Pages

Monday 1 December 2014

Al Risala | December 2014 (الرسالہ،دسمبر)

2

-استثنائی دنیا

3

- دورِمعرفت

4

- پیغمبر کا رول

5

- انسان کی تخلیق کس لیے

7

- ایک حدیث ِ رسول

8

- اصحابِ رسول کا نمونہ

10

- فطرت کا عطیہ

11

- آلاء اللہ کا مطلب

12

- ایک آزمائش

13

- دعوت کی توسیع

15

- ہدایت اور ضلالت

17

- ایک انسانی کمزوری

18

- خدا کی سنت

19

- دو ذمّے داری

21

- فریکونسی کا مسئلہ

22

- پیغمبر کا اُسوہ

24

- الرسالہ مشن کا دوسرا دور

26

- امت ِ مسلمہ کا کیس

27

- غلو کیا ہے

28

- حیاتِ انسانی کی توجیہہ

29

- ترتیبِ قرآن

30

- پیغمبر متّبعِ قرآن

31

- غلبہ، اہلِ حق کے لیے

32

- تنقید یا الزام تراشی

33

- آخر میں قبر

34

- دینی نہیں بلکہ قومی

37

- زندگی المیہ کیوں

38

- ٹماٹر یا لال بیگن

39

- دعوتی اسپرٹ

40

- شکایت کا نقصان

41

- وقت کا سرمایہ

42

- اسپرٹ آف اسلام

43

- سوال وجواب

45

- خبر نامہ اسلامی مرکز


استثنائی دنیا

قرآن کی سورہ نمبر 95 میں یہ الفاظ آئے ہیں: وَالتِّیْنِ وَالزَّیْتُوْنِ ۝ وَطُوْرِ سِیْنِیْنَ ۝ وَہٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِیْنِ ۝ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ (التین: 1-4) اس سورہ میںتین، زیتون، طور سینین اور بلد امین، یہ سب علامتی الفاظ ہیں- اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ کرہ ارض (planet earth)جہاں پھل دار درخت ہیں، سرسبز پہاڑ ہیں، اور پررونق شہر آباد ہیں، وہ ایک حقیقت کی گواہی دے رہے ہیں- وہ یہ کہ یہ زمین جس پر انسان کو آباد کیاگیا ہے، ایک استثنا ئی سیارہ (exceptional planet) ہے- اس قسم کی دنیا وسیع کائنات میں کہیں موجود نہیں- پھر اس زمین پر انسان کو بسایا گیا ہے، ایسا انسان جس قسم کی کوئی دوسری مخلوق ساری کائنات میں کہیں موجود نہیں-
اِس غیر معمولی اہتمام کے باوجود اس دنیا میں ایک انوکھا تضاد (strange contradiction) پایا جاتا ہے-وہ یہ کہ انسان بظاہر سب سے اعلی مخلوق ہے- لیکن عملاً اس دنیا میں اس کو جن حالات کے درمیان رہنا پڑتا ہے وہ اس کے لئے اسفل سافلین (lowest of the low) کی حیثیت رکھتا ہے- یہ استثناء (exception) اور یہ تضاد (contradiction) ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے- وہ اپنے پورے وجود کے ساتھ یہ پکار رہا ہے کہ اس انوکھی صورتِ حال کی توجیہہ کیا ہے- اس صورت ِحال کی درست توجیہہ کے بغیر یہ دنیا ایک ناقابل فہم ظاہرہ (unexplainable phenomenon) بن جاتی ہے-سورہ کی اگلی آیتوںمیں اسی سوال کا جواب ہے-
سورہ کے آخر میں بتایا گیا ہے کہ جو لوگ ایمان لائیں اور عمل صالح کریں تو ان کے لئے آخرت کی دنیا میں کبھی ختم نہ ہونے والا اجر (unending reward) ہے- اس آیت میں ایمان سے مراد سچائی کی دریافت ہے، اور عمل صالح سے مراد یہ ہے کہ آدمی اس دریافت کردہ سچائی کے مطابق عمل کرے- جو لوگ اس کا ثبوت دیں، وہ برے انجام سے بچ جائیں گے اور خالق عالم کی طرف سے اعلی انعام کے مستحق قرار پائیں گے-
واپس اوپر جائیں

دورِمعرفت

حضرت ابوذرغفاری کہتے ہیں کہ کوئی چڑیابھی اگر فضا میں اپنے پروں کو پھڑپھڑاتی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے ہم کو ایک علم کی یاد دلاتے تھے(وما یقلب طائر جناحیہ فی السماء إلا ذکر لنا منہ علماً) الطبقات الکبرى لابن سعد 2/354-
بلاشبہہ چڑیا کا فضا میں اڑنا قدرت الہی کی ایک عظیم نشانی ہے- قدیم زمانہ میں قدرت الہی کی اس نشانی (sign) کو صرف پراسرار عقیدہ کے تحت سمجھا جاسکتا تھا، مگر آج اس کو ایک سائنسی حقیقت کے طورپرسمجھا جاسکتا ہے- اب سائنسی دور میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ آج جب ایک ہوائی جہازفضا میں اڑ کر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچتا ہے تو اس کے لئے ہوائی جہاز سے باہر ایک بہت بڑا انفراسٹرکچر درکار ہوتا ہے- ٹیک آف (takeoff) کے مقام پر بھی اور لینڈنگ (landing)کے مقام پر بھی-
اِس انفراسٹرکچر کے بغیر کوئی جہاز ایک مقام سے دوسرے مقام پر نہیں پہنچ سکتا- مگر چڑیا کو فضا میں اڑنے کے لئے کسی خارجی انفراسٹرکچر کی ضرورت نہیں- وہ اپنے آپ ایک جگہ سے اڑتی ہے اور فضا میں تیرتی ہوئی دوسری جگہ اتر جاتی ہے- یہ بلاشبہہ رب العالمین کی ایک عظیم نشانی ہے-
موجودہ زمانہ میں سائنسی ترقیوں نے ایک بہت بڑا کام انجام دیا ہے- اس نے چیزو ں کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے ایک نیا فریم ورک دیا ہے- اِس سائنسی فریم ورک کی بنا پر یہ ممکن ہوگیا ہے کہ جو چیز پہلے صرف پراسرار طورپر مانی جاتی تھی، اس کو اب مسلّمہ عقلی بنیاد(rationally accepted base) پر سمجھا جاسکتا ہے- اس زمانی تبدیلی نے معرفت اور یقین کے لئے ایک نیا لامتناہی میدان کھول دیا ہے-
اس جدید سائنسی دور کی پیشین گوئی قرآن میں ساتویں صدی عیسوی میں ان الفاظ میں کی گئی تھی: سَنُرِیْہِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ (فصلت: 53) یعنی آئندہ ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے، آفا ق میں بھی اور ان کے اپنے اندر بھی، یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے کہ یہ حق ہے-
واپس اوپر جائیں

پیغمبر کا رول

ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے- عن أبی ہریرة، قال جلس جبریل إلى النبی صلى اللہ علیہ وسلم، فنظر إلى السماء، فإذا ملک ینزل، فقال جبریل: إن ہذا الملک ما نزل منذ یوم خلق، قبل الساعة، فلما نزل قال: یا محمد، أرسلنی إلیک ربک: أفملکا نبیا یجعلک، أو عبدا رسولا؟ قال جبریل: تواضع لربک یا محمد- قال: بل عبداً رسولاً- (مسند احمد: 7160) یعنی ابوہریرہ کہتے ہیں کہ جبریل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے- پھر انھوں نے آسمان کی طرف دیکھا- تو ایک فرشتہ اوپر سے اترا- جبریل نے کہا کہ یہ فرشتہ جب سے اس کو پیدا کیاگیا، وہ اس سے پہلے کبھی زمین پر نہیں اترا- جب وہ فرشتہ آگیا تو فرشتہ نے کہا کہ اے محمد، آپ کے رب نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے- آپ کو وہ بادشاہ پیغمبربنائے یا بندہ پیغمبر- جبریل نے کہا کہ اے محمد اپنے رب کے لئے تواضع کا طریقہ اختیار کیجئے- آپ نے کہا کہ میں عبد پیغمبر بننا پسند کرتاہوں-
اس حدیث کا تعلق صرف پیغمبر کی ذات سے نہیں ہے- بلکہ اپنے عمومی انطباق کے اعتبار سے یہ حدیث، ابدی طورپر داعئ دین کے رول کو بتاتی ہے- اور وہ یہ کہ اس دنیا میں داعی کا رول ایک پولیٹکل رول نہیں ہے، بلکہ وہ ایک غیر سیاسی (non-political) رول ہے-
اسلام ایک پرامن مذہب ہے، اور اسلامی دعوت ایک پرامن دعوت- اسلامی مشن کوئی پولیٹکل مشن نہیں- اسلامی مشن کا مقصد یہ ہے کہ پرامن ذرائع کو استعمال کرکے انسان کو بتایا جائے کہ اس کی زندگی کا مقصد کیا ہے- وہ کس طرح ابدی کامیابی کو حاصل کرسکتا ہے- مزید یہ کہ دنیا کی زندگی میں، وہ کون سا طریقۂ حیات اختیار کرے، جو اُس کے لیے مقصد زندگی کے حصول میں رکاوٹ نہ بنے- اسلامی دعوت اِس لئے ہوتی ہے کہ وہ انسان کے لئے آسانی پیدا کرے- وہ انسان کو غیر ضروری مشکل سے بچائے- مذکورہ حدیث میں مومنانہ زندگی یا داعیانہ زندگی کی اِسی حقیقت کو بتایا گیا ہے- اِس حدیث کا تعلق سنت رسول سے ہے، نہ کہ فضیلت رسول سے-
واپس اوپر جائیں

انسان کی تخلیق کس لیے

قرآن کی سورہ الذاریات میں انسان کے مقصد ِ تخلیق کو اِن الفاظ میں بیان کیاگیاہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ ؀ مَآ اُرِیْدُ مِنْہُمْ مِّنْ رِّزْقٍ وَّمَآ اُرِیْدُ اَنْ یُّطْعِمُوْنِ ؀ اِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِیْنُ ؀ فَاِنَّ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا ذَنُوْبًا مِّثْلَ ذَنُوْبِ اَصْحٰبِہِمْ فَلَا یَسْتَعْجِلُوْنِ ؀ فَوَیْلٌ لِّـلَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ یَّوْمِہِمُ الَّذِیْ یُوْعَدُوْنَ (51:56-60) یعنی اور میںنے جنّ اور انسان کوصرف اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔میں ان سے رزق نہیں چاہتا اور نہ میں یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھ کو کھلائیں۔ بے شک اللہ ہی روزی دینے والا،زور آور،زبردست ہے۔ پس جن لوگوں نے ظلم کیا، ان کا ڈول بھرچکا ہے، جیسے ان کے ساتھیوں کے ڈول بھرے تھے،پس وہ جلدی نہ کریں۔ پس منکروں کے لیے خرابی ہے ان کے اس دن سے جس کا ان سے وعدہ کیا جارہا ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس ;کے شاگرد مجاہدنے ’لیعبد ون‘ کی تفسیر ’لیعرفونی‘ (تفسیر القرطبی) سے کی ہے- اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کی اِس آیت میں عبادت سے مراد شکلِ عبادت نہیں ہے، بلکہ روحِ عبادت ہے- یہاں عبادت سے مراد فارم نہیں ہے، بلکہ عبادت کی اسپرٹ ہے، اور بلاشبہہ عبادت کی اسپرٹ وہی ہے جس کو معرفت (realization)کہا جاتا ہے-
اب یہ سوال ہے کہ معرفت سے مراد کس چیز کی معرفت ہے- ایک لفظ میں، اِس سے مراد ہے اپنے اور اپنے خالق کے درمیان پائی جانے والی حیثیتِ واقعی کو دریافت کرنا- اِس حیثیت ِ واقعی کے دو پہلو ہیں — ایک ہے بندے کی نسبت سے اور دوسرا ہے خالق کی نسبت سے- دوسرے لفظوں میں یہ کہ اِس بات کو درجۂ معرفت میں جاننا کہ انسان عاجزِ مطلق (all powerless)ہے اور خدا قادرِ مطلق (all powerful) - خدا پورے معنوں میں دینے والا (giver) ہے اور انسان پورے معنوں میں لینے والا (taker) -
عبادت کی یہ حقیقت قرآن کی مذکورہ آیات میں بتادی گئی ہے- آیت کے اگلے الفاظ یہ ہیں: مَآ اُرِیْدُ مِنْہُمْ مِّنْ رِّزْقٍ وَّمَآ اُرِیْدُ اَنْ یُّطْعِمُوْنِ ؀اِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِیْنُ - اِس آیت کے دو حصے ہیں — پہلا حصہ ہے: مَآ اُرِیْدُ مِنْہُمْ مِّنْ رِّزْقٍ - اِس کا مطلب یہ ہےکہ انسان کامل معنوں میں رزق کا محتاج ہے، یعنی یک طرفہ طورپر لینے والا، اور اللہ کامل معنوںمیں رازق ہے، یعنی یک طرفہ طورپر دینے والا- مذکورہ سلسلۂ آیات کے آخری الفاظ (فَوَیْلٌ لِّـلَّذِیْنَ کَفَرُوْا الخ) بتاتے ہیں کہ یہ معاملہ کوئی سادہ معاملہ نہیں، وہ جزا اور سزا کے ابدی قانون سے جڑا ہوا ہے، یعنی جو شخص حقیقی معنوں میں تخلیق کے مقصد کو پورا کرے، اس کے لیے جنت ہے اور جو شخص اِس امتحان میں ناکام ہوجائے، اس کے لیے جہنم-
واپس اوپر جائیں

ایک حدیث ِ رسول

مسند امام احمد میں مرویات عبد اللہ بن عمر کے باب کے تحت، ایک روایت ہے: قال جاء رجل إلى رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم- فقال: یا رسولَ اللہ، إنی اقرأ القرآن فلا أجد قلبی یعقِل علیہ؟ فقال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم: إن قلبَک حُشِیَ الإیمانَ، وإن الإیمان یُعْطَى العبدَ قبل القرآن (مسند احمد: 6604) یعنی وہ کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا- اس نے کہا کہ اے خدا کے رسول، میں قرآن کو پڑھتا ہوں- مگر قرآن میری سمجھ میں نہیں آتا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمھارا دل ایک ایمان سے بھرا ہوا ہے- اور ایمان کسی بندے کو قرآن سے پہلے دیا جاتا ہے-
اِس حدیث میںایمان کا لفظ دوبار آیا ہے مگر دونوں جگہ وہ الگ الگ معنی میں ہے-پہلے ایمان سے مراد اس آدمی کے جاہلی افکار ہیں- جو بظاہر قبول اسلام کے باوجود ابھی تک اس کے دماغ میں بھرے ہوئے تھے- دوسرے ایمان سے مراد وہ حقیقی ایمان ہے جو قبول اسلام کے بعد کسی انسان کو اللہ کی توفیق سے ملتا ہے- یہی دوسرا ایمان وہ ہے جو کسی آدمی کے لئے قرآن کو سمجھنے میں معاون بنتا ہے-
اِس حدیث کا مطلب اگر لفظ بدل کر بیان کیا جائے تو وہ یہ ہوگا کہ مذکورہ شخص نے اگرچہ بظاہر اسلام قبول کرلیا تھا لیکن اس کی سابقہ کنڈیشننگ ابھی تک ٹوٹی نہیں تھی- جس بنا پر اس کا ذہن قرآن کو سمجھ نہیں پاتا تھا- آپ نے فرمایا کہ پہلے تم اپنے ذہن کی ڈی کنڈیشننگ (deconditioning) کرو- اس طرح تم ایک تیار ذہن (prepared mind) بن جاؤگے، اور پھر قرآن کو سمجھنا تمھارے لئے آسان ہوجائے گا-کسی موضوع (subject) کودرست طورپر سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی نے اس کے مطابق اپنے ذہن کو تیار کیا ہو- جو آدمی مطالعہ سے پہلے تیار ذہن (prepared mind) کی حیثیت نہ رکھتا ہو، وہ کوئی بھی کتاب درست طورپر سمجھ نہیں سکتا، نہ مذہبی کتاب اور نہ غیر مذہبی کتاب-یہی معاملہ قرآن کا بھی ہے-
واپس اوپر جائیں

اصحابِ رسول کا نمونہ

المعجم الاوسط للطبرانی (باب المیم: 5124) میں صحابہ کے بارے میں ایک روایت آئی ہے- اس کو مفسر ابن کثیر نےاپنی تفسیرکی کتاب میں سورہ العصر کی تفسیر کے تحت نقل کیا ہے- اس روایت کے راوی ایک صحابی عبد اللہ بن حصن ہیں- وہ کہتے ہیں : کان الرجلان من أصحاب النبی صلى اللہ علیہ وسلم،اذا التقیا لم یتفرقا حتى یقرأ أحدہما على الآخر: ’’والعصر إن الإنسان لفی خسر‘‘، ثم یسلّم أحدہما على الآخر- یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے دو آدمی اگر باہم ملتے تو وہ جدا نہیں ہوتے تھے، یہاں تک کہ ایک شخص دوسرے شخص کو سورہ العصر پڑھ کر سناتا، پھر دونوں ایک دوسرے کو سلام کرکے رخصت ہوتے-
یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کا طریقہ تھا- اِس کا تقابل (comparison) موجودہ زمانے کے مسلمانوں سے کیجئے- موجودہ زمانے کے مسلمان جب باہم ملتے ہیں تو خواہ وہ دو ہوں یا دو سے زیادہ ہوں، وہ عام طورپر مفروضہ دشمنوں کے ظلم کا چرچا کرتے ہیں-
مثلاً فلسطین میں عربوں کے اوپر اسرائیل کا ظلم، ہندوستان میں مسلم دشمن پارٹی کا اقتدار میں آنا، 11 ستمبر 2001 کے بعد امریکا میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک، مغربی ملکوں میں اسلام فوبیا (Islamophobia) کے مبالغہ آمیز قصے، غیر مسلم اخبار وں میں مسلمانوں کے خلاف چھپنے والی خبریں، غیر مسلم قوموں کی مسلمانوں کے خلاف سازشیں، حکومت کے اداروں میں مسلمانوں کے خلاف تعصب، وغیرہ-
وہ واقعات جن کو موجودہ زمانے کے مسلمان ’’ظلم وتعصب‘‘ کہتے ہیں، وہ سب کے سب مزید اضافہ کے ساتھ اصحاب رسول کے زمانے میں موجود تھے، لیکن اصحاب رسول ان کا چرچا نہیں کرتے تھے- وہ ہمیشہ ان باتوں کا چرچا کرتے تھے جن کو قرآن میں قابلِ ذکر بتایا گیاہے-
اصحابِ رسول اور موجودہ زمانے مسلمانوں کے درمیان یہ جو فرق ہے اُس سے معلوم ہوتاہے کہ کیوں ایسا ہے کہ اصحابِ رسول کامیاب تھے، اور موجودہ زمانے کے مسلمان ناکام ہیں- کیوں ایسا ہوا کہ اصحابِ رسول پر اللہ کی نصرت نازل ہوئی- جب کہ مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ کوششیں کرتے ہیں لیکن ان کی کوششیں نتیجہ خیز نہیں ہوتیں، وہ جان ومال کی قربانی دیتے ہیں لیکن ان کی قربانیاں رائیگاں چلی جاتی ہیں- وہ مسجدوں میں اور بڑے بڑے جلسوں میں دعائیں کرتے ہیں لیکن ان کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں- وہ خیر امت ہونے کا دعوی کرتے ہیں، لیکن عملی صورت حال کے اعتبار سے ان کی حالت اِس کے برعکس ہے-
امام مالک بن انس (وفات: 795ء) کا ایک بامعنی قول اِن الفاظ میں آیا ہے: لن یصلح آخر ہذہ الأمة، إلا بما صلح بہ أولہا (احکام الجنائز للألبانی: 198) یعنی امت مسلمہ کے آخری گروہ کے حالات بھی صرف اسی طرح درست ہوں گے جس طرح امت کے ابتدائی گروہ کے حالات درست ہوئے تھے-
یہی اِس معاملہ میں اصل رہنما اصول ہے-موجودہ زمانے کے مسلمانوں کو امام مالک ابن انس کے اِس قول کو اپنا رہنما بنانا ہوگا- اِس کے سوا کوئی دوسری تدبیر اُن کے کام آنے والی نہیں- خواہ یہ تدبیریں کتنی ہی زیادہ مقدار میں کی جائیں- پرشور اخبار ی بیانات، جلسہ جلوس کے ہنگامے، بد دعاؤں اور قنوت نازلہ کا اہتمام، سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر نفرت اور غصہ کی دھوم مچانا، اور سوسائڈبامبنگ(suicide bombing) کے ذریعہ اپنے آپ کو ہلاک کرنا، مفروضہ مسلم دشمن تاجروں کا بائیکاٹ، یرغمال(hostage) بنانے کا طریقہ، وغیرہ- ان طریقوں کو اختیار کرنے سے نہ اب تک کچھ ہوا ہے، اور نہ آئندہ کچھ ہونے والا ہے-
یہ تمام طریقے صرف اپنے غصہ کا اظہار ہیں- اور اس دنیا میں غصے کے اظہار سے کبھی کسی کو کچھ نہیں ملتا- مطلوب نتیجہ صرف درست منصوبہ بندی کے ذریعہ حاصل ہوسکتا ہے، نہ کہ نفرت اور غصہ کا اظہار کرنے سے-
واپس اوپر جائیں

فطرت کا عطیہ

ایک حدیث ِ رسول میں بتایا گیا ہے کہ ہر انسان کو اللہ کے سامنے 5 سوالوں کے جواب دینے ہوں گے: لاتزول قدم ابن آدم یوم القیامة من عند ربہ حتى یُسئل عن خمس(قیامت کے دن انسان کے قدم اس کے رب کے سامنے سے اس وقت تک نہ ہٹیں گے جب تک کہ وہ پانچ باتوں کا جواب نہ دے لے) ان پانچ باتوں میں سے ایک یہ ہے: عن شبابہ فیما ابلاہ (الترمذی، رقم الحدیث: 2416) جوانی کس چیز پر گزاری-
بظاہر اس حدیث میں یہ ہے کہ اپنی جوانی کیسے گزاری- لیکن غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے اس کو تخلیق کے اعتبار سے جو خاص صلاحیت عطا کی اس کو کہاں استعمال کیا- ہر عورت یا مرد جو پیدا ہو کر اس زمین پر آتا ہے، وہ اپنے اندر ایک خاص صلاحیت (unique quality) لے کر آتا ہے، خالق کو یہ مطلوب ہے کہ ہر ایک اپنی اِس صلاحیت کو دریافت کرے، اور اِس صلاحیت کو خدائی نقشہ کے مطابق بھر پور طورپر استعمال کرے- جو عورت یا مرد ایسا نہ کرے وہ یقینی طورپر آخرت میں اللہ کے یہاں پکڑے جائیں گے- آخرت میں ہر ایک کا معاملہ اس بنیاد پر ہوگا کہ اس نے اپنی خداداد صلاحیت (God given quality) کو صحیح طورپر استعمال کیا یا نہیں-جوانسان اِس زمین پر پیدا ہوتا ہے، اُس کا پہلا فرض یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو دریافت کرے- وہ اِس دنیا میں اپنے رول کو سمجھے، اور اللہ کی ہدایت کے مطابق، اپنے اِس رول (کر دار) کو پوری سنجیدگی کے ساتھ ادا کرے-
جو شخص ایسا کرے، اُس کے لیے موت کے بعد آنے والی دنیا میں ابدی جنت ہے، اور جو شخص ایسا نہ کرے، اُس کے لیے دنیا میں بھی ناکامی ہے، اور آخرت میں بھی ناکامی- جس شخص نے اپنے لیے فطرت کے عطیے کو جانا، وہ ایک کامیاب انسان ہے- اِس کے برعکس جس شخص نے اپنے بارے میں فطرت کے عطیہ کو نہیں جانا، وہ خالق کے نزدیک اندھا بہرا ہے- ایسے عورت یا مرد کی اللہ کے یہاں کوئی قیمت نہیں-
واپس اوپر جائیں

آلاء اللہ کا مطلب

قرآن کی سورہ نمبر 55 میں ایک آیت 31 بار آئی ہے: فبأیّ آلاء ربّکما تکذبان (سورہ الرحمن) یعنی تم دونوں اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤگے- اِس آیت میں ’آلاء‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے- آلاء کی واحد إلِیٌّ ہے- عربی لغت میں عام طورپر اِس کے معنی ’’نعمت‘‘ بتائے گئے ہیں، مگر اِس سے مراد عام نعمت نہیں ہے- اِس سے مراد وہ نعمت ہے جو تحیر خیز حد تک عظیم ہو- قرآن میں آلاء کا لفظ دراصل پُراستعجاب نعمتوں (wondrous bounties) کے لیے استعمال ہوا ہے-
سورہ الرحمن میںاللہ کی مختلف نعمتوں کا ذکر کیا گیا ہے- اور اُس کے بعد بار بار یہ آیت آئی ہے کہ تم اللہ کی کِن کِن نعمتوں کو جھٹلاؤگے- اِس آیت میں آلاء سے مراد پُراستعجاب نعمتیں ہیں، اور جھٹلانا (تکذیب) کا مطلب ہے اُس کو نظر انداز کرنا اور اپنے آپ کو اُس کا معترف نہ بنانا-
یہی موجودہ دنیا میں انسانوں کی اکثریت کا حال ہے- وہ ہر وقت اللہ کی انتہائی عظیم نعمتوں کو دیکھتے ہیں، لیکن اُن پر غور نہیں کرتے- وہ اُن کو فار گرانٹیڈ (for granted) لیتے رہتے ہیں- اِس بناپر ایسا ہوتا ہے کہ پُراستعجاب نعمتیں بھی اُن کو غیر اہم نظر آتی ہیں- اِن نعمتوں کے مقابلہ میں جو رسپانس (response) اُن کو دینا چاہئے، اُس کو دینے سے وہ قاصر رہتے ہیں-
یہی انسان کا سب سے بڑا جرم ہے- انسان کو عقل اِس لیے دی گئی کہ وہ اِن نعمتوں کو دیکھ کر اُن پر غور کرے، وہ اُن کا اعلی اعتراف کرے، وہ اِن نعمتوں کے خالق کے آگے پوری طرح جھک جائے- مگر انسان ایسا نہیں کرتا- انسان کی یہ حقیقت فراموشی معاف نہیں کی جائے گی- اِس فراموش رویہ کی بنا پر آخرت میں، اُس کی سخت پکڑ ہوگی- البتہ جو لوگ اپنی عقل کو استعمال کریں اور حقیقت شناسی کی زندگی گزاریں، وہ آخرت میں اُس کااعلی انعام پائیں گے- ایمانی زندگی دراصل عارفانہ زندگی کا دوسرا نام ہے- عارفانہ زندگی یہ ہے کہ آدمی اللہ کی نعمتوں کو دریافت کرے، اور شکر واعتراف کے جذبے کے ساتھ زندگی گزارے-
واپس اوپر جائیں

ایک آزمائش

قرآن کی سورہ نمبر 29 میں آزمائش کے ایک معاملہ کو اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ فَاِذَآ اُوْذِیَ فِی اللّٰہِ جَعَلَ فِتْنَةَ النَّاسِ کَعَذَابِ اللّٰہِ ۭ وَلَىِٕنْ جَاۗءَ نَصْرٌ مِّنْ رَّبِّکَ لَیَقُوْلُنَّ اِنَّا کُنَّا مَعَکُمْ ۭ اَوَلَیْسَ اللّٰہُ بِاَعْلَمَ بِمَا فِیْ صُدُوْرِ الْعٰلَمِیْنَ (العنکبوت: 10) یعنی لوگوں میں کوئی ایسا ہے جو کہتا ہے کہ ہم اللہ پر ایمان لائے- پھر اللہ کی راہ میں اُس کو جب کوئی آزمائش پیش آتی ہے تو وہ انسانی آزمائش کو اللہ کے عذاب کی طرح سمجھ لیتاہے- اور اگر تمھارے رب کی طرف سے کوئی مدد آجائے تو وہ کہیں گے کہ ہم تو تمھارے ساتھ تھے- کیا اللہ اس سے اچھی طرح باخبر نہیں جو لوگوں کے دلوںمیں ہے- قرآن کی اس آیت میں ایسے لوگوں کا ذکر ہے ، جو اپنے آپ کو مومن اور مسلم تو سمجھتے ہیں لیکن شعوری اعتبار سے وہ زیادہ پختہ نہیں ہوئے- اُن کا ذہنی ارتقا اِس درجہ کا نہیں ہوتا کہ وہ پیش آمدہ صورت حال کو کتاب اللہ کی روشنی میں جانچیں- وہ شبہہ پیدا کرنے والے واقعہ کا تجزیہ (analysis)کرکے اُس کی اصل نوعیت کو سمجھیں اور اپنے یقین کو بدستور برقرار رکھیں-
داعی کے ذریعہ دین کی دعوت اٹھے اور ایک شخص ابتدائی طورپر اُس کو حق سمجھ کر اُس کا ساتھی بن جائے- تب بھی قانونِ فطرت کے مطابق التباس کا عنصر (element of doubt)کا امکان باقی رہے گا- مثلاً اجتماعی زندگی کی بنا پر شکایت کے مواقع پیدا ہوں گے، دوسروں کی طرف سے بربنائے غلط فہمی مخالفتیں کی جائیں گی، حالات کے تحت آزمائش کی صورتیں پیدا ہوں گی، وقت کے بڑے اُس کے دشمن بن جائیں گے- ایسی صورت میں اگر آدمی کے اندر شعوری پختگی موجود ہو تو وہ انسانی آزمائشوں کا کتاب اللہ کی روشنی میں تجزیہ کرسکے گا، اور اِس طرح اپنے یقین کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوگا-
اِس کے برعکس، اگر آدمی کے اندر شعوری پختگی نہ ہو تو وہ حالات کو دیکھ کر مشتبہ ہوجائے گا- وہ غلط طورپر یہ سمجھنے لگے گا کہ آزمائش کی جو صورت پیش آرہی ہے، اُس کی نوعیت انسان کی آزمائش کی نہیں ہے، بلکہ وہ اللہ کی تنبیہہ ہے، اور اس بنا پر ہے کہ میں نے شاید ایک ایسے راستے کو اختیار کرلیا ہے، جو اللہ کا مطلوب راستہ نہیں- اس طرح وہ شبہہ میں پڑ کر داعی حق کا ساتھ چھوڑ دے گا-
واپس اوپر جائیں

دعوت کی توسیع

کسی مشن کے دو دور ہوتے ہیں— استحکام (consolidation) اور توسیع (expansion) - الرسالہ کا دعوتی مشن اللہ کے فضل سے استحکام کے دور سے گزر کر اب توسیع کے دور میں داخل ہوگیاہے- نہ صرف انڈیا میں بلکہ دوسرے ملکوں میں بار بار اس کی مثالیں سامنے آرہی ہیں-
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ 13 اکتوبر 2014 کی صبح کو ممبئی سے محبوب بھائی (Mob: 9619163993) کا ٹیلیفون آیا- ممبئی میں پہلے شہر میں دعوتی کام شروع ہوا، اس کے بعد ممبئی کی ٹیم نے مہاراشٹر اسٹیٹ کے دوسرے مقامات کے لئے دعوتی سفر شروع کیا- یہ منصوبہ کامیاب رہا- اب ممبئی کی ٹیم نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ دعوتی توسیع کے اس کام کو ملکی سطح پر چلائیں گے- اس نئے پروگرام کے تحت ممبئی کی ٹیم جلد ہی کلکتہ جانے والی ہے- اس خبر پر مجھے بہت خوشی ہوئی، اور میں نے ان کے لئے دعائیں کیں- خاص بات یہ ہے کہ یہ تمام پروگرام وہ لوگ کسی مرکزی ہدایت کے بغیر کررہے ہیں- یہ کسی مشن کے زندہ مشن ہونے کا ثبوت ہے-
میں نے محبوب بھائی سے کہا کہ آپ لوگ اسی طرح دعوتی توسیع کے میدان میں آگے بڑھئے، اِن شاء اللہ جلد ہی وہ وقت آئے گا جب کہ آپ لوگ عالمی (global) سطح پر دعوت کا یہ کام انجام دیں گے- میں نے کہا کہ حیدرآباد میں ہمارے ایک ساتھی بابو بھائی (وفات: 1987) تھے، الرسالہ مشن سے ان کو نہایت گہرا تعلق تھا- وہ اپنے ساتھیوں سے کہتے تھے کہ دعوت کا منصوبہ آپ لوگ بنائیے، پیسہ مجھ سے لے جائیے- میں نے کہا کہ یہی بات بے شمار گنا زیادہ بڑے پیمانے پر اللہ رب العالمین کے لئے درست ہے- قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ داعیانِ حق کی مدد کرتا ہے-
قرآن کی ایک آیت یہ ہے: ولینصرن اللہ من ینصرہ (الحج: 40) اور بے شک اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا جو اللہ کی مدد کرے-قرآن کی اس آیت میں اللہ کی جس نصرت کا ذکر ہے، اس سے مراد دعوت الی اللہ ہے- دعوت الی اللہ، اللہ رب العالمین کا سب سے زیادہ محبوب کام ہے- اس بناپر اس کام کو اللہ نے اپنی مدد کرنا بتایا ہے-
دعوت الی اللہ کے کام کو اللہ کی مدد کرنا بتایا گیاہے، اس پہلو سے غور کیجئے تو یہ کہنا درست ہوگاکہ قرآن کی اس آیت کے ذریعہ اللہ یہ اعلان کررہا ہے کہ— اے بندے، تو دعوت کی پلاننگ کر، مددگار اسباب میری طرف سے تمھارے اوپر انڈیل دئے جائیں گے- محبوب بھائی سے میں نے کہا کہ ممبئی کو انڈیاکی کمرشیل راجدھانی کہاجاتا ہے- شاید اللہ نے یہ مقدر کردیا ہو کہ ممبئی دعوت الی اللہ کے کام کی دعوتی راجدھانی بنے- موجودہ کمیونی کیشن کے زمانے میں یہ بات پوری طرح ممکن ہے- اس کے ممکن ہونے میں کسی شک کی گنجائش نہیں-
الرسالہ کا دعوتی مشن پورے معنوں میں ایک مشن ہے، لیکن اس کی کوئی فارمل تنظیم (formal organisation) نہیں- اس مشن سے وابستہ لوگ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں، اور ہر ایک ذاتی جذبہ (self spirit) کے تحت کام کررہا ہے- ہر ایک اس طرح کی سرگرمی کے ساتھ کام کررہا ہے، گویا کہ یہ اس کا ذاتی کام ہے-
ابتدائی زمانے کا واقعہ ہے، میں ایک عرب ملک میں تھا، وہاں ایک عرب شیخ نے پوچھا کہ آپ کا برنامج (پروگرام) کیا ہے- میں نے کہا: برنامجنا ہو إعداد المبرمجین (ہمارا پروگرام، پروگرام ساز انسان بناناہے)-
اللہ کے فضل سے آج یہ بات واقعہ بن چکی ہے- الرسالہ مشن کے افراد مختلف ملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں- معروف معنوں میں ان کا کوئی تنظیمی ڈھانچہ نہیں- وہ رسمی طورپر کسی مرکزی ہدایت سے بندھے ہوئے نہیں- اس کے باوجود ہر ایک سرگرم ہے-
اس کا سبب یہ ہے کہ الرسالہ مشن کوئی سیاسی مشن نہیں- الرسالہ مشن لوگوں کو جنت کی طرف بلانے کا مشن ہے- الرسالہ مشن قرآن کی اِس آیت کی یاددہانی ہے کہ لمثل ہذا فلیعمل العاملون (الصافات: 61)- اس جنتی نشانہ نے الرسالہ مشن کو ہر ایک کے لئے اس کے ذاتی انٹرسٹ کی چیز بنا دیا ہے-
واپس اوپر جائیں

ہدایت اور ضلالت

قرآن بلاشبہہ کتابِ ہدایت ہے- قرآن بتاتا ہے کہ اِس دنیا میں انسان کے لیے صراطِ مستقیم کیا ہے- لیکن اِسی کے ساتھ قرآن میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ قرآن سے ہدایت پانے کا انحصار اِس پر ہے کہ آدمی خود ہدایت کا طالب ہے یا نہیں- اِس حقیقت کو قرآن میں اِن الفاظ میں بتایا گیا ہے: یضل بہ کثیرا ویہدی بہ کثیراً وما یضل بہ إلا الفاسقین (2:26) یعنی اللہ قرآن کے ذریعے بہت سے لوگوں کو گمراہ کرتا ہے اور بہت سے لوگوں کو اس کے ذریعے سے راہ دکھاتا ہے- اور وہ گمراہ کرتا ہے، اِس کے ذریعے اُن لوگوں کو جو نافرمانی کرنے والے ہیں-
یہاں یہ سوال ہے کہ ایک ہی کتاب (قرآن) کس طرح ہدایت کا ذریعہ بھی بنتی ہے اور ضلالت کا ذریعہ بھی- یہ معاملہ اُس وقت سمجھ میں آتا ہے جب کہ یہ ذہن میں رکھا جائے کہ قرآن کا موضوع کیا ہے- یہ فرق موضوع (subject)کے فرق کی بنا پر پیدا ہوتا ہے-
علمی اعتبار سے، موضوع کی دو قسمیں ہیں— ایک سائنسی موضوع اور دوسرا انسانیاتی موضوع- سائنسی موضوع میں ریاضیات مدارِ استدلال ہوتی ہے- ریاضیات میں اختلاف کی گنجائش نہیں ہوتی، اور اگر کوئی شخص اختلاف کرے تو نہایت آسانی کے ساتھ اس کو سٹل (settle) کیاجاسکتا ہے- لیکن انسانیات (humanities)کا معاملہ اِس سے مختلف ہے- یہاں ہمیشہ اختلاف کی گنجائش ہوتی ہے، اور اگر کوئی شخص اختلاف کرے تو اس کو ختم کرنے کی کوئی حتمی بنیاد نہیں ہوتی-
مثال کے طورپر قرآن میں ہے: السارق والسارقة فاقطعوا أیدیہما(5:38)- بظاہر یہ ایک حکم ہے، لیکن لوگوں نے مختلف انداز میں اس کی تاویل کی ہے- مثلاً کوئی کہتا ہے کہ اُس سے مراد ہر سارق (چور) ہے اور کوئی کہتا ہے کہ اس سے مراد صرف عادی سارق ہے- کوئی کہتا ہے کہ سارق کی صرف انگلی کاٹنا کافی ہے اور کوئی کہتا ہے کہ اس کا پورا ہاتھ کاٹنا ضروری ہے- کوئی کہتا ہے کہ اِس آیت میں ’’قطعِ ید‘‘ کا لفظ اپنے حقیقی معنی میں ہے اور کوئی کہتا ہے کہ قطعِ ید سے مراد علامتی قطع ہے، نہ کہ حقیقی قطع، وغیرہ-
قرآن کی آیتوں کی تاویل میں اِس قسم کا اختلاف ہمیشہ ممکن رہتا ہے- ایساکوئی فارمولا نہیں جس سے اِس تفسیری تعدّد کو حتمی طور پر ختم کردیا جائے، جس طرح دو اور دو چار کے معاملے میں ممکن ہوتا ہے- قرآن کے معاملے میں حتمی تاویل ایک انفرادی معاملہ ہے، یعنی جو شخص کسی تاویل کومان لے، وہ اس کے لیے حتمی تاویل بن جائے گی، ورنہ نہیں-
قرآن کے کلام کی نوعیت کسی کمی کی بنا پر نہیں ہے، بلکہ وہ عین مطلوب ہے- واقعہ یہ ہے کہ قرآن صرف بیانِ حقیقت (statement of fact) نہیں ہے، بلکہ وہ انسان کی سنجیدگی کا امتحان بھی ہے- قرآن اگر دو اور دو چار کی زبان میں ہوتا تو اس کے قاری کا امتحان نہیں ہوسکتا تھا- ایسی صورت میں قرآن میں جبر (compulsion)کا عنصر شامل ہوجاتا، اور یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ جبر اور آزادانہ امتحان (test)دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے-
اصل یہ ہے کہ قرآن حقیقتِ واقعہ کا ایک اظہار ہے- اب جو شخص حقیقت کا سچا متلاشی ہو، یعنی وہ اِس معاملے میں آخری حد تک سنجیدہ ہو کہ اس کو سچائی کو دریافت کرنا ہے،اس کا یہ احساس ہو کہ اگر وہ سچائی کو دریافت کیے بغیر مرجائے تو اس کی موت ایک بد ترین قسم کی ناکام موت ہوگی، تب وہ ضرور سچائی کو پالے گا-
کسی شخص کے اندر اِس ذہن کا موجود ہونا اپنے آپ میں اِس بات کی ضمانت ہے کہ حقیقت جب اس کے سامنے ظاہر ہو تو وہ اس کے انکار کا تحمل نہ کرسکے- وہ اپنے سدادِ فکر (sound thinking) کی بنا پر التباس کے عناصر (elements of doubt) کا تجزیہ کرکے ان کو اپنے لیے غیر موثر بنادے- ایسا شخص کبھی گمراہ نہ ہوگا- اس کا حال اُس انسان جیسا ہو جائے گا جس کے سامنے حقیقت آئے تو وہ فوراً اس کو پہچان لے- یہی وہ حقیقت ہے جس کو قرآن میں تمثیل کی زبان میں یکاد زیتہا یضیئ ولو لم تمسسہ نار (24:35) کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے- (24 جون 2014 )
واپس اوپر جائیں

ایک انسانی کمزوری

انسان کی یہ ایک عام کمزوری ہے کہ وہ ملےہوئے کو اپنے خانہ میں ڈال لیتا ہے اور نہ ملے ہوئے کو دوسرے کے خانہ میں- اس کا مہلک نتیجہ (disastrous result) یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے بارے میں بیجا فخر (false pride)میں مبتلا ہوجاتاہے اور دوسرے کے بارے میں بیجا شکایت (false complaint) میں-اس کے بجائے یہ ہونا چاہئے کہ آدمی ملی ہوئی چیز کو عطیۂ الہی (divine gift) سمجھے اور نہ ملی ہوئی چیز کو اپنی کوتاہی کے خانہ میں ڈال دے- یہ دونوںعادتیں انسانی شخصیت کی تعمیر میں فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہیں- ایک عادت سے انسان کے اندر مثبت شخصیت کی تعمیر ہوتی ہے، اور دوسری عادت سے، اس کے اندر منفی شخصیت بنتی ہے، اور اِس دنیا میں منفی شخصیت سے بری کوئی چیز نہیں-
اِس مسئلہ کا حل یہ ہےکہ آدمی مطالعہ اور غور وفکر کے ذریعہ اپنی معرفت کو بڑھائے-وہ اپنے آپ کو حقیقت شناسی کی وسعت تک پہنچائے- اس کو حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: اللہم أرنا الأشیاء کما ہی (خدایا، مجھ کو اس قابل بنا کہ میں چیزوں کو ویسا ہی دیکھوں، جیسا کہ وہ ہیں)
آدمی کی یہ کمزوری ہے کہ وہ چیزوں کو ایز اٹ از (as it is) نہیں دیکھ پاتا- وہ اپنے بارے  میں ضرورت سے زیادہ اندازہ (overestimation) کرتاہے- اور دوسروں کے بارے میں ضرورت سے کم اندازہ (underestimation) میں مبتلا رہتا ہے- یہ غیر حقیقت پسندانہ مزاج نہایت مہلک ہے- جو لوگ اِس غیر حقیقت پسندانہ مزاج کا شکار ہوں، اُن کے لیے یہ اندیشہ ہے کہ وہ دنیا میں ناکام ہوجائیں، اور آخرت میں بھی ناکام-
صحیح یہ ہے کہ آدمی کے اندر اپنے بارے میں تواضع (modesty) کا مزاج ہو- یعنی اپنے آپ کو کم سمجھے، اور دوسروں کے بارے میں، اُس کے اندر اعتراف (acknowledgement) کا مزاج ہو- یہی مزاج اس دنیا میں، آدمی کی کامیابی کا ضامن ہے-
واپس اوپر جائیں

خدا کی سنت

تخلیقی منصوبہ (creation plan) کے مطابق، خدا کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ وہ خود واقعات کو ظہور میں لائے۔ خدا انسان کے لیے موقع (opportunity)فراہم کرتاہے۔ یہ انسان کا اپنا کام ہے کہ وہ اِس موقع کو استعمال کرکے واقعے کو ظہور میں لائے۔ مثلاً خدا اپنے نظام کے تحت بارش برساتا ہے، وہ براہِ راست طورپر فصل نہیں اگاتا۔ یہ انسان کا اپنا کام ہے کہ وہ بارش سے پیدا شدہ موقع کو استعمال کرے اور زمین پر فصل اگائے-یہی معاملہ دعوت الی اللہ کا ہے۔ دعوت اہلِ ایمان پر فرض ہے، مگر ایسا نہیں ہوگا کہ اللہ اپنے فرشتوں کو زمین پر بھیجے اور فرشتے براہِ راست طورپر دعوت کا کام انجام دیں۔ یہ اہلِ ایمان کی اپنی ذمے داری ہے کہ وہ مواقع (opportunity) کو پہچانیں اور ان کو استعمال کریں-مثال کے طورپر دعوت الی اللہ کا کام قدیم زمانے میں صرف مقامی طورپر ہوسکتا تھا، کیوں کہ اُس وقت عالمی ذرائع موجود نہ تھے، مگر موجودہ زمانے میں عالمی مواصلات (global communication) کے ذرائع وجود میں آگئے ہیں۔ یہ تبدیلی اِس بات کا اشارہ ہے کہ قدیم زمانے میں دعوت اگر مقامی اعتبار سے فرض ہوتی تھی تو اب دعوت اہلِ ایمان کے لئے ایک عالمی فریضہ بن چکی ہے-
قدیم زمانے میں پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا موجود نہیں تھا۔ عالمی جغرافیہ کا علم بھی لوگوں کو نہ تھا۔ آمد ورفت کے ذرائع بھی نہایت محدود تھے۔ اِن اسباب کی بنا پر قدیم زمانے میں مقامی دعوت سے بھی دعوت کا فریضہ ادا ہوجاتا تھا، مگر موجودہ زمانے میں یہ چیز لازمی فریضہ بن چکی ہے کہ اہلِ ایمان جدید عالمی ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے حق کی دعوت کو عالمی سطح پر پہنچائیں۔ مزید یہ کہ دعوت صرف اعلان (announcement)کا نام نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے حکمت اور خیرخواہی کے تقاضوں کی رعایت بھی ضروری ہے۔ اِس لیے موجودہ زمانے میں اہلِ ایمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ یہ دونوں کام انجام دیں— اہلِ عالم تک اللہ کے پیغام کو پہنچانا اور اہلِ عالم کے لیے کامل طورپر خیر خواہ بننا-
واپس اوپر جائیں

دو ذمّے داری

آخرت کی نجات کے لیے کیا شرائط ہیں۔ اس کی دو شرطیں ہیں۔ ایک شرط وہ ہے جو مومن ہونے کی حیثیت سے آپ سے مطلوب ہے۔ دوسری شرط وہ ہے جو خاتم النبیین کا امتی ہونے کی حیثیت سے آپ کے اوپر عائد ہوتی ہے۔پہلی شرط کا خلاصہ اس دعا میں ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: نرجو رحمتک ونخشی عذابک(کنز العمال: 21948) یعنی ہم تیری رحمت کے امیدوار ہیں اور تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آخرت کی نجات اس کے لیے ہے جو درجۂ رجاء میں خدا کی رحمت کا حریص ہو، اور درجۂ خشیت میں خدا کے عذاب کا اندیشہ رکھتا ہو۔
ایک شخص اگر اپنے بیٹے کے لیے بہتر مستقبل کا حریص ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوگا کہ وہ صرف زبان سے اس مفہوم کا جملہ بولتاہے۔ اس کے لیے کچھ ظاہری کارروائی کردیتا ہے۔ بلکہ جو شخص فی الواقع اپنے بیٹے کے لیے بہتر مستقبل چاہتا ہو وہ اس کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا نشانہ بنالے گا، وہ رات اور دن اسی کے لیے سوچے گا، وہ اپنے وقت اور اپنے مال اور اپنے تمام اثاثے کا بہترین استعمال یہ سمجھے گا کہ ان کو بیٹے کے مستقبل کی تعمیر میں لگا دے۔
اسی طرح جو شخص حقیقی معنوں میں خدا کی رحمت کا اور اس کی جنت کا حریص بن جائے، وہ اس کو کافی نہیں سمجھ سکتا کہ مخصوص اوقات میں اس مفہوم کے الفاظ اپنی زبان سے دہرادے۔ یا وقتی طورپر کچھ رسمی اعمال ادا کردیا کرے۔ اس کے برعکس، اس کا معاملہ یہ ہوگا کہ خدا کی رحمت اور جنت کا حریص بننا اس کی پوری شخصیت کے اوپر چھا جائے گا۔ اس کی سوچ اور اس کے جذبات اسی رخ پر چلنے لگیں گے۔ وہ اپنے تمام اثاثے کو اس کام کے لیے وقف کردے گا کہ وہ ان کے ذریعہ سے اپنے لئے جنت کے حصول کو یقینی بنا سکے۔
اس سلسلے میں دوسری شرط وہ ہے جو خاتم النبیین کا امتی ہونے کی حیثیت سے مسلمان پر عائد ہوتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت ختم ہوگئی، مگر اسی کے ساتھ دوسری سنگین حقیقت یہ ہے کہ کارِ نبوت کی ذمے داری بدستور باقی ہے، اور یہ کام بعد کی نسلوں کے اوپر، آپ کے امتیوں کو اُسی طرح کرنا ہے جس طرح پیغمبر آخر الزماں نے اپنی ہم عصر نسل کے اوپر کیا تھا۔
اسی عمل کا نام دعوت الی اللہ ہے۔ مسلمان کے اوپر لازم ہے کہ وہ اس دعوتی کام کو اس کے تمام تقاضوں کے ساتھ انجام دے، ورنہ سخت اندیشہ ہے کہ وہ قیامت میں خدا کی پکڑ کی زد میں آجائے۔
مسلمان ہونا کوئی فخر کی بات نہیں، بلکہ وہ ذمہ داری کی بات ہے- جو شخص مسلمان ہونے کی ذمے داری کو اداکرے، وہی مسلمان ہے، اور جو شخص مسلمان ہونے کی ذمے داری کو ادا نہ کرے، اس کے لئے سخت اندیشہ ہے کہ وہ اللہ کے یہاں ایک ناقابلِ قبول انسان ٹھہرے، وہ اللہ کے یہاں مومن ومسلم کی حیثیت سے قبول نہ کیا جائے-
واپس اوپر جائیں

فریکونسی کا مسئلہ

اگر آپ کے پاس ریڈیو سیٹ تو ہو، لیکن ریڈیو اسٹیشن سے جس فریکونسی (frequency) پر پیغام نشر ہورہا ہے، آپ کا ریڈیوسیٹ اس فریکونسی (frequency) پر کام نہ کرتا ہو تو آپ کے لئے وہ سیٹ بے کارہے- جب تک آپ اپنے ریڈیو سیٹ کو مطلوبہ فریکونسی (frequency)پر نہیں لائیں گے، آپ ریڈیو اسٹیشن کی نشریات سے استفادہ نہیں کرسکتے- (ماہ نامہ الشریعہ، پاکستان، مارچ 2005)
یہی معاملہ ربانی نشریات کا ہے- اس دنیا میں ہر لمحہ ربانی پیغام نشر ہورہا ہے، ہر لمحہ یہ خاموش آواز آرہی ہے کہ کیا کوئی سننے والا ہے جو سنے، کیا کوئی نصیحت لینے والا ہے جو نصیحت لے- اگر آپ کا ذہن پہلے سے ان ربانی نشریات کو اخذ کرنے کے لیے تیار ہو تو آپ کا ذہن ان ربانی نشریات کو قبول کرے گا، اور اگر آپ کا ذہن تیار نہ ہو تو ربانی نشریات آئیں گی، اور آپ کے پاس سے گزر جائیں گی، لیکن آپ اس کو اخذ کرنے سے محروم رہیں گے-
اِس دنیا میں ہر آدمی کو اپنے آپ کو شعوری طورپر تیار کرنا ہے- ہر آدمی کو ربانی نشریات کے لیے آخذ(recipient) بننا ہے- دنیا میں روحانی ترقی کا یہی واحد ذریعہ ہے- اِسی سے انسان کے اندر وہ شخصیت بنتی ہے، جس کو مزکیّٰ شخصیت (purified personality) کہاگیا ہے- جس آدمی کے اندر ربانی نشریات کو اخذ کرنے کا یہ مادہ نہ ہو، وہ کبھی روحانی اعتبار سے ترقی نہیں کرسکتا-
قرآن میںاس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: وَلَوْ عَلِمَ اللّٰہُ فِیْہِمْ خَیْرًا لَّاَسْمَعَہُمْ (الانفال: 23) اور اگر اللہ ان میں خیر کو جانتا تو وہ ضرور ان کو سناتا -یہاں جوبات متعدی کے صیغے (transitive form)میں کہی گئی ہے، وہ لازم کے صیغے (intransitive form)میں مطلوب ہے، یعنی اگر ان کے اندر صلاحیت ہوتی تو وہ ضرور ہدایت کو پالیتے- گویا کہ یہ مسئلہ فقدانِ صلاحیت کا ہے، نہ کہ فقدانِ ہدایت کا-(20 جون 2014)
واپس اوپر جائیں

پیغمبر کا اُسوہ

قرآن کی سورہ نمبر 12 میں حضرت یوسف کا واقعہ بیان ہوا ہے۔ اِس قصے کو قرآن میں احسن القصص (یوسف: 2) کہاگیا ہے۔ اِس قصے کے ’احسن القصص‘ ہونے کے کئی پہلو ہوسکتے ہیں، لیکن اُس کا ایک پہلو، حضرت یوسف کا وہ طریقِ کار ہے جو انھوںنے بادشاہِ وقت کے معاملے میں اختیار کیا۔
اِس طریقِ معاملہ کو قرآن میں اس طرح بتایا گیا ہے کہ بادشاہِ مصر نے حضرت یوسف کی شخصی صلاحیت سے متاثر ہو کر اُن سے کہاکہ تم کو میری سلطنت کے خزائن پر اختیار ہوگا، تاہم جہاں تک ملک کے قانونی نظام کا تعلق ہے، اُس میںحسبِ سابق، بادشاہ کا قانون جاری رہے گا۔ اِس بات کو بائبل میںاِس طرح بیان کیاگیا ہے:
’’اور فرعون (شاہِ مصر) نے یوسف سے کہا: چوں کہ خدانے تجھے یہ سب کچھ سمجھا دیا ہے، اِس لیے تیری مانند دانشور اور عقل مند کوئی نہیں۔ سو، تو میرے گھر کا مختار ہوگا، اور میری ساری رعایا تیرے حکم پر چلے گی۔ فقط تخت کا مالک ہونے کے سبب سے میں بزرگ تر ہوں گا‘‘۔ (پیدائش41: 39-40 )
حضرت یوسف کے زمانے میں مصر کا جو بادشاہ تھا، وہ مُنفعل مزاج کا آدمی تھا۔ عام بادشاہوں کی طرح وہ جارحانہ مزاج کا انسان نہ تھا۔ چناں چہ وہ راضی ہوگیا کہ تخت کا مالک وہ رہے، لیکن اُمورِ سلطنت کو حضرت یوسف انجام دیں۔ حضرت یوسف نے بادشاہ کی اِس پیش کَش کو قبول کرلیا۔ بادشاہ کے برائے نام اقتدار کے تحت، وہ اپنا پیغمبرانہ مشن چلاتے رہے۔
قرآن کے مطابق، ہر پیغمبر کا عمل ہمارے لیے یکساں طورپر درست نمونہ ہے۔ (الأنعام: 90) اِس بنا پر حضرت یوسف کا نمونہ بھی ہمارے لیے اتنا ہی قابلِ اتّباع ہے،جتنا کہ پیغمبر اسلام یا اورکوئی پیغمبر کا نمونہ۔ یہ نمونہ اِس اصول پر مبنی ہے کہ اگر سیاسی حاکم اصل مشن میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالے تو اُس سے ٹکراؤ نہیںکیا جائے گا۔ بلکہ اُس کو تسلیم کرتے ہوئے اُس کے تحت، اپنے کام کی منصوبہ بندی کی جائے گی۔
حضرت یوسف کو یہ موقع اِس لیے ملا تھا کہ ان کا مُعاصر بادشاہ منفعل مزاج کا آدمی تھا۔ موجودہ زمانے میں اب یہ معاملہ کسی کے شخصی مزاج کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ یہ یوسفی اصول اب عالمی طورپر تسلیم شدہ اصول (universally accepted norm) کا درجہ حاصل کرچکا ہے۔ اب اس دورِ آزادی میںتمام حکمرانوں نے یہ مان لیا ہے کہ وہ اپنے مخصوص سیاسی دائرے کے باہر کسی معاملے میں تعرّض نہیں کریں گے۔ لوگوں کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ جس طرح چاہیں اپنے امور کی تنظیم کریں، صرف ایک شرط کے ساتھ کہ وہ دوسروں کے خلاف تشدد کا کوئی فعل نہیں کریں گے۔
حضرت یوسف کے زمانے میں جو چیز استثنائی موقع کی حیثیت رکھتی تھی، وہ اب عمومی موقع کی حیثیت حاصل کرچکی ہے۔ اِس موقع کو دعوتِ حق کے لیے استعمال کرنا، پیغمبر کے طریقے کی پیروی ہے۔ اور اِس کے خلاف عمل کرنا، پیغمبر کے طریقے سے انحراف کے ہم معنیٰ ہے۔
واپس اوپر جائیں

الرسالہ مشن کا دوسرا دور

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مشن کا آغاز مکہ میں کیا- تیرہ سال کے بعد آپ نے مکہ سے ہجرت کیا اور مدینہ میں قیام فرمایا- جب آپ مدینہ کی سرحد پر پہنچے، اس وقت اہلِ مدینہ کے ایک گروہ نے آگے بڑھ کر آپ کا استقبال کیا- اس وقت آپ کے ساتھ حضرت ابو بکر بھی تھے- دونوں کو خطاب کرتے ہوئے اہلِ مدینہ نے کہا: أدخلا آمنَین مطاعَین(مسند احمد، رقم الحدیث: 12234) یعنی آپ دونوں مدینہ میں داخل ہوجائیں ، آپ دونوں کے لیے یہاں امن ہے، اور آپ دونوں ہمارے لیے قابلِ اتباع ہیں-
مدینہ میں اس حیثیت سے آپ کا استقبال کیوں کر ممکن ہوا- وہ قبل از ہجرت عمل کی بنا پر ممکن ہوا تھا- ہجرت سے پہلے کچھ اصحاب مدینہ گئے، وہاں وہ لوگوں کے سامنے قرآن کی دعوت پیش کرتےرہے- اس وقت مطبوعہ قرآن موجود نہ تھا، اس لئے وہ اپنے حافظہ سے لوگوں کو قرآن پڑھ کر سناتے رہے- اس بنا پر وہ وہاں مقری کہے جاتے تھے- یہ گویا ہجرت سے پہلے ابتدائی تیاری کا معاملہ تھا- اس ابتدائی تیاری کے نتیجہ میں یہ ہوا کہ مدینہ میں اسلام گھر گھر میں داخل ہوگیا- جیساکہ روایت میں آیا ہے: لم تبق دار من دور الأنصار إلا وفیہا ذکر رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم (السیرة النبویة لابن کثیر : 2/179) یعنی مدینہ کے گھروں میں سے کوئی گھر نہ بچا، جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چرچا نہ ہورہا ہو-
یہ معاملہ جو مدینہ میں پیش آیا، وہ بھی رسول اور اصحابِ رسول کی سنتوں میں سے ایک سنت ہے- کوئی دعوتی مشن اسی وقت کامیاب ہوسکتا ہے، جب کہ اس کے افراد اس سنت پر منظم انداز میں عمل کریں- وہ مشن سے پہلے قبل ِ مشن (pre-mission) کی اہمیت کو سمجھیں، اور اس پر عمل کریں- یہ عمل صرف اس وقت کامیاب ہوسکتا ہے جب کہ وہ پرامن ہو اور اس کو مکمل طورپر لو پروفائل (low profile) کے انداز میں انجام دیا جائے-
اللہ کے فضل سے الرسالہ مشن کے ساتھ ایسےہی معاملہ پیش آیا- اسلامی مرکز1970 میں قائم ہوا- اس کے بعد ماہ نامہ الرسالہ 1976 میں جاری ہوا- اس طرح یہ دعوتی مشن تقریباً چالیس سال تک برابر چلتا رہا- اس کے بعد اس کے معاون کے طور پر الرسالہ انگریزی، فروری 1984 میں جاری ہوا جو کہ اب ماہ نامہ اسپرٹ آف اسلام کی صورت میں بنگلور سے نکل رہا ہے- اس درمیان دوسرے ذرائع ابلاغ کے ذریعہ بھی بقدر امکان کام ہوتا رہا-
یہ گویا ابتدائی تیاری کا عمل تھا، جو تقریباً چالیس سال تک جاری رہا- اس مسلسل کوشش کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب ہر جگہ ایسے لوگ قابل لحاظ تعداد میں موجود ہیں، جو پابندی کے ساتھ الرسالہ کا مطالعہ کررہے ہیں- نیز انھوں نے الرسالہ مشن کے تحت شائع ہونے والی کتابوں کو بھی وسیع پیمانے پر پڑھا ہے- ایسے افراد اور ایسے حلقے نہ صرف انڈیا میں، بلکہ مختلف ملکوں میں بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں-
اللہ کا شکر ہے کہ انڈیا کے اندر اور انڈیا کے باہر ایسے لوگ وسیع پیمانے پر متحرک ہوگئے ہیں- وہ ہر جگہ مختلف طریقوں سے اس مشن کو آگے بڑھارہے ہیں- خاص بات یہ ہے کہ یہ کام کسی مرکزی ہدایت یا کنٹرول کے بغیر خود اپنے جذبہ (spirit) کے ساتھ ہورہاہے- ہرجگہ بڑی تعداد میں ایسے لوگ ہیں جو لأجل اللہ (for the sake of God) اس کام کو انجام دے رہے ہیں- وہ جدیدحالات کے لحاظ سے نئے طریقوں کو اس مقصد کے لیے استعمال کررہے ہیں- یہ کام انتہائی حد تک غیر سیاسی (non-political) انداز میں انجام دیا جارہا ہے-
یہ گویا مذکورہ سنت رسول کا احیاء ہے- دونوں کے درمیان اگر فرق ہے تو وہ صرف ظاہر کے اعتبار سے ہے، نہ کہ اسپرٹ کے اعتبار سے- اس سنت پر عمل، قدیم زمانے میں اُس وقت کے حالات کے مطابق کیا گیا تھا- موجودہ زمانے میں اِس سنت پر عمل، جدید حالات کے اعتبار سے انجام پا رہا ہے- اس سنت پر عمل کا نتیجہ پہلے قدیم حالات کے اعتبار سے ظاہر ہوا تھا- موجودہ زمانے میں اس سنت پر عمل کا نتیجہ جدید حالات کے اعتبار سے پیش آرہاہے-
واپس اوپر جائیں

امت ِ مسلمہ کا کیس

ڈاکٹر محمود احمد غازی (وفات : 2010 ) نے 2 جنوری 2005 کو ایک تقریر کی - اِس تقریر کا اہتمام الشریعہ اکیڈمی گوجرانوالہ (پاکستان) نے کیا تھا- اِس تقریر کا عنوان یہ تھا: مغرب کا فکری وتہذیبی چیلنج اور علماء کی ذمہ داریاں‘‘- یہ تقریر 22 صفحات پر مشتمل ہے- تقریر کا آخری پیراگراف یہ ہے:
’’اپنی اِس تلخ نوائی کو میں ایک فارسی شعر پر ختم کرتا ہوں، فارسی کا شعر ہے:
نوائے من ازاں پُرسوز وبے باک وغم انگیز است
کہ خاشاکم درِ شعلہ افتاد وبادِ صبح دم تیز است
یعنی میں اِس لیے تلخ باتیں کررہا ہوں کہ میرے آشیانے کو آگ لگ گئی ہے، اور ہوا تیز ہے اور مجھے جلدی بچانے کی ضرورت ہے- امرِ واقعہ یہی ہے کہ آشیانے کو آگ لگ چکی ہے اور بادِ صبح دم تیز ہے- آشیانہ جل جانے کا خطرہ ہے اور بہت جلد اس کو بچانے کی ضرورت ہے‘‘- (ماہ نامہ الشریعہ، مارچ 2005)
موجودہ زمانے کے تمام علماء اور مسلم رہنما اِسی قسم کی منفی بات کرتے ہیں- ہر ایک کو امتِ محمدی کا ’’آشیانہ‘‘ جلتا ہوا دکھائی دیتا ہے- یہ طرزِ فکر یقینی طورپر غیر اسلامی ہے، کیوں کہ وہ اسوۂ محمدی کے خلاف ہے- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ ساتویں صدی عیسوی کے نصف اول کا زمانہ ہے- جب آپ کی بعثت ہوئی تو مکہ پر مشرکین کا قبضہ تھا- کعبہ کو عملاً بت خانہ بنا دیا گیا تھا- مدینہ پر یہودیوں کا دبدبہ قائم تھا- جزیرہ نمائے عرب کے اطراف میں بازنطینی حکومت اور ساسانی حکومت قائم تھی جو کھلے طورپر اسلام کی حریف (rival) بنی ہوئی تھی- اِس کی ایک مثال یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ایک دعوتی مکتوب ایک صحابی کے ذریعے ایران کے حکمراں کسری کے پاس بھیجا-اس نے آپ کے مکتوب کو پھاڑ کر پھینک دیا اور کہا: یکتب إلیّ بہذا وہو عبدی (البدایة والنہایة: 4/307) یعنی وہ میرے پاس ایسا خط بھیجتا ہے، حالاں کہ وہ میرا غلام ہے- یہ حالات اُن حالات سے ہزاروں گنا زیادہ شدید تھے جو موجودہ زمانے میں مسلمانوں کوپیش آرہے ہیں، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اُن کو لے کر منفی رد عمل کا اظہار نہیں کیا- ایسی حالت میں مسلم رہنماؤں کو چاہیے کہ وہ اپنی سوچ کو بدلیں، نہ کہ وہ دوسروں کے خلاف احتجاج کریں-
واپس اوپر جائیں

غلو کیا ہے

غلو کا لفظی مطلب ہے انتہاپسندی(extremism) ،یعنی کسی حکم شرعی میں مطلوب حد سے تجاوز کرنا- حد سے تجاوز کرنے کی یہ سوچ کب پیدا ہوتی ہے- یہ دراصل شفٹ آف ایمفیسس (shift of emphasis) کا نتیجہ ہوتا ہے، یعنی جس چیز پر جتنا زور دینا چاہئے، اس پر اس سے زیادہ زور دینا -مثلاً اسلام میں سیاست کا مقام صرف جزئی یا اضافی ہے، مگر اس کو اتنا بڑھانا کہ سیاست ہی کی بنیاد پر پورے دین کی تعبیر وتشریح کی جائے، یہ حد سے تجاوز کرنا ہے اور اس تجاوز کو غلو کہا جائے گا-
اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئےایک صاحب نے کہا کہ آپ دعوت اور متعلقات دعوت پر اتنا زور دیتے ہیں، وہ بھی غلو کی تعریف میں آتا ہے- میں نے کہا کہ ہر گز نہیں- دعوت الی اللہ کا معاملہ یہ ہے کہ وہ پیغمبر کی اہم ترین سنت ہے- حقیقت یہ ہے کہ پیغمبر کی بعثت ہی اس کے لئے ہوئی- مگر موجودہ زمانے میں یہ ہوا کہ مدعو قوموں کو مسلمانوں نے اپنا رقیب یا حریف (rival) سمجھ لیا- اس بنا پر ان کے اندر دعوت کا محرک (incentive)ختم ہوگیا- اس لئے ہم اس سنت نبوی کو زندہ کرنے کے لئے اس پر بہت زیادہ زور دیتے ہیں- اس کو ایمفیسس (emphasis) کہاجائے گا، نہ کہ شفٹ آف ایمفیسس(shift of emphasis) -
غلو کبھی اصل دین میں نہیں ہوتا، غلو جب بھی ہوتا ہے، وہ ظواہر دین میں ہوتا ہے- اصل دین میں شدتِ بیان ہمیشہ مطلوب ہوتی ہے- اصل دین میں یہ شدتِ بیان خود قرآنی اسلوب ہے، اور یہی اسلوب ہم کو احادیث میں ملتا ہے-
اصل دین میں شدتِ بیان کا یہ فائدہ ہے کہ اس سے آدمی کے اندر روحِ دین زندہ ہوتی ہے، اور روحِ دین کے زندہ ہونے سے دین کے تمام پہلو اپنے آپ زندہ ہوجاتے ہیں- روح دین میں شدت کا طریقہ ہی مطلوب طریقہ ہے، البتہ جو ظواہر دین ہیں، ان میں شدت کے بجائے نرمی کا طریقہ اختیار کرنا چاہئے- اسی فرق کو جاننے کا نام حکمتِ دین ہے-
واپس اوپر جائیں

حیاتِ انسانی کی توجیہہ

انسان کے بارے میں سوچنے کے دو طریقے ہیں— ایک ہے فرد(individual) کو لے کر سوچنا اور دوسرا ہے اجتماعی نظام (social system) کو لے کر سوچنا- اگر آپ یہ بتانا چاہیں کہ ایک انسان اپنی انفرادی سطح پر کس طرح سوچے، عقیدہ اور عمل کے اعتبار سے اس کا نشانہ کیا ہو- اِس طرح اگر آپ کسی شخص کے انفرادی رویّے کے بارے میں ایک نقطہ نظر متعین کرنا چاہیں تو آپ بآسانی اس کا تعین کرسکتے ہیں- کوئی شخص خواہ اس کو مانے یا نہ مانے، لیکن جہاں تک آپ کے نقطہ نظر کی بات ہے، وہ کسی کنفیوزن کے بغیر ایک واضح بات ہوگی-
اجتماعی نظام یا مجموعہ کا معاملہ اِس سے مختلف ہے- اجتماعی نظام کی کوئی واحد صورت بنانا ممکن نہیں، کیوں کہ اجتماعی نظام کا کوئی قابل عمل نقشہ صرف اس وقت بن سکتا ہے جب کہ ہر شخص اُس کو یکساں طورپر مانے- مگر انسان کی اجتماعی زندگی کی تشکیل اِس طرح ممکن نہیں ہوتی، اِس لیے انسان کی اجتماعی زندگی کا کامل معنوں میں کوئی یکساں نظام بنانا بھی ممکن نہیں-
ایسی حالت میں ضروری ہے کہ زندگی کے دونوں شعبوں کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھا جائے- فرد کے معاملہ کو آئیڈیل سے جانچا جائے- لیکن جہاں تک اجتماعی زندگی کا معاملہ ہے، اُس کے معاملہ میں آئیڈیل کے بجائے یہ دیکھا جائے کہ عملاً کیا چیز ممکن ہے اور کیا چیز ممکن نہیں- ایک فرد سے آپ کہہ سکتے ہیں کہ تم اِس طرح رہو، لیکن مجموعے پر اس کو عملاً نافذ کرنا ممکن نہیں- جو لوگ یہ غلطی کریں کہ وہ فرد اور مجموعہ دونوں کو ایک معیار (yardstick)سے جانچیں، وہ یقیناً مایوسی کا شکار ہوجائیں گے، وہ کبھی اپنے عمل کی صحیح منصوبہ بندی نہ کرسکیں گے-فرد اور اجتماع کی یہ تقسیم بے حد اہم ہے- کوئی تحریک اسی وقت نتیجہ خیز ہوسکتی ہے، جس میں اس فرق کو ملحوظ رکھا گیا ہو- جس تحریک میں اس فرق کو ملحوظ نہ رکھا جائے، وہ تحریک عملاً بے نتیجہ ہو کر رہ جائے گی- ظاہری دھوم کے باوجود وہ سماج کو کوئی مثبت چیز نہ دےسکے گی- کسی عمل کے درست ہونے کا معیار یہ ہے کہ اس کو نتیجہ کے اعتبار سے جانچا جائے-
واپس اوپر جائیں

ترتیبِ قرآن

قرآن 23 سال کی مدت میں نجماً نجماً (قسط وار) اترا- قرآن میں پہلے وہ سورتیں نازل ہوئیں جن کو مکی سورتیں کہاجاتا ہے- اس کے بعد قرآن کی وہ سورتیں نازل ہوئیں جن کو مدنی سورتیں کہاجاتا ہے- لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری زمانے میں قرآن کو جس انداز میں مرتب کرکے امت کے حوالے کیا، وہ نزولی ترتیب سے مختلف تھا- یہاں یہ سوال ہے کہ کیوں ایسا ہے کہ قرآن میں تلاوت کی ترتیب اُس سے مختلف ہے جو نزول کے اعتبار سے اُس کی ترتیب تھی-
اِس کا سبب یہ ہے کہ قرآن کوئی تاریخ کی کتاب نہیں ہے- قرآن اصلاحِ انسانیت کی کتاب ہے- اِسی اصلاح کی حکمت کی بنا پر، ابتدائی دور میں قرآن اپنے معاصر حالات (contemporary situation)کے اعتبار سے اترا- لیکن بعد کو اُس کی ترتیب،ابدی حالات کے اعتبار سے کی گئی- یعنی وہ حالات جو بعد کے زمانے میں انسانیت کو پیش آنے والے تھے-
ترتیب کا یہ فرق بالکل فطری ہے- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مکہ اور مدینہ کے جو حالات تھے، اُن حالات کی نسبت سے قرآن کی آیتیں اور سو رتیں وقت وقت پر اترتی رہیں- لیکن قرآن ساری انسانیت کے لیے ہے- نزول کے اعتبار سے اُس میں معاصر حالات کی رعایت تھی- مگر موجودہ ترتیب میں وہ اِس طرح مرتب کیا گیا ہےکہ وہ بعد کے حالات پر منطبق ہوتا رہے-
مثال کے طور پر، بعد کے زمانے میں عملی طورپر ایسا ہونے والا تھا کہ امت ِ مسلمہ قرآن کی مخاطب بن جائے، اِس لئے موجودہ مصحف میں اُن سورتوں کو مقدم کردیاگیا ہے، جن میں زوال یا فتہ یہود کا ذکر تھا، تاکہ مسلمان اپنے دور زوال میں یہود کے حالات سے سبق لیں اور اپنی اصلاح کرسکیں، حالانکہ یہ سورتیں مدنی سورتیں تھیں، جو کہ بعد کے زمانے میں نازل ہوئیں-
واپس اوپر جائیں

پیغمبر متّبعِ قرآن

قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کا کلام لفظی طورپر پیغمبر کے اوپر اترا- اِسی کے ساتھ پیغمبر کو یہ حکم دیاگیا کہ تم خود سب سے پہلے اُس کے پیرو بنو (الانعام: 14)- فرمایا کہ اتبع ما أوحی إلیک من ربک (الانعام: 106) یعنی تم اُس چیز کی پیروی کرو جو تمھارے رب کی طرف سے تم پر وحی کی جارہی ہے-
اب سوال یہ ہے کہ قرآن کا لفظی ریکارڈ تو مصحف کی صورت میں موجود ہے-دوسری چیز یعنی پیغمبر کا اتباعِ قرآن، اُس کا ریکارڈ کہاں ہے؟ جیساکہ معلوم ہے، خودقرآن میں پیغمبر کے اتباعِ قرآن کا ریکارڈ نہیں- پھر یہ ریکارڈکہاں ہے- یہ ریکارڈ واضح طورپر احادیث کے اُس ذخیرہ میں ہے، جس کو سنت رسول کہا جاتا ہے، اور جس کو قرآن میں اسوۂ رسول (الاحزاب: 21) بتایا گیاہے-
قرآن، دینِ الہی کے نظریاتی حصہ کی وضاحت ہے- لیکن قرآن صرف ایک نظریہ کی کتاب نہیں- قرآن میں بار بار کہاگیا ہے کہ اے لوگو، قرآن کی اتباع کرو- اتباع کرنے کے لیے لازمی طورپر ضروری ہے کہ اُس کا ایک عملی نمونہ (role model) موجود ہو- تمام قرائن کے مطابق، یہ عملی نمونہ وہی ہے جو رسول کی سنت کی شکل میں حدیث کی کتابوں میں محفوظ ہے- سنت رسول کے سوا، کوئی اور چیز تعلیمات قرآن کے لیے عملی ماڈل نہیں بن سکتی-
حقیقت یہ ہے کہ جب اللہ نے اپنا کلام اتارا، تو عین اُس کے فطری تقاضے کے مطابق ضروری تھا کہ اُس کا ایک عملی ماڈل بھی موجود ہو- عملی ماڈل کے بغیر قرآن کی حیثیت ایک مجرد نظریاتی کتاب کی ہوجائے گی- اُس کی حیثیت انسان کے لیے ایک رہنما کتاب (گائڈ بک) کی نہ ہوگی- حالانکہ اگر ایسا ہو کہ قرآن مجرد معنوں میں صرف ایک نظریاتی کتاب ہو، انسان کے لیے یہ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہ ہو کہ مستند طورپر اُس کی انطباقی صورت (applied version) کہاں ہے، تو ایسی حالت میں قرآن اُس کے لیے عملاً ایک گائڈ بک نہیں بن سکتا-
واپس اوپر جائیں

غلبہ، اہلِ حق کے لیے

حضرت موسی کے زمانے میں، جب بنی اسرائیل سے کہاگیا کہ تم فلسطین میں داخل ہوجاؤ تو اِس پر بنی اسرائیل کے درمیان تذبذب ہوا- اس وقت بنی اسرائیل کے ایک صاحبِ ایمان نے اپنی قوم سے کہا کہ: ادْخُلُوْا عَلَیْہِمُ الْبَابَ ۚ فَاِذَا دَخَلْتُمُوْہُ فَاِنَّکُمْ غٰلِبُوْنَ ۚ وَعَلَی اللّٰہِ فَتَوَکَّلُوْٓا اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ (المائدة: 23) انھوں نے کہا کہ تم شہر میں داخل ہوجاؤ، جب تم اس میں داخل ہوجاؤگے تو تم ہی غالب ہوگے، اور اللہ پر بھروسہ کرو اگر تم مومن ہو-
اِس آیت میں ’’دخول پر غلبہ‘‘ کے جس معاملہ کا ذکر ہے، وہ صر ف بنی اسرائیل کی تاریخ کا ایک منفرد واقعہ نہیں ہے، بلکہ وہ ایک عمومی اصول ہے- عمومی اعتبار سے اِس کا مطلب یہ ہے کہ اہلِ حق کی برتر آئیڈیالوجی اِس بات کی ضامن ہوتی ہےکہ وہ ہرجگہ ان کے لیے غلبہ کا ذریعہ بن جائے- اسلام کے دورِ اول میں اس کی ایک مثال یہ ہے کہ رسول اور اصحابِ رسول جب مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ میں داخل ہوئے تو قرآن کی آئیڈیالوجی ان کے لیے پرامن غلبہ کا ضامن بن گئی-
وسیع تر انطباق (extended application) کے اعتبار سے یہ اصول موجودہ زمانہ میں مزید اضافہ کے ساتھ صادق آتا ہے-موجودہ زمانے کا ایک نیا ظاہرہ وہ ہے، جس کو کانفرنس کہتے ہیں- یہ اجتماعات موجودہ زمانے میں ہر جگہ بڑے پیمانے پر ہورہے ہیں- امن کانفرنس، انٹرفیتھ ڈائیلاگ، اور اسی طرح عید ملن اور روزہ افطار جیسے بہت سے اجتماعات ہیں، جو برابر مختلف عنوانات کے تحت ہوتے رہتے ہیں- ان اجتماعات میں تعلیم یافتہ لوگ بڑی تعداد میں شریک ہوتے ہیں-
اس قسم کے اجتماعات، حق کے داعیوں کے لیے عظیم مواقع کی حیثیت رکھتے ہیں- وہ ان میں شریک ہو کر لوگوں تک اپنا پیغام پہنچا سکتے ہیں، اور اس طرح کے معروف عنوانات کے تحت وہ خود بھی اپنی طرف سے ایسے اجتماعات کا انتظام کرسکتے ہیں- ان کی بر تر آئیڈیالوجی اس بات کی ضامن ہے کہ وہ ہر جگہ غالب رہیں گے-
واپس اوپر جائیں

تنقید یا الزام تراشی

کسی شخص کو غلط بتانے کے لیے جب آپ کے پاس کوئی دلیل نہ ہو بلکہ صرف الزام ہو تو سمجھ لیجیے کہ آپ خود غلطی پر ہیں— عقل اور اسلام دونوں کا تقاضا ہے کہ آدمی کسی کے خلاف بولے تو صرف اُس وقت بولے، جب کہ اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے اُس کے پاس کوئی حقیقی دلیل ہو- اگر اُس کے پاس حقیقی دلیل نہیں ہے، اور وہ عیب زنی اور الزام تراشی کی زبان میں اپنی بات پیش کررہا ہے تو یہ بلا شبہہ ایک عظیم گناہ ہے-وہ انسان کو قتل کرنے کے ہم معنی ہے- ایسے شخص سے آخرت میں کہا جائے گا کہ تم دوسرے کے خلاف جو الزام لگاتے تھے، اُس کو دلیل سے ثابت کرو اور جب وہ اپنی بات کو دلیل سے ثابت نہ کرسکے گا تو اُس سے کہا جائے گا کہ جو الزام تم نے دوسرے کے اوپر لگایا تھا، اُس کی سخت تر سزا تم خود بھگتنے کے لیے تیار ہو جاؤ-
عیب زنی اور الزام تراشی کے لیے، صحیح لفظ کردار کشی (character assassination) ہے- کسی کے خلاف الزام تراشی کرنا، اُس کو کردار کے اعتبار سے قتل کرنے کے ہم معنی ہے- یہ جسمانی قتل سے کم گناہ نہیں- حدیث میں آتا ہے کہ ایک مومن پر دوسرے مومن کی تین چیزیں حرام ہیں- اُس کا خون، اُس کا مال، اور اُس کی عزت(کل المسلم على المسلم حرام دمہ ومالہ وعرضہ) صحیح مسلم، رقم الحدیث: 6706- اِس حدیث میں بظاہر مسلم کا لفظ ہے- لیکن وسیع تر انطباق کے اعتبار سے، اس کا تعلق ہر انسان ،ہر عورت اور ہر مرد سے ہے- جو آدمی اِس بات کو جانتا ہو کہ آخر کار اُس کو اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے، وہ اِس معاملہ میں کانپ اٹھے گا- وہ اِس حرام فعل سے، اُس سے بھی زیادہ بچےگا جتنا کہ کوئی شخص سانپ اور بچھو سے بچتا ہے-
تنقید (criticism) ہر انسان کا ایک جائز حق ہے- مگر تنقید کو لازماً مبنی بر دلیل ہونا چاہئے- جس تنقید کے ساتھ دلیل شامل نہ ہو، وہ سخت گناہ ہے- علمی تنقید بلا شبہہ ایک خیر ہے، مگر غیر علمی تنقید بلاشبہہ ایک شر-
واپس اوپر جائیں

آخر میں قبر

قرآن کی سورہ نمبر 102 میں انسان کے لئے ایک نہایت نصیحت کی بات کہی گئی ہے- وہ یہ کہ انسان ساری کوشش کرکے دولت کا ڈھیر اکٹھا کرتا ہے مگر آخر میں اس کے اپنے حصہ میں جوچیز آتی ہے وہ صرف قبر کا گڑھا ہے (سورہ التکاثر)- یہ تبصرہ انسان کی پوری تاریخ پر درست ثابت ہوتا ہے- اس دنیا میں ہر عورت اور مرد کا یہ حال ہے کہ وہ بظاہر بہت زیادہ حاصل کرتا ہے، لیکن عملاً اس کے اپنے حصہ میں بہت تھوڑا آتا ہے-
اس معاملہ کی ایک عبرت انگیز مثال یہ ہے کہ امریکا کے مشہور دولت مند بل گیٹس (Bill Gates) نے اتنا زیادہ کمایا کہ وہ دنیا کے سب سے زیادہ دولت مند انسان بن گئے، لیکن آخر میں ان کو محسوس ہوا کہ یہ ساری دولت صرف ایک خارجی ڈھیر ہے- اُن کے اپنے لئے ایک ’’سینڈوچ‘‘ کے سوا اور کچھ نہیں- انھوں نے اپنی ایک تقریر میں کہا:
I can understande wanting to have a million dollars... but once you get beyond that, I have to tell you, it’s the same hamburger.
ایک شخص کتنا ہی بڑا محل بنائے، اس کے اپنے حصہ میں محل کا صرف ایک کمرہ آتا ہے- کوئی بادشاہ کتنی ہی بڑی سلطنت قائم کرے اس کے بیٹھنے کے لئے صرف ایک تخت ہوتا ہے- کوئی شخص عالمی شہرت کا مالک بن جائے لیکن عملاً اس کے رہنے کے لئے ایک چھوٹی سی دنیا ہوتی ہے، وغیرہ- ایسی حالت میں حقیقت پسندی یہ ہے کہ آدمی جنت کو اپنی منزل بنائے نہ کہ دنیا کی کسی چیز کو-
دنیا کے اعتبار سے دیکھا جائے تو انسان کا آخری مقام صرف قبر نظر آتا ہے، لیکن آخرت کے اعتبار سے دیکھا جائے تو انسان کے لئے کامیابی کی ایک ایسی دنیا کھلی ہوئی ہے، جس کی کوئی حد نہیں- عقل مند وہ ہے جو دنیا سے بقدر ضرورت لے، اور اپنے حوصلوں اور تمناؤں کا نشانہ آخرت کو بنائے- یہی کسی انسان کے لئے حقیقت پسندی بھی ہے اور دانش مندی بھی-
واپس اوپر جائیں

دینی نہیں بلکہ قومی

قرآن کی سورہ نمبر 3 میں تاریخ کے ایک معاملہ کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: اِنْ یَّمْسَسْکُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُہٗ ۭ وَتِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ ۚ وَلِیَعْلَمَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَیَتَّخِذَ مِنْکُمْ شُہَدَاۗءَ ۭ وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ (آل عمران: 140) یعنی اگر تم کو کوئی زخم پہنچے تو قوم کو بھی ویسا ہی زخم پہنچا ہے- اور ہم ان ایام کو لوگوں کے درمیان بدلتے رہتے ہیں، تاکہ اللہ ایمان والوں کو جان لے اور تم میں سے کچھ لوگوں کو گواہ بنائے اور اللہ ظالموں کو دوست نہیں رکھتا-
قرآن کی اِس آیت کا مرکزی نقطہ (central point) بین الناس کے لفظ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے- یہاں بین الناس سے مراد بین الأقوام ہے- یعنی اِس آیت میں، لوگوں کے ساتھ پیش آنے والے، اُس واقعے کا ذکر ہے جو اُن کے درمیان قومی بنیاد پر پیش آتے ہیں- یعنی قانون فطرت کے مطابق، اِس دنیا کا نظام مسابقت (competition) کے اصول پر قائم ہے- مذکورہ آیت میں، زمانۂ رسول کے دو واقعے کا ذکر ہے— بدر اور احد- بدر کے واقعہ میں مشرک قوم کو نقصان اٹھانا پڑا تھا، اُحد کے واقعہ میں موحد قوم کو نقصان اٹھانا پڑا- اِس طرح کے واقعات فطرت کے قانون کے مطابق، ہمیشہ ہر قوم کے ساتھ پیش آتے ہیں- لوگوں کو چاہئے کہ وہ ایسے واقعے کو صحیح تناظر (right perspective) میں دیکھیں- اِس سے وہ اپنے آپ کو منفی سوچ سے بچا سکیں گے-
موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے ساتھ جو واقعات پیش آئے، اُن کو بھی اِسی قانون فطرت کی روشنی میں دیکھنا چاہیے- اِس طرح مسلمانوں کے اندر حقیقت پسندانہ مزاج (realistic approach) پیدا ہوگا- وہ اپنے آپ کو اِس سے بچا سکیں گے کہ اِن واقعات کو لے کر اُن کے اندر منفی سوچ پیدا ہوجائے، اور پھر وہ اپنے عمل کی مثبت منصوبہ بندی (positive planning) کرنے میں ناکام ہوجائیں-
مثلاً انیسویں صدی میں مسلمانوں کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا کہ مغرب کی نوآبادیاتی قومیں ایشیا اور افریقہ میں پھیل گئیں، اور انھوںنے مسلمانوں کے قومی دبدبہ کو ختم کردیا- اِس پر تمام دنیا کے مسلمان مغربی قوموں کو اپنا دشمن سمجھنے لگے- اگر اِس معاملہ کو وہ قرآنی معیار سے دیکھتے تو وہ کہتے کہ اِس سے پہلے مسلم قوموں نے دوسری قوموں کے اوپر اپنا دبدبہ قائم کیا تھا- اب تاریخ کے قانون کے مطابق، دوسری قوموں کو یہ موقع ملا ہے کہ وہ مسلمانوں کے اوپر اپنا دبدبہ قائم کریں- مسلمان اگر اس طرح سوچتے تو وہ نئے حالات کے مطابق، اپنے عمل کی حقیقت پسندانہ منصوبہ بندی کرتے- لیکن مسلمان اِس تاریخی قانون سے بے خبر رہے- نتیجہ یہ ہوا کہ پوری مسلم دنیا مغربی قوموں کے خلاف نفرت میں مبتلا ہو کررہ گئی-
1948میں یہ واقعہ پیش آیا کہ یہود نے نئے حالات سے فائدہ اٹھایا اور فلسطین کے نصف حصے پر اپنی حکومت قائم کرلی- جس پر مسلمان مشتعل ہوگئے-وہ اسرائیل کے خلاف بے نتیجہ قسم کی منفی کارروائیوں میں مشغول ہوگئے، حالاں کہ اگر وہ سوچتے کہ اِس سے پہلے، سیکڑوں سال تک مسلم قوم نے فلسطین پر اپنی حکومت قائم کررکھی تھی- اب اگر یہود قوم کو موقع ملا ہے تو وہ قوموں کے بارے میں تاریخی قانون کی بنا پر پیش آیا ہے-
مسلمان اگر اِس طرح سوچتے تو اُن کے اندر حقیقت پسندانہ فکر پیدا ہوتی- وہ نئے حالات کے لحاظ سے اپنے عمل کا نتیجہ خیز منصوبہ بناتے، لیکن عملا یہ ہوا کہ انھوں نے منفی کارروائیوں میں مبتلا ہو کر صرف اپنے نقصان میں مزید اضافہ کرلیا-
اِسی طرح ہندوستان میں یہ واقعہ پیش آیا کہ 6 دسمبر 1992 کو ہندؤوں کا ایک مشتعل گروہ اجودھیا میں داخل ہو ا، اور بابری مسجد کی عمارت کو ڈھا دیا- اس وقت مسلمان اگر یہ سوچتے کہ اس سے پہلے 1001ء میں مسلم سلطان نے سومناتھ میں ہندوؤں کے مندر کو ڈھا دیا تھا، اُس کے بعد انتقامی طورپر اجودھیا کا واقعہ پیش آیا- مسلمان اگر اِس طرح سوچتے تو اُن کے اندر مثبت طرز فکر پیدا ہوتا، وہ حقیقت پسندانہ اور نتیجہ خیز (result oriented) انداز میں اپنے عمل کا منصوبہ بناتے، اور پھر یقینی طورپر کامیاب رہتے، لیکن انھوںنے اپنے ناعاقبت اندیش لیڈروں کی رہنمائی میں بے فائدہ قسم کی منفی کارروائیاں شروع کردیں- اُن کا یہ طریقہ فطری طورپر کاؤنٹر پروڈکٹیو (counter productive) ثابت ہوا- مسلمانوں کے حصے میں مزید نقصان کے سوا کچھ اور نہ آیا-
حقیقت یہ ہے کہ لوگوں کے درمیان مذکورہ قسم کے جو واقعات پیش آتے ہیں- وہ ہمیشہ قومی بنیاد پر ہوتے ہیں- اُن کا دین اور اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے- اسی طرح یہ عقیدہ بنانا غلط ہے کہ فلاں قوم ہماری دشمن قوم ہے، وہ ہمارے خلاف سازشیں کرتی ہیں- اِس لئے اس قسم کے واقعات پیش آرہے ہیں- اِس قسم کے تمام خیالات تاریخ کے بارے میں فطرت کے قوانین سے بے خبری کا نتیجہ ہیں- یہ واقعات قوموں کے درمیان مسابقت کی بنا پر پیش آتے ہیں، نہ کہ سازش اور عداوت کی بنا پر-
اِس طرح کے واقعات کو اگر حقیقت پسندانہ ذہن سے دیکھا جائے تو لوگوں کے اندر مثبت طرز فکر (positive thinking) پیدا ہوگی- اور بلا شبہہ وہ اِس قابل ہوجائیں گے کہ ہر ناکامی کے بعد اپنے لئے نتیجہ خیز منصوبہ بنائیں، اور ہر ناکامی کے بعد دوبارہ کامیابی حاصل کرلیں- اِس کے برعکس، اگر تاریخ کے واقعات کو خود ساختہ ذہن کے ساتھ دیکھا جائے تو لوگوں کے اندر منفی طرز فکر (negative thinking)پیدا ہوگی- وہ رد عمل (reaction) کی نفسیات کا شکار ہوجائیں گے، اور غیر حقیقت پسندانہ عمل میں مبتلا ہو کر ایسی کارروائی کریں گے جو باعتبار نتیجہ صرف ان کے نقصان میں اضافہ کرنے والی ہو-
واپس اوپر جائیں

زندگی المیہ کیوں

شیلے (P. B. Shelley) ایک انگریز شاعر تھا- اس کی وفات 1822 میں ہوئی- وہ پُردرد شاعری کے لیے مشہور ہے- اس کا ایک شعر یہ ہے— ہمارے سب سے زیادہ شیریں نغمے وہ ہیں جو سب سے زیادہ غم ناک خیالات کی ترجمانی کرتے ہیں:
Our sweetest songs are those that tell of saddest thought
ایسا کیوں ہے؟ اِس کا سبب یہ ہے کہ بیشتر لوگ اِس احساس میں جیتے ہیں کہ زندگی اُن کے لیے ایک المناک تجربہ تھی- وہ جو کچھ پانا چاہتے تھے، اُس کو وہ نہ پاسکے- وہ اپنے آپ کو شعوری یا غیرشعوری طورپر ایک ناکام انسان سمجھتے ہیں- اس صورت حال کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ جب وہ کوئی درناک نغمہ سنتے ہیں، یا کوئی درد ناک کہانی پڑھتے ہیں، تو وہ اپنی محروم نفسیات کی بنا پر اُس کو اپنے دل کی آواز سمجھتے ہیں- ان کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ حقیقت واقعہ کا بیان ہے- اِس کے برعکس جب وہ بظاہر کوئی پرمسرت نغمہ سنتے ہیں یا پرمسرت کہانی پڑھتے ہیں تو وہ اس کو اپنے احساس کی بنا پر شعوری یا غیرشعوری طورپر یہ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ ایک غیر واقعی بات ہے-لوگوں کی اِس نفسیات کا سبب کیا ہے؟ اُس کا سبب یہ ہے کہ لوگ خالق کے تخلیقی نقشہ (creation plan) کو سمجھے بغیر، اپنی زندگی کا منصوبہ بناتے ہیں- وہ اپنے لئے ایک ایسی چیز پانا چاہتے ہیں جس کا حصول خالق کے تخلیقی نقشہ کے مطابق، اِس دنیا میں ممکن نہیں- یہی تضاد، مذکورہ صورتِ حال کا اصل سبب ہے-
خالق کے تخلیقی نقشہ کے مطابق، موجود دنیا میں انسان اپنے لیے صرف بقدر ضرورت پاسکتا ہے، اِس سے زیادہ نہیں- ایسی حالت میںانسان اگر بقدر ضرورت پر قناعت کرے، تو وہ مذکورہ نفسیات سے بچ سکتا ہے- خالق کے تخلیقی نقشے کے مطابق انسان کو چاہئے کہ وہ موجودہ دنیا میں صرف بقدر ضرورت چاہے، اور اس سے زیادہ کو آخرت کی چیز سمجھے— یہی موجودہ دنیا میں پرسکون زندگی کا واحد راز ہے- فطری زندگی کا نام پر مسرت زندگی ہے اور غیر فطری زندگی کا نام مسرت سے خالی زندگی-
واپس اوپر جائیں

ٹماٹر یا لال بیگن

’’میرے خاندان کے ایک بزرگ تھے، حافظ محمد اسماعیل، جو بڑے عالم اور محدث تھے- مولانا محمد ادریس کاندھلوی کے والد تھے اور رشتے میں میرے والد کے چچاتھے- انھوں نے اپنی زندگی میں کسی انگریز کی شکل نہیں دیکھی، انگریزی کا کوئی لفظ استعمال نہیں کیا- اور اپنے گھر میں کسی کو انگریزی کا لفظ استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی- ہندستان میں پہلے شاید ٹماٹر نہیں ہوتا تھا، بعد میں جب یہاں ٹماٹر آیا تو یہ لفظ شاید انگریزی کے لفظ tomato کی اردو شکل تھی- حافظ اسماعیل صاحب ٹماٹر کا لفظ استعمال نہیں کرتے تھے اور اگر کوئی بولتا تھا تو اس پر ناخوشی کا اظہار کرتے تھے- انھوں نے اس کا نام لال بیگن رکھا ہوا تھا- میرے والد صاحب بتاتے تھے کہ ایک دن گھر میں انھوں نے پوچھا کہ سالن میں کیا ڈالا ہے؟ ان سے کہا گیا کہ ٹماٹر ڈالا گیا ہے تو وہ سخت ناراض ہوئے کہ نصرانیت میرے گھر میں گھس آئی؟ اس کو لال بینگن کیوں نہیں کہتے‘‘؟ (روایت ڈاکٹر محمود احمد غازی، ماہ نامہ ’الشریعہ‘، مارچ 2005، صفحہ 9)
نو آبادیاتی دور میں یہ منفی سوچ مسلمانوں میں عام تھی- میرے برادرِ بزرگ مولانا اقبال احمد خاں سہیل نے اپنے ایک مضمون میں انگریزوں کی برائی بتاتے ہوئے لکھا تھا کہ — اُن کی زبان میں لالہ، پاپی(poppy)بن جاتا ہے اور الہ آباد، آل بَیڈ(all bad) بن جاتا ہے، وغیرہ-
انگریز یا مغرب کے خلاف اِس نفرت کا نقصان دوسروں کو تو کچھ نہیں پہنچا، لیکن خود مسلمانوں کو اپنی اِس منفی سوچ کی بنا پر بھاری قیمت دینی پڑی-اِس نقصان کے دو خاص پہلو تھے— ایک یہ کہ مسلمان جدید تعلیم اور جدید ٹکنالوجی کو اختیار نہ کرنے کی بنا پر زندگی کی دوڑ میں دوسری قوموں سے پچھڑ گئے- دوسرا اِس سے زیادہ بڑا نقصان یہ تھا کہ جو لوگ ان کے مدعو تھے، اُن کو انھوں نے اپنا دشمن سمجھ لیا- اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے اندر یہ جذبہ آخری حد تک ختم ہوگیاکہ وہ غیر مسلموں کو اللہ کا پیغام پہنچائیں-
واپس اوپر جائیں

دعوتی اسپرٹ

بیگم اختر (وفات: 1974) انڈیا کی ایک مشہور مغنیہ (singer) تھیں- ان کو اپنے پروفیشن سے عشق کے درجہ کا تعلق تھا- انھوں نے ایک بار اپنے ایک شاگرد سے کہا کہ— ایک بھی اگر کہیں سننے والا ہے تو اس کو ڈھونڈو اور جاکر اس کو سناؤ-
یہ ایک آرٹسٹ کی اسپرٹ ہے- یہی وہ اسپرٹ ہے جو ایک آرٹسٹ کو ایک بڑا آرٹسٹ بناتی ہے- جس آرٹسٹ کے اندر یہ اسپرٹ نہ ہو وہ کبھی بڑا آرٹسٹ نہیں بن سکتا-
دین کا داعی بھی گویا ایک ڈوائن آرٹسٹ ہوتا ہے- سچا داعی وہ ہے جس کے اندر یہ اسپرٹ اعلی درجہ میں موجود ہو- اس کا مطلب یہ ہے کہ داعی کی نظر کمّیت (quantity) پر نہیں بلکہ کیفیت (quality) پر ہونی چاہئے-
داعی کے اندر اگر یہ اسپرٹ ہے، تو وہ کبھی مایوس نہیں ہوگا- وہ ہمیشہ پرامید (hopeful) رہے گا- اگر اُس کو ایک انسان ایسا مل جائے، جو متلاشی (seeker) ہو- تو وہ اُس ایک انسان کو اتنا زیادہ اہمیت دے گا، جیسے کہ وہی اس کے لئے ساری انسانیت ہے- سچا داعی وہ ہے جو ایک انسان کو بھی سارے انسانوں کے برابر سمجھے- جو ایک انسان پر بھی اتنا زیادہ محنت کرے، جتنا کوئی شخص ساری دنیا کے انسانوں پر محنت کرے گا-
سچے داعی کی نظر اپنی ذمہ داری پر ہوتی ہے- وہ یہ نہیں دیکھتا کہ اُس کے سامنے انسانوں کی ایک بھیڑ ہے، یا صرف ایک انسان ہے- وہ یہ نہیں سوچتا کہ اُس کو اپنے دعوتی عمل کا کوئی اجر ملے گا یا نہیں- وہ یہ نہیں سوچتا کہ لوگ اُس کی بات مانیں گے یا نہیں مانیں گے- سچا داعی صرف اللہ کے لئے کام کرتا ہے نہ کہ دنیا کے وقتی فائدوں کے لئے- ایسا ہی داعی، سچا داعی ہے- اور یہی وہ داعی ہے جس کو آخرت کی ابدی جنت میں داخلہ ملے گا-اس حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیاگیا ہے کہ جس نے ایک شخص کو زندگی دی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی دے دی (المائدة: 32)-
واپس اوپر جائیں

شکایت کا نقصان

شکایت (complaint) نہایت مہلک چیز ہے- تمام اجتماعی خرابیاں ہمیشہ شکایت کی بنا پر پیدا ہوتی ہیں- جب دویا زیادہ آدمی ایک ساتھ رہیں، تو اُن کے درمیان لازماً ایسے اختلاف پیدا ہوتے ہیں، جو شکایت بن جاتے ہیں- پھر یہ شکایت بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے دور ہوجاتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کو برا سمجھنے لگتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں- یہ حالت اگر دیر تک باقی رہے، تو دو افراد یا دو گروہوں کے درمیان ایسی نفرت پیدا ہوجاتی ہے جو پھر کبھی ختم نہیں ہوتی-
شکایت کا واحد حل یہ ہے کہ اُس کو سنجیدگی کے ساتھ نہ لیاجائے، بلکہ اُس کو بھلادیا جائے- شکایت پیدا ہو تو آدمی کو چاہئے کہ وہ نہ تو اُس کی تحقیق کرے اور نہ اس کو یاد رکھے، بلکہ یک طرفہ طورپر اُس کو بھلا دے- اجتماعی زندگی میں شکایت کا پیدا ہونا فطری ہے- لیکن شکایت کے مسئلے کا حل یہ نہیں ہے کہ اس کی پوچھ گچھ کی جائے، اور اس کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے- موجودہ دنیا میں شکایت کا خاتمہ ممکن نہیں- یہاں عملاً صرف یہ ہوسکتا ہے کہ شکایت کو یاد نہ رکھا جائے، اُس کا چرچا نہ کیا جائے، اُس کو تعلقات کی بنیاد نہ بنایا جائے، شکایت کے مسئلے کا یہی واحد حل ہے- عملی اعتبار سے شکایت کے مسئلے کا دوسرا کوئی حل نہیں- جو آدمی چاہتا ہو کہ وہ مثبت ذہن کے ساتھ اِس دنیا میں رہے، اور مثبت ذہن کے ساتھ اِس دنیا سے چلا جائے، اُس کے لیے اِس کے سوا کوئی اور صورت عملاً ممکن نہیں-
شکایت کا معاملہ ہمیشہ ایک پیچیدہ معاملہ ہوتاہے- اِس لئے شکایت کا عملی حل (practical solution) صرف یہ ہے کہ شکایت کو بحث کا موضوع نہ بنایا جائےبلکہ اس کو ایک ایسی چیز سمجھا جائے، جس کا حل اُس کو بھلا دینا ہے، نہ کہ یہ دیکھنا کہ وہ صحیح ہے یا غلط-تجربہ بتاتا ہے کہ پوچھ گچھ سے شکایت ختم نہیں ہوتی، بلکہ اکثر زیادہ پیچیدہ ہوجاتی ہے- ایسی حالت میںشکایت کا عملی حل یہی ہے کہ اس کو بھلا دیا جائے-
واپس اوپر جائیں

وقت کا سرمایہ

وقت کسی انسان کا سب سے زیادہ قیمتی سرمایہ ہے- وقت ہر انسان کو ملتا ہے، لیکن وقت کو پانے والا وہ ہے جس نے ملے ہوئے وقت کو استعمال کیا- کسی نے درست طور پر کہا ہے کہ— کھویا ہوا مال دوبارہ حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن کھویا ہوا وقت دوبارہ حاصل کرنا ممکن نہیں- اس لئے انسان کو چاہئے کہ وہ اپنے وقت کو نہایت ہوشمندی کے ساتھ استعمال کرے:
Money lost can be earned again, but lost time is lost forever. So use your time judiciously.
جس طرح یہ بات غلط ہے کہ آدمی اپنے وقت کو ضائع کردے، اسی طرح یہ بات بھی غلط ہے کہ آدمی اپنے وقت کو بے فائدہ کاموں میں استعمال کرے- صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی اپنے وقت کو ایسے کام کے لئے استعمال کرے جو اس کو فائدہ پہنچانے والا ہو- وقت ایک خارجی چیز ہے- وقت کا تعین کلنڈر کے ساتھ ہوتا ہے- لیکن وقت کا درست استعمال ایک داخلی صفت ہے-
آدمی داخلی طورپر جتنا زیادہ تیار ہو اتنا ہی زیادہ وہ وقت کا مفید استعمال کرسکتا ہے-وقت کا سب سے زیادہ نازک پہلو یہ ہے کہ وقت ایک محدود لمحے کا نام ہے- محدود لمحے کے لیے آپ کو وقت حاصل ہوتا ہے- محدود لمحے کے ختم ہونے کے بعد وقت کا بھی خاتمہ ہوجاتا ہے- اِس حقیقت کو ایک اردو شاعر نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں
وقت کے معاملہ میں انسان کو یہ کرناہے کہ وہ وقت کے صحیح استعمال اور وقت کے غلط استعمال کے درمیان فرق کرے- وہ وقت کے غلط استعمال سے اُسی طرح بچے، جس طرح کوئی شخص حرام چیز سے بچتا ہے- وقت کے غلط استعمال کے بارے میں شدید حساسیت ہی وہ چیز ہے جو آدمی کو اِس قابل بناتی ہے کہ وہ اپنے وقت کو بھر پور طور پر استعمال کرے-
واپس اوپر جائیں

اسپرٹ آف اسلام

الرسالہ مشن کا انگریزی ترجمان
الرسالہ مشن کا انگریزی ترجمان اسپرٹ آف اسلام (Spirit of Islam) کے نام سے بنگلور سے نکل رہا ہے- یہ ماہ نامہ جنوری 2013 سے شائع کیا جارہا ہے- وہ ہر اعتبار سے ایک معیاری میگزین ہے- انگریزی زبان کی حیثیت انٹرنیشنل زبان کی ہے- یہ بے حد ضروری ہے کہ الرسالہ مشن کے پرامن افکار کو انگریزی داں طبقہ میں وسیع پیمانہ پر پھیلایا جائے- یہ بلا شبہہ وقت کی اہم ضرورت ہے- اس مقصد کے حصول کا طریقہ یہ ہے کہ الرسالہ مشن سے وابستہ ہر فرد اسپرٹ آف اسلام کی ایجنسی لے، حتی کہ جو لوگ انگریزی نہ جانتے ہوں وہ بھی اسپرٹ آف اسلام کی ایجنسی ضرور لیں، اور اس کو انگریزی داں طبقہ تک پھیلائیں- انگریزی داں طبقہ، وقت کا کار فرما طبقہ ہے- الرسالہ کے پرامن مشن سے اس کو واقف کرانا لازمی طورپر ضروری ہے-
اس کی عملی صورت یہ ہے کہ الرسالہ مشن سے وابستہ ہر فرد اسپرٹ آف اسلام کی ایجنسی لے- ایجنسی کے لیے کم سے کم تعداد دس شمارہ کی ہے، زیادہ تعداد کی کوئی حد نہیں- ایجنسی لینے والے کے نام اسپرٹ آف اسلام کی مقرر تعداد بذریعہ وی پی روانہ ہوگی- صاحب ایجنسی کو یہ کرنا ہے کہ وہ ان شماروں کو اپنے قریبی حلقہ میں بذریعہ قیمت لوگوں تک پہنچائیں- صاحب استطاعت افراد اس ماہنامہ کو فری تقسیم کرسکتے ہیں- اسپرٹ آف اسلام کی ایجنسی لینا، اپنے آپ کو اِس دعوتی مشن میں شریک کرنا ہے، جو وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے-
واپس اوپر جائیں

سوال وجواب

سوال
قرآن کی ایک آیت میں ہے کہ: اے پیغمبر، جو کچھ تمھارے اوپر تمھارے رب کی طرف سے اترا ہے، تم اس کو پہنچادو- اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو تم نے اللہ کے پیغام کو نہیں پہنچایا- اور اللہ تم کو لوگوں سے بچائے گا (5:67)- اِس آیت سے معلوم ہوتاہے کہ اللہ نے اپنے نبیوں کی حفاظت کا ذمہ لے لیا ہے- اِس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ نبیوں کو ستایا گیا، حتی کہ بہت سے نبیوں کو قتل بھی کردیاگیا- ایسی حالت میں، ’’واللہ یعصمک من الناس‘‘ کا مطلب کیا ہوگا- (عبد اللطیف، پاکستان)
جواب
قرآن کی اِس آیت میں بلاشبہہ پیغمبروں کے لیے اور داعیانِ حق کے لیے حفاظت کا وعدہ ہے، لیکن حفاظت کا یہ وعدہ ذات کے اعتبار سے نہیں ہے، بلکہ مشن کے اعتبار سے ہے- اِس وعدے کا مطلب یہ ہے کہ کسی پیغمبر کا جو مشن ہے وہ لازماً پورا ہو کر رہتاہے- اللہ کی حفاظت اِس بات کی گارنٹی ہوتی ہے کہ اس کو اللہ کی مدد حاصل ہو، اور اللہ کی مدد سے وہ تکمیل تک پہنچے-تکمیل سے مراد کسی عملی نظام کا قائم کرنا نہیں ہے، بلکہ اُس سے مراد ابلاغ اور انذار وتبشیر ہے-
اِس حفاظت کے باوجود دوسروں کے لیے یہ موقع باقی رہتا ہے کہ وہ اپنی آزادی کا غلط استعمال کرکے پیغمبر یا داعی کو بظاہر کوئی نقصان پہنچائیں- مگر اِس نقصان کا تعلق آزمائش کے قانون سے ہے، نہ کہ ’’عصمت من الناس‘‘ کے قانون سے-
سوال
آپ نے اپنی کتاب ’’امن عالم‘‘ صفحہ 7 میں یہ حدیث نقل کی ہے کہ ’’ألا وإن فی الجسد مضغة إذا صلحت صلح الجسد کلہ وإذا فسدت فسد الجسد کلہ، ألا وہی القلب‘‘- پھر آپ نے آگے بیان کیا ہے کہ علامہ ابن حجر نے اس سے استدلال کیا ہے کہ عقل قلب میں ہوتی ہے اور آپ نے کہا کہ مگر یہ بات درست نہیں، اس حدیث میں قلب سے مراد مرکز تفکیر نہیں ہے بلکہ مرکز دورانِ خون ہے۔قلب اور جسد کا ذکر اس حدیث میں بطور تمثیل ہے- اس کی وضاحت فرمائیں- (فیضان صدیقی، کیرالا)
جواب
قلب کا لفظ دل (heart)کے معنی میں بھی آتا ہے- لیکن اسی کے ساتھ قلب کا لفظ دماغ (mind) کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے- قرآن فزیالوجی کی کتاب نہیں، قرآن تفکر اور تدبر کی کتاب ہے- اِس لیے قرآن میں قلب کو ذہن کے معنی میں لیاجائے گا- قرآنی آیات میں قلب کودل کے معنی میں لینا صحیح نہیں-
قلب کا لفظ عربی زبان میں عام طورپر عقل یا ذہن کے معنی میں استعمال ہوتاہے- عربی زبان کی مشہور لغت لسان العرب میں قلب کے لفظ کے تحت یہ الفاظ درج ہیں: وقد یعبر بالقلب عن العقل- قال الفراء فی قولہ تعالی: إن فی ذلک لذکری لمن کا لہ قلب، أـی عقل- قال الفراء: وجائز فی العربیة أن تقول: مالک قلب، وما قلب معک؛ تقول: ما عقلک معک، وأین ذہب قلبک؟ أی أین ذہب عقلک؟ وقال غیرہ- لمن کان لہ قلب أی تفہم وتدبر (لسان العرب: 1/687)-
ترجمہ: قلب کی تعبیر عقل سے بھی کی جاتی ہے- فراء نے کہا کہ قرآن کی آیت ’إن فی ذلک لذکری لمن کان لہ قلب‘ میں قلب سے مراد عقل ہے- فراء نے کہا کہ عربی میں یہ کہنا درست ہے کہ تمھارےاندر قلب نہیں، اور تمھارا قلب تمھارے ساتھ نہیں- اس کا مطلب ہے تمھارے اندر عقل نہیں- اور تمھارا قلب کہاں گیا؟ یعنی تمھاری عقل کہاں گئی- دوسرے اہلِ لغت نے بھی کہا ہے کہ قرآن کی آیت لمن کان لہ قلب میں قلب سے مراد سوچنا اور غور کرنا ہے-
قرآن میں قلب کا لفظ جہاں جہاں آیا ہے، ہر جگہ وہ تدبر اور تفکر کے سیاق میں آیا ہے- اس لئے ان آیتوں میں قلب سے مراد ذہن یا عقل لیاجائے گا، نہ کہ دل بمعنی ہارٹ(heart) -
دل کو سوچنے والادل (thinking heart) کے معنی میں لینا، ایک قدیم توہماتی نظریہ تھا- اس کا قرآن سے یا حدیث سے کوئی تعلق نہیں- موجودہ زمانے میں سائنسی تحقیقات سے یہ تصور غلط ثابت ہوچکا ہے کہ دل سوچنے اور غور کرنے کا مرکز ہے-
واپس اوپر جائیں

خبر نامہ اسلامی مرکز— 230

1- سی پی ایس سہارن پور کی ا یک ٹیم 19 جون 2014 کو سہارن پور سینٹرل جیل گئی، اور قیدیوں کےدرمیان 200 قرآن کے ترجمے اور دوسرے دعوتی لٹریچر تقسیم کیا۔اس تقسیم میں چیف جیلر مسٹر سکسینہ خود شریک ہوئے، اور انھوں نے کہا کہ قرآن اور مولاناوحید الدین خاںکی کتابیں ہر ایک کے لئے مشعل راہ ہیں۔ مسز الپنا تلوار (صدر، بی جے پی خواتین سیل)، اور مسز ممتا ارورا (سماجی کارکن) ، ڈاکٹرذوالفان، ڈاکٹر ٹی اے چوہان، ایڈووکیٹ انیس صدیقی، مسٹر محسن بلال، مسٹر عمار خان، وغیرہ اس پروگرام میں شریک ہوئے۔ (ڈاکٹر محمداسلم خان، سہارن پور)
2- کشمیر سی پی ایس کی ایک ٹیم 23-31 اگست 2014کو سری نگر میں لگنے والے بک فیر میں گڈورڈ بکس کے ساتھ شریک ہوئی۔ یہاں انھوں نے قرآن کا ترجمہ اور دوسری اسلامی کتابیں بڑی تعداد میں لوگوں کے درمیان تقسیم کیا۔ نیشنل بک ٹرسٹ (این بی ٹی) نے نیشنل قومی کونسل برائے فروغ اردو (این سی پی یو ایل) کے اشتراک سے یہ بک فیر آرگنائز کیا تھا۔
3- ممبئی سی پی ایس ٹیم نے 30 اور 31 ۱گست 2014 کو امراوتی ، مہاراشٹرا کا دعوتی دورہ کیا ۔ اس دورے کے دو اہم مقاصد تھے، ماہنامہ الرسالہ کے قارئین کو ایک پلیٹ فارم پر لاکر دعوتی کام کرنا، اور امراوتی کے انٹلکچول لوگوں سے ملاقات۔ پہلے مقصد کے تحت وہاں الرسالہ کے قارئین کی ایک بڑی تعداد سے ملاقات ہوئی۔ ان تمام لوگوں نے مولانا توفیق ندوی صاحب کو اپنا امیر بنایا ہے، اور نئے حوصلے کے ساتھ مشن کا کام کرنے کا عہد کیا ہے۔دوسرے مقصد کے تحت جن لوگوں سے ملاقات ہوئی ، ان میں ایک اہم مسٹر اشوک رانا ہیں، جو ایک کالج میں پروفیسر ہیں اورانھوں نےتقریباً 50کتابیں تصنیف کی ہیں۔ ان سے تین گھنٹے سے زیادہ خدا کے منصوبۂ تخلیق سے متعلق گفتگو ہوئی،اس گفتگو سے وہ کافی متاثر ہوئے۔ گفتگو کے بعد انھیں قرآن کا ترجمہ اور دوسری کتابیں دی گئیں، انگریزی ماہنامہ اسپرٹ آف اسلام (بنگلور) ان کے نام سے جاری کیا گیا ہے۔ (محبوب ہنتگی، ممبئی)
4- سی پی ایس دہلی کی کی ایک ٹیم نےودیا جیوتی کالج آف تھیولوجی، نئی دہلی کی دعوت پر کالج کے طلبہ کو اسلام کے بارے میں انگریزی زبان میں لکچر دیا۔ یہ پروگرام 5 ستمبر 2014 کو ہوا ۔ اس میں مسٹر رجت ملہوترا نے الرسالہ اور سی پی ایس مشن پرتقریر کی، مس سعدیہ خان نے اسلام میں جہاد کے عنوان پر لکچر دیا، مس ماریہ خان کا عنوان تھا: مذہب کا مطالعہ اسلامی نقطہ نظر سے، اور مس صوفیہ خان نے اسلام اور امن کے موضوع پر اظہار خیال کیا۔ تقریروں کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ چلا۔ پروگرام کے آخر میں تمام طلبہ کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور اسلام کے تعارف پر مشتمل لٹریچر بطور ہدیہ دیا گیا۔
5- دہلی کے پرگتی میدان میں 11-14 ستمبر 2014 کو عالیشان پاکستان کے نام سے ایک لائف اسٹائل نمائش لگی تھی۔ یہ نمائش ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھاریٹی آف پاکستان (TDAP)اور فکّی کے تعاون سے پاکستانی تاجروں کے لئے منعقد کی گئی تھی ۔ سی پی ایس دہلی کی ایک ٹیم نے اس نمائش میں شرکت کرنے والے 150 سے زیادہ پاکستانی تاجروں کے درمیان قرآن کا ترجمہ اور دوسرے دعوتی لٹریچر تقسیم کیے۔ تمام پاکستانی مہمانوں نے اسے حیرت اور خوشی کے ساتھ قبول کیا۔
6- مشہور بدھسٹ رہنما ایچ ایچ دلائی لامہ کی جانب سے21-22 ستمبر 2014 کو نئی دہلی میں ایک میٹنگ منعقد کی گئی تھی، جس کا عنوان تھا: Diverse Spiritual Traditions in India۔ اس پروگرام میں صدراسلامی مرکز نے شرکت کی اور Inter-Religious Understanding and Human Values کے موضوع پر ایک تقریر کی۔ تقریر سے پہلےایک مخصوص میٹنگ ہوئی جس میں ملک کے الگ الگ علاقوں سے آئے ہوئےمختلف مذہبی رہنماؤں نے اس پر بات چیت کی کہ مذہبی افہام و تفہیم اور رواداری کو کس طرح بڑھاوا دیا جائے۔
7- ای ٹی وی اردو چینل کی ایک ٹیم 23ستمبر 2014 کو اسلامی مرکز، دہلی کے آفس میں آئی،انھوں نے صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو لیا۔ انٹرویو کا موضوع تھا، حج۔ انٹر ویو کے بعد نامہ نگارمسٹر شاہ نواز کو صدر اسلامی مرکز کی کچھ کتابیں بطور تحفہ دی گئیں، جسے انہوں نے شکریہ کے ساتھ قبول کیا۔.
8- ہنری مارٹن انسٹی ٹیوٹ، حیدرآباد کی جانب سے 29 ستمبر 2014 سے 4 اکتوبر 2014 تک اسلام اور انٹرفیتھ ریلیشن پر ایک پروگرام ہوا۔ اس میں سی پی ایس حیدرآباد کی طرف سے مولانا فیاض الدین عمری اور جناب ذیشان یوسف نے 3 اکتوبر کو اسلام میں پیس اور جہاد کے موضوع پر خطاب کیا۔ پروگرام میں تقریبا 50 اہل علم اور کرسچن پریسٹ شریک ہوئے ۔ تمام لوگوں نے اسلام میں پیس اور جہاد کے موضوع پر اس تقریر کو بہت پسند کیا۔ سی پی ایس حیدرآباد نے پروگرام میں ایک بک اسٹال بھی لگایا تھا، جس سے کافی تعداد میں لوگوں نے ترجمۂ قرآن اور دوسری اسلامی کتابیں حاصل کیں۔
9- عید الاضحی کے دن 6 اکتوبر 2014 کوصدر اسلامی مرکز نے عید کی مناسبت سے ایک تقریر کی، جس کا عنوان ’عید الاضحی کا پیغام‘تھا۔ تقریر کے بعد صدر اسلامی مرکزنےاپنی کتاب What is Islam کے جرمن ورژن کا اجرا کیا۔ اس کتاب کو گڈورڈ بکس (دہلی) نے جرمن زبان میں ترجمہ کرکے شائع کیا ہے۔ یہ پروگرام G-10 ، نظام الدین ویسٹ ، نئی دہلی میں منعقد ہوا- اس پروگرام میں سی پی ایس (دہلی) کے ممبران نے شرکت کی۔ اس تقریر کو مندرجہ ذیل لنک پر آن لائن سنا جا سکتا ہے:
http://cpsglobal.org/content/message-eid-al-adha-october-6-2014
10- مختلف قسم کے دعوتی تجربات وتاثرات کا ایک حصہ ذیل میں نقل کیا جاتا ہے:
— فیکلٹی آف ہیومنٹیز، مولانا محمد علی جوہر یونیورسٹی (رام پور) کے ڈین ڈاکٹر آر آر اگروال آزاد، سی پی ایس کے لٹریچر کوپچھلے کئی سالوں سے خرید کر لوگوں کے درمیان تقسیم کر رہے ہیں۔ ابھی حال میں انھوں نے بڑی تعداد میں ترجمہ قرآن اور دیگر دعوتی لٹریچر خریدا ہے۔ انھوں نے صدر اسلامی مرکز کی کتاب گاڈ ارئزز، یونیورسٹی کے فاؤنڈر اور چانسلر مسٹرمحمد اعظم خان (سینئر وزیر حکومت یوپی) کو دیا تھا، جس کا ذکر منسٹر موصوف نے بطور خاص مجھ سے کیا ہے۔ (ڈاکٹر محمداسلم خان، سہارن پور)
— میرا ایک دوست کچھ خدا کے انکار کرنے والوں کی وجہ سے اس شک میں پڑگیا کہ کہیں دینِ اسلام ایک دھوکا تو نہیں۔تو میں نے مذہب اور جدید چیلنج کا انگریزی ورزن گاڈ ارائزز (God Arises) اسے پڑھنے کے لئے دیا۔ اس نے اس کتاب کوبالکل غیر جانبدار (neutral) مائنڈ سے پڑھا، ایسے کہ گویا وہ مسلم نہیں ہے۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد اس نے اسلام کو ری ڈسکور کیا۔ (محمد انس، مظفرنگر)
— Grace Fellowship Church in Atlanta, USA buys copies of the English Quran from Kaleem Sahab regularly and distributes them to people.
— Some comments by seeker people :
“My name is John and I am seeking knowledge on Islam. If there is any way, shape or form that you could please help, I would greatly appreciate it.” — John Perkit, California
“Dear Sir, I wish to know more about the Quran by reading the translated version in the English language. I am 53 years of age, and in my community we have many religions. I believe it is very important to educate oneself in learning about others, whether it be studying language or religion.” — Michael Leads, Philadelphia
The hundreds of comments like the ones above which we receive, looking for the Quran online, proves the point that Muslims should devote themselves fully to disseminate God’s message among the people all over the world. (Khaja Kaleemuddin, Pennsylvania, USA)
واپس اوپر جائیں

