Pages

Thursday 1 September 2005

Al Risala | September 2005 (الرسالہ،ستمبر)

2

- توحید کا عقیدہ

4

- خدا اور انسان

9

- اسلام ہر زمانے کے لیے

15

- اسلامی نظام

20

- قولِ بلیغ کیا ہے

22

- صبر وشکر

24

- عورت اور مرد کے دماغ کا فرق

26

- اجتماعی معاملات

28

- قیادت کا مسئلہ

31

- کلمۂ معرفت

33

- اعلی عبادت

35

- تاریخ گواہ ہے

37

- قصور اپنا نکل آیا

38

- سوال وجواب

44

- خبرنامہ اسلامی مرکز


توحید کا عقیدہ

توحید کاآغاز معرفت (realization) سے ہوتا ہے۔ یعنی خدا کو خالق و مالک کی حیثیت سے دریافت کرنا ۔ کسی انسان کو جب خدا کی یہ معرفت حاصل ہوتی ہے تو اس کا حال کیا ہوتا ہے۔ اس کو قرآن میں تفصیل کے ساتھ بتایا گیا ہے۔ اس سلسلہ میںایک آیت کا ترجمہ یہ ہے:
اور جب وہ اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول پر اتارا گیا ہے تو تم دیکھو گے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں اِس سبب سے کہ ان کو حق کی معرفت حاصل ہوئی۔ وہ پکار اٹھتے ہیں کہ اے ہمارے رب، ہم ایمان لائے۔ پس تو ہم کو گواہی دینے والوں میں لکھ لے۔ اور ہم کیوں نہ ایمان لائیں اللہ پر اور اُس حق پر جو ہمیں پہنچا ہے جب کہ ہم یہ آرزو رکھتے ہیں کہ ہمارا رب ہم کو صالح لوگوں کے ساتھ شامل کرے۔ پس اللہ ان کو اِس قول کے بدلہ میں ایسے باغ دے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے اور یہی بدلہ ہے نیک عمل کرنے والوں کا (المائدہ ۸۵۔۸۳)
خدا کی معرفت آدمی کے اندر کس قسم کی شخصیت پیدا کرتی ہے، اس کو قرآن میں مختلف انداز سے بتایا گیا ہے۔ اِس سلسلہ میں قرآن کی ایک آیت کا ترجمہ یہ ہے: ایمان والے تو وہ ہیں کہ جب اللہ کا ذِکر کیا جائے تو ان کے دل دہل جائیں اور جب اللہ کی آیتیں ان کے سامنے پڑھی جائیں تو وہ ان کا ایمان بڑھا دیتی ہیں اور وہ اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہیں (الانفال ۲)
توحید کے عقیدہ کا خطاب اصلاً انسان سے ہے نہ کہ کسی نظام سے۔ یہ عقیدہ ایک فرد کے اندر جگہ پکڑتا ہے۔ وہ فرد کو یہ یقین دلاتا ہے کہ خدا اس کا خالق اور مالک ہے۔ وہ فرد کو خدا کی عظمت کے احساس میں سرشار کردیتا ہے۔ وہ انسان کی پوری شخصیت کو خدا کے رنگ میں رنگ دیتا ہے۔ وہ انسان کے فکر اور احساس کا کامل رہنما بن جاتا ہے۔ ایسا انسان خدا کو یاد کرنے والا بن جاتا ہے۔ وہ خدا کی پکڑ سے بچنا چاہتا ہے اور خدا کے انعام کا حریص بن جاتا ہے۔ توحید کا عقیدہ انسان کی داخلی شخصیت میں اِس طرح بھونچال بن کر داخل ہوتا ہے کہ وہ اس کی پوری زندگی کو ہِلا دیتا ہے۔ وہ خدا کو اپنا سب کچھ بنا لیتا ہے۔ اس کا جینا اور مرنا خدا کے لیے بن جاتا ہے۔ اس کی پوری زندگی خدا رخی زندگی (God-oriented life) بن جاتی ہے۔
دین کا اصل نشانہ حکومتِ الٰہیہ نہیںہے۔ دین کااصل نشانہ معرفتِ الٰہیہ ہے۔ انسان خدا کی معرفت حاصل کرے۔ اس کو سچائی کا عرفان ہوجائے۔ اُس کی روح خدا کی دریافت سے چمک اُٹھے۔ اُس کی شخصیت کامل طورپر عارفانہ شخصیت بن جائے۔ یہی دین کا اصل مقصود ہے۔ اس اعتبار سے دین کا اصل نشانہ فرد ہے، نہ کہ اجتماع۔
سیاسی اقتدار کی حیثیت اسلام میں مطلوب ثانوی کی ہے نہ کہ مطلوبِ اول کی۔ اِسی لیے قرآن میں اُس کی بابت یہ الفاظ آئے ہیں: وَأخریٰ تحبونہا ، نصرمن اللہ وفتح قریب (الصف)
معرفتِ خداوندی کے دو درجے ہیں۔ ایک روایتی معرفت، اور دوسرے علمی معرفت۔ قبل سائنسی دَور میں انسان کے لیے روایتی معرفت ممکن ہوتی تھی۔ بعد سائنسی دور میں انسان کے لیے علمی معرفت ممکن ہوگئی۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو ایک حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: مثل امتی کمثل المطر لا یدریٰ اولہ خیر ام آخرہ (میری امت کی مثال بارش جیسی ہے، نہیں معلوم کہ اُس کا پہلا دَور زیادہ اچھا ہے یا اُس کا دوسرا دَور زیادہ اچھا۔
واپس اوپر جائیں

خدا اور انسان

اِنتھراپالوجی ایک ڈسپلن ہے۔ اس ڈسپلن کے تحت انسان کی اسٹڈی کی جاتی ہے۔ انتھراپالوجی کے تحت قدیم ترین معلوم زمانہ سے لے کر اب تک کی تفصیلی اسٹڈی کی گئی ہے۔اِس اسٹڈی کے ذریعہ جو باتیں معلوم ہوئی ہیں ان میں سے ایک اہم بات یہ ہے کہ خدا کا تصور انسان کی فطرت میں نہایت گہرائی کے ساتھ پیوست ہے۔ ہر عورت اور ہر مردپیدائشی طور پر خدا کے تصور کو لے کر اس دنیا میں آتے ہیں۔ وہ شعوری یا غیر شعوری طورپر مجبور ہیں کہ اِس تصور کے ساتھ زندگی گزاریں۔
مزید مطالعہ بتاتا ہے کہ خدا انسان کی ایک لازمی ضرورت ہے۔ انسان ایک توجیہہ طلب حیوان (explanation seeking animal) ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اپنے وجود اور اپنے اِرد گِرد کی دنیا کی توجیہہ کرے۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ خدا کو مانے بغیر اس کی توجیہہ ممکن نہیں۔ اسی طرح انسان اپنی محدودیت کی بنا پر اپنے آپ کو بے سہارا محسوس کرتا ہے۔ اِس احساس کی تلافی بھی صرف خدا جیسی ایک ہستی کو جاننے سے ہوتی ہے۔ تجربہ بتاتا ہے کہ ہر انسان ناتمام خواہشوں (unfulfilled desires) میں جیتا ہے۔ یہ صرف خدا ہے جس کے ذریعہ اس کو تکمیل کی امید ہوسکتی ہے۔ انسان اپنے مخصوص نیچر کی بنا پر یقین (conviction)میں جینا چاہتا ہے۔ اس یقین کا سورس بھی خدا کے سوا اور کوئی نہیں۔
انسان کو اپنی سرگرمیوں کے لیے ایک نشانہ درکار ہے تاکہ وہ مطمئن ہو کر اس کی طرف اپنا سفر جاری رکھے۔ یہ نشانہ بھی اس کو صرف خدا کے عقیدہ کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے۔
مطالعہ بتاتا ہے کہ دنیا کے تمام عورت اور مرد کسی نہ کسی طور پر خداکو مانتے ہیں۔ حتیٰ کہ بظاہر منکرِ خدا (atheist) لوگوں کا بھی یہ حال ہے کہ جب ان پر کوئی کرائسس (crisis) آتا ہے تو وہ بے اختیارانہ طورپر خدا کو پکار اٹھتے ہیں۔ معلوم طورپر اِس معاملہ میں کسی بھی عورت یا مرد کا کوئی استثناء نہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ جب ہر شخص خدا میں عقیدہ رکھتا ہے تو اس کو وہ نتیجہ کیوں نہیں ملتا جو خدا میں عقیدہ رکھنے کی صورت میں ملنا چاہیے۔ خدا کو مانتے ہوئے بھی ہر انسان کا یہ حال ہے کہ وہ ربّانی احساس (divine inspiration) سے محروم ہے۔ اس کوذہنی سکون (peace of mind) حاصل نہیں۔ ہم خداپر یقین رکھتے ہیں (We trust in God) کا بورڈ لگانے والے بھی حقیقی معنوں میں گاڈ میں ٹرسٹ کرنے کی نعمت سے محروم ہیں۔ لوگ خدا کو مانتے ہیں مگر وہ محسوس کرتے ہیں کہ خدا کے ساتھ ان کا ربط(communion) قائم نہیں ہوتا۔ خدا کو ماننے کے باوجود لوگوں کی زندگیوں میںخدا کی رحمت (blessing) کے آثار دکھائی نہیں دیتے۔
اس کا سبب یہ ہے کہ لوگ خدا کے نام پر غیر خدا سے اپنے آپ کووابستہ (associate) کئے رہتے ہیں۔ زبان سے وہ کہتے ہیں کہ ہم خدا کو مانتے ہیں مگر عملاً وہ اپنے آپ کو کسی نہ کسی غیر خدا کے ساتھ وابستہ کیے ہوئے رہتے ہیں۔
کوئی کسی زندہ یا مردہ انسان کو خدا کی جگہ بٹھائے ہوئے ہے۔ کوئی سورج دیوتا (Sun god) اورچاند دیوتا (Moon god) جیسے خداؤں میں اٹکا ہوا ہے۔ کوئی ہیومنزم کے نام پر وہ کر رہا ہے جس کوعہدہ کا خدا سے انسان کی طرف منتقل ہونا کہا جاتا ہے:
Transfer of seat from God to Man
کوئی قانونِ فطرت(law of nature) کو خدا کا بدَل سمجھے ہوئے ہے۔ اِسی طرح کچھ لوگ مانسٹِک(monistic) تصورِ خدا کو لیے ہوئے ہیں۔ جس میں خدا ایک vague اسپرٹ ہوتا ہے نہ کہ کوئی مستقل وجود جس سے ربط قائم کیا جاسکے، وغیرہ۔
اگر آپ اپنے ٹیلی فون پر کسی نمبر کوڈائل کریں اور اتفاق سے غلط نمبر ڈائل ہوجائے تو دوسری طرف سے یہ آواز آئے گی کہ یہ نمبر موجود نہیں: (This number does not exist) ۔ یہی آج لوگوں کا حال ہے۔ وہ خدا کے نام پر ایسی ہستیوںکو پکار رہے ہیں جن کا حقیقت میںکوئی وجود نہیں۔ اِس لیے ان کی ہر پکار کا جواب یہ آرہا ہے کہ یہ خدا موجود نہیں (This god does not exist) ۔
اِس مسئلہ کا حل یہ ہے کہ ہر آدمی اس پورے معاملہ کا از سَرِنو جائزہ لے۔ اگر وہ اس معاملہ میں سنجیدہ ہوگا تو یقینی طورپر وہ اِس نتیجہ پر پہنچے گا کہ اس کو اُس سسٹم آف تھاٹ کو دریافت کرنا ہے جس میں خدا کا تصور اپنی خالص صورت میں آدمی کو مل جائے۔ یہ ہر عورت اور مرد کا مسئلہ ہے۔ ہر عورت اور مرد اعتقادی طورپر کسی نہ کسی خدا کو اپنا خدا بنائے ہوئے ہے۔ مگر خدا کو ماننے کے جو نتائج ہیں وہ اس کو حاصل نہیں۔ ہر انسان اپنے ذاتی تجربہ کے تحت یہ محسوس کرسکتا ہے کہ اس کے لیے مسئلہ خدا پر عقیدہ نہ رکھنے (lack of belief in God) کا نہیں ہے بلکہ عقیدۂ خدا کا نتیجہ نہ ملنے(lack of result of belief in God) کا مسئلہ ہے۔یہ ایک ایسی یونیورسل حقیقت ہے جس کو ہر آدمی اپنے ذاتی تجربہ کے تحت جان سکتا ہے۔
عقیدہ اور نتیجۂ عقیدہ کے درمیان اِس فرق کا ممکن سبب صرف ایک ہی ہوسکتا ہے اور وہ یہ کہ اس نے خدا کے نام پر کسی غیر خدا پر اپنا عقیدہ بنا رکھا ہو۔ ایسی حالت میں فطری طورپر یہ ہوگا کہ عقیدہ کے باوجود آدمی کو عقیدہ کا نتیجہ حاصل نہیں ہوگا۔
بہت سے اسکالرس نے اس مسئلہ پر ریسرچ کی ہے اور اس کا جواب معلوم کیا ہے۔انہی میں سے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ بنگالی ڈاکٹرنِشی کانت چَٹوپادّھیائے ہیں۔ انہوں نے ۱۹۰۴ میں حیدرآباد دکن میں ایک مطبوعہ لکچر میںاپنا دریافت کردہ جواب بتایا تھا۔ وہ یہ کہ’’ اِس معاملہ میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ ساتویں صدی عیسوی سے پہلے جو مذاہب دنیا میں آئے وہ اگر چہ اعتقادی طور پر ایک ہی خدا کو ماننے والے تھے مگر بعد کے زمانہ میں ان کا اوریجنل ٹکسٹ محفوظ نہ رہ سکا۔ ہر مذہب کے ساتھ یہ ہوا کہ اس میں خدا کا تصور تبدیلی کا شکار ہوگیا اور خدا کے معاملہ میں ان مذاہب کی اوریجنل تعلیم محفوظ نہ رہ سکی۔
ساتویں صدی کے رُبع اول میں اسلام کا ظہور ہوا۔اسلام بھی اگر چہ دوسرے مذاہب کی طرح ایک مذہب تھا لیکن اسلام کی امتیازی صفت یہ ہے کہ اس کا اوریجنل ٹکسٹ پوری طرح محفوظ رہا۔ اس لیے اب بعد کی جنریشن کے لیے خدا کے درست عقیدہ کو جاننے کا معتبر ماخذ صرف اسلام رہ گیا ہے۔ جو آدمی اس معاملہ میں سنجیدہ ہو اور خدا کے معاملہ میں درست عقیدہ کو جاننا چاہے اس کے لیے اب اسلام کے سوا کوئی دوسراانتخاب (choice) موجود نہیں‘‘۔
قرآن واحد محفوظ کتاب ہے۔قرآن کے مطابق، خدا ایک ہے۔ وہی انسان اور کائنات کا خالق اور مالک ہے۔ وہ پورے عالم کاقَیّوم (Sustainer) ہے۔ خدا ایک زندہ ہستی ہے۔وہ دیکھنے اور سننے والا ہے۔ ہر لمحہ اور ہر جگہ انسان کے لیے ممکن ہے کہ وہ خدا سے بر اہِ راست کنٹیکٹ کرسکے۔ خدا اپنی بے پناہ طاقتوں کے ساتھ انسان کی ہر کمی کی تلافی کرنے والا ہے۔ خدا قبل از موت دَور(pre-death period) اوربعد از موت دَور (post-death period) دونوں مرحلہ میں انسان کا مددگار ہے۔ خدا انسان کے لیے پیس اورسکون کا اتھاہ خزانہ ہے۔ خدا ہر معاملہ میں انسان کو اپنے پیغمبروں کے ذریعہ ہدایت فراہم کرتا ہے۔
خدا کی صفت یہ ہے کہ وہ انسان کا خالق(Creator) اور اس کا قیوم (Sustainer) ہے۔ اِس بنا پر ایسا ہے کہ خدا انسان کی ماہیت کو پوری طرح جانتا ہے۔ وہ انسان کی ضرورتوں سے آخری حد تک باخبر ہے۔ اِس بنا پر خدا ہی اِس قابل ہے کہ وہ انسان کے معاملہ کو سمجھے اور اُس کو وہ سب کچھ دے سکے جس کی انسان کو ضرورت ہے۔یہی اکیلا خدا انسان کا خدا بن سکتا ہے۔ اس کے سوا کسی مفروضہ ہستی کو یہ طاقت حاصل نہیں کہ وہ انسان کی اس ضرورت کو پورا کرسکے جس کو خدا کہا گیاہے۔
قرآن اسی خدا کا مستنَد تعارف ہے۔ قرآن واحد ماخذ ہے جس کے ذریعہ کوئی شخص خدا کے بارے میں قابلِ اعتماد تعارف حاصل کرسکے ۔
مِلْیَنز اور ملینز انسانوں نے اپنے ذاتی تجربہ کے تحت اِس بات کی گواہی دی ہے کہ انہوں نے قرآن کا مطالعہ کیا اوراس میں انہوں نے خدا کا وہ تعارف حاصل کیا جو ان کی فطرت تلاش کررہی تھی۔ انہوں نے اِس بات کا اقرار کیا ہے کہ خدا کے دوسرے تصورات ان کی اندرونی طلب کا جواب نہیں بن رہے تھے۔ مگر جب انہوں نے قرآن میں دیے ہوئے تصورِ خدا کو جانا تو ان کا دل پکار اٹھا کہ یہی ان کا وہ مطلوب خدا ہے جس میں ان کی شخصیت کے لیے کامل (fulfilment) موجود ہے۔
ہر زمانہ کا انسان اپنی فطرت کے تحت خدا کا طالب تھا۔ ہر زمانہ کے مذاہب انسان کو اس کی طلب کے مطابق خدا کا علم دیتے رہے۔ مگر قدیم زمانہ میں کتابوں کے لکھنے اور اس کو محفوظ رکھنے کا بے خطا نظام نہیں بنا تھا۔ اِس لیے یہ مذہبی کتابیں اپنی اصل حالت میں محفوظ نہ رہیں۔ آخر کار ساتویں صدی کے آغاز میں قرآن کا ظہور ہوا۔ مخصوص اہتمام کی بنا پر یہ ممکن ہوا کہ قرآن اپنی اوریجنل صورت میں مکمل طورپر محفوظ ہو جائے۔ اب جو شخص بھی اپنی زندگی کی تعمیر کا طالب ہو وہ قرآن کا مطالعہ کرکے اس خدا کو دریافت کرسکتا ہے جس کے بغیر کسی انسان کے لیے اپنے مستقبل کی حقیقی تعمیر ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں

اسلام ہر زمانے کے لیے

ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف، لکل آیۃ منہا ظَہَر وبَطن ولکل حد مطلع (مشکوٰۃ المصابیح، رقم الحدیث ۲۳۸) یعنی قرآن سات حرفوں (لہجوں) پر نازل کیاگیا ہے۔ اور ہر حد کے لیے ایک مطلع ہے۔
اس حدیث میںظہرِ آیت اور بطنِ آیت کے لفظوں میںجو بات کہی گئی ہے اس کا ایک پہلو غالباً یہ ہے کہ ظہرِ آیت سے مراد زمانی رعایت ہے اور بطنِ آیت سے مُراد اَبدی رعایت۔ قرآن ایک خاص زمانے میں اُترا۔ لیکن جیسا کہ معلوم ہے، قرآن ہر زمانہ کے لحاظ سے ہدایت کی کتاب ہے۔ اس بنا پرقرآن میں دونوں پہلوؤں کی رعایت ہے، زمانی پہلو کی بھی اور ابدی پہلو کی بھی۔ اس معاملہ کی ایک مثال یہاں درج کی جاتی ہے۔
قرآن کی سورہ نمبر ۸ میں اہل ایمان کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے: واعدوا لہم مااستطعتم من قوۃ ومن رباط الخیل ترہبون بہ عدواللہ وعدوکم (الانفال ۶۰) یعنی اور ان کے لیے جس قدر تم سے ہوسکے تیار رکھو قوت اور پَلے ہوئے گھوڑے کہ اس سے تمہاری ہیبت رہے اللہ کے دشمنوں پر اور تمہارے دشمنوں پر۔
اِس آیت میں خَیل (گھوڑے) کا لفظ زمانی رعایت کے اعتبار سے ہے اور اِرہاب (خوف دِلانا) کا لفظ ابدی پہلو کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ’’ اعداد قوت‘‘ کا اصل معیار اس کے اندر اِرہاب کی صفت ہونا ہے۔ قدیم زمانہ میں جنگی گھوڑے کے اندر اِرہاب کی صفت ہوتی تھی۔ مگر موجودہ زمانہ میں یہ صفتِ ارہاب دوسری چیزوں میں پیدا ہوگئی ہے۔ مثلاً سائنس اور ٹیکنالوجی۔ اس لیے موجودہ زمانہ میں اِس آیت کی تعمیل، گھوڑوں کی فراہمی نہ ہوگی بلکہ یہ ہوگی کہ جو چیز آج کی قوتِ مُرہِبَہ ہو اس کو حاصل کیا جائے۔
یہی دو طرفہ خصوصیت قرآن کی دوسری اکثر آیتوں میں پائی جاتی ہے۔ قرآن میں ایک اعتبار سے ہم عصر اہلِ ایمان کے لیے رہنمائی تھی، دوسرے اعتبار سے بعد کے اہلِ ایمان بھی اُس کی آیتوں میں تدبر کر کے اپنے لیے واضح رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں۔ اسی بنا پر حدیث میں قرآن کے بارے میں آیا ہے کہ : لا تنقضی عجائبہ (الدارمی، فضائل القرآن، الترمذی، ثواب القرآن) اس معاملہ کی مزید وضاحت کے لیے یہاں چند مثالیں درج کی جاتی ہیں۔
۱۔ قرآن کی سورہ نمبر ۲ میں ارشاد ہوا ہے: کم من فئۃ قلیلۃ غلبت فئۃ کثیرۃ، بإذن اللّٰہ (البقرۃ ۲۴۹) یعنی کتنی ہی چھوٹی جماعتیں اللہ کے حکم سے بڑی جماعتوں پر غالب آئی ہیں۔ مفسرین نے اس آیت کی جو تشریح کی ہے اس کے اعتبار سے اس میں اُس فرق کو بتایا گیا ہے جو جنگ کے موقع پر مقاتلین کے درمیان ہوتا ہے۔مثلاً اصحابِ طالوت اور اصحابِ بدر کے مقابلہ میںاُن کے اَعداء کی تعداد ۔
قرآن کی اِس آیت میں جس اُصول کو بتایا گیا ہے اس کا ایک عصری مفہوم بھی ہے۔ اس اعتبار سے یہ آیت جدید زمانہ تک کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔موجودہ زمانہ میں ایک نئی تبدیلی وقوع میںآئی ہے۔ پہلے زمانہ میں طاقت کا ذریعہ صرف ایک چیز ہوتی تھی اور وہ سیاسی اقتدار ہے۔ سیاسی طاقت کا انحصار فوجی طاقت پر ہوا کرتا تھا۔ موجودہ زمانہ میں یہ صورتِ حال بدل گئی ہے۔ اب سیاسی اقتدار کے علاوہ ایک اور چیز ظہور میںآئی ہے جس کو ادارہ (institution) کہا جاتا ہے۔ موجودہ زمانہ میں بے شمار قسم کے ادارے بنانا ممکن ہوگیا ہے۔ یہ غیر سیاسی ادارے اتنے طاقتور ہوتے ہیں کہ وہ خود سیاسی اقتدار کو اپنے زیرِ اثر کرلیتے ہیں۔
واقعات بتاتے ہیں کہ مو جودہ زمانہ میں اقلیتیں اداروں پر قابض ہوکر حکومت تک کو اپنے اثر میں لے لیتی ہیں۔ اقلیتی گروہ ان مواقع کو استعمال کرکے اکثریتی گروہ کے اوپر چھا جاتا ہے۔ اس کی ایک مثال امریکا میں مقیم یہودیوں کی ہے۔ وہ اپنے غیر سیاسی اداروں کی طاقت ہی کے ذریعہ وہاں کے سیاسی اقتدار کو مغلوب کیے ہوئے ہیں، نہ کہ معروف معنوں میں کسی سازش کے ذریعہ۔
۲۔ قرآن کی سورہ نمبر ۹ میں اہلِ ایمان کے معاملہ کو اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: قل ہل تربصون بنا الّا احدی الحسنیین (التوبہ ۵۳) یعنی کہو تم ہمارے لیے صرف دو بھلائیوں میں سے ایک بھلائی کے منتظر ہو۔ اس آیت میں ایک اہم اصول بیان کیا گیا ہے۔آیت کے ابتدائی مصداق کے اعتبار سے اس کاتعلق زمانی حالات سے ہے لیکن آیت کے وسیع انطباق کے لحاظ سے اس کا تعلق ابدی ہوجاتا ہے۔
قدیم مفسرین نے اس آیت میں دو بہتر انجام سے، غنیمت اور شہادت یا فتح اور شہادت مراد لیاہے۔اس تفسیر کے مطابق، یہ آیت جنگی حالات سے متعلق ہوجاتی ہے۔ مگر وسیع تر مفہوم کے اعتبار سے اِس کا تعلق پُر امن حالات سے بھی ہے، فردکے لیے بھی اور اجتماع کے لیے بھی۔ مثلاً ایک شخص انڈیا سے امریکا جاتا ہے۔ وہاں لمبی مدت تک کوشش کے باوجود اس کو اقامتی ویزا نہیں ملتااور اس کو اپنے وطن واپس آنا پڑتا ہے۔ اس سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اِحدَی الحُسنَیَیْن کے اصول کے مطابق، تم کو دو میں سے ایک بہتر چیز ملی۔ تم اگر چہ ویزا حاصل نہ کرسکے مگر تم کو اِس دوران مغربی دنیا کا تجربہ ہوا، اور یہ تجربہ یقینا ویزا سے کم نہیں۔
۳۔ قرآن کی سورہ نمبر ۴ میں قدیم مکہ کے اہل ایمان کو ہجرت کا حکم دیا گیا تھا۔ فرشتوں کی زبان سے یہ جملہ نقل کیا گیاہے: الم تکن أرض اللہ واسعۃ فتہاجروا فیہا (النساء ۹۷) یعنی کیا خدا کی زمین کُشادہ نہ تھی کہ تم وطن چھوڑ کر وہاں چلے جاتے۔ ہجرت کا یہ حکم قرآن کی دوسری سورتوں میں بھی مختلف الفاظ میں آیا ہے۔
دورِ اول میں جب یہ آیتیں اُتریں اُس وقت ہجرت سے مراد ہجرتِ مکانی ہوتا تھا۔چنانچہ بہت سے لوگوں نے اس حکم پر عمل کیا۔ مگر موجودہ زمانہ میں ہجرتِ مکانی کا طریقہ زیادہ قابل عمل نہیں رہا ہے۔ تاہم موجودہ زمانہ میں بھی یہ اُصول اپنی حقیقت کے اعتبار سے بدستور باقی ہے۔ مثلاً کسی ملک کے مسلمان اگر سیاسی سرگرمیوں کی بنا پر وہاں کی حکومت کے عِتاب کا شکار ہورہے ہیں تو اُن سے یہ کہا جائے گا کہ تم اِس عتاب کا شکار صرف اس لیے ہورہے ہو کہ تم نے اپنے ملک کی حکومت سے متشددانہ قسم کا سیاسی ٹکراؤ جاری کررکھا ہے۔ تم سیاست کا میدان چھوڑ کر غیر سیاسی میدان میں آجاؤ اور پُر امن تعمیری کام کرو۔ قدیم ہجرت اگر جغرافی ہجرت تھی تو یہ دوسری ہجرت میدان کار کے اعتبار سے ہجرت قرار پائے گی۔ اِس طرح ہجرت کا اُصول آج بھی پوری طرح قابل عمل بن جاتا ہے۔
یہاں یہ اضافہ کرنا ضروری ہے کہ قدیم زمانہ میں جو حالات تھے اُن میں صرف مکانی ہجرت ہی قابل عمل ہوتی تھی۔ اُس زمانہ میں میدانِ کار کے اعتبار سے ہجرت کا کوئی امکان نہ تھا۔ مگر موجودہ زمانہ میں نئے حالات اور نئے مواقع کے ظہور کے بعد میدانِ کار کے اعتبار سے ہجرت ایک عظیم تصور بن چکا ہے۔آج سیاسی اعتبار سے مغلوب مسلمان میدانِ کار کی تبدیلی کے ذریعہ وہ سب کچھ اپنے لیے حاصل کرسکتے ہیں جس کے لیے انہوں نے سیاسی ٹکراؤ کا راستہ اختیار کیا تھا۔
۴۔ قرآن کی سورہ نمبر ۲۴ میںآداب ملاقات کو بتاتے ہوئے حکم دیاگیا ہے کہ : ائے ایمان والو، تم اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہو جب تک اجازت حاصل نہ کرلو اور گھر والوں کو سلام نہ کرلو۔ یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔ تاکہ تم یاد رکھو (النور ۲۷) اس آیت میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ کسی کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے داخلہ کی اجازت حاصل کی جائے اور اس کی صورت یہ بتائی گئی کہ دروازہ پر پہنچ کر آدمی بلند آواز سے یہ کہے: السلام علیکم۔ یہ گویا حصول اجازت کا ایک طریقہ ہے اور جب اندر سے اجازت کا اشارہ مل جائے تو اس کے بعد گھر میں داخل ہو۔
اِس آیت کا اصل مدعا ملاقات کے لیے پہلے سے اجازت حاصل کرناہے۔ یہ تعلیم اپنی نوعیت کے اعتبار سے دَوامی ہے۔ اس کے بعد جہاں تک السلام علیکم کہنے کا طریقہ ہے، وہ زمانی نوعیت کی ایک صورت ہے۔ موجودہ زمانہ میں ٹیلی فون اور رابطہ کے دوسرے ذرائع حاصل ہوچکے ہیں۔ اب یہ ضروری نہیں کہ آدمی دروازہ پر کھڑے ہو کر بلند آواز سے السلام علیکم کہے۔ اب آدمی کو چاہیے کہ وہ عصری ذرائع کو استعمال کرے۔ جس سے ملاقات کرنا ہے اس کو ٹیلی فون کرے یا اس کے نام خط بھیجے۔ اس طرح پیشگی اجازت لے کر صاحبِ ملاقات کے پاس جائے۔ یہ گویا اس کے لیے ایک قرآنی حکم کا عصری انطباق ہوگا۔
۵۔ عام طورپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ابتدائی زمانہ میں اسلام کے دو دَور تھے—مکی دَور اور مدنی دَور۔ ہجرت سے پہلے مکی دور کو دعوت کا دور سمجھا جاتا ہے اور ہجرت کے بعد مدنی دور کو جہاد کا دور۔ اس تقسیمی طرز فکر کا نتیجہ یہ ہے کہ مکی دور کی کئی تعلیمات کو مدنی دور پیش آنے کے بعد منسوخ سمجھ لیا گیاہے۔ مثلاً مکہ کے دعوتی دو رمیں صبر اور اعراض اور تالیف قلب اور مدعوگروہ کے ساتھ یک طرفہ حُسن سلوک، وغیرہ۔ مگر مدنی دور میں ان تعلیمات کو منسوخ کرکے فریقِ ثانی سے صرف قتال کا حکم دے دیا گیا۔
ناسخ اور منسوخ کا اصول اسلامی شریعت کا ایک اہم اصول ہے۔مگر یہ حکم حالات کے تابع ہے، یعنی حالات کے بدلنے سے ایک حکم منسوخ قرار پائے گا۔ مگر دوبارہ جب سابقہ حالات پیدا ہوجائیں تو اس وقت منسوخ چیز دوبارہ جائز اور مطلوب ہوجائے گی۔ اس اصول کا لحاظ نہ رکھنے کی وجہ سے اسلام کے بعد کی تاریخ میں بہت بڑا نقصان واقع ہوا ہے۔ شعوری یا غیر شعوری طورپر یہ سمجھ لیا گیا کہ مدنی دور میں جو احکام منسوخ ہوئے تھے وہ ہمیشہ کے لیے منسوخ ہوگئے۔
اِس مفروضہ کی بنا پر یہ ہوا کہ صبر اوراعراض اور تالیفِ قلب اور مدعو کے ساتھ ناصحانہ معاملہ امت کے حافظہ سے عملاً محو ہوگیا ہے۔ اسی کا یہ شدید تر نتیجہ ہوا کہ دعوت الی اللہ کی ذمہ داری بھی عملاً فراموش کردی گئی۔ دعوت ایک ایسا عمل ہے جو صبر اور اعراض اور تالیف قلب اور مدعو کے ساتھ خیر خواہی کا طالب ہے۔ جب یہ اخلاقیات منسوخ قرار پائیں تو فطری طور پر یہ ہوا کہ دعوت کا کام بھی عملی طورپر ایک منسوخ حکم بن گیا۔
اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ بعد کے زمانہ میں جب حدیث اور فقہ کی کتابیں لکھی گئیں اور دوسرے اسلامی موضوعات پر تصنیفات تیار کی گئیں تو ان تمام کتابوں میںدعوت الی اللہ کا باب حذف ہوگیا۔ اب یہ ہوا کہ ان تمام کتابوں میںجہاد اور قتال کا باب تفصیل کے ساتھ شامل کیا گیا۔ مگر پُر امن دعوت کا با ب غالباً کسی بھی کتاب میں درج نہ ہوسکا۔
اس مسئلہ کا حل یہ ہے کہ ناسخ اور منسوخ کو کوئی حتمی حکم نہ سمجھا جائے۔ بلکہ ان کو حالات پر مبنی قرار دیا جائے۔ اس طرح یہ ہوگا کہ ایک طرف دعوت الی اللہ کا متروک عمل زندہ ہوجائے گا اور دوسری طرف امن پر مبنی اقدار دوبارہ اہمیت اختیار کر لیں گی جو کہ جہاد و قتال کے ذہن کی بنا پر عملاً متروک قرار پا گئی تھیں۔
یہ صحیح ہے کہ اسلام کی دعوت و اشاعت کا کام بعد کے زمانہ میں مسلسل جاری رہا ہے اور کثیر تعداد میں لوگ اسلام قبول کرتے رہے ہیں اور اب بھی قبول کررہے ہیں۔ مگر اسلام کی یہ اشاعت اسلام کی اپنی طاقت کی بنا پر ہو رہی ہے نہ کہ مسلمانوں کی کسی باقاعدہ دعوتی جدوجہد کے نتیجہ میں۔
اِس کا راز یہ ہے کہ مذہب انسان کی فطری ضرورت ہے۔ ہر انسان خود اپنی فطرت کے زور پر مذہب کی تلاش میں رہتا ہے۔ مگر صورت حال یہ ہے کہ اسلام کے سوا تمام دوسرے مذاہب تحریف اور تبدیلی کا شکار ہوچکے ہیں۔ اس بنا پر دیگر مذاہب نے فطرتِ انسانی کے ساتھ اپنی مطابقت کھو دی ہے۔ یہی وجہ ہے جو لوگوں کو اسلام کی طرف لے آتی ہے۔ جو آسمان کے نیچے واحد غیر محرَّف مذہب ہے۔ اسلام کی اسی استثنائی صفت نے اُس کے اندر یہ طاقت پیدا کردی ہے کہ وہ کسی باقاعدہ دعوتی عمل کے بغیر لوگوں کے درمیان پھیلتا رہے۔
واپس اوپر جائیں

