Pages

Friday 1 June 2007

Al Risala | June 2007 (الرسالہ،جون)

2

- مسیحی ماڈل کی آمدِ ثانی

7

- تاریخِ دعوت: آدم سے دابّہ تک

12

- آفاقی مشن

14

- شاہ راہِ دعوت سے انحراف

16

- امتحان، نہ کہ انعام

18

- فیصلہ کن چیز

20

- احکامِ دین

22

- انسان کی منزل

24

- پیغام

26

- ایک خط

28

- سوال اور جواب


مسیحی ماڈل کی آ ِمدثانی

قرآن خدا کا کلام ہے۔ خدائی کلام کا اسلوب انسانی کلام سے مختلف ہوتا ہے۔ اِس کی مثالیں قرآن کے علاوہ پچھلی آسمانی کتابوں میں بھی پائی جاتی ہیں۔ مثلاً بائبل میںبتایا گیا ہے کہ ایک پیغمبر نے اپنے مخاطبین سے کہا— میں تم سے کہتا ہوں کہ اگر یہ چپ رہیں تو پتھر چلا اٹھیں گے:
I tell you that if these should keep silent, the stones would immediately cry out. (Luke, 19:40)
یہ قول خدائی اسلوب میں ہے جو پیغمبر کی زبان سے ادا ہوا ہے۔یہ صرف خدا ہے جو اِس انداز میں کلام کرسکتا ہے۔ اِس قول کا مطلب یہ ہے کہ اگر انسان نہ بولیں تو خدا پتھروں کو حکم دے گا ، اور وہ خدا کی بات بولنے لگیں گے۔
خدائی کلام کا ایک اسلوب یہ ہے کہ حال کی زبان میں مستقبل کی بات کہنا۔ یہ اسلوب اِس حقیقت کا ایک مظاہرہ ہوتا ہے کہ صاحبِ کلام وہ ہستی ہے جو حال سے لے کر مستقبل تک کی تمام چیزوں کو دیکھ رہا ہے۔ اِس اسلوب کی ایک مثال قرآن کی سورہ نمبر 21 میں ملتی ہے۔ خدا نے انسانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: أولم یر الذین کفروا أن السمٰواتِ والأرض کانتا رتقاً ففتقناہما (الأنبیاء : 30 ) یعنی کیا انکار کرنے والوں نے نہیں دیکھا کہ زمین اور آسمان دونوں آپس میں ملے ہوئے تھے، پھر ہم نے ان کو پھاڑ کر ایک دوسرے سے الگ کردیا۔
اِس آیت میں خلا کے ایک واقعے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ یعنی وہ واقعہ جس کو موجودہ زمانے میں بگ بینگ (Big Bang) کہا جاتا ہے۔ قرآن کی یہ آیت ساتویں صدی عیسوی میںاتری تھی، جب کہ بگ بینگ کے واقعے کو انسان نے پہلی بار صرف بیسویں صدی عیسوی میں جانا۔ اِس کے باوجود قرآن میں اِس کا حوالہ دیتے ہوئے حال کے صیغے میں کلام کیاگیا ہے۔ یہ عالم الغیب خدا کا ایک اسلوب ہے، اِس قسم کا منفرد اسلوب انسانی کلام میں نہیں پایا جاتا۔
اِس اسلوب کی ایک مثال قرآن کی سورہ نمبر 61 میں موجود ہے۔ اِس سورہ کی آخری آیت کا ترجمہ یہ ہے: ’’اے ایمان لانے والو، تم لوگ خدا کے مددگار بنو، جیسا کہ عیسیٰ ابن ِ مریم نے اپنے حواریوں سے کہا کہ کون ہے جو خدا کے لیے میرا مددگار بنتا ہے۔ حواریوں نے کہا کہ ہم ہیں خدا کے مددگار۔ پھر بنی اسرائیل کے ایک گروہ نے مانا اور ایک گروہ نے انکار کردیا۔ پھر ہم نے ماننے والوں کی، اُن کے دشمنوں کے خلاف مدد کی تو وہ ہوگیے غالب‘‘۔ (الصّف: 14 )
اِس آیت کا اسلوب ایک غیر معمولی اسلوب ہے۔ اِس لیے کہ اِس آیت میں واضح طورپر پیروانِ محمد کو پیروانِ مسیح کے ماڈل کو اپنانے کا حکم دیاگیا ہے۔
اِس آیت پر غور کیا جائے تو اس سے ایک نہایت اہم حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے۔ یہاں خدا نے حال کی زبان میں مستقبل کے معاملے کو بیان فرمایا ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ تاریخ میں ایسی تبدیلیاں واقع ہوں گی کہ محمدی ماڈل زمانی حالات کی نسبت سے، جزئی طورپر، قابلِ انطباق(applicable) نہ رہے گا، اس کے بجائے مسیحی ماڈل، جزئی طورپر، قابلِ انطباق بن جائے گا۔
محمدی ماڈل کیا ہے۔ پیغمبرا سلام صلی اللہ علیہ وسلم نے 610 عیسوی میں مکہ میںاپنے پیغمبرانہ مشن کا آغاز کیا۔ آپ کا مشن دوسرے پیغمبروں کی طرح توحید کا مشن تھا۔ نظریاتی اعتبار سے آپ کے مشن اور دوسرے پیغمبروں کے مشن میںکوئی فرق نہ تھا، لیکن زمانی حالات کے اعتبار سے اُس کا ایک خاص ماڈل بنا۔ اِس ماڈل کی ترتیب یہ تھی— دعوت، ہجرت، جہاد (بہ معنیٰ قتال) اور فتح۔ اس ترتیب کی پیروی کرتے ہوئے آپ کا مشن دعوت سے شروع ہوا اور درمیانی مراحل طے کرتے ہوئے آخر میں فتح تک پہنچا۔
اِس ترتیب میں دعوتِ توحید اپنی نوعیت کے اعتبار سے محمدی ماڈل کا مطلق جز تھی، لیکن بقیہ چیزوں کی حیثیت اِس ماڈل کے اضافی اجزا کی تھی، یعنی ایسے اجزا جو حالات کی نسبت سے بنتے ہیں، نہ کہ نظری یا اعتقادی پہلو سے۔
مختلف اجزا کے درمیان یہ نوعی فرق ایک معلوم فر ق ہے، جو خود قرآن سے ثابت ہوتا ہے۔ قرآن میں پیغمبر اسلام کے علاوہ پچھلے نبیوں کا بھی بار بار ذکر آیا ہے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبروں کے معاملے میں خدا کی سنت ایک طرف یہ تھی کہ انھیں ایک ہی دینِ ہدایت دیاگیا ۔ چناں چہ قرآن میںارشاد ہوا ہے: کُلاًّ ہدینا ونوحاً ہدینا (الأنعام: 85) یعنی نظری اور اعتقادی اعتبار سے تمام نبیوں کو ایک ہی دینِ ہدایت عطاکیا گیا۔ دینِ ہدایت کے اعتبار سے ایک پیغمبر اور دوسرے پیغمبر کے درمیان کوئی فرق نہ تھا۔
دوسری طرف قرآن کی ایک اور آیت واضح طور پر بتاتی ہے کہ ایک پیغمبر اور دوسرے پیغمبر کے درمیان فرق موجود تھا۔ اِس حقیقت کو قرآن کی اِس آیت میں بیان کیاگیا ہے: لکلٍّ جعلنا منکم شرعۃً ومنہاجاً (المائدہ: 48)
قرآن کی اِس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ دینِ ہدایت کے اشتراک کے باوجود، ہر نبی کو ایک ایسی چیز بھی دی گئی جو دوسرے نبیوں سے مختلف تھی۔ قرآن کے الفاظ میں یہ ’منہاج‘ ہے۔ منہاج سے مراد وہی چیز ہے جس کو ہم طریقِ کار (method) کہتے ہیں، یعنی ہر نبی کا دین، نظریاتی اعتبار سے ایک تھا، لیکن اس کے انطباق کے معاملے میں زمانی حالات کے اعتبار سے مختلف طریقے اختیار کیے گیے۔
اِس کی مختلف مثالیں پیغمبروں کی تاریخ میں موجود ہیں۔ مثلاً حضرت یوسف اور حضرت موسیٰ دونوں مصر میں پیغمبر بنائے گیے۔ حضرت یوسف نے اپنے زمانے کے مشرک بادشاہ کے اقتدار کے تحت، محکمۂ غذا (ministry of food) کا چارج قبول کرلیا۔ اِس کے برعکس، حضرت موسیٰ کے زمانے کے مشرک بادشاہ سے ان کا ٹکراؤ ہوا، یہاں تک کہ خدا نے حضرت موسیٰ کی مدد کی اور مشرک بادشاہ کو اُس کے لشکر سمیت تباہ کردیا۔
یہی معاملہ پیغمبراسلام ﷺکا بھی ہے۔ آپ بلا شبہہ آخری پیغمبر (final prophet) تھے۔ لیکن آپ ہر صورت حال کے لیے آخری نمونہ (final model) نہ تھے۔ چناں چہ قرآن میں آپ کے لیے ’اُسوۂ حسنہ‘ کا لفظ آیا ہے، نہ کہ اسوۂ کاملہ کا۔ (الاحزاب: 21) کسی پیغمبر کو فائنل ماڈل سمجھنا خدا کے قائم کردہ قانونِ فطرت کی تنسیخ کے ہم معنی ہے۔ ایسی تنسیخ ممکن نہیں، اِس لیے عملی اعتبار سے کسی پیغمبر کا فائنل ماڈل ہونا بھی ممکن نہیں۔ فائنل پرافٹ کا تعلق، دین کے نظریاتی حصے سے ہے۔ اور نظریاتی اعتبار سے بلا شبہہ ایک پیغمبر فائنل پیغمبر ہوسکتا ہے، لیکن ماڈل کا تعلق، خارجی حالات سے ہے۔ یہ حالات ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں، اِس لیے عملی اعتبار سے کوئی ایک پیغمبر فائنل ماڈل نہیں بن سکتا۔
قرآن کی اصطلاح کے مطابق، یہ کہنا صحیح ہوگا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ’الدّین‘ کے اعتبار سے فائنل پیغمبر تھے، لیکن ’منہاج‘ کے اعتبار سے آپ فائنل ماڈل نہ تھے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ حدیث میں یہ پیشین گوئی کی گئی ہے کہ آخری زمانے میں مسیح دوبارہ نازل ہوں گے۔
جیسا کہ معلوم ہے، پیغمبرآخر الزماں کا زمانۂ نبوت قیامت تک ہے، اس لیے اب آپ کے بعد کسی اور پیغمبر کا شخصی طورپر آنا ناقابلِ فہم بات ہے۔ اِس لیے اِن روایات کو درست مانتے ہوئے ان کی صحیح تاویل یہ ہے کہ بعد کے زمانے میں جو چیز واقع ہوگی، وہ مسیح کی آمد ثانی نہیں ہے، بلکہ مسیح کے ماڈل کی آمد ثانی ہے۔یعنی بعد کے زمانے میں حالات کے اندر ایسی تبدیلیاں واقع ہوں گی کہ حالات کے اعتبار سے حضرت مسیح کا عملی ماڈل زیادہ قابلِ انطباق (applicable) بن جائے گا۔
پیغمبر اسلام کے ماڈل اور پیغمبر مسیح کے ماڈل میں کیا فرق ہے۔ یہ فرق نصوص سے واضح طورپر معلوم ہوتا ہے۔ پیغمبر اسلام کا ماڈل یہ ہے کہ آپ نے مکہ میں اپنے دعوتی مشن کا آغاز کیا۔ اِس کے بعد مخاطبین کی طرف سے سخت مخالفت پیش آئی۔ اِس کے بعد آپ نے مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ کو اپنا مستقر بنایا۔
اب مخالفین کی طرف سے حملے کیے گیے۔ اس کے نتیجے میں دفاعی جنگ پیش آئی۔ اِس کے بعد آپ نے اپنے حریفوں سے وہ صُلح کی جو اسلام کی تاریخ میں ’صلح حدیبیہ‘ کے نام سے مشہور ہے۔ آخر میں فتح مکہ کا واقعہ پیش آیا اور پھر عرب میں آپ کا اقتدار قائم ہوگیا۔
اِس کے مقابلے میں مسیح کے ماڈل میںآغاز میں بھی دعوت ہے اور انجام میں بھی دعوت۔ مسیح کے دعوتی ماڈل میں ہجرت اور جہاد (بہ معنی قتال) کے واقعات موجود نہیں۔
محمدی ماڈل میں ہجرت اور جنگ اُس کے واضح اجزا کے طور پر شامل ہیں، لیکن اب حالات نے ہجرت اور جنگ کو ناقابلِ عمل بنا دیا ہے۔ اب ساری دنیا میںماڈرن نیشنل ازم کا زمانہ ہے۔ ہر ملک میں نیشنل حکومتیں قائم ہیں۔ ماڈرن نیشنل ازم نے اب ہجرت جیسے کسی طریقے کو عملی طورپر ناممکن بنا دیا ہے۔یہی معاملہ جنگ کا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ زمانے میں عمومی تباہی کے ہتھیار (weapons of mass destruction) نے جنگ جیسے طریقے کو بالکل ناقابلِ اختیار بنا دیا ہے۔ اب جنگ کا انتخاب صرف ایک دیوانگی کا فعل ہے، اِس کے سوا اور کچھ نہیں۔
دوسری طرف حالات میں جو جدید تبدیلی ہوئی ہے، وہ عین اسلامی دعوت کے حق میں ہے۔ میری مراد جدید تہذیب سے ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں ہجرت اور جنگ کے بغیر صرف پُرامن جدوجہد کے ذریعے ایک انٹرنیشنل دعوہ ایمپائر قائم کیا جاسکتا ہے۔ قدیم زمانے میں ساری طاقت سیاسی اقتدار کے پاس ہوتی تھی۔ اب محدود ایڈمنسٹریشن کے سوا ساری طاقت اداروں(institutions) کے پاس چلی گئی ہے۔
اِس نیے امکان کو سیکولر میدان میں دوسرے لوگ بھر پور طورپر استعمال کررہے ہیں۔ مثلاً اِسی نیے امکان کا سیکولر استعمال کرکے یہودیوں نے امریکا میں اپنا میڈیا ایمپائر بنا لیا ہے۔ چینیوں نے ملیشیا میںاپنا کمرشیل ایمپائر بنا لیا ہے۔ عیسائیوں نے ہندستان میں اپنا ایجوکیشنل ایمپائر بنا لیا ہے، مغرب سیاسی اعتبار سے، ہندستان سے واپس چلاگیا تھا، لیکن اب وہ یہاں دوبارہ اپنا انڈسٹریل ایمپائر بنا رہا ہے، وغیرہ۔
اِسی طرح اسلام کے پیرو خالص پر امن تدبیروں کے ذریعے ایک دعوہ ایمپائربنا سکتے ہیں۔مگر دعوہ ایمپائر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ نیے حالات کو سمجھا جائے۔ نیے امکانات کو بین اقوامی اصولوں کے مطابق، استعمال کیا جائے۔ یہی وہ حکمت ہے جس کو ہم نے مسیحی ماڈل کے لفظ سے تعبیر کیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

تاریخِ دعوت: آدم سے دابّہ تک

تاریخ کیا ہے۔ تاریخ علم کی ایک شاخ ہے جس میں ماضی کامنظم مطالعہ کیا جاتا ہے:
History— a systematic study of past events
قدیم زمانے سے تاریخ کے مطالعے کا یہ طریقہ رہا ہے کہ سیاسی واقعات(plitical events) کو یونٹ بنا کر حالات کو قلم بند کیا جائے۔ مثلاً انڈیا کے حوالے سے اُس کا طریقہ یہ ہوگا کہ پہلے راجاؤں کے عہد کا ذکر کیا جائے اُس کے بعد مغلوں کا دَور، اُس کے بعد انگریزوں کا دَور،اُس کے بعد کانگریس کا دَور، وغیرہ۔ مَوجودہ زمانے میں آرنلڈ ٹائن بی (وفات: 1975 ) نے ایک نیا طریقہ اختیار کیا۔ اُس نے تہذیب (civilization) کو یونٹ بنا کر اپنی مشہور کتاب ’اسٹڈی آف ہسٹری‘ (A Study of History)تیار کی۔
تاریخ کا مطالعہ کیجیے تو اُس میں یہی ترتیب نظر آئے گی، مگر اِس طریقِ مطالعہ میں تاریخ کا ایک اہم پہلو چھوٹ گیا ہے، اور وہ ہے خدا کے پیغمبروں کی تاریخ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ معروف تاریخ کے ساتھ تاریخ کا ایک اور دھاراہر زمانے میں چلتا رہا ہے۔ یہ پیغمبروں کی تاریخ کا دھارا ہے۔ مگر تاریخ کا یہ دھارا مدوّن تاریخ میں بہت کم رکارڈ ہوسکا۔
پیغمبروں کی تاریخ کا ماخذ نسبتاً بہت محدود ہے۔ بنیادی طورپر اُس کے تین ماخذ ہیں— بائبل، قرآن اور حدیث اور اَثریات(archaeology)۔ ببلکل لٹریچر (Biblical literature)میںاِس سلسلے میں کافی معلومات پائی جاتی ہیں، لیکن وہ بہت کم مستند ہیں۔
قرآن اور حدیث کی حیثیت تاریخ انبیاء کے ایک مستند ماخذ کی ہے، لیکن اہل علم کے نقطۂ نظر کے مطابق، اُس کی حیثیت زیادہ تر اعتقادی ہے۔ آرکیالوجی، یعنی کھدائی کے ذریعے حاصل ہونے والی معلومات اہلِ علم کے نزدیک مستند ہیں، لیکن اُن کا بڑا حصہ استنباطی معلومات کی حیثیت رکھتا ہے۔ تاہم موجودمعلومات کی روشنی میں ہم تاریخ انبیاء کا ایک مختصرخاکہ مرتب کرنے کی کوشش کریں گے۔
مذہبی عقیدے کے مطابق، آدم پہلے انسان تھے اور ساتھ ہی پہلے پیغمبر بھی۔ آدم مکمل معنوں میں ایک انسان تھے۔ آدم کے بعد طویل تاریخ میں برابر خدا کے پیغمبر آتے رہے، ہر زمانے میں اور ہر مقام پر۔ یہ سلسلہ مسیح ابنِ مریم تک جاری رہا۔ اُس کے بعد 570ء میں خدا نے محمد بن عبد اللہ بن عبدالمطلب کو پیدا کیا۔ وہ سلسلۂ نبوت کی آخری کڑی تھے۔ اُن کے بعد اب اور کوئی نبی آنے والا نہیں۔
محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب (صلی اللہ علیہ وسلم)سے پہلے آنے والے پیغمبروں پر خدا کا جو کلام اُترا، وہ اپنی اصل صورت میں محفوظ نہ رہ سکا۔ اِن پیغمبروں کی زندگی کا بھی مستند رکارڈ موجود نہیں۔
پچھلے پیغمبروں کی لائی ہوئی کتاب کیوں صحیح صورت میں محفوظ نہ رہی۔ اس کا سبب بنیادی طورپر یہ ہے کہ کسی پیغمبر کی کتاب یا اس کا کلام صرف اُس وقت صحیح صورت میں محفوظ رہ سکتا ہے جب کہ اُس کے معاصر پیروؤں کی تعداد کافی زیادہ ہو۔ تاکہ خود پیغمبر کی نگرانی کے تحت اُس کے زمانے میں حفاظت کا کام ممکن ہوسکے۔ لیکن پچھلے پیغمبروں کے ساتھ ایسا نہ ہوسکا۔ بعد کی نسلوں نے اپنے پیغمبر کی تعلیمات کو مرتب کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ اِس میں کامیاب نہ ہوسکے۔ کیوں کہ اُس وقت تک پیغمبر کی چھوڑی ہوئی تعلیمات میں کافی بگاڑ آچکا تھا۔
مثال کے طور پر حضرت مسیح کو لیجیے۔ حضرت مسیح کے معاصر پَیرو بہت کم تھے۔ اُن کے حالات اتنے سقیم تھے کہ حضرت مسیح کے کلام کو محفوظ کرنا اُن کے لیے ممکن نہ تھا۔ بعد کی نسلوں میں حافظے کی مدد سے حضرت مسیح کے احوال یا ان کا کلام مرتب کیا گیا، لیکن نسل در نسل تبدیلی ہونے کی بنا پر بعد کے ناقلین کو حضرت مسیح کے بارے میں جو کچھ ملا، وہ کافی بدل چکا تھا۔ اب بائبل کی صورت میں جو چیز موجود ہے، وہ حضرت مسیح کے بارے میں بعد کے زمانے کا رکارڈ ہے، جب کہ وہ بدلتے بدلتے اپنی اصل حیثیت کو ختم کرچکا تھا۔
پیغمبر اسلام کے ساتھ خدا کا یہ خصوصی معاملہ ہوا کہ آپ کی لائی ہوئی خدائی کتاب (قرآن) پوری طرح محفوظ ہوگئی۔اِس بنا پر اب نیے پیغمبر کی ضرورت نہیں۔ آپ کی لا ئی ہوئی کتاب اب پوری طرح مستند صورت میں موجود ہے۔ آپ کے متّبعین نسل بعد نسل دنیا میں پائے جارہے ہیں۔ یہ چیزیں پیغمبر کا بدل ہیں۔ پیغمبر نے جو کام ذاتی طور پر کیا تھا، اب وہی کام پیغمبر کے متبعین کے ذریعے نسل در نسل ہوتا رہے گا، یہاں تک کہ قیامت آجائے۔ دوسرے پیغمبروں کی لائی ہوئی کتاب زمانۂ تبدیلی میں مرتب کی گئی، جب کہ پیغمبر اسلام کی لائی ہوئی کتاب دورِ اوّل ہی میں محفوظ کر لی گئی، اِس سے پہلے کہ اُس کے اندر کوئی تبدیلی واقع ہو۔
پیغمبرانہ مشن کی اِس تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو اُس کے چند دور قرار پاتے ہیں۔ یہ اَدوار تاریخی ترتیب کو نہیں بتاتے، بلکہ عمل کی مختلف نوعیت کو بتاتے ہیں۔ اِن اَدوار کو حسب ذیل تقسیمات کی صورت میں بیان کیا جاسکتاہے:
1 - آدم سے لے کر مسیح تک کا زمانہ۔
2 - ہاجرہ اور اسماعیل کے ذریعے ایک نئی نسل کی تیاری۔
3 - اصحاب رسول کی صورت میں ایک منتخب ٹیم کی تشکیل۔
4 - سیاسی جبر کا خاتمہ اور آزادی کے دَور کا آغاز۔
5 - توہماتی طرزِ فکر کا خاتمہ، فطری حقائق کے انکشاف کے بعد سائنسی دلائل کے ذریعے دعوتی کام کا آغاز۔
6 - سائنسی انقلاب کا ظہور میں آنا۔
7 - دابّہ (النمل: 82 ) کا ظہور اور عالمی دورِ دعوت کا آغاز۔
8 - اخوانِ رسول کا رول۔
مذکورہ درجہ بندی میں پہلا زمانہ وہ ہے جو حضرت آدم اور پیغمبر اسلام کے درمیانی زمانے میں آنے والے پیغمبروں سے تعلق رکھتا ہے۔ اِن تمام پیغمبروں کے زمانے میں بظاہر کوئی بڑا انقلابی واقعہ پیش نہیں آیا، لیکن اُن میں سے ہر ایک نے نہایت اہم کام انجام دیا۔
یہ تمام پیغمبر مختلف زمانوں اور مختلف حالات میں آئے۔ ہر ایک نے اپنے زمانے کے لحاظ سے ایک عملی طریقہ، قرآن کے لفظوں میں ’منہاج‘ اختیار کیا۔ اِس اعتبار سے اُن میں سے ہر ایک کو خداپرستانہ زندگی کے لیے ماڈل کی حیثیت حاصل ہے۔ اِن میں سے تقریباً دو درجن پیغمبروں کا ذکر قرآن میں آیا ہے۔ اور اُن کے بارے میں ارشاد ہوا ہے کہ: اولٰئک الذین ہدی اللہ فبہداہم اقتدہ (الأنعام90 :) یعنی اُن میں سے ہر ایک، خدا کے دین کا ماڈل ہے۔ اُن میں سے ہر ایک یہ بتاتا ہے کہ مختلف حالات میں خدا پرستانہ زندگی کی عملی صورت کیا ہونا چاہیے۔
اِس معاملے میں دوسرا رول ہاجرہ اور آلِ ابراہیم کا ہے۔ انھوں نے غیر معمولی قربانی کے ذریعے ایک انقلابی کام انجام دیا۔ اِس کے بعد کام کے دوسرے مراحل پیش آتے رہے۔ ان کی تفصیل میں نے اپنی کتابوں میں پیش کی ہے۔ مثلاً ’اسلام دورِ جدید کا خالق‘ اور ’ظہور اسلام‘ وغیرہ۔
دابّہ کے لفظی معنی ہوتے ہیں رینگنے والا(creeper)۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں، اس سے مراد کوئی عجیب الخلقت حیوان نہیںہے، بلکہ اس سے مراد وہی چیز ہے جس کو موجودہ زمانے میں ملٹی میڈیا (multi media) کہا جاتا ہے۔ ملٹی میڈیا سرعتِ رفتار کے ساتھ حق کے پیغام کو ساری دنیا میں پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ میرے اندازے کے مطابق، دابّہ کی حیثیت ایک ذریعے کی ہے۔ دابّہ خود نہیں بولے گا، بلکہ وہ دورِجدید کے داعی کی آواز کو لے کر ساری دنیا میں اس کو پہنچادے گا۔ یہاں تک کہ کوئی چھوٹا یا بڑا گھر اُس سے خالی نہ رہے گا۔ دابّہ، داعی کا ہتھیار ہوگا، وہ خود انسان کے مانند کلام نہیں کرے گا۔ واللّٰہ أعلم بالصواب۔
دابّہ کو اگر اس معنیٰ میں لیا جائے کہ وہ ایک عجیب الخلقت حیوان ہوگا اور حیوان ہونے کے باوجود وہ معجزاتی طورپر خود انسانی زبان میں کلام کرے گا۔ ایسا اگر مانا جائے تو یہ حالتِ امتحان کے خاتمے کے ہم معنیٰ ہوگا۔ اور قیامت کے ظہور سے پہلے حالتِ امتحان ختم ہونے والی نہیں۔
روایات کے مطابق، دابّہ کا ظہور قیامت سے پہلے ہوگا۔ اِس بنا پر دابّہ کے ظہور کو ایک ایسا خرقِ عادت واقعہ نہیں مانا جاسکتا جو حالتِ امتحان کو ختم کردینے والا ہو۔دابّہ کے بارے میں تفسیر کی کتابوں میں جو روایات آئی ہیں، اُن میں بتایا گیا ہے کہ: تکلّمہم بلسان ذلق، فتقول بصوت یسمعہ مَنْ قرُب وبَعد (القرطبی، جلد 13 ، صفحہ 238) یعنی دابّہ لوگوں سے تیز زبان میں بولے گا، وہ ایسی آواز میں بولے گا جس کو قریب والے بھی سنیں گے اور دور والے بھی سنیں گے۔
اِس کا مطلب اگر یہ لیا جائے کہ دابّہ کی خود اپنی آواز ساری دنیا میں براہِ راست طورپر سنائی دے گی تو یہ ایک ناقابلِ فہم بات ہے۔ کیوں کہ اگر دابّہ اتنی زیادہ بلند آواز میں بولے کہ ساری دنیا کے لوگ اُس کو براہِ راست طورپر سنیں تو لوگ اُس کو سننے سے پہلے صرف اس کے صوتی دھماکے ہی سے مرچکے ہوں گے۔ اِس قسم کی بلند آواز انسانوں سمیت تمام چیزوں کو دفعۃً تباہ کردے گی۔ اُس کے بعد کوئی سننے والا ہی نہیں ہوگا جس کو کوئی سنانے والا سنائے۔
اِس طرح کی اور بھی کئی باتیں روایات میں آئی ہیں۔ اِس لیے دابّہ کے سلسلے میں جو روایات آئی ہیں، ان کو درست مانتے ہوئے اُن کی تاویل کی جائے گی، نہ یہ کہ ان کو لفظی طورپر درست مان لیا جائے۔میرے مطالعے کے مطابق، دابّہ کمیونی کیشن کے زمانے کا ایک مشینی ہتھیار ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کو آج کل ملٹی میڈیا کہاجاتا ہے۔
حدیث میں بعد کے زمانے کے ایک گروہ کا ذکر کیاگیا ہے، اِس گروہ کو ’اخوانِ رسول‘ کا نام دیا گیا۔میری سمجھ کے مطابق، جولوگ دابّہ کے اِس جدید دعوتی امکان کو استعمال کرکے ساری دنیا میں دینِ حق کا پیغام پہنچائیں، وہی اخوانِ رسول کہے جائیں گے۔ اخوانِ رسول بعد کے زمانے میں وہی عظیم رول ادا کریں گے جو ساتویں صدی عیسوی میںاصحاب رسول نے ادا کیا تھا۔
اصحاب رسول ’خیر امت‘ کا پہلا حصہ تھے۔ ’ اخوانِ رسول‘ خیر امت کا دوسرا حصہ ہوں گے۔ یہ تاریخِ دعوت کا آخری اظہار ہوگا۔ اِس کے بعد نہ موجودہ دنیا باقی رہے گی اور نہ دعوتی عمل کی ضرورت۔ ہٰذا ما عندی والعلم عند اللہ۔
واپس اوپر جائیں

