Pages

Thursday 1 August 2013

Al Risala | August 2013 (الرسالہ،اگست)

2

-لعلہم یرشدون

3

- خالص اللہ کے لیےعمل

4

- سورہ العصر

6

- حبطِ اعمال

8

- انسان کی محرومی

10

- فہمِ قرآن — ایک مطالعہ

31

- اندھا اور بہرا رد عمل

32

- مجھ کو قرآن نہیں ملا

33

- دعوت، اجتماعیت

34

- فکری مستویٰ کے مطابق خطاب

39

- دریافت کی عظمت

40

- کامیاب زندگی کا راز

41

- مواقع ختم نہیں ہوتے

42

- غلطی کا اعتراف

43

- سوال وجواب


لعلہم یرشدون

قرآن کی سورہ البقرہ میں ماہ صیام (رمضان) کے احکام بیان کیے گئے ہیں-اِس سلسلے میں ایک آیت ىہ ہے: وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّىْ فَاِنِّىْ قَرِیْبٌ ۭ اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙفَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْابِیْ لَعَلَّہُمْ یَرْشُدُوْنَ(2:186) یعنی جب میرے بندے تم سے میری بابت پوچھیں، تو میں نزدیک ہوں، پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب کہ وہ مجھے پکارتا ہے، تو چاہیے کہ وہ میرا حکم مانیں اور مجھ پر یقین رکھیں،تاکہ وہ ہدایت پائیں-
’رشد‘ ’یرشد‘ کا مطلب ہے ہدایت پانا- القاموس المحیط میں اس کی تشریح ’اہتدى‘ کے لفظ سے کی گئی ہے، اور لسان العرب میں اِ س کا مفہوم بتانے کے لیے ’أصاب وجہَ الأمر‘ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں- انگریزی زبان میں کہا جائے گا: to find the truth دوسرے الفاظ میں، اِس کا مطلب ہے— سچائی کی دریافت-
اصل یہ ہے کہ انسان کی شخصیت کے دو پہلو ہیں— جسم اور روح- جسم سے مراد آدمی کا مادی وجود ہے اور روح سے مراد اس کا ذہنی وجود ہے- روزے کے مہینے میں ایک شخص دن کے اوقات میں اپنے آپ کو کھانے اور پانی سے روکتا ہے- یہ عمل انسانی شخصیت کے مادی حصے کو دبانے (suppression) کے ہم معنی ہوتا ہے- دوسری طرف، یہ عمل انسانی شخصیت کے روحانی پہلو کو اٹھانے (uplift)کے ہم معنی ہے- اِس طرح آدمی اپنے آپ کو اِس کا اہل بناتا ہے کہ اس کی ذہنی اور روحانی صلاحیتیں بیدار ہوں، وہ برتر حقیقتوں کو دریافت کرنے کے قابل بن سکے- اِس طرح روزہ آدمی کو اِس قابل بناتا ہے کہ وہ مقصدِ اعلی سے کم تر کسی سطح پر جینے کے لیے تیار نہ ہو-
یہی وہ چیز ہے جس کو قرآن کی مذکورہ آیت میں ’’رُشد‘‘ کہا گیا ہے-صحیح ہدایت (right guidance) ہر انسان کی پہلی ضرورت ہے- ہر عورت اور مرد کو چاہئے کہ وہ صحیح ہدایت پانے کو اپنا سب سے بڑا کنسرن (supreme concern)بنائے-
واپس اوپر جائیں

خالص اللہ کے لیےعمل

حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے کے بارے میں فرمایا: کل عمل بن آدم یضاعف الحسنة بعشر أمثالہا إلى سبع مأة ضعف- قال اللہ تعالى: إلا الصوم، فإنہ لی وأنا أجزی بہ، یدع شہوتہ وطعامہ من أجلی (صحیح مسلم، رقم الحدیث: 1151 ) یعنی انسان کے ہر عمل کا اجر دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھایا جاتا ہے- اللہ تعالی نے فرمایا :مگر روزہ کہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا- روزے دار میرے لیے اپنی شہوت کو اور اپنے کھانے کو چھوڑتا ہے-
اِس حدیثِ رسول میں جس عظیم ثواب کا ذکر ہے، اس کا تعلق صرف روزے سے نہیں ہے ،بلکہ توسیعی طورپر اُس کا تعلق ہر اُس عمل سے ہے جو للّٰہ یا لأجل اللّٰہ کیا گیا ہو، یعنی وہ عمل جو خالص اللہ کے لیے کیا جائے- یہ وہ عمل ہے جو اللہ سے بے پناہ تعلق کے تحت ظہور میں آتا ہے-
ایک انسان جس کو اللہ کی اعلی معرفت حاصل ہوئی ہو، جس کے اندر اللہ سے حبّ شدید (2:165) پیدا ہوگیا ہو، جو اللہ سے خوفِ شدید کی نفسیات میں جیتا ہو، جس کے تعلق باللہ نے اُس کا یہ حال کردیا ہو کہ اللہ اس کا سول کنسرن (sole concern)بن گیا ہو، اللہ کی یاد جس کا سب سے بڑا سرمایہ بنا ہوا ہو، ایسا انسان اگر بظاہرایک چھوٹا سا کام بھی خالصتاً اللہ کے لیے کرے تو داخلی اسپرٹ کے اعتبار سے، وہ اتنا بڑا ہوتا ہے کہ سارے زمین وآسمان بھی اس کا تحمل نہ کرسکیں-
ایسا ایک عمل اپنی داخلی اسپرٹ کے اعتبار سے، کسی انسان کا عظیم ترین عمل ہوتا ہے- اس کی کیفیاتی قدر وقیمت (qualitative value) اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ کسی بھی پیمانے سے اس کو ناپا یا تولا نہیں جاسکتا- وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے، انسان کی پوری شخصیت کا اظہار ہوتا ہے- یہ ربانی عمل کی وہ قسم ہے جب کہ بندہ اپنے آپ کو آخری حد تک اللہ کے آگے ڈال دیتا ہے- اُس وقت اللہ بھی اپنے لامحدود انعام کو اپنے بندے کے لیے مقدر کردیتاہے-
واپس اوپر جائیں

سورہ العصر

سورہ العصر قرآن کی ایک چھوٹی سورہ ہے- اس کی صرف تین آیتیں ہیں- اس کا متن اور ترجمہ یہ ہے: وَالْعَصْرِ۝ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ ۝ اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ ڏ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ(103:1-3) یعنی زمانہ گواہ ہے کہ بے شک انسان گھاٹے میں ہے- سوا اُن لوگوں کے جو ایمان لائے اور عملِ صالح کیا، اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی-
قرآن کی یہ سورہ پورے قرآن کا خلاصہ ہے- امام شافعی نے کہا کہ: لو لم ینزل اللہ سوى ہذہ السورة، لکفت الناس- (صفوة التفاسیر للصابونی: 3/60 ) یعنی اگر اللہ صرف اِس سورہ کو اتارتا تو یہی ایک سورہ لوگوں کی رہنمائی کے لیے کافی ہوجاتی-
یہ بات بلاشبہہ درست ہے- لیکن سورہ العصر کا یہ فائدہ صرف اس کے ترجمے سے معلوم نہیں کیا جاسکتا- یہ فائدہ صرف اُس وقت معلوم ہوتا ہے جب کہ اُس پر تدبر کیا جائے- قرآن کے تمام گہرے معانی صرف اُس انسان پر کھلتے ہیں جو تدبر کے شرائط کے ساتھ اس پر تدبر کرے-
’عصر‘ کا لفظی مطلب زمانہ ہے-لیکن یہ لفظ یہاں تاریخ کے معنی میں ہے، یعنی انسانی تاریخ اپنے نتیجے کے اعتبار سے اِس بات کی گواہی دیتی ہے کہ انسان گھاٹے میں ہے- ’خُسر‘ یہاں محرومی کے معنی میں ہے- اِس محرومی سے مستثنی صرف وہ لوگ ہیں جو ایمان اور عمل صالح کا ثبوت دیں، اور وہ تواصی بالحق اور تواصی بالصبر کی صفت اپنے اندر رکھتے ہوں-
اِس آیت میں جس چیزکو ایمان اور عمل صالح اور حق وصبر کے الفاظ میں بیان کیاگیاہے، اُس کا مفہوم دوسرے لفظوں میں یہ ہے کہ وہ لوگ جو اللہ کے تخلیقی منصوبہ (creation plan ) کو جانیں، وہ اِس حقیقت کو اِس طرح دریافت کریں کہ وہ اُن کے شعور کا حصہ بن جائے- اللہ کے اِسی منصوبۂ تخلیق کے مطابق، وہ اپنی شخصیت کی تعمیر کریں، وہ خود اپنی زندگی میں اس کو اختیار کریں اور اِسی کے ساتھ وہ دوسروں کو بھی اِس کی تلقین کریں-
مزید غور کیجئے تو معلوم ہوتاہے کہ سورہ العصر کا پیغام یہ ہےکہ اللہ نے انسان کو امکانی طورپر ایک کامیاب انسان کی حیثیت سے پیدا کیا- لیکن تاریخ کا مشاہدہ بتاتا ہے کہ انسان نے اپنے حق میں اِس امکان سے فائدہ نہیں اٹھایا- اس کے برعکس، اس نے یہ کیا کہ وہ گھاٹے اور محرومی کا کیس بن گیا-
یہ واقعہ اللہ کی تقدیر کی بنا پر نہیں ہوا، بلکہ اِس لیے ہوا کہ انسان نے اللہ کے تخلیقی منصوبے کو نہیں سمجھا- اُس نے بطور خود اپنی زندگی کا نقشہ بنایا- اِس خود ساختہ رویے کا نتیجہ یہ ہوا کہ انسان محرومی کا شکار ہو کر رہ گیا-
انسان سے یہ مطلوب تھاکہ وہ اپنی زندگی کا مقصد اللہ کے تخلیقی منصوبے کی روشنی میں متعین کرے- اللہ جو اس کا خالق اورمالک ہے، اُسی کو وہ اپنا سب سے بڑا کنسرن (sole concern) بنائے- وہ محبت اور خوف کے جذبات کو اللہ کے لیے خالص کردے- وہ صرف اللہ کا عبادت گزار بنے- اخلاقی معاملے میں وہ اللہ کے مقرر کیے ہوئے اصول کی پابندی کرے- وہ اپنی انفرادی زندگی اور اجتماعی زندگی کو اللہ کے بتائے ہوئے نقشے کے مطابق تشکیل دے- وہ دنیا کو دار الامتحان سمجھے- وہ آخرت کی کامیابی کو اپنا نشانہ بنائے- وہ آخری حد تک جنت کا حریص ہو، وہ جہنم سے آخری حد تک ڈرنےوالا بن جائے-
تاریخ بتاتی ہے کہ بیش تر لوگ اللہ کا مطلوب انسان بننے میں ناکام رہے- اُن کو یہ کرنا تھاکہ وہ دنیا سے رخصت ہوں تو وہ اللہ کے مطلوب انسان بن چکے ہوں، تاکہ موت کے بعد جب وہ اللہ کے سامنے کھڑے ہو تو اللہ انھیں رد نہ کرے، بلکہ وہ انھیں قبول کرلے- مگر بیش تر انسانوں کا کیس اِس معاملے میں، خسران کا کیس بن گیا-
قرآن کی یہ سورہ جوساتویں صدی عیسوی کے آغاز میں اتری، وہ گویا ایک انتباہ (warning) ہے- وہ انسان کو متنبہ کررہی ہے کہ وہ اِس غلطی سے بچے- وہ اُن خوش قسمت انسانوں میں سے بنے جن کے لیے آخرت میں جنت کے دروازے کھولے جائیں گے-
واپس اوپر جائیں

حبطِ اعمال

قرآن کی سورہ الحجرات میں آدابِ کلام کے ذیل میں کچھ ہدایات دی گئی ہیں- اِس سلسلے میں اس کی تین آیتوں کا ترجمہ یہ ہے: ’’اے ایمان والو، تم اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو، اور اللہ سے ڈرو- بے شک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے- اے ایمان والو، تم اپنی آوازیں پیغمبر کی آواز سے اوپر مت کرو اور اُس کو اِس طرح آواز دے کر نہ پکارو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو- کہیں ایسا نہ ہو کہ تمھارے اعمال حبط ہوجائیں اور تم کو اس کا شعور بھی نہ ہو- جو لوگ اللہ کے رسول کے آگے اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں، وہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقوی کے لیے جانچ لیا ہے- ان کے لیے مغفرت اور اجرِ عظیم ہے‘‘- (49:1-3)
قرآن کی اِن آیتوں میں پیغمبر کی مجلس کے حوالے سے ایک اہم اصول بیان کیا گیا ہے- اِس اصول کا تعلق پیغمبر کے زمانے میں پیغمبر کی مجلس سے بھی تھا اور بعد کے زمانے میں دوسری مجالس سے بھی ہے- پیغمبر کے زمانے میں کسی مجلس میں جو بات ہوتی تھی، وہ کیا تھی، وہ بلاشبہہ دین اور دعوت کی بات ہوتی تھی- گویا کہ قرآن کی مذکورہ ہدایت دینی مجلس کی نسبت سے ہے، نہ کہ محض ذاتِ رسول کی نسبت سے- ایسے موقع پر یہ ہوتاہے کہ کچھ لوگ تو سنجیدہ انداز میں اور متقیانہ انداز میں بولتےہیں- یہی مطلوب انداز ہے- اِس کے برعکس، کچھ لوگ ایسا کرتے ہیں کہ وہ غیر سنجیدہ انداز میں محض اپنے ذاتی ذہن کے تحت زور زور سے بولنے لگتے ہیں- یہ انداز ایک غیر مطلوب انداز ہے اور اِسی غیر متقیانہ روش سے قرآن کی اِس آیت میں منع کیاگیا ہے-
دینی موضوع پر کلام کے وقت صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی شدت کے ساتھ قرآن وسنت کی پابندی کرتے ہوئے بولے- وہ ایسا نہ کرے کہ محض اپنے ذاتی خیال کو لے کر زور زور سے بولنے لگے- قرآن کی اِس آیت میں متقیانہ کلام کی ہدایت ہے اور غیر متقیانہ کلام کی ممانعت- متقیانہ کلام کو دوسرے الفاظ میں، سنجیدہ کلام (serious talk) اور غیر متقیانہ کلام کو غیر سنجیدہ کلام (non-serious talk) کہاجاسکتاہے- متقیانہ کلام وہ ہے جو اُس احساسِ ذمے داری کے ساتھ نکلے جو حضرت ابو بکر صدیق نے اپنے ایک قول میں اِس طرح بیان کیا تھا: أی سماء تظلّنی وأی أرض تقلنی إذا قلتُ فی کتاب اللہ ما لا أعلم (القرطبی: 19/221 ) یعنی کون سا آسمان مجھے سایہ دے گا اور کون سی زمین مجھ کو پناہ دے گی، اگر میں اللہ کی کتاب کے بارے میں ایسی بات بولوں جس کا مجھے علم نہیں (جس کی تائید میں میرے پاس کتاب اللہ کا کوئی حوالہ نہیں)-
موجودہ زمانہ پرنٹنگ پریس کا زمانہ ہے- موجودہ زمانے میں اظہارِ خیال کا ذریعہ صرف بالمشافہ گفتگو نہیں ہے، بلکہ چھپی ہوئی تحریروں کی شکل میں اظہار خیال عام ہوگیا ہے- ایسی حالت میں، وسیع تر انطباق (extended application) کے اعتبار سے، تحریری اظہارِ خیال بھی اس میں شامل ہوگا- اِس معاملے میں متقیانہ تحریر وہ ہے جو اللہ کے سامنے جواب دہی (accountability) کے احساس کے تحت تیار کی گئی ہو- اِس کے برعکس، جو لوگ ایسا کریں کہ جو کچھ اُن کے ذہن میں ہے، اس کو لکھ کر چھاپنا شروع کردیں اوراس کی تحقیق نہ کریں کہ وہ کتاب وسنت کے مطابق ہے یا نہیں، ایسے لوگوں کے لیے شدید طورپر یہ خطرہ ہےکہ ان کی کوششیں حبطِ اعمال کا شکار ہوجائیں-
قرآن کی مذکورہ آیت میں بتایا گیا ہےکہ غیر متقیانہ کلام یا غیر ذمے دارانہ کلام کرنے والوں کے لیے حبطِ اعمال کا اندیشہ ہے- اِس حبطِ اعمال کی سنگینی یہ ہے کہ وہ غیر شعوری طورپر پیش آتاہے، یعنی آدمی بطور خود یہ سمجھتاہے کہ وہ حق وصداقت کی بات بول رہاہے، لیکن نتیجہ (result) کے اعتبار سے، اس کی تقریر وتحریر سرتاسر عبث قرار پائے گی اور آدمی کو اِس کا شعوربھی نہ ہوگا-مزید غور کرنے سے معلو م ہوتا ہے کہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے، یہ معاملہ کنڈیشننگ (conditioning) کا معاملہ ہے- غلط افکار کے درمیان عرصے تک جینے کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ آدمی کے ذہن کی تشکیل ایک خاص انداز سے ہوجاتی ہے- وہ سمجھتا ہے کہ میں جو کچھ سوچتا ہوں، وہ حق ہے، حالاں کہ وہ حق نہیں ہوتا، بلکہ صرف اس کے غلط مائنڈ سیٹ (mindset) کا نتیجہ ہوتاہے- ایسی حالت میں آدمی کا پہلا فرض یہ ہے کہ وہ اپنے ذہن کی ڈی کنڈیشننگ کرکےاپنے آپ کو صحیح الفکر انسان (right-thinker)بنائے-
واپس اوپر جائیں