اسلامی نظام

انیسویں صدی کے نصف آخر میں کمیونسٹ نظریہ پھیلا۔ ۱۹۱۷ میں سوویت یونین میں پہلا کمیونسٹ نظام قائم ہوا۔ اب زیادہ منظم انداز میں اسٹیٹ کی سطح پر کمیونسٹ نظریہ کا پروپیگنڈا پوری طاقت سے ہونے لگا۔ اُس زمانہ میں کمیونزم کا نظریہ اتنا زیادہ پھیلا کہ پروفیسر گالبریتھ کے الفاظ میں: دنیا میں کبھی کسی نظریہ کو اتنا زیادہ فروغ حاصل نہیں ہوا جتنا فروغ کمیونزم کے نظریہ کو حاصل ہوا۔
اس فکری ماحول میں جس طرح دوسرے لوگ متاثر ہوئے اسی طرح مسلمانوں کے بہت سے اہل علم بھی متاثر ہوگئے۔ مثلاً مولانا حسرت موہانی، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، ڈاکٹر محمد اقبال، جمال عبد الناصر، وغیرہ۔ اس ماحول سے متاثر ہوکر مولانا ابو الاعلیٰ مودودی نے اسلام کو نظام کی اصطلاح میں بیان کرنا شروع کیا۔ اُنہوں نے کہا کہ اسلام ایک مکمل اجتماعی نظام ہے اور مسلم ملّت کا یہ فرض ہے کہ وہ اس آئیڈیل انسانی نظام کو دنیا میں قائم کرے۔ ان لوگوں کے نزدیک جہاد کا مقصد یہ تھا کہ وہ انسانی ساخت کے نظاموں کو مغلوب کرے اور ان کی جگہ اسلام کے اعلیٰ نظام کا غلبہ قائم کردے۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ تصور کمیونزم کے رد عمل میں پیدا ہوا۔گویا کہ وہ کمیونزم کا اسلامی ایڈیشن تھا۔ قرآن میں اس کی کوئی بنیاد موجود نہیں۔ حتیٰ کہ پیغمبر اسلام اور خلفائے راشدین کے زمانہ میں بھی ایسا کوئی ’’معیاری نظام‘‘ موجود نہ تھا۔ اگر دین خداوندی کا مقصد دنیا میں معیاری سماجی نظام بنانا ہو تو یہ نشانہ پوری تاریخ میں کبھی کسی پیغمبر کے زمانہ میں پورا نہیں ہوا۔ گویا نظری اور عملی دونوں اعتبار سے یہ تصور ایک غیر ثابت شدہ تصور ہے اور اسی کے ساتھ ناقابلِ عمل بھی۔
قرآن میں جو احکام دیے گئے ہیں وہ زیادہ تر انفرادی نوعیت کے ہیں۔ نہ صرف ایمان اور عملِ صالح بلکہ دوسرے معاملاتی احکام کی نوعیت بھی یہی ہے۔ مثلاً أقیموا الدین، لیقوم الناسُ بالقسط، تامرون بالمعروف وتنہون عن المنکر، وغیرہ بھی اصلاً انفرادی احکام ہیں، نہ کہ حکومت کے ذریعہ نافذ کیے جانے والے احکام۔
یہ صحیح ہے کہ قرآن میں کچھ ایسے قانونی احکام ہیں جو حکومتی معاملات سے تعلق رکھتے ہیں۔ مثلاً چوری، زنا، شراب خوری، قذَف، قتل، وغیرہ۔ مگر اس قسم کے احکام بہت کم ہیں۔ ان احکام کو وضع کرنے کا مقصد ’’معیار ی سماج‘‘بنانا نہیں ہے بلکہ ان کا اصل مقصد یہ ہے کہ سماج میں ضروری نظم برقرار رہے:
It is just to maintain a necessary level of order in society.
اس نقطۂ نظر کا ایک ثبوت یہ ہے کہ معیاری سماج بنانے کے لیے جو نظام مطلوب ہے اس کے کئی انتہائی اہم اجزاء کے بارہ میں اسلام میں کوئی واضح حکم موجود نہیں۔ مثال کے طورپر یہ کہ خلیفہ (حاکم) کا تقرر کس طرح کیا جائے— پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد، عمر بن عبد العزیز کو شامل کرتے ہوئے پانچ ایسے صدر ریاست ہوئے ہیں جن کو متفقہ طورپر خلیفۂ راشد کہا جاتا ہے۔ مگر ان پانچوں کے لیے تقرر کا طریقہ الگ الگ اختیار کیاگیا۔ اسی طرح شوریٰ کے بارہ میں کوئی متعین نظام یا ڈھانچہ اسلام کے دور اول میں موجود نہیں جو نمونہ کی حیثیت رکھتا ہو۔
موجودہ دنیا امتحان کے لیے بنائی گئی ہے۔ یہاں ہمیشہ ہر ایک کے لیے ناموافق حالات موجود رہیں گے، تاکہ امتحان کے تقاضے کو پورا کیا جاسکے۔ خدائی تخلیق کے مطابق، معیاری دنیا موت کے بعد صرف جنت میں بنے گی۔ موجودہ دنیا میں انسان کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس قابل بنائے کہ اس کو اگلے دورِ حیات میں بننے والی معیاری دنیا (جنت)میں داخلہ مل سکے۔ موجودہ دنیا میں معیاری سماجی نظام بنانے کی کوشش کرنا گویا جنت کو موجودہ دنیا ہی میں تعمیر کرنا ہے جو خدائی نقشہ کے مطابق، سرے سے ممکن ہی نہیں۔ خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد مدینہ میں اس کے سابقہ نظام کو علیٰ حالہٖ فتح مکہ تک باقی رکھا۔
سماجی نظام کے بارہ میں اسلام کا تصور یہ ہے کہ اگر ایسا نظام عملاً موجود ہو جو اہلِ ایمان کے لیے کوئی مسئلہ پیدا نہ کرے تو اُس سے ٹکراؤ نہیں کیا جائے گا۔ اُس کو عملاً تسلیم کرتے ہوئے اُس کے تحت افراد اور ادارہ کی سطح پر اسلام کی پیروی جاری رکھی جائے گی۔ یہی وجہ ہے جس کی بنا پر حضرت یوسف نے اپنے وقت کے مشرک بادشاہ سے ٹکراؤ نہیں کیا۔ کیوں کہ وہ ایک عادل بادشاہ تھا اور اس کے تحت وہ توحید کے تقاضے پورے کرتے ہوئے رہ سکتے تھے۔ اسی طرح پیغمبر اسلام کے اصحاب مکی دور کے آخر میں مکہ سے ہجرت کرکے حبش گئے۔ اس وقت وہاں ایک عیسائی بادشاہ کی حکومت تھی۔ اصحابِ رسول نے اس سے ٹکراؤ نہیں کیا۔ کیوں کہ وہ ایک عادل بادشاہ تھا اور اس نے لوگوں کو مذہبی آزادی دے رکھی تھی۔
یہ تصور کہ اسلام ایک معیاری سماجی نظام ہے اور اس کو دنیا میں عملاً قائم کرنا امت ِ مسلمہ پر فرض ہے، یہ نظریہ اسلام کے اصل مقصد کے خلاف ہے، وہ اسلام کے نشانہ کو بدل دینے والا ہے۔ اسلام کا اصل نشانہ یہ ہے کہ ہر فرد خدا کی معرفت حاصل کرے۔ ہر فرد عبادت اور اخلاقیات میں ربّانی بنے۔ ہر فرد فلاحِ آخرت کو اپنا ہدف بنائے۔ مگر مذکورہ نظریہ آخرت کے بجائے دنیا کو آدمی کا نشانہ بنادیتا ہے۔ وہ تعمیر آخرت کے بجائے تعمیر دنیا کو اپنی منزل مقصود سمجھ لیتا ہے۔ اسلام ایک ربّانی مذہب ہے۔ مگر مذکورہ تصور اسلام کو ایک مادّی اور سیاسی مذہب میں تبدیل کردیتا ہے۔
اسلام کا اصل مقصد یہ ہے کہ آدمی خدا کو دریافت کرے۔ وہ اپنے اندر ربانی شخصیت کی تعمیر کرے۔ وہ اپنے روز مرہ کے واقعات میں حقیقتِ اعلیٰ کی جھلکیاں دیکھنے لگے۔ وہ دنیا کی زندگی کو فتنہ (آزمائش) اور آخرت کی زندگی کواصل مطلوب سمجھنے لگے۔ جو آدمی اس قسم کا ذہن رکھتا ہو اس کے لیے موجودہ دنیا میں معیاری قسم کا سماجی اور سیاسی نظام بنانا ایسا ہی ہے جیسے کہ ٹرین کا کوئی مسافر کسی پلیٹ فارم پر اپنی پسند کا گھر بنانے لگے۔
قرآن میں جنت کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے: لِمثل ہذا فلیعمل العاملون (الصافات ۶۱) اسی طرح حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: لا عیشَ الا عیش الآخرۃ (صحیح البخاری، کتاب الرقاق، باب ما جاء فی الرِقاق، وأن لا عیش الاّ عیش الآخرۃ)
اس طرح کی تعلیمات قرآن وحدیث میں کثرت سے آئی ہیں۔ ان تعلیمات سے ایک شخص کے اندر جو ذہن بنتا ہے وہ مذکورہ نظامی تصور سے مطابقت نہیں رکھتا۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ مذکو رہ قسم کا نقطۂ نظر آدمی کو ایک قسم کا ’’اسلامی کمیونسٹ‘‘ بناتا ہے۔ وہ حقیقی معنوں میں اسلامی شخصیت کی تعمیر نہیں کرتا۔
اس فرق کو بتانے کے لیے ربانی اسلام اور سیاسی اسلام کا لفظ استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ربانی اسلام آدمی کے اندر معرفتِ خداوندی کا ذہن بناتا ہے۔ وہ آدمی کے اندر احتسابِ خویش کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ وہ جنت کے تصور میںجینے لگتا ہے۔ اُس کے صبح وشام آخرت کی یادوں میں بَسر ہونے لگتے ہیں۔ وہ دنیا کی کامیابی کو غیر اہم اور آخرت کی کامیابی کو اہم سمجھنے لگتا ہے۔ وہ دنیا کو صرف بقدر ضرورت لینا چاہتا ہے اور آخرت کو بقدرِ شوق۔ اُس کی نظر میں دنیا کی کامیابی غیر اہم بن جاتی ہے اور آخرت کی کامیابی اہم ۔
اس کے برعکس ذہن وہ ہے جو سیاسی اسلام کے نظریہ کے تحت تیار ہوتا ہے۔ ایسے آدمی کی سوچ سیاسی سوچ ہوتی ہے۔ سیاسی اور حکومتی چیزیں اس کی توجہ کا مرکز بن جاتی ہیں۔ سیاسی نوعیت کی چیزیں شعوری یا غیر شعوری طورپر اس کے لیے اولین بن جاتی ہیں اور ربانی نوعیت کی چیزیں عملاً ثانوی حیثیت اختیار کرلیتی ہیں۔ عبادت کے معاملہ میں وہ صرف اس کے ظاہری فارم پر قناعت کرلیتا ہے۔ اس کے اخلاق سیاسی مصلحتوں کے تابع ہوجاتے ہیں۔ تقویٰ اور خشیت اور اخباط اور تضرع جیسی چیزیں اس کے مزاج کے اعتبار سے اجنبی چیزیں بن جاتی ہیں۔ ایسے لوگوں کی مجلس میں اگر آپ بیٹھیں تو آپ کو زیادہ تر سیاسی باتیں سننے کو ملیں گی، نہ کہ ربّانیت اور للِّٰہیت کی باتیں۔
اسلام کا اصل مقصد فرد بنانا ہے، نہ کہ سماجی اور حکومتی نظام بنانا ۔ جس سماج میں افراد قابل لحاظ تعداد میں تیار ہوجائیں وہاں یقینا سماجی سطح پر بھی اس کا ظہور ہوگا۔ مگر جہاں تک دعوتی نشانہ کا تعلق ہے، اسلام کا اصل نشانہ تعمیر افراد ہے، نہ کہ سماجی اور حکومتی ڈھانچہ بنانا۔
اسلام کے فکری مطالعہ میں اس کو بطور اصول ماننا ضروری ہے۔ اگر اس کو نہ مانا جائے تو کہنے والا یہ کہہ سکتا ہے کہ کسی بھی پیغمبر نے مکمل نظام کے احکام نہیں بتائے اور نہ کسی بھی پیغمبر نے عملی طورپر اس کا کوئی نمونہ پیش کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس اصول کو ملحوظ نہ رکھنے کی صورت میں تمام پیغمبروں کی تحریک، نعوذ باللہ ، فکری اور عملی دونوں اعتبار سے ناقص اور ناتمام نظر آتی ہے۔
قرآن کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبروں کی تحریک کا اصل مقصد یہ تھا کہ ایسے اعلیٰ افراد کو تیار کیا جائے جو آخرت کی ابدی جنت میں بسائے جانے کے قابل ہوں۔ پیغمبروں کی تحریک کا مقصد یہ نہیں تھا کہ آج ہی لوگوں کے لیے ایک ایسی دنیا بنائی جائے جہاں وہ آخرت اور یوم الحساب سے پہلے ہی اپنے رہنے کے لیے ایک جنت کو حاصل کرسکیں۔
واپس اوپر جائیں

قولِ بلیغ کیا ہے

قرآن کی سورہ نمبر ۴ میںارشاد ہوا ہے : فأعرض عنہم وعظہم وقل لہم فی انفسہم قولاً بلیغا (النساء ۳۶) یعنی تم اُن سے اعراض کرو اور اُن کو نصیحت کرو اور اُن سے ایسی بات کہو جو اُن کے اندر تک پہنچ جانے والی ہو۔
بلیغ کے وہی معنٰی ہیں جو بالغ کے معنٰی ہیں، یعنی پہنچنے والا۔ آیت کی نحوی ترتیب یہ ہے: وقل لہم قولاً بلیغاً فی انفسہم۔ یعنی اُن سے بات کہو اُن کے اندر تک پہنچ جانے والی بات۔ لفظ بدل کر کہا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اُن سے وہ بات کہو جو اُن کے مائنڈ کو ایڈرس کرے، جو اُن کے ذہن کو خطاب کرنے والی ہو۔ جس میں اُن کے فکر واحساس کی پوری رعایت شامل ہو۔
مثلاً مکی دور کی روایات میںآیا ہے کہ ایک بار قریش کے سردار رسول اللہ کے چچا ابو طالب کے مکان پر اکھٹا ہوئے۔ اس موقع پر جو گفتگو ہوئی اس میں آپ نے سردارانِ قریش کے ایک سوال کے جواب میں کہا: کلمۃ واحدۃ تعطونیہا تملکون بہا العرب وتدین لکم بہا العجم (حیاۃ الصحابہ ۱؍۵۶) یعنی میں تم کو ایک حکم کی طرف بلاتا ہوں، تم مجھے یہ کلمہ دے دو، تم اس کے ذریعہ عرب کے مالک بن جاؤ گے اور اس سے عجم تمہارے تابع ہوجائیں گے۔
رسول اللہ کا یہ قول مطلق معنوں میں نہیں ہے۔ یعنی اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کا اصل مقصد یہی تھا کہ آپ عرب و عجم کے اوپر حکومت وسیادت حاصل کریں۔ یہ بات آپ نے سردارانِ قریش کے مزاج کی رعایت کرتے ہوئے فرمائی۔ یہ سردارانِ قریش حاکمانہ نفسیات میں جی رہے تھے، محکومی ان کے لیے خارج از بحث تھی۔اِس لیے اس وقت اِسی قسم کا ایک قول اُن کے مائنڈ کو ایڈریس کرنے والا بن سکتا تھا جو کہ آپ نے فرمایا۔
مذکورہ قولِ رسول کو اس مفہوم میں لینے کا ثبوت یہ ہے کہ دوسرے بہت سے مواقع پر آپ سے اسی قسم کا سوال کیاگیا لیکن آپ نے اس سے مختلف انداز میں سائل کا جواب دیا۔ احادیث کا مطالعہ بتاتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف انداز میں لوگوں کے سوال کا جوا ب دیا ہے۔ یہ اختلاف یا فرق اسی لیے تھا کہ آپ نے ہر ایک سے ایسے اُسلوب میں کلام کیا جو مخاطب کے مائنڈ کو ایڈریس کرنے والا ہو۔
دعوت کے عمل میں قولِ بلیغ کا یہ اُصول بے حد اہم ہے۔ یہ ایک واقعہ ہے کہ لوگوں کے سوچنے کا انداز یکساں نہیں ہوتا۔ ہر ایک الگ الگ انداز سے سوچتا ہے۔ ایسی حالت میں مؤثر دعوتی خطاب وہی ہوسکتا ہے جس میں مخاطب کے ذہن کی رعایت کرتے ہوئے اپنی بات اُس کو پہنچائی جائے۔
مثلاً ایک شخص تلاشِ حقیقت کے سوال سے دوچار ہے تو اُس سے ایسی بات کہی جائے گی جس میں وہ اپنی تلاش کا جواب پارہا ہو۔ اُس وقت اگر کوئی دوسری بات اُس سے کہی جائے تو وہ اُس کو غیر متعلق نظر آئے گی اور وہ اس کو رد کردے گا۔ اسی طرح کوئی شخص روحانی سکون کا طالب ہو تو اُس سے ایسے اُسلوب میں بات کی جائے گی جس میں وہ اپنے داخلی سوال کا جواب پارہا ہو۔ اسی طرح اگر کوئی شخص خالص علمی اور منطقی انداز میں دین کی صداقت کو سمجھنا چاہتا ہو تو اُس سے اُسی اسلوب میں بات کی جائے گی جو اُس کے منطقی طرزِ فکر کو تسکین دینے والی ہو۔ اسی طرح اگر کوئی شخص بعد از موت کے احوال جاننا چاہتا ہو تو اُس کو اُس کی طلب کے مطابق فکری خوراک پہنچائی جائے گی تاکہ وہ محسوس کرے کہ آپ کے جواب سے اُس کا ذہن ایڈرس ہورہا ہے، وغیرہ۔
قولِ بلیغ کے اس اسلوب کا کوئی لگا بندھا طریقہ نہیں ہے۔ اس کے لیے ضرورت ہے کہ داعی کے دل میں خیر خواہی کا جذبہ ہو۔ وہ مخاطب کے ذہن کو اچھی طرح پڑھے اور پھر اُس کے ذہن کی رعایت کرتے ہوئے اُس سے کلام کرے۔ قول بلیغ کے اس اصول کو اپنانے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ داعی پہلے ہی خطاب میں سب کچھ کہہ دینے کا مزاج نہ رکھتا ہو بلکہ وہ تدریجی اصول پر یقین رکھتے ہوئے پہلے خطاب میں پہلی بات کہے اور دوسری باتوں کو اگلے خطاب کے لیے مؤخر کردے۔
قولِ بلیغ وہ ہے جس میں مخاطب کی پوری رعایت کی گئی ہو۔ مخاطب کی رعایت کے بغیر کوئی قول کبھی قولِ بلیغ نہیں بن سکتا۔
واپس اوپر جائیں

صبر وشکر

ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن کا معاملہ بڑا عجیب ہے۔ اس کا ہر معاملہ اس کے لئے خیر ہے۔ اور ایسا مومن کے سوا کسی اور کے لیے نہیں ۔اگر اس کو آرام ملتا ہے تو وہ شکر کرتا ہے۔ پس وہ اس کے لیے خیر بن جاتا ہے۔ اور اگر اس پر مصیبت آتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے۔ پس وہ اس کے لیے خیر بن جاتا ہے:
عن صہیب، قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: عجبًا لأمر المؤمن! إنّ أمرہ کلّہ لہ خیر، ولیس ذالک لأحد إلا للمؤمن، إن أصابتہ سرّاء شکر فکان خیرا لہٗ وإن أصابتہ ضرّاء صبر فکان خیرا لہ (صحیح مسلم، بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح، رقم الحدیث ۵۲۹۷)
The affair of the believer is truly strange. Every situation proves good for him and this is special to a believer alone. If he finds himself in a pleasant situation, he is thankful to God, and that is good for him. If he is faced with unpleasant situation he keeps patience and again that is good for him.
مومن کے ساتھ دو طرفہ خیر کا یہ معاملہ کسی پر اسرار سبب سے نہیں ہوتا ، وہ مکمل طورپر ایک معلوم سبب کے تحت پیش آتا ہے۔ اصل یہ ہے کہ مومن اس انسان کا نام ہے جس کو دریافت کی سطح تک خدا کی معرفت حاصل ہوئی ہو۔ ایسے انسان کے اندر ایک ذہنی انقلاب آجاتا ہے۔ اس کے اندر شعوری بیداری کی صفت پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ معاملات اور تجربات کو حقیقت کی نظر سے دیکھے۔ وہ وقتی جذبات سے بلند ہو کر معاملہ کی گہرائی کو سمجھ سکے۔
مومن اپنی اس حقیقت شناسی کی بنا پر اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ جس تجربہ سے بھی گزرے وہ اس کو مثبت نتیجہ میں تبدیل کرسکے۔ وہ ہر واقعہ میں خدا کی کارفرمائی کو دیکھے۔ وہ ذاتی تجربہ کو خدا کے تخلیقی نقشہ میں رکھ کر دیکھ سکے۔ مومن کی یہی وہ صفات ہیںجو اس کے اندر یہ با معنٰی صلاحیت پیدا کردیتی ہیں کہ اس کو جب خوشی اور راحت کا تجربہ ہو تو وہ سرکش نہ بن جائے۔وہ اس کو خدا کا عطیہ سمجھ کر خدا کی خدائی کا اعتراف کرے۔ اسی اعتراف خداوندی کا نام شکر ہے۔ شکر بلاشبہہ ایک عظیم عبادت ہے۔
تاہم دنیا کی زندگی میں آدمی کو ہمیشہ خوش گوار تجربے نہیں ہوتے۔ بار بار ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کو ناخوش گوار تجربات سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس وقت مومن کی شعوری بیداری اس کو اس سے بچا لیتی ہے کہ وہ اس پر شکایت یا فریاد کرنے لگے۔ وہ ناخوش گوار تجربہ کو خدا کے تخلیقی نقشہ کے مطابق سمجھتا ہے۔ وہ ناخوش گوار تجربہ کو ایک فطری عمل سمجھ کر اس سے یہ یقین حاصل کرتا ہے کہ یہ ایک وقتی چیز ہے۔ حالات یقینا بدلیں گے اور وہ جلدہی مجھ کو زیادہ بہترزندگی عطا کریں گے، خواہ آج کی دنیا میں یا آج کے بعد بننے والی دوسری ابدی دنیا میں۔
حقیقت یہ ہے کہ صبر بھی شکر ہی کی ایک صورت ہے۔ ناخوش گوار صورت حال کو رضامندی کے ساتھ قبول کرنا اور اس کو خدا کی طرف سے آیا ہوا مان کر مثبت ذہن کے تحت اس کا استقبال کرنا یہی صبر ہے۔ اور یہ صبر ہمیشہ شاکرانہ قلب سے ظاہر ہوتا ہے۔ ناشکری سے بھرا ہوا دل کبھی صبر کا ثبوت نہیں دے سکتا۔
واپس اوپر جائیں

عورت اور مرد کے دماغ کا فرق

موجودہ زمانہ میں انسانی دماغ پر بہت زیادہ ریسرچ کی گئی ہے اور نئے نئے حقائق دریافت ہوئے ہیں۔ اس موضوع پر امریکی ماہرین کی ایک ٹیم کی سروے رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ اس ریسرچ میں برین اسکیننگ کی جدید ٹیکنیک (FMRI) استعمال کی گئی تھی۔ اس کا مقصد یہ جاننا تھا کہ جب ان کو کچھ بتایا جائے یا پڑھ کر سنایا جائے تو ان کے دماغ میں کس قسم کی اعصابی حرکات ہوتی ہیں:
Using a brain scanning technique called Functional Magnetic Resonance Imaging (FMRI) the work does highlight the differences in natural activity between men and women listening to something read aloud.
اِس ریسرچ کے ذریعہ یہ معلوم ہوا ہے کہ مرد اپنے دماغ کے صرف ایک جانب سے سنتے ہیں جب کہ عورتیں اپنے دماغ کے دونوں سمت کو استعمال کرتی ہیں:
Research released Tuesday shows that men listen with one side of their brains, while women use both sides.
اس ریسرچ میں ۱۰ تندرست مرد اور ۱۰ تندرست عورتوں پر تجربات کئے گئے۔ اس ریسرچ سے معلوم ہوا کہ مرد اور عورت کے دماغ یقینی طورپر یکساں نہیں ہیں:
They are difinitely not the same — in size, sense or sensibilities (p.1)
Loss Angeles Times, Loss Angeles, Nov. 29, 2000
یہ ریسرچ بتاتی ہے کہ عورت اور مرد کے اس دماغی فرق کی بنا پر دونوں کے دیکھنے اور سننے میں فرق ہوجاتا ہے۔ مرد اپنے دماغی بناوٹ کی بنا پر ایسا کرتا ہے کہ وہ کسی ایک چیز پر فوکس کرسکے، وہ کسی ایک چیز کو زیادہ مُرَکَّز انداز میں دیکھے۔ اس کے مقابلہ میں عورت کی دماغی بناوٹ کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ اس کا فوکس پھیل جاتا ہے۔ وہ بیک وقت مختلف چیزوں کو دیکھتی اور سنتی ہے۔ مرد کا مرکز توجہ ایک چیزہوتی ہے اور عورت کا مرکز توجہ کئی چیزیں۔
عورت اور مرد کے دماغ کا یہ تخلیقی فرق بے حد اہم ہے۔ اس کا یہ فائدہ ہے کہ عورت اور مرد دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہوئے زیادہ بہتر طورپر زندگی گزاریں۔ وہ ایک دوسرے کی کمیوں کی تلافی کرتے ہوئے زندگی کو زیادہ مفید اور بامعنٰی بنا سکیں۔
اس ریسرچ سے اس بات کا بھی جواب ملتا ہے کہ اسلام میں عورت اور مرد کی گواہی کے درمیان فرق کیوں رکھا گیا ہے۔ جیسا کہ قرآن میںارشاد ہوا ہے: اور تم اپنے مردوں میں سے دو آدمیوں کو گواہ کرلو۔ اور اگر دومرد نہ ہوں تو پھر ایک مرد اور دو عورتیں، ان لوگوں میں سے جن کو تم پسند کرتے ہو، تاکہ اگر ایک عورت بھول جائے تو دوسری عورت اس کو یاد دلا دے (البقرہ ۲۸۲)
مذکورہ دریافت کے مطابق، عورت اور مرد کے درمیان اس فرق کا سبب یہ ہے کہ دونوں کے دماغ کی بناوٹ میں فرق ہے۔ مرد کا دماغ سنگل فوکس مائنڈ (uni-focal mind) ہے۔ اس کے مقابلہ میں عورت کا دماغ پیدائشی طورپر ملٹی فوکس مائنڈ(multi focal mind) ہے۔
اس فرق کی بنا پر ہمیشہ یہ امکان رہے گا کہ جس واقعہ کی گواہی دینا ہے اُس واقعہ کو مرد کے دماغ نے اپنی پوری صورت میں رجسٹر کیا ہو۔ جب کہ عورت کے معاملہ میں یہ امکان ہے کہ مختلف فطری بناوٹ کی بنا پر کسی ایک عورت کے دماغ نے واقعہ کو اس کے تمام اجزاء کے ساتھ رجسٹر نہ کیا ہو۔ ایسی حالت میں دو عورتوں کو گواہ بنانے میں یہ حکمت ہے کہ اگر واقعہ کا ایک پہلو ایک عورت سے چھوٹ جائے تو دوسری عورت اس کی تلافی کردے۔
یہی وہ حقیقت ہے جس کو قرآن کی مذکورہ بالا آیت میں بیان کیا گیا ہے۔ سائنسی تحقیق کے مطابق، قرآن کا یہ حکم صرف ایک حکم نہیں رہتا بلکہ وہ خود فطرت کا ایک اصول بن جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

