Pages

Monday 2 August 2010

Al Risala | August 2010 (الرسالہ،اگست)

2

-اضاعت ِ صلوٰۃ

3

- قرآن کی ایک آیت

4

- صادق انسان

5

- قرآن میں تدبر

6

- تزکیہ کی حقیقت

7

- تخلیقی حمد

8

- اسلامی نظریۂ جنگ

10

- مہدی یا مسیح کی پہچان

12

- انتظار کی مدت ختم

13

- طالب اور مطلوب

14

- دعوتی شعور کا فقدان

18

- عارفانہ دعاء

19

- موت، موت کی یاد

20

- کشتی ٔ نوح کی دریافت

22

- فتویٰ اور فتویٰ ایکٹوزم

25

- مسلم ملٹنسی کا مسئلہ

27

- خود کُش بم باری

28

- مسلم پرسنل لا کا مسئلہ

33

- اپنی غلطیوں کو دریافت کیجئے

34

- ذہانت کا منفی پہلو

35

- مشترک خاندانی نظام

36

- وقت کی اہمیت

37

- سوال وجواب

40

- خبرنامہ اسلامی مرکز

43

- القرآن مشن


اضاعت ِ صلوٰۃ

قرآن کی سورہ مریم میں پچھلی امتوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے: فخلف من بعدہم خلفٌ أضاعوا الصلوۃ واتبعوا الشہوات، فسوف یلقون غیّا (مریم:59 ) یعنی پھراُن کے بعد ایسے لوگ اُن کے جانشین ہوئے جنھوں نے نماز کو ضائع کردیا اور خوہشات کے پیچھے پڑ گئے، پس عن قریب وہ اپنی خرابی کو دیکھیں گے۔قرآن کی اِس آیت میں بتایا گیا ہے کہ کسی امت کی بعد کی نسلوں میں کس قسم کی خرابی پیدا ہوتی ہے۔ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ بعد کی نسلوں میں وہ ظاہرہ پیدا ہوتا ہے جس کو قرآن میں ’’اضاعتِ صلوٰۃ‘‘ کہاگیا ہے۔اضاعتِ صلوۃ صرف ایک ظاہرے کا نام نہیں ہے۔ کسی امت کے دورِ زوال میں جب اس کے افراد کے اندر اضاعتِ صلوۃ کا واقعہ پیش آتا ہے، تو اُس کی نسبت سے ان کی زندگی کے دوسرے مظاہر بھی لازمی طورپر متاثر ہوتے ہیں۔ اضاعتِ صلوۃ عملاً اضاعتِ دین کے ہم معنیٰ بن جاتا ہے۔
قرآن کی اِس آیت میں، اضاعتِ صلوۃ سے مراد ترکِ صلاۃ نہیں، اور نہ اس سے یہ مراد ہے کہ زوال کے زمانے میں نماز کے ظاہری آداب کا اہتمام باقی نہیں رہتا۔ اِس سے مراد یہ ہے کہ نماز کے آداب تو بظاہر پوری طرح باقی رہتے ہیں، لیکن اس کی روح لوگوں کے اندر ختم ہوچکی ہوتی ہے۔ لوگوں کی نماز اُس آدمی جیسی نماز بن جاتی ہے جس کی نماز کو دیکھ کر رسو ل اللہ ﷺنے فرمایا تھا: ارجع فصلّ فإنّک لم تصلّ(الترمذی، رقم: 2636 ) یعنی جاؤ پھر سے نماز پڑھو، کیوں کہ تم نے نماز نہیں پڑھی۔امت کے دور زوال میںایسا نہیں ہوتا کہ لوگ نماز کے ظاہری آداب کو بھی چھوڑ دیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ظاہری آداب کے اعتبار سے نماز کبھی کسی امت میں متروک نہیں ہوتی۔ اصل چیز جو متروک ہوجاتی ہے، وہ نماز کی روح (spirit) ہے۔ اِسی روح کو قرآن میں ’’خشوع‘‘ کہا گیا ہے۔ اضاعتِ صلوۃ کی پہچان یہ ہے کہ لوگ وقتی طورپر نماز کے ظاہری آداب کا تو اہتمام کرتے ہوں، لیکن عملی طورپر ان کی دلچسپیاں تمام تر مادی چیزوں سے جڑی ہوئی ہوں۔ اِسی ظاہرہ کو ’’اتباعِ شہوات‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

قرآن کی ایک آیت

قرآن کی سورہ نمبر 89میں ارشاد ہوا ہے: ’’پس انسان کا حال یہ ہے کہ جب اس کا رب اُس کو آزماتا ہے اور اس کو عزت اور نعمت دیتا ہے، تو وہ کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھ کو عزت دی۔ اور جب خدا اس کو آزماتا ہے اور اس کا زرق اُس پر تنگ کردیتا ہے، تو وہ کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھ کو ذلیل کردیا‘‘ (الفجر:15-16 )
اِس آیت میں انسان کی ایک کمزوری کا ذکر کیا گیا ہے۔ جو شخص اپنی اِس کمزوری کو جانے اور اُس پر کنٹرول رکھے، وہ کامیاب ہوگا، اور جو شخص اپنی اِس کمزوری سے بے خبر ہو اور اُس پر کنٹرول نہ کرسکے، وہ خدا کی اِس دنیا میں ناکام ہو کر رہ جائے گا۔
دنیامیں کسی کے حالات ہمیشہ یکساں نہیں رہتے۔ اُس کو کبھی زیادہ ملتا ہے اور کبھی کم۔ دونوں ہی معاملہ خدا وند ذوالجلال کے فیصلے کے تحت ہوتا ہے۔
مگر انسان کی یہ کمزوری ہے کہ جب اُس کو زیادہ ملے تو وہ اس کو اپنی لیاقت کا نتیجہ سمجھ لیتا ہے اور اُس نفسیات کا شکار ہوجاتا ہے جس کو برتر اندازہ (over-estimation) کہا جاتا ہے۔ اِس کے برعکس، جب آدمی کو کم ملے تو وہ یہ سمجھ لیتا ہے کہ مجھ کو نظر انداز کیاگیا ہے اور پھر وہ اُس نفسیات کا شکار ہوجاتا ہے جس کو کم تر اندازہ (under-estimation) کہاجاتا ہے۔
یہ دونوں ہی قسم کی نفسیات کسی شخص کے لیے قاتل کی حیثیت رکھتی ہیں۔جو آدمی اپنا زیادہ اندازہ کرلے، وہ غیر واقعی طورپر برتری کی نفسیات میں مبتلا ہوجائے گا۔ اِس کے برعکس، جو شخص اپنا کم تر اندازہ کرے، وہ غیر واقعی طورپر کم تری کی نفسیات کا شکار ہوجائے گا۔
صحیح انسان وہ ہے جو اِن دونوں قسم کی نفسیات سے اپنے آپ کو بچائے۔ یہی وہ انسان ہے جس کو قرآن میں النفس المطمئنۃ (الفجر:27 )کہاگیا ہے، یعنی ہر صورت میں یکساں حال پر قائم رہنا۔
واپس اوپر جائیں

صادق انسان

قرآن کی سورہ نمبر 9 میں یہ آیت آئی ہے: یا أیہا الذین آمنوا اتقوا اللہ وکونوا مع الصادقین (التوبۃ:119 ) یعنی اے ایمان والو، اللہ سے ڈرو اور صادقین کے ساتھ رہو۔
اِس آیت میں صادق کا لفظ آیا ہے۔ اِس سے مراد کون لوگ ہیں۔ مفسر القرطبی نے نقل کیا ہے کہ اِس سے مراد وہ لوگ ہیں جن کا ظاہر وباطن یکساں ہو (ہم الذین استوت ظواہرہم وبواطنہم)۔ ظاہر وباطن میں یکسانیت کا مطلب کیا ہے۔
ظاہر وباطن میں یکسانیت کا مطلب یہ ہے کہ آدمی جو سوچے، وہی کرے اور جو کرے، وہی سوچے۔ مثلاً اگر وہ وعدہ کرے تو اس کو مکمل طورپر پورا کرے، اور اگر پورا نہیں کرنا ہے تو وہ وعدہ بھی نہ کرے۔اُس کی شخصیت کو سمجھنا پوری طرح ممکن ہو۔ ایسے انسان کے اندر وہ کردار ہوتا ہے جس کو قابلِ پیشین گوئی کردار (predictable character) کہاجاتا ہے۔
صادق کا لفظ منافق کے لفظ کی ضد ہے۔ صادق انسان کے اندر وہ شخصیت ہوتی ہے جس کو انٹگریٹیڈ شخصیت (integrated personality) کہا جاتا ہے، یعنی وہ انسان جو نفسیاتی پیچیدگی (complex) سے پاک ہو، جس کی شخصیت کے مختلف پہلو کامل توافق کے ساتھ عمل کرتے ہوں۔ انسان فطری طور پر تضادات کا مجموعہ (mixture of opposites) ہوتا ہے۔ جو انسان اپنی شخصیت کے اِن مختلف اور متنوع پہلوؤں کو ایک ہم آہنگ کُل (integrated whole) میں ڈھال سکے، وہی انسان صادق انسان ہے۔
صادق انسان خلقِ عظیم (القلم: (4 کا مالک ہوتا ہے۔ صادق انسان کا ذہنی سانچہ وہ اعلیٰ سانچہ (mould) ہوتا ہے جس کو قرآن میں شاکلۂ خداوندی (الاسراء:84 ) کہاگیا ہے۔ صادق انسان دنیا میں فرشتوں کی صحبت میں رہتا ہے، اور موت کے بعد آخرت میں اس کو انبیاء اور شہداء اور صالحین (النساء:69 ) کی صحبت میں رہنے کی سعادت حاصل ہوگی۔
واپس اوپر جائیں

قرآن میں تدبر

قرآن میں حکم دیاگیا ہے کہ قرآن کی آیتوں پر تدبر کرو (ص:29 )۔ اس کی ایک سادہ مثال یہ ہے۔ قرآن کی سورہ نمبر 2 میں یہ بتایا گیا ہے کہ اہلِ جنت کو جب وہاں کا رزق دیا جائے گا، تو وہ کہیں گے کہ ایسا ہی رزق ہم کو دنیا میں بھی ملا تھا (البقرۃ:25 )۔
اِس آیت میں جنت کی نعمتوں کے لیے رزق کا لفظ استعمال ہوا ہے اور دنیا کی نعمتوں کے لیے بھی رزق کا لفظ ۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا آخرت کی جنت کا رزق بھی عین وہی ہوگا جو موجودہ دنیا میں انسان کو ملتاہے۔ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہے—
کیوںکہ جنت کی ہر چیز کامل (perfect) ہوگی اور موجودہ دنیا کی ہر چیز غیر کامل (imperfect) ہوتی ہے۔
اِس سوال پر غور کرتے ہوئے ہم اِس حقیقت تک پہنچتے ہیں کہ ہر لفظ کا ایک ابتدائی مفہوم ہوتا ہے اور دوسرا اس کا انتہائی مفہوم۔ مذکورہ آیت میں دنیا کی نسبت سے، رزق کا لفظ اپنے ابتدائی مہفوم میں آیا ہے، اور جنت کی نسبت سے، رزق کا لفظ اپنے انتہائی مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ اِس سے معلوم ہوا کہ دنیا میں ہر چیز اپنے ابتدائی درجۂ لذت کے اعتبار سے ملتی ہے، جب کہ جنت میں ہر چیز اپنے انتہائی درجۂ لذت کے اعتبار سے ملے گی۔
اِس سادہ مثال سے معلوم ہوتاہے کہ قرآن میں تدبر کا مطلب کیا ہے۔ تدبر کا مطلب اصلاً یہ ہے کہ آپ کسی قرآنی آیت کو لے کر اُس پر سوال قائم کرسکیں۔ جب سوال سامنے آئے گا تو ذہن غوروفکر کے ذریعے اُس کا جواب معلوم کرنے کی کوشش کرے گا۔
اِس طرح آیت کے اندر چھپے ہوئے معانی کھلیں گے، آیت کے گہرے معانی تک آپ کی رسائی ہونے لگے گی۔ اِس طرح آپ کا یقین بڑھے گا، آپ کی معرفت میں اضافہ ہوگا، آپ کے اندر ذہنی ارتقاء کا عمل شروع ہوجائے گا۔
واپس اوپر جائیں

تزکیہ کی حقیقت

پیغمبر کے فرائض میں سے ایک فریضہ وہ ہے جس کے لیے قرآن میں تزکیہ (البقرۃ:129 ) کا لفظ آیا ہے۔ ہر مومن کی یہ لازمی ضرورت ہے کہ وہ اپنا تزکیہ کرے۔ تزکیہ کے بغیر وہ اعلیٰ شخصیت نہیں بنتی جس کو قرآن میں ربانی شخصیت (آل عمران:79 ) کہا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تزکیہ ہی کسی انسان کے لیے جنت میں داخلے کا ذریعہ بنے گا (طٰہٰ: 76 )۔
تزکیہ کا لفظی مطلب نمو یا افزائش (to flourish) ہے۔ اِس نمو کی ایک مادّی مثال درخت ہے۔ درخت ایک بیج کی نمو پذیری کا نتیجہ ہوتا ہے۔ ایک بیج موافق ماحول پاکر بڑھنا شروع ہوتا ہے، یہاں تک کہ وہ ایک ہرا بھرا درخت بن جاتا ہے۔ یہی معاملہ انسانی تزکیہ کا بھی ہے۔ اِس اعتبار سے،تزکیہ کو روحانی ارتقا یا ذہنی ارتقا (intellectual development) بھی کہا جاسکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہت سی امکانیات (potentials) کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ اِن امکانیات کو واقعہ(actual) بنانے کا نام تزکیہ ہے۔
آدمی جب ایمان لاتا ہے تو وہ دراصل تزکیہ کے سفر کا آغاز کرتا ہے، یہاں تک کہ دھیرے دھیرے وہ ایک مُزکیّٰ انسان، یا ذہنی اور روحانی اعتبار سے ایک ارتقا یافتہ شخصیت (developed personality) بن جاتا ہے۔ یہی وہ انسان ہے جس کو آخرت کی ابدی جنت میں داخلہ ملے گا۔
تزکیہ کسی پُراسرار چیزکا نام نہیں۔ تزکیہ کا ذریعہ مراقبہ (meditation) نہیں ہے،بلکہ تزکیہ کا ذریعہ غوروفکر (contemplation) ہے۔ اپنی ذات اور کائنات کے بارے میں غور وفکر کرنا اور اُن سے معرفت کا ذہنی یا فکری رزق حاصل کرنا، یہی وہ عمل (process) ہے جس سے آدمی کے اندر مزکّٰی شخصیت بنتی ہے۔ تزکیہ ایک معلوم حقیقت ہے، نہ کہ کوئی مجہول حقیقت۔ یہ تزکیہ انسان کی اپنی کوشش سے حاصل ہوتا ہے، کسی مفروضہ بزرگ کے پُراسرار فیض سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔
واپس اوپر جائیں

تخلیقی حمد

حضرت داؤد ایک پیغمبر تھے۔ انھوںنے اللہ تعالیٰ کی حمد ایک خاص انداز میں کی۔ یہ حمد اتنی زیادہ عظیم تھی کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یا داؤد، اتعبتَ الملائکۃ (الشکرلابن أبی الدنیا، رقم الحدیث 36 ) یعنی اے داؤد، تم نے تو فرشتوں کو تھکا دیا۔
یہ سادہ طورپر صرف حمدِ داؤدی کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ وہ حمدِ تفکیری کا معاملہ ہے۔ جب بھی کوئی شخص اللہ کی عظمتوں پر سوچتا ہے، وہ آلاء اللہ میں فکر وتدبر کرتا ہے تو اُ س کے اندر تخلیقی معرفت پیدا ہوتی ہے۔ وہ نئے نئے انداز سے اللہ تعالیٰ کی عظمتوں کو محسوس کرنے لگتا ہے۔ اُس وقت اس کی زبان سے حمدِ خداوندی کے اظہار کے لیے تخلیقی الفاظ (creative words)نکلنے لگتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اعلیٰ درجے کی معرفت ہمیشہ، اعلیٰ درجے کے تدبر سے کسی بندۂ خدا کو ملتی ہے۔
مثال کے طورپر سورج ایک خدائی کارخانہ ہے جو زمین پر روشنی سپلائی کرتا ہے۔ اِسی طرح درخت بھی خدائی کارخانے ہیں جو انسان کو آکسیجن سپلائی کرتے ہیں۔ سورج دن کے وقت اپنی روشنی زمین پر بھیجتا ہے اور شام کے وقت وہ اس کوموقوف کردیتا ہے۔
اگر درخت بھی یہی کریں کہ وہ دن کے نصف حصے میں آکسیجن سپلائی کریں اور دن کے نصف حصے میں وہ آکسیجن سپلائی کرنا بند کردیں تو موجودہ زمین پر انسان کے لیے زندہ رہنا ناممکن ہوجائے گا۔
اِس طرح کی بے شمار خدائی حکمتیں ہیں۔ یہ حکمتیں واقعاتِ فطرت کے اندر چھپی ہوئی ہیں۔ انسان جب سوچتا ہے تو یہ چھپی ہوئی نشانیاں اُس پر ظاہر ہوجاتی ہیں۔
اُس وقت وہ اِس قابل ہوجاتا ہے کہ اس کی زبان پر حمد کے وہ عظیم الفاظ جاری ہوجائیں جس کی ایک مثال پیغمبر داؤد کے واقعے کی صورت میں بتائی گئی ہے— یہ اعلیٰ حمد ہی وہ چیز ہے جو انسان کو جنت کے اعلیٰ درجات تک پہچانے والی ہے۔
واپس اوپر جائیں

اسلامی نظریۂ جنگ

’’نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقۂ دعوت وتبلیغ اور عصری تحریکات‘‘ کے عنوان کے تحت ایک مشہور عالم کا ایک مقالہ شائع ہوا ہے۔ اِس ضمن میں انھوںنے اسلامی نظریۂ جنگ پر کلام کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: ’’اسلامی جہاد کی کارگزاریوں میں اِس کے علاوہ اور کسی بات کی گنجائش نہیں کہ پہلے پہل دشمنوں کو دین کی دعوت دی جائے۔ اگر وہ اسے قبول کرلیتے ہیں، تو اُن کے جان ومال حرام ہیں۔ اور جب اس کا انکار کریں، تو ان سے اسلام اور مسلمانوں کی (سیاسی) ذمے داری میں داخل ہوجانے کا مطالبہ کیا جائے گا۔ لیکن جب وہ لوگ اس کا بھی انکار کردیں، تو پھر جہاد کا حکم ہے، اور اُن سے جنگ کی جائے گی، یہاں تک کہ وہ اسلام لے آئیں، یا اس کے سامنے سرِ تسلیم خم کردیں۔ یہی اسلامی طریقہ ہے‘‘۔ (پندرہ روزہ تعمیر حیات، لکھنؤ، 25 اپریل 2010 ، صفحہ7 )
یہی اکثر علماء کا خیال ہے۔ لیکن یہ سرتاسر ایک بے بنیاد نظریہ ہے۔ اسلام میں انکارِ دعوت پر جنگ نہیں ہے، اسلام میں صرف جارحیت (aggression) پر مدافعانہ جنگ ہے۔ اِس مدافعانہ جنگ کی بھی بہت سی لازمی شرطیں ہیں۔ ان میں سے ایک شرط یہ ہے کہ اِس دفاعی جنگ کا حق بھی صرف ایک قائم شدہ حکومت کو ہے(الرحیل للإمام)۔ غیر حکومتی افراد یا غیر حکومتی تنظیموں (NGOs) کو ہرگز یہ اجازت نہیں کہ وہ کسی کو منکر یا دشمن قرار دے کر اُس کے خلاف مسلح جنگ شروع کردیں۔
اگر کسی مقام پر وہ صورتِ حال ہو جس کو عام طورپر ظلم یا بے انصافی سے تعبیر کیا جاتا ہے، تو وہ ہرگز کسی مسلم فرد یا مسلم تنظیم کے لیے جنگ چھیڑنے کا عذ ر نہیں۔ ایسی صورت حال میں کسی مسلم فرد یا مسلم تنظیم کے لیے ایک ہی انتخاب (choice) ہے، یہ کہ وہ کامل طورپر پُر امن رہتے ہوئے دعوت اور اصلاح کا کام کرے۔ بالفرض اگر فریقِ مخالف کی طرف سے زیادتی کا سلوک کیاجائے تو اس کے بعد بھی مسلمانوں کے لیے صرف ایک ہی انتخاب ہے، اور وہ صبر ہے، یعنی وہ اپنے نزاعی عمل کو یک طرفہ طورپر موقوف کردیں اور فریقِ ثانی کی اصلاح کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کریں
ایک روایت حدیث کی کتابوںمیں ان الفاظ میں آئی ہے: أمرتُ أن أقاتل الناس حتی یقولوا لاالٰہ إلا اللہ (صحیح مسلم، کتاب الإیمان، باب الأمر بقتال الناس) یعنی مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑوں ، یہاں تک کہ وہ یہ کہہ دیں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔
اس حدیث سے کچھ لوگ یہ مطلب نکالتے ہیں کہ اسلام کا نشانہ لوگوں سے اُن کے عقیدے کو بدلوانا ہے، اسلامی دعوت کا آغاز پُر امن تبلیغ سے ہوگا، لیکن اگر وہ پر امن تبلیغ سے اسلام قبول نہ کریں تو اُن سے باقاعدہ جنگ کی جائے گی، تاکہ وہ مجبور ہو کر اسلام کے حلقے میں داخل ہوجائیں۔
اِس حدیث کا یہ مطلب یقینی طورپر درست نہیں ہے۔ پہلی بات یہ کہ اِس حدیث میں ’’الناس‘ کا لفظ عام معنوں میں نہیں ہے، بلکہ وہ خاص معنی میں ہے۔
اِس حدیث میں الناس سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاصر بنو اسماعیل (قریش مکہ) ہیں۔ اِس حدیث کو عمومی معنوں میں لینا ہر گز درست نہیں۔ الناس کے لفظ کا ایسا خصوصی استعمال قرآن میں بھی دیگر مقامات پر موجود ہے۔ مثلاً سورہ النصر (110)میں الناس سے مراد مخصوص طور پر یہی قریشِ مکہ ہیں، نہ کہ عمومی طورپر ساری دنیا کے لوگ۔
اِس سلسلے میں دوسری بات یہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنے معاصر الناس سے اِس قسم کی جنگ نہیں کی۔ اِس واقعے کو سامنے رکھئے تو معلوم ہوگا کہ مذکورہ حدیث میں قتال کا لفظ اپنے لغوی معنی میں نہیں ہے، بلکہ وہ شدتِ کلام کا ایک اسلوب ہے۔ دوسرے لفظوں میں، یہ ہیمرنگ کی زبان (language of hammering) ہے، وہ تشریعی حکم کی زبان نہیں۔
اسلامی تعلیم کے مطابق، دعوت وتبلیغ کا کام مکمل طورپر ایک پر امن کام ہے، اپنے آغاز میں بھی اور اپنے انجام میں بھی۔ دعوت کا نشانہ ایک انسان کے ذہن ودماغ کو بدلنا ہے، تاکہ وہ ایک صالح انسان بن سکے۔
اِس قسم کا مقصد صرف پر امن نصیحت کے ذریعے حاصل ہوسکتا ہے، نہ کہ جنگ اور قتال کے ذریعے۔ جنگ اور تشدد کا طریقہ معکوس نتیجہ پیدا کرے گا، نہ کہ مطلوب نتیجہ۔
واپس اوپر جائیں

مہدی یا مسیح کی پہچان

مہدی یا مسیح کی پہچان کے بارے میں پہلی بات یہ ہے کہ اِس سلسلے میں حدیث کی کتابوں میں جو روایات آئی ہیں، اُن میں سے کسی بھی روایت میں یہ نہیں ہے کہ مہدی اور مسیح اعلان کے ساتھ اپنے کام کا آغاز کریں گے، یعنی وہ ایسا نہیں کریں گے کہ لوگوں سے کہیں کہ اے لوگو، میں مہدی ہوں، یا میں مسیح ہوں۔ تم لوگ مجھ کو مانو اور میری پیروی کرو۔ اِس کا واضح مطلب یہ ہے کہ مہدی یا مسیح کو پہچاننے کا ذریعہ ان کا اپنا دعویٰ یا ان کا اپنا اعلان نہ ہوگا، جیسا کہ پیغمبروں کے معاملے میں ہوتا ہے۔
ایسی حالت میں یہ سوال ہے کہ مہدی یا مسیح کے ظہور کے وقت اُن کو پہچاننے کی صورت کیا ہوگی۔ اِس کا ذریعہ یقینی طورپر صرف ایک ہوگا، اور وہ مہدی یا مسیح کا رول ہے۔ دراصل مہدی یا مسیح کے عملی رول کو دیکھ کر لوگ اُن کو پہچانیں گے اور ان کا ساتھ دیں گے۔
مہدی یا مسیح کے اِس رول کو متعین کرنے کے لیے احادیث کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بنیادی طورپر اس کے دو پہلو ہیں۔ اس کا ایک پہلو وہ ہے جس کو صحیح البخاری کی ایک روایت میں ’’یضع الحرب‘‘کے الفاظ میں بتایاگیا ہے: (کتاب أحادیث الأنبیاء، باب نزول عیسی) یعنی مسیح جنگ کو ساقط کردیں گے۔ اس کا دوسرا پہلو وہ ہے جس کو صحیح مسلم کی ایک روایت میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: ہٰذا أعظم الناس شہادۃً عند رب العالمین (کتاب الفتن، باب ذکر الدجال) یعنی یہ شہادت خدا کے نزدیک عظیم ترین شہادت ہوگی۔
مہدی یا مسیح کے رول کا ایک پہلو وضعِ حرب ہوگا۔ یہ وضع حرب خود مسلمانوں کی نسبت سے ہوگا، نہ کہ سارے عالم کی نسبت سے، یعنی مسلمانوں کے درمیان جنگ کو ساقط کرنا۔ اِس پہلو کا مزید مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بعد کے زمانے میں مسلمانوں کے درمیان جو لٹریچر تیار ہوگا، وہ بعض زمانی اسباب سے، حرب اور جہاد پر مبنی ہوگا۔ اِس طرح یہ صورت حال پیدا ہوجائے گی کہ مسلمان شعوری طورپر پُرامن دعوت کے تصور سے بے خبر ہوجائیں گے۔ اپنے مائنڈ سیٹ کی بنا پر وہ صرف مسلّح جہاد کو اسلامی عمل کا درجہ دے دیںگے۔
ایسی حالت میں، مہدی یا مسیح کا پہلا کام یہ ہوگا کہ وہ اسلام کی ایک غیر عسکری آئیڈیالوجی دریافت کریں۔ یہ آئیڈیالوجی اتنے طاقت ور دلائل پر مبنی ہو کہ وہ معاصر مسلمانوں کی عسکری سوچ کو دلیل کی سطح پر پوری طرح منہدم کردے۔ مذکورہ حدیث میں اصلاً وضع حرب کا مطلب نظریاتی وضعِ حرب ہے، یعنی فکری سطح پر حرب کے تصور کو غیر متعلق (irrelevant) ثابت کردینا۔
مہدی یا مسیح کے رول کا دوسرا پہلو وہ ہے جس کو حدیث میں عظیم ترین شہادت کے الفاظ میں بیان کیاگیا ہے۔ یہاں شہادت سے مراد جسمانی قربانی نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد گواہی (witness) ہے۔ کیوں کہ جسمانی قربانی میں عظیم اور غیر عظیم کا فرق نہیں ہوتا۔ جسمانی قربانی میں داخلی نیت کے اعتبار سے فرق ہوسکتا ہے، لیکن جسمانی اعتبار سے خود ایک شخص کی قربانی اور دوسرے شخص کی قربانی کے درمیان کوئی فرق نہیں۔
عظیم گواہی کا مطلب کیا ہے۔ اس کا مطلب ہے — دلائل کے اعتبار سے طاقت ور ترین گواہی، یعنی دعوت کے پیغام کو ایسے اعلیٰ دلائل کے ساتھ پیش کرنا جس سے مخاطب اپنے آپ کو علمی طورپر بے دلیل محسوس کرنے لگے ، وہ محسوس کرنے لگے کہ وہ دلیل کی زمین پر نہیں کھڑا ہوا ہے، بلکہ وہ خود ساختہ مفروضات کی زمین پر کھڑا ہوا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مہدی یا مسیح کا معاملہ کوئی پراسرار معاملہ نہیں ہوگا۔ وہ ’’لیلہا کنہارہا‘‘ کے معیار پر پورا اترنے والا واقعہ ہوگا اوریہ بات بالکل فطری ہے۔ جب مہدی یا مسیح اعلان کے ساتھ اپنے کام کا آغاز نہیں کریں گے تو بلاشبہہ ان کے رول کو اتنا زیادہ واضح ہونا چاہیے کہ ایک سنجیدہ اور متلاشی انسان اس کو دیکھ کر یہ دریافت کرلے کہ بلا شبہہ یہی وہ شخص ہے جس کے لیے حدیث میں مہدی یا مسیح کے الفاظ آئے ہیں۔ اگر اِس قسم کا وضوح نہ ہو تو کسی عورت یا مرد کے بارے میں کس طرح یہ فیصلہ ہوگا کہ اُس نے مہدی یا مسیح کو پہچاننے کا ثبوت دیا، یا وہ اُن کو پہچاننے کے اِس امتحان میں ناکام ہوگیا۔
واپس اوپر جائیں

انتظار کی مدت ختم

بظاہرِ حالات قیامت اب بہت قریب آگئی ہے، اتنا ہی قریب جتنا کہ آج کی شام کے بعد کل کی صبح کا آنا۔ دوسری مادی علامتوں کے علاوہ، ایک معلوم علامت یہ ہے کہ اکیسویں صدی عیسوی میں مسلم اور غیر مسلم دونوں اپنے بگاڑ کی آخری حد پر پہنچ چکے ہیں۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اکیسویں صدی میں پہنچ کر انسان نے یہ جواز (justification) کھودیا ہے کہ موجودہ زمین پر اس کو مزید بسنے کا موقع دیا جائے۔ یہ معاملہ مسلم اور غیر مسلم دونوں کا ہے۔
مسلمانوں کے بگاڑ کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ ان کے درمیان نہی عن المنکر کا عمل بالکل ختم ہوگیا ہے۔ موجودہ زمانے کے مسلمان واضح طورپر محرمات میں مبتلا ہیں، لیکن ان کے خلاف علماء نہی عن المنکر کی مہم نہیں چلاتے۔
مثلاً موجودہ زمانے میں بہت سے مسلم گروپ مسلم حکومتوں کے خلاف خروج کئے ہوئے ہیں جو کہ یقینی طورپر حرام ہے۔ بہت سے مسلم گروپ، غیر حکومتی سطح پر مسلح تنظیمیں بنائے ہوئے ہیں، حالاں کہ اسلام میں اِس قسم کی تنظیم جائز نہیں۔ بہت سے مسلم گروپ، خود کش بم باری (suicide bombing) کے عمل میں مشغول ہیں، حالاں کہ خود کش بم باری اسلام میں سرتا سر حرام ہے، وغیرہ۔ یہ سب محرمات موجودہ زمانے میں کھلے طور پر کئے جارہے ہیں، لیکن ان کے خلاف مذمت کی کوئی مہم نہیں چلائی جاتی۔ یہ صورتِ حال بلاشبہہ اللہ کی رحمت سے محروم کردینے والی ہے۔
دوسری طرف، غیر مسلم قومیں بگاڑ کی آخری حد پر پہنچ چکی ہیں۔ ان کا سب سے زیادہ نمایاں بگاڑ عریانیت (nudity) ہے۔ اِس کی مختلف صورتیں بالکل عام ہوچکی ہیں۔ مثلاً کھلے طورپر غیر شادی شدہ جوڑے کا میاں بیوی کی طرح ایک ساتھ رہنا(live-in relationship)، کھلے طورپر ہم جنس پرستی (homosexuality)، کھلے طورپر ورجنٹی (virginity) کا نیلام کیا جانا، وغیرہ۔ اِس طرح کی کھلی ہوئی برائیوں کے بعد بظاہر انسان کے لیے موجودہ زمین پر رہائش کا کوئی جواز نہیں رہتا۔
واپس اوپر جائیں

طالب اور مطلوب

انسان ایک انتہائی با معنی وجود ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے وجود کی اس اعلیٰ معنویت کو دریافت کرسکے تو یہ دریافت اس کے لیے ایک عظیم دعا کا پائنٹ آف ریفرنس (point of reference) بن جائے گی۔ وہ کہہ سکے گا کہ خدایا، تو نے مجھے ایک با معنی وجود کے طورپر پیدا کیا اور پھر اس وجود کوایک ایسی دنیا میں ڈال دیا جس کو ظالموں نے بے معنی بنا دیا تھا۔ خدایا، تو اپنی رحمت سے اِس بامعنیٰ وجود کو ایک زیادہ بہتر اور با معنی دنیا بھی عطا فرما۔ یہ دعا بلاشبہہ اسم اعظم کی دعا ہے۔ لیکن یہ دعا صرف اُس دل سے نکلے گی جس کو دریافت والی معرفت حاصل ہوئی ہو۔ فانی بدایونی (وفات: 1940 ) کو وراثت میں ایک بڑا گھر ملا تھا۔ لیکن اِس بڑے گھر نے ان کو سکون نہیں دیا۔چناں چہ انھوںنے اپنی ایک نظم میں اِس معاملے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:
اپنے دیوانے پہ اتمامِ کرم کر، یا رب درودیوار دئے، اب انھیں ویرانی دے
فانی بدایونی صرف اپنے گھر کو جانتے تھے۔ اگر وہ اُس تخلیقی معجزہ کو دریافت کرتے جس کا نام فانی بدایونی تھا، تو وہ برعکس طورپر یہ کہتے :
اپنے دیوانے پہ اتمامِ کرم کر، یارب جب دیا ذوقِ طلب، پھر اسے مطلوب بھی دے
فانی بدایونی کو ’’امامِ یاسیات‘‘ کہاجاتا ہے۔ زیادہ بہتر تھا کہ فانی امامِ دریافت ہوتے، پھر وہ اپنی حقیقت کو جانتے۔ وہ جانتے کہ یہ معاملہ طالب کا اپنے مطلوب سے محرومی کا معاملہ ہے۔پھر وہ طالب بن کر اپنے مطلوب کے لیے خدا سے درخواست کرتے۔ وہ کہتے کہ خدایا، اِس تڑپتی ہوئی مچھلی کو دوبارہ پانی کی تلاش ہے۔ مگر اس کو یہ پانی خود اپنے بل پر نہیں مل سکتا۔ خدایا، تو اِس تڑپتی ہوئی مچھلی کو اپنی خصوصی رحمت سے اس کے مطلوب پانی تک پہنچا دے۔بیش تر انسانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ صرف رد عمل کے تحت سوچنا جانتے ہیں، رد عمل سے اوپر اٹھ کر سوچنا ان کو نہیں آتا۔ مگر تمام انسانی کامیابی کا راز یہ ہے کہ آدمی اپنے حالات سے اوپر اٹھ کر سوچ سکے۔ اسی طرزِ فکر کا نام صابرانہ سوچ ہے۔
واپس اوپر جائیں

دعوتی شعور کا فقدان

امتِ مسلمہ کا اصل فریضہ شہادت، یعنی دعوت الی اللہ ہے، مگر موجودہ زمانے کے تمام مسلح علماء اور مسلم رہنما اس باب میں انحراف کا شکار ہوگئے۔ یہ انحراف اب اِس درجہ کو پہنچا ہے کہ امتِ محمدی نے اپنی اصل حیثیت ہی کھو دی ہے۔ اب پوری امت عام قوموں کی طرح ایک قوم بن گئی ہے، نہ کہ حقیقی معنوں میں ایک دعوتی جماعت۔ ذیل میں اِس معاملے کا ایک مختصر جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔
شیخ محمد عبدہ کی مثال
سید جمال الدین افغانی (وفات:1897 ء) کا زمانہ یورپی نو آبادیات (colonialism) کا زمانہ تھا، اُن کے زمانے میں برطانیہ اور فرانس کی فوجیں مسلم ملکوں میں داخل ہوگئیں اور وہاں اپنا تہذیبی اور سیاسی غلبہ قائم کرلیا۔
سید جمال الدین افغانی غیر معمولی صلاحیت کے آدمی تھے، وہ عربی کے علاوہ کئی عالمی زبانیں جانتے تھے۔ ان کو 59 سال کی عمر ملی، انھوں نے اپنی پوری زندگی برطانوی استعمارکے خلاف سیاسی لڑائی میں گزار دی۔
مصر اور عالمِ عرب میں ان کوکئی اعلیٰ صلاحیت کے ساتھی ملے، ان میں سے ایک ممتاز نام شیخ محمدعبدہ (وفات: 1905 )کا ہے۔ وہ ایک بڑے عرب عالم تھے۔ انھوں نے فرنچ زبان بھی سیکھی تھی۔ یورپی استعمار (colonialism)کے زمانے میں وہ بھی استعمار کے خلاف سیاسی لڑائی میں شامل ہوگئے۔ وہ سید جمال الدین افغانی کے ممتاز شاگردوں میں سے تھے۔
انیسویں صدی کے آخر میں سید جمال الدین افغانی اور مفتی محمد عبدہ سفر کرکے پیرس (Paris) گئے، وہاں سے انھوں نے ایک عربی جریدہ العروۃ الوثقی (The Firmest Bond) جاری کیا۔ یہ جریدہ صرف 18 شماروں کے بعد بند ہوگیا۔
پیرس کے زمانۂ قیام (1884 ء) میں سید جمال الدین افغانی اور شیخ محمد عبدہ کے درمیان اختلاف پیدا ہوگیا۔شیخ محمد عبدہ کا خیال تھا کہ ہم لمبی مدت سے استعمار کے خلاف سیاسی لڑائی میں مصروف ہیں، لیکن اس کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلا، اب ہم کو یہ سیاسی کام چھوڑ کر کوئی نتیجہ خیز تعمیری کام کرنا چاہئے۔ سیدجمال الدین افغانی اِس نقطۂ نظر سے اتفاق نہ کرسکے، اس کے بعدشیخ محمد بن عبدہ نے سید جمال الدین افغانی کا ساتھ چھوڑ دیا۔
وہ 1899 ء میں مصر واپس آگئے۔انھوں نے مصر میں قاہرہ کے قریب ایک بڑی جگہ حاصل کی اور جمعیّۃ إحیاء العلوم العربیۃ لنشر المخطوطات کے نام سے وہاں 1900 ء میں ایک ادارہ قائم کیا، مگر وہ زیادہ مدت تک اِس ادارہ کی خدمت نہ کرسکے۔ 56 سال کی عمر میں 1905 میں قاہرہ میں ان کا انتقال ہوگیا۔
سید جمال الدین افغانی اور شیخ محمد عبدہ دونوں نہایت اعلیٰ صلاحیت رکھتے تھے، لیکن ان کی صلاحیتیں صحیح سمت میں استعمال ہونے سے رہ گئیں۔ اِس واقعہ کا جو پہلو زیادہ عبرت ناک ہے، وہ یہ ہے کہ وہ اپنی خداداد صلاحیتوں کو دعوت الی اللہ کے کام میں استعمال نہ کرسکے۔ مغربی قومیں ان کے لئے مدعو گروہ کا درجہ رکھتی تھیں۔ان کا فرض تھا کہ وہ ان قوموں کو اللہ کے دین کی طرف بلائیں، لیکن انھوں نے ان قوموں کو صرف جنگ و جہاد کا موضوع سمجھا، نہ کہ دعوت الی اللہ کا موضوع۔ انھوں نے ان قوموں کو مدعو کے بجائے دشمن کا درجہ دے دیا۔
شیخ محمد عبدہ کے لئے پیرس سے واپسی ایک نیا موڑ بن سکتی تھی، لیکن مغربی قوموں سے سیاسی لڑائی چھیڑنے کے بعد دوسرا کام جو انھیں نظر آیا، وہ صرف اپنی قوم کی اصلاح تھی، نہ کہ مدعو گروہ کو اللہ کا پیغام پہنچانا— یہی وہ غلطی ہے جس میں موجودہ زمانے کے تمام مسلم علماء اور مسلم رہنما مبتلا ہوئے۔
مولانا محمود حسن دیوبندی کی مثال
مولانا محمود حسن (وفات:1920 ء) جن کو شیخ الہند کہاجاتا ہے، وہ دیوبند کے اکابر علماء میں سے تھے۔ ان کے زمانے میں انڈیا میں برطانیہ کا سیاسی اقتدار قائم ہوا۔ دوسرے علماء کی طرح مولانا محمود حسن دیوبندی برطانیہ کے خلاف سرگرم سیاسی لڑائی میں مشغول ہوگئے، یہاں تک کہ برطانوی حکومت نے ان کو گرفتار کرکے مالٹا کے قلعہ میں نظر بند کردیا۔
وہاں وہ 3 سال سے زیادہ مدت تک رہے۔ اس دوران وہ ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہوگئے، چناںچہ ان کو رہا کرکے انڈیا واپس بھیج دیا گیا۔ یہ واقعہ جون 1920 کا ہے۔مولانا محمود حسن دیوبندی مالٹا سے واپس آکر دیوبند میں مقیم ہوگئے۔ ان کے شاگرد ِ خاص مفتی محمد شفیع عثمانی (وفات: 1976 )کا بیان ہے کہ :
’’مالٹا کی قید سے واپس آنے کے بعد حضرت ایک رات بعد عشاء دار العلوم میں تشریف فرما تھے، علماء کا بڑا مجمع سامنے تھا، اس وقت فرمایا کہ ہم نے تو مالٹا کی زندگی میں دو سبق سیکھے ہیں۔ یہ الفاظ سن کر سارا مجمع ہمہ تن گوش ہوگیا کہ اس استاذ العلماء درویش نے لمبی مدت تک علماء کو درس دینے کے بعد آخرمیں جو سبق سیکھے ہیں وہ کیا ہیں۔ حضرت شیخ الہند نے فرمایا کہ — میںنے جہاں تک جیل کی تنہائیوں میں اِس پر غور کیا کہ پوری دنیا میں مسلمان دینی اور دنیوی ہر حیثیت سے کیوں تباہ ہورہے ہیں تو اس کے دو سبب معلوم ہوئے، ایک ان کا قرآن کو چھوڑ دینا، دوسرے آپس کے اختلافات اور خانہ جنگی۔ اِس لئے میں وہیں سے یہ عزم لے کر آیا ہوں کہ اپنی باقی زندگی اس کام میں صرف کروں کہ قرآن کریم کو لفظاً اور معناًعام کیا جائے، بچوں کے لئے لفظی تعلیم کے مکاتب ہر بستی میں قائم کئے جائیں، بڑوں کو عوامی درسِ قرآن کی صورت میںاس کے معانی سے روشناس کرایا جائے، اور قرآنی تعلیمات پر عمل کے لئے آمادہ کیا جائے، اور مسلمانوں کے باہمی جنگ وجدال کو کسی قیمت پر برداشت نہ کیا جائے‘‘۔(جماعتِ شیخ الہند اور تنظیم اسلامی، از: ڈاکٹر اسرار احمد، صفحہ 346 )
مولانا محمود حسن دیوبندی جب مالٹا کی اسیری سے واپس آئے تو وہ ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہوچکے تھے۔ 1920 میں دیوبند میں ان کا انتقال ہوگیا۔ اس وقت ان کی عمر 69 سال تھی۔
مولانا محمود حسن دیوبندی کا معاملہ بھی وہی تھا جو دوسرے علماء کا تھا۔ اپنے قومی اور سیاسی فکر کی بنا پر وہ بھی ثنائی طرزِ فکر (dichotomic thinking) میں مبتلا تھے۔ وہ صرف دو انتخاب (options) کو جانتے تھے — یا انگریزوں سے سیاسی لڑائی، یا مسلم ملت کی خدمت۔
قرآن اور حدیث کے عالم ہونے کے باوجود ان کو تیسرے انتخاب کا علم نہ تھا، وہ یہ کہ انگریزوں کو ایک مدعو قوم سمجھنا، اور ان کے سامنے حکمت اور خیر خواہی کے ساتھ پر امن طورپر دین حق کا پیغام پہنچانا۔ مذکورہ دو مثالوں میں سے ایک عرب سے تعلق رکھتی ہے اور دوسری عجم سے۔ یہ مثالیں بطور نمونہ ہیں۔ اسی پر موجودہ زمانے کی پوری مسلم ملت کو قیاس کیا جاسکتا ہے۔
موجودہ زمانے کے تمام مسلم علماء اور مسلم رہنما ایک ہی مشترک غلطی میں مبتلا ہوئے، اور وہ ہے دعوت الی اللہ کے فریضہ سے غافل ہوجانا۔ یہ کوئی سادہ بات نہیں، حقیقت یہ ہے کہ امتِ محمدی، پیغمبر کی وفات کے بعد پیغمبر کے قائم مقام کی حیثیت رکھتی ہے۔
امت محمدی کو وہی دعوتی ذمہ داری انجام دینا ہے جس کو پیغمبر نے اپنے زمانے میں انجام دیا تھا۔ قرآن سے معلوم ہوتاہے کہ پیغمبر اگر اپنی دعوتی ذمہ داری کو ادا نہ کرے تو اللہ کی نظر میں اس کی پیغمبرانہ حیثیت ہی غیر متحقق ہوجاتی تھی (المائدۃ: 67 )۔ اسی طرح امتِ محمدی اپنی ذمہ داری کو ادا نہ کرے تو اس کا امت ِ محمدی ہونا غیر متحقق ہوجائے گا۔
واپس اوپر جائیں

عارفانہ دعاء

دعا کی اعلیٰ قسم وہ ہے جب کہ ایک بندۂ مومن کو ایک عارفانہ دریافت ہو اور اِس دریافت کے بعد اس کی زبان سے دعا کے تخلیقی (creative) کلمات نکلیں۔ یہ دعا کی سب سے زیادہ اعلیٰ قسم ہے۔ اِس قسم کی دعا اُن لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو تدبر اور غور فکر میں زندگی گزارتے ہیں، جو مسلسل طورپر معرفت کے روحانی تجربات میں جیتے ہیں۔
مثال کے طورپر ایک بندۂ مومن نے گہرائی کے ساتھ سوچا اور پھر اس پر منکشف ہوا کہ ظاہری اختیار کے باوجود وہ کامل طورپر عاجز ہے۔ پھر اُس نے دریافت کیا کہ اس کے کمالِ عجز کے باوجود اللہ نے اس کو موجودہ دنیا میں زندگی کا تمام سامان عطا کردیا۔
اِس طرح گویا اللہ نے اس کے عجز کی تلافی فرمائی۔ اللہ اس کے اور اس کے عجز کے درمیان حائل ہوگیا۔ اِس طرح اللہ کی خصوصی رحمت کی بنا پر وہ دنیا کی زندگی میںاپنے عجز (helplessness) کے برے انجام سے بچا رہا۔
ایک بندۂ مومن کو جب یہ دریافت ہوتی ہے تو اُسی کے ساتھ وہ ایک اور چیز کی دریافت کرتا ہے، وہ یہ کہ آخرت میں دوبارہ اپنی بے عملی کی بنا پر وہ اِسی قسم کے شدید تر مسئلے سے دوچار ہوگا۔ اُس کو محسوس ہوگاکہ میری بے عملی یقینا وہاں مجھے محروموں کی فہرست میں ڈال دے گی۔
یہ سوچ کر وہ تڑپ اٹھے اور اس کی زبان پر یہ کلمات جاری ہوگئے کہ خدایا، دنیا کی زندگی میں تو میرے اور میرے عجز کے درمیان حائل ہوگیا اور اِس طرح مجھ کو میرے عجز کے برے انجام سے بچا لیا۔ اِسی طرح تو آخرت میں میرے اور میری بے عملی کے درمیان حائل ہوجا اور آخرت میں دوبارہ تو مجھ کو میری بے عملی کے برے انجام سے بچا لے— یہ دعا ایک تخلیقی دعا ہے اور وہ گہری دریافت کے بعد ایک بندۂ مومن کی زبان سے نکلتی ہے۔ یہی وہ عارفانہ دعا ہے جس کے اور قبولیت کے درمیان کوئی فاصلہ حائل نہیں ہوتا۔
واپس اوپر جائیں

موت، موت کی یاد

موت بلاشبہہ ہر انسان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ موت گویا ایک انفرادی زلزلہ ہے۔ عام زلزلہ زمین کی سطح پر واقع ہوتا ہے اور موت ایک فرد کی سطح پر پیش آتی ہے۔ جس طرح انسان زلزلے کو روکنے پر قادر نہیں، اُسی طرح کوئی شخص موت کو روکنے پر بھی قادر نہیں۔ زلزلہ بھی یک طرفہ فیصلے کے تحت بلا اطلاع آتا ہے، اِسی طرح موت بھی یک طرفہ فیصلے کے تحت کسی شخص پر وارد ہوتی ہے۔ زلزلے کو لوٹانا ممکن نہیں۔ اِسی طرح موت کو لوٹانا بھی ممکن نہیں۔ زلزلے کے مقابلے میں انسان مکمل طورپر بے بس ہوتا ہے۔ اِسی طرح موت کے مقابلے میں بھی انسان مکمل طورپر بے بس ہے۔ انسان کو کوئی ذاتی اختیار نہ زلزلے کے اوپر ہے اور نہ موت کے اوپر۔
موت قاطعِ حیات ہے، اور موت کا ذکر قاطعِ خودی۔ خودی (ego) کسی انسان کی سب سے بڑی صفت ہے۔ مگر یہی خودی انسان کی تمام خرابیوں کا سبب بن جاتی ہے۔ خودی کی بنا پر کسی انسان کے اندر وہ شخصیت بنتی ہے جس کو خود پسند(self-centered) شخصیت کہاجاتا ہے۔ یہی وہ خود پسند شخصیت ہے جو آدمی کے اندر ذاتی بڑائی کا جذبہ پیدا کرتی ہے، اِسی خود پسندی کا نتیجہ وہ تمام منفی اوصاف ہوتے ہیں جن کو غرور، حسد، ظلم، تشدد پسندی اور انتقام، وغیرہ جیسے الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے۔
موت اِن تمام منفی جذبات کے لیے قاتل کی حیثیت رکھتی ہے۔ جس آدمی کو حقیقی معنوں میں موت کا زندہ شعور حاصل ہو، جو اِس حقیقت کو دریافت کرلے کہ مجھے لازماً مرنا ہے اور موت کے بعد مجھے رب العالمین کے سامنے حاضر ہونا ہے، وہ ایک کٹ ٹو سائز (cut to size) انسان بن جاتا ہے۔ ایسا انسان آخری حد تک ایک متواضع (modest) انسان ہوجائے گا۔ ذاتی بڑائی کا احساس اُس سے چھن جائے گا۔ وہ کامل طورپر عجز کے احساس میں جینے لگے گا۔ بے اعترافی کا طریقہ چھوڑ کر وہ اعتراف کا طریقہ اختیار کرلے گا۔ وہ حق کے آگے جھک جائے گا، بجائے اِس کے کہ وہ حق کو خود اپنے سامنے جھکانے کی کوشش کرے۔
واپس اوپر جائیں

کشتی ٔ نوح کی دریافت

حضرت نوح ابتدائی دور کے پیغمبر ہیں۔ ان کی بعثت عراق کے علاقہ میسو پوٹامیہ (Mesopotamia) میں ہوئی۔ لمبی مدت تک دعوت و تبلیغ کے باوجود بہت کم لوگ اُن پر ایمان لائے، یہاں تک کہ ایک عظیم طوفان کے ذریعے پوری قوم کو بتاہ کردیاگیا۔ اُس وقت اللہ کے حکم سے حضرت نوح نے ایک بڑی کشتی بنائی۔ حضرت نوح نے اِس کشتی میں اُس وقت کے تمام اہلِ ایمان کو بٹھایا۔ طوفان میں بہتی ہوئی یہ کشتی آخر کار مشرقی ترکی کے پہاڑ ارارات (Ararat) پر ٹھہر گئی۔ اس کے بعد اس میں بیٹھے ہوئے تمام لوگ کشتی سے نکل کر مختلف علاقوں میں آباد ہوگئے۔
یہ واقعہ پانچ ہزار سال پہلے کا ہے۔ قرآن میں بتایا گیا تھا کہ یہ کشتی محفوظ رہے گی اور بعد کے زمانے میں دریافت ہو کر لوگوں کے لیے نشانی (sign) بن جائے گی۔ قرآن کی سورہ نمبر 54 میں حضرت نوح کے تذکرہ کے بعد یہ آیت آئی ہے: ولقد ترکناہا آیۃً فہل من مدکر (القمر: 15 ) یعنی ہم نے اس ( کشتی ) کو نشانی کے لیے چھوڑ دیا، پھر کوئی ہے سوچنے والا۔ یہی بات قرآن کی سورہ نمبر 29 میں اِن الفاظ میں آئی ہے: وجعلناہا آیۃً للعالمین (العنکبوت:15 ) یعنی پھر ہم نے اس (کشتی) کو دنیا والوں کے لیے ایک نشانی بنا دیا۔
انیسویں صدی کے آخر میں جب ہوائی پرواز کا زمانہ آیا تو کچھ لوگوں نے ارارات پہاڑ کے اوپر پرواز کرتے ہوئے گلیشیر کے اندر چھپی ہوئی ایک کشتی کے آثار دیکھے۔ لیکن بار بار کوشش کے باوجود اِس معاملے میں کچھ زیادہ معلومات حاصل نہ ہوسکیں۔
اکیسویں صدی میں جب گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں گلیشئر پگھلنے لگے تو ہوائی پرواز کے دوران معلوم ہوا کہ کوہِ ارارات پر ایک پوری کشتی موجود ہے۔ اِس کے بعد وہاں چین اور ترکی کے مسیحیوں کا ایک گروپ پہنچا۔ ان کے پاس جدید آلات تھے۔ چناں چہ انھوں نے کاربن ڈیٹنگ (carbon dating) کے ذریعے مذکورہ کشتی کی عمر معلوم کی۔ اب معلوم ہوا کہ یہ کشتی عین اُسی زمانے کی ہے، جب کہ یہاں طوفانِ نوح آیا۔ اِس دریافت کی رپورٹ میڈیا میں آچکی ہے۔ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (28 اپریل2010 )میں اِس کی تفصیل حسب ذیل الفاظ میں شائع ہوئی ہے:
HONG KONG: A group of Chinese and Turkish evangelical explorers said they believe they may have found Noah's Ark — four thousand metres up a mountain in Turkey. The team say they recovered wooden specimens from a structure on Mount Ararat in eastern Turkey that carbon dating proved was 4,800 years old, around the same time the ark is said to have been afloat. “It’s not 100% that it is Noah’s Ark but we think it is 99.9% that this is it,” Yeung Wing-cheung, a Hong Kong documentary filmmaker and member of the 15-strong team from Noah’s Ark Ministries International said. The structure had several compartments, some with wooden beams, which were believed to house animals, he said. The group of archaeologists ruled out an established human settlement on the grounds that one had never been found above 3,500 metres in the vicinity.
قربِ قیامت کی نشانیوں میں غالباً یہ سب سے زیادہ واضح نشانی ہے۔ انسان ہزاروں سال سے لکڑی کے ذریعے کشتی بنا رہا ہے۔ قدیم زمانے کی کشتیوں میں سے اب کوئی بھی کشتی دنیا میں محفوظ نہیں، کیوں کہ لکڑی کچھ دنوں کے بعد فطری طورپر بوسیدہ ہو کر ختم ہوجاتی ہے۔ کشتیوں کی تاریخ میں حضرت نوح کی کشتی ایک استثنا (exception) ہے۔ اِس استثنا کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو تھا۔ صرف اللہ کو معلوم تھا کہ یہ کشتی طوفان میں بہتی ہوئی پہاڑ کے اوپر پہنچ جائے گی، پھر فطری عمل کے تحت وہ بر ف کے ذخائر (گلیشئر) کے نیچے دب جائے گی اور اِس طرح وہ محفوظ رہے گی۔ یہ بھی صرف اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ بیسویں صدی کے آخر میں گلوبل وارمنگ کا معاملہ پیش آئے گا اور پہاڑ کے اوپر برف پگھلنا شروع ہوجائے گی، یہاں تک کہ کشتی نوح صاف دکھائی دینے لگے گی۔ اکیسویں صدی میں کشتی نوح کا سامنے آجانا اِس بات کی علامت ہے کہ جس طرح پانچ ہزار سال پہلے ایک بڑے طوفان کے ذریعے اُس وقت کی آبادی ختم ہوگئی تھی، اسی طرح اب ایک اور زیادہ بڑا طوفان آنے والا ہے جس میں تمام انسان ختم ہوجائیں گے اور صرف وہ لوگ بچیں گے جن کو اللہ اپنی جنت میںآباد کرنے کے لیے منتخب کرے۔
واپس اوپر جائیں

فتویٰ اور فتویٰ ایکٹوزم

فتویٰ کے لفظی معنٰی ہیں— رائے (opinion) ۔ ایک شخص اپنے کسی ذاتی مسئلے کے بارے میں ایک عالم سے اس کی رائے پوچھے اور وہ عالم اپنے علم کے مطابق، اِس مسئلے کے بارے میں شرعی رائے دے، تو اِسی کا نام فتویٰ ہے۔ اسلام کے دورِ اوّل میں اِسی قسم کے فتوے کا رواج تھا۔ موجودہ زمانے میں فتویٰ کی جو توسیع (extention)ہوئی ہے، وہ ایک قسم کی بدعت ہے۔
فتویٰ، اسلام میں قضاء کی طرح، کوئی انسٹی ٹیوشن (institution) نہیں، وہ کسی مسئلے میں صرف ایک عالم کی رائے کااظہار ہے۔ کوئی انسان اگر کسی دوسرے شخص یا کسی دوسری جماعت کے بارے میں فتویٰ پوچھے، تو یہ فتویٰ کا غلط استعمال ہوگا۔ اِس قسم کے استفتاء کا نتیجہ صرف یہ ہوتا ہے کہ برائی میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ اصلاحی فتویٰ، اسلام میں کوئی چیز نہیں۔ اسلام میں اصلاح کا طریقہ نصیحت اور تبلیغ ہے، نہ کہ فتویٰ جاری کرنا۔
آج کل یہ حال ہے کہ مسلم معاشرے میں کسی خرابی کے حوالے سے فتوے جاری کیے جاتے ہیں۔ یہ فتویٰ نہیںہے، بلکہ فتویٰ ایکٹوزم (Fatwa Activism) ہے۔ اب چوں کہ میڈیا کا زمانہ ہے، اِس قسم کے فتوے میڈیا میں جگہ پاکر اسلام کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔ فتویٰ ایکٹوزم کا نقصان تو ضرور ہے، لیکن اُس کا کوئی مثبت فائدہ نہیں۔
صحیح اسلامی طریقہ یہ ہے کہ اِس طرح کے معاملے میں فتویٰ پوچھنے والے اور مفتی دونوں مصلح کا کردار ادا کریں۔ وہ غلطی میں مبتلا لوگوں کے لیے دعا کریں، وہ ہمدردی کے ساتھ ان کو نصیحت کریں، وہ اُن سے مل کر معلوم کریں کہ ان کی سوچ کیا ہے، ان کا ذہن کہاں اٹکا ہوا ہے اورپھر ان سے اِس طرح کلام کریں جس سے ان کا ذہن ایڈریس ہو، ان کے اندر نئی سوچ جاگے، وہ اپنی زندگی کو بدلیں اور اپنی اصلاح کریں۔ معاشرے کی اصلاح کے لیے اسلام میں تبلیغ ونصیحت کا طریقہ ہے، نہ کہ فتویٰ جاری کرنے کا طریقہ۔
قرآن کی سورہ آل عمران کی ایک آیت میں بتایا گیا ہے کہ وہ ایسے کام کا کریڈٹ لینا چاہتے ہیں جس کام کو انھوں نے کیا ہی نہیں (آلِ عمران: 188) ۔ قرآن کی یہ آیت موجودہ زمانے کے فتویٰ پوچھنے والے اور فتویٰ دینے والے دونوں طرح کے لوگوں پر صادق آتی ہے۔ یہ لوگ کسی دوسرے کی برائی کو بتا کر اُس کے خلاف فتویٰ جاری کرتے ہیں۔
یہ عین وہی روش ہے جس کا ذکر قرآن کی مذکورہ آیت میں کیا گیا ہے، یعنی وہ فتوے جاری کرکے اصلاح کا کریڈٹ لینا چاہتے ہیں، حالاں کہ اصلاح کا کریڈٹ صرف اُس انسان کے لیے مقدر ہے جو ہمدردی اور خیر خواہی کے ساتھ نصیحت کا فریضہ انجام دے۔
فتویٰ ایکٹوزم کی سب سے زیادہ ناپسندیدہ صورت وہ ہے جس کو تکفیر کہا جاتا ہے، امام نووی (وفات:1277 ء) نے لکھا ہے کہ: واعلم أن مذہب أہل الحق أنہ لایکفّر أحد من أہل القبلۃ (صحیح مسلم بشرح النووی، جلد 1، صفحہ 150)
یعنی علمائِ حق کا یہ مسلک ہے کہ اہلِ قبلہ میں سے کسی شخص کی تکفیر نہیں کی جائے گی۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ تکفیر کا طریقہ سرے سے اختیار نہیں کیا جائے گا، کیوں کہ کوئی بھی شخص ایسا نہیں ہوسکتا جو کعبہ کے سوا کسی اور چیز کو اپنا قبلۂ عبادت بنالے۔
اسلام کی تاریخ میں تین دور کو ’’قرون مشہود لہا بالخیر‘‘ کہاگیا ہے، یعنی — دورِ رسالت، دورِ صحابہ، دورِ تابعین۔ یہ تین دور اسلام میں ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور اسلام کی تاریخ بتاتی ہے کہ اِن تینوں دور میں فتویٰ ایکٹوزم یا تکفیر کا طریقہ کبھی اختیار نہیں کیا گیا ۔ یہ طریقہ بلاشبہہ اسلام کے ماڈل سے انحراف کے ہم معنی ہے۔
اسلام کے دورِ اول میں سارا زور نصیحت وتبلیغ پر دیا جاتا تھا، کیوں کہ مطلوب نتیجہ صرف نصیحت و تبلیغ کے ذریعے حاصل ہوتا ہے، نہ کہ فتویٰ جاری کرنے سے۔ کسی شخص یا اجتماعی بگاڑ کو لے کر اس کے خلاف فتویٰ دینا، اُس وقت شروع ہوا جب کہ مسلمانوں میں دعوت وتبلیغ کا ذہن ختم ہوگیا۔ لوگ برائی کے خلاف فتویٰ جاری کرنے کو کافی سمجھنے لگے۔ یہ طریقہ بلا شبہہ قابلِ ترک ہے۔ تجربہ بتاتا ہے کہ یہ طریقہ صرف منفی نتیجہ پیدا کررہا ہے، اور جو طریقہ منفی نتیجہ پیدا کرے، وہ بلاشبہہ اِس قابل ہے کہ اس کو مکمل طورپر ترک کردیا جائے۔
نصیحت اور تذکیر (admonition)کے اِس طریقے کو آج کل کی زبان میںایجوکیشنل ایکٹوزم (educational activism)کہا جاسکتا ہے، یعنی تعلیم اور تربیت کے ذریعے لوگوں کی اصلاح کرنا، لوگوں کے ذہن کو بدلنے کی کوشش کرنا۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اصلاحِ معاشرہ کے بارے میں اسلام کا اصول ایجوکیشنل ایکٹوزم پر مبنی ہے نہ کہ فتویٰ ایکٹوزم پر۔
اِس معاملے میںایک رہنما مثال وہ ہے جس کا ذکر صحیح البخاری میںآیا ہے۔ حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ اسلام کے ابتدائی زمانے میں قرآن کی جو آیتیں اُتریں، ان میں جنت اور جہنم کا ذکر تھا، تاکہ لوگوں کے دلوں میں اسلام کے بارے میںنرم گوشہ پیداہو اور لوگوں کے اندر ذہنی آمادگی آجائے۔ اِس طرح جب قبولیت (acceptance)کی استعداد پیدا ہوگئی تو اس کے بعد قرآن میں اترا کہ زنا چھوڑ دو، اور شراب چھوڑ دو۔ ایسا حکم اگر پہلے اُترتا تو لوگ اس کی تعمیل نہ کرتے، بلکہ وہ یہ کہتے کہ —ہم تو زنا نہ چھوڑیں گے، ہم تو شراب نہ چھوڑیں گے (لاندع الزنا أبداً، ولا ندع الخمرأبداً)۔
اِس سے معلوم ہوا کہ عمومی اصلاح کا کام فتویٰ یا حکم جاری کرنے سے نہیں ہوتا، بلکہ اِس کام کے لیے سب سے پہلے لوگوں کے اندر قبولیت کی استعدادپیدا کی جاتی ہے، اِس کے بعد ان کو حکم دیا جاتا ہے۔ استعداد پیدا کیے بغیر حکم دینا، کسی بھی درجے میں مسئلے کا کوئی حل نہیں۔
واپس اوپر جائیں

مسلم ملٹنسی کا مسئلہ

پہلی عالمی جنگ (world war I)کے بعد روس میں کمیونسٹ رول (communist rule)قائم ہوا۔ اِس رول کا نشانہ اوّل دن سے یہ تھا کہ سرمایہ دارانہ نظام کو ختم کیا جائے۔ اِس کے نتیجے میں امریکا میں عام طورپر یہ ذہن بن گیا کہ — کمیونزم، امریکا کا دشمن نمبر ایک ہے:
Communism is the enemy no. 1 of America.
امریکا نے اِس چیلنج کامقابلہ اتنی کامیابی کے ساتھ کیا کہ 1991 میں کمیونسٹ ایمپائر کا خاتمہ ہوگیا۔ دوسری طرف، مسلمانوں کی ملٹنٹ (militant) تنظیمیں، القاعدہ وغیرہ، نے امریکا کو اسلام کا دشمن نمبر ایک بتایا اور امریکا کے خلاف مسلح جدوجہد شروع کردی، جس کی ایک نمایاں مثال 11 ستمبر 2001 کا واقعہ ہے جو نیویارک میں پیش آیا۔ امریکا نے مسلم ملٹنسی (militancy) کے خلاف زبردست فوجی کارروائی کی، حتی کہ اِس کارروائی میں اُس نے 5ٹریلین ڈالر خرچ کردئے، لیکن مسلم ملٹنسی کے محاذ پر امریکا کو مطلوب کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔
اِس فرق کا سبب کیا ہے، اِس فرق کا سبب یہ ہے کہ امریکا نے کمیونسٹ چیلنج کا مقابلہ فکری سطح پر کیا۔ اُس نے مختلف زبانوں میں کمیونزم کے خلاف ہزاروں کتابیں چھپواکر ساری دنیا میں پھیلا دیں۔ مثال کے طورپر ملوون جیلاس (Milovan Djilas) کی کتاب نیو کلاس (The New Class) ۔ یہ کتاب نظریاتی اعتبار سے اتنی طاقت ور تھی کہ اس کے بارے میں مشہور امریکی میگزین ریڈرس ڈائجسٹ میں تبصرہ چھپا تو اس کا عنوان یہ تھا:
The Book that is Shaking the Communist World.
کمیونسٹ چیلنج کے خلاف امریکا کی یہ فکری لڑائی پوری طرح کامیاب رہی، لیکن امریکا نے اپنے اِس تجربے کو مسلم ملٹنسی کے معاملے میں استعمال نہیں کیا۔ یہاں اس نے برعکس طور پر فوجی طاقت کے ذریعے مسلم ملٹنسی کو مٹانے کی کوشش کی، لیکن وہ اِس میں کامیاب نہ ہوسکا۔
حقیقت یہ ہے کہ مسلم ملٹنسی گن ورسز گن (gun vs gun) کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ وہ گن ورسز آئڈیالوجی (gun vs ideology) کا مسئلہ ہے۔ مسلم ملٹنسی ایک معلوم آئڈیالوجی پر کھڑی ہے، اِس لیے مسلم ملٹنسی کو ختم کرنے کے لیے اِس آئڈیالوجی کو ختم کرنا ضروری ہے۔ یہ آئڈیالوجی کیا ہے۔ یہ دراصل اسلام کی سیاسی تعبیر (political interpretation) ہے۔ اسلام کی سیاسی تعبیر مکمل طورپر ایک سیاسی بدعت ہے۔ موجودہ زمانے کے کچھ مسلم رہنماؤں نے اپنی تفسیر ِقرآن اور اپنے لٹریچر میں اسلام کی سیاسی تعبیر پیش کی۔ یہ سیاسی تعبیر موجودہ زمانے کے مسلم مائنڈ کے لیے بہت موافق تھی، اِس لیے انھوں نے اس کو اختیار کرلیا اور جہاد کے نام پر وہ اپنے متشددانہ عمل کو اِس نئی سیاسی تعبیر کے ذریعے درست ثابت کرنے لگے۔
مسلم ملٹنسی کا جواب پُرامن نظریاتی سطح پر دینا پوری طرح ممکن ہے، مسلمان اپنی موجودہ ملٹنسی کو اسلام کے نام پر چلا رہے ہیں۔ اِس طرح وہ خود ایک ایسا معیار (criterion) دے دیتے ہیں جس کو استعمال کرکے اُس کو رد کیا جاسکے۔حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کی موجودہ ملٹسنی، اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں، مکمل طورپر ایک غیر مبرَّر ملٹسنی (unjustified militancy) ہے۔ اسلام میں ملٹنسی یا جنگ کوئی ایجابی عمل نہیں، اسلام میں صرف دفاع کے وقت اضطراری طور پر جنگی طریقے کو استعمال کرنے کی اجازت ہے۔ دوسری بات یہ کہ اسلام میں جنگ استثنائی طورپر صرف ایک باقاعدہ حکومت کے لیے جائز ہے، غیر حکومتی تنظیموں (NGOs) کے لیے صرف دو میں سے ایک آپشن ہے— یا تو وہ خاموش رہیں یا خالص پرامن ذرائع سے اپنی بات لوگوں تک پہنچائیں۔ اِس اصول کی بنا پر گوریلا وار یا پراکسی واریا اور کوئی غیر حکومتی وار اسلام میں جائز نہیں۔
اسلام ایک مشن ہے۔ اسلام کا منشا یہ ہے کہ اس کی مذہبی اور روحانی اور اخلاقی تعلیمات کو لوگوں تک پہنچایا جائے۔ یہ ایک خالص پُرامن مشن ہے، اس میں کسی بھی مرحلے پر ہتھیار کا استعمال جائز نہیں۔ یہ بھی اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے کہ کوئی گروہ عدل (justice) کے حصول کے نام پر کسی کے خلاف جنگ چھیڑ دے۔ اسلام میں عدل کا حصول صرف پرامن کوشش کے ذریعے ہوتا ہے، نہ کہ جنگ اور تشدد کے ذریعے— اسلام پورے معنوں میں امن کا مذہب ہے، وہ کسی بھی اعتبار سے جنگ کا مذہب نہیں۔
واپس اوپر جائیں

خود کُش بم باری

خود کش بم باری (suicide bombing) فلسطین میں عربوں نے اسرائیل کے خلاف شروع کی۔ اُس وقت کچھ علماء نے اس کو جائز قرار دیا اور کچھ علماء اس پر خاموش رہے۔ بروقت کسی نے اس کے حرام ہونے کا اعلان نہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ برائی پھیلتی رہی، اور اب دنیا کے مختلف حصوں میں مسلمان خودکش بم باری کے واقعات کررہے ہیں۔ حالاں کہ خودکشی اسلام میں سر تاسر حرام ہے، کوئی بھی عذر اس کو جائز قرار دینے کے لیے کافی نہیں۔ خود کش بم باری کو جائز قرار دینے کے لیے جو دلیلیں دی جاتی ہیں، اُن میں سے ایک مشہور دلیل ’’الانغماس فی العدوّ‘‘ کی ہے، یعنی دشمن کی صفوں میں گھس پڑنا:
To plunge into enemies.
’’انغماس فی العدو‘‘ کے حق میں ایک واقعہ بیان کیا جاتاہے۔ حضرت ابو بکر صدیق کے زمانہ خلافت میں ایک جنگ پیش آئی۔ یہ جنگ مدعیٔ نبوت مسیلمہ کذاب کے خلاف تھی۔ اِس جنگ میںایک صحابی براء بن مالک خزرجی شریک تھے۔ وہ ایک غیر معمولی بہادر آدمی تھے۔ ایک موقع پر وہ تنہا دشمن کی فوج کے اندر داخل ہوگئے اور اپنا کام پورا کرکے محفوظ واپس آگئے( تفصیل کے ملاحظہ ہو راقم الحروف کی کتاب ’’مسائلِ اجتہاد‘‘، صفحہ 105 )۔
اِس واقعے سے خود کش بم باری کا جواز ہر گز ثابت نہیں ہوتا۔ انغماس فی العدو کا مطلب ہے خطرہ مول لے کر دشمن کی صفوں میں گھس جانا۔ اور خود کش بم باری کا مطلب ہے، اپنے آپ کو ہلاک کرکے مفروضہ دشمن یا اس کی قوم کے افراد کو جانی اور مالی نقصان پہنچانے کی کوشش کرنا۔
اِس قسم کا کمزور استدلال صرف وہ لوگ کرتے ہیں جو ایک چیز اور دوسری چیز کے فرق کو نہ جانتے ہوں، جب کہ حقیقی استدلال کے لیے ضروری ہے کہ آدمی اِس اصول کو پوری طرح جانے۔ اِس اصول سے بے خبری کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آدمی بطور خود ایک دلیل پیش کردے گا، حالاں کہ حقیقت کے اعتبار سے وہ صرف الفاظ کا مجموعہ ہوگا، نہ کوئی واقعی دلیل۔
واپس اوپر جائیں

مسلم پرسنل لا کا مسئلہ

مسلم پرسنل لا (Muslim Personal Law)کا لفظ بظاہر ایک عمومی لفظ ہے، لیکن عملاً اُس سے مراد زیادہ تر نکاح و طلاق کے قوانین ہیں۔ اسلامی شریعت کی رُو سے نکاح وطلاق کے قوانین مقدس قوانین کی حیثیت رکھتے ہیں، وہ ناقابلِ تغیر شرعی قوانین پر مبنی ہیں۔ اِس معاملے میں شریعت کے جو قوانین ہیں، وہ ابدی ہیں اور ہر معاشرے اور ہر زمانے میں یکساں طورپر قابلِ انطباق ہیں۔
نکاح و طلاق کے بارے میں شرعی قوانین کی یہی خصوصی نوعیت اِس بات میں مانع ہے کہ اُن کو سیکولر حکومت کے عدالتی نظام کی ماتحتی میں دے دیا جائے۔ سیکولر عدالتی نظام کی بنیاد وضعی قوانین (man-made laws) پر ہوتی ہے، اور وضعی قوانین ہمیشہ تبدیلی کا موضوع (subject to change) ہوتے ہیں۔ اُن کو کسی بھی وقت ممبرانِ اسمبلی کی کثرتِ رائے سے بدلا جاسکتا ہے۔ اِس بنا پر مسلمانوں کے نکاح و طلاق کے مسئلے کو وضعی قوانین کے تابع کرنا اصولاً درست نہیں۔
موجودہ سیکولر دور سے پہلے اِس مسئلے نے کوئی نزاکت اختیار نہیں کی تھی۔ جن ملکوں میں مسلم حکومتیں قائم تھیں، وہاں ہمیشہ قاضی کا عہدہ ہوا کرتا تھا۔ یہ قاضی مسلمانوں کے نکاح و طلاق کے مسائل کا فیصلہ شرعی قوانین کی روشنی میں دیتے تھے۔ یہ نظام اب بھی کسی حد تک مسلم ملکوں میں جاری ہے۔
آٹھویں صدی عیسوی میں مسلمان ہندستان میں آئے۔ اُس وقت یہاں ہندو راجاؤں کی حکومت تھی۔ مسلمانوں نے ہندوراجاؤں سے درخواست کی کہ ایسا نظام بنایا جائے جس کے تحت مسلمان اپنے عائلی مسائل کا فیصلہ شرعی قانون کی روشنی میں حاصل کرسکیں۔ راجاؤں نے اِس درخواست کو قبول کرتے ہوئے مسلم قاضی کا تقرر کیا، جس کو اُس زمانے میں ’’ہنرمن‘‘ کہاجاتا تھا۔ یہ لفظ غالباً ’’ہنر مند‘‘ کی بدلی ہوئی شکل ہے۔
ہندستان میں جب مسلم سلطنتیں قائم ہوئیں تو انھوں نے یہاں مسلم قاضی مقرر کئے۔ یہ قاضی، مسلمانوں کے عائلی مسائل کا فیصلہ شریعت کی روشنی میں دیتے تھے۔ یہ سلسلہ مغل عہد کے خاتمہ اور برٹش عہد کے آغاز تک جاری رہا۔
ہندستان میں برٹش دورِ حکومت باقاعدہ طورپر انیسویں صدی عیسوی کے وسط میں شروع ہوا۔ اِس کے بعد دھیرے دھیرے قاضی کا عہدہ ختم ہوگیا۔ تاہم مسلم رہنماؤں کے مطالبے پر برٹش حکومت نے ایک قانون ’’محمڈن لا‘‘ کے نام سے پاس کیا۔ یہ محمڈن لا زیادہ تر حنفی فقہ کی روشنی میں تیار کیا گیا تھا۔ اِس کے بعد یہ ہوا کہ مسلمانوں کے عائلی مسائل کا فیصلہ محمڈن لا کے تحت کیا جانے لگا۔ اِس کے لیے علاحدہ قاضی نہیں ہوتے تھے، بلکہ عام ملکی عدالتیں ہی یہ کام انجام دیتی تھیں۔
1947 میں جب ہندستان آزاد ہوا تو یہ نظام بھی عملاً معطل ہوگیا۔ اُس وقت مولانا ابوالکلام آزاد (وفات: 1958 ) حکومتِ ہند میں وزیر تعلیم تھے۔ مولانا آزاد کی کوششوں سے، دہلی میں ایک ’’اسپیشل جج‘‘ کا تقرر کیاگیا۔یہ اسپیشل جج با اختیار جج تھا اور وہ مسلمانوں کے نکاح وطلاق کے معاملات کا فیصلہ شریعت کی روشنی میں کرتا تھا۔ آزادی کے بعد پہلے اسپیشل جج کے طورپر سیدعزیز شفیع کا تقرر ہوا۔ ان کی زندگی تک یہ عہدہ جاری رہا۔ لیکن 1979 میں ان کی موت کے بعد اس کا بھی خاتمہ ہوگیا۔
1947 کے بعد اِس سلسلے میں مسلمانوں کے مختلف غیر سرکاری ادارے قائم ہوئے۔ اِن اداروں کو دارالافتاء اور دار القضاء کہا جاتا ہے۔ اِنھیں میں سے ایک آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ بھی ہے۔ اِس کا قیام 1973 میں عمل میں آیا۔ لیکن یہ انتظامات اصل ضرورت کی نسبت سے ناکافی تھے، چناں چہ وہ مطلوب شرعی ضرورت کو پورا نہ کرسکے۔کیوں کہ اُن میں سے کسی ادارے کا فیصلہ قانونی اعتبار سے، بائنڈنگ فیصلے کی حیثیت نہیں رکھتا تھا۔
یہ مسئلہ بلاشبہہ ایک نازک شرعی مسئلہ ہے۔ اُس کا حقیقی حل تلاش کرنا علماء کی ذمّے داری ہے۔ احتجاج اور مطالبات کی نوعیت کی تحریکیں کسی بھی درجے میں اِس مسئلے کا حل نہیں۔ راقم الحروف کے نزدیک، سیکولر ہندستان کے پس منظر میں، اِس مسئلے کے حل کی دو ممکن صورتیں ہیں:
1 - اِس مسئلے کا پہلا حل یہ ہے کہ ملک میں جامع نوعیت کا ایک دار القضاء قائم کیا جائے۔ اِس دار القضاء کا جزئی تجربہ ریاست بہار میں کیاگیا ہے۔ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ دار القضاء کا تصور مکمل طورپر ایک رضاکارانہ تصور ہے۔ دارالقضاء کی کامیابی کا انحصار اِس پر ہے کہ مسلمان اُس کے فیصلے کو لازماً قبول کرلیں، خواہ وہ اُن کے موافق ہو، یا اُن کے خلاف۔
اِس نوعیت کا دارالقضاء صرف اُس وقت عملی صورت اختیار کرسکتا ہے، جب کہ ہندستان کے مسلمانوں میں اتنی بیداری لائی جاچکی ہو کہ وہ خود اپنے اختیار سے، دار القضاء کے فیصلے کو برضا ورغبت قبول کرلیں۔ مگرتادمِ تحریر (17 مارچ2010) مسلمانوں میں یہ مزاج پیدا نہیں ہوا، اِس لیے عملاً دار القضاء کا تصور صرف محدود طورپر قابلِ عمل ہوسکتا ہے، وہ عمومی طورپر مسلمانوں کے مسئلے کا حل نہیں۔
2 - دوسری صورت یہ ہے کہ برٹش دور کی طرح، دوبارہ مسلمانوں کے نکاح وطلاق کے مسئلے کوشرعی بنیاد پر حل کرنے کے لیے ہندستانی پارلیامنٹ سے ایک باقاعدہ ایکٹ پاس کرایا جائے، اور تمام ریاستی اسمبلیاں اِس ایکٹ کی تصدیق کردیں۔ موجودہ مسئلے کا یہی موثر قانونی حل ہے۔
جہاں تک میرا اندازہ ہے، ہندستان میں یہ قانون اُسی طرح بن سکتا تھا، جس طرح وہ برٹش دور میں بنا تھا، مگر ہندستان کے علماء نے اِس معاملے میں غیر حقیقت پسندانہ موقف اختیار کیا۔ انھوں نے تحفظِ شریعت کے نام پر ہندستان کے سیکولر نظام کے خلاف پُر شور احتجاجی تحریکیں شروع کردیں۔
یہ طریقہ صرف حالات کو بگاڑنے کا سبب بنا۔ اگر ہندستانی علماء باقاعدہ طورپر یہ کوشش کرتے کہ ہندستان کی پارلیامنٹ اِس معاملے میں محمڈن لا کے پیٹرن پر زیادہ بہتر ایک قانون وضع کردے، تو یقینی طورپر یہاں اِس قسم کا قانون بن سکتا تھا۔
لیکن اِس قسم کی تعمیری کوشش نہ اُس دور میں ہوئی جب کہ ہندستان میں مولانا ابوالکلام آزاد اور جواہر لال نہرو (وفات:(1964 جیسے اعتدال پسند لیڈر موجود تھے، نہ بعد کے زمانے میں اِس رخ پر کوئی سنجیدہ کوشش انجام دی گئی۔
اِس معاملے کی ایک مثال شاہ بانو کیس ہے۔ شاہ بانو کو اس کے شوہر محمد احمد نے طلاق دیا۔ اِس کے بعد شاہ بانو اِس کیس کو ملکی عدالت میں لے گئی۔ کئی سال کی عدالتی کارروائی کے بعد 1985 میں سپریم کورٹ آف انڈیا کے چیف جسٹس مسٹر وی چندرا چوڑ نے اپنا فیصلہ سنادیا۔
اِس فیصلے کے تحت شاہ بانو کو یہ حق دیا گیا تھا کہ شاہ بانو کا سابق شوہر گزارے کے طورپر اس کو 180 روپئے ماہانہ ادا کرے۔ یہ فیصلہ کرمنل پروسیجر کوڈ (criminal procedure code) کی دفعہ 125 کے تحت دیا گیا تھا۔
علماء نے اِس فیصلے کو ’’شریعت میں مداخلت‘‘ قرار دیا۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے تحت اِس کے خلاف ملکی پیمانے پر جلوس واجتجاج کی پرشور تحریک چلائی گئی، یہاںتک کہ علماء کے مطالبے کے تحت 1986 میں انڈیا کی پارلیامنٹ نے ایک ایکٹ پاس کیا۔ اس کانام مسلم مطلقہ ایکٹ تھا۔
اِس ایکٹ کے پاس ہونے کے بعد علماء نے ’’یوم فتح‘‘ منایا، لیکن بہت جلد ان کو معلوم ہوا کہ یہ قانون ان کی توقعات کو پورا نہیں کرت۔ علماء کا مطالبہ یہ تھا کہ مسلم مطلقہ خاتون کو دفعہ 125 کے مذکورہ ملکی قانون سے مستثنی قرار دیا جائے۔ اِس قسم کا استثناء سرے سے ممکن ہی نہ تھا، کیوں کہ وہ واضح طورپر دستورِ ہند کے خلاف تھا۔ اِس کے بعد علماء کو چاہیے تھا وہ اپنی نادانی کا اعلان کرتے ہوئے خاموشی کے ساتھ اپنے حجروں میں واپس چلے جائیں۔ لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ وہ بدستور مسلمانوں کے سیاسی اسٹیج پر اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
یہ کام بلاشبہہ ایک نازک کام ہے اور اُس کو صرف ہوش مندانہ کوشش کے ذریعے انجام دیا جاسکتا ہے، لیکن مسلم علماء اور مسلم رہنماؤں نے انتہائی ناعاقبت اندیشانہ طورپر ایسی سیاسی پالیسی اختیار کر رکھی ہے جو صرف معاملات کو بگاڑنے والی ہے، وہ کسی بھی درجے میں اصلاح کا ذریعہ بننے والی نہیں۔
اِس ناعاقبت اندیشانہ پالیسی میں سرفہرست مسلمانوں کی انتخابی پالیسی ہے۔ 1947کے بعد مولانا ابو الکلام آزاد کے مشورے کی روشنی میں، مسلمانوں نے کانگریس کو انتخابی سپورٹ دینے کی پالیسی اختیار کی۔ یہ پالیسی اصولاً درست تھی، لیکن مسلمانوں نے یہ غلطی کی کہ وہ کانگریس سے غیرحقیقت پسندانہ طور پر بہت زیادہ توقع رکھنے لگے۔ یہ توقع عملاً پوری نہیں ہوسکتی تھی اور نہ وہ پوری ہوئی۔
اِس کے بعد چھٹی دہائی میں مسلمانوں نے دوسری نادانی یہ کی کہ انھوں نے اپوزیشن کے ساتھ مل کر نان کانگریس ازم (non-congressism) کی پالیسی اختیار کی۔ یہ منفی ووٹ (negative voting) کی پالیسی تھی، جو فطری طورپر مسائل میں صرف اضافے کا سبب بنی۔ 1992 میں بابری مسجد کے انہدام کے بعد مسلمانوں نے تقریباً متفقہ طورپر الیکشن کے معاملے میں اینٹی بی جے پی کی انتخابی پالیسی اختیار کی۔ یہ منفی پالیسی بھی فطری طورپر مسلمانوں کو کوئی مثبت فائدہ نہ دے سکی۔
ہندستان ایک سیکولر جمہوری ملک ہے۔ مسلمان یہاں ایک اقلیتی گروہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایسی حالت میں، مسلمانوں کے لیے یہاں واحد مفید طریقہ یہ ہے کہ وہ اُس پالیسی کو اختیار کریں جس کو ٹائٹ روب واک (tight-rope walk) کہاجاتا ہے، یعنی کسی کو اپنا دشمن نہ بنانا اور ہر ایک سے بقدرامکان سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرنا۔ 1947کے بعد مسلمان اگر اِس تعمیری پالیسی کو اختیار کرتے تو یقینی طورپر یہاں اب تک وہ قانون بن چکا ہوتا جو مسلمانوںکے عائلی مسئلے کا واحد حل ہے۔
واپس اوپر جائیں

اپنی غلطیوں کو دریافت کیجئے

ایک صاحب کا ٹیلی فون آیا۔ انھوںنے بتایا کہ میں ایک مشہور مذہبی شخصیت کے ساتھ وابستہ تھا۔ اب میںنے ان سے اپنا تعلق توڑ لیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ میں ان کی تقریروں سے متاثر ہوا تھا اور یہ سمجھتا تھا کہ وہ دعوت دین کا اعلیٰ جذبہ رکھتے ہیں۔ لیکن چند سال قریب رہنے کے بعد میں نے دریافت کیا کہ اُن کا واحد مقصد مختلف اسٹیج پر نمایاں ہونا ہے۔ چناںچہ ان کی زندگی بس سفر اور تقریر، سفر اور تقریر میں گزرتی ہے۔ حقیقی معنوں میں دعوت دین اُن کا کنسرن (concern)ہی نہیں۔
میں نے کہا کہ آپ کی دریافت (discovery)ابھی بھی نامکمل ہے۔ آپ نے مذکورہ شخصیت کو دریافت کیا، لیکن آپ نے خود اپنے آپ کو دریافت (discover)نہیں کیا۔ اصل غلطی یہ ہے کہ آپ التمییز بین الشیئین (principle of differentiation) کے اصول سے بے خبر تھے۔ آپ کی غلطی یہ ہے کہ ایک شخص جس کا کیس محض خطابت کا کیس تھا، اس کے کیس کو آپ نے داعیٔ دین کا کیس سمجھ لیا۔ اب آپ کو چاہیے کہ آپ خود اپنی غلطی کو دریافت کریں، نہ کہ دوسرے کو غلط بتا کر مزید اپنا وقت ضائع کرتے رہیں۔
اکثر لوگوں کا یہ حال ہے کہ وہ کسی نہ کسی کو غلط بتا کر اس کے خلاف شاکی بنے رہتے ہیں۔ یہ طریقہ بے حد تباہ کن ہے۔ صحیح یہ ہے کہ آدمی ہر منفی واقعہ کو مثبت تجربے میں ڈھالے، وہ دوسرے کی غلطی میں خود اپنی غلطی کو دریافت کرے۔ وہ ہر تجربے کو سبق (lesson) میں کنورٹ کرے۔ ایسا کرنے کا یہ فائدہ ہوگا کہ ہر واقعہ اس کے لیے اپنے ذہنی ارتقا کا ذریعہ بن جائے گا۔
لوگ شکایتوں میں اِس لیے جیتے ہیں کہ وہ مثبت شخصیت کی اہمیت کو نہیں جانتے۔ منفی خیالات آدمی کے اندر منفی شخصیت بناتے ہیں، اور مثبت خیالات آدمی کے اندر مثبت شخصیت کی تعمیر کرتے ہیں۔ آدمی کو چاہئے کہ وہ اِس معاملے میں بے حد حساس رہے۔ وہ کسی بھی حال میں اپنے اندر منفی شخصیت کی پرورش نہ ہونے دے۔ اِس معاملے میں وہ کسی بھی عذر (excuse) کو عذر نہ بنائے۔
واپس اوپر جائیں

ذہانت کا منفی پہلو

ذہانت (intelligence) انسان کی ایک استثنائی صفت ہے۔ انسان جو کچھ ہے، وہ ذہانت ہی کی بنیاد پر ہے۔ ذہانت کے بغیر انسان صرف ایک حیوان ہے، اِس کے سوا اور کچھ نہیں۔ لیکن اِس دنیا کی ہر چیز کی طرح ذہانت کا بھی ایک پلس پوائنٹ ہے اور اس کا ایک مائنس پوائنٹ ہے۔ ذہانت کا پلس پوائنٹ ذہانت کو ایک نعمت بناتا ہے اور ذہانت کا مائنس پوائنٹ آدمی کے لیے ہلاکت کا سبب بن جاتا ہے۔ اِسی لیے خالق (Creator)بہت کم لوگوں کو اعلیٰ ذہانت عطا کرتاہے۔
تجربہ بتاتا ہے کہ اعلیٰ ذہانت آدمی کے اندر بہت جلد ایک خطرناک کم زوری پیدا کردیتی ہے، یہ ضرورت سے زیادہ اعتماد (over-confidence) ہے۔ اعتماد (confidence)بلاشبہہ انسان کے لیے ایک اچھی چیز ہے۔ اعتماد سے آدمی کے اندر یقین اور استقلال پیدا ہوتاہے۔ اعتماد اِس دنیا میں آدمی کو ثابت قدم بناتا ہے، لیکن تجربہ بتاتا ہے کہ اعتماد اگر اچھی چیز ہے تو ضرورت سے زیادہ اعتماد اتنا ہی زیادہ تباہ کن ہے:
Confidence is good, but over-confidence is equally bad.
اعلیٰ ذہانت والا آدمی بہت جلد اِس غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ وہ سب کچھ جانتاہے۔ یہ سوچ اس کو تواضع (modesty) کی صفت سے محروم کردیتی ہے۔ اس کے اندر اپنے بارے میں برتری کا احساس پیدا ہوجاتا ہے۔ اِس احساس کے تحت وہ ایسی باتیں بولتا ہے جس کے لیے وہ اہل (competent) نہیںہوتا۔ وہ ایسے اقدامات کرتا ہے جس کا وہ متحمل نہیں ہوسکتا۔ وہ ایسے نظریات وضع کرتاہے جو حقیقت ِ واقعہ کے خلاف ہوتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ زیادہ ذہین لوگ اکثر کامیاب نہیں ہوتے۔ اعلیٰ ذہانت اُن کو غیر حقیقت پسند بنا دیتی ہے۔ ایسے لوگ خوش فہمیوں (wishful thinking) میں جیتے ہیں اور آخر کار وہ مایوسی کا شکار ہو کر رہ جاتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

مشترک خاندانی نظام

مشترک خاندانی نظام (joint family system) شرعی طورپر جائز ہے، لیکن عملی تجربہ بتاتا ہے کہ عام طورپر وہ کامیاب نہیں ہوتا۔ شادی کے بعد شوہر اور بیوی کے درمیان نزاعات کا سبب زیادہ تر مشترک خاندانی نظام ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں قابلِ عمل طریقہ یہ ہے کہ مشترک خاندانی نظام سے کامل احتراز کیا جائے ۔
مشترک خاندانی نظام کیا ہے۔ مشترک خاندانی نظام دراصل یہ ہے کہ خونی رشتے دار اور غیرخونی رشتے دار ایک ساتھ ایک گھر میں رہیں۔ یہ طریقہ کوئی ناجائز طریقہ نہیں، لیکن یقینی طورپر وہ ایک غیر فطری طریقہ ہے۔ مشترک خاندانی نظام میں جو مسئلے پیدا ہوتے ہیں، وہ تمام تر اِسی غیر فطری زندگی کا نتیجہ ہوتے ہیں۔
کوئی بھی وعظ ونصیحت اِس مسئلے کا حل نہیں۔ اِس مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ اِس غیر فطری نظام کو اختیار ہی نہ کیا جائے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ اُس وقت تک شادی نہ کی جائے جب تک شادی شدہ جوڑے کے رہنے کے لیے الگ گھر کا انتظام نہ ہوجائے۔ شادی کے بعد لڑکی کی رخصتی اپنے علاحدہ گھر میں ہو، نہ کہ مشترک گھر میں۔ اِس کے سوا اِس مسئلے کا کوئی اور حل نہیں۔
شادی کے بعد علاحدہ گھر کا انتظام کوئی ناممکن چیز نہیں۔ والدین اگر صرف اتنا کریں کہ وہ جہیز اور ولیمہ اور بارات جیسی چیزوں میں جو اخراجات کرتے ہیں، اس کو وہ مکمل طورپر بند کردیں اور ساری رقم صرف گھر کی مد میں لگا دیں تو وہ علاحدہ گھر کا انتظام بآسانی کرسکتے ہیں۔ یہ علاحدہ گھر خواہ چھوٹا ہو، وہ مشترک بڑے گھر سے ہر حال میں زیادہ بہتر ہے۔
اگر والدین کے اندر یہ سوچ پوری طرح موجود ہو تو یقینی طورپر وہ کامیابی کے ساتھ اس کا انتظام کرسکتے ہیں۔ بالفرض اگر کوئی شخص علاحدہ گھر کا انتظام نہیں کرسکتا تو اُس کے لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ وہ شکایتوں میں جینا چھوڑ دے اور صبر وبرداشت کے ساتھ مشترک خاندان میں رہے۔
واپس اوپر جائیں

وقت کی اہمیت

امریکا میں وقت کی پابندی کی بہت زیادہ اہمیت ہے ، ان کا تصور یہ ہے کہ مقرر وقت سے پہلے پہنچنے کی کوشش کرو، تاکہ تمھارا وقت پر پہنچنا یقینی ہوجائے۔ امریکی لوگوں کا تصور یہ ہے کہ کسی میٹنگ میں جانا ہے تو تم طے شدہ وقت سے 15 منٹ پہلے پہنچنے کی کوشش کرو— اگر تم مقرر وقت سے 5 منٹ پہلے پہنچے تو گویا کہ تم دس منٹ لیٹ ہوگئے:
If you are five minutes early, you are ten minutes late.
زندگی میں وقت کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ ہم جو کچھ کرتے ہیں، وقت کے اندر ہی کرتے ہیں۔ وقت ختم تو کام بھی ختم۔ چناں چہ کہاجاتا ہے کہ— وقت، دولت ہے:
Time is money
عربی زبان میں مقولہ ہے کہ: الوقت ہو الحیاۃ، فلا تقتلوہ (وقت ہی کا نام زندگی ہے، تم اس کو ہلاک نہ کرو) ۔ یہ بلاشبہہ نہایت درست ہے۔
زندگی وقت سے بندھی ہوئی ہے۔ انسان کا کوئی بھی کام وقت ہی کے استعمال کی ایک صورت ہوتی ہے۔ کوئی بھی شخص وقت کو جتنا زیادہ استعمال کرسکے، اتنا ہی زیادہ وہ زندگی میں کامیابی حاصل کرے گا۔
وقت کی یہ اہمیت بتاتی ہے کہ وقت کے بارے میں انسان کوبے حد حساس ہونا چاہئے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو آدمی جتنا زیادہ ٹائم کانشس (time-conscious) ہو، اتنا ہی زیادہ وہ باشعور انسان کہاجائے گا۔ ٹائم کانشس ہونا، بااصول انسان کی علامت ہے۔
جو آدمی ٹائم کانشس نہ ہو، وہ بلا شبہہ ایک بے اصول انسان ہوگا۔ انسانیت کے اعلیٰ اقدار کی نسبت سے اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ موجودہ زمانے میں گھڑی کی ایجاد نے وقت کی پابندی کو بہت زیادہ آسان بنا دیا ہے۔ اِسی لیے گھڑی کو ٹائم کیپر (time keeper) کہاجاتاہے۔
واپس اوپر جائیں

سوال وجواب

سوال
دو سوالات کے جواب مطلوب ہیں۔ ایک یہ کہ ماہ نامہ الرسالہ، جون 2007 میں آپ نے اپنے ایک مضمون میں ’’مسیحی ماڈل کی واپسی‘‘ کا ذکر کیا تھا۔ اِس سے آپ کی مراد کیا ہے۔ دوسرے یہ کہ آپ نے اپنی تحریروں میں کئی مقامات پر اعلیٰ بصیرت اور پریکٹل وزڈم (practical wisdom) کی باتیں لکھی ہیں۔ برائے کرم مثال کے ذریعے اس کو واضح فرمائیں (عبد الباسط عمری، دوحہ، قطر)
جواب
1 - قیامت سے پہلے مسیح کی آمد ثانی کے بارے میں جو روایتیں آئی ہیں، اُس سے مراد غالباً مسیحی ماڈل کی آمد ثانی ہے، نہ کہ جسمانی معنوں میں پیغمبر مسیح کی آمد ثانی۔ یہ مسیحی ماڈل قرآن میں بھی مذکور ہے اور انجیل میں بھی اس کا ذکر آیا ہے۔ یہ مسیحی ماڈل، قرآن اور انجیل دونوں کی تصریحات کے مطابق، یہ ہے کہ یک طرفہ صبر کے ذریعہ غیر سیاسی انداز میں پرامن طورپر دعوت الی اللہ کا کام کرنا۔ یہی مسیحی ماڈل ہے اور اِس کو تاریخ میں دوبارہ واپس آنا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مسیحی ماڈل وہی ہے جس کو مکی ماڈل کہاجاتا ہے۔ مسیحی ماڈل کی واپسی دراصل خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مکی ماڈل کی واپسی ہے۔ مگر بعد کے زمانے میں پیغمبر اسلام کے حوالے سے یہ ماڈل مسلمانوں کے لیے قابلِ دریافت نہیں رہے گا۔غالباً اسی لیے آپ نے اس کی واپسی کو مسیح کی واپسی سے تعبیر کیا۔ مسیحی ماڈل دراصل خود پیغمبراسلام کی جامع زندگی کاایک پہلو ہے، نہ کہ اس سے الگ یا اُس سے مغائر کوئی پہلو۔
حدیث اور سیرت کی کتابوں میں اور خود قرآن میںیہ مکی ماڈل واضح طورپر موجود ہے۔ لیکن بعد کو یہ ہوا کہ مسلم علماء نے بطور خود یہ سمجھ لیا کہ ہجرت کے بعد اب مکی ماڈل منسوخ ہوچکا ہے اور اب صرف مدنی ماڈل کی پیروی مسلمانوں سے مطلوب ہے۔ بعد کے زمانے میں مسلم علماء نے جو کتابیں لکھیں، وہ عام طور پر اِسی مفروضہ کے تحت لکھی گئیں، یہاں تک کہ شعوری یا غیر شعوری طورپر یہ سمجھ لیا گیا کہ مدنی ماڈل ہی اب مطلوب معیاری ماڈل ہے۔ بعد کے زمانے میں مسلمانوں کو جس ماڈل کی پیروی کرنا ہے، وہ صرف مدنی ماڈل ہے، بالفاظِ دیگر حاکمانہ ماڈل۔ لمبی تاریخی روایت کے نتیجے میں اب یہ صورت حال پیدا ہوچکی ہے کہ مسلم ذہن پیغمبر اسلام کے حوالے سے اس ماڈل کو سمجھ نہیں پاتے، اِس لیے اِس کو مسیحی ماڈل کے حوالے سے مسلمانوں کے سامنے لایا گیا۔ کیوں کہ بعد کے زمانے میں مکی ماڈل مسلمانوں کے ذہن سے اوجھل ہوگیا اور صرف مدنی ماڈل ان کے زندہ حافظے میں باقی رہا، جب کہ مسیحی ماڈل پر دوسرا مرحلہ پیش نہیںآیا۔ مسیح کے یہاں اول بھی مکی ماڈل تھااور آخر بھی مکی ماڈل۔
2 - پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری زمانہ میں حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا تھا: لافضل لعربی علی عجمی ولا لأحمر علیٰ أسود (کسی عربی کو کسی عجمی کے اوپر کوئی فضیلت نہیں، کسی سفید فام کو کسی سیاہ فام پر کوئی فضیلت نہیں) اِن الفاظ میں بظاہر مطلق مساوات کا اعلان تھا، لیکن آپ کی وفا ت کے بعد جب خلافت کا مسئلہ پیدا ہوا تو اس کو الائمۃ من قریش (مسند احمد، رقم الحدیث: 12657)کی بنیاد پر حل کیاگیا۔ یہ فعل واضح طورپر آئیڈیل مساوات کے خلاف تھا۔
قرآن میں ارشاد ہوا ہے: أمرہم شوریٰ بینہم (اہلِ ایمان کے معاملات اجتماعی مشورے سے طے ہوتے ہیں) الفاظ کے اعتبار سے بظاہر یہ ایک مطلق اصول ہے، لیکن خلیفۂ اوّل حضرت ابو بکر نے خلیفۂ ثانی حضرت عمر کے تقرر میں اِس تعلیم کے خلاف عمل کیا۔ انھوں نے اپنے بعد خلیفہ ثانی کے لئے نام زدگی (nomination) کا طریقہ اختیار کیا۔ آپ نے رائے عامہ کے بغیر بطورخود حضرت عمر کی خلافت کا اعلان کردیا۔ یہ واقعہ واضح طورپر مذکورہ قرآنی اصول کے خلاف تھا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مدینہ میں خلافت کے سوال پر مہاجرین اور انصار کے درمیان اختلاف ہوا۔ انصار کا یہ کہنا تھاکہ: منا أمیر ومنکم أمیر (ایک امیر مہاجر ین میںسے اور ایک امیر انصار میںسے)۔بحث کے بعد آخر کار یہ طے ہوا کہ مہاجرین میں سے امیر ہوں اور انصارمیں سے وزیر (نحن الأمراء وأنتم الوزراء)۔ لیکن اس پر عمل نہ ہوسکا اور حضرت عمر فاروق نے اپنے آخری زمانے میں کہا کہ ہم نے انصار سے وعدہ کیا تھا کہ ہم خلافت کے کام میں ان کو وزیر بنائیں گے، لیکن ہم ایسا نہ کرسکے (واللہ ما وفینا لہم کما عاہدناہم علیہ۔ مسند البزّار، رقم الحدیث: 291)۔
اسلام کے دور اول کی تاریخ میں اس طرح کے بہت سے واقعات ہیں۔ یہ واقعات بظاہر یہ بتاتے ہیں کہ اسلام میں اصول اور عمل کے درمیان تضاد ہے، مگر یہ بات درست نہیں۔ یہ فرق خودایک اور مستقل اصول کے تحت پیش آیا— اصول کا تعین ہمیشہ معیار (norm) کی روشنی میں ہوتا ہے، لیکن جب عملی بندوبست (practical settlement) کا معاملہ ہو تو اُس وقت ایک اور اصول اختیار کیا جاتا ہے۔ اُس وقت یہ دیکھا جاتا ہے کہ عملی اعتبار سے کیا چیز ممکن ہے اور کیا چیز ممکن نہیں۔
اصول کا تعین ایک مجرد(abstract) معاملہ ہے، اِس لئے اصول کے تعین کے وقت خالص نظری پہلو کا اعتبار کیا جاسکتا ہے۔ لیکن عملی بندوبست کا تعلق سماج کی واقعی صورت ِ حال سے ہوتا ہے۔ اِس لئے عملی بندوبست کے وقت ضروری ہوتاہے کہ یہ دیکھا جائے کہ موجودہ صورت حال کے مطابق کیا چیز ممکن ہے اور کیا چیز ممکن نہیں۔
مذکورہ مثالوں کے درمیان بظاہر جو فرق نظر آتاہے، وہ اِسی اعلیٰ بصیرت کی بنا پر ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو پریکٹکل وزڈم (practical wisdom) کہاجاتا ہے۔ جو لوگ اصولی معیار اور پریکٹکل وزڈم کے فرق کو نہ جانیں، وہ ذہنی اعتبار سے کنفیوژن (confusion) کا شکار ہوجائیںگے اوروہ عملی اعتبار سے ایسا اقدام کریں گے جو حالات میں مزید خرابی پیدا کرے اور نتیجے کے اعتبار سے کاؤنٹر پروڈکٹیو (counter productive) بن کر رہ جائے — عملی رویّے کا فیصلہ ہمیشہ واقعی صورتِ حال کی بنا پر کیا جاتا ہے، نہ کہ مجرد اصولی معیار کی بنیاد پر۔
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز — 204

1 - میں الرسالہ کا ایک قدیم قاری ہوں اور 12 اپریل 2010 آپ کے گھر پر مولانا محمد مصطفی عمری کے ہمراہ آپ سے نصیحت آموز ملاقات کی سعادت حاصل ہوئی تھی۔ آپ کے ساتھ میں نے مغرب کی نماز بھی ادا کی تھی۔ قیمتی وقت دینے کے لئے آپ کا شکریہ۔مولانا محمد ذکوان ندوی سے تعارف کے دوران میںنے بتایا تھا کہ ممبئی کے اہم مقام چرچ گیٹ اسٹیشن پر واقع بُک اسٹال پر میں پچھلے دو سالوں سے آپ کا ترجمہ قرآن اور دیگر دعوتی لٹریچر فروخت (sale) کے لئے رکھوا کر آپ کے مِشن میں کام کررہا ہوں۔ اس اسٹیشن پر روزانہ لاکھوں لوگ آتے اور جاتے ہیں۔ قرآن کے تقریباً 300 ترجمے یہاں سے بِک چکے ہیں جس میں 90% خریدار غیر مسلم حضرات ہیں۔ یہ کام میں جاوید بھائی (ICRA) کے تعاون سے کررہا ہوں۔(محمد اسلم چوغلے، ممبئی)
2 - شانتی گری رسرچ فاؤنڈیشن (مالویہ نگر، نئی دہلی) کے تحت نہرو آڈیٹوریم (تین مورتی ہاؤس) میں 21 اپریل 2010کو ایک سیمنار ہوا۔ اس کا موضوع یہ تھا:
National Workshop on Sustainable Development: Building Alternatives.
اِس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے سی پی ایس کی ٹیم کے 6 افراد کے ساتھ اس میں شرکت کی۔ اور موضوع پر انگریزی زبان میں آدھ گھنٹہ تقریر کی۔ اِس موقع پر سی پی ایس کی طرف سے حاضرین کو مطالعے کے لیے دعوتی لٹریچر اور قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔ لوگوں نے اس کو بہت شوق سے لیا۔
3 - ٹائمس آف انڈیا (نئی دہلی) کی نمائندہ مز سکینہ خان (Deputy Editor Editorial) نے 4 مئی 2010 کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو ریکارڈ کیا۔ گفتگو کا موضوع یہ تھا کہ اسلام میں ماں کا درجہ کیا ہے۔ اِس سلسلے میں انھیں قرآن اور حدیث کے ضروری ریفرنس میں اسلامی تعلیمات بتائی گئیں۔ اِس کے علاوہ ان کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور صدر اسلامی مرکز کی کتاب Woman in Islamic Shari’ah مطالعے کے لیے دی گئی۔
4 - مئی کا الرسالہ نظر نواز ہوا۔ کافی تحقیق اور وسیع مطالعہ کا نتیجہ لگتا ہے۔ خروجِ دجّال اور یاجوج وماجوج، ظہور مہدی اور نزولِ مسیح جیسے پیچیدہ اور اختلافی مسائل پر آپ نے نہایت ہی عالمانہ اور محققانہ مدلّل ومسبوط نظریہ پیش کیا ہے، جو نہ مافوق الفطرت لگتا ہے اور نہ ہی دیومالائی یا طلسماتی قصہ، بلکہ یہی نظریہ فطرت سے مطابقت بھی رکھتا اور ممکن الوقوع بھی ہے۔ لیکن مجھے نہیں لگتا کہ مسلم علماء اس کو پسند فرمائیں گے یا قبول کریں گے۔ کیوں کہ اس سلسلہ میں وہ اپنے روایتی بند خول سے باہر نہیں نکلنا چاہتے۔ عین ممکن ہے کہ آپ کے اس جرأت مندانہ پیشکش اور اقدام کی وجہ سے آپ کو مطعون کیاجائے۔ (سید ناصر ندیم ، کشمیر)
5 - طالب علمی کے زمانے ہی سے اگر میں کسی مشن سے واقف ہوا تو وہ الرسالہ مشن ہے۔ شہر بھوپال میں الرسالہ کی تقسیم سے میرا آغاز ہوا۔ یہ کام مجھے میرے استاذ ڈاکٹرحمید اللہ ندوی نے سونپا تھا۔ اس وقت میں زیادہ نہیں سمجھتا تھا، مگر جو کام مجھے دیا جائے اسے کرنا ہی میرا طریقہ تھا جو کہ آج تک جاری ہے۔ اب یہی کام میں مدھیہ پردیش کے شہر دیواس میں کررہا ہوں۔ میرا اندازہ ہے کہ 1977 ء یا 1978 ء میں بھوپال سے میں نے یہ کام شروع کیا۔ اور دھیرے دھیرے یہ سمجھنے لگا کہ الرسالہ صرف ایک پرچہ نہیں، بلکہ وہ ایک ایسا مشن ہے جس میں امت کے لیے دین و دنیا کا راز پوشیدہ ہے۔مولانا وحیدالدین خاں صاحب موثر انداز میں مسلمانوں کو زندگی کے راز بھی بتا رہے تھے اور ان کے اندر دینی روح بھی زندہ کررہے تھے۔984 1ء میں میں نے اپنے وطن دیواس میں کام شروع کیا۔ اپنے استاذ مولانا ڈاکٹر حمید اللہ ندوی کے ساتھ عملاً میں یہ دیکھ چکا تھا کہ غیر مسلم افراد سے بھی اپنائیت کا رشتہ قائم کیا جاسکتا ہے- میں اسی راستے پر چلا اور آج اپنے شہر میں آرایس ایس کے مکھیا کے کالج کا ایک بااختیار فرد ہوں اور شہر میں آرایس ایس کے آل انڈیا سرسنچالک ایک بار آئے تو ان سے میری ملاقات کرائی گئی۔ اور ان اصحاب کے زیادہ تر پروگراموں میں مجھے بولنے کے لئے کہاجاتا ہے۔ نیز شہر میں جب حالات کچھ گڑ بڑ ہوئے ہیں، انھیں درست کرنے میں مجھے آگے رکھا جاتا ہے۔ دیواس کے قریب اندور اور اجین میں بھی ہمارے آدمی کام کرتے ہیں۔ اور بھوپال کی سرگرمیوں میں بھی میں ہر طرح سے شریک ہوں۔حضرت مولانا کے سفر بھوپال کے ہر پروگرام میںایک کارکن کے طورپر میری شرکت ہوئی ہے۔ چند سال قبل اس مشن کی مخالفت کرنے والے حیدرآباد کے ایک شخص نے مجھے حضرت مولانا کے خلاف ورغلانے کے لئے ایک خط لکھا، اور حضرت مولانا کے خلاف لکھی ہوئی اپنی کتابیں بھیجیں۔ مگر اللہ کی مہربانی سے میں نے انھیں جواب لکھا اور پھر خطوط کے تبادلہ کا لمبا سلسلہ چلا اور اخیر میں وہ خاموش ہوگئے اور میرے واضح دلائل کا نہ تو جواب دے سکے اور نہ انھیں توبہ کی توفیق نصیب ہوئی۔ ایسے واقعات میرے اِس یقین کو بڑھاتے ہیں کہ مشن کے مخالفین ہٹ دھرمی کے خول کو کسی طرح نہیں توڑ پارہے ہیں۔اس مشن کو جس حد تک میں سمجھا ہوں، اس میں اہم بات یہ ہے کہ امت اپنے ز وال پذیر حالات میں ایسی رہنمائی سے محروم تھی جو اسے تعمیر وترقی کی مثبت فکرطاقتور انداز میں دے سکے اور احساس شکست کے تحت خود کُش اقدامات کو عقل واسلام کے خلاف ثابت کرسکے۔ موجودہ زمانے میں یہ کام صرف اور صرف اعلیٰ ترین سطح پر عصری اسلوب میں مولانا کی تحریروں نے انجام دیا۔ مجھے ہندی علاقہ اور ہندی ماحول میںکام کرنا ہوتا ہے جہاں اردو کی زیادہ کتب نہیں پڑھوائی جاسکتی ہیں۔ ہم مخصوص تحریروں کو ہندی میں پھیلاتے ہیں اور میٹنگوں میں اس کو پڑھ کر سناتے ہیں۔ اردو تحریریں بھی سناتے ہیں۔ اب تک کا تجربہ یہ ہے کہ سنجیدہ ذہن والوں کو لگتا ہے کہ آخری حد تک صبر و برداشت کی تعلیم ہی اسلام کی اصل تعلیم ہے اور حالات کو پر امن بنانے کے لیے آخری حد تک ہمیں اپنا رول ادا کرنے کے بعدہی وہ مواقع میسر آتے ہیں جو ہمارے لیے اسلام کی دعوت اور اپنی ترقی کے راستے کھولتے ہیں۔ میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ ہماری ساری زندگی ہر قسم کی بے احتیاطیوں سے بچتے ہوئے اس مشن کی تکمیل میں لگی رہے۔(عبد الحمید، دیواس، مدھیہ پردیش)
6 - پنگوئن بکس (Penguin Books)ایک معروف انٹرنیشنل پبلشنگ ادارہ ہے۔ اس نے صدر اسلامی مرکزکی ایک انگریزی کتاب چھاپی ہے، اس کتاب کا نام یہ ہے:
The Prophet of Peace
یہ کتاب دو سال پہلے تیار ہوئی تھی۔ عرب نیوز (جدہ) کے ایڈیٹر مسٹر سراج وہاب کو اِس کتاب کا مسودہ دکھایاگیا۔ انھوں نے کہا کہ یہ کتاب اِس نام کے ساتھ انگریزی دنیا میں چلنے والی نہیں ہے۔ آپ اس کو پھر سے مرتب کیجئے اور اس کا نام یہ رکھئے :
Why Binladen was Wrong?
مگر یہ ٹائٹل ہمارے ذوق کے مطابق نہ تھا۔ اس کے بعد ایسا ہوا کہ پاکستان کے ہندستانی سفارت خانے کے ایک ہندو افسر کی ملاقات لاہور کے مولانا جاوید احمد غامدی سے ہوئی۔ غامدی صاحب نے اُن سے صدراسلامی مرکز کاتعارف کرایا۔ اس کے بعد مذکورہ ہندو افسر اور ان کی اہلیہ رنجنا سین گپتا دہلی میں ان سے ملاقات کے لیے آئے۔ یہ خاتون دہلی کے پنگوئن آفس کی انچارج ہیں۔ اُن سے مذکورہ کتاب کا ذکر ہوا تو وہ اس کا مسودہ پڑھنے کے لیے اپنے ساتھ لے گئیں۔ پڑھنے کے بعد انھوں نے کہا کہ پنگوئن اِس کتاب کو چھاپنے کے لئے تیار ہے۔ اِس طرح یہ کتاب دسمبر 2009میں پنگوئن کی طر ف سے شائع ہوئی۔
صدر اسلامی مرکز کی کتاب (The Prophet of Peace) کو لوگ غیر معمولی طورپر پسند کررہے ہیں۔ ٹائمس آف انڈیا (نئی دہلی) سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر جنرلسٹ مسٹر گوتم سدھارتھ نے اِس کتاب کو کسی بک سیلر سے خرید کر حاصل کیا اور اس کو پڑھا۔ اِس کو پڑھنے کے بعد انھوںنے مسٹر رجت ملہوترا سے کہا:
This book gives a new understanding of Islam, it is like a paradigm shift. It is a well-documented book.
موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے مسلح جہاد نے اسلام کی تصویر یہ بنادی تھی کہ اسلام تشدد کا مذہب ہے، اور پیغمبر اسلام تشدد کے پیغمبر ہیں۔ یہ کتاب اِس غلط فہمی کو ختم کرتی ہے اور خالص علمی انداز میں یہ ثابت کرتی ہے کہ اسلام امن کا مذہب ہے اور پیغمبر اسلام امن کے پیغمبر ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ موجودہ زمانے میں یہ اسلامی دعوت کی نسبت سے ہونے والا سب سے بڑا واقعہ ہے۔ موجودہ زمانے میں عالمی میڈیا نے ساری دنیا میں اسلام کی متشددانہ تصویر بنادی تھی۔ یہ کتاب اِس تصویر کو مکمل طورپر بدل رہی ہے۔ اِس کتاب کا انٹرنیشنل پبلشر کی طرف سے شائع ہونا بھی ایک معجزے سے کم نہیں۔
7 - بیروت (لبنان) سے چھپی ہوئی عربی مصادر ومراجع کی کتابیں ہمارے مکتبہ میں دستیاب ہیں۔ خواہش مند حضرات ان کو گڈورڈ بکس (Goodword Books) سے حاصل کرسکتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

Al-Quran Mission

Quran and Dawah Material Distribution
CPS International and Goodword Books have placed Order Free Quran forms on their websites, www.goodwordbooks.com and www.cpsglobal.org. They are sending Quran copies of the Quran translated by Maulana Wahiduddin Khan in English and dawah material in response to the daily requests coming from people from all over the world. Some of the prominent places are USA, Mexico, Canada, UK, Germany, Sweden, Lithuania, Nigeria, Ghana, Australia, South Africa, Saudi Arabia, Morocco, UAE, Turkey, Singapore, Malaysia, Malta, Philippines, Poland, Russian, Kazakhstan, Ukraine, Uzbekistan, Pakistan and India.
Dayees from all over the world are also spreading the translations of the Quran by Maulana Wahiduddin Khan in English and Hindi and dawah material during interactions or through emails either individually or in groups.
Some of the responses they have received are:
ک Thank you greatly for providing such an opportunity to get the Quran! I have been dreaming to have this book for so long, but it is almost unreal to find it in here. I will be impatiently waiting for the Quran! (Olesya Ponomaryova, Belarus)
ک I would love to have a copy of Holy Quran in English so that i can understand the roots of Islam and its essence. I am Hindu by religion but i have equal respect for all religions and beliefs. Please send me a copy if available and if not, please send me the address of the bookseller, where the book is available. (Mohan Kumar Yadav, N. Delhi)
ک I am happy to acknowledge the receipt of your kind letter No. CPS/238/10-1 dated 18th May 2010, along with the lovely edition of the Holy Quran, so beautifully translated by Maulana Wahiduddin Khan Sahib. (Madan Mohan Mathur, New Delhi)
ک I thank you for sending me the Holy Quran! Praise be to God. I am reading it daily. I would like to know Allah and know the true religion of Prophet Mohammed. (Musa Kioi from Nairobi, Kenya)
ک I gratefully acknowledge the receipt of Quran translated by Maulana Wahiduddin Khan. I am a great admirer of Maulana Wahiduddin Khan and the great work that he and his organization “CPS International” has been doing to spread the message of Quran in the right perspective. It will be my proud privilege to give you my feed back after I have gone through this work of Maulana Wahiduddin Khan. (Wg. Cdr. Ajai Bhalla (Retd.)
Quran Review in Speaking Tree Supplement of Times of India
The ‘Free Quran’ requests are continuing to flow in responses to the Speaking Tree Supplement of Time of India dated Sunday May 16th 2010 that carried a review of translation of Quran by Maulana Wahiduddin Khan, in spite of so many weeks.
The review had stated that the translation is, “Simple and direct and reaches out to a large audience, Muslims as well as non Muslim”, and aptly entitled it, “Not Lost in Translation”. They had also referred to Maulana’s, statement, “The Maulana writes that the Quran is the word of God and it is the duty of believers to communicate the message of the Quran to all human beings so that they may the know reality of life.”
Some of the recent comments from mainly non-Muslims are as follows:
ک Thank you for sending me Quran, which I never expected. I read the article in “Times of India” about the translation of Quran by Maulana Wahiduddin in a simple language. When I approached through internet, I learnt that it was not available. So, I am pleasantly surprised when I received it by courier service. How nice it would be if other organizations too distribute their sacred books in simple language freely to the interested. I am a cosmopolitan from Hindu back ground and I will definitely read and try to understand “Quran”. (V.B. Swamy, Bangalore)
ک I love reading articles authored by Maulana Wahiduddin Khan on Muslin religion. They are secular and not orthodox type. I read a review by Sakina, “Not Lost in Translation” on his translation of the Quran in the Speaking Tree supplement of May 16, 2010. (Dr Krishan Kumar Agarwal, Vaishali, Ghaziabad)
ک I like to study your whole literature. I hope your literature will help me to better understand the philosophy of Islam. Thank you for your honourable service. (Deepak Bisht, Ghaziabad)
ک This is in reference to information in TOI regarding the availability of free handy translation of Quran, my father wishes to go through the holy pages, if you can please forward the same free copy, he will be highly pleased. (Prarina)
ک Read the book review by Sakina Yousuf Khan in the Speaking Tree supplement with Times of India 16th May 2010. I will be grateful for a copy of the holy book. I am a secular person willing to imbibe all that is offered by any and all religions. (Anindya Chaudhury, Gurgaon)
ک It is nice that there is launch of English translation that we all are more comfortable in reading than Urdu. (Agrima Jindal, New Delhi)
ک Respected Sir, In the Times of India, Speaking Tree, Book reviews, dated 16 May 2010, I read about the Quran review by Sakina Yusuf Shan. I request you to send me 100 copies of the Quran which will cost Rs. 2000 only. I want to donate it to an education trust. (Arun Venkatesh, Bangalore)
ک The Society for Peace and Environmental Concerns, Jammu organized an inter-faith Conference on “Religion and Peace” on 6th 0f June 2010 at Jammu in the Seminar hall of Computer Science and I.T. Deptt. University of Jammu. The conference was chaired jointly by Prof. M.R. Puri, former Vice Chancellor University of Jammu as well as Prof. Varun Sahni, the present Vice- Chancellor, university of Jammu. In his address Prof. M.R. Puri, former Vice- Chancellor, university of Jammu made a startling revelation that “I have known it today only through this booklet that Assalam-O-Alaikum means peace be upon you and then he said that today I am concluding my speech with Assalam-O-Alaikum”. A booklet prepared specially for the occasion titled Islam and Peace was distributed among the participants which generated good response. The booklet was based on the Islamic ideology of peace given by Maulana Wahiddudin Khan in his book “Islam and Peace”. Dawah literature and Quran were exhibited during the conference and pocket size Quran translated by Maulana Wahiduddin Khan was distributed among the participants, free of cost. (Ahmad Shanas, President, SPEC)
US Teleconference
To spread the Al-Quran Mission worldwide, Maulana Sahab has started addressing Dayees in the USA through teleconferencing that is being organized by Khwaja Kaleemuddin Sahab. On 6th June, 2010 the talk was on ‘How to do effective dawah work in Western society’. In his talk Maulana Sahab has said, ‘Muslims in the west are playing eastern games in western court’. By this he meant that the Muslims in the West are not trying to read the western mind and undertake dawah work, but are just acting on their eastern mindset. Due to this they have not realized that people in the West are dissatisfied spiritually, ‘They are looking for another version of Truth’. He advised Muslims in the West to utilize this opportunity and present Islam to them in the scientific idiom and they will surely welcome it.
As a result of this advice, Khwaja Kaleemuddin has written:
Following your advice on “How to do an effective Dawah work in Western Society” during our teleconference monthly meeting of CPS-USA, I decided to go to a Church to meet with the Pastor to have an exchange of Ideas. I called up one of my Christian friends who goes to a Greek Orthodox Church and told him that I would like to go to his Church with him today and meet with the Pastor at the end of the Church services. So I went to the Church along with him and met with the Pastor today and at the end of the services. At the end of our talk I presented him with “The Quran Translation” and “The Prophet of Peace”.
Amazingly, he was not only happy to receive these books; he even offered me two things. One, he asked me to bring more books to keep them in the Church library so that his members have an access to read those books and second, he would invite me to give a lecture on Islam to his Church audience in fall season.
Allahu Akbar, this experience of mine confirms what you said during your short talk yesterday that we must shed our hesitation and meet with the various “Intelligentsia” of the society. You are right that they are truly very receptive. In view of this experience, I urge all CPS members here in USA to experiment what I did today and continue doing for the rest of the life.
واپس اوپر جائیں