Pages

Friday, 1 November 2002

Al Risala | November 2002 (الرسالہ،نومبر)

2

- روزہ کی حقیقت

3

- ہجر جمیل

13

- جنگ سے امن تک

18

- صحبت کا فلسفہ

25

- جہاد کیا ہے

26

- مسلم پالیسی کو بدلنے کی ضرورت

29

- چند اسلامی مسائل

37

- بے بنیاد شکایت

39

- سکون کا سرچشمہ

41

- سوالات (روزنامہ ہندستان، ممبئی)


روزہ کی حقیقت

روزہ کے لیے عربی لفظ صوم ہے۔ صوم کے معنیٰ ہیں، رُکنا(abstinance)۔ زندگی میں صرف اقدام کی اہمیت نہیںہوتی، بلکہ رُکنا بھی زندگی میںایک بے حد اہم پالیسی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اقدام اگر خارجی توسیع کی علامت ہے تو رُکنا داخلی استحکام کی علامت۔ اور زندگی کی حقیقی تعمیر کے لیے بلا شبہہ دونوں ہی یکساں طورپر ضروری ہیں۔
مشہور صحابی خالد بن الولید کو پیغمبر اسلام نے سیف اللہ کا لقب عطا کیا تھا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن الولید کو یہ لقب کسی اقدام یا جنگی پیش قدمی پر نہیں دیا تھا۔ بلکہ آپ نے سیف اللہ کا لقب اُنہیں اُس وقت دیا تھا جب کہ غزوۂ موتہ کے موقع پر انہوں نے یک طرفہ طورپر اپنی تلوار میان میں رکھ لی تھی اور تمام صحابہ کو جنگ کے میدان سے ہٹا کر مدینہ واپس آگئے تھے۔
روزہ اس بات کا سبق ہے کہ تم چند دنوں کے لیے کھانا چھوڑ دو تاکہ تم بقیہ دنوں میں زیادہ اچھے کھانے والے بنو۔ تم چند دنوں کے لیے اپنی سرگرمیوں کو داخلی تعمیر کے محاذ پر لگا دو، تاکہ اس کے بعد تم زیادہ بہتر طورپر خارجی سرگرمی کے قابل بن جاؤ۔ چند دنوں کے لئے تم اپنے بولنے پر پابندی لگا لو تاکہ اس کے بعد تم زیادہ بہتر بولنے والے بن سکو۔ چند دنوں کے لیے تم اپنے مقام پر ٹھہر جاؤ تاکہ اس کے بعد تم کامیاب پیش قدمی کے قابل بن سکو۔
روزہ کا مہینہ مومن کے لیے تیاری کا مہینہ ہے۔ اپنی سوچ کے معیار کو بلند کرنا، اپنی عبادت میںتقویٰ کی اسپرٹ بڑھانا ، اپنی روحانیت میںاضافہ کرکے زیادہ سے زیادہ اللہ کی قربت حاصل کرنا، بھوک اور سیری کا تجربہ کرکے اپنے اندر شکر کا احساس جگانا، مادی مشغولیت کو کم کرکے آخرت کی طرف زیادہ سے زیادہ متوجہ ہونا، خارجی سفر کو روک کر داخلی سفر کی طرف رواں دواں ہونا، ایک مہینہ کے تربیتی کورس سے گذر کر پورے ایک سال کے لیے شکر و تقویٰ کی غذا حاصل کر لینا، وغیرہ۔یہی روزہ کا مقصد ہے اوریہی روزہ کی مقبولیت کا اصل معیاربھی۔
واپس اوپر جائیں

ہجر جمیل

قرآن کی سورہ نمبر ۷۳ میں ایک حکم ان الفاظ میں آیا ہے: واصبر علی ما یقولون واہجرہم ہجراً جمیلاً (المزمل ۱۰) اُردو مترجمین نے اس آیت کے جو ترجمے کئے ہیں اُن میں سے چند یہاں نقل کئے جاتے ہیں:
۱۔ اور سہتا رہ جو کہتے رہیں اور چھوڑ اُن کو بھلی طرح کا چھوڑنا (شاہ عبد القادر)
۲۔ اور یہ لوگ جو باتیں کرتے ہیں اُن پر صبر کرو اور خوبصورتی کے ساتھ اُن سے الگ ہو جاؤ۔ (اشرف علی تھانوی)
۳۔ اور سہتا رہ جوکچھ وہ کہتے رہیں اور چھوڑ دے اُن کو بھلی طرح کا چھوڑنا۔ (محمود حسن، دیو بندی)
۴۔ اور یہ لوگ جو کچھ کہتے ہیں اُس پر صبر کر اور اُن کو خوبصورتی سے نظر انداز کر۔ (امین احسن اصلاحی)
اس آیت کاانگریزی زبان میں ترجمہ کیا جائے تو وہ اس طرح ہوگا:
Endure patiently what ever they say, and avoid them in a decent manner.
قرآن کی یہ آیت مکی دور میں اُتری۔ اُس وقت مکہ میں مشرکین کا غلبہ تھا۔ یہ لوگ سمجھتے تھے کہ رسول اوراصحاب رسول نے اُن کے آبائی دین سے انحراف کیا ہے۔ اس بنا پر وہ لوگ رسول اور اصحاب رسول کو ستانے لگے۔ اُنہوں نے آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو ہر قسم کی تکلیفیں پہنچائیں۔ اس ماحول میں قرآن کی یہ آیت اُتری۔ اس میں خدا کی طرف سے یہ حکم دیا گیا کہ تم لوگ صبر کرو اور ہجر جمیل کا طریقہ اختیار کرو۔
ہجر جمیل کے لفظی معنیٰ ہیںــــ خوبصورتی کے ساتھ چھوڑنا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان ستانے والوں کے ساتھ حسن اعراض کا طریقہ اختیار کرو۔ ان کے معاملہ میں تمہارا طریقہ منفی رد عمل کا طریقہ نہیں ہوناچاہئے بلکہ مثبت رد عمل کا طریقہ ہونا چاہئے۔ تم کو چاہئے کہ اُن کے معاملہ میں در گذر کرو اور اُن کے برے انداز کے مقابلہ میں تم اُن کے ساتھ اچھا انداز اختیار کرو۔
مفسرین نے عام طورپر یہ لکھا ہے کہ صبر اور ہجر جمیل کا یہ حکم آیات قتال کے نزول کے بعد منسوخ ہوگیا ۔مگر یہ ایک غلط تفسیر ہے۔ ہجر جمیل (حسن اعراض) کوئی مجبوری کا فعل نہیں ہے، یہ اہل ایمان کا ایک مثبت رویہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مومن منفی رد عمل کا تحمل نہیں کرسکتا۔ شکایت کی نفسیات شکر کے جذبہ کی قاتل ہے اس لیے مومن یک طرفہ طورپر شکایت کے جذبات کو ختم کرتا ہے تاکہ اُس کے اندر شکر کا جذبہ مجروح نہ ہونے پائے۔ اسی طرح نفرت کی نفسیات محبت کے جذبہ کی قاتل ہے اس لیے مومن نفرت کی نفسیات کواپنے اندر پنپنے نہیں دیتا تاکہ اُس کے اندر محبت الٰہی کا جذبہ پوری طرح باقی رہے۔ اس کام کو کبھی سختی سے کرنا پڑتا ہے اور کبھی حسن تدبیر سے۔
ہجر جمیل (حسن اعراض) بظاہر دوسرے کے مقابلہ میں ہوتا ہے مگر اُس کا تعلق خود اپنی ذات سے ہے۔ مومن آخری حد تک یہ چاہتا ہے کہ اُس کے اندر اعلیٰ اسلامی احساس ہمیشہ زندہ رہے۔ کسی بھی حال میں اُس کے اندر نقصان (erosion) نہ ہونے پائے۔
قرآن کے مطابق، اللہ نے کسی انسان کے اندر دو دل نہیں بنائے۔(الاحزاب ۴) یعنی انسان کے دل میں بیک وقت دو متضاد نفسیات پرورش نہیں پاسکتیں۔ جو دل انسان سے نفرت کرے، عین اُسی وقت وہ خدا سے محبت نہیں کرسکتا۔ جس دل کے اندر انسانوں کے بارے میں شکایات بھری ہوئی ہوں وہ دل کبھی خدا کے شکر سے سرشار نہیں ہوسکتا۔ جس آدمی کا سینہ انتقامی نفسیات کا جنگل بنا ہوا ہو وہ خدا سے طلبِ عفو کی لذت کا تجربہ نہیں کرسکتا۔ جو انسان ظلم کی یادوں میں جی رہا ہو وہ خدائے رحمن ورحیم کی یادوں کا تجربہ نہیں کرسکتا۔
حقیقت یہ ہے کہ صبر اور حسن اعراض مومن کے لیے ایک خود حفاظتی تدبیر ہے۔ یہ اپنے آپ کو اس سے بچانا ہے کہ اُس کے سینے میں غیر مومنانہ نفسیات کی پرورش ہونے لگے۔ اس لیے جب بھی ایسا کوئی موقع پیش آتا ہے تو مومن کہہ اُٹھتا ہے کہ میںاس قسم کی منفی سوچ کا تحمل نہیں کرسکتا۔ یہاںاس معاملہ کی مزید وضاحت کے لیے رسو ل اور اصحاب رسول کی زندگی سے حسن اعراض کی کچھ عملی مثالیں درج کی جاتی ہیں۔
۱۔ ابن اسحق کی روایت ہے کہ مکہ کے قریش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کرتے تھے اور سبّ وشتم کرتے تھے۔ چنانچہ اُنہوں نے آپ کا نام محمد کے بجائے مذمّم رکھ دیا تھا۔ محمد کا مطلب ہے، تعریف کیا ہوا۔اس کے بجائے وہ آپ کو مذمّم (مذمت کیا ہوا) کہتے تھے۔ روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں فرمایا: ألا تعجبون لما صرف اللہ عنی من اذی قریش، یسبون ویہجون مذمما وأنا محمد۔ (سیرت ابن ہشام جلد ۱، صفحہ ۳۷۹) یعنی کیا تم کو تعجب نہیں کہ اللہ نے مجھے قریش کی اذیت سے کس طرح بچا لیا، وہ سبّ وشتم کرتے ہیںاور مذمم کہہ کر ہجو کرتے ہیں، حالاں کہ میں محمد ہوں۔
پیغمبر اسلام کے اس قول کو اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ مثلاً قریش اگر یہ کہیں کہ ’’مذمّم مجنون ہے‘‘ تو رسول اللہ اس کا بُرا اثر نہ لیتے ہوئے یہ کہہ دیں گے کہ تمہاری یہ بات اُس کے اوپر پڑے گی جس کا نام مذمّم ہو،میرا نام تو محمد ہے۔ یہ حسن اعراض کی ایک لطیف مثال ہے۔ اس طرح مومن اپنے آپ کواس نقصان سے بچاتا ہے کہ کسی کی بدگوئی اُس کے اندر منفی نفسیات پیدا کرنے کا سبب بن جائے۔ مومن کا قول یہ ہوتا ہے کہ میں منفی جذبات کا تحمل نہیں کرسکتا۔
اس طرح کے حسن اعراض کی ایک دلچسپ مثال ڈاکٹر ذاکر حسین کے یہاں پائی جاتی ہے۔ ایک بار وہ دہلی کی ایک سڑک پر اپنی گاڑی چلا رہے تھے، اتفاق سے اُن کی گاڑی ایک اور شخص کی گاڑی سے معمولی طور پر ٹکرا گئی۔ اُن کی گاڑی میں رگڑ(dent) آگیا۔ اُس آدمی نے ابھی نئی گاڑی لی تھی۔ وہ گاڑی روک کر اُترا۔ ذاکر صاحب بھی اپنی گاڑی روک کر اُتر گئے۔ اُس آدمی نے ذاکر صاحب کی طرف غصہ سے دیکھتے ہوئے کہا کہ ایڈیٹ(idiot) ۔ اس انگریزی لفظ کے معنیٰ ہوتے ہیں، احمق۔ ذاکر صاحب نے جوابی غصہ نہیں دکھایا۔ اُنہوں نے اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے نرمی سے کہا:
Sir, I am not Mr. Idiot, I am Zakir Husain.
جناب، میں مسٹر ایڈیٹ نہیں ہوں۔ میں ذاکر حسین ہوں۔ یہ سُن کر اُس آدمی کا غصہ ٹھنڈا ہوگیا۔ ساری(sorry) کہہ کر وہ خاموشی کے ساتھ اپنی گاڑی پر بیٹھا اور آگے کے لیے روانہ ہوگیا۔
۲۔ہجرت کے بعد حدیبیہ کا واقعہ پیش آیا۔ مکہ کے سرداروں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اورآپ کے صحابہ کو مکہ میں داخل ہونے سے روک دیا۔ اُس وقت حدیبیہ کے مقام پر دونوں فریقوں کے درمیان ایک معاہدۂ امن تیار کیا گیا ۔ اس معاہدہ کے وقت قریش نے ضد کا مظاہرہ بھی کیا اور تشدد کا مظاہرہ بھی۔ اُنہوں نے اصرار کیا کہ اُن کی یک طرفہ شرطوں پر معاہدہ کیا جائے۔ اصحاب رسول کواس سے بے حد تکلیف ہوئی۔ اس طرح کی شرطوں پر معاہدہ کرنا اُن کو بظاہر ایک ذلت کا معاہدہ معلوم ہوتا تھا۔ اُس وقت رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ:قریش آج جو خاکہ بھی پیش کریں گے، بشرطیکہ اُس میں صلہ رحمی کو ملحوظ رکھا گیا ہو ، میں ضرور اُس پر راضی ہوجاؤں گا (سیرت ابن ہشام ،الجزء ۳، صفحہ ۳۵۸) دشمن کی یک طرفہ شرطوں کو ماننا ایک سخت ناگوار معاملہ تھا۔ مگر آپ نے مذکورہ بات کہہ کر اس ناگوارکو ایک گوارا معاملہ بنا لیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول ہجر جمیل کی ایک حکیمانہ مثال ہے۔قدیم عربوں کے نزدیک صلہ رحمی بہت بڑی انسانی قدر سمجھی جاتی تھی۔ اور قطع رحمی کو وہ بہت بُرا سمجھتے تھے۔ اس لیے اس کا سوال ہی نہ تھا کہ وہ معاہدہ کے لیے ایسا خاکہ پیش کریں جس میں قطع رحم کی دفعہ رکھی گئی ہو۔ باعتبار حقیقت رسول اللہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ میں ہر قیمت پر قریش سے صلح کر لوں گا۔ اس بات کو کہنے کے باعزت طریقہ کے طورپر آپ نے فرمایا کہ میں قریش کی طرف سے صُلح کے ہر خاکہ کو منظور کرلوں گا بشرطیکہ اُس میں قطع رحم نہ پایا جاتا ہو ۔ حالاںکہ پیشگی طورپر یہ معلوم تھا کہ وہ قطع رحم کی شرط کبھی نہیں رکھیں گے۔
۳۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ آئے تو جلد ہی یہاں کے باشندوں کی اکثریت اسلام میں داخل ہوگئی۔ اُس وقت مدینہ میںایک شخص تھا جس کا نام عبد اللہ بن اُبیّ تھا۔ وہ اپنے زمانہ کا ایک بڑا لیڈر تھا۔ وہ بھی اگر چہ اپنے قبیلہ والوں کے ساتھ اسلام میں داخل ہوگیا مگر اُس کے دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف حسد کا جذبہ تھا جس کی وجہ سے وہ اکثر آپ کے خلاف شر انگیز باتیں کیا کرتا تھا۔
رسول اللہ ﷺنے اس معاملہ کا ذکر مدینہ کے ایک مسلمان اُسید بن حضیر سے کیا۔ اُنہوں نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا: یا رسول اللہ، ارفق بہ، فواللہ لقد جاء نا اللہ بک وان قومہ لینظمون لہ الخرز لیتوجّوہ، فانہ لیری أنک قد استلبتہ ملکاً۔ (سیرت ابن ہشام، الجزء ۳، صفحہ ۳۳۶) یعنی اے خدا کے رسول، اُس کے ساتھ نرمی کا معاملہ کیجئے، خدا کی قسم، اللہ آپ کو ہمارے پاس لے آیا اور اُس کی قوم کے لوگ اُس کے لیے تاج تیار کر رہے تھے تاکہ وہ اُس کو اپنا بادشاہ بنائیں۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ آپ نے اُس کا مقام اُس سے چھین لیا ہے۔
یہ حسن اعراض کی ایک حکیمانہ مثال ہے۔ ایک صورت یہ تھی کہ عبداللہ بن ابیّ کی شر انگیزی کا جواب سختی کے ساتھ دیا جاتا۔ صحابی نے گویا اپنے جواب میں یہ بتایا کہ اس معاملہ میں سختی کی ضرورت نہیں۔ حسن اعراض ہی اس مسئلہ کو ختم کرنے کے لیے کافی ہے۔
۴۔ اوپر ہجرجمیل کی وہ مثالیں ہیں جو سطور میں ہوتی ہیں۔ اب ایک بین السطور کی مثال لیجئے۔ جب کسی معاملہ میں ہجر جمیل کا طریقہ اختیار کیا جائے تو اُس میںایک اور بات پوشیدہ ہوتی ہے جو اگر چہ زبان سے بولی نہیںجاتی مگر وہ حقیقی مطلوب کے طورپر اس میں شامل رہتی ہے۔ اس کی ایک مثال حدیبیہ کا معاہدہ ہے۔
حدیبیہ کے مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو ہفتہ قیام فرمایا۔ اس دوران قریش نے مختلف قسم کی زیادتیاں کیں۔ مثلاً ایک صحابی کو تنہا پاکر اُنہیں تیرمار کر ہلاک کردیا۔ ایک بار رسول اللہ ﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ باجماعت نماز ادا کر رہے تھے، اتنے میں قریش کے کچھ لوگ آئے اور آپ پر تیربرسانے لگے۔ اس طرح کی اشتعال انگیز صورت حال کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش سے دس سال کا امن معاہدہ کر لیا۔
اس معاہدہ کی دفعات حضرت عمر پر سخت ناگوار تھیں۔ وہ حضرت ابوبکر کے پاس آئے اور کہا: یا أبابکر ألیس برسول اللہ ، قال: بلی، قال: أولسنا بالمسلمین، قال: بلیٰ، قال: أولیسوا بالمشرکین؟ قال: بلی، قال: فعلام نعطی الدنیۃ فی دیننا؟۔ (السیرۃ النبویۃ لابن کثیر ۳؍۳۲۰)۔ یعنی اے ابوبکر، کیا محمد اللہ کے رسول نہیں، اُنہوں نے کہا کہ ہاں۔ عمر نے کہا کہ کیا ہم مسلمان نہیں، اُنہوں نے کہا کہ ہاں۔ عمر نے کہا کہ کیا وہ مشرک نہیں، اُنہوں نے کہا کہ ہاں۔ عمر نے کہا کہ پھر ہم اپنے دین میں یہ ذلت کیوں گوارا کریں۔ روایات کے مطابق، حضرت عمر نے یہی بات خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کہی۔
یہاں غور طلب امر یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کی زیادتیوں کے باوجود اُن کی یک طرفہ شرطوں پر دس سال کا جو امن معاہدہ کیا تھا، وہ ایک نہایت اہم اسلامی مصلحت کی بنا پر تھا۔ اور وہ مصلحت یہ تھی کہ دشمن سے معاہدہ امن کرکے معتدل حالات پیدا کئے جائیں تاکہ اسلامی دعوت کا عمل موثر طورپر جاری ہوسکے۔ مگر یہ نصیحت نہ امن معاہدہ کے اندر لکھی گئی اور نہ حضرت عمر اور دوسرے صحابہ کی شدید ناگواری کے باوجود آپ نے حدیبیہ کے مقام پر اس کا اعلان کیا۔
یہ ہجر جمیل (حسن اعراض) کا دوسرا پہلو ہے۔ یہ دوسرا پہلو ہمیشہ مخفی حالت میں ہوتا ہے۔ اس پہلو کو لفظوں میں پانا ممکن نہیں۔ اگر اُس کو لفظوں میں لکھا یا بولا جائے تو اُس کی ساری معنویت ختم ہوجائے گی۔
ایسی حالت میں لوگوں کے لیے صرف دو میں سے ایک رویّہ درست ہے۔ یا تو وہ اتنا زیادہ ہوش مند ہوں کہ سطور کے اندر بین السطور کو پڑھ لیں۔ وہ اعلان کے بغیر اُس کی اہمیت کو دریافت کر لیں۔ جن لوگوں کے اندر اتنی ہوش مندی نہیں ہے اُن کے لئے صحیح رویہ یہ ہے کہ وہ اپنے لیڈر کی بصیرت پر اعتماد کریں۔ وہ صرف اعتماد اور حسن ظن کی بنا پر یہ عقیدہ رکھیں کہ اُن کے رہنما نے جو بات کہی ہے اُس کے پیچھے ضرور کوئی گہری مصلحت ہوگی۔ ہمارا کام اپنے رہنما کی اتباع کرنا ہے، نہ کہ اُس کی دیانت داری (integrity) پر شک کرنا۔
۵۔ صُلح حدیبیہ بظاہر ایک ایسی صُلح تھی جو دشمن کے مقابلہ میں دب کر کی گئی۔ مگر اس کے اندر ایک غیر اعلان شدہ مقصد چھپا ہوا تھااور وہ تھا ـــــٹکراؤ کو ایوائڈ کرکے اپنے لیے وقفۂ تعمیر حاصل کرنا۔ اگر یہ بات معاہدہ کے متن میں لکھ دی جاتی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے درمیان اُسی وقت اس کا اعلان کر دیتے تو صلح کے مقاصد سرے سے فوت ہوجاتے۔ اس قسم کے مقاصد ہمیشہ اعلان کے بغیر ہوتے ہیں، نہ کہ اعلان کے ساتھ۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ یہاں تک کہ بعد کو جب اس کا عملی نتیجہ ظاہر ہوگیا، اُس وقت لوگوں نے جانا کہ اس صلح کے اندر کتنی بڑی مصلحت چھپی ہوئی تھی۔
یہی وہ حقیقت ہے جو حضرت ابو بکر صدیق نے بعد کے زمانہ میں ان الفاظ میں بیان کی: ماکان فتح اعظم فی الإسلام من فتح الحدیبیۃ، ولکن الناس یومئذٍ قصررأیہم عمّا کان بین محمد وربّہ، والعباد یعجلون واللہ لا یعجل کعجلۃ العباد حتی یبلغ الامور ما أراد۔ (حیاۃ الصحابۃ، ۱؍۱۵۷) یعنی اسلام میں حدیبیہ کی فتح سب سے بڑی فتح تھی۔ لیکن معاہدہ کے دن لوگوں کو اس بات میں رائے قائم کرنے میں کوتاہی ہوئی جو محمد اورآپ کے رب کے درمیان تھا۔ انسان عجلت پسند ہے اور اللہ انسانوں کی طرح عجلت نہیںکرتا۔ یہاں تک کہ امور کو وہاں تک پہنچادے جو وہ چاہتاہے۔
۶۔ ہجر جمیل (حسن اعراض) سادہ طور پر محض ایک بچاؤ کی تدبیر نہیں، بلکہ وہ بامقصد انسان کی سوچی سمجھی ایک مستقل اخلاقی روش ہے۔ با مقصد انسان کے سامنے ایک متعین منزل ہوتی ہے، جہاں پہنچنا اُس کا سب سے بڑا کنسرن (concern) ہوتا ہے۔ اس لیے وہ راستہ کے ہر اُلجھاؤ سے اپنے آپ کو دور رکھتا ہے تاکہ وہ کسی رُکاوٹ کے بغیر اپنی آخری منزل تک پہنچ سکے۔
جیسا کہ معلوم ہے، قدیم مکہ کے لوگوں نے پیغمبر اسلام کو بہت زیادہ ستایا تھا۔ آپ پر اورآپ کے ساتھیوں پر اتنا زیادہ تشدد کیا کہ آپ کو اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مکہ چھوڑ دینا پڑا۔ اس ترک وطن کے بعد بھی وہ آپ کے خلاف مسلسل جارحیت کرتے رہے۔
آخر کار وہ وقت آیا جب کہ پیغمبر اسلام اللہ کی مدد سے مکہ کے فاتح بن گئے۔ اب وقت تھا کہ ماضی کے ظلم کی اُنہیں سزا دی جائے۔ عام رواج کے مطابق، اُن کو قتل کردینا عین جائز تھا۔ مگر پیغمبراسلام نے اُن لوگوں کے ساـتھ ہجر جمیل کی روش اختیار کی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ فتح مکہ کے بعد جب قریش کے یہ مجرمین آپ کے سامنے حاضر ہوئے تو آپ نے اُن سے پوچھا کہ تم کیا سمجھتے ہو کہ میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں گا۔ اُنہوں نے کہا کہ: اخ کریم و ابن اخ کریم۔ (آپ شریف بھائی ہیں اور شریف بھائی کے بیٹے ہیں)۔
پیغمبر اسلام نے اس کے بعد فرمایا کہ ٹھیک ہے۔ میں تمہارے بارہ میں وہی کہوں گا جو پیغمبر یوسف نے اپنے بھائیوں کے بارے میں کہا۔ یعنی لاتثریب علیکم الیوم (یوسف ۹۲) آج تمہارے اوپر کوئی الزام نہیں۔ یہ کہہ کر آپ نے فرمایا کہ : جاؤ تم سب لوگ آزاد ہو۔ اس طرح آپ نے اُن تمام لوگوں کو آزادکردیا جو اس سے پہلے آپ کے خلاف کھلے دشمن بنے ہوئے تھے۔
پیغمبر اسلام کا یہ عمل ایک بامقصد انسان کے عمل کی ایک اعلیٰ مثال تھی۔ پیغمبر اسلام کا مقصد یہ تھا کہ آپ بیت اللہ کو بتوں سے پاک کریں۔ مکہ کے لوگوں کو شرک سے نکال کر اُنہیں خدائے واحد کاپرستار بنائیں۔ اپنے دشمن انسان کو دوست انسان میں تبدیل کرکے، توجیہہ کی بنیاد پر وہ انقلاب لائیں جس کے لیے آپ کو مبعوث کیا گیا تھا۔
پیغمبر اسلام کے یک طرفہ حسن سلوک کا نتیجہ یہ ہوا کہ مکّہ کے یہ تمام لوگ اسلام میں داخل ہو گئے۔ راوی کہتے ہیں کہ: فخرجوا کانما نشروا من القبور، فدخلوا فی الإسلام (حیاۃالصحابۃ ۱؍۱۷۵) یعنی پھر وہ لوگ وہاں سے اس طرح نکلے جیسے کہ وہ قبروں سے نکلے ہوں اور وہ اسلام میں داخل ہوگئے۔
پیغمبر اسلام اگر اس کے برعکس اُن دشمنوں سے اُن کی ظالمانہ روش کا انتقام لیتے تو اس کے بعد یہ ہوتا کہ وہاں انتقام در انتقام کا دور چل پڑتا۔ ایک انتقام کے بعد دوسرا انتقام شروع ہوجاتا اور پھر حالات ایسا منفی رُخ اختیار کرلیتے کہ سارا تعمیری منصوبہ درہم برہم ہو کر رہ جاتا۔
غیر فطری رد عمل
جب کوئی خلاف مزاج بات پیش آئے تو اُس کے مقابلہ میں آدمی کی روش کی دو مختلف صورتیں ہوتی ہیں۔ ایک جذباتی رد عمل کا طریقہ، اور دوسرا غیر جذباتی رد عمل کا طریقہ۔ جذباتی رد عمل عین وہی چیز ہے جس کو میڈیکل اصطلاح میں الرجی (alergy) کہا جاتا ہے۔ الرجی کی تعریف اس طرح کی جاتی ہے کہ الرجی نام ہے ،معتدل حالات میں غیر معتدل رد عمل کا۔
Abnormal reaction to normal things.
مثلاً اپنے خلاف تنقید کو سُن کر غصہ ہونا، اسی قسم کی ایک الرجی ہے۔ اگر کوئی شخص آپ کی کسی بات پر تنقید کرتا ہے تو اُس کا معتدل اور فطری رد عمل یہ ہے کہ آپ کھلے ذہن کے ساتھ اُس کو سنیں اور کھلے ذہن کے ساتھ اُس پر غور کریں۔ اگر تنقید غلط ہے تو آپ کوچاہئے کہ آپ دلیل کے ساتھ اُس کا جواب دیں اور اگر تنقید درست ہے تو سیدھی طرح اُس کو مان لیں۔ اس کے برعکس تنقید کو سُن کر بگڑ جانا تنقید کا غیر معتدل اور غیر فطری انداز میں جواب دینا ہے۔ پہلی صورت مریضانہ ذہنیت کا ثبوت ہے اور دوسری صورت صحت مند ذہنیت کا ثبوت۔
اسی طرح مخالفانہ نعرہ کو سُن کر مشتعل ہو جانا، توہین کے کسی معاملہ پر بھڑک اُٹھنا، اپنے راستہ میں کوئی رکاوٹ دیکھ کر بگڑ جانا، اپنی سوچ کے خلاف سوچ کو برداشت نہ کرسکنا، یہ سب جذباتی رد عمل کی صورتیں ہیں۔ ایسے لوگ ہمیشہ دوسروں کے خلاف نفرت اور تشدد میں پڑے رہتے ہیں۔ وہ زندگی کے مثبت اور تعمیری رخ کا تجربہ کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
اس کے برعکس دوسرا طریقہ غیر جذباتی رد عمل کا طریقہ ہے۔ اسی کو قرآن میں ہجر جمیل کہا گیا ہے۔ یعنی جب اپنے مزاج کے خلاف کوئی بات پیش آئے تو مشتعل نہ ہو کر ٹھنڈے ذہن کے ساتھ اس پر غور کرنا، اور سوچے سمجھے فیصلہ کے تحت معتدل انداز میں اس کا جواب دینا۔
اس معتدل جواب کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں۔ ایک یہ کہ سادہ طورپر بس اُس کو نظر انداز کردیا جائے۔ یعنی وہی رویہ جس کو عام زبان میں اس طرح بیان کیا جاتا ہیــــــــــکتّے بھونکتے رہتے ہیں اور ہاتھی چلتا رہتا ہے۔
اسی طرح کبھی ہجر جمیل کی صورت یہ ہوتی ہے کہ مخالف گروہ کی بدعملی کا جواب خوش عملی سے دیا جائے۔ اس کے پست اخلاق کے مقابلہ میں بر تر اخلاق کا طریقہ اختیار کرکے اس کو مغلوب کر لیا جائے۔ اسی طرح کبھی حالات کا تقاضا یہ ہوسکتا ہے کہ دباؤ کی سیاست (pressure tactics) کا طریقہ اختیار کرکے اس کو خاموش ہونے پر مجبور کر دیا جائے۔
ہجر جمیل کی کوئی ایک لگی بندھی صورت نہیں۔ حالات کے اعتبار سے اس کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں۔ تاہم جو صورت بھی اختیار کی جائے وہ سوچے سمجھے منصوبہ کی بنیاد پر ہوگی ، نہ کہ بلا سوچے سمجھے رد عمل کی حیثیت سے۔ اس کا بنیادی مقصد اعراض کرنا ہوگا، نہ کہ اُلجھ جانا۔ وہ ہمیشہ امن کے اصول پر ہوگی، نہ کہ تشدد کے اصول پر۔ اس کے پیچھے کبھی بھی نفرت اور انتقام کا جذبہ نہیں ہوگا بلکہ صرف یہ جذبہ ہوگا کہ کسی نہ کسی طرح حسن تدبیر کے ذریعہ معاملہ کو ٹال دیا جائے تاکہ زندگی کی گاڑی معمول کے مطابق اپنے مطلوب رُخ پر چلنے لگے۔
ہجر جمیل کا نشانہ خارجی مسئلہ نہیں ہوتا بلکہ آدمی کی خود اپنی ذات ہوتی ہے۔ ہجر جمیل کا نشانہ یہ نہیں ہوتا کہ خود مسئلہ کا خاتمہ کردیا جائے۔ اُس کا نشانہ یہ ہوتا ہے کہ مسئلہ کو اپنے خلاف مسئلہ بننے سے روک دیاجائے۔
واپس اوپر جائیں

