Pages

Saturday 1 March 2014

Al Risala | March 2014 (الرسالہ،مارچ)

2

-علم کی شہادت

3

- حق کا اعتراف نہ کرنا

4

- جنت کا تمدنی تعارف

5

- پیغمبر کا کردار

6

- نقطۂ آغاز

7

- سکون کا راز

8

- قرآن خوانی یا قرآن ڈسٹری بیوشن

9

- علم کی اہمیت

10

- ایک پیغمبر انہ اسوہ

12

- فکری تعدّد، فکری حریت

13

- آئڈیالوجی یا نظام

27

- دورِ شرک، دورِ الحاد

33

- استثنائی شخصیت

40

- ایک سبق آموز واقعہ

41

- برتر حساسیت

42

- ایک اور موقع

43

- سوال وجواب


علم کی شہادت

قرآن کی سورہ الانشقاق کی چند آیتیں یہ ہیں: فَلَآ اُقْسِمُ بِالشَّفَقِ ؀ وَالَّیْلِ وَمَا وَسَقَ ؀ وَالْقَمَرِ اِذَا اتَّسَقَ ؀ لَتَرْکَبُنَّ طَبَقًا عَنْ طَبَقٍ ؀ فَمَا لَہُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ (84:16:20) یعنی پس نہیں، میں قسم کھاتا ہوں شفق کی- اور رات کی اور اُن چیزوں کی جن کو وہ سمیٹ لیتی ہے- اور چاند کی جب وہ پورا ہوجائے، کہ تم کو ضر ور ایک حالت کے بعد دوسری حالت پر پہنچنا ہے، تو انھیں کیا ہوگیا ہے کہ وہ ایمان نہیں لاتے:
...you will progress from stage to stage, so what is the matter with them that they believe not. (84:19-20)
قرآن کی یہ آیتیں ساتویں صدی عیسوی کے ربع اول میں اتریں- اُس وقت اِن آیتوں میں ایک ایسا بیان دیاگیا جو ساتویں صدی عیسوی سے لے کر اکیسویں صدی کے بعد تک پھیلا ہوا تھا- بعد کے حالات نے قرآن کی اِس پیشین گوئی کو عین درست ثابت کیا- یہ واقعہ، دوسرے واقعات کی طرح، اِس بات کا ثبوت ہے کہ قرآن خداوند عالم الغیب کی کتاب ہے، کیوں کہ عالم الغیب کے سوا کوئی اور مستقبل کے بارے میں اِس قسم کا بیان دینے پر قادر نہیں-علمِ انسانی کی تاریخ بتاتی ہے کہ کائنات کے بارے میں انسان کا مطالعہ جاری رہا، یہاں تک کہ برٹش سائنس داں نیوٹن کے زمانے میں یہ فرض کرلیا گیا کہ کائنات کا بلڈنگ بلاک، مادّہ (matter) ہے- مگر انسانی علم کا سفر مزید آگے بڑھا-بعد کی تحقیقات نے اِس مفروضے کی تردید کردی- جرمن سائنس داں آئن سٹائن کے زمانے میں یہ مفروضہ قائم کیا گیا کہ کائنات کا بلڈنگ بلاک، انرجی (energy) ہے- مگر انسانی علم کا یہ سفر مزید آگے بڑھا- بعد کی تحقیقات نے بتایا کہ یہ مفروضہ درست نہ تھا- فریڈہائل (Fred Hoyle) کے زمانے میں یہ دریافت ہوا کہ کائنات کا بلڈنگ بلاک انٹیلیجنس (intelligence) ہے- انسانی علم کا یہ سفر جاری رہا، یہاں تک کہ اکیسویں صدی میں علمی اعتبار سے یہ دریافت ہوگیا کہ کائنات میں ایک انٹیلجنٹ ڈزائن (intelligent design) موجود ہے-
واپس اوپر جائیں

حق کا اعتراف نہ کرنا

قرآن کی سورہ الجاثیہ کی ایک آیت یہ ہے: وَاٰتَیْنٰہُمْ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْاَمْرِ ۚ فَمَا اخْتَلَفُوْٓا اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَہُمُ الْعِلْمُ ۙ بَغْیًۢا بَیْنَہُمْ ۭ اِنَّ رَبَّکَ یَقْضِیْ بَیْنَہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فِیْمَا کَانُوْا فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ (45:17) یعنی ہم نے ان کو امرِ دین کے بارے میں کھلی دلیلیں دیں، پھر انھوں نے اختلاف نہیں کیا، مگر اس کے بعد کہ اُن کے پاس علم آچکا تھا، آپس کی ضد کی وجہ سے- بے شک تیرا رب قیامت کے دن اُن کے درمیان فیصلہ کردے گا، اُن چیزوں کے بارے میں جن میں وہ باہم اختلاف کرتے تھے-
قرآن کی اِس آیت میں پچھلے پیغمبروں کا ذکر ہے- اس میں بتایا گیا ہے کہ اِن پیغمبروں کے مخاطبین نے ہمیشہ منفی رسپانس دیا - یہ مخاطبین کون تھے- یہ سب پچھلے پیغمبروں کی امت تھے- ہر آنے والا نبی کسی نہ کسی سابق پیغمبر کی امت میں آیا- مثلاً حضرت نوح امت آدم میں آئے- حضرت ابراہیم امتِ نوح میں آئے- حضرت موسی امتِ اسرائیل میں آئے- حضرت مسیح امتِ موسی میں آئے- حضرت محمد امتِ ابراہیم میں آئے، وغیرہ- ہر بعد کو آنے والے نبی نے پچھلے نبی کی اصل ہدایت کو زندہ کرنا چاہا، مگر ہمیشہ ایسا ہوا کہ لوگوں کی اکثریت پیغمبر کی دعوت کا مثبت رسپانس دینے سے عاجز رہی-
علم آنے کے باوجود لوگوں نے اختلاف کیا — اِس آیت میں علم سے مراد وہ ہدایت ہے جو بعد کے پیغمبر کے ذریعے انھیں پہنچی تھی- اُن کے انکار کا سبب بغی تھا- بغی کا لفظی مطلب ہے: انحراف (transgression)- ہر نبی کی امت کی بعد کی نسلوں میں ابتدائی دین سے انحراف پیدا ہوتا ہے- اس کے بعد مزید ایسا ہوتا ہے کہ علما اور رہنما اپنی اپنی ریاست (leadership) قائم کرنے کے لیے مزید انحرافات کرتے ہیں- اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ امت بہت سے فرقوں میں بٹ جاتی ہے- یہ تمام لوگ نئے پیغمبر کی بات کو ماننے سے انکار کردیتے ہیں- اِس انکار کا سبب یہ ہوتا ہے کہ ہر ایک یہ محسوس کرتاہے کہ اگر وہ نبی کی بات مانے تو اس کو اپنے خود ساختہ مذہب کے غلط ہونے کا اعتراف کرنا پڑے گا-
واپس اوپر جائیں

جنت کا تمدنی تعارف

قرآن کی سورہ محمد میں بتایا گیا ہے کہ وہ کون لوگ ہیں جو آخرت کی دنیا میں جنت میں داخلے کے مستحق قرار پائیںگے۔ اِس سلسلے میں قرآن میں یہ آیت آئی ہے: وَیُدْخِلُہُمُ الْجَــنَّةَ عَرَّفَہَا لَہُمْ(47: 6)یعنی اللہ اُن کو جنت میں داخل کرے گا جس کی اُس نے اُنھیں پہچان کرادی ہے۔
اِس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت کی پہچان سے جنت میں داخلے کا استحقاق پیدا ہوتا ہے۔ موجودہ دنیا میں جو لوگ جنت کو پہچان کے درجے میں پالیں، وہی وہ لوگ ہیں جو آخر ت میں واقعہ کے طورپر جنت میں داخلے کے مستحق قرار پائیں گے۔
جس آدمی کی معرفت اتنی گہری ہو کہ وہ جنت کا حریص بن جائے، وہ جنت کے اشتیاق میں جینے لگے، ایسا آدمی اِسی دنیا میں جنت کا تعارف حاصل کرلیتا ہے۔ وہ دیکھنے سے پہلے جنت کو دیکھنے لگتا ہے۔ وہ داخلے سے پہلے جنت کا ادراک کر لیتا ہے۔
جنت کا یہ تعارف کسی آدمی کو ابتداء ً قرآن کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔ قرآن سے کسی آدمی کے اندر جنّتی غور وفکر کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ اِس کے بعد جنت کے عملی تعارف کے لیے دو خاص ذریعے ہیں— فطری تعارف، اور تمدنی تعارف۔ فطری تعارف سے مراد وہ تعارف ہے جو مناظرِ فطرت کے ذریعے کسی انسان کو حاصل ہوتا ہے۔ فطرت کے مناظر گویا کہ جنت کا بعید تعارف ہیں۔
جنت کا تمدنی تعارف پہلی بار موجودہ زمانے میں ممکن ہوا ہے۔ جدید تہذیب نے جو ترقی یافتہ دنیا بنائی ہے، وہ گویا کہ جنت کا تمدنی تعارف ہے۔ جدید تہذیب (modern civilization)کی پیداکردہ مادی سہولتیں گویا کہ جنت کی پُر راحت دنیا کا ابتدائی تجربہ کرارہی ہیں۔ مناظرِ فطرت کے ذریعے گویا کہ خود خالق کی طرف سے جنت کے تعارف کا اہتمام کیاگیا ہے— انسان کے اندر اگر معرفت کا شعور بیدار ہوچکا ہو تو وہ مناظرِ فطرت میں جنت کے باغوں کو دیکھے گا، اور جدید تمدنی ترقیوں کے ماحول میں جنت کا ابتدائی مشاہدہ کرے گا۔
واپس اوپر جائیں

پیغمبر کا کردار

قرآن کی سورہ ص میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے: قُلْ مَآ اَسْـَٔــلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُتَکَلِّفِیْنَ (38:86) یعنی کہو کہ میں اِس پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا، اور نہ میں تکلف کرنے والوں میں سے ہوں:
Say, “I do not ask you for any recompense for this, nor am I a man of pretentions”.
اصل یہ ہے کہ دنیا میں کام کرنے کے دوطریقے ہیں— ایک ہے مشن کے طورپر کرنا اور دوسرا ہے پروفیشن کے طورپر کرنا- پروفیشن کے طورپر کام کرنے والے کا نشانہ کسبِ مال یا کسب منفعت ہوتا ہے- مثلاً میڈیکل پروفیشن، لیگل پروفیشن، ٹیچنگ پروفیشن، وغیرہ- پروفیشن کے طورپر جو شخص کام کرے، وہ اُس وقت اپنے پروفیشن کو چھوڑ دیتا ہے یا بدل دیتا ہے جب کہ اس کو اپنے پروفیشن سے نفع نہ ملے،لیکن مشن کا معاملہ اِس سے مختلف ہے- مشن آدمی کا مقصدِ حیات ہوتا ہے- ایسا آدمی نفع اور نقصان سے بلند ہو کر اپنے مشن کو جاری رکھتا ہے، یہاں تک کہ اِسی حال میں اس کو موت آجائے-
پیغمبرپورے معنوں میںایک صاحبِ مشن انسان ہوتا ہے- اس کا مشن ہی اس کی زندگی کا مقصد ہوتا ہے- پیغمبر کی رہنما اس کی اپنی معرفت ہوتی ہے، نہ کہ دوسروں کا رویہ، وہ دوسرے کے رد عمل سے اوپر اٹھ کر اپنا کام انجام دیتاہے- پیغمبر کا یہی نمونہ داعی سے بھی مطلوب ہے- حق کا داعی صرف وہ شخص ہے جو پیغمبر کے اِس نمونے پر پورا اترے ،جس کا دعوتی اسلوب خالص حق کی معرفت کی بنیاد پر بنا ہو، جو کسی بھی اعتبار سے اجر کا طالب نہ ہو- مال یا شہرت یا مقبولیت یا کوئی بھی مادی انٹرسٹ (material interest) اس کا مقصود نہ ہو- اِسی لیے دعوت کے کام کو دعوت الی اللہ کا کام کہاگیا ہے- داعی کو اِس کی پروا نہیں ہوتی کہ لوگ اس کی بات کو پسند کریں گے یا ناپسند- وہ چیزوں کو صرف اللہ کی نسبت سے دیکھتا ہے، نہ کہ انسان کی نسبت سے-
واپس اوپر جائیں

نقطۂ آغاز

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی عام پالیسی اجتماعی معاملات میںکیا تھی۔ اس کے بارے میں حضرت عائشہ کی ایک روایت اِن الفاظ میں آئی ہے: ماخُیِّر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بین أمرین، إلا اختار أیسرھما (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 6318) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی دو طریقوں میں سے ایک طریقے کا انتخاب کرنا ہوتا توآپ ہمیشہ آسان طریقے کا انتخاب کرتے:
Whenever the Prophet had to choose between the two, he always opted for the easier course, rather than the harder one.
’’آسان طریقہ‘‘ کیا ہے، آسان طریقہ دراصل پُرامن طریقہ (peaceful method) کا دوسرا نام ہے۔ زندگی میں اکثر پُرامن طریقِ کار اور متشددانہ طریقِ کار (violent method)کے درمیان انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ یہ واضح ہے کہ متشددانہ طریقِ کار کے مقابلے میں پرامن طریقِ کار ہمیشہ آسان ہوتاہے۔ متشددانہ طریقِ کار میں ہمیشہ کسی سے ٹکراؤ کرنا پڑتاہے، جب کہ پرامن طریقِ کار میں کسی سے ٹکراؤ کی ضرورت نہیں۔
موجودہ دنیا آزادی اور مسابقت (competition)کے اصول پر قائم ہے۔ اِس دنیا میں ہمیشہ اختلافات پیدا ہوتے ہیں۔ یہاں ہمیشہ ایسے اسباب پیش آتے ہیں جو دو گروہوں کے درمیان نزاع کی صورت پیدا کردیں۔ ایسے موقع پر ٹکراؤ کا طریقہ اختیار کرنا، غیر پیغمبرانہ طریقہ ہے، اور ٹکراؤ کا طریقہ چھوڑ کر اپنے عمل کی پرامن منصوبہ بندی کرنا، پیغمبر کا طریقہ۔
خدا نے پیغمبر کے طریقے میں کامیابی رکھی ہے اور غیر پیغمبرانہ طریقے میں ناکامی۔ ایسی حالت میں، جو لوگ پیغمبر کے طریقے کو نظر انداز کریں اور وہ غیرپیغمبرانہ طریقے پر اپنی تحریک چلائیں، وہ اپنے لیے بیک وقت دو خطرے مول لے رہے ہیں— ایک یہ کہ اللہ کے نزدیک اُن کا ایمان بالرسول مشتبہ ہوجائے، اور دوسرے یہ کہ خدا کی اِس دنیا میں ان کی تحریک کبھی کامیابی کی منزل تک نہ پہنچے۔
واپس اوپر جائیں