Saturday 1 November 2014

Al Risala | November 2014 (الرسالہ،نومبر)

2

-اِزدیادِ ایمان

3

- کشمیر بیداری

7

- تسخیری عبادت، عارفانہ عبادت

8

- جنت اور انسان

9

- ایک حدیث

10

- وِلاء — بَراء

11

- سبیل ُ اللہ سے انحراف

13

- جہاد وقتال

14

- قرآن سے تعلق

15

- دنیا، آخرت

16

- عمر بن عبد العزیز

17

- دعوت کا ایک موقع

18

- مغرب کا ایجنڈا

20

- دورِ جدید کا مسئلہ

23

- صحبت ِ رسول

25

- فقدانِ شخصیت، فقدانِ معرفت

28

- پیغمبرانہ ماڈل، تاریخی ماڈل

30

- امن پر مبنی ایمپائر

31

- مساوات

33

- صبر کیا ہے

34

- کامل انسان

35

- مسلمانوں کے قومی تقاضے

36

- دعوت الی اللہ

37

- مذہبی انتہا پسندی

39

- سارا جہاں ہمارا

40

- پروموشن کی خبر

41

- ذہنی ارتقا

42

- تلوار بطور تمثیل

43

- شکایت بے جا

44

- خبرنامہ اسلامی مرکز


اِزدیادِ ایمان

ایمان پتھر کی طرح کوئی جامد چیز نہیں- ایمان ایک زندہ حقیقت ہے- ایمان میں مسلسل اضافہ ہوتا رہتا ہے- اِس حقیقت کو قرآن میں ازدیادِ ایمان ( 48:4) کہاگیا ہے- یعنی ایمان کا مسلسل بڑھتے رہنا- یہ اضافۂ ایمان، تدبر کے ذریعہ ہوتا ہے- مومن قرآن میں اور خدا کی نشانیوں میں برابر غور کرتاہے، اِس طرح اُس کو نئے نئے پہلوؤں کی دریافت ہوتی رہتی ہے- اِن دریافتوں کے ذریعہ اُس کے ایمان ویقین میں مسلسل اضافہ ہوتا رہتا ہے-
اِس کی ایک مثال سورج گرہن اور چاند گرہن کا معاملہ ہے- ہزاروں سال پہلے کے زمانے میں جب ایک انسان اِس ظاہرہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا تھا تو اُس وقت بھی یہ ظاہرہ اس کے ایمان میں اضافہ کا سبب بنتا تھا- وہ سوچتا تھا کہ اللہ کتنا زیادہ قدرت والا ہے- وہ روشن اجسام (سورج، چاند) پر اندھیرے کا پردہ ڈال دیتا ہے- اور پھر اندھیرے کا پردہ ہٹا کر، اُس کو دوبارہ روشن کردیتا ہے- یہ بھی اضافۂ ایمان کا واقعہ ہے- یہ واقعہ بھی صاحب ایمان کے لیے یقینی طورپر اضافۂ ایمان کا ذریعہ بنا ہوا تھا-موجودہ زمانے میں دور بین (telescope) کی ایجاد نے اضافۂ ایمان کے معاملے کو بہت زیادہ بڑھا دیا- آج جب دور بین کی مدد سے سورج گرہن اور چاند گرہن کا مطالعہ کیاگیا، تو معلوم ہوا کہ یہ ظاہرہ اللہ کی عظیم قدرت کا انوکھا نشان ہے- اب دور بینی مشاہدے کے ذریعہ معلوم ہوا کہ یہ گرہن اُس وقت ہوتا ہے، جب تین مختلف سائز کے متحرک اجسام وسیع خلا میں، ایک بے حدمتناسب دوری کے ساتھ ایک وقتِ خاص میں ایک سیدھ میں آجائیں:
Alignment of three moving bodies of different sizes at a particular point in time, in the vast space.
ازدیادِ ایمان کی نعمت اُس انسان کو حاصل ہوتی ہے، جس کے اندر مسلسل تدبر کے ذریعہ تخلیقی فکر (creative thinking) پیدا ہوگئی ہو-
واپس اوپر جائیں

کشمیر بیداری

ستمبر 2014 میں کشمیرمیں ایک تباہ کن سیلاب آیا- ایسے تباہ کن سیلاب کی مثال کشمیر کی سوسال کی تاریخ میں نہیں ملتی- اس تباہی کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ وہ ایک فطری آفت (natural calamity) تھی، یعنی وہ انسان کی طرف سے نہ تھی، بلکہ وہ براہِ راست خدا کی طرف سے تھی- ایسی حالت میں کشمیریوں کو چاہئے کہ وہ اس معاملے کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے خدا کی کتاب قرآن کا مطالعہ کریں-
حقیقت یہ ہے کہ کشمیر کا سیلاب سادہ طور پر ایک سیلاب نہ تھا، بلکہ وہ ایک خدائی انتباہ (Divine warning) تھا- وہ براہِ راست خدا کی طرف سے ایک پیغام تھا- کشمیریوں کو چاہیے کہ وہ اس واقعے کو اسی حیثیت سے دیکھیں- وہ کشمیر کے سیلاب کو خدا کی طرف سے بھیجا ہوا ایک اصلاحی پیغام قرار دیں-
قرآن میں ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکُمْ کِتٰبًا فِیْہِ ذِکْرُکُمْ ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ(21:10)- یعنی ہم نے تمھاری طرف ایک کتاب اتاری ہے جس میں تمھارے لیے نصیحت ہے- کیا تم سمجھتے نہیں- اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اہلِ ایمان کو چاہئے کہ وہ ہر موقعے پر قرآن کی آیتوں پر غور کریں- وہ ہر سوال کا جواب قرآن میں دریافت کریں- یہی عمل کشمیریوں کو موجودہ حالت میں کرنا چاہئے- یعنی قرآن میں غور کرکے اپنے لیے لائحہ عمل دریافت کرنا، ا ور اس کے مطابق اپنے عمل کا منصوبہ بنانا-
اس حیثیت سے قرآن کا مطالعہ کیجئے تو اس معاملے کی ایک نظیر حضرت یونس علیہ السلام کی زندگی میں ملتی ہے- حضرت یونس آٹھویں صدی قبل مسیح میں پیغمبر کی حیثیت سے نینویٰ (عراق) میں آئے- آپ نے یہاں کے لوگوں کو خدائے واحد کی طرف بلایا- ابتدائی طورپر قوم نے آپ کے پیغام کو نہیں مانا-
قرآن کے الفاظ میں حضرت یونس غضبناک ( 21:87) ہو کر نینویٰ سے باہر چلے گئے- اس کے بعد ایسے حالات پیش آئے کہ ایک سمندری مچھلی نے حضرت یونس کو نگل لیا- وہ تقریباً چالیس دن تک مچھلی کے پیٹ میں رہے- پھر انھوں نے توبہ کی، اللہ نے ان کی توبہ قبول کی، اور ان کو مچھلی کے پیٹ سے باہر نکال دیا( 37:145)- اس کے بعد حضرت یونس اپنی قوم میں واپس آئے، اور دوبارہ قوم کو اللہ کا پیغام پہنچایا- دوسری بار کی کوشش کامیاب ہوئی، اور پوری قوم نے حضرت یونس کے پیغام کو قبول کرلیا-
حضرت یونس کا مچھلی کے پیٹ میں جانا، بلا شبہہ ایک فطری آفت (natural calamity) تھی، اور کشمیریوں کے ساتھ ستمبر 2014 میں جو کچھ پیش آیا، وہ بھی بلا شبہہ ایک فطری آفت (natural calamity) تھی- اس مشابہت سے معلوم ہوتاہے کہ کشمیریوں کے لیے حضرت یونس علیہ السلام کے واقعے میں سبق ہے- کشمیر کے لوگوں کو حضرت یونس کے واقعے پر غور کرنا چاہئے، اور اس کی روشنی میں اپنے لیے عمل کا نیا منصوبہ بنانا چاہئے-
کشمیر کے معاملے پر اس حیثیت سے غور کیجئے تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یونس کی مثال براہِ راست طور پر کشمیریوں کے اوپر چسپاں ہوتی ہے- اور جیسا کہ قرآن سے معلوم ہوتا ہے، قرآن میں مذکور ہر پیغمبر کا نمونہ مسلمانوں کے لیے یکساں طورپر قابلِ اتباع ہے (6:90)-
حضرت یونس کے معاملے کی حقیقت یہ تھی کہ اہلِ نینویٰ کے لیے حضرت یونس کی دعوتی کوشش ابھی اللہ کے نزدیک تکمیل کی حد تک نہیں پہنچی تھی، مگر حضرت یونس نے ایسا کیا کہ اللہ کی طرف سے حکم ملنے سے پہلے نینویٰ سے ہجرت کرکے باہر چلے گئے- یہی وجہ تھی جس کی بنا پر ان کے  ساتھ مذکورہ واقعہ پیش آیا-
اہلِ ایمان کی یہ منصبی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام قوموں تک اللہ کا دین پہنچائیں- دعوت ایک پرامن جدوجہد ہے، جس کو خیر خواہی کے جذبے کے تحت اہلِ ایمان کو انجام دینا ہے- کشمیر کے مسلمانوں نے اپنی اس ذمہ داری کو ادا نہیں کیا- 1947 کے بعد جب کشمیر میں نیا دور آیا تو کشمیر کے مسلمانوں نے پر امن دعوتی جدوجہد کے بجائے پُر شور سیاسی جدوجہد (political activism) شروع کردیا- کشمیریوں کی یہی وہ غلطی ہے جس کی بنا پر خدا نے ستمبر 2014 کی فطری آفت (natural calamity) ان کے اوپر بھیج دی- یہ فطری آفت بلاشبہہ کشمیریوں کے لیے ایک خدائی انتباہ (divine warning) تھی-
حضرت یونس سے دعوت کی ذمہ داری میں جزئی کمی واقع ہوئی تھی، اس کے نتیجے میں وہ سمندری طوفان کا شکار ہوگئے- کشمیریوں نے اپنی دعوتی ذمہ داری کے معاملے میں کامل غفلت کا ارتکاب کیا ہے، ایسی حالت میں ان کے لئے خدا کی پکڑ سے بچنا ممکن نہ تھا-
کشمیر میں دعوت کے بہت زیادہ مواقع ہیں- کشمیریوں کی غلطی یہ ہے کہ انھوں نے دعوت کے ان مواقع کو استعمال نہیں کیا- اب وقت آگیا ہے کہ وہ اجتماعی توبہ ( 24:31) کریں-کشمیر کے مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنی سیاسی سرگرمیوں کو ختم کردیں، اور پرامن دعوت کے کام کے لیے سرگرم ہوجائیں- یہی وہ واحدعمل ہے جو خدا کی رحمت کو دوبارہ کشمیر کے مسلمانوں کی طرف واپس لاسکتا ہے-کشمیر کے مسلمان اگر ایسا نہ کریں تو کوئی دوسری سرگرمی ہر گز ان کو اللہ کی رحمت کا مستحق بنانے والی نہیں-
دعوت الی اللہ ایک لازمی فریضہ ہے، دعوت الی اللہ ہر مسلمان کا اصل منصبی مشن ہے- دعوت الی اللہ یعنی اللہ کا پیغام تمام لوگوں تک پہنچانا، ایک ایسا کام ہے جس کی ادائیگی ہر حال میں مطلوب ہے- مسلمان اگر دعوت الی اللہ کا کام نہ کریں تو وہ اللہ کی پکڑ سے بچنے والے نہیں-
کشمیری مسلمانوں کے لیے خاص طور پر اس کی اہمیت اور زیادہ ہے- کشمیرکی امتیازی خصوصیات کی بنا پر لوگ بڑی تعداد میں اس ریاست میں باہر سے برابر آتے رہتے ہیں- یہ آنے والے لوگ بظاہر سیاح یا یاتری، وغیرہ ہوتے ہیں، لیکن اگر انسانی فطرت کے اعتبار سے دیکھئے تو ان میں سے ہر شخص متلاشی (seeker)ہوتا ہے- ان میں سے ہر شخص خاموش زبان میںکہہ رہا ہوتا ہے کہ اے کشمیریو، ہم تمھارے یہاں آئے ہیں تاکہ تم ہم کو وہ سچائی دو جو اللہ کی بھیجی ہوئی ہدایت کی صورت میں تمھارے پاس موجود ہے- اس طرح کشمیر عملاً ایک مدعو لینڈ بن گیا ہے-
مذکورہ پہلوؤں نے کشمیر کو مسلم دنیا میں ایک امتیازی خطے کی حیثیت دے دی ہے- کشمیر میں خدا کے خاص منصوبے کے تحت بے شمار دعوتی اسباب جمع ہوگئے ہیں- دنیا کشمیر کو جنت نظیر (Paradise on Earth) کہتی ہے، انڈیا اس کو اپنا تاج (Crown) بتاتا ہے- مگر حقیقت یہ ہے کہ کشمیر خدا کی جنت کے تعارف کا ایک خصوصی مقام ہے-
عظیم دعوتی مواقع کے پس منظر میں یہ کہنا یقیناً درست ہوگا کہ اس دور میں کشمیر کو اللہ کی طرف سے بلا تمثیل وہ رول ملا ہے، جو دور اول میں مدینہ کو ملا تھا- اس دعوتی امکان (Dawah opportunity) کو استعمال نہ کرنا بلا شبہہ ایک مجرمانہ فعل ہوگا-
اللہ نے کشمیریوں کے لیے دعوت کا عظیم رول مقدر کردیا ہے جس وقت وہ اپنے حقیقی رول کو دریافت کریں گے، اور وہ اس کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے تو وہ وقت کی ایک بریکنگ نیوز (breaking news) ہوگی- عین ممکن ہے کہ کشمیریوں کا یہ عمل موجودہ زمانے میں اسلام اور مسلمانوں کی ایک نئی تاریخ کا آغاز بن جائے-
واپس اوپر جائیں

تسخیری عبادت، عارفانہ عبادت

عبادت الہٰی پوری کائنات کا دین ہے، انسان کا بھی اور دوسری موجودات کا بھی-فرق یہ ہے کہ دوسری موجودات سے تسخیری عبادت مطلوب ہے، یعنی جبری عبادت (compulsory ibadat)، اور انسان سے اختیارانہ عبادت (Ibadat by choice)- اسی اختیارانہ عبادت کو قرآن میں، امانت (33:72) کہاگیا ہے-
مجبورانہ عبادت پر کوئی انعام (reward) نہیں- لیکن اختیارانہ عبادت کا معاملہ، اِس سے  مختلف ہے- اختیارانہ عبادت، ایک ذمہ داری کا معاملہ ہے- اختیارانہ عبادت کے ساتھ، سزا اور انعام دونوں جڑے ہوئے ہیں- اختیارانہ عبادت میں اگر آدمی ناکام ہوجائے، تو اُس کی سخت پکڑ ہوگی- اِس کے برعکس، اختیارانہ عبادت میں جو کامیاب رہے، اُس کے لیے بڑے بڑے انعامات ہیں۔
انسان کو اِس دنیا میں جو اختیار دیاگیا ہے، وہ پوری کائنات کی سب سے بڑی نعمت ہے- اختیار خداوند رب العالمین کی صفت ہے- انسان کو اِس خداوندی صفت کا ایک شمّہ عطا کیا گیا ہے- یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ ہر عطیہ کے ساتھ، ذمہ داری جڑی ہوئی ہوتی ہے- انسان کو جب اختیار کا عظیم عطیہ دیاگیا، تو اُس کے ساتھ ہی یہ لازم ہوگیا کہ یہ دیکھا جائے کہ انسان، اِس عظیم نعمت کا درست استعمال کرتا ہے یا غلط استعمال- اِسی کے ساتھ یہ بھی لازم ہوگیا کہ اختیار یا آزادی کے صحیح استعمال پر انسان کو اعلی انعام دیاجائے، اور اِسی کے ساتھ اختیار اور آزادی کے غلط استعمال پر اُس کو اُس کے مطابق سزا دی جائے-
کائنات کی تمام چیزیں، اللہ کی تسخیری عبادت کررہی ہیں- انسان کی یہ صفت ہے کہ وہ اللہ کی عارفانہ عبادت کرتاہے- وہ اپنے عقل کو استعمال کرکے، اللہ کو دریافت کرتا ہے- وہ اپنے اوپر اللہ کی نعمتوں کا ادراک کرتا ہے- اِس احساس کے ساتھ جب وہ اپنے آپ کو اللہ کے آگے جھکا دیتا ہے، تو اسی کا نام عارفانہ عبادت ہے-
واپس اوپر جائیں

جنت اور انسان

جنت اور انسان ایک دوسرے کا مثنیٰ (counterpart) ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے تکمیلی (complementary)چیز کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جنت انسان کے لیے بنائی گئی ہے اور انسان جنت کے لیے۔ حقیقت یہ ہے کہ — جنت مطلوبِ انسان ہے اور انسان مطلوبِ جنت۔ انسان کے بغیر جنت ادھوری ہے، اور جنت کے بغیر انسان ادھورا۔ یہ بات خود تخلیقی منصوبے میں شامل ہے کہ اِس دنیا میں جنتی انسان تیار ہوں جو جنت کی ابدی دنیا میںبسائے جاسکیں۔
قرآن کی سورہ النساء میں یہ آیت آئی ہے: مَا یَفْعَلُ اللّٰہُ بِعَذَابِکُمْ اِنْ شَکَرْتُمْ وَاٰمَنْتُمْ ۭ وَکَانَ اللّٰہُ شَاکِرًا عَلِــیْمًا (4:147) یعنی اللہ تم کو عذاب دے کر کیا کرے گا، اگر تم شکر گزاری کرو اور ایمان لاؤ۔اللہ بڑا قدرداں ہے، وہ سب کچھ جاننے والا ہے۔
اِس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے تخلیقی منصوبے کا تقاضا اِس طرح پورا نہیں ہوتا کہ لوگ بُرے اعمال کرکے اپنے آپ کو جہنم کا مستحق بنا لیں۔ اللہ کا تخلیقی منصوبہ یہ چاہتا ہے کہ لوگ اپنے آپ کو جنت کا مستحق ثابت کریں، اور پھر آخرت میں پہنچ کروہ جنت کے باغوں میں آباد ہوں۔
مفسر ابوالبرکات النسفی (وفات: 1310ء) نے مذکورہ آیت کی تشریح کے تحت لکھا ہے: الإیمان: معرفۃ المنعم، والشکر: الاعتراف بالنعمۃ (تفسیر النسفی: 1/259) یعنی ایمان، منعم کی معرفت ہے، اور شکر، نعمت کے اعتراف کا نام ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے سے جُڑی ہوئی ہیں۔ ایمان کا مطلب یہ ہے کہ آدمی شعوری طور پر اپنے رب کو دریافت کرے، وہ مخلوق کے ذریعے خالق کا تعارف حاصل کرے۔ شکر کا مطلب خدا کی نعمتوں کا اعتراف ہے۔ اِس دنیا میں جو کچھ انسان کو ملا ہوا ہے، وہ سب خدائے برتر کا انعام (blessing)ہے۔ اِس انعام کے لیے دل سے منعم (giver)کا معترف ہونا، بلاشبہہ کسی انسان کے لیے سب سے بڑی عبادت کی حیثیت رکھتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

ایک حدیث

حدیث کی کتابوں میں ایک روایت ان الفاظ میں آئی ہے: ’’عن أبی ہریرة، قال، جلس جبریل إلى النبی صلى اللہ علیہ وسلم فنظر إلى السماء فإذا ملک ینزل، فقال جبریل: إن ہذا الملک ما نزل منذ یوم خلق، قبل الساعة، فلما نزل قال، یا محمد، أرسلنی إلیک ربک، أفملکا نبیا یجعلک،أو عبدا رسولا؟ قال جبریل: تواضع لربک یا محمد۔ قال: بل عبداً رسولاً۔ (مسند أحمد: 7160) یعنی جبریل آئے اور رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھ گئے۔ انھوں نے آسمان کی طرف دیکھا۔ اُس وقت ایک فرشتہ آسمان سے اتر رہا تھا۔ جبریل نے کہا کہ یہ فرشتہ اپنی پیدائش کے بعد، اس وقت سے پہلے کبھی زمین پر نہیں آیا۔ جب وہ فرشتہ آگیا تو اس نے کہاکہ اے محمد، آپ کے رب نے مجھ کو آپ کے پاس بھیجا ہے۔ اللہ آپ کو بادشاہ نبی بنائے یا عبدرسول۔ جبریل نے کہا کہ اے محمد، اپنے رب کے لیے متواضع بنئے۔ آپ نے فرمایا کہ ہاں، میں عبدرسول بننا پسند کرتاہوں-
یہی وہ بات ہے جس کو قرآن میں وبشراً رسولاً (17:93) کہاگیا ہے۔ مزید یہ کہ یہ بات صرف پیغمبر کے لیے نہیں ہے، بلکہ پیغمبر کی امت کے لیے بھی ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، پیغمبر ہر اعتبار سے امت کے لیے نمونہ ہے اور یقیناً اس حدیث رسول سے معلوم ہوا کہ پیغمبراور پیغمبر کی امت کا منصب یہ نہیں ہے کہ وہ اِس دنیا میں لوگوں کے اوپر سیاسی حکمرانی (political rule)قائم کرے۔ قانونِ فطرت کے مطابق، اِس دنیا میں سیاسی حاکمیت کسی ایک گروہ کی اجارہ داری نہیں۔ اہلِ ایمان کا مقصد یہ ہے کہ وہ دنیا میں عبد اور بشر بن کررہیں ، وہ اِس دنیا میں قانون کے نفاذ کا جھنڈا نہ اٹھائیں، بلکہ خود اپنے آپ کو اللہ کے احکام کا پابند بنائیں۔ اِس دنیا میں انسان کا امتحان اپنی ذات کے اعتبار سے ہے، نہ کہ اقوامِ عالم کے اعتبار سے-پیغمبر نے جو بات اپنے لیے عبد رسول کے الفاظ میں کہی تھی، وہی دوسرے لوگوں کے لیے عبد انسان کے طورپر درست ہے-
واپس اوپر جائیں

وِلاء — بَراء

علماء نے یہ نظریہ وضع کیا ہے کہ مسلمانوں کے لیے، انسانوں کے ساتھ تعلق کی صرف دو بنیادیں ہیں — وِلاء اور بَراء- وِلاء کا مطلب ہے، دوستی رکھنا، اور براء کا مطلب ہے جدائی رکھنا- اِن حضرات کا کہنا ہے کہ مسلمانوں پر یہ فرض ہے کہ وہ وِلاء (دوستی) کا تعلق صرف ان لوگوں سے رکھیں، جو مسلمان ہیں- اور جو لوگ اسلام کے دائرے سے باہر ہیں، ان کو وہ اپنا غیر سمجھیں، اور اُن سے جدائی کا تعلق قائم کریں- یہ ایک قومی نظریہ ہے نہ کہ اسلامی نظریہ-
اِن حضرات نے یہ نظریہ سورہ الممتحنہ کی آیت نمبر ایک اور آیت نمبر چار سے أخذ کیا ہے- مگر یہ نظریہ، ایک بے بنیاد نظریہ ہے- اُس کا اسلامی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں- شانِ نزول کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سورہ الممتحنہ، فتح مکہ سے کچھ پہلے اُس وقت نازل ہوئی، جب کہ حاطب بن ابی بلتعہ کا مشہور واقعہ پیش آیا تھا- چنانچہ سورہ الممتحنہ میں وِلاء اور بَراء کی بات جو کہی گئی ہے، وہ کوئی عمومی بات نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق ان خصوصی حالات سے ہے، جو کہ حاطب ابن ابی بلتعہ کے واقعے کے زمانے میں عرب میں موجود تھے-
حقیقت یہ ہے کہ سورہ الممتحنہ میں جو بات کہی گئی ہے، وہ اُس وقت کے لیے ہے، جب کہ جنگ کے حالات ہوں اور اہلِ اسلام اور غیر اہلِ اسلام عملاً ایک دوسرے کے خلاف برسرِ جنگ (at war) ہوں- اِن آیات کا تعلق اُس صورت حال سے نہیں ہے، جب کہ حالتِ جنگ کا خاتمہ ہوجائے اور دونوں گروہوں کے درمیان امن کی حالت قائم ہوجائے-
موجودہ زمانہ میں جو مسلمان ہیں، ان کا تعلق دوسری قوموں سے قوانینِ امن کی بنیاد پر قائم ہوگا، نہ کہ قوانینِ جنگ کی بنیاد پر- مذکورہ بے بنیاد نظریے کا یہ نتیجہ ہوا ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمان، غیر ضروری طورپر دوسری قوموں کو اپنا دشمن سمجھنے لگے ہیں- وہ اُن سے نفرت کرتے ہیں- حتی کہ وہ اُن کے خلاف تشدد پر اتر آتے ہیں- یہ سب بلاشبہہ، وہ باتیں ہیں، جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں-
واپس اوپر جائیں

سبیل ُ اللہ سے انحراف

ایک روایت حدیث کے مختلف کتابوں میں آئی ہے- مسند احمد (رقم الحدیث: 4142) کے الفاظ یہ ہیں: عن عبد اللہ بن مسعود قال: خطّ لنا رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم یوماً خطًّا، قم قال: ہذا سبیل اللہ، ثم خطّ خطوطاً عن یمینہ وعن شمالہ ثم قال: ہذہ سُبُل متفرقة على کلّ سبیل منہا شیطان یدعوا إلیہ- ثم قرأ ہذہ الایة: ’’وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِـیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ ۚ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ‘‘ (6:153)-
عبد اللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن ہمارے سامنے زمین پر ایک سیدھی لکیر کھینچی، پھر آپ نے فرمایا کہ یہ اللہ کا رستہ ہے- پھر آپ نے اِس سیدھی لکیر کے دائیں اور بائیں کچھ لکیریں کھینچیں، پھر آپ نے فرمایا کہ یہ متفرق راستے ہیں- اِن متفرق رساتوں میں سے ہر راستے پر ایک شیطان ہے جو اپنی طرف بلا رہا ہے- پھر آپ نے قرآن کی یہ آیت پڑھی: ’’یہ ہے میرا سیدھا راستہ، تم اس کی پیروی کرو- اور تم متفرق راستوں کی پیروی نہ کرو، ورنہ تم بھٹک جاؤگے‘‘-
اِس حدیث رسول کی وضاحت قرآن کی اِس آیت سے ہوتی ہے: قل ہذا سبیلی ادعوا إلی اللہ علی بصیرة أنا ومَن اتبعنی (12:108) یعنی کہو، یہ میرا راستہ ہے- میں اللہ کی طرف بلارہا ہوں پوری بصیرت کے ساتھ، میں بھی اور وہ لوگ بھی جنھوں نے میری پیروی کی ہے-
مذکورہ حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اہلِ ایمان کی سرگرمیوں کا اصل نشانہ دعوت الی اللہ ہے- ان کو اِسی صراطِ مستقیم پر تاحیات چلتے رہنا ہے- اُن کی ذمے داری ہے کہ جس طرح پیغمبر نے دعوت الی اللہ کو اپنا مرکزی نشانہ بنایا اور اپنی ساری توانائی اِسی پر صرف کردی، اسی طرح اہلِ ایمان کو چاہیے کہ پیغمبر اسلام کے بعد وہ دعوت الی اللہ کو اپنا مرکزی نشانہ بنائیں اور نسل درنسل اِسی نشانہ پرقائم رہیں-
مگر انسان کی زندگی موجودہ دنیا میں مسائل سے بھری ہوئی ہے-بار بار ایسے خلافِ مزاج واقعات پیش آتے ہیں جو آدمی کو مشتعل کردیں، اور اس کی توجہ کو اصل نشانے سے بھٹکا کر دوسری طرف پھیر دیں-یہی وہ صورتِ حال ہے جو شیطان کو بار بار یہ موقع دیتی ہے کہ وہ اہلِ ایمان کو بھڑکا کر انھیں انحرافی نشانوں کی طرف پھیر دے-وہ دعوت الی اللہ کے راستے سے ہٹ کر لوگوں کی طرف سے پیدا کردہ مسائل میں الجھ جائیں- اہلِ ایمان کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں ہمیشہ اپنا محاسبہ کرتے رہیں- جب بھی وہ دیکھیں کہ کوئی پیش آمدہ صورت حال انھیں دعوت الی اللہ کے راستے سے ہٹا رہی ہے تو وہ اس کو شیطان کا بہکاوا سمجھیں، اور شیطان سے پناہ مانگتے ہوئے دوبارہ وہ دعوت الی اللہ کے راستے پر قائم ہوجائیں-
موجودہ زمانے میں دعوت الی اللہ کے راستے سے یہ انحراف بہت بڑے پیمانے پر پیش آیا ہے- موجودہ زمانے میں مسلمانوں کو دوسری قوموں سے کچھ مادی اور سیاسی شکایتیں پیدا ہوئیں- مسلمان ان شکایتوں پر بھڑک اٹھے اور وہ دوسری قوموں سے لڑنے لگے- موجودہ زمانے کے تقریباً تمام مسلمان اِس انحراف کا شکار ہوگئے- کچھ مسلمان دوسری قوموی کے خلاف منفی بولی بولنے لگے، اور کچھ مسلمان اُن سے باقاعدہ مسلّح ٹکراؤ کرنے لگے- انھوں نے نہ صرف دعوت الی اللہ کے کام کو چھوڑ دیا، بلکہ انھوں نے مزید یہ کیا کہ اپنے مدعو کو اپنا حریف اور دشمن قرار دے دیا- اس طرح اُن کا انحراف اپنی آخری حد پر پہنچ گیا-
یہ معاملہ جو موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے ساتھ پیش آیا، وہ بلاشبہہ’سبیل اللہ‘ سے کھلا ہوا انحراف تھا، وہ خدا کی مرضی کے مطابق نہ تھا- اس کا ثبوت یہ ہے کہ دنیا بھر کے تمام مسلم رہنماؤں کی طویل قربانی کے باوجود اس کا کوئی نتیجہ نہ نکلا، بلکہ برعکس طورپر وہ مسلمانوں کی ذلت اور ناکامی میں اضافے کا سبب بن گیا-
موجودہ زمانے کے تمام لکھنے اور بولنے والے مسلمان اس پسپائی کا ذمے دار دوسری قوموں کو بتا کر اُن کے خلاف منفی پروپیگنڈے کی مہم چلائے ہوئے ہیں- یہ سرتاسر ایک بے نتیجہ کام ہے- مسلمانوں کو صرف یہ کرنا ہے کہ وہ اپنی ان تحریکیوں کو انحراف کی تحریکیں قرار دے کر اُنھیں ترک کردیں- وہ دوبارہ دعوت الی اللہ کے مقرر راستے پر قائم ہوجائیں- مسلمانوں کے لیے اصلاً یہ اصلاحِ خویش کا ایک معاملہ ہے، نہ کہ دوسروں کو سازشی قرار دے کر ان کے خلاف منفی مہم چلانے کا معاملہ-
واپس اوپر جائیں