آفاقی مشن

قرآن کی سورہ نمبر 25 کا آغاز اِس آیت سے ہوتا ہے: تبارک الذی نزّل الفرقان علی عبدہ لیکون للعالمین نذیرا( الفرقان: 1 ) یعنی بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان اتارا، تاکہ وہ سارے عالم کے لیے آگاہ کرنے والا ہو۔
قرآن میں ’عالمین‘ کا لفظ 73 بار آیا ہے۔ اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قرآن کا پیغام ایک عالمی پیغام ہے۔ قرآن اپنے ماننے والوں کے اندر آفاقی نقطۂ نظر (universal outlook) پیدا کرنا چاہتا ہے۔ خدا، ساری کائنات کو ایک نظرسے دیکھتا ہے۔ خدا کو مطلوب ہے کہ اس کے بندوں کے اندر بھی کائناتی ذہن ہو۔ وہ محدودیت کے خول میں نہ جئیں، بلکہ وہ لا محدود وسعتوں میں جینے والے بنیں۔
یہ آفاقی ذہن کس طرح بنتا ہے۔ جواب یہ ہے کہ دعوت الی اللہ کے ذریعے۔ دعوت الی اللہ کا مطلب ہے— خدا کے پیغامِ ہدایت سے تمام انسانوں کو باخبر کرنا۔ مطالعہ بتاتا ہے کہ قرآن میںاسلام کے صرف چند سواحکام ہیں۔ حدیث میں ہزاروں احکام بیان ہوئے ہیں۔ فقہ میں ان احکام کی تعداد لاکھوں تک پہنچ جاتی ہے۔
غور کیجیے تو یہ تمام احکام بنیادی طورپر مسلم کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ احکام کی طویل فہرست میں صرف ایک حکم ایسا ہے جو اپنی نوعیت میں عمومی ہے، اور وہ دعوت الی اللہ ہے، یعنی اللہ کے تمام بندوں کو اللہ کا پیغام پہنچانا۔ دعوت کی یہی حیثیت اُس کو ایک آفاقی حکم بنا دیتی ہے۔ بقیہ احکام اگر مسلم رُخی احکام ہیں تو دعوت کی حیثیت انسان رُخی حکم کی ہے۔
مسلمان جب دعوت الی اللہ کا کام کریں گے تو اُس کے نتیجے میں اُن کے اندر فطری طورپر آفاقی ذہن پرورش پائے گا۔ ان کی سوچ اور ان کی پلاننگ د ونوں آفاقیت کی حامل ہوگی۔ ان کے اندر سارے انسانوں کے لیے ہمدردی کا جذبہ ابھرے گا۔ اپنی علاحدہ شناخت بنانے کے بجائے وہ سارے انسانوں کو لے کر سوچیں گے۔ یہ آفاقی مزاج ان کے سارے معاملات کو آفاقی بنا دے گا۔
بعد کے زمانے میں مسلمانوں کے اندر فقہی طرز فکر غالب آگیا۔ فقہی طرز فکر دراصل احکامی طرز فکر ہے۔ جب مسلمانوں میںیہ مزاج پیدا ہوا تو فطری طورپروہ اپنی کمیونٹی کو لے کر سوچنے لگے۔دورِ دعوت میں اگر اُن کے اندراکرامِ انسان کا ذہن تھا تو دورِ فقہ میں ان کے اندر اکرامِ مسلم کا ذہن پیدا ہوگیا۔ سارے انسانوں کو لے کر سوچنے کے بجائے، وہ صرف اپنی ملت کو لے کر سوچنے لگے۔اسلامی ذہن، انسان اور ینٹیڈ ذہن ہے، نہ کہ کمیونٹی اورینٹیڈ ذہن۔
انسان اورینٹیڈ ذہن کو اپنے اندر پیدا کیے بغیر، دعوت الی اللہ کا آفاقی عمل انجام دینا سرے سے ممکن ہی نہیں۔ انسان اورینٹیڈ ذہن سے انسانی ہمدردی کا مزاج پیدا ہوتا ہے اور انسانی ہمدردی کے اِس عمومی مزاج کے بغیر، دعوت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
واپس اوپر جائیں

شاہ راہِ دعوت سے انحراف

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی تاریخ کے تین زمانوں کو معیاری زمانہ قرار دیا ہے۔ اسی لیے ان کو ’قُرون مشہود لہا بالخیر‘ کہا جاتا ہے۔ وہ تین زمانے یہ ہیں— عہدِ رسالت، عہدِصحابہ، عہدِ تابعین۔ اِن تین قرون کو تین جنریشن بھی کہا جاسکتا ہے۔ پہلی جنریشن وہ ہے جب کہ پیغمبر اسلام کی ذات ، مسلم معاشرے کا مرکز و محور بنی ہوئی تھی۔ دوسری جنریشن وہ ہے جب کہ سماج پر صحابہ کا غلبہ قائم تھا اور تیسری جنریشن وہ ہے جب کہ تابعین مسلم معاشرے میں غالب حیثیت رکھتے تھے۔ اس کے بعد مسلم معاشرے میں زوال کا دور شروع ہوگیا۔
تاریخ بتاتی ہے کہ پہلی تین جنریشن تک اسلام کا اصل مشن دعوت الی اللہ تھا۔ اُس زمانے کے مسلمان، عرب کے اندر اور عرب کے باہر، اسلام کی دعوت پھیلانے میں مشغول رہے۔ اُس زمانے کے مسلمانوں کا حال یہ تھا کہ ساری انسانیت اُن کا کنسرن (concern) بنی ہوئی تھی۔
عباسی دور میں فقہ کی تدوین ہوئی۔ فقہ کی تدوین دراصل احکام کی تدوین کے ہم معنٰی تھی۔ چنانچہ فقہ کی کتابوں میںاحکام سے متعلق تمام ابواب ملتے ہیں، لیکن دعوت الی اللہ کا باب فقہ کی کسی کتاب میں نہیں ملتا۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکار ممکن نہیں۔
یہی وہ زمانہ ہے جب کہ مسلمانوں میں دعوتی ذہن ختم ہوا، اور احکامی ذہن ہر طرف پھیل گیا۔ اسلام کی اشاعت اگرچہ اُس کے بعد بھی جاری رہی، لیکن وہ اسلام کی اپنی داخلی قوت کے ذریعے تھی، نہ کہ مسلمانوں کی کسی دعوتی کوشش کے ذریعے۔ اب مسلمانوں کی تمام سرگرمیاں، فکری اور عملی دونوں، مسلم رُخی (Muslim-oriented) ہوگئی ہیں۔ اب مسلمان عالمی مشن کا عنوان نہ رہے، بلکہ وہ دوسری کمیونٹی کی طرح ایک محدودکمیونٹی بن کر رہ گئے ہیں۔
آج سب سے زیادہ جس سنت کے اِحیاء کی ضرورت ہے، وہ یہی سنتِ دعوت ہے۔ مسلمانوں کے درمیان جب تک سنتِ دعوت کو زندہ نہ کیا جائے، اُن کے اندر کوئی بڑی اسلامی بیداری نہیں آسکتی۔ ’اصلاحِ مسلم‘ کے کام کو تبلیغ و دعوت کا عنوان دینا بھی اِس مسئلے کا کوئی حل نہیں۔ ’اصلاحِ مسلم‘ کے کام کو دعوت کا کام بتانا، صرف یہ ثابت کرتا ہے کہ لوگوں کا ذہن اتنا زیادہ بگڑ چکا ہے کہ وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ دعوت الی اللہ کیا ہے۔
دعوت الی اللہ کا مطلب ہے— غیر مسلموں تک خدا کے پیغام کو پہنچانا۔ دعوت الی اللہ کا یہ سب سے زیادہ مطلوب کام صرف احساسِ ذمّے داری کے تحت کیا جاسکتا ہے۔ اِس دعوتی کام کو انجام دینے کے لیے ضروری ہے کہ داعی گروہ کے اندر اپنے مدعوگروہ کے لیے خیر خواہی کا جذبہ ہو۔ اور اس کا سینہ اپنے مدعو کی طرف سے مکمل طورپر نفرت اور شکایت سے خالی ہو۔
دعوت الی اللہ کا یہ کام صرف وہی لوگ کرسکتے ہیں جو اپنے اندر یہ اعلیٰ انسانی صفت رکھتے ہوں کہ وہ نفرت کے باوجود محبت کرسکیں۔ جو شکایت کے باوجود شکایت سے بلند ہو کر سوچنے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔ جو آخرت کی پکڑ کے احساس سے اپنا دعوتی فریضہ ادا کرنے کے لیے اٹھے ہوں، نہ کہ کسی اور احساس کے تحت۔
واپس اوپر جائیں

امتحان، نہ کہ انعام

کرنل ولیم سلیمین(Sir William Sleeman) 1848 سے 1854 تک لکھنؤ میں تھا۔ اس نے اپنے قیام اودھ کی یادداشت لکھی ہے جو لندن سے 1854 میں دو جلدوں میں شائع ہوئی۔ اس کا نام ہے:
Journey Through the Kingdom of Oudh.
سلیمین نے جب داراشکوہ کی قبر دیکھی تو اس نے کہا کہ اگر وہ زندہ رہتا اور دہلی کی سلطنت پر اس کا قبضہ ہوجاتا تو تعلیم کی نوعیت اور اسی کے ساتھ انڈیا کا مستقبل بالکل مختلف ہوتا:
Had he lived to occupy the throne, the nature of education, and therewith the destiny of India, would have been different. (p. 572)
کرنل سلیمین نے اپنی کتاب میں اس کا ذکر کیا ہے کہ انگریزوں نے جن ہندستانیوں کو دباکر ان کے اوپر اپنی حکومت قائم کی، ان کے خیالات انگریزی حکومت کے بارے میں کیا تھے۔ اس سلسلے میںانھوں نے کیپٹن لاکٹ کا ذکر کیا ہے جو ہندستانی زبان اچھی طرح جانتے تھے۔ اور اس بنا پر ہندستانیوں سے اپنائیت کے ساتھ بات کرسکتے تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ:
’’کیپٹن لاکٹ نے لکھنؤ میںنواب اودھ کی کمزوریوں اور ان کی حکومت کے ظلم کے متعلق سوالات کیے۔ ان کو جواب دیا گیا کہ ہم پریشان ہیں، ہم کو مزید پریشانی میں نہ ڈالیے۔ یہ سن کر کیپٹن لاکٹ نے کہا کہ ایسا کیوں۔ کیا آپ لوگ پہلے سے زیادہ بہتر حکومت کے ماتحت نہیں ہیں۔ جواب ملا کہ ہاں، مگر اودھ کا نام اور ہمارے ملک کی عزت ختم ہوگئی۔ یہ جواب دینے والا ایک مسلمان تھا۔ ہندو کا جواب شاید اس سے مختلف ہوتا‘‘۔ (جلد دوم، صفحہ 65-66)
مذکورہ مسلمان کے جواب میں وہ معاشرہ جھلک رہا ہے جو اس وقت لکھنؤ میںموجود تھا اور جس میں اس مسلمان نے پرورش پائی تھی۔ اگر اس کی پرورش ایسے ماحول میں ہوتی جہاں قرآن کا چرچا ہوتاہے تو شاید اس کا جواب یہ ہوتا کہ حکومت کوئی انعام کی چیز نہیں ہے بلکہ قرآن کے مطابق، وہ امتحان کی چیز ہے۔ خدا نے ان کو ہٹا کر آپ کو یہاں کا اقتدار دیا ہے، تاکہ دیکھے کہ آپ کیسا عمل کرتے ہیں: ثم جعلناکم خلائف فی الأرض من بعدہم لننظر کیف تعملون (یونس: 14 )یعنی پھر ہم نے اُن کے بعد تم کو ملک میں جاں نشیں بنایا، تاکہ ہم دیکھیں کہ تم کیسا عمل کرتے ہو۔
مذکورہ مسلمان اگر یہ جواب دیتا تو اس کا جواب عین دعوت بن جاتا۔ اس طرح مسلمانوں اور غیر مسلموں کا مجرد اختلاط (interaction) ہی دعوتی عمل جاری ہونے کے لیے کافی ہے، بشرطیکہ مسلمان ضروری اسلامی معلومات رکھتے ہوں۔
واپس اوپر جائیں

فیصلہ کن چیز

لکھنؤ میں ایک اشاعتی ادارہ ’راشٹردھرم پرکاشن‘ ہے۔ اس نے آر ایس ایس کے سابق سرسنچالک گرو گووالکر (وفات: 1973) کی ایک ہندی کتاب چھاپی ہے۔ اس کا نام ہے— ’راشٹرجیون کی سمسیائیں‘ (1960) ۔ گرو گولوالکر نے اپنی اس کتاب میں لکھا ہے کہ :
’’مسلمان اور عیسائی کبھی سچے نیشنلسٹ نہیں ہوسکتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سچا نیشنلسٹ بننے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی وطن کی زمین کو مقدس سمجھتا ہو۔ مسلمان اور عیسائی اس معیار پر پورے نہیں اترتے۔ اس لیے صرف ہندو ہی سچا نیشنلسٹ ہوسکتا ہے، کیوں کہ وہ بھارت کو مقدس سمجھتا ہے۔ ہندو کے لیے اس ملک کا ایک ایک ذرہ مقدّس ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ ہندو ہی اس ملک میں سچا نیشنلسٹ ہے اور ہندو نیشنل ازم ہی سچا نیشنل ازم ہے‘‘۔
لکھنؤ میں ایک تعلیم یافتہ مسلمان نے اس کتاب کا حوالہ دیا اور بپھرے ہوئے انداز میں وہ اس پر تبصرہ کرنے لگے ۔ انھوں نے کہا کہ اس ملک میں ایسے ایسے نظریات ابھر رہے ہیں جو تمام مسلمانوں کو غدار ثابت کررہے ہیں اور آپ مسلمانوں کو تلقین کررہے ہیں کہ وہ صبر اور اعراض کی پالیسی اختیار کریں۔
میں نے کہا کہ آر ایس ایس 1925 میں بنی۔ اب اس پر تقریباً اسّی سال پورے ہورہے ہیں۔ اس کی پہلی نسل ختم ہوچکی۔ دوسری نسل بوڑھی ہوگئی اور اب تیسری نسل کا دور شروع ہورہا ہے، مگر ملک کے کسی بھی طاقت ور ادارے پر اس کا قبضہ نہ ہوسکا۔ حکومت، صحافت، تعلیم، انڈسٹری، فوج ، قانونی نظام، ٹریڈ یونین، غرض جس شعبے کو بھی دیکھیے، وہ آر ایس ایس کے قبضے سے باہر دکھائی دے گا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ملک میں آر ایس ایس کے مقابلے میں غیر آرایس ایس طاقتیں زیادہ مؤثر حیثیت رکھتی ہیں۔ ایسی حالت میں اس سے خائف ہونے کی کیا ضرورت۔
دوسری بات یہ کہ اس دنیا میں آخر کار جو چیزغالب (prevail) ہوتی ہے، وہ حقیقت (reality) ہے نہ کہ کسی کے بولے ہوئے الفاظ۔ نیشنلسٹ یا وطن پرست کون ہے، اس کے بارے میں اصل فیصلہ کن چیز عالمی معیار ہے، نہ کہ آر ایس ایس کے سرسنچالک کے بولے یا لکھے ہوئے الفاظ۔ اور عالمی ذہن بلا شبہہ اس کو رد کررہا ہے۔
نیشنل ازم کی مذکورہ تعریف کے مطابق، تمام ملکوں کے باشندے غدار ہیں، کیوں کہ کسی بھی ملک کے باشندے اپنے ملک کو مقدس نہیں سمجھتے۔ نیشنل ازم کا جو اصول ساری دنیا میں چل رہا ہے وہی انڈیا میں بھی چلے گا۔ کسی کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ کسی خود ساختہ نظریے کے تحت، انڈیا کو ایک نیشنلسٹ جزیرہ بنا سکے۔
واپس اوپر جائیں

احکامِ دین

دین میں جو احکام دیے گیے ہیں وہ مختلف نوعیت کے ہیں۔ قرآن اور سنت کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان احکام کی دو بڑی قسمیں ہیں۔ ایک وہ جو دین کا مطلق حصہ (absolute part) ہیں۔ اور دوسرے احکام وہ ہیں جو دین کا اضافی حصہ (relative part) ہیں۔ مطلق حصہ ہر حال میں یکساںطورپر مطلوب ہوتاہے۔ جب کہ اضافی حصے کی مطلوبیت حالات پر منحصر ہوتی ہے۔ کسی وقت کے حقیقی حالات یہ طے کرتے ہیں کہ ان کا نفاذ کس طرح کیا جائے گا۔
احکام دین کے اس فرق کو سمجھنے کے لیے قرآن اور سنت کے دو حوالوں کا مطالعہ کیجیے۔ قرآن کی سورہ نمبر 109 میںپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے یہ کہلایا گیا ہے کہ کہو کہ اے منکرو، میں ان کی عبادت نہیں کرتا جن کی عبادت تم کرتے ہو۔ (الکافرون: 1-2)
قرآن کی اس آیت میں عبادت کا لفظ آیا ہے۔ اس سے صریح طورپر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جہاں تک عبادت کا تعلق ہے، اس کو دین کے ایک مطلق حکم کی حیثیت حاصل ہے۔ عبادت کے معاملے میں دوسروں سے نہ سمجھوتہ ہے اور نہ ایڈجسٹمنٹ۔ ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ صرف ایک خدا کی عبادت کرے اور اسی ڈھنگ پر عبادت کرے جس طرح اسلام میں بتایا گیا ہے۔ جیسا کہ قرآن سے ثابت ہے، ایک خدا کے سوا کسی اور کی عبادت کرنا شرک ہے اور شرک خدا کے نزدیک ناقابل معافی جرم ہے۔
تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ عبادت میں اگر دوسروں کی طرف سے کوئی رکاوٹ ہو تو مسلمان اس رکا وٹ کو ختم کرنے کے لیے جنگ چھیڑ دیں۔ پیغمبر اسلام کے مکی دور کی زندگی سے معلوم ہوتا ہے کہ عبادت کے معاملے میں بھی حالا ت کی رعایت کی جائے گی۔
چناںچہ مکہ میں پیغمبر اسلام اور آپ کے اصحاب نے ابتداً کئی سال تک چھپ کر عبادت کی اور باقاعدہ با جماعت نماز کا اہتمام بہت بعد کو مدنی دور میں کیاگیا۔ عبادت کے معاملے میں یہ طریقہ قرآن کے ایک مستقل اصول کے تحت تھا۔ یہ حکم قرآن میں ان الفاظ میں دیاگیا ہے: اللہ کسی بندے پر اس کی طاقت سے زیادہ ذمے داری نہیں ڈالتا (البقرہ: 286) ۔یہی بات قرآن کے دوسرے مقام پر بھی کہی گئی ہے۔ (التغابن: 16)
قرآن اور حدیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ دین کے مطلق احکام خاص طور پر تین پہلوؤں سے تعلق رکھتے ہیں— عقیدہ ، عبادت اور اخلاق ۔ یہ تینوں قسم کے احکام اپنی نوعیت کے اعتبار سے مطلق ہیں، یعنی ان پر ہر حال میں عمل کیا جائے گا۔ خود اپنے ارادے سے ان میں کوئی کمی بیشی نہیں کی جائے گی۔ ان کی ادائیگی میںکسی قسم کا فرق صرف اسی وقت کیا جاسکتا ہے جب کہ مجبوری کی کوئی صورت پیدا ہوگئی ہو، جس کو شریعت میںاضطرار (البقرہ : 173) کہاگیا ہے۔
ان تینوں قسم کے احکام میںحالات کی نسبت سے فرق کرنے کی اجازت ہے، مگر یہ اجازت صرف بربنائے مجبوری ہے۔ ان تینوں احکام کا تعلق ایک شخص کے انفرادی رویے سے ہے اور ہر شخص کے ذاتی حالات ہی یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ ان کی تعمیل کس طرح کرے۔
احکامِ دین کی تعمیل فہرستِ احکام کے اعتبار سے مطلوب نہیں ہے، بلکہ وہ آدمی کے حالات کے اعتبار سے مطلوب ہے۔ آدمی کے حالات اُس کو جس حد تک اِن احکام پر عمل کرنے کی اجازت دیتے ہیں، اُسی حد تک وہ اُن پر عمل کرنے کا مکلّف ہوگا۔
تعمیل احکام کی یہی ترتیب فطری ترتیب ہے۔ یہی فطری ترتیب ایک شخص اور ایک قوم سے یکساں طورپر مطلوب ہے۔ کسی شخص اور قوم کے حقیقی حالات ہی اِس بات کا فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ احکامِ دین کی تعمیل کس طرح کرے۔
واپس اوپر جائیں

انسان کی منزل

انسان اپنے لیے ایک محفوظ دنیا چاہتا ہے، مگر سنامی (دسمبر 2004 ) کا واقعہ بتاتا ہے کہ انسان کو صرف ایک غیر محفوظ دنیا ملی ہے۔ انسان لامحدود زندگی چاہتا ہے، مگر موت کا واقعہ اس کو یاد دلاتا ہے کہ اس کو یہاں جینے کے لیے ایک محدود مدت ملی ہے۔ انسان آئڈیل خوشی چاہتا ہے، مگر مختلف قسم کے حادثات یہ بتاتے ہیں کہ انسان کو اس دنیا میں صرف ایسی خوشی مل سکتی ہے جو اس کے مطلوب آئڈیل سے بہت کم ہے۔ انسان استثنائی طورپر کل (tomorrow) کا تصور رکھتا ہے، مگر اس کو عملاً آج (today) کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ انسان کے اندر اتھاہ پوٹینشیل موجود ہے، مگر ہر انسان اپنے پوٹینشیل کا ایک فیصد استعمال کرتا ہے اور اس کے بعد اس دنیا سے چلا جاتا ہے۔
ایسا کیوں ہے۔اس سوال کا جواب خود انسان کی فطری ساخت کے اندر موجود ہے۔ استثنائی طورپر انسان کل (tomorrow) کا تصور رکھتا ہے۔ تمام حیوانات صرف آج (today) کے تصور میں جیتے ہیں۔ کرۂ ارض پر انسان واحد ایسی مخلوق ہے جو اپنے اندر کل کا تصور رکھتا ہے۔ یہی فطرت کی طرف سے مذکورہ سوال کا جواب ہے۔ وہ جواب یہ ہے کہ انسان جو چیز اپنے آج میں ڈھونڈ رہا ہے وہ اس کے کل میں موجود ہے۔ وہ اپنے جس مطلوب کو پرزنٹ میں پانا چاہتا ہے وہ خالق کے تخلیقی نقشہ(creation plan) کے مطابق، اس کے مستقبل میں رکھ دیا گیا ہے۔
خالق کے تخلیقی نقشے کے مطابق، انسان کی عمر کے دو حصے ہیں۔ ایک ماقبل موت دَور (pre-death period) اور دوسراما بعد موت دَور (post-death period) ۔ انسان کی مطلوب دنیا (desired world) اس کے ما بعد موت دَور (post-death period) میں رکھی گئی ہے۔ماقبل موت دَورکی حیثیت امتحان گاہ(selective ground) کی ہے۔ جو عورت یا مردماقبل موت دَور میں خود کواہل (qualify) ثابت کریںگے، وہ مابعد موت دَورمیں اپنی مطلوب دنیا (desired world) میں بسائے جانے کے مستحق قرار پائیں گے۔ اسی مطلوب دنیا کا نام جنت ہے۔
سنامی جیسے واقعات ایک وارننگ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس بات کی وارننگ کہ موجودہ دنیا میں انسان اپنی جنت نہیں بنا سکتا۔ ہماری زمین اگر چہ بہت خوب صورت ہے، مگر وہ اتنا زیادہ پُر خطر (vulnerable)ہے اور یہاں اتنی محدودیتیں (limitations) ہیں کہ وہ جنت کامسکن (abode) نہیں بن سکتی۔ ہماری زمین جنت کا ایک ابتدائی تعارف ہے مگر وہ خود جنت نہیں۔جنت کی تعمیر کے لیے ہم کو ایک اور دنیا چاہیے، ایک ایسی دنیا جو کہ لامحدود (unlimited) ہو۔ جو ہر قسم کے خوف سے پاک ہو۔ جنت ایک کامل (perfect)دنیا چاہتی ہے، جب کہ موجودہ دنیا ہر اعتبار سیغیرکامل(imperfect) ہے ۔ اورغیر کامل زمین پر کامل جنت نہیں بنائی جاسکتی۔
انسان اپنی فطری ساخت کے اعتبار سے جنت کا طالب ہے، مگر انسان کے اندر استثنائی طورپر کل (tomorrow) کا تصور(concept) بتاتا ہے کہ جنت ورلڈ ٹوماررو (world-tomorrow) میں قابل حصول ہے، ورلڈ ٹو ڈے (world-today) میں وہ قابل حصول نہیں۔
اس حقیقت کو جاننا بلاشبہہ سب سے بڑا وزڈم ہے۔ جو لوگ اس حقیقت کو جان کر’کل‘ پر مبنی لائف بنا سکیں وہ کامیاب ہیں اور جو لوگ اپنی زندگی صرف’ آج‘پر مبنی کرکے بنائیں ،وہ ناکام ہیں۔
واپس اوپر جائیں

پیغام

(برائے سوسائٹی فار دی پروموشن آف ریشنل تھنکنگ، احمد آباد- 380007 )
اکثر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ مسلمان کیا کریں۔ مگر حقیقی واقعات کے اعتبار سے زیادہ درست سوال یہ ہے کہ دو سوسالہ عمل کے باوجود موجودہ زمانے کے مسلمانوں کی کوششیں بے نتیجہ کیوں ہوگئیں۔ اس سوال کا جواب صرف یہ ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں احیاء کے نام سے تحریکیں اُٹھیں وہ سب کی سب ردّ عمل کی تحریکیں تھیں، نہ کہ مثبت عمل کی تحریکیں۔ ردّ عمل کے طورپر جو کام کیا جائے اُس کے بارے میں قدرت کا قانون یہ ہے کہ اُس کا کوئی نتیجہ نہ نکلے۔ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کی کوششوں کا بے نتیجہ ہو جانا خود قدرت کے قانون کی بنا پر ہے، نہ کہ کسی کی سازش یا ظلم کی بنا پر۔
ردّ عمل کیا ہے اور مثبت عمل کیا۔ رد عمل یہ ہے کہ اپنے مسئلے کا ذمے داردوسروں کو بتا کر اُن کے خلاف لڑائی چھیڑ دی جائے۔ اور مثبت عمل یہ ہے کہ مسئلے کو خود اپنی کوتاہی کا سبب سمجھا جائے اور اپنے داخلی سبب کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔
موجودہ دنیامقابلہ اور مسابقت کی دنیا ہے۔ اس لیے یہ بات بالکل فطری ہے کہ اس دنیا میں ایک کودوسرے سے زک یا نقصان پہنچے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ اس نقصان کو چیلنج کے طورپر لے۔ وہ سمجھے کہ یہ جو کچھ پیش آیا ہے وہ دوسرے کی تیاری اور میری بے تیاری کا نتیجہ ہے۔ اور پھر اپنی اس کمی کو دور کرکے اس کا حل نکالے، نہ کہ دوسرے کے خلاف شکایت اور احتجاج کا ہنگامہ کھڑا کرے۔
موجودہ حالات میں مسلمانوں کو سب سے پہلے یہ کام کرنا ہے کہ وہ اپنی پوری نسل کو تعلیم یافتہ بنانے کی کوشش کریں۔ تعلیم عورت اور مرد کو باشعور بناتی ہے۔ اور باشعور لوگ ہی معاملات کو گہرائی کے ساتھ سمجھتے ہیں اور اُس کے حل کی واقعی تدبیر اختیار کرکے کامیاب ہوتے ہیں۔
اس سلسلے میں دوسری اہم بات یہ ہے کہ عمل کو منصوبہ بند انداز میں کیا جائے۔ منصوبہ بند عمل حقیقت پسندانہ عمل کا دوسرا نام ہے۔
منصوبہ بند عمل حقائق کی بنیاد پر کیا جاتا ہے اورغیر منصوبہ بند عمل آرزوؤں اور تمناؤں کی بنیاد پر۔ منصوبہ بند عمل نتیجہ رخی (result-oriented) عمل ہوتا ہے اور غیرمنصوبہ بند عمل خواہش رُخی (desire-oriented)عمل۔
منصوبہ بند عمل وہ ہے جس میںداخلی خواہش اور خارجی حالات دونوں کی مکمل رعایت شامل ہو۔ اور غیر منصوبہ بند عمل وہ ہے جس میں صرف داخلی خواہش کا اظہار ہو اور حقائق خارجی سے اُس کا کوئی تعلق نہ ہو۔
واپس اوپر جائیں