انسان کی محرومی

قرآن کی سورہ الاعراف میںانسان کی حالت پر ایک تبصرہ اِن الفاظ میں کیا گیا ہے: وَاتْلُ عَلَیْہِمْ نَبَاَ الَّذِیْٓ اٰتَیْنٰہُ اٰیٰتِنَا فَانْسَلَخَ مِنْہَا فَاَتْبَعَہُ الشَّیْطٰنُ فَکَانَ مِنَ الْغٰوِیْنَ ؁ وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنٰہُ بِہَا وَلٰکِنَّہٗٓ اَخْلَدَ اِلَى الْاَرْضِ وَاتَّبَعَ ہَوٰىہُ ۚ فَمَثَلُہٗ کَمَثَلِ الْکَلْبِ ۚ اِنْ تَحْمِلْ عَلَیْہِ یَلْہَثْ اَوْ تَتْرُکْہُ یَلْہَثْ ۭ ذٰلِکَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا ۚ فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ (7:175-176) یعنی اُن کو اُس شخص کا حال سناؤ جس کو ہم نے اپنی نشانیاں دی تھیں تو وہ اُن سے نکل بھاگا- پس شیطان اس کے پیچھے لگ گیا اور وہ گمراہوں میں سے ہوگیا- اور اگر ہم چاہتے تو اس کو اُن نشانیوں کے ذریعے سے بلندی عطا کرتے، مگر وہ تو زمین کا ہورہا اور اپنی خواہشوں کی پیروی کرنے لگا- پس اس کی مثال کتّے کی سی ہے کہ اگر تو اُس پر بوجھ لادے تب بھی وہ ہانپے اور اگر چھوڑ دے تب بھی ہانپے- یہ مثال اُن لوگوں کی ہے جنھوںنے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا- پس تم یہ احوال اُن کو سناؤ، تاکہ وہ غور کریں-
شانِ نزول کی روایت کے مطابق، قرآن کی اِس آیت میں ایک شخص کا قصہ بیان ہوا ہے- یہ حضرت موسی کے زمانے کا ایک بڑا اسرائیلی عالم تھا جس کا نام بلعم بن باعوراء بتایا گیا ہے- مگر قرآن کے اسلوب کے مطابق، یہاں انفرادی حوالہ (particular reference) میں ایک عمومی بات کہی گئی ہے- اِس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے علم میں ایسی نشانیاں (signs) آتی ہیں جو اس کو بتاتی ہیںکہ وہ اپنی زندگی کو اعلی مقصد کے لیے استعمال کرے- لیکن شیطانی وسوسے کے زیر اثر وہ اپنی خواہشات سے مغلوب ہوجاتاہے اور اُن چیزوں کو اپنا نشانہ بنا لیتاہے جس کے لیے وہ پیدا نہیں کیاگیا تھا-
قرآن کی اِس آیت میں وہی بات کہی گئی ہے جو انسان کے حوالے سے دوسرے مقام پر اِن الفاظ میں آئی ہے: کَلَّا بَلْ تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَةَ ۙ وَتَذَرُوْنَ الْاٰخِرَةَ (75:20-21)- اصل یہ ہے کہ انسان کی ذات میں تخلیقی طورپر ایسی نشانیاں ہیں جو بتاتی ہیں کہ اُس کو ایک اعلی مقصد کے لیے پیدا کیاگیا ہے- وہ اعلی مقصد یہ ہے کہ آدمی اپنے اندر ربانی شخصیت کی تعمیر کرے اور آخرت میں ابدی جنت کی صورت میں اس کا انعام پائے-
مگر ’’آج‘‘ کے مواقع کو نظر انداز کرکے ’’کل‘‘ کے لیے اپنے آپ کو وقف کردینا انسان کو مشکل معلوم ہوتا ہے، اِس لیے وہ ایسا کرتاہے کہ وہ آنے والے کل (tomorrow) کو نظر انداز کردیتا ہے اور اُس فوری فائدہ کے حصول کو اپنا نشانہ بنا لیتاہے جس کو آج کل ’رائٹ ہیئر، رائٹ ناؤ‘ (right here, right now) کہا جاتا ہے، اِس طرح انسان اپنے آپ کو اُس اعلی کامیابی سے محروم کرلیتا ہے جو اُس کے خالق نے اس کے لیے مقدر کیا ہے-
ایسے انسان کی مثال اُس کتے سے دی گئ ہے جس کا حال یہ ہوتا ہے کہ اگر اس پر بوجھ لادا جائے تب بھی وہ ہانپے اور اگر چھوڑ دیا جائے تب بھی ہانپے- یہ تمثیل بہت بامعنی ہے- اِس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی تخلیق کے اعتبار سے چوں کہ جنت کے لیے پیدا کیا گیاہے، اِس لیے جنت کے سوا کوئی اور نشانہ اختیار کرنے کی صورت میں اس کی فطرت ہمیشہ غیر مطمئن رہتی ہے- پہلے مرحلے میں اُس کو یہ نشانہ بہت مشکل نظر آتا تھا کہ وہ نہ دکھائی دینے والی آخرت کی خاطر دکھائی دینے والی دنیا کو قربان کردے- لیکن جب وہ دکھائی دینے والی دنیا کے حصول کے لیے اپنی پوری طاقت لگا دیتا ہے اور بظاہر اپنا نشانہ پورا کرلیتا ہے، تب بھی وہ غیر مطمئن رہتا ہے، کیوں کہ جس دنیوی چیز کو اُس نے پایا ہے، وہ اس کی اُس داخلی طلب کے مطابق نہیں جو فطری طورپر اس کے اندر موجود ہے-
’’یہ مثال اُن لوگوں کی ہے جنھوں نے ہماری نشانیوں کی تکذیب کی‘‘- یہاں تکذیب سے مراد نظر انداز کرنا یا سبق نہ لینا ہے- انسان کا معاملہ یہ ہے کہ اُس کو ایک خدا طلب مخلوق (God-seeking being) کے طور پر پیدا کیاگیا ہے- جب وہ خدا کے سوا کسی اور چیز کو اپنا مقصود بناتاہے تو بہت جلد اس کو عدم مطابقت کا احساس ہونے لگتاہے- اس کی فطرت یاددلاتی ہے کہ یہ وہ چیز نہیں جو تمھارا اصل مقصود تھی، مگر آدمی شیطان کے زیر اثر فطرت کے اِن اشاروں کو نظر انداز کردیتا ہے، وہ بدستور ایساکرتاہے کہ وہ غیر مقصود کو اپنا مقصود بنائے رہتا ہے- وہ اِسی حال میں جیتا ہے، یہاں تک کہ مر کر اِس دنیا سے چلا جاتاہے-
واپس اوپر جائیں

