلاح کرکے دوبارہ عروج تک پہنچ سکتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

شریعتِ محمدی کا نفاذ

موجودہ زمانے میں انقلاب پسند مسلمانوں کا ایک عمومی نعرہ وہ ہے جس کو شریعتِ محمدی کا نفاذ کہاجاتا ہے۔ یہ بلا شبہہ ایک خود ساختہ نعرہ ہے۔ اِس کی تائید قرآن اور حدیث سے نہیں ہوتی۔ اِس کے برحق ہونے کے لیے ضروری ہے کہ قرآن اور حدیث میں کوئی حکم اِس طرح کے الفاظ میں آیاہو: نفِّذ شریعۃَ محمد( شریعتِ محمدی کو نافذ کرو) اور جب قرآن اور حدیث میں کوئی حکم اِس طرح کے الفاظ میں نہ آیا ہو تو اس کی بنیاد پر سیاست چلانا بلا شبہہ ایک مُبتدعانہ سیاست ہے، وہ کوئی اسلامی کام نہیں۔
نفاذِ شریعت کا تصور کوئی سادہ تصور نہیں، یہ اسلام کے اندر ایک بہت بڑی برائی داخل کرنے کے ہم معنی ہے۔ اِس تصور نے اسلام کو بزور نفاذ (forceful implementation) کا موضوع بنادیا ہے، حالاں کہ اسلام اپنی حقیقت کے اعتبارسے اختیارانہ پیروی کا نام ہے۔’’نفاذِشریعت‘‘ ایک خوب صورت لفظ ہے، لیکن عملی نتیجے کے اعتبار سے وہ تخریب کاری ہے، اور صرف تخریب کاری۔
اسلام کو جب اختیارانہ پیروی کے اعتبار سے لیا جائے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ فرد کے اندر مثبت ذہن پیدا ہوتا ہے، سماج کے اندر تعمیری قدریں فروغ پاتی ہیں، اجتماعی زندگی کے ہر شعبے میں امن قائم ہوتا ہے، وغیرہ۔ اِس کے برعکس، جب اسلام کو بزور نفاذ کا موضوع بنا دیا جائے تو اس کے نتیجے میں لازمی طور پر انتہا پسندی (extremism) کا مزاج پیدا ہوتا ہے۔ سماج میں رواداری (tolerance) کا مزاج ختم ہو جاتا ہے۔
اِس کے نتیجے میں پہلے لوگوں کے اندر شدت پسندی آتی ہے۔ جب شدت پسندی سے مقصد حاصل نہ ہو تو مسلّح ٹکراؤ شروع ہوجاتا ہے، اور جب وہ بھی ناکافی ہو تو اس کے بعد وہ آخری برائی پیدا ہوجاتی ہے جس کو خود کش بم باری (suicide bombing) کہاجاتا ہے۔ اور خود کش بم باری بلاشبہہ وہ برائی ہے جس کے بعد برائی کا کوئی اور درجہ نہیں۔
واپس اوپر جائیں

ارتقاء یا مغالطہ

ریڑھ کی ہڈی انسان کے جسم کا ایک کم زور حصہ ہے۔ ریڑھ کے نیچے کا حصہ بہت جلد متاثر ہوجاتا ہے اور وہ تکلیف شروع ہوجاتی ہے جس کو پیٹھ کا درد (backache) کہاجاتاہے۔ نظریۂ ارتقاء کے حامی اِس کو ارتقائی عمل سے جوڑتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ انسان ابتداء ً چوپائے کی شکل میں تھا، جیسا کہ گھوڑا ہوتاہے۔پھر اُس نے پیچھے کے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش کی، یہاںتک کہ وہ انسان کی صورت میں ایک سیدھا حیوان بن گیا۔ اب اس کے پچھلے پاؤں بدستور پاؤں رہے، اور اگلے دونوں پاؤں ہاتھ کی مانند ہوگئے۔ سیدھا حیوان بننے کے بعد اس کا سارا بوجھ ریڑھ کی ہڈی پر آگیا۔ یہی سبب ہے کہ ریڑھ کی ہڈی کا نچلا حصہ نہایت آسانی سے تکلیف کا شکا رہوجاتا ہے۔
یہ سر تا سر ایک مغالطہ ہے۔ چار پیروں والے حیوان کا دو پیروں والا حیوان بن جانا صرف ایک غیرثابت شدہ قیاس ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ریڑھ کی ہڈی کی تکلیف قدیم زمانے کے انسان کو نہیں ہوتی تھی، یہ صرف موجودہ زمانے کے انسان کا مسئلہ ہے۔ موجودہ زمانے کا انسان کمفرٹ کلچر (comfort culture) میں جیتا ہے۔ اِس قسم کی بیماریاں اِسی کمفرٹ کلچر کا نتیجہ ہیں، اس کا نظریہ ارتقاء سے کوئی تعلق نہیں۔
Backache is a common health problem
With reference to the Backache is a common health problem ‘Talking back’ (TOI, June 13) by Jug Suraiya, backache is indeed one of the most common complaint that people suffer from at some stage in their lives. The most common causes behind the problem are poor posture, improper lifting or bending. A sedentary lifestyle with little or no exercise and overexertion of the body can be harmful too. One explanation for the vulnerability of the lower back is that it is one of the weakest parts in the human body, having evolved from walking on fours to walking upright. This unique evolutionary adaptation is a relatively recent change. As a result, the stresses acting upon the vertebral column are unique in many respects and result in a variety of problems that are peculiar to the human species. A proper posture can go a long way towards providing relief from backaches. (Subhash Kaura, The Times of India, New Delhi, June 15, 2009)
واپس اوپر جائیں

تاریخ کے تین دور

کائنات کی عمر تقریباً 15 بلین سال بتائی جاتی ہے۔ زمین پر انسان کی عمر تقریباً 50 ہزار سال ہے۔ زمین پر انسانی تاریخ کے تین دور ہیں— ابتدائی دورِ تہذیب تک، روایتی فریم ورک سے سائنٹفک فریم ورک تک، غیر معیاری دنیا سے معیاری دنیا تک:
From primitive age to modern civilization.
From traditional framework of mind to scientific framework of mind.
From imperfect world to a perfect world.
انسانی تاریخ کا ابتدائی دور تہذیبی ارتقاء کا دور ہے۔ وہ آدم اور حوا کے بعدشروع ہوا اور بیسویں صدی عیسوی کے آخر میں اپنی تکمیل تک پہنچ گیا۔
قدیم زمانے میں انسان کے پاس سوچنے کا جو فریم ورک تھا، وہ روایتی فریم ورک تھا۔اِس میں دھیرے دھیرے ترقی ہوئی، یہاں تک کہ جدید سائنس (modern science)کا دورآیا اور انسان کو سوچنے کے لیے سائنٹفک فریم ورک حاصل ہوگیا۔
موجودہ دنیا میں وہ تمام مادّی چیزیں موجود ہیں جن کو انسان چاہتا ہے۔ لیکن موجودہ دنیا کی کوئی بھی چیز معیاری چیز نہیں۔ انسان اپنی پیدائش کے اعتبار سے معیار پسند (idealist) ہے، لیکن موجودہ دنیا اُس کی نسبت سے ایک غیر معیاری دنیا ہے۔ یہ تضاد آخر کار ختم ہوگا۔
اِس معیاری دنیا کے بننے کا وقت اب بہت قریب آچکا ہے۔ مگر اِس معیاری دنیا میں صرف منتخب افراد کو جگہ ملے گی۔ موجودہ دنیا میں جن لوگوں نے اپنی اہلیت ثابت کی ہوگی، اُن کو منتخب کرکے اگلی معیاری دنیا میں بسا دیاجائے گا۔ باقی لو گ عالمی کوڑے خانے میں ڈال دیے جائیں گے، پہلا گروہ ابدی راحتوں کی دنیا میں جگہ پائے گا، اور دوسرا گروہ ابدی محرومی کی دنیا میں۔
واپس اوپر جائیں

اصلاحِ نصاب، یا اصلاحِ ماحول

مسلم رہنماؤں کے درمیان عرصے سے یہ تحریک چل رہی ہے کہ دینی مدارس کا نصاب (syllabus) بدلا جائے۔ یہ اصل مسئلے کا صرف کم تر اندازہ ہے۔ دینی مدارس میں بلا شبہہ اصلاح کی ضرورت ہے، لیکن اِس ضرورت کا تعلق اصلاً اصلاحِ نصاب سے نہیں ہے، بلکہ اصلاحِ ماحول سے ہے۔ موجودہ حالت میں خواہ مدارس کا نصاب بدل دیا جائے یا اس کو باقی رکھا جائے، دونوں صورتوں میں یقینی طورپر مطلوب نتیجہ نکلنے والا نہیں۔
دینی مدارس کا اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ وہاں کا نصاب قابلِ تبدیلی ہے، دینی مدارس کا اصل مسئلہ وہاں کا قدامت پرستانہ ماحول ہے جس کو بدلنا ضروری ہے۔ موجودہ صورتِ حال یہ ہے کہ دینی مدارس میں مکمل طورپر جمود (stagnation) کی فضا قائم ہے۔ اِن مدارس میںآزادانہ سوچ کو شجرِ ممنوعہ سمجھا جاتاہے۔ ہر مدرسے کہ کچھ مقدس اکابر ہیں۔ اِن اکابر کے خلاف سوچنا لوگوں کے نزدیک جرمِ عظیم کا درجہ رکھتا ہے۔ مدارس کا یہی جامد ماحول مدارس کے جدید رول کی ادائیگی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ جب تک اِس ماحول کو بدلا نہ جائے، مدارس سے یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ دورِ جدید میں اپنا مطلوب رول ادا کرسکیں گے۔
مولانا شبلی نعمانی (وفات: 1914 ) نے لکھا تھا کہ ہمارے مدارس میں مُتون پڑھائے جاتے ہیں، فنون نہیں پڑھائے جاتے۔ یہ ایک صحیح بات تھی۔ اِس صورتِ حال کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے مدارس میں اساتذہ اور طلبا کی سوچ تمام تر کچھ کتابوں اور ان کتابوں کے مصنفین پر مُرتکز رہتی ہے۔ وہ اِنھیں چند کتابوں کو علم سمجھتے ہیں اور ان کے مصنفین کو علماء کا درجہ دیتے ہیں۔ اِس سے طلبا اور اساتذہ کے اندر بند ذہن پیدا ہوتا ہے۔
اس کے برعکس، اگر ہمارے مدارس میں فنون پڑھا جائیں تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ موضوعات (subjects) زیر بحث آنے لگیں گے۔اِس طرح غور وفکر کا دائرہ بہت زیادہ وسیع ہوجائے گا۔ اس طرح سوچ کا دائرہ چند مخصوص علماء تک محدود نہیں رہے گا، بلکہ کسی موضوع پر دوسرے اہلِ علم نے جو کچھ لکھا ہے، وہ بھی غور وبحث کے دائرے میں آجائے گا۔ اس طرح لوگوں کے ذہن کھلیں گے۔ لوگوں کا ذہنی ارتقاء ہوگا۔ لوگوں کے اندر تقلید کے بجائے اجتہاد کی صلاحیت ترقی کرے گی۔ ہر آدمی شعوری یا غیر شعوری طورپر یہ چاہنے لگے گا کہ پچھلے لوگ جو کام کرچکے ہیں، میں اُن سے آگے جاؤں، میں علمی ارتقاء کی مزید منزلیں طے کروں۔
اِس معاملے کی ایک مثال مولانا شبلی نعمانی کی زندگی میں پائی جاتی ہے۔ مولانا شبلی نعمانی نہ صرف یہ کہ ایک اچھے عالم تھے، بلکہ وہ ایک فعال آدمی تھے۔ وہ اظہارِ خیال کی آزادی کو بہت زیادہ پسند کرتے تھے۔ وہ جہاں بھی رہتے تھے، وہاں وہ لوگوں کے اندر یہ اسپرٹ پیدا کرتے تھے کہ وہ کھلے ذہن کے تحت سوچیں اور کھلے ذہن کے تحت رائے قائم کریں اور دورِ جدید کے لحاظ سے اعلیٰ قابلیت پیدا کریں۔ اِس سلسلے میں وہ انگریزی زبان سیکھنے پر بھی زور دیا کرتے تھے۔
اِس کے نتیجے میں ایسا ہوا کہ مولانا شبلی کے قیامِ ندوہ (1905-1913) کے زمانے میں وہاں ایک زندہ علمی ماحول پیدا ہوگیا۔ اسی کا یہ نتیجہ تھا کہ مولانا شبلی نعمانی کے زمانے میں کئی اعلیٰ علمی شخصیتیں پیدا ہوئیں۔ مثلاً مولاناسید سلیمان ندوی (وفات:1953 ) ، مولانا ابو الکلام آزاد (وفات: 1958)، مولانا عبدالباری ندوی (وفات:1976 )، مولانا عبد الماجد دریادبادی (وفات: 1977 ) ، وغیرہ۔
تعلیم کے سلسلے میں دو چیزیں بنیادی اہمیت رکھتی ہیں— نصاب، اور اساتذہ۔ کسی تعلیمی ادارے میں بلاشبہہ نصاب کی بہت اہمیت ہے۔ لیکن نتیجے کے اعتبار سے دیکھا جائے تو نصاب سے بھی زیادہ اہمیت اساتذہ کی ہے۔ نصاب کی حیثیت عملاً ایک ذریعہ کی ہے۔ تاہم اِس ذریعہ کا جو استعمال کرتاہے، وہ استاذ ہے۔ استاذ اگر لائق اور فعال ہو تو وہ کسی بھی نصاب کو استعمال کرکے طلبا کے اندر مطلوب روح پیدا کرسکتا ہے، اور اگر استاد لائق اور فعال نہ ہو تو اچھے سے اچھا نصاب بھی عملاً بے نتیجہ ہو کر رہ جائے گا۔
واپس اوپر جائیں