جہاد وقتال

جہاد ایک عربی لفظ ہے- اس کے معنی وہی ہیں جس کو پُرامن جدوجہد (peaceful struggle) کہا جاتا ہے- اس پُر امن جدوجہد سے مراد اصلاً دعوتی جدوجہد ہے، جیسا کہ قرآن کی سورہ الفرقان میںارشاد ہوا ہے: وجاہدہم بہ جہاداً کبیرا (25:52)یعنی پُرامن جدوجہد کے ذریعے لوگوں تک قرآن کا پیغام پہنچانا-
دعوت اصلاً ایک نظریاتی جدوجہد (ideological struggle) ہے- یہ ایک بے حد وسیع کام ہے- اس کے مختلف تقاضے ہیں- دعوت کے کام کو جب اس کے تمام مطلوب تقاضوں کے ساتھ انجام دینے کی کوشش کی جائے تو وہ ایک عظیم جدوجہد بن جاتا ہے- اسی لیے اس دعوتی عمل کو جہاد کہاگیا ہے-
اصلاً جہاد کا مطلب یہی ہے- تاہم بعض اوقات اس کے توسیعی مفہوم کے اعتبار سے، جہاد کے لفظ کو قتال (جنگ) کے معنی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے، لیکن یہ اُس کا صرف توسیعی مفہوم ہے- جہاں تک احکام اورآداب کا تعلق ہے، جہاد اور قتال دونوں کے احکام اور آداب ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں- جہادِ دعوت کا اصل نشانہ فریقِ ثانی کی سوچ کو بدلنا ہوتا ہے، جب کہ قتال کا نشانہ برعکس طورپر فریقِ ثانی کا استیصال کرنا ہے-
جہاد اور قتال کے درمیان ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ جہاد بمعنی دعوت ایک عمومی حکم ہے- دعوتی جہاد ہمیشہ اور ہر حال میں کرنا ہے- جہادِ دعوت کا نشانہ اللہ کے پیغام کو اُس کے بندوں تک پہنچانا ہے- دعوتِ انسانی خیر خواہی پر مبنی ایک مثبت کام ہے جو ہر زمانے میں اور ہر نسل میں جاری رہتا ہے- اِس کے برعکس، جہاد بہ معنی قتال ایک وقتی عمل ہے جو صرف اُس وقت کیا جاتا ہے جب کہ کوئی بیرونی ملک کسی مسلم ملک پر مسلح حملہ کردے- اِس حملے کا مقابلہ کرنے کی ذمے داری افراد پر نہیں ہے، اس کی ذمے داری صرف منظّم حکومت پر ہے جو حسب ضرورت اس کا انتظام کرتی ہے-
واپس اوپر جائیں

قرآن سے تعلق

قرآن کے بارے میں ایک روایت اِن الفاظ میں آئی ہے: عن أبی موسى عن النبی صلى اللہ علیہ وسلم قال: تعاہدوا القرآن، فوالذی نفسی بیدہ لہو أشد تفصیا من الإبل فی عقلہا (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 5033) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم قرآن کی حفاظت کرو، کیوں کہ قرآن اُس سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ نکل جانے والا ہے جس طرح اونٹ اپنی رسی سے چھوٹ کر نکل جاتا ہے-
اس حدیث میں قرآن کی حفاظت سے مراد اس کی لفظی حفاظت نہیں ہے، بلکہ اس کی معنوی حفاظت ہے- قرآن کے معانی، بہ الفاظ دیگر، قرآنی طرزِ فکر، ایک ایسی چیز ہے جو صرف اُس وقت آدمی کے ذہن کا حصہ بنتا ہے جب کہ آدمی اس پر مسلسل طورپر سوچے، جب کہ وہ اس کے تفکیری عمل (thinking process) کا مستقل جزء بناہوا ہو- اگر ایسا نہ ہو تو قرآن بہت جلد فراموشی کے خانے میں چلا جائے گا- وہ آدمی کے زندہ حافظہ (living memory) میں باقی نہ رہے گا-
اس کا سبب یہ ہے کہ موجودہ زندگی میں آدمی ہر لمحہ مسائل حیات سے دوچار رہتا ہے- طرح طرح کے دنیوی تقاضے ہر لمحہ آدمی کو اپنی طرف کھینچتے رہتےہیں- قرآن مکمل طورپر ایک کتاب آخرت ہے، جب کہ انسان مکمل طورپر ایک دنیوی مخلوق ہے- یہی وہ فرق ہے جس کی طرف مذکورہ حدیث میں اشارہ کیا گیا ہے-
اس صورت حال میں کسی مومن کے لیے صاحبِ قرآن بننے کی صرف ایک شرط ہے، یہ کہ وہ اپنے اندر تجریدی فکر (detached thinking) کی صلاحیت پیدا کرے- وہ ایک غیر قرآنی دنیا میں قرآنی ذہن کے ساتھ رہ سکے-جب ایسا ہوگا کہ آدمی مسلسل طورپر قرآن کی آیتوں پر غور کرے گا تو وہ قرآن میں نئے نئے معانی کی دریافت کرے گا- اس طرح قرآن پر اس کا یقین بڑھتا چلا جائے گا-
واپس اوپر جائیں

دنیا، آخرت

قرآن میں انسان کے بارے میں ایک عمومی تبصرہ کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے: اِنَّ ہٰٓؤُلَاۗءِ یُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَةَ وَیَذَرُوْنَ وَرَاۗءَہُمْ یَوْمًا ثَــقِیْلًا(76:27) یعنی یہ لوگ جلدی ملنے والی چیز کو چاہتے ہیں اور انھوں نے اپنے پیچھے ایک بھاری دن کو چھوڑ رکھا ہے-
انسان کو ابدی مخلوق کی حیثیت سے پیدا کیا گیا ہے، لیکن اس کی مدتِ حیات کے دو حصے ہیں — موت سے قبل (pre-death period) اور موت کے بعد (post-death period)- انسان کی عام کمزوری یہ ہے کہ وہ قبل از موت زندگی کو لے کر سوچتا ہے، بعد از موت زندگی کو لے کر وہ سوچ نہیں پاتا- یہی وہ حقیقت ہے جو قرآن کی مذکورہ آیت میں بیان کی گئی ہے-یہ کوئی سادہ بات نہیں- یہی بات ہے جو انسان کی پوری سوچ کو صحیح رخ یا غلط رخ دیتی ہے- جو شخص موت سے قبل کے مسائل کو لے کر سوچے، اس کے اندر دنیا رخی سوچ (world-oriented thinking) ڈیولپ کرے گی- اس کی سوچ ہر اعتبار سے، غیر حقیقت پسندانہ سوچ بن جائے گی- اس کے برعکس، جو شخص موت کے بعد کے مسائل کو لے کر سوچے، اس کے اندر آخرت رخی سوچ (Akhirat-oriented thinking) ڈیولپ ہوگی- اس کی سوچ ہر اعتبار سے حقیقت پسندانہ سوچ بن جائے گی- حقیقت پسندانہ سوچ ہی کا دوسرا نام صحیح طرزِ فکر (right thinking) ہے- اِسی طرح غیر حقیقت پسندانہ سوچ ہی کا دوسرا نام غلط طرزِ فکر (wrong thinking) ہے-
انسان کے بننے یا بگڑنے کا تمام تر انحصار اِسى بات پر ہے۔ جو شخص اپنے اندر دنیا رخی مزاج ڈیولپ کرے گا تو یہ اس کی پوری سوچ کو غلط رخ پر ڈال دے گا- اِس کے برعکس، جس آدمی کا ذہن آخرت رخی ذہن ہو، اس کے اندر آخرت رخی مزاج ڈیولپ کرے گا جو اس کی پوری سوچ کو صحیح سمت میں جاری کردے گا — یہی وہ چیز ہے جو انسان کی شخصیت کی تعمیر (personality building) میں اصل اہمیت رکھتی ہے-
واپس اوپر جائیں

عمر بن عبد العزیز

عمر بن عبدالعزیز (وفات: 720ء) کی پیدائش مدینہ میں ہوئی۔ مگر خلیفہ کی حیثیت سے وہ شام کے شہر دمشق میں رہے جواس وقت اسلام کادار الخلافہ تھا۔ آپ کی وفات شام کے ایک اورشہر حلب میں ہوئی۔ شام کا ملک جن اسلامی شخصیتوں کی یاد دلاتا ہے ان میں سے ایک ممتاز نام عمر بن عبد العزیز کا ہے۔ جو پانچویں خلیفۂ راشد کہے جاتے ہیں۔
صحابۂ کرام کے بعد پوری اسلامی تاریخ میں عمر بن عبد العزیز واحد شخص ہیں جو صحابہ کے مزاج سے کامل مناسبت رکھتے تھے۔ عمر بن عبدالعزیز کا مشہور واقعہ ہے کہ جراح بن عبد اللہ (عامل خراسان) نے ان سے کہا کہ لوگ کثرت سے مسلمان ہورہے ہیں اس پر ہمیں پابندی لگانا چاہیے ورنہ حکومت کی آمدنی میں بہت زیادہ کمی ہوجائے گی۔کیوں کہ اسلام قبول کرتے ہی آدمی کے اوپر سے جزیہ معاف ہوجاتا ہے۔ عمر بن عبدالعزیز نے جواب دیا: اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو داعی بنا کر بھیجا ہے، نہ کہ ٹیکس وصول کرنے والا(إن اللّہ إنما بعث محمداً صلى اللہ علیہ وسلم داعیاً، ولم یبعثہ جابیاً) البدایة والنہایة9/213-
عمر بن عبدالعزیز کے اس قول میں جو ’’شعورِ دعوت‘‘ ہے وہ مجھے صحابہ کے بعد کسی بھی دوسرے شخص کے یہاں نظر نہیں آتا۔
عمر بن عبدالعزیز کا زمانہ پہلی صدی ہجری کا آخری زمانہ ہے۔ اس زمانہ میں ہر طرف فتوحات کا چرچا تھا۔ پوری ملت پر سیاسی اور غزواتی طرز فکر چھایا ہوا تھا۔ ایسے حالات میں دعوت کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے وہ ذہن درکار تھا جو دور کے خلاف سوچ سکے۔ جو حالات سے اوپر اٹھ کر غیر متاثر انداز میں اپنا ذہن بنانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔عمر بن عبد العزیز کا مذکورہ قول اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کے اندر یہ نادر ترین صفت بدرجہ اتم موجود تھی۔ انھوں نے دَور کے خلاف سوچا۔ وہ عملاً ’’دورتلوار‘‘ میں تھے، مگر انھوں نے ذہنی سفر کے ذریعہ اپنے آپ کو ’’دوردعوت‘‘ میں پہنچا یا۔
واپس اوپر جائیں

دعوت کا ایک موقع

22-24 دسمبر 2013 کو نئی دہلی کی ایک یونی ورسٹی میں اسلامک اسٹڈیز کے نصاب کے موضوع پر ایک سہ روزہ ورک شاپ منعقد ہوئی- اِس میں ملک کے مختلف حصوں سے آئے ہوئے مسلم دانشور شریک ہوئے- ایک مشہور مسلم اسکالر نے اِس موقع پر اپنا کلیدی خطبہ (keynote address) پیش کیا- اِس تحریری خطبے میں یہ الفاظ درج تھے: ’’اب مشرق ومغرب دونوں طرف اسلامک اسٹڈیز اپنے منفرد تشخص کے ساتھ جانی پہچانی جاتی ہے اور خاص طورپر انڈر گریجویٹ سطح پر، کم ازکم امریکا میں، ایک مقبولِ عام مضمون ہے- طلبا کا اس طرف رجحان اِس لیے بڑھا ہے کہ حالیہ واقعات کی روشنی میں وہ اسلام اور مسلمانوں کو مستقبل کی تشکیل وتوجیہہ میں ایک فیصلہ کن عنصر تسلیم کرتے ہیں‘‘-
یہ اقتباس بتاتا ہے کہ موجودہ زمانے کے اسکالر حضرات کی تحریروں اور تقریروں سےکوئی ذہن کیوں نہیں بنتا- یہ لوگ اپنی بات کو اِس طرح دو طرفہ انداز میں بیان کرتے ہیں جس سے یہ امر واضح نہیں ہوتا کہ محرر یا مقرر کا مقصود کیا ہے- اسکالر حضرات کے اِسی مزاج کی بنا پر اُن کے کلام میں وضوح (clarity)نہیں ہوتی، اور جب کلام میں وضوح نہ ہو تو وہ کسی کے ذہن کو ایڈریس نہیں کرے گا-
یہ سمجھنا کہ ’’اسلام مستقبل کی تشکیل میں فیصلہ کن عنصر‘‘ بننے والا ہے، اس لیے مغربی دنیا میں اسلام کے مطالعے کا رجحان پیدا ہوا ہے، یہ درست نہیں- یہ اصل صورتِ حال کو خود ساختہ مسلم ذہن کے تحت دیکھنا ہے، نہ کہ اصل مغربی ذہن کے تحت- مغربی نوجوانوں کے ایک طبقے میں اسلام (صحیح تر الفاظ میں مسلم) کو جاننے کا ذوق اِس مفروضے کی بنیاد پر نہیں پیدا ہوا ہے کہ اسلام اُن کو مستقبل کا معمار دکھائی دیتا ہے- اِس رجحان کا سبب تمام تر منفی ہے- اِس کا واحد سبب یہ ہے کہ نائن الیون کے بعد اہلِ مغرب مسلمانوں کو (نہ کہ اسلام کو) ایک خطرہ (danger) کے روپ میں دیکھنے لگے ہیں- خود اہلِ مغرب کی طرف سے یہ کوئی مثبت رجحان نہیں، البتہ اِس صورتِ حال نے ہمارے لیے ایک موقع کھول دیا ہے، وہ یہ کہ ہم اُن کے سامنے اسلام کا صحیح تعارف پیش کرکے اُن کے حق میں اپنی دعوتی ذمے داری کو ادا کرسکیں-
واپس اوپر جائیں

مغرب کا ایجنڈا

موجودہ زمانے کے علماء اور مسلم دانشور عام طورپر یہ سمجھتے ہیں کہ دنیائے اسلام کے بارے میں مغرب کا ایک ایجنڈا ہے اور اِس ایجنڈے کو وہ پوری طاقت کے ساتھ نافذ کررہا ہے- اِس سلسلے میں بطور مثال یہاں ایک حوالہ نقل کیاجاتا ہے- یہ حوالہ موجودہ مسلم دنیا کے مشہور دانشور ڈاکٹر محمود احمد غازی (وفات: 2010) کا ہے- انھوں نے الشریعہ اکیڈمی، گوجرانوالہ، پاکستان کے تحت ایک محاضرے میں بتایا کہ 2003 میں وہ جرمنی کی ایک کانفرنس میں شریک ہوئے- اِس کا عنوان یہ تھا:
Is Islam a Threat to the West and Europe?
اِس کانفرنس میں ڈاکٹر محمود احمد غازی نے کہا کہ مسلم مفکرین کی بڑی تعداد کا نقطہ نظر مغرب کے بارے میں یہ ہے کہ اس کے مثبت پہلوؤں سے مسلمانوں کو استفادہ کرنا چاہئے اور اس کے منفی پہلوؤں کو قبول نہیں کرنا چاہئے- انھوں نے بتایا کہ اس کے جواب میں کانفرنس میں موجود مغربی نمائندوں نے کہا کہ مغرب اِن شرائط پر اپنی ٹکنالوجی اور اپنی تہذیب وتمدن سے آپ کو استفادہ کرنے کی اجازت دینے کو تیار نہیں ہوگا- یہ ایک پورا پیکیج ہے جس کو آپ کو جوں کا توں قبول کرنا پڑے گا- اِس میں مغرب آپ کو اخذ وانتخاب (pick and choose)کی اجازت نہیں دے گا (ماہ نامہ الشریعہ، مارچ 2005، صفحہ: 10-12 )
یہ پورا بیان عصر حاضر سے بے خبری کی پیداوار ہے- اِس معاملے میں عصر حاضر کا ذہن وہی ہے جو امریکا کے بارے کہاگہا ہے، یعنی:
The business of America is business
اصل پہلو یہ ہے کہ موجودہ زمانہ کمرشلائزیشن (commercialization) کا زمانہ ہے- موجودہ زمانے کی تشکیل اصلاً جدید صنعت (modern industrialization) نے کی ہے- اِس جدیددور میں ہر چیز ایک قابلِ فروخت آئٹم (purchasable item) بن چکی ہے- اگر آپ پرائس دے سکتے ہوں تو آپ سوئی سے لے کرہوائی جہاز تک ہر چیز خرید سکتے ہیں، اور اگر آپ پر ائس دینے کی پوزیشن میں نہ ہوں تو موجودہ زمانے میں آپ کو کوئی چیز ملنے والی نہیں- اِس معاملے میں مغرب کا اپنا کوئی ایجنڈا نہیں- ایجنڈا کا تصور مسلم ذہن کی پیداوار ہے- جہاں تک مغرب کا تعلق ہے، اُس کا کنسرن صرف یہ ہے کہ وہ دنیا سے تیل اورخام اشیاء حاصل کرے اور پھر اپنا پروڈکٹ تیار کرکے اس کو ساری دنیا میں مہنگے داموں میں فروخت کرے-
’’ایجنڈا‘‘ کا تصور تمام تر مسلم ذہن کی پیداوار ہے جو کہ اپنے تعصبات کی بناپر مغرب سے کامل طورپر بے خبر ہیں- اِس بے خبری کے نتیجے میں مسلمانوں کو صرف ایک چیز ملی ہے، اور وہ ہے مغرب سے بے بنیاد نفرت، اِس کے سوا جدید دور سے کوئی بھی مثبت چیز مسلمان حاصل نہ کرسکے- اِس صورتِ حال کو بیان کرنے کے لیے میرے پاس صرف ایک لفظ ہے اور وہ ہے — فکری دیوالیہ پن (intellectual bankruptcy)-
مسلم علما اور دانش وروں کایہ فکری دیوالیہ پن بہت قدیم ہے- اِس سے پہلے جب نوآبادیات کا دور آیا تو تمام علما اور مسلم دانش وروں نے اُس کو اِسی منفی معنی میں لیا اور غیر ضروری طورپر وہ اس کے خلاف نفرت کلچر اور تشدد کلچر میں مبتلا ہوگئے- حالاں کہ نوآبادیاتی قومیں جو اپنے علاقے سے نکل کر ایشیا اور افریقہ میں داخل ہوئی تھیں، اُن کا مقصد اصلاً اپنی صنعتی پیداوار کے لیے بازار (market)حاصل کرنا تھا- دوسری چیزیں جو اُن کے ساتھ آئیں، وہ نوآبادیاتی نظام کا اضافی حصہ تھیں، نہ کہ حقیقی حصہ-
اِس سنگین بے خبری کا نہایت مہلک انجام ہوا-اولاً یہ کہ اپنے منفی ذہن کی بنا پر مسلمان مغربی تہذیب سے کچھ سیکھنے سے محروم رہے- دوسرا شدید تر نقصان یہ تھا کہ مغربی قوموں کو انھوں نے دشمن کے خانے میں ڈال دیا، وہ ان کو مدعو سمجھنے سے قاصر رہے- اس بنا پر وہ مغربی قوموں کے اوپر اپنی داعیانہ ذمے داری کو ادا نہ کرسکے-
واپس اوپر جائیں

دورِ جدید کا مسئلہ

دورِ جدید (modern age) کا ظہور اچانک نہیں ہوا- دورِ جدید دراصل ایک لمبے تاریخی عمل (historical process) کا نقطۂ انتہا (culmination) تھا- یہ تاریخی عمل ساتویں صدی عیسوی میںاسلامی انقلاب کے بعد شروع ہوا اور بیسویں صدی عیسوی میں وہ اپنی تکمیل تک پہنچا- جدید دور ہی کو دوسرے الفاظ میں، جدید تہذیب (modern civilization) کہا جاتا ہے- اِس اعتبار سے جدید تہذیب ایک موافقِ اسلام تہذیب تھی، نہ کہ مخالف ِ اسلام تہذیب-
جدید تہذیب کے موافقِ اسلام ہونے کا مطلب یہ نہیں تھا کہ اس کے تمام اجزا اپنی تمام تفصیل کے ساتھ عین اسلامی تعلیمات کے مطابق ہیں- حقیقت یہ ہے کہ اِس دنیا میں جب بھی کوئی انقلاب آتا ہے تو وہ اِس طرح نہیں آتا کہ انسانی آزادی(human freedom) کو مکمل طورپر حذف کردیا جائے- حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی انقلاب معیاری انقلاب نہیں ہوتا- انقلاب کی قدروقیمت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اِس حقیقت کو سامنے رکھا جائے کہ اس کے کچھ اجزا حقیقی ہوتے ہیں اور کچھ اجزا وہ ہوتے ہیں جو انسانی آزادی کی بنا پر اس کے اندر شامل ہوجاتے ہیں-
اِس معاملے میںاسلامی انقلاب کا بھی کوئی استثناء (exception) نہیں- ساتویں اور آٹھویں صدی میں جو اسلامی انقلاب آیا، اس نے تاریخ انسانی کو بہت سے قیمتی تحفے دئے- مثلاً شرک کے دور کو ختم کرکے توحید کے دور کو دنیا میں لانا- تاہم اسلامی انقلاب میں بھی زمانی اسباب کے تحت ایسے اجزا شامل ہوگئے جو معیارِ مطلوب کے مطابق نہ تھے- مثلاً شُورائی خلافت کی جگہ خاندانی حکمرانی (dynasty) کا قائم ہوجانا- اسلام کے نام پر باہمی لڑائیاں، وغیرہ- اسلام کا ظہور بلاشبہہ تاریخِ بشری کے لیے ایک نعمت کا ظہور تھا- لیکن اِس نعمت کو حقیقی طورپر سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اسلام کی تاریخ کواُن اجزا سے الگ کرکے دیکھا جائے جو خداداد انسانی آزادی کی بنا پر اس کے اندر شامل ہوگئے-
ٹھیک یہی معاملہ جدید مغربی تہذیب کا بھی ہے- جدید مغربی تہذیب نے انسانی تاریخ کو بہت بڑی بڑی چیزیں عطا کیں، جو اِس سے پہلے کبھی انسان کو حاصل نہ تھیں- مثلاً فطرت میں چھپے ہوئے قوانین (natural laws) کو دریافت کرنا، سیاسی زندگی میں بادشاہت کے بجائے جمہوریت کو رواج دینا، انسانی زندگی سے مذہبی جبر کو ختم کرنا، علمی مطالعے کے لیے سائنسی طریقہ (scientific method) کو رواج دینا، عالمی مسائل کے لیے اقوامِ متحدہ کی صورت میں ایک انٹرنیشنل فورم کا قیام، ایسے نئے علوم کا رواج جو اسلام کے لیے بے حد مفید تھے- مثلاً حفریات (excavation)، وغیرہ-
لیکن مغربی تہذیب جب دنیا میں آئی تو وہ اِس طرح نہیں آئی کہ انسانی آزادی حذف ہوگئی- اس کے ساتھ فطری طورپر مطلوب اجزا کے ساتھ ایسے غیر مطلوب اجزا بھی شامل تھے، جو اصلاً خود تہذیب کا حصہ نہ تھے، مگر انسانی آزادی کی بنا پر بظاہر وہ اس کا حصہ بن گئے- مثلاً سیاسی غلبہ حاصل کرنے کے لیے لڑائیاں، انسان کے مادہ پرستانہ مزاج کی بنا پر پیدا ہونے والے مفاسد، استغلال (exploitation)، شخصی اور قومی مفاد (interest) سے پیدا ہونے والی برائیاں، وغیر ہ- مغربی تہذیب کے اندازہ (evaluation) کے لیے ضروری ہے کہ اِس پہلو کو ملحوظ رکھتے ہوئے مغربی تہذیب کا مطالعہ کیا جائے، ورنہ مطالعہ کرنے والا منصفانہ مطالعہ کرنے سے قاصر رہے گا-
مغربی تہذیب کے ظہور کے بعد جو حالات پیداہوئے، اُن کو اگر خالص معیار (ideal) کی روشنی میں دیکھا جائے تو اس کے کچھ اجزا یقیناً مطلوب اجزا نظر آئیں گے اور کچھ اجزا غیر مطلوب- مگر اِن تمام اجزا کو ایک فہرست میں شامل کرکے اگریہ کہا جائے کہ یہ مغرب کا ایجنڈا ہے تو یہ ایک غیرفطری تجزیہ ہوگا- اگر ایجنڈے کے نظریے کو اصولی طور پر درست مان لیاجائے تو عین یہی تبصرہ اسلام کی تاریخ پر صادق آجائے گا- ایک مبصر یہ کہہ سکتا ہے کہ اسلام اگرچہ توحید کاعلم بردارتھا، لیکن اس کے ایجنڈے میں یہ بھی شامل تھا کہ خلافت کے نام پر خاندانی حکمرانی قائم کی جائے، اسلام کی مختلف تعبیرات کرکے لوگ آپس میں لڑائیاں کریں، دار الاسلام اور در الکفر کا نظریہ وضع کر کے غیرمسلم اقوام کے خلاف نفرت کلچر پیدا کیا جائے، وغیرہ-
ایک عالم کا مشہور قول ہے: خذ ما صفا ودع ماکدر- اس قول میں روایتی الفاظ میں وہی بات کہی گئی ہے جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا، یعنی انسانی زندگی یا انسانی انقلاب میں ہمیشہ ایسا ہوگا کہ اس کے کچھ اجزا مطلوب اجزا ہوں گے اور کچھ اجزا غیر مطلوب اجزا- مطلوب اجزا وہ ہوں گے جو معیار سے مطابقت رکھتے ہوں، اور غیر مطلوب اجزا وہ ہوں گے جو انسانی آزادی کی بنا پر اس میں شامل ہوجائیں-
اصل یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اِس دنیا میں انسان کو آزادانہ اختیار (free choice) کا حق دیا ہے- انسان کا یہ حق قیامت تک منسوخ ہونے والا نہیں- اِس آزادی کو قرآن میں امانت (33:72) کہاگیا ہے- انسان کو اختیار ہے کہ وہ اِس خداداد آزادی کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرے، خواہ دوسروں کی نظر میں وہ صحیح ہو یا غلط- انسانی زندگی کے تمام واقعات میں انسانی آزادی کے یہ اجزا ہمیشہ شامل رہتے ہیں، حتی کہ اسلام کے ظہور کے بعد امتِ مسلمہ کی تاریخ میں بھی- تاریخ انسانی کے مطالعے کے معاملےمیں اِس نکتے کی بے حد اہمیت ہے- جو لوگ اِس نکتے کو ملحوظ رکھتے ہوئے انسانی تاریخ کا تجزیہ کریں، وہ صحیح نتائج تک پہنچیں گے، اور جو لوگ اِس نکتے کو ملحوظ رکھے بغیر انسانی تاریخ کا تجزیہ کریں، وہ کبھی انسانی تاریخ کے معاملے میں صحیح نتائج تک نہیں پہنچ سکتے-
واپس اوپر جائیں