فہمِ قرآن— ایک مطالعہ

قرآن، خدا کی محفوظ کتاب ہے- قرآن ساتویں صدی عیسوی کے ربع اول میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا گیا- قرآن میںاس کے نزول کا مقصد اِن الفاظ میں بتایا گیاہے: تَبٰرَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ لِیَکُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرَا(25:1) یعنی بہت بابرکت ہے وہ ذات جس نےاپنے بندے پر قرآن اتارا، تاکہ وہ جہان والوںکے لیے آگاہ کرنے والا ہو-
قرآن ساتویں صدی عیسوی کے قدیم عرب میں اترا- اُس وقت وہ صرف امکانی طورپر نذیر ِ عالم تھا- کیوں کہ بطو ر واقعہ نذیر عالم بننے کے لیے عالمی کمیونکیشن (global communication) کے ذرائع درکار ہیں، جو اُس وقت موجود ہی نہ تھے- حقیقت یہ ہے کہ قرآن میں یہ بات مستقبل کے اعتبار سے کہی گئی تھی، نہ کہ حال کے اعتبار سے-جیسا کہ معلوم ہے، قرآن کے نزول کے بعد انسانی تاریخ میں ایک انقلابی پراسس (revolutionary process) شروع ہوا- یہ عمل مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے تقریباً ایک ہزار سال کے بعد اپنے نقطہ انتہا (culmination) تک پہنچا- یہ عالمی کمیونکیشن کا دور تھا- اب وقت آگیا تھاکہ قرآن کو نذیر ِ عالم کی حیثیت سے ساری دنیا میں پہنچا دیا جائے- حقیقت یہ ہے کہ جدید مواصلاتی دور، قرآن کو عالمی بنانے کا دور تھا:
The age of communication was the age of universalization of the Quran.
مگر ابھی یہ امکان واقعہ نہ بن سکا- اِس سلسلے میں یہاںیہاں ایک جائزہ پیش کیا جاتاہے-
ایک تاریخی جائزہ
قرآن جس زمانے میں اترا، اُس زمانے میں پرنٹنگ پریس موجود نہ تھا- لوگ قر آن کو یاد کرلیتے اور حافظہ کی مدد سے وہ اس کو پڑھتے یا دوسروں کو پڑھ کر سناتے-رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات( 632عیسوی( تک یہ حال تھا کہ ہرجگہ صرف قرآن کا چرچا ہوتا تھا- آپ کی وفات کے بعد حدیث کا چرچا بڑھ گیا- عباسی دور میں فقہ کا چرچا شروع ہوا- اس کے بعد اِسی دور میں مسلم تاریخیں لکھی گئیں اور تاریخ کا چرچا ہونے لگا- اِس پورے زمانے میں باتیں یا تو حافظہ میں ہوتی تھیں یا ہاتھ سے لکھے ہوئے اوراق میں- چناں چہ فطرتی طورپر قرآن کا دائرہ اشاعت عملاً محدود رہا-
پندرھویں صدی عیسوی میں پرنٹنگ پریس وجود میں آیا- اِسی کے ساتھ کاغذ بھی وسیع پیمانے پر بننے لگا- سولھویں صدی عیسوی میں یہ حال ہوا کہ یورپ میں کتابوں کی چھپائی عام ہوگئی- کتابوں کے مطبوعہ نسخے عمومی طورپر دستیاب ہونے لگے-مگر مسلم دنیا ابھی تک پرنٹنگ پریس سے ناآشناتھی- اورنگ زیب عالم گیر سترھویں صدی کا مسلم بادشاہ ہے- مگر اپنے زمانے میں وہ صرف یہ جانتا تھا کہ لمبی مدت کے دوران قرآن کو اپنے ہاتھ سے لکھ کر اس کا ایک نسخہ تیار کیا جائے- وہ پرنٹنگ ٹکنالوجی کی بابت کچھ نہیں جانتا تھا-
مسلم دنیا میں پرنٹنگ پریس اٹھارھویں صدی کے آخر میں پہنچا- نپولین 1798میں مصر میں داخل ہوا- وہ اپنے ساتھ فرانس سے پرنٹنگ پریس لایا تھا- انیسویں صدی کے آغازمیں کرسچن مشنری کے لوگ انڈیا میں پرنٹنگ پریس لے آئے- اِس طرح دھیرے ھیرے پرنٹنگ پریس پوری مسلم دنیا میں پھیل گیا- بیسویں صدی میں یہ حال ہوا کہ قرآن کے چھپے ہوئے نسخے ہر جگہ پائے جانے لگے- گھر، مسجد، مدرسہ، لائبریری، کوئی جگہ قرآن کے مطبوعہ نسخوں سے خالی نہ رہی-
مگر اب بھی جو حال ہوا، وہ صرف یہ کہ قرآن مسلمانوں کے لیے کتابِ تلاوت بنا رہا، وہ عمومی طور پر ساری انسانیت کے لیے عملاً نذیر ِ عالم نہ بن سکا-ایسا کیوں ہوا، کیوں ایسا ہوا کہ عالمی اِبلاغ کے مواقع پیداہونے کے باوجود قرآن کی عالمی اشاعت نہ ہوسکی-اس کا سبب یہ ہے کہ یہ کام مسلمانوں کو انجام دینا تھا، جو کہ قرآن کے حامل ہیں، مگر اس زمانے کے مسلمان دعوت کے شعور سے مکمل طورپر خالی تھے- بیسویں صدی کے مسلمان ساری دنیا میں منفی سوچ کا شکار ہوگئے، وہ مدعو قوموں کو اپنا حریف سمجھنے لگے- اِس قسم کی منفی سوچ کے ساتھ دعوت وتبلیغ جیسا مثبت کام نہیں کیا جاسکتا-
اصل یہ ہے کہ جس زمانے میں جدید کمیونکیشن کا دور آیا، اُسی زمانے میں ایک اور چیز مسلم دنیا میں داخل ہوگئی، یعنی وہ چیز جس کو مغربی نو آبادیات (western colonialism) کہاجاتا ہے- جدید کمیونکیشن اور نوآبادیات دونوں ایک ساتھ مسلم دنیا میں داخل ہوئے:
The age of communication coincided with the age of colonialism.
مغرب کی نوآبادیاتی قومیں جدید طاقتوں سے مسلح تھیں- چناںچہ فطری طور پر یہ ہوا کہ وہ عمومی طورپر اُس زمانے کے مسلم ممالک پر غالب آگئیں- انھوںنے مسلم اداروں اور مسلم حکومتوں کو زیر کرلیا- اِس کے رد عمل کے طور پر یہ ہوا کہ تمام دنیا کے مسلمان مغربی قوموں کے خلاف نفرت میں مبتلا ہوگئے- اُس زمانے کے تقریباً تمام مسلم رہنماؤں کا ذہن یہ بن گیا کہ سب سے پہلا کام یہ ہے کہ مغربی طاقتوں سے لڑکر اُن کو مسلم دنیا سے نکالو- اِس سیاسی جہاد میں تقریباً تمام لوگ شریک ہوگئے، صرف اِس فرق کے ساتھ کہ کچھ لوگ اُس میں فکری اعتبار سے شریک تھے اور کچھ لوگ مسلح ٹکراؤ میں مشغول تھے-
یہ پورا دورمسلمانوں کے لیے منفی رد عمل کا دور تھا- نفرت اور تشدد کے ماحول میں وہ یہ بھول گئے کہ مغربی قومیں اُن کے لیے دشمن نہیں، بلکہ مدعو ہیں- تاریخ میں پہلی بار یہ امکان پیداہوا ہے کہ قرآن اور ترجمہ قرآن کے مطبوعہ نسخوں کو نہ صرف مغربی قوموں، بلکہ تمام دنیا کی قوموں تک پہنچا دیا جائے، تاکہ قرآن اپنے مقصد نزول کے اعتبار سے نذیر ِ عالم بن جائے، یعنی وہ پیشین گوئی پوری ہوجس کو حدیث میں عالمی ادخالِ کلمہ کہاگیاہے- مسلمانوں کے اندر دوسری قوموں کے لیےمنفی رد عمل کایہ مزاج انیسویں صدی کے نصف ثانی میں شروع ہوا اور اکیسویں صدی کے نصف اول تک منفی رد عمل کی یہ نفسیات بدستور جاری ہے-
موجودہ زمانے کے مسلمانوں نے دوسری قوموں کو اپنا دشمن قرار دے کر جو لڑائی جاری کی، وہ ہر قسم کی بے پناہ قربانیوں کے باوجود مکمل طورپر بے نتیجہ رہی- کوششوں کا یہ منفی انجام کافی تھا کہ مسلمان اِس معاملے میں اپنے موقف پر نظر ثانی کریں- مگر عجیب بات ہے کہ کھلےہوئے ناکام تجربے کے باوجود آج بھی مسلمانوں کے اندر اِس معاملے میں نظر ثانی کا عمل جاری نہ ہوسکا-
قرآن سے ہدایت لینے میں ناکامی
موجودہ زمانے میں جب قرآن کے مطبوعہ نسخے عام ہوئے تو بہت بڑے پیمانے پر مسلمانوں میں قرآن کو پڑھنے کا رواج پیداہوگیا- مسجدوں او راداروں میں درسِ قرآن کا سلسلہ شروع ہوگیا- کتابوں اور جرائد کے ذریعے قرآنی تعلیمات کی اشاعت کی جانے لگی- قرآن کی تفہیم کے لیے جماعتیں بنیں اور ادارے قائم ہوئے- اِس کا نتیجہ یہ ہونا چاہئے تھا کہ مسلمانوں میں عمومی طورپر قرآنی ذہن بنے اور قرآنی طرز فکر پیدا ہو، مگر عجیب بات ہے کہ دروسِ قرآن کی کثرت اور قرآنی کتابوں کی عمومی اشاعت کے باوجود یہ مقصد حاصل نہیں ہوا-
اِس کا اصل سبب یہ ہے کہ قرآن کو صرف پڑھنا کافی نہیں ہے، بلکہ ضروری ہے کہ اُس کو صحیح ذہن کے تحت پڑھا جائے- اِسی لیے قرآن میں کہا گیا ہے: یُضِلُّ بِہٖ کَثِیْرًا ۙ وَّیَہْدِىْ بِہٖ کَثِیْرًا (2:26) یعنی جو لوگ صحیح ذہن کے ساتھ قرآن کو پڑھیں گے، اُن کو قرآن سے ہدایت ملے گی، اور جو لوگ بگڑےہوئے ذہن کے ساتھ قرآن کو پڑھیں، وہ قرآن کو پڑھنے کے باوجود قرآن سے ہدایت پانے سے محروم رہیں گے-
قرآن فہمی کا اصول
علماءِ تفسیر نے عام طورپر قرآن فہمی کے لیے15 علوم میں مہارت کو ضروری قرار دیا ہے— علمِ لغت، علمِ نحو، علمِ صرف، علمِ اشتقاق، علمِ معانی، علمِ بیان، علمِ بدیع، علمِ قرأت، علمِ عقائد، علمِ اصولِ فقہ، علمِ اسبابِ نزول، علمِ ناسخ ومنسوخ، علمِ فقہ، علمِ حدیث، علم وہبی- مگر تجربہ بتاتا ہے کہ صرف یہ علوم قرآن فہمی کے لیےکافی نہیں- بیسویں صدی عیسوی میں کثیر تعداد میں ایسے علما اٹھے جن کا مقصد قرآنی علم کو عام کرنا تھا- یہ علما مذکورہ تمام علوم کے ماہر تھے، مگر عین اِسی دور کے مسلمان ایک بہت بڑے قرآنی علم سے بے خبر رہ گئے- یہ واقعہ ثابت کرتاہے کہ قرآن فہمی کے لیے صرف مذکورہ علوم سے واقف ہونا کافی نہیں-
مطلوب قرآنی علم وہ ہے جس کو کتاب اللہ میں ’’فرقان‘‘ (8:29)کہاگیاہے- فرقان فرق کا مبالغہ ہے-اِس کا مطلب ہے: دو چیزوں کے درمیان فرق کرنے والا- قرآن کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ قاریِ قرآن کے اندر فرقان کی صفت پیدا کرتاہے- وہ قاری کو اِس قابل بناتا ہے کہ وہ کسی چیز کے دو پہلوؤں کے درمیان فرق کرسکے- مثلاً وہ ایسا کرسکے کہ وہ کسی چیز کے پلس پوائنٹ کو اس کے مائنس پوائنٹ سے الگ کرکے دیکھ سکے-
موجودہ زمانے میں نوآبادیاتی طاقتیں مغربی تہذیب کو لے کر مسلم دنیا میں داخل ہوئیں- اِس مغربی تہذیب کے دو پہلو تھے- ایک یہ کہ وہ مغربی قوموں کو مسلم دنیا میں غالب کررہی تھیں- اور اس کا دوسرا پہلو یہ تھا کہیہ لوگ پہلی بار دنیا میں جدید مواقع لائے تھے، جن میں کمیونکیشن سر فہرست ہے- اب علماءِ قرآن کو چاہیے تھا کہ وہ اِن دونوں پہلوؤں کو الگ کرکے دیکھیں- وہ خُذ ما صفاودَع ما کدر کے اصول پر مغربی تہذیب کے غیر مطلوب پہلو کو نظر انداز کردیتے اور دعوتی مواقع کو بھر پور طورپر استعمال کرتے، مگر وہ ایسا نہ کرسکے-
یہ واقعہ بتاتا ہے کہ دورِ جدید کے علما اور رہنما اِس معاملے میں فرقان کی صفت سے محروم تھے، یعنی مغربی تہذیب کے مذکورہ دو پہلوؤں کے درمیان فرق کرنا - اُن کے مطالعہ قرآن نے اُن کے اندر یہ صلاحیت پیدا نہیں کی تھی کہ وہ مغربی تہذیب کے اندر چھپے ہوئے مثبت دعوتی پہلو کو اس کے دوسرے پہلو سے الگ کرکے دیکھیں اور دعوتی مواقع کے پہلو کو استعمال کرکے دورِ جدید میں اسلام کی عالمی دعوتی اشاعت کا کام انجام دے سکیں-
ربانی شاکلہ
حقیقت یہ ہے کہ قرآن فہمی کے لیے مذکورہ 15 علوم کے علاوہ ایک اور ضروری چیزدرکار ہے، اور یہی چیز دور جدید کے علما اور رہنماؤں کو حاصل نہ تھی، اوروہ ہے ربانی شاکلہ- اِس علم کا ذکر قرآن کی اِس آیت میں ملتا ہے:قُلْ کُلٌّ یَّعْمَلُ عَلٰی شَاکِلَتِہٖ ۭ فَرَبُّکُمْ اَعْلَمُ بِمَنْ ہُوَ اَہْدٰى سَبِیْلًا (17:84)یعنی کہو کہ ہر ایک اپنے شاکلہ پر عمل کررہا ہے- اب صرف تمھارا رب بہتر جانتا ہے کہ کون زیادہ ٹھیک راستے پر قا ئم ہے-
اِس آیت میں شاکلہ کا مطلب ذہنی سانچہ (mindset) ہے- قریبی حالات کے اعتبار سے، ہر آدمی کا ایک ذہنی سانچہ بن جاتا ہے- وہ اِسی ذہنی سانچہ کی نظر سے چیزوں کو دیکھنے لگتاہے- مگر یہاں ایک برتر ذہنی سانچہ ہے- یہ ذہنی سانچہ آدمی کو اِس قابل بناتا ہے کہ وہ حالات سے اوپر اٹھ سکے- وہ چیزوں کو اللہ کی روشنی سے دیکھنے لگے، جیساکہ حدیث میں آیا ہے: اتقوا فراسةَ المومن فإنہ ینظر بنور اللہ (الترمذی، رقم الحدیث: 3392)- یعنی مومن کی فراست سے بچو، کیوں کہ مومن، اللہ کے نور سے دیکھتاہے- اللہ کے نور سے دیکھنے کا مطلب ہے— چیزوں کو ربانی نقطۂ نظر سے دیکھنا-
قرآن کو صحیح طورپرسمجھنے کے لیے سب سے زیادہ اہمیت اِسی ربانی شاکلہ کی ہے- کہاجاتا ہے کہ کسی کتاب کو درست طورپر سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ قاری، مصنف کے ذہن سے کتاب کو پڑھ سکے- کسی بھی کتاب کو جب آدمی پڑھتا ہے تو وہ اس کو خود اپنے شاکلہ کے مطابق، پڑھتا ہے-
ہوورڈفاسٹ(Howard Fast) ایک کمیونسٹ تھا- خروسچف کے مشہور انکشاف (1956) کے بعد اس نے کمیونسٹ پارٹی کو چھوڑ دیا- وہ اصلاً ایک مارلسٹ(moralist) تھا- اس نے کمیونسٹ لیڈروں کی تحریریں پڑھیں تو اس کو محسوس ہوا کہ کمیونزم سماجی اخلاقیات کی ایک تحریک ہے، جب کہ حقیقت ایسی نہ تھی- بعد کو اس نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ میں خود اپنے ذہنی سانچےمیں کمیونسٹ بنا:
I accepted communism according to my own mindset.
یہی معاملہ ہر انسان کا ہے- اگر آدمی کا ذہن بنا ہوا نہ ہو تو وہ قرآن کو خود اپنے ذہنی سانچے میں پڑھے گا- وہ قرآن کو پڑھ کر بھی قرآن کو نہیں پائے گا- یہی وہ بات ہے جو ایک صحابی نےاِن الفاظ میں کہی ہے : تعلمنا الإیمان ثم تعلمنا القرآن (یعنی ہم نے ایمان کو سیکھا، پھر ہم نے قرآن کو سیکھا)- صحابی کے اِس قو ل میں ایمان سیکھنے سے مراد یہ ہےکہ ہم نے پہلے اپنے ذہنی شاکلہ کی تشکیل ربانی اصول پر کی، پھر ہم اِس قابل ہوئے کہ ہم قرآن کو پڑھ کر اس کو درست طور پرسمجھ سکیں- ربانی شاکلہ کودوسرے الفاظ میں، مثبت شاکلہ (positive mindset)کہا جاسکتا ہے-
غیر قرآنی ذہن
ربانی شاکلہ کیا ہے- ربانی شاکلہ دراصل غیر متعصبانہ طرزِفکر (unbiased thinking) کا دوسرا نام ہے- ایک آدمی جب ہر قسم کے تعصبات سے باہر آکر کھلے ذہن کے تحت سوچے تو اس کی سوچ فطری سوچ بن جاتی ہے- وہ، حدیث کے الفاظ میں، اللہ کے نور سے دیکھنے لگتا ہے- اِسی کا نام ربانی شاکلہ یا ربانی مائنڈ سیٹ (mindset) ہے- ربانی مائنڈ سیٹ کیا ہے، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دعا سے معلوم ہوتاہے- یہ دعا اِن الفاظ میں آئی ہے: اللہم أرنا الحق حقاً وارزقنا اتباعہ، وأرنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابہ، وأرنا الأشیاء کما ہی -
اِس دعا کا خلاصہ ایک لفظ میں یہ ہے کہ — خدایا، تومجھے توفیق دے کہ میں چیزوں کو ایز اِٹ اِز (as it is) دیکھنے لگوں، یعنی کسی آمیزش کے بغیر خالص فطری انداز میں- اِس سے مراد چیزوں کو اُس نظر سے دیکھنا ہے جس نظر سے خدا اُن کو دیکھتا ہے- اِسی طرزِ فکر کا نام ربانی طرزِ فکر ہے، اور یہ ربانی طرزِ فکر کسی آدمی کے اندر کامل ذہنی تطہیر کے ذریعے پیدا ہوتا ہے-
انسانی شاکلہ اور ربانی شاکلہ کے فرق کی ایک مثال صلح حدیبیہ ہے، جس کی بابت قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں: علم ما لم تعلموا (48:27) یعنی اللہ نے وہ جانا جو انسان نے نہیں جانا- حدیبیہ کا معاہدہ یک طرفہ شرطوں پر طے کیا گیا تھا- اِس بنا پر انسانی ذہن نے اس کو ذلت آمیز معاہدہ سمجھا- لیکن اللہ اس کو مستقبل میںدعوتی مواقع کھلنے کے اعتبا رسے دیکھ رہا تھا، یعنی انسان اِس معاہدہ کو حال کی نسبت سے دیکھ رہا تھا، جب کہ خدااس کو مستقبل کی نظر سے دیکھ رہا تھا، اِس بناپر ایسا ہوا کہ جس چیز کو انسان شکست کا درجہ دے رہا تھا، اُس کو خدا نے فتحِ مبین کا درجہ دے دیا-
ذہنی پردہ
قرآن کی سورہ الاسراء میں ایک آیت اِن الفاظ میںآئی ہے: وَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ جَعَلْنَا بَیْنَکَ وَبَیْنَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ حِجَابًا مَّسْتُوْرًا(17:45) یعنی جب تم قرآن پڑھتے ہو تو ہم تمھارے اور اُن لوگوں کے درمیان ایک چھپا ہوا پردہ حائل کردیتے ہیں، جو آخرت کو نہیں مانتے:
When you recite the Quran, we place an invisible barrier between you and those who do not believe in the Hereafter.
قرآن کی اِس آیت میں حجابِ مستور سے مراد غیر ربانی مائنڈ سیٹ ہے- قرآن کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے اپنے غیر ربانی مائنڈ سیٹ کو توڑنا پڑتا ہے- دوسرے لفظوں میں، یہ کہ اپنے آپ کو کامل طورپر آبجکٹیو مائنڈ(objective mind) بنانا پڑتاہے- اِس سے معلوم ہوا کہ قرآن کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلی شرط سلبی ہے، نہ کہ ایجابی-
ایجابی ذہن کا مطلب ہے، قرآن کو قرآن کے ذہن سے پڑھنا- سلبی ذہن کا مطلب ہے، اپنے غیر قرآنی ذہن کی تطہیر کرنا- قرآن کے صحیح مطالعے کے لیے جو ترتیب ہے، وہ یہ ہے کہ آدمی پہلے اپنے غیر قرآنی ذہن کے خول سے باہر آئے، اِس کے بعد ہی یہ ممکن ہوگا کہ وہ ایجابی ذہن کے تحت قرآن کو پڑھے اور اس کو سمجھ سکے- گویا کہ کلمہ توحید (لا إلہ إلا اللہ) کی طرح یہاں بھی یہ اصول ہے کہ پہلے نفی کا مرحلہ ہے اور اس کے بعد اثبات کا مرحلہ، یعنی پہلے اپنے ذہن کے حجاب کو ہٹانا پڑتاہے، اس کے بعد ہی کسی کے لیے یہ ممکن ہوتاہے کہ وہ قرآن کو پڑھے اور اس کے صحیح مفہوم تک پہنچ سکے-
جس زمانے میں کمیونزم کا زور تھا، ایک تعلیم یافتہ مسلمان نے قرآن کو پڑھا- وہ اشتراکی فکر سے متاثر تھے- وہ قرآن کو پڑھتے ہوئے اِس آیت تک پہنچے: إن الأرض للہ ( 7:128) - اِس آیت کو پڑھ کر انھوں نے اپنے مائنڈ سیٹ کے مطابق، یہ سمجھ لیا کہ قرآن بھی اشتراکیت کی تعلیم دیتاہے- انھوںنے کہاکہ اِس آیت میں کہاگیا ہے کہ زمین اللہ کی ہے- اِس کا مطلب یہ ہے کہ زمین اسٹیٹ کی ہے- اسٹیٹ کو یہ حق ہے کہ وہ لوگوں کی زمین پر قبضہ کرکے اشتراکی اصول پر زراعت کا نظام بنائے- اِسی طرح ایک اور تعلیم یافتہ مسلمان جو جمہوری فکر سے متاثر تھے، انھوں نے جب قرآن میں یہ آیت پڑھی: وَأَمْرُہُمْ شُوْرَی بَیْنَہُمْ ((42:38تو انھوں نے خوش ہو کر کہا کہ دیکھو، قرآن میں بھی جمہوریت (ڈیماکریسی) کی تعلیم موجود ہے-
ایک اور تعلیم یافتہ مسلمان نے قرآن کی یہ آیت پڑھی: فَاَوْقِدْ لِیْ یٰہَامٰنُ عَلَی الطِّیْنِ فَاجْعَلْ لِّیْ صَرْحًا (28:38)- اِن الفاظ کو پڑھ کر مذکورہ مسلمان نے کہا کہ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن سیریمک انڈسٹری (ceramic industries) کی تعلیم دے رہا ہے- اِس کا تقاضا ہے کہ مسلمان سیریمک انڈسٹریز اور دوسری صنعتیں قائم کریں- وہ صنعت اور تجارت کے میدان میں آگے بڑھیں-
اِس قسم کی بہت سی مثالیں ہیں جو بتاتی ہیں کہ اگر قاری کا ذہن تیار ذہن نہ ہو تو وہ خود اپنے مائنڈ سیٹ کے مطابق، قرآن کو پڑھے گا- وہ قرآن کی آیتوں میں ایسی بات پالے گا جو خود قرآن میں موجود نہیں، بلکہ وہ خود اس کے اپنے ذہن میں پائی جاتی ہے-
چند وضاحتی مثالیں
1- مصر کے مشہور انقلابی رہنما سید قطب کا نظریہ تھا کہ پیغمبروں کی دعوت کا نشانہ یہ تھا کہ وہ دنیا میں حکومتِ الہیہ قائم کریں- اِس ذہنی تاثر(obsession) کے تحت، انھوں نے قرآن کو پڑھا تو عجیب وغریب طورپر ان کو نظر آیا کہ قرآن اُن کے سیاسی ذہن کی تصدیق کررہا ہے- مثلاً قرآن کی سورہ الاعراف میں بتایا گیاہے کہ حضرت موسی نے جب اُس وقت کے مصری حکمراں فرعون کے سامنے اپنی دعوت پیش کی تو فرعون نے اپنی جوابی تقریر میں اپنے درباریوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: یُرِیْدُ اَنْ یُّخْرِجَکُمْ مِّنْ اَرْضِکُمْ( 7:110) یعنی موسی چاہتے ہیں کہ وہ تم کو تمھارے ملک مصر سے نکال دیں-
سید قطب نے جب اِن الفاظ کو پڑھا تو اپنے مائنڈ سیٹ کے مطابق، انھوں نے یہ سمجھا کہ حضرت موسی کی دعوت ملک میں سیاسی اقتدار قائم کرنے کی دعوت تھی- چناں چہ وہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں: إنہا الخروج من الأرض، إنہا ذَہاب السلطان، إنہا إبطال شرعیة الحکم، أومحاولة قلب نظام الحکم، بالتعبیر العصری الحدیث (3/1348) یعنی یہ سرزمینِ مصر سے نکلنے کا معاملہ ہے، یہ اقتدار کا خاتمہ ہے، یہ ہماری حکمرانی کو ناجائز ٹھہرانا ہے، یا یہ، دورِ جدید کی تعبیر کے مطابق، نظامِ حکومت کو بدلنے کی کوشش ہے-
مذکورہ مصنفکے یہ الفاظ خود ان کے اپنے ذہن کی ترجمانی ہیں، وہ حضرت موسی کی ترجمانی نہیں- واضح بات ہے کہ حضرت موسی کا پیغام کلامِ موسی سے نکلے گا، نہ کہ کلامِ فرعون سے- مگر اپنے متاثر ذہن کی بنا پر مصنف اِس فرق کو نہ سمجھ سکے- انھوںنے قرآن کی آیت کی ایسی تشریح کردی جس کا تعلق خود قرآن سے نہ تھا، بلکہ خود اُن کے اپنے مائنڈ سیٹ سے تھا-
2- امام ابن تیمیہ کی ایک مشہور کتاب ہے- اس کا ٹائٹل یہ ہے: الصارم المسلول على شاتم الرسول- اِس کتاب میں انھوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اسلام میں شاتمِ رسول کی سزا قتل ہے- اُن کا دعوی ہے کہ یہ حکم قرآن کی متعدد آیتوں میں بیان کیا گیاہے- مثلاً اِس سلسلے میں انھوں نے قرآن کی یہ آیت پیش کی ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ لَعَنَہُمُ اللّٰہُ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَةِ (33:57) یعنی جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو اذیت دیتے ہیں، اللہ نے اُن پر دنیا اور آخرت میںلعنت کی-
ابن تیمیہ آیت کی شرح میں لکھتے ہیں: وہذہ الآیة تو جب قتلَ مَن آذى اللہ ورسولہ(صفحہ 26) یعنی یہ آیت واجب قرار دیتی ہے کہ اُس شخص کو قتل کردیا جائے جو اللہ کو اور اس کے رسول کو ایذا پہنچائے-مذکورہ آیت کی اِس شرح کا تعلق خود قرآن کی آیت سے نہیں ہے- اِس آیت میں شتمِ رسول پر قتل کا مسئلہ سرے سے بیان ہی نہیں ہوا ہے، مگر مصنف کے خود اپنے مائنڈ سیٹ کی بنا پر ایساہوا کہ انھوں نے ’’اذیت‘‘ کو شتم کے معنی میں لے لیا، اور ’’لعنت‘‘ کو قتل کے معنی میں- یہ دونوں باتیں خود مصنف کے دماغ میں تھیں، وہ ہرگز قرآن کی مذکورہ آیت میں موجود نہ تھیں-
ربانی مائنڈ سیٹ کا معاملہ کوئی سادہ معاملہ نہیں، وہ نہایت سنگین معاملہ ہے- اگر ربانی مائنڈ سیٹ نہ ہو تو آدمی قرآن کی رہنمائی سے محروم ہوجائے گا- وہ کسی مسئلے کو دیکھ کر اپنے مائنڈ سیٹ کی بنا پر اس کے بارے میں منفی رائے دے گا، حالاں کہ اُس مسئلے کے بارے میں قرآن میں مثبت نقطۂ نظر موجودہوگا - مگر وہ اپنی منفی سوچ کی بنا پر قرآن کی اِس رہنمائی کو اخذ کرنے سے محروم رہے گا-
مثلاً ایک عربی مجلہ میں مسلم اقلیتوں کے بارے میں ایک مضمون چھپا ہے- مضمون نگار نے اپنے اِس مضمون میں مسلم اقلیتوں (Muslim minorities) کے بارے میں یہ الفاظ لکھے ہیں: الأقلیات المسلمة تواجہ خطر الذوبان (مسلم اقلیتوں کے لیے غیر مسلم اکثریت میں جذب ہونے کے خطرے کا سامنا)-مسلم اقلیتوں کے بارے میں یہ تصور تمام تر خود ساختہ مائنڈسیٹ کی بنا پر پیدا ہوا- اگر اِس مسئلے کو ربانی شاکلہ کی نسبت سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ قرآن کسی اقلیت کے بارے میں برعکس طورپر پُرامید تصور دیتاہے- قرآن کی وہ آیت یہ ہے: کَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِیْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً کَثِیْرَةًۢ بِاِذْنِ اللّٰہِ (2:249) یعنی کتنے ہی اقلیتی گروہ ہیں جو اکثریتی گروہ پر غالب آجاتے ہیں، اللہ کے اِذن سے-
قرآن کی اِس آیت پر غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ جب دو گروہ کسی علاقے میں مشترک طورپر رہتے ہوں، ایک گروہ اقلیت میں ہو اور دوسرا گروہ اکثریت میں- ایسے ماحول میں یہ ہوتا ہے کہ اکثریتی گروہ، اقلیتی گروہ کے لیے ایک مسلسل چیلنج بن جاتا ہے- یہ چیلنج اقلیتی گروہ کے اندر فطری طورپر زیادہ سوچ اور زیادہ عمل کا مزاج بناتاہے- اِس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اقلیتی گروہ جو پہلے صرف ایک اقلیتی گروہ تھا، اب وہ ایک تخلیقی اقلیت (creative minority) بن جاتا ہے- اور یہ ایک فطری حقیقت ہے کہ جس فرد یا جس گروہ میں تخلیقی صلاحیت پیدا ہوجائے، وہ زیادہ بڑے کارنامے انجام دینے کے قابل ہوجاتاہے-
اجتہادی تفسیر
اجتہادی تفسیر اور تفسیر بالرائے دونوں ایک تفسیر نہیں ہیں- تفسیر بالرائے ایک غیر مطلوب تفسیر ہے- اس کے مقابلے میں، اجتہادی تفسیر عین مطلوب تفسیر ہے- تفسیر بالرائے قرآن سے انحراف ہے، جب کہ اجتہادی تفسیر کامل معنوں میں قرآن کا اتباع ہے-
اجتہادی تفسیر کیا ہے- اجتہادی تفسیر کا مطلب قرآن کی کسی آیت کی معنویت کو ازسرِ نو دریافت کرنا ہے- اجتہادی تفسیر دراصل یہ ہے کہ بدلے ہوئے حالات میں قرآن کا انطباقِ نو (re-application) معلوم کیا جائے- اجتہادی تفسیر، قرآن کے تسلسل کا اظہار ہے- صرف اجتہادی تفسیر کے ذریعے یہ ممکن ہے کہ قرآن ہر دور کے ذہن کو ایڈریس کرتا رہے-
قرآن میں بتایا گیاہے کہ انبیا اپنے وقت کے ملاء کو خطاب کرتے تھے-ملاء کا لفظ قرآن میں تقریباً 30 بار آیا ہے- ملاء کا مطلب ہے— سردارِ قوم (head of nation)- پیغمبر کا اسلوبِ دعوت یہ ہے کہ قبیلہ یا قوم کے سردار کو خصوصی طورپر خطاب کیا جائے- اِس حکمت کا سبب یہ ہے کہ ملاء کی حیثیت ذہن ساز (opinion-maker) کی ہوتی ہے-اِس لیے ملاء تک پیغام پہنچانا، بالواسطہ انداز میں، پورے گروہ تک پیغام پہنچانا ہوتا ہے-
ملاءِ قوم کے اِس تصور کو اجتہادی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تواِس سے ایک عظیم حقیقت کا انکشاف ہوتاہے- موجودہ زمانے میں مغربی تہذیب کے علم برداروں کو یہی درجہ مل گیا تھا، وہ توسیعی معنوں میں گویا ملاءِ عالم بن گئے تھے- پھر انھوں نے جدید ذرائع اور جدید کمیونکیشن کو استعمال کرکے قائد ِ عالم (world leader) کادرجہ حاصل کرلیا تھا-
دعوہ ورک کے لیے یہ واقعہ ایک عظیم امکان (great opportunity) کی حیثیت رکھتاتھا- تہذیب کے علم برداروں تک قرآنی پیغام پہنچانا، بالواسطہ طورپر سارے عالم تک قرآنی پیغام پہنچانے کے ہم معنی بن گیا- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے کے رومی بادشاہ ہرقل کو ایک دعوتی خط بھیجا تھا- اس میں یہ الفاظ درج تھے: فإن تولیتَ فإن علیک إثم الأریسیین (اگر تم میری بات کو نہ مانو تو تمھارے اوپر تمھاری پوری قوم کی ذمے داری عائد ہوجائے گی)- اس کا مطلب یہ ہے کہ رومی بادشاہ تک پیغام پہنچانا، اس کی پوری قوم تک پیغام _پہنچانے کے ہم معنی تھا-
اِسی طرح موجودہ زمانے میں مغربی تہذیب کے علم برداروں تک قرآن کا پیغام پہنچانا، بالواسطہ طور پر پورے عالم تک قرآن کا پیغام پہنچانے کے ہم معنی تھا- مگر عین اُس وقت یہ ہوا کہ بعض سیاسی وجوہ کی بنا پر مسلم رہنما، مغربی تہذیب سے نفرت میں مبتلا ہوگئے- عرب سے عجم تک، تقریباً تمام مسلمانوں کا یہ حال ہوا کہ وہ مغربی قوموں سے نفرت کرنے لگے- انھوںنے مغرب کو مدعو کے بجائے عدو (دشمن) کا درجہ دے دیا- اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دورِ جدید کا ایک عظیم دعوتی امکان استعمال ہونے سے رہ گیا-موجودہ زمانے میں یہ حادثہ اِس لیے پیش آیا کہ مسلم علما قرآن کی تفسیر مجتہدانہ انداز میں نہ کرسکے- وہ قرآن کے دعوتی اسلوب کا جدید انطباق کرنے سے عاجزرہے- مجتہدانہ بصیرت، قرآن کے ابدی مفہوم کو سمجھنے کے لیے ایک لازمی شرط کی حیثیت رکھتی ہے-
خدا کا تخلیقی منصوبہ
قرآن، خدا کی کتاب ہے- قرآن کو سمجھنے کے لیے ایک لازمی شرط یہ ہے کہ آدمی خداکے تخلیقی منصوبہ (creation plan of God) کو جانتا ہو- خدا کی کتاب اور خدا کا تخلیقی منصوبہ دونوں کے درمیان کوئی ٹکراؤ نہیں ہوسکتا- ضروری ہےکہ قرآن کا قاری قرآن کے اس پہلو کو شعوری طورپر جانے، ورنہ وہ قرآن کی ایسی تفسیر کرے گا جو خدا کے تخلیقی منصوبے سے مطابقت کرنے والی نہ ہوگی، اور اِس بنا پر وہ بداہةً ہی قابلِ رد ہوگی:
Prima facie it stands rejected
اِس کی ایک مثال وہ تفسیر ہے جس کے مطابق، رسول پر شتم کرنا ایک ایسا فعل ہے جس پر شاتم مستوجب ِقتل ہوجاتاہے- یہ نظریہ سرتاسر ایک غیر قرآنی نظریہ ہے- وہ خدا کے منصوبہ تخلیق سے مطابقت نہیں رکھتا- قرآن کے مطابق، اِس دنیا میں انسان کو کامل آزادی دی گئی ہے- اُس کو اختیار ہے، وہ چاہے تو اِس آزادی کا صحیح استعمال کرے اور چاہے تو وہ اِس آزادی کا غلط استعمال کرے(76:3)- آزادی کے غلط استعمال پر ضرور انسان کی پکڑ ہوگی، لیکن یہ پکڑ صرف آخرت میں ہوگی، دنیا میں ہرگز نہیں- ایسی حالت میں شاتم کے لیے قتل کی سزا مقرر کرنا، خدا کے منصوبۂ تخلیق میں ایک متناقض (inconsistent) حکم ہوگا، جب کہ قرآن خود اپنے بارےمیں یہ اعلان کرتاہے کہ اس میں کوئی تناقض نہیں (4:82)- قرآن کی صحیح تفسیر کے لیے یہ ایک لازمی شرط ہے- جو لوگ اِس معاملے میں باشعور نہ ہوں، وہ یقینی طورپر قرآن کی صحیح تفسیر کرنے میں ناکام رہیں گے-
قرآن اور حدیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں سماجی جرائم (social crimes) پر سزا ہے- مثلاًچوری اور قذف، وغیرہ- مگر جہاںتک فکری جرائم (intellectual crimes) کا تعلق ہے، اُن پر اسلام میں کوئی جسمانی سزا (physical punishment) نہیں- فکری جرائم پر صرف دعوت وتبلیغ ہے، نہ کہ سزا- اِس معاملے میں قرآن کے یہ الفاظ انتہائی حد تک واضح ہیں: فَذَکِّرْ ڜ اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَکِّرٌ ؀ لَسْتَ عَلَیْہِمْ بِمُصَیْطِرٍ ؀ اِلَّا مَنْ تَوَلّٰى وَکَفَرَ ؀ فَیُعَذِّبُہُ اللّٰہُ الْعَذَابَ الْاَکْبَرَ ؀ اِنَّ اِلَیْنَآ اِیَابَہُمْ ؀ ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا حِسَابَہُمْ (88:21-26)-
غیر قرآنی ذہن کی تطہیر
اصل یہ ہے کہ ہر آدمی کسی ماحول میں پیدا ہوتا ہے- اپنے تجربے اور مطالعے کے مطابق، اس کا اپنا ایک ذہنی سانچہ (mindset)بن جاتا ہے- وہ اپنے اِسی بنے ہوئے ذہن (conditioned mind) کے تحت چیزوں کودیکھتا ہے اور رائے قائم کرتا ہے- اِسی مائنڈ سیٹ کو قرآن میں شاکلہ (17:84) کہاگیا ہے- قرآن کو سمجھنے کی لازمی شرط یہ ہے کہ آدمی اپنے اِس ذاتی شاکلہ کو توڑے اور ربانی شاکلہ کی روشنی میں وہ قرآن کا مطالعہ کرے-
مثال کے طورپر ہر آدمی کو اپنی زندگی میں کچھ منفی تجربات پیش آتے ہیں- اس کو لوگوں کی طرف سے ناخوش گوار تجربہ ہوتا ہے- اِن تجربات کی بناپر تقریباً ہر آدمی کا یہ حال ہوتاہے کہ وہ خارجی دنیا کے بارے میں منفی سوچ کا شکار ہوجاتا ہے- یہی وجہ ہے کہ ایسی تحریکیں لوگوں کے درمیان بہت جلد مقبول ہوجاتی ہیں جو کسی خارجی ظالم کے خلاف اٹھائی گئی ہوں-اِس ذہن کو لے کر جو آدمی قرآن کو پڑھے گا، وہ پوری طرح قرآن کو سمجھ نہیں سکتا- مثلاً وہ قرآن میں صبر کی تعلیم پڑھے گا- وہ پڑھے گا کہ اللہ کے یہاں صبر کرنے والے کو سب سے زیادہ ثواب (reward) ملے گا- وہ اپنے مخصوص ذہن کی بنا پر یہ سمجھے گا کہ قرآن ظالم کے مقابلے میں جھکنے کی تعلیم دیتاہے- چناں چہ اس کو قرآن کی تعلیمات زیادہ اپیل نہیں کریںگی-
اِس مسئلے کا حل یہ ہے کہ آدمی پہلے یہ دریافت کرے کہ اِس دنیا کے بارے میں خدا کا تخلیقی منصوبہ (creation plan) کیا ہے- وہ منصوبہ یہ ہےکہ اِس دنیا کو خدا نے دار الامتحان (testing ground) کے طورپر بنایا ہے- اِس بنا پر یہاں ہر انسان کو عمل کی پوری آزادی دی گئی ہے- ہر آدمی آزاد ہے، خواہ وہ اپنی آزادی کا صحیح استعمال کرے یا غلط استعمال کرے- اِس کا مطلب یہ ہے کہ وہ چیز جس کو فلاسفہ پرابلم آف اِول (problem of evil) کہتے ہیں، وہ دراصل پرابلم آف فریڈم (problem of freedom) ہے- چوں کہ اِس دنیا میں انسان کی آزادی کو منسوخ کرنا ممکن نہیں، اِس لیے دنیا سے برائی کا کلی خاتمہ بھی ممکن نہیں-
