Pages

Friday 2 May 2008

Al Risala | May 2008 (الرسالہ،مئی)

2

- نماز اور تعمیر ِحیات

3

- قیامت کا زلزلہ

5

- یاد دِہانی کی موت

6

- معرفت یا معلومات

7

- ٹی وی کے ذریعہ

8

- اسلام کی سیاسی تعبیر

14

- مدر ٹریسا

17

- مواقع کی دنیا

21

- موت سے بے خبری کیوں

37

- کامیاب زندگی کا راز

38

- سوچ کا فرق

39

- مسئلے کا حل

40

- امتیازی صلاحیت

41

- اعتراف یا سرکشی

42

- سوال و جواب

44

- خبرنامہ اسلامی مرکز— 184


نماز اور تعمیر ِحیات

نماز اپنی اصل حقیقت کے اعتبار سے خدا کی عبادت ہے، لیکن اُس کا عملی نظام اِس طرح مقرر کیا گیا ہے کہ وہ انسان کی پوری زندگی کو مثبت انداز میں تعمیر کرنے کا ذریعہ بن گئی ہے۔ نماز ایک اعتبار سے ربّانی تربیت ہے، اور دوسرے اعتبار سے وہ حیاتِ دنیا کے لیے ایک مکمل قسم کا تعمیری کورس۔
نماز کا آغاز وضوسے ہوتا ہے۔ وضو گویا کہ ایک غسلِ صغیرہے۔ وہ آدمی کی تطہیر (purification) کا ایک مستقل ذریعہ ہے۔ اِس کے بعد نماز کا پہلا کلمہ اللہ اکبر ہے۔ اذان اور نماز دونوں کو ملا کر روزانہ تقریباً تین سو بار یہ کلمہ دہرایا جاتا ہے۔ اللہ اکبر (اللہ بڑا ہے) کادوسرا مطلب یہ ہے کہ میں بڑا نہیںہوں۔ اِس طرح نماز، انسان کو تواضع (modesty) کے لیے تیار کرتی ہے، اور بلا شبہہ تواضع موجودہ دنیا میں سب سے زیادہ قابلِ قدر انسانی صفت ہے۔
نماز رات اور دن کے دوران ، پانچ مقرر اوقات میں پڑھی جاتی ہے۔ یہ گویا کہ ٹائم مینج مینٹ (time management) کی تعلیم ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان کے پاس سب سے بڑی چیز وقت (time) ہے۔ وقت کو منظم انداز میں استعمال کرنا ہر قسم کی ترقی کی لازمی شرط ہے، اور نماز تنظیمِ اوقات کی اِسی صفت کے لیے آدمی کو تیار کرتی ہے۔
نماز کے لیے حکم ہے کہ اُس کو باجماعت انداز میں ادا کیا جائے۔ یہ اتحاد کی اعلیٰ تربیت ہے۔ باجماعت نماز میں یہ ہوتا ہے کہ ایک شخص کو بطور امام آگے کھڑا کرکے سب لوگ اس کے پیچھے صف باندھ کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اِس طرح نماز یہ سبق دیتی ہے کہ اپنے میںسے ایک کو آگے کرکے سب لوگ پیچھے کی سیٹ (back seat) پر چلے جاؤ۔ یہ طریقہ بلا شبہہ اتحاد کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
نماز کا خاتمہ ’السّلام علیکم ورحمۃ اللہ‘ پر ہوتا ہے، یعنی تمام انسانوں کے لیے امن کی اسپرٹ لے کر مسجد کے باہر آنا۔ گویا کہ نماز ایک طرف تواضع کی صفت پیدا کرتی ہے اور دوسری طرف امن پسندی کی صفت۔ یہ صفتیں بلا شبہہ موجودہ دنیا میں بہتر سماج بنانے کا سب سے زیادہ موثر ذریعہ ہیں۔
واپس اوپر جائیں

قیامت کا زلزلہ

قر آن میںجس قیامت کی پیشین گوئی کی گئی تھی، وہ بہ ظاہر اب بالکل قریب آگئی ہے۔ قرآن کی سورہ نمبر 99 میں یہ خبر دی گئی تھی کہ وہ وقت آنے والا ہے، جب کہ زمین ایک شدید زلزلہ کے ذریعے ہلادی جائے گی— إذا زلزلت الأرض زلزالھا:
When the earth is shaken with massive earthquakes (99:1)
موجودہ زمانے میں گلوبل وارمنگ کے بارے میں مسلسل خبریں آرہی ہیں جو قرآن کی اِس پیشین گوئی (prediction)کی تصدیق کرنے والی ہیں۔ نیشنل جاگریفک نیوز (National Geographic News) کے حوالے سے ایک رپورٹ آئی ہے جس کو نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (16 مارچ 2008 ) نے حسب ذیل عنوان کے تحت نقل کیاہے:
Melting ice sheets can trigger massive earthquakes.
خبر کے مطابق، ایک نئے مطالعے کے ذریعے معلوم ہوا ہے کہ قطب شمالی اور قطب جنوبی میں برف کے بڑے بڑے تودے نہایت تیزی سے پگھل رہے ہیں، اور اس کی وجہ سے سمندروں میں پانی کی سطح میں خطرناک اضافہ ہورہا ہے۔ اِس عمل کی وجہ سے جو محصور توانائی (pent-up energy) خارج ہوگی، اس کے باعث زمین پر شدید زلزلے آئیں گے:
A new study has indicated that melting ice sheets can release pent-up energy and trigger massive earthquakes. According to a report in National Geographic News, as a result of global warming, ice sheets are melting worldwide, which is triggering off earthquakes. For the study, the researches had taken into account a series of large earthquakes that had shook Scandinavia around 10,000 years ago, along faults that are now quiet (p. 24).
تازہ رپورٹ کے مطابق، گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں زمین کے برفانی تودے (glaciers) نہایت تیزی سے پگھل رہے ہیں، جو زمین پرزلزلہ برپا کرنے کا سبب بنیں گے۔ اِس کے نتیجے میں زمین پر شدید زلزلوں کا ایک سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ جیسا کہ اسکینڈی نیویا (Scandinavia)کے علاقے میں دس ہزار سال پہلے پیش آیا تھا۔
گلوبل وارمنگ اور اس کے متعلق پہلوؤں پر موجودہ زمانے میں وسیع پیمانے پر مطالعہ کیا گیا ہے۔ اِس مطالعے کا ایک حصہ یہ ہے کہ زمین کے نارتھ پول اور ساؤتھ پول میں پہاڑ کی مانند برف کے بڑے بڑے تودے (glaciers) ہیں۔ اِن تودوں کے نیچے بڑے بڑے آتش فشاں پہاڑ (volcanoes) چھپے ہوئے ہیں۔ یہ آتش فشاں پہاڑ محصور توانائی (pent-up energy) کے بھاری ذخیرے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اِن کے اوپر برف کے تودے گویا کہ بڑے بڑے فطری ڈھکن تھے جو اِس آتش فشاں کو پھٹ کر باہر آنے سے روکے ہوئے تھے۔
گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں نارتھ پول اور ساؤتھ پول کے یہ برفانی ڈھکن تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ اُن کا پگھلا ہوا پانی سمندروں میں شامل ہورہا ہے۔ اِس طرح شدید طورپر یہ خطرہ پیدا ہوگیا ہے کہ نارتھ پول اور ساؤتھ پول کا برفانی ڈھکن بہت جلد پگھل کر ختم ہوجائے اور ان کے اندر چھپا ہوا آتش فشا ں پھٹ کر آگ اور لاوا کی صورت میں باہر آجائے۔
یہ صورت حال زمین کے اوپر ہر قسم کی زندگیوں کے لیے سنگین خطرہ ہوگی۔ کوئی بھی انسانی تدبیر ان کا مقابلہ کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے گی۔ بالواسطہ یا براہِ راست طورپر اس کا اثر تمام انسانی آبادیوں تک پہنچ جائے گا۔
حالات بتاتے ہیں کہ بہت جلد وہ وقت آنے والا ہے، جب کہ موجودہ دنیا کا خاتمہ ہوجائے اور ایک نئی دنیا بنے، جہاں خدا کا عدل قائم ہو۔ جہاں نیک لوگوں کو جنت میں داخلہ ملے، اور بُرے لوگوں کو جہنم کے عذاب خانے میں ڈال دیا جائے۔ اب آخری وقت آگیا ہے کہ ہر زندہ عورت اور مرد اُس آنے والے انصاف کے دن (Day of Judgement) کے لیے تیاری کریں جو بہر حال آکر رہے گا اور جوآنے کے بعد پھر واپس جانے والا نہیں۔
واپس اوپر جائیں

یاد دِہانی کی موت

نصیر احمد خاں بنارسی گڈورڈ بکس اورمکتبہ الرسالہ کے ایک ممبر تھے۔ 16 مارچ 2008 کو دہلی میں ان کا انتقال ہوگیا۔ بوقت انتقال ان کی عمر تقریباً 50 سال تھی۔ اُس وقت وہ تندرستی کی حالت میں تھے۔ بہ ظاہر موت کے کوئی آثار نہ تھے، مگر 16 مارچ کو ان کے ساتھ ایک حادثہ پیش آیا اور اُس میں اچانک ان کا انتقال ہوگیا۔
موت دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک، متوقّع موت (expected death) اور دوسری، غیرمتوقع موت (unexpected death)۔ متوقع موت وہ ہے، جب کہ انسان بوڑھا ہوگیا ہو، وہ بیمار ہو کر بستر پر پڑ جائے اور لوگ پیشگی طورپر یہ سمجھ لیں کہ اب اس کا آخری وقت آگیا ہے۔ ایسی موت کو لوگ ایک ہونے والا واقعہ سمجھتے ہیں، وہ اُس سے اپنے لیے کوئی سبق نہیں لیتے۔
دوسری موت وہ ہے جو غیر متوقع ہو۔ اِس طرح کی موت میں ایسا ہوتا ہے کہ مرنے والا ابھی جوانی کی عمر میں ہوتا ہے۔ وہ تندرست حالت میں اپنا کام کررہا ہوتا ہے اور پھر اچانک اس کی موت آجاتی ہے۔ ایسی موت کو عام طورپر بے وقت کی موت (untimely death) کہاجاتا ہے۔ مگر ایسی موت بے وقت کی موت نہیں ہوتی۔ زیادہ صحیح طورپر وہ یاد دہانی کی موت (reminder death) ہوتی ہے۔ وہ ایک چشم کُشا موت ہوتی ہے، تاکہ لوگ موت کو یاد کرکے اپنی اصلاح کرلیں۔
جو واقعہ معمول کے طورپر پیش آئے، اُس کے بارے میں لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ ایک ہونے والی بات تھی جو ہوئی۔ مگر جو واقعہ غیر معمولی طورپر یا خلافِ توقع پیش آئے، وہ لوگوں کے لیے ایک دھماکہ خیز واقعہ بن جاتا ہے۔ ایسا واقعہ لوگوں کو سوچنے پر مجبور کردیتا ہے۔ مذکورہ قسم کی موت ایسا ہی ایک دھماکہ خیز واقعہ ہے۔ وہ لوگوں کے لیے ایک یاد دہانی ہے۔ ایسا ایک واقعہ گویا کہ بیداری کا ایک الارم ہوتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ سونے والوجاگو، کیوں کہ اب غفلت کا وقت ختم ہوچکا— عام موت ایک خاموش سبق ہے، اور مذکورہ قسم کی موت ایک بولتا ہوا سبق۔
واپس اوپر جائیں

معرفت یا معلومات

ایک تعلیم یافتہ مسلمان سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے بتایا کہ وہ پابندی کے ساتھ، ماہ نامہ الرسالہ پڑھتے ہیں۔ میںنے پوچھا کہ الرسالہ سے آپ نے کیا حاصل کیا۔ انھوں نے کہا کہ الرسالہ بہت معلوماتی پرچہ ہے۔ کسی اور پرچے میں ہم کو ایسی معلومات نہیں ملتیں۔ پھر میں نے پوچھا کہ آپ الرسالہ کا کوئی شمارہ کتنی بار پڑھتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ایک بار۔ میںنے کہا کہ جس شخص نے الرسالہ کو ایک بار پڑھا، اس نے الرسالہ کو نہیں پڑھا۔ چوں کہ آپ ماہ نامہ الرسالہ کو صرف ایک بار پڑھتے ہیں، اِس لیے آپ ابھی تک اس کو سمجھ نہیں سکے۔ آپ نے صرف الرسالہ کے سطور (lines) کو پایا ہے، آپ نے ابھی تک اس کے بین السطور(between the lines) کو نہیں پایا ۔
پھر میںنے کہا کہ ماہ نامہ الرسالہ کوئی معلوماتی پرچہ نہیں ہے، بلکہ وہ معرفت کا پرچہ ہے۔ الرسالہ میں جو معلومات ہوتی ہیں، وہ بہ ذاتِ خود مقصود نہیں ہوتیں، اُن کا مقصد کچھ اور ہوتا ہے۔ یہ مقصد توسّم (الحجر: 75 ) ہے، یعنی معلومات کے حوالے سے معرفت اور معنویت کا سبق دینا۔
اصل یہ ہے کہ اِس دنیا میں ہم کو دو قسم کی خوراک کی ضرورت ہے۔ ایک، مادّی خوراک (materail dose) جو ہمارے جسم کی صحت کا ذریعہ ہے۔ دوسرے، معرفت کی خوراک (spiritual dose) جو ایمان باللہ کوطاقت بخشنے کا ذریعہ ہے۔ اِس کو قرآن میںاضافۂ ایمان، یا اِزدیادِ ایمان (الفتح: 4 ) کہاگیا ہے۔ ماہ نامہ الرسالہ کا مقصد اِسی اِزدیادِ ایمان کی تربیت ہے۔
ماہ نامہ الرسالہ ازدیادِ ایمان کا دسترخوان ہے۔ الرسالہ کے ہر صفحے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ آپ کو معرفت کی خوراک دے۔ وہ آپ کے دل میں خدا اور آخرت کااحساس جگائے۔ یہی الرسالہ کااصل مقصد ہے۔ جس شخص نے الرسالہ سے معرفت کی یہ خوراک لی، اُسی نے الرسالہ کو پڑھا۔ اور جس کو الرسالہ سے یہ خوراک نہیں ملی، اس نے الرسالہ کو پڑھا ہی نہیں۔ الرسالہ کو معلومات کے لیے پڑھنا،الرسالہ کے ساتھ ظلم کرنا ہے۔ ایسا آدمی نہ الرسالہ کے ساتھ انصاف کرنے والا ہے، اورنہ خود اپنے ساتھ انصاف کرنے والا۔
واپس اوپر جائیں

ٹی وی کے ذریعہ

ہمارا مشن تقریباً نصف صدی سے پر نٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا، دونوں ذریعے سے اپنا مثبت دعوتی کام مسلسل انجام دے رہا ہے۔ اب خدا کے فضل سے اُس میںایک نئے باب کا اضافہ ہوا ہے۔ وہ اضافہ یہ ہے کہ انڈیا کے ایک مقبول ٹی وی چینل میں روزانہ صبح کے وقت ایک پروگرام آرہا ہے۔ یہ پروگرام 18 مارچ 2008 سے شروع ہوا ہے۔ اِس کے تحت، سب ٹی وی SAB TV (نئی دہلی) میںصبح کی نشریات کے تحت، راقم الحروف کی ایک مختصر تقریر روزانہ کی بنیاد پر آرہی ہے۔ اِس کا وقت صبح سات بج کر پچپن منٹ ہے۔ یہ وہ وقت ہے جس کو ٹی وی کی اصطلاح میں پرائم ٹائم (prime time) کہاجاتا ہے۔
18 مارچ کی تقریر کا موضوع تھا— خدا کا تخلیقی پلان (creation plan of God) ۔ اُس میں کہا گیا کہ انگلینڈ کے ایک صاحب کار میں سفر کررہے تھے ۔ اُن کے اپنے ملک کے ٹریفک رول کے مطابق، بائیں چلو (left- hand drive) کا اصول تھا، مگر وہ اِس دوسرے ملک میں بھی ’’بائیں چلو‘‘ کے اصول پر اپنی گاڑی دوڑارہے تھے۔ وہاں کی ٹریفک پولس نے ان کو روکا۔ کار کا نمبر دیکھ کر پولس مین سمجھ گیا کہ یہ آدمی کس ملک سے آرہا ہے۔ اُس نے مذکورہ شخص سے کہا— جناب، آپ اِس وقت ایک ایسے ملک میں ہیں، جہاں دائیں چلو کا اصول ہے، نہ کہ آپ کے ملک کے مطابق، بائیں چلو کا اصول۔
پانچ منٹ کی اِس تقریر میںبتایا گیا کہ یہی معاملہ زیادہ بڑے پیمانے پر خدا کے تخلیقی پلان کا ہے۔ خدا نے انسان کو پیدا کیا ہے۔ انسان پر لازم ہے کہ وہ اِس دنیا میں خدا کے حکموں پر چلے۔ جو لوگ ایسا نہ کریں، وہ خدا کی دنیا میں خدا کی منشا کے خلاف عمل کررہے ہیں۔ ایسے لوگ قیامت کے دن سخت سزا کے مستحق قرار پائیں گے۔ کائنات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ پورے معنوں میں ایک بامعنیٰ کائنات ہے۔ ایسی ایک با معنیٰ کائنات، بے معنی انجام پر ختم نہیں ہوسکتی۔ ضرور ہے کہ اِس دنیا کا ایک تخلیقی منصوبہ ہو، اور اس تخلیقی منصوبے کے مطابق، دنیا کا خالق اس کے بارے میں ایک منصفانہ فیصلہ کرے۔
واپس اوپر جائیں

