Pages

Wednesday, 1 October 2003

Al Risala | October 2003 (الرسالہ،اکتوبر)

1

- صد اصول


صد اصول

— 001علم کی اہمیت
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ۵۷۰ ء میں عرب کے شہر مکہ میں پیداہوئے۔۶۱۰ ء میں جب کہ آپ کی عمر ۴۰ سال کی ہوگئی توآپ کو خدا نے نبوت عطا فرمائی۔ خدا کی طرف سے پہلی وحی جوآپ پر آئی وہ یہ تھی: پڑھ، اپنے رب کے نام سے جس نے تم کو پیدا کیا۔ انسان کو علق سے پیدا کیا۔ پڑھ، اور تمہارا رب کریم ہے۔ اس نے قلم کے ذریعہ علم سکھایا (العلق)
حقیقت یہ ہے کہ علم تمام انسانی ترقیوں کا آغاز ہے۔ انسان کو خدا نے بظاہر ایک حیوان کے روپ میں پیدا کیا ہے ۔مگر انسان کو ایک امتیازی صلاحیت دی گئی ہے اور وہ اس کا دماغ ہے۔ انسانی دماغ میں لامحدود حد تک غیر معمولی صلاحیت رکھی گئی ہے۔ اس صلاحیت کو بیدار کرنے کے لیے علم کی ضرورت ہے۔ علم کی مدد سے انسانی دماغ ترقی کرتا ہے اور بڑھتے بڑھتے اعلیٰ ترین درجہ تک پہنچ جاتا ہے۔
علم کے ذریعہ آدمی تاریخ کو جانتا ہے۔ وہ فطرت کے رازوں کو دریافت کرتا ہے۔ وہ چیزوں کی ظاہری سطح سے گزر کر ان کی حقیقت تک پہنچ جاتاہے۔ علم کی یہ اہمیت ایک انسان کے لیے بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی کہ دوسرے انسان کے لیے۔
— 002علم حاصل کرو
پیغمبر اسلام نے فرمایا: علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور ہر مسلمان عورت پر فرض ہے۔ اس حدیث سے اسلام میں علم کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ خدا کی معرفت علم کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ اس لیے علم سیکھنے کو فرض قرار دیا گیا۔ علم آدمی کے شعور کو بڑھاتا ہے۔ علم سے آدمی کے ذہن کی کھڑکیاں کھلتی ہیں۔ علم سے سوچ کا دائرہ وسیع ہوتا ہے۔علم کے ذریعہ آدمی اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ زیادہ گہری حقیقتوں کو سمجھ سکے، وہ دوسروں کے تجربات سے فائدہ اٹھا کر اپنے ذہنی معیار کو بلند کرسکے۔
مذہبی اور روحانی ارتقاء کے لئے علم لازمی طورپر ضروری ہے۔ علم کے ذریعہ ذہن میں پختگی آتی ہے۔ علم کے ذریعہ فکری ارتقاء کا عمل جاری ہوتاہے۔ علم کے بغیر آدمی نہ مقدس کتابوں کو پڑھ سکتا ہے اور نہ تاریخ اور کائنات کے بارے میں زیادہ باخبر ہوسکتا۔ علم آدمی کو حیوان کی سطح سے اٹھا کر انسان کی سطح پرپہنچا دیتا ہے۔
— 003سیکھنے کا مزاج
خلیفہ ثانی عمر فاروق کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ہر ملنے والے سے کچھ نہ کچھ سیکھتے تھے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ ان کے اندر سیکھنے کاعمل (learning process) ہمیشہ جاری رہتا تھا۔
ایسا کیوں کر ہوتا ہے۔ وہ اس طرح ہوتا ہے کہ آدمی جب بھی کسی سے ملے تو کھلے ذہن کے ساتھ ملے۔ وہ اس کو سکھانے سے زیادہ اس سے سیکھنے کی کوشش کرے۔ سیکھنے کے اس عمل کو مفید طورپر جاری رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی متعصبانہ سوچ سے پاک ہو، وہ بڑائی کے جذبہ میں نہ جیتا ہو۔ اس کی نفسیات یہ ہو کہ جو کچھ مجھے ملے گا اس کو فوراً لے لوں گا۔ جب بھی میری کوئی غلطی مجھ پر واضح کی جائے گی تو میں فوراً اس کا اعتراف کرکے اپنے کو صحیح کر لوں گا۔
سیکھنے کے عمل کو مفید بنانے میں اگر سکھانے والے کا کردار اہم ہے تو اس سے بھی زیادہ اس میں سیکھنے والے کے کردار کا دخل ہے۔ سیکھنے والے میں جتنا زیادہ صحیح مزاج ہوگا اتنا ہی زیادہ وہ دوسروں سے لینے میںکامیاب رہے گا ۔دنیا میں ہر لمحہ علم اور معرفت کی بارش ہو رہی ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ آدمی کے پاس اس کو لینے کا برتن (container) موجود ہو۔
— 004علم کا خزانہ
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ حکمت مومن کا گمشدہ مال ہے، جہاں وہ اس کو پائے تو وہ اسی کا ہے۔ یہ حدیث علم کی آفاقیت کو بتاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ علم خواہ کہیں بھی ہو یا کسی کے پاس بھی ہو وہ یکساں طورپر سارے انسانوں کا حصہ ہے۔
علم ایک مشترک خزانہ ہے۔ علم کسی کی اجارہ داری نہیں، علم ہر قسم کے تعصب سے بلند ہے۔ علم سورج کے مانند ہے جس سے روشنی لینے کا حق جتنا کسی ایک کو ہے اتنا ہی حق دوسرے کو بھی ہے۔
علم کے معاملہ میںآفاقیت کا یہ تصور بے حد ضروری ہے۔ اس تصور کے بغیر علم کی ترقی ممکن نہیں۔ علم کا خزانہ اتنا زیادہ وسیع ہے کہ خواہ اس کو کتنا ہی زیادہ استعمال کیا جائے، اس میں کوئی کمی نہیں آتی۔ علم ایک ایسا اَتھاہ سمندر ہے جو ہر طالب کی پیاس بجھاتا ہے۔ مگر اس کا اپنا ذخیرہ اس کے بعد بھی اتنا ہی زیادہ باقی رہتا ہے جتنا کہ وہ اس سے پہلے تھا۔
— 005 علم کا حصول
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ علم حاصل کرو، خواہ وہ چین میں ہو۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ علم کے حصول میںکسی بھی قسم کے تعصب یا کسی بھی قسم کے عذر کو رکاوٹ نہیں بننا چاہئے۔
قدیم زمانہ میں چین کا سفر ایک مشکل سفر سمجھا جاتا تھا۔ اس لئے یہ کہنا کہ علم حاصل کرو خواہ وہ چین میںہو، یہ معنی رکھتا ہے کہ ہر مشکل کو برداشت کرکے علم سیکھو۔ کسی بھی چیز کو اس معاملہ میں رکاوٹ نہ سمجھو۔ علم کے بغیر انسان گویا خام لوہا (ore) ہے۔ یہ علم ہے جو انسان کو اسٹیل بناتا ہے۔زندگی کے سادہ پہلو کو آدمی علم کے بغیر بھی سمجھ سکتا ہے۔ لیکن زندگی کی گہرائیوں تک پہنچنا علم کے بغیر ممکن نہیں۔
اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ علم کے لیے سفر کرنا ضروری ہے۔ سفر کے بغیر علم میں کوئی بڑا اضافہ نہیں ہوسکتا۔ سفر آدمی کے ذہنی افق کو بڑھاتا ہے۔ سفر آدمی کو مقامی علم سے اٹھا کر عالمی علم تک پہنچا دیتا ہے۔
— 006علم کا تحفہ
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ کوئی باپ اپنی اولاد کو اس سے اچھا تحفہ نہیں دے سکتا کہ وہ اس کو تعلیم دے۔ دوسرا کوئی بھی تحفہ ہمیشہ وقتی ہوتا ہے مگر علم کا تحفہ ایک ایسی چیز ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا۔
ہر آدمی کا پہلا مدرسہ اس کا اپنا گھر ہے۔ اس مدرسہ کے ٹیچر خود بچے کے ماں باپ ہوتے ہیں۔ اس حدیث سے بیک وقت دو باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ ماں باپ کو سب سے پہلے خود صاحب علم ہونا چاہئے کیوں کہ ماں اور باپ اگر صاحب علم نہ ہوں تو وہ نہ علم کی اہمیت کو سمجھیں گے اور نہ اپنی اولاد کو تعلیم دینے میں صحیح طورپر اپنا حصہ ادا کرسکیں گے۔دوسری بات یہ کہ گھر کسی بچے کے لیے صرف پرورش کا مقام نہیں ہے بلکہ وہ اس کی تعلیم و تربیت کا مقام بھی ہے۔ ہر گھر کو تعلیم و تربیت کاایک ادارہ ہونا چاہئے ۔اس کے بغیروہ گھر ایک ادھورا گھر ہے نہ کہ مکمل معنوں میں گھر۔
— 007علم کی برتری
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ شہید کے خون کے مقابلہ میںعالم کے قلم کی روشنائی زیادہ افضل ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ علم کی عظمت تمام دوسری چیزوں سے زیادہ ہے۔
اس کا سبب یہ ہے کہ علم کا تعلق ذہن سے ہے۔ علم سے ذہن کو تندرستی ملتی ہے، ذہنی سوچ میںاضافہ ہوتا ہے، علم سے یہ ممکن ہوتا ہے کہ ذہن معاملات کو زیادہ بہتر طورپر سمجھے اور زیادہ بہتر طورپر عمل کی منصوبہ بندی کر نے کے قابل ہوجائے۔
کوئی بھی جسمانی عمل ایک محدود عمل ہے۔ ایک مقام تک پہنچ کر جسمانی عمل کی حد آجاتی ہے مگر علم کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ جس آدمی کو علم حاصل ہو اس کی شخصیت بے پناہ حد تک وسیع ہوجائے گی۔ وہ ہر قید سے باہر آکر سوچنے کے قابل ہوجائے گا۔ وہ ایک ایسا انسان بن جائے گا جس کو کوئی زیرنہ کرسکے۔ جس طرح علم کی کوئی حد نہیں اسی طرح اس انسان کی بھی کوئی حد نہیں جو علم کی دولت کا مالک ہوجائے۔
— 008علم کا ریکارڈ
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ علم کو کتابت کے ذریعہ محفوظ کرو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو علم تمہارے ذہن میں ہے اس کو کاغذ پر لکھ لو۔ اس طرح وہ اپنی صحیح شکل میںہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجائے گا۔
اس تعلیم کا ایک استعمال یہ ہے کہ علم کو کتابوں میں منتقل کیا جائے ۔ ہر علمی موضوع پر کتابیں لکھ کر تیار کی جائیں۔ علم کو دماغ سے نکال کر لائبریری کی صورت میں ذخیرہ کردیا جائے۔
اس معاملہ کی ایک صورت وہ بھی ہے جس کو ڈائری کہا جاتا ہے۔ اس طرح اس تعلیم کی ایک پیروی یہ بھی ہوگی کہ ہر آدمی اپنی ایک ڈائری رکھے۔ وہ اپنے روزانہ کے مطالعہ اور تجربہ کو مختصر طورپر اس میں تاریخ وار درج کرتا رہے اس طرح ہر آدمی کے علمی سفر کا ایک روزنامچہ تیار ہوتا رہے گا۔
یہ ڈائری آدمی کے روزانہ ذہنی سفر کا ایک ریکارڈ ہوگی،وہ اپنے احتساب کا ایک مؤثر ذریعہ ہوگی۔ آدمی اپنی ڈائری کے ذریعہ اپنی کامیابی اور ناکامی کو جان کر اپنی اصلاح کرتا رہے گا۔ اس طرح ڈائری اس کی شخصیت کے ارتقاء کا ذریعہ بن جائے گی۔
— 009علم برائے علم
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ علم کو گہوارہ مادر سے لے کر قبر تک حاصل کرو۔ اس سے معلوم ہوا کہ علم کسی وقتی نفع یا کسی وقتی جاب کے لیے نہیں ہوتا بلکہ وہ ایک مستقل عمل ہے جو انسان کی پیدائش سے لے کر اس کی موت تک جاری رہتا ہے۔لہذا علم اپنے آپ میں مطلوب ہے۔ علم کا اصل مقصد انسانی شخصیت کی تعمیر ہے۔ یہ کوئی وقتی کام نہیں۔ یہ ایک مسلسل عمل ہے۔ وہ ہر حال میں اور ہر مقام پر جاری رہتا ہے۔ انسانی شخصیت کی تعمیر کبھی مکمل نہیں ہوتی۔ اس لئے اس کی تعلیم و تربیت کا عمل بھی کبھی ختم نہیں ہوتا۔
علم یا تعلیم کا اصل مقصد شعور کو بیدار کرنا ہے تاکہ وہ ایک چیز اور دوسری چیز کے فرق کو سمجھے۔ وہ کبھی محدود سوچ میںمبتلا نہ ہو۔ اس کا ذہن کبھی جمود کا شکار نہ ہونے پائے۔ علم انسانی شخصیت کی غذا ہے۔ جس طرح جسم مادّی غذا کے بغیر ناکارہ ہوجاتا ہے اسی طرح انسانی شخصیت علم کے بغیر ناقص ہوجاتی ہے۔ اور ناقص شخصیت موجودہ دنیا میں کوئی بڑا کردار ادا نہیں کرسکتی۔
010 — غیر مفید علم
پیغمبر اسلام کی ایک دعا یہ تھی: اللہم إنی اعوذبک من علم لا ینفع (اے خدا، مجھ کو ایسے علم سے بچا جو بے فائدہ ہو) گویا وہی علم علم ہے جو انسانیت کے لئے مفید ہو، جوعلم انسانیت کے لیے مفید نہ ہو وہ کوئی مطلوب علم نہیں۔ ایسے علم کے حصول میں اپنا وقت لگانا جس میں کوئی حقیقی فائدہ نہ ہو، وقت کو ضائع کرنا ہے۔
— 011نمو پذیر شخصیت
قرآن میں سچے انسان کی مثال پودے سے دی گئی ہے۔ جس طرح پودا بڑھ کر درخت بنتاہے اسی طرح انسان کی شخصیت بھی بڑھتی رہتی ہے۔ یہاں تک کہ شاداب درخت کی طرح وہ ایک ترقی یافتہ شخصیت بن جاتی ہے۔انسان چھوٹے بچے کی شکل میں پیدا ہوتا ہے۔ اس کے بعد بڑھتے بڑھتے وہ پورا آدمی بن جاتا ہے۔ یہ معاملہ جسم کی ترقی کا ہے۔ اسی طرح انسان کا ذہن بھی ترقی کرتاہے۔ یہ ترقی تفکیری عمل (thinking process) کے ذریعہ جاری ہوتی ہے۔ اگر یہ تفکیری عمل صحت مندانداز میںجاری رہے تو انسان کا ذہن بھی اسی طرح ترقی کے درجہ تک پہنچ جائے جس طرح اس کا جسم ترقی کے درجہ تک پہنچتا ہے۔
یہ تفکیری عمل فطری طور پر ہر انسان کے اندر جاری ہوتا ہے۔ انسان کو صرف یہ کرنا ہے کہ وہ ان چیزوں سے اپنے آپ کو بچائے جو تفکیری عمل میں رکاوٹ ڈالنے والی ہیں۔ اگر تفکیری عمل کو رکاوٹ سے بچایا جائے تو وہ ایک چشمہ کی طرح بہتا رہے گا یہاں تک کہ وہ ایک عظیم دریا بن جائے گا۔
— 012جاننے والے سے پوچھنا
قرآن میںکہا گیا ہے کہ اگر تم نہیں جانتے تو جاننے والے سے پوچھو۔ یعنی نہ جاننے والا جاننے والے سے پوچھے اور اس طرح اپنے نہ جاننے کو جاننا بنائے۔لوگ عام طورپر پوچھنے کو پسند نہیں کرتے۔وہ سمجھتے ہیں کہ پوچھنے کا مطلب گویا یہ اقرار کرنا ہے کہ تم جانتے ہو، میں نہیں جانتا۔ یہ ایک مہلک عادت ہے۔ صحت مند عادت یہ ہے کہ پوچھنے کو ویسا ہی سمجھا جائے جیسا کہ ڈکشنری یا انسائیکلوپیڈیا کا مطالعہ کرنا۔
کوئی آدمی خود سے ساری باتوں کو جان نہیں سکتا۔ اسی کمی کی تلافی کے لیے وہ کتابوں کا مطالعہ کرتا ہے۔ اسی طرح اس کو یہ عادت ڈالنا چاہئے کہ وہ جاننے والے سے پوچھے۔ جاننے والا اس کے لیے گویا ایک زندہ کتاب ہے۔ اگر کتاب کو پڑھنے میں اسے کوئی احساس نہیں روکتا تو جاننے والے سے پوچھنے میں بھی کسی احساس کو رکاوٹ نہیں ہونا چاہئے۔ جاننے والے سے پوچھنا باہمی تعلقات کو بڑھاتا ہے۔ وہ علم میں اضافہ کرتا ہے۔وہ انسانی تعلقات میں اضافہ کا سبب بنتا ہے۔
— 013خدا کی نعمتوں میںغور وفکر
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ خدا کی نعمتوں میںغور و فکر کرنا سب سے بڑی عبادت ہے۔ یہ غور وفکر بظاہر دکھائی نہیں دیتا کیوں کہ وہ ذہن میں ہوتا ہے۔ مگر خدا کی نظر میں اس سے بڑا کوئی عمل نہیں۔
اصل یہ ہے کہ دنیا کی ہرچیز میںنعمت کا پہلو موجود ہے۔ غور و فکر کرکے ان نعمتوں کو جاننا، چیزوں میںنعمت کے پہلو کو دریافت کرنا، یہی وہ چیز ہے جس کو اس حدیث میںافضل عبادت کہا گیا ہے۔
چیزوں کو نعمت کے پہلو سے دریافت کرنا ایک ایسا عمل ہے جو آدمی کو خدا سے قریب کرتا ہے، جو آدمی کو خدا سے جوڑتا ہے۔ وہ آدمی کے لیے خدا کی معرفت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
— 014غور و فکر کا عمل
ابو الدرداء پیغمبر اسلام کے ایک صحابی تھے۔ ان کی وفات کے بعد ایک شخص نے ان کی زوجہ ام الدرداء سے پوچھا کہ ابو الدرداء کا سب سے بڑا عمل کیا ہوتا تھا۔ ام الدرداء نے جواب دیا کہ سوچنا اور عبرت پکڑنا۔اس سے معلوم ہوا کہ کسی انسان کا سب سے بڑا عمل یہ ہے کہ وہ اپنے آس پاس کی چیزوں پر غور کرے اور ان سے عبرت کا پہلو اخذ کرتا رہے۔ یہ گویا ذہنی ارتقاء (intellectual progress) اور روحانی ارتقاء (spiritual developement) کا عمل ہے۔ جو سنجیدہ غور وفکر کی صورت میںانسان کے اندر جاری ہوتا ہے۔ وہ موت سے پہلے کبھی ختم نہیں ہوتا۔
— 015علمی تواضع
پیغمبر اسلام کے ایک صحابی عبداللہ ابن مسعود نے فرمایا کہ جب تم کسی بات کو نہ جانو تو تم یہ کہہ دیا کرو کہ: اللہ أعلم (اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے)۔ اس اصول کو دوسرے لفظوں میں، علمی تواضع کہا جاسکتا ہے۔ اور علمی تواضع علمی ترقی کے لیے بے حد ضروری ہے۔
عربی زبان کا ایک مثل ہے: لاأدری نصف العلم (میںنہیں جانتا، آدھا علم ہے)۔ یہ کہہ سکناکہ میںنہیں جانتا، کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ اپنے نہ جاننے کو جاننا ہے۔ جب آدمی اپنے نہ جاننے سے باخبر ہوجائے تو اس کے اندر تجسس کی روح (spirit of inquiry) جاگتی ہے جو آخر کار اس کو علم تک پہنچادیتی ہے۔جب آدمی ایک بات کو نہ جانے تو اس کو اپنے نہ جاننے کا اعتراف کرنا چاہئے۔ اپنے نہ جاننے کا اعتراف بھی جاننے کی طرح ایک قدم ہے۔ اس مزاج کے بغیر کوئی آدمی علمی ترقی کی منزل تک نہیں پہنچ سکتا۔
— 016تعلیم و تربیت
پیغمبر اسلام کے ایک ساتھی کہتے ہیں کہ ایک چڑیا بھی اگر فضا میں اڑتی ہوئی دکھائی دیتی تو آپ اس سے ہم کو ایک علم کی یاد دہانی کراتے تھے (مامن طائرٍ یطیر بجناحیہ إلا و ہویذکر لنا منہ علماً)
اس حدیث سے تعلیم و تربیت کا ایک توسیعی تصوّر سامنے آتا ہے۔اس سے معلوم ہوتاہے کہ تعلیم و تربیت کے عمل کا تعلق صرف اسکول اور مدرسہ سے نہیں۔ بلکہ اسکول کے احاطہ سے باہر بھی اس کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ فطرت کی دنیا میں ہر چھوٹی بڑی چیز کے اندر کوئی نہ کوئی علم چھپا ہوا ہے۔ معلّم اگر بیدار ذہن رکھتا ہو تو وہ اپنے طلبہ کے لیے اسکول کے اور مدرسہ کے باہر کی دنیا کو بھی تعلیم و تربیت کا ذریعہ بنا سکتا ہے۔ اسی طرح ایک رہنما اپنے پیروؤں کے لیے ہر منظر اور ہر تجربہ سے علم اخذ کرکے ان کی ذہنی اور روحانی تربیت کا سامان کرسکتا ہے۔ ہماری دنیا پوری کی پوری ایک وسیع تعلیم گاہ ہے۔ جوآدمی علم کاسچّا طالب ہو وہ ہر لمحہ اپنے علم میںاضافہ کرتا رہے گا۔اس کا علمی سفر کبھی ختم نہ ہوگا۔
— 017علم اور سنجیدگی
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ جو شخص اللہ سے ڈرے، وہ عالم ہے (من یخشی اللہ فہو عالم)۔ اس حدیث سے علم کا ایک اہم پہلو معلوم ہوتا ہے اور وہ سنجیدگی اور احتیاط ہے۔علم صرف واقفیت کا نام نہیں۔ کسی شخص کو جب گہرائی کے ساتھ علم حاصل ہوتا ہے تو اس کا فطری نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خدا کے بارے میں وہ محتاط بن جاتا ہے۔ یہ احتیاط اس کے اندر سنجیدگی پیدا کرتی ہے۔ جہاں علم ہو اور سنجیدگی نہ ہو تو یہ سمجھنا چاہئے کہ وہاں حقیقی معنوں میں وہ چیز نہیں جس کو علم کہا گیا ہے۔
سچا علم آدمی کو ایک نیا انسان بنا دیتا ہے۔ سچے علم والا انسان حقائق فطرت سے با خبر رہتا ہے اور جو آدمی حقائق فطرت سے با خبر ہوجائے وہ اس کا تحمّل نہیں کرسکتا کہ وہ تضاد میں جئے۔ وہ غیر محتاط انداز میں کلام کرے، وہ لوگوں کے ساتھ غیر سنجیدہ معاملہ کرے۔ سچا علم آدمی کو ہر قسم کی غیر ذمّہ داری سے بچا تا ہے۔ سچا علم آدمی کو پورے معنوں میں سنجیدہ اور ذمّہ دار انسان بنا دیتا ہے۔
— 018علم میں اضافہ
قرآن میںایک دعا ان الفاظ میںبتائی گئی ہے: ربِّ زدنی علما (اے میرے رب تو میرا علم زیادہ کردے)۔ اس قرآنی دعا سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام میںعلم کے حصول کی اہمیت کتنی زیادہ ہے۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ ہر مرد اور ہر عورت مسلسل اپنے علم میں اضافہ کرنے کی کوشش کرتے رہیں۔
دعا در اصل عزم کی ایک صورت ہے۔ دعا کی حقیقت یہ ہے کہ آدمی پوری طرح ایک مقصد کے حصول میںلگ جائے۔ وہ اپنی حد تک سب کچھ کرتے ہوئے خدا سے یہ دعا کرے کہ وہ اس کی کوششوں کو کامیاب کرے۔ اس طرح دعا خود آدمی کے عمل کا ایک حصہ بن جاتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ علم کی کوئی حد نہیں۔ آدمی کو چاہئے کہ وہ کسی مقام پر رکے بغیر علم کے حصول کی کوشش میں لگا رہے۔ وہ اس معاملہ کے تمام تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے علم میں اضافہ کے لیے برابر کوشاں رہے۔ علم کی کوئی حد نہیں اس لیے حصول علم کی راہ میں جدو جہد کی بھی کوئی حد نہیں۔
— 019بے جا عذر
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ آدمی ہمیشہ دو چیزوں کے فریب میں رہتا ہے—صحت اور فرصت۔ یعنی وہ سوچتا رہتا ہے کہ جب صحت ہوگی تب کر لوںگا اور جب فرصت ہوگی تب کرلوں گا، مگر زندگی میں صحت اور فرصت کبھی آتی نہیں۔ چنانچہ وہ اسی دھوکے میں رہتا ہے اور آخر کار مرجاتا ہے۔
عقل مند آدمی وہ ہے جس کا یہ حال ہو کہ وہ کسی عذر کو عذر نہ بنائے۔ جب بھی کوئی کام سامنے آئے وہ اس کو فوراً کرڈالے۔ ابھی اور اسی وقت سے بہتر کام کرنے کا کوئی وقت نہیں:
There is no better time to start than this very minute.
— 020دل سے مسئلہ پوچھنا
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ اپنے دل سے فتویٰ پوچھ لو(استفت قلبک) اس حدیث میں قلب سے مراد وہی چیز ہے جس کو کامن سنس کہا جاتا ہے۔
انسان کو بار بار مسئلے پیش آتے ہیں۔ ان مسئلوں میں اس کو ہر بار مفتی سے فتویٰ پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ اگر آدمی اپنے آپ کو نفسیاتی پیچیدگی سے پاک رکھے تو اس کا کامن سنس اس کے لیے بہترین رہنما بن سکتا ہے۔ اور یہ کامن سنس ایک ایسی چیز ہے جس کو کہیں ڈھونڈھنے کی ضرورت نہیں۔ وہ ہر وقت اور ہر جگہ آدمی کے ساتھ ہمیشہ موجود رہتا ہے۔
— 021حکمت کی بات
مشہور صحابی رسول حضرت عمر فاروق نے کہا: امیتوا الباطل بالصمت عنہ (تم باطل کو ہلاک کرو اس کے بارے میں چپ رہ کر)۔ یہ قول خاموشی کی طاقت کو بتاتا ہے۔
مشہور مثل ہے کہ تالی دو ہاتھ سے بجتی ہے۔ اگر آپ باطل کی طاقت کے بعد خود بھی جوابی کارروائی کریں تو باطل کو اس سے مزید طاقت مل جائے گی۔ اس کے برعکس اگر آپ خاموشی کا طریقہ اختیار کریں تو باطل کا زور دھیرے دھیرے اپنے آپ ٹوٹ جائے گا۔ آپ کی طرف سے جوابی کارروائی نہ کرنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ فطرت کی طاقتیں آپ کی حمایت میں متحرک ہوجائیں گی۔ وہ آپ کے کام کو زیادہ بہتر طور پر انجام دے دیں گی۔
— 022بلند ہمتی
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ بلند ہمتی ایمان کا ایک حصہ ہے۔ ایسا کیوں ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ خدا پر ایمان آدمی کو سب سے بڑا بھروسہ دے دیتا ہے۔ یہ بھروسہ اس کو بلند ہمت بنا دیتا ہے۔
مگر دنیا میں باربار آدمی کو ناموافق حالات سے سابقہ پیش آتا ہے۔ یہ حالات اس کو مایوسی کی طرف لے جاتے ہیں۔ اگرآدمی کو خدا کے اوپر یقین ہو جائے تو وہ آخری حد تک حوصلہ مند بن جائے گا۔ خدا پر یقین اس کو اس وقت بھی بھروسہ دے گا جب کہ بظاہر آدمی کے پاس کوئی بھروسہ نہیں ہوتا ۔
— 023باقی رہنے والا عمل
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ ہے جو ہمیشہ باقی رہنے والا ہو۔ اس دنیا میں کوئی حقیقی کامیابی ہمیشہ دیر میں ملتی ہے۔ اس لیے سب سے بہتر عمل وہ ہے جو قابل بقا (sustainable) ہو۔اس دنیا میں نتیجہ خیزعمل وہی ہے جو شروع کرنے کے بعد برابر جاری رہے۔ جس پر آدمی اپنی پوری عمر قائم رہ سکتا ہو۔ ایسا ہی عمل فطرت کے قانون کے مطابق ہے۔ ایسا ہی عمل حقیقی معنوں میں عمل ہے۔
آدمی کو چاہئے کہ وہ عمل شروع کرنے سے پہلے اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرے۔ وہ تمام متعلق امور کا جائزہ لے۔ وہ اپنی صلاحیت اور دستیاب وسائل نیز وقت کے حالات، ہر چیز کا بھرپور اندازہ کرے اور پھر سوچے سمجھے نقشہ کے مطابق اپنا کام شروع کرے۔ اورجب وہ کام شروع کردے پھر وہ درمیان میں کبھی اس کو نہ چھوڑے۔ یہی دنیا میںکامیابی کا واحد طریقہ ہے۔
— 024زمانہ سے با خبر ہونا
پیغمبر اسلام کی ایک لمبی حدیثہے ۔ اس کا ایک جزء یہ ہے: عقلمند آدمی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے زمانہ کو جاننے والا ہو۔ یہ حدیث بتاتی ہے کہ انسان کے علم کی تکمیل کیا ہے۔علم والا ہونے کے لیے یہ کافی نہیں کہ آدمی کتابی معلومات سے واقف ہو۔ اس نے ماضی کی روایتوںکو یاد کر رکھا ہو۔ اسی کے ساتھ ضروری ہے کہ آدمی جس زمانہ میں ہے اس زمانہ کو جانے۔ وہ ماضی شناس ہونے کے ساتھ حال شناس بھی ہو۔
زمانہ کو جاننے کی اہمیت فکری بھی ہے اور عملی بھی۔ اس کے بغیر آدمی کی سوچ ناقص رہتی ہے۔ وہ باتوں کو آفاقی انداز میں سمجھ نہیں پاتا۔ حقیقت کا گہرا تجزیہ اس کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ اس طرح عملی اعتبار سے وہ ایک ناقص انسان ہوتاہے۔ وہ یہ جاننے سے محروم رہتا ہے کہ وقت کے حالات میں ابدی سچائیوں کو کس طرح منطبق(apply) کرے۔ ایساآدمی اپنے عمل کی کامیاب منصوبہ بندی نہیں کرسکتا۔
025 — بامقصد زندگی
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ آدمی کے اچھے اسلام پر ہونے کی ایک پہچان یہ ہے کہ وہ بے فائدہ باتوں کو چھوڑ دے۔ پیغمبر اسلام کا یہ قول بتاتا ہے کہ ایک بامقصد انسان کی زندگی کیسی ہونی چاہئے۔
اصل یہ ہے کہ دنیا میںکام زیادہ ہیں اور ایک شخص کی عمر بہت مختصر۔ ایسی حالت میں ضروری ہے کہ آدمی اپنی مشغولیتوں میںانتخابی (selective) انداز اختیار کرے۔ وہ صر ف ان چیزوں میں مشغول ہو جن کا تعلق براہ راست زندگی کے مقصد سے ہو۔ جو چیزیں اس کے مقصد کے لیے کار آمد نہیں ان سے وہ مکمل طورپر پرہیز کرے۔ وہ بے فائدہ کام اور فائدے والے کام میں فرق کرنا جانے۔
بے فائدہ کام سے مراد وہ کام ہے جو محض دلچسپی یا وقت گزاری کے لیے ہو، جس سے وقتی تفریح کے سوا کچھ اور حاصل نہ ہوتا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کے بے فائدہ کام میں مشغول ہونا ایک ایسا تعیش (luxury) ہے جس کا تحمل ایک بامقصد انسان نہیں کر سکتا۔
— 026 نفع بخشی
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اس دنیا کا نظام نفع بخشی کے اصول پر قائم ہے۔ یعنی جو شخص دوسروں کو نفع پہنچائے گا اس کو دوسروں سے فائدہ ملے گا۔ جتنا دینا اتنا پانا۔اس اصول کے مطابق، جب بھی کسی کو محرومی کا تجربہ ہو تو اس کو یہ مان لینا چاہئے کہ ایسا اس لیے ہوا ہے کہ وہ اپنے آپ کو نفع بخش ثابت نہ کرسکا۔ اس نے دوسروں کو محروم رکھّا تھا اس لیے دوسروں نے بھی اس کو محروم کردیا۔ اگر وہ دوسروں کو دیتا تو ضرور وہ بھی دوسروں سے پاتا۔
نفع بخشی کے اس اصول کا تعلق زندگی کے پورے معاملے سے ہے۔ اس کا تعلق خاندان سے بھی ہے اور سماج سے بھی۔ قومی زندگی سے بھی ہے اور بین اقوامی زندگی سے بھی۔ ہر انفرادی اوراجتماعی معاملے میں یہی اصول کار فرما ہے۔اس کے مطابق، شکایت اور احتجاج کا طریقہ بالکل بے معنٰی ہے۔ اس دنیا میں ہر شکایت اور ہر احتجاج خود اپنی کوتاہی کے خلاف شکایت اور احتجاج ہے۔ آدمی کو چاہئے کہ وہ شکایت اور احتجاج میں وقت ضائع نہ کرے، بلکہ پہلی فرصت میں اپنی کوتاہی کو دور کرنے کی کوشش کرے۔ وہ اپنے آپ کو دوسرے کے لیے نفع بخش بنائے۔ یہی مسئلہ کا واحد حل ہے۔
— 027خاموشی میں نجات
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ جو چپ رہا اس نے نجات پائی۔ اس قول سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح بولنا ایک کام ہے اسی طرح چپ رہنا بھی ایک کام ہے۔ جس طرح ایکشن لینا ایک کام ہے اسی طرح ایکشن نہ لینا بھی ایک کام ہے۔ جس طرح آگے بڑھنا ایک کام ہے اسی طرح پیچھے ہٹنا بھی ایک کام ہے۔ جس طرح طاقت کی پوزیشن میںفائدہ ہے اسی طرح تواضع کی پوزیشن میںبھی فائدہ ہے۔ چپ رہنا صرف نہ بولنے کا نام نہیں۔ چپ رہنا ایک تدبیر ہے۔ چپ رہناخاموش منصوبہ بندی کا دوسرا نام ہے۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ شور کی سیاست کے مقابلہ میں چپ کی سیاست زیادہنتیجہ خیز ہے۔
چپ رہنے کے بہت سے فائدے ہیں۔ جب آدمی چپ رہتا ہے تو وہ سوچتا ہے۔ جب آدمی چپ رہتا ہے تو وہ دوسروں سے سیکھتا ہے۔ جب آدمی چپ رہتا ہے تو وہ اپنی اندرونی طاقتوں کوجگاتا ہے۔ یہ بلا شبہہ ضروری ہے کہ آدمی بولے۔ مگر اسی کے ساتھ ضروری ہے کہ وہ چپ رہنے کی حکمت کو جانے۔ کبھی بات کو بگڑنے سے بچانے کے لیے صرف اتنا کافی ہوتا ہے کہ آدمی چپ ہو جائے۔ چپ رہنا نظر انداز کرنے کی ایک علامت ہے، اور یہ ایک حقیقت ہے کہ نظر انداز کرنا ایک انتہائی حکیمانہ عمل ہے۔
— 028دو مختلف صفات
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ ہر انسان کے اندر دو مختلف صفات رکھی گئی ہیں۔ ایک نفس امّارہ دوسرے نفس لوّامہ۔ یہ دونوں صفتیں پیدائشی طور پر ہر انسان کے اندر ہوتی ہیں۔ کوئی بھی انسان ان سے خالی نہیں ہے۔ نفس امّارہ سے مراد انانیت ہے اور نفس لوّامہ سے مراد ضمیرہے۔یہ دونوں صفتیں ابتدائی طورپر سوئی ہوئی حالت میںہوتی ہیں۔ اگر ان کو نہ جگایا جائے تو وہ سوئی ہوئی رہیں گی۔ اگر کسی آدمی کے خلاف ایسی بات کہی جائے جو اس کو اشتعال دلانے والی ہو تو اس کا نفس امّارہ جاگ پڑے گا اور پھر اس کا انجام و ہی ہوگا جیسے کسی سوئے ہوئی سانپ کو جگا دیا جائے۔
اس کے برعکس اگر آدمی سے نرمی کا سلوک کیا جائے تو اس کا نفس لوّامہ جاگے گا۔ پہلے اگر دوسروں کو اس سے کانٹے کا تجربہ ہوا تھا تو اب دوسروں کو اس سے پھول کا تجربہ ہوگا۔ اب دوسروں کو اس سے انسانیت کی خوشبو حاصل ہوگی۔ اب وہ دوسروں کے لیے رحمت کا نمونہ بن جائے گا۔
— 029صبر سے کامیابی
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ جان لو، کامیابی صبر کے ساتھ ہے۔ صبر کا الٹا عجلت پسندی ہے۔ عجلت کی کارروائی منصوبہ کے بغیر ہوتی ہے اور صبر کی کارروائی منصوبہ کے بعد ہوتی ہے۔ اور اس دنیا میں وہی کارروائی کامیاب ہوتی ہے جو منصوبہ کے ساتھ کی گئی ہو۔
— 030ٹکراؤ سے پرہیز
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ مومن کے لیے سزاوار نہیں کہ وہ اپنے آپ کو ذلیل کرے۔ پوچھا گیا کہ کوئی شخص خود اپنے آپ کو کیوں ذلیل کرے گا۔ آپ نے جواب دیا کہ وہ ایسی بَلا کا سامنا کرے جس سے نپٹنے کی وہ طاقت نہ رکھتا ہو۔اس حدیث میں زندگی کا ایک حکیمانہ اصول بتایا گیا ہے۔ وہ اصول یہ ہے کہ آدمی کی کارروائی ہمیشہ نتیجہ خیز ہونا چاہئے۔ ایک ایسی طاقت جس سے مقابلہ کرنے کا سازوسامان اس کے پاس نہ ہو، اگر وہ کوئی عذر لے کر ایسی طاقت سے ٹکرا جائے تو اس کا انجام یہ ہوگا کہ وہ ذلت اور ناکامی سے دوچار ہوگا۔ایسا فعل جو یکطرفہ طورپر خود فاعل کی تباہی میںاضافہ کرنے والا ہو اس میں اپنے آپ کو الجھانا کسی بھی اعتبار سے درست نہیں۔
— 031اپنے سے کم کو دیکھو
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ مادّی معاملہ میں اپنے سے اوپر کو نہ دیکھو بلکہ اپنے سے نیچے کو دیکھو۔ اس طرح تم اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو حقیر نہ سمجھو گے۔
اس دنیا کا نظام خدا نے اس طرح بنایا ہے کہ یہاں ہمیشہ اونچ اور نیچ قائم رہتی ہے۔ کوئی آگے ہوتا ہے اور کوئی پیچھے۔ اس کی مصلحت یہ ہے کہ اس طرح مسابقت(competition) کا ماحول قائم رہتا ہے۔ اس مسابقت کی وجہ سے ایسا ہوتاہے کہ زندگی کی ترقیاں اور سرگرمیاں ہمیشہ جاری رہتی ہیں۔اس بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ ہر آدمی سے کوئی آگے ہوتا ہے اور کوئی اس سے پیچھے ۔ آدمی کو چاہئے کہ وہ ہمیشہ اپنے سے نیچے والے کو دیکھے۔ اس تقابل کا فائدہ یہ ہوگا کہ جو کچھ خدا نے اس کو دیا ہے وہ اس کو زیادہ نظر آئے گا۔ وہ اس پر خدا کا شکر ادا کرتا رہے گا۔ اس کے برعکس اگر وہ ایسا کرے کہ صرف اپنے سے اوپر والے کو دیکھے تو اس کے اندر نفرت اور جھنجھلاہٹ کا مزاج پیدا ہوگا۔
مثبت مزاج آدمی کے ذہنی اور روحانی ارتقاء میںمدد گار ہوتا ہے۔ اس کے برعکس منفی مزاج آدمی کے ذہنی اور روحانی ارتقاء کو روک دیتا ہے۔ آدمی کو چاہئے کہ وہ دوسرے کی خاطر اپنے آپ کو ذہنی ارتقاء سے محروم نہ کرلے۔
— 032گزرتا ہوا زمانہ
قرآن میںبتایا گیا ہے کہ زمانہ گواہ ہے کہ انسان گھاٹے میں ہے۔ گویا انسانی زندگی کی حیثیت برف جیسی ہے۔ جس طرح برف پگھل کر ہر لمحہ گھٹتا جاتا ہے اسی طرح انسان کی عمر بھی ہر لمحہ گھٹ رہی ہے۔ گھٹتے گھٹتے آخر کار وہ وقت آتا ہے جب کہ انسان اپنی عمر پوری کرکے ختم ہوجائے۔
گویا ہر انسان کا مسلسل کاؤنٹ ڈاؤن (count down) ہورہا ہے۔ اگر ایک شخص کے لیے یہ مقدّر ہو کہ وہ پیدا ہونے کے بعد ساٹھ سال تک زندہ رہے گا تو گویا پیدا ہونے کے ساتھ ہی اس کا کاؤنٹ ڈاؤن شروع ہوگیا۔ پہلا سال پورا ہونے پر اس کی عمر انسٹھ سال رہ گئی۔ اس کے بعد اٹھاون، اس کے بعد ستاون، اس کے بعد چھپّن، اس کے بعد پچپن، اس طرح مسلسل ہر آدمی کی الٹی گنتی ہو رہی ہے۔ اس الٹی گنتی کو روکنا کسی بھی شخص کے بس میں نہیں ہے۔ایسی حالت میں ہر آدمی کو چاہئے کہ وہ اپنے ہر لمحہ کو قیمتی سمجھے کیوں کہ جو وقت کھویا گیا وہ دوبارہ واپس آنے والا نہیں ۔ جس طرح گزرا ہوا زمانہ واپس نہیں آتا۔ اسی طرح زندگی کے گزرے ہوئے لمحات بھی کسی کو دوبارہ واپس نہیں ملتے۔
— 033مایوسی نہیں
قرآن میں کہا گیا ہے کہ اے خدا کے بندو، مایوس نہ ہو، کیوں کہ خدا کی رحمت بہت وسیع ہے۔ آدمی کو جب بھی مایوسی ہوتی ہے تو اس کا سبب یہ ہوتا ہے کہ وہ صرف اپنے امکانات کو دیکھتا ہے۔ اگر اس کی نظر خدائی امکانات پر ہو تو وہ کبھی مایوس نہ ہوگا۔
انسانی امکانات کی حد ہوتی ہے۔ مگر خدائی امکانات کی کوئی حد نہیں۔ انسان اگر اس حقیقت کو جان لے تو وہ کبھی مایوس نہ ہو۔ کیوں کہ جہاں بظاہر انسان کی حد آگئی ہے عین اسی مقام پر وہ ایک اور امکان کو پالے گا جس کی نہ کوئی حد ہے اور نہ اس کے لیے کوئی رکاوٹ۔حقیقت یہ ہے کہ خدا پر یقین آدمی کو امید کا ایسا خزانہ دے دیتا ہے کہ اس کے بعد وہ کبھی مایوس نہیں ہوتا۔ وہ کبھی اس احساس سے دوچار نہیںہوتا کہ آگے اس کے لیے کچھ اور باقی نہیں رہا۔ ایک امکان کا خاتمہ اس کے لیے زیادہ بڑے امکان کا آغاز بن جاتا ہے۔ خدا کا عقیدہ اور مایوسی دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے۔
— 034اعلیٰ اخلاق
پیغمبر اسلام نے اپنے کچھ ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، کیا میںتم کو بہتر اخلاق بتاؤں۔ لوگوں نے کہا کہ ہاں۔ پھر آپ نے فرمایا کہ جو تم سے کٹے تم اس سے جڑو جو تمہیں محروم کرے تم اسے دو۔ جو تمہارے اوپر ظلم کرے تم اس کو معاف کردو۔اس کو ایک لفظ میں یکطرفہ اخلاقیات کہا جاسکتا ہے۔ اس کے مطابق، اعلیٰ اخلاق یہ نہیں ہے کہ جو خود اچھا سلوک کرے اس کے ساتھ آپ بھی اچھا سلوک کریں۔ یہ برابر کا اخلا ق ہے۔ اور برابر کا اخلاق اعلیٰ اخلاق نہیں۔ اعلیٰ اخلاق وہ ہے جو خود اپنے اعلیٰ اصول پر قائم ہو۔ جو دوسروں کے عمل کے جواب میں نہ ہو بلکہ خود اپنے اصولی رویہ کے تحت ہو۔
اعلیٰ اخلاق یہ ہے کہ آدمی دوسرے کے رویہ سے بلند ہو کر یکطرفہ طورپر حسن اخلاق پر قائم رہے۔ وہ ردّ عمل کی نفسیات سے اپنے آپ کو بچائے اور کسی بھی حال میں اپنے مثبت اخلاقی رویہ کو نہ چھوڑے۔اعلیٰ انسانیت کی سب سے بڑی پہچان اعلیٰ اخلاق ہے۔ اور اعلیٰ اخلاق کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ دوسروں کی طرف سے منفی رویہ کے باوجود آدمی اپنے آپ کو مثبت رویہ پر قائم رکھے۔
— 035بے نفس انسان
قرآن میں اعلیٰ شخصیت کو بتانے کے لیے النفس المطمئنہ کا لفظ آیا ہے۔ النفس المطمئنہ کو دوسرے لفظوں میں نفسیاتی پیچیدگیوں سے خالی روح (complex-free soul) کہا جاسکتا ہے۔ یعنی وہ انسان جو ہر قسم کے منفی احساسات اور سطحی جذبات سے اوپر اٹھ کر سوچ سکے۔
دنیا میں آدمی مختلف حالات کے درمیان رہتا ہے۔ یہ حالات اس کے اندر طرح طرح کے جذبات پیدا کرتے رہتے ہیں۔ مثلاً نفرت، بغض، کینہ، حسد، جلن، انتقام، تعصب، خود غرضی، غرور، خودنمائی، جاہ پسندی، بے اعترافی، وغیرہ۔ جو شخص اس قسم کے تمام جذبات سے اپنے آپ کو اوپر اٹھالے اس کو النفس المطمئنہ کہا گیا ہے۔یہ ایک شعوری عمل ہے۔ کوئی شخص خود بخود النفس المطمئنہ نہیں بن سکتا۔ اس کو شعوری طور پر اپنا نگراں بننا پڑتا ہے۔ وہ بار بار اپنی تطہیر کا کام کرتا رہتا ہے۔ اس طرح یہ ممکن ہوتا ہے کہ کوئی شخص النفس المطمئنہ بن سکے۔
— 036برائی کو مٹانا
قرآن میںبتایا گیا ہے کہ نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم سے کوئی برائی ہو جائے تو اس کے بعد تم نیکی کرو۔ اس سے برائی کا اثر ختمہوجائے گا۔مثلاً اگر آپ نے کسی شخص کو برا کہہ دیا تو اس کے بعد اس کو اچھا کہیے۔اگر آپ نے کسی کو نقصان پہنچایا ہے تو اس کے بعد اس کو فائدہ پہنچائیے۔ اگر آپ نے کسی کے دل کو دکھایا ہے تو اس سے معافی مانگ لیجئے۔ اگر آپ نے کسی کے خلاف اکڑ دکھائی ہے تو اب اس کے سامنے جھک جائیے۔ اگر آپ نے کسی کے ساتھ بد اخلاقی کا معاملہ کیا ہے تو اس کے بعد اس کے ساتھ خوش اخلاقی کا معاملہ کیجئے۔ اگر آپ نے کسی کو حقیر سمجھ لیا ہے تو اس کے بعد اس کو عزت کا مقام دیجئے۔ اس طرح اپنے آپ برائیوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔
— 037گناہ کیا ہے۔
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ گناہ وہ ہے جو تمہارے دل میں کھٹکے اور اس کو کرتے ہوئے تم ڈرو کہ لوگ اس سے باخبر نہ ہوجائیں۔ یہ گناہ کی ایک ایسی پہچان ہے جس کو ہر آدمی نہایت آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے۔ہر آدمی کے اندر ضمیر ہے۔ یہ ضمیر اتنا حسّاس ہے کہ وہ برائی کے وقت آدمی کو فوراً ٹوک دیتا ہے۔ اگر آدمی ضمیر کی آواز کو سنے تو کبھی وہ گناہ نہ کرے۔ اسی طرح جب کوئی گناہ کرتاہے تو وہ اس کو چھپا کر کرتا ہے۔ اس کی کوشش ہوتی ہے کہ کوئی اسے جاننے نہ پائے۔ جب بھی آدمی کے اندر اس قسم کا جذبہ پیدا ہو تو اسے سمجھ لینا چاہئے کہ وہ ایک ایسا کام کرنے جارہا ہے جو اس کو نہیںکرنا چاہئے۔
— 038پڑوسی کا حق
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ خدا کی قسم وہ مومن نہیں ہے جس کا پڑوسی اس کی برائیوں سے امن میں نہ ہو۔ آدمی خواہ کہیں بھی ہو ہر وقت وہ کسی کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ ساتھی لوگ اس کے پڑوسی ہیں۔ ان پڑوسیوں کا یہ حق ہے کہ آپ سے انہیں کسی برائی کا تجربہ نہ ہو۔دوسرے لفظوں میںاس تعلیم کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں ہر انسان کو نو پرابلم انسان بن کر رہنا چاہئے۔ اس کو سخت احتیاط کرنا چاہئے کہ اس کی ذات سے اس کے آس پاس کے لوگوں کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ تکلیف کا معیار یہ ہے کہ دوسروں کو شکایت کا موقع نہ ملے۔ اگر آپ کے پاس کے لوگ کسی بات پر آپ سے شکایت کریں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ دوسروں کو تکلیف پہنچارہے ہیں۔ دوسروں کی شکایت ہی پر آپ کو ایسے کام سے رک جانا چاہئے۔
— 039چھوٹوں سے شفقت بڑوں کا احترام
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ جو شخص ہمارے چھوٹوں کے ساتھ شفقت نہ کرے اور جوشخص ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں۔ یہ حدیث بتاتی ہے کہ شریفانہ اخلاق کیا ہے اور اس کو سماج میں کس طرح قائم کیا جانا چاہئے۔
ہر سماج میں کوئی چھوٹا ہوتاہے اور کوئی بڑا۔ عمر کے لحاظ سے بھی اور دوسرے لحاظ سے بھی۔ مثلاً اسکول اور کالج میںاستاد کی حیثیت بڑے کی ہے او رطالب علم کی حیثیت چھوٹے کی۔ ایسے فرق والے سماج میںکس طرح اعتدال کے ساتھ زندگی گزاری جائے۔ اس کا سادہ اصول یہ ہے کہ—بڑے لوگ چھوٹوں کے ساتھ رحمت اور شفقت کا معاملہ کریں اور چھوٹے لوگ اپنے بڑوں کے ساتھ عزت اور احترام کا طریقہ اختیار کریں۔جس سماج میں یہ دونوں اصول پائے جائیں اس سماج کے لوگوں میں ہر ایک خوش ہوگا اور ہر ایک دوسرے کے بارے میںاچھے خیالات کا مالک ہوگا۔
— 040عہد کو پورا کرنا
قرآن میںارشاد ہوا ہے کہ جب عہد کرو تو اس کو پورا کرو۔ عہد کے بارے میں خدا کے یہاں تم سے باز پرس کی جائے گی۔ اس سے معلوم ہوا کہ عہد کا معاملہ صرف دو انسانوں کے درمیان کا معاملہ نہیںہے۔ اس معاملہ میں خدا بھی تیسرے فریق کی حیثیت سے شامل ہے۔
عہد یا معاہدہ کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ آدمی کو چاہئے کہ وہ یا تو کسی سے عہد نہ کرے اور جب عہد کرے تو وہ اس کو ضرور پورا کرے۔ عہد نہ کرنا کوئی جرم نہیں۔ مگر عہد کرنے کے بعد اسے پورا نہ کرنا یقینی طور پر جرم ہے۔ حتیٰ کہ ایک معاہدہ کو توڑنا اتنا بڑا جرم ہے کہ وہ تمام انسانی معاہدوں کو توڑنے کے برابر ہے۔ کیوں کہ معاہدہ توڑنے کا ہر واقعہ معاہدہ کے احترام کی روایت کو توڑنا ہے۔معاہدہ کے احترام پر سماجی انصاف کا پورا نظام قائم ہے۔ اگر معاہدہ کا احترام ختم ہوجائے تو سماج میںانصاف کے ماحول کاخاتمہ ہوجائے گا۔
— 041احسان کا بدلہ
پیغمبر اسلام نے فرمایا: جب کوئی شخص تمہارے ساتھ کوئی بھلائی کرے تو تم اس کا بدلہ دینے کی کوشش کرو۔ اور اگر تم بدلہ نہ دے سکو تو تم اس کے لیے خدا سے دعا کرو۔
یہ شرافت کا تقاضا ہے کہ جب ایک انسان کے ساتھ دوسرا انسان کوئی بھلائی کا معاملہ کرے تو وہ اس کے بدلہ میںخود بھی اس کے ساتھ بھلائی کرے۔ اگر وہ آدمی اپنے حالات کے لحاظ سے اس قابل نہ ہو کہ وہ تلافی کا عمل کرسکے تب بھی اس کے لئے تلافی کا ایک کام موجود ہے۔ وہ یہ کہ وہ اپنے محسن کے حق میں خدا سے بہترین دعائیں کرے۔
— 042دوسرے کی مصیبت پر خوش نہ ہونا
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ اپنے بھائی کی مصیبت پر خوش نہ ہو ۔ہو سکتا ہے کہ خدا اس پر رحم فرمائے اور تم کو مصیبت میں ڈال دے۔ اس حدیث میں لوگوں کو ایک ایسی اخلاقی برائی سے روکا گیا ہے جو خود اپنی ہلاکت کے ہم معنٰی ہے۔کوئی انسان اگر کسی مصیبت میں مبتلا ہوجائے تو اس کو دیکھ کر آپ کے اندر ہمدردی کا جذبہ پیدا ہونا چاہئے۔ آپ کوچاہئے کہ اس کی مدد کریں یا کم سے کم اس کے لئے دعا کریں۔ اس کے برعکس دوسرے کی مصیبت پر خوش ہونا ایک انتہائی پست بات ہے۔ وہ اخلاقی گراوٹ کی بدترین صورت ہے۔
مزید یہ کہ کوئی آدمی اگر دوسرے کی مصیبت پر خوش ہو تو اس کا یہ فعل خدا کو سخت نا پسند ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ خدا ناراض ہو کر یہ فیصلہ کرتا ہے کہ پہلے شخص کی مصیبت کو اس سے لے کر دوسرے شخص کے اوپر ڈال دی جائے۔ یہ بلا شبہہ کسی انسان کی بد نصیبی کی سب سے زیادہ بری صورت ہے۔
— 043اچھا گمان رکھنا
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ حسن ظن بھی حسن عبادت کی ایک صورت ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی کے بارے میں اچھا گمان رکھنا اتنا بڑا عمل ہے کہ وہ عبادت کے برابر ہے۔
کسی کے بارے میں اچھا گمان رکھنا ایک مشکل کام ہے۔ آدمی جب کچھ لوگوں کے درمیان رہتا ہے تو بار بار ایسی باتیں پیش آتی ہیں جو بدگمانی پیدا کرنے والی ہیں۔ جس کی وجہ سے دوسرے آدمی کی ایک بری تصویر ذہن میں بن جاتی ہے۔ ایسی حالت میں خوش گمانی کا معاملہ کوئی آسان معاملہ نہیں۔وہی شخص دوسروں کے بارے میں خوش گمان رہ سکتاہے جو بدگمانی کے باوجود خوش گمانی پرقائم رہنا جانتا ہو۔ جس کے اندر یہ بلند ظرفی ہو کہ وہ کسی کے بارے میں بری خبریں سنے تب بھی وہ ایسا نہ کرے کہ اس کے خلاف بدگمان ہو کر بیٹھ جائے۔
— 044احسان ماننا
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ جو شخص انسان کا شکر نہ کرے گا وہ خدا کا شکر بھی نہیں کرے گا۔ احسان کے اعتراف کا نام شکر ہے۔یہ نفسیات اگر آدمی کے اندر موجود ہو تو اس کا اظہار بندوں کے معاملہ میں بھی ہوگا اور خدا کے معاملہ میں بھی۔ یہ ناممکن ہے کہ آدمی ایک کے اعتبار سے غیر شاکر ہو اور وہ دوسرے کے اعتبار سے شاکر بن جائے۔
احسان کا اعتراف کرنا ایک اعلیٰ انسانی صفت ہے۔ اس اعتراف کا نام شکر ہے۔ انسان کے اوپر سب سے بڑا احسان خدا کا ہے۔ اس لئے ہر انسان کو سب سے زیادہ خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے۔ اس شکر کی پہچان یہ ہے کہ آدمی روزمرہ کی زندگی میں خود اپنے جیسے لوگوںکے احسان کا اعتراف کرتا ہو۔ جس آدمی کے اندر یہ اعتراف نہ پایا جائے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ خدا کے احسان کے معاملہ میں بھی شکر کرنے والا نہیں۔ایک اعتبار سے شکر اور دوسرے اعتبار سے نا شکری دونوں ایک دل کے اندر جمع نہیں ہوسکتے۔ آدمی کے اندر یا تو دونوں کے لیے شکر ہوگا یا دونوں کے لیے نہیں ہوگا۔
— 045غلطی کے بعد نادم ہونا
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ ہر انسان خطا کا رہے اور بہتر خطا کاروہ ہے جو غلطی کرکے نادم ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ اصل غلطی غلطی کرنا نہیں ہے بلکہ اصل غلطی غلطی کرکے اعتراف نہ کرنا ہے۔
موجودہ دنیا امتحان کی دنیا ہے۔ یہاں آدمی کو ایسے حالات میں زندگی گزارنا ہوتا ہے جس میں بار بار غلطی کرنے کا امکان ہوتا ہے۔ اس لیے صحیح انسان کی اصل پہچان یہ نہیں ہے کہ وہ کبھی غلطی نہ کرے بلکہ یہ ہے کہ وہ غلطی پر اصرار نہ کرے۔ غلطی کرنے کے بعد فوراً اس کا ضمیر جاگ اٹھے۔ اپنی غلطی پر اس کے اندر شدید ندامت پیدا ہوجائے۔ غلطی کرنا اس کے لیے احتساب کے جذبہ کو جگانے کا ذریعہ بن جائے۔
— 046ضمیر کی آواز
پیغمبر اسلام سے آپ کے ایک ساتھی نے نیکی اور بدی کے بارے میں پوچھا۔ آپ نے جواب دیا کہ تم اپنے دل سے فتوی لے لو،یعنی اپنے دل سے پوچھ کر جان لو۔ نیکی وہ ہے جس پر تمہارا دل مطمئن ہو اور بدی وہ ہے جو تمہارے دل میں کھٹک پیدا کرے۔انسان کے اندر پیدائشی طورپر ایک صفت ہوتی ہے۔ یہ اس کا ضمیر ہے۔ ضمیر گویا سچائی کی عدالت ہے۔ ضمیر فوراً بتا دیتا ہے کہ کیاچیز حق ہے اور کیا چیز ناحق۔ کون سا رویہ درست ہے اور کون سا رویہ نادرست۔ آدمی اگر صرف یہ کرے کہ وہ اپنے ضمیر کی آواز کو سنے تو وہ اس کی رہنمائی کے لیے کافی ہو جائے گا۔
ضمیر ہمیشہ اپنا کام کرتا ہے۔ وہ ہر موقع پر بتاتا رہتا ہے کہ کیا ٹھیک ہے اور کیا ٹھیک نہیں۔ اگر آدمی غفلت نہ برتے تو اس کا ضمیر ہی اس کو سچائی کے راستہ پر قائم رکھنے کے لیے کافی ہو جائے گا۔
— 047امانت ادا کرو
قرآن میں جو احکام آئے ہیں ان میں سے ایک حکم یہ ہے کہ اے لوگو،امانت داروں کو ان کی امانت ادا کرو، یہ قرآنی حکم ایک جامع حکم ہے اور اس کا تعلق پوری زندگی سے ہے۔
امانت کی ایک صورت یہ ہے کہ کسی کا مال آپ کے پاس بطور امانت ہو تو اس کو اس کے مالک تک ٹھیک ٹھیک پہنچانا فرض ہے۔ اسی طرح کسی تعلیم گاہ کا ایک معلّم بھی امین ہے اور طلبہ اس کی امانت میں ہیں۔ معلّم کو چاہئے کہ وہ اپنی ذمّہ داری کو سمجھے اور جو انسانی نسلیں اس کی امانت میں دی گئی ہیں ان کے حقوق ادا کرنے میںوہ کوئی کمی نہ کرے۔ اسی طرح جب کوئی شخص کسی ملک کا حاکم بنے تو وہ ملک اس کی امانت میں آگیا اور وہ اس کا امین بن گیا۔ ایسی حالت میں حاکم پرفرض ہے کہ وہ ان امیدوں کو پورا کرے جن کے تحت اس کو یہ امانت دی گئی ہے۔
— 048امن کلچر
اسلام کی ایک تعلیم یہ ہے کہ جب ایک شخص دوسرے شخص سے ملے تو دونوں ایک دوسرے کو السلام علیکم کہیں۔ یعنی تمہارے اوپر سلامتی ہو، تمہارے اوپر سلامتی ہو۔ اسلام در اصل امن کلچر ہے اور السلام علیکم کہنا اس امن کلچر کی ایک علامت ۔
اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ ہر آدمی کے دل میں دوسرے کے لیے رحمت اور شفقت کے جذبات ہوں۔ ہر آدمی دوسرے آدمی کے لیے پر امن زندگی کی تمنارکھتا ہو۔ ہر آدمی کی یہ کوشش ہو کہ اس کا سماج امن اور سلامتی کا سماج بن جائے ۔یہ اسلام کی بنیادی تعلیم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی تمام تعلیمات براہ راست یا بالواسطہ طورپر امن کے اصول پر مبنی ہیں کیوں کہ امن کے بغیر کوئی بھی تعمیری کام نہیں کیا جاسکتا۔ جہاں امن نہ ہو وہاں ترقی بھی نہ ہوگی۔ امن کسی سماج کی ترقی کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ پانی زمین کو زرخیز بنانے کے لیے۔
— 049امن پسندی
پیغمبر اسلام نے اپنی ایک نصیحت میں فرمایا: تم دشمن سے مدبھیڑ کی تمنا نہ کرو بلکہ اللہ سے عافیت مانگو۔ اس حدیث میں زندگی کا ایک بنیادی اصول بتایا گیا ہے۔ اس اصول کی اہمیت فرد کے لیے بھی ہے اور قوم کے لیے بھی۔کوئی انسان جب اجتماعی زندگی میںرہتا ہے تو ایک اور دوسرے کے درمیان اختلافات پیدا ہوتے ہیںحتیٰ کہ دشمنی کی صورتیںپیدا ہوجاتی ہیں۔ مگر یہ طریقہ درست نہیں کہ کوئی شخص دشمن نظر آئے تو آپ اس سے لڑنے کے لیے تیار ہوجائیں۔ اس کے بجائے صحیح طریقہ یہ ہے کہ دشمن سے بھی ٹکراؤ کا طریقہ اختیار نہ کیا جائے بلکہ امن کے اصول پر چلتے ہوئے اس سے نباہ کرنے کی کوشش کی جائے۔
پر امن طریقہ ہر حال میں قابل عمل ہے۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ آدمی دشمنی کی صورت پیدا ہونے کے بعد منفی نفسیات کا شکار نہ ہو۔
— 050پر امن شہری
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ مسلم وہ ہے جس کے ہاتھ سے اور جس کی زبان سے لوگ محفوظ رہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کا سچّا بندہ وہ ہے جو سماج میںبے تشدد بن کر رہے۔ دوسروں کو نہ اس کی زبان سے کوئی چوٹ پہنچے اور نہ اس کے ہاتھ سے کسی کو تکلیف کا تجربہ ہو۔یہ انسانیت کا کم سے کم معیار ہے۔ انسانیت کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ مرد اور عورت اپنے سماج میں اس طرح رہیں کہ ایک سے دوسرے کو فائدہ پہنچ رہا ہو۔ اوراگر کوئی شخص دوسروں کو فائدہ نہ پہنچاسکے تو اس کو کم ازکم یہ کرنا چاہئے کہ وہ اپنے سماج میں بے مسئلہ انسان بن جائے۔ وہ دوسروں کو اپنے ضرر سے بچائے۔
کوئی آدمی جب اپنی زبان یا اپنے ہاتھ سے دوسروں کو نقصان پہنچانے لگے تو وہ اپنی انسانیت کو کھو دیتا ہے۔ وہ انسانیت کی سطح سے گر کر حیوانیت کی سطح پر آجاتا ہے۔ انسانیت کا سچا معیار یہ ہے کہ آدمی اتنا حسّاس ہو کہ وہ دوسروں کے لیے ضرر رساں بننے کا تحمّل نہ کرسکے۔
جو آدمی اس معاملہ میں حسّاس ہو وہ دوسروں کو نقصان پہنچا کر خوش نہیں ہوگا بلکہ یہ سمجھے گا کہ میں نے خود اپنے آپ کو انسانیت کی سطح سے نیچے گرا لیا ہے۔ اگر کبھی اس کی ذات سے کسی کو نقصان پہنچ جائے تو وہ فوراً شرمندہ ہوجائے گا اور نقصان کی تلافی کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس کو اس وقت تک چین نہ آئے گا جب تک کہ وہ اپنے بھائی سے معافی نہ مانگ لے یا اپنی کوتاہی کی تلافی نہ کرلے۔
— 051نقصان سے بچو
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ اسلام میں نہ نقصان اٹھانا ہے اور نہ نقصان پہنچانا۔ یہ حدیث ایک اہم اجتماعی اصول کو بتاتی ہے۔ اس اصول کا تعلق مرد سے بھی ہے اور عورت سے بھی، فرد سے بھی ہے اور جماعت سے بھی، وہ قومی زندگی کے لیے بھی ہے اور بین اقوامی زندگی کے لیے بھی۔
موجودہ دنیا میں ہر آدمی کو مختلف حالات کے درمیان رہنا پڑتا ہے، کبھی موافق حالات اور کبھی مخالف حالات، کبھی خوشی کے حالات اورکبھی غم کے حالات۔ ایسی حالت میں کوئی مرد یا عورت دنیا میں کیسے رہے، اس کے لیے یہ ایک جامع اصول ہے۔ وہ یہ کہ ہر آدمی ایک طرف اس طرح بے ضرربن کر رہے کہ اس کی ذات سے کسی کو کو ئی تکلیف نہ پہنچے اور دوسری طرف وہ اتنا ہوشیار رہے کہ کسی دوسرے کو یہ موقع نہ ملے کہ وہ اس کو نقصان پہنچا سکے۔
— 052زیادہ بڑی طاقت
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ خدا نرمی پر وہ چیز دیتا ہے جو وہ سختی پر نہیں دیتا۔ ان الفاظ میں قدرت کا ایک قانون بتایا گیا ہے۔وہ یہ کہ دنیا کو بنانے والے نے اس کو اس طرح بنایا ہے کہ یہاںنرمی اور عدم تشدد سے کام بنے اور سختی اور تشدد سے کا م بگڑ جائے۔ نرمی اور عدم تشدد سے مفید نتیجہ نکلے اور سختی اور تشدد کا طریقہ بے نتیجہ ہو کر رہ جائے۔
سختی اور تشدد کا طریقہ دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے کافی ہوسکتا ہے مگر وہ کسی تعمیری مقصد کے حصول کے لیے مفید نہیں۔ تعمیر و ترقی کا کام ایک ایسا طریقِ کار چاہتا ہے جو شروع کرنے کے بعد مسلسل جاری رہے۔ پائدار عمل کی یہ صفت صرف غیر متشددانہ طریق کار میں پائی جاتی ہے۔
— 053صلح بہتر ہے
قرآن کی ایک آیت میںلوگوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا گیاہے کہ—صلح بہتر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی نزاعی معاملہ پیش آئے تو اس وقت بہتر یہ ہے کہ لوگ ٹکراؤ کے طریقہ کواختیار نہ کریں بلکہ مفاہمت کے طریقہ کو اختیار کریں۔زندگی میںبار بار ایسا ہوتا ہے کہ ایک اور دوسرے کے درمیان کوئی نزاع پیش آجاتی ہے۔ ایسی حالت میں لوگوں کے لیے دو ممکن طریقہ ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ ٹکراؤ اور تشدد کے ذریعہ اس کو حل کرنے کی کوشش کی جائے اور دوسرا یہ کہ پر امن گفت و شنید کے ذریعہ آپس میں مصالحت کر لی جائے اور نزاع کو ابتدائی مرحلہ ہی میں ختم کر دیا جائے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ مصالحت کا طریقہ ہی دونوں فریقوں کے لیے مفید ہے۔ ٹکراؤ کا طریقہ ہمیشہ الٹا نتیجہ پیدا کرتا ہے۔ اس میں آپس کی نفرت بڑھتی ہے۔ اور جہاں تک اصل مسئلہ کا تعلق ہے وہ بھی حل نہیںہوتا۔ اگر لوگ معاملہ کو نتیجہ کے پہلو سے دیکھیں تو وہ کبھی ٹکراؤ کا راستہ اختیار نہ کریں، کیوں کہ ٹکراؤ کا راستہ آدمی کو تباہی کے سوا اور کہیں نہیں پہنچاتا۔
— 054سماجی خدمت
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ خدا کے جو سچے بندے ہیں ان کے مال میں سائل اور محروم کاحق ہوتا ہے۔ سائل سے مراد وہ شخص ہے جو بول کر سوال کرے اور محروم سے مراد وہ شخص ہے جو خواہ سوال نہ کرے مگر اس کی معذوری اپنے آپ ایک عملی سوا ل بن گئی ہو۔
خدا کے سچے بندے اپنی کمائی کو اس وقت تک اپنے لئے درست نہیں سمجھتے جب تک وہ اس میں سے سائل اور محروم کو اس کا حصہ نہ دے دیں۔ یہ تعلیم ہر انسان کو اپنے سماج کا خادم بنا دیتی ہے۔ وہ جس سماج سے اپنے لیے لیتا ہے، اس سماج کو دینا بھی وہ اپنا فرض سمجھتاہے۔
سائل سے مراد عام ضرورت مند ہیں۔ محروم سے مراد خاص طورپر وہ لوگ ہیں جو کسی وجہ سے معذور(disabled) ہوگئے ہوں۔ معذور لوگوں کی خدمت کرنا اسلام کے نزدیک صرف سماجی خدمت نہیں ہے ۔یہ خود اپنے آپ کو خدا کی ابدی رحمت کا مستحق بناناہے۔
— 055تمام انسان ایک
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ سن لو کہ تمام لوگ آدم کی اولاد ہیں اور سن لو کہ آدم مٹی سے تھے۔ یہ حدیث اس حقیقت کا اعلان ہے کہ تمام انسان برابر ہیں۔ ان میں کچھ ظاہری فرق ہو سکتے ہیں مگر حقیقت کے اعتبار سے ایک اور دوسرے میں کوئی فرق نہیں۔
یہ حدیث انسانی تعلقات کے ایک اہم اصول کو بتاتی ہے۔ اوروہ مساوات کا اصول ہے۔ سارے انسان جب ایک ہی مادّہ سے پیدا ہوئے ہیں اور سب ایک مرد اور ایک عورت کی اولاد ہیںتو ان میں تفریق اور امتیاز اپنے آپ ختم ہو جاتا ہے۔ اس کے مطابق، تمام مرد ایک دوسرے کے خونی بھائی (blood brothers) ہیں۔ اور تمام عورتیں ایک دوسرے کے لیے خونی بہن (blood sisters) ہیں۔یہ اصول انسان اور انسان کے درمیان امتیاز کی تمام بنیادوں کو ڈھا دیتا ہے۔
— 056مشورہ کی اہمیت
قرآن میںمعاملات پر مشورہ کی تاکید کی گئی ہے۔ پیغمبر اسلام کے بارے میں روایت میںآتا ہے کہ آپ معاملات میں ہمیشہ لوگوں سے مشورہ کرتے تھے۔مشورہ کیا ہے۔ مشورہ یہ ہے کہ کسی پیش آمدہ مسئلہ میں ہر ایک کی رائے معلوم کی جائے۔ اس طرح ہر آدمی کا علم اور تجربہ سامنے آجاتا ہے اور یہ ممکن ہوجاتاہے کہ زیادہ بہتر انداز میںمعاملہ کو حل کرنے کی تدبیر کی جائے۔ زیادہ صحیح منصوبہ بندی کے ساتھ کام کا آغاز کیاجائے۔ مشورہ کے بغیر جو کام کیا جائے وہ ایک شخص کی سوچ پر مبنی ہوگا اور مشورہ کے بعد جو کام کیا جائے اس میں کئی لوگوں کی سوچ شامل ہوجائے گی۔
مشورہ در اصل اجتماعی سوچ کا دوسرا نام ہے۔ انفرادی سوچ اور اجتماعی سوچ میں جوفرق ہے وہی فرق مشورہ کے بغیر کام اور مشورہ کے ساتھ کام میں پایا جاتا ہے۔ مختلف اسباب سے ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص کا ذہن ہر پہلو کو سمجھ نہیں پاتا۔ مشورہ اسی کمی کی تلافی ہے۔ مشورہ کے ذریعہ یہ ممکن ہوجاتاہے کہ معاملات میں زیادہ درست رائے تک پہنچا جائے۔ پیشگی طورپر غلطیوں سے بچنے کی تدبیر کرلی جائے۔ مشورہ کامیاب منصوبہ بندی کا ایک اہم جزء ہے۔
— 057ترک کلام نہیں
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ کسی آدمی کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ بول چال بند رکھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی سے جھگڑا ہوجائے اور ترک کلام کی نوبت آجائے تو زیادہ سے زیادہ اس کو تین دن کی معافی مل سکتی ہے۔ تین دن سے زیادہ بول چال بند رکھنا کسی حال میں جائز نہیں۔اس معاملہ میںتین دن کی رخصت اس لیے دی گئی ہے کہ غصہ زیادہ سے زیادہ تین دن تک رہ سکتا ہے۔ اس کے بعد وہ انا کا سوال بن جاتا ہے ۔کسی کو غصّہ کی معافی مل سکتی ہے مگر اَنانیت کی معافی کسی کے لیے نہیں۔ غصہ ایک فطری کمزوری ہے جووقتی طورپر پیدا ہوتی ہے مگر انانیت ایک برائی ہے۔ انانیت ایک سرکشی کا معاملہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غصہ قابل معافی ہے مگر انانیت اور سرکشی قابل معافی نہیں۔ وقتی غصہ کے لئے آدمی کے پاس عذر ہوسکتا ہے مگر انانیت اور سرکشی ایک ایسا جرم ہے جس کے لیے کوئی بھی قابل قبول عذر موجود نہیں۔
— 058ماننے سے پہلے جانچنا
قرآن میں حکم دیا گیا ہے کہ جب تمہیں کسی کے بارے میںکوئی خبر ملے تو پہلے اس کی تحقیق کرو۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ تحقیق کے بغیر کسی خبر کو مان لینا ایک غیر ذمہ داری کا فعل ہے۔
عام طورپر لوگوں کا مزاج یہ ہوتا ہے کہ جو سنا یا جو کچھ پڑھا اس کو فوراً مان لیا۔ حالاں کہ تجربہ بتاتا ہے کہ خبر دینے والا اکثر ایسا کرتا ہے کہ وہ ساری بات کو جانے بغیر خبر نشر کردیتا ہے۔ جب کہ تحقیق کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ وہ خبر بھی ادھوری تھی اور اس سے جو نتیجہ نکالا گیا وہ بھی ادھورا تھا۔
تحقیق کے بغیر کسی خبر کو مان لینا اکثر حالات میںنقصان کا سبب ہوتا ہے۔ اس سے بدگمانیاں پیدا ہوتی ہیں۔ لوگ ایک دوسرے کے بارے میں غلط رائے قائم کرلیتے ہیں۔ حتیٰ کہ بعض اوقات ایک غلط خبر لڑائی اور فساد کا سبب بن جاتی ہے۔ایسی حالت میں ذمہ داری کا تقاضا یہ ہے کہ خبر کی پوری تحقیق کی جائے، تحقیق کے بغیر کسی خبر کو درست نہ مان لیاجائے۔
— 059تمام انسان بھائی بھائی
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ اے خدا، میں گواہی دیتا ہوں کہ تمام بندے آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ یہ حدیث انسانی تعلق کی بنیاد کو بتاتی ہے۔ اس کے مطابق، تمام دنیا کے لوگ ایک خاندان کے مانند ہیں۔ ہر ایک کو چاہئے کہ وہ دوسرے کے ساتھ وہی سلوک کرے جو وہ اپنے گھر کے اندر اپنے بھائی سے کرتا ہے۔یہ اصول عالمی برادری کا اصول ہے۔ یہ اصول اپنے اور غیر کی تقسیم کو مٹا دیتاہے۔ اس کے بعد سب اپنے ہوجاتے ہیں۔ کوئی کسی کا غیر نہیں رہتا۔ یہ اصول تمام انسانی نسل کو ایک ایسے مضبوط رشتے میں باندھ دیتا ہے جس سے زیادہ مضبوط کوئی اور رشتہ نہیں۔
— 060تین چیزیں حرام
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ ایک انسان پر دوسرے انسان کی تین چیزیں حرام ہیں—اس کا خون اور اس کا مال اور اس کی آبرو۔یہ اصول ایک انسان اور دوسرے انسان کے درمیان آزادی کی حد قائم کرتا ہے۔ ہر انسان آزاد ہے۔ مگر اس کی آزادی وہاںختم ہوجاتی ہے جہاں وہ دوسرے کی جان مال اور آبرو کے لیے خطرہ بن جائے۔
انسان کواس دنیا میں آزادی دی گئی ہے کیوں کہ آزادی کے بغیر کوئی ترقی نہیں ہوسکتی۔ مگر یہ آزادی محدود ہے نہ کہ لامحدود۔ کسی آدمی کو اسی وقت تک آزادی حاصل ہے جب تک وہ دوسرے کی جان مال اور آبرو کو نقصان نہ پہنچائے۔ جیسے ہی کوئی آدمی ان تین چیزوں میںدوسروں کے لیے خطرہبنے، اس کی آزادی ختم ہو جائے گی۔ وہ آزادی کے فطری حق سے محروم قرار دے دیا جائے گا۔
— 061ہر شخص ذمہ دار ہے
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ سن لو، تم میں سے ہر شخص ایک چرواہا ہے۔ اور تم میں سے ہر شخص سے اس کے گلّہ کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ اس حدیث میں چرواہے اور گلّے کی مثال سے زندگی کی ایک حقیقت کو بتایا گیا ہے۔ جس طرح چرواہے کا گلّہ ہوتاہے اسی طرح ہر انسان کا اپنے حالات کے اعتبار سے ایک گلّہ ہے۔ اور اس پر فرض ہے کہ وہ اپنے اس گلّہ کی چرواہی میں اپنی ذمہ داری کو پو را کرے۔
مثلاً ایک گھر کا جو بڑا شخص ہے اس کا گلّہ اس کا خاندان ہے۔ اس کا فرض ہے کہ وہ اپنے خاندان کے سلسلہ میں اپنی ذمہ داریوں کو نبھائے۔ اسی طرح ایک اسکول یا کالج کا ایک ٹیچر اپنے طلبہ کا ذمہ دار ہے۔ اس کا فرض ہے کہ وہ طلبہ کے حق میںاپنی تعلیمی ذمہ داری کو بھر پور طور پر ادا کرے۔ اسی طرح ایک لیڈر اپنے پیروؤں کا ذمہ دار ہے۔ اس کا فرض ہے کہ جو لوگ اس کا ساتھ دے رہے ہیں وہ پوری طرح ان کا خیر خواہ بنے۔ اسی طرح کسی ادارے کا صدر اپنے ادارے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا ذمہ دار ہے۔اس کا فرض ہے کہ وہ ان متعلقین ادارہ کے بارے میں اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرے۔
— 062ہر ایک کی مدد
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ تم اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ لوگوں نے پوچھا کہ مظلوم کی مدد کرنا تو ہم جانتے ہیں مگر ہم ظالم کی مدد کیسے کریں۔ آپ نے فرمایا کہ تم ظالم کو اس کے ظلم سے روکو۔اسلام ہر انسان کے اندر یہ اسپرٹ پیدا کرنا چاہتا ہے کہ وہ دوسرے انسان کا خیر خواہ ہو۔ اسی خیر خواہی کی عملی صورت کا نام مدد ہے۔ مظلوم کی مدد یہ ہے کہ اس کو ظلم سے بچایا جائے۔ ظالم کی مدد یہ ہے کہ اس کو اس کے ظلم سے روکا جائے۔ظلم سے روکنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کے ساتھ ٹکراؤ شروع کردیا جائے۔ ظالم کی حقیقی مدد یہ ہے کہ اس کی اصلاح کے لیے دعا کی جائے۔ اس کو خیر خواہانہ نصیحت کی جائے۔ ایسے حالات پیدا کیے جائیں کہ اس کواپنی غلطی کا احساس ہو اور وہ ظلم کو چھوڑنے پر راضی ہوجائے۔ ظالم کی مدد ظالم سے نفرت کرنا نہیں ہے بلکہ ظالم کے ساتھ خیر خواہی کرنا ہے۔ نفرت ظلم کو بڑھاتی ہے اور خیر خواہی ظلم کا خاتمہ کردیتی ہے۔
— 063نرم سلوک
پیغمبر اسلام نے اپنے ساتھیوں کو ایک مہم پر بھیجا اوران کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ تم لوگوں کے ساتھ نرمی کا معاملہ کرنا کیوں کہ تم آسانی پیدا کرنے والے بنا کر بھیجے گئے ہو، تم دشواری پیدا کرنے والے بنا کر نہیں بھیجے گئے۔ اس حدیث کا تعلق ہر شعبہ میںکام کرنے والوں سے ہے۔ اس میں ہر ایک کے لیے نصیحت ہے۔ مثلاً ایک افسر کو اپنے ماتحتوں کے ساتھ اسی اصول پر کام کرنا ہے۔ ایک ٹیچر کو اپنے طلبہ کے ساتھ یہی معاملہ کرنا ہے۔ ایک منیجر کو اپنی کمپنی والوں کے ساتھ اسی طرح پیش آنا ہے، وغیرہ۔
ہر آدمی کو چاہئے کہ وہ اس نصیحت کو دھیان میں رکھے۔ وہ یہ سمجھے کہ وہ جہاں ہے وہاں اس کو خدا کی طرف سے بھیجا گیا ہے۔ اسے لوگوں کو مشکل میں نہیں ڈالنا ہے بلکہ ان کے لیے آسانی کا راستہ تلاش کرنا ہے۔
— 064رحم کا فارمولا
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ تم زمین والوں کے اوپر رحم کرو، آسمان والا تمہارے اوپر رحم کرے گا۔ یہ ایک سادہ اصول ہے جو ہر مرد اور عورت کے اندر خیر کے کام کا وہ جذبہ ابھارتا ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا۔
ہر انسان خدا کی مدد کا محتاج ہے۔ ہر عورت اورمرد کو ضرورت ہے کہ وہ زندگی کے مختلف مراحل میں خدا کی مدد پاتا رہے۔ کوئی بھی شخص اس دنیا میں خدا کی مدد کے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتا۔
اپنے آپ کو خدا کی مدد کا مستحق بنانے کی سب سے آسان صورت یہ ہے کہ آدمی جو کچھ خود اپنے لئے خدا سے چاہتا ہے وہی وہ دوسروں کو دینے لگے۔ وہ چاہتا ہے کہ خدا اس کی مدد کرے تو اس کو بھی چاہئے کہ وہ دوسروں کا مدد گار بن جائے۔ وہ چاہتا ہے کہ خدا اس کے ساتھ نرمی کا معاملہ کرے تو وہ بھی دوسروں کے ساتھ نرمی کا معاملہ کرے۔ وہ چاہتا ہے کہ خدا اس کی کوتاہیوں سے درگزر کرے تو اس کو چاہئے کہ وہ بھی دوسروں کی کوتاہیوں سے در گزر کرتا رہے۔
انسان کے ساتھ نرمی اور شفقت کا معاملہ کرنا گویا ایک عملی دعا ہے۔ یہ عمل کی زبان میں خدا سے یہ کہنا ہے کہ خدایا، میں نے تیرے بندوں کے ساتھ نرمی اور شفقت کا معاملہ کیا، تو تو بھی میرے ساتھ نرمی اور شفقت کا معاملہ فرما۔
— 065باہمی احترام
قرآن میںپیغمبر کی زبان سے کہلایا گیا ہے کہ اے لوگو، تمہارے لیے تمہارا دین اور میرے لیے میرا دین۔ یہ آیت بتاتی ہے کہ کسی سماج میںجب کئی مذہب کے لوگ رہتے ہوں تو ان کے درمیان معتدل ماحول کس طرح قائم کیا جائے۔ اس کا سادہ فارمولا یہ ہے کہ —ایک کی پیروی کرو اور ہر ایک کا احترام کرو:Follow one and respect all.۔
مشترک مذہبی سماج میں امن قائم کرنے کا یہی واحد اصول ہے۔ یہ دنیا اختلاف کی دنیا ہے۔ اس دنیا میں اختلافات کو ختم کرنا ممکن نہیں۔ ایسی حالت میں قابل عمل فارمولا صرف ایک ہے اور وہ tolerance ہے۔ یعنی ہر ایک کو یہ حق دینا کہ وہ اپنی پسند کے مطابق، مذہب یا کلچر کو اختیار کرے۔ اختلاف کے موضوع پر ایک دوسرے سے پر امن ڈائیلاگ ہوسکتا ہے مگر اختلاف کو مٹانے کی کوشش صرف مزید اختلاف پیدا کرے گی، اس کے سوا اور کچھ نہیں۔
— 066مذہبی احترام
پیغمبر اسلام کے زمانہ میں مدینہ میں کچھ یہودی قبیلے آبادتھے۔ ایک دن پیغمبر اسلام نے دیکھا کہ ایک راستے سے ایک جنازہ گزر رہا ہے۔ پیغمبر اسلام اس وقت بیٹھے ہوئے تھے۔ جنازہ کو دیکھ کر آپ اس کے احترام میں کھڑے ہوگئے۔ آپ کے ایک ساتھی نے کہا کہ اے خدا کے رسول، یہ تو ایک یہودی کا جنازہ تھا۔ آپ نے فرمایا کہ کیا وہ انسان نہیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ انسان ہر حال میںقابل احترام ہے، خواہ وہ ایک مذہب کا ہو یا دوسرے مذہب کا، وہ ایک قوم کا فرد ہو یا دوسری قوم کا۔ کسی بھی عذر کی بنا پر اس کا احترام ختم نہیں کیا جاسکتا۔حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان ایک ہی خدا کا پیدا کیا ہوا ہے۔ اس اعتبار سے تمام انسان یکساں طور پرقابل احترام ہیں۔
— 067دشمن میں دوست
قرآن میںبتایا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص تم کو اپنا دشمن دکھائی دے تو تم اس سے جوابی دشمنی نہ کرو بلکہ اس کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ اس یک طرفہ سلوک کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تمہارا دشمن تمہارا دوست بن جائے گا۔ اسلام کی یہ تعلیم بتاتی ہے کہ دشمنی کوئی ابدی چیز نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر دشمن انسان میںایک دوست انسان چھپا ہوا ہے۔ اپنے یک طرفہ حسن سلوک سے اس امکان کو واقعہ بناؤ، اپنے دشمن کو اپنے دوست میں تبدیل کرلو۔
جوابی حسن سلوک آدمی کے ضمیر کو جگاتا ہے اور جس آدمی کا ضمیر جاگ اٹھے وہ اس کے سوا کسی روش کا تحمل نہیں کرسکتا کہ وہ دشمنی کو چھوڑ کر آپ کا دوست بن جائے۔
— 068نرمی کے بغیر
پیغمبر اسلام نے فرمایاکہ جوشخص نرمی سے محروم ہے وہ ہر بھلائی سے محروم ہے۔ یہ حدیث ایک جامع اخلاقی اصول کو بتاتی ہے اور وہ بات چیت اور تعلقات میںنرمی ہے۔
جو آدمی نرمی کا انداز اختیار کرے وہ ہر معاملے میں اور ہمیشہ کامیاب رہے گا۔ کیوں کہ کوئی شخص ایسے آدمی کا دشمن نہیں بنے گا۔ اس کے برعکس جو آدمی دوسروں سے معاملہ کرنے میںنرمی کا انداز نہ برتے اس کا ہر کام بگڑتا چلا جائے گا کیوں کہ اس سے ہر ایک کو شکایت ہوجائے گی۔ اس کو مخالفوں اور دشمنوں کے درمیان رہنا پڑے گا۔ وہ گھر کے اندر اورباہر دونوں جگہ غیر ضروری مسائل میں الجھا رہے گا۔
— 069سادگی کی عظمت
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ سادگی ایمان کا ایک حصہ ہے۔ سادگی کو ایمان کا حصہ بتانا سادگی کی انتہائی اہمیت کو ظاہر کرتاہے۔ سادگی بامقصد انسان کا طریقہ ہے۔ با مقصد انسان اس کا تحمل نہیں کرسکتا کہ وہ سہولت اور عیش کی چیزوں میں مشغول ہوجائے اور اس طرح اپنے وقت اور طاقت کا ایک حصہ اس میں لگادے۔سادگی کا مطلب ہے— اپنی ضرورت کو بالکل ناگزیر چیزوں تک محدود رکھنا۔ اپنے آپ کو کسی غیر ضروری چیز کا عادی نہ بنانا، اپنے آپ کو آرام والی چیزوں سے دور رکھنا۔ سادگی در اصل ایک اعلیٰ تدبیر ہے۔ سادگی کے ذریعہ یہ ممکن ہوجاتا ہے کہ آدمی اپنی زندگی کو مکمل طورپر صرف اپنے مقصد میں لگائے۔ اس کی زندگی کا کوئی حصہ مقصد کے علاوہ کسی اور چیز میں ضائع نہ ہو۔
کسی انسان کی ترقی کے لیے سب سے زیادہ ضروری چیز یہ ہے کہ اس کے اندر سوچنے کا عمل (thinking process) بلا روک ٹوک جاری رہے۔ سادگی اس ذہنی عمل میں بے حد مددگار ہے۔ سادگی آدمی کے ذہن کو ہر دوسری چیز سے فارغ رکھتی ہے۔
— 070صفائی کی اہمیت
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ صفائی بھی ایمان کاایک شعبہ ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صاف ستھرا رہنا اور اپنے ماحول کو صاف ستھرا بنانا اسلام میںکتنا زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔
اسلام اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ ہے کہ آدمی اپنے قلب اور روح کو پاک کرے۔ وہ برے خیالات کو چھوڑ کر پاکیزہ خیالات میں جینے لگے۔ وہ اپنے داخلی وجود کو اسی طرح اچھے خیالات سے پاکیزہ بنائے جس طرح کوئی شخص اپنے جسم کو پانی سے دھو کر پاکیزہ بناتاہے۔
کوئی آدمی جب اپنے داخل کو صاف ستھرا بنائے گا تو فطری طورپر وہ یہ چاہے گا کہ اس کا خارج بھی صاف ستھرا رہے۔ وہ اپنے جسم اور اپنے کپڑے کی صفائی کا اہتمام کرے گا۔ وہ اپنے گھراور اپنے ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کی کوشش کرے گا۔ صفائی ایسے انسان کا مستقل مزاج بن جائے گی۔
— 071بیچ کا راستہ
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ سب سے بہتر طریقہ بیچ کا طریقہ ہے (خیر الامور اوسطہا) اس تعلیم کو دوسرے لفظوں میں اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ سب سے بہتر راستہ بیچ کا راستہ (middle path) ہے۔
موجودہ دنیا میں آدمی کو بہت سے لوگوں کے درمیان زندگی گزارنا ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں بہتر طریقہ وہ ہے جس میں آدمی کا راستہ کسی رکاوٹ کے بغیر طے ہوتا رہے اور کسی سے ٹکراؤ بھی پیش نہ آئے ۔ اسی راستہ کو بیچ کا راستہ کہا جاتا ہے۔بیچ کا طریقہ ہمیشہ معتدل طریقہ ہوتاہے۔ معتدل طریقہ ہمیشہ قابل عمل ہوتا ہے۔ ایسے طریقہ میںآدمی اپنے آپ کو کسی بڑے خطرہ میں ڈالے بغیر آگے بڑھ سکتاہے۔ معتدل طریقہ میںکسی ایسے بڑے نقصان کا اندیشہ نہیں ہوتا جس کے بعد آدمی کا پورا منصوبہ بکھر جائے اور آخر کار وہ مایوسی کا شکار ہو کر بیٹھ جائے۔
— 072تواضع سے بلندی
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ جوشخص تواضع کا طریقہ اختیار کرے خدا اس کو بلندی عطا کرتا ہے۔ یہ خدا کا مقرر کیا ہوا ایک قانون ہے۔ اس کے مطابق، تواضع کی روش آدمی کے لیے ترقی کے راستے کھولتی ہے۔ اس کے برعکس گھمنڈ کا طریقہ آدمی کو پستی کی طرف لے جاتا ہے۔تواضع کا فائدہ دو طرفہ ہے۔ تواضع کرنے والے کواس کا یہ فائدہ ملتا ہے کہ اس کے اندر روحانیت جاگتی ہے، اس کے اندر اعلیٰ انسانی صفات پیدا ہوتی ہیں۔ وہ خدا کے فیضان کو وصول کرنے لگتا ہے۔ اس کے اندر حقیقت پسندی کا مزاج پیدا ہوجاتا ہے۔ وہ اس قابل ہوجاتاہے کہ چیزوں کو بے آمیز انداز میں دیکھ سکے۔
وہ شخص جس سے تواضع کا معاملہ کیاجائے وہ اپنے ضمیر کی آواز کے تحت تواضع کرنے والے کی عظمت کو ماننے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ وہ اس کے مقابلہ میں سرکشی کرنے کا جذبہ کھو دیتا ہے۔ وہ مجبور ہوجاتا ہے کہ اس کی اخلاقی بڑائی کو مانے۔ وہ اپنے مقابلہ میںاس کو زیادہ بڑا انسانی درجہ دے۔
تواضع صرف ایک روش ہے۔ اس میں آدمی کو کچھ خرچ نہیں کرنا پڑتا۔ تواضع کرکے اسے کچھ کھونا نہیں پڑتا۔ مگر کچھ نہ کھو کر وہ سب کچھ حاصل کرلیتاہے۔ تواضع کے خلاف روش اگر جھوٹی بڑائی ہے توتواضع کے مطابق روش سچی انسانیت۔
— 073فضول خرچی نہیں
قرآن میںاسراف (فضول خرچی) سے منع کیا گیا ہے۔ یعنی حقیقی ضرورت کے بغیر خرچ کرنا۔ پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ یہ بھی اسراف ہے کہ تم ہر وہ چیز کھاؤ جس کو کھانے کی خواہش تمہارے دل میں پیدا ہو۔ (إن من السرف أن تأکل کل مااشتہیت)
آدمی اپنی کمائی کو اگر حقیقی ضرورتوں میں خرچ کرے تو یہ اس کا جائز حق ہے۔ لیکن اگر وہ خواہش اور لذت کی بنا پر خرچ کرنے لگے تو پھر اس کا حق کسی کو نہیں۔ خدا نے اگر کسی کو زیادہ مال دیا ہے تو اس لیے نہیں دیا ہے کہ وہ اس کو صرف اپنے اوپر خرچ کرتا رہے۔ مال خدا کی امانت ہے اور اس کو چاہئے کہ اس امانت کو وہ انہی مدوں میں خرچ کرے جو خدا نے اس کے لیے مقرر کی ہیں۔جو آدمی ایسا نہ کرے وہ گویا خدا کی امانت میں پورا نہیں اترا۔
— 074اجتماعی برکت
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ ایک شخص کا کھانا دو آدمی کے لیے کافی ہے اور دو آدمی کا کھانا تین آدمی کے لیے کافی ہے۔ اس حدیث میں مل جل کر رہنے اور اجتماعی طورپر عمل کرنے کی برکت کو بتایا گیا ہے۔
اس حدیث میں کھانے کی مثال ایک علامتی مثال ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس حدیث کاتعلق زندگی کے تمام معاملات سے ہے۔ لوگ اگر ایک دوسرے کے ساتھ شرکت کرکے کام کریں اور مل جل کر رہیں تو تھوڑے لوگ بھی زیادہ بڑے بڑے کام کریں گے۔ تھوڑے سرمایہ میں بھی بہت سے لوگوں کونفع حاصل ہوگا۔ کم وسائل میں بھی زیادہ فائدہ حاصل کرنا ممکن ہوجائے گا۔ہر آدمی اگر الگ الگ اپنا کام کرے تو وہ محدود طور پر صرف اپنے آپ کو فائدہ پہنچائے گا۔ لیکن یہی افراد اگر ایک دوسرے کو شریک کرکے کام کرنے لگیں تو مجموعی طورپر سب کو ایک دوسرے سے فائدہ پہنچے گا۔
— 075انصاف کا تقاضا
پیغمبر اسلام نے ایک بار مدینہ کے ایک شخص سے قرض لیا ۔اس کے بعد وہ ایک دن آیا اور آپ سے قرض کی ادائیگیکے لیے سخت زبان استعمال کی۔ پیغمبر اسلام کے ساتھیوں نے چاہا کہ اس کو اس گستاخی کی سزا دیں۔ مگر آپ نے انہیں روک دیا۔ آپ نے کہا کہ حق دار کو بولنے کا اختیار ہے۔
یہ دوسرے کے ساتھ رعایت کرنے کا سبق ہے۔ دوسرا آدمی اگر کسی وجہ سے غصہ میں آجائے یا سخت کلامی کرے تو سننے والے کو اس کے ساتھ رعایت کا معاملہ کرنا چاہیے۔ اگر آدمی دوسرے کی سخت کلامی کو سننے کے لیے تیار نہیںتو اس کو چاہئے کہ وہ اس سے قرض جیسا معاملہ بھی نہ کرے۔ قرض لینے کے بعد اس کو بہر حال قرض دینے والے کو یہ حق دینا ہوگا کہ وہ اپنے جذبات کا اظہار جس طرح کرنا چاہتا ہے کرے۔ اس طرح کے معاملہ میں قرض لینے والے کو تحمّل کی روش اختیار کرنا چاہئے۔ وہ ایسا نہیں کرسکتا کہ برعکس طورپروہ قرض دینے والے کو تحمّل کی نصیحت کرے۔
— 076حق سے زیادہ نہ لینا
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ دو آدمی اگر میرے پاس ایک زمین کا مقدمہ لے کر آئیں۔ ان میں سے ایک شخص زیادہ ہوشیاری کے ساتھ اگر اپنا مقدمہ پیش کرے اور اس کی وجہ سے زمین اس کو دے دی جائے، جب کہ حقیقت میں وہ زمین اس کی نہ ہو تو گویا کہ اس کو آگ کا ایک ٹکڑا دیا گیا۔
اس سے معلوم ہوا کہ جو چیز آدمی کا واقعی حق نہ ہو، اس کے معاملہ میں اگر وہ کسی تدبیر سے اپنے موافق عدالتی فیصلہ لے لے تب بھی وہ چیز اس کی نہ ہوگی۔ کوئی عدالتی فیصلہ حقیقت کو نہیں بدل سکتا۔
حقیقت یہ ہے کہ کسی چیز پر ناجائز قبضہ ہر حال میںبرا ہے۔ عدالت کا کوئی فیصلہ ناجائز کوجائز نہیں بنا سکتا۔ اگر آدمی کا ضمیر یہ کہتا ہو کہ فلاں چیز میری نہیں ہے تو ایسی حالت میںاس کے لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ وہ اس چیز کو حق دار کے حوالہ کردے، نہ کہ غلط تدبیر کے ذریعہ ناجائز طور پر دوسرے کی چیز پر قابض ہونے کی کوشش کرے۔ضمیر سب سے بڑی عدالت ہے۔ سب سے بڑا فیصلہ وہ ہے جو ضمیر کی عدالت سے جاری کیا جائے۔
— 077جواپنے لیے وہی دوسروں کے لیے
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ مومن وہ ہے جودوسروں کے لیے بھی وہی پسند کرے جو وہ خوداپنے لیے پسند کرتا ہے۔ یہ سماجی اخلاق کا ایک نہایت جامع اصول ہے۔ ہر آدمی یہ جانتا ہے کہ دوسروں کی طرف سے کون سارویہ اس کو پسند ہے اور کون سا رویہ نا پسند۔ ایسا ہی وہ دوسروں کے ساتھ کرنے لگے۔ وہ دوسروں کے ساتھ وہی سلوک کرے جو سلوک وہ اپنے لیے چاہتا ہے اور دوسروں کے ساتھ اس سلوک سے بچے جس کو وہ اپنے لیے پسند نہیں کرتا۔
سماجی اخلاق کا یہ اصول اتنا سادہ اور فطری ہے کہ وہ ہر عورت اور ہر مرد کو معلوم ہے۔ ضرورت صرف یہ ہے کہ ہر آدمی اس معاملہ میں حسّاس ہوجائے۔ جس حسّاسیت کا مظاہرہ وہ اپنے بارے میں کرتا ہے اس حسّاسیت کا مظاہرہ وہ دوسروں کے بارے میں کرنے لگے۔ لوگ اگر اس ایک اخلاقی اصول کو پکڑ لیں تو پورا سماج خیر وامن کا سماج بن جائے۔
— 078معاشی استقلال
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ خدا جب کسی کے لیے رزق کا ایک ذریعہ بنائے تو وہ خود سے اسے نہ چھوڑے، إلاّ یہ کہ حالات کی مجبوری کی وجہ سے اسے چھوڑنا پڑے۔اسلام کی تعلیم کے مطابق، رزق کا تعلق خدا سے ہے۔ اس لیے جب کسی انسان کو رزق کا ایک ذریعہ مل جائے تو خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے وہ اس پر قائم رہے۔ اگر وہ کسی حقیقی سبب کے بغیر اس کو چھوڑے گا تو وہ خدا کی مدد سے محروم ہو جائے گا۔
معاشی زندگی میںکامیابی کا راز استقامت ہے۔ اس حدیث میں اسی استقامت اور استقلال کی تعلیم دی گئی ہے۔ معاشی زندگی میںکامیابی ہمیشہ لمبی مدت تک محنت کرنے کے بعد حاصل ہوتی ہے۔ آدمی کو چاہئے کہ وہ حال کے بجائے مستقبل پر نظر رکھے۔ اس طرح اس کے اندر استقلال پیدا ہوگا اور وہ ضرور کامیابی کے درجے تک پہنچے گا۔ یہ حدیث گویا اس بات کی تعلیم ہے کہ معاشی سرگرمیوں میںمستقبل بینی کا مزاج پیدا کرو۔ صرف حال کو دیکھ کر بے حوصلہ نہ ہوجاؤ۔
— 079رزق خدا کی طرف سے
قرآن میںبتایا گیا ہے کہ زمین پر جتنے بھی جاندار ہیں ہر ایک کی روزی خدا کے ذمّے ہے۔ پیغمبراسلام نے کہا کہ خدا نے کسی مرد یا عورت کا جورزق لکھ دیاہے کوئی اس کو چھین نہیں سکتا۔ کوئی شخص نہ اس میں کمی کر سکتا ہے اور نہ زیادتی۔یہ اعلان ہر مرد اور عورت کو رزق کی گارنٹی دے رہا ہے جس کو کوئی اس سے چھیننے والا نہیں۔ جس آدمی کے دل میں یہ بات بیٹھ جائے اس کو اس کے ذریعہ دو فائدے حاصل ہوں گے۔ ایک طرف اس کو یہ یقین حاصل ہوگا کہ جو کچھ اسے مل رہا ہے وہ اس کو بہرحال مل کر رہے گا۔ اس عقیدہ کی بنا پر وہ دنیا میں اس بھروسہ کے ساتھ کام کرے گا کہ میری کوششوں کا نتیجہ مجھے ضرور ملنے والا ہے۔ کوئی بھی اتنا طاقت ورنہیں کہ وہ میرے اور میرے رزق کے درمیان حائل ہوسکے۔ رزق میرا ایک ایسا حق ہے جو خود دنیا کے مالک نے میرے لیے لکھ دیا ہے۔ پھر کون ہے جو اس لکھے کو مٹا سکے۔
یہ عقیدہ آدمی کے اندر سے مایوسی کے احساس کو نکال دیتا ہے۔ وہ عین مسائل کے درمیان کھڑا ہو کر کہہ سکتاہے کہ— کوئی شخص میرے ایک جاب کو مجھ سے چھین سکتا ہے مگر کوئی شخص اتنا طاقت ور نہیں کہ وہ میری قسمت کو مجھ سے چھین سکے۔
One can take away my job. But no one has the power to take away my destiny.
— 080قناعت
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ وہ شخص کامیاب ہوا جس کو خدا نے ضرورت کے بقدر رزق دیا اور وہ اس رزق پر قانع رہا۔ اس سے معلوم ہوا کہ کامیابی کا راز ملے ہوئے پر قانع رہنا ہے نہ کہ نہ ملے ہوئے کے غم میںپڑے رہنا۔دنیا میںجب بھی کوئی شخص صحیح اصول کے مطابق کمانے کی کوشش کرے تو وہ ضرور اتنی معاش حاصل کرلیتا ہے جو اس کی ضرورتوں کے لیے کافی ہو۔ اگر وہ اس ملے ہوئے پر راضی ہو جائے تو اس کا فائدہ اس کو ذہنی سکون کی صورت میں ملے گا۔ لیکن سکون ہمیشہ قناعت سے ملتاہے اورقناعت کا مطلب ہے ملے ہوئے پر راضی ہوجانا۔
اس کے برعکس جو شخص ملے ہوئے کو کم سمجھے اور نہ ملے ہوئے کی طرف دوڑتا رہے وہ کبھی مطمئن نہیںہوگا۔ اس لئے کہ دنیا میںچیزوں کی کوئی حد نہیں۔ آدمی خواہ کتنی ہی زیادہ چیزوں کو اپنے پاس جمع کرلے پھر بھی کچھ چیزیں باقی رہیں گی جواس کو یہ لالچ دلائیں گی کہ مجھے یہ بھی حاصل کرنا چاہئے۔ اس طرح وہ ہمیشہ اور زیادہ کی لالچ میں پڑا رہے گا۔ وہ اسی طرح بے سکونی کی زندگی جئے گا یہاں تک کہ وہ اسی حال میں مرجائے گا۔
081 — کسی سے نہ مانگنا
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ تم کسی سے کچھ نہ مانگو۔ کیوں کہ نیچے کے ہاتھ کے مقابلہ میں اوپر کا ہاتھ زیادہ بہتر ہے۔ یہ اعلیٰ انسانیت کی تعلیم ہے۔ اعلیٰ انسانیت یہ ہے کہ آدمی خود اپنے آپ پر انحصار کرے۔ وہ دوسرے سے کوئی چیز نہ مانگے۔
مانگنا کوئی سادہ بات نہیں۔ وہ اخلاقی گراوٹ کی ایک علامت ہے۔ جو آدمی دوسروں سے مانگے وہ گویا آسان رزق پر جینا چاہتا ہے۔ ایسے آدمی کو مانگنے کی عادت کی یہ قیمت دینی پڑے گی کہ اس کی اپنی صلاحیت زیادہ نہ ابھر سکے۔ اس کے اندر چھپی ہوئی طاقتیں دبی رہ جائیں۔ اس کے اندر محنت کا جذبہ سرد پڑ جائے۔ وہ اس کمزوری کا شکار ہوجائے جس کو تن آسانی کہا جاتا ہے۔زندگی کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ پر بھروسہ کرے۔ وہ اپنے آپ کو محنت کاعادی بنائے۔ وہ خود اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرے۔ وہ دوسروں کو دینے والا بنے نہ کہ دوسروں سے لینے والا۔
082 — تجارت رزق کا بڑا ذریعہ
پیغمبر اسلام نے فرمایا: تسعۃ اعشار الرزق فی التجارۃ (رزق کا نوّے فیصد حصہ تجارت میںہے)۔ اس حدیث میںفطرت کے ایک قانون کو بتایا گیا ہے۔ وہ قانون یہ ہے کہ خدا کے تخلیقی نقشہ کے مطابق، تجارت میں رزق کا سب بڑا حصہ رکھا گیا ہے۔
یہ حدیث ہر آدمی کے لیے امید کا خزانہ ہے۔ اگر کسی آدمی کو ملازمت نہ ملے یا وہ وراثتی حقوق کو نہ پائے یا اور دوسرے ذرائع سے وہ کچھ پانے کی امید نہ رکھتا ہو تواس کوتجارت شروع کردینا چاہئے۔ تجارت کے ذریعہ وہ اتنا زیادہ پالے گا جو وہ دوسرے کسی ذریعہ سے نہیں پاسکتا تھا۔
083 — محنت کی روزی
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ اللہ اپنے اس بندہ سے محبت کرتا ہے جو محنت کرکے اپنی روزیکمائے۔ یہ حدیث محنت کی روزی کی اہمیت کو بتاتی ہے۔محنت کرکے روزی کمانا کوئی سادہ بات نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ محنت کی روزی تمام انسانی خوبیوں کا سرچشمہ ہے۔ محنت کی روزی سب سے زیادہ جائز روزی ہے۔ محنت سے روزی کمانا آدمی کو حقیقت پسند بناتا ہے۔ محنت کی روزی آدمی کے اندرسادگی کا مزاج پیدا کرتی ہے۔ محنت کی روزی دوسروں کو سمجھنے کا موقع دیتی ہے۔ محنت کی روزی آدمی کو سہولت پسندی سے بچاتی ہے۔ محنت کی روزی شخصیت کی تکمیل کا اہم ذریعہ ہے۔ اگر مجبوری نہ ہو تب بھی آدمی کو چاہئے کہ وہ اپنی زندگی کے لیے محنت کا طریقہ اختیار کرے، وہ ہر حال میں اپنے آپ کو آرام طلبی سے بچائے۔
084 — زبان پر روک
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات کو دہرانے لگے۔ یہ حدیث آداب کلام کے ایک اہم اصول کو بتاتی ہے۔ وہ یہ کہ آدمی کو چاہئے کہ وہ سوچے بغیر کبھی نہ بولے۔
اجتماعی زندگی میںبار بار ایسا ہوتا ہے کہ ہم دوسروں کے خلاف بہت سی باتیں سنتے ہیں۔ یہ تجربہ ہے کہ سنی ہوئی بات جب دہرائی جاتی ہے تو اکثر وہ کچھ سے کچھ ہو جاتی ہے۔ حتیٰ کہ بات اتنی بدل سکتی ہے کہ ایک سچی بات جھوٹی بات بن جائے۔ اس لیے صرف سننے کی بنیاد پر آدمی کو اسے کبھی دہرانا نہیں چاہئے۔ اچھی خبر کو دہرانے میں کوئی حرج نہیں لیکن اگر بری خبر ہو تو اس کو اس وقت تک نہیں دہرانا چاہئے جب تک تحقیق کرکے پوری بات معلوم نہ کر لی جائے۔
085 — غیبت کا کفارہ
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ غیبت کاایک کفارہ یہ ہے کہ تم اس کے لیے مغفرت کی دعا کرو جس کی تم نے غیبت کی ہے۔غیبت یہ ہے کہ آدمی کی غیر موجودگی میںاس کی کسی برائی کو بیان کیا جائے۔
غیبت ایک بد خواہی کا عمل ہے۔ جب کسی آدمی سے غیبت کی غلطی ہو جائے تواس کو چاہئے کہ وہ اس آدمی کے لیے خیر خواہی کا معاملہ کرے جس کی اس نے غیبت کی ہے۔ اور خیر خواہی کی ایک صورت یہ ہے کہ وہ اس کے حق میں اچھی دعائیں کرے۔ یہ غیبت کرنے والے کی طرف سے بد خواہی کے بعد خیر خواہی کا ایک معاملہ ہوگا جو اس کے گناہ کو اس سے پاک کردے گا۔
086 — جامع نصیحت
پیغمبر اسلام نے اپنے ایک ساتھی سے کہا کہ کیا میںتم کو ایک جامع نصیحت کروں۔ اس نے کہا کہ ہاں اے خدا کے رسول۔ آپ نے فرمایا کہ تم اپنی زبان کی حفاظت کرو۔
زبان کی حفاظت کا مطلب یہ ہے کہ آدمی جو کچھ بولے سوچ کر بولے۔ وہ ایسی بات نہ کہے جو دوسروں کو ستانے والی ہو۔ ایسی بات جس سے سماج میں برائی پھیلے اس سے وہ ہر حال میں اپنے آپ کو بچائے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ اکثر سماجی برائیاں زبان کی وجہ سے پھیلتی ہیں۔ زبان کو کنٹرول میںرکھنا سماجی برائیوں کا دروازہ بند کرتا ہے اور زبان پر کنٹرول نہ کرنا سماجی برائیوں کا دروازہ کھولتا ہے۔ یہ سنجیدگی کی پہچان ہے کہ آدمی اپنی زبان کو ہمیشہ محتاط انداز میں استعمال کرے۔ زبان کا غلط استعمال یہ ہے کہ آدمی دوسروں کی برائی کرے، وہ دوسروں کے ساتھ سخت کلامی کرے۔ وہ دوسروں کے عیب کو ڈھونڈ کر اسے لوگوں میں پھیلائے۔
087 — صبر و اعراض
اسلام کی ایک تعلیم صبر ہے۔ قرآن میں بار بار صبر کی تاکید کی گئی ہے۔ مزید فرمایا کہ اپنے رب کے لیے صبر کرو (ولربّک فاصبر) اسی طرح فرمایا کہ صبر کرو اور تمہارا صبر اللہ کے لیے ہے۔ جب ایک آدمی صبر کرتاہے تو بظاہر اس کا یہ صبر کسی انسان کے مقابلہ میںہوتاہے مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ خدا کے تخلیقی نقشہ سے مطابقت کرنے کے ہم معنٰی ہوتا ہے۔
خدا نے دنیا کا نظام اس طرح بنایا ہے کہ یہاں ہر ایک کو آزادی ہو۔ ہر ایک کے لیے مسابقت کا کھلاماحول ہو۔ اس بنا پر بار بار ایسا ہوتا ہے کہ ایک کودوسرے سے شکایت پیدا ہو جاتی ہے۔ ایک کو دوسرے سے نقصان کاتجربہ ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں ناخوش گوار تجربہ پر صبر کرنا گویا خدا کے تخلیقی نقشہ پر راضی ہونا ہے۔صبر کی اسی اہمیت کی بنا پر خدا نے صبر کو خود اپنے لیے صبر کرنے کا معاملہ بتایا۔ قرآن میںیہ اعلان کیا گیا ہے کہ جو آدمی صبر کرے گا اس کو بے حساب انعام دیا جائے گا۔
088 — یکطرفہ برداشت
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ جو تمہارے اوپر ظلم کرے اس کو معاف کردو۔ یہ نہایت حکمت کی تعلیم ہے۔ ظلم کا خاتمہ ظلم کو معاف کرکے ہوتا ہے۔ ظلم کے خلاف جوابی کارروائی کرنا کبھی ظلم کو ختم نہیں کرتا۔
پیغمبر اسلام کا یہ قول در اصل نتیجہ خیز عمل (result oriented action) کی تعلیم ہے۔ اگر کوئی شخص ظلم کی کارروائی کرے تو مظلوم کو سب سے پہلے یہ سوچنا چاہئے کہ اس کی کارروائی ایسی ہوجو اس کی مظلومیت کو ختم کرے نہ کہ وہ اس کی مظلومیت کو بڑھا دے۔ جب بھی کوئی مظلوم اس طرح سوچے تو وہ پائے گا کہ ظالم کو معاف کرنا سب سے بڑا انتقام ہے۔ ظالم کے ظلم کو بھلا دینا ظلم کو ختم کرنے کی سب سے زیادہ آسان تدبیرہے۔ظالم کو معاف کرنا کوئی مجبورانہ فعل نہیں، یہ ایک اعلیٰ اخلاقی اصول ہے۔ کوئی آدمی جب ظالم کو معاف کرے تواس کو آزادانہ اصول کے طور پرایسا کرنا چاہئے۔ مجبورانہ طور پر معاف کرنا بھی بے قیمت ہے اور معاف نہ کرنا بھی بے قیمت۔
089 — اعراض کا طریقہ
قرآن میں حکم دیا گیا ہے کہ جاہلوں اور نادانوں سے اعراض کرو۔موجودہ دنیا میں کامیاب زندگی گزارنے کا یہ ایک بے حد اہم اصول ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ نباتات کی دنیا میں جس طرح پھول کے ساتھ کانٹے ہیں اسی طرح انسانی دنیا میں دانشوروں کے ساتھ نادان لوگ ہر جگہ کثرت سے موجود ہیں۔ جس طرح نباتات کی دنیا میں آدمی کانٹوں سے الجھے بغیر پھول کو لے لیتاہے اسی طرح انسانی دنیا میں بھی اسے نادانوں سے الجھے بغیر اپنی زندگی کا سفر جاری رکھنا ہے۔
نادانوں سے الجھ کر کوئی شخص کامیاب نہیں ہوسکتا۔ اس لیے بہترین عقلمندی یہ ہے کہ جب بھی کسی نادان سے سابقہ پڑے تو اس کو نظر انداز کرکے آدمی آگے بڑھ جائے۔ کوئی شخص ایسا نہیں کرسکتا کہ وہ دنیا سے نادانوں کے وجود کو مٹادے۔ البتہ یہ ہر ایک کے بس میں ہے کہ وہ نادانوں سے الجھے بغیر اپنی زندگی کی تعمیر جاری رکھے۔نادانوں سے اعراض میں یہ اندیشہ نہیںکہ وہ دلیر ہو جائیں گے۔ اعراض آگ کو بجھانے والا ہے، وہ آگ کو بھڑکانے والا نہیں۔
090 — صبر میں کامیابی
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ جان لو کہ صبر کے ساتھ کامیابی ہے۔ اس حدیث میں صبر کی غیر معمولی اہمیت کو بتایا گیا ہے۔ اس کے مطابق، صبر ہر قسم کی ترقیوں کا زینہ ہے۔ اس دنیا میں صبر کرنے والا کبھی ناکام نہیں ہوسکتا۔اصل یہ ہے کہ موجودہ دنیا میں ہر آدمی کے ساتھ اتار اور چڑھاؤ کے واقعات پیش آتے ہیں۔ ہر آدمی کو بار بار کسی نا پسندیدہ صورت حال کا تجربہ ہوتاہے۔ ایسی حالت میں اکثرایسا ہوتا ہے کہ آدمی بے ہمّت ہوجاتا ہے۔وہ اپنے آپ کو شکست خوردہ محسوس کرنے لگتا ہے۔ مگر یہ درست نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دنیا میںکامیابی کے امکانات اتنے زیادہ ہیں جو کبھی ختم نہیں ہوتے۔ ایک ناکامی کے بعد ہمیشہ دوسری کامیابی موجود رہتی ہے۔صبر کا مقصد گویا اپنے آپ کو بے حوصلگی سے بچا کر اگلے موقع کا انتظار کرنا ہے۔ اگر آدمی پہلی ناکامی کے بعد صبر کا ثبوت دے تو بہت جلد وہ پائے گا کہ دوسری کامیابی اس کے قریب ہی اس کا انتظار کررہی تھی۔
091 — چھوٹے شر پر راضی ہونا
پیغمبر اسلام کے ایک صحابی عمیر ابن حبیب بن خماشہ نے کہا کہ جو شخص نادان کے چھوٹے شر کو برداشت نہیں کرے گا اس کو نادان کے بڑے شر کو برداشت کرنا پڑے گا ۔
موجودہ دنیا میں جس طرح سمجھ دار لوگ ہیں اسی طرح یہاںنادان لوگ بھی موجود ہیں۔ یہ نادان لوگ اپنی نادانی کی بنا پر دوسروں کو کچھ نہ کچھ تکلیف پہنچاتے رہتے ہیں۔ یہ تکلیف ابتدا میںایک چھوٹی تکلیف ہوتی ہے۔ دانش مندی کا تقاضا ہے کہ اس چھوٹی تکلیف کو برداشت کرلیا جائے۔ جو آدمی چھوٹی تکلیف پر نادان سے الجھ جائے تو نادان ضد میں آکر اس کو اور زیادہ بڑی تکلیف پہنچائے گا۔ ایسی حالت میں بہتر یہ ہے کہ چھوٹی تکلیف کو برداشت کر لیا جائے تاکہ بڑی تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
092 — تحمل کے ذریعہ دفاع
مشہور صحابی رسول عبد اللہ ابن عباس نے فرمایا کہ جہالت کرنے والے کی جہالت کا دفاع تم تحمل کے ذریعہ کرو ۔صحابی کے اس قول کے مطابق، دفاع کا ایک مناسب طریقہ یہ بھی ہے کہ اس کے لیے جوابی دفاع کا طریقہ اختیار نہ کیا جائے۔
دنیا میں بار بار ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کا سابقہ نادانوں سے پڑ جاتا ہے۔ ایسے نادانوں کے شر سے بچنے کا سب سے زیادہ کارگر طریقہ تحمل کا طریقہ ہے۔ تحمل کا طریقہ نادانوں کی کارروائی کو پہلے ہی مرحلہ میں روک دیتا ہے۔ اس کے برعکس اگر نادانوں کے مقابلہ میںردّ عمل کا طریقہ اختیار کیا جائے تو ان کی برائی بڑھتی رہے گی۔ یہاں تک کہ وہ قابو سے باہر ہو جائے گی۔
093 — غصہ نہیں
ایک شخص پیغمبر اسلام کے پاس آیا۔ اس نے کہا کہ اے خدا کے رسول ، مجھے کوئی ایسی نصیحت کیجئے جو میری پوری زندگی کو سدھارنے کا ذریعہ بن جائے۔ آپ نے فرمایا: تم غصہ نہ کرو۔ یہ بلا شبہہ ایک نہایت جامع نصیحت ہے۔ یہ ایک ایسا اصول ہے جس کواگر آدمی اختیار کرلے تو اس کی زندگی کے تمام معاملات درست ہوجائیں۔
اصل یہ ہے کہ انسان ہمیشہ ایک سماج کے اندر رہتا ہے۔ اس کو باربار ایسے ناپسندیدہ تجربات پیش آتے ہیں جو اس کو بھڑکادیں اور اس کے اندر غصہ پیدا کردیں۔ اور پھر جب آدمی غصہ میںآجائے تو اس کے بعد یہ ہوتا ہے کہ اس کے اندر نفرت اور انتقام کی آگ بھڑک اٹھتی ہے۔ وہ غصہ دلانے والے کے خلاف انتقامی کارروائی کرتا ہے اور پھر ہر انتقام دوبارہ ایک نئے انتقام کو بھڑکا تا ہے۔ اس طرح انتقام در انتقام کا سلسلہ چل پڑتاہے جو تباہی کے سوا اورکہیں نہیںپہنچاتا۔
ایسی حالت میں اپنی زندگی کے سفر کو کامیابی کے ساتھ جاری رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ غصہ جیسے جذبات سے اپنے آپ کو اوپر اٹھائے۔ وہ منفی حالات کا بھی مثبت انداز میںجواب دے۔
094 — غصہ کا حل
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ جب کسی آدمی کو غصہ آئے تو اگر وہ کھڑا ہے تو بیٹھ جائے۔ اگر وہ بول رہا ہے تو چپ ہو جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی جس حالت میں ہے وہ اس حالت کو بدل دے۔ حالت کی یہ تبدیلی اس کے لیے غصہ کو ختم کرنے کا سبب بن جائے گی۔
غصّہ ایک آگ ہے جو کسی ناخوشگوار بات پر آدمی کے اندر بھڑکتی ہے۔ غصہ آدمی کو تخریبی طریقہ کی طرف لے جاتا ہے۔ وہ ہمیشہ نقصان میںمبتلا کرنے والا ہوتاہے۔ ایسی حالت میں عقلمندی یہ ہے کہ غصہ آتے ہی فوراً اس کو ٹھنڈا کرنے کی تدبیر کی جائے۔ تدبیر کے ذریعہ آدمی غصہ کو منٹوں میں ختم کرسکتا ہے۔ لیکن اگر غصّہ کو باقی رہنے دیا جائے تو وہ آدمی کو ایسے نقصانات پہنچاتا ہے جس کی تلافی پھر کبھی ممکن نہ ہو۔
غصّہ آنا ایک فطری بات ہے۔ غصہ آنا بذات خود برا نہیں، بری بات یہ ہے کہ آدمی اپنے غصہ پر کنٹرول نہ کرسکے۔ غصّہ پر کنٹرول نہ کرسکنا خود اپنے آپ سے شکست کھاجانا ہے اور اپنے آپ سے شکست کھانا بلا شبہہ سب سے زیادہ بری شکست ہے۔
095 — شیطان سے پناہ مانگنا
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ شیطان تمہارا دشمن ہے۔ جب بھی تم کو محسوس ہو کہ شیطان تم کو بہکارہا ہے تو تم کہو: اللہم إنی اعوذ بک من ہمزات الشیطان(اے خدا، میں شیطان کے وسوسوں کے مقابلہ میںتجھ سے پناہ مانگتا ہوں)۔
شیطان انسان کا دشمن ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ انسان کو صحیح راستہ سے بھٹکائے۔ وہ طرح طرح کے وسوسے ڈال کر انسان کو سچائی سے ہٹانے کی کوشش کرتا ہے۔ شیطان آدمی کو دکھائی نہیں دیتا۔ وہ خفیہ طورپر انسان کے اوپر حملہ کرتا ہے۔انسان اس شیطانی حملہ کے مقابلہ میںبالکل بے بس ہے۔ اس سے بچنے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے، خدا سے مدد مانگنا۔خدا کا وعدہ ہے کہ جب بھی کوئی آدمی شیطان کے مقابلہ میں خدا سے پناہ مانگے گا وہ ضرور اس کو اپنی پناہ دے گا۔ یہی اس مسئلہ کا واحد حل ہے۔
096 — طاقت ور کون
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ پہلوان وہ نہیں ہے جو لوگوں کو کُشتی میں پچھاڑ دے۔ بلکہ پہلوان وہ ہے جو غصّہ کے وقت اپنے آپ کو قابو میں رکھّے۔ یہ بلا شبہہ کسی شخص کے طاقت ور ہونے کا سب سے زیادہ اعلیٰ معیار ہے۔جسمانی مقابلہ میں کسی کو پچھاڑنا کوئی بڑا کارنامہ نہیں، ایسا کارنامہ تو ایک حیوان بھی کرسکتا ہے۔ کسی انسان کے طاقتور ہونے کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ جب اس کو کسی کے اوپر غصّہ آئے تو وہ اپنے آپ کو پوری طرح کنٹرول میں رکھّے۔ غصّہ کے باوجود وہ انسانیت کے دائرہ سے باہر نہ جائے، وہ غصّہ کے اوپر غالب رہے نہ کہ غصّہ اس کے اوپر غالب آجائے۔
097 — مشکل میں آسانی
قرآن میں فطرت کے جن قوانین کو بتایا گیا ہے ان میں سے ایک قانون یہ ہے کہ اس دنیا میں مشکل کے ساتھ آسانی رکھی گئی ہے (الانشراح) یعنی مشکل کے بعد نہیں بلکہ خود مشکل کے ساتھ ہی آسانی کا پہلو شامل ہے۔ یہ فطرت کا ابدی قانون ہے وہ کبھی بدلنے والا نہیں۔
اصل یہ ہے کہ اس دنیا میں مشکل کے مقابلہ میں امکانات کی مقدار بہت زیادہ ہے۔ اگر ایک مشکل پیدا ہو یا ایک بار کوئی نقصان ہوجائے تو آدمی کو مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ بلکہ اس کو چاہئے کہ وہ اپنی سوچنے کی صلاحیت کو استعمال کرے۔ جب وہ سوچے گا تو وہ جانے گا کہ عین اسی وقت اور ٹھیک اسی مقام پر اس کے لیے بہت سے نئے امکانات موجود ہیں۔ وہ ایک چانس کو کھو کر وہ دوسرا چانس پاسکتا ہے جس کواستعمال کرکے وہ دوبارہ آگے بڑھ جائے۔موجودہ دنیامیں زندگی کا بہترین فارمولا یہ ہے کہ —مسائل کو نظر انداز کرواور مواقع کو استعمال کرو۔ ناموافق حالات کو حسن تدبیر سے اپنے موافق بنانے کی کوشش کرو۔ ناکامی کو زیادہ بہتر منصوبہ بندی کے ذریعہ کامیابی میں تبدیل کرو۔
خداکی اس دنیا میں یہ ممکن ہے کہ آدمی اپنی عقل کواستعمال کرکے اپنے مائنس کو پلس بناسکے۔ یہ امکان ہر اس شخص کے لیے موجودہے جو ہمت نہ ہارے جو ناامیدی کے حالات میںبھی پر امید بنا رہے۔
098 — آسان طریقہ کا انتخاب
پیغمبر اسلام کی اہلیہ عائشہ پیغمبر کی عمومی پالیسی کو بتاتے ہوئے کہتی ہیں کہ جب بھی پیغمبر اسلام کو دو میں سے ایک کا انتخاب کرناہوتا تو آپ ہمیشہ مشکل انتخاب کو چھوڑ دیتے اور آسان انتخاب کو لے لیتے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جب آپ کو پر تشدد طریق کار اور پر امن طریق کار کے درمیان انتخاب کرنا ہوتا تو آپ پر تشدد طریقِ کار کو چھوڑ دیتے اور پر امن طریقِ کار کو اختیار کرتے۔ اس طرح جب بھی آپ کو اعراض اور ٹکراؤ کے درمیان انتخاب کرنا ہوتا تو آپ ہمیشہ ٹکراؤ کے طریقہ کو چھوڑ دیتے اور اعراض کے طریقہ کو اختیار کرتے۔ اسی طرح جب آپ کو جنگ اورصلح کے درمیان انتخاب کا موقع ہوتا تو آپ ہمیشہ جنگ کو چھوڑ دیتے اور صلح کو قبول کرلیتے۔
یہی حکمت ہے۔ اس حکمت کا فائدہ یہ ہے کہ آدمی کسی مزید بگاڑ سے بچ جائے اور اپنے معاملات کو کامیابی کے ساتھ درست کرتا چلا جائے۔ ہر معاملہ میں ہمیشہ دونوں طریقِ کار کا امکان ہوتاہے۔ مگر عقل مندی وہی ہے جس کا نمونہ پیغمبر اسلام کی زندگی میں ہمیں ملتاہے۔
099 — ناپسندیدگی میں خیر
قرآن میںایک موقع پر نصیحت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ : ہوسکتا ہے کہ تم ایک چیز کو ناگوار سمجھو اور وہ تمہارے لیے بھلی ہو۔ اور ہوسکتا ہے کہ تم ایک چیز کو پسند کرو اور وہ تمہارے لیے بری ہو۔
اس آیت کا تعلق زندگی کے تمام معاملات سے ہے۔ لوگ عام طور پر چیزوں کو ظاہر کے اعتبار سے دیکھتے ہیں۔وہ ظاہری دلکشی کی بنا پر ایک چیز کو پسند کرنے لگتے ہیں۔ اور جو چیز ظاہر کے اعتبار سے دلکش نہ ہو اس کو ناپسندیدہ سمجھ کر رد کر دیتے ہیں۔ مگر حقیقی انجام کے اعتبار سے یہ طریقہ درست نہیں۔
اکثر ایسا ہوتاہے کہ ایک چیز بظاہر دیکھنے میںاچھی نہیں لگتی مگر اصل حقیقت کے اعتبار سے انسان کے لیے اسی میں فائدہ چھپا ہوا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس ایک چیز بظاہر دیکھنے میںاچھی لگتی ہے مگر اصل حقیقتکے اعتبار سے وہ برے انجام کی طرف لے جانے والی ہوتی ہے۔ ایسی حالت میں آدمی کو چاہئے کہ وہ ظاہر کے اعتبار سے چیزوں کے بارے میں فیصلہ نہ کرے بلکہ وہ گہری حقیقتوں کے اعتبار سے چیزوں کو دیکھے اوراس کے مطابق فیصلہ کرے۔
100 — ایک دعا
پیغمبر اسلام کی ایک دعا ان الفاظ میں آئی ہے: اللہم ارنا الحق حقاً و ارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلاً و ارزقنا اجتنابہ وارنا الاشیاء کما ہی۔ (اے خدا مجھے حق کو حق کی صورت میں دکھا اور مجھے اس کی پیروی کی توفیق دے اور مجھے باطل کو باطل کی صورت میںدکھا اور مجھے اس سے بچنے کی توفیق دے اور مجھے چیزوں کو ویسا ہی دکھا جیسا کہ وہ ہیں)۔
موجودہ دنیا میں سب سے زیادہ ضروری چیز یہ ہے کہ آدمی کے اندر موضوعی طرزفکر (objective thinking) ہو۔ اس حدیث میںاسی کے لیے دعا کی تعلیم دی گئی ہے۔ موجودہ دنیا میں آدمی ایسے حالات کے درمیان رہتا ہے کہ وہ اکثر حق کو باطل کے روپ میں دیکھنے لگتا ہے اور باطل کو حق کے روپ میں۔ اس دعا میںبندہ اپنے رب سے سوال کررہا ہے کہ وہ اس کو اس گمراہی سے بچائے۔ وہ اس کے اندر وہ نگاہ پیدا کرے جو چیزوں کو اس کی اصل روپ (as it is) میںدیکھنے لگے۔صحیح سوچ سے صحیح عمل پیدا ہوتا ہے اور صحیح عمل آدمی کو ہمیشہ کامیابی کی طرف لے جاتاہے۔
اس پیغمبرانہ دعا کے مطابق، ہر انسان اس فکری مسئلہ سے دوچار ہے کہ حق اس کو حق کی صورت میں نہ دکھائی دے اور باطل اس کو باطل کی صورت میں نہ دکھائی دے۔ یہ مسئلہ کنڈیشننگ (conditioning) کی وجہ سے پیدا ہوتاہے۔ ہر آدمی پیدائش کے بعد ایک ماحول میںپرورش پاتا ہے۔ ابتدائی عمر میں وہ ذہنی ناپختگی کی بنا پر ماحول کے اثر کو قبول کرتا رہتا ہے۔ اسی کا نام کنڈیشننگ ہے۔ پختگی کی عمر کو پہنچنے کے بعد ہر انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے شعور کو متحرک کرکے اپنی کنڈیشننگ کی ڈی کنڈیشننگ کرے۔ وہ اپنے آپ کو مطابق واقعہ سوچ (as it is thinking)کے درجہ تک پہنچائے۔ علم کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ وہ آدمی کو باشعور بنا کر اس کو اس سلف ڈی کنڈیشننگ کے لیے تیار کرے۔ مذکورہ دعا اسی ڈی کنڈیشننگ کے عمل میں یقین کے عنصر کا اضافہ ہے۔
واپس اوپر جائیں


Monday, 1 September 2003

Al Risala | September 2003 (الرسالہ،ستمبر)

2

- ڈی کنڈیشننگ

3

- اقامت دین

7

- رسولؐ اللہ کا پیغامِ امن

10

- اسلامک تھنک ٹینک

13

- ایک ملاقات

18

- سوال وجواب

33

- سہ ماہی السّلام (نئی دہلی) کے سوال نامہ کا جواب

33

- ایک خط

35

- ایک خط

38

- خبر نامہ اسلامی مرکز ۱۵۹


ڈی کنڈیشننگ

پیاز کے اوپر ایک کے بعد ایک پرت ہوتی ہے۔ اگر ان پرتوں کو ہٹائیں تو ہٹاتے ہٹاتے اس کا آخری حصہ آجائے گا جو پیاز کا داخلی مغز ہے۔ یہی معاملہ انسان کا بھی ہے۔ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو وہ فطرت صحیح پر ہوتا ہے۔ اس کے بعد ماحول کے اثر سے اس کے اوپر خارجی افکار چھانے لگتے ہیں۔ یہاں تک کہ آدمی کی داخلی فطری شخصیت بالکل ڈھک جاتی ہے۔ یہاں پہنچ کر آدمی متعصبانہ طرزفکر کا کیس بن جاتا ہے۔ اس کے بعد آدمی اپنی ساری عمر انہی تعصبات کے تحت سوچتارہتا ہے اور آخرکار مر جاتا ہے۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ من شبّ علی شیٔ شاب علیہ (آدمی جس چیز پر جو ان ہوتا ہے اسی پر وہ بوڑھا ہوتا ہے)
یہ صورت حال ہر آدمی کومطابق واقعہ سوچ (as it is thinking) سے محروم کردیتی ہے۔ اس کا علاج صرف ایک ہے۔ ہر آدمی پختہ عمر کو پہنچنے کے بعد گہرائی کے ساتھ اپنا جائزہ لے۔وہ اپنی کنڈیشننگ کی دوبارہ ڈی کنڈیشننگ کرے۔ وہ اپنی شخصیت پر چڑھی ہوئی اوپری پرتوں کو ہٹائے، یہاں تک کہ اس کی اصل فکری شخصیت اس طرح کھل جائے کہ وہ تعصبا ت سے پاک ہو کر سوچنے لگے۔ یہ اپنی مصنوعی شخصیت کو دوبارہ حقیقی شخصیت بنانے کا عمل ہے جو ہر شخص کی ایک لازمی ضرورت ہے۔
اپنی کنڈیشننگ کی ڈی کنڈیشننگ کرنے کا یہ عمل بے حد مشکل کام ہے۔ اس میں آدمی کو خود اپنے خلاف ایک ذہنی محنت (intellectual labour) کرنا پڑتا ہے۔ اس میں آدمی کو اپنی مانوس اور محبوب سوچ کو ذبح کرنا پڑتا ہے۔ اس میں آدمی کو خود اپنے آپ پر بلڈوزر چلانا پڑـتا ہے۔ تاہم یہی واحد عمل ہے جو آدمی کو متعصبانہ یا غیر حقیقت پسندانہ طرز فکر سے پاک کرنے کے لیے ضروری ہے۔ یہ عمل گویا اپنافکری آپریشن کرنے کا عمل ہے۔ یہ بلا شبہہ ایک مشکل ترین کام ہے۔ مگر اس کام کے بغیرکوئی بھی شخص بے آمیز سوچ کا مالک نہیں بن سکتا۔ اس معاملہ میںکوئی بھی دوسری چیز فکری تطہیرکا بدل نہیں۔
واپس اوپر جائیں

اقامت دین

قرآن کی سورہ نمبر ۴۲ کی ایک آیت کا ترجمہ یہ ہے : اللہ نے تمہارے لئے وہی دین مقرر کیا ہے جس کا اس نے نوح کو حکم دیا تھا اور جس کی وحی ہم نے تمہاری طرف کی ہے اور جس کا حکم ہم نے ابراہیم او رموسیٰ کو اور عیسیٰ کو دیا تھا کہ دین قائم رکھو اور اس میں اختلاف نہ ڈالو(الشوریٰ ۱۳) ایک طرف قرآن میں یہ آیت ہے اور دوسری طرف قرآن میںایک اور آیت ہے، اس کا ترجمہ یہ ہے: ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لیے ایک شریعت اور ایک منہاج ٹھہرایا (المائدہ ۴۸)
قرآن کی ان دونوں آیتوں پر غور کیجئے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے انسان کے لیے پیغمبروں کے ذریعہ مختلف زمانوں میں جو الہامی ہدایت بھیجی ہے اس کے دو حصے ہیں ۔ایک حصّہ کو قرآن میںالدین کہا گیا ہے اور اس کے دوسرے حصّہ کو شریعت اور منہاج کہا گیا ہے۔ قرآن کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ الدین خدائی ہدایت کا غیر مختلف اور مشترک حصہ ہے۔ مگر جہاں تک شریعت اور منہاج کا تعلق ہے، اس میں ایک پیغمبر کی تعلیم اور دوسرے پیغمبر کی تعلیم کے درمیان ثابت شدہ طورپر فرق پایا جاتا ہے۔
الدین کیا ہے۔ الدین سے مراد خدائی ہدایت کا وہ ابدی حصہ ہے جو ہر حال میں اور ہر شخص سے یکساں طورپر مطلوب ہے ۔اس سے مراد ہے—توحید، اخلاص، فکر آخرت، ذکر و عبادت، حسن اخلاق، انسان سے خیر خواہی اور دعوت الی اللہ، وغیرہ۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو اہل ایمان سے ہمیشہ مطلوب ہوتی ہیں، خواہ اہل ایمان تھوڑے ہوں یا زیادہ۔ امیر ہوں یا غریب، بے اقتدار ہوں یا بااقتدار، سفر میں ہوں یا حضر میں، مسلم ملک میں ہوں یا غیر مسلم ملک میں، کسی بھی صورت حال میں یہ چیزیں اہل ایمان سے ساقط نہیں ہوتیں۔
اس کے برعکس شریعت اور منہاج کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ شریعت سے مراد قانون اور منہاج سے مراد طریقِ کارہے۔ ان دونوں چیزوں کا تعلق تمام تر حالات سے ہے۔ کیوں کہ مختلف پیغمبروں کے حالات ایک دوسرے سے الگ تھے۔ اس لئے انہیں الگ الگ شریعت اور منہاج دیے گیے۔ اسی طرح خود امت مسلمہ کے حالات ہمیشہ یکساں نہیں رہ سکتے۔ اس لیے اس امت کے لیے بھی مختلف حالات کے اعتبار سے اس کی وہ ذمّہ داریاں مختلف ہوں گی جو شریعت اور منہاج کی نسبت سے اس سے مطلوب ہیں۔
مثلاً امت مسلمہ کا کوئی گروہ بے اقتدار ہو تو اس پر صرف دین کے مذکورہ بنیادی تقاضے ہی فرض ہوں گے۔ قانون اور حدود شرعی کا نفاذ اس وقت اس سے مطلوب نہ ہوگا۔اسی طرح اگر امت پر کھلی جارحیت کی جائے اور اعراض کی تدبیریں ناکام ہوجائیں تو اس وقت بشرط استطاعت دفاع اس پر فرض ہوجائے گا۔ لیکن اگر حالات معتدل ہوں تو اس سے یہ مطلوب ہوگا کہ وہ پر امن طریقِ کا ر کے دائرہ میں رہتے ہوئے اپنا کام کرے۔
کچھ لوگوں نے قرآن کی سیاسی تفسیر کرکے یہ نظریہ بنایا کہ اسلام ایک مکمّل نظام ہے اور اہل ایمان پر فرض ہے کہ وہ اس کے مختلف حصوں میں فرق نہ کرتے ہوئے اس کے سارے احکام کو بہ تمام وکمال زمین پر نافذ کریں۔ ان لوگوں کو اپنے اس خود ساختہ ’’انقلابی‘‘ نظریہ کے لیے قرآن میںکوئی آیت نہیںملی۔اس کے بعد انہوں نے یہ کیا کہ لفظی مناسبت کا سہارا لے کر سورہ الشوریٰ کی مذکورہ آیت کو لے لیا اور اس کے حوالہ سے یہ دعویٰ کرنے لگے کہ اس آیت میںاقامت دین سے مراد اقامت نظام ہے۔ اقیمواالدین کا مطلب یہ ہے کہ دین کے تمام احکام کو مکمّل طورپر زمین کے اوپرنافذ کیا جائے۔
یہ بلاشبہہ غیر سنجیدگی کی حد تک ایک غیر علمی بات ہے۔ جب یہاں دینِ مشترک کی اقامت کا ذکر ہے تو سارے دینی احکام کو اس آیت کے حکم میں شامل نہیں کیا جاسکتا۔کیوں کہ جیسا کہ عرض کیا گیا، شریعت اور منہاج کا دینی حصہ تمام انبیاء کے یہاں یکساں نہیںہے(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، دین وشریعت)
اس معاملہ میں ان سیاسی مفسرین کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ وہ یہ کرتے ہیں کہ وہ دین کو جزئی اور کلّی حصوں میں تقسیم کرتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ اگر اقامت دین میں سارے دینی احکام کانفاذ مراد نہ لیا جائے تو یہ صرف جزئی احکام کی اطاعت کے ہم معنٰی ہوگا جب کہ مطلوب یہ ہے کہ کلّی احکام کی اطاعت کی جائے۔
مگر جزئی اور کلّی کی یہ تقسیم صرف ایک مغالطہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہاں جو تقسیم مراد ہے وہ مطلق اور مشروط کی ہے۔ یعنی مذکورہ آیت میں الدین سے مراد دین کا وہ حصہ ہے جو مطلق طورپر مطلوب ہوتا ہے اور شریعت اور منہاج سے مراد دین کا وہ حصہ ہے جو حالات کی نسبت سے مطلوب ہوتا ہے۔
اس سیاسی تفسیرکے بعض حامی یہ کرتے ہیں کہ وہ غیر متعلق مثالوں سے اپنی بات ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں حالاں کہ تمام اہل علم جانتے ہیں کہ فرضی مثالوں سے کوئی بات ثابت نہیںہوتی۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ:
Analogy is the weakest form of argument.
مثلاً اقامت کا لفظ لے کر وہ کہتے ہیں کہ اگر خیمہ گرا ہوا ہے تو اسے کھڑا کیا جائے گا اور اگر کھڑا ہے تو کھڑا رکھا جائے گا۔ اگر آندھی آرہی ہے تو اس کی ہر طرح سے حفاظت کی جائے گی کہ خیمہ گر نہ جائے ۔ اس کے کھونٹے خوب اچھی طرح مضبوط کردیے جائیں گے، اس کی رسیاں خوب کس دی جائیں گی۔ کوئی رسی کمزور ہو تو اس کو بدل دیا جائے گا۔ ایسا بھی ہوسکتاہے کہ جھکّڑ بہت زور دار آرہا ہو تو لوگ خیمے کی طنابیںاور بانس پکڑ کر کھڑے رہیں۔ یہ سارے کام اس لیے ہیں کہ خیمے کو کھڑا رکھنا ہے۔ اور اگر وہ گر جائے تو لا محالہ اب اس کو از سر نو کھڑا کرنا ہوگا۔
یہ مثال مکمّل طورپر ایک غیر متعلق (irrelevant) مثال ہے۔ الدین خیمہ کی طرح کوئی خارجی ڈھانچہ نہیں۔ الدین مکمّل طورپر داخلی ربّانی صفات سے تعلق رکھتاہے۔ یہ الدین کی تصغیر ہے کہ اس کو خیمہ جیسی چیز کے مشابہ قرار دیا جائے۔
الدین کی اقامت کا مطلب کسی خارجی خیمہ کو کھڑا کرنا نہیں ہے بلکہ خود اپنے آپ کو اللہ کے اوپر کھڑا کرنا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اس طرح خدا کی معرفت حاصل کرے کہ اس کے احساس سے اس کا دل دہل اٹھے، اس کی سوچ کامل طورپر خدا رخی سوچ بن جائے، آخرت کا تصوراس کی نظر میںدنیا کو بے وقعت بنادے، خداکی یاد اورخدا کی عبادت اس کی روح کی غذا بن جائے، اس کا اخلاق پوری طرح تواضع میں ڈھل جائے، وہ یک طرفہ طورپر سارے انسانوں کی خیر خواہی کرنے لگے، جنت اور جہنم کا یقین اس پر اتنا چھا جائے کہ وہ اس کا تحمّل نہ کرسکے کہ وہ لوگوں کو ان اخروی حقیقتوں سے آگاہ نہ کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ الدین کی اقامت شخصیتِ انسانی کو اللہ کے رنگ میں رنگنا ہے، نہ کہ خارجی دنیا میں رسّی اور کپڑے کا کوئی خیمہ کھڑا کرنا۔
ان حضرات کا کہنا ہے کہ دین صرف عقائد و عبادات کا نام نہیں۔ دین میں ہر قسم کے اجتماعی اور سیاسی اور معاشی اور عدالتی احکام شامل ہیں۔ دین ایک مکمّل نظام زندگی کا نام ہے۔ اس لیے ان سارے ہی احکام کو اقامت دین میں شامل کرنا ہوگا۔ مگر یہ ایک غیر علمی بات ہے۔ یہاں مسئلہ یہ نہیں ہے کہ دین کے کیا کیا اجزاء ہیں اور دین کا لفظ قرآن میں کن کن معنوں میں آیا ہے۔ بلکہ اُصولی اعتبار سے صرف یہ دیکھا جائے گا کہ سورہ الشوریٰ کی مذکورہ آیت میں سیاق و سباق کے اعتبارسے الدین کا مفہوم کیا ہے۔
مذکورہ نام نہاد جامع تفسیر کی غلطی اسی سے ثابت ہے کہ قرآن میں دین جزاء کے معنٰی میں بھی آیا ہے(مالک یوم الدین)۔ اگر مذکورہ قسم کی جامع تفسیر کو درست مانا جائے تو اُس میں یہ بھی شامل کرنا پڑے گا کہ اہل ایمان یوم الدین کو قائم کریں اور لوگوں کو اُن کے عمل کے مطابق، جزاء و سزا دیں۔ ظاہر ہے کہ اقامتِ دین میں اقامتِ یوم الدین کے مفہوم کو شامل کرنا لغویت کی حد تک بے معنٰی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کے تمام مفسرین نے بلا استثناء سورہ الشوریٰ کی آیت میںاقامتِ دین کا وہی مفہوم لیا ہے جس کا اوپر ذکر کیا گیا۔ موجودہ زمانہ کے نام نہاد سیاسی مفسرین کے سوا کوئی ایک بھی مفسر ایسا نہیں جس نے یہ لکھا ہو کہ قرآن کی مذکورہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کو مکمل نظام زندگی کی حیثیت سے نافذ کیا جائے۔ یہ ایک مبتدعانہ تفسیر ہے جو بلا شبہہ قابلِ رد ہے۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ،تعبیر کی غلطی)۔
واپس اوپر جائیں

رسولؐ اللہ کا پیغامِ امن

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ ہر پیغمبر نے اپنی قوم کی لسان (ابراہیم ۴) میں کلام کیا ۔ مشہور صحابی عبداللہ بن مسعود نے کہا :کلم الناس علی قدر عقولہم (لوگوں سے ان کے عقلی درجہ کے مطابق بات کرو)۔ اس بات کو دوسرے لفظوں میں اس طرح کہا جاسکتاہے کہ داعی کا کلام ایسا ہونا چاہئے جو مدعو کے ذہن کو ایڈرس (address) کرے۔ جس میں مدعو اپنے سوالات کا جواب پارہا ہو۔ ایسا کلام جو داعی کے خود اپنے ذہن کی نمائندگی کرے ، اس میں مدعو کے ذہن کی رعایت نہ ہو، داعیانہ کلام نہیں ہے۔ اس معاملہ کی وضاحت کے لیے یہاں ایک سادہ مثال درج کی جاتی ہے۔
کئی سال پہلے کی بات ہے۔ میں مسلمانوں کے ایک جلسہ میں ان کی دعوت پر شریک ہوا۔ اس کا موضوع سیرت رسول تھا۔ میں نے وہاں سیرت کے موضوع پر کسی قدرتفصیلی تقریر کی۔ تقریر کے بعد ایک باریش بزرگ مجھ سے ملے۔ انہوں نے کہا کہ سیرت پر تو آپ کچھ بولے نہیں۔ میںنے تعجب کے ساتھ جواب دیاکہ میری ساری تقریر تو سیرت ہی پر تھی۔ میں نے اپنی تقریر میں صرف رسول اللہﷺ کے اقوال اور آپ کے واقعات بیان کئے، یہی تو سیرت ہے۔ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ آپ کو معجزات اور کرامات اور فضائل اور فتوحات جیسی چیزیں بیان کرنا چاہئے۔
اپنے اس تجربہ سے میں نے ایک بہت بڑی حقیقت دریافت کی۔ میں اکثر سوچتا تھا کہ ہزاروں کی تعداد میں سیرت کے جلسے ہو رہے ہیں مگر لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ ( الأحزاب ۲۱) کے معیار پر جانچا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس پہلو سے سیرت کے جلسوں کا کوئی فائدہ نہیں ۔ اس قرآنی آیت کے مطابق، سیرت کی تقریروں کا یہ فائدہ ہونا چاہئے کہ لوگ رسول کے اسوہ کو جانیں اور اُس کو اپنی زندگی میںاختیار کریں۔مگرمیں نے اب تک ایساکوئی شخص نہیں دیکھا جو یہ کہے کہ اس نے ان جلسوں سے اسوۂ رسول کا سبق پایا ہے اور اس کو اپنی زندگی میں اپنا لیا ہے۔ ان جلسوں میں بس مخصوص روایتی ذہن کے مسلمان شریک ہوتے ہیں اور ان سے فخر کی غذا لے کر اپنے گھروں کو واپس ہو جاتے ہیں۔ جب کہ سیرت کے جلسوں کا مقصد یہ ہے کہ لوگ ان سے اسوہ اخذ کریں ،نہ کہ فخر۔ظاہر ہے کہ جب سیرت کی تقریروں میں فخر کی غذا دی جارہی ہو تو لوگ اُن سے فخر ہی لیں گے، نہ کہ اُسوہ۔ کیوں کہ اُنہیں اُسوہ کی خوراک تو دی ہی نہیں گئی۔
موجودہ انسان جن خیالات میں جیتا ہے وہ مذکورہ ذہن سے بالکل مختلف ہے۔ آج کا تعلیم یافتہ انسان یہ جاننا چاہتا ہے کہ موجودہ حالات میں پیغمبر اسلام کا ریلیوینس (relevance) کیا ہے۔ آج کے مسائل کے بارے میں اسلام کیا رہنمائی دیتا ہے۔ مثلاً آج تمام سوچنے والے ذہن تشدد کے مسئلہ سے پریشان ہیں۔ جنگ اور امن کاموضوع آج کا سب سے بڑا فکری چیلنج بنا ہواہے۔ ایسی حالت میں لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ اس معاملہ میںپیغمبر اسلام کی زندگی سے کیا رہنمائی ملتی ہے۔ مگر مذکورہ قسم کی تقریروں میں اس کا کوئی جواب نہیں۔اس پہلو سے یہاں میں چند باتیں عرض کروں گا۔
اہل علم امن کی تعریف عدم جنگ (absence of war) کے الفاظ میں کرتے ہیں۔ یہ تعریف خالص فنّی اعتبار سے درست ہوسکتی ہے مگر وہ آج کے انسان کو بہت زیادہ اپیل نہیں کرتی۔ آج کے انسان کے نزدیک اس قسم کا امن صرف ایک انفعالی امن (passive peace) ہے۔ امن کی اس تعریف میں اس سوال کا جواب نہیںہے کہ تشدد کے بغیر اپنے مسائل کا حل کس طرح نکالا جائے۔ اس اعتبار سے یہ انسان کے لیے پیغمبر اسلام کی بہت بڑی دین ہے۔ انہوں نے ربّانی ہدایت کے تحت یہ کیا کہ انفعالی امن کو فعّال امن (active peace) میں تبدیل کردیا۔اُنہوں نے امن برائے امن کے اصول کو امن برائے عمل کے اصول کی حیثیت دے دی۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ اُنہوں نے امن کو ایک وقفۂ تعمیر (constructive interlude)کے طورپر استعمال کرنا سکھایا:
The policy of the Prophet in bilateral matters was based on the principle of buying time.
پیغمبر اسلام نے ربّانی ہدایت کے تحت یہ دریافت کیا کہ جنگ اور ٹکراؤ کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ کام کے مواقع یکسر ختم ہوجاتے ہیں۔ اس کے مقابلہ میں امن سے کام کے تمام مواقع کھلتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے یہ فارمولا دیا کہ یکطرفہ تحمل کے ذریعہ جنگ سے اوائڈ کرو اور امن کی حالت میں پیدا ہونے والے مواقع کو اپنی تعمیر اور استحکام کے لیے استعمال کرو۔
پیغمبر اسلام کی پوری زندگی اسی اعلیٰ حکمت کی مثال ہے۔ مکہ کے ابتدائی زمانہ میں کعبہ (بیت اللہ) میں ۳۶۰ بت رکھے ہوئے تھے۔ پیغمبر اسلام نے بت کے سوال پر عملی ٹکراؤ سے بچتے ہوئے پرامن انداز میں دعوت توحید کا کام شروع کردیا۔ مکہ کے آخری زمانہ میں جب کہ وہاں کے سردار آپ کو قتل کرنے کے درپے ہوگئے تب بھی آپ نے اُن سے ٹکراؤ نہیں کیا بلکہ خاموشی کے ساتھ مکہ کو چھوڑ کر مدینہ چلے گئے اور وہاں اپنا دعوتی مرکز قائم کیا۔ ہجرت کے بعد قریشِ مکہ نے آپ کے خلاف باقاعدہ جنگ چھیڑ دی مگر آپ نے حسن تدبیر کے ذریعہ اُن سے دس سال کا ناجنگ معاہدہ کرلیا جو صلح حدیبیہ کے نام سے مشہور ہے۔اس صلح نے آپ کو اپنے دعوتی کام کے لیے وسیع مواقع دے دیے۔
پیغمبر اسلام نے اس طرح امن کو ایک مستقل پالیسی کی حیثیت دے دی۔ اس حکیمانہ پالیسی کا نتیجہ یہ ہوا کہ صرف ۲۳ سال میں پورے عرب میں اسلامی انقلاب آگیا۔ یہ انقلاب اتنا زیادہ پرامن تھا کہ اس کو بجا طور پر غیر خونی انقلاب (bloodless revolution) کہا جاسکتا ہے۔
اس مثال سے اندازہ ہوتا ہے کہ دعوت کا سائنٹفک اسلوب کیا ہے، وہ ہے بات کو اس انداز میں کہنا کہ آج کا انسان محسوس کرے کہ اُس کے ذہن کو ایڈرس کیا جارہا ہے۔ اُس میں اُس کو اپنے سوال کا جواب ملنے لگے۔ وہ سوال دیگر، جواب دیگر کا مصداق نہ ہو بلکہ سائل کے ذہن میں جو سوال ہو، عین اُسی کا جواب اُس کو سننے کو ملے۔
اس مقصد کے لیے بیک وقت دو باتوں کی گہری واقفیت ضروری ہے۔ ایک یہ کہ داعی دین کی حقیقی تعلیمات سے بخوبی طورپر واقف ہو اور دوسرے یہ کہ اُس نے مدعو کے ذہن کا غیر جانبدارانہ مطالعہ کیا ہو۔ اسی کے ساتھ یہ کہ داعی کے دل میں مدعو کے لیے سچی خیر خواہی موجود ہو۔ ان شرطوں کی کامل یکجائی کے بعد داعی کے اندر کلام کا جو اُسلوب بنے اُسی کا نام سائنٹفک اسلوب ہے۔ (۱۴ مئی ۲۰۰۳)
واپس اوپر جائیں

اسلامک تھنک ٹینک

مولانا اقبال اعظمی قاسمی (۶۵ سال) لِسٹر (برطانیہ) میں رہتے ہیں۔ ۳۱ مئی ۲۰۰۳ کو ان سے اور ان کے ساتھیوں سے ملاقات ہوئی۔اس ملاقات میں یہ مسئلہ زیر بحث آیا کہ کیا وجہ ہے کہ موجودہ زمانہ کے مسلمان ایک بے منزل (directionless) قوم بن گئے ہیں۔ آخر اس کا سبب کیا ہے۔ اس سوال کا جواب میں نے قرآن کی ایک آیت کی روشنی میں دینے کی کوشش کی۔ پھر یہی موضوع یکم جون ۲۰۰۳ کو ہمارے ہفتہ وار درس میں بھی زیر بحث رہا۔ اس گفتگو کاخلاصہ یہاں درج کیا جاتاہے۔
قرآن کی سورہ نمبر ۹ میں ایک نہایت اہم ہدایت دی گئی ہے۔ اس آیت کا ترجمہ یہ ہے: اور یہ تو نہ تھا کہ سارے اہل ایمان نکلتے تو ایسا کیو ںنہ ہوا کہ ان کے ہر گروہ میں سے ایک حصہ نکل کر آتا تاکہ وہ دین میں سمجھ پیدا کرتا اور واپس جاکر اپنی قوم کے لوگوں کو آگاہ کرتا تاکہ وہ بھی پرہیز کرنے والے بنتے (التوبہ ۱۲۲)
اس آیت کا مصداق بوقت نزول یہ تھا کہ مختلف قبیلوںسے منتخب افراد نکل کر مدینہ آئیں اور کچھ دن پیغمبر کی صحبت میں رہ کر تفقہ فی الدین کا ملکہ پیدا کریں۔ پھر واپس جاکر وہ اپنے لوگوں میں دعوت و اصلاح کا کام کریں۔
اس قرآنی ہدایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں یہ مطلوب ہے کہ مسلمانوں کے درمیان ایک غیر سیاسی قسم کی مرکزی دینی شخصیت یا غیر سیاسی مرکزی ادارہ موجود ہو۔ یہ شخصیت یا ادارہ لوگوں کے لیے تفقہ فی الدین کا مرجع ہو۔ لوگ اس سے رجوع ہو کر دینی بصیرت حاصل کریں۔ اور یہ کہ اس کے تحت تربیت پا کر ایسے اصحاب بصیرت تیار ہوں جو پیش آمدہ امور میں مسلمانوں کی صحیح دینی رہنمائی کریں۔ اس قرآنی آیت سے واضح طورپر معلوم ہوتا ہے کہ امت کے درمیان ایک فقیہ المسلمین ہونا چاہئے۔ فقیہ المسلمین کا یہ تصور گویا کہ زیادہ بہتر طورپر اس اجتماعی مقصد کو حاصل کرنا ہے جو دوسرے مذہبوں میں پوپ یا گرو یا امام معصوم کی صورت میں پایا جاتا ہے۔ پوپ یا گرو یا امام معصوم کی تعلیم کو مقدس عقیدہ کی حیثیت دے دی گئی ہے، جب کہ قرآن کے مطابق، فقیہ المسلمین کے ادارہ کی اہمیت عقیدہ کے اعتبار سے نہیںہے بلکہ اس کی اہمیت عملی ضرورت کے اعتبار سے ہے۔
فقیہ المسلمین کا یہ ادارہ اہل اسلام کے لیے فکری اعتبار سے ابدی رہنما کی حیثیت رکھتا تھا مگر بعد کے زمانہ میں یہ سیاسی غلطی ہوئی کہ فقیہ المسلمین کے بجائے خلیفۃ المسلمین کو اجتماعی ادارہ سمجھ لیا گیا۔ اور جب خلیفۃ المسلمین کا سیاسی ادارہ مسلمانوں میں موجود نہ رہا تو خلیفۃ المسلمین کے ادارہ کو دوبارہ قائم کرنے کے لیے لڑائی شروع کر دی گئی جو آج تک ختم نہ ہوئی۔
اس سلسلہ میں دوسری غلطی یہ ہوئی کہ عباسی خلافت کے زمانہ میں علماء نے تفقہ کا عمل شروع کیا تو تفقہ کے تصور کو گھٹا کر اس کو جزئی شرعی مسائل کی تحقیق کے ہم معنٰی بنا دیا گیا۔ جزئی مسائل کی یہ بحث بجائے خود اہم ہوسکتی ہے مگر وہ تفقہ فی الدین کے مدعا کی تکمیل ہر گز نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تفقہ فی الدین کے اسی ادارہ کی غیر موجودگی کا نتیجہ ہے کہ موجودہ زمانہ کے مسلمان ایک بے منزل اور بے نشان قوم بن گئے ہیں۔ ہر جگہ وہ بے مقصد جدال و قتال میںمصروف ہیں۔ ان کے درمیان کوئی ایسا فکری ادارہ نہیں جو انہیں ان کے مسائل میں صحیح اور بروقت رہنمائی دے اور ان کی سرگرمیوں کو نتیجہ خیز رخ کی طرف موڑ دے۔ تفقہ فی الدین کے ادارہ کو دوسرے لفظوں میں اسلامک تھنک ٹینک کہا جاسکتا ہے۔
مثال کے طورپر ۲۰۰ سال پہلے مسلمانوں کو نو آبادیاتی قوموں کے مقابلہ میں شکست ہوئی۔ اس وقت اگر فقیہ المسلمین کا ادارہ زندہ حالت میںموجود ہوتا تو وہ انہیں بتاتا کہ یہ سازش اور دشمنی کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ طاقت کا توازن بدل جانے کا مسئلہ ہے اس لیے تم نئے معیار کے مطابق اپنے آپ کو مستحکم بنانے کی کوشش کرو۔ اسی طرح موجودہ زمانہ میں جہاد کے نام پر بہت سی تباہ کن سرگرمیاں جاری ہیں۔ اگر فقیہ المسلمین کا ادارہ زندہ ہوتا تو وہ بتاتا کہ جہاد حکومت کا کام ہے وہ عوام کا کام نہیں۔ اسی طرح موجودہ زمانہ کے مسلمان دوسری قوموں کو دشمن قرار دے کر ان سے نفرت کرنے لگے ہیں۔ اگر فقیہ المسلمین کا ادارہ زندہ ہوتا تو وہ مسلمانوں کو بتاتا کہ یہ غیر مسلم تمہارے مدعو ہیں اور مدعو سے نفرت کرنا جائز ہی نہیں۔ اسی طرح موجودہ زمانہ کے مسلمان مغربی تہذیب کو اسلام کے حریف کے طورپر دیکھتے ہیں۔ اگر فقیہ المسلمین کاادارہ زندہ ہوتا تو وہ بتاتا کہ مغربی تہذیب اسلام کی حریف نہیں، وہ نئے مواقع کی نقیب ہے۔ تم ان مواقع کو پہچانو اور ان کو اسلام کے حق میں استعمال کرو۔
ضرورت ہے کہ فقیہ المسلمین کے ادارہ کو ایک غیر سیاسی ادارہ کی حیثیت سے دوبارہ زندہ کیا جائے اور خلیفۃ المسلمین کے سیاسی ادارہ سے الگ کرکے اس کو ڈیولپ (develop) کیا جائے۔ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کے احیاء (revival) کا یہی واحد نقطۂ آغاز ہے۔
قرآن کی سورہ نمبر ۴ کی ایک آیت کا ترجمہ یہ ہے: اور جب اُن کو کوئی بات امن یا خوف کی پہنچتی ہے تو وہ اُس کو پھیلادیتے ہیں۔ اور اگر وہ اُس کو رسول تک یا اپنے ذمّہ دار لوگوں تک پہنچاتے تو اُن میں سے جو لوگ تحقیق کرنے والے ہیں وہ اس کی حقیقت جان لیتے۔ اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اُس کی رحمت نہ ہوتی تو تھوڑے لوگوں کے سوا تم سب شیطان کے پیچھے لگ جاتے (النساء ۸۳)
قرآن کی اس ہدایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اہم اجتماعی امور میں ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ ہر آدمی اُن پر اظہار خیال کرنا شروع کردے۔ بلکہ صحیح طریقہ یہ ہے کہ اس طرح کے معاملہ کو ذمہ دار افراد تک پہنچایا جائے اور وہ غور و فکر کرنے کے بعداُس پر اپنے فیصلہ کا اعلان کریں۔ یہی معاملات کی درستگی اور اصلاح کا واحد یقینی طریقہ ہے۔
قرآن کے مطابق، خلافت یا سیاسی اقتدار ایک امتحان کی چیز ہے، وہ کسی ایک گروہ کے پاس ہمیشہ نہیں رہتا اورنہ رہ سکتا ۔ اس لیے مذکورہ قسم کی فکری تنظیم کے لیے سیاسی ادارہ پر انحصار نہیں کیا جاسکتا۔ ضروری ہے کہ اس کے لیے غیر سیاسی ادارہ ہو جو مستقل طورپر اور ہر حال میں باقی رہے۔ فقیہ المسلمین کا ادارہ اسی قسم کاایک مستقل ادارہ ہے۔ وہ ہمیشہ اورہر حال میں مسلمانوں کی فکری رہنمائی کا ضامن ہے۔ اس لیے فقیہ المسلمین کے ادارے کے قیام کی کوشش سیاسی ادارہ کے قیام سے بھی زیادہ کی جانی چاہئے۔ (۲جون ۲۰۰۳)
واپس اوپر جائیں

ایک ملاقات

۱۷مئی ۲۰۰۳ کو دہلی میں ایس آئی او (SIO) کے دفتر میں میرا ایک پروگرام تھا۔ یہاں مجھے اسلام پسند نوجوانوں سے گفتگو کا موقع ملا۔ ایک نوجوان مسٹر شمشاد احمد نے سوال کیا کہ آج کے تعلیم یافتہ طبقہ کو کس طرح موثر انداز میں اسلام کا پیغام پہنچایا جائے۔ یہی سوال زیادہ تر گفتگو کا موضوع رہا۔ میںنے کہا کہ عام طور پر یہ محسوس کیا جارہا ہے کہ اسلام آج کی دنیا میں کمتر ذہنی سطح کے لوگوں کی دلچسپی کا موضوع بن کر رہ گیا ہے۔ اعلیٰ ذہنی سطح کے لوگ اسلام کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ اس کا سبب مدعو کے اندر نہیں بلکہ داعی کے اندر ہے۔
دعوت کے نام پر موجودہ زمانہ میں بہت سی سرگرمیاں جاری ہیں۔ مگر یہ سرگرمیاں وقت کے اعلیٰ فکر ی مستویٰ(intellectual level) کے مطابق نہیں۔ ان دعوتی سرگرمیوں میں کوئی فضائل کی کہانیاں سنا رہا ہے۔ کوئی فخر پسندی کی غذا دے رہا ہے۔ کوئی اسلام کو سیاسی غلبہ کا موضوع بنائے ہوئے ہے۔ کوئی ملی مسائل پرتقریر کرنے کو دعوت سمجھے ہوئے ہے۔ کوئی کمیونٹی ورک میںمشغول ہے اور اس کو دعوہ ورک کا نام دئے ہوئے ہے۔ اس قسم کا انداز اعلیٰ ذہنی سطح کے لوگوں کو اپیل نہیں کرسکتا اس لیے وہ اس کی طرف متوجہ بھی نہیں ہوتے۔
قرآن میںدعوتی کلام کا معیار یہ بتایا گیا ہے کہ وہ قولاً بلیغاً فی انفسہم (النساء ۶۳) کا مصداق ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مخاطب کے ذہن کو ایڈریس کرے۔ موجودہ زمانہ کے داعیوں کا کلام جدید انسان کے ذہن کو ایڈریس نہیں کرتا۔ اس لیے اسلام ان کے لیے قابل غور چیز بھی نہیں بنتا۔ آج دنیا میں ہر جگہ لوگ اسلام قبول کررہے ہیں مگر یہ زیادہ تر متوسط طبقہ کے لوگ ہیں۔ بہت کم ایسے افراد ہوں گے جو مثبت معنوں میںذہنی انقلاب کے بعد اسلام میں داخل ہوئے ہوں۔ جدید تاریخ میں ایسے قلیل افراد کی ایک مثال مجھے ڈاکٹر نشی کانت چٹوپادھیائے میں ملتی ہے۔ وہ ایک سچے متلاشی ٔ حق تھے۔انہوں نے اپنے گہرے ذاتی مطالعہ سے اسلام کو سمجھا اور اس کو قبول کیا۔ ان کا واقعہ میں نے اپنی کتاب (Islam Rediscovered) میں نقل کیا ہے۔
پچھلی صدیوں میں اور موجودہ زمانہ میں بڑی تعداد میں لوگ اسلام کے دائرہ میں داخل ہوئے۔ مگر یہ لوگ اسلام کی جدید تاریخ بنانے کا باعث نہ ہوسکے۔ مسلمانوں کی جدید نسلوں کا سفر بدستور زوال کی طرف جاری رہا۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ یہ تمام نو مسلم رد عمل کی نفسیات کے تحت اسلام میں داخل ہوئے۔مثال کے طورپر ڈاکٹر بی آر امبیڈکر اعلیٰ ذہنی صلاحیت کے آدمی تھے۔ وہ اسلام قبول کرنا چاہتے تھے۔ لیکن مہاتما گاندھی اوردوسرے ہندو لیڈروں کی مداخلت سے ایسا نہ ہوسکا۔ تاہم اگر وہ اسلام قبول کرتے تو مجھے اُمید نہیں کہ ان کا قبول اسلام مثبت معنوں میں کسی جدید اسلامی تاریخ کے آغاز کا سبب بن سکتا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام کی طرف ان کا میلان برہمنزم کے خلاف رد عمل کے تحت ہواتھا۔ایسی حالت میں اگر وہ اسلام قبول کر لیتے تب بھی صرف یہ ہوتا کہ وہ اسلام کے اسٹیج سے برہمنزم کے خلاف ایک محاذ کھول دیتے۔ مثبت معنوں میں وہ اسلام کی کوئی انقلابی خدمت نہ کر پاتے۔ جیسا کہ بدھزم کو قبول کرنے کے بعد اُنہوں نے کیا۔
اس معاملہ کی ایک مثال وہ تعلیم یافتہ نو مسلم افرادہیں جنہوں نے موجودہ زمانہ میں اسلام قبول کیا ہے۔ میرے علم کے مطابق، یہ سب کے سب ردّ عمل کی نفسیات کے تحت اسلام کی طرف آئے۔ اس لیے وہ مثبت معنوں میں اسلام کی جدید تاریخ بنانے کا ذریعہ نہ بن سکے۔ان میں سے کوئی مسلمانوں کے کسی کمیونٹی ورک میں لگا ہوا ہے اور کوئی مفروضہ مسلم دشمنوں کے خلاف تقریر کررہا ہے۔موجودہ زمانہ کے معروف نو مسلموں میں سے اکثر کو یا تو میںنے سنا ہے یا پڑھا ہے یا ان سے ملاقات کی ہے۔ مگر میرے تجربہ کے مطابق، یہ سب لوگ کسی نہ کسی طور پر رد عمل کی نفسیات کے تحت اسلام کی طرف آئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قبول اسلام کے بعد بھی ان کے سینہ میں غیر قوموں کے خلاف کدورتیں ختم نہیں ہوئیں۔ وہ اب بھی ردّ عمل کی بولی بول رہے ہیں۔ مثلاً امریکا کے حمزہ یوسف اور سراج وھّاج، جرمنی کے مرادہاف مین، برطانیہ کے یوسف اسلام، ہندستان (کیرلا) کی ڈاکٹر ثریا ، وغیرہ۔
میرے مطالعہ کے مطابق،موجودہ زمانہ کے خود مسلم داعیوں اوررہنماؤں کا حال بھی تقریباً یہی ہے۔ موجودہ زمانہ میں جتنے بھی عرب یا غیر عرب علماء اور مفکرین اسلام کی خدمت کے لیے اُٹھے وہ کسی نہ کسی اعتبار سے رد عمل کی نفسیات کے تحت اُٹھے۔ کوئی استعمار کے مسئلہ سے بھڑ ک اُٹھا۔ کوئی صہیونیت کی زمین سے اُبھرا۔ کسی کو مغربی تہذیب کے غلبہ نے بے چین کردیا۔ کوئی ہندو خطرہ یا غیرہندو خطرہ کے خلاف مجاہد بن گیا۔ کوئی مسلمانوں کی سیاسی مغلوبیت پر بے برداشت ہو کر تحریک چلانے لگا، وغیرہ۔ جب کہ داعی وہ ہے جو ابدی حقائق کی دریافت سے اُبھرے، نہ کہ وقتی مسائل کے ہنگاموں سے۔
دعوت کے مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے میں نے کہا کہ دعوت کے دو مختلف اسلوب ہیں— مقلدانہ اسلوب اور مجتہدانہ اسلوب ۔ اس وقت دنیا کے مختلف حصوں میں جو دعوتی کوششیں ہورہی ہیں وہ سب کی سب مقلدانہ اسلوب پر ہو رہی ہیں۔ اس قسم کے اسلوب سے صرف تقلیدی مزاج کے لوگ ہی متاثر ہوسکتے ہیں اور وہی اس سے متاثر ہورہے ہیں۔ جدید طبقہ مجتہدانہ اسلوب چاہتا ہے مگر مجتہدانہ اسلوب میں دعوتی کام سرے سے نہیں ہو رہا ہے اس لیے جدید طبقہ اسلام کی طرف مائل بھی نہیں ہو رہا ہے۔اس بنا پر اسلامی دعوت اور جدید طبقہ کے درمیان ایک قسم کا ذہنی بُعد (intellectual gap) پیدا ہوگیا ہے۔ دعوتی عمل کو تعلیم یافتہ طبقہ کے درمیان موثر بنانے کے لیے اس بُعد کو ختم کرنا ضروری ہے۔
پچھلے دنوں میری ملاقات بہار کے ایک صاحب ڈاکٹر اکرام الحق سے ہوئی۔ وہ ایم ڈی کی ڈگری لیے ہوئے تھے۔ انہیں اسلامیات کے مطالعہ کا شوق ہے۔ انہوں نے کہاکہ میں نے انگریزی اور اردو کی تقریباً تمام تفسیریں پڑھی ہیں مگر مجھے ان تفسیروں سے اطمینان نہیں ہوا۔ اس قسم کا احساس موجودہ زمانہ کے اکثر اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں میں ہوتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ تفسیریں زیادہ تر تقلیدی اسلوب میں لکھی گئی ہیں۔ میرے علم کے مطابق، حقیقی معنوں میں مجتہدانہ اسلوب میں کوئی تفسیر ابھی تک لکھی نہیں گئی ۔
میں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ قرآن کی ایک آیت ہے: کلما اوقدوا ناراً للحرب اطفأھا اللہ (المائدہ ۶۴) اس آیت میں جو بات کہی گئی ہے وہ جدید امن پسند طبقہ کے لیے بے حد پرکشش ہے مگر کسی بھی عربی یا اردو یا انگریزی تفسیر میں اس کی معنویت کو کھولا نہیں گیا ہے۔ عام طورپر اس آیت میں قدیم یہود کے معاملہ کو بتایا جاتا ہے۔ گویا کہ تمام مفسرین اس آیت کو زمانی مفہوم میں لے رہے ہیں۔ اس طرح یہ آیت بظاہر قدیم زمانہ کی ایک گزری ہوئی داستان بن کر رہ گئی ہے۔ نتیجۃً خود قرآن بھی غیر جانبدار قاری کو زمانۂ ماضی کا ایک قصہ معلوم ہوتا ہے جس میں آج کے لیے کوئی رہنمائی موجود نہ ہو۔
قرآن کو سمجھنے کے لیے ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ اس میں جو بات قدیم ریفرنس میں کہی گئی ہو اس کوآج کا ایک مفسر جدید حوالہ (modern context) میں دیکھ سکے، وہ اس آیت کا نیاانطباق (reapplication) دریافت کرسکے۔اس اعتبار سے غور کیجئے تو قرآن کی مذکورہ آیت میں ایک ابدی اصول بتایا گیا ہے۔ وہ یہ کہ اہل اسلام کی پالیسی یہ ہونا چاہئے کہ دوسرے لوگ جنگ چھیڑیں تو وہ حسن تدبیر سے اس کو اوائڈکرنے کی کوشش کریں، نہ یہ کہ خود بھی جنگ میں الجھ جائیں:
Muslims must adopt the policy of avoiding war rather than of indulging in war.
موجودہ زمانہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ مسلم اور نو مسلم دونوں کے درمیان کمیونٹی کاز (community cause) کی دھوم ہے۔ مگر ان میں سے کوئی بھی حقیقی معنوں میں ڈوائن کاز (divine cause) کے لیے تڑپنے والا ، اس کے لیے کام کرنے والا نظرنہیں آتا۔ حتیٰ کہ ہزاروں کتابیں ہرجگہ چھپ رہی ہیں مگر میرے علم کے مطابق، کوئی بھی کتاب انسانیت عامہ کو موثر انداز میں خطاب کرنے والی نہیں۔
موجودہ زمانہ کا سب سے زیادہ اندوہناک واقعہ یہ ہے کہ مسلمانوں میںدعوت الی اللہ کا عمل سرے سے وجود ہی میںنہ آسکا۔ کچھ مسلمان یا مسلم جماعتیں بظاہر دعوت کے نام پر سرگرم ہیں مگر یقینی طورپر وہ دعوت الی اللہ کا عمل نہیں۔ یہ لوگ اصلاًکوئی اور کام کررہے ہیں جس کا دعوت الی اللہ سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اس کوانہوں نے دعوت کاعنوان دے دیا ہے۔
مسلمانوں کی موجودہ تاریخ کا دعوت الی اللہ سے خالی ہونا کوئی سادہ بات نہیں۔ اس کے اسباب نہایت گہرے ہیں۔ اصل یہ ہے کہ بعد کے زمانہ میں قرآن کی جو تفسیریں لکھی گئیں یا جو اسلامی لٹریچر تیار ہوا ان میںدعوت الی اللہ کو سرے سے حذف کردیا گیا۔ دعوت الی اللہ کیا ہے اور اس کے لازمی اجزاء کیا ہیں، یہ قرآن میںنہایت واضح طورپرموجود ہے۔ مگر بعد کے زمانہ میں جو تفسیریں لکھی گئیں ان میں یہ سب چیزیں یا تو منسوخ کردی گئیں یا ان کی تفسیر درست طورپر نہ ہوسکی۔
مثلاً دعوت کے لیے ضروری ہے کہ داعی دوسرے لوگوں کو اپنی قوم سمجھے، جیسا کہ قرآن کے بیان کے مطابق پیغمبروں نے سمجھا۔ مگر بعد کے زمانہ میں دوسرے گروہوں کو کافر قرار دے کر انہیں غیر قوم کے خانہ میں ڈال دیاگیا۔ اسی طرح دعوت کے لیے ضروری ہے کہ مدعوکی زیادتیوں پر یک طرفہ صبر کیا جائے۔مگر تفسیروں میں صبر کے حکم کو جہاد سے پہلے کے دور کی چیز قرار دے دیا گیا۔ اسی طرح دعوت کے لیے تالیف قلب لازمی طورپر ضروری ہے۔ مگر بعد کی تفسیروں میں تالیف قلب کے اصول کو ہمیشہ کے لیے منسوخ قرار دے دیاگیا۔ دعوت کے لیے ضروری ہے کہ اس کو لا اسئلکم علیہ من اجر کے اصول پر چلایا جائے۔ مگر موجودہ زمانہ میں دعوت کے ساتھ ملّی حقوق کی مطالباتی مہم کو جوڑ دیا گیا، وغیرہ۔شکایتی اور احتجاجی باتیں قاتل دعوت ہیں نہ کہ معاونِ دعوت۔
دعوت الی اللہ کے لیے قرآن کی شرطوں کو ملحوظ رکھے بغیر دعوت کا کام کرنا ایک مضحکہ خیز عمل ہے۔ اس کو دعوت الی اللہ کا مقدس نام ہر گز نہیں دیا جاسکتا۔ اس صورت حال کو بدلنے کے لیے ضروری ہے کہ مقلدانہ ذہن کو توڑ کر مجتہدانہ ذہن کے تحت سوچا جائے۔ اس کے بغیر دعوت الی اللہ کاعمل کبھی زندہ نہیں ہوسکتا۔ (۳۰ مئی ۲۰۰۳)
واپس اوپر جائیں

سوال وجواب

سوال
جون ۲۰۰۳ء کا الرسالہ ملا۔ اس الرسالہ میںمیرے نام ایک خط شائع ہوا ہے۔ آپ کا اصرار ہے کہ میں اپنا نقطۂ نظر تحریری طورپر بھیجوں آپ ضرور اس پر غور کریں گے۔ آپ ہمیشہ تنقید کو wel come کرتے ہیں۔ آپ کی اس یقین دہانی کے پیش نظر آپ کو اپنا opinion لکھ رہا ہوں۔ امید کرتا ہوں آپ اس پر positive یا negative جو بھی آپ کی رائے ہوگی اس سے مجھے ضرور باخبر کریں گے۔
قبولیت تنقید کی بنیادی شرط ہے، فرد کو معاملہ سمجھنے کے لیے اپنے آپ کو خود فریبی کے حصار سے نکالنا، جو بات کہی جارہی ہے اس پر اپنے کامن سنس کو اپلائی کرنا، ورنہ خود فریبی معاملہ میں پیچیدگی پیدا کردیتی ہے اور فرد سمپل لاجک کو سمجھنے سے محروم ہوجاتاہے۔
الرسالہ جون ۲۰۰۳ء کے سرِ ورق پر حسب معمول آپ کے قلم سے نکلا ہوا حسب ذیل جملہ نقل کیا گیا ہے۔
’’کوئی آدمی کیا ہے، اس کو جاننے کا ذریعہ یہ نہیں ہے کہ وہ کیا باتیں کرتا ہے بلکہ یہ ہے کہ اس کا حقیقی کردار کیا ہے۔‘‘ یہ جملہ منفی سوچ کا آئینہ ہے۔ اس جملہ میں منفی سوچ ہے یہ کیسے معلوم کیا جائے۔ اس لیے ہم ایک تجربہ کرتے ہیں آپ بھی غور کریں۔
کوئی آدمی یہ کہے کہ ’’مولانا وحید الدین خاں کیا ہے، اس کو جاننے کا ذریعہ یہ نہیں ہے کہ وہ کیا باتیں کرتے ہیں۔ بلکہ یہ ہے کہ مولانا وحید الدین خان کا حقیقی کردار کیا ہے‘‘۔ یہ یقینا منفی سوچ negative thinking ہے۔
با اخلاق انسان کے لیے منفی سوچ سے پرہیز لازم ہے۔ الرسالہ جیسے تعمیری جریدہ میں منفی سوچ کو کیسے جگہ مل گئی حیرت ہے؟ الرسالہ جون ۲۰۰۳ کے صفحہ نمبر ۳۳ اور ۳۴ پر آپ کا میرے نام لکھا ہوا جو خط شائع ہوا ہے اس کے پہلے پیراگراف میںآپ نے آگے آنے والی بحث کے لیے ایک ڈسپلن مقرر کیا ہے کہ:
’’بنیادی سوال یہ ہے کہ کس کو کس کے تابع کیا جائے۔ حوصلہ کو برداشت کے تابع کیا جائے یا برداشت کو حوصلہ کے تابع۔ اسی راز کو جاننے کا نام کامیابی ہے‘‘۔
اس کے بعد پیراگراف نمبر ۲۔۳۔۴ اور ۵ میں بحث کو پوری کرتے ہوئے نتیجہ نکالا ہے۔ اس پوری بحث کو میںانٹلکچول ڈس اونسٹی (intellectual dishonesty) کا کیس کہوں گا، کیوں کہ لفظ کی شکل بگاڑ کر بات کرنا اور اپنی بات ثابت کرنا intellectual dishonesty کے سوا کچھ بھی نہیں۔
حوصلہ زندگی کی ایک اہم قدر ہے، یہ آپ مانتے ہیں۔ لیکن پوری بحث میںلفظ حوصلہ کی شکل بگاڑ کر بات کرتے ہیں۔ مثلاً انگریزی کا لفظ confidence جو ایک نفسیاتی علامت ہے اس کی تشریح کوئی شخص لفظ over confidence کا استعمال کرکے لفظ confidence کی نفسیاتی علامت کی اہمیت گھٹائے کیا آپ اسے علمی تجزیہ کہیں گے؟ اردو لفظ حوصلہ کی ٹرم: پختہ ارادہ، احساس یافت، اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی جدو جہد میں مدد گار نفسیات کے لیے لفظ حوصلہ کی ٹرم (term) استعمال کی جاتی ہے۔ اورہمیشہ مثبت (positive) نفسیات کے لیے بولا جاتا ہے۔
اس کے برخلاف منفی (negative) نفسیات کے لئے لفظ حوصلہ کی شکل بگاڑ کر نہیں بولا جاتا بلکہ اس کے لیے خود فریبی، مایوسی، اندھی چھلانگ، انتقام، ظلم، تکبر وغیرہ الفاظ کا استعمال کیا جاتا ہے۔
لفظ کو اس کے مقام سے ہٹانا یا اس کی شکل بگاڑنا intellectual dishonesty کا کیس ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے چند مثالیں نقل کر رہا ہوں۔ آپ بھی غور کریں۔ مثلاً:
سوسائیڈائیکر کو شہید کہنا یا لکھنا
معصوم لوگوں کے قاتل کو مجاہد کہنا یا لکھنا
ڈاکو کو بہادر کہنا یا لکھنا
چور کو عقل مند کہنا یا لکھنا
سود کو تجارت کہنا یا لکھنا
ان تمام مثالوں میںخط کشیدہ الفاظ کو اس کے مقام سے ہٹا یا گیا ہے جو صد فی صد intellectual dishonesty کا کیس ہے۔
آپ اپنی تحریر کی خامی کو پرکھنے کے لیے پرائمری اسکول کا بنیادی سبق ’’جملہ بنانے کی مشق کرو‘‘ اس سے رجوع کریں ۔اس مشق سے جملہ میں استعمال کیے گئے الفاظ کا فہم طالب علم کے ذہن پر نقش ہوتاہے جس کی وجہ سے طالب علم لفظ کو سن کر یا پڑھ کر اس کے صحیح ادراک کو پالیتا ہے۔ اگر آپ لفظ حوصلہ کا استعمال کرتے ہوئے جملہ بنائیں گے تو آپ جان لیں گے کہ حوصلہ اس نفسیات کا نام ہے جس کے تابع برداشت۔ سچ بولنا، در گزر، اخلاق، سخاوت، انصاف ، رواداری وغیرہ۔ ایسی کئی مثبت سوچ و عمل پر انسان کو ٹھہرائے رکھنے کی وجہ حوصلہ کی نفسیات ہے۔
میں نے آپ سے جو بات ٹیلی فون پر کہی تھی وہ قرآن شریف کی عربی لغت میں لفظ صبر کے فہم کے متعلق تھی۔ میںنے آپ سے کہا تھا کہ قرآنک عربک لغت میںلفظ صبر کا فہم اردو لفظ حوصلہ میں پورا ہوتا ہے۔ اردو کا لفظ برداشت قرآن شریف کے لفظ صبر کا کمزور ترین مفہوم ہے۔ ایک صاحب نے کہا کہ آڑ میںآپ نے خط میں پورے معاملہ کو ہی بدل کر رکھ دیا۔ اس خط میںآپ نے پہلے پیراگراف میںجن انگریزی الفاظ courage (حوصلہ)، patience (برداشت) کو نقل کیا ہے۔ میری معلومات کے مطابق یہاں پر بھی آپ سے سہو ہوا ہے۔
انگریزی لفظ courage کے لیے اردو لفظ جرأت، ہمت، بہادری قریب ترین لفظ ہیں۔ اردو لفظ برداشت کے لیے صحیح انگریزی لفظ tolerate یا tolerance ہیں۔ آپ اکثر اپنی تحریروں میںلفظ برداشت کے لیے ان ہی انگریزی لفظوں کا استعمال کرتے ہیں۔
انگریزی کا لفظ patience فہم کے اعتبار سے اردو لفظ برداشت سے بہت بلند ہے۔ اردو لفظ برداشت اس کا احاطہ نہیں کرسکتا۔
انگریزی لفظ confidence + patience کا فہم قرآنک عربک لغت کے لفظ صبر سے قریب ترین ہے اور اردو لفظ حوصلہ کے بھی۔
یہ الفاظ انسانی نفسیات کی علامت کے بطور بولے اور لکھے جاتے ہیں اور یہی نفسیات انسان کی سوچ میں مددگار ہوتی ہے اوراسی سے انسانی نفسیات کو تولا اور پرکھا جاتا ہے۔ (عبد السلام اکبانی، ناگپور، ۴ جون ۲۰۰۳)
جواب
۱۔ خود فریبی کیا ہے اور کون شخص خود فریبی میں مبتلا ہے۔ اس کا تحقق کسی شخص کے مدعیانہ ریمارک سے نہیں ہوسکتا۔ اس کو معلوم استدلالی اصول کے مطابق موضوعی طورپر ثابت کیا جانا چاہئے۔ اس سے پہلے کسی کو خود فریبی کا شکار بتانا ایک غیر ذمّہ دارانہ بیان ہے نہ کہ کوئی علمی بیان۔ میں نے آپ کی تحریر کو کئی بار پڑھا مگر میراا حساس ہے کہ آپ نے اس سلسلہ میں اپنے بیان کی کوئی بھی علمی دلیل نہیں دی۔
۲۔ الرسالہ ماہ جون ۲۰۰۳ میںسرِورق پر جو جملہ نقل کیا گیا ہے وہ در اصل مؤطا الامام مالک کی ایک روایت کا تقریباً ترجمہ ہے۔ یہ روایت حدیث کے اس مشہور مجموعہ میں کتاب الجامع کے تحت آئی ہے۔ اس روایت کے الفاظ یہ ہیں: قال مالک وبلغنی ان القاسم بن محمّدٍ کان یقول: ادرکت الناس وما یعجبون بالقول، قال مالک: یُرید بذلک العملَ، إنما یُنظر إلی عملہ ولا ینظر إلی قولہ (ص ۷۰۲) آپ نے الرسالہ کے جس شائع شدہ جملہ کو منفی سوچ کا آئینہ بتایا ہے اس کی زَد ان مقدّس لوگوں تک جاتی ہے جوثابت شدہ طور پر پوری امت کے لیے قُدوہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پھر کیا آپ اپنے مذکورہ تبصرہ کی اس توسیع کو پسند کریں گے۔
۳۔ آپ نے الرسالہ جون ۲۰۰۳ میں میری چھپی ہوئی ایک عبارت کو انٹیلکچول ڈس اونسٹی intellectual dishonesty) (قرار دیا ہے مگرآپ نے اس کا کوئی ثبوت نہیںدیا۔ بات صرف اتنی تھی کہ صبر کا لغوی مفہوم کیا ہے اوراس کا استعمالی مفہوم کیا۔ میرا کہنا یہ ہے کہ صبر کا لغوی مفہوم برداشت یا اپنے آپ کو روکنا ہے۔ مشہور عربی لغت لسان العرب میں صبر کا مفہوم ان الفاظ میںبتایا گیا ہے: اصَلُ الصبر الحبسُ، الصبر نقیض الجزع (۴؍۴۳۸) جس طرح بیش تر الفاظ کے استعمالی مفہوم میں توسیع ہوتی ہے اسی طرح صبر کے استعمالی مفہوم میںبھی توسیع ہوئی ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ خالص علمی اعتبار سے میرے اس نقطۂ نظر میںاعتراض کا پہلو کیا ہے۔
آپ نے جس چیز کو انٹلکچول ڈس اونسٹی کہا ہے وہ میرے لیے ناقابل فہم ہے۔ میںالرسالہ میںاکثر اس طرح کی مثالیں دیتا رہا ہوں کہ تاریخ کی کئی بڑی شخصیتوں میں حوصلہ اور ہمت کی زبردست صلاحیت تھی مگر وہ ناکام ہوگئے کیوں کہ انہوں نے یہ نہیں سمجھا کہ جس صورت حال کے مقابلہ میں وہ اپنے حوصلہ کا استعمال کررہے ہیں وہ در اصل برداشت کا معاملہ ہے۔
مثال کے طورپر ہندستان کی دو شخصیتوں کو لیجئے—سبھاش چندر بوس اور مہاتما گاندھی۔ دونوں یکساں طورپر با حوصلہ شخص تھے۔ دونوں نے برٹش ایمپائر کے خلاف اقدام کیا۔ اس اقدام میںسبھاش چندر بوس مبینہ طورپر ناکام رہے اور مہاتما گاندھی کامیاب ۔ اس کا سبب یہی تھا کہ سبھاش چندر بوس کے پاس حوصلہ تھا مگر ان کے پاس صابرانہ منصوبہ بندی نہ تھی۔ جب کہ گاندھی کے پاس حوصلہ کے ساتھ صابرانہ منصوبہ بندی بھی موجود تھی۔ اس فرق نے ایک کو ناکام بنا دیا اور دوسرے کوکامیاب کردیا۔ میںنے اپنی تحریر میں حوصلہ کے مفہوم کو بگاڑا نہیں بلکہ یہ لکھا ہے کہ حوصلہ کو برداشت کے تابع رکھا جائے نہ کہ برداشت کو حوصلہ کے تابع بنا یا جائے۔ یہ واضح طورپر تدبیر کار کا معاملہ ہے نہ کہ انٹلکچول ڈس آنسٹی کا معاملہ۔
۴۔ آپ نے جو مثالیں نقل کی ہیں وہ سب فرضی مثالیں ہیں۔ کسی ڈسکشن میں اسی مثال کا تجزیہ کرنا چاہئے جو پیش کرنے والے نے پیش کی ہے۔ مفروضہ مثال سے ڈسکشن میںکوئی مدد نہیں ملتی۔ مثلاً آپ نے confidence اور over confidence کا تقابل کیا ہے۔ اسی طرح آپ نے ڈاکو کو بہادر اور چور کو عقلمند کہنے کی مثالیں دے کر اپنا نقطۂ نظر ثابت کرنے کی کوشش کی ہے جو میری تحریر میں موجود نہیں۔ آپ کو میری تحریر میں وارد شدہ الفاظ یا مثال کا تجزیہ کرکے اپنی بات ثابت کرنا چاہئے، نہ یہ کہ آپ کچھ مفروضہ مثالوں کو لے کر اپنا نقطۂ نظر ثابت کریں۔ اس قسم کی مثالیں اصل بحث کی نسبت سے ارریلیوینٹ(irrelevant) ہیں۔
۵۔ آپ نے اپنی تحریر میںایک عجیب وغریب نصیحت مجھے یہ کی ہے کہ ’’آپ اپنی تحریر کی خامی کو پرکھنے کے لیے پرائمری اسکول کے بنیادی سبق کی مشق کریں‘‘۔ میں نہیں سمجھ سکتا کہ آپ کی ان سطروں کا زیر بحث مسئلہ سے کیا تعلق ہے۔یہ ایک مجرّد ریمارک ہے اور مجرّد انداز میں منفی ریمارککسی بھی شخص کے بارے میں کیا جاسکتا ہے۔ مگر اس قسم کے ریمارک سے کوئی بات ثابت نہیںہوتی۔
۶۔ آپ کی کچھ سطریں لسانیات سے متعلق ہیں۔ مثلاً آپ نے لکھا ہے کہ انگریزی لفظ پیشنس (patience) فہم کے اعتبار سے اردو لفظ برداشت سے بہت بلند ہے۔ آپ کا یہ بیان صرف ایک دعویٰ ہے جس کے لیے آپ نے کوئی دلیل نہیں دی۔ انگریزی کے مشہور لغت ویبسٹر (Webster's) میں پیشنس (patience) کا مفہوم ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:
The will or ability to wait or endure without complaint. (p. 1314)
ٹھیک یہی مفہوم برداشت کا بھی ہے، پھر دونوں میںکیا فرق۔
۷۔ آپ نے پورے خط میںایک عجیب و غریب انداز اختیار کیا ہے۔ آپ نے میرے خلاف کئی سخت بیانات دئے ہیں۔ مگر آپ نے اپنی تائید میں کوئی دلیل نہیں دی اور نہ کسی بات کا علمی اصول کے مطابق تجزیہ کیا۔ آپ نے صرف خود اپنے بیان پر انحصار کیا ہے۔ مگر ظاہر ہے کہ شعر و شاعری میں ’’مستند ہے میرا فرمایا ہوا‘‘ کا انداز تو ضرور چل سکتا ہے مگر علمی بحث میں یہ انداز بالکل بے فائدہ ہے۔آپ کو مدعیانہ کلام کے بجائے مدلّل کلام کا طریقہ اختیار کرنا چاہئے۔
۸۔ آپ کے خط میںایک اور بڑی عجیب بات ہے اور وہ ہے مجھ پر انٹلکچول ڈس آنسٹی کا الزام لگانا۔ آپ کو شاید یہ بات معلوم نہیں کہ متعین اور مشخص طورپر کسی پر اس قسم کا ذاتی الزام لگانا بے حد سنگین بات ہے۔ایسے الزام کے لئے ناقابل تردید دلائل درکار ہیں۔محض قیاسی اندازہ اس کے لیے کافی نہیں۔ میں آپ کو مشورہ دوں گا کہ آپ اس قسم کی باتوں کو اختلاف رائے کے خانہ میں ڈالیں نہ کہ انٹلکچول ڈس آنسٹی کے خانہ میں۔ انٹلکچول ڈس آنسٹی کا تعلق نیت سے ہے اور نیت کا علم صرف خدا کوہے۔ یہ بے حد غیر ذمہ دارانہ بات ہے کہ قطعی دلائل کے بغیر کسی متعین شخص پر انٹلکچول ڈس آنسٹی کا الزام لگایا جائے۔
۹۔ آپ کا ایک ارشاد یہ ہے کہ میںنے لفظ حوصلہ کی شکل بگاڑ کر اپنا نقطۂ نظر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ بلا شبہہ ایک غیر علمی بات ہے۔ اگر میں کہوںکہ زندگی میں کامیابی کے لیے صرف حوصلہ کافی نہیں ہے بلکہ اسی کے ساتھ ضروری ہے کہ آدمی اپنے جذبات کو تھام کر اپنے اقدام کی دوراندیشانہ منصوبہ بندی کرے تو یہ حوصلہ کے مفہوم کو بگاڑنا نہیں ہوا بلکہ یہ زندگی کی وسیع تر حقیقتوں کو سامنے رکھ کر اس کا مفہوم متعین کرنا ہے۔ آپ کو غالباً معلوم ہوگا کہ حضرت عمر نے خالد بن ولید کو سپہ سالار کے مقام سے ہٹایا تھا تو اس کا ایک خاص سبب یہ تھا کہ حضرت خالد ایک بے حد حوصلہ مند آدمی تھے اوراپنے اس جذبہ کے تحت ایسا اقدام کردیتے تھے جو حضرت عمر فاروق کے نزدیک سنگین رسک لینے کے ہم معنیٰ تھا۔
۱۰۔ تنقید کو قبول کرنے کی شرط وہ نہیں ہے جو آپ نے اپنے خط میں تحریر فرمائی ہے۔ آپ کی زیر نظر تحریر کی نسبت سے اس کی شرط یہ ہوگی کہ تنقید علمی طورپر درست ہے۔ جیسا کہ اوپر کے تجزیہ سے واضح ہوتاہے، آپ کی تنقید علمی اعتبار سے درست ہی نہیں۔ ایسی حالت میں اس کو کس طرح قبول کرلیا جائے گا۔
یہاں میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ تنقید ایک بے حد مشکل کام ہے۔ صحیح تنقید کے لیے کئی ضروری شرطیں درکار ہیں۔ مثلاً ناقد متعلقہ موضوع پر عالمانہ نظر رکھتا ہو۔ اس کو معلوم ہو کہ علمی فریم ورک کیا چیز ہے۔ وہ ریلیوینٹ (relevant) اور ارریلیونٹ (irrelevant) کے فرق کو بخوبی جانتا ہو۔ وہ عقل پر مبنی استدلال (reason based argument) سے بخوبی طورپر واقف ہو۔ وہ جانتا ہو کہ لفظی الزام اور مدلّل تنقید میںکیا فرق ہے، وغیرہ۔ جس آدمی کو ان باتوں کا گہرا علم نہ ہو اس کو اس حدیث رسول کو اپنا رہنما بنانا چاہئے: من کان یؤمن باللہ والیوم الآخر فلیقل خیراً أو لیصمت۔
سوال
آپ سے الرسالہ کے متعلق دو سوال عرض کرتاہوں، شاید آپ جواب دے سکیں۔ کیوں کہ آپ کی تو عادت ہے جواب سے کترانا اور ایسا جواب دینا جس سے سائل متفق نہ ہوسکے۔
۱۔ آپ نے الرسالہ فروری ۲۰۰۳ء کے صفحہ ۳۵ پر لکھا ہے کہ میں ملحد ہوگیا۔ اور پھر ۱۹۴۹ء میں دوبارہ اعظم گڑھ کی جامع مسجد میں ماسٹر عبد الحکیم انصاری کے سامنے کلمۂ شہادت ادا کیا۔ آپ کو کس خیال نے منکر بنایا؟ اور آپ نے پھر دوبارہ اسلام قبول کیسے اور کیوں کیا؟ دوسرا سوال اسی سے متعلق یہ ہے کہ آپ نے الرسالہ ستمبر ۱۹۹۹ ء میں لکھا ہے کہ میری شادی ۱۹۴۲ ء میں ہوئی۔ یعنی منکر کی حالت میںآپ نے شادی کی تو کیا اسلام لانے کے بعد دوبارہ نکاح کیا؟ جب کہ آپ نے نکاح حرام کیا تھا؟
۲۔ آپ نے ’’صدام حسین کے لیے انتخاب‘‘ کے تحت الرسالہ جون ۲۰۰۳ء میں لکھا ہے صدام حسین کو وہاں سے ہٹ جانا چاہئے۔ یہ ایک ایسا پاگل پن مشورہ ہے جسے کوئی بھی با شعور انسان قبول نہیں کرسکتا۔ اگر آپ کے ساتھ امیریکا کہے کہ آپ اپنے مشن کو ختم کرڈالیں اور ہندستان سے نکل جائیں ورنہ آپ کو تباہ کر ڈالا جائے گا تو آپ کا کیا جواب ہوگا؟ شاید آپ جواب دیں مجھے تو امید نہیں ہے۔ (شاہ عمران حسن، دلاورپور، مونگیر )
جواب
سائل کا سوال یہاں سائل کے اپنے الفاظ میں پورا نقل کردیا گیا ہے۔ مذکورہ سوالات کا جواب مختصر طورپر عرض ہے۔
۱۔ الرسالہ فروری ۲۰۰۳ میں جس معاملہ کا ذکر ہے وہ وقتی طورپر اسلام کے بارے میں کچھ شکوک و شبہات کا ذہن میں پیداہونا ہے۔ اس قسم کے شکوک و شبہات ہمیشہ ان لوگوں کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں جو تخلیقی فکر کے مالک ہوں۔ یہ شکوک و شبہات کسی سنجیدہ انسان کے لیے عظیم تر یقین تک پہنچانے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ کی توفیق سے میرے ساتھ پیش آیا۔ شکوک و شبہات کا یہ وقتی معاملہ تاریخ میں بہت سے بڑے بڑے علماء کو پیش آیا ہے۔ مثلاً امام ابو الحسن اشعری، امام الغزالی، امام الرّازی، مولانا عبد الماجد دریا آبادی، مولانا ابوالکلام آزاد وغیرہ۔ اس قسم کا مرحلہ پیش آنا کوئی عیب کی بات نہیں، حقیقت یہ ہے کہ یہ روایتی عقیدہ سے گزر کر اعلیٰ معرفتِ حق تک پہنچنے کا ایک مرحلہ ہے۔ وہ لوگ بہت خوش نصیب ہیں جن کو اللہ کی رحمت سے یہ مرحلہ پیش آئے۔
۲۔ میرے ساتھ جو مذکورہ مرحلہ پیش آیا وہ خدا نخواستہ ترک اسلام یا انکار اسلام کا مرحلہ نہ تھا۔ وہ صرف تحقیق مزید کا معاملہ تھا۔ چنانچہ ان سالوں میں بھی میں مسلسل اللہ سے دعا کرتا تھا۔ میں حسب معمول دوسرے مسلمانوں کی طرح نماز و روزہ اداکرتا تھا۔ اور خصوصیت سے قرآن کے ان الفاظ پر غور کیاکرتا تھا جو ایک پیغمبر کے حوالہ سے آئے ہیں: قال اَو لم تُؤمن قال بلیٰ ولکن لیطمئن قلبی (البقرہ ۳۶۰ )
۳۔ جہاں تک صدّام حسین کے بارے میں میرے مشورہ کا معاملہ ہے تو اس میںسائل کی حیثیت ایک فارسی مقولہ کے مطابق، مدّعی سست گواہ چست کی مانند ہے۔ صدام حسین صاحب کویہ مشورہ میںنے آغاز جنگ سے تقریباً ایک مہینہ پہلے دیا تھا۔ مگر جیسا کہ معلوم ہے، صدّام حسین صاحب نے یہ مشورہ اس وقت نہیں مانا مگر جب امریکہ نے شدید بمباری کے ذریعہ صدّام حسین کے محلوں اور بنکروں اور پناہ گاہوں کو تباہ کردیا تو انہوں نے وہی کیا جس کا مشورہ میںنے پہلے دیا تھا۔ یعنی وہ خاموشی کے ساتھ اپنی سیاسی گدّی کو چھوڑ کر بغداد سے باہر چلے گئے۔ یہ کہنا درست ہوگا کہ صدّام حسین صاحب کا یہ فعل فارسی شاعر کے اس شعر کا مصداق ہے کہ جو دانشمند کرتا ہے وہی نادان بھی کرتاہے لیکن کافی تباہی کے بعد :
آنچہ دانا کند کند ناداں لیک بعد از خرابیٔ بسیار
۴۔ کلمہ شہادت کو بار بار ادا کرنا ایک اہم اسلامی تعلیم ہے اور وہ تمام علماء صالحین کا طریقہ رہا ہے۔ جیسا کہ حدیث میںآیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جدِّدوا ایمانکم بقول لا الٰہ الا اللہ (تم لاالہ الا اللہ کہہ کر اپنے ایمان کی تجدید کیا کرو)۔
سوال
یہاں دو سوالات درج کرتا ہوں۔میرے نزدیک یہ دونوں سوال بہت اہم ہیں۔ براہِ کرم دونوں سوالوں کے واضح جواب عنایت فرمائیں۔ایک یہ کہ جماعت اسلامی کے ایک سینئر عالم نے اپنے ایک مقالہ میں لکھا ہے کہ ’’اس امت کی ایک تاریخ ہے، عظیم الشان تاریخ، ایسی تاریخ کہ جس کی کوئی مثال نہیںملتی، اس تاریخ پر ہم فخر کرتے ہیں اور بجا طورپر کرتے ہیں‘‘۔ (سہ ماہی تحقیقات اسلامی، علی گڈھ، جنوری۔ مارچ ۲۰۰۳، صفحہ ۶) کیا تاریخ پر فخر کرنا اسلامی نقطۂ نظر سے صحیح ہے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے موجودہ امیر کا ایک تفصیلی انٹرویو چھپا ہے۔ انٹرویور کا ایک سوال یہ تھا کہ ملک کی فسطائی طاقتوں کے بڑھتے ہوئے قدموں کو کیسے روکا جائے۔ اس سلسلہ میں امت کے لئے جماعت کی رہنمائی کیا ہے۔ امیر جماعت نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ’’جماعت مسلمانوں سے کہتی ہے کہ انہیں آگے بڑھ کر اپنا رول ادا کرنا چاہئے۔ جو لوگ جمہوری فضا کو ختم کرنا چاہتے ہیں، جو مذہبی آزادی پر قدغن لگانا چاہتے ہیں، انہیں ہر قیمت پر اقتدار میں آنے سے روکیں۔ اس کا مشورہ ہم مسلمانوں کو دیتے ہیں۔‘‘ (ماہنامہ افکار ملّی، نئی دہلی، مئی ۲۰۰۳، صفحہ ۲۶) کیا آپ کے خیال سے ہندستانی مسلمانوں کے لیے یہ سیاسی پالیسی درست ہے۔ (ڈاکٹر ایس اے صدیقی، نئی دہلی)
جواب
۱۔ پہلے سوال کے جواب میں عرض ہے کہ تاریخ پر فخرکرنا ایک بدعت ہے۔ صالحین امت میں اس کی کوئی مثال نہیں۔ صحابہ، تابعین اور تبع تابعین میںسے کوئی بھی شخص نہیں ہے جس نے یہ کہا ہو کہ مجھے امت کی تاریخ پر فخر ہے۔ اسی طرح محدثین اور فقہاء اور مفسرین نے کبھی ایسا نہیں کہا۔ امت کی مشہور شخصیتوں میں سے کسی نے بھی کبھی ایسی بات نہیںکہی۔ مثلاً حسن بصری، عمر بن عبد العزیز، الغزالی، ابن تیمیہ، شاہ ولی اللہ وغیرہ۔ان میں سے کسی نے بھی ایسا نہیں لکھا۔ یہ بلا شبہہ ایک مبتدعانہ کلام ہے۔ یہ قوم پرستی کے مزاج کے تحت نکلے ہوئے الفاظ ہیں، نہ کہ خدا پرستی کے تحت نکلے ہوئے الفاظ۔ امت کی تاریخ بالفرض عظیم الشان تاریخ ہو تب بھی وہ ہمارے لیے شکر کی بات ہے نہ کہ فخر کی بات۔
تاریخ چونکہ کبھی معیاری نہیں ہوتی اس لیے تاریخ کو فخر کا موضوع بنانے کا یہ نقصان ہوتا ہے کہ اس سے قومی تعصب کا مزاج پیدا ہوتا ہے۔ فخر کی نفسیات یہ چاہتی ہے کہ جس چیز پر فخر کیا جارہا ہے وہ نقص سے پاک ہو۔ اس لیے ایسے لوگوں کے اندر شعوری یا غیر شعوری طورپر یہ مزاج بن جاتا ہے کہ میری قوم ہر حال میں صحیح ہے اور دوسری قوم ہر حال میں غلط۔ اپنی قوم کے خلاف تنقید سن کر اُنہیں ایسا محسوس ہوتاہے کہ اُن کا فخر ٹوٹ رہا ہے۔ اس لیے نزاعی معاملات میںوہ ہمیشہ دوسری قوم پر الزام دیتے ہیں اور اپنی قوم کو بری الذمہ ثابت کرتے ہیں۔ یہاں پہنچ کر ایسے لوگوں میں ایک شدید تر برائی پیدا ہوجاتی ہے، وہ ہے اپنے قومی احتساب سے محروم ہوجانا۔
۲۔ دوسرے سوال کے بارہ میں عرض ہے کہ یہ کوئی نیا فارمولا نہیں۔ آزادی (۱۹۴۷) کے بعد مسلمانوں نے اپنے رہنماؤں کی پیروی میں بار بار ایسا کیا ہے کہ ہر الیکشن کے موقع پر وہ مفروضہ فُسطائی پارٹیوں کے خلاف ووٹ دے کر اُنہیں ہرائیں اور اُنہیں اقتدار میں آنے نہ دیں۔ اس سیاسی طریقِ کا ر کی پشت پر ماضی میں بڑی بڑی مسلم شخصیتوں کے نام شامل رہے ہیں۔
مگر یہ تجربہ مکمل طورپر ناکام ثابت ہوا ۔ مسلمانوں کی یہ ہرانے کی پالیسی مسلسل طورپر ’’فُسطائی طاقتوں‘‘ کو جِتاتی رہی۔ آزادی کے بعد مفروضہ فُسطائی پارٹی کے صرف دو ممبر مرکزی پارلیمنٹ میں ہوتے تھے۔آج یہ لوگ مرکز میں حکمراں کی حیثیت حاصل کیے ہوئے ہیں۔ کئی ریاستوں میںاُن کی حکومت قائم ہے۔ حتیٰ کہ پچھلے سال گجرات میںاسی قسم کی ہرانے کی پالیسی کے نتیجہ میں مفروضہ فسطائی پارٹی کو ایسی جیت حاصل ہوئی کہ ریاست میں اُس کی حکومت قائم ہوگئی۔
اس تجربہ کی روشنی میں اب اصل مسئلہ سیاسی پالیسی پر نظر ثانی کا ہے، نہ کہ اس کو مزید جاری رکھنے کا۔ مذکورہ سیاسی پالیسی کو جاری رکھنے کا مشورہ دینا، فارسی مثل کے مطابق، آزمودہ را آزمودن جہل است کے ہم معنٰی ہے۔ یعنی آزمائے ہوئے کو آزمانا صرف ایک نادانی ہے۔
ایسی حالت میں آدمی کو یہ کرنا چاہئے کہ اگر اُس کے پاس مسئلہ کا کوئی واقعی حل نہیں ہے تو وہ کم ازکم یہ کرے کہ وہ اس سوال پرچپ ہوجائے۔
ایک اور پہلو سے دیکھئے تو مفروضہ فسطائی طاقتوں کو ہرانے کی پالیسی سراسر غیر اسلامی ہے۔ مسلمان اس ملک میں داعی ہیں اور تمام ہندو اُن کے لیے مدعو کی حیثیت رکھتے ہیں۔ داعی اور مدعو کا یہ تعلق مذکورہ قسم کی تفریقی پالیسی کا تحمل نہیں کرسکتا۔ داعی کی حیثیت سے ہمارے اوپر فرض ہے کہ ہم تمام ہندوؤں کو یکساں طورپر امتِ دعوت کی نظر سے دیکھیں۔
واپس اوپر جائیں

سہ ماہی السّلام (نئی دہلی) کے سوال نامہ ۱۲؍جون ۲۰۰۳ کا جواب

۱۔ مختلف مذہبوں اور تہذیبوں کے سماج میں ہم آہنگی کیسے لائی جائے۔ اس کا ایک فارمولا یہ پیش کیا جاتا ہے کہ اس قسم کے اختلافات کو بلڈوز کر کے پورے سماج کو ایک مذہب اور ایک کلچر کا سماج بنایا جائے۔ مگر یہ کوئی فارمولا نہیں۔ کیوں کہ ایسا ہونا سرے سے ممکن ہی نہیں۔ فطرت کا نظام جو خالق نے بنایا ہے وہ یکسانیت کے اصول پر نہیں بنایا بلکہ تعدد اور تنوع کے اصول پربنایا ہے۔ یہی تعدد اورتنوع مذہبی اور تہذیبی دنیا میں بھی موجود ہے۔ یہ خالق کے تخلیقی نقشہ کا ایک حصہ ہے اور جو چیز خود خالق کے تخلیقی نقشہ کا حصہ ہو اس کو مٹانا کسی کے لیے بھی ممکن نہیں۔ ایسی حالت میں انسانی دنیا میں مذہبی یکسانیت یا کلچرل یکسانیت کی بات کرنا اتنا ہی بے معنٰی ہے جتنا کہ مادّی دنیا کے تنوع کو ختم کرکے یکساں مادّی نظام قائم کرنے کا منصوبہ بنانا۔
اس سلسلہ میں دوسرا فارمولا یہ پیش کیا جاتا ہے کہ تمام مذاہب یکساں ہیں۔ اس نظریہ کے حامی، لوگوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کررہے ہیں کہ مختلف مذاہب میں کوئی اختلاف ہی نہیں۔ اس لئے لوگوں کو چاہئے کہ وہ فرق اور اختلاف کے ذہن کو ختم کردیں، اس طرح اپنے آپ اتحاد قائم ہوجائے گا۔ یہ بات بھی سراسر بے معنٰی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ مختلف مذہبوں اور مختلف تہذیبوں میں فرق اور اختلاف اتنا زیادہ حتمی صورت میں موجود ہے کہ کسی بھی دلیل سے اس کو غیر موجود ثابت کرنا ممکن نہیں ۔ یہ فارمولا یقینی طورپر ایک غیر حقیقی فارمولا ہے۔ وہ عملی طورپر نہ کبھی ممکن ہوا اور نہ آئندہ وہ کبھی ممکن ہوسکتا ہے۔ مزید یہ کہ فرق کوئی عیب نہیں، بلکہ وہ ایک خوبی ہے۔ وہ مذہبی فکر میں ارتقاء کا ذریعہ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس معاملہ میں صرف ایک ہی فارمولا ہے جو مفید اور قابل عمل ہے، اور وہ فارمولا وہ ہے جو رواداری(tolerance) کے اصول پر مبنی ہے۔ اس اصول کا خلاصہ یہ ہے کہ — ایک کی پیروی کرو اور سب کا احترام کرو:
Follow one and respect all.
۲۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان جو غلط فہمیاں موجود ہیں ان کی ذمہ داری ہندو اور مسلمان دونوں طرف کے رہنماؤں کے اوپر یکساں طور پر عائد ہوتی ہے۔ مختلف اسباب کے تحت دونوں طرف کے رہنماؤںنے اپنے اپنے عوام کو وہ ذہن دیا جس کو شناخت(identity) کہا جاتا ہے۔ دونوں ہی نے اپنے قومی وجود کے لیے شناخت کو اہم ترین مسئلہ قرار دیا۔ اس کو پختہ کرنے کے لیے ہندو رہنماؤں نے یہ نظریہ بنایا کہ مسلمان مَلچھ ہیںاور مسلم رہنماؤں نے یہ نظریہ وضع کیا کہ ہندو کافر ہیں۔ میرے نزدیک یہ دونوں نظریے یکساں طورپر غلط ہیں۔ ہندو کو دل سے یہ ماننا چاہئے کہ مسلمان انہی کی طرح انسان ہیں۔ اسی طرح مسلمانوں کو دل سے یہ ماننا چاہئے کہ ہندو انہی کی طرح انسان ہیں۔ جب تک سوچ میںیہ تبدیلی نہ آئے ہماری سماجی زندگی میںمعتدل تعلقات کا ماحول قائم نہیں ہوسکتا۔
اس معاملہ کا ایک اور پہلو ہے، اور اس کا تعلق زیادہ تر مسلمانوں سے ہے۔ مسلمان اپنے عقیدہ کی رو سے داعی ہیں اورہندو ان کے لیے مدعو کی حیثیت رکھتے ہیں۔ داعی۔مدعو کے اس رشتہ کا تقاضہ ہے کہ مسلمان یک طرفہ طورپر یہ ذمہ داری لیں کہ انہیں شرعی حکم کے مطابق، تالیف قلب کے اصول پر عمل کرنا ہے۔ انہیں یہ کرنا چاہئے کہ وہ ہندوؤں کی شکایتوں کو یک طرفہ طورپر اپنے آپ پر لے لیں تاکہ دونوں فرقوں کے درمیان وہ معتدل ماحول قائم ہو جو دعوتی عمل کے لیے ضروری ہے۔
یہاں میں یہ اضافہ کروں گا کہ ہندوؤں کی کئی شکایتیں جن کو مسلمان’’ غلط فہمی‘‘ قرار دیتے ہیں اور غلط فہمی دور کرنے کے نام پر ایک غیر مؤثر مہم لمبی مدت سے چلارہے ہیں۔ اس کو انہیں مکمل طورپر ترک کردینا چاہئے۔ کیوں کہ جو معاملہ ہندوؤں کے نزدیک صحیح فہمی کاہو اس کا خاتمہ اس طرح نہیں ہوسکتا کہ ہم اس کو غلط فہمی کہہ کر نظر انداز کردیں۔ مثال کے طور پر مسلم بادشاہوں کی کئی کارروائیوں پر ہندوؤں کو بجا طورپر شکایت ہے۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ کھلے طورپر ان کارروائیوں کی مذمّت کریں ۔ وہ کھلے طورپر یہ کہیں کہ ہندستان کی مسلم حکومتیں خاندانی حکومتیں تھیں نہ کہ اسلامی حکومتیں۔ اس کے سوا کسی اور طریقہ سے اس معاملہ کا خاتمہ ممکن نہیں۔
۳۔ اقلیت و اکثریت کے تعلقات کو کس طرح بہتر بنایا جائے۔میں سمجھتا ہوں کہ اس معاملہ میں پہل مسلمانوں کو کرناچاہئے۔ مثلاً مسلمانوں کے اندر دو قومی نظریے کے بجائے ایک قومی نظریہ کو فروغ دینا۔ مسلمانوں کے اندر فرقہ وارانہ سوچ کو ختم کرکے قومی سوچ (national thinking) پیدا کرنا، اسی طرح مسلمانوں کے اندر سے اس ذہن کو مکمل طورپر ختم کرنا کہ وہ ہندوؤں کے ایک طبقہ کو دشمن ہندو اور دوسرے طبقہ کو سیکولر ہندو سمجھتے ہیں۔ وہ الیکشن میںدھوم مچاتے ہیں کہ مفروضہ دشمن ہندو ہاریں اور سیکولر ہندو جیتیں۔ اس قسم کی سیاست دین اور عقل دونوں کے خلاف ہے۔ مسلمان اس قسم کی تفریقی سیاست کا تحمّل نہیں کرسکتے۔ اب آخری وقت آگیا ہے کہ اس غیر دانشمندانہ سیاست کا مکمل طورپر خاتمہ کردیا جائے۔
اس سلسلہ میں دوسری ضروری چیز یہ ہے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان میل ملاپ (interaction) زیادہ سے زیادہ بڑھایا جائے۔ قدیم زرعی دور میں یہ میل ملاپ فطری طورپر موجود تھا۔ مگر اب صنعتی دور میں یہ خطرناک حد تک کم ہوگیا ہے۔ اس مسئلہ کا حل یہ ہے کہ مسلمان زیادہ سے زیادہ تعلیم حاصل کریں۔ وہ ہندو اسکول اور مسلم اسکول کی تفریق کے بغیر ہر تعلیمی ادارہ میں داخلہ لے کر پڑھیں۔
مسلمانوں میں اگر بھر پور طور پر اس قسم کی تعلیمی سرگرمیاں جاری ہو جائیں تو اس کا دو یقینی فائدہ حاصل ہوگا۔ اوّل یہ کہ تعلیمی اداروں میں تعلیم کے دوران ہندوؤں سے ان کاinteraction بڑھے گا اور interaction اپنے آپ میں ہر مسئلہ کا حل ہے۔ دوسرے یہ کہ مسلمان جب تعلیم میں آگے بڑھیںگے تو اس کے بعد فطری طورپر وہ دفتروں اور کمپنیوں اور تجارتی اداروں میںبڑی تعداد میں پہنچیں گے ۔ اس طرح وہ بُعداپنے آپ ختم ہوجائے گا جو زمانی تبدیلی کے نتیجہ میں پیدا ہوگیاہے۔
۴۔ پُر امن بقائے باہم کی اہمیت اسلام میں اتنی زیادہ ہے کہ مسلمانوں پر یہ لازم کردیاگیا کہ وہ یک طرفہ قربانی کے ذریعہ پر امن بقائے باہم کا ماحول سماج میں قائم رکھیں۔اسی قربانی کا نام صبر ہے۔
صبر کا مطلب یہ ہے کہ دوسروں کی طرف سے اشتعال انگیزی ہو تب بھی مشتعل نہ ہونا۔ دوسرے اگر نادانی کریں تب بھی اس سے اعراض کرنا۔ دوسرے اگر ستائیں تب بھی اس کو برداشت کرلینا۔ دوسرے اگر نزاع کھڑی کریں تو پہلے ہی مرحلے میں صلح کرکے اس کا خاتمہ کردینا ۔ دوسرے اگر نقصان پہنچائیں تو دوسروں سے لڑنے کے بجائے خدا سے اس کی تلافی کی امید رکھنا۔ دوسرے اگر فساد کریں تب بھی ان کے لیے اصلاح کی دعائیں کرنا۔ دوسرے اگر کاٹنے کی کوشش کریں تب بھی ان سے جڑے رہنا۔ دوسرے اگر نہ دیں تب بھی ان کو دینے کی کوشش کرنا۔ دوسرے اگر ظلم کریں تب بھی انہیں معاف کردینا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اس معاملہ میںاس آخری حد تک گئے کہ ہجرت کے بعد مدینہ میںآپ تقریباً سولہ ماہ تک کعبہ کے بجائے بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے رہے تاکہ وہاں بسنے والے یہودیوںسے غیر ضروری ٹکراؤ نہ پیش آئے۔ قرآن میںاس معاملہ میں یہ اصول مقرر کیا گیا کہ تمہارے لیے تمہارا دین اورہمارے لیے ہمارا دین۔ مدینہ میں ہجرت کے بعد پیغمبر اسلام نے جو منشور جاری کیا اس میں آپ نے یہ درج فرمایا کہ مسلمانوں کے لیے مسلمان کا دین اور یہود کے لیے یہود کا دین(للیہود دینہم وللمسلمین دینہم) وغیرہ۔
اس مقصد کے لیے یہ اعلان کیا گیا کہ تمام انسان ایک ہی جوڑے کی اولادہیں۔ تمام انسان آپس میں بھائی اور بہن ہیں۔ تمام انسان خدا کی عیال ہیں۔ ایک انسان اور دوسرے انسان میں دنیوی تعلقات کے اعتبارسے کوئی فرق نہیں۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو مولانا الطاف حسین حالی نے اپنی مسدّس میں اس طرح نظم کیا ہے:
یہ پہلا سبق تھا کتاب ہدیٰ کا کہ ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا
۲۵ جون، ۲۰۰۳
واپس اوپر جائیں

ایک خط

برادر محترم و مکرم ڈاکٹر عزیز احمد خاں ایڈوکیٹ السلام علیکم ورحمۃ اللہ
آپ کا خط مورخہ ۲۸ جون ۲۰۰۳ ملا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو صحتِ کامل عطا فرمائے۔آپ کو ہر طرح امن اور عافیت کے ساتھ رکھے اور تمام اہل خانہ کا ہر طرح مددگار ہو۔
آپ نے لکھا ہے کہ عزیزہ شاذان کی شادی ۶ جولائی ۲۰۰۳ کو ہونے والی ہے۔ اس خبر سے خوشی ہوئی۔ اللہ تعالیٰ اس رشتہ کو مبارک کرے اورکامیاب زندگی عطا فرمائے۔ میری طرف سے عزیزہ کو دعا اور مبارک باد۔
شادی زندگی کا ایک ایسا مرحلہ ہے جو ہر مرد اور عورت کے ساتھ پیش آتا ہے۔ یہ فطرت کا قانون ہے۔ اور جب شادی خود فطرت کا قانون ہو تو خود فطرت کے اندر یہ انتظام ہونا چاہئے کہ شادی طرفین کے لیے پُر سکون زندگی کی ضمانت بنے۔
میرے نزدیک شادی شدہ زندگی کی کامیابی کا راز صرف ایک ہے اور وہ ایڈجسٹمنٹ ہے۔ ایڈجسٹمنٹ شادی شدہ زندگی کی کامیابی کی یقینی ضمانت ہے۔ اصل یہ ہے کہ خالق نے ہر مرد اور عورت کو مسٹر ڈفرنٹ اور مِز ڈفرنٹ کے روپ میں پیدا کیا ہے۔ ڈفرینس خود فطرت کالازمی حصہ ہے اور جب دو ڈفرنٹ پرسن باہم ملیں تو کامیاب زندگی کی ضمانت صرف یہ ہو سکتی ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ایڈ جسٹ کرکے زندگی گذاریں۔ اس معاملہ میں فریقین کے لیے ایڈجسٹمنٹ کے سوا کوئی اورآپشن نہیں۔
یہ ڈفرینس ایک عظیم نعمت ہے۔ اسی ڈفرینس کی وجہ سے یہ ممکن ہوتا ہے کہ دو شخصوں کے درمیان تبادلۂ خیال ہو اور تبادلۂ خیال کے ذریعہ ذہنی ارتقاء کا عمل جاری رہے۔ میرے تصور میں بہترین بیوی اور بہترین شوہر وہ ہے جو ایک دوسرے کے لیے انٹیلکچول پارٹنر بن سکے۔ اگر فریقین میں مثبت مزاج ہو تو ڈفرینس سے انٹلیکچول ایکسچینج پیداہوگا اور انٹیلیکچول ایکسچینج سے انٹیلیکچول ڈیولپمنٹ کا عمل جاری رہے گا۔
قدیم روایتی تصور کے مطابق، عورت اور مرد دونوں ایک دوسرے کے لیے ہاؤس پارٹنر سمجھے جاتے تھے۔ موجودہ زمانہ میں اس میں توسیع ہوئی تو یہ سمجھا جانے لگا کہ دونوں ایک دوسرے کے لیے جاب پارٹنر ہیں۔ مگر میںسمجھتا ہوں کہ یہ شادی شدہ زندگی کی ایک تصغیر ہے کہ اس کو ہاؤس پارٹنر یا جاب پارٹنر کے دائرہ میں محدود کردیا جائے۔
میںسمجھتا ہوں کہ شادی شدہ زندگی کا زیادہ بڑا پہلو یہ ہے کہ اس طرح عورت اور مرد دونوں کو اپنے لیے ایک قابل اعتماد انٹیلکچول پارٹنر مل جاتاہے، ایک ایسا ساتھی جس کے ذریعہ وہ اپنے ذہنی ارتقاء کا سامان کرسکیں۔
کسی انسان کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ اس کے اندر ذہنی ارتقاء کا عمل مسلسل جاری رہے۔ یہ ذہنی ارتقاء مطالعہ اور مشاہدہ اور تجربہ کے ذریعہ بھی جاری رہتا ہے۔ مگر اسی کے ساتھ ضروری ہے کہ آدمی کے ذہن میں جو بات آئے اُس پر تبادلۂ خیال کرنے کے لیے اُس کے پاس ایک قریبی معاون موجود ہو۔ اُس پر وہ اس سے ڈسکشن کرے۔ ڈسکشن کے دوران غیر واضح افکار واضح ہوتے ہیں۔ اُس سے ذہنی سفر کو آگے بڑھانے میں مدد ملتی ہے۔ ڈسکشن کے دوران نئے افکار ایمرج کرتے ہیں جو کسی اور طریقہ سے ممکن نہیں ہوتے۔
اس تبادلۂ خیال کے لیے عورت اورمرد دونوں کو ایسا ساتھی چاہیے جو مسلسل طورپر اُنہیں حاصل رہے۔ جس سے اعتماد کے ساتھ گفتگو کی جاسکتی ہو۔ جس سے رزرویشن کے بغیر ڈسکشن ہوسکے۔ اس قسم کا ساتھی صرف شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے لیے ہوسکتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ کسی انسان کی سب سے بڑی منزل ذہنی ارتقاء ہے، اس ذہنی ارتقاء کے لیے بیوی اور شوہر دونوں ایک دوسرے کے لیے بہترین انٹلیکچول پارٹنر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس طرح دونوں کے اندر تھنکنگ پراسس بلا روک جاری رہے گا،اور بلاشبہہ کسی مرد یا عورت کے لیے اس سے بڑی کوئی نعمت نہیں کہ اس کا تھنکنگ پراسس کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رہے۔ عزیزہ شاذان کواُن کی زندگی کا یہ نیا دور مبارک ہو۔
یکم جولائی ۲۰۰۳ دعا گو وحید الدین
واپس اوپر جائیں

ایک خط

برادر محترم پریذیڈنٹ پرویز مشرف صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ
انڈیا کے لئے آپ کا دورہ (۱۵۔۱۶ جولائی) ہم سب کے لئے خوشی کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ اس اقدام کو مکمل کامیابی عطا فرمائے۔
۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ کو جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک امکانی ہوائی حادثہ سے بچایا اور پاکستان کے سیاسی اقتدار پر سرفراز کیا تو مجھے رابرٹ کلایو کا واقعہ یاد آیا۔ ایک امکانی حادثہ سے بچنے کے بعد کلایو کی زبان سے یہ الفاظ نکلے تھے: خدانے تم کو کسی بڑے کام کے لئے بچایا ہے۔ اور اس کے بعداس نے واقعۃً برطانی تاریخ میں ایک بڑا کام انجام دیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہی تاریخ آپ کے ساتھ دہرائی جانے والی ہے۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اللہ نے آپ کو اپنی خصوصی مدد سے بچایا ہے تاکہ آپ برصغیر ہند میں قیام امن کا وہ ضروری کردار ادا کر سکیں جس کا تاریخ کو نصف صدی سے انتظار ہے۔
جب یہ خبر آئی کہ آپ حکومت ہند کی دعوت پر انڈیا کا دورہ کرنے والے ہیں تو اس دورہ کے بارے میں میں نے کئی مضمون لکھے جو یہاں کے اردو، ہندی اور انگریزی اخباروں میں شائع ہوئے۔ مثال کے طور پر ساؤتھ انڈیا کے کثیر الاشاعت انگریزی روزنامہ ہت واد (The Hitavada) میںمیرا ایک تفصیلی انٹرویو اس کے شمارہ ۳۰ جون ۲۰۰۱ میں چھپا ۔ اس میں ملٹری رولر کی حیثیت سے میں نے آپ کا پرزور دفاع کیا تھا۔ چنانچہ اخبار نے اس انٹرویو کو چھاپتے ہوئے اس کا یہ عنوان دیا:
Military ruler is a blessing for Pakistan
اگر آپ اجازت دیں تو میں کہنا چاہوں گا کہ کشمیر کے معاملہ میں پاکستان کو وہی پالیسی اختیار کرنا چاہئے جو مشہور انگریزی مقولہ میں اس طرح بیان کی گئی ہیــــــسیاست ممکن کا آرٹ ہے:
Politics is the art of the possible.
میں ایک بہی خواہ کی حیثیت سے کشمیر کے مسئلہ پر اس کے آغاز ہی سے غور کرتا رہا ہوں۔ ۱۹۶۸ سے میں نے اس موضوع پر لکھنا شروع کیا اور اردو اور ہندی اور انگریزی پریس میں بار بار لکھتا رہا ہوں۔ اس مسئلہ کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیتے ہوئے میری قطعی رائے ہے کہ کشمیر کے بارے میں پاکستان کے لئے صرف دو ممکن انتخاب (options) ہیں۔ ایک یہ کہ اس معاملہ میں پاکستان ڈی لنکنگ پالیسی (delinking policy) اختیار کرے۔ یعنی کشمیر کے اشو کو پر امن گفت و شنید کے خانہ میں ڈالتے ہوئے بقیہ تمام امور میں ہندستان سے نارمل تعلقات قائم کرلے۔ اور دوسرے یہ کہ جموں و کشمیر میں جغرافی اعتبار سے جو اسٹیٹس کو (statusquo) بن گیا ہے اس کو مستقل سرحد کے طورپر مان کر اس مسئلہ کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دے۔ اس کے سوا کوئی تیسرا انتخاب عملی طورپرممکن نہیں۔ تیسری صورت یقینی طور پرصرف تباہی کی صورت ہے، نہ کہ ترقی اور کامیابی کی صورت ۔
اس معاملہ کا ایک اور نہایت اہم پہلو ہے۔آپ جانتے ہیں کہ موجودہ زمانہ میں مختلف مقامات پر جہاد کے نام سے مِلیٹنسی (militancy) چلائی جارہی ہے، ان میں سے ایک نمایاں نام کشمیر کا ہے۔ اس مِلیٹنسی کا فائدہ تو کچھ نہیں ہوا۔ البتہ اس کا ایک عظیم نقصان یہ ہوا کہ اسلام کی امیج ایک وائلنٹ مذہب (violent religion) کی ہوگئی۔ اس بدنامی نے موجودہ زمانہ میں اسلام کے آئیڈیالاجیکل مارچ (ideological march) کوروک دیا جو ایک ہزار سال سے مسلسل ساری دنیا میں چلا آرہا تھا۔
مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اللہ نے آپ کے لئے یہ رول مقدر کیا ہے کہ آپ اسلام کے اس دعوتی سفر کو دوبارہ جاری کریں۔ اگر آپ انڈیا کے ساتھ مستقل قسم کا ایک پیس ٹریٹی (peace treaty) کر لیں تو اس کا فائدہ نہ صرف پاکستان کو ملے گا بلکہ اس کے نتیجہ میں پوری مسلم دنیا میں ایک نیا صحت مند پراسس جاری ہو جائے گا۔ اس کے بعد یہ ہوگا کہ موجودہ متشددانہ رجحان ایک پر امن دعوتی رجحان میں بدل جائے گا۔ لوگ نارمل فضا میں اسلام کا مطالعہ کرنے لگیں گے۔
موجودہ مبصرین پاکستان کو امکانی طورپر نیو کلیر فلیش پائنٹ (nuclear flashpoint) کے طور پر دیکھتے ہیں۔ لیکن اگر آپ جرأت و ہمت سے کام لے کر حدیبیہ جیسا ایک پیس ٹریٹی کر لیں تو پاکستان برعکس طورپر دعوہ فلیش پائنٹ(dawah flashpoint) بن جائے گا۔
مجھے اندازہ ہے کہ کشمیر کے معاملہ میں مصالحت کی پالیسی اختیار کرنا آپ کی مقبولیت کے لیے ایک رِسک (risk) کی حیثیت رکھتا ہے۔ مگر اس اندیشہ کا جواب قرآن میں یہ دیا گیا ہے کہ: والصلح خیر (النساء ۱۲۸)۔ یعنی صلح بہتر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اختلافی معاملات میں ٹکراؤ کی پالیسی کو چھوڑ کر مصالحت کی پالیسی اختیار کی جائے تو نتیجہ کے اعتبار سے وہ زیادہ بہتر ثابت ہوگی۔
زندگی میں ہر بڑی کامیابی کا تعلق رسک سے ہوتا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ افریقہ میں فرانس کی نو آبادیاتی پالیسی نے فرانس کو بے حد کمزور کردیاتھا۔ جنرل ڈیگال نے جرأت کرکے یک طرفہ طورپر اس پالیسی کو ختم کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ فرانس میں جنرل ڈیگال کی مقبولیت بہت کم ہوگئی۔ مگر آج اِس ڈیگال ازم کو ایک کامیاب خارجہ پالیسی سمجھا جاتا ہے۔ کیوں کہ اسی پالیسی کے نتیجہ میں دوسری عالمی جنگ کے بعد فرانس کو نئی طاقت ملی۔
اس خط کے ساتھ میں دو چیزیں بھیج رہا ہوں۔ ایک اپنی کتاب Islam Rediscovered اور دوسرے، ماہنامہ الرسالہ کا شمارہ اگست ۲۰۰۱۔ مجھے امید ہے کہ آپ اس کو پڑھنے کے لئے کچھ وقت نکال سکیں گے۔ اس مطالعہ سے میرا مدعا مزید واضح ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ ہر طرح آپ کا مددگار ہو۔
نئی دہلی ۹ جولائی ۲۰۰۱ دعا گو وحید الدین
نوٹ: یہ خط صدر پرویز مشرف کے دورۂ ہند سے پہلے لکھا گیا اور اسلام آباد میں اُنہیں دستی طورپر پہنچایا گیا۔
واپس اوپر جائیں

خبر نامہ اسلامی مرکز ۱۵۹

۱ سہارا ٹی وی (نئی دہلی) میں ۱۸ اپریل ۲۰۰۳ کو ایک پینل ڈسکشن تھا۔ اس میں دہلی کے ۱۲ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد شریک ہوئے۔ ونود دوا اس کے اینکر تھے۔ موضوع یہ تھا کہ بحران کے وقت کیوں ایسا ہوتا ہے کہ لوگ لوٹ پاٹ شروع کردیتے ہیں۔ یہ واقعہ نیویارک، لاس اینجلیز، گجرات، بغداد، دہلی، وغیرہ میں بڑے پیمانہ پر پیش آیا ہے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ انہوں نے اس موقع پر جو کچھ کہا اس کا خلاصہ یہ ـتھا کہ یہ انسان کی انا والی نفسیات کا نتیجہ ہوتاہے۔ لوگ اس بنا پر اتھارٹی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ وہ پہلا موقع پاتے ہی بغاوت کردیتے ہیں۔ اس کا علاج دو چیز ہے۔ اچھا ایڈمنسٹریشن اور اچھی ایجوکیشن۔
۲ ای۔ ٹی وی (نئی دہلی) میں ۲۳ اپریل ۲۰۰۳ کو ایک پینل ڈسکشن ہوا۔ اس کا موضوع تھا— امن ، انسانیت اور توہم پرستی کے بارہ میں مذہب کی تعلیمات۔ اُس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اُس میں شرکت کی اور اس موضوع پر اسلام کی روشنی میں کلام کیا۔ اُنہوں نے بتایا کہ اسلام امن اور انسانیت کا مذہب ہے۔ جہاں تک توہم پرستی کا تعلق ہے، اسلام میں اس کی گنجائش نہیں۔اسلام کے مطابق، موثر حقیقی صرف خدا ہے۔ نفع کا ملنا یا نقصان کا پہنچنا دونوں صرف خدا کے اختیار سے ہوتا ہے۔ خدا کے سوا کسی اورکو نافع یا ضار سمجھنا اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے۔
۳ سائی انٹرنیشنل سینٹر (نئی دہلی) میں ۲۷ اپریل ۲۰۰۳ کی شام کو توسیعی لکچر کاایک پروگرام تھا۔ اس میں دہلی کی خاتون چیف منسٹرمسز شیلا دکشت چیف گیسٹ تھیں اور صدر اسلامی مرکز اُس کے واحد اسپیکر تھے۔ وسیع ہال پوری طرح بھرا ہوا تھا۔ اس میں تقریر کاعنوان یہ تھا:
Spirituality and Spiritual Power
تقریر میں تفصیل سے بتایا گیا کہ اسپریچولٹی ایک اعلیٰ انسانی صفت ہے۔ اسپریچولٹی آدمی کو ذہنی سکون دیتی ہے۔ اسی کے ساتھ وہ ایک عظیم طاقت ہے۔ یہ پروگرام انگریزی میں تھا اور اُس میںاعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ شریک ہوئے۔ سامعین بہت زیادہ متاثر ہوئے۔ چیف گیسٹ مسز شیلادکشت نے آخر میں کہا کہ میں بولنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔ مولانا صاحب کی تقریر نے ہم لوگوں کو اتنا زیادہ مسحور کردیا ہے کہ ہمارے پاس اب بولنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔
۴ جین ٹی وی میں ۲ مئی ۲۰۰۳ کو ایک پروگرام تھا۔ اس میں صدر اسلامی مرکز کی تقریر ریکارڈ کی گئی۔ اس کا موضوع تھا: پیغمبر اسلام کی سیرت اور تعلیم۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں موضوع کی وضاحت کی گئی ۔
۵ ہندی ہفت روزہ پَروکتا کے نمائندہ مسٹر راجیو شرما (Tel. 26711954/955) نے ۴ مئی ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ کشمیر کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وہ ۱۹۶۸ سے جو بات کہتے رہے ہیں وہ اب بعد از خرابیٔ بسیار پاکستانی لیڈروں کی سمجھ میںآئی ہے۔ وہ یہ کہتے رہے ہیں کہ اس معاملہ میں ڈی لنکنگ (delinking) پالیسی اختیار کی جائے۔ یعنی کشمیر کے سوال کو الگ رکھ کر اس کو شملہ ایگریمنٹ کے تحت پر امن گفت و شنید کے ذریعہ حل کرنے کی کوشش کی جائے اور اسی کے ساتھ تجارت، سیاحت اور اس طرح کے دوسرے معاملات میں دونوں ملکوں کے درمیان نارمل تعلق قائم کر لیا جائے۔ اب پاکستانی لیڈر اس پر راضی ہوگئے ہیں۔ امید ہے کہ جلد ہی اس پر عمل ہوگا اور دھیرے دھیرے انشاء اللہ کشمیر کا جھگڑا ختم ہو جائے گا۔
۶ اسٹار نیوز (نئی دہلی) کی اسپیشل کرسپانڈنٹ اَپرنا دویدی (Aparna Dwivedi) نے ۵ مئی ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکزکا انٹرویو لیا۔ اُ ن کے سوالات کا تعلق زیادہ تر مدرسہ کے ماڈرنائزیشن سے تھا۔ جواب میں بتایا گیا کہ مدرسہ میں بلا شبہہ بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ مگر اُس کو ماڈرنائزیشن کہنا درست نہیں۔ مثلاً مدرسہ میں ضرورت ہے کہ قدیم منطق کی جگہ جدید منطق پڑھائی جائے۔ عربی زبان کے ساتھ انگریزی زبان کو باقاعدہ طورپر داخل نصاب کیا جائے۔ کمپیوٹر کی تعلیم دی جائے۔ نئے طریقہ سے کام کرنے کی تربیت دی جائے۔ ایک سوال کے جواب میں کہا گیا کہ یہ کہنا درست نہیں کہ مدرسہ میں جنگجوئی سکھائی جاتی ہے۔ البتہ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ مدرسہ میں ٹالرنس اور ایڈجسٹمنٹ کا مزاج بنانے کا اہتمام نہیںکیا جاتا، حالاں کہ ایسا کرنا چاہئے (Tel: 91 11 51502000) ۔
۷ جین ٹی وی (نئی دہلی) میں ۱۰ مئی ۲۰۰۳ کو ایک پروگرام ہوا۔ اس پروگرام میں مختلف اصحاب نے حصہ لیا۔ مسلمان بھی، ہندو بھی اور سکھ بھی۔ اس کا موضوع سیرتِ رسول کا عالمی پیغام تھا۔ صدر اسلامی مرکز نے اُس کی دعوت پر اُس میںشرکت کی۔ اُنہوں نے قرآن و حدیث کی روشنی میں بتایا کہ پیغمبر اسلام کی تعلیمات ساری انسانیت کے لیے ہیں۔ اس کے مطابق، سارے انسان ایک خاندان کی مانند ہیں۔ ہر ایک دوسرے کے لیے بھائی اور بہن کی حیثیت رکھتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ دنیا میںانسان دوسروں کے ساتھ جو معاملہ کرے گا اُس کے بارہ میں خدا کے یہاں اُس سے باز پرس ہوگی۔ یہ دو چیزیں پیغمبر کی تعلیمات میں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔
۸ ادھیاتمک جاگرتی منچ کے زیر اہتمام ۱۳ ،ساؤتھ اوینیو، نئی دہلی میں ۱۳ مئی ۲۰۰۳ کو ایک میٹنگ ہوئی۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ انہوں نے اپنی تقریر میںکہا کہ ملک میں تبدیلی لانے کے لیے صرف سیاسی طریقِ کار کافی نہیں۔ اسی کے ساتھ ضروری ہے کہ روحانی انقلاب لانے کے لیے باقاعدہ کوشش کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ عوامی تحریک سیاسی مقصد کے حصول کے لیے کافی ہو سکتی ہے۔ مگر تعمیری سماج بنانے کے لیے فرد فرد میں اخلاقی اور روحانی تبدیلی لانا ضروری ہے۔ اس میٹنگ میں ہندو، عیسائی، سکھ اور مسلمان شریک ہوئے۔
۹ نئی دہلی کے انڈیا انٹرنیشنل سنٹر میں ۱۸ مئی ۲۰۰۳ کو محفل میلاد کا پروگرام ہوا۔ اس پروگرام کا اہتمام ایک خاتون تنظیم نے کیا تھا۔ یہ ایک سالانہ پروگرام ہے جو ہر سال بڑے پیمانہ پر کیا جاتا ہے ۔ اس میں دہلی کے ممتاز اور تعلیم یافتہ مسلمان شریک ہوتے ہیں۔ صدر اسلامی مرکز نے اس کی دعوت پر اس میں شرکت کی اور سیرت کے موضوع پر ایک تقریر کی۔ بقیہ مقررین یہ تھے: سفیر ایران، سفیر عرب امارات، ڈاکٹر نجمہ ہبت اللہ، رفیعہ حسین۔ یہ پورا پروگرام انگریزی زبان میں ہوا۔
۱۰ نئی دہلی کا مشہور تعلیمی ادارہ این سی ای آر ٹی (NCERT) نے اپنے ہال میں ایک پروگرام منعقد کیا جس میں ادارہ کے تمام ٹیچر، پروفیسر اور کارکن بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔ ڈاکٹر جے ایس راجپوت (ڈائرکٹر این سی ای آر ٹی) نے اس کی صدارت کی۔ اس میںایکسٹنشن لکچر کے پروگرام کے تحت صدر اسلامی مرکز کوتقریر کرنے کی دعوت دی گئی۔ انہوں نے روحانیت کے موضوع پر ایک گھنٹہ خطاب کیا۔ خطاب کے بعد سوال و جواب کا پروگرام تھا۔ تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ ہر انسان پیدائشی طورپر الفطرۃ پر پیدا ہوتا ہے۔ یہ روحانیت کا آغاز ہے۔ اس کے بعد وہ نیچر میں غور وفکر سے اپنی روحانیت کو بڑھاتا ہے۔ اور پھر خدا سے تعلق قائم کرکے اس سے انسپریشن (inspiration) لیتا ہے۔ اس طرح انسان کی روحانی شخصیت ترقی کرتی رہتی ہے۔ یہ پروگرام ۲۱ مئی ۲۰۰۳ کو منعقد کیا گیا۔ پروگرام کے آخر میں ڈاکٹر راجپوت نے اپنے صدارتی کلمات کے درمیان یہ تجویز پیش کی کہ میں تقریباً سو صفحہ کی ایک کتاب انگریزی میں تیار کرکے اُنہیں دوں جس کو وہ بڑی تعداد میں چھاپ کر پورے ملک کے تمام اسکول ٹیچروں تک پہنچائیں گے۔ حاضرین نے پر جوش طورپر اس تجویز سے اتفاق کیا۔ ڈاکٹر راجپوت نے اس کتاب کا نام یہ تجویز کیا:
The Basics of Islam
۱۱ جین ٹی وی (نئی دہلی)کے تحت ۲۱ مئی ۲۰۰۳ کو پینل ڈسکشن ہوا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ ڈسکشن کا موضوع یہ تھا کہ مسلمانوں کی یہ تصویر ساری دنیا میںکیوں بن گئی ہے کہ وہ لڑنے بھڑنے والی قوم ہیں۔ وہ دوسروں کے ساتھ ایڈجسٹ کرکے نہیں رہ سکتے۔ اس سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ اس کا سبب مسلم رہنماؤں کا دیا ہوا سیاسی ذہن ہے۔ اس بنا پر مسلمان اپنے آپ کو پولیٹکل پاور کے ساتھ آئڈنٹفائی (identify) کرنے لگے ہیں۔ ان کا ماڈل مسلمانوں کا دور اقتدار بن گیا ہے جس کو وہ دوبارہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ مگر یہ تصور غلط ہے۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ جب تک جارحیت نہ ہو اس وقت تک ہر ماحول میںوہ امن کے ساتھ رہیںخواہ وہاں مسلم اقتدار ہو یا غیر مسلم اقتدار۔
۱۲ نئی دہلی کے انگریزی ہفت روزہ آرگنائزر نے ۲۱ مئی ۲۰۰۳ کو ٹیلی فون پر صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ دہلی کی خاتون فرزانہ کے کیس کی روشنی میں یہ سوال تھا کہ جہیز کے بارے میں اسلامی شریعت کا حکم کیا ہے۔ جواب میں کہا گیاکہ اسلام میں موجودہ قسم کا جہیز ہر گز جائز نہیں۔ علماء یہ فتوے دیتے رہے ہیں کہ انگریزی مال کا بائیکاٹ کرو، یہودی مال کا بائیکاٹ کرو اور امریکی مال کا بائکاٹ کرو۔ اس کے بجائے ان علماء کو یہ فتویٰ دینا چاہئے کہ جو آدمی اپنی بیوی کو ستائے اس کا بائیکاٹ کرو، جو مرد جہیز کے لیے اپنی بیوی کو اور اس کے خاندان کو پریشان کرے اس کا بائیکاٹ کرو، جوآدمی اپنی بیوی کے حقوق ادا نہ کرے اس کا بائیکاٹ کرو، وغیرہ۔
۱۳ موونگ پکچر کمپنی (نئی دہلی) نے آستھاٹی وی چینل کے لیے ۲۲ مئی ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کا ایک ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر اجودھیا کی بابری مسجد سے تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ ۶ دسمبر ۱۹۹۲ کو بابری مسجد کا ڈھایا جانا نااہل مسلم لیڈروں کی ناعاقبت اندیشانہ سیاست کا نتیجہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر اس اشو کو جلسوں اور تقریروں کا موضوع نہ بنایا جاتا اور خاموش تدبیر کے ذریعہ اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کی جاتی تو یقینی طورپر بابری مسجد نہ ڈھائی جاتی۔ اب مسلم عوام اس اشو سے اپنا انٹرسٹ کھو چکے ہیں۔اب عدالت جو بھی فیصلہ دے گی مسلم عوام اس کو قبول کرلیں گے۔ اس لیے اب عدالت کو مزید تاخیر کے بغیر اپنا فیصلہ دے دینا چاہئے۔
۱۴ ایران نیوز ایجنسی (IRNA) نے ۲۵ مئی ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر میلاد النبی سے تھا۔ جواب میں بتایا گیا کہ میلاد النبی نماز روزہ کی طرح کوئی شرعی فریضہ نہیں۔ یہ مسلم کلچر کا ایک حصہ ہے جو بعد کے زمانہ میں شروع ہوا۔ تاہم اس کا ایک فائدہ یہ ہوا ہے کہ میلاد النبی کے موقع پر مسلمان بڑی تعداد میں اکٹھا ہوتے ہیں اور علماء کو یہ موقع ملتاہے کہ وہ اس موقع پر لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے حوالہ سے اسلام کا پیغام پہنچائیں۔
۱۵ ہندی ماہنامہ سرو شانتی (نئی دہلی ) کے ایڈیٹر مسٹر اعجاز شاہین نے ۲۸ مئی ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کا ایک تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ سوالات کاتعلق زیادہ تر موجودہ سماج میں عورتوں کے مسائل سے تھا۔جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ موجودہ سماج میں عورتوں کو جو مسائل در پیش ہیں وہ زیادہ تر مساوات مرد وزن کے غیر فطری اصول کی بنا پر ہیں۔صحیح طریقہ یہ ہے کہ عوئرت اور مرد کا دائرہ کار الگ الگ ہو۔ دوسری بات یہ کہ آزادیٔ نسواں کے نام پر برہنگی کا جو کلچر چلایا گیا ہے اس کو بند ہونا چاہئے ورنہ عورتوں کے مسائل کبھی ختم نہ ہوںگے۔
۱۶ ۳۱ مئی ۲۰۰۳ کی رات کو ایک خصوصی پروگرام ہوا۔ سویڈن کی راجدھانی اسٹاک ہام میں مقیم جناب رشید شمس الحسن زیدی اور ان کے ساتھیوں کے تعاون سے ٹیلی فون پر خطاب کا یہ پروگرام رکھا گیا۔ یہ پروگرا م اسٹاک ہام کے ایک ہال میںتھا۔ صدر اسلامی مرکز نے دہلی میںاپنے دفتر سے ساڑھے بارہ بجے رات کو ٹیلی فون پرآدھ گھنٹہ کی تقریر کی جس کو پانچ ہزار کیلومیٹر دور اسٹاک ہام کے مسلمانوں نے سنا۔ یہ تقریر سیرت رسول کے موضوع پر تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور واقعات کی روشنی میں اسلامی تعلیمات کی وضاحت کی گئی ۔ رپورٹ کے مطابق ہال میںجمع شدہ حاضرین بہت متاثر ہوئے۔ بہت سے لوگوں کی آنکھوں میںآنسو آگئے۔ ان لوگوں کی فرمائش ہے کہ اس تقریر کو لکھ کر انہیں دیا جائے تاکہ وہ اسے سویڈش زبان میں چھاپ سکیں۔ تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ اہل اسلام کے لیے قابلِ اتباع نمونہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہے۔
۱۷ نئی دہلی میںانڈیا انٹرنیشنل سنٹر (انکسی) میں انٹرنیشنل فیڈریشن فار ورلڈپیس کے تحت ۵ جون ۲۰۰۳ کی شام کو ایک خصوصی فنکشن ہوا۔ اس میں صدر اسلامی مرکز کو فیڈریشن کی طرف سے امبیسڈر فارپیس (Ambassador for Peace) کا ایوارڈ دیا گیا۔اس موقع پر صدر اسلامی مرکز نے پیس اور اسلام کے موضوع پر ایک تقریر کی۔ یہ پورا پروگرام انگریزی میںہوا۔ غیر ملکی افراد بھی اس فنکشن میں شریک تھے۔
۱۸ ایک فرانسیسی تنظیم (Latitude de Paix) کی طرف سے ایک بین اقوامی سیمینار کا اہتمام کیا گیا۔ یہ سیمینار ۲۷۔۲۸ جون ۲۰۰۳ کو ہوا۔ اس کا مقام سوئزر لینڈ کے ایک قدیم محل (Chateau de Coux) میں تھا۔ اس کا موضوع فلسطین کے مسئلہ کا حل تلاش کرنا تھا:
Reconciliation between Israelies and Palestinian People.
اس سیمینار میں شرکت کے لیے صدر اسلامی مرکز کے نام دعوت نامہ موصول ہواتھا اور سفر کا انتظام بھی ہوچکا تھا۔ مگر بعض اسباب سے وہ اس میں شرکت نہ کر سکے۔ البتہ انہوں نے موضوع کے بارے میں اپنے خیالات تحریری طورپر لکھ کر سیمینار کے منتظمین کو بھیج دئے۔
۱۹ دھروفلمس (Dhruv Filams) نے دور درشن کے لیے صدر اسلامی مرکز کا ایک تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ یہ انٹرویو ۲۱ جون ۲۰۰۳ کو ریگل اسٹوڈیو (نوئڈا) میں ریکارڈ کیا گیا۔ اس پروگرام کااہتمام مسٹر او۔پی ۔سہگل (Tel. 7658100) نے کیا تھا۔ اس کا موضوع تھا— کشمیر کی خواتین کے مسائل اور کشمیر کی تعمیر و ترقی میں ان کا حصہ۔ اس پروگرام کے تحت چھ ایپی سوڈ(Episode) تیار کیے گیے۔ اس موقع پر جو کچھ کہا گیا اس کا خلاصہ یہ تھا کہ کشمیر اور دوسرے مقامات پر پر جوش مسلمان جوکچھ کر رہے ہیں وہ اسلامائزیشن نہیں ہے۔ مثال کے طورپر اسلام لرننگ پر زور دیتا ہے اور یہ لوگ (de-learning)کاکام کررہے ہیں۔ اس سلسلہ میں بتایا گیا کہ موجودہ حالات میں سب سے پہلی ضرورت یہ ہے کہ کشمیر کی خواتین کو تعلیم یافتہ بنایا جائے۔ تعلیم کے بغیر تعمیر و ترقی کا کوئی بھی کام نہیں ہوسکتا۔
۲۰ سہارا گروپ (اردو، ہندی، انگریزی) کے نمائندہ مسٹر سونیل تیواری نے ۲۰ مئی ۲۰۰۳ کو ٹیلی فون پرصدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ اس قسم کے انٹرویو تینوں زبان کے سہارا میں بیک وقت چھپتے ہیں۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر اس سے تھا کہ ہندستان میںمذہب کی پکڑ سماج سے ختم ہوتی جارہی ہے۔ جواب میں بتایا گیا کہ صرف جزئی طورپر یہ بات درست ہے۔ آج بھی ہندستانی سماج پر مذہب اور روحانیت کی پکڑ کافی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کٹرواد یہاں زیادہ بڑھ نہیں پاتا۔ ۷۵ سال کی کوشش کے باوجود ابھی تک وہ مین اسٹریم نہ بن سکا۔
۲۱ مسٹر ودود ساجد نے ۱۳ جون ۲۰۰۳ کو نئی دہلی کے روز نامہ راشٹریہ سہارا (اردو) کے لیے ٹیلی فون پر صدر اسلامی مرکز کا انٹرویولیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر اجودھیاکی بابری مسجد کے مسئلہ سے تھا۔ سوالات کا خلاصہ یہ تھا کہ اس اشو کو نام نہاد مسلم لیڈروں نے بگاڑا ہے ورنہ یہ کوئی مسئلہ ہی نہ تھا۔
۲۲ مسٹر وید ویاس اور ان کے ساتھیوں نے ۱۷ جون ۲۰۰۳ کو گاندھی سمیتی( نئی دہلی )کے لیے صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر اس مسئلہ سے تھا کہ مہاتما گاندھی نے اخلاقی افکار پر مبنی صحافت کی وکالت کی تھی۔ مگر آزادی کے بعد اس قسم کی صحافت وجود میںنہ آسکی۔ اس کا سبب کیاہے۔جوا ب میں کہا گیا کہ صحافت ریڈر شپ کے تابع ہوتی ہے۔ جیسی ریڈر شپ ویسی صحافت۔ اخلاق پر مبنی صحافت کو وجود میں لانے کے لیے پہلے اس کے مطابق ریڈر شپ تیار کرنا ہوگا۔
۲۳ نئی دہلی کے آؤٹ لک میگزین کے نمائندہ مسٹر بھودیپ کانگ (Bhavdeep Kang)نے ۱۷ جون ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر اجودھیا کے مسئلہ سے تھا۔ ایک سوال کے جواب میں کہا گیا کہ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ مسلمان بابری مسجد کو گفٹ میں ہندوؤں کو دے دیں۔ یہ ایک خیالی تجویز ہے۔ مسلمان مسجد کے مالک نہیں، پھر وہ گفٹ کیسے کر سکتے ہیں۔ اصل یہ ہے کہ سب سے پہلے اس معاملہ میں ایک فریم ورک بنانا چاہئے۔ فریم ورک بنائے بغیر غیر متعلق باتیں ہوتی رہیں گی اور مسئلہ حل نہ ہوگا۔
۲۴ گاندھی سمیتی کے تحت انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ماس کمیونیکیشن (نئی دہلی) میں ۱۱ جون ۲۰۰۳ کو ایک ریڈیو پروگرام ہوا۔ یہ امن کے موضوع پر تھا۔ مختلف اسکول کے تقریباً ۲۰ طلبہ اور طالبات اس میں شریک ہوئے۔ اینکر (Anchor) کے فرائض ایک طالبہ نے انجام دیے۔ ایر کموڈور جگجیت سنگھ اور راہل دیو جی نے تقریریں کیں۔قرآن و حدیث کی روشنی میںصدر اسلامی مرکز نے اسلام میںامن پر ایک تقریر کی۔ اس کے بعد طلبہ اور طالبات نے موضوع سے متعلق سوالات کئے۔ اس کے جوابات دیے گیے۔ یہ پروگرام تقریباً دو گھنٹہ جاری رہا۔
واپس اوپر جائیں