ایسی حالت میں اگر ایک شخص چیزوں کا آئڈیل معیار (ideal yardstick)اپنے ذہن میں رکھ کر قرآن کا مطالعہ کرے تو وہ قرآن کی تعلیمات کو سمجھ نہ سکے گا- قرآن کے مطابق، اِس دنیا میں جو چیز ممکن ہے، وہ فرد کی کامل اصلاح ہے، سماج کی کامل اصلاح اِس دنیا میں ممکن نہیں- آدمی کوچاہئے کہ وہ اپنی ذات کے اعتبار سے، آئڈیل معنوں میں انصاف پسند بنے، لیکن سماج کے معاملے میں وہ ورکنگ انصاف (working justice) پر راضی ہوجائے-
فلسفیانہ ذہن کے تحت قرآن کا مطالعہ
اِس طرح اِس معاملے کی ایک اور مثال یہ ہے کہ فلسفیانہ ذہن کولے کر اگر کوئی شخص قرآن کا مطالعہ کرے تو وہ قرآن کو سمجھنے میں ناکام رہے گا- فلسفیانہ ذہن یہ ہے کہ چیزوں کا کلّی علم حاصل کیاجائے- فلسفیانہ ذہن محدود علم پر راضی نہیں ہوتا- اِس کے برعکس، قرآن کا یہ کہنا ہے کہ: وَمَآ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا (17:85)-اِس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے مضامین دو قسم کے ہیں — ایک وہ جو ہماری معلوم دنیا سے تعلق رکھتے ہیں- اور دوسرے مضامین وہ ہیں جو امورِ غیب سے متعلق ہیں- پہلے قسم کی باتوں کو محکم زبان میں بیان کیاگیا ہے، یعنی الفاظ میں جو بات ہے، وہی حقیقت میں بھی مطلوب ہے- محکم آیتوں پر غور کرکے اُن کی کلّی معنویت تک پہنچنا ممکن ہے-
دوسری قسم کی آیتیں وہ ہیں جن کو قرآن میں متشابہات (3:7) کہا گیا ہے- یہ آیتیں وہی ہیں جو امورِ غیب سے تعلق رکھتی ہیں- اِن آیتوں میں مشابہت کا اسلوب اختیار کیاگیا ہے، یعنی کسی بات کو تمثیلی زبان (allegorical language) میں بیان کرنا- اِن د وسری قسم کی آیتوں میں بیان کردہ باتوں کو صرف اِجمالی طورپر سمجھا جاسکتا ہے- آدمی کو چاہئے کہ اِس معاملے میں وہ اجمالی علم پر قناعت کرے، وہ اُس کی آخری کُنہ تک پہنچنے کی کوشش نہ کرے، ورنہ وہ کنفیو ژن کاشکار ہوجائے گا-
قرآن کی مذکورہ آیت میں یہ الفاظ آئے ہیں: وَالرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِہٖ ۙ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا(3:7)- اِ س آیت کا مطلب یہ ہے کہ سچا علم رکھنے والے لوگ متشابہ آیتوں کی کُنہ تک پہنچے کی سعی لاحاصل نہیں کرـتے، بلکہ وہ اس کے اجمالی مفہوم کو مانتے ہوئے اس کی صداقت پر یقین کرلیتے ہیں-قرآن کے مطالعے میں اِس اصول کو ملحوظ رکھنا بے حد ضروری ہے- اِس کے بغیر قرآن کو درست طورپر سمجھنا ہرگزممکن نہیں-
قرآن کی تفسیر اپنی رائےسے
ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من قال فی القرآن برأیہ، فأصاب، فقد أخطأ (الترمذی، رقم الحدیث: 3183) یعنی جس نے قرآن کے بارے میں اپنی رائے سے کہا، اور اس نے صحیح کہا، تب بھی اس نے غلطی کی-
اِس حدیث کی بنیاد پر کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ تفسیر بالرائے کا طریقہ مطلقاً غلط ہے، مگر اِس حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے - اِس حدیث میں تفسیر بالرائے کا مقابل، تفسیر بالروایت نہیں، بلکہ اس کا مقابل تفسیر بالتدبر ہے- اِس حدیث میں دراصل ذمے دارانہ تفسیر اور غیرے ذمے دارانہ تفسیر میں فرق کو بتایا گیا ہے- حدیث کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے معاملے میں کسی شخص کو ایسا نہیں کرنا چاہئے کہ کسی آیت کے بارے میں جو کچھ اُس کے ذہن میں آئے، بلا تحقیق وہ اُس کو بیان کرنے لگے- قرآن کی تفسیر کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ جس آیت کی وضاحت کرنا ہے، پہلے اس کی تحقیق کی جائے- تدبر کے تمام تقاضوں کو پورا کرنے کے بعد اُس پر لکھا یا بولا جائے گا-
تفسیر بالرائے یہ ہے کہ آدمی کے ذہن میں پہلے سے ایک تصور (idea)موجود ہے- اِس کے بعد وہ قرآن کو پڑھتا ہے- اُس کو قرآن میں اپنی بات کے مشابہ ایک لفظ مل جاتا ہے اور پھر وہ کہتا ہے کہ دیکھو، میری بات خود قرآن میں موجود ہے- مثال کے طورپر ایک شخص کے اندر سیاسی طرزِ فکر ہے- وہ سیاسی اقتدار کو سب سے بڑی چیز سمجھتاہے- اِس ذہن کو لے کر وہ قرآن پڑھتاہے، پھر وہ اِس آیت تک پہنچتاہے: إنِ الحکمُ إلا للہ ( 12:40)- وہ فوراً کہہ اٹھتاہے کہ سیاسی اقتدار کا تصور خود قرآن میں موجود ہے، قرآن کی اِس آیت میں بتایا گیاہے کہ حکم صرف اللہ کا ہے- اِس آیت کی سیاسی تفسیر کرکے وہ اس کو حکومتِ الہیہ کے معنی میں لے لیتاہے اور پھر یہ دعوی کرتاہے کہ ہمارا فرض ہے کہ ہم لوگوں سے لڑکر دنیا میں خدا کی سیاسی حکومت قائم کریں- یہ بلاشبہہ تفسیر بالرائے ہے، کیوں کہ قرآن کی اِس آیت میں حکم سے مراد فوق الطبیعی (supernatural) حکم ہے، نہ کہ سیاسی حکم-
قرآن کی مذکورہ آیت کی تفسیر کا ایک طریقہ یہ ہے کہ آپ کے ذہن میں پیشگی طورپر جو تصور ہو، اُس کو لے کر آپ قرآن کو پڑھیں، اور پھر ایک مشابہ لفظ (حکم) پاکر یہ کہنے لگیں کہ دیکھو، قرآن بھی اِسی تصورِ سیاست کی تعلیم دے رہا ہے- یہ طریقہ بلا شبہہ تفسیر بالرائے کا طریقہ ہے-
تفسیر کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ قرآن کی اِس آیت پر کھلے ذہن کے ساتھ تدبر کریں- آپ آیت کے سیاق(context) کی روشنی میں اس کا مطالعہ کریں- جب آپ ایسا کریں گےتو آپ پر یہ واضح ہوجائے گا کہ اِس آیت میں اصنام پرستی کے عقیدے کی تردید کی گئی ہے- دوسرے لفظوں میں یہ کہ اِس آیت میں حکم (اقتدار) سے مراد وہ اقتدار ہے جو زمین اور آسمان میں براہِ راست طورپر خدا نے قائم کررکھا ہے، یہاں اُس سیاسی اقتدار کا کوئی ذکر نہیں جس کو انسان دوسرے انسانوں کے مقابلے میں سماج کی سطح پر قائم کرتاہے، یعنی خدا کا قائم کردہ فوق الطبیعی اقتدار، نہ کہ انسان کا قائم کردہ سیاسی اقتدار-
قرآن کی تفسیر خواہ کسی بھی انداز میں کی جائے، ہمیشہ ایسا ہوگا کہ آدمی اپنی رائے کو استعمال کرے گا- رائے سے مراد عقلی غور وفکر ہے اور عقلی غور وفکر کے بغیر کوئی بھی تفسیر ممکن نہیں، حتی کہ تقلیدی تفسیر بھی نہیں- قرآن کی سورہ ص میں ارشادہوا ہے: کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْٓا اٰیٰتِہٖ وَلِیَتَذَکَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ (38:29) یعنی یہ ایک مبارک کتاب ہے جو ہم نے تمھاری طرف اتاری ہے، تاکہ لوگ اس کی آیتوں پر تدبر کریں اور تاکہ عقل والے اس سے نصیحت حاصل کریں-
تدبر کا مطلب غور وفکر (contemplation) ہے- قرآن میں تدبر یہ ہے کہ آپ کسی تعصب کے بغیر کھلے ذہن کے ساتھ قرآن کو پڑھیں، اس کے تمام پہلوؤں پر کسی تحفظِ ذہنی (reservation) کے بغیر غور کریں- آپ کا مقصد سچائی کی تلاش ہو، نہ کہ اپنی بات کو قرآن سے نکالنا- اِسی کے ساتھ آپ کو یہ اندیشہ لگاہوا ہو کہ اگر آپ نے قرآن کی کسی آیت کی غلط تفسیر کی تو وہ خداکے یہاں مقبول نہ ہوگی اور آپ اس کے لیے پکڑے جائیں گے- اِس طرح کی سنجیدہ فکر کے ساتھ جو تفسیر کی جائے، اسی کا نام تدبر ہے- اور تدبر کے ساتھ قرآن کی تفسیر کرنےکا طریقہ ہی تفسیر کا صحیح طریقہ ہے- دوسرے لفظوں میں، غیر ذمے دارانہ تفسیر کا نام تفسیر بالرائے ہے، اور ذمے دارانہ تفسیر کا نام تفسیر بالتدبر-
فہم قرآن
قرآن میں 114 سورتیں ہیں- اس کی سورہ نمبر 103 کا نام العصر ہے- سورہ العصر کے بارے میں امام شافعی (وفات: 820ء) کا مشہور قول ہےکہ: لو تدبر الناسُ ہذہ السورة، لوسعتہم (اگر لوگ سورہ العصر میں تدبر کریں تو یہی ایک سورہ ان کی ہدایت کے لیے کافی ہوجائے)- یہ بات بذاتِ خود بالکل درست ہے- تدبر قرآن، نہ صرف سورہ العصر کو سمجھنے کے لیے، بلکہ پورے قرآن کے فہم کی کلید ہے- لیکن قرآن میں تدبر کی دو سورتیں ہیں — ایک ہے، فنی تدبر، اور دوسرا ہے، عارفانہ تدبر- قرآن کے مطالعے کے لیے فنی تدبر صرف ابتدائی فہم قرآن کے لیے کار آمد ہے- جہاں تک گہرے فہم قرآن کا تعلق ہے، اس کاحصول صرف عارفانہ تدبر کے ذریعے ممکن ہوتاہے-
فنی تدبر کا مطلب یہ ہے کہ آدمی لغت اور نحو اور صرف اور شانِ نزول، وغیرہ جیسی باتوں سے واقفیت رکھتاہو- ایسا آدمی اِس پوزیشن میں ہوتا ہے کہ وہ قرآن کے سادہ مفہوم کو بظاہر صحت کے ساتھ سمجھ لے، مگر جیسا کہ حدیث میں آیا ہے: لکل آیة منہا ظَہْر وبَطْن)الطبرانی 10/105 (- اِس قسم کا فہم قرآن کسی آدمی کو صرف ظہرِ قرآن سے واقف کراتا ہے، لیکن جہاں تک بطنِ قرآن کا معاملہ ہے، اُس سے آگاہ ہونے کے لیے صرف فنی واقفیت کافی نہیں- بطنِ قرآن تک رسائی حاصل کرنے کے لیے دین کی گہری معرفت ضروری ہے- یہ معرفت صرف اُس شخص کو ملتی ہے جو انتہائی سنجیدگی کے ساتھ قرآن اور سنت کا مطالعہ کرے، جو لمبی مدت تک دعا اور ذکر الہی میں زندگی گزارے، وہ صبح وشام کے لمحات میں قرآن کا طالب بنا ہوا ہو، جس کا مسلسل غور وفکر اس کو معرفت (realization)کی اُس سطح تک پہنچا دے، جب کہ وہ فنی حد بندیوں سے اوپر اٹھ کر حقیقت کا ادراک کرنے کے قابل ہوجاتاہے- اُس وقت وہ اُس درجہ معرفت کو حاصل کرلیتاہے جس کو حدیث میں  "مُحَدَّث"(صحیح البخاری، رقم الحدیث: 3689) کہاگیا ہے-
قرآن کی عارفانہ تفسیر
جیسا کہ عرض کیاگیا ، علماءِ تفسیر نے قرآن کی تفسیر کے لیے 15 علوم کو ضروری قرار دیا ہے- اِن علوم میں سے ایک علم وہ ہے جس کو علمِ وہبی کا نام دیاگیا ہے-علمِ وہبی سےمراد معرفت ہے- بقیہ علوم کی حیثیت فنّی ہے اور معرفت وہ خصوصی صلاحیت ہے جس کو دوسرے الفاظ میں حکمت اور بصیرت (divine wisdom) کہاجاسکتا ہے- اِس حکمت اور بصیرت کی ایک مثال قرآن کی یہ آیت ہے: ہَلْ تَرَبَّصُوْنَ بِنَآ اِلَّآ اِحْدَى الْحُسْنَیَیْن(9:52) یعنی تم ہمارے لیےدو میں سے ایک بہتر چیز (one of the two good things) کا انتظار کررہے ہو-
قرآن کی اِس آیت میں ’’دو بہتر میں سے ایک بہتر‘‘ کا مطلب مفسرین نے عام طور پر فتح اور شہادت لیاہے، یعنی تمھارے مقابلے میں ہم کو یا تو فتح حاصل ہوگی جو بلاشبہہ ایک بہتر چیز ہے، اور اگر تم نے ہم کو قتل کردیا تو ہم شہادت کا درجہ پائیں گے، اور وہ بلا شبہہ ہمارے لیے ایک بہتر چیز ہے-
خالص علم وفن کے اعتبار سے دیکھئے تو یہ تفسیر بالکل درست تفسیر معلوم ہوتی ہے، لیکن معرفت کے اعتبار سے دیکھئے تو یہ تفسیر ایک ناقص تفسیر ہے- فنی تفسیر کے اعتبار سے، اِس آیت کا تعلق جنگی صورتِ حال سے ہے- لیکن معرفت شناس ذہن یہ کہے گا کہ قرآن کا تعلق صرف جنگ سے متعلق احکام سے نہیں ہے، بلکہ قرآن کا تعلق انسان کی پوری زندگی سے ہے، اِس لیے ضروری ہے کہ ’إحدى الحسنین‘ کی سعادت ایک مومن کے لیے زندگی کے دوسرے پہلوؤں کے اعتبار سے بھی قابلِ حصول ہو-اِس کی ایک مثال یہ ہے کہ ایک شخص سے وقتی طورپر آپ کی ملاقات ہوتی ہے- آپ کے لیے موقع تھا کہ آپ اس کے ساتھ حسنِ معاملت کریں اور ثواب کے مستحق قرار پائیں، لیکن کسی وجہ سے آپ اس کے ساتھ حسنِ معاملت نہ کرسکے- اِس صورت ِ حال میں آپ کے لیے  ’إحدى الحسنیین‘ کی سعادت حاصل کرنے کا موقع باقی ہے- وہ اس طرح کہ آپ یہ دعا کریں کہ — خدایا، میں فلاں انسان کے ساتھ حسنِ سلوک نہ کرسکا، تو میری اِس غلطی کو معاف فرمااور اُس انسان کے لیے  میری طرف سے دعاءِ خیر لکھ دےاور اس کے حق میں میرے کوتاہی کی تلافی فرما-
ایک شخص اگر فنی علوم کو حاصل کرلے تو وہ اِس قابل ہوجاتاہے کہ وہ قرآن کی کسی آیت کے ظاہری پہلوؤں کو بخوبی طورپر جان لے- اُس آیت کا لفظی ترجمہ کیاہے، اس کا شانِ نزول کیا ہے، سیاق وسباق کی رعایت سے اس کا کیا مفہوم بنتا ہے اور کیا مفہوم نہیں بنتا، وغیرہ-
ایک شخص جس کو فنی واقفیت حاصل ہو، وہ آیت کےظاہری مفہوم کو سمجھ سکتاہے، لیکن اُس آیت میں الفاظ کے ماورا جو حقیقتیں چھپی ہوئی ہیں، وہ اُن سے بے خبر رہے گا- مثلاً وہ اِس بات کو جان لے گا کہ الحمد للہ رب العالمین کا لفظی ترجمہ کیا ہے- لیکن قرآن کی اِس آیت میں ایک اور گہرا پہلو چھپا ہوا ہے، لیکن اِس گہرے پہلو تک پہنچنے کے لیے صرف فنی واقفیت کافی نہیں-
یہ گہرا پہلو وہ ہے جس کا علم صرف صاحبِ معرفت انسان کو ہوتاہے،صاحب معرفت انسان وہ ہے جس نے اللہ کی عظمتوں کو دریافت کررکھا ہو، جس کے غور وفکر نے اس کو اللہ کی کائناتی ربوبیت کی پہچان کرادی ہو، جو زمین وآسمان میں اس کی رحمتوں کا تجربہ کررہاہو- ایسا شخص جب الحمد للہ کہے گا تو اس کا شعورِمعرفت اِن الفاظ کے اندرمعانی کا سمندر بھردے گا- الحمد للہ رب العالمین کی تفسیر کرتے ہوئے اس کو محسوس ہوگا کہ انسائکلوپیڈیا کی وسیع جلدیں بھی اس کی تفسیر کے لیے ناکافی ہیں-
قرآن کی فنی تفسیر قرآن کی صرف ٹکنکل تفسیر ہے، اور قرآن کی عارفانہ تفسیر، قرآن کی تخلیقی تفسیر (creative commentary) ہے- فنی صلاحیت کے لیے کتابی مطالعہ کافی ہوسکتاہے، لیکن معرفت ایک خدائی عطیہ ہے- معرفت کسی انسان کو صرف خدا کی توفیق سے ملتی ہے، اور خدا کی توفیق اُس انسان کو حاصل ہوتی ہے جس نے خدا کو اپنا واحد کنسرن (sole concern) بنا لیا ہو-
قرآن فہمی کی شرط
قرآن کی سورہ الواقعہ میں، قرآن کے بارے میں یہ آیت آئی ہے: لا یمسّہ إلا المطہرون (56:79) یعنی قرآن کو صرف وہی لوگ چھوتے ہیں جو پاکیزہ ہیں:
None can touch the Quran except the purified.
اِس آیت کی تفسیر میں پاکیزہ سے کون لوگ مراد ہیں- کچھ لوگ اِس سے مراد فرشتوں کو لیتے ہیں- کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اِس سے مراد پاک اور با وضولوگ ہیں- مگر حقیقت یہ ہے کہ اِس قسم کے مسائل اِس آیت کی نسبت سے غیر متعلق (irrelevant) مسائل کی حیثیت رکھتے ہیں- اِس آیت میں جو بات کہی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ قرآن کے معانی تک پہنچ صرف اُن لوگوں کے لیے ممکن ہوتی ہے جو پاکیزہ ذہن کے حامل ہوں-
راغب الاصفہانی (وفات: 1108ء) نے اپنی کتاب المفردات میں اِس آیت کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے: إنہ لا یبلغ حقائق معرفتہ إلا من طہّر نفسہ (صرف وہ شخص معارف قرآن کے حقائق تک پہنچے گا جو اپنے نفس کی تطہیر کرے)- حقیقت یہ ہے کہ اِس آیت میں پاکیزگی سے مراد اصلاً اخلاقی یا جسمانی پاکیزگی نہیں ہے، بلکہ اُس سے مراد ذہنی یا نفسیاتی پاکیزگی ہے-
قرآن ایک ایسی ہستی کا کلام ہے جو کامل طورپر مثبت ذہن کا حامل ہے، وہ مکمل طورپر منفی سوچ سے پاک ہے- ایسی حالت میں، قرآن کو سمجھنے کے لیے یہ لازمی شرط ہے کہ قرآن کے قاری کا شاکلہ، قرآن کے مصنف کے شاکلہ کے ہم سطح ہوجائے- اِس کے بغیر کسی قاری کی پہنچ قرآن کے مضامین تک نہیں ہوسکتی- جو قاری اِس ذہنی ارتقا کا حامل ہو کہ اس کا ذہن مکمل طورپر مثبت ذہن (positive mind) بن چکا ہو، وہ منفی سوچ (negative thinking) سے پوری طرح خالی ہو- ایسے ہی انسان کی پہنچ قرآن کے گہرے معانی تک ہوگی-ایسے ہی انسان پر اللہ کی توفیق سے قرآن کے گہرے معانی کے دروازے کھلیں گے-(2012)
واپس اوپر جائیں