ہر گھر بگاڑ کا کارخانہ

آج کل عام طورپر یہ حال ہے کہ ہر گھر میںایک طرف اپنے بچوں اور اپنے خاندان والوں کی تعریف کی جاتی ہے، اُن کا ذکر ہمیشہ مثبت انداز میں کیا جاتا ہے۔ اِس کے برعکس، جب بھی دوسروں کا چرچا کیا جاتا ہے تو وہ تنقیص کے انداز میں ہوتا ہے۔
اپنوں کے بارے میں مثبت باتوں کا چرچا اور دوسروں کے بارے میں منفی باتوں کا چرچا، یہ کلچر اـتنا زیادہ عام ہے کہ شاید ہی کوئی گھر اِس سے خالی ہو۔
گھر کے اندر سماج کے شہری بنتے ہیں، لیکن مذکورہ کلچر نے گھر کو اِس قابل نہیں رکھا ہے کہ وہ اپنے سماج کے لیے اچھے شہری سپلائی کرے۔ ہر گھر میںایسے عورت اور ایسے مرد بن کر تیار ہورہے ہیں جو اپنوں کے بارے میں مثبت رائے اور دوسروں کے بارے میں منفی رائے رکھتے ہیں، جن کو اپنوں سے محبت ہے اور دوسروں سے نفرت ، جو اپنوں کے بارے میں روادار (tolerant) ہیں اور دوسروں کے بارے میںوہ غیر روادار(intolerant) بنے ہوئے ہیں، جن کے اندر اپنوں کو دینے کا ذہن ہے اور دوسروں سے صرف لینے کا ذہن، جو اپنوں کو برتر سمجھتے ہیںاور دوسروں کو کم تر، جو اپنوں کی ترقی پر خوش ہوتے ہیںاور دوسروں کی ترقی دیکھ کر اُنھیں کوئی خوشی نہیں ہوتی، جو اپنوں کی تکلیف سے فکر مند ہوتے ہیں اور دوسروں کی تکلیف کو دیکھ کر انھیں کوئی فکر مندی لاحق نہیں ہوتی، وغیرہ۔
اِس صورتِ حال کا یہ نتیجہ ہے کہ اب سماجی اقدار (social values) کا تصور ختم ہوگیا ہے۔ اب ایک ہی چیز ہے جو ہر ایک کا واحد کنسرن (sole concern) بنی ہوئی ہے، اور وہ ہے ذاتی مفاد(self-interest) ۔ اِس صورتِ حال نے ہر ایک کو خود غرض اور استحصال پسند بنا دیا ہے، کسی کو کم اور کسی کو زیادہ۔ یہ صورتِ حال بے حد سنگین ہے۔ اِس کی اصلاح جلسوں اور تقریروں کے ذریعے نہیں ہوسکتی، اس کی اصلاح کا طریقہ صرف یہ ہے کہ گھر والے اپنے گھر کے ماحول کو درست کریں۔گھر کے ماحول کو درست کئے بغیر اِس سنگین صورتِ حال کی اصلاح ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں

خدا کا اعتراف نہیں

آج کل یہ رواج ہے کہ ایک شخص پیسہ کمائے گا اوراس کے بعد وہ ایک کار خرید کر اپنے بیٹے کو دے گا۔ کار کے شیشہ پر لکھا ہوا ہوگا— باپ کی طرف سے تحفہ (Dad's Gift) ۔ یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ ناشکری کا کلمہ ہے۔ ایک نعمت جو حقیقۃً خدا کی طرف سے ملی ہے، اس کو خداکی طرف منسوب نہ کرنا، بلکہ اس کو خود اپنے کمالات کے خانے میں ڈال دینا، یہ خدا کے ساتھ بے اعترافی کا معاملہ کرناہے، اور خدا کے ساتھ بے اعترافی بلا شبہہ خدا کی اِس دنیا میں سب سے بڑے جرم کی حیثیت رکھتا ہے۔
قرآن کی سورہ نمبر 27 میں بتایا گیا ہے کہ پیغمبر سلیمان بن داؤد کو ایک مادّی نعمت ملی تو انھوں نے فوراً کہا: ہٰذا من فضل ربّی (النمل:40 ) یعنی یہ میرے رب کے فضل میں سے ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ پیغمبر نے اس کو خدا کی طرف سے عطیہ (God’s gift) قرار دیا۔ یہی صحیح ایمانی طریقہ ہے۔ صاحبِ ایمان وہ ہے جو ہر چیز کو خدا کی چیز سمجھے، جوہر ملی ہوئی چیز کو خدا کی طرف منسوب کرتے ہوئے خدا کا اعتراف کرے۔
دنیا میںانسان کو جوچیزیں ملتی ہیں، وہ بہ ظاہر خود اپنی کوشش کے ذریعے ملتی ہیں، لیکن یہ صرف اس کا ظاہری پہلوہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ ہر چیز مکمل طورپر خدا کا عطیہ ہوتی ہے۔ انسان کا امتحان یہ ہے کہ وہ ظاہری پردے کو پھاڑ ے، وہ اصل حقیقت کو دریافت کرتے ہوئے ہر ملی ہوئی چیز پر یہ کہہ دے کہ یہ میرے رب کا عطیہ ہے جو براہِ راست طورپر خدا کی طرف سے مجھ کو دیا گیا۔
اِسی اعتراف (acknowledgment) کا مذہبی نام شکر ہے۔ یہاں اُسی شخص کو جائز طورپر رہنے کا حق حاصل ہے جو شکر و اعتراف کی نفسیات کے ساتھ اِس دنیا میں رہے۔ شکر کی یہی نفسیات موجودہ دنیا میں کسی کو جائز طورپر جینے کا حق دیتی ہے۔ اِس کے برعکس، جن لوگوں کے اندر ناشکری اور بے اعترافی کی نفسیات ہو، وہ خدا کی اِس دنیا میں مجرم اور درانداز (intruders) کی حیثیت رکھتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

بچوں کا قبرستان

ایک تعلیم یافتہ مسلمان ہمارے مشن سے جڑے ہوئے تھے۔ اُس وقت ان کے یہاں اولاد نہیں تھی، پھر ان کے یہاں بچے پیدا ہوئے۔ اِس کے بعد وہ دھیرے دھیرے مشن سے دور ہوگئے۔ ایک عرصے کے بعد ان سے ملاقات ہوئی۔ میں نے پوچھا کہ آپ نے دعوتی کام کو کیوں چھوڑ دیا۔ انھوں نے کہا— بچوںکی ذمے داریاں اتنی بڑھ گئی ہیں کہ اب وقت نہیں ملتا۔
موجودہ زمانے میں یہی کم و بیش ہر آدمی کا حال ہے۔ لوگوں کے لیے ان کے بچے ان کا قبرستان بنے ہوئے ہیں۔ ہر آدمی کے لیے اس کے بچے اس کا واحد کنسرن (sole concern) ہیں۔ ہر آدمی اپنا پیسہ، اپنا وقت، اپنی انرجی، غرض جو کچھ اس کے پاس ہے، وہ اس کو اپنے بچوں کے لیے وقف کئے ہوئے ہے۔ دوسروں کے لیے اس کے پاس صرف زبانی ہمدردی (lip service) ہوتی ہے، اور اپنی اولاد کے لیے حقیقی عمل، حتی کہ خدا کے لیے یا خدائی کام کے لیے بھی اس کے پاس صرف الفاظ ہوتے ہیں، اِس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔
آج جس شخص سے ملاقات کیجئے، وہ اپنے بچوں کے مستقبل (future) کے لیے فکر مند ہوگا، لیکن وہ خود اپنے مستقبل کے لیے فکر مند دکھائی نہ دے گا۔ یہ عین وہی صورتِ حال ہے جس کو حدیث میں اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: أذہب آخرتہ بدنیا غیرہ ۔یعنی سب سے زیادہ گھاٹے میںوہ شخص ہے جو دوسرے کی دنیا بنانے کے لیے اپنی آخرت کھو دے۔
اِس معاملے کا سب سے زیادہ اندوہناک پہلو یہ ہے کہ لوگ محبتِ اولاد میں اتنا زیادہ غرق ہیں کہ وہ اِس حدیثِ رسول کا مصداق بن گئے ہیں: حبّک الشییٔ یعمی ویُصمّ۔ اولاد کی محبت ان پر اتنا زیادہ غالب ہے کہ وہ یہ بھی سوچ نہیں پاتے کہ ہم اولاد کے مستقبل کو بنانے کی فکر میں خود اپنے مستقبل کو تباہ کررہے ہیں۔ اِس بنا پر لوگوں کاحال یہ ہے کہ ان کے پاس زیادہ اہم کاموں کے لیے وقت نہیں۔ مثلاً دینی مطالعہ، دعوہ ورک، آخرت کو سامنے رکھ کر اپنے معاملات کی منصوبہ بندی، وغیرہ۔
واپس اوپر جائیں

بحران کا مثبت پہلو

سگمنڈ فرائڈ (Sigmund Freud) 1856 میں آسٹریا (سنٹرل یورپ) میں پیداہوا، اور 1939 میں اس کی وفات ہوئی۔ وہ نفسیات کا عالم (psychologist)تھا۔
سگمنڈ فرائڈ اپنے ایک غلط نظریے کی وجہ سے کافی بدنام ہوا۔ اُس کا نظریہ یہ تھا کہ — نفسیاتی پیچیدگیاں ابتدائی دورکے جذباتی صدمات کا نتیجہ ہوتی ہیں، وہ دبی ہوئی صنفی توانائی کا اظہار ہیں:
…Symptoms were caused by early trauma, and were expressions of repressed sexual energy.
تاہم فرائڈ کی بعض تحقیقات سبق آموز ہیں۔ اُن میں سے ایک اُس کا یہ قول ہے کہ —زندگی کا ہر بحران امکانی طورپر انسانی شخصیت کے مثبت پہلو کو متحرک کرنے کا سبب بنتاہے:
Every crisis is potentially a stimulus to the positive side of the personality.
یہ فطرت کے نظام کا ایک اہم پہلو ہے۔ خدا کے تخلیقی نظام کے تحت، ایساہوتا ہے کہ انسان کی زندگی میں جب کوئی غیر مطلوب واقعہ پیش آتا ہے تو وہ ایک مطلوب نتیجے کا سبب بن جاتاہے۔
اِس کے بعد آدمی کے اندر نیا شوق، نیا ولولہ اور نیا جذبۂ عمل پیدا ہوتا ہے۔ آدمی کا ذہن زیادہ بیدار ہو کر زیادہ بہتر منصوبہ بندی کرنے لگتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہر بحران آدمی کی زندگی میںایک نیا امکان کھول دیتا ہے، ہر ناکامی آدمی کے لیے ایک نئی کامیابی کا سبب بن جاتی ہے۔
آدمی کو چاہئے کہ وہ کسی بھی صورت حال میںمایوس نہ ہو، وہ ہر رکاوٹ کو اپنے لیے ترقی کا نیا زینہ سمجھے، وہ مسئلہ (problem) کو ایک چیلنج سمجھے، نہ کہ صرف ایک مسئلہ۔مسئلے کو صرف مسئلہ سمجھنا آدمی کو مایوسی کی طرف لے جاتاہے، اور مسئلے کو چیلنج سمجھنا آدمی کے لیے نیا دروازہ کھولنے کا سبب بنتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

انفرادی آداب، اجتماعی آداب

اگر آپ چند آدمی کے ساتھ کسی مقام پر بیٹھے ہیں۔ قریب کی مسجد سے اذان کی آواز آتی ہے۔ اذان کی آواز سن کر اگر آپ خاموشی کے ساتھ اٹھیں اور مسجد کی طرف تنہا روانہ ہوجائیں تو یہ انفرادی آداب کا معاملہ ہے۔ ایسے موقع پر اس طرح خاموشی کے ساتھ چلے جانے کی نوعیت دوسری ہے۔
اس کے برعکس، اگر آپ ایک ادارہ کے باقاعدہ رکن ہوںاور آپ کی یہ ذمہ داری ہو کہ آپ وہاں روزانہ وقت پر آئیں اور مقرر ذمہ داریوں کو پابندی کے ساتھ ادا کریں۔ اس دوسری صورت میں اگر آپ اپنے ادارے سے اچانک اٹھ کر بغیر کچھ کہے ہوئے روانہ ہوجائیں۔ بعد کو معلوم ہو کہ آپ اپنے کسی نجی کام سے 10 دن کے لئے چلے گئے تھے تو اس طریقہ کا تعلق اجتماعی آداب سے ہے۔ اور اجتماعی آداب کی نسبت سے یہ طریقہ سخت قابلِ اعتراض ہے۔
عام طورپر لوگ انفرادی آداب کے معاملہ میں کافی معلومات رکھتے ہیں، لیکن اجتماعی آداب کے معاملہ میں لوگوں کو بہت کم باتیں معلوم ہیں۔ انفرادی آداب کے بارے میں لوگوں کا شعور جتنا بیدار رہتا ہے، اجتماعی آداب کے بارے میں لوگ اتنا ہی زیادہ بے شعوری میں مبتلا ہیں۔
انفرادی آداب اور اجتماعی آداب میں یہ فرق ہے کہ انفرادی آداب ذاتی محرک کے تحت ہوتا ہے۔ ہر آدمی اپنی ذات کے بارے میں حساس ہوتا ہے، اِس لیے وہ انفرادی آداب کے معاملے کو جلد سمجھ لیتا ہے اور اس کو اپنی زندگی میں شامل کرلیتا ہے۔ لیکن اجتماعی آداب کا معاملہ اِس سے مختلف ہے۔
اجتماعی آداب کے معاملے میں آپ کو دوسروں کے احساسات کو جاننا ہوتا ہے، اجتماعی آداب کے معاملے میں آپ کو اپنے سے باہر کی دنیا کا لحاظ کرنا پڑتا ہے۔ اجتماعی آداب کے معاملے میں کسی انسان کو زیادہ حساس اور زیادہ با شعور ہونا چاہیے، ورنہ وہ اِس معاملے میں بے شعوری کا شکار ہوجائے گا اور ایسی غلطیاں کرے گا جو اجتماعی شریعت کے اعتبار سے قابلِ معافی نہیں۔
واپس اوپر جائیں