صحبت ِ رسول

ایک عالم نے کہا ہے : مَن کان فی بیتہ مجموعۃٌ من الأحادیث، فکأنما فیہ نبیٌّ یتکلّم (جس آدمی کے گھر میںحدیثِ رسول کا ایک مجموعہ موجود ہو تو گویا کہ اُس گھر میں کلام کرتا ہوا ایک پیغمبر موجود ہے)۔
اِس کا مطلب یہ ہے کہ جب ایک شخص سچے جذبے کے ساتھ حدیث کی کتاب کو کھولے گا، اور اُس میں موجود اقوالِ رسول کو پڑھے گا تو اُس کو محسوس ہوگا کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُس سے ہم کلام ہو کر اُس کو براہِ راست نصیحت کررہے ہیں۔
یہی معاملہ صحبت ِ رسول کا بھی ہے۔ اگر آدمی کے اندر سچی اسپرٹ زندہ ہو، اور اُس کے اندر صحیح معنوں میں اتّباعِ رسول کا جذبہ موجود ہو تو آج بھی وہ صحبت ِ رسول کا تجربہ کرسکتا ہے۔
مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ یہ تھا کہ آپ اپنے دشمن سے نفرت نہیںکرتے تھے، بلکہ آپ اُس کے ساتھ اعلیٰ انسانی سلوک کرتے تھے، اور اُس کی ہدایت کے لیے خدا سے دعا کرتے تھے۔ اب اگر آپ کا کوئی دشمن ہو، مگر آپ اُس کے ساتھ جوابی دشمنی نہ کریں، بلکہ یہ سوچیں کہ رسول اللہ نے اپنے دشمن کے ساتھ جو سلوک کیا تھا، وہی سلوک مجھ کو بھی اپنے دشمن کے ساتھ کرنا چاہیے۔
اِس طرح سوچ کر جب آپ اپنے دشمن کے ساتھ پیغمبر والا برتاؤ کریں تو اُس وقت آپ کو رسول اللہ کے ساتھ ایک خاص نسبت حاصل ہوجائے گی۔ آپ اپنی سوچ اور جذبات کے اعتبار سے، رسول اللہ کے ساتھ خصوصی مناسبت محسوس کرنے لگیں گے۔ یہاںتک کہ یہ جذبہ اتنا ترقی کرے گا کہ آپ کو محسوس ہوگا کہ زمانی دوری ختم ہوگئی ہے اور آپ گویا کہ رسول اللہ کی صحبت میں پہنچ گئے ہیں۔ یہ بلا شبہہ ایک فطری حقیقت ہے، اور کوئی بھی شخص کسی بھی مقام پر اس کا تجربہ کرسکتا ہے۔
اسی طرح رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے مخالفین کی طرف سے نہایت نازیبا سلوک کیا گیا ۔ مثلاً آپ کو مجنوں کہا گیا ۔ آپ کو مذَمَّم کہاگیا ۔ آپ کو ساحر اور کذّاب کہا گیا، وغیرہ، لیکن آپ نے کبھی ایسے لوگوں کو منفی جواب نہیں دیا۔ آپ نے اس کے خلاف نہ شکایت کی، نہ احتجاج، بلکہ آپ ایسے لوگوں کے لیے خدا سے دعا کرتے رہے۔ اب اگر کسی کو اِس قسم کا منفی تجربہ ہو،مگر وہ دل کی پوری آمادگی کے ساتھ رسول اللہ کے طریقے کو اختیار کرلے تو ایسے موقع پر اُس کے اندرمخصوص جذبات ابھریں گے۔ وہ اپنے اندر رسول اللہ کے ساتھ ایک خاص تعلق محسوس کرے گا۔ وہ صحبت ِ رسول کا تجربہ کرنے لگے گا۔
صحبت ِ رسول کی دو قسمیں ہیں۔ ایک ، جسمانی صحبت(physical companionship) اور دوسری ہے روحانی یا نفسیاتی صحبت (psychological companionship)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم عصر اہلِ ایمان کو آپ کے ساتھ جسمانی صحبت حاصل ہوئی، لیکن بعد کے زمانے کے اہلِ ایمان کو بھی آپ کی روحانی یا نفسیاتی صحبت حاصل ہوسکتی ہے، بشرطیکہ وہ اُس کی شرط کو پورا کریں، اور وہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گہری مزاجی مناسبت۔
صحبت صرف ساتھ بیٹھنے کانام نہیں ہے ، بلکہ اس کا مدار تمام تر مزاجی مناسبت پر ہے- دورِ اول میں بھی اِس کی واضح مثالیں ملتی ہیں- اُس وقت اسلام قبول کرنے والوں میں جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مزاجی مناسبت رکھتے تھے، ان کو آپ کی صحبت کا فائدہ ملا- اور جو لوگ آپ سے مزاجی مناسبت نہیں رکھتے تھے، وہ بظاہر آپ سے قریب ہونے کے باوجود صحبت کے فائدےسے محروم رہے- سچے صحابہ اور منافقین کے درمیان جو فرق ہے، وہ اِسی بنا پر ہے- سچے صحابہ کے اندر رسول اللہ سے مزاجی مناسبت تھی، اِس لیے ان کو صحبت ِ رسول کا پورا فائدہ ملا، اور منافقین کے اندر یہ مزاجی مناسبت موجود نہ تھی، اِس لیے وہ رسول اللہ سے قریب رہتے ہوئے بھی صحبت ِ رسول کے حقیقی فائدے سے محروم رہے-
واپس اوپر جائیں

فقدانِ شخصیت، فقدانِ معرفت

قوموں کا عام مزاج یہ ہے کہ وہ اپنی ماضی کی شخصیتوں کی مبالغہ آمیز تصویر بناتے ہیں، یہاںتک کہ ان کی شخصیتیں افسانوی شخصیت (legendary figure) کی حیثیت اختیار کرلیتی ہیں- یہی معاملہ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے ساتھ بڑے پیمانے پر ہوا ہے- موجودہ زمانے کے مسلمانوں نے اپنی ماضی کی شخصیتوں کی مبالغہ آمیز تصویر بنا رکھی ہے- اِس کے نتیجے میں دو بڑا نقصان مسلمانوں کے حصے میں آیا ہے — ماضی کا ضرورت سے زیادہ اندازہ (overestimation) اور حال کا ضرورت سے کم اندازہ (underestimation) -
موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے لکھنے اور بولنے والے عام طورپر ایسا کرتے ہیں کہ وہ اپنی ماضی کی شخصیتوں کو یاد کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے موجودہ حالات کو بدلنے کی ایک ہی شکل ہے، وہ یہ کہ مسلمانوں کے اندر قدیم شخصیتیں دوبارہ پیدا ہوں، مگر اِس قسم کی باتیں خوش فہمی کے سوا اور کچھ نہیں-
مثلاً مشہور عرب مورخ خیر الدین الزرکلی (وفات: 1976) نے ماضی کی مشہور مسلم شخصیتوں پر کئی جلدوں میں ایک کتاب تیار کی ہے، اس کا نام ہے: الأعلام- وہ مسلمانوں کے احیاءِ نو کا راز اِس میں سمجھتے تھے کہ ماضی جیسی مسلم شخصیتیں دوبارہ پیدا ہوں- چنانچہ انھوں نے اپنے ایک شعر میں کہا تھا کہ — صلاح الدین ایوبی کو ہمارے درمیان دوبارہ لے آؤ، حطین یا حطین جیسے معرکے دوبارہ گرم کرو:
ہاتِ صلاح الدین ثانیة فینا جدّدی حطّین أو شبہ حطّینا
خیر الدین الزرکلی کا یہ شعر صرف صاحبِ کلام کی زمانے سے کامل بے خبری کی ایک مثال ہے- آج کا زمانہ اور آج کے حالات ہر اعتبار سے بدل چکے ہیں- موجودہ زمانے میں کوئی کام کرنے کے لیے پہلی شرط بصیرتِ زمانہ ہے، نہ کہ صلاح الدین کا دوبارہ پیداہونا- حقیقت یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں صلاح الدین ایوبی جیسی شخصیت کے لوگ پیدا ہوئے، مگر عملاً وہ کوئی نتیجہ خیز کام نہ کرسکے، کیوں کہ وہ بصیرتِ زمانہ سے بالکل بے خبر تھے- اس کی ایک مثال فلسطینی لیڈر یاسر عرفات (وفات: 2004) کی ہے- فطری صلاحیت کے اعتبار سے وہ گویا صلاح الدین ثانی تھے، مگر ساری قربانیوں کے باوجود وہ مکمل طورپر ناکام رہے-
اِسی طرح کی ایک مثال ڈاکٹر محمد اقبال کی ہے- انھوں نے شیخ احمد سرہندی کے بارے میں نہایت مبالغہ آمیز تصور قائم کر رکھا تھا- چناں چہ انھوں نے لکھا ہے کہ — مسلم ہندستان نے سب سے بڑا جو مذہبی عبقری پیدا کیا، شیخ احمد سرہندی تھے:
The greatest religious genius produced by Muslim India was Shaikh Ahmad Sarhindi.
شیخ احمد سرہندی جیسی شخصیت تخلیق کے کارخانے میں بار بار پیدا ہوتی ہے- ایسا نہیں ہے کہ یہ مولڈ تخلیق کے کارخانے میں ختم ہوچکا ہے- مثال کے طورپر فطری صلاحیت کے اعتبار سے مولانا ابوالکلام آزاد اُسی درجے کی شخصیت تھے جس درجے کی شخصیت شیخ احمد سرہندی کی تھی- لیکن مولانا آزاد کوئی نتیجہ خیز کام نہ کرسکے- اِس کا سبب دونوں کے درمیان زمانی حالات کا فرق تھا-
مشہور مسلم دانشور ڈاکٹر محمود احمد غازی (وفات: 2010) نے اپنے ایک مقالہ میں عہد ماضی کی مسلم شخصیتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: ’’اِس نظامِ تعلیم میں نواب سعد اللہ خاں بھی تیار ہوا جو مجدد الف ثانی کا کلاس فیلو تھا اور جو سلطنتِ مغلیہ کا وزیر اعظم بنا- وہ سلطنت ِ مغلیہ جو موجودہ افغانستان، پاکستان، ہندستان، نیپال، بنگلہ دیش، سری لنکا، بھوٹان، سکّم، برما، اِن سب ریاستوں پر مشتمل تھی- اس کے نظام کو سعداللہ خان نے شاہ جہاں کے زمانے میں کامیابی کے ساتھ چلایا تھا‘‘- (ماہ نامہ الشریعہ، پاکستان، مارچ 2005، صفحہ: 14)
سعد اللہ خاں کوئی منفرد شخصیت نہیں تھے- اِس طرح کی شخصیتیں قدرت کے کارخانے میں بار بار پیدا ہوتی ہیں- مثلاً سید جمال الدین افغانی اپنی فطری صلاحیت کے اعتبار سے کسی بھی درجے میں کم نہ تھے- لیکن غیر معمولی سرگرمیوں کے باوجود وہ کوئی نتیجہ خیز کام نہ کرسکے- حقیقت یہ ہے کہ کارنامے کے معاملے میں کسی شخصیت کا حصہ ہمیشہ پچاس فی صد سے کم ہوتا ہے اور حالات کا حصہ ہمیشہ پچاس فی صد سے زیادہ-
موجودہ زمانے کے مسلم مقررین اور محررین کی یہ عام غلطی ہے کہ وہ اپنی ماضی کی شخصیتوں کا تصور ان کے حقیقی قد سے زیادہ (larger than life size) قائم کیے ہوئے ہیں- اِس لیے وہ سمجھتے ہیں کہ اگر یہ شخصیتیں دوبارہ پیدا ہوجائیں تو موجودہ زمانے میں بھی وہ بڑے بڑے کارنامے انجام دے سکتی ہیں- مگر اِس قسم کا تصور مبالغہ آمیز خوش فہمی کے سوا اور کچھ نہیں-
اصل یہ ہے کہ انسانی تاریخ کے دو دور ہیں — قدیم روایتی دور(ancient traditional age)، اور جدید سائنسی دور (modern scientific age)- دونوں دوروں میں ہر اعتبار سے نوعی فرق پایا جاتا ہے- یہ فرق اتنا زیادہ ہے کہ قدیم زمانے کا کوئی بڑے سے بڑا شخص اگر آج پیدا ہوتو وہ کوئی کارنامہ انجام نہیں دے سکتا- ایسا آدمی آج کے حالات میں صرف بے جوڑ (misfit) ہو کر رہ جائے گا، اِس کے سوا اور کچھ نہیں-
حقیقت یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں کام کرنے کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ کام کرنے والے لوگ جدید دور کا گہرا مطالعہ کریں- وہ اپنے آپ کو جدید حالات کے اعتبار سے تیار کریں- وہ کامل معنوں میں بصیرِ زمانہ (بصیراً بزمانہ) بنیں- اِس کے بعد ہی وہ آج کے دور میں کوئی حقیقی کام انجام دے سکتے ہیں، خواہ تعلیم وتدریس کا معاملہ ہو یا تصنیف وتالیف کا معاملہ، خواہ ایک ادارہ چلانے کا معاملہ ہو یا حکومت چلانے کا معاملہ، امت کی اصلاح کا معاملہ ہو یا زمانے کی قیادت کا معاملہ، کسی سیمنار کو خطاب کرنے کا معاملہ ہو یا کسی انٹرنیشنل تنظیم کو خطاب کرنےکا معاملہ- غرض زندگی کا جو معاملہ بھی ہو، اس میں رہنمائی کرنے کے لیے دورِ جدید سے کامل واقفیت لازمی طورپر ضروری ہے- جو لوگ یہ واقفیت نہ رکھتے ہوں، وہ اگر جدید دور میں رہنمائی کا منصب سنبھالیں تو اُن کا انجام وہی ہوگا جس کو ایک شاعر نے اپنے اِس شعر میں بیان کیا ہے:
إذا کان الغراب رئیس قوم سیہدیہم إلى دار البوار
واپس اوپر جائیں

پیغمبرانہ ماڈل، تاریخی ماڈل

موجودہ زمانے میں امتِ مسلمہ اپنے دورِ زوال میں ہے- آج کی یہ ایک اہم ضرورت ہے کہ امت کا احیا (revival) کیا جائے، لیکن اِس احیا کی لازمی شرط یہ ہے کہ یہ کام صحیح ماڈل کے مطابق کیا جائے- غلط ماڈل اختیارکرنے سے کبھی امت کا احیا نہیں ہوگا، خواہ ہزاروں سال تک اس کی کوشش کی جاتی رہے-
احیاءِ امت کا صحیح ماڈل صرف ایک ہے، اور وہ پیغمبرانہ ماڈل ہے- یہ ماڈل سنت کی صورت میں پوری طرح محفوظ ہے- ہم کو چاہیے کہ سنت ِ رسول کے اِس محفوظ ماڈل کو مطالعۂ کتب کے ذریعے دریافت کریں اور پھر اس کی روشنی میں امت کے احیا کا کام انجام دیں-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات 632 عیسوی میں ہوئی- اس کے بعد امت ِ مسلمہ کی ایک تاریخ بنی- یہ تاریخ ہزار سال سے زیادہ مدت پر پھیلی ہوئی ہے- بدقسمتی سے ایسا ہوا کہ ہر مسلم اہلِ علم نے اِس تاریخ کو نہایت مبالغہ آمیز انداز میں دہرایا- بعد کے زمانے میں لکھی جانے والی کتابیں سب کی سب تاریخ امت کی مبالغہ آمیز تصویر کشی کرتی رہیں- اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شعوری یا غیر شعوری طورپر امت کے ذہن سے پیغمبرانہ ماڈل پسِ پشت چلا گیا اور تاریخی ماڈل ایک شان دار یاد کے طورپر ہرمسلمان کے دل میں نقش ہوگیا-
اِسی صورت حال کا یہ نتیجہ ہے کہ آج جو شخص احیائِ امت کے لیے اٹھتا ہے، وہ بظاہر اگرچہ اسلام کا نام لیتا ہے، لیکن عملاً مسلم تاریخ کا احیا اس کا نشانہ بن جاتا ہے-
موجودہ زمانے میں احیاءِ امت کی تمام تحریکوں کا یہی انجام ہوا ہے- اِن میں سے کوئی مسلم دورِ حکومت کے احیا کی بات کرتا ہے اور کوئی مسلم تہذیب کے احیا کو اپنا نشانہ بنائے ہوئے ہے، کوئی شرعی قانون کے نفاذ میں مسلم احیا کا راز بتاتا ہے، کوئی جہاد کے نام پر تشدد کلچر پھیلائے ہوئے ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ امتِ مسلمہ کا احیا کررہاہے، وغیرہ-
اِس قسم کی تحریکیں موجودہ زمانے میں بہت بڑے پیمانے پر اٹھیں، مگر ہنگامہ خیز جدوجہد کے باوجود وہ عملاً ناکام ثابت ہوئیں- اِس ناکامی کا سبب صرف ایک تھا، وہ یہ کہ اِن تحریکوں کو اللہ کی نصرت حاصل نہیں ہوئی- نصرتِ خداوندی سے محرومی کا سبب مشترک طورپر یہ تھا کہ یہ سب کی سب تحریکیں تاریخی ماڈل کو لے کر کھڑی ہوئیں- اُن میں سے کوئی بھی تحریک حقیقی طورپر پیغمبرانہ ماڈل کو لے کر نہیں اٹھی-
پیغمبرانہ ماڈل اور تاریخی ماڈل کا فرق ایک لفظ میں یہ ہے کہ پیغمبرانہ ماڈل مبنی بردعوت ماڈل ہوتا ہے- اِس کے برعکس، تاریخی ماڈل مبنی بر سیاست، مبنی برتہذیب، مبنی بر قومیت ہوتاہے- اِس دنیا میں کوئی تحریک اللہ کی نصرت سے کامیاب ہوتی ہے اور اللہ کی نصرت صرف پیغمبرانہ ماڈل پر آتی ہے، کسی اور ماڈل پر اللہ کی نصرت کبھی آنے والی نہیں-
واپس اوپر جائیں

امن پر مبنی ایمپائر

قدیم زمانے میں ایمپائر کی ایک ہی معلوم قسم تھی، اور وہ سیاسی ایمپائر (political empire) ہے- موجودہ زمانے میں سیاست کا ڈی سنٹرلائزیشن (decentralization) ہوا ہے- موجودہ زمانے میں ایسے نئے مواقع کھل گئے ہیں جنھوں نے اِس بات کو ممکن بنا دیا ہے کہ غیر سیاسی میدانوں میں بڑے بڑے ایمپائر قائم کئے جاسکیں- مثلاً ایجوکیشن کا میدان، صنعت کا میدان، دعوت کا میدان، وغیرہ-
عجیب بات ہے کہ بظاہر اِن نئے مواقع سے مذہبی لوگ بھی بے خبر ہیں اور سیکولر لوگ بھی- اِسی بے خبری کا یہ نتیجہ ہے کہ اکیسویں صدی میں بھی ہم یہ دیکھتے ہیں کہ سیکولر گروپ بھی تشدد میں مشغول ہے، اور مذہبی گروپ بھی- اگر یہ لوگ جانتے کہ موجودہ زمانے میں تشدد صرف تباہی کا ذریعہ ہے، اب تشدد کے ذریعہ کوئی تعمیری نتیجہ پیدا نہیں کیا جاسکتا، اگر وہ ایسا جانتے تو یقینی طورپر ان کی منصوبہ بندی مختلف ہوتی- وہ پرامن طریقے کو اختیار کرکے ایسی کامیابی حاصل کرلیتے جو تشدد کے ذریعے ہرگز ممکن نہیں-
یہ تاریخ کا تجربہ ہے کہ تشدد کے ذریعے صرف منفی نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں، نہ کہ مثبت نتائج- تشدد کے ذریعے تخریب ہوسکتی ہے، مگر تشدد کے ذریعے کسی بھی تعمیری کام کو انجام نہیں دیا جاسکتا- موجودہ زمانے کے مسلمان لمبی مدت سے مختلف ملکوں میں پُرتشدد تحریکیں چلارہے ہیں، مگر یہ متشددانہ تحریکیں مسلمانوں کو کسی مثبت انجام تک نہ پہنچا سکیں-
حقیقت یہ ہے کہ تشدد کا طریقہ فطرت کے قانون کے خلاف ہے- انسانی سماج سے باہر فطرت کی جو دنیا ہے، اس میں وسیع پیمانے پر سرگرمیاں جاری ہیں، مگر فطرت کے عالمی نظام میں کہیں بھی تشدد نظر نہیں آتا- تشدد صرف انسانی دنیا میں ہے، وہ فطرت کی دنیا میں موجود نہیں- انسان پر لازم ہے کہ وہ تشدد کا طریقہ چھوڑ دے، کیوںکہ فطرت کی دنیا میں صرف فطرت کا اختیار کیا ہوا پرامن طریقہ ہی نتیجہ خیز ہوسکتاہے- فطرت کے خلاف جو طریقہ اختیار کیا جائے، اس کے لیے اِس دنیا میں ناکامی کے سوا کوئی اور انجام مقدر نہیں-
واپس اوپر جائیں

مساوات

اسلام کا ظہور ساتویں صدی عیسوی میں ہوا۔اس سے پہلے کی پوری معلوم تاریخ میں کبھی بھی انسانی مساوات کسی قابلِ لحاظ حیثیت سے کہیں موجود نہ تھی۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہر عمل کی پشت پر ایک تائیدی نظریہ درکار ہوتا ہے۔ مگر اسلام سے پہلے مساوات کے حق میں ایسی کوئی نظریاتی بنیاد (ideological base) سرے سے پائی نہیں جاتی تھی۔ قدیم زمانہ کے نظریات کے مطابق عدم مساوات کی صورت حال ہی فطری صورت حال تھی۔ ایسی حالت میں مساوات کا اصول کس طرح لوگوں کے لیے قابل قبول ہوتا۔
زمین کے ایک خطہ میں آوا گمن یا پنر جنم کا عقیدہ لوگوں کے ذہن پر چھایا ہوا تھا۔ اس عقیدہ کے مطابق ایک انسان اور دوسرے انسان کا فرق خود اس کے پچھلے عمل کا نتیجہ تھا۔ اس میں کوئی تبدیلی موت کے بعد اگلے جنم ہی میں ممکن ہوسکتی تھی۔
ایسی حالت میں انسانوں کے درمیان مساوات قائم کرنا سرے سے ممکن ہی نہ تھا۔اسی طرح جب لوگوں نے دیکھا کہ کچھ انسان سیاہ فام ہیںاور کچھ انسان سفید فام تو اس کی بنیاد پر یہ نظریہ بنایا گیا کہ سفید فام برتر نسل (superior race) سے تعلق رکھتے ہیں، اور سیاہ فام کمتر نسل (inferior race) سے۔ یہ نظریہ، خاص طورپر اعلیٰ طبقہ کے لوگوں میں بہت زیادہ پھیلا یہاں تک کہ وہ انسانوں کے درمیان مساوات کے قیام میں مستقل رکاوٹ بن گیا۔
قدیم زمانے میں ساری دنیا میں بادشاہت کا رواج تھا۔ اس رواج کے تحت یہ تفریقی نظریہ لوگوں کے ذہنوں پر چھاگیا کہ سیاسی اعتبار سے انسانوں کی دو قسمیں ہیں۔ ایک حاکم اور دوسرے محکوم یا رعایا۔ یہ ذہن بھی ہزاروں سال تک انسانی سماج کو دو طبقوں میں بانٹنے کا سبب بنا رہا۔ چوں کہ یہ تفریق حاکموں کے لیے نہایت مفید ِمطلب تھی اس لیے وہ اس کو راسخ کرنے کے لیے ہر قسم کے ذرائع استعمال کرتے رہے۔
اس قسم کے مختلف تفریقی نظریات نے قدیم زمانہ میں انسانی مساوات کے تصور کو ایک غیر عملی چیز بنا دیا تھا۔ اسلام نے پہلی بار تفریق انسانیت کے اس ذہن کو توڑا اور وہ حقیقی نظریہ (ideology) فراہم کی جس کی بنیاد پر انسانی مساوات کا قیام عمل میںآسکے۔
اسلام نے یہ تصور دیا کہ جو کچھ تفریق ہے وہ خدا اور انسان یا خالق اور مخلوق کے درمیان ہے، خود انسانوں کے درمیان باہمی طورپر کوئی تفریق نہیں۔ ہر انسان یکساں طور پر خدا کا بندہ ہے۔ اس اصول کے تحت عرب میں جو سماجی انقلاب آیا وہ دھیرے دھیرے تمام دنیا میں پھیل گیا، یہاں تک کہ مساوات کا وہ زمانہ آگیا جس کو آج ہم ساری دنیا میں دیکھ رہے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

صبر کیا ہے

صبر کے لفظی معنیٰ ہیں رکنا۔ عربی میں کہتے ہیں: صبرتُ الدابّۃ (میں نے جانور کو چارے سے روک دیا)۔ شریعت میں جس صبرکا حکم دیا گیا ہے۔ اس کی حقیقت اسی سے سمجھی جاسکتی ہے۔ایمانی زندگی بااصول زندگی کا نام ہے۔ مومن انسان ایک بامقصد انسان ہوتا ہے۔ ایسا آدمی جذباتی ردعمل کے تحت کوئی اقدام نہیں کرسکتا۔ اس کے سامنے جب کوئی صورت حال آئے گی تو وہ رک کر سوچے گا کہ اس معاملے میںکون سا ردّ عمل میرے اصول اور مقصد کے مطابق ہے اور کون سا رد عمل میرے اصول اور مقصد کے خلاف ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ پیش آمدہ معاملات میں عاجلانہ جواب (hasty response) کا نام بے صبری ہے، اور سوچے سمجھے جواب (considered response) کا نام صبر۔
اس صبر کا تعلق زندگی کے تمام معاملات سے ہے۔ آپ پر ایک خواہش کا غلبہ ہوتا ہے، مگر آپ ایسا نہیں کرتے کہ خواہش پیدا ہوتے ہی اس کو کر گزریں بلکہ آپ اپنے کو تھام کر سوچتے ہیں اور وہی کرتے ہیں جو شریعت خداوندی کا تقاضا ہے تو یہ صبر ہے۔ کسی شخص سے آپ کو تکلیف پہنچتی ہے۔ آپ کے اندر انتقام کا جذبہ بھڑک اٹھتا ہے۔ مگرآپ اپنے کو روکتے ہیں اور پھر وہ کرتے ہیں جو ایمان کا تقاضا ہے، تو یہ صبر ہے۔ آپ اسلامی دعوت لے کر اٹھتے ہیں، آپ کے راستے میں رکاوٹیں پیش آتی ہیں، اب آپ اندھا دھند اقدام نہیں کرتے، بلکہ سارے پہلوؤں کو شریعت کی روشنی میں جانچتے ہیں اور اس کے بعد وہی کرتے ہیں جو شریعت کے مطابق کرنا چاہیے تو یہ صبر ہے۔ آپ ایسے حالات میں گِھر جاتے ہیں جو آپ کی مرضی کے خلاف ہیں۔ اب آپ فوری جذبے کے تحت اٹھ کر حالات سے لڑنے نہیں لگتے، بلکہ قرآن اور سنت کی روشنی میں پورے معاملے کو جانچتے ہیں اور اس کے بعد وہ کرتے ہیں جو قرآن اورسنت کی منشا ہے، نہ کہ وہ جو آپ کی ذاتی منشا ہے، تو اس کا نام صبر ہے۔صبر مومن کا دستورہے، صبر مومن کا اصولِ حیات ہے۔ صبر وہ حکیمانہ طریق ِ عمل ہے جو مومن اس دنیامیں اختیار کرتا ہے۔ جس آدمی کے اندر صبر کی صفت نہ ہو، اس کے متعلق یہ امر مشتبہ ہے کہ اس کو ایمان کی معرفت ملی ہے، یا ابھی تک اس کو ایمان کی معرفت نہیں ملی۔
واپس اوپر جائیں

کامل انسان

کامل انسان کون ہے۔ کامل انسان وہ ہے جس کے اندر انسانی صفات کامل درجہ میں پائی جاتی ہوں۔ جس کی شخصیت میں اوصافِ آدمیت اپنی کامل صورت میں اکھٹا ہوجائیں۔ جو ان خصوصیات کا عملی نمونہ بن جائے جو امکانی طورپر ہر فرد کے اندر اس کے خالق نے رکھ دی ہیں۔
ایسا انسان متوازن شخصیت کا حامل ہوتا ہے۔ وہ نفسیاتی پیچیدگی سے خالی ہوتا ہے۔ وہ نفس امّارہ پر نفس لوامہ کو غالب کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ النفس المطمئنۃ کا مصداق بن جاتا ہے۔
یہ وہ انسان ہے جو دنیوی چیزوں سے گزر کر حقیقت اعلیٰ میں جینے لگے۔ جو ظاہری اہمیت کی چیزوں سے اوپر اٹھ کر معنوی اہمیت کی چیزوں میں گم ہوجائے، جو ارنا الأشیاء کما ھی کے درجہ میں پہنچ جائے اور چیزوں کو ان کی اصل حقیقت کے اعتبار سے دیکھنے لگے، نہ کہ ان کی اس شکل میں جیسا کہ وہ بظاہر دکھائی دیتی ہیں۔
یہ آدمی وہ ہے جو ایک دلیل کے آگے اس طرح جھک جائے جس طرح کوئی شخص طاقت کے آگے جھکتا ہے۔جو بات کو خود بات کے اعتبار سے دیکھے، نہ کہ اس اعتبار سے کہ وہ اس کے موافق ہے یا اس کے خلاف۔ جو اعلیٰ ترین صلاحیت رکھنے کے باوجود آخری حد تک متواضع بن جائے۔ جس کا حل ہر قسم کے منفی جذبات سے خالی ہو۔ جو اپنے اور غیر کا فرق کیے بغیر لوگوںسے معاملہ کرسکتا ہو۔ جو ذاتی مفاد اور شخصی محرکات سے آخری حد تک بلند ہو۔ جو اپنی ذات میں جینے کے بجائے برتر حقائق پر جیتاہو۔
ہر انسان کو خدا نے امکانی طورپر انسانِ کامل ہی بنایا ہے۔مگر اس امکانی کاملیت کو ایک واقعی شخصیت میں ظاہر کرنا، یہ ہر شخص کا اپنا کام ہے۔ ہر پیدا ہونے والے انسان کا کیس اسفل سافلین کا کیس بن جاتا ہے-یہ اس کی اپنی ارادی کوشش ہے جو دوبارہ اس کو احسن تقویم کے درجے تک پہنچاتی ہے۔کامل انسان بننے کا راز کامل تقوی ہے- یہ دراصل اللہ کا خوف ہے جو کسی انسان کو کامل انسان بنا دیتا ہے- کامل انسان بننے کا کوئی اور طریقہ نہیں-
واپس اوپر جائیں