اندھا اور بہرا رد عمل

قرآن میں اللہ کے بندوں کی صفات بتاتےہوئے ان کی ایک صفت اِن الفاظ میں بیان کی گئی ہے: وَالَّذِیْنَ اِذَا ذُکِّرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّہِمْ لَمْ یَخِـرُّوْا عَلَیْہَا صُمًّا وَّعُمْیَانًا (25:73) یعنی وہ ایسے ہیں کہ جب اُن کے رب کی آیتوں کے ذریعے اُن کو نصیحت کی جاتی ہے تو وہ اُن پر اندھے اور بہرے ہو کر نہیں گرتے-
’’اللہ کی آیتوں کے ذریعے تذکیر‘‘ کا مطلب کیا ہے- اِس کا مطلب یہ ہےکہ ایک انسان، جو قرآن کے الفاظ میں، اپنی خواہش کو اپنا رہنما بنائے ہوئے ہو، اس کی غلطی کی نشان دہی کرنا اور یہ بتانا کہ تم کو خدا کی دنیا میں خدا کی پسند کے طریقے پر چلنا ہے، نہ کہ اپنی پسند کے طریقے پر- اِس قسم کی نصیحت آدمی کو اپنے خلاف تنقید نظر آتی ہے- وہ اِس قسم کی نصیحت کو سننے کے بعد فوراً رد عمل کی نفسیات میں مبتلا ہوجاتاہے- وہ ایسی نصیحت کے جواب میں غیر سنجیدہ انداز اختیار کرلیتا ہے- وہ اپنی غلطی کا اعتراف کرنے کے بجائے خود ناصح کو غلط ثابت کرنا شروع کردیتاہے-
وہ اُن پر اندھے اور بہرے ہو کر نہیں گرتے — اِس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا رد عمل اندھے بہرے انسان کے رد عمل کی مانند نہیں ہوتا- اندھے اور بہرے انسان کی مانند رد عمل یہ ہے کہ آدمی نصیحت کو سن کر اُس کے جواب میں ایسا رسپانس دے جیسے کہ اس نے اصل بات کو نہ سنا اور نہ ا س کو سمجھا، وہ ناصح کی اصل بات سے بے خبر رہ کر غیر متعلق باتیں بولنے لگا، وہ دلیل کے جواب میں الزام تراشی کرنے لگا، وہ ایک علمی بات کا جواب غیر علمی انداز میں دینے لگا، وہ نصیحت کے اصل نکتے پر دھیان دئے بغیر ایسی باتیں کہنے لگا جس کا ناصح کی نصیحت سے کوئی تعلق نہیں-
اللہ سے تعلق آدمی کے اندر سنجیدگی پیدا کرتا ہے- اِس کے برعکس، جو انسان اللہ سے دور ہو، وہ ایک غیر سنجیدہ انسان بن جاتا ہے- وہ ایک ایسا انسان بن جاتا ہے جیسے کہ وہ آنکھ رکھتے ہوئے بھی کچھ نہیں دیکھتا، وہ کان رکھتے ہوئے بھی کچھ نہیں سنتا-
واپس اوپر جائیں

مجھ کو قرآن نہیں ملا

سری نگر (کشمیر) میں ہمارے کئی ساتھی ہیں- وہ سیاحوں کو مطالعے کے لیے قرآن کا انگریزی ترجمہ دیتے ہیں- 7 اپریل 2013 کو وہ وہا ں کے تولپ گارڈن (Tulip Garden) گئے- وہاں انھوں نے دیکھا کہ سیاحوں کا ایک گروپ گیٹ سے اندر داخل ہورہا ہے- انھوںنے اِن لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا- یہ ترجمہ محدود تعداد میں تھا، اِس لیے وہ گروپ کے بعض افراد کو نہیں ملا- اِس کے بعد انھوںنے دیکھا کہ گارڈن کے گیٹ پر ایک نوجوان کھڑا ہوا رورہا ہے- وہ رورہا تھا اور یہ کہہ رہا تھا— مجھ کو قرآن نہیں ملا-
یہ واقعہ مجھ کو معلوم ہوا تو میں نے سوچا کہ یہ کوئی سادہ واقعہ نہیں- یہ واقعہ حاملینِ قرآن کے لیے ایک عظیم انتباہ (warning) کی حیثیت رکھتا ہے- یہ واقعہ حاملینِ قرآن کو ان کی ذمے داری یاد دلارہا ہے- وہ وقت آنے والا ہے جب کہ حشر کے میدان میں تمام پیدا ہونے والے انسان اکھٹا ہوں گے- اُس وقت اگر ایسا ہو کہ جن لوگوں تک قرآن نہیں پہنچا، وہ کھڑے ہو کر اللہ سے فریاد کریں کہ جن لوگوں پر یہ ذمے داری ڈالی گئی تھی کہ وہ خدا کی کتاب (قرآن) کو تمام انسانوں تک پہنچائیں، انھوں نے اپنی یہ ذمے داری پوری نہیں کی- انھوںنے لوگوں کی قابلِ فہم زبان میں خدا کی کتاب کو اُن تک نہیں پہنچایا- ایسی حالت میں سب سے پہلے اِن حاملین قرآن کی پکڑ ہونی چاہئے، نہ کہ ہماری-
اگر حشر کے میدان میں یہ واقعہ پیش آئے کہ جن لوگوں تک قرآن نہیں پہنچا، وہ وہاں کھڑے ہو کر اللہ سے فریاد کریں تو حاملینِ قرآن کے پاس اِس کا کیا جواب ہوگا- قرآن میں بتایا گیا ہے کہ قیامت میں دونوں گروہوں سے یہ سوال کیا جائے گا کہ پہنچانے والوں نے پہنچایا، یا نہیں، اور یہ کہ جن کو پہنچایا جانا تھا، اُن کو ملا، یا نہیں (7:6)- قرآن کا مذکورہ بیان داعی اور مدعو دونوں کے لیے بے حد اہم ہے- دونوں کو یہ سوچنا ہے کہ حشر کے میدان میں وہ اِس معاملے میں اللہ کے سامنے بری الذمہ قرار پائیں گے یا نہیں-
واپس اوپر جائیں

دعوت، اجتماعیت

داعی یا مصلح کا ایک کام یہ ہے کہ وہ لوگوں کو سچائی کی بات بتائے- وہ لوگوں کو امر ِحق سے باخبر کرے- اِس کام کا تقاضا یہ ہے کہ داعی اور مصلح سچائی کا گہرا علم رکھتا ہو- وہ ایسی زبان میں کلام کرے جو لوگوں کے دماغ کو اپیل کرنے والی ہو- اس کا دعوتی کلام اپنی زبان اور اپنے اسلوب، دونوں کے اعتبار سے، مخاطب کے لیے پوری طرح قابلِ فہم ہو- اس کے کلام میں وضوح (clairty) ہو- اس کا کلام کنفیوژن سے مکمل طورپر پاک ہو- دعوت اور اصلاح کی کوشش کے نتیجے میں جب کچھ لوگ اس سے متاثر ہوں اور وہ کم یا زیادہ تعداد میں اس کے گرد اکھٹا ہوجائیں تو اس کے بعد داعی کی ایک اور ذمے داری شروع ہوجاتی ہے، یہ کہ وہ اِن متاثر افراد کو قریب کرے اور ان کی اجتماعیت کو برقرار رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرے- دعوت اور اصلاح کی اِس دوسری ضرورت کو قرآن کی ایک آیت میں بتایا گیا ہے- اِس آیت کا ترجمہ یہ ہے: ’’(اے رسول) یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم اُن کے لیے نرم ہو- اگر تم تند خو اور سخت دل ہوتے تو یہ لوگ تمھارے پاس سے بھاگ جاتـے‘‘ -(3:195)
متاثر افراد کے درمیان اجتماعیت کو برقرار رکھنے کے لیے بنیادی صفت یہ ہے کہ داعی لوگوں کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرے، وہ اُن کے ساتھ سخت معاملہ نہ کرے- اِس کو ایک لفظ میں، لوگوں کے مزاج کی رعایت کہا جاسکتا ہے- جب بھی کچھ لوگ اکھٹا ہوں تو اُن کی طرف سے بار بار ایسی باتیں پیش آتی ہیں جو ناگواری کا پہلو لیے ہوتی ہیں- جہاں اجتماعیت ہو، وہاں لازمی طورپر مسائل بھی ہوتے ہیں، کیوں کہ ہر آدمی کا مزاج الگ الگ ہوتاہے- ایسی حالت میں، اجتماعیت کو برقرار رکھنے کی تدبیر صرف یہ ہے کہ لوگوں کے ساتھ نرمی کا سلوک کیا جائے- ان کی ناگوارباتوںکو نظر انداز کیا جائے- ایسے پروگرام رکھے جائیں جو لوگوں کے درمیان آپس کے تعلقات بڑھانے والے ہوں- مثلاً سادہ طورپر اجتماعی کھانا، وغیرہ-
دعوت اور اصلاح کے کام میں یہ دوسرا پہلو عملی اعتبار سے بہت زیادہ اہم ہے- نظریاتی صداقت کے ساتھ اجتماعی حکمت اگر موجود نہ ہو تو کوئی بڑا کام نہیں کیا جاسکتا-
واپس اوپر جائیں

