Pages

Tuesday, 1 July 2003

Al Risala | July 2003 (الرسالہ،جولائی)

2

- عراق ڈائری


عراق ڈائری

تمہید
۱۹۹۱ میںعراق کے صدر صدّام حسین نے کویت میں اپنی فوجیں داخل کرکے اُس پر قبضہ کرلیا۔ اس کے بعد امیر کویت کی درخواست پر امریکا نے عراق پر حملہ کردیا اور کویت کو آزاد کرایا۔ اس واقعہ پر میںنے تاریخ وار ڈائری لکھی تھی جو ماہنامہ الرسالہ کے شمارہ مئی ۱۹۹۱ میں چھپی۔ بعد کو یہ مجموعہ پمفلٹ کی صورت میں اُردو میںخلیج ڈائری اور عربی میں یومیّات حرب الخلیج کے نام سے شائع ہوا۔
عراق تیل کی دولت کے اعتبار سے دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے۔ عراقی صدر نے تیل کی اس دولت کا بہت بڑا حصہ فوجی تیاری میں خرچ کردیا۔ یہاں تک کہ ایک اندازہ کے مطابق، عراق دنیا کی چوتھی سب سے بڑی فوجی طاقت بن گیا۔ یہ فوجی طاقت عراق کے کچھ کام نہ آئی۔ پہلے اقوام متحدہ کے دباؤ کے تحت عراق کو مجبوراً اپنے ہتھیار وںکے ذخیرہ کو خود ہی تباہ کرنا پڑا۔ یہ گویا وہی معاملہ تھا جس کو قرآن میںان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے : یخربون بیوتہم بایدیہم (الحشر ۲)
عراقی صدر کی انتہا پسندانہ سیاست مغربی قوتوں کے لیے اشتعال انگیز ثابت ہوئی۔ امریکا نے پہلے صدر صدام حسین کو یہ الٹی میٹم دیا کہ وہ عراق کو چھوڑ کر ملک کے باہر چلے جائیں۔ راقم الحروف نے ۱۵ فروری ۲۰۰۳ کوایک اخباری مضمون لکھا تھا۔ اس میں صدر صدام حسین کو یہ مشورہ دیاگیا تھا کہ وہ حالات کی نزاکت کو سمجھیں اور اہون البلیتین کے فقہی اُصول پر عمل کرتے ہوئے اقتدار چھوڑ کر عراق کے باہر چلے جائیں۔ اس مضمون کا عنوان یہ تھا:
Option for Saddam Husain
کئی عرب ملکوں نے صدام حسین کو یہ پیشکش کی کہ وہ اپنے ملک میںاُن کی میزبانی کے لیے تیار ہیں۔ مگر صدّام حسین بغداد کے اقتدار پر جمے رہے۔ یہاں تک کہ امریکا نے عراق پر حملہ کرکے صدر صدّام حسین کے اقتدار کا خاتمہ کردیا۔ میںنے دوبارہ اس جنگ کی ڈائری لکھنا شروع کیا تھا۔ اس ڈائری کو ماہنامہ الرسالہ میںایک خصوصی شمارہ کے طورپر شائع کیاجارہا ہے۔ اس ڈائری کے لکھنے میں حسبِ معمول میرا رہنما اصول وہی رہا ہے جس کو شیخ سعدی نے ان الفاظ میں نظم کیا ہے—ہر ایک غیر کے خلاف فریاد کرتا ہے۔ مگر سعدی کو خود اپنے آپ سے شکایت ہے:
ہر کس از دستِ غیر نالہ کُند سعدی از دستِ خویشتن فریاد
قرآن کی سورہ نمبر ۱۷ کی ابتدائی آیتوں کا ترجمہ یہ ہے: پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجدِ حرام سے دور کی اُس مسجد تک جس کے ماحول کو ہم نے بابرکت بنایا ہے تاکہ ہم اُس کو اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں۔ بے شک وہ سننے والا، دیکھنے والا ہے۔ اور ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور اُس کو بنی اسرائیل کے لیے ہدایت بنایا کہ میرے سوا کسی کو اپنا کار سازنہ بناؤ۔ تم اُن لوگوں کی اولاد ہو جن کو ہم نے نوح کے ساتھ سوار کیا تھا، بے شک وہ ایک شکر گزار بندہ تھا۔ اور ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب میں بتادیا تھا کہ تم دو مرتبہ زمین (شام) میں فساد برپا کروگے اور بڑی سرکشی دکھاؤ گے۔ پھر جب اُن میں سے پہلا وعدہ آیا تو ہم نے تم پر اپنے بندے بھیجے، نہایت زور والے۔ وہ گھروں میں گھس پڑے اور وہ وعدہ پورا ہو کر رہا۔ پھر ہم نے تمہاری باری اُن پر لوٹا دی اور مال اور اولاد سے تمہاری مدد کی اور تم کو زیادہ بڑی جماعت بنا دیا۔ اگر تم اچھا کام کروگے تو تم اپنے لیے اچھا کرو گے اور اگر تم برا کام کروگے تب بھی تم اپنے لیے برا کروگے۔ پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا تو ہم نے اور بندے بھیجے کہ وہ تمہارے چہرے کو بگاڑ دیں اور مسجد میں گھس جائیں جس طرح وہ اس میں پہلی بار گھسے تھے اورجس چیز پر اُن کا زور چلے اُس کو وہ برباد کردیں۔ بعید نہیں کہ تمہارا رب تمہارے اوپر رحم کرے۔ اور اگر تم پھر وہی کروگے تو ہم بھی وہی کریں گے اور ہم نے جہنم کو منکرین کے لیے قید خانہ بنا دیا ہے (بنی اسرائیل ۱۔۸)
قرآن کے اس حصہ میں مکہ کی مسجد حرام سے یروشلم کی مسجد اقصیٰ تک پیغمبرانہ سفر کا ذکر ہے۔ یہ واقعہ ہجرت سے ایک سال پہلے غالباً ۶۲۱ء میں پیش آیا۔ یہاں یہ سوال ہے کہ پیغمبر اسلام ﷺ کو اس میں یروشلم کی جو نشانی دکھائی گئی وہ کون سی نشانی تھی۔ نشانی (آیت) کا لفظ قرآن میں تاریخی کھنڈروں کے لیے استعمال ہوا ہے (الحجر ۷۵)۔ اس سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یروشلم کی نشانی سے مراد مسجدِ اقصیٰ تھی جو اس سفر کے وقت ایک کھنڈر کی حالت میں تھی۔ جیسا کہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے ، مسجداقصیٰ کو دوسری بار ٹائٹس (Titus) رومی نے ۷۰ء میں مکمل طورپر ڈھا دیا ـتھا۔ پیغمبر اسلام کے سفر کے وقت مسجد اقصیٰ اسی کھنڈر کی حالت میں تھی۔ مسجد اقصیٰ کی موجودہ عمارت بعد کو بنو امیہ کی خلافت کے زمانہ میں بنائی گئی۔
یروشلم کی نشانی کو دکھانے کے اس واقعہ کا ذکر کرنے کے بعد فوراً بنی اسرائیل کی تاریخ بتائی گئی جو مسجد اقصیٰ کے کھنڈر سے جڑی ہوئی تھی۔ وہ تاریخ یہ تھی کہ بنی اسرائیل کو خدا نے پیغمبروں کے ذریعہ اپنا ہدایت نامہ دیا تاکہ وہ اس پر عمل کریں اور دوسری قوموں کو اس سے آگاہ کریں مگر بنی اسرائیل کی بعد کی نسلوں میں بگاڑاورسرکشی آگئی۔ اس کے بعد ان پر خدا کی مختلف تنبیہات آئیں۔ ان تنبیہات کا انتہائی ظہور ۵۸۶ ق م میںہوا جب کہ بابل کے حکمراں بخت نصر(Neouchadnezzar) نے مرکزِیہود یروشلم پر حملہ کرکے مسجدِ اقصیٰ (ہیکل سلیمانی) کو تباہ کردیا۔
مذکورہ قرآنی بیان کے مطابق، اس صدمہ کے بعد یہود کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ انہوں نے توبہ واصلاح کی۔ اس کے بعد خدا نے ان کی مددکی اور ان کو دوبارہ ایک ترقی یافتہ قوم بنا دیا۔ چند نسلیں گزرنے کے بعد بنی اسرائیل میں پھر بگاڑ شروع ہوا۔ دوبارہ اُن کو مختلف تنبیہات بھیجی گئیں۔ مگر ان کا بگاڑ جاری رہا۔آخر کار دوبارہ ۷۰ ء میں رومی حکمراں نے یروشلم پر حملہ کیا اور ہیکل سلیمانی (مسجد اقصیٰ) کو تباہ کردیا جو کہ یہودیوں کے لیے عزت اور سرفرازی کی علامت کی حیثیت رکھتا تھا۔ قرآنی بیان کے مطابق، اس کے بعد دوبارہ یہود کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ انہوں نے اپنی اصلاح کی اور پھر دوبارہ وہ خدا کی رحمت کے مستحق قرار پائے۔
یہود کی تاریخ میںاس طرح زوال کے بعد تنبیہات کا آنا اور پھر تباہی سے دوچار ہونے کے بعد ان کا دوبارہ ترقی کرنا ایک ایسا واقعہ ہے جو یہود کی تاریخ میں واضح طورپر دیکھا جاسکتا ہے۔
انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا میں اس کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے کہ یہ تباہی یہود کی تاریخ اور ان کے ادب میں ایک تاریخ ساز واقعہ بن ِگئی:
The disaster became the great epoc-making event in Jewish history and literature. (13/48)
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ قرآنی بیان میں لنریہ من آیاتنا (بنی اسرائیل ۱) میں ایک اہم حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ وہ یہ کہ قدیم اہل کتاب (بنی اسرائیل) کی تاریخ میںجس طرح دوبار تنبیہی حادثہ کا واقعہ پیش آیااسی طرح امت مسلمہ میں بھی دو بار تنبیہی حادثہ کا واقعہ پیش آئے گا۔جب ایسا ہوتو امت مسلمہ کے لیے بھی ضروری ہوگا کہ اس کے اندر احتساب اور اصلاح کی تحریکیں اٹھیں۔ اسی احتساب اور اصلاح کے ذریعہ ممکن ہوگا کہ امت مسلمہ دوبارہ خدا کی رحمت کی مستحق بنے جس طرح قدیم اہل کتاب ایسے ہی عمل کے ذریعہ مستحق بنے تھے۔
قدیم اہل کتاب (یہود) پر دوبار جو تنبیہی عذاب آیا وہ اُن کے مرکزی مقام یروشلم میں آیا۔ واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ امتِ مسلمہ کے ساتھ اسی طرح دوبار جو تنبیہی واقعہ پیش آنے والا ہے وہ بھی امت مسلمہ کے تاریخی مرکز بغداد میں پیش آئے گا۔ پہلی بار مرکزِ اقتدار کے طورپر، اور دوسری بار مرکزِدولت کے طور پر۔یہ تنبیہی واقعہ امت کے استیصال کے لیے نہیں ہوگابلکہ یہ دھماکہ خیز واقعہ امت کو جگانے کے لیے اور اس کو دوبارہ زندہ امت بنانے کے لیے ہوگا۔ واضح ہو کہ ایسا واقعہ حجاز کے علاقہ میں نہیں ہوسکتا۔ کیوں کہ حدیث کی صراحت کے مطابق، حجاز کو اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے لیے محفوظ علاقہ قرار دے دیا ہے۔( مشکاۃ المصابیح ۱؍۴۰)
جیسا کہ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ طولِ امد (الحدید ۱۶) سے لوگوں میں قساوت آتی ہے، یعنی قوم کی بعد کی نسلوں میں بگاڑ آجاتاہے۔ یہ بگاڑ بڑھتے بڑھتے جب اپنی آخری حد پر پہنچ جاتا ہے تو خدا کی طرف سے وہ واقعہ پیش آتا ہے جس کو قرآن میں بعثنا علیکم عباداً لنا اولی باسٍ شدید (بنی اسرائیل ۵) کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ امت مسلمہ میں یہ واقعہ پہلی بار تیرہویں صدی عیسوی میں پیش آیا۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب امت مسلمہ سے حقیقی دینی اسپرٹ نکل چکی تھی اور وہ ایک بے روح ڈھانچہ بن گئی تھی۔ اس وقت چنگیز خاں اور ہلاکو خاں کی قیادت میں وحشی تاتاریوں کی فوج اٹھی اور اُس نے اس وقت کی عباسی سلطنت کو تباہ کردیا جس کا مرکز بغداد تھا۔
اس تباہی کے بعد مسلمانوں میں احتساب کا جذبہ جاگا۔ انہوں نے اپنی دینی اصلاح کی۔ اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی رحمت دوبارہ متوجہ ہوئی اور تاتاریوں کی قوم کو اسلام کی توفیق دی گئی۔ اس کے بعد اسلام کی عظمت کی ایک نئی تاریخ شروع ہوئی جو نو آبادیاتی دور کے آغاز تک قائم رہی۔
اب پچھلے دو سو سال سے دوبارہ مسلمان زوال کی حالت میں مبتلا ہیں۔ اسلام کی اصل روح بے حد کمزور ہو گئی ہے۔ بظاہر مسلمانوں میں دین کے نام پر بہت سی سرگرمیاں دکھائی دیتی ہیں مگر تقریباً سب کی سب اسلام کی حقیقی روح سے خالی ہیں۔ وہ آج کل کی اصطلاح میں کمیونٹی ورک کی حیثیت رکھتی ہیں وہ حقیقی معنوں میں اسلامی ورک یا دینی عمل کی حیثیت نہیں رکھتیں۔
پچھلے دو سوسال میںجب سے مسلمانوں میں یہ بگاڑ آیا اُن پر خداکی طرف سے چھوٹی چھوٹی تنبیہات نازل ہوتی رہیں۔ نو آبادیاتی دور میں انگریزوں اور فرانسیسیوں کے ذریعہ ،فلسطین میں یہود کے ذریعہ ،پاکستان، بنگلہ دیش اور کشمیر میںہندوؤں کے ذریعہ، افغانستان میںامریکا کے ذریعہ، وسط مسلم ایشیا میں روس کے ذریعہ، وغیرہ۔ مگر یہ تنبیہات مسلمانوں کی اصلاح کے لیے کافی نہ ہوسکیں۔ آخرکار مارچ ۲۰۰۳ میں یہ ہوا کہ دنیا کی واحد سپر پاور امریکا کے ذریعہ مسلمانوں پر سخت حملہ شروع کردیا گیا۔ دوبارہ اس حملہ کا مرکز بغداد تھا۔ اس کے مقابلہ میں مسلمانوں کی تمام دفاعی قوت بھی عاجز ہوگئی۔
عراق کے خلاف امریکا کی فوجی کارروائی کا جو واقعہ پیش آیا وہ بہت غیر معمولی تھا۔ اس جنگ کے آغاز سے پہلے لمبے عرصہ تک امریکا یہ مانگ کرتا رہا کہ صدر صدام حسین اگر عراق کو چھوڑ دیں اور کسی دوسرے ملک میں چلے جائیں تو اُن کے خلاف فوجی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ کئی عرب ملکوں نے پیش کش کی کہ وہ صدام حسین کی میزبانی کے لیے تیار ہیں۔ مگر صدام حسین نے اس پیش کش کو قبول نہیںکیا۔ حالانکہ قریبی تاریخ میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں جب کہ مسلم حکمراں نے جلاوطنی کو قبول کرلیا اور باہر کے ملک میں جاکر آرام سے رہنے لگے۔ مثلاً افغانستان کے ظاہر شاہ، مصر کے شاہ فاروق، پاکستان کے نواز شریف، وغیرہ۔ صدام حسین جو فوجی انقلاب کے ذریعہ عراق پر قابض ہوئے تھے وہ بھی ایسا ہی کرسکتے تھے۔ مگر اس معاملہ میں اُن کا دل اتنا سخت ہوگیا کہ وہ اس پیش کش کو قبول کرنے کے لیے راضی نہیں ہوئے۔ یہاں تک کہ امریکا نے عراق پر حملہ کردیا۔
دوسری طرف صدر امریکا جارج بش کا معاملہ بھی تقریباً یہی ہے۔ دنیا کے بیشتر مدبرین اور بہت سے لوگوں نے عراق کے خلاف امریکا کی فوجی کارروائی کی مخالفت کی۔ خود راقم الحروف نے اس معاملہ میں امریکا کو اس اقدام کے خلاف کھلے طور پر متنبہ کیا تھا۔ گیارہ ستمبر ۲۰۰۱کو نیویارک کے ورلڈٹریڈ ٹاور کے حادثہ کے صرف ایک ہفتہ بعد میںنے ایک اخباری انٹرویو دیا تھا جو نئی دہلی کے انگریزی روزنامہ The Times of India کے شمارہ ۱۶ ستمبر ۲۰۰۱ میںچھپا تھا۔ اس میں میںنے واضح طورپر کہا تھا کہ امریکا کو پر امن ذرائع سے اپنا عمل کرنا چاہئے۔ اگر اس نے فوجی کارروائی کی تو اس کا نتیجہ آخر کار الٹا نکلے گا۔
US aggression would be counter-productive
مگر امریکی صدر جارج بُش نے کسی کے مشورہ کو نہیں مانا اور عراق پر حملہ کردیا۔
ان غیر موافق اسباب کے باوجود عراق کی ہولناک جنگ شروع ہوئی۔ اس جنگ کی ایک امتیازی صفت یہ تھی کہ اس کو ساری دنیا کے مسلمانوں نے اپنے T.V.Set پر شروع سے آخر تک دیکھا۔ چونکہ دنیا بھر کے مسلمان اس معاملہ میں صدام حسین کے حامی تھے اور اپنے آپ کو پوری طرح صدام حسین اور عراق کے ساتھ وابستہ کئے ہوئے تھے اس لیے یہ حملہ عملاً ساری دنیا کے مسلمانوں کے خلاف حملہ بن گیا۔ ہر مسلمان مرد اور عورت نے اس کی زد کو اپنے اوپر محسوس کیا۔
یہ مسلمانوں کی تاریخ میں غالباً پہلا موقع تھا کہ ساری دنیا کے مسلمانوں کی آبادی بیک وقت اپنے اوپر تباہی کو ٹوٹتا ہوا دیکھے مگر وہ اُس کے خلاف کچھ نہ کرسکے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کوئی اتفاقی بات نہیں۔ یہ دراصل ایک قسم کا شاک ٹریٹمنٹ(shock treatment) ہے جو خدائی فیصلہ کے تحت پیش آیا۔ اس کا مقصد مسلمانوں کو جگانا اور اُن کے اندر نظر ثانی کی تحریک چلا کر انہیں دوبارہ صحت مند حالت کی طرف لے جانا ہے۔
شاک ٹریٹمنٹ ہی فطرت کا واحد اصلاحی طریقہ ہے۔ فطرت کا اس طرح کے معاملات میں یہ ابدی اصول ہے کہ تعمیر سے پہلے تخریب کی جائے۔ نیا ڈھانچہ بنانے سے پہلے پر انے بے روح ڈھانچہ کو توڑ دیا جائے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو مولاناروم نے اپنے ایک شعر میں اس طرح بیان کیا ہے کہ جب کسی تعمیر کو دوبارہ بنانا ہوتا ہے تو پہلے پرانی تعمیر کو ڈھا دیا جاتا ہے:
چوں بنائے کہنہ آباداں کنند اولاً تعمیر را ویراں کنند
تیرہویں صدی میں بغداد پر تاتاری حملہ کی صورت میں جو تنبیہی واقعہ پیش آیا وہ ایک اعتبار سے امتِ مسلمہ کے لیے خدائی تازیانہ تھا۔ دوسرے اعتبار سے اس واقعہ میںیہ سبق بھی موجود ہے کہ اس تازیانہ کے بعد اُمت کی سرگرمیوں کا رُخ کس سمت میں ہوناچاہئے۔
عام مسلم تاریخوں میں اگرچہ یہ پہلو تقریباً غیر مذکور ہے۔ مگر انگریز مستشرق ٹی ڈبلیو آرنلڈ نے غیر معمولی تحقیق کے بعداس کو نمایاں کیا ہے۔ اُن کی یہ تحقیق اُن کی کتاب دعوتِ اسلام (The Preaching of Islam) میںتفصیل کے ساتھ دیکھی جاسکتی ہے۔
یہ تاریخ بتاتی ہے کہ اُس زمانہ کے مسلمانوں کے لیے جب سیاسی اور فوجی راستے عملاً بند ہوگئے تو اُنہوں نے دعوتی رُخ پر اپنی جدوجہد شروع کردی۔ مسلم مردوں اور مسلم عورتوں نے بڑے پیمانہ پر اور خاموش طورپر اسلام کی دعوت کا کام شروع کردیا۔ اس کا نتیجہ جلد ہی مثبت انداز میں نکلنے لگا۔ یہاں تک کہ صرف پچاس سال کے اندر یہ انقلابی واقعہ پیش آیا کہ تاتاریوں کی اکثریت نے خدا کے دین کو اپنا دین بنا لیا۔ مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن مسلمانوں کے سب سے بڑے دوست بن گئے۔
مجھے یقین ہے کہ جس طرح تیرہویں صدی میں تاتاری حملہ کے بعد اسلام کی تاریخ کا ایک نیا دور آگیا تھا اُسی طرح اکیسویں صدی میں دوسری بار امریکی حملہ کے بعد یقینی طور پر اسلام کی نئی زندہ تاریخ شروع ہوگی، وہ تاریخ جس کاپوری انسانیت کو انتظار ہے۔
نئی دہلی، ۷ مئی ۲۰۰۳ وحید الدین
۱۸ مارچ ۲۰۰۳
عراق میںالٹی گنتی (count down) کا عمل شروع ہوگیا۔ آج کے تمام اخباروں کی پہلی سرخی صرف ایک ہے—امریکی صدر جارج بُش کا الٹی میٹم عراقی صدر صدام حسین کے نام، عراق چھوڑو یا جنگ کا سامنا کرو:
Leave Iraq or face war
امریکا کے اس الٹی میٹم میںکہا گیا ہے کہ صدر صدام حسین کو ۴۸ گھنٹہ کے اندر عراق چھوڑ دینا چاہیے۔ ورنہ امریکا اپنے اتحادیوں (برطانیہ،اسپین، وغیرہ) کے ساتھ عراق پر شدید بمباری شروع کردے گا۔
عجیب بات ہے کہ دنیا بھر کے عوام، بشمول امریکی اور برطانوی عوام، اس حملہ کے خلاف ہیں۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ امریکا کو اقوام متحدہ کے فیصلہ کی پابندی کرنا چاہئے۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ عراق پر یہ حملہ امریکا کی سنگین غلطی ہوگی۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ جارج بُش نے اپنے آپ کو دنیا کا گارجین بنا لیا ہے مگر خود اس گارجین کا گارجین کون ہوگا:
Bush has appointed himself as the guardian of the world, but who will guard the world against the guardian.
۱۹ مارچ ۲۰۰۳
عراق پر امریکی حملہ کے بارے میں سیاسی مبصّرین کاعام طورپر یہ کہنا ہے کہ اگر یہ جنگ ہوئی تو اس میں امریکا کے مجموعی طورپر سو بلین ڈالر خرچ ہوں گے۔ یہ جنگ نہ صرف عراق کے لیے تباہ کن ہوگی بلکہ خود امریکا کی اقتصادیات بھی اس کے نتیجہ میں شدید نقصان سے دوچار ہو گی۔تاہم امریکا کے لیے یہ ایک وقتی صدمہ ہوگا۔ آخری نتیجہ کے اعتبار سے یہ جنگ امریکا کے لیے ٹھیک اُسی طرح نفع بخش ثابت ہوگی جس طرح دوسری عالمی جنگ امریکا کے لیے بے حد مفید ثابت ہوئی تھی۔ عراق پر قبضہ کے بعد امریکا وہاں کے تیل کے ذخائر کا اجارہ دار بن جائے گا۔ اس جنگ میں امریکا کو یہ موقع ملے گا کہ وہ اپنے جدید ترین ہتھیاروں کا تجربہ کرسکے۔ وہ اپنے مہلک ہتھیاروں کا مظاہرہ کرکے اسلحہ کی عالمی منڈی میں اپنی تجارت کو بڑھالے، وغیرہ۔
۲۰ مارچ ۲۰۰۳
۲۰ مارچ ۲۰۰۳ کو امریکا کے فضائی بمباروں نے عراق پر ہوائی حملہ کرکے جنگ کا آغاز کردیا۔ اس جنگ کی تیاری بہت دنوں سے جاری تھی۔آخرمیں امریکا نے عراقی صدر صدام حسین کو یہ الٹی میٹم دیا کہ ۴۸ گھنٹہ میں عراق کو چھوڑ کر باہر چلے جاؤ یا جنگ کا سامنا کرو۔ صدام حسین نے اس الٹی میٹم کو رد کردیا۔ آج صبح الٹی میٹم کا وقت ختم ہونے کے ۹۵ منٹ بعد امریکی صدر جارج بُش کے حکم سے عراق پر ہوائی حملہ کردیا گیا۔
۲۱ مارچ ۲۰۰۳
انگلینڈسے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمان کا ٹیلی فون آیا۔ اُنہوں نے عراق پر امریکی حملہ کی مذمت کی۔ میںنے کہا کہ امریکا کا عراق پر حملہ بلا شبہ قابلِ مذمت ہے مگر آپ کو یا میرے سوا دوسرے مسلمانوں کو اس مذمّت کا حق نہیں۔ میںنے کہا کہ پچھلے سیکڑوں سال کے درمیان مختلف مسلم حکمراں مثلاً بابر، غزنوی اور غوری، وغیرہ اسی قسم کے حملے کرتے رہے مگر کسی بھی مسلمان نے نہ پہلے اُس کی مذمت کی اور نہ آج وہ اس کی مذمت کررہے ہیں۔ میںاکیلا مسلمان ہوں جو ان واقعات کی تبریر(justification) نہیں کرتا۔ آپ لوگوں کو یا تودونوں حملوں کو جائز بتانا ہوگا یا دونوں حملوں کو ناجائز قرار دینا ہوگا۔ تضاد فکری کے لیے اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔ میں چونکہ مسلم حکمرانوں کے اس قسم کے جارحانہ حملوں کو قابلِ مذمت سمجھتا ہوں اس لیے مجھے یہ حق ہے کہ میں جارج بُش کے جارحانہ حملہ کی مذمت کروں۔
۲۲مارچ ۲۰۰۳
امریکا نے عراق پر جو حملہ کیا ہے، اس حملہ کو شاک اینڈ آ (Shock and Awe) کا نام دیا گیا ہے۔ یعنی حیرانی کا جھٹکا۔ آج کے اخباروں میںبتایا گیا ہے کہ صدام حسین اپنے قریبی ساتھیوں اور فوجی جنرلوں کے ساتھ بغداد کے باہر ایک خصوصی میٹنگ کررہے تھے۔یہ میٹنگ نہ کسی بنکر میں تھی اور نہ صدام حسین کے بہت سے محلوں میں سے کسی محل میں۔ اس میٹنگ کو صیغۂ راز میں رکھنے کے لیے اُس کا انتظام ایک نجی مکان میں کیا گیا تھا۔ یہ لوگ یہاں صرف چند گھنٹہ کے لیے جمع ہوئے تھے۔ مگر امریکا کے خفیہ محکمہ کو اس کا علم ہوگیا اور عین وقت پر ٹھیک اُس مقام پر بم گرایا گیا جس سے وہ مکان تباہ ہوگیا۔ امریکی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اس حملہ میں صدام حسین یا تو مرگئے یا شدید زخمی ہوگئے۔ عراقی ذرائع نے خود حملہ کی تردید نہیں کی۔ البتہ وہ اس کی تردید کررہے ہیں کہ صدام حسین اُس کی زد میں آئے۔ آزاد ذرائع کا کہنا ہے کہ صدام حسین یقینی طورپر اس ہوائی حملہ میں زخمی ہوئے ہیں۔ البتہ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ یہ زخمی ہونے والا انسان ریل (real)صدام تھا یا ڈبل (double) صدام۔
۲۳ مارچ ۲۰۰۳
بی بی سی لندن نے ایک رپورٹ نشر کی۔ آج کل مختلف ملکوں میں مسلمان بہت بڑے پیمانہ پر اینٹی امریکا جلوس نکال رہے ہیں۔ بی بی سی کے نمائندے نے اُردن کے ایک جلوس میںشرکت کی۔ وہاں عرب نوجوانوں نے نہایت جوش کے ساتھ جلوس نکالا تھا۔ ایک عرب نوجوان سے بی بی سی لندن کے نمائندہ نے بات کی۔ عرب نوجوان نے کہا کہ صدام ہمارا ہیرو ہے۔ صدام ہی اسرائیل کو کُچل سکتا ہے۔
یہی وہ نفسیات ہے جس کے تحت تمام دنیا کے مسلمان صدام حسین کے حامی بن گئے ہیں۔ ایک بلین مسلمانوں میں شاید میں اکیلا ہوں جو صدام حسین کا حامی نہیں۔ یہ عجیب بات ہے کہ مسلمانوں نے صدام حسین کے غلط کاموں پر اُس کی مذمت نہیںکی۔ صدام حسین بعث پارٹی کے ممبر ہیں جو کہ ایک قومی پارٹی ہے، نہ کہ دینی پارٹی۔ صدام حسین نے اپنے فوجی منصب کا غلط استعمال کرکے عراق پر قبضہ کرلیا۔ وہ عراق کے تیل کی دولت میںبے جا طورپر تصرف کررہے ہیں۔ صدام حسین نے بہت سے سیاسی مخالفین کو کسی عدالتی کارروائی کے بغیر ہلاک کردیا۔ صدام حسین نے ایران اور کویت کے خلاف جارحانہ کارروائی کی۔ رپورٹوں کے مطابق، دین سے اُن کا کوئی تعلق نہیں، وغیرہ۔ ان سب کے باوجود ساری دنیا کے مسلمان صدام کو اپنا ہیرو بنائے ہوئے ہیں۔ یہ اُسی نفسیات کے تحت ہے جس کو لا لحب علیّ بل لبغض معاویۃ کہا گیا ہے۔
موجودہ زمانہ کے مسلمان، تقریباً سب کے سب، دوسری قوموں کی نسبت سے منفی نفسیات میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ اس منفی نفسیات کا یہ نتیجہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنے مفروضہ دشمن کی ضد میں صدام حسین کو اپنا ہیرو بنالیا۔
۲۴ مارچ ۲۰۰۳
امریکا نے عراق کے خلاف جنگ یہ کہہ کر شروع کی تھی کہ ہم نے پچھلے مہینوں کے اندر اتنی زیادہ تیاری کر لی ہے کہ ایک ہفتہ کے اندر ہماری فتح کی صورت میں یہ جنگ ختم ہوجائے گی۔ مگر ابھی تک جنگ کے خاتمہ کا کوئی واضح نقشہ دکھائی نہیں دیتا۔ ٹائمس آف انڈیا (۲۴ مارچ ۲۰۰۳) میں ایک سیاسی مبصّر کا تبصرہ چھپا ہے۔ اُس نے کہا کہ جنگ شروع کرنا آسان ہے مگر اُس کے کورس کے بارہ میں پیشین گوئی کرنا سخت مشکل ہے:
It is easy to start a war but very difficult to predict its course. (p. 11)
ایک مبصّر نے کہا کہ امریکا نے صدام حسین کی فوجی طاقت کا اندازہ کرکے ایساکہا تھا۔ مگر حملہ کے بعد ایک غیر متوقع صورت پیش آگئی،اور وہ ہے عراقی نیشنلزم کا بھڑک اٹھنا:
US attack has managed to provoke Iraqi nationalism.
یہ مسئلہ صرف عراقی نیشنلزم کا نہیں ہے بلکہ وہ عرب نیشنلزم کا، حتیٰ کہ پوری دنیا کے مسلم نیشنلزم کا ہے۔ ساری دنیا کے مسلمان امریکا کی نفرت میں جی رہے تھے۔ اس لیے جب اُنہوں نے دیکھا کہ امریکا نے ایک مسلم ملک پر حملہ کر دیا ہے تو اُن کی منفی نفسیات پوری طرح بھڑک اُٹھی۔ وہ تقریباً متفقہ طورپر اس معاملہ میں امریکا کے مخالف اور عراق کے حامی بن گئے۔ یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ امریکا نے جو لڑائی چھیڑی ہے وہ صرف عراق کے خلاف نہیں ہے بلکہ پوری مسلم دنیا اُس کی زد میں ہے۔ گویا امریکا نے بھڑ کے چھـتّہ میںہاتھ ڈال دیا۔ اس جنگ میں امریکا کی جیت ہو یا ہار، اُس کو آئندہ اس کی بنا پر سنگین مسائل کا سامنا پیش آئے گا۔
۲۵ مارچ ۲۰۰۳
آج عراقی جنگ کا چھٹا دن ہے۔ اقوام متحدہ اور دنیا بھر کی عوام کی اکثریت امریکا کے اس فوجی اقدام کی مخالف تھی۔ ایسی حالت میں امریکا کی حکومت نے کیوں عراق پر حملہ کیا۔ اُس کا ایک خاص سبب ہے۔ امریکا کے مدبّرین یہ سمجھتے تھے کہ عراق کے عوام صدام حسین کی آمرانہ حکومت کے مخالف ہوچکے ہیں۔ وہ امریکی فوج کو نجات دہندہ سمجھ کر اُس کا استقبال کریں گے مگر غالباً ایسا نہیں ہوا۔ ٹائمس آف انڈیا (۲۵ مارچ ۲۰۰۳) کی ایک رپورٹ میں یہ الفاظ چھپے ہوئے ہیں:
The earlier expectation was that the Iraqi towns would welcome the Americans as liberators and not require any pacification. (p. 12)
ہزار سال پہلے مسلم فوجوں نے ایشیا اور افریقہ کے اکثر ملکوں میں نہایت تیزی سے فتح حاصل کرلی تھی۔ اس کاایک سبب یہ تھا کہ ان ملکوں کے عوام اپنے حکمرانوں سے ناراض تھے۔ چنانچہ اُنہوں نے مسلم فوجوں کا استقبال نجات دہندہ کی حیثیت سے کیا مگر آج ایسا نہ ہوسکا۔ اس کا بڑا سبب زمانی فرق ہے۔ قدیم زمانہ کی جنگ صرف میدان جنگ میں دو فوجوں کے درمیان ہوتی تھی۔ عوام براہ راست طور پر اُس کی زد میں نہیں آتے تھے۔ آج کی جنگ نئے ہتھیاروں سے ہوتی ہے۔ اُس کے برے اثرات فوراً ہی عوام تک پہنچنے لگتے ہیں۔ اس بنا پر عوام کو محسوس ہونے لگتا ہے کہ اُن کے ملک پر حملہ کرنے والے لوگ مصیبت دہندہ ہیں،نہ کہ نجات دہندہ۔
۲۶ مارچ ۲۰۰۳