مسلمانوں کے قومی تقاضے

حقیقت یہ ہے کہ امتِ مسلمہ کا مشن صرف ایک ہے اور وہ ہے دعوت الی اللہ، یعنی ہر زمانے میں اور ہر مقام پر اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچاتے رہنا- قرآن میں یہ بات نہایت واضح ہے- سنتِ رسول سے بھی یہی بات معلوم ہوتی ہے- اِس کے باوجود کیا وجہ ہے کہ اکثر مسلمان دعوت الی اللہ کے کام کی اہمیت کو سمجھ نہیں پاتے- اِس کا سبب ایک ’’مگر‘‘ ہے- یہ مگر،قومی مگرہے- موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا عام طورپر یہ حال ہے کہ وہ اپنے قومی مسائل کو لے کر سوچتے ہیں- اِس کے مطابق، وہ سمجھتے ہیں کہ یہ قومیں اُن کے خلاف سازش کرتی رہتی ہیں- یہی سب سے بڑی وجہ ہے جس کی بناپر وہ دعوت کی اہمیت کو سمجھ نہیں پاتے، وہ دعوت کی اہمیت کا اقرار کریں گے، اس کے بعد ایک ’’مگر‘‘ کہہ کر اس کو چھوڑیں گے -
مذکورہ قومی ذہن کی بنا پر ساری دنیا کے مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ دوسری قوموں کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں- دوسروں کے بارے میں ان کی سوچ پوری کی پوری منفی سوچ بن گئی ہے- دوسری قوموں کےلیے اُن کے دل میں صرف نفرت ہے، نہ کہ خیر خواہی، اور یہ ایک واقعہ ہے کہ دعوت کا کام ہمیشہ دوسروں کے لیے خیر خواہی کے جذبے کےتحت ہوتا ہے- نفرت کے جذبے کے ساتھ کبھی دعوت کا کام نہیں کیا جاسکتا-
اللہ کے تخلیقی منصوبے کے مطابق، اِس دنیا میں مسابقت (competition) اور چیلنج کا نظام قائم ہے- مسلمان جن چیزوں کو بطور خود ظلم اور سازش سمجھتے ہیں، وہ سب کے سب اللہ کے اِسی تخلیقی منصوبے کی بنا پر ہیں- یہ صورتِ حال اِس دنیا میں ہمیشہ تھی اور ہمیشہ باقی رہے گی- اِس لیے مسلمانوں کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنی مفروضہ ’’شکایتوں‘‘ کو اللہ کے خانے میں ڈال دیں، جن کو اب تک وہ دوسری قوموں کے خانے میں ڈالے ہوئے ہیں- ایسا کرنا مسلمانوں کے لیے فرض کے درجے میں ضروری ہے- مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو اِس قومی ذہن سے آزاد کریں، اِس کے بغیر وہ دعوت الی اللہ کی ذمے داری کو ادا نہیں کرسکتے-
واپس اوپر جائیں

دعوت الی اللہ

دعوت الی اللہ تمام پیغمبروں کا مشن تھا اور خود پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی-دعوت الی اللہ کا مطلب ہے اللہ کی طرف بلانا- دعوت الی اللہ عین وہی چیز ہے جس کے لیے قرآن میں انذار وتبشیر کے الفاظ آئے ہیں، یعنی اللہ کی پکڑ سے ڈرانا اور اللہ کے انعام کی خوش خبری دینا-
دعوت الی اللہ کیا ہے، اِس کو دوسرے الفاظ میں اِس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ دعوت الی اللہ یہ ہےکہ لوگوں کو اللہ کے تخلیقی پلان (creation plan of God) سے آگاہ کیا جائے- لوگوں کو یہ بتایا جائے کہ خالق نے یہ دنیا کیوں بنائی، اُس نےانسان کو یہاں کس لیے آباد کیا، زندگی کیا ہے اور موت کیا-
یہ سوالات ہر انسان کے لیے بنیادی سوالات ہیں- اِنھیں سوالات کے جواب پر انسانی زندگی کی تشکیل ہوتی ہے- اِنھیں سوالات کے جواب سے یہ متعین ہوتاہے کہ انسان کیا کرے اور کیا نہ کرے- اللہ تعالی نے ہر دور میں اپنے پیغمبر بھیجے اور اُن پر وحی کی- اِس وحی کی روشنی میں انھوں نے ہر دور کے انسانوں کو بتایا کہ زندگی کی حقیقت کیا ہے- وہ دنیا میں کس طرح زندگی گزاریں کہ وہ اللہ کی پکڑ سے بچیں اور آخرت کے انعامات کے مستحق قرار پائیں-
ہر پیغمبر اپنے بعد الہامی کتاب کی صورت میں یہ ہدایت اپنے زمانے کے لوگوں کو دیتا رہا، لیکن قدیم دور میں یہ الہامی تعلیمات محفوظ نہ رہ سکیں- یہ واقعہ ہر پیغمبر کے بعد بار بار ہوا- آخر کار اللہ تعالی نےاپنے آخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا، اور آپ پر اتری ہوئی تعلیمات کو ایک کتاب کی شکل میں محفوظ کردیا جس کو ہم قرآن کہتے ہیں- اب یہی قرآن نبوت کا بدل ہے- اب امتِ محمدی کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ ہر دور میں اور ہر نسل میں قرآن کی تعلیمات کو لوگوں تک پہنچاتی رہے- یہ کام اِس طرح موثر انداز میں ہونا چاہیے کہ لوگوں کا ذہن ایڈریس ہو اور وہ اپنے خالق کی منشا کو سمجھیں اور اس کو اپنی زندگی میںاختیار کرسکیں-
واپس اوپر جائیں

مذہبی انتہا پسندی

مذہبی انتہا پسندی(religious extremism) کیا ہے۔ مذہبی انتہا پسندی دراصل دورِ زوال کا ایک ظاہرہ ہے-کوئی امت جب بعد کے زمانے میں زوال (degeneration) کا شکار ہوتی ہے تو اُس وقت امت کے اندر وہ چیز پیدا ہوجاتی ہے جس کو مذہبی انتہا پسندی کہا جاتا ہے۔ زوال کا تعلق فطرت کے ایک قانون سے ہے۔ اِس میں کسی امت کا کوئی استثنا نہیں-
موجودہ زمانے میں امتِ مسلمہ اپنے دورِ زوال میں ہے، اور زوال کے دوسرے مظاہر کی طرح اس کے اندر مذہبی انتہا پسندی آچکی ہے۔ قرآن اور حدیث میں مذہبی انتہا پسندی کے لیے جو لفظ استعمال کیاگیا ہے، وہ غلو ہے۔ کسی امت کی بعد کی نسلوں میں جب زوال آتا ہے تو اُس وقت فطری قانون کے تحت ایسا ہوتا ہے کہ امت کے افراد میں دین کی اسپرٹ ختم ہوجاتی ہے۔ اُن کے درمیان صرف دین کا فارم باقی رہتا ہے۔ مذہبی انتہا پسندی دراصل مبنی بر فارم مذہب کا دوسرا نام ہے۔
کسی امت کے دور زوال میں جب مبنی بر فارم مذہب کا رواج ہوجائے تو ایسا ہوتا ہے کہ دین کے ہر معاملے میں ظواہر کو اہم سمجھ لیا جاتا ہے۔ اُس وقت فطری طور پرایسا ہوتاہے کہ قرآن میں صحتِ تلفظ کو ساری اہمیت حاصل ہوجاتی ہے۔ عبادت کے معاملے میں خشوع کے بجائے ارکان کی ادائیگی کو سب کچھ سمجھ لیا جاتا ہے۔ دینی احکام کے معاملے میں ساری بحث اس کے فنی پہلوؤں پر مرتکز ہوجاتی ہے۔ اسلامی زندگی کا مطلب یہ بن جاتا ہے کہ ایک ظاہری شناخت (identity) کو اختیار کرلیاجائے۔ اسلامی دعوت کا مطلب یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ مروجہ سیاسی نظام کو توڑ کر اس پر قبضہ کرنے کی کوشش کی جائے۔ اسلامی حکومت کا مطلب یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ بالجبر لوگوں کے اوپر شرعی حدود قائم کی جائے۔ اسلامی مفاد کا مطلب یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ تمام قوموں کو اسلام دشمن قرار دے کر اُن کے خلاف نفرت اور تشدد کا ہنگامہ کیا جائے، وغیرہ-
کسی امت کا دور زوال میں پہنچنا کیا ہے، وہ ایک عمومی مثال کے مطابق، تاڑ سے گرکر کھجور پر اٹکنا ہے۔ ایسے وقت میں امت کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ عام قوموں کی طرح صرف ایک مادی قوم بن جاتی ہے۔ تاہم اپنی تاریخی روایات کے مطابق، اس کے لیے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ اپنے دین سے قطع تعلق کرلے۔ دین اس کے لیے ایک روایتی وراثت ہوتا ہے۔ دین اس کی قومی شناخت ہوتا ہے۔ دین کی تاریخ اس کے لیے فخر کا سرمایہ ہوتی ہے۔ اس کے ادارے اور اس کی سرگرمیاں، سب کی سب، دین کے نام پر کھڑی ہوتی ہیں۔ دین اب اس کے لیے صرف دین نہیں رہتا، بلکہ وہ اس کی دنیوی حیثیت کی واحد علامت بن جاتاہے-
کسی امت پر جب یہ وقت آتا ہے تو اُس وقت اس کے اندر وہ ظاہرہ فروغ پاتا ہے جس کو مذہبی انتہا پسندی کہا جاتا ہے۔ فطری طورپر اُس وقت اِس مذہبی انتہا پسندی کا اظہار دین کی اسپرٹ میں نہیں ہوتا، بلکہ اس کے ظواہر میں ہوتا ہے۔ اُس وقت دین کا اظہار اُن معاملات میں ہوتا ہے جن کا تعلق زندگی کے دنیوی یا مادّی پہلو سے ہو-
ایک زوال یافتہ امت کے اندر کام کا آغاز افراد کی اصلاح سے ہوتا ہے، نہ کہ اجتماعی اقدام سے۔ ایسی امت کے اندر اگر کوئی اجتماعی ادارہ بنایا جائے، اس کےاندر کوئی حکومت قائم کی جائے، اس کے اندر کوئی تنظیم قائم کی جائے تو ایسا ہر اقدام ہمیشہ نتیجے کے اعتبار سے ناکام ثابت ہوگا۔ کیوں کہ زوال یافتہ امت کے اندر بنائے ہوئے اجتماعی ادارے کے ارکان بھی زوال یافتہ ہوں گے۔ اِس بنا پر اِس قسم کا اجتماعی ادارہ اپنے درودیوار یاظاہری دھوم کے اعتبار سے تو ادارہ نظر آئے گا، لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے، وہ صرف ایک شان دار قبرستان ہوگا، اِس کے سوا اور کچھ نہیں-
واپس اوپر جائیں

سارا جہاں ہمارا

علامہ اقبال (وفات: 1938) بر صغیر ہند کی نہایت مشہور شخصیت تھے، مسلمانوں کے ہر حلقے میں ان کو مقبولیت حاصل ہوئی۔ ان کا ایک مشہور شعر یہ ہے:
چین وعرب ہمارا، ہندوستاں ہمارا مسلم ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا
یہ شعر ایک عرب اسکالر ڈاکٹر عبد الوہاب عزام (وفات: 1959 ء) کو اتنا زیادہ پسند آیا کہ انھوں نے عربی زبان میں اس کا ترجمہ کرکے اس کو شائع کیا۔ اُن کا عربی ترجمہ یہ تھا:
الصین لنا والعُرب لنا والہند لنا والکل لنا
لیکن یہ شعر صحیح اسلامی ذہن کی ترجمانی نہیں-اِس کا ایک ثبوت یہ ہےکہ کسی صحابی یا کسی تابعی نے مسلم کی تعریف اِن الفاظ میں نہیں کی۔ حقیقت کے اعتبار سے یہ بات درست نہیں کہ ساری دنیا مسلمانوں کی دنیا ہے، بلکہ ساری دنیا انسانوں کی دنیا ہے، نہ کہ کسی قوم یا کسی امت کی دنیا۔ قرآن وسنت میں تخلیقِ عالم کا جو تصور دیاگیا ہے، وہ یہی ہے-
صحیح بات یہ ہے کہ ہر مسلم اُسی طرح ایک انسان ہوتا ہے جس طرح دوسرے انسان۔ خدا کی بنائی ہوئی دنیا پر کسی مسلم کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا کہ دوسرے انسانوں کا حق۔ اللہ نے یہ دنیا کسی خاص امت کے لیے نہیں بنائی، بلکہ سارے انسانوں کے لیے بنائی ہے-
البتہ مسئولیت کے اعتبار سے، مسلم یا مسلم امت کی ایک ذمہ داری ہے، اور وہ دعوت الی اللہ کی عالمی ذمے داری ہے۔ مسلمان خاتم النبیین کی امت ہیں۔ اِس اعتبار سے، مسلمانوں کی یہ لازمی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے پیغمبر سے ملے ہوئے دینِ خداوندی کو ساری دنیا کے انسانوں تک پہنچائیں اور قیامت تک پہنچاتے رہیں۔ ساری دنیا مسلمانوں کی دنیا نہیں ہے، البتہ ساری دنیا کے انسان مسلمان کے لیے مدعو کی حیثیت رکھتے ہیں-قرآن وحدیث کے اعتبار سے یہی صحیح اسلامی ذہن ہے-
واپس اوپر جائیں

پروموشن کی خبر

ایک صاحب سے ملاقات ہوئی، انھوں نے کہا کہ میرا پروموشن (promotion) ہوگیا ہے، اب مجھے زیادہ تنخواہ ملے گی، زیادہ بڑا گھر رہنے کو ملے گا، اب مجھے زیادہ بڑی گاڑی استعمال کے لیے دی جائے گی- پہلے مجھے سفر کے لیے ریلوے کا پاس (pass) ملتا تھا، اب مجھے سفر کے لیے ہوائی جہاز کا ٹکٹ ملے گا، وغیرہ-اس کو سن کر میںنے سوچا کہ یہی آخرت کا معاملہ بھی ہے- جنت کے معاملے کو دنیا کی اصطلاح میں اسی طرح بیان کیا جاسکتا ہے، جنت کا معاملہ بھی گویا پروموشن کا معاملہ ہے، جن لوگوںکا ریکارڈ موجودہ غیر کامل دنیا میں اچھا ہوگا، ان کو پروموٹ کرکے آخرت کی کامل دنیا (جنت) میں داخل کردیا جائے گا-
یہ صورت حال تقاضا کرتی ہے کہ آدمی دنیا میں بہت زیادہ ہوش مندی کے ساتھ رہے، وہ اپنے ہر معاملے کو اِسی نظر سے جانچے کہ وہ جنّت میں داخلے کے لیے رکاوٹ ہے یا مدد گار- اِس اعتبار سے جس آدمی کا ذہن بیدار ہو، وہ گویا کہ خود اپنا چوکی دار بن جائے گا، وہ اپنی سوچ، اپنی گفتگو، اپنا سلوک، غرض اپنے قول وعمل کی مسلسل طورپر نگرانی کرتا رہے گا، وہ حضرت عمر کے اِس قول کا مصداق بن جائے گا کہ: وزنوا أنفسکم قبل أن توزنوا (کنزل العمال: 44203)یعنی اپنے آپ کو دنیا میں تولو اِس سے پہلے کہ تم کو آخرت میں تولا جائے-
پروموشن کی خبر کی طرح دعوت بھی ایک خبر ہے- اگر کسی شخص پر سچائی منکشف ہوجائے تو اس کےلیے یہ واقعہ جاب میں پروموشن کی خبر سے بلین گنا زیادہ بڑا واقعہ ہوگا- ایسا آدمی اِس کا تحمل نہیں کرسکتا کہ وہ اپنی دریافت کو اپنے ذہن میں لیے رہے اور اس کا اعلان نہ کرے- حقیقت یہ ہے کہ سچائی کی دریافت اپنے آپ کسی آدمی کو داعی بنا دیتی ہے- اگر کوئی شخص یہ دعوی کرے کہ اس نے سچائی کو پالیا ہے، اس کے باوجود وہ دعوت الی اللہ کا کام نہ کرے تو یہ گویا اس بات کا ثبوت ہے کہ اُس نے سچائی کو پایا ہی نہیں-
واپس اوپر جائیں

ذہنی ارتقا

اسلام میں سب سے زیادہ مطلوب چیز فرد کا تزکیہ ہے، یعنی ربانی تصورِ حیات کے مطابق، ذہنی ارتقا۔ کسی صاحبِ عقیدہ کے اندر جو اعلی صفات مطلوب ہیں، اُن کا اصل ذریعہ یہی ذہنی ارتقا ہے۔ علمی اعتبار سے، ذہنی ارتقا کا ذریعہ قرآن وحدیث کا مطالعہ ہے۔ کوئی آدمی جتنا زیادہ مطالعہ کرے گا، اتنا ہی زیادہ اس کے اندر وہ علمی بنیاد پائی جائے گی جو تزکیہ کے عمل کے لیے ضروری ہے-
لیکن تزکیہ یا ذہنی ارتقا کے لیے ایک اور چیز مطلوب ہے۔ اس کو نفسیاتی بنیاد کہاجاسکتا ہے۔ اِس نفسیاتی بنیاد کو علماء نے اِن الفاظ میں بیان کیا ہے: الإیمان بین الرجاء والخوف - یعنی ایمان امید اور خوف کے درمیان ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ مومن ہمیشہ ایک قسم کے شک (suspicion) کی حالت میں جیتا ہے۔ کبھی وہ اللہ کی رحمت کو یاد کرکے یقین کا تجربہ کرتا ہے اور کبھی وہ اپنی کوتاہیوں کو سوچ کر شبہہ کی حالت میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ یہ ایمانی کیفیت اتنی زیادہ عام ہے کہ صحابہ کا بھی اِس معاملے میں استثنا نہیں-
ایسا کیوں ہوتا ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ فطرت کے نقشے کے مطابق، یہی وہ واحد طریقہ ہے جس کے ذریعے آدمی کا ذہنی ارتقا مسلسل طورپر جاری رہے۔ شبہہ کی یہ حالت دراصل ایک قسم کا ذہنی شاک (intellectual shock) ہے، اور نفسیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان کے اندر ذہنی ترقی صرف شاک ٹریٹمنٹ (shock treatment) کے ذریعہ ہوتی ہے-
اللہ کو یہ مطلوب ہے کہ انسان خود دریافت کردہ حقیقت (self-discovered reality) پر کھڑا ہو۔ اور خود دریافت کردہ حقیقت کے حصول کا واحد طریقہ یہ ہے کہ انسان کے اندر مسلسل طورپر سوچ کا عمل (thinking process) جاری رہے۔ اعلىٰ علم و معرفت کے حصول کے لیے ’’میں نہیں جانتا‘‘ کی نفسیات درکار ہے، نہ کہ ’’میں جانتا ہوں‘‘ کی نفسیات-
واپس اوپر جائیں

تلوار بطور تمثیل

بائبل (نیا عہد نامہ) کے باب متّی میں بتایا گیا ہے کہ حضرت مسیح نے کہا کہ — یہ نہ سمجھو کہ میں زمین پر صلح کرانے آیا ہوں، صلح کرانے نہیں، بلکہ تلوار چلوانے آیا ہوں:
Do not suppose that I have come to bring peace to the earth. I did not come to bring peace, but a sword. (Matthew, 10:34)
مسیحی علما ء اِس قول میں ’’تلوار‘‘ کے لفظ کو تمثیل کے معنی میں لیتے ہیں- اُن کے نزدیک، یہاں تلوار کا لفظ تمثیل کے معنی میں ہے- اِس سے مراد نظریاتی ٹکراؤ ہے- مسیح نے اپنے اِس قول میں عملی تشدد کی وکالت نہیں کی ہے:
Many Christians believe that the sword is a metaphor for ideological conflict and that Jesus is not advocating physical violence.
مسیحی علماء کی یہ تاویل بالکل درست ہے- یہ ایک حقیقت ہے کہ تلوار کا لفظ تمثیل کے طورپر بھی استعمال ہوتا ہے، ادبی لٹریچر میں بھی اور مذہبی لٹریچر میں بھی- اسلام میں بھی تلوار کا تمثیلی استعمال پایا جاتا ہے- اصل یہ ہے کہ تلوار یا جنگ کا لفظ اپنے ادبی استعمال کے لحاظ سے اکثر شدت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، یعنی بھر پور جدوجہد کرنا-
مثلاً کہا جاتا ہے: فائٹ ٹو فنش (fight to finish)- اِس جملے کا مطلب جنگ نہیں ہوتا، بلکہ یہ ہوتا ہے کہ پوری طاقت کے ساتھ اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرو، اپنی کوشش میں کسی بھی قسم کی کوئی کمی نہ کرو-لوگوں کا عام مزاج یہ ہے کہ وہ تنقید کو اتنا ہی برا سمجھتے ہیں، جتنا کہ تشدکو- مگر یہ لوگوں کی حساسیت کی بات ہے، ورنہ تنقید ایک پرامن اصلاحی عمل ہے- انسان کو چاہئے کہ وہ تنقید کو مثبت انداز میں لے- وہ تنقید کو برا سمجھنے کے بجائے اس پر غور کرے-
واپس اوپر جائیں

شکایت بے جا

برطانیہ کے ایک ممبر پارلیمنٹ انِاک پاویل (Enoch Powell) نے ان سیاسی لیڈروں پر تبصرہ کیا ہے جومیڈیا کی شکایت کرتے ہیں-اُن کے نزدیک یہ شکایت بے جا ہے- انھوں نے کہا کہ کسی سیاسی لیڈر کی میڈیا سے شکایت ایسی ہی ہے جیسے پانی کے جہاز کا ایک کیپٹن سمندر کی موجوں کی شکایت کرنے لگے:
A politician who complains about the media is like a ship’s captain complaining about the sea.
یہ تبصرہ بالکل درست ہے- مگر یہ صرف سیاسی لیڈر اور میڈیاکی بات نہیں، بلکہ وہ ہر انسان کے لیے عام ہے- کوئی بھی عورت یا مرد جب کسی کی شکایت کرتے ہیں تو حقیقت کے اعتبار سے اُن کی شکایت ایک بے جا شکایت ہوتی ہے وہ ایک ایسے معاملے کو شکایت کا معاملہ بنالیتے ہیں جو اپنی حقیقت کے اعتبار سے شکایت کا معاملہ ہی نہیں-اِس دنیا کا نظام فطرت کے اصول پر قائم ہے- فطرت کے اصول کے مطابق کسی انسان کو جس دنیا میں رہنا پڑتا ہے، وہ گویا ایک سمندر ہے- اجتماعی زندگی ہمیشہ موجوں سے بھرے ہوئے سمندر جیسی ہوتی ہے- اجتماعی زندگی میں ہمیشہ ایسا ہوگا کہ ایک انسان کو موجوں سے سابقہ پیش آئے گا- آدمی کو چاہئے کہ وہ ان موجوں کو اپنے لیے ایک چیلنج سمجھے- وہ موجوں کی شکایت کرنے کے بجائے یہ آرٹ سیکھے کہ وہ کس طرح کامیابی کے ساتھ اِن موجوں سے گزر سکتا ہے-
زندگی میں موج یا چیلنج کا وجود کوئی برائی نہیں- وہ انسان کی بہتری کے لیے ہے، وہ اس لیے ہے کہ انسان کی تربیت کرے، وہ اِس لیے ہے کہ انسان کی عقل میں اضافہ کرے، وہ اِس لیے ہے کہ انسان کو اور زیادہ طاقتور بنائے- زندگی میں مشکلات کی حیثیت تجربہ کی ہے، اور تجربہ کے بغیر کبھی کوئی انسان مکمل نہیں ہوسکتا-آدمی کو چاہئے کہ وہ تجربات سے سیکھے، وہ شکایات کی نفسیات سے آخری حد تک اپنے آپ کو بچائے-
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز— 229

1- انٹرنیشنل اسکول فار جین اسٹڈیز کے زیر اہتمام نان وائلنس پر تین ہفتہ کا ایک ورکشاپ منعقد کیا گیا، جس میں امریکہ، کناڈا، زمبابوے، اور پاکستان کے 35 ہائی اسکول ٹیچروں نے شرکت کی۔ مختلف مذاہب کے نمائندوں کو اس میں نان وائلنس کے موضوع پر لکچر کے لیے بلایا گیا تھا ۔ 26 جولائی 2014 کو ڈاکٹر فریدہ خانم نے اسلام کی نمائندگی کرتے ہوئے ان کے درمیان ایک لکچر دیا، موضوع تھا :
The Concept of Non-violence in Islam
لکچر کے بعد سوال و جواب کی نشست ہوئی۔ تمام حاضرین نے بڑے انٹرسٹ کے ساتھ سنا۔ سی پی ایس ممبر مس ماریہ خان اور مس صوفیہ خان نے ان کے درمیان قرآن کا انگلش ترجمہ اور دیگر اسلامی لٹریچر تقسیم کیا، جسے تمام لوگوں نے شکریہ کے ساتھ قبول کیا۔ یہ پروگرام ولبھ اسمارک جین مندر، علی پور میں ہوا تھا۔
2- 30جولائی 2014 کو یونیسیف انڈیا کی جانب سے انٹرفیتھ ہارمنی کے مرکزی موضوع پر ایک سیمینار منعقد کیا گیا ۔ صدر اسلامی مرکز نے اس پروگرام میں افتتاحی خطاب کیا، موضوع تھا: Religion and Social Change ۔ خطاب کےبعد تمام حاضرین کو قرآن اور دوسرے اسلامی لٹریچر دیے گیے۔ تمام حاضرین نے بہت ہی شوق سے اسے قبول کیا۔ یہ تقریر انگریزی زبان میں تھی، اوراس لنک پر اسے سنا جاسکتا ہے:
http://cpsglobal.org/content/religion-and-social-change-july-30-2014
-3 سی پی ایس کی کولکاتا ٹیم نے 2اگست 2014 کوایک انٹر فیتھ ڈائلاگ کا اہتمام کیا۔ اس کا عنوان تھا:
Importance of Peace & and Spirituality in Global Perspective
اس میں مختلف مذاہب کے نمائندے شریک ہوئے۔ مثلا مسٹراو ۔پی۔ شا، اور مسٹر وجئے یوگی (ہندوازم)، مسٹرمونی جی مہاراج (جین ازم)،Rev پی ایس بشپ (کرشچنیٹی)، ٹی ایس والیا (سکھ ازم)، اور ڈاکٹر سید تنویر نسرین (یونیورسٹی آف بردوان)، وغیرہ۔ پروگرام کے اختتام پر تمام لوگوں کو قرآن کا ترجمہ اور دیگر دعوتی لٹریچر دیا گیا۔ جس کو تمام مہمانوں نے بخوشی قبول کیا۔ پروگرام کا اختتام مولانا محمد شفیق قاسمی (امام ناخدا مسجد اور صدر کولکاتا ٹیم) کے کلمات پر ہوا۔
4- ٹائمس آف انڈیا اور کوکیلا دھیروبھائی امبانی ہاسپٹل اینڈ ریسرچ سینٹر کے زیر اہتمام 11 اگست 2014 کو ممبئی میں آرگن ڈونیشن (Organ Donation) پر ایک پروگرام ہوا۔ صدر اسلامی مرکز نے دہلی سے بذریعہ ٹیلی کانفرنسنگ اس میں خطاب کیا۔ دوران خطاب جو بات کہی گئی ان میں سے ایک یہ تھی کہ آرگن ڈونیشن صدقۂ جاریہ(continuous charity) ہے۔ تقریر انگریزی زبان میں تھی، اور یہ پروگرام مذکورہ ہاسپٹل میں منعقد ہوا تھا۔ صدراسلامی مرکز نے اس موضوع پر ایک آرٹیکل بھی لکھا ہے۔ تقریر اور آرٹیکل کو ان دو لنکس بالترتیب پر سنا اور پڑھا جاسکتا ہے:
http://cpsglobal.org/content/organ-donation-august-11-2014
http://cpsglobal.org/content/organ-donation-noble-act
5- سی پی ایس کی ممبئی ٹیم نے 8-11 اگست 2014 کو شولاپور کا دعوتی دورہ کیا۔ یہ ٹیم ممبئی اور پونے کے 8 آٹھ افراد پر مشتمل تھی۔ اور سفر کا دو بنیادی مقصد تھا، ماہ نامہ الرسالہ کے قارئین کو دعوتی کام پر ابھارنا، اور برادرانِ وطن کے درمیان دعوتی کام کرنا۔ دورانِ سفر قارئین الرسالہ کے علاوہ جن دوسرے لوگوں سے ملنے کا موقع ملا، ان میں سے چند اہم یہ ہیں، مفتی محمد یوسف صاحب، قاضی شہر امجد علی صاحب، پرینیتی شندے (ایم ال اے، شولاپور)، وغیرہ۔ یہ سفر مسٹر فاروق فیصل ، ممبئی کی قیادت میں ہوا۔ (محبوب ہنتگی،09619163993 )
6- بی بی سی ٹی وی کی ٹیم 15 اگست 2014 کو اسلامی مرکز کے دفتر میں آئی۔ انھوں نے صدر اسلامی مرکز کے مفصل انٹرویو کی ویڈیو ریکارڈنگ کی۔ سوالات کا تعلق زیادہ ترمسلمانوں کے موجودہ حالت و مسائل سے تھا۔ انٹرویو کے بعد اس کے انٹرویور مسٹر شکیل اختر نے بتایا کہ یہ انٹرویو بی بی سی لندن سے تین زبانوںمیں نشر ہوگا، انگریزی اور اردو اور ہندی ۔
7- ترکی کی ایک تعلیمی این جی او انڈیا لاگ (Indialogue) کے زیر اہتمام چلنے والے کئی اسکولوں میں گڈورڈبکس، دہلی کی جانب سے 100 انگلش ترجمۂ قرآن اورسو سو تمام دعوتی کتابچے ارسال کئے گئے۔
8- صدر اسلامی مرکز کی کتاب الاسلام کا انگریزی ترجمہ گڈورڈبکس سے طبع ہوچکا ہے، انگریزی ورزن کا نام ہے: The Vision of Islam۔ اس کتاب کو اس لنک پر آن لائن پڑھا جاسکتا ہے:
http://cpsglobal.org/books/vision-islam
9- مختلف قسم کے دعوتی تجربات وتاثرات کا ایک حصہ ذیل میں نقل کیا جاتا ہے:
— At the end of our weeklong professional development course at La Salle university, Philadelphia, I gave out copies of Quran translation to my class of 12 fellow teachers from different schools and two professors who facilitated the program. I was a little hesitant at first to give out the copies of Quran as it is customary here to not talk about religion and politics inside the class room. To my surprise, everyone was happy and appreciative to receive the copies of the Quran and said it was a very thoughtful gesture. (Khwaja Kaleemuddin, US)
— 3000 copies of a bigger size Quran published for Serving Islam Team, a prominent dawah group in Hong Kong. This size will now be kept in hotel rooms in Dubai and other places.
— Respected Maulana Sahib, I have read your book, Jeewan Ka Udeshya. I like reading books that are not concerned with either Islam or Hinduism. This book is readable for every living human being. (RC Jain, Jodhpur)
— Feedback of a reader of Spirit of Islam: I received my first edition of the Spirit of Islam early this month and would like to give my feedback. The magazine has umpteen social messages which have been beautifully illustrated in each of its articles. Every article has spiritual significance to convey to its readers. The magazine highlights the essence of spirituality in its true sense, which is synonymous with social peace and harmony. As a teenager myself, everyday comes to me as a challenge. Each day, I am introduced to situations that have the potential to lead me astray and make me take wrong decisions. In such a case, articles such as, Suicide is Not an Option, have profound messages to tell and act as courage boosters! Every article has a small yet, a significant lesson that can come in handy in my everyday life. I consider it my privilege to be introduced to this magazine. I would want to congratulate and convey my gratitude to everyone associated with the Spirit of Islam. I would be looking forward to the future editions of the magazine. (Hemapriya R.)
— Taxi dawah: A taxi driver asked Mr. Javed of the Ministry of Awqaf, UAE, for the English Quran translations so that he could give it to the passengers. We are giving him 100 copies of the Quran for distribution to the tourists. (Seema Jalal, Dubai)
واپس اوپر جائیں