فکری مستویٰ کے مطابق خطاب

ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بُعثنا معاشر الأنبیاء نخاطب الناس، على قدر عقولہم (المقاصد الحسنة للسخاوی، رقم الحدیث: 120) یعنی تمام پیغمبروں کو یہ حکم دیاگیا ہے کہ وہ لوگوں کو اُن کے عقلی معیار کے مطابق، خطاب کریں-
اِس حدیث میں ’قدرِ عقل‘ سے مراد فکری مستوی (intellectual level) ہے، یعنی لوگوں سے ایسی زبان میں خطاب کرنا جو اُن کے لیے قابلِ فہم ہو اور ان کے ذہن کو ایڈریس کرے- جس دعوتی خطاب میں مدعو کی یہ رعایت شامل نہ ہو، وہ مطلوب دعوتی خطاب نہیں- اِس حدیثِ رسول کا ایک تقاضا یہ ہےکہ داعی اور مدعو کے درمیان اگر ذہنی بُعد (intellectual gap) پیدا ہو جائے تو داعی کو چاہئے کہ وہ اپنے آپ کو اِس طرح تیار کرے کہ مدعو کے ذہن کے اعتبار سے، اس کا کلام ایک موثر کلام بن جائے-
موجودہ زمانے کی نسبت سے ایک بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ مسلم علما اپنی تعلیم کے اعتبار سے، صرف روایتی ذہن کو خطاب کرنا جانتے ہیں- اِس بنا پر جدید تعلیم یافتہ طبقہ، علما کی پہنچ سے باہر ہوگیا ہے- علما کا روایتی طرزِ خطاب جدید ذہن کو اپیل نہیں کرتا- ایسی حالت میں علماکا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے آپ کو اِس طرح تیار کریں کہ وہ جدید ذہن کو خطاب کرنے کے قابل ہوسکیں-
جدید فکری مستوی کوئی پراسرار چیز نہیں، وہ دراصل عقلی مستوی (rational level) کا دوسرا نام ہے- آج کا انسان صرف اُس کلام سے متاثر ہوسکتا ہے جو جدید عقلی معیار پر پورا اترتا ہو، جو دورِ جدید کے مسلّمات سے مطابقت رکھنے والا ہو، جو دینی حقائق کو عقل کے معروف اصولوں پر ثابت شدہ بناتا ہو- قدیم اسلوب کو اگر روایتی اسلوب کہاجائے تو جدید اسلوب کو سائنسی اسلوب کہا جائے گا-
جو بات مذکورہ حدیثِ رسول میں کہی گئی ہے، اس کی اصل خود قرآن میں موجود ہے- قرآن کی سورہ ابراہیم میں یہ آیت آئی ہے: وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہٖ لِیُبَیِّنَ لَہُم(14:4) یعنی ہم نے جو پیغمبر بھی بھیجا، اس کی قوم کی زبان میں بھیجا، تاکہ وہ اُن سے اچھی طرح بیان کردے:
And We have not sent any Messenger except with the language of his people in order that he might make the message clear to them.
قرآن کی یہ آیت پیغمبر کے حوالے سے ہر دور کے تمام داعیوں کے لیے ہے- بعد کے زمانے میں اپنے ہم عصر مخاطبین کی نسبت سے داعیوں کی بھی وہی ذمے داری ہے جو قدیم زمانے میں اپنے ہم عصر مخاطبین کی نسبت سے پیغمبروں کی ذمے داری تھی- قرآن کی اِس آیت کے مطابق، دعوت الی اللہ کے سلسلے میں داعی کی ذمے داری صرف یہ نہیں ہے کہ وہ مدعو کی زبان میں بول کر اس کو دعوت کا پیغام دے دے- اِسی کے ساتھ لازمی طورپر وہ چیز بھی ضروری ہے جس کو قرآن کی مذکورہ آیت میں ’’تبیین‘‘ کہاگیاہے- تبیین کا مطلب ہے واضح کرنا، بات کو پوری طرح قابلِ فہم بنادینا-
اِس سے معلوم ہوا کہ داعی کے لیے صرف مدعو کی زبان کا جاننا کافی نہیں، اِسی کے ساتھ ضروری ہےکہ وہ مدعوکے مزاج کو سمجھے، وہ مدعو کی ذہنی ساخت کے مطابق، اُس سے خطاب کرے، تاکہ اس کا ذہن ایڈریس ہوسکے- اِس اعتبار سے دیکھئے تو موجودہ زمانے میں داعی کی ذمے داری بہت بڑھ گئی ہے- قدیم زمانہ اگر روایتی اسلوب کا زمانہ تھا تو موجودہ زمانہ سائنٹفک اسلوب کا زمانہ ہے- آج کا مدعو کسی بات کو صرف اُس وقت سمجھ پاتا ہے جب کہ اُس بات کو عقلی اسلوب میں مدعو کے سامنے پیش کیا جائے-اِس شرط کا تقاضا ہےکہ داعی نہ صرف آج کی زبان سیکھے، بلکہ وہ آج کے ذہن کو پوری طرح سمجھے اور جدید ذہن کو سمجھنے کا یہ کام صرف اُس وقت ممکن ہے جب کہ انتہائی بے تعصبانہ انداز میں جدیدافکار کا مطالعہ کیا جائے- یہ کام صرف اُس وقت ممکن ہے جب کہ داعی کے دل میں مدعو کے لیے کامل خیر خواہی موجود ہو- اگر کامل خیرخواہی موجود نہ ہو تو نہ زبان کا جاننا کافی ہوسکتا ہے اور نہ جدید علوم کا مطالعہ-
اِس معاملے کی ایک مثال یہ ہے کہ موجودہ زمانے کے تمام علما مستشرقین (orientalists) کے بارے میں منفی رائے رکھتے ہیں- وہ مستشرقین کو اسلام کا دشمن اور اسلام کے خلاف سازش کرنے والا قرار دیتے ہیں، حتی کی ایک عرب عالم نے مستشرقین کو دورِ جدید کے تین اژدہوں میں سے ایک اژدہا قرار دیاہے- (ملاحظہ ہو: أجنحة المکر الثلاثة، تالیف: عبد الرحمن حبنکہ المیدانی)
مستشرقین کے بارے میں یہ رائے یقینی طورپر درست نہیں- اصل یہ ہے کہ مسلم علما، مغربی مستشرقین کو غیر متعصبانہ ذہن کے ساتھ نہ پڑھ سکے، اِس لیے وہ اُن کے کیس کو بھی سمجھنے سے قاصر رہے- مستشرقین کے کیس کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اُس فرق کو سمجھا جائے جو مسلم علما اور مستشرقین کے درمیان پایا جاتاہے- مسلم علما دین اسلام کو وحی (revelation)کے ظاہرہ کے تحت دیکھتے ہیں- اِس کے برعکس، مستشرقین اپنے طریقِ مطالعہ کے تحت دینِ اسلام کو صرف ایک سماجی ظاہرہ (social phenomenon)یا تاریخی ظاہرہ (historical phenomenon) کے طورپر دیکھتے ہیں- طریقِ مطالعہ کے اِس فرق کی بنا پر فطری طورپر ایسا ہوتاہے کہ دونوں کی رائے میں کچھ فرق واقع ہوجاتا ہے- یہ فرق یقینی طورپر کسی سازشی ذہن یا بدنیتی کی بنا پر نہیں ہوتا، بلکہ وہ صرف طریقِ مطالعہ (method of study)میں فرق کی بنا پر ہوتاہے-
استشراق کی حقیقت
استشراق (orientalism) کیا ہے، استشراق اپنی اصل حقیقت کے اعتبار سے، صرف ایک چیز کا نام ہے، وہ یہ ہے کہ نشاةِ ثانیہ (Renaissance) کے بعد مختلف اسباب سے یورپ میں ایک ذہن ابھرا جس کو روحِ تجسس (spirit of inquiry) کہاجاتاہے- اِس روحِ تجسس نے مزید ترقی پاکر موضوعی طریقِ مطالعہ (objective method of study) کا عنوان اختیار کیا- نشاةِ ثانیہ کے بعد یورپ میں پیدا ہونے والے تمام علوم، خواہ وہ مذہبی ہوں یا سیکولر، وہ اصلاً اِسی طریق ِ مطالعہ کی پیداوار ہیں-اِس طریقِ مطالعہ کا استعمال بنیادی طورپر دو بڑے میدانوں میں ہوا— ایک، علمِ فطرت(natural sciences) اور دوسرا، علمِ انسانیات (humanities) - اِس طریقِ مطالعہ سے بہت زیادہ فائدے حاصل ہوئے- ہر شعبے میں نئی نئی حقیقتیں سامنے آئیں، تحقیق کے نئے نئے دروازے کھلے، سوالات کے نئے نئے جوابات ملے، زندگی کے لیے نئی نئی رہنمائیاں حاصل ہوئیں- تاہم علم کے دونوں شعبوں میں ایک بنیادی فرق تھا- علمِ فطرت کا میدان فطرت کے اٹل قوانین تھے- اس میں یہ ممکن تھا کہ علمِ ریاضی (mathematics) کے قطعی فارمولے کو استعمال کرتےہوئے قطعی نتیجے تک پہنچا جائے اور اگر بالفرض کوئی انسان اپنے اندازے میں غلطی کرجائے تو دوسرا انسان مزید تجزیہ کے ذریعے اس کی تصحیح کرسکے- اِسی لیے اِن علوم کو قطعی علوم (exact sciences)کہاجاتاہے-
لیکن علم انسانیات، بہ شمول مذہب، میں اِس کے استعمال کا معاملہ بالکل مختلف تھا- اِس شعبے میں حتمی نوعیت کا کوئی ریاضیاتی طریقہ قابلِ حصول نہ تھا، اِس لیے یہاں لازمی طورپر یہ ہونا تھا کہ انسانیات کے شعبے میں مطالعہ کرنے والوں کی رائے میں اختلاف پیدا ہو، وہ کسی معاملے میں غلط استنباط (wrong inference) کا شکار ہوجائیں- اِس بنا پر یہ ممکن ہی نہ تھا کہ انسانیات کے دائرے میں مطالعہ کرنے والا انسان کوئی ایسا اصول وضع کرسکے جس میں سرے سے کوئی غلطی نہ پائی جاتی ہو- انسانیات کے مطالعے میں جو غلطیاں پائی جاتی ہیں، وہ اختلافِ رائے کی بنا پر ہیں، نہ کہ سازش یا بدنیتی کی بنا پر- یہی استشراق کا معاملہ ہے- استشراق کا کیس ایک طریقِ مطالعہ کا کیس ہے، نہ کہ سازش یا بدنیتی کاکیس-
اِس معاملے میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ مستشرقین کے اِس ذہن کو مدعو کے ذہن کے طورپر لیا جائے، نہ کہ کسی دشمن کے سازشی ذہن کے طورپر- ہر مدعو کی اپنی سوچ ہوتی ہے- اِس طرح مستشرقین کا کیس بھی مدعو کا کیس ہے اور ان کی بھی اپنی ایک سوچ ہے- اگر ہم مستشرقین کے کیس کو مدعو کے کیس کے طورپر لیں تو ہمارے دل میں اُن کے بارے میں وہی خیرخواہی پیدا ہوجائے گی جو ہر مدعو کے لیے ایک داعی کے دل میں ہوتی ہے- اِس طرح یہ ممکن ہوجائے گا کہ ہم مستشرقین کے ذہن کو غیرجانب دارانہ انداز میں سمجھیں اور اُن سے داعیانہ ذہن کے تحت ڈسکشن کریں اور اُن کو اسلام کا فطری پیغام پہنچائیں-مستشرقین بھی انسان ہیں- اُن کے اندر بھی وہی فطرت موجود ہے جو دوسرے انسانوں کے اندر پائی جاتی ہے- اگر اُن کی فطرت ایڈریس ہوجائے تو اُن کے ساتھ وہی واقعہ پیش آسکتا ہے جس کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَةٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ ( 41:34)
تاریخ بتاتی ہے کہ مستشرقین کے معاملےمیں اِس طرح کے واقعات بار بار پیش آئے ہیں- بہت سے ایسے مستشرق ہیں جنھوں نے اسلام کا مطالعہ کیا- وہ اسلام کی صداقت سے متاثر ہوئے اور انھوں نے اسلام کے بارے میں بہت سی اعلی کتابیں لکھیں- مثلاً ٹامس کارلائل (وفات: 1881)، ٹی ڈبلو آرنلڈ (وفات: 1930 )، فلپ کے ہٹی (وفات: 1978)، وغیرہ- کچھ اور لوگ ہیں جنھوں نے اسلام کے تفصیلی مطالعے کے بعد باقاعدہ اسلام قبول کرلیا- مثلاً ہنگری کے عبدالکریم جُرمانوس (وفات: 1979)، وغیرہ-
مستشرق عام طورپر اُس کو کہا جاتا ہے جو کسی مغربی ملک میں پیدا ہوا ہو اور پھر وہ مشرقی مذاہب کا مطالعہ کرے- لیکن توسیعی طورپر اِس فہرست میں ایسے افراد بھی شامل کیے جاسکتے ہیں جو کسی دوسرے مذہب میں پیداہوئے ہوں اور پھر وہ مختلف مذاہب کا مطالعہ کریں اور مطالعہ کے بعد اسلام قبول کرلیں- اِس دوسری قسم میں بھی بہت سے افراد پائے جاتے ہیں- مثلاً ڈاکٹر نشی کانت چٹوپادھیائے، وغیرہ-ڈاکٹر نشی کانت چٹوپادھیائے کا مختصر تعارف در ج ذیل ہے:
Chattopadhyay, Nishikanta (1852-1910) research scholar and the first Bengali to obtain a PhD degree (1882) from a European university, was born in July 1852 in the village of Pashchimpara in Vikrampur, Dhaka. Nishikanta passed the FA from Presidency College. He then went to Germany to study German, Sanskrit, linguistics, history and philosophy at Leipgiz University. But he was expelled from there for being an atheist. He proceeded to Switzerland and completed his doctoral studies at the University of Zurich. He returned to India in 1883 and subsequently taught at different colleges in Hyderabad, Mysore and Muzaffarpur. Towards the end of his life, he embraced Islam.
(http://www.banglapedia.org)
واپس اوپر جائیں

دریافت کی عظمت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکی دور کا واقعہ ہے- آپ کے چچا ابو طالب نے ایک بار آپ کو بلایا اور کہا کہ قوم کے ساتھ مصالحت کا انداز اختیار کرو(فاکفف عن قومک ما یکرہون من قولک)-اِس کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یا عمّ، لو وُضعت الشمس فی یمینی والقمر فی یساری، ما ترکت ہذا الأمر (حیاة الصحابة: 1/58 ) یعنی اے میرے چچا، اگر یہ لوگ ایسا کریں کہ وہ میرے دائیں ہاتھ میں سورج رکھ دیں اور میرے بائیں ہاتھ میں چاند رکھ دیں، تب بھی میں اِس کام کو نہیں چھوڑ وں گا-
اِس واقعے سے ایک نہایت اہم اصول معلوم ہوتاہے، وہ یہ کہ — جتنی بڑی دریافت، اتنی بڑی عزیمت- اگر آدمی ایک ایسی حقیقت پر کھڑا ہوا ہو جو اس کے لیے سورج اور چاند سے بھی زیادہ بڑی ہے تو ہر دوسری چیز اس کی نظر میں چھوٹی ہوجائے گی- ایسا آدمی کسی بھی عذر کو لے کر اپنے موقف کے معاملے میں مصالحت کا انداز اختیار نہیں کرسکتا-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن توحید کا مشن تھا- آپ کو توحید کا نظریہ وحیِ خداوندی کے تحت بطور اعلی معرفت حاصل ہوا- اسی اعلی معرفت کے تحت آپ اپنے مشن کو لے کر کھڑے ہوئے- آپ کی جو دریافت تھی، وہ آپ کے لیے ساری کائنات سے زیادہ بڑی تھی- ایسا انسان اس کا تحمل نہیں کرسکتا کہ وہ کسی مصلحت کی بنا پر اس کو چھوڑ دے یا وہ اس میں کوئی کمی کرے-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا مذکورہ قول بھی ایک سنتِ رسول ہے- وہ ایک واقعے کی صورت میں ایک عظیم حقیقت کو بتاتا ہے، وہ یہ کہ ایک بڑی دریافت تمام دوسری چیزوں کو چھوٹا کردیتی ہے- ایسا آدمی کسی قسم کے رکون (11:113) کا تحمل نہیں کرسکتا- اگر آپ کسی شخص کے اندر یہ بات پائیں کہ وہ قوم کے اندر برائی دیکھتا ہے، لیکن وہ اپنے مادی تحفظات کی بنا پر اس کی کھلی مذمت نہیں کرتا تو سمجھ لیجئے کہ اس کو جو چیز ملی ہے، وہ اتنی بڑی نہیں کہ ہر قومی یا دنیوی مصلحت اس کے لیے چھوٹی ہوجائے-
واپس اوپر جائیں

کامیاب زندگی کا راز

مشہور سائنس داں البرٹ آئن اسٹائن (وفات: 1955 ) نےکہا تھا کہ —انسانی زندگی بائیسکل چلانے کی مانند ہے- اپنا توازن برقرار رکھو اور تم محفوظ طورپر اپنی منزل پر پہنچ جاؤگے:
Life is like driving a bicycle. Maintain your balance and you will safely reach your destination.
یہ قول بہت با معنى ہے- اصل یہ ہے کہ موجودہ دنیا میں انسان کو دوطرفہ تقاضوں کے درمیان عمل کرنا ہوتاہے- ایک طرف، اس کا اپنا ارادہ اور دوسری طرف، خارجی حالات-
موجودہ دنیا میں کسی کا میابی کے حصول کے لیے دونوں تقاضوں کے درمیان ہم آہنگی ضروری ہے- اگر ارادہ ہو، لیکن خارجی حالات کی موافقت موجود نہ ہو تو کامیابی ممکن نہیں-
اِسی طرح اگر خارجی حالات کی موافقت ہو، لیکن ارادہ موجود نہ ہو، تب بھی کامیابی ناممکن ہوجائے گی-آدمی کو چاہئے کہ جب بھی وہ اپنے کسی منصوبے کی تکمیل کرنا چاہے تو ہمیشہ وہ حالات پر پوری نظر رکھے- وہ ایسا نہ کرے کہ وہ اپنی خواہش کے پیچھے چلنے لگے- وہ ایسا نہ کرے کہ وہ کسی ایک پہلو کو نظر انداز کرکے دوسرے پہلو کی طرف بہت زیادہ جھک جائے-وہ ایسا بھی نہ کرے کہ وہ اپنا زیادہ اندازہ (overestimation) کرے اور حالات کا کم تر اندازہ (underestimation) کرنے لگے- اِس قسم کی کوئی بھی غلطی اس کے منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے کافی ہے-آدمی اپنے مزاج کے اعتبار سے ایک انتہا پسند مخلوق ہے- آدمی اکثر ایسا کرتا ہے کہ وہ ایک پہلو کی طرف اِس طرح جھک جاتا ہے کہ وہ دوسرے پہلو کی رعایت کرنے سے قاصر ہوجاتاہے- اِس قسم کے عدم توازن کے ساتھ کسی شخص کا اِس دنیا میں کامیاب ہونا ممکن نہیں-
توازن بلاشبہہ ایک اہم اصول ہے، لیکن توازن سے مراد عملی معاملات میںتوازن کا طریقہ اختیار کرنا ہے، نہ کہ فکری اور نظریاتی معاملات میں توازن کا طریقہ اختیار کرنا- نظری معاملات میں آدمی کا نشانہ آئڈیل ہونا چاہئے، لیکن عملی معاملات میں اس کو پریکٹکل بن جانا چاہیے-
واپس اوپر جائیں