اجتماعی معاملات

زندگی کے معاملات دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جن کا تعلق مسلمانوں اور مسلمانوں کے باہمی معاملات سے ہو۔ دوسرا وہ جس کا تعلق مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان معاملات سے ہو۔ جو معاملات مسلمانوں اور مسلمانوں کے باہمی معاملات سے تعلق رکھتے ہوں ان کے فیصلہ کی بنیاد ہمیشہ کے لیے صرف ایک ہے، اور وہ قرآن اور سنت ہے۔ اس قسم کے باہمی معاملات میں مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ ابدی طورپر قرآن و سنت سے رہنمائی حاصل کریں اور جو کچھ وہاں سے ملے اُس پر دل کی رضامندی کے ساتھ قائم ہوجائیں (النساء: ۶۵۔۶۴)۔
معاملات کی دوسری قسم وہ ہے جو مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان پیش آنے والے مسائل سے تعلق رکھتی ہے۔ اس دوسرے قسم کے معاملات میں فیصلہ کی بنیاد وہ ہوگی جو دونوں کے لیے قابل قبول ہو۔ دوسرے لفظوں میں، اس کو اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان معاملات میں فیصلہ کی بنیاد وہ بین اقوامی معیارات (international norms) ہوں گے جو کسی زمانہ میں رائج ہوجائیں ۔
مثال کے طورپر، ایک ایسے سماج کو لیجئے جس میں کئی مذاہب کے ماننے والے ہوں۔ ایسے سماج میں باہمی تعلقات کی بنیاد وہ ہوگی جو ہر ایک کے لیے یکساں طورپر قابل قبول ہو۔ یہ بنیاد صرف ایک ہے، اور وہ ہے باہمی احترام(mutual respect) ۔ اسی اصول کو قرآن میں ان الفاظ میں بتایا گیا ہے: لکم دینکم ولی دین (الکافرون )۔ یعنی تمہارے لیے تمہارا دین اور میرے لیے میرادین۔
اسی طرح مثال کے طورپر قدیم زمانہ میں مسلم حکومتوں کے تحت رہنے والے غیر مسلموں کو ذمّی کہاگیا اور ان پر جزیہ عاید کیاگیا۔ اب موجودہ زمانہ میں اگر اسلامی ریاست قائم ہو تو اس میں ایسا نہیں کیا جائے گا۔ بلکہ اس معاملہ میںاُسی بین اقوامی معیار کو اختیار کر لیا جائے گا جو آج کی دنیا میں عالمی سطح پر تسلیم کرلیا گیا ہے۔
یہ اصول پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سنت سے ثابت ہوتا ہے۔ آپ کے زمانہ میں یمن کے علاقہ میںایک مُدَّعیِ نبوت ظاہر ہوا۔ اس کو تاریخ کی کتابوں میں مُسَیلمہ کَذّاب کہا جاتا ہے۔ اُس نے اپنی طرف سے دو رُکنی وفد مدینہ بھیجا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ پیغام دیا کہ آپ میری نبوت کو تسلیم کریں۔ اُس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر یہ عالمی رواج نہ ہوتا کہ سفیر قتل نہیں کیے جاتے تو میں تم دونوں کی گردن مار دیتا (لولا ان الرسل لا تقتل لضربت اعناقکما)
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول سے یہ اصول مستنبط ہوتا ہے کہ کسی اجتماعی معاملہ میں جو بین اقوامی اصول ہو وہی اُصول اسلامی ریاست میںبھی تسلیم کرلیا جائے گا۔ اس طرح کے معاملات میں اسلام میں بھی اُسی معیار کو مان لیا جائے گا جو کسی زمانہ میں بین اقوامی طور پر مسلّمہ معیار بن چکا ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ بین اقوامی معاملات میں اس کے سوا کوئی اور قابل عمل اُصول نہیں۔ مسلمان دنیا میں اپنا کوئی علیٰحدہ سیاسی جزیرہ نہیں بنا سکتے۔ بین اقوامی زندگی کا نظام باہمی احترام اور باہمی رضامندی کے اُصول پر چلتا ہے۔ یہ اُصول جس طرح دوسری قوموں کے لیے قابل قبول ہے اُسی طرح وہ اسلام کے لیے بھی قابل قبول ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ سنت کا تعلق محدودطورپر صرف سفیر کے معاملہ سے متعلق نہیں ہے بلکہ وہ ایک عمومی اُصول ہے۔ اس سنت میںایک ایسی رہنمائی ملتی ہے جس کی روشنی میں تمام بین اقوامی معاملات کو قائم کیا جاسکے۔
واپس اوپر جائیں

قیادت کا مسئلہ

قائد خدا پیداکرتاہے۔ مگر قائد کو قائد ماننا انسان کا کام ہے۔ خدا کے تخلیقی نظام کے مطابق، کسی گروہ کے لیے کوئی ایسا وقت نہیں آسکتا جب کہ اس کے درمیان قائدانہ اوصاف والی شخصیت موجود نہ ہو۔ مگر کوئی حقیقی قائد اپنا قائدانہ رول صرف اس وقت ادا کرسکتا ہے جب کہ اس کی قوم اس کو اپنا قائد مانے اور اس کی اطاعت کرے۔
اس معاملہ میں سب سے زیادہ نازک (crucial) با ت یہ ہے کہ حقیقی قائد کو اکثر کوئی غیر مقبول فیصلہ (unpopular decision) لینا پڑتا ہے۔ یعنی ایک ایسا فیصلہ جو عوامی مزاج کے مطابق نہ ہو۔ مگر صورت حال کے مطابق اس فیصلہ سے قوم کا نیا مستقبل بننے والا ہو۔ یہ صورت حال مذہبی قائد کے ساتھ بھی پیش آتی ہے اور غیر مذہبی قائد کے ساتھ بھی۔
مذہبی اعتبار سے اس کی ایک مثال یہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے موقع پر فریقِ ثانی سے یَک طرفہ صلح کا معاہدہ کیا۔ یہ معاہدہ آپ کے ساتھیوں کے لیے سخت ناگوار تھا۔ حتیٰ کہ عمر فاروق نے اس کو دنیئہ (ذلیل) معاہدہ قرار دیا۔ لوگ اس معاہدہ کی تاریخی اہمیت صرف اس وقت سمجھ سکے جب کہ دو سال بعد اس کا شان دار نتیجہ سامنے آیا۔ اسی طرح غیر مذہبی دائرہ میں اسی کی ایک مثال فرانس کے ایک سابق صدر جنرل ڈیگال کی ہے۔ افریقہ کے فرانسیسی مقبوضات کو آزاد کرنے کے بعد وہ فرانس کے عوام میں بے حد غیر مقبول ہوگئے۔ مگر آج تمام لوگ اس کے فیصلہ کو ایک ایسا فیصلہ قرار دیتے ہیں جو گہری دانش مندی پر مبنی تھا۔
یہی معاملہ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کا ہے۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں کا کو ئی قائد نہیں۔ مگر یہ بات خدا کے تخلیقی نقشہ کو رد کرنے کے ہم معنٰی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خدا آج بھی مسلمانوں میں قائدانہ اوصاف والے افراد پیدا کررہا ہے مگر موجودہ مسلمان اپنے بگڑے ہوئے مزاج کی بنا پر اس کو قبول نہیں کرپاتے۔ قائد بلاشبہہ موجود ہیں مگر مسلمانوں کی عدم قبولیت کی بنا پر وہ اپنا قائدانہ کردار ادا کرنے سے قاصر ہو رہے ہیں۔
موجودہ زمانہ میں مسلمان جس حالت میں ہیں اس میں سب سے پہلا کام یہ معلوم کرنا ہے کہ ان کی تعمیرِ نَو کا نُقطۂ آغاز (starting point) کیا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کا جواب صرف ایک ہے۔ اور وہ یہ کہ مسلمانوں کے اندر منفی سوچ (negative thinking) کو مکمل طورپر ختم کیا جائے، اور اس کے بجائے ان کے اندر مثبت سوچ (positive thinking) لائی جائے۔ کسی قوم کی حقیقی تعمیر صرف مثبت انداز فکر کے ذریعہ ہوتی ہے، منفی انداز فکر کے ذریعہ کبھی کسی قوم کی تعمیر نہیں ہوتی۔
موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ، مثلاً انڈیا میں، ہندوؤں کو پرومسلم اور اینٹی مسلم کے خانوں میں بانٹے ہوئے ہیں۔ اسی طرح عالمی سطح پر ان کا حال یہ ہے کہ وہ ، مثلاً امریکا کو اسلام دشمن اور چین کو اسلام دوست سمجھتے ہیں۔ انسانوں کو اس طرح دو قسموں میں بانٹنا ایک ایسی مہلک غلطی ہے جس کے بعد حقیقی معنوں میں ملی تعمیر کا کوئی امکان ہی نہیں۔
اس طرح طریق عمل کے بارے میں ساری دنیا کے مسلمان جہادی طریق کار کو اپنے مسئلہ کا واحد حل سمجھنے لگے ہیں۔ایسی حالت میں جو شخص دعوتی طریقِ کار کی طرف مسلمانوں کو بلائے تو وہ ان کو اپیل نہیں کرتا۔ حالانکہ موجودہ حالات میں جہادی طریق کار صرف بے فائدہ لڑائی کے ہم معنٰی ہے۔ جب کہ دعوتی طریق کار ابدی طورپر ایک نتیجہ خیز (result oriented) جدوجہد کی حیثیت رکھتا ہے۔
موجودہ زمانہ میں جو بھی حقیقی قائد ہوگا وہ مسلمانوں کو یہ پیغام دے گا کہ تم لوگ ساری دنیا کو یکساں طور پر انسان کی نظر سے دیکھو نہ کہ دوست اور دشمن کی نظر سے۔ اس طرح وہ کہے گا کہ تم جہاد کے نام پر کی جانے والی مسلح جدو جہد کو چھوڑو اور پر امن دعوتی جدوجہد کو اختیار کرو۔ مگر مسلمانوں کے بگڑے ہوئے مزاج کی بنا پر یہ باتیں مسلمانوں کو اپیل نہیں کریں گی۔ قائد موجود ہوگا مگر قائد اپنا قیادتی کردار ادا کرنے میں ناکام رہے گا۔
ایسی حالت میں مسلمانوںکے اندر کسی حقیقی آغاز کی صورت صرف یہ ہے کہ خدا کے کچھ بندے وہ قربانی دیں جو اس دنیا میں بلا شبہہ سب سے بڑی قربانی ہے۔ یعنی وہ غیر مقبول بننے کی قیمت پر مسلمانوں کو وہ رہنمائی دیں جو حقیقت کے اعتبار سے سچی رہنمائی ہو۔ اس قسم کی رہنمائی ابتدائی طورپر انہیں غیر مقبول بنادے گی ۔ مگر یہ بھی یقینی ہے کہ مسلمانوں کی اگلی نسلیں اس کو سمجھیں گی اور دل سے اُس کا اعتراف کریں گی۔
اصل یہ ہے کہ قیادت کا مسئلہ پچاس فیصد قائد سے تعلق رکھتا ہے اور پچاس فیصد زیرِقیادت قوم سے۔ قائداگر اعلیٰ صلاحیت کا حامل ہو تب بھی قوم کے اندر صحیح مزاج ہونا چاہیے۔ اگر قوم کے اندر صحیح مزاج نہ ہو تو اعلیٰ صلاحیت کے باوجود قوم اپنے قائد کو رد کردے گی۔ قائد اپنے منصوبہ کو مکمل کرنے میں ناکام رہے گا۔
موجودہ زمانہ کی مسلم دنیا میںاس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ افغانستان میںامان اللہ خاں، پاکستان میںمحمد ایوب خاں اور ہندستان میں ابوالکلام آزاد اس کی نمایاں مثالیں ہیں۔ یہ تینوں افراد مسلّمہ طور پر اعلیٰ قیادتی اوصاف کے حامل تھے۔ مگر اُن کی قوم نے ان کو قبول نہیں کیا۔ چنانچہ یہ تینوں قائد اپنی قیادتی خدمت انجام دیے بغیر اِس دنیا سے چلے گئے۔
اس معاملہ میں اصل مسئلہ قائد کی تعمیر کا نہیں ہے بلکہ قوم کے مزاج کی تعمیر کا ہے۔ قائد تو خود فطری قانون کے تحت ہمیشہ پیدا ہوتا ہے۔ لیکن یہ قوم کے مزاج پر منحصر ہو تا ہے کہ قائد کو عمل کا موقع ملے گا یا نہیں۔ اس لیے صالح قیادت کی تشکیل کا آغاز قوم کے اندر صالح مزاج کی تشکیل سے ہونا چاہیے، نہ کہ اس شکایت سے کہ قوم کے اندر صالح قائد موجود نہیں۔ جس معاشرہ میں صالح مزاج موجود ہو وہاں لازماً صالح قائد بھی موجود ہوگا۔ اور جس معاشرہ میں صالح قائد موجود نہ ہو تو مزید تحقیق کے بغیر یہ مان لیجئے کہ قوم کے اندر صالح مزاج موجود نہیں ہے۔
واپس اوپر جائیں

کلمۂ معرفت

صحیح البخاری میں روایات کی کُل تعداد (مکرَّرات سمیت) ۷۵۶۳ ہے۔ اس مجموعہ کی آخری حدیث یہ ہے: کلمتان حبیبتان إلی الرحمن، خفیفتان علی اللسان، ثقیلتان فی المیزان: سُبحان اللہ وبحمدہٖ، سبحان اللہ العظیم۔ (دو کلمے رحمن کو بہت محبوب ہیں، وہ زبان پر ہلکے ہیں مگر وہ میزان میں بھاری ہیں۔ وہ دو کلمے یہ ہیں: سبحان اللہ وبحمدہ، سبحان اللہ العظیم۔
اِس حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سبحان اللہ و بحمدہ، سبحان اللہ العظیم کے الفاظ میں پُر اسرار خواص چھپے ہوئے ہیں اور ان الفاظ کو زبان سے ادا کرتے ہی طلسماتی طورپر ان کے یہ خواص ظاہر ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح اس حدیث کا یہ مطلب بھی نہیں کہ سبحان اللہ وبحمدہ، سبحان اللہ العظیم کے الفاظ میں پُراسرار طورپر وزن چھپا ہوا ہے اور قیامت کے تراز و میں رکھتے ہی وہ پلڑے کو جھکا دیں گے۔ ترازو کی تَول میں ان الفاظ کا بھاری ہونا در اصل تمثیل کی زبان میں ہے، نہ کہ حقیقت کی زبان میں۔ اس سے مراد اس کلمہ کا معنوی وزن ہے، نہ کہ مادی وزن۔
اصل یہ ہے کہ انسان کے تمام اعمال میں سب سے بڑا عمل خدا کی معرفت ہے۔ یعنی خداوندِعالّم کو شعوری طورپر دریافت کرنااور اس دریافت کا انسان کی پوری شخصیت میں اُتر جانا۔ سبحان اللہ وبحمدہ، سبحان اللہ العظیم در اصل معرفتِ خداوندی کے کلمے ہیں۔ جب ایک انسان خدا کی ذات کو اِس حیثیت سے دریافت کرتا ہے کہ وہ ہمہ تن پاک ہے، وہی ہر قسم کی تعریف اور شکر کا مستحق ہے۔ وہ تمام عظمتوں کا تنہا مالک ہے۔ یہ دریافت جب شدتِ یقین کے ساتھ کسی انسان کی زبان پر ایک شعوری اظہارکے طورپر جاری ہو جائے تو وہ کائنات کا سب سے بڑا عمل ہوتا ہے۔ وہ اتنا عظیم ہوتا ہے کہ ہر دوسری چیز اس کے مقابلہ میں چھوٹی قرار پائے۔
معرفت سب سے بڑی عبادت ہے۔ یہ شعورکی سطح پر خدا کو پالینا ہے۔ معرفت اپنی حقیقت کے اعتبار سے کسی آدمی کی داخلی شخصیت کے اندر وجود میں آنے والا ایک واقعہ ہے۔ یہ واقعہ جب کسی انسان کے اندر وجود میں آتا ہے تو وہ اس کے اندر ایک روحانی طوفان برپا کردیتا ہے۔ اس طوفانی تجربہ کے وقت اس کی زبان سے وہ روحانی الفاظ جاری ہوجاتے ہیں جن کا ذِکر اوپر کی حدیث میں کیاگیا ہے۔
مذکورہ کلمہ کے بارہ میں حدیث میں بتایا گیا ہے کہ وہ زبان سے کہنے میں ہلکے ہیں مگر وہ اجر کے اعتبار سے بھاری ہیں۔ میرے علم کے مطابق، شارحین اس بیان کی زیادہ بامعنٰی تشریح نہ کرسکے۔ اصل یہ ہے کہ اس کلمہ کا بھاری ہونا اس لیے نہیں ہے کہ خود یہ کلمہ بھاری ہے۔ اس کا تعلق کلمہ سے نہیں ہے بلکہ معرفت سے ہے۔
اس حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سبحان اللہ وبحمدہ، سبحان اللہ العظیم کے الفاظ میں کوئی پُراسرار صفت ہے۔ اس لیے وہ میزان میں بھاری ہوجاتے ہیں۔ اس کا تعلق کلمہ کی داخلی حقیقت سے ہے، نہ کہ کلمہ کے ظاہری الفاظ سے۔ یہ کلمہ معرفتِ الٰہی کا کلمہ ہے۔ معرفتِ الٰہی اور اس کا اظہار بِلا شبہہ سب سے بڑی عبادت ہے۔ جن کلمات میں یہ معرفت شامل ہو جائے ان کلمات کو وہ ناقابلِ بیان حدتک عظیم بنادیتی ہے۔
مزید یہ کہ ان کلمات کو محض زبان سے ادا کرنا کسی کو مذکورہ عظیم اجر کا مستحق نہیں بناتا۔ اس عظیم اجر کا مستحق صرف وہ شخص ہے جس نے مطلوب عارفانہ کیفیت کے ساتھ اُس کو ادا کیا ہو۔ ان کلمات کی ادائیگی کا معاملہ بھی وہی ہے جو دوسرے دینی اعمال کامعاملہ ہے۔ کوئی بھی دینی عمل اپنی کیفیت کے اعتبار سے عظیم یا غیر عظیم بنتا ہے۔ اسی طرح یہ کلمات بھی اُسی وقت عظیم ہیں جب کہ وہ داخلی کیفیت کے ایک فطری اظہار کے طورپر زبان سے نکلے ہوں۔ عارفانہ کیفیت کے بغیر صرف زبان سے الفاظ کی ادائیگی کوئی دینی قدر وقیمت نہیں رکھتی۔
واپس اوپر جائیں

اعلیٰ عبادت

ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: المؤمن الذی یخالط الناس ویصبر علی اذاہم أعظم اجراً من الذی لا یخالطہم ولا یصبر علی أذاہم (ابن ماجہ، کتاب الفتن، الترمذی، کتاب القیامۃ، مسند احمد ۲؍۴۳) یعنی وہ مومن جو لوگوں کے ساتھ اختلاط کرتا ہے اور ان کی ایذاؤں پر صبر کرتا ہے اس کا اجراس مومن سے زیادہ بڑا ہے جو کہ لوگوں کے ساتھ اختلاط نہیں کرتا اور ان کی ایذاؤں پر صبر نہیں کرتا۔
اس حدیث میں اِختلاط(interaction) سے مراد سادہ طورپر صرف اختلاط نہیں ہے۔ بلکہ اس سے مراد وہ اختلاط ہے جس کے نتیجہ میں لوگوں کی طرف سے ایذاء کا تجربہ پیش آئے۔ اختلاط اپنے آپ میں ایذاء کا سبب نہیں ہے۔ اگر آپ لوگوں سے اس طرح ملیں کہ لوگوں سے میٹھے انداز میں بولیں، لوگوں کے ساتھ سمجھوتے کا طریقہ اختیار کریں، آپ لوگوں سے تفریحی باتیں کریں، آپ اپنے کلام میں وہ باتیں بولیں جو لوگ سننا چاہتے ہیں تو آپ لوگوں کی نظر میں ہر دِل عزیز بن جائیں گے۔ پھر آپ کو لوگوں کی طرف سے صرف اچھے سلوک کا تجربہ پیش آئے گا۔
مثلاً اگر آپ دو قوموں کے جھگڑے میںاپنی قوم کی ہر حال میں وکالت کریں اور دوسری قوم کو ہر حال میںبُرا بتائیں تو یقینی طورپر آپ کی قوم آپ کو اپنا ہیرو بنا لے گی۔ اگر آپ لوگوں کو ایسی باتیں بتائیں جس میں ان کو اپنے فخر پسند مزاج کی غذا ملتی ہو تو کوئی آپ کو کیوں ستائے گا۔ اگر آپ لوگوں کو ایسی کہانیاں سُنائیں جن میں انہیں سَستی قیمت پر جنت مل رہی ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ لوگ آپ کو ستانے کے لیے کھڑے ہوجائیں۔ لوگوں کے اقتصادی مطالبات، ان کی قومی شکایتیں، ان کے سیاسی موقف کو درست مان کر اگر آپ وہ بولی بولیں جس میں انہیں اپنا موقف درست نظر آتا ہو تو کوئی شخص بھی آپ کو ستانے والا نہیں ملے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ حدیث میں اختلاط سے مراد مُجرَّد اختلاط نہیں ہے۔ بلکہ اِس سے مراد وہ اختلاط ہے جس میں آپ وہ باتیں کہیں جو لوگوں کے مزاج کے خلاف ہو۔ جس میں ان کے موقف کو غلط ٹھہرایا گیا ہو۔ جس میں انہیں ان کی غلطیوں پر سرزنش کی گئی ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ اس حدیث میں اختلاط سے مراد وہ اختلاط ہے جس میں آپ لوگوں کے غلط رویّے کی نشاندہی کرکے ان پَر تنقید کریں، جس میں آپ لوگوں سے ان کی روش میں تبدیلی کا مطالبہ کریں، آپ لوگوں سے ایسی باتیں کہیں جس میں لوگوں کو اپنا وجود غلط نظر آنے لگے۔
اِس دوسری صورت میں ایسا ہوتا ہے کہ لوگوں کی طرف سے آپ کو ایذا رسانی کا تجربہ ہوتا ہے۔ لوگ آپ کی تنقیدی باتوں پر بھڑک کر آپ کے مخالف بن جاتے ہیں۔ لوگ اپنے آپ کو جائز ٹھہرانے کے لیے آپ کی کردار کُشی کرنے لگتے ہیں۔ ایسا شخص لوگوں کے لیے ان کو برہنہ (expose) کرنے کا سبب بن جاتا ہے۔
لوگوں کی طرف سے ایذا رسانی کا یہ تجربہ خاص طور پر اُس وقت پیش آتا ہے جب کہ آپ شریعت کے اُس حکم پر عمل کریں جس کو ’’امر بالمعروف اور نہی عن المنکَر‘‘کہاگیا ہے، یعنی لوگوںکو معروف کا حکم کرنا اور اُن کو منکر سے روکنا۔ اس عمل میں لازماً ایسا ہوتا ہے کہ آپ کو لوگوں کا احتساب کرنا پڑتا ہے۔ لوگوں کے اوپر تنقید کرنے کی صورتیں پیش آتی ہیں۔ لوگ جن برائیوں میں مبتلا ہیں اُن پر اُنہیں ٹوکنا پڑتا ہے۔ حتیٰ کہ اگر لوگ جہاد کے نام پر تشدد کررہے ہوں تو ان کی مذمت کرنی پڑتی ہے۔ اگر اکابر کے نام پر اُنہوں نے غلط کو صحیح بنا رکھا ہو تو اُس کا تجزیہ کرکے بتانا پڑتا ہے کہ حقیقی معنوں میں صحیح کیا ہے اور غلط کیا۔ اگر وہ اپنے قومی مفاد کے لیے دین کا استحصال کررہے ہوں تو اُس کے خلاف کھل کر بولنا پڑتا ہے کہ حقیقی معنوں میں صحیح کیا ہے اور غلط کیا۔ اختلاط کی یہی وہ صورتیں ہیں جو اختلاط کو ایذا رسانی کے ہم معنٰی بنادیتی ہیں۔مزید یہ کہ داعی جب مَدعو قوم کے ساتھ دعوتی اختلاط کرتا ہے تو اُس وقت داعی کو مَدعو قوم کی بہت سی نارَوا چیزوں اور رسومات کو گوارا کرنا پڑتا ہے، جو اُس کے لیے اجنبی اور نادرست ہوتی ہیں۔ یہ چیزیں داعی کے لیے تکلیف دہ ہوتی ہیں۔ مگر دعوتی کام کی یہ لازمی قیمت ہے۔ اِس کے بغیر دعوتی عمل ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں

تاریخ گواہ ہے

قرآن کی سورہ نمبر ۱۰۳ میں زندگی کی حقیقت بتائی گئی ہے۔ اس سورہ کا ترجمہ یہ ہے: زمانہ کی قَسم، بے شک انسان گھاٹے میں ہے۔سِوا اُن لوگوں کے جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کئے اور انہوں نے ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کی اور انہوں نے ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی (العصر)
قرآن کی اس سورہ میں قسم سے مراد گواہی ہے اور زمانہ سے مراد تاریخ۔ یعنی انسانی تاریخ گواہ ہے کہ اس دنیا میں بیشتر انسانوں کا کیس ناکامی کا کیس ہے۔ اس سے مستثنیٰ صرف وہ لوگ ہیں جو دنیا کی زندگی میں ایمان اور عمل صالح کا ثبوت دیں اور جو لوگوں کے درمیان اس طرح رہیں کہ وہ انہیں حق کا پیغام پہنچارہے ہوں اور انہیں صبر کی تلقین کررہے ہوں۔
اصل یہ ہے کہ انسان پیدائشی طورپرایک مُتلاشیِ لذت حیوان (pleasure-seeking animal) ہے۔ یہ انسان کی استثنائی صفت ہے ۔ ساری کائنات میں کوئی بھی دوسری معلوم مخلوق نہیں جو اپنے اندر لذت اور مسرت کی طلب لئے ہوئے ہو۔
اسی فطری مزاج کی بنا پر ایساہوتا ہے کہ ہر انسان جو اس دنیا میں پیدا ہوتا ہے وہ اپنی ساری کوشش اس میں لگا دیتا ہے کہ وہ اپنی خواہش کے مطابق اپنے لیے خوشیوں کی ایک دنیا بنا سکے مگر تاریخ بتاتی ہے کہ کوئی بھی انسان اپنی کوشش میں کامیاب نہ ہوسکا۔ اس کی کوشش مکمل بھی نہیں ہوپاتی، یہاں تک کہ اس پر موت آجاتی ہے اور وہ اچانک اس میدان عمل سے ہٹا دیا جاتا ہے۔
اس عمومی ناکامی کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انسان کی طلب یا اس کی خواہش لامحدود ہے جب کہ موجودہ دنیا ایک محدود دنیا ہے۔ طلب اور مقامِ طلب کے درمیان یہی وہ تضاد ہے جس کی بنا پر کوئی بھی شخص موت سے پہلے اپنی مطلوب دنیا کی تعمیر نہیں کرپاتا۔
مذکورہ آیت میں ایمان سے مراد اسی حقیقت کی دریافت ہے اور عمل صالح سے مراد اس دریافت کے مطابق عمل کرنا۔ جو لوگ زندگی کی اس حقیقت کو جان لیںاور وہ اس کے مطابق اپنی سرگرمیوں کا منصوبہ بنائیں وہ مذکورہ عموم سے مستثنیٰ لوگ ہیں۔ کیوں کہ وہ اس دریافت کی بنا پر یہ جان لیتے ہیں کہ موجودہ دنیا ان کے لیے اپنا مطلوب پانے کی جگہ نہیں۔ موجودہ دنیا جنت کا استحقاق ثابت کرنے کی جگہ ہے، وہ جنت کو عملاً پانے کی جگہ نہیں۔
سورہ کے آخری حصہ میں یہ حقیقت بتائی گئی ہے کہ سچی دریافت ہمیشہ دعوت بن جاتی ہے۔ دریافت اور دعوت دونوں جُڑے ہوئے ہیں۔ مزید یہ کہ دعوت اپنی حقیقت کے اعتبار سے یک طرفہ پیغام رسانی کا عمل نہیں، وہ دو طرفہ نوعیت کی چیز ہے—وہ تعلیم بھی ہے اور اسی کے ساتھ تعلّم بھی ۔
دریافت ہمیشہ اظہار چاہتی ہے۔ اظہار کی یہ اسپرٹ آدمی کو تنہا رہنے نہیں دیتی، وہ اس کو دوسروں کے ساتھ جوڑ دیتی ہے۔ اس طرح دعوت کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ آدمی کا دوسروں کے ساتھ ڈائیلاگ اور ڈسکشن شروع ہوجاتا ہے۔ دوسروں کے ساتھ اس کا فکری تبادلہ (intellectual exchange) جاری رہتا ہے۔
اس اجتماعی عمل کے دو بنیادی نکتے ہوتے ہیں۔ ایک ہے، دریافت کی ہوئی سچائی کا دوسروں میں چرچا کرنا اور اسی کے ساتھ دوسروں کی طرف سے پیش آنے والی ناخوشگواریوں پر صبر کرنا۔ حق کا ظہور ہمیشہ نزاع کا سبب بنتا ہے اور حق پرست آدمی کے لیے نزاع سے نپٹنے کا سب سے زیادہ موثر طریقہ یہ ہے کہ وہ اس کے مقابلہ میں صبر اور اعراض کی روش اختیار کرے۔
واپس اوپر جائیں