رپورٹ کے مطابق، امریکا کی فوج میں پندرہ ہزار مسلمان ہیں۔ یہ لوگ ایک قسم کے نفسیاتی بحران میں مبتلا ہیں۔ وہ یہ کہ وہ امریکا کی فوج میں شامل ہو کر ایک مسلم ملک عراق کے خلاف جنگ کریں یا نہ کریں۔ بتایا گیا ہے کہ ایک امریکی مسلمان جس کا نام اکبر تھا اور کویت میں امریکی فوج کے ساتھ تھا، اُس نے ذہنی پریشانی کے عالم میں امریکی فوجیوں کے ایک کیمپ پر گرینیڈ سے حملہ کردیا اور چھ امریکیوں کو مارڈالا۔
میرے نزدیک اس معاملہ میں امریکی مسلمانوں کے لیے جو چوائس ہے وہ یہ نہیں ہے کہ وہ امریکی فوج میں شامل ہو کر مسلم ملک کے خلاف لڑیں یا نہ لڑیں۔ حقیقی چوائس صرف یہ ہے کہ وہ امریکی شہریت کو قبول کریں یا شہریت کو چھوڑ کر امریکا سے باہر آجائیں۔ میرے نزدیک یہ ایک دوعملی (duplicity) کی روش ہے کہ امریکا کی شہریت لے کر وہاں کی مادّی سہولتوں سے فائدہ اٹھایا جائے اور جب امریکا کو کوئی قومی لڑائی پیش آئے تو اُس لڑائی میںامریکا کا ساتھ نہ دیا جائے۔
آج کل اُمّہ کا جو تصور مسلمانوں میں پھیلا ہوا ہے مجھے ذاتی طور پراُس سے اتفاق نہیں۔ میرے نزدیک مسلمان اپنے مذہب کے اعتبار سے عالمی امت ہیں مگر وطن کے اعتبار سے اُن کی وفاداریاں اُسی طرح اپنے وطن کے ساتھ ہونی چاہئیں جس طرح دوسری قوموں کے لوگ اپنے مذہب کے اعتبار سے الگ تشخص رکھنے کے باوجود وطنی معاملات میں بقیہ اہل وطن کے ساتھ ہوتے ہیں۔
۲۷ مارچ ۲۰۰۳
نئی دہلی کے انگریزی اخبار ہندستان ٹائمس (۲۷ مارچ) میں مسٹر اشوانی کمار کا ایک آرٹیکل چھپا ہے۔ اس آرٹیکل میںوہ عراق کے خلاف امریکا کی جنگ کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا یہ جنگ ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ میں امریکا کی عمارتوں پر حملہ کا متناسب جواب ہے:
Does the war represent a proportionate response to 9/11. (p. 12)
میرے نزدیک یہ ایک غیر متعلق سوال ہے۔ اس طرح کے معاملات میں کبھی کوئی حکومت برابر کا جواب یا متناسب جواب نہیں دیتی۔ حقیقت یہ ہے کہ تناسُب کا مذکورہ اصول صرف معمول کے حالات میں قابلِ عمل ہے۔ غیرمعمولی حالات میں کوئی بھی تناسُب کے اس اُصول پر قائم نہیں رہ سکتا۔ انتقامی کارروائی کرنے والا ہمیشہ اپنی طاقت کے اعتبار سے جوابی کارروائی کرتا ہے، نہ کہ تناسب کے اعتبار سے۔
۲۸ مارچ ۲۰۰۳
صدر امریکا جارج بُش نے جب عراق پر حملہ کیا تو اُن کا اندازہ تھا کہ یہ جنگ صرف چند دن میں ختم ہوجائے گی۔ اُن کی انٹلی جنس نے اُنہیں بتایا تھا کہ عراق کے عوام صدّام حسین سے نفرت کرتے ہیں۔ اس لیے جب امریکی فوجیں عراق میں داخل ہوں گی تو وہ اُن کا استقبال کریں گے۔ عراقیوں نے امریکی اور برطانوی فوجوں کے خلاف کم ازکم وقتی طور پر گوریلا وار چھیڑ دی ہے۔ اُنہوں نے امریکی اور برطانوی فوجو ں کو کچھ نقصان بھی پہنچایا ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ عراق کے لوگ صدام حسین کی سخت گیر ڈکٹیٹر شپ کی بنا پر اُن سے نفرت کرتے ہوں۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ حملہ آور امریکیوں سے ضرور پیار کریں گے۔
دوسری بات جو عراق پر امریکی حملہ کے بعد سامنے آئی ہے۔ وہ یہ کہ ساری دنیا کے مسلمان امریکا کے خلاف ہوگئے ہیں۔ ہر مسلم ملک میں امریکا کے خلاف مظاہرے کیے جارہے ہیں۔ حتٰی کہ صدام حسین اس وقت ساری دنیا کے مسلمانوں کے ہیرو بن گئے ہیں۔ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ہندستان ٹائمس (۲۸ مارچ ۲۰۰۳) میں مسٹر پریم شنکر جھَا کا ایک مضمون چھپا ہے۔ اس کا عنوان ہے: Stuck in Iraq ۔ اس مضمون میں وہ موجودہ صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ صدام حسین داخلی طورپر عراقیوں میں بہت زیادہ غیر مقبول ہوسکتے ہیں مگر وہ مسلمانوں کے لیے خارجی حملہ کے خلاف مقاومت کی علامت بن گئے ہیں:
While Saddam may be highly unpopular within the domestic Iraqi context, he has become a symbol of resistance to foreign aggression. (p. 16)
۲۹ مارچ ۲۰۰۳
آج امریکا۔ عراق جنگ کا دسواں دن ہے۔ یہ جنگ امریکا کے لیے بظاہر مشکل ثابت ہورہی ہے۔ مثلاً صدام حسین نے چھاپہ مار دستوں کو حرکت میں لاکر امریکی فوج کی رسد کو وقتی طورپر کاٹ دیا ۔ امریکی فوج کو ضروری سامان پہنچنے میں مشکل پیش آرہی ہے۔ اس بنا پر اُن کی پیش قدمی وقتی طور پرسُست ہوگئی ہے۔ ۲۹ مارچ کے انگریزی روزنامہ پانیر(The Pioneer)نے اپنی پہلی خبر کی سرخی ان الفاظ میں قائم کی ہے کہ بُش ویتنا م کے راستہ پر:
Bush goes Vietnam way.
اسی طرح ہندستان ٹائمس کے آج کے اداریہ کا عنوان یہ ہے کہ سنگین نوعیت کا کمتر اندازہ (Grave Misunderestimation)
میڈیا میں جو رپورٹیں آرہی ہیں اُن کے اعتبار سے بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اب امریکی صدر جارج بُش کے لیے شاید دومیں سے ایک کا چوائس ہے۔ یا تو وہ ویتنام کی طرح عراق سے واپسی کا فیصلہ کریں۔ یا وہ بھاری بم گرا کر عراق کو بالکل تباہ کردیں۔ مگر جارج بُش کے لیے دونوں ہی چوائس یکساں طورپر سخت مشکل ہے۔ اگر وہ عراق سے واپسی کا فیصلہ کرتے ہیں تو یہ اُن کے لیے اور امریکہ کے لیے بدترین رسوائی کے ہم معنٰی ہوگا۔ یہ قومی رُسوائی اُن کے لیے غالباً شکست سے زیادہ بُری ثابت ہوگی۔ اور اگر وہ بھاری بم باری کرکے عراق کو تباہ کریں تو جارج بُش کوامریکی عوام کے اس سوال کا جواب دینا ہوگا کہ امریکی تاریخ کی یہ سب سے بڑی قربانی کیوں دی گئی۔ مگر تجربہ بتاتا ہے کہ اس طرح کے معاملہ کو آدمی عزت کا سوال بنا لیتا ہے۔ اور پھر وہ کسی بھی حال میں پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔
۳۰ مارچ ۲۰۰۳
قدیم زمانہ میں کسی جنگ کی خبر بقیہ دنیا کو برسوں کے بعد پہنچتی تھی۔ مگر آج کمیونیکیشن کا زمانہ ہے۔ عراق کے خلاف امریکا کی جنگ کی خبریں ہر لمحہ ساری دنیا تک پہنچ رہی ہیں۔ حتیٰ کہ لوگ اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے اپنے ٹی وی سیٹ پر جنگ کا حقیقی منظردیکھ رہے ہیں۔
اسی کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ ساری دنیا کے مسلمانوں میں غم اور غصہ کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ مختلف ملکوں سے مسلمان سفر کرکے عراق پہنچ رہے ہیں تاکہ عراقی مسلمانوں کی مدد کریں۔ ایک خبر کے مطابق، ہندستان سے ۶ مسلم نوجوانوں کی ایک ٹیم عراق پہنچی ہے۔ اس ٹیم کی قیادت سعید نوری کررہے ہیں جو بمبئی کی رضا اکیڈمی کے صدر ہیں۔
اس قسم کے امدادی دستوں کا تجربہ بہت پُرانا ہے۔ بیسویں صدی کے آغاز میں ہجرت کی تحریک چلی۔ اس میںہندستان کے مسلمان ہزاروں کی تعداد میں سفر کرکے کابل پہنچے۔ اسی طرح پچھلی امریکا ۔عراق جنگ میں مختلف ملکوں سے لوگ عراق پہنچے تھے۔ اسی طرح طالبان کی تحریک کے زمانہ میں ہزاروں مسلمان افغانستان میںداخل ہوئے تھے۔ مگر یہ تمام مہاجر مجاہدین ایک ہی انجام سے دوچار ہوئے۔ وہ یہ کہ وہ یا تو ہلاک ہوگئے یا بھاگ کر اپنے وطن واپس آئے۔ یقینی طورپر یہی انجام اُن لوگوں کا بھی ہونے والا ہے جو موجودہ جنگ میں عراق پہنچ رہے ہیں۔ اس قسم کے غیر منظم اور غیرتربیت یافتہ لوگ موجودہ جنگ میں کوئی بھی کردار ادا نہیں کر سکتے۔وہ دوسروں کے لیے بھی مصیبت ہیں اور خود اپنے لیے بھی مصیبت۔
۳۱ مارچ ۲۰۰۳
امریکی انتظامیہ کا خیال ہے کہ عراق کے خلاف جنگ میں اُس کی جیت یقینی ہے۔ چنانچہ اُس نے مختلف کمپنیوں کو دعوت دی ہے کہ وہ عراق کی بعد از جنگ تعمیر میں حصہ لیں۔ خاص طور پر عراق کی تیل کی صنعت کو دوبارہ منظّم کرنے کے لیے۔ امریکی انتظامیہ نے اس مقصد کے لیے جن کمپنیوں کو چنا ہے وہ سب امریکی کمپنیاں ہیں۔ اس پر امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے اپنا تبصرہ شائع کیا ہے۔ ٹائمس آف انڈیا (۳۱ مارچ) کے مطابق، نیو یارک ٹائمز نے لکھا ہے کہ امریکی حکومت کا یہ فیصلہ کہ وہ صرف امریکی کمپنیوں کو عراق کی تعمیر نو کے لیے مدعو کرے، اُس بین اقوامی تقسیم میں مزید اضافہ کرے گا جو کہ پہلے ہی سے بڑے پیمانہ پر موجود ہے:
The (US) government's decision to invite only American Corporations... has added to the profound international divisions that already surround the war. (p. 14)
امریکا اس جنگ میں اقوام متحدہ کی تائید حاصل نہ کرسکا۔ بڑی طاقتیں مثلاً فرانس، روس، چین سب اس معاملہ میں امریکا کے خلاف تھیں ۔ ساری دنیا کے عوام تقریباً ۷۰ فیصد تک امریکا کے مخالف ہوگئے۔ اب اگر تجارتی مفاد کے معاملہ میں بھی امریکا سب سے الگ ہوگیا تو جنگ کے بعد امریکا کو ایسے مسائل پیش آسکتے ہیںجن کا حل آسان نہ ہوگا۔
اپنے آپ کو سُپر پاور سمجھنے کے باوجود، بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امریکا نے عراق کے خلاف لڑائی چھیڑ کر اپنے آپ کو ایک مشکل میں پھنسا لیا ہے۔ اب اگر وہ ویتنام کی طرح عراق چھوڑ کر لوٹ جائے تو یہ امریکا کے لیے بہت بڑی بے عزّتی کے ہم معنٰی ہوگا۔ اور اگر وہ اپنی بڑھی ہوئی فوجی طاقت سے عراق کو تباہ کردے تب بھی اندیشہ ہے کہ امریکا کی یہ فتح پِرک فتح (pyrrhic victory) ثابت ہو جو ہار سے کچھ ہی مختلف ہو۔
یکم اپریل ۲۰۰۳
عراق میں جب سے امریکا کی فوجی کارروائی شروع ہوئی ہے، میرے پاس اکثر لوگوں کے ٹیلی فون آتے رہتے ہیں۔ ملک کے اندر سے بھی اور ملک کے باہر سے بھی۔ وہ پوچھتے ہیں کہ صدام حسین کا کیا قصور تھا جس کی بنا پر امریکا نے اُس کے اوپر فوجی حملہ کردیا اور ساری مسلم دنیا کو ذلت اور مصیبت کے غار میں ڈھکیل دیا۔
اس مسئلہ میں سوچنے کا یہ آغاز صحیح نہیں۔ صحیح آغاز یہ ہے کہ اس سوچ کو قرآن سے شروع کیا جائے۔ قرآن میں بار بار مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے یہ کہا گیا ہے کہ تم ہی غالب رہو گے اگر تم ایمان والے ہو (و انتم الاعلون ان کنتم مومنین)۔ اسی طرح فرمایا کہ اللہ منکروں کو مومنین کے اوپر ہر گز راہ دینے والا نہیں( ولن یجعل اللہ للکافرین علی المؤمنین سبیلا)۔اس طرح کی کثیر آیتیں جو قرآن میں ہیں اُ ن کی روشنی میں غور کیا جائے تو یقینی طورپر کہا جا سکتاہے کہ موجودہ قسم کی صورت حال میںہمارے سوچنے کا رُخ یہ نہیں ہونا چاہئے کہ فلاں غیر مسلم طاقت نے مسلمانوں کو کیوں ذلیل و مغلوب کیا۔ بلکہ یہ سوچنا چاہئے کہ خود مسلمانوں میں وہ کون سی کمزوری آگئی تھی جس کی بنا پر غیرمسلم طاقتوں کو یہ موقع ملا کہ وہ مسلمانوں کو ذلت اور مغلوبیت سے دوچار کریں۔
اصل یہ ہے کہ صدام حسین کا یا اُن کے حامیوں کا قصور امریکا کی نسبت سے نہیں ہے بلکہ وہ خدا کی نسبت سے ہے۔ اس اعتبار سے مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امریکا کی فوجی کارروائی در اصل اُن کے اوپر ایک خدائی آپریشن ہے (بنو اسرائیل ۵)۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے، یہ ایک خدائی تازیانہ ہے، نہ کہ محض ایک امریکی کارروائی۔
حقیقت یہ ہے کہ عراقی لیڈر اس برائی کی علامت بن گئے ہیں جو اس وقت ساری دنیا کے مسلمانوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ یہی سبب ہے کہ اس وقت ساری دنیا کے مسلمانوں نے صدام حسین کو اپنا ہیرو بنالیا ہے۔ یہ گویا اس مسلم سیاست کا ایک انتہائی اظہار ہے جو پچھلے تقریباً دوسو سال سے مسلمانوں کے اندر چل رہی تھی ۔ موجودہ زمانہ میں جب مغربی کولونیلزم کا مسئلہ پیدا ہوا تو ساری دنیا کے مسلمانوں میں ایسے لیڈر اُبھرے جو کسی نہ کسی اعتبار سے عداوتی نعروں پر کھڑے ہوئے ـتھے۔ نعرہ کے الفاظ مختلف تھے مگر سب کی اسپرٹ ایک تھی—پان اسلامزم، عرب نیشنلزم، اسلامک فنڈامنٹلزم، مسلم ریوائیولزم، جہاد ایکٹیوزم، اسلامک ریڈیکلزم، ٹوٹل اسلامزم، وغیرہ سب اس کے مظاہر ہیں۔
یہ تحریکیں جو پچھلے دو سو سال کے اندر ساری مسلم دنیا میں پھیل گئیں وہ مشترک طورپر عداوت پر مبنی سیاست کا نتیجہ تھیں۔ جب کہ مسلمانوں کے لیے فرض کے درجہ میں ضروری تھا کہ وہ دعوت پر مبنی سیاست کا طریقہ اختیار کریں۔ اس غیر اسلامی ذہن کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں نے ساری دنیا کو اپنا دشمن فرض کرلیا ۔ اور تمام قوموں سے متنفر ہو کر اُن کے خلاف نظری یاعملی طورپر منفی جہاد چھیڑ دیا۔
۲ اپریل ۲۰۰۳
ایک حدیث میں دریائے فرات کا ذکر آیا ہے جو عراق میں واقع ہے اور جہاں آج کل جنگ ہو رہی ہے۔ اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں: یوشک الفرات ان یحسر عن کنز من ذہب فمن حضرہ فلا یاخذ منہ شیئا (صحیح مسلم، کتاب الفتن و اشراط الساعۃ)۔ یعنی قریب ہے کہ فرات میں سونے کا ایک خزانہ نکلے، جو کوئی وہاں ہو تو وہ اس میں سے کچھ نہ لے۔
اس حدیث میں واضح طورپر تیل کے ذخائر کی طرف اشارہ ہے جس کو سیّال سونا (liquid gold) کہا جاتا ہے۔ اس سیّال سونے کا بہت بڑا حصہ خدا نے عرب کی سرزمین کے نیچے رکھ دیا تھا۔ اس حدیث کے مطابق، اس سیّال سونے کا خزانہ اس لیے تھا کہ اُس کو خدائی مشن میںاستعمال کیا جائے۔ مگر مسلمانوں نے اس سیّال سونے کو یا تو اپنے ذاتی عیش کے لیے استعمال کیا یا اپنی مہنگی عداوتی سیاست کا بل ادا کرنے کے لیے۔
یہ مہنگی عداوتی سیاست موجودہ زمانہ میں تقریباً تمام مسلم ملکوں میں چل رہی ہے۔ مثلاً مصر، پاکستان، افغانستان، لیبیا، سوڈان، شام، ایران، وغیرہ۔ اس فہرست میں صدام حسین کی قیادت میںعراق نے اس وقت نمبر ایک کی حیثیت حاصل کر لی ہے۔ عداوتی نفسیات کی بنا پر ساری دنیا کے مسلمانوں نے اپنے آپ کو صدام حسین کے ساتھ بریکیٹ کرلیاہے۔ ساری دنیا کے مسلمانوں نے اپنے آپ کو عراق سے منسوب کررکھا ہے۔ اُن کی اولاد اور اُن کے رشتہ دار خواہ امریکا میں ڈالر کمارہے ہوں مگر وہ تقریباً سب کے سب براہ راست یا بالواسطہ طورپر اینٹی امریکا ا ور پرو عراق بولی بول رہے ہیں۔
یہ صورت حال مسلمانوں کے لیے ایک جرم کی حیثیت رکھتی ہے۔ مسلمان نبی آخر الزماں کی امت ہونے کے اعتبار سے ایک داعی گروہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اُن کی لازمی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ دنیا کی قوموں کو دین کی دعوت دیتے رہیں۔ اسی ذمہ داری کو ادا کرنے کے لیے اُنہیں تیل کی دولت دی گئی تھی تاکہ وہ دعوتی عمل کی ہر ممکن قیمت ادا کرتے ہوئے اس کو نسل در نسل جاری رکھ سکیں۔
مگر موجودہ زمانہ کے مسلمانوں نے یہ عظیم جرم کیا کہ نہ صرف یہ کہ دعوت کا کام نہیںکیا بلکہ داعی اور مدعو کے درمیان نفرت کا جنگل اُگا کر دعوت کے امکانات کو برباد کردیا۔ بظاہر کچھ مسلم گروہ دعوت کا نام لیتے ہوئے نظر آتے ہیںمگر یہ اُن کے جرم میںصرف اضافہ کے ہم معنٰی ہے۔ ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ کوئی دعوت کے نام پر سیاست چلا رہا ہے۔ کوئی دعوت کے نام پر بزنس کر رہا ہے۔ کوئی جزئی اصلاح کررہا ہے اور بطور خود اس کو دعوت کا نام دے رکھا ہے۔ کچھ لوگ کمیونٹی ایکٹوزم جیسی قومی تحریکیں چلا رہے ہیں اور اُس کو دعوت کا نام دیے ہوئے ہیں، وغیرہ۔
۳ اپریل ۲۰۰۳
عراق کے خلاف امریکا کی جنگ کے معاملہ میں ساری دنیا کے مسلمان لکھنے اور بولنے میں مشغول ہیں۔ مگر میرے تجربہ کے مطابق، ہر ایک بس ردّ عمل کی زبان استعمال کررہا ہے۔ اس واقعہ پر کوئی مثبت تبصرہ ابھی تک میرے علم میں نہ آسکا۔ اس معاملہ کی ایک انوکھی مثال یہ ہے کہ ایک مسلم ادارہ جو اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن کے نام سے قائم ہے اُس نے ۶ صفحہ کا ایک پمفلٹ چھاپا ہے جس کا عنوان ہے—اسلام اینڈ ٹیررزم:
Islam and Terrorism
اس پمفلٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکا اوراُس کے ساتھی مسلمانوں کو دہشت گرد (terrorist) کہتے ہیں۔ مگر یہ صحیح نہیں۔ مسلمان متشدد ہوسکتاہے مگر اُس کا تشدد صرف سماج دشمن عناصر کے خلاف ہوتاہے تاکہ وہ سماج میں امن اور انصاف قائم کرے:
He should be terrorist only towards the anti-social elements in order to promote peace and justice in society.
یہ بات بلاشبہہ عقل اور اسلام دونوں کے خلاف ہے۔ کسی مسلم فرد یا مسلم تنظیم کو ہر گز یہ حق حاصل نہیں کہ وہ امن اور انصاف قائم کرنے کے نام پر کسی کے خلاف تشدد کرنے لگے۔ وہ صرف پُرامن نصیحت کرسکتا ہے، نہ کہ متشددانہ کارروائی۔
اگر امن اور انصاف کے نام پراس قسم کی متشددانہ کارروائی جائز ہو تو وہ صرف مسلمان کے لیے جائز نہ ہوگی بلکہ وہ ہر ایک کے لیے جائز قرار پائے گی۔ مثلاً امریکا نے عراق کے خلاف جو فوجی کارروائی کی ہے اُس کو وہ آپریشن عراقی فریڈم(Operation Iraqi Freedom) کہتا ہے۔ اب اگر مذکورہ اُصول کو درست مان لیاجائے تو کس دلیل سے کہا جائے گا کہ عراق کے خلاف اُس کا یہ آپریشن غلط ہے۔ اگر مسلمان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ امن و انصاف قائم کرنے کے نام پر متشددانہ آپریشن کرے تو امریکا کے اس موقف کو بھی جائز تسلیم کرنا ہوگا کہ وہ اپنے دعوے کے مطابق، عراق کی نجات کے لیے جو متشددانہ آپریشن کررہا ہے وہ درست ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مسلم ہو یا غیر مسلم، ہر ایک کے لیے یہ مشترک اُصول ہے کہ کسی بھی عذر کی بنا پر کسی کو تشدد کاطریقہ اختیار کرنے کا حق نہیں۔ پُر امن عمل ہر ایک کے لیے جائز ہے لیکن پُر تشدد عمل کسی کے لیے بھی جائز نہیں۔
۴ ؍اپریل ۲۰۰۳
آج کی خبروں سے اندازہ ہوتاہے کہ امریکا کی قیادت میںاتحادی فوجوں (Allied Forces) نے صدام ایر پورٹ پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے اور اُس کا نام صدّام ایر پورٹ کے بجائے بغداد ایرپورٹ رکھ دیا ہے۔ یہ ایر پورٹ بغداد شہر سے صرف بیسکیلو میٹر کے فاصلہ پر ہے۔ اب بظاہر یقینی ہے کہ جلد ہی امریکی فوجیں بغداد پر قبضہ کرلیں گی اور جلد ہی پورا عراق اُن کے ماتحت ہوجائے گا۔
اس معاملہ کا ایک بے حد سبق آموز پہلو ہے۔ اقوام متحدہ کا عالمی ادارہ اس حملہ کے خلاف تھا۔ روس، جرمنی، فرانس چین، وغیرہ ممالک امریکا کو اس سے روک رہے تھے۔ تمام دنیا کے مسلمان تقریباً متفقہ طورپر اس معاملہ میں عراق کے حامی اور امریکا کے مخالف بنے ہوئے تھے۔ اس کے باوجود امریکا نے عراق پر حملہ کردیا اور دنیا کی کوئی ’’رائے عامہ‘‘ اس کا راستہ روکنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔
اس تجربہ میںایک بہت بڑا سبق ہے۔ اکثر مسلم رہنماؤں کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ ہمیں اپنے مسائل کے حق میں دنیا کی رائے عامہ کو ہموار کرناہے اور انٹرنیشنل سپورٹ حاصل کرنا ہے۔ کشمیر اور فلسطین اور افغانستان جیسے متعدد مسائل پر ان لوگوں نے اربوں ڈالر صرف اس لیے خرچ کیے کہ اپنے قومی کاز کے لیے انٹر نیشنل حمایت حاصل کریں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ عالمی رائے عامہ کا ملنا بھی اتنا ہی بے فائدہ ہے جتنا کہ اس کا نہ ملنا۔عراق کی مثال بتاتی ہے کہ کسی مسئلہ کو انٹرنیشنلائز کرنا صرف ایک نادان خوش فہمی ہے۔ اس کا کوئی بھی حقیقی فائدہ نہیں۔ اگر اس میں فائدہ ہوتا تو عراق کو یہ فائدہ بخوبی طورپر حاصل ہوچکا ہوتا۔
ایک عوامی مثل ہے کہ: بَل تو اپنا بَل۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی قسم کا فائدہ کسی کو خود اپنی طاقت کے ذریعہ ملتا ہے، نہ کہ کسی دوسرے کی طاقت کے ذریعہ۔
ہمارے لیڈر جو طاقت کسی مسئلہ کو انٹرنیشنلائز کرنے میں لگاتے ہیں اُس کو اگر وہ اپنے داخلی استحکام میںلگائیں تو یقینی طورپر وہ زیادہ مفید ہوگا۔
۵ اپریل ۲۰۰۳
صبح کو میںنے ریڈیو کھولا تو اُس پر امریکا کے صدر جارج بُش کی تقریر آرہی تھی۔ اُنہوں نے پُر جوش طورپر کہا کہ عراق میں ہمارا آپریشن کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے۔ ہم اپنے منصوبہ کے مطابق، مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں۔ عراقی حکومت کے دن اب ختم ہونے والے ہیں:
The days of Iraqi regime are coming to an end.
میں نے یہ الفاظ سنے تو میں نے سوچا کہ زیادہ گہرائی کے ساتھ دیکھا جائے تو یہ مسئلہ صرف صدام حسین کا نہیں ہے بلکہ وہ خود جارج بُش کا بھی ہے۔ اس دنیامیں ہر انسان کاکاؤنٹ ڈاؤن (countdown) ہورہا ہے۔ ہر انسان کی مدت آخر کار ختم ہونے والی ہے۔ ہر انسان آخر کار موجودہ دنیا سے نکل کر آخرت کی دنیا میںپہنچنے والا ہے۔ وہاں ہر آدمی کو اپنے قول و عمل کاحساب دینا ہوگا۔ وہاں ہر آدمی یکساں طورپر خدا کے فیصلہ کو قبول کرنے پر مجبور ہوگا۔
مگر عجیب بات ہے کہ ہر مرد اور عورت کو صرف دوسروں کے اوپر گذرنے والے معاملہ کی خبر ہے۔ خود اپنی ذات پر جو کچھ گذرنے والا ہے اُس کی کسی کو خبر نہیں۔ یہ ایک ایسی بھول ہے جس میں شاید آج کا ہر انسان مبتلا ہے، خواہ وہ پڑھا لکھا ہو یا جاہل، خواہ وہ امیر ہو یا غریب، یہاںتک کہ اس معاملہ میںمذہبی اور غیر مذہبی کے درمیان بھی شاید کوئی فرق نہیں۔
۶ ؍اپریل ۲۰۰۳
عراق پر امریکی حملہ سے پہلے میںنے ایک مضمون انگریزی میںلکھا جس میںصدام حسین کو یہ مشورہ دیا گیا تھا کہ وہ اقتدار سے ہٹ جائیں اور عراق چھوڑ کر کسی عرب ملک میں چلے جائیں۔ اس طرح وہ اپنے آپ کو اور عراقی عوام کو بچالیں گے۔ اس مضمون کا عنوان یہ تھا:
Option for Saddam Husain.
کئی عرب ملکوں نے بھی صدام حسین کو خاموشی کے ساتھ یہی مشورہ دیا تھا۔ مگر صدام حسین نے اس مشورہ کو قبول نہیں کیا اور نادانی کی لڑائی لڑ کر اپنا خاتمہ کرلیا۔ عام طورپر مسلمان اس قسم کے فعل کو عزیمت کہتے ہیں اور اُس پر فخر کرتے ہیں۔ مگر میں اُس کو نادانی کی سیاست سمجھتاہوں۔ اس قسم کی سیاست کا آغاز جدید دور میں سلطان ٹیپو سے ہوا جو بے سروسامانی کے باوجود خود ساختہ طورپر شیر کی لڑائی لڑے اور ۱۷۹۹ میں انگریز کی گولی کا شکار بن گئے۔ اس کے بعد سید احمد بریلوی، جمال الدین افغانی، سید قطب، یاسر عرفات، جیسے بہت سے لوگ اسی قسم کی بے فائدہ قربانی کی مثالیں ہیں۔
اس طرح کے معاملہ میں پوری مسلم قوم اتنا زیادہ جذباتی ہوگئی ہے کہ اب کسی لیڈر کے لیے اس کے سوا کوئی دوسری صورت ممکن نہیںرہی کہ وہ بطور خود عزیمت سمجھ کر اپنی جان دے دے۔ کیوں کہ اگر وہ ایسا نہ کرے تو وہ مسلمانوں میں بزدل شمار ہوگا اور اچانک مسلمانوں کے اندر اپنی مقبولیت کھو دے گا۔
صدام حسین اس غلط روایت کو توڑ سکتے تھے۔ اگر وہ ایسا کرتے کہ اقتدارسے ہٹ کر کسی دوسرے ملک میں جا کر مقیم ہو جاتے اور وہاں ایک انٹرنیشنل یونیورسٹی قائم کرتے تو یہ امت کے لیے اُن کا ایک عظیم کارنامہ ہوتا۔ صرف اس اعتبار سے نہیں کہ اُنہوں نے مسلمانوں کوایک یونیورسٹی دی بلکہ اس اعتبار سے بھی کہ اُنہوں نے اس تباہ کن روایت کو توڑ کر نئی صحت مند روایت قائم کی جس کے مطابق، لوگ خواہ مخواہ اپنے آپ کو ہلاک کررہے ہیں اور عزیمت کا غلط نمونہ قائم کررہے ہیں۔
اسلام کے مطابق، حقیقی عزیمت یہ ہے کہ آدمی غیر نزاعی طریقہ اختیار کرکے اپنے آپ کو بچائے اور اپنی قوتوں کو تعمیر و استحکام کے عمل میں لگا دے۔
۷ ؍اپریل ۲۰۰۳
آج کل عراقی جنگ کے بارہ میں تعلیم یافتہ مسلمانوں کے مضامین کثرت سے مسلم اخباروں اور مسلم جرائد میںآرہے ہیں۔ ان مضامین میںتقریباً مشترک طورپر یہ ہورہا ہے کہ یہ لوگ ڈکشنری کے تمام الفاظ امریکا کی مذمت میں استعمال کررہے ہیں۔ ہر ایک امریکا کے بارہ میں یہ ثابت کرنے میںمشغول ہے کہ اُس کی پالیسی دوہرا معیار پر مشتمل ہے۔ امریکا نے خود تو ہتھیاروں کا ذخیرہ اپنے ملک میںاکٹھا کر رکھا ہے اور عراق سے مطالبہ کرتا ہے کہ تم اپنے ہتھیاروں کو ختم کردو۔وہ خود تو ظالمانہ پالیسی اختیار کیے ہوئے ہے اور عراقی عوام سے مانگ کرتا ہے کہ تم اپنے یہاں سے ظالم حکمراں کو ہٹاؤ۔ وہ خود تو عراق اور دوسرے مسلم ملکوں کے خلاف تشدد کی کارروائی کرتا ہے اور دوسروں سے کہتا ہے کہ وہ امریکا کے اداروں پر متشددانہ حملے نہ کریں۔مسلم میڈیا آج کل اس قسم کے مضامین سے بھرا ہوا نظر آتا ہے۔
مگر یہ ایں گناہے است کہ در شہر شما نیز کنند کا معاملہ ہے۔ میرے تجربہ کے مطابق، امریکا کی بے تکان مذمت کرنے والے ان مسلمانوں کا اپناحال یہ ہے کہ اُ ن میںسے جس کے بھی بَس میں ہے وہ اپنے بیٹے اور بیٹی اور اپنے رشتہ داروں کو امریکا میں سٹل کیے ہوئے ہے۔ یہ لوگ جس دوہرے معیار کا الزام امریکا کو دے رہے ہیں اُسی دوہرے معیار میں وہ خود مبتلا ہیں۔ ان لوگوں کو چاہئے کہ وہ اس مسئلہ میں یا چپ رہیں یا اُصول پسندی کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے اپنے عزیزوں کو امریکا سے واپس بلا لیں۔
جو لوگ امریکا یاغیر امریکا کو دشمن قرار دے کر اُن کے خلاف اس قسم کے الفاظ بکھیر رہے ہیں اُن کے اوپر قرآن کے یہ الفاظ صادق آتے ہیں کہ: ہم العدو فاحذرہم (المنافقون ۴) یعنی وہ خود دشمن ہیں، تم اُن سے بچو۔ حقیقت یہ ہے کہ دوسری قوموں کو عدو قرار دے کر مسلمانوں کے اندر اُن کے خلاف نفرت اور عداوت کی نفسیات پیدا کرنا اسلام کے منصوبہ کے سراسر خلاف ہے۔ مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے عدو کے ساتھ بھی بہتر سلوک کریں، وہ اپنے عدو کو بھی اپنا دوست بنانے کی کوشش کریں۔ (حٰم السجدہ ۳۴)
قرآن کے اس بیان کے مطابق، یہ خود سب سے بڑی اسلام دشمنی ہے کہ ایسی باتیں کی جائیں جن سے مسلمانوں کے اندر دوسری قوموں کے خلاف نفرت اور عداوت کے جذبات بھڑک اُٹھیں۔ اور پھر اس کا نتیجہ یہ ہو کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان اتنی تلخی بڑھے کہ دعوتی عمل کے امکانات ختم ہوجائیں۔ جب کہ دعوتی عمل ہی اسلام کی سب سے بڑی طاقت ہے۔
۸ اپریل ۲۰۰۳
عراق کی جنگ میںپہلے امریکی فوج فضائی بمباری کرر ہی تھی۔ اُس وقت جنگ کا معاملہ یکطرفہ تھا۔ امریکی مارنے والے تھے اور عراقی مرنے والے۔ لیکن صرف فضائی بمباری سے جنگ کا فیصلہ نہیں ہو سکتا تھا۔ چنانچہ امریکا اور برطانیہ کی فوج زمین پر اُتر گئی اور عراق کے شہروں میںزمینی راستہ سے گھسنا شروع کیا۔ اب لڑائی دو طرفہ ہوگئی ۔ رپورٹ کے مطابق، دونوں طرف کے ہزاروں فوجی مارے جاچکے ہیں۔
میںنے وائس آف امریکا (ریڈیو) پر امریکا کے صدر جارج بُش کی تقریر سُنی۔ اُنہوں نے پُرجوش طورپر کہا کہ صدّام ختم ہوگیا: (Saddam is finished) ۔ مگر عراق کی جنگ میںصدام حسین کی حیثیت صرف ایک علامت کی ہے۔ در حقیقت اس جنگ میں ساری دنیا کے مسلمان براہِ راست طورپر یا بالواسطہ طورپر شامل تھے۔ موجودہ صورت ِ حال کے مطابق، تمام دنیا کے مسلمان اس احساس میں جی رہے ہیں کہ امریکا اور دوسری قومیں مسلم دشمن یا اسلام دشمن بن چکی ہیں۔ وہ ہمارا وجود مٹا دینا چاہتی ہیں۔ ایسے حالات میں اصل مسئلہ جنگ کا نہیں ہے بلکہ مذکورہ قسم کی منفی سوچ کا ہے۔ جب تک یہ سوچ نہ بدلے جنگ و تشدد کسی نہ کسی صورت میں جاری رہے گا، خواہ صدام حسین زندہ ہوں یا زندہ نہ ہوں۔
میںذاتی طورپر اس نظریہ کو بے بنیاد سمجھتا ہوں کہ امریکا یا دوسری قومیں اسلام دشمن ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پیدائشی طورپر ہر آدمی اسلام دوست ہے۔ یہ مسلمانوں کی غیر حقیقی سوچ ہے جس کی بنا پر دوسرے لوگ اُن کو منفی صورت میں دکھائی دیتے ہیں۔
۹ اپریل ۲۰۰۳
آج کل دنیا بھر کامسلم پریس ایک ہی بولی بول رہا ہے،اور وہ ہے مذمت کی بولی۔ میرے علم کے مطابق، کوئی بھی مسلم اخبار یا جریدہ ایسا نہیں جو ایسی بات لکھے جس میں مسلمانوں کو حوصلہ ملتا ہو۔ مثال کے طورپر ایک مسلم ہفت روزہ نے عراق کی جنگ پر ایک مضمون شائع کیا ہے جس کا عنوان یہ ہے—عراق کی آزادی کا آپریشن یا انسانیت کو غلام بنانے کی مہم:
Operation Iraqi freedom or Enslaving Mankind?
اس مضمون میں بار بار اس قسم کی بات کہی گئی ہے کہ یہ ایک غیر منصفانہ جنگ ہے جس کو بے شرمی کے ساتھ ایک کمزور قوم کے اوپر مسلط کر دیا گیاہے۔ یہ امریکن کولونیلزم (American colonialism) ہے، یہ امریکی امپیریلزم (American Imperialism)ہے۔ آئیے ہم ظالم امریکا کی مخالفت کریں اور مظلوم عراق کی حمایت کریں:
Let us oppose the oppressor and support the oppressed Iraqies
مگر قرآنی نقطۂ نظر سے اصل سوال یہ ہے کہ ایساکیوں ہوا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ مسلمانوں کے لیے ایک شاک ٹریٹمنٹ (shock treatment) ہے۔ موجودہ زمانہ کی مسلم نسلوں میں تقریباً دوسوسال سے سخت جمود (stagnation) آگیا تھا۔ خدا کے قانون کے مطابق، یہ ان کے لیے ایک تازیانہ ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کا تقلیدی خول ٹوٹے۔ اُن کے ذہن کی کھڑکیاںکھلیں۔ اُن کے اندر احتساب خویش کا جذبہ جاگے۔ وہ نئے زمانہ کی حقیقتوں کو سمجھیں اور دورِ جدید میں اپنا مقام متعین کرنے کی از سرِ نو منصوبہ بندی کریں۔
خدا کایہ قانون ایک عالمی اور عمومی قانون ہے۔ لیکن مسلمانوں کے لیے وہ دُگنا اہمیت کا حامل ہے۔ مسلمان آخری نبی کی امت ہیں۔ اپنے اس منصب کی ذمہ داری سے وہ آخری حد تک غافل ہوگئے تھے۔ اب قت آگیا تھا کہ اُنہیں جھنجھوڑ کر جگایا جائے۔ اُن کے بے روح ڈھانچہ میں دوبارہ اسلام کی زندہ روح ڈال دی جائے۔ مسلمانوں کے موجودہ تاریک حال میں مجھے اُن کے اسی روشن مستقبل کی تصویر دکھائی دیتی ہے۔
آج صبح کو حسب معمول میں بی بی سی ورلڈ رسروس پر خبریں سن رہا تھا۔ خبروں میں بتایا گیا کہ عراق کی راجدھانی بغداد امریکی فوجوں نے قبضہ کرلیا اور صدام حسین کی ۲۴ سالہ حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ ریڈیو پر بار بار اس قسم کے الفاظ سُنائی دے رہے تھے:
Saddam is gone.
Rule of Saddam is over.
The regime of Saddam is no more.
The power of Saddam is wrecked forever.
Saddam’s authority is collapsed.
خبروں میںبتایا گیا کہ بغداد کے مرکز میں واقع صدام حسین کا دیو پیکر اسٹیچو ٹینک سے توڑ کر گرادیا گیا۔ یہ دیو پیکر اسٹیچو ۲۰ فٹ اونچا تھا اور اُس کو ۲۰۰۱ میںالفردوس اسکوائر میں نصب کیا گیا تھا۔ اس قسم کی مختلف خبریں مسلسل آرہی تھیں۔ خبروں کے درمیان اناؤنسر نے کہا:
The whole Muslim world has plunged into despair.
اُس وقت میں اپنے مطالعہ کے کمرہ میں تنہا کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔ یہ الفاظ سنتے ہی بے اختیار میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ میںنے روتے ہوئے کہا کہ کیا خدا اب مسلمانوں کا مددگار نہیں۔ کیا خدا نے موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کو رد کردیا ہے۔ میں سوچتا رہا، یہاں تک کہ میری سمجھ میں آیا کہ یہ مسلمانوں کو رد کرنے کا معاملہ نہیں ہے بلکہ اس بے فائدہ طریقِ کار کو رد کرنے کا معاملہ ہے جو پچھلے دو سو سال سے مسلمان اپنے قائدین کی رہنمائی میں اختیار کیے ہوئے تھے۔
موجودہ زمانہ میں جب دوسری قوموں کے مقابلہ میں مسلمانوں کے لیے مغلوبیت کا مسئلہ پیداہوا تو قائدین نے اس کا مقابلہ کرنے کے لیے جو طریقہ تجویز کیا وہ یہ تھا کہ مسلمان پولیٹیکل اسلام اور ملیٹنٹ جہاد کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں۔ یہ نعرہ مسلمانوں کے اندر خوب مقبول ہوا۔ تقریباً ساری دنیا کے مسلمانوں نے اُسے اختیار کرلیا۔ کسی نے قولی طورپر اور کسی نے عملی طورپر۔
اس پولیٹیکل اسلام اور ملیٹنٹ جہاد میں دنیا بھر کے مسلمانوں نے جو جان و مال کی قربانیاں دی ہیں وہ پوری تاریخ کی تمام مسلم قربانیوں سے بھی زیادہ ہیں۔ مگر واقعات بتاتے ہیں کہ یہ تمام قربانیاں حبطِ اعمال کا شکار ہوگئیں۔ اُن کاکوئی بھی مثبت نتیجہ بر آمد نہیں ہوا۔ عراق کا حادثہ جس میں تمام دنیا کے مسلمانوں کے جذبات شامل ہوگئے تھے اس معاملہ کی آخری کڑی ہے۔ میںسمجھتا ہوں کہ خدا نے مسلمانوں کو رد نہیں کیا البتہ اُس متشددانہ طریقِ کار کو مکمل طور پر رد کر دیا ہے جو انقلابی اسلام اور مسلّح جہاد کی صورت میں مسلمانوں نے ساری دنیا میں جاری کر رکھا تھا۔
اب مسلمانوں کے لیے کامیابی کا صرف ایک ہی راستہ ہے۔ وہ پولیٹکل ایکٹوزم اور وائلنٹ ایکٹوزم کو مکمل طورپر چھوڑ دیں اور امن کے دائرہ میں رہتے ہوئے دعوہ ایکٹوزم کو اختیار کرلیں۔ عراق کا حادثہ اُن کو یہی ربّانی پیغام دے رہا ہے۔
۱۱ اپریل ۲۰۰۳
نئی دہلی کے انگریزی اخبار ہندستان ٹائمس (۱۱ اپریل ۲۰۰۳) میںڈاکٹر کرن سنگھ کا ایک مضمون چھپا ہے ۔ اس میں وہ عراق کی جنگ کا تذکرہ کرتے ہوئے آخر میں لکھتے ہیں کہ امریکی سینیٹ کے ممبر رابرٹ بائرڈ نے سینٹ میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے ملک کے لیے روتے ہیں۔ عراقی بھی یقینا اپنی مصیبت پر رورہے ہیں۔ بقیہ دنیا عراق اور امریکا دونوں پر رو رہی ہے۔
Senator Robert Byrd said in his speech in the US Senate that he weeps for his country. The Iraqis of course are weeping in agony. The rest of the world, is weeping both for Iraq and for the U.S. (p. 10)
میرے نزدیک عراق کی جنگ کا معاملہ رونے کا معاملہ نہیں ہے بلکہ وہ تجزیہ کرنے کا معاملہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ غیر معمولی جنگ سادہ طورپر صرف ایک جنگ نہیں تھی بلکہ وہ ایک عالمی امتحان تھا جس میں تمام قومیں فیل ہوگئیں۔ امریکا اور برطانیہ کا کیس یہ ہے کہ اُنہوں نے نعمت کا بھرپوراستعمال کیا مگر انہوں نے منعم کا اعتراف نہیں کیا۔ خدا کی نعمتوں کا اعتراف کیا جائے تو اُس سے تواضع (modesty) پیدا ہوگی اور اگر خدا کی نعمتوں کااعتراف نہ کیا جائے تو اُس سے گھمنڈ اور سرکشی پیدا ہوتی ہے۔ یہی صورت امریکا اور اُس کے حلیفوں کے ساتھ پیش آئی۔ اُنہوں نے اپنی سرکشی کو عراق کے اوپر انڈیل دیا۔
دوسری طرف عراق کا معاملہ یہ ہے کہ اُس کی زمین کے نیچے تیل کے قیمتی ذخائر موجود ہیں۔ صدر صدّام حسین اس قیمتی دولت کے ذریعہ بہت بڑے بڑے تعمیری کام کرسکتے تھے۔ مگر اُنہوں نے اس دولت کا بہت بڑا حصہ ہتھیار اکٹھا کرنے میں لگا دیا۔ یہاں تک کہ عراق دنیا کی چوتھی سب سے بڑی فوجی طاقت بن گیا۔ اس کے بعد صدام حسین نے مزید یہ کیا کہ وہ ہر ایک کے خلاف دھمکی کی زبان استعمال کرنے لگے۔ وہ جنگجوؤں کے سرپرست بن گئے۔ اسی کا رد عمل تھا جو امریکی حملہ کی صورت میں اُن کے اوپر ٹوٹ پڑا۔
تیسری طرف بقیہ ملکوں کا معاملہ ہے۔ ان میں سے کسی بھی ملک نے اس معاملہ میں اصول پسندی کا ثبوت نہیں دیا۔ کسی کا مفاد امریکا سے وابستہ تھا تو وہ امریکا کے ساتھ متحد ہوگیا۔ کسی کا مفاد عراق کے تیل سے جڑا ہوا تھا تو وہ عراق کا حامی بن گیا۔ دنیا کے ۱۹۱ ملکوں میں سے شاید کوئی بھی ملک ایسا نہ تھا جو اس معاملہ میں بااُصول سیاست کا ثبوت دے۔
۱۲ اپریل ۲۰۰۳
لاہور کے اُردو روزنامہ نوائے وقت کا شمارہ ۳ اپریل ۲۰۰۳ مجھے آج کی ڈاک سے ملا۔ اس کے پہلے صفحہ پر ’’ملین مارچ‘‘ (کوئٹہ) کی رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ یہ ملین مارچ پاکستان کے متحدہ مجلس عمل کے زیر انتظام کیا گیا تھا۔ اخبار میں اس کی تفصیلی رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ اس کا عنوان یہ ہے: جہاد فرض ہوگیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس موقع پر مولانا فضل الرحمن، مولانا شاہ احمد نورانی، قاضی حسین احمد، پروفیسرساجد میر، مولانا سمیع الحق، علاّمہ ساجد نقوی، حافظ حسین احمد، وغیرہ نے تقریر کی۔
اس جلسہ میں پاکستانی رہنماؤں نے جو تقریریں کیں اُن کا خلاصہ اخباری رپورٹ کے مطابق، یہ تھا کہ امریکا نے نہتّے عراقی عوام پر شدید گولہ باری کررکھی ہے۔ امریکا ایک ایک کرکے تمام اسلامی ممالک کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ امریکا اور برطانیہ مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیل رہے ہیں۔ امریکا اور اُس کے حواریوں کے خلاف تمام مسلمانوں پر جہاد فرض ہوگیاہے (صفحہ ۶)
مذکورہ اقتباس میں جو بات کہی گئی وہ ایک ادھوری بات ہے۔ ’’تمام دنیا کے مسلمانوں‘‘ پر اگرجہاد فرض ہوگیا ہو تو ایسا نہیں ہوگا کہ دوسرے مسلمانوں پر تو جہاد فرض ہو اور مقررین پر جہاد فرض نہ ہو۔حقیقت یہ ہے کہ جب یہ کہا جائے کہ جہاد فرض ہوگیا ہے تو اس میں اپنے آپ ایک اور چیز شامل ہوجاتی ہے۔ وہ یہ کہ اب میدانِ جہاد سے باہر رہ کر تقریر کرنا حرام ہوگیا ہے۔ جب جہاد فرض ہو جائے تو سب کچھ چھوڑ کر میدانِ جہاد کی طرف بھاگنا چاہئے، نہ کہ میدان جہاد سے الگ رہ کر لفظی تقریر کرنا۔ اسی طرح کی صورت حال میںشاعر نے کہا تھا:
گئے وہ دن کہ تھی مقبول اک دنبے کی قربانی متاع جاں اب ادنیٰ ہدیہ ہے سرکارِ جاناں کا
جیسا کہ معلوم ہے، عراق کی جنگ قدیم انداز کی جنگ نہیںہے۔ یہ میڈیا کے دور کی جنگ ہے۔ آج ہر مسلمان اپنے گھر میں ٹی وی کے سیٹ پر نہ صرف جنگ کی خبریں سُن رہا ہے بلکہ وہ جنگ کے مناظر دیکھ رہا ہے۔ ایسی حالت میں عمومی جہاد کے لیے نہ کسی مارچ کی ضرورت ہے اور نہ کسی تقریر کی۔ اگر واقعتا یہ اسلامی جہاد کا مسئلہ ہو تو ہر مسلمان کو اُسی طرح میدانِ کارزار کی طرف بھاگنا چاہئے جس طرح کوئی باپ اپنے بیٹے پر حملہ ہوتاہوا دیکھے اور اُس کو بچانے کے لیے فوراً بھاگ کھڑا ہو۔ ایسا باپ اپنے بیٹے کی مدد پر دوڑنے کے لیے کسی تقریر کا انتظار نہیں کرے گا۔ اسی طرح اگر یہ اسلامی جہاد کا مسئلہ ہو تو مقررین سمیت تمام مسلمانوں کواپنے آپ میدانِ جہاد کی طرف دوڑ پڑنا چاہئے۔ مگر ایسا نہیں ہورہا ہے۔ کیوں کہ اس معاملہ میںنہ مقررین سنجیدہ ہیں اور نہ سامعین۔
۱۳ ؍ اپریل ۲۰۰۳
قرآن کی سورہ نمبر ۲۷ میںحضرت سلیمان اور ملکۂ سبا کا قصہ بیان ہوا ہے۔ حضرت سلیمان کواللہ تعالیٰ نے عظیم سلطنت عطا فرمائی تھی۔ اُنہوں نے ملکۂ سبا (یمن) سے مطالبہ کیا کہ تم ہماری سیاسی اطاعت (النمل ۳۱) قبول کرو۔ اس موقع پر ملکۂ سبا کے درباریوں نے کہا کہ ہم اطاعت قبول نہیں کریں گے بلکہ ہم لڑیں گے۔ ملکہ ٔ سبا نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے اپنے درباریوں سے کہا کہ: بادشاہ لوگ جب کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو وہ اُس میں فساد کرتے ہیں اور اس کے عزت والوں کو ذلیل کردیتے ہیں۔ اور یہی یہ لوگ کریں گے۔ (۳۴)
قرآن میں ملکۂ سبا کا یہ قول تردید کے بغیر نقل کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن ملکۂ سبا کی روش کی تصدیق کررہا ہے۔ اس قرآنی آیت کو عراق کے صدر صدام حسین پر منطبق کیا جائے تو یہ کہنا صحیح ہوگا کہ صدام حسین کو امریکی صدر کے مطالبہ کو ماننے کا راستہ اختیار کرنا چاہئے تھا، نہ کہ وہ مطالبہ کو ٹھکرا کر ٹکراؤ کا راستہ اختیار کریں۔ صدام حسین نے امریکا کے مقابلہ میں جوراستہ اختیار کیا وہ بہادری کا راستہ نہیں تھا بلکہ بے دانشی کا راستہ تھا۔ اور تاریخ بتاتی ہے کہ بہادری کے نام پر بے دانشی کا طریقہ اختیار کرنا ہمیشہ بدترین بزدلی پر ختم ہوتا ہے۔ یہی صدام حسین کے ساتھ پیش آیا۔ آغاز میں وہ بہادری کے نام پر لڑنے کی باتیں کرتے تھے مگر جب امریکا نے صدام حسین کے محلوں اور بنکروں پر شدید بمباری کی تو وہ بزدل کی طرح روپوش ہوکر بھاگ گئے۔
اصل یہ ہے کہ اس طرح کے معاملات میں ناقابل عمل اُصول کا حوالہ دینے کے بجائے حقیقی نتیجہ کو دیکھنا چاہئے۔ اس اعتبار سے یہاں صدام حسین کے لیے یہ ایک کم تر برائی (lesser evil) تھی کہ وہ شخصی اقتدار کو چھوڑ کر ملک کو تباہی سے بچا لیں۔ مگر بد قسمتی سے اُنہوں نے زیادہ بڑی برائی (greater evil) کا طریقہ اختیار کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ خود بھی تباہ ہوئے اور ملک بھی تباہ ہوگیا۔
۱۴ اپریل ۲۰۰۳
امریکی فوج کے مسلسل حملہ کے نتیجہ میں بغداد کا انتظامیہ درہم برہم ہوگیا۔ صدام حسین اور ان کے ساتھی شہر چھوڑ کر بھاگ گئے۔ پولیس کاپورا نظام ختم ہوگیا۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ شہر میں زبردست لوٹ مار شروع ہوگئی۔ بغداد کے جن محلوںاور بڑی بڑی عمارتوں کو لوٹ لیا گیا اُن میں سے ایک بغداد کا نیشنل میوزیم تھا۔ اس میوزیم میں انمول قسم کے تاریخی نوادر کثیر تعداد میں موجود تھے۔ اس واقعہ کی خبر دیتے ہوئے ٹائمس آف انڈیا (۱۴ اپریل ۲۰۰۳) نے لکھا ہے کہ سات ہزار سال کے تاریخی نوادرات کو صرف ۴۸ گھنٹہ میں تباہ کر دیا گیا:
The National Museum of Iraq recorded a history of civilizations that flourished in Mesopotamia more than 7000 years ego. But it took only 48 hours for it to be destroyed. (p. 1)
میسوپوٹامیا اُس زرخیز علاقہ کو کہا جاتا ہے جوعراق کی دو دریاؤں، دجلہ اور فرات کے درمیان واقع ہے۔ مورخین کے مطابق، پہلی انسانی تہذیب اسی علاقہ میں بنی۔ یہ علاقہ سات ہزار سال سے تہذیبوں کا گہوارہ بنا رہا ہے۔ چنانچہ عراق میں کثرت سے تاریخی یادگار یںہیں۔ تیل کے بعد عراق کی سب سے بڑی آمدنی سیاحوں کے ذریعہ ہوتی تھی جو ان تاریخی یادگاروں کو دیکھنے کے لیے آتے تھے۔ انہی میں سے ایک بغداد کا نیشنل میوزیم تھا۔
عملی اقدام کو ہمیشہ نتیجہ رخی (result oriented) ہونا چاہئے۔ صرف وہی اقدام درست ہے جو مثبت نتیجہ پیدا کرے۔ جو اقدام اپنے عملی نتیجہ کے اعتبار سے تباہ کُن یا غیر مفید ہو، وہ موت کی چھلانگ ہے، نہ کہ زندگی کی طرف اقدام۔ کوئی بھی عذر خواہ بظاہر وہ کتنا ہی خوش نُما ہو بے نتیجہ اقدام کو جائز ٹھہرانے کے لیے کافی نہیں۔
۱۵ اپریل ۲۰۰۳
کل تک اخباروں کی پہلی سرخی عراق سے متعلق ہوتی تھی۔ آج عراق سُرخیوں کی فہرست میں نمبر دو پر چلا گیا ہے۔ ٹائمس آف انڈیا (۱۵ اپریل ۲۰۰۳) کے پہلے صفحہ کی دوسری سُرخی یہ ہے کہ عراق میںامریکا کا سیاسی مقصد حاصل ہوگیا:
Job done in Iraq.
۱۸ مارچ کوامریکا کی قیادت میں اتحادیوں (US-led coalition) نے عراق پر حملہ شروع کیا تو ساری دنیا کے مسلمان زبردست خوش فہمی میںمبتلا تھے۔ ہر طرف یہ کہا جارہا تھا کہ عراق کا صحرا امریکیوں کا قبرستان بنے گا۔ مسلمان اس بھرم میں تھے کہ صدر صدام حسین نے گھر گھر ہتھیار بانٹ دیے ہیں۔ چالیس دن کے لیے کھانے پینے کا سامان گھروں میں بھَر دیا ہے۔ امریکی فوجیں جب بغداد میں داخل ہوں گی تو شہر کی سڑکوں اور گلیوں میں ہر طرف امریکیوں کی لاش نظر آئے گی۔ مگر عملًاجو کچھ ہوا وہ اس کے برعکس تھا۔ امریکا اور برطانیہ کی فوجوں نے بہت کم وقت میں اور کسی بڑی مزاحمت کے بغیر عراق پر قبضہ کرلیا۔
اصل یہ ہے کہ صدام حسین کے ۲۴ سالہ زمانۂ حکومت میں تیل کی بے پناہ دولت عراق کو حاصل ہوئی۔ مگر اس کا زیادہ حصہ یا تو صدام حسین اور اُن کے قریبی لوگوں کے قبضہ میں چلا گیا یا فوجی مدوں میں خرچ ہوا۔ عوام کی بڑی اکثریت مفلس بنی رہی۔ عراق میں کچھ لوگ تو بہت امیر تھے اور زیادہ لوگ بے حد غریب۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عراقیوں کی اکثریت کے اندر قومی جذبہ ہی پورے طورپر پیدا نہ ہوسکا۔
جب امریکا اور برطانیہ کی فوجیں بغداد میں داخل ہوئیں تو یہاں کی غریب عوام جو پہلے ہی سے عراقی حکومت سے بیزار تھے، اُنہوں نے یہاں کے امیروں کو لوٹنا شروع کردیا۔ صدام حسین اور اُن کے دولت مند ساتھیوں کے شاندار مکانوں کو لوٹ کر جلا دیا۔ امیروں کے گھروں سے کھانے پینے کا سامان لوٹ لیا گیا۔ نفرت سے بھرے ہوئے عوام نے نہ صرف سرکاری عمارتوں کو لوٹا بلکہ وہ بغداد کے عظیم تاریخی میوزیم میں گھس گئے اور اُس کے نہایت قیمتی نوادرات کو لوٹ لیا۔ کہا جاتا ہے کہ ایک لاکھ سے زیادہ قیمتی چیزیں لوٹی گئیں۔ ان لوٹنے والوں میں پولیس کے لوگ بھی شامل تھے۔
امریکی حملہ کے بعد عراق میں انارکی پھیل گئی۔ حقیقی قومی جذبہ نہ ہونے کی وجہ سے عراقی قوم نے دفاع میںزیادہ حصہ نہ لیا۔ یہی وجہ ہے جس کی بنا پر امریکی اوربرطانوی فوجیں بہت جلد عراق پر قابض ہوگئیں۔ تاہم فتح کے بعد کے مسائل ابھی عراق میں باقی ہیں۔ کسی نے صحیح کہا ہے کہ جنگ جیتنا آسان ہے مگر امن قائم کرنا مشکل ہے:
It is easy to win a war, but it is difficult to win peace.
۱۶ اپریل ۲۰۰۳
عراق پر جب سے امریکی حملہ شروع ہوا ، ساری دنیا کے مسلم پریس میں اُس کے خلاف مضامین چھپنے لگے۔ ان مضامین میںاکثر وانتم الاعلون ان کنتم مؤمنین (آل عمران ۱۳۹) جیسی قرآنی آیتوں کاحوالہ دے کر پُرجوش طورپر کہا گیاکہ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے ایمان کی دولت کو ڈھال بنائیں اور پھر اُنہیں کسی کا کوئی خطرہ نہ ہوگا۔
مثلاً ایک پاکستانی ماہنامہ میں بتایا گیا ہے کہ امریکا کا حملہ در اصل گریٹر اسرائیل کی راہ ہموار کرنے کے لیے ہے۔ اور یہ کہ امریکا کا اگلا ہدف پاکستان ہے۔ اور یہ کہ امریکا کی مہم در اصل پورے عالم اسلام کے خاتمہ کی مہم ہے۔ اس کے بعد وہ لکھتے ہیں: امریکا جیسے پاگل ہاتھی سے لڑائی مول لینے کے ساتھ اگر ہم بحیثیت قوم اللہ کا دامن رحمت تھام لیں تو دنیا کی واحد سُپر پاور کے مقابلہ میں کائنات کی واحد سُپریم پاور ہمارے لیے کافی ہوجائے گی۔ (حکمتِ قرآن، لاہور، اپریل ۲۰۰۳، صفحہ ۲)
یہ بڑ ی عجیب بات ہے ۔ یہ حضرات ایک طرف مسلم ملکوں کی یہ تصویر پیش کرتے ہیں کہ وہاں چند حکمرانوں کو چھوڑ کر مسلمانوں کی عظیم اکثریت اسلام کی شیدائی ہے۔ کسی جماعت کا یہ کہنا ہے کہ اُس نے ساری دنیا میں دین کی ہوائیں چلا دی ہیں۔ کوئی مسلم تنظیم یہ دعویٰ کررہی ہے کہ اُس کی کوششوں سے آج کا عہد اسلامی عہد بن چکا ہے۔ کسی ادارہ نے ایسے افراد تیار کرلیے ہیں جن کے لیے مفکّر اعظم اور شیخ العالم جیسے خطابات بھی ناکافی ہیں۔ گویا وہ کام بالفعل انجام پا چکا ہے جس کو کرنے کی تلقین یہ حضرات کررہے ہیں۔ ایسی حالت میں اصل مسئلہ کام کا نتیجہ نہ نکلنے کا ہے، نہ کہ خود کام نہ ہونے کا۔
اصل یہ ہے کہ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کے اندر دین کے نام پر جو کام ہورہا ہے وہ در اصل ملّی کام (community work) ہے اور اس قسم کی سرگرمیاں جو مسلمانوں کے درمیان جاری ہیں وہ ملِّی سرگرمیوں(community activities)کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اگر مسلمانوں کی موجودہ سرگرمیاں حقیقی معنوں میں دین خدا وندی کی سرگرمیاں ہوتیں تو اُن کے اندر وہی صفات پیدا ہوتیں جو رسول اور اصحاب رسول میںپیدا ہوئیں۔ مثلاً خدا کے بندوں کو مدعو سمجھنا اور یک طرفہ بنیاد پر اُن کا خیر خواہ بننا۔ اپنی قومی اور مادّی مصلحتوں پر دعوتی مصلحت کو غالب کرنا۔ اسی طرح دو عملی کی روش سے مکمل طورپر پاک ہونا۔ دشمنی کے باوجود عدل کے طریقہ سے نہ ہٹنا۔ قول اور عمل میںتضاد نہ ہونا۔ دیانت داری (honesty)اور اُصول پسندی پر ہر حال میں قائم رہنا، لین دین کے معاملات میں ہمیشہ ذمہ داری کا ثبوت دینا، وغیرہ۔ یہی چیزیں اسلام کا معیار ہیں۔ مفروضہ دشمن کے خلاف تقریر کرنا اسلام کا معیار نہیں۔
۱۷ اپریل ۲۰۰۳
صبح کو میں بی بی سی ورلڈ سروس پر خبریں سُن رہا تھا۔ اس درمیان دو آدمیوں کا مکالمہ نشر کیا گیا۔ ایک اسلام پسند نوجوان کہہ رہا تھا کہ امریکا اسلام دشمن ہے۔ اُس نے اسلام کو مٹانے کے لیے موجودہ جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ اس سلسلہ میں اُس نے ہنٹنگٹن کی مشہور کتاب کا حوالہ دیا۔ دوسرا آدمی ایک امریکی جرنلسٹ تھا۔ اُس نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ امریکا کی لڑائی ٹیررزم کے خلاف ہے، نہ کہ اسلام کے خلاف:
America is fighting against terrorism and not against Islam.
مجھے امریکی جرنلسٹ کے جواب سے بالکل اتفاق ہے۔ امریکا کی پالیسی حقیقۃً پرو امریکا پالیسی ہے، نہ کہ اینٹی اسلام پالیسی۔ عراق پر امریکا کا حملہ اسلام کو مٹانے کے لیے نہیں ہے بلکہ اُس ٹیررزم کو مٹانے کے لیے ہے جو اعلان کے ساتھ یہ کہہ رہا ہے کہ اُس کا مقصد امریکی مفادات پر ضرب لگانا ہے اور عملاً وہ ایسا ہی کررہا ہے۔
کچھ عرصہ پہلے میرے پاس دو مسلم نوجوان آئے۔ دونوں امریکا کے خلاف بول رہے تھے۔ میںنے کہا کہ اگر آپ کو دو اسکالر شپ ملے۔ایک، عراق کااور دوسرا امریکا کا تو آپ کہاں جائیں گے۔ دونوں نے پُر جوش طورپر کہا کہ ہم عراق جائیں گے۔ اب جب کہ میںیہ سطریں لکھ رہا ہوں۔ یہ دونوں مسلم نوجوان امریکا جاچکے ہیں اور وہاں اطمینان کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ اسی طرح ایک بار میری ملاقات چھ پاکستانی نوجوانوں سے ہوئی۔ میں نے اُن سے پوچھا کہ پاکستان کے نوجوان امریکا کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ سب کے سب امریکا کے خلاف بولتے ہیں۔ اُس کے بعد ایک شخص بولاکہ مگر اُن کاحال یہ ہے کہ اگر ایک کمرہ میں دس پاکستانی نوجوان بیٹھے ہوں اور آپ باہر کی کھڑکی سے ایک گرین کارڈ اندر پھینکیں تو سب کے سب اُس کو لینے کے لیے ٹوٹ پڑیں گے۔
میرا تجربہ یہ ہے کہ آج تمام دنیا کے مسلمانوں کا یہی حال ہے۔ ہر ایک امریکا کے خلاف لکھتا اور بولتا ہے مگر جب ذاتی فائدہ کا معاملہ ہو تو ہر ایک فوراً ہوائی جہاز کا ٹکٹ لے کر امریکہ روانہ ہو جاتا ہے۔ ہر ایک اپنے بیٹے اور بیٹی کو امریکا بھیج کر فخر کے ساتھ یہ کہتا ہے کہ وہ اب امریکا میں سٹل ہوگئے ہیں۔ یہ بلا شبہہ منافقت ہے۔ اور منافقت کی روش پر کبھی کسی گروہ کو خدا کی مدد نہیں مل سکتی۔
۱۸ اپریل ۲۰۰۳
بی بی سی ورلڈ سروس اپنے سامعین کو کوئی سوال دیتا ہے جس کا جواب وہ ٹیلی فون یا ای میل کے ذریعہ بی بی سی لندن کو بھیجتے ہیں۔ یہ جوابات روزانہ صبح کے نشریہ میں سنائے جاتے ہیں۔ اب چونکہ عراق کی صدام حکومت ختم ہوگئی ہے اور یہ سوال سامنے ہے کہ آئندہ عراق میں کس قسم کی حکومت بنے۔ بی بی سی لندن نے لوگوں کے سامنے یہ سوال رکھا:
Who should rule Iraq in the future?
صبح کے نشریہ میں لوگوں کے جوابات بتائے گئے۔ یہ جوابات دنیا کے مختلف حصوں سے آئے۔ زیادہ تعداد نے یہ کہا کہ عراق میں ڈیماکریٹک رول قائم کیا جائے۔ یعنی عراق پر خود عراق کے لوگ حکومت کریں۔ یعنی وہی نظام جو برطانیہ اور امریکا میںقائم ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ خالص آئیڈیلزم ہے، اور دنیا میںکبھی آئیڈیلزم چلتا نہیں۔
Ideal cannot be achieved.
خالص اصول کا تقاضا خواہ جو بھی ہو مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ پوری مسلم دنیا کی حمایت کے باوجود صدام حسین کی حکومت کو امریکا اور برطانیہ نے فوج کشی کرکے ختم کردیا۔ ایسی حالت میں عملی حقیقت یہ ہے کہ فاتح نقشہ بنائے نہ کہ مفتوح۔ اسی حقیقت کو فارسی شاعر نے اس طرح کہا ہے کہ جو تلوار چلاتا ہے اسی کے نام کا سکّہ چلتا ہے۔
ہر کہ شمشیر زند سکہ بنامش خوانند
میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت اہل عراق کے لیے جن دو کے درمیان انتخاب ہے وہ امریکا کے ماتحت حکومت اور آزاد جمہوری حکومت کے درمیان نہیں ہے بلکہ ان کے لیے انتخاب امریکا کے ماتحت حکومت یا مزید تباہی کے درمیان ہے، ایسی حالت میں شریعت کا اصول اہون البلیتین کا ہے۔
۱۹ اپریل ۲۰۰۳
بی بی سی لندن نے ورلڈ نیوز میں بتایا کہ جمعہ (۱۸ اپریل) کو بغداد کی سڑکوں پر مسلمانوں کا ایک بڑا جلوس نکلا۔ اس جلوس کی قیادت نام نہاد اسلام پسند لوگ کر رہے تھے۔ بغداد کی سڑکوں پر گزرتے ہوئے جلوس اپنے لیڈروں کا دیا ہوا یہ نعرہ لگا رہا تھا—نہ بُش نہ صدام، بلکہ صرف اسلام:
No Bush, No Saddam
Yes yes to Islam
یہ نعرہ بظاہر خوشنما معلوم ہوتا ہے مگر میرے نزدیک وہ ایک خطرہ کی گھنٹی ہے۔ عراق میں اسلام پسند (الاخوان المسلمون جیسی جماعتوں کے لوگ) موجود تھے۔ سابق صدر صدام حسین نے اپنی سخت گیر پالیسی کے تحت انہیں دبا رکھا تھا۔مگر سابق صدر صدام حسین کے خاتمہ کے بعد یہ لوگ دوبارہ عراق میں سرگرم ہوگئے ہیں۔ اور اگر یہ لوگ زیادہ ابھرے تو یقینی طورپر وہ اسی طرح عراق کو دوبارہ برباد کریں گے جس طرح یہ لوگ مصر، پاکستان، شام، سوڈان، ترکی اور پاکستان جیسے ملکوں کو تباہ کرچکے ہیں۔ میرے نزدیک مذکورہ نعرہ عراق کے لیے ایک خطرہ کی گھنٹی ہے نہ کہ کسی نئے اور بہتر دور کے آنے کی علامت۔ موجودہ زمانہ میں نام نہاد اسلام پسندوں نے اپنی سیاسی تحریکوں کے ذریعہ مسلمانوں کے ذہن کو تخریبی بنا دیا ہے۔ ہر مسلم ملک میں وہ یہ کررہے ہیں کہ حکمراں طبقہ کے خلاف مسلم عوام کو بھڑکاتے ہیں۔ بظاہر اسلام کے نام پر وہ یہ سنگین برائی کررہے ہیں کہ وہ حکمراں اورعوام دونوں کوایک دوسرے کے خلاف محاذ آرا کردیتے ہیں۔ اس خود ساختہ اسلامی سیاست نے ہر مسلم ملک کے بہترین امکانات کو برباد کردیا ہے۔
۲۰ اپریل ۲۰۰۳
دہلی کے ایک مسلمان کبھی کبھی میرے پاس آتے ہیں۔ ان کے اندر وہی منفی سوچ ہے جو عام مسلمانوں کے اندر پائی جاتی ہے۔ وہ ڈگری والی تعلیم حاصل کئے ہوئے ہیں مگر ان کا مطالعہ بہت زیادہ نہیں ہے۔ عام مسلمانوں کی طرح ان کی معلومات کا زیادہ تر ماخذ اردو اخبارات ہیں۔ ایک دن گفتگو کے دوران انہوں نے ایسی باتیں کہیں جو علمی اعتبار سے درست نہ تھیں۔ مثلاً ان کو یہ معلوم نہ تھا کہ قدیم عہد نامہ (Old Testament) اور نیا عہد نامہ (New Testament) میںکیا فرق ہے۔ تیرہویں صدی میں جب تاتاری لشکر نے بغداد کو تباہ کیا تو اس کا سبب کیا تھا، وغیرہ ۔اس کم علمی کے باوجود وہ عراق اور امریکا کے مسائل پر پورے اعتماد کے ساتھ بول رہے تھے۔ وہ صدام حسین کے صد فی صد حامی تھے اور جارج بش کے صد فی صد مخالف۔ میں نے کہا کہ آپ کی علمی استعداد اتنی کم ہے اس کے باوجود آپ عالمی سیاست پر اتنے اعتماد کے ساتھ تبصرہ کررہے ہیں۔ انہوںنے پر جوش طورپر کہا: ہم عالمی سیاست کو خوب جانتے ہیں۔
میرے تجربہ کے مطابق، یہی موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کاعام مزاج ہے۔ نہ صرف سیکولر علوم بلکہ دینی علوم کے بارے میں بھی ان کی معلومات بہت ناقص ہیں۔ اس کے باوجود ہر آدمی زبان اور قلم کا بادشاہ بنا ہوا ہے۔ اپنے خیال کے مطابق، وہ عالمی سیاست کا ماہر ہے۔ مگر کسی کو یہ مسئلہ معلوم نہیں کہ آدمی کو چاہئے کہ وہ جس بات کو جانتاہو اسی پر وہ بولے اور جس بات کو وہ نہ جانتا ہو اس کے بارے میں وہ کہہ دے کہ میں نہیں جانتا۔
فارسی کاایک مقولہ ہے —یک من علم را دہ من عقل می باید (ایک من علم کے لئے دس من عقل چاہئے) آج کل بیشتر لوگوں کا حال یہ ہے کہ یاتو اُن کے پاس ایک من علم نہیں یا اگر ان کے پاس ایک من علم ہے تو ان کے پاس دس من عقل نہیں۔ موجودہ زمانہ میں علمی ذوق نہ ہونے کی وجہ سے بیشتر لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے مادی مفادات کو تو خوب جانتے ہیں مگر علمی اور تاریخی باتوں کے بارے میں ان کی واقفیت بے حد ناقص ہے۔ علم کی اس کمی کا مزید نقصان یہ ہے کہ وہ فن تفکیر (art of thinking) کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ یہاں تک کہ ان کے خواص بھی فن تفکیر سے نابلد ہیں۔ حالانکہ فن تفکیر سے آگہی تبصرہ اور تجزیہ کے لیے لازمی طورپر ضروری ہے۔
عراق کی سیاست یا عالمی تناظر میں مسلم سیاست کے بارے میں بظاہر ہر ایک لکھ اور بول رہا ہے مگر یہ سب بیشتر خطابت اور شاعری کی زبان میں ہوتا ہے۔ واقعات کا گہرا تجزیہ کرکے درست رائے تک پہنچنا جیسے کہ ان کا نہ تو کنسرن ہے اور نہ ان کے اندر اس کی استعداد موجود ہے۔
۲۱ اپریل ۲۰۰۳
عراق کے خلاف امریکا کی جنگ ختم ہوگئی ۔ اس جنگ میںجو نقصانات ہوئے ان کا اندازہ کرنا ابھی مشکل ہے۔ بی بی سی لندن نے بتایا کہ اس جنگ میںاب تک امریکی حکومت کے ۲۰ بلین ڈالر خرچ ہوئے۔ ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ سے لے کر اب تک امریکا کی اقتصادیات پر جو زبردست اثرات پڑے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ امریکا کے تین سو ہوائی جہاز گراؤنڈ کردئے گئے ہیں۔ امریکا کی ہوائی کمپنیوں کو روزانہ ۵ملین ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے، وغیرہ۔
دوسری طرف عراق ہر اعتبار سے تباہ ہوچکا ہے۔ صدر صدام حسین کی ۲۴ سالہ حکومت اچانک ختم ہوگئی۔ صدام حسین نے عراق میں اپنے لیے ۸ عالیشان محل بنائے تھے۔ اُن میں سے ایک، خبر کے مطابق ، ایسا زمین دوز محل تھا جس کے اندر بیس میٹر موٹی زمینی چھت تھی۔ یہ چھت اعلیٰ ٹیکنیک کے ذریعہ لوہے اور دوسرے معدنی اجزاء سے اس طرح بنائی گئی تھی کہ ایٹم بم کے سوا کوئی اور بم اس کو توڑ نہ سکے۔ مگر امریکی فوج نے اُس پر ۲۰۰۰ سے زیادہ تباہ کُن بم برسائے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پہاڑ جیسی چھت اور پورا محل پگھل کر ایک جامد چٹان کی طرح ہوگیا۔ اس کے اندر جو لوگ چھپے ہوئے ـتھے ان کا کوئی نام و نشان تک باقی نہ رہا۔
اس سلسلہ میں عجیب بات یہ ہے کہ امریکا کے زبردست اقتصادی نقصان اور عراق کی غیرمعمولی تباہی کے باوجود صدام کا ابھی تک پتا نہیں۔ حتیٰ کہ یہ بھی نہیںمعلوم کہ وہ مرگئے یا زندہ ہیں۔
امریکی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ جو شخص صدام حسین کا سرلائے گا اسے دو لاکھ ڈالر انعام دئے جائیں گے۔
میںسمجھتا ہوں کہ عراق کی یہ جنگ متشددانہ طریقِ کار کا آخری تجربہ ہے۔ ایک طرف صدام حسین نے عراق کی تیل کی دولت کو مسرفانہ حد تک خرچ کرکے زبردست جنگی تیاری کی۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ صدام حسین کی قیادت میں عراق پوری مسلم تاریخ کی سب سے بڑی طاقت بن گیا۔ دوسری طرف امریکا نے جدید ترین ٹکنالوجی کو جنگی سازوسامان کے لیے بھر پور استعمال کیا یہاں تک کہ وہ واحد سپر پاور بن گیا۔ اس طرح دو بڑی طاقتیں ایک دوسرے سے ٹکراگئیں۔ مگر نتیجہ کے اعتبار سے دیکھئے تو جنگ کا کوئی حقیقی فائدہ کسی کے حصہ میں نہیں آیا۔
عراق کی اس جنگ پر بہت کچھ لکھا گیا ہے اور بہت کچھ لکھا جائے گا۔ جہاں تک میرا خیال ہے، میں سمجھتا ہوں کہ دو جنگی طاقتوں کا یہ ٹکراؤ غالباً اس پیشین گوئی کے مطابق تھا جو حدیث میں آئی ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فرات کے علاقہ میں سونے کا پہاڑ نکلے گا جس پر قومیں جنگ کریں گی۔ یہ جنگ قیامت کی قربت کی ایک علامت ہوگی۔ میں سمجھتا ہوں کہ شاید یہی وہ جنگ تھی اور اب غالباً قیامت کے آنے میں زیادہ دیر نہیں۔
۲۲ اپریل ۲۰۰۳
صدام حکومت میں ناجی صبری عراق کے وزیرخارجہ تھے۔ بی بی سی لندن نے ۳۱ مارچ ۲۰۰۳ کواُن کا ایک انٹرویو نشر کیا۔ اس میںاُنہوں نے کہا تھا کہ اتحادی ذہنی طورپر جنگ ہارچکے ہیں۔ بغداد کے داخلی دروازوں پر یقینی موت امریکی اور برطانوی فوجیوں کا انتظار کررہی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ اتحادی فوجیوں کی پیش قدمی روک دی گئی ہے اور ہم اُنہیں اب ایک آخری موقع دیتے ہیں کہ اتحادی فوج تیزی کے ساتھ پسپا ہوجائے ورنہ وہ بہت نقصان میں رہے گی۔ اتحادیوں کی عراق میں مکروہ خواہشات پوری نہیں ہوسکیں، جارحیت ناکام ہوگئی ہے۔ عراقی فوجی، فدائین اور عراقی عوام نے اُن پر جو کاری ضرب لگائی ہے اُسے وہ بہت دیر تک بلکہ صدیوں تک یادرکھیں گے۔ عراق کے خلاف جارحیت میں بہت سے اتحادی مارے گئے ہیں، بہت سے زخمی ہوئے ہیںاور بہت سے اتحادی جنگ سے راہ فرار اختیار کررہے ہیں۔ اتحادیوں نے جوجھوٹ بولا عراقی فوج نے اُس کا پول کھول دیا۔ شکست اُن کا مقدر اور فتح ہمارا مقدّر بن چکی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ امریکا عراق میں شکست کے بعد اب سُپر پاور نہیں رہا (نوائے وقت، یکم اپریل ۲۰۰۳)
یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ موجودہ زمانہ کے مسلم لیڈر کس طرح خیالی بنیاد پر اپنا سیاسی قلعہ تعمیر کرتے ہیں۔ وہ شکست کی خبر کو فتح کی خبر بناتے ہیں۔ وہ پسپائی کو اقدام کی زبان میں بیان کرتے ہیں۔ وہ عجیب و غریب طورپر ناکامی کو بیان کرنے کے لیے کامیابی کے الفاظ پالیتے ہیں۔ یہی واقعہ موجودہ زمانہ میں بار بار ہر جگہ پیش آیا ہے اور یہی واقعہ عراق میں بھی پیش آیا۔
۲۳ اپریل ۲۰۰۳
عراق کی جنگ کا ایک نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ مسلم ممالک میں نیٹو (NATO) کے انداز کی ایک دفاعی تنظیم بنائی جارہی ہے۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ عالمی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اسلامی ممالک کا مشترکہ دفاعی نظام تشکیل دینے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ نیٹو کی طرز پر میٹو (MATO) کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ ملیشیا کے وزیر اعظم اور عرب لیگ کے سکریٹری جنرل نے میٹو کی تشکیل کے لیے رابطے شروع کردیے ہیں۔ اس معاہدے کے تحت مسلم ممالک کی ایک کثیر تعداد میں فوج تیار کی جائے گی اور کسی بھی میٹو ملک پر حملہ تمام ملکوں پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ ایک مسلم ملک کے سربراہ کے مطابق، اس معاہدے پر دستخط کے لیے مسلم ممالک کے سربراہان حرم شریف میں جمع ہوں گے جب کہ اس کا صدر مقام بھی مکہ میں ہی ہوگا۔ اطلاعات کے مطابق، میٹو کا نام اور بنیادی تصور بین الاقوامی سیاسی و سفارتی امور کے ایک پاکستانی نژاد رہنما اور عرب لیگ سے تعلق رکھنے والی دو اہم شخصیات نے پیش کیا ہے۔ (نوائے وقت، لاہور، اپریل ۲۰۰۳، صفحہ ۳)
میرے نزدیک یہ محض ایک رژمیہ شاعری ہے، اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ اس طرح کا معاملہ پہلے عمل کے اندر ظہور میں آتا ہے اور پھراُسے کاغذ پر لکھ دیا جاتا ہے۔ اس طرح کے معاملہ میںکبھی ایسا نہیں ہوا کہ پہلے وہ کاغذ پر لکھا جائے اور پھر یہ کاغذی الفاظ عمل کی صورت میںڈھل جائیں۔
موجودہ صورت حال یہ ہے کہ اس وقت دنیا میں ۵۷ مسلم ملک ہیں۔ مگر ایسا کبھی نہیں ہوا کہ یہ تمام ملک کسی مسلم ایشو پر متحد ہوگئے ہوں۔ جو لوگ اتنے نازک مسئلہ پر متحد ہو کر رائے بھی نہ دے سکیں وہ آخر متحد ہو کر عمل کس طرح کریں گے۔
۲۴ اپریل ۲۰۰۳
پاکستان کے اُردو روزنامہ نوائے وقت (لاہور) کے شمارہ ۱۳ اپریل ۲۰۰۳ میں پاکستان کے سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف (حال مقیم ریاض) کا ایک بیان چھپا تھا۔ اس میں وہ کہتے ہیں کہ سقوط بغداد عالم اسلام کے خلاف ایک گہری سازش ہے۔ یہ ثابت ہوگیاہے کہ امریکا اور برطانیہ اسلام کے خلاف جنگ کررہے ہیں۔ امریکا اور برطانیہ نے سلامتی کونسل اور عالمی رائے عامہ کو مکمل طورپر نظر انداز کرکے عراق پر حملہ کیا اور معصوم بے گناہ شہریوں کا قتل عام کیا جو کھلی دہشت گردی ہے۔ امریکا نے عراق پر حملہ کرکے ہلاکو خاں اورچنگیز خاں کی یاد تازہ کردی ہے۔ عالم اسلام امریکا اور برطانیہ کی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کرے۔ (صفحہ ۱۶)
یہی بات آج کل تمام دنیا کے مسلمان مختلف الفاظ میں کررہے ہیں۔ مگر میرے نزدیک یہ بالکل بے بصیرتی کی بات ہے۔ اگر بالفرض امریکا اور برطانیہ چنگیز اور ہلاکو کی تاریخ دہرارہے ہیں تو اُس کے مقابلہ میں سبّ و شتم کاکوئی فائدہ نہیں۔ اس کے بجائے لوگوں کو کہنا چاہئے کہ ہم بھی اُس تاریخ کو دہرائیں گے جو چنگیز اور ہلاکو کے معاصر مسلمانوں کی تاریخ ہے۔ اُس زمانہ کے مسلمانوں نے یہ کیا تھا کہ اُنہوں نے جواب میںاسلامائزیشن آف تاتار کی مہم چلائی۔ یہاں تک کہ تاریخ کو برعکس طورپر بدل دیا۔ اسی طرح آج کے مسلمانوں کو یہ کرنا چاہئے کہ وہ اسلامائیزیشن آف امریکا کی مہم چلائیں اور دوبارہ تاریخ کے دھارے کو اپنی موافقت میں بدل دیں۔ یہی اسلام کی تاریخ ہے۔ سبّ و شتم کرنا یا مال کے بائیکاٹ کی دھمکی دینا، اس طرح کی باتیں محض بے سود ہیں۔ یہ اپنے آپ کو دھوکہ دینا ہے، نہ کہ پیش آمدہ صورت حال کا سامنا کرنا۔
۲۵ ؍اپریل ۲۰۰۳
امریکا اور عراق کی موجودہ جنگ کو عراق کے صدر صدام حسین نے معرکۃ الحواسم کا نام دیا تھا۔ یعنی فیصلہ کن جنگی معرکہ۔ صدر صدام حسین نے یہ کہا تھا تو اُن کے نزدیک اس کا مطلب یہ تھا کہ یہ جنگ امریکا کی شکست پر ختم ہوگی۔ عراق کی سرزمین امریکی فوجوں کے لیے قبرستان ثابت ہوگی۔ آخرکار امریکا مجبور ہوگا کہ وہ اپنے فوجیوں کی لاشوں کو لے کر عراق سے بھاگ جائے۔
مگر عملاً اس کے برعکس ہوا۔ امریکا نے نہ صرف فضائی حملہ میں بلکہ زمینی جنگ میں بھی عراق کی فوجوں کو بری طرح شکست دی۔ صدر صدام حسین نے اتنی زبرست تیاری کی تھی کہ وہاں کے جنگی ماہرین کو فخر کے ساتھ میزائل حسین اور کیمیکل علی کہا جانے لگا۔ مگر یہ ساری تیاریاں محض غبارہ ثابت ہوئیں۔ صدر صدام حسین اور ان کے ساتھیوں کے بڑے بڑے دعووں کے باوجود عراقی حکومت کو فیصلہ کن شکست ہوئی۔ صدر صدام حسین اس طرح ختم یا روپوش ہوگئے جس طرح اسامہ بن لادن یا ملّا عمر ہوگئے تھے۔
موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کی شاید سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ الفاظ کو حقیقت سمجھ لیـتے ہیں۔ وہ بڑے بڑے الفاظ بولنے والے کو اپنا لیڈر بنا لیتے ہیں۔ غالباً موجودہ مسلمانوں کی یہی سب سے بڑی کمزوری ہے جس نے اُنہیں صحیح قیادت سے محروم کر رکھا ہے۔
۲۶ اپریل ۲۰۰۳
عراق کی جنگ شروع ہونے کے بعد مسلم خطباء اور مقررین بڑے بڑے الفاظ بول رہے ہیں۔ اُن کو یقین ہے کہ اُن کے یہ الفاظ امریکا کے بم کے خلاف سپر بَم ثابت ہوں گے اور امریکا اور اُس کے ساتھیوں کو شرمناک انجام سے دوچار کریں گے۔ کچھ لوگ فیاضی کے ساتھ اقبال کے وہ اشعار دہرارہے ہیں جو مسلمانوں کی ناقابلِ تسخیر طاقت کا شاعرانہ اعلان ہیں۔ مثلاً:
وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستانِ وجود
ہوتی ہے بندۂ مومن کی اذاں سے پیدا
دو نیم اُن کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ اُن کی ہیبت سے رائی
پاکستان کے قاضی حسین احمد صاحب نے لاہور میں ایک تقریر کرتے ہوئے کہا کہ: اسلام کا مستقبل روشن ہے اور یہی پوری دنیا کے لیے ورلڈ آرڈر ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ امریکا پوری دنیا پر حکمرانی کا خواب دیکھ رہا ہے لیکن امت مسلمہ کے اندر پیدا ہونے والی بیداری کی لہر اس خواب کو شرمندۂ تعبیر نہیں ہونے دے گی۔ (نوائے وقت: ۲۱ اپریل ۲۰۰۳ صفحہ ۲)
یہ انداز کلام بلا شبہہ اسلام کی روح کے خلاف ہے۔ رسول اور اصحاب رسول کے زمانہ میں ہر طرح کے ناموافق واقعات پیش آئے۔ مگر کبھی ایسا نہیں ہوا کہ رسو ل اور اصحاب رسول ایسے موقع پر مذکورہ قسم کے الفاظ بولیں۔ اس کے برعکس اُن کا طریقہ یہ تھا کہ جب بھی ایساکوئی حادثہ گذرتا تو وہ داخلی احتساب کرتے۔ لفظی جوش دکھانے کے بجائے وہ اس فکر میں لگ جاتے کہ ہماری وہ کون سی داخلی کوتاہی تھی جس کی بنا پر ہمیں ایسی مصیبت سے دوچار ہونا پڑا۔
حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ قسم کی شاعری اور خطابت صرف اس بات کی علامت ہے کہ ملّت زوال کا شکار ہو چکی ہے۔ دور زوال میںیہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے اندر عملی قوتیں کم ہوجاتی ہیں۔ اُس وقت ایسے شعراء اور خطباء اُبھرتے ہیں جو بڑے بڑے الفاظ بول کر اُنہیں اس خوش فہمی میں مبتلا کریں کہ وہ اب بھی پہلے کی طرح زندہ حالت میں موجود ہیں۔
۲۷ اپریل ۲۰۰۳
عراق کی جنگ کے زمانہ میں مسلم دانشوروں نے بے شمار مضامین لکھے۔ ان مضامین کا خلاصہ یہ تھا کہ عراق میں ہونے والی ٹریجڈی کی ذمہ داری اُنہوں نے دو چیزوں پر ڈالی—مغربی قوموں کی سازش، اور مسلم حکمرانوں کی غیر جمہوری پالیسی۔ جہاں تک مغربی قوموں کی سازش کا تعلق ہے، وہ پہلے ہی نظر میں قابلِ رد ہے۔ قرآن میں مختلف الفاظ میں یہ اعلان کیا گیا ہے کہ اہلِ اسلام کے لیے اغیار کی سازش کوئی مسئلہ نہیں کیوں کہ اللہ اس قسم کی سازشوں کے خلاف اہل اسلام کے لیے کافی ہے۔ ایسی حالت میں اصل سوال یہ نہیں ہے کہ مغربی قوموں نے مسلمانوں کے خلاف سازش کی بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ کیوں ایسا ہوا کہ خدا نے اپنے وعدہ کے باوجود ان سازشوں کو ناکام نہیں بنایا۔
اس معاملہ میں دوسری توجیہہ مسلم حکمرانوں کا غیر جمہوری رویہ بتایا جاتا ہے۔ مثلاً کچھ لوگوں نے لکھا ہے کہ موجودہ زمانہ کے مسلم حکمراں اختلاف کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ان مسلم حکمرانوں نے اپنے ملکوں میں بیشتر اعلیٰ صلاحیت کے لوگوں کو صرف اس لیے قید یا ہلاک کردیا کہ وہ اسلام پسند تھے اور اُنہوں نے مسلم حکمرانوں کی سیکولر پالیسی کے خلاف آواز اٹھائی۔ اس مخالفانہ پالیسی کا اثر یہ ہوا کہ مسلم ممالک سے ڈاکٹر، انجینئر، قانون داں، سائنٹسٹ، مفکرین اور سوشل سائنٹسٹ کی ایک بڑی تعداد ہجرت کرکے امریکا اور یورپ، وغیرہ میں پناہ گزیں ہوگئی۔ اس کا نتیجہ علمی، سائنسی اور ٹیکنالوجیکل افلاس تھا۔ اور ظاہر ہے کہ جو ملک اپنے اعلیٰ صلاحیت کے افراد کو کھو دے وہ اس قابل نہیں رہتا کہ وہ کسی چیلنج کا جواب دے سکے۔
میں کہوں گا کہ یہ صحیح تصویر نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس معاملہ میں اصل غلطی خود اسلام پسند لوگوں کی ہے۔ یہ لوگ اپنے ملکوں سے نکل کر مغربی ملکوں میں جس طرح پُر امن اور غیر سیاسی انداز میں رہ رہے ہیں، اگر وہ اسی طرح اپنے ملکوں میں رہتے تو ہر گز اُنہیں ترکِ وطن نہ کرنا پڑتا۔ اُن کے لیے صحیح یہ تھا کہ وہ حکمرانوں سے سیاسی ٹکراؤنہ کرتے ہوئے تعلیم اور اصلاح اور دعوت جیسے میدانوں میں پُرامن کام کریں۔ وہ اُسی طرح سیاسی اعتبار سے بے ضرر بن کر تعمیری شعبوں میں اپنا حصہ ادا کریں جس طرح وہ مغربی ملکوں میں کررہے ہیں تو یقینا اُنہیں اپنے ملکوں میں کوئی رکاوٹ نہ پیش آتی۔
اگر وہ ایسا کرتے تو یقینا اُن کی صلاحیتیں اُن کے ملک کے لیے بھر پور طورپر کام آتیں۔ مگر ان اسلام پسندوں کی نام نہاد انقلابی پالیسی کا نتیجہ برعکس صورت میں برآمد ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کی نام نہاد انقلابی پالیسی ہمیشہ دو میں سے ایک انجام پر ختم ہوتی ہے۔ یا تو اپنے اصول پر اصرار کرنے کی وجہ سے آدمی اپنے آپ کو ہلاک کرلیتا ہے یا ایساہوتا ہے کہ اپنے اصول کو غیر حقیقت پسندانہ سمجھ کر وہ دو عملی کا شکار ہوجاتا ہے۔ یعنی دل میں ایک اصول کو صحیح ماننا اور عملی زندگی میں اُس کے خلاف روش اختیار کرنا۔
۲۸ اپریل ۲۰۰۳
آج کل کثرت سے امریکا کے خلاف مضامین چھپ رہے ہیں۔ ان میں امریکا کو کنڈم کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ امریکا تاریخ کا سب سے بڑا دہشت گرد (terrorist) ہے۔ امریکا کی آبادی اگرچہ عالمی آبادی کا چار فیصد حصہ ہے مگر وہ دنیا کی ۸۰ فیصد دولت پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ جان رسکن(John Ruskin) نے بجا طور پر کہا تھا کہ مغرب جنون کی حد تک دولت کا پرستار ہے۔ اُس کے لیے انسانیت یا محبت میں کوئی اپیل نہیں ہے:
The West madly worships Mammon, the God of wealth. For them humanity or love has no appeal.
ٹیررزم کی تعریف یہ کی جاتی ہے کہ متشددانہ طاقت کا ناجائز استعمال جس میں بے گناہ لوگ مارے جائیں۔ ٹیررزم کی اس تعریف کے مطابق، پریزیڈنٹ جارج بُش ٹھیک یہی کام کررہے ہیں:
George Bush has been doing just that.
لوگ امریکا کی مذمت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ صدام حسین کو صدام کس نے بنایا۔ یہ امریکا ہی تھا جس نے صدام حسین کو ہتھیار دیے۔ یہ امریکا ہی تھا جس نے صدام حسین کو ایران اور کویت کے خلاف حملہ کے لیے اکسایا۔ یہ امریکا ہی تھا جس نے دنیا کو یہ خبر دی کہ صدام حسین فوجی اعتبار سے چوتھی سب سے بڑی طاقت بن چکا ہے۔ اور جب یہ سب کچھ ہو چکا تو امریکا صدام حسین کی سرکوبی کے لیے آگیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ امریکا قدیم ٹیررسٹ ہے۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں اُس کا ٹیررزم پڑوسی ملکوں کے خلاف تھا۔ مگر سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد امریکا نے اپنے ٹیررزم کو دنیا کے دوسرے حصوں تک پہنچا دیا، وغیرہ۔
میرے نزدیک اس قسم کی باتیں بے سود ہیں۔ اصل مسئلہیہ نہیں ہے کہ امریکا دہشت گرد ہے۔ بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ عراق نے اس حقیقت کو جانتے ہوئے اُس سے بچنے کی تدبیر کیوں نہ کی۔ صدام حسین کے لیے صحیح طریقہ یہ تھا کہ وہ امریکا سے ٹکراؤ کو اعراض کریں مگر اُنہوں نے غیر ضروری جرأت دکھاتے ہوئے امریکا سے ٹکراؤ کا طریقہ اختیار کیا۔ یہ وہی سیاست ہے جس کو عام زبان میں آبیل مجھے مار کہا جاتا ہے۔
دہشت گرد افراد ہر دور میں پائے گئے ہیں۔ ایسے لوگوں سے نپٹنے کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ اُن سے لڑائی چھیڑ دی جائے۔ بلکہ صحیح طریقہ یہ ہے کہ اُن کے وار کو خالی کردیا جائے اور وار کو خالی کرنے کی یہ پالیسی ہمیشہ کامیاب ہوتی ہے۔ اُس کی کامیابی کی ضامن صرف ایک چیز ہے اور وہ ہے دانشمندی۔
۲۹ اپریل ۲۰۰۳
صدر صدام حسین کی پہلی غلطی یہ تھی کہ اُنہوں نے اس سادہ حل کو استعمال نہیں کیا کہ پولیٹکل گدّی کو چھوڑ کر امریکا کے وار کو خالی کردیں۔ اس کے بعد جب امریکا نے عراق پر بمباری شروع کردی تو وہ خود تو کسی بنکر میں داخل ہوگئے اور وہاں سے ایک پیغام بھیجا جو اُن کی طرف سے ٹی وی پر سُنایا گیا۔ اُنہوں نے عراقیوں کو للکارا کہ تم لوگ امریکی فوجوں کی گردنیں کاٹ دو۔ اب جب کہ عراق کی جنگ ختم ہوگئی ہے، صدام کی طرف سے ایک خط سامنے آیا ہے۔ یہ خط عربی اخبار القدس میں چھپا ہے جس پر ۲۸ اپریل ۲۰۰۳ کی تاریخ درج ہے۔ اُس میں کہا گیا ہے کہ عراقیو اُٹھو اور امریکا اور برطانیہ کے قبضہ کو ختم کردو۔
یہ خط اگر بالفرض صحیح ہو تب بھی وہ ناقابل لحاظ ہے۔ اس لیے کہ وہ صرف ایک بزدلی کا مظاہرہ ہے۔ صدر صدام حسین اگر زندہ ہیں تو وہ کیوں چھپے ہوئے ہیں۔ خود کسی محفوظ مقام پر روپوش رہنا اور عراقی عوام کو لڑنے کے لیے اُبھارنا نہ قیادت ہے اور نہ بہادری۔ بہادر قائد وہ ہے جو اپنے عوام کے ساتھ لڑے، نہ کہ اپنے آپ کو محفوظ رکھ کر دوسروں کو لڑائی کے میدان میں جھونک دے۔
۳۰ اپریل ۲۰۰۳
امریکا کا مشہور طیارہ بردار جہاز (ایر کرافٹ کیریر) ایس ایس ابراہم لنکن خلیج سے واپس ہو کر امریکا پہنچا اور لاس اینجلیز کے ساحل پر ٹھہرا۔ یہاں اُس کے اوپر ایک خصوصی پروگرام منعقد کیا گیا۔ اس پروگرام میں امریکا کے صدر جارج بُش نے اپنی ’’تاریخی تقریر‘‘ کی۔ اُنہوں نے اعلان کیا کہ عراق کی جنگ اب ختم ہوچکی ہے:
War in Iraq is now over.
میں نے یہ تقریر بی بی سی ورلڈ نیوز پر سُنی۔ بظاہر یہ تقریر عراق کے خلاف تھی۔ لیکن چونکہ دنیا کے تمام مسلمان اپنے آپ کو عراق کی اس جنگ سے جذباتی حد تک وابستہ کیے ہوئے ـتھے اس لیے جارج بُش کی تقریر کا رُخ گویا تمام دنیا کے مسلمانوں کی طرف تھا۔ میںنے سوچا کہ یہ مسلمانوں کی تاریخ کا پہلا واقعہ ہے جب کہ ایک شخص جس کو تمام دنیا کے مسلمان اپنا دشمن سمجھ رہے ہوں، وہ اُنہیں مغلوب کرکے اپنی فتح کا اعلان کرے اور ساری دنیا کے مسلمان بے بسی کے ساتھ اُس کو سننے پر مجبور ہوں۔ میںنے سوچا کہ آج شاید ساری دنیا میں میں اکیلا مسلمان ہوں جو اللہ کے فضل سے اس نفسیات سے خالی ہے۔ کیوں کہ میں نہ امریکا کو اسلام کا دشمن سمجھتا ہوں اور نہ مسلمانوں کو مظلوم اور مقہور گروہ۔
۷ مئی ۲۰۰۳
آج تمام اخبارات میںایک خبر چھپی ہے اُس کو بغیر تبصرہ یہاں نقل کیا جاتا ہے۔ صدام حسین کے بیٹے قصّی حسین نے عراق پر امریکی حملہ کے چند گھنٹہ پہلے عراق کے سنٹر ل بینک سے تقریباً ایک بلین ڈالر نکلوالیے ـتھے۔ اتنی بڑی رقم کو لے جانے کے لیے تین ٹریکٹر ٹریلر استعمال کیے گئے تھے۔ اس رقم کو نکالنے کے لیے خود صدام حسین نے اپنے دستخط کے ساتھ حکم دیا تھا۔
اس رقم کو نکلوانے کے لیے صدام حسین کا حکم نامہ اُن کا بیٹا قصی حسین اور ایک پرسنل اسسٹنٹ عابدالحامد محمود لے کر بینک گئے تھے۔ ایک سوال کے جواب میں بینک کے ایک افسر نے کہا کہ صدام حسین کے حکم کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ اُس کو بے چوں و چرا مان لیا جائے:
When you get an order from Saddam Hussain, you do not discuss it.
جن امریکی افسروں اور عراقی حکام سے نیویارک ٹائمز نے انٹرویو لیے ہیں اُن کا کہنا ہے کہ اُنہیں یہ نہیں معلوم کہ یہ رقم کہا ں گئی ہے۔ البتہ بعض امریکی افسروں کا کہنا ہے کہ اُنہیں شبہہ ہے کہ یہ رقم شام لے جائی گئی تھی۔
واپس اوپر جائیں


Sunday, 1 June 2003

Al Risala | June 2003 (الرسالہ،جون)

2

- جنت کی دریافت

5

- مومن کی صفت

6

- الائمۃ المضلون

8

- امن اور اسلام

30

- صدام حسین کے لیے انتخاب

33

- ایک خط

35

- سوال وجواب

39

- خبر نامہ اسلامی مرکز ۱۵۸


جنت کی دریافت

غالباً ۱۹۸۳ کی بات ہے۔ اُس وقت دہلی میں ایک انگریز مسٹر جان بَٹ (John Butt) رہتے تھے۔ اُنہوں نے میری انگریزی کتابیں پڑھی تھیں اور میری فکر سے کافی مانوس ہوچکے تھے۔ ملاقات کے دوران ایک بار میں نے اُن سے کہا کہ قلم میری محبوب چیز ہے۔ میںنے بہت سے قلم استعمال کیے مگر مجھے اپنی پسند کا قلم ابھی تک نہیں ملا۔ اُنہوں نے کہا کہ میں جلد ہی لندن جانے والا ہوں، وہاں سے میں آپ کے لیے ایک اچھا قلم لے آؤں گا۔
کچھ عرصہ کے بعد وہ مجھ سے ملے اور انگلینڈ کا بنا ہوا ایک قلم مجھے دیتے ہوئے کہا کہ میں نے لندن اور آکسفورڈ کی مارکیٹ میںکافی تلاش کے بعد یہ قلم (فاؤنٹین پین) حاصل کیا ہے۔ تاہم مجھے امید نہیں کہ یہ قلم آپ کی پسند کے مطابق ہوگا۔ میں نے کہا ، کیوں۔ اُنہوں نے کہا کہ میںجانتا ہوں کہ آپ ایک پرفیکشنسٹ(perfectionist) ہیں اور دنیا میں چونکہ کوئی بھی قلم پرفیکٹ قلم نہیں، اس لیے آپ کوکوئی بھی قلم پسند نہیں آئے گا۔
اصل یہ ہے کہ ہر آدمی پیدائشی طورپر پرفیکشنسٹ ہے۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ انسان ایک کمال پسند حیوان ہے:
Man is a perfection-seeking animal.
انسانی فطرت کا یہی خاص پہلو ہے جس کی بنا پر ہر آدمی کا یہ حال ہے کہ وہ محرومی (frustration) کے احساس میںمبتلا رہتا ہے۔ حتیٰ کہ وہ لوگ جو دنیا کا ہر سامان حاصل کرلیتے ہیں وہ بھی محرومی کے احساس سے خالی نہیں ہوتے۔
اس کا سبب یہ ہے کہ انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے پرفیکشنسٹ ہے مگر جس دنیا میں وہ رہتا ہے اُس کی کوئی بھی چیز پرفیکٹ نہیں۔ اس طرح انسان کی طلب اور دنیا کی قابلِ حصول چیزوں کے درمیان ایک عدم مطابقت (incompatibility) پیدا ہوگئی ہے۔ دونوں کے درمیان یہی عدم مطابقت انسان کے اندر محرومی کے احساس کا اصل سبب ہے۔
انسان اپنی آرزوؤں کی تکمیل کے لیے دنیا میں جدوجہد شروع کرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ وقت آتا ہے جب کہ وہ دولت، اقتدار، سازوسامان اور دوسری مطلوب چیزیں حاصل کر لیتا ہے۔ مگر اُس کو محسوس ہوتا ہے کہ اپنی مطلوب چیزوں کو پانے کے بعد بھی وہ بدستور محرومی کے احساس سے دوچار ہے، اب بھی وہ یافت کے احساس تک نہ پہنچ سکا۔
اس کا سبب یہ ہے کہ پانے سے پہلے وہ سمجھتا ہے کہ یہی وہ چیز ہے جس کی آرزو وہ اپنے دل میں لیے ہوئے ہے۔ مگر چیز کو پانے کے بعد اُس کو وہ تسکین نہیں ملتی جو کسی مطلوب چیز کی یافت سے ہونی چاہئے۔ کیوں کہ اُس کے دل میںجو آرزو تھی وہ پرفیکٹ چیز کے لیے تھی۔ جب کہ دنیا کی ہر چیز غیر پرفیکٹ(imperfect) ہے اور ظاہر ہے کہ کسی پرفیکشنسٹ کو غیر پرفیکٹ میںتسکین نہیں مل سکتی۔
اس مسئلہ کا حل صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ آدمی جنت کو اپنا نشانہ بنائے۔ جنت پورے معنوں میں ایک پرفیکٹ ورلڈ (perfect world) ہے، جب کہ اُس کے مقابلہ میں موجودہ دنیا صرف ایک اِم پرفیکٹ ورلڈ (imperfect world) کی حیثیت رکھتی ہے۔ انسان اپنی پیدائش کے اعتبار سے جس پرفیکٹ ورلڈ کا طالب ہے، وہ جنت ہے۔ جنت کی معرفت نہ ہونے کی وجہ سے آدمی موجودہ دنیا میں اپنی آرزوئیں تلاش کرنے لگتا ہے اور اپنی فطرت اورخارجی دنیا کے درمیان عدم مطابقت کی بنا پر محرومی کے احساس کا شکار ہوجاتا ہے۔
اس مسئلہ کا حل صرف یہ ہے کہ آدمی کے اندر وہ شعوری انقلاب لایا جائے کہ وہ جنت کی معرفت حاصل کرسکے۔ اس معرفت کے حصول کے بعد اُس کی مایوسی کا احساس اپنے آپ ختم ہوجائے گا۔ کیوں کہ وہ جان لے گا کہ جن چیزوں میںوہ اپنی آرزوؤں کی تسکین ڈھونڈھ رہا ہے اُن میںاُس کے لیے تسکین کا سامان موجود ہی نہیں۔ اس دریافت کے بعد اُس کی توجّہ جنت کی طرف لگ جائے گی۔ اس کے بعد وہ موجودہ دنیا کی چیزوں کو ضرورت کے طورپر لے گا، نہ کہ مطلوب کے طورپر۔ اور جب کسی آدمی کے اندر یہ سوچ پیدا ہوجائے تو اُس کے بعد اُس کا حال یہی ہوگا کہ وہ یافت کے احساس میں جینے لگے گا، نہ کہ محرومی کے احساس میں۔
موجودہ دنیا پانے سے زیادہ کھونے کی جگہ ہے۔ یہاں ہر مرد اور عورت کو بار بار یہ احساس ہوتا ہے کہ فلاں چیز اُس سے کھوئی گئی۔ فلاں موقع اُس کے ہاتھ سے نکل گیا۔ فلاں شخص نے اُس کو نقصان پہنچادیا۔ اس قسم کے چھوٹے یا بڑے حادثات ہر ایک کو بار بار پیش آتے ہیں۔ کسی بھی مرد یا عورت کے لیے ان نقصانات سے بچنا ممکن نہیں۔
اس قسم کے نقصانات ہر ایک کو پیش آتے رہتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ان نقصانات کی تلافی کی صورت کیا ہے۔ اس کی صورت صرف ایک ہے۔ اور وہ جنت کا یقین ہے۔ جس آدمی کو خدا کی جنت پر یقین ہو اُس کا حال یہ ہوگا کہ ہر نقصان کے بعد وہ یہ کہہ سکے گا کہ دنیا کا یہ نقصان تو بہت چھوٹا ہے۔ جنت کے مقابلہ میں اس نقصان کی کوئی حقیقت نہیں۔ دنیا کے ہر نقصان کے بعد وہ اور زیادہ خدا کی طرف متوجہ ہوجائے گا۔ وہ خدا سے اور زیادہ جنت کا طالب بن جائے گا۔
قرآن میں جنت کی یہ صفت بتائی گئی ہے کہ وہاں آباد ہونے والے لوگوں کے لیے نہ خوف ہوگا اور نہ حُزن (البقرہ ۳۸)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں انسان کو جو زندگی ملتی ہے وہ کبھی اور کسی کے لیے خوف اور حُزن سے خالی نہیں ہوتی۔ موجودہ دنیا کا نظام اس ڈھنگ پر بنا ہے کہ یہاں حقیقی معنوں میں خوف اور حزن سے خالی زندگی کا حصول ممکن ہی نہیں۔ ایسی حالت میںآدمی کے لیے واحد درست رویّہ یہ ہے کہ وہ دنیا کو اپنا مقصود نہ بنائے۔ وہ دنیا کو صرف یہ حیثیت دے کہ وہ حقیقی منزل کی طرف جانے کا ایک راستہ ہے۔
اسی حقیقت کو ایک حدیث میں ان الفاظ میں بتایا گیا ہے: اللہم لا عیش الا عیش الآخرۃ۔ یعنی راحت اور مسرّت کا حصول صرف آخرت میں ممکن ہے۔ دنیا میں راحت و مسرّت تلاش کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی مسافر ریلوے اسٹیشن پر اپنے لیے ایک آرام دہ گھر بنانے کی کوشش کرے۔ ہر مسافر جانتا ہے کہ اسٹیشن گھر بنانے کے لیے نہیںہوتا۔ اسی طرح موجودہ دنیا عمل جنت کے لیے ہے، نہ کہ تعمیر جنت کے لیے۔ جنت کو اپنی منزل مقصود بنانا صرف عقیدہ کی بات نہیں وہ مقصد حیات کی بات ہے، ایسا مقصد جس کے سوا کوئی اور مقصد انسان کے لیے ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں

مومن کی صفت

مومن کی مثال ایسے نرم پودے کی سی ہے جس کے پتے سایہ دار ہوتے ہیں۔ جس سمت سے بھی ہوا چلتی ہے وہ اس کو جھکا دیتی ہے۔ جب ہوا رکتی ہے تو وہ سیدھا ہوجاتا ہے۔ یہی حال مومن کا ہے جو مسلسل آزمائشوں کے بار سے دبا رہتا ہے۔ اور کافر کی مثال سخت درخت (ٹھنٹھ) کی طرح ہے جو بے حس و حرکت ایک حالت میں کھڑا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ اسے جب چاہتا ہے اکھاڑ کر پھینک دیتا ہے۔(فتح الباری، کتاب التوحید، ۱۳؍۵۵۔۴۵۴)
اس حدیث میں پودے کی مثال کے ذریعہ مومن کی اس صفت کو بتایا گیاہے جس کو تواضع کہا جاتا ہے۔ تواضع مومن کی ایک صفت ہے۔ جس انسان کے اندر ایمانی کیفیت ہوگی اس کے اندر تواضع بھی ضرور ہوگی۔ یہ دونوں چیزیں کبھی ایک دوسرے سے جدا نہیںہوسکتیں۔مومن کے اندر سوکھی لکڑی کی طرح اکڑ نہیں ہوتی بلکہ نرم پودے کی طرح لچک ہوتی ہے۔ اس سے کوئی کوتاہی ہوجائے تو فوراً ہی وہ اپنی غلطی کا اعتراف کرلیتا ہے۔ کسی سے معاملہ پڑے تو وہ ہمیشہ اس کے ساتھ نرم روی کا طریقہ اختیار کرتا ہے۔ کسی سے نزاع پیش آجائے تو وہ یکطرفہ طورپر مصالحت کے لیے تیار رہتا ہے۔ حقوق کے جھگڑے میں وہ اپنا حق بھی دوسرے کو دینے پر راضی ہوجاتا ہے تاکہ معاملہ شدت کے مرحلہ تک نہ پہنچے۔
ایک انسان جب دوسرے انسان کے ساتھ شدت کا معاملہ کرتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اس کو اپنے جیسے ایک انسان کا معاملہ سمجھتا ہے۔ یہی نفسیات آدمی کو شدید بناتی ہے۔ مگر مومن اس کے برعکس ہر معاملہ کو خدا کا معاملہ سمجھتا ہے۔ یہ نفسیات اس کے اندر شدت کا خاتمہ کردیتی ہے۔ ایک انسان دوسرے انسان کے مقابلہ میں بڑا ہوسکتا ہے مگر خدا کے مقابلہ میں کوئی بھی انسان نہ بڑا ہے اور نہ طاقتور۔ اسی فرق کا یہ نتیجہ ہے کہ انسان اور انسان کا معاملہ ہو تو ان میں سے کوئی چھوٹا نظر آتا ہے اور کوئی بڑا۔ مگر جب انسان اور خدا کا معاملہ ہو تو تمام انسان یکساں حیثیت اختیار کر لیتے ہیں۔ اب بڑا صرف ایک خدا ہوتاہے اور بقیہ تمام انسان اس کے مقابلہ میں چھوٹے۔
واپس اوپر جائیں

الائمۃ المضلون

ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میںآئی ہے (الترمذی کتاب الفتن، ابن ماجہ کتاب الفتن، ابو داؤد کتاب الفتن، الدارمی کتاب الرقاق،مسند احمد) اس روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إن اخوف مااخاف علیکم الأئمۃ المضلون (مسند احمد ۶؍۴۴۱) یعنی میں اپنی امت کے بارے میں سب سے زیادہ جس چیز سے ڈرتا ہوں وہ گمراہ کرنے والے لیڈر ہیں۔
اس حدیث میں بعد کو آنے والے جس زمانہ کاذکر ہے اُس سے مراد غالباً صنعتی انقلاب کا زمانہ ہے۔ یہ واقعہ بعد کے زمانہ میں ظہور میں آنے والا تھا۔ جب کہ امت مسلمہ واحد حامل دین کی حیثیت سے دنیا میں باقی رہے گی۔ اس لیے آپ نے اس معاملہ کو اپنی امت کی طرف منسوب فرمایا۔ واضح ہوکہ دوسری روایتوں میں علیکم کے بجائے علی امتی کے الفاظ آئے ہیں۔
قدیم زمانہ بادشاہت کا زمانہ تھا۔ اس زمانہ میں گمراہ کن لیڈر کے ظہور کے مواقع موجود نہ تھے۔ موجودہ زمانہ میں آزادی، کمیونیکیشن، میڈیا اور لاؤڈ اسپیکر و اسٹیج نے ایسے مواقع پیدا کئے جن میں گمراہ کرنے والے لیڈر ابھریں اور پوری امت کو صراط مستقیم سے بھٹکا دیں۔
یہ جدید قیادتی مواقع ایسے وقت میں ظہور میںآئیں گے جب کہ امت طول أمد کے نتیجہ میں زوال کا شکار ہوچکی ہوگی۔ ایسی حالت میں کرنے کا اصل کام یہ ہوگا کہ جدید مواقع کو استعمال کرکے امت کو پھر سے زندہ کرنے کی کوشش کی جائے۔ مگر یہ ایک بے حد مشکل کام ہوگا۔ اس کے مقابلہ میں آسان کام یہ ہوگا کہ امت کی زوال یافتہ نفسیات کو استعمال کرکے اس کے اوپر اپنی قیادت کی بنیاد رکھ دی جائے۔ یعنی امت جہاں ہے وہیں سے اس کا سفر شروع کردیا جائے۔
یہ گمراہ کرنے والے لیڈر یہی دوسرا کام کریں گے۔ وہ امت کو فضائل کی پر اسرار کہانیاں سنا کر خوش فہمی میں مبتلا کریں گے۔ وہ ماضی کے تاریخی کارنامے بتا کر انہیں فخر کی غذا دیں گے۔ وہ سیاسی تقریریں کرکے ان کے جوش کو ابھاریں گے۔ وہ ادب اور خطابت کے الفاظ میں انہیں گم کریں گے۔ وہ امت کی پسماندگی کا الزام دوسروں کو دے کر جھوٹی نزاع کھڑی کریں گے۔ بائبل کے الفاظ میں، وہ امت کو لوریاں سنائیں گے اور اس طرح وہ امت کو اس کے زوال پر اور پختہ کردیں گے، نہ یہ کہ اس کو زوال کی حالت سے نکالیں۔
یہ وہی طریقہ ہے جس کو استحصال (exploitation) کہا جاتا ہے۔ لوگوں کا حال یہ ہوگا کہ آغاز سے سفر کرنا انہیں ایک بے حد لمبا سفر معلوم ہوگا، وہ اس قسم کی قربانی کے لیے تیار نہ ہوں گے۔ اس لیے وہ آغاز سے سفر کرنے کے بجائے اختتام سے اپنے سفر کی چھلانگ لگادیں گے ، اور پھر خود بھی ہلاک ہوںگے اوراپنی قوم کو بھی ہلاک کریں گے۔
گمراہ کرنے والا لیڈر ہمیشہ یہ کرتا ہے کہ وہ ایسی باتیں بولتا ہے جو لوگوں کو پسند ہو۔ وہ لوگوں کے اندر چھپے ہوئے منفی جذبات کو بھڑکاتا ہے۔ وہ لوگوں کی جھوٹی شکایتوں کو سچا بنا کر دکھاتا ہے۔ اس طرح وہ لوگوں کواپنی طرف کھینچتا ہے۔ اُس کی زبان سے اپنی دل پسند بولی سن کر لوگ اُس کے گرداکٹھا ہوجاتے ہیں۔
گمراہ لیڈر ہمیشہ یہی کرتے رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر لوگوں سے یہ کہا جائے کہ تم اپنی اصلاح کرو تو بہت کم لوگ ہوں گے جو اُس پکار کی طرف متوجہ ہوسکیں۔ اس لیے گمراہ لیڈر یہ کرتے ہیں کہ وہ اپنی قوم کی داخلی کمزوریوں کی بناپر پیش آنے والی ناکامی کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہراتے ہیں۔ وہ اپنی قوم کو بے قصور بتاتے ہیں اور دوسری قوم کو قصور وار۔ یہ چیز اُن کو اپنی قوم کے اندر مقبول بنادیتی ہے۔
جدید صنعتی دور میںنئے ذرائع کی بنا پر اس قسم کے لیڈروں کے لیے ممکن ہوگیا ہے کہ وہ ہر زمانہ سے زیادہ بڑے پیمانہ پر لوگوں کو گمراہ کر سکیں۔ اس صورت حال کا تقاضا ہے کہ قوم کے لوگ آج ہر زمانہ سے زیادہ محتاط رہیں تاکہ وہ گمراہ کرنے والے لیڈروں کی گمراہی کا شکار نہ ہوسکیں۔ یہ صورت حال صرف لیڈر کے لیے خطرناک نہیںہے بلکہ وہ خود قوم کے لیے بھی ایک عظیم خطرہ کی حیثیت رکھتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

امن اور اسلام

پیسیفزم(pacifism) ایک مستقل موضوع ہے جس پر صدیوں سے غور وفکر جاری ہے اور اس کے بارے میں اہل علم نے بہت کچھ لکھا ہے اور لکھ رہے ہیں۔ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (۱۹۸۴) میں پیسیفزم پر ایک تفصیلی مقالہ ہے جو ۸ صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ مقالہ جرمن پروفیسر موہلمان (wilhelm Emil Muhlmann) کا لکھا ہوا ہے جو اس موضوع پر اکسپرٹ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پیسیفزم کے موضوع پر انگریزی میں چھپی ہوئی چند کتابوں کے نام یہ ہیں:
1. E. L. Allen, F.E. Pollard, and G. A. Sutherland, The Case for Pacifism and Conscientious Objection. 1946.
2. Hannah Arendt, On Violence. 1970
3. Raymon Aron, Peace and War. 1962
4. C.J. Cadoux, Christian Pacifism Re-examined. 1940
5. Ted Dunn, Alternatives to War and Violence: A search. 1963.
6. Carl Joachim Friedrich, Inevitable Peace. 1948
7. Richard Gregg, The Power of Non-violence. 1966
8. Aldous Huxley, An Encyclopaedia for Pacifism. 1937.
9. Ralph T. Templin, Democracy and Non-Violence. 1965.
10. Quincy Wright, A Study of War. 1965.
امن پسندی یا مذہبِ أمن (Pacifism) صدیوں پُرانی ایک تحریک ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ دنیا سے جنگ کا خاتمہ کر دیا جائے تاکہ انسانی سماج میں مستقل طور پر امن کی حالت قائم ہو۔وہ تحریکیں جن کو عدمِ تشدد کی تحریک (non violent movement) کہا جاتا ہے، اُن کا مقصد جزئی یا بنیادی طورپر یہی رہا ہے۔
پیسیفزم کی یہ تحریک تاریخ کے تقریباً تمام دوروں میں پائی جاتی رہی ہے۔ کبھی مذہبی بنیاد پر اور کبھی فلسفیانہ بنیاد پر اور کبھی اخلاقی بنیاد پر۔ پیسیفزم کے ماننے والوں میںایک گروہ وہ ہے جو امن برائے امن کا قائل ہے۔ اُس کے نزدیک امن کی تعریف ہے عدم جنگ (absence of war)۔ دوسرا طبقہ وہ ہے جو امن کے ساتھ انصاف کو ضروری قرار دیتا ہے۔ وہ امن کے ساتھ انصاف (peace with justice) کی وکالت کرتا ہے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ صرف امن ایک منفی امن (negative peace) ہے اور امن مع انصاف مثبت امن (positive peace) ۔
گاندھی عدم تشدد کے علم بردار تھے۔ مگر کچھ اہل علمکا کہنا ہے کہ گاندھی کا عدم تشدد (non violence) محدود مقصد کے حصول کے لئے تھا۔ اسی لیے وہ ۱۵ اگست ۱۹۴۷ کو اچانک ختم ہوگیا۔ اُن کی تحریک کا اصل مقصد برٹش رول کو ختم کرنا تھا، نہ کہ حقیقۃً ملک میں ایک پُر امن سماج قائم کرنا۔
Gandhi's policy of non-violence was not to establish peace in the society, but to stage a coup in order to oust the British rule. He was successful, but not in the first sense rather in the second sense.
امن آزادی کا ایک عمل ہے، نہ کہ مجبوری کا عمل۔ مجبور کن امن جبر ہے وہ امن نہیں۔ امن وہ ہے جو ذہنی انقلاب کے ذریعہ آئے۔ قدیم زمانہ میں رومیوں نے محدود طورپر اپنی ریاست میں امن قائم کیا تھا جس کو وہ رومی امن (Pax Romana) کہتے تھے۔ اسی طرح بیسویں صدی میں سوویت یونین میںبظاہر امن پایا جاتا تھا جس کو کمیونسٹ امن کا نام دیا گیا۔ مگر یہ دونوں جبری امن تھے، اور جبری امن کوئی مطلوب امن نہیں۔
کچھ مفکرین امن کے لئے عالمی ریاست (world state) کا خواب دیکھتے رہے ہیں۔ مگر تاریخ بتاتی ہے کہ عالمی ریاست کا قیام کبھی ممکن نہ ہوسکا۔ حقیقت یہ ہے کہ پُر امن معاشرہ ذہنی تربیت اور فکری انقلاب کے ذریعہ وجود میںلایا جاسکتا ہے، نہ کہ کسی عالمی حکومت کے مرکزی کنٹرول کے ذریعہ۔ مغرب کی نشأۃ ثانیہ کے بعد بہت سے مغربی مفکرین نے جنگ کے بغیر دنیا کا خواب دیکھا مگر یہ خواب پورا نہ ہوسکا۔
ڈَچ فلسفی اور ہیومنسٹ اریسمس (Erasmus) ۱۴۶۶ میں روٹرڈم میں پیدا ہوا اور ۱۵۳۶ میں اُس کی وفات ہوئی۔ اُس کی تعلیم یہ تھی کہ انسانیت کا سب سے اونچا آئیڈیل امن اور انسانی اتحاد ہے:
He taught that the highest ideal of mankind would be peace and concord. (13/849)
اس میں کوئی شک نہیں کہ عملی اعتبار سے امن تمام مطلوب چیزوں میں سب سے بڑا مطلوب ہے۔ اس لیے کہ کسی بھی مثبت یا تعمیری کام کے لیے انسانی آبادی میںامن کا ماحول ہونا ضروری ہے۔ امن کے بغیر کسی بھی قسم کی کوئی ترقی نہیں ہوسکتی۔
عام طورپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ امن کے قیام کے سلسلہ میں مذہب کی زیادہ اہمیت نہیں۔ اُن کے نزدیک تاریخ یہ بتاتی ہے کہ مذہب کے ذریعہ امن کبھی قائم نہ ہوسکا:
Efforts to confirm a lasting peace through religious sanctions have had little effect. (13/846)
راقم الحروف کو اس نظریہ سے اتفاق نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ نظریہ ایک ناقص مطالعہ کی بنیاد پر قائم کیا گیاہے۔ یہ حضرات جب قیامِ امن کے سوال پر غور کرتے ہیں تو وہ اسلام کو حذف کرکے صرف دوسرے مذاہب کے مطالعہ کی بنیاد پر رائے قائم کرتے ہیں۔ کیوں کہ غلط طورپر یہ بات مشہور ہوگئی ہے کہ اسلام تشدد کا مذہب ہے۔ حالانکہ امر واقعہ یہ ہے کہ اسلام پورے معنٰی میں امن کا مذہب ہے۔ اسلام نے پہلی بار عملی طورپر امن کا نظام قائم کیا اور انسانیت کے لئے پُر امن زندگی کے بند راستے کھول دیے۔
یہاں اسلام سے میری مراد اسلام کا دور اوّل ہے جو اسلام کو سمجھنے کے لیے گویا نمائندہ حیثیت رکھتا ہے۔ اس دور میں اسلام کے زیر اثر دو بڑے واقعات ہوئے۔ (۱) امن کے راستہ کی رکاوٹ کو ہمیشہ کے لیے ختم کردینا۔ (۲) نظریاتی اور عملی دونوں اعتبار سے امن کا ایک کامل ماڈل قائم کرنا۔
یہ صحیح ہے کہ اسلام کے دور اول میںکچھ لڑائیاں نظر آتی ہیں۔ مگر ان لڑائیوں کا مقصد عین وہی تھا جس کو اہل علم ان الفاظ میں بیان کرتے رہے ہیں—آخری جنگ تمام جنگوں کو ختم کرنے کے لیے:
Last war to end all wars (13/851)
پیغمبر اسلام ۵۷۰ء میں مکہ میں پیدا ہوئے۔ ۶۳۲ء میں مدینہ میںآپ کی وفات ہوئی۔ جیساکہ معلوم ہے، اُس زمانہ میں دنیا میں شہنشاہیت کا نظام قائم تھا۔ یہ نظام ہزاروں سال سے چلا آرہا تھا۔ اس سیاسی نظام نے انسانی آزادی کا خاتمہ کردیا تھا۔ بادشاہ کی مرضی واحد فیصلہ کُن طاقت کی حیثیت رکھتی تھی۔
آزادی اور امن کے قیام کے لئے اس جبری نظام کاخاتمہ ضروری تھا۔ پیغمبر اسلام اور آپ کے اصحاب نے محدود مدت کے لیے طاقت کا استعمال کیا تا کہ اس نظام کو ختم کردیا جائے۔ یہ نظام اولاً عرب میں ختم کیا گیا۔ اُس کے بعد اُس زمانہ کے دو سب سے بڑے شہنشاہی نظام—رومن ایمپائر اور ساسانی ایمپائر سے اُن کا ٹکراؤ پیش آیا۔ اس ٹکراؤ میںپیغمبر اسلام اور آپ کے اصحاب کو کامیابی حاصل ہوئی اور دونوں ایمپائر ہمیشہ کے لئے ختم ہوگئے۔
فرانس کے مؤرخ ہنری پرین(Henry Pyrenne) نے اس قدیم نظام کو مطلق شہنشاہیت (absolute imperialism) کا نام دیا ہے۔ اُس نے لکھا ہے کہ اہل اسلام اگر اس مطلق شہنشاہیت کو نہ توڑتے تو دنیا میںکبھی آزادی اور امن کا دور نہ آتا۔
جہاد کیا ہے
جہاد کیا ہے، اس کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے یہ جاننا چاہئے کہ موجودہ زمانہ میں مسلمان جہاد کے نام پر جو کچھ کررہے ہیں، وہ جہاد نہیں ہے۔ یہ سب قومی جذبات کے تحت چھیڑی ہوئی لڑائیاں ہیں جن کو غلط طورپر جہاد کا نام دے دیا گیا ہے۔
جہاد اصلاً پُر امن جدوجہد کا نام ہے، وہ قتال کے ہم معنٰی نہیں۔ کبھی توسیعی استعمال کے طورپر جہاد کو قتال کے مفہوم میں بولا جاتا ہے۔ مگر لغوی مفہوم کے اعتبار سے جہاد اور قتال دونوں ہم معنٰی الفاظ نہیں۔ یہاں اس سلسلہ میں قرآن و حدیث سے جہاد کے بعض استعمالات درج کئے جاتے ہیں:
۱۔ قرآن میں ارشاد ہوا ہے: والذین جاہدوا فینا لنہدینہم سبلنا (العنکبوت ۶۹) یعنی جن لوگوں نے جہاد کیا ہماری خاطر تو ہم اُن کو اپنی راہیں دکھائیں گے۔اس آیت میںتلاشِ حق کو جہاد کہاگیا ہے۔ یعنی اللہ کو پانے کے لیے کوشش کرنا، اللہ کی معرفت حاصل کرنے کے لیے کوشش کرنا، اللہ کی قربت ڈھونڈھنے کے لیے کوشش کرنا۔ ظاہر ہے کہ اس جہاد کا قتال یا ٹکراؤ سے کوئی تعلق نہیں۔
۲۔ اسی طرح قرآن میںارشاد ہوا ہے: وجاہدوا بأموالہم (الحجرات ۱۵) یعنی وہ لوگ جنہوں نے اپنے مال سے جہاد کیا۔ اس آیت کے مطابق، اپنے مال کو اللہ کے راستہ میں خرچ کرنا ایک جہادی عمل ہے۔
۳۔ اسی طرح قرآن میںارشاد ہوا ہے: وجاہدہم بہ جہاداً کبیرا (الفرقان ۵۲) یعنی غیرمومنین کے ساتھ قرآن کے ذریعہ جہاد کرو۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ قرآن کی تعلیمات کو پھیلانے کے لیے پُر امن جدوجہد کرو۔
۴۔ اسی طرح پیغمبر اسلام ﷺنے فرمایا: المجاہد من جاہد نفسہ فی طاعۃ اللہ (الترمذی، فضائل الجہاد) یعنی مجاہد وہ ہے جو اللہ کی اطاعت میں اپنے نفس سے جہاد کرے۔ اس سے معلوم ہوا کہ نفس کی ترغیبات سے لڑکر اپنے آپ کو سچائی کے راستہ پر قائم رکھنا جہاد ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ لڑائی داخلی طورپر نفسیات کے میدان میں ہوتی ہے، نہ کہ خارجی طورپر کسی جنگ کے میدان میں۔
۵۔ ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الحج جہاد (ابن ماجہ، کتاب المناسک) یعنی حج جہاد ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حج کا عمل ایک مجاہدانہ عمل ہے۔ حج کو مطلوب انداز میں انجام دینے کے لیے آدمی کو سخت جدو جہد کرنی پڑتی ہے۔
۶۔ ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے والدین کی خدمت کے بارے میں فرمایا: ففیہما فجاہد (البخاری، کتاب الجہاد) یعنی تم اپنے والدین میںجہاد کرو۔ اس سے معلوم ہوا کہ ماں باپ کی خدمت کرنا جہاد کا ایک عمل ہے۔
اس طرح کی مختلف آیتیں اور حدیثیں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاد کا عمل اصلاً ایک پُرامن عمل ہے۔ وہ کسی مطلوب خدائی کام میں پُر امن دائرہ کے اندر جدوجہد کرنا ہے۔ جہاد کے لفظ کا صحیح ترجمہ پُر امن جدو جہد (peaceful struggle) ہے۔
عُسر میں یُسر
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ بیشک عسر کے ساتھ یُسر ہے (الانشراح)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ دنیا فطرت کے جس قانون پر چل رہی ہے اُس کا ایک پہلو یہ ہے کہ یہاں ہمیشہ مشکل کے ساتھ آسانی موجود رہے۔ یہاں ہمیشہ رکاوٹ کے ساتھ نکاس کا راستہ باقی رہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ دنیامیںامن کی حالت کو مسلسل قائم رکھنے کا راز کیا ہے۔ وہ ہے— رکاوٹوں سے ٹکرائے بغیر اپنا راستہ نکالنا۔ انسانی سماج میں امن ختم ہونے کا سبب ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ افراد یا جماعتوں کے راستہ میں جب بھی کوئی رکاوٹ آتی ہے تو وہ یہ چاہنے لگتے ہیں کہ رکاوٹ کو توڑ کر اپنے لیے ہموار راستہ بنائیں۔ یہی مزاج امن شکنی کا سب سے بڑا سبب ہے۔ اس لیے لوگوں کو یہ تعلیم دی گئی کہ کوئی مشکل پیش آجائے تو تم اُس کو رکاوٹ نہ سمجھو بلکہ یہ یقین رکھو کہ جہاں مشکل ہے وہیں آسانی بھی ہے۔ جہاں سفر بظاہر رُک رہا ہے، وہیں سے نئے سفر کا آغاز بھی ہوسکتا ہے۔
آپ کسی پہاڑ کے دامن میں کھڑے ہوں تو آپ دیکھیں گے کہ پہاڑ کی چوٹی سے چشمے جاری ہو کر تیزی سے میدان کی طرف بہہ رہے ہیں۔ ان چشموں کے راستہ میں بار بار پتھر آتے ہیں جو بظاہر چشمہ کا راستہ روکنے والے ہیں۔ مگر کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی پتھر کسی چشمہ کا راستہ روک دے۔
اس کا سادہ راز، ایک لفظ میں، اعراض ہے۔ یعنی ٹکراؤ سے بچ کر اپنا راستہ نکالنا۔ چنانچہ جب بھی چشمہ کے سامنے کوئی پتھر آتا ہے تو ایک لمحہ کی تاخیر کے بغیر چشمہ یہ کرتا ہے کہ دائیں یا بائیں مڑ کر اپنا راستہ نکال لیتا ہے اور آگے کی طرف بڑھ جاتا ہے۔ وہ راستہ کے پتھر کو ہٹانے کے بجائے خود اپنے آپ کو ہٹا لیتا ہے۔ اس طرح کسی ٹھہراؤ کے بغیر چشمہ کا سفر برابر جاری رہتا ہے۔
یہ فطرت کا سبق ہے۔ اس طرح فطرت عمل کی زبان میں انسان کو یہ پیغام دے رہی ہے کہ مشکلات سے ٹکرانے کے بجائے مشکلات کو نظر انداز کرو۔ رکاوٹوں کو توڑنے کے بجائے رکاوٹوں سے ہٹ کر اپنا عمل جاری رکھو۔ اس طریقِ عمل کو ایک لفظ میں پازیٹیو اسٹیٹس کو ازم (positive statusquoism) کہا جاسکتا ہے۔ پیغمبر اسلام کی سیرت کامطالعہ بتاتا ہے کہ آپ نے ہمیشہ اسی پالیسی کو اختیار کیا۔ اسی کا یہ نتیجہ تھا کہ آپ ایک ایسا انقلاب لانے میں کامیاب ہوئے جس میں اتنی کم جانیں ہلاک ہوئیں کہ اُس کو بلاشبہہ ایک غیر خونی انقلاب (bloodless revolution) کہا جاسکتا ہے۔
پازیٹیو اسٹیس کو ازم کی یہ پالیسی موجودہ دنیا میں امن کی سب سے بڑی ضمانت ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ جنگ کا سب سے بڑا سبب اسٹیٹس کو (statusquo) کو توڑنے کی کوشش ہے، اور امن کے قیام کا سب سے بڑا راز یہ ہے کہ اسٹیٹس کو کو مان کر بقیہ دائرہ میں اپنی تعمیر کی جائے۔
اسلام میں جہاد کا تصور
جہاد ایک عربی لفظ ہے۔ اس کے معنٰی سادہ طور پر کوشش کرنے کے ہیں۔ اپنے اصل مفہوم کے اعتبار سے وہ پر امن جد وجہد کے ہم معنٰی ہے۔ توسیعی مفہوم کے اعتبار سے جہاد کو جنگ کے معنٰی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے مگر عربی میںجنگ کے لیے اصل لفظ قتال ہے، نہ کہ جہاد۔
موجودہ زمانہ میں جہاد کا لفظ اکثر جنگ اور تشدد کے معنٰی میں بولا جاتا ہے۔ میڈیا کے کثرتِ استعمال کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام کو تشدد کا مذہب سمجھا جانے لگا۔ مثلاً لندن کے انگریزی روزنامہ ٹائمس (The Times) میںایک آرٹیکل چھپا ہے جس کا عنوان یہ ہے—ایک مذہب جو تشدد کی اجازت دیتا ہے۔
A religion that sanctions violence
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن میں پیغمبر اسلام کو رحمت للعالمین کی حیثیت سے متعارف کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ جو دین لائے وہ دنیا کے لیے دین رحمت تھا۔ ایسے دین کی تصویر متشددانہ مذہب کی کیسے بن گئی۔ جواب یہ ہے کہ دو قسم کی غلط فہمیاں اس خلاف واقعہ تصویر کی ذمہ دار ہیں۔ ایک، نظریہ اور عمل میں فرق نہ کرنا۔ دوسرے، استثناء کو عموم کا درجہ دینا۔
۱۔ یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ نظریہ کی روشنی میںعمل کو جانچا جاتا ہے، نہ کہ عمل کی روشنی میں نظریہ کو جانچا جانے لگے۔ مثلاً اقوام متحدہ کے چارٹر کی روشنی میں اس کی ممبر قوموں کے رویّہ کو جانچا جائے گا، نہ یہ کہ ممبر قوموں کی عملی روش کی روشنی میں چارٹر کا مفہوم متعین کیاجائے۔ اسی طرح اس مسئلہ کے علمی مطالعہ کے لئے ضروری ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھا جائے۔
مثلاً مسلمانوں کی ایک تعداد ان قبروں کو پوجتی ہے جس میں کسی بزرگ کو کبھی دفن کیا گیا تھا۔ اس کو دیکھ کر بت پرست لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے مذہب شرک اور اسلام کے مذہب توحید میں کوئی فرق نہیں ۔ فرق اگر ہے تو صرف یہ کہ ہندو دھرم میں کھڑا کر کے پوجا جاتا ہے اور اسلام دھرم میں لِٹا کر پوجا جاتا ہے۔ مگر یہ تقابل درست نہیں۔ کیوں کہ جو مسلمان قبروں کو پوجتے ہیں وہ ان کا ایک انحرافی فعل ہے۔ اس کا اسلام کی اصل تعلیم سے کوئی تعلق نہیں۔
یہی معاملہ جہاد کا ہے۔ جہاد بلا شبہہ ایک پر امن عمل ہے۔ لیکن اگر محمود غزنوی اور اورنگ زیب کی متشددانہ کارروائیوں کو اسلامی جہاد بتایا جائے یا موجودہ زمانہ میں جو مسلمان مختلف مقامات پر اسلام کے نام سے لڑائی چھیڑے ہوئے ہیں ان کو جہاد کہا جائے تو یہ رائے قائم کرنے کا صحیح طریقہ نہ ہوگا۔ صحیح علمی طریقہ یہ ہے کہ قرآن وسنت کی ثابت شدہ تعلیمات کو اسلامی نظریہ کا ماخذ بنایا جائے اور مسلمانوں کی کارروائیوں کو اس کی روشنی میں جانچا جائے۔ مسلمانوں کا جو عمل اسلام کے نظریۂ جہاد پر پورا نہ اترے اُس کو رد کردیا جائے۔
۲۔ غلط فہمی کا دوسرا سبب استثنائی تعلیم کو عمومی تعلیم کا درجہ دینا ہے۔ قرآن میں تقریباً چھ ہزار آیتیں ہیں۔ ان میںسے بمشکل چالیس آیتیں ایسی ہیں جو جہاد بمعنٰی قتال سے تعلق رکھتی ہیں۔ یعنی ایک فیصد سے بھی کم آیتیں، زیادہ متعین طور پر اعشاریہ ۵ فیصد (0.5 percent) ۔
اصل یہ ہے کہ قرآن ۲۳ سال کی مدت میں وقفہ وقفہ سے اترا۔ جیسے حالات پیداہوتے تھے اسی کے مطابق اللہ کی طرف سے احکام نازل کر دئے جاتے تھے۔ اس ۲۳ سال کو دو مختلف مدتوں میںتقسیم کیاجاسکتا ہے۔ ایک ۲۰ سال کی مدت اور دوسرے تین سال کی مدت۔ ۲۰ سال کی مدت میں قرآن میںوہ احکام اترے جو ایمان، اخلاص، عبادت، اخلاق، عدل، اصلاح سے تعلق رکھتے تھے اور تین سال کی مدت میں جنگ کے احکام اترے جب کہ پیغمبر اسلام کے مخالفوں نے یکطرفہ طورپر حملہ کر کے اہل اسلام کے لیے دفاع کا مسئلہ پیدا کردیا تھا۔ گویا قرآن میں جہاد بمعنٰی قتال کی آیتوں کی حیثیت استثناء کی ہے اور دوسری آیتوں کی حیثیت عموم کی۔
استثناء اور عموم کا یہ فرق ہرجگہ پایا جاتا ہے۔ مثال کے طورپر گیتا ہندوؤں کی ایک مقدس کتاب ہے۔ اس میں حکمت کی بہت سی باتیں ہیں۔ مگر اسی کے ساتھ گیتا میں کرشن جی ارجن سے کہتے ہیں کہ ہے ارجن، لڑائی کے لیے تیار ہو اور جنگ کر۔
O Arjun, be ready and fight. (Chapter 3, 11)
پوری گیتا کو پڑھا جائے تو معلوم ہوگا کہ جنگ کی بات اس میں استثناء کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگر صرف اسی استثنائی حصہ کو لیا جائے اور اس کو جنرلائز کرکے اسی سے گیتا کی مجموعی تعلیم نکالی جائے تو یہ ایک غیر علمی طریقہ ہوگا اور گیتا کوصحیح طورپر سمجھنے میں رکاوٹ بن جائے گا۔
اسی طرح بائبل میںآیا ہے کہ حضرت مسیح نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ:
Do not think that I came to bring peace on earth. I did not come to bring peace but a sword. (Matthew 10/34)
حضرت مسیح کے پورے کلام کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان کا یہ قول استثنائی قول ہے۔ یہی ان کی عمومی تعلیم نہیں۔ ایسی حالت میں حضرت مسیح کے پیغام کو متعین کرنے کے لیے ان کے عمومی اقوال کو دیکھا جائے گا۔ بعض استثنائی اقوال کو لے کر مسیح کی عمومی تصویر بنانا درست نہیں ہوسکتا۔
یہی کسی کتاب کے مطالعہ کا علمی طریقہ ہے۔ یہی طریقہ گیتا اور بائبل کے مطالعہ کے لیے بھی درست ہے اور یہی طریقہ قرآن کے مطالعہ کے لیے بھی درست۔
اب قرآن اور حدیث کے حوالوں کی روشنی میں جہاد کا مفہوم متعین کیجئے۔ قرآن کی ایک آیت یہ ہے: والذین جاہدوا فینا لنہدینہم سبلنا، (العنکبوت ۶۹)۔ یعنی جو لوگ اللہ میں جہاد کریں گے اللہ انہیں اپنے راستے دکھائے گا۔ اس آیت میں جہاد سے مراد وہ کوشش ہے جو سچائی کی تلاش میں یا اللہ کی معرفت حاصل کرنے میں کی جائے۔ اس آیت میںایک ایسے عمل کو جہاد کہا گیا ہے جو مکمل طورپر ایک فکری جستجو (intellectual pursuit) کی حیثیت رکھتی ہے۔
کیا اسلام تشدد کی اجازت دیتا ہے
کیا اسلام تشدد کی اجازت دیتا ہے۔ اس کاجواب یہ ہے کہ نہیں۔ یہ صحیح ہے کہ اسلام میں دفاع کے لیے لڑنے کی اجازت ہے۔ جیسا کہ ہر مذہبی اور غیر مذہبی سسٹم میں اس کی اجازت ہے۔ مگر تشدد میرے نزدیک اس سے الگ ایک اور فعل کا نام ہے۔ اس پہلو سے اسلام میں قطعاً تشدد کی اجازت نہیں۔ تشدد کا لفظ عام طورپر جس مفہوم میں بولا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ اپنے دشمن کو ختم کرنے کے لیے تشدد کا استعمال کیا جائے۔ اور اس قسم کے تصور کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔ کوئی شخص کسی کو اپنا دشمن سمجھے تو اس بنا پر اُس کے لیے جائز نہیں ہوجاتا کہ وہ اُس کو ختم کرنے کے نام پر اُس کے خلاف تشدد کرنے لگے۔
قرآن کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں دشمن اور جارح کے درمیان فرق کیا گیا ہے۔ اگر کوئی گروہ کسی دوسرے گروہ کے خلاف یک طرفہ طورپر متشددانہ جارحیت کرے تو قرآن کے مطابق، اُس کو حق ہے کہ وہ ایسے جارح کے خلاف دفاعی کارروائی کرے اور بقدرِ ضرورت جوابی تشدد کا استعمال کرے۔ قرآن میںکہا گیا ہے کہ لڑنے کی اجازت دے دی گئی اُن لوگوں کو جن کے خلاف لڑائی کی جارہی ہے:
Permission of fighting is given to those who are attacked. (22.39)
مگر دشمن کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہے۔دشمن کے مقابلہ میں اسلام کی تعلیم عین وہی ہے جو مسیح کی زبان سے بائبل میں اس طرح آئی ہے کہ تم اپنے دشمن سے محبت رکھو:
Love your enemy (Luke 6-31)
قرآن میں دشمنانہ سلوک کا جواب دشمنانہ سلوک کے ساتھ دینے سے منع کیا گیا ۔ چنانچہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں، تم جواب میں وہ کہو جو اس سے بہتر ہو۔ پھر تم دیکھو گے کہ تم میں اور جس میںدشمنی تھی، وہ ایسا ہوگیا جیسے کوئی دوست قرابت والا (حٰم السجدہ ۳۴)
اس سے معلوم ہوا کہ اسلام کی تعلیم کے مطابق، دشمن سے لڑنا نہیں ہے بلکہ دشمن کو اپنا دوست بنانا ہے۔ اسلام کے مطابق، ہر انسان اصلاً مسٹر نیچر ہے۔ وہ صرف وقتی طورپر کبھی مسٹر دشمن بن جاتا ہے۔ اگر اُس کے ساتھ یک طرفہ حسن سلوک کیاجائے تو وہ اپنی فطرت کی طرف لوٹ آئے گا۔ اور ماضی کا دشمن حال کا دوست بن جائے گا۔
اب غور کیجئے کہ کوئی شخص تشدد کیوں کرتا ہے۔ اس کا ایک سبب آئیڈیالاجیکل ایکسٹریمزم ہے۔ جہاں ایکسٹریمزم نہ ہو وہاں تشدد بھی نہ ہوگا۔ چنانچہ اسلام میں ایکسٹریمزم کو منع کرکے اس قسم کے تشدد کی جڑ کاٹ دی گئی۔ اسلام نے کہا کہ دین میںکسی قسم کا غلو نہیں (النسائی، ابن ماجہ، احمد)
There is no extremism in the religion of Islam.
اسی طرح تشدد کا ایک سبب غصہ ہے۔ اور اسلام میں غصہ کو ایک بہت بڑی اخلاقی بُرائی قرار دیا گیا ہے۔ قرآن میں مومن کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ جب انہیں غصہ آتا ہے تو وہ معاف کردیتے ہیں۔ (الشوریٰ ۳۷)
اور یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ اگر اسلام کی اس تعلیم کے مطابق لوگ ایسا کریں کہ جب انہیں کسی پر غصہ آئے تو وہ اُس کو معاف کردیں، ایسی صورت میں تشدد کی نوبت ہی نہ آئے گی۔
تشدد کو استعمال کرنے کی ایک اور وجہ یہ ہوتی ہے کہ آدمی یہ سمجھ لیتا ہے کہ تشدد ایک طاقتور ذریعہ ہے۔ اس طاقتور ذریعہ کو استعمال کرکے وہ اپنے مقصد کو حاصل کرسکتاہے۔ مگر قرآن میںاس ذہن کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ قرآن کے مطابق، تشدد صرف ایک بے نتیجہ قسم کا منفی رد عمل ہے، وہ کسی مقصد کے حصول کا کوئی مؤثراور مفید ذریعہ نہیں۔
قرآن کی تعلیم یہ ہے کہ کسی سے تمہاری نزاع قائم ہو تو نزاع کو ٹکراؤ تک نہ جانے دو جوآخر کار تشدد بن جاتا ہے۔ بلکہ نزاع کو مصالحانہ طریقہ اختیار کرتے ہوئے پہلے ہی مرحلہ میں ختم کردو۔ چنانچہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ صلح بہتر ہے (النساء ۱۲۸)
Reconciliation is the best.
اس سے معلوم ہوا کہ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ جب کسی سے کسی معاملہ میں نزاع کی صورت پیدا ہو جائے تو اُس کے حل کے لیے مصالحانہ طریقِ عمل(conciliatory course of action) اختیار کرو، نہ کہ منازعانہ طریق عمل confrontational course of action) (۔ ظاہر ہے کہ اگر اسلام کی اس تعلیم کو اختیار کیاجائے تو نزاع پیدا ہونے کے باوجود تشدد کی نوبت نہیں آئے گی۔
اس مسئلہ کو سمجھنے کے لیے پیغمبر اسلام کا ایک قول بہت زیادہ مددگار ہوسکتا ہے۔ وہ قول یہ ہے کہ ان اللہ یعطی علی الرفق ما لا یعطی علی العنف(صحیح مسلم) یعنی اللہ نرمی پر وہ چیز دیتا ہے جو وہ سختی پر نہیں دیتا۔
پیغمبر اسلام کے اس قول میں فطرت کانظام بتایا گیا ہے۔ موجودہ دنیا میںخدا نے فطرت کا جو نظام قائم کیا ہے وہ ایسے اصولوں پر مبنی ہے کہ یہاں کسی مقصد کے حصول کے لیے پُر امن طریقہ زیادہ کار آمد اور نتیجہ خیز ہے۔ اس کے مقابلہ میں پُر تشدد طریقہ تخریب کاری تو کرسکتا ہے مگر وہ کسی مثبت مقصد کے حصول کے لیے نتیجہ خیز نہیں ۔
یہاںیہ اضافہ کرنا ضروری ہے کہ اسلام اور مسلمان دونوں ایک چیز نہیں۔ اسلام ایک آئیڈیالوجی کا نام ہے اور مسلمان اُس گروہ کانام ہے جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اُنہوں نے اسلام کو اپنے مذہب کے طورپر اختیار کیا۔ ایسی حالت میں مسلمانوں کے عمل کو اسلام کی تعلیم سے جانچا جائے گا، نہ یہ کہ مسلمان جوکچھ کریں اُس کو اسلام سمجھ لیا جائے۔
کوئی مسلمان یا مسلمانوں کا کوئی گروہ اگر تشدد کرے تو یہ اُس کا اپنا ذاتی فعل ہے۔ ایسے لوگوں کے بارے میں قرآن کی زبان سے کہا جائے گا کہ اگر چہ وہ اسلام کا دعویٰ کرـتے ہیں مگر اُنہوں نے اسلام کو دل سے قبول نہیں کیا۔ (الحجرات ۱۴)
اسلام اور دہشت گردی
اگر کوئی شخص کرشچین ٹررزم کا ٹرم استعمال کرے تو کہنے والا کہے گا کہ تم متضاد ترکیب (contradictory term) استعمال کررہے ہو ۔ کرشچین کا کوئی تعلق ٹررزم سے نہیں ہے۔ چنانچہ مسیح نے کہا ہے کہ تم اپنے دشمن سے محبت رکھو(Love your enemy) کرشچینٹی کی تعلیمات Love پر مبنی ہیں۔ ایسی حالت میں کرشچین ٹررزم کے کوئی معنٰی نہیں۔ مگریہ آدھی سچائی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ مسیح نے کہا کہ تم اپنے دشمن سے محبت رکھو، مگر اسی کے ساتھ نیو ٹسٹمنٹ کی روایت کے مطابق، مسیح نے یہ بھی کہا کہ یہ نہ سمجھو کہ میں صلح کروانے آیا ہوں بلکہ میں جنگ کروانے آیا ہوں:
Do not think that I came to bring peace on earth. I did not come to bring peace but a sword. (10:34)
پھر کیا وجہ ہے کہ مسیح کے اس واضح قول کے باوجود کوئی شخص کرشچین لوگوں پرٹررزم کا الزام عائد نہیں کرتا۔ اس کا سبب یہ نہیں ہے کہ کرشچین لوگ لڑائی نہیں کرتے۔ اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی لڑائی کو نیشنل انٹرسٹ کے نام پر چلاتے ہیں، نہ کہ مسیحی مذہب کے نام پر۔ مثلاً ہٹلر ایک کرشچین تھا۔ اس نے دوسری عالمی جنگ چھیڑی مگر اس نے اپنی اس جنگ کومسیحیت کے نام پر نہیں کیا بلکہ جرمن قومیت کے نام پر کیا۔ اسی طرح امریکہ نے ویت نام میںدس سال سے زیادہ مدت تک جنگ کی مگر اس میں بھی اس نے ایسانہیں کیا کہ وہ اپنی اس جنگ کو کرشچین وار کہے۔ اس کے برعکس اس نے یہ کہا کہ وہ اس جنگ کو امریکی مفاد کے لیے کر رہا ہے۔
کچھ لوگ یہ شکایت کرتے ہیں کہ میڈیا اسلام کو ٹررزم کا نام دے کر اسلام کو بدنام کرنا چاہتا ہے۔ مگر میں کہوں گا کہ اس معاملہ میں میڈیا کاقصور نہیں۔ کیوں کہ مسلمان خود اسلام کے نام پر جگہ جگہ تشدد پھیلائے ہوئے ہیں جس کو وہ بطور خود جہاد کا نام دیتے ہیں۔ ایسی حالت میں میڈیا کا رول اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ وہ مسلمانوں کے قول و عمل کو اُن کے اپنے دعویٰ کے مطابق رپورٹ کرتا ہے۔ مسلمان اگر اپنی جنگ کو اپنی کمیونٹی کے انٹرسٹ کے نام پر لڑی جانے والی جنگ بتائیں تو اس کو مسلم کمیونٹی کے نام سے جوڑا جائے گا۔ مگر جب وہ اپنے تشدد کو اسلام کا نام دیتے ہیں تو بالکل فطری ہے کہ میڈیا میں وہ اسلامی تشددکے نام سے رپورٹ کیا جائے۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی تمام تعلیمات امن کے اصولوں پر مبنی ہیں۔ اسلام کی ۹۹ فیصد آیتیں براہِ راست یا بالواسطہ طورپر امن ہی سے تعلق رکھتی ہیں۔ تاہم اسی کے ساتھ اس میں بعض آیتیں یا کچھ آیتیں جنگ سے تعلق رکھنے والی بھی ہیں۔ مگر اسلام میں امن کی حیثیت عموم کی ہے اور جنگ کی حیثیت استثناء کی۔
عسکری دور سے غیر عسکری دور تک
ساتویں صدی کے نصف اول میں جب اسلام کا ظہور ہوا، اُس وقت ساری دنیا میں سیاسی جبر کا وہ نظام قائم تھا جس کو فرانسیسی مؤرخ ہنری پرین نے مطلق بادشاہت (absolute imperialism) کا نام دیا ہے۔ یہ نظام جبر انسان کو ہر قسم کے خیر سے محروم کئے ہوئے تھا۔ اُس وقت حکم دیا گیا کہ اس مصنوعی نظام کا خاتمہ کر دو تاکہ انسان کے اوپر ان بھلائیوں کا دروازہ کھل جائے جو اللہ نے اُن کے لیے مقدر کیا ہے۔
قرآن (الانفال ۳۹) میںیہ حکم ان الفاظ میں دیا گیا : وقاتلوہم حتیٰ لا تکون فتنۃ ویکون الدین کلہ للہ۔ (اور اُن سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ نہ رہے اور دین سب اللہ کے لیے ہوجائے)۔ اس آیت میں فتنہ سے مراد سیاسی جبر کا وہ قدیم نظام ہے جو آیت کے نزول کے وقت ساری دنیا میں رائج تھا۔ اور دین سے مراد فطرت پر مبنی خدا کا تخلیقی نظام ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مصنوعی جبر کا نظام ختم ہو جائے اور دنیا میںخدا کے تخلیقی نقشہ کے مطابق حالتِ فطری قائم ہو جائے۔ جس میںہر انسان اپنے عمل کے لیے آزاد ہو، ہر انسان کھلے ماحول میںاپنا ٹیسٹ دے سکے۔
رسول اور اصحاب رسول کی جدو جہد اور اُن کی قربانی سے مذکورہ قدیم نظام ٹوٹ گیا اور دنیا میںوہ نظام آگیا جو اللہ کو مطلوب تھا۔ تاہم یہ ایک عظیم تبدیلی تھی۔یہ وہ انوکھا انقلاب تھا جس کو ہنری پرین نے اس طرح بیان کیا ہے—اسلام نے دنیا کی حالت کو بدل دیا۔ تاریخ کا روایتی ڈھانچہ توڑ کر پھینک دیا گیا۔
Islam changed the face of the globe. The traditional order of history was overthrown.
یہ انقلاب اتنا بڑا تھا کہ وہ اچانک نہیں آسکتا تھا۔ چنانچہ اللہ کی خصوصی مدد سے وہ ایک عمل (process) کے روپ میں جاری ہوا۔ اسلام کے دور اول کا یہ انقلاب گویا ایک دھکا تھا جو تاریخ کو دیا گیا۔اس کے بعد انسانی تاریخ ایک مخصوص رُخ پر چل پڑی۔ ساتویں صدی کا یہ عمل مسلسل جاری رہا۔ یہاں تک کہ وہ بیسویں صدی کے وسط میں اپنی تکمیل تک پہنچ گیا۔ اس کے بعد یہ ناممکن ہوگیا کہ قدیم طرز کا جبری نظام دوبارہ زمین پر قائم ہو۔
بعد کے زمانہ میں دوبارہ کسی اور ایمپائر کادنیا میں قائم نہ ہونا کوئی اتفاقی بات نہیں ۔ اصل یہ ہے کہ پچھلی چند صدیوں کے عمل کے نتیجہ میں دنیا میں ایسی ہمہ گیر تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں جو کسی نئے ایمپائر کے قیام کی راہ میں فیصلہ کن طورپر رکاوٹ ہیں۔ اب وہ اسباب دنیا میں موجود ہی نہیں جب کہ کوئی سیاسی حوصلہ مند دوبارہ قدیم طرز کا ایمپائر کھڑا کرسکے۔
موجودہ زمانہ میں سیاسی ایمپائر کے قیام کے خلاف جو موانع (deterrents) پیدا ہوئے ہیں اُن کو چند مثالوں سے سمجھا جاسکتا ہے۔
۱۔ قدیم زمانہ میں یہ صورت حال تھی کہ جب کوئی بادشاہ فوجی طاقت کے زور پر ایک علاقہ پر قبضہ کرلیتا تھا تو وہاں کے لوگ اُس کو بادشاہ کا فطری حق سمجھ کر اُس کی سیاسی بالا دستی کو قبول کرلیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ قدیم زمانہ میں ایک بادشاہ کو صرف دوسرا بادشاہ ختم کرسکتا تھا، نہ کہ عوام۔ مگر موجودہ زمانہ میں جمہوریت اور سیاسی آزادی اور قومی حکومت کے تصورات کے نتیجہ میں رائے عامہ اتنی زیادہ بدل چکی ہے کہ اب کسی بیرونی بادشاہ کو وہ اجتماعی قبولیت (social acceptance) حاصل نہیںہوتی جو کسی حکومت کے قیام و بقا کے لیے ضروری ہے۔
۲۔ قدیم زمانہ میں اقتصادیات کاانحصار تمام تر زمین پر مبنی ہوتا تھا اور زمین صرف بادشاہ کی ملکیت سمجھی جاتی تھی۔ موجودہ زمانہ میں صنعتی انقلاب نے بے شمار نئے اقتصادی ذرائع پیدا کردیے ہیں۔ یہ نئے ذرائع ہر انسان کے لیے قابل حصول ہیں۔ اس لیے اب عام لوگوں کے لیے یہ ممکن ہوگیا کہ وہ سیاسی حکمراں کے خلاف ایسے آزاداقتصادی وسائل پالیں جو سیاسی حکمراں کے دائرۂ اقتدار کے باہر ہوں۔ اس اقتصادی تبدیلی نے اس بات کو ممکن بنا دیا کہ آج ایسی انقلابی تحریک چلائی جاسکے جس کو روکنا سیاسی حکمراں کے لیے ممکن نہ ہو۔
۳۔ اسی طرح ایک چیز وہ ہے جس کو مانع میڈیا(media deterrent) کہا جاسکتا ہے۔ موجودہ زمانہ میں میڈیا اور کمیونیکیشن کی ترقی نے یہ صورت حال پیدا کردی ہے کہ ایک علاقہ میں پیش آنے والا واقعہ فوراً ہی ساری دنیا میں پہنچ جائے۔ تمام دنیا کے لوگ اُس سے پوری طرح با خبر ہوجائیں۔ یہ ایک ایسا چیک (check)ہے جس نے قدیم طرز کے سیاسی ایمپائر کے قیام کو تقریباً ناممکن بنا دیا ہے۔ اب کوئی بادشاہ اپنے اختیارات کا اُس طرح بے خوف استعمال نہیں کرسکتا جو پہلے ممکن ہوا کرتا تھا۔
۴۔ اسی طرح ایک اور چیزوہ ہے جس کو عالمی مانع (universal deterrent) کہا جاسکتا ہے۔ موجودہ زمانہ میں اقوام متحدہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس کے تحفظ کے نام پر قائم ہونے والے ادارے، ایسے مستقل چیک ہیں جن کو کوئی سیاسی حکمراں نظر انداز نہیں کرسکتا اور نہ دیر تک اُن کی خلاف ورزی کا تحمل کرسکتا ہے۔
ان عالمی تبدیلیوں کے بعدانسانی تاریخ ایک نئے دور میں داخل ہوگئی ہے۔ قدیم دور اگر عسکری دور تھا تو اب نیا دور غیر عسکری دور ہے۔ قدیم زمانہ میں پُرتشدد طریقہ کو کسی بڑی کامیابی کے لیے ضروری سمجھا جاتا تھا۔ مگر اب پُرامن طریقہ(peaceful method) کو مطلق طورپر کامیاب طریقہ کی حیثیت حاصل ہوچکی ہے۔ اب کسی مقصد کے حصول کی جدو جہد کو اول سے آخر تک اس طرح چلایا جاسکتا ہے کہ اُس کے کسی بھی مرحلہ میں تشدد کے استعمال کی ضرورت پیش نہ آئے۔ وہ مکمل طورپر پُرامن ذرائع کی پابندرہتے ہوئے کامیابی کی آخری منزل تک پہنچ جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ اب پُر تشدد طریقِ کار ایک خلاف زمانہ عمل(anachronism) کی حثییت اختیار کرچکا ہے، اب وہ وقت کے مطابق، کوئی عمل نہیں۔
جہاد بمعنٰی قتال کو تمام علماء حسن لغیرہٖ مانتے ہیں، نہ کہ حسن لذ۱تہٖ۔ اب موجودہ حالات میںیہ کہنا صحیح ہوگا کہ اب جہاد بمعنٰی قتال کا وقت نہیں رہا، اب جہاد بمعنٰی پُر امن جدوجہد کا وقت دنیا میں واپس آگیا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ جہاد بمعنٰی قتال اب منسوخ ہوگیا۔وہ حکماً بدستور باقی ہے۔ یہ نیا معاملہ جو پیش آیا ہے اُس کا تعلق خود حکم کی منسوخی سے نہیں ہے بلکہ احوال کی تبدیلی سے ہے۔ اس کی توجیہہ اس فقہی مسلّمہ میں پائی جاتی ہے کہ: تتغیر الأحکام بتغیر الزمان والمکان۔ (زمان ومکان کے بدلنے سے احکام بدل جاتے ہیں) یہ امر واضح ہے کہ تبدیلی اور منسوخی میںنوعی فرق پایا جاتا ہے۔
یہ تبدیلی جو موجودہ زمانہ میں پیش آئی ہے وہ عین اسلام کے حق میں ہے اور وہ اسلام ہی کے پیدا کردہ انقلاب کے نتائج میں سے ایک نتیجہ ہے۔ ایسا اس لیے ہوا ہے کہ اسلام کی دعوت و تبلیغ کے مواقع آخری حد تک کھول دیے جائیں۔ اب اہلِ اسلام گویا آخری طورپر اُس دور میںداخل ہوچکے ہیں جس کی آمد کی دعا رسول اور اصحاب رسول نے ان الفاظ میںکی تھی: ربنا ولا تحمل علینا إصرا کما حملتہ علی الذین من قبلنا (البقرہ) اب اسلام کے دعوتی مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے کسی ٹکراؤ کی ضرورت نہیں۔ اب پُر امن طریقِ کار پر عمل کرتے ہوئے وہ سب کچھ حاصل کیاجاسکتا ہے جو اسلام میں مطلوب ہے۔
ایک حدیث
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک خطبہ حدیث کی مختلف کتابوں میں آیا ہے۔ ایک صحابی کہتے ہیں کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور اپنے زمانہ سے لے کر قیامت تک پیش آنے والی ساری باتیں آپ نے ہم کو بتائیں۔ اس خطبہ میں آپ نے اپنی امت کونہایت شدت کے ساتھ سیاسی بغاوت سے منع کیا۔ آپ نے فرمایا کہ کوئی حکمراں خواہ تمہارے نزدیک ظالم ہو، وہ تمہاری پیٹھ پر کوڑے مارے اور تمہارا مال چھین لے تب بھی تم اس کی اطاعت کرو۔
اس کے بعد آپ نے فرمایا : وانمااخاف علی امتی الائمۃ المضلین، وإذ۱وضع السیف فی امتی لم یُرفع عنہا الی یوم القیامۃ، (سنن ابی داؤد، کتاب الفتن والملاحم، ۴؍۹۵) یعنی میں اپنی امت پر سب سے زیادہ گمراہ کرنے والے لیڈروں سے خائف ہوں، اور جب میری امت میں تلوار داخل ہوجائے گی تو وہ اس سے قیامت تک اٹھائی نہ جائے گی۔
اس قسم کی دوسری حدیثوں کی روشنی میں اس حدیث پر غور کیاجائے تو اس کا مطلب یہ سمجھ میں آتا ہے کہ سیاسی معاملات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی کے ساتھ پر تشدد عمل سے روکا اور پُرامن عمل کی نصیحت کی۔ اس لیے کہ پر تشدد عمل کی روایت اگر ایک بار قائم ہو جائے تو اس کے بعد اُس کو ختم کرنا بے حد مشکل ہوجاتاہے۔
حدیث کی کتابوں میںکثرت سے اس قسم کی روایتیں آئی ہیں جن میں آپ نے حکمراں کے خلاف خروج سے آخری حد تک منع فرمایا ہے۔ اس بنا پر علماء نے اس پر اتفاق کر لیا ہے کہ قائم شدہ حکومت کے خلاف کسی بھی عذر کی بنا پر بغاوت کرنا حرام ہے۔ (الغلو فی الدین صفحہ ۴۱۷)
ایک طرف حاکم کے خلاف متشددانہ سیاست کی یہ مطلق ممانعت ہے۔ دوسری طرف روایات میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: افضل الجہاد من قال کلمۃ حقٍ عندسلطان جائر (الترمذی، ابو داؤد، ابن ماجہ، احمد، النسائی) یعنی افضل جہاد یہ ہے کہ کوئی شخص ظالم بادشاہ کے سامنے حق کی بات کہے۔
ان دونوں قسم کی روایات پر غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ کسی کو کوئی حکمراں شخص ظالم دکھائی دے تب بھی اس کے لئے زیادہ سے زیادہ جس حد تک جانے کی اجازت ہے وہ صرف قولی معنٰی میں اظہار رائے ہے ، نہ کہ عملی معنٰی میں مخالفانہ سیاست چلانا یا حکمراں کو ختم کرنے کی کوشش کرنا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ اسلام میں صرف پر امن جدوجہد (peaceful struggle) ہے۔ پر تشدد جدوجہد (violent struggle) کسی بھی حال میں اور کسی بھی عذر کی بنا پر اسلام میں جائز نہیں۔
اسلام کی بعد کی تاریخ کا غالباً سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ مذکورہ واضح ہدایات کے باوجود بعد کی مسلم نسلوں میں جہاد کے نام پر متشددانہ سیاست کی روایت چل پڑی۔ حتٰی کہ یہ ذہن مسلمانوں پر اتنا زیادہ چھایا کہ دین رحمت (الانبیاء ۱۰۷) ان کے یہاں دین جہاد بمعنٰی قتال بن گیا۔ بعد کی صدیوں میںتیار ہونے والا بیشتر لٹریچر براہ راست یا بالواسطہ طورپر اسی ذہن کی عکاسی کرتا ہے۔
بعد کے زمانہ میں قرآن کی جو تفسیریں لکھی گئیں اُن میں اس ذہن کی عکاسی اس طرح ہوئی کہ صبر واعراض کی آیتوں کے بارے میں لکھ دیا گیا کہ قتال کا حکم اُترنے کے بعد یہ آیتیں منسوخ ہوگئیں۔ احادیث جمع کرکے مرتب کی گئیں تو اُن میں کتاب الجہاد تو نہایت تفصیل کے ساتھ درج کیا گیا مگر کتاب الدعوہ والتبلیغ سرے سے کسی کتاب میں شامل نہیں۔ یہی حال فقہ کی تمام کتابوں کا ہے۔ فقہ کی کتابوں میں جہاد اور متعلقاتِ جہاد کے احکام نہایت تفصیل کے ساتھ بیان ہوئے ہیں مگر دعوت اور متعلقاتِ دعوت کے ابواب کسی بھی فقہی کتاب میںقائم نہیں کئے گئے۔
یہی حال بعد کو پیدا ہونے والے تقریباً تمام اسلامی لٹریچر کا ہوا۔ ابن تیمیہ سے لے کر شاہ ولی اللہ تک، اور شاہ ولی اللہ سے لے کر موجودہ زمانہ کے مصنفین تک، کوئی بھی شخص دعوت کے موضوع پر کوئی کتاب تیار نہ کرسکا۔ اگر کسی کتاب کا نام دعوت و تبلیغ ہے تو وہ بھی ایسا ہی ہے جیسے سیاست یا فضائل کی کسی کتاب کا نام دعوت و تبلیغ رکھ دیا جائے۔
اس قسم کے لٹریچر کے تحت مسلمانوں کا جومزاج بنا اُسی کا یہ نتیجہ ہے کہ مسلمانوں میں ٹکراؤ کا طریقہ اختیار کرنے والے لوگ ہیرو بن جاتے ہیں اور جو شخص ٹکراؤ کا طریقہ اختیار نہ کرے وہ اُن میں غیر مقبول ہو کر رہ جاتاہے۔
اسی بنا پر ایسا ہوا کہ امام حسین کے کردار کو تو ہمارے مقررین اور محررین نے خوب نمایاں کیا مگر امام حسن کا کردار نمایاں نہ کیاجاسکا۔صلاح الدین ایوبی کو مسلمانوں کے درمیان زبردست شہرت حاصل ہوئی۔ مگر وہ لوگ جنہوںنے تاتاری غارت گروں کو اسلام میں داخل کرکے انہیں اسلام کا خادم بنایا اُن کا کوئی تذکرہ ہماری تاریخ کی کتابوں میں نہیں ملتا۔ موجودہ زمانہ میں اُسامہ بن لادن جیسے تشدد کی بات کرنے والے لوگ نہایت آسانی سے مسلمانوں کے درمیان ہیرو بن جاتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی شخص امن اور احترامِ انسانیت کی بات کرے تو وہ مسلمانوں کے درمیان عمومی قبولیت حاصل نہ کرسکے گا۔
اس ذہن کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ عام انسانیت مسلمانوں کا کنسرن (concern) ہی نہ رہی۔ مسلمانوں کا حال یہ ہوا کہ خداکے بندوں کو وہ ’’اپنی قوم‘‘ اور ’’غیر قوم‘‘ میں تقسیم کرکے دیکھنے لگے۔ دعوتی طرزِ فکر کے مطابق، مسلمان اور غیر مسلم داعی اور مدعو قرار پاتے ہیں۔ اس کے برعکس جہادی (بمعنٰی قتالی) طرزِ فکر میں یہ ہوتا ہے کہ مسلمان دوسروں کو اپنا حریف اور رقیب سمجھنے لگتے ہیں۔
مغربی قوموں کے استیلاء کے بعد یہ فرق بہت زیادہ بڑھ گیا۔مسلمانوں کو محسوس ہوا کہ مغربی قوموں نے اُن سے اُن کا برتری کا مقام چھین لیا ہے۔ اس کے نتیجہ میں یہ ہوا کہ رقابت مزید اضافہ کے ساتھ نفرت بن گئی۔ مسلمان عام طورپر دوسری قوموں کو دشمن کی نظر سے دیکھنے لگے۔
اسلام اکیسویں صدی میں
پیغمبر اسلام اور آپ کے اصحاب کے ذریعہ دور اوّل میں جو انقلاب آیا اُس کاایک پہلو وہ ہے جس کی تکمیل دور اول ہی میں ہوگئی۔ یعنی نزول قرآن کی تکمیل اوراسلامی طرز زندگی کا نظری اور عملی نمونہ دنیا میں قائم ہو جانا۔ یہ نمونہ قرآن اور حدیث اور سیرت اور احوالِ صحابہ کی صورت میں ہمیشہ کے لئے محفوظ ہوگیا ہے۔ وہ ابدی طورپر انسان کے لیے ربّانی طرز زندگی کا مستند نمونہ ہے۔
دور اول کے اسلامی انقلاب کا دوسرا پہلو وہ ہے جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے تدریج کا طالب تھا۔ چنانچہ وہ لمبی مدت کے بعد اپنی تکمیل کو پہنچا۔ یہ دوسرا پہلو ایک مسلسل عمل (process) کے طورپر انسانی تاریخ میںداخل ہوا۔ یہ تاریخ میں ایک بے حد دور رس تبدیلی کا معاملہ تھا۔ اُس کے لیے ہزار سالہ تغیراتی عمل درکار تھا۔چنانچہ یہ عمل مکہ اور مدینہ سے جاری ہو کر دمشق اور بغداد تک پہنچا۔ اس کے بعد وہ مزید آگے بڑھا۔ وہ اولاً یورپ (اندلس) میںداخل ہوا اور اُس کے بعد وہ ساری دنیا میں پھیل گیا۔ مستقبل میںآنے والے اس انقلاب کا ذکر قرآن میں واضح طورپر موجود ہے۔ یہاں اس سلسلہ میں چند آیتوں کے حوالے نقل کئے جاتے ہیں۔
۱۔ اور تم اُن سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین سب اللہ کے لئے ہوجائے۔ (الأنفال ۳۹)
۲۔ آج منکر تمہارے دین کی طرف سے مایوس ہوگئے۔ پستم اُن سے نہ ڈرو، صرف مجھ سے ڈرو۔ آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو پورا کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کرلیا۔ (المائدہ ۳)
۳۔ عنقریب ہم اُن کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں بھی اور خود اُن کے اندر بھی۔ یہاں تک کہ اُن پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ قرآن حق ہے۔ (حٰم السجدہ ۵۳)
۴۔ اے ہمارے رب، ہم پر بوجھ نہ ڈال جیسا تونے ڈالا تھا ہم سے اگلوں پر۔ (البقرہ ۲۸۶)
اسلامی انقلاب کے اس دوسرے پہلو کا خلاصہ یہ تھا کہ تاریخ میں ایسی تبدیلیاں لائی جائیں کہ اُس کے بعد اسلام پر عمل کرنا زمانۂ ماضی کے مقابلہ میںآسان ہوجائے۔ پچھلے دور کے اہل ایمان کو جو کام ’’عسر‘‘ کے حالات میں کرنا پڑتا تھا وہ اگلے دو ر کے اہل ایمان کے لئے ’’یُسر‘‘ کے حالات میں انجام دینا ممکن ہوجائے (الانشراح)۔ تیسیر کے اس عمل کے مختلف پہلو ہیں۔
اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ قدیم زمانہ میں بادشاہت کے تحت سیاسی جبر کا نظام قائم تھا۔ اس نظام کے تحت انسان کو سوچنے یا عمل کرنے کی آزادی حاصل نہ تھی۔ جب کہ آزادی کے بغیر نہ دینی احکام پر عمل کیا جاسکتا اور نہ دعوت و تبلیغ کا کام انجام دیا جاسکتا ہے۔ اسلامی انقلاب نے نہ صرف ابتدائی طورپر جبرکے اس نظام کو توڑا بلکہ تاریخ میںایک نیا عمل (process) جاری کیا۔ اس عمل کی تکمیل موجودہ زمانہ میں اس طرح ہوئی ہے کہ آج اہل ایمان کو دینی عمل اور دینی دعوت دونوں کی مکمل آزادی حاصل ہے، الاّ یہ کہ وہ خود اپنی کسی نادانی سے حالات کو مصنوعی طورپر اپنے مخالف بنا لیں۔
اس انقلاب کاایک اور پہلو یہ ہے کہ موجودہ زمانہ میں ٹیکنیکل ترقی کے ذریعہ کمیونیکیشن کے جدید ذرائع حاصل ہوگئے۔ اس طرح یہ ممکن ہوگیا کہ حق کی دعوت کو تیزی کے ساتھ دنیا کے ہر حصہ میں پہنچایا جاسکے۔
اسی طرح موجودہ زمانہ میں سائنسی دریافتوں نے اس کو ممکن بنا دیا کہ کائنات میں چھپی ہوئی خداکی نشانیاں ظاہرہوں اور خدا کے دین کو خود علم انسانی کی روشنی میں مدلّل اور مبرہن کرسکے۔
بیسویں صدی عیسوی میں یہ عمل اپنی آخری تکمیل تک پہنچ چکا تھا۔ اب اہل ایمان کے لیے یہ ممکن ہوگیا تھا کہ وہ امن اورآزادی کی فضا میں بخوبی طورپر اللہ کے دین پر عمل کریں اور اللہ کے دین کو دوسری اقوام تک پہنچانے کا دعوتی فریضہ کسی رکاوٹ کے بغیر انجام دیں۔ مگر عین اسی صدی میںمسلمانوں کے نا اہل رہنماؤں نے غلط رہنمائی کرکے اُنہیں ایسی سرگرمیوں میں الجھا دیا جس کا نتیجہ صرف یہ ہوسکتا تھا کہ اہل ایمان جدید مواقع کو استعمال نہ کرسکیں، حتٰی کہ وہ اُن کے شعور سے بھی بے بہرہ ہوجائیں۔ یہ غلطیاں بنیادی طور پر دو قسم سے تعلق رکھتی ہیں۔
ایک غلطی وہ ہے جو اسلام کی سیاسی تعبیر کے نتیجہ میں پیدا ہوئی۔ اس تعبیر نے غلط طور پر مسلمانوں کا یہ ذہن بنایا کہ وہ اسلام کے کامل پیرو صرف اُس وقت بن سکتے ہیں جب کہ وہ اسلام کے تمام قوانین کو عملاً نافذ کردیں۔ اس سیاسی ذہن کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلم عوام اپنے حکمرانوں سے لڑ گئے، تاکہ اُن کو ہٹا کر وہ شریعت کا قانون نافذ کرسکیں۔ اس سیاسی بدعت کے نتیجہ میں کوئی خیر تو سامنے نہیںآیا البتہ مسلم دنیا میں خود مسلمانوں کے ہاتھوں وہ جبر اور ظلم دوبارہ قائم ہوگیا جس کو لمبے تاریخی عمل کے نتیجہ میں ختم کیا گیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ بندوں سے اسلام کی کامل پیروی مطلوب ہے، نہ کہ اسلام کا کامل نفاذ۔
دوسری غلطی وہ ہے جو جہاد کے نام پر موجودہ زمانہ میں شروع کی گئی۔ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کو دوسری قوموں سے کچھ سیاسی اور مادّی شکایتیں تھیں۔ ان شکایتوں کو پُر امن طریقِ کار کے ذریعہحل کیا جاسکتا تھا مگر پُر جوش رہنماؤں نے فوراً جہاد کے نام پر ہتھیار اُٹھالیے اور دوسری قوموں کے خلاف مسلّح لڑائی شروع کردی۔ اس خود ساختہ جہاد کے نتیجہ میں نہ صرف جدید امکانات ضائع ہوگئے بلکہ موجودہ زمانہ کے مسلمان اتنی بڑی تباہی سے دوچار ہوئے، جیسی تباہی ماضی کی طویل تاریخ میں اُن کے ساتھ کبھی پیش نہیں آئی تھی۔
مسلم رہنماؤں کی غلط رہنمائی کے نتیجہ میں مسلمان بیسویں صدی کو کھو چکے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنی ان غلطیوں کی اصلاح کریں گے یا موجودہ صدی کو بھی وہ اُسی طرح کھو دیں گے جس طرح وہ پچھلی صدی کو کھو چکے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

صدام حسین کے لیے انتخاب

(Option for Saddam Husain)
عراق کے صدر صدام حسین کے سامنے محفوظ طورپر صرف ایک ہی چوائسہے۔ وہ یہ کہ وہ عراق کو چھوڑ کر خاموشی کے ساتھ باہر چلے جائیں اور اپنی زندگی کے بقیہ ایام پرسکون جلاوطنی میں گزاریں۔ جیسا کہ ان سے پہلے بہت سے حکمراں کرچکے ہیں۔ خوش قسمتی سے کئی عرب ملک اُن کی میزبانی کے لیے تیار ہیں۔
صدام حسین کے لیے یہی واحد چوائس ہے۔ دوسرا چوائس جو اس وقت وہ لیے ہوئے ہیں وہ عملی طورپر کوئی چوائس نہیں۔ یعنی اپنی پولیٹکل گدّی پر بدستور جمے رہنا۔اس دوسری چوائس میں یقینی طورپر آخرکار ان کی اپنی تباہی بھی ہے اور عراق کی تباہی بھی۔
صدام حسین اگر اسلامی اصول کی بنیاد پر فیصلہ کریں تو میںاُن کو یاد دلاؤں گا کہ پیغمبر اسلام کی پالیسی کیا تھی۔عائشہ زوجِ رسول کہتی ہیں کہ جب بھی پیغمبر اسلام کو دو میں سے ایک کا انتخاب کرناہوتا تو وہ ہمیشہ آسان انتخاب(easier option) کو لے لیتے اور مشکل انتخاب(harder option) کو چھوڑ دیتے (البخاری)
موجودہ حالات میں یہ بالکل واضح ہے کہ صدام حسین کے لیے ترک وطن کا چوائس ہی واحد آسان انتخاب(easier choice) ہے۔ اس کے برعکس اگر وہ اپنی موجودہ حالت پر اصرار کریں تو یہ امریکہ کو عراق پر بمباری کی دعوت دینے کے ہم معنٰی ہوگا۔ دوسری صورت اُن کے لیے مشکل انتخاب ہے جو اسلامی تعلیم کے خلاف ہے۔ صدام حسین اگر اس شرعی اصول کو نہ مانیں تب بھی میںکہوں گا کہ اُن کے حق میں عقل کا فیصلہ بھی یہی ہے۔ دنیا کے تمام دانشمند سیاست داں کا کہنا ہے کہ سیاست ممکن کاآرٹ ہے:
Politics is the art of the possible.
اس عقلی فارمولے کی روشنی میں بھی صدام حسین کے لیے درست پالیسی یہ ہے کہ وہ امریکا کے پیش کردہ محفوظ نقل مقام (safe passage) کی پیشکش کو قبول کرلیں اور عراق کے باہر جاکر پر سکون زندگی گزاریں۔ اس طرح کی زندگی کے لیے وسائل کے اعتبار سے ان کے پاس اب بھی بہت کافی وسائل موجود ہیں۔
اس کے برعکس اگر وہ عراق میں اپنی سیٹ پر جمے رہنے پر اصرار کریں تو یہ اُن کے لیے یقینی طورپر ناممکن کا آرٹ(art of the impossible) کو اختیار کرنے کے ہم معنٰی ہوگا اور ظاہر ہے کہ ناممکن کی سیاست ایک ایسی بھیانک چیز ہے جس کا کوئی بھی دانش مند آدمی تحمل نہیں کرسکتا۔
یہاں میں یاد دلاؤں گا کہ صدام حسین کے لیے جنگ کوئی نیا تجربہ نہیں ۔ اس سے پہلے کم ازکم دوبار وہ باقاعدہ جنگ کرچکے ہیں۔ پہلی بار ایران کے ساتھ اور دوسری بار کویت کے معاملہ میں امریکا کے ساتھ جس کو انہوں نے ام المعارک(mother of battles) کانام دیا تھا۔ مگر ان دونوں جنگوں میں صدام حسین کو ایسی شکست ہوئی جس کو مبصرین نے ذلّت آمیز شکست کا نام دیا تھا۔
دوبار کے اس ناکام تجربہ کے بعد اب وہ کس چیز کے بَل پر تیسری بار امریکہ جیسے سُپر پاور سے لڑنے کی باتیں کررہے ہیں۔ جب کہ حالت یہ ہے کہ صدام حسین بوقتِ تحریر (۱۵ فروری ۲۰۰۳) پہلے سے زیادہ کمزور ہوچکے ہیں اور دوسری طرف امریکہ اب پہلے سے زیادہ طاقتور حیثیت حاصل کرچکا ہے۔ صدام حسین اور امریکا کے درمیان فوجی طاقت کے اعتبار سے اتنی واضح نابرابری (disparity) ہے کہ دنیا کاکوئی بھی شخص یہ کہنے کی جرأت نہیں کرے گا کہ اگر جنگ ہوئی تو صدام حسین امریکا کو شکست دے دیں گے اور فتح کا جشن منائیں گے۔
صدام حسین کے لیے افغانستان میں دو مختلف مثالیں موجود ہیں۔ ایک ظاہر شاہ کی اور دوسری ملّا محمد عمر کی۔ ظاہر شاہ نے اسی قسم کی صورت حال میںاپنی گدی چھوڑ دی اور افغانستان سے ہجرت کرکے اٹلی چلے گئے۔ وہاں وہ آج بھی عافیت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اس کے برعکس مثال ملا محمد عمر کی ہے۔ انہوں نے غیر حقیقت پسندانہ ٹکراؤ کی پالیسی اختیار کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ خود بھی ہلاک ہوئے اور افغانستان کو بھی تباہ کیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ صدام حسین اگر ظاہر شاہ کی مثال کو اپنائیں تو یہ ان کے لیے بھی اچھا ہوگا اور عام مسلمانوں کے لیے بھی۔
صدام حسین کے متعلق معلوم ہے کہ وہ نہایت ذہین آدمی ہیں۔ عرب سربراہانِ مملکت میں وہ غالباً سب سے زیادہ تعلیم یافتہ حکمراں ہیں۔ اُن کو عربی زبان پر غیر معمولی قدرت حاصل ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر وہ اس حقیقت کو سمجھیں تو سیاست اُن کے لیے صرف ایک سیکنڈری چوائس ہے۔ وہ اپنی خداداد صلاحیت کو اس سے زیادہ بڑے کام میں استعمال کرسکتے ہیں اور اپنے بعد دنیا کے لیے زیادہ بہتر وراثت چھوڑ سکتے ہیں۔
مثلاً وہ امریکہ کے جیفر سن کی طرح ایک بڑی یونیورسٹی قائم کریں۔ وہ برطانیہ کے چرچل کی طرح اپنی ممائرس (memoirs) لکھیں۔ حتیٰ کہ اپنی غیر معمولی صلاحیت کی بنا پر وہ یہ بھی کرسکتے ہیں کہ گوتم بدھ کی طرح سیاسی اقتدار کو چھوڑ کر مذہب کے احیاء کاکام کریں، وغیرہ۔ صدام حسین اگر یہ فیصلہ کریں کہ آئندہ وہ سیاسی رول کے بجائے تعمیری رول کو اپنے لیے منتخب کریں گے تو یہ بلاشبہہ ایک عظیم واقعہ ہوگا۔ اس طرح وہ اپنے جیسے بہت سے لوگوں کے لیے ایک کامیاب رول ماڈل بن جائیں گے۔ عین ممکن ہے کہ اُن کا یہ فیصلہ جدید تاریخ میں ایک نئے دور انقلاب کاآغاز بن جائے۔ (۱۵ فروری ۲۰۰۳)
واپس اوپر جائیں

ایک خط

برادر محترم عبد السلام اکبانی صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ
۲۹ نومبر ۲۰۰۲ کو آپ سے ٹیلی فون پر گفتگو ہوئی۔ اس کے بعد یہ خط لکھ رہا ہوں۔ ایک صاحب نے کہا کہ صبر کا مطلب آپ برداشت بتاتے ہیں۔ یہ غلط ہے۔ صبر کا مطلب حوصلہ ہے۔ میںنے کہا کہ صبر کا ابتدائی لغوی مفہوم برداشت (patience) ہی ہے۔ جہاںتک حوصلہ (courage) کا تعلق ہے وہ بلا شبہہ زندگی کی ایک اہم قدر ہے۔ زندگی میں برداشت کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور حوصلہ کی بھی۔ مگر بنیادی سوال یہ ہے کہ کس کو کس کے تابع کیا جائے۔ حوصلہ کو برداشت کے تابع کیا جائے یا برداشت کو حوصلہ کے تابع ۔ اسی راز کو جاننے کا نام کامیابی ہے۔
میرے علم کے مطابق، تاریخ کی بیشتر تباہیاں، خواہ وہ انفرادی ہوں یا اجتماعی، اس لئے ہوئی ہیں کہ لوگوں نے حوصلہ کو اوپر کردیا اور برداشت کو نیچے۔اور اپنے حوصلہ مندانہ جذبات کے تحت ایک ایسا اقدام کر ڈالا جو ان کی حقیقی استطاعت (manageable limit) سے باہر تھا۔ چنانچہ ان کا نتیجہ ایسے شخص کا سا ہوا جو کسی ندی کے دھانہ کے نصف کے بقدر چھلانگ لگانے کی طاقت رکھتا ہو مگر وہ پورے دہانے کے اوپر چھلانگ لگا دے۔
کوئی صورت حال پیش آنے پر آدمی اگر ایسا کرے کہ وہ حوصلہ مندانہ چھلانگ سے اپنے آپ کو روکے اور برداشت کے اصول کو اختیار کرتے ہوئے صورت موجودہ پر قائم رہے تو وہ خواہ بروقت کوئی بڑا فائدہ حاصل نہ کرسکے مگر وہ مزید نقصان سے یقینا بچ جائے گا۔
اصل یہ ہے کہ حوصلہ جذبات کا نتیجہ ہوتا ہے اور برداشت سوچ کا نتیجہ۔جذبات کے تحت کیا ہوا اقدام اکثر آخر کار آدمی کے لیے ایک پر سٹیج اشو (prestige issue) بن جاتا ہے۔وہ چاہتے ہوئے بھی اپنا قدم واپس لینے کے لیے اپنے آپ کو تیار نہیں کرپاتا۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر لوگوں کو حوصلہ جس انجام تک پہنچاتا ہے وہ صرف بے حوصلگی ہے، اس کے سوا اور کچھ نہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ زندگی میں اصل اہمیت سوچ کی ہے۔ جب بھی کوئی معاملہ پیش آتا ہے تو فطری طورپر آدمی کے اندر سوچ کا عمل (thinking process) جاری ہوتا ہے۔ حوصلہ مندانہ اقدام اکثر اس سو چ کے عمل کو زیادہ دیر تک جاری نہیں رہنے دیتا۔ اس کے برعکس برداشت کی صفت آدمی کو یہ موقع دیتی ہے کہ سوچ کا عمل اس کے اندر بلا رکاوٹ مسلسل جاری رہے۔ برداشت کی حیثیت سوچ کے عمل کے لیے ایک معاون کی حیثیت رکھتی ہے۔ برداشت کی بنا پر آدمی کے لیے یہ ممکن ہوتا ہے کہ وہ اپنے معاملہ پر زیادہ دیر تک سوچ سکے اور پھر زیادہ صحیح فیصلہ تک پہنچ جائے۔
نئی دہلی، ۲۶ دسمبر ۲۰۰۲ دعا گو وحید الدین
واپس اوپر جائیں

سوال وجواب

سوال
میری خواہش ہے کہ مذکورہ ذیل چند عناوین پر آپ کے خیالات معلوم کروں:
۱۔ ختم نبوت کی حقیقت۔ ۲۔ مسئلہ حیات و ممات حضرت عیسیٰ؈۔ ۳۔ حضرت امام مہدی؈، یعنی ان کا کام کیا ہوگا۔ آپ کے نزدیک ان کا مقام کیا ہوگا۔ ۴۔ مسئلہ اجزائے وحی کی حقیقت۔ یعنی وحی کی کتنی اقسام ہیں۔ کیا وحی کا تعلق صرف انبیاء سے ہوتا ہے۔ کیااب ہر قسم کی وحی بند ہے۔ (محمد وسیم خاں، قادیان)
جواب
۱۔ ختم نبوت کے بارہ میں میں اپنی کتابوں میں تفصیل کے ساتھ لکھ چکا ہوں۔ میرے نزدیک پیغمبراسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر سلسلۂ نبوت آخری طورپر ختم ہوگیا۔ اب نہ کوئی براہ راست پیغمبر آنے والا ہے اور نہ کوئی بالواسطہ پیغمبر۔ پیغمبر اسلام کے بعد دین خدا وندی کا متن محفوظ ہوگیا۔ عملی طورپر اُس کا ایک تاریخی نمونہ قائم ہوگیا۔ دنیا کے حالات میں ایسی تبدیلیاں ہوئیں جن کے بعد دین خدا وندی میںکسی قسم کی تحریف کا امکان باقی نہیں رہا۔ اس لیے اب کسی نئے نبی کی ضرورت بھی نہیں۔
۲۔ میرے نزدیک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات اُسی طرح ہوچکی ہے جس طرح دوسرے پیغمبروں کی ہوئی۔ جہاں تک حضرت مسیح کی آمد ثانی کا سوال ہے تو اس بارہ میں میری رائے تقریباً وہی ہے جو علامہ اقبال نے اپنے اس شعر میں بیان کی ہے:
ابن مریم سے مسیح ناصری مقصود ہیں یا مجدد جس میں ہوں فرزندِ مریم کی صفات
۳۔ مہدی کے متعلق میری رائے یہ ہے کہ وہ پیغمبر کی طرح کوئی عہدہ نہیں ہے بلکہ وہ خدمتِ دین کا ایک معاملہ ہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے،مہدی در اصل ایک ہدایت پایا ہوا شخص ہوگا، نہ کہ ہدایت دینے والا شخص۔ غالباً اسی لیے اُس کو ہادی نہیں کہا گیا بلکہ مہدی کہا گیا ۔ بعض روایات سے اندازہ ہوتا ہے کہ آخری زمانہ میں ایک ایسا وقت آئے گا جب کہ بگاڑ بہت زیادہ بڑھ جائے گا۔ حقیقی سچائی لوگوں سے اوجھل ہوجائے گی۔ اُس وقت اللہ کی توفیق سے ایک ’’رجل مؤمن‘‘ ہوگا جو حقیقی سچائی کو پائے ہوئے ہوگا اور اُس کو لوگوں کے سامنے بیان کرے گا۔ میرے نزدیک مہدی سے مراد مجدّد ہے۔ لیکن مہدی کا مہدی ہونا خود مہدی کو بھی شعوری طور پر معلوم نہ ہوگا۔ اُس کا علم صرف اللہ کو ہوگا جو آخرت میںاُس کا اظہار فرمائے گا۔
۴۔ وحی کی صرف ایک قسم ہے۔ اور یہ وحی وہی ہے جو فرشتہ کے ذریعہ پیغمبر تک پہنچتی ہے۔ البتہ جیسا کہ قرآن اور حدیث سے ثابت ہے، غیر انبیاء کو بھی خواب یا القاء (inspiration) کی صورت میں خدائی رہنمائی دی جاتی ہے۔ تاہم یہ رہنمائی صرف ایک قرینہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ وہ نہ قطعی ہے اور نہ وہ کسی کے لیے حجّت ہوسکتی ہے۔
سوال
میں ذہنی اعتبار سے پریشان ہوں اور اس کا حل آپ کے ذریعہ سے حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ میں ایک دینی ادارے میں سروس کرتا ہوں۔ میری تنخواہ کم اور گھریلو حالات ناقابلِ بیان ہیں۔ اس وقت حالات بڑے ہی خراب ہیں۔ اگر کچھ کہتا ہوں تو لڑائی و فساد رونما ہوتا ہے۔ ان حالات میں دل کو اطمینان نہیں ہوتا اور خیالات فاسدہ دل و دماغ میں آتے ہیں۔ اب آپ ہی بتائیے میںکیا کروں۔ کیا سروس ختم کردوں یا ان تمام حالات کو برداشت کروں۔میں معاشی اعتبار سے بہت ہی پریشان ہوں۔ برائے کرم اس کا کوئی حل بتائیں۔(محمد عتیق الرحمن ، ہنگولی)
جواب
معاشی مسئلہ ایک انفرادی مسئلہ ہے۔ اس کا حل ہر ایک کو اپنے حالات کے اعتبار سے ڈھونڈھنا پڑتا ہے۔ کسی کے لیے معاشی مسئلہ کا حل یہ ہوتا ہے کہ وہ کفایت اور سادگی کاطریقہ اختیار کرے۔ کسی کے لیے یہ ہوتا ہے کہ وہ کوئی ہنر سیکھے۔ کسی کے لیے یہ ہوتا ہے کہ وہ صرف تنہا نہ کمائے بلکہ اپنے گھر والوں کو بھی اس کام میں لگائے۔ کسی کا کیس یہ ہوتاہے کہ وہ بہتر تعلیم حاصل نہ کرسکا۔ ایسے شخص کے لیے میرا مشورہ یہ ہوتا ہے کہ آپ اپنے لیے قناعت کا طریقہ اختیار کریں اور بچوں کو اچھی تعلیم دلائیں۔ تاکہ آپ کی اگلی نسل دوبارہ اس مسئلہ کا شکار نہ ہو۔
اس سلسلہ میں ایک بنیادی بات یہ ہے کہ مسائل ہر ایک کو پیش آتے ہیں، خواہ اُس کی آمدنی کم ہو یا زیادہ۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس معاملہ میں صبر کا طریقہ اختیار کیا جائے۔ گھر والوں کی طرف سے شکایات ہوں تو اُن کا جواب تحمل کے ساتھ دیا جائے۔ ردعمل کا طریقہ ہرگز نہ اختیار کیا جائے۔ کامیاب زندگی گذارنے کے لیے سب سے زیادہ ضروری چیز دانش مندی ہے، نہ کہ زیادہ آمدنی۔
سوال
یہ حقیقت واضح ہے کہ پانچ وقت کی نماز کاتحفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج میں عطا کیا گیا۔لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ کے رسول معراج میںجانے سے قبل بیت المقدس میں تمام سابقہ انبیائے کرام کی امامت فرمارہے ہیں۔ برائے مہربانی یہ بتانے کی زحمت فرمائیں کہ وہ کون سی نماز تھی جس کی ہمارے رسول نے امامت فرمائی۔ (زبیر احمد، بھاگلپور)
جواب
حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کثرت سوال سے منع فرمایااور یہ کہا کہ پچھلی امتیں کثرت سوال کی وجہ سے ہلاک ہوگئیں(فانما ہلک من کان قبلکم بکثرۃ سؤالہم) (النسائی، کتاب الحج، مسند احمد ۲؍۲۴۷)
مذکورہ سوال اسی نوعیت کا ایک سوال ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب اس قسم کا سوال ذہن میںآئے تو اُس کو شیطانی وسوسہ سمجھ کر اُس کو اپنے دماغ سے نکال دینا چاہئے، نہ یہ کہ اُس کا جواب حاصل کرنے کے لیے اپنا وقت ضائع کیا جائے۔
کثرتِ سوال سے مراد در اصل غیر متعلق سوال(irrelevent question) ہے۔ اصل یہ ہے کہ فکر صحیح کے لیے ترکیز (concentration) بہت ضروری ہے۔ ترکیز یہ ہے کہ آدمی اپنے فکری عمل کو صرف متعلق سوال تک محدود رکھے اور غیر متعلق سوال میںاُلجھنے سے اپنے آپ کو بچائے۔
مثلاً انبیاء کی امامت کے معاملہ میں یہ ایک غیر متعلق سوال ہے کہ وہ نماز کس وقت کی نماز تھی۔ اُس کا اصل متعلق پہلو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اہتمام کے تحت پیغمبر اسلام نے تمام انبیاء کی امامت کی۔ یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ پچھلے نبیوں کے پیروؤں کو چاہئے کہ اب وہ ہدایت کے معاملہ میں پیغمبر اسلام کی اقتدا کریں۔
ایسا جو کیا گیا اُس کے دو پہلو تھے۔ ایک یہ کہ دوسرے ادیان کو ماننے والے یہ جان لیں کہ اب نجات دین محمدی کی پیروی میں منحصر ہوگئی ہے۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ پیغمبر اسلام کی امّت اپنی بڑھی ہوئی ذمہ داری کو محسوس کرے۔ انسانیت کے حق میں اُس کی خیر خواہی کا تقاضا یہ ہے کہ وہ مزید شدت کے ساتھ تمام انسانوں تک پیغمبر اسلام کا لایا ہوا دین پہنچائے۔ وہ اس معاملہ میں آخری حدتک لوگوں کی ہدایت کے لیے حریص بن جائے۔
سوال
حدیث میں یہ پیشین گوئی آئی ہے کہ مُسلمان تہتّر فرقوں میں بٹ جائیں گے اور ایک کے علاوہ باقی سب جہنم میں جائیں گے۔ کیا آج کے دور میں ایساکوئی فرقہ موجود ہے جو رسول اللہ ﷺکے طریقوں پر ہُو بہو عمل پیراہے جس سے ہم اپنا ناطہ جوڑ کر اپنی عاقبت سنوار سکیں۔ مذکورہ حدیث کا صحیح مفہوم بھی سمجھائیے۔ (محمد اسلم چوگلے، باندرہ)
جواب
مذکورہ حدیث میں اگر چہ فرقہ کا لفظ آیا ہے مگر اُس سے مراد اجتماعی معنوں میں کوئی فرقہ یا تنظیم یا جماعت نہیں ہے۔ اُس سے مراد کوئی مجموعی فرقہ نہیں ہے بلکہ ایسے صالح افراد ہیں جو بگاڑ کے زمانہ میں امت کے اندر پائے جائیں گے۔ بعد کے زمانہ میں دین کے نام پر اُمت کے اندر جو تنظیمیں بنائی گئیں وہ میرے نزدیک تنظیمی بدعتیں تھیں۔ یہ تصور بلا شبہہ بے بنیاد ہے کہ ان تنظیموں میں سے کوئی تنظیم ایسی ہے جو فرقۂ ناجیہ کی حیثیت رکھتی ہو اور جس سے منسلک ہو کر نجات حاصل ہو جائے۔ اسلامی تصور کے مطابق، نجات ایک انفرادی معاملہ ہے، نہ کہ اجتماعی معاملہ۔
واپس اوپر جائیں

خبر نامہ اسلامی مرکز ۱۵۸

۱۔ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ہندستان ٹائمس کی نمائندہ مزونٹیکا نے یکم نومبر۲۰۰۲ کو صدر اسلامی مرکز کا ٹیلی فون پر انٹرویو لیا۔ سوالات کاتعلق کلوننگ اور اسلام سے تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ علاج کی ضرورت کے لیے جزئی کلوننگ اسلام میں جائز ہے مگر پورے معنوں میں کلوننگ، یعنی انسان کا مثنیٰ بنانا اسلام میں جائز نہیں۔ اس طرح کی کلوننگ سے سارا تمدّنی نظام تباہ ہو جائے گا۔ عجیب بات ہے کہ اہلِ مغرب ایک طرف انسانی آبادی میں اضافہ کو سب سے بڑا مسئلہ بتاتے ہیں اور دوسری طرف انسانی کلوننگ کے ذریعہ انسانی آبادی میںاضافہ کی کوشش کر رہے ہیں۔
۲ سہاراٹی وی (نئی دہلی) میں پرکھ کے پروگرام کے تحت ۳۱ جنوری ۲۰۰۳ کو ایک پینل ڈسکشن تھا۔ اس میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ شریک ہوئے۔ اس کا موضوع جہاد تھا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ اُنہوں نے جوکچھ کہا اُس کا خلاصہ یہ تھا کہ جہاد پُرامن جد وجہد کا نام ہے، وہ قتال کے ہم معنٰی نہیں۔ اسلام میں قتال صرف قائم شدہ ریاست کا کام ہے۔ غیر حکومتی تنظیموں کو قتال کرنے کی اجازت نہیں۔ ریاست بھی صرف دفاع کے لیے شدید ضرورت کے تحت قتال کرسکتی ہے۔ ریاست کا یہ قتال بھی اعلان کے ساتھ ہونا چاہئے۔ بلااعلان جنگ یا پراکسی وار اسلام میں جائز نہیں۔
۳ انجمن امن دوست انسان دوست (نئی دہلی) کے تحت ۲ فروری ۲۰۰۳ کو مہندیان کے میدان میں ایک عوامی جلسہ ہوا۔ اس میں ہندو، مسلم، عیسائی ہر مذہب کے لوگ بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور قومی اتحاد کی اہمیت کے موضوع پر تقریر کی۔ اس میں بتایا گیا کہ ہندستان مختلف مذہب اور کلچر کا ملک ہے۔ کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ اس فرق کو مٹا کر اتحاد قائم کریں۔ مگر یہ ناممکن ہے۔ اتحاد ہمیشہ فرق و اختلاف کو گوارا کرنے سے آتا ہے، نہ کہ فرق و اختلاف کو مٹانے سے۔ مزید یہ کہ فرق و اختلاف ایک رحمت ہے وہ کوئی برائی نہیں۔
۴ ۸ فروری ۲۰۰۳ کو دور درشن (نئی دہلی) نے صدر اسلامی مرکز کی ایک تقریر ریکارڈ کی۔ اس کا موضوع عید الاضحی تھا۔ پندرہ منٹ کی تقریر میں بتایا گیا کہ عیدالاضحی کا مقصد یہ ہے کہ ابو الانبیاء حضرت ابراہیم کی سنت پر عمل کرنے کا عہد کیا جائے۔ عیدالاضحی قربانی کی عید ہے۔ اس کا پیغام یہ ہے کہ آدمی ہر حال میں حق پر قائم رہے، خواہ اُس کے لیے اُس کو قربانی دینا پڑے۔
۵ کیرلا (کالی کٹ) کے ملیالم اخبار پر بودھنی کے نمائندہ مسٹر کے کے عبد الحکیم اور مسٹر ٹی سعید نے ۱۹ فروری ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹر ویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر ہندستانی مسلمانوں کے مسائل سے تھا۔ ایک سوال کے جواب میں کہا گیا کہ اس وقت دنیا میں ۵۷ مسلم ممالک ہیں۔ ان سب کے مقابلہ میں ہندستان کے مسلمان نہ صرف تعداد میں زیادہ ہیں بلکہ وہ ہر اعتبار سے سب سے زیادہ بہتر حالت میں ہیں۔ ایک اور سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ ہندستان میں انتہا پسندوں کی طرف سے مسلمانوں کے لیے جو مسائل ہیں وہ اُن کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ مسلمانوں کے لیے فطرت کی مہمیز ہیں تاکہ وہ اُن کے لیے ترقی کا زینہ بن سکیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہندستان کے مسلمان تیزی سے ترقی کررہے ہیں۔ البتہ میڈیا میں چونکہ یہ خبریں بہت کم آتی ہیں اس لیے عام لوگوں کو اس کی خبر نہیں۔
۶ ہندی پندرہ روزہ وطن دوست (دہلی) کے نمائندہ مسٹر محمد رفیع نے ۲۰ فروری ۲۰۰۳ کو صدراسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر بابری مسجد سے تھا۔ اس سلسلہ میں بتایا گیا کہ ہر سماج میں ہمیشہ نزاع کے اسباب موجود رہـتے ہیں۔ ایسا حقیقۃً فطری قانون کے تحت ہوتا ہے، نہ کہ کسی کے عناد کی بنا پر۔ ایسی حالت میں ہر سماج میںاس کی ضرورت ہوتی ہے کہ لوگ صورت حال سے باخبر رہیں اور ایسے کسی بھی اقدام سے بچیں جس کا نتیجہ دھماکے کی صورت میں نکلنے والا ہو۔ بابری مسجد کے معاملہ میں اس قسم کی ضروری تدبیر نہیں کی گئی۔ اگر پہلے سے ضروری تدبیر کی جاتی تو یقینی طورپر ۶ دسمبر ۱۹۹۲ کو بابری مسجد کاحادثہ پیش نہ آتا۔
۷ سری نگر کے ہفت روزہ (The Week) کے سینئر کرسپانڈنٹ مسٹر طارق احمد بھٹ نے ۲۱ فروری ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کاانٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر مسلمانانِ ہند کے مسئلہ سے تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ ہندستان کے مسلمان کی موجودہ حالت کا تقابل اگر ۱۹۴۷ کی حالت سے کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہر اعتبار سے وہ بہت زیادہ ترقی کرچکے ہیں۔ ذاتی اعتبار سے بھی اور مسجد، مدرسہ، ادارہ وغیرہ کے اعتبار سے بھی۔ یہ واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہندستان کے مسلمانوں کا مسئلہ صرف میڈیا کی خبروں میںہے۔ حقیقت میںان کا کوئی واقعی مسئلہ نہیں۔ اگر کوئی واقعی مسئلہ ہوتا تو ہر گز وہ اتنی ترقی نہیں کرسکتے تھے۔
۸ بی بی سی لندن کے نمائندہ مسٹر شکیل اختر نے ۲۱ فروری ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو ریکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر بابری مسجد،ایودھیا کے مسئلہ سے تھا۔ ایک سوال کے جواب میں کہاگیا کہ تین مسجد یا تین ہزار مسجد کی بات اٹھانا بے معنٰی ہے۔ ۱۹۹۲میںہندستان کی پارلیمنٹ نے ایک قانون پاس کیا تھا جس کو پلیسز آف ورشپ ایکٹ(Places of Worship Act) کہا جاتا ہے۔ اس ایکٹ میں یہ مقرر کیا گیا تھا کہ ملک کی تمام عبادت گاہوں کو ۱۹۴۷ کی حالت (statusquo) پر باقی رکھا جائے ۔ البتہ اس میں بابری مسجد کا استثناء کیا گیا تھا۔ یہ کہا گیا تھا کہ بابری مسجد کا اشو کورٹ میں ہے اس لیے بابری مسجد کا معاملہ کورٹ سے طے ہوگا۔ اب تمام فریقوں کو اسی ایکٹ پر قائم رہنا چاہیے۔ کوئی بھی اقدام جو اس ایکٹ کے خلاف ہو وہ ملک میںانارکی لائے گا، وہ مسئلہ کا حل نہ ہوگا۔
۹ جین ٹی وی (نئی دہلی) میں ۲۲ فروری ۲۰۰۳ کو ایک پینل ڈسکشن ہوا۔ اس کا موضوع متوقع گاؤکشی قانون تھا۔اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور سوال و جواب کے دوران اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ گائے اسلام میں کوئی مقدس جانور نہیں۔ وہ دوسرے جانوروں کی طرح ایک جانور ہے۔ ہندستان میںجمہوری نظام ہے۔ اکثریت کی رائے سے اس معاملہ میں جو بھی فیصلہ ہوگا مسلمانوں کے لیے وہ قابل قبول ہونا چاہئے۔ کوئی ایسا فیصلہ جو مسلمانوں کے عقیدہ اور عبادت جیسی مذہبی چیزوں میںخلل کا باعث ہو اس میں تو ضرور مسلمان سامنے آئیں گے۔ مگر گائے کشی جیسے مسئلہ میں مسلمانوں کی پالیسی غیرجانبداری (indifference) کی ہونی چاہئے۔
۱۰ بھارتیہ ودیا بھون (نئی دہلی) کی طرف سے بھون کے ہال میں ۲۵ فروری ۲۰۰۳ کوایک بڑا فنکشن ہوا۔ ا س میں ان کے اسکول کے بارہویں کلاس کے طلبہ اور ان کے ٹیچر اور سر پرست اکٹھا ہوئے۔ یہ ایک الوداعی فنکشن تھا۔ صدر اسلامی مرکز کو اس میں چیف گیسٹ کے طورپر بلایا گیا۔اس موقع پر تقریر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ زندگی میں کامیابی کا سب سے کارگر فارمولا کیا ہے۔ وہ یہ کہ آپ انسانوں کے خیر خواہ بن جائیں۔ آپ انسان سے محبت کریں۔ ایک جملہ میں وہ فارمولا یہ ہے—ہمیشہ انسان دوست رویہ اختیار کرو:
Be always insan-friendly
۱۱ ایران ٹی وی کی ٹیم نے ۷ مارچ ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کا ایک ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ اس انٹرویو کا موضوع نماز اور نماز باجماعت سے تھا۔ آدھ گھنٹہ کے اس انٹرویو میں جو کچھ کہاگیا اس کا خلاصہ یہ ـتھا کہ نماز اصلاً اللہ کی یاد کے لیے ہے۔ وہ اللہ سے قربت کا ذریعہ ہے۔ مگراسی کے ساتھ وہ ہماری روز مرّہ کی زندگی سے جڑی ہوئی ہے۔ پنج وقتہ نمازگویا ٹائم مینیجمنٹ کی تربیت ہے۔ اللہ اکبر تواضع کا سبق ہے۔ سورہ فاتحہ کی قرأت خدا رخی زندگی اختیار کرنے کا پیغام ہے۔ نماز کے آخر میںالسلام علیکم ورحمۃ اللہ کہنا پر امن زندگی گزارنے کا عہد ہے۔ با جماعت نمازکا مطلب ، تنظیم اور ڈسپلن کے ساتھ نماز ادا کرنا۔ یہ تمام مسلمانوں کے لیے اتحاد کا پیغام ہے۔ اسی لیے قرآن میں نماز کو فلاح کا ذریعہ بتایا گیا ہے۔
۱۲ نئی دہلی کے میگزین راشٹریہ سہارا (انگریزی) کے نمائندہ مسٹر عابد حسین نے ۸ مارچ ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ اس انٹرویو کاتعلق مسلمانان ہند سے تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ مسلمانوں کے بارے میں یہ کہنا کہ ان کے حالات بدسے بد تر ہوتے جارہے ہیں بالکل غلط ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کے حالات بد سے بہتر ہورہے ہیں۔ مسائل زندگی کا ناگزیر حصہ ہیں۔ وہ ہر ایک کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ چنانچہ مسلمانوں کو بھی دوسروں کی طرح مسائل پیش آتے ہیں اور پیش آتے رہیں گے۔ مگر اسی کے ساتھ نیا زمانہ مسلمانوں کے لیے بہت سے نئے مواقع لایاہے۔ ان مواقع کو استعمال کرکے مسلمان ہرجگہ ترقی کررہے ہیں۔ ہر آدمی خود اپنے حالات کو دیکھ کر جان سکتا ہے کہ آج اس کے حالات پہلے سے بہت بہتر ہیں۔ مسجد، مدرسہ ، اسلامی ادارے ۱۹۴۷ کے مقابلہ میں آج پہلے سے بہت زیادہ بہتر ہیں۔ اس لیے یہ وقتشکر کرنے کا ہے ،نہ کہ شکایت کرنے کا۔
۱۳ سینٹر فار پروموٹنگ ملٹی کلچرل ڈائیلاگ (نئی دہلی) کی طرف سے ۱۷ مارچ ۲۰۰۳ کو ہمدرد یونیورسٹی کے کنونشن سینٹر میں ایک سیمینار ہوا۔ اس کا عنوان یہ تھا:
Communal Harmony for Peace And Progress
اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اُس میں شرکت کی اور موضوع پر خطاب کیا۔ اُن کی تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ سماجی ہم آہنگی ہر ملک کے لیے ضروری ہے۔ اس کے بغیر کوئی ترقی نہیںہوسکتی۔ مگر سماجی ہم آہنگی اس طرح نہیں آسکتی کہ سماج کے اندر اختلافات کو ختم کرکے یکسانیت لائی جائے۔ اس قسم کا اتحادجس کو یونی کلچرلزم کہا جاتا ہے وہ بالکل ناممکن ہے۔ جو چیز ممکن ہے وہ صرف ملٹی کلچرلزم ہے۔ ضرورت ہے کہ لوگوں کو برداشت اور ٹالرنس کی تعلیم دی جائے، نہ کہ بے فائدہ طورپر کلچرل یکسانیت کا بلڈوزر چلایا جائے۔
۱۴ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے زیر اہتمام چنمیا مشن (نئی دہلی) میںایک آل انڈیا سیمینار ہوا۔ اس کا موضوع یہ تھا: اکیسویں صدی میں فروغ اردو کا ایجنڈا۔ اس سیمینار کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اُس کے دو اجلاس ۲۱ مارچ اور ۲۳ مارچ ۲۰۰۳ میںشرکت کی۔ اس موقع پر اُنہوں نے دو تقریریں کیں۔ ان تقریروں میں خاص طور پر بتایا گیا کہ ۱۹۴۷ کے بعد کے حالات میں اردو زبان کوملک میں زندہ رکھنے کا سب سے بڑا کام مدارس نے کیا ہے جس کا جال ہمارے علماء نے سارے ملک میں پھیلا دیا ۔ یہ مدارس جن کا ذریعۂ تعلیم اردو ہوتا ہے وہ ملک میں اردو زبان کے فروغ کے سلسلہ میں سب سے بڑا کردار ادا کررہے ہیں۔ اُنہوں نے مزید بتایا کہ اردو اخبارات کا کردار اس سلسلہ میں صرف ثانوی ہے۔ کیوں کہ اُردو خواں طبقہ پیدا کرنے کا کام مدارس نے کیا ہے۔ اردو اخبارات تو صرف مدارس کی اس فصل کو کاٹ رہے ہیں۔
۱۵ ساؤتھ افریقہ کے ڈاکٹر محمد سادات نے ۲۶ مارچ ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ یہ انٹرویو ایک مقالہ کے سلسلہ میں تھا جو وہ امریکی جرنل پیس اینڈ کانفلکٹ (Peace and Conflict) کے لیے تیار کررہے ہیں۔ اس مقالہ کاعنوان یہ ہے:
Violence, Peace and Peace Promotion in Contemporary Islamic Thought: Implications for Dialogue.
جوابات کاخلاصہ یہ تھا کہ اسلام کااقدامی عمل دعوت ہے۔ موجودہ زمانہ میں کمیونیکیشن اور اظہارِ رائے کی آزادی نے دعوتی عمل کے زبردست امکانات کھو ل دئے ہیں۔ یہ نئے امکانات اتنے زیادہ ہیں کہ اب جنگ و قتال کی کوئی ضرورت نہیں۔ دوسری بات یہ کہ اسلام کانشانہ حکومت کا قیام نہیں بلکہ افراد کے اندر فکری اور اخلاقی انقلاب لانا ہے۔ افراد کے بدلنے سے ادارے بدلتے ہیں۔ سوسائٹی میںتبدیلی آتی ہے اور آخر کار ریاستی نظام میں انقلاب آتا ہے۔ حکومت کو نشانہ بنا کر سیاسی تحریک چلانا غیر فطری ہے اور گاڑی کو گھوڑے کے آگے باندھنے کے ہم معنٰی ہے۔
۱۶ میرٹھ شہر میںالرسالہ کے قارئین کا حلقہ عرصہ سے دعوتی کام کررہا ہے۔ وہاں پابندی کے ساتھ ہفتہ وار اجتماع ہوتا ہے اور الرسالہ اور کتابوں کی تقسیم جاری ہے۔ الرسالہ مشن کے سلسلہ میں معلومات حاصل کرنا ہو یا الرسالہ یاکوئی کتاب برائے مطالعہ درکار ہو تو ذیل کے پتہ پر رابطہ قائم کریں:
Muhammad Sajid Khan
Highway Tailors, 143 Valley Bazar
Meerut-250002, Tel. 912-2533268
واپس اوپر جائیں