سکون کا راز

ایک صاحب سے ملاقات ہوئی-انھوں نے بتایا کہ وہ ایک مشہور درگاہ میں گئے- وہاں وہ قبر کے پاس آنکھ بند کرکے بیٹھے اور ایک گھنٹے تک مراقبہ (meditation) کرتے رہے- اُن کے بیان کے مطابق، وہاں اُن کو سکون حاصل ہوا- یہ کوئی ایک مثال نہیں، ایسے لوگ بڑی تعداد میں موجود ہیں جو قبروں کی زیارت کے لیے جاتے ہیں اور ان کے بیان کے مطابق، وہاں ان کو سکون حاصل ہوتا ہے-
اِس’’ سکون‘‘ کا سرچشمہ خارج میں نہیں ہے، بلکہ داخل میں ہے- یہ سکون کوئی حقیقی سکون نہیں ہوتا، وہ ایک فرضی سکون (false peace) ہوتا ہے جو خود اپنی نفسیات کی بنا پر ان کو حاصل ہوتا ہے- اگر اُن سے مزید سوال کیا جائے تو وہ یقینی طورپر اِس کی کوئی عقلی توجیہ پیش نہیں کرسکیں گے- ایسے لوگ ہمیشہ ایک موہوم عقیدے میں جیتے ہیں، نہ کہ عقلی طورپر دریافت کردہ حقیقت میں-
اِس قسم کا واقعہ عام طور پر ہندستان جیسے ملک کا ایک ظاہرہ ہے- جو آدمی یہاں کے ماحول میں پیدا ہوتا ہے، وہ بچپن سے ماضی کے بزرگوں کی کہانیاں سنتا ہے جو زیادہ تر فرضی اور افسانوی ہوتی ہیں- آدمی جب بڑا ہوتا ہے تو یہ کہانیاں اس کے لاشعور کا حصہ بن چکی ہوتی ہیں- عقلی تجزیہ نہ کرنے کی وجہ سے وہ اُن کہانیوں کو حقیقت سمجھ لیتا ہے- ایسے آدمی کو جب زندگی کے عملی تجربات ہوتے ہیں تو وہ محسوس کرتا ہے کہ وہ جزئی یا کلی طورپر ذہنی سکون (peace of mind) سے محروم ہوگیا- اُس وقت اس کو تلاش ہوتی ہے کہ کوئی چیز ہو جو اس کو ذہنی سکون دے سکے-
اِس نفسیاتی حالت میں اُس کو ماضی کے اُس بزرگ کی یاد آتی ہے جن کی مفروضہ تصویر کی بنا پر وہ سمجھتا رہا ہے کہ وہ عام انسانوں کے مقابلے میں ایک برتر انسان تھے- اِسی نفسیاتی حالت کے ساتھ وہ کسی بزرگ کی درگاہ میں جاتا ہے اور وہاں کے ایک گوشے میں آنکھ بند کرکے بیٹھتا ہے- اُس وقت، اپنی مخصوص نفسیات کی بنا پر، اس کو بظاہر ایک قسم کا سکون محسوس ہوتا ہے، مگر اِس قسم کا سکون ہمیشہ وقتی ہوتا ہے- مستقل سکون وہ ہے جو شعوری عمل کے نتیجے میں انسان کو حاصل ہو، نہ کہ محض موہوم عقیدے کی بنا پر-
واپس اوپر جائیں

قرآن خوانی یا قرآن ڈسٹری بیوشن

ڈاکٹر محمد نسیم صدیقی (نئی دہلی) سی پی ایس ٹیم کے ایک سینئر ممبر تھے- اُن کو دعوتی کام سے بہت دلچسپی تھی- 4 دسمبر 2013 کو 80 سال کی عمر میں اُن کا انتقال ہوگیا- انتقال سے پہلے جب کہ وہ بیماری کی حالت میں تھے، تو اکثر وہ کہتے تھے کہ — اللہ نے مجھے صحت دی تو میں اپنی بقیہ زندگی قرآن کو پھیلانے میں لگاؤں گا- انھوں نے قرآن کو وسیع پیمانے پر پھیلانے کا ایک نقشہ بھی تیار کرلیا تھا-
ڈاکٹر محمد نسیم صدیقی کی اِس نیت کا اُن کے اہلِ خاندان پر بہت اثر ہوا- انھوں نے طے کیا کہ وہ ڈاکٹر صدیقی کی اِس آخری خواہش کو بطور مشن اختیار کریںگے- عام رواج کے مطابق، انھوں نے یہ نہیں کیا کہ مرحوم کے انتقال کے بعد اپنے یہاں ’’قرآن خوانی‘‘ کا اہتمام کریں- اِس کے بجائے انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ قرآن کے تراجم (Translations of the Quran) کو عالمی سطح پر پھیلائیں گے، یعنی قرآن خوانی کے بجائے قرآن ڈسٹری بیوشن-
مسلمانوں میں عام رواج ہے کہ جب فیملی کے کسی ممبر کا انتقال ہوتا ہے تو وہ ایصالِ ثواب کے نام سے قرآن خوانی کا اہتمام کرتے ہیں- یہ بلاشبہ ایک ایسا عمل ہے جس کی کوئی اصل قرآن اور سنت میں موجود نہیں- اِس کے بجائے لوگوں کو یہ کرنا چاہیے کہ وہ اِس مقصد سے، قرآن خوانی کے بجائے قرآن ڈسٹری بیوشن کا کام کریں- قرآن ڈسٹری بیوشن یا قرآن کے تراجم کی عمومی اشاعت ایک ایسا کام ہے جو دونوں کے لیے باعثِ رحمت ہے، وفات یافتہ شخص کے لیے بھی اور خاندان کے افراد کے لیے بھی- اِس عمل میں دونوں کے لیے یکساں درجے کا اجر ہے- ضرورت ہے کہ ہر مسلم خاندان اِس طریقے پر عمل کرے- موجودہ زمانے میں قرآن کے ترجمے ہر زبان میں موجود ہیں- اپنے حالات کے لحاظ سے ہر خاندان کسی ترجمے کا انتخاب کرسکتا ہے- قرآن ڈسٹری بیوشن کا فائدہ صرف ’’ایصالِ ثواب‘‘ کے لیے نہیں ہے، بلکہ دوسرے بہت سے فائدے بھی اُس سے یقینی طورپر حاصل ہوتے ہیں- مثلاً اسلام کے بارے میں غلط فہمیوں کا خاتمہ، مذہبی ہم آہنگی، دینی تعلیمات کا فروغ، قرآنی کردار کی تعمیر، وغیرہ-
واپس اوپر جائیں

علم کی اہمیت

علم کی اہمیت کے بارے میں ایک حدیثِ رسول اِن الفاظ میں آئی ہے: من جاءہ الموت وہو یطلب العلم لیحیی بہ الإسلام فبینہ وبین النبیین درجة واحدة فی الجنة (سنن الدارمی، رقم الحدیث:354 ) یعنی جس شخص پر اِس حال میں موت آئے کہ وہ علم اِس لیے سیکھ رہا ہو، تاکہ وہ اُس کے ذریعے اسلام کا احیا کرے، تو جنت میں اُس کے اور پیغمبروں کے درمیان صرف ایک درجے کا فرق ہوگا-
اِس حدیث کا مطلب بوقتِ مرگ علم سیکھنا نہیں ہے، بلکہ تادمِ مرگ علم کی طلب میں مشغول رہنا ہے- علم کے معاملے میں اصل تفریق علم دین اور علم دنیا کی نہیں، بلکہ یہ فرق نیت کے اعتبار سے ہے- دنیا کا علم بھی عین علمِ دین بن سکتا ہے-
حقیقت یہ ہے کہ ایک شخص نے اگر دین کو اپنا مقصدِ حیات بنا لیا ہو، اُس نے پیغمبرانہ مشن کو اپنی زندگی کا نشانہ بنا رکھا ہو تو اس کا ہر علم پیغمبرانہ مشن کے لیے استعمال ہونے لگے گا- ہر علم اُس کے یقین میں اضافہ کرے گا اور ہر علم اس کے لیے اس کے مشن کی تقویت کا ذریعہ بن جائے گا-
علم کی طلب کوئی وقتی چیز نہیں - ایک سچا مومن اپنی پوری عمر کے لیے علم کا طالب بن جاتا ہے- اگر آدمی کے اندر صحیح معنوں میں علم کا ذوق ہو تو وہ اپنے ہر تجربے میں علم کا رزق پاتا رہے گا- وہ کسی کتاب کا مطالعہ کرے گا تو اس کا ذوق کتاب کے ہر مضمون کو اس کے لیے حصولِ علم کا ذریعہ بنا دے گا- وہ کسی سے گفتگو کرے گا تو وہ اپنے جذبۂ تعلُّم (spirit of learning) کی بنا پر اُس سے نئی نئی باتیں اخذ کرلے گا- وہ کسی چیز کا مشاہدہ کرے گا تو ہر مشاہدے میں وہ اپنے لیے عبرت کا سامان پالے گا، حتی کہ اگر اس کے اندر علمی ذوق بھر پور طور پر زندہ ہو تو وہ اپنے مثبت ذہن کی بنا پر بے علموں سے بھی علم حاصل کرے گا اور بے ادبوں سے بھی وہ ادب کا کوئی پہلو سیکھ لے گا- حصولِ علم کے معاملے میں اصل اہمیت ذوق کی ہے، نہ کہ محض واقفیت کی-
واپس اوپر جائیں

ایک پیغمبر انہ اسوہ

رسول اور اصحاب رسول کی تاریخ اپنے مختلف پہلوؤں کے ساتھ انسان کے لیے ایک ابدی گائڈ کی حیثیت رکھتی ہے- انھیں اصولوں میں سے ایک اصول وہ ہے جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پیش آنے والے ایک واقعے سے ملتا ہے-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات مدینہ میں 632 عیسوی میں ہوئی- اس کے بعد وہاں وہی مسئلہ پیدا ہوا جو عام طورپر کسی بڑے لیڈر کی وفات کے بعد پیدا ہوتا ہے، یعنی یہ سوال کہ — لیڈر کے بعد کون- جیساکہ معلوم ہے، پیغمبر اسلام کی وفات کی خبر سننے کے بعد مسلمانوں میں عام طورپر سراسیمگی پیدا ہوگئی- اِس بحران (crisis) کے موقع پر خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق وہاں آئے- انھوں نے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: من کان یعبد محمدا فإن محمدا قد مات ، ومن کان یعبد اللہ فإن اللہ حی لا یموت (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 3668) یعنی جو شخص محمد کو پوجتا تھا تو محمدپر موت آچکی، اور جو شخص اللہ کو پوجتا ہے، تو اللہ زندہ ہے اور اس پر موت آنے والی نہیں-
خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق کا جملہ ایک اہم ترین حقیقت کو بتا رہا ہے، وہ یہ کہ تاریخ کو مسلسل کنٹرول کرنے والا اللہ ہے، نہ کہ کوئی انسان- ایک قائد جب تاریخ کی قیادت کررہا تھا، اُس وقت بھی اس کی پشت پر اللہ تھا اور قائد کے رخصت ہوجانے کے بعد یہ اللہ ہی ہے جو تاریخ کے نظم کو سنبھالنے والا ہے (ہو الأول والآخر)-
خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق کے مذکورہ الفاظ نے اہلِ ایمان کو ایک نیا حوصلہ دے دیا- وہ نئے عزم کے ساتھ پیغمبرانہ مشن کی تکمیل میں سرگرم ہوگئے-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اُسی سال اہلِ یمن کی بغاوت کا واقعہ پیش آیا- یہ ایک انتہائی نازک معاملہ تھا- مختلف اسباب سے لوگ اِس بغاوت کے خلاف اقدام کے معاملے میں سخت متردد تھے- اُس وقت دوبارہ حضرت ابو بکر صدیق نے لوگوں کے سامنے ایک تقریر کی- اُس وقت انھوں نے یہ مشہور تاریخی جملہ کہا: أینقص الدین وأنا حی ( ہدایة الرواة لابن حجر العسقلانی، رقم الحدیث: 3031) یعنی کیا دین میں کمی کی جائے گی، حالاں کہ میں زندہ ہوں-
یہ قول بظاہر ایک انفرادی قول تھا، مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے، وہ ایک اجتماعی قول تھا- وہ گویا پوری جماعتِ صحابہ کے دل کی آواز تھی- حضرت ابوبکر صدیق نے گویا اپنے اِس تاریخی قول کے ذریعے لوگوں کو یاد دلایا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کی صورت میں جو ٹیم چھوڑی ہے، اُن میں سے ہر شخص اِس اسپرٹ کا حامل ہے کہ — میں اِس کام کو کروں گا:
I will do it.
خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق کے اِس کلمہ نے ہر ایک کو آخری حد تک بیدار کردیا- ہر ایک ہیرووانہ اسپرٹ (heroic spirit) کے ساتھ ہمہ تن سرگرم ہوگیا- ہر ایک کے اندر یہ انقلابی سوچ ابھر آئی کہ یہ میری ذمے داری ہے اور مجھے زندگی کی آخری سانس تک اِس ذمے داری کو انجام دینا ہے-
اِس سلسلے میں دوسری چیز وہ ہے جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک نصیحت سے معلوم ہوتی ہے- آپ نے اپنے آخری لمحات میں اپنے اصحاب کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا: ترکتُ فیکم أمرین، لن تضلوا ماتمسکتم بہما: کتاب اللہ وسنة نبیّہ (موطأ الإمام مالک، رقم الحدیث: 1619) یعنی میں نے تمھارے درمیان دو چیزوں کو چھوڑا ہے- جب تک تم ان کو پکڑے رہوگے، تم ہرگز گمراہ نہ ہوگے- یہ دونوں چیزیں ہیں: اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت-
قرآن اور سنت کیا ہے، وہ گویا اسلام کا مستند لٹریچر ہے- اس کے مطابق، یہ کہنا صحیح ہوگا کہ پیغمبر اسلام نے اپنے بعد دو چیزیں چھوڑیں — اسٹرانگ ٹیم اور اسٹرانگ لٹریچر- یہ دو چیزیں اِس بات کی ضامن تھیں کہ آپ کے بعد آپ کا مشن پوری طاقت کے ساتھ چلتا رہے، یہاں تک کہ وہ اپنی تکمیل تک پہنچ جائے- اس معاملے میں یہ بھی ایک پیغمبرانہ اسوہ ہے- وہ بتاتا ہے کہ ایک لیڈر اگر ایسا کرے کہ وہ اپنے بعد ایک ڈیڈی کیٹیڈ ٹیم (dedicated team) اور ایک طاقت ور لٹریچر (strong literature)چھوڑے تو یہ اس کے مشن کی زندگی کی قطعی ضمانت ہے-
واپس اوپر جائیں

فکری تعدّد، فکری حریت

اسلام میں فکری آزادی کامل درجے میں پائی جاتی ہے- اِس کا سبب یہ ہے کہ فکری آزادی کے بغیر خدا کا تخلیقی منصوبہ (creation plan) پورا نہیں ہوسکتا- انسان کو موجودہ دنیا میں ابتلا (test) کے لیے رکھا گیا ہے اور یہ مقصد صرف اُسی وقت پورا ہوسکتا ہے جب کہ انسان کو اپنے قول وعمل کی پوری آزادی حاصل ہو-
اسلام فکری آزادی (intellectual freedom) کو پوری طرح تسلیم کرتا ہے، لیکن فکری تعدد (intellectual diversity) کا تصور اسلام میں نہیں- اسلام کے مطابق، ہر آدمی کو یہ حق ہے کہ وہ جس رائے کو چاہے، اختیار کرے، لیکن اِس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر رائے بہ اعتبار حقیقت بھی درست ہے- اِس معاملے میں اسلامی تصور یہ ہے کہ بہ اعتبارِ حقیقت تو صرف ایک ہی رائے درست ہے، لیکن بہ اعتبارِ آزادی ہر انسان کو یہ حق ہے کہ وہ اپنے لیے اِس دنیا میں جس رائے کو چاہے، اختیار کرے-
ابتلا کے سوا اِس اصول کی ایک اور اہمیت یہ ہے کہ فکری آزادی کے ماحول میں یہ ممکن ہوتا ہے کہ لوگوں کے درمیان آزادانہ ڈسکشن ہو اور آزادانہ ڈسکشن سے یہ فائدہ حاصل ہوتا ہے کہ سماج کے اندر ذہنی ارتقا کا عمل (process) جاری رہے-
فکری آزادی کا تصور انسان کی ذہنی ترقی کے لیے بے حد اہم ہے- حقیقت یہ ہے کہ فکری آزادی کے بغیر ذہنی ترقی ممکن نہیں- کسی سماج میں فکری آزادی کو ممنوع (taboo) قرار دینا صرف اِس قیمت پر ہوتا ہے کہ وہ سماج فکری جمود(intellectual stagnation) کا شکار ہوجائے- لیکن فکری تعدد کے نظریے کو اگر اصولاً درست مان لیا جائے تو اس کے نتیجے میں جو چیز پیدا ہوگی، وہ فکری انتشار (intellectual anarchy) ہے، اور فکری انتشار ایک غیر صحت مند (unhealthy) حالت ہے، فکری انتشار کسی آدمی کو کنفیوژن(confusion)کے سوا کہیں اور نہیں پہنچاتا-
واپس اوپر جائیں

آئڈیالوجی یا نظام

اسلام کا نشانہ انسان کو اسلامی بنانا (Islamization of man) ہے، اسلام کا نشانہ اجتماعی نظام کو اسلامی بنانا (Islamization of system) نہیں- فرد اور اجتماع کے درمیان یہ فرق عقیدہ کی بنیاد پر نہیں ہے، بلکہ وہ پریکٹکل وزڈم (practical wisdom) کی بنیاد پر ہے- اللہ کے تخلیقی منصوبہ (creation plan) کے مطابق، یہی چیز ممکن ہے، اِس کے سوا کوئی اور چیز عملاً ممکن ہی نہیں-
قرآن کا مطالعہ بتاتا ہے کہ قرآن میں فرد کا دین پوری طرح موجود ہے، فکری اعتبار سے بھی اور عملی اعتبار سے بھی- لیکن قرآن میں اجتماعی یا سیاسی زندگی کے لیے کوئی مکمل نظام موجود نہیں- مکمل نظام کے لیے ضر وری ہے کہ اس کے لیے ایک ویل اسٹرکچرڈ ماڈل (well-structured model) موجود ہو، مگر ایسا ماڈل نہ قرآن میں بیان ہوا ہے اور نہ حدیث میں-
فرد کے احکام اور اجتماع کے احکام کے بارے میں یہ فرق کسی اتفاق کی بنا پر نہیں ہے، بلکہ یہی اصولی طورپر اسلام میں مطلوب ہے- اگر یہ اصولی طورپر مطلوب نہ ہوتا تو یقینی طورپر قرآن میں اس کا واضح بیان موجود ہوتا- اِس بنا پر یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اکمالِ دین (5:3) وہی ہے جو بالفعل قرآن میں موجود ہے، یعنی قرآن میں فرد کی نسبت سے جس دین کا بیان ہے، وہی دین کامل دین ہے اور اجتماع کی نسبت سے قرآن میں جس دین کا بیان ہے، وہی دین اجتماع کی نسبت سے کامل دین ہے-
قرآن کی سورہ الشوری میں کہاگیا ہے کہ جو دین تمام نبیوں کے درمیان مشترک تھا، وہی ’الدین‘ ہے اور اُسی الدین کی تم پیروی کرو (42:13)- یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ تمام نبیوں کے درمیان مشترک دین وہی تھا جو فرد کی نسبت سے مطلوب ہے- اجتماع کی نسبت سے اگر کوئی مکمل نظام مطلوب تھا تو وہ مشترک طورپر تمام نبیوں کو دیا ہی نہیں گیا- اِس فرق سے واضح طورپر معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے لیے انفرادی دین اور اجتماعی دین دونوں کا معاملہ ایک دوسرے سے الگ ہے، دونوں کا مطالعہ ایک واحد معیار کے تحت نہیں کیا جاسکتا- قرآن کی مذکورہ آیت میں ’أقیموا الدین‘ کا خطاب فرد سے ہے، یعنی ایک فردِ مسلم کی نسبت سے جو دین مطلوب ہے، اس کو چاہیے کہ اپنی انفرادی زندگی میں وہ اس پر قائم ہوجائے-
اصولِ عملیت
اِس سلسلے میں ایک حدیث رسول کا مطالعہ کیجئے- زیر بحث موضوع کی نسبت سے ایک اہم روایت ہے جو حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے- اس کے الفاظ یہ ہیں: إن اللّہ فرض فرائض فلا تضیّعوہا، وحرّم حرمات فلا تنتہکوہا، وحدّ حدوداً فلا تعتدوہا، وسکت عن أشیاء من غیر نسیان فلا تبحثوا عنہا (مشکاة المصابیح، رقم الحدیث: 197) یعنی اللہ نے کچھ فرائض مقرر کیے ہیں، تم اُن کو ضائع نہ کرو- اللہ نے کچھ چیزوں کو حرام قرار دیا ہے، تم اُن کا ارتکاب مت کرو- اللہ نے کچھ حدود مقرر کیے ہیں، تم اُن سے تجاوز نہ کرو- اللہ نے کچھ چیزوں کے بارے میں سکوت اختیار فرمایا ہے، تم اُن امور کے معاملے میں بحث مت کرو-
اِس حدیث رسول میں چار باتوں کا ذکر ہے- اِن میں سے ابتدائی تین چیزوں کا تعلق فرد سے ہے- فرائض کا اہتمام فردکرتا ہے- حدود سے تجاوز نہ کرنے کا تعلق فرد سے ہے، حرام چیز سے بچنے کا تعلق فرد سے ہے- گویا کہ اِن تین فقروں میں ایک شخص کے انفرادی دین کو بتایا گیا- حدیث کے آخری فقرے میں جو بات کہی گئی ہے، اس کا ایک پہلو اجتماعی زندگی سے بھی تعلق رکھتا ہے- اجتماع کے معاملے میں دینی روش کا تعلق خود اجتماع یا سماج کے حالات پر منحصر ہے- اجتماع کے معاملے میں ایک مومن کی روش کسی پیشگی معیار (ideal) کی بنیاد پر متعین نہیں ہوگی، بلکہ اِس بنیاد پر متعین ہوگی کہ خود اجتماع کے حالات کیا ہیں ، یعنی اجتماع کے قبولیت کی سطح (level of acceptance) کیا ہے- دوسرے لفظوں میں یہ کہ ایک مومن کو اپنی انفرادی زندگی میں معیار پسند (idealist)بننا ہے اور اجتماعی زندگی میں وہ روش اختیار کرنا ہے جس کو اصولِ عملیت (pragmatism) کہا جاتا ہے-
حدیث کے آخری فقرے میں ’سکوت‘ کا مطلب مطلق سکوت نہیں ہے- اِس کا مطلب یہ ہے کہ اجتماعی معاملات ، یعنی سماجی اور سیاسی معاملات کو اہلِ ایمان کے لیے کھلا (open) رکھا گیا ہے- اُن کو یہ موقع دیاگیا ہے کہ وہ حالات کی رعایت کرتےہوئے اپنے لیے کوئی مناسب روش اختیار کریں-
اسلام میں فرد کے دین اور اجتماع کےدین کے درمیان تفریق کا یہ اصول اُس مشہور اصول کی بنیاد پر نہیں ہے جو مغرب میں چرچ اور سائنس کے درمیان ٹکراؤ کے بعد پیدا ہوا اور جس کو مذہب اور سیاست کے درمیان علاحدگی کا نام دیا جاتا ہے- اِس معاملے میں مغرب کا اصول مطلق تفریق یا نظریاتی تفریق کے اصول پر قائم ہے- اِس کے برعکس، اسلام میں فرد اور اجتماع کے درمیان جو تفریق ہے، وہ ممکن اور ناممکن کے درمیان پائے جانے والے فطری فرق کے اصول پر مبنی ہے، یعنی تقریباً وہی اصول جس کو عام طور پر اِس مقولے میں بیان کیا جاتا ہے کہ — سیاست ممکن کا آرٹ ہے:
Politics is the art of the possible.
اجتماعی اور انفرادی اصول کے درمیان فرق کی حکمت
خالق نے انسان کو کامل آزادی دی ہے- انسانی آزادی خالق کےمنصوبے کا ایک لازمی حصہ ہے جس کو منسوخ کرنا ممکن نہیں ہے- یہی وہ حقیقت ہے جس کی بنا پر فرد اور اجتماع کا معاملہ ایک دوسرے سے الگ ہوجاتا ہے- چناں چہ جہاں تک فرد کا معاملہ ہے، ہر فرد کی زندگی اس کے اپنے اختیار میں ہوتی ہے، لیکن فرد سے باہر جو انسانی مجموعہ ہے، اس کا معاملہ کسی کے اختیار میں نہیں- گویا حرکیاتِ فرد کا اصول الگ ہے اور حرکیاتِ اجتماع کا اصول الگ-
ایک فرد اپنی ذاتی زندگی میں کوئی دینی مسلک اختیار کرے تو اس سے کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوگا، لیکن جب آپ اجتماعی زندگی، یعنی سماجی نظام یا سیاسی نظام میں کوئی تبدیلی لانا چاہیں تو فوراً ٹکراؤ کا ماحول پیدا ہوجائے گا، کیوں کہ ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ سماجی اور سیاسی نظام پر کوئی شخص یا گروہ پہلے سے اپنا اقتدار قائم کیے ہوئے ہوتا ہے- جب آپ سماجی اور سیاسی نظام میں تبدیلی کا علم بلند کرتے ہیں تو فوراً ہی آپ کا ٹکراؤ اُن لوگوں سے شروع ہوجاتا ہے جو یہ محسوس کرتے ہیں کہ آپ اُن کو اُن کے اقتدار کے منصب سے ہٹانا چاہتے ہیں- کوئی بھی شخص یا گروہ اِس قسم کی معزولی کو برداشت نہیں کرسکتا، اِس لیے وہ فوراً اپنے دفاع کے لیے اٹھ کھڑاہوتا ہے اور پھر طرفین کے درمیان ایک ایسی لڑائی شروع ہوجاتی ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتی-
تاریخ بتاتی ہے کہ اِس طرح کے معاملے میں کسی ایک فریق کی جیت کبھی لڑائی کا خاتمہ نہیں کرتی، کیوں کہ جو فریق ہارتاہے، وہ فوراً ہی انتقام (revenge) کی نفسیات میں مبتلا ہوجاتا ہے- وہ اپنی شکست کا بدلہ لینے کے لیے دوبارہ ایک نئی جنگ چھیڑ دیتا ہے، یہاں تک کہ اگر وہ کسی جوابی کارروائی کی پوزیشن میں نہ ہو، تب بھی وہ خود کش بم باری شروع کردیتا ہے، تاکہ اگر وہ فریقِ ثانی کو ہرا نہیں سکتا تو کم از کم اس کو نقصان پہنچائے یا اُس کو کم از کم غیر مستحکم (destabilise) کردے-
اِس سے معلوم ہوا کہ اگر ’’کامل دین‘‘ کے نام پر اِس اصول کو اختیار کرلیا جائے کہ فرد نے جس دین کو اپنے لیے اختیار کیا ہے، اُسی دین کو اُسے اجتماع پر بھی نافذ (implement) کرنا ہے، تو اِس کے نتیجے میں دونوں فریق کے درمیان ایک ایسی لڑائی شروع ہوگی جو کبھی ختم نہ ہوگی- یہ کوئی قیاسی بات نہیں، بلکہ یہی پوری تاریخ کا عملی تجربہ ہے-
پریکٹکل فارمولا
ایسی حالت میں خالق کے منصوبے کو برقرار رکھتے ہوئے اسلام میں ایک ایسا اصول بتایا گیاجو ہمیشہ کے لیے امن کا ضامن بن جائے، جو ہر حال میں امن کے قیام کو یقینی بنانے والا ہو- کیوں کہ کسی بھی قسم کی تعمیر کے لیے امن لازمی طور پر ضروری ہے امن نہیں تو تعمیری سرگرمیاں بھی نہیں-
مذکورہ صورتِ حال کی بناپر اجتماع کے لیے کوئی معیاری فارمولا ممکن نہیں، اِس لیے اسلام میں ایڈجسٹ مینٹ کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے ایک ایسا فارمولا اختیار کیا گیا ہے جس کو اِس معاملے میں پریکٹکل فارمولا (practical formula) کہاجاسکتا ہے- اِس فارمولے کو قرآن میں  أَمْرُہُمْ شُوْرَی بَیْنَہُمْ (42:38) کے الفاظ میں بیان کیاگیا ہے ، یعنی اجتماعی معاملے میں وہی طریقہ اختیار کیا جائے گا جس پر اجتماعی مشورے کے بعد لوگ راضی ہوجائیں-
شوری یا جمہوریت کا اصول
اجتماعی معاملے میں کسی مطلق معیار کے بجائے لوگوں کی رائے سے فیصلہ کیا جانا کوئی سادہ بات نہیں، یہ ایک اہم اجتماعی اصول ہے-جب انسانی مجموعہ یا مجتمع (human society) کا معاملہ ہو تو اس کے اندر نظمِ اجتماعی قائم کرنے کی دو صورتیں ہیں— ایک یہ کہ ایک شخص کو حاکمِ مطلق کی حیثیت حاصل ہو اور وہ سب کے اوپر اپنی مرضی نافذ کرے- دوسری صورت یہ ہے کہ مجموعے کے ہر فرد کو اپنی رائے دینے کا موقع دیاجائے اور پھر یا تو اتفاقِ عام یا کثرتِ رائے کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے- پہلے طریقے کو آمریت (dictatorship) کہا جاتا ہے اور دوسرے طریقے کو جمہوریت (democracy)- اسلام میں شوری کا اصول عملاً وہی ہے جس کو موجودہ زمانے میں جمہوریت کہاجاتا ہے-
شوری یا جمہوریت کا یہ اصول شرعی عقیدے کا مسئلہ نہیں ہے- اپنی نوعیت کے اعتبار سے، یہ فطرت کے ایک اصول پر مبنی ہے- خالق نے مصلحتِ امتحان کے تحت ہر عورت اور مرد کو کامل آزادی عطا کی ہے، یہ آزادی قیامت سے پہلے منسوخ ہونے والی نہیں-ایسی حالت میں نظمِ اجتماعی (socio-political system) کو کس بنیاد پر قائم کیا جائے- اگر نظمِ اجتماعی کے لیے ایک معیاری اصول مقرر کردیا جائے اور یہ مطلوب ہو کہ پورے انسانی مجموعے کو اسی معیاری اصول کے تابع بنانا ہے- ایسی حالت میں لازماً یہ ہوگا کہ ابدی طور پر لوگوں کے درمیان ٹکراؤ کی حالت جاری رہے گی- کچھ لوگ اِس معیاری اصول کو مانیں گے اور کچھ لوگ اپنے چوائس (choice)کا آزادانہ استعمال کرتے ہوئے اس کے خلاف ہوجائیں گے- اِس طرح سماج مستقل طورپر دو متحارب گروہ میں تقسیم ہوجائے گا، اُن کے درمیان ایسی لڑائی جاری ہوجائے گی جو کبھی ختم نہ ہو-
ایسی حالت میں ہمارے لیے دو میں سے ایک کا انتخاب (choice)ہے — ایک، معیاری اجتماعی اصول پر اصرار کرنا، جس کا نتیجہ یہ ہو کہ معیاری اجتماعی اصول تو عملاً کبھی قائم نہ ہو اور نتیجةً انسانی معاشرہ ہمیشہ کے لیے امن (peace) سے محروم ہوجائے- اس معاملے میں دوسرا انتخاب یہ ہے کہ نظمِ اجتماعی کے لیے کوئی مطلوب اصول نہ ہو، بلکہ پریکٹکل وزڈم (practical wisdom) کے اصول پر یہ کیا جائے کہ اجتماعی نظم کے معاملے میں رائے عامہ کو عملاً تسلیم کرلیا جائے- اِس طرح سماج میں فوری طورپر امن قائم ہوجائے گا اور ہر فرد کو یہ موقع مل جائے گا کہ وہ اپنے انفرادی دائرے میں تعمیر وترقی کا جو منصوبہ چاہے، اس کو بروئے کار لاسکے-
فطرت کے اِس اصول کو ایک حدیث میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیاہے: کما تکونون، کذلک یُؤَمَّر علیکم (البیہقی، شعب الإیمان: 22/6) یعنی جیسے تم لوگ ہوگے، ویسے ہی تمھارے حکمراں ہوں گے- اِس کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی انتظام (political administration) مطلق معنوں میں کسی اصول کے تابع نہیں ہوگا، بلکہ معاشرے کی رائے عامہ کے مطابق، اس کا تعین کیا جائے گا- اِس بات کو دوسرے الفاظ میں اِس طرح کہا جاسکتا ہے کہ اسلام میں حکومت کے معاملے کو کسی مطلق معیار (political idealism) کے تابع نہیں کیا گیا، بلکہ وہ عملی طریقہ اختیار کیا گیاہے جس کو سیاسی بندوبست (political adjustment) کا طریقہ کہا جاسکتا ہے-
فطرت کا نظام
قرآن کی سورہ الفرقان اِس آیت سے شروع ہوتی ہے: تَبٰرَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ لِیَکُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرًا (25:1) یعنی بڑا بابرکت ہے اللہ جس نے فرقان (قرآن) اتارا، تاکہ وہ سارے عالم کے لیے آگاہ کرنے والا بنے-
اِس آیت کے مطابق، قرآن ایک کتابِ فرقان ہے، یعنی فرق کرنے والی کتاب- فرقان فرق کا مبالغہ ہے- اِس کا مطلب ہے: الفصل بین الشیئین(دو چیزوں کے درمیان فرق کرنا)- یہ بلاشبہ انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہے- موجودہ دنیا میں امتحان کی مصلحت کی بنا پر تمام چیزیں غیرممیّزحالت میں پائی جاتی ہیں- انسان کی یہ لازمی ضرورت ہے کہ وہ اِن چیزوں کو درست طور پر سارٹ آؤٹ (sort out)کرسکے-ایسا نہ کرنے کی صورت میں انسان فکری اعتبار سے، کنفیوژن (confusion) کا شکار ہوجائے گا اور عملی اعتبار سے وہ اپنے کاموں کی نتیجہ خیز پلاننگ نہ کرسکے گا- اِس اصول کو دوسرے الفاظ میں فطرت کا نظام کہاجاسکتا ہے-اِس دنیا میں کوئی بھی کامیابی صرف اُس وقت ممکن ہے جب کہ فطرت کے اِس نظام کو ملحوظ رکھتے ہوئے زندگی کا نقشہ بنایا جائے-
انسان بظاہر وسیع کائنات کا ایک حصہ ہے، لیکن انسان کی ایک ممیز صفت ہے جو بقیہ کائنات میں موجود نہیں، وہ یہ کہ انسان کی زندگی بیک وقت دو مختلف تقاضوں کا مجموعہ ہوتی ہے— فرد(individual) اور اجتماع (society)- مطالعہ بتاتا ہے کہ فرداور اجتماع کے تقاضے مشترک ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے بہت زیادہ مختلف ہیں، بلکہ بعض اوقات ایک دوسرے سے متضاد ہیں، حتی کہ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ انسان کی زندگی گویا ایک قسم کا مجموعۂ اضداد (mixture of opposites) کی حیثیت رکھتی ہے-
بقیہ کائنات کا معاملہ اِس سے مختلف ہے، بقیہ کائنات میں یہ تقسیم موجود نہیں- بقیہ کائنات کا معاملہ یہ ہے کہ جو ایک درخت کا کیس ہے، وہی پورے باغ کا کیس ہے|\، جو ایک قطرۂ آب کا کیس ہے، وہی پورے سمندر کا کیس ہے، جو ایک ستارے کا کیس ہے، وہی پوری کہکشاں کا کیس بھی ہے- بقیہ کائنات میں واحدہ (unit) اور مجموعہ دونوں کا کیس یکساں ہے، دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں— انسان کا معاملہ اس سے مختلف ہے- انسانی زندگی کی منصوبہ بندی میں اِس فرق یا اختلاف کو ملحوظ رکھنے کا نام کامیابی ہے اور اِس فرق یا اختلاف کو ملحوظ نہ رکھنے کا نام ناکامی-
تاریخ کی تصویر
تاریخ میں جو سوچنے والے لوگ (thinkers) گزرے ہیں، اُن میں سے تقریباً ہر ایک کا یہ حال ہوا ہے کہ انھوں نے اپنی سوچ کے مطابق، ایک عظیم فکری نشانہ (great vision) کے ساتھ اپنی زندگی کا آغاز کیا- لیکن ساری کوشش کے بعد آخر میں وہ اپنے نشانہ (goal) کو حاصل کرنے کے بارے میں ناامید ہوگئے- اور جب وہ دنیا سے گئے تو وہ مایوسی (despair) کا کیس بن چکے تھے- ارسطو (Aristotle) سے لے کر برٹرنڈرسل تک کتنے لوگ ہیں جنھوں نے آئڈیل گورنمنٹ کے قیام کو اپنا نشانہ بنایا، لیکن ساری کوشش کے باوجود وہ عملاً آئڈیل گورنمنٹ نہ بنا سکے- لیوٹالسٹاے (Leo Tolstoy) سے لے کر مہاتما گاندھی تک کتنے لوگ ہیں، جنھوں نے پرامن دنیا (peaceful world) بنانے کا خواب دیکھا، لیکن اُن کا خواب کبھی عملی واقعہ نہ بن سکا، یہاں تک کہ ناکامی کے احساس کے ساتھ وہ اِس دنیا سے چلے گئے-
سید قطب سے لے کر ڈاکٹر محمد مرسی (مصر) تک کتنے لوگ ہیں جنھوں نے اپنا یہ مشن بنایا کہ ان کو دنیا میں انصاف (justice) پر مبنی نظام قائم کرنا ہے، مگر اُن کا آخری احساس یہ تھا کہ ساری کوشش کے باوجود دنیا میں وہ اپنا مطلوب نظام قائم کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے- اُن سب کا حال وہی ہوا جو رابندر ناتھ ٹیگور نے تمثیل کی زبان میں اِس طرح بیان کیاتھا — ساری عمر بینا (ستار) کے تاروں کو سلجھانے میں بیت گئی، مگر جو اَنتم گیت میں گانا چاہتا تھا، وہ میں نہ گاسکا-
منصوبۂ تخلیق
یہ پوری تاریخ کا ایک عظیم فکری المیہ (intellectual tragedy) ہے-اس کا سبب صرف ایک ہے — زندگی کے بارے میں خدا کے تخلیقی منصوبہ سے بے خبر ہونا اور خود ساختہ ذہن (self-styled mindset)کے تحت منصوبہ بنا کر اس کو ایک ایسی دنیا میں بروئے کار لانے کی کوشش کرنا جو اُس کے مطابق، بنائی نہیں گئی تھی- یہی وہ حقیقت ہے جو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کی گئی ہے: قُلْ کُلٌّ یَّعْمَلُ عَلٰی شَاکِلَتِہٖ ۭ فَرَبُّکُمْ اَعْلَمُ بِمَنْ ہُوَ اَہْدٰى سَبِیْلًا (17:84) یعنی ہر ایک اپنے طریقے پر عمل کررہا ہے- اب تمھارا رب بہتر جانتا ہے کہ کون زیادہ ٹھیک راستے پر ہے-
قرآن کی اِس آیت کا مطلب یہ ہے کہ خالق کا منصوبۂ اشیا (scheme of things) ہی صحیح تخلیقی منصوبہ ہے- اُس کا اتباع کرکے دنیا میں کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے- لیکن لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ سنجیدگی کے ساتھ خالق کے منصوبے کو جاننے کی کوشش نہیں کرتے- وہ صرف اپنے فکری شاکلہ (mindset) کو جانتے ہیںاور اُسی کے مطابق، عمل شروع کردیتے ہیں- دوسرے لفظوں میں یہ کہ وہ اپنے کاگ (cog)کو خالق کے کاگ سے نہیں ملاتے- اِس بنا پر اُن کا منصوبہ غیرحقیقت پسندانہ بن جاتا ہے- اِس معاملے میں لوگوں کی عمومی ناکامی کا اصل سبب یہی ہے-
اِس سلسلے میں ایک بنیادی پہلو یہ ہے کہ خالق نے انسان کو مصلحتِ امتحان کی بنا پر مکمل آزادی (total freedom) عطا کیا ہے- ہر انسان کو کلی طور پر یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ جو چاہے کرے اور جو چاہے نہ کرے- اِس تخلیقی نقشے کی بنا پر عملاً یہ بات ناممکن ہوگئی ہے کہ اِس دنیا میں عوام (masses) کی سطح پر کوئی آئڈیل نظام بنایا جاسکے-کیوں کہ کچھ لوگ اگر اُس سے اتفاق کریں گے تو کچھ لوگ اپنے اختیار کا آزادانہ استعمال کرتے ہوئے اس کے خلاف ہو جائیں گے اور پھر وہ مجوّزہ اجتماعی اسکیم کو درہم برہم کردیں گے- تاریخ میں باربار ایسے واقعات پیش آئے ہیں، جب کہ ایک شخص یا چند اشخاص نے بڑی بڑی اسکیموں کا خاتمہ کردیا-
خالق کے اِس نقشے کی بنا پر حقیقت پسندانہ رویہ یہ ہے کہ آدمی اِس سے مطابقت کرتے ہوئے اپنا نقشہ بنائے-ہر انسان کو پیشگی طورپر یہ جاننا چاہیے کہ اس کا منصوبہ صرف اُس وقت کامیاب ہوسکتا ہے، جب کہ وہ خالق کے نقشے کے ساتھ مکمل مطابقت رکھتا ہو- خالق کے نقشے سے ادنی انحراف بھی یقینی طورپر اس کے منصوبے کو ناکام بنادے گا، خواہ بطور خود وہ اس کو کتنا ہی زیادہ اچھا سمجھتا ہو-
انفرادی معیار پسندی، اجتماعی عملیت
اِس حقیقت کو ملحوظ رکھتے ہوئے غور کیا جائے تو موجودہ دنیا میں قابلِ عمل منصوبے کا اصول صرف ایک ہے، اور وہ ہے فرد (individual) اور اجتماع (society) کو ایک دوسرے سے الگ کرکے منصوبہ بنانا- فرد کے تقاضے اور اجتماع کے تقاضے کے درمیان فرق کی رعایت کرتے ہوئے اپنے عمل کا نقشہ بنانا یہی فطری طریقہ ہے- اِس فطری طریقے کا اصول مختصر طور پر یہ ہے:
1- فرد کے لیے نظری معیار (individual idealism)
2- اجتماع کے لیے عملی امکان (social pragmatism)
فرد کا معاملہ یہ ہے کہ اس میں عامل اور معمول دونوں ایک ہوتے ہیں- فرد کے کیس میں ایک آدمی خود معیار مقرر کرتا ہے اور خود اس کے اپنے اختیار میں یہ ہوتا ہے کہ وہ اِس معیار کو اپنی زندگی میں اختیار کرے- اِس لیے فرد کے کیس میں کسی معیار کو عمل کی صورت دینا پوری طرح ممکن ہوتا ہے- اِسی لیے اللہ کے یہاں لوگوں کا درجہ فرد کی نسبت سے متعین ہوگا، نہ کہ مجموعہ کی نسبت سے-
ہر فرد کو چاہیے کہ وہ جس اصول کو درست سمجھتا ہے، اس کو وہ اپنی ذاتی زندگی میں پوری طرح اختیار کرے- وہ اِس معاملے میں کسی سے سمجھوتہ (compromise) نہ کرے- یہی وہ اصول ہے جس کو ہم نے انفرادی معیار پسندی (individual idealism) کے الفاظ میں بیان کیا ہے-
اِس کے بعد جہاں تک اجتماع یا انسانی مجموعہ کا تعلق ہے،اس کے معاملے میں قانونِ فطرت کے مطابق، جو چیز قابلِ عمل ہے، وہ صرف یہ ہے کہ ممکن الحصول اور ناممکن الحصول کے درمیان فرق کرتے ہوئے اپنا منصوبہ بنانا، یعنی ذاتی ماڈل کو چھوڑ کر عملی ماڈل اختیار کرنا، اجتماع کے درجۂ قبولیت (level of acceptance) کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے عمل کا نقشہ بنانا- یہی وہ عملی حقیقت (practical wisdom) ہے جس کو ہم نے اجتماعی عملیت (social pragmatism) کے الفاظ میں بیان کیا ہے-
تاریخ میں جو مفکرین عملاً ناکام ہوگئے، اُن کی ناکامی کا مشترک سبب یہی ہے کہ انھوں نے ذاتی سوچ کے تحت اپنے ذہن میں اجتماع کا ایک خوب صورت ماڈل بنایا اور پھر اس کو وقوع میں لانے کے لیے پُر شور تحریکیں شروع کردیں- اِس کا فطری نتیجہ یہ ہوا کہ اُن کا تصوراتی ماڈل حقائق کی چٹان سے ٹکرا کر بکھر گیا — معیار (ideal) مجموعے کی سطح پر ناقابلِ حصول ہے، لیکن فرد (individual) کی سطح پر بلاشبہہ وہ قابلِ حصول ہے-
مذہب اور سیاست
فرداور اجتماع کے درمیان اِسی فرق کی بنا پر اسلام میں مذہب اور سیاست کو ایک دوسرے سے الگ کردیاگیا - مذہب کا نشانہ ذاتی ارتقا (personal development) ہے، یعنی ربانی بنیادوں پر فرد کی تعمیر- اِس اعتبار سے، مذہب اُس دائرے کی چیز ہے جس کے لیے ہم نے انفرادی معیار پسندی (individual idealism) کا لفظ استعمال کیا ہے-
اِس کے برعکس، سیاسی اقتدار کا معاملہ پورے انسانی مجموعے سے تعلق رکھتا ہے اور قانونِ فطرت کے مطابق، پورے انسانی مجموعے کو ایک معیار پر ڈھالا نہیں جاسکتا- ایسی حالت میں قابلِ عمل صورت صرف یہ ہے کہ سیاسی اقتدار کے معاملے کو اُس دائرے کی چیز قرار دیا جائے جس کے لیے  ہم نے اجتماعی عملیت (social pragmatism) کی اصطلاح استعمال کی ہے-
مذہب اور سیاست کے درمیان تفریق اِسی عملی اصول (practical wisdom)کی بنا پر ہے- اس کا مطلب یہ ہے کہ فرد کو معیاری اصول پر قائم ہونے کی تاکید کی جائے، لیکن ذاتی اقتدار کے معاملے میں اُس اصول کو اختیار کرلیا جائے جس کو ایک حدیث میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: کما تکونون کذلک یؤمّر علیکم ( البیہقی، رقم الحدیث: 7391) یعنی تم جیسے ہوگے، ویسے تمھارے حکمراں ہوں گے- دوسرے لفظوں میں، یہ کہ سیاسی اقتدار کے معاملے میں سماجی قبولیت (social acceptability) کودیکھا جائے گا، نہ کہ کسی مطلق معیار (absolute ideal) کو-
یہ فطرت کا اصول ہے- اِس اصول کی بنیاد پر زندگی کی تشکیل کی جائے تو سماج میں ہمیشہ امن قائم رہے گا، کیوں کہ امن کی حالت ہر قسم کی ترقی کے لیے لازمی طورپر ضروری ہے- اِس کے برعکس، اگر فطرت کے اِس اصول کو نظر انداز کردیا جائے اور فرداور مجموعہ کو ایک ہی نظام کا پابند بنانے کی کوشش کی جائے تو ابدی طورپر امن کا خاتمہ ہوجائے گا- اِس کے بعد سماج میں نفرت اور ٹکراؤ اور تشدد جیسی برائیاں جنم لیں گی جو کبھی ختم نہ ہوں گی-
اسلام کا اصل نشانہ
ہر نظام میں ایسا ہے کہ کچھ چیزیں اِس نظام کا اصل حصہ (real part) ہوتی ہیں اور کچھ چیزیں وہ ہیں جو اِس نظام کا اضافی حصہ (relative part) ہوتی ہے- اسلام میں خارجی اعتبار سے ، اصل نشانے کی حیثیت صرف ایک چیز کو حاصل ہے، اور وہ دعوت یا شہادت ہے- اس کے سوا جو خارجی چیزیں ہیں، اُن کی حیثیت اسلام کے اضافی حصہ (relative part) کی ہے- اسلام کو عقلی طورپر سمجھنے کے لیے اِس حقیقت کو جاننا بہت ضروری ہے- اِس حقیقت کو جانے بغیر اسلام کی جو توجیہہ کی جائے گی، وہ کبھی درست نہیں ہوسکتی-
شہادتِ عظمیٰ
اسلام کا نشانہ اقامتِ نظام نہیں ہے، بلکہ دعوت الی اللہ ہے، یعنی تمام انسانوں کو اللہ کا پیغام پہنچانا- تمام انبیا کا مشن یہی دعوت الی اللہ تھا-پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اِسی دعوتی مشن کے لیے کام کیا- یہ دعوتی مشن پوری تاریخ میں جاری رہا-عالمی ابلاغ کے اعتبار سے، اِس کا کامل اظہار دورِ آخر میں ہوگا- اِس کامل اظہار کو ایک حدیثِ رسول میں شہادتِ عظمی کہا گیاہے، یعنی تمام انسانیت کے سامنے اللہ کے دین کی عالمی گواہی (ہذا أعظم الناس شہادة عند رب العالمین)-
احادیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس شہادت عظمی یا عالمی گواہی کے لیے ضروری ہے کہ اس کے مطابق، وسائل دستیاب ہوچکے ہوں- اِس معاملے کے دو پہلے ہیں — ایک یہ کہ اِس طرح کی عالمی شہادت کے لیے عالمی مواصلات (global communication) لازمی طورپر ضروری ہے- بیسویں صدی میں عالمی مواصلات کے معاملے میں غیر معمولی ترقی ہوئی ہے، یہاں تک کہ موجودہ زمانے کو مواصلات کا زمانہ (age of communication) کہاجاتا ہے- اِس واقعے میں اِس بات کا اشارہ ہے کہ موجودہ زمانے میں پوری طرح وہ وقت آگیاہے کہ شہادتِ عظمی یا عالمی دعوت کا کام موثر طورپر انجام دیا جاسکے-موجودہ زمانے میں ایک طرف، مکمل معنوں میں مذہبی آزادی آگئی ہے اور دوسری طرف مواصلات کی ترقی نے اِس بات کو آخری حد تک ممکن بنا دیا ہے کہ کسی رکاوٹ کے بغیر عالمی دعوت کا کام کیا جاسکے- یہ وہی کام ہے جس کو حدیث میں ’ادخال الکلمة فی کل البیوت‘ کہا گیاہے-
اِس سلسلے میں دوسری بات وہ ہے جس کا ذکر مذکورہ حدیث میں آیا ہے- شہادت عظمی کی روایت میں ’حجیج‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے، یعنی مطلوب دعوت کے کام کو حجت یا دلیل کی سطح پر انجام دینا- یہ بھی موجودہ زمانے کی ایک خصوصیت ہے- چناں چہ موجودہ زمانے کو دورِ تعقل (age of reason) کہا جاتا ہے- موجودہ زمانے میں علم کی ترقی کی بنا پر ایساہوا ہے کہ پہلی بار یہ ممکن ہوا ہے کہ عقلی ڈیٹا (rational data) کی بنیاد پر کسی بات کومدلل کیا جاسکے-
زمانے کی یہ تبدیلی بھی حدیث کی پیشین گوئی کے عین مطابق ہے- موجودہ زمانے میں پہلی بار یہ ممکن ہوا ہے کہ اسلام کی صداقت کو عقلِ انسانی کی بنیاد پر مدلل کرکے اس کو انسان کے سامنے پیش کیا جاسکے- گویا شہادتِ عظمی کے دو تقاضے موجودہ زمانے میں پہلی بار انسان کی دسترس میں آئے ہیں — عالمی مواصلات اور عقلِ انسانی کی مسلّمہ سطح پر حقائق کا اثبات-
حدیث ِ رسول کے مطابق، دورِ آخر میں شہادت عظمی کا جو واقعہ ظہور میں آنے والا ہے، وہ حدیث کے مطابق، ایک ایسا واقعہ ہوگا جو اِس سے پہلے کبھی پیش نہیں آیا- اُس کے لیے ضروری ہے کہ انسانی علم عقلی ارتقا کے اعلی درجے تک پہنچ چکا ہو- اِسی کے ساتھ وہ تمام وسائل موجود ہوچکے ہوں جو اِس طرح کی عالمی شہادت کی ادائیگی کے لیے ضروری ہیں- موجودہ زمانے میں یہ تمام وسائل پوری طرح وجود میں آچکے ہیں- اِس لیے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ موجودہ زمانہ ہی وہ زمانہ ہے جب کہ شہادتِ عظمی کا وہ واقعہ ظہور میں آئے جس کی پیشین گوئی حدیثِ رسول میں کی گئی ہے-
خلاصہ کلام
اسلام میں انفرادی دین اور اجتماعی دین کے بارے میں یہاں جو کچھ کہاگیا، وہ اِس معاملے میں کوئی نئی اسکیم نہیں ہے- اس کی حیثیت صرف یہ ہے کہ اسلام کی تاریخ میں بالفعل جوکچھ پیش آیا، یہاں اس کی ایک قابلِ قبول توجیہہ (acceptable explanation) بیان کی گئی ہے- اِس توجیہہ کی روشنی میں اسلام کی تاریخ ایک بامعنی تاریخ بن جاتی ہے- اِس کے بعد تاریخ کے بارے میں یہ نظر آنے لگتا ہے کہ جو کچھ ہوا، وہ قانونِ فطرت کے مطابق ہوا اور اجتماعیات کے معاملے میں اسلام کا اصول وہی ہے جو خدا کے تخلیقی نقشہ کے مطابق، فطرت کا اصول ہے-
یہ ایک معلوم واقعہ ہے کہ اسلام کی بعد کی تاریخ میں کئی ایسے واقعات پیش آئے جو خالص معیار (ideal) سے مطابقت نہ رکھتے تھے- مثلاً خلیفہ یا امیر المومنین کے تقرر کے لیے مختلف طریقے اختیار کرنا- بعد کے زمانے میں حکومتی ادارے کا خاندانی حکومت (dynasty) کی صورت اختیار کرلینا، اہلِ اسلام کا مختلف گروہوں میں بٹ جانا اور ان کے درمیان پر تشدد ٹکراؤ پیش آنا، بیت المال کے نظام میں بظاہر خلل واقع ہونا، وغیرہ-
اسلام کی بعد کی تاریخ میں جو واقعات پیش آئے، وہ بظاہر معیار کے مطابق نہ تھے- اِس طرح کے واقعات کے معاملے میں عام طورپر اہلِ علم نے دو قسم کا موقف اختیار کیا ہے — ایک موقف اُن لوگوں کا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ بعد کی تاریخ میں اسلام کا ابتدائی معیار باقی نہ رہا، وہ بگاڑ کا شکار ہوگیا- دوسرا موقف اُن لوگوں کا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ یہ وہ معاملات ہیں جن کے بارے میں ہمیں خاموشی کا طریقہ اختیار کرنا چاہئے، ہمیں اُن کا تجزیہ نہیں کرنا چاہئے-
مگر یہ دونوں موقف ناقابلِ قبول ہیں، کیوں کہ اسلام انسان کے لیے ہے اور انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے ہر واقعے کی عقلی توجیہہ (rational interpretation)چاہتا ہے- اِس لیے اسلام کی تاریخ کی ایسی توجیہہ کرنا ضروری ہے جو عقلی طورپر قابلِ فہم ہو- ایسا نہ کرنے کی صورت میں لوگ اسلام کی صداقت کے بارے میں مشتبہ ہوجائیں گے، وہ کامل یقین کے ساتھ اسلام کو اختیار نہ کرسکیں گے — مذکورہ وضاحت کا یہ فائدہ ہے کہ اِس سے اسلامی تاریخ کی ایک قابلِ فہم توجیہہ حاصل ہوجاتی ہے،  بغیر اِس کے کہ اسلام کی کامل صداقت پر کوئی حرف آیا ہو-
واپس اوپر جائیں

دورِ شرک، دورِ الحاد

مذہبی نقطہ نظر سے تاریخ کے دو دور ہیں — دورِ شرک، دورِ الحاد- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے پہلے ہزاروں سال تک دنیا میں شرک (polythiesm) کا غلبہ تھا- موجودہ زمانہ عمومی تقسیم کے اعتبار سے، الحاد (atheism) کا زمانہ ہے- تاہم الحاد انکارِ مذہب کا نظریہ ہے، جب کہ سیکولرزم مذہب کے بارے میں عملاً ناطرف داری کا نظریہ-
دورِ شرک اوردورِ الحاد کے درمیان ایک چیز مشترک ہے اور وہی چیز ہے جس کو قرآن کی درج ذیل آیت میں ’خَرص‘ کہاگیا ہے : وَقَالُوْا لَوْ شَاۗءَ الرَّحْمٰنُ مَا عَبَدْنٰہُمْ ۭ مَا لَہُمْ بِذٰلِکَ مِنْ عِلْمٍ ۤ اِنْ ہُمْ اِلَّا یَخْرُصُوْنَ (43:20) یعنی وہ کہتے ہیں کہ اگر رحمان چاہتا تو ہم اُن کی عبادت نہ کرتے- اُن کو اِس کا کوئی علم نہیں، وہ محض اٹکل سے بات کررہے ہیں-
’خرص‘ کا لفظی مطلب ہے اٹکل سے بات کرنا- اِس سے مراد دراصل چیزوں کی قیاسی تعبیر (speculative interpretation) ہے- قدیم زمانے میں مشرکین نے یہی غلطی کی تھی- انھوں نے یہ کیا کہ فطرت کا جو ظاہرہ اُن کو بڑا (great) نظر آیا، اس کو انھوں نے الٰہ (god) کادرجہ دے دیا- یہی چیز ہے جس کی طرف قرآن میں اِن الفاظ میں اشارہ کیاگیا ہے: ہٰذَا رَبِّیْ ہٰذَآ اَکْبَرُ(6:78)-
موجودہ زمانے میں سائنس کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اُس نے اِس قدیم متھ (myth) کو توڑ دیا- سائنس نے اپنے تجربات کے ذریعے ثابت کیا کہ جن چیزوں کو انسان نے خدا سمجھ لیا تھا، اُن کے اندر کوئی خدائیت (divinity)نہیں ہے- تمام چیزیں صرف فطرت (nature) کے اجزا ہیں- بہ الفاظ دیگر، کائنات کی تمام چیزیں صرف مخلوق ہیں، وہ کسی بھی درجے میں خالق نہیں- مشرکانہ کلچر کے نظریاتی خاتمے کا آخری دن 20 جولائی 1969 تھا، جب کہ امریکی ایسٹروناٹ نیل آرم اسٹرانگ (Neil Armstrong)چار روزہ خلائی سفر طے کرکے چاند تک پہنچا اور چاند کی سطح پر اس نے اپنا قدم رکھ دیا-
الحادکا دور
شرک کا مطلب ہے— کسی غیر خدا کو خدا کا شریک (partner) قرار دے کر اس کی تعظیم یا عبادت کرنا- موجودہ زمانے میں جب شرک کا دور ختم ہوا تو اس کے بعد یہ ہونا چاہیے تھا کہ دنیا میں توحید کا دور آجائے، لیکن اُس وقت اہلِ مغرب دنیا کے فکری قائد بنے ہوئے تھے اور جیسا کہ معلوم ہے، قرونِ وسطی (middle ages) کے زمانے میں مغرب کے اہلِ علم اور چرچ کے درمیان شدید ٹکراؤ ہوا- اِس ٹکراؤ کی تفصیل جان ولیم ڈریپر (J. W. Draper)کی درج ذیل کتاب میں دیکھی جاسکتی ہے:
Conflict Between Science and Religion (1874)
قرون وسطی کے بعد یورپ میں انیسویں صدی میں جدید الحادی فکر کادور آیا- یہ دور کسی علمی تحقیق کا نتیجہ نہ تھا، بلکہ وہ تمام تر رد عمل (reaction) کے نتیجے میں پیش آیا- اِس زمانے میں علمی تحقیق کا معیار یہ قرار پایا کہ وہ تمام تر سیکولرانداز میں ہو، یعنی خدا کو حذف کرکے واقعات کی توجیہہ کرنا- اِس طرزِ فکر کے نتیجے میں وہ غیر مذہبی فلسفہ پیدا ہوا جس کو الحاد (atheism) کہاجاتا ہے-
انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے، ایک توجیہہ طلب حیوان (explanation-seeking animal) ہے- قدیم مشرکانہ دور میں یہ توجیہہ قیاسی بنیاد پر کی جاتی تھی- موجودہ ملحدانہ دور میں یہ توجیہہ علمی تحقیق کے نام پر کی جانے لگی- اِس نئے دور میں مغربی دنیا میں بہت سے مفکر پیدا ہوئے جو خدا کو حذف کرکے حیات اور کائنات کی توجیہہ کرتے تھے-
اِس طریقِ تحقیق کے نتیجے میں ایک نیا دور پیدا ہوا- مزید یہ کہ اِسی دور میں پرنٹنگ پریس بھی وجود میں آیا- پہلے کتابیں محدود طورپر ہاتھ سے لکھی جاتی تھیں، اب وہ چھپ کر عمومی طورپر پھیلنے لگیں- اِس طرح یہ ہوا کہ جدید الحاد مطبوعہ کتابوں میں منتقل ہو کر تمام دنیا کے فکر پر چھا گیا-جدید ملحدانہ دور میں جو مفکرین پیدا ہوئے اور ان کے ذریعے جو غیر مذہبی طرز فکر وجود میں آیا، اس کے پیچھے بہت سے ذہن کارفرما تھے- تاہم علامتی طورپر چار افراد کو اِس معاملے میں بنیادی اہمیت حاصل ہے- اِن چار افراد نے انسانی تاریخ کو ایک نیا رخ یا الحادی رخ دیا- اُن کے نام یہ ہیں— آئزاک نیوٹن، چارلس ڈارون، سگمنڈ فرائڈ،کارل مارکس:
1. Isaac Newton: from divine interpretation to mechanical interpretation
2. Charles Darwin: from Special Creation to Natural Selection.
3. Sigmund Freud: from harnessing desires to following desires.
4. Karl Marx: from duty-conscious society to right-conscious society.
1- بر ٹش سائنس داں آئزاک نیوٹن (وفات: 1727) اصلاً صرف ایک سائنس داں تھا- اس کا موضوع تھا مادی دنیا میں حرکت (motion) کی توجیہہ کرنا- اس نے دریافت کیا کہ مادی دنیا میں حرکت کا نظام میکانکل قوانین (mechanical laws) کے تحت ہوتا ہے- مثلاً شمسی نظام میں سیاروں کی گردش کا قانون-نیوٹن کی دریافت کا کوئی تعلق مذہبی عقائد سے نہ تھا، لیکن ملحد مفکرین نے اِس دریافت کو الحاد کے حق میں استعمال کیا- انھوں نے کہا کہ اگر واقعات فطری اسباب کے تحت پیش آتے ہیں تو وہ فوق الفطری سبب کے تحت نہیں ہوسکتے:
If events are due to natural causes, they are not due to supernatural causes.
یہ استدلال بلا شبہہ ایک غیر منطقی استدلال تھا، کیوں کہ نیوٹن کی تشریح جس چیز کو بتارہی تھی، وہ صرف ظاہری سبب تھا- اِس کے بعد بھی یہ سوال تھاکہ اسباب کے پیچھے مسبِّب (cause of the causes) کون ہے- اِس معاملے میں ملحدین کا استدلال تمام تر ایک مغالطے پر مبنی تھا، وہ کوئی سائنسی استدلال نہ تھا- لیکن ملحد مفکرین کی یہ توجیہہ وقت کے ذوق کے مطابق تھی، اِس لیے وہ عمومی طورپر پھیل گئی-
2- چارلس ڈارون (وفات: 1882) کا ارتقائی نظریہ بنیادی طورپر انتخابِ طبیعی (natural selection) کے اصول پر مبنی ہے- ڈارون نے اور اس کے ساتھیوں نے اپنی کتابوں کے ذریعے یہ تاثر دیا کہ ارتقا (evolution) کا یہ نظریہ ایک سائنسی نظریہ ہے- مگر علمی تعریف (definition) کے مطابق، ارتقا کا نظریہ ہرگز سائنسی نظریہ (scientific theory) نہ تھا، وہ صرف ایک قیاسی نظریہ (speculative theory)کی حیثیت رکھتا تھا- مگر وقت کے عمومی ذوق کی بنا پر حیاتیاتی ارتقا کے اِس نظریے کو عام مقبولیت حاصل ہوگئی- یہ سمجھ لیا گیا کہ حیاتیاتی مظاہر کی توجیہ کے لیے اب خالق کو ماننے کی کوئی ضرورت نہیں، خالق کے وجود کو مانے بغیر تمام حیاتیاتی مظاہر کی توجیہ ممکن نہیں-
مگر یہ صرف ایک مغالطہ تھا- سائنس کی مزید دریافتوں نے یہ ثابت کردیا کہ ارتقا کا یہ نظریہ علمی اعتبار سے بالکل بے بنیاد ہے- سائنس کی جدید دریافت بتاتی ہے کہ فطرت میں کامل درجے کی ذہین ڈزائن (intelligent design)پائی جاتی ہے- اِس دریافت نے علمی طورپر نظریہ ارتقا کا خاتمہ کردیا ہے- کیوںکہ ذہین ڈزائن ایک ذہین ڈزائنر (intelligent designer) کی موجودگی کو ثابت کرتی ہے، وہ بے شعور قسم کے انتخابِ طبیعی کا نتیجہ نہیں ہوسکتی-
3- سگمنڈ فرائڈ (وفات: 1939) کا نظریہ یہ تھا کہ انسان کی ذہنی ترقی اِس طرح ممکن ہے کہ اس کو آزاد چھوڑ دیا جائے کہ وہ اپنی خواہشوں کو بے روک ٹوک پورا کرسکے- فرائڈ کے اِس نظریے کا نتیجہ یہ ہوا کہ مذہبی تصور کے مطابق، حرام وحلال کی پابندیاں ختم ہوگئیں- انسان آزاد ہوگیا کہ وہ خود اپنی خواہش کے تحت جو چاہے کرے اور جو چاہے نہ کرے-
لیکن بعد کی تحقیقات سے یہ ثابت ہوا کہ فرائڈ کا یہ نظریہ ایک غیر فطری نظریہ ہے- چناں چہ وہ انسان کی ذہنی ترقی میں مانع ہے، نہ کہ مدد گار-نفسیات کا جدید مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان کی ذہنی ترقی چیلنج کے ذریعے ہوتی ہے، نہ کہ بے قید آزادی کے ذریعے- مذہب کی عائد کردہ اخلاقی پابندیاں ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہیں- اِس چیلنج کے ذریعے انسان کے اندر تخلیقی فکر (creative thinking) پیدا ہوتی ہے- اِس طرح انسان اپنی توانائی کے ضیاع سے بچتے ہوئے ذہنی ترقی کے راستے پر سفر کرتا رہتا ہے-
4- کارل مارکس (وفات: 1883) نے زندگی کا جو فلسفہ دیا، وہ اپنی عملی تدبیر کے اعتبار سے یہ تھا کہ اقتصادی ذرائع کو انفرادی کنٹرول سے نکال کر سماجی کنٹرول میں دے دیا جائے- مارکس کے نزدیک انسانی حقوق کے تحفظ کا یہی واحد راستہ تھا- مگر عملی تجربے کے لحاظ سے اِس فلسفے کا مطلب یہ تھا کہ تمام اقتصادی ذرائع کو اسٹیٹ کے کنٹرول میں دے دیا جائے- اِس نظریے کا مقصد بظاہر ایک غیرطبقاتی سماج (classless society) پیدا کرنا تھا، مگر عملاً اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دو شدید قسم کے متحارب طبقے پیدا ہوگئے-
اِس نظریے سے دو بڑی برائیاں پیدا ہوئیں— ایک، یہ کہ مسابقت (competition) کا ختم ہوجانا، جو کہ تمام ترقیوں کے لیے فطری محرک کی حیثیت رکھتا ہے- دوسری برائی جو اشتراکی نظریے کےتحت پیدا ہوئی، وہ یہ کہ لوگ عمومی طورپر رائٹ کانشس (right-conscious) بن گئے، جب کہ کسی سوسائٹی کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ اس کے افراد ڈیوٹی کانشس (duty-conscious)ہوں- یہاں پہنچ کر طبقاتی کشمکش نے ایک ایسی صورت اختیار کرلی جو کبھی ختم ہونے والی نہیں- کیوں کہ زندگی میں ڈیوٹی کا تعین ہوسکتا ہے، لیکن رائٹ کا کوئی تعین نہیں-
خلاصہ کلام
قدیم دورِ شرک کا بگاڑ یہ تھا کہ وہ خدا اور بندے کے درمیان تعلق کو صحیح بنیاد پر قائم کرنے میں مانع بن گیا- انسان کو یہ کرنا تھا کہ وہ اپنی سوچ کو اور محبت اور خوف کے جذبات کو مکمل طورپر خدا سے وابستہ کرے- اِسی کا نام توحید ہے اور اِسی توحید سے انسان کے اندر تمام اعلی صفات پیدا ہوتی ہیں- لیکن مشرکانہ کلچر نے خدا کے شرکا (partners) قرار دے کر انسان کو اس کے مرکزِ اصلی سے ہٹا دیا- نتیجہ یہ ہوا کہ انسان اپنے مطلوب ارتقا سے محروم ہو کر رہ گیا-
انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے، ایک مرکز ِ وابستگی چاہتا ہے- انسان کی اِس فطری طلب کا مرجع صرف ایک ہے، اور وہ اس کا خالق ہے- بندے کا خالق سے تعلق قائم ہونا ایسا ہی ہے جیسے بجلی کے بلب کا پاور ہاؤس سے تعلق قائم ہونا- شرک کی برائی یہ تھی کہ اس نے انسان کی اِس طلب کے لیے اس کو ایک غیر واقعی بدل (false substitute) دے دیا- اِس بنا پر ایسا ہوا کہ انسان کو اس کی فطری طلب کا مرکز نہیں ملا اور نتیجةً انسان اپنی شخصیت کے اُس ارتقا سے محروم ہوگیاجو اس کے لیے پیدائشی طور پر مقدر تھا-
جدید الحاد کے دور میں دوبارہ انسان ایک اور اعتبار سے اِسی محرومی کا شکار ہوگیا- قرآن میں بتایا گیا ہے کہ انسان کو علمِ قلیل دیاگیا ہے- انسان کے لیے آزادی بہت اچھی چیز ہے، لیکن انسان اپنی فطری ساخت کے اعتبار سے کامل آزادی کا تحمل نہیں کرسکتا- انسان کے لیے حقیقت پسندی یہ ہے کہ وہ اپنی اِس محدودیت (limitation) کو جانے اور مقیّد آزادی (guided freedom) پر راضی ہوجائے- جدید الحاد نے آزادی کو خیر مطلق (summon bonum)قرار دے کر انسان کو اس کی فطرت کے راستے سے ہٹا دیا- یہی وجہ ہے کہ بظاہر ہر قسم کی ترقیوں کے باوجود انسان اُس اہم ترین چیز سے محروم ہوگیا جس کو ذہنی سکون (peace of mind) کہاجاتا ہے- (2013)
واپس اوپر جائیں