ایک خط

برادرِ محترم عبد السلام اکبانی صاحب! السلام علیکم ورحمۃ اللہ
30 مارچ 2007 کو آپ سے ٹیلی فون پر گفتگو ہوئی۔ اُس کے بعد آپ کو یہ خط لکھ رہاہوں۔ 6 ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قریش کے درمیان معاہدۂ حدیبیہ پیش آیا۔ اِس پر قرآن کی سورہ نمبر 48 میں یہ آیت اُتری: إنا فتحنا لک فتحاً مبیناً (الفتح : 1)۔ اِس آیت میں ’فتح‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ عربی زبان میں فَتَحَ کے معنٰی ہیںکھولنا (to open) ۔ لسان العرب میں بتایا گیا ہے کہ : الفتح نقیض الإغلاق۔ یعنی ’فتح‘ بند کرنے کا اُلٹا ہے۔ عربی میں کہاجاتا ہے کہ : فتح القناۃَ، فجّرہا لیجری فیہا الماء۔یعنی پانی بہنے کے لیے نالی نکالنا۔
حدیبیہ کے موقع پر وہ کون سی بات ہوئی جس کو یہاں فتح سے تعبیر کیا گیا ہے۔ حالاں کہ روایات میں آتا ہے کہ اِس سفر میں شریک ہونے والے جب حدیبیہ سے لوٹ کر مدینہ پہنچے تو یہاں کے لوگوں نے اُن سے کہا: ماہٰذا بفتحٍ( یہ تو کوئی فتح نہیں) سورہ الفتح اتری تو حضرت عمر نے رسول اللہ سے کہا کہ: أوفتح ہو یا رسول اللہ (اے خدا کے رسول، کیا وہ کوئی فتح ہے) القرطبی، جلد16، صفحہ 261۔
یہ ایک تاریخی واقعہ ہے کہ حدیبیہ کے موقع پر مسلمانوں کو بظاہر کوئی فتح حاصل نہیں ہوئی ـتھی۔ پھر وہ کیا چیز تھی جس کو قرآن میں فتح کہاگیا۔ اِس پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں فتح سے مراد سیاسی یا حربی فتح نہیں ہے، بلکہ اُس سے مراد ہے— مواقعِ کار یا مواقعِ دعوت کا کھُل جانا۔
مشہور تابعی الزّہری نے کہاہے : فلما وقع الصّلح مشی الناس بعضہم فی بعض، وعلموا وسمعوا عن اللہ، فما أراد أحد الإسلام إلاّ تمکن فیہ (القرطبی)۔
اصل یہ ہے کہ معاہدۂ حدیبیہ سے پہلے مسلمانوں اور مشرکین کے درمیان حالتِ جنگ قائم ہوگئی تھی۔ اس لیے باہمی انٹریکشن ختم ہوگیا تھا۔ اور انٹریکشن کا خاتمہ، دعوتی عمل کا خاتمہ ہے۔ معاہدۂ حدیبیہ میں یہ دفعہ شامل کی گئی کہ اب سے دس سال تک مسلمانوں اور اُن کے حریفوں کے درمیان جنگ نہیں ہوگی۔ اِس طرح معاہدۂ حدیبیہ کے بعد یہ ہوا کہ دونوں فریقوں کے درمیان کھلا انٹریکشن جاری ہوگیا۔ اور نارمل حالات میں کھُلے انٹریکشن کے نتیجے ہی کا نام اسلام کی دعوتی فتح ہے۔
موجودہ زمانے میں مسلمانوں کا اصل مسئلہ یہ نہیںہے کہ کوئی مفروضہ دشمن اُن کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ اِس قسم کا خیال بالکل بے بنیاد ہے۔ قانونِ فطرت کے مطابق، ایسا ہونا ممکن نہیںکہ کوئی دشمن کسی کو نقصان پہنچا سکے۔ قرآن میں بار بار یہ بات مختلف انداز میں کہی گئی ہے کہ انسان کی ناکامیابی کے اسباب اُس کے داخل میں ہوتے ہیں، نہ کہ اُس کے خارج میں (الشوریٰ: 30 )
موجودہ زمانے میں مسلمانوں کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ فتحِ سیاسی کو جانتے ہیں، لیکن وہ فتحِ مواقع کو نہیں جانتے۔ حالاں کہ فطرت کے قانون کے مطابق، اِس دنیا میں کام کے مواقع کا کھلنا سب سے بڑی فتح ہے، بلکہ یہی اصل فتح ہے۔
یہ حقیقت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے حالاتِ زندگی سے پوری طرح واضح ہے۔ میںنے اپنی کتابوں میں اِس کی بہت سی مثالیں دی ہیں۔ لیکن مسلمان پیغمبر اسلام کی سیرت کا مطالعہ پُر اسرار فضیلت اور پُراسرار کمالات کی اصطلاحوں میںکرتے ہیں، اس لیے وہ آپ کی زندگی سے مذکورہ قسم کا سبق نہیں لے پاتے۔ یہ بلاشبہہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کی سب سے بڑی بد قسمتی ہے۔
یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ اصل یہ ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلم رہنماؤں نے پیغمبرانہ بصیرت کو کھودیا ہے۔ پیغمبر کے لیے اُن کے پاس صرف لفظی نعت خوانی ہے۔ اس صورتِ حال کی اصلاح کے لیے نئی سوچ کی ضرورت ہے۔ نئی سوچ ہمیشہ اعترافِ خطا سے پیدا ہوتی ہے۔ اگرکوئی شخص یا گروہ ماضی میں اپنی غلطی کا اعتراف نہ کرے تو بعد کے زمانے میں بھی وہ اُسی غلطی میں پڑا رہے گا۔ غلطی کا اعتراف کسی نئی اصلاح کا ـآغاز ہے، غلطی کا اعتراف نہیںتو اصلاح کا آغاز بھی نہیں۔
نئی دہلی ، 31 مارچ 2007 دعاگو
وحیدالدین
واپس اوپر جائیں

سوال اورجواب

سوال
دسمبر 2006 کا الرسالہ راقم نے پورا پڑھا۔ اس میں ایک جگہ آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ: ’’مسلمانوں کے ہزار سالہ سیاسی اقتدار کا اصل مقصد صرف ایک تھا، اور وہ تھا —قرآن کی حفاظت۔ بقیہ چیزیں جو اس مدت میں مسلمانوں کو حاصل ہوئیں، وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ضمنی تھیں۔ قرآن کی حفاظت جب تک سیاسی اقتدار پر منحصر تھی اس وقت تک مسلمانوں کو سیاسی اقتدار حاصل رہا اور جب اس حفاظت کی ذمے داری پرنٹنگ پریس نے لے لی تو اب سیاسی اقتدار نے اپنی اہمیت کھو دی، چناںچہ خدا نے اس سے اپنی مدد واپس لے لی۔ یہی اصل سبب ہے جس کی بنا پر مسلمانوں کا سیاسی اقتدار اپنی قدیم شکل میں باقی نہ رہا‘‘۔(الرسالہ، دسمبر 2006، صفحہ 5)
یہ بات راقم کی سمجھ میں نہیں آئی کہ اس سے آپ کیا کہنا چاہتے ہیں۔ اگر اِس کا مقصد یہ ہے کہ اسلام میں اقتدار کی کوئی اہمیت نہیںرہ گئی ہے تو یہ محض آپ کا اپنا استنباط ہے جس کی آپ نے کوئی نقلی دلیل نہیں دی۔ جو عقلی دلیل آپ دے رہے ہیں تاریخ سے اس کی تائید نہیں ہوتی۔ اس کے برعکس اقتدار اسلامی کے مقاصد قرآن صر احت سے یہ بیان کرتا ہے:
الّذین إن مکناہم فی الأرض أقاموا الصلاۃ وأتوا الزکوۃ وأمروا بالمعروف ونھوا عن المنکر وللّٰہ عاقبۃ الأمور۔(اللہ کے دین کے مددگار) وہ لوگ ہیں جنھیں ہم اگر زمین میں اقتدار دیں گے تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم کریں گے، برائی سے روکیں گے۔اور تمام کاموں کا انجام اللہ کے ہاتھوں میں ہے) الحج: 14 ۔
یہ آیت اِس سلسلے میں نص ہے کہ حقیقی اسلامی اقتدار کے فرائض منصبی کیا کیا ہیں۔ ان فرائض منصبی کی ادائیگی واقامت کے طریقے زمانے کے لحاظ سے الگ الگ ہوسکتے ہیں۔
اِس آیت میں یا اجتماعی احکام سے متعلق احادیث میں کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا کہ قرآن کی حفاظت بھی اسلامی اقتدار کے مقاصد میں شامل ہے یا وہی اس کا اصل مقصد ہے۔
تاریخ یہ بتاتی ہے کہ قرآن کی ترتیب و تدوین کا بنیادی کام عہد نبوی میں مکمل ہوگیا۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر کے دور سے عہد عثمان رضی اللہ عنہ تک اس کا اتمام ہوا۔ اس کی کاپیاں تیار کرکے پوری مملک میں پھیلادی گئیں۔ اعراب کا مسئلہ حجاج بن یوسف (عہد نبی امیہ کے آغازمیں) مکمل ہوگیا۔ یہ ظاہری پہلو سے قرآن کی حفاظت تھی۔
معنوی طورپر عہد نبوی سے ہی اُس کے حفظ کا محیر العقول انتظام کیاگیا جوآج تک چلا آتا ہے۔ جو عربوں کے حافظے کی مخصوص صلاحیت کے پیش نظر آج کے کمپیوٹر کی طرح کا نظم تھا۔ اس کے بعد قرآن کی جو بھی خدمت ہوتی ہے، حفاظت و اشاعت سے لے کر اس کی تعبیر و تشریح اور اس کے علوم کی ترتیب وتدوین سب کچھ انفرادی طورپر علماء ہی کرتے رہے۔ اس کے لیے انھوں نے استنساخ (ایک نسخے کی نقل تیار کرنا) اور ورّاقی وکتابت جیسے علوم باقاعدہ develope کیے۔ اس پورے عمل میں تاریخ کسی اسلامی حکومت کا باضابطہ شریک ہونا (involvement) ثابت نہیں کرتی۔ البتہ بعض حکمرانوں کے بارے میں یہ ضرور ملتاہے کہ وہ قرآن کی کتابت کرتے تھے اور اسے اجر و ثواب کا باعث خیال کرتے تھے۔
اس لحاظ سے یہ کہنا کیسے صحیح ہوسکتا ہے کہ—مسلمانوں کے ہزار سالہ سیاسی اقتدار کا اصل مقصد صرف ایک تھا اور وہ تھا قرآن کی حفاظت۔ بقیہ چیزیں جو اس میں مدت میں مسلمانوں کو حاصل ہوئیں وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ضمنی تھیں۔ مدون اسلامی تاریخ ہمارے سامنے اِس کا بالکل برعکس پیش کرتی ہے۔ یعنی یہ کہ ’’اسلامی اقتدار سے بہت سے مقاصد حاصل ہوئے ان میں ضمنی طورپر قرآن کی حفاظت بھی تھی‘‘۔
آپ کی پوری تحریر کا خلاصہ ایک سطر میں یوں کیا جاسکتا ہے کہ ’’اسلام میںسیاسی اقتدار کی کوئی اہمیت ہی نہیں‘‘ اگر یہ خلاصہ درست ہے تو یہ ایک ایسا استنباط ہے جو محتاج دلیل ہے۔ آپ یہ کہیں کہ دورِجدید کے بعض مسلمان علماء نے سیاست و اقتدار کو حد سے زیادہ اہمیت دے دی اور وہ دین کی سیاسی تعبیر کر بیٹھے تو یہ بات بالکل درست ہے لیکن اس کی تردید میں سیاسی اقتدار کی اہمیت ہی ختم کردینا تو ایک دوسری انتہا ہے۔امید ہے کہ اس اشکال پر غور فرمائیں گے اور اس کنفیوژن کو دور کریں گے۔ (ڈاکٹر غطریف شہباز ندوی، نئی دہلی)
جواب
ماہ نامہ ’الرسالہ‘ دسمبر 2006 میں جو بات میں نے لکھی تھی، اُس کا مطلب مختصر طورپریہ تھا کہ جب تک قرآن دورِ طباعت تک نہیں پہنچا تھا، اس کی حفاظت کے لیے اقتدار ایک لازمی ضرورت کی حیثیت رکھتا تھا۔ اِسی زمانی مصلحت کے اعتبار سے حدیث میں آیا ہے کہ: القرآن والسلطان توأمان ۔یعنی قرآن اور اقتدار دونوں توأم (twin) بھائی ہیں۔
لیکن جب طباعت کا زمانہ آگیا اور قرآن کی تاریخ اُس دور میں پہنچ گئی، جب کہ اُس کی حفاظت کے لیے اقتدار کی حیثیت لازمی شرط کی نہ رہی، اب خود غیر سیاسی تدبیر ہی قرآن کی حفاظت کی کامل ضمانت بن گئی۔ اِس لیے اب اقتدار کا معاملہ براہِ راست خدا کا معاملہ نہ رہا، بلکہ وہ مسلمانوں کا اپنا معاملہ بن گیا۔
اس دوسرے دَور میں سیاسی اقتدار کا حصول براہِ راست طورپر مقصود نہ رہا، بلکہ اب یہ ہوگیا کہ اگر مسلمانوں کو حالتِ تمکین حاصل ہوجائے، اگر مسلم معاشرہ اِس درجے تک پہنچ جائے کہ اسلامی قوانین کا نفاذ بھی اُس کے دائرہ استطاعت میں شامل ہوجائے تو اُس وقت سیاسی اقتدار مطلوب بن جائے گا، لیکن اس کی یہ مطلوبیت، حفاظتِ قرآن کی نسبت سے نہ ہوگی، بلکہ مسلمانوں کی اپنی معاشرتی ذمے داری کی نسبت سے ہوگی۔
آپ نے قرآن کی جو آیت (الحج: 41 ) پیش کی ہے، وہ مسلمانوں کا یہ فریضہ نہیں بتاتی کہ تم اسلامی حکومت قائم کرو، بلکہ وہ صرف یہ بتاتی ہے کہ اگر حالات کے ارتقا کے تحت، تم کو اقتدار حاصل ہوجائے تو اُس وقت تمھاری سیاسی ذمّے داری کیا ہوگی۔
سوال
مولانا صاحب میری ایک مخصوص سوچ ہے کہ دنیا میں جس نے بھی اسلام کے لیے کام کیے اُس کی نہ ہی تمام باتیں اِس لائق ہیں کہ ان کو اپنایا جائے اور نہ ہی سب باتیں ایسی ہیں جن کو رد کیا جائے۔ ہمیں کسی کی نیت پر شک نہیں کرنا چاہیے۔ البتہ کسی کی بات سے ہمیں اختلاف ہوسکتا ہے اور یہ ہمارا حق ہے۔ (سہیل بشیر کار، کشمیر)
جواب
1 - ’’کسی کی ہر بات درست نہیں ہوسکتی‘‘ یہ کوئی مطلق بات نہیں۔ اِس طرح کے مفروضے کی بنیاد پر کسی کو غلط قرار نہیں دیا جاسکتا۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ آپ کسی کو اُس وقت تک درست مانیں جب تک اس کی کسی بات کو آپ قرآن اور سنت کی واضح دلیل سے رد نہ کرسکیں۔
اسلام میں اِس قسم کے مفروضے کی کوئی حیثیت نہیں۔ اِس قسم کے بے دلیل مفروضے کا نقصان یہ ہے کہ کہنے والے کے اندر یقین پیدا نہیں ہوتا۔جب کہ یقین ہر ایک کی ایک ایمانی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث میں ارشاد ہوا ہے کہ: خیر ما وُقر فی القلوب الیقین، والإرتیابُ من الکفر(البیہقی، وابن عساکر)
اس مزاج کے لوگ ہمیشہ انفرادی زندگی گذاریں گے، وہ کبھی کسی اجتماعی مشن کا حصہ نہ بن سکیں گے۔ وہ یقین کے ساتھ کسی سے جُڑ نہیں سکیں گے۔ وہ شک کے ساتھ جئیں گے اور شک کے ساتھ اِس دنیا سے چلے جائیں گے۔ اِس طرح کے لوگوں کو اپنے اِس مزاج کی دو بھاری قیمت دینی پڑتی ہے— ایک، حق کے معاملے میں بے یقینی اور دوسرے ،اجتماعی زندگی سے محرومی۔
اس طرح کی سوچ کے لوگ اکثر امام مالک کے اس مشہور قول کا حوالہ دیتے ہیں: کل یوخذ منہ و یُردّ۔ مگر مذکورہ قسم کے موقف کی تائید کے لیے یہ حوالہ غلط ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ جب کوئی شخص قرآن اور حدیث کے حوالے سے ایک بات پیش کرے تو اُس کو لینا آپ کے اوپر فرض ہوجائے گا۔ یہ فرضیت صرف اُس وقت ختم ہوگی جب کہ آپ خود قرآن اور حدیث کے دلائل سے اُس کا نادرست ہونا ثابت کردیں۔ اگر آپ کے پاس جوابی دلیل موجود نہیں ہے تو امام مالک کے قول کا حوالہ دے کر مذکورہ قسم کی بات کرنا، میرے نزدیک ایک گناہ کا فعل ہے، وہ کوئی صحیح علمی موقف نہیں۔
سوال
جناب عالی کی خدمت میں مؤدبانہ التماس ہے کہ میں ایک ذاتی معاملے میں کافی دباؤ اور پریشانی کی حالت میں رہتا ہوں۔ لاکھ کوشش کے باوجود حالت جوں کی توں رہتی ہے۔ اس لیے اپنی خاص دعاؤں میںناچیز کو یاد کرکے اس معاملے کی درستی میں ہمارے مسیحا بنیں۔(محمد طاہر، شوپیان، کشمیر)
جواب
دعا کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی متعین طورپر اصل بات لکھے، تاکہ سائل کے لیے دعا کے ساتھ ضروری مشورہ بھی دیا جاسکے۔ اصل واقعہ معلوم کیے بغیر نہ دعا کی جاسکتی ہے اور نہ صحیح مشورہ دیا جاسکتا ہے۔
میرا تجربہ ہے کہ اکثر لوگ کسی ذاتی نادانی کی بنا پر اپنے آپ کو ایک مصیبت میں پھنسا لیتے ہیں، اور اس کے بعد وہ کہتے ہیں کہ ہمارے لیے دعا کیجئے۔ اِس طرح کے معاملے میں سب سے پہلے ضروری ہے کہ واقعے کی اصل نوعیت بتائی جائے، تاکہ صحیح مشورہ دیا جاسکے۔
دوسری بات یہ کہ دعا کوئی لامحدود چیز نہیں۔ دعا کے معاملے میں آدھا کام خود سائل کو کرنا پڑتا ہے۔ اس کے بعدبقیہ آدھے کام کے لیے خدا سے دعا کی جاتی ہے۔ اس کے بغیردعا کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
سوال
میں مختلف قسم کے فکری سوالات میں الجھا رہتا ہوں۔ میرے پاس مطالعے کا وقت نہیں کہ اپنے سوالات کا جواب پاسکوں۔ ایسی حالت میں میں کیا کروں۔ مزید یہ بتائیے کہ مطالعے کا صحیح طریقہ کیا ہے۔ براہِ کرم رہنمائی فرمائیں۔ (محمد تاج رضا)
جواب
اگر آپ کے پاس مطالعے کے لیے وقت نہیں ہے تو آپ کو سوال اور جواب میں بھی اپنے ذہن کو الجھانا نہیں چاہیے۔ جتنا آپ کا علم ہے، اس کے مطابق نیک نیتی کے ساتھ عمل کرتے رہیے۔
مطالعے کا کوئی فریم ورک نہیں۔ آپ کو جو کتاب ملے اس کو پڑھیے۔ اگر وہ کتاب آپ کو مفید معلوم ہوتو مطالعہ جاری رکھیے، ورنہ اس کا مطالعہ چھوڑ دیجیے۔ پیشگی طورپر مطالعے کا کوئی فریم ورک مقرر نہیں کیاجاسکتا۔
صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی اپنی طاقت کے بقدر کام کرے۔ طاقت یا وسعت سے زیادہ کرنے کا کوئی آدمی مکلف نہیںہے۔ دین میں اصل اہمیت نیک نیتی اور اخلاص کی ہے۔ بقیہ چیزیں اضافی حیثیت رکھتی ہیں۔
سوال
آج تک میںنے جو بھی کتابیں پڑھیں مجھ پر اُن کاوہ اثر نہ ہوا جو آپ کی تحریروں نے کیا۔ آج عالم یہ ہے کہ جب میں کسی الجھن میں ہوتا ہوں توآپ کی کوئی تحریر پڑھ لیتا ہوں۔ اور مجھے سکون مل جاتا ہے۔ جب میرے ہاتھ میں آپ کی کوئی کتاب ہوتی ہے تومجھے ایسا محسوس ہوتا ہے گویا میرا رہبر میرے ساتھ ہے۔
میںاس سے پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ میرے اوپر عجیب کیفیت ہوتی ہے۔ کسی بات کا اثر فوری طورپر اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ میں اس میں نڈھال ہوجاتا ہوں۔ اور میری حالت عجیب ہوجاتی ہے۔ پھر دھیرے دھیرے وہ اثر بالکل ختم ہوجاتا ہے۔ مستحکم ہو کر کوئی فیصلہ نہیں لے پاتا ہوں۔
نہیں چاہتا کہ فضول باتیں میرے ذہن کو منتشر کریں۔ لاکھ کوششوں کے باوجود عجیب عجیب کیفیت ہوتی ہے۔ مثلاً کرکٹ اسٹار سوربھ گانگولی کو ٹیم سے کیوں نکال دیاگیا تھا۔ دھونی کو ٹیم سے باہر رکھنا چاہیے۔ دنیا ان لوگوں کے پیچھے اتنا بھاگتی کیوں ہے۔ سونیا گاندھی پی ایم کیوں نہیں بنیں، من موہن سنگھ کو پی ایم کیوں بنایا گیا۔ امیتابھ بچن کو اب فلموں میں کام کرنا نہیں چاہیے۔ اشوریہ سے ابھشیک کی شادی نہیں ہونی چاہیے تھی۔ اس دور کے بڑے لوگ کس طرح اپنی زندگی گذارتے ہیں ان کے رہنے سہنے کا تصور ذہن کو بھٹکاتا رہتا ہے۔ کیا میرا بھی نام اس دنیا میں ان لوگوں کی طرح کبھی روشن ہوسکے گا، وغیرہ۔