اسلام کی سیاسی تعبیر

پانچ ستمبر 2007کو تمام اخباروں کے پہلے صفحے کی ایک نمایاں خبر یہ تھی کہ پاکستان کے عسکری شہر راول پنڈی میں دو بم پھٹے۔ اِس کے نتیجے میں پچیس آدمی مر گیے اور ستر آدمی زخمی ہوئے۔ بقیہ نقصانات اِس کے علاوہ ہیں۔ اس کو دیکھ کر ایک صاحب نے مجھ سے کہا کہ پاکستان، اسلام کے نام پر بنایاگیا تھا، پھر وہاں اتنا زیادہ تشدد کیوں ہے۔ 1947 میں پاکستان بننے کے بعداُس کے پہلے وزیر اعظم نواب زادہ لیاقت علی خاں کو کراچی کی سڑک پر گولی مار کر ہلاک کردیاگیا۔ اُس وقت سے لے کر اب تک وہاںمسلسل تشدد کا سلسلہ جاری ہے۔ ایسا کیوں ہے۔
میںنے کہا کہ اکثر یہ کہا جاتاہے کہ پاکستان، اسلام کے نام پر بنا، مگر صحیح بات یہ ہے کہ پاکستان پولٹکل اسلام کے نام پر بنا، اور اسلام اور پولٹکل اسلام میں اتنا ہی دوری ہے جتنا کہ گاندھی اور دہشت گرد گاندھی میں۔
موجودہ زمانے میں ساری دنیا میں ٹررازم کے خلاف تقریر یں ہورہی ہیں۔ امریکا نے جارج بش سینئر اور جارج بش جونئر کے زمانے میں تاریخ کی سب سے بڑی فوجی کارروائی کی، لیکن ٹررازم کو ختم کرنے کے معاملے میں یہ فوجی کارروائی مکمل طورپر ناکام رہی۔ میںنے اِس کارروائی سے پہلے پیشگی طور پر یہ کہہ دیا تھا کہ موجودہ ٹررازم کا معاملہ گَن ورسز گن (gun vs gun) کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ وہ ایک آئڈیا لوجی کا معاملہ ہے اور اس کا مقابلہ کاؤنٹر آئڈیالوجی(counter ideology) ہی کے ذریعے کیا جاسکتا ہے۔ میں نے نئی دہلی کے اخبار ’ٹائمس آف انڈیا‘ کو اِس معاملے میںایک انٹرویو دیا تھا۔ یہ انٹرویو مذکورہ اخبار کے شمارہ 16 ستمبر 2001 میں اِس عنوان کے تحت چھپا تھا کہ — امریکا کی متشددانہ کارروائی، اُس کے خلاف صرف الٹا نتیجہ ثابت ہو گی:
US Aggression would be counter-productive.
مگراب تمام لوگ اِس کا اعتراف کررہے ہیں کہ عراق کے خلاف امریکا کی فوجی کارروائی ایک واضح غلطی تھی۔ برطانیہ کے سابق جنرل مائک جیکسن(Mike Jackson) نے کہا کہ امریکا کا یہ فوجی اقدام ایک ذہنی دیوالیہ پن (intellectual bankruptcy) کے ہم معنیٰ تھا (ٹائمس آف انڈیا، 4 ستمبر 2007)۔
یہ معاملہ بہت زیادہ غور و فکر کا معاملہ ہے۔ یہاں خاص طورپر ہم کو یہ سمجھنا ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں اتنا زیادہ تشدد کیسے آگیا۔ موجودہ زمانے کے مسلمان اتنے زیادہ تشددپسند کیوں ہوگیے کہ اب وہ اُس کی آخری حد پر جاکر جگہ جگہ خود کُش بم باری (suicide bombing) کرنے لگے۔ میرے نزدیک، اِس تشدد پسندی یا لوگوں کے دیے ہوئے نام کے مطابق، ٹررازم کی ذمّے داری صرف اُن مسلم گروہوں تک محدود نہیں ہے جو براہِ راست طورپر اِس میں ملوّث ہیں۔ کیوں کہ راقم الحروف کے واحد استثنا کو چھوڑ کر، پوری مسلم دنیا میں غالباً کوئی بھی قابلِ ذکر عالمِ دین یا رہ نما نہیں جو کھلے طورپر اِس کو غیر اسلامی فعل بتائے۔ اِس لیے اسلامی اصول کے مطابق، اگر کچھ تشدد پسند مسلمان اِس میں براہِ راست طورپر شریک ہیں تو بقیہ لوگ اِس میں بالواسطہ طورپر شریک ہیں۔
یہاں یہ سوال ہے کہ مسلمانوں میں یہ تشدد پسندی کیسے آئی اور کیسے وہ اتنا زیادہ پھیل گئی کہ ساری مسلم دنیا میں راقم الحروف کو چھوڑ کر کوئی بھی کھُلے طورپر اِس کی مذمت کرنے والا نہیں ۔ میرے مطالعے کے مطابق، اِس کا سبب نہایت گہرا ہے۔ اِس کے پیچھے ماضی کی تقریباً ہزار سالہ تاریخ کی روایات ہیں۔ اُس کو جب تک گہرائی کے ساتھ سمجھا نہ جائے، اِس کو ختم کرنا ممکن نہیں۔ یہاں ہم پوری تاریخ کے پس منظر میں اِس معاملے کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ اِس معاملے کا خلاصہ یہ ہے کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو سوچنے کا جو فریم ورک دیا تھا، وہ غیر سیاسی فریم ورک (non-political framework) تھا۔ لیکن بعد کو لوگوں میں سوچ کا سیاسی فریم ورک (political framework)رائج ہوگیا۔ یہی اِسمعاملے کی اصل جڑ ہے۔
واقعات بتاتے ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ میں اپنے پیغمبرانہ مشن کا آغاز کیا تو وہاں کے سرداروں نے آپ کی شخصیت سے متاثر ہوکر، آپ کو یہ پیش کش کی کہ اگر آپ بادشاہی چاہتے ہیں تو ہم آپ کو اپنے اوپر بادشاہ بنانے کے لیے تیار ہیں (إن ترید مُلکًا، ملّکناک علینا) آپ نے جواب دیا کہ نہیں (ما أطلب الملک علیکم)۔ میںاِس کام کے لیے تمھارے پاس نہیں بھیجا گیا ہوں (ما بِہٰذا بُعثت إلیکم):
I have not been sent to you for this purpose.
اِس سے واضح طورپر معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کا نشانہ، سیاسی اقتدار نہیںتھا۔ پھر آپ کا نشانہ کیا تھا۔ اِس کا جواب قرآن میں موجود ہے۔ قرآن کی یہ آیت اِس کا جواب ہے: یأیّہا المدّثر، قُم فأنذر (المدثر: 1-2)۔ اِس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ کا نشانہ اِنذار تھا، یعنی خدا کے تخلیقی پلان سے انسان کو آگاہ کرنا۔ سیرتِ رسول کا مطالعہ بتاتا ہے کہ آپ کی پوری زندگی کا محور یہی دعوتی نشانہ تھا۔ یہ مکمل طورپر ایک غیر سیاسی نشانہ ہے۔ اُس کو خالص غیر سیاسی انداز میں اور پوری طرح پُرامن طریقے سے انجام دیا جاسکتا ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا دیا ہوا یہ فکر ایک عرصے تک امت میں رہا، پھر دھیرے دھیرے اِس میں انحراف آگیا، یہاں تک کہ غیر سیاسی اسلام بدل کر سیاسی اسلام بن گیا۔ موجودہ زمانے میں ہم اِس انحراف کی آخری صورت دیکھ رہے ہیں۔
اِس معاملے کو مزید سمجھنے کے لیے ایک حدیث کا مطالعہ کیجیے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک روایت، الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ، حدیث کی مختلف کتابوں میںآئی ہے۔ صحیح مسلم کے الفاظ یہ ہیں: عن عائشۃ قالت: سأل رجلٌ النّبی صلی اللہ علیہ وسلم، أیّ الناس خیر۔ قال: القرن الذی أنا فیہ، ثمّ الثانی، ثمّ الثالث۔ یعنی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھاگیا کہ بہتر لوگ کون ہیں، آپ نے فرمایا کہ وہ دَور جس کے اندر میں ہوں۔ اس کے بعد دوسرا دَور، اور اس کے بعد تیسرا دَور (صحیح مسلم، فضائل الصحابۃ)۔
یہ تین دور امت میں ’قرون مشہود لہا بالخیر‘ تسلیم کیے گیے ہیں۔ پہلا دور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دور ہے، دوسرا دور صحابہ کا دور ہے، اور تیسرا دور تابعین کا دور۔ اِن تین دوروں کو عہد ِرسالت، عہد ِ خلافتِ راشدہ اور عہد ِ بنو امیہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ اِن تینوں دوروں کی تاریخی ترتیب یہ ہے:
1 - عہدِ رسالت: 610-632 ء
2 - عہدِ خلافتِ راشدہ: 632-661 ء
3 - عہد ِبنو اُمیّہ:661-750 ء
4 - عہدِ بنو عبّاس: 750-1258 ء
پہلے تینوں دَور میں عربوں کا غلبہ تھا۔ عرب لوگ وہ تھے جن کو براہِ راست پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہدایت ملی تھی اور اُن کو کم و بیش آپ کی تربیت حاصل ہوئی، لیکن چوتھے دورمیں مسلم سماج او رمسلم تنظیمات پر ایرانیوں کا غلبہ ہوگیا۔ ایرانی وہ لوگ تھے جنھوں نے براہِ راست پیغمبر اسلام سے تربیت حاصل نہیں کی تھی، یہی عباسی دور، جس میں ایرانیوں کا غلبہ ہوگیا تھا، اِسی دورمیں تمام فکری انحرافات شروع ہوئے، اور ان کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔
وہ تمام کتابیں جن کو اسلامی کتب خانہ کہاجاتا ہے، وہ تقریباً سب کی سب اِس عباسی دور میں تیار کی گئیں۔ اِس دور میں اسلام، کم و بیش، ایک پولٹکل اسلام بن چکا تھا۔ دعوت کا عمل اب بھی خود اپنی طاقت پر جاری تھا، لیکن فکری اعتبار سے دعوت کا تصور تقریباً غیر موجود ہوگیا تھا۔ اِس کا اثر بعد کی تمام کتابوں پر پڑا۔
مثلاً قرآن کو آپ کسی تفسیر کے بغیر پڑھیں تو آپ کو محسوس ہوگا کہ قرآن مکمل طورپر ایک دعوتی کتاب ہے۔ایک عالمِ کے الفاظ میں، قرآن اِنذار اور تبشیر کی سرگذشت ہے، لیکن اگر آپ قرآن کی تفسیروں کو پڑھیں تو آپ کے ذہن میں یہ نقشہ بالکل بدل جائے گا۔ مثلاً دعوت کا پہلو قرآن کا سب سے اہم پہلو ہے، لیکن تمام تفسیروں میں قرآن کا یہی پہلو گُم ہوگیا ہے۔ مثلاً صبر، اعراض اور تالیف ِ قلب دعوت کے اہم اجزا ہیں، لیکن قرآن کی موجودہ تفسیروں میں اِن دعوتی اجزاکے بارے میں کہاگیا ہے کہ جہاد کی آیتیں اترنے کے بعد یہ چیزیں منسوخ ہوگئیں۔
یہی معاملہ حدیث کے ساتھ پیش آیا۔ حدیث حقیقت میںایک پیغمبر داعی کا کلام ہے۔ حدیث میں دعوت کے تمام اجزا موجود ہیں، لیکن ذہنی شاکلہ بدل جانے کی وجہ سے ایسا ہوا کہ علماء نے حدیث کی جو کتابیں مدوّن کیں، اُن میں انھوںنے دعوت کا باب سرے سے قائم نہیں کیا۔ حدیث کے مجموعوں میں آپ ’کتاب الصلاۃ‘ ، ’کتاب الجہاد‘ جیسے عنوانات پائیں گے، لیکن حدیث کے کسی بھی مجموعے میں آپ کو ’کتاب الدعوۃ والتبلیغ‘ نہیں ملے گا۔
یہی معاملہ فقہ کے ساتھ بھی پیش آیا۔ فقہ کے موضوع پر کثیر تعداد میں کتابیں لکھی گئیں۔ یہاں تک کہ یہ سمجھا جانے لگا کہ اسلام کی تمام تعلیمات فقہ کی کتابوں میںآگئی ہیں، اسلام کو سمجھنے کے لیے فقہ کی کتابوں کا مطا لعہ کافی ہے۔ لیکن ذہنی شاکلہ بدل جانے کی وجہ سے یہاںبھی یہ حادثہ پیش آیا کہ فقہ کی کسی بھی کتاب میں ’کتاب الدعوۃ، والتبلیغ‘ شامل نہ ہوسکا۔ فقہ کی کتابوں میںآپ کو ہر قسم کے ابواب تفصیل کے ساتھ ملیں گے، لیکن دعوت اور تبلیغ کا باب فقہ کی کسی بھی کتاب میں نظر نہ آئے گا۔
مدون کتابوں کے علاوہ، دوسری جو کتابیں اسلام کے موضوعات پر لکھی گئیں، اُن کا بھی یہ حال ہے کہ اُن میں دعوت الی اللہ کا باب سرے سے موجود نہیں۔ مثلاً الغزالی کی ’احیاء علوم الدین‘، ابن تیمیہ کی ’کتاب النّبوات‘، شاہ ولی اللہ کی ’حجۃ اللہ البالغۃ، وغیرہ کا نام اِس معاملے میں بطور مثال لیا جاسکتا ہے۔ ابن ِ تیمیہ نے شتمِ رسول کے مسئلے پر ’الصّارم المسلول علی شاتمِ الرسول‘ کے نام سے ایک ضخیم کتاب تیار کردی، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوتی اُسوہ کو لے کر وہ کوئی کتاب نہ لکھ سکے، نہ پچھلے اَدوار میں کسی اور عالم نے اِس موضوع پر کوئی اور کتاب لکھی۔
عباسی دور میں اسلامی فکر میں یہ انحراف آیا کہ نان پولٹکل اسلام لوگوں کی اپنی تعبیرات کے نتیجے میںپولٹکل اسلام بن گیا۔ اِس کا ایک نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان دوسری قوموں کو اپنا غیر سمجھنے لگے۔ حالاں کہ یہ دعوتی اسپرٹ کے سرتاسر خلاف تھا۔ قرآن کو آپ پڑھیے تو اُس میں بار بار ’الانسان‘ اور ’النّاس‘ کا ذکر ملے گا۔ گویا قرآن کے نزدیک ساری دنیا انسانوں کی دنیا ہے، ساری دنیا ’دار الانسان‘ کی حیثیت رکھتی ہے، یعنی مسلم بھی انسان اور بقیہ لوگ بھی انسان۔
یہی صحیح اسلامی ذہن ہے، لیکن عباسی دور میں جو فقہ بنی، اُس نے یہ کیا کہ دنیا کو بطور خود دو طبقوں میں بانٹ دیا— دار الاسلام اور دار الحرب۔ دار الاسلام سے مراد وہ علاقہ تھا جہاں مسلمانوں کا اقتدار قائم ہو۔ اور دار الحرب سے مراد وہ علاقہ، جہاں غیر مسلم آبادہوںاور جن سے مسلمان امکانی طورپر برسرِ جنگ (potentially at war) ہوں۔ یہ تقسیم بلاشبہہ بے اصل تھی، لیکن وہ اتنا عام ہوئی کہ وہ مسلم فکر کا جُز بن گئی۔ اِس فکر کا نتیجہ یہ ہوا کہ وسیع تر انسانیت، مسلمانوں کو غیر دکھائی دینے لگی، وسیع تر انسانیت اُن کا کنسرن نہ رہی۔ اِس کا فطری نتیجہ یہ ہوا کہ دعوت کا ذہن مسلمانوں سے تقریباً معدوم ہوگیا۔دعوت ہمیشہ انسان کی خیر خواہی کے جذبے سے اُبھرتی ہے۔ اور جن لوگوں کے اندر انسان کی خیر خواہی نہ رہے، وہ انسان کے اوپر دعوت کا عمل بھی نہیں کریں گے۔
پولٹکل طرزِ فکر اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک منفی طرزِ فکر ہے۔ اُس کا نتیجہ ہمیشہ تفریق کی صورت میں نکلتا ہے۔ پولٹکل ایکٹوزم کا نتیجہ کبھی مثبت صورت میں نہیں نکلا ہے اور نہ کبھی اس کا نتیجہ مثبت صورت میں نکل سکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے پولٹکل ایکٹوزم کو اسلام میںتقریباً حرام کا درجہ دے دیا۔ اِس سلسلے میں جو احادیث آئی ہیں، اُن کے مطابق، مسلمانوں کے لیے صرف یہی ایک انتخاب ہے کہ وہ غیر سیاسی میدان میںپُر امن دعوہ ورک کریں۔ سیاسی ٹکراؤ یا سیاسی اپوزیشن جیسی چیزیں اسلام میں سرے سے جائز ہی نہیں۔ )تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو راقم الحروف کا مضمون ’جہاد اسلامی تاریخ میں‘ مطبوعہ: ماہ نامہ الرسالہ، مارچ2008 (
موجودہ زمانے میں مسلمانوں کو اپنی پولٹکل سوچ کا بہت بڑا نقصان اٹھانا پڑا۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ دورِ جدید کے ایک عظیم امکان سے بالکل بے خبر رہے۔ اِس کا سبب یہ تھا کہ یہ عظیم امکان غیرسیاسی میدان میںتھا، اور موجودہ زمانے کے مسلم علما اور رہ نما اپنے سیاسی ذہن کی بناپر اِس جدید تبدیلی کو سمجھ ہی نہ سکے۔ دوسری قوموں نے اِس جدید امکان کو سمجھا اور اس کو استعمال کیا، لیکن مسلمان اُس سے بالکل فائدہ نہ اٹھا سکے۔ انھوں نے صرف یہ کیا کہ اپنی بے شعوری کی بنا پر سیاست کی چٹان پر اپنا سر پٹکتے رہے اور یک طرفہ طورپر صرف اپنے نقصان میں اضافہ کرتے رہے— اب آخری وقت آگیا ہے کہ اِس پورے معاملے پر نظر ثانی کرکے نئے حالات میں دعوت الی اللہ کے کام کی از سرِ نو منصوبہ بندی کی جائے۔
واپس اوپر جائیں

مدر ٹریسا

مدر ٹریسا، یورپ میں مقدونیہ(Maccdonia) کے علاقہ(Skopje) میں 1910 میں پیدا ہوئیں۔ 1997میں کلکتہ )انڈیا( میںاُن کا انتقال ہوا۔ خدا کے نام پر غریبوں کی خدمت کو انھوںنے اپنا مشن بنایا۔ اُن کا مرکز کلکتہ میں تھا۔ اِس میدان میں اُن کو اتنا بڑا درجہ ملا کہ اُن کو اِسی خدمت کے نام پر 1979 میں نوبل پرائز دیا گیا۔ خدا کے نام پر انسان کی خدمت اُن کی پہچان بن گئی۔ ہر موقع پر وہ خدا اور روحانیت کے الفاظ بولتی رہیں۔اُن کے سوانح نگار مسٹر نوین چاؤلا نے اُن کے اوپر 280 صفحے کی ایک کتاب (Mother Teresa) لکھی ۔ یہ کتاب پہلی بار پینگوئن بکس(UK) سے 1998میں شائع ہوئی۔ اِس کتاب میں شامل کرنے کے لیے انھوںنے مدر ٹریسا سے ایک تحریر مانگی۔ مدر ٹریسا نے اپنے قلم سے یہ الفاظ لکھ کر اُن کو بھیج دیے، جو کہ اِس کتاب میں بطور فورورڈ(foreword) شامل ہے:
All you do, all you write, do it all for the glory of God, and the good of all people. Let your book be love for God in action. (February, 24, 1991)
یعنی تم جو کچھ کرو، جو کچھ تم لکھو، اُس کو تمام تر خداکی بڑائی کے لیے اور لوگوں کی بھلائی کے لیے کرو۔ اپنی کتاب کو خدا کی محبت کے لیے کیا جانے والا عمل بنا دو۔
مدر ٹریسا، جدید دنیامیں اسپریچول ہیرو سمجھی جانے لگیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ مسیح کو تم غریبوں میں پاسکتے ہو۔ خدا اور روحانیت کے بارے میں اُن کے اقوال اور بیانات ہر جگہ چھپنے لگے۔ بہت سے لوگوں نے ان کو اپنی زندگی کے لیے ماڈل بنا لیا۔ویٹکن )روم( نے اعلان کردیا کہ مدر ٹریسا کی اعلیٰ خدمات کی بنا پر پوپ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ مدر ٹریسا کو سینٹ ہُڈ(sainthood) کا خطاب دیا جائے گا۔
مگر مدر ٹریسا کی وفات کے بعد اُن کے بارے میں ایک کتاب چھپی ہے، جس میں مدر ٹریسا کی بالکل مختلف تصویر پیش کی گئی ہے۔ اِس میں بتایا گیا ہے کہ مدر ٹریسا کو اپنے 66 سالہ عمل کے باوجود خدا نہیں ملا۔وہ مسلسل طورپر روحانی فاقہ (spiritual starvation)میں جیتی رہیں۔ اِس کتاب کا نام یہ ہے:
Mother Teresa: Come Be My Light, by Rev Brian Kolodiejchut.
نیویارک کے ٹائم میگزین ) 3 ستمبر2007 (نے اِس کتاب کو اپنی کور اسٹوری بنایا ہے۔ اِس میگزین میں مدر ٹریسا کی کہانی کے اوپر یہ عنوان قائم کیاگیا ہے— مدر ٹریسا کاذہنی کرب (Her Agony)۔ میگزین کاٹا ئٹل حسب ذیل ہے:
The Secret Life of Mother Teresa
مذکورہ کتاب میں بتایا گیا ہے کہ مدر ٹریسا کی زندگی بظاہر خدا اور روحانیت کی زندگی تھی، لیکن ان کی زندگی خدا اور روحانیت سے بالکل خالی تھی۔ اُن کے اپنے الفاظ کو لے کر نئی دہلی کے ٹائمس آف انڈیا ) 25اگست 2007 (نے اس کی رپورٹ پر یہ عنوان قائم کیا ہے— مدر ٹریسا زبان سے خدا کا نام لیتی رہیں، لیکن اپنے دل میںانھوں نے کبھی خدا کو نہیں پایا:
Mother Teresa had God on her lips, but never felt Him (p. 11)
مدر ٹریسا کی زندگی کا یہ دوسرا پہلو اُن کے نجی خطوط کے ذریعے سامنے آیا۔ مدر ٹریسا نے اپنے یہ خط اپنے کچھ قریبی ساتھیوں کو لکھے تھے۔ اِن خطوط کی تعداد تین درجن سے زیادہ ہے۔ مدر ٹریسا نے اپنے ایک خط میں لکھا تھا کہ ان خطوط کو ضائع کردیا جائے، لیکن اُن کے یہ خطوط محفوظ رہے اور مدر ٹریسا کی وفات کے بعد ویٹکن کی اجازت سے وہ شائع کیے گیے ہیں۔ مدر ٹریسا نے اپنے اِن خطوط میں کھُلے طورپر اِس کا اعتراف کیا ہے کہ اُنھوں نے غریبوں کے پاس خدا کو ڈھونڈھا، مگر ان کو خدا نہیں ملا۔ ایک خط میں وہ اپنے ایک ساتھی کو لکھتی ہیں کہ— خدا کے بارے میں ہمارا اشتیاق کتنا زیادہ ہے، اِس کے باوجود وہ ہم سے کتنا زیادہ دور ہے:
Your longing for God is so deep, and yet He keeps Himself away from you. (Time, p. 33)
مدر ٹریسا کے مطبوعہ خطوط سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو سخت تنہائی (loneliness) میں پاتی تھیں۔ انھوں نے ایک خط میں اپنے ایک ساتھی کو لکھا کہ— میری روح کے اندر اتنا زیادہ کرب اور اتنا زیادہ تاریکی کیوں ہے:
Why is there so much pain and darkness in my soul. (p. 31)
مدر ٹریسا کو اپنی پوری عمر صرف کرنے کے باوجود خداکیوں نہیں ملا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ وہ مخلوق میں خدا کو تلاش کررہی تھیں ۔ اور جو لوگ مخلوق میں خدا کو تلاش کرتے ہیں، ان کاانجام ہمیشہ یہی ہوا ہے۔ خدا نے مدر ٹریسا کے اِس واقعے کی صورت میں اُن لوگوں کے لیے تاریخ میں ایک عبرت ناک مثال قائم کردی ہے جو دعوہ ورک کے مقابلے میں کمیونٹی ورک کو اپنے لیے روحانی سکون کا ذریعہ سمجھے ہوئے ہیں۔
قدیم زمانے میں انسان نے نیچر کو خدا سمجھ لیا۔ دریا، پہاڑ اورسورج اورچاند ہر ایک کو اُس نے خدائی کا درجہ دے دیا، مگر یہ سب مخلوقات تھیں، اِس لیے قدیم زمانے کا انسان خدا کو نہ پاسکا۔ اِسی طرح انسان نے بادشاہ کو اور اپنے بزرگوں کو خدا کا درجہ دے دیا۔ یہ بھی مخلوق کو خدا بنانا تھا، اِس لیے انسان یہاں بھی اپنی تلاش میں ناکام رہا۔ اس کے بعد یہ سمجھا گیا کہ طبیعیاتی طاقتیں(physical forces) خدائی کا درجہ رکھتی ہیں، مگر یہاں بھی انسان کو خدا کی یافت نہ ہوسکی، کیوں کہ طبیعی طاقتیں مخلوقات ہیں، نہ کہ خدا۔خدا، مخلوقات سے الگ اپنا ایک مستقل وجود رکھتا ہے، اور اس کو علاحدہ اور مستقل وجود ہی کی حیثیت سے دریافت کیا جاسکتا ہے۔
اِس معاملے میں انسان کی تلاش کی ناکامی کی تصویر قرآن کی ایک آیت میں دی گئی ہے۔ اِس آیت کا ترجمہ یہ ہے: اور جن لوگوں نے انکار کیا، اُن کے اعمال ایسے ہیں جیسے چٹیل میدان میں سراب، پیاسا اُس کو پانی خیال کرتا ہے، یہاں تک کہ جب وہ اُس کے پاس آیا تو اُس نے اُس کو کچھ نہ پایا۔ اور اُس نے وہاں اللہ کو موجودپایا، پس اُس نے اس کا حساب چکا دیا۔ اور اللہ جلد حساب کرنے والا ہے )النّور: 39 (
واپس اوپر جائیں

مواقع کی دنیا

نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا 14) ستمبر 2007 ( میں ایک رپورٹ چھپی ہے۔ اِس رپورٹ کو یہاں صفحے کے نیچے درج کیا جارہا ہے۔ اِس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انڈیا کے ایک مسلمان عظیم ہاشم پریم جی اِس وقت پوری دنیا میں سب سے زیادہ دولت مند مسلمان ہیں۔ اِس معاملے میں سب سے زیادہ قابل غور بات یہ ہے کہ یہ واقعہ ’’ہندو انڈیا‘‘ میں ہوا، جہاں کے بارے میں عام طورپر مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ وہ یہاں محرومی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
Premji richest Muslim tycoon
New York: India’s software czar Azim Premji now has a new nomenclature – the world’s richest Muslim entrepreneur – as he holds more wealth than any other Muslim outside the Persian Gulf royalty, a US media report said. Financial daily ‘Wall Street Journal’ has written a front-page profile on chairman of India’s third largest IT exporter Wipro, saying Premji defies all the conventional wisdom about Islamic tycoons – he does not hail from the Persian Gulf, did not make his money in petroleum, and does not wear his faith on his sleeve. “Premji has tapped India’s abundant engineering talent to transform a family vegetable-oil firm, Wipro, into a technology and outsourcing giant. By serving Western manufactures, airlines and utilities, the company has brought Premji a fortune of some $17 billion,” the report said. Premji is ahead of Russia’s metal and real estate baron Suleman Kerimov ($14 billion), Kuwait’s Nasser Kharafi ($11 billion), Saudi Arabia’s Mohammad Amoudi ($8 billion), UAE’s Abdulaziz Ghurair ($8 billion), Russia’s Iskander Mahmudov ($8 billion), Saudi’s Maan Sanea ($7.5 billion) and Saudi’s Suleiman Rajhi ($7.5 billion) among the richest Muslim entrepreneurs. The daily quoted Premji in the report titled, “How a Muslim Billionaire Thrives in Hindu India” as saying that such success shows globalization is turning into “two-way traffic” that can bring tangible benefits to developing countries. “We have always seen ourselves as Indian. We’ve never seen ourselves as Hindus, or Muslims, or Christians or Budhists,” Premji said.
(The Times of India, New Delhi, September 14, 2007, P. 25)
عظیم ہاشم پریم جی کے اِس واقعے پر غور کیجیے تو اِس سے ایک بہت بڑی حقیقت کا علم حاصل ہوتا ہے۔ یہ انفرادی واقعہ ایک عالمی قانون کو بتا رہا ہے۔ وہ یہ کہ یہ دنیا مواقع (opportunities) کی دنیا ہے۔ اِس دنیا میں مواقع اتنے زیادہ ہیں کہ وہ کسی بھی حال میں ختم نہیں ہوتے۔ کو ئی بھی شخص یا گروہ اتنا طاقت ور نہیں کہ وہ فطرت کے اِس قانون کو بدل سکے، یا وہ اس قانون کو منسوخ کردے۔ یہ فطرت کا ایک ابدی قانون ہے۔ وہ قرآن کی آیت کے مطابق، لا تبدیل لخلق اللہ )الروم: 30 ( کے عمومی حکم میں شامل ہے۔
عظیم ہاشم پریم جی نے اپنے انٹرویو میں اِسی حقیقت کو اپنے لفظوں میں اِس طرح بیان کیا ہے— اِس قسم کی کامیابی بتاتی ہے کہ گلوبلائزیشن دو طرفہ ٹریفک کا معاملہ ہے، یعنی اُس کا فائدہ ترقی یافتہ ممالک کے علاوہ، زیرترقی ممالک کو بھی پہنچ رہا ہے:
Such success shows globalization is turning into “two-way traffic” that can bring tangible benefits to develping countries.
موجودہ زمانے کے مسلم رہ نما اور مفکرین ایک مشترک غلطی کا شکار ہوئے۔ انھوںنے قدیم زمانے کی اصطلاحوں میں جدید زمانے کو سمجھنا چاہا، اِس بنا پر وہ دورِ جدید کی نوعیت کو سمجھنے میں مکمل طورپر ناکام رہے۔ انھوں نے موجودہ زمانے کے مسلمانوں کو غلط رہ نمائی دی۔ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے تمام مسائل اِسی غلط رہ نمائی کا نتیجہ ہیں، جن کو غیر واقعی طورپر ’’اَغیار کی سازش‘‘ کہاجاتا ہے۔
مومن کی ایک صفت حدیثِ رسول میں یہ بتائی گئی ہے کہ وہ اپنے زمانے کا جاننے والا ہوتا ہے (أن یکون بصیراً بزمانہ)۔ مگر عجیب بات ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلم رہ نما بصیرتِ زمانہ کا ثبوت نہ دے سکے، اِس کے باوجود انھوں نے مسلمانوں کو رہ نمائی دینے کی کوشش کی جو بلاشبہہ درست نہ تھی۔ اب آخری وقت آگیا ہے کہ اِس معاملے میں اپنی غلطی کا اعتراف کیا جائے اور ازسرِ نو اپنے معاملے کی صحیح منصوبہ بندی کی جائے۔
تاریخی اعتبار سے دیکھیے تو موجودہ زمانے میں مسلم مسائل کا آغاز اُس دور سے ہوتا ہے جس کو عام طورپر نوآبادیاتی د ور کہا جاتا ہے۔ بعض مبصّرین نے اِس دورِ زوال کے آغاز کا تعین 1799 کیا ہے۔ اُن کے خیال کے مطابق، 1799 وہ سال تھا جب کہ مسلمانوں کا دورِ عروج ختم ہوکر اُن کا دورِ زوال شروع ہوگیا۔ اِس تاریخ کے تعین میں اختلاف ہوسکتا ہے، لیکن اصل واقعے کے بارے میں اختلاف کی گنجائش نہیں۔
قدیم نَوآبادیاتی دور کو ہمارے رہ نما یورپین امپیریل ازم (European emperialism) کا نام دیتے ہیں اور بیسویں صدی کے نصف آخر میں امریکا کے عروج سے جو صورتِ حال پیدا ہوئی، اُس کو امریکی ایمپیریل ازم (American emperialism) کہاجاتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ دونوں غلط تسمیہ (wrong nomenclature) کا کیس ہے، اور یہ غلط تسمیہ اِس لیے وجود میں آیا کہ لوگ زمانی بصیرت کی روشنی میں اِس معاملے کو نہ دیکھ سکے۔
میں کہوں گا کہ ایمپیریل ازم زرعی دورِ سیاست کی اصطلاح ہے، آج کے حالات کے مطابق یہ اصطلاحیں منطبق نہیں ہوتیں۔ قدیم زمانے میںاِس طرح کے واقعات توسیعِ بادشاہت کے ہم معنیٰ ہوتے تھے، مگر موجودہ زمانے میں اِس طرح کے واقعات توسیعِ مواقع کے ہم معنیٰ ہیں۔ قدیم زمانے کی توسیعِ بادشاہت اصلاً یک طرفہ فوائد کے حصول کے لیے ہوا کرتی تھی، مگر موجودہ زمانے میں یہ توسیع، فوائد میں دو طرفہ حصے دار بننے کے لیے ہوتی ہے۔
اس پہلو کو سامنے رکھا جائے تو یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ جدید صورتِ حال کو بتانے کے لیے ایمپریل ازم زیادہ صحیح لفظ نہیں ہے۔ اِس مقصد کے لیے زیادہ صحیح لفظ گلوبلائزیشن (globalization) ہے۔ یورپی نوآبادیات کا دورگویا کہ مِنی گلوبلائزیشن (mini-globalization) کا دور تھا،او ر نام نہاد امریکی ایمپریل ازم کا دور سُپر گلوبلائزیشن (super globalization) کا دور ہے۔ قدیم ایمپریل ازم زیادہ تر یک طرفہ فائدے کے لیے ہوتا تھا، مگر جدید گلوبلائزیشن دو طرفہ فائدے کے اصول پر مبنی ہے۔ مثالوں کے ذریعے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔
قدیم امپیریل ازم کے زمانے میں بادشاہ لوگ بڑے بڑے قلعے اور بڑے بڑے محل بناتے تھے،وہ شاہانہ شخصیتوں کے بڑے بڑے مقبرے تعمیر کرتے تھے۔ اِس قسم کی چیزوں سے عملاً صرف شاہانہ طبقے کے لوگوں کو فائدہ ہوتا تھا، عوا م کا اُس میں کوئی قابلِ ذکر حصہ نہ تھا۔ مگر موجودہ زمانے میں گلوبلائزیشن کے تحت جو کام کیے جاتے ہیں، اُن کا فائدہ دونوں طبقوں کو مشترک طورپر پہنچتا ہے۔
مثال کے طورپر یورپی نَوآبادیات کے زمانے میں وسیع پیمانے پر انڈیا میں ریلوے لائن بچھائی گئی۔ ہمارے لیڈروں نے اِس ریلوے لائن کو لوہے کی غلامانہ زنجیر بتایا، مگر یہ بلاشبہہ مبالغہ تھا۔ اصل واقعہ یہ ہے کہ اِس ریلوے لائن سے ایک طرف برطانی حُکم رانوں کو یہ فائدہ ملا کہ وہ اپنے فوجیوں اور اپنے سامانِ تجارت کو ایک حصے سے دوسری طرف منتقل کرسکتے تھے۔ لیکن دوسری طرف، ملکی باشندوں کو اِس سے یہ فائدہ ملا کہ اُن کے لیے ملک میں، ہر طرف سفر کرنا آسان ہوگیا۔ اِس سفری سہولت سے ملکی باشندوں کو عظیم فائدے حاصل ہوئے۔
یہی معاملہ موجودہ گلوبلائزیشن کا ہے۔ اِس گلوبلائزیشن کے زمانے میں غیر ملکی کمپنیوں نے، براہِ راست یا بالواسطہ طورپر، موبائل کی انڈسٹری قائم کی۔ اِس کا ایک نتیجہ یہ تھا کہ غیر ملکی تجارتی اداروں کو مالی فائدہ اٹھانے کا موقع ملا۔ لیکن دوسری طرف، ملک کے باشندوں کو تاریخ میں پہلی بار ٹیلی کمیونکیشن (tele-communication)کا ذریعہ حاصل ہوگیا۔ اِس کے نتیجے میں لوگوں کے کاروبار بہت زیادہ پھیل گیے۔ تجارتی فوائد کی یہ توسیع ہمارے ملک کے لیے ایک ایسی نعمت ثابت ہوئی جو اِس سے پہلے کبھی اُنھیں حاصل نہ تھی۔
واپس اوپر جائیں

موت سے بے خبری کیوں

میں آل انڈیا ریڈیو سُن رہا تھا۔ اُس پر ایک انڈین رائٹر کا ریکارڈ کیا ہوا انٹرویو آرہا تھا۔ چندمہینے پہلے اِس رائٹر کا انتقال ہوچکا ہے۔ اس کی موت کے بعد جب میں نے دوبارہ ریڈیو پر اس کی آواز سنی، تو اچانک ایسا محسوس ہوا کہ وہ رائٹر پہلے موجودہ دنیا میں بول رہا تھا، اب وہ دوسری دنیامیں چلا گیا ہے اور وہاں سے بول رہا ہے۔ موجودہ زمانے میں ریکارڈ کی ہوئی آواز علامتی طورپر اِس حقیقت کا مظاہرہ ہے کہ انسان مرنے کے بعد ختم نہیں ہوتا، بلکہ وہ اپنی عمر کے ایک دَور سے نکل کر، اپنی عمر کے دوسرے دور میں پہنچ جاتا ہے۔
مطالعہ بتاتا ہے کہ علمِ انسانی کے تمام شعبے اِس بات کی تصدیق کررہے ہیں کہ موت کے بعد انسان ختم نہیں ہوتا، بلکہ وہ کسی نہ کسی صورت میں دوبارہ زندگی پالیتا ہے۔ مثلاً حیاتیاتی سائنس کے جدید مطالعے کے مطابق، انسان کا جسم ایک سو ٹریلین سے زیادہ سیل (cells) کا مجموعہ ہوتا ہے۔ یہ سیل مسلسل ٹوٹتے رہتے ہیں اور ان کی جگہ دوسرے سیل آتے رہتے ہیں۔ جسم کے اندر یہ عمل مسلسل طورپر جاری رہتا ہے۔ گویا کہ انسان جسمانی اعتبار سے ہر چند سال کے بعد مرجاتا ہے اور دوبارہ زندگی پالیتا ہے۔
بار بار کی جسمانی موت کے باوجود انسان کی شخصیت (personality) بدستور قائم رہتی ہے۔مثلاً انسان کا حافظہ(memory) جیسے پہلے تھا، ویسا ہی وہ بعد کو باقی رہتا ہے۔ اِس سے یہ ثابت ہوا کہ جسم کسی انسان کی صرف ایک سواری (vehicle) ہے۔ سواری بدل جاتی ہے، لیکن انسان کی شخصیت بدستور اپنی اصل حالت پر باقی رہتی ہے۔ اِس حقیقت کو حیاتیات کے ایک مغربی عالم نے اِن الفاظ میں بیان کیا :
Personality is changelessness in change.
ایسی حالت میںانسان پر موت کا وارد ہونا، صرف یہ معنٰی رکھتا ہے کہ انسان سفر کرکے موجودہ دنیا سے ایک اور دنیا میں پہنچ گیا۔اِس لحاظ سے دیکھیے تو انسان کو موت کے بارے میں بہت زیادہ سوچنا چاہیے، بلکہ اُس کو سب سے زیادہ موت ہی کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ کیوں کہ موت ایک نئی دنیا کی طرف چھلانگ ہے۔ ایسی حالت میں ضروری ہے کہ انسان، موت کے بعد کے صورتِ حال کے لیے تیاری کرے۔ اس کی سوچ ہر اعتبار سے موت رُخی سوچ (death-oriented thinking) بن جائے۔
موت کسی آدمی کے لیے سب سے زیادہ یقینی واقعے کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہر آدمی کو بار بار موت کی یاددہانی کا تجربہ ہوتا رہتا ہے۔ ہر آدمی اپنے گھر میں اور اپنے قریبی ماحول میں لوگوں کی موت کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے، مگر عملاً ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی بھی شخص موت کو لے کر نہیں سوچتا۔ ہر آدمی اِس طرح زندگی گزار رہا ہے، جیسے کہ اُس کو مرنا نہیں ہے، بلکہ اس کو ہمیشہ کے لیے اِسی دنیا میں زندہ رہنا ہے۔ پوری تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی شخص نہ مرے۔ اِس کے باوجود انسان موت کے واقعات سے سبق نہیں لیتا۔ وہ موت کی حقیقت کا اعتراف صرف اُس وقت کرتا ہے، جب کہ خود اُس پر موت آجائے۔ اور مجبورانہ فیصلے کے تحت وہ موت کے دروازے میں داخل ہوجائے۔
ایک آدمی جب سفر کرتا ہے، خواہ اُس کا سفر ٹرین سے ہو، یاکار سے ہو، یا ہوائی جہاز سے ہو، توو ہ اِس سوچ کے تحت سفر کرتا ہے کہ چند گھنٹے کے بعد اُس کا سفر ختم ہوجائے گا اور وہ ایک نئے مقام پر پہنچ جائے گا۔ اِس مقصد کے تحت وہ اپنے سفر کی تیاری کرتا ہے۔ وسیع تر معنوں میں انسان کا معاملہ بھی ایک سفر کا معاملہ ہے۔ ہر انسان زندگی سے موت کی طرف سفر کررہا ہے، لیکن کوئی بھی شخص اِس دوسرے سفر کے معاملے میں موت کو لے کر نہیں سوچتا۔ ہر آدمی اس طرح اپنی زندگی کا سفر طے کررہا ہے جیسے کہ یہی سفر اُس کے لیے ابدی سفر ہے، وہ اِسی موجودہ صورت میں ہمیشہ باقی رہے گا۔
میرا آبائی وطن اعظم گڑھ (یوپی) ہے۔ آزادیٔ ہند سے پہلے کے دور میں وہاں ایک راجا ہَرکھ چند تھے۔ انھوں نے شہر کے مین روڈ پر اپنے لیے ایک بہت بڑی کوٹھی بنوانا شروع کیا۔نقشے کے مطابق، یہ ایک تین منزلہ کوٹھی تھی۔ چوتھی منزل پر ایک خصوصی کمرہ تھاجس میں اُنھیں اپنی اہلیہ کے ساتھ قیام کرناتھا۔ اِس کوٹھی میںانھوںنے بہت زیادہ پیسہ خرچ کیا۔ یہ بہت مضبوط قسم کی ایک قلعہ نما کوٹھی تھی۔اس کی دیواروں اور چھت پر ہر طرف نہایت اعلیٰ پیمانے پر آرٹ ورک کیا گیا تھا۔ یہ کوٹھی بہت لمبی مدت تک بنتی رہی، یہاں تک کہ اُس کی آخری تکمیل سے پہلے 1946 میں راجا ہرکھ چند کا انتقال ہوگیا، اور وہ اِس کوٹھی میں قیام نہ کرسکے۔
یہی معاملہ ہر انسان کا ہے۔ ہر آدمی اپنی زندگی کا منصوبہ اِس طرح بناتا ہے، جیسے کہ اس کو ابدی طورپر اپنے اِس منصوبے کے مطابق زندگی گزرانا ہے۔ جیسے کہ اس کے اور اُس کی اِس بنائی ہوئی دنیا کے درمیان کبھی جدائی ہونے والی نہیں۔
یہ ایک سنگین سوال ہے کہ تمام انسان موت کے بارے میں کیوںاتنا زیادہ غافل رہتے ہیں۔ وہ وسروں کو مرتا ہوا دیکھتے ہیں، لیکن خود اپنی موت کے بارے میں اُنھیں کبھی خیال نہیں آتا۔ ایک روایت کے مطابق، پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگ جب کسی آدمی کی تدفین کے بعد قبرستان سے لَوٹتے ہیں، تو اُس وقت خدا کا ایک فرشتہ قبر کے پاس آتا ہے۔ وہ قبر کی مٹی اٹھا کر لوٹنے والے لوگوں کی طرف پھینکتا ہے اور کہتا ہے کہ جاؤ غافل ہو جاؤ، جاؤ دوبارہ تم اپنی دنیا میں مشغول ہوجاؤ(للہ تعالی ملک مؤکل بالمقابر، فإذا دُفن المیت، وسوی علیہ، وتحولوا لینصرفوا، قبض قبضۃ من تراب القبر، فرمی بہا أقفیتہم، وقال: انصرفوا إلی دنیاکم، وانسوا موتاکم) ذکرہ السیوطی فی الحبائک، رقم الحدیث:413
اِس حدیثِ رسول میں تمثیل کی زبان میں ایک حقیقت کو بتایا گیا ہے۔ یہ تمثیل کی زبان میں فرشتوں کی طرف سے گویا کہ ایک نکیر ہے۔ لوگ ایک انسان کو اپنے سامنے مرتا ہوا دیکھتے ہیں۔ وہ اس کی تجہیز اور تکفین میں شریک ہوتے ہیں۔ لوگ دیکھتے ہیں کہ ایک انسان جو زمین میں چل پھر رہا تھا، وہ قبر میں دفن ہوگیا، لیکن اِس واقعے سے وہ اپنے لیے کوئی سبق نہیں لیتے۔ موت کے اِس واقعے سے پہلے وہ جس طرح غفلت کی زندگی گزار رہے تھے، اُسی قسم کی غفلت کی زندگی وہ اب بھی گزارتے رہتے ہیں۔یہی واقعہ پوری تاریخ میں پیش آرہا ہے۔ ساری انسانی تاریخ میں کچھ استثنائی افراد کو چھوڑ کر، کوئی انسان نظر نہیں آتا جو موت کے معاملے کو گہر ائی کے ساتھ سمجھے اور اُس سے اپنے لیے سبق لے۔
اِس عمومی غفلت کا راز کیا ہے۔ یہ راز پروگریمنگ (programming) کے نظریے سے سمجھ میں آتا ہے۔ پروگریمنگ کا مطلب ہے کسی معاملے کی پیشگی طورپر طے شدہ ترتیب:
A pre-arranged plan of procedure.
سائنسی مطالعے سے یہ معلوم ہوا ہے کہ انسان جو کچھ کرتا ہے، وہ خود اپنے ذہن کی پروگریمنگ کے تحت کرتا ہے۔ یہ پروگریمنگ فطری طورپر ہر انسان کے ذہن میں موجود ہوتی ہے۔ مثلاً بھوک لگنا، پیاس لگنا، نیند آنا، وغیرہ، سب اپنے ذہن کی فطری پروگریمنگ کے تحت پیش آتے ہیں۔ آدمی کی یہ صفت ہے کہ وہ ہمیشہ پروپروگریمنگ (pro-programming) کے تحت سوچتا ہے، وہ اینٹی پروگریمنگ (anti-programming) کے تحت نہ سوچتا ہے اور نہ عمل کرتا ہے۔ اینٹی پروگریمنگ سوچ دراصل اینٹی سیلف سوچ کا نام ہے، اور اینٹی سیلف سوچ بلا شبہہ تمام کم یاب چیزوں میں سب سے زیادہ کم یاب چیز ہے۔ یہ پروگریمنگ حالات کے زیراثر جزئی طورپر بدل سکتی ہے، لیکن شعوری طور پر اپنی پروگریمنگ کے خلاف سوچنا، انتہائی حد تک ایک دشوار کام ہے۔
میرے ساتھ ایسا ہوا کہ ایک بار میں مانچسٹر (انگلینڈ) گیا۔ وہاں میں لمبی مدت تک مقیم رہا۔ مانچسٹر ایسے جغرافی علاقے میں ہے، جہاں کبھی رات لمبی ہوتی ہے اور دن چھوٹا، اور کبھی دن لمبا ہوتا ہے اور رات چھوٹی۔ میں جس زمانے میں وہاں گیا تھا، اس زمانے میں وہاں رات بہت چھوٹی ہوتی تھی اور اس کے مقابلے میں دن زیادہ لمبا۔ چناںچہ ایسا ہوتا تھا کہ ہم نے مغرب کی نماز ادا کی، اس کے جلد ہی بعد عشا کا وقت آگیا، اور پھر عشا کی نماز کے بعد جلد ہی فجر کا وقت آگیا۔ اِس طرح رات کو وہاں سونے کا موقع نہیں ملتا تھا۔ وہاں ہم رات کے وقت جاگتے تھے اور دن کے وقت سوتے تھے۔
چناں چہ مقامی حالات کے دباؤ کے تحت، مانچسٹر کے زمانۂ قیام میں سونے اور جاگنے کے بارے میں میرے ذہن کی پروگریمنگ وقتی طور پر بدل گئی ۔ پھر جب میں انڈیا واپس آیا، تو اِس بدلی ہوئی پروگریمنگ کی بنا پر مجھے یہاں رات کو نیند نہیں آتی تھی، بلکہ دن کو نیند آتی تھی۔ یہ صورت ِ حال ایک عرصے تک باقی رہی۔ اس کے بعد میری پروگریمنگ اپنی سابقہ حالت پر لوٹ آئی۔
جیسا کہ معلوم ہے، کمپیوٹر میں پروگریمنگ کا طریقہ رائج ہے۔ جیسی پروگریمنگ کی جاتی ہے، اسی کے مطابق، کمپیوٹر اپنا کام کرتا ہے۔ یہی معاملے زیادہ بڑے پیمانے پر انسانی دماغ کا ہے۔ فطرت کی طرف سے اِس طرح ہر انسانی دماغ کی پروگریمنگ کردی گئی ہے۔ اس کے مطابق، ہر عورت اور مرد اپنی زندگی کے تمام کام کرتے رہتے ہیں۔ وہ اِسی حال میں جیتے ہیں اور اسی حال میں مرجاتے ہیں۔
ہر انسان صرف محدودیت تک جیتا ہے اور اس کے بعد وہ مرجاتا ہے۔لیکن عجیب بات ہے کہ کوئی بھی انسان موت کے بارے میں نہیں سوچتا۔ ہر عورت اور مرد بار بار دوسروں کو مرتا ہوا دیکھتے ہیں، لیکن وہ اپنے آپ کو اس سے مستثنیٰ کئے رہتے ہیں۔ دوسروں کو مرتا ہوا دیکھنے کے باوجود ہر آدمی اِس احساس میں جیتا ہے، جیسے کہ خود اُس پر موت آنے والی نہیں۔
اِس کا سبب پروگریمنگ کا معاملہ ہے۔ فطرت نے انسانی دماغ کی جو پروگریمنگ کی ہے۔ اس میں سب کچھ ہے، لیکن ایک چیز اس پروگریمنگ میں موجود نہیں، اور وہ موت ہے۔ انسانی دماغ کی پروگریمنگ میں بھوک ہے، پیاس ہے، نیند ہے اور دوسری تمام چیزیں ہیں، لیکن پروگریمنگ کی اِس فہرست میں موت سرے سے شامل نہیں۔یہی وجہ ہے جس کی بنا پر ہم دیکھتے ہیں کہ ہر انسان اس طرح جیتا ہے جیسے کہ اس پر موت آنے والی نہیں۔ اپنے داخلی شعور کے اعتبار سے ہر آدمی ابدیت (eternity) کے احساس میںجیتا ہے۔ اپنے ذاتی احساس کے اعتبار سے ہر آدمی اپنے آپ کو ابدی مخلوق سمجھتا ہے۔ وہ اپنے تمام معاملات کی منصوبہ بندی اس طرح کرتا ہے، جیسے کہ اس کو ہمیشہ کے لیے موجودہ دنیا میں رہنا ہے۔
اِس معاملے میں انسان کی مثال ایک ایسے کمپیوٹر کی ہے جس کی پروگریمنگ میں موت (death) کا لفظ یا اس کا تصور شامل نہ کیاگیا ہو۔ ایسا کمپیوٹر آپ کو ہر بات بتائے گا، لیکن جہاں تک موت کا تعلق ہے، وہ اس بارے میں آپ کو کچھ نہیں بتاسکے گا۔ کمپیوٹر اپنی پروگریمنگ کے مطابق کام کرتا ہے۔ کوئی لفظ یا کوئی تصور جو کمپیوٹر کی پروگریمنگ میںشامل نہ کیا گیا ہو، اگر آپ اُس لفظ یا تصور کے بارے میں کمپیوٹر سے سوال کریں، تو کمپیوٹر اُس کا جواب نفی کی صورت میں دے گا۔ مثلاً کمپیوٹر کی اسکرین پر یہ جملہ لکھا ہوا سامنے آجائے گا:
Your search did not match any document.
ڈی این اے (DNA) حیاتیاتی سائنس کی ایک نئی شاخ ہے۔ موجودہ زمانے میں اُس پر بہت زیادہ کام ہوا ہے اورانسانی شخصیت کے بارے میں انوکھی معلومات حاصل ہوئی ہیں۔ ڈی ای اے کا فُل فارم یہ ہے:
Deoxyribonucleic Acid
جدید تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ ڈی این اے، یا جینٹک کوڈ (genetic code) میں کسی انسان کی شخصیت کے بارے میں تمام چھوٹی اور بڑی معلومات درج ہوتی ہیں۔ کوئی انسان کیسے دیکھے گا، کیسے سنے گا، کیسے مسکرائے گا، کیسے کلام کرے گاوغیرہ، تمام معلومات پوری تفصیل کے ساتھ اُس میں کیمیائی حروف (chemical letters) کی صورت میںدرج رہتی ہیں۔ یہ معلومات انسانی زندگی کے تقریباً تین بلین مختلف موضوعات (3 billion different subjects) سے متعلق ہوتی ہے۔ ایک انسان کے جنیٹک کوڈ میں اتنی زیادہ معلومات ہوتی ہیں کہ اُن کو اگر ڈی کوڈ(decode) کرکے لکھا جائے تو اس کے لیے موجودہ انسائکلو پیڈیا بریٹانکا جیسی انسائیکلوپیڈیا کی ایک ہزار جلدیں درکار ہوں گی۔
لیکن یہ عجیب بات ہے کہ کسی انسان کے جنیٹک کوڈ میںانسائکلو پیڈیائی معلومات ہونے کے باوجود اُس میں موت (death) کے بارے میں کچھ بھی موجود نہیں۔ انسانی شخصیت کے اِس دفتر میںاُس کے بارے میں تمام تفصیلات درج ہیں، لیکن اُس میں موت کا کوئی اندراج نہیں۔ایسا کیوں ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ موت کے معاملے کو خدا نے انسان کی اپنی اختیاری دریافت کے خانے میں رکھ دیا ہے۔ انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ اپنی پروگریمنگ سے باہر نکل کر اپنی موت کے بارے میں سوچے اور اس کے مطابق، اپنے عمل کا منصوبہ بنائے۔
نیند کی مثال لیجیے۔ نیند اور موت کے درمیان ایک مشابہت پائی جاتی ہے۔ اِس فطری حقیقت کو ایک حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: النّوم أختُ الموت (نیند موت کی بہن ہے) کسی شخص کو جب نیند آتی ہے تو وہ بے خبر ہوجاتا ہے، اِس طرح موت بھی بظاہر آدمی کو بے خبر کردیتی ہے۔ لیکن نیند اور موت کے درمیان ایک بنیادی فرق ہے۔ نیند کا وقت ہر ایک کے لیے مقرر ہے، لیکن موت کا معاملہ کسی کے لیے اِس طرح کی توقیتِ فطری (natural timing) کے ساتھ مقرر نہیں، موت بالکل نامعلوم طور پر اچانک آجاتی ہے۔ کوئی بچپن میں مرجاتا ہے، کسی کی موت جوانی میں آتی ہے اور کسی کی موت بڑھاپے میں۔
نیند اور موت کا یہ فرق ایک گہری حقیقت کو بتا رہاہے۔ یہ حقیقت کہ نیند ہر آدمی کی پروگریمنگ کا فطری حصہ ہے، لیکن موت آدمی کی پروگریمنگ کا فطری حصہ نہیں۔ موت جب بھی آتی ہے، خدا کے براہِ راست فیصلے کے تحت آتی ہے۔ یہ خدا ہے جو خود اپنے فیصلے کے تحت، کسی کی موت کو مقدم کردیتا ہے اور کسی کی موت کو مؤخر۔ موت کا تعلق نہ آدمی کی اپنی سوچ سے ہے، اور نہ اس کی فطری پروگر یمنگ سے۔
جب کسی شخص کی موت واقع ہوتی ہے تو اِس کا مطلب خاتمۂ حیات نہیں ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ ظاہری موت کے باوجود اصل انسان اُس وقت بھی زندہ ہوتا ہے۔ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ موت دراصل ایک منتقلی (transfer) کا معاملہ ہے۔ موت اُس خصوصی لمحے کا نام ہے، جب کہ انسان ایک مرحلۂ حیات (period of life) سے گزر کر دوسرے مرحلۂ حیات میں داخل ہوجاتا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی مسافر اگلے اسٹیشن پر ایک سواری کو چھوڑ دے اور اس کے بعد دوسری سواری کے ذریعے اپنا مستقل سفر جاری رکھے۔
پروگریمنگ کے اِس ظاہرہ (phenomenon) کا مطالعہ کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ موت کے بارے میں انسان کی غفلت کیوں ہے۔ کیوں ایسا ہے کہ انسان اپنے روز مرّہ کے سفر کی پلاننگ ٹائم لمٹ(time limit) کو دھیان میں رکھتے ہوئے کرتاہے، لیکن زندگی کا سفر جو بظاہر موت پر ختم ہورہا ہے، اس کی پلاننگ وہ اِس عام اصول کے مطابق نہیں کرتا۔ کوئی عورت اور مرد اپنی زندگی کا سفر وقت پر مبنی پلاننگ (time based planning) کے تحت نہیںکرتے، یعنی وہ اِس طرح نہیں سوچتے کہ چند دن میں تومرنا ہے، پھر زیادہ سامان اکھٹا کرنے کی کیا ضرورت۔ وہ تکاثُر (more and more) کی نفسیات میں جیتے جیتے رہتے ہیں، یہاںتک کہ اچانک مرجاتے ہیں۔ انسانیت کی پوری تاریخ میںایسا ہی ہوتا رہا ہے اور آج بھی ایسا ہی ہورہا ہے۔
یہ معاملہ اُس وقت سمجھ میں آتا ہے جب کہ خدا کے تخلیقی پلان (creation plan) کی روشنی میں اس کا مطالعہ کیا جائے۔ الہامی علم (revealed knowledge) کا مطالعہ بتاتا ہے کہ خدا نے جب انسان کو پیدا کیا تو پہلے ہی دن اس کو ابدی صورت میں پیدا کیا۔ خدا نے انسان کو پیدا کیا تو پہلے ہی دن اس کو ابدی صورت میں پیدا کیا۔ خدا نے انسان کو ایک لامحدود مائنڈ دیا اور اس میں ہر قسم کی معلومات بھر دیں۔ ڈی این اے (DNA) کے جدید مطالعے سے یہ بات سائنسی طورپر ثابت ہورہی ہے۔
کہاجاتا ہے کہ ایک انسانی دماغ میں جو اعصاب (nerves) ہیں، وہ اتنے زیادہ ہیں کہ اگر ان کو پھیلایا جائے تو گلوب کے چاروں طرف ان کو تقریباً 25 بار لپیٹا جاسکتا ہے۔اِس تخلیق کے مطابق، ہر انسان پیدائشی طورپر یہ شعور لے کر پیدا ہوتا ہے کہ وہ ایک ابدی وجود ہے۔ اس کا سفر موت پر ختم نہیں ہوتا، بلکہ وہ موت کے بعد بھی مسلسل طورپر جاری رہتا ہے۔ ہر انسان اسی ابدیت کے شعور میں جیتا ہے۔ داخلی احساس کے تحت ہر انسان کی شخصیت ابدیت کی وسعتوں میں پھیلی ہوئی ہے۔
اِس بات کو دوسرے لفظوں میںاس طرح کہا جاسکتا ہے کہ خالق نے بطور واقعہ انسانی فطرت کی جو پروگریمنگ کی ہے، وہ ابدیت (eternity) کے حوالے سے کی ہے، یعنی جینے کے معاملے میں انسان کی جو نفسیات ہوتی ہے، وہ اُس سے مکمل طورپر مختلف ہوتی ہے جو ٹرین یا ہوائی جہاز کے سفر کے وقت ہوتی ہے۔ ٹرین یا ہوائی جہاز کے سفر میں انسانی ذہن کی پروگریمنگ محدود وقت کو لے کر ہوتی ہے۔ جب کہ زندگی کے معاملے میں انسانی ذہن کی پروگریمنگ زمان اور مکان کی محدودیت سے بالکل ماورا (beyond time and space) ہوتی ہے۔
نیچر کی یہی پروگریمنگ موت کے بارے میں انسان کی موجودہ نفسیات (psyche) کا اصل سبب ہے۔ انسان انسان جب بھی کسی کو مرتے ہوئے دیکھتا ہے تو وہ اس کے لیے اپنی نفسیات کے اعتبار سے ایک اجنبی واقعہ ہوتا ہے۔ اس کی اپنی فطرت کی پروگریمنگ اس کو بتارہی ہوتی ہے کہ میںایک ابدی شخصیت (eternal personality) رکھنے والا آدمی ہوں۔ اِس طرح اپنے بارے میں اس کا شعورِ ابدیت (sense of eternity) اِس میں رکاوٹ بن جاتا ہے کہ وہ موت کے اِس خارجی واقعے کو اپنے اوپر منطبق (apply) کرے۔ وہ اپنی نفسیات کے تحت ایسے کسی واقعہ کو ’’غیر‘‘ کا واقعہ (someone else's phenomenon) سمجھ کر اسے نظر انداز کردیتا ہے۔
ایسی حالت میں زندگی کی صحیح منصوبہ بندی کے لیے ضروری ہے کہ آدمی اپنے اندر اینٹی پروگریمنگ سوچ پیدا کرے۔ وہ خود اپنے خلاف سوچنے کی صلاحیت کا ثبوت دے۔ اس کے بعد ہی یہ ممکن ہے کہ وہ پروگریمنگ کے اِس معاملے سے اوپر اٹھے۔ وہ اپنی زندگی کے قبل از موت دور، اور بعد از موت دورمیں فرق کرے، اور پھر اپنی زندگی کے لیے مبنی بر حقیقت منصوبہ بندی کرسکے۔ اِس طرزِ فکر کو ایک لفظ میں انفصالی طرزِ فکر (detached thinking) کہاجاسکتا ہے۔ ایک شاعر نے اِس قسم کی سوچ کو تجرید تصور کا نام دیا ہے۔ اس کا شعر یہ ہے:
ہے داد کے قابل، میری تجرید تصور کرتا ہوں تجھے غیر کی محفل سے جُدا یاد
اِس فطری نقشے کو سامنے رکھیے تو معلوم ہوگا کہ کسی انسان کے لیے اپنی زندگی کی مطابقِ واقعہ منصوبہ بندی صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ اس کی منصوبہ بندی مبنی بر موت منصوبہ بندی (death- based planning) ہو، یعنی وہ اپنی زندگی کی منصوبہ بندی اِس حقیقت کو ملحوظ رکھتے ہوئے کرے کہ اس کا عرصۂ حیات(life span) موت سے پہلے کے دَورسے لے کر موت کے بعد کے دور تک پھیلا ہوا ہے۔ تمثیل کی زبان میں کہاجاسکتا ہے کہ موجودہ زندگی کسی انسان کے لیے ایک عارضی سفر ہے، اور موت گویا وہ اسٹیشن ہے جہاں اتر کر وہ اپنے مستقل دورِ حیات میں پہنچنے والا ہے۔
اِس اصول کو سامنے رکھ کر جب غور کیا جائے تو الہامی علم (revealed knowledge) دوبارہ ہم کو رہ نمائی دیتا ہے۔ اِس رہ نمائی کے مطابق، موت سے پہلے کا مرحلۂ حیات تیاری کا مرحلہ ہے، اور موت کے بعد کا مرحلۂ حیات تیاری کے مطابق اپنا مستقل انجام پانے کا مرحلہ۔ گویا کہ ہماری موجودہ زندگی ایک قسم کے امتحان ہال میں گزررہی ہے۔ یہاں کی ہر چیز پرچۂ امتحان (test paper) ہے۔ یہاں جو کچھ ہمارے ساتھ پیش آتا ہے، خواہ وہ اچھا ہو یا بُرا، وہ سب کا سب اپنی نوعیت کے اعتبار سے پرچۂ امتحان ہوتا ہے۔ موجودہ دنیا میں کوئی بھی چیز جو انسان کو ملتی ہے، وہ اُس کے لیے نہ انعام ہے اور نہ سزا۔ انعام اور سزا دونوں کا معاملہ موت کے بعد کے مرحلۂ حیات سے متعلق ہے، وہ موت سے پہلے کے مرحلۂ حیات سے متعلق نہیں۔
یہی انسانی زندگی کی اصل حقیقت ہے۔ ہر عورت یا مرد کو اِسی حقیقت کے مطابق، اپنی زندگی کا نقشہ بنانا ہے۔ فطرت کی پروگریمنگ کے مطابق، انسان موجودہ زندگی ہی کو اپنی مستقل زندگی سمجھ لیتا ہے۔ حالاں کہ موجودہ زندگی صرف ایک عارضی زندگی ہے۔ جس طرح کوئی طالبِ علم عارضی طورپر امتحان ہال میں کچھ وقت گزارتا ہے اور اس کے بعد وہ اپنی اصل زندگی کی طرف لوٹ جاتا ہے، اِسی طرح انسان موجودہ دنیا میں عارضی طورپر آیا ہے۔ اس کے بعد وہ اپنی اصل دنیا کی طرف لوٹ جائے گا۔
موجودہ دنیا میں مبنی بر حقیقت منصوبہ بندی کے لیے اینٹی پروگریمنگ سوچ یا آؤٹ آف پروگریمنگ سوچ کی ضررت ہے۔ بظاہریہ ایک بے حد مشکل کام معلوم ہوتا ہے، کیوں کہ اینٹی پروگریمنگ سوچ ایک دو طرفہ سوچ کا نام ہے۔ اِس میں آدمی کو ایک طرف موجودہ عارضی مدتِ حیات کے اعتبار سے سوچنا پڑتا ہے، اور عین اُسی وقت ضرورت ہوتی ہے کہ وہ بعد ازموت ابدی مدتِ حیات کے اعتبار سے سوچے۔ مگر یہ دو طرفہ سوچ انسان کے لیے کوئی مشکل کام نہیں۔ انسانی دماغ کی صلاحیت (capacity) اتنی زیادہ ہے کہ وہ ہر قسم کی متضاد سوچ کا احاطہ کرسکتا ہے۔ اِسی حقیقت کو ایک برطانی مفکر (Walt Whitman) نے اِن الفاظ میں بیان کیا ہے:
I am large enough to contain all these contradictions.
انسان کی زندگی کا مطالعہ بتاتا ہے کہ وہ اپنی پسند کے دوسرے معاملات میں اِسی متضاد طرزِ فکر کو سمیٹے ہوئے ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں اینٹی پروگریمنگ سوچ انسان کے لیے کوئی ناممکن سوچ نہیں، وہ ہر عورت اور مرد کے لیے پوری طرح ممکن ہے۔ اب ہر عورت اور مرد کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اپنی موجودہ عارضی زندگی کو کس نہج پر گزارتا ہے، ایسے نہج پر جو اُس کو اپنے ابدی دورِ حیات میں جنت میں پہنچانے والا ہے، یا جہنم میں۔
جدید تہذیب مادّی راحت (material comfort) کے تصور پر قائم ہے۔ جدید تہذیب کے تحت انسانی زندگی کا جونقشہ بنا ہے، اُس میں صرف آج (today) کا تصور ہے، اُس میں کل (tomorrow) کا تصور نہیں۔ چناں چہ کہاجاتا ہے کہ — خوب کام کرو اور خوب عیش کرو:
Work hard, party hard
اِس جدید ذہن کا کلمہ یہ ہے— ابھی اور اِسی وقت (right here, right now) ۔موجودہ زمانے میں اِس نظریے پر بہت زیادہ لکھا گیا ہے۔ جدید میڈیا تمام تر اِسی تصور پر چلایا جاتا ہے۔ بطور مثال یہاں صرف ایک آرٹکل کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ نئی دہلی کے انگریزی روزنامہ ٹائمس آف انڈیا (27 جنوری2008 ) میں ایک آرٹکل اِس موضوع پر چھپا ہے۔ اس کے لکھنے والے کا نام ڈونا(Donna Devane) ہے۔ یہ آرٹکل حسب ذیل عنوان کے تحت مذکورہ اخبار میں شائع ہوا ہے:
Be happy here and now.
زندگی کو کامیاب بنانے کا یہ تصور فطرت کے نقشے کے بالکل خلاف ہے۔ ڈی این اے(DNA) اور جنیٹک کوڈ(genetic code) کے مطابق، انسان کی زندگی پورے معنوں میں ایک ابدی زندگی ہے۔ وہ آج سے لے کر کل تک پھیلی ہوئی ہے۔ فطرت کے تخلیقی نقشے کے مطابق، یہ ایک خطرناک قسم کا ناقص تصورِ حیات ہے کہ آج کو لیا جائے اور کل کے بارے میں کچھ نہ سوچا جائے۔ جب ڈی این اے کی دریافت بتاتی ہے کہ انسان ایک مسلسل حیاتیاتی سلسلے کا نام ہے، تو انسان کے لیے مفید طریقہ یہی ہے کہ وہ اپنی زندگی کا نقشہ ابدیت (eternity) کو لے کر بنائے، نہ کہ صرف وقتی لمحہ (moment) کو لے کر ۔
یہ ایک عام بات ہے کہ لوگ دوسروں کو مرتاہوا دیکھتے ہیں، لیکن وہ یہ نہیں سوچ پاتے کہ مجھے خود بھی مرنا ہے۔ لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ آخر وقت تک موت کو بھولے رہتے ہیں، یہاں تک کہ وہ اچانک اِس دنیا سے چلے جاتے ہیں۔