جنگ سے امن تک

قرآن میں دو مقام پر یہ آیت آئی ہے کہ فتنہ کو ختم کرنے کے لئے جنگ کرو (وقاتلوھم حتی لا تکون فتنۃ)۔ اس آیت میں فتنہ سے مراد مذہبی جبر (religious persecution) ہے۔ اس آیت کے ذریعہ رسول اور اصحاب رسول کو حکم دیا گیا کہ تم لوگ مذہبی جبر کے موجودہ نظام کو توڑ دو تاکہ دنیا میں مذہبی آزادی کا ماحول قائم ہو جائے۔ جو لوگ اللہ کے دین کو اختیار کرنا چاہیں اُن کے راستہ میں کوئی پابندی باقی نہ رہے۔ واضح ہو کہ پیغمبر اسلام کے معاصر قوتوں نے آپ کے خلاف خود ہی بدء (التوبہ ۱۳) کا عمل کیا۔ اس طرح اُنہوں نے جارحیت کا آغاز کرکے فتنہ کے خلاف آپ کے آپریشن کو دفاعی جنگ کی صورت دے دی۔
اس آیت میںایک معلوم اور متعین مقصد کے لیے جنگ کا حکم دیا گیا تھا‘ اور وہ تھا‘ مذہبی جبر کا خاتمہ۔ اس آیت کو لے کر کسی اور مقصد کے لیے جنگ چھیڑنا درست نہ تھا۔ مگر بعد کے زمانہ میں ایسا کیا گیا کہ قتالِ فتنہ کے حکم کی توسیع کرکے اُس کو دوسرے مقاصد کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ ایک انحراف (deviation) یا گاڑی کا اپنی پٹری سے اُترنا(derailment) تھا۔ مگر ایسا ہوا‘ اور اس کا سلسلہ کسی نہ کسی عنوان سے آج تک جاری ہے۔
۱۔ اس سلسلہ میں پہلا انحراف اصحابِ رسول کی دوسری نسل(second generation) میں پیش آیا۔ اس معاملہ میں دو نام زیادہ نمایاں ہیں۔ ایک الحسین بن علی (م ۶۱ھ) اور دوسرے عبد اللہ بن الزبیر (م ۷۳ھ)۔ دونوں حضرات نے اموی حکمراں یزید بن معاویہ کے خلاف خروج (بغاوت) کیا۔ دونوں حضرات نے اپنے عمل کے وجہ جواز کے طورپر یزید کے ظلم کا حوالہ دیا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ جس قتال فتنہ کا تعلق مذہبی جبر سے تھا اُس میں تصرف کرکے اُس کو اُنہوں نے سیاسی بدعنوانی (political corruption)تک وسیع کر دیا۔
قتال فتنہ کے حکم کی یہ توسیع بلا شبہہ ایک اجتہادی خطا تھی۔ اس کا قطعی ثبوت یہ ہے کہ پیغمبر اسلامﷺنے واضح طورپر یہ حکم دیا تھا کہ میرے بعد حکمرانوں کے بگاڑ کو لے کر ہر گز اُن کے خلاف خروج نہ کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ان دونوں حضرات کی جنگوں کے وقت صحابۂ کرام کی بڑی تعداد موجود تھی‘ مگر وہ ان جنگوں میں شریک نہیں ہوئے۔ حضرت عبداللہ بن عمر نے واضح طورپر اعلان کیا کہ بعد کے زمانہ کی یہ جنگ قتال فتنہ کے حکم سے انحراف ہے‘ نہ کہ اُس کا اتباع(صحیح البخاری‘ کتاب التفسیر)
۲۔ اس سلسلہ کا دوسرا انحراف زیادہ بڑے پیمانہ پر خلافت راشدہ کے بعد شروع ہوا اور پھرتقریباً ہزار سال تک جاری رہا۔ یہ انحراف مسلم حکمرانوں کی طرف سے کیا گیا۔ اُنہوں نے مذہبی جبر کے خلاف جنگ کے مفہوم میں اضافہ کرکے اُس کو مسلم سلطنت کی توسیع(political expansion) کے معنیٰ میں لے لیا۔ وہ پوری دنیا میں مسلم سلطنت کی توسیع کے لیے لڑائیاں لڑتے رہے۔
قتال فتنہ کے حکم کی یہ توسیع بھی بلا شبہہ ایک انحراف تھی۔ قرآن میں امت کو جو عالمی مشن دیا گیا تھا وہ شہادت علی الناس تھا‘ نہ کہ لوگوں کے اوپر اپنا سیاسی اقتدار قائم کرنا۔ یہی بات پیغمبر اسلام نے حجۃ الوادع کے موقع پر اس طرح فرمائی کہ اللہ نے مجھ کو سارے انسانوں کے لیے پیغمبر بنا کر بھیجا ہے۔ اس لیے تم میرے لائے ہوئے پیغام کو میری طرف سے تمام دنیا والوں تک پہنچا دو (فأدوا عنی) اس اعتبار سے بعد کے دور میں مسلمانوں کا اصل کام دعوت الی اللہ تھا‘ نہ کہ اقتدار کی سیاست چلانا۔
۳۔ اس سلسلہ کا تیسرا شدید تر انحراف وہ ہے جو موجودہ زمانہ میں پیش آیا۔ یہ کچھ مسلم مفکرین کی طرف سے مذکورہ قرآنی آیت کی نام نہاد انقلابی تفسیر تھی۔ ان لوگوں نے آیت کے حکم میں خود ساختہ توسیع کرکے اُس کو قتال برائے تنفیذ احکام کے معنیٰ میں لے لیا۔ اُنہوں نے کہا کہ اس آیت کے مطابق‘ ہر زمانہ کے مسلمانوں پر یہ فرض ہے کہ وہ حکمرانوں سے جنگ کرکے اسلام کے احکام کو ہر جگہ نافذ کریں۔
قتالِ فتنہ کے حکم میں یہ توسیع ایک مہلک قسم کا انحراف ہے۔ اس نے مسلمانوں کے اندر غلط طورپر یہ ذہن پیدا کیا کہ ہرجگہ اسلامی حکومت قائم کرنا اُن کا مذہبی فریضہ ہے۔ اس کے نتیجہ میں ہرجگہ جہاد کے نام پر تشدد ہونے لگا۔ کچھ مسلمان گن اور بم لے کر دنیا والوں پر ٹوٹ پڑے۔ دوسرے مسلمان جنہوں نے اس متشددانہ فعل میں عملاً شرکت نہیں کی‘ وہ بھی اس انقلابی نظریہ سے اتنا مسحور ہوئے کہ وہ اس کی ہمت نہ کرسکے کہ وہ کھُل کر اُس کی مذمت کریں اور اُس کے غیر اسلامی ہونے کا اعلان کریں۔
بیسویں صدی عیسوی پوری کی پوری اسلام کے نام پر اس غیر اسلام کا نمونہ بن گئی۔ اس کا نتیجہ دو مہلک صورتوں میں بر آمد ہوا۔ ایک‘ اسلام کی بدنامی۔ ساری دنیا میں اسلام خلاف واقعہ طورپر نفرت اور تشدد کا مذہب سمجھا جانے لگا۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ لندن کے مشہور انگریزی روزنامہ میں اسلام کے بارے میں ایک آرٹیکل چھپا جس کا عنوان یہ تھاــــــــایک مذہب‘ جو تشدد کو جائز قرار دیتا ہے:
A religion that sanctions violence.
دوسری خرابی یہ ہوئی کہ موجودہ زمانہ میں اسلامی دعوت کے حق میں جو نئے قیمتی امکانات پیدا ہوئے تھے وہ استعمال ہونے سے رہ گئے۔ مسلمان خود ساختہ جہاد کے نام سے اپنے آپ کوبے فائدہ طورپر ہلاک کرتے رہے‘ وہ جدید مواقع کو استعمال کرکے اسلام کا حیات بخش پیغام دوسروں تک نہ پہنچا سکے۔
اکیسویں صدی عیسوی میں مسلمانوں کے لیے پہلا ضروری کام اسی غلطی کی تصحیح ہے۔ کوئی بھی دوسرا کام کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ اسلام کے نام پر ہونے والے تشدّد کو فوری طور پر اور مکمل طورپر بند کردیا جائے۔ اس معاملہ میں کسی بھی عذرکو‘ خواہ وہ بظاہر کتنا ہی سنگین ہو‘ رکاوٹ نہ بنایا جائے۔ موجودہ زمانہ میں اسلام کے حقیقی احیاء کا نقطۂ آغاز یہی ہے۔ نفرت اور تشدد کے ماحول کو ختم کرکے اہلِ اسلام سب کچھ حاصل کرسکتے ہیں‘ اس کے بغیر کچھ بھی نہیں۔
امن برائے امن
امن (peace) کیا ہے۔ اہلِ علم اس کی تعریف اس طرح کرتے ہیں کہ امن عدمِ جنگ (absence of war) کا نام ہے۔ یعنی جنگ نہ ہو رہی ہو تو کہا جائے گا کہ امن قائم ہے۔ جنگ کی حالت نہ ہونے کا نام امن کی حالت ہے۔ جو لوگ اپنے کسی حق (right) کے نام پر متشددانہ جنگ کررہے ہیں‘ وہ اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں کہ امن مع انصاف (peace with justice) کا نام امن ہے۔ جس امن سے انصاف حاصل نہ ہو وہ امن بھی نہیں۔
یہ دوسرا نظریہ ایک غلط سوچ کا نتیجہ ہے۔ جو لوگ اس طرح سوچیں اُن کو نہ کبھی امن ملے گا اور نہ کبھی انصاف۔ حقیقت یہ ہے کہ امن کا مقصد مواقع(opportunities) کو حاصل کرنا ہے‘ نہ کہ انصاف کو حاصل کرنا۔ امن بجائے خود کسی کو انصاف نہیں دیتا۔ امن صرف یہ کرتا ہے کہ و ہ معتدل حالات قائم کر دیتا ہے جس میں عمل کرکے انصاف یا حق حاصل کیا جاسکے۔
موجودہ دنیا میں جب بھی کسی کو کوئی چیز ملتی ہے وہ اُس کے اپنے عمل کے نتیجہ میں ملتی ہے۔ امن کا فائدہ صرف یہ ہے کہ وہ آپ کے حق میں وہ معتدل حالات پیدا کردے جس میں آپ کے لیے اپنے موافق منصوبہ بندی کرنا ممکن ہوجائے۔ جنگ و تشدد کے حالات کا م کے مواقع کو برباد کرتے ہیں۔ جب کہ امن اور صلح کے حالات کام کرنے کے تمام دروازے اس طرح کھول دیتے ہیں کہ اُس کا کوئی دروازہ بند نہیں رہتا۔
جنگ کا دور ختم
پائرس (Pyrrhus) قدیم یونان کا ایک بادشاہ تھا۔ وہ ۳۱۹ ق م میں پیدا ہوا‘ اور ۲۷۲ ق م میں اُس کی وفات ہوئی۔ ۲۷۹ ق م میں اُس کی لڑائی رومیوں (Romans) سے ہوئی۔ اس جنگ میں شاہ پائرس جیت گیا۔ مگر جب لڑائی ختم ہوئی تو اُس کی اقتصادیات اور اُس کی سیاسی اور فوجی طاقت پوری طرح تباہ ہوچکی تھی۔ اسی واقعہ سے پِرک وکٹری (Pyrrhic Victory) کی اصطلاح بنی ہے‘ یعنی تباہ کن فتح۔
قدیم زمانہ میں پرک وکٹری یا تباہ کن فتح کا واقعہ بہت کم پیش آسکتا تھا۔ مگر موجودہ زمانہ میں جدید ہتھیاروں کی ایجاد کے بعد ہر جنگ تباہ کن جنگ بن چکی ہے۔ اب جنگ جیتنے والے اور جنگ ہارنے والے کے درمیان اتنا ہی فرق ہوتا ہے کہ اخباروں میں دونوں کی خبریں الگ الگ الفاظ میں چھپتی ہیں‘ ورنہ حقیقت کے اعتبار سے دونوں کا معاملہ ایک ہوتا ہے۔ موجودہ زمانہ میں ہار بھی ہارہے اور جیت بھی ہار۔
موجودہ زمانہ میں جنگ صرف خود کشی ہے‘ جنگ اب کسی مثبت مقصد کو حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں۔ کسی قوم سے کوئی چیز کھوئی گئی ہو تو اُس کے لیے صبر ہے‘ نہ کہ جنگ۔ کیوں کہ جنگ اب اس کے لیے محرومی پر ذلت کا اضافہ ہے۔ امن کا بدل جنگ نہیں‘ امن کا بدل گفت وشنید ہے۔
اس معاملہ کی ایک مثال پاکستان کی تاریخ میں ملتی ہے۔ پاکستان ۱۹۴۷ میں بنا۔ اس وقت بنگلہ دیش پاکستان کا مشرقی حصہ تھا۔ پھر ایسے حالات پیش آئے کہ بنگلہ دیش پاکستان سے پوری طرح الگ ہوگیا۔ آخر کار پاکستان نے حقیقت پسندی کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے اس جغرافی محرومی پر صبر کر لیا۔ اگر پاکستان ایسا نہ کرتا تووہ اپنے کھوئے ہوئے حصہ کی خاطر اپنے بقیہ حصہ کو بھی تباہ کرلیتا۔ جنگ کا مطلب نتیجہ کے اعتبار سے یہ ہے کہ جو کچھ بچا ہے اُس کو بھی کھو دیا جائے‘ جزئی محرومی کو کلی محرومی بنا دیا جائے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ جنگ اب کسی کے لیے بھی کوئی انتخاب (option)نہیں۔ آج کی جنگ میں ہارنے والے کے لیے بھی ہار ہے اور جیتنے والے کے لیے بھی ہار۔ تاہم اس میں مایوسی کی کوئی ضرورت نہیں۔ دور جدید نے اگر ایک طرف جنگ کو ناممکن بنادیاہے تو دوسری طرف جدید دور کے نتیجہ میں ایسی انقلابی تبدیلیاں ظہور میں آئی ہیں کہ کوئی بھی محرومی کسی کے لیے محرومی ثابت نہ ہو۔ آج کو ئی فرد یا گروہ‘ خواہ وہ کسی بھی حال میں ہو‘ از سرِ نو اپنی منصوبہ بندی کرکے دوبارہ پہلے سے زیادہ بڑی کامیابی حاصل کرسکتا ہے۔ کھونے کے بعد وہ کامیابی کے نئے امکانات کو پاسکتا ہے
موجودہ زمانہ میں کمیونیکیشن نے چھوٹے ملک اور بڑے ملک کے فرق کو مٹا دیا ہے۔ گلوبلائزیشن کے جدیددورنے جغرافی محدودیت کے تصور کو عملاً غیر موثر بنادیا ہے۔ جدید تبدیلیوں کے بعد اب جنگ کی حیثیت کسی صحت مند انتخاب کی نہیں رہی۔
اب جنگ سادہ طورپر صرف جنگ نہیں‘ وہ غصہ اور نفرت اور مایوسی کے تحت پیش آنے والا ایک منفی واقعہ ہے‘ نہ کہ کسی تعمیری منصوبہ بندی کا مثبت نتیجہ۔ اب جنگ صرف خود کشی کی مایوسانہ چھلانگ ہے‘ وہ کسی صحت مند ذہن کے تحت کیا ہوا مفید اقدام نہیں۔
واپس اوپر جائیں

صحبت کا فلسفہ

عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کو اسلام میں جو امتیازی درجہ ملا وہ صحبت رسول کی بنا پر تھا۔ یہ بات بجائے خود صحیح ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ صحبت کوئی پُر اسرار (mysterious)چیز ہے اور اُس کی پُر اسرار تاثیر کے نتیجہ میں اصحاب رسول کو مجرد صحبت کی بنا پر خود بخود یہ فائدہ حاصل ہوا۔ یہ نظریہ علمی طورپر درست نہیں۔ وہ اس معاملہ کی پوری توجیہہ نہیں کرتا۔ مثلاً اس نظریہ میں اس واقعہ کی توجیہہ موجودنہیں کہ مدینہ کے سیکڑوں دوسرے لوگ جو بظاہر ایمان لائے اور پیغمبر کی صحبت میں بار بار بیٹھے‘ مگر وہ آپ کی صحبت سے فیض حاصل نہ کرسکے اور اسلام کی تاریخ میں منافق کہلائے گئے۔
اصل یہ ہے کہ کسی انسان کے لیے اعلیٰ ایمان حاصل کرنے کا ذریعہ صرف ایک ہے‘ اور وہ ہے معرفت یا ذہنی ارتقاء۔ ایمان قبول کرنے کے بعد آدمی کے اندر معرفت کے رُخ پر ایک تفکیری عمل (thinking process) جاری ہوتا ہے۔ یہ تفکیری عمل ہی دراصل کسی مومن کے لیے اعلیٰ ایمانی درجہ حاصل کرنے کا واحد ذریعہ ہے۔
پیغمبر کی صحبت میں در اصل یہی تفکیری عمل جاری رہتا تھا۔ لوگ آپ کی باتوں کو سنتے‘ وہ آپ کی باتوں کو اپنے ذہن میں اس طرح جگہ دیتے کہ وہ اُن کے ذہن میں ہلچل پیدا کردیتا۔ اس طرح اُن کے اندر تفکیرکا عمل مسلسل ہر صبح و شام جاری رہتا۔ رسول اللہ کی صحبت اس تفکیری عمل کا ذریعہ تھی‘ اس لیے اُس کو صحبترسول سے منسوب کیا گیا۔
تاہم پیغمبر کی باتیں سادہ طورپر صرف سننا کافی نہیں۔ پیغمبر کی باتیں صرف اُس انسان کے لیے مفیدبنیںگی جو ریسیپٹیو(receptive) ہو‘ جو یکسو ہو کر سنے اور پھر نفسیاتی پیچیدگیوں سے آزاد ہو کر اُس کو قبول کر سکے۔ مخلص اہل ایمان میں یہ قبولیت (receptivity) پوری طرح موجود تھی اس لیے اُن کو صحبت رسول کا فائدہ حاصل ہوا۔ منافقین کے اندر یہ قبولیت موجود نہ تھی اس لیے وہ صحبت رسول کے باوجود اُس کا فائدہ نہ پاسکے۔
صحابیت کی تعریف یہ کی جاتی ہے کہ: من رأی النبی صلی اللہ علیہ وسلم مؤمنا بہ و مات علی ذلک فہو صحابی(جس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالت ایمان میں دیکھا اور اس پر اس کی موت واقع ہوئی تو وہ صحابی ہے)۔ یہ تعریف صحابیت کی ایک ناقص تعریف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ صحبت کا مفہوم متعین کرنے کے لیے یہ دیکھنا ہوگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عملی طورپر صحبت کی صورت کیا تھی۔ وہاں ایسا نہ تھا کہ مجلس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش بیٹھے ہوں اور صحابہ بھی بعد از ایمان آپ کی صحبت میں خاموش بیٹھ کر صرف آپ کو دیکھتے رہتے ہوں۔ آپ کی صحبت میں ہمیشہ تفکر و تدبر کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ قرآن کے الفاظ میں یہ تعلیم حکمت کا ایک حلقہ ہوتا تھا۔
اس کے برعکس واقعات بتاتے ہیں کہ آپ کی صحبت ایک زندہ صحبت تھی۔ آپ ان لوگوں کے سامنے نعمت رب کی تحدیث فرماتے تھے (الضحیٰ)۔ آپ حاضرین کو اُس رزق رب سے باخبر کرتے تھے جس کی توفیق آپ کو اللہ کی طرف سے دی جاتی تھی (طٰہ) آپ قرآن کی آیتوں کی تشریح فرماتے تھے۔ آپ لوگوں کے سوال کا جواب دیتے تھے۔آپ وہ باتیں فرماتے تھے جس سے لوگوں کا شک یقین میں بدل جاتا تھا۔ آپ لوگوں کو ذکر و دعا اور حمد و شکر کے کلمات کی تعلیم دیتے تھے۔ آپ لوگوں کو قرآن کے نازل شدہ حصّے سناتے تھے۔ آپ لوگوں کو پچھلے انبیاء اور پچھلے اہل ایمان کے پُر تاثیر واقعات کی خبر دیتے تھے‘ وغیرہ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں بیٹھنے والے آپ سے اس قسم کی زلزلہ خیز باتیں سنتے تھے۔ آپ کی صحبت میں لوگوں کو اس طرح فکری ہلچل کی غذا ملتی تھی۔ آپ کی صحبت مکمل معنوں میں ایک زندہ صحبت تھی۔ آپ کی صحبت کا اس طرح زندگی بخش ہونا وہ اصل سبب تھا جس نے آپ کے ہم زمانہ اہل ایمان کو وہ عظیم درجہ دے دیا جس کو تاریخ میں اصحاب رسول کہا جاتا ہے۔ یہ فکری انقلاب کا ایک واقعہ تھا‘ نہ کہ سادہ طورپر صرف صحبت میں بیٹھنے کا۔
یہی معاملہ بعد کے دور کے علماء اور بزرگوں کا ہے۔ اُن میں سے کسی کی صحبت میں پُر اسرار تاثیر نہیں۔ یہ معاملہ تمام تر صحبت میں بیٹھنے والوں اور وہاں کی باتیں سننے والوں کی اپنی استعداد پر منحصر ہے۔ جن افراد کے اندر مادّہ قبولیت ہوگا وہ صحبت کا فائدہ حاصل کرسکیں گے۔ اور جن افراد کے اندر قبولیت کا مادّہ نہ ہوگا وہ فائدہ سے محروم رہیں گے۔ اس تشریح کی روشنی میں صحابی کی زیادہ صحیح تعریف یہ ہونا چاہئے: جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالت ایمان میں دیکھا اور آپ کی صحبت سے استفادہ کیا اور اسی حال میںاُس کی موت ہوئی تو وہ صحابی ہے۔
عمومی صحبت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمومی صحبت جو اکثر مسجد میں یا کسی اور مجلس میں آپ کے اصحاب کو حاصل ہوتی تھی‘ اُس کی ایک مثال یہاں نقل کی جاتی ہے۔ اس سے اندازہ ہوگا کہ آپ کی مجلسوں میں اصحابِ رسول کو کس طرح ذہنی تعمیر کی خوراک ملتی رہتی تھی۔
عن ابی ذر قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: کیف أنتم و ائمۃ من بعدی‘ یستأثرون بہذا الفیٔ‘ قلت: اَمَا والذی بعثک بالحق‘ اضع سیفی علی عاتقی‘ ثم اضرب بہ حتی القاک‘ قال: اولا ادلک علی خیر من ذلک: تصبر حتی تلقانی (سنن ابی داؤد‘ کتاب السنۃ‘ بحوالہ مشکاۃ المصابیح ۲؍۱۰۹۵)
ترجمہ : ابو ذر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اُس وقت تمہارا حال کیا ہوگا جب میرے بعد والے حکمراں آئیں گے۔ وہ فئ(اموال حکومت) کو اپنے لیے خاص کر لیں گے۔ میں نے کہا کہ اُس خدا کی قسم‘ جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے‘ میںتلوار کو اپنے کندھے پر رکھو ں گا اور پھر اس سے اُنہیں ماروں گا یہاں تک کہ میں آپ سے مل جاؤں۔ آپ نے فرمایا کہ کیا میں تم کو اس سے زیادہ بہتر بات نہ بتاؤں۔ تم صبر کرو‘ یہاں تک کہ تم مجھ سے مل جاؤ۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ارشاد کے ذریعہ اپنے اصحاب کو ایک نئی فکر ی روشنی دی۔ عام طورپر ایسا ہوتا ہے کہ لوگ جب اپنے حکمرانوں میں بگاڑ دیکھتے ہیں تو وہ اصلاح سیاست کے نام پر اُن سے متشددانہ ٹکراؤ شروع کردیتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ بگاڑ کے زمانہ میںحکمرانوں سے ٹکراکر شہید ہوجانے سے زیادہ بہتر بات یہ ہے کہ اُن کے بگاڑ پر صبر کیا جائے‘ اور یہ سب اُس وقت تک جاری رکھا جائے جب کہ انسان کی موت آجائے۔
اس حدیث میں ’’صبر‘‘ سے مراد بے عملی نہیں ہے بلکہ اُس سے مراد ایک عظیم ترین عمل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکمرانوں سے نزاع کاطریقہ چھوڑ کر اپنے عمل کے لیے غیر نزاعی طریقہ ڈھونڈنا اور اُس پر کاربند ہوجانا۔ سیاسی نزاع کا طریقہ ہمیشہ بے صبری کی پیداوار ہوتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں نزاع کو ایوائڈ کرتے ہوئے عمل کرنا اُس وقت ممکن ہوتا ہے جب کہ آدمی اپنے جذبات پر کنٹرول کرکے صابرانہ انداز میں اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرے۔
یہ ایک عظیم حکمت تھی جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو تلقین فرمائی‘ صحابہ اور تابعین اور تبع تابعین نے اس حکمت کو سمجھا اور اُس پر بھر پور عمل کیا۔ اس کے نتیجہ میں دور اوّل میں وہ عظیم اسلامی کام انجام پایا جو مذکورہ صابرانہ سیاست کے بغیر نہیں ہوسکتا تھا۔
جیسا کہ معلوم ہے‘ خلفائے راشدین کے بعد فوراًسیاست میں بگاڑ آگیا۔ مسلم حکمراں شریعت کے مقرر راستے سے ہٹ گئے۔ اُس زمانہ میں اگر اہلِ ایمان اپنے حکمرانوں سے متشددانہ ٹکراؤ کا طریقہ اختیار کرتے تو اُس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ پہلی اور دوسری نسل کے تمام بہترین لوگ قتل کردیئے جاتے۔ ابتدائی نسل کے وہ تمام تاریخ ساز لوگ قبروں میں دفن ہوجاتے۔ اسلام کی وہ عظیم تاریخ بننے کی نوبت ہی نہ آتی جو ان لوگوں کے ذریعہ بنی۔
مثلاً ابتدائی نسل کے یہی وہ لوگ ہیں جوسیاسی ٹکراؤ کے محاذ کو چھوڑ کر پُر امن دعوت کے میدان میں سرگرم ہوگئے اور کروڑوں لوگوں کو اسلام کے دائرہ میں داخل کر دیا۔ اُنہوں نے دورِ پریس سے پہلے قرآن کی حفاظت اور اشاعت کا وہ عظیم کام انجام دیا جس کی مثال دوسری آسمانی کتابوں میں نہیں ملتی۔ اُنہوں نے لاکھوں حدیثوں کو جمع کرکے اُن کی چھان بین کی اور صحیح احادیث کے مجموعے تیار کرکے دنیا کو علم حدیث کا قیمتی تحفہ دیا۔ اُنہوں نے فقہ کی تدوین کا وہ عظیم کام انجام دیا جس کی مثال کسی اور دین میں موجود نہیں۔
اسی طرح یہی ابتدائی نسل کے لوگ ہیں جنہوں نے حکومتی بگاڑ سے صرف نظر کرکے تمام اسلامی علوم کو مدون کیا۔ مثلاً سیرت‘ تاریخ‘ عقائد وکلام‘ عربی زبان کے لغات تیار کرنا‘ نحو اور صرف اور بلاغت اور دوسرے متعلق علوم کی ترتیب و تدوین۔
دور اول کے اہل ایمان کی انہی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ اسلام ہر اعتبار سے ایک محفوظ اور معتبر تاریخی دین بن گیا۔ جب کہ کسی بھی دوسرے مذہب کو یہ حیثیت حاصل نہیں۔ اور یہ تمام کارنامے صرف اس لیے انجام پائے کہ دور اول کے مسلمانوں نے پیغمبر اسلام کی دی ہوئی رہنمائی کی بنا پر یہ حکیمانہ طریقہ اختیار کیا کہ انہوں نے سیاسی بگاڑ کے مقابلہ میں متشددانہ ٹکراؤ کا طریقہ چھوڑ دیا اور خدمتِ اسلام کے اُن بقیہ شعبوں میں پُر امن طورپر سر گرم عمل ہوگئے جو غیر نزاعی میدان میں اُنہیں حاصل تھا۔
توسیعی صحبت
قرآن کی سورہ نمبر ۲۶ میںاللہ تعالیٰ نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت فرمایا ہے کہ وہ ساجدین کے درمیان تمہارے تقلّب کو دیکھ رہا ہے (الشعراء ۲۱۹) قرآن کی اس آیت میں ساجدین سے مراد مؤمنین ہیں۔ اور تقلّب کا مطلب ہے ‘ چلنا پھرنا۔ اس سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ صبح وشام کی سرگرمیاں ہیں جو آپ اہل ایمان کی اصلاح کے لیے اور اُن کے اندر دینی شعور کو بیدار کرنے کے لیے انجام دیتیتھے۔ آپ کی یہ کوششیں بھی توسیعی مفہوم میں صحبت رسول کا ایک حصہ تھیں۔ ان کوششوں کے دوران آپ مسلسل اہل ایمان کے دینی شعور کو بیدار کرنے کی کوشش فرماتے تھے۔ توسیعی صحبت کے معاملہ کو سمجھنے کے لیے یہاں اس قسم کی ایک مثال نقل کی جاتی ہے:
عن ابی ہریرہ ان رجلاشتم أبا بکر والنبی صلی اللہ علیہ وسلم جالس فجعل النبی صلی اللہ علیہ وسلم یعجب ویتبسم فلما اکثر رد علیہ بعض قولہ فغضب النبی صلی اللہ علیہ وسلم وقام فلحقہ ابوبکر فقال یا رسول اللہ کان یشتمنی وأنت جالس فلما رددت علیہ بعض قولہ غضبت وقمت قال انہ کان معک ملک یردعنک فلما رددت علیہ بعض قولہ وقع الشیطان فلم أکن لأقعد مع الشیطان (مسند احمد‘ ۲؍۴۳۶)
ترجمہ : ابو ہریرہ بتاتے ہیں کہ ایک شخص نے ابوبکر کے خلاف سبّ وشتم کیا اور رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں بیٹھے ہوئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر متعجب ہوتے رہے اور تبسم فرماتے رہے۔ جب اُس آدمی نے بہت زیادہ سخت کلامی کی تو ابوبکر نے اُس کی بعض باتوں کا جواب دے دیا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ ہوگئے اور وہاں سے اُٹھ گئے۔ پھر ابو بکر چل کر اُن سے ملے۔ اُنہوں نے کہا کہ ائے خدا کے رسول‘ وہ آدمی مجھ کو سبّ وشتم کر رہا تھا اور آپ بیٹھے رہے۔ پھرجب میں نے اُس کی بعض باتوں کا جواب دیا تو آپ غصہ ہوگئے اور وہاں سے اُٹھ کر چلے آئے۔ آپ نے فرمایا کہ پہلے تمہارے ساتھ ایک فرشتہ تھا جو تمہاری طرف سے بول رہا تھا۔ پھر جب تم نے اُس کی بعض باتوں کا جواب دیا تو( فرشتہ چلا گیا )اور شیطان آگیا۔ تو میں نے شیطان کے ساتھ بیٹھنا گوارا نہیں کیا۔
یہ اُس چیز کی ایک اعلیٰ مثال ہے جس کو ہم نے پیغمبر کے ذریعہ ملی ہوئی شعوری بیداری کہا ہے۔ اصل یہ ہے کہ ہر انسان کے اندر پیدائشی طورپر دو قسم کی صفات ہوتی ہیںــــــنفس امّارہ اور نفس لوّامہ۔ نفس امّارہ شیطان کی علامت ہے اور نفس لوّامہ فرشتہ کی علامت۔ ایک آدمی آپ کو گالی دے اور آپ چُپ رہیں تو گالی دینے والے کا نفس لوّامہ بیدار ہو کر اندر ہی اندر اُس کو ملامت کرتا رہتا ہے۔ یہ گویا آپ کی طرف سے فرشتہ کا جواب دینا ہے۔ اس کے برعکس جب آپ ایسا کریں کہ سخت کلامی کے جواب میںآپ بھی سخت کلامی کریں تو دوسرے آدمی کا نفس امّارہ متحرک ہوجائے گا۔ یہ آدمی کا شیطان کے زیر اثر آجانا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اس تلقین کے ذریعہ صحابہ کو ایک عظیم حقیقت بتائی۔ آپ نے صحابہ کے اندر وہ فکری روشنی پیدا کی جو ہر معاملہ میں اُن کی کامیابی کی ضامن بن جائے‘ خواہ وہ معاملہ انفرادی ہویا اجتماعی۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشاد کے ذریعہ اہل ایمان کو ایک گہری سوچ عطا کی۔ آپ نے بتایا کہ ہر انسان کے اندر پیشگی طورپر دو مختلف قسم کی شخصیتیں چھپی ہوئی ہیں۔ ایک‘ تمہاری دشمن شخصیت اور دوسری‘ تمہاری دوست شخصیت۔ یہ تمہارے اپنے اختیار میں ہے کہ تم فریقِ ثانی کو اپنا دوست بناتے ہو یا اپنا دشمن۔ اگر تم نے فریقِ ثانی کے نفسِ امّارہ کو جگایا تو اُس کی دشمن شخصیت تمہارے حصہ میں آئے گی۔ اور اگر تم نے اُس کے نفس لوّامہ کوجگایا تو اُس کی دوست شخصیت تمہارے حصہ میں آئے گی۔
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس ارشاد کے ذریعہ اس اہم حقیقت کی طرف نشان دہی فرمائی کہ اس دنیا میں کچھ نہ کرنے کا نام بھی کرنا ہے اور کچھ نہ بولنے کا نام بھی بولنا ۔ اگر ایک شخص آپ کے خلاف سبّ وشتم کررہا ہے اور آپ جواب نہیں دیتے‘ تو اس کا مطلب سادہ طور پر یہ نہیں ہے کہ آپ نے جواب نہیں دیا بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے خاموش رہ کر زیادہ طاقتور متکلم کو بولنے کا موقع دیا۔ یعنی خدا کے فرشتہ کو۔ اس طرح یہ ممکن ہوا کہ آپ جو کام کم موثر انداز میں انجام دیتے‘ اُس کو خدا کے فرشتہ نے زیادہ موثر انداز میں انجام دے دیا۔
واپس اوپر جائیں

جہاد کیا ہے

ملّا علی قاری مشہور عالم اور فقیہہ ہیں۔ وہ اپنے مسلک کے اعتبار سے حنفی تھے۔ اُن کا پورا نام یہ ہے: علی بن (سلطان) محمد، نورالدین الملّا الہروی القاری۔ ملّا علی قاری ہرات میں پیدا ہوئے۔ اُن کی وفات ۱۰۱۴ھ (۱۶۰۶ء) میں مکہ میں ہوئی۔ انہوں نے مختلف اسلامی موضوعات پر کثیر تعداد میں کتابیں لکھیں۔ (کتاب الأعلام)
ملاّ علی قاری کی ایک کتاب کانام مرقاۃ المصابیح ہے جو مشکاۃ المصابیح کی شرح میں لکھی گئی ہے۔ اس کتاب میں ملاعلی قاری کتاب الجہاد کے تحت لکھتے ہیں کہ جہاد کے لفظ میں لغوی طورپر جدوجہد اور مشقت کا مفہوم ہے۔ اس کے بعد وہ لکھتے ہیں: ثم غلب فی الإسلام علی قتال الکفار۔ یعنی پھر جہاد کا لفظ اسلام میں اہل کفر سے جنگ کے لیے استعمال ہونے لگا۔
ہر لفظ کا ایک لغوی مفہوم ہوتا ہے اور دوسرا استعمالی مفہوم۔ یہی معاملہ جہاد کا بھی ہے۔ جہاد کالفظ جہد سے نکلا ہے۔ لغوی طورپر اس کے معنیٰ کوشش کے ہیں۔ اس میں مبالغہ کا مفہوم ہے۔ استعمال میں یہ لفظ مختلف قسم کی جدوجہد کے لیے لکھا یا بولا جاتا ہے۔ اُنہی میںسے ایک جنگ بھی ہے، تاہم اس کا استعمال صرف اس جنگ کے لیے خاص ہے جو فی سبیل اللہ کی گئی ہو، ملک و مال کے لیے جو جنگ کی جائے اُس کو جہاد نہیں کہا جائے گا۔
قرآن میںاس سلسلہ میں دو مختلف لفظ استعمال کئے گئے ہیںــــــجہاد اور قتال۔ جب پُرامن جدوجہد مراد ہو تو وہاں قرآن میں جہاد کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً قرآن کے ذریعہ پُر امن دعوتی جدوجہد (الفرقان ۵۲)۔ اور جب باقاعدہ جنگ مراد ہو تو وہاں قرآن میں قتال کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلاً آل عمران ۱۲۱۔ تاہم بعد کے زمانہ میں جہاد کا لفظ اکثر قتال کے ہم معنیٰ لفظ کے طورپر استعمال کیا جانے لگا۔ جہاد کے لفظ کے اس استعمال کو اگر بالفرض درست مانا جائے تب بھی وہ جہاد کے لفظ کا ایک توسیعی استعمال ہوگا، نہ کہ اُس کا حقیقی استعمال۔
واپس اوپر جائیں

مسلم پالیسی کو بدلنے کی ضرورت

اپریل ۲۰۰۲ء کے آخری ہفتہ میں مکہ میں رابطہ عالم اسلامی کی چوتھی عالمی کانفرنس ہوئی۔ اس میں مختلف ملکوں کے مسلم علماء اور دانشور تقریباً پانچ سو کی تعداد میں شریک ہوئے۔ اس کا موضوع ’’اسلام اور گلوبلائزیشن ‘‘ بتایا گیا۔ اس کانفرنس کی ایک رپورٹ لاہور کے ماہنامہ محدث (مئی ۲۰۰۲) میں دیکھی۔ اس کا ایک حصہ یہاںکسی قدر تصرف کے ساتھ نقل کیا جاتا ہے :
بوسنیا کے رئیس العلماء مصطفی سیرچ نے سابق صدر بوسنیا عزت بیگووچ کے خیالات کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا کہ ہم بوسنیا کے تلخ تجربہ کی روشنی میں یہ کہنا مناسب سمجھتے ہیں کہ عربوں کو اسرائیل سے صلح وآشتی کا راستہ اختیار کر لینا چاہئے ۔ دکتور یوسف القرضاوی فوراً مائیک پر آئے اور نہایت شدید الفاظ میں عزت بیگوچ کے اس نظریہ کی تردید کی۔ رپورٹ کے مطابق، بظاہر پوری کانفرنس میں کوئی شخص بھی عزت بیگوچ کی حمایت میں بولنے کے لیے کھڑا نہیں ہوا (صفحہ ۵۴)۔
جس زمانہ میں عزت بیگووچ نے بوسنیا کے آزاد مسلم مملکت ہونے کا اعلان کیا اور اس کے نتیجہ میںوہاں خونی جنگ چھڑ گئی، اُس وقت ساری مسلم دنیا میں عزت بیگووچ ہیرو بن گئے۔ مگر آج یہی عزت بیگووچ جب امن اور صلح کی بات کرتے ہیں تو اب وہ مسلمانوں کے یہاں زیرو بنے ہوئے ہیں۔ اس واقعہ پر غور کیجئے تو کچھ سبق آموز باتیں سامنے آئیں گی۔
۱۔ موجودہ زمانہ کے مسلمان محصور ذہنیت (beseaged mentality) میں جی رہے ہیں۔ اُن کے نااہل دانشوروں اور لیڈروں نے اُنہیں یہ بتا رکھا ہے کہ وہ مظلوم ہیں اور دشمنوں کی سازش کا شکار ہورہے ہیں۔ جولوگ ایسی نفسیات میں مبتلا ہوں اُن کا حال یہ ہوگا کہ وہ لڑائی کی زبان تو سمجھیں گے مگر وہ صُلح کی زبان سمجھنے سے قاصر رہیں گے۔
۲۔ مسٹر عزت بیگووچ نے جو پیغام بھیجا وہ ایک ادھورا پیغام تھا۔ اس بنا پر وہ کسی کے لئے قابل قبول نہیں ہوسکتا تھا۔ عزت بیگووچ کا پیغام اپنی موجودہ شکل میں صرف مجبوری کے ہم معنیٰ ہے۔ اور کوئی بھی مسلمان مجبوری کے تحت کسی پالیسی کو اختیار کرنے پر راضی نہیں ہوگا۔ عزت بیگووچ کو چاہیے کہ وہ مسلح اقدام کے بجائے پُر امن اقدام کا طریقہ دریافت کریں۔ اس کے بعد لوگوں کے لیے اُن کا پیغام قابل فہم اور قابلِ قبول بن جائے گا۔
۳۔ مکہ کی مذکورہ کانفرنس کی روداد کو دیکھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں بولنے والے تمام مسلمان صرف شکایت اور احتجاج کی بولی بولتے رہے، وہ مسائل پر تقریریں کرتے رہے۔ یہی موجودہ زمانہ میں تمام مسلم کانفرنسوں کا حال ہے۔ ہر کانفرنس میں صرف مسائل کا پُر شور تذکرہ ہوتا ہے۔ علماء اور دانشوروں کے اس مزاج نے موجودہ زمانہ کی تمام مسلم کانفرنسوں کو سراسر بے نتیجہ بنا دیا ہے۔ کانفرنس کا مقصد مواقع کار کی مثبت نشاندہی ہونا چاہئے، نہ کہ مسائل کے نام پر منفی چیخ وپکار، قرآن کے الفاظ میں، عُسر میں یُسر کی نشان دہی۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے جب نبوت کے تیرہویں سال مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی تو اُس وقت آپ مسائل کے جنگل سے گذر کر وہاں پہنچے تھے۔ مدینہ پہنچ کر آپ نے وہاں کے لوگوں کے سامنے جو پہلا خطبہ دیا وہ ابن ہشام نے اس عنوان کے ساتھ نقل کیا ہے:
أول خطبۃ خطبہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی المدینۃ (رسول اللہﷺ کا پہلا خطبہ جو آپ نے مدینہ میں دیا)۔
یہ پورا خطبہ سیرت ابن ہشام میںآج بھی موجود ہے۔ اُس کو پڑھیے تو اُس میں ایک لفظ بھی شکایت اور احتجاج کا نہیں ملے گا۔ اس پورے خطبہ کا خلاصہ اُن کے اس جملہ میں ہے: اتقوا النار و لو بشق تمرۃ (اپنے آپ کو آگ سے بچاؤ، خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے کے ذریعہ کیوں نہ ہو)۔
عجیب بات ہے کہ اسی رسول کے امتی آج رسول کی سنت کے برعکس شکایت اور احتجاج کی سرگرمیوں میں مشغول ہیں۔ حتیٰ کہ مکہ اور مدینہ میںبھی یہی خلاف سنت کام نہایت دھوم کے ساتھ جاری ہے۔ کوئی اللہ کا بندہ اگر اُنہیں اس روش کو ترک کرنے کی نصیحت کرے تو وہ اُس کے دشمن ہوجاتے ہیں۔ اس قسم کی خلافِ سنت سرگرمیاں بلاشبہہ خدا کے غضبکو دعوت دینے والی ہیں، خواہ یہ سرگرمیاں مقدس مقامات پر کیوں نہ کی جارہی ہوں۔
اصل یہ ہے کہ اس وقت مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے انسانوں کا ظلم نہیںہے بلکہ وہ براہِ راست اللہ تعالیٰ کا انتباہ ہے۔ یہ سب مسلمانوں کو چوکنّا کرنے کے لیے کیا جارہا ہے۔ مسلمانوں کے لیے فلاح کی واحد صورت یہ ہے کہ وہ توبہ کریں۔ وہ تشدد کا راستہ مکمل طورپر چھوڑیں اور امن کا راستہ مکمل طورپر اختیار کرلیں۔ اسلام یا اہل اسلام کے نام پر وہ جو کچھ کرنا چاہتے ہیں اُس کو امن کے دائرہ میں رہتے ہوئے انجام دیں۔ اس کے سوا اُن کے لیے فلاح اور کامیابی کی کوئی صورت نہیں۔
واپس اوپر جائیں

چند اسلامی مسائل

موجودہ زمانہ میںایک برائی ظاہر ہوئی ہے جس کو دہشت گردی (terrorism) کہا جاتا ہے۔ دہشت گردی کو عام طورپر کنڈم کیا جاتا ہے مگر دہشت گردی کیا ہے، اس کی کوئی واضح تعریف غالباً ابھی تک سامنے نہ آسکی۔ قرآن وحدیث کے مطالعہ سے میںنے سمجھا ہے کہ دہشت گردی نام ہے، غیرحکومتی تنظیموں کا ہتھیار اُٹھانا(armed action by NGOs) ۔
اسلام کے متفقہ اصول کے مطابق، جنگ کا اعلان صرف ایک قائم شدہ حکومت کا کام ہے(الرحیل للإمام) وہ چیز جس کو موجودہ زمانہ میں دہشت گردی کہا جاتا ہے، وہ سب کی سب غیرحکومتی تنظیموں کے مسلّح اقدام کے نتیجہ میںپیدا ہوئی ہے۔اس قسم کی مسلّح تحریک بلا شبہہ اسلام میں ناجائز ہے۔ عوام کو پُر امن انداز میں اپنی بات کہنے کا حق ہے مگر کسی بھی عذر کی بنا پر مسلّح تحریک چلانا عوام کے لئے ہر گز جائز نہیں۔
مزید یہ کہ ایک قائم شدہ حکومت کے لیے بھی جنگی اقدام کی کئی لازمی شرطیں ہیں۔ مثلاً ایک قائم شدہ حکومت بھی صرف دفاعی جنگ کر سکتی ہے، جارحانہ جنگ چھیڑنے کاحق حکومت کوبھی نہیں۔ اسی طرح ایک جائزجنگ بھی اعلان کے ساتھ لڑی جائے گی، بلا اعلان جنگ (undeclered war) کی کوئی گنجائش اسلام میں نہیں۔ اسی طرح ایک جائز دفاعی جنگ میںبھی حکومت صرف مقاتل (combatants) پر وار کرسکتی ہے، غیر مقاتل (non-combatants) کو مارنا یا اُن کو نقصان پہنچانا جنگ کی حالت میں بھی ہر گز جائز نہیں۔
ان حقیقتوںکو سامنے رکھئے تو معلوم ہوگا کہ اسلام میں جنگ کی صرف ایک قسم کا جواز ہے، اور وہ دفاعی جنگ ہے۔ اس کے سوا کوئی بھی جنگ، مثلاً ــــجارحانہ وار، پراکسی وار، گوریلا وار اور پھر بلا اعلان وار، یہ سب کی سب اسلام میں قطعی ناجائز ہیں۔ کسی بھی عذر کی بناپر اس قسم کی جنگوں کو اسلامی جنگ قرار نہیں دیا جاسکتا۔
مذکورہ تعریف کے مطابق، دہشت گردی کی ہر تحریک یقینی طورپر ناجائز ہے، ایسی کسی تحریک کو اسلامی جہاد کا نام دینا اُس کو جائز نہیں بناتا۔ ایسی ہر کوشش گُناہ پر سرکشی کا اضافہ ہے، وہ یقینی طورپر ایسی کسی جنگ کا اسلامی جواز نہیں۔
کھُلی مذمت ضروری
قرآن و حدیث میں اہل ایمان کو جو احکام دیے گئے ہیں اُن میں سے ایک حکم وہ ہے جس کو انکار منکر کہا جاتا ہے۔ یعنی برائی کو دیکھنے کے بعد کھلے الفاظ میںاُس کی مذمت کرنا۔ اس سلسلہ میں بتایا گیا ہے کہ کسی سماج میں اگر بُرائی ہورہی ہو تو اُس کو دیکھ کر چپ رہنا ایک سنگین جرم ہے۔ کسی آدمی کے لیے صرف یہ کافی نہیں کہ وہ براہِ راست طورپر بُرائی میں شریک نہیں۔ اگر وہ برائی کو دیکھنے کے باوجود چپ رہے تو وہ بالواسطہ طورپر اُس کا مجرم قرار پائے گا۔
مثلاً موجودہ زمانہ میں مسلمان جگہ جگہ جہاد کے نام پر وہ کام کر رہے ہیں جس کو ساری دنیا کا پریس دہشت گردی کے عنوان سے رپورٹ کرتا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس معاملہ میں دنیا کے تقریباً تمام مسلمان خدا کی نظر میںمجرم ثابت ہورہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میرے علم کے مطابق، ساری دنیا میںکوئی بھی قابل ذکر مسلمان نہیں جو تشدد کی اس برائی کو کھلے طورپر کنڈم کرتا ہو۔
مسلمانوں کی ایک تعداد وہ ہے جو اس متشددانہ سرگرمی کو عین اسلامی جہاد قرار دیتی ہے۔ حتیٰ کہ وہ خود کُش بمباری (suicide bombing) کو استشہاد (طلب شہادت) کا نام دے کر اُس کو عین درست بتاتی ہے۔ مسلمانوں کا دوسرا گروہ وہ ہے جو مذمت کے الفاظ بولتا ہے مگر حقیقت میں وہ مذمت نہیں ہوتی۔ مثلاً وہ کہیں گے کہ اسلام میں دہشت گردی نہیں، اسلام دہشت گردی کی اجازت نہیںدیتا۔ مگر وہ یہ نہیں کہیں گے کہ فلاں فلاں مقام پر مسلمان جو متشددانہ تحریک چلا رہے ہیں وہ دہشت گردی ہے اور وہ اسلام کے خلاف ہے۔ ایسی حالت میں اُن کی مذمت ایک خود فریبی کے سوا اور کچھ نہیں۔مسلمانوں کا ایک اور گروہ ہے جو بظاہر نام لے کر مذمت کرتاہے مگراسی کے ساتھ وہ ایسے دفاعی الفاظ بھی بولتاہے جس سے یہ ثابت ہو کہ اس دہشت گردی کی اصل ذمہ داری مسلم دشمنوں کی ہے، نہ کہ خود مسلمانوں کی۔
مذمت کے یہ طریقے یقینی طورپر غیر اسلامی ہیں۔ مذمت کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ نہ صرف دہشت گردی کو خلاف اسلام بتایا جائے بلکہ مختلف مقامات پر جہاد کے نام پر جو دہشت گردی ہو رہی ہے اُس کو کھلے لفظوں میں رد کیا جائے اور کہا جائے کہ یہ جہاد نہیں ہے بلکہ فساد ہے۔
مسلمانوں کے لکھنے اور بولنے والے طبقہ کی یہی مجرمانہ خاموشی ہے جس کی بنا پر یہ ہورہا ہے کہ جہاد کے نام پر ہونے والا تشدد کسی طرح ختم نہیں ہوتا۔ اس مجرمانہ تشدد میں خود ساختہ مجاہدین اگر براہ راست شریک ہیں تو بقیہ مسلمان بالواسطہ طورپر اس میںشریک ہیں۔ اور اسلامی نقطۂ نظر سے، براہ راست شرکت اور بالواسطہ شرکت کے درمیان صرف ڈگری کا فرق ہے، اُن کے درمیان نوعیت کا کوئی فرق نہیں۔
ناکامی کا کیس
امن کی طاقت تشدد کی طاقت سے زیادہ ہے۔ مزید یہ کہ امن دانش مندو ں کا طریقہ ہے اور تشدد نادانوں کا طریقہ۔ ایسی حالت میں جب کوئی شخص تشدد کرتاہے تووہ اس بات کا ثبوت دیتا ہے کہ وہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے زیادہ طاقتور طریقہ استعمال کرنے میں ناکام رہا۔ اسی طرح ایسا آدمی اپنے متشددانہ عمل سے یہ بھی ثابت کررہا ہے کہ وہ اپنے مسئلہ کو حل کرنے کے معاملہ میںایک نادان آدمی ثابت ہوا، نہ کہ دانش مند آدمی۔
امن اورتشدد سادہ طورپر صرف دو طریقے نہیں ہیں۔ بلکہ وہ انسانیت کے دو مختلف معیار ہیں۔ امن کا طریقہ اختیار کرنے والا آدمی اپنی انسانیت کو بلند کرتا ہے اور تشدد کا طریقہ اختیار کرنے والا آدمی اپنے آپ کو انسانیت کے اعلیٰ معیار سے نیچے گرا لیتاہے۔
کوئی مسئلہ پیش آنے کے بعد جب ایک آدمی امن کا طریقہ اختیار کرتاہے تووہ اپنے اندر مثبت سوچ کو فروغ دیتا ہے۔ وہ اپنے اخلاقی معیار کوبلند کرتاہے۔ وہ اپنی شخصیت کو بلندیوں کی طرف لے جاتا ہے۔ وہ اپنے انسان ہونے کی حیثیت کو عملی طورپر ثابت شدہ بناتا ہے۔ اس کے برعکس جب ایک آدمی اپنے مسئلہ کے حل کے لیے تشدد کا طریقہ اختیار کرتاہے تو وہ اپنے آپ کو انسانیت کے نچلے درجہ کی طرف لے جاتاہے۔ وہ اپنے انسان ہونے کی حیثیت کو عملی طورپر مشتبہ بنا رہا ہے۔
امن اور تشدد دونوں کسی انسان کی اصل حیثیت کی پہچان ہیں۔ ایک طریقہ اگر انسان کو انسان ثابت کرتاہے تو دوسرا طریقہ یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ ایک حیوان تھا، اگر چہ ظاہری طورپر وہ ایک انسان دکھائی دے رہا تھا۔
مذہب خطرہ میںہے
نفرت اور تشدد کا ایک سبب وہ جذباتی سیاست ہے جو اس نعرہ پر چلتی ہے کہ مذہب خطرہ میںہے۔ کچھ لکھنے اور بولنے والے لوگ غلط یا مبالغہ آمیز تصویر پیش کرکے عوام کو یہ تاثر دیتے ہیں کہ اُن کا مذہب دوسروں کی طرف سے خطرہ میں ہے۔ اب تحفظ مذہب کے نام پر جلسہ اور جلوس اورنعرے اور جھنڈے کی سیاست چل پڑتی ہے۔ یہ سیاست مذہب کو تو خطرہ سے نہیں بچاتی البتہ مذہب کو خطرہ سے بچانے کے نام پر پورے سماج کے امن کو تباہ کرکے اُس کو خطرہ میں ڈال دیتی ہے۔
اگر مذہب خطرہ میں ہو تو ظاہر ہے کہ کوئی غیر ہوگا جو مذہب کو خطرہ میں ڈالے ہوئے ہوگا۔ اس طرح ’’مذہب خطرہ میں‘‘ جیسی سیاست ایک گروہ کے دل میں دوسرے گروہ کے خلاف نفرت پیدا کرتی ہے۔ پھر نفرت کی سیاست سے جب مذہب کے خلاف مفروضہ خطرہ ختم نہیں ہوتا تو اس کے بعد لوگوں کے اندر مایوسی کی سیاست شروع ہوتی ہے۔ مایوسی کی سیاست اپنی آخری تدبیر کے طورپر تشدد کی سیاست جاری کردیتی ہے۔ پھر جب تشدد کی سیاست کار گر ثابت نہیں ہوتی تو خود کُشی کی سیاست شروع ہوجاتی ہے۔ جوش میں بھرے ہوئے نوجوان اپنی بڑھی ہوئی نفرت کو اپنے مفروضہ دشمن کے خلاف خود کش بمباری کی صورت میں انڈیل دیتے ہیں۔ مذہبی خطرہ کی سیاست اپنی آخری حد پر پہنچ کر مذہبی خود کُشی کی سیاست بن جاتی ہے۔ زندگی کے نام پر اُٹھنے والے لوگ یہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے لیے اور دوسروں کے لیے صرف موت کا پیغام ثابت ہوتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اس تباہ کن سیاست سے نکلنے کا واحد حل یہ ہے کہ تشدد کو ایک ایسا فعل قرار دیا جائے جو ہر حال میں قابل ترک ہو۔ کوئی بھی عذر، خواہ وہ بظاہر کتنا ہی بڑا ہو، تشدد کے طریقہ کو استعمال کرنے کے لیے کافی نہ سمجھا جائے۔
موجودہ دنیا اختلافات کی دنیا ہے۔ یہاں ہر آدمی مسٹر ڈفرنٹ اور ہر عورت مِزڈ فرنٹ ہے۔ اس لیے اس دنیا میں لازمی طورپر لوگوں کے درمیان طرح طرح کے اختلافا ت پیدا ہوتے ہیں۔ یہی اختلاف جذباتی صورت اختیار کرکے لوگوں کو نفرت اورتشدد تک پہنچاتا ہے۔ اور پھر سارا سماج قبرستان کا نمونہ بن جاتا ہے۔
اس مسئلہ کا ایک ہی حل ہے۔ اور وہ یہ کہ لوگوں کے اندر یہ ذہن بنایا جائے کہ تم کوہر حال میں امن کے دائرہ میںکام کرنا ہے۔ کسی بھی حال میں تم کو امن کے دائرہ سے باہر نہیںجانا ہے۔ یہ ذہن اُس وقت بن سکتا ہے جب کہ لوگوں کو اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ کیا جائے کہ اس دنیا میں کوئی کام صرف امن کے ذریعہ بنتاہے، تشدد کے ذریعہ کبھی کوئی کام بننے والا نہیں۔ تشدد صرف تخریب میںمعاون ہوتا ہے، تشدد کبھی تعمیر میں معاون نہیں ہوتا۔
’’مذہب خطرہ میں‘‘ جیسی سیاست کے ذریعہ کا یہ فائدہ تو ہوتا ہے کہ کچھ ہائی پروفائل میں بولنے والے لوگ قائد بن کر اُبھرآئیں۔ وہ وقتی طور پر لوگوں میں نمایاں ہوجائیں۔ اُن کے گرد عوام کی بھیڑ اکٹھا ہو۔ مادّی رونقیں اُنہیں حاصل ہوجائیں۔ مگر جہاں تک مذہب اوراہلِ مذہب کا تعلق ہے، اُن کے حصہ میں صرف یہ آتا ہے کہ معتدل ماحول سے محروم ہوکر وہ نفرت کے ماحول میں جینے پر مجبور ہوجائیں۔ تشدد کا شکار ہو کر وہ اپنے مستقبل کو غیر محفوظ بنالیں۔
مذکورہ قسم کی سیاست کا آخری نتیجہ صرف یہ ہوتا ہے کہ کچھ افراد ممتاز افراد (celebreties) بن کر نمایاں ہوجائیں۔ مگر یہ طریقہ مثبت معنوں میں قوم کی تعمیر نہیں کرتا اور نہ کرسکتاہے ۔ یہ طریقہ لیڈر سازی کے لیے کارآمد ہے، مگروہ ملت سازی کے لیے ہر گز کار آمد نہیں۔
انتقام سے تشدد تک
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اگر ایک شخص کو دوسرے شخص سے کوئی تکلیف پہنچ جائے یا ایک گروہ کو دوسرے گروہ کی طرف سے کوئی ٹھیس پہنچے تو فوراً اُن کے اندر انتقام کا جذبہ بھڑک اٹھتا ہے۔ وہ فریقِ ثانی سے انتقام لینے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ تاریخ کی اس وارننگ کو بھول جاتے ہیں جو ہر جگہ خاموش الفاظ میںگونج رہی ہیــــــانتقام لینے سے پہلے سوچ لو کہ انتقام کا بھی انتقام لیا جائے گا۔
چنانچہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک فریق دوسرے فریق کے خلاف انتقام کی کارروائی کرتاہے۔ پھر دوسرا فریق دوبارہ پہلے فریق سے انتقام لیتا ہے۔ اس طرح یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے جو صرف اُس وقت ختم ہوتا ہے جب کہ دونوں اتنے تباہ ہوجائیں کہ وہ مزید انتقام لینے کے قابل نہ رہیں۔کسی فرد یا گروہ کے خلاف کوئی قابل شکایت بات پیش آئے تو اُس کا حل جوابی کارروائی نہیںہے بلکہ اُس کو درگذر کرکے آگے بڑھ جانا ہے۔ درگذر کرنے سے معاملہ پہلے ہی مرحلہ میں ختم ہوجاتا ہے۔ اوراگر درگذر نہ کیا جائے تو نفرت اورانتقام اورتشدد کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوجاتاہے جو کبھی ختم نہیںہوتا۔
انتقام کا رُخ دوسرے کے خلاف ہوتا ہے مگر اس کا سب سے زیادہ شکار خود انتقام لینے والا بنتا ہے۔ انتقامی پالیسی کی بھاری قیمت اُس کو یہ دینی پڑتی ہے کہ اُس کادماغ منفی سوچ کا کارخانہ بن جائے۔ وہ اپنے وسائل کواپنی تعمیر میں صرف کرنے کے بجائے اُنہیں صرف دوسرے کی تخریب میںصرف کرنے لگے۔ دوسرے فریق نے اگر آپ کو پچاس فی صدنقصان پہنچایا تھا تو آپ اپنی انتقامی کارروائی کے نتیجہ میں اپنی بقیہ پچاس فی صد طاقت کو بھی ضائع کردیتے ہیں۔
انتقام کا مطلب یہ ہے کہ قاتلانہ حملہ کے بعد کوئی شخص خود اپنے آپ کو ہلاک کرنے کی کوشش کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ انتقام ہر حال میں بُرا ہے اور انتقام نہ لیتے ہوئے معاملہ کو بھُلا دینا ہر حال میں اچھا ہے۔ انتقام لینے والا اگر آپ کا دشمن تھاتو انتقام لے کر آپ خود اپنے دشمن بن جاتے ہیں۔ اور جو لوگ اپنے دشمن آپ بن جائیں اُن کو تباہی سے کون بچا سکتاہے۔
جنگ کا زمانہ ختم
وسیع تر تقسیم میں جنگ کے دو دور ہیں۔ ایک وہ ابتدائی دور جب کہ جنگی مقابلہ کا فیصلہ تلوار کے ذریعہ ہوتا تھا۔ دوسرا دور جدید دور ہے جب کہ لڑائی میں بم کی طاقت استعمال کی جاتی ہے۔ دونوں دوروں میںایک بنیادی فرق ہے۔ وہ یہ کہ تلوار جب چلائی جاتی تھی تو وہ صرف ایک دشمن کی گردن کو کاٹتی تھی۔ اب بم کے زمانہ میں جنگ کا مطلب یہ نہیں۔ اب جنگ کا مطلب صرف تباہی ہے۔ جو بم دشمن کے اوپر ڈالا جاتا ہے وہ مختلف پہلوؤں سے خود ڈالنے والے کے لیے بھی تباہی کا سبب بنتا ہے۔ ایسی حالت میں جنگ ایک بے فائدہ عمل بن چکی ہے۔ اب جنگ ایک دیوانگی ہے، نہ کہ کسی مقصد کے حصول کے لیے اقدام۔
حقیقت یہ ہے کہ نئے ہتھیاروں کے ظہور کے بعد جنگ اب ایک قابلِ ترک چیز بن چکی ہے۔ جب جنگ مثبت معنوں میں بے نتیجہ ہو جائے تو ایسی حالت میں جنگ چھیڑنا ایک دیوانگی ہے، نہ کہ عقل مندی۔
زمانہ کے خلاف
موجودہ زمانہ گلوبلائیزیشن (globlisation) کا زمانہ ہے۔ ساری دنیا ایک گلوبل ویلیج کی مانند ہوگئی ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے توموجودہ زمانہ میںتشدد یا مسلّح جدوجہد ایک ایسی چیز بن چکی ہے جو زمانہ کے خلاف عمل (anachronism) کی حیثیت رکھتی ہے۔
موجودہ زمانہ میںجو لوگ ہتھیار کی لڑائی لڑ رہے ہیں اُن سے پوچھئے کہ وہ کیوں جنگ کررہے ہیں تو وہ بتائیں گے کہ قائم شدہ حکومت کو بدلنے کے لیے وہ جنگ کررہے ہیں۔ وہ کہیں گے کہ ہم ایک نیا نظام بنانا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لیے حکومت پر قبضہ کرنا ضروری ہے۔ مگر یہ بات صرف زمانہ سے بے خبری کانتیجہ ہے۔
موجودہ زمانہ میں ایسی تبدیلیاں ہوچکی ہیں کہ اب کسی کو حکومت پر قبضہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ وہ حکومت پر قبضہ کئے بغیر ہر وہ کام کرسکتا ہے جو وہ چاہتا ہے۔
برداشت کی ضرورت
عدم برداشت کا نتیجہ تشدد ہے، اوربرداشت کا نتیجہ امن۔ انہی دو لفظوں میں امن اور تشدد کا خلاصہ پایا جاتا ہے۔ جس سماج میںبرداشت کی صفت ہو، اس سماج میں امن کا ماحول رہے گا۔ اور جس سماج کے لوگوں میں برداشت کا مزاج نہ ہو وہاں تشدد ہونے لگے گا۔ اور تشدد نہ تشدد کرنے والے کے لیے مفید ہے اور نہ اُن لوگوں کے لیے مفید جن کے اوپر تشدد کیا گیا ہے۔
برداشت ایک اعلیٰ اخلاقی اورانسانی صفت ہے۔ اس کے مقابلہ میںبرداشت نہ کرنا ایک حیوانی صفت ہے۔ برداشت مجبوری نہیں، برداشت ایک اعلیٰ ترین عمل ہے۔ لوگ جس مقصد کو بے برداشت طورپر حاصل کرنا چاہتے ہیں، اس کو برداشت کے ذریعہ زیادہ بہتر طورپر حاصل کیا جاسکتاہے۔ کوئی ناخوش گوار صورت حال پیش آنے پر آدمی جب بے برداشت ہوجائے تو وہ اپنے آپ کومقابلہ کے لیے کمزور کر لے گا۔ لیکن جب وہ ناخوش گوار صورت حال میںبرداشت کے رویّہ پر قائم رہے تو وہ اپنی ساری طاقتوں کو محفوظ رکھتا ہے۔ وہ زیادہ مؤثر طورپر پیش آمدہ صورت حال کا مقابلہ کرسکتاہے۔
ناخوش گوار صورت حال پیش آنے کے باوجود بے برداشت نہ ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ آدمی اپنے آپ پر کنٹرول کرنے کی طاقت رکھتاہے۔ اور جس آدمی کے اندر یہ طاقت ہوکہ وہ اپنے آپ پر کنٹرول کرسکے، وہ اتنا زیادہ طاقتور ہوجاتا ہے کہ کسی کے لیے بھی اُس کو شکست دینا ممکن نہیں۔
امن کے فائدے
دنیا کے تمام اچھے کام پر امن کوشش کے ذریعہ ہوئے ہیں۔ تشدد کی طاقت سے کبھی کوئی اچھا کام نہیں ہوا۔ کوئی پُل، کوئی سڑک کبھی بھی تشدد کی طاقت سے نہیںبنے۔ سائنس کی دریافتیں اور ٹکنالوجی کی ترقیاں کبھی تشدد کی طاقت سے ظہور میں نہیں آئیں۔ تعلیم گاہیں اور تحقیق کے ادارے کبھی تشدد کی طاقت سے نہیں بنے۔ لوہے کا مشین میں ڈھلنا یا سٹی پلاننگ جیسے کام امن کے ذریعہ انجام پائے، نہ کہ تشدد کے ذریعہ۔ سماجی فلاح سے لے کر انفراسٹرکچر تک ہر کام ہمیشہ پُر امن تدبیروں کے ذریعہ تکمیل پذیر ہوئے ہیں۔
تشدد ایک تخریبی عمل ہے۔ اورایک تخریبی عمل کے ذریعہ کبھی کوئی تعمیری واقعہ ظاہر نہیںہوسکتا۔ یہ فطرت کا قانون ہے۔ اور فطرت کے قانون میں تبدیلی ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں

بے بنیاد شکایت

ہندستان کے ایک مسلمان تاجر ہیں۔ پہلے وہ الرسالہ کے باقاعدہ قاری تھے۔ پھر ایک مسئلہ پر اُن کو شکایت ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ آپ ہمیشہ مسلمانوں کو نصیحت کرتے ہیں اور ہندوؤں کے خلاف کبھی نہیں لکھتے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ہندوؤں کے ایجنٹ ہیں۔ آپ کو ہندوؤں کی طرف سے اس کام کے لئے پیسہ ملتا ہے کہ آپ ہندو۔ مسلم معاملات میں مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہرائیں۔ اس قسم کی بات کہہ کر اُنہوں نے الرسالہ کی خریداری بند کردی۔ اُنہوں نے نہ صرف الرسالہ کا مطالعہ چھوڑ دیا بلکہ وہ اس کے مخالف بن گئے۔
کئی سال بعد ۱۶ اپریل ۲۰۰۲ء کو دہلی میں اُن سے ملاقات ہوئی۔ میںنے کوئی اختلافی بات کیے بغیر اُن سے کہا کہ آپ اپنی زندگی کا کوئی خاص تجربہ بتائیے۔ اُنہوں نے کہا کہ میرا تجربہ یہ ہے کہ مسلمان دنیا کے سب سے زیادہ غیر سنجیدہ لوگ ہیں۔ اُن کے الفاظ میں ، مسلمان لفظ کا اگر انگلش ترجمہ کیا جائے تو وہ اِن سینسیر(insincere) ہوگا۔ اُنہوں نے مزید بتایا کہ اسی ذاتی تجربہ کی بنیاد پر اُنہوں نے اب اپنا پارٹنر ایک ہندو کو بنایا ہے۔ ہندو کی پارٹنر شپ میںان کا کاروبار کافی ترقی کررہا ہے۔
مگر عبرت انگیز بات ہے کہ مذکورہ مسلم تاجر نے نجی ملاقات میں تو یہ بات کہی لیکن وہ اس بات کو اسٹیج پر کہنے کے لیے تیار نہ تھے۔ نیز اُنہوں نے الرسالہ کی نسبت سے اپنی پچھلی غلطی کا اعتراف بھی نہیں کیا۔
میں سمجھتا ہوں کہ مسلمانوں کے لکھنے اور بولنے والے طبقہ کا یہی دہرا معیار موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ مسلمانوں کے جو صاحب فہم اور صاحبِ علم افراد ہیں وہ اپنی نجی گفتگو میں ہمیشہ اسی قسم کی بات کرتے ہیں مگر وہ پبلک میں اُسے کہنے کے لیے تیار نہیں ۔ اس دہرا معیار کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ لوگ خود اپنا معاملہ تو ہوشیاری کے ساتھ درست کئے رہتے ہیں مگر مسلم عوام کو ذہنی گمراہی میں ڈال کر اُنہیں اُس کا انجام بھگتنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔
اس قسم کے لوگ اپنا ذاتی مسئلہ تو ہوشیاری کے ساتھ درست کر لیتے ہیں مگر وہ عوام کو بدستور بے شعوری کی حالت میں چھوڑ دیتے ہیں۔ تاکہ وہ اُس کی بھاری قیمت ادا کرتے رہیں اور کبھی ترقی نہ کرسکیں۔ مسلمانوں کے لیے صحیح انداز غیر جانبدارانہ نصیحت کا انداز ہے۔ مگر اُن میںسے کوئی نصیحت کی بولی بولنے کے لیے تیار نہیں۔
ہندستان میں مسلمانوں کے حالات کو میں ۱۹۴۷ سے مسلسل دیکھتا رہا ہوں۔ میرا تجربہ ہے کہ مسلمان اپنے مسئلہ کاحل قرآن میںنہیں ڈھونڈتے، وہ دوسروں کی باتیں سُن کر اپنی رائے بناتے ہیں۔ اسلام اُن کی زندگی کا صرف ایک رسمی حصہ ہے۔ اسلام اُن کا قومی کلچر ہے، وہ اُن کا دین نہیں۔ موجودہ مسلمانوں کی اجتماعی سوچ، اُن کی ملّی پالیسی قرآن سے ماخوذ نہیں۔
اپوزیشن پارٹیوں کے بیانات، ہیومن رائٹس کمیشن کی رپورٹیں، تعلیم یافتہ طبقہ کا اظہار خیال، یہی مسلمانوں کی ذہن سازی کے ذریعے ہیں۔ اُن کا مشترک طریقہ یہ ہے کہ وہ حالات کو قانون اور منطق کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ قرآن میںارشاد ہوا ہے کہ جب بھی اُنہوں نے جنگ کی آگ بھڑکائی تو خُدا نے اس آگ کو بجھا دیا(المائدہ ۶۴)
اس اعتبار سے دیکھئے تو دوسروں کا طریقہ آگ بھڑکانے والوں کی مذمت کرنا ہے ۔جب کہ قرآن کے مطابق، مسلمانوں کا طریقہ آگ بجھانے کا ہونا چاہئے، نہ کہ ایسا طریقہ اختیار کرنا جو آگ کو مزید بھڑکانے کا سبب بن جائے۔ اس طرح کے معاملات میں قرآن کا طریقہ اصلاحِ خویش کے اصول پر قائم ہے اور دوسروں کا طریقہ احتساب غیر کے اصول پر۔
واپس اوپر جائیں

سکون کا سرچشمہ

مسٹر نٹور سنگھ (۷۱ سال) انڈیا کے ایک ممتاز لیڈر ہیں۔ وہ اپنے وسیع مطالعہ کے لیے مشہور ہیں۔ اُن کے ساتھ ایک شدید خاندانی حادثہ ہوا۔ اُن کی جوان بیٹی ریتو اور ان کی جوان بہو نتاشا صرف ایک مہینہ کے وقفہ سے حادثہ کا شکار ہو کر مرگئیں۔ اس کے فوراً بعد کانگریس کی صدر مسز سونیا گاندھی تعزیت کے لیے نئی دہلی میں اُن کے گھر گئیں۔ اُس وقت مسٹر نٹور سنگھ اپنے کمرۂ مطالعہ(study) میں تھے۔ یہاں انہوں نے دنیا بھر کی دس ہزار منتخب کتابیں اکٹھا کی ہیں۔ مسٹر نٹور سنگھ نے اُن کتابوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مسز سونیا گاندھی سے کہا کہ ان کتابوں میں ملکی حکمت موجود ہے۔ صدیوں کی حکمت کا خلاصہ یہاں پایا جاتا ہے۔ مگر یہاں ایک بھی ایسی کتاب موجود نہیں جس کو پڑھ کر میںاپنے آپ کو تسکین دے سکوں:
Here you have the wisdom of the world, wisdom of the ages in concentrated form, but there is not a book I could pick up to console myself. (Hindustan Times, New Delhi, June 2, 2002, P. 14)
مسٹر نٹور سنگھ کیوں اپنے کمرۂ مطالعہ میں وہ کتاب نہ پاسکے جو اُنہیں مذکورہ حادثۂ موت کے موقع پر تسکین دے ۔ اس کا جواب خود اس انٹرویو کے اندر موجود ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ مسٹر نٹور سنگھ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ میں مذہب میں یقین نہیں رکھتا، البتہ میں روحانیت کو مانتا ہوں۔
I don't believe in religiosity. I believe in spritualism.
مذہب کا فکری نظام خدا کے تصور پر قائم ہے، اور روحانیت کا فکری نظام خود انسان کے اپنے تصور پر۔ خدا کے عقیدہ سے الگ ہو کر روحانیت کا جو تصور ہے وہ اس مفروضہ پر قائم ہے کہ انسان کے اپنے اندر امکانی طورپر سب کچھ چھپا ہوا ہے، اس لیے تم اپنی داخلی دنیا میں دھیان لگاؤ۔وہاں تم کو سب کچھ مل جائے گا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ انسان کو جو کچھ پانا ہے وہ خود اپنے آپ سے پانا ہے۔ یہ ایک بے بنیاد نظریہ ہے۔ ظاہر ہے کہ جو انسان مسئلہ کا شکار ہو وہ خود ہی اپنے مسئلہ کا حل کیسے بنے گا۔
مذہب جس کی نمائندگی اسلام کرتا ہے، اُس کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ مذہبِ اسلام کا فکری نظام خدا کے تصور پر قائم ہے، یعنی وہ ذات جو قادر مطلق ہے اور جس نے انسان کو قرآن کی صورت میں کامل رہنمائی عطا فرمائی ہے۔
قرآن میں مذکورہ قسم کے مسئلہ کا حل واضح طورپر ملتا ہے۔ اس سلسلہ کا ایک براہ ِ راست حوالہ یہ ہیــــولکل امۃ اجل فإذا جاء اجلہم لا یستأخرون ساعۃ ولا یستقدمون (الاعراف۳۴) یعنی ہر امت (اور ہر انسان) کے لیے ایک مقرر مدت ہے۔ جب اُن کی مدت پوری ہو جائے گی تو وہ نہ ایک گھڑی پیچھے ہٹ سکیں گے، نہ آگے بڑھ سکیں گے۔
اس قرآنی تصور کے مطابق، ہر انسان جو دنیا میں آتا ہے وہ صرف اس لیے آتا ہے کہ وہ ایک مقرر مدت پوری کرنے کے بعد یہاں سے چلا جائے۔ گویا انسان کی موت ایک ایسا واقعہ ہے جو بہر حال ہونے والا تھا اور وہ ٹھیک اپنے وقت پر ہوگیا۔ اس اعتبار سے موت ایک فطری حقیقت ہے، ایک ایسی فطری حقیقت جس کی تبدیلی پر انسان قادر نہیں۔
یہ عقیدہ انسان کے اندر اعترافِ حقیقت کا ذہن پیدا کرتا ہے، اور حقیقت کا اعتراف اپنے آپ انسان کو وہ چیز دے دیتا ہے جس کو مسٹر نٹور سنگھ نے تسلّی (console) سے تعبیر کیا ہے۔
انسانی نفسیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ آدمی کے ساتھ اگر کوئی چیز حسب توقع پیش آئے تو اُس کا ذہن پیشگی طورپر اُس کا استقبال کرنے کے لیے تیار رہتا ہے۔ ایسی چیز کو وہ معتدل انداز میں قبول کرلیتا ہے۔ البتہ اگر پیش آنے والا واقعہ اُس کے لیے غیر متوقع ہو تو اُس کا ذہن پیشگی طورپر اُس کی قبولیت کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ یہی وہ فرق ہے جس کی بنا پر ایک انسان موت کے حادثہ کو معمول کے واقعہ کے طورپر لیتا ہے۔ اور دوسرے انسان کے ساتھ جب موت کا واقعہ پیش آتا ہے تو وہ اُس کے لیے ایک ایسے صدمہ (shock) کا سبب بن جاتا ہے جس کا وہ متحمل نہ ہوسکے۔
واپس اوپر جائیں

سوالات (روزنامہ ہندستان، ممبئی)

۱۔ گجرات میں مسلمانوں کے ساتھ جوہوا اور ہور ہا ہے ،عین ممکن ہے کہ فرقہ پرستوں کی اس کامیابی کے بعد دیگر ریاستوں میں بھی اسے دہرایا جائے۔ مسلمان ہنوز منتشر ہیں تو کیا سیاسی، سماجی ، تہذیبی، معاشی گویا ہر سطح پر یہ بات مسلمانوں کے لئے نقصان دہ نہیں ہے، اگر ہے تو ان حالات میں مسلمان اب کیا کریں۔
۲۔ گجرات یا ملک کے دیگر حصوں میں جب جب او رجہاں بھی فسادات ہوئے اور ہورہے ہیں وہاں پر فرقہ پرستوں نے یہ نہیں دیکھا کہ کون دیوبندی، بریلوی، یاشیعہ اور اہل حدیث ہے بلکہ بنام ’’مسلم‘‘ سب کی جان و مال کو نقصان پہنچایا اور انہیں معاشی طورپر تباہ و برباد کیا، تو کیا اب بھی مسلکی اختلافات سے چمٹے رہنا مسلمانوں کے لئے نقصان دہ نہیں ہے؟ اگر ہے تو کیا اس کے لئے کوئی مثبت قدم نہیں اٹھانا چاہئے۔
۳۔ آج ملّت اسلامیہ کی بقاء کا مسئلہ کھڑا ہے۔ ایسے حالات میں ملت اسلامیہ کی بقاء کیوں کر ممکن ہے؟
۴۔ ہندستان ایک جمہوری ملک ہے جہاں سر گنے جاتے ہیں ۔اس بات کو سمجھتے ہوئے بھی ہم مسلکی اختلافات کی بنا پر بوقت الیکشن مختلف الرائے ہو کر اپنی صفوں کو کمزور اور غیروں کی صفوں کو مضبوط بنا دیتے ہیں، تو کیا یہ مفادِ ملّت کے خلاف نہیں ہے، اس سلسلہ میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئے۔
۵۔ یہودونصاریٰ مسلمانوں اور اسلام کے کٹّر دشمن ہیں، قرآن واحادیث میں بھی اس کی نشاندہی کی گئی ہے۔ مگر ہمارے یہاں سب سے زیادہ اہمیت مسلکی اختلافات اور فرقہ بندی کو دی جاتی ہے۔ حضور ﷺ نے اپنی امت میں تہتر ۷۳ فرقے بننے اور ان میں سے صرف ایک کے جنت میں جانے کی پیشین گوئی ضرور کی ہے مگر باقی دیگر کو اپنی امت کہا ہے، اسلام دشمن نہیں ۔ ایسی صورت میںاسلام کے سب سے بڑے دشمن کون۔آیا وہ یہود ونصاریٰ جو کہ دنیا میں اسلام کے وجود کو ہی نہیں پسند کرتے یا پھر وہ کلمہ گو جو دیگر مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔
۶۔ اگر انتشار سے ملت کو نقصان ہو رہا ہے تو اسلام میں اس کا کیا حل ہے۔
۷۔ اللہ اور اس کے رسول نے اجتماعی زندگی کو پسند کیا ہے۔ ملت کو یکجا رکھنے کا کتنا احسن طریقۂ اتحاد ہمیں دیا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دن میں پانچ بار اور ہفتے میںایک بار اور پھر عیدین کے موقعوں پر پوری ملت اسلامیہ مسجدوں میں یکجا ہوتی ہے جہاں پر امام کے ذریعے اپنی صفوں کو سیدھا رکھنے کی تاکید کی ہے۔ اگر علماء کرام اس کی اہمیت کو سمجھ لیں اور اسے اپنا مرکز بنا کر اس اسلامی منشور پر عمل پیرا ہو جائیں تو کسی شور و غل کے بغیر پو ری ملت بقائے باہم کے لیے یکجا ہوسکتی ہے جس کا اثر یہ ہوگا کہ ملک میں فرقہ پرستوں کی ہوا اکھڑ جائے گی اور تب ہم مظلوم نہیں بلکہ بادشاہ گر ہوں گے، مگر ایسا نہیں ہے۔ آخر آپ لوگ مسجدوں سے ملت کو یکجا کرنے کی تلقین کیوں نہیں کرتے۔
۸۔ ہندستان میں ہندوؤں کے بعد مسلمان ہی سب سے بڑی قوم ہیں۔ آپ انہیں بنام مسلم باہم متحد کرنے کے لئے کوئی لائحہ عمل کیوں نہیں بناتے جس سے قوم طاقتور بنے۔ مگر اس کے بجائے آپ لوگ انہیں منتشر کرنے میں پوری طاقت لگاتے ہیں، ایسا کیوں۔
۹۔ عام خیال یہ ہے کہ مسلمانوں میں انتشار کے لئے علماء ذمہ دار ہیں، کیا یہ سچ ہے۔
۱۰۔ میں سمجھتا ہوں کہ ملی اتحاد کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ذاتی مفادات ہیں۔ آپ کی نظر میں ذاتی مفادات پر ملی مفاد کی کیا اہمیت ہے۔
۱۱۔ آپ کے نزدیک علماء کے لئے سب سے زیادہ اہمیت کس بات کو دینی چاہئے، مذہبی فرائض کی ادائیگی کو یا پھر محض دنیاوی مفاد کے لئے سیاستدانوں کا آلۂ کار بننے کو۔
۱۲۔ کیا ایک عالم کو سیاست میں حصہ لیناچاہئے۔
۱۳۔ دو مصیبتیں ہیں جس میں سے ایک چھوٹی اور دوسری بڑی ہے۔ اگر چھوٹی مصیبت کو گلے لگانے سے بڑی مصیبت سے بچا جاسکتا ہے تو سوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں کیا کیا جائے۔ آیا منتشر رہ کر ملت کو بھیڑیوں کا چارہ بننے دیں یا پھر دیگر مکتب فکر کے ساتھ متحد ہو کر اس بڑی مصیبت کا مقابلہ کریں۔
۱۴۔ خلفائے راشدین کو مذہب اسلام میں بنیاد یا ستون کی حیثیت حاصل ہے۔ کیا ان کا بھی کوئی مسلک تھا۔ صحابۂ کرام کس مسلک سے وابستہ تھے۔ اگر وہ صرف اور صرف اسلامی قالب میں ڈھلے تھے تو پھر مسالک کو بنیادی حیثیت کیوں دی گئی۔کیا مسلمان صرف اور صرف حضور اکرم ﷺ کے دور کا مسلمان رہ کر صحیح اور سچا مسلمان نہیں کہلا سکتا ہے(صلاح الدین جوہر انصاری)
جوابات
۱۔ اس معاملہ میں کیا کریں ،کا جواب یہ نہیں ہوسکتا کہ ہندستانی مسلمان اپنا الگ سیاسی محاذ بنائیں۔ وہ ملی اتحاد کے مظاہرے کریں۔ وہ احتجاج اور مطالبہ کی مہم چلائیں۔ وہ اپنی مظلومیت اور دوسروں کے ظلم کا اعلان کریں۔ وہ تقریر اور تحریر کے ہنگامے جاری کریں۔ اس قسم کی تدبیریں پچھلے ۵۵ سال کے عرصہ میں بہت بڑے پیمانہ پر عمل میں لائی گئی ہیں اور وہ مکمل طورپر بے نتیجہ ثابت ہوئی ہیں۔
اب مسلمانوں کے لیے کرنے کا صرف ایک ہی کام باقی ہے جس کا ابھی تک عملی تجربہ نہیں کیا گیا، اور وہ دعوت ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مسلمانوں کے مسائل کاحل ہمیشہ دعوت کے ذریعہ ہوا ہے۔ قرآن کے الفاظ میں، عصمت من الناس کا راز تبلیغ ما انزل اللہ میں چھپا ہوا ہے (المائدہ ۶۷) اس میں کوئی شک نہیں کہ دعوت مسلمانوں کے مسائل کا یقینیحل ہے۔ دعوت اپنے اندر تسخیری طاقت رکھتی ہے۔مگر دعوتی عمل کو انجام دینے کی ایک لازمی شرط ہے۔ اور وہ یہ کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں ، بالفاظِ دیگر، داعی اور مدعو کے درمیان، نفرت او رکشیدگی کو یک طرفہ اعراض کے ذریعہ مکمل طورپر ختم کر دیا جائے۔ تاکہ دونوں کے درمیان دعوت کا ماحول قائم ہو۔شکایت و احتجاج کی بات کرنا اور اسی کے ساتھ دعوت کا نام لینا ایک مسخرہ پن ہے، نہ کہ حقیقی معنوں میں دعوتی عمل۔
۲۔ دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث ،وغیرہ کے درمیان موجودہ قسم کے مسلکی اختلافات ہر حال میں غلط ہیں۔ فسادات ہوں یا نہ ہوں، انہیں بہر حال ختم ہونا چاہئے۔ جن چھوٹے چھوٹے اختلافات پر یہ گروہ بندیاں کی گئی ہیں وہ دور اول میں بھی موجود تھے لیکن وہ گروہ بندی کا سبب نہیں بنے۔ ان انتہا پسندانہ اختلافات کا سبب صرف ایک ہے۔ اور وہ شفٹ آف ایمفیسس (shift of emphasis) ہے۔ یعنی اساسی باتوں پر زور دینے کے بجائے جزئی باتوں پر زور دینا۔ اس برائی کو ہر حال میں ختم ہونا چاہئے۔
۳۔ میرے نزدیک یہ کہنا صحیح نہیں کہ آج ملت اسلامیہ کی بقاء کا مسئلہ درپیش ہے۔ ملت اسلامیہ کو خدا کا تحفظ حاصل ہے اور قیامت تک وہ بہر حال محفوظ رہے گی۔ میرے نزدیک جس چیز کی بقاء کا مسئلہ درپیش ہے وہ ملت اسلامیہ نہیں ہے بلکہ وہ طریقِ کار ہے جو موجودہ زمانہ میں کچھ خود ساختہ لیڈروں کی رہنمائی میںاختیارکیا گیا۔ اور وہ پُر تشدد طریقِ کار ہے۔ میرے نزدیک تقریباً دوسوسال سے مسلمان جہاد کے نام پر پُر تشدد طریقِ کار اختیار کیے ہوئے ہیں۔ یہ طریقِ کار اب آخری طور پر ناکام ثابت ہوچکا ہے۔ مسلمانوں کو یہ کرنا ہے کہ اب وہ پوری طرح پُر امن طریقِ کار کو اختیار کرلیں۔ پُر تشدد طریقِ کار کو وہ مکمل طورپر چھوڑ دیں، براہِ راست بھی اور بالواسطہ بھی، لفظی بھی اور عملی بھی۔
۴۔ میرے نزدیک الیکشن میں علیٰحدہ سیاسی محاذ آرائی مسلمانوں کے لئے تباہ کن ہے۔ اس قسم کی جداگانہ سیاست کو اُنہیں مکمل طورپر چھوڑ دینا چاہئے۔ میرے نزدیک جداگانہ تشخص کا تعلق مذہب سے ہے۔ جہاں تک الیکشنی سیاست کا تعلق ہے، اُس کو قومی ہونا چاہئے، مسلمانوں کے لیے بھی اور دوسرے فرقوں کے لیے بھی۔
۵۔ یہ بات اُصولاً غلط ہے کہ یہودونصاریٰ مسلمانوں کے دشمن ہیں۔ قرآن وحدیث میں جن یہودونصاریٰ کا ذکر ہے وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے معاصر یہود ونصاریٰ ہیں، نہ کہ ہر زمانہ کے یہود ونصاریٰ۔میرے نزدیک مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن خود وہ مسلمان ہیں جو دوسری قوموں کو اسلام دشمن بتا کر مسلمانوں کے دلوں میں اُن کے خلاف نفرت پیدا کرتے ہیں۔ اسلام کا طریقہ، اسلام دشمنوں کی نشاندہی کرنا نہیں ہے بلکہ دشمنوں کے ساتھ یک طرفہ حسن سلوک کرکے اُنہیں اپنا دوست بنانا ہے۔ (فصلت ۳۴)
۶۔ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں میں جو تفریق اور انتشار پایا جاتا ہے، اُس کا سبب میرے نزدیک صرف ایک ہے۔ اور وہ ہے، اختلاف اور تنقید پر غیر ضروری حسّاسیت۔ اس مسئلہ کا حل اختلاف اور تنقید کو ختم کرنا نہیں ہے بلکہ اختلاف اور تنقید کے بارے میں اپنی غیر فطری حساسیت کو ختم کرنا ہے۔ اتحاد ہمیشہ اختلاف کو برداشت کرنے سے ہوتا ہے، نہ کہ اختلاف کو مٹانے سے۔ کیوں کہ اختلافات کا مٹنا سرے سے ممکن ہی نہیں۔
۷۔ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کی اصل کمی یہ ہے کہ ان کے اندر اسلام کی ظاہری صورت یا فارم والا اسلام تو موجود ہے مگر اسلام کی روح ان کے اندر موجود نہیں۔ وہ بہت بڑے پیمانہ پر اور لاکھوں مسجدوں میں ہر دن نماز کی ظاہری شکل کو دہراتے ہیں مگر نماز کی اصل روح جو اتحاد ہے، وہ ان کے اندر موجود نہیں۔ اس مسئلہ کا واحد حل یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر اسلام کی اصل اسپرٹ کو زندہ کیا جائے جو خَوفِ خدا اور فکر آخرت پر ہوتی ہے۔ روح کے بغیر شکل اسی طرح بے قیمت ہے جس طرح پھل کے مغز کے بغیر اس کا چھلکا۔
۸۔ جہاں تک راقم الحروف کا تعلق ہے، میںمسلمانوں کو متحد کرنے کی کوشش ہی میں لگا ہوا ہوں۔ میرے نزدیک مسلم اتحاد جلسوں اور کانفرنسوں کے ذریعہ قائم نہیں ہوسکتا۔ وہ صرف اس طرح قائم ہوسکتا ہے کہ دلوں اور دماغوں میںروحِ اتحاد کو زندہ کیا جائے۔ اور میں یہی کام کررہا ہوں۔
۹۔ میرے نزدیک مسلمانوں کے انتشار کا سبب یہ ہے کہ اُن کے دلوں سے اللہ کا خوف نکل گیا ہے۔ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کا مقصد، دوسری قوموں کی طرح، صرف مال کمانا اور مادّی ترقی حاصل کرنا بن گیا ہے۔ یہ مزاج ہمیشہ حسد اور نفسانیت کے جذبات کی پرورش کرتا ہے۔ اور یہی موجودہ مسلمانوں میں بڑے پیمانہ پر پیدا ہوگیا ہے۔ اس معاملہ میں علماء اور غیر علماء کی کوئی تفریق نہیں۔
۱۰۔ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کا گہرا جائزہ بتاتا ہے کہ اُن کے اندر اجتماعی شعور موجود نہیں۔ وہ ذاتی مقاصد کی تکمیل میں اتنا زیادہ گم ہیں کہ اجتماعی مقاصد کی اہمیت کی اُنہیں خبر ہی نہیں۔ مسلمانوں کی اس کمزوری کی اصلاح تعلیم اور شعوری بیداری کے ذریعہ ہی کی جاسکتی ہے۔
۱۱۔ موجودہ زمانہ کے علماء دو بڑی کمزوریوں کا شکار ہیں۔ ایک تقلید، جس نے اُنہیں ذہنی جمود میں مبتلا کردیا ہے۔ اُن کی دوسری کمزوری یہ ہے کہ وہ عصری تعلیم سے دور ہونے کی بنا پر زمانہ کے جدید حالات سے بالکل بے خبر ہیں۔ علماء کی ان دو کمزوریوں نے انہیں اس قابل ہی نہیں رکھا ہے کہ وہ جدید مسلم نسلوں کی کامیاب رہنمائی کر سکیں۔
۱۲۔ سیاست میں حصہ لینا کوئی غلط یا غیر شرعی بات نہیں۔ مگر موجودہ زمانہ کے علماء اپنی فکری اور علمی پس ماندگی کی بنا پر اس قابل نہیںہیں کہ وہ سیاست میںکوئی مفید کردار ادا کرسکیں۔ جیسا کہ معلوم ہے، موجودہ زمانہ کے علماء نے بڑے پیمانہ پر سیاست میں عملاًحصہ لیا ہے۔ مگروہ اپنے اس سیاسی عمل سے مسلمانوں کو تباہی کے سوا کچھ اور نہ دے سکے۔
۱۳۔ میرے نزدیک یہ مفروضہ غلط ہے کہ ملت بھیڑیوں کا چارہ بن رہی ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ ملّت خود اپنی غلطیوں کی قیمت ادا کررہی ہے۔ جہاں تک اہون البلیتین کا تعلق ہے، وہ ایک مسلّمہ شرعی اصول ہے۔ حدیث میں اس کو اختیار اَعسر کے مقابلہ میں اختیار ایسر کہا گیا ہے (صحیح البخاری)۔ حسب ضرورت اس کے استعمال میں کوئی قباحت نہیں۔
۱۴۔ فقہی مسالک کوئی دور جدید کی چیز نہیں۔ وہ صحابہ اور تابعین کے زمانہ میںموجود تھے۔ جو فرق ہے وہ یہ کہ صحابہ اور تابعین کے زمانہ میں فقہی فروق کی بنیاد پر گروہی مسالک نہیں بنے۔ جب کہ موجودہ زمانہ میں اس قسم کے فروق کو لے کر انتہا پسندانہ گروہی مسالک بنا دیے گئے ہیں۔ اس معاملہ کو میں نے اپنی کتاب ’’تجدید دین‘‘ میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔
اسلامی شریعت کے دوبڑے حصّے ہیں۔ ایک بنیادی احکام کا حصہ اور دوسرے ضمنی اور فروعی احکام کا حصہ ۔ بنیادی احکام سب کے سب یکساں ہیں، اُن میں کوئی فرق واختلاف نہیں۔ مگر ضمنی اور فروعی احکام میں بہت سے اختلافات پائے جاتے ہیں۔ دونوں قسم کے احکام کے درمیان یہ فرق عین فطری ہے اور وہ ہمیشہ باقی رہے گا۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ فروعی اختلافات کو توسع اور تنوع (diversity) پر محمول کیا جائے۔ اُن کے معاملہ میں رواداری کا انداز اختیار کیا جائے، نہ کہ شدت پسندی کا انداز۔
واپس اوپر جائیں

Tuesday, 1 October 2002

Al Risala | October 2002 (الرسالہ،اکتوبر)

1

- خصوصی شمارہ: امن کلچر


امن کلچر

امن کیا ہے
اہل علم امن کی تعریف عدم جنگ (absence of war) کے الفاظ میں کرتے ہیں۔ فنّی اعتبار سے یہ تعریف بالکل درست ہے۔ کسی سماج میںجب تشدد اورجنگ نہ ہو تو اس کے بعد وہاں جو صورت حال پیدا ہوگی اسی کا نام امن ہے۔ جب بھی انسانوں کے درمیان جنگ اور تشدد کی حالت نہ ہو تو اُس کے بعد امن کی حالت اپنے آپ قائم ہوجائے گی۔
تاہم کسی سماج میںامن کی حالت قائم ہونا سادہ طورپر صرف یہ نہیں ہے کہ وہاں جنگ اور تشدد کا خاتمہ ہوگیا۔ جنگ اور تشدد کا ختم ہونا اس معاملہ کا سلبی پہلو ہے۔ اس کا ایجابی پہلو یہ ہے کہ جب بھی کسی سماج کے اندر حقیقی معنوں میں امن کی حالت قائم ہوجائے تو اُس کے بعد لازماً ایسا ہوگا کہ لوگوں کے اندر مثبت سرگرمیاں جاری ہوجائیںگی۔ ہر آدمی یکسوئی کے ساتھ اپنی زندگی کی تعمیر میں لگ جائے گا۔
کسی سماج کے اندر امن کا قائم ہونا ایسا ہی ہے جیسے دریا کے سامنے سے بَند کو ہٹا دیں۔ انسانی زندگی، بہتے دریا کی مانند، خود اپنے زورپر رواں دواں ہونا چاہتی ہے۔ وہ صرف اُس وقت رُکتی ہے جب کہ اُس کے سامنے کوئی مصنوعی رکاوٹ کھڑی کردی جائے۔ رُکاوٹ نہ ہوتو خود فطرت کے زور پر زندگی کی تمام سرگرمیاں جاری ہوجائیں گی۔
جنگ و تشدد کی حیثیت زندگی کے عمل میںرُکاوٹ کی مانند ہے۔ اور امن اپنے نتیجہ کے اعتبار سے یہ ہے کہ زندگی کی دوڑ کے تمام راستے آخری حد تک کھول دیئے گئے ہوں۔
امن کا مطالعہ عام طور پرجنگ کے حوالہ سے کیا جاتا ہے۔ مگر یہ امن کا بہت محدود مفہوم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امن کا تعلق پوری انسانی زندگی سے ہے۔ امن اپنے آپ میں ایک مکمل آئیڈیا لوجی ہے۔ امن شاہ کلید (master key) ہے جس سے ہر کامیابی کا دروازہ کھلتا ہے۔ امن ہر کام کی کامیابی کے لیے موافق ماحول بناتا ہے۔ امن کے ساتھ ہر کام کیا جاسکتا ہے۔ اور امن کے بغیر کسی بھی کام کو کرنا ممکن نہیں۔ یہ بات چھوٹے معاملات کے لیے بھی درست ہے اور بڑے معاملات کے لیے بھی۔
کائنات کا مذہب امن ہے
قرآن کی سورہ نمبر ۳۶ میں ارشاد ہوا ہے : لاالشمس ینبغی لہا ان تدرک القمر ولا الیل سابق النہار، وکل فی فلکٍیسبحون(یٰس ۴۰) ۔ یعنی نہ سورج کے بس میں ہے کہ وہ چاند کو پکڑ لے اور نہ رات دن سے پہلے آ سکتی ہے۔ اور سب ایک ایک مدار (orbit) میںتیر رہے ہیں۔
قرآن کی اس آیت میںایک فلکیاتی واقعہ کے حوالہ سے بتایا گیا ہے کہ دنیا کا نظام کس اصول پر قائم ہے۔و ہ امن کا اصول ہے۔ کائنات کے اندر ان گنت چیزیں ہیں۔ یہاں کی ہر چیز مسلسل حرکت میں ہے۔ مگر کسی چیز کا دوسری چیز سے ٹکراؤ نہیںہوتا۔ کائنات کا ہر جزء اپنے اپنے دائرہ میںاپنا عمل انجام دیتاہے۔ یہاں کا کوئی جزء کسی دوسرے جزء کے دائرہ کار میںداخل نہیں ہوتا۔ اس لیے ایک کا دوسرے سے ٹکراؤ بھی نہیں ہوتا۔
یہی امن کلچر انسان سے بھی مطلوب ہے۔ انسان کو بھی یہی کرنا ہے کہ وہ کائنات کے اس ہمہ گیر اُصول کو اپنی زندگی میںاپنا لے، وہ بھی ٹکراؤ کے راستہ کو چھوڑ کر امن کے راستہ پر چلنے لگے۔
کائنات کا کلچر امن کلچر ہے۔ اسی امن کا یہ نتیجہ ہے کہ کائنات اربوں سال سے چل رہی ہے مگر اس میںکوئی ٹکراؤ پیش نہیں آیا جواُس کے نظام میںخلل ڈال دے۔ کائنات میںاگر تشدد کلچر کا رواج ہوتا تواب تک کائنات آپس میںٹکراکر تباہ ہوچکی ہوتی۔ وہ ہمارے لیے قابل رہائش دنیا کے طورپر موجود ہی نہ ہوتی۔
جس خالق نے کائنات کو پیدا کیاہے اُسی نے انسان کو بھی پیدا کیاہے۔ خالق کو مطلوب ہے کہ اُس نے وسیع تر کائنات میں جو امن کلچر قائم کر رکھا ہے، انسان بھی اُسی امن کلچر کو اپنائے، صرف اس فرق کے ساتھ کہ یہ امن کلچر بقیہ کائنات میں فطرت کے زور پر قائم ہے۔ انسان ایک آزاد مخلوق ہے۔ انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ اس امن کلچر کو خود اپنے ارادہ اور اپنے فیصلہ کے تحت اپنی زندگی میں اختیار کرے۔
قرآن ایک کتاب امن
قرآن بلا شبہہ امن کی ایک کتاب ہے، وہ جنگ اور تشدد کی کتاب نہیں۔ قرآن کے تمام بیانات براہ راست یا بالواسطہ طورپر امن سے متعلق ہیں۔ قرآن کا پہلا جملہ’ بسم اللہ الرحمن الرحیم‘ ہے جس کے معنٰی یہ ہیں کہ اللہ نہایت مہربان اور نہایت رحم والا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ جس خدا نے یہ کتاب بھیجی ہے اُس کی سب سے بڑی صفت رحمت ہے۔ اور یہ کتاب خدا کی اسی صفتِ رحمت کااظہار ہے۔
قرآن کی تمام آیتیں براہ راست یا بالواسطہ طورپر امن کی تعلیمات پر مشتمل ہیں۔ قرآن کی کُل آیتوں کی تعداد ۶۶۶۶ہے۔ ان میں بمشکل چالیس آیتیں ایسی ہیں جو قتال (جنگ) کے حکم کو بیان کرتی ہیں۔یعنی ایک فیصد سے بھی کم آیتیں۔ زیادہ متعین طورپر کُل آیتوں کے مقابلہ میں صرف اعشاریہ چھ فیصد (0.6 percent) ۔
جو لوگ قرآن کوخداکی کتاب مانتے ہیں وہ قرآن کے حقیقی مومن صرف اُس وقت قرار پائیں گے جب کہ وہ قرآن کی اس تعلیم کی پیروی کرتے ہوئے مکمل طورپر امن پسندبن جائیں۔ وہ کسی حال میں بھی تشدد کا رویہ اختیار نہ کریں۔
یہاں یہ اضافہ کرنا ضروری ہے کہ لوگوں کو چاہیے کہ وہ اسلام اور مسلمان کے درمیان فرق کریں۔ وہ مسلمانوں کے عمل کو اسلام کی تعلیم کا نام نہ دیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کے عمل کو اسلام کے معیار سے جانچا جائے گا، نہ یہ کہ اسلام کو مسلمانوں کے عمل سے سمجھا جانے لگے۔ اسلام ایک نظریہ ہے۔ مسلمان اُسی وقت مسلمان ہیں جب کہ وہ اسلامی تعلیمات کی پیروی کریں۔ جو لوگ اسلامی تعلیمات کوچھوڑ دیں اُن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، خواہ بطور خود وہ اپنے آپ کو اسلام کاچیمپین بتاتے ہوں۔
امن اور تشدد کا فرق
امن ایک منصوبہ بند عمل ہے، اور تشدد صرف بھڑک کر جارحانہ کارروائی کرنے کا نام ہے۔ امن پسند آدمی پہلے سوچتا ہے اوراس کے بعد وہ عمل کرتا ہے۔ تشدد پسند آدمی پہلے کر ڈالتاہے، اس کے بعد وہ سوچتا ہے۔ پُرامن عمل میں پہلے بھی اُمید ہے اور آخر میں بھی اُمید۔ اور پُر تشدد عمل میں پہلے فرضی اُمید ہے اور آخر میں صرف مایوسی۔
امن پسند آدمی سچائی پر کھڑا ہوتا ہے اور پُر تشدد آدمی جھوٹ پر۔ امن کا راستہ شروع سے آخر تک ایک کھُلا ہوا راستہ ہے، اور تشدد کا راستہ رکاوٹوں سے بھرا ہوا راستہ۔ امن میں تعمیر ہی تعمیر ہے اور تشدد میں تخریب ہی تخریب۔ امن پسند انسان دوسروں کی محبت میںجیتا ہے اورتشدد پسند انسان دوسروں کی نفرت میں۔ امن پسندی کا خاتمہ کامیابی پر ہوتا ہے اور تشدد پسندی کا خاتمہ شرمندگی پر۔
امن پسندی میںکوئی کام بگڑتا نہیں اور ہر کام بن جاتا ہے۔ تشدد پسندی میںکوئی کام بنتا نہیں اورہر کام بگڑ جاتا ہے۔ امن کا طریقہ انسانیت کاطریقہ ہے اور تشدد کا طریقہ حیوانیت کاطریقہ۔ امن کا عمل قانون کے دائرہ میںہوتا ہے اور تشدد کاعمل لاقانونیت کے دائرہ میں۔
امن پسند آدمی مسائل کو نظر اندازکرکے مواقع کو استعمال کرتا ہے اور تشدد پسند آدمی مواقع کو غیراستعمال شدہ حالت میں چھوڑ کر مسائل کے خلاف بے فائدہ لڑائی لڑتا رہتا ہے۔ امن کا عمل پیارو محبت کا باغ اُگاتا ہے اور تشدد کا عمل نفرت اور دشمنی کا جنگل اُگاتا ہے۔ امن کلچر فرشتوں کا کلچر ہے اور تشدد کلچر شیطانوںکا کلچر۔
امن میں خدا کے حقوق بھی ادا ہوتے ہیں اورانسان کے حقوق بھی۔ اورتشددمیں انسان کے حقوق کی بھی خلاف ورزی ہوتی ہے اور خدا کے حقوق کی بھی خلاف ورزی۔ امن اگر جنت ہے تو تشدد اُس کے مقابلہ میں دوزخ۔
امن اور جنگ دونوں یکساں نہیں۔ امن کسی انسان کے لیے ایک سچا انتخاب (choice) ہے۔ اور جنگ صرف اس بات کا ثبوت ہے کہ آدمی سچے انتخاب کو نہ پاسکا، وہ انتخاب کے ٹیسٹ میں ناکام ہوگیا۔
دنیا میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو اگر چہ عملاً موجود ہیں مگر وہ امتحان کے لیے ہیں، وہ مطلوب چیز کے طورپر نہیں۔مثلاً شراب دنیا میں موجود ہے۔ مگر شراب اس لیے نہیں ہے کہ کوئی آدمی اُس کو استعمال کرے۔ بلکہ شراب اس لیے ہے کہ آدمی اُس سے بچ کر یہ ثابت کرے کہ وہ اچھے اور بُرے کی تمیز رکھتا تھا، وہ ایک محتاط انسان تھا۔ یہی معاملہ جنگ کا بھی ہے۔ جنگ کا طریقہ اگر چہ بظاہر قابل استعمال ہے مگر کسی انسان کے لیے اعلیٰ روش یہی ہے کہ وہ جنگ کے طریقہ کو استعمال نہ کرے۔
قدیم زمانہ میں جوحالات تھے اُن میں دفاع کے لیے جنگ کی اجازت دی گئی تھی۔ مگر یہ اجازت قانونِ ضرورت (law of necessity) کے تحت تھی ۔ اب نئے حالات میں یہ ضرورت باقی نہیں رہی، اس لیے اب جنگ کی بھی ضرورت نہیں۔
صلح بہتر ہے
قرآن میں فطرت کے ایک قانون کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: والصلح خیر (النساء ۱۲۸) یعنی صلح بہتر ہے۔ صلح کا مطلب مصالحت (reconciliation) ہے۔ صلح کا عمل ہمیشہ دو فریقوں کے درمیان ہوتا ہے۔ جب دو فریقوں کے درمیان کسی معاملہ پر نزاع ہوجائے تو ایک طریقہ یہ ہوتا ہے کہ دونوں متشددانہ ٹکراؤ کا طریقہ اختیار کرلیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ فوراً سمجھوتہ کرکے نزاعی حالت کو ختم کردیا جائے۔
تاہم بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ یہ مصالحت دونوں فریقوں کی یکساں خواہش کے مطابق ہو۔ بیشتر حالات میں یہ مصالحت یک طرفہ بنیاد پر ہوتی ہے، یعنی ایک فریق اپنی خواہش کو پیچھے رکھ کر دوسرے فریق کی خواہش پر معاملہ ختم کر نے کے لیے راضی ہوجائے۔
اس قسم کی یک طرفہ مصالحت کو بہتر کیوں کہاگیا ۔ اُس کا سبب یہ ہے کہ نزاع کی حالت تعمیری عمل کو روک دیتی ہے۔ مصالحت پر راضی ہونے کا فائدہ آدمی کو یہ ملتا ہے کہ وہ اپنے وقت اور اپنی طاقت کا کوئی حصہ غیر ضروری ٹکراؤ میںضائع کیے بغیر اپنی تعمیری جدوجہد کو جاری رکھے۔ غیر مصالحانہ طریقہ ہر حال میں نقصان کا طریقہ ہے۔ اور مصالحانہ طریقہ ہر حال میںفائدہ کا طریقہ۔
انسانی تاریخ بتاتی ہے کہ کسی فرد یا گروہ نے جب بھی کوئی کامیابی حاصل کی ہے تو اُس نے یہ کامیابی مصالحانہ طریقہ اختیار کرنے کے بعد حاصل کی ہے۔ ٹکراؤ اورلڑائی کاطریقہ اختیار کرکے اس دنیا میں حقیقی کامیابی کبھی کسی کو حاصل نہیں ہوئی۔ صلح کی یہ اہمیت اس لیے ہے کہ صلح میں آدمی کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ حاصل شدہ مواقع کو بھر پور طور پر اپنے حق میں استعمال کرے جب کہ ٹکراؤ کے طریقہ میں یہ ہوتا ہے کہ ساری طاقت دوسروں کی تخریب میں ضائع ہوجاتی ہے۔ تعمیر کا کوئی کام سِرے سے انجام نہیں پاتا۔ حالانکہ ترقی کاراز اپنی تعمیر و استحکام میں ہے، نہ کہ مفروضہ دشمن کوبرباد کرنے میں۔
فساد فی الارض نہیں
قرآن کی سورہ نمبر ۲ میں ایک کردار کو ان الفاظ میںبیان کیا گیا ہے: واذا قیل لہم لاتفسدوا فی الأرض قالوا انما نحن مصلحون (البقرہ ۱۱)۔ یعنی جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ تم زمین میںفساد نہ کرو تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والے لوگ ہیں۔
قرآن کی اس آیت میںجس کردار کا ذکر ہے اُس سے مراد وہ لوگ ہیں جو بظاہر ایک اصلاحی مقصد کے لیے سرگرم ہوں، مگر اُن کا طریقہ درست نہ ہو۔ اُن کا طریقہ ایساہو جوعملاً فساد اور بگاڑ پیدا کرنے والا ہے۔ یہاں فساد سے مراد یہ ہے کہ اُن کے طریقہ کے نتیجے میںلوگوں میںباہمی ٹکراؤ پیدا ہو۔ لوگ ایک دوسرے سے نفرت کرنے لگیں۔ لوگوں کے اندر اخلاقی احساس کمزور ہوجائے۔ لوگوں کے اندر منفی نفسیات پیدا ہوں۔ اس قسم کی تمام چیزیں فساد فی الأرض کی حیثیت رکھتی ہیں۔ کیوں کہ اس سے سماجی امن ختم ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ لڑائی اور ٹکراؤ کی نوبت آجاتی ہے۔
قرآن کی اس تعلیم سے معلوم ہوا کہ کسی عمل کے درست ہونے کے لیے صرف یہ کافی نہیں کہ بظاہر وہ ایک اچھے مقصد کے لیے شروع کیا گیا ہو۔ اسی کے ساتھ لازمی طورپر یہ دیکھنا ہوگا کہ اصلاح کے نام پر کی جانے والی سرگرمیاں کس قسم کا نتیجہ پیدا کرتی ہیں۔ اگر وہ لوگوں کے درمیان نفرت اور تناؤ اورلڑائی جیسی چیزیں پیدا کریں تو بظاہر اصلاح کا نام لینے کے باوجود اُن کی سرگرمیاں مفسدانہ سرگرمیاں ہی کہی جائیں گی۔ ایسے لوگ انسانیت کے مجرم قرار پائیں گے ،نہ کہ انسانیت کے مصلح اور خادم۔
کوئی بھی اصلاحی کام صرف اُس وقت اصلاحی کام ہے جب کہ وہ امن او ر انسانیت کے دائرہ میںکیا جائے۔ اصلاح کے نام پر کیا جانے والا ہر وہ کام غلط ہے جو سماجی امن کو درہم برہم کرے۔ جس کے نتیجہ میں جان اورمال کی تباہی ظہورمیں آئے۔ اصلاح کو اپنے نتیجہ کے اعتبار سے بھی اصلاح ہونا چاہیے۔ جو اصلاح اپنے نتیجہ کے اعتبار سے فساد ہو وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے بھی فساد ہے، خواہ اُس کو کتنا ہی زیادہ خوب صورت الفاظ میں بیان کیا گیا ہو۔
سازش کا خاتمہ
قرآن کی سورہ نمبر ۳ میں ارشاد ہوا ہے: اگر تم صبر کرو اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو تو اُن کی کوئی سازش تم کو ہر گز نقصان نہ پہنچائے گی۔ (آل عمران ۱۲۰)۔ قرآن کی اس آیت میں زندگی کی ایک اہم حقیقت کو بتایا گیا ہے۔ وہ یہ کہ موجودہ دنیا میں کسی فرد یا گروہ کے لیے اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ اُس کے کچھ دشمن ہوں جو اُس کے خلاف سازش کررہے ہیں۔ بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اُس فرد یا گروہ کے اندر وہ صبر اور وہ محتاط روش موجود نہیں جوہر سازش کو یقینی طورپر ناکام بناسکتی ہے۔
موجودہ دنیا میں سازش کی حیثیت اگر بارش کی ہے تو صبر وتقویٰ کی حیثیت پختہ چھت کی۔ اور یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ بارش صرف اُن لوگوں کے لیے مسئلہ ہے جنہوں نے اپنے لیے پختہ چھت نہ بنائی ہو۔ جن کے پاس پختہ چھت ہو، اُن کے لیے بارش کا مسئلہ کوئی حقیقی مسئلہ نہیں۔
موجودہ دنیا کا نظام مسابقت (competition) کے اصول پر بنا ہے، اس لیے یہاں فطری طورپر ایسا ہوتا ہے کہ ایک فریق اور دوسرے فریق کے درمیان رقابت قائم ہوجاتی ہے جو بڑھ کر سازش تک پہنچ جاتی ہے۔ جب بھی کسی کے خلاف ایسی صورت حال پیدا ہو تو اُس کو دشمن کی سازش کے بجائے فطرت کے ایک قانون کا اظہار سمجھنا چاہیے۔ سازش کو دشمن کی کارروائی سمجھنا آدمی کو تشدد کی طرف لے جاتا ہے۔ اور سازش کو فطرت کے قانون کا نتیجہ سمجھنا آدمی کے اندر یہ ذہن پیدا کرتاہے کہ وہ حسن تدبیر کے ذریعہ اپنے آپ کو اس کی زد سے بچائے، ٹھیک اُسی طرح جیسے ایک شخص بارش کے مقابلہ میں احتجاج نہیں کرتا بلکہ اس سے بچنے کے لیے گھر اور چھت کا انتظام کرتاہے۔
شدت پسندی نہیں
قرآن کی سورہ نمبر ۴ میں ایک حکم ان الفاظ میں آیا ہے: لاتغلوا فی دینکم (النساء ۱۷۱) یعنی تم اپنے دین میں غلو نہ کرو۔ یہی بات حدیث میں بھی آئی ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایاکم والغلو فی الدین، فانما ہلک من کان قبلکم بالغلوفی الدین۔ (النسائی ، کتاب المناسک، ابن ماجہ، کتاب المناسک، مسند احمد ۱؍۲۱۵، ۳۴۷) یعنی تم لوگ دین میں غلو سے بچو، کیوں کہ پچھلی امتیں دین میں غلو کی وجہ سے ہلاک ہوگئیں۔
غلو کا مطلب شدت یا انتہا پسندی (extremism) ہے۔ غلو ہر معاملہ میں غلط ہے۔ غلو دین کی اصل روح کے خلاف ہے۔ غلو کا یہی مزاج بڑھ کر تشدد اور لڑائی تک پہنچ جاتا ہے۔ جو لوگ غلو کی نفسیات کا شکار ہوں وہ اپنے مخصوص مزاج کی بنا پر اعتدال کی روش پرقانع نہیں ہوتے۔ وہ امن اور اعتدال کی روش کو معیار سے کم سمجھتے ہیں اس لیے وہ نہایت آسانی کے ساتھ تشدد کی طرف مائل ہوجاتے ہیں۔ وہ مقصد کے حصول کے نام پر لڑائی شروع کردیتے ہیں۔
غلو کی ضد اعتدال ہے۔ جب لوگوں کے اندر اعتدال کی نفسیات ہو تو وہ ہمیشہ امن کے انداز میں سوچیں گے، وہ اپنی جدوجہد کوپر امن جدو جہد کے طورپر چلائیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ اعتدال اور امن دونوں ایک دوسرے کے ساتھ نہایت گہرائی سے جڑے ہوئے ہیں۔ جہاں اعتدال ہوگا وہاں امن ہوگا۔ جہاں امن ہوگا وہاں اعتدال پایا جائے گا۔
اس کے برعکس غلو کی نفسیات ہمیشہ آدمی کو انتہا پسندی کی طرف لے جاتی ہے، اور انتہاپسندی نہایت آسانی کے ساتھ تشدد اور ٹکراؤ میںتبدیل ہوجاتی ہے۔ غلو اور تشدد دونوں ایک دوسرے کے ساتھ نہایت گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دین میں غلو کو بہت زیادہ ناپسند کیا گیا ہے۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ غلو پسندی کا دوسرا نام تشدد پسندی ہے۔ اور غلو نہ کرنے کا دوسرا نام اعتدال پسندی ۔
ایک انسان کا قتل ساری دنیا کا قتل
قرآن کی سورہ نمبر ۵ میں ارشاد ہوا ہے: من قتل نفساً بغیر نفسٍ اوفسادٍ فی الأرض فکأنما قتل الناس جمیعا (المائدہ ۳۲) ۔ یعنی جو شخص کسی کو قتل کرے، بغیر اس کے کہ اُس نے کسی کو قتل کیا ہو یا زمین میں فساد برپا کیا ہو توگویا اُس نے سارے آدمیوں کو قتل کرڈالا۔
قتل ایک انتہائی بھیانک عمل ہے۔ کسی فرد کو قتل کرنا صرف اُس وقت جائز ہے جب کہ وہ سماجی امن کے لیے ناقابلِ علاج خطرہ بن گیا ہو۔ حقیقی وجہ جواز کے بغیر کسی ایک انسان کو قتل کرنابھی سارے انسانوں کو قتل کرنے کے برابر ہے۔ کیوں کہ اس سے احترام جان کی روایت ٹوٹتی ہے۔ ایک انسان کو ناحق قتل کرنا بظاہر ایک آسان فعل دکھائی دینے لگتا ہے۔
شراب کے بارے میں حدیث میںآیا ہے کہ: مااسکرکثیرہ فقلیلہ حرام (جس چیز کی زیادہ مقدار نشہ کرے اس چیز کی تھوڑی مقدار بھی حرام ہے)۔ یہی معاملہ قتل کا بھی ہے۔ بہت سے انسانوں کو قتل کرنا جتنا بھیانک ہے اُتنا ہی بھیانک ایک انسان کو قتل کرنا بھی ہے۔ دونوں کے درمیان فرق صرف ڈگری کا ہے، نوعیت کے اعتبار سے دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں۔
قرآن کی اس آیت سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام میںامن وسلامتی کی کتنی زیادہ اہمیت ہے۔ اسلام کا تقاضا ہے کہ اگر کسی سماج میںایک شخص کو قتل کردیا جائے تو پورا کا پورا سماج اُس پر تڑپ اٹھے۔ سماج میں دوبارہ امن وسلامتی کی حالت کو قائم کرنے کے لیے اس اہتمام کے ساتھ کام کیا جائے جیسے کہ کسی نے ایک فرد کو قتل نہیں کیا ہے بلکہ اُس نے پوری انسانیت پر حملہ کردیا ہے۔
تشدد کی آگ کو بجھانا
قرآن کی سورہ نمبر ۵ میں ارشاد ہوا ہے: کلما اوقدوا ناراً للحرب أطفأہا اللہ (المائدہ ۶۴) یعنی جب بھی وہ لوگ جنگ کی آگ بھڑکاتے ہیں تو اللہ اس آگ کو بُجھادیتا ہے۔
قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ خالق کا منصوبہ موجودہ دنیا کے بارے میں کیا ہے۔ یہ منصوبہ امن کے اصول پر مبنی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب بھی ایک فریق لڑائی کی آگ بھڑکانے پر آمادہ ہو تو دوسرے فریق کو چاہئے کہ وہ پُر امن تدبیر سے اُس کو بجھادے تاکہ تشدد کی آگ پھیلنے نہ پائے۔ ایسا کبھی نہیں ہونا چاہئے کہ ایک فریق اگر بم مارے تو دوسرا فریق جوابی بم سے اُس کا مقابلہ کرے۔ خدا کی اس زمین پر جینے کا صحیح طریقہ یہ نہیں ہے کہ ایک بم کے اوپر دوسرابم مارا جائے۔ صحیح اور مطلوب طریقہ یہ ہے کہ بم کو ناکارہ (defuse) کر دیا جائے۔
یہ خدائی اعلان بتاتا ہے کہ ایک بم کے اوپر دوسرابم مارنا شیطان کا طریقہ ہے۔ اس کے برعکس خدا کا پسندیدہ طریقہ یہ ہے کہ بم کو غیر مؤثر بنادیا جائے، بم کواُس کے پہلے ہی مرحلہ میںناکارہ کردیا جائے تا کہ امن کاماحول بگڑنے سے بچ جائے۔
سماج میں ناخوش گوار حالات کا پیش آنا بالکل فطری ہے۔ کوئی انسانی سماج ناخوش گوارباتوں سے خالی نہیں ہوسکتا۔ ایسی حالت میں مسئلہ کا اصل حل یہ نہیں ہے کہ خود ناخوش گواری کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے۔ بلکہ اس مسئلہ کا اصل حل یہ ہے کہ ایک ناخوش گواری پر دوسری ناخوش گواری کا اضافہ نہ کیا جائے۔ ایک بم کے اوپر دوسرا بم نہ مارا جائے۔ اس طرح ناخوش گواری کو پھیلنے سے روک کر اُس کو ختم کردیا جائے۔ یہی اس مسئلہ کا حل ہے، اس کے سوا اس مسئلہ کا کوئی دوسرا حل ممکن نہیں۔
اصلاح کے بعد فساد
قرآن کی سورہ نمبر ۷ میں ارشاد ہوا ہے: ولاتفسدوا فی الأرض بعد اصلاحہا، ذٰلکم خیر لکم ان کنتم مؤمنین (الأعراف ۸۵) یعنی زمین میں بگاڑ پیدا نہ کرو، بعد اس کے کہ اُس کی اصلاح کی جاچکی ہو، یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم یقین کرنے والے ہو۔
قرآن کی اس آیت میںایک فطری حقیقت کا اعلان کیا گیا ہے۔ یہ زمین جس پر انسان آباد ہے وہ اپنیتخلیق کے اعتبار سے ایک اصلاح یافتہ زمین ہے۔ یہاں کی ہر چیز اپنے مطلوب نقشہ کے مطابق، بنائی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ اس زمین پر جو کام بھی کرے، فطرت کے نقشہ کو بدلے بغیر کرے۔ اگر اُس نے فطرت کے نقشہ کو بدلا تو اُس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ قائم شدہ اصلاحی نظام ٹوٹ جائے گا اور ہر طرف بگاڑ پھیل جائے گا۔
مثلاً ہماری دنیا میں فطرت کے نظام کے تحت بے شمار سرگرمیاں جاری ہیںـــــزمین کی مسلسل گردش، سورج سے اُس کا روشن ہونا، ہواؤں کا چلنا، بارش کا ہونا، دریاؤں کا بہنا، پودوں اور درختوں کا اُگنا، وغیرہ وغیرہ۔ زمین پر اس طرح کے بے شمار کام رات دن مسلسل جاری ہیں مگر یہ سارے کام انتہائی حد تک پُر امن طور پر ہورہے ہیں۔ کہیں کوئی تشدد نہیں، کہیں ایک اور دوسرے کے درمیان کوئی ٹکراؤ نہیں۔
یہی اصلاح کا نقشہ ہے۔ انسان کو چاہئے کہ وہ بھی اسی نقشہ پر چلے۔ وہ تشدد اور ٹکراؤ سے مکمل طور پر پرہیز کرے۔ وہ اپنی ہر کوشش امن کے اصول پر جاری کرے۔ جو لوگ اس کے خلاف چلیں وہ یقینی طورپر زمین کے اوپر فساد برپا کریں گے، وہ کبھی زمین کے اوپر اصلاح کا نظام قائم کرنے والے نہیں۔
اعراض، نہ کہ ٹکراؤ
قرآن کی سورہ نمبر ۷ میں حکم دیا گیا ہے کہ: وأعرض عن الجاہلین (الأعراف ۱۹۹) ۔ یعنی تم نادان لوگوں سے اعراض کرو۔
اعراض کامطلب احتراز (avoidence) ہے، اعراض کااُلٹا ٹکراؤ (confrontation) ہے۔ اعراض کا طریقہ آدمی کو پُرامن دائرہ میں محدود رکھتا ہے اور ٹکراؤ کاطریقہ اُس کو فریق ثانی کے مقابلہ میں متشددانہ کارروائی کی طرف لے جاتا ہے۔
موجودہ دنیا میں کوئی انسان یا گروہ اکیلا نہیں ہے۔ اُس کے سوا دوسرے بہت سے لوگ ہیں جو اپنے اپنے مقاصد رکھتے ہیں۔ ہر ایک کااپنا الگ ایجنڈا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس دنیا میں بار بار ایک دوسرے کا آمنا سامنا ہوتا ہے۔ بار بار ایک فرد اور گروہ اوردوسرے فرد اور گروہ کے درمیان کشمکش کی صورت پیدا ہوجاتی ہے۔
ایسی حالت میں آدمی کے لیے دو راستے ہیںـــــاعراض یا ٹکراؤ، ان دو کے سوا کوئی تیسرا راستہ نہیں۔ اب آدمی اگر ٹکراؤ کاراستہ اختیارکرے تو دونوں فریقوں کے درمیان لڑائی ہوگی۔ ساری تاریخ کا تجربہ ہے کہ لڑائی سے صرف دل کی بھڑاس نکلتی ہے۔ حقیقی معنوں میں اُس کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس لیے آدمی کو چاہئے کہ وہ ٹکراؤ سے ہٹ جائے اوراعراض کا طریقہ اختیار کرے۔ اعراض کا طریقہ نہ صرف مزید نقصان سے بچاتا ہے بلکہ وہ آدمی کو یہ موقع دیتاہے کہ وہ اپنے ترقی کے سفر کو کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رکھ سکے۔ اعراض کا عمل بظاہر فریقِ ثانی کے مقابلہ میں ہوتاہے مگر اعراض کا مقصد خود اپنے آپ کو بے فائدہ ٹکراؤ سے بچانا ہے۔ اعراض کا مقصد یہ ہے کہ اپنے سفر کو کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رکھا جائے۔
صبر ترقی کا راز
قرآن کی سورہ نمبر ۸ میںارشاد ہوا ہے کہ : واصبروا ان اللہ مع الصابرین (الأنفال ۴۶) یعنی تم صبر کرو کیوں کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام ﷺنے فرمایا: واعلم أن فی الصبر علی ما تکرہ خیرا کثیرا وان النصر مع الصبر وأن الفرج مع الکرب وان مع العسر یسرا (مسند احمد، الجزء ۱؍۳۰۷) یعنی جان لو کہ بے شک ناپسندیدہ چیز پر صبر کرنے میں تمہارے لیے بہت بھلائی ہے۔ اور کامیابی صبر کے ساتھ ہے اور کشادگی مشقت کے ساتھ ہے۔ اور مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب کسی کے سامنے مشکل حالات آئیں یا اُس کو کوئی تلخ تجربہ پیش آئے تو وہ گھبرا اُٹھتا ہے اور بعض اوقات تشدد پر اُتر آتا ہے۔ مگر اس قسم کا ردِّ عمل فطرت سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فطرت کا قانون ہمیشہ اُن لوگوں کا ساتھ دیتا ہے جو حق اور انصاف پر ہوں۔ حق پرست فرد یا گروہ اگر جلد بازی نہ کرے اور صبر سے کام لے تو کامیابی اپنے آپ اُس کی طرف چلی آتی ہے۔
بیشتر حالات میں ناکامی اُن لوگوں کے حصہ میںآتی ہے جو جلد بازی سے کام لیں اور قبل از وقت پُر جوش اقدام کر بیٹھیں۔ اس کے برعکس جو لوگ صبر کا طریقہ اختیار کریں اُن کے لیے ہمیشہ ایسے اسباب پیدا ہوتے ہیں جو اُن کو کامیابی کی منزل تک پہنچا دیں۔
قرآن کے مطابق، صبر کا اُلٹا عجلت ہے (الاحقاف ۳۵)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب ایک شخص صبر کی روش اختیار کرتا ہے تو وہ فطرت کے نقشہ کی پیروی کررہا ہوتا ہے۔ اور جب وہ عجلت کا طریقہ اختیار کرتا ہے تو وہ فطرت کے نقشہ سے ہٹ جاتا ہے اور جو آدمی فطرت کے نقشہ سے ہٹ جائے اُس کے لیے خداکی اس دنیا میں کامیابی کا حصول ممکن نہیں۔
نزاع نہیں
قرآن کی سورہ نمبر ۲۲ میں خدانے ارشاد فرمایا ہے: فلاینازعنک فی الامر وادع الی ربک(الحج ۶۷) یعنی وہ تم سے امر میں ہر گز نزاع نہ کریں اور لوگوں کو تم اپنے رب کی طرف بُلاؤ۔
اس آیت میں نزاع نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ تم اُنہیں نزاع کا موقع نہ دو۔ یعنی جب بھی تمہارے اور فریقِ ثانی کے درمیان کوئی اختلافی بات پیش آئے تواُس کو پُر امن بات چیت کے دائرہ میں محدود رکھو۔ ایسا ہر گز نہ ہونے دو کہ اختلاف اپنی ابتدائی حد سے گذر کر عملی نزاع بن جائے۔ اور متشددانہ مقابلہ آرائی کی نوبت آجائے۔
موجودہ دنیا میں ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ کسی نہ کسی بات پر دو فریقوں کے درمیان تناؤ پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ تناؤ بذات خود ایک فطری چیز ہے۔ وہ ہر حال میں اور ہرمقام پر پیدا ہوگا۔ اصل قابل لحاظ بات یہ ہے کہ اس تناؤ یا اس اختلاف کو حد سے آگے نہ بڑھنے دیا جائے۔ اختلاف کا امن کے دائرہ میں رہنا اُس کا حد کے اندر رہنا ہے۔ اختلاف کا عملی ٹکراؤ یا تشدد کے دائرہ میں پہنچ جانااُس کاحد سے تجاوز کرنا ہے۔ حد کے اندر کوئی بھی اختلاف بُرا نہیں، مگر حد کے باہر چلے جانے کے بعد ہر اختلاف بُرا بن جاتا ہے۔
قرآن کی اس آیت میں با مقصد انسان کا طریق عمل بتایا گیا ہے۔ایک انسان جو ایک سنجیدہ مقصد کے لیے اُٹھا ہو، اُس کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ اُس کے اور دوسروں کے درمیان صرف وہی چیز زیر بحث آئے جو کہ اس کا اصل مقصد ہے۔ دونوں کے درمیان کسی اور چیز کا زیر بحث آنا بامقصد انسان کے لیے زہر کی حیثیت رکھتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ دونوں کے درمیان عدم نزاع کی یہ فضا کیسے قائم ہو۔ جواب یہ ہے کہ یہ فضا صرف اُس انسان کے یک طرفہ صبر کے ذریعہ قائم ہوسکتی ہے جو ایک مثبت مقصد اپنے ساتھ لے کر اُٹھتا ہے۔ عملی اعتبار سے اس کے سوا کوئی اور صورت ممکن نہیں۔ بامقصد انسان کو یہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ یک طرفہ اعراض کے ذریعہ اپنے اور فریقِ ثانی کے درمیان معتدل ماحول قائم رکھے۔ تاکہ اُس کا سفر کسی توقف کے بغیر مسلسل جاری رہے۔
جنگ صرف دفاع کے لئے
قرآن کی سورہ نمبر۲۲ میںارشاد ہوا ہے کہ : اُذِنَ للذین یُقَاتَلون بأنہم ظُلِمُوا (الحج ۳۹) یعنی اُن لوگوں کو جنگ کی اجازت دی گئی جن کے خلاف جنگ کی جارہی ہے، کیوں کہ وہ مظلوم ہیں۔
قرآن کی یہ آیت صرف ایک آیت نہیں وہ ایک بین اقوامی قانون کا بیان ہے۔ اس میں یہ بات طے کردی گئی ہے کہ جائز جنگ صرف وہ ہے جو واضح جارحیت کے مقابلہ میںدفاع کے طورپر لڑی جائے ۔ جنگ کی ہر دوسری قسم ظلم کی حیثیت رکھتی ہے اور ظالموں کے لیے خدا کی اس دنیا میں کوئی جگہ نہیں۔ اس آیت کے مطابق، دفاعی جنگ کے سوا کسی اور جنگ کے حق میں کوئی وجہِ جواز نہیں۔
قرآن کے مطابق، دفاعی جنگ بھی صرف اعلان کے ساتھ لڑی جاسکتی ہے، بلا اعلان نہیں۔ مزید یہ کہ دفاعی جنگ بھی صرف ایک قائم شدہ حکومت لڑسکتی ہے۔ غیر حکومتی افراد کو کسی بھی عذر کی بنا پر لڑائی چھیڑنے کی اجازت نہیں۔ ان تعلیمات کو سامنے رکھئے تو معلوم ہوگا کہ قرآن کے مقرر کیے ہوئے قانونِ جنگ کے مطابق، مجبورانہ نوعیت کی دفاعی جنگ کے سوا ہر جنگ ناجائز ہیــــــمثلاً گوریلا وار، پراکسی وار، بلا اعلان وار اور جارحانہ وار، یہ سب کی سب بلاشبہہ اسلام میں ناجائز ہیں۔
جنگ ایک حیوانی فعل ہے، جنگ کوئی انسانی فعل نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ فطرت کے ابدی قانون کے مطابق، امن ایک عموم (rule) ہے، اور جنگ صرف ایک استثناء (exception) ۔ امن ہر حال میں ایک قابل اختیار چیز ہے، جب کہ جنگ صرف شدید ضرورت کے وقت اپنے بچاؤ کے لیے اختیار کی جاتی ہے، وہ بھی اُس وقت جب کہ ٹکراؤ سے اعراض کی تمام پُر امن تدبیریں ناکام ہوگئی ہوں۔
صبر کا طریقہ حمایت یافتہ طریقہ
قرآن کی سورہ نمبر ۸ میںکہاگیا ہے کہ: واصبروا ان اللہ مع الصابرین (الانفال ۴۶) یعنی تم لوگ صبر کی روش اختیار کرو، بیشک اللہ اُن لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جو صبر کی روش اختیار کریں۔
صابرانہ طریقِ کار کو دوسرے لفظوں میں پُر امن طریقِ کار کہا جاسکتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں دوسرا طریقِ کار متشدادانہ طریقِ کار ہے۔ مذکورہ آیت فطرت کے اس قانون کو بتاتی ہے کہ موجودہ دنیا میں جو لوگ پُر امن طریقِ کار اختیار کریں اُن کا حال یہ ہوتا ہے کہ فطرت کے تمام اسباب اُن کی حمایت میں مستعد ہوجاتے ہیں۔ اس کے برعکس جو لوگ متشددانہ طریقِ کار اختیار کریں وہ قوانین فطرت کی تائید سے محروم ہوجاتے ہیں، اور جو لوگ قوانین فطرت کی تائید سے محروم ہوجائیں اُن کے لیے خدا کی اس دنیا میں ناکامی اور بربادی کے سوا اور کچھ نہیں۔
صبر کے طریقہ کا مطلب کیا ہے۔ صبر کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی ناخوش گوار باتوں پر اپنی برداشت نہ کھوئے۔ تاکہ اس کی مثبت سوچ درہم برہم نہ ہونے پائے۔ وہ ممکن اور ناممکن میں فرق کرے اور ممکن کواپنا نقطۂ آغاز بنائے۔ وہ اچانک انجام کا خواہش مند نہ ہو بلکہ تدریج کا انداز اختیارکرے۔ وہ نقصان پر مایوس نہ ہو بلکہ مستقبل کے پیش نظر اپنا عمل جاری رکھے۔ جو کچھ آج ملنے والا ہے اُس کو وہ آج حاصل کرے اور جو کچھ کل ملنے والاہے اُس کے لیے وہ انتظار کی پالیسی اختیار کرے۔ وہ اپنی خواہش کو فطرت کے قانون کے ماتحت رکھے، نہ کہ فطرت کے قانون کو اپنی خواہش کے ماتحت بنانے کی کوشش کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ صبر مکمل طورپر ایک مثبت عمل ہے، صبر کوئی سلبی یا انفعالی روش نہیں۔
پر امن نظریاتی اشاعت
قرآن کی سورہ نمبر ۲۵ میںاہل حق کو خطاب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ : وجاہد ہم بہ جہاداً کبیراً (الفرقان ۵۲) یعنی تم اُن کے اوپر جہاد کرو، بڑا جہاد، قرآن کے ذریعہ۔
جیسا کہ معلوم ہے، قرآن ایک کتاب ہے، ایک نظریاتی کتاب۔ وہ کوئی تلوار نہیں۔ ایسی حالت میں قرآن کے ذریعہ جہاد کا مطلب صرف یہی ہوسکتا ہے کہ قرآن کے افکار کو لوگوں تک پہنچاؤ۔ قرآن کے پیغام کو پُر امن انداز میں لوگوں کے درمیان عام کرو۔ قرآن کے نظریات کو مدلّل انداز میں بیان کرکے اُس کو لوگوں کے لیے قابلِ قبول بناؤ۔
اس آیت سے واضح طورپر معلوم ہوتاہے کہ اسلام میںجس چیز کو جہاد کہا گیا ہے وہ پُر امن جدوجہد (peaceful struggle) ہے، اُس کا تشدد سے کوئی تعلق نہیں۔ جہاد کا لفظ عربی زبان میں مبالغہ آمیز کوشش کے لیے بولا جاتا ہے، یعنی بہت زیادہ محنت کرنا۔ کسی مقصد کے حصول کے لیے اپنی آخری کوشش صرف کردینا۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ پُرتشدد کوشش کے مقابلہ میں پُر امن کوشش زیادہ عظیم ہے۔ کوئی آدمی جب متشددانہ طریقِ کار اختیار کرے تو کوشش کا دائرہ محدود ہوجاتا ہے۔ لیکن جب وہ پر امن طریقِ کار اختیار کرے تو اُس کا دائرہ کار لامحدودحد تک بڑھا ہوا ہوتا ہے۔ متشددانہ طریقِ کار میں صرف تلوار یا گن کار آمد ہے لیکن پُر امن طریقِ کار میں ہر چیز آدمی کے لیے ذریعہ اور وسیلہ بن جاتی ہے، حتیٰ کہ بند کمرہ میں استعمال ہونے والا ایک قلم بھی۔
دشمن کو دوست بنانا
قرآن کی سورہ نمبر ۴۱ میں ارشاد ہوا ہے: بھلائی اور بُرائی دونوں برابر نہیں، تم جواب میں وہ کہو جو اس سے بہتر ہو پھر تم دیکھو گے کہ تم میںاور جس میں دشمنی تھی، وہ ایسا ہوگیا جیسے کوئی دوست قرابت والا (حٰم السجدہ ۳۴)۔
قرآن کی اس آیت میں فطرت کا ایک راز بتایا گیا ہیـــــوہ راز یہ ہے کہ ہر دشمن انسان کے اندر ایک دوست انسان چھپا ہوا ہے۔ اس دوست انسان کو دریافت کرو۔ اور پھر یہ معجزاتی واقعہ پیش آئے گا کہ جو آدمی بظاہر تمہارا دشمن دکھائی دیتا تھا وہ تمہارا قریبی دوست بن جائے گا۔
اصل یہ ہے کہ دشمنی کوئی فطری چیز نہیں، وہ ایک مصنوعی رد عمل ہے۔ جب بھی کسی وجہ سے کوئی شخص بظاہر تمہارا دشمن بن جائے تو تم اُس کے ساتھ رد عمل کا طریقہ اختیار نہ کرتے ہوئے اُس کے ساتھ بہتر سلوک کرنے کی کوشش کرو، خواہ یہ بہتر سلوک تم کو مفروضہ دشمن کی اشتعال انگیز کارروائیوں کے باوجود یک طرفہ بنیاد پر کرنا پڑے۔
تمہارا یک طرفہ سلوک یہ کرے گا کہ وہ دشمن کے اندر پیدا ہونے والے منفی جذبات کو دبا دے گا۔ تمہارا یک طرفہ سلوک دشمن کی سوئی ہوئی انسانیت کو جگا کر اُس کو ایک نیا انسان بنادے گا۔ اور یہ نیا انسان وہی ہوگا جس کو قرآن میں قریبی دوست کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہر پیدا ہونے والا آدمی ایک ہی مشترک فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ ہر آدمی پہلے مسٹر نیچر ہے، اُس کے بعد وہ مسٹر دشمن یا مسٹر دوست بنتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو آپ ہیں وہی آپ کا مفروضہ دشمن بھی ہے۔ اور جو آپ کا مفروضہ دشمن ہے وہی خود آپ بھی ہیں۔ اس لیے آدمی کو چاہئے کہ بظاہر دشمنی کے باوجود وہ فریقِ ثانی کے اندر اپنے مشترک انسان کو تلاش کرے۔ وہ دوسروں سے بھی وہی اُمید رکھے جو امید وہ اپنے آپ سے کئے ہوئے ہے۔
خود اپنے عمل کا نتیجہ
قرآن کی سورہ نمبر ۴۲ میں کہا گیا ہے کہ: جو مصیبت بھی تمہارے اوپر پڑتی ہے وہ صرف تمہارے اپنے اعمال کا نتیجہ ہوتی ہے(الشوریٰ ۳۰)
قرآن کی اس آیت میں اس حقیقت کو بتایا گیا ہے کہ موجودہ دنیا اسباب و علل کے اصول پر قائم ہے۔ جیسے اسباب ویسا نتیجہ ۔ یہ آیت یہ تعلیم دیتی ہے کہ کسی آدمی پر جب بھی کوئی مصیبت پڑے تو اُس کو چاہیے کہ اُس کا سبب وہ خود اپنے اندر دریافت کرے، نہ کہ وہ اپنے سے باہر اس کا سبب تلاش کرنے لگے۔
زندگی کی یہ حقیقت جس آدمی کے ذہن میں بیٹھ جائے وہ ایسا نہیں کرسکتا کہ کسی کو اپنی مصیبت کا ذمہ دار بتاکر اُس کے خلاف تشددکا معاملہ کرنے لگے۔ اس کے بجائے وہ صرف یہ کرے گا کہ بے لاگ طورپر اپنی زندگی کاجائزہ لے گا۔ وہ خود اپنی غلطیوں کو دریافت کرے گا تاکہ اپنی غلطیوں کی اصلاح کرکے وہ مصیبت کا شکار ہونے سے بچ جائے۔ مصیبت کا حوالہ دے کر دوسرے کے خلاف کارروائی کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی مریض اپنے مرض کا ذمہ دار اپنے پڑوسی کو بتا کر اُس سے لڑنے لگے۔
ایک شہر جہاں کا ٹریفک ضابطہ دائیں چلو(keep right) کے اصول پر قائم ہو، وہاں اگر کوئی شخص بائیں چلو (keep left) کے اصول پر اپنی گاڑی دوڑانے لگے تو یقینی طورپر اُس کی گاڑی حادثہ کا شکار ہوجائے گی۔
یہ حادثہ اگر چہ بظاہر فریقِ ثانی کی گاڑی کے ٹکرانے سے پیش آیا ہوگا مگرآپ یہ کہنے کا حق نہیں رکھتے کہ فریقِ ثانی نے ٹکر مار کر آپ کو زخمی کردیا۔ اس کے برعکس صحیح طورپر آپ کو صرف یہ کہنا چاہئے کہ میں غلط رُخ پر چل رہا تھا اور فریقِ ثانی کی گاڑی صحیح رخ پر۔ اس لیے فریق ثانی کی گاڑی میری گاڑی سے ٹکرا گئی۔
یہی معاملہ زندگی کے دوسرے تمام پہلوؤں کا بھی ہے۔ آپ کو جب بھی اپنی زندگی میں کسی نقصان سے دوچار ہونا پڑے تو پیشگی طورپر یہ سمجھ لیجئے کہ جو کچھ ہوا وہ خود آپ کی غلطی کی بنا پر ہوا۔ یہی زندگی کے معاملات میں صحیح سوچ ہے۔ اگر آپ صحیح انداز میں سوچیں تو آپ اپنی اصلاح کرکے اپنے مستقبل کو بچالیں گے۔ اور اگر آپ اس کے برعکس یہ کریں کہ اپنی مصیبت کا الزام دوسروں کو دیتے رہیں تو آپ اپنے مستقبل کو بھی برباد کریں گے، اور آپ کا ماضی اور حال تو پہلے ہی برباد ہوچکا ہے۔
غصہ ایک کمزوری ہے
قرآن کی سورہ نمبر ۴۲ میں سچے انسانوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ: واذا ما غضبوا ہم یغفرون (الشوریٰ ۳۷) یعنی جب اُنہیں غصہ آتا ہے تو وہ معاف کردیتے ہیں۔
اس کا مطلب سادہ طورپر صرف غصہ کو معاف کرنا یا اُس کو بھلا دینا نہیں ہے۔ بلکہ اس کا مطلب غصہ کی نفسیات سے اوپر اُٹھ کر معاملہ کرنا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ غصہ دلانے کے باوجود آدمی بے غصہ ہو کر سوچے۔ وہ غصہ سے متاثر ہوئے بغیر اس کا جواب دے۔
غصہ ایک کمزوری ہے، اور غصہ نہ کرنا ایک طاقت ہے۔ آدمی اگر غصہ نہ ہو تو وہ ہر صورت حال کو مینیج کرسکتاہے۔ وہ ہر معاملہ کو اپنے موافق بنا سکتا ہے۔ غصہ آدمی کی عقل کو مختل کردیتا ہے۔ ایسا آدمی صورت معاملہ کو نہ تو صحیح طورپر سمجھ سکتا ہے اور نہ صحیح طورپر اُس کا جواب دے سکتا ہے۔ کوئی آدمی غصہ ہوجائے تو فوراً وہ تشدد کی طرف جاتا ہے۔ حالاں کہ تشدد کسی مسئلہ کا حل نہیں۔ اور جو آدمی اپنے غصہ کو قابو میں رکھے، وہ مسئلہ کا پُر امن حل تلاش کرے گا۔ اور پُر امن حل ہی کسی مسئلہ کا واحد یقینی حل ہے۔
انسان کے ذہن میں غیر معمولی صلاحیتیں چھپی ہوئی ہیں۔ آدمی اگر غصہ نہ ہو تو وہ اس قابل ہوتا ہے کہ وہ اپنے ذہن کی بھر پور صلاحیتوں کواپنے حق میںاستعمال کرے۔ مگر آدمی جب غصہ ہو جائے تو اُس کے ذہن کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ وہ اس قابل نہیں رہتا کہ اپنی ذہنی صلاحیت کو بھر پور طورپر اپنے حق میںاستعمال کرے۔ غصہ نہ ہونا جیت ہے، اورغصہ ہونا اُس کے مقابلہ میں ہار۔
حق پر صبر کے ساتھ جمنا
قرآن کی سورہ نمبر ۱۰۳ میں بتایا گیا ہے کہ وہ کون لوگ ہیں جو گھاٹے سے بچتے ہیں اور کامیاب زندگی حاصل کرتے ہیں۔ اس سلسلہ میں قرآن کے الفاظ یہ ہیں: وتواصوا بالحق وتواصوا بالصبر (العصر ۳) یعنی وہ لوگ جنہوں نے ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کی اور جنہوں نے ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی۔
جب بھی کوئی آدمی سچائی کے راستہ پر قائم ہوتا ہے یا لوگوں کو سچائی کی طرف بلاتا ہے تو ہمیشہ ایساہوتا ہے کہ بہت سے لوگ اُس کے مخالف بن جاتے ہیں۔ اُس کو لوگوں کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے وقت میں حق پرست آدمی کا کام یہ ہے کہ وہ صبر کا طریقہ اختیار کرے، وہ پیش آنے والی مشکلات کو اپنے اوپر سہے، وہ اُن کودوسروں کے اوپر انڈیلنے کی کوشش نہ کرے۔
صبر غیر جارحانہ طریقہ کا دوسرا نام ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حق پرست آدمی کو چاہئے کہ وہ تشدد کے مقابلہ میں جوابی تشدد نہ کرے۔ وہ یک طرفہ طورپر اپنے آپ کو پُر امن طریقِ کار کا پابند بنائے۔ اسی روش کا دوسرا نام صبر ہے۔
حق اور تشدد دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے۔ جو آدمی حق کو لینا چاہے تو اُس کو تشدد کو چھوڑنا پڑے گا۔ تشدد، خواہ کسی بھی عذر کی بنا پر استعمال کیا جائے، وہ تشدد ہے۔ ہر تشدد یکساں طورپر تباہ کُن ہے۔ کوئی خوب صورت عذر تشدد کو اُس کے تباہ کن اثرات سے بچا نہیں سکتا۔
حق کے حصول کے نام پر تشدد کرنا خود حق کی نفی ہے۔ جو لوگ حق کے نام پر تشدد کریں وہ اپنے بارے میں یہ ثابت کرتے ہیں کہ اُن کا کیس حق کا کیس نہیں۔ حق پسند آدمی کبھی تشدد پسند نہیں ہوسکتا۔ جو آدمی تشدد کو پسند کرے وہ یقینی طورپر حق پسند نہیں، خواہ وہ بطور خود اپنے آپ کو حق کا چیمپین کیوں نہ سمجھتا ہو۔
امن کی قیمت
ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ کوئی چیز آدمی کو اُسی وقت ملتی ہے جب کہ وہ اُس کی قیمت ادا کرنے کے لیے تیار ہو۔ ضروری قیمت ادا کیے بغیر اس دنیا میں کسی کو اپنی مطلوب چیز نہیں ملتی۔ یہی معاملہ امن کا بھی ہے۔ امن کی بھی ایک قیمت ہے۔ کوئی فرد یا گروہ اُسی وقت امن کو حاصل کرسکتا ہے جب کہ وہ اس کی مطلوب قیمت ادا کرے۔ امن کی یہ قیمت نقصان کو برداشت کرنا ہے۔
یہ حقیقت قرآن کی سورہ نمبر ۲ میں اس طرح بیان کی گئی ہے: ہم ضرور تم کو آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے۔ اور ثابت قدم رہنے والوں کو خوش خبری دے دو جن کا حال یہ ہے کہ جب اُن کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں: ہم اللہ کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ (البقرہ ۱۵۵۔۱۵۶)
قرآن کی اس آیت میں زندگی کی ایک حقیقت کو بتایا گیا ہے۔ موجودہ دنیا کانظام جس قانون کے تحت بنا ہے، اُس کے مطابق، ایسا ہونا ضروری ہے کہ لوگوں کو مختلف قسم کا نقصان اٹھانا پڑے۔ کبھی انہیں دوسروں کی طرف سے چیلینج پیش آئے، کبھی انہیں اقتصادی تنگی کا شکار ہونا پڑے، کبھی اُنہیں ملک ومال میں کمی کا تجربہ ہو، کبھی وہ کسی حادثہ کا شکار ہوجائیں، کبھی وہ کسی ایسے فائدے سے محروم ہوجائیں جس کو وہ اپنا حق سمجھتے تھے، وغیرہ۔
اس قسم کے ناخوش گوار تجربات عین فطرت کے قانون کے مطابق، اس دنیا میں ہر ایک کو کبھی نہ کبھی پیش آئیں گے۔ ایسی حالت میں لوگ اگر نقصان کو برداشت نہ کریں تو اسی کے نتیجہ کا نام تشدد ہے۔ اوراگر وہ اس کو برداشت کرلیں تو اسی کے نتیجہ کا نام امن ہے۔
نقصان پیش آنے پر صبر اور برداشت کا رویہ اختیار کرنا کوئی پسپائی کی بات نہیں۔ یہ ہمت و حوصلہ کی بات ہے۔ یہ حقیقتِ واقعہ کو اختیارانہ طورپر تسلیم کرنا ہے۔ اس کا مطلب، ایک چیز کھونے کے بعد یہ یقین رکھنا ہے کہ بہت سی دوسری چیزیں اب بھی اُس کے پاس موجود ہیں جن کے سہارے وہ ازسرِ نو اپنی زندگی کی تعمیر کرسکتا ہے۔
صبر و برداشت کا فائدہ یہ ہے کہ چیز کو کھونے کے باوجود آدمی اپنے اعتدال کو نہیں کھوتا۔ وہ وقتی ناکامی کے باوجود اپنی اس صلاحیت کو باقی رکھتا ہے کہ وہ صورت حال پر معتدل انداز میں غور کرے۔ وہ معاملہ کا حقیقت پسندانہ جائزہ لے کر ازسرِ نو اپنی زندگی کا منصوبہ بنائے۔ وہ کھوئے ہوئے کو بھلا کر باقی رہنے والی چیزوں کی بنیاد پر دوبارہ اپنے کام کو منظّم کرے۔ وہ مایوسی کے بجائے تدبیر سے کام لے کر پھر سے زندگی کا سفر شروع کردے۔
موجودہ دنیا کی ایک صفت یہ ہے کہ یہاں ہر شام کے بعد دوبارہ صبح طلوع ہوتی ہے۔ دنیا امکانات ومواقع سے بھری ہوئی ہے۔ یہاںایک موقع کھونے کے بعد آدمی کو دوسرا موقع مل جاتا ہے۔ ایک زینہ سے محرومی کے بعد اُس کے لیے دوسرے زینہ کے دروازے کھُل جاتے ہیں۔ اس طرح اس دنیا میں بار بار یہ امکان موجود رہتا ہے کہ ایک نقشہ ٹوٹنے کے بعدآدمی دوسرے نقشہ کو استعمال کرکے اپنی زندگی کی نئی تعمیر کرلے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں ہر بُری خبر کے ساتھ ایک اچھی خبر شامل رہتی ہے۔ ہر حادثہ آدمی کوخاموش زبان میں یہ خوش خبری دیتا ہے کہ تم مایوس اور بد دل نہ ہو۔ بلکہ ہمت سے کام لے کر نئے مواقع کی تلاش کرو۔ اگر تم نے ایسا کیا تو فطرت کا نظام پیشگی طورپر تم کو یہ خوش خبری دیتا ہے کہ تمہاری محرومی مستقل محرومی نہیںبنے گی۔ جلد ہی تم اپنے لیے ایک نئی اور زیادہ بہتر دنیا کی تعمیر کرلوگے۔ جلد ہی تمہاری شکست ایک نئی قسم کا رہنما ثابت ہوگی۔
جو لوگ نقصان کو برداشت نہ کریں وہ منفی سوچ کا شکار ہوکر اپنی زندگی کوایک بوجھ بنالیتے ہیں اور دوسروں کے لیے بھی بوجھ بن جاتے ہیں۔ اس کے برعکس جو لوگ صبراور ہمت سے کام لیں وہ ماضی کے کھنڈر پر اپنے لیے ایک نیا محل تعمیر کرلیتے ہیں۔ وہ ایک شام کے بعد دوبارہ اپنے لیے ایک نئی صبح تلاش کرلیتے ہیں جس کی روشنی میں وہ اپنا سفر رُکے بغیر جاری رکھ سکیں۔
صلح کی پیشکش کو قبول کرنا
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں قریش کی جارحیت کے نتیجہ میں، قریش اورمسلمانوں کے درمیان حالتِ جنگ قائم ہوگئی تھی۔ اس موقع پر جو احکام قرآن میںدیے گئے اُن میںسے ایک حکم یہ تھا:وان جنحوا للسلم فاجنح لہا وتوکل علی اللہ انہ ہو السمیع العلیم، وان یریدوا أن یخدعوک فإنّ حسبک اللہ (الانفال۶۱۔۶۲) یعنی اگر وہ صلح کی طرف جھکیں تو تم بھی صلح کے لیے جھک جاؤ اور اللہ پر بھروسہ رکھو۔ بے شک وہ سننے والا جاننے والا ہے۔ اور اگر وہ تم کو دھوکا دینا چاہیں گے تو اللہ تمہارے لیے کافی ہے۔
قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں امن آخری حد تک مطلوب ہے۔ حتیٰ کہ اگر رسک(risk)لے کر امن قائم ہوتا ہو تو رسک لے کر بھی امن قائم کیا جائے گا۔ جیسا کہ قرآن کی اس آیت میںتعلیم دی گئی ہے۔ حالت جنگ کے دوران اگر فریقِ ثانی صلح کی پیش کش کرے تو بلا تاخیر اُس کو قبول کرلینا چاہیے۔ بالفرض اگر یہ اندیشہ ہو کہ صُلح کی اس پیش کش میںکوئی دھوکہ چھپا ہوا ہے تب بھی اس اعتماد پر فریقِ ثانی سے صُلح کی جائے گی کہ خدا ہمیشہ امن پسندوں کے ساتھ ہوتا ہے، نہ کہ فریب دینے والوں کے ساتھ۔
اس سے مزید یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ اس دنیا میںامن ہمیشہ وہ لوگ قائم کرتے ہیں جو اعلیٰ حوصلہ کے مالک ہوں۔ موجودہ دنیا میںہمیشہ ایک اور دوسرے فریق کے درمیان مسائل موجودرہتے ہیں۔ ہمیشہ حقوق اور بے انصافی کے مسائل پائے جاتے ہیں۔ ایسی حالت میں وہی لوگ امن قائم کرسکتے ہیں جو ہر دوسرے تقاضہ سے بُلند ہوکر سوچیں، جوکسی بھی چیز کو عذر نہ بنائیں۔ صرف ایسے باحوصلہ لوگ ہی دنیا میں امن قائم کرتے ہیں۔ جن لوگوں کے اندر یہ حوصلہ نہ ہو وہ صرف لڑتے رہیں گے، وہ امن کی تاریخ نہیں بناسکتے۔
زیادہ بڑا رزق
قرآن کی سورہ نمبر ۲۰ میں پیغمبر کو خطاب کرتے ہوئے زندگی کی ایک حقیقت کو اس طرح بتایا گیا ہے: ولاتمدن عینیک إلیٰ ما متعنا بہ ازواجاً منہم زہرۃ الحیوۃالدنیا،لنفتنہم فیہ ورزق ربک خیر وابقیٰ (طٰہ ۱۳۱) یعنی تم ہر گز ان چیزوں کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھو جن کو ہم نے اُن کے کچھ گروہوں کو اُن کی آزمائش کے لیے اُنہیں دے رکھا ہے۔ اور تمہارے رب کا رزق زیادہ بہتر ہے اور باقی رہنے والا ہے۔
اصل یہ ہے کہ زندگی کی دو مختلف صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی مادی دنیا کو اپنا نشانہ بنائے۔ وہ ملک و مال میںاپنی کامیابی تلاش کرے۔ ان چیزوں میںہمیشہ ایسا ہوتاہے کہ ایک اور دوسرے کے درمیان فرق ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ یہی مادّی چیزیں ہیںجن میں چھین جھپٹ کا معاملہ چلتا رہتا ہے۔ اس لیے جو لوگ مادیّات میں جیتے ہوں وہ یکسرحق تلفی یا محرومی کے احساس کا شکار رہتے ہیں۔ یہ احساس بار بار حسد اور انتقام اور تشدد کے روپ میں ظاہر ہوتا ہے۔
زندگی کی دوسری صورت یہ ہے کہ آدمی یافت (achievement) کے احساس میں جیتا ہو۔ ایسا آدمی اپنے آپ میں مطمئن ہوگا۔ اُس کے اندر پانے کا احساس اُس کو اس سے بچائے گا کہ وہ دوسروں کے خلاف نفرت کرے یا اُن کے خلاف تشدد کا منصوبہ بنائے۔
یافت کا یہ احساس کن لوگوں کو حاصل ہوتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو قرآن کے الفاظ میں، رزق رب مل رہاہو۔ رزق رب سے مراد یہ ہے کہ آدمی کو یہ یقین حاصل ہوکہ اُس نے سچائی کو پالیا ہے۔ اُس نے اس حقیقت کو دریافت کیاہو کہ خالق نے اُس کو جو وجود دیا ہے وہ سونے چاندی کے تمام ذخیروں سے زیادہ قیمتی ہے۔ وہ اس طرح بیدار ذہن کے ساتھ دنیا میں رہے کہ پوری کائنات اُس کے لیے فکری اور روحانی خوراک کا دستر خوان بن جائے۔