استثنائی شخصیت

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش 570ء میں مکہ میں ہوئی- 610ء میں آپ کو نبوت ملی- 632ء میں مدینہ میں آپ کی وفات ہوئی- آپ پوری تاریخ میں ایک استثنائی شخصیت تھے- آپ کا استثنائی شخصیت ہونا اپنے آپ میں اِس بات کا ایک ثبوت ہے کہ آپ اللہ تعالی کے نمائندہ تھے- آپ کو اللہ تعالی کی خصوصی نصرت حاصل تھی- خداوندِ کائنات کی خصوصی نصرت کے بغیر کوئی شخص ایسا نہیں کرسکتا کہ وہ پوری تاریخ میں ایک استثنائی شخصیت بن جائے-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی اِس استثنائی شخصیت کے مختلف پہلو ہیں- اِس موضوع کی تفصیل کے لیے ایک مکمل کتاب درکار ہے- یہاں آپ کی استثنائی شخصیت کے چند پہلو مختصر طورپر درج کیے جاتے ہیں-
اظہارِ دین
قرآن کی سورہ الفتح میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ آیت آئی ہے: ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰى وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ ۭ وَکَفٰى بِاللّٰہِ شَہِیْدًا (48:28)یعنی یہ اللہ ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا، تاکہ وہ اُس کو تمام دین پر غالب کردے- اور اللہ گواہی کے لیے کافی ہے-
قرآن کے اِس بیان میں جو بات کہی گئی ہے، اُس کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے دینِ خداوندی کے اعلان کے لیے بہت سے لوگ اٹھے، لیکن اُن کا کام اعلان کے درجے تک محدود رہا، وہ انقلاب کے درجے تک نہیں پہنچا- پیغمبر اسلام کا مشن اللہ کی خصوصی نصرت سے نظریاتی انفجار (ideological explosion) تک پہنچ گیا- آپ کے ذریعے افکار کی دنیا میں ایک ایسا انقلاب آیا کہ آپ کو تاریخ ساز پیغمبر (epoch-making prophet) کی حیثیت حاصل ہوگئی-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی اِس انقلابی صفت کا اعتراف مختلف مورخین نے کھلے طورپر کیا ہے- فرانس کا مورخ ہنری پرین (Henri Pirenne) 1862 میں پیدا ہوا، اور 1935 میں اس کی وفات ہوئی- اس نے اسلام اور پیغمبر اسلام کے موضوع پر کئی کتابیں شائع کی ہیں- اُس نے لکھا ہے کہ — اسلام نے دنیا کا نقشہ بدل دیا- اس کے بعد روایتی دورِ تاریخ کا خاتمہ ہوگیا:
Islam changed the face of the globe. The traditional order of history was overthrown.
کارِ نبوت کا تسلسل
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے جو انقلاب آیا، اُس کے بعد یہ ممکن ہوگیا کہ پیغمبر کے بغیر کارِ نبوت کا تسلسل جاری رہے- پچھلے پیغمبروں کے زمانے میں ایسا ہوتا تھاکہ پیغمبر پر نازل ہونے والی وحی پیغمبر کے بعد محفوظ نہیں رہتی تھی، اِس لیے بار بار خدا کی طرف سے پیغمبر بھیجے جاتے رہے- لیکن پیغمبر اسلام کے ذریعے یہ ہوا کہ آپ کے اوپر نازل ہونے والی وحی (قرآن) پوری طرح محفوظ ہوگئی- آپ کی زندگی بھی تاریخی طورپر مدوّن ہوگئی- اِس لیے آپ کے بعد یہ ممکن ہوگیا کہ کوئی شخص جو گہرے طورپر پیغمبر کے مشن سے اپنے آپ کو وابستہ کرے، وہ اپنے زمانے میں پیغمبر کا نمائندہ بن جائے-
یہی بات حدیثِ رسول میں اِس طرح بتائی گئی ہے: العلماء ورثة الأنبیاء (ابوداؤد، رقم الحدیث: 3641) یعنی علما انبیا کے وارث ہیں- پیغمبر اسلام صلی للہ علیہ وسلم کے ذریعے دین ِ خداوندی کے تمام اجزا محفوظ ہوگئے، جو دین پہلے زندہ شخصیتوں کی سطح پر ہوتا تھا، وہ اب مستند کتابوں کی شکل میں محفوظ ہوگیا، اِس طرح امت کی بعد کی نسلوں میں اٹھنے والے افراد کے لیے یہ ممکن ہوگیا کہ وہ کارِ نبوت کا تسلسل دوبارہ زندہ حالت میں جاری کرسکیں:
Without being a prophet, one can play the prophetic role.
خالق کا تخلیقی پلان
یہ ہر انسان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ وہ جانے کہ پیدا کرنےوالے نے اُس کو کس لیے  پیدا کیا ہے- اُس کا مقصدِ تخلیق کیا ہے- اس کے لیے کامیابی کیا ہے اور ناکامی کیا- ہر عورت اور مرد اِس سوال سے لازمی طور پر دوچار ہوتے ہیں، خواہ شعوری طورپر یا غیر شعوری طورپر-
اِس سوال کا معتبر جواب صرف خالق دے سکتا ہے- یہ صرف خالق ہے جو یہ بتا سکتا ہے کہ انسان اور کائنات کو پیدا کرنے سے اُس کا منصوبۂ تخلیق(creation plan) کیا ہے- قرآن اور پیغمبرقرآن کے ذریعے خدا نے اِس سوال کا معتبر جواب فراہم کیا ہے-اب ہر انسان کے لیے یہ ممکن ہوگیا کہ وہ خدا کے تخلیقی پلان کو جانے:
It became possible for everyone to know the creation plan of God.
پہلے زمانے میں حنفاء ہوا کرتے تھے، یعنی متلاشیٔ حق-پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ ممکن ہوگیا کہ کوئی شخص اپنی تلاشِ حق کو دریافت ِحق بناسکے:
Truth-seekers no longer need to live in bewilderment.
نشانیوں کا ظہور
قرآن کی سورہ حم السجدہ میں بعد کی تاریخ کے لیے ایک پیشین گوئی اِن الفاظ میں آئی ہے: سَنُرِیْہِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقّ( 41:53) یعنی مستقبل میں ہم اُن کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے، کائنات میں بھی اور انسان کے اندر بھی، یہاں تک کہ اُن پر پوری طرح یہ واضح ہوجائے گا کہ یہ (قرآن) حق ہے-
قدیم زمانے میں جو انبیا آئے، انھوںنے خرقِ عادت معجزے دکھائے- یہ معجزے اُن کے معاصرین کے لیے اُن کے پیغمبر ہونے کی دلیل تھے- حسّی معجزہ معاصرین کے لیے دلیل ہوتا ہے، بعد کے لوگوں کے لیے وہ دلیل نہیں ہوتا- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے آخری پیغمبر تھے، یعنی قیامت تک کے لیے پیغمبر- اِس کا مطلب یہ تھا کہ آپ کی وفات کے بعد بھی آپ کے پیغام کی پیغام رسانی اہلِ عالم کے لیے جاری رہے گی-
یہ کام اِس طرح انجام پایا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے انقلاب کے ذریعے تاریخ میں ایک ایسا عمل جاری ہوا جس کے نتیجے میں فطرت کے قوانین دریافت ہوئے- یہ قوانین ِ فطرت معجزہ کا بدل بن گئے- اِن قوانین کے ذریعے یہ ممکن ہوگیا کہ بعد کے زمانے میں سائنسی دلائل کی طاقت سے وہ دعوتی کام انجام دیا جاسکے جو پہلے معجزہ کی طاقت سے انجام دیا جاتا تھا، گویا کہ پیغمبر اسلام سے پہلے دعوت بذریعہ معجزہ (dawah through miracle)کا زمانہ تھا- اور اب دعوت بذریعہ علمی دلائل (dawah through scientific argument) کا زمانہ ہے-
قرآن کی سورہ الاسراء میں پیغمبر اسلام کے بارے میں یہ اعلان کیا گیا ہے کہ: عَسٰٓی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا(17:79) یعنی قریب ہے کہ تمھارا رب تم کومقامِ محمود پر کھڑا کرے- اِس آیت میں مقامِ محمود کسی پُراسرار واقعے کا نام نہیں ہے- اُس سے مراد ایک معلوم واقعہ ہے جو تاریخ میں مسلّمہ طورپر پیش آیا- پیغمبر اسلام سے پہلے جو پیغمبر آئے، وہ مستند تاریخ میں ریکارڈ نہ ہوسکے- پیغمبروں کی فہرست میں پیغمبر اسلام پہلے پیغمبر ہیں جو مستند تاریخ میں درج کیے گئے- ایک مغربی مورخ نے اِس کا اقرار اِن الفاظ میں کیا ہے — محمد تاریخ کی کامل روشنی میں پیدا ہوئے:
Muhammad was born within the full light of history.
حقیقت یہ ہے کہ نبیٔ محمود سے مرادنبیٔ معتَرَف(acknowledged prophet) ہے- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ابتدائی زندگی میں آپ کو اتنا کم سمجھا گیا کہ مکہ کے مخالفین آپ کو مذمّم (condemned person) کہنے لگے- لیکن آخر کار تاریخ آپ کے موافق ہوگئی- عام طور پر مورخین اور مبصرین آپ کی عظمت کا اعتراف کرنے لگے-
اِن میں سے ایک مثال امریکا کے ڈاکٹر مائکل ہارٹ(Michael H. Hart) کی ہے- انھوں نے تمام دنیا کی مشہور شخصیتوں کا مطالعہ کرکے ایک ضخیم کتاب تیار کی- اُس کا عنوان ایک سو (The Hundred) ہے- اِس کتاب میں پوری انسانی تاریخ کی ایک سو بڑی شخصیتوں کا تذکرہ ہے- مصنف نے اِس کتاب میں پیغمبر اسلام کو اِس فہرست میں پہلے نمبر پر رکھا ہے- انھوںنے لکھا ہے کہ — محمد تاریخ کے پہلے شخص ہیں جو انتہائی حد تک کامیاب رہے، مذہبی سطح پر بھی اور دنیوی سطح پر بھی:
Mohammad was the only man in history who was supremely successful on both the religions and secular levels.
اخوانِ رسول
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک قول میں یہ پیشین گئی کی کہ بعد کے زمانے میں آپ کی امت میں ایسے افراد پیدا ہوں گے جو اخوانِ رسول قرار پائیں گے، یعنی معرفتِ دین کے اعتبار سے اُنھیں اصحابِ رسول جیسا درجہ حاصل ہوگا:
Ikhwan-e-Rasool are those — who share sahaba-like experiences due to their deep realization.
پچھلے پیغمبروں کے یہاں صرف اصحاب (companions) ہوا کرتے تھے- یہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی استثنائی صفت ہے کہ آپ کی امت میں ایسے افراد پیدا ہوں گے جو اخوان (brothers) کا درجہ پائیں گے- ایسا صرف اِس لیے ممکن ہوگا کہ پیغمبر اسلام کے بعد خدا کا دین نظریہ اور عمل دونوں اعتبار سے پوری طرح محفوظ ہوگیا-
خاتم النبیین
قرآن کی سورہ الاحزاب میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ الفاظ آئے ہیں: وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّـبِیّٖنَ (33:40) یعنی محمد، اللہ کے رسول اور نبیوں کے خاتم ہیں-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کے متعدد پہلو ہیں- اُس کا ایک پہلو یہ ہے کہ نبوت اب شخصی عمل کے طور پر باقی نہ رہی، البتہ کارِ نبوت اب دعوتی عمل کے طورپر مسلسل جاری ہے- یہ پیغمبر اسلام کی ایک استثنائی صفت ہے- دوسرے پیغمبروں کے معاملے میں یہ ہوا کہ پیغمبر کا نام لینے والوں کا ایک گروہ تو ضرور باقی رہا، لیکن پیغمبر کی حقیقی دعوت کسی تبدیلی کے بغیر اپنی اصل صورت میں جاری رہنے کا امکان ختم ہوگیا-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے بعد یہ ہوا کہ ایک نیا دورِ دعوت وجود میں آیا، وہ تھا — براہِ راست پیغمبر کی ذات کے ذریعے دعوت کے دورکا خاتمہ، اور پیغمبر کے ماننے والوں کے ذریعے دعوت کے دور کا آغاز:
End of dawah through the Prophet, beginning of dawah through the followers of the Prophet, continuation of the prophetic role through the followers of the Prophet.
فتحِ مبین
قرآن کی سورہ نمبر 48 معاہدہ حدیبیہ کے بعد نازل ہوئی- معاہدہ حدیبیہ امن کا معاہدہ تھا- معاہدہ حدیبیہ کیا تھا- معاہدہ حدیبیہ کا مقصد تھا — جنگ کے حالات کو ختم کرکے امن کے حالات پیدا کرنا- اِس معاہدے کے بعد پیغمبر اسلام اور آپ کے مخالفین کے درمیان مکمل طورپر جنگ بندی ہوگئی اور طرفین کے درمیان امن کی حالت قائم ہوگئی- اِس کے بعد معتدل حالات میں دعوتی کام کرنا ممکن ہوگیا-
امن کا یہ معاہدہ پوری تاریخ کا ایک انوکھا معاہدہ تھا- یہ فریقِ ثانی کی تمام شرطوں کو یک طرفہ طورپر مان کر انجام پایا تھا- بظاہر وہ پسپائی کا ایک معاہدہ تھا، لیکن معاہدے کی تکمیل کے بعد قرآن میں یہ آیت اتری: اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا ۝ لِّیَغْفِرَ لَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَ نْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ وَیُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکَ وَیَہْدِیَکَ صِرَاطًا مُّسْتَـقِیْمًا ۝ وَّیَنْصُرَکَ اللّٰہُ نَــصْرًا عَزِیْزًا (48:1-3)یعنی بے شک ہم نے تم کو کھلی ہوئی فتح دے دی، تاکہ اللہ تمہاری اگلی اور پچھلی خطائیں معاف کردے، اور تمھارے اوپر اپنی نعمت کی تکمیل کردے، اور تم کو سیدھا راستہ دکھائے، اور تم کو زبردست مدد عطا کرے-
تاریخ کے مطابق، معاہدۂ حدیبیہ کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی سیاسی فتح حاصل نہیں ہوئی- یہ معاہدہ بظاہر فریقِ ثانی کے مقابلے میں شکست کا واقعہ تھا، نہ کہ فتح کا واقعہ- اِس کے باوجود قرآن میں کیوں اُس کو فتحِ مبین کہاگیا - ایسا اِس لیے ہوا کہ معاہدہ حدیبیہ کے بعد دعوت کے تمام مواقع کھل گئے- یہ مواقع اتنے غیر معمولی تھے کہ معاہدے کے بعد صرف دو سال کے اندر پیغمبر اسلام کے ساتھیوں کی تعداد پانچ گنا زیادہ ہوگئی- اور جنگ کے بغیر صرف زیادہ تعداد فیصلے کے لیے کافی ہوگئی-
حدیبیہ دراصل ایک عظیم پالیسی کا نام ہے- یہ پالیسی تاریخ میں پہلی بار پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو بتائی، یعنی حالتِ موجودہ کو مان کر ٹکراؤ ختم کردو، تاکہ مواقع (opportunities) کو استعمال کرنا ممکن ہوسکے:
Hudaibiya means — policy of positive statusquoism. And positive statusquism is the key to super achievement.
صلح بہتر ہے
قرآن کی سورہ النساء میں یہ آیت آئی ہے: الصلح خیر (4:128) یعنی صلح بہتر ہے- گویاامن کا طریقہ سب سے زیادہ کار گر طریقہ ہے:
Peace is the most successful policy.
فلاسفہ اور مفکرین ہمیشہ امن کی بات کرتے رہے ہیں- امن کے مطالعے کے لیے ایک مستقل شعبہ علم وضع ہوا ہے جس کو پیسفزم (pacifism) کہا جاتاہے- مگر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم تاریخ کے پہلے شخص ہیں جنھوں نے ایک مکمل نظریۂ امن (ideology of peace) دنیا کو دیا- اِس اعتبار سے آپ کو پیغمبر امن (prophet of peace) کہا جاسکتاہے-(2008)
واپس اوپر جائیں

ایک سبق آموز واقعہ

ہمارے دعوتی مشن کے ایک ساتھی اپنے گھر سے نکلے۔ ان کے ہاتھ میں ایک بیگ تھا۔ اس بیگ میں اسلامی لٹریچر تھا جس کو وہ لوگوں تک پہنچانا چاہتے تھے۔ راستے میں ایک مقام پر ایک فوجی افسر نے اُن کو روکا۔ اس نے پوچھا کہ اس بیگ میں کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس میں کتابیں ہیں۔ فوجی افسر نے بیگ کھول کر اس کو چیک کیا- ہمارے ساتھی نے اس میں سے دو کتابیں مذکورہ فوجی افسر کو دیں— ریلٹی آف لائف(The Reality of Life) اور ’’ستیہ کی کھوج‘‘۔ ہمارے ساتھی نے فوجی افسر سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ انسان کی باڈی کوقتل (kill) کرتے ہیں، ہم انسان کے اندر چھپی ہوئی بری سوچ(evil thought) کو قتل کرتے ہیں۔ فوجی افسر نے بڑے دھیان سے ہمارے ساتھی کی باتیں سنیں۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اس نے یہ کہہ کر ہمارے ساتھی کو رخصت کیا— مجھے آپ کے اوپر فخر ہے:
I am proud of you!
یہ واقعہ بتاتا ہے کہ کوئی دشمن دشمن نہیں۔ ہر وہ انسان جس کو آپ بظاہر اپنا دشمن سمجھ لیـتے ہیں، اس کے اندر آپ کا ایک دوست انسان چھپا ہوا ہوتاہے۔ عقل مندی یہ ہے کہ ظاہری دشمن کو نظر انداز کرکے اُس کے اندر چھپے ہوئے داخلی دوست کو حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہر دشمن آپ کا امکانی دوست (potential friend) ہے۔ اِس امکان کو واقعہ بنانے کی کوشش کیجئے اورپھر آپ کے لیے دشمن اور دوست کا فرق مٹ جائے گا۔ ہر انسان آپ کا دوست انسان بن جائے گا۔ فطرت کا یہی راز ہے جس کو قرآن کی ایک آیت میںاِس طرح بیان کیا گیاہے: ’’اور بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں، تم جواب میں وہ کہو جو اس سے بہتر ہو، پھر تم دیکھو گے کہ تم میں اور جس میں دشمنی تھی، وہ ایسا ہوگیا جیسے کوئی دوست قرابت دار۔ اور یہ بات صرف اُسی کو ملتی ہے جو صبر کرنے والے ہیں۔ اور یہ بات صرف اُسی کو ملتی ہے جو بڑا نصیب والا ہے‘‘۔( 34-41:36)
واپس اوپر جائیں

برتر حساسیت

نفسیاتی مطالعہ بتاتا ہے کہ بعض افرادکی حساسیت (sensitivity) بہت زیادہ بڑھی ہوئی ہوتی ہے- علماء ِنفسیات (psychologists) کے مطابق، یہ ایک پیدائشی صفت ہے جو بعض افراد میں خصوصی طورپر موجود ہوتی ہے- جن افراد کے اندر بڑھی ہوئی حساسیت کی یہ صفت پائی جائے، وہ علم وفکر کی دنیا میں بڑے بڑے کام انجام دیتے ہیں- یہ نفسیات کا ایک مستقل موضوع ہے- اِس موضوع پر بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں- اُن میں سے ایک کتاب یہ ہے:
Elaine N. Aron, The Highly Sensitive Person, pp. 251, 1997
کتاب کاخلاصہ یہ ہے کہ — زیادہ حساس لوگ پیدائشی طورپر زیادہ ذہین ہوتے ہیں- ان کے اندر وجدان اور تخییل اور تخلیقیت کی صلاحیت زیادہ پائی جاتی ہے- زیادہ حساس انسان کے اندر یہ صفت ہوتی ہے کہ وہ ایک بات کو زیادہ گہرائی کے ساتھ اخذ کرسکے:
They are gifted with great intelligence, intuition, imagination and creativity. A highly sensitive person can grasp a point with greater intensity.
وہ چیز جس کو دین میں تقوی کہاجاتا ہے، اُس کی اصل حقیقت بھی یہی ہے- تقوی کا مادّہ ’و ق ی‘ ہے- عربی میں کہاجاتا ہے: فرس واقٍ (بچ بچ کر چلنے والا گھوڑا)- گھوڑے کی سُم میں اگر کوئی زخم ہوجائے تو وہ بہت زیادہ بچ بچ کر چلتا ہے- ایسے حساس گھوڑے کو فرس واقٍ کہاجاتا ہے- یہی متقی انسان کا معاملہ ہے- متقی انسان وہ ہے جو خدائی معاملات میں بہت زیادہ حساس ہوگیا ہو- یہ حساسیت متقی انسان کے اندر وہی اعلی صفتیں پیدا کرتی ہے جن کا اوپر ذکر کیاگیا ہے-
اِسی حساسیت کا ایک ظاہرہ وہ ہے جس کو قرآن میں فرقان (8:28) کہاگیاہے، یعنی ایک چیز اور دوسری چیز کے درمیان فرق کرنا- ایسا آدمی اِس قابل ہوتاہے کہ وہ صحیح اور غلط کے فرق کو فوراً پہچان لے، وہ باطل کو الگ کرکے حق کو دیکھ سکے-
واپس اوپر جائیں

ایک اور موقع

نومبر 2012 میں امریکا کا 57 واں صدارتی الیکشن ہوا- اِس الیکشن میں براک اوباما دوبارہ چار سال کے لیے امریکا کے صدر منتخب ہوئے- براک اوباما کو 6 نومبر 2012 کو جب پہلی بار اپنی جیت کی خبر ملی تو انھوں نے اپنے فیس بک کے اکاؤنٹ پر یہ الفاظ لکھے— چار اور سال:
Four more years!
اِس بات کا تعلق صرف صدر امریکا سے نہیں، وہ فطرت کا ایک قانون ہے- ہر آدمی کی زندگی میں یہ تجربہ پیش آتا ہے کہ اُس کو کام کا ایک ’’مزید وقت‘‘ حاصل ہوتا ہے- یہ مزید وقت آدمی کو یہ موقع دیتاہے کہ وہ پچھلے تجربات سے فائدہ اٹھا کر اپنے عمل کی نئی، زیادہ بہتر منصوبہ بندی کرے- جو کچھ وہ گزشتہ کل نہ پاسکا تھا، اس کو وہ آج پانے کی کوشش کرے-
یہ موقع چار سال یا چار مہینہ یا چار دن کے لیے بھی ہوسکتا ہے- آدمی کو چاہئے کہ وہ آنے والے نئے موقع کو پہچانے اور اس کو بھر پور طور پر استعمال کرے- تجربہ بتاتا ہے کہ آدمی کی زندگی میں دوسرا موقع (second chance) تو ضرور آتاہے، لیکن اکثر حالات میں دوسرا موقع اس کے لیے آخری موقع بن جاتا ہے- اس کے بعد تیسرااور چوتھا موقع اس کو نہیں ملتا-
اکثر حالات میں ایسا ہوتا ہے کہ دوسرا موقع آدمی کے لیے امکانی طورپر پہلے موقع سے بہتر ہوتاہے- آدمی کے لیے یہ ممکن ہوتاہے کہ وہ پہلے موقع کی غلطی اور خامی کو دوبارہ نہ دہرائے، وہ دوسرے موقع کو زیادہ بہتر طورپر استعمال کرے- اِسی حقیقت کو ایک فارسی شاعر نے اِن الفاظ میں بیان کیا ہے کہ — آرٹسٹ دوسری بار اپنے آرٹ کو زیادہ بہتر بناتا ہے:
نقاش نقشِ ثانی بہتر کَشد ز اوّل
اِس حقیقت کا تقاضا ہے کہ آدمی اِس معاملے میں بہت زیادہ سنجیدہ ہو، وہ اپنے ہر لمحے کی قدر کرے، کیوں کہ کھویا ہوا لمحہ دوبارہ واپس آنے والا نہیں-
واپس اوپر جائیں

سوال وجواب

سوال
دو سوالات کے جواب مطلوب ہیں- براہِ کرم، اس کی وضاحت فرمائیں:
1- ایک اعلی تعلیم یافتہ مسلمان سے ملاقات ہوئی- انھوں نے الرسالہ مشن کا اعتراف کیا اور یہ بتایا کہ الرسالہ مشن کا مثبت کنٹری بیوشن (positive contribution)کیا ہے- ان کے نزدیک، الرسالہ مشن کے اِس کنٹری بیوشن کے تین پہلو ہیں:
Ÿ تصوف کے مقابلے میں، تزکیہ وتعلق باللہ کا صحیح تصور پیش کرنا-
Ÿ اسلام کی سیاسی تعبیر (political interpretation)کی غلطی کی نشان دہی کرنا اور اس کے مقابلے میں اسلام کی دعوتی تعبیر پیش کرنا-
Ÿ مسلمانوں کو درپیش مسائل کے اعتبار سے، اُن کو تعمیری رہنمائی دینا-
2- دسمبر 2013 کی 27 تاریخ کو دہلی میں دو اعلی تعلیم یافتہ مسلمانوں سے ملاقات ہوئی- گفتگو کے دوران انھوں نے کہا کہ الرسالہ مشن کے تحت جو ٹیم بنی ہے، اُس کے افراد اپنے اندر بلا شبہہ مثبت سوچ رکھتے ہیں- ٹیم کے یہ ممبران بے لوث انداز میں ہر جگہ الرسالہ کے لٹریچر کی اشاعت کررہے ہیں- تاہم ٹیم کے یہ افراد عام طورپر مشن کے لیے مخلص ایکٹوسٹ (sincere activists) یا مخلص ورکر (sincere workers) کی حیثیت رکھتے ہیں- صدر اسلامی مرکز کو چاہیے کہ وہ اپنے مشن کے تحت کچھ ایسے افراد بھی تیار کریں جو قرآن وسنت اور اسلامی مصادر وماخذکا گہرا علم رکھتے ہوں، تاکہ وہ الرسالہ کی علمی روایت کو آگے بڑھا سکیں- (ایک قاری الرسالہ، نئی دہلی)
جواب
1- الرسالہ مشن کا کنٹری بیوشن بتانے کے لیے یہ تینوں باتیں بلا شبہہ درست ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ الرسالہ مشن کا جو اصل کنٹری بیوشن ہے، اس کے اعتبار سے، یہ تینوں چیزیں ثانوی حیثیت رکھتی ہیں- الرسالہ مشن کا اصل کنٹری بیوشن ہے— نئے دور میں اسلام کی از سرِ نو دریافت
(re-discovery of Islam in a changing world)- اِس دریافت کے دو خاص پہلو ہیں- ایک یہ ہے کہ دورِ جدید (modern age) دورِ تعقل (age of reason) تھا- نئے حالات کے اعتبار سے، اسلام بظاہر لوگوں کو دورِ جدید میں بے جوڑ (misfit) دکھائی دیتا تھا- الرسالہ مشن نے کامیابی کے ساتھ یہ کیا اسلام کو جدید ذہن (modern mind)کے لیے عقلی طورپر قابلِ فہم (rationally understandable) بنایا- اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ الرسالہ مشن نے دلائل کے ذریعے بتایا کہ دورِ جدید میں مسلمانوں کا اصل مشن دعوت الی اللہ ہے-
الرسالہ مشن اپنی حقیقت کے اعتبار سے، احیاءِ اسلام (revival of Islam) کا مشن ہے- احیاءِ اسلام ایک معروف اصطلاح ہے، لیکن لوگ اِس اصطلاح کے صرف روایتی مفہوم کو جانتے تھے- الرسالہ مشن نے اِس اصطلاح کو اس کے نیے مفہوم کے ساتھ زندہ کیا- اِس اعتبار سے، الرسالہ مشن ایک تخلیقی مشن (creative mission) ہے- وہ اجتہادی فکر پر مبنی ہے، نہ کہ تقلیدی فکر پر-
2- یہ بات درست نہیں- الرسالہ مشن میں جو لوگ شامل ہیں، وہ ورکر یا ایکٹوسٹ نہیں ہیں، بلکہ وہ سب کے سب تعلیم یافتہ لوگ ہیں ، الرسالہ مشن تعلیم یافتہ لوگوں کا مشن ہے- اِس مشن میں جو لوگ شریک ہیں، وہ لٹریچر پڑھ کر اور شعوری فیصلے کے تحت اس میں شریک ہوئے ہیں- زیادہ صحیح الفاظ میں، یہ ٹیم تعلیم یافتہ لوگوں کی ٹیم ہے-
جہاں تک مذکورہ قسم کے اکیڈمیشین (academician) کا تعلق ہے، تو اکیڈمیشین لوگ کبھی کسی مشن سے نہیں جڑتے- اِس کا سبب اکیڈمک کلچر اور مشن کلچر کا فرق ہے- وہ فرق یہ ہے کہ طبیعی سائنس (physical science) کے معاملے میں ہمیشہ ایک واحد رائے پر پہنچنا ممکن ہوتا ہے، لیکن سماجی علوم یا انسانی علوم (humanities) میں ایسا نہیں ہوتا کہ صرف ایک رائے کا انتخاب ممکن ہو- چوں کہ سماجی علوم یا انسانی علوم میں ہمیشہ استنباط (inference)کا امکان ہوتا ہے، اِس لیے رائیں مختلف ہوجاتی ہیں- ایسی حالت میں انسانی علوم کے معاملے میں کسی ایک رائے پر اصرار کرنے کا مطلب بظاہر یہ ہے کہ آدمی تعصب کا شکار ہوگیا ہے- اِسی تعصب کے الزام سے بچنے کے
لیے اکیڈمیشین یہ کرتے ہیں کہ وہ کبھی قطعیت کی زبان استعمال نہیں کرتے- وہ اپنے بیان میں ہمیشہ اِس طرح کے الفاظ شامل کرتے ہیں:
Perhaps, Probably, It appears, My be I am wrong, etc.
اپنی اِسی خاص نفسیات کی بنا پر کوئی اکیڈمیشین کبھی کسی مشن کا حصہ نہیں بنتا- مشن کلچر صرف وہ لوگ اختیار کرتے ہیں جو اپنے ترقی یافتہ شعور کی بنا پر کسی ایک نظریے کو بطور صداقت اختیار کرسکیں- اکیڈمیشین کا ذہن ایک ایسا ذہن ہوتا ہے جو صاحبِ مشن کے ذہن سے مکمل طور پر مختلف ہوتا ہے- اِسی اختلاف کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی اکیڈمیشین کسی مشن کا ساتھ نہیں دیتا-
اکیڈمک کلچر کے مزاج کے مطابق، اکیڈمیشین کا جو اصول ہے، اس کو ویلونیوٹریلٹی (value neutrality) کہا جاتا ہے- معیاری اکیڈمیشین وہ ہے جو ویلو ججمنٹ (value judgement) نہ دے، بلکہ وہ ہمیشہ ویلو نیو ٹرل (value neutral) بنا رہے، وہ کسی ایک رائے کو درست نہ سمجھے، بلکہ وہ رایوں کے بارے میں غیر جانب دار (impartial) بنا رہے-
کسی مشن کی کارکردگی کو جج کرنے کے لیے یہ کوئی صحیح معیار نہیں کہ یہ دیکھا جائے کہ اکیڈمیشین اس میں تیار ہورہے ہیں یا نہیں- جب تاریخ بتاتی ہے کہ کبھی کسی اکیڈمیشین نے کسی مشن کا ساتھ نہیں دیا تو کسی مشن پر تبصرہ کرنے کے لیے اِس معیار کو استعمال کرنا اپنے آپ میں درست نہیں- اِس قسم کی روش صاحبِ تبصرہ کی غیر سنجیدگی کا ثبوت ہے، نہ کہ اس کی انصاف پسندی کا ثبوت-
اِس معاملے کی ایک مثال وہ ہے جو کارل مارکس کی زندگی میں ملتی ہے- کارل مارکس ایک سوشلسٹ مفکر تھا- وہ سوسائٹی میں ایک تبدیلی لانا چاہتا تھا- اِس مقصد کے لیے اُس نے 1867 میں ایک کتاب جرمن زبان میں لکھی جس کا نام داس کیپٹال (Das Kapital)تھا- یہ کتاب بظاہر اکیڈمک انداز میں لکھی گئی تھی، مگر کارل مارکس کو اِس کتاب کی بنیاد پر کوئی ساتھ دینے والا نہیں ملا- اس کی دوسری کتاب وہ تھی جو کمیونسٹ مینی فیسٹو (Communist Manifesto) کے نام سے مشہور ہے- کارل مارکس کو اپنے مشن کے لیے جو ساتھی ملے، وہ زیادہ تر
کمیونسٹ مینی فیسٹو کے ذریعے ملے-
یہی معاملہ اسلام کا بھی ہے- قرآن معروف انداز کے مطابق، اکیڈمک اسلوب پر نہیں ہے، اس کا اسلوب داعیانہ اسلوب ہے- جیساکہ معلوم ہے، قرآن نے بے شمار لوگوں کو متاثر کیا- اِس کے مقابلے میں کئی لوگوں نے اسلام کے موضوع پر ایسی کتابیں لکھی ہیں جو خالص اکیڈمک اسلوب کے مطابق تیار کی گئی ہیں، لیکن اِن کتابوں کی بنیاد پر کبھی کوئی اسلامی مشن کھڑا نہ ہو سکا- اِس قسم کی کتابیں صرف لائبریری کی الماریوں میں پائی جاتی ہیں- انسانوں کی زندگی کو بدلنے میں اُن کا کوئی رول نہیں- انسان کی نسبت سے صرف داعیانہ اسلوب موثر ہے، نہ کہ اکیڈمک اسلوب-
سوال
میں الرسالہ مشن سے وابستہ ہوں اور اُس سے پورا اتفاق رکھتا ہوں- اِس موضوع پر اکثر لوگوں سے بحث ہوتی رہتی ہے- میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا اِس قسم کا بیان درست ہے کہ — الرسالہ مشن کے لوگ حق پر ہیں اور مثلاً جماعت اسلامی کے لوگ باطل پر- براہِ کرم، اِس کی وضاحت فرمائیں- (عبد اللطیف، پاکستان)
جواب
یہ کہنا کہ فلاں شخص یا گروہ حق پر ہے اور فلاں باطل پر، یہ ہمارے مشن کی زبان نہیں- یہ ویلو ججمنٹ (value judgement)کا طریقہ ہے، یعنی لوگوں پر شرعی حکم لگانا- کسی پر شرعی حکم لگانا ہمارا طریقہ نہیں- ہمارا طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے نقطہ نظر کو قرآن وحدیث کے حوالوں سے پیش کرتے ہیں- اگر کسی کو ہمارے نقطۂ نظر سے اختلاف ہے تو وہ قرآن وحدیث کے دلائل سے اس کو رد کرسکتا ہے- لوگوں کے اوپر شرعی حکم لگانے کا حکم نہ ہم کو ہے اور نہ دوسروں کو- بدقسمتی سے امت کے درمیان ویلو ججمنٹ کا طریقہ بہت عام ہے- اختلاف کے بعد فوراً ہی لوگ کافر، منافق، بدنیت جیسے الفاظ بولنے لگتے ہیں- اِس اسلوب کا نقصان تو یقینی ہے ، لیکن اس کا فائدہ کچھ بھی نہیں- اِس سے لوگوں کے اندر منفی ذہن پیدا ہوتا ہے- امت میں اختلاف اور انتشار کا ماحول بنتا ہے- لوگوں کو چاہیے کہ
ویلو ججمنٹ کا طریقہ وہ مکمل طورپر ترک کردیں-
انسان کے اندر سب سے زیادہ اعلی صفت وہ ہے جس کو صفتِ تفکیر (thinking quality) کہاجاتا ہے- ہر انسان مکمل معنوں میں آزادانہ فکر کا حامل ہوتا ہے- انسان کی اِسی تخلیقی صفت سے اختلافِ رائے کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے-انسانوں کے اندر اختلافِ رائے ہمیشہ رہا ہے اور ہمیشہ باقی رہے گا، وہ کبھی ختم نہیں ہوسکتا- ایسی حالت میں یہ سوال ہے کہ انسان کے لیے محفوظ موقف کیا ہے، یعنی وہ موقف جس کی بنا پر وہ اللہ کے سامنے گرفت سے بچ جائے- میرے مطالعے کے مطابق، اِس معاملے میں محفوظ موقف یہ ہے کہ ہر آدمی اپنی فہم کی نسبت سے آزاد ہو، لیکن حکم لگانے کا حق کسی کو حاصل نہ ہو- اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہر انسان کو یہ آزادی ہو کہ وہ دیانت داری (honesty) کے ساتھ جس چیز کو حق سمجھے، اُس پر قائم رہے- دوسرے شخص کے بارے میں اگر وہ محسوس کرے کہ اس کی رائے غلط ہے تو اِس اختلاف کی بنا پر وہ دوسرے شخص کے بارے میں حکم نہ لگائے- وہ اختلاف کو صرف ذہنی اختلاف کے درجے میں رکھے، وہ اس کو فیصلہ (judgement) کے درجے تک نہ لے جائے- یہ وہی بات ہے جس کو سیکولر علما اِن الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
Everyone has the right to dissent, but no one has the right to pass value judgement.
واپس اوپر جائیں