اِس معاملے کی وضاحت کے لیے یہاں ایک مثال درج کی جاتی ہے۔ روسی کرنجیا (Russy Karanjia) انڈیا کے ایک مشہور صحافی تھے۔ وہ پارسی فیملی میں پیداہوئے۔ وہ سنسنی خیز صحافت (sensational journalism) کے امام تھے۔ ان کو فرینک مورس، شیام لال اور خوش ونت سنگھ کے درجے کا صحافی سمجھا جاتا تھا۔ انھوںنے دوسری عالمی جنگ میں وارکرسپانڈنٹ (war correspondent) کاکام کیا تھا۔ انھوں نے 1941 میں اپنا ہفت روزہ انگریزی اخبار بلٹز (Blitz) جاری کیا۔ اُن کے اخبار پر یہ ماٹو (motto) لکھا رہتا تھا: Free, Frank, and Fearless
روسی کرنجیا کے تعلقات بڑے بڑے لوگوں سے تھے۔مثلاً جواہر لال نہرو، مارشل ٹٹو، صدر جمال عبد الناصر اور ایران کے رضا شاہ پہلوی، وغیرہ۔ اُن پر دوبار ہارٹ اٹیک ہوا۔ یکم فروری 2008 کو ان کی موت بمبئی کے ایک اسپتال میں ہوئی۔ انتقال کے وقت ان کی عمر 92 سال تھی۔ ٹائمس آف انڈیا (2 فروری 2008 ) کی رپورٹ کے مطابق، اپنی موت سے پہلے انھوںنے جس واحد احساس کا ذکر کیا، وہ یہ تھا:
The only thing he complained about was that, the nurses skirts were not short enough.
روسی کرنجیا اُس وقت بسترِ مرگ پر تھے۔ اُس وقت وہ موت کے دروازے پر پہنچ چکے تھے۔ لیکن اُس وقت بھی اُن کے دماغ میں جو چیز چھائی ہوئی تھی، وہ یہ کہ اسپتال کی نرسوں کا اسکرٹ زیادہ چھوٹا نہ تھا جس سے اُن کے جسم کے زیادہ حصّے دکھائی دیں۔ حالاں کہ اُس وقت بطور حقیقت یہ چاہیے تھا کہ وہ موت کے بعد والے حالات کو سوچیں۔ اِس بے شعوری کا سبب یہ تھا کہ موت کے بعد والے حالات کے متعلق سوچنے کے لیے ضرورت تھی کہ وہ اپنی پروگریمنگ سے اوپر اٹھ کر سوچ سکیں۔ مگر شعوری ناپختگی کی بنا پر وہ ایسا نہ کرسکے۔ اِس لیے آخر وقت تک وہ موت کی حقیقت سے بے خبر رہے۔
قرآن میں پیغمبر کے مشن کو اِنذار کا مشن بتایا گیا ہے، یعنی لوگوں کی بے خبری کو توڑنا اور انھیں حقیقتِ حال سے باخبر کرنا۔ مذکورہ تفصیل کی روشنی میں دیکھیے تو انذار سے مراد یہی معاملہ ہے۔ انسان کے جنیٹک کوڈ میں چوں کہ موت (death) کا اندراج نہیں۔ موت ہر انسان پر براہِ راست خدائی فیصلے کے تحت آتی ہے۔ اِس لیے کوئی آدمی اِس معاملے کو اُسی وقت سمجھ سکتا ہے، جب کہ وہ برتر سوچ کی صلاحیت کا ثبوت دے۔ پیغمبر کا مشن یہی ہے کہ ہر عورت اور مرد کے اندر وہ اِس برتر سوچ کی صلاحیت پیدا کرے۔ تاکہ ہر انسان موت سے پہلے موت کی حقیقت کو جان لے۔ وہ موت سے پہلے وہ ضروری تیاری کرے، جو اُس کو موت کے بعد کی زندگی میں کامیاب بنانے والی ہو۔
یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ لوگ بار بار موت کے واقعات کو دیکھـتے ہیں، لیکن موت کے معاملے پر وہ زیادہ سنجیدگی کے ساتھ غور نہیں کرتے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ موت اُنھیں صرف خاتمۂ حیات کے ہم معنی نظر آتی ہے۔ وہ شعوری یا غیر شعوری طورپر اِس سے بے خبر رہتے ہیں کہ موت ایک نئے زیادہ با معنیٰ دورِ حیات کا آغاز ہے۔ اگر وہ اِس حقیقت کو جان لیں تو ان کی زندگی کا پورا نقشہ بدل جائے۔ ان کی تمام سرگرمیوں کا مرکز و محور یہ بن جائے کہ وہ اپنی موت کے بعد کی زندگی کو زیادہ کامیاب بنا سکیں۔
اِس اعتبار سے دیکھیے تو موت زندگی کی مثبت سرگرمیوں کے لیے سب سے زیادہ طاقت ور محرک (incentive) بن جائے گی۔ موت کی یاد آدمی کو بے عمل (inactive) نہیں بناتی، موت کی یاد آدمی کو زیادہ سرگرم (active) بنا دیتی ہے۔ موت آدمی کے اندر یہ سوچ پیدا کرتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ عمل کرو، کیوں کہ موت کے بعد عمل کا موقع باقی نہیں رہے گا۔ موت زندگی کا خاتمہ نہیں، بلکہ موت مواقعِ عمل کا خاتمہ ہے۔ اِس اعتبار سے موت کا رول محرکِ عمل کا رول ہے، نہ کہ مانعِ عمل کا رول۔
اصل یہ ہے کہ انسان کو اس کے پیدا کرنے والے نے ابدی مخلوق کی حیثیت سے پیدا کیا۔ اس کو ابدی صلاحیت والا دماغ دیا۔ اس کے دماغ کی پلاننگ ہر اعتبار سے ابدیت کی بنیاد پر کی گئی۔ اِس اعتبار سے انسان کی اصل قیاہ گاہ جنت کی ابدی دنیا ہے۔ لیکن پیدائش کے بعد انسان کو ایک محدود مدت کہ لیے موجودہ دنیا میں رکھا جاتا ہے۔ دنیا کا یہ عارضی قیام اس کے ٹسٹ کے لیے ہے۔ موجودہ دنیا کی عارضی مدت میں یہ دیکھا جارہا ہے کہ کون شخص اس ٹسٹ میں پورا اترتا ہے اورکون شخص اس میں پورا نہیں اترتا۔ جو عورت یا مرد اس ٹسٹ میں پورے اتریں گے، ان کو منتخب کرکے جنت میں بسا دیاجائے گا۔ اور جو عورت یا مرد اس ٹسٹ میں پورے نہ اتریں ، ان کو قابلِ رد (rejected lot) قرار دے کر الگ کردیا جائے گا۔
موت دراصل ایک ابدی سفر کا صرف ایک درمیانی اسٹیشن ہے۔ موت انسان کے ابدی تسلسل کا درمیانی انقطاع نہیں، بلکہ وہ خود تسلسلِ حیات کا ایک لمحاتی حصہ ہے— موت کا کوئی وقت نہیں، اور نہ موت کی کوئی مدت ہے۔ کوئی بھی شخص اپنی موت کے بارے میں کچھ نہیں جان سکتا۔ موت کا اہم ترین پہلو یہ ہے کہ وہ ہماری اپنی پروگریمنگ کا حصہ نہیں، وہ براہِ راست خدا کی طرف سے آنے والا ایک فیصلہ ہے۔ خدا نے موت کے وقت کی خبر کسی انسان کو نہیںدی، نہ براہِ راست طورپر اور نہ بالواسطہ طورپر۔
یہی وجہ ہے کہ کوئی انسان اپنی موت کے بارے میں نہیں سوچتا اور نہ وہ اس کا کوئی شعور رکھتا۔ آدمی جیتا رہتا ہے، یہاںتک کہ اچانک مرجاتا ہے۔ فطرت کی پروگریمنگ کے مطابق، ہر انسان بطور واقعہ ابدی بن گیا ہے۔ انسان کی اس ابدیت کو کوئی توڑنے والا نہیں۔ البتہ خدا جب دیکھتا ہے کہ آدمی کے ٹسٹ کی مدت پوری ہوگئی، تو وہ خوداپنے فیصلے کے تحت اِس عمل میںمداخلت کرتا ہے۔ وہ انسان کو موجودہ دنیا سے نکال کر بعد کی ابدی دنیا میں پہنچادتیا ہے۔ اِسی وقفۂ انتقال (transfering period) کا نام موت ہے۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے موت ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے (transportation) کا معاملہ ہے، نہ کہ زندگی کے خاتمے کا معاملہ۔
یہ صورتِ حال بتاتی ہے کہ زندگی میں کامیابی کے لیے ہر عورت اور مرد کو اپنے اندر ایک خصوصی صلاحیت پیدا کرنا ہے، یہ ہے اینٹی پروگریمنگ سوچ۔ یہ گویا کہ خود اپنے خلاف سوچنے کا معاملہ ہے۔ جو لوگ اس انقلابی طرزِ فکر میں کامیاب ہوں، وہی اس معاملے کو سمجھیں گے، وہی ایسا کرسکیں گے کہ اپنی پروگریمنگ کے خلاف سوچ کر موت کے معاملے کو جانیں اور قبل از موت مرحلۂ حیات میں، بعداز موت مرحلۂ حیات کی تیّاری کریں۔
فرانس کے صدر نکولس سارکوزی (Nicholas Sarkozy) جنوری 2008 میں انڈیا آئے۔ 26 جنوری کو یومِ جمہوریہ کی تقریب میںوہ خصوصی مہمان کی حیثیت سے شریک ہوئے۔ اس کے بعد اپنے دورۂ ہند کے آخری مرحلے میں وہ دہلی سے آگرہ گئے، تاکہ وہاں مشہور تاریخی عمارت تاج محل کو دیکھ سکیں۔ ان کے سفر آگرہ کی جو رپورٹ اخبار میں آئی ہے، ا س میں ایک سبق آموز جُز شامل ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صدر فرانس جب تاج محل کو دیکھ چکے تو ان کے سامنے حسب معمول گسٹ بک (Guest Book) لائی گئی تاکہ وہ اس پر اپنا تاثر درج کرسکیں۔صدر فرانس نے اختصار کے ساتھ اس میں ایک لفظ لکھا۔ یہ فرانسیسی زبان میں اُروواغ (Uruvor) تھا۔ اس فرانسیسی لفظ کا مطلب ہے: جلد ہی پھر ملیں گے (See you soon, again) ۔
میں نے یہ رپورٹ پڑھی تو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ یہ صرف ایک شخص کے ذاتی احساس کی بات نہیں۔ یہ لفظ پوری انسانیت کی نمائندگی کررہا ہے۔ تاج محل کو اگر جنت کا نمائندہ سمجھا جائے تو یہ جملہ پوری انسانیت کے احساس کو بتا رہا ہے۔ اِس دنیا میں پیداہونے والے تمام انسان اپنے داخلی احساس کے تحت اپنے دماغ میںایک جنتی دنیا کا خواب لئے ہوئے ہیں۔ ہر آدمی کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ خوابوں کی اِس دنیا کی تعمیر کرسکے۔
جیسا کہ معلوم ہے، انسان کو پیدا کرنے کے بعد خدا نے اس کو جنت میں رکھا۔ اس وقت یہ جنت اس کو صرف عارضی مشاہدے کے لیے دی گئی تھی۔اس عارضی مشاہدے کے بعد انسان کو موجودہ دنیا میں بسا دیاگیا اور یہ اصول مقرر کیاگیا کہ ہر انسان کی زندگی کا ریکارڈ دیکھا جائے گااور آخر میں انتخابی بنیاد (selective basis) پر اس کے لیے جنت کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اِس خدائی منصوبے کے تحت، انسان موجودہ دنیا میں آباد کیا گیا ہے۔
اب صورتِ حال یہ ہے کہ فطرت کی پروگریمنگ کے تحت، انسان ابدی احساس میں جی رہا ہے، اس کی پروگریمنگ کے اندر موت کا تصور شامل نہیں۔ لیکن آزمائشی پیریڈ کے اعتبار سے اس کو موت کا تجربہ کرنا پڑتا ہے جس کا کوئی وقت مقرر نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر عورت اور مرد کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے شعور کو حرکت میں لاکر اپنے اندر ایک خصوصی صلاحیت پیدا کرے۔ یہ صلاحیت اینٹی پروگریمنگ سوچ کی صلاحیت ہے۔ ہر ایک کو یہ کرناہے کہ وہ اپنی پروگریمنگ سے باہر آکر اپنے معاملے کو جانے۔ وہ پروگریمنگ میںشامل نہ ہونے کے باوجود موت کے معاملے کو دریافت کرے۔ اس دریافت کے بعد ہی یہ ممکن ہے کہ ہر آدمی اپنی زندگی کی صحیح منصوبہ بندی کرے اور ابدی کامیابی کا مستحق ٹھہرے۔
موجودہ پروگریمنگ کے زیراثر آدمی یہ کررہا ہے کہ وہ اِسی موجودہ دنیا میں اپنے لئے جنت کی تعمیر میںلگا ہوا ہے۔ یہ گویا کہ سفر کو منزل سمجھ لینا ہے، اور ایسا ہونا کبھی ممکن نہیں۔ موجودہ دنیا میں آدمی جو بھی تعمیر کرے گا اچانک موت اُس کا خاتمہ کردے گی۔ آدمی سب کچھ موجودہ دنیا میں چھوڑ کر اگلی دنیا کی طرف بالکل خالی ہاتھ چلا جائے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دنیا ہر انسان کے لیے ایک سفرکا معاملہ ہے۔ آپ ٹرین سے سفر کریں یا ہوائی جہاز سے، آپ اپنے کو مسافر سمجھتے ہیں۔ اس لیے آپ سکون کے ساتھ اپنا سفر طے کرتے ہیں۔ اگر آپ سفر کومنزل سمجھ لیں اور سفر کے دوران وہ تمام سہولتیں حاصل کرنا چاہیں جو صرف حالتِ قیام میںحاصل ہوتی ہیں، تو آپ کا سفر سخت تکلیف کا سفر بن جائے گا، خواہ آپ ٹرین یا ہوائی جہاز کے فرسٹ کلا س میں سفر کررہے ہوں۔
یہی اِس دنیا میںہر عورت اور مرد کا معاملہ ہے۔ جو عورت اور مرد اِس حقیقت کو سمجھ لیں، وہ آخرکار کامیاب زندگی کے مستحق قرار پائیں گے۔ اور جو لوگ اِس حقیقت کو نہ سمجھیں وہ صرف یہ کریں گے کہ فطرت کی طرف سے ملا ہوا قیمتی موقع کھو دیں، جب کہ یہ موقع دوبارہ کسی کو ملنے والا نہیں۔موت اِس حقیقت کا اعلان ہے کہ موجودہ زندگی میں انسان کو جو مختلف چیزیں ملی ہوئی تھیں، وہ بطور استحقاق نہ تھیں، بلکہ وہ صرف پرچہ ہائے امتحان (test papers) کے طورپر تھیں۔ موت کا آنا امتحان کے وقت کا ختم ہوجانا تھا۔ مدتِ امتحان کے ختم ہوتے ہی وہ تمام چیزیں بھی انسان سے چھِن گئیں جو اس کو بطور امتحان ملی تھیں۔
اِس طرح موت ہر انسان کو یہ بتاتی ہے کہ موت کے بعد کے مرحلۂ حیات میں تم بالکل اکیلے ہو جاؤ گے۔ اُن تمام چیزوں میںسے کوئی بھی چیز تمھارا ساتھ نہ دے گی، جو موت سے پہلے کے مرحلۂ حیات میںتم کو حاصل تھی۔ یہ صورتِ حال بے حد سنگین ہے۔ یہ صورتِ حال آدمی کو متنبہ کررہی ہے کہ تم موت کے بعد کے مرحلہ ٔ حیات کے لیے تیاری کرو۔ اگر تم ضروری تیاری کے بغیر موت کے بعد کے مرحلۂ حیات میں داخل ہوگئے، تو اچانک تم اپنے آپ کو انتہائی بے سروسامانی کی حالت میں پاؤ گے۔ تم اچانک دیکھو گے کہ موجودہ زندگی میں جو کچھ تم کو حاصل تھا، وہ سب تمھارا ساتھ چھوڑچکا ، اور اب نئے مرحلۂ حیات میں جینے کے لیے جو کچھ درکار ہے، وہ سرے سے تم کو حاصل ہی نہیں۔
واپس اوپر جائیں

کامیاب زندگی کا راز

فطرت کے اصولوں کی پابندی کرنے کا نتیجہ ہمیشہ کامیابی ہوتا ہے، اور فطرت کے اصولوں سے انحراف کا نتیجہ ہمیشہ ناکامی۔
واپس اوپر جائیں

سوچ کا فرق

ایک مسلم نوجوان مجھ سے ملے۔ وہ ایک بڑے دینی مدرسے میں تعلیم حاصل کررہے تھے۔ انھوں نے غم زدہ لہجے میں مجھ سے کہا کہ میرے لیے دعا کیجئے۔ میرے والد کا انتقال ہوگیا ہے۔ اب میں مجبور ہوں کہ تعلیم کو ادھورا چھوڑ کر گھر واپس جاؤں، کیوں کہ والد کے بعد میرے سوا کوئی اور گھر کو سنبھالنے والا نہیں۔
میں نے سنا تو اچانک میری زبان سے نکلا— اگر آپ بھی مرجائیں تو۔ میرا یہ جملہ مذکورہ طالبِ علم کے لیے ایک فکری بھونچال ثابت ہوا۔ اِس کو سن کر ان کی سوچ کا رُخ اچانک بدل گیا۔ وہ چند منٹ چپ رہے اور پھر انھوں نے کہا کہ اب میں گھر نہیں جاؤں گا۔ اب میں گھر کے معاملے کو خدا کے حوالے کرتے ہوئے بدستور اپنے اِس تعلیمی ادارے میں رہوں گا، اور پہلے سے بھی زیادہ محنت کے ساتھ اپنی تعلیم کومکمل کروں گا۔ اِس کے بعد وہ خاموشی کے ساتھ واپس چلے گئے۔
تقریباً دس سال کے بعد دوبارہ اُن سے ملاقات ہوئی تو وہ بہت خوش تھے۔ انھوں نے کہا کہ آپ کے ایک جملے نے میری زندگی بدل دی۔ اُس کے بعد میںنے اپنی تعلیم میں بہت زیادہ محنت کرنا شروع کردیا۔ میں نے عربی کے ساتھ انگریزی بھی سیکھی۔ انڈیا میں تعلیم سے فارغ ہوکر میں باہر کے ایک ملک میں چلا گیا۔ وہاں میں نے کافی پیسہ کمایا۔ میںنے اپنے آبائی گھر کو دوبارہ تعمیر کروایا، بھائیوں کو پڑھایا، اور بہنوں کی شادی کی۔ اللہ نے میرے تمام کاموں کو درست کردیا۔
اِس واقعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ زندگی میں سوچ کی اہمیت کتنی زیادہ ہے۔ ہر آدمی کی زندگی میں بُحرانی واقعات پیش آتے ہیں۔ ایسے موقع پر ضرورت ہوتی ہے کہ آدمی کے اندر پختہ سوچ ہو۔ وہ کرائسس مینج مینٹ (crisis management) کی صلاحیت رکھتا ہو۔ وہ بحران کے موقع پر منفی سوچ (negativ thinking) کا شکار نہ ہو، بلکہ وہ مثبت سوچ (positive thinking) کا ثبوت دے سکے۔ ایسے ہی لوگ زندگی میں کامیاب ہوتے ہیں۔ کامیابی دراصل صحیح طرزِ فکر کے نتیجے کا دوسرا نام ہے۔
واپس اوپر جائیں

مسئلے کا حل

ایک بار میں یورپ کے ایک شہر میں گیا۔ وہاں میں ایک عرب نوجوان کے ساتھ مقیم تھا۔ وہ یہاں سیاسی پناہ(political asylum) کے تحت رہتے تھے۔ انھوںنے ایم اے کرنے کے بعد تعلیم چھوڑ دی تھی۔ میںنے اصرار کیا کہ وہ ڈاکٹریٹ بھی ضرور کریں۔ چناں چہ انھوں نے وہاں کی ایک یونی ورسٹی میں ڈاکٹریٹ کے لیے اپنا رجسٹریشن کروالیا۔
کچھ عرصے بعد دوبارہ مجھے اس مغربی شہر میں جانا پڑا۔ وہاں میں مذکورہ عرب نوجوان کے ساتھ مقیم تھا۔ انھوں نے بتایا کہ ڈاکٹریٹ کے لیے انھوں نے ریسرچ کا کام شروع کیا تھا، لیکن اب وہ چھوٹ گیا ہے۔ اب وہ مزید تعلیم کا کام نہیں کررہے ہیں۔ میں نے وجہ پوچھی تو انھوںنے بتایا کہ ایک عرب خاتون کے ساتھ انھوں نے شادی کی ہے۔ یہ عرب خاتون انگریزی زبان بالکل نہیںجانتیں۔ اِس بنا پر وہ یہاں باہر کاکوئی کام نہیںکرسکتیں۔ چناں چہ گھر کے سارے کام مجھ کو کرنے پڑتے ہیں۔
میں نے سخت انداز میں ان کو نصیحت کی۔ میں نے کہا کہ تعلیم کو چھوڑنے کے لیے یہ کوئی عذر نہیں۔ میںنے کہا کہ آپ تعلیم جاری رکھیں، بقیہ مسائل اپنے آپ حل ہوجائیں گے۔ میںنے اُن کو زندگی کا یہ فارمولا بتایا کہ — مسئلے کو حل نہ کرنا بھی مسئلے کو حل کرنے کا ایک طریقہ ہے:
Not to solve the problem, is also a way of salving the problem.
کچھ عرصے بعد تیسری بار مجھے اُس مغربی شہر جانے کا اتفاق ہوا۔ مذکورہ عرب نوجوان نے خوشی کے ساتھ بتایا کہ میںنے آپ کے بتائے ہوئے فارمولے پر عمل کیا، اور اب میری بیوی بقدر ضرورت انگریزی بولنا سیکھ گئی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ مجبورانہ صورتِ حال(compulsive situation) بھی مسئلے کو حل کرنے کی ایک کامیاب صورت ہے۔ مجبورانہ صورتِ حال اپنے آپ آدمی کے لیے ایک طاقت ور معلم بن جاتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

امتیازی صلاحیت

حضرت علی بن ابی طالب (وفات: 661ء) اسلامی تاریخ کی ایک عظیم شخصیت مانے جاتے ہیں۔ حکمت اور دانائی کے اعتبار سے اُن کا درجہ بہت بڑا ہے۔ ان کے اقوال اور ان کے خطبات پر مشتمل ایک مستقل کتاب تیار کی گئی ہے۔ اِس کتاب کا نام ’نہج البلاغۃ‘ ہے۔
حضرت علی بن ابی طالب کے اقوال میں سے ایک قول یہ ہے: قیمۃ المرء ما یُحسنہ۔ یعنی انسان کی قیمت اس کے امتیازی عمل میں ہے:
The value of a person lies in excellence.
یکساں قد کے انسانوں میں اگر کوئی شخص زیادہ اونچے قد کا ہو تو وہ دور سے لوگوں کو دکھائی دے گا۔ ایسا انسان فوراً لوگوں کی نظر میں آجائے گا۔ اِسی طرح جو شخص اپنے اندر کوئی امتیازی صفت رکھتا ہو، وہ فوراً لوگوں کو دکھائی دینے لگتا ہے۔ بہت جلد اُس کو لوگوں کے درمیان ممتاز مقام حاصل ہوجاتا ہے۔
امتیازی صفت اپنی کسی بالقوہ صلاحیت (potential) کو بالفعل(actual) بنانے کا نام ہے۔ ہر آدمی فطرت سے اپنے اندر کوئی اضافی صلاحیت (additional quality) لے کر پیدا ہوتا ہے۔ اپنی اِس اضافی صلاحیت کو دریافت کیجیے، اور خصوصی محنت کے ذریعے اس کو ترقی دیجئے۔ اِس کے بعد آپ ایک امتیازی صلاحیت کے مالک ہوجائیں گے۔ اور جو شخص امتیازی صلاحیت کا مالک ہو، وہ اپنے آپ لوگوں کے درمیان قبولیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہر آدمی اپنی پیدائش کے اعتبار سے ایک ممتاز آدمی ہے۔ لیکن یہ امتیاز ہمیشہ امکانی اعتبار سے ہوتا ہے۔ اِس امکان کو واقعہ بنانا انسان کا اپنا کام ہے۔ ہر عورت اور مرد کو چاہیے کہ وہ اپنے فطری امکان کو پہچانے، اور اپنی پوری توانائی کو صرف کرکے اِس امکان (potential) کو واقعہ (actual) بنائے۔ اِسی عمل میں کسی انسان کی امتیازی کامیابی کا راز چھپا ہوا ہے۔ اِسی عمل میں ناکام ہونے کا نام ناکامی ہے، اور اِسی عمل میں کامیاب ہونے کا نام کامیابی۔
واپس اوپر جائیں

اعتراف یا سرکشی

حضرت علی بن ابی طالب (وفات: 661 ء) کا قول ہے: اتّقِ شرَّ من أحسنتَ إلیہ (اُس آدمی کے شر سے بچو، جس کے ساتھ تم نے احسان کیا ہے)۔ اِسی طرح مشہور عرب شاعر المتنبّی (وفات: 965 ء) کا ایک شعر یہ ہے— اگر تم شریف آدمی کے ساتھ احسان کرو تو تم اس کو اپنا مملوک بنا لوگے، اور اگر تم ذلیل آدمی کے ساتھ احسان کرو تو وہ تمھارے مقابلے میں سرکش بن جائے گا:
إذا أنت أکرمتَ الکریمَ مَلَکتَہ وإنْ أنت أکرمتَ اللَّئیمَ تمرّدا
ایسا کیو ںہوتا ہے۔ اِس کا سبب اعتراف کا معاملہ ہے۔ جب آپ ایک آدمی کے ساتھ کوئی سلوک کرے تو اِس کے بعد یہ سوال ہوتا ہے کہ وہ آدمی اِس سلوک کو کس کے خانے میں ڈالے، وہ کس کو اُس کا کریڈٹ (credit) دے۔
ایسی صورتِ حال میں جب آدمی دینے والے کو اُس کا کریڈٹ دے تو اِس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دینے والا اُس سے بڑا ہے اور وہ خود اُس سے چھوٹا ہے۔ یہ اپنے مقابلے میں دوسرے کی بڑائی کا اعتراف کرنا ہے۔ اِس قسم کا اعتراف آدمی کی انا (ego) سے ٹکراتا ہے۔ دوسرے کا اعتراف کرنا خود اپنی نفی کے ہم معنیٰ ہوتا ہے۔ اِس قسم کا اعتراف کسی انسان کے لیے بلاشبہہ سب سے زیادہ مشکل چیز ہے۔ اِس لیے آدمی کسی کے احسان کا اعتراف کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔
یہ بے اعترافی کسی حد پر نہیں رکتی، مزید آگے بڑھ کر وہ سرکشی بن جاتی ہے۔ آدمی اپنے محسن کا درجہ گھٹانے کی کوشش میں لگ جاتا ہے، تاکہ اس کی بے اعترافی لوگوں کو ایک معقول اورجائز فعل نظر آئے۔ سرکشی کی یہ قسم دراصل اپنی بے اعترافی کے جواز کے لیے ہوتی ہے، خواہ شعوری طورپر، یا غیرشعوری طورپر۔ ایسا آدمی بھول جاتا ہے کہ اعتراف سب سے بڑی نیکی ہے اور بے اعترافی سب سے بڑی بُرائی۔ اعتراف شریف آدمی کی پہچان ہے، اور بے اعترافی ذلیل آدمی کی پہچان۔
واپس اوپر جائیں

سوال و جواب

سوال
علما اور فقہا عام طورپر یہ مانتے ہیں کہ اسلامی شریعت کے مصادر چار ہیں— قرآن، سنّت، اجماع، قیاس۔ آپ نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ اسلامی شریعت کے مصادر چار نہیں ہیں، بلکہ اصلاً وہ تین ہیں— قرآن ، سنّت اور اجتہاد۔ اِس کا ماخذ کیا ہے۔ براہِ کرم اِس کی وضاحت فرمائیں۔ (محمد ذکوان ندوی، نئی دہلی)
جواب
میںنے جو کچھ لکھا ہے، اُس کا ماخذ قرآن ہے۔ یہ ایک بے حد بنیادی مسئلہ ہے کہ شریعت کے مصادر کیا ہیں۔ اِس سوال کا جواب صرف وہی درست ہوسکتا ہے جو قرآن سے ثابت ہوتا ہو۔ قرآن سے کم درجے کا استدلال اِس معاملے میں معتبر نہیں۔
شریعت کے تین مصادر ہونے کی بات قرآن کی اِس آیت سے براہِ راست طورپر نکل رہی ہے: أطیعوا اللہ وأطیعوا الرسول، وأولی الأمر منکم (النّساء: 59 ) ۔ اِس آیت میں سب سے پہلے اللہ کی اطاعت کا ذکر ہے۔ اِس کا ماخذ بلا شبہہ قرآن ہے۔ اِس کے بعد اِس آیت میں اطاعتِ رسول کا ذکر ہے۔ اس کا ماخذ متفقہ طورپر پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت ہے۔ اس کے بعد اِس آیت میںتیسرے ماخذ کے طورپر أولی الأمر کا ذکر کیا گیا ہے۔
اُولوالامر (اصحابِ امر) کا نقطۂ نظر معلوم کرنے کا ذریعہ کیا ہے۔وہ قرآن کی ایک اور آیت سے معلوم ہوتا ہے۔ قرآن کی سورہ نمبر 4 میں کہاگیا ہے کہ اپنے معاملات کے لیے اصحابِ امر سے رجوع کرو، تاکہ وہ استنباط کرکے تم کو رہ نمائی دے سکیں (النساء: 83 )
سوال
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ اور رسول کی اطاعت کرو، اوراپنے اولو الامر کی اطاعت کرو (النساء: 59 )۔ اِس آیت میںاللہ اور رسول کی اطاعت کا معاملہ تو بالکل واضح ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ’اولوالامر‘ کی اطاعت سے کیا مراد ہے (محمد مصطفی عمری، نئی دہلی)۔
جواب
اولوالامر کا لفظی مطلب ہے: اصحاب امر، یعنی وہ لوگ جن کے اوپر مسلمانوں کے امورِتنظیم کی ذمے داری ہو۔ اِس آیت میںاولوالامر سے مراد کوئی وقتی گروہ نہیں ہے، بلکہ وہ ایک ایسا گروہ ہے جو ہر زمانے میں مسلمانوں کے درمیان موجود رہتا ہے۔ دنیوی اعتبار سے مسلمانوں کی جماعت دو قسم کے حالات میں ہوسکتی ہے۔ ایک، وہ جب کہ سیاسی حاکم موجود ہو۔ اور دوسرے وہ جب کہ مسلمانوں کی جماعت موجود ہو، لیکن وہاں سیاسی اعتبار سے کوئی مسلم حاکم موجود نہ ہو۔ اولوالامر کے شرعی معاملے کا تعلق حالات کے مطابق، دونوں قسم کی صورتِ حال سے ہے۔
ایسے حالات میں جب کہ مسلمانوں کا اپنا سیاسی نظام ہو اور کوئی مسلم حاکم ان کے اوپر حاکمانہ حیثیت رکھتا ہو، تو ایسی صورت میں اِسی مسلم حاکم کو اولو الامر کا درجہ حاصل ہوگا۔ تمام مسلمانوں کا فرض ہوگا کہ وہ اِس مسلم حاکم کی اطاعت کریں۔ کسی بھی عذر کی بنا پر وہ اس کے خلاف خروج (بغاوت) نہ کریں۔
دوسری صورت وہ ہے جب کہ مسلم جماعت کے اوپر ان کا اپنا سیاسی حاکم نہ ہو۔ ایسی حالت میں علمائِ اسلام مسلمانوں کی دینی تنظیم کے ذمے دار ہوں گے۔ ان کو غیر سیاسی دائرے میں مسلمانوں کے اوپر ناظم کی حیثیت حاصل ہوگی۔ دوبارہ تمام مسلمانوں کا یہ فرض ہوگا کہ وہ غیر سیاسی دائرے میں اِن علما کی اطاعت کریں۔ کسی بھی عذر کی بنا پر وہ ان کی دینی رہ نمائی کو ترک نہ کریں۔ اِس کے بغیر مسلمانوں کی ترقی اور ان کی اجتماعی تنظیم ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز— 184