جو آدمی دنیا سے اس طرح کا رزقِ رب پارہا ہو وہ اتنا زیادہ اوپر اُٹھ جاتا ہے کہ ملک و مال جیسی چیزیں اُس کے لیے حقیر بن جاتی ہیں۔ اُس کی یہ نفسیات اپنے آپ اُس کو امن پسند بنادیتی ہے۔ نفرت اور تشدد جیسی چیزیں اُس کو اتنا زیادہ بے معنیٰ معلوم ہونے لگتی ہیں کہ اُس کے پاس اس کا وقت نہیں رہتا کہ وہ کسی کے خلاف نفرت کرے یا کسی کے خلاف تشدد کا منصوبہ بنائیـــــجس آدمی کو زیادہ بڑی چیز مل جائے وہ کبھی چھوٹی چیز کی طرف نہیں دوڑے گا۔
امن پسندی تحفظ کا ذریعہ
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ ایک پیغمبر سے اُس کی قوم نے کہا: ولولا رہطک لرجمناک (ھود ۹۱)۔ یہ رہط پیغمبر کے مومنین کا نہ تھا بلکہ پیغمبر کی قوم کا تھا جو ایمان نہ لانے کے باوجود قبائلی روایت کی بنا پر، پیغمبر کا تحفظ کرتے تھے۔ یہی حقیقت حدیث میں ان الفاظ میں آئی ہے: ما بعث اللہ نبیا الا فی منعۃ ٍ من قومہ (مسند احمد ۲؍ ۵۳۳) یعنی ہر پیغمبر کو خدا نے اپنی قوم کی منعت (محافظ قوت) کے ساتھ بھیجا ۔
قدیم زمانہ میں جب کہ جدید طرز کا حکومتی نظام موجود نہ تھا لوگ قبائل کی حمایت میں رہا کرتے تھے۔ قبائلی روایات کے مطابق، ہر قبیلہ اس کا ذمہ دار ہوتا تھا کہ وہ دوسروں کے مقابلہ میں اپنے افراد کا تحفظ کرے۔ قدیم زمانہ میں یہی قبائلی روایت پیغمبروں کے لیے محافظ قوت بنی رہی۔ خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو بنو ہاشم کے سردار ابو طالب کی طرف سے یہ منعہ حاصل تھا۔ ابو طالب اگر چہ آخر وقت تک ایمان نہیں لائے مگر وہ قبائلی روایات کی بنا پر، پیغمبر اسلام کے مخالفین کے مقابلہ میںآپ کے لیے منعہ(محافظ قوت) بنے رہے۔ (ملاحظہ ہو سیرت ابن ہشام، الجزء الاول صفحہ ۲۸۱)
موجودہ زمانہ میں قبائلی نظام ختم ہوچکا ہے۔ مگر جدید تصور ریاست کے تحت سیکولر نظام اہل ایمان اوراہل دعوت کو یہی منعہ فراہم کر رہا ہے۔ موجودہ زمانہ کی سیکولر حکومت اپنے ہر شہری کو یہ گارنٹی دیتی ہے کہ وہ جس مذہب کو چاہے مانے اور جس مذہب کی چاہے تبلیغ کرے، اُس کو کوئی روک نہیں سکتا، صرف ایک شرط کے ساتھ کہ اہل مذہب یا اہل دعوت کسی کے خلاف تشدد نہ کریں۔
پیغمبروں کو قدیم زمانہ میں جو منعہ ملا وہ قبائلی منعہ تھا، نہ کہ اسلامی منعہ۔ اس کے باوجود پیغمبروں نے اُس کو قبول کیا۔ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کو جو منعہ ملا وہ بھی سیکولر منعہ ہے، نہ کہ اسلامی منعہ۔ پیغمبروں کی سنت کے مطابق، مسلمانوں کوچاہئے تھا کہ وہ اس منعہ کو قبول کرتے ہوئے اس کے ماتحت پُر امن طورپر دعوت کا کام کریں۔ مگر ساری دنیا کے مسلم رہنماؤں نے سیکولرزم کو لادینیت قرار دے کر اُس کے خلاف لفظی اورعملی لڑائی چھیڑ دی۔ اس طرح وہ غیر ضروری طورپر سیکولرزم کے حریف بن گئے۔ سیکولر نظام کے تحت ملا ہوا قیمتی منعہ استعمال ہونے سے رہ گیا۔
انسانوں کے لئے رحمت
قرآن کی سورہ نمبر ۲۱ میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: و ما ارسلنٰک الا رحمۃ للعالمین (الأنبیاء ۱۰۷) یعنی ہم نے تم کو تو بس دنیا والوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔
پیغمبر اسلام ﷺ کا آنا ساری دنیا کے انسانوں کے لیے خدا کی رحمت کا ظہور تھا۔ آپ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے زندگی کے وہ اصول بتائے جن کو اختیار کرکے انسان ’دارالسلام‘ (یونس ۲۵) میں آباد ہوسکتا ہے، یعنی امن وسلامتی کی کالونی میں۔ آپ کے ذریعہ وہ تعلیمات اُتاری گئیں جو انسانی معاشرہ کو پُر امن معاشرہ بناسکتی ہیں۔ آپ نے تاریخ میں پہلی بار امن (peace)کے تصور پر مبنی مکمل آئیڈیالوجی پیش کی۔ آپ نے زندگی کا وہ فارمولا بتایا جو آدمی کواس قابل بناتا ہے کہ وہ نفرت اورتشدد سے بچـتے ہوئے اپنے لیے ایک صحت مند زندگی کی تعمیر کرسکے۔ آپ کے ذریعہ دنیا میں وہ انقلاب آیا جس نے اس بات کو ممکن بنایا کہ ٹکراؤ اور جنگ سے بچتے ہوئے انسان ایک پُرامن سماج بنا سکے۔
پیغمبر اسلام کو اگر چہ مجبور کن حالات میں بعض ایسی لڑائیاں لڑنی پڑیں جواتنی چھوٹی تھیں کہ اُن کو جنگ کے بجائے جھڑپ کہنا زیادہ صحیح ہے۔ پیغمبر اسلام نے ایک عظیم انقلاب برپا کیا جس کو بجاطورپر غیر خونی انقلاب (bloodless revolution) کہا جاسکتا ہے۔
پیغمبر اسلام نے امن کو مکمل نظریۂ حیات کی حیثیت دی۔ آپ نے بتایا کہ تشددتخریب کا ذریعہ ہے اورامن تعمیر کا ذریعہ۔ آپ نے صبر کو سب سے بڑی عبادت بتایا جس کا مطلب مکمل طورپر امن کی روش پر قائم رہنا ہے۔ آپ نے فساد کو سب سے بڑا جرم بتایا جس کا مطلب فطرت کے پُر امن نظام کو درہم برہم کرنا ہے۔ آپ نے امن کو اتنی زیادہ اہمیت دی کہ ایک انسان کے قتل کوسارے انسانوں کے قتل کے برابر قرار دیا۔
ملاقات میں السلام علیکم کہنے کو رواج دینا ، اس کا مطلب یہ تھا کہ باہمی تعلقات کی بنیاد امن و سلامتی پر ہے۔ آپ نے آخرت کی کامیابی کو انسانی جدوجہد کی منزل بتایا، اس طرح آپ نے دنیوی ترقی کو نشانہ بنانے کی جڑ کاٹ دی جس کی وجہ سے ٹکراؤ اور تشدد کی تمام صورتیں پیدا ہوتی ہیں۔ آپ نے انسان کے لیے بہتر زندگی کا یہ فارمولا دیا ــــــلوگوں کو نفع دینے والے بنو، اور اگر تم نفع نہیںدے سکتے ہو تو لوگوں کے لیے بے ضرر(harmless) بن جاؤ۔ آپ نے بتایا کہ کسی کو اپنا دشمن نہ سمجھو۔ تم دشمن کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرو، پھر تم کو معلوم ہوگا کہ ہر دشمن امکانی طورپر (potentially) تمہارا دوست تھا۔ہر دشمن انسان کے اندر ایک دوست انسان چھپا ہوا تھا۔
جہاد پُر امن عمل کانام ہے
ملّا علی قاری مشہور عالم اور فقیہہ ہیں۔ اُن کا پورا نام یہ ہے: علی بن (سلطان) محمد، نورالدین الملّا الہروی القاری۔ ملّا علی قاری ہرات میں پیدا ہوئے۔ اُن کی وفات ۱۰۱۴ھ (۱۶۰۶ء) میں مکہ میں ہوئی۔ انہوں نے مختلف اسلامی موضوعات پر کثیر تعداد میں کتابیں لکھیں۔ (کتاب الأعلام)
ملاّ علی قاری کی ایک کتاب کانام مرقاۃ المصابیح ہے جو مشکاۃ المصابیح کی شرح میں لکھی گئی ہے۔ اس کتاب میں ملاعلی قاری کتاب الجہاد کے تحت لکھتے ہیں کہ جہاد کے لفظ میں لغوی طورپر جدوجہد اور مشقت کا مفہوم ہے۔ اس کے بعد وہ لکھتے ہیں: ثم غلب فی الإسلام علی قتال الکفار۔ یعنی پھر جہاد کا لفظ اسلام میں اہل کفر سے جنگ کے لیے استعمال ہونے لگا۔
ہر لفظ کا ایک لغوی مفہوم ہوتاہے اور دوسرا استعمالی مفہوم۔ یہی معاملہ جہاد کا بھی ہے۔ جہاد کالفظ جہد سے نکلا ہے۔ لغوی طورپر اس کے معنیٰ کوشش کے ہیں۔ اس میں مبالغہ کا مفہوم ہے۔ استعمال میں یہ لفظ مختلف قسم کی جدوجہد کے لیے لکھا یا بولا جاتا ہے۔ اُنہی میںسے ایک جنگ بھی ہے، تاہم اس کا استعمال صرف اس استثنائی جنگ کے لیے خاص ہے جو فی سبیل اللہ کی گئی ہو، ملک و مال کے لیے جو جنگ کی جائے اُس کو جہاد نہیں کہا جائے گا۔
قرآن میںاس سلسلہ میں دو مختلف لفظ استعمال کئے گئے ہیںــــــجہاد اور قتال۔ جب پُرامن جدوجہد مراد ہو تو وہاں قرآن میں جہاد کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً قرآن کے ذریعہ پُر امن دعوتی جدوجہد (الفرقان ۵۲)۔ اور جب باقاعدہ جنگ مراد ہو تو وہاں قرآن میں قتال کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلاً آل عمران ۱۲۱۔ تاہم بعد کے زمانہ میں جہاد کا لفظ اکثر قتال کے ہم معنیٰ لفظ کے طورپر استعمال کیا جانے لگا۔ جہاد کے لفظ کے اس استعمال کو اگر بالفرض درست مانا جائے تب بھی وہ جہاد کے لفظ کا ایک توسیعی استعمال ہوگا، نہ کہ اُس کا حقیقی استعمال۔
اپنے حقیقی مفہوم کے اعتبار سے جہاد ایک پُر امن عمل کا نام ہے، نہ کہ متشددانہ عمل کا نام۔ جہاد کا عمل انسان کو ذہنی اور روحانی طورپر بدلنے کے لیے ہوتا ہے، نہ کہ انسان کو قتل کرنے کے لیے۔
ہر حال میں امن
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی حد تک ایک امن پسند آدمی تھے۔ آپ کے مخالفین نے بار بار آپ کو لڑائی میں الجھانا چاہا مگر ہر بار آپ اعراض کرکے لڑائی سے بچتے رہے۔ تاہم چند بار یک طرفہ جارحیت کی بنا پر آپ کو وقتی طورپر دفاعی جنگ کے لیے مجبور ہونا پڑا۔ انہی چند دفاعی جنگوں میں سے ایک بدر کا غزوہ ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ عین اُس وقت جب کہ دونوں طرف کی فوجیں آمنے سامنے کھڑی تھیں، پیغمبر اسلام کے پاس خدا کا فرشتہ آیا۔ اُس نے کہا کہ اے محمد ، اللہ نے آپ کو سلام (سلامتی) کا پیغام بھیجا ہے۔ یہ سُن کر پیغمبر اسلام نے فرمایا: ہو السلام ومنہ السلام والیہ السلام۔ (البدایۃ والنہایۃ، الجزء الثالث، صفحہ ۲۶۷) یعنی اللہ سلامتی ہے اور اُس سے سلامتی ہے اوراُسی کی طرف سلامتی ہے۔
اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ عین لڑائی کے وقت بھی پیغمبر اسلام ایک امن پسندانسان بنے ہوئے تھے۔ اُس ہنگامی وقت میں بھی ایسا نہ تھا کہ آپ کا ذہن نفرت اور تشدد سے بھر جائے بلکہ اُس وقت بھی آپ امن اور سلامتی کی اصطلاحوں میںسوچتے ـتھے، اُ س وقت بھی آپ کا دل اس آرزو سے تڑپ رہا تھا کہ اللہ کی مدد سے وہ دنیا میں امن اورسلامتی کا ماحول قائم کر سکیں۔ سچا انسان وہ ہے جو جنگ کے وقت بھی امن کی بات سوچے، جو لڑائی کے ہنگاموں میں بھی سلامتی کا جذبہ اپنے دل میں لیے ہوئے ہو۔
یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ مثبت سوچ (positive thinking) کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، جنگ تمام منفی واقعات میں سب سے بڑا منفی واقعہ ہے۔ پیغمبر عین اس کے کنارے کھڑا ہوا ہے مگر اُس کی زبان سے خون اور تشدد کے بجائے امن اور سلامتی کے الفاظ نکل رہے ہیں۔ یہ بلاشبہہ اعلیٰ ترین انسانی صفت ہے۔ اعلیٰ انسان وہ ہے جو تشدد کے درمیان بھی امن کی بات سوچے، جو جنگ کے حالات میں بھی صُلح کامنصوبہ بنائے۔
اللہ کا نام سلامتی
قرآن میںاللہ کے مختلف نام (یا صفات) بتائے گئے ہیں۔ اُن میں سے ایک السلام ہے، یعنی سلامتی۔ گویا خدا خود سلامتی کا مظہر ہے، خدا خود سلامتی کا پیکر ہے۔ خدا کو امن و سلامتی اتنا زیادہ پسند ہے کہ اُس نے اپنا ایک نام السلام رکھا۔
اس آیت کی تفسیر میں الخطابی نے لکھا ہے کہ : معناہ الذی سلم الخلق من ظلمہٖ (الجامع لأحکام القرآن للقرطبی، الجزء ۱۸، صفحہ ۴۶) یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہستی جس کے ظلم سے لوگ محفوظ رہیں۔ لوگوں کو جس سے سلامتی کا تجربہ ہو، نہ کہ تشدد کا۔
خدا کی حیثیت اعلیٰ ترین معیار کی ہے۔ جب خداکا برتاؤ انسانوں سے امن اور سلامتی پر مبنی ہو توانسانوں کو بھی دوسرے انسانوں کے ساتھ اسی برتاؤ کا معاملہ کرنا چائیے۔ ہر انسان کو دوسرے انسان کے ساتھ امن وسلامتی کا برتاؤ کرنا چاہئے، نہ کہ اس کے خلاف سختی اور تشدد کا۔
طاقتور کون
ایک حدیث کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لیس الشدید بالصرعۃ، انما الشدید الذی یملک نفسہ عند الغضب (البخاری، کتاب الادب، مسلم، کتاب البرّ، مؤطا کتاب الجامع، مسند احمد)۔ یعنی طاقت ور وہ نہیں ہے جو کُشتیمیں لوگوں کو پچھاڑ دے۔ طاقتور صرف وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے نفس کو قابو میں رکھے۔
غصہ کے وقت غصہ کو روکنا سلف کنٹرول (self control) کی علامت ہے۔ اور سلف کنٹرول بلاشبہہ سب سے بڑی طاقت ہے۔ ایسے موقع پر سلف کنٹرول آدمی کو غلط کارروائیوں سے بچاتا ہے۔ اورجس آدمی کے اندر سلف کنٹرول کی طاقت نہ ہو، وہ غصہ کے وقت بپھر اُٹھے گا، یہاں تک کہ وہ متشددانہ کارروائی کرنے لگے گا۔ غصہ کو قابو میں رکھناامن پسند انسان کا طریقہ ہے اور غصہ کے وقت بے قابو ہوجانا تشدد پسند انسان کا طریقہ۔
ایک آدمی کی لڑائی دوسرے آدمی سے ہو اور وہ اُس کو لڑائی میںپچھاڑ دے تو یہ صرف اس بات کا ثبوت ہے کہ دوسرے آدمی کے مقابلہ میں پہلا آدمی جسمانی اعتبار سے زیادہ طاقتور تھا۔ مگر جسمانی طاقت ایک محدود طاقت ہے۔ اس کے مقابلہ میں جس شخص کا یہ حال ہو کہ اُس کے اندرغصہ بھڑکے مگر وہ اپنے غصہ پر کنٹرول کرلے اور غصہ دلانے والے کے ساتھ معتدل اندازمیں معاملہ کرے، ایسا آدمی زیادہ بڑی طاقت کا مالک ہے۔ اُس کی یہ روش اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ عقل کی طاقت رکھتا ہے، اور عقل کی طاقت بلا شبہہ جسم کی طاقت سے بہت زیادہ بڑی ہے۔ ایسا آدمی اپنی دانش مندانہ منصوبہ کے ذریعہ ہرجنگ کو جیت سکتا ہے، بغیر اس کے کہ اُس نے ایک انسان کا بھی خون بہایا ہو۔
سماجی امن کا فارمولا
سماجی امن کا فارمولاکیا ہے اور کسی سماج میں معتدل حالات کو کس طرح برقرار رکھا جاسکتا ہے، اس کے بارے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان الفتنۃ نائمۃ لعن اللہ مَن أیقظہا (حدیث) یعنی فتنہ سویا ہوا ہے۔ اس شخص پر اللہ کی لعنت ہے جو سوئے ہوئے فتنہ کو جگائے۔
یہ سماجی امن کا ایک فطری فارمولا ہے۔ اصل یہ ہے کہ ہر آدمی کے اندر اَنا(ego) کا جذبہ موجود ہے۔ اور اَنا کا جذبہ ایک ایسا جذبہ ہے جس کو چھیڑا جائے تو وہ بہت جلد بھڑک اٹھے گا اور فساد برپا کرے گا۔ مگر فطرت نے اس جذبہ کو ہر آدمی کے سینہ میںسُلا دیا ہے۔ وہ ہر انسان کے اندر موجود ہے مگر تخلیقی نظام کے تحت وہ خوابیدہ حالت میں ہے۔ ایسی حالت میںکسی سماج کو پُر امن سماج بنانے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ لوگوں کے سینے میں سوئی ہوئی انانیت کو سویا رہنے دیا جائے۔
سماجی امن کو وہی لوگ درہم برہم کرتے ہیں جن کی انانیت کو بھڑکا دیا گیا ہو۔ اگر اَنانیت کو بھڑکانے سے بچا جائے تو سماج کا امن بھی تباہ نہ ہوگا۔ اس سے معلوم ہوا کہ سماجی امن کا قیام خود آپ کے اپنے بس میں ہے، نہ کہ دوسروں کے بس میں۔ آپ اپنے مثبت رویہ سے دوسروں کی اَنا کو نہ چھیڑیے، اور پھر یقینی طورپر آپ اُن کے شر سے محفوظ رہیں گے۔
خاموشی میںنجات
حدیثوں میںمختلف انداز سے خاموشی کی اہمیت بتائی گئی ہے۔ ایک روایت کے مطابق، پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: من صمت نجا (الترمذی، کتاب القیامۃ، الدارمی، کتاب الرقاق، مسند احمد) یعنی جو شخص چُپ رہا اُس نے نجات پائی۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ آدمی بولنا چھوڑ دے، وہ بالکل خاموش رہے۔ اس کا مطلب دراصل یہ ہے کہ آدمی خاموش رہ کر سوچے، وہ پہلے خاموش رہ کر معاملہ کو سمجھے، اس کے بعد وہ بولے۔ یہ بلا شبہہ ایک بہترین طریقہ ہے۔ آدمی کو چاہئے کہ وہ باقاعدہ اپنی تربیت کرکے یہ عادت ڈالے کہ وہ بولنے سے زیادہ خاموش رہے۔ وہ بولے تو اُس وقت بولے جب کہ وہ سوچنے کا کام کر چکا ہو۔
یہ تربیت اس طرح کی جاسکتی ہے کہ روزانہ کے معمول کی بات چیت میںوہ بالقصد اپنے آپ کواس کا عادی بنائے۔ اگر آدمی اپنی روزمرہ کی معمولی بات چیت میں یہ عادت ڈال لے تو اپنی اس عادت کی بناپر وہ اس وقت بھی ایسا ہی کرے گا جب کہ خلاف معمول کوئی بات پیش آگئی ہو۔
عام طورپر لوگ یہ کرتے ہیں کہ جب اُن کے سامنے کوئی بات آتی ہے تو فوری طورپر اُس کا جو جواب اُن کے ذہن میں آتا ہے، اُس کو اپنی زبان سے بولنا شروع کردیتے ہیں۔ یہ طریقہ درست نہیں۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ پہلے سوچنے کا عمل کیا جائے اور پھر اُس کے بعد بولنا شروع کیاجائے۔ جو لوگ ایسا کریں وہ اس انجام سے بچ جائیں گے کہ وہ اپنے بولے ہوئے الفاظ پر پچھتائیں۔ وہ اپنے کہے ہوئے بول کو لوٹانا چاہیں، حالاںکہ کسی کا کہا ہوا بول دوبارہ اُس کی طرف لوٹنے والا نہیں۔
عام طورپر ایسا ہوتا ہے کہ جب کوئی خلاف مزاج بات سامنے آتی ہے تو آدمی بھڑک کر ناپسندیدہ انداز میں کلام کرنے لگتا ہے۔ اس سے بچنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ روز مرہ کی معمولی بات چیت میں آدمی اس کی عادت ڈالے کہ وہ پہلے سوچے اور پھر بولے۔ جب ایسا ہوگا کہ معمول کی بات چیت میںوہ بولنے سے پہلے سوچنے کا عادی ہو جائے گا تو وہ اپنی اس عادت کی بنا پر خلاف معمول بات چیت میں بھی اسی طریقہ پر کار بند رہے گا۔ عام بات چیت میں اپنے آپ پر کنٹرول رکھ کر بولنے کی عادت اُس کو اس قابل بنا دے گی کہ وہ ہنگامی مواقع پر بھی اپنے آپ پر کنٹرول رکھ کر بولے، وہ ذہنی ڈسپلن کے ساتھ بات چیت کرے۔
دنیا کے اکثر فتنے الفاظ کے فتنے ہیں۔ کچھ الفاظ نفرت اور تشدد کے جذبات کو بھڑکاتے ہیں۔ اور کچھ دوسرے الفاظ امن اور انسانیت کا ماحول قائم کرتے ہیں۔ اگر آدمی صرف یہ کرے کہ وہ بولنے سـے پہلے سوچے اور اپنے جذبات کو قابو میں رکھ کر بولے تو بیشتر فتنے پیدا ہونے سے پہلے ہی ختم ہوجائیں گے۔
اپنے آپ کو قابو میںرکھ کر کلام کرنا ایک اعلیٰ انسانی صفت ہے۔ یہ صفت ان لوگوں میں ہوتی ہے جو اپنے آپ پر نظر ثانی کرتے رہیں، جو اپنے قول و عمل کا حساب لیتے رہیں۔
آدمی کو چاہیے کہ جب وہ کوئی بات سُنے تو وہ فوراً اُس کا جواب نہ دے، وہ فوراً اپنا رد عمل پیش نہ کرے۔ وہ ایک لمحہ کے لیے ٹھہر کر سوچے کہ کہنے والے نے کیا بات کہی ہے اور میری طرف سے اس کا بہتر جوا ب کیا ہوسکتا ہے۔ بات کو سن کر ایک لمحہ کے لیے ٹھہرنا اس بات کی یقینی ضمانت ہے کہ وہ سنی ہوئی بات کادرست جواب دے گا، وہ پتھر کا جواب پتھر سے دینے کے بجائے پتھر کا جواب پھول سے دینے میں کامیاب ہوجائے گا۔
دشمن سے ٹکراؤ نہیں
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا تتمنّوا لقاء العدو،وسلوا اللہ العافیۃ (صحیح البخاری، کتاب الجہاد والسیر)۔ یعنی دشمن سے مڈبھیڑ کی تمنا نہ کرو، تم اللہ سے امن مانگو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص اگر تمہارا دشمن بن جائے تو ایسا نہ کرو کہ تم بھی اُس کے دشمن بن کر اُس سے لڑناشروع کردو۔ بلکہ فریق ثانی کی دشمنی کے باوجود تم اُس کے ساتھ اعراض کا طریقہ اختیار کرو۔ دشمنی کے حالات کے باوجود تمہارا طریقہ لڑائی سے بچنے کاہونا چاہیے، نہ کہ اپنے آپ کو لڑائی میں پھنسالینے کا۔
اللہ سے امن مانگوــــــــکا مطلب یہ ہے کہ تم ٹکراؤ کے بجائے امن کا راستہ اختیار کرو اور اپنی امن پسندانہ کوششوں کے ساتھ خدا کو بھی دعاؤں کے ذریعہ اُس میں شامل کرو۔ تمہاری دعا یہ نہیں ہونی چاہیے کہ خدایا، دشمن کو ہلاک کردے بلکہ یہ ہونی چاہیے کہ خدایا، مجھے توفیق دے کہ میں لوگوں کی دشمنی کے باوجود تشد د اور ٹکراؤ کا طریقہ اختیار نہ کروں بلکہ امن کے راستہ پر اپنی زندگی کا سفر طے کرتارہوں۔
اس سے معلوم ہوا کہ فطرت کے نقشہ کے مطابق، اس دنیا میں امن کی حیثیت عموم (rule) کی ہے اور تشدد کی حیثیت صرف ایک استثناء (exception) کی۔ مزید اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر بظاہر کوئی شخص یا گروہ آپ کا دشمن ہو تواُس سے نپٹنے کی صرف یہی ایک شکل نہیں ہے کہ اُس سے مڈبھیڑ کی جائے۔ زیادہ بہتر اور مؤثر شکل یہ ہے کہ امن کی تدبیر سے دشمن کے مسئلہ کا حل نکالا جائے۔ امن کی طاقت تشدد کی طاقت کے مقابلہ میں، زیادہ کارگر بھی ہے اور زیادہ مفید بھی۔
نان وائلنس کا طریقہ
حدیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان اللہ یعطی علی الرفق ما لا یعطی علی العنف (مسلم، کتاب البر، ابوداؤد، کتاب الأدب، سنن ابن ماجہ، کتاب الادب، سنن الدارمی ، کتاب الرقاق، مسند احمد ۱؍۱۱۲) یعنی اللہ نرمی پر وہ چیز دیتاہے جو وہ سختی پر نہیں دتیا۔ یہ دراصل فطرت کے اُس قانون کا بیان ہے جو خُدا نے موجودہ دنیا میں قائم کررکھا ہے۔ اسی قانون کی بنا پر ایسا ہے کہ جب کوئی شخص نرمی اور عدم تشدد کے حدود میں رہ کر کام کرے تو اُس کا کام زیادہ نتیجہ خیز بن جاتا ہے۔ اور جو شخص سختی اور تشدد کا طریقہ اختیار کرے اُس کا کام آگے بڑھنے کے بجائے اور پیچھے کی طرف چلا جاتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ جب بھی کوئی شخص سختی اور تشدد کا طریقہ اختیار کرے تو اُس کی کوششیں غیرضروری طورپر دو محاذوں میں بٹ جاتی ہیں۔ ایک محاذ، اپنی داخلی تعمیر کا۔ اور دوسرا محاذ، خارجی حریف سے لڑنے کا۔ اس کے برعکس جو شخص نرمی اور عدم تشدد کا طریقہ اختیار کرے، اُس کے لیے یہ ممکن ہوجاتا ہے کہ وہ اپنی تمام موجود طاقتوں کو صرف ایک محاذ، داخلی تعمیر کے محاذ پر لگائے، اور اُس کے فطری نتیجہ کے طورپر زیادہ بڑ ی ترقی حاصل کرلے۔
اس حدیث میں فطرت کے اس قانون کاذکر ہے جس پر ہماری دنیا کا نظام چل رہا ہے۔ یہاں جو کچھ کسی کو ملتا ہے وہ اسی نظام کے تحت ملتاہے، اس کے بغیر نہیں۔ فطرت کا یہ نظام تمام تر امن اور عدم تشدد کے اصول پر قائم ہے۔ اس لیے یہاں جب بھی کسی کو کچھ ملے گا، امن اورعدم تشدد کے اصول پر ملے گا، اُس سے انحراف کرکے کسی کو کچھ ملنے والا نہیں۔
اختلاف کی حد
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک طرف یہ فرمایا کہ: افضل الجہاد کلمۃ عدل عند سلطان جائر، افضل الجہاد کلمۃ عدل عند امیر جائر (ابوداؤد،کتاب الملاحم، الترمذی، کتاب الفتن، النسائی، کتاب البیعۃ، ابن ماجہ، کتاب الفتن، مسند احمد) یعنی ظالم حکمراں کے سامنے حق و عدل کی بات کہنا افضل جہاد ہے۔
دوسری طرف حدیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا: من رأی من امیرہ شیاً فکرہہ فلیصبر (البخاری، کتاب الأحکام، مسلم، کتاب الامارہ، الدارمی، کتاب السیر، مسند احمد) یعنی جو شخص اپنے حاکم میںایسی چیز دیکھے جو اُس کو پسند نہ ہو تو وہ اُس پر صبر کرے۔ اسی طرح آپ نے فرمایا: تسمع وتطیع الأمیر وإن ضرب ظہرک وأخذ مالک (صحیح مسلم، کتاب الایمان) یعنی تم اپنے حاکم کی بات سُنو اور اس کی اطاعت کرو، خواہ وہ تمہاری پیٹھ پر کوڑا مارے اور تمہارا مال چھین لے۔
ان حدیثوں میں بظاہر دو قسم کے احکام ہیں۔ ایک طرف یہ حکم ہے کہ تم اپنے حاکم میں کوئی غلط بات دیکھو تو کھُلے طورپر اُس کااعلان کرو۔ دوسری طرف حدیث یہ بتاتی ہے کہ امیر کے اندر تمہیں کوئی غلط بات دکھائی دے تو اُس پر صبرکرو، اگر وہ تمہارے اوپر ظلم کرے تب بھی تم اُس کو برداشت کرو۔
یہ ایک بے حد اہم ہدایت ہے جس سے دو چیزوں کا فرق معلوم ہوتا ہے۔ اور وہ ہے، اعلان اور اقدام کا فرق۔ یہ ایک مطلوب بات ہے کہ آدمی حکمراں کے اندر کوئی غلط بات دیکھے تو وہ نصیحت اور خیر خواہی کے انداز میںاُس کا اعلان کرے۔ مگر جہاں تک عملی اقدام کا تعلق ہے تو آدمی کو اُس سے مکمل طورپر باز رہنا چاہئے۔ آدمی کو چاہئے کہ وہ نصیحت اور ٹکراؤ کی سیاست میں فرق کرے۔ نصیحت کے جائز حق کو استعمال کرتے ہوئے وہ سیاسی ٹکراؤ سے مکمل طورپر بچے۔
فرق کا یہ اصول بے حد اہم ہے۔ سماج میںجب بھی تشدد کا ماحول بنتا ہے، وہ اُس وقت بنتا ہے جب کہ لوگ حکمراں کے خلاف عملی ٹکراؤ کی مہم شروع کردیں۔ وہ اصلاح سیاست کے نام پر حکمراں کو اقتدار سے بے دخل کرنے کا منصوبہ بنائیں۔ لیکن اگر اس قسم کی نزاعی سیاست سے بچتے ہوئے صرف قولی نصیحت پر اکتفا کیا جائے تو ہمیشہ ایسا ہوگا کہ سماج میں امن قائم رہے گا، سماج کبھی بھی تشدد کا جنگل نہیں بنے گا۔
پُر امن طریق کار زیادہ بہتر
ایک روایت میںبتایا گیا ہے کہ معاملات میںپیغمبر اسلام کی پالیسی کیا تھی۔ اس روایت کے الفاظ یہ ہیں: ماخیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بین امرین الااختار أیسرہما (صحیح البخاری، کتاب الأدب) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی کسی معاملہ میں دو میں سے ایک طریقہ کا انتخاب کرناہوتا توآپ ہمیشہ دونوں میں سے آسان ترکا انتخاب کرتے تھے۔
اختیار أیسر کے اس اصول کو اگر متشددانہ طریقِ کار اور پُر امن طریقِ کار کے اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ کہنا صحیح ہوگا کہ پیغمبر کا طریقہ یہ تھا کہ جب کوئی معاملہ پیش آئے تو اُس سے نپٹنے کے لیے متشددانہ طریقِ کار کو اختیار نہ کیا جائے بلکہ پُر امن طریقِ کار کواختیار کیا جائے۔ کیوں کہ متشددانہ طریقِ کار یقینی طورپر مشکل ہے اور پُر امن طریقِ کار یقینی طورپر آسان۔
تاہم یہ سادہ طورپر صرف آسان اور مشکل کا معاملہ نہیں۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ معاملات میں پُر امن طریقہ ہمیشہ نتیجہ خیز ہوتا ہے اور متشددانہ طریقہ یقینی طورپر بے نتیجہ ہے۔ وہ مسئلہ کو حل نہیںکرتا البتہ اُس میں کچھ اور اضافہ کر کے اُس کو مزید پیچیدہ بنادیتا ہے۔ حدیث میںمشکل طریقہ سے مراد وہ طریقہ ہے جس کے ذریعہ مقصد کا حصول مشکل ہو۔ اس کے مقابلہ میںآسان سے مراد وہ طریقہ ہے جس کے ذریعہ مقصد کا حصول آسان اور یقینی ہو۔