قصور اپنا نکل آیا

۸ جولائی۲۰۰۵کو ایک مسلمان بزرگ مجھ سے ملے۔ اُن کے ساتھ ان کی اہلیہ بھی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم آپ کے پاس مشورہ کے لیے آئے ہیں۔ پھر اُنہوں نے بتایا کہ اُن کا ایک بیٹا ہے۔ اس نے کمپیوٹر کی تعلیم حاصل کی ہے۔ شادی سے پہلے وہ ہمارا بہت فرماں بردار تھا۔ مگر شادی کے بَعد وہ بدل گیا ہے۔ اب وہ ہمارا زیادہ خیال نہیں رکھتا۔ آپ ہم کو کوئی وظیفہ یا دعاء بتائیں جس سے ہمارا بیٹا دوبارہ پہلے کی طرح ہمارا خیال رکھے۔
میں نے اُن سے پوچھا کہ آپ اپنے بیٹے کے لیے جو بہو لائے ہیں وہ زیادہ خوبصورت ہے یا معمولی صورت کی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ خوبصورت ہے۔ میں نے کہا کہ یہی آپ کے مسئلے کی جَڑ ہے۔ آپ لوگ اپنی نادانی سے خود ایک مسئلہ پیدا کرتے ہیں اور پھر اس کی ذمّے داری دوسروں کے اوپر ڈال دیتے ہیں۔ یہ مسئلہ وظیفہ پڑھنے سے حل نہیں ہوگا۔ اس کے لیے ضرورت ہے کہ آپ اپنی سوچ کو درست کریں۔
میں نے کہا کہ آپ جیسے لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے بیٹے کی محبت میں تلاش کرکے خوبصورت بَہو لاتے ہیں، اور یہ خوبصورت بہو آکر جب فطر ی طور پر آپ کے بیٹے پر قبضہ کرلیتی ہے تو آپ بہو پر غصہ ہوتے ہیں کہ اُس نے میرے بیٹے کو مجھ سے چھین لیا یا یہ شکایت کرتے ہیں کہ میرا بیٹا اب میرا فرماں بردار نہیں رہا۔ یہ ایک ایسی غلطی ہے جس میں اکثر ماں باپ مبتلا رہتے ہیں۔ آپ کو یہ جاننا چاہیے کہ خوبصورت بَہو جب گھر میں آئے گی تو اس کے بعد لازماً یہ ہوگا کہ وہ بیٹے کی توجہ کا مرکز بن جائے گی۔ نوجوان بیٹے کی دل چسپیاں فطری طورپر اپنے ماں باپ سے زیادہ اپنی خوبصورت بیوی سے وابستہ ہو جائیں گی۔
آپ جیسے والدین کو چاہیے کہ وہ اگربیٹے کو اپنا فرماں بردار دیکھنا چاہتے ہیں تو اُس کے لیے زیادہ خوبصورت بیوی تلاش نہ کریں۔ اور اگر وہ اس کے لیے خوبصورت بیوی لاتے ہیں تو اُن کو ذہنی طور پر پہلے ہی سے اس کے لیے تیّار رہنا چاہیے کہ اب بیٹے کی دلچسپیوں کا مرکزاس کی بیوی ہوگی نہ کہ اس کے والدین۔
واپس اوپر جائیں

سوال وجواب

سوال
آپ کہتے ہیں کہ علم کی کمی انسان کو خدا سے دور کردیتی ہے اور زیادہ علم خدا سے قریب کر دیتا ہے، تو پھر ایسا کیوںہے کہ جاہل لوگ ہی ہر معاملہ میں اسلامی کام کرتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کو وہ اچھے سے پکڑتے ہیں اور عمل کرتے ہیں۔ جب کہ عالم ایسا نہیں کرتے۔ جاہل لوگ فوراً مسجد، مدرسہ اور فقیر کو چندہ دے دیتے ہیں۔ مگر عالم لوگ ایسا بہت کم کرتے ہیں۔ عالم حضرات اگر کچھ کرتے بھی ہیں تو اس کا خوب پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ تو ایسی حالت میں یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ علم کی کمی انسان کو خدا سے دور کردیتی ہے۔ (شاہ عمران حسن، مونگیر،بہار)
جواب
علم اور بے علمی کے بارے میں جو بات میںنے لکھی ہے وہ کوئی میری بات نہیں۔ یہ بات خود قرآن میں موجود ہے۔ مثلاً قرآن میں فرمایا کہ اللہ سے وہی لوگ ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں (فاطر ۲۸) اسی طرح قرآن میں ایسی آیتیں بھی ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ ہدایت سے محروم وہ لوگ رہتے ہیں جو علم نہیں رکھتے۔ (البقرہ ۷۵)
اصل یہ ہے کہ جب بھی کوئی لفظ استعمال کیا جائے تو اس میں اپنے آپ وہ چیز شامل ہوتی ہے۔ کوئی بھی لفظ بالکل مجرد معنوں میں صرف ڈکشنری میں استعمال ہوسکتا ہے۔ کسی بامعنٰی کلام میں ایسا کبھی نہیں ہوتا۔
’’زیادہ علم انسان کو خدا سے قریب کردیتا ہے‘‘ اس جملہ میں یہ بات اپنے آپ شامل ہے کہ وہ علم جس کے ساتھ سنجیدگی بھی شامل ہو۔ سنجیدگی (sincerity) کے بغیر کوئی علم علم نہیں۔یہ بات ہر انسان کے بارے میں صحیح ہے۔ مثلاً سوال کرنے والا اگر سنجیدہ نہ ہو تو وہ علم کے باوجود غیر متعلق سوال کرے گا۔ غیر سنجیدہ آدمی ایک عبارت کو پڑھے گا اور علم کے باوجود اس سے الٹا مطلب نکالے گا۔ ایک غیر علم والے کے سامنے کوئی دلیل لائی جائے گی جو نہایت واضح ہوگی لیکن سننے والا اگر سنجیدہ نہیں ہے تو وہ دلیل کو نہیں مانے گا اور ایک عجیب و غریب شوشہ نکال کر اس کو رد کردے گا۔
علم بلاشبہہ تمام انسانی خوبیوں کی جڑ ہے۔ مگر اس سے مراد صرف وہ علم ہے جس کے ساتھ سنجیدگی موجود ہو۔ سنجیدہ عالم کے بارے میں امید کی جاسکتی ہے کہ وہ ایک قابل پیشین گوئی رد عمل (predictable reaction) کا ثبوت دے گا۔ مگر جس شخص کے پاس علم تو ہو لیکن اس کے پاس سنجیدگی نہ ہو تو اس کے بارے میں کوئی بھی پیشین گوئی نہیں کی جاسکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ سنجیدگی علم کو بامعنٰی بناتی ہے۔ اور جہاں سنجیدگی نہ ہو وہاں علم کے باوجود معنویت پائی نہیں جائے گی۔
سوال
اگر کسی مسلمان نے اپنی بیوی کو غصّے میں ٹیلیفون پر بول دیا کہ میں نے تجھے تین طلاق یعنی طلاق ، طلاق اور طلاق دے دیا۔ اور بیوی نے اس کو قبول نہیں کیا اور گواہ بھی کوئی نہیں تھا۔ پھر بعد میں مرد کو غلطی کا احساس ہوا، اس نے توبہ کی۔ تو کیا پھر یہ دونوں دوبارہ میاں بیوی کی طرح رہ سکتے ہیں۔ جواب سے مطلع فرمائیں ۔(ایک قاری، الرسالہ)
جواب
مذکورہ مسلمان نے جو فعل کیا وہ میرے نزدیک طلاق نہیں تھا بلکہ سرکشی تھی۔ اس قسم کے واقعات پر طلاق کا واقع کرنا میرے نزدیک درست نہیں۔ البتہ ایسا شخص شریعت کی بے حرمتی کرنے اور شریعت کو کھلواڑ بنانے کا مجرم ہے۔ ایسا آدمی در اصل سزا کا مستحق ہے۔ اس کو میرے نزدیک ایک سو کوڑے مارے جانے چاہئیں مگر کوڑا مارنے کا کام کوئی فرد یا جماعت نہیں کرسکتی ہے۔ یہ کام ایک اسٹیٹ کے تحت قائم شدہ عدالت کے ذریعہ ہونا چاہیے۔
سوال
الرسالہ دسمبر ۱۹۹۵ میں آپ کا ایک سفر نامہ (بڑودہ کا سفر) پڑھا۔ اس کے صفحہ نمبر ۳۵ کے پیراگراف تین میں آپ نے ایک بات لکھی ’’ختم نبوت کے بعد مسلمان مقامِ نبوت پر ہیں‘‘ اس سے صاف طور پریہی معنٰی اخذ کیا جاسکتاہے کہ مِن حیثُ القوم مسلمان نبی ہیں اور ان کے اندر روحانی صلاحیت، یہاں تک کہ وحی کا نازل ہونا بھی ہے۔ یہ بات میری سمجھ سے باہر ہے۔ آپ اس کو قرآن وحدیث کی روشنی میں واضح کریں۔ (نوشاد علی، گورکھپور)
جواب
’’امت محمدی مقام نبوت پر ہے ‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ امت محمدی ذمہ داری کے اعتبار سے مقام نبوت پر ہے۔ اس جملہ میں امت محمدی کی داعیانہ ذمہ داری کو بتایا گیا ہے نہ یہ کہ امت محمدی خود پیغمبرانہ صفات رکھتی ہے۔ یعنی امت محمدی خود پیغمبر نہیں مگر ختم نبوت کے بعد اس کو دنیا میں پیغمبر والا دعوتی کام انجام دینا ہے۔
اس بات کو قرآن وحدیث میں مختلف الفاظ میں بیان کیاگیا ہے۔ مثلاً حَجۃ الوداع کے خطبہ میں رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ان اللہ بعثنی للناس کافۃ فادوا عنی۔ یعنی اللہ نے مجھ کو تمام دنیا کے لوگو ں کی طرف پیغمبر بنا کر بھیجا ہے، پس تم میری طرف سے لوگوں تک میرا پیغام پہنچا دو۔ اسی طرح حدیث میں آیا ہے کہ المسلمون شہداء اللہ فی الأرض(مسلمان زمین میںاللہ کے گواہ ہیں)۔
امت محمدی کی یہ حیثیت اس لیے ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت ختم ہوگئی مگر کارِ نبوت بدستور باقی ہے۔ اس لیے امت محمدی پر بیک وقت دو ذمہ داری ہے، ایک یہ کہ وہ اپنے آپ کو پیغمبر کی تعلیم کے مطابق بنائے۔ اور دوسرے یہ کہ پیغمبر کے بعد وہ پیغمبر کی تعلیمات کو نسل در نسل دوسروں تک پہنچاتی رہے۔ یہی دوگُنا ذمہ داری ہے جس کی بنا پر امت محمدی کا ثواب زیادہ رکھا گیا ہے۔ مگر یہ ثواب محض پیغمبر سے انتساب کی بنا پر نہیں ہے۔ اس ثواب کے مستحق صرف وہ لوگ قرار پائیں گے جو فی الواقع مذکورہ دونوں قسم کی ذمہ داریوں کو ادا کریں۔
سوال
۱۔ تبلیغی والے کہتے ہیں کہ ہمارے بڑوں کے ہاتھ پر بیعت کرو۔ میں نے کہا کہ میں نے قلمی بیعت مولانا سے کر لی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بیعت نہیں ہے۔ کیوں کہ اپنے مُرَبّی کے ساتھ مہینے میں ایک بار ملاقات ضروری ہے۔ اس لیے یہ بیعت کیسے ہوسکتی ہے۔ کیا بیعت کرنا ضروری ہے۔ اگر ضروری ہے تو اس کا شرعی اصول کیا ہے۔
۲۔ آپ کی معرفت اسلام کے بارے میںبات کرنا لوگوں کو بہت عجیب لگتا ہے۔ خاص کر کشمیر میں جب بھی جماعت اسلامی کے کسی فرد سے بات کی جاتی ہے تو وہ عجیب و غریب باتیں کرتا ہے جو صرف بے بنیادالزام ہوتا ہے۔ مجھے حال میںایک کتاب پڑھنے کو ملی ’’وحید الدین خان کی گمراہیاں‘‘۔ مطالعہ کے بعد ایسا لگا کہ اس کا نام ہونا چاہیے تھا ’’وحید الدین خان پر بے بنیاد الزامات‘‘۔ اس میں جو نکتے اٹھائے گئے ہیں ان کا مجھ جیسا کم علم بھی جواب دے سکتا ہے۔ آخر لوگ آپ کے متعلق غلط فہمیوں کا شکار کیوں ہیں۔
۳۔ کیا چمڑے کے موزے پر ہی مسح جائز ہے۔ جیسا کہ تبلیغی جماعت کہتی ہے۔ مجھے یہ تنگ ذہنیت لگتی ہے۔ نیز کیا گھر میں یا مسجد میں فضائل اعمال کا مطالعہ کرنا چاہیے یا قرآن کریم کا۔
۴۔ آپ کے ہم خیال بہت سارے لوگ یہاں موجود ہیں لیکن غیر منظم ہیں۔ اس کی تنظیم کی کیا صورت ہے۔ اس سلسلہ میں آپ ہماری رہنمائی کیجئے۔ (محمد یوسف شاہ)
جواب
۱۔ تبلیغی جماعت یا دوسرے حلقوںمیں بیعت کا جو طریقہ رائج ہے اس کی کوئی سند کتاب اور سنت میں موجود نہیں۔ یہ طریقہ ظہور اسلام کے کئی سو سال بعد مسلم صوفیاء نے رائج کیا۔ اگر اس کو بدعت نہ کہا جائے تب بھی یقینی طورپر وہ ایک اجتہادی معاملہ ہے۔ اور یہ ایک مسلّم بات ہے کہ کوئی اجتہادصرف ان افراد کے لیے لازم ہوسکتا ہے جنہوں نے یہ اجتہادکیا ہو یا جو اس کی صحت پر یقین رکھتے ہوں۔ دوسرے لوگوں کے لیے وہ نہ حجت ہے اور نہ کسی کو یہ حق ہے کہ وہ اس سے مذکورہ قسم کا مطالبہ کرے۔
بعدکے زمانہ میں بیعت کا جو طریقہ رائج ہوا، محتاط طورپر اس کو عملی ضرورت کہا جاسکتا ہے۔ اگر کچھ لوگ اس کو عملی ضرورت کے طورپر اختیار کریں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن جو لوگ اس کو اعتقادی یا شرعی مسئلہ بنائیں انہیں کتاب و سنت سے اس کی واضح دلیل دینا ہوگا۔ اگر وہ قرآن و سنت سے اس کی تائید میں ناقابل انکار دلیل نہ دے سکیں تو وہ خود قصوار وار ٹھہریں گے۔
۲۔ میرے خلاف جو لوگ بے بنیاد الزامات لگاتے ہیں اور بے اصل باتیں پھیلاتے ہیں، وہ صرف ہمارے اجر میں اضافہ کررہے ہیں۔ ایسے لوگوں کی باتوں کا جواب صرف یہ ہے کہ انہیں کوئی جواب نہ دیا جائے اور ان کے حق میں دعا کی جائے۔
۳۔ موزہ پر مسح کے بارے میں علماء عرب کا فتویٰ آچکا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ جس طرح چمڑے کے موزہ پر مسح کرناجائز ہے ٹھیک اسی طرح جدید طرز کے صنعتی موزوں پر مسح کرنا بھی جائز ہے۔ اس میں کوئی شرعی قباحت نہیں۔فضائل اعمال کے نام سے جو کتاب آج کل رائج ہے وہ دینی تعلیم کے لیے صرف ایک ناقص کتاب ہے۔ دینی تعلیم کے صحیح اور مفید ذریعے صرف تین ہیں— قرآن، سنت رسول اور سنت صحابہ۔ اس کے بعد کوئی بھی چوتھا ذریعہ مستقل حیثیت سے معتبر نہیں۔ ہر چوتھے ذریعہ کو قرآن و سنت پر جانچا جائے گا۔ اگر وہ کتاب و سنت کے مطابق ہے تو وہ قابل اعتبار ہے اور اگر وہ کتاب و سنت کے مطابق نہیں تو یقینی طورپر وہ قابل رد ہے۔ بطور خود اگر کچھ لوگ کسی چوتھے ذریعہ کو مقدس مان لیں تو ان کے ماننے سے وہ ذریعہ مقدس نہیں بنے گا۔ اس بارے میں علمائے راسخین کا مسلک ہمیشہ سے یہی رہا ہے۔
۴۔ آپ نے تنظیم کی بابت جو سوال کیا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ آپ دو چیز سے اپنے کام کا آغاز کریں، ہفتہ وار اجتماع اور الرسالہ کی ایجنسی۔ لوگوں کو منظم کرنے اور مقصد کی اشاعت کا صحیح آغاز یہی ہے۔ اگر آپ یہ دو کام شروع کردیں تو انشاء اللہ دھیرے دھیرے بقیہ تمام مقاصد حاصل ہوجائیں گے۔
سوال
الرسالہ کا شمارہ ستمبر ۲۰۰۴ پڑھا۔ صفحہ ۳۲ پر آپ رقم طراز ہیں کہ ایک باریش بزرگ سے آپ کی ملاقات ہوئی۔ وہ عرب امارات میں رہتے ہیں۔ اُنہوں نے ہندستان میں رہ کر الرسالہ پڑھا ہے۔ اب چونکہ وطن سے دور عرب امارات میں ان کی آپ سے ملاقات ہوئی تو اُنہوں نے آپ سے دریافت کیا کہ کیا الرسالہ ابھی نکل رہا ہے۔ آپ کو یہ بات سن کر بہت غصہ آیا۔ مگر آپ نے صرف جواباً کہا ’’کہ اگر میں آپ سے کہوں کہ کیا آپ کے فرزند ابھی تک زندہ ہیں تو آپ کا جواب کیا ہوگا‘‘۔
دراصل آپ کا یہ جواب غصہ کی علامت ہے۔ اگر آپ جواباً فرماتے کہ الحمد للہ ابھی تک جاری وساری ہے تو شاید بزرگ دوسری بات یہ کہتے کہ جناب میں الرسالہ کہاں سے منگواؤں۔ مگر قارئین جب آپ کا جواب پڑھتے ہیں تو لگتا ہے کہ یہ جواب مولانا وحید الدین خان صاحب کا نہیں ہوسکتا کیوں کہ الرسالہ سرے سے نصیحتوں کا رسالہ ہے۔ مجھے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ کم ازکم اس معاملہ میں آپ نے صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا۔ آپ جیسے داعی کا اس انداز میں بات کرنا شریعت اسلامی اور خود الرسالہ مشن کے تقاضوں کے برخلاف لگتا ہے۔ یہ جواب سن کر اُس بزرگ کے دل پر کیا بیتی ہوگی۔ اس کی ٹھیس میں یہاں بیٹھے بیٹھے محسوس کررہا ہوں۔ کیا آپ اس بزرگ کو معذرت کے ساتھ اس بارے میں تحریر فرمائیں گے۔ کیوں کہ غصہ کرنا مسلمان پر حرام ہے۔ یہ میں نے الرسالہ میں پڑھا ہے۔ (عبدالرشید بٹ، سوپور ، کشمیر)
جواب
یہ بات صحیح نہیں کہ اسلام میں غصہ کرنا حرام ہے۔ غصہ انسانی فطرت کا ایک حصہ ہے، وہ حرام کیسے ہوسکتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ آتا تھا۔چنانچہ آپ کے بارہ میں حدیثوں میںاس طرح کے الفاظ آتے ہیں کہ: اشتد غضبہ (آپ سخت غضب ناک ہوگئے) نامعقول بات پر غصہ آنا ایک فطری امر ہے۔ البتہ غصہ کو انتقام تک نہیں جانا چاہیے۔
مذکورہ صاحب کو میں نے جوجواب دیا وہ ان کی معروف نفسیات کے مطابق، معاملہ کو واضح کرنا تھا۔ اصل یہ ہے کہ ایک باپ کو اپنی اولاد سے جو گہرا تعلق ہوتا ہے وہی ایک صاحب مشن کو اپنے مشن سے ہوتا ہے۔ جس طرح یہ ایک نامعقول روش ہے کہ کسی باپ سے پوچھا جائے کہ کیا آپ کے فرزند زندہ ہیں، اسی طرح یہ بھی ایک سخت نامعقول روش ہے کہ کسی صاحب مشن سے یہ سوال کیا جائے کہ کیا آپ کا مشن ابھی تک چل رہا ہے۔ الرسالہ صاحبِ مشن کے لیے ایک مشن ہے، وہ عام معنوں میں محض ایک پرچہ نہیں۔ ایسی حالت میں مذکورہ سوال کا صحیح ترین جواب وہی ہوسکتا تھا جو اُنہیں دیا گیا۔
واپس اوپر جائیں