1 - مکہ ریڈیو (جدّہ) نے 11 دسمبر 2007 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک تفصیلی انٹرویو لیا۔ یہ انٹرویو ٹیلی فون پر ریکارڈ کیا گیا۔ اس کے انٹرویور مسٹر سراج وہاب تھے۔ سوالات کا تعلق، موجودہ زمانے کے مسلمانوں کو پیش آمدہ مسائل سے تھا۔ ایک سوال کے جواب میں کہاگیا کہ قرآن کے مطابق، موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے مسائل کسی دوسرے کی سازش کا نتیجہ نہیں ہوسکتے۔ یہ مسلمانوں کی اپنی داخلی کم زوری کا نتیجہ ہیں۔ سب سے بڑی داخلی کم زوری یہ ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلم رہ نما، حدیث کے الفاظ میں: أن یکون بصیراً بزمانہ کا مصداق نہ بن سکے۔ اب سب سے زیادہ ضروری چیز ہے— اپنی موجودہ پالیسی پر نظر ثانی اور اپنی غلطیوں کو مان کر دوبارہ منصوبہ بندی۔
2 - انڈیا انٹرنیشنل سنٹر (نئی دہلی) میں 29 دسمبر 2007 کو ایک پروگرام ہوا۔انڈیا انٹرنیشنل سنٹر کے ہال میں یہ پروگرام صدر اسلامی مرکز کی تقریر کے لیے منعقد کیاگیا تھا۔ ہندو اور مسلمان دونوں اِس میں بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔ اِس تقریر کا عنوان یہ تھا:
The Role of Spirituality in Stress Management.
ابتدائی تعارف مسٹر رجت ملہوترا نے کیا۔ اس کے بعد صدر اسلامی مرکز نے تقریباً ایک گھنٹے تک تقریر کی۔ اس کے بعد سوال و جواب ہوا۔لوگوں نے تحریری سوالات کیے جن کا جواب دیاگیا۔ آخر میں اسلامی لٹریچر لوگوں کے درمیان تقسیم کیا گیا۔ اِس موقع پر گڈورڈ بکس کی طرف سے ہال کے باہر اسلامی کتابوں کا ایک اسٹال بھی لگایا گیا۔ لوگوں نے بڑی تعداد میں وہاں سے کتابیں حاصل کیں۔
3 - اسلامک کلچرل سنٹر (لودھی روڈ، نئی دہلی) میں 5 جنوری 2008 کو ایک انٹرنیشنل سیمنار ہوا۔ اِس میں انڈیا، پاکستان، بنگلہ دیش اور بعض دوسرے ملکوں کے علماء اور دانش ور شریک ہوئے۔ اِس کا موضوع یہ تھا:
Peace Building Process in Islam.
اِس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی، اور وہاں موضوع پر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایک تقریر کی۔ یہ پورا پروگرام انگریزی زبان میں تھا۔ اِس موقع پر تمام شرکاء کے درمیان سی پی ایس انٹرنیشنل کی طرف سے انگریزی میں چھپے ہوئے دعوتی لٹریچر تقسیم کیے گئے۔
4 - شری رام اسکول (گُڑ گاؤں) میں ’’تعارفِ اسلام‘‘ کے موضوع پر 18 جنوری 2008 کو ایک پروگرام ہوا۔ اِس میں اسکول کے سینئر طلبا اور اساتذہ شریک ہوئے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ اِس پروگرام کا آغاز نماز سے ہوا۔ تمام طلبا اور اساتذہ نماز میں شریک ہوئے۔ ان کے سامنے نماز کی اہمیت بتائی گئی اور سادہ انداز میں اسلام کا تعارف پیش کیاگیا۔ اس موقع پر سی پی ایس ٹیم کے افراد بھی وہاں موجود تھے۔ پروگرام کے بعد انھوں نے طلبا اور اساتذہ سے انٹریکشن کیا اور ان کے درمیان دعوتی لٹریچر تقسیم کیا۔ خاص طورپر قرآن کے انگریزی ترجمے کی ایک ایک کاپی بھی ان کو بطور ہدیہ پیش کی گئی۔ طلبا نے اس کو بہت شوق سے لیا اور اپنی دل چسپی کا اظہار کیا ۔
5 - ای ٹی وی (نئی دہلی) کے اسٹوڈیو میں 19 جنوری 2008 کو ایک پینل ڈسکشن تھا۔ اس کے اینکر مسٹر عبید صدیقی تھے اِس ڈسکشن کا عنوان یہ تھا:
Did Benazir Bhutto pay the price of going against fundamentalism.
بے نظیر بھٹو (سابق وزیر اعظم پاکستان) کو 28 دسمبر کو پاکستان (راول پنڈی) میں قتل کردیاگیا۔ اُس وقت ان کی عمر 54 سال تھی۔ اِس ڈسکشن میںحصہ لینے کے لیے صدر اسلامی مرکز کو بھی بلایا گیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ بے نظر بھٹو کا قتل ان کی اپنی نادانی کے سبب ہوا:
Benazir Bhutto paid the price of going against reason.
بے نظیر بھٹو دوبار پاکستان کی وزیر اعظم بن چکی تھیں۔ حالات واضح طورپر بتارہے تھے کہ اب ان کے لیے تیسری بار وزیر اعظم بننے کا امکان نہیں ہے۔ اِس کے باوجود وہ لندن کا قیام چھوڑ کر پاکستان گئیں۔ یہ ان کے لیے مشہور انگریزی مثل کا مصداق تھا:
Fools rush in where angels fear to tread
6- 22 January, 2008
I have just recieved the Dawah packet containing brochures, and CDs and two books on Reality of life- No doubt, a great message of Peace and Non-violence to the world at unrest. Congratulations to Maulana Sahab, and to the CPS team for doing this great humanitarian/philanthropic work– that , in fact, is the need of the hour. I will give these brochures to Islamic libraries here in Asmara- so that this message of peace should reach to maximum people.
(Dr. M. Ashaq Malik, Assistant Professor & Director of Research, Eritrea Institute of Technology, Africa)
7 - سائی انٹر نیشنل سنٹر (نئی دہلی) میں 23 جنوری 2008 کو ایک پروگرام ہوا۔ اِس پروگرام میں کیندریہ نوودیہ ودّیالیہ کے پرنسپل حضرات شریک ہوئے۔ اس کا موضوع تھا— اسلام میں انسانی اقدار کا بنیادی تصور۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ اورموضوع کے مطابق، قرآن اور حدیث کی روشنی میں آدھ گھنٹے تقریر کی۔ تقریر کے بعد سوال اور جواب کا پروگرام تھا۔ اِس موقعے پر سی پی ایس انٹرنیشنل (نئی دہلی) کی ٹیم کے افراد بھی وہاں موجود تھے۔ انھوںنے حاضرین کے درمیان انگریزی میں چھپے ہوئے خوب صورت پمفلٹ اور بروشر تقسیم کیے۔
8- 25 January, 2008
I would like to inform you that yesterday night I was changing channels of my tv and on ETV Urdu I saw you and stopped there I attracted to your personality. I went on watching and listening to your program until it finished. I was really impressed by your intellectual conversation and noted your website from where I got your email address when I arrived at my office.
On website I read your brief life sketch and observed Almighty Allah has blessed you to work for the peace and harmony among the human beings. Masha'Allah, it is a great blessing.
I would request you to kindly keep me in your prayers and would like to seek guidance from your goodself for better life here and after. (K. B. Shakir, Karachi, Pakistan)
9 - الرسالہ جون 2007 کے شمارے میں شائع ایک مضمون کے خلاف پورے دو ماہ بعد اگست 2007 میں سری نگر میں بعض واعظین، ائمہ مساجد اور دانشوروں کی طرف سے سخت رد عمل سامنے آیا۔ذاتی طورپر اگرچہ مجھے آپ کی ہر تحریر سے مجموعی طور پر ہمیشہ اتفاق رہا ہے لیکن اس بار میں خود بھی سخت کنفیوژن کا شکار ہوگیا تھا کہ ایک طرف قرآن وحدیث کے گہرے مطالعہ وتحقیق کے بعد مجھے الرسالہ کی تحریروں میں آج تک کوئی قابل اعتراض اور خلاف اسلام بات نظر نہیں آئی ہے ۔الرسالہ ہی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے میرے اندر دینی شعور بخشا، دعوت و تبلیغ کا جذبہ ابھارا، مطالعہ و تحریر کی تحریک دی اور اسلام کو از سرِ نو دریافت کرنے کا ذوق پیدا کیاہے۔ لیکن دوسری طرف اس بار یہ بات میرے قلب و ذہن کو اندر ہی اندر کھائے جارہی تھی کہ لوگ الرسالہ کی کیوں اتنی زیادہ مخالفت کررہے ہیں۔میںاسی ذہنی کشمکش میں تھا اور یہ سوچ رہا تھا کہ کاش کسی بڑے اور معتبر عالم دین سے معلوم ہوجائے کہ الرسالہ کے بارے میں وہ کیا رائے رکھتا ہے۔ لیکن بظاہر ہندستان میں اس طرح کا کوئی قابل اعتماد عالم دین میری نظر میں نہیں تھا کہ جس سے میں خط کے ذریعے الرسالہ کے بارے میں اس کی رائے دریافت کرتا اور وہ بھی خدا ترسی کے ساتھ اپنی رائے کا اظہار فرماتا۔
اس طرح میںاسی اضطراب وبے چینی میںمبتلا تھا کہ10 اگست2007 کو میںنے ایک خواب دیکھا۔ میں نے دیکھا کہ آپ ہمارے گھر میں تشریف فرما ہیں۔ چہرے پر خاص بشاشت نمایاں طورپر نظر آرہی ہے، آپ کمرے کے ایک طرف تکیہ لگائے ہوئے بیٹھے ہیں اور دوسری طرف آپ کے مقابل میں ہندستان کے مایہ ناز اور ممتاز عالمِ دین مولانا ابو الکلام آزاد تشریف فرما ہیں۔ چوں کہ میں ذاتی طورپر مولانا ابو الکلام آزاد اور آپ سے بہت زیادہ متاثر ہوں او راستفادہ بھی بہت کیا ہے۔ لیکن موجودہ دور میں میں صرف آپ کو امت مسلمہ کا حقیقی اور واحد قائد اور رہنما مانتا ہوں۔ اس لحاظ سے آپ کو اور مولانا آزاد کو ایک ساتھ خواب میں دیکھنا میرے لیے بہت اچھا اور نیک شگون تھا۔ میرے گھر میں میرے سوا دوسرے افراد بھی تھے لیکن وہ سب آپ کی طرف متوجہ تھے اور آپ کی نصیحت سے لبریز باتوں کو توجہ سے سن رہے تھے۔ چناں چہ میں اس وقت موقع غنیمت جانتے ہوئے مولانا ابوالکلام آزاد سے الرسالہ
اور آپ کے بارے میں دریافت کرنے لگا۔ مولانا آزاد نے مسکراتے ہوئے مجھے سے قلم اور کاغذ لانے کے لیے کہا، میں نے یہ دونوں چیزیں حاضر کردیں۔ مولانا آزاد نے بڑے اچھے اور خوشگوار موڈ میں ایک پورا صفحہ لکھ کرمجھے دیا۔ میں نے اس تحریر کو دیکھے بغیر پہلے آپ کو پڑھنے کے لیے دے دیا۔ آپ اس تحریر کو پڑھ رہے تھے اور مسکراتے ہوئے نظر آرہے تھے۔ اس دوران میں محسوس کررہا تھا کہ مولانا آزاد نے جس عقیدت ومحبت کے ساتھ اس تحریر کو لکھا اور آپ نے جس اطمینان وتسکین کے ساتھ اس کو پڑھا اس سے یہی سمجھ میںآرہا تھا کہ مولانا آزاد نے آپ کے اور الرسالہ کے بارے میں ضرور مثبت رائے کا اظہارفرمایا ہوگا۔ اس کے بعد میں نے چاہا کہ میں بھی اس تحریر کو پڑھوں لیکن میںاس تحریر کو پڑھے بغیر نیند سے جاگ گیا۔
میں نے پھر اپنے طورپر جب اس خواب پر غور کیا تو میری سمجھ میں آیا کہ الرسالہ کوئی عام پرچہ نہیں ہے بلکہ یہ اپنی نوعیت کا پورے عالم اسلام میں واحد پرچہ ہے اور اصولی طور پر تمام علماء ربانی اس سے متفق ہیں اور اس سے انھیں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ جیسا کہ ایک دفعہ مولانا عبد الباری ندوی مرحوم نے بھی آپ کے متعلق کہا تھا کہ آپ جدید طبقہ کے لیے مبعوث ہیں بلا شبہ بات درست ہے۔حقیقت یہ ہے کہ مخالفین کی طرف سے ہر طرح کی بہتان طرازی والزام تراشی اور کردار کشی ودشنام طرازی کے باوجود الرسالہ مشن اپنے منزل مقصود کی طرف رواں دواں ہے اور آپ کی تحریریںجو قرآن وحدیث کی صحیح تعبیر وتشریح پر مبنی ہیں، شائع ہور ہی ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو علم و بصیرت کے سب سے اونچے منصب پر فائز فرمایا ہے۔ کیوں کہ خصوصاً آج کل الرسالہ میں جو تحریریں شائع ہوتی ہیں وہ بہت زیادہ ذہانت کی پختگی اور قرآن وحدیث پر زیادہ گہرے غور وفکر کی عکاسی کرتی ہیں۔
میںاپنے اس خط کے ذریعہ کھلے لفظوں میں اس حقیقت کا اقرار کرنا چاہتا ہوں کہ میں آپ کے فکر ونظر سے مکمل اتفاق رکھتا ہوں اور اسی جذبہ خلوص و محبت کے تحت میں نے یہ خط لکھا ہے (غلام نبی کشافی، سری نگر، کشمیر،26 جنوری 2008)۔
10- 28 January 2008
Maulana please accept my gratitude on giving me the actual face of Islam which was always in my mind. Luckily I was not reading religious books so I couldn't develop those kind of two great evils namely, bias and rigidness. Where I am working a friend of mine introduced your literature and the only thing that came out of my mind was that this is the actual face of Islam. I feel so fortunate that Allah has guided me through you. You are the real and only scholar of Islam in my view. May Allah succeed your sincere efforts of spreading Islam in its real form.
(Waseem Nasir)
11 -یکم فروری 2008 کو اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کا ایک وفد اسلامی مرکز میں آیا۔ یہ مختلف مغربی ملکوں کے لوگ تھے۔ یہ ایک درجن افراد تھے۔ اُن میں سے چند افراد کے نام یہ ہیں:
Linda Shehy, Rachel Gould, Inger Thoresen, Gill Bleaden, Pat Bartlett.
ِیہ لوگ مذاہب کے مطالعے کے لیے انڈیا آئے ہیں۔ اسلام کو سمجھنے کے لیے وہ صدر اسلامی مرکز سے ملے۔ اِن لوگوں سے اسلام کے مختلف موضوعات پر ڈیڑھ گھنٹے تک گفتگو ہوئی۔ انھوں نے بہت دھیان کے ساتھ تمام باتوں کو سنا۔ آخرمیں اُنھیں انگریزی میں اسلامی لٹریچر دیاگیا۔ اِس کو انھوں نے بہت شوق سے لیا۔ انھوں نے کہا کہ آج اسلام کے بارے میں ہماری بہت سی غلط فہمیاں دور ہوگئیں۔
واپس اوپر جائیں