لچک کا طریقہ، نہ کہ اکڑ کا طریقہ
ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہیــــــــصحیح البخاری، کتاب التوحید، صحیح مسلم، کتاب المنافقین، سنن الدارمی، کتاب الرقاق، مسند احمد۔ اس حدیث میں مومن، بالفاظ دیگر، خداپرست انسان کی مثال خامہ سے دی گئی ہے۔ خامہ نرم پودے کو کہتے ہیں۔ حدیث میں بتایا گیا ہے کہ مومن کا حال نرم پودے کی طرح ہے۔ جب بھی ہوا کا کوئی جھونکا آتا ہے تو وہ اُس کے مطابق، جھک جاتا ہے۔ اورجب جھونکا چلا جائے تو وہ دوبارہ اُٹھ جاتا ہے۔ اس طرح وہ اپنے آپ کو بلا اور مصیبت سے بچا لیتا ہے ۔
اس حدیث کے مطابق، کسی طوفان کا سامنا کرنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک یہ کہ اُس کے مقابلہ میںاکڑ دکھائی جائے۔ اوردوسرا طریقہ یہ ہے کہ اُس کے مقابلہ میں لچک کا طریقہ اختیار کیا جائے۔ اس کو دوسرے لفظوں میں یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ مقابلہ کا ایک طریقہ متشددانہ طریقہ ہے اور دوسرا طریقہ پُر امن طریقہ ۔ خدا کا پسندیدہ طریقہ یہ ہے کہ پہلے طریقہ کو چھوڑ دیا جائے اور دوسرے طریقہ کو اختیار کیا جائے۔
طوفان کے مقابلہ میں جو لوگ اکڑ کا طریقہ اختیار کریں وہ اپنے اس عمل سے ثابت کرتے ہیں کہ وہ انانیت میںمبتلا ہیں۔ اس کے مقابلہ میں امن کا طریقہ تواضع پر مبنی ہے۔ خدا کی اس دنیا میںاَنانیت کی روش اختیار کرنے والوں کے لیے تباہی ہے اور تواضع کی روش اختیار کرنے والوں کے لیے کامیابی۔ یہی بات حدیث میں ان الفاظ میںکہی گئی ہے: من تواضع رفعہ اللہ۔ یعنی جس نے تواضع کی روش اختیار کی، خدا اُس کو بلندی عطا فرمائے گا۔
پُر امن شہری
حدیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے مومن کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ: المؤمن من أمنہ الناس علی دمائہم واموالہم (الترمذی، کتاب الایمان، النسائی، کتاب الإیمان، ابنِ ماجہ، کتاب الفتن، مسند احمد) یعنی مومن وہ ہے جس سے لوگ اپنے خون اور اپنے مال کے معاملہ میں مامون ہوں۔
کسی سماج میں رہنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی لوگوں کے درمیان امن کے ساتھ رہے۔ اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ وہ دوسروں سے لڑائی جھگڑا کرتا رہے۔ اس حدیث کے مطابق، ایمانی طریقہ یہ ہے کہ آدمی لوگوں کے درمیان پُر امن شہری بن کر رہے۔ دوسروں کی جان اور مال اور عزت کے لیے وہ مسئلہ نہ بنے۔ وہ کسی حال میں دوسروں کے خلاف تشدد کا طریقہ اختیار نہ کرے۔
زندگی کا وہ طریقہ کیا ہے جس میں سماج کے افراد ایک دوسرے کی زیادتیوں سے محفوظ ہوں۔ وہ طریقہ یہ ہے کہ شکایت کے باوجود آدمی اپنی معتدل روش کو برقرار رکھے۔ دوسروں سے شکایت کو وہ اپنے سینے میں دفن کردے، وہ اپنے سینے کی آگ کو دوسروں کے اوپر انڈیلنے سے بچے۔ اسی قسم کا سماج وہ سماج ہے جہاں لوگ ایک دوسرے سے مامون رہ کر زندگی گذاریں۔ پُر امن سماج معیاری انسانی سماج ہے۔ اس کے برعکس جس سماج میںتشدد ہو وہ حیوانی سماج ہے، نہ کہ انسانی سماج۔
امن پسندی ایک اعلیٰ اخلاق ہے۔ اس کے مقابلہ میں تشدد کا مطلب یہ ہے کہ آدمی انسانی اخلاق کی سطح سے گر کر حیوانی اخلاق کی سطح پر آگیا ہو۔
انتظار بھی حل ہے
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: أفضل العبادۃ انتظار الفرج (الترمذی، کتاب الدعوات)۔ یعنی کشادگی کا انتظار کرناایک افضل عبادت ہے۔
ہر فرد اور ہر گروہ پر ہمیشہ ایسے حالات آتے ہیںجن میں وہ اپنے آپ کو تنگی میں محسوس کرنے لگتا ہے۔ ایسے موقع پر بیشتر لوگ یہ کرتے ہیں کہ وہ شعوری یا غیر شعوری طورپر تنگی کو ایک مستقل حالت سمجھ لیتے ہیں اوراُس کو فوراً اپنے آپ سے دور کرنے کے لیے حالات سے لڑنا شروع کردیتے ہیں۔ اس قسم کی لڑائی ہمیشہ بے فائدہ ثابت ہوتی ہے۔ اس کا نتیجہ صرف یہ ہوتا ہے کہ تنگی پر کچھ اور مشکلات کا اضافہ کر لیا جائے۔
تنگی کبھی ہمیشہ کے لیے نہیں آتی، وہ صرف وقتی طورپر آتی ہے۔ ایسی حالت میں تنگی کے مسئلہ کا آسان حل صرف یہ ہے کہ انتظار کی پالیسی اختیار کی جائے۔ یعنی غیر ضروری طورپر حالات سے لڑائی نہ چھیڑی جائے بلکہ سادہ طورپر انتظار کرو اور دیکھو(wait and see) کی پالیسی اختیار کی جائے۔ اس پالیسی کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آدمی کا ذہنی سکون برباد نہ ہوگا۔ اور جو کچھ ہونے والا ہے وہ اپنے آپ اپنے وقت پر ہو جائے گا۔
جب کوئی مسئلہ پیش آتا ہے توآدمی یہ چاہنے لگتا ہے کہ فوراً اُس کا حل نکل آئے۔ یہی اصل غلطی ہے۔ آدمی اگر پیش آئے ہوئے مسئلہ کو انتظار کے خانہ میں ڈال دے تو کوئی مسئلہ مسئلہ نہیں۔
خدائی انتباہ، نہ کہ انسانی ظلم
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو بعدکے جن حالات سے پیشگی طورپر آگاہ کیا ہے اُن میں سے ایک یہ ہے کہ بعد کے زمانہ میں مسلم امت دوسری قوموں کی زدمیں آجائے گی۔ چنانچہ فرمایا: یوشک الامم أن تداعیٰ علیکم کما تداعی الأکلۃ الی قصعتہا (ابوداؤد، کتاب الملاحم، مسند احمد) یعنی قریب ہے کہ قومیں تمہارے خلاف ایک دوسرے کو پکاریں جس طرح کھانا کھانے والے ایک دوسرے کو دسترخوان پر پکارتے ہیں۔
قرائن بتاتے ہیں کہ یہ واقعہ اٹھارویں صدی عیسوی کے نصف آخر میں پیش آیا۔ ابتداء ً یورپ کی نو آبادیاتی قوموں کے ذریعہ یہ واقعہ ہوا۔ اس کے بعد دوسری قومیں اس میںشریک ہوتی چلی گئیں۔ اس کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ ایسا کیوں ہوا۔ قرآن کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ براہ راست خدا کی سنت کے تحت پیش آیا۔ خدا کی سنت یہ ہے کہ قوموں کو جگانے کے لیے اُن پر تنبیہات نازل کی جاتی ہیں۔ یہ گویا شاک ٹریٹمنٹ (shock treatment) ہوتا ہے تاکہ وہ چونکیں اوراپنی اصلاح کریں۔ چنانچہ فرمایا: فلولا اذجاء ہم باسنا تضرعوا ولکن قست قلوبہم و زین لہم الشیطان ما کانوا یعملون (الأنعام ۴۳) یعنی پس جب ہماری طرف سے اُن پر سختی آئی تو کیوں نہ وہ گڑگڑائے۔بلکہ اُن کے دل سخت ہوگئے۔ اور شیطان اُن کے عمل کو ان کی نظر میں خوش نما کرکے دکھاتا رہا۔
اس آیت میںتزئین کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب ہیــــایک بُرے کام کو خوبصورت الفاظ میں بیان کرنا تا کہ اُس کی بُرائی چھپ جائے۔ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کے ساتھ عین یہی واقعہ پیش آیا۔ موجودہ زمانہ کے مسلم رہنماؤں نے شعوری یا غیر شعوری طورپر عین وہی کام کیا جس کو مذکورہ آیت میں تزئین کہا گیا ہے۔
موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کے ساتھ غیر قوموں کی طرف سے جو مسائل پیش آئے وہ خدائی انتباہ (warning) تھے۔ مگر مسلم رہنماؤں نے ان مسائل کو ظلم اور سازش کی اصطلاحوں میںبیان کرنا شروع کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جو واقعہ اس لیے تھا کہ مسلمان اپنی کوتاہیوں کو محسوس کریں اور اپنی داخلی اصلاح میں سرگرم ہوجائیں۔ اس کے بجائے مسلم رہنماؤں کی غلط رہنمائی کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کی ساری سوچ غیر اقوام کی طرف متوجہ ہوگئی۔ جس واقعہ سے احتسابِ خویش کا ذہن پیدا ہونا چاہئے تھا، اس سے احتسابِ غیر کا ذہن جاگ اُٹھا، جو بڑھتے بڑھتے تشدد تک جاپہنچا۔
خاموشی کی طاقت
حضرت عمر فاروق اسلامی تاریخ کے دوسرے خلیفہ ہیں۔ اُن کا ایک قول ان الفاظ میںنقل کیا گیا ہے: أمیتوا الباطل بالصمت عنہ۔ (تم لوگ باطل کو ہلاک کرو اُس کے بارے میں چپ رہ کر)۔
فطرت کے قانون کے مطابق، اس دنیا میں حق کو زندگی ملتی ہے اور باطل کے لیے موت مقدر ہے ۔ ایسی حالت میں باطل کی ہلاکت کے لیے صرف اتنا کافی ہے کہ اُس کے بارے میں خاموشی اختیار کر لی جائے۔ باطل کے خلاف بولنا یا اُس کے خلاف ہنگامہ کرنا اُس کو زندگی دیتا ہے۔ اور باطل کو نظر انداز کرکے اُس کے بارے میں چپ رہنا اُس کی موت کا سبب بن جاتا ہے۔
باطل کے بارے میںچپ رہنے کا مطلب یہ ہے کہ اُس کو نظر انداز کیا جائے۔ اُس کے خلاف کسی رد عمل کا اظہار نہ کیا جائے۔ اُس کے مقابلہ میں احتجاج اور صف آرائی کا طریقہ اختیار نہ کیاجائے۔ تاہم ایسا کرنا صرف اُن لوگوں کے لیے ممکن ہے جو فطرت کی طاقت کو جانیں اور اُس پر بھروسہ کرسکیں۔ جو لوگ فطرت کی طاقت کو نہ جانیں، وہی لوگ باطل کے خلاف ہنگامہ آرائی کرکے اُس کو زندگی دینے کا سبب بن جاتے ہیں۔
تشدد مایوسی کا نتیجہ
تشدد محرومی کے احساس کانتیجہ ہے، اورامن یافت کے احساس کا نتیجہ۔ جولوگ اس احساس میں مبتلا ہوں کہ وہ محروم ہیں، دوسروں نے اُن کی چیز اُن سے چھین لی ہے، ایسے لوگ ہمیشہ منفی نفسیات میں مبتلا رہتے ہیں۔ اور اُن کا یہی احساس اکثر تشدد کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ لیکن جو لوگ اس احساس میں جیتے ہوں کہ اُنہوں نے اپنی زندگی میں یافت کا تجریہ کیا ہے، ایسے لوگ ذہنی سکون سے ہم کنار ہوتے ہیں۔ وہ ہمیشہ پُر امن زندگی گذارتے ہیں۔
جو فرد یا گروہ دوسروں کے خلاف نفرت کرے، جو دوسروں کے خلاف تشدد پر اُتر آئے، وہ اپنے عمل سے یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو محروم سمجھ رہا ہے۔ اس کے برعکس جو فرد یا گروہ امن پسندی کی زندگی گذارے وہ اپنے عمل سے اس بات کا ثبوت دے رہا ہے کہ اُس نے اپنی زندگی میں وہ چیز پالی ہے جو اُس کو پانا چاہیے۔
اب سوال یہ ہے کہ محرومی کا احساس کسی کو کیوں پیدا ہوتا ہے اور وہ کون لوگ ہیںجو ہمیشہ یافت کے احساس میں جیتے ہیں۔
اس دنیا میں سب سے بڑا پانا یہ ہے کہ آدمی نے خدا کو پالیا ہو اور سب سے بڑی محرومی یہ ہے کہ آدمی خدا کو پانے سے محروم ہو۔ خدا کو پانے کے بعد کوئی اور چیز پانے کے لیے باقی نہیں رہتی، اور جو لوگ خدا کو پانے سے محروم ہوں وہ گویا محرومی کی اس آخری حالت پر پہنچ گئے ہیں جہاں محرومی ہی محرومی ہے، اول بھی اور آخر بھی، کوئی بھی چیز اُن کی محرومی کے احساس کو ختم کرنے والی نہیں۔
پازیٹیو اسٹیٹس کوازم
جب بھی کوئی آدمی عمل کرنا چاہے تواُس کو فوراً محسوس ہوتا ہے کہ اُس کے راستہ میں کچھ رکاوٹیں حائل ہیں۔ ایسا ایک فرد کے لیے بھی ہوتا ہے اور پوری قوم کے لیے بھی۔ اب عمل کاایک طریقہ یہ ہے کہ پہلے رکاوٹوں سے لڑکر اُن کو راستہ سے ہٹا دیا جائے اور اُس کے بعد اپنا مطلوب عمل شروع کیا جائے۔ اس طریقہ کو عام طورپر ریڈیکلزم (radicalism) کہا جاتا ہے۔
ریڈیکلزم کا طریقہ جذباتی لوگوں کو یا انتہا پسند لوگوں کو بظاہر پسند آتا ہے، مگر وہ کسی مثبت مقصد کے لیے مفید نہیں۔ ریڈیکلزم کا طریقہ تخریب کے لیے کار آمد ہے، وہ تعمیر کے لیے کار آمد نہیں۔ ریڈیکلزم کے طریقہ میں صرف موجودہ سسٹم ہی نہیں ٹوٹتا، بلکہ اس عمل کے دوران وہ سماجی روایات ٹوٹ جاتی ہیں جو صدیوں کے درمیان بنی تھیں۔ قتل وخون اور توڑ پھوڑ کی وجہ سے بے شمار لوگ طرح طرح کی مصیبتوں کا شکار ہوتے ہیں۔ تجربہ بتاتا ہے کہ ریڈیکلزم کا طریقہ نظریاتی طورپر بظاہر خوب صورت معلوم ہوتا ہے، مگر عملی انجام کے اعتبار سے اُس میں کوئی خوبی نہیں۔
اس کے مقابلہ میں دوسرا طریقہ یہ ہے کہ صورت موجودہ سے ٹکراؤ نہ کرتے ہوئے ممکن دائرہ میں اپنے عمل کی منصوبہ بندی کی جائے۔ صورت موجودہ (statusquo) کو وقتی طورپر قبول کرتے ہوئے اُن مواقع کواستعمال کیا جائے جو اب بھی موجود ہیں۔ اس طریقہ کو ایک لفظ میںپازیٹیو اسٹیٹس کوازم (positive statusquoism) کہا جاسکتا ہے۔
ریڈیکلزم کا طریقہ ہمیشہ تشدد پیدا کرتا ہے۔ اس کے برعکس پازیٹیو اسٹیٹس کو ازم سماج کے امن کو باقی رکھتے ہوئے اپناکام انجام دیتا ہے۔ ریڈیکلزم کا طریقہ ہمیشہ مسئلہ میں اضافہ کرتا ہے۔ اس کے برعکس پازیٹیو اسٹیٹس کو ازم کا طریقہ سماج میں کوئی مسئلہ پیدا کئے بغیر اپنا عمل انجام دیتا ہے۔ ایک اگر بگاڑ کا راستہ ہے تو دوسرا بناؤ کا راستہ۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے قدیم عرب میںاصلاح کاجو طریقہ اختیار کیا اُس کو ایک لفظ میں، پازیٹیو اسٹیٹس کو ازم کہا جاسکتا ہے۔ مثلاً اُس زمانہ میں خانۂ کعبہ کے اندر ۳۶۰ بُت رکھے ہوئے تھے۔ یہ ایک بڑا مسئلہ تھا۔ مگر قرآن کے ابتدائی دور میں اس قسم کا حکم نہیں اُترا کہ طہر الکعبۃ من الاصنام(کعبہ کو بتوں سے پاک کرو)۔ اس کے بجائے اس ابتدائی دور میں قرآن میںجو آیت اُتری وہ یہ تھی: وثیابک فطہّر (المدثر ۴) یعنی اپنے کپڑے کو پاک کرو۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اپنے اخلاق کو اور دوسروں کے اخلاق کو درست بناؤ۔
تشدد کا کوئی جواز نہیں
تشدد انسانی فطرت کے خلاف ہے۔ تشدد انسانیت کا قتل ہے۔ تشدد تمام جرموں میں سب سے بڑا جرم ہے۔ اس کے باوجود لوگ کیوں تشددکرتے ہیں۔ اس کی وجہ بالکل سادہ ہے۔ ایسے لوگ خود ساختہ طورپر اپنے لیے تشدد کا ایک جواز(justification) ڈھونڈ لیتے ہیں۔ وہ بطور خود یہ خیال قائم کرلیتے ہیں کہ فلاں وجہ سے اُن کے لیے تشدد کرناجائز ہے۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ تشدد کا ہر جواز جھوٹا جواز ہے۔ کوئی فرد یا گروہ جب بھی تشدد کرتا ہے، عین اُسی وقت اُس کے لیے عدم تشدد یا پُر امن طریقِ کار موجود ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں تشدد کیوں۔ جب تشدد کے بغیر عمل کرنے کا موقع موجود ہو تو تشدد کیوں کیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ تشدد مطلق طورپر قابل ترک ہے اور امن مطلق طورپر قابل اختیار۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ کسی بھی عذر کی بنا پر تشدد نہ کرے، وہ ہر صورت حال میںپر امن طریقِ عمل پر قائم رہے۔
عداوت کے مسئلہ کا حل
بہت سے لوگ یہ خیال کرلیتے ہیں کہ فلاں قوم ہماری دشمن ہے۔ پھر اس مفروضہ کے تحت وہ اُس قوم کے خلاف متشددانہ لڑائی چھیڑ دیتے ہیں تاکہ اُس کی دشمنی کے انجام سے اپنے آپ کو بچا سکیں۔ مگریہ مفروضہ بھی غلط ہے اور اس مفروضہ کی بنیاد پر بنایا جانے والا نقشۂ کار بھی غلط۔
دشمنی ہاتھ کی انگلی کی طرح انسانی وجود کا کوئی مستقل حصہ نہیں۔ وہ انسانی وجود کا ایک اوپری حصہ ہے۔ مثبت تدبیر کے ذریعہ ہر دشمنی کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ دشمنی کی مثال ایسی ہے جیسے گلاس کے اوپر لگی ہوئی مٹی۔ ایسی مٹی کونہایت آسانی کے ساتھ پانی سے دھوکر صاف کیا جاسکتا ہے۔ گویا کہ گلاس میںمٹی کا لگنا مسئلہ نہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ آپ کے پاس مٹی کو دھونے کے لیے صاف پانی نہ ہو۔
تالی ہمیشہ دو ہاتھ سے بجتی ہے، ایک ہاتھ سے کبھی تالی نہیں بجتی۔ اسی طرح دشمنی ایک دو طرفہ عمل ہے۔ اگر کوئی شخص آپ کا دشمن بنے تو آپ خود اُس کے دشمن نہ بنیں۔ اس کے بعد دشمنی اپنے آپ ختم ہوجائے گی۔ دشمن کے ساتھ دشمنی نہ کرنا ہی دشمنی کے مسئلہ کا سب سے زیادہ کار گر عمل ہے۔
ہتھیار جمع کرنا بے فائدہ
ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ وہ ایک کامیاب تاجر ہیں۔ گفتگو کے دوران انہوں نے کہا کہ میرا گھر شہر کے ایک ایسے کنارہ پر ہے جہاں سے غیر قوم کی آبادی شروع ہوجاتی ہے۔ میںنے سوچا کہ مجھے اپنی اوراپنے بچوں کی حفاظت کے لیے کیا کرنا چاہیے۔ میںنے پیسہ خرچ کرکے اپنے گھر کے ہر فرد کے لیے لائسنس بنوایا اور پھر گھر کے ہر فرد کے نام گن اور ریوالور حاصل کر لیا۔ اب میںاپنے آپ کو اور اپنے خاندان کومحفوظ سمجھتا ہوں۔ اب مجھے دنگے اور فساد کا کوئی ڈر نہیں۔
میں نے کہا کہ آپ تجارت کااصول جانتے ہیں مگرآپ سماجی زندگی کے اصول کو نہیں جانتے۔ سماجی تحفظ کا ذریعہ گن اور ریوالور نہیںہے۔ سماجی تحفظ کا اصول یہ ہے کہ آپ دوسروں کے لیے بہترین پڑوسی بن کر رہیں۔ آپ دوسروں کو اپنے شر سے بچائیں۔ اس کے بعد لازمی طورپر ایسا ہوگا کہ آپ دوسروں کے شر سے محفوظ رہیں گے۔ اگرآپ دوسروں سے نفرت کریں تو دوسروں کی طرف سے بھی آپ کو نفرت ملے گی اور اگر آپ کے دل میں دوسروں کے لیے خیر خواہی ہو تو دوسروں کی طرف سے بھی آپ کو محبت اور خیر خواہی کا تحفہ ملے گا۔
میں نے کہا کہ اگر آپ کے گھر کے سامنے غیر قوم کی بھیڑ اکٹھا ہوجائے او رآپ اپنی بالکنی پر کھڑے ہو کر اُس کے اوپر گولی چلادیں تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ بس اتنے ہی پر معاملہ ختم ہوجائے گا۔ ہرگز نہیں۔ آپ کو جاننا چاہیے کہ انسانوں کے اوپر گولی چلانا آپ کے لیے قابل دست اندازی پولیس جرم (cognizable offence) کی حیثیت رکھتا ہے۔ چنانچہ جب بھی ایسا ہوگا تو پولیس فوراً وہاں آجائے گی اورآپ ہر گز پولیس سے لڑ نہیں سکتے۔
آپ کو جاننا چاہیے کہ آپ کے پاس گن ہونا اور پولیس کے پاس گن ہونا دونوں میں بے حد بنیادی فرق ہے۔ آپ گن رکھنے کے باوجود کسی کو گولی مارنے کا قانونی حق نہیں رکھتے۔ لیکن پولیس کے پاس گن ہے تو وہ گولی مارنے کا قانونی حق بھی رکھتی ہے۔ غیر قوم کے مقابلہ میں بظاہر مقابلہ دو مساوی فریق کے درمیان نظر آتا ہے مگر جب معاملہ آپ کے اور پولیس کے درمیان کا ہوجائے تو یہ مقابلہ مکمل طورپر غیرمساوی ہوجاتا ہے۔ ایسی حالت میں آپ کا گولی چلانا اپنے نتیجہ کے اعتبار سے،آبیل مجھے مار کی حیثیت رکھتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کا اقدام تحفظ نہیں ہے بلکہ وہ اپنے نتیجہ کے اعتبار سے صرف ہلاکت کی حیثیت رکھتا ہے۔
ضمیر بہترین جج ہے
ایک شہر میںایک مسلمان نے اپنے لیے نیا گھر بنایا۔ گھر سے ملی ہوئی ایک زمین کو انہوں نے حصار بناکر اپنے گھر میں داخل کرلیا۔ اُن کے پڑوس میںایک ہندو ٹھیکہ دار تھا۔ اس ہند و ٹھیکہ دار کا دعویٰ تھا کہ یہ زمین اُس کی ہے۔ چنانچہ اُس نے شہر کے کٹّر ہندوؤں سے مل کر انہیں بھڑکایا۔ یہاں تک کہ ایک دن ہندوؤں کی ایک بھیڑ گھر کے سامنے سڑک پر اکٹھا ہوگئی، اور نعرے لگانے لگی۔
مذکورہ مسلمان کے پاس اُس وقت دو بندوقیں تھیں۔ مگر اُنہوں نے بندوق نہیںاُٹھائی۔ وہ تنہا اور خالی ہاتھ گھر سے نکل کر باہر آئے۔ انہوں نے نعرہ لگانے والی بھیڑ سے کچھ نہیں کہا۔ اُنہوں نے صرف یہ پوچھا کہ آپ کا لیڈر کون ہے۔ ایک صاحب جن کا نام مسٹر سونڈ تھا، آگے بڑھے اور کہا، وہ میںہوں، بتائیے کہ آپ کو کیا کہنا ہے۔ مسلمان نے بھیڑ سے کہا کہ آپ لوگ یہاںٹھہریئے اور مسٹرسونڈ کولے کر گھر کے اندر آگئے۔ اُن کو کمرہ میں لاکر اُنہیں کُرسی پر بٹھادیا۔
اس کے بعد مسلمان نے کہا کہ مسٹر سونڈ آپ لوگ کس سلسلہ میں یہاں آئے ۔ مسٹر سونڈ نے غصہ میں کہا کہ آپ نے ایک ہندو بھائی کی زمین پر قبضہ کرلیا ہے، ہم اسی کے لیے یہاں آئے ہیں۔ مسلمان نے نرمی کے ساتھ کہا کہ آپ جانتے ہیں کہ زمین کاغذ پر ہوتی ہے۔ زمین کا فیصلہ کاغذ کو دیکھ کر کیا جاتا ہے۔ آپ ایسا کیجئے کہ میرے پاس جو کاغذات ہیںاُن کو لے لیجئے اور ٹھیکہ دار صاحب کے پاس جو کاغذات ہیں اُن کو بھی لے لیجئے۔ اور پھر نہایت اطمینان کے ساتھ اپنے گھر چلے جائیے۔ اس معاملہ میں میں آپ ہی کو جج بناتا ہوں۔ آپ کاغذات کو دیکھنے کے بعد جو بھی فیصلہ کردیں وہ مجھے بلا شرط منظور ہوگا۔
یہ سُن کر مسٹر سونڈ بالکل نارمل ہوگئے۔ وہ غصہ کی حالت میں اندر گئے تھے اور ہنستے ہوئے باہر نکلے۔ اُنہوں نے سڑک پرکھڑی ہوئی بھیڑ سے کہا کہ تم لوگ اپنے گھروں کو واپس جاؤ۔ میاں جی نے خود ہم کو جج بنا دیا ہے۔ اب ہم دونوں کے کاغذات دیکھ کر فیصلہ کریںگے۔ مسٹر سونڈ نے اس کے بعد گھر جاکر دونوں کے کاغذات کو دیکھا اور معاملہ کو اچھی طرح سمجھا۔ چند دن کے بعد اُنہوں نے صد فی صد مسلمان کے حق میںاپنا فیصلہ دے دیا۔
مذکورہ مسلمان اگر اپنی بندوق کو لے کر بھیڑ کے اوپر گولی چلاتے تو وہ بھیڑ کے نفس امارہ (انانیت) کو جگادیتے۔ اور پھر یقینی طورپر سارامعاملہ مسلمان کے خلاف ہوجاتا۔ مگر جب انہوں نے گن کے بجائے معقولیت کو استعمال کیا تواُس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں کا نفس لوّامہ (ضمیر) جاگ اُٹھا۔ اور جب ضمیر جاگ اُٹھے تو اُس کا فیصلہ ہمیشہ انصاف کے حق میں ہوتا ہے، ضمیر کبھی ظلم اور بے انصافی کا فیصلہ نہیںکرتا۔
فتح بھی شکست ہے
شاہ پائرس (King Pyrrhus) تیسری صدی قبل مسیح کا ایک یونانی بادشاہ تھا۔ اُس کی لڑائی رومیوں سے ہوئی۔ اس جنگ میں آخر کار شاہ پائرس کو رومیوں کے اوپر فتح حاصل ہوئی۔ مگر لڑائی کے دوران شاہ پائرس کی فوج اور اُس کے ملک کی اقتصادیات بالکل تباہ ہوچکی تھی۔ شاہ پائرس کے لیے یہ بظاہر فتح تھی مگر وہ اپنے نتیجہ کے اعتبار سے شکست کے ہم معنیٰ تھی۔ اس تاریخی واقعہ کی بنا پر ایک اصطلاح مشہور ہوئی ہے جس کو پرک وکٹری (Pyrrhic Victory) کہا جاتا ہے، یعنی بظاہر فتح مگر اپنی حقیقت کے اعتبا رسے مکمل شکست۔
جنگوں کی تاریخ کو دیکھا جائے تو یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ اکثر فتح پِرک فتح ہی ہوتی ہے۔ ہر فاتح کے حصہ میں دو نقصان کا پیش آنا لازمی ہے۔ ایک، جان اور مال کی تباہی۔دوسرے ،مفتوح کے دل میں فاتح کے خلاف نفرت۔ کوئی بھی فاتح ان نقصانات سے بچ نہیں سکتا۔ اگر فرق ہے تو صرف یہ کہ کوئی فاتح اس نقصان کو فوراً بھگتتا ہے ، اور کسی فاتح کے حصہ میں یہ نقصان کسی قدر دیر کے بعد آتا ہے۔
نقصان کا یہ معاملہ صرف پُرتشدد طریقِ کار کے ساتھ وابستہ ہے۔ پُر امن طریقِ کار کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ پُر امن طریقِ کار میں صرف فتح ہے، پُر امن طریقِ کار میںشکست کا کوئی سوال نہیں۔ حتیٰ کہ اگر پُر امن طریقِ کار کا نتیجہ بظاہر شکست کی صورت میں نکلے تب بھی وہ فتح ہے۔ اس لیے کہ پُر امن طریقِ کار کی صورت میں آدمی جنگ کو کھوتا ہے مگر وہ مواقع کو نہیں کھوتا۔ مواقع اور امکانات اب بھی اُس کے پاس موجود ہوتے ہیں۔ وہ ان مواقع کو استعمال کرکے دوبارہ ایک نئی جدوجہد شروع کرسکتا ہے اور از سرِ نو اپنی کامیابی کی منزل تک پہنچ سکتا ہے۔
شکایت کو فوراً ختم کرنا
شکایتی مزاج ایک قاتلانہ مزاج ہے۔ شکایتی مزاج آدمی کے اندر منفی سوچ پیدا کرتا ہے۔ وہ آدمی کو مثبت سوچ سے محروم کردیتا ہے۔ اور اس قسم کا مزاج بلاشبہہ تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ اکثر تشددکے پیچھے شکایتی مزاج ہی کام کرتاہوا نظر آتاہے۔
موجودہ دنیا کا تخلیقی نظام کچھ اس طرح بنا ہے کہ یہاں لازماً ایک کودوسرے سے شکایت پیدا ہوتی رہتی ہے۔ ایسے موقع پر کرنے کا کام یہ ہے کہ شکایت کا خیال آتے ہی فوراً اُس کو اپنے دماغ سے نکال دیا جائے۔ شکایت جب پیدا ہوتی ہے تو پہلے وہ آدمی کے شعوری ذہن (conscious mind) میں ہوتی ہے۔ اگر اُس کو یاد رکھا جائے یا بار بار دہرایا جائے تو وہ دھیرے دھیرے آدمی کے غیرشعوری ذہن (unconscious mind) میںچلی جاتی ہے۔ اوراس طرح بیٹھ جاتی ہے کہ اس کے بعد کسی طرح اُس کو نکالا نہیں جاسکتا۔
ایسی حالت میں عقل مندی یہ ہے کہ شکایت کے معاملہ میں وہ ’’گُربہ کشتن روز اول‘‘ کا معاملہ کیا جائے۔ شکایت پیدا ہوتے ہی اس کو فوراً ختم کر دیا جائے۔ اگر پہلے ہی مرحلہ میںاُس کو ختم نہ کیا جائے تو دھیرے دھیرے وہ آدمی کی نفسیات کا مستقل جزء بن جائے گی۔ اس کے بعد آدمی کی سوچ منفی سوچ بن جائے گی۔ وہ دوسروں کو اپنا دشمن سمجھ لے گا۔اگر موقع ہو تو وہ دوسروں کے خلاف تشدد پر اُتر آئے گا۔ یہاں تک کہ وہ زیر شکایت لوگوں سے عملی ٹکراؤ شروع کردے گیا، خواہ اس کا نتیجہ برعکس صورت میں کیوں نہ ظاہر ہو۔
شکایت کو پہلے ہی مرحلہ میںختم کرنے کا فارمولا کیا ہے، وہ فارمولا قرآن کے الفاظ میں یہ ہے: وماأصابکم من مصیبۃ فبما کسبت ایدیکم (الشوریٰ ۳۰) یعنی جو مصیبت بھی تم پر آتی ہے وہ تمہارے اپنے ہی ہاتھوں کی کمائی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب بھی آپ کو دوسرے کے خلاف شکایت پیداہو تو فوراً آپ کویہ کرنا چاہیے کہ شکایت کا رُخ اپنی طرف کرلیں۔ معاملہ کی کوئی ایسی توجیہہ ڈھونڈیں جس میںقصور خود آپ کا نکلتاہو۔ جب آپ کو یہ احساس ہوگا کہ کوتاہی خود آپ کی ہے، نہ کہ کسی غیر کی تو ایسی حالت میں یہ ہوگا کہ آپ اپنی کوتاہیوں کو دور کرنے میں لگ جائیں گے، نہ کہ کسی مفروضہ دشمن کے خلاف فریاد اور احتجاج میںوقت ضائع کریں گے۔
واپس اوپر جائیں