حرص، قناعت

یکم جون 2009 کو مسٹر ایس کے سیف الدین (مدراس) سے دہلی میں ملاقات ہوئی۔انھوںنے نصیحت کے لئے کہا۔ میںنے ان کی ڈائری میں یہ الفاظ لکھے:
’’پر سکون زندگی کا راز کم پر راضی ہونا ہے نہ کہ زیادہ کی تلاش میں رہنا۔ کم کی حد ہے لیکن زیادہ کی کوئی حد نہیں۔ اس لیے ایسا ہوتا ہے کہ کم پر راضی ہونے والے کو پرسکون زندگی ملتی ہے۔ لیکن زیادہ کی تلاش کرنے والا کبھی پر سکون زندگی حاصل نہیںکرپاتا‘‘۔
مذہب کی اصطلاح (religious term)میںکم پر راضی ہونے کا نام قناعت ہے اور زیادہ کی تلاش میں رہنے کا نام حرص۔ انھیں دو لفظوں میں زندگی کی پوری کہانی چھپی ہوئی ہے۔ جو آدمی اس حقیقت کو جان لے، و ہی عارف ہے۔ او رجو آدمی ا س حقیقت سے بے خبر رہے، وہی وہ انسان ہے جس کو معرفت حاصل نہیں ہوئی۔
اصل یہ ہے کہ انسان کی خواہشیں لامحدود ہیں، لیکن موجودہ دنیا ہر اعتبار سے محدود ہے۔ محدود دنیا میں لامحدود خواہشات کی تکمیل نہیں ہوسکتی، اس لئے جو لوگ موجودہ دنیا میں اپنی خواہشات کو لامحدود طورپر پورا کرنا چاہیں، وہ ہمیشہ بے اطمینانی کا شکار رہیں گے۔
طلب اور مطلوب کے درمیان فرق ہی کا نام بے اطمینانی ہے۔ جو لوگ اپنی طلب کو محدود نہ کریں، ان کے لئے یہی مقدر ہے کہ وہ ہمیشہ بے اطمینانی میں مبتلا رہیں اور اسی حال میں مرجائیں ۔
ایسی حالت میں عقل مندی یہ ہے کہ آدمی حقیقت واقعہ کو تسلیم کرے، اور حرص کے طریقہ کو ناممکن سمجھ کر قناعت کے طریقہ کو اختیار کرلے۔ قناعت حقیقت پسندانہ رویہ کا دوسرا نام ہے، اور حرص غیر حقیقت پسندانہ رویہ کا دوسرا نام— قناعت کا طریقہ فطرت کے قانون سے موافقت کرنے کا نام ہے، اِس کے مقابلے میں، حرص فطرت کے قانون سے عدم موافقت کا نام۔
واپس اوپر جائیں

خیر خواہی یا بد خواہی

ایک باپ نے اپنی بیٹی کی شادی دور کے مقام پر کی۔ یہ بیٹی اپنے میکہ میں اس طرح رکھی گئی تھی کہ اس نے کبھی کوئی کام نہیں کیا۔ اس کے والدین کی کوشش ہمیشہ یہ ہوتی تھی کہ بیٹی خوش رہے۔ اس کو کوئی تکلیف نہ ہونے پائے۔ مگر باپ جانتا تھا کہ سسرال میں ایسا ہونے والا نہیں ہے۔ اس نے بیٹی کو رخصت کرتے ہوئے کہا کہ اب تم جہاں جارہی ہو، وہ تمھارے لئے ایک مختلف دنیا ہوگی۔ میکہ میں تم کو جو آرام ملا، سسرال میں تم اس کی امید نہ رکھنا۔
باپ نے اپنی سمجھ کے مطابق، یہ مشورہ خیر خواہی کے جذبہ کے تحت دیا۔ لیکن حقیقت کے اعتبار سے وہ بدخواہی کامشورہ تھا۔ حقیقت کے اعتبار سے اس کا مطلب یہ تھا کہ ان کی بیٹی اپنے سسرال میںہمیشہ منفی ذہن کے تحت رہے۔ وہ ہمیشہ احساسِ محرومی کا شکار رہے۔ وہ ہمیشہ یہ سمجھتی رہے کہ میرے میکہ کے لوگ بہت اچھے تھے اور میری سسرال کے لوگ بہت برے ہیں۔ میکہ والوں کے لئے اس کے دل میں جھوٹی محبت اور سسرال والوں کے لیے اس کے دل میں جھوٹی شکایت بھر جائے۔ ساری زندگی وہ اس احساس میں جئے کہ میری شادی غلط ہوگئی۔ وہ ہمیشہ میکہ والوں کو اچھا سمجھے اور سسرال والوں کو ہمیشہ برا سمجھتی رہے۔
موجودہ زمانے میں تقریباً ہر ماں باپ اپنی بیٹی کے حق میںاسی قسم کی فرضی خیر خواہی کرتے ہیں جو عملاً بیٹی کے لئے صرف ایک مستقل بد خواہی بن جاتی ہے۔ بیٹی اپنے میکہ کی کنڈیشننگ کی بنا پر خود سے کبھی اس معاملہ کو سمجھ نہیں پاتی۔ اور ماں باپ کا حال یہ ہوتاہے کہ وہ اس کی کنڈیشننگ کو مزید پختہ کردیتے ہیں، وہ اس کی کنڈیشننگ کا خاتمہ نہیںکرتے۔
صحیح یہ ہے کہ باپ یا تو اپنی بیٹی کے ساتھ لاڈ پیار (pampering) کا سلوک نہ کرے، یا کم ازکم یہ کرے کہ وہ اپنی بیٹی سے بوقتِ رخصت کہہ دے کہ ہم نے جو کچھ کیا، وہ غیر فطری طریقہ تھا، فطری طریقہ وہی ہے جس سے تم کو سسرال میں سابقہ پیش آئے گا۔
واپس اوپر جائیں