میں نے یہ سب باتیں آج تک نہ کسی کو بتایا نہ لکھا لیکن میرا دل و دماغ آپ کو یہ باتیں بتانے پر مجھے مجبور کررہا ہے اس لیے آپ کو لکھ رہا ہوں۔ آخر یہ سب میرے ساتھ کیوںہوتا ہے۔ دنیا اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہے پھر میں کیوں کر ان کا تصور اپنے ذہن میں لیے پھرتا ہوں، ایسا کیوں ہوتا ہے۔ میں یہ جانتا ہوں کہ اگر میرے اس مسئلے کا حل آپ کے پاس نہ ہوگا تو کسی دوسرے کے پاس ہر گز نہ ہوگا۔ (محمدنثار احمد، ہزاری باغ، جھارکھنڈ)
جواب
زندگی کے کچھ حتمی اصول ہیں۔ ہر انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اِن اصولوں کی پیروی کرے۔ اِن اصولوں کی خلاف ورزی کرنا، اپنی زندگی کو تباہ کرلینے کے ہم معنی ہے۔
زندگی کے انھیں اصولوں میں سے ایک اصول وہ ہے جس کو حدیثِ رسول میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے— مِن حُسن إسلام المرء ترکہ مالا یعنیہ(مسند احمد، ابن ماجہ، مشکاۃ المصابیح، رقم الحدیث: 4840) یعنی آدمی کے بہتر مسلم ہونے کی ایک پہچان یہ ہے کہ وہ اُن چیزوں کو چھوڑ دے، جس میں اُس کے لیے کوئی فائدہ نہیں۔
آپ کا مسئلہ یہ ہے کہ آپ اس اصولِ حیات کو چھوڑے ہوئے ہیں۔ آپ یہ کیجیے کہ ضروری اور غیر ضروری میں فر ق کرنا سیکھئے۔ اپنے وقت اور اپنے دماغ کو صرف اُن چیزوں میں صرف کیجیے جو آپ کی ترقی کے لیے ضروری ہیں، بقیہ چیزوں کو اپنے دماغ سے نکالتے رہیے۔ اِسی اصول کو جارج برنارڈ شا نے اپنے لفظوں میں اِس طرح بیان کیا تھا:
’’سب سے زیادہ غیر تعلیم یافتہ انسان وہ ہے جس کے پاس بھلانے کے لیے کچھ نہ ہو‘‘۔
سوال
ہم حلقۂ الرسالہ غیر مسلموں میں دعوتی کام کررہے ہیں۔ مہاراشٹر میں چوں کہ مراٹھی زبان بولنے والوں کی اکثریت ہے۔ اس لیے آپ کی کتابوں کے مراٹھی ترجموں کی اشد ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔
ہمارا خیال ہے کہ جناب عبد السلام چاؤش (ناگ پور) جو مراٹھی زبان پر کافی عبور رکھتے ہیں اور جنھوں نے چاؤش ڈکشنری (مراٹھی- انگریزی) اور کئی کتابیں تصنیف کی ہیں، اس کام کے لیے موزوں اور مناسب آدمی ہیں۔ براہِ کرم آپ ان کے ذمّے یہ کام سُپرد فرمائیں، تاکہ مہاراشٹر کے غیرمسلموں کی اہم ضرورت پوری ہو اور غیر مسلموں میں دعوتی کام میں آسانی ہوسکے۔ الحمد للہ آپ کی کتب انگریزی، عربی، اردو، ہندی اور دیگر عالمی زبانوں میں چھپ رہی ہیں لیکن مراٹھی داں طبقہ اس سے محروم ہے۔ ہمیں امید ہے کہ آپ اس طرف توجہ فرمائیں گے۔
اللہ سے دعا گو ہوں کہ وہ آپ کا سایہ تا دیر ہمارے سروں پر قائم رکھے تاکہ آپ کی رہبری اور رہنمائی میں ہم دعوت کے عظیم الشان کام کو کرسکیں۔ (حافظ زبیر احمد، ناندیڑ)
جواب
عرض یہ ہے کہ دوسروں کے لیے تجویز پیش کرنا کوئی کام نہیں۔ اصل کام یہ ہے کہ دستیاب وسائل کے دائرے میں آدمی اپنا کام شروع کردے، اور بقیہ معاملے کے لیے وہ خدا سے دعا کرتا رہے۔ وسائل کی کمی کا حل، تجویز پیش کرنا نہیں ہے، بلکہ دعا اور کوشش کرنا ہے۔
آج کل یہ عام مزاج بن گیا ہے کہ لوگ ہر معاملے میں تجویز پیش کیا کرتے ہیں۔ تجویز کی حقیقت یہ ہے کہ آدمی اپنی ذمے داری کو دوسرے کے سر ڈال کر یہ سمجھتا ہے کہ میںنے اپنا کام کردیا۔ حالاں کہ یہ محض خوش خیالی ہے۔ صحابہ کا مزاج یہ تھا کہ وہ بقدر استطاعت اپنی ذمے داریوں کو ادا کرتے تھے۔ وہ دوسروں کے لیے کوئی تجویز پیش نہیں کرتے تھے۔ یہی طریقہ صحیح اسلامی طریقہ ہے۔
سوال
میری عمر 29 سال ہے۔ شادی ہوئے قریب دو سال ہوگیے۔ ایک بچہ بھی ہے۔ میںایک گاؤں میں رہتا ہوں۔ لیکن میری شادی شہر میں رہنے والی لڑکی سے ہوئی ہے۔ میری سمجھ سے میری بیوی کسی بھی طرح عقل مند نہیں ہے۔ ہمارے گھر والے اس کو بیٹی کی طرح مانتے ہیں۔ لیکن وہ جب سے میرے گھر آئی ہے گھر والوں کے ساتھ اچھا برتاؤ نہیں کرتی۔ ذرا ذرا سی بات پر غصہ کرنے لگتی ہے اور کسی بات کا فوراً الٹا جواب دے دیتی ہے۔ اس کے ذہن میں ذرا سا بھی اس بات کا اثر نہیں رہتا کہ ہم سسرال میں ہیں اور سسرال والوں کے ساتھ کس طرح پیش آنا چاہیے۔ یہاں تک کہ میرے ساتھ بھی الٹی سیدھی بات بول جاتی ہے۔ لاکھ سمجھاؤ لیکن وہ اپنی عادت سے باز نہیں آتی۔ ایسا بھی نہیں کہ وہ امیر باپ کی بیٹی ہے۔ بلکہ مالی اعتبار سے ہم دونوں گھر والے یکساں ہیں۔ آخر یہ اس کی نادانی ہے یااس کاغرور کہ گھر میںکسی کو کچھ نہیں سمجھتی حالاں کہ کئی بار ہم نے اس کو مارا بھی۔ لیکن پھر بھی اُس کی عادت میں ذرا سا سدھار پیدا نہیں ہوا۔ میں سوچتا ہوں کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عقل مند عورت کا ہاتھ ہوتا ہے لیکن میرا کیا ہوگا۔ میری زندگی کیسے گذرے گی۔ (ایک قاری الرسالہ، جھارکھنڈ)
جواب
آپ کا خط مؤرخہ یکم اگست 2006 ملا۔ اس کو میںنے غور سے پڑھا۔ میرے نزدیک اس معاملے میں ساری غلطی صرف آپ کی ہے، کسی اور کی نہیں۔
1 - عقل مند عورت، ماں کے پیٹ سے پیدا نہیں ہوتی۔ اس کو تربیت دے کر عقل مند بنانا پڑتا ہے۔ میرے اندازے کے مطابق، آپ نے یہ کام نہیں کیا۔
2 - قرآن میں عورت کو تنبیہ کے لیے علامتی ضرب کی اجازت، استثنائی طورپر، صرف اُس وقت ہے جب کہ اس کے اندر نُشوز (النساء: 34 ) پایا جائے۔ آپ نے جواپنی بیوی کو مارا تو بلا شبہہ اس کا سبب نشوز نہیں تھا۔ اس لیے آپ نے بلا شبہہ ایک سخت غلط کام کیاہے۔آپ اس کی تلافی کے لیے فوراً اپنی بیوی سے معافی مانگیے اور خدا سے اُس کے لیے توبہ کیجیے۔
3 - اپنے تجربے کے مطابق، میںیہ سمجھتاہوں کہ بیوی سے آپ کی شکایت کا سبب صرف یہ ہے کہ وہ آپ کے والدین کی خدمت نہیں کرتی۔ میرے نزدیک، آپ کا یہ مطالبہ بھی غلط ہے۔ کیوں کہ شوہر کے والدین کی خدمت کرنا، بیوی کے شرعی فرائض میں شامل نہیں۔
4 - آپ نے لکھا ہے کہ میرے گھر والے میری بیوی کو بیٹی کی طرح مانتے ہیں ۔ یہ بات بلاشبہہ غلط ہے۔ آپ نے صرف یہ کیا ہے کہ گھر والوں کے بولے ہوئے لفظ کو یک طرفہ طورپر سُن کر اس کو اپنے خط میں نقل کردیا۔ آپ نے خود سے کبھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کہ کہ عملاً آپ کے گھر والوں کا رویّہ آپ کی بیوی کے ساتھ کیا ہے۔ میں آپ کے اِس بیان کو قطعی طورپر درست نہیں مانتا۔
5 - آپ کی اصل غلطی یہ ہے کہ آپ مشترک خاندان میں رہتے ہیں۔ آپ کو دو میں سے ایک کام کرنا چاہیے یا تو آپ الگ گھر لے کر بیوی کے ساتھ رہیں، یا آپ کو اگر مشترک خاندان میں رہناہے تو آپ یک طرفہ طورپر صبر کا طریقہ اختیار کریں۔آپ کو میرا مشو رہ ہے کہ آپ میری دو کتابیں ’خاتونِ اسلام‘ اور’ عورت معمارِ انسانیت‘ کا مطالعہ فر مائیں۔
سوال
میرا یہ تیسرا خط ہے جو میں آپ کو لکھ رہا ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں اپنی زندگی میں آپ سے جتنا متاثر ہوا ہوں کسی اور سے کبھی متاثر نہ ہو سکا۔
میں ایک غریب گھر کا نوجوان ہوں۔ میرے ماں باپ پڑھے لکھے نہیں ہیں۔ گھر کی آمدنی شروع سے لے کر اب تک بہت کم ہے۔ جس کی وجہ سے گھر میں ہمیشہtension بنا رہتا ہے۔ مالی حالت اچھی نہ ہونے کے باوجود میرے والد نے مجھے M.A. تک کی تعلیم دلائی۔ اب ذریعۂ معاش ڈھونڈنے کی فکر ہوئی۔ میںنے کئی جگہ سرکاری نوکری کی تلاش میں بھر پور کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوسکا۔ اب ہمارے پاس اتنا پیسہ اور وقت نہیں رہا کہ سرکاری ملازمت کی خاطر امتحانات میںشریک ہوسکوں۔ ہمارا کوئی رشتے دار بھی کسی شہر میں نہیںرہتا کہ اُس کا سہارا لے کر میں کسی شہر میں جا کر کوئی private service کی تلاش کرسکوں۔ میری شادی بھی ہوچکی ہے۔ پریشانی دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ دن رات پریشان رہتا ہوں۔ آخر کیا کروں۔ مجھے راہ بتائیں۔ (محمد نثار احمد ، ہزاری باغ، جھارکھنڈ)
جواب
عرض یہ کہ زندگی کی کامیابی کا کوئی پُر اسرار فارمولا نہیں ہے۔ زندگی ہر ایک کے لیے جدوجہد ہے۔ منصوبہ بند عمل ہی کسی کو کامیابی کی منزل تک پہنچا سکتا ہے۔
آپ کے خط سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے ایم۔اے کیا ہے۔ مجھے شک ہے کہ آپ نے ایم۔اے کسی ایسے مضمون میں کیا ہے جس کی مانگ مارکیٹ میں موجود نہیں۔ اگر میرا اندازہ صحیح ہو تو یہ آپ کی منصوبہ بندی میں نقص کا ثبوت ہوگا۔
اب آپ کے لیے زندگی میں کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے۔ آپ کے لیے صرف دو میں سے ایک صورت کا انتخاب ہے۔ یا تو آپ ایسا کریں کہ اپنی موجودہ لیاقت کی بنیاد پر آپ کو جو کام مل سکتا ہے آپ اس کو لے لیں، خواہ وہ کوئی چھوٹا کام کیوں نہ ہو۔ اور اگر آپ بڑا جاب چاہتے ہیں تو آپ کو پھر سے پیچھے کی طرف لوٹنا ہوگا۔ یعنی آپ ایسی کوئی ڈگری حاصل کریں جو مارکیٹ میں اہمیت رکھتی ہو، یا ایسا کوئی ہنر سیکھیں جس کی بنیاد پر آپ کو آج کے زمانے میں کوئی اچھا جاب مل جائے۔
یاد رکھیے! غم اور ٹینشن میں جینے کا کوئی فائدہ نہیں۔ آپ ماضی کو بھُلا کر مستقبل کے لحاظ سے از سرِ نو اپنا عمل شروع کیجیے، اور پھر یقینا آپ کامیاب ہوجائیں گے۔
سوال
آپ کی کتاب ’’رہنمائے حیات‘‘ پڑھ رہی ہوں۔ بہت اچھی کتاب ہے۔ آپ کی کتابیں بہت اچھی ہوتی ہیں۔ آپ کی کتابیں پڑھنے کے بعد کسی اور کی کتاب پڑھ نہیں سکتی۔ دوسروں کی کتابیں طبیعت پر بھاری لگنے لگتی ہیں۔ جس دن الرسالہ آتا ہے میں اُسی دن اُسے پورا پڑھ لیتی ہوں۔ پھر روزانہ اس کا ایک ایک article پڑھتی ہوں۔ آپ کی تحریریں پڑھ کر سوچ مثبت ہوتی ہے۔ اللہ پر توکّل بڑھتا ہے۔ اور ہم اِس دنیا میں امتحان کے لیے آئے ہیں، یہ احساس قوی ہوتا ہے۔
1 - ’رہنمائے حیات‘ صفحہ 204 ’صبر کا فائدہ‘ میں آپ نے لکھا ہے کہ فکری ارتقاء رُوحانی ارتقاء سے جُڑی ہوئی ہے۔ میرے ذہن میں یہ سوال آرہا ہے کہ فکری اِرتقاء کے نتیجے میں مادّی ترقی ہورہی ہے۔ مگر جو لوگ مادّی طورپر بڑھ رہے ہیں اُن میں رُوحانی ترقی نظر نہیں آتی بلکہ وہ زیادہ materialistic نظر آتے ہیں۔ اِس کو ذرا واضح کردیں کہ فکری ارتقاء اور روحانی اِرتقاء میں کیسے ہم آہنگی ہے۔
2 - شیطانی وسوسوں سے بچنے کا کیا حل ہے۔ سورۃ الفلق اور سورۃ الناس پڑھتی ہوں۔ کیا اِس کے علاوہ کوئی اور طریقہ بھی ہے۔(فرزانہ فیصل، کراچی)
جواب
1 - آپ نے غالباً فکری ارتقاء کو تعلیمی ارتقاء کے معنی میں لے لیا ہے، مگر میرا مطلب یہ نہیں۔ تعلیمی ترقی کا فائدہ صرف یہ ہوا ہے کہ ڈگری یافتہ لوگوں کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ مگر فکری ترقی کا مطلب ہے— بصیرت کی ترقی، وزڈم کا بڑھنا اور شعوری ارتقاء۔ اِس اعتبار سے ابھی ہمارا معاشرہ بہت پیچھے ہے۔اس کی ایک پہچان یہ ہے کہ تعلیمی ترقی کے باوجود تمام لوگوں کے اندر منفی سوچ پرورش پارہی ہے۔ جب کہ حقیقی معنوں میں باشعور لوگوں کی پہچان یہ ہے کہ ان کے اندر منفی سوچ کا خاتمہ ہوجائے۔ وہ پوری طرح مثبت سوچ والے انسان بن جائیں۔
