Pages

Saturday 1 February 2003

Al Risala | February 2003 (الرسالہ،فروری)

2

- ایمانی کیفیات

3

- شدت پسندی نہیں

5

- اسلامی انقلاب میں عمومی تائید

6

- عالی شان مسجدیں

7

- عورت کا درجہ

8

- کامیاب زندگی

9

- بیماری سے تطہیر

10

- مصیبت بھی رحمت ہے

11

- حقیقی اہمیت

12

- زوال کیاہے

13

- نصیحت پذیری

14

- سب سے بڑی قربانی

15

- ہر حال میں خیر

16

- تشدد کا سبب عدم قناعت

17

- مدح، تنقید

20

- کیرلا کا سفر


ایمانی کیفیات

ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عرض علی ربی عزو جل لیجعل لی بطحاء مکۃ ذہبا فقلت لا یا رب، ولکن اشبع یوماً و اجوع یوماً فاذا جعت تضرعت الیک وذکرتک واذا شبعت حمدتک وشکرتک (مسند احمد ۵؍۲۵۴) یعنی اللہ نے یہ پیشکش فرمائی کہ تمہارے لیے مکہ کی وادی کو سونابنا دیا جائے۔ میںنے کہا کہ اے میرے رب، نہیں۔ بلکہ میں چاہتاہوں کہ میں ایک دن سیر ہوکر کھاؤں اورایک دن بھوکا رہوں۔ پھرجب مجھے بھوک لگے تو میں تجھ سے تضرع کروں اورتجھ کو یاد کروں اور جب مجھے سیری حاصل ہو تو میں تیری حمد کروں اور تیرا شکر کروں۔
حقیقت یہ ہے کہ ایمانی کیفیات کاتعلق براہ راست طورپر حالات سے ہے۔ زندگی میں جب بھی کوئی صورت حال پیش آتی ہے تو اس کے لحاظ سے مومن کے لیے ایمانی کیفیات کا سرمایہ موجود رہتا ہے۔ جس طرح احوال کی بہت سی قسمیں ہیں اسی طرح ایمانی کیفیات کی بھی بہت سی قسمیں ہیں۔ اور ہر قسم میںاُس کے مطابق، آدمی کے اندر ایمانی کیفیات پیدا ہوتی ہیں۔موجودہ دنیا میں آدمی کو امتحان کے لیے رکھا گیا ہے۔ اسی لیے یہاں ہر عورت اور مرد کے ساتھ طرح طرح کے احوال پیش آتے ہیں۔ ایسا اسی لیے ہوتا ہے تاکہ یہ دیکھا جائے کہ کون اپنی جانچ پرپورا اُترا اور کون اس میںناکام ہوگیا۔
اس دنیا میں آرام کی حالت ہو یا تکلیف کی حالت ہو، دونوں حالتیں اضافی ہیں۔ دونوں حالتوں میںاصل اہمیت اس بات کی ہے کہ اُس کے اندر کسی عورت یا مرد سے جومطلوب رویہ درکار تھا اس کا ثبوت اُس نے دیا یا نہیں دیا۔ اصل اہمیت حالات کے مقابلہ میںردعمل کی ہے، نہ کہ خود حالات کی۔یہ حقیقت جس عورت اور مرد پر واضح ہوجائے اُس کا حال یہ ہوجائے گا کہ اُس کی نظر آرام اور تکلیف پر نہ ہوگی بلکہ اس بات پر ہوگی کہ ملے ہوئے حالات میں اس نے کس قسم کے رد عمل کا ثبوت دیا۔ شکر کا یا ناشکری کا، صبر کا یا بے صبری کا۔ ایسے لوگ ہر حال میں اپنا احتساب کریںگے، نہ کہ خارجی حالات کا شکوہ کرتے رہیں۔
واپس اوپر جائیں

شدت پسندی نہیں

حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا تشددوا علی أنفسکم فیشدد علیکم، فإنَّ قوما شددوا علی أنفسھم فشدَّد اللہ علیھم، فتلک بقایاھم فی الصوامع والدیار (سنن أبی داؤد، کتاب الادب، باب فی الحسد) یعنی تم اپنے آپ پرسختی نہ کرو ورنہ تمہارے اوپر سختی کی جائے گی۔ کیوں کہ ایک قوم نے اپنے آپ پر سختی کی۔ پھر اللّٰہ نے بھی ان پر سختی کی۔ تو انہی لوگوں کے باقیات ہیں گرجوں میں اور خانقاہوں میں۔
اس حدیث میں تشدد سے مرادمحدود طور پر صرف مذہبی تشدد یا انتہا پسندانہ رہبانیت نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق انسانی زندگی کے تمام معاملات سے ہے۔ جس معاملہ میں بھی اعتدال کا طریقہ چھوڑ کر شدت کا طریقہ اختیار کیا جائے گا وہ سب اس حدیث کے حکم میں شامل ہوگا۔
اعتقادی شدت پسندی یہ ہے کہ جزئی اختلافات کی بنا پر ایک دوسرے کی تکفیر اور تفسیق کی جانے لگے۔ اسی طرح عبادتی شدت پسندی یہ ہے کہ فروعی مسالک کی بنیاد پر الگ الگ مسجدیں بنائی جائیں اور اس کو امت میں تفریق کی حدتک پہنچادیا جائے۔ اسی طرح معاملاتی شدت پسندی یہ ہے کہ رخصت کوکم تر سمجھ کر ہر معاملہ کو عزیمت کا سوال بنا دیا جائے۔
شدت پسندآدمی اپنے آپ میں جیتا ہے۔ وہ صرف اپنی امنگوں کو جانتا ہے۔ اس بنا پر اس کی حیثیت اس انسان جیسی ہو جاتی ہے جو سڑک کو خالی سمجھ کر اس کے اوپر اپنی گاڑی دوڑانے لگے۔ ایسا آدمی کبھی کامیابی کی منزل تک نہیں پہنچ سکتا۔ اس دنیا میں کامیابی کا راز اعتدال پسندی ہے، نہ کہ شدت پسندی۔ شدت پسندی گویا خدا کے تخلیقی نقشہ کے خلاف جینے کی کوشش کرنا ہے اوراعتدال پسندی خدا کے تخلیقی نقشہ کے مطابق اپنی زندگی کی تعمیر کرنا۔شدت پسندی اپنی ذات کے اعتبار سے تواضع کے خلاف ہے اور دوسروں کے اعتبار سے رعایتِ انسانی کے خلاف۔ اور یہ دونوں چیزیں بلاشبہہ اسلام میں مطلوب نہیں۔
شدت پسندی اللہ کو پسند نہیں۔ جو لوگ شدت پسندی کا طریقہ اختیار کرتے ہیں اُن کا انجام یہ ہوتا ہے کہ متشددانہ طریقہ اُن کی روایات میںشامل ہو کر اُن کے دین کا جزء بن جاتا ہے۔ اس طرح اُن کی بعد کی نسلیں مجبور ہو جاتی ہیں کہ وہ اُن کی پیروی کریں۔ کیوں کہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں اُن کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ اعلیٰ معیار سے کم تر درجہ کی دین داری اختیار کیے ہوئے ہیں۔
اس شدت پسندی کا تعلق محدود طورپر صرف رہبانیت سے نہیں ہے بلکہ اُس کاتعلق ہر دینی شعبہ سے ہے۔ مثلاً قومی اور سیاسی حقوق کی جدوجہد کے لیے دو ممکن طریقے ہیں۔ ایک پُر امن جدوجہد، اور دوسری پُر تشدد جد وجہد۔ اس معاملہ میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ پُرامن اور غیر متشددانہ طریقِکار کے ذریعہ اپنے مقصد کے حصول کی جدوجہدکی جائے۔ اس کے برعکس اگر متشددانہ طریقِ کار کا انداز اختیار کیا جائے تو اس کا بیک وقت دو نقصان ہوگا۔ ایک یہ کہ قوم کو غیر ضروری سختیاں برداشت کرنی پڑیں گی۔ دوسرے یہ کہ جب ایک بار متشددانہ طریقِ کار کی روایت قائم ہوجائے گی تو اُسی کو جدوجہد کے اعلیٰ معیار کی حیثیت حاصل ہوجائے گی۔ متشددانہ طریقِ کار کو بے نتیجہ سمجھتے ہوئے بھی لوگ اس پر قائم رہیں گے، کیوں کہ اس سے ہٹنے کے بعد لوگوں کو محسوس ہوگا کہ انہوں نے خود دین کے مطلوب معیار کو چھوڑ دیا ۔ اُنہوں نے عزیمت کے بجائے رخصت کا راستہ اختیار کرلیا۔ اُنہوں نے اقدام کے بجائے پسپائی کو اپنا طریقہ بنالیا۔
شدت پسندی ہی کی ایک صورت وہ ہے جس کو انتہاپسندی (extremism) کہا جاتا ہے۔ انتہا پسندی یہ ہے کہ آدمی حقائق اورامکانات کو نظر انداز کرکے اپنے عمل کا نقشہ بنائے۔ وہ عقل کے بجائے اپنے جذبات کی رہنمائی میں چلنے لگے۔ وہ دور اندیشی کے بجائے عجلت پسندی کی روش اختیار کر لے۔ وہ تدریج کے بجائے چھلانگ کے ذریعہ اپنا سفر طے کرنا چاہے۔
ایساآدمی یہ کرتا ہے کہ وہ شوق کو اپنے آگے رکھ دیتا ہے اور دور اندیشی کو اپنے پیچھے۔ وہ بھول جاتاہے کہ ہر ایک کی ایک حد ہے، خواہ وہ کوئی فرد ہو یا کوئی گروہ۔ حد کو نظرانداز کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص جلتے ہوئے انگارے کی گرمی کا اندازہ کرنے کے لیے اُس کو اپنے ہاتھ میں لے لے۔ یا پتھر کو توڑنے کے لیے اپنے سر کو ہتھوڑا بنا لے۔ اس قسم کا ہر فعل حد سے تجاوز کرنا ہے۔ اور حد سے تجاوز کرنے والے لوگ اس دنیا میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔
واپس اوپر جائیں

اسلامی انقلاب میں عمومی تائید

پیغمبر اسلام ﷺکے زمانہ کا ایک واقعہ حدیث کی مختلف کتابوں میں آیا ہے۔ ایک غزوہ (جنگ) میںایک شخص نے حصہ لیا اور زبردست جنگی کارنامہ انجام دے کر جنگ کو جیتنے میںمدد دی۔ لیکن جنگ کے آخرمیںپیغمبر اسلام ﷺنے اعلان فرمایا کہ یہ شخص اہل جنت میں سے نہیں ہے بلکہ اہل نار میں سے ہے۔ جن لوگوں نے اس جنگ میں اس کے بہادرانہ کارنامے دیکھے تھے، انہیں آپ کے اس ارشاد پر تعجب ہوا۔ مگر جب تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ اس آدمی نے بہادرانہ قتال تو ضرور کیا تھا مگر آخر میں اس نے خود اپنی تلوار سے اپنے کو ہلاک کر لیا۔ گویا کہ اس کا معاملہ خود کشی کا معاملہ تھا، نہ کہ شہادت کا معاملہ۔
اس واقعہ کے بعد پیغمبر اسلام ﷺنے حضرت بلال سے فرمایا کہ اے بلال، اٹھو اور یہ اعلان کردو کہ جنت میں صرف وہی شخص جائے گا جو مؤمن ہواوراللہ بے شک اس دین کی مدد فاجر آدمی سے بھی کرے گا (لایدخل الجنۃ الا مومن، وان اللہ لیوید ہذاالدین بالرجل الفاجر) فتح الباری ۱۱؍۵۰۷۔ پیغمبر اسلام ﷺکے اس ارشاد سے ایک اہم اصول معلوم ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ اسلام نے انسانی زندگی میں جو ہمہ گیر انقلاب برپا کرنا چاہا تھا، اس کا آغاز اگرچہ مخلص اہل ایمان کریں گے مگر اس کی آخری تکمیل نسل در نسل کے تاریخی عمل کے ذریعہ ہوگی۔ اس تاریخی عمل میں نہ صرف مسلمان بلکہ غیر مسلم بھی مؤثر طورپر اپنا کردار ادا کریں گے۔ پیغمبر اسلام کایہ ارشاد آپ کے بعد کی تاریخ میں مسلسل واقعہ بنتا رہا ہے۔ مثال کے طورپر قرآن میں یہ اعلان کیا گیا تھا کہ آئندہ آفاق و انفس میںایسی حقیقتیں ظاہر ہوں گی جو اسلام کی صداقت کو خالص علمی سطح پر ثابت شدہ بنا دیں (حٰم السجدہ ۵۳)
موجودہ زمانہ میں سائنسی تحقیق کے بعد جو دریافتیں ہوئی ہیں، انہوں نے اس پیشین گوئی کو حرف بحرف ایک ثابت شدہ حقیقت بنا دیا ہے۔ یہ جدید دریافتیں غیر مسلم قوموں کے ذریعہ ظہور میں آئی ہیں۔ مسلم افرادکا حصہ ان میں تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔
واپس اوپر جائیں

عالی شان مسجدیں

سنن ابی داؤد (کتاب الصلٰوۃ، با ب فی بناء المساجد) میںعبد اللہ بن عباس کی ایک روایت ان الفاظ میںآئی ہے: ’’قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ما امرت بتشئید المساجد‘‘ قال ابن عباس لتزخرفنہا کما زخرفت الیہود والنصاریٰ۔ رسول اللہ نے فرمایا کہ مجھے بلند و بالا مسجدیں بنانے کا حکم نہیں دیا گیا ہے۔ (یہ حدیث بیان کرنے کے بعد) عبداللہ ابن عباس نے کہا کہ تم لوگ ضرور مسجدوں کو مزین کروگے جس طرح یہود اور نصاریٰ نے اپنی عبادت گاہوں کو مزین کیا۔ایک اور روایت میںایک صحابی کہتے ہیں کہ ہم کو بلند وبالا مسجدیں بنانے سے منع کیا گیا ہے۔ (نہینا عن تشئید المساجد)
یہ پیشین گوئی موجودہ زمانہ میں ایک واقعہ بن چکی ہے۔ اورہر ملک میںاس کے مناظر دیکھے جاسکتے ہیں۔ جہاں بھی کچھ مسلمان آبادہیں وہاں عالی شان مسجدیں بنائی جارہی ہیں۔ کہیں قصر نما، کہیں قلعہ نما، اور کہیں تاج محل نما۔ شاندار مساجد تعمیر کرنے کا یہ کام امریکہ اور یورپ میں مزید اضافہ کے ساتھ ہورہا ہے۔ کیوں کہ اس سلسلہ میں وہاں زیادہ بہتر ٹکنیکی سہولتیں حاصل ہیں۔ یہاں یہ سوال ہے کہ عالیشان مسجدیں بنانے کو اسلام میںکیوں ناپسند کیا گیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ مسجدوں کی عالیشان تعمیرات امت کے روحانی زوال کی علامت ہیں۔ کیوں کہ جب روح (اسپرٹ) ختم ہوتی ہے تو اس کی تلافی کے لیے مظاہر میںاضافہ ہوجاتاہے۔
عالیشان مسجدوں کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ وہ نمود ونمائش والی دینداری کی علامت ہیں۔ شاندار عمارتوں میںنمود ونمائش کے جذبہ کو بے حد تسکین ملتی ہے۔ وہ شکست خوردہ نفسیات کے لئے عظمت و فخر کی تسکین کا سامان ہیں۔موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کی عام نفسیات یہ ہے کہ انہوں نے پولٹیکل گلوری کو کھو دیا ہے۔ ایسی حالت میں درودیوار کی عظمت انہیں یہ فرضی تسکین دیتی ہے کہ اب بھی انہوں نے زمین پر اپنی عظمت کا نشان قائم کررکھا ہے۔
واپس اوپر جائیں

عورت کا درجہ

اسلام میں عورت کادرجہ کیا ہے، اس کا اندازہ ایک حدیث سے ہوتا ہے۔ امام بخاری نے حضرت عبد اللہ ابن عباس سے یہ روایت نقل کی ہے: حضرت بریرہ کے شوہر ایک غلام تھے جن کا نام مغیث تھا۔ گویا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ مغیث اپنی بیوی کے پیچھے چل رہے ہیں اور ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عباس، کیا تم کو اس پر تعجب نہیں کہ مغیث کو کتنی زیادہ محبت ہے بریرہ سے اور بریرہ کو کتنا زیادہ بغض ہے مغیث سے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ سے فرمایا کہ کیا ہی اچھا ہو کہ تم مغیث کی طرف رجوع کرلو۔ بریرہ نے کہا کہ اے خدا کے رسول، کیا آپ مجھے اس کا حکم دیتے ہیں۔ آپ نے فرمایاکہ میں صرف سفارش کررہاہوں۔ بریرہ نے جواب دیا: تو مجھے اس کی ضرورت نہیں (لاحاجۃ لی فیہ) فتح الباری ۹؍۳۱۹۔
بریرہ نے اپنے شوہر مغیث سے تفریق کرالی تھی۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ کو مشورہ دیا کہ تم رجوع کرلو اور مغیث کے ساتھ زندگی گزارو مگر بریرہ نے آپ کے اس مشورہ کو قبول نہیں کیا۔ اور مغیث سے رجوع پر راضی نہیں ہوئیں۔
اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام میں عورت کو کتنی زیادہ آزادی حاصل ہے۔ اس کے مطابق، عورت نہ صرف مرد کے برابر ہے بلکہ اس کو یہ حق بھی حاصل ہے کہ خود پیغمبر اگر وحی کی بنیاد پر کوئی مطالبہ کرے تو وہ اس کو ماننے پر مجبور ہے، لیکن پیغمبر کے ذاتی مشورہ کو ماننا اس کے لیے ضروری نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں اس اعتبار سے عورت اور مرد کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ جو حقوق و فرائض مرد کے ہیں وہی حقوق و فرائض عورت کے بھی ہیں۔ اگر کوئی فرق ہے تووہ فطری سبب کی بنا پر ہے، نہ کہ دونوں جنسوں میں تفریق کی بناپر۔ اس قسم کا فطری فرق جس طرح عورت اور مرد کے درمیان ہے اسی طرح وہ خود مرداور مرد کے درمیان بھی ہمیشہ موجود رہتاہے۔ یہ فطرت کامعاملہ ہے، نہ کہ فرق کا معاملہ۔
واپس اوپر جائیں

کامیاب زندگی

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا۔ اس نے کہا کہ اے اللہ کے رسول، مجھے کوئی ایسی بات بتائیے جس کے ساتھ میں جیوں، اور وہ لمبی نہ ہو کہ میں اسے بھول جاؤں۔ آپ نے فرمایا: لا تغضب (مؤطا امام مالک، ۶۵۲) یعنی تم غصہ نہ کرو۔ یہ موجودہ دنیا میں کامیاب زندگی حاصل کرنے کا سب سے زیادہ یقینی اصول ہے۔ ایک فرد کے لئے بھی اور پوری قوم کے لیے بھی۔
غصہ کیا ہے۔ غصہ در اصل ناپسندیدہ صورتِ حال کا منفی جواب (negative response) ہے۔ موجودہ دنیا میں مختلف اسباب سے ہر لمحہ کسی نہ کسی ناپسندیدہ صورت حال سے سابقہ پیش آتا ہے۔ کبھی کوئی ایسی بات پیش آجاتی ہے جس سے آپ کی انا بھڑک اٹھتی ہے۔ کبھی کسی کی ایک روش سے آپ کے اندر انتقام کا جذبہ پیدا ہوجاتا ہے۔ کبھی مفاد کا ٹکراؤ آپ کے اندر مخالفانہ جذبات کو جگا دیتا ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی سے آپ کی امیدیں پوری نہیں ہوتیں اور آپ کے اندر اس کے خلاف نفرت کے جذبات بھڑک اٹھتے ہیں۔ یہی سب وہ چیزیں ہیں جن کو انسانی زبان میں غصہ کہا جاتاہے۔
یہ غصہ آدمی کے لیے بے حد مہلک ہے۔ وہ آدمی سے اس کی سوچنے کی صلاحیت کو چھین لیتا ہے۔ وہ آدمی کو اس قابل نہیں رکھتا کہ وہ حقیقت پسندانہ انداز میں اپنے عمل کا نقشہ بنائے۔ وہ اس کو تعمیر کے بجائے تخریب کے راستہ پر ڈال دیتا ہے۔ غصہ آدمی دوسرے کے خلاف کرتا ہے، مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ ہمیشہ آدمی کے اپنے نقصان کا باعث بنتا ہے۔
موجودہ دنیا آزمائش کی دنیا ہے۔ یہاں ہر ایک کے ساتھ ایسے واقعات پیش آتے ہیں جو اُس کو مشتعل کردیں، جو اُس کے اندر منفی نفسیات کو جگا دیں۔ اس صورت حال کو بدلنا کسی کے لیے ممکن نہیں۔ ایسی حالت میںکامیاب زندگی کی تعمیر کا طریقہ صرف یہ ہے کہ آدمی صبر وتحمل کی روش اختیار کرے۔ وہ اشتعال کے باوجود مشتعل نہ ہونے کا آرٹ سیکھ لے۔ وہ اُن حالات کے ساتھ ایڈجسٹ کرکے رہ سکے جن کو بدلنے کی قدرت اُس کو حاصل نہیں۔
واپس اوپر جائیں

بیمار ی سے تطہیر

حدیث میں آیا ہے کہ مدینہ میں ایک شخص بیمار ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُس کی عیادت کے لیے اُس کے گھر گئے۔ وہاں پہنچ کر آپ نے کہا کہ: لا بأس، طہور إن شاء اللہ (صحیح البخاری، کتاب المرضٰی، باب ما یقال للمریض) یعنی کوئی حرج نہیں، انشاء اللہ یہ پاکی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ جب کوئی شخص بیمار ہوتا ہے تو پُر اسرار طورپر اس کے گناہ دھل جاتے ہیں، وہ خود بخود ایک پاکیزہ انسان بن جاتا ہے۔ یہ در اصل ایک معلوم شعوری واقعہ ہے جو ایک سچے مومن کے ساتھ پیش آتا ہے۔
کوئی آدمی اگر بیمار نہ ہو، اُس کا جسم مکمل طورپر ایک صحت مند جسم ہو تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اُس کے اندر شعوری یا غیر شعوری طورپر فخر و ناز کے جذبات پیدا ہوجاتے ہیں۔ اُس کے سینہ میں دردمندانہ احساسات کی پرورش نہیں ہوتی۔ یہاں تک کہ وہ ایک بے حس انسان بن کر رہ جاتا ہے۔
لیکن جب ایک مومن بیماری میںمبتلا ہوتا ہے تو وہ اپنے عجز کو دریافت کرتاہے۔ اُس کے اندر دردمندی کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ اپنے بندہ ہونے کی حقیقت کا تجربہ کرتا ہے۔
اس طرح بیماری اُس کو دوسری چیزوں سے دور کرکے اللہ سے قریب کردیتی ہے۔ وہ اللہ کی طرف متوجہ ہوجاتاہے۔ وہ اللہ کو یاد کرنے لگتا ہے۔ اُس کے دل سے دعائیں اور التجائیں نکلنے لگتی ہیں۔ بیماری اُس کے لیے اللہ سے قربت کا ذریعہ بن جاتی ہے۔
بیماری بظاہر ایک غیر مطلوب چیز ہے۔ لیکن اگر صحیح اسلامی ذہن ہو تو جسمانی بیماری آدمی کے لیے روحانی صحت کا ذریعہ بن جائے گی۔اس دنیا میںاصل اہمیت ذہنی بیداری کی ہے۔ بیدارذہن ہی اس قابل ہوتا ہے کہ وہ واقعات سے سبق لے۔ اور ذہن کو بیدار کرنے والی سب سے بڑی چیز اس دنیا میںصرف ایک ہے، اور وہ مشکل حالات ہیں۔
واپس اوپر جائیں

مصیبت بھی رحمت ہے

ایک روایت صحیح البخاری (کتاب الجہاد) سنن ابی داؤد (کتاب الجہاد) اور مسند امام احمد میںآئی ہے۔ البخاری کے الفاظ یہ ہیں: عجب اللہ من قوم یدخلون الجنۃ فی السلاسل (فتح الباری ۶؍۱۶۸)یعنی اللہ ان پر متعجب ہوتا ہے جو جنت میں زنجیروں میں (بندھے ہوئے) داخل ہوں گے۔ بعض اور روایتوں میں یقادون اور یساقون کے الفاظ آئے ہیں۔ یعنی وہ کھینچتے ہوئے اور ہانکتے ہوئے لے جائے جائیں گے۔
اس حدیث میں کچھ اہل ایمان کے ساتھ جس معاملہ کا ذکر ہے وہ آخرت میں پیش آنے والا معاملہ نہیں ہے بلکہ آخرت سے پہلے اسی دنیا میں پیش آنے والا معاملہ ہے۔ یہاں زنجیر کا لفظ در اصل مجبور کن حالات (compulsive situation) کی تعبیر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ لوگوں کے ساتھ ایسے مجبورانہ حالات پیش آئیں گے کہ اُن کے لیے اس کے سوا کوئی راستہ باقی نہ رہے گا کہ وہ خدا پرستی اور آخرت پسندی کی زندگی اختیار کریں اور اس طرح گویا بندھے بندھے جنت میں پہنچ جائیں۔
یہ خوش قسمتی اُن افراد کے حصہ میں آئے گی جن کے دل میں اخلاص اور حسن نیت کی چنگاری موجود ہو۔ اللہ تعالیٰ جن لوگوں کے دل میں اس قسم کی استعداد دیکھے گا اُن کی قدر افزائی اس طرح کرے گا کہ اُن کے لیے ایسے حالات پیدا کردے گا جو اُنہیں طوعاً و کرہاً خدا پرستانہ اعمال کی طرف لے جانے والے ہوں۔مصیبت کا جنتی زنجیر بن جانا اُس شخص کے حصہ میںآتا ہے جس کے اندر یہ صلاحیت ہو کہ وہ مصیبت کے وقت اللہ کی طرف رجوع کرے۔ مصیبت جس کے دل کو اس طرح نرم کرے کہ وہ اللہ کی یاد کرنے والا بن جائے۔
مصیبت اگر لوگوں کے اندر فریاد اورشکایت کا ذہن بنائے تو مصیبت صرف تباہی ہے۔اور اگر مصیبت لوگوں کے اندر محاسبۂ خویش کاذہن پیدا کرے تو وہ اُن کے لیے رحمت کا سبب بن جائے گی۔
واپس اوپر جائیں

حقیقی اہمیت

پیغمبر اسلام کے طریقہ کا ایک پہلو یہ تھا کہ آپ کی نظر ہمیشہ حقائق پر ہوتی تھی،نہ کہ ظواہر پر۔ ظواہر میں اگر بے خبری کی بنا پر کوئی فرق ہوجائے تو اس کو آپ ناقابل لحاظ سمجھتے تھے۔ البتہ حقیقی اہمیت والی باتوں کے بارے میں آپ کا رویہ ہمیشہ بہت سخت ہوتا تھا۔
پیغمبر اسلام کے آخری حج کا ایک واقعہ بخاری ، مسلم، ابو داؤد میںتھوڑے تھوڑے لفظی فرق کے ساتھ آیا ہے۔ یہ آپ کی زندگی کا آخری سال تھا۔ آپ حج کا فریضہ ادا کرنے کے بعد منیٰ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ لوگ آپ کے پاس آتے اور حج کے مسائل دریافت کرتے۔ کوئی کہتا کہ مجھے مسئلہ معلوم نہ تھا چنانچہ میںنے ذبح کرنے سے پہلے بال منڈا لیا۔ کوئی کہتاکہ میںنے رمی سے پہلے نحر (قربانی) کرلی، وغیرہ۔ آپ ہر ایک سے کہتے کہ کرلو، کوئی حرج نہیں۔ اسی طرح بار بارلوگ آتے رہے اور تقدیم اور تاخیر کی بابت سوال کرتے رہے۔ آپ ہر ایک سے یہی کہتے کہ کوئی حرج نہیں، کوئی حرج نہیں، (افعل ولاحرج) (سنن ابی داؤد ۲؍۲۱۷،۲۱۸)
ابو داؤد کی روایت میں مزید ان الفا ظ کا اضافہ ہے: کر لو کوئی حرج نہیں۔ حرج تواس شخص کے لیے ہے جو ایک مسلمان کو بے عزت کرے۔ ایسا ہی شخص ظالم ہے۔ یہی وہ شخص ہے جس نے حرج کیا اور ہلاک ہوا۔
دین میں اصل اہمیت معانی کی ہے، نہ کہ ظواہر کی۔ ایک شخص ظاہری چیزوں کا زبردست اہتمام کرے مگر معنوی پہلو کے معاملہ میں وہ غافل ہو تو ایسا شخص اسلام کی نظر میں بے قیمت ہوجائے گا۔اللہ ہمیشہ آدمی کی نیت کو دیکھتا ہے۔ نیت اگر اچھی ہے تو ظاہری چیزوں میںکمی یا فرق کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ لیکن اگر آدمی کی نیت اچھی نہ ہو تو اللہ کی نظر میں اُس کی کوئی قیمت نہیں، خواہ اُس نے ظواہر کے معاملہ میں کتنا ہی زیادہ اہتمام کررکھا ہو۔ ظاہری خوش نمائی سے انسان فریب میں آسکتا ہے مگر ظاہری خوش نمائی کی خدا کے نزدیک کوئی وقعت نہیں۔
واپس اوپر جائیں

زوال کیا ہے

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ یہود ونصاریٰ کو جو آسمانی تعلیم دی گئی تھی اس کا بڑاحصہ انہوں نے بھلا دیا (ونسوا حظاً مما ذکروا بہ…، فنسوا حظّا مما ذکروا بہ … المائدہ۱۳۔۱۴)اس بھلانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہود و نصاریٰ نے کوئی کانفرنس کرکے اس میں باقاعدہ یہ طے کیاہو کہ آج سے ہم فلاں چند باتیں یادر رکھیں گے اور بقیہ باتوں کو بھلا دیں گے۔ ایسا کبھی نہیںہوتا۔ اس قسم کا بھولنا ہمیشہ تاریخی اور نفسیاتی اسباب کے تحت ہوتا ہے۔ تاریخی طورپر دھیرے دھیرے یہ صورت حال پیدا ہوتی ہے کہ کچھ چیزیں لوگوں کے زندہ حافظے میں باقی رہتی ہیں اور دوسری چیزیں ان کے زندہ حافظہ سے نکل جاتی ہیں۔ کچھ چیزوں کی اہمیت انہیں یاد رہتی ہے اور کچھ چیزوں کی اہمیت سے وہ بے خبر ہوجاتے ہیں۔
حدیث میں پیش گوئی کی گئی تھی کہ یہود و نصاری نے بگاڑ پیدا ہونے کے بعدجوکچھ کیا وہی سب مسلمان بھی بعد کے زمانے میں کریں گے (لتتبعن سنن من کان قبلکم) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ امت محمدی پر بھی ایسا وقت آسکتا ہے۔ ایسا ہوسکتا ہے کہ لوگ دین کے ایک حصہ سے واقف ہوں اور انہیں دین کے دوسرے حصے کی خبر نہ رہے۔ دین کے بعض حصوں کی ان کے یہاں دھوم ہو اور دوسرے زیادہ بڑے حصہ کو انہوں نے اس طرح چھوڑ رکھا ہو جیسے کہ وہ جانتے ہی نہیں کہ یہ بھی اس دین کا حصہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے پیغمبرعربی کے ذریعہ ان کے پاس بھیجا تھا۔
کسی قوم پر جب بھی یہ حالت آتی ہے تو وہ مزاج میں بگاڑ کی بنا پر آتی ہے۔ سب سے پہلے قوموں کا مزاج بگڑتا ہے پھر اس کے نتیجہ کے طورپر ان کا اخلاق و کردار بھی بدلتا چلا جاتا ہے۔
مثلاً مختلف اسباب کے تحت ظواہر کو روح کا بدل سمجھ لینا ۔ اب ایسا ہوتا ہے کہ دین کی ا صل روح کو جاننے اور اپنانے کی فکر نہیں ہوتی بلکہ اس کے خارجی مظاہر ہی کو سب کچھ سمجھ لیا جاتا ہے۔یہ زوال کی علامت ہے اور یہ زوال ہر امت کے ساتھ بہر حال پیش آتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

نصیحت پذیری

کسی انسان کو جب حق کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور اس کی سوچ ایمانی سوچ بن جاتی ہے تو فطری طورپر ایسا ہوتا ہے کہ وہ ایک سنجیدہ انسان بن جاتا ہے۔ اسی ایمانی سنجیدگی کا ایک پہلو وہ ہے جس کو نصیحت پذیری کہا جاسکتا ہے۔ قرآن میں اس کے لیے مختلف الفاظ آئے ہیں۔ مثلاً تذکّر (الزمر ۹) اعتبار (المؤمنون ۲۱) توسم (الحجر ۷۵) ، وغیرہ۔اسی طرح حدیث میں بھی اسی قسم کے الفاظ وارد ہوئے ہیں۔ مثلاً وصمتی فکرا ونظری عبرۃً (مشکاۃ المصابیح ۳؍۱۴۷۲) یعنی میری خاموشی سوچ کی خاموشی ہواور میرا دیکھنا عبرت کا دیکھنا ہو۔
ایمان یا حق کی معرفت بھی بذات خود اسی نوعیت کی ایک چیز ہے۔ ایمانی معرفت کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ آدمی مخلوقات پر غور کرکے خالق کو دریافت کرے۔ وہ دیکھنے والی دنیا کے اندر غیب کی دنیا کو پالے۔ قرآن کے الفاظ میں، وہ آیات(خارجی نشانیوں) کے ذریعہ داخلی حقیقتوں کو جان لے۔وہ بصارت کے ساتھ بصیرت کی استعداد حاصل کرلے۔
تدبر و تفکر مومن کا عام مزاج ہوتا ہے۔ اُس کا یہ مزاج ہمیشہ اور ہر جگہ قائم رہتا ہے۔ یہ مزاج اُس کو دائمی طورپر اللہ کی یاد کرنے والا بنا دیتا ہے۔ وہ ہر دن ایسی باتیں دریافت کرتا رہتا ہے جو اُس کے ایمان ویقین میںاضافہ کرنے والی ہوں۔ دوسرے لوگ ظواہر میںصرف ظواہر کو دیکھتے ہیں، مگر مومن اپنے اس مزاج کی بنا پر ظواہر میں حقائق کو دریافت کرلیتا ہے۔ تدبر اور تفکر کے اس عمل کے لیے کسی تنہائی یا مخصوص مقام کی ضرورت نہیں۔ یہ عمل مومن کے دماغ میں ہر لمحہ جاری رہتا ہے ، حتیٰ کہ دنیا کے بھرے ہوئے ہنگاموں میں بھی وہ اُس سے منقطع نہیں ہوتا۔
نصیحت پذیری مومن کی روحانی خوراک ہے۔ مومن کے لیے مادی غذا اگر جسمانی تقویت کا ذریعہ ہے تو عبرت و نصیحت اُس کے لیے روحانی غذا کی حیثیت رکھتی ہے۔مادی غذا کے بغیر جسم صحت مند نہیں رہ سکتا،اسی طرح فکری غذا کے بغیر روحانیت کا ارتقاء ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں

سب سے بڑی قربانی

عبداللہ بن وابصہ العبسی اپنے باپ سے اپنے دادا کی یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حج کے موسم میں ہماری قیام گاہ پر منیٰ میںآئے۔ ہم جمرۂ اولیٰ پر مسجد الخیف کے قریب ٹھہرے ہوئے تھے۔ آپ اپنے اونٹ پر تھے اور اپنے پیچھے زید بن حارثہ کو بٹھائے ہوئے تھے۔ آپ نے ہم کو توحید کی طرف دعوت دی۔ خدا کی قسم، ہم نے آپ کو کوئی جواب نہیں دیا اور ہم نے اچھا نہیں کیا۔ہم آپ کے بارے میں سن چکے تھے اور یہ بھی سن چکے تھے کہ آپ حج کے موسم میں لوگوں کو اپنے دین کی دعوت دیتے ہیں۔ آپ ہمارے پاس کھڑے ہوکر ہمیں دعوت دیتے رہے اور ہم چپ چاپ سنتے رہے۔اس وقت ہمارے ساتھ میسرہ بن مسروق العبسی بھی تھے۔ انہوں نے ہم سے کہا کہ میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگرہم اس آدمی کی تصدیق کریں اور اس کو لے جاکر اپنے قافلہ کے بیچ ٹھہرائیں تو یہ بڑا اہم فیصلہ ہوگا۔ خدا کی قسم، اس کا دین غالب ہوکر رہے گا۔ یہاں تک کہ وہ ہر جگہ پہنچ جائے گا۔ قبیلہ کے لوگوں نے کہا کہ اس کو چھوڑو، تم ایسی بات کیوں کہتے ہو جس کو ہم میں سے کوئی ماننے والا نہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ بات سن کر میسرہ کے بارے میں پُر امید ہوگئے۔ آپ نے ان سے مزید گفتگو کی۔ میسرہ نے جواب دیا کہ آپ کا کلام کتنا اچھا اور کتنا روشن کلام ہے۔ لیکن اگرمیں اس کو مان لوں تو میری قوم میری مخالف ہوجائے گی۔ اور آدمی ہمیشہ اپنی قوم کے ساتھ ہوتا ہے۔ کیوں کہ قوم اگر مدد نہ کرے تو دشمنوں سے مدد کی کیا امید کی جاسکتی ہے ۔ ۱؍۹۳۔
سب سے بڑی قربانی یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی قوم کی روش کے خلاف ایک روش اختیار کرے۔ وہ اپنی قوم کے عام مزاج کے خلاف کام کرے۔ وہ ایسی بات کہے جو قوم کے وقار سے ٹکراتی ہو۔ وہ ایسی پالیسی کی تبلیغ کرے جو قومی پالیسی سے مطابقت نہ رکھتی ہو۔ایساآدمی اپنی قوم سے کٹ جاتاہے۔ وہ خود اپنوں کے درمیان اجنبی بن کر رہ جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

ہر حال میں خیر

حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عجباً لامر المؤمن! إنّ امرہ کلہ لہ خیر، ولیس ذلک لأحد الا للمؤمن، إن أصابتہ سراء شکر فکان خیرا لہ، وإن أصابتہ ضراء صبر فکان خیرا لہ، (صحیح مسلم، کتاب الزہد) یعنی مومن کا معاملہ عجیب ہے۔ اُس کے لیے اُس کے ہر معاملہ میں بھلائی ہے۔ اور یہ مومن کے سوا کسی اور کے لیے نہیں۔ اگر اُس کو کوئی خوشی ملتی ہے تو وہ شکر کرتا ہے پھر وہ خوشی اُس کے لیے بھلائی بن جاتی ہے۔ اور اگر اُس کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے پھر وہ تکلیف اس کے لیے بھلائی بن جاتی ہے۔
غیر مومنانہ روش یہ ہے کہ اگر کسی آدمی کو خوشی ملے تو وہ اُس پر فخر کرے۔ اور اگر اُس کو تکلیف پہنچے تو وہ مایوسی کا شکار ہوجائے۔ یہ دونوں حالتیں یکساں طور پر بُرائی کی حالتیں ہیں۔ اس کے برعکس مومنانہ روش یہ ہے کہ آدمی کو خوشی ملے تو اُس کا سینہ شکر کے جذبہ سے بھر جائے۔ اور اگر اُس کو تکلیف کا تجربہ ہو تو وہ اُس کو اللہ کا فیصلہ سمجھ کر اُ س پر راضی رہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کی طرف قرآن میں اس طرح تنبیہ کی گئی ہے: پس انسان کا حال یہ ہے کہ جب اُس کا رب اُس کو آزماتا ہے اور اُس کو عزت اور نعمت دیتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھ کو عزت دی۔ اور جب وہ اُس کو آزماتا ہے اور اُس کا رزق اُس پر تنگ کر دیتاہے تو وہ کہتاہے کہ میرے رب نے مجھ کو ذلیل کردیا۔ (الفجر ۱۵۔۱۶)
موجودہ دنیا میں اصل اہمیت یہ نہیں ہے کہ آدمی نے بظاہر کس حال میں زندگی گزاری، اچھے حال میں یا بُرے حال میں۔ اصل اہمیت کی بات یہ ہے کہ آدمی جس حال میں بھی ہو اُس سے وہ تعلق باللہ کی غذا لے سکے۔ زندگی کا ہر تجربہ اُس کو اللہ سے قریب کرنے والا ثابت ہو۔ اُس کی روح ہر صورتِ حال سے ربّانی غذا لیتی رہے۔ کائنات کے ہر مشاہدہ میں وہ اللہ کا جلوہ دیکھ سکے۔ زندگی کا ہر خوش گوار تجربہ اُس کو اللہ کی رحمت کی یاد دلائے، اور زندگی کا ہر تلخ تجربہ اُس کے لیے تقویٰ کا سبب بنتا رہے۔ ناکامی بھی اُس کو خدا کی یاد دلائے اور کامیابی بھی اُس کو خدا سے قریب کردے۔
واپس اوپر جائیں

تشدد کا سبب عدم قناعت

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ان الفاظ میں آئی ہے: قد افلح من أسلم ورزق کفافاً وقنعہ اللہ بما آتاہ (مسلم، کتاب الزکاۃ، الترمذی، کتاب الزہد، مسند احمد ۲؍۱۶۸؍۱۷۳) یعنی وہ شخص کامیاب ہوا جواسلام لایا اور جس کو بقدر ضرورت رزق ملا اور وہ اُس پر قانع ہوگیا جواللہ نے اُس کو دیا۔
اس حدیث میں قناعت کا ذکر ہے۔ قناعت کی نفسیات اگر کسی کے اندرپوری طرح پیدا ہوجائے تو وہ اُس کو مکمل طورپر امن پسند بنادے گی۔ اس کے برعکس جن لوگوں کے اندر قناعت کی نفسیات نہ ہو وہ اپنی حالت پر غیر مطمئن رہیں گے اور آخر کار جھنجھلاہٹ میں مبتلا ہو کرمتشددانہ کارروائی شروع کردیں گے تاکہ جس چیزکو وہ پُر امن طورپر حاصل نہ کرسکے اُس کو وہ تشدد کی طاقت سے حاصل کرلیں۔ حقیقت یہ ہے کہ قناعت سے امن کا مزاج پیدا ہوتا ہے اور عدم قناعت سے تشدد کامزاج۔
قناعت کا جذبہ آدمی کے اندر یہ نفسیات پیدا کرتا ہے کہ وہ ایک پایا ہوا انسان ہے۔ اور جو آدمی اپنے آپ کو پایا ہواانسان سمجھے وہ کبھی جھنجھلاہٹ اور تشدد کا شکار نہیں ہوسکتا۔
اس کے برعکس معاملہ اس انسان کا ہے جو عدم قناعت کی نفسیات میںمبتلا ہو۔وہ ہمیشہ احساس محرومی کا شکار رہے گا۔ اُس کا یہ احساس اُس کو مسلسل اُکسائے گا کہ جو کچھ اُس نے نہیں پایا اُس کو وہ حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ اب اگر اُس نے دیکھا کہ وہ اپنی نہ پائی ہوئی چیز کو پر امن طریقہ سے حاصل نہیںکرسکتا تو وہ تشدد کے طریقوں کو استعمال کرکے اُس کو حاصل کرنا چاہے گا۔
وہ اُن تمام لوگوں کو اپنا دشمن سمجھ لے گا جن کووہ اپنے خیال کے مطابق، اپنی خواہش کی راہ میں رکاوٹ سمجھتا ہے۔ وہ اُن لوگوں سے نفرت کرے گا۔ وہ اُن لوگوں کے خلاف لڑنے کے لیے ہتھیار جمع کرے گا۔ حالانکہ یہ سب نتیجہ ہوگا اس بات کا کہ وہ خدا کے دیے ہوئے پر راضی نہ ہوسکا، وہ قناعت کے بجائے عدم قناعت کا شکار ہوگیا۔
واپس اوپر جائیں

مدح، تنقید

احادیث میںکثرت سے یہ تلقین کی گئی ہے کہ تم کسی کی مدح نہ کرو۔ مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : اذا رأیتم المداحین فاحثوا فی وجوہہم التراب (صحیح مسلم، کتاب الزہد) یعنی جب تم مدح کرنے والوں کو دیکھو تو اُن کے منہ پر مٹی ڈال دو۔ اسی طرح ایک روایت میںآیا ہے: سمع النبی صلی اللہ علیہ وسلم یثنی علی رجلٍ و یطریہ فی مدحہ، فقال: أہلکتم او قطعتم ظہر الرجل (صحیح بخاری، کتاب الشہادات) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سُنا کہ ایک شخص دوسرے شخص کی تعریف کررہا ہے اور اُس کی تعریف میں وہ مبالغہ کررہا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ تم نے اس شخص کو ہلاک کردیا یا یہ فرمایا کہ تم نے اُس کی کمر توڑ دی۔
اسی طرح خلیفۂ ثانی عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بارہ میںایک روایت میں آیا ہے کہ اُنہوں نے کہا: المدح الذبح (الأدب المفرد، باب ما جاء فی التمادح)۔یعنی مدح کرنا آدمی کو ذبح کرنا ہے۔ اسی طرح ایک روایت میں آیا ہے کہ حضرت عمر نے ایک شخص کو دوسرے شخص کی تعریف کرتے ہوئے سُنا تو اُنہوں نے کہا: عقرت الرجل، عقرک اللہ(الأدب المفرد، باب ماجاء فی التمادح) یعنی تم نے اُس شخص کو ذبح کردیا، اللہ تمہارے ساتھ بھی ایسا ہی کرے۔
حدیث اور آثارکی کتابوںمیں اس طرح کی بہت سی روایتیں آئی ہیں۔ اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ مدح کا طریقہ دینی مزاج کے خلاف ہے۔ بعض اوقات اعتراف واقعہ یا اورکسی مصلحت سے کسی کی تعریف کی جاسکتی ہے۔ مگر عمومی طورپر اسلام میںاُس چیز کو سخت نا پسند کیا گیا ہے جس کو مدح خوانی یا قصیدہ گوئی کہا جاتاہے۔ اس قسم کی تعریف مادح کے لیے مصلحت پرستی ہے اورممدوح کے لیے اُس کو عُجب کی غذا دینا ہے۔ اس لیے یہ فعل مادح اورممدوح دونوں کے لیے ہلاکت خیز ہے۔
تاہم یہ بات قابل غور ہے کہ احادیث میں تعریف کی مذمت تو کی گئی ہے مگر تنقید کی مذمت نہیں کی گئی ۔ غالباً کوئی بھی صحیح حدیث ایسی نہیں جس میںتنقید کے فعل کو اُس طرح مطلق طورپر مذموم قرار دیا گیا ہو جس طرح مدح کو مذموم قرار دیا گیا ہے۔ بلکہ اس کے برعکس تنقید کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ مثلاً بہت سی حدیثوں میں لسان کے ذریعہ نہی عن المنکر کا حکم آیا ہے اوراُس کوایمان کی لازمی علامت بتایا گیاہے۔ اسی طرح حدیث میں بتایا گیا ہے کہ سلطان کے سامنے کلمۂ حق کہنا ایک افضل جہاد ہے، وغیرہ۔
ظاہر ہے کہ اس قسم کا کام تنقید ہی کی زبان میںہوگا، نہ کہ تعریف کی زبان میں۔ جب بھی ایک شخص کسی برائی کو دیکھے، خواہ برائی کرنے والا کوئی عام آدمی ہو یا خاص آدمی، اور پھر وہ اُس کے خلاف لسانی جہاد کرے تو یہ لسانی جہاد عین وہی فعل ہوگا جس کو تنقید کہا جاتاہے۔ نقد یا تنقید در اصل لسانی جہاد کا ہی دوسرا نام ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ شریعت میں مدح اور تنقید کے درمیان یہ فرق کیوں کیا گیا ہے۔ اس فرق کا سبب یہ ہے کہ مدح ایک اخلاقی برائی ہے جب کہ تنقید ایک اعلیٰ درجہ کی علمی اور اخلاقی خوبی ہے۔ کسی معاشرہ میں مدح کا رواج پورے معاشرہ کو منافقت کامعاشرہ بنادیتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں جس سماج میںتنقید اور اختلاف کو سننے کا مزاج ہو وہ معاشرہ ذہنی اور فکری ترقی کی طرف رواں دواں رہتا ہے۔
تنقید ایک مسلسل احتساب کا عمل ہے۔ تنقید زندہ معاشرہ کی علامت ہے۔ کسی معاشرہ میں تنقید کا عمل نہ ہونا یا تنقید کو بُرا سمجھنا صرف اُس وقت ہوتا ہے جب کہ معاشرہ زوال کا شکار ہوگیا ہو۔ وہ زندگی کی حرارت کھو بیٹھا ہو۔ کھلے ذہن کے ساتھ سوچنے کی صلاحیت اُس کے اندر باقی نہ رہی ہو۔ تنقید کی حیثیت ایک علمی اور فکری چیلنج کی ہے۔ چیلنج ہر قسم کی ترقی کی واحد ضمانت ہے۔ جس معاشرہ میںچیلنج نہ ہو وہ معاشرہ کبھی ترقی نہیں کرسکتا۔ اسی طرح جو معاشرہ تنقید سے محروم ہوجائے وہ علمی اور فکری ترقی سے بھی محروم ہوجائے گا۔
اس معاملہ کی تفصیل میںنے اپنی کتاب دین انسانیت کے باب ’’حریت فکر‘‘ میں بیان کی ہے اور اسلام کے دور اول کی مثالوں سے اُس کو واضح کیا ہے۔ تاہم تنقید اور تنقیص میں بہت زیادہ فرق ہے۔ یہاںتک کہ یہ کہنا درست ہوگا کہ تنقید مکمل طورپر جائز ہے اور تنقیص مکمل طورپر ناجائز ۔ تنقید بلاشبہہ ایک مطلوب چیز ہے اور تنقیص بلا شبہہ ایک غیر مطلوب چیز۔
تنقید در اصل علمی اختلاف کا دوسرا نام ہے۔ حقائق و واقعات کی روشنی میںخالص موضوعی انداز میںکسی معاملہ کا تجزیہ کرنا وہ چیز ہے جس کو تنقید کہا جاتا ہے۔ تنقید خواہ بظاہر کسی شخص کے افکار و آراء کے حوالہ سے ہو، مگراپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ معاملہ کی اصولی وضاحت ہوتی ہے۔ اُس میں غلط اور صحیح کے درمیان تقابل ہوتا ہے، نہ کہ ایک شخص اور دوسرے شخص کے درمیان۔
اس کے برعکس تنقیص ایک شخصی عیب جوئی ہے۔ تنقیص کرنے والے کے سامنے اصلاً کسی امرِحق کی وضاحت نہیں ہوتی بلکہ ایک شخص کی تذلیل اورتحقیر ہوتی ہے جس کو اُس نے کسی وجہ سے اپنا مخالف سمجھ لیا ہے۔ تنقیص صرف ایک غیر اخلاقی فعل ہے، وہ کسی درجہ میں بھی کوئی علمی واقعہ نہیں۔ تنقید کا عمل اگر علمی اصول کی بنیاد پر ہوتا ہے تو تنقیص کا عمل کسی شخص کے خلاف ذاتی سبّ وشتم کی بنیاد پر۔
واپس اوپر جائیں

کیرلا کا سفر

کیرلا میں ٹریونڈرم سے تقریباً ۲۰ کلومیٹر کے فاصلہ پر ایک بڑا آشرم ہے جس کا نام شانتی گری آشرم ہے۔ اس آشرم کے بانی اور گروکانام برہما شری کروناکراگرو ہے۔ بوقت تحریر ان کی عمر ۷۳ سال تھی۔ یہ آشرم ۱۹۶۸ میں قائم کیاگیا۔ اس آشرم میںہر سال اس کا سالانہ جلسہ ہوتا ہے۔
اس جلسہ کے منتظمین کی طرف سے مجھے اس میں شرکت کے لیے مدعو کیاگیا۔ اس کے مطابق، میںنے کیرلا کا سفر کیا۔ ۲۸فروری ۱۹۹۹ کی صبح کو دہلی سے روانگی ہوئی۔
۲۸ فروری ۱۹۹۹ ء کی صبح کو ساڑھے پانچ بجے دہلی ایرپورٹ پہنچا۔ نیا ائر پورٹ اس طرح بنایا گیا ہے کہ وہ ایک بہت بڑے ہال کی مانند ہے۔ میں اُس کے اندر کھڑا ہوا تو اُس کی وسعت میرے ذہن میں صحرائے حیات کی وسعت میں تبدیل ہوگئی۔
میں نے سوچا کہ موجودہ دنیا میں انسان گویا ایک عظیم صحرا میںکھڑا ہوا ہے۔ وہ راز حیات جاننا چاہتا ہے مگر کوئی درخت یا پہاڑ اُس سے نہیں بولتا۔ کوئی ستارہ یا سیّارہ اُس سے ہم کلام نہیں ہوتا۔ اس خاموش دنیا میں وہ حیران کھڑا ہوا ہے۔ اس کے بعد اس کے سامنے خدا کا پیغمبر آتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میں خدا کا فرستادہ ہوں اور تم کوخدا کا یہ پیغام دیتا ہوں۔
انسان کے لیے یہ کیسی عجیب راحت ہے۔ عقیدہ کے اعتبار سے یہاں بہت سے پیغمبر آئے۔ مگر ان کی شخصیت اور ان کا پیغام تاریخ کے اندھیروں میں گم ہے۔ یہاں صرف ایک ہی قابل یقین پیغمبر ہے اور وہ محمد بن عبداللہ بن عبد المطلب ہیں۔ ایک متلاشی روح کے لیے یہ بلا شبہہ ایک عظیم نعمت ہے۔
ڈاکٹر نشی کانت چٹوپادھیائے نے لمبی تلاش کے بعد جب پیغمبر اسلام کو پایا تو وہ چیخ اٹھے:
What a relief to find after all a truly historical Prophet to believe in.
دہلی سے انڈین ائر لائنز کی فلائٹ کے ذریعہ روانگی ہوئی۔ یہ جہاز بمبئی ہوتے ہوئے ٹریونڈرم جاتا ہے۔
فلائٹ نمبر ۱۶۷ کے اندر میںبیٹھا ہوا تھا۔ ابھی جہاز ائر پورٹ پر کھڑا تھا۔ جہاز کے اندر لوگ آتے اورجاتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔ ہر ایک اپنی سیٹ تک پہنچنے کے لیے سر گرم تھا۔ اس درمیان میں ایک آدمی کا بیگ دوسرے آدمی سے ٹکرا گیا۔ پیچھے والے نے کہا: sorry ، دوسرے نے کہا: no problem ، اور بات ختم ہوگئی۔ یہ پڑھے لکھے لوگوں کاکلچر ہے۔ اس کے برعکس بے پڑھے لکھے لوگوں کا کلچر یہ ہے کہ ایسے موقع پر ایک شخص کہے گا ’’اندھے ہو‘‘ دوسرا بولے گا ’’گدھے ہو‘‘۔ اور پھر دونوں ایک دوسرے سے لڑنے لگیں گے۔ ہر آدمی کے لیے سب سے پہلی اہم چیز یہ ہے کہ وہ تعلیم حاصل کرے۔ مگر عجیب بات ہے کہ ہندستان میں یہی چیز سب سے کم ہے۔ نئے ہندستان کی تمام خرابیوں کی جڑ ہماری قوم کا تعلیم میں پچھڑا ہوا ہونا ہے۔
۱۹۴۷ سے پہلے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص نے مہاتما گاندھی سے کہا کہ آپ پہلے لوگوں کو شکچھا دلائیے۔ اس کے بعد آزادی لائیے۔ ورنہ آزادی آپ کے لیے بے معنیٰ ہو کر رہ جائے گی۔ گاندھی جی نے جواب دیا کہ میرے دیش کے لوگ اشکچھت ہیں مگر وہ اگیانی نہیں ہیں۔ لیکن تجربہ نے بتایا کہ اشکچھت لوگ ہمیشہ اگیانی ہی ہوتے ہیں۔
جہاز کے اندرایک صاحب نے اپنی جیب سے سیلولر ٹیلی فون نکالا اورایک لمحہ میںربط قائم کرکے باہر کسی سے بات کرنے لگے۔ اس وقت ایک عجیب احساس میرے دل میں پیدا ہوا۔ میرے سامنے پوری جدید دنیا اپنی تمام ترقیوں کے ساتھ گھوم گئی۔ میں نے سوچا کہ یہ تمام ترقیاں زمین کے اندر چھپی ہوئی تھیں۔ غیر معمولی کوشش سے جن لوگوں نے ان امکانات کو باہر نکالا اور ان کو قابل استعمال بنایا وہ سب کی سب مغربی قومیں تھیں۔ اس کے بعد قدرتی طورپرایسا ہوا کہ وہ دنیا کے تمام مواقع پر قابض ہوگئیں۔ ایک شخص کے الفاظ میں وہ تمام دنیا کا مکھن کھا گئے۔ مسلمان پچھلے سو سال سے بھی زیادہ عرصہ سے ان قوموں سے ان کی یہ حیثیت چھیننے کے لئے قربانی کی حد تک جاکر کوشش کررہے ہیں، مگروہ صد فی صد ناکام ہیں۔
میں نے سوچا کہ یہ جو کچھ ہورہا ہے، قانون فطر ت کے تحت ہورہا ہے۔ وہ ان تمام مادی ترقیوں کو وجود میں لائے ہیں اس لئے قانون فطرت کے مطابق، وہ طیبات دنیا کے مالک بنے ہوئے ہیں۔ قرآن کے مطابق، آخرت میں ایسے لوگوں کو کچھ ملنے والا نہیں ہے (الاحقاف ۲۰) ۔
ہمارے نام نہاد انقلابی مفکرین نے یہ چاہا کہ وہ انہیں ان طیبات دنیا سے محروم کردیں۔ ایسا ہونا ممکن نہ تھا۔مسلمانوں کو کچھ کئے بغیر دونوں دنیا کی طیبات حاصل ہوجائیں اور ان مادی قوموں کو ساری محنت کے باجود دنیا کی طیبات بھی نہ ملیں، ایساہوناخود قانون الٰہی کے تحت ممکن نہ تھا۔ اس لیے مسلم رہنماؤں کی کوششیں حبط اعمال کا شکار ہوکر رہ گئیں۔
اس معاملہ کی ایک علامتی مثال فلسطین ہے۔ مسلمان سیکڑوں سال سے اس علاقہ پر قابض تھے۔ مگر وہ فلسطین کو وہ مادی ترقی نہ دے سکے جو یہودیوں نے اس کو دی۔ اب یہ کیسے ممکن تھا کہ مسلمانوں کو نفع بخشی کے بغیر سب کچھ مل جائے اور یہودیوں کو نفع بخشی کے باوجود کچھ نہ ملے۔
۲۸ فروری ۱۹۹۹ کی دوپہر کو جہاز ٹریونڈرم پہنچا۔ یہاں ٹمپریچر ۳۱ ڈگری سنٹی گریڈ تھا جب کہ ۳۵ ہزار فٹ کی بلندی پر اڑتے ہوئے جہاز کا درجۂ حرارت زیرو سے بھی نیچے تھا۔ جو لوگ بلند فکری کے حامل ہوں وہ ہمیشہ ٹھنڈے مزاج کے ہوتے ہیں اورجو پست ذہن ہوں وہ گرم مزاج کے۔
۲۸ فروری کی دوپہر کو ساڑھے گیارہ بجے جب میں ٹریونڈرم پہنچا تو یہاں بڑی تعداد میںلوگ ائر پورٹ پرموجود تھے، ڈاکٹر گوپی ناتھن، پروفیسر کریم، وغیرہ۔ ائر پورٹ سے روانہ ہو کر آشرم پہنچا۔
کیرلا بے حد سر سبز ریاست ہے۔ سڑک کے دونوں طرف باغ جیسے مناظر ہیں۔ اس سرسبز ماحول میں ۲۰ کیلو میٹر کا سفر طے کرکے ہم لوگ آشرم پہنچے۔ سادگی اور امن کا ماحول تھا ۔ ہر طرف روحانیت جیسی فضا تھی۔ کیرلا کے لوگ بہت سادہ مزاج ہوتے ہیں۔ ان میں منافقت والی برائی نہیں۔ وہ پر امن شہری کی مثال نظر آتے ہیں۔ یہاں کے خوبصورت گسٹ ہاؤس میں مجھے ٹھہرایا گیا تھا۔ چاروں طرف سرسبز ماحول تھا۔ یہاں بہت سے لوگ ملے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ، اعلیٰ عہدیدار اور بڑے تاجر سب یکساں طورپر بالکل سادہ نظر آتے تھے۔ تعارف سے پہلے کوئی پہچان نہیں سکتا کہ وہ کوئی بڑے آدمی ہیں۔
آشرم کے گسٹ ہاؤس میں ضیافت کے طورپر سب سے پہلے ناریل کا پانی پیش کیا گیا۔ ناریل کا پانی ایک قدرتی مشروب ہے۔ ناریل کا درخت پورا کا پورا ایک عجیب قسم کا قدرتی کارخانہ ہے۔ اس کی ہر چیز مفید اور کار آمد ہے۔ ناریل کے درخت کی صفات اگر بیان کی جائیں تو پورا سفرنامہ اسی سے بھر جائے۔ ناریل کے جس خول کے اندر اس کا پانی رہتا ہے اس کی پیکنگ حیرت انگیز حد تک بامعنٰی ہوتی ہے۔ کئی تہہ کے اندر یہ پانی ہوتا ہے۔ اس کے اوپر کا خول نہایت سخت ہوتا ہے۔ وہ بہت مشکل سے ٹوٹتا ہے۔ مگر اس نہایت سخت خول کے سرے پر حیرت انگیز طورپر ایک نرم سوراخ ہوتا ہے جو نہایت آسانی سے کھل جاتا ہے اور اس کے ذریعہ پانی نکال کر پیا جاسکتاہے۔ یہ سوراخ اس بات کا یقینی ثبوت ہے کہ اس کائنات کا خالق ایک عاقل اور باشعور ہستی ہے۔ اس سوراخ میںجو حکمت ہے وہ باشعور خالق کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتی۔ موجودہ زمانہ میں مشروبات کے پیک میں عین یہی تکنیک استعمال کی جاتی ہے۔ اوراس کے ایک کنارے چھوٹی سی نرم جگہ بنائی جاتی ہے جہاں سے سوراخ کرکے مشروبات کو استعمال کیا جاسکے۔
۲۸ فروری کو ظہر کی نماز سے فارغ ہوکر میں آشرم کے گسٹ ہاؤس میں بیٹھا ہوں۔ چاروں طرف دوردور تک سبزہ ہی سبزہ دکھائی دے رہا ہے۔ یہاں نہ شور ہے اور نہ دھواں اور نہ جدید صنعتی زندگی کے اعصاب شکن مسائل۔ ایک لمحہ کے لئے خیال آیا کہ اس خوبصورت اور پرسکون ماحول میںرہنا کتنا اچھاہے۔ مگر جلد ہی بعد مجھے محسوس ہوا کہ یہ سوچ درست نہیں۔ اس قسم کے پرسکون ماحول میں آرام کی زندگی گزارنا کوئی بہت اچھی چیز نہیں۔ نفسیاتی مطالعہ بتاتا ہے کہ ذہنی سکون کے مقابلہ میں ذہنی اضطراب زیادہ اعلیٰ حالت ہے۔ ذہنی سکون کی حالت میں رہنا بظاہر بہت اچھا ہے مگر وہ اس قیمت پر ہوتا ہے کہ آدمی کی ذہنی ترقی رک جائے۔ فکری ارتقاء ہمیشہ طوفانی حالات میں ہوتا ہے، نہ کہ پرسکون حالات میں۔
ڈاکٹر گوپی ناتھن نے آشرم کے قریب گھر بنا لیا ہے۔ وہ یہاں ایک پرسکون زندگی گزار رہے ہیں۔ میں نے سوچا کہ اگر میں یہاں ایک گھر بنا کر پرسکون زندگی گزار رہا ہوتا تو میں کبھی اس فکر ی انقلاب تک نہ پہنچتا جس کا نتیجہ میری زندگی میںالرسالہ مشن کی صورت میں ظاہرہوا ۔
کیرلا کے ایک تعلیم یافتہ ہندو سے میںنے پوچھا کہ کیرلا میں بھی کیا اس طرح کی سیاسی علیٰحدگی کی تحریک چل رہی ہے جو پنجاب یا کشمیر یا آسام میں چل رہی ہے۔ انہوں نے فوراً کہا کہ نہیں(Not at all) ۔ اس اعتبار سے کیرلا ایک قابل تقلید ریاست ہے۔ دنیا کے جن ملکوں میںسیاسی علیٰحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں وہ سب کی سب صرف تباہی کی تحریکیں ہیں۔ ایک بڑے ملک کا حصہ رہ کرجو ترقی کی جاسکتی ہے وہ چھوٹا بننے کی صورت میں ممکن نہیں۔ اس طرح چھوٹا ملک بنانے کا واحد فائدہ یہ ہے کہ ایک لیڈر صاحب کو پرائم منسٹر کہا جانے لگے۔
میرا عام تجربہ ہے کہ اسکالر لوگوں میںفکری ارتقاء مسلسل جاری رہتا ہے جب کہ مذہبی لوگوں میںاس طرح فکری ارتقاء نہیں ہوتا۔ مذہبی طبقہ کے لوگ عام طورپر ذہنی ٹھہراؤ کا شکار رہتے ہیں۔ میںاکثر سوچتا رہا ہوں کہ ا س کا سبب کیا ہے، یہاں مجھے اس کا سبب معلوم ہوا۔ وہ یہ کہ سیکولر لوگوں میںمسلسل فری ڈائلاگ جاری رہتاہے جب کہ مذہبی لوگوں میں فری ڈائلاگ کاعمل جاری نہیںہوتا۔
یہاں بہت سے تعلیم یافتہ ہندوؤں سے ملاقات ہوئی جو گرو جی کے گہرے طورپر معتقد تھے۔ میںنے ا ن سے جب بھی کسی مسئلہ پر سوال جواب کرنا چاہا تو گفتگو ایک حد سے آگے جاری نہ رہ سکی۔ مثلاً اس آشرم میں ۲۴ گھنٹہ کے اندر آٹھ بار عبادت ہوتی ہے۔ یہ عبادت منتر جاپ کی صورت میں ہوتی ہے۔ مگر کئی لوگوں کو گرونے اس عبادت سے مستثنیٰ کر دیا ہے ۔ میںنے اس استثناء پر سوال کیا تو کوئی اس پر زیادہ گفتگو کے لیے تیار نہیں ہوا۔ ہر ایک نے یہ کہہ کر بات ختم کردی کہ ہر آدمی کا کیس الگ ہوتا ہے۔ اور گروجی ہر آدمی کو پہچان کر اس کو ہدایت دے دیتے ہیں۔ اس پر مزید گفتگو کے لیے وہ تیار نہیں ہوئے۔
اسی طرح میںنے کئی لوگوں سے پوچھا کہ گروجی جب اپنی زبان سے خودیہ نہیں کہتے کہ میں پیغمبر ہوں تو آپ لوگ ان کے بارہ میں ایسے الفاظ کیوں بولتے ہیں۔ مگرکوئی بھی اس سوال پرتفصیلی گفتگو کے لیے تیار نہ ہوا۔
ٹھیک یہی معاملہ مسلمانوں کے یہاں بھی پایا جاتا ہے۔ آپ کسی بھی جماعت یا کسی بھی ادارہ میںجائیے۔ آپ اگر وہاں ان کی مسلّمہ شخصیتوں پر تفصیلی گفتگو کرنا چاہیں تو ایسا ناممکن ہوگا۔ یا تو لوگ بات نہیں کریں گے یا بہت جلد بگڑ جائیںگے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ سنجیدہ گفتگو ناممکن ہوجائے گی۔
اس کے برعکس آپ سیکولر لوگوں سے بات کیجئے تو وہ کبھی غصہ نہیں ہوں گے۔ مثلاً یہاں ایک صاحب ملے جویونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔ انہوں نے اپنا مضمون پولیٹکل سائنس بتایا۔ میں نے کہا کہ آپ لوگ سیاسی موضوع کو پولیٹکل سائنس کہتے ہیں۔ حالانکہ گہرائی کے ساتھ دیکھا جائے تو پالی ٹکس کامضمون کوئی سائنسی مضمون ہی نہیں۔ سائنسی مضمون وہ ہے جو قابل تصدیق (verifiable) ہو۔ جب کہ پولیٹکل سائنس میںکوئی بھی نظریہ یا فارمولا قابل تصدیق (verifiable) نہیں۔ اس طرح ان سے دیر تک گفتگو ہوئی مگر وہ غصہ نہیںہوئے اور معتدل طورپر بات کرتے رہے۔اسی فرق کا یہ نتیجہ ہے کہ مذہبی طبقہ میں فکری ارتقاء رک جاتا ہے جب کہ سیکولر طبقہ میںفکری ارتقاء کا عمل جاری رہتا ہے۔
یہاں میکسیکو کے ایک نوجوان مسٹر جان میکسیکو سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ میںنے میکسیکو میںمیڈیٹیشن کے دوران ایک گروجی کی امیج دیکھی۔ میں ان کوجانتا نہیں تھا۔ پھر میںنے مراقبہ کیا تو ہندستان کا نقشہ میرے سامنے آگیا۔ پھر میںپوچھتے پوچھتے اس آشرم تک پہنچا۔
اس قسم کے قصے کثرت سے ہندوگروؤں کے یہاں پھیلے ہوئے ہیں۔ اسی طرح ٹھیک اسی قسم کے قصے مسلم بزرگوں کے یہاں بھی پھیلے ہوئے ہیں۔مسلمان ہندو گروؤں کے قصوں کو غلط بتاتے ہیں اور اپنے بزرگوں کے قصے کو صحیح سمجھتے ہیں۔ مگر یہ طریقہ سراسر غیر منطقی ہے۔ آپ یا تو دونوں جگہ کی کہانیوں کو درست بتائیں یا دونوں جگہ کی کہانیوں کو بے بنیاد قرار دیں۔ ایک کو ماننا اوردوسرے کو رد کرنا درست نہیں۔
یہاں اردو سمجھنے والا کوئی نہ تھا۔ اس لیے گفتگو ہمیشہ انگریزی میں ہوتی رہی۔ ایک صاحب سے گفتگو کرتے ہوئے میں نے کہا کہ میری زندگی کے تجربات میں سے ایک تلخ تجربہ یہ ہے کہ فطرت سے انحراف اس دنیا میں سب سے زیادہ مہلک غلطی ہے۔ فطرت سے انحراف کی بدترین سزا ہر ایک کو لازمی طور پر بھگتنا پڑتا ہے، فرد کو بھی اور قوم کو بھی۔
عشاء کا وقت ہوا تو الگ الگ اذانوں کی آوازیں سنائی دیں۔ معلوم ہوا کہ یہاں کئی مسجدیں ہیں۔ یہ آواز لاؤڈاسپیکر کی تھی اورکافی دور سے آرہی تھی۔ یہ مسجدیں آشرم کے وسیع علاقہ کے باہر ہیں۔ دور ہونے کی وجہ سے ان کی لاؤڈاسپیکر پر دی ہوئی اذان صرف رات کو سنائی دیتی ہے، دن کو نہیں۔
ٹریوینڈرم ائر پورٹ سے شانتی گری آشرم آتے ہوئے درمیان کے علاقہ میں مجھے بتایا گیا کہ وہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ تاہم یہاں کوئی ہندو اور مسلم مسئلہ نہیں۔ دونوں ایک ہی زبان بولتے ہیں۔ کلچرل مشابہت بھی ہے۔ یہاں غیریت کا وہ ذہن نہیں پایا جاتا جوشمالی ہند کے علاقوں میں پایا جاتا ہے۔
کے وشو ناتھن سے میںنے پوچھا کہ ہندوگروؤں کے یہاں پاؤں پوجا پائی جاتی ہے۔ اس کی اصل کہاں ہے۔ میںنے کہا کہ جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے، وہ ویدوں میں یا گیتا میں نہیںہے۔ وہ اس کی اصل نہ بتاسکے۔ گروورشپ کے رواج نے غالباً فُٹ ورشپ (foot worship) پیدا کی ۔ اکثر مذاہب کے موجودہ رواج خود ان کی اپنی کتابوں میں بھی موجود نہیں۔
یکم مارچ ۱۹۹۹ کی صبح کو ساڑھے نو بجے اصل پروگرام شروع ہوا۔ آشرم کی مین بلڈنگ کے سامنے وسیع میدان میں ہزاروں کی تعداد میں عورت اور مرد سفید کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ پہلے ملیالم میںایک گیت گایا گیا جس کو میں سمجھ نہ سکا۔ پھر گروجی نے ملیالم میںکچھ کہا۔ یہاں ترجمہ کا انتظام نہ تھا، اس کو بھی میں سمجھ نہ سکا۔ یہاں یا تو ملیالم زبان بولی جارہی تھی یا انگریزی۔
اس فنکشن میں گروجی آکر اسٹیج پر بیٹھے۔ سب سے پہلے ان کے سامنے ہولی فیٹ سونے کا بنا ہوا پیش کیا گیا۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ خود گروجی کے پاؤں کی نقل ہے۔ ایک تعلیم یافتہ ہندو نے کہا کہ یہ گروجی کی فرمائش پرنہیں ہے بلکہ ان کے عقیدت مندلوگ خود اپنے جذبہ کے تحت اس کو پیش کررہے ہیں۔
میںنے پایا کہ اکثر مذاہب میںجورسوم ہوتی ہیں ان کے بارہ میں سوال کیا جائے تو وہ فوراً معذرت خواہانہ انداز اختیار کرلیتے ہیں۔ اسلام کے سوا ہر مذہب میں اس قسم کی چیزیں ہیں جوغیرعقلی ہیں اور سائنٹفک دور میں ان کی معنویت لوگوں کے لیے ناقابل فہم ہوگئی ہے۔ میں صرف عقیدہ کی بنا پر نہیں بلکہ ذاتی علم کی بنا پر کہتا ہوں کہ یہ صرف اسلام ہے جو سائنٹفک دور کے معیار پر پورا اترتا ہے۔ میں نے یہ بات مذکورہ ہندو سے کہی تو وہ خاموش رہے۔
جلسہ گاہ میںاسٹیج پر لوبان وغیرہ جلایا گیا۔ اس سے پورے ہال میں ایک خاص قسم کا دھواں پھیل گیا۔ میں نے اپنے پاس بیٹھے ہوئے ہندو سے پوچھا کہ اس دھوئیں کا مقصد کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماحول کو پاک کرنے کے لیے (to purify the atmosphere) ۔ میں نے کہا کہ سائنٹفک دور کا انسان اس کو ایک قسم کا air pollution کہے گا۔ انہو ں نے جواب دیا کہ وہ مادی لوگ ہیں۔ وہ روحانی باتوں کونہیں سمجھتے ۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ مذہب ناقابل فہم ہے اور علم قابل فہم۔
میرے قریب دو تعلیم یافتہ ہندو آپس میں بات کررہے تھے۔ان میں سے ایک کوئلون کا تھا۔ گفتگو کے دوران ایک پیپر مل کا ذکر ہوا۔ دوسرے نے کہا کہ کوئلون کی پیپر مل جو کہ برلا گروپ کی ہے، لیبر پرابلم کی وجہ سے بند ہوگئی:
It is now closed down because of labour problem.
یہ صورت حال سارے ملک میںہے۔ پچھلے ۴۰ سال سے پورے ملک میںیہ مسئلہ ہے۔ لوگ اقتصادی عمل کی معکوس ترقی کا ذکر کرتے ہیں۔ مگر کوئی یہ نہیں بتاتا کہ اس کی وجہ کیا ہے۔ اس کی وجہ غیر فطری لیبر قوانین میں ہے۔ ان قوانین نے لوگوں کو آخری حد تک حقوق شناس (right-conscious) بنا دیا ہے۔
نہرو اور ان کے ساتھیوں نے آزادی کے بعد ہندستان میںسوشلسٹ اکانومی کے اصول کو اختیار کیا۔ اس کے تحت ایک طرف اقتصادی عمل میں سرکاری لوگوں کو غیر معمولی اختیارات دے دئے گئے۔ دوسری طرف لیبر حقوق کے نام پر بے شمار قانون اور ضابطے بنائے گئے۔ یہ مارکسی فلسفہ کے زیراثر تھا۔ مارکسی فلسفہ کے مطابق، اقتصادی نزاعات میں نام نہاد سرمایہ دار طبقہ ہمیشہ ناحق پر ہوتا ہے اور مزدور طبقہ ہمیشہ حق پر۔ سرمایہ دار ہمیشہ ظالم ہوتاہے اور مزدور ہمیشہ مظلوم۔ اس بے بنیاد نظریہ نے پورے ملک کی اقتصادیات کو تباہ کر کے رکھ دیا ۔
چند ہندوؤں کی ایک مجلس میں میںنے کہا کہ میرا مشن ہندو۔مسلم کے درمیان میل ملاپ پیدا کرنا ہے۔ میں ایک پختہ مسلمان ہوں اور اسلام کو کامل صداقت سمجھتا ہوں۔ مگر سماجی اور قومی زندگی میںمعتدل تعلقات کی فضا ہونا ضروری ہے۔ اس کے لیے میںجس طرح مسلمانوں کے جلسوں میںجاتا ہوں اسی طرح دوسرے مذہبوں کے جلسہ میں بھی جاتا ہوں۔ لیکن زرد صحافت نے اس کو شوشہ بنادیا۔ میرے خلاف جھوٹی باتیں چھاپ کر پھیلائی گئیں۔ حتیٰ کہ کچھ جاہل قسم کے لوگوں نے یہ اعلان کردیا کہ میں خدانخواستہ سلمان رشدی جیسا ہوچکا ہوں اور میرے ساتھ اس کا جیسا سلوک کیا جانا چاہئے۔ اس پر ایک تعلیم یافتہ ہندو نے کہا کہ گھبرائیے نہیں، یہ بھارت ہے یہاں کوئی خمینی نہیں، آپ انڈیا میں محفوظ ہیں:
Do not fear. It is India. Here is no Khomeini. You are safe in India.
یہ سن کر مجھے سخت جھٹکا لگا۔ موجودہ زمانہ میں ایک مسلمان ایک غیر مسلم ملک میںزیادہ محفوظ ہے۔ مگر وہ مسلم ملک میں محفوظ نہیں ۔ یہ کیسی عجیب بات ہے۔ جب کہ اسلام میںکامل آزادی ہے۔ میںنے ان لوگوں سے کہا کہ اس کی بنیاد پر آپ اسلام کے بارے میں رائے قائم نہ کریں۔ یہ مسلمانوں کا فعل ہے، یہ اسلام کی تعلیم نہیں۔ پھر میںنے قرآن کی ایک آیت سنائی۔ اس کو سن کر وہ بہت خوش ہوئے۔ میںنے کہا کہ انڈیا کی حکومت نے سلمان رشدی کو ویزا دیا ہے اس پر کچھ مسلمان شور کر رہے ہیں کہ سلمان رشدی کو یہاں نہ آنے دو۔
مگر اس قسم کی صورت حال قدیم مدینہ میں پیدا ہوئی۔ اس وقت عرب میں مشرک تھے جو اسلام کے دشمن بن گئے تھے۔ وہ اسلام پر حملے کرتے تھے۔ ان میں سے کچھ مشرکین نے مدینہ آنا چاہا۔ اس پر بعض مسلمانوں کو اختلاف ہوا۔ اس وقت قرآن میں یہ آیت اتری کہ اگر مشرکین میں سے کوئی تمہارے یہاں آنا چاہے تو اس کو آنے دو… (التوبہ ۶)
یکم مارچ کی دوپہر کو میری تقریر تھی۔مجھ کو پیس اور ہارمنی کا موضوع دیا گیا تھا۔ میں نے انگریزی میںایک تقریر کی۔ اس میں قرآن اور حدیث کے حوالہ سے بتایاکہ اسلام امن اور محبت اور انسانیت کا مذہب ہے۔ خدا نے جو مذہب عالمِ کائنات میںقائم کیا ہے اُسی کواس نے قرآن کی صورت میں بھیجا ہے۔
Peaceful co-existence is the only religion for both man and the universe.
یکم مارچ کو جلسہ گاہ سے نکل کر رہائش گاہ کی طرف جانا تھا۔ کار لا کر کھڑی کی گئی۔ اس وقت میرے پاؤں میں جوتا نہیں تھا۔ میںنے کہا کہ میں پیدل جاؤں گا۔ اور کار چھوڑ کر رہائش گاہ کی طرف پیدل روانہ ہوا۔ راستہ میںسنگریزے تھے۔ مگر مجھے ان سنگریزوں میں ایک قسم کا نیچرل ٹچ (لمس فطری) محسوس ہورہا تھا۔ چنانچہ میں ننگے پاؤں اس پر چلتا رہا۔ ایک ساتھی نے کہا کہ آپ ان سنگریزوں پر ننگے پاؤں چل رہے ہیں۔ میں نے کہا کہ یہ نیچرل کارپٹ ہے اور مصنوعی کارپٹ سے زیادہ بہتر ہے۔ میںنے کہا کہ یہ سنگریزے مجھے پھول جیسے معلوم ہوتے ہیں:
These stones are like flowers.
یہ بات میںنے نیچر کی حیثیت سے کہی تھی، نہ کہ آشرم کی نسبت سے۔ اب کوئی خوش عقیدہ آدمی اس کو آشرم سے جوڑدے تووہ کہے گا کہ دیکھو، فلاں مسلم مولانا اس آشرم میں آئے تھے۔ ان کویہاں کے سنگریزے تک پھول کے روپ میں دکھائی دیے۔ میرا خیال ہے کہ بزرگوں کے بارے میں کراماتی قصے اسی طرح بنے ہیں۔
بزرگوں کی کرامات کی جو طلسماتی کہانیاں مسلمانوں میں مشہور ہیں، ٹھیک اُسی قسم کی کہانیاں ہندوؤں میںبھی مزیداضافہ کے ساتھ مشہور ہیں۔ مسلمان ان کہانیوں کواپنے بزرگوں کی عظمت کی دلیل سمجھتے ہیں۔ اگر یہ دلیل صحیح ہو تو اسی دلیل سے انہیں ہندوؤں کے اکابر کو بھی طلسماتی شخصیت کا حامل ماننا چاہئے۔ ذاتی طورپر میں دونوں ہی طرح کے قصوں کو بے اصل سمجھتاہوں۔ اگر وہ فرضی ہیں تب تو ان کا بے اصل ہونا واضح ہے۔ تاہم اگر وہ بالفرض درست ہوں تب بھی وہ کسی شخص کی عظمت کا ثبوت نہیں۔
شانتی گری آشرم کا رقبہ بہت بڑا ہے۔ دور دور تک درخت اور سبزہ کا ماحول ہے۔ یہاںانسانوں کی آوازیں بہت کم سنائی دیتی ہیں، البتہ چڑیوں کی آوازیں اکثر کانوں میں آتی ہیں۔ میںنے سوچا کہ دہلی میں لاؤڈاسپیکر سے بلند ہونے والی انسانی آوازمجھے سخت نا پسند ہوتی ہے۔پھر چڑیوں کی آوازیں کیوں مجھ کو پسند ہیں۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ انسانوں کی آوازمیں سرکشی کا لہجہ ہوتاہے جب کہ چڑیاں ہمیشہ خدا کی حمد کے نغمے گاتی ہیں۔
شانتی گری آشرم کے گرو کی عمر ابھی ۷۲ سال ہے۔ مگر وہ کافی کمزور ہوگئے ہیں۔ وہ زیادہ تر اپنے بستر پر لیٹے ہوئے رہتے ہیں۔ وہ جلسہ گاہ میںآئے تووہاں بھی تھوڑی دیر سہارا لے کر بیٹھنے کے بعد لیٹ گئے۔ وہ دو آدمیوں کا سہارا لے کر مشکل سے چلتے ہیں۔ میںان کے مخصوص کمرہ میں اُن سے ملا تووہ اس وقت فرش پر اپنے بستر کے اوپر لیٹے ہوئے تھے۔ اسی لیٹے ہوئے حالت میں انہوں نے مجھے ایک نارنگی پیش کی۔ میںاس وقت ان کے قریب کھڑا ہوا تھا۔ نارنگی لینے کے لیے قدرتی طورپر مجھے کچھ جھکنا پڑا۔
ایک فوٹو گرافر نے اس وقت کی تصویر کھینچ لی۔ بعد کو اس نے تصویر دکھائی تو اس میں سنترہ تو دکھائی نہیں دیتا تھا البتہ یہ نظر آتا تھا کہ میں گرو جی کے سامنے جھکا ہوا ہوں۔ میںنے فوٹو گرافر سے کہا کہ اس تصویر کو آپ ضائع کردیجئے۔ ورنہ اگر ہماری ’’زرد صحافت‘‘ نے اس کو پالیا تو مزید رنگ آمیزی کرکے اس کو چھاپے گی جس کے نیچے لکھاہوا ہوگا ’’ایک مسلمان عالم ایک ہندو گرو کے آگے جھکا ہوا‘‘۔ (۶ مئی ۱۹۹۹ کو گروجی کا انتقال ہوگیا)۔
گروجی مورتی پوجا کو نہیں مانتے ۔ حتیٰ کہ میںنے آشرم کے مختلف حصوں کو دیکھا تو کہیں خود گروجی کی بھی کوئی تصویر نہیں ملی۔ پورے آشرم میں کہیں نہ کوئی مورتی ہے اور نہ کوئی تصویر۔
میرے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہ عجیب فضل ہے کہ میں اکثر نہایت سچے خواب دیکھتا ہوں۔ میں نے بہت سی ایسی چیزوں کے بارہ میں واضح خواب دیکھے ہیں جن کے متعلق مجھے کچھ بھی معلوم نہ تھا۔ مگر بعد کو معلوم ہوا کہ میرا خواب عین اصل واقعہ کے مطابق تھا۔ مثال کے طورپر اپنے سفروں کے بارہ میں اکثر میں پیشگی طورپر خواب دیکھ لیتا ہوں۔ اور عین اسی خواب کے مطابق سفر پیش آتا ہے۔
مثلاً ستمبر ۱۹۹۵ میںفلسطین کے سفر کے بارہ میں مجھے پیشگی طورپر کچھ بھی معلوم نہ تھا۔ مگر میںنے خواب دیکھا کہ میںاپنے ایک ساتھی کے ساتھ ہوائی جہاز میں بیٹھا ہوا ہوں۔ بعد کو عین ویسا ہی ہوا۔ اسی طرح ۲۸ فر وری اور یکم مارچ کی درمیانی شب میںمیں نے شانتی گری آشرم میںخواب دیکھا کہ میں دہلی کے انٹرنیشنل ائر پورٹ میںہوں اور ابتدائی مراحل سے گزرکرآخری گیٹ کی طرف بڑھ رہا ہوں۔
میں نے بار بار ایسی کانفرنسوں میں شرکت کی ہے جہاں ساری کارروائی انگریزی میں ہوئی ہے۔ ایسے مواقع پر زیادہ تر میں اپنی تقریر لکھے ہوئے پیپر کی صورت میں کرتا تھا اور جزئی طورپر انگریزی میں کلام کرتا تھا۔ شانتی گری آشرم میں لوگ یا تو ملیالم جانتے ـتھے یا انگریزی۔ اس لیے یہاں پوری مدت میں انگریزی ہی میں بولنا اور گفتگو کرنا پڑا۔ اس موقع پر پہلی بار مجھے اپنی اس استعداد کا تجربہ ہوا کہ میںخدا کے فضل سے انگریزی میںبے تکلف بول سکتا ہوں اور بے تکلف تقریر کرسکتا ہوں۔ اس ذاتی تجربہ نے میرے دعوتی جذبہ میں ایک نیاحوصلہ پیدا کردیا۔
یہاں کانفرنس کی وجہ سے تعلیم یافتہ ہندو بڑی تعداد میںاکٹھا تھے۔ ان سے بڑے پیمانہ پر انٹرایکشن ہوا۔ اندازہ ہوا کہ لوگ عجیب عجیب قسم کی غلط فہمیوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ موسیٰ کی ابتدائی عمر فرعون کے محل میں گزری۔ اس لیے موسیٰ کے بارے میں یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ اعلیٰ نسل میںپیدا ہوئے۔ مسیح نے مچھیروں کے درمیان کام کیا اس لیے اُنہوں نے سمجھ لیا کہ وہ نچلے طبقہ میں پیدا ہوئے۔
اسی طرح پیغمبر اسلام کو اپنے وطن مکہ سے ہجرت کرنا پڑا اس لیے اُنہوں نے سمجھ لیا کہ پیغمبراسلام نے مظلوم اور ناکام حالت میں وفات پائی۔ ضرورت ہے کہ اسلام کے بارے میں ہر قسم کی معلوماتی کتابیں بڑے پیمانہ پر تیار کرکے پھیلائی جائیں۔ اسی کے ساتھ بڑے پیمانہ پر مسلم اور غیر مسلم کا انٹرایکشن ہو۔ ڈائیلاگ کئے جائیں۔ تعلیمی اداروں میںدونوں گروہ کے لوگ بڑی تعداد میں تعلیم حاصل کریں۔ تاہم صرف کتابیں چھاپنا کافی نہیں۔ زندگی کی سرگرمیوں میں دونوں کی شرکت ضروری ہے۔
آشرم میںرہنے والے ایک صاحب جو انجینئر ہیں انہوں نے بروکن انگریزی میں کہا ’’آپ مجھے اپنا کپڑا دے دیجئے تاکہ میں اس کو دھودوں‘‘۔ میںنے سینہ پرہاتھ رکھتے ہوئے کہا:
Please wash my heart, that's more important. Clothes are washed by water. But the heart is washed by the tears.
وہ اس غیر متوقع جواب کو سن کر خاموش ہوگئے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آیا کہ اس کے بعد وہ کیا کہیں۔ ایک صاحب جووہاں موجود تھے انہوں نے میرے اس جواب کی وضاحت پوچھی۔ میں نے کہا کہ بعض باتیں متکلم کے صیغہ میں کہی جاتی ہیں مگر وہ غائب کے صیغہ میںمطلوب ہوتی ہیں۔ مثلاً غالب کا ایک شعر ہے:
ہوا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے
اسی طرح میر کا شعر ہے:
میر کے دین و مذہب کی کیا پوچھ رہے ہو اُن نے تو قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا
یہ اشعار اگر چہ متکلم کے صیغہ میں ہیں مگر وہ غائب کے صیغہ میں مطلوب ہیں۔ اسی اسلوب کی روشنی میں میرے مذکورہ جملہ کو سمجھا جاسکتا ہے۔
یکم مارچ کوشام کے سمّیلن میںتھوڑی دیر کے لیے گیا۔ لوگ بڑی تعداد میں اکٹھا تھے۔ کچھ لوگ گارہے تھے اور کچھ لوگ مخصوص باجا بجارہے تھے۔ گانا بجانا میرے ذوق کے مطابق نہیں۔ مگر دعوتی مصلحت کے تحت اس کو گوارا کیا جاسکتا ہے۔ لیکن ایک چیزمیرے لئے ذاتی طورپر قابل برادشت نہ تھی۔ وہ یہ کہ پورے وسیع پنڈال میں دھواں پھیلا ہوا تھا۔ پہلے میری سمجھ میں نہیںآیا کہ یہ دھواں کیا ہے۔ مگر سیکڑوں قمقموں کے باوجود یہاں بہت کم اجالا تھا۔ اس وقت محسوس ہوا کہ یہ بلب نہیں بلکہ موم بتیاں ہیں۔ موم بتیوں کے جلنے سے پوری فضا میںدھواں پھیلا ہوا تھا۔ یہ ذوق بھی بڑا عجیب ہے۔
تمام مذہبوں میں صرف اسلام ایسا مذہب ہے جس میں ہر چیز فطری ہے۔ اسلام کی عبادت گاہ، اسلام کی مجالس، اسلام کے اجتماعات، ہر ایک میںاسلام کا مقرر کیاہوا اصول عین فطرت کے اوپر قائم ہے۔اگر چہ موجودہ زمانہ میں اغیار کے کلچر سے متاثر ہو کر مسلمانوں نے اسلام کا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔ اسلام کا فطری نقشہ آج شاید کسی بھی مسلم ادارہ میں دکھائی نہیں دیتا۔ اگر کہیں عملی اعتبار سے ہے تو نظری اعتبار سے نہیں۔ اوراگر کہیں نظری اعتبار سے ہے تو عملی اعتبار سے نہیں۔
گروجی کے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں معتقدین ہیں۔ اس کا راز کم ازکم ایک یہ ہے کہ لوگوں کوان سے مادی فائدے ملتے ہیں۔ ایک شخص نے گروجی سے کہا کہ میںاسکوٹر خریدنا چاہتا ہوں۔ میںنے اس کا پیسہ بھی جمع کرلیا ہے۔ گروجی نے کہا کہ تم اسکوٹر مت خریدو۔ اس نے خرید لیا۔ جلد ہی ایکسیڈنٹ ہوا اور وہ مرگیا۔ ایسا ہی واقعہ ایک اور شخص کے ساتھ ہوا۔ اس نے کار کا پیسہ جمع کیا۔ اور گروجی کے منع کرنے کے باوجود کارخرید لی۔ وہ بھی روڈ ایکسیڈنٹ میںمرگیا۔
بہت سے لوگوں نے اس طرح کے قصے سنائے۔ اس سے لوگوں کو یقین ہوگیا کہ گروجی کو خاص نظر(vision) حاصل ہے۔ چنانچہ وہ جو کہہ دیتے ہیں اس پر لوگ آنکھ بند کرکے عمل کر تے ہیں۔
شانتی گری آشرم کے اس فنکشن کو اٹینڈکرنے کے لیے جو لوگ دہلی سے گئے تھے ان میں سے دو صاحبان میرے ساتھ اسی جہاز میںتھے۔ مسٹر گوپی ناتھن اور ایک خاتون ڈاکٹر۔ میرے سفر کا انتظام شانتی گری آشرم کی طرف سے کیا گیا تھا۔ مگر مذکورہ دونوں صاحبان خوداپنے خرچ پر وہاں گئے تھے۔ یہ دونوں مڈل کلاس کے لوگ تھے۔ مگر انہوں نے ہوائی جہاز سے سفر کیا جب کہ فی کس ہوائی جہاز کا ریٹرن ٹکٹ تقریباً ۳۵ ہزار تھا۔ وہاں کی تقریبات میں ان کاکوئی حصہ نہ تھا۔ میںنے پوچھا کہ آپ لوگ کس جذبہ کے تحت یہاں آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گرو کے درشن اور آشیرواد کے لیے۔اس طرح ہزاروں لوگ صرف درشن اور آشیرواد کے لیے دو ردور سے یہاں آئے تھے۔
ٹھیک یہی مزاج خود مسلمانوں میں بڑے پیمانہ پر پایا جاتاہے۔ وہ کچھ لوگوں کو ’’بزرگ‘‘ سمجھ لیتے ہیں۔ اور ان کے لیے لمبے لمبے سفر کرتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ انہوں نے درشن اور آشیرواد کے بجائے اس کا نام زیارت اور برکت رکھ لیا ہے۔
۱۹۸۰ کے لگ بھگ زمانہ کی بات ہے۔ ایک مسلم بزرگ مدینہ سے دہلی آئے۔ یہاں کی ایک بڑی مسجد میںان کا قیام تھا۔ یہاں سیکڑوں لوگ اکٹھا ہوگئے۔ عوام کے علاوہ کالج اور مدرسہ کے لوگ بھی شامل تھے۔ کچھ لوگ مجھ کو بھی وہاں لے گئے۔ میں نے دیکھا کہ وہاں تقریر ہو رہی ہے مگر لاؤڈاسپیکر اچھا نہ ہونے کی وجہ سے مقرر کی بات صاف سنائی نہیںدے رہی ہے۔ ایک صاحب علی گڑھ سے آئے تھے۔ ان سے میں نے کہا کہ یہاں اتنے سارے لوگ جمع ہیں۔ ایسے موقع پر اچھے لاؤڈ اسپیکر کا انتظام کرنا چاہئے تھا تاکہ لوگ مقرر کی بات کو صحیح طورپر سن سکیں۔ انہوں نے میری بات کو ایک غیر اہم بات کی طرح نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔ ’’ہم یہاں تقریر سننے کے لیے نہیں آئے ہیں۔ ہم تو حضرت کی زیارت کے لیے آئے ہیں‘‘۔
یہ مزاج ہندوؤں کے لئے جتنا بے معنٰی ہے، مسلمانوں کے لیے بھی اتنا ہی بے معنٰی ہے۔ کسی حضرت یا کسی گرو کی زیارت اور برکت کا کچھ بھی تعلق مذہب سے نہیں اور نہ اس سے کسی شخص کو کچھ مل سکتاہے۔ پانے کا تعلق تمام تر خدا سے ہے۔ یہ سمجھنا کہ خدا کا عطیہ کسی بزرگ کے واسطے سے ملتا ہے سراسر بے اصل ہے۔ اس کی کوئی حقیقت نہیں۔
یکم مارچ کی شام کو مغرب کی نماز کے بعد کئی تعلیم یافتہ لوگ میری قیام گاہ پراکٹھا ہوگئے۔ ان کی فرمائش پر میں نے اپنی ذاتی زندگی کے بارے میں کچھ باتیں بتائیں۔میں نے کہا کہ میں پیدائشی طورپر فلسفی جیسا مزاج رکھتاہوں۔ میں کسی بات کو صرف اس وقت مانتا ہوں جب کہ وہ دلائل و حقائق سے ثابت ہوجائے۔ میں نے کئی مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ مثلاً میںسنتاتھاکہ آدمی اگر کئی وقت تک کھانا نہ کھائے تو آنکھوں میں دھند آجاتی ہے اور غشی طاری ہوجاتی ہے۔ اس بات کو جاننے کے باوجود میں نے اس کا تجربہ کیا۔
ایک بار جب میں ایک لمبے سفر پر تھا تو دو دن تک مسلسل میںنے کچھ نہیںکھایا۔ حالانکہ اس وقت میری جیب میں کافی پیسے موجود تھے۔ دو دن کے بعد جب میں کافی کمزوری محسوس کرنے لگا تو میںایک ہوٹل کے اندر کھانے کے لیے داخل ہوگیا۔ اس وقت میری آنکھوں میں اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ چنانچہ میںایک ایسی کرسی پر بیٹھنے لگا جس پر پہلے سے ایک شخص بیٹھا ہوا تھا۔میری یہ حالت دیکھ کرلوگوں نے سمجھا کہ خدانخواستہ میں پئے ہوئے ہوں۔ میںنے کہا کہ مذہب کے ساتھ بھی میرا معاملہ یہی ہے۔
پیدائشی طورپر میںایک مسلم خاندان میں پیدا ہوا۔ گویا میراآبائی مذہب اسلام تھا۔ مگر جب میںسن شعور کو پہنچا تو میںنے اسلام کو چھوڑ دیا۔ میں ملحد بن گیا۔ اس کے بعد کئی برس تک میںسچائی کی تلاش میںادھر ادھر پھرتارہا۔ بہت سی کتابیں پڑھیں۔ اس طرح کئی برسوں کے تلاش ومطالعہ کے بعد میںنے شعوری طورپر از سر نو اسلام قبول کیا۔
غالباً ۱۹۴۹ میں میں نے اعظم گڑھ کی جامع مسجد میں ماسٹر عبد الحکیم انصاری کے سامنے کلمۂ شہادت ادا کیا۔ وہاں اور بھی کئی مسلمان موجود تھے۔ جب میںنے اشہد ان لا الہ الا اللّٰہ و اشہد ان محمداً عبدہ ورسولہ کہا تو بے اختیار میری آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ اس طرح میںایک نو مسلم ہوں۔ اسلام میری ڈسکوری ہے۔
یہ ایک لمبی گفتگو تھی۔ لوگ بے حد دلچسپی کے ساتھ اس کو سن رہے تھے۔ اس سلسلہ میںمیں نے کہا کہ کچھ نادان لوگ میرے بارے میں کہتے ہیں کہ میں اینٹی مسلم لابی کاایک آدمی ہوں۔ حتیٰ کہ بعض لوگوں نے میرے خلاف فتویٰ بھی دے دیا ہے۔ مگر اس قسم کی باتیں لغویت کی حد تک بے اصل ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ میری نیچر کے خلاف ہے کہ میں صرف مصلحت کے لیے یا کسی کو خوش کرنے کے لیے کوئی بات کہوں یا کروں۔ فطر ی طورپر میرا یہ مزاج ہے کہ میں صرف وہی بات کہتاہوں جو عقلی اور منطقی طورپر مجھے درست نظرآئے۔حتیٰ کہ اگر مجھے ایک بات درست نظر آئے تو میںساری دنیا کو نظرانداز کرکے اس کا اعلان کروں گا۔ یہ میرے بس سے باہر ہے کہ کوئی بات صرف اس لیے کہوں کہ لوگ ایسا چاہتے ہیں۔ اس سلسلہ میںمیںنے کئی عملی مثالیں دیں۔
میںنے کہا کہ ۱۹۹۰ میںایران کے رہنماآیت اللہ خمینی نے سلمان رشدی کے قتل کا فتویٰ دیا تو دنیا بھر کے تمام مسلمان اس کی تائید کرنے لگے۔ اس وقت میںنے تنہا یہ اعلان کیا کہ یہ فتویٰ غلط ہے۔ اسلام کی تعلیم کے مطابق، ہمیں قلم کا جواب قلم سے دینا ہے۔ قلم کا جواب گولی سے دینا ایک غیر اسلامی بات ہے۔ یہ اسلام کی توہین ہے کہ اس کی طرف ایسا نظریہ منسوب کیا جائے۔
اسی طرح انڈیاکے تقریباً تمام ہندو کامن سول کوڈ کے حامی ہیں۔ مگر میں نے اس کے خلاف تفصیلی مقالہ لکھا اوراس کو ملک کے بہت سے اخبارات اور میگزین میں چھپوایا۔ اس کو کتاب کی صورت میں بھی مختلف زبانوںمیں چھپوایا۔ جلسوں میں اس موضوع پر تقریریں کیں۔
اسی طرح انڈیا کے تقریباً تمام ہندو حسّاسیت کی حد تک کنورژن کے خلاف ہیں۔ مگر میں نے ہندو مزاج کے خلاف کنورژن کے مسئلہ پر اخباروں میں بیانات دئے۔ ٹی وی پر اس کے خلاف کہا۔ جلسوں میںاس کے خلاف تقریر کی۔ کنورژن کی حمایت میںمیںنے ایک تفصیلی مقالہ لکھا جس کو دوسرے کئی میگزین کے علاوہ خودآر ایس ایس کے انگریزی میگزین پرجنا (Parajna) میں چھپوایا۔ ملاحظہ ہو پرجنا (Parajna) کا شمارہ اپریل۔جون، ۱۹۹۹۔
میں نے کہا کہ میںکسی ملکی یا غیر ملکی لابی کا ترجمان نہیں۔ البتہ میںسچائی کا ترجمان ہوں۔ میں عین اپنے مزاج کے مطابق، ہر بات کو دلائل و حقائق کی روشنی میں دیکھتا ہوں۔ اس کا علمی تجزیہ کرتا ہوں۔ ہر اعتبار سے اس کا بے لاگ جائزہ لیتا ہوں۔ اور پھر جو بات مجھے حق نظرآتی ہے اس کو لکھتا اور بولتا ہوں۔ اپنے ضمیر کے خلاف کسی کا حامی یا ترجمان بننا میرے لئے ممکن ہی نہیں۔
کیرلا ایک بے حد سرسبز اور خوبصورت علاقہ ہے۔ شانتی گری آشرم میں کیرلا کی تمام خصوصیات موجود ہیں۔ کیرلا کی اسی خوبصورتی کی بنا پر کہا جاتا ہے کہ کیرلا خدا کا اپنا ملک ہے:
Kerala is God's own country.
مگر ساحلی علاقہ ہونے کی وجہ سے یہاں کی فضا میں رطوبت(moisture) ہے۔ اس کی وجہ سے یہاں کے پھول میںگویا ایک کانٹا لگا ہوا ہے۔ یہی موجودہ دنیا کی تمام اچھی چیزوں کا حال ہے۔ کامل آرام یا کامل خوشی کسی کو اس دنیا میں نہیں مل سکتی ۔ کامل مسرت صرف آخرت ہی میں ممکن ہے۔
۲ مارچ ۱۹۹۹ کو صبح چار بجے کا وقت ہے۔ میںبستر سے اٹھ کر یہ سطریں لکھ رہا ہوں۔ میرے چاروں طرف کامل سناٹا چھایا ہوا ہے۔ بظاہر اس وسیع دنیا کے تمام لوگ اپنے بستروں پر سورہے ہیں۔ اتنے میں دور سے چڑیا کی آواز سنائی دی۔ میںنے سوچا کہ اس طرح ایک دن آئے گا جب کہ زمین پر بسنے والے تمام انسان اپنے گھروں میںسکون کی سانس لے رہے ہوں گے کہ اچانک خدا کی آواز آئے گی۔ قیامت کا زلزلہ پوری دنیا کو ہلا دے گا۔ لوگ پکار اٹھیں گے۔ یہ کیا ہوگیا، کیا نجات کی کوئی صورت ہے۔ مگر جب قیامت آجائے گی تو وہ دوبارہ واپس نہ ہوسکے گی۔ آج کے سرکش اس دن سراپا عجز کی تصویر دکھائی دیں گے۔ آج حقیقت کااعتراف نہ کرنے والے اس دن اعلان کے ساتھ حقیقت کااعتراف کریں گے۔ آج جو لوگ دوسروں کا احتساب لینے کے چیمپئن بنے ہوئے ہیں اس دن انہیں اپنے احتساب کے سوا اورکچھ بھی یا د نہ ہوگا۔ اس دن ہر آدمی مان رہاہوگا، مگر اب ماننے کا کیا فائدہ۔
۲۸ فروری کی شام کو آشرم میںکئی مسلم نوجوانوں سے ملاقات ہوئی۔ ان میں سے ایک مسٹر محی الدین خاں تھے۔ وہ ٹریونڈرم کے ایک اسکول میں استاد ہیں۔ انہوں نے میری کتاب خاتون اسلام انگریزی میں پڑھی ہے۔ انہوںنے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ میں مارکسسٹ ہوں۔ میںنے پوچھا کہ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد بھی آپ مارکس کے نظریہ پر یقین رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ سوویت یونین میںجس چیز کا خاتمہ ہوا ہے وہ مارکسی آئیڈیا لوجی نہیںہے بلکہ روسی کمیونسٹ پارٹی کی غلط پالیسیاں ہیں۔ میں نے کہا کہ مگر ایک بات بالکل واضح ہے۔ وہ یہ کہ مارکس نے تاریخی ناگزیریت کانظریہ پیش کیا ۔ اس نے لکھا کہ خود تاریخ کے ناگزیر عمل کے نتیجہ میںایسا ہوگا کہ سرمایہ دارانہ نظام ٹوٹ جائے گا اور اس کی جگہ اشتراکی نظام قائم ہوگا۔ یہ سب خود ناگزیر تاریخی قانون کے تحت ہوگا۔ ایسی حالت میں کمیونسٹ فلسفہ کے تحت سرمایہ دارانہ نظام کو ٹوٹنا چاہئے تھا۔ مگربرعکس طورپر خود اشتراکی نظام ٹوٹ گیا۔ یہ واقعہ مارکس کے نظریہ کو غلط ثابت کر رہا ہے۔ انہوں نے اس کاکوئی جواب نہیں دیا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے ذرا فلاں پروگرام میںجانا ہے۔ اس کے بعد وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ چلے گئے۔ وہ اردو نہیں جانتے تھے۔ یہ گفتگو انگریزی زبان میں ہوئی۔
عام طورپر لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ اپنی محبوب شخصیتوں کو غلط نہ ماننے کے لیے بھول جاتے ہیں کہ اس طرح وہ شخصیتوں سے برتر ایک چیز—قانون فطرت کاانکار کررہے ہیں۔ یہی حال موجودہ زمانہ کے بعض مسلم مفکرین کے پرستاروں کا ہے۔ ان مسلم مفکرین کے نظریات مکمل طورپر فیل ہوگئے ۔ مثلاً ریلوے انجن پر قبضہ کرنے کے باوجود ٹرین کا اپنی سابقہ سمت پر چلتے رہنا۔ مگر ان شخصیتوں کے پرستار مختلف قسم کی بے اصل توجیہیں کرکے کوشش کرتے ہیں کہ ان کی محبوب شخصیت بدستور محفوظ رہے۔
یہاں بڑی تعداد میںلوگوں سے ملاقات ہوئی۔ ان میں زیادہ تر ہندو تھے۔ تا ہم ان میں مسلمان بھی قابل لحاظ تعدا د میں تھے۔ ہر گفتگو کے بعد میںنے محسوس کیا کہ لوگ عام طورپر ذہنی جمود میں مبتلا ہیں۔ اس کی مشترک وجہ یہ ہے کہ ہر ایک نے کسی نظریہ یا کسی شخصیت کو نوجوانی میںاپنایا۔ پھر وہ اس پر جم گیا۔ اب وہ نظر ثانی کے لیے تیار نہیں۔ اس طرح ہر ایک یہ یقین لئے ہوئے ہے کہ ’’میرا انتخاب درست تھا‘‘ مگر یہی یقین ہر ایک کے لیے زیادہ بہتر سچائی کو پانے میںرکاوٹ بن گیا۔
ایک نوجوان سردار سکھبیر سنگھ سے ملاقات ہوئی۔ وہ راجستھان کے رہنے والے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سکھ ازم اسلام کے زیادہ نزدیک ہے۔ کیوں کہ یہ کسی دیوی دیوتا، وغیرہ کی پوجا نہیںکرتے۔ یہ کسی دوسرے کے آگے سر نہیں جھکاتے۔ یہ دونوں اپنے دھارمک گرنتھ قرآن اور گرو گرنتھ صاحب کے حکم کے مطابق ہی کام کرتے ہیں۔ سکھ دھرم کے گرنتھ (گرو گرنتھ صاحب) میں صرف دھارمک پریچرس، مہاپرشوں اور صوفی سنتوں (ہندو اور مسلم) کے قول ہی دئے ہیں۔ یہ دونوں دھرم انسانیت کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ سکھ گروؤں کے شاگردوں میںہندو اور مسلم دونوں تھے۔ سکھوں کے سب سے پوتر دھارمک استھان امرتسر کے ہر مِندَر صاحب کا سنگ بنیاد ایک مسلم پیر (پیر میاں میر) نے رکھا تھا۔
ایک صاحب جاپان سے آئے تھے۔ ان کا نام آنند کے نہاری تھا۔ ان سے میں نے کہا کہ جاپانی لوگ پیدائشی طور پر اسپریچول ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ نسل ایسی نہیں ہے۔ اب امریکن کلچر تیزی سے نئی نسل میںپھیل رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جاپان اپنی ترقی کی پیک(peak) پر پہنچنے کے بعداب نیچے جارہا ہے، روحانی اور اقتصادی ہر اعتبار سے۔ لوگ مقصدیت کااحساس کھوتے جارہے ہیں۔ جاپان کی نئی نسل اپنی آئڈنٹیٹی کھوچکی ہے۔
کیرلا میں مائسچر کا سبب یہ ہے کہ یہاں کی زمین کا ایک تہائی حصہ گھنے جنگلوں سے ڈھکا ہوا ہے۔ ہر طرف سبزہ کی کثرت ہے، اس نے یہاں کی فضا کو مرطوب بنا دیا ہے۔
کیرلا کے لوگ (اور اسی طرح پورے جنوبی ہند کے لوگ) بے حد صفائی پسندہیں۔ صفائی ان کے کلچر میںشامل ہے۔ یہاںکے گھراور راستے بے حد صاف ہوتے ہیں۔ آپ اگر اچانک کسی گھر یاکسی بستی میںجائیں تو آپ اس کو ہمیشہ صاف ستھرا پائیں گے۔ وہ گھروں کے اندر جوتا پہننا پسند نہیں کرتے۔ چنانچہ گھر میں داخل ہونے سے پہلے جوتا اتار دیاجاتاہے۔ میںنے یہاں کی ایک مجلس میں اس کا ذکر کرـتے ہوئے پیغمبر اسلام کی یہ حدیث سنائی: الطہور شطر الایمان۔ اس کا ترجمہ میںنے اس طرح کیا:
Cleanliness is a part of religion.
لوگ اس حدیث کو سن کر بہت خوش ہوئے۔ ان کے چہرے سے ایسا محسوس ہوا جیسے وہ خوش ہو رہے ہوں کہ خدا بھی ان کی تائید کر رہاہے۔
یہاں صرف ایک چیز میرے ذوق کے خلاف تھی۔ وہ فضا میں مسلسل طورپر نمی (moisture) ہے۔ گھروں میں عام طور پر کارپٹ نہیں ہوتے۔ چکنا فرش ہوتا ہے۔ کیرلا کے لوگوں میں کچھ چیزیں پیدائشی طورپر ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ لوگ ابھی تک اپنے نیچر پر ہیں۔ ایک بار میںنے دو آدمیوں کو تیز تیز بحث کرـتے ہوئے دیکھا۔ میرے ساتھی اس کو دیکھ کر ہنس رہے تھے۔ میںنے سبب پوچھا تو انہوں نے کہا کہ تھوڑا انتظار کیجئے۔ چنانچہ کچھ دیر کے بعد اپنے آپ ان کی بحث ختم ہوگئی۔ تیز بحث کے باوجود کسی نے دوسرے کے خلاف ہاتھ نہیں اٹھایا۔ کچھ دیر کے بعد دونوں آدمی نارمل ہوگئے اور دونوں اپنے اپنے راستہ پر آگے بڑھ گئے۔ دہلی میں ایسا ہو تو دونوں آدمی ایک دوسرے کے خلاف غرّاتے ہوئے جائیں گے۔ مگر یہاں دونوں اس طرح نارمل انداز سے چلے گئے جیسے کہ ان کے درمیان کچھ نہیں ہوا تھا۔
یہاں کے ٹیکسی ڈرائیور اور اسکوٹر ڈرائیور مشین کی طرح کام کرتے ہیں۔ وہ مسافر کو نہ ستاتے ہیں اور نہ زیادہ کرایہ لیتے ہیں۔ ایک بار کچھ لوگوں نے ایک اسکو ٹر ڈرائیور کو پکڑا۔ وہ مسافر کو پریشان کررہا تھا اور اس سے زیادہ رقم لیناچاہتا تھا۔ وہ اس کو کیرلا میں لے آیا۔ اس نے اسے ایک اسکوٹر پر بٹھایا اور کہا کہ اس کو لے کر فلاں جگہ چھوڑ دینا۔ وہ اسکوٹر والا اس کو لے گیا۔ ٹھیک مقام پر پہنچا کر ٹھیک مقرر نرخ کے مطابق، اس سے کرایہ لے کر اس کو اتار دیا۔ اس کے بعد مذکورہ اسکوٹر ڈرائیور کویہ فرق دیکھ کر سخت شرمندگی ہوئی۔ وہ بالکل بدل گیا۔
کیرلا کے مردوں اور عورتوں کو دیکھئے توایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ براہ راست فطرت کے کارخانے سے نکل کر چلے آرہے ہیں۔ معصومیت، دیانت داری، اطاعت شعاری، نرم گفتاری، تواضع، فرض شناسی، اپنے کام سے کام رکھنا، بحث و تکرار کے بغیر بات کو مان لینا۔ اس قسم کی صفات گویا ان کی شخصیت کا جزء ہیں۔ وہ پوری طرح خدا کی فطرت پر قائم ہیں۔مجھے کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ آخرت میںخدا کی رحمت کو پانے کے لیے غالباً دو معیار ہوں گے۔ ایک اخلاقی اور دوسرے شرعی۔ اخلاقی معیار پیدائشی فطرت کے تابع ہے اور شرعی معیار وحی الٰہی کے تابع۔ جو لوگ خدا کی دی ہوئی فطرت پر قائم ہوں، جو معلوم احکام الٰہی سے انحراف نہ کریں وہ خدا کے غیر باغی بندے ہیں۔ اور جو لوگ وحی الٰہی کے ذریعہ ملی ہوئی ہدایت پر اخلاص کے ساتھ قائم ہوں وہ خدا کے مخصوص بندے ہیں۔ درجہ بدرجہ غالباً دونوں ہی خدا کی رحمت کے مستحق قرار پائیں گے۔
تاہم شمالی ہند کے لوگوں کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ یہاں ان لوگوں کے مزاج کوایک لفظ میں بیان کرنا ہو تو غالباً وہ سرکشی ہوگا۔ ان کے اندر سرکشی اور انانیت (arrogance) اتنا زیادہ ہے کہ ان کو دیکھ کر مجھے خیال آتا ہے کہ اس قسم کے لوگ تو شاید اخلاقی معیار ہی پر قابلِ رد قرار پا جائیں اور شرعی معیار کوان کے اوپر استعمال کرنے کی نوبت ہی نہ آئے۔ دونوں گروہوں کے فرق کواس دنیا میں دیکھا جاسکتا ہے۔ پہلی قسم کے لوگوں کو دیکھئے توان کے چہرے پر ایک معصومانہ حسن ہوگا اوردوسری قسم کے لوگوں کو دیکھئے تو ان کے چہرے پر ایک مغرورانہ بدصورتی دکھائی دے گی۔
مجھے ذاتی طورپر ایسے لوگوں سے سخت وحشت ہوتی ہے جن کے کلام میںمغرورانہ انداز پایا جاتا ہو۔ اس کے برعکس جن لوگوں کے کلام میں تواضع اور سادگی کا انداز ہو ان سے بات کرنا میرے لئے ہمیشہ خوشی کا باعث ہوتا ہے، خواہ وہ غریب اور جاہل ہی کیوں نہ ہوں۔ شمالی ہندکی سڑکوں پر چلتے ہوئے اکثر میںنے کار اور ٹرک کوسڑک کے کنارے الٹا پڑا ہوا دیکھا ہے۔ روڈ ایکسیڈنٹ وہاں روزانہ کی ایک بات ہے۔ مگر کیرلا کی سڑکوں پر شاید ہی ایسا منظر کبھی دکھائی دیتا ہو۔ یہاں کے لوگوں میں ڈسپلن ہے۔ وہ قانون شکنی سے بچتے ہیں۔ وہ دوسروں کی رعایت کرتے ہیں۔ وہ دوسروں کو راستہ دینے کے لیے خود پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ الیکشن کے زمانہ میں یہاں وہ توڑ پھوڑ اور ہنگامے نہیں ہوتے جو شمالی ہند میں الیکشن کے زمانے میں دیکھے جاتے ہیں۔ الیکشن کے موقع پر ہندو، مسلم، عیسائی اکثر متفقہ طورپر کسی نمائندے کے حق میںووٹ دیتے ہیں۔ حال میں الامۃ اورآئی ایس ایس کے کچھ شورش پسند نوجوانوں نے یہاں کے امن کو توڑنے کی کوشش کی مگر سماج کا تعاون نہ ملنے کی وجہ سے وہ کامیاب نہ ہوسکے۔
کیرلا کی ریاست خلیل جبران کے اس مقولہ کی ایک عملی مثال ہے کہ درخت کی اجازت کے بغیر اس کا ایک پتہ بھی زمین پر نہیںگرتا:
Not a single leave falls down without the silent consent of the tree.
کیرلا کے امن پسند سماج نے شورش پسند نوجوانوں کی حمایت نہ کی اس لئے وہ غبارہ کی طرح پھٹ کر رہ گئے۔ دوسرے مقام پر جہاں شورش پسند نوجوان تباہی پھیلانے میںکامیاب ہوئے اس کا سبب یہی تھا کہ وہاں کے سماج سے ان کو حمایت ملی۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ کچھ لوگوں کے غلط فعل پر سب لوگوں پر عذاب آتاہے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ کچھ لوگ اگر اپنے غلط فعل کے براہ راست ذمہ دار ہوتے ہیں تو بقیہ لوگ اس کے بالواسطہ ذمہ دار۔ شورش زدہ مقام پر جب وہاں کا حاکم طبقہ جوابی کارروائی کرتا ہے تو وہاں کے لکھنے اور بولنے والے اجتماع کرتے ہیں کہ حکمراں طبقہ بے گناہ لوگوں کو اپنے ظلم کا نشانہ بنا رہا ہے۔ مگر یہ قانون فطرت کے مطابق ہے۔ یہ دراصل اس بات کی سزا ہے کہ وہاں کے عوام نے بالواسطہ انداز میں ان شورش پسندوں کا ساتھ دیا۔
یہاںایک سردار جی سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے اس قسم کے بعض مقامات کا نام لے کر کہا کہ دیکھئے، مغرب میںقائم شدہ انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی ان کی مذمت کی ہے۔ میں نے کہا کہ جو لوگ مغرب کی ان رپورٹوں کو لے کر تقریر یں کرتے ہیںوہ باتوں کو گہرائی کے ساتھ نہیں سمجھتے۔ مغرب میںقائم شدہ انسانی حقوق کے ادارے در اصل مغربی تہذیب کی برتری ثابت کرنے کے ادارے ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ ہم حقیقت پسندی سے کام لیں اورایسے واقعات کو مغرب کی عینک سے دیکھنے کے بجائے قانون فطرت کی روشنی میں دیکھیں۔
ایک ہندو فیملی جو ارنا کولم سے یہاں آئی تھی۔ ۲ مارچ کی صبح کو واپس جاتے ہوئے وہ لوگ مجھ سے آخری ملاقات کے لیے میری قیام گاہ پر آئے۔ وہ بذریعہ کار واپس جا رہے تھے۔ آخری ملاقات میں میں نے کچھ نصیحت آمیز باتیں کہیں۔ ان میں سے ایک یہ تھی کہ خداکی مہربانی کے ساتھ واپس جائیے (With the grace of God) ۔ انہوںنے اس کو دہراتے ہوئے کہا: خدا کی مہربانی سے، گرو کی مہربانی سے۔
یہ ہندو عقیدہ کا خاص جزء ہے۔ وہ اپنے عقیدہ کے خدا اورگرو میںفرق نہیں کرتے۔ وہ گرو کو اس طرح مانتے ہیں جیسے کہ وہی ان کا خدا ہو۔ بد قسمتی سے بر صغیر ہند کے مسلمانوں میںیہی عقیدہ بدلے ہوئے الفاظ کے ساتھ آگیاہے۔ یہ لوگ بھی اپنے مفروضہ اکابر یا بزرگوں کو بڑائی کاعملاً وہی درجہ دئے ہوئے ہیں جو خدا کا درجہ ہے:یحبونہم کحب اللہ۔ ان مسلمانوں میںیہ غیر موحدانہ جذبہ اتنی گہرائی کے ساتھ سرایت کئے ہوئے ہے کہ اس کی اصلاح کرنا تو درکنار اس کے خلاف بولنے کی ہمت بھی کوئی مصلح نہیں کرپاتا۔ صرف سلفی لوگ اس کے خلاف کچھ بولتے ہیں۔ مگر سلفی لوگوں میںسب سے بڑی کمی یہ ہے کہ ان میں داعیانہ شفقت نہیں، ان کے مزاج میں مناظرانہ کٹر پن ہوتا ہے۔
اس غیر موحدانہ مزاج کی اصلاح میںوہ کامیاب نہ ہوسکے۔ غیر سلفی علماء عام طورپر اس عوامی مزاج سے مصالحت کئے ہوئے ہیں، شاید اس لئے کہ اگر وہ اس کے خلاف بولیں تو عوامی نمائندگی کا اسٹیج ان سے چھن جائے گا۔اس خاموشی کے پیچھے شاید یہ خوف چھپا ہوا ہے کہ یہ لوگ اگر اس غیرموحدانہ روش کے خلاف بولیں تو وہ عوام سے کٹ جائیںگے اور ان کو وہ فائدے نہ مل سکیں گے جوعوام کا نمائندہ (بالفاظ دیگر بھیڑ کا نمائندہ) سمجھے جانے کی بنا پر انہیں حاصل ہو رہے ہیں۔
اس کا تجربہ مجھے ذاتی طورپر ہوا۔ میرے کئی ہمدرد اکثر مجھ سے یہ کہتے رہے ہیں کہ فلاں بات نہ کہیئے ،ورنہ آپ عوام سے کٹ جائیں گے۔
اس معاملہ میں جماعت اسلامی کے لوگوں نے زبردست ہوشیاری کا ثبوت دیا ہے۔ کوئی ڈبل اسٹینڈرڈ ہوتا ہے، یہ لوگ ملٹی اسٹینڈرڈ ہیں۔اپنے لٹریچر کے اعتبار سے وہ ایک اصولی جماعت ہے۔ مگر وہ مسلمانوں کے ہر اس اسٹیج پر جا کر بیٹھ جاتے ہیں جونام نہاد ملی اشوز پر سجایا گیا ہو۔ ان کا نام نہاد پریس اس قسم کی ہر ملی سرگرمی کواپنے کالم میںجگہ دیتاہے۔ اس طرح وہ عوام سے نہ کٹنے کا زبردست اہتمام کررہے ہیں۔ مگرشاید انہیں یہ معلوم نہیںکہ دو کشتی کی اس سوار ی میں دونوں ہی حیثیت کو کھو دینا ہے۔ ملٹی اسٹینڈ رڈکی یہ پالیسی چونکہ محض ظاہری تھی اس لیے وہ مسلم عوام میںمقبولیت نہ پاسکے اور اپنی اصول پسندی کو تو وہ پہلے ہی کھو چکے تھے۔ اس طرح ان کی پوزیشن ’’نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم‘‘ جیسی ہوگئی۔ موجودہ جماعت اسلامی صرف اپنی اسٹیبلشمنٹ کی بنیاد پر قائم ہے، نہ کہ حقیقۃً اپنے اصولی موقف کی بنا پر۔
شانتی گری آشرم کا رقبہ ایک سو ایکڑ سے زیادہ ہے۔ یہاںتقریباً ایک ہزار آدمی رہتے ہیں۔ یہ لوگ یہاںکے مختلف شعبوں میںکام کرتے ہیں۔ اسپتال، اسکول گارڈن، ایگری کلچرل فارم، دواسازی، وغیرہ۔ان لوگوں کی کوئی تنخواہ مقرر نہیں۔ مگر ہر ایک نہایت خوش دکھائی دیتاہے۔ میںنے کچھ لوگوں سے پوچھا کہ آپ کا ماہانہ خرچ کس طرح چلتا ہے۔ سب کا ایک ہی جواب تھا۔ گروجی کے آشیرواد سے ،سب اچھی طرح ہو جاتاہے۔
۲ مارچ کوآشرم کا اسپتال دیکھا۔ یہاں آیورویدک اصول پر علاج ہوتا ہے۔ ایک آدمی ۴۷ سال کی عمر کا تھا۔ وہ سنگا پور کا شہری ہے۔ اس کا نام سیتا رام ہے۔ اس پر فالج کاحملہ ہوگیا ،وہ چل نہیں سکتا تھا۔یہاں کے دوماہ کے علاج کے بعد اب وہ چل پھر سکتا ہے۔ اس کو امید ہے کہ وہ جلد ہی سنگا پور واپس جا کر نارمل زندگی گزارے گا۔ سنگا پور اسپتال میں تقریباً ایک ماہ علاج کے لئے ۱۰ ہزار ڈالر خرچ کرنے کے باوجود اس کو کوئی فائدہ نہیں ہوا تھا۔ یہاں بہت سستے علاج میںاس کو فائدہ ہوگیا۔
۲ مارچ کومیں آشرم میںشام کو ٹہل رہا تھا۔ ایک صاحب آئے اور السلام علیکم کہا۔ انہوں نے اپنا نام ایم سلیمان بتایا۔ میںنے پوچھا کہ کیا آپ مجھ کو جانتے ہیں۔ انہوں نے کہا۔ یہاں بہت سے لوگ آپ کو جانتے ہیں۔ اس زمانہ میں کمیونی کیشن کی ترقی نے کتنا فرق پیدا کردیا ہے۔
یکم مارچ کوہولی کا دن تھا۔ اخبار سے معلوم ہواکہ فاروق عبداللہ نے ہولی کھیلی۔ مگر آشرم کے پورے علاقے میں زندگی بالکل نارمل تھی۔ یہاں ہولی کا کوئی نشان نہ تھا۔ شانتی گری آشرم کے گروجی ہندو دھرم پر کھلی تنقید کرتے ہیں۔ وہ ہندو شخصیتوں، کرشن اور رام وغیرہ کا نام لے کر ان پر تنقید کرتے ہیں۔ اس کے باوجود ہزاروں ہندو ان کے زبردست معتقد ہیں۔ ہندو ازم عجیب وغریب مذہب ہے۔
گروجی کے فلسفہ کا خلاصہ یہ ہے: فلکیاتی نظام اور انسان کے تعامل (interaction) سے شخصیتیں بنتی ہیں۔ رام کرشن اور مننو وغیرہ چھٹے آسمان تک پہنچے۔ محمدنبی ساتویں آسمان تک پہنچے۔ مگر اس کے صرف تین ماہ بعد وہ مرگئے۔ اس لئے وہ آگے نہ جاسکے، وغیرہ۔ میںنے پوچھا کہ ان باتوں کا ماخذ کیا ہے۔ مجھے بتایاگیا کہ ان باتوں کا ماخذ کوئی کتاب نہیں ہے بلکہ روحانی فقیر ان کو انسپریشن (inspiration) کے ذریعہ معلوم کرتے ہیں۔ ’’محمد نبی آگے نہ بڑھ سکے‘‘ یہ سب speculation ہے۔ اس کی تاریخی یا سائنٹفک بنیاد نہیں ہے۔
صوفیوں نے بھی اسی طرح قیاس کے ذریعہ بے بنیاد باتیں کہی ہیں۔ گروجی کاکہنا ہے کہ آٹھویں آسمان کے اوپر اور بہت سے آسمان ہیں۔ میںنے سوال کیا کہ گروجی اپنے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ ان کے ایک شاگرد(disciple) نے جواب دیا کہ گروجی کو خدا نے بہت کچھ دکھایا ہے۔ انہوں نے اس کو لوگوں کو بتایا۔گروجی کا کہنا ہے کہ انسانی دنیااور فلکیاتی دنیا ایک دوسرے پر منحصر ہیں۔ دونوں ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
آشرم سے واپسی میں ہم لوگ ڈاکٹر گوپی ناتھ کے مکان میں تھوڑی دیر کے لئے ٹھہرے۔ اس وقت میری آنکھوں سے مسلسل آنسو جاری تھے۔ کئی لوگ وہاں موجود تھے۔ لوگ چاہتے تھے کہ میںکچھ کہوں۔ مگر میں جذبات سے اتنازیادہ مغلوب تھا کہ میںکچھ نہ بول سکا۔ میں سوچ رہا تھا کہ موجودہ زمانہ اتنا زیادہ مختلف زمانہ ہے کہ آج شاید ایک شخص صرف ’مہدی‘‘ بن سکتا ہے وہ ’’ہادی‘‘ نہیں بن سکتا۔ میرے دل میںانسانیت کی تڑپ طوفان بن کر ہلچل برپا کئے ہوئے تھی۔ مگر سمجھ میں نہیں آتا کہ آج کے انسان کو کس طرح خدا سے ملایا جائے۔ آج کے انسان کو کس طرح خدا کا پیغام پہنچایا جائے۔
موجودہ زمانہ میںغیر مسلم تو کیا، مسلمان بھی سچائی سے آخری حد تک دو رہیں۔ ہر آدمی مادیات میں گم ہے۔ ربانیات کی نہ کسی کو معرفت ہے اور نہ کسی کو سننے کی فرصت۔
ڈاکٹر گوپی ناتھ نے اپنے گھر میںایک میز پر طرح طرح کے کھانے کی چیزیں اور مشروب رکھے مگر میں نہ کھا سکا اورنہ کچھ پی سکا۔ میری آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ کاش میرے پاس طاقت ہوتی اور میں انسانوں کے اجتماع میں داخل ہو کر امریکی سائنس داں کی طرح مائک چھین لیتا اور چلّا کر کہتا کہ :
Stop everything, I want to inform you the law of universe.
وہ لوگ بھی کیسے عجیب ہوں گے جوہادی بننے کے دعویدار ہوں حالانکہ وہ مہدی بھی نہ ہوں۔ جو معلم بنے ہوئے ہوں حالانکہ وہ متعلم بھی نہ ہوں۔ جو اپنے کو پانے والے کے روپ میں ظاہر کرتے ہوں حالانکہ وہ ڈھونڈنے والے بھی نہ ہوں۔ جو خدا کو جاننے کے دعویدار ہوںحالانکہ انہوں نے اپنے آپ کو بھی نہ جانا ہو۔
آشرم سے ٹریونڈرم ائر پورٹ آتے ہوئے ایک صاحب نے کہا: یہاں ٹریفککا نظام بہت اچھا ہے۔
Here the traffic is well-disciplined.
دہلی سے بالکل مختلف، جہاں کی سڑکوں پر چلتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے گویا یہاں ٹریفک کاکوئی قانون نہیں۔
راستہ میں کاجو کے باغات تھے۔ کیرلا میں نقدی اجناس (cash corps)کثرت سے ہیں۔ یہ قدرتی اعتبار سے ایک دولت مند ریاست ہے۔ مگر اس کی نسبت سے بڑی صنعتیں یہاںکم ہیں۔
۲ مارچ کی سہ پہر کو آشرم سے چل کر ٹریونڈرم ائر پورٹ پہنچا۔ تعمیری اعتبار سے ایک معمولی قسم کا ائر پورٹ نظر آیا۔ ہندستان ایک دولت مند ملک ہے۔ مگر اس کی دولت چند خاندانوں میںسمٹی ہوئی ہے۔ نام نہاد سوشلسٹ نظام نے دولت کے اس سمٹاؤ میں صرف اضافہ کیا ہے۔ کیسا عجیب ہے یہ واقعہ۔ جان ماتھن (John Mathan) شانتی گری آشرم میںاول سے آخر تک میرے ساتھ رہے۔ وہ میرے مددگار تھے مگر ان سے میں نے بہت کچھ سیکھا۔
ایک صاحب جو اس موقع پر یہاں آئے تھے اور اب واپس جارہے تھے، ان سے میں نے پوچھا کہ اتنے لوگ جو یہاں آئے ہیں ان کا مشترک سبب کیا ہے۔ انہوں نے کہا frustration ۔
ایک صاحب نے بتایا کہ مجھ پر جن سوار تھا۔ وہ اس مقصد کے لیے یہاں آئے۔ وہ آدمی جرمنی میںتھا۔ اس کا بھائی جرمنی آیا، اس کے اوپر جن سوار تھا۔ بھائی وہاں آیا اورگرو سے کہا۔ گرو نے یہیں سے دھیان کرکے جن کو ہٹا دیا۔
میرا خیال ہے کہ ہندو گرو اور مسلمان بزرگ دونوں کے یہاں جو بھیڑ ہوتی ہے اُس کا سبب مشترک طورپر ’’برکت‘‘ کا پر اسرار تصور ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ بزرگ یا گرو کی برکت سے میرا فلاں مسئلہ حل ہوجائے گا۔بہت سے لوگ بتاتے ہیں کہ ان کا مسئلہ حل ہوگیا۔ ایسا واقعہ ہمیشہ اتفاقی ہوتا ہے۔ یعنی ایک ہونے والے واقعہ کو غلط طورپر کسی گرو یا بزرگ سے منسوب کردینا۔ یہ عین وہی چیز ہے جس کو سائنس میں لا آف چانس کہا جاتا ہے۔
ٹریونڈرم سے انڈین ائر لائنز کی فلائٹ کے ذریعہ ٹریونڈرم سے بمبئی کے لئے ساڑھے چار بجے روانگی ہوئی۔ جہاز جب بلند ہو کر فضا میں اڑنے لگا تو مجھے ایک عجیب خیال آیا۔ جہاز زمین پر کھڑا ہو تو وہ کھڑا رہ سکتا ہے۔ مگر جب اڑ رہا ہو تو اس کو مسلسل حرکت میں اڑتے رہنا ہے۔ وہ سفر کے دوران کہیں مقام نہیں کرسکتا۔ یہ زمینی سفر اور فضائی سفر کے درمیان فرق کا معاملہ ہے۔
یہی معاملہ زندگی کے سفر کا بھی ہے۔ زندگی کے سفر میں آپ ٹھہر نہیں سکتے۔ اگر ٹھہرے تو اس
کے بعدجو چیز آپ کے حصہ میںآئے گی وہ سفر کو کھونا ہوگا،نہ کہ سفر کا جاری رہنا۔
واپس اوپر جائیں