سوال وجواب

سوال
عرض یہ ہے کہ ایک بار میں دہلی میں آپ کے پاس آیاتھا۔اُس وقت آپ نے مجھ کو یہ حدیث سنائی تھی: مَنْ صَمَتَ نَجَا۔ یعنی جو چپ رہا اور جس نے بولنے سے پہلے سوچا، وہ کامیاب رہا۔ آپ نے میری ڈائری میں لکھوایا تھا کہ اِس حدیث کو مضبوطی سے پکڑ لیں اور اس کے مطابق اپنی زندگی بنائیں تو آپ کامیاب رہیں گے۔ عرض یہ ہے کہ اِس حدیث کے مطابق، زندگی بنانے کا مطلب کیا ہے، براہِ کرم، مطلع فرمائیں۔ (جواد الحق مظاہری، ہری دوار)
جواب
اِس حدیث میں چپ رہنے کا مطلب کامل معنوں میں چپ رہنا نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب ہے کم بولنا۔ جو آدمی کم بولے، اس کو بیک وقت دو فائدے حاصل ہوتے ہیں— ایک، یہ کہ وہ زیادہ سوچتا ہے۔ کم بولنے کا دوسرا پہلو زیادہ سوچنا ہے۔ جب آدمی بولتا ہے تو اُس وقت وہ سوچ نہیں پاتا۔ اِسی لیے کسی نے بالکل درست طور پر کہا ہے:
When I am speaking, I am not thinking.
کم بولنے کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ آدمی کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ دوسروں کی بات سنے، وہ دوسروں سے سیکھے، وہ دوسروں کے تجربات سے فائدہ اٹھائے۔ حقیقت یہ ہے کہ کم بولنا کوئی سادہ بات نہیں۔ کم بولنا پورے معنوں میں، ایک طریقِ زندگی ہے۔ جو آدمی کم بولنے کے طریقِ زندگی کو اختیار کرے، وہ ضرور اعلیٰ کامیابی حاصل کرے گا۔
سوال
آپ کی باتیں بہت اچھی ہیں، مگر اس وجہ سے نہیں کہ آپ اعمال کو آخرت کے ساتھ جوڑتے ہیں، بلکہ اس لیے کہ ان کی افادیت اِسی دنیا میں ہے۔ آخرت سے متعلق تمام تر باتیں ظنی ہیں اوروہ صرف ظنی ہی ہوسکتی ہیں۔ آخرت کو قطعیت کے ساتھ ثابت ہی نہیں کیا جاسکتا۔ مثلاً حدیث میں ہے کہ میری امت کے 73 فرقے ہوں گے جن میں سے صرف ایک حق پر ہوگا اور باقی گمراہ ۔ ظاہر ہے کہ کوئی بھی عالمِ دین روئے زمین پر ایسا نہیں ہے جو مذکورہ 72 گمراہ فرقوں کی تعیین کرسکے، اور جب آپ تعیین کی قدرت نہیں رکھتے ہیں تو آپ کا علم ظنی سے بھی نچلی سطح پر آجاتاہے۔ نیز قیامت آنے سے پہلے ہی آپ یعنی علماء 72 کے عدد کو پار کرچکے ہیں، پھر مزید کتنے فرقے وجود میں آنے باقی ہیں۔ اس طرح پورا معاملہ ہی گڈ مڈ ہوجاتا ہے۔ علم وہ ہے جوحتمی ہو، جو تبدیلی کو نہ چاہتا ہو، جو پتھر کی لکیر ہو۔ آج کچھ کہا، کل کچھ کہیں گے، یہ کوئی علم نہیں(خط میں نام درج نہیں، پونہ)۔
جواب
1 - خالص سائنسی اعتبار سے دیکھا جائے تو اِس دنیا میں تمام علوم ’’ظنی‘‘ ہیں۔ سائنس کے مطابق، اِس دنیا میں ہماری واقفیت صرف امکان (probability) تک پہنچ سکتی ہے، نہ کہ حتمیت (certainty) تک۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ انسان کو صرف علمِ قلیل (الإسراء: 85 ) دیاگیا ہے۔ موجودہ زمانے میں سائنس کا بھی یہی موقف ہے۔ اِس موقف کو علمی نقطۂ نظر کہا جاسکتا ہے۔ اس کے سوا علمی طورپر کوئی اور نقطۂ نظر موجودہ دنیا میں ممکن نہیں۔
2 - حدیث میں مذکورہ 72 فرقوں کو نام بنام متعین کرنا، یا یہ متعین کرنا کہ اِ ن میں سے کون سا فرقہ برسرِ حق فرقہ ہے، یہ صرف خدا کا کام ہے، یہ انسان کا کام نہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بات فرمائی ہے، وہ گم راہی کی نشان دہی کے اعتبار سے ہے، نہ کہ گم راہ فرقوں کی تعیین کے اعتبارسے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ اِس حدیث میں تفرّق یا فرقہ بندی کی شناعت سے متنبہ کیا گیا ہے۔ فرقوں کی تعداد بتانا اِس حدیث کا اصل موضوع نہیں۔
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز— 198

