Pages

Sunday 2 December 2012

Al Risala | December 2012 (الرسالہ,دسمبر)

2

-ایمان سے جنت تک

3

- اللہ کے گواہ

4

- بائبل کی ایک پیشین گوئی

6

- قلب اور عقل

8

- زندگی کی ایک حکمت

9

- غیر ضروری شبہات

11

- بے بنیاد اندیشہ

12

- مغربی تہذیب کا مسئلہ

15

- فرق کا اصول

16

- دورِ جدید موافقِ اسلام دور

17

- دورِ فتنہ کی واپسی

21

- بچوں کی تربیت

24

- بے فائدہ عمل

25

- شتمِ رسول کا مسئلہ

31

- فطرت کی آواز

32

- تاریخ انسانی کا خاتمہ

37

- ایک خط

39

- سوال وجواب

42

- خبرنامہ اسلامی مرکز — 219


ایمان سے جنت تک

قرآن کی سورہ النحل میں ارشاد ہوا ہے: من عمل صالحاً من ذکر أو أنثى وہو مؤمن فلنحیینّہ حیاة طیبة، ولنجزینہم أجرہم بأحسن ما کانوا یعملون (16:97) یعنی جو شخص کوئی عمل صالح کرے، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ وہ مومن ہو تو ہم اس کو زندگی دیں گے، ایک اچھی زندگی- اور جو کچھ وہ کرتے رہے، اُس کا ہم اُن کو بہترین بدلہ دیں گے-
قرآن کی اِس آیت کے تین حصے ہیں— پہلے حصے میں یہ بتایا گیا ہے کہ جو شخص حقیقت کے بارے میں سنجیدہ ہو، وہ غور وفکر کے ذریعے ایمان باللہ تک پہنچے اور پھر اس کے مطابق، وہ عملِ صالح کا طریقہ اختیار کرے، ایسا شخص گویا اللہ کی رحمت کے سایے میں آگیا، وہ اللہ کے مطلوب بندوں میں شامل ہوگیا-
دوسری بات ہے ایسے شخص کو ’حیاتِ طیبہ‘ کا ملنا- اِس حیات طیبہ کا تعلق موجودہ دنیا سے ہے- اِس کا مطلب یہ ہے کہ جب ایک شخص ایمان اور عمل صالح کا ثبوت دے، تو اُس کے بعد وہ اللہ کی نصرت کا مستحق بن جاتا ہے، اُس پر فرشتے اترتے ہیں، زندگی کے ہر موڑ پر اس کو وہ مدد ملتی رہتی ہے جس سے اس کے اندر ثابت قدمی پیدا ہو، وہ صحیح اور غلط میں فرق کرتے ہوئے اپنے لیے صحیح کا انتخاب کرے، اللہ کی توفیق سے اس کے اندر وہ شعور پیدا ہوجاتا ہے جو اس کو ہر انحراف (deviation) سے بچائے، اِس طرح وہ اپنے اندر اُس شخصیت (personality) کی تعمیر کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے جو اس کو اللہ کے مطلوب بندوں کی فہرست میں شامل کردے -
آیت کے آخری حصے میں، اجر ملنے سے مراد، آخرت کا اجر ہے- ایسے افراد آخرت کی ابدی زندگی میں جنت میں داخلے کے مستحق قرار دئے جائیں گے-
ان کے اوپر اللہ کا مزید احسان یہ ہوگا کہ آخرت میں ان کو جو بدلہ دیاجائے گا، وہ اُن کے اعمال کے بہتر حصہ (احسنِ عمل) کی نسبت سے دیاجا ئے گا-
واپس اوپر جائیں

اللہ کے گواہ

سورہ آل عمران قرآن کی ایک طویل سورہ ہے- اس کی آیات 130-200 غزوہ احد (3ہجری) کے بعد نازل ہوئیں- غزوہ احد میں 70 صحابہ شہید ہوئے- اِس موقع پر قرآن کا جو حصہ اترا، اُن میں سے ایک آیت یہ ہے: إن یمسسکم قرح فقد مسّ القوم قرح مثلہ، وتلک الأیام نداولہا بین الناس، ولیعلم اللہ الذین آمنوا ویتخذ منکم شہداء، واللہ لا یحب الظالمین (3:140) یعنی اگر تم کو کوئی زخم پہنچا ہے، تو دوسروں کو بھی ویسا ہی زخم پہنچ چکا ہے- اور ہم دنوں کو لوگوں کے درمیان بدلتے رہتے ہیں، تاکہ اللہ ایمان والوں کو جان لے اور تم میں سے کچھ لوگوں کو گواہ بنائے- اور اللہ ظالموں کو دوست نہیں رکھتا-
قرآن کی اِس آیت میں اصلاً شہید سے مراد مقتول نہیں ہے، بلکہ شہید سے مراد گواہ (witness) ہے- قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت میں جب تمام انسان اکھٹا کئے جائیں گے اور لوگوں کے ابدی مستقبل کا فیصلہ کیا جائے گا- اُس وقت کچھ لوگ اللہ کے گواہ کی حیثیت سے کھڑے ہوں گے- اِس گواہی کے دوپہلو ہیں — نظری گواہی، اور عملی گواہی- نظری گواہی سے مراد یہ ہے کہ لوگوں کو اللہ کے تخلیقی منصوبے سے آگاہ کردیا جائے- اور عملی گواہی سے مراد یہ ہے کہ زندگی میں اِس حقیقت کا عملی مظاہرہ کیا جائے کہ دنیا میں یہ پوری طرح ممکن تھاکہ ایک شخص اللہ کی بتائی ہوئی صراطِ مستقیم کا پیرو بن سکے- قرآن میں اصحابِ اعراف (7:48) کا ذکر ہے- اصحابِ اعراف سے مراد وہ لوگ ہیں جنھوں نے دنیا کی زندگی میں دین ِ حق کی نظری شہادت دی- انھوںنے قولی دعوت کے ذریعے لوگوں کو سچائی سے باخبر کیا- دوسرا گروہ اصحاب الشہادہ کا گروہ ہے- یہ وہ افراد ہیں جو تمام غیر موافق حالات کے على الرغم سچائی پر قائم رہے- ان لوگوں کی زندگی اِس بات کا ایک عملی ثبوت ہوگی کہ دنیا میں جن لوگوں نے سچائی کا طریقہ اختیار نہیں کیا، اُن کے پاس اپنی غلط روش کے لیے کوئی عذر (excuse) موجود نہیں تھا، ان کا کیس سرکشی کا کیس تھا، نہ کہ عذر کا کیس-
واپس اوپر جائیں

بائبل کی ایک پیشین گوئی

بائبل (پرانا عہد نامہ) میں ایک اسرائیلی نبی حبقّوق کی زبان سے مستقبل کے بارے میں ایک پیشین گوئی درج ہے- حبقوق، یہود کی جلاوطنی (605ق م) کے دور سے پہلے آئے- اِس پیشین گوئی کے الفاظ یہ ہیں —— اُس نے نگاہ کی اور قومیں پراگندہ ہوگئیں- ازلی پہاڑ پارہ پارہ ہوگئے- قدیم ٹیلے جھک گئے- اُس کی راہیں ازلی ہیں:
He stood and measured the earth. He looked and startled the nations. And the everlasting mountains were scattered, the perpetual hills bowed. His ways are everlasting. (Habakkuk 3: 6)
بائبل کی اِس پیشین گوئی میں یہ بتایا گیا ہے کہ بعد کے دور میں ایک عظیم انقلاب پیش آئے گا- اِس انقلاب کا قائد ایک شخص ہوگا- مگر بائبل کے شارحین یہ نہ بتاسکے کہ اِس عظیم انقلاب سے مراد کون سا واقعہ ہے-
لیکن بعد کی تاریخ بتاتی ہے کہ اِس سے مراد وہی انقلاب ہے جو بعد کو پیغمبر اسلام اور آپ کے اصحاب کے ذریعے ساتویں صدی عیسوی میں پیش آیا- کوئی بھی دوسرا واقعہ ایسا نہیں جو حقیقی طورپر اِس طور پر اس پیشین گوئی کا مصداق بن سکے-
حبقّوق نبی نےجس وقت یہ پیشین گوئی کی، اُس وقت ایشیا اور افریقہ کے علاقے میں دو بڑی سلطنتیں (empires) قائم تھیں — بازنتینی ایمپائر اور ساسانی ایمپائر-
یہ دونوں سلطنتیں قدیم طرز کی جابرانہ بادشاہت کی سب سے بڑی نمائندہ تھیں- لمبی مدت کے نتیجے میں وہ بہت زیادہ مستحکم ہوچکی تھیں- اِن سلطنتوں نے آزادی اور ترقی کا دروازہ انسان کے اوپر بند کررکھا تھا- یہی وہ سلطنتیں تھیں جن کو بائبل میں ’’ازلی پہاڑ‘‘ کہاگیا ہے-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کا یہ کارنامہ ہے کہ انھوں نے اِن سیاسی پہاڑوں کو توڑ دیا اور اِس طرح دنیا میں آزادی اور ترقی کا دور آیا، وہ دراصل اُسی انقلابی عمل کا نقطہ انتہا (culmination)تھا جو ساتویں صدی عیسوی اور آٹھویں صدی عیسوی میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کے تحت برپا ہوا تھا — یہی وہ انقلابی واقعہ ہے جس کو بائبل میں حبقّوق نبی نے تمثیل کی زبان میں بیان کیا تھا-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ انقلابی رول اتنا زیادہ واضح ہے کہ سیکولر مورخین نے بھی کھلے لفظوں میں اس کا اعتراف کیا ہے- اس کی ایک مثال امریکی مورخ چارلس (Charles Issawi) ہیں، جن کی وفات 2000 میں ہوئی-
مولانا عبد الماجد دریابادی (وفات: 1977) نے اپنی انگریزی تفسیر قرآن میں سورہ الانشراح کی تفسیر کے تحت اِس سلسلے میں چارلس اساوی کا ایک قول اِس طرح نقل کیا ہے کہ — یہ کہنا کوئی مبالغہ کی بات نہیں کہ اگر کسی ایک شخص نے تاریخ کے کورس کو بدلا ہے، تو وہ انسان محمد تھے:
It does not seem too much to say that if any one man changed the course of history that man was Muhammad. (The Muslim World, Hartford, April 1950, p. 95)
یہ ایک حقیقت ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کا طویل زمانہ بادشاہت (kingship) کا زمانہ تھا- اِس بادشاہت کے تحت ساری دنیا میں جبری نظام قائم تھا- انسان کو آزادانہ سوچ اور آزادانہ تحقیق کا اختیار حاصل نہ تھا- اِسی کا نتیجہ تھا کہ ہزاروں سال سے علمی ترقی کا دروازہ انسان کے اوپر بند پڑا ہوا تھا- ہر قسم کی ترقی آزادانہ سوچ کے ذریعے حاصل ہوتی ہے، اور قدیم بادشاہی نظام میں یہ آزادانہ سوچ سرے سے موجود نہ تھی-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کی قربانیوں کے نتیجے میں قدیم بادشاہت کے تحت قائم شدہ جبری نظام ختم ہوا- اِس کے بعد ہی یہ ممکن ہوا کہ دنیا میں آزادی آئے اور انسانی قافلہ ترقیات کے دور میں پہنچے-
واپس اوپر جائیں

قلب اور عقل

انسان ایک سوچنے والا حیوان (thinking animal) ہے- انسان کی تمام سرگرمیاں سوچ سے کنٹرول ہوتی ہیں- کہاجاتا ہے کہ انسان جیسا سوچتا ہے، ویسا ہی وہ بن جاتا ہے-سوچنے کی اس فیکلٹی (faculty) کو ذہن (mind) کہاجاتا ہے- ذہن کے لئے قرآن میں حسب ذیل الفاظ آئے ہیں — عقل، لُب، فواد، حِجر، نُہىٰ اور قلب-
قلب کو عام طورپر دل کے ہم معنى سمجھا جاتا ہے، مگر اسی کے ساتھ قلب کا لفظ عقل کے معنی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے-عربی زبان کے مشہور لغت لسان العرب میں قلب کی تشریح کے تحت یہ الفاظ آئے ہیں: وقد یُعبربالقلب عن العقل- قال الفراء فی قولہ تعالى: إن فی ذلک لذکرى لمن کان لہ قلب، أی: عقل- قال الفراء: وجائز فی العربیة أن تقول: مالک قلب، وما قلبک معک- تقول: ما عقلک معک، وأین ذہب قلبک- أی: أین ذہب عقلک- (لسان العرب، 1/687)
یعنی قلب کو عقل کے معنی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے- فرا نحوی نے کہا ہے کہ قرآن کی آیت: إن فی ذلک لذکرى لمن کان لہ قلب (50:37) میں قلب سے مراد عقل ہے- عربی زبان میں یہ طریقہ درست ہے کہ عقل کے موقع پر قلب کا لفظ بولا جائے- مثلاً کہاجاتا ہے کہ تمھارا قلب کہاں چلا گیا، یعنی تمھاری عقل کہاں چلی گئی-
حقیقت یہ ہے کہ انسان کے اندر سب سے بڑی چیز ذہن (mind) ہے، قلب کا لفظ اور عقل کا لفظ دونوں اِس معنی میں استعمال ہوتے ہیں- فرق صرف یہ ہے کہ عقل کے لفظ کو لفظی طور پر ذہن کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے، اور قلب کا لفظ ادبی استعمال کے لحاظ سے ذہن کے معنی میں بولا جاتا ہے-
موجودہ زمانے میں یہ ثابت ہوگیا ہے کہ قلب صرف حرکتِ خون کا مرکز ہے اور سوچنے کا مرکز صرف دماغ ہے، لیکن ادبی استعمال کی بنا پر اب بھی، ہول مائنڈڈلی (wholemindedly) نہیں بولا جاتا، بلکہ ہول ہارٹڈلی (wholeheartedly) بولاجاتا ہے- یہی طریقہ ہر زبان میں رائج ہے-
قرآن کا موضوع علمِ تشریح الاعضا (anatomy) نہیں ہے، بلکہ قرآن کا موضوع انسان کی ہدایت ہے- ہدایت کا تعلق کامل طورپر تعقل اور تفقہ سے ہے- ایسی حالت میں قرآن میں جہاں بھی قلب کا لفظ آئے گا، تو قرآن کے موضوع کی بناپر اُس کو عقل کے معنی میں لیا جائے گا-
قلب کا لفظ جب دو معنی میں آتا ہے — ایک، معروف طورپر دل کے معنی میں اور دوسرے، عقل کے معنی میں، تو ایسی حالت میں قرآن میں قلب کا مفہوم قرآن کے موضوع کی نسبت سے متعین ہوگا- قلب بمعنی دل، قرآن میں قابلِ انطباق (applicable) نہیں ہوگا، بلکہ قرآن میں قلب بمعنی عقل ہی قابلِ انطباق قرار پائے گا-
یہ اصول، بلاغت کا ایک مسلّم اصول ہے، اور یہ قرآن اور غیر قرآن دونوں کے لیے قابلِ انطباق ہے- مثلاً ایک کتاب جو علم تشریح الاعضا (anatomy) پر لکھی گئی ہو، اُس میں اگر کہیں قلب (heart) کا لفظ آتا ہے تو وہاں قلب کے لفظ کو عقل (mind)کے معنی میں نہیں لیا جائے گا، بلکہ دل کے معنی میں لیا جائے گا- اس کے برعکس، جب قرآن میں قلب کا لفظ استعمال کیا جائے تو اس کو عقل (mind) کے معنی میں لیاجائے گا- علمِ تشریح الاعضا کے موضوع پر لکھی جانے والی کتاب میں قلب کامفہوم اس کے موضوع کی نسبت سے متعین ہوتا ہے- اِسی طرح قرآن میں اگر قلب کا لفظ کسی آیت میں آئے تو یہاں قلب کا مفہوم قرآن کے موضوع کی نسبت سے متعین ہوگا، یعنی اِس کو عقل کے معنی میں لیا جائے گا- یہ بلاغت کا ایک معروف اصول ہے-
ہر زبان میں ایسا ہے کہ اکثر کسی لفظ کے کئی معنی ہوتے ہیں- یہ معنی سیاق (context) سے متعین ہوتا ہے- مثلاً عربی زبان کا ایک لفظ دین ہے، جس کے کئی معنی ہوتے ہیں- مثلاً مالک یوم الدین(1:3)میںیہ لفظ روزِ جزا کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور أقیموا الدین ( 42:13) میں یہ لفظ مذہب (religion) کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے، وغیرہ-
واپس اوپر جائیں

زندگی کی ایک حکمت

قرآن کی سورہ یونس میں ارشاد ہوا ہے: ربنا لا تجعلنا فتنةً للقوم الظالمین (10:85) یعنی اے ہمارے رب، تو ہم کو ظالم لوگوں کے لیے ہدفِ فتنہ نہ بنا-
ایک اسلوبِ کلام یہ ہے کہ بظاہر مخاطب کوئی اور ہوتا ہے، لیکن اصل مقصود کوئی دوسرا ہوتا ہے- مثلاً عربی میں کہاجاتا ہے: لا یضربنک زید- اِس جملے کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ زید تم کو ہرگز نہ مارے، مگر اِس کا اصل مطلب زید کو مارنے سے منع کرنا نہیں ہے، بلکہ اس کا اصل خطاب آدمی کی اپنی ذات ہے، یعنی تم اپنے کسی عمل سے زید کو یہ موقع نہ دو کہ وہ تم کو مارے-
قرآن میں اِس اسلوب کی ایک مثال یہ آیت ہے: فلاینازعنّک فی الأمر (22:67)- اِس آیت کا بظاہر ترجمہ یہ ہے کہ وہ ’امر‘ میں تم سے نزاع نہ کریں- مگر اِس آیت کا خطاب خود اہلِ ایمان سے ہے، یعنی تم دوسروں کو یہ موقع نہ دو کہ وہ تم سے ’امر‘ میں نزاع کرنے لگیں-
یہی اسلوب قرآن کی مذکورہ آیت میں ہے- بظاہر آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ ظالم لوگ ہم کو ہدفِ فتنہ نہ بنائیں، مگر اِس دعائیہ کلام کا اصل خطاب خود اہلِ ایمان سے ہے- اِس کا مطلب یہ ہے کہ اے اللہ، تو ہم کو اِس سے بچا کہ ہم کوئی ایسا فعل کریں جو ہمارے مخالفین کو یہ موقع دے دے کہ وہ ہم کو اپنے ظلم کا تختہ مشق بنائیں-
دوسرے لفظوں میں، یہ کہ مذکورہ آیت میں اہلِ ایمان کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ وہ اپنی طرف سے ہر گز کوئی ایسا فعل نہ کریں جو اُن کے مخالفین کے لیے اُن کے خلاف ظالمانہ کارروائی کا مبرّر (justification) بن جائے-
اِس معاملے کی ایک مثال یہ ہے کہ مصری حکومت نے 1956 میں سوئز کمپنی سے پٹہ (lease) کو یک طرفہ طورپر قبل ازوقت منسوخ کردیا- اِس منسوخی نے فریقِ ثانی کو یہ مبرّر دے دیا کہ وہ 1967 میں مصر پر تباہ کن حملہ کردے-
واپس اوپر جائیں

غیر ضروری شبہات

مسٹر ساجد انور انجینئر (رڑکی، اتراکھنڈ) اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں- انھوں نے ایک مجلس میں یہ بات کہی کہ مسلمانوں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ قرآن کے ترجمے کو غیر مسلموں تک پہنچائیں، تاکہ وہ قرآن کے پیغام سے واقف ہوسکیں- اِس مجلس میں ایک تعلیم یافتہ مسلمان موجودتھے- انھوں نے اِس پر اعتراض کرتےہوئے کہاکہ— اگر ایک شخص کسی غیر مسلم کو قرآن کا ترجمہ دیتاہے اور وہ اس کو پھاڑ کر کوڑے دان میں ڈال دیتا ہے تو کون اس کے لیے گناہ گار ہوگا:
If one gives a copy of the Quran to a non-Muslim, and he tears it apart and puts it into a dustbin, then who would be a sinner?
اُس وقت مجلس میں ایک اور تعلیم یافتہ مسلمان ڈاکٹر عندلیب طارق موجود تھے- انھوں نے اِس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے میں کچھ غیر مسلم حکمرانوں کے نام دعوتی مکتوب روانہ کیے تھے- اُن میں سے ایک مکتوب وہ تھا جو ایران کے غیر مسلم بادشاہ کسری کے نام بذریعہ عبد اللہ بن حُذافہ صحابی بھیجا گیا تھا-اِس مکتوب میں قرآن کی آیتیں لکھی ہوئی تھیں- کسرى ایک مغرور بادشاہ تھا- وہ مکتوب کو دیکھ کر غصہ ہوگیا- اس نے مکتوب نبوی کو پھاڑ کر پھینک دیا- اس کے لیے کون گنہ گار ہوگا- کیا نعوذ باللہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم :
Did the act of the king in any way make the Prophet a sinner?
اِس جواب پر مذکورہ مسلمان خاموش ہوگئے، مگر یہ خاموشی کی بات نہیں- اِس جواب کے بعد مذکورہ مسلمان کو چاہئے تھا کہ وہ کہتے کہ آج میں نے اپنی ایک غلطی دریافت کی- واقعہ یہ ہے کہ اِس قسم کے شبہات مکمل طورپر بے حقیقت ہیں- ہم کو چاہئے کہ اِس معاملے میں ہم صرف اپنے دعوتی فرض کے بارے میں سوچیں اور قرآن کے تراجم کو تمام انسانوں تک پہنچادیں- ہمارا کام پہنچا دینا ہے- کسی بھی عذر کی بنا پر ہم ایسا نہیں کرسکتے کہ ہم اللہ کے کلام کو اللہ کے بندوں تک پہنچانے کا کام نہ کریں-
واپس اوپر جائیں

بے بنیاد اندیشہ

ایک اردو میگزین میں ایک ہندستانی عالم کا مضمون نظر سے گزرا- یہ مضمون موجودہ مسلمانوں کے بارے میں تھا- اِس مضمون کی سرخی یہ تھی: ’’عالمی سطح پر ملتِ اسلامیہ کو گھیرنے کی کوشش‘‘- اِس موضوع پر ایک اور مسلم پروفیسر کا انگریزی مضمون نظر سے گزرا- اس کا عنوان یہ تھا— موجودہ مسلمان محاصرے کی حالت میں:
Present Muslims Under Siege.
مسلم علما اور مسلم رہنماؤں کی طرف سے آج کل ہر جگہ اِس طرح کی تحریریں چھپ رہی ہیں اور اِس طرح کی تقریریں کی جارہی ہیں- موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا عام ذہن یہی ہے- وہ سمجھتے ہیں کہ ہر جگہ وہ مخالفین کی طرف سے کی جانے والی دشمنی اور سازش کے درمیان گھرے ہوئے ہیں- ان کے خیال کے مطابق، یہ صورتِ حال اتنی عام ہے کہ وہ خود مسلم ملکوں میں بھی پائی جاتی ہے-
اِس قسم کی منفی سوچ یقینی طورپر ایک غیر اسلامی سوچ ہے، وہ قومی ذہن سے نکلی ہوئی سوچ ہے، حقیقی اسلامی سوچ سے اس کا کوئی تعلق نہیں- جو مسلمان اِس طرح سوچتے ہیں، اُن کو قرآن کی حسب ذیل آیات پر غور کرنا چاہیے: الذین قال لہم الناسُ إن الناس قد جمعوا لکم فاخشوہم فزادہم إیمانا وقالوا حسبنا اللہ ونعم الوکیل- فانقلبوا بنعمة من اللہ وفضل لم یمسسہم سوء واتبعوا رضوان اللہ، واللہ ذو فضل عظیم- إنما ذلکم الشیطنُ یخوف أولیاءہ، فلاتخافوہم وخافونِ إن کنتم مؤمنین (3:173-175) یعنی یہ وہ ہیں کہ جن کو لوگوں نے بتایا کہ دشمن نے تمھارے لیے بڑی طاقت اکھٹا کی ہے تو تم اُن سے ڈرو، اِس چیز نے ان کے ایمان میں اور اضافہ کردیا اور وہ بولے کہ اللہ ہمارے لیے کافی ہے اور اللہ بہترین کارساز ہے- پس وہ اللہ کی نعمت اور اس کے فضل کے ساتھ واپس آئے- اُن لوگو ں کو کوئی برائی پیش نہ آئی اور وہ اللہ کی رضامندی پر چلے، اور اللہ بڑا فضل والا ہے-
قرآن کی اِس آیت میں ’’قد جمعوا لکم‘‘ کے الفاظ میں جو بات نقل کی گئی ہے، وہ قدیم مدینہ کے منافقین کی بات تھی- منافقین نے جب یہ بات پھیلائی تو اس کو سن کرسچے اہلِ ایمان کا جواب کیا تھا، وہ قرآن کے اِن الفاظ سے معلوم ہوتا ہے: حسبنا اللہ ونعم الوکیل- اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ اِن اندیشہ ناک باتوں کو سن کر سچے اہلِ ایمان کے دلوں میں کوئی خوف پیدا نہیں ہوا، بلکہ اُن کا ایمان اور زیادہ بڑھ گیا-
منافق مسلمانوں اور سچے اہلِ ایمان کے درمیان یہ فرق کیوں تھا-اِس کا سبب یہ ہے کہ منافق مسلمانوں کو صرف’’مخالفین‘‘ نظر آتے تھے، وہ اِن مخالفین کی باتوں سے اپنی رائے بناتے تھے- اُن کا حال یہ تھا کہ مخالفین کی طرف سے جو پروپیگنڈہ انھوں نے سنا، اس کو اُسی طرح مان لیا اور لوگوں کے درمیان اس کا چرچا کرنے لگے-
سچے اہلِ ایمان کا معاملہ اِس سے مختلف تھا- سچے اہلِ ایمان کی توجہ ہمیشہ اللہ کے وعدوںاور اللہ کی طرف سے آئی ہوئی بشارتوں پر ہوتی تھی- سچے اہلِ ایمان کا ذہن قرآن سے اور پیغمبر کی باتوں سے بنا تھا، نہ کہ کسی اور چیز سے- اِس بناپر سچے اہلِ ایمان کے اندر یہ بصیرت پیدا ہوچکی تھی کہ وہ منفی پروپیگنڈہ کا تجزیہ کرسکیں اور مخالفین کی باتوں سے اوپر اٹھ کر اپنی رائے بنائیں-
یہی وہ حقیقت ہے جس کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: أشداء على الکفار (48:29) یعنی وہ غیرتاثر پذیر ذہن کے مالک ہیں- وہ مخالفین کی باتوں سے آزاد ہو کر اپنی رائے بناتے ہیں-
سچے اہلِ ایمان کے اِس ذہن نے ان کے اندر یہ اتھاہ یقین پیدا کردیا تھا کہ جب وہ حق کے راستے پر چل رہے ہیں تو کوئی ان کو نقصان پہنچانے والا نہیں- اپنے اِس ذہن کی بنا پر ان کا یہ حال تھا کہ وہ دوسروں کے خلاف شکایت اور احتجاج کرنے کے بجائے ہمیشہ خود اپنا جائزہ لیتے رہتے ـتھے، کیوں کہ ان کو یقین تھا کہ وہ حق پر ہیں، ان کو ضرور اللہ کی مدد پہنچتی رہے گی- اُن کے نزدیک اصل مسئلہ خود اپنے آپ کو صراطِ مستقیم پر قائم رکھنا تھا، نہ کہ دوسروں کے خلاف احتجاج کرنے کا-
واپس اوپر جائیں

مغربی تہذیب کا مسئلہ

امت مسلمہ کی تاریخ میں بہت سے ایسے مسئلے پیش آئے جن کو فتنہ کہاجاتا ہے- مثلاً باطنیت کا فتنہ، وحدتِ وجود کا فتنہ، انکارِ حدیث کا فتنہ، قادیانیت کا فتنہ ، وغیرہ- تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی ماضی میں اِس قسم کا کوئی فتنہ پیدا ہوا تو بہت سے علما اٹھے جنھوں نے قرآن اور سنت کی روشنی میں اس کا بھرپور رد کیا- اس کے بعد یہ ہوا کہ بہت سے مسلمان جو ان فتنوں سے متاثر ہوئے تھے، انھوںنے ان سے توبہ کی اور وہ امت مسلمہ کی مین اسٹریم (mainstream) میں شامل ہوگئے-
تاریخ مزید بتاتی ہے کہ اِن موقعوں پر ایسا نہیں ہوا کہ ایک فتنہ دوبارہ ایک نئے فتنے کی شکل اختیار کرلے، یعنی جو لوگ ان فتنوں سے ذہنی طورپر متاثر ہوئے تھے، انھو ں نے اپنی اصلاح کر لی اور اربابِ فتنہ سے الگ ہوکر وہ اسلامی زندگی گزارنے لگے-
موجودہ زمانے میں بھی اِسی قسم کا ایک ’’فتنہ‘‘ پیش آیا- یہ مغربی تہذیب کا فتنہ تھا- یہ فتنہ ابتدائی طورپر یورپ کی نشاةِ ثانیہ (Renaissance) کے بعد شروع ہوا اور بیسویں صدی عیسوی میں اپنے عروج پر پہنچ گیا- اُس وقت بہت سے عرب اور غیر عرب مصلحین پیدا ہوئے جنھوں ے مغربی تہذیب کے خلاف زبان وقلم کے ذریعے جہاد شروع کیا- یہ جہاد بظاہر کامیاب رہا- بہت سے مسلم نوجوان جو مغربی تہذیب سے متاثر ہوئے تھے، وہ اس سے تائب ہوگئے-
اِس کامیابی کا عمومی طور پر اعتراف کیاگیا- حتی کہ ان مصلحین میں سے کئی افراد ایسے تھے جن کو بڑے بڑے القاب دئے گئے- مثلاً مفکرِ اسلام، معمارِ ملت، عہد ساز شخصیت، مجدّدِ دوراں، وغیرہ-مگر واقعات بتاتے ہیں کہ قدیم فتنوں کے مقابلےمیں جدید فتنے کا معاملہ اپنے حقیقی نتیجہ (result) کے لحاظ سے بالکل مختلف ثابت ہوا، یعنی بظاہر نظری سطح پر خاتمہ کے نتیجے کے اعتبار سے وہ دوبارہ مزید اِضافے کے ساتھ زندہ ہوگیا- اِن مصلحین نے مسلمانوں کی جدید نسلوں کو یہ باور کرایا تھا کہ — مغربی تہذیب زہریلے پھل کا ایک درخت ہے-جدید تہذیب ایک مسلم دشمن تہذیب ہے- مغربی تہذیب کے تحت پیدا شدہ تعلیمی ادارے قتل گاہ کی حیثیت رکھتے ہیں- مسلمانوں کا تعلق مغربی تہذیب سے بائیکاٹ کا ہونا چاہئے، نہ کہ اس سے تعاون کا-
ابتدائی طورپر مسلم نوجوانوں پر بظاہر ان باتوں کا اثر ہوا- مسلم نوجوان مغربی تہذیب کے علم برداروں سے لڑنے کے لئے کھڑے ہوگئے- انھوں نے مغربی تہذیب کے تحت قائم شدہ تعلیمی اداروں کو چھوڑ دیا، انھوں نے مغربی اداروں میں جاب لینے سے انکار کردیا، وغیرہ- مگر بعد کو آسمان نے یہ منظر دیکھا کہ انھیں مسلم نوجوانوں نے بڑے پیمانے پر یوٹرن (U turn) لیا- انھوں نے اور ان کی اولاد نے مغربی تہذیب کے تحت قائم شدہ اداروں میں ڈگریاں حاصل کیں- وہ مغربی تہذیب کے اداروں کے کارکن بن گئے- وہ بہت بڑی تعداد میں مسلم ملکوں سے ہجرت کرکے مغربی ملکوں میں پہنچ گئے اور وہاں سٹل (settle) ہونے پر فخر کرنے لگے-
قدیم فتنوں اور جدید تہذیب کے فتنہ میں نتیجہ (result) کے اعتبار سے یہ فرق کیوں ہے- اس کا سبب یہ ہے کہ قدیم طرز کے فتنے صرف اعتقادی فتنے تھے، مگر مغربی تہذیب کا معاملہ یہ تھا کہ دنیا کی مادی ترقی سے وہ براہِ راست جڑا ہوا تھا- مغربی تہذیب کے علم برداروں نے جو نئی دنیا بنائی، وہ مادی اعتبار سے ایک نہایت شاندار دنیا تھی- اس کے مکانات، اس کے شہر، اس کے دفاتر، اس کی سواریاں، اس کے سامانِ حیات، ہر چیز نہایت اعلی معیار کی تھی- اِسی حقیقت کو موجودہ زمانے کے ایک مسلم شاعر نے طنزیہ انداز میں اس طرح بیان کیا تھا:
ہم مشرق کے مسکینوں کا دل مغرب میں جااٹکا ہے واں کنسٹر سب بلوری ہیں، یا ںایک پرانا مٹکا ہے
انسان اپنی نفسیات کے اعتبار سے ہمیشہ ترقی کا طالب ہوتا ہے- وہ اپنے لئے اور اپنی اولاد کے لئے زیادہ ترقی یافتہ مستقبل دیکھنا چاہتا ہے- مغربی تہذیب میں یہ پہلو نہایت اعلی درجے میں موجود تھا- یہی وجہ ہے کہ مسلم مفکرین کی خلافِ مغرب مہم ابتداء ً نظر ی طورپر کامیاب ہو کر اپنے نتیجہ کے اعتبار سے مکمل طورپر ناکام ہوگئی- مسلم نوجوان ابتدائی طورپر رومانوی جذبات کے تحت جدید تہذیب کے خلاف ہوگئے، مگر بعد کو جب انھوں نے دیکھا کہ ساری ترقیاں مغربی تہذیب اور مغربی علوم سے وابستہ ہیں، تو وہ سب کچھ بھول کر اس کے اوپر ٹوٹ پڑے- جن تعلیمی اداروں کو قتل گاہ سمجھ کر انھوں نے وقتی طورپر چھوڑ دیا تھا، وہ دوبارہ اُسی میں داخل ہوئے اور انھوں نے وہاں سے ڈگریاں حاصل کیں-جن مغربی قوموں کو انھوں نے مسلم دشمن قرار دیا ، انھیں کے اداروں میں جاب لینے کو وہ اپنے لئے قابلِ فخر سمجھنے لگے- اُن کے بزرگوں نے جن مغربی ملکوں سے ہجرت کا فتوی دیا تھا، انھیں ملکوں میں واپس جاکر وہ پُرفخر طورپر آباد ہونے لگے، وغیرہ-
اصل یہ ہے کہ مغربی تہذیب کے دو حصے تھے — ایک، اس کی سائنس اور دوسرے، اس کا کلچر- مغربی سائنس حقائقِ فطرت کے انکشاف پر مبنی تھی- اُس کے اندر ذاتی طورپر غلطی کا کوئی پہلو شامل نہ تھا- حقیقت یہ ہے کہ مغربی سائنس، قرآن کی اِس آیت کی انفولڈنگ تھی: وسخّرلکم ما فی السموات وما فی الأرض جمیعا منہ (45:13)- وہ قرآن کے الفاظ میں: وآتاکم من کل ما سألتموہ کا ٹکنالوجکل اظہار تھا- وہ آفاق وانفس کی آیات کی وہ تبیین تھی جس کی پیشگی اطلاع قرآن (41:53) میں دے دی گئی تھی-
مغربی تہذیب کا دوسرا پہلو اس کا کلچر تھا- یہ کلچر براہِ راست طورپر سائنس کی پیداوار نہ تھا، بلکہ وہ قومی اور سماجی عوامل کی پیداوار تھا- قومی اور سماجی دائرے میں خالق نے ہر انسان کو آزادی دی ہے- اِس دائرے میں انسان کو اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنی ملی ہوئی آزادی کا صحیح استعمال کرے یا وہ اس کا غلط استعمال کرے- مغربی کلچر کے جن پہلوؤں کو لے کر ہمارے علما نے اُس کے خلاف ہنگامہ آرائی کی، وہ دراصل آزادی کے غلط استعمال (misuse of freedom) کا نتیجہ تھا، نہ کہ حقیقةً مغربی سائنس کا نتیجہ- اِس معاملے میں ہمارے مفکرین کو اصولِ تمییز (principle of differentiation) کو منطبق کرنا تھا، مگر وہ ایسا نہ کرسکے- نتیجہ یہ ہوا کہ امت کے افراد ایک فتنے کے استیصال کے نام پر ایک شدید تر فتنے کا شکار ہوگئے، یعنی دہراپن- اس کا مزید نقصان یہ ہوا کہ وہ مغربی تہذیب کے پیدا کردہ مثبت مواقع کے استعمال سے محروم ہو کر رہ گئے-
واپس اوپر جائیں

فرق کا اصول

خلیفہ دوم عمر فاروق کے زمانے کا واقعہ ہے- مسلمانوں کا مقابلہ ایرانی ایمپائر سے پیش آیا- مسلمان جب پیش قدمی کرنے لگے تو ایرانی سپہ سالار رستم نے مسلم فوج کے سردار سعد بن وقاص کے پاس پیغام بھیجا کہ تم اپنا نمائندہ گفت وشنید کے لیے بھیجو - اِس موقع پر مسلمانوں کی جماعت میں سے جو لوگ رستم کے دربار میں گئے، اُن میں سے ایک ربعی بن عامر تھے- وہ دربار میں پہنچے تو رستم نے اُن سے کہا کہ تم لوگ کیوں ہمارے ملک میں آئے ہو- اِس سوال کے جواب میں ربعی بن عامر نے کہا: اللہ ابتعثنا لنخرج من شاء من عبادة العباد إلى عبادة اللہ (البدایة والنہایة، 7/39) یعنی اللہ نے ہم کو بھیجا ہے، تاکہ جو چاہے، اُس کو ہم انسان کی عبادت سے نکال کر اللہ کی عبادت میں لے آئیں-
اِس واقعے سے ایک اہم اصول اخذ ہوتاہے اور وہ ہے فرقان کا اصول، یعنی دو چیزوں کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھنا- صحابی کے قول کا مطلب یہ تھا کہ تم ہم کو حملہ آور نہ سمجھو، ہم دراصل تہذیبِ توحید کے نقیب (harbinger) بن کر آئے ہیں- ہم تمھارے لیے رحمت ہیں، نہ کہ کوئی مسئلہ-
انیسویں صدی اور بیسویں صدی میں جب نوآبادیاتی غلبہ کا دور آیا تو مسلم دنیا کے تمام رہنما، علما اور غیر علما دونوں اُن سے لڑنے کے لیے تیار ہوگئے- اِس لڑائی میں انھوں نے غیر معمولی قربانیاں پیش کیں، لیکن اس کا کوئی مثبت نتیجہ نہیںنکلا- مسلم رہنما اگر صحابی رسول کی اِس مثال سے سبق لیتے اور اس کو موجودہ صورتِ حال پر منطبق کرتے اور وہ کہتے کہ یہ نوآبادیاتی قومیں سادہ طورپر صرف حملہ آور نہیں ہیں، بلکہ وہ ایک نئی تہذیب کے نقیب (harbinger of a new civilization) ہیں- ہم کو چاہئےکہ ہم اُن سے لڑنے کے بجائے، اُن سے نئے ترقیاتی ذرائع کو سیکھیں- ہمارے رہنما اگر اِس طرح ایک پہلو کو دوسرے پہلو سے الگ کرکے دیکھتے اور اِس کے مطابق، وہ اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرتے تو آج امتِ مسلمہ کی تاریخ مختلف ہوتی- آج مسلمان شکر کرنے والا گروہ ہوتے، جب کہ آج مسلمان صرف شکایت اور احتجاج کرنے والا گروہ بنے ہوئے ہیں-
واپس اوپر جائیں

دورِ جدید موافقِ اسلام دور

آج اسلام شدید خطرے میں ہے، وہ عصری طوفانوں کی زد میں ہے— یہ بات موجودہ زمانے میں تقریباً تمام مسلمان مختلف انداز میں دہرا رہے ہیں، مگر یہ بات جتنی زیادہ دہرائی جاتی ہے، اتنی ہی زیادہ وہ بے اصل ہے- جو لوگ یہ باتیں کہتے ہیں، ان کے بارے میں یقینی طورپر کہاجاسکتا ہے کہ وہ نہ اسلام کو سمجھتے ہیں اورنہ عصری تقاضوں کو-اِس جملے میں پہلی غلطی یہ ہے کہ اس میں اسلام اور مسلم قوم دونوں کو ایک سمجھ لیاگیا ہے- موجودہ زمانے میں اگر بالفرض کوئی خطرہ ہے تو وہ صرف مسلم قوم کے لیے ہے- جہاں تک اسلام کا تعلق ہے، اس کے لیے کوئی خطرہ نہیں، کیوں کہ اسلام ایک دین ِ محفوظ ہے، اللہ نے خوداس کی حفاظت کی ذمے داری لے لی ہے، اور جس دین کا محافظ خود اللہ تعالی ہو، اس کے لیے خطرے کاکوئی سوال نہیں- اِس واقعے کا ایک عملی ثبوت یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں اسلام کے نام پر جو سرگرمیاں جاری ہیں، اتنی زیادہ سرگرمی اِس سے پہلے کبھی موجود نہ تھیں-
یہی معاملہ دورِ جدید کا ہے- دور جدید اپنی حقیقت کے اعتبار سے، ایک موافقِ اسلام دور ہے، نہ کہ مخالفِ اسلام دور- دور جدید کو مخالفِ اسلام دور بتانا، صرف اِس بات کا ثبوت ہے کہ آدمی دورِ جدید کی الف ب بھی نہیں جانتا- ایسا آدمی دراصل مسلم قومی ذہن کے تحت سوچ رہا ہے اور غلط فہمی کی بنا پر اس کو وہ اسلام کے اوپر منطبق کررہا ہے-
دورِ جدید کیا ہے، دورِ جدید عقلی طرز فکر (rational thinking) کا نام ہے، اور عقلی طرز فکر مکمل طورپر اسلام کے لیے مفید ہے- دورِ جدید مذہبی آزادی کا دور ہے، اور مذہبی آزادی مکمل طورپر اسلام کے لیے مفید ہے- دورِ جدید کمیونکیشن کا دور ہے، اور کمیونکیشن مکمل طورپر اسلام کے لیے مفید ہے- دورِ جدید پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کا دور ہے، اور پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا مکمل طورپر اسلام کے لیے مفید ہے، وغیرہ- ایسی حالت میں مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ دورِ جدید کے موافقِ اسلام پہلوؤں کو دریافت کرکے اس کو اسلام کےحق میں استعمال کریں-
واپس اوپر جائیں

دورِ فتنہ کی واپسی

عبد اللہ بن زبیر (وفات: 73 ہجری) کے زمانے میں مسلمانوں کے درمیان آپس میں جنگ ہوئی- اُس زمانے میں مشہور صحابی عبد اللہ بن عمر (وفات: 73ہجری) موجود تھے، لیکن انھوں نے اِس جنگ میں حصہ نہیں لیا- اُس زمانے کا ایک واقعہ کتابوں میں اِس طرح آیا ہے: سعید بن جبیر تابعی کہتے ہیں کہ ایک دن عبد اللہ بن عمر ہمارے پاس آئے- ایک آدمی نے اُن سے کہا کہ آپ کا کیا خیال ہے فتنہ کے خلاف جنگ کے معاملے میں- عبد اللہ بن عمر نے کہا: کیا تم جانتے ہو کہ فتنہ کیا ہے- پھر انھوں نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم مشرکوں سے جنگ کرتے تھے، اور مشرکوں کے یہاں جانا فتنہ تھا، نہ کہ تمھاری طرح اقتدار کے لیے جنگ کرنا (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 4651)
ایک اور روایت میں اِس طرح کے الفاظ آئے ہیں: نافع تابعی کہتے ہیں کہ فتنہ ابن زبیر کے زمانے میں دو آدمی عبد اللہ بن عمر کے پاس آئے - انھوں نے کہا کہ لوگ ہلاک ہورہے ہیں اور آپ عمر بن الخطاب کے بیٹے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں- آپ کو کیا چیز اِس سے روک رہی ہے کہ آپ نکلیں اور اِس جنگ میں شریک ہوں- عبد اللہ بن عمر نے کہا کہ مجھے یہ بات روکتی ہے کہ اللہ نے میرے بھائی کا خون میرے لیے حرام قرار دیا ہے- پھر اُن آدمیوں نے کہا: کیا اللہ نے قرآن میں یہ نہیں فرمایا کہ: وقاتلوہم حتى لا تکون فتنة (8:39) یعنی اُن سے لڑو، یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے- اِس کے بعد عبد اللہ بن عمر نے کہا: قاتلنا حتى لم تکن فتنة، وکان الدین للہ- وأنتم تریدون أن تقاتلوا حتى تکون فتنة، ویکون الدین لغیر اللہ(ہم نے جنگ کی، یہاں تک کہ فتنہ ختم ہوگیا اور دین، اللہ کے لیے ہوگیا- اور تم لوگ چاہتے ہو کہ تم جنگ کرو، یہاں تک کہ فتنہ لوٹ آئے اور دین دوبارہ غیر اللہ کے لیے ہو جائے)- صحیح البخاری، رقم الحدیث: 4513
نافع تابعی کہتے ہیں کہ ایک آدمی عبد اللہ بن عمر کے پاس آیا- اس نے کہا کہ اے ابو عبد الرحمن، کیا آپ کو معلوم نہیں کہ خدا نے اپنی کتاب میں یہ کہا ہے کہ اگر مسلمانوں کے دوگروہ آپس میں لڑیں تو تم اُن کے درمیان صلح کراؤ(49:9)- آپ کو اِس سے کیا چیز روکتی ہے کہ آپ وہ جنگ کریں جس کا حکم اللہ نے اپنی کتاب میں دیا ہے-عبد اللہ بن عمر نے کہا کہ تم مجھ کو اِس آیت سے غیرت دلاتے ہو کہ مجھ کو لڑنا چاہئے، مگر مجھ کو یہ زیادہ محبوب ہے کہ تم مجھ کو اُس آیت سے غیرت دلاؤ جس میں اللہ نے فرمایا کہ جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا(4:93)- اُس آدمی نے کہا کہ اللہ نے تو کہا ہے کہ تم اُن سے جنگ کرو، یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے- عبد اللہ بن عمر نے کہا کہ وہ تو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کرچکے- یہ اُس وقت کی بات ہے جب کہ اسلام قلیل تھا، چناں چہ آدمی اپنے دین کی وجہ سے ستایا جاتا تھا- لوگ یا تو اہلِ دین کو قتل کردیتے تھے یا وہ اس پر زیادتی کرتے تھے، یہاں تک کہ اسلام پھیل گیا اور فتنہ باقی نہ رہا (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 4650 )
اِس روایت میں ’’وکان الدخول علیہم فتنة‘‘ کے الفاظ آئے ہیں، یعنی مشرکین کے یہاں جانا ایک فتنہ تھا- یہ جانے والے کون لوگ ہوتے تھے- یہ وہ لوگ ہوتے تھے جو موحد اور داعی تھے- جب وہ مشرکین کے یہاں موحد کی حیثیت سے اور توحید کے داعی کی حیثیت سے جاتے تو مشرکین اُن کو طرح طرح سے ستاتے تھے، کیوں کہ توحید کا عقیدہ مشرکین کے عقیدہ شرک کے خلاف تھا- اِس کا سبب یہ تھا کہ اُس زمانے میں مذہب، سیاسی اقتدار کا ایک حصہ بنا ہوا تھا- اِسی واقعے کو ایک قدیم مقولے میں اِس طرح کہاگیا ہے: الناس على دین ملوکہم (لوگ اپنے بادشاہ کے مذہب پر ہوتے ہیں)-
قدیم زمانے میں مذہب، ریاست (state) سے وفاداری کی علامت بن گیا تھا- جو آدمی بادشاہ کے مذہب پر ہو، وہ ریاست کا وفادار سمجھا جاتا تھا، اور جو آدمی ریاست کے مذہب پر نہ ہو، وہ ریاست کا باغی قرار پاتا تھا- شرک اور اقتدار کے اِس تعلق کی بنا پر قدیم زمانے میں وہ چیز پیداہوئی جس کو قرآن میں فتنہ کہاگیا ہے، یعنی مذہبی جبر(religious persecution) - یہ فتنہ یا مذہبی جبر خدا کے تخلیقی منصوبہ کے خلاف تھا- خدا کی منشا یہ ہے کہ لوگوں کو مذہب کے معاملے میں آزادئ اختیار (freedom of choice) حاصل ہو، تاکہ اُس کے مطابق، آخرت میں اُن کے مثبت یا منفی مستقبل کا فیصلہ کیا جاسکے- اِس بنا پر اللہ تعالی نے رسول اور اصحاب رسول کو یہ حکم دیا کہ اہلِ شرک اگر پُرامن نصیحت کے ذریعے مذہبی جبر کے اِس کلچر کو ختم کرنے پر راضی نہ ہوں تو تم جنگ کرکے اِس کلچر کو ختم کردو، تاکہ انسان کو اختیار کی آزادی حاصل ہوجائے، جو کہ منصوبہ تخلیق کے مطابق، لازمی طورپر مطلوب ہے-قرآن کے الفاظ (8:39)پر غور کیا جائے تو یہ حکم صرف استیصالِ فتنہ کے لیے تھا، وہ کسی قسم کے نظام (system) کی اقامت یا نفاذ کے لیے نہ تھا، یعنی یہ حکم سلبی معنوں میں تھا، نہ کہ ایجابی معنوں میں- اِس کا مطلب صرف یہ تھا کہ مذہبی آزادی کی راہ میں جو رکاوٹ حائل ہے، وہ ختم ہوجائے- اِس کے بعد یہ آدمی کا اپنا معاملہ ہے کہ وہ اپنی آزادی کو خدا کی اطاعت کے لیے استعمال کرتا ہے، یا خدا سے انحراف کے لیے-
فتنہ ابن زبیر میں شریک ہونے والوں سے عبد اللہ بن عمر نے کہا تھا کہ: قاتلنا حتى لم تکن فتنة، وکان الدین للہ- وأنتم تریدون أن تقاتلوا حتى تکون فتنة، ویکون الدین لغیر اللہ- اِس کا مطلب، دوسرے لفظوں میں، یہ ہے کہ قرآن میں جنگ کا حکم صرف ایک مقصد کے لیے دیاگیا تھا اور وہ تھا مذہبی تعذیب (religious persecution) کو ختم کرنے کے لیے، اور اصحابِ رسول نے جنگ کرکے اس کو ختم کردیا- اب تم لوگ قرآن کی اِس آیت کے نام پر اقتدار کی جنگ کررہے ہو، جس کا نتیجہ صرف یہ ہوگا کہ دنیا میں مذہبی تعذیب کی جگہ سیاسی تعذیب (political persecution) کا دور آجائے- یہ اصلاح کے نام پر صرف فساد ہے، اور اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا-
عبد اللہ بن عمر کے اِس قول کو ایک حدیث کی روشنی میں سمجھئے- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو انتباہ دیتے ہوئے فرمایا تھا: إذا وضع السیف فی أمتی، لم یرفع عنہا إلى یوم القیامة (الترمذی، رقم الحدیث: 2202) یعنی جب میری امت میں تلوار داخل ہوجائے گی تو وہ اُس سے قیامت تک نہ اٹھائی جائے گی-
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول پیشین گوئی کی زبان میں اُس صورتِ حال کی خبر ہے جو بعد کے زمانے میں امت کے اندر بہت بڑے پیمانے پر ایک واقعہ بن گئی- تاریخ بتاتی ہے کہ رسول اللہ کی وفات کے تقریباً 25 سال بعد مسلمانوں کے درمیان’’اصلاحِ سیاست‘‘ کے نام پر باہمی جنگ کا آغاز ہوا- اِس کو قدیم اصلاح کے مطابق، ’’خروج‘‘ کہاجاتا ہے- تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ یہ سیاسی جنگ ایک بار شروع ہونے کے بعد دوبارہ کبھی ختم نہ ہوئی- ہزار سال سے بھی زیادہ مدت سے یہ جنگ امت مسلمہ کے اندر جاری ہے، کبھی ایک صورت میں اور کبھی دوسری صورت میں-
تاریخ بتاتی ہے کہ بعد کے زمانے میں مسلمانوں کے درمیان مذہب کے نام پر سیاست شروع ہوگئی- یہ طریقہ بلاشبہ اسلام کی اصل تعلیمات سے انحراف تھا- اگر اِس طریقے کو اسلام کا مطلوب طریقہ قرار دیا جائے تو کوئی کہنے والا جائز طورپر یہ کہہ سکتا ہے کہ — اسلام نے مذہبی تعذیب کو ختم نہیں کیا، بلکہ اسلام نے مذہبی تعذیب کی جگہ سیاسی تعذیب کا طریقہ رائج کردیا-اِس طرح یہ ہوا کہ مذہبی تعذیب کا دور ختم ہوگیا، لیکن اس کی جگہ شدید تر انداز میں سیاسی تعذیب کا د ور انسانی تاریخ میں واپس آگیا- یہ دوسرا دور اب تک جاری ہے— اِس پورے دور کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مذکورہ الفاظ (إذا وضع السیف فی أمتی الخ) لفظ بلفظ درست ثابت ہوئے ہیں-
اصل یہ ہے کہ قدیم مذہبی تعذیب صرف جبر کے زور پر قائم تھی، اُس کی پشت پر کوئی فلسفہ یا نظریہ موجود نہ تھا، اس لیے اُس کو ختم کرنا آسان تھا، مگر بعد کے زمانے میں سیاسی تعذیب کا جو طریقہ رائج ہوا، اس کے ساتھ ایک مبرَّر (justification) موجود تھا- اُس کو اسلامی طورپر جائز کردہ تعذیب (Islamically justified persecution) کہاجاسکتا ہے- بعد کے دور میں پیدا ہونے والے تشدد کا یہی وہ نظریاتی پہلو ہے جس کی بنا پر اس کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا کہ شروع ہونے کے بعد وہ پھر کبھی ختم نہ ہوسکا-اِس معاملے میں اہم بات یہ ہے کہ قدیم طرز کا فتنہ صرف سیاسی جبر کا ایک فتنہ تھا، اُس کو جنگ کے ذریعے ختم کیا جاسکتا تھا، لیکن بعد کے زمانے میں پیدا ہونے والا فتنہ ایک نظریاتی فتنہ ہے، اس کو جنگ کے ذریعے ختم کرنا ممکن نہیں- اُس کو ختم کرنے کے لیے ایک طاقت ور جوابی نظریہ (counter ideology) درکار ہے- کوئی بھی دوسری تدبیر اِس دوسرے فتنے کو ختم کرنے کے لیے موثر (effective) نہیں ہوسکتی-
واپس اوپر جائیں

بچوں کی تربیت

ایک مغربی ملک میں مقیم ایک مسلم خاندان نے اِس کا اظہار کیا کہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ اُن کے بچے کچھ دنوں کے لیے آکر ہمارے یہاں ٹھہریں اور ہم سے اسلامی تربیت حاصل کریں- میں نے اِس تجویز کو رد کردیا- میرے نزدیک یہ تربیت کا ایک مصنوعی طریقہ ہے- اس دنیا میں کوئی بھی نتیجہ خیز کام صرف فطری طریقے کے مطابق، انجام پاتا ہے- غیر فطری طر یقہ کسی بھی کام کے لیے ہرگز مفید نہیں-
اِس سلسلے میں مجھے ایک واقعہ یاد آتا ہے- اپریل 1981 میں ایک انٹرنیشنل کانفرنس میں شرکت کے تحت میں بار بیڈوز (Barbados)گیا تھا- اِس سلسلے میں وہاں کے مقیم مسلمانوں نے ایک مسجد میں میرا پروگرام رکھا- ایک صاحب اپنے ایک بچے کو اپنے ساتھ لے کر وہاں آئے- یہ بچہ جو تقریباً 12 سال کا تھا، وہ اصل اجتماع کے باہر ایک مقام پر اِس طرح بیٹھا کہ اس کی پیٹھ میری طرف تھی اور اس کا چہرہ دوسری طرف- ایک شخص نے اُس سے کہا کہ تم اِس طرح کیوں بیٹھے ہو، اندر چل کر لوگوں کے ساتھ بیٹھو- لڑکے نے نہایت بے پروائی کے ساتھ جواب دیا — می ناٹ (me not) یعنی مجھے اِس سے کوئی مطلب نہیں ہے-یہ واقعہ موجودہ زمانہ کے تمام مسلم خاندانوں کے لیے ایک علامتی واقعے کی حیثیت رکھتا ہے- آج کل کے لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ محنت کرکے کماتے ہیں اور پھر محبت کے نام پر اپنی کمائی کا بڑا حصہ بچوں پر خرچ کرتے ہیں- مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ محبت نہیں ہے، بلکہ وہ لاڈپیار (pampering) ہے- اور یہ ایک واقعہ ہے کہ بچوں کو بگاڑنے کا سب سے بڑا سبب یہی لاڈ پیار ہے-
کسی بچے کا ابتدائی تقریباً 10سال وہ ہے جس کو، نفسیاتی اصطلاح میں، تشکیلی دور (formative period) کہاجاتا ہے- یہ تشکیلی دوربے حد اہم ہے، کیوں کہ اِس تشکیلی دور میں کسی کے اندر جو شخصیت بنتی ہے، وہ بے حد اہم ہے- یہی شخصیت بعد کی پوری عمر میں باقی رہتی ہے- اِسی حقیقت کو ایک عربی مقولے میں اِس طرح بیان کیاگیا ہے: من شَبَّ على شیئ شاب علیہ (آدمی جس چیز پر جوان ہوتاہے، اُسی پر وہ بوڑھا ہوتا ہے)-
لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ تشکیلی دور (formative period) میں نام نہاد محبت کے ذریعے بچوں کو بگاڑ دیتے ہیں- دوسرے لفظوں میں یہ کہ آج کل کے تمام والدین اپنے بچوں کو می ناٹ بچے (me not children) بنادیتے ہیں- اس کے بعدوہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچے کسی کرشمہ ساز تربیتی طریقے (charismatic method of training) کے ذریعے اصلاح یافتہ بن جائیں-
میرے تجربے کے مطابق، اصل مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ زمانے کے والدین اپنے بچوں کی تربیت کے معاملے میں سنجیدہ نہیں- اِس معاملے میں اگر کوئی باپ زیادہ سے زیادہ سوچ پاتا ہے تو وہ صرف یہ کہ وہ اپنے بیٹے کو گول ٹوپی اور اپنی بیٹی کو اسکارف پہنا دے اور پھر خوش ہو کہ اُس نے اپنی اولاد کو اسلامی تربیت سے مزیّن کردیا ہے- تاہم اگر کوئی شخص اپنے بچوں کی تربیت کے معاملے میں سنجیدہ ہو تو اس کے لیے میں چند عملی مشورے یہاں درج کروں گا-
1- محبت کے نام پر لاڈ پیار (pampering) کو وہ اِس طرح چھوڑ دیں جیسے وہ کسی حرام کو چھوڑتے ہیں- محبت کے نام پر جو لاڈ پیار کیا جاتا ہے، اُس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ وہ بچے کو زندگی کے حقائق (realities) سے بالکل بے خبر کردیتا ہے- اِس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ بچے کے اندر حقیقت پسندانہ طرز فکر (realistic approach) نشو ونما نہیں پاتا- مزید یہ کہ اِس کے نتیجے میں بچے کے اندر ایک خود پسند شخصیت (self-centered personality) تشکیل پاتی ہے، جو کسی آدمی کے لیے کامیاب زندگی کی تعمیر میں بلا شبہہ سب سے بڑی رکاوٹ ہے-
2- اِس سلسلے میں یہ بات بہت زیادہ قابلِ لحاظ ہے کہ بچے کی عمر کا ابتدائی تشکیلی دور ماں باپ کے ساتھ گزرتا ہے- اِس دور میں بچے کے اندر جو شخصیت بنتی ہے، وہ ہمیشہ بدستور اس کے اندر باقی رہتی ہے- والدین کو جاننا چاہیے کہ اِس ابتدائی تشکیلی د ور میں اگر انھوں نے بچے کی تربیت میں غلطی کی تو بعد کے زمانے میں اس کی تلافی کبھی نہ ہوسکے گی- بعد کے زمانے میں ایسے کسی شخص کی اصلاح کی صرف ایک ممکن صورت ہوتی ہے اور وہ یہ کہ اس کو شدید نوعیت کا کوئی ہلادینے والا تجربہ (shocking experience) پیش آئے جو اس کے لیے ایک نقطہ انقلاب (turning point) بن جائے، مگر بہت کم لوگوں کو اِس قسم کا ہلادینے والا تجربہ پیش آتا ہے، اور ایسا ہلادینے والا تجربہ مزید نادر (rare) ہے، جب کہ وہ آدمی کے لیے مثبت انقلاب کا سبب بن جائے-
3- اپنے تجربے کی روشنی میں ایسے والدین کو میرا مشورہ یہ ہے کہ وہ اپنی اولاد کو ہمارے یہاں کا مطبوعہ لٹریچر اہتمام کے ساتھ پڑھوائیں، صرف ایک بار نہیں، بلکہ بار بار- اِسی کے ساتھ وہ کوشش کریں کہ اُن کے بچے ہمارے یہاں کے تیار شدہ آڈیو کیسٹ اور ویڈیو کیسٹ دیکھیں اور سنیں- مزید یہ کہ دہلی میں ہونے والا ہمارا ہفتے وار لکچر کا پروگرام پابندی کے ساتھ سنیں جو کہ ہر سنڈے کی صبح کو انڈین ٹائم کے اعتبار سے ساڑھے دس بجے شروع ہوتا ہے اور ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہتاہے-
4- یہ لازمی نوعیت کا ابتدائی پروگرام ہے- جو والدین اپنے بچوں کی اصلاح وتربیت کے خواہش مند ہوں، اُن کو لازماً اِسے اختیار کرنا چاہئے- اگر وہ اِس کو اختیار نہ کریں تو کوئی بھی جادوئی تدبیر بچوں کی اصلاح کے لیے کار آمد نہیں ہوسکتی-
واپس اوپر جائیں

بے فائدہ عمل

امریکا کی ایک کمپنی نے ایک فلم بنائی- اِس فلم کا نام تھا — مسلمانوں کی معصومیت (Innocence of Muslims)- ستمبر 2012 میں اِس فلم کا ایک مختصر حصہ انٹرنیٹ پر ڈال دیاگیا- کچھ مسلمانوں نے اس کو دیکھا- پھر مسلمانوں کے درمیان بڑے پیمانے پر اس کا چرچا ہوا- مسلمانوں نے کہا کہ اِس فلم میں پیغمبر اسلام کی توہین کی گئی ہے- اِس پر ساری دنیا کے مسلمان بھڑک اٹھے اور مختلف ملکوںمیں وہ اس فلم کے خلاف پرشور مظاہرے کرنے لگے- اِن مظاہروں کے درمیان جان ومال کا شدید نقصان ہوا-
نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (14 ستمبر 2012) میں ایک رپورٹ چھپی ہے- اِس رپورٹ کا ایک حصہ یہ ہے — حقیقت یہ ہے کہ کچھ ہی لوگوں نے اِس فلم کو چند منٹ سے زیادہ دیکھا ہوگا، اور یہ امر سخت مشتبہ ہے کہ یہ فلم کبھی مکمل کی جاتی- لیکن اس کا تھوڑا سا حصہ جو آن لائن کیاگیا، اس میں اتنا بھونڈا پن اور مصنوعیت ہے کہ کوئی بھی اس کو سنجیدگی سے نہ لیتا، مگر مسلمانوں کے مظاہروں نے اس فلم کو عالمی طورپر شہرت دے دی:
In fact, few people have seen more than a few minutes of the film, and there are doubts if it was even completed. But the little that is online is so crude and contrived that it was not even taken seriously till Islamist mobs made it world-famous. (p. 26)
اِس طرح کے فتنے کو قرآن میں شجرِ خبیثہ (14:26) کہا گیا ہے، یعنی وہ فتنہ جو اپنے آپ مرجانے والا ہو- ایسے فتنے کے بارے میں دانش مندی یہ ہے کہ اس کو نظر انداز کردیا جائے- جو فتنہ اپنے آپ مرجانے والا ہو، اس کو مارنے کی کیا ضرورت- مگر عجیب بات ہے کہ مسلمان بار بار اِس قسم کی بے دانشی کا شکار ہورہے ہیں-یہی وہ حقیقت ہے جس کو حضرت عمر فاروق نے اِن الفاظ میں بیان فرمایا: أمیتوا الباطل بالصمت عنہ -یعنی باطل کو ہلاک کرو اُس کے بارے میں چپ رہ کر-
واپس اوپر جائیں

شتمِ رسول کا مسئلہ

ستمبر 2012 میں امریکا میں ایک فلم بنائی گئی- اِس فلم کا نام تھا — انوسنس آف مسلمس- اِس فلم میں ایسے مناظر دکھائے گئے تھے جو مسلمانوں کی نظر میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ’’گستاخی‘‘کے ہم معنی تھے- اِس کے بعد دنیا بھر کے مسلمان بھڑک اٹھے- شرق سے غرب تک، ہر جگہ اس کے خلاف پرشور احتجاج ہونے لگا- ہر جگہ دھوم کے ساتھ جذباتی مظاہرے اور تقریریں کی گئیں- اِن مواقع پر مسلمان جگہ جگہ اپنے مظاہروں کے دوران جو پلے کارڈ (placard) بلند کیے ہوئے تھے، اُن ;کی نوعیت کا اندازہ اُن پر لکھے ہوئے حسب ذیل الفاظ کے ذریعے کیا جاسکتا ہے:
Obama, Obama, we like Osama!
Behead all those who insult the Prophet!
Insulting the Prophet is insulting 1.5 billion Muslims!
The Prophet is dearer to us than our lives!
اِس سلسلے میں دنیا کے مختلف ملکوں میں جو پرشور مظاہرے کئے گئے، اُن میں سےایک پاکستان کا وہ مظاہرہ تھا جو 28 ستمبر 2012 کو ’’یومِ عشقِ رسول‘‘ کے طور پر منایا گیا- اِس واقعے کی رپورٹ لاہور کے ہفت روزہ سنڈے میگزین نوائے وقت (30 ستمبر 2012) میں شائع ہوئی ہے- اِس رپورٹ کے کچھ حصے یہاں نقل کئے جاتے ہیں: ’’پاکستانی قوم نے جمعہ کو یومِ عشقِ رسول منایا- گستاخانہ امریکی فلم کے خلاف ’’یومِ عشقِ رسول‘‘ پر عوامی رد عمل کے دوران غیر معمولی توڑ پھوڑ اور تشدد کے واقعات ہوئے-اِن پر تشدد واقعات میں صرف جمعہ کو 32 افراد جاں بحق ہوئے اور 200سے زائد افراد زخمی ہوئے- کراچی میں 5 سینما گھر، تین بینک اور لاتعداددکانیں لوٹنے کے بعد جلا دی گئیں، گاڑیوں کو توڑا گیا، لوگوں پر ڈنڈے برسائے گئے، 4 پولیس موبائلیں اور بکتر بند گاڑیاں بھی جلا دی گئیں- اس دوران اسپتالوں پر بھی حملے کئے گئے اور اربوں روپیے کی املاک دھوئیں کی نذر ہوگئیں‘‘- (صفحہ: 4)
’’گستاخی رسول‘‘کے سوال پر اِس طرح کے پرتشدد واقعات مسلمانوں کی طرف سے ہر جگہ ہورہے ہیں، پاکستان میں بھی اور دوسرے ملکوں میں بھی- اِن واقعات کی رپورٹ برابر پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا دونوں میں آرہی ہے- اِس صورتِ حال کو دیکھ کر ساری دنیا میںایک سوال کیا جارہا ہے، وہ یہ کہ — پُر امن گستاخی کے جواب میں مسلمان خود پرتشدد گستاخ کیوں بن جاتے ہیں، رسول کی شان میں ’’گستاخی‘‘ کرنے والا صرف یہ کرتا ہے کہ وہ اِس قسم کی ایک کتاب شائع کرتا ہے، یا اخبار میں ایک کارٹون چھاپ دیتاہے، یا ایک فلم بنا کر اس کو انٹرنیٹ پر ڈال دیتا ہے- یہ اگر گستاخی ہے تو وہ یقینی طور پر ایک پرامن گستاخی ہے، لیکن اس کے جواب میں مسلمان جو کچھ کرتے ہیں، وہ مبیّنہ طورپر ایک پرتشدد رد عمل یا پرتشدد گستاخی کا معاملہ ہے-
پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اسلامی شریعت دی ہے، اُس میں واضح طورپر اِس طرح کے معاملات میں ایک اصول بتایا گیا ہے ، وہ اصول قِصاص(2:178) کا اصول ہے، یعنی برابر کا بدلہ (equal retribution)- قصاص کی تعریف (definition) قرآن میں اِن الفاظ میں دی گئی ہے: وإن عاقبتم فعاقبوا بمثل ما عوقبتم بہ، ولئن صبرتم لہو خیر للصابرین(16:126)- تم بدلہ لو تو اتنا ہی بدلہ لو جتنا کہ تمھارے ساتھ کیا گیا ہے- اِس سلسلے میں قرآن کی ایک اور آیت کے الفاظ یہ ہیں: وجزاء سیّئةٍ سیّئةٌ مثلہا، فمن عفا وأصلح فأجرہ على اللہ، إنہ لا یحب الظلمین(42:40) یعنی برائی کا بدلہ ہے ویسی ہی برائی، پھر جس نے معاف کردیا اور اصلاح کی تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے- بے شک اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا-
دو آپشن
قرآن کی مذکورہ آیتوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس طرح کے معاملے میں اہل ایمان کے لیے دو میں سے ایک کا آپشن (option) ہے — ایک، عفو اور صبر کا آپشن اور دوسرا، قصاص کا آپشن- اِس طرح کے معاملے میں مسلمانوں کے لیے اِنھیں دو میں سے ایک کا آپشن جائز ہے، اس کے سوا کوئی تیسرا آپشن لینااُن کے لیے سرے سے جائز ہی نہیں-قتل کے معاملے میں اسلامی شریعت کا ایک مسلّمہ قانون یہ ہے کہ زمانہ جنگ میں بھی صرف مقاتل(combatant) کو مارا جائے گا، غیر مقاتل (non-combatant) کو مارنا جنگ کے زمانے میں بھی جائز نہیں- ایسی حالت میں اسلام کیسے اجازت دے سکتاہے کہ امن کی حالت میں غیر مقاتل یا پرامن افراد کو مارا جائے-
عفو اور صبر کے آپشن کا مطلب یہ ہے کہ آپ پیش آمدہ معاملے پر رد عمل کی نفسیات کے تحت نہ سوچیں، بلکہ اصلاح کی نفسیات کے تحت سوچیں- آپ یہ سوچیں کہ جو شخص اِس ’’گستاخی‘‘ میں ملوث ہوا ہے، وہ بھی ایک انسان ہے- اس کے اندر بھی وہی فطرت موجود ہے جو دوسرے انسانوں کے اندر ہوتی ہے- اِس لیے آپ ہمدردانہ انداز میں اس کی فطرت کو ایڈریس کرنے کی کوشش کریں- ہوسکتا ہے کہ اس کی اصلاح ہوجائے اور وہ توبہ کرکے اللہ کے نیک بندوں میں شامل ہوجائے-
اِس معاملے میں دوسرا آپشن وہ ہے جس کو قرآن میں قصاص کہا گیا ہے- یہ ثانوی درجے کا آپشن ہے- اِس کی حیثیت صرف ایک قانونی جواز کی ہے- جہاں تک اسوہ رسول کا معاملہ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس طرح کے معاملے میں ہمیشہ عفو اور صبر اور اصلاح کے طریقے کو اختیار فرمایا، کیوں کہ یہی طریقہ عزیمت اور خُلقِ عظیم کا طریقہ ہے- جیسا کہ اِس سلسلہ کلام کے تحت اگلی آیت میں ارشاد ہوا ہے: ولمن صبر وغفر إن ذلک لمن عزم الأمور (42:43) یعنی جس شخص نے صبر کا طریقہ اختیار کیا اور معاف کردیا، تو بے شک یہ بڑی عزیمت کے اوصاف میں سے ہے-
جراحت (harm) کی دو قسمیں ہیں — ایک، جسمانی جراحت (physical harm) اور دوسرے، نفسیاتی جراحت(psychological harm) - دونوں قسم کی جراحتوں کی نوعیت ایک دوسرےسے مختلف ہے- قرآن کی مذکورہ آیتوں کے مطابق، جسمانی جراحت کی صورت میں ہمارے لیے دو آپشن ہیں—  قصاص، اورعفو-
جیسا کہ عرض کیاگیا ، قصاص کا مطلب ہے: برابر کا بدلہ لینا، یعنی جتنا کسی نے کیا ہے، ٹھیک اتنا ہی اس کے ساتھ کرنا- اِس کے مقابلے میں، عفو کا مطلب ہے: یک طرفہ طورپر صبر کرلینا، نہ کوئی عملی کارروائی کرنااور نہ زبان سے اس کے خلاف شکایت یا احتجاج کے الفاظ بولنا- گویا اسلامی تعلیم کے مطابق، جسمانی جراحت کی صورت میں اہلِ ایمان کے لیے دو آپشن ہیں، لیکن نفسیاتی جراحت کی صورت میں اُن کے لیے صرف ایک آپشن ہے، اور وہ صبر کا آپشن ہے-
قصاص کا اصول
جیسا کہ عرض کیا گیا ، اِس طرح کے معاملے میں قصاص کا آپشن ثانوی آپشن ہے- اگر مسلمانوں کو قصاص کا آپشن لینا ہے تو لازمی طورپر انھیں یہ کرنا ہوگا کہ وہ فریقِ ثانی کے ساتھ برابر کا معاملہ کریں، یعنی یہ کہ جتنا کسی نے کیا ہے، مسلمان بھی اس کے خلاف اتنا ہی کریں- اگر کسی شخص نے ایک کتاب چھاپی ہے تو مسلمان بھی اس کے جواب میں ایک کتاب شائع کریں- کسی نے اگر کوئی قابلِ اعتراض آرٹکل یا کارٹون چھاپا ہے تو اس کے جواب میں مسلمان بھی اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کے لیے ایک اور آرٹکل چھاپیں- اگر کسی نے اسٹیج پر ایک تقریر کی ہے تو مسلمان بھی اس کے جواب میں اسٹیج پر ایک تقریر کریں- اگر کسی نے ایک اخباری بیان دیا ہے تو مسلمان بھی اس کے جواب میں ایک مدلل اخباری بیان دیں- مسلمان اگر اِس طرح کے معاملے میں پیغمبر کے اسوہ کے مطابق، عفو وصبر کا طریقہ اختیار نہیں کرسکتے تو اسلامی شریعت کے مطابق، اُن کو صرف یہ حق ہے کہ وہ قلم کا جواب قلم سے دیں اور تقریر کا جواب تقریر سے دیں- اِس کے برعکس، قلم کا جواب پرتشدد مظاہرہ کے ذریعے دینا یا پر امن اعتراض کے جواب میں توڑ پھوڑ کرنا ایک ایسا فعل ہے جو بلاشبہہ حرام کے درجے میں قابلِ ترک ہے-رسول اور اصحاب رسول کی مثال سے یہی طریقہ ثابت ہوتا ہے- جیسا کہ معلوم ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مخالفین نے بہت بڑے پیمانے پر وہ سب کچھ کیا جس کو ’’شتمِ رسول‘‘ کہاجاتا ہے، مگر رسول اور اصحابِ رسول نے کبھی اس کے جواب میں احتجاج اور ہنگامے کا طریقہ اختیار نہیں کیا- اِس کے برعکس جو کچھ ہوا، وہ صرف یہ تھا کہ حسان بن ثابت انصاری اپنے اشعار کے ذریعے سے اس کا جواب دیتے تھے- واضح ہو کہ اُس زمانے میں شاعری کا وہی درجہ تھا جو موجودہ زمانے میں صحافت کا درجہ ہے-
پرامن احتجاج
کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ احتجاج (protest) ہمارا ایک مسلّمہ حق ہے، اِس لیے مسلمانوں کو لازماً اِس طرح کے واقعات پر احتجاج کرنا چاہئے، البتہ یہ ضروری ہے کہ اُن کا یہ احتجاج پرامن ہو- مگر یہ شرط ایک ایسی شرط ہے جو عملاً کبھی پوری ہونے والی نہیں- عوامی احتجاج میں دو میں سے ایک برائی کا پیش آنا یقینی ہے، یا تو وہ بظاہر پر امن احتجاج کسی مرحلے میں پہنچ کر لوگوں کو مشتعل کردے گا اور پر امن احتجاج فوراً ہی پرتشدد احتجاج میں تبدیل ہوجائے گا- آغاز میں بظاہر وہ ایک پرامن احتجاج کی حیثیت سے شروع ہوگا، لیکن آخر میں وہ توڑ پھوڑ اور فساد اور تخریب کی شکل اختیار کرلے گا، جس کی ایک مثال پاکستان کے مذکورہ احتجاجی واقعے میں نظر آتی ہے-
اگر بالفرض کوئی احتجاج واقعةً پرامن احتجاج ہو، وہ اول سے آخر تک امن کی شرط پر قائم رہے، تب بھی عملاً وہ ایک فساد کی حیثیت رکھتا ہے، کیوں کہ اس کے نتیجے میں وہ سنگین برائی پیدا ہوتی ہے جس کو باہمی نفرت کہاجاتا ہے، اور نفرت بلاشبہ ایک منفعل تشدد (passive violence) ہے- یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ تشدد اگر ایک بم ہے تو نفرت ایک ٹائم بم (time-bomb) -
احتجاج کا حق
’’شتمِ رسول‘‘ کے مسئلے پر ساری دنیا کے مسلمان پُر شور احتجاج (protest) کررہے ہیں- اِس پُر شور احتجاج کے جواز کے لیے مسلمان یہ کہتے ہیں کہ — حقوقِ انسانی (human rights) کے مسلّمہ اصول کے تحت احتجاج ہمارا ایک جائز حق ہے-
سڑکوں پر احتجاجی جلوس نکالنا کوئی سادہ بات نہیں- گہرائی کے ساتھ غور کیجئے تو یہ ایک ایسا طریقہ ہے جس کو رسول اور اصحابِ رسول نے کبھی اختیار نہیں کیا- مسلمان آج جس طرح کے واقعات پر جگہ جگہ احتجاجی جلوس نکالتے ہیں، اُس طرح کےناخوش گوار واقعات خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں زیادہ بڑے پیمانے پر موجود تھے- مثلاً مقدس کعبہ میں مشرکین کی طرف سے سیکڑوں کی تعداد میں بتوں کا نصب کیا جانا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھلے طورپر، نعوذ باللہ، مذمَّم اور مجنون کہنا، وغیرہ- مگر حدیث اور سیرت کی کتابوں سے واضح طورپر یہ معلوم ہوتاہے کہ رسول اور اصحابِ رسول نے کبھی اُس کے خلاف احتجاج کا طریقہ اختیار نہیں کیا- رسول اور اصحابِ رسول کے اِس ثابت شدہ عمل سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ احتجاج کا طریقہ یقینی طور پر اسلام کا طریقہ نہیں-
پھر احتجاج کا طریقہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کو کہاں سے ملا- یہ طریقہ انھوں نے حقوقِ انسانی کی جدید شریعت سے اخذ کیا ہے-یہ انسانی شریعت کی ایک دفعہ ہے جس کو 1948میں اقوامِ متحدہ کے یونی ورسل ڈیکلریشن (universal declaration) کے ذریعہ وضع کیا گیا -
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ زندگی کے دو طریقے ہیں — ایک ہے، حبل اللہ کے تحت جینا، اور دوسرا ہے، حبل الناس کے تحت جینا (3:112)- حبل اللہ کے تحت زندگی کا حق ملنا کسی امت کی مطلوب حالت ہے، اور حبل الناس کے تحت زندگی کا حق ملنا سرتا سر غیر مطلوب حالت- قرآن میں حبل اللہ اور حبل الناس کے الفاظ کسی امت کی دو مختلف حالتوں کو بتانے کے لیے آئے ہیں- امت کی ایک حالت وہ ہے جب کہ اس کے اندر خوفِ خدا کی روح موجودہو اور وہ اپنے عمل کا نقشہ حبل اللہ، بالفاظِ دیگر، خدائی تعلیمات (قرآن وسنت) سے اخذ کرے، اور حبل الناس کا مطلب یہ ہے کہ امت بے خوفی کی نفسیات میں مبتلا ہوگئی ہو اور اتباعِ شہوات (19:59)کی بنا پر وہ اپنے عمل کا نقشہ تعلیمات الہی سے اخذ کرنے کے بجائے انسان کے وضع کردہ ضابطوں سے اخذ کرنے لگے-
حبل اللہ اور حبل الناس کی اِس قرآنی تقسیم کے مطابق دیکھئے تو معلوم ہوگا کہ موجودہ زمانے کے مسلمان خود اپنی زبان سے یہ اعلان کررہے ہیں کہ اِس معاملے میں وہ حبل اللہ پر قائم نہیں ہیں، بلکہ وہ حبل الناس پر قائم ہیں- وہ اپنے بگڑے ہوئے مزاج کی بنا پر اپنی احتجاجی روش کا جواز حبل اللہ میں نہ پاکر اس کو حبل الناس سے اخذ کررہے ہیں، اور اپنے بگڑے ہوئے مزاج کی بنا پر وہ یہ کررہے ہیں کہ اپنی غیر اسلامی روش کے لیے وہ حبل اللہ کے بجائے حبل الناس کا حوالہ دے رہے ہیں، جو کہ ان کی قومی خواہشات کے مطابق ہے- یہی وہ چیز ہے جس کو قرآن میں اتباعِ شہوات کہاگیا ہے-
یہ کوئی سادہ بات نہیں- آپ قرآن کی مذکورہ آیت (3:112) کا مطالعہ کیجئے اور دیکھئے کہ اس میں کس گروہ کے بارے میں یہ کہا گیاہے کہ وہ حبل اللہ کے بجائے حبل الناس سے اپنے لیے زندگی کا حق حاصل کررہا ہے، یہ بلاشبہہ ایک نہایت سنگین بات ہے- اِس طرح مسلمان اپنے آپ کو اُس گروہ کے ساتھ بریکٹ کررہے ہیں جس کے بارے میں وہ خود صبح وشام یہ اعلان کرتے ہیں کہ وہ اللہ کے نزدیک ایک مغضوب اور ملعون گروہ کی حیثیت ہے-
واپس اوپر جائیں

فطرت کی آواز

ایک خبر کے مطابق، آرایس ایس کے سابق سرسنگھ چالک سی کے سدرشن (85 سال) 20 اگست 2012 کو عید الفطر (1433 ہجری) کے دن بھوپال میں على الصبح اپنی قیام گاہ سے نکل کر بھوپال کی تاریخی مسجد (تاج المساجد) کی طرف روانہ ہوگئے- انھوں نے بتایا کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ عید کی نماز پڑھنے کے لیے تاج المساجد جارہے ہیں- اس سے کئی انتظامی مسئلے پیدا ہوگئے، اِسی لیے مدھیہ پردیش کے ایک سینئر بی جے پی لیڈر نے مداخلت کی- اس کے بعد مسٹر سدرشن کو ایک مقامی مسلمان کے گھر لے جایا گیا- وہاں انھوں نے کئی مسلمانوں سے مصافحہ کیا اور ان کو عید کی مبارک باد دی اور عید کی سوئیاں کھائیں- مسٹر سدرشن نے اِس سے پہلے ایک بار انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ انھیں مسلمانوں کا طریقِ عبادت بہت اچھا لگتا ہے- لوگوں کا ایک صف میں کھڑا ہونا، ایک ساتھ ہاتھ باندھنا، ایک ساتھ جھکنا اور ایک ساتھ اپنی پیشانی کو زمین پر رکھنا اُن کو بہت متاثر کرتا ہے- ان کو یہ طریقِ عبادت ڈسپلن کی بہترین مثال معلوم ہوتا ہے- اِسی نوعیت کا ایک واقعہ 1950 میں پیش آیا تھا- یہ واقعہ یوپی کے ایک وزیر مسٹرگووند سہائے کا ہے- وہ آرایس ایس کے خصوصی ممبر تھے- بعد کو انھوں نے آرایس ایس کو چھوڑ دیا- اِس کی وجہ انھوں نے یہ بتائی تھی کہ ان کو مسلمانوں کے خلاف آرایس ایس کی انتہا پسندانہ پالیسی غیر حقیقی نظر آتی تھی- انھوں نے آرایس ایس چھوڑنے کے بعد اِس موضوع پر ایک کتاب (Why I Left RSS) لکھی- (راشٹریہ سہارا اردو، نئی دہلی، 23 اگست 2012، صفحہ 7)
اِس طرح کے واقعات بتاتے ہیں کہ دین ِ حق اور دوسرے لوگوں کے درمیان ایک فطری ’کلمہ سواء‘ (natural common ground)موجود ہے- دین ِ حق کے حاملین کے لیے بہترین آغاز ِ کار یہ ہے کہ وہ اِس فطری کلمہ سواء کو استعمال کرتے ہوئے اپنا کام کریں- یہ بلاشبہہ ایک بہترین طریقِ کار ہے- مگر اِس امکان کو کامیاب طورپر استعمال کرنے کے لیے ضروری شرط یہ ہے کہ طرفین کے درمیان کشیدگی کا ماحول نہ ہو، بلکہ معتدل ماحول ہو- طرفین کے درمیان کشیدگی یا غیر معتدل ماحول میں اِس کام کو انجام نہیں دیا جاسکتا-
واپس اوپر جائیں

تاریخ انسانی کا خاتمہ

12 اگست 2012 کو امریکا کی ایک خبر تمام اخباروں میں نمایاں طورپر شائع ہوئی- وہ خبر یہ تھی کہ ایک امریکی صحافی کو نظریاتی سرقہ (plagiarism) کا مرتکب پایا گیا اور اِس بنا پر اس کو اس کے صحافتی جاب سے فوری طورپر معطل کردیاگیا- اس خبر کی سرخی یہ تھی:
American journalist suspended for plagiarism.
نظریاتی سرقہ (plagiarism) کیاہے، وہ دراصل کسی شخص کی فکری پراپرٹی (intellectual property) کا سرقہ کرنے کا نام ہے- نظریاتی سرقہ یہ ہے کہ کسی شخص کے آئڈیا کو اصل مصنف کے حوالے کے بغیر اپنا بنا کر نقل کیا جائے:
Plagiarism: Copying someone's idea without crediting the original author. (Merriam-Webster Dictionary)
یہ معاملہ امریکا کے مشہور صحافی مسٹر فرید زکریا کا ہے-وہ امریکی میگزین ٹائم (Time) کے ایڈیٹر تھے- انھوں نے ٹائم کے شمارہ 20 اگست 2012 میں اپنا ایک مضمون گن کلچر کے موضوع پر شائع کیا- اِس کا عنوان یہ تھا: The Case for Gun Control
اِس مضمون میں انھوںنے ایک پیراگراف شامل کیا تھا جو پورا کا پورا، ایک اور شائع شدہ مضمون سے لیا گیا تھا- یہ دوسرا مضمون امریکا کی ایل (Yale) یونی ورسٹی کی ایک خاتون پروفیسر جل لیپور (Jill Lepore) کا تھا، جس کو مسٹر فرید زکریا نے بلا حوالہ اپنے مضمون میں شامل کرلیا تھا- یہ مضمون امریکا کے ایک اخبار نیویارکر (The New Yorker) کے شمارہ 22اپریل 2012 میں اس عنوان کے تحت چھپا تھا— Battleground America
نظریاتی سرقہ کا یہ واقعہ جو عالمی میڈیا میں آیا ہے، وہ کوئی سادہ واقعہ نہیں- وہ دراصل اِس قسم کے ایک زیادہ بڑے سرقہ (super plagiarism) کے لیے ایک یاددہانی (reminder) کی حیثیت رکھتا ہے- وہ ایک انسان کی برخاستگی کے حوالے سے یہ یاد دلا رہا ہے کہ شاید وہ وقت آگیا ہے جب کہ کائنات کا مالک پوری تہذیب کو برخاست کردے-
سترھویں صدی عیسوی سے پہلے دنیا میں روایتی دور قائم تھا- اس کے بعد دنیا میں سائنٹفک دور کا آغاز ہوا- سائنٹفک دور سے مراد وہ دور ہے جب کہ انسان نے نیچر (nature)پر آزادانہ غور وفکر شروع کیا- اِس غور وفکر کے بعد یہ ہوا کہ نیچر میں چھپے قوانین ایک کے بعد ایک دریافت ہونے لگے- مثلاً پانی میں اسٹیم پاور کی دریافت، اور مادّہ (matter) میں بجلی (electricity)کی دریافت، وغیرہ-جدید دنیا، خاص طور پر مغربی دنیا میں کئی سو سال تک اِس موضوع پر رسرچ جاری رہی، یہاں تک کہ فطرت میں چھپے ہوئے ہزاروں قوانین دریافت ہوگئے- اِن کے ذریعے ایک نئی ٹکنالوجی بنی اور بہت سے نئے فنی علوم وجود میں آئے- وہ ظاہرہ جس کو جدید مغربی تہذیب کہا جاتا ہے، اس کی تشکیل تمام تر انھیں دریافت کردہ قوانین فطرت پر مبنی ہے-
یہ قوانین جو موجودہ زمانے میں معمارانِ تہذیب نے دریافت کیے، اُن کو سائنسی قوانین (scientific laws) کہاجاتا ہے- مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے، یہ سائنسی قوانین نہیں ہیں، بلکہ وہ خدائی قوانین(divine laws) ہیں- خدائی قوانین کو نظامِ فطرت سے لینا اور اُن کو سائنس قوانین کے نام پر اپنا بناکر پیش کرنا، یہ بلاشبہہ ایک سپر سرقہ(super plagiarism) کا کیس ہے- تہذیب جدید کے معمار وں کا یہ واقعہ بھی بلا شبہہ اِسی قسم کا ایک سرقہ ہے- امریکی صحافی کا سرقہ اگر جرنلسٹک سرقہ (journalistic plagiarism) تھا تو معمارانِ تہذیب کا سرقہ سائنٹفک سرقہ (scientific plagiarism) ہے- امریکی صحافی نے تو صرف اپنے ایک آرٹکل میں نظریاتی سرقہ کا ارتکاب کیا تھا، جب کہ مغربی تہذیب کا پورا کا پورا ڈیولپمنٹ اِسی قسم کے عظیم تر نظریاتی سرقہ کی بنا پر ہوا ہے- امریکی جرنلسٹ کا سرقہ اگر صرف ایک انفرادی سرقہ تھا تو مغربی تہذیب کا سرقہ اس کے مقابلے میں ایک عالمی سرقہ (global plagiarism) کی حیثیت رکھتا ہے-
دنیا سے انسان کے بے دخلی
تہذیب کی ترقی کے نام پر مذکورہ سائنسی سرقہ کئی سو سال سے بڑے پیمانے پر ساری دنیا میں جاری ہے، مگر اِس مدت میں اہلِ تہذیب کے درمیان کوئی شخص نہیں اٹھا جو یہ اعلان کرے کہ یہ تمام تہذیبی ترقیاں خدائی قوانین (divine laws)کی بنا پر ممکن ہوئی ہیں- ہم کو چاہیے کہ ہم کھلے طورپر اِس حقیقت کا اعتراف کرلیں- بے اعترافی کا یہ معاملہ اب اپنی آخری حد پر پہنچ چکا ہے- اب آخری طورپر وہ وقت آگیا ہے، جب کہ کائنات کا خالق انسان کو زمین کے چارج سے بے د خل کردے اور زمین کا اور پوری دنیا کا نظام حقیقتِ واقعہ کی بنیاد پر قائم کرے-
دنیا کا یہ انجام پیشگی طورپر مقدر تھا- خدا نے پیشگی طورپر یہ اعلان کردیا تھا کہ ایک وقت آئے گا جب کہ انسان کو زمین کے چارج سے بے دخل کردیا جائے اور دنیا کا نیا نظام بنایا جائے- اِس سلسلے میں قرآن کا ایک بیان یہ ہے: وما قدروا اللہ حق قدرہ، والأرض جمیعا قبضتہ یوم القیامة، والسماوات مطویّات بیمینہ، سبحانہ وتعالى عما یشرکون (39:67)-
اِس آیت میں ’قدر‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے- قدر کا مطلب ہے اندازہ کرنا، یعنی انسان جو کچھ دنیا میں کررہا ہے، وہ اِس لیے کررہا ہے کہ اس نے خالق کا کم تر اندازہ (under-estimation) کررکھا ہے- یہ کم تر اندازہ کیا ہے، اِس کم تر اندازہ کو قرآن کی ایک آیت میں اِس طرح بیان کیاگیاہے: افحسبتم أنما خلقناکم عبثاً وأنکم إلینا لا ترجعون(23:115) یعنی کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ہم نے تم کو بے مقصد پیدا کیا ہے اور تم ہمارے پاس نہیں لائے جاؤگے-
اس سلسلے میں حدیث کی کتابوں میں ایک روایت آئی ہے- یہ روایت قرآن کی مذکورہ آیت (وما قدروا اللہ حق قدرہ) کی مزید تشریح کرتی ہے- روایت کے الفاظ یہ ہیں: عن ابن عمر أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرأ ہذہ الآیة ذات یوم على المنبر ’’وما قدروا اللہ حق قدرہ، والأرض جمیعاً قبضتہ یوم القیامة والسماوات مطویات بیمینہ، سبحانہ وتعالى عما یشرکون‘‘ ورسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم یقول ہکذا بیدہ ویحرکہا یقبل بہا أو یدبر یمجد الرب نعتہ: أنا الجبار، أنا المتکبر، أنا الملک، أنا العزیز، أنا الکریم، فرجف برسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم المنبر حتی قلنا لیخرنّ بہ (السلسلة الصحیحة، 7/596) یعنی عبد اللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن ممبر کے اوپر قرآن کی مذکورہ آیت پڑھی- اُس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں کو حرکت دیتے ہوئے کہا کہ اللہ اپنی تمجید کرے گا اور کہے گا کہ میں ہوں جبار، میں ہوں متکبر، میں ہوں بادشاہ، میں ہوں زبردست، میں ہوں کریم- کہاں ہیں زمین کے بادشاہ، کہاں ہیں جبار، کہاں ہیں متکبر- یہ کہتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر لرزہ طاری ہوا، یہاں تک کہ ہم نے کہا کہ شاید آپ گر پڑیں-
بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ وقت آگیا ہے جب کہ خالقِ کائنات ظاہر ہو اور براہِ راست طورپر دنیا کا چارج لے لے- اسباب کے اعتبار سے، یہ کہنا درست ہوگاکہ قرآن میں جس آنے والے وقت کی پیشین گوئی کی گئی تھی، وہ وقت بالفعل آچکا ہے، اُس وقت کے آنے میں اب کوئی دیر نہیں-
لائف سپورٹ سسٹم کی تباہی
دنیا میں زندگی گزارنے کے لیے انسان کو بہت سی چیزوں کی ضرورت ہے- مثلاً پانی، روشنی، آکسیجن، نباتات، وغیرہ- اِن چیزوں کے مجموعے کو لائف سپورٹ سسٹم (life support system) کہاجاتا ہے، یعنی معاونِ حیات نظام- سائنس کی تحقیقات بتاتی ہیں کہ زمین پر یہ معاونِ حیات نظام خطرناک حد تک بگڑ گیاہے، سائنس داں برابر یہ انتباہ دے رہے ہیں کہ زمین پر انسان کی آبادکاری بہت جلد ناممکن ہوجائے گی، یہاں تک کہ مشہور برٹش سائنس داں اسٹفن ہاکنگ نے اِس صورت حال کی نشان دہی کرتےہوئے کہا ہے کہ ہم کو اب خلائی بستیاں (space colonies) بنانا چاہیے، حالاں کہ اسٹفن ہاکنگ اور دوسرے تمام لوگ جانتے ہیں کہ یہ تجویز عملاً ممکن نہیں-
زمین کا وہ حصہ جس کو آرکٹک (Arctic) کہاجاتا ہے، یہ برف کے بہت بڑے پہاڑ کی مانند ہے جو کئی ہزار مربع میٹر کے رقبے میں پھیلا ہوا ہے- یہ برفانی پہاڑ زمین پر موسم کے توازن کو قائم رکھنے کے لیے بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے- آرکٹک (قطب شمالی) کا یہ منطقہ مختلف پہلوؤں سے زمین پر انسان کی آبادی کے لیے بے حد اہمیت رکھتا ہے- مگر بیسویں صدی کے ربع آخر میں، جب سے گلوبل وارمنگ کے ظاہرے نے شدت اختیار کی ہے، قطب شمالی کی یہ برف بہت تیزی سے پگھل رہی ہے- سائنس دانوں کے اندازے کے مطابق، شایداندیشہ ہے کہ اگلے 10 برسوں میں یہ پورا برفانی پہاڑ پگھل کر سمندروں میں چلا جائے- اِس کی بنا پر مختلف قسم کے خطرناک نتائج پیدا ہوں گے جو زمین کو انسان کے لیے ناقابلِ رہائش بنا دیں گے-اس سائنسی تحقیق کا خلاصہ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا ( 14اگست 2012) میں حسب ذیل عنوان کے تحت شائع ہوا ہے:
Arctic Sea Ice May Vanish in 10 Years (p. 19)
خلاصہ کلام
اوپر جو کچھ لکھا گیا، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان نے اُس نوعیت کا ایک بہت بڑا واقعہ کیا ہے جس کو نظریاتی سرقہ کہاجاتا ہے- وہ چیز جس کو جدید تہذیب کہا جاتا ہے، وہ پوری کی پوری اِسی جرم کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے- اِس جرم میں موجودہ زمانے کی پوری آبادی شریک ہے- جن لوگوں نے اِس تہذیب کو وجود دیا، وہ اِس جرم میں براہِ راست طورپر شریک ہیں، اور بقیہ لوگ جو تہذیب کے اِس جرم پر نکیر (denial) کیے بغیر اُس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، وہ بالواسطہ طورپر اِس جرم میں شریک ہیں-
اِس نظریاتی سرقہ (plagiarism)کے خلاف خالق کی کارروائی اب مستقبل بعید کی چیز نہیں رہی- یہ کارروائی اب عملاً شروع ہوچکی ہے- اِس کارروائی کو ایک لفظ میں اِس طرح کہا جاسکتا ہے کہ خالق نے یہ فیصلہ کردیا ہے کہ انسان کو مذکورہ جرم کی بنا پر زمین سے بے دخل کردیا جائے- خالق کا یہ فیصلہ لائف سپورٹ سسٹم کے خاتمے کی صورت میں بتدریج ظاہر ہورہا ہے- بظاہر وہ وقت بہت قریب آچکا ہے جس کی پیشین گوئی قرآن کی مختلف آیتوں میں کی جاچکی تھی-
نوٹ: صدر اسلامی مرکز کا مذکورہ خطاب سی پی ایس کے حسب ذیل ویب سائٹ پر دیکھا جاسکتا ہے:
http://cpsglobal.org/content/end-human-history-12th-aug-12
واپس اوپر جائیں

ایک خط

برادرِ محترم مولانا محمد اکرم الزہری (مسقط،عمان)
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
امید کہ آپ مع متعلقین بخیر ہوں گے- اللہ تعالی آپ کو اور آپ کے تمام اہلِ خانہ کو اپنی خصوصی نصرت اور رحمت سے نوازے اور دنیا اور آخرت کی سعادتیں عطا فرمائے- 12 اکتوبر 2012 کو آپ سے ٹیلی فون پر بات ہوئی- ماضی کی بہت سی یادیں تازہ ہوگئیں-
آپ ماشاء اللہ برابر دینی کاموں میں مشغول رہتے ہیں- اللہ تعالی آپ کی اِن کوششوں کو قبول فرمائے- تاہم مجھے آپ کو ایک خاص کام کی طرف توجہ دلانا ہے- یہ کام دعوت الی اللہ کا کام ہے، یعنی غیر مسلموں تک اللہ کا پیغام پہنچانا- یہ بلاشبہہ اہلِ ایمان کا سب سے بڑا فریضہ ہے- دعوت کا کام گویا کہ خاتم النبیین کی نیابت کا کام ہے- یہ کام بلاشبہہ فرضِ عین ہے اور ہر مومن کو اپنے دائرے میں اِس کام کو انجام دینا ہے-
موجودہ زمانے میں دو واقعات ایسے پیش آئے ہیں جنھوں  نے دعوت کے کام کو بہت زیادہ آسان بنا دیا ہے- ایک ہے پرنٹنگ پریس، جس کی وجہ سے یہ ممکن ہوگیاکہ قرآن کا ترجمہ ’لسانِ قوم‘ میں تیار کیا جائے اور اُس کو مطبوعہ صورت میں لوگوں کے درمیان ڈسٹری بیوٹ کیا جائے- اصحابِ رسول کا طریقہ یہ تھا کہ وہ لوگوں کو قرآن پڑھ کر سناتے تھے، اِس بنا پر اُن کو مقری کہاجاتا تھا- اب وقت آگیا ہے کہ تمام اہلِ ایمان قرآن کے ڈسٹری بیوٹر بن جائیں-
اِس معاملے میں دوسرا موافقِ دعوت پہلو یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں مواصلات کی ترقی کی بناپر ایک نیا ظاہرہ وجود میں آیا ہے، جس کو عالمی حرکت (global mobility) کہاجاتا ہے- موجودہ زمانے میں سیاحت، تجارت، ملازمت اور دوسرے اسباب کے تحت، لوگوں کی آمد ورفت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے- ہر ملک میں دوسرے ملکوں کے لوگ پہنچ رہے ہیں- اِن میں بڑی تعداد غیر مسلموں کی ہوتی ہے- اِس نئے ظاہرے کا مطلب دوسرے لفظوں میں یہ ہے کہ مدعو خود چل کر داعی کے یہاں پہنچ رہا ہے- وہ خاموش زبان میں امتِ محمدی کے ہر فرد سے کہہ رہا ہے کہ ہم تمھارے دروازے پر ہیں- آؤ، ہم کو اُس ربانی پیغام سے آگاہ کرو جو اللہ نے تمھارے پاس بھیجا ہے-
اب ہر مسلمان کو، خواہ وہ عرب میں ہو یا غیر عرب میں، اس کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے پاس اسلامی کتابیں رکھے اور اِس کو اُن لوگوں تک پہنچاتا رہے جو اس کے علاقے میں بار بار کسی نہ کسی سبب سے آرہے ہیں- اِس قسم کے مواقع آج کل ہر جگہ موجود ہیں- دفتروں میں پارکوں میں، کانفرنسوں میں، غرض ہر اجتماعی مقام پر اِس قسم کے مدعو برابر پہنچ رہے ہیں- اُن کو نہایت آسانی کے ساتھ دعوتی لٹریچر پہنچایا جاسکتا ہے- اِس سلسلے میں ہمارے ادارے سے قرآن اور سیرتِ رسول اور خصوصی اسلامی موضوعات پر مختلف زبانوں میں کتابیں تیار کی گئی ہیں- مثلاً قرآن کا انگریزی ترجمہ اور پرافٹ آف پیس (The Prophet of Peace)، وغیرہ-
میں امید کرتا ہوں کہ آپ اور آپ کے ساتھی اپنے دوسرے دینی کاموں کے ساتھ اِس کام کو اپنی سرگرمیوں میں شامل کریں گے، یعنی اسلامی لٹریچر کو غیر مسلموں تک پہنچانا-
نئی دہلی، 15 اکتوبر 2012 دعا گو وحید الدین
واپس اوپر جائیں

سوال وجواب

سوال
عام طور پر کہا جاتا کہ میں تشدد کا حامی نہیں، لیکن دشمنوں کی سازش سے واقف ہونا تو بہت ضروری ہے- براہِ کرم اِس معاملے کی وضاحت فرمائیں (ڈاکٹر محمد اسلم خان، سہارن پور)
جواب
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ: إن تصبروا وتتقوا لا یضرکم کیدہم شیئا (3:120) یعنی اگر تم صبر کرو اور تقوی اختیار کرو تو ان کی سازش تم کو کچھ بھی نقصان نہ پہنچا سکے گی-
گویا کہ سازش سے واقف ہونا سازش کا توڑ نہیں ہے، بلکہ صبر اور تقوی کی روش اس کا توڑ ہے-قرآن کی اس آیت پر غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ اِس معاملے میں کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ مسلمانوں کی بے صبری اور ان کے غیر متقیانہ مزاج سے واقفیت حاصل کی جائے، اور پھر اس کی اصلاح کی کوشش کی جائے- کیوں کہ مسلمانوں کے اندر صبر اور تقوی کی روش پیدا کرکے ہی سازش کو بے اثر بنایا جاسکتا ہے- قانونِ فطرت کے تحت ’’سازش‘‘ کا خاتمہ ممکن نہیں، البتہ یہ ممکن ہے کہ مسلمان اپنے مثبت رد عمل کے ذریعے اپنے آپ کو اس کے نقصان سے بچا سکیں-
جس چیز کو ’’سازش‘‘ کہا جاتا ہے، وہ دراصل ایک امرِ فطری ہے- اِس کا تعلق خدا کی دی ہوئی آزادی سے ہے- یہ آزادی مصلحتِ امتحان کی بنا پردی گئی ہے، اس لیے وہ قیامت تک باقی رہے گی، اس کو ہرگز ساقط نہیں کیا جاسکتا- کرنے کا کام یہ نہیں ہے کہ لا حاصل طورپر خود سازش کا خاتمہ کرنے کی کوشش کی جائے- کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ مسلمانوں کو اتنا باشعور بنایا جائے کہ وہ اشتعال کے باوجود مشتعل نہ ہوں- مشتعل نہ ہو کر سازش کو بے اثر بنایا جاسکتا ہے- اِس معاملے میں اصل حقیقت تدبیرِ کار کی ہے، نہ کہ سازش سے باخبر ہونے کی- اِسی لیے قرآن میں یہ نہیں فرمایا کہ اے مسلمانو، تم سازش سے باخبر رہو، بلکہ یہ فرمایا کہ تم ہر حال میں صبر کی روش اختیار کرو- صبر کی روش اختیار کرکے تم سازش کا شکار ہونے سے بچ جاؤ گے-
سوال
ایک حدیث میں آیا ہے کہ میری امت کبھی گمراہی پر مجتمع نہیں ہوگی- اِس حدیث کا مطلب کیا ہے- اس کو واضح فرمائیں- (حافظ ابو الحکم محمد دانیال، بی ایس سی، پٹنہ، بہار)
جواب
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إن أمتی لا تجتمع على الضلالة (ذخیرة الحفاظ للقیسرانی، 1/364)یعنی میری امت کبھی گمراہی پر مجتمع نہیں ہوگی- اِس حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ امتِ محمدی کے افراد جس چیز پر مجتمع ہوجائیں، وہ لازماً حق ہوگا- اِس حدیث کا مطلب صرف یہ ہے کہ عام ضلالت کے وقت بھی امت محمدی کے کچھ افراد ایسے ہوں گے جو ہدایت پر قائم رہیں گے اور وہ حق کی نمائندگی کریں گے- قانونِ فطرت کے مطابق، امتِ محمدی میں بھی انحراف آئے گا، لیکن ایسا کبھی نہیں ہوگا کہ امت کا کوئی فرد بھی اِس انحراف سے محفوظ نہ رہے-حدیث کے اِس مفہوم کی تصدیق ایک اور روایت سے ہوتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: أن تستجمعوا کلکم على الضلالة (مسند إسحاق بن راہویہ، رقم الحدیث: 363 ) یعنی بعد کے زمانے میں جب امت میں عام بگاڑ آجائے گا، اُس وقت بھی کچھ افراد اِس عمومی بگاڑ سے محفوظ رہیں گے-
امت محمدی کے بارے میں یہ بات کسی پراسرار فضیلت کی بات نہیں- یہ دراصل ایک تاریخی حقیقت ہے جس کو پیغمبر اسلام نے پیشین گوئی کے انداز میں بیان فرمایا- اصل یہ ہے کہ امت ِمحمدی کی بنیاد جس دین پر قائم کی گئی ہے، اُس کا متن کامل طورپر ایک محفوظ متن ہے- پیغمبر اسلام کی یہ ایک استثنائی صفت ہے کہ آپ پر اتارا ہوا قرآن پوری طرح اپنی اصل زبان میں محفوظ ہے- پیغمبر اسلام کی سیرت بھی تاریخی طورپر پوری طرح معلوم ہے- پیغمبر اسلام کا کلام بھی مستند کتابوں میں محفوظ ہوچکا ہے- پیغمبر اسلام کا لایا ہوا دین اپنے تمام پہلوؤں کے اعتبار سے، پوری طرح معلوم اور محفوظ ہے- یہ صورتِ حال اِس بات کی ضمانت بن گئی ہے کہ امت کے زوال یا انحراف کے دور میں بھی دین ِ اسلام کا ماخذ پوری طرح محفوظ ہو اور حق کے طالب افراد ہمیشہ اُس سے دین ِ خداوندی کو اخذ کرکے ہدایت پر قائم رہیں- امتِ محمدی میں دین سے انحراف عمومی ہوسکتاہے، لیکن وہ کلی کبھی نہیں ہوگا-
سوال
کہاجاتا ہے کہ امریکا اور افغانستان کی جنگ میں امریکا ناکام ہوگیا اور افغانستان جیت گیا- وہ اِس طرح کہ اگر دو فریقوں کی جنگ میں ایک فریق کے لیے جنگ منفی نتائج کا سبب ہوتی ہے تو اِس کا واضح مطلب یہی ہے کہ دوسرے فریق کے لیے وہ جنگ یقینی طور پر مثبت نتائج کا سبب بن رہی ہے- یہ بات امریکی محکمہ خارجہ کے ایک اعلی افسر کے اِس بیان کی روشنی میں کہی جاتی ہے کہ امریکا جو کچھ افغانستان میں کررہا ہے، وہ سب اس کے لیے الٹےنتیجوں کا ہی سبب بن رہا ہے- براہِ کرم، اِس معاملے کی وضاحت فرمائیں (عبد الباسط عمری، قطر)-
جواب
افغان جنگ کے بارے میں امریکی افسر نے جو بات کہی، وہ صرف ایک جنگی تبصرہ ہے، اِس سے وہ نتیجہ ہر گز نہیں نکلتا جو مذکورہ قسم کے لوگ اُس سے نکال رہے ہیں- کوئی بھی منفی تبصرہ، مثبت نتیجے کا سبب نہیں بن سکتا-امریکا نے جب عراق اور افغانستان پر ہوائی حملے کیے، تو اس کا مقصد اصلاً القاعدہ کا زور توڑنا تھا، اور اسامہ بن لادن کی ہلاکت (2011) کے بعد یہ مقصد ایک حد تک حاصل ہوچکا ہے- لیکن امریکی قائدین کو غالباً اِس کا اندازہ نہ تھا کہ اُن کے اقدام سے القاعدہ کی طاقت تو کمزور ہوسکتی ہے، لیکن اِس اقدام کے رد عمل میں امریکا کے خلاف مسلمانوں میں جو نفرت پیدا ہوگی، اس کا کوئی توڑممکن نہ ہوگا-
امریکی افسر نے جو کچھ کہا وہ صرف امریکی قائدین کے غلط اندازے کو بتاتا ہے- اُس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اِس جنگ میں افغانستان کی جیت ہوئی ہے- واقعات بتاتے ہیں کہ افغانستان کی اقتصادی طاقت بالکل تباہ ہوگئی ہے- افغانستان کی تعمیر وترقی کا کام بالکل رکا ہوا ہے- مزید یہ کہ افغانی لوگوں میں آپس کی جنگ چھڑ گئی ہے- یہ واقعات افغانستان کی تباہی کو بتاتے ہیں، نہ کہ اس کی جیت یا کامیابی کو-
اِس معاملے میں جہاں تک اسلامی نقطہ نظر کا تعلق ہے، اسلام میں وہی اقدام مثبت اقدام ہے جو مثبت نتیجہ برآمد کرنے والا ہو- فریقِ ثانی کے نقصان پر خوش ہونا اسلام کا طریقہ نہیں- اسلامی نقطہ نظر کے مطابق، قابلِ لحاظ بات یہ نہیں ہے کہ اِس جنگ میں امریکا کو کچھ نقصان پہنچا، اصل قابلِ لحاظ بات یہ ہے کہ افغانستان بدستور پچھڑا ہوا ایک ملک ہے، وہ تعمیر وترقی کے راستے میں آگے نہ بڑھ سکا- یہی وجہ ہے کہ لوگ اب بھی بدستور اپنے بیٹوں کو امریکا بھیج رہے ہیں، کوئی بھی شخص اپنے بیٹوں کو افغانستان بھیجنے کے لیے تیار نہیں-
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز — 219

1- نئی دہلی کے تاج پیلیس (ہوٹل) میں 3 اگست 2012 کو افطار کا ایک پروگرام ہوا- یہ پروگرام ترکی کے ادارہ ایجوکیشنل ٹرسٹ (Educational Endowment Trust) کی طرف سے کیا گیا تھا- اس کی دعوت پر سی پی ایس انٹرنیشنل (نئی دہلی) کی ٹیم کے نمائندوں نے اس میں شرکت کی- یہاں ملک وبیرون ملک کے اعلی افسران اور تعلیم یافتہ افراد بڑی تعداد میں آئے ہوئے تھے- مثلاً کمیونکیشن منسٹر کپل سبل ،اور ٹرکش ایمبیسڈر مسٹربراق (Burak Akcapar) وغیرہ- یہاںحاضرین کو پرافٹ آف پیس اور قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا-
2- اینگلو عربک اسکول (دہلی) میں 15 اگست 2012 کے موقع پر ایک فنکشن ہوا- اِس میں اعلی تعلیم یافتہ ہندو-مسلم حضرات نے شرکت کی- سی پی ایس کی دہلی فیلڈ ٹیم (DFT) کی طرف سے لوگوں کو دعوتی لٹریچر دیاگیا-
3- پولس کمیونٹی کی طرف سے 13 اگست 2012 کو سہارن پور (یوپی) کے کرسٹل پیلیس (امبالا روڈ) میں روزہ افطار کا ایک پروگرام ہوا- اِس میں سہارن پور کے تعلیم یافتہ ہندو-مسلم حضرات کے علاوہ، اعلی سرکاری افسران نے شرکت کی- اِس موقع پر سہارن پور کے حلقہ الرسالہ کی طرف سے حاضرین کو دعوتی لٹریچر دیاگیا-
4- پیس ہال (سہارن پور) میں 25 اگست 2012 کو عید ملن کا ایک پروگرام ہوا- اِس موقع پر بڑی تعداد میں لوگوں نے اِس پروگرام میں شرکت کی- یہاں لوگوں کو قرآن کا ترجمہ عید گفٹ کے طور پر دیاگیا-
5- نیشنل میڈیکل کالج (سہارن پور) میں 9 ستمبر2012 کو ایک ورک شاپ ہوا- اِس میں اعلی تعلیم یافتہ لوگوں نے شرکت کی- مثلاً گنیز بک آف ریکارڈ میں شامل ڈاکٹر اشوک جین، وغیرہ - اِس موقع پر حاضرین کو دعوتی میٹریل دیاگیا- ڈاکٹر اشوک جین نے بعد کو ٹیلی فون کے ذریعے بتایاکہ انھوں نے سی پی ایس کے لٹریچر کا مطالعہ کیا- انھوں نے کہا کہ اِن کتابوں کے مطالعے نے مجھے اِس حقیقت کو سوچنے پر مجبور کیا کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ آدمی اپنی آخرت کے لیے تیاری کرے- انھوں نے کہا کہ میں اِس مشن میں شامل ہو کر دوسروں تک اس کا پیغام پہنچانا چاہتا ہوں-
6- صدر اسلامی مرکز کے مضامین مختلف انگریزی جرائد میں چھپ رہے ہیں- اِس سلسلے میں 16 ستمبر 2012کو درج ذیل اخبار میں حسب ذیل مضمون شائع ہوا:
In the Name of God, Deccan Chronicle (Daily Newspaper, Hydrabad)
7- جموں وکشمیر کے چند نمائندہ افراد ایک پروگرام کے تحت دہلی آئے- اس موقع پر 22-23 ستمبر 2012 کو صدر اسلامی مرکز نے دعوتی اور تربیتی موضوع پر خصوصی خطاب کیے— یہ تمام خطابات دوسرے خطابات کی طرح سی پی ایس کے ویب سائٹ پر محفوظ ہیں-
8- مسٹر اے والٹر (A. Walter Emmerich) نے 24 ستمبر 2012 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا- اِس انٹرویو کا موضوع تھا— انڈین مسلم اور ان کے مسائل-مسٹر والٹر آکسفورڈ یونی ورسٹی (لندن) میں ڈیولپ مینٹ اسٹڈیز کے تحت پی ایچ ڈی کررہے ہیں- مسٹر والٹر کو پرافٹ آف پیس اور قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا-
9- پرل پیلیس (سہارن پور) میں 29 ستمبر 2012 کو نکاح کی ایک تقریب ہوئی- یہاں موجود تمام لوگوں کو سہارن پور ٹیم کی طرف سے دعوتی لٹریچر دیاگیا- دولہا اور دلہن کو تذکیر القرآن، اور ’خاندانی زندگی‘ کا ایک نسخہ دیا گیا-
10- نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (14 ستمبر 2012) میں شائع شدہ صدر اسلامی مرکز کے ایک مضمون (Everything is Temporary) پر قارئین کے چند تاثرات یہاں نقل کیے جاتے ہیں:
— Thanks for a timely piece of article that serves as an eye-opener to all of us. As we keep getting tangled or caught up in many difficulties in our day-to-day situations, we need support and mental strength that comes from moral support offered by a mentor. Today, at a very personal level, as I read these words of wisdom, I am helped to unshackle the clouds of depression cropping up and I feel once again motivated and cheerful to address the day’s challenges. (Ramana Acharyulu)
— It is a very meaningful article. Maulana’s understanding of the society, nature, and how to live life is truely amazing. This is best formula one can adopt for everyday life. (Dr Giriyappa Kollannavar)
— Very inspiring article. Faith in the divine could do wonders. The belief that we are being watched over and are protected brings in lots of hope and the will to face difficult times. (Dr Rashmi Chaturvedi)
— Surely this is an excellent article, particularly for those who are seeing their lives as purely hopeless owing to several negative problems in their day-to-day life. (Gangadharan Pulingat)
— Thank you so much for posting this blog. It has really energized my mind to fight with difficulties. (Archana Vishwakarma)
— This is a fantastic article. All things in life are temporary and transient and will eventually change and fade away. Nothing stays the same forever and sooner we learn how to accept that fact, the happier we will be. (C.Swami)
11- یکم اکتوبر 2012 کو سنت نرنکاری بھون (سہارن پور) میں ہندو گروؤں کا ایک پروگرام ہوا- اِس موقع پر حاضرین کو قرآن کا ہندی ترجمہ اور ہندی بک لیٹ — ستیہ کی کھوج، جیون کا اُدیش، وغیرہ دیاگیا-
12- نئی دہلی کے شری کرشنا آڈیٹوریم میں 2 اکتوبر 2012 کو ایک پروگرام ہوا- اِس کا موضوع یہ تھا:
Non-Violence, World Peace and Environment Conservation
یہ پروگرام آل انڈیا جین آرگنائزیشن (All India Shwetambar Jain Organization) کی طرف سے کیاگیا تھا- اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اپنی ٹیم کے ساتھ اس میں شرکت کی اور موضوع پر آدھ گھنٹے کی ایک تقریر کی- یہ تقریر ہندی زبان میں تھی- اِس تقریر میں اسلام کی پرامن تعلیمات کا تعارف پیش کیا گیا- اِس موقع پر سی پی ایس کی طرف سے حاضرین کو دعوتی لٹریچر دیاگیا- اِس پروگرام کو دور درشن ٹی وی چینل نے لائیو ٹیلی کاسٹ کیا-
13- کشمیر کے مختلف مقامات پر ہمارے ساتھی بڑے پیمانے پر وہاں کے غیر ملکی ٹورسٹس (tourists) اور مقامی لوگوں کے درمیان دعوت کا کام کررہے ہیں۔ اِس سلسلے میں 1-3 اکتوبر 2012کو کشمیر یونی ورسٹی (سری نگر) کے سنسکرت ڈپارٹمینٹ کی طرف سے آل انڈیا اورینٹل کانفرنس کا 46 واں سیشن منعقد ہوا- اِس موقع پر حلقہ الرسالہ کے ساتھیوں نے بڑے پیمانے پر حاضرین کو دعوتی لٹریچر دیا- خاص طورپر آسام کے گونر مسٹر جے  بی پٹنائک کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا گیا-’’صبح کشمیر‘‘ (The Dawn Over Kashmir) کو لوگوں نے بہت شوق سے لیا اور اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا-یہاں حاضرین کے چند تاثرات درج کیے جاتے ہیں:
— میں بہت دنوں سے ہندی ما دھیم میں قرآن پڑھنا چاہتا تھا، آج اِس دھرم گرنتھ(قرآن) کو پاکر میں بہت خوش ہوں- یہ گرنتھ انسانیت کا سبق دیتاہے -(پروفیسر رام سمیر یادو، شعبہ سنسکرت، لکھنؤ یونی ورسٹی)
— خدا نے انسان کو کئی زبانیں دی ہیں- اِن میں سب سے اچھی زبان ہم کو اردو معلوم ہوتی ہے- مطالعے کے بعد میں نے پایا کہ ہندی، اردو کے بغیر ادھوری ہے- آج یہاں ہندی اور اردو میں قرآن کا ترجمہ پاکر میری دیرینہ خواہش پوری ہورہی ہے-(منوویندر سنگھ، مظفر پور، بہار)
— آج قرآن کا انگریزی ترجمہ پاکر مجھ کو بے حد خوشی محسوس ہورہی ہے- (مہیندر راول، پولس انسپکٹر، گجرات، جونا گڑھ)
— Extremely impressed by the noble activities and precious publications of CPS, Kashmir. The activities are meant for promotion of universal brotherhood and mutual fellow-feelings which appreciating the endavour of the organisation, I wish this spiritual exercise all success in the days to come. (Prof. Hare Krishna Satyapathy, VC. R.S. University, Tirupati)
14- پنجاب (پاکستان) کے معروف صوفی بابا عرفان الحق نے ایک پروگرام کے تحت انڈیا کا سفر کیا- اِس سلسلے میں 4 اکتوبر 2012 کو پیس ہال میں ایک پروگرام کیاگیا- اِس موقع پر اُن کو اور ان کے ساتھیوں کو صدر اسلامی مرکز کی کتابیں دی گئیں- بابا عرفان الحق نے یہاں گفتگو کے دوران کہا کہ میں نے مولانا وحید الدین خاں کی کتابیں پڑھی ہیں- اِسی کا نتیجہ ہے کہ میں قرآن وسنت کے علاوہ، کسی اور ’’مسلک‘‘ سے اپنے آپ کووابستہ نہ کرسکا- اِس پروگرام میں بڑی تعداد میں اعلی تعلیم یافتہ ہندو-مسلم حضرات نے شرکت کی- تمام حاضرین کو دعوتی لٹریچر دیاگیا-
15- نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (2 اکتوبر 2012) میں صدر اسلامی مرکز کے شائع شدہ مضمون (Blasphemy in Islam) پر قارئین کے چند تاثرات یہاں درج کیے جاتے ہیں:
— Your article made a very interesting reading, which is in consonance with my own very little understanding of the readings of the Quran over the last many years. I congratulate you for explaining this so vividly, and in a scholarly manner, as well. I would be too glad to read such scholarly articles / books of yours, especially the scientific understandings or inference of Quran. (P Ravindra Kumar, Bangalore)
— Thank you for sharing the beautiful article on a proper response to blasphemy. It is an eloquent articulation of the religious freedom that we both believe God wants for all humanity to enjoy. I hope your article reaches a very wide and receptive audience. (Galen Carey, W. D.C.)
16- صدر اسلامی مرکز کے ٹیلی فونی خطاب (Tele-Conference) انڈیا اور انڈیا کے باہر کے لیے جاری ہیں- انڈیا میں یہ پروگرام مختلف مقامات کے لیے ہوتا ہے- مثلاً بنگلور، کلکتہ، چنئی، وغیرہ- امریکا کے لیے ہونے والے خطاب کی تفصیل درج ذیل ہے:
Shift of Emphasis, 2nd September 2012
Discover Your Ignorance , 16th September 2012
The Issue of Blasphemy in Islam , 30th September 2012
Relative Value of Things | , 14th October 2012
17- سی پی ایس کی دہلی فیلڈ ٹیم (DFT) کے ذریعے دعوت کا کام جاری ہے- اِس سلسلے میں مقامی طور پر دعوتی کام کرنے کے علاوہ ٹیم کے لوگ دوسرے امکانات;کو دعوت کے لیے استعمال کرتے ہیں- مثلاً بک فیر، وغیرہ- اِس سلسلے میںٹیم کے لوگوں نے تین بک فیر میں شرکت کی— گوالیار بک فیسٹ (مدھیہ پردیش)10-19 اگست 2012 ، اندور بک فیسٹ (مدھیہ پردیش) 14-23 ستمبر2012 ، ناگ پور بک فیسٹ (مہاراشٹریہ) 28 ستمبر تا 7 اکتوبر 2012 - اِن بک فیرز میں دہلی فیلڈ ٹیم کے ممبر مسٹر جنید الاسلام نے اپنے ذاتی انتظام کے تحت بک اسٹال لگایا- یہاں سے بڑے پیمانے پر لوگوں نے اسلامی لٹریچر اور قرآن کے ترجمے حاصل کیے- دعوتی اعتبار سے یہ بک اسٹال بہت کامیاب رہا- یہاں اِس سلسلے میں چند تاثرات نقل کیے جاتے ہیں:
— Overwhelming response from all age groups. I fell very ill and had 103 degree’ fever, I prayed to God and in the morning to my surprise, my fever was gone. And after that for the next 10 days, I attended the book fest. An Assistant Commissioner, Muhammad Yunus came at the stall (Gwalior) with a non-Muslim friend. He had several questions about the ideology . I explained to him. He had read the book in one day and came back the next day as a different person. Yunus said that after talking with me the non Muslim youth’s mind had also undergone a change as he was also negative about Islam . I told Yunus that you should give the Quran to all at Eid. The idea struck him and he placed an order of 175 Quran and the non Muslim youth also bought some copies along with other books. Our initial stock of Quran had finished in few days , another stock was sent from Delhi . Some of those who left the addresses, called me up and asked when would we recieve our copy of the Quran. Reaching of the second consignment was also very miraculous , my neighbour Mr. Vijay who works for the state transport volunteered to send the Quran. The residents of Gwalior are open hearted and nationalistic and loving people. During the entire period, there was not a single untoward happening, they were all very open to the message of Islam . All of them were extremely welcoming. (Junaidul-Islam)
— As a reader, I always wanted to read the Quran. Now, it is available in Hindi and English. I am very grateful. (Anand Lakra, Indore)
— I had a dream many years back in which it was written: “Read Quran!” (Hansharastan Chopra, Indore)
— میں بہت دنوں سے قرآن کو سمجھنا چاہتی تھی- آپ نے مجھ کو قرآن پڑھنے کا موقع دیا،شکریہ (مزپونم بترا، اندور)
— کٹر وادی وچار دھارا سے بچنے اور سچا گیان حاصل کرنے کا ایک ہی راستہ ہے، ا ور وہ ہے سچائی کو خود سے ڈسکور کرنا- اِس مقصد کے لیے میں قرآن پڑھنا چاہتا ہوں- مجھے یقین ہےکہ قرآن خداکی کتاب ہے، اور وہ صحیح راستہ دکھاتا ہے- اگرچہ اِس پر کچھ پردے پڑے ہوئے ہیں، لیکن ہم کو خود ہی اِن پردوں کو ہٹانا ہوگا-(مہیش یادو، اندور)
— قرآن میں آسان طریقے سے بتایا گیا ہے کہ بندہ اپنے خدا کو کس طرح پاسکتا ہے- خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے- وہاں شرمندگی نہ ہو، چہرہ اجلا رہے، یہی سب سے بڑی چیز ہے -(دواکر دونگولے، ناگ پور)
— سی پی ایس کے لٹریچر میں مذہب کو جس طرح پازیٹیو انداز میں پیش کیا گیا ہے،اس کے لیے ہم آپ لوگوں کے بہت شکر گزار ہیں-(راجیش مدھولکر، ناگ پور)
— میں بہت دنوں سے اسلام کے بارے میں سوچ رہی تھی، مجھ کو سی پی ایس کے بک اسٹال سے اچھی کتابوں کا سیٹ مل گیا- شاید میں اِن کتابوں کے ذریعے اسلام کو سمجھ سکوں- (مز سونیا مَنے، ناگ پور)
18- الرسالہ مشن سے متعلق مولانا عبد الباسط عمری، دوحہ، قطر کا ایک تاثر یہاں نقل کیا جاتا ہے:
’’ہم احساس محرومی میں جیتے تھے، اللہ نے الرسالہ مشن کے ذریعہ احساس یافت میں جینےکے قابل بنایا۔ہم بے شعور تھے ، اللہ نے الرسالہ مشن کے ذریعہ ہمیں شعور عطا کیا۔ہم ظواہر اسلام میں جیتے تھے ، اللہ نے الرسالہ مشن کے ذریعہ روح اسلام سے متعارف ہونے کا موقع دیا۔اسلام ہمارے لئے ہاتھ کی چھنگلیا کی طرح تھا، اللہ نے الرسالہ مشن کے ذریعہ اسے ہماری حقیقی زندگی میں شامل کیا اور اس کو ہمارے لئے روحانی غذا اور ذہنی ارتقاکا ذریعہ بنا دیا- ہم خدا کی شعوری دریافت سے محروم تھے، اللہ نے الرسالہ مشن کے ذریعہ ہمیں خدا کی شعوری دریافت سے متعارف کیا۔ہم خدا کو مانتے ہوئے خدا سے دور تھے ،ہمیں معلوم تھا کہ خدا ارحم الراحمین ہے اور ہمیں اس سے حب شدید ہونا چاہیے، لیکن خدا کی دی ہوئی نعمتیں ہم کو کم لگتی تھیں ، یہی وجہ تھی کہ ہم حقیقی جذبات شکر سے محروم تھے، اللہ نے الرسالہ مشن کے ذریعہ بتایا کہ خدا کے ارحم الراحمین ہونے کو کس طرح دریافت کیا جائےاور خدا سے حب شدید کا طریقہ کیاہے۔ہم صرف نفی غیر کو جانتے تھے اور اسی کو خالص توحید سمجھے ہوئے تھے۔نفی ذات کیا ہے، اس سے ہم کلی طور پر بےخبر تھے، یہی وجہ تھی کہ ہم سچی تواضع سے بھی محروم تھے۔اللہ نے الرسالہ مشن کے ذریعہ نفیِ ذات کا شعور عطا کیا ۔ ہم اللہ اکبر کا مطلب یہ سمجھتے تھے کہ اللہ بڑا ہے، اس لئے ’’لوگو‘‘ تم بڑے نہیں ہو، اِس سے فخر اور ذاتی بڑائی کا احساس پیدا ہوتاتھا، اللہ نے الرسالہ مشن کے ذریعہ ہمیں بتایا کہ اللہ اکبر کا مطلب یہ ہے کہ اللہ بڑا ہے، اس لئے ’’میں‘‘ بڑا نہیں ہوں۔اس سے تواضع کی اسپرٹ پیدا ہوتی ہے- ہم کنفیوژن میں جیتے تھے - ہمیں معلوم نہیں تھا کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا؟ وہ کون سا کام ہے جس کو ہمیں اپنا سپریم کنسرن بنانا چاہئے- اِس وقت اسلام کے نام پر اٹھنے والی مسلم تحریکوں کا حال وہ ہے جس کو قرآن میں اس طرح بیان کیا گیاہے : کل حزب بما لدیھم فرحون (23:53)- ہر ایک یہ کہتا کہ کرنے کا کام تو یہ ہے جو ہم کررہے ہیں ۔اللہ نے الرسالہ مشن کے ذریعہ ہمیں اس کنفیوژن سے نکالا اور ہمیں بتایا کہ دعوت اور معرفت کے سوا کوئی بھی دوسری چیز ہمارا مقصد زندگی نہیں ، کوئی بھی دوسرا کام ہمارے لئے سپریم کنسرن کی حیثیت نہیں رکھتا۔ ہم مایوسی اورشکایت کی نفسیات میں جیتے تھے، اللہ نے الرسالہ مشن کے ذریعہ ہمیں دکھایا کہ اِس دنیا میں ہر طرف امکانات ہی امکانات ہیں ۔ ہمیں بس انہیں دریافت کرنے کی ضرورت ہے، اس کے بعد ہمارے اندر شکر ہی شکر پیدا ہوگا، ہمارے اندر سے شکایت اور مایوسی کا کلی طور پر خاتمہ ہوجائے گا-ہماری حالت یہ تھی کہ ہم دعوت اور عداوت دونوں میں جیتے تھے، اللہ نے الرسالہ مشن کے ذریعہ خالص دعوت الی اللہ کو ہمارے اوپر کھولا اور ہمیں پورے معنوں میں ساری انسانیت کے لئے کامل خیرخواہ بنایا ۔ہم قومی فخر میں جیتے تھے، اللہ نے الرسالہ مشن کے ذریعہ ہم کوخدا کے شکر میں جینا سکھایا۔ ہم اسلام اور مسلمان دونوں کو ایک چیز سمجھتے تھے، اللہ نے الرسالہ مشن کے ذریعہ بتایا کہ اسلام اور مسلمان دو بالکل الگ الگ چیزیں ہیں، وہ ہر گز ہم معنی نہیں- ہم تشدد کلچر اور نفرت کلچر میں جیتے تھے ، اللہ نے الرسالہ مشن کے ذریعہ ہمیں امن کلچر میں جینا سکھایا ۔ہم اسلاف کی عظمت میں جیتے تھے ، ہم اس کیفیت میں جیتے تھے کہ ماترک الأولون للآخرین شیئا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کی دی ہوئی عقل اور اللہ کا عطاکیا ہوا دماغ بند پڑا ہوا تھا ،اللہ نے الرسالہ مشن کے ذریعہ ہم کو بتایا کہ ساری عظمتیں صرف اللہ کے لیے ہیں (العظمة للہ وحدہ)- اِس دریافت نے ہمارے دماغ کو کھولا، اور ہمیں ذہنی ارتقا کی نعمت سے نوازا اور ہمیں اپنے ان صاحبِ معرفت بندوں میں شامل ہونے کی تربیت اور توفیق دے رہا ہے جن کے بارے میں حدیث میں آیا ہے کہ: یغبطھم الأنبیاء والشہداء یوم القیامة الخ- یہ چند احساسات تھے، جو میرے دماغ میں ہلچل پیدا کررہے تھے ‘‘۔
واپس اوپر جائیں

Thursday 1 November 2012

Al Risala | November 2012 (الرسالہ,نومبر)


خصوصی شمارہ ۔ ترکی کی دریافت

Turkey Rediscovered
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا مشن 610 عیسوی میں مکہ میں شروع کیا۔ تقریباً 13 سال کے بعد 622 عیسوی میں آپ مکہ سے مدینہ چلے گئے۔ اِس واقعے کو اسلامی تاریخ میں ہجرت کہاجاتاہے۔ ہجرت سے پہلے آپ نے پیشین گوئی کے انداز میں ایک بات کہی تھی جو حدیث کی کتابوں میں اِن الفاظ میں آئی ہے: أمرتُ بقریۃ تأکل القری۔ یقولون: یثرب، وہی المدینۃ (صحیح البخاری، رقم الحدیث:1748) یعنی مجھے ایک بستی کا حکم دیاگیا ہے، وہ تمام بستیوں کو کھا جائے گی۔ لوگ اُس کو یثرب کہتے ہیں، لیکن وہ مدینہ ہے۔
یہ حدیث سادہ طورپر مدینہ کی پراسرار فضیلت کے بارے میں نہیں ہے، حقیقت یہ ہے کہ اِس حدیث میں تاریخ کا ایک قانون بیان کیاگیا ہے۔ یہ قانون تاریخ میں بار بار واقعہ بنا ہے، پھر یہی قانون، مدینہ (یثرب) کے حق میں واقعہ بنا۔ یہ واقعہ اُس وقت پیش آیا، جب کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ آئے اور یہاں اپنے پیغمبرانہ مشن کی منصوبہ بندی کی۔
تاریخ بتاتی ہے کہ جب تک آپ مکہ میں تھے، آپ کا مشن عملاً ایک مقامی مشن کی حیثیت رکھتا تھا، مگر جب آپ ہجرت کرکے مدینہ آئے تو آپ کا مشن بہت جلد پورے ملک (عرب) میں پھیل گیا۔ اگر چہ پیشگی طور پر کوئی یہ نہیں جانتا تھا کہ مستقبل میں کیا ہونے والا ہے۔
اِس سے معلوم ہوا کہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی علاقہ بظاہر صرف ایک علاقہ معلوم ہوتا ہے، مگر بالقوہ طورپر وہ اپنے اندر وسیع تر امکانات کو چھپائے ہوئے ہوتا ہے۔ اُس کی جغرافی حدیں بظاہر محدود ہوتی ہیں، لیکن اس کی امکانی حدیں اتنی زیادہ وسیع ہوتی ہیں کہ وہ دوسرے تمام علاقوں کو اپنے اندر سمیٹ لینے کی صلاحیت رکھتی ہیں — راقم الحروف کے نزدیک، ترکی اسی قسم کا ایک ملک ہے۔ ترکی میں اِس کے تمام امکانات موجود ہیں کہ وہ اسلامی دعوت کے لیے دورِ جدید میں ایک عالمی رول ادا کرسکے۔ ترکی اور بقیہ مسلم دنیا کے درمیان لسانی بُعد (language gap) تھا، اِس لیے بقیہ مسلم دنیا کے لوگ ترکی کے اِس امکان (potential) سے عملاً ناواقف رہے۔
کسی علاقے کی یہ امکانی حیثیت اتفاقی طورپر نہیں بنتی، بلکہ وہ لمبی مدت کے بعد بنتی ہے۔ اُس مقام کا جغرافیہ، اس کی تاریخ، اس کے سماجی حالات، وہاں کے لوگوں کا مزاج، وہاں کے ادارے (institutions)، وہاں پیش آنے والے واقعات وحوادث، سب اس کی تشکیل میں اپنا رول ادا کرتے ہیں۔ کوئی لیڈر یا ریفارمر بطور خود واقعات کو وجود میں نہیں لاتا۔ وہ صرف یہ کرتا ہے کہ گہرے مطالعے کے بعد وہ اُس علاقے کے امکانات کو دریافت کرے اور پھر دانش مندانہ منصوبہ بندی کے ذریعے اس کے امکان (potential) کو واقعہ (actual) بنائے۔
زیر نظر مقالے میں اِسی اعتبار سے جدید ترکی کا مطالعہ کیاگیا ہے۔ یہ صرف ایک مقالہ نہیں ہے، بلکہ وہ ترکی کے بارے میں راقم الحروف کا ایک ویژن (vision) ہے، وہ ایک مشن کا چارٹر (charter) ہے، وہ ترکی کے حال کی روشنی میں ترکی کے مستقبل کا ایک بیان ہے۔
ترکی سے میرا تعلق
میں 1938 میں تعلیم کے لئے انڈیا کے ایک عربی مدرسہ (الاصلاح) میں داخل ہوا۔ اسی سال ترکی میں مصطفی کمال اتاترک کا انتقال ہوا تھا۔ اس طرح تقریباً 75 سال سے میں ترکی اور اتاترک کا نام سنتا رہا ہوں۔ اس موضوع کے بارے میں جو کچھ اردو، عربی اور انگریزی میں لکھاگیا ہے، اس کا بھی ایک قابل لحاظ حصہ میں نے پڑھا ہے- لیکن ترکی حقیقت میں کیا ہے، اس کے بارے میں بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح میں بھی بے خبری میں جی رہا تھا، ترکی اور اتاترک کا نام میرے ذہن میں، دوسروں کی دی ہوئی معلومات کی بنیاد پر ایک منفی نام تھا، جو ابھی حال تک باقی رہا۔
یکم مئی 2012 کو پہلی بار مجھے موقع ملا کہ میں ترکی کا سفر کروں۔ یہ سفر ’’سیرتِ رسول‘‘ کے موضوع پر ہونے والی ایک انٹرنیشنل کانفرنس میں شرکت کے لئے تھا۔ اِس میں 60 ملکوں کے نمائندے شریک ہوئے۔ اِس سلسلے میں مجھے تقریباً ایک ہفتہ ترکی میں قیام کا موقع ملا۔ یہ سفر میرے لئے ترکی کی دریافت کے ہم معنی بن گیا۔ 5 مئی 2012 کو جب میں نے ترکی کے ایک شہر (Gaziantep) میں مذکورہ کانفرنس میں افتتاحی خطاب کیا تو شروع ہی میں میں نے کہا:
It was my first visit to Turkey, but it proved to be a discovery visit.
اِس سفر سے پہلے میں ترکی کو دوسروں کی فراہم کردہ معلومات کی بناپر جانتا تھا، مگر جب میں نے خود ترکی کا سفر کیا تو مجھے موقع ملا کہ میں ترکی کو زیادہ گہرائی کے ساتھ دیکھوں اور براہِ راست طورپر اس کو جاننے کی کوشش کروں۔ اِس کے نتیجے میں جو واقعہ پیش آیا، اس کو میں ایک لفظ میں اس طرح بیان کرسکتا ہوں کہ — میںنے ترکی کو ازسرِ نو دریافت کیا۔
میں نے کتابوں میں پڑھا تھا کہ کمال اتاترک نے اقتدار پاکر ترکی میں مذہب کا خاتمہ کرنے کی کوشش کی۔ مثلاً انھوںنے حکم دیا کہ عربی کے بجائے ترکی میں اذان دی جائے۔ انھوں نے ایک قانون کے ذریعے ترکوں کو پابند کیا کہ وہ قدیم ترکی ٹوپی کے بجائے مغربی طرز کے ہیٹ (hat)پہنیں- انھوںنے مسجدوں کو میوزیم میں تبدیل کردیا- انھوں نے قرآن پر پابندی لگا دی، وغیرہ۔ جب میںوہاں پہنچا تو میںنے دیکھا کہ مسجدوں سے لاؤڈسپیکر پر عربی میں اذان کی آوازیں آرہی ہیں۔ مسجدوں میں لوگ اُسی طرح نمازیں پڑھ رہے ہیں جس طرح میں نے انڈیا میں اور دوسرے ملکوں میں دیکھا تھا۔ ہم نے اپنے اس سفر کے دوران کسی ترک کو ہیٹ پہنے ہوئے نہیں دیکھا- کانفرنس کا افتتاح ہوا تو وہاں ایک ترک قاری نے خالص عرب لہجے میں قرآن کی لمبی تلاوت کی۔اِن باتوں کو دیکھ کر تھوڑی دیر کے لئے مجھے یہ خیال آیا کہ شاید میں ترکی کے علاوہ کسی اور ملک میں پہنچ گیا ہوں، مگر باربار کے تجربات نے آخر کار یہ یقین کرنے پر مجبور کردیا کہ میں اُسی ملک میں ہوں جس کا نام ترکی ہے-
یہ ایک عام مزاج ہے کہ لوگ ناموافق چیزوں کا مبالغے کے ساتھ ذکر کرتے ہیں، وہ ایک استثنائی واقعے کو جنرلائز کرکے اس کو عمومی انداز میں بیان کرتے ہیں- بظاہر ایسا ہی ترکی میں ہوا- کمال اتاترک نے پُرجوش اندازمیں مذہب کے خلاف کچھ باتیں کہیں اور اس کے مطابق کچھ اقدامات بھی کیے، لیکن اِن اقدامات کا نتیجہ عملی اعتبار سے نہایت محدود تھا اور یہی ہوسکتا تھا- اِس کی ایک مثال روس میں قائم ہونے والا کمیونسٹ ایمپائر ہے- وہاں باقاعدہ ایک مخالفِ مذہب نظریے کے تحت یہ کوشش کی گئی کہ کمیونسٹ ایمپائر میں مذہب کا کلی خاتمہ کردیا جائے، لیکن 1991 میں جب سوویت یونین ٹوٹا تو اچانک وہاں مذہب دوبارہ زندہ ہوگیا- اِس کا سبب یہ تھا کہ حکومت کی مخالفانہ کارروائیوں کے باوجود مذہب اگرچہ اوپری سطح سے بظاہر غائب ہوگیا تھا، لیکن انڈرگراؤنڈ سطح پر وہ اب بھی موجود تھا- یہی واقعہ ترکی میں ہوا- اتاترک کے زمانے میں حکومت کی کارروائی سے مذہب ظاہری سطح پر کسی درجے میں غیر موثر ہوگیا تھا، لیکن اتاترک کے بعد رفتہ رفتہ وہ پوری طرح زندہ ہوگیا-اب کمال ازم صرف کچھ کتابوں میں پایا جاتا ہے، خود ترکی میں اس کا کوئی وجود نہیں-
اصل یہ ہے کہ واقعات کی رپورٹنگ میں انسان کا مزاج ہمیشہ یک طرفہ رپورٹنگ کا رہاہے۔ لوگوں کی یہ قدیم عادت ہے کہ اگر کوئی اچھی بات ہو تو وہ اس کی رپورٹنگ نہیں کریں گے، لیکن اگر کوئی بظاہر بری بات ہو تو وہ اس کو فوراً رپورٹ کریں گے اور ہر جگہ مزید اضافے کے ساتھ اس کا چرچا ہونے لگے گا۔ یہی ترکی کے ساتھ ہوا۔ ترکی، کمال اتاترک کی روش سے زیادہ ، لوگوں کے اِس غلط مزاج کا شکار ہوا ہے۔ جدید ترکی جس بدنامی کا شکار ہوا ہے، وہ زیادہ تر لوگوں کے اِسی مزاج کا نتیجہ ہے، نہ کہ معروف معنوں میں، خود اتاترک کے فعل کا نتیجہ۔
مثال کے طور پر خلافت کے زمانے میں ترکی زبان عربی رسم الخط میں لکھی جاتی تھی۔ اتاترک نے ایک قانون بنا کر ترکی زبان کے لئے رومن رسم الخط کو لازمی قرار دے دیا۔ یہ بات جس طرح بھیانک انداز میں رپورٹ کی گئی، حقیقت میں وہ اتنی بھیانک نہ تھی۔ اصل یہ ہے کہ ترکی زبان قدیم زمانے میں ایک آرمینین رسم الخط (Armenian Script) میں لکھی جاتی تھی، جس کا نام یہ تھا — Orkon۔نویں صدی عیسوی تک یہی آرمینین رسم الخط ترکی میں رائج رہا۔ اس کے بعد اسلام کے فروغ اور عربوں کے اختلاط کے نتیجے میں دھیرے دھیرے ترکی میں عربی رسم الخط رائج ہوگیا۔
اس کے بعد جب ترکی میں اسلام پھیلا اور عربوں کو غلبہ حاصل ہوا تو دھیرے دھیرے انٹریکشن کے نتیجے میں یہ واقعہ ہوا کہ ترکی زبان عربی رسم الخط میں لکھی جانے لگی۔ یہ ترکی زبان کے رسم الخط کو بدلنے کا پہلا واقعہ تھا۔ اس کے بعد بیسویں صدی کے ربع اول میں اتاترک نے ترکی زبان کے رومن رسم الخط میں لکھے جانے کا حکم جاری کیا۔ یہ ترکی زبان کے رسم الخط کو بدلنے کا دوسرا واقعہ تھا۔ یہ واقعہ بھی اتفاقاً نہیں ہوا۔ اصل یہ ہے کہ جس طرح اِس سے پہلے عربوں کے اختلاط سے ترکی زبان میں عربی رسم الخط کا رواج ہوا تھا، اِسی طرح بعد کے زمانے میں یورپ کے اختلاط سے وہ ماحول پیداہوا جس کے زیر اثر اتاترک نے ترکی رسم الخط کو رومن رسم الخط میں تبدیل کردیا۔ اِس پس منظر میں رسم الخط کے معاملے کو اگر دیکھا جائے تو وہ زیادہ سنگین نظر نہیں آئے گا۔
اِس سلسلے میں دوسری بات یہ ہے کہ ترکی کے رسم الخط کو بدلنا وقت کا ایک تقاضا بن چکا تھا۔ ترکی جزئی طورپر یورپ کا ایک حصہ ہے۔ یورپ کی تمام زبانیں رومن رسم الخط میں لکھی جاتی ہیں۔ ایسی حالت میں یہ بالکل فطری تھا کہ ترکی زبان بھی اپنے پڑوسی ملکوں کے رسم الخط میں لکھی جائے۔
بیسویں صدی کے ربع اول میں جب ترکی زبان کا رسم الخط بدلا گیا تو بظاہر وہ ایک ریڈیکل واقعہ نظر آتا تھا، لیکن بعد کے واقعات نے ثابت کیا کہ یہ ایک دور اندیشی کا فیصلہ تھا۔ جلد ہی بعد دنیا میں کمپیوٹر کا دور آیا۔ جیسا کہ معلوم ہے، کمپیوٹر کی اصل زبان انگریزی ہے جس کا رسم الخط رومن ہوتاہے۔ ترکی زبان اپنے رومن رسم الخط کی بنا پر بہت جلد کمپیوٹر کے دور میں داخل ہوگئی۔ وہاں بہت جلد ہر قسم کے علمی اور تعلیمی شعبوں کا کمپیوٹرائزیشن (computerization) ہوگیا، جب کہ آج بھی مسلم ممالک کی دوسری زبانیں جیسے اردو، عربی اور فارسی ، اِس معاملے میں، ترکی زبان سے بہت پیچھے ہیں۔ مثال کے طور پر ترکی زبان میں ایک روزنامہ نکلتا ہے جس کا نام زمن (Zaman) ہے، یہ اخبار روزانہ ایک ملین کی تعداد میں چھپتا ہے۔ اس کا صحافتی درجہ یورپ کے کسی بھی معیاری اخبار کے برابر ہے۔ اس قسم کا معیاری اخبار کسی مسلم ملک میں آج بھی نہیں پایا جاتا۔ اِسی مثال پر دوسری چیزوں کو قیاس کیا جاسکتا ہے۔
ایک علامتی مثال
اہلِ عرب اور شام (Syria) کے درمیان تعلقات قدیم زمانے سے قائم تھے۔ شام کے علاقے سے گزر کر ترکی پہنچنا بہت آسان تھا۔ یہ فاصلہ 500 میل سے بھی کم تھا۔ چناں چہ اصحاب رسول کی جماعت ساتویں صدی عیسوی میں شام کے علاقے سے گزر کر ترکی پہنچنے لگی۔ اِس آمد ورفت کے دوران ترکی میں اسلام پھیلنے لگا، یہاں تک کہ ترکی کے باشندوں کی اکثریت اسلام میں داخل ہوگئی۔
لیکن قانونِ فطرت کے مطابق، بعد کو زوال شروع ہوا۔ انیسویں صدی کے آخر میں ترکی کے مسلمانوں کا یہ زوال آخری حد تک پہنچ گیا۔ اِس دور میں ترکی کے علما کا کیا حال تھا، اُس کا اندازہ ایک علامتی مثال سے ہوتا ہے۔
خلیفہ عبد الحمید ثانی کا زمانۂ حکومت 1876 سے 1909 تک ہے۔ اس نے ترکی میں ریفارم لانے کی کوشش کی۔ اس نے تعلیمی اصلاحات کا نفاذ کیا- تاہم روایتی ذہن کی بنا پر ملک میں اس کی شدید مخالفت ہوئی اور اس کو تخت سے معزول کردیاگیا۔
قدیم زمانے میں ترکی اپنے بحری بیڑے کے لیے مشہور تھا، مگر اٹھارھویں صدی میں جب یورپ میں بھاپ (steam) کی طاقت دریافت ہوگئی اور بحری جہازوں کو اسٹیم انجن کے ذریعہ چلانے کا دورآیا تو ترکی اس میدان میں بہت پیچھے ہوگیا۔ اُس وقت وہاں کے مذہبی طبقے کا فکری زوال اس حد تک پہنچ چکا تھا کہ نئے طرز کی دخانی کشتیوں کو حاصل کرنا اور ان کو استعمال کرنا بھی اُن کو ایک غیرمذہبی فعل نظر آنے لگا۔
سلطان عبد الحمید ثانی (وفات: 1918 )پہلا شخص تھا جس نے بھاپ کی طاقت سے چلنے والا بحری بیڑہ (اُسطول) تیار کرایا۔ کہاجاتا ہے کہ جب دُخانی کشتیاں تیار ہوگئیں تو اس کے بعد وقت کے تُرک علما نے اصرار کیا کہ اس کو استعمال کرنے سے پہلے اُس پر ختمِ بخاری کی رسم ادا کرنا ضروری ہے۔ اس کے بغیر کشتیوں کو سمندر میں داخل کرنا ان کے نزدیک خطرناک تھا۔ علما کا اصرار جب بڑھا تو اُس وقت کے ایک دانش ور جمیل صدقی الزھاوی (وفات: 1936 ) نے اِس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ — اِس زمانے میں بحری بیڑا بخار (بھاپ) سے چلتا ہے، نہ کہ بخاری سے: إن الأساطیل فی ہذا العصر تسیر بالبخار، لابالبخاری۔
یہ معاملہ کوئی سادہ معاملہ نہیں۔ اِس سے معلوم ہوتاہے کہ انیسویں صدی کے ترک علما فکری زوال کی اُس حالت تک پہنچ چکے تھے، جہاں 500 سال پہلے یورپ کے مسیحی علما تھے۔ اُس زمانے کے مسیحی علما نے یہ کیا تھا کہ انھوں نے سائنس کو اپنے مذہبی عقیدے کے تابع کررکھا تھا۔ وہ سائنس کی ہر اُس دریافت کے دشمن ہوجاتے تھے جو اُن کو اپنے مزعومہ عقیدے کے خلاف نظر آئے۔ اِس کی ایک مثال اٹلی کا سائنس داں گلیلیو (وفات: 1642 ) ہے- گلیلیو کو آفتاب مرکزی نظریہ (helio-centric theory) پیش کرنے پر سخت سزا دی گئی، صرف اِس لیے کہ آفتاب مرکزی نظریے کو چرچ نے اپنے مذہبی عقیدے کے خلاف سمجھ لیا تھا۔
مگر یہ صرف فکری زوال کا مسئلہ تھا، وہ خدائی مذہب کا مسئلہ نہ تھا۔ اِس معاملے میں اسلام کا موقف اُس حدیث سے معلوم ہوتاہے جو صحیح مسلم میںآئی ہے۔ مدینہ میں ’تابیر نخل‘ کا مسئلہ پیدا ہوا۔ اُس وقت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اصولی بات اِن الفاظ میں فرمائی: أنتم أعلم بأمر دنیاکم ( صحیح مسلم، رقم الحدیث:2363) یعنی تم اپنی دنیا کے معاملے میں زیادہ جانتے ہو۔
تابیر نخل یا پالی نیشن (pollination) کا معاملہ ایک سیکولر شعبے سے تعلق رکھتا ہے۔اِسی طرح ٹکنالوجی یا سائنس کی دریافتیں سیکولر شعبے سے تعلق رکھنے والی چیزیں ہیں۔ اِس طرح کے معاملات میں سائنٹفک رسرچ کا لحاظ کیا جائے گا، اُن کو عقیدے سے جوڑ کر فتویٰ دینا ہر گز درست نہیں۔
کمال اتاترک کی اصلاحات اصلاً ایک زوال یافتہ مسلم کلچر کے خلاف تھیں-حقیقت یہ ہے کہ ترکی کو قدیم روایتی دور سے نکال کرنئے سائنسی دور میں پہنچانے کے لیے ایسا کرنا ضروری تھا۔ اتاترک کی کارروائیوں کو اس کے انتہا پسندانہ طریقِ کار کے اعتبار سے نہیں دیکھنا چاہئے، بلکہ ضرورت ہے کہ اس کو اُس کے نتیجہ (result) کے اعتبار سے دیکھا جائے- اس میں کوئی شک نہیں کہ کمال ازم (Kemalism) کے نتیجے میں ترکی میں ایک نئی بیداری آئی۔ اِس کے بعد ترکی میں ایک نیا دور شروع ہوا۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ موجودہ دنیا کے 58 مسلم ملکوں میں ترکی ایک منفرد ملک ہے۔ بقیہ مسلم ممالک ابھی تک کم وبیش دورِقدیم میں جی رہے ہیں۔ ترکی وہ واحد مسلم ملک ہے جس نے پورے معنوں میں دور جدید کے نقشے میں ترقی یافتہ ملکوں کے برابر جگہ حاصل کی ہے۔
اس فرق کو واضح کرنے کے لیے ایک تقابلی مثال یہاں درج کی جاتی ہے۔ جون 2011 میں راقم الحروف کا ایک سفر امریکا کے لیے ہوا تھا۔ اِس سفر کے دوران مجھ کو ایک امریکی شہر کے مسلم سنٹر میں خطاب کرنے کا موقع ملا۔ اِس اجتماع میں زیادہ تر وہ مسلمان تھے جو پاکستان سے آکر امریکا میں مقیم ہوئے ہیں۔ میں نے اپنی تقریر کے دوران حضرت ابو بکر صدیق کا ایک واقعہ بیان کیا۔ اس واقعے کو بیان کرتے ہوئے میںنے اُن کا ایک جملہ اِن الفاظ میں نقل کیا: من کان یعبد محمداً فإن محمداً قد مات، ومن کان یعبد اللہ فإن اللہ حی لا یموت (صحیح ابن ماجہ، رقم الحدیث:1329) یعنی جو شخص محمد کی عبادت کرتا تھا تو محمد کی وفات ہوگئی، اور جو شخص اللہ کی عبادت کرتا ہے تو اللہ زندہ ہے، اس کی وفات ہونے والی نہیں۔
کچھ پاکستانی مسلمان میرے اِس جملے پر زور زور سے بولنے لگے۔انھوں نے اتنا ہنگامہ کیا کہ اجتماع کو انتشار کی حالت میں ختم کرنا پڑا۔ ایک پاکستانی نوجوان نے اسٹیج پر آکر غصے میں کہا:
You cited our Prophet by name several times, but you never said: صلی اللہ علیہ وسلم
اب ایک مختلف مثال لیجئے۔ ایسا ہی ایک واقعہ ترکی کی ایک انٹرنیشنل کانفرنس میں ہوا، جو 5 مئی 2012 کو ترکی کے شہر غازی عین تاب (Gaziantep) میں ہوئی تھی۔ میں نے اپنی تقریر میں دعوت الی اللہ کی اہمیت کو بتاتے ہوئے کہا کہ اصحاب رسول میں سے کئی افراد دعوت وتبلیغ کے لیے ترکی آئے۔ یہاں ان کی قبریں ابھی تک موجود ہیں۔ یہ اصحاب، زبانِ حال سے پیغمبر کی امت کو پکاررہے ہیں اور کہہ رہے ہیں:
O Ummat-e-Muhammad, where are you? Rise and complete the prophetic mission by doing dawah work in the present world.
میں نے اپنا یہ جملہ بتکرار دہرایا، دورانِ تقریر میں نے کئی بار رسول اللہ کا نام لیا، مگر وہاں یہ حال ہوا کہ لوگ میری بات کو سن کر رونے لگے۔ اجتماع کے بعد بہت سے لوگ مجھ سے ملے اور انھوں نے کہا کہ آپ نے اصل بات کی طرف توجہ دلائی، آپ نے ہم کو بیدار کردیا، آپ نے ہم کو ہمارا بھولا ہوا سبق یاد دلایا، وغیرہ۔ وہاں کسی ایک شخص نے بھی یہ اعتراض نہیں کیا کہ آپ نے رسول اللہ کا نام لیا، مگر آپ نے صلی اللہ علیہ وسلم نہیں کہا۔
ترکی کا نیا رول
ترکی میں ساتویں صدی عیسوی میں اسلام داخل ہوا۔ یہاں اسلام کو کافی فروغ ملا،یہاں تک کہ یہاں عثمانی خلافت کے نام سے تیرھویں صدی عیسوی میں ایک مسلم ایمپائر قائم ہوگیا۔ ترکی اور اُس وقت کی مسلم دنیا کے لیے اِس عثمانی ایمپائر کا بہت بڑا مثبت رول ہے۔ اُس زمانے میں اسلام کے فروغ کے لیے سیاسی انفراسٹرکچر (political infrastructure)درکار تھا۔ عثمانی خلافت یا عثمانی ایمپائر کو اللہ تعالیٰ نے اِسی اہم کام کا ذریعہ بنایا۔ یہ سلسلہ کئی صدیوں تک جاری رہا۔
اِس سیاسی بنیاد کے بغیر پچھلی صدیوں میں اسلامی دعوت کا استحکام ممکن نہ تھا۔ انیسویں صدی کے آخر میں قانونِ فطرت کے تحت اِس نظام پر زوال اور انحطاط کا دورآیا، یہاں تک کہ اس کے لیے پچھلی حالت پر قائم رہنا مشکل ہوگیا۔ اُس وقت کمال اتاترک نے ایک رول ادا کیا۔
اپنے 18 سالہ دورِ اقتدار میں کمال اتاترک نے جو کام کیا، اس کو ترکی کی تاریخ میں کمال ازم کا نام دیاگیا ہے۔ میرے علم کے مطابق، کمال اتاترک مخالفِ مذہب نہ تھے، وہ دراصل اُس زوال یافتہ مذہبی ڈھانچے کے خلاف تھے جس کی نمائندگی اُس وقت کے ترک علما کررہے تھے۔ اتاترک کے بارے میں انسائکلو پیڈیا کے مقالہ نگار (Mete Tuncay) نے درست طور پر لکھا ہے:
Atatürk was not an outright atheist but a deist who believed in a rational theology, denying the absolute truth of revealed religions. For tactical reasons, at the beginning of his political career, he recognized Islam as the latest and most perfect of all religion; this declaration, however, equated Islam with the natural religion he fancied. (Kemalism, The Oxford Encyclopedia of the Modern Islamic world, Vol. 2, page. 411)
کمال اتاترک نے جو انقلابی کارروائیاں کیں، اُس کا مثبت تجزیہ کیا جائے تو یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اس کے بعد ترکی میں شخصی سلطنت کے بجائے جمہوریت (democracy) کے دور کا آغاز ہوا، قدیم مذہبی تعلیم کی جگہ سیکولر تعلیم رائج ہوئی، مشرقی کلچر کی جگہ مغربی کلچر اختیار کیا گیا، روایتی نظام کی جگہ ہر شعبے میں ماڈرن طریقے رائج ہوئے، وغیرہ۔
اتاترک آپریشن کے بعد ترکی میں جو نئے مواقع کھلے، اُس کے نتیجے میں ترکی میں ریفارمر (reformers)پیدا ہوئے۔ مثلاً سعید نورسی(وفات: 1960) اور استاذ محمد فتح اللہ گولن (پیدائش: 1941)، وغیرہ۔ استاد فتح اللہ گولن اور ان کے پیروؤں نے ترکی میں ایک قابلِ قدر کام انجام دیا ہے۔ انھوںنے بڑی تعداد میں جدید طرز کے تعلیمی ادارے کھولے، کلچر اور صحافت کے میدان میں انھوں نے نمایاں کام کیا، غیر سیاسی انداز میں سماج کی تعمیر کے لیے انھوں نے امتیازی کام انجام دیا۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ انھوںنے ترکی میں قدیم پولٹکل انفراسٹرکچر (political infrastructure) کی جگہ بڑے پیمانے پر ایک نیا سوشل انفراسٹرکچر (social infrastructure) قائم کردیا جو کہ اگلے مرحلے کے کام کے لیے ایک مضبوط بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔
اکیسویں صدی کے ربع اول میں اب وقت آگیا ہے کہ ترکی میں اگلے مرحلے کا کام کیا جائے۔ یہ دعوت الی اللہ کا کام ہے۔ دعوت الی اللہ کا کام دراصل اُس کام کی تکمیل ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں صحابہ اور تابعین کے ذریعے ترکی میں انجام پایا تھا اور پھر دھیرے دھیرے وہ تقریباً ختم ہوگیا۔ اب وقت آگیا ہے کہ صحابہ اور تابعین کے دعوتی مشن کو دوبارہ زندہ کیا جائے اور ترکی میں سماجی اور تمدنی اعتبار سے جو نئی بنیاد قائم ہوئی ہے، اس کو بھر پور طور پر استعمال کرتے ہوئے پیغمبراسلام کے دعوتی مشن کی تکمیل کی جائے۔
دورِ شمشیر کا خاتمہ
ترکی میں عثمانی خلافت (Ottoman Empire) 1299 ء میں قائم ہوئی، اور 1924 ء میں عملاً وہ ختم ہوگئی۔ کمال اتاترک نے حقیقۃ ً عثمانی خلافت کا خاتمہ نہیں کیا تھا، بلکہ انھوںنے صرف اس کے خاتمہ کا اعلان کیا تھا۔ خلافت کے زمانے میں جو سیاسی کلچر رائج تھا، اُس کی نوعیت کیا تھی، اُس کا اندازہ اِس واقعے سے ہوتاہے کہ سلطان محمد فاتح (وفات: 1481 (کے وقت سے یہ طریقہ رائج تھا کہ جب بھی کوئی سلطان تخت نشیں ہوتا تو اُس وقت جامع ایوب (مقبرہ حضرت ابو ایوب انصاری) میں اس کی تاج پوشی کی رسم ادا کی جاتی۔ یہاں شیخ الاسلام (مفتی اعظم قسطنطنیہ) عثمانی خاندان کے بانی سلطان عثمان خان (وفات: 1326 ) کی تاریخی تلوار اس کی کمر میں حمائل کرتے۔ یہ خصوصی رسم سلطان کی تاج پوشی کا لازمی حصہ تھی۔
دورِ خلافت کی اِس شاہانہ رسم سے اندازہ ہوتا ہے کہ اُس دور میں ترکی کے اندر وہی کلچر رائج تھا، جو اُس وقت تمام دنیا میں رائج تھا، یعنی مبنی بر شمشیر کلچر۔ اس کلچر کی نمائندگی ایک قدیم فارسی شعر میں اِس طرح کی گئی ہے کہ — جو شمشیر زنی کرتا ہے، اُسی کے نام کا سکہ دنیا میں چلتا ہے:
ہر کہ شمشیر زند، سکّہ بنامش خوانند
انیسویں صدی کے نصف ثانی میں یہ بات واضح ہوچکی تھی کہ زمانی تبدیلیوں کے نتیجے میں اب شمشیر کی روایتی طاقت ختم ہوچکی ہے، اس کی جگہ اب علم (سائنس) نے لے لی ہے۔ اب ایک ترمیم کے ساتھ مذکورہ فارسی شعر کو اِس طرح پڑھنا چاہئے کہ — جو سائنس میں آگے بڑھتا ہے، اس کا دبدبہ دنیا میں قائم ہوتاہے:
ہر کہ سائنس زند، سکّہ بنامش خوانند!
کمال اتاترک نے ترکی میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد جو کچھ کیا، وہ اپنے عملی نشانے کے اعتبار سے یہی تھا، یعنی ترکی کو دورِ شمشیر سے نکال کر دورِ سائنس میں داخل کرنا۔ کمال اتاترک نے اپنی آئڈیالوجی کو خود اپنے الفاظ میں اس طرح بیان کیا تھا:
Science is the most reliable guide in life. (EB. 2/257)
آج جو شخص ترکی کا سفر کرتاہے ، وہ واضح طورپر دیکھتاہے کہ قدیم ترکی کی تعمیر اگر ’’شمشیر‘‘کے ذریعے کی گئی تھی، تو جدید ترکی کی تعمیر ’’سائنس‘‘ کے ذریعے کی جارہی ہے۔ جدید ترکی کے ہرشعبے میں سائنسی ترقی کے آثار واضح طورپر دکھائی دے رہے ہیں۔
اِس کی ایک مثال یہ ہے کہ قدیم دور میں اقتصادیات کی بنیاد زراعت پر ہوتی تھی۔ جدید دور میں اقتصادیات کی بنیاد صنعت پر قائم ہوگئی ہے۔ جدید ترکی نے اِس راز کو سمجھا اور صنعت کے تمام شعبوں میں ملک کو ترقی یافتہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ عرب ممالک کی بظاہر خوش حالی تمام تر قدرتی تیل کی بنیاد پر قائم ہے۔ ترکی بھی ایک خوش حال ملک ہے، لیکن اس کی خوش حالی کا انحصار برعکس طور پر صنعتی سرگرمیوں پر قائم ہے، نہ کہ تیل کے قدرتی وسائل پر، کیوں کہ تیل جیسی چیز وہاں موجود ہی نہیں۔ اِس قسم کی ترقی بلاشبہہ سائنس اور جدید تعلیم کے بغیر نہیں ہوسکتی تھی۔
ترکی کا پلس پوائنٹ
ترکی میں مصطفی کمال اتاترک کو 18 سال1920-1938) (تک سیاسی اقتدار حاصل رہا۔ اِس مدت میں انھوںنے جو ریڈیکل کام کئے، اس کو کمال ازم (Kemalism) کہاجاتا ہے۔ کمال ازم کا اگر موضوعی مطالعہ (objective study) کیاجائے تو یہ کہنا درست ہوگا کہ کمال ازم اپنی حقیقت کے اعتبار سے، ایک خدائی بلڈوزر (divine bulldozer) کی حیثیت رکھتا تھا جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے زوال یافتہ بوسیدہ کلچر کو ڈھادیا، تاکہ اس کی جگہ ایک نئی عمارت کی تعمیر کی جاسکے۔ کمال ازم کا یہ معاملہ ترکی کے مشہور صوفی شاعر جلال الدین رومی کے اِس شعر کا مصداق تھا کہ — جب کسی عمارت کو آباد کرنا ہوتاہے تو پہلے پرانی عمارت کو ڈھادیتے ہیں:
چوں بنائے کہنہ آباداں کنند اولاً تعمیر را ویراں کنند
اسلام کا اصل ماڈل وہ ہے جو دعوت الی اللہ کے تصور پر قائم ہوتاہے۔ رسول اور اصحابِ رسول کے زمانے میں یہی اسلام کا ماڈل تھا، مگر بعد کو رفتہ رفتہ اُس پر زوال آیا اور دعوتی ماڈل کے بجائے دو متوازی (parallel) ماڈل قائم ہوگئے — پولٹکل ماڈل، اور فقہی ماڈل۔ پولٹکل ماڈل کا یہ نتیجہ ہوا کہ دوسری قومیں مسلمانوں کے لیے دعوت کا موضوع نہ رہیں، بلکہ وہ سیاست اور حکومت کا موضوع بن گئیں۔ اِسی طرح فقہی ماڈل کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام، اسپرٹ کے معنی میں، تعلق باللہ کاموضوع نہ رہا، بلکہ وہ صرف فارم کی بابت فنی بحثوں کا مجموعہ بن کر رہ گیا۔ یہ دونوں ماڈل اللہ کی مرضی کے مطابق نہ تھے، چناں چہ اللہ کو مطلوب ہواکہ اُن کو بے رحمی کے ساتھ بلڈوز کرکے ڈھادیا جائے۔ یہی کام تھا جو کمال اتاترک کے ہاتھوں بیسویں صدی کے ربع اول میں انجام پایا۔حقیقت کے اعتبار سے یہ فطرت کا بلڈوزر تھا، نہ کہ کمال اتاترک کا بلڈوزر-
ایک حدیثِ رسول
ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إن اللہ لیؤید ہذا الدین بالرجل الفاجر (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 3062 ) یعنی بے شک اللہ اِس دین کی تائید فاجر شخص سے کرے گا۔
اِس حدیث میں ’فاجر‘ سے مراد وہی ہے جس کو موجودہ زمانے میں سیکولر کہاجاتا ہے۔ اِس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جہاں تک دین کی تعلیم اور دین کی تشریح کا تعلق ہے، اس کو صرف مخلص اور مومن لوگ ہی انجام دیں گے، لیکن وسیع تر معنوں میں دین کی ایک اور ضرورت ہے اور وہ تائید دین ہے۔ یہ تائیدی رول (supporting role) کوئی بھی شخص انجام دے سکتاہے، حتی کہ سیکولر افراد یا سیکولر نظام بھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے موقع پر عبد اللہ بن ارقط کا سفری رہنما کا رول اسی قسم کے ایک تائیدی رول کی حیثیت رکھتاہے-
اگر یہ مانا جائے کہ کمال اتاترک محض ایک سیکولر آدمی تھے، وہ نہ کوئی مذہبی آدمی تھے اور نہ ان کا مشن کوئی مذہبی مشن تھا، تب بھی یہ ماننا ہوگا کہ مذکورہ حدیث کے مطابق، اسلام یا مسلمانوں کے لیے کمال اتاترک کا تائیدی رول ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے۔
سیاسی ماڈل کا نقصان
ترکی کی اسلامی خلافت کیا تھی، وہ اسلام کے نام پر خاندانی بادشاہت تھی۔ مگر اسلام کا ٹائٹل دینے کی بنا پر وہ ساری دنیا کے مسلمانوں کے لیے سیاست کا ماڈل بنی ہوئی تھی۔ ہر جگہ مسلمان اسی نہج کا ماڈل قائم کرنے کے لیے سیاست کا جھنڈا اٹھائے ہوئے تھے۔ اِس راہ میں جان ومال کی قربانی کو انھوں نے اپنے لیے نجاتِ آخرت کا ذریعہ سمجھ لیا تھا۔
ترکی کی مسلم خلافت 1924 میں ختم ہوئی، لیکن تمام دنیا کے علما اُس کو دشمنوں کی سازش قرار دے کر اس کے خلاف شکایت اور احتجاج میں مشغول رہے۔ کسی نے اِس راز کو نہیں سمجھا کہ خلافت کا ’’اِلغاء‘‘ دراصل ایک خدائی آپریشن تھا۔ اِس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کے اندر قدیم سیاسی ذہن ختم ہو اور ان کے اندر نیا دعوتی ذہن پیدا ہو۔ مگر مسلم رہنماؤں کے منفی رد عمل کی بنا پر 1924 کے بعد بھی مسلمانوں میں قدیم سیاسی ذہن ختم نہ ہوا، مسلمانوں کے اندر سیاسی اعتبار سے، تفکیرِ نو (rethinking) کا پراسس جاری نہ ہوسکا، جو کہ مطلوب تھا۔
اس کی ایک مثال بوسنیا ہرزے گووینا (Bosnia Hercegovina) کا کیس ہے۔ بوسنیا یورپ کے قلب میں واقع ہے، جو کہ قدیم زمانے میں عثمانی خلافت کا ایک حصہ تھا- ہرزے گووینا یوگوسلاویہ (Yugoslavia) کا ایک صوبہ ہے۔ یہاں مسلمانوں کی تعداد 45 فی صد سے کچھ زیادہ ہے۔ بوسنیا میں دسمبر 1991میں صوبائی الیکشن ہوا۔ اِس الیکشن کے بعد وہاں کے ایک مسلم لیڈر الیجا عزت بیگووچ (Alija Izetbegovic) کو وہی عہدہ مل گیا جس کو انڈیا کی اصطلاح میں چیف منسٹر کہا جاتاہے۔
عزت بیگووچ (وفات: 2003 ) کو موقع تھا کہ وہ بوسنیا میں دعوتی اور تعلیمی کام کریں، مگر اپنے سیاسی شاکلہ کی بنا پر انھوںنے ایک غیر دانش مندانہ اقدام کردیا۔ انھوں نے بوسنیا کو ایک آزاد مسلم اسٹیٹ (independent Muslim state) ڈکلیر کردیا۔ یوگوسلاویہ کی مرکزی حکومت کے لیے اُن کا یہ اعلان، بغاوت کا درجہ رکھتا تھا۔ چناں چہ مرکزی حکومت نے بوسنیا کے خلاف سخت فوجی کارروائی کی۔ بیگووچ کے اِس اعلان سے بوسنیا کے مسلمانوں کو تباہی کے سوا کچھ اور نہیں ملا۔ سیاسی مائنڈ سیٹ (political mindset)نہ ٹوٹنے کی وجہ سے مسلمان جگہ جگہ اِسی قسم کی غیرحقیقت پسندانہ سیاست چلاتے ہیں اور نتیجۃً وہ اپنی تباہی میں مزید اضافہ کرلیتے ہیں۔
فقہی ماڈل کا نقصان
فقہ کا شعبہ ایک مستقل شعبہ (independent discipline) کے طور پر صحابہ اور تابعین کے دور میں موجود نہ تھا۔ فقہ کی تشکیل بعد کو عباسی دور750-1258) (میں ہوئی۔ فطری طورپر فقہ کے بہت سے مسائل وقتی حالات کے تقاضے کے تحت بنائے گئے، مگر بعد کو وہ مقدس ہو کراسلام کا ابدی حصہ سمجھے جانے لگے۔ اِس حدکو پہنچ کر فقہ کا شعبہ اُسی طرح ایک فرسودہ ڈھانچہ بن گیا جس طرح مسلم خلافت کے ادارے نے بعد کے زمانے میں ایک فرسودہ ڈھانچے کی حیثیت اختیار کرلی تھی۔
اِس کی ایک مثال یہ ہے کہ فقہ کی تشکیل کے زمانے میں پرنٹنگ پریس کا طریقہ دریافت نہیں ہوا تھا۔کتابیں یا تو حافظے میں ہوتی تھیں یا ہاتھ سے اُن کو قدیم طرز کے معمولی کاغذ (parchment) پر لکھا جاتا تھا۔ اُس دور کے مسلم علما، قرآن کی حفاظت کے معاملے میں بہت زیادہ حساس بن گئے۔ اُس زمانے میں بعض لوگوں نے قرآن کا فارسی ترجمہ کیا۔ اِس سے ایک مسئلہ پیدا ہوا۔ علما نے یہ فتویٰ دے دیا کہ ترجمہ جب لکھا جائے تو اُس کے ساتھ قرآن کا عربی متن (Arabic Text) بھی ضرور شامل کیا جائے۔ قبل از طباعت دور کا یہ مسئلہ بعد از طباعت دور میں بھی مقدس بن کر باقی رہا۔ اس معاملے کی ایک مثال حسب ذیل استفتا اور فتوے سے معلوم ہوتی ہے:
استفتا: کیا قرآن کا ترجمہ بغیر متن کے چھاپنا اور اس کی اشاعت کرنا جائز ہے-
فتوی: قرآن کریم کا ترجمہ بغیر متن کے شائع کرنا جائز نہیں ہے۔ علماءِ کرام نے اس سے منع کیا ہے، اور اس کے ممنوع ہونے پر علما کا اجماع نقل کیا ہے۔ مفتی محمد شفیع عثمانی نے اس پر ایک مستقل رسالہ تحریر کیا ہے، اور اس میں علامہ شرنبلالی کے اِس موضوع پر ایک مستقل رسالہ (النفحۃ القدسیۃ فی أحکام قراء ۃ القرآن وکتابتہ بالفارسیۃ) کا ذکر کیا ہے، اور لکھا ہے کہ اس میں ائمہ اربعہ سے بغیر متن، قرآن کے لکھنے کو سختی کے ساتھ حرام کیاگیا ہے۔ مفتی محمد شفیع عثمانی نے لکھا ہے کہ قرآن مجید کا صرف ترجمہ بغیر عربی الفاظ کے لکھنا اور لکھوانا اور شائع کرنا، باجماعِ امت حرام اور باتفاق ائمہ اربعہ ممنوع ہے‘‘۔ (جواہر الفقہ، جلد 1، صفحہ 97 )
مذکورہ فتوے کی بنیاد یقینی طور پر کسی نص پر مبنی نہیں ہے۔ اگر اُس کو درست قرار دیا جاسکتاہے تو صرف ایک بنیاد پر اس کو درست قرار دیا جاسکتاہے، اور وہ دورِ طباعت سے پہلے کے حالات کی نسبت سے ایک وقتی احتیاط ہے۔ اب دور طباعت میں اِس وقتی احتیاط کو برقرار رکھنا صرف ذہنی جمود کا ایک معاملہ ہوگا، نہ کہ حقیقۃً احتیاط کا معاملہ۔ دورِ طباعت میں قرآن کی حفاظت اتنے مستحکم انداز میں ہوچکی ہے کہ اب قدیم انداز کی کوئی احتیاط سرتاسر بے معنی ہے۔
مزید یہ کہ اِس قسم کے مفتی صاحبان نے اپنے جامد ذہن کی بنا پر ایک اور فتویٰ دے رکھا ہے۔ یہ فتویٰ ’’بے حرمتی‘‘ کے خود ساختہ تصور پر مبنی ہے۔اِس دوسرے فتوے کے مطابق، قرآن کے ترجمے کو اگر متن کے ساتھ شائع کیا جائے تو غیر مسلموں کے ہاتھ میں اس کو دینا جائز نہ ہوگا، کیوں کہ وہ قرآن کی بے حرمتی کریں گے۔ گویا کہ قرآن کے ترجمے کو اگر متن (text) کے بغیر شائع کیا جائے تو اس کا شائع کرناناجائز ہے۔ اوراگر قرآن کے ترجمے کو متن کے ساتھ شائع کیا جائے تو اس کو غیر مسلموں کے ہاتھ میں دینا ناجائز ہے، یعنی پہلی صورت میں طباعت ناجائز اور دوسری صورت میں استعمال ناجائز۔
یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتاہے کہ ذہنی جمود اپنے نتیجے کے اعتبار سے کتنا زیادہ ہلاکت خیز ہے۔ اِس قسم کے جامد فتووں کا یہ ہلاکت خیز نتیجہ ہوا ہے کہ دعوت الی اللہ کا کام عملاً معطل ہو کر رہ گیا۔ دعوت الی اللہ کے کام کا سب سے بڑا ذریعہ یہ ہے کہ قرآن کا ترجمہ مختلف زبانوں میں چھاپا جائے اور اس کو منظم طورپر لوگوں تک پہنچایا جائے۔ لیکن مذکورہ قسم کے بے اصل فتوؤں کی بنا پر ایسا ہوا کہ مسلمانوں کے اندر دعوت الی اللہ کا ذہن ہی نہیں بنا۔ موجودہ زمانےمیں پرنٹنگ پریس کا دور اِس لیے آیا تھا کہ خدا کی کتاب کا ترجمہ ہر زبان میں چھاپ کر اس کو تمام انسانوں تک پہنچایا جائے، مگردورِپریس پر تین سو سال سے زیادہ کی مدت گزر گئی اور ذہنی جمود کی بنا پراب تک یہ کام انجام نہ پاسکا۔
اِس مثال کے برعکس، ترکی میں ایک دوسری مثال سامنے آئی۔ یہاں ترکی کے شہر استانبول میں ایک تاریخی مسجد (رستم پاشا مسجد) ہے۔ یہ بڑی مسجد ہے اور یہاں کثرت سے سیاح آتے ہیں۔ یہاں کے ترکی امام کو ہمارے ساتھیوں نے قرآن کے انگریزی ترجمہ (بغیر متن) کی کاپیاں دیں۔ امام صاحب نے اس کو خوشی کے ساتھ لیا۔ اس کے بعد انھوں نے بڑی تعداد میں قرآن کا یہ انگریزی ترجمہ ترکی سے چھپوایا اور اس کو مزید پرکشش بنانے کے لیے قرآن کے سائز کا ایک خوب صورت بیگ تیار کیا۔ اب وہ اس کو باقاعدہ نظم کے تحت مسجد میں آنے والے سیاحوں کو دے رہے ہیں۔
اس کا طریقہ یہ ہے کہ انھوںنے مسجد کے صحن میں ایک میز پر قرآن کے ترجمے رکھ دئے ہیں۔ یہاں انھوں نے لکھ دیاہے کہ — یہ آپ کے لیے مسجد کی طرف سے فری اسپریچول گفٹ (free spiritual gift) ہے۔ چناں چہ مسجد میں آنے والے غیر مسلم سیاح یہاں سے بڑی تعداد میں قرآن کا انگریزی ترجمہ بخوشی حاصل کررہے ہیں۔
اِس فرق سے جدید ترکی کے مثبت پہلو کا اندازہ ہوتاہے۔ اتاترک آپریشن کے بعد ترکی میں یہ ہوا کہ جمود ٹوٹ گیا اور لوگوں کے اندر کھلا پن (openness) آیا۔ اِس کے مختلف مظاہر میں سے ایک مظہر یہ تھا کہ لوگوں کے اندر مذہبی جمود کا مزاج ختم ہوگیا۔ وہ چیزوں کو اُس کی حقیقت کے اعتبار سے دیکھنے لگے، نہ کہ قدامت پسندی اور کٹر پن کے اعتبار سے۔
ترکی کا ر ول
ترکی، شرقِ اوسط کا ایک ملک ہے۔ وہ جزئی طورپر ایشیا میں واقع ہے اور جزئی طور پر یورپ میں۔ دو براعظم کے درمیان اُس کا واقع ہونا اس کی تاریخ بنانے میں ایک مرکزی عامل ہے، اس کے کلچر میں اور اس کی سیاست میں۔ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ ترکی، مشرق اور مغرب کے درمیان ایک پل کی حیثیت رکھتاہے:
Turkey is a country of the Middle East lying partly in Asia and partly in Europe. Its location in two continents has been a central factor in its history, culture and politics. Turkey has often been called a bridge between East and West. (EB. 18/782)
ترکی کے ایشیائی حصے کو اناطولیہ (Anatolia) اور اس کے یورپی حصے کو تھریس (Thrace) کہاجاتاہے۔ ترکی کا یہ مختلف جغرافیہ کیسے بنا۔ ارضیاتی سائنس کے ماہرین نے اِس معاملے کی تحقیق کی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ 200 ملین سال پہلے زمین ایک سالم کرہ کی صورت میں تھی، پھر اس کی سطح پر جگہ جگہ پھٹنے کا عمل ہوا۔ اِس نظریے کو جغرافیہ میں ڈرفٹنگ کانٹی نینٹ تھیوری (drifting continent theory) کہا جاتا ہے۔ یہ عمل دھیرے دھیرے تقریباً 140 ملین سال تک جاری رہا۔ اس کے بعد سطحِ زمین کا پانی سمندروں کی صورت میں جمع ہوگیا اور خشکی کے علاقے 5 الگ الگ براعظم بن گئے۔ گویا کہ ترکی کا موجودہ جغرافی نقشہ بننے میں ایک سو ملین سال سے زیادہ وقت لگ گیا۔
ترکی کا یہ مختلف جغرافیہ اتفاقاً نہیں بنا۔ اس کے پیچھے یقیناً خالق کی منصوبہ بندی شامل تھی۔ اِسی مختلف جغرافی ساخت کی بنا پر یہ ممکن ہوا کہ بعد کے زمانے میں ترکی انسانی تاریخ میں ایک مختلف رول ادا کرسکے۔
اسلام کا ظہور عرب میں ہوا۔ مخصوص اسباب کی بنا پر عرب کے لوگ بڑی تعداد میں شام (Syria) جایا کرتے تھے۔ شام کا ملک ترکی سے ملاہوا ہے۔ اسلام کا ظہور جب عرب میں ہوا اور اہلِ ایمان عرب کے باہر اطراف کے ملکوں میں تبلیغ کے لیے جانے لگے، تو اُن کی ایک تعداد شام سے گزر کر ترکی میں بھی داخل ہوگئی۔ یہ عمل صحابہ کے زمانے میں شروع ہوگیا تھا۔ چناں چہ ترکی میں بہت سے اصحابِ رسول کی قبریں پائی جاتی ہیں۔ اُن میں سے ایک حضرت ابو ایوب انصاری ہیں جن کی قبر استانبول (قسطنطنیہ) میں واقع ہے۔ اِس طرح ترکی ایک طرف قدیم مذہبی روایات کا حامل بن گیااور دوسری طرف آبنائے باسفورس کے اوپر برٹش انجینئروں کا بنایا ہوا جدید طرز کا پُل علامتی طورپر، یورپی ٹکنالوجی کی یاد دلاتا ہے۔ اِس طرح ترکی گویا مشرقی تہذیب اور مغربی تہذیب کے درمیان ایک سنگم (junction) کا کام کررہا ہے۔
ترکی کا یہ مخصوص جغرافیہ علامتی طور پر بتاتا ہے کہ ترکی کا مشن کیا ہے۔ وہ مشن ہے— مشرق سے ملی ہوئی خدائی ہدایت (divine guidance)کو اہلِ مغرب تک پہنچانا۔
اِس وقت دنیا میں تقریباً 60 مسلم ملک یا مسلم اکثریت کے علاقے ہیں، مگر اِن میں سے کوئی بھی ایسا ملک نہیں جہاں مذکورہ حالات پائے جاتے ہوں۔ یہ مطلوب حالات استثنائی طورپر صرف ترکی میں پائے جاتے ہیں۔ اِس لیے تقریباً یقین کے ساتھ کہا جاسکتاہے کہ دعوت الی اللہ کے معاملے میں آج جو رول مطلوب ہے، اس کا مرکز صرف ترکی بن سکتاہے، ترکی خداوند ِ رب العالمین کا انتخاب ہے۔
اِس معاملے میں، باعتبار نتیجہ، کمال اتاترک کا بھی ایک معاون رول (supporting role) ہے۔ مسلمانوں کے مذہبی طبقے میں عام طورپر کمال اتاترک ایک بدنام شخص کی حیثیت رکھتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ کمال اتاترک نے جو کچھ کیا، وہ ایک ریڈیکل آپریشن (radical operation) تھا، اور کسی بڑی تعمیر کے لیے ہمیشہ اِس قسم کا ریڈیکل آپریشن ضروری ہوتاہے۔
میرے مطالعے کے مطابق، کمال اتاترک اسلام دشمن نہ تھے، وہ دراصل اسلام کے نام پر بنائے ہوئے خود ساختہ ڈھانچے کو توڑنا چاہتے تھے۔ اُن کا نشانہ یہ تھا کہ ترکی کے لوگوں میں کٹر پن اور جمود ختم ہو۔ ترکی میں کھلے پن (openness) اور روشن خیالی (enlightenment) کا دورآئے۔ ترکی کے لوگوں کو قدیم توہم پرستانہ دور سے نکال کر جدید سائنسی دور میں داخل کیا جائے۔ ترکی میں سیکولر ایجوکیشن کو فروغ دیاجائے، وغیرہ۔ اِس قسم کی انقلابی تبدیلی ریڈیکل آپریشن کے بغیر نہیں ہوسکتی۔
کمال اتاترک ترکی میں جو ریفارم لانا چاہتے تھے، اس کا اندازہ خود اُن کے ایک قول سے ہوتاہے۔ انھوں نے کہا تھا کہ — سائنس زندگی کی سب سے زیادہ قابلِ اعتماد رہنما ہے-
کمال ازم کی حقیقت
کمال اتاترک کی تحریک کو کمال ازم (Kemalism) کہاجاتا ہے- کمال ازم کی تحریک اینٹی اسلام تحریک نہ تھی- اپنی حقیقت کے اعتبار سے، کمال ازم کی تحریک مخالفِ جمود (anti-stagnation) تحریک تھی- ترکی میں کمال اتاترک کا دور 1920 کے بعد شروع ہوتاہے- اس سے پہلے ترکی مکمل طور پر ذہنی جمود کا شکار ہوچکا تھا- یہ وقت تھا جب کہ ترکی کے پڑوسی علاقہ یورپ میں ماڈرن ایجوکیشن اور ماڈرن انڈسٹری آچکی تھی، مگر ترکی قدیم روایتی دور میں پڑا ہوا تھا- اِس صورتِ حال کے ردِ عمل کے طورپر ترکی کے بہت سے لوگوں میں یہ ذہن پیدا ہوا کہ ترکی کو ماڈرنائز کیا جائے- کمال اتاترک دراصل اِسی ذہن کے قائد کے طورپر ابھرے-
ترکی میں کمال اتاترک کو 1923 میں سیاسی اقتدار ملا- اِس کے بعد انھوں نے ملک میں ریڈیکل اصلاحات کیں- خاص طورپر تعلیم اور انڈسٹری میں ترکی کو یورپ کی ترقیاتی سطح پر لانے کی کوشش کی- اتاترک سے پہلے ترکی میں تعلیم کی شرح بمشکل 20 فی صد تھی، مگر کمال آپریشن کے نتیجے میں ترکی میں تعلیم اتنی تیزی سے بڑھی کہ جلد ہی وہ 90 فی صد تک پہنچ گئی:
The literacy rate did increase greatly after the alphabet reform from around 20% to over 90%.
ترکی کے ایک مورخ نے لکھا ہے کہ — کمال انتظامیہ نے ترکی میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کیں- اس نے ترکی میں سیکولرازم کو فروغ دیا اور حکومتی نظام کو ماڈرنائز کیا- تعلیم کو ترقی دینے پر خصوصی توجہ دی گئی- انڈسٹری اور بینکنگ کے نظام کو بہت زیادہ وسعت دی گئی:
Kemalist administration brought about a thorough secularization and modernization of the administration, with particular focus on the education system. The development of industry was promoted by strategies such as import substitution and the founding of state enterprises and state banks.
کمال اتاترک کے اِنھیں اقدامات کا یہ نتیجہ ہےکہ آج ترکی، جدید اصطلاح کےمطابق، ایک ترقی یافتہ ملک(developed country)بن گیاہے- وہ یورپ کے ترقی یافتہ ملکوں کی مانند ایک ترقی یافتہ ملک ہے- ترکی کے ادارے (institutions) ، ترکی کی انڈسٹری، ترکی کے شہر، ترقی کے اعتبار سے یورپ کے ملکوں سے پیچھے نہیں ہیں، حتی کہ جو ورک کلچر (work culture) یورپ میں پایا جاتا ہے، وہی ورک کلچر ترکی میں بھی موجود ہے-
یہ ایک واقعہ ہے کہ کمال اتاترک نے اپنے 18 سالہ دورِ اقتدار میں کئی غلطیاں کیں، مگر یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ ہر مصلح غلطیاں کرتاہے، اِس میں کسی مصلح کا کوئی استثنا (exception) نہیں- دیکھنے کی اصل چیز بعد کا نتیجہ ہے، نہ کہ آپریشن کے زمانے کی بعض غلطیاں- آج ترکی کو ترقی کے اعتبار سے جو درجہ حاصل ہے، وہ بلاشبہہ کمال اتاترک کی ریڈیکل اصلاحات کا نتیجہ ہے- یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اِس اعتبار سے، ترکی دوسرے مسلم ملکوں کے لیے ایک نمونہ ہے- دوسرے مسلم ملکوں کو چاہیے کہ وہ اتاترک آپریشن کے بعض منفی پہلوؤں کو نظر انداز کریں اور اس کے مثبت پہلوؤں کی پیروی کرتے ہوئے اپنے ملکوں کو جدید معیار پر ترقی یافتہ بنائیں-
ترکی کی جدید تصویر
مشہور مستشرق فلپ کے ہٹی (Philip K. Hitti) نے عرب کی تاریخ پر ایک کتاب لکھی ہے- یہ کتاب اپنے موضوع پر ایک مستند کتاب مانی جاتی ہے اور یونیورسٹیوں میں داخل نصاب ہے- اِس کتاب کا ترجمہ مختلف زبانوں میں ہوچکا ہے- اصل انگریزی کتاب کا ٹائٹل یہ ہے:
History of the Arabs:
From the Earliest Times to the Present
822صفحات کی اس کتاب میں عربوں کی علمی اور فکری تاریخ کو مستند ماخذ (authentic sources) کے حوالے سے بیان کیاگیا ہے-
اِس کتاب کا ایک باب علمی اور ادبی ترقیوں (scientific and literary progress) کے بارے میں ہے- مصنف نے بتایا ہے کہ عرب ایک زمانے میں ترقی کی اِس حد تک پہنچے کہ ابن سینا کی کتاب کو میڈیکل بائبل کہاجاتا تھا (صفحہ 368)- اس کا ذکر کرتے ہوئے مصنف نے لکھا ہے کہ بعد کی صدیوں میں عرب اپنی ترقی کی رفتار کو برقرار نہ رکھ سکے:
Reverence for the past with its traditions, both religious and scientific, has bound the Arab intellect with filters which it is only now beginning to shake off. (p. 381)
یعنی ماضی کی روایات کو مقدس سمجھنا عرب ذہن کے لیے ترقی کا بندھن بن گیا، علمی اعتبار سے بھی اور مذہبی اعتبار سے بھی- اب اِس میں تبدیلی ہور ہی ہے، مگر ابھی وہ صرف آغاز کے درجے میں ہے-
فلپ ہٹی نے جوبات عربوں کے بارے میں لکھی ہے، وہی بات پوری مسلم دنیا کے بارے میں درست ہے- اِس عموم میں خود ترکی بھی شامل ہے- ترکی میں وہ سارے حالات پیدا ہوئے جو بقیہ مسلم دنیا میں پیدا ہوئے تھے- موجودہ دور میں پوری مسلم دنیا قدیم وجدید کی کشمکش سے گزری ہے- اِس اعتبار سے، ترکی میں بھی وہی حالات پیش آئے جو دوسرے مسلم ملکوں میں پیش آئے-
البتہ ایک اعتبار سے فرق ہے، وہ یہ کہ ترکی جغرافی اعتبار سے، یورپ کی سرحد پر واقع ہے، بلکہ جزئی طورپر وہ براعظم یورپ ہی کا ایک حصہ ہے- اِس لیے فطری طورپر ایسا ہوا کہ نشاةِ ثانیہ (Renainssance) کے بعد یورپ میں جو نئے حالات پیداہوئے، اُن کا براہِ راست اثر ترکی پر پڑا- وہ واقعہ جس کو ’’ترکی میں مشرق ومغرب کی کشمکش‘‘ کہاجاتا ہے، وہ دراصل اس علاقے میں پیش آنے والے تہذیبی انقلاب کا نتیجہ تھا، نہ کہ کسی اتفاق یا کسی ’’سازش‘‘ کا نتیجہ-
ترکی کی مخصوص جغرافی پوزیشن کے نتیجے میں فطری طورپر ایسا ہوا کہ ترکی میں وہ پراسس شروع ہوا جس کو ویسٹرنائزیشن (westernization) یا سیکولرائزیشن(secularization) کہاجاتا ہے- اِس تحریک کے علم بردار بہت سے نئے ترکی مفکرین تھے- مثلاً محمد نامق کمال (1840-1888) اور محمد ضیا گوکلپ (1875-1924)، وغیرہ- مشہور تنظیم ینگ ترک Young Turk)) بھی اِسی کا ایک حصہ تھی-
ترکی کا سلطان سلیم اول(وفات: 1520ء) سیاسی دائرے میں اِس تحریک کا حامی تھا- وہ چاہتا تھا کہ ترکی کی تجدید کاری (modernization) کی جائے- خاص طورپر حکومتی ادارے کو ماڈرنائز کرنا- اِس سلسلے میں سلطان نے ترکی کی فوج کو مغربی آلاتِ حرب سے مسلح کرنے کی کوشش کی، مگر اُس وقت ترکی کے حالات اِس قسم کی تجدید کاری کے لیے موافق نہ تھے- چناں چہ مصلحین کی کوششیں زیادہ کامیاب نہ ہوسکیں اور خود سلطان سلیم کو تخت چھوڑ دینا پڑا-
جیسا کہ معلوم ہے، ترکی میں اسلام عہدِ صحابہ میں پہنچ چکا تھا- ترکی اِس سے پہلے رومی سلطنت کے قبضے میں تھا- مسلمانوں نے جب رومی سلطنت کو توڑا تو اس کے بعد ترکی مسلم مملکت کا ایک حصہ بن گیا- رومی سلطنت کے زمانے میں ترکی کی آبادی زیادہ تر مسیحی مذہب کو ماننے والی تھی- نئے حالات کے تحت یہاں اسلام تیزی سے پھیلنے لگا- عربی زبان وسیع پیمانے پر رائج ہوگئی- ترکی کے شہروں میں کثیر تعداد میں عربی مدرسے قائم ہوئے-
ترکی کے یہ عربی مدرسے آخر تک اپنے روایتی انداز پر قائم رہے- اِن مدرسوں کا ماحول مکمل طورپر قدامت پرستی کا ماحول تھا- اِن مدرسوں سے بڑی تعداد میں علما پیدا ہوئے- دھیرے دھیرے ترکی میں علما کو نہایت مضبوط حیثیت حاصل ہوگئی، یہاں تک کہ نئے خلیفہ کی خلافت اُس وقت مکمل ہوتی تھی جب کہ وہ جامع ایوب (مقبرہ ابوایوب انصاری) میں حاضر ہو اور وہاں شیخ الاسلام (مفتی اعظم قسطنطنیہ) اس کی کمر میں روایتی تلوار اپنے ہاتھ سے حمائل کریں، یہ رسم نئے خلیفہ کی تاج پوشی کا ایک لازمی حصہ تھی-
اِن تاریخی اسباب کے نتیجے میں ترکی کے علما کو ترکی میں نہایت طاقت ور پوزیشن حاصل ہوگئی-ترکی کے یہ علما دوسرے ملکوں کی طرح، اپنے محدود ماحول میں رہتے تھے، ان کو خارجی دنیا میں آنے والی تبدیلیوں کی مطلق خبر نہ تھی- وہ اپنے اِس قدامت پرستانہ مزاج کی بنا پر ترکی میں تجدید کاری کی تحریک کے شدید مخالف بن گئے- اِس کی ایک مثال یہ ہے کہ ’’مغرب میں پندرھویں صدی عیسوی میں متحرک ٹائپ کی ایجاد سے پرنٹنگ پریس کی دنیا میں حیرت انگیز انقلاب آگیا تھا، لیکن علما نے اِس نئی ٹکنالوجی کو یہ کہہ کر رد کردیا کہ عربی یا ترکی کی کتابوں میں خدا اور رسول کا نام ہوتا ہے جس کو اِس جدید طریقہ طباعت میں پامال نہیں کیا جاسکتا‘‘- اِسی طرح ’’1577 عیسوی میں استانبول میں ایک عظیم الشان رصد گاہ قائم کی گئی تھی جس کو علما نے خلافِ اسلام قرار دے دیا- اتفاق سے اُنھیں دنوں وہاں طاعون کی وبا پھیل گئی- علما کا موقف تھا کہ یہ دراصل اسرارِ خدائی میں مداخلت کی سزا ہے- بالآخر1580 عیسوی میں عوامی دباؤ کے سبب اِس رصد گاہ کو منہدم کردیاگیا‘‘، وغیرہ-
(ادراک زوالِ امت، از: راشد شاز، جلد 2، صفحہ 177)
روایتی علما کی شدید مخالفت کی بنا پر ترکی میں جوحالات پیدا ہوئے، اس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ ایک طرف تجدیدی مصلحین کی آواز دب گئی، اور دوسری طرف شدید دباؤ کے تحت سلطان سلیم اول کو 8 سال حکومت کرنے کے بعد 1520 عیسوی میں تخت خلافت چھوڑنا پڑا-
ریڈیکل تبدیلی
دورِ جدید کے حالات نے اِس کو لازمی قرار دے دیا تھا کہ ترکی میں تجدید کاری (modernization)کا عمل کیاجائے- یہ کوشش ترک مصلحین کے ذریعے شروع ہوئی- ابتداء ً یہ تحریک تدریجی تبدیلی (gradual change) کے اصول پر چل رہی تھی، لیکن انیسویں صدی کے آخر میں یہ بات واضح ہوگئی کہ تبدیلی کا یہ کام تدریج کے اصول پر عملاً ممکن نہیں ہے- اِس کے بعد تاریخ کی فطری رفتار کے مطابق، سوچنے والے دماغوں میں ریڈیکل تبدیلی (radical change) کا ذہن پیدا ہوا- یہی ریڈیکل تبدیلی کا ذہن ہے جس نے بالآخر کمال اتاترک (1881-1938) کی صورت اختیار کرلی-
ریڈیکل تبدیلی (radical change) کا مزاج تدریجی تبدیلی (gradual change) سے بالکل مختلف ہوتا ہے- تدریجی تبدیلی ہمیشہ اعتدال کے اصول پر چلتی ہے، مگر ریڈیکل تبدیلی میں ہمیشہ انتہا پسندی (extremism) کا عنصر شامل ہوجاتا ہے- یہی جدید ترکی میں پیش آیا- جس کام کو پچھلے مصلحین اعتدال کے ساتھ کرنے میں ناکام ہوگئے، اُس کو کمال اتاترک نے انتہا پسندانہ انداز میں کرڈالا- بعض خرابیاں جو کمال ازم کے اندر پائی جاتی ہیں، وہ اِسی انتہا پسندی کا نتیجہ ہیں-
تاہم یہ ترکی کی خوش قسمتی تھی کہ کمالی ریڈیکل ازم بہت دیر تک نہ چل سکا- بہت جلد ترکی میں ایسے مصلحین پیدا ہوئے جنھوں نے کمال ازم کی تصحیح کی، جنھوں نے ترکی کے انقلاب کو کامیابی کے ساتھ اعتدال کی طرف لوٹایا- اِن ترک مصلحین میں سے دو خاص مصلحین یہ ہیں— بدیع الزماں سعید نورسی (1876-1960) ، اور استاد محمد فتح اللہ گولن (پیدائش: 1941)-
کمال اتاترک نے اپنے انتہا پسندانہ مزاج کی بنا پر سیکولر شعبہ اور مذہبی شعبہ کے درمیان فرق نہیں کیا- انھوں نے یہ کیا کہ سیکولر شعبوں میں ضروری اصلاحات لانے کے ساتھ مذہبی شعبوں کے اوپر بھی بلڈوزر چلا دیا، جو بلاشبہہ غیر ضروری تھا- لیکن جہاں تک مذہبی شعبوں کا تعلق تھا، وہاں دوسرا کام کرنا تھا، وہ تھا — مذہب کی اصل روح کو برقرار رکھتے ہوئے اس کو جدید تقاضوں کے مطابق بنانا-
بعد کے معتدل مصلحین نے اِس انتہا پسندی کو درست کیا- انھوں نے سیکولر شعبوں میں ماڈرنائزیشن کو برقرار رکھتے ہوئے مذہبی شعبوں کو دوبارہ ان کی اصل کی طرف لوٹایا-
اِسی مصلحانہ عمل کا نتیجہ ہے کہ آج ترکی میں مذہب اپنی اصل صورت میں بدستور قائم ہوگیا ہے- وہاں کی مسجدوں سے پہلے کی طرح عربی میں اذانیں بلند ہورہی ہیں، نماز کا نظام پہلے کی طرح اپنی اصل صورت میں قائم ہوگیا ہے، تمام مذہبی شعبے آزادانہ طورپر اپنا کام کررہے ہیں، وغیرہ- جدید ترکی میں کمال ازم کا دور دورہ نہیں ہے، بلکہ وہاں ایک اور چیز کا دور دورہ ہے جس کو نیو کمال ازم (Neo-Kemalism) یا اصلاح یافتہ کمال ازم کہاجاسکتا ہے-
دعوہ ایمپائر (Dawah Empire)
ترکی اپنی انفرادی خصوصیات کی بنا پر مسلم دنیا میں ایک مختلف ملک (country with a difference)کی حیثیت رکھتاہے۔ اس کا اظہار ہر دور میں اس کے امتیازی رول سے ہوتاہے۔
انیسویں صدی کے آخر تک ترکی پولیٹکل ایمپائر کارول ادا کرتا رہا۔ بیسویں صدی میں ترکی کے رہنماؤں نے کامیاب طور پر عالمی سطح پر ایک ایجوکیشن ایمپائر (Educational Empire) قائم کیا۔ اکیسویں صدی میں ترکی کے لیے مقدر ہے کہ وہ ایک عظیم تر رول ادا کرے— وہ ہے دور جدید میں اسلام کا ایک دعوہ ایمپائر قائم کرنا۔ دعوہ ایمپائر وقت کی سب سے بڑی اسلامی ضرورت ہے۔ تقریباً 60 مسلم ملکوں میں ترکی واحد ملک ہے جو اپنے حالات کے اعتبار سے دعوہ ایمپائر قائم کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔
ترکی کے ایک سفر (مئی 2012)میں میںنے وہاں کا مشہور میوزیم (توپ کاپی پیلس) دیکھا۔ اس میوزیم میں قرآن کا ایک قدیم نسخہ رکھا ہوا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ قرآن کا وہ نسخہ ہے جو قبل از طباعت دور (pre-printing age) میں ایک صحابیٔ رسول کے قلم سے لکھاگیا تھا۔
جب میں میوزیم کے اُس حصے میں پہنچا جہاں یہ قرآن رکھا ہوا ہے تو میری عجیب حالت ہوئی۔ اس معاملے پر غور کرتے ہوئے مجھے قرآن کی یہ آیت یاد آئی: نزّل الفرقان علیٰ عبدہ لیکون للعالمین نذیرا (25:1)-مجھے ایسا محسوس ہواجیسے قرآن اپنی خاموش زبان میں کہہ رہا ہے کہ — اے امت مسلمہ، مجھ کو خدا نے دنیا کے تمام انسانوں کے لئے بھیجا تھا اور تم نے مجھ کو میوزیم میں رکھ کر چھوڑ دیا۔
قرآن میں بار بار اس قسم کے الفاظ آتے ہیں: یا أیہا الإنسان، یاأیہا الناس، یا بنی آدم۔ گویا کہ قرآن خداوند عالم کا ایک مکتوب یا ایک پیغام (message) ہے- اُس کو اِس لئے بھیجا گیاہے، تاکہ وہ تمام پیدا ہونے والے عورتوں اور مردوں تک پہنچ جائے۔ مگر عجیب بات ہے کہ قرآن کے نزول پر 14 سو سال سے زیادہ وقت گزر گیا، مگر ابھی تک قرآن کا خدائی مکتوب اس کے مکتوب الیہ (addressee) تک نہیں پہنچا۔ انسانی تاریخ کا یہ واحد مکتوب ہے جو ابھی تک اَن ڈلیورڈ (undelivered) پڑا ہوا ہے۔
اکیسویں صدی کی مردم شماری بتاتی ہے کہ پوری دنیا میں 7 بلین سے زیادہ انسان آبادہیں۔ گویا کہ امتِ محمدی کو خدا کا یہ پیغام 7 بلین انسانوں تک پہنچانا ہے۔ یہ وہ سب سے بڑا کام ہے جو امت محمدی کو انجام دینا ہے۔ امتِ محمدی اگر اس کام کو انجام نہیں دیتی تو وہ قرآن کی اس آیت کا مصداق بن جائے گی: یاأیہا الرسول بلغ ما أنزل إلیک من ربّک، وإن لم تفعل فما بلغت رسالتہ (5:67)۔ اِس آیت کے مطابق، ’تبلیغ ما انزل اللہ‘ کا کام نہ کرنے کی صورت میں پیغمبر کی پیغمبری مشتبہ ہوسکتی تھی۔
ختمِ نبوت کے بعد امت اب مقامِ نبوت پر ہے۔ ایسی حالت میں امت اگر ’تبلیغ ما انزل اللہ‘ کا کام نہ کرے تو سخت اندیشہ ہے کہ اس کا امتِ محمدی ہونا مشتبہ ہوجائے۔
نیا دور، نئے امکانات
دنیا کی سیاسی تاریخ کو دو دوروں میں تقسیم کیا جاسکتاہے۔ قبل نیشن اسٹیٹ دور (pre-nation state age) اور بعد نیشن اسٹیٹ دور (post-nation state age)۔ پچھلے سیاسی دور میں یہ ممکن ہوتا تھا کہ ایک قوم بزور طاقت مختلف ملکوں پر قبضہ کرکے اپنا ایک ایمپائر بنالے۔ بازنتین ایمپائر، رومن ایمپائر، آٹمان ایمپائر (Ottomon Empire)، سوویت ایمپائر اور برٹش ایمپائر اس کی مثالیں ہیں۔
مگر اب دنیا پوسٹ نیشن اسٹیٹ کے دور میں ہے۔ اب یہ آخری حد تک ناممکن ہوچکا ہے کہ کوئی قوم قدیم طرز کا ایمپائر بناسکے۔ آج اگر کوئی قوم قدیم طرز کا ایمپائر بنانا چاہے تو وہ ایک قسم کا خلافِ زمانہ عمل (anachronism) ہوگا جو عملاً کبھی وقوع میںآنے والا نہیں۔
مگر فطرت کا ایک اصول یہ ہے کہ ہر شام کے بعد ایک نئی صبح طلوع ہوتی ہے، یعنی ایک امکان کے خاتمے کے بعد ایک اور زیادہ بہتر امکان کا وجود میں آنا۔ زیر بحث معاملے میں بھی ایسا ہی پیش آیا ہے۔ اکیسویں صدی میں سیاسی اعتبار سے اپنا ایمپائر بنانا بلاشبہہ ایک ناممکن نشانہ بن چکا ہے۔ مگر قانون فطرت کے مطابق، دوسرا زیادہ بہتر امکان عین اِسی صدی میں پیدا ہوگیا ہے۔ یہ دوسرا امکان جدید کمیونی کیشن (modern communication) کے ذریعے حاصل ہوا ہے۔ جدید کمیونی کیشن نے اِس بات کوممکن بنا دیا ہے کہ دنیا میں پولٹکل ایمپائر کی جگہ الکٹرانک ایمپائر بنایا جاسکے۔ یہ الکٹرانک ایمپائر بلا شبہہ قدیم ایمپائر سے ہزاروں گنا زیادہ بڑاہے، رقبہ کے اعتبار سے بھی اور حصولِ مقصد کے اعتبار سے بھی۔
دور جدید کا الکٹرانک ایمپائر اُس قوم کے لئے مقدر ہے جس کے پاس انسان کے لیے کوئی نظریہ حیات یا آئڈیالوجی (ideology) ہو۔ اسلام بلاشبہہ اس قسم کی ایک ابدی آئڈیالوجی ہے۔ وہ قرآن پر مبنی ہے جو کہ واحد محفوظ الہامی کتاب ہے۔ امت مسلمہ کو عموماً اور اہلِ ترکی کو خصوصاً یہ موقع حاصل ہے کہ وہ اسلام کی مبنی بر قرآن آئڈیالوجی کو لے کر اٹھیں اور اکیسویں صدی میں اپنا ایک الکٹرانک ایمپائر بنا دیں۔
پچھلے دور میں پولٹکل ایمپائر بالادستی حاصل کرنے کے لئے ہوتا تھا، لیکن نیا الکٹرانک ایمپائر خدائی بلیسنگ کو عام کرنے کے لئے ہوگا۔ قدیم پولیٹکل ایمپائر ٹیکنگ اسپرٹ کا حامل ہوتا تھا، موجودہ الکٹرانک ایمپائر گونگ اسپرٹ (giving spirit) کا حامل ہوگا۔
قرآن واحد صحیفہ ہے جو انسان کو وہ چیز دیتاہے جس کی اُس کو سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ وہ ہے انسان کے لیے اس کے خالق کا تخلیقی منصوبہ (creation plan) ۔ تخلیقی منصوبے کو جانے بغیر کوئی شخص یا قوم اپنی زندگی کی صحیح منصوبہ بندی نہیں کرسکتا۔ اور انسان کے بارے میں اِس تخلیقی منصوبے کو جاننے کے لیے آسمان کے نیچے ایک ہی محفوظ اور مستند کتاب ہے اور وہ بلا شبہہ قرآن ہے۔ استانبول کے میوزیم میں دورِ عثمانی کا قرآن گویا اِس بات کی یاددہانی ہے کہ قبل ازطباعت دور میں قرآن دعوت کا سب سے بڑا ذریعہ بنا تھا- اب بعد از طباعت دور میں قرآن مزید اضافے کے ساتھ، دعوت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے-
ترکی کی اسلامی تاریخ
اسلام سے پہلے ترکی کے باشندوں کی اکثریت مسیحی مذہب (Christianity) کو ماننے والی تھی۔ ساتویں صدی عیسوی کے ربع اول میں یہاں اسلام داخل ہوا۔ اِس کے بعدیہاں مسلسل اسلام کا فروغ ہوتا رہا۔ اِس وقت ترکی کی آبادی میں مسلمانوں کی تعداد تقریباً 99 فی صد ہے۔
ترکی میں اسلام اور مسلمانوں کا استحکام بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچا کہ یہاں ایک طاقت ور مسلم سلطنت قائم ہوگئی۔ اس کو عثمانی خلافت (Ottoman Empire)کہاجاتا ہے۔ یہ سلطنت 1299 ء میں قائم ہوئی اور 1924 ء تک باقی رہی۔ عثمانی سلطنت کے عروج کے زمانے میں اس میں ایشیا اور یورپ کے 12 ملک شامل تھے۔ استانبول کو عثمانی حکمراں سلطان محمد الفاتح (وفات:1481 ء) نے 1453 ء میں فتح کیا۔ اُس وقت اس کا نام قسطنطنیہ تھا۔ بعد کو وہ استانبول کے نام سے عثمانی سلطنت کی راجدھانی بن گیا۔
قدیم زمانہ مبنی بر شمشیر سیاست کا زمانہ تھا۔ اُس زمانے میں کسی مشن کو مضبوطی کے ساتھ جاری رکھنے کے لیے مستحکم سیاسی بنیاد (political base) درکار ہوتی تھی۔ عثمانی سلطنت نے اسلامی مشن کو یہی مضبوط سیاسی بنیاد فراہم کی۔ اِس قسم کی مضبوط سیاسی بنیاد کے بغیر قدیم زمانے میں اسلام کو فروغ حاصل نہیں ہوسکتا تھا۔ عثمانی ترکوں نے ایک مدت تک، نہ صرف ترکی، بلکہ مسلم دنیا کے بڑے حصے کو سیاسی دبدبہ کی یہی بنیاد فراہم کی۔ اِس اعتبار سے عثمانی سلطنت کا کارنامہ ناقابلِ انکار ہے۔
لیکن بیسویں صدی میں عالمی حالات مکمل طورپر بدل چکے تھے۔ اب نئے حالات کے مطابق، سیاست کا رول ثانوی (secondary) بن چکا تھا۔ اب ترکی میں اسلام کے فروغ کے لیے ضرورت تھی کہ وہاں غیر سیاسی دائرے میں ایک مضبوط تعمیری بنیاد قائم کی جائے۔
قدیم زمانہ سیاسی اقتدار کا زمانہ تھا۔ موجودہ زمانہ اس کے بجائے اداروں (institutions) کا زمانہ ہے، یعنی غیر سیاسی شعبوں میں پُرامن تنظیمیں بنانا، مثلاً تعلیم، صحافت، سماجی ترقی کے ادارے، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کا استعمال، وغیرہ۔ نئے دور کے مواقع کو استعمال کرنے میں زوال یافتہ سیاسی نظام ایک رکاوٹ کی حیثیت رکھتا تھا۔ اتاترک کا کمال ازم اپنی حقیقت کے اعتبار سے، اِسی نوعیت کا ایک آپریشن تھا۔ اِس کے نتیجے میں ترکی میں کھلے پن (openness) کا نیا دور آیا اور یہ ممکن ہوگیا کہ نئے مواقع کو استعمال کرتے ہوئے اسلام کے حق میں غیر سیاسی دائرے میں ایک تعمیری بنیاد قائم کی جائے۔
مابعد اتاترک دور (post-Ataturk period) میں ترکی میں کچھ ایسے رہنما اٹھے جو نئے دور کے مواقع کو اسلام اور مسلمانوں کے حق میں منظم طورپر استعمال کرنا چاہتے تھے۔ جیسا کہ عرض کیا گیا، اِن نئے تُرک رہنماؤں میں سے دو رہنما خصوصی اہمیت رکھتے ہیں— ایک، بدیع الزماں سعیدنورسی، اوردوسرے استاد محمدفتح اللہ گولن۔ نئے ترکی کی تعمیر میں اِن دونوں کا نمایاں حصہ ہے۔
بدیع الزماں سعید نورسی 1876 میں پیدا ہوئے اور 1960 میں اُن کا انتقال ہوا۔ انھوں نے جزئی طورپر سیاست میں حصہ لیا، لیکن جلد ہی اُن پر سیاست کی برائی واضح ہوگئی اور انھوں نے یہ کہہ کر سیاست سے علاحدگی اختیار کرلی: أعوذ باللہ من الشیطان ومن السیاسۃ۔
سعید نورسی کی تحریک کو ’نورتحریک‘ کہاجاتا ہے۔ اُن کا طریقہ پرامن دائرے میں غیرسیاسی انداز میں کام کرنا تھا۔ اِس طرح کام کرکے وہ مسلمانوں کو اعلیٰ مقام تک پہنچانا چاہتے تھے۔ وہ دورِجدید میں مسلمانوں کے احیائِ نو کے علم بردار تھے۔ سعید نورسی کے ایک سیرت نگار کے الفاظ میں، ان کا مشن اسلامی تہذیب کی تعمیر نو (rebuilding of Islamic civilization) تھا۔ سعیدنورسی کے پیروؤں کی تعداد کئی ملین تک پہنچتی ہے۔
Said Nursi (1876-1960), the most influential Islamic scholar in modern Turkish history, is the inspiration behind the hugely popular Nur movement. Guided by his masterwork, the Risale-i Nur, Nursi's followers shun political ambition, focusing instead on a revival of personal faith through study, self-reform and service of others. Nursi lived through the upheavals that led to the establishement of a vigorously secular Turkish republic in place of the dismembered Ottoman caliphate. Nursi was educated through the medrese system in the tradional Islamic disciplines but also mastered modern Western philosophical and scientific ideas in order to address the challenges Muslims face now. In some ways the Risale-i Nur functions as an interpretation of the Qur’an for the contemporary world, millions within and outside Turkey have found solace in the interpretation.
اِس سلسلے میں دوسرا نام استاد محمدفتح اللہ گولنülen) (Fethullah Gکا ہے۔ وہ اکیسویں صدی عیسوی کے ترکی میں مقبول رہنما کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان کے پیرو ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ انھوں نے تعلیم، صحت، سوشل ریفارم جیسے تعمیری شعبوں میں ممتاز کام انجام دئے ہیں، ترکی میں بھی اور ترکی کے باہر بھی۔ میںنے ترکی کے سفر کے دوران ان کے پیروؤں کے قائم کئے ہوئے کچھ اداروں کو دیکھا۔ اِن اداروں کا معیار وہی تھا جو یورپ کے اداروں کا معیار ہوتاہے۔
فتح اللہ گولن کا یہ سوچا سمجھا نظریہ ہے کہ — پُرامن انداز میں تعمیری کام کرو اور عملی سیاست سے دور رہو۔یہاں استاذ فتح اللہ گولن کے ایک سیرت نگار کا ایک اقتباس نقل کیا جاتاہے:
Fethullah Gülen, a 67-year-old Turkish Sufi cleric, author and theoretician has dedicated much of his life to resolving questions such as: Is it possible to be a true religious believer and at the same time enjoy good relations with people of other faiths or none? Moreover, can you remain open to new ideas and new ways of thinking? He leads a global movement inspired by Sufi ideas. He promotes an open brand of Islamic thought. Leaman, a leading scholar of Islamic philosophy, says that Gülen's ideas are a product of Turkish history, especially the end of the Ottoman empire and the birth of the republic. He calls Gülen’s approach “Islamlite”. Millions of people inside and outside Turkey have been inspired by Gülen’s more than 60 books and the tapes and videos of his talks. Why? A combination of charisma, good organisation and an attractive message. What Gülen says is that you can be at home in the modern world while also embracing traditional values like faith in God and community responsibility — a message which resonates strongly in Turkey.
Another belief he shares with Sufism is the idea that God, humanity and the natural world are all linked, and might even be part of a single entity, a sort of cosmic trinity. This idea has practical consequences. For example, it suggests that a believer will love and respect humanity and the natural world as they would God. It also means that no one should be seen as an outsider. Hence Gülen’s insistence on friendship among people of all faiths and none. (Prospect, July 26, 2008)
ترکی کا نیا رول
Turkey: Second Phase of Sahaba Mission
جیسا کہ عرض کیا گیا، مئی 2012 کے پہلے ہفتے میں ترکی میں ایک انٹرنیشنل کانفرنس ہوئی۔ اس کی دعوت پر میںنے ترکی کا سفر کیا۔ ایک ہفتہ قیام کے دوران میں نے ترکی کے مختلف تاریخی مقامات دیکھے۔ اُن میں سے ایک حضرت ابو ایوب الانصاری کا مقبرہ ہے جو استانبول میں واقع ہے۔ اِس مقبرے کے ساتھ اب ایک بڑا کامپلیکس بنا دیاگیا ہے۔
3 مئی 2012 کو میں نے یہ مقبرہ دیکھا۔ جس وقت میں مقبرے کے سامنے کھڑا ہوا تھا، میرا دماغ اس کی تاریخ کے بارے میں سوچنے لگا۔ میں نے سوچا کہ ابو ایوب انصاری ایک صحابیٔ رسول تھے۔ وہ مدینہ میں پیدا ہوئے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کے مشن میں شریک ہوئے۔ ایک دعوتی سفر کے دوران 52 ہجری میں وہ ترکی آئے۔ اُس وقت اُن کی عمر تقریباً 80 سال ہوچکی تھی۔ یہاں پہنچ کر شدید بیماری کی حالت میں ان کا انتقال ہوگیا۔ ان کی تدفین قسطنطنیہ میں ہوئی- قسطنطنیہ کا موجودہ نام استانبول ہے۔ ترکی میں متعدد صحابہ کی قبریں ہیں۔ ابو ایوب انصاری کی قبر اُن میں سے ایک ہے۔
میں نے سوچا کہ ابو ایوب انصاری اور دوسرے صحابہ عرب میں پیداہوئے۔ اس کے بعد وہ پرمشقت سفر کرکے ترکی پہنچے اور پھر وہ یہاں کی سرزمین میں مدفون ہوگئے۔ یہ سوچتے ہوئے مجھے تاریخ کا وہ واقعہ یاد آیا جو 632 عیسوی میں عرب کے میدانِ عرفات میں پیش آیا تھا۔ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں حجۃ الوداع کے موقع پر اپنے اصحاب کو خطاب کیا تھا۔ آپ نے فرمایا تھا: إن اللہ بعثنی رحمۃً للناس کافۃً فأدّوا عنّی (معرفة الصحابة لأبی نُعیم، رقم الحدیث: 3438) یعنی اللہ نے مجھے ساری دنیا کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے، پس تم میری طرف سے اِس پیغام رحمت کو تمام انسانوں تک پہنچا دو۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی اِس ہدایت کے مطابق، آپ کے اصحاب، عرب کے باہر نکلے اور اطراف کے ملکوں میں وہ آپ کا پیغام پہنچانے لگے۔ مگر یہ جدید کمیونکیشن سے پہلے کا زمانہ تھا۔ چناں چہ ایک حد پر پہنچ کر اُن کا دعوتی قافلہ رک گیا اور تمام انسانوں تک پیغام رسانی کا پیغمبرانہ مشن اُس وقت فطری طورپر، اپنی تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔
اِس معاملے کی ایک علامتی مثال عقبہ بن نافع التابعی (وفات: 63 ہجری) کی ہے۔ عقبہ بن نافع ایک دعوتی گروپ کے ساتھ چلتے ہوئے افریقہ کے مغربی ساحل تک پہنچ گئے۔ یہاں ان کے سامنے اٹلانٹک سمندر حائل ہوگیا۔ یہاںاپنے گھوڑے پر سوار ہو کر انھوںنے یہ تاریخی جملہ کہا: اللہم إنّی لو أعلم وراء ہذا البحر بلداً لخضتُہ إلیہ حتی لایُعبد أحد دونک (خدایا، اگر میں جانتا کہ اِس سمندر کے اُس پار بھی کوئی ملک ہے تو میں سمندر میں گھس کر وہاں جاتا، یہاں تک کہ تیرے سوا کسی کی عبادت نہ کی جائے)۔
استانبول میں جب میں صحابیٔ رسول کی قبر کے سامنے کھڑا تھا، اُس وقت یہ پوری تاریخ میرے ذہن میں تازہ ہوگئی۔ اچانک مجھے محسوس ہوا جیسے پیغمبر اسلام کے اصحاب جو اپنے دعوتی مشن کے تحت ترکی پہنچے اور یہاں کی زمین میں دفن ہوگئے، وہ خاموش زبان میں آواز دے رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ — اے امتِ محمد، تم کہاں ہو۔ اٹھو اور پیغمبر اسلام کے مشن کی تکمیل کرو، قبل کمیونی کیشن دور (pre-communication age) میں ہم نے پیغمبر کے مشن کو یہاں تک پہنچایا تھا۔ اب تم بعد کمیونی کیشن دور (post-communication age) میں ہو۔ تم اٹھو اور جدید مواقع کو استعمال کرتے ہوئے۔ زمین کے آخری حصے تک پیغمبر کے دعوتی مشن کو پہنچا دو۔
پیغمبر کا مشن
پیغمبر کا مشن کیا ہے، اس کو قرآن میں انذار وتبشیر(20:17)کے الفاظ میں بیان کیاگیا ہے، یعنی خدا کے تخلیقی منصوبہ (creation plan of God) سے دنیا کے تمام مردوں اور عورتوں کو باخبر کرنا، تاکہ آخرت میں جب تمام لوگ حشر کے میدان میں حاضر ہوں تو خدا کے سامنے کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ہم کو اِس تخلیقی منصوبے کی خبر نہ تھی۔ پیغمبرانہ مشن کی اِس حقیقت کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: رسلاً مبشرین ومنذرین لئلا یکون للناس علی اللہ حجۃ بعد الرسل 4: 165) )یعنی اللہ نے رسولوں کو خوش خبری دینے والے اور ڈرانے والے بناکر بھیجا، تاکہ رسولوں کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلے میں کوئی حجت باقی نہ رہے:
They were messengers, bearing good news and giving warning, so that mankind would have no excuse before God.
جغرافی اعتبار سے ترکی کا جائے وقوع بہت عجیب ہے۔ اس کا نصف حصہ ایشیا میں ہے اور بقیہ نصف حصہ یورپ میں۔ اِس طرح ترکی گویا کہ مشرق اور مغرب کے درمیان پل کی حیثیت رکھتا ہے:
Turkey is like a geographical bridge between East and West.
ترکی کی یہ جغرافی حیثیت بظاہر خدا کے تخلیقی منصوبہ کا ایک خاموش اعلان ہے۔ ترکی کے بارے میںخدا کو یہ منظور ہے کہ وہ حکمتِ نبوت (prophetic wisdom) کو مشرق سے لے اور اس کو مغربی اقوام تک پہنچائے۔
قدیم زمانے میں ترکی دو بڑے ایمپائر کی سیٹ رہا ہے — بازنتینی ایمپائر اور عثمانی ایمپائر اِس خصوصی تاریخ کی بنا پر ترکی میں بہت زیادہ تاریخی یادگاریں ہیںجو سیاحوں کے لیے خصوصی کشش کا ذریعہ ہیں۔ موجودہ زمانے میں سفر اور کمیونکیشن کی بنا پر ایک نیا ظاہرہ وجود میں آیا ہے جس کو عالمی سیاحت (international tourism) کہاجاتاہے۔ترکی اِس اعتبار سے چند ٹاپ کے سیاحتی ملکوں میں شمار ہوتاہے۔ یہاں مختلف ملکوں کے سیاح بڑی تعداد میں مسلسل آتے ہیں۔ سال 2011 میں ترکی میں دنیا کے مختلف حصوں سے آنے والے سیاحوںکی تعداد 31 ملین سے زیادہ تھی۔ ترکی میں آنے والے یہ لوگ سیکولر اصطلاح کے مطابق، سیاح (tourist) ہیں، لیکن اسلامی اصطلاح کے مطابق، وہ مدعو کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اُن میں سے ہر عورت اور مرد اِس کا ضرورت مند ہے کہ اس کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام اس کی اپنی قابلِ فہم زبان میں پہنچایا جائے۔
