Pages

Thursday, 1 January 2004

Al Risala | January 2004 (الرسالہ،جنوری)

1

- خصوصی شمارہ: کوریا کا سفر


کوریا کا سفر

امریکا میں قائم شدہ ایک مشہور تنظیم ہے، جس کا پورانام یہ ہے
Interreligious and International Federation for World Peace
اس تنظیم نے سول(Seoul) میں ایک انٹرنیشنل کانفرنس کی ۔ اس کانفرنس کاموضوع یہ تھا:
The world at a turning point: Innovative approaches to peace through responsible leadership and good governance.
اس کا نفرنس کی دعوت پر جنوبی کوریا کا سفر ہوا ۔ یہاں اس کی مختصر روداد درج کی جاتی ہے ۔
9 اگست کی شام کو 9 بجے ائرپورٹ کے لیے روانگی ہوئی ۔ راستے میں کوئی قابلِ ذکر بات سامنے نہیں آئی ، سوا ئے اس کے کہ راستہ کاروں سے بھر اہو ا تھا ۔ شہر کی سڑکوں پر کاروں کی یہ بھر مار اس لیے نہیں ہے کہ لوگوں کی قوتِ خرید بہت زیادہ بڑھ گئی ہے ۔ یہ کارلون (Car Loan) کاکرشمہ ہے ۔ بینکوں نے سودی قرضے پر کار خرید نے کی آسانی اتنی زیادہ بڑھادی ہے کہ اب تقریباً ہر شخص کارخرید سکتا ہے ، خواہ کارلون اور ہائوس لون کے بوجھ میں وہ ساری زندگی دبا رہے ۔
دہلی ائر پورٹ پرڈاکٹر اوصاف علی صاحب سے ملاقات ہوئی ۔ ان کی عمر 70 سال ہو چکی ہے۔ وہ حکیم عبدالحمید صاحب (وفات 1999) کے ساتھ 45سال تک رہے ہیں۔ا نہوں نے بتایا کہ آخری زمانے میں جب حکیم صاحب صاحبِ فراش ہو گئے تھے، اور مشکل سے بولتے تھے ۔ ایک دن انہوں نے ہلکی آواز میں کہا کہ الرسالہ بھیجو ۔ڈاکٹر اوصاف علی صاحب نے سمجھا کہ وہ پڑھنے کے لیے کوئی میگز ین مانگ رہے ہیں ۔ چنانچہ انہوں نے اردو کے کچھ میگزین بھیج دیے ۔ ان کو دیکھ کر حکیم صاحب غصہ ہو گئے ۔انہوں نے ان رسالوں کو کنارے رکھ دیا، اور ایک کاغذ پر لکھ کر دیا کہ یہ لے آئو ۔ اس کاغذ پر الرسالہ لکھا ہو اتھا ۔ اس کے بعد ڈاکٹر اوصاف علی صاحب نے انہیں ماہنامہ الرسالہ بھجوا یا۔ اس کو پاکر وہ بہت خوش ہو ئے اور دیر تک اس کو پڑھتے رہے ۔ اصل یہ ہے کہ حکیم عبدالحمید صاحب بالکل شروع سے الرسالہ کے ریگولر قار ی تھے۔ ہر مہینے کا شمارہ حاصل کرکے وہ پابندی کے ساتھ اس کو پڑھتے تھے ۔
ڈاکٹر اوصاف علی صاحب نے بتایا کہ حکیم عبدالحمید صاحب کے اندر کافی مزاح (Humour) تھا۔ چنانچہ ان کی مجلس خشک مجلس نہیں ہو تی تھی ۔ ڈاکٹر اوصاف علی صاحب نے بتایا کہ ایک بار کچھ لوگ حکیم صاحب سے ملنے کے لیے آئے ۔ میں نے چائے بنوائی تو اس میں حکیم صاحب کی چائے موجود نہ تھی ۔ آنے والوں نے پوچھا کہ آپ چائے کیو ںنہیں لے رہے ہیں۔ حکیم صاحب نے کہا کہ میں چائے نہیں پیتا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے چائے سے ڈرلگتا ہے۔ لوگوں نے پوچھا کہ کیوں ؟ انہوں نے کہا کہ 1939 میں میں شملہ میں تھا ۔ شملہ میں کافی سردی تھی ۔ لوگوں کے کہنے پر میں نے ایک پیالی چائے لے کر پینا شروع کیا ۔ اچانک ریڈیو پر خبر آئی کہ دوسری عالمی جنگ چھڑ گئی ہے ۔ا س کے بعد پھر میں نے کبھی چائے نہیں پی ۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں چائے کی پیالی اپنے ہاتھ میں لوں، اور پھر تیسری عالمی جنگ چھڑ جائے ۔
ڈاکٹر اوصاف علی صاحب نے سید بدرالدجیٰ کی تقریر سنی ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ وہ غیر معمولی صلاحیت کے مقرر تھے ۔ مگر ان کی سوچ پر منفی ذہنیت غالب تھی ۔ ایک مرتبہ انہوں نے ہندوستانی پارلیمنٹ میں ایک تقریر کی ۔ یہ تقریر ہندو فرقہ واریت کے خلاف احتجاج تھی ۔ ان کی اس تقریر کے بار ے میں انہوں نے بتایا کہ خود نہرو نے اس پر تالی بجائی ۔
سفر میں ایک جرمن خاتون مسز ار سولامیک لیکلینڈ(Ursula Mclackland) ہمارے ساتھ تھیں ۔ وہ کانفرنس میں شرکت کےلیے جارہی تھیں ۔ وہ 15 سال سے دلی میں رہ رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جرمنی میں بیشتر لوگ مذہب سے دلچسپی نہیں رکھتے ۔ اس لیے ان کا دل جرمنی میں نہیں لگتا ۔ وہ ایک مذہبی خاتون ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ خدا کا عقیدہ ہی زندگی کو بامعنی (meaningful) بنا تا ہے :
It is belief in God that makes life meaningful.
دہلی سے تھائی ائرویز کی فلائٹ کے ذریعے روانگی ہوئی ۔ یہ ایک بڑا جہاز تھا جس میں 360 سیٹیں تھیں۔ وہ دہلی سے سوابارہ بجے رات کو روانہ ہو ا ۔ گھر سے روانگی 9 اگست کی شام کو ہوئی تھی، لیکن جب دہلی سے جہاز روانہ ہو ا تو اگست کی 10 تاریخ ہو چکی تھی ۔ پرواز کے دوران تھائی ائرویز کافلائٹ میگزین سواسدی (Sawasdi) کا شمارہ اگست 2003 دیکھا ۔ اس میں ایک مضمون لباس اور ٹیلر نگ کے بارے میں تھا ۔ موجودہ زمانے میں کپڑے اور لباس کے بارے میں ایک نیا نظریہ بنا ہے ۔ اس میں تھائی لینڈ کے مشہور ترین انٹڑنیشنل ٹیلر نیری(Narry) کے بارے میں بتایا گیا تھا ۔ اس نے اب تک 20 لاکھ لوگوں کے لیے ان کی پسند کے کپڑے تیار کیے ہیں۔
London office Tel: 442077954778, Mobile:++6618347545
اس ٹیلر کی اس ممتاز کامیابی کاراز یہ ہے کہ اس نے اپنے فن میں غیر معمولی کمال پیدا کیا۔ اس کے اشتہار میں اس کی طرف سے یہ الفاظ تھے: ہم تمام ناپ(measurement) کوکمپیوٹر میں فیڈ(feed) کر تے ہیں تاکہ آئندہ فون ، فیکس یا ای میل سے آرڈر دیا جا سکے۔ ہم 10 زبانیں بولتے ہیں ، تھائی ، انگلش، جرمن، انڈین، اسپینش امیلین، ناروین، ڈینش، فنش ، سوئڈش:
We speak 10 language: Thai, English, German, Indian, Spanish, Italian, Norwegian, Danish, Finnish, Swedish.
ہم ہر ایک کو اس کی اپنی ذات کی نسبت سے خدمات فراہم کر تے ہیں:
we offer personalized tailoring services
اس کو پڑھ کر مجھے خیال آیا کہ دعوت کا طریقہ بھی عین یہی ہے ۔ مجموعہ کو خطاب کر نے سے دعوت کا حق ادانہیں ہو تا ۔ دعوت کا مؤثر طریقہ یہ ہے کہ انفرادی خطاب کا اصول اختیار کیا جائے۔ ہر ایک کے اپنے مزاج کے مطابق ، اس کے ذہن کو ایڈریس کیاجائے۔ افراد کے اندر گہری تبدیلی اسی شخصی تخاطب کے ذریعے آسکتی ہے۔ بڑے بڑے جلسوں میں کی جانے والی تقریریں فرد کے ذہن کو ایڈریس نہیں کرتیں۔ اس لیے اس قسم کے مجموعی خطاب سے حقیقی معنوں میں ذہنی انقلاب بھی نہیں آتا ۔
بینکا ک کے انگریزی اخبار دی نیشن(The Nation) کا شمارہ 16 اگست 2003 دیکھا ۔ اس کے ضمیمہ میں ایک باتصویر رپورٹ چھپی تھی ۔ اس کا عنوان یہ تھا:
Travelling in Thailand a daunting prospect for wheelchair-bound tourists.
اس میں بتایا گیا تھا کہ موجودہ زمانے میں معذور مسافر(disabled travellers) کثرت سے مختلف ملکوں میں جانے لگے ہیں۔ امریکا میں معذور مسافروں کی تعداد سالانہ تقریباً پچاس ملین ہوتی ہے جس سے امریکا کو زبردست مالی فائدہ حاصل ہو تا ہے ۔ اسی طرح جاپان میں ، خاص طور پرٹوکیو میں معذور مسافروں کی سہولت کاخصوصی انتظام کیا گیا ہے ۔ مگر تھائی لینڈ جیسے ملکوں میں ایسے مسافروں کے لیے کوئی سہولت نہیں جو وہیل چیئر پر وہاں پہنچتے ہیں ۔ تھائی لینڈکے ہوٹلوں میں وہیل چیئر پر نقل وحرکت سخت مشکل کام ہے ۔
عالمی اسفار میںمعذور لوگوں کی شمولیت ایک نیا تاریخی ظاہر ہ ہے ۔ یہ جدید ذرائع سفر کی بنا پر ممکن ہوا ہے ۔ قرآن میں دو جگہ یہ تعلیم دی گئی ہے کہ تمہارے مال میں محروم کابھی حصہ ہو نا چاہیے۔ مگر قدیم زمانے میں محروم کا مطلب صرف رزق سے محروم ہونا سمجھا جاتا تھا ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کے تو سیع مفہوم میں معذور لوگ بھی شامل ہیں۔ موجودہ زمانے میں معذور لوگوں کے لیے غیر معمولی سفر ی انتظامات کیے گئے ہیں۔ اس بنا پر معذورکے لیے سفر کرنا تقریباً اتنا ہی آسان ہو گیا ہے، جتنا کہ غیر معذور کے لیے سفر کرنا۔ مثلاً ہر جگہ معذور کے لیے عمدہ وہیل چیئر کاانتظام رہتا ہے، جس کاکوئی تصور قدیم زمانے میں نہ تھا۔
دہلی سے بینکاک کا سفر تقریبا چار گھنٹے میں طے ہوا ۔ بینکاک ائرپورٹ پر ہمار اجہاز اترا تو 10 اگست کی صبح کا سورج طلوع ہو نے والا تھا ۔ یہاں ائر پورٹ پر فجر کی نماز ادا کی ۔ بینکا ک ائرپورٹ ایک خوبصورت اور منظم ائرپورٹ ہے۔ وہ ایک تعمیری گلدستہ نظرآتا ہے۔ اس کے ٹائلٹ تک نہایت مرصع تھے۔ ائرپورٹ کی بیرونی دیواروں پر بہت بڑے بڑے شیشے لگے ہو ئے تھے ۔ اس کے باہر فطرت کی حسین دنیا تھی ۔ میں ایک پر سکون گو شے میں کھڑا ہوا، اس منظر کو دیکھ رہا تھا ۔ میرے دل سے نکلا-’’ خدایا، تو نے دنیا کی وقتی جنت کی جھلک دکھا دی ۔ اب تو آخرت کی ابدی جنت کو میرے لیے مقدر کر دے‘‘۔
بینکا ک ائرپورٹ پر ایک ہندوستانی مسافر سے بات کرتے ہوئے میں نے پوچھا کہ یہ ائرپورٹ آپ کو کیسالگتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بہت اچھا ۔ میں نے کہا ک دلی ائرپورٹ اور بینکاک کے ایرپورٹ میں کیا فرق ہے ۔ا نہوں نے کہا کہ زمین آسمان کا فرق ہے ۔ا س کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ہمارا دیش اگر انڈر ڈولپڈ(underdeveloped) ہے، تو یہ دیش اوور ڈولپڈ (overdeveloped) ہے۔
بینکاک (Bangkok) تھائی لینڈ کی راجدھانی ہے، اور یہاں کی سب سے بڑی بند رگاہ ہے۔ بینکاک کے بیچ میں ایک دریا ہے، جس کے دونوں طرف شہر آباد ہے۔ دونوں حصوں کو بہت سے پلوں کے ذریعہ جوڑدیا گیا ہے۔ بینکاک میں پوسٹ اور ٹیلی گراف کانظام 1880 میں بنا یا گیا ۔ یہاں کی سڑک پر الکٹرک ٹرام 1892 میں چلائی گئی ۔ اسٹیٹ ریلوے کی پہلی لائن 1900 میں تعمیر کی گئی ۔ نو آبادیاتی دور میں بنے ہوئے وہ پل اور بلڈنگیں اب بھی یہاں دکھائی دیتی ہیں، جو فرانس اور اٹلی کے طرزِ تعمیر پر بنائی گئی تھیں۔ یہاں پہلی یونیورسٹی 1916 میں بنائی گئی ۔ سیکنڈورلڈوار کے بعد بینکاک میں تعمیر و ترقی کاکام بہت زیادہ تیز رفتار ی سے شروع ہوا۔
نئے بینکاک کی آبادی بہت بڑھ گئی ہے ۔ وہاں بہت زیادہ سڑکیں اور بلڈ نگیں بنائی گئی ہیں، مگر بینکاک اب بھی منصوبہ بندشہر (Planned city) کی حیثیت نہیں رکھتا ۔ پہلے یہاں سفر زیادہ تر کشتیوں کے ذریعے ہو تا تھا ۔ اب یہاں کی سڑکوں پر زرق برق کاریں دوڑ تی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ بینکاک کا ایرپورٹ سائوتھ ایسٹ ایشیا کا سب سے بڑا ایرپورٹ سمجھا جاتا ہے ۔ بینکاک میں ایک تعداد مسلمانوں کی بھی ہے ۔و ہ زیادہ تر یہاں کی مسجد کے آس پاس آبادہیں۔
بینکاک سے سول کے لیے تھا ئی ائرویز کی فلائٹ نمبرTG634سے روانگی ہوئی۔ 10اگست کا سورج بلند ہو چکا تھا ۔ اس کی سنہری کرنیں فضا کو چاروں طرف روشن کررہی تھیں۔ جہاز اگر انسانی انجینئرنگ کانمونہ دکھا رہا تھا، تو اس کے باہر کی دنیا فطرت کی عظیم ترانجینئر نگ کاتعارف بنی ہوئی تھی ۔ یہ ماحول تھا جس میں بینکاک سے ہماراسفر شروع ہوا۔
پرواز کے دوران انگریزی اخبار دی سنڈے نیشن(The Sunday Nation) کا شمارہ دیکھا۔ اس کو تھائی لینڈ کا انڈپنڈنٹ اخبار کہا جاتا ہے۔ اس کا آخری صفحہ اسپورٹس کے بارے میں تھا۔ اس پر ایک پانچ کالمی تصویر بنی ہو ئی تھی ۔ اس میں ریل میڈرڈ(Real Madrid) کے ایک درجن کھلاڑیوں کی ایک ٹیم بینکاک کی تھائی نیشنل ٹیم سے کھیلنے کے لیے یہاں پہنچی تھی ۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اسپین کے ایک کھلاڑی نے اپنے احساس کا اظہار کرتے ہوئے کہا- یہ ایک اچھا تجربہ ہے اس لیے کہ ہم اپنے سے مختلف ایشیا ئی ٹیم سے مل کر نئے طریقے سیکھیں گے
This is a good experience as we got to learn new tactics from asian teams which are different from Europe.
فرق واختلاف کوئی مسئلہ نہیں بلکہ اس کو آپ اپنی ترقی کاذریعہ بنا سکتے ہیں۔
ڈاکٹر اوصاف علی صاحب کثرت سے کانفرنسوں میں شریک ہو تے رہے ہیں۔ ان سے میں نے پوچھا کہ کانفرنسوں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک امریکی پروفیسر نے کہا ہے کہ ان کانفرنسوں پر جتنی زیادہ رقم خرچ ہوتی ہے، اس سے اچھا تو یہ ہے کہ شریک ہو نے والے اپنا مقالہ لکھ کرہمیں بھیج دیں ،اور ہم تحریری صورت میں اس کا جواب روانہ کردیں۔
انہوں نے کہا کہ دوسری طرف امریکی یونیورسٹیوں کا معاملہ یہ ہے کہ ان کے نزدیک ہر پروفیسر کو دوسال میں کم از کم ایک بار یونیورسٹی کے خرچ پر اپنی اسٹڈی کے ایریا میں جانا چاہیے، اور کانفرنس میں حصہ لینا چاہیے۔ جو پروفیسر ایسا نہ کر سکے اس کی حیثیت یونیورسٹی میں علمی اعتبار سے گھٹ جاتی ہے ۔ یہ سمجھا جانے لگتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اپ ڈیٹ(update) نہیں کر رہا ہے اور اپنے سبجکٹ سے آئوٹ آف ٹچ(out of touch) ہو گیا ہے ۔
سکھ لیڈر سردار منجیت سنگھ بھی اسی جہازمیں سفر کررہے تھے ۔ ان سے میں نے کہا کہ مسلم شاعر اقبال نے گرو نانک کے بارے میں کہا تھا کہ ’’ ہندکو اک مردکامل نے جگایاخواب سے ‘‘ ۔اس سلسلے میں ان کا ایک اور شعر یہ ہے:
نانک نے جس چمن مین وحد ت کا گیت گا یا میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے
میں نے کہا کہ مسلمانوں کی سب سے زیادہ پسندید ہ شخصیت اقبال نے گرو نانک کے بارے میں اتنے اونچے خیالات کااظہار کیا تھا پھر کیوں مسلمانوں اور سکھوں میں اچھے تعلقات قائم نہ ہو سکے۔ اس کے جواب میں سردار منجیت سنگھ نے کہا کہ اصل یہ ہے کہ سیاسی جھگڑے اچھے تعلقات میں رکاوٹ بن گئے ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہوئی کہ مغل حکمراں جہانگیر اور اورنگ زیب کے زمانے میں سکھ لیڈروں پر تشدد کیا گیا ۔ اس بنا پر دونوں فرقوں کے درمیان اچھے تعلقات نہ بن سکے۔
سردار منجیت سنگھ کے اس جواب کا دوسراپہلو یہ ہے کہ یہ سیاسی تشدد سکھوں کے لیے زحمت میں رحمت (blessing in disguiese) ثابت ہوا۔ اس کی وجہ سے سکھوں میں باہمی اتحاد کاجذبہ پیدا ہوا۔ ان کے لیڈروں نے سکھوں کومنظم کیا ۔اس کے بعد ہی ایسا ہو اکہ سکھ لوگ ایک طاقتور کمیونٹی کی حیثیت سے ابھرآئے ۔ اس سے انگریزوں نے فائدہ اٹھایا اور پھر بعد کو سکھوں کو خصوصی رعایتیں دیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پنچاب کا علاقہ ہندوستان کا سب سے زیادہ خوش حال علاقہ بن گیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں ہر منفی پہلو کے ساتھ ہمیشہ مثبت پہلو موجود رہتا ہے۔
بینکاک سے ساڑھے تین گھنٹے کی پرواز کے بعد جہازتائی پے(Taipei) میں اