Pages

Saturday, 1 February 2003

Al Risala | February 2003 (الرسالہ،فروری)

2

- ایمانی کیفیات

3

- شدت پسندی نہیں

5

- اسلامی انقلاب میں عمومی تائید

6

- عالی شان مسجدیں

7

- عورت کا درجہ

8

- کامیاب زندگی

9

- بیماری سے تطہیر

10

- مصیبت بھی رحمت ہے

11

- حقیقی اہمیت

12

- زوال کیاہے

13

- نصیحت پذیری

14

- سب سے بڑی قربانی

15

- ہر حال میں خیر

16

- تشدد کا سبب عدم قناعت

17

- مدح، تنقید

20

- کیرلا کا سفر


ایمانی کیفیات

ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عرض علی ربی عزو جل لیجعل لی بطحاء مکۃ ذہبا فقلت لا یا رب، ولکن اشبع یوماً و اجوع یوماً فاذا جعت تضرعت الیک وذکرتک واذا شبعت حمدتک وشکرتک (مسند احمد ۵؍۲۵۴) یعنی اللہ نے یہ پیشکش فرمائی کہ تمہارے لیے مکہ کی وادی کو سونابنا دیا جائے۔ میںنے کہا کہ اے میرے رب، نہیں۔ بلکہ میں چاہتاہوں کہ میں ایک دن سیر ہوکر کھاؤں اورایک دن بھوکا رہوں۔ پھرجب مجھے بھوک لگے تو میں تجھ سے تضرع کروں اورتجھ کو یاد کروں اور جب مجھے سیری حاصل ہو تو میں تیری حمد کروں اور تیرا شکر کروں۔
حقیقت یہ ہے کہ ایمانی کیفیات کاتعلق براہ راست طورپر حالات سے ہے۔ زندگی میں جب بھی کوئی صورت حال پیش آتی ہے تو اس کے لحاظ سے مومن کے لیے ایمانی کیفیات کا سرمایہ موجود رہتا ہے۔ جس طرح احوال کی بہت سی قسمیں ہیں اسی طرح ایمانی کیفیات کی بھی بہت سی قسمیں ہیں۔ اور ہر قسم میںاُس کے مطابق، آدمی کے اندر ایمانی کیفیات پیدا ہوتی ہیں۔موجودہ دنیا میں آدمی کو امتحان کے لیے رکھا گیا ہے۔ اسی لیے یہاں ہر عورت اور مرد کے ساتھ طرح طرح کے احوال پیش آتے ہیں۔ ایسا اسی لیے ہوتا ہے تاکہ یہ دیکھا جائے کہ کون اپنی جانچ پرپورا اُترا اور کون اس میںناکام ہوگیا۔
اس دنیا میں آرام کی حالت ہو یا تکلیف کی حالت ہو، دونوں حالتیں اضافی ہیں۔ دونوں حالتوں میںاصل اہمیت اس بات کی ہے کہ اُس کے اندر کسی عورت یا مرد سے جومطلوب رویہ درکار تھا اس کا ثبوت اُس نے دیا یا نہیں دیا۔ اصل اہمیت حالات کے مقابلہ میںردعمل کی ہے، نہ کہ خود حالات کی۔یہ حقیقت جس عورت اور مرد پر واضح ہوجائے اُس کا حال یہ ہوجائے گا کہ اُس کی نظر آرام اور تکلیف پر نہ ہوگی بلکہ اس بات پر ہوگی کہ ملے ہوئے حالات میں اس نے کس قسم کے رد عمل کا ثبوت دیا۔ شکر کا یا ناشکری کا، صبر کا یا بے صبری کا۔ ایسے لوگ ہر حال میں اپنا احتساب کریںگے، نہ کہ خارجی حالات کا شکوہ کرتے رہیں۔
واپس اوپر جائیں

شدت پسندی نہیں

حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا تشددوا علی أنفسکم فیشدد علیکم، فإنَّ قوما شددوا علی أنفسھم فشدَّد اللہ علیھم، فتلک بقایاھم فی الصوامع والدیار (سنن أبی داؤد، کتاب الادب، باب فی الحسد) یعنی تم اپنے آپ پرسختی نہ کرو ورنہ تمہارے اوپر سختی کی جائے گی۔ کیوں کہ ایک قوم نے اپنے آپ پر سختی کی۔ پھر اللّٰہ نے بھی ان پر سختی کی۔ تو انہی لوگوں کے باقیات ہیں گرجوں میں اور خانقاہوں میں۔
اس حدیث میں تشدد سے مرادمحدود طور پر صرف مذہبی تشدد یا انتہا پسندانہ رہبانیت نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق انسانی زندگی کے تمام معاملات سے ہے۔ جس معاملہ میں بھی اعتدال کا طریقہ چھوڑ کر شدت کا طریقہ اختیار کیا جائے گا وہ سب اس حدیث کے حکم میں شامل ہوگا۔
اعتقادی شدت پسندی یہ ہے کہ جزئی اختلافات کی بنا پر ایک دوسرے کی تکفیر اور تفسیق کی جانے لگے۔ اسی طرح عبادتی شدت پسندی یہ ہے کہ فروعی مسالک کی بنیاد پر الگ الگ مسجدیں بنائی جائیں اور اس کو امت میں تفریق کی حدتک پہنچادیا جائے۔ اسی طرح معاملاتی شدت پسندی یہ ہے کہ رخصت کوکم تر سمجھ کر ہر معاملہ کو عزیمت کا سوال بنا دیا جائے۔
شدت پسندآدمی اپنے آپ میں جیتا ہے۔ وہ صرف اپنی امنگوں کو جانتا ہے۔ اس بنا پر اس کی حیثیت اس انسان جیسی ہو جاتی ہے جو سڑک کو خالی سمجھ کر اس کے اوپر اپنی گاڑی دوڑانے لگے۔ ایسا آدمی کبھی کامیابی کی منزل تک نہیں پہنچ سکتا۔ اس دنیا میں کامیابی کا راز اعتدال پسندی ہے، نہ کہ شدت پسندی۔ شدت پسندی گویا خدا کے تخلیقی نقشہ کے خلاف جینے کی کوشش کرنا ہے اوراعتدال پسندی خدا کے تخلیقی نقشہ کے مطابق اپنی زندگی کی تعمیر کرنا۔شدت پسندی اپنی ذات کے اعتبار سے تواضع کے خلاف ہے اور دوسروں کے اعتبار سے رعایتِ انسانی کے خلاف۔ اور یہ دونوں چیزیں بلاشبہہ اسلام میں مطلوب نہیں۔
شدت پسندی اللہ کو پسند نہیں۔ جو لوگ شدت پسندی کا طریقہ اختیار کرتے ہیں اُن کا انجام یہ ہوتا ہے کہ متشددانہ طریقہ اُن کی روایات میںشامل ہو کر اُن کے دین کا جزء بن جاتا ہے۔ اس طرح اُن کی بعد کی نسلیں مجبور ہو جاتی ہیں کہ وہ اُن کی پیروی کریں۔ کیوں کہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں اُن کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ اعلیٰ معیار سے کم تر درجہ کی دین داری اختیار کیے ہوئے ہیں۔
اس شدت پسندی کا تعلق محدود طورپر صرف رہبانیت سے نہیں ہے بلکہ اُس کاتعلق ہر دینی شعبہ سے ہے۔ مثلاً قومی اور سیاسی حقوق کی جدوجہد کے لیے دو ممکن طریقے ہیں۔ ایک پُر امن جدوجہد، اور دوسری پُر تشدد جد وجہد۔ اس معاملہ میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ پُرامن اور غیر متشددانہ طریقِکار کے ذریعہ اپنے مقصد کے حصول کی جدوجہدکی جائے۔ اس کے برعکس اگر متشددانہ طریقِ کار کا انداز اختیار کیا جائے تو اس کا بیک وقت دو نقصان ہوگا۔ ایک یہ کہ قوم کو غیر ضروری سختیاں برداشت کرنی پڑیں گی۔ دوسرے یہ کہ جب ایک بار متشددانہ طریقِ کار کی روایت قائم ہوجائے گی تو اُسی کو جدوجہد کے اعلیٰ معیار کی حیثیت حاصل ہوجائے گی۔ متشددانہ طریقِ کار کو بے نتیجہ سمجھتے ہوئے بھی لوگ اس پر قائم رہیں گے، کیوں کہ اس سے ہٹنے کے بعد لوگوں کو محسوس ہوگا کہ انہوں نے خود دین کے مطلوب معیار کو چھوڑ دیا ۔ اُنہوں نے عزیمت کے بجائے رخصت کا راستہ اختیار کرلیا۔ اُنہوں نے اقدام کے بجائے پسپائی کو اپنا طریقہ بنالیا۔
شدت پسندی ہی کی ایک صورت وہ ہے جس کو انتہاپسندی (extremism) کہا جاتا ہے۔ انتہا پسندی یہ ہے کہ آدمی حقائق اورامکانات کو نظر انداز کرکے اپنے عمل کا نقشہ بنائے۔ وہ عقل کے بجائے اپنے جذبات کی رہنمائی میں چلنے لگے۔ وہ دور اندیشی کے بجائے عجلت پسندی کی روش اختیار کر لے۔ وہ تدریج کے بجائے چھلانگ کے ذریعہ اپنا سفر طے کرنا چاہے۔
ایساآدمی یہ کرتا ہے کہ وہ شوق کو اپنے آگے رکھ دیتا ہے اور دور اندیشی کو اپنے پیچھے۔ وہ بھول جاتاہے کہ ہر ایک کی ایک حد ہے، خواہ وہ کوئی فرد ہو یا کوئی گروہ۔ حد کو نظرانداز کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص جلتے ہوئے انگارے کی گرمی کا اندازہ کرنے کے لیے اُس کو اپنے ہاتھ میں لے لے۔ یا پتھر کو توڑنے کے لیے اپنے سر کو ہتھوڑا بنا لے۔ اس قسم کا ہر فعل حد سے تجاوز کرنا ہے۔ اور حد سے تجاوز کرنے والے لوگ اس دنیا میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔
واپس اوپر جائیں

اسلامی انقلاب میں عمومی تائید

پیغمبر اسلام ﷺکے زمانہ کا ایک واقعہ حدیث کی مختلف کتابوں میں آیا ہے۔ ایک غزوہ (جنگ) میںایک شخص نے حصہ لیا اور زبردست جنگی کارنامہ انجام دے کر جنگ کو جیتنے میںمدد دی۔ لیکن جنگ کے آخرمیںپیغمبر اسلام ﷺنے اعلان فرمایا کہ یہ شخص اہل جنت میں سے نہیں ہے بلکہ اہل نار میں سے ہے۔ جن لوگوں نے اس جنگ میں اس کے بہادرانہ کارنامے دیکھے تھے، انہیں آپ کے اس ارشاد پر تعجب ہوا۔ مگر جب تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ اس آدمی نے بہادرانہ قتال تو ضرور کیا تھا مگر آخر میں اس نے خود اپنی تلوار سے اپنے کو ہلاک کر لیا۔ گویا کہ اس کا معاملہ خود کشی کا معاملہ تھا، نہ کہ شہادت کا معاملہ۔
اس واقعہ کے بعد پیغمبر اسلام ﷺنے حضرت بلال سے فرمایا کہ اے بلال، اٹھو اور یہ اعلان کردو کہ جنت میں صرف وہی شخص جائے گا جو مؤمن ہواوراللہ بے شک اس دین کی مدد فاجر آدمی سے بھی کرے گا (لایدخل الجنۃ الا مومن، وان اللہ لیوید ہذاالدین بالرجل الفاجر) فتح الباری ۱۱؍۵۰۷۔ پیغمبر اسلام ﷺکے اس ارشاد سے ایک اہم اصول معلوم ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ اسلام نے انسانی زندگی میں جو ہمہ گیر انقلاب برپا کرنا چاہا تھا، اس کا آغاز اگرچہ مخلص اہل ایمان کریں گے مگر اس کی آخری تکمیل نسل در نسل کے تاریخی عمل کے ذریعہ ہوگی۔ اس تاریخی عمل میں نہ صرف مسلمان بلکہ غیر مسلم بھی مؤثر طورپر اپنا کردار ادا کریں گے۔ پیغمبر اسلام کایہ ارشاد آپ کے بعد کی تاریخ میں مسلسل واقعہ بنتا رہا ہے۔ مثال کے طورپر قرآن میں یہ اعلان کیا گیا تھا کہ آئندہ آفاق و انفس میںایسی حقیقتیں ظاہر ہوں گی جو اسلام کی صداقت کو خالص علمی سطح پر ثابت شدہ بنا دیں (حٰم السجدہ ۵۳)
موجودہ زمانہ میں سائنسی تحقیق کے بعد جو دریافتیں ہوئی ہیں، انہوں نے اس پیشین گوئی کو حرف بحرف ایک ثابت شدہ حقیقت بنا دیا ہے۔ یہ جدید دریافتیں غیر مسلم قوموں کے ذریعہ ظہور میں آئی ہیں۔ مسلم افرادکا حصہ ان میں تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔
واپس اوپر جائیں

عالی شان مسجدیں

سنن ابی داؤد (کتاب الصلٰوۃ، با ب فی بناء المساجد) میںعبد اللہ بن عباس کی ایک روایت ان الفاظ میںآئی ہے: ’’قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ما امرت بتشئید المساجد‘‘ قال ابن عباس لتزخرفنہا کما زخرفت الیہود والنصاریٰ۔ رسول اللہ نے فرمایا کہ مجھے بلند و بالا مسجدیں بنانے کا حکم نہیں دیا گیا ہے۔ (یہ حدیث بیان کرنے کے بعد) عبداللہ ابن عباس نے کہا کہ تم لوگ ضرور مسجدوں کو مزین کروگے جس طرح یہود اور نصاریٰ نے اپنی عبادت گاہوں کو مزین کیا۔ایک اور روایت میںایک صحابی کہتے ہیں کہ ہم کو بلند وبالا مسجدیں بنانے سے منع کیا گیا ہے۔ (نہینا عن تشئید المساجد)
یہ پیشین گوئی موجودہ زمانہ میں ایک واقعہ بن چکی ہے۔ اورہر ملک میںاس کے مناظر دیکھے جاسکتے ہیں۔ جہاں بھی کچھ مسلمان آبادہیں وہاں عالی شان مسجدیں بنائی جارہی ہیں۔ کہیں قصر نما، کہیں قلعہ نما، اور کہیں تاج محل نما۔ شاندار مساجد تعمیر کرنے کا یہ کام امریکہ اور یورپ میں مزید اضافہ کے ساتھ ہورہا ہے۔ کیوں کہ اس سلسلہ میں وہاں زیادہ بہتر ٹکنیکی سہولتیں حاصل ہیں۔ یہاں یہ سوال ہے کہ عالیشان مسجدیں بنانے کو اسلام میںکیوں ناپسند کیا گیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ مسجدوں کی عالیشان تعمیرات امت کے روحانی زوال کی علامت ہیں۔ کیوں کہ جب روح (اسپرٹ) ختم ہوتی ہے تو اس کی تلافی کے لیے مظاہر میںاضافہ ہوجاتاہے۔
عالیشان مسجدوں کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ وہ نمود ونمائش والی دینداری کی علامت ہیں۔ شاندار عمارتوں میںنمود ونمائش کے جذبہ کو بے حد تسکین ملتی ہے۔ وہ شکست خوردہ نفسیات کے لئے عظمت و فخر کی تسکین کا سامان ہیں۔موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کی عام نفسیات یہ ہے کہ انہوں نے پولٹیکل گلوری کو کھو دیا ہے۔ ایسی حالت میں درودیوار کی عظمت انہیں یہ فرضی تسکین دیتی ہے کہ اب بھی انہوں نے زمین پر اپنی عظمت کا نشان قائم کررکھا ہے۔
واپس اوپر جائیں

عورت کا درجہ

اسلام میں عورت کادرجہ کیا ہے، اس کا اندازہ ایک حدیث سے ہوتا ہے۔ امام بخاری نے حضرت عبد اللہ ابن عباس سے یہ روایت نقل کی ہے: حضرت بریرہ کے شوہر ایک غلام تھے جن کا نام مغیث تھا۔ گویا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ مغیث اپنی بیوی کے پیچھے چل رہے ہیں اور ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عباس، کیا تم کو اس پر تعجب نہیں کہ مغیث کو کتنی زیادہ محبت ہے بریرہ سے اور بریرہ کو کتنا زیادہ بغض ہے مغیث سے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ سے فرمایا کہ کیا ہی اچھا ہو کہ تم مغیث کی طرف رجوع کرلو۔ بریرہ نے کہا کہ اے خدا کے رسول، کیا آپ مجھے اس کا حکم دیتے ہیں۔ آپ نے فرمایاکہ میں صرف سفارش کررہاہوں۔ بریرہ نے جواب دیا: تو مجھے اس کی ضرورت نہیں (لاحاجۃ لی فیہ) فتح الباری ۹؍۳۱۹۔
بریرہ نے اپنے شوہر مغیث سے تفریق کرالی تھی۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ کو مشورہ دیا کہ تم رجوع کرلو اور مغیث کے ساتھ زندگی گزارو مگر بریرہ نے آپ کے اس مشورہ کو قبول نہیں کیا۔ اور مغیث سے رجوع پر راضی نہیں ہوئیں۔
اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام میں عورت کو کتنی زیادہ آزادی حاصل ہے۔ اس کے مطابق، عورت نہ صرف مرد کے برابر ہے بلکہ اس کو یہ حق بھی حاصل ہے کہ خود پیغمبر اگر وحی کی بنیاد پر کوئی مطالبہ کرے تو وہ اس کو ماننے پر مجبور ہے، لیکن پیغمبر کے ذاتی مشورہ کو ماننا اس کے لیے ضروری نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں اس اعتبار سے عورت اور مرد کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ جو حقوق و فرائض مرد کے ہیں وہی حقوق و فرائض عورت کے بھی ہیں۔ اگر کوئی فرق ہے تووہ فطری سبب کی بنا پر ہے، نہ کہ دونوں جنسوں میں تفریق کی بناپر۔ اس قسم کا فطری فرق جس طرح عورت اور مرد کے درمیان ہے اسی طرح وہ خود مرداور مرد کے درمیان بھی ہمیشہ موجود رہتاہے۔ یہ فطرت کامعاملہ ہے، نہ کہ فرق کا معاملہ۔
واپس اوپر جائیں

کامیاب زندگی

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا۔ اس نے کہا کہ اے اللہ کے رسول، مجھے کوئی ایسی بات بتائیے جس کے ساتھ میں جیوں، اور وہ لمبی نہ ہو کہ میں اسے بھول جاؤں۔ آپ نے فرمایا: لا تغضب (مؤطا امام مالک، ۶۵۲) یعنی تم غصہ نہ کرو۔ یہ موجودہ دنیا میں کامیاب زندگی حاصل کرنے کا سب سے زیادہ یقینی اصول ہے۔ ایک فرد کے لئے بھی اور پوری قوم کے لیے بھی۔
غصہ کیا ہے۔ غصہ در اصل ناپسندیدہ صورتِ حال کا منفی جواب (negative response) ہے۔ موجودہ دنیا میں مختلف اسباب سے ہر لمحہ کسی نہ کسی ناپسندیدہ صورت حال سے سابقہ پیش آتا ہے۔ کبھی کوئی ایسی بات پیش آجاتی ہے جس سے آپ کی انا بھڑک اٹھتی ہے۔ کبھی کسی کی ایک روش سے آپ کے اندر انتقام کا جذبہ پیدا ہوجاتا ہے۔ کبھی مفاد کا ٹکراؤ آپ کے اندر مخالفانہ جذبات کو جگا دیتا ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی سے آپ کی امیدیں پوری نہیں ہوتیں اور آپ کے اندر اس کے خلاف نفرت کے جذبات بھڑک اٹھتے ہیں۔ یہی سب وہ چیزیں ہیں جن کو انسانی زبان میں غصہ کہا جاتاہے۔
یہ غصہ آدمی کے لیے بے حد مہلک ہے۔ وہ آدمی سے اس کی سوچنے کی صلاحیت کو چھین لیتا ہے۔ وہ آدمی کو اس قابل نہیں رکھتا کہ وہ حقیقت پسندانہ انداز میں اپنے عمل کا نقشہ بنائے۔ وہ اس کو تعمیر کے بجائے تخریب کے راستہ پر ڈال دیتا ہے۔ غصہ آدمی دوسرے کے خلاف کرتا ہے، مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ ہمیشہ آدمی کے اپنے نقصان کا باعث بنتا ہے۔
موجودہ دنیا آزمائش کی دنیا ہے۔ یہاں ہر ایک کے ساتھ ایسے واقعات پیش آتے ہیں جو اُس کو مشتعل کردیں، جو اُس کے اندر منفی نفسیات کو جگا دیں۔ اس صورت حال کو بدلنا کسی کے لیے ممکن نہیں۔ ایسی حالت میںکامیاب زندگی کی تعمیر کا طریقہ صرف یہ ہے کہ آدمی صبر وتحمل کی روش اختیار کرے۔ وہ اشتعال کے باوجود مشتعل نہ ہونے کا آرٹ سیکھ لے۔ وہ اُن حالات کے ساتھ ایڈجسٹ کرکے رہ سکے جن کو بدلنے کی قدرت اُس کو حاصل نہیں۔
واپس اوپر جائیں

بیمار ی سے تطہیر

حدیث میں آیا ہے کہ مدینہ میں ایک شخص بیمار ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُس کی عیادت کے لیے اُس کے گھر گئے۔ وہاں پہنچ کر آپ نے کہا کہ: لا بأس، طہور إن شاء اللہ (صحیح البخاری، کتاب المرضٰی، باب ما یقال للمریض) یعنی کوئی حرج نہیں، انشاء اللہ یہ پاکی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ جب کوئی شخص بیمار ہوتا ہے تو پُر اسرار طورپر اس کے گناہ دھل جاتے ہیں، وہ خود بخود ایک پاکیزہ انسان بن جاتا ہے۔ یہ در اصل ایک معلوم شعوری واقعہ ہے جو ایک سچے مومن کے ساتھ پیش آتا ہے۔
کوئی آدمی اگر بیمار نہ ہو، اُس کا جسم مکمل طورپر ایک صحت مند جسم ہو تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اُس کے اندر شعوری یا غیر شعوری طورپر فخر و ناز کے جذبات پیدا ہوجاتے ہیں۔ اُس کے سینہ میں دردمندانہ احساسات کی پرورش نہیں ہوتی۔ یہاں تک کہ وہ ایک بے حس انسان بن کر رہ جاتا ہے۔
لیکن جب ایک مومن بیماری میںمبتلا ہوتا ہے تو وہ اپنے عجز کو دریافت کرتاہے۔ اُس کے اندر دردمندی کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ اپنے بندہ ہونے کی حقیقت کا تجربہ کرتا ہے۔
اس طرح بیماری اُس کو دوسری چیزوں سے دور کرکے اللہ سے قریب کردیتی ہے۔ وہ اللہ کی طرف متوجہ ہوجاتاہے۔ وہ اللہ کو یاد کرنے لگتا ہے۔ اُس کے دل سے دعائیں اور التجائیں نکلنے لگتی ہیں۔ بیماری اُس کے لیے اللہ سے قربت کا ذریعہ بن جاتی ہے۔
بیماری بظاہر ایک غیر مطلوب چیز ہے۔ لیکن اگر صحیح اسلامی ذہن ہو تو جسمانی بیماری آدمی کے لیے روحانی صحت کا ذریعہ بن جائے گی۔اس دنیا میںاصل اہمیت ذہنی بیداری کی ہے۔ بیدارذہن ہی اس قابل ہوتا ہے کہ وہ واقعات سے سبق لے۔ اور ذہن کو بیدار کرنے والی سب سے بڑی چیز اس دنیا میںصرف ایک ہے، اور وہ مشکل حالات ہیں۔
واپس اوپر جائیں

مصیبت بھی رحمت ہے

ایک روایت صحیح البخاری (کتاب الجہاد) سنن ابی داؤد (کتاب الجہاد) اور مسند امام احمد میںآئی ہے۔ البخاری کے الفاظ یہ ہیں: عجب اللہ من قوم یدخلون الجنۃ فی السلاسل (فتح الباری ۶؍۱۶۸)یعنی اللہ ان پر متعجب ہوتا ہے جو جنت میں زنجیروں میں (بندھے ہوئے) داخل ہوں گے۔ بعض اور روایتوں میں یقادون اور یساقون کے الفاظ آئے ہیں۔ یعنی وہ کھینچتے ہوئے اور ہانکتے ہوئے لے جائے جائیں گے۔
اس حدیث میں کچھ اہل ایمان کے ساتھ جس معاملہ کا ذکر ہے وہ آخرت میں پیش آنے والا معاملہ نہیں ہے بلکہ آخرت سے پہلے اسی دنیا میں پیش آنے والا معاملہ ہے۔ یہاں زنجیر کا لفظ در اصل مجبور کن حالات (compulsive situation) کی تعبیر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ لوگوں کے ساتھ ایسے مجبورانہ حالات پیش آئیں گے کہ اُن کے لیے اس کے سوا کوئی راستہ باقی نہ رہے گا کہ وہ خدا پرستی اور آخرت پسندی کی زندگی اختیار کریں اور اس طرح گویا بندھے بندھے جنت میں پہنچ جائیں۔
یہ خوش قسمتی اُن افراد کے حصہ میں آئے گی جن کے دل میں اخلاص اور حسن نیت کی چنگاری موجود ہو۔ اللہ تعالیٰ جن لوگوں کے دل میں اس قسم کی استعداد دیکھے گا اُن کی قدر افزائی اس طرح کرے گا کہ اُن کے لیے ایسے حالات پیدا کردے گا جو اُنہیں طوعاً و کرہاً خدا پرستانہ اعمال کی طرف لے جانے والے ہوں۔مصیبت کا جنتی زنجیر بن جانا اُس شخص کے حصہ میںآتا ہے جس کے اندر یہ صلاحیت ہو کہ وہ مصیبت کے وقت اللہ کی طرف رجوع کرے۔ مصیبت جس کے دل کو اس طرح نرم کرے کہ وہ اللہ کی یاد کرنے والا بن جائے۔
مصیبت اگر لوگوں کے اندر فریاد اورشکایت کا ذہن بنائے تو مصیبت صرف تباہی ہے۔اور اگر مصیبت لوگوں کے اندر محاسبۂ خویش کاذہن پیدا کرے تو وہ اُن کے لیے رحمت کا سبب بن جائے گی۔
واپس اوپر جائیں

حقیقی اہمیت

پیغمبر اسلام کے طریقہ کا ایک پہلو یہ تھا کہ آپ کی نظر ہمیشہ حقائق پر ہوتی تھی،نہ کہ ظواہر پر۔ ظواہر میں اگر بے خبری کی بنا پر کوئی فرق ہوجائے تو اس کو آپ ناقابل لحاظ سمجھتے تھے۔ البتہ حقیقی اہمیت والی باتوں کے بارے میں آپ کا رویہ ہمیشہ بہت سخت ہوتا تھا۔
پیغمبر اسلام کے آخری حج کا ایک واقعہ بخاری ، مسلم، ابو داؤد میںتھوڑے تھوڑے لفظی فرق کے ساتھ آیا ہے۔ یہ آپ کی زندگی کا آخری سال تھا۔ آپ حج کا فریضہ ادا کرنے کے بعد منیٰ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ لوگ آپ کے پاس آتے اور حج کے مسائل دریافت کرتے۔ کوئی کہتا کہ مجھے مسئلہ معلوم نہ تھا چنانچہ میںنے ذبح کرنے سے پہلے بال منڈا لیا۔ کوئی کہتاکہ میںنے رمی سے پہلے نحر (قربانی) کرلی، وغیرہ۔ آپ ہر ایک سے کہتے کہ کرلو، کوئی حرج نہیں۔ اسی طرح بار بارلوگ آتے رہے اور تقدیم اور تاخیر کی بابت سوال کرتے رہے۔ آپ ہر ایک سے یہی کہتے کہ کوئی حرج نہیں، کوئی حرج نہیں، (افعل ولاحرج) (سنن ابی داؤد ۲؍۲۱۷،۲۱۸)
ابو داؤد کی روایت میں مزید ان الفا ظ کا اضافہ ہے: کر لو کوئی حرج نہیں۔ حرج تواس شخص کے لیے ہے جو ایک مسلمان کو بے عزت کرے۔ ایسا ہی شخص ظالم ہے۔ یہی وہ شخص ہے جس نے حرج کیا اور ہلاک ہوا۔
دین میں اصل اہمیت معانی کی ہے، نہ کہ ظواہر کی۔ ایک شخص ظاہری چیزوں کا زبردست اہتمام کرے مگر معنوی پہلو کے معاملہ میں وہ غافل ہو تو ایسا شخص اسلام کی نظر میں بے قیمت ہوجائے گا۔اللہ ہمیشہ آدمی کی نیت کو دیکھتا ہے۔ نیت اگر اچھی ہے تو ظاہری چیزوں میںکمی یا فرق کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ لیکن اگر آدمی کی نیت اچھی نہ ہو تو اللہ کی نظر میں اُس کی کوئی قیمت نہیں، خواہ اُس نے ظواہر کے معاملہ میں کتنا ہی زیادہ اہتمام کررکھا ہو۔ ظاہری خوش نمائی سے انسان فریب میں آسکتا ہے مگر ظاہری خوش نمائی کی خدا کے نزدیک کوئی وقعت نہیں۔
واپس اوپر جائیں

زوال کیا ہے

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ یہود ونصاریٰ کو جو آسمانی تعلیم دی گئی تھی اس کا بڑاحصہ انہوں نے بھلا دیا (ونسوا حظاً مما ذکروا بہ…، فنسوا حظّا مما ذکروا بہ … المائدہ۱۳۔۱۴)اس بھلانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہود و نصاریٰ نے کوئی کانفرنس کرکے اس میں باقاعدہ یہ طے کیاہو کہ آج سے ہم فلاں چند باتیں یادر رکھیں گے اور بقیہ باتوں کو بھلا دیں گے۔ ایسا کبھی نہیںہوتا۔ اس قسم کا بھولنا ہمیشہ تاریخی اور نفسیاتی اسباب کے تحت ہوتا ہے۔ تاریخی طورپر دھیرے دھیرے یہ صورت حال پیدا ہوتی ہے کہ کچھ چیزیں لوگوں کے زندہ حافظے میں باقی رہتی ہیں اور دوسری چیزیں ان کے زندہ حافظہ سے نکل جاتی ہیں۔ کچھ چیزوں کی اہمیت انہیں یاد رہتی ہے اور کچھ چیزوں کی اہمیت سے وہ بے خبر ہوجاتے ہیں۔
حدیث میں پیش گوئی کی گئی تھی کہ یہود و نصاری نے بگاڑ پیدا ہونے کے بعدجوکچھ کیا وہی سب مسلمان بھی بعد کے زمانے میں کریں گے (لتتبعن سنن من کان قبلکم) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ امت محمدی پر بھی ایسا وقت آسکتا ہے۔ ایسا ہوسکتا ہے کہ لوگ دین کے ایک حصہ سے واقف ہوں اور انہیں دین کے دوسرے حصے کی خبر نہ رہے۔ دین کے بعض حصوں کی ان کے یہاں دھوم ہو اور دوسرے زیادہ بڑے حصہ کو انہوں نے اس طرح چھوڑ رکھا ہو جیسے کہ وہ جانتے ہی نہیں کہ یہ بھی اس دین کا حصہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے پیغمبرعربی کے ذریعہ ان کے پاس بھیجا تھا۔
کسی قوم پر جب بھی یہ حالت آتی ہے تو وہ مزاج میں بگاڑ کی بنا پر آتی ہے۔ سب سے پہلے قوموں کا مزاج بگڑتا ہے پھر اس کے نتیجہ کے طورپر ان کا اخلاق و کردار بھی بدلتا چلا جاتا ہے۔
مثلاً مختلف اسباب کے تحت ظواہر کو روح کا بدل سمجھ لینا ۔ اب ایسا ہوتا ہے کہ دین کی ا صل روح کو جاننے اور اپنانے کی فکر نہیں ہوتی بلکہ اس کے خارجی مظاہر ہی کو سب کچھ سمجھ لیا جاتا ہے۔یہ زوال کی علامت ہے اور یہ زوال ہر امت کے ساتھ بہر حال پیش آتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

نصیحت پذیری

کسی انسان کو جب حق کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور اس کی سوچ ایمانی سوچ بن جاتی ہے تو فطری طورپر ایسا ہوتا ہے کہ وہ ایک سنجیدہ انسان بن جاتا ہے۔ اسی ایمانی سنجیدگی کا ایک پہلو وہ ہے جس کو نصیحت پذیری کہا جاسکتا ہے۔ قرآن میں اس کے لیے مختلف الفاظ آئے ہیں۔ مثلاً تذکّر (الزمر ۹) اعتبار (المؤمنون ۲۱) توسم (الحجر ۷۵) ، وغیرہ۔اسی طرح حدیث میں بھی اسی قسم کے الفاظ وارد ہوئے ہیں۔ مثلاً وصمتی فکرا ونظری عبرۃً (مشکاۃ المصابیح ۳؍۱۴۷۲) یعنی میری خاموشی سوچ کی خاموشی ہواور میرا دیکھنا عبرت کا دیکھنا ہو۔
ایمان یا حق کی معرفت بھی بذات خود اسی نوعیت کی ایک چیز ہے۔ ایمانی معرفت کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ آدمی مخلوقات پر غور کرکے خالق کو دریافت کرے۔ وہ دیکھنے والی دنیا کے اندر غیب کی دنیا کو پالے۔ قرآن کے الفاظ میں، وہ آیات(خارجی نشانیوں) کے ذریعہ داخلی حقیقتوں کو جان لے۔وہ بصارت کے ساتھ بصیرت کی استعداد حاصل کرلے۔
تدبر و تفکر مومن کا عام مزاج ہوتا ہے۔ اُس کا یہ مزاج ہمیشہ اور ہر جگہ قائم رہتا ہے۔ یہ مزاج اُس کو دائمی طورپر اللہ کی یاد کرنے والا بنا دیتا ہے۔ وہ ہر دن ایسی باتیں دریافت کرتا رہتا ہے جو اُس کے ایمان ویقین میںاضافہ کرنے والی ہوں۔ دوسرے لوگ ظواہر میںصرف ظواہر کو دیکھتے ہیں، مگر مومن اپنے اس مزاج کی بنا پر ظواہر میں حقائق کو دریافت کرلیتا ہے۔ تدبر اور تفکر کے اس عمل کے لیے کسی تنہائی یا مخصوص مقام کی ضرورت نہیں۔ یہ عمل مومن کے دماغ میں ہر لمحہ جاری رہتا ہے ، حتیٰ کہ دنیا کے بھرے ہوئے ہنگاموں میں بھی وہ اُس سے منقطع نہیں ہوتا۔
نصیحت پذیری مومن کی روحانی خوراک ہے۔ مومن کے لیے مادی غذا اگر جسمانی تقویت کا ذریعہ ہے تو عبرت و نصیحت اُس کے لیے روحانی غذا کی حیثیت رکھتی ہے۔مادی غذا کے بغیر جسم صحت مند نہیں رہ سکتا،اسی طرح فکری غذا کے بغیر روحانیت کا ارتقاء ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں

سب سے بڑی قربانی

عبداللہ بن وابصہ العبسی اپنے باپ سے اپنے دادا کی یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حج کے موسم میں ہماری قیام گاہ پر منیٰ میںآئے۔ ہم جمرۂ اولیٰ پر مسجد الخیف کے قریب ٹھہرے ہوئے تھے۔ آپ اپنے اونٹ پر تھے اور اپنے پیچھے زید بن حارثہ کو بٹھائے ہوئے تھے۔ آپ نے ہم کو توحید کی طرف دعوت دی۔ خدا کی قسم، ہم نے آپ کو کوئی جواب نہیں دیا اور ہم نے اچھا نہیں کیا۔ہم آپ کے بارے میں سن چکے تھے اور یہ بھی سن چکے تھے کہ آپ حج کے موسم میں لوگوں کو اپنے دین کی دعوت دیتے ہیں۔ آپ ہمارے پاس کھڑے ہوکر ہمیں دعوت دیتے رہے اور ہم چپ چاپ سنتے رہے۔اس وقت ہمارے ساتھ میسرہ بن مسروق العبسی بھی تھے۔ انہوں نے ہم سے کہا کہ میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگرہم اس آدمی کی تصدیق کریں اور اس کو لے جاکر اپنے قافلہ کے بیچ ٹھہرائیں تو یہ بڑا اہم فیصلہ ہوگا۔ خدا کی قسم، اس کا دین غالب ہوکر رہے گا۔ یہاں تک کہ وہ ہر جگہ پہنچ جائے گا۔ قبیلہ کے لوگوں نے کہا کہ اس کو چھوڑو، تم ایسی بات کیوں کہتے ہو جس کو ہم میں سے کوئی ماننے والا نہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ بات سن کر میسرہ کے بارے میں پُر امید ہوگئے۔ آپ نے ان سے مزید گفتگو کی۔ میسرہ نے جواب دیا کہ آپ کا کلام کتنا اچھا اور کتنا روشن کلام ہے۔ لیکن اگرمیں اس کو مان لوں تو میری قوم میری مخالف ہوجائے گی۔ اور آدمی ہمیشہ اپنی قوم کے ساتھ ہوتا ہے۔ کیوں کہ قوم اگر مدد نہ کرے تو دشمنوں سے مدد کی کیا امید کی جاسکتی ہے ۔ ۱؍۹۳۔
سب سے بڑی قربانی یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی قوم کی روش کے خلاف ایک روش اختیار کرے۔ وہ اپنی قوم کے عام مزاج کے خلاف کام کرے۔ وہ ایسی بات کہے جو قوم کے وقار سے ٹکراتی ہو۔ وہ ایسی پالیسی کی تبلیغ کرے جو قومی پالیسی سے مطابقت نہ رکھتی ہو۔ایساآدمی اپنی قوم سے کٹ جاتاہے۔ وہ خود اپنوں کے درمیان اجنبی بن کر رہ جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

ہر حال میں خیر

حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عجباً لامر المؤمن! إنّ امرہ کلہ لہ خیر، ولیس ذلک لأحد الا للمؤمن، إن أصابتہ سراء شکر فکان خیرا لہ، وإن أصابتہ ضراء صبر فکان خیرا لہ، (صحیح مسلم، کتاب الزہد) یعنی مومن کا معاملہ عجیب ہے۔ اُس کے لیے اُس کے ہر معاملہ میں بھلائی ہے۔ اور یہ مومن کے سوا کسی اور کے لیے نہیں۔ اگر اُس کو کوئی خوشی ملتی ہے تو وہ شکر کرتا ہے پھر وہ خوشی اُس کے لیے بھلائی بن جاتی ہے۔ اور اگر اُس کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے پھر وہ تکلیف اس کے لیے بھلائی بن جاتی ہے۔
غیر مومنانہ روش یہ ہے کہ اگر کسی آدمی کو خوشی ملے تو وہ اُس پر فخر کرے۔ اور اگر اُس کو تکلیف پہنچے تو وہ مایوسی کا شکار ہوجائے۔ یہ دونوں حالتیں یکساں طور پر بُرائی کی حالتیں ہیں۔ اس کے برعکس مومنانہ روش یہ ہے کہ آدمی کو خوشی ملے تو اُس کا سینہ شکر کے جذبہ سے بھر جائے۔ اور اگر اُس کو تکلیف کا تجربہ ہو تو وہ اُس کو اللہ کا فیصلہ سمجھ کر اُ س پر راضی رہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کی طرف قرآن میں اس طرح تنبیہ کی گئی ہے: پس انسان کا حال یہ ہے کہ جب اُس کا رب اُس کو آزماتا ہے اور اُس کو عزت اور نعمت دیتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھ کو عزت دی۔ اور جب وہ اُس کو آزماتا ہے اور اُس کا رزق اُس پر تنگ کر دیتاہے تو وہ کہتاہے کہ میرے رب نے مجھ کو ذلیل کردیا۔ (الفجر ۱۵۔۱۶)
موجودہ دنیا میں اصل اہمیت یہ نہیں ہے کہ آدمی نے بظاہر کس حال میں زندگی گزاری، اچھے حال میں یا بُرے حال میں۔ اصل اہمیت کی بات یہ ہے کہ آدمی جس حال میں بھی ہو اُس سے وہ تعلق باللہ کی غذا لے سکے۔ زندگی کا ہر تجربہ اُس کو اللہ سے قریب کرنے والا ثابت ہو۔ اُس کی روح ہر صورتِ حال سے ربّانی غذا لیتی رہے۔ کائنات کے ہر مشاہدہ میں وہ اللہ کا جلوہ دیکھ سکے۔ زندگی کا ہر خوش گوار تجربہ اُس کو اللہ کی رحمت کی یاد دلائے، اور زندگی کا ہر تلخ تجربہ اُس کے لیے تقویٰ کا سبب بنتا رہے۔ ناکامی بھی اُس کو خدا کی یاد دلائے اور کامیابی بھی اُس کو خدا سے قریب کردے۔
واپس اوپر جائیں

تشدد کا سبب عدم قناعت

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ان الفاظ میں آئی ہے: قد افلح من أسلم ورزق کفافاً وقنعہ اللہ بما آتاہ (مسلم، کتاب الزکاۃ، الترمذی، کتاب الزہد، مسند احمد ۲؍۱۶۸؍۱۷۳) یعنی وہ شخص کامیاب ہوا جواسلام لایا اور جس کو بقدر ضرورت رزق ملا اور وہ اُس پر قانع ہوگیا جواللہ نے اُس کو دیا۔
اس حدیث میں قناعت کا ذکر ہے۔ قناعت کی نفسیات اگر کسی کے اندرپوری طرح پیدا ہوجائے تو وہ اُس کو مکمل طورپر امن پسند بنادے گی۔ اس کے برعکس جن لوگوں کے اندر قناعت کی نفسیات نہ ہو وہ اپنی حالت پر غیر مطمئن رہیں گے اور آخر کار جھنجھلاہٹ میں مبتلا ہو کرمتشددانہ کارروائی شروع کردیں گے تاکہ جس چیزکو وہ پُر امن طورپر حاصل نہ کرسکے اُس کو وہ تشدد کی طاقت سے حاصل کرلیں۔ حقیقت یہ ہے کہ قناعت سے امن کا مزاج پیدا ہوتا ہے اور عدم قناعت سے تشدد کامزاج۔
قناعت کا جذبہ آدمی کے اندر یہ نفسیات پیدا کرتا ہے کہ وہ ایک پایا ہوا انسان ہے۔ اور جو آدمی اپنے آپ کو پایا ہواانسان سمجھے وہ کبھی جھنجھلاہٹ اور تشدد کا شکار نہیں ہوسکتا۔
اس کے برعکس معاملہ اس انسان کا ہے جو عدم قناعت کی نفسیات میںمبتلا ہو۔وہ ہمیشہ احساس محرومی کا شکار رہے گا۔ اُس کا یہ احساس اُس کو مسلسل اُکسائے گا کہ جو کچھ اُس نے نہیں پایا اُس کو وہ حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ اب اگر اُس نے دیکھا کہ وہ اپنی نہ پائی ہوئی چیز کو پر امن طریقہ سے حاصل نہیںکرسکتا تو وہ تشدد کے طریقوں کو استعمال کرکے اُس کو حاصل کرنا چاہے گا۔
وہ اُن تمام لوگوں کو اپنا دشمن سمجھ لے گا جن کووہ اپنے خیال کے مطابق، اپنی خواہش کی راہ میں رکاوٹ سمجھتا ہے۔ وہ اُن لوگوں سے نفرت کرے گا۔ وہ اُن لوگوں کے خلاف لڑنے کے لیے ہتھیار جمع کرے گا۔ حالانکہ یہ سب نتیجہ ہوگا اس بات کا کہ وہ خدا کے دیے ہوئے پر راضی نہ ہوسکا، وہ قناعت کے بجائے عدم قناعت کا شکار ہوگیا۔
واپس اوپر جائیں

مدح، تنقید

احادیث میںکثرت سے یہ تلقین کی گئی ہے کہ تم کسی کی مدح نہ کرو۔ مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : اذا رأیتم المداحین فاحثوا فی وجوہہم التراب (صحیح مسلم، کتاب الزہد) یعنی جب تم مدح کرنے والوں کو دیکھو تو اُن کے منہ پر مٹی ڈال دو۔ اسی طرح ایک روایت میںآیا ہے: سمع النبی صلی اللہ علیہ وسلم یثنی علی رجلٍ و یطریہ فی مدحہ، فقال: أہلکتم او قطعتم ظہر الرجل (صحیح بخاری، کتاب الشہادات) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سُنا کہ ایک شخص دوسرے شخص کی تعریف کررہا ہے اور اُس کی تعریف میں وہ مبالغہ کررہا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ تم نے اس شخص کو ہلاک کردیا یا یہ فرمایا کہ تم نے اُس کی کمر توڑ دی۔
اسی طرح خلیفۂ ثانی عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بارہ میںایک روایت میں آیا ہے کہ اُنہوں نے کہا: المدح الذبح (الأدب المفرد، باب ما جاء فی التمادح)۔یعنی مدح کرنا آدمی کو ذبح کرنا ہے۔ اسی طرح ایک روایت میں آیا ہے کہ حضرت عمر نے ایک شخص کو دوسرے شخص کی تعریف کرتے ہوئے سُنا تو اُنہوں نے کہا: عقرت الرجل، عقرک اللہ(الأدب المفرد، باب ماجاء فی التمادح) یعنی تم نے اُس شخص کو ذبح کردیا، اللہ تمہارے ساتھ بھی ایسا ہی کرے۔
حدیث اور آثارکی کتابوںمیں اس طرح کی بہت سی روایتیں آئی ہیں۔ اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ مدح کا طریقہ دینی مزاج کے خلاف ہے۔ بعض اوقات اعتراف واقعہ یا اورکسی مصلحت سے کسی کی تعریف کی جاسکتی ہے۔ مگر عمومی طورپر اسلام میںاُس چیز کو سخت نا پسند کیا گیا ہے جس کو مدح خوانی یا قصیدہ گوئی کہا جاتاہے۔ اس قسم کی تعریف مادح کے لیے مصلحت پرستی ہے اورممدوح کے لیے اُس کو عُجب کی غذا دینا ہے۔ اس لیے یہ فعل مادح اورممدوح دونوں کے لیے ہلاکت خیز ہے۔
تاہم یہ بات قابل غور ہے کہ احادیث میں تعریف کی مذمت تو کی گئی ہے مگر تنقید کی مذمت نہیں کی گئی ۔ غالباً کوئی بھی صحیح حدیث ایسی نہیں جس میںتنقید کے فعل کو اُس طرح مطلق طورپر مذموم قرار دیا گیا ہو جس طرح مدح کو مذموم قرار دیا گیا ہے۔ بلکہ اس کے برعکس تنقید کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ مثلاً بہت سی حدیثوں میں لسان کے ذریعہ نہی عن المنکر کا حکم آیا ہے اوراُس کوایمان کی لازمی علامت بتایا گیاہے۔ اسی طرح حدیث میں بتایا گیا ہے کہ سلطان کے سامنے کلمۂ حق کہنا ایک افضل جہاد ہے، وغیرہ۔
ظاہر ہے کہ اس قسم کا کام تنقید ہی کی زبان میںہوگا، نہ کہ تعریف کی زبان میں۔ جب بھی ایک شخص کسی برائی کو دیکھے، خواہ برائی کرنے والا کوئی عام آدمی ہو یا خاص آدمی، اور پھر وہ اُس کے خلاف لسانی جہاد کرے تو یہ لسانی جہاد عین وہی فعل ہوگا جس کو تنقید کہا جاتاہے۔ نقد یا تنقید در اصل لسانی جہاد کا ہی دوسرا نام ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ شریعت میں مدح اور تنقید کے درمیان یہ فرق کیوں کیا گیا ہے۔ اس فرق کا سبب یہ ہے کہ مدح ایک اخلاقی برائی ہے جب کہ تنقید ایک اعلیٰ درجہ کی علمی اور اخلاقی خوبی ہے۔ کسی معاشرہ میں مدح کا رواج پورے معاشرہ کو منافقت کامعاشرہ بنادیتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں جس سماج میںتنقید اور اختلاف کو سننے کا مزاج ہو وہ معاشرہ ذہنی اور فکری ترقی کی طرف رواں دواں رہتا ہے۔
تنقید ایک مسلسل احتساب کا عمل ہے۔ تنقید زندہ معاشرہ کی علامت ہے۔ کسی معاشرہ میں تنقید کا عمل نہ ہونا یا تنقید کو بُرا سمجھنا صرف اُس وقت ہوتا ہے جب کہ معاشرہ زوال کا شکار ہوگیا ہو۔ وہ زندگی کی حرارت کھو بیٹھا ہو۔ کھلے ذہن کے ساتھ سوچنے کی صلاحیت اُس کے اندر باقی نہ رہی ہو۔ تنقید کی حیثیت ایک علمی اور فکری چیلنج کی ہے۔ چیلنج ہر قسم کی ترقی کی واحد ضمانت ہے۔ جس معاشرہ میںچیلنج نہ ہو وہ معاشرہ کبھی ترقی نہیں کرسکتا۔ اسی طرح جو معاشرہ تنقید سے محروم ہوجائے وہ علمی اور فکری ترقی سے بھی محروم ہوجائے گا۔
اس معاملہ کی تفصیل میںنے اپنی کتاب دین انسانیت کے باب ’’حریت فکر‘‘ میں بیان کی ہے اور اسلام کے دور اول کی مثالوں سے اُس کو واضح کیا ہے۔ تاہم تنقید اور تنقیص میں بہت زیادہ فرق ہے۔ یہاںتک کہ یہ کہنا درست ہوگا کہ تنقید مکمل طورپر جائز ہے اور تنقیص مکمل طورپر ناجائز ۔ تنقید بلاشبہہ ایک مطلوب چیز ہے اور تنقیص بلا شبہہ ایک غیر مطلوب چیز۔
تنقید در اصل علمی اختلاف کا دوسرا نام ہے۔ حقائق و واقعات کی روشنی میںخالص موضوعی انداز میںکسی معاملہ کا تجزیہ کرنا وہ چیز ہے جس کو تنقید کہا جاتا ہے۔ تنقید خواہ بظاہر کسی شخص کے افکار و آراء کے حوالہ سے ہو، مگراپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ معاملہ کی اصولی وضاحت ہوتی ہے۔ اُس میں غلط اور صحیح کے درمیان تقابل ہوتا ہے، نہ کہ ایک شخص اور دوسرے شخص کے درمیان۔
اس کے برعکس تنقیص ایک شخصی عیب جوئی ہے۔ تنقیص کرنے والے کے سامنے اصلاً کسی امرِحق کی وضاحت نہیں ہوتی بلکہ ایک شخص کی تذلیل اورتحقیر ہوتی ہے جس کو اُس نے کسی وجہ سے اپنا مخالف سمجھ لیا ہے۔ تنقیص صرف ایک غیر اخلاقی فعل ہے، وہ کسی درجہ میں بھی کوئی علمی واقعہ نہیں۔ تنقید کا عمل اگر علمی اصول کی بنیاد پر ہوتا ہے تو تنقیص کا عمل کسی شخص کے خلاف ذاتی سبّ وشتم کی بنیاد پر۔
واپس اوپر جائیں

کیرلا کا سفر

کیرلا میں ٹریونڈرم سے تقریباً ۲۰ کلومیٹر کے فاصلہ پر ایک بڑا آشرم ہے جس کا نام شانتی گری آشرم ہے۔ اس آشرم کے بانی اور گروکانام برہما شری کروناکراگرو ہے۔ بوقت تحریر ان کی عمر ۷۳ سال تھی۔ یہ آشرم ۱۹۶۸ میں قائم کیاگیا۔ اس آشرم میںہر سال اس کا سالانہ جلسہ ہوتا ہے۔
اس جلسہ کے منتظمین کی طرف سے مجھے اس میں شرکت کے لیے مدعو کیاگیا۔ اس کے مطابق، میںنے کیرلا کا سفر کیا۔ ۲۸فروری ۱۹۹۹ کی صبح کو دہلی سے روانگی ہوئی۔
۲۸ فروری ۱۹۹۹ ء کی صبح کو ساڑھے پانچ بجے دہلی ایرپورٹ پہنچا۔ نیا ائر پورٹ اس طرح بنایا گیا ہے کہ وہ ایک بہت بڑے ہال کی مانند ہے۔ میں اُس کے اندر کھڑا ہوا تو اُس کی وسعت میرے ذہن میں صحرائے حیات کی وسعت میں تبدیل ہوگئی۔
میں نے سوچا کہ موجودہ دنیا میں انسان گویا ایک عظیم صحرا میںکھڑا ہوا ہے۔ وہ راز حیات جاننا چاہتا ہے مگر کوئی درخت یا پہاڑ اُس سے نہیں بولتا۔ کوئی ستارہ یا سیّارہ اُس سے ہم کلام نہیں ہوتا۔ اس خاموش دنیا میں وہ حیران کھڑا ہوا ہے۔ اس کے بعد اس کے سامنے خدا کا پیغمبر آتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میں خدا کا فرستادہ ہوں اور تم کوخدا کا یہ پیغام دیتا ہوں۔
انسان کے لیے یہ کیسی عجیب راحت ہے۔ عقیدہ کے اعتبار سے یہاں بہت سے پیغمبر آئے۔ مگر ان کی شخصیت اور ان کا پیغام تاریخ کے اندھیروں میں گم ہے۔ یہاں صرف ایک ہی قابل یقین پیغمبر ہے اور وہ محمد بن عبداللہ بن عبد المطلب ہیں۔ ایک متلاشی روح کے لیے یہ بلا شبہہ ایک عظیم نعمت ہے۔
ڈاکٹر نشی کانت چٹوپادھیائے نے لمبی تلاش کے بعد جب پیغمبر اسلام کو پایا تو وہ چیخ اٹھے:
What a relief to find after all a truly historical Prophet to believe in.
دہلی سے انڈین ائر لائنز کی فلائٹ کے ذریعہ روانگی ہوئی۔ یہ جہاز بمبئی ہوتے ہوئے ٹریونڈرم جاتا ہے۔
فلائٹ نمبر ۱۶۷ کے اندر میںبیٹھا ہوا تھا۔ ابھی جہاز ائر پورٹ پر کھڑا تھا۔ جہاز کے اندر لوگ آتے اورجاتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔ ہر ایک اپنی سیٹ تک پہنچنے کے لیے سر گرم تھا۔ اس درمیان میں ایک آدمی کا بیگ دوسرے آدمی سے ٹکرا گیا۔ پیچھے والے نے کہا: sorry ، دوسرے نے کہا: no problem ، اور بات ختم ہوگئی۔ یہ پڑھے لکھے لوگوں کاکلچر ہے۔ اس کے برعکس بے پڑھے لکھے لوگوں کا کلچر یہ ہے کہ ایسے موقع پر ایک شخص کہے گا ’’اندھے ہو‘‘ دوسرا بولے گا ’’گدھے ہو‘‘۔ اور پھر دونوں ایک دوسرے سے لڑنے لگیں گے۔ ہر آدمی کے لیے سب سے پہلی اہم چیز یہ ہے کہ وہ تعلیم حاصل کرے۔ مگر عجیب بات ہے کہ ہندستان میں یہی چیز سب سے کم ہے۔ نئے ہندستان کی تمام خرابیوں کی جڑ ہماری قوم کا تعلیم میں پچھڑا ہوا ہونا ہے۔
۱۹۴۷ سے پہلے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص نے مہاتما گاندھی سے کہا کہ آپ پہلے لوگوں کو شکچھا دلائیے۔ اس کے بعد آزادی لائیے۔ ورنہ آزادی آپ کے لیے بے معنیٰ ہو کر رہ جائے گی۔ گاندھی جی نے جواب دیا کہ میرے دیش کے لوگ اشکچھت ہیں مگر وہ اگیانی نہیں ہیں۔ لیکن تجربہ نے بتایا کہ اشکچھت لوگ ہمیشہ اگیانی ہی ہوتے ہیں۔
جہاز کے اندرایک صاحب نے اپنی جیب سے سیلولر ٹیلی فون نکالا اورایک لمحہ میںربط قائم کرکے باہر کسی سے بات کرنے لگے۔ اس وقت ایک عجیب احساس میرے دل میں پیدا ہوا۔ میرے سامنے پوری جدید دنیا اپنی تمام ترقیوں کے ساتھ گھوم گئی۔ میں نے سوچا کہ یہ تمام ترقیاں زمین کے اندر چھپی ہوئی تھیں۔ غیر معمولی کوشش سے جن لوگوں نے ان امکانات کو باہر نکالا اور ان کو قابل استعمال بنایا وہ سب کی سب مغربی قومیں تھیں۔ اس کے بعد قدرتی طورپرایسا ہوا کہ وہ دنیا کے تمام مواقع پر قابض ہوگئیں۔ ایک شخص کے الفاظ میں وہ تمام دنیا کا مکھن کھا گئے۔ مسلمان پچھلے سو سال سے بھی زیادہ عرصہ سے ان قوموں سے ان کی یہ حیثیت چھیننے کے لئے قربانی کی حد تک جاکر کوشش کررہے ہیں، مگروہ صد فی صد ناکام ہیں۔
میں نے سوچا کہ یہ جو کچھ ہورہا ہے، قانون فطر ت کے تحت ہورہا ہے۔ وہ ان تمام مادی ترقیوں کو وجود میں لائے ہیں اس لئے قانون فطرت کے مطابق، وہ طیبات دنیا کے مالک بنے ہوئے ہیں۔ قرآن کے مطابق، آخرت میں ایسے لوگوں کو کچھ ملنے والا نہیں ہے (الاحقاف ۲۰) ۔
ہمارے نام نہاد انقلابی مفکرین نے یہ چاہا کہ وہ انہیں ان طیبات دنیا سے محروم کردیں۔ ایسا ہونا ممکن نہ تھا۔مسلمانوں کو کچھ کئے بغیر دونوں دنیا کی طیبات حاصل ہوجائیں اور ان مادی قوموں کو ساری محنت کے باجود دنیا کی طیبات بھی نہ ملیں، ایساہوناخود قانون الٰہی کے تحت ممکن نہ تھا۔ اس لیے مسلم رہنماؤں کی کوششیں حبط اعمال کا شکار ہوکر رہ گئیں۔
اس معاملہ کی ایک علامتی مثال فلسطین ہے۔ مسلمان سیکڑوں سال سے اس علاقہ پر قابض تھے۔ مگر وہ فلسطین کو وہ مادی ترقی نہ دے سکے جو یہودیوں نے اس کو دی۔ اب یہ کیسے ممکن تھا کہ مسلمانوں کو نفع بخشی کے بغیر سب کچھ مل جائے اور یہودیوں کو نفع بخشی کے باوجود کچھ نہ ملے۔
۲۸ فروری ۱۹۹۹ کی دوپہر کو جہاز ٹریونڈرم پہنچا۔ یہاں ٹمپریچر ۳۱ ڈگری سنٹی گریڈ تھا جب کہ ۳۵ ہزار فٹ کی بلندی پر اڑتے ہوئے جہاز کا درجۂ حرارت زیرو سے بھی نیچے تھا۔ جو لوگ بلند فکری کے حامل ہوں وہ ہمیشہ ٹھنڈے مزاج کے ہوتے ہیں اورجو پست ذہن ہوں وہ گرم مزاج کے۔
۲۸ فروری کی دوپہر کو ساڑھے گیارہ بجے جب میں ٹریونڈرم پہنچا تو یہاں بڑی تعداد میںلوگ ائر پورٹ پرموجود تھے، ڈاکٹر گوپی ناتھن، پروفیسر کریم، وغیرہ۔ ائر پورٹ سے روانہ ہو کر آشرم پہنچا۔
کیرلا بے حد سر سبز ریاست ہے۔ سڑک کے دونوں طرف باغ جیسے مناظر ہیں۔ اس سرسبز ماحول میں ۲۰ کیلو میٹر کا سفر طے کرکے ہم لوگ آشرم پہنچے۔ سادگی اور امن کا ماحول تھا ۔ ہر طرف روحانیت جیسی فضا تھی۔ کیرلا کے لوگ بہت سادہ مزاج ہوتے ہیں۔ ان میں منافقت والی برائی نہیں۔ وہ پر امن شہری کی مثال نظر آتے ہیں۔ یہاں کے خوبصورت گسٹ ہاؤس میں مجھے ٹھہرایا گیا تھا۔ چاروں طرف سرسبز ماحول تھا۔ یہاں بہت سے لوگ ملے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ، اعلیٰ عہدیدار اور بڑے تاجر سب یکساں طورپر بالکل سادہ نظر آتے تھے۔ تعارف سے پہلے کوئی پہچان نہیں سکتا کہ وہ کوئی بڑے آدمی ہیں۔
آشرم کے گسٹ ہاؤس میں ضیافت کے طورپر سب سے پہلے ناریل کا پانی پیش کیا گیا۔ ناریل کا پانی ایک قدرتی مشروب ہے۔ ناریل کا درخت پورا کا پورا ایک عجیب قسم کا قدرتی کارخانہ ہے۔ اس کی ہر چیز مفید اور کار آمد ہے۔ ناریل کے درخت کی صفات اگر بیان کی جائیں تو پورا سفرنامہ اسی سے بھر جائے۔ ناریل کے جس خول کے اندر اس کا پانی رہتا ہے اس کی پیکنگ حیرت انگیز حد تک بامعنٰی ہوتی ہے۔ کئی تہہ کے اندر یہ پانی ہوتا ہے۔ اس کے اوپر کا خول نہایت سخت ہوتا ہے۔ وہ بہت مشکل سے ٹوٹتا ہے۔ مگر اس نہایت سخت خول کے سرے پر حیرت انگیز طورپر ایک نرم سوراخ ہوتا ہے جو نہایت آسانی سے کھل جاتا ہے اور اس کے ذریعہ پانی نکال کر پیا جاسکتاہے۔ یہ سوراخ اس بات کا یقینی ثبوت ہے کہ اس کائنات کا خالق ایک عاقل اور باشعور ہستی ہے۔ اس سوراخ میںجو حکمت ہے وہ باشعور خالق کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتی۔ موجودہ زمانہ میں مشروبات کے پیک میں عین یہی تکنیک استعمال کی جاتی ہے۔ اوراس کے ایک کنارے چھوٹی سی نرم جگہ بنائی جاتی ہے جہاں سے سوراخ کرکے مشروبات کو استعمال کیا جاسکے۔
۲۸ فروری کو ظہر کی نماز سے فارغ ہوکر میں آشرم کے گسٹ ہاؤس میں بیٹھا ہوں۔ چاروں طرف دوردور تک سبزہ ہی سبزہ دکھائی دے رہا ہے۔ یہاں نہ شور ہے اور نہ دھواں اور نہ جدید صنعتی زندگی کے اعصاب شکن مسائل۔ ایک لمحہ کے لئے خیال آیا کہ اس خوبصورت اور پرسکون ماحول میںرہنا کتنا اچھاہے۔ مگر جلد ہی بعد مجھے محسوس ہوا کہ یہ سوچ درست نہیں۔ اس قسم کے پرسکون ماحول میں آرام کی زندگی گزارنا کوئی بہت اچھی چیز نہیں۔ نفسیاتی مطالعہ بتاتا ہے کہ ذہنی سکون کے مقابلہ میں ذہنی اضطراب زیادہ اعلیٰ حالت ہے۔ ذہنی سکون کی حالت میں رہنا بظاہر بہت اچھا ہے مگر وہ اس قیمت پر ہوتا ہے کہ آدمی کی ذہنی ترقی رک جائے۔ فکری ارتقاء ہمیشہ طوفانی حالات میں ہوتا ہے، نہ کہ پرسکون حالات میں۔
ڈاکٹر گوپی ناتھن نے آشرم کے قریب گھر بنا لیا ہے۔ وہ یہاں ایک پرسکون زندگی گزار رہے ہیں۔ میں نے سوچا کہ اگر میں یہاں ایک گھر بنا کر پرسکون زندگی گزار رہا ہوتا تو میں کبھی اس فکر ی انقلاب تک نہ پہنچتا جس کا نتیجہ میری زندگی میںالرسالہ مشن کی صورت میں ظاہرہوا ۔
کیرلا کے ایک تعلیم یافتہ ہندو سے میںنے پوچھا کہ کیرلا میں بھی کیا اس طرح کی سیاسی علیٰحدگی کی تحریک چل رہی ہے جو پنجاب یا کشمیر یا آسام میں چل رہی ہے۔ انہوں نے فوراً کہا کہ نہیں(Not at all) ۔ اس اعتبار سے کیرلا ایک قابل تقلید ریاست ہے۔ دنیا کے جن ملکوں میںسیاسی علیٰحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں وہ سب کی سب صرف تباہی کی تحریکیں ہیں۔ ایک بڑے ملک کا حصہ رہ کرجو ترقی کی جاسکتی ہے وہ چھوٹا بننے کی صورت میں ممکن نہیں۔ اس طرح چھوٹا ملک بنانے کا واحد فائدہ یہ ہے کہ ایک لیڈر صاحب کو پرائم منسٹر کہا جانے لگے۔
میرا عام تجربہ ہے کہ اسکالر لوگوں میںفکری ارتقاء مسلسل جاری رہتا ہے جب کہ مذہبی لوگوں میںاس طرح فکری ارتقاء نہیں ہوتا۔ مذہبی طبقہ کے لوگ عام طورپر ذہنی ٹھہراؤ کا شکار رہتے ہیں۔ میںاکثر سوچتا رہا ہوں کہ ا س کا سبب کیا ہے، یہاں مجھے اس کا سبب معلوم ہوا۔ وہ یہ کہ سیکولر لوگوں میںمسلسل فری ڈائلاگ جاری رہتاہے جب کہ مذہبی لوگوں میں فری ڈائلاگ کاعمل جاری نہیںہوتا۔
یہاں بہت سے تعلیم یافتہ ہندوؤں سے ملاقات ہوئی جو گرو جی کے گہرے طورپر معتقد تھے۔ میںنے ا ن سے جب بھی کسی مسئلہ پر سوال جواب کرنا چاہا تو گفتگو ایک حد سے آگے جاری نہ رہ سکی۔ مثلاً اس آشرم میں ۲۴ گھنٹہ کے اندر آٹھ بار عبادت ہوتی ہے۔ یہ عبادت منتر جاپ کی صورت میں ہوتی ہے۔ مگر کئی لوگوں کو گرونے اس عبادت سے مستثنیٰ کر دیا ہے ۔ میںنے اس استثناء پر سوال کیا تو کوئی اس پر زیادہ گفتگو کے لیے تیار نہیں ہوا۔ ہر ایک نے یہ کہہ کر بات ختم کردی کہ ہر آدمی کا کیس الگ ہوتا ہے۔ اور گروجی ہر آدمی کو پہچان کر اس کو ہدایت دے دیتے ہیں۔ اس پر مزید گفتگو کے لیے وہ تیار نہیں ہوئے۔
اسی طرح میںنے کئی لوگوں سے پوچھا کہ گروجی جب اپنی زبان سے خودیہ نہیں کہتے کہ میں پیغمبر ہوں تو آپ لوگ ان کے بارہ میں ایسے الفاظ کیوں بولتے ہیں۔ مگرکوئی بھی اس سوال پرتفصیلی گفتگو کے لیے تیار نہ ہوا۔
ٹھیک یہی معاملہ مسلمانوں کے یہاں بھی پایا جاتا ہے۔ آپ کسی بھی جماعت یا کسی بھی ادارہ میںجائیے۔ آپ اگر وہاں ان کی مسلّمہ شخصیتوں پر تفصیلی گفتگو کرنا چاہیں تو ایسا ناممکن ہوگا۔ یا تو لوگ بات نہیں کریں گے یا بہت جلد بگڑ جائیںگے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ سنجیدہ گفتگو ناممکن ہوجائے گی۔
اس کے برعکس آپ سیکولر لوگوں سے بات کیجئے تو وہ کبھی غصہ نہیں ہوں گے۔ مثلاً یہاں ایک صاحب ملے جویونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔ انہوں نے اپنا مضمون پولیٹکل سائنس بتایا۔ میں نے کہا کہ آپ لوگ سیاسی موضوع کو پولیٹکل سائنس کہتے ہیں۔ حالانکہ گہرائی کے ساتھ دیکھا جائے تو پالی ٹکس کامضمون کوئی سائنسی مضمون ہی نہیں۔ سائنسی مضمون وہ ہے جو قابل تصدیق (verifiable) ہو۔ جب کہ پولیٹکل سائنس میںکوئی بھی نظریہ یا فارمولا قابل تصدیق (verifiable) نہیں۔ اس طرح ان سے دیر تک گفتگو ہوئی مگر وہ غصہ نہیںہوئے اور معتدل طورپر بات کرتے رہے۔اسی فرق کا یہ نتیجہ ہے کہ مذہبی طبقہ میں فکری ارتقاء رک جاتا ہے جب کہ سیکولر طبقہ میںفکری ارتقاء کا عمل جاری رہتا ہے۔
یہاں میکسیکو کے ایک نوجوان مسٹر جان میکسیکو سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ میںنے میکسیکو میںمیڈیٹیشن کے دوران ایک گروجی کی امیج دیکھی۔ میں ان کوجانتا نہیں تھا۔ پھر میںنے مراقبہ کیا تو ہندستان کا نقشہ میرے سامنے آگیا۔ پھر میںپوچھتے پوچھتے اس آشرم تک پہنچا۔
اس قسم کے قصے کثرت سے ہندوگروؤں کے یہاں پھیلے ہوئے ہیں۔ اسی طرح ٹھیک اسی قسم کے قصے مسلم بزرگوں کے یہاں بھی پھیلے ہوئے ہیں۔مسلمان ہندو گروؤں کے قصوں کو غلط بتاتے ہیں اور اپنے بزرگوں کے قصے کو صحیح سمجھتے ہیں۔ مگر یہ طریقہ سراسر غیر منطقی ہے۔ آپ یا تو دونوں جگہ کی کہانیوں کو درست بتائیں یا دونوں جگہ کی کہانیوں کو بے بنیاد قرار دیں۔ ایک کو ماننا اوردوسرے کو رد کرنا درست نہیں۔
یہاں اردو سمجھنے والا کوئی نہ تھا۔ اس لیے گفتگو ہمیشہ انگریزی میں ہوتی رہی۔ ایک صاحب سے گفتگو کرتے ہوئے میں نے کہا کہ میری زندگی کے تجربات میں سے ایک تلخ تجربہ یہ ہے کہ فطرت سے انحراف اس دنیا میں سب سے زیادہ مہلک غلطی ہے۔ فطرت سے انحراف کی بدترین سزا ہر ایک کو لازمی طور پر بھگتنا پڑتا ہے، فرد کو بھی اور قوم کو بھی۔
عشاء کا وقت ہوا تو الگ الگ اذانوں کی آوازیں سنائی دیں۔ معلوم ہوا کہ یہاں کئی مسجدیں ہیں۔ یہ آواز لاؤڈاسپیکر کی تھی اورکافی دور سے آرہی تھی۔ یہ مسجدیں آشرم کے وسیع علاقہ کے باہر ہیں۔ دور ہونے کی وجہ سے ان کی لاؤڈاسپیکر پر دی ہوئی اذان صرف رات کو سنائی دیتی ہے، دن کو نہیں۔
ٹریوینڈرم ائر پورٹ سے شانتی گری آشرم آتے ہوئے درمیان کے علاقہ میں مجھے بتایا گیا کہ وہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ تاہم یہاں کوئی ہندو اور مسلم مسئلہ نہیں۔ دونوں ایک ہی زبان بولتے ہیں۔ کلچرل مشابہت بھی ہے۔ یہاں غیریت کا وہ ذہن نہیں پایا جاتا جوشمالی ہند کے علاقوں میں پایا جاتا ہے۔
کے وشو ناتھن سے میںنے پوچھا کہ ہندوگروؤں کے یہاں پاؤں پوجا پائی جاتی ہے۔ اس کی اصل کہاں ہے۔ میںنے کہا کہ جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے، وہ ویدوں میں یا گیتا میں نہیںہے۔ وہ اس کی اصل نہ بتاسکے۔ گروورشپ کے رواج نے غالباً فُٹ ورشپ (foot worship) پیدا کی ۔ اکثر مذاہب کے موجودہ رواج خود ان کی اپنی کتابوں میں بھی موجود نہیں۔
یکم مارچ ۱۹۹۹ کی صبح کو ساڑھے نو بجے اصل پروگرام شروع ہوا۔ آشرم کی مین بلڈنگ کے سامنے وسیع میدان میں ہزاروں کی تعداد میں عورت اور مرد سفید کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ پہلے ملیالم میںایک گیت گایا گیا جس کو میں سمجھ نہ سکا۔ پھر گروجی نے ملیالم میںکچھ کہا۔ یہاں ترجمہ کا انتظام نہ تھا، اس کو بھی میں سمجھ نہ سکا۔ یہاں یا تو ملیالم زبان بولی جارہی تھی یا انگریزی۔
اس فنکشن میں گروجی آکر اسٹیج پر بیٹھے۔ سب سے پہلے ان کے سامنے ہولی فیٹ سونے کا بنا ہوا پیش کیا گیا۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ خود گروجی کے پاؤں کی نقل ہے۔ ایک تعلیم یافتہ ہندو نے کہا کہ یہ گروجی کی فرمائش پرنہیں ہے بلکہ ان کے عقیدت مندلوگ خود اپنے جذبہ کے تحت اس کو پیش کررہے ہیں۔
میںنے پایا کہ اکثر مذاہب میںجورسوم ہوتی ہیں ان کے بارہ میں سوال کیا جائے تو وہ فوراً معذرت خواہانہ انداز اختیار کرلیتے ہیں۔ اسلام کے سوا ہر مذہب میں اس قسم کی چیزیں ہیں جوغیرعقلی ہیں اور سائنٹفک دور میں ان کی معنویت لوگوں کے لیے ناقابل فہم ہوگئی ہے۔ میں صرف عقیدہ کی بنا پر نہیں بلکہ ذاتی علم کی بنا پر کہتا ہوں کہ یہ صرف اسلام ہے جو سائنٹفک دور کے معیار پر پورا اترتا ہے۔ میں نے یہ بات مذکورہ ہندو سے کہی تو وہ خاموش رہے۔
جلسہ گاہ میںاسٹیج پر لوبان وغیرہ جلایا گیا۔ اس سے پورے ہال میں ایک خاص قسم کا دھواں پھیل گیا۔ میں نے اپنے پاس بیٹھے ہوئے ہندو سے پوچھا کہ اس دھوئیں کا مقصد کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماحول کو پاک کرنے کے لیے (to purify the atmosphere) ۔ میں نے کہا کہ سائنٹفک دور کا انسان اس کو ایک قسم کا air pollution کہے گا۔ انہو ں نے جواب دیا کہ وہ مادی لوگ ہیں۔ وہ روحانی باتوں کونہیں سمجھتے ۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ مذہب ناقابل فہم ہے اور علم قابل فہم۔
میرے قریب دو تعلیم یافتہ ہندو آپس میں بات کررہے تھے۔ان میں سے ایک کوئلون کا تھا۔ گفتگو کے دوران ایک پیپر مل کا ذکر ہوا۔ دوسرے نے کہا کہ کوئلون کی پیپر مل جو کہ برلا گروپ کی ہے، لیبر پرابلم کی وجہ سے بند ہوگئی:
It is now closed down because of labour problem.
یہ صورت حال سارے ملک میںہے۔ پچھلے ۴۰ سال سے پورے ملک میںیہ مسئلہ ہے۔ لوگ اقتصادی عمل کی معکوس ترقی کا ذکر کرتے ہیں۔ مگر کوئی یہ نہیں بتاتا کہ اس کی وجہ کیا ہے۔ اس کی وجہ غیر فطری لیبر قوانین میں ہے۔ ان قوانین نے لوگوں کو آخری حد تک حقوق شناس (right-conscious) بنا دیا ہے۔
نہرو اور ان کے ساتھیوں نے آزادی کے بعد ہندستان میںسوشلسٹ اکانومی کے اصول کو اختیار کیا۔ اس کے تحت ایک طرف اقتصادی عمل میں سرکاری لوگوں کو غیر معمولی اختیارات دے دئے گئے۔ دوسری طرف لیبر حقوق کے نام پر بے شمار قانون اور ضابطے بنائے گئے۔ یہ مارکسی فلسفہ کے زیراثر تھا۔ مارکسی فلسفہ کے مطابق، اقتصادی نزاعات میں نام نہاد سرمایہ دار طبقہ ہمیشہ ناحق پر ہوتا ہے اور مزدور طبقہ ہمیشہ حق پر۔ سرمایہ دار ہمیشہ ظالم ہوتاہے اور مزدور ہمیشہ مظلوم۔ اس بے بنیاد نظریہ نے پورے ملک کی اقتصادیات کو تباہ کر کے رکھ دیا ۔
چند ہندوؤں کی ایک مجلس میں میںنے کہا کہ میرا مشن ہندو۔مسلم کے درمیان میل ملاپ پیدا کرنا ہے۔ میں ایک پختہ مسلمان ہوں اور اسلام کو کامل صداقت سمجھتا ہوں۔ مگر سماجی اور قومی زندگی میںمعتدل تعلقات کی فضا ہونا ضروری ہے۔ اس کے لیے میںجس طرح مسلمانوں کے جلسوں میںجاتا ہوں اسی طرح دوسرے مذہبوں کے جلسہ میں بھی جاتا ہوں۔ لیکن زرد صحافت نے اس کو شوشہ بنادیا۔ میرے خلاف جھوٹی باتیں چھاپ کر پھیلائی گئیں۔ حتیٰ کہ کچھ جاہل قسم کے لوگوں نے یہ اعلان کردیا کہ میں خدانخواستہ سلمان رشدی جیسا ہوچکا ہوں اور میرے ساتھ اس کا جیسا سلوک کیا جانا چاہئے۔ اس پر ایک تعلیم یافتہ ہندو نے کہا کہ گھبرائیے نہیں، یہ بھارت ہے یہاں کوئی خمینی نہیں، آپ انڈیا میں محفوظ ہیں:
Do not fear. It is India. Here is no Khomeini. You are safe in India.
یہ سن کر مجھے سخت جھٹکا لگا۔ موجودہ زمانہ میں ایک مسلمان ایک غیر مسلم ملک میںزیادہ محفوظ ہے۔ مگر وہ مسلم ملک میں محفوظ نہیں ۔ یہ کیسی عجیب بات ہے۔ جب کہ اسلام میںکامل آزادی ہے۔ میںنے ان لوگوں سے کہا کہ اس کی بنیاد پر آپ اسلام کے بارے میں رائے قائم نہ کریں۔ یہ مسلمانوں کا فعل ہے، یہ اسلام کی تعلیم نہیں۔ پھر میںنے قرآن کی ایک آیت سنائی۔ اس کو سن کر وہ بہت خوش ہوئے۔ میںنے کہا کہ انڈیا کی حکومت نے سلمان رشدی کو ویزا دیا ہے اس پر کچھ مسلمان شور کر رہے ہیں کہ سلمان رشدی کو یہاں نہ آنے دو۔
مگر اس قسم کی صورت حال قدیم مدینہ میں پیدا ہوئی۔ اس وقت عرب میں مشرک تھے جو اسلام کے دشمن بن گئے تھے۔ وہ اسلام پر حملے کرتے تھے۔ ان میں سے کچھ مشرکین نے مدینہ آنا چاہا۔ اس پر بعض مسلمانوں کو اختلاف ہوا۔ اس وقت قرآن میں یہ آیت اتری کہ اگر مشرکین میں سے کوئی تمہارے یہاں آنا چاہے تو اس کو آنے دو… (التوبہ ۶)
یکم مارچ کی دوپہر کو میری تقریر تھی۔مجھ کو پیس اور ہارمنی کا موضوع دیا گیا تھا۔ میں نے انگریزی میںایک تقریر کی۔ اس میں قرآن اور حدیث کے حوالہ سے بتایاکہ اسلام امن اور محبت اور انسانیت کا مذہب ہے۔ خدا نے جو مذہب عالمِ کائنات میںقائم کیا ہے اُسی کواس نے قرآن کی صورت میں بھیجا ہے۔
Peaceful co-existence is the only religion for both man and the universe.
یکم مارچ کو جلسہ گاہ سے نکل کر رہائش گاہ کی طرف جانا تھا۔ کار لا کر کھڑی کی گئی۔ اس وقت میرے پاؤں میں جوتا نہیں تھا۔ میںنے کہا کہ میں پیدل جاؤں گا۔ اور کار چھوڑ کر رہائش گاہ کی طرف پیدل روانہ ہوا۔ راستہ میںسنگریزے تھے۔ مگر مجھے ان سنگریزوں میں ایک قسم کا نیچرل ٹچ (لمس فطری) محسوس ہورہا تھا۔ چنانچہ میں ننگے پاؤں اس پر چلتا رہا۔ ایک ساتھی نے کہا کہ آپ ان سنگریزوں پر ننگے پاؤں چل رہے ہیں۔ میں نے کہا کہ یہ نیچرل کارپٹ ہے اور مصنوعی کارپٹ سے زیادہ بہتر ہے۔ میںنے کہا کہ یہ سنگریزے مجھے پھول جیسے معلوم ہوتے ہیں:
These stones are like flowers.
یہ بات میںنے نیچر کی حیثیت سے کہی تھی، نہ کہ آشرم کی نسبت سے۔ اب کوئی خوش عقیدہ آدمی اس کو آشرم سے جوڑدے تووہ کہے گا کہ دیکھو، فلاں مسلم مولانا اس آشرم میں آئے تھے۔ ان کویہاں کے سنگریزے تک پھول کے روپ میں دکھائی دیے۔ میرا خیال ہے کہ بزرگوں کے بارے میں کراماتی قصے اسی طرح بنے ہیں۔
بزرگوں کی کرامات کی جو طلسماتی کہانیاں مسلمانوں میں مشہور ہیں، ٹھیک اُسی قسم کی کہانیاں ہندوؤں میںبھی مزیداضافہ کے ساتھ مشہور ہیں۔ مسلمان ان کہانیوں کواپنے بزرگوں کی عظمت کی دلیل سمجھتے ہیں۔ اگر یہ دلیل صحیح ہو تو اسی دلیل سے انہیں ہندوؤں کے اکابر کو بھی طلسماتی شخصیت کا حامل ماننا چاہئے۔ ذاتی طورپر میں دونوں ہی طرح کے قصوں کو بے اصل سمجھتاہوں۔ اگر وہ فرضی ہیں تب تو ان کا بے اصل ہونا واضح ہے۔ تاہم اگر وہ بالفرض درست ہوں تب بھی وہ کسی شخص کی عظمت کا ثبوت نہیں۔
شانتی گری آشرم کا رقبہ بہت بڑا ہے۔ دور دور تک درخت اور سبزہ کا ماحول ہے۔ یہاںانسانوں کی آوازیں بہت کم سنائی دیتی ہیں، البتہ چڑیوں کی آوازیں اکثر کانوں میں آتی ہیں۔ میںنے سوچا کہ دہلی میں لاؤڈاسپیکر سے بلند ہونے والی انسانی آوازمجھے سخت نا پسند ہوتی ہے۔پھر چڑیوں کی آوازیں کیوں مجھ کو پسند ہیں۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ انسانوں کی آوازمیں سرکشی کا لہجہ ہوتاہے جب کہ چڑیاں ہمیشہ خدا کی حمد کے نغمے گاتی ہیں۔
شانتی گری آشرم کے گرو کی عمر ابھی ۷۲ سال ہے۔ مگر وہ کافی کمزور ہوگئے ہیں۔ وہ زیادہ تر اپنے بستر پر لیٹے ہوئے رہتے ہیں۔ وہ جلسہ گاہ میںآئے تووہاں بھی تھوڑی دیر سہارا لے کر بیٹھنے کے بعد لیٹ گئے۔ وہ دو آدمیوں کا سہارا لے کر مشکل سے چلتے ہیں۔ میںان کے مخصوص کمرہ میں اُن سے ملا تووہ اس وقت فرش پر اپنے بستر کے اوپر لیٹے ہوئے تھے۔ اسی لیٹے ہوئے حالت میں انہوں نے مجھے ایک نارنگی پیش کی۔ میںاس وقت ان کے قریب کھڑا ہوا تھا۔ نارنگی لینے کے لیے قدرتی طورپر مجھے کچھ جھکنا پڑا۔
ایک فوٹو گرافر نے اس وقت کی تصویر کھینچ لی۔ بعد کو اس نے تصویر دکھائی تو اس میں سنترہ تو دکھائی نہیں دیتا تھا البتہ یہ نظر آتا تھا کہ میں گرو جی کے سامنے جھکا ہوا ہوں۔ میںنے فوٹو گرافر سے کہا کہ اس تصویر کو آپ ضائع کردیجئے۔ ورنہ اگر ہماری ’’زرد صحافت‘‘ نے اس کو پالیا تو مزید رنگ آمیزی کرکے اس کو چھاپے گی جس کے نیچے لکھاہوا ہوگا ’’ایک مسلمان عالم ایک ہندو گرو کے آگے جھکا ہوا‘‘۔ (۶ مئی ۱۹۹۹ کو گروجی کا انتقال ہوگیا)۔
گروجی مورتی پوجا کو نہیں مانتے ۔ حتیٰ کہ میںنے آشرم کے مختلف حصوں کو دیکھا تو کہیں خود گروجی کی بھی کوئی تصویر نہیں ملی۔ پورے آشرم میں کہیں نہ کوئی مورتی ہے اور نہ کوئی تصویر۔
میرے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہ عجیب فضل ہے کہ میں اکثر نہایت سچے خواب دیکھتا ہوں۔ میں نے بہت سی ایسی چیزوں کے بارہ میں واضح خواب دیکھے ہیں جن کے متعلق مجھے کچھ بھی معلوم نہ تھا۔ مگر بعد کو معلوم ہوا کہ میرا خواب عین اصل واقعہ کے مطابق تھا۔ مثال کے طورپر اپنے سفروں کے بارہ میں اکثر میں پیشگی طورپر خواب دیکھ لیتا ہوں۔ اور عین اسی خواب کے مطابق سفر پیش آتا ہے۔
مثلاً ستمبر ۱۹۹۵ میںفلسطین کے سفر کے بارہ میں مجھے پیشگی طورپر کچھ بھی معلوم نہ تھا۔ مگر میںنے خواب دیکھا کہ میںاپنے ایک ساتھی کے ساتھ ہوائی جہاز میں بیٹھا ہوا ہوں۔ بعد کو عین ویسا ہی ہوا۔ اسی طرح ۲۸ فر وری اور یکم مارچ کی درمیانی شب میںمیں نے شانتی گری آشرم میںخواب دیکھا کہ میں دہلی کے انٹرنیشنل ائر پورٹ میںہوں اور ابتدائی مراحل سے گزرکرآخری گیٹ کی طرف بڑھ رہا ہوں۔
میں نے بار بار ایسی کانفرنسوں میں شرکت کی ہے جہاں ساری کارروائی انگریزی میں ہوئی ہے۔ ایسے مواقع پر زیادہ تر میں اپنی تقریر لکھے ہوئے پیپر کی صورت میں کرتا تھا اور جزئی طورپر انگریزی میں کلام کرتا تھا۔ شانتی گری آشرم میں لوگ یا تو ملیالم جانتے ـتھے یا انگریزی۔ اس لیے یہاں پوری مدت میں انگریزی ہی میں بولنا اور گفتگو کرنا پڑا۔ اس موقع پر پہلی بار مجھے اپنی اس استعداد کا تجربہ ہوا کہ میںخدا کے فضل سے انگریزی میںبے تکلف بول سکتا ہوں اور بے تکلف تقریر کرسکتا ہوں۔ اس ذاتی تجربہ نے میرے دعوتی جذبہ میں ایک نیاحوصلہ پیدا کردیا۔
یہاں کانفرنس کی وجہ سے تعلیم یافتہ ہندو بڑی تعداد میںاکٹھا تھے۔ ان سے بڑے پیمانہ پر انٹرایکشن ہوا۔ اندازہ ہوا کہ لوگ عجیب عجیب قسم کی غلط فہمیوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ موسیٰ کی ابتدائی عمر فرعون کے محل میں گزری۔ اس لیے موسیٰ کے بارے میں یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ اعلیٰ نسل میںپیدا ہوئے۔ مسیح نے مچھیروں کے درمیان کام کیا اس لیے اُنہوں نے سمجھ لیا کہ وہ نچلے طبقہ میں پیدا ہوئے۔
اسی طرح پیغمبر اسلام کو اپنے وطن مکہ سے ہجرت کرنا پڑا اس لیے اُنہوں نے سمجھ لیا کہ پیغمبراسلام نے مظلوم اور ناکام حالت میں وفات پائی۔ ضرورت ہے کہ اسلام کے بارے میں ہر قسم کی معلوماتی کتابیں بڑے پیمانہ پر تیار کرکے پھیلائی جائیں۔ اسی کے ساتھ بڑے پیمانہ پر مسلم اور غیر مسلم کا انٹرایکشن ہو۔ ڈائیلاگ کئے جائیں۔ تعلیمی اداروں میںدونوں گروہ کے لوگ بڑی تعداد میں تعلیم حاصل کریں۔ تاہم صرف کتابیں چھاپنا کافی نہیں۔ زندگی کی سرگرمیوں میں دونوں کی شرکت ضروری ہے۔
آشرم میںرہنے والے ایک صاحب جو انجینئر ہیں انہوں نے بروکن انگریزی میں کہا ’’آپ مجھے اپنا کپڑا دے دیجئے تاکہ میں اس کو دھودوں‘‘۔ میںنے سینہ پرہاتھ رکھتے ہوئے کہا:
Please wash my heart, that's more important. Clothes are washed by water. But the heart is washed by the tears.
وہ اس غیر متوقع جواب کو سن کر خاموش ہوگئے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آیا کہ اس کے بعد وہ کیا کہیں۔ ایک صاحب جووہاں موجود تھے انہوں نے میرے اس جواب کی وضاحت پوچھی۔ میں نے کہا کہ بعض باتیں متکلم کے صیغہ میں کہی جاتی ہیں مگر وہ غائب کے صیغہ میںمطلوب ہوتی ہیں۔ مثلاً غالب کا ایک شعر ہے:
ہوا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے
اسی طرح میر کا شعر ہے:
میر کے دین و مذہب کی کیا پوچھ رہے ہو اُن نے تو قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا
یہ اشعار اگر چہ متکلم کے صیغہ میں ہیں مگر وہ غائب کے صیغہ میں مطلوب ہیں۔ اسی اسلوب کی روشنی میں میرے مذکورہ جملہ کو سمجھا جاسکتا ہے۔
یکم مارچ کوشام کے سمّیلن میںتھوڑی دیر کے لیے گیا۔ لوگ بڑی تعداد میں اکٹھا تھے۔ کچھ لوگ گارہے تھے اور کچھ لوگ مخصوص باجا بجارہے تھے۔ گانا بجانا میرے ذوق کے مطابق نہیں۔ مگر دعوتی مصلحت کے تحت اس کو گوارا کیا جاسکتا ہے۔ لیکن ایک چیزمیرے لئے ذاتی طورپر قابل برادشت نہ تھی۔ وہ یہ کہ پورے وسیع پنڈال میں دھواں پھیلا ہوا تھا۔ پہلے میری سمجھ میں نہیںآیا کہ یہ دھواں کیا ہے۔ مگر سیکڑوں قمقموں کے باوجود یہاں بہت کم اجالا تھا۔ اس وقت محسوس ہوا کہ یہ بلب نہیں بلکہ موم بتیاں ہیں۔ موم بتیوں کے جلنے سے پوری فضا میںدھواں پھیلا ہوا تھا۔ یہ ذوق بھی بڑا عجیب ہے۔
تمام مذہبوں میں صرف اسلام ایسا مذہب ہے جس میں ہر چیز فطری ہے۔ اسلام کی عبادت گاہ، اسلام کی مجالس، اسلام کے اجتماعات، ہر ایک میںاسلام کا مقرر کیاہوا اصول عین فطرت کے اوپر قائم ہے۔اگر چہ موجودہ زمانہ میں اغیار کے کلچر سے متاثر ہو کر مسلمانوں نے اسلام کا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔ اسلام کا فطری نقشہ آج شاید کسی بھی مسلم ادارہ میں دکھائی نہیں دیتا۔ اگر کہیں عملی اعتبار سے ہے تو نظری اعتبار سے نہیں۔ اوراگر کہیں نظری اعتبار سے ہے تو عملی اعتبار سے نہیں۔
گروجی کے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں معتقدین ہیں۔ اس کا راز کم ازکم ایک یہ ہے کہ لوگوں کوان سے مادی فائدے ملتے ہیں۔ ایک شخص نے گروجی سے کہا کہ میںاسکوٹر خریدنا چاہتا ہوں۔ میںنے اس کا پیسہ بھی جمع کرلیا ہے۔ گروجی نے کہا کہ تم اسکوٹر مت خریدو۔ اس نے خرید لیا۔ جلد ہی ایکسیڈنٹ ہوا اور وہ مرگیا۔ ایسا ہی واقعہ ایک اور شخص کے ساتھ ہوا۔ اس نے کار کا پیسہ جمع کیا۔ اور گروجی کے منع کرنے کے باوجود کارخرید لی۔ وہ بھی روڈ ایکسیڈنٹ میںمرگیا۔
بہت سے لوگوں نے اس طرح کے قصے سنائے۔ اس سے لوگوں کو یقین ہوگیا کہ گروجی کو خاص نظر(vision) حاصل ہے۔ چنانچہ وہ جو کہہ دیتے ہیں اس پر لوگ آنکھ بند کرکے عمل کر تے ہیں۔
شانتی گری آشرم کے اس فنکشن کو اٹینڈکرنے کے لیے جو لوگ دہلی سے گئے تھے ان میں سے دو صاحبان میرے ساتھ اسی جہاز میںتھے۔ مسٹر گوپی ناتھن اور ایک خاتون ڈاکٹر۔ میرے سفر کا انتظام شانتی گری آشرم کی طرف سے کیا گیا تھا۔ مگر مذکورہ دونوں صاحبان خوداپنے خرچ پر وہاں گئے تھے۔ یہ دونوں مڈل کلاس کے لوگ تھے۔ مگر انہوں نے ہوائی جہاز سے سفر کیا جب کہ فی کس ہوائی جہاز کا ریٹرن ٹکٹ تقریباً ۳۵ ہزار تھا۔ وہاں کی تقریبات میں ان کاکوئی حصہ نہ تھا۔ میںنے پوچھا کہ آپ لوگ کس جذبہ کے تحت یہاں آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گرو کے درشن اور آشیرواد کے لیے۔اس طرح ہزاروں لوگ صرف درشن اور آشیرواد کے لیے دو ردور سے یہاں آئے تھے۔
ٹھیک یہی مزاج خود مسلمانوں میں بڑے پیمانہ پر پایا جاتاہے۔ وہ کچھ لوگوں کو ’’بزرگ‘‘ سمجھ لیتے ہیں۔ اور ان کے لیے لمبے لمبے سفر کرتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ انہوں نے درشن اور آشیرواد کے بجائے اس کا نام زیارت اور برکت رکھ لیا ہے۔
۱۹۸۰ کے لگ بھگ زمانہ کی بات ہے۔ ایک مسلم بزرگ مدینہ سے دہلی آئے۔ یہاں کی ایک بڑی مسجد میںان کا قیام تھا۔ یہاں سیکڑوں لوگ اکٹھا ہوگئے۔ عوام کے علاوہ کالج اور مدرسہ کے لوگ بھی شامل تھے۔ کچھ لوگ مجھ کو بھی وہاں لے گئے۔ میں نے دیکھا کہ وہاں تقریر ہو رہی ہے مگر لاؤڈاسپیکر اچھا نہ ہونے کی وجہ سے مقرر کی بات صاف سنائی نہیںدے رہی ہے۔ ایک صاحب علی گڑھ سے آئے تھے۔ ان سے میں نے کہا کہ یہاں اتنے سارے لوگ جمع ہیں۔ ایسے موقع پر اچھے لاؤڈ اسپیکر کا انتظام کرنا چاہئے تھا تاکہ لوگ مقرر کی بات کو صحیح طورپر سن سکیں۔ انہوں نے میری بات کو ایک غیر اہم بات کی طرح نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔ ’’ہم یہاں تقریر سننے کے لیے نہیں آئے ہیں۔ ہم تو حضرت کی زیارت کے لیے آئے ہیں‘‘۔
یہ مزاج ہندوؤں کے لئے جتنا بے معنٰی ہے، مسلمانوں کے لیے بھی اتنا ہی بے معنٰی ہے۔ کسی حضرت یا کسی گرو کی زیارت اور برکت کا کچھ بھی تعلق مذہب سے نہیں اور نہ اس سے کسی شخص کو کچھ مل سکتاہے۔ پانے کا تعلق تمام تر خدا سے ہے۔ یہ سمجھنا کہ خدا کا عطیہ کسی بزرگ کے واسطے سے ملتا ہے سراسر بے اصل ہے۔ اس کی کوئی حقیقت نہیں۔
یکم مارچ کی شام کو مغرب کی نماز کے بعد کئی تعلیم یافتہ لوگ میری قیام گاہ پراکٹھا ہوگئے۔ ان کی فرمائش پر میں نے اپنی ذاتی زندگی کے بارے میں کچھ باتیں بتائیں۔میں نے کہا کہ میں پیدائشی طورپر فلسفی جیسا مزاج رکھتاہوں۔ میں کسی بات کو صرف اس وقت مانتا ہوں جب کہ وہ دلائل و حقائق سے ثابت ہوجائے۔ میں نے کئی مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ مثلاً میںسنتاتھاکہ آدمی اگر کئی وقت تک کھانا نہ کھائے تو آنکھوں میں دھند آجاتی ہے اور غشی طاری ہوجاتی ہے۔ اس بات کو جاننے کے باوجود میں نے اس کا تجربہ کیا۔
ایک بار جب میں ایک لمبے سفر پر تھا تو دو دن تک مسلسل میںنے کچھ نہیںکھایا۔ حالانکہ اس وقت میری جیب میں کافی پیسے موجود تھے۔ دو دن کے بعد جب میں کافی کمزوری محسوس کرنے لگا تو میںایک ہوٹل کے اندر کھانے کے لیے داخل ہوگیا۔ اس وقت میری آنکھوں میں اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ چنانچہ میںایک ایسی کرسی پر بیٹھنے لگا جس پر پہلے سے ایک شخص بیٹھا ہوا تھا۔میری یہ حالت دیکھ کرلوگوں نے سمجھا کہ خدانخواستہ میں پئے ہوئے ہوں۔ میںنے کہا کہ مذہب کے ساتھ بھی میرا معاملہ یہی ہے۔
پیدائشی طورپر میںایک مسلم خاندان میں پیدا ہوا۔ گویا میراآبائی مذہب اسلام تھا۔ مگر جب میںسن شعور کو پہنچا تو میںنے اسلام کو چھوڑ دیا۔ میں ملحد بن گیا۔ اس کے بعد کئی برس تک میںسچائی کی تلاش میںادھر ادھر پھرتارہا۔ بہت سی کتابیں پڑھیں۔ اس طرح کئی برسوں کے تلاش ومطالعہ کے بعد میںنے شعوری طورپر از سر نو اسلام قبول کیا۔
غالباً ۱۹۴۹ میں میں نے اعظم گڑھ کی جامع مسجد میں ماسٹر عبد الحکیم انصاری کے سامنے کلمۂ شہادت ادا کیا۔ وہاں اور بھی کئی مسلمان موجود تھے۔ جب میںنے اشہد ان لا الہ الا اللّٰہ و اشہد ان محمداً عبدہ ورسولہ کہا تو بے اختیار میری آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ اس طرح میںایک نو مسلم ہوں۔ اسلام میری ڈسکوری ہے۔
یہ ایک لمبی گفتگو تھی۔ لوگ بے حد دلچسپی کے ساتھ اس کو سن رہے تھے۔ اس سلسلہ میںمیں نے کہا کہ کچھ نادان لوگ میرے بارے میں کہتے ہیں کہ میں اینٹی مسلم لابی کاایک آدمی ہوں۔ حتیٰ کہ بعض لوگوں نے میرے خلاف فتویٰ بھی دے دیا ہے۔ مگر اس قسم کی باتیں لغویت کی حد تک بے اصل ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ میری نیچر کے خلاف ہے کہ میں صرف مصلحت کے لیے یا کسی کو خوش کرنے کے لیے کوئی بات کہوں یا کروں۔ فطر ی طورپر میرا یہ مزاج ہے کہ میں صرف وہی بات کہتاہوں جو عقلی اور منطقی طورپر مجھے درست نظرآئے۔حتیٰ کہ اگر مجھے ایک بات درست نظر آئے تو میںساری دنیا کو نظرانداز کرکے اس کا اعلان کروں گا۔ یہ میرے بس سے باہر ہے کہ کوئی بات صرف اس لیے کہوں کہ لوگ ایسا چاہتے ہیں۔ اس سلسلہ میںمیںنے کئی عملی مثالیں دیں۔
میںنے کہا کہ ۱۹۹۰ میںایران کے رہنماآیت اللہ خمینی نے سلمان رشدی کے قتل کا فتویٰ دیا تو دنیا بھر کے تمام مسلمان اس کی تائید کرنے لگے۔ اس وقت میںنے تنہا یہ اعلان کیا کہ یہ فتویٰ غلط ہے۔ اسلام کی تعلیم کے مطابق، ہمیں قلم کا جواب قلم سے دینا ہے۔ قلم کا جواب گولی سے دینا ایک غیر اسلامی بات ہے۔ یہ اسلام کی توہین ہے کہ اس کی طرف ایسا نظریہ منسوب کیا جائے۔
اسی طرح انڈیاکے تقریباً تمام ہندو کامن سول کوڈ کے حامی ہیں۔ مگر میں نے اس کے خلاف تفصیلی مقالہ لکھا اوراس کو ملک کے بہت سے اخبارات اور میگزین میں چھپوایا۔ اس کو کتاب کی صورت میں بھی مختلف زبانوںمیں چھپوایا۔ جلسوں میں اس موضوع پر تقریریں کیں۔
اسی طرح انڈیا کے تقریباً تمام ہندو حسّاسیت کی حد تک کنورژن کے خلاف ہیں۔ مگر میں نے ہندو مزاج کے خلاف کنورژن کے مسئلہ پر اخباروں میں بیانات دئے۔ ٹی وی پر اس کے خلاف کہا۔ جلسوں میںاس کے خلاف تقریر کی۔ کنورژن کی حمایت میںمیںنے ایک تفصیلی مقالہ لکھا جس کو دوسرے کئی میگزین کے علاوہ خودآر ایس ایس کے انگریزی میگزین پرجنا (Parajna) میں چھپوایا۔ ملاحظہ ہو پرجنا (Parajna) کا شمارہ اپریل۔جون، ۱۹۹۹۔
میں نے کہا کہ میںکسی ملکی یا غیر ملکی لابی کا ترجمان نہیں۔ البتہ میںسچائی کا ترجمان ہوں۔ میں عین اپنے مزاج کے مطابق، ہر بات کو دلائل و حقائق کی روشنی میں دیکھتا ہوں۔ اس کا علمی تجزیہ کرتا ہوں۔ ہر اعتبار سے اس کا بے لاگ جائزہ لیتا ہوں۔ اور پھر جو بات مجھے حق نظرآتی ہے اس کو لکھتا اور بولتا ہوں۔ اپنے ضمیر کے خلاف کسی کا حامی یا ترجمان بننا میرے لئے ممکن ہی نہیں۔
کیرلا ایک بے حد سرسبز اور خوبصورت علاقہ ہے۔ شانتی گری آشرم میں کیرلا کی تمام خصوصیات موجود ہیں۔ کیرلا کی اسی خوبصورتی کی بنا پر کہا جاتا ہے کہ کیرلا خدا کا اپنا ملک ہے:
Kerala is God's own country.
مگر ساحلی علاقہ ہونے کی وجہ سے یہاں کی فضا میں رطوبت(moisture) ہے۔ اس کی وجہ سے یہاں کے پھول میںگویا ایک کانٹا لگا ہوا ہے۔ یہی موجودہ دنیا کی تمام اچھی چیزوں کا حال ہے۔ کامل آرام یا کامل خوشی کسی کو اس دنیا میں نہیں مل سکتی ۔ کامل مسرت صرف آخرت ہی میں ممکن ہے۔
۲ مارچ ۱۹۹۹ کو صبح چار بجے کا وقت ہے۔ میںبستر سے اٹھ کر یہ سطریں لکھ رہا ہوں۔ میرے چاروں طرف کامل سناٹا چھایا ہوا ہے۔ بظاہر اس وسیع دنیا کے تمام لوگ اپنے بستروں پر سورہے ہیں۔ اتنے میں دور سے چڑیا کی آواز سنائی دی۔ میںنے سوچا کہ اس طرح ایک دن آئے گا جب کہ زمین پر بسنے والے تمام انسان اپنے گھروں میںسکون کی سانس لے رہے ہوں گے کہ اچانک خدا کی آواز آئے گی۔ قیامت کا زلزلہ پوری دنیا کو ہلا دے گا۔ لوگ پکار اٹھیں گے۔ یہ کیا ہوگیا، کیا نجات کی کوئی صورت ہے۔ مگر جب قیامت آجائے گی تو وہ دوبارہ واپس نہ ہوسکے گی۔ آج کے سرکش اس دن سراپا عجز کی تصویر دکھائی دیں گے۔ آج حقیقت کااعتراف نہ کرنے والے اس دن اعلان کے ساتھ حقیقت کااعتراف کریں گے۔ آج جو لوگ دوسروں کا احتساب لینے کے چیمپئن بنے ہوئے ہیں اس دن انہیں اپنے احتساب کے سوا اورکچھ بھی یا د نہ ہوگا۔ اس دن ہر آدمی مان رہاہوگا، مگر اب ماننے کا کیا فائدہ۔
۲۸ فروری کی شام کو آشرم میںکئی مسلم نوجوانوں سے ملاقات ہوئی۔ ان میں سے ایک مسٹر محی الدین خاں تھے۔ وہ ٹریونڈرم کے ایک اسکول میں استاد ہیں۔ انہوں نے میری کتاب خاتون اسلام انگریزی میں پڑھی ہے۔ انہوںنے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ میں مارکسسٹ ہوں۔ میںنے پوچھا کہ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد بھی آپ مارکس کے نظریہ پر یقین رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ سوویت یونین میںجس چیز کا خاتمہ ہوا ہے وہ مارکسی آئیڈیا لوجی نہیںہے بلکہ روسی کمیونسٹ پارٹی کی غلط پالیسیاں ہیں۔ میں نے کہا کہ مگر ایک بات بالکل واضح ہے۔ وہ یہ کہ مارکس نے تاریخی ناگزیریت کانظریہ پیش کیا ۔ اس نے لکھا کہ خود تاریخ کے ناگزیر عمل کے نتیجہ میںایسا ہوگا کہ سرمایہ دارانہ نظام ٹوٹ جائے گا اور اس کی جگہ اشتراکی نظام قائم ہوگا۔ یہ سب خود ناگزیر تاریخی قانون کے تحت ہوگا۔ ایسی حالت میں کمیونسٹ فلسفہ کے تحت سرمایہ دارانہ نظام کو ٹوٹنا چاہئے تھا۔ مگربرعکس طورپر خود اشتراکی نظام ٹوٹ گیا۔ یہ واقعہ مارکس کے نظریہ کو غلط ثابت کر رہا ہے۔ انہوں نے اس کاکوئی جواب نہیں دیا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے ذرا فلاں پروگرام میںجانا ہے۔ اس کے بعد وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ چلے گئے۔ وہ اردو نہیں جانتے تھے۔ یہ گفتگو انگریزی زبان میں ہوئی۔
عام طورپر لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ اپنی محبوب شخصیتوں کو غلط نہ ماننے کے لیے بھول جاتے ہیں کہ اس طرح وہ شخصیتوں سے برتر ایک چیز—قانون فطرت کاانکار کررہے ہیں۔ یہی حال موجودہ زمانہ کے بعض مسلم مفکرین کے پرستاروں کا ہے۔ ان مسلم مفکرین کے نظریات مکمل طورپر فیل ہوگئے ۔ مثلاً ریلوے انجن پر قبضہ کرنے کے باوجود ٹرین کا اپنی سابقہ سمت پر چلتے رہنا۔ مگر ان شخصیتوں کے پرستار مختلف قسم کی بے اصل توجیہیں کرکے کوشش کرتے ہیں کہ ان کی محبوب شخصیت بدستور محفوظ رہے۔
یہاں بڑی تعداد میںلوگوں سے ملاقات ہوئی۔ ان میں زیادہ تر ہندو تھے۔ تا ہم ان میں مسلمان بھی قابل لحاظ تعدا د میں تھے۔ ہر گفتگو کے بعد میںنے محسوس کیا کہ لوگ عام طورپر ذہنی جمود میں مبتلا ہیں۔ اس کی مشترک وجہ یہ ہے کہ ہر ایک نے کسی نظریہ یا کسی شخصیت کو نوجوانی میںاپنایا۔ پھر وہ اس پر جم گیا۔ اب وہ نظر ثانی کے لیے تیار نہیں۔ اس طرح ہر ایک یہ یقین لئے ہوئے ہے کہ ’’میرا انتخاب درست تھا‘‘ مگر یہی یقین ہر ایک کے لیے زیادہ بہتر سچائی کو پانے میںرکاوٹ بن گیا۔
ایک نوجوان سردار سکھبیر سنگھ سے ملاقات ہوئی۔ وہ راجستھان کے رہنے والے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سکھ ازم اسلام کے زیادہ نزدیک ہے۔ کیوں کہ یہ کسی دیوی دیوتا، وغیرہ کی پوجا نہیںکرتے۔ یہ کسی دوسرے کے آگے سر نہیں جھکاتے۔ یہ دونوں اپنے دھارمک گرنتھ قرآن اور گرو گرنتھ صاحب کے حکم کے مطابق ہی کام کرتے ہیں۔ سکھ دھرم کے گرنتھ (گرو گرنتھ صاحب) میں صرف دھارمک پریچرس، مہاپرشوں اور صوفی سنتوں (ہندو اور مسلم) کے قول ہی دئے ہیں۔ یہ دونوں دھرم انسانیت کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ سکھ گروؤں کے شاگردوں میںہندو اور مسلم دونوں تھے۔ سکھوں کے سب سے پوتر دھارمک استھان امرتسر کے ہر مِندَر صاحب کا سنگ بنیاد ایک مسلم پیر (پیر میاں میر) نے رکھا تھا۔
ایک صاحب جاپان سے آئے تھے۔ ان کا نام آنند کے نہاری تھا۔ ان سے میں نے کہا کہ جاپانی لوگ پیدائشی طور پر اسپریچول ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ نسل ایسی نہیں ہے۔ اب امریکن کلچر تیزی سے نئی نسل میںپھیل رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جاپان اپنی ترقی کی پیک(peak) پر پہنچنے کے بعداب نیچے جارہا ہے، روحانی اور اقتصادی ہر اعتبار سے۔ لوگ مقصدیت کااحساس کھوتے جارہے ہیں۔ جاپان کی نئی نسل اپنی آئڈنٹیٹی کھوچکی ہے۔
کیرلا میں مائسچر کا سبب یہ ہے کہ یہاں کی زمین کا ایک تہائی حصہ گھنے جنگلوں سے ڈھکا ہوا ہے۔ ہر طرف سبزہ کی کثرت ہے، اس نے یہاں کی فضا کو مرطوب بنا دیا ہے۔
کیرلا کے لوگ (اور اسی طرح پورے جنوبی ہند کے لوگ) بے حد صفائی پسندہیں۔ صفائی ان کے کلچر میںشامل ہے۔ یہاںکے گھراور راستے بے حد صاف ہوتے ہیں۔ آپ اگر اچانک کسی گھر یاکسی بستی میںجائیں تو آپ اس کو ہمیشہ صاف ستھرا پائیں گے۔ وہ گھروں کے اندر جوتا پہننا پسند نہیں کرتے۔ چنانچہ گھر میں داخل ہونے سے پہلے جوتا اتار دیاجاتاہے۔ میںنے یہاں کی ایک مجلس میں اس کا ذکر کرـتے ہوئے پیغمبر اسلام کی یہ حدیث سنائی: الطہور شطر الایمان۔ اس کا ترجمہ میںنے اس طرح کیا:
Cleanliness is a part of religion.
لوگ اس حدیث کو سن کر بہت خوش ہوئے۔ ان کے چہرے سے ایسا محسوس ہوا جیسے وہ خوش ہو رہے ہوں کہ خدا بھی ان کی تائید کر رہاہے۔
یہاں صرف ایک چیز میرے ذوق کے خلاف تھی۔ وہ فضا میں مسلسل طورپر نمی (moisture) ہے۔ گھروں میں عام طور پر کارپٹ نہیں ہوتے۔ چکنا فرش ہوتا ہے۔ کیرلا کے لوگوں میں کچھ چیزیں پیدائشی طورپر ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ لوگ ابھی تک اپنے نیچر پر ہیں۔ ایک بار میںنے دو آدمیوں کو تیز تیز بحث کرـتے ہوئے دیکھا۔ میرے ساتھی اس کو دیکھ کر ہنس رہے تھے۔ میںنے سبب پوچھا تو انہوں نے کہا کہ تھوڑا انتظار کیجئے۔ چنانچہ کچھ دیر کے بعد اپنے آپ ان کی بحث ختم ہوگئی۔ تیز بحث کے باوجود کسی نے دوسرے کے خلاف ہاتھ نہیں اٹھایا۔ کچھ دیر کے بعد دونوں آدمی نارمل ہوگئے اور دونوں اپنے اپنے راستہ پر آگے بڑھ گئے۔ دہلی میں ایسا ہو تو دونوں آدمی ایک دوسرے کے خلاف غرّاتے ہوئے جائیں گے۔ مگر یہاں دونوں اس طرح نارمل انداز سے چلے گئے جیسے کہ ان کے درمیان کچھ نہیں ہوا تھا۔
یہاں کے ٹیکسی ڈرائیور اور اسکوٹر ڈرائیور مشین کی طرح کام کرتے ہیں۔ وہ مسافر کو نہ ستاتے ہیں اور نہ زیادہ کرایہ لیتے ہیں۔ ایک بار کچھ لوگوں نے ایک اسکو ٹر ڈرائیور کو پکڑا۔ وہ مسافر کو پریشان کررہا تھا اور اس سے زیادہ رقم لیناچاہتا تھا۔ وہ اس کو کیرلا میں لے آیا۔ اس نے اسے ایک اسکوٹر پر بٹھایا اور کہا کہ اس کو لے کر فلاں جگہ چھوڑ دینا۔ وہ اسکوٹر والا اس کو لے گیا۔ ٹھیک مقام پر پہنچا کر ٹھیک مقرر نرخ کے مطابق، اس سے کرایہ لے کر اس کو اتار دیا۔ اس کے بعد مذکورہ اسکوٹر ڈرائیور کویہ فرق دیکھ کر سخت شرمندگی ہوئی۔ وہ بالکل بدل گیا۔
کیرلا کے مردوں اور عورتوں کو دیکھئے توایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ براہ راست فطرت کے کارخانے سے نکل کر چلے آرہے ہیں۔ معصومیت، دیانت داری، اطاعت شعاری، نرم گفتاری، تواضع، فرض شناسی، اپنے کام سے کام رکھنا، بحث و تکرار کے بغیر بات کو مان لینا۔ اس قسم کی صفات گویا ان کی شخصیت کا جزء ہیں۔ وہ پوری طرح خدا کی فطرت پر قائم ہیں۔مجھے کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ آخرت میںخدا کی رحمت کو پانے کے لیے غالباً دو معیار ہوں گے۔ ایک اخلاقی اور دوسرے شرعی۔ اخلاقی معیار پیدائشی فطرت کے تابع ہے اور شرعی معیار وحی الٰہی کے تابع۔ جو لوگ خدا کی دی ہوئی فطرت پر قائم ہوں، جو معلوم احکام الٰہی سے انحراف نہ کریں وہ خدا کے غیر باغی بندے ہیں۔ اور جو لوگ وحی الٰہی کے ذریعہ ملی ہوئی ہدایت پر اخلاص کے ساتھ قائم ہوں وہ خدا کے مخصوص بندے ہیں۔ درجہ بدرجہ غالباً دونوں ہی خدا کی رحمت کے مستحق قرار پائیں گے۔
تاہم شمالی ہند کے لوگوں کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ یہاں ان لوگوں کے مزاج کوایک لفظ میں بیان کرنا ہو تو غالباً وہ سرکشی ہوگا۔ ان کے اندر سرکشی اور انانیت (arrogance) اتنا زیادہ ہے کہ ان کو دیکھ کر مجھے خیال آتا ہے کہ اس قسم کے لوگ تو شاید اخلاقی معیار ہی پر قابلِ رد قرار پا جائیں اور شرعی معیار کوان کے اوپر استعمال کرنے کی نوبت ہی نہ آئے۔ دونوں گروہوں کے فرق کواس دنیا میں دیکھا جاسکتا ہے۔ پہلی قسم کے لوگوں کو دیکھئے توان کے چہرے پر ایک معصومانہ حسن ہوگا اوردوسری قسم کے لوگوں کو دیکھئے تو ان کے چہرے پر ایک مغرورانہ بدصورتی دکھائی دے گی۔
مجھے ذاتی طورپر ایسے لوگوں سے سخت وحشت ہوتی ہے جن کے کلام میںمغرورانہ انداز پایا جاتا ہو۔ اس کے برعکس جن لوگوں کے کلام میں تواضع اور سادگی کا انداز ہو ان سے بات کرنا میرے لئے ہمیشہ خوشی کا باعث ہوتا ہے، خواہ وہ غریب اور جاہل ہی کیوں نہ ہوں۔ شمالی ہندکی سڑکوں پر چلتے ہوئے اکثر میںنے کار اور ٹرک کوسڑک کے کنارے الٹا پڑا ہوا دیکھا ہے۔ روڈ ایکسیڈنٹ وہاں روزانہ کی ایک بات ہے۔ مگر کیرلا کی سڑکوں پر شاید ہی ایسا منظر کبھی دکھائی دیتا ہو۔ یہاں کے لوگوں میں ڈسپلن ہے۔ وہ قانون شکنی سے بچتے ہیں۔ وہ دوسروں کی رعایت کرتے ہیں۔ وہ دوسروں کو راستہ دینے کے لیے خود پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ الیکشن کے زمانہ میں یہاں وہ توڑ پھوڑ اور ہنگامے نہیں ہوتے جو شمالی ہند میں الیکشن کے زمانے میں دیکھے جاتے ہیں۔ الیکشن کے موقع پر ہندو، مسلم، عیسائی اکثر متفقہ طورپر کسی نمائندے کے حق میںووٹ دیتے ہیں۔ حال میں الامۃ اورآئی ایس ایس کے کچھ شورش پسند نوجوانوں نے یہاں کے امن کو توڑنے کی کوشش کی مگر سماج کا تعاون نہ ملنے کی وجہ سے وہ کامیاب نہ ہوسکے۔
کیرلا کی ریاست خلیل جبران کے اس مقولہ کی ایک عملی مثال ہے کہ درخت کی اجازت کے بغیر اس کا ایک پتہ بھی زمین پر نہیںگرتا:
Not a single leave falls down without the silent consent of the tree.
کیرلا کے امن پسند سماج نے شورش پسند نوجوانوں کی حمایت نہ کی اس لئے وہ غبارہ کی طرح پھٹ کر رہ گئے۔ دوسرے مقام پر جہاں شورش پسند نوجوان تباہی پھیلانے میںکامیاب ہوئے اس کا سبب یہی تھا کہ وہاں کے سماج سے ان کو حمایت ملی۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ کچھ لوگوں کے غلط فعل پر سب لوگوں پر عذاب آتاہے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ کچھ لوگ اگر اپنے غلط فعل کے براہ راست ذمہ دار ہوتے ہیں تو بقیہ لوگ اس کے بالواسطہ ذمہ دار۔ شورش زدہ مقام پر جب وہاں کا حاکم طبقہ جوابی کارروائی کرتا ہے تو وہاں کے لکھنے اور بولنے والے اجتماع کرتے ہیں کہ حکمراں طبقہ بے گناہ لوگوں کو اپنے ظلم کا نشانہ بنا رہا ہے۔ مگر یہ قانون فطرت کے مطابق ہے۔ یہ دراصل اس بات کی سزا ہے کہ وہاں کے عوام نے بالواسطہ انداز میں ان شورش پسندوں کا ساتھ دیا۔
یہاںایک سردار جی سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے اس قسم کے بعض مقامات کا نام لے کر کہا کہ دیکھئے، مغرب میںقائم شدہ انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی ان کی مذمت کی ہے۔ میں نے کہا کہ جو لوگ مغرب کی ان رپورٹوں کو لے کر تقریر یں کرتے ہیںوہ باتوں کو گہرائی کے ساتھ نہیں سمجھتے۔ مغرب میںقائم شدہ انسانی حقوق کے ادارے در اصل مغربی تہذیب کی برتری ثابت کرنے کے ادارے ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ ہم حقیقت پسندی سے کام لیں اورایسے واقعات کو مغرب کی عینک سے دیکھنے کے بجائے قانون فطرت کی روشنی میں دیکھیں۔
ایک ہندو فیملی جو ارنا کولم سے یہاں آئی تھی۔ ۲ مارچ کی صبح کو واپس جاتے ہوئے وہ لوگ مجھ سے آخری ملاقات کے لیے میری قیام گاہ پر آئے۔ وہ بذریعہ کار واپس جا رہے تھے۔ آخری ملاقات میں میں نے کچھ نصیحت آمیز باتیں کہیں۔ ان میں سے ایک یہ تھی کہ خداکی مہربانی کے ساتھ واپس جائیے (With the grace of God) ۔ انہوںنے اس کو دہراتے ہوئے کہا: خدا کی مہربانی سے، گرو کی مہربانی سے۔
یہ ہندو عقیدہ کا خاص جزء ہے۔ وہ اپنے عقیدہ کے خدا اورگرو میںفرق نہیں کرتے۔ وہ گرو کو اس طرح مانتے ہیں جیسے کہ وہی ان کا خدا ہو۔ بد قسمتی سے بر صغیر ہند کے مسلمانوں میںیہی عقیدہ بدلے ہوئے الفاظ کے ساتھ آگیاہے۔ یہ لوگ بھی اپنے مفروضہ اکابر یا بزرگوں کو بڑائی کاعملاً وہی درجہ دئے ہوئے ہیں جو خدا کا درجہ ہے:یحبونہم کحب اللہ۔ ان مسلمانوں میںیہ غیر موحدانہ جذبہ اتنی گہرائی کے ساتھ سرایت کئے ہوئے ہے کہ اس کی اصلاح کرنا تو درکنار اس کے خلاف بولنے کی ہمت بھی کوئی مصلح نہیں کرپاتا۔ صرف سلفی لوگ اس کے خلاف کچھ بولتے ہیں۔ مگر سلفی لوگوں میںسب سے بڑی کمی یہ ہے کہ ان میں داعیانہ شفقت نہیں، ان کے مزاج میں مناظرانہ کٹر پن ہوتا ہے۔
اس غیر موحدانہ مزاج کی اصلاح میںوہ کامیاب نہ ہوسکے۔ غیر سلفی علماء عام طورپر اس عوامی مزاج سے مصالحت کئے ہوئے ہیں، شاید اس لئے کہ اگر وہ اس کے خلاف بولیں تو عوامی نمائندگی کا اسٹیج ان سے چھن جائے گا۔اس خاموشی کے پیچھے شاید یہ خوف چھپا ہوا ہے کہ یہ لوگ اگر اس غیرموحدانہ روش کے خلاف بولیں تو وہ عوام سے کٹ جائیںگے اور ان کو وہ فائدے نہ مل سکیں گے جوعوام کا نمائندہ (بالفاظ دیگر بھیڑ کا نمائندہ) سمجھے جانے کی بنا پر انہیں حاصل ہو رہے ہیں۔
اس کا تجربہ مجھے ذاتی طورپر ہوا۔ میرے کئی ہمدرد اکثر مجھ سے یہ کہتے رہے ہیں کہ فلاں بات نہ کہیئے ،ورنہ آپ عوام سے کٹ جائیں گے۔
اس معاملہ میں جماعت اسلامی کے لوگوں نے زبردست ہوشیاری کا ثبوت دیا ہے۔ کوئی ڈبل اسٹینڈرڈ ہوتا ہے، یہ لوگ ملٹی اسٹینڈرڈ ہیں۔اپنے لٹریچر کے اعتبار سے وہ ایک اصولی جماعت ہے۔ مگر وہ مسلمانوں کے ہر اس اسٹیج پر جا کر بیٹھ جاتے ہیں جونام نہاد ملی اشوز پر سجایا گیا ہو۔ ان کا نام نہاد پریس اس قسم کی ہر ملی سرگرمی کواپنے کالم میںجگہ دیتاہے۔ اس طرح وہ عوام سے نہ کٹنے کا زبردست اہتمام کررہے ہیں۔ مگرشاید انہیں یہ معلوم نہیںکہ دو کشتی کی اس سوار ی میں دونوں ہی حیثیت کو کھو دینا ہے۔ ملٹی اسٹینڈ رڈکی یہ پالیسی چونکہ محض ظاہری تھی اس لیے وہ مسلم عوام میںمقبولیت نہ پاسکے اور اپنی اصول پسندی کو تو وہ پہلے ہی کھو چکے تھے۔ اس طرح ان کی پوزیشن ’’نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم‘‘ جیسی ہوگئی۔ موجودہ جماعت اسلامی صرف اپنی اسٹیبلشمنٹ کی بنیاد پر قائم ہے، نہ کہ حقیقۃً اپنے اصولی موقف کی بنا پر۔
شانتی گری آشرم کا رقبہ ایک سو ایکڑ سے زیادہ ہے۔ یہاںتقریباً ایک ہزار آدمی رہتے ہیں۔ یہ لوگ یہاںکے مختلف شعبوں میںکام کرتے ہیں۔ اسپتال، اسکول گارڈن، ایگری کلچرل فارم، دواسازی، وغیرہ۔ان لوگوں کی کوئی تنخواہ مقرر نہیں۔ مگر ہر ایک نہایت خوش دکھائی دیتاہے۔ میںنے کچھ لوگوں سے پوچھا کہ آپ کا ماہانہ خرچ کس طرح چلتا ہے۔ سب کا ایک ہی جواب تھا۔ گروجی کے آشیرواد سے ،سب اچھی طرح ہو جاتاہے۔
۲ مارچ کوآشرم کا اسپتال دیکھا۔ یہاں آیورویدک اصول پر علاج ہوتا ہے۔ ایک آدمی ۴۷ سال کی عمر کا تھا۔ وہ سنگا پور کا شہری ہے۔ اس کا نام سیتا رام ہے۔ اس پر فالج کاحملہ ہوگیا ،وہ چل نہیں سکتا تھا۔یہاں کے دوماہ کے علاج کے بعد اب وہ چل پھر سکتا ہے۔ اس کو امید ہے کہ وہ جلد ہی سنگا پور واپس جا کر نارمل زندگی گزارے گا۔ سنگا پور اسپتال میں تقریباً ایک ماہ علاج کے لئے ۱۰ ہزار ڈالر خرچ کرنے کے باوجود اس کو کوئی فائدہ نہیں ہوا تھا۔ یہاں بہت سستے علاج میںاس کو فائدہ ہوگیا۔
۲ مارچ کومیں آشرم میںشام کو ٹہل رہا تھا۔ ایک صاحب آئے اور السلام علیکم کہا۔ انہوں نے اپنا نام ایم سلیمان بتایا۔ میںنے پوچھا کہ کیا آپ مجھ کو جانتے ہیں۔ انہوں نے کہا۔ یہاں بہت سے لوگ آپ کو جانتے ہیں۔ اس زمانہ میں کمیونی کیشن کی ترقی نے کتنا فرق پیدا کردیا ہے۔
یکم مارچ کوہولی کا دن تھا۔ اخبار سے معلوم ہواکہ فاروق عبداللہ نے ہولی کھیلی۔ مگر آشرم کے پورے علاقے میں زندگی بالکل نارمل تھی۔ یہاں ہولی کا کوئی نشان نہ تھا۔ شانتی گری آشرم کے گروجی ہندو دھرم پر کھلی تنقید کرتے ہیں۔ وہ ہندو شخصیتوں، کرشن اور رام وغیرہ کا نام لے کر ان پر تنقید کرتے ہیں۔ اس کے باوجود ہزاروں ہندو ان کے زبردست معتقد ہیں۔ ہندو ازم عجیب وغریب مذہب ہے۔
گروجی کے فلسفہ کا خلاصہ یہ ہے: فلکیاتی نظام اور انسان کے تعامل (interaction) سے شخصیتیں بنتی ہیں۔ رام کرشن اور مننو وغیرہ چھٹے آسمان تک پہنچے۔ محمدنبی ساتویں آسمان تک پہنچے۔ مگر اس کے صرف تین ماہ بعد وہ مرگئے۔ اس لئے وہ آگے نہ جاسکے، وغیرہ۔ میںنے پوچھا کہ ان باتوں کا ماخذ کیا ہے۔ مجھے بتایاگیا کہ ان باتوں کا ماخذ کوئی کتاب نہیں ہے بلکہ روحانی فقیر ان کو انسپریشن (inspiration) کے ذریعہ معلوم کرتے ہیں۔ ’’محمد نبی آگے نہ بڑھ سکے‘‘ یہ سب speculation ہے۔ اس کی تاریخی یا سائنٹفک بنیاد نہیں ہے۔
صوفیوں نے بھی اسی طرح قیاس کے ذریعہ بے بنیاد باتیں کہی ہیں۔ گروجی کاکہنا ہے کہ آٹھویں آسمان کے اوپر اور بہت سے آسمان ہیں۔ میںنے سوال کیا کہ گروجی اپنے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ ان کے ایک شاگرد(disciple) نے جواب دیا کہ گروجی کو خدا نے بہت کچھ دکھایا ہے۔ انہوں نے اس کو لوگوں کو بتایا۔گروجی کا کہنا ہے کہ انسانی دنیااور فلکیاتی دنیا ایک دوسرے پر منحصر ہیں۔ دونوں ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
آشرم سے واپسی میں ہم لوگ ڈاکٹر گوپی ناتھ کے مکان میں تھوڑی دیر کے لئے ٹھہرے۔ اس وقت میری آنکھوں سے مسلسل آنسو جاری تھے۔ کئی لوگ وہاں موجود تھے۔ لوگ چاہتے تھے کہ میںکچھ کہوں۔ مگر میں جذبات سے اتنازیادہ مغلوب تھا کہ میںکچھ نہ بول سکا۔ میں سوچ رہا تھا کہ موجودہ زمانہ اتنا زیادہ مختلف زمانہ ہے کہ آج شاید ایک شخص صرف ’مہدی‘‘ بن سکتا ہے وہ ’’ہادی‘‘ نہیں بن سکتا۔ میرے دل میںانسانیت کی تڑپ طوفان بن کر ہلچل برپا کئے ہوئے تھی۔ مگر سمجھ میں نہیں آتا کہ آج کے انسان کو کس طرح خدا سے ملایا جائے۔ آج کے انسان کو کس طرح خدا کا پیغام پہنچایا جائے۔
موجودہ زمانہ میںغیر مسلم تو کیا، مسلمان بھی سچائی سے آخری حد تک دو رہیں۔ ہر آدمی مادیات میں گم ہے۔ ربانیات کی نہ کسی کو معرفت ہے اور نہ کسی کو سننے کی فرصت۔
ڈاکٹر گوپی ناتھ نے اپنے گھر میںایک میز پر طرح طرح کے کھانے کی چیزیں اور مشروب رکھے مگر میں نہ کھا سکا اورنہ کچھ پی سکا۔ میری آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ کاش میرے پاس طاقت ہوتی اور میں انسانوں کے اجتماع میں داخل ہو کر امریکی سائنس داں کی طرح مائک چھین لیتا اور چلّا کر کہتا کہ :
Stop everything, I want to inform you the law of universe.
وہ لوگ بھی کیسے عجیب ہوں گے جوہادی بننے کے دعویدار ہوں حالانکہ وہ مہدی بھی نہ ہوں۔ جو معلم بنے ہوئے ہوں حالانکہ وہ متعلم بھی نہ ہوں۔ جو اپنے کو پانے والے کے روپ میں ظاہر کرتے ہوں حالانکہ وہ ڈھونڈنے والے بھی نہ ہوں۔ جو خدا کو جاننے کے دعویدار ہوںحالانکہ انہوں نے اپنے آپ کو بھی نہ جانا ہو۔
آشرم سے ٹریونڈرم ائر پورٹ آتے ہوئے ایک صاحب نے کہا: یہاں ٹریفککا نظام بہت اچھا ہے۔
Here the traffic is well-disciplined.
دہلی سے بالکل مختلف، جہاں کی سڑکوں پر چلتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے گویا یہاں ٹریفک کاکوئی قانون نہیں۔
راستہ میں کاجو کے باغات تھے۔ کیرلا میں نقدی اجناس (cash corps)کثرت سے ہیں۔ یہ قدرتی اعتبار سے ایک دولت مند ریاست ہے۔ مگر اس کی نسبت سے بڑی صنعتیں یہاںکم ہیں۔
۲ مارچ کی سہ پہر کو آشرم سے چل کر ٹریونڈرم ائر پورٹ پہنچا۔ تعمیری اعتبار سے ایک معمولی قسم کا ائر پورٹ نظر آیا۔ ہندستان ایک دولت مند ملک ہے۔ مگر اس کی دولت چند خاندانوں میںسمٹی ہوئی ہے۔ نام نہاد سوشلسٹ نظام نے دولت کے اس سمٹاؤ میں صرف اضافہ کیا ہے۔ کیسا عجیب ہے یہ واقعہ۔ جان ماتھن (John Mathan) شانتی گری آشرم میںاول سے آخر تک میرے ساتھ رہے۔ وہ میرے مددگار تھے مگر ان سے میں نے بہت کچھ سیکھا۔
ایک صاحب جو اس موقع پر یہاں آئے تھے اور اب واپس جارہے تھے، ان سے میں نے پوچھا کہ اتنے لوگ جو یہاں آئے ہیں ان کا مشترک سبب کیا ہے۔ انہوں نے کہا frustration ۔
ایک صاحب نے بتایا کہ مجھ پر جن سوار تھا۔ وہ اس مقصد کے لیے یہاں آئے۔ وہ آدمی جرمنی میںتھا۔ اس کا بھائی جرمنی آیا، اس کے اوپر جن سوار تھا۔ بھائی وہاں آیا اورگرو سے کہا۔ گرو نے یہیں سے دھیان کرکے جن کو ہٹا دیا۔
میرا خیال ہے کہ ہندو گرو اور مسلمان بزرگ دونوں کے یہاں جو بھیڑ ہوتی ہے اُس کا سبب مشترک طورپر ’’برکت‘‘ کا پر اسرار تصور ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ بزرگ یا گرو کی برکت سے میرا فلاں مسئلہ حل ہوجائے گا۔بہت سے لوگ بتاتے ہیں کہ ان کا مسئلہ حل ہوگیا۔ ایسا واقعہ ہمیشہ اتفاقی ہوتا ہے۔ یعنی ایک ہونے والے واقعہ کو غلط طورپر کسی گرو یا بزرگ سے منسوب کردینا۔ یہ عین وہی چیز ہے جس کو سائنس میں لا آف چانس کہا جاتا ہے۔
ٹریونڈرم سے انڈین ائر لائنز کی فلائٹ کے ذریعہ ٹریونڈرم سے بمبئی کے لئے ساڑھے چار بجے روانگی ہوئی۔ جہاز جب بلند ہو کر فضا میں اڑنے لگا تو مجھے ایک عجیب خیال آیا۔ جہاز زمین پر کھڑا ہو تو وہ کھڑا رہ سکتا ہے۔ مگر جب اڑ رہا ہو تو اس کو مسلسل حرکت میں اڑتے رہنا ہے۔ وہ سفر کے دوران کہیں مقام نہیں کرسکتا۔ یہ زمینی سفر اور فضائی سفر کے درمیان فرق کا معاملہ ہے۔
یہی معاملہ زندگی کے سفر کا بھی ہے۔ زندگی کے سفر میں آپ ٹھہر نہیں سکتے۔ اگر ٹھہرے تو اس
کے بعدجو چیز آپ کے حصہ میںآئے گی وہ سفر کو کھونا ہوگا،نہ کہ سفر کا جاری رہنا۔
واپس اوپر جائیں

Wednesday, 1 January 2003

Al Risala | January 2003 (الرسالہ،جنوری)

2

- غم کو دعا میں ڈھالنا

3

- اہل جنت کے درجات

6

- پختگی کیا ہے

8

- حفاظت کیجئے

10

- رشی کیش کا سفر

39

- خبرنامہ اسلامی مرکز۱۵۶


غم کو دعا میں ڈھالنا

قرآن کی سورہ نمبر ۱۲ میں حضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ بیان ہوا ہے۔ اُن کے سو تیلے بھائیوں کے غلط سلوک کی وجہ سے وہ وقت آیاجب کہ حضرت یوسف کے والد حضرت یعقوب بظاہر اپنے دو عزیز بیٹوں سے محروم ہوگئے۔ اس حادثہ کے وقت حضرت یعقوب علیہ السلام کی زبان سے یہ دعائیہ کلمہنکلا: انما أشکوا بثّی وحزنی الی اللہ (یوسف ۸۶) یعنی میںاپنی پریشانی اور اپنے غم کا شکوہ صرف اللہ سے کرتا ہوں۔
پیغمبر کی زبان سے نکلے ہوئے یہ الفاظ ایک اہم حقیقت کو بتاتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ مومن جب کسی غم سے دوچار ہوتا ہے تو وہ عام انسان کی طرح آہ اور فریاد میں مبتلا نہیں ہوتا بلکہ اس کا ایمانی شعور اُس کے غم کو دعا میں ڈھال دیتا ہے۔ وہ اللہ کی طرف رجوع ہو کر اُس سے التجا کرنے لگتا ہے کہ وہ اُس کے کھونے کو یافت میں بدل دے، وہ اُس کی محرومی کی حسن تلافی فرمائے۔
کسی انسان کے ساتھ جب غم اورمحرومی کا تجربہ پیش آتا ہے تو اُس وقت اُس کے لیے رد عمل کی دو صورتیں ہوتی ہیں۔ ایک ہے، انسانوں کی طرف دیکھنا،اور دوسرا ہے ،خدا کی طرف دیکھنا۔ جو لوگ حادثہ کے وقت انسان کی طرف دیکھیں وہ صرف یہ کرتے ہیں کہ انسان کے خلاف فریاد و فغاں میں مبتلا ہوجائیں۔ مگر جس شخص کا یہ حال ہو کہ وہ اس قسم کے تجربہ کے بعد خدا کو یاد کرنے لگے، وہ چھیننے والے کے بجائے دینے والے کو اپنا مرکزِ توجہ بنالے گا۔ اُس کا ذہن مایوسی کے بجائے اُمید کا آشیانہ بن جائے گا۔
دعا ایک طاقت ہے۔ نازک وقتوں میں دعا مومن کا سب سے بڑا سہارا ہے۔ دعا اس اعتماد کا سرچشمہ ہے کہ اس دنیا میںکوئی کھونا آخری نہیں، بلکہ ہر کھونے میںاز سرِ نو پانے کا راز چھپا ہوا ہے۔
ہر آدمی کی زندگی میں ایسے لمحات آتے ہیں جب کہ وہ اپنے آپ کو بے بس محسوس کرتا ہے۔ ایسے لمحات میں خدا سے دعا کرنا آدمی کے دل کو سکون بخشتا ہے۔ دعا گویا کسی آدمی کے لئے کرائسس مینیجمنٹ (crisis management) کا بہترین ذریعہ ہے۔
واپس اوپر جائیں

اہل جنت کے درجات

قرآن میںجنت کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے کہ لوگو، دوڑو اپنے رب کی معافی کی طرف اور ایسی جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان اور زمین کی وسعت کے برابر ہے۔ (الحدید ۲۱) دوسری جگہ اہل جنت کی زبان سے یہ خبر دی گئی ہے کہ—اوروہ کہیں گے کہ شکر ہے اُس اللہ کا جس نے ہمارے ساتھ اپنا وعدہ سچ کر دکھایا اور ہم کواس زمین کا وارث بنادیا۔ ہم جنت میںجہاں چاہیں مقام کریں۔ پس کیا خوب بدلہ ہے عمل کرنے والوں کا (الزمر ۷۴)
قرآن کے اس بیان سے اندازہ ہوتاہے کہ جنت ایک ایسی دنیا ہوگی جو تمام جنتیوں کے لیے کھلی ہوئی ہوگی۔ کوئی جنتی انسان اس وسیع دنیا میں جہاں چاہے گا اپنا مبوّأ (اقامت گاہ) بنا سکے گا۔ اقامت یا سکونت کے اعتبار سے ہرجنتی کو یکساں آزادی حاصل ہوگی۔
دوسری آیتوں اورحدیثوں سے یہ ثابت ہے کہ جنت میں فرق مراتب ہوگا۔ کچھ جنتی افراد دوسرے جنتیوں کے مقابلہ میںزیادہ اونچی جنت کے مالک ہوں گے۔ مثلاً قرآن کے مطابق، اُن میں سے کچھ سابق ہوں گے اور کچھ مقتصد (فاطر ۳۲) اب سوال یہ ہے کہ یہ فرق مراتب کس اعتبار سے ہوگا۔ غور کرنے سے یہ سمجھ میںآتا ہے کہ یہ فرق استمتاع (enjoyment) کے اعتبار سے ہوگا۔ جنت اپنے ظواہر کے اعتبار سے غالباً ہر ایک کے لیے یکساں ہوگی مگر جنت کی نعمتوں سے محظوظ ہونے کا جو معاملہ ہے، وہ ہر ایک کے لیے یکساں نہ ہوگا۔ کسی کو جنت کی نعمتوں سے زیادہ حظّ ملے گا اورکسی کو نسبتاً کم۔
محظوظیت کا یہ فرق معرفت یا شعور کے فرق کی بنیاد پر ہوگا۔ دنیا کی زندگی میں جو شخص شعور یا معرفت کے جس درجہ پر پہنچا ہوگا اُسی درجہ کے برابر وہ جنت کی نعمتوں سے محظوظ ہوسکے گا۔ گویا مکانی اعتبار سے جنت کے تمام افراد یکساں طورپر اقامت میں شریک ہوں گے، مگر جو شخص شعوری اعتبار سے ارتقاء کے جس درجہ پر ہوگا اُسی نسبت سے وہ جنت کی نعمتوں سے متمتع ہوسکے گا۔
اس معاملہ کو سمجھنے کے لیے ایک حدیث کا مطالعہ کیجئے۔ محدث البیہقی نے ایک روایت ان الفاظ میں نقل کی ہے: ان عبداللہ بن رواحۃ قال لصاحب لہ: تعال حتی نؤمن ساعۃً، قال: أو لسنا بمؤمنین؟ قال: بلیٰ ولکنا نذکر اللہ فنزداد ایماناً (حیاۃ الصحابۃ، الجزء الثالث، صفحہ ۱۳)۔ یعنی عبداللہ ابن رواحہ صحابی نے اپنے ایک ساتھی سے کہا کہ آؤ، ہم ایک ساعت کے لیے ایمان لائیں۔ ساتھی نے کہا کہ کیا ہم مومن نہیں ہیں؟ ابن رواحہ نے کہا کہ ہاں، مگر جب ہم اللہ کو یاد کرتے ہیں تو ہم اپنے ایمان میںاضافہ کرتے ہیں۔
اس روایت سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک انسان وہ ہے جو کلمۂ توحید کا اقرار کرنے کے بعد یہ سمجھے کہ وہ صاحب ایمان ہوگیا، جو ایمان اُس کو ملنا تھا وہ اُسے مل گیا۔ ایمان یا عقیدہ کے اعتبار سے اب اُسے کچھ اور پانا نہیں ہے۔ اس کے مقابلہ میںدوسرا انسان وہ ہے جو بار بار اللہ کو یاد کرے، وہ اللہ پر غور و فکر کرے۔ اور اس طرح وہ اپنی معرفت ایمانی کو بڑھاتا رہے۔ اُس کا ایمان مسلسل شعوری ترقی کرتا رہے۔
اس مثال سے اندازہ ہوتا ہے کہ اصحاب ایمان میں معرفت کے اعتبار سے درجات ہوتے ہیں۔ کوئی اعلیٰ معرفت کے درجہ پر ہوتا ہے اورکوئی اُس سے کم معرفت کے درجہ پر۔ معرفتِ حق کا یہ فرق جنت میں استمتاع کے اعتبار سے فرق پیدا کردے گا۔
ایک مومن وہ ہے جس نے قرآن میں الحمد للہ رب العٰلمین پڑھا تو اُس نے کسی شک اورتردد کے بغیر اس حقیقت کو مان لیا۔ اُس نے یقین (conviction) کے درجہ میں اُس کو قبول کرلیا۔ قرآن کا دوسرا قاری وہ ہے کہ جب اُس نے الحمد للہ رب العٰلمین پڑھا تو اس آیت میں تخلیق الٰہی کے ایسے گہرے معانی اُس کے ذہن میں تازہ ہوگئے کہ اُس کے اندر اہتزاز (thrill) کی کیفیت پیدا ہوگئی۔ وہ حمد خداوندی کے جذبہ سے سرشار ہوگیا۔
اسی طرح ایک مومن وہ ہے جس کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جائے تو وہ اُس کو ایک سچائی مان کر اُس کو قبول کرلے۔ مثلاً چھینک آنے پرایک شخص اگر کہے کہ:الحمد للّٰہ، تو اُس کو سن کر اُس کی زبان پر یہ کلمہ آجائے کہ یرحمک اللہ۔ اس کے مقابلہ میں دوسرا مومن وہ ہے جس کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جائے تو اپنی بڑھی ہوئی معرفت کی بنا پر اُس کا یہ حال ہوکہ اللہ کی عظمت کے احساس سے اُس کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں۔ اللہ کی کبریائی کو سوچ کر اُس کا دل دہل اُٹھے، جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے: انما المؤمنون الذین اذا ذکر اللہ وجلت قلوبہم (الانفال ۲)۔
اسی طرح ایک مومن وہ ہے جس نے قرآن میںیہ آیت پڑھی: والذی ہو یُطعِمنی ویَسقین (الشعراء ۷۹)۔ اُس نے اس آیت کو اُس کے ظاہری مفہوم کے اعتبار سے لیا اور اُس کی زبان پر شکر کے الفاظ آگئے۔ دوسرا مومن وہ ہے جو اس آیت کو پڑھے تو اُس کے ذہن میںحقائق کاایک دفتر کھل جائے۔ وہ سوچے کہ زمین وآسمان کے اندر بے شمار سرگرمیاں ظہور میں آئیں۔ اُس کے بعد یہ ممکن ہوا کہ وہ چیز بن کر تیار ہوجس کو ہم کھانا اور پانی کہتے ہیں اور جو زندگی کی بقا کے لیے لازمی طورپر ضروری ہے۔ یہ سوچ کر اُس کے سینے میںکمالاتِ خداوندی کے اعتراف کا ایک سمندر موجزن ہوجائے۔ حتیٰ کہ یہ احساس اُس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی شکل میں بہہ پڑے۔
یہ دونوں ہی مومن حمد خدا وندی کے احساس کے حامل ہیں۔ مگر معرفت کے فرق کے اعتبار سے دونوں کے درمیان اتنا زیادہ فرق پیدا ہوگیا ہے کہ اُس کو لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں۔
قرآن وحدیث سے ثابت ہے کہ جو لوگ سچے دل کے ساتھ ایمان لائیں، جن کی نیتیں درست ہوں۔ جو بقدر استطاعت اللہ کے احکام کی پابندی کریں وہ جنت میں جائیں گے۔ مگر یہ ایمان کا ابتدائی درجہ ہے۔ ایمان کا اعلیٰ درجہ وہ ہے جو معرفت کے سفر کے ساتھ ترقی کرتا رہتا ہے۔ جو ربّانی سمندر میں فکری غوطہ لگانے سے حاصل ہوتا ہے۔ اس میںشک نہیں کہ دونوں قسم کے اصحابِ ایمان کے لیے جنت ہے۔ مگر جنت کی نعمتوں سے محظوظ ہونے کے معاملہ میںایک مومن اوردوسرے مومن کے درمیان وہی فرق ہوجائے گا جو دنیا میںمعرفت حق کے اعتبار سے دونوں کے درمیان پایا جاتا تھا۔
واپس اوپر جائیں

پختگی کیا ہے

پختگی یہ ہے کہ آدمی اپنے غصہ پر قابو پالے اور اختلافات کو تشدد اور تخریب کے بغیر دور کرسکے۔ پختگی تحمل اور برداشت کا نام ہے اور اس صلاحیت کا کہ وقتی خوشی کو دیر طلب مقاصد کے لیے قربان کردیا جائے۔ پختگی اس استعداد کا نام ہے کہ کسی تلخی کے بغیر، ناخوش گوار اور مایوس کن حالات کا مقابلہ کیاجائے۔ پختگی انکساری کا نام ہے۔ ایک پختہ شخص یہ کہنے کا حوصلہ رکھتا ہے کہ ’’میں غلطی پر تھا‘‘۔ پختگی اس صلاحیت کا نام ہے کہ آدمی ان چیزوں کے ساتھ پُر امن طورپر رہ سکے جن کو وہ بدل نہیں سکتا۔
Maturity is the ability to control anger, and settle differences without violence or destruction. Maturity is patience, the willingness to give up immediate pleasure in favour of the long-term gain. Maturity is the capacity to face unpleasantness and disappointment without becoming bitter. Maturity is humility. A mature person is able to say, “I was wrong”. Maturity is the ability to live in peace with things we can not change.
پختگی در اصل حقیقت واقعہ کے اعتراف کا دوسرا نام ہے۔ وہ ساری صفتیں جن کو پختگی کہا جاتا ہے وہ سب حقیقت واقعہ کے اعتراف سے پیدا ہوتی ہیں۔ حقیقت واقعہ کے اعتراف کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اس بات کو جانے کہ کہاں اس کی حد ختم ہوتی ہے اور کہاں سے دوسری طاقتوں کی حد شروع ہوجاتی ہے۔ وہ کیا چیز ہے جو فطرت کے قانون کے مطابق، اُس کے لیے ممکن ہے۔ اور وہ کیا چیز ہے جو فطرت کے قانون کے مطابق، اس کے لیے ممکن نہیں۔حقیقتِ واقعہ کا اعتراف آدمی کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ اقدام سے پہلے اُس کے انجام کو سوچے، وہ اپنے عمل کی نتیجہ خیز منصوبہ بندی کرے۔
حقیقت واقعہ کا اعتراف آدمی کے اندر یہ بصیرت پیدا کرتا ہے کہ وہ ایک چیز اور دوسری چیز کے درمیان فرق کرے۔ وہ یہ جانے کہ کیا چیز اُس کے لیے قابلِ حصول ہے اور کیا چیز اُس کے لیے قابل حصول نہیں۔ پختہ انسان ہمیشہ کامیاب ہوتا ہے اور بالفرض اگر وہ کسی معاملہ میںکامیاب نہ ہو تو وہ اپنی ناکامی سے سبق لے کر اپنے آپ کو زیادہ صاحب بصیرت بنا لیتاہے، اور اسی کے ساتھ زیادہ طاقتوربھی۔ پختگی کسی انسان کی نہایت اعلیٰ صفت ہے۔
پختہ (mature) کی تعریف ڈکشنری میںاس طرح کی گئی ہے—ایک وجود جس کا نشو ونما پوری طرح ہوا ہو، وہ اپنی ترقی کے کمال تک پہنچا ہو:
A being full-grown, or fully developed.
ایک درخت کی پختگی یہ ہے کہ وہ ابتدائی درجہ سے شروع ہو کر پھول اور پھل کے آخری درجہ تک پہنچ جائے، وہ ہر اعتبار سے ایک مکمل درخت بن جائے۔ اسی طرح انسان کی پختگی یہ ہے کہ وہ اپنی عقلی صلاحیت کے اعتبار سے آخری درجۂ کمال تک پہنچ جائے۔
تاہم انسان کی پختگی کا تعلق صرف حیاتیات یا نفسیات سے نہیں ہے بلکہ اُس کا گہرا تعلق علم سے ہے۔ جو آدمی اپنے علم کو بڑھائے، جوتجربات سے سبق سیکھے، جو دنیا سے معرفت کا رزق لے کر اپنے ذہنی وجودکو مکمل کرے، وہ گویا پختگی کے اعلیٰ مرتبہ تک پہنچا۔
پختہ انسان صاحبِ بصیرت انسان ہوتا ہے۔ پختہ انسان اس حیثیت میں ہوتا ہے کہ وہ معاملات میں صحیح رائے قائم کرے۔ غیر پختہ انسان خوش فہمیوں میں جیتا ہے اور پختہ انسان حقائق میں۔ غیر پختہ انسان جذباتی فیصلہ کرتا ہے اور پختہ انسان جذبات سے اوپر اٹھ کر اپنی رائے بناتا ہے۔ غیر پختہ انسان کا اقدام جلد بازی کا اقدام ہوتا ہے اور پختہ انسان کا اقدام سوچا سمجھا ہوا اقدام۔ غیرپختہ انسان کا طریقہ لڑائی بھڑائی کا طریقہ ہوتا ہے اور پختہ انسان کا طریقہ صبر اور تحمل کا طریقہ۔ غیرپختہ انسان متشددانہ طریقِ کار میںیقین رکھتا ہے اور پختہ انسان پُر امن طریقِ کار میں۔
غیر پختہ انسان اپنی غلطی کا اعتراف نہیں کرتا۔ وہ اپنی غلطی سے کوئی سبق نہیں سیکھتا۔ اس کے برعکس پختہ انسان جب کوئی غلطی کرتا ہے تو فوراً ہی وہ کھلے دل سے اس کا اعتراف کرلیتا ہے۔ غلطی کا یہ اعتراف اُس کے لیے اس بات کی ضمانت بن جاتا ہے کہ وہ ہر تجربہ سے سبق سیکھے۔ وہ اپنی شخصیت کو بہتر سے بہتر بناتا رہے۔ اُس کا ذہنی ارتقاء کسی رکاوٹ کے بغیر مسلسل جاری رہے۔
واپس اوپر جائیں

حفاظت کیجئے

سفید کپڑے پر کوئی دھبہ لگ جائے تو آدمی فوراً اُس کو دھو کر صاف کرتا ہے۔ کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ اگر فوراً اُس کو صاف نہ کیا تو بعد کو دھبہ نہیں مٹے گا اور اس کا کپڑا مستقل طورپر داغ دار ہوجائے گا۔
ایسا ہی کچھ معاملہ آدمی کے ذہن کا ہے۔ سماج میںرہتے ہوئے بار بار آدمی کے ذہن میں کوئی نہ کوئی بری بات آتی رہتی ہے۔ مثلاً انتقام کاجذبہ، حسد کا جذبہ، دشمنی کا جذبہ، شکایت کا جذبہ، نفرت کا جذبہ، وغیرہ۔ اس قسم کے جذبات اور احساسات بار بار ہر مرد اور ہر عورت کے ذہن میں صبح و شام آتے رہتے ہیں۔ وہ آدمی کو منفی احساسات میںمبتلا کرتے رہتے ہیں۔
ایسا ہر تجربہ گویا ایک قسم کا نفسیاتی دھبّہ ہے۔ وہ آدمی کے نفسیاتی وجود کو داغ دار کرنے کا ایک واقعہ ہے۔ ان نفسیاتی دھبوں کے لیے بھی آدمی کووہی کرنا ہے جو وہ مادی دھبوں کے لیے کرتا ہے۔ ہر عورت اور مرد کو چاہئے کہ جیسے ہی اس قسم کا کوئی دھبّہ اُس کے نفسیاتی وجود پر لگے تو فوراً وہ اس کو اپنے دل ودماغ سے نکال دے۔ وہ کوئی نہ کوئی توجیہہ کرکے فوراً اپنے آپ کو اس کے زیراثر آنے سے بچالے۔ جو مرد یا عورت ایسا نہ کرے اُس کو ایسا نہ کرنے کی یہ بھاری قیمت دینی پڑے گی کہ وہ نفسیاتی دھبّہ اُس کے وجود کا مستقل حصہ بن جائے گا۔ وہ اُس کی داخلی شخصیت کو ہمیشہ کے لیے داغ دار کر دے گا۔
جدید نفسیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان کے دماغ کے دو بڑے حصے ہیں۔ ایک زندہ ذہن اور دوسرا خفتہ ذہن۔ فطری نظام کے تحت ایسا ہوتا ہے کہ جب کوئی بات آدمی کے ذہن میںداخل ہوتی ہے تو پہلے دن وہ اُس کے زندہ ذہن میں رہتی ہے۔ اس کے بعد آدمی جب رات کو سوتا ہے تو نیند کی حالت میںانسانی دماغ کا فطری نظام اس بات کو زندہ ذہن سے نکال کر خفتہ ذہن میں پہنچا دیتا ہے۔ اور جب ایسا ہوجائے تو پھر وہ بات آدمی کے پورے وجود کا حصہ بن جاتی ہے۔ اُس کو ذہن سے نکالنا بے حد مشکل ہوجاتا ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ عام طورپر عورت اور مرد دوسروں کے بارے میں شکایتوں اور تلخیوں میں جیتے ہیں۔ ہر ایک کسی نہ کسی کے خلاف منفی نفسیات کا شکار رہتا ہے۔ مگر عین اسی وقت وہی مرد اور عورت اپنے بیٹا اوراپنی بیٹی کے لیے ہمیشہ مثبت احساسات کا نمونہ بنے رہتے ہیں۔ حالاں کہ ہر مردو عورت کو اپنے اولاد سے بھی اسی طرح شکایات کے تجربے ہوتے ہیں جس طرح دوسروں سے ہوتے ہیں۔ مگر تجربہ بتاتا ہے کہ شکایتوں کے باوجود لوگ اپنی اولاد کے معاملہ میں ہمیشہ معتدل بنے رہتے ہیں۔ جب کہ یہی لوگ دوسروں کے بارہ میں معمولی شکایتوں کو لے کر اُس کے خلاف ہمیشہ کے لیے نفرت میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
اس فرق کا سبب یہ ہے کہ لوگ ان دونوں کے معاملہ میں دو الگ الگ انداز اختیارکرتے ہیں۔ اُن کو جب اپنی اولاد کی طرف سے شکایت کا تجربہ ہوتا ہے تو اُسی وقت وہ کوئی نہ کوئی توجیہہ کرکے اُس کو ختم کردیتے ہیں۔ اپنی اولاد کے خلاف شکایت کو وہ اپنے ذہن سے فوراً نکال دیتے ہیں۔ اس کے برعکس جب اُن کو دوسروں سے کوئی شکایت پیش آجائے تو وہ اُس کو اپنے ذہن میں بٹھا لیتے ہیں۔ وہ اُس کو یاد کرتے رہتے ہیں۔ وہ لوگوں سے اس کا چرچا کرتے ہیں۔ وہ کسی نہ کسی بہانے ہر روز اُس کو اپنے ذہن میں تازہ کرتے رہتے ہیں۔
اسی فرق کی بنا پر ایسا ہے کہ اپنی اولاد کے خلاف شکایتیں اُن کے وجود کا حصہ نہیں بنتیں، وہ پیدا ہوتے ہی فوراً ختم ہو جاتی ہیں۔ اس کے برعکس دوسروں کے خلاف شکایتیں ہمیشہ کے لیے ان کے وجود کا حصہ بن جاتی ہیں، وہ کسی طرح ختم نہیںہوتیں۔
یہ ذاتی تجربہ ہر آدمی کو بتاتا ہے کہ اُس کو دوسروں کے معاملہ میں کیساہونا چاہئے۔ اُس کو ویسا ہی ہونا چاہئے جیسا کہ وہ اپنے بیٹے اور بیٹی کے معاملہ میں ہے—جب بھی کسی کے خلاف کوئی منفی احساس پیدا ہو تو وہ فوراً ہی اس کو اپنے ذہن سے نکال دے۔ کسی بھی حال میںوہ اُس کو اپنے ذہن کا مستقل حصہ نہ بننے دے۔
واپس اوپر جائیں

رشی کیش کا سفر

رشی کیش میںپرمارتھ نکیتن کے نام سے ایک انٹرنیشنل ہندو سنٹر ہے۔ اس کی شاخیں بہت سے ملکوں میںقائم ہیں۔ ۲۔۳جون ۲۰۰۲ کو اس سنٹر کے تحت ایک بڑا پروگرام ہوا جس میںملک کے اندراور ملک کے باہر کے لوگ بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔ اس کی دعوت پر رشی کیش کا سفر ہوا۔ یکم جون ۲۰۰۲ کو روانگی ہوئی اور ۴ جون کو دوبارہ دہلی واپس آیا۔
یکم جون ۲۰۰۲ کی صبح کو ۶ بجے ہمارا قافلہ دہلی سے روانہ ہوا۔ جب ہماری گاڑی دہلی کی سڑکوں پر چلتے ہوئے یوپی میںداخل ہوئی تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ بظاہر آپ ایک مادی سفر کررہے ہیںلیکن اگر آپ سوچیں تو آپ کا یہ سفر ایک روحانی سفر بن جائے گا۔ میںنے کہا کہ یہ کار کیا ہے۔ کار جامد مادہ (dead matter) کا متحرک مادہ (moving matter) کی صورت اختیار کرنا ہے۔ دوسرے لفظوں میں، یہ ایک تبدیلی (conversion) کا معاملہ ہے۔ یہ کنورژن ہماری دنیا کا ایک عالمی اصول ہے۔ ایک کنورژن وہ ہے جو فطری طورپر ہوتا ہے۔ مثلاً ناقابل خوراک (non-edible) چیز کا بدل کر قابل خوراک (edible) چیز کی صورت اختیار کرنا۔ دوسرا کنورژن وہ ہے جس کو انسان قانون فطرت کے استعمال کے ذریعہ کرتا ہے۔ کار اور ہوائی جہاز اور موبائل ٹیلی فون جیسی چیزیں، اسی دوسری قسم کے کنورژن کی مثالیں ہیں۔
سفر کے دوران ہمارے ایک ساتھی نے بتایا کہ رشی کیش اس وقت ہندو روحانیت کا عالمی سنٹر بن گیا ہے۔ اس سلسلہ میں انہوں نے بتایا کہ کناڈا کا ایک سیاح رشی کیش گیا۔ واپسی کے بعد اس نے اپنے مشاہدات پر مبنی ایک رپورٹ تیارکر کے شائع کی جس کا عنوان یہ تھا:
A week spent in the flakes of Shankara.
اس رپورٹ میںسیاح نے لکھا تھا کہ رشی کیش اس وقت ہندو سوامیوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ بیشتر سوامی کسی نہ کسی طور پر رشی کیش سے وابستہ ہیں۔ ان کے شاگرد نہ صرف ہندستان میںبلکہ بیرونی ملکوں میں بھی پھیلے ہوئے ہیں۔ اس لیے سوامیوں کے پاس ہر وقت موبائل ٹیلی فون موجود رہتا ہے۔ اکثر کے پاس انٹرنیشنل رومنگ ہوتا ہے۔ دور دور کے علاقوں میں پھیلے ہوئے ان کے شاگرد اپنے مسائل کے لئے اُن سے رجوع کرتے رہتے ہیں۔ مثلاً بیماری، تجارتی گھاٹا، حادثہ وغیرہ۔ سوامی لوگ موبائل اپنے کان میں لگائے ہوئے اپنے شاگردوں کو ان کے سوالات کاجواب دیتے رہتے ہیں۔ اس سلسلہ میں اس نے لکھا تھا کہ ٹکنالوجی آج روحانیت کی ایک شدید ضرورت ہے:
Technology is most wanted by spirituality.
ہماری گاڑی چلتے ہوئے ایک ریستوران میں داخل ہوئی۔ یہ ایک وسیع اور خوبصورت ریستوران تھا۔ اس کے وسیع احاطہ میں کثرت سے گاڑیاں کھڑی ہوئی تھیں۔ کھتولی کے قریب واقع اس ریستوران کا نام چیتل گرانڈ (Cheetal Grand) ہے۔ اس ریستوران کا مالک ایک مسلمان ہے۔ مجھے اس ریستوران کے بارے میں پہلے سے معلوم تھا۔ چنانچہ میںنے لوگوں کو بتایا کہ اس مسلمان کے اندر دوسروں کے لیے ایک قابل تقلید مثال ہے۔ وہ اس علاقہ میںگویا ایک ٹرنڈ سٹر (trend setter) بن گیا ہے۔
دہلی سے نینی تال جانے والی سڑک پر بیس سال پہلے مسافروں کے لیے بہت معمولی قسم کے ہوٹل ہوتے تھے جس کو ڈھابہ کہا جاتا تھا۔ چیتل گرانڈ کے مالک نے پہلی بار مغربی انداز پر یہاں مسافروں کی سہولت کے لیے وہ چیز بنائی جو مغرب کے ترقی یافتہ ملکوں میں پہلے سے قائم تھی۔ بیس سال پہلے اس قسم کا جدید ریستوران صرف یہی ایک تھا۔ لوگ دہلی سے یہ سوچ کر چلتے تھے کہ راستہ میں اُنہیں چیتل گرانڈ میں ٹھہرنا ہے اور وہاں کھانا پینا ہے اور ضروریات سے فارغ ہونا ہے۔ اس کا اثر دوسروں پر پڑا ۔ ہر ایک نے اپنے ڈھابا کو ماڈرنائز کرنا شروع کردیا۔ چنانچہ راستہ میں میں نے کئی جگہ اسی انداز کے دوسرے ریستوران دیکھے۔ اگرچہ اپنی کوالٹی کے اعتبار سے چیتل گرانڈ اب بھی اس راستہ میں غالباً نمبر ایک ہے۔
ہماری گاڑی اندر پال چلارہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ میں چالیس سال سے گاڑی چلا رہا ہوں۔ میںنے پوچھا کہ آپ کی گاڑی کا کبھی اکسیڈنٹ ہوا یا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ میںنے پوچھا کہ اس کا راز کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں رفتار کی حد (speed limit) کے اندر اپنی گاڑی چلاتا ہوں۔ کسی کا دباؤ ہو تب بھی میںاپنی گاڑی کو تیز نہیں چلاتا۔ مثلاً کوئی پیچھے سے ہارن دے رہا ہو یا بیٹھی ہوئی سواری تیز دوڑانے کو کہے تب بھی میں حد کے اندر رہ کر اپنی گاڑی کو چلاتا ہوں۔ میں نے سوچا کہ یہی قومی پالیسی کا معاملہ بھی ہے۔ ہمیں اپنی قومی پالیسی خود اپنے مثبت فیصلہ کے تحت چلانا چاہئے، نہ کہ دوسروں کے ردّ عمل کے طورپر۔ مثلاً فریقِ ثانی اگر مشتعل کرے تب بھی ہمیں مشتعل ہوئے بغیر اپنا عمل جاری رکھنا چاہئے۔
اس گفتگو کے دوران ہمارے ایک ساتھی خالد انصاری نے ایک انگریزی مقولہ سنایا —تیز رفتاری بہت اچھی لگتی ہے مگر وہ ہلاک کرتی ہے:
Speed thrills but kills.
راستہ میں کئی جگہ گاڑیاں الٹی ہوئی پڑی تھیں۔ اس قسم کے حادثے ان سڑکوں پر اکثر ہوتے رہتے ہیں۔ ان حادثات کے اسباب زیادہ تر دو ہوتے ہیں—شراب پی کر گاڑی چلانا یا غیر ذمہ دارانہ طورپر گاڑی دوڑانا۔
اس موقع پر ہمارے ایک ساتھی نے بتایا کہ ان کے گھر کی ایک خاتون ڈرائیونگ لائسنس لینا چاہتی تھیں۔وہ دہلی میں ٹسٹ دینے کے لیے گئیں۔ ان کے بیچ میں۱۰ آدمی تھے۔ ٹسٹ کے بعد ۸ آدمیوں کو ڈرائیونگ لائسنس دے دیا گیا۔خاتون نے کہا کہ میںنے ان لوگوں سے اچھا چلایا تھا پھر تم نے مجھ کو لائسنس کیوں نہیں دیا۔ جواب دینے والے نے جواب دیا کہ ہماراآج کا کوٹہ ۸ لائسنس کا تھا وہ پورا ہوگیا۔ آپ کل آئیں تو ہم پہلے نمبر پر آپ کو لائسنس دے دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ انڈیا میں، خاص طورپر دہلی میں، اتنے زیاد ہ اکسیڈنٹ ہونے کا سبب یہ ہے کہ لوگوں کو ’’کوٹہ سسٹم‘‘ کی بنیاد پر لائسنس دئے جاتے ہیں، نہ کہ واقعی معنوں میں ٹریننگ کی بنیاد پر۔
اس طرح کی باتوں میں راستہ طے ہوتا رہا، یہاں تک کہ چھ گھنٹہ کا سفر کرنے کے بعد ہم لوگ دو پہر کے وقت پرمارتھ نکیتن پہنچے۔ یہاں کے آشرم میں تقریباً ایک ہزار کمرے ہیں۔ مجھے یہاں کمرہ نمبر ۲۱۵ میں ٹھہرایا گیا۔
سب سے پہلے میںنے غسل کیا ۔ اس کے بعد ہم لوگوں کو دوپہر کا کھانا کھلایا گیا۔ کھانا بالکل سادہ تھا، اسی کے ساتھ وہ صحت بخش اور زود ہضم تھا۔ قدیم تصور کے مطابق، کھانا صرف دو مقصد کے لیے ہوتا تھا—لذت اور شکم سیری۔ مگر موجودہ سائنسی زمانہ میں دو اور تصور زیادہ اہم سمجھے جانے لگے ہیں۔ اوروہ ہیں متوازن خوراک (balanced diet)اور غذائی اجزاء (nutritive value) کا حامل ہونا۔
رشی کیش ہندو دھرم کے بڑے مرکزوں میں سے ایک مرکز ہے۔ یہاں کاموجودہ پروگرام ایک ایسا پروگرام تھا جس میں ہندو دھرم کے بڑے بڑے نمائندے شریک ہورہے تھے۔ یہاں ہندو مذہب کا ایک مکمل مظاہرہ متوقع تھا۔ اس لیے میں بعض دوسرے پروگراموں کو کینسل کرکے رشی کیش آیا تا کہ ہندو مذہب کو قریب سے دیکھ سکوں اور اس کے بارے میں براہ راست معلومات حاصل کروں۔
یکم جون کی شام کو مغرب کے بعد افتتاحی پروگرام تھا۔ میںجس آشرم میں ٹھہرا تھا وہ گنگا کے عین کنارے تھا۔ یہاں گنگا کے اندر کشتیوں کی مدد سے بہت بڑا پلیٹ فارم بنایا گیا تھا۔ چاروں طرف دور دور تک روشنیاںجگمگاتی ہوئی نظر آتی تھیں۔ ممتاز ہندو رہنما گنگا کے کنارے مخصوص نشستوں پر بیٹھے ہوئے ـتھے۔ فضا میں لاؤڈاسپیکر پر گائے جانے والے بھجن کی آواز گونج رہی تھی۔ اس بھجن کا ایک حصہ جو بار بار دہرایا جارہا تھا وہ یہ تھا۔ میّا گنگا تم ہی داتا۔
ایک طرف یہ الفاظ فضا میں گونج رہے تھے اور دوسری طرف میں یہ دیکھ رہا تھا کہ گنگا ہمالیہ پہاڑ سے اتر کر تیزی کے ساتھ میدانی علاقے کی طرف بہہ رہی تھی۔ چوں کہ یہاں گنگا ڈھلوان پر ہوتی ہے اس لیے یہاں اس کا بہاؤ بہت تیز ہوتا ہے۔ اس کا مسلسل بہتا ہوا پانی اپنی پر شور آواز کے ساتھ گویا یہ کہہ رہاتھا کہ وہ کسی کی طرف سے مسخر کیا ہوا ہے۔ وہ ایک برتر طاقت کے حکم کے تحت ہے۔ ایک طرف ہزاروں لوگ گنگاکی پوجا کے لیے ہاتھ جوڑے اس کے سامنے کھڑے ہوئے تھے اور دوسری طرف خود گنگا اپنے پورے وجود کے ساتھ اپنی پر شور موجوں کے ذریعہ یہ اعلان کررہی تھی کہ میں ایک عاجز مخلوق ہوں۔ معبود کوئی دوسرا ہے، نہ کہ میں۔ میں نے غور سے دیکھا تو یہاں گنگا کاپانی ویسا صاف و شفاف نہ تھا جیسا کہ وہ ہمالیہ کی چوٹی پر ہوتا ہے۔ بلکہ وہ ایک گدلے پانی کی صورت اختیار کرچکا تھا۔ مجھے یاد آیا کہ چند مہینہ پہلے میںسوئزرلینڈ گیا تھا۔ سوئزرلینڈ کو جھیلوں کا ملک سمجھا جاتا ہے۔ میںنے دیکھا کہ وہاں کی جھیلوںکا پانی صاف و شفاف اپنی اصلی حالت میں تھا۔ یہ ایک بڑا عجیب منظر تھا۔ اس فرق کا سبب یہ ہے کہ سوئزرلینڈ کے لوگ اپنی جھیلوں کی صفائی کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں۔ اس کے برعکس گنگا کاحال یہ ہے کہ ہر قسم کی گندگی اس میں بہا دی جاتی ہے۔
ایک ہندو نے گفتگو کے دوران کہا کہ گنگا کے بارے میں ہندو عقیدہ یہ ہے کہ اس میں نہانے سے ہر قسم کے پاپ دھل جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ کوئی شخص جرم کرکے آئے اور گنگا میں ڈبکی لگالے تو وہ اپنے جرم سے پاک صاف ہوجائے گا۔ میں نے پوچھا کہ کیا آپ یہاں اشنان کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ نہیں۔ انہوںنے کہا کہ گنگا کے ساحل پر آباد شہروں اور بستیوں کی گندگی مسلسل بہہ کر گنگا کے پانی میںشامل ہوتی رہتی ہے۔ اس وجہ سے گنگا کے پانی کی کثافت (pollution) اتنا بڑھ گئی ہے کہ اب بہت سے ہندو اس میں نہانا پسند نہیں کرتے۔ کیوں کہ گنگا کا پانی اب آلودگی پیدا کرنے کا ذریعہ ہے، نہ کہ پاک کرنے کا ذریعہ۔
میں نے سوچا کہ پانی کا جو ذخیرہ اپنی صفائی کے لئے خود ہی دوسرے انسانوں کا محتاج ہو پھر وہ کسی انسان کی کیا مدد کر سکتا ہے۔ سوئزرلینڈ اور ہندستان کا یہ فرق گویا ایک مشاہداتی ثبوت ہے کہ پانی ایک مجبور مخلوق ہے، وہ کوئی با اختیار ہستی نہیں۔
یکم جنوری کی شام کو گنگا پوجا کے مناظر دیکھنے کے بعد گنگا کے کنارے ہم لوگ ایک سجے ہوئے مقام پر لے جائے گئے۔ اس کو روشنیوں اور رنگین کپڑوں سے مزین کیاگیا تھا۔یہاں کھانے کا انتظام میز کرسی پر تھا۔ کھانے کے دوران کچھ تعلیم یافتہ ہندو میرے پاس آکر بیٹھ گئے۔ ایک صاحب جو انگریزی اخبار کے کالمنِسٹ ہیں،انہوں نے کہا کہ میں سچائی اور روحانیت(spirituality) میں یقین رکھتا ہوں۔ میںنے ہر مذہب کا مطالعہ کیا ہے۔ اسلام کے بارے میں آپ کی کچھ کتابیں پڑھی ہیں۔
میںنے پوچھا کہ آپ سچائی کی تعریف کس طرح کرتے ہیں اور یہ کہ اس کی کیا پہچان ہے کہ کسی کو سچائی مل گئی۔ وہ غیر مربوط انداز میں دیر تک بولتے رہے مگر کوئی واضح بات نہ بتا سکے۔ میںنے کہا کہ آپ متعین اور محدد(specific) الفاظ میں میرے سوال کا جواب دیں۔ مگر کافی دیر تک سننے کے باوجود میںان کی تقریر سے اپنے سوال کا واضح جواب نہ پاسکا۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ سچائی ایک ذاتی تجربہ (experience) کی بات ہے، اس کو لفظوں میںبیان نہیں کیا جاسکتا۔
پنجاب سے آئی ہوئی ایک خاتون پروفیسر بھی کھانے کی میز پر موجود تھیں۔ گفتگو کے دوران انہوں نے کہا کہ گنگا میا میری ہر ضرورت کو پوری کر دیتی ہیں۔ جب بھی میںان کو پکارتی ہوں میں ان کو موجود پاتی ہوں۔ میںنے ان سے کہا کہ اس سلسلہ میں آپ اپنا کوئی عملی تجربہ بتائیں۔ انہوں نے کہا، ایسے بہت تجربات ہیں۔ کافی اصرار کے بعد انہوں نے ایک تجربہ بتایا۔
انہوں نے کہا کہ رشی کیش کے اس پروگرام میںمیںآنا چاہتی تھی۔ میںاس کے لئے بہت زیادہ خواہش مند تھی۔ میں نے اپنے شوہر سے اپنی اس خواہش کے بارے میں کچھ نہیں بتایا اس لئے کہ میں جانتی تھی کہ وہ انویٹیشن (دعوت نامہ) کے بغیر کہیں نہیں جاتے۔
میرے مَن میں یہ تھا کہ گنگا میا انویٹیشن بھیج دیں تومیرا کام بن جائے۔ اگلے دن صبح کی ڈاک سے مجھے انویٹیشن مل گیا، اس طرح میں یہاں پہنچ گئی۔
میںنے کہا کہ اب آپ میری مثال لیجئے ۔ مجھے یہاں کے پروگرام کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہ تھا اور نہ میں نے اس میں شرکت کی خواہش کی تھی۔ مگر اپنے آپ مجھے اس کا انویٹیشن مل گیا۔ اب یہ بتائیے کہ اگر آپ کا انویٹیشن گنگا میا نے بھیجا تو میرا انویٹیشن کس نے بھجوایا۔ میرے اس سوال کا وہ کوئی جواب نہ دے سکیں۔
ایک اور تعلیم یافتہ ہندو نے گفتگو کے دوران کہا کہ میں اس طرح کے مندروں اور مذہبی مقامات پر بہت زیادہ گیا ہوں۔ اب میںان لوگوں سے کہتا ہوں کہ بھگوان کے مندر بہت بن چکے اب انسان کا مندر بناؤ۔ مندر کے نام پر جھگڑے بھی بہت ہورہے ہیں۔ انسان کے مندر میں کوئی جھگڑا نہ ہوگا۔ انسان کے مندر سے ان کی مراد یہ تھی کہ ایجوکیشن اور اسپتال جیسے سوشل کام بڑے پیمانہ پر کئے جائیں۔
اس طرح کی گفتگوؤں سے میںنے سمجھا کہ برادران وطن کی بہت بڑی تعداد ہے جو ہندوازم کے موجودہ روایتی ڈھانچہ سے غیر مطمئن ہے۔ اس کی فطرت اس کے سوا کچھ اور چاہتی ہے۔ مگر اس ’’کچھ اور‘‘ کا کوئی واضح نقشہ اس کے سامنے نہیں۔
رشی کیش کے آشرم میں ہر طرف مختلف ہندو بت نصب کیے ہوئے تھے۔ اسی کے ساتھ لاؤڈ اسپیکر پر ہر وقت ہندو روایات کے مطابق، سنسکرت کے منتر یا بھجن سنائی دیتے رہتے تھے۔ یہاں ایک ضخیم انسائیکلوپیڈیا آف ہندو ازم بھی تیار کی جارہی ہے۔ اس کے ایڈیٹوریل بورڈ میں ۱۲ ہندستانی اور۱۲ بیرونی ہندو پروفیسر شامل ہیں۔ ڈاکٹر شیشا گری راؤ اس کے ہیڈ ہیں۔ میں نے اس انسائیکلو پیڈیا کے کچھ حصوں کو دیکھا۔ مجھے یہ انسائیکلو پیڈیا بظاہر انسائیکلوپیڈیا آف ہندو ازم کے بجائے انسائیکلوپیڈیا آف ہندو مائتھا لوجی نظر آئی۔ مثلاً اس میںبتایا گیا ہے کہ گنگا ایک دیوتا کی جٹا سے نکلی ۔ اس قسم کی افسانوی باتوں سے یہ انسائیکلو پیڈیا بھری ہوئی ہے۔ ’’انسائیکلو پیڈیا‘‘ کا لفظ علمی اور تاریخی معلومات کے لئے ہوتا ہے، نہ کہ افسانوی معلومات کے لیے۔ مگر موجودہ زمانہ میں ہر مذہب میںمختلف پہلوؤں سے اس قسم کا غیر علمی انداز عام ہورہا ہے۔ ایسا انداز عقیدت مندوں کو خوش کرسکتا ہے مگر وہ جدید ذہن کو مطمئن کرنے والا نہیں۔
یہاں کثرت سے اس قسم کے تجربات اور مشاہدات ہوئے۔ میںنے سوچا کہ برادران وطن سیکڑوں سال سے توہماتی عقائد اور روایات میں پھنسے ہوئے ہیں۔ مگر مسلمان ان کی ہدایت کے لئے نہیں تڑپے۔ ان کی خیر خواہی نے انہیں بے چین نہیںکیا۔ خود ہندوؤں میں ایسے لوگ اٹھے جنہوں نے محدود طورپر اصلاح کی کوششیں کیں۔ مثلاً کبیر نے اس سلسلہ میں بہت سی باتیں کہیں۔ ان کا ایک شعر یہ ہے:
ماتھے تِلک ہاتھ مَلبانا
لوگن رام کھلونا جانا
آریہ سماج کی تحریک بھی اسی نوعیت کی ایک ادھوری تحریک تھی۔ گرونانک کی تحریک اپنی اصل نوعیت کے اعتبار سے غیر خداؤں کی پرستش کے بجائے ایک خدا کی پرستش کاپیغام تھا۔ اقبال نے گرونانک کے بارے میں یہ شعر کہاتھا:
نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا
میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے
مسلمانوں کے پاس محفوظ آسمانی کتاب کی صورت میں کامل سچائی موجود تھی مگر مسلمان برادران وطن کی اصلاح کے لئے کچھ نہ کرسکے۔ رشی کیش میں گفتگو کے دوران بہت سے ہندوؤں نے مجھ سے اسلام کے مطالعہ کی خواہش ظاہر کی۔ میں سمجھتا ہوں کہ کسی حقیقی اصلاحی کوشش کے لئے گہری خیرخواہی درکار ہوتی ہے۔ وہ خیر خواہی جو شکایتوں کے باوجود نہ ٹوٹے، بیٹے کے ساتھ ماں کی محبت کی طرح جو ہر حال میں قائم رہے۔ بد قسمتی سے مسلمانوں کے اندر برادران وطن کے لئے اس قسم کی خیرخواہی موجود نہ تھی۔ مسلم سلطنت کے دور میںوہ ہندوؤں کو کمتر سمجھتے رہے اور ۱۹۴۷ کے بعد وہ ہندوؤں سے اپنے سینہ میں نفرت اور شکایت لئے ہوئے ہیں۔ اور جو لوگ اس طرح کی نفسیات میںمبتلا ہوں وہ کبھی اصلاح و دعوت کاکوئی گہرا کام نہیں کرسکتے۔
۱۹۴۷ سے پہلے کے دور میں مسلم صوفیوں نے ضرور کچھ مفید کام کئے مگر جہاں تک مسلم علماء کا تعلق ہے، وہ اس سلسلہ میںکوئی قابل قدر خدمت انجام نہ دے سکے۔ کچھ لوگوں نے ہندستان کو دارالحرب بتا کر مسلمانوں کے اندر منفی نفسیات پیدا کیں۔کچھ لوگوں نے ہندوؤں کے ’’مسلم ملچھ‘‘ کے تصور کا مقابلہ کرنے کے لیے ’’ہندو کافر‘‘کا نظریہ پھیلایا۔ کچھ لوگوں نے بت شکنی کے نام پر ایسے کام کئے جو اپنے نتیجہ کے اعتبار سے صرف دل شکنی کے ہم معنٰی تھے۔
حال میںپاکستان نے اس فرقہ وارانہ تناؤ کو آخری حد تک پہنچا دیا ہے۔ اس نے اپنے سیاسی مقاصد کے لئے ہندو نفرت کا عالمی کارخانہ کھول دیا۔ اُس نے ہندستان کے خلاف اپنی قومی جنگ کو اسلامی جہاد کا نام دیا۔ اسی معاملہ کی ایک مثال یہ ہے کہ اس نے ہندستان سے امکانی جنگ کا مقابلہ کرنے کے لئے کچھ میزائل بنائے تو ان کے نام غوری میزائل، غزنوی میزائل اور ابدالی میزائل رکھ دئے۔ یہ نام بلاشبہہ سخت اشتعال انگیز ہیں ۔ مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ ساری مسلم دنیا میںکوئی بھی عالم یا غیر عالم نہیں جو پاکستانی رہنماؤں سے یہ کہے کہ تم اپنی قومی لڑائی کو انتہائی ناعاقبت اندیشانہ طورپر یہ مجرمانہ رنگ دے رہے ہو کہ ہندوؤں کی مسلم نفرت یا اسلام نفرت اس حد تک بڑھ جائے کہ وہ معتدل ذہن کے ساتھ اسلام کے پیغام کو سننے کے قابل ہی نہ رہیں۔ مجھے یاد آتا ہے کہ میرے بچپن کے زمانہ میں کچھ علماء نے ’’تبلیغ‘‘ کے نام پر مناظرہ بازی کی مہم شروع کر رکھی تھی۔حالانکہ اس قسم کی مہم کو تبلیغ کے بجائے اینٹی تبلیغ کہنا زیادہ صحیح ہوگا۔
مثلاً ایک مناظر عالم کو جوش آیا۔ انہوں نے ایک کتاب تیار کی جس کانام انہوں نے ’’کفر توڑ‘‘ رکھا ۔ اس کے جواب میںایک ہندو مناظر نے کتاب شائع کی جس کا نام تھا ’’کفر توڑ کا بھانڈا پھوڑ‘‘۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کہ اردو زبان عمومی طورپر ہندواور مسلمان دونوں کی مشترک زبان تھی۔ گویا داعی اور مدعو کے درمیان وہ لسانی بعد (language gap) موجود نہ تھا جو آج پایا جاتا ہے۔ مگر اس سنہری زمانہ کو خیر خواہانہ دعوت کے بجائے مناظرہ بازی کے لیے استعمال کیا گیا جو صرف یہ کرسکتا تھا کہ برادران وطن کو متنفر کرکے انہیں اسلام سے کچھ اور دور کردے۔ اس قسم کی کوششوں نے یہی کارنامہ انجام دیا۔
ایک تعلیم یافتہ ہندو نے کہا: ’’اسلام ہندو ازم کی ایک شاخ ہے۔ ہندو ازم اصل ہے اور اسلام اور دوسرے مذاہب اس کی برانچ‘‘۔ میںنے کہا کہ اس معاملہ میںاصل سوال یہ نہیں ہے کہ کون اصل ہے اور کون برانچ۔ بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ مختلف مذاہب میں کو ن سا مذہب زیادہ مستند اور قابل اعتماد ہے۔
۲ جون کی صبح کو ناشتہ پر مسٹر پرکاش ہندوجا اوران کے ساتھی سے ملاقات ہوئی۔ ہندوجا برادرس کا کاروبار اتنا بڑا ہے کہ کہا جاتا ہے کہ ۵۰ برلا اکٹھا کئے جائیں تو ایک ہندوجا بنتا ہے۔ ان سے تقریباً ایک گھنٹہ گفتگو ہوئی۔ مگر عجیب بات ہے کہ میرے کسی بھی سوال کا منطقی جواب ان کے پاس نہ تھا۔ وہ ہر سوال کے جواب میںایک غیر متعلق بات کہہ دیا کرتے تھے۔ چنانچہ گفتگو کسی نتیجہ پر نہ پہنچی۔ مثلاً میں نے کہا کہ آپ اسلام کو سمجھنے کے لیے خود اسلام کو دیکھئے، نہ کہ موجودہ مسلمانوں کو۔ مگر یہ فرق ان کی سمجھ میں نہیں آیا۔
میںنے اپنے تجربہ میںاکثر یہ پایا ہے کہ جو لوگ کسی مادی شعبہ میں بہت زیادہ کامیاب ہوتے ہیں وہ اپنے مخصوص شعبہ کے علاوہ دوسرے معاملات میں تفکیری انداز سے سوچ نہیں پاتے۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ وہ اپنی ساری فکر ی صلاحیت کو صرف ایک پسندیدہ رخ پر مرتکز کردیتے ہیں۔ اس لئے ایک مخصوص شعبہ میںتو ان کی معلومات بہت زیادہ ہوتی ہیں مگر دوسرے شعبہ میںان کی واقفیت بقدر ضرورت بھی نہیں ہوتی۔
یہاں انگریزی اخبار ہندستان ٹائمس کا شمارہ ۲ جون ۲۰۰۲ دیکھا۔ اس میں ایک سبق آموز رپورٹ تھی۔ یہ رپورٹ اخبار کے ہفتہ وار کالم انٹرویو آف دی ویک (Interview of the Week) کے تحت چھپی تھی۔ مسٹر یشونت راج نے مشہور لیڈر نٹور سنگھ سے انٹرویو کرکے یہ رپورٹ تیار کی۔
اخباروں میں یہ خبر آچکی ہے کہ مسٹر نٹور سنگھ کے یہاں دو زبردست خاندانی حادثے ہوئے۔ ان کی بہو نتاشا نے مارچ ۲۰۰۲ میںاور ان کی بیٹی ریتو نے اپریل ۲۰۰۲ میںخود کشی کر لی۔ یہ مسٹر نٹور سنگھ کے لیے بڑا سخت حادثہ تھا۔ اس کے بعد کانگریس کی صدر مسز سونیا گاندھی ان کے یہاں تعزیت کے لئے گئیں۔ مسز سونیا گاندھی جب وہاں پہنچیں تو اس وقت مسٹر نٹور سنگھ اپنے گھر کے کمرۂ مطالعہ (study) میں تھے۔ یہاں کتابوں سے بھری ہوئی الماریاں ہر طرف دکھائی دیتی تھیں۔
غمزدہ نٹور سنگھ نے رپورٹر سے کہا کہ سونیا گاندھی جب یہاں آئیں تو میںاپنی اسٹڈی میںتھا جہاںتقریباً دس ہزار کتابیں موجودہیں۔ میں نے سونیا سے کہا کہ یہاں ساری دنیا کی حکمت و دانش موجودہے، مختلف ادوار کی حکمت و دانش کا خلاصہ۔ مگر یہاں ایک بھی کتاب ایسی موجود نہیں جس کوپڑھ کر میںتسکین حاصل کرسکوں:
Within an hour of my daughter taking her life, Sonia came to see us. We were in our study upstairs—where I have close to 10,000 books. I told her, here you have the wisdom of the world, wisdom of the ages in concentrated form, but there is not a book I could pick up to console myself. (p. 14)
اسی اخبار میں صفحہ ۱۰ پر ایک اور سبق آموز رپورٹ تھی جس کا عنوان تھا—نصیحت نہ کرو بلکہ تعلیم دو:
Don't preach, just teach.
۲ جون کی صبح کو ۱۰ بجے یہاں کے وسیع ہال میںایک جلسہ تھا۔ اس میں گانے بجانے کے پروگرام کے علاوہ ایک خصوصی پروگرام تھا۔ وہ بھگوت کتھا (کرشن کتھا) کا پروگرام تھا۔ اس پروگرام کو شری کانت ویاس نے کیا۔ وہ بھگوت کتھا کے اکسپرٹ مانے جاتے ہیں۔
اس پروگرام میںمجھے اسٹیج پر بٹھایا گیا تھا۔ہال کے اندر بڑی تعداد میں مرد اور عورتیں موجودتھیں۔ ہر ایک خوشی سے سرشار دکھائی دیتا تھا۔ مگر میرا حال یہ تھا کہ میں شدید غم کی وجہ سے مسلسل رو رہا تھا۔ میں دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کر رہا تھا کہ خدایا، یہ لوگ میرے وطنی بھائی ہیں۔ تو ان کے لئے ہدایت کے دروازے کھول دے، تو ان کو جنت کا مسافر بنا دے۔
ایک بات کو سوچ کر میرا دل ہمیشہ تڑپ اٹھتا ہے۔ ہندستان کے مسلم علماء اور مسلم دانشور عام طورپر یہ شکایت کرتے ہیں کہ یہاں کے مسلمانوں کے ساتھ ظلم اور تعصب کا معاملہ کیا جاتا ہے۔ مگر میرے نزدیک اس ملک میں ہمارے لئے جوسب سے بڑی مصیبت پیدا ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان نفرت اورتناؤ کاماحول قائم ہوگیا ہے۔ اس کی وجہ سے یہ ناممکن ہوگیا ہے کہ معتدل فضا میں کھلی بات چیت (open dialogue) کیا جاسکے۔ مسلمان ایک عالمی مشن کے حامل ہیں۔ اس اعتبار سے سب سے زیادہ قابل لحاظ بات یہ ہے کہ مسلمانوں اور دیگر اقوام کے درمیان آزادانہ ڈائیلاگ کے مواقع موجود ہوں۔ مگر مسلم رہنماؤں اور مسلم دانشوروں کی ناقابل فہم نادانی کی بنا پر سب سے زیادہ ملک میں اس مطلوب چیز کا خاتمہ ہوگیا۔ مسلمانوں کے اوپر لازم ہے کہ وہ یک طرفہ صبر واعراض کے ذریعہ دوبارہ ایسا ماحول قائم کریں۔ اگر وہ ایسا نہ کریں تو مجھے اندیشہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے یہاں قابل معافی نہ ٹھہریں گے، خواہ انہوں نے شاندار مسجدیں بنا رکھی ہوں اور بظاہر ان مسجدوں کو نمازیوں سے بھر دیا ہو۔
شری کانت ویاس کو کتھا کرنے کی خصوصی مہارت حاصل ہے۔ انہوں نے اپنی کتھا میں بہت سی عوام پسند باتیں کہیں۔ انہوں نے کہا کہ چاہ کی دو قسمیں ہیں۔ ایک یہ کہ کرشن کے بنا بھی کام چل سکتاہے۔ اوردوسرا یہ کہ کرشن کے بنا کام ہی نہیں چل سکتا۔ اپنے اس نظریہ کے ثبوت کے لیے انہوں نے ایک مثال دی۔ انہوں نے کہا کہ آپ سبزی لینے کے لیے بازار جائیں۔ آپ کی چاہ یہ تھی کہ آپ پرول لیں گے۔ لیکن اگر بازار میں پرول نہ ہو تو آپ بھنڈی یا کوئی بھی سبزی لے کر واپس آجائیں گے۔ لیکن اگر آپ کے گھر میںایک مریض ہے اور ڈاکٹر کہتا ہے کہ اس کو انار کھلاؤ۔ اب اگر آپ انار لانے کے لیے بازار جائیں اور ایک دکان پر انار نہ ہو توآپ دوسری دکان پر جائیں گے۔ یہاںتک کہ انار حاصل کرنے کے لئے پورا بازار چھان ماریں گے۔
انہوں نے کہا کہ آج کل لکھ پتی اس کو سمجھا جاتا ہے جس کے پاس لاکھ روپیہ ہو او رکروڑ پتی اس کو سمجھا جاتاہے جس کے پاس کروڑ روپیہ ہو۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ لکھ پتی وہ ہے جو لاکھ بار کرشن کا نام لے اور کروڑپتی وہ ہے جوکروڑ بار کرشن کا نام لے۔ میںنے دیکھا کہ مقرر کے اس قسم کے الفاظ کو سن کر حاضرین جوش سے بھر جاتے تھے۔ حالانکہ اگر تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ صرف الفاظ کا کھیل ہے،اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ الفاظ کا یہ کھیل خود مسلمانوں میں بھی اتنا ہی پایا جاتاہے جتنا کہ دوسرے لوگوں میں۔
انہوں نے کہاکہ گیتا میں ایک بہت بڑی بات کہی گئی ہے۔ مہابھارت میں جب ارجن لڑائی کے لئے آگے بڑھنے سے ہچکچا رہے تھے تو کرشن نے ان کو اکساتے ہوئے کہا کہ تم سوچتے ہو کہ میںان زندہ لوگوں کو کیسے ماروں۔ مگر میں تم کو بتاتا ہوں کہ یہ مرتیو نہیں، بلکہ یہ تو چولا بدلنا ہے۔ یہ سن کر میںنے ایک صاحب سے کہا کہ چولا بدلنے کا یہ نظریہ اگر کسی سماج میں عام ہو جائے تو اس سماج کا کیسا عجیب حال ہوگا۔ وہ میری اس بات کو سن کر مسکرا دیے۔
۲ جون کی شام کو خصوصی پروگرام تھا۔ اس پروگرام کے لیے عین گنگا کے اوپر ایک بہت بڑا رنگا رنگ پلیٹ فارم بنایا گیا تھا۔ بہت سی کشتیوں کے اوپر اس پلیٹ فارم کو قائم کیا گیا تھا۔ اس کے اوپر بڑی تعداد میںلوگ خصوصی نشستوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ اس پلیٹ فارم میں ذرا بھی جنبش نہیںتھی۔ معلوم ہوا کہ ماہرتیراکوں کی مدد سے گنگا کی تہہ میں بڑے بڑے پتھر جمائے گئے ہیں۔ ان پتھروں کے اوپر بہت سے کھمبوں کو جمایا گیا اور پھر اس کے اوپر خصوصی تکنیک کے ذریعہ مسطّح منچ سجایا گیا تھا۔ اب تک لوگ گنگا کے ساحل پر گنگا کی پوجا کیا کرتے تھے۔ یہاں جدید تکنیک کو استعمال کرکے ایسا منچ بنایا گیا جس کے نیچے گنگا موجیں مارتی ہوئی بہہ رہی تھی اور اس کے اوپر گنگا پوجاکے پروگرام پر سکون طورپر جاری تھے۔
شام کے پروگرام کے درمیان مغرب کی نماز کا وقت آگیا۔ منچ کے ایک حصہ میں کچھ جگہ خالی تھی۔ یہاں کھڑے ہوکر میں نے مغرب کی نماز پڑھی۔ لوگوں کے بیان کے مطابق،وہاں موجود کیمرہ مین نے میری نماز کا فوٹو بھی لے لیا۔ میرے لئے یہ ایک بڑا عجیب تجربہ تھا۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ جس منچ کے اوپر لوگ گنگا کی پرستش کے لئے اکٹھا ہوئے تھے۔ وہاں میںنے لوگوں کے درمیان کھڑے ہو کر خالق گنگا کی عبادت اور پرستش کا فریضہ انجام دیا۔
شام کے اس پروگرام میں اترانچل کے چیف منسٹر نارائن دت تیواری آکر شریک ہوئے۔ وہ ڈیڑھ گھنٹہ لیٹ آئے۔ ایک دلچسپ بات یہ ہوئی کہ شام کے اس فنکشن میں ۷ بجے گنگا آرتی کا پروگرام تھا جس کو چیف منسٹر انجام دینے والے تھے۔ مگر چیف منسٹر کے لیٹ آنے کی وجہ سے گنگا آرتی کا یہ پروگرام دیر سے ہوا۔ ایک تعلیم یافتہ ہندو نے کہا کہ اس زمانہ میں چیف منسٹر کا درجہ بھگوان سے بھی زیادہ بڑا ہے۔
نارائن دت تیواری نے مہمان خصوصی کی حیثیت سے تقریر کی۔ میںنے پہلی بار ان کی تقریر سنی۔وہ اگرچہ ایک تجربہ کار سیاست داں سمجھے جاتے ہیں۔مگر جہاں تک تقریر کا تعلق ہے، وہ مجھے کوئی اچھے مقرر نظر نہیں آئے۔ انہوں نے اپنی تقریر کے آغاز میں کہا کہ میںیہاں مکھیہ منتری کے روپ میں نہیںآیا ہوں بلکہ میںیہاں مکھیہ سیوک کے روپ میں آیا ہوں۔ انہوں نے اپنی تقریر میںگنگا کے پانی کی صفائی پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہری دوار سے لے کر گنگوتری تک گنگا کی صفائی کے لئے جو بھی پروگرام بنایا جائے گا اس میںاترانچل گورنمنٹ پوری مددکرے گی۔
شام کے پروگرام کے خاتمہ پر عشاء کی نماز باجماعت ادا کی گئی۔ میںنے اس کی امامت کی۔ جماعت میں کل چھ آدمی شریک تھے۔ ان میں سے دو ہندو (آر۔ملہوترا، پی۔ملک) تھے۔ اس قسم کی باجماعت نماز بھی شاید پہلی بار رشی کیش میں پڑھی گئی ہو۔ میرے ساتھ کئی بار ایسا ہوا ہے کہ ہندوؤں نے میرے پیچھے جماعت میں شریک ہو کر نماز پڑھی۔
۲ جون کو شام کا کھانا ایک ایسے مقام پر کھایا گیا جو عین گنگا کے کنارے واقع تھا۔ ہم لوگ ایک میزکے چاروں طرف کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ دوسری طرف گنگا ہلکی موسیقی کے ساتھ مسلسل بہتی ہوئی نظر آتی تھی۔ اس کے آگے دوسری طرف ہمالیہ پہاڑ پھیلا ہوا دکھائی دیتا تھا۔ اور اس کے اوپر کھلا آسمان اور پھر خالص ہوا کے خوشگوار جھونکے۔ یہ ایک آفاقی منظر تھا جو فطرت کے ناقابل بیان کائناتی حُسن کی یاد دلا رہا تھا۔
میں نے ساتھ بیٹھے ہوئے لوگوں کو قرآ ن کی ایک آیت سنائی: یوم تبدل الارض غیر الارض (ابراہیم ۴۸) یعنی جب ارض کو بدل کر غیر ارض کر دیا جائے گا۔ میںنے کہا کہ اس آیت میںتبدیلی سے مراد غالباً وہی چیز ہے جس کو کنورژن (conversion) کہا جاتاہے۔ کنورژن فطرت کا عالمی اصول ہے۔ یہاں ہر چیز کنورژن کے عمل (process) سے گزر کر ارتقا یافتہ صورت اختیار کرتی ہے۔ مثلاً لوہا (ore) بدل کر ایک بامعنٰی انجن بن جاتاہے۔ مٹی اور معدنیات بدل کر خوراک کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ اسی طرح ہماری پوری دنیا آخر میںایک سپر کنورژن (super conversion) کے عمل سے گزرے گی اور پھر وہ زیادہ بہتر اور کامل دنیا وجود میں آئے گی جس کو آخرت کی دنیا کہاگیا ہے۔
مختلف اوقات میں کھانے کی میز پر جن لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں ان میں سے ایک ریٹائرڈ جسٹس گردھر مالوی تھے۔ وہ بنارس ہندو یونیورسٹی کے بانی مدن موہن مالوی کے پوتے ہیں۔ انہوں نے ملاقات کے دوران کئی باتیں بتائیں۔ انہوں نے کہا کہ میرے دادا نے بنارس یونیورسٹی کو ایک قومی یونیورسٹی کے طور پر بنایا تھا۔ وہاں ملک کے ہر اسٹیٹ کے لیے کوٹا مقرر تھا۔ حیدر آباد کا بھی ایک کوٹا تھا۔ چنانچہ حیدر آباد کے طلبہ کے لئے وہاںایک نظام کالونی بنائی گئی تھی جو ابھی تک موجود ہے۔
انہوں نے کئی دلچسپ واقعات بتائے۔ مثلاً انہوں نے بتایا کہ ایک بار مدن موہن مالوی ٹرین میںسفر کررہے تھے۔ ان کے ساتھ محمد علی اور شوکت علی بھی تھے۔ نماز کا وقت آیا تو علی برادران نے نماز پڑھنے میں دیر کی۔ اس پر مدن موہن مالوی نے یاد دلایا کہ آپ کی عبادت کا وقت آگیا اورابھی تک آپ نے نماز نہیں پڑھی۔
اگر آپ مدن موہن مالوی کی تصویر دیکھیں اور اس کے نیچے ان کا نام لکھا ہوا نہ ہو تو آپ یقین نہیں کرسکیں گے کہ یہ کسی ہندو کی تصویر ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ ان کے چہرے پر شاندار داڑھی ہے اور ان کا لباس بھی مسلم لباس ہے۔ اسی لیے ایک اُردو شاعر نے کہا تھا:
ہزار شیخ نے داڑھی بڑھائی سن کی سی مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی
یہ وہ دور تھا جب کہ مسلم کلچر کا غلبہ ملک میں قائم تھا۔ مدن موہن مالوی ایک پنڈت تھے مگر ان کی وضع قطع ایسی تھی کہ ان کو دیکھ کر بظاہر یہ سمجھنا مشکل تھا کہ وہ پنڈت مدن ہیں یا مولوی مدن۔ دوسری زبانوں کے ساتھ وہ عربی اور فارسی زبان بھی جانتے تھے۔
۲ جون کو ایک مجلس میں میں نے سورہ والعصر کی تشریح کی۔ میںنے بتایاکہ قرآن میںانسان کی زندگی کو زمانہ (ٹائم) سے تشبیہہ دی گئی ہے۔ جس طرح ٹائم ہر لمحہ گھٹتا رہتا ہے اسی طرح انسان ہردن اپنی زندگی کی مقرر مدت کو کم کرتا ہوا موت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح برف پگھل کر ہر لمحہ کم ہوتی جارہی ہے۔ دوسرے لفظوں میں، ہر آدمی کا کائونٹ ڈاؤن (count down) ہو رہا ہے۔ ایک آدمی کی کل عمر اگر تقدیر میں دس ہزار دن کی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پیدا ہوتے ہی اس کا کاؤنٹ ڈاؤن شروع ہوگیا۔ یعنی آج اگر اس کی مدت عمر دس ہزار دن تھی تو کل اس کی عمر ۹۹۹۹ دن ہو جائے گی۔ اگلے دن۹۹۹۸ دن اور اس کے بعد ۹۹۹۷ دن، وقس علی ہذا۔
رشی کیش پہلے یوپی کاایک ٹاؤن تھا۔ اب وہ نئی اسٹیٹ اترانچل کا ایک حصہ ہے۔ رشی کیش ہمالیہ کے دامن میںواقع ہے۔ اس کے ایک طرف ہمالیہ کی پھیلی ہوئی چوٹیاں دکھائی دیتی ہیںاور دوسری طرف گنگا کا پانی ہلکی موسیقی کے ساتھ بہتا ہوا نظر آتا ہے۔ یہاں ہر طرف فطرت کا آفاقی ماحول ہے۔ پورا رشی کیش اسی طرح فطرت کی گود میں بسا ہوا ہے۔
یہاں کا پروگرام ہندی زبان میں چھپا ہوا تھا۔ اس میں زیادہ تر سنسکرت کے الفاظ استعمال کئے گئے تھے۔ میرے لیے ان کو سمجھنا مشکل تھا۔ ۲ جون کو مجھے ایک پروگرام میں لے جایا گیا۔ یہاں گنگا کے کنارے مخصوص سجے ہوئے منچ پر گدی کی نشستیں بنی ہوئی تھیں۔ ان گدیوں پر ممتاز مہمان بٹھائے گئے تھے۔ مجھے بھی لے جا کر وہاں ایک گدی پر بٹھا دیا گیا۔ میری تمام تر دلچسپی اس وقت یہ تھی کہ میںیہ جانوں کہ ہندو دھرم کیا ہے اور اس کے رسم و رواج کیا ہیں۔ یہاں پہلے باجے کے ساتھ بھجن گایا گیا۔ دیر تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ اس کے بعد تمام لوگ ایک ایک تھال لے کر کھڑے ہوگئے جس میںکچھ روایتی چیزیں تھیں اور دئے جل رہے تھے۔ لوگوں نے کھڑے ہو کر مخصوص انداز میں اس کو گھمانا شروع کردیا۔ یہ گنگا پوجا کی رسم تھی۔ میں نے سادہ طورپر یہ کیا کہ میںبدستور اپنی جگہ خاموش بیٹھا رہا۔ اس طرح میںنے اپنے منصوبہ کے مطابق، گنگا پوجا کا معائنہ تو کیا مگر میںنے اپنے آپ کو اس میںشرکت سے بچائے رکھا۔
۳ جون کی صبح کو فجر کی نماز کے بعد میںاپنے کمرے سے باہر آیا۔یہاں درختوں کے سایہ میں لمبا پختہ راستہ بناہوا تھا۔ یہاں میں اپنا جوتا اتار کر ننگے پاؤں ٹہلنے لگا۔ تازہ ہوا میں ٹہلنا ایک بے حد فرحت بخش تجربہ ہے۔ اسی کے ساتھ اگر ننگے پاؤں ٹہلنا ہو تو تاثیر اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ پیدل چلنے میں لمسِ فطرت (contact with nature) کاتجربہ ہوتا ہے۔ یہ تجربہ اس وقت نہیں ہوسکتا جب کہ آدمی جوتا اور موزہ پہن کر چل رہا ہو۔
یہاں جین مذہب کے کئی لوگ آئے ہوئے تھے۔ ایک جینی پیشوا جو اپنے منہ پر پتّی لگائے ہوئے تھے ان سے گفتگو ہوئی۔ گفتگو کے دوران انہوں نے کہا کہ میں ان لوگوں سے کہتا ہوں کہ آپ مندر بنانا چھوڑ و، انسان بناؤ۔ میںنے پوچھا کہ انسان بنانے کا فارمولا کیا ہے۔ انہوںنے کہا کہ اپنی خواہشوں (desires) کو ہلاک کرنا۔ انہوں نے بتایاکہ جینی طریقہ کے مطابق، منہ پر پتّی باندھنا اسی باپرہیز زندگی کی ایک علامت ہے۔
میںنے کہا کہ دوسرے لفظوں میں، آپ کا نظریہ سلف کنٹرول کا نظریہ ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ کوئی شخص سلف کنٹرول کیوں کرے۔ کوئی شخص اپنی طاقتور خواہشوں کو کیوں دبائے۔ انسان کو سلف کنٹرول پرآمادہ کرنے کے لیے ایک زیادہ بڑا محرک درکار ہے۔ اس سلسلہ میںمیں نے انہیں اسلام کے نظریۂ جنت سے متعارف کرایا۔
رشی کیش میںایک ادارہ ہے جس کا نام یہ ہے—اسٹریٹیجک مینیجمنٹ سروسز (SMS) ۔ اس کے نمائندے (مسٹر انل نائر اور شیو ساگر چوپڑا) وغیرہ ۳ جون کو میرے کمرے میں آئے اور کہا کہ ہمیں آپ کا ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کرنا ہے۔ وہ ایجوکیشن اور اخلاقی سدھا رکے بارہ میں میرے خیالات ریکارڈ کرنا چاہتے تھے۔ میں نے کہا کہ یہ بلا شبہہ ہمارے دیش کا سب سے زیادہ اہم مسئلہ ہے۔ مگر میں اپنے تجربہ کے مطابق، اس کو نہیں مانتا کہ تعلیمی نصاب کو بدل کر یا ہسٹری کودوبارہ لکھ کر یہ مقصد حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اگر یہ مسئلہ کا حل ہوتا تو اب تک مسئلہ حل ہوچکا ہوتا۔ کیوں کہ ۱۹۴۷ کے بعد ہماری ہر گورنمنٹ اسی مقصد کی بنیاد پر نصاب میں تبدیلی کرتی رہی ہے۔ مگر جیسا کہ آپ جانتے ہیں،اس کا کوئی بھی فائدہ حاصل نہیں ہوا۔ اس کے علاوہ ہمارے ملک میں تعلیمی اصلاح کے نام سے بہت سے ادارے قائم ہیں۔ مثلاً شانتی نکیتن اور گروکل وغیرہ، مگر یہ سب بے نتیجہ رہے۔
اسی طرح انگریزوں کی مثال بھی ہے۔ لارڈ میکالے کی سفارشات کے تحت برٹش گورنمنٹ نے ملک میں ایک ایسا انگریزی تعلیمی نظام جاری کیا جس کے متعلق اُن کا اندازہ یہ تھا کہ ہندستانیوں کے خیالات اس طرح بدل جائیں گے کہ وہ ہمیشہ کے لیے برٹش حکومت کی ماتحتی قبول کرلیں گے۔ مگر اس کا نتیجہ بالکل الٹا نکلا۔ اسی انگریزی نظام تعلیم سے وہ تمام لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے انگریزوں کے خلاف فریڈم موومنٹ کی قیادت کی۔
پھر میںنے کہا کہ میں تعلیم برائے تعلیم (education for the sake of education) کا قائل ہوں۔ میرا نظریہ ہے کہ تعلیم کے نظام کو خالص فنی بنیاد پر چلانا چاہئے۔ جہاںتک اخلاق اور کریکٹر کی بات ہے تو اس کام کے لئے زیادہ موثر طریقہ وہ ہے جس کو غیر رسمی تعلیم (informal education) کہا جاتا ہے۔ ہم خود ۴۰ سال سے اسی کام کو کر رہے ہیں۔ اللہ کے فضل سے ہمارے مشن کے ذریعہ ہزاروں لوگوں کے اندر ذہنی اور اخلاقی انقلاب آیا ہے۔
۳ جون کو ناشتہ اور کھانے کی میز پرکئی لوگوں سے ملنے کا اور گفتگو کرنے کا موقع ملا۔ ہمارے ساتھ نوآدمی تھے۔ ان میں سے ۳ فارنر تھے۔ ان لوگوں کی باتوں سے اندازہ ہو رہا تھا کہ انہیں روحانیت کا وہ تجربہ ہوا ہے جس کو وجد (ecstasy) کہا جاتا ہے۔ میں نے مختلف سوالات کرکے یہ جاننا چاہا کہ وجد کیا ہے۔ مگر وہ لوگ بار بار یہی کہتے رہے کہ وجد ایک اندرونی کیفیت ہے جس کو لفظوں کے ذریعہ بیان نہیں کیا جاسکتا۔ گفتگو کے آخر میں انہوں نے کہا کہ اب آپ بتائیے کہ وجد کیا ہے۔ میںنے کہا کہ اگر آپ لوگ برا نہ مانیں تو میںکہوں گا کہ جو لوگ وجد کی اصطلاح میں روحانیت کی بات کرتے ہیں وہ صرف ایک مصنوعی یا غیر حقیقی تجربہ کو حقیقی سمجھنے کی غلطی کررہے ہیں۔ میں نے قرآن کی آیت والذین آمنوا اشد حبا للہ (البقرہ ۱۶۵)کی روشنی میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اصل یہ ہے کہ ہر آدمی کے اندر فطری طورپر اپنے خالق (خدا ) کے لیے بے پناہ جذبۂ محبت موجود ہوتا ہے۔ ہر آدمی خود اپنی فطرت کے زور پر یہ چاہتا ہے کہ وہ اس مرکزِمحبت کو پالے جس سے وہ اپنے اعلیٰ جذبات کو وابستہ کرسکے۔
موجودہ حالات میں خدا کا تصور لوگوں پر واضح نہیں ہے۔ خاص طور پر آریائی مذاہب (Aryan Religions) میں خدا کا عقیدہ وحدت وجود (monism) کے تصور پر مبنی ہے۔ اس تصور میںخدا ہم سے علیٰحدہ کوئی مستقل وجود نہیں۔ وہ ایک غیر مشخص قسم کا مجرد تصور (abstract idea) ہے۔ اس لئے جولوگ آریائی روایات میں پرورش پاکر نکلے ہیں وہ عملاً ایسے کسی شخصی خدا سے روشناس نہیں ہوتے جس کو وہ اپنا مرکز محبت بنائیں اور اس کے ذریعہ ان کے اندر وجد کی کیفیت پیدا ہو۔ اس لئے وہ خود ساختہ ورزشوں کے ذریعہ اپنی ایک مفروضہ دنیا بناتے ہیں اور اس کو وجد سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان کا وجد حقیقۃً ایک فطر ی حقیقت کا غیر حقیقی انتساب (attribution) ہے، نہ کہ حقیقی مرکز محبت سے مربوط ہونے کے نتیجہ میں پیدا ہونے والا تجربہ۔
ایک تعلیم یافتہ ہندو سے بات کرتے ہوئے اندازہ ہوا کہ ان کے دل میں اسلام کے خلاف سخت نفرت ہے۔ میںنے سنجیدگی کے ساتھ ان سے پوچھا کہ اسلام کے بارہ میں آپ کی وہ کون سی معلومات ہیں جن کی وجہ سے آپ کے دل میں اُس کے خلاف منفی جذبات پیدا ہوئے۔ انہوں نے چند باتیں بتائیں۔ مثلاً محمود غزنوی نے سومناتھ کے مندر کو لوٹا۔ بابر نے انڈیا پر حملہ کیا۔ اورنگ زیب نے ہندوؤں کے خلاف جنگ کی۔ہندستان میں جبر کے ذریعہ اسلام پھیلایا گیا۔
میں نے کہا کہ آپ کو اسلام اور مسلمانوں کے درمیان فرق کرنا چاہئے ۔ اس کے بعد ہی آپ اس معاملہ میںمنصفانہ رائے قائم کرسکیں گے۔ میںنے کہا کہ محمود غزنوی کا مندر کے سونے کو لوٹنا اسلام کے نزدیک بھی اتنا ہی غلط تھا جتنا کہ وہ آپ کے نزدیک غلط ہے۔ اسی طرح بابر کے حملہ کا کوئی تعلق اسلام سے نہیں۔ اسلام کے نقطۂ نظر سے بابر کو یا اور کسی مسلمان کو پر امن پیغام لے کر ہندستان میں داخل ہونا چاہئے تھا، نہ کہ تلوار لے کر۔ اسی طرح اورنگ زیب نے جو کچھ کیا اس کا بھی اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ جہاں تک جبری کنورژن کا تعلق ہے تو یہ صرف ایک الزام ہے اس کا کوئی تاریخی ثبوت موجود نہیں۔ خود ہندو اسکالر س نے تسلیم کیا ہے کہ ہندستان میںاسلام کی اشاعت پر امن طورپر ہوئی ہے، نہ کہ جبر اور تشدد کے ذریعہ۔
رشی کیش میں جن لوگوں سے ملاقات ہوئی اُن میںسے ایک قابلِ ذکر شخص مسٹر ترلوچن سنگھ تھے۔ وہ نیشنل کمیشن فار مائینارٹیز کے وائس چئر مین ہیں۔ وہ دہلی میں رہتے ہیں۔ (Tel.: off-4690809, Res- 3384664) ۔ وہ مجھ کو میری تحریروں سے جانتے تھے۔ گفتگو کے دوران اندازہ ہوا کہ وہ ایک سمجھ دار اور حقیقت پسند آدمی ہیں اور اپنے موجودہ عہدہ کے لیے پوری طرح موزوں ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ انڈیا میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تناؤ کی جو حالت ہے وہ گویا ایک قسم کی سرد جنگ (cold war) ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ اس فرقہ وارانہ مسئلہ کا صرف ایک ہی مؤثر حل ہے، اور وہ دونوں فرقوں کے درمیان سوشیلائیزیشن(socialization) ہے۔ ضرورت ہے کہ دونوں کے درمیان ملنے جلنے کے مواقع کو زیادہ سے زیادہ بڑھایا جائے۔ ملنا جلنا اپنے آپ اس مسئلہ کا حل بن جائے گا۔
ایک اور بات اُنہوں نے یہ کہی کہ دونوں فرقوں کے صرف نرم دَل والے لوگ اگر ملیں تو اس سے مطلوب فائدہ حاصل ہونے والا نہیں۔ ضرورت ہے کہ دونوں طرف کے گرم دَل کے لوگ باہم ملیں اور تعلقات کو بڑھائیں۔ اُنہوں نے کہا کہ دونوں طرف کے انتہا پسندوں کو مل کر بیٹھنا چاہئے:
Extremists should sit.
کانفرنس کے رسمی اجتماعات میں شرکت کے علاوہ بہت سے لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ ایک ملاقات میںخدا کے وجود کا تذکرہ ہوا۔ ایک تعلیم یافتہ ہندو نے کہا: خدا کہیں باہر نہیں، وہ تو خود ہمارے اندر موجود ہے۔ میںنے کہا کہ بہت سے لوگ اس طرح کی باتیں کرتے ہیں مگر اس نظریہ کے حق میں کوئی علمی دلیل موجود نہیں۔ ’’خدا انسان کے اندر ہے‘‘ صرف ایک لفظی بیان ہے، وہ کوئی مدلّل بیان (reasoned statement) نہیں۔
اصل یہ ہے کہ اس معاملہ میں ہندو ازم ایک گہرے تضاد کا شکار ہے۔ ہندو ازم کا عقیدہ یہ ہے کہ انسان خدا کا ایک اَنش ہے۔ اس عقیدہ کو ادوئت واد کہتے ہیں۔ انسان اگر خدا کا جزء ہے توانسان کے اندر خدا والی صفت ہونی چاہئے، مثلاً تخلیق کی قدرت ۔مگر کسی بھی دلیل سے اس کا ثبوت نہیںملتا۔ اس نظریہ کو ثابت کرنے کے لیے قطرہ اور سمندر کی مثال دی جاتی ہے۔ مگر جیسا کہ معلوم ہے، قطرہ میں سمندر کے سارے اوصاف موجود ہیں جب کہ انسان میںکوئی بھی خدائی صفت موجود نہیں۔
اس فکری تضاد کو رفع کرنے کے لیے ہندوؤں میں دوسرا عقیدہ پیدا ہوا جس کو دوئت واد کہا جاتا ہے، یعنی خدا الگ ہے اور انسان الگ۔ اس نظریہ کی حامی ایک ممتاز شخصیت مادھو چاریہ کی ہے۔ اگرچہ ہندوؤں میں شنکر آچاریہ کا ادوئت واد زیادہ مقبول ہوا اور مادھو چاریہ کا دوئت واد زیادہ مقبول نہ ہوسکا۔
ایک تعلیم یافتہ ہندو سے خدا کے عقیدہ پر گفتگو ہوئی۔ اُنہوں نے کہا کہ ہمارا ماننا یہ ہے کہ خدا انسان کے اندر ہے، خدا انسان کے باہر نہیںجس کو کہیں اور تلاش کرنے کی ضرورت ہو۔ میںنے کہا کہ خدا کی موجودگی کا احساس ضرور انسان کے اندر ہے۔ مگر خدا کی ذات ہمارے وجود کے باہر ہے، نہ کہ ہمارے اندر۔ اُنہوں نے کہا کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔ جب خدا کا احساس ہمارے اندر موجود ہے تو یہی اس بات کا ثبوت ہے کہ خدا ہمارے اندر ہے، اُس کو باہر ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں۔
میں نے کہا کہ خدا کا احساس اندر ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ باہر موجود نہ ہو۔ اُنہوں نے کہا کہ ایسا کیوں کر ہوسکتا ہے۔ میںنے کہا کہ یہ توہر انسان کا عام تجربہ ہے۔ ہر شخص یہ جانتا ہے کہ پیاس ہمارے اندر موجود ہے، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ خود پانی بھی ہمارے اندر موجود ہے۔ ہر آدمی کا ذاتی تجربہ ہے کہ پیاس اگر چہ ہمارے اندر ہے مگر پانی ہم سے الگ اپنا مستقل وجود رکھتا ہے۔ آپ لوگ احساس خداوندی کو وجود خداوندی کے مفہوممیں لے رہے ہیں۔ میری یہ بات سن کر وہ کچھ دیر چُپ رہے اور کہا کہ میںاپنے گرو سے پوچھ کر کل آپ کو بتاؤں گا۔ لیکن اگلے دن اُن سے ملاقات نہ ہوسکی۔
رشی کیش کا یہ اجتماع بہت بڑے پیمانہ پر کیا گیا تھا۔ اس میں نہ صرف ملک کے بلکہ دوسرے ملکوں کے ہندو نمائندے شریک ہوئے۔ تین دن تک ہر طرف زبردست مذہبی دھوم نظر آئی—بھجن، مذہبی سنگیت، کرشن کتھا، گنگا پوجا، طرح طرح کی مذہبی رسمیں، وغیرہ۔
میںنے سوچا کہ کیا یہ حقیقی معنوں میں مذہبی دھوم ہے۔ میرے دل نے کہا کہ نہیں۔ کیوں کہ یہاں ظاہری ہنگامے توکافی تھے مگر مذہب کی حقیقی روح نظر نہ آئی۔ ایک بوڑھے ہندو نے درد کے ساتھ کہا کہ یہاں آکرمجھے زیادہ خوشی نہیںہوئی۔ رنگ برنگ کے یہ پروگرام مجھے صرف تام جھام دکھائی دیتے ہیں۔ مذہب کی اصل اسپرٹ کا کہیں پتہ نہیں۔
میں نے مزید سوچا تو مجھے محسوس ہوا کہ یہ سب مذہب نہیںہے بلکہ کلچر ہے۔ خود مسلمانوں کا حال بھی تقریباً یہی ہے۔ آج کل مسلمانوں میں مذہب کے نام پر کافی دھوم دکھائی دیتی ہے۔ مگر یہ سب اپنی حقیقت کے اعتبار سے کلچرل اسلام کے مظاہر ہیں، نہ کہ ربّانی اسلام کے مظاہر۔ ربّانی اسلام وہ ہے جس میں معرفت کی گہرائی ہو۔ جس میں سچائی کا اعتراف ہو۔ جس میں خوف خدا کا غلبہ ہو۔ جس میں اخلاقی اقدار زندہ ہوں۔ جس میں انصاف کی بولی بولی جائے خواہ وہ اپنے موافق ہو یا اپنے خلاف ، وغیرہ۔ مگر یہی وہ چیزیں ہیں جن کا اسلام کے نام پر ہونے والے ہنگاموں میںکہیں پتہ نہیں۔
ایک تعلیم یافتہ ہندو سے تفصیلی گفتگوہوئی۔ اُنہوں نے میڈیٹیشن (meditation)کے فائدے بتائے۔اُنہوںنے کہا کہ ہمارے سماج میں سب سے بڑا پرابلم ایگو (ego) کا پرابلم ہے۔ ہر آدمی کا یہ حال ہے کہ کوئی بات اپنے مزاج کے خلاف ہو تو فوراً اُس کا ایگو بھڑک اٹھتا ہے۔ جس کا آخری نتیجہ بریک ڈاؤن(break down) ہوتا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ میڈیٹیشن کے ذریعہ ہم ایگو کو تحلیل(disolve) کردیتے ہیں۔ گویا کہ اَنا والا آدمی بے اَنا بن جاتا ہے اور پھر وہ کسی کے لیے پرابلم نہیں رہتا۔
میں نے کہا کہ یہ صرف کہنے کی ایک بات ہے۔ اَنا یا ایگو انسان کی ایک فطری صفت ہے، اُس کو میڈیٹیشن جیسی ورزشوں کے ذریعہ تحلیل یا ڈیزالو کرنا ممکن ہی نہیں۔ میںنے کہا کہ ایگو انسانی دماغ کی ایک صفت ہے۔ اورمیڈیٹیشن میںآپ لوگ جو کچھ کرتے ہیں وہ ایک جسمانی ورزش (physical exercise) ہوتی ہے اور ایک دماغی صفت کو جسمانی ورزش کے ذریعہ ختم کرنا نفسیاتی اعتبار سے ممکن ہی نہیں۔ چنانچہ تجربہ یہی بتاتا ہے کہ میڈیٹیشن کے پورے کورس سے گذرنے کے باوجود لوگوں کے اندر ایگو پوری طرح موجود ہوتا ہے اور جب بھی اُس کے اَنا پر چوٹ پڑے تو وہ بھڑک اُٹھتا ہے۔
میںنے کہا کہ ایگو کو ختم کرنا ممکن نہیں۔ البتہ اُس کو ڈیفیوز (defuse) کیا جاسکتا ہے۔ اسلام کا طریقہ یہی ہے۔ اسلام آدمی کی سوچ کے اندر انقلاب لاتا ہے۔ یہ سوچ اس بات کی ضامن بن جاتی ہے کہ جب بھی آدمی کی اَنا بھڑکے تو اُس کی سوچ متحرک ہو کر اُس کی انا کے بم کو ڈیفیوز کردے۔ میں نے کہا کہ اَنا (ایگو) کوئی برائی نہیں، وہ ایک طاقت ہے۔ آپ کو صرف یہ کرنا ہے کہ اپنے ذہن کو اتنا زیادہ ترقی دیں کہ وہ اَنا کو صرف اچھے استعمال میں لے، وہ اُس کو برے استعمال تک نہ جانے دے۔
ایک صحافی نے انٹرویو کے دوران سوال کیا کہ اسکول اورکالج کی تعلیم میںآج کل ریفارم کی باتیں ہورہی ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ سوسائٹی میں جو اخلاقی بگاڑ آیا ہے اُس کو اس طرح دور کیا جاسکتا ہے کہ تعلیمی نصاب میں اخلاق کو ایک مستقل مضمون کے طورپر شامل کر دیا جائے۔ میں نے کہا کہ یہ تجربہ تو کیاجاچکا ہے۔ موجودہ تعلیمی نصاب میںبھی اکثر جگہ کسی نہ کسی طورپر اخلاقی چیزیں پڑھائی جاتی ہیں۔ شانتی نکیتن اور گروکل جیسے بہت سے تعلیمی ادارے تو خاص اسی مقصد کے لیے قائم کیے گئے تھے۔ مگر اُن سے مطلوب اخلاقی نتیجہ حاصل نہ ہوسکا۔
میںنے کہا کہ تعلیم کے دو الگ الگ شعبے ہیں۔ ایک فارمل ایجوکیشن، اور دوسرے انفارمل ایجوکیشن۔ فارمل ایجوکیشن سے مراد اسکول اور کالج کی تعلیم ہے اور انفارمل ایجوکیشن سے مراد اصلاحی کوشش ہے جو رسمی تعلیم کے باہر تعمیر شعور کے لیے کی جائے۔ اخلاقی شخصیت پیدا کرنے کے لیے انفارمل ایجوکیشن مفید ہے، نہ کہ صرف فارمل ایجوکیشن۔
اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ فارمل ایجوکیشن میںسارا زور نمبر پر ہوتا ہے۔ طالب علم کی آخری کوشش صرف یہ ہوتی ہے کہ وہ امتحان کے موقع پر کسی نہ کسی طرح زیادہ نمبر لائے تاکہ وہ امتحانی اصطلاح میں کامیاب ہوسکے۔
بہائی مذہب کے ایک صاحب بھی یہاں آئے تھے۔ اُنہوں نے ’’یونیورسل مذہب‘‘ کے موضوع پر اپنی مختصر تقریر کی۔ اُنہوں نے آٹھ صفحہ کا ایک پمفلٹ (اپریل ۲۰۰۲) تقسیم کیا۔ یہ بہائی عالمی مرکز کے بیت العدل اعظم کی طرف سے تیار کیا گیا تھا۔ یہ پمفلٹ عمدہ کاغذ پر نہایت عمدہ چھپا ہوا تھا مگر پورا پڑھنے کے باوجود اُس کا کوئی خلاصہ میری سمجھ میں نہ آسکا۔ اُس کا ایک اقتباس یہ تھا:
’’۱۸۹۳ء میں مشہور عالمی کولمبیائی اجلاس (شکاگو) نے ’’مذہبی پارلیمنٹ‘‘ کو وجود میں لاکر سب کو حیران کردیا۔ روحانی اوراخلاقی اشتراک کی اس استصواب رائے نے تمام براعظموں کی توجہ مبذول کرائی اور اُس نے سبھی سائنسی، تکنیکی اور تجارتی کامیابیوں سے زیادہ شہرت حاصل کی۔ تھوڑے عرصہ کے لیے لگا کہ پابندیوں اور قدامت پرستی کی دیواریں گرگئیں۔ مؤثر مفکرین کے لیے بھی یہ اشتراک انوکھا اور تاریخ عالم میںاہمیت کا حامل تھا۔ ’’مذہبی پارلیمنٹ‘‘ کے منتظمین نے کہا کہ ’’مذہبی پارلیمنٹ‘‘ نے دنیا کو مذہبی جنون سے بچا لیا‘‘۔
یہ میرے نزدیک ایک خیالی بات ہے۔ عالمی انقلاب کبھی کسی جلسہ یا سیمینار کے ذریعہ ظہور میں نہیں آتا۔ اس قسم کا جلسہ صرف ایک مظاہرہ ہے۔ انسانوں کے درمیان کوئی حقیقی انقلاب لانے کے لیے ایک مسلسل فکری تحریک کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس قسم کا انقلاب ہمیشہ طویل فکری جدوجہد کے ذریعہ آتا ہے، نہ کہ وقتی قسم کے مظاہروں سے۔
بہائی مذہب کے نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے معلوم ہوا کہ بہائی لوگوں کے درمیان آپس میں سلام کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے سے کہتے ہیں: اللہ ابھیٰ (God is most glorious)۔ واضح ہو کہ بہائی مذہب کے بانی کا نام بہاء اللہ تھا۔
رشی کیش میں ایک اور بات معلوم ہوئی جس کا ابھی تک مجھے علم نہ تھا۔ وہ یہ کہ مسلمانوں کے پان اسلام ازم کی طرح ہندوؤں میںایک عالمی تحریک پان ہندوازم کے نام پر چل رہی ہے۔ اس کا مقصد تمام دنیا کے ہندوؤں کو متحد کرنا ہے جن کی تعداد تقریباً ایک ارب بتائی جاتی ہے۔ جیسا کہ معلوم ہوا، یہ تحریک تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ مثلاً یہاں پُرتگال کے ایک ہندو لیڈر ملے۔ اُنہوں نے بتایا کہ پرتگال میں بسنے والے تمام ہندوؤں کو اُنہوں نے ایک اتحاد میں جوڑ دیا ہے۔
موجودہ ہندوؤں کے ذہن میں یہ خیال ڈالا جارہا ہے کہ مستقبل میں ہندوؤں کے لیے خطرہ عیسائیت وغیرہ سے نہیں ہے بلکہ صرف اسلام سے ہے۔ اس لیے اپنے خیال کے مطابق، وہ ہر قیمت پر اسلام کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔ یہاں کچھ ایسے ہندوؤں سے ملاقات ہوئی جو عربی اور فارسی زبانیں بے تکلف بولتے تھے۔ میںنے ایسے ہی ایک ہندو سے کہا: حال شما چیست۔ اُس نے خالص ایرانی لہجہ میں اس کا جواب دیا۔
رشی کیش کے اس عالمی اجتماع کو کنڈکٹ کرنے یا چلانے کا کام ایک ۳۵ سالہ خاتون کر رہی تھیں۔ وہ ایک امریکن خاتون تھیں۔ مگر انہوں نے ہندو مذہب کو اپنا لیا تھا اور اب اُن کا نام بھاگوتی تھا۔ وہ سفید رنگ کی ساڑی پہنے ہوئی تھیں اور انتہائی پھرتی کے ساتھ تمام پروگرام کو چلارہی تھیں۔
اجلاس کے دوران اُنہوں نے انگریزی میںبولتے ہوئے مجھے تقریر کے لیے مدعو کیا۔ میںنے سادہ اُردو زبان میں اپنی تقریر کی۔ تقریر کے بعد وہ میرے پاس آئیں اور میری تقریر پر اچھے تأثر کا اظہار کیا۔ میںنے کہا کہ یہاں جو لوگ اکٹھا ہیں اُن کی اکثریت ہندی سمجھتی ہے اس لئے میں نے اپنی تقریر ہندی زبان میں کی۔ میں نے اُن سے یہ بات انگریزی میں کہی تھی۔ اس کو سن کر انہوں نے امریکی لہجہ میں کہا:
مولانا صاحب، میں ہندی سمجھتی ہوں۔
رشی کیش میںجو نئی باتیں معلوم ہوئیں اُن میں سے ایک یہ تھی کہ سنسکرت پاٹھ شالاؤں میںایک مستقل شعبہ ہوتا ہے جس کو کتھا کاریتا کہتے ہیں۔ اس شعبہ میںخصوصی تربیت کے ذریعہ کتھاکار تیار کیے جاتے ہیں۔ یہ لوگ کرشن کتھا اور رام کتھا جیسے پروگرام کرتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی تقریروں کو قصے کہانیوں اور لطیفوں اور مختلف اداؤں کے ساتھ اتنا دلچسپ بنا دیتے ہیں کہ سننے والے گھنٹوں دلچسپی کے ساتھ اُس کوسنتے رہتے ہیں۔ دیکھنے والوں نے بتایا کہ اُن کی تقریر کے دوران ایسے بھی لمحات آتے ہیں جب کہ لوگ باقاعدہ رونے لگتے ہیں۔ کبھی اُن پر وجد (ecstacy) کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔
عجیب بات ہے کہ یہ کتھا کار کئی کئی گھنٹے مسلسل بولتے ہیں، مگر اُن کی آواز میں فرق نہیںآتا۔ اُن کے گلے کی طاقت بدستور یکساں طورپر موجود رہتی ہے۔ ان لوگوں کو ہر کتھا پر بڑی بڑی رقمیں ادا کی جاتی ہیں۔
کتھاکار کی ایک خصوصیت پر مجھے بہت تعجب تھا۔ وہ یہ کہ مسلسل کئی گھنٹہ تک بولنے کے باوجود اُن کی آواز خراب کیوں نہیں ہوتی۔ ایک انگریزی صحافی نے اس کا راز بتایا۔ اُنہوں نے کہا کہ یہاں میں کتھا کا رسے ملا اوراُن سے دوسری باتوں کے ساتھ ان کے گلے کی طاقت کا راز بھی دریافت کیا۔ کتھا کار نے کہا کہ یہ سب ہمارے گرو کی کرپا ہے۔ کتھا کار نے مذکورہ جرنلسٹ کوایک پُڑیا دکھائی اور کہا کہ یہ ہمارے گرو کی دی ہوئی ہے اور اس کا نام مسٹیریس پاؤڈر (mysterious powder) ہے۔
جرنلسٹ نے پڑیا کھول کر پاؤڈر کو چکھا اورکہا کہ مجھے یہ شک ہے کہ اس کے اندر ایسٹرائڈس(steroids) ملا ہوا ہے۔ اسی کے ساتھ جرنلسٹ نے اپنا تعارف کراتے ہوئے یہ بھی بتادیا کہ وہ فلاں مشہور انگریزی اخبار کا کرسپانڈنٹ ہے۔ اس کے بعد کتھا کار کافی سنجیدہ ہوگئے۔ اُنہوں نے کہا کہ اصل میں یہ ملہٹھی کا سفوف ہے۔ مذکورہ اخبار نویس نے یہ پڑیا مجھے دی اور میں نے اُس کو چکھا تو میرے اندازہ کے مطابق، اُس کا ذائقہ بالکل ملہٹھی جیسا تھا۔
ایک صاحب سے بات کرتے ہوئے میںنے کہا کہ اپنی اصلاح کے لیے سب سے زیادہ ضروری چیز خود احتسابی (self-criticism) ہے۔ مگر یہی وہ چیز ہے جو دنیا میں سب سے کم پائی جاتی ہے۔ سلف کریٹیسزم کیا ہے، اس کی مثال دیتے ہوئے میںنے کہا کہ حال میں میں ریڈیوسُن رہا تھا۔ اس دوران اُس پر ایک فلم ایکٹر کا انٹرویو آنے لگا۔ انٹرویو ر نے پوچھا کہ اپنی زندگی کا کوئی خاص واقعہ بتائیے۔ فلم ایکٹر نے کہا کہ ایک بار ممبئی میں شوٹنگ ہورہی تھی۔ میںاُس میںایک رول ادا کررہا تھا۔ اچانک فلم ڈائرکٹر نے شوٹنگ بندکر دی۔ میںاُس کے پاس گیا اور کہا کہ آپ نے شوٹنگ کیوں بند کردی۔ فلم ڈائریکٹر نے کہا کہ تمہارا رول مجھے کچھ ٹھیک نہیں معلوم ہوتا ہے۔
اب فلم ایکٹر نے ایسا نہیںکیا کہ وہ ڈائریکٹر سے جھگڑنے لگے۔ اس کے بجائے وہ خاموشی کے ساتھ اپنے کمرہ میں چلا گیا۔ وہاں وہ آئینہ کے سامنے کھڑاہوگیا اور اپنے بارے میں غور کرنے لگا۔ آئینہ میں جب اُس نے اپنی صورت دیکھی تو اصل راز اُس کی سمجھ میں آگیا۔ بات یہ تھی کہ اُس دن صبح کو وہ مشہور تاج محل سیلون میں گیا اور شاندار طورپر اپنے بال درست کرائے اور شیمپو لگایا۔ اس طرح وہ ایک جینٹلمین تو دکھائی دینے لگا مگر وہ اپنے فلمی رول کے لیے غیر موزوں ہوگیا۔ اس لیے کہ فلم میںوہ ایک ایسے آدمی کا رول ادا کررہا تھا جو فطری طورپر ناقص العقل تھا۔ اُس کو محسوس ہوا کہ میرا موجودہ چہرہ ایک صاحب عقل آدمی کا چہرہ دکھائی دیتاہے،نہ کہ ناقص العقل آدمی کا چہرہ۔
اس دریافت کے بعد اُس نے یہ کیا کہ ایک قینچی لی اور آئینہ دیکھے بغیر وائلڈ ہیر کٹ (wild haircut) کے انداز میں اپنے بال کو بے ترتیبی کے ساتھ ادھر ادھر سے کاٹ دیا اور پھر اپنے چہرہ اور بال پر مٹی لگا لی۔ اس طرح اپنی صورت کو بگاڑ کر جب وہ فلم ڈائریکٹر کے سامنے آیا تو ڈائریکٹر نے کہا کہ اب تم بالکل ٹھیک ہو۔ اس کے بعد اُس نے اسی طرح پوری شوٹنگ کرائی۔میںنے کہا کہ جو آدمی اپنی ترقی چاہتا ہو اُس کو نہایت بے رحمی کے ساتھ اپنی تنقید آپ کے اصول پر عمل کرنا چاہیے۔
ایک شخص نے نجی گفتگو کے دوران بتایا کہ میرا تجربہ ہے کہ ہندوؤں کو عیسائیت، جین ازم، سکھ ازم، بودھ ازم اور دوسرے مذہبوں سے کوئی نفرت نہیں۔ مگر میرا تجربہ ہے کہ اسلام کے خلاف اکثر ہندوؤں میںنفرت پائی جاتی ہے۔ اُنہوںنے کہا کہ آخر اس مسئلہ کا کیاحل ہے۔
میںنے کہا کہ اس مسئلہ کا سادہ اور آسان حل یہ ہے کہ مسلمان رد عمل کا طریقہ چھوڑ دیں۔ وہ یک طرفہ طورپر ہندوؤں سے محبت کرنے لگیں۔ دشمنی کا جواب دشمنی نہیں ہے۔ بلکہ دشمنی کا جواب محبت ہے۔ یہی قرآن کی تعلیم ہے اور یہی تجربہ کے ذریعہ معلوم ہوتا ہے۔
میںنے کہا کہ اس قسم کی دشمنی کوئی فطری چیز نہیں۔ وہ ہمیشہ اوپری اسباب کا نتیجہ ہوتی ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی پتھر کے اوپر کچھ مٹی جم جائے۔ جیسے ہی آپ اُس کے اوپر پانی ڈالیں گے وہ بہہ کر ختم ہو جائے گی۔ ایسا ہی معاملہ اس قسم کی نفرت کا ہے۔ آپ محبت کے سیلاب سے دھو کر اس کو کسی بھی وقت صاف کرسکتے ہیں۔
۴ جون ۲۰۰۲ء کی صبح کو رشی کیش سے واپسی تھی۔ سوامی چیدانند سے آخری ملاقات کرکے روانہ ہوا۔ ہماری گاڑی چلتے ہوئے میرٹھ کے قریب پہنچی تو سڑک کے دونوں طرف سرسبز مناظر تھے۔ معلوم ہوا کہ یہ مودی پورم ہے ۔ تقریباً ۲۵ کیلو میٹر کے رقبہ میں ایک ہری بھری دنیابنائی جارہی ہے۔ اس میںانتہائی جدید قسم کی سہولتیں موجود ہوں گی۔ یہاں تک کہ اس میں فلم بندی کے انتظامات بھی ہوں گے۔ یہ نئی دنیا اُن دولت مندوں کے لیے بنائی جارہی ہے جو شہر کے مسائل سے بیزار ہیں اور فطرت کی کھلی فضا میں رہنا چاہتے ہیں۔ مودی پُورم کو مودی نگر والوں نے بنایا ہے۔ مودی نگر (مودی انڈسٹریز) کو یہاں ۱۹۳۲ میں قائم کیا گیا تھا۔
مودی پورم کے مختلف منفی اورمثبت پہلو ہیں۔ اُس کا ایک پہلو یہ ہے کہ موجودہ ہندستان جس کو کرپٹ سیاستداں آخری حد تک تباہ کرچکے ہیں، اُس کو یہاں کے تجارتی طبقہ نے بچایا ہے۔ ہندستان میں سینکڑوں سال سے تجارت کی روایات قائم تھیں۔ آزادی سے پہلے یہاں ایک طبقہ موجود تھا جو ملک کے اندر مضبوط تجارتی بنیاد قائم کر چکا تھا۔ یہی وہ طبقہ ہے جس نے ملک کواقتصادی تباہی سے بچا رکھا ہے۔ ورنہ جہاںتک سیاسی لیڈروں کا تعلق ہے، اُنہوںنے پہلے سوشلزم کے نام پر ملک کو تباہ کیا تھا اور اس کے بعد لیڈروں کے ناقابل بیان کرپشن نے ملک کو بالکل کھوکھلا بنا دیا۔
کانفرنس کے منتظمین نے واپسی کے سفر کے لیِے مجھے جو گاڑی دی تھی، اُس کا ڈرائیور ایک نوجوان تھا۔ اُس کا نام راکیش شرما تھا۔ وہ گاڑی کو تیز دوڑانے لگا۔ میرے ساتھی نے اُس کو منع کیا مگر وہ بدستور تیز دوڑاتا رہا۔ اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ تھی کہ وہ بار بار اوور ٹیک کرتا تھا۔ میرے ساتھی نے کسی قدر سختی کے ساتھ کہا کہ تم دیکھ رہے ہو کہ سڑک کے دونوں طرف کئی گاڑیاں الٹی پڑی ہیں۔ کیا تم ہمارا انجام بھی یہی کرنا چاہتے ہو۔
اس کے بعد ڈرائیور نے گاڑی کھڑ ی کر دی اور باہر نکل کر سڑک کے کنارے بیٹھ گیا۔ اس نے کہا کہ میںایک پروفیشنل ڈرائیور ہوں۔ میںتو اسی طرح گاڑی چلاؤں گا۔ میرے ساتھی نے محسوس کیا کہ اگر ہم اس ڈرائیور سے ضد کرتے ہیں تو ہمارا سفر مزید مشکل ہوجائے گا۔ اس لیے اُنہوں نے ڈرائیور کو منانے کی پالیسی اختیار کی اور پھر ہمارا سفر آگے کے لیے جاری ہوگیا۔ یہ واقعہ غازی آباد سے کچھ پہلے پیش آیا۔
اس تجربہ کے بعد میری سمجھ میںآیا کہ سڑکوں پر جو حادثے ہوتے ہیں،اُن کا سبب زیادہ تر اپنے بارے میں بڑھا ہوا اعتماد ہوتا ہے۔ جن لوگوں میںکسی قسم کی زیادہ صلاحیت ہوتی ہے وہ عام طور پر اس نفسیاتی مرض کا شکار ہوجاتے ہیں۔ وہ اپنے آس پاس اس کا براانجام دیکھتے ہیں مگر اُن کی نفسیات یہ ہوتی ہے کہ—یہ دوسروں کا معاملہ تھا، میرے ساتھ ایسا ہونے والا نہیں۔
خدا کسی انسان کو زیادہ صلاحیت دیتا ہے تاکہ وہ زیادہ کام کرے۔ مگر وہ اپنی برخود غلط نفسیات کی بنا پر اکثر اپنے آپ کو تباہ کر لیتا ہے۔ اپنے کو زیادہ سمجھنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی ایسا کام کر ڈالتا ہے جو اُس کے لیے انتظامی حد (managable limit) سے باہر ہو۔ اکثر لوگوں کی ناکامی کا سبب اُن کا یہی مزاج ہوتا ہے۔
رشی کیش کا یہ سفر میرے لیے ایک نیا تجربہ تھا۔ وہاں جس ہندو سے بھی اسلام پر گفتگو ہوئی اُس نے دلچسپی کے ساتھ اُس کو سنا۔ کئی لوگوں کو کتابیں دی گئیں جن کو اُنہوں نے شوق کے ساتھ لیا اور پڑھنے کا وعدہ کیا۔ یہاں مجھے چند بار عمومی خطاب کا موقع ملا۔ اپنے خطابات میں میںنے اسلام کو دینِ رحمت کی حیثیت سے پیش کرنے کی کوشش کی۔
میرا تجربہ ہے کہ موجودہ زمانہ کے تعلیم یافتہ لوگ اس کو بہت بُرا مانتے ہیں کہ اُن کے اوپر مذہبی کٹّرپن کا الزام آئے۔ اس لیے وہ اپنے مذہب کے سوا دوسرے مذہب کی بات کو توجہ کے ساتھ سنتے ہیں۔ یہ زمانی مزاج ہم کو موقع دیتا ہے کہ ہم دین حق کی دعوت کو موافق ماحول میں پیش کرسکیں۔
۴ جون ۲۰۰۲ کی رات کو میں واپس ہو کر دہلی پہنچا۔
واپس اوپر جائیں

خبر نامہ اسلامی مرکز ۱۵۶

۱ ۲۵ مئی ۲۰۰۲ کو جین ٹی وی (نئی دہلی) میںایک خصوصی پروگرام تھا۔ اس کا موضوع تھا، اسلام اورامن۔ صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور مذکورہ موضوع پر قرآن و حدیث کی روشنی میںایک تقریر کی۔ اُنہوں نے بتایا کہ اسلام امن اور انسانیت کا مذہب ہے، وہ جنگ اورتشدد کا مذہب نہیں۔
۲۔ رشی کیش میں ۴ جون ۲۰۰۲ کو پرمارتھ نکیتن کے زیراہتمام بہت بڑاجلسہ ہوا۔ اس میں ٹاپ کے ہندو پیشوا شریک ہوئے۔ اُس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اُس میں شرکت کی اور اس موضوع پر ایک تقریر کی کہ مختلف مذاہب کے درمیان معتدل تعلقات کس طرح قائم کیے جائیں۔ اُنہوں نے بتایا کہ اس معاملہ میںاسلام کا فارمولا یہ ہے کہ اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کا پورا احترام کیاجائے اور کسی بھی حال میں یا کسی بھی عذر کی بنا پر ٹکراؤ اور تشدد کا طریقہ اختیار نہ کیا جائے۔
۳۔ وی آئی پی فیملی میگزین (جے پور) کے نمائندہ مسٹر محمد رفیق نے ۱۳جون ۲۰۰۲ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر مسلم خواتین کی تعلیم سے تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ اسلام تعلیم کی حوصلہ افزائی کرتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ کے ہر دور میں مسلم مردوں کے ساتھ مسلم عورتیں بھی تعلیم میں آگے رہی ہیں۔ موجودہ زمانہ میں سارے ملک میں کثرت سے مسلم لڑکیوں کے لیے اسکول اور مدرسے کھولے جارہے ہیں۔ مسلم خواتین بہت بڑے پیمانہ پر تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ یہ مدرسے اور اسکول گویا مسلم خواتین کے لیے ایک نئے دور کی علامت ہیں۔
۴۔ سوتنتر وچار منچ کے تحت ۱۹ جون ۲۰۰۲ کو نئی دہلی کے کانسٹی ٹیوشن کلب میں ایک سیمینا ر ہوا۔ اس کا موضوع تھا: ٹیررزم اور انڈیا۔ اس کی دعوت پرصدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور مذکورہ موضوع پر اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں ایک مفصّل تقریر کی۔
۵۔ دہلی کے ہفتہ وار ہندی اخبار ’’راشٹریہ وشواس‘‘ کے نمائندہ مسٹر بابو لال شرما نے ۲۱ جون ۲۰۰۲ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق ملک اور ملت دونوں قسم کے مسائل سے تھا۔ ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ یہ صحیح ہے کہ موجودہ زمانہ میں مختلف مقامات پر جہاد کے نام پر جو متشددانہ تحریکیں چل رہی ہیں ان سے اسلام کی تصویر خراب ہور ہی ہے۔ مگر اس کا سبب اسلام کی تعلیمات نہیں ہیں۔ اسلام مکمل طورپر امن اور انسانیت کا مذہب ہے۔ مسلمان اپنی قومی تحریکوں کو اسلامی جہاد کے نام پر چلاتے ہیں، اس لیے اس کی وجہ سے اسلام بدنام ہورہا ہے۔ اگر وہ سری لنکا جیسے لوگوں کی طرح اپنی تحریک کو قومی بنیاد پر چلائیں تو ان کی تحریک کا خواہ جو بھی نتیجہ ہو مگر اس کی وجہ سے اسلام بد نام نہیں ہوگا۔ کیوں کہ ایسی حالت میں ان کی تحریک کی رپورٹنگ پریس میںمسلم قوم کے حوالہ سے آئے گی، نہ کہ مذہب اسلام کے حوالہ سے۔
۶۔ ۲جولائی ۲۰۰۲ کو نئی دہلی کے ایناڈو ٹی وی (EENADU TV) نے صدر اسلامی مرکز کا ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ اس کا موضوع تھا: اسلام اور تعلیم۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ اسلام تعلیم کو بے حد اہمیت دیتا ہے۔ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کا سبب اسلام نہیں ہے۔ اُس کے اسباب زیادہ تر سیاسی ہیں۔
۷۔ برطانیہ کے دو اسکالر کرس فلپاٹ (Chris Philpolt) اور فرزر گرانٹ(Frser Grant) ۱۰ جولائی ۲۰۰۲ کو صدر اسلامی مرکز سے ملے۔ انہوںنے اپنی ایک زیر تصنیف کتاب کے لئے تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ ان کی کتاب کا ٹائٹل اور موضوع یہ ہے:
Millennium Choices; Global Environmental Problems, Spiritual Traditions, a rediscovery of Green Spirituality.
ان کے سوالات کا تعلق زیادہ تر ماحولیات اور روحانیات کے بارے میں تھا۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ ان دونوں موضوعات پر اسلام کا نقطۂ نظر کیاہے۔ نیز ان کاسوال یہ تھا کہ موجودہ ماحولیاتی مسائل کے بارے میں اسلام کیا رہنمائی دیتا ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں ان کے سوالات کے جوابات دئے گئے۔
۸۔ مائنارٹیز کمیشن کے زیر اہتمام ۱۴ جولائی ۲۰۰۲ کو نئی دہلی میں ایک سیمینار ہوا۔ اس میں ہر مذہب کے نمائندے شریک ہوئے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ ہمارے مسائل کاحل رواداری اورمفاہمت کے اصول پر ہی نکل سکتا ہے۔ ٹکراؤ کا طریقہ کسی کے لیے بھی مفید نہیں۔
۹۔ بی بی سی لندن (انگریزی پروگرام) کے تحت ۱۴ جولائی ۲۰۰۲ کو ایک انٹرویو ہوا۔ انٹرویور مسٹر نابلینک(Noblank) لندن کے بُش ہاؤس سے بول رہے تھے اور نئی دہلی کے بی بی سی آفس سے صدر اسلامی مرکز اُن کے سوالات کے جوابات دے رہے تھے۔ ایک سوال کے جواب میںکہا گیا کہ بائیکاٹ کی پالیسی کوئی پالیسی نہیں۔ بلکہ دونوں گروہوں کے درمیان سنجیدہ ڈائیلاگ ہونا چاہئے۔
۱۰۔ جین ٹی وی (نئی دہلی) میں ۱۶ جولائی ۲۰۰۲ کو ایک پینل ڈسکشن ہوا۔ اس کاموضوع تھا کہ ہندستان کے ہندو اور مسلمان مل جل کر کس طرح امن کے ساتھ رہیں۔ اس کی دعوت پر صدراسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور اس موضوع پر اپنے خیالات پیش کیے۔
۱۱۔ جامعہ ہمدرد (نئی دہلی) کے کنونشن سنٹر میں ۲۱ جولائی ۲۰۰۲ کو حکیم عبد الحمید مرحوم، بانی جامعہ کی یوم وفات کے موقع پر ایک اسلامک کوئز کمپٹیشن کا انعقاد عمل میںآیا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکزنے اس میں شرکت کی اور تقسیم انعامات کے علاوہ ایک تقریر کی۔ تقریر میں انہوں نے طلباء اور طالبات کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکیم صاحب اور جامعہ ہمدرد میںآپ کے لیے بہت بڑا سبق ہے۔ یہ جگہ جہاںآج ہمدرد یونیورسٹی ہے ،یہاں ۱۹۴۷ میں صرف جنگل تھا۔ انہوں نے شیکسپیئر اور برنارڈ شا کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ شیکسپیئر کی موت اور برنارڈ شاکی وفات میں تقریباً ڈھائی سو سال کا فاصلہ ہے۔ اس واقعہ کو لے کر برنارڈ شا نے کہا تھا کہ میرا قد شیکسپیئر سے چھوٹا ہے مگرمیں شیکسپئر کے کندھوں کے اوپر کھڑا ہوں:
I am smaller in stature than shakespeare, but I stand upon his shoulders.
انہوں نے نوجوان طلبہ کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپ بھی یہ کہہ سکتے ہیں کہ میرا قد حکیم عبدالحمید سے چھوٹا ہے مگر میں حکیم عبدالحمید کے کندھوں پر کھڑا ہوا ہوں۔ ۱۹۴۷ میں حکیم عبدالحمید صاحب نے اپنی زندگی کاآغاز جنگل کی سطح سے کیا تھا آج آپ اپنی زندگی کاآغاز یونیورسٹی کی سطح سے کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ اس کا شکر ادا کیجئے اور عزم وہمت کے ساتھ ایک نئے مستقبل کی طرف اپنا سفر شروع کردیجئے۔
۱۲۔ راشٹریہ سہارا اُردو (نئی دہلی) کے نمائندہ مسٹر ودود ساجد نے ۲۴ جولائی ۲۰۰۲ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر اس سے تھا کہ ایک ہندو پارٹی نے مانگ کی ہے کہ قرآن کی کچھ آیتوں کو قرآن سے نکال دیا جائے۔ جواب میں کہا گیا کہ قرآن کی آیتوں پر یہ اعتراض سراسر لغو ہے۔ ایک سوال کے جواب میں کہا گیا کہ قرآن اپنے مخاطبین کو الانسان اور الناس کہہ کر خطاب کرتا ہے اس لیے قرآن کے مطابق، ساری دنیا دار الانسان ہے، نہ کہ دار الکفار۔ مائناریٹی کمیشن کے ڈائیلاگ (۱۴ جولائی) کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا گیا کہ اس کے بارہ میں یہ نہ کہئے کہ وہاںملی نمائندے نہیں تھے بلکہ یہ کہئے کہ وہاں ملی دادا نہیں تھے۔
۱۳۔ حیدر آباد سے مولانا سید اکبر الدین قاسمی اپنے خط مورخہ ۲۵ جولائی ۲۰۰۲ میں لکھتے ہیں: یکساں سول کوڈ آپ کا مؤقر کتابچہ جو اس موضوع پر ہزاروں کتابوں پر بھاری ہے وہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے حالیہ اجلاس (حیدرآباد) کے موقع پر شرکاء اجلاس میںتحفۃً تقسیم کیا گیا۔ اس کو بہت پسند کیا گیا۔ میرٹھ کے سفر نامہ میں مسلم انٹلیکچول فورم کا آپ نے تذکرہ فرمایا تھا، اسی نہج پر یہاں کام کرنے کے لیے یہ فورم قائم کرنے کا منصوبہ ہے۔
۱۴۔ ۱۸ اگست ۲۰۰۲ کو نئی دہلی کے کانسٹی ٹیوشن کلب (اسپیکر ہال) میںایک گوسٹھی ہوئی۔ اس کا انتظام سار بدیشک آرے پرتی ندھی سبھا نے کیا تھا۔ اُس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اُس میں شرکت کی اور قومی ایکتا کے موضوع پر ایک تقریر کی۔
۱۵۔ دین دیال ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (نئی دہلی) میں ۱۵ اگست ۲۰۰۲ کو ایک جلسہ ہوا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ یہاں اشوک سنگھل نے اپنی تقریر میں کہا کہ قرآن کہتا ہے کہ کافروں کو مارو۔ اس کاجواب دیتے ہوئے بتایا گیا کہ قرآن میں کافر سے مراد کوئی نسل یا قوم نہیں۔ اس سے مراد پیغمبر کے وہ معاصر منکرین ہیں جنہوں نے آپ اور آپ کے اصحاب کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی تھی۔ اور پیغمبر اور آپ کے اصحاب کو دفاع میں ان سے لڑنا پڑا۔
۱۶۔ سعودی ٹی وی اورایجپٹ ٹی وی کے نمائندہ مسٹر محمد بسّام نسّان مصری نے ۱۸ اگست ۲۰۰۲ کو صدر اسلامی مرکز کا ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر کشمیر کے مسئلہ سے تھا۔ ایک سوال کے جواب میں کہا گیا کہ موجودہ حالت میں پاکستان کے سامنے صرف دو آپشن ہیں۔ یا تو وہ حالت موجودہ (statusquo) کو مان کر معاملہ ختم کردے یا تشدد کو براہ راست اور بلاواسطہ دونوں اعتبار سے مکمل طورپر چھوڑ کر پُرامن ڈائیلاگ کا طریقہ اختیار کرے۔
۱۷۔ نیشنل کونسل آف ایجوکیشن ریسرچ اینڈ ٹریننگ (نئی دہلی) کی طرف سے ۱۹ اگست ۲۰۰۲ کو ایک سیمینار ہوا۔ یہ سیمینار جامعہ ہمدرد (نئی دہلی) کے کنونشن ہال میں منعقد کیاگیا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکزنے اُس میں شرکت کی اوروہاں ایک تقریر کی۔ اس کا موضوع تھا: ہندستانی اسکولوں میں ویلو ایجوکیشن۔ اس موضوع پر ایک مفصل تقریر کی گئی۔ ایک بات یہ کہی گئی کہ نصاب میںکچھ اخلاقی کتابیں شامل کرنے سے نوجوانوں میں اخلاق نہیں آجائے گا۔ اس مقصد کے لیے ایک ہمہ جہتی کوشش کی ضرورت ہے۔
۱۸۔ سہارا ٹی وی (نئی دہلی) کی ٹیم نے ۲۱ اگست ۲۰۰۲ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ گجرات کی گورو یاترا کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا گیا کہ یہ گورویاترا نہیں ہے بلکہ وہ الیکشن یاترا ہے۔ اس کو پری الیکشن سرگرمیوں کے پس منظر میں دیکھنا چاہئے۔
۱۹۔ ایناڈو ٹیلی ویژن (EENADU TV) نے ۲۳ اگست ۲۰۰۲ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو ریکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر گجرات کے فساد سے تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ فساد کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ نفرت اور غلط فہمی کے ماحول کو ختم کیا جائے۔ اس کے بغیر فساد کا مستقل خاتمہ نہیںہوسکتا۔
۲۰۔ جین وشو بھارتی انسٹی ٹیوٹ (راجستھان) کی خاتون وائس چانسلر سُدھا ماہی نے ۳۱ اگست ۲۰۰۲ کواپنے انگریزی میگزین (You) کے لیے صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ اس انٹرویو کاخاص موضوع یہ تھاکہ پازیٹیو تھنکنگ کیا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ پازیٹیو تھنکنگ یہ ہے کہ آدمی کی سوچ اتنا زیادہ ترقی کرچکی ہو کہ وہ منفی صورت حال میں بھی مثبت رسپانس دے سکے۔ ایک اور سوال کے جواب میں بتایا گیاکہ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ ہر انسان کو انسان کی حیثیت سے دیکھنا چاہئے۔ ہر مرد اور عورت کو یکساں احترام کے قابل سمجھنا چاہئے اور ہر حال میں پُر امن روش پر قائم رہنا چاہئے۔
۲۱۔ نئی دہلی (جن پتھ) کے نیشنل میوزیم میں ۱۲ ستمبر ۲۰۰۲ کی شام کو ایک سیمینار ہوا۔ اس کا انتظام نہرویووا کیندر کی طرف سے کیا گیا تھا۔ صدر اسلامی مرکز کو اس میں خصوصی مقرر کے طور پر خطاب کرنے کی دعوت دی گئی تھی۔ اس کا موضوع تھا: اسلام کیا ہے۔ اس موضوع پر دو گھنٹہ کا پروگرام تھا۔ آخر میںحاضرین کی طرف سے سوالات کیے گیے اور اُن کے جوابات دیے گئے۔
۲۲۔ ستمبر ۲۰۰۲ کے وسط میںادارہ الرسالہ ہندی کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے بمبئی کا سفر کیا۔ اس سلسلہ میں مختلف پروگرام ہوئے۔ اس کی روداد انشاء اللہ سفر نامہ کے تحت الرسالہ میںشائع کردی جائے گی۔
۲۳۔ انڈین کونسل آف ریلیجس لیڈرس (نئی دہلی) کی طرف سے اعلیٰ طبقہ کے ہندوؤں کا ایک وفد اجودھیا لے جایا گیا۔ وہ لکھنؤ اور فیض آباد ہوتے ہوئے اجودھیا پہنچا۔ یہ پروگرام ۱۹۔۲۰ ستمبر ۲۰۰۲ کو ہوا۔ اس میں صدر اسلامی مرکز کو بھی شریک کیا گیا تھا۔ اس سفر میں مختلف ہندو رہنماؤں سے گفتگو ہوئی اور اجودھیا کے ایک بڑے جلسہ میں خطاب کیا۔ اس خطاب کا خلاصہ یہ تھا کہ ملک کی ترقی ٹکراؤ کے ذریعہ نہیں ہوسکتی بلکہ رواداری اور میل ملاپ کے ذریعہ ہوسکتی ہے۔
۲۴۔ یکم اکتوبر ۲۰۰۲ کو راشٹریہ سہارا (نئی دہلی) کے نمائندہ مسٹر ودود ساجد نے صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر اس مسئلہ سے تھا کہ گودھرا اور گجرات جیسے فسادات کاحل کیا ہے۔ جواب کا خلاصہ یہ تھا کہ اس کا حل یہ ہے کہ ایک طرف سماج کی جانب سے کھلی مذمت اور دوسری طرف حکومت کی جانب سے مجرمین کو مکمل سزا۔ ہمارے ملک میں یہ دونوں کام نہیں ہوئے۔ اخلاقی مذمت جانبدارانہ انداز میں کی جاتی ہے، اسی طرح حکومت کی طرف سے مجرمین کو سزا نہیں ملتی۔ اگر یہ دونوں باتیں ہوں تو فسادات بہت کم وقت میں ختم ہو جائیں۔
۲۵۔ گاندھی سمیتی کے زیر اہتمام برلا ہاؤس (نئی دہلی) میں ۶اکتوبر ۲۰۰۲ کو ایک سیمینار ہوا۔ اس کا موضوع یہ تھا کہ نوجوانوں میں پیس اور ڈسیپلن کس طرح لایا جائے۔ اُس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اُس میں شرکت کی اور مذکورہ موضوع پر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایک تقریر کی۔ حاضرین میں زیادہ تر نوجوان لوگ تھے۔
۲۶۔ تہران ریڈیو نے ۷ اکتوبر ۲۰۰۲ کو ٹیلی فون پر صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ ایک امریکی مصنف نے لکھا ہے کہ اسلام ٹیررزم کا مذہب ہے۔ سوالات کا تعلق اسی سے تھا۔ جواب میں دلائل سے بتایا گیا کہ یہ ایک لغو بات ہے۔ اس الزام کی تردید میں میری متعدد کتابیں چھپ چکی ہیں۔ تازہ کتاب کا نام ہے، آئیڈیالوجی آف پیس۔
۲۷۔ نظریۂ امن (Ideology of Peace) کے نام سے ایک تازہ کتاب تیار ہوئی ہے۔ فی الحال وہ انگریزی زبان میںچھپی ہے جو ۱۳۶ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کے بعد انشاء اللہ وہ اردو میں بھی شائع ہوگی۔
واپس اوپر جائیں