روحانیت کا تعلق، ہمارے نزدیک قلب سے نہیںہے بلکہ ذہن سے ہے۔ ذہنی ترقی جب مثبت انداز میں ہوتی ہے تو ا س کے نتیجے کے طورپر وہ چیز بھی پیداہوتی ہے جس کو روحانی ترقی کہا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فکری ارتقاء لازمی طورپر روحانی ارتقاء سے جُڑا ہوا ہے۔ فکر اوراحساس کا منبع صرف مائنڈ ہے۔ اس لیے دوسری چیزوں کی طرح روحانیت بھی مائنڈ کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔
2 - آپ کے دوسرے سوال کے بارے میں عرض ہے کہ آپ راقم الحروف کی تفسیر ’تذکیر القرآن‘ کا مطالعہ کریں۔
سوال
سورہ یٰسمیںایک آیت ہے— تنزیل العزیز الرّحیم (یٰس:5 )۔ مجھے عربی پر مہارت تو نہیں، تھوڑا علم ہے۔ اسی تھوڑے علم کی بنیاد پر مجھے ایسا لگتا ہے کہ اس آیت میں تنزیلَ کی جگہ تنزیلُ یعنی لام پر فتحہ کی جگہ پیش ہونا چاہیے تھا۔ میں نے کئی عربی دانوں سے رجوع کیا مگر مجھے صحیح جواب ابھی تک نہیں مل پایا ہے۔ مجھے قوی امید ہے کہ آپ اس کی صراحت کریں گے۔ جواب کے لیے مشکور ہوں گا۔ (رستم علی، پٹنہ، بہار)
جواب
سورہ یٰسکی آیت میںلفظ ’تنزیلَ‘کا اعراب حذف کے اصول پر ہے۔ اِس آیت میں تنزیلَ فعل محذوف سے منصوب ہے۔ تفسیر قرطبی میںاس کی تشریح اِن الفاظ میں کی گئی ہے: ’’تنزیلَ العزیزِ الرحیم‘‘ قرأ ابن عامر و حفص والأعمش وحمزۃ والکسائی وخلف: ’’تنزیلَ‘‘ بنصب اللام علی المصدر؛ أی نزّلَ اللہُ ذلک تنزیلاً۔ (القرطبی، جلد 15 ، صفحہ: 6)
سوال
الرسالہ مئی 2006 میںایک سوال کے جواب میںآپ نے لکھا تھا کہ —کسی ایسے شخض کو کافر نہیں کہیں گے جو قبلے کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج کی تاریخ میں جن لوگوں کو قادیانی یا احمدی کہا جاتا ہے اُن لوگوں کو کافر کس بنا پر کہاجاتا ہے۔ جب کہ وہ لوگ بھی قبلے کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھتے ہیں۔ (شبیر احمد وانی، سری نگر، کشمیر)
جواب
کون کافر ہے اور کون کافر نہیں ہے، یہ فیصلہ کرنا خدا کا کام ہے۔ انسان کا کام نہیں۔ موجودہ زمانے میں تکفیر کا جو طریقہ رائج ہوا ہے، میں اس کو غلط سمجھتا ہوں۔ اہلِ ایمان کی ذمّے داری صرف تبلیغ ہے، تکفیر ان کی ذمے داری نہیں۔
سوال
سائنٹفک نقطۂ نظر (scientific attitude) کیا ہے۔ اکثر کہاجاتا ہے کہ فلاں شخص کے اندر سائنٹفک مزاج یا سائنٹفک نقطۂ نظر نہیں ہے۔ اس کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ اگر ممکن ہو تو اس کی وضاحت فرمائیں۔ (عبد السلام اکبانی، ناگ پور)
جواب
سائنس کے لفظی معنی علم کے ہیں، مگر جدیداستعمال میںاس سے مراد وہ علوم ہیں جن کو علوم قطعیہ (exact sciences) کہاجاتا ہے۔ قدیم زمانے میں قیاسی منطق کا رواج تھا، اس کے تحت مفروضات کی بنیاد پر رائے قائم کی جاتی تھی۔ موجودہ زمانے میں مسلّمہ حقائق (established facts) پر رائے قائم کی جانے لگی۔ اسی سے سائنسی علوم پیدا ہوئے۔
سائنٹفک نقطۂ نظر مبنی بر حقائق نقطۂ نظر کا نام ہے۔ اس کے برعکس نقطۂ نظر وہ ہے جس کو مبنی بر مفروضات نقطۂ نظر کہا جاسکتا ہے۔ موجودہ زمانے میں نہ صرف مسلمانوں میںبلکہ عام طورپر مشرقی اقوام میں سب سے بڑی کمی یہی ہے کہ ان کے درمیان سائنٹفک نقطۂ نظر کا ارتقاء نہ ہوسکا۔ یہاں ایک تمثیل بیان کرنا، ایک شعر پڑھ دینا، یا ایک لفظی تک بندی پیش کردینے کو بھی دلیل سمجھا جاتا ہے۔ حالاںکہ اس قسم کی چیزیں دلیل نہیں ہیں۔ چند مثالوں سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔
ہندستان کی آزادی (1947) کے بعد پنڈت جواہر لال نہرو یہاں کے وزیر اعظم بنے۔ انھوں نے ملک کی اقتصادی ترقی کے لیے پانچ سالہ پلاننگ کا طریقہ اختیار کیا۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے ملک کے اوپر بہت بڑے بڑے ٹیکس عائد کردیے۔ جب ان سے کہا گیا کہ آپ اتنے بڑے بڑے ٹیکس ملک پر کیوں لگارہے ہیں تو انھوں نے ایک تمثیل کے ذریعے اس طرح اُس کا جواب دیا کہ گرمی کے زمانے میں نالوں اور ندیوں کا پانی بھاپ بن کر اڑ جاتا ہے اور ہر طرف سوکھا نظر آنے لگتا ہے۔ مگر یہ پانی فضا میں جاکر بادل بن جاتا ہے اور دوبارہ زمین پر برستا ہے۔ اور زمین میں ہر طرف سرسبزی پھیل جاتی ہے۔ اسی طرح ہم جو ٹیکس لے رہے ہیں تو وہ مختلف ترقیوں کی صورت میں دوبارہ ملک کی طرف لوٹیں گے اور اس کی خوش حالی کو بڑھائیں گے۔
یہ ایک غیر سائنٹفک استدلال ہے جو واقعات پر نہیں بلکہ مفروضات پر مبنی ہے۔ اس لیے کہ بھاپ اور بارش کا معاملہ فطرت کے اٹل قانون کے تحت ہوتا ہے۔ چناںچہ جب زمین کا پانی بھاپ کی صورت میں اوپر جاتا ہے تو اس کے بعد وہ فطرت کے لازمی قانون کے تحت دوبارہ زمین پر واپس آتا ہے اور یکساں طورپر سب کو سیراب کرتا ہے۔
مگر ٹیکس اور پلاننگ کا معاملہ اس سے یک سر مختلف ہے۔ یہاں ٹیکسوں کے ذریعے حاصل شدہ دولت کچھ انسانوں کے پاس جمع ہوتی ہے۔ یہ سرکاری انسان اگر دیانت دارانہ طورپر اس کو لوٹائیں تو وہ عوام کی طرف لوٹے گی ورنہ وہ انھیں کی جیبوں میں رہ جائے گی۔ چناںچہ عملاً یہی ہوا۔ 60 سال سے زیادہ مدت سے نہایت بڑے بڑے ٹیکس عوام سے وصول کیے جارہے ہیں مگر حالت یہ ہے کہ ملک کے تھوڑے سے با اختیار لوگ تو بہت زیادہ امیر ہوگیے اور ملک کی اکثریت کے حصے میں غربت اور مصیبت کے سوا کچھ نہ آیا۔
سوال
میرا نام فاضل محمد وانی، عمر تقریباً 31 سال ہے۔ میں نے Chemistry میں M. Sc. کیا ہے اور کچھ عرصے سے ایک کالج میں contact پر لکچرر ہوں۔
محترم مولانا صاحب! جب بھی میںاپنے حال اور مستقبل کے متعلق سوچتا ہوں تو ایک بے چینی کی لہر دوڑتی ہے۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ میںاپنے pattern of life سے مطمئن نہیں ہوں۔اگر چہ اللہ کے فضل سے میری ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ میںایک اچھے مسلمان کی طرح زندگی گزاروں۔ مثلاً پانچ وقت نماز، روزہ، زکوٰۃ ادا کرنا، سودی معاملات نہ کرنا وغیرہ۔ لیکن اِن سب کے باوجود میرے دل اور ذہن میںایک خلش رہتی ہے۔ میںمحسوس کرتا ہوں کہ یہ سب کافی نہیں۔ ایک تڑپ ہے جو کوئی outlet نہ ملنے کی وجہ سے کبھی کبھی مجھ کو بے بسی اور لاچارگی (اور شاید نا اُمیدی) کی انتہا تک پہنچا دیتی ہے۔
میں شاید اپنے جذبات اور احساسات کی صحیح ترجمانی نہیں کرپاؤں گا۔ مختصراً عرض کروں کہ میں ایک داعی بننا چاہتا ہوں۔ میں ہندستان میں یا ہندستان کے باہر غیر مسلموں میں اِسلام کی تبلیغ کرنا چاہتا ہوں۔میںاس کو اپنا کیریر (career)بنانا چاہتا ہوں۔
تقریباً 2001 کی بات ہے کہ میں ہندستان کے ایک دعوتی ادارے میں گیا اور اُن سے اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ لیکن شاید میں اپنے آپ کو واضح نہ کرسکا اور با ت آگے نہ بڑھ سکی۔ اس کے بعد میںنے وقفے وقفے سے South Africa کے دعوتی اداروں کو لکھا (میں صرف اِنھیں اخبار وغیرہ سے جانتا تھا) لیکن کوئی جواب نہ آیا۔ میںنے CPS International کو لکھا، لیکن پھر وہی خاموشی رہی۔
اب میں آپ کو لکھ رہا ہوں اور میں محسوس کرتاہوں کہ شاید یہ میری آخری کوشش ہوگی کیوں کہ اب میری حالت نا اُمیدی سے گزر کر frustration level تک آرہی ہے۔مولانا صاحب، میں خود کو ایک شکست خوردہ اِنسان محسوس کرتاہوں۔
میںاللہ تعالیٰ سے دست بدعا ہوں کہ وہ آپ کا سینہ میرے لیے کھول دے اور آپ میرے متعلق اللہ کی مرضی سے وہ فیصلہ کرسکیں جو میری اِس زندگی اور آنے والی زندگی کے لیے باعث رحمت ہو۔ (فاضل محمد وانی، سری نگر، کشمیر)
جواب
1 - دعوت ایک مشن ہے، دعوت کوئی کیریر(career) نہیں۔ آپ اگر دونوں کے درمیان اِس فرق کو سمجھ لیں تو آپ کا کنفیوژن اپنے آپ ختم ہوجائے گا۔ آدمی کے اندر اگر کیریر کا مزاج ہو تو وہ کوئی خارجی نقشہ تلاش کرنے لگتا ہے جس کے اندر وہ اپنی جگہ پاسکے، لیکن صاحبِ مشن کو کسی خارجی نقشے کی ضرورت نہیں۔ اُس کی ذاتی تڑپ ہی اِس کے لیے کافی ہو جاتی ہے کہ وہ جہاں ہے، وہیں وہ اپنا کام شروع کردے۔
2 - اگر آپ دعوت الی اللہ کا کام کرنا چاہتے ہیں تو سمجھ لیجیے کہ یہ کام خود اپنے آپ سے شروع ہوگا۔ آپ کو یہ کرنا چاہیے کہ آپ اپنا مطالعہ بڑھائیں۔ اپنے آپ کو ذہنی اور فکری اعتبار سے حقیقی داعی بنانے کی کوشش کریں۔ اگر آپ نے یہ فکری تیاری کی ہوتی تو آپ ’’شکست خوردگی‘‘ کے احساس سے دوچار نہ ہوتے۔
3 - اِس وقت ساری دنیا میں کہیں بھی صحیح معنوں میں دعوت کا کام نہیں ہورہا ہے۔ ہر جگہ دعوت کے ساتھ مدعو سے نفرت اور شکایت بھی ساتھ ساتھ جاری ہے۔دعوت کا کام صرف الرسالہ مشن کے تحت ہورہا ہے۔ اگر آپ واقعی دعوت کا کام کرنا چاہتے ہیں تو اپنے مقام پر تعمیر ی ذہن کے تحت رہیے اور ماہ نامہ ’الرسالہ‘ کی ایجنسی لے لیجیے۔ ہمارے یہاں سے اردو، ہندی اور انگریزی میں بہت سی چھوٹی اور بڑی دعوتی کتابیں چھپی ہیں، اُن کو لے کر اپنے آس پاس کے لوگوں میں پھیلائیے۔
یاد رکھیے، دعوت کاکام ممکن سے شروع ہوتا ہے، نہ کہ ناممکن کی طرف چھلانگ لگانے سے۔
سوال
حال ہی میں ہمارے یہاںاپنی برادری میںایک مسئلہ پیش آیا ہے، جس کی تفصیل یہ ہے کہ ایک باپ کے دو بیٹے ہیں جن میں ایک بیٹا دو بچے چھوڑ کر طویل علالت کے بعد چل بسا اور دوسرا بیٹا اگر چہ ابھی جوان اور غیر شادی شدہ ہے اور اس سے کہاگیا تھا کہ وہ اپنے مرحوم بھائی کی بیوہ سے شادی کر لے تاکہ یتیم بچوں کو اپنے ہی گھر میںایک باپ کا سایہ اور اچھی پرورش مل سکے مگر اس نے کسی کی نہ سنی اور صاف صاف بیوہ سے شادی کرنے سے انکار کردیا اور اب اس کی کسی اور لڑکی سے منگنی بھی ہو چکی ہے، نیز ان میں جو بھائی چل بسا وہ کچھ عرصے سے الگ مکان میں رہ رہا تھا اور وہ بڑے پیمانے پر کاروبار بھی کر رہا تھا۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا مرحوم کے بچے یعنی پوتے اپنے دادا کے اسی طرح وارث قرار پائیں گے جس طرح ان کا مرحوم باپ وارث تھا یا وہ اپنے باپ کے فوت ہوجانے کی صورت میں اپنے دادا کی میراث سے محروم رہیں گے۔ اس سلسلے میں کچھ علماء سے بھی استفسار کیا گیا ہے اور انھوں نے کہا کہ شریعت اسلامی کی رو سے یتیم پوتے اپنے دادا کی میراث سے بحیثیت وارث کچھ نہیں لے سکیں گے۔ لیکن اگر ان کا دادا چاہے تو وہ اپنے طورسے کچھ حصہ لکھ کردے سکتا ہے یا ان کے حق میں 1/3 کی حد تک وصیت کرسکتا ہے۔
میں نے اس مسئلے کے بارے میں اپنے طورسے بھی کئی کتابوں کا مطالعہ کیا ہے اور حاصل مطالعہ یہ ہے کہ اس مسئلے میں کہ یتیم پوتے اپنے دادا کی میراث کے وارث نہیں ہیں، کے بارے میں تقریباً تمام فقہاء اور ائمہ اربعہ کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔ بلکہ بعض کتابوں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اس مسئلے کے بارے میں غلط فہمیاںاور شبہات منکرین حدیث نے پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور جس سے وہ عام مسلمانوں کو ذخیرۂ حدیث سے بد ظن کرتے ہوئے ان میں اپنے گمراہ کُن خیالات پھیلانا چاہتے ہیں۔ (غلام نبی کشافی، سری نگر، کشمیر)
جواب
محجوب پوتے کے بارے میں یہ صحیح ہے کہ فقہاء کا اتفاق اُس بات پر ہے جو آپ نے تحریر فرمایا۔ مگر میرے علم کے مطابق، فقہاء کا یہ اتفاق قرآن اور حدیث کی کسی واضح نص پر مبنی نہیں ہے۔ اِس معاملے میں صرف ابوبکر صدیق کا ایک قول نقل کیاگیا ہے، اور وہ ہے: ’’الجَدُّ أَبٌ‘‘۔ مگر یہ ایک مبہم قول ہے، اور وہ شرعی ثبوت کے لیے کافی نہیں۔
اِس لیے میری رائے ہے کہ یا تو دادا وراثت کی تقسیم کرکے پوتے کو اس کا پورا حق دے دے۔ بصورتِ دیگر، پوتے کو یہ حق ہے کہ وہ عدالت سے رجوع کرکے اپنا قانونی حق وصول کرے۔
واپس اوپر جائیں