اِن سیاحوں کے بارے میں یہ کہنا درست ہوگا کہ مدعو خود داعی کے دروازے پر آکر دستک دے رہا ہے۔ وہ ترکی کے مسلمانوں سے کہہ رہا ہے کہ تمھارے پاس پیغمبر کا لایا ہوا خدائی کلام (Word of God) ہے۔ ہم تمھارے دروازے پر موجود ہیں۔ لاؤ وہ کلام ہم کو عطا کرو:
We are here. Give us the Word of God you have received from the Prophet of Islam.
اکیسویں صدی عیسوی میں پیدا ہونے والی یہ صورتِ حال، اپنی نوعیت کے اعتبار سے، زیادہ بڑے پیمانے پر عین وہی ہے جو ساتویں صدی عیسوی میں نسبتاً محدود پیمانے پر وجود میں آئی تھی۔ اِس صورت ِ حال کی حیثیت ایک دعوتی امکان (dawah opportunity) کی ہے۔ امتِ مسلمہ پر فرض ہے کہ وہ اِس امکان کو دعوت الی اللہ کے لیے اُسی طرح استعمال کرے جس طرح ساتویں صدی میں پیغمبر اور آپ کے اصحاب نے اس کو دعوت الی اللہ کے لیے استعمال کیا تھا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے 610 عیسوی میں مکہ میں اپنا مشن شروع کیا۔ اُس وقت مکہ مشرکانہ کلچر کا مرکز بناہوا تھا، حتی کہ خود مقدس کعبہ میں بھی کئی سو بت رکھے ہوئے تھے۔ اِس مشرکانہ کلچر کی بنا پر ایسا تھا کہ عرب کے مختلف حصوں سے لوگ برابر مکہ آتے تھے۔ آج کل کی اصطلاح میں یہ کہنا صحیح ہوگاکہ مکہ کے مشرکانہ مرکز ہونے کی بنا پر عرب میں ایک قسم کی مذہبی سیاحت (religious tourism) وجود میں آگئی تھی۔ مکہ اِن ’’مذہبی سیاحوں‘‘ کا مقامِ اجتماع بنا ہوا تھا۔
یہ اجتماعات اپنی اصل نوعیت کے اعتبار سے، مشرکانہ اجتماعات تھے، لیکن اِسی کے ساتھ یہ لوگ پیغمبر اسلام کے داعیانہ مشن کے لیے سامعین (audience) کی حیثیت رکھتے تھے۔ قدیم مکہ میں پیغمبر اور اصحابِ پیغمبر روزانہ ان کے اجتماعات میں جاتے اور قرآن سنا کر اُن کو دین ِ حق کا پیغام پہنچاتے۔ اِس لیے اصحابِ رسول کو ’’مقری‘‘ کہاجانے لگا، یعنی قرآن پڑھ کر سنانے والا۔ اِس طرح یہ ممکن ہوگیا کہ مکہ میں رہتے ہوئے تمام عرب قبائل تک پیغمبر اسلام کا لایا ہوا خدائی پیغام پہنچ جائے۔
یہ پرنٹنگ پریس کے دور سے پہلے کی بات ہے ۔ اُس وقت صرف یہ ممکن تھاکہ خدا کے کلام (قرآن( کو اپنے حافظے میں محفوظ کرلیا جائے اور اس کو لوگوں کے سامنے پڑھ کر سنایا جائے۔ مگر اب دنیا میں پرنٹنگ پریس کا دور آچکا ہے، اب یہ ممکن ہوگیا ہے کہ قرآن یا اس کا ترجمہ کتابی شکل میں تیار کرلیا جائے اور اس کو مطبوعہ صورت میں لوگوں تک پہنچایا جائے۔ گویا ساتویں صدی کے داعی اگر قرآن کے مقری بن کر دعوت کا کام انجام دے رہے تھے تو اکیسویں صدی کے داعی کو قرآن کا ڈسٹری بیوٹر (distributor) بن کر اِسی پیغمبرانہ مشن کو جاری رکھنا ہے۔ کسی گروہ کے لیے سب سے بڑی سعادت یہ ہے کہ اس کو دنیا میں نظریاتی قائد کا درجہ حاصل ہو۔ دعوت الی اللہ کا کام ہی وہ کام ہے جو امتِ مسلمہ کو موجودہ زمانے میں نظریاتی قیادت کا درجہ عطا کرسکتاہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن دعوت الی اللہ کا مشن ہے۔ اِس مشن کے مستقبل کے بارے میں ایک پیشین گوئی حدیث میں اِن الفاظ میں آئی ہے: لا یبقیٰ علی ظہر الأرض بیتُ مدر ولاوبر إلَّا أدخلہ اللہ کلمۃَ الإسلام (مسند أحمد، رقم الحدیث: 24215) یعنی زمین کے اوپر کوئی چھوٹا یا بڑا گھر نہیں بچے گا، مگر یہ کہ اللہ اس کے اندر اسلام کا کلمہ داخل کردے گا۔
اِس حدیثِ رسول میں یہ پیشین گوئی کی گئی ہے کہ ایک وقت آئے گا جب کہ اسلام کا پیغام ساری دنیا میں بسنے والے ہر عورت اور مرد تک پہنچ جائے گا۔ اِس حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ادخالِ کلمہ کا یہ واقعہ اسباب کے بغیر کسی پراسرار انداز میں پیش آئے گا۔ قانونِ فطرت کے مطابق، اِس دنیا میں ہر واقعہ اسباب وعلل کے تحت پیش آتا ہے۔ یہی صورت ادخالِ کلمہ کے مذکورہ معاملے میں پیش آئے گی۔ ادخالِ کلمہ کا یہ معاملہ بلا شبہہ ایک معلوم مُدخِل (داخل کرنے والا) کے ذریعے ہوگا، نہ کہ کسی پُراسرار طریقے کے ذریعے۔
اِس حدیث رسول میں دراصل پیشین گوئی کے انداز میں اُس دور کا ذکر ہے جس کو کمیونی کیشن کا دور (age of communication) کہاجاتاہے۔اِس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ بعد کی تاریخ میں اہلِ ایمان کو عالمی کمیونکیشن کے ذرائع حاصل ہوجائیں گے اور اِس طرح اُن کے لیے یہ ممکن ہوجائے گا کہ اِن ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے وہ اسلام کے پیغام کو عالمی سطح پر پہنچا سکیں، جب کہ اِس سے پہلے صرف مقامی سطح پر پیغام رسانی ممکن ہوتی تھی— یہی وہ چیز ہے جس کو ہم نے  دعوہ ایمپائر کا نام دیا ہے-
اخوانِ رسول
اب سوال یہ ہے کہ وہ کون لوگ ہیں جو کمیونی کیشن کے دور میں ادخالِ کلمہ کا یہ رول ادا کریں گے۔ اِس کا جواب ایک حدیث میںملتاہے۔ اُس کے الفاظ یہ ہیں: وددتُ أنا قد رأینا إخواننا۔ قالوا: أولسنا إخوانک یا رسول اللہ، قال: أنتم أصحابی، وإخواننا الذین لم یأتوا بعد (صحیح مسلم، رقم الحدیث: 249) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ میری خواہش ہے کہ ہم اپنے اخوان (بھائیوں) کو دیکھیں۔ صحابہ نے کہا کہ اے خدا کے رسول، کیا ہم آپ کے اخوان نہیں ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ تم میرے اصحاب ہو، ہمارے اخوان وہ ہیں جو ابھی نہیں آئے۔
دونوں حدیثوں میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اصحابِ رسول اور اخوانِ رسول دونوں کا مشن زمانے کے فرق کے ساتھ، ایک ہی ہے، یعنی دعوت الی اللہ۔ فرق صرف یہ ہے کہ اصحابِ رسول نے دعوت کے اس کام کو قبل کمیونی کیشن دور (pre-communication age) میں انجام دیا، اور اخوانِ رسول وہ لوگ ہوں گے جو اِسی دعوتی مشن کو بعد کمیونی کیشن دور (post-communication age) میں انجام دیں گے۔
اصحابِ رسول کو قرآن میں خیرِ امت (3:110)کہاگیا ہے۔ خیر امت کے بارے میں حضرت عمر فاروق کا ایک قول اِن الفاظ میں نقل ہوا ہے: من سرّہ أن یکون من ہذہ الأمۃ فلیؤد شرط اللہ فیہا (الطبری، 5/494 )- ایک اور روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں: من فعل فعلہم، کان مثلہم (القرطبی، 4/170)- دونوں روایتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ خیر امت یا اصحابِ رسول کوئی پراسرار ٹائٹل نہیں۔ یہ دراصل ایک رول (role) کا عنوان ہے، اور وہ رول دعوتی رول ہے۔ پچھلے زمانے میں دعوتی رول ادا کرنے کے نتیجے میں اصحاب رسول کو اصحابِ رسول ہونے کا درجہ ملا۔ اِسی طرح بعد کے زمانے میں جو لوگ مطلوب دعوتی رول اداکریں گے، اُن کو اخوانِ رسول کا درجہ ملے گا۔ اصحابِ رسول اور اخوانِ رسول دونوں تاریخی رول ہیں، نہ کہ پراسرار ٹائٹل۔
ترکی کی جو امتیازی خصوصیات ہیں، اُن کی بنا پر یہ کہا جاسکتاہے کہ اہلِ ترکی کے لیے امکانی طورپر وہ مواقع حاصل ہیں جن کو استعمال کرکے وہ اسلام کی تاریخ میں وہ رول ادا کریں جس کو حدیث میں اخوانِ رسول کا رول کہاگیا ہے- اِس معاملے میں دوسرے مقامات کے مسلمان بھی اُن کا ساتھ دے سکتے ہیں، مگر قانونِ فطرت کے مطابق، غالباً ایک گروہ کے لیے قائدانہ رول (leading role) مقدر ہے اور دوسرے گروہ کے لیے تائیدی رول (supporting role) ۔
ترکی کی امتیازی خصوصیات میںسے ایک خصوصیت یہ ہے کہ ترکی کی سرزمین میں بہت سے صحابہ کی قبریں ہیں۔ یہ اصحابِ رسول گویا خاموش زبان میں اہلِ ترکی کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ساتویں صدی عیسوی میں اصحاب رسول کا دعوتی قافلہ یہاں آکر رک گیا تھا۔ اب تم اکیسویں صدی میں ہو۔ اب تم کو نئے حالات اور نئے وسائل کے ذریعے اِس دعوتی سفرکو آگے بڑھانا ہے، یہاں تک کہ حدیث رسول کی پیشین گوئی کے مطابق، دین ِ حق کا کلمہ ہر چھوٹے اور بڑے گھر میں داخل ہوجائے۔ یہی اخوانِ رسول کا رول ہے۔ مستقبل انتظار کر رہا ہے کہ بڑھنے والے آگے بڑھیں اور فرشتوں کے ریکارڈ میں اخوانِ رسول کی حیثیت سے اپنا اندراج کرائیں۔
ترکی میں مدفون صحابہ خاموش زبان میں آواز دے رہے ہیں کہ اے اہلِ ترکی، تم دوبارہ اٹھو اور پیغمبر کے دعوتی مشن کو اس کی آخری تکمیل تک پہنچا دو۔ پھر وہ وقت آنے والا ہے جب کہ حشر کے میدان میں دوبارہ آواز دینے والا فرشتہ آواز دے کہ وہ لوگ آئیں جن کی بابت پیغمبر نے پیشگی خبر دی تھی، اور پھر سارے پیدا ہونے والے لوگ رشک کی نظروں سے دیکھیں گے کہ کتنے خوش قسمت تھے وہ لوگ جنھوں نے دعوتی کام کیا جس کے نتیجے میں آج اُن کو اخوانِ رسول کا درجہ مل رہا ہے۔
اجتہادی رول
جدیدترکی کے لیے جو عالمی دعوتی رول مقدر ہے، اس کے لیے آسمان سے کوئی آواز نہیں آئے گی۔ اِس قسم کا رول اجتہادی ہوتاہے۔ اِس لیے وہ ہمیشہ دریافت کے ذریعے معلوم ہوتا ہے۔ دورِ اول میں یثرب (مدینہ) کے لیے ایک عظیم دعوتی رول مقدر تھا، مگر اہلِ مدینہ کو اِس کی خبر نہ تھی۔ پیغمبر اسلام کو بذریعہ وحی اس کی خبر دی گئی۔ چناں چہ آپ نے فرمایا: أمرتُ بقریۃ تأکل القری، یقولون یثرب، وہی المدینۃ (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 1748)۔ اِس طرح ترکی کا عالمی دعوتی رول گہرے غور وفکر کے ذریعے دریافت کرنا ہوگا۔ جیساکہ عرض کیاگیا، قرائن (circumstances) واضح طورپر اس کا اشارہ کررہے ہیں۔
یہ قیاس ترکی کی چند متعین خصوصیات کی بنا پر قائم ہوتاہے۔ یہ خصوصیات بظاہرکسی دوسرے مسلم ملک میں موجود نہیں۔ اِن خصوصیات میں سے چند یہ ہیں:
1 - ترکی کا جغرافیہ ایک انوکھا جغرافیہ ہے۔ ترکی مسلم دنیا میں وہ واحد ملک ہے جس کو اپنے جائے وقوع کے اعتبار سے مشرق اور مغرب کے درمیان سنگم (junction) کی حیثیت حاصل ہے۔
2 - ترکی مسلم دنیا کا واحد ملک ہے جو مختلف اسباب کی بنا پر سیاحت کے نقشہ (tourist map) میں ٹاپ کا درجہ رکھتاہے۔ اِس طرح ترکی وہ واحد مسلم ملک بن گیا ہے جہاں ساری دنیا کے مدعو خود سفر کرکے داعی کے پاس پہنچ رہے ہیں۔
3 - قدیم زمانے میں دعوت کا کام سیاسی انفراسٹرکچر(political infrastructure) کی بنیاد پر ہوا تھا، موجودہ زمانے میں نئی تبدیلیوں کی بناپر دعوتی کام کے لیے سوشل انفراسٹرکچر (social infrastructure) درکار ہے، اور یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلم دنیا میں اِس وقت صرف ترکی وہ ملک ہے جہاں یہ مطلوب سوشل انفراسٹرکچر پایا جاتاہے۔ میں نے اپنے سفر کے دوران اِس کو سوشیو ایجوکیشنل انفراسٹرکچر (socio-educational infrastructure) کا نام دیا تھا-ترکی میں یہ سوشل انفراسٹرکچر جن لوگوں کی کوشش سے قائم ہوا ہے، اُن میں استاد فتح اللہ گولن اور ان کے پیرو ایک امتیازی درجہ رکھتے ہیں۔
4 - ترکی کے اِس جدید ڈیولپ مینٹ میں مصطفی کمال اتاترک کا تائیدی رول ہے۔ کمال اتاترک فطری طورپر ایک جرأت مند اور باعزم آدمی تھے۔ یہ کمال اتاترک ہی تھے جو ترکی میں ریڈیکل ریفارم (radical reform) لے آئے۔ مثلا رومن رسم الخط کو ترکی زبان کا رسم الخط بنانا، مغربی طرزِ تعلیم کو ترکی میں رائج کرنا، وغیرہ۔
کمال اتاترک جو تبدیلیاں لائے، اُن کو مخالفِ مذہب(anti-religion)کہنا درست نہ ہوگا۔ زیادہ صحیح طورپر اتاترک کا مشن مخالفِ جمود (anti-stagnation)مشن تھا۔ ترکی کے سفر میں وہاں کی مشہور نیوز ایجنسی (Anadolia Ajansi)کے نمائندہ کو انٹرویو دیتے ہوئے میں نے کہا تھا کہ جدید ترکی کا کیس اسلام کو سیکولر بنانا نہیں تھا، بلکہ اپنے نتیجے کے اعتبار سے، وہ سیکولرزم کو اسلامی بنانا تھا:
The case of modern Turkey was not one of secularization of Islam, but in terms of result, it was Islamization of secularism.
ترکی میں کمال اتاترک کی ریڈیکل کارروائیوں کے نتیجے میں بہت سی مثبت چیزیں پیدا ہوئیں۔ مثلاً طویل جمود کا ٹوٹنا، لوگوں میں اوپن نیس (openness)کا آنا، جدید تعلیم کا فروغ، مغربی کلچر سے ڈائنا مزم (dynamism) کا آنا،مثبت سیکولر قدروں (positive secular values) کو فروغ، جدید وسائل کو کسی تحفظ کے بغیر رواج دینا، ترکی زبان کے لیے رومن رسم الخط اختیار کرنے کی بنا پر کمپیوٹر کی تیز رفتار ترقی کا ممکن ہوجانا، عالمی انٹریکشن (global interaction) کا عمومی پھیلاؤ، حقیقت پسندانہ طرزِ فکر (realistic thinking) کا رواج، علاحدگی پسندی (separatism) کا خاتمہ، ہر شعبے میں جدید کاری (modernization) ، وغیرہ۔
مصطفی کمال اتاترک بظاہر کوئی مذہبی انسان نہیں تھے، وہ صرف ایک سیکولر انسان تھے۔ مگر ترکی میں جو انقلابی تبدیلیاں ان کے ذریعے وجود میں آئیں، وہ باعتبار نتیجہ ایسی تھیں جن سے اسلامی دعوت کے نئے مواقع کھل گئے۔ یہ ایک حقیقت ہے جس کا انکار کرنا کسی کے لیے ممکن نہیں۔
کشتی نوح
ترکی کی ایک امتیازی خصوصیت ہے جو کسی دوسرے ملک کو حاصل نہیں، وہ یہ کہ ترکی وہ ملک ہے جو دورِ اول کے پیغمبر حضرت نوح کی کشتی کی آخری منزل بنا۔جیسا کہ معلوم ہے، تقریباً 5 ہزار سال پہلے حضرت نوح کے زمانے میں ایک بڑا طوفان آیا۔ اُس وقت حضرت نوح اپنے ساتھیوں کو لے کر ایک کشتی میں سوار ہوگئے۔ یہ کشتی قدیم عراق) میسوپوٹامیا) سے چلی اور ترکی کی مشرقی سرحد پر واقع کوہِ ارارات (Ararat Mountain) کی چوٹی پر ٹھہر گئی۔
اِس واقعے کا ذکر بائبل میں اور قرآن میں نیز مختلف تاریخی کتابوں میں بشکلِ کہانی موجود تھا، لیکن کسی کو متعین طورپر معلوم نہ تھا کہ وہ کشتی کہاںہے۔ اِس کا سبب یہ تھا کہ بعد کے زمانے میں مسلسل برف باری کے دوران یہ کشتی برف کی موٹی تہ (glacier) کے اندر چھپ گئی۔ موجودہ زمانے میں گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں جگہ جگہ گلیشیر پگھلنے لگے۔ چناں چہ ارارات پہاڑ کے گلیشیر بھی پگھل گئے۔ اس کے بعد کشتی قابلِ مشاہدہ بن گئی۔
بیسویں صدی کے آخر میں کچھ لوگوں نے ہوائی جہاز میں پرواز کرتے ہوئے پہاڑ کے اوپر اِس کشتی کو دیکھا۔ اِس طرح کی خبریں برابر آتی رہیں ، یہاں تک کہ 2010 میں یہ خبر آئی کہ کچھ ماہرین پہاڑ پر چڑھائی کرکے ارارات کی چوٹی پر پہنچے اور کشتی کا براہِ راست مشاہدہ کیا، پھر انھوںنے کشتی کا ایک ٹکڑا لے کر اس کی سائنٹفک جانچ کی۔ اِس سے معلوم ہوا کہ کشتی کی عمر متعین طورپر چار ہزار آٹھ سو سال ہے، یعنی وہی زمانہ جب کہ طوفانِ نوح آیا تھا:
A group of Chinese and Turkish evangelical explorers said they believe they may have found Noah’s Ark—four thousand meters up a mountain in Turkey. The team say they recoverd wooden specimes from a structure on Mount Ararat in eastern Turkey that carbon dating proved was 4,800 years old, around the same time the Ark is said to have been afloat. (The Times of India, New Delhi, April 28, 2010)
قرآن میں کشتی نوح کا ذکر متعدد مقامات پر آیا ہے۔ اُن میں سے ایک وہ ہے جو سورہ العنکبوت میں پایا جاتا ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں: فأنجینٰہ وأصحٰبَ السفینۃ، وجعلناہا اٰیۃً للعالمین (29:15)یعنی پھر ہم نے نوح کو اور کشتی والوں کو بچا لیا۔ اور ہم نے اس کو سارے عالم کے لیے ایک نشانی بنادیا:
Then we saved him and those who were with him in the Ark, and made it a sign for mankind.
حضرت نوح کی کشتی تاریخ انبیا کی قدیم ترین یادگار ہے۔ قرآن کے مذکورہ بیان کے مطابق، اِس قدیم ترین یادگار کو محفوظ رکھنا اِس لیے تھا، تاکہ وہ بعد کے زمانے کے لوگوں کے علم میں آئے اور اُن کے لیے دین ِ حق کی ایک تاریخی شہادت بنے۔
مگر یہ سادہ بات نہ تھی، اِس عالمی واقعے کو ظہور میں لانے کے لیے بہت سی شرطیں درکار تھیں۔ اِس کے لیے ضروری تھا کہ کشتی کا اِستوا(11:44)ایک ایسے ملک میں ہو جو اپنے جائے وقوع کے لحاظ سے عالمی رول ادا کرنے کی پوزیشن میں ہو، کشتی نوح کے ظہور کا واقعہ ایک طے شدہ وقت پر پیش آئے، جب کشتی نوح ظاہر ہو تو عالمی کمیونکیشن کا دور آچکا ہو، یہ واقعہ جب ظہور میں آئے تو اُس وقت گلوبل سیاحت (global tourism) کا دور بھی آچکا ہو، پرنٹنگ پریس کا زمانہ آچکا ہو، تاکہ خدا کی کتاب (قرآن) کے مطبوعہ نسخے لوگوں کو دینے کے لیے تیار کئے جاسکیں، دنیا کھلے پن (openness) کے دور میں پہنچ چکی ہو، اِسی کے ساتھ دنیا سے کچھ چیزوں کا خاتمہ ہوچکا ہو۔ مثلاً مذہبی جبر، کٹر پن (rigidity)، علاحدگی پسندی (separatism)، تنگ نظری (narrow-mindedness) ، وغیرہ۔
ترکی کے پہاڑ (ارارات) پر کشتی نوح کا موجود ہونا استثنائی طورپر ایک انوکھا واقعہ ہے۔ گلیشیر کاپگھلنا جب اِس نوبت کو پہنچے گا، جب کہ پوری کشتی ظاہر ہوجائے اور وہاں تک پہنچنے کے راستے بھی ہموار ہوجائیں تو بلاشبہہ یہ اتنا بڑا واقعہ ہوگا کہ ترکی نقشہ سیاحت (tourist map) میں نمبر ایک جگہ حاصل کرلے گا۔ ساری دنیا کے لوگ اِس قدیم ترین عجوبہ کو دیکھنے کے لیے ترکی میں ٹوٹ پڑیں گے۔ اِس طرح اہلِ ترکی کو یہ موقع مل جائے گا کہ وہ اپنے ملک میں رہتے ہوئے ساری دنیا تک خدا کے پیغام کو پہنچادیں۔ یہ وہ وقت ہوگا کہ جب کہ ترکی میں آنے والے سیاحوں کے لیے قرآن سب سے بڑا گفٹ آئٹم (gift item) بن جائے گا جس میں پیشگی طور پر کشتی نوح کی موجود گی کی خبر دے دی گئی تھی۔
کشتی نوح اور ترکی
جیسا کہ عرض کیا گیا، حضرت نوح کی کشتی قدیم عراق (میسوپوٹامیا) کے علاقہ سے روانہ ہوئی- وہ اپنے چاروں طرف مختلف مقامات کی طرف جاسکتی تھی، لیکن اس نے ایک خاص رخ پر اپنا سفر کیا- پھر وہ چلتی ہوئی ترکی کی مشرقی سرحد پر واقع ایک پہاڑ کے اوپر ٹھہر گئی- یہ سخت سردی کا علاقہ تھا- چناں چہ کشتی بھاری اسنوفال (heavy snow fall) کے نتیجے میں برف کے بہت بڑے تودے کے نیچے دب گئی- اس طرح لمبی مدت تک فاسِلائزیشن (fossilization) کے عمل کے نتیجے میں وہ پتھر جیسی ہوگئی- اس طرح کشتی محفوظ رہی اور اکیسویں صدی میں برف پگھلنے کے نتیجے میں وہ ظاہر ہو کر لوگوں کے سامنے آگئی-
ایسا کیوں ہوا- حضرت نوح کی کشتی کے لئے مختلف آپشن (option) موجود تھے، لیکن اس نے صرف ایک ہی آپشن لیا اور وہ ترکی کے پہاڑ کا آپشن تھا- ایسا بلا شبہہ خدا کی ہدایت پر ہوا- اِس معاملے کو اتفاقی واقعہ کے طورپر نہیں لے سکتے- ہمارے لئے لازم ہے کہ ہم اس کو خالق کے منصوبے کے تحت پیش آنے والا واقعہ سمجھیں-
—اس معاملے پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نوح کی کشتی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کو جو رول مطلوب ہے، اس رول کے لئے زیادہ موزوںمقام اپنی بعض خصوصیات کی بنا پر، ترکی (Turkey) تھا-اللہ تعالیٰ کو یہ معلوم تھا کہ بعد کے زمانے میں ترکی ایک مسلم ملک بنے گا- اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ ترکی ایسا ملک ہے جو مشرقی دنیا اور مغربی دنیا کے درمیان جنکشن (junction) کی حیثیت رکھتا ہے- اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ مختلف اسباب سے ترکی میں ساری دنیا کے سیاح کثرت سے آئیں گے- اسی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو یہ بھی معلوم تھا کہ مسلم ملکوں کی لمبی فہرست میں ترکی وہ واحد ملک ہوگا جو مذہبی کٹرپن (religious fanaticism) سے خالی ہوگا اور اس بنا پر وہ سب سے زیادہ موزوں ملک ہوگا جہاں سے کشتی نوح کا مطلوب رول ادا کیا جاسکے-
یہ مطلوب رول کیا ہے- وہ بلا شبہہ دعوت ہے، یعنی اللہ کے تخلیقی منصوبہ سے تمام مرد اور عورت باخبر ہوجائیں- اِس مقصد کے لئے کشتی نوح ایک تاریخی شہادت (historical evidence) کی حیثیت رکھتی ہے- وہ اُس خدائی منصوبہ کی ایک تاریخی یادگار ہے جس کا ظہور حضرت نوح کے ذریعہ ہوا- کشتی نوح براہِ راست طورپر حضرت نوح کی تاریخ کی مادی شہادت ہے اور بالواسطہ طورپر تمام نبیوں کی تاریخ کی مادی شہادت-
اللہ تعالیٰ کو مطلوب تھاکہ قیامت سے پہلے تمام انسانوں کے سامنے اس بات کا محسوس اعلان ہوجائے کہ انسان کے بارے میں اللہ کا منصوبۂ تخلیق کیا تھا- کشتی نوح اس خدائی منصوبہ تخلیق (creation plan of God) کی ایک ناقابلِ انکار شہادت ہے- اور مختلف اسباب سے اِس شہادت کی ادائیگی کے لئے سب سے زیادہ موزوں مقام ترکی تھا-
ضرورت ہےکہ تمام دنیا کے مسلمان عموماً اور ترکی کے مسلمان خصوصاً اس خدائی منصوبے کو سمجھیں اور اس منصوبے کی تکمیل کے لئے وہ سارا اہتمام کریں جو اس کے لئے ضروری ہو- مثال کے طورپر وہ کشتی نوح کے مقام کو ایک اعلیٰ درجہ کے ٹورسٹ اسپاٹ (Tourist Spot) کے طورپر ڈولپ (develop) کریں- وہاں آمد ورفت کی تمام سہولتیں مہیا کریں- پھر وہاںاعلیٰ معیار پر یہ انتظام کریں کہ وہاں تربیت یافتہ افراد موجود ہوں، لائبریری موجود ہو- وہاں قرآن کا ترجمہ مختلف زبانوں میں برائے ڈسٹری بیوشن یا برائے فروخت موجود ہو- وہاں اِس بات کا اعلیٰ انتظام کیا جائے کہ کشتی نوح کے حوالے سے پیغمبرانہ مشن لوگوں کے سامنے اطمینان بخش صورت میں آسکے- گویا کہ کشتی نوح کے ظہور کا یہ مقام صرف ایک کشتی کے ظہور کا مقام نہ رہے، بلکہ وہ پورے معنوں میں جدید ترین معیار کا ایک دعوتی سنٹر بن جائے-
خدا کے تخلیقی منصوبے کے مطابق، ہماری زمین کے لئے دو سیلاب مقدر تھا —— ایک، حضرت نوح کے زمانے کا سیلاب اور دوسرا، وہ جو تاریخ بشری کے خاتمے پر پیش آئے گا- کشتی نوح پہلے سیلاب کے لئے تاریخی یادگار کی حیثیت رکھتی ہے، اور دوسرے سیلاب کے لئے اس کی حیثیت تاریخی ریمائنڈر (historical reminder) کی ہے- اکیسویں صدی عیسوی کے ربعِ اول میں کشتی نوح کا ظہور گویا اِس بات کی وارننگ ہے کہ لوگو، تیاری کرو، کیوں کہ آخری طوفان کا وقت قریب آگیا ہے-
خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اِس خدائی منصوبے کو سمجھیں اوراس کی تکمیل کرکے اللہ کے یہاں اجرِ عظیم کے مستحق بنیں- حقیقت یہ ہے کہ ہزاروں سال تک برف کے تودے میں دبے رہنے کے بعد کشتی نوح کا ظاہر ہونا صورِ اسرافیل سے پہلے کے دور کا سب سے بڑا واقعہ ہے- اِس کے بعد اگلا واقعہ صرف صورِ اسرافیل ہوگا جو گویا اِس بات کا آخری اعلان ہوگا کہ عمل کرنے کا وقت ختم ہوچکا اور عمل کا انجام پانے کا دور آگیا-
ترکی کا انتخاب
پہلی عالمی جنگ (1914-1918) دو گروپ کے درمیان ہوئی تھی— ایک کو اتحادی طاقت (Allied Powers) کہاجاتا تھا، اور دوسرے کو محوری طاقت (Axis Powers) کہاجاتا تھا- اُس وقت ترکی کے سامنے یہ سوال تھا کہ وہ دونوں گروپ میں سے کس گروپ کا ساتھ دے- اُس وقت مولانا محمد علی جوہر (وفات: 1931 ) نے اپنے انگریزی ہفتہ وار کامریڈ (Comrade) میں ایک طویل مضمون شائع کیا تھا- اِس مضمون میں انھو ں نے ترکوں کو یہ مشورہ دیا تھا کہ ترکوں کا انتخاب (choice)’محوری گروپ‘ ہونا چاہیے- آخر کار ترکی نےپہلی عالمی جنگ میں اپنے داخلی حالات کے تحت محوری گروپ کا ساتھ دیا، لیکن اِس جنگ میں محوری گروپ کو شکست ہوئی جس کی قیادت اُس وقت جرمنی کررہا تھا- اِس کے نتیجے میں ترکی کو شدید سیاسی نقصان سے دوچار ہونا پڑا-
اب اکیسویں صدی میں وہ وقت آگیا ہے کہ ترکی کو ایک اور انتخاب (choice) کا مشورہ دیا جائے- یہ انتخاب دعوت الی اللہ کا انتخاب ہے- یہ انتخاب کسی ایک گروپ کی حمایت اور کسی دوسرے گروپ کی مخالفت کا انتخاب نہیں ہے، وہ ساری انسانیت کو اپنا نشانہ بنانے کا کام ہے- دعوت الی اللہ کا کام ساری انسانیت کو اپنا انتخاب بنانا ہے، نہ کہ کسی ایک محدود گروہ کو-
مزید یہ کہ دعوت الی اللہ کا انتخاب ایک غیر سیاسی مشن کا انتخاب ہے- اِس انتخاب میں نہ شکست کا سوال ہے اور نہ ناکامی کا سوال- یہ انتخاب کسی گروہ کی عدوات پر مبنی نہیں ہے، بلکہ وہ پوری انسانیت کی خیر خواہی پر مبنی ہے- اس کے آغاز میں بھی کامیابی ہے، اور اس کے انجام میں بھی کامیابی-
واپس اوپر جائیں