1 - یکم ستمبر کے انقلاب کی یادگار کے طور پر لیبیا ایمبیسی کی طرف سے ایک پروگرام ہوا۔ یہ پروگرام یکم ستمبر 2009 کی شام کو نئی دہلی کے ہوٹل (Hayatt Regency Hotel) کے بال روم میں ہوا۔ اس کی دعوت پر سی پی ایس کی ٹیم کے تین افراد ن اس میں شرکت کی۔ یہاں مختلف ممالک کے سفرا اور اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد موجود تھے۔انھوں نے ان کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیا۔
2 - پازیٹیو تھنکرس فورم (بنگلور) کے تعاون سے گل برگہ (کرناٹک) کے حلقۂ الرسالہ سے وابستہ افراد نے ستمبر 2009 میں چند دعوتی پروگرام کئے۔ یہ پروگرام گل برگہ کے حسب ذیل مقامات پر کئے گئے— فنکشن ہال، میڈیل کالج، کمپیوٹر کالج، انجنیئرنگ کالج، آیورویدک کالج ۔ اِس موقع پر انھوں نے وہاں کے اعلیٰ تعلیم یافتہ غیر مسلم حضرات سے دعوتی خطاب کیا اور بڑے پیمانے پر حاضرین کو قرآن کا انگریزی ترجمہ مطالعے کے لیے دیا ۔
3 - کمیونٹی آف سینٹ ایجی ڈیو (اٹلی) کے سالانہ پروگرام کے طورپر پولینڈ کے شہر کریکو (Cracow) میں 6-8 ستمبر 2009 کو ایک انٹرنیشنل کانفرنس ہوئی۔ اِس میں مختلف مذاہب کے نمائندے شریک ہوئے۔ عرب علماء بھی اس میں قابل ذکر تعداد میں موجود تھے۔ اِس اجتماع کا موضوع عالمی امن تھا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز کے ساتھ سی پی ایس کے چار افراد نے اس میں شرکت کی۔ اِس موقع پر قرآن کا انگریزی ترجمہ بڑی تعداد میں کانفرنس کے شرکا اور پولینڈ کے مقامی لوگوں کو دیاگیا۔ اِس سفر کی روداد ان شاء اللہ سفر نامے کے تحت شائع کردی جائے گی۔
4 - بعد سلام عرض ہے کہ ناچیز کو آپ کا بھیجا ہوا ماہ نامہ الرسالہ پابندی کے ساتھ موصول ہورہاہے۔ میں اس کو ایک ہی نشست میں پڑھ لیتا ہوں۔بلاشبہہ الرسالہ سے ہمیں جو رہنمائی ملتی ہے، اس کی کہیں نظیر نہیں۔ ماہ نامہ کے ہر صفحے میں ایک حیرت انگیز اور ایمان افروز سبق ہر مومن کے لیے موجود ہوتا ہے۔ یقینا پوری دنیاکے مسلمانوں کے لئے اصلاحی اور ذہنی تعمیر کا یہ ایک واحدذریعہ ہے۔ میں اس دعوتی مشن چلانے والے عالم کو لاکھوں سلام کرتا ہوں اور جب تک حیات باقی رہے گی، ان کے لیے دعا کرتا رہوں گا۔میری دیرینہ خواہش ہے کہ آپ کے ہفتہ وار کلاس میں کبھی شرکت کروں۔ میں آپ کا اپنا ہندستانی فوجی ہوں۔ اس وقت دہلی چھاؤنی میں مقیم ہوں۔ خدا کے فضل سے پروموشن کے مقابلاتی امتحان میں کامیاب ہوگیاہوں۔ مستقبل قریب میں چند ماہ کے cadre courseمیں جاؤں گا، پھر warrant officer کے رینک لگ جائیں گے۔ گھر کے سب خورد و کلاں آپ کو سلام عرض کرتے ہیں۔ (محمدآفاق عالم، دہلی چھاؤنی)
5 - الرسالہ جولائی 2009 ء کا شمارہ دیکھا۔ یہ شمارہ گجرات کے سفرنامہ پر مشتمل ہے جو بصیرت افروز ہے۔ اس شمارے کی خاص بات مولانا محمد ذکوان ندوی کی تحریر ’’تاثراتِ سفر‘‘ ہے، جو مجھے بہت خوب لگی اور اس کی ہر بات میرے قلب و ذہن میں اُتر گئی ہے۔میںنے اِس تحریر کو تین بار پڑھا۔ میرے لئے یہ تحریر اس وجہ سے بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے کیوں کہ بعض لوگ عموماً یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ الرسالہ کوئی علمی پرچہ نہیں ہے ، اس کی ہر تحریر میں اکابرین پر تنقید ہوتی ہے جس کی وجہ سے علماء اس کو قابل اعتنا نہیں سمجھتے۔ مگر یہ بصیرت افروز تحریر اُن کے اِس مغالطہ انگیز پروپیگنڈے کی مکمل تردید ہے۔ اِس تحریر سے واضح طور پرمعلوم ہوتا ہے کہ اہلِ علم کے یہاں الرسالہ اور خود حضرت مولانا کی کیا قدر ومنزلت ہے اور وہ مولانا کی تحریروں سے کس قدر استفادہ کر رہے ہیں۔ندوۃ العلماء لکھنؤ سے فارغ علماء پورے عالم اسلام میں معتبر اور اعتدال پسند مانے جاتے ہیں اور جب ندوہ میں علماء اور اساتذہ کا الرسالہ کے تئیں یہ حال ہو تو یہ اِس بات کو سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ دوسرے علماء بھی الرسالہ کو بڑے ذوق وشوق سے پڑھتے اور اس سے استفادہ کرتے ہوں گے۔ اس تحریر کے مطالعہ کے بعد مجھ کو مولانا عبد الباری ندوی کی اِس بات سے مکمل اتفاق ہوگیا ہے کہ ’’مولانا وحید الدین خاں جدید طبقہ کی طرف مبعوث ہیں‘‘ بلا شبہہ یہ بات سو فی صد درست ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ عالم اسلام کی شہرت یافتہ شخصیت حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی بھی الرسالہ اور مولانا وحید الدین خاں صاحب کی علمی وفکری صلاحیتوں کے معترف تھے اور وہ اس سلسلہ میں مثبت رائے رکھتے تھے۔ الرسالہ ستمبر 1995 ’’ یکساں سول کوڈ ‘‘کے عنوان سے خصوصی شمارے کے طورپر شائع ہوا تو اس شمارے کے حوالے سے ہندوستان کی اہم شخصیات کے متعدد خطوط الرسالہ ،اپریل 1996 میں شائع ہوئے تھے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں اور جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ الرسالہ کوئی عام پرچہ نہیں ہے ،بلکہ یہ اپنی نوعیت کا واحد پرچہ ہے اور ہر اعتبار سے اہلِ علم کی خصوصی توجہ کا باعث اور استفادہ کے لائق ہے۔ چناں چہ ان اہم خطوط میں سے یہاں مولاناسیدابو الحسن علی ندوی کے خط کا ایک حصہ نقل کیا جاتا ہے جس سے الرسالہ کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے:
’’ فاضل گرامی ومحب سامی، مولانا وحیدالدین خاں صاحب وفقہ اللہ لما یحب ویرضیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اُمید ہے کہ مزاج بخیر ہوگا۔ الرسالہ بابت ستمبر 1995 چند دن ہوئے ملا۔ اس میںآپ کا فاضلانہ مضمون ’’یکساں سول کوڈ‘‘ مطالعہ میںآیا۔ ہمارے علم میں یہ پہلا فاضلانہ اورمبصرانہ مضمون ہے جس میں یونی فارم سول کوڈ کا عالمانہ، مبصرانہ جائزہ لیاگیا ہے، اور تقابلی مطالعہ، ماہرین فن اور قانون سازوں کے بیانات و تجزیہ کی روشنی میں اس کی سطحیت اور عدم ضرورت ثابت کی گئی ہے۔ آپ ہماری طرف سے اس پر دلی مبارک باد قبول فرمائیں۔ اگر اس کو الگ الرسالہ کی صورت میں شائع کردیں اور اس کا انگریزی ترجمہ بھی شائع ہو جائے تو بہت مفید ہوگا۔ انگریزی ترجمہ ماہرین قانون اور سپریم کورٹ کے ججوں کو بھیجا جاسکتاہے۔ اُمید ہے کہ آپ سنجیدگی سے اس پر غور فرمائیں گے اور عجلت سے کام لیں گے۔ ہم نے یہ نمبر محفوظ کرلیا ہے۔ وہ ایک مرجع اور ماخذ کی حیثیت سے کام دے گا۔ اُمید ہے کہ مزاج ہر طرح بعافیت ہوگا ۔ والسلام، طالب دعا ابو الحسن علی ندوی، 20 اگست 1995 ‘‘