خبر نامہ اسلامی مرکز ۱۷۱

۱۔ اسلامی مرکز میں ہفتہ وار اسپریچول کلاس کا سلسلہ پابندی کے ساتھ جاری ہے۔ یہ کلاس ہر اتوار کو شام ۵ بجے سے ۷ بجے تک ہوتی ہے۔ ۱۵مئی ۲۰۰۵ سے اس میں ایک اضافہ کیا گیا ہے۔ مولانا محمد ذکوان ندوی کے تعاون سے ہر اتوار کی شام ساڑھے تین بجے سے پانچ بجے تک اردو اور عربی زبان کی کلاس ہوتی ہے۔ اس میں لوگ نہایت دلچسپی کے ساتھ شریک ہورہے ہیں۔ یہ ایک قسم کی لینگویج کلاس ہے۔ اس طرح ہر اتوار کو پہلے ڈیڑھ گھنٹہ کی لینگویج کلاس ہوتی ہے اور اس کے بعد د و گھنٹہ کی اسپریچول کلاس۔
۲۔ سائی انٹرنیشنل سینٹر (نئی دہلی) میں ۱۸ مئی ۲۰۰۵ کو ایک پروگرام ہوا۔ اس پروگرام میں آرمی اسکولوں کے پرنسپل شریک ہوئے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں ایک گھنٹہ کی تقریر کی۔ تقریر کا موضوع یہ تھا: بنیادی انسانی افکار اور اسلام۔ قرآن وحدیث میں دی ہوئی انسانی اور اخلاقی تعلیمات کو بتایا گیا۔ اس سلسلہ میں خصوصیت کے ساتھ یہ بات بتائی گئی کہ اسلام کی تعلیمات میں ایک اہم تعلیم وہ ہے جس کو محاسبۂ آخرت (accountability) کہا جاتا ہے۔ اسلام کی یہ تعلیم اخلاقی سلوک کے لیے محرک فراہم کرتی ہے۔یہ تعلیم حسنِ اخلاق کو ہر آدمی کا ذاتی انٹرسٹ بنا دیتی ہے۔ کیوں کہ اس کو یہ ڈر ہوتا ہے کہ اگر اُس نے دوسروں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا تو آخرت میں اُس کے ساتھ بھی اچھا سلوک نہیں کیا جائے گا۔
۳۔ ای ٹی وی (نئی دہلی) کی ٹیم نے ۱۹ مئی ۲۰۰۵ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر خود کُش بمباری کے بارے میں تھا۔ بتایا گیا کہ خود کُش بمباری اسلام میں حرام ہے۔ کسی بھی عذر کی بنا پر اس کو جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ خود کُش بمباری حملہ آور کے خلاف بھی جائز نہیں۔ خود کُش بمباری میں یہ ہوتا ہے کہ آدمی اپنے آپ کو مار کر دوسرے کو مارتا ہے۔ یہ واضح طورپر خود کُشی ہے۔ اس کو استشہاد (طلب شہادت) کہنا سراسر غلط ہے۔ اسلام میں شہید ہونا ہے، اسلام میں شہید کروانا نہیں ہے۔ خود کُش بمباری کے اس طریقے نے موجودہ زمانہ میں اسلام کو بہت زیادہ بدنام کیا ہے۔ کچھ عرب علماء نے اگر چہ خود کُش بمباری کو جائز قر ار دیا ہے۔ مگر یہ سب سیاسی فتوے ہیں۔ کسی فتویٰ کے ذریعہ حرام کو حلال نہیں کیا جاسکتا۔
۴۔ آج تک ٹی وی (نئی دہلی) کی ٹیم نے ۲۰ مئی ۲۰۰۵ کوصدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ انٹرویو ر مسٹر بریش بنرجی (Biresh Banerjee) تھے۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر تعلیمی داخلہ میں رزرویشن سے تھا۔ یعنی مسلمانوں کو حکومت ہند کی اس پالیسی سے اتنا فائدہ ملے گا جس کے مطابق، مسلم یونیورسٹی میں مسلمانوں کو پچاس فیصد رزرویشن دیا گیا ہے (ٹائمس آف انڈیا، ۲۰ مئی ۲۰۰۵) جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ اس سے ہندستانی مسلمانوں کو کوئی حقیقی فائدہ ملنے والا نہیں۔ ہندستان میں ۲۰ کروڑ سے زیادہ مسلمان ہیں۔ ان میں سے صرف چند لوگ رزرویشن کی اس پالیسی سے بظاہر فائدہ اٹھائیں گے۔ مگر اس کا نقصان تمام مسلمانوں کو پہنچے گا۔کیوں کہ اس کی وجہ سے عام طور پر مسلمانوں کے اندر یہ ذہن بنے گا کہ ترقی کے لیے رزرویشن کی ضرورت ہے۔ حالانکہ صحیح بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر عمومی طور پر یہ ذہن بنایا جائے کہ آج کی دنیا مقابلہ کی دنیا ہے اور اس دنیا میں صرف وہی لوگ آگے بڑھ سکتے ہیں جو مقابلہ کا سامنا کرکے آگے بڑھیں۔
۵۔ اسپریچول کلاس جو جنوری ۲۰۰۱ ء میں چند افراد کے ساتھ شروع کی گئی تھی اب اس میں شرکت کرنے والوں کی تعداد کافی بڑھ گئی ہے۔ چنانچہ ۲۲ مئی ۲۰۰۵ سے اُس کے لیے لاؤڈ اسپیکر کا استعمال شروع کیا گیا ہے۔ بہت جلد یہ اسپریچول کلاس زیادہ بڑی جگہ منتقل کردی جائے گی۔ یہ ہفتہ وار اسپریچول کلاس مکمل طورپر غیر سیاسی نظریہ کے تحت ہوتی ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں میں اسلام کو مقبول اور قابل فہم بنایا جائے۔ اس کلاس میں ہندو اور مسلمان دونوں شریک ہوتے ہیں۔ اس کلاس میں زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہوتی ہے جو اعلیٰ انگریزی تعلیم یافتہ طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔
۶۔ انڈیا ٹی وی (نئی دہلی) کی ٹیم نے ۳۰ مئی ۲۰۰۵ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر نکاحِ تفویض کے مسئلہ سے تھا۔ بتایا گیا کہ نکاح تفویض اسلام کا ایک جائز طریقہ ہے۔ شریعت کے مطابق، عورت اور مرد دونوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ نکاح کے بعد ایک دوسرے سے علیٰحدگی اختیار کر سکیں جس کو طلاق کہا جاتا ہے۔ شوہر کو یہ حق ہے کہ وہ خود اپنے فیصلہ سے اپنی بیوی کو طلاق دے سکتا ہے۔ لیکن بیوی کے لیے تفریق کے معاملہ میں خُلع کا طریقہ ہے۔ یعنی بیوی عدالت سے رجوع کرے گی اور عدالت کے فیصلہ کے تحت تفریق حاصل کرے گی۔ لیکن اگر نکاح کے وقت یہ واضح کردیا جائے کہ یہ نکاح تفویض ہے تو اس کے بعد عورت کو یہ حق حاصل ہوجاتا ہے کہ وہ مرد ہی کی طرح خود اپنے فیصلہ سے طلاق حاصل کرلے۔
۷۔ بمبئی کے ادارہ (ICRA) کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے بمبئی کا سفر کیا۔ یہ سفر تین دن (۹ جون۔۱۲ جون ۲۰۰۵) کے لیے تھا۔ اس دوران بمبئی میں مختلف پروگرام ہوئے۔ اس کی روداد انشاء اللہ سفر نامہ کے تحت الرسالہ میں شائع کردی جائے گی۔
۸۔ سائی انٹرنیشنل سینٹر (نئی دہلی) نے ۱۵ جون ۲۰۰۵ کو اپنے سینٹر میں ایک سیمینار کا اہتمام کیا۔ اس میں مختلف اسکولوں کے پرنسپل شریک ہوئے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ انہیں ایک گھنٹہ کا وقت دیاگیا تھا۔ تقریر کا موضوع تھا: بیسک ہیومن ویلوز اِن اسلام۔ تقریر کے بعد سوال وجواب کا پروگرام ہوا۔
۹۔ بمبئی میں ایک ادارہ قائم ہوا ہے۔ اس کا نام یہ ہے:
Islamic Centre for Research & Awareness (ICRA)
اس ادارہ میں برابر دعوتی اور تربیتی پروگرام ہوتے ہیں۔ اسی کے ساتھ کتابوں کی ایک دُکان قائم کی گئی ہے۔ اس میں ماہنامہ الرسالہ، اسپریچول میسیج اور دوسری تمام کتابیں برائے فروخت دستیاب ہیں۔ اس ادارہ کا پتہ اور ٹیلی فون نمبر یہ ہے:
ICRA 3, Shantaram Patil Bldg. Gauthan 4th lane, S.V. Road, Behind Firdaus Mithai Wala,
Near Andheri Station (W) Mumbai-58, Tel: 6285223
۱۰۔ اس سے پہلے راز حیات، تعمیر حیات اور کتاب زندگی کے نام سے کتابیں چھپ چکی ہیں۔ ان کتابوں کا موضوع یہ ہے کہ زندگی کو کس طرح کامیاب بنایا جائے۔ ان کتابوں سے بہت زیادہ لوگوں کو فائدہ پہنچا ہے۔ اب اسی نوعیت کی ایک نئی کتاب زیر طبع ہے۔ اس کتاب کا نام رہنمائے حیات ہے۔ وہ دو سو آٹھ صفحات پر مشتمل ہے۔
۱۱۔ دعوہ ورک کے لیے انگریزی زبان میں چھوٹے چھوٹے پمفلٹ اور بروشر چھاپے گئے ہیں۔ یہ سب انگریزی زبان میں ہیں اور دعوتی کام کے لیے بہت مفید ہیں۔ دفتر سے ان کو حاصل کیاجاسکتا ہے۔ اب اس قسم کے چھوٹے چھوٹے کتابچے ہندی زبان میں بھی تیار کیے جارہے ہیں۔
۱۲۔ تذکیر القرآن کا انگریزی ترجمہ تیار ہوچکا ہے۔ اسی کے ساتھ قرآن کا انگریزی ترجمہ تیار کیا جارہا ہے۔ تیاری کے بعد جلد ہی ان کو دو صورتوں میں چھاپا جائے گا۔ ایک، تذکیر القرآن کے انگریزی ایڈیشن کی صورت میں۔ اس کے علاوہ قرآن کا انگریزی ترجمہ علیٰحدہ جلد کی صورت میں شائع کیا جائے گا۔ انشاء اللہ العزیز۔
واپس اوپر جائیں