مواقع ختم نہیں ہوتے

فرنچ فلاسفر والٹیر (Voltaire) 1694 میں پیدا ہوا- آخر عمر میں اس کو سمومیتِ بول (urania) کی بیماری ہوگئی- وہ شدید تکلیف کی حالت میں 1778 میں مرگیا- اُس کا ایک قول یہ ہے — زندگی ایک تباہ شدہ جہاز کی مانند ہے، مگر ہمیں لائف بوٹ کے استعمال کو بھولنا نہیں چاہئے:
Life is a shipwreck, but we must not forget to sing in the lifeboats.
حقیقت یہ ہے کہ زندگی میں کبھی مواقع ختم نہیں ہوتے- ایک موقع (first chance)جب ختم ہوتاہے تو اس کے فوراً بعد دوسرا موقع آجاتا ہے- ناکامی یہ ہے کہ آدمی ایک موقع کھونے کے بعد دوسرے موقع (second chance) کو دریافت نہ کرسکے-
زندگی غیر متوقع حالات سے بھری ہوئی ہے- زندگی میں بار بار ایسے تجربات پیش آتے ہیں جن کی بابت آدمی نے پہلے کبھی سوچا بھی نہیں تھا- اس بنا پر آدمی کا ہر منصوبہ ناقص ثابت ہوتاہے- اِس لیے ضروری ہے کہ آدمی بار بار اپنے منصوبے پر نظر ثانی کرے-
اِس صورتِ حال کی تلافی کے لیے خالق نے دنیا کو امکانات اور مواقع سے بھر دیا ہے- آدمی کو چاہیے کہ جب وہ کسی ناکامی سے دوچار ہو تو وہ اپنی ناکامی کو تجربے کے خانے میں ڈال دے اور نیا راستہ تلاش کرکے اپنے سفر کو جاری رکھے- ناکامی صرف ناکامی نہیں، ناکامی آپ کی شخصیت کے ارتقاکا ذریعہ ہے- ناکامی آپ کوزیادہ دانش مند بناتی ہے- ناکامی آپ کی سنجیدگی میں اضافہ کرتی ہے- ناکامی آپ کو زیادہ پختہ انسان بنانے والی ہے- ناکامی زیادہ بڑی کامیابی کا دروازہ کھولنے والی ہے-
انسان کی سب سے بڑی طاقت اس کی عقل ہے - عقل کو استعمال کرکے آدمی ہر مسئلے کا حل دریافت کرسکتا ہے، یہاں تک کہ ایسے مسئلے کا حل بھی جو بظاہر خاتمہ کے ہم معنی ہو، جس کے بعد کوئی امکان نظر نہ آتا ہو- ہمت کو ہمیشہ باقی رکھیے اور پھر عقل ہر صورتِ حال میں آپ کی رہنما بن جائے گی-
واپس اوپر جائیں

غلطی کا اعتراف

موجودہ زمانے کا ایک معروف کلچر وہ ہے جس کو سروے کلچر (survey culture) کہاجاتاہے- موجودہ زمانے میں لوگوں کی رائے جاننے کے لیے ہر چیز کا سروےکیا جاتاہے- نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (24 اپریل 2013) میں ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے- اس میں بتایا گیاہے کہ انگلینڈ میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق، ساری (sorry) کا لفظ بولنا لوگوں کے لیے ایک بے حد مشکل کام ہوتا ہے:
‘Sorry’ is the hardest word to say.
اسلام میں کچھ چیزیں واضح طورپر حرام قرار دی گئی ہیں- یہ گویا وہ چیزیں ہیں جو کہ محرَّم حرام (declared haram) کی حیثیت رکھتی ہیں- مگر ان کے سوا کچھ چیزیں اور ہیں جو اگرچہ شرعی زبان میں حرام نہیں قرار دی گئی ہیں، لیکن وہ سخت طور پر غیر مطلوب ہیں- اِنھیں غیر محرّم چیزوں میں سے ایک یہ ہے کہ آدمی کھلے طورپر اپنی غلطی کا اعتراف نہ کرے- اسلامی تعلیمات کے مطابق، غلطی کا اعتراف نہ کرنا آدمی کے اندر کمزور شخصیت پیدا کرتا ہے، اور کمزور شخصیت اور حرام شخصیت کے درمیان صرف قانون کے  اعتبار سے فرق ہے، حقیقت کے اعتبار سے، دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں-
اِسی طرح سطحیت، بے اصولی، بدذوقی اور غیر سنجیدگی جیسی چیزیں بھی سب کی سب غیر محرّم حرام کی حیثیت رکھتی ہیں- اِس طرح کی عادتوں کے ذریعے آدمی کے اندر غیر جنتی شخصیت بنتی ہے- موجودہ دنیا میں کسی عورت اور مرد کا اصل کام یہ ہے کہ وہ اپنے اندر مزکّیٰ شخصیت بنائے- اِسی مزکّیٰ شخصیت کو آخرت کی زندگی میں جنت میں جگہ ملے گی- یہ مزکی شخصیت صرف حرام چیزوں کے پرہیز سے نہیں بنتی، بلکہ وہ اُس وقت بنتی ہے جب کہ اِس معاملے میں انسان اتنا زیادہ حساس ہوجائے کہ وہ غیر محرم حرام سے بھی شدت کے ساتھ پرہیز کرنے لگے(لایبلغ العبد أن یکون من المتقین، حتى یدع مالا بأس بہ حَذَراً مما بہ بأس)-
واپس اوپر جائیں

سوال وجواب

سوال
میں ایک جدید تعلیم یافتہ مسلمان ہوں۔ میں پانچ وقت نماز پڑھتا ہوںاورروزہ بھی رکھتا ہوں، لیکن یہ تراویح جو ہر سال پڑھی جاتی ہے، اس کا کوئی فائدہ میری سمجھ میں نہیں آتا۔براہِ کرم، اِس کی وضاحت فرمائیں- (ایک قاری، الرسالہ، نئی دہلی)
جواب
تراویح کوئی رسم نہیں ہے۔تراویح دراصل، قرآن کا اجتماعی مطالعہ (collective study) ہے۔ تراویح کا مطلب یہ ہے کہ نماز کی حالت میں کھڑے ہو کر قرآن کو سنا جائے اور اس کا اجتماعی مطالعہ کیا جائے۔تراویح کی بہترین صورت یہ ہے کہ کسی دن قرآن کا جو حصہ پڑھا جانے والا ہو، تمام نمازی پیشگی طورپر قرآن کے اُس حصے کا ترجمہ پڑھیں اور اس کے مضمون کو اپنے ذہن میں بٹھائیں۔ اِس کے بعد وہ مسجد میں جاکر تراویح پڑھیں۔ اِس طرح جب وہ تراویح پڑھیں گے تو وہ قرآن کو متوجہ ہو کر سنیں گے بھی اور اُس پر غور بھی کریں گے۔ یہ اُن کے لیے قرآن کا ایک اجتماعی مطالعہ ہوگا جس سے انھیں غیرمعمولی فائدے حاصل ہوں گے۔حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جب زیادہ لوگ جمع ہو کر اللہ کا ذکر کریں اور اللہ کا چرچا کریں تو اُس وقت وہاں فرشتے بہت زیادہ تعداد میں آجاتے ہیں۔ فرشتوں کی آمد سے اُس مقام پر ایک روحانی ماحول پیدا ہوجاتا ہے۔ تراویح، اِسی قسم کا ایک اجتماعی ذکر اور اجتماعی مطالعہ قرآن ہے۔ اُس کو اگر صحیح طورپر انجام دیا جائے تو اُس سے غیر معمولی فوائد حاصل ہوںگے۔
سوال
قرآن میںاللہ کا ارشاد ہوا ہے: وَیَسْــــَٔـلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ ۭ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَمَآ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا (17:85) - آپ ’’تذکیر القرآن‘‘میں مذکورہ آیت کی تشریح کرتےہوئے لکھتےہیں کہ: ’’یہاںروح سے مراد وحی الہی ہے- عرب کے جن لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کیا، وہ وحی والہام کے منکر نہ تھے- اس سوال کا رخ ان کے نزدیک، رسول اللہ کی بے خبری کی طرف تھا، نہ کہ حقیقةً اپنی بے خبری کی طرف‘‘ (صفحہ: 792) -آپ نے روح سے مراد ’’وحی الہی‘‘ لیا ہے، لیکن صحیح ترین روایات اور مفسرین کی تشریحات کی رو سے یہ تشریح درست نہیں- مثال کے طورپر ابن کثیر اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ’’حضرت ابن عباس سے منقول ہے کہ یہودیوں نے پیغمبرسے روح کی بابت سوال کیا کہ اسے جسم کے ساتھ عذاب کیوں ہوتا ہے، وہ تو اللہ کی طرف سے ہے- چوں کہ اس بارے میں کوئی وحی آپ پر نہیں اتری تھی، اِس لیے آپ نے ان سے کچھ نہ فرمایا- اسی وقت آپ کے پاس جبریل علیہ السلام آئے اور مذکورہ آیت اتری (جلد سوم، صفحہ 220) مولانا عبد الماجد دریابادی نے اپنی تفسیر(تفسیر ماجدی) میں سورہ بنی اسرائیل کی اس آیت کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: ’’روح سے مراد روح انسانی ہے جو انسان کا سبب حیات ہے:فی ہذہ الآیةأقوال- أظہرہا أن المراد من الروح الذی ہو سبب الحیاة (کبیر، جلد سوم، صفحہ: 72)- امید ہے کہ اس اشکال پر غور فرمائیں گے اور اپنے جواب سے مطلع کریں گے- (شاہد جمیل، کلکتہ)
جواب
اِس آیت میں ’’روح‘‘ سے مراد کیا ہے، اِس میں اختلاف ہے (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، تفسیر القرطبی ) قرآن میں ایک سے زیادہ مقامات پر روح کا لفظ وحی کے معنی میں آیا ہے- اِسی کو ہم نے اختیار کیا ہے- مثال کے طور پر ملاحظہ ہو سورہ المومن (40) کی آیت نمبر 15-
سوال
عرض ہے کہ آپ کی فکر انگیز تحریروں کا مطالعہ 1986 سے مسلسل کررہا ہوں اور دعوتی کام میں بھی مصروفِ عمل ہوں- آپ سے اس خط کے ذریعے کچھ ذہنی اشکالات کا فوری ازالہ چاہتا ہوں- اُمید ہے کہ آپ جواب مرحمت فرماکر میرے ان اشکالات کو دور کریں گے-
1- آپ دعوتی نقطہ نظر سے اکثر reasoning پر بہت زور دیتے ہیں، لیکن قرآن میں بہت سارے واقعات beyond reasoning ہیں- مثلاً اصحابِ کہف کا واقعہ، حضرت سلیمان کے واقعات، حضرت عیسی کے واقعات، وغیرہ- میرا سوال یہ ہے کہ اگر ہم اسلام کے تمام حقائق کو reason-based تصور کریں یا بنانے کی کوشش کریں تو کیا پورے اسلامی ڈھانچے پر شک پیدا نہیں ہوگا- اِسی طرح آپ نے لکھا ہے کہ حُب شدیدکا تعلق صرف اللہ سے ہوتا ہے کسی اور سے نہیں- (الرسالہ، مئی 2013) اِس سے یہ نتیجہ اخذ ہورہا ہے کہ پیغمبر کے ساتھ بھی اگر حب شدید ہو تو یہ مشرکین کا طریقہ ہے اور بالفاظِ دیگر یہ خدا کا حصہ پیغمبر کو دینے جیسا ہے- عرض ہے کہ جب اللہ تعالی نے رسول کی اطاعت کو اپنی اطاعت ٹھہرایا (4:80) اور سورہ الفتح میں فرمایا کہ ’’جو لوگ تم سے بیعت کرتے ہیں، وہ درحقیقت اللہ سے بیعت کرتے ہیں‘‘ (48:10) -تو رسول کے ساتھ محبت درحقیقت اللہ ہی سے محبت کیوں نہیں ہے— مزید اللہ کے رسول کے ساتھ حُبّ شدید کی ممانعت ہوتی یا یہ مشرکوں کا طریقہ ہوتا تو حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود اِس کی بات کیوں کرتے- ’’میری امت میں مجھ سے شدید محبت رکھنے والے وہ لوگ ہیں جو میرے بعد پیدا ہوں گے-اُن میں سے ہر ایک کی خواہش ہوگی کہ کاش، وہ مجھے دیکھتا اور اپنے اہل وعیال اور اپنے مال کو فدا کرتا‘‘-
بخاری اور مسلم میں یہ حدیث درج ہے جس میں اللہ اور رسول کی محبت کو ایک ساتھ بریکیٹ کیا ہوا ہے:’’تین چیزیں ایسی ہیں کہ جس شخص میں وہ ہوں، اُسے ایمان کی حلاوت نصیب ہوگی— یہ کہ اللہ اور اس کے رسول اُسے تمام ما سوا سے زیادہ محبوب ہوں‘‘ (أن یکون اللہ ورسولہ أحب إلیہ مماسواہما) آپ نے الرسالہ، مئی 2011 میں وطن کے ساتھ محبت کو ایک قول سے استدلال کرکے اس کو ایمان واسلام کا تقاضا ثابت کیا ہے- اِس لحاظ سے رسول کی محبت یا دوسرے لفظوں میں رسول سے شدید قلبی تعلق کیسے مشرکانہ طریقہ بن جاتا ہے جب کہ صحابہ کے واقعات شاہد ہیں کہ ان کو پیغمبر کے ساتھ جو شدید قلبی تعلق تھا، وہ کبھی اللہ کی محبت اور اللہ کی عظمت میں آڑے نہیں آیا-
3- آپ نے الرسالہ میں ایک بار لکھا تھا کہ آپ کے عقائد وہی ہیں جو اہلِ سنت والجماعت کے ہیں، لیکن ’’نزول عیسی‘‘ اور ’’شفاعت‘‘ کے عقیدے کے متعلق آپ کی رائے مختلف ہے-کیا آپ کے ان دونوں عقیدوں پر یہ رائے حتمی ہے یا جس طرح دابة الأرض کے بارے میں آپ کی رائے تبدیل ہوگئی ہے، اِن دو عقیدوں کے بارے میں بھی آپ کی رائے تبدیل ہوسکتی ہے- آپ سے گزارش ہے کہ براہِ کرم، ان اشکالات کا جواب دے کرمیری رہنمائی فرمائیں- (الطاف حسین، کشمیر)
جواب
1- موجودہ زمانے کو ایج آف ریزن (age of reason) کہاجاتا ہے- موجودہ زمانے کے مائنڈ کو ایڈریس کرنے کے لیے ضروری ہے کہ جو بات کہی جائے، وہ عقل پر مبنی (reason-based) ہو- تاہم عقلی استدلال کی دوسطحیں ہیں— ایک ہے مشاہداتی استدلال اور دوسرا ہے- استنباطی استدلال- اگر استنباطی استدلال کو شامل کرلیا جائے تو کوئی بھی چیز عقلی استدلال سے باہر نہیں رہتی- آپ نے جن تین چیزوں کا حوالہ دیاہے، وہ بھی استنباطی استدلال کے دائرے میں پوری طرح شامل ہیں-استنباطی استدلال کا مطلب یہ ہےکہ ایسی چیز کے ذریعے استدلال کرنا جو اگر چہ براہِ راست دلیل نہ ہو، لیکن استنباط (inference) یا احتمال (probability)کے ذریعے وہ زیر بحث امر کو مدلل کررہی ہو- تفصیل کے لیے حسب ذیل کتابیں ملاحظہ فرمائیں:
The Mysterious Universe by Sir James Jeans- 1930
The Encyclopaedia of Ignorance by Ronald Duncan & Miranda Weston-Smith- 1977
2- حبّ شدید مطلق طورپر صرف ایک ذات سے مطلوب ہے اور وہ اللہ رب العالمین کی ذات ہے- دوسروں سے محبت ہونا بھی فطری ہے، لیکن وہ محبت بالذات نہیں ہوتی، بلکہ وہ صرف بالواسطہ محبت ہوتی ہے- (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: ماہ نامہ الرسالہ، جون 2008، صفحہ: 2-3)
3- اہلِ سنت والجماعت سے وابستگی کا مطلب یہ نہیںہے کہ کسی مسئلے پر اختلاف نہ ہو- اہلِ سنت والجماعت سے وابستہ ہونے کے باوجود رائے کا اختلاف فطری ہے- مثلاً چاروں فقہا یقینی طورپر اہلِ سنت والجماعت میں شامل ہیں، لیکن اُن کے درمیان بہت سے مسائل میں اختلافِ رائے پایاجاتا ہے-
واپس اوپر جائیں