کچھ لوگوں کو اس بات پر اشکال ہے کہ مولانا اپنے معاصر علماء کی علمی ودینی خدمات کا اعتراف نہیں کرتے ہیںاور اگر کسی معروف عالم دین کا انتقال ہوجائے تو وہ دوسطر بھی الرسالہ میںنہیں لکھتے ،مگر یہ سرتا سر ایک بے بنیاد بات اور صریح الزام ہے۔ اس الزام کے رد میں یہاں طوالت کے خوف سے میں دوبارہ اول الذکرشخصیت کی مثال پیش کرنا چاہوں گا۔جب مولانا ابو الحسن علی ندوی کا 31 دسمبر 1999 کوانتقال ہوا تو مولانا وحید الدین خاں صاحب نے انتہائی عقیدت مندانہ انداز میں مولانا علی میاں صاحب کی دینی وملی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ایک جامع اور مفصل تحریر ’’صدی کی شخصیت‘‘ کے عنوان سے لکھی تھی جو الرسالہ مارچ 2000 ء کے شمارے میں شائع ہوئی تھی اور بعد میں یہی تحریر ندوۃ العلماء لکھنؤ سے شائع ہونے والے پندرہ روزہ ’’تعمیر حیات‘‘ کے خصوصی شمارہ ’’مفکراسلام نمبر‘‘ (10 جولائی تا 25 اگست2000 ء) میں بھی شائع ہوئی تھی۔ سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یہ تحریر عنوان اور مواد کے اعتبار سے مولانا ابو الحسن علی ندوی کے دینی وملی خدمات پر لکھی گئی تمام تحریروں پر بھاری تھی، حتی کہ خود اہلِ ندوہ کی تحریر وں پر بھی۔ اس کے ایک ایک لفظ سے خلوص و محبت اور قلبی تعلق کے موتی ٹپکتے تھے۔ یہاں اس تحریر کا ایک مختصر اقتباس بطور نمونہ ملاحظہ کیجئے:
’’مولانا ابو الحسن علی ندوی ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے۔ ان کے اندر بیک وقت مختلف اور متنوع خصوصیات موجود تھیں۔ مولانا سید مناظر احسن گیلانی نے کہا تھا کہ یورپ میں جو کام اکادمی کرتی ہے وہ ہمارے یہاں ایک آدمی کرتاہے۔ مولانا ابو الحسن علی ندوی اسی قول کا ایک زندہ نمونہ تھے۔ وہ ایک فرد تھے، مگر انھوں نے کئی اداروں کے برابر کام کیا‘‘ (الرسالہ، مارچ 2000 ء صفحہ 24)
’’تاثرات سفر‘‘ کے عنوان کے تحت لکھی گئی زیر نظرتحریر نے جو نہایت اہم معلومات فراہم کی ہے، وہ یہ ہے کہ اہل علم حضرات مولانا کی تحریروں خاص طورپرالرسالہ کو بڑی پابندی سے استفادہ کی غرض سے پڑھتے ہیں۔ اور اس سچائی کو ، خواہ وہ اس کا اظہار کریں یا نہ کریں اپنی جگہ تمام علماء یہ مانتے ہیںکہ مولانا فکری اعتبار سے موجودہ دورکے ممتاز اور مستند عالم دین اور قائد ملت ہیں اور انھوںنے جس طرح کی دینی ، علمی، اصلاحی، تعمیری اور فکری خدمات انجام دیں اور اسلام کو از سرِ نو دریافت کے طورپر نئی نسل کے سامنے رکھا اور اسے یہ احساس دلایا کہ اسلام کوئی فرسودہ اور ناقابلِ عمل مذہب نہیں ہے، بلکہ یہ بالکل آج کی چیزہے، وہ صرف انھیں کا حصہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ مولانا نے اس سلسلے میں عصری اسلوب میں ایسا طاقت ور لٹریچر تیار کیا ہے جو ہر اعتبار سے قابلِ استفادہ اور آنے والے علماء کے لئے دین کی تبلیغ کے سلسلے میں قابل تقلید نمونہ کی حیثیت رکھتا ہے(غلام نبی کشافی، سری نگر، کشمیر، 24 اگست 2009 )۔
6 - امریکا کی جیل میں اصلاحی کام کرنے والے ادارے کی طرف سے ایک خط موصول ہوا۔ ادارے کی فرمائش پر اُن کو قرآن کا انگریزی ترجمہ ہدیۃً بھیج دیاگیا ہے۔ اس سلسلے میں ادارے کا خط درج ذیل ہے:
I volunteer at for the Philadelphia Prison Systems on State Road in Philadelphia, PA. Once a month I visit young teenagers from the age of 15-17. The majority of the young men I speak with say they are Muslims but do not have a Quran. I ordered (5) Qurans last week through Amazon (The Holy Qurna ISBN 81-7808-141-6) and I saw that they came from www.goodwordbooks.com. I would like to order 25 more to give to the students I visit. Thank you (Sister Deborah Saunders, Philadelphia, USA)
7 - امریکا سے ایک خط موصول ہوا۔ حسب فرمائش ان کے پتے پر قرآن کا انگریزی ترجمہ روانہ کردیا گیا ہے۔ یہاں خط کا ایک حصہ نقل کیا جاتا ہے:
Do you have any materials for free to offer to Muslim inmates in prison? I am a prison chaplain at Marion Correctional Institution in Marion, NC. We have a large and devout Muslim community here. (Chaplain Sehested, Philadelphia, USA)
8 - چیپلنس سروسز (امریکا) کی طرف سے قرآن کے انگریزی ترجمہ کے سلسلے میں ایک خط ملا۔ ادارے کو قرآن کی 200 کاپیاں ہدیۃً بھیج دی گئی ہیں۔ اِس سلسلے میں ادارے کے منیجر کا خط یہاں درج کیا جاتا ہے:
We received the 200 copies of the Quran translated by Maulana Wahiduddin Khan. Thank you so very much! we will certainly use these resources not only with our patients and their families, but also as a valuable source of information and healing to the chaplains and hospital staff. You have no idea how comforting it is to our Muslim patients to be able to give them a Quran for them to keep. And now, you have sent us enough Qurans to give to our patients at all three of the hospitals we serve in Berkeley and Oakland, California. Thank you again for your generosity, and may it return to you tenfold! (Karla Droste, office manager, Chaplaincy Services)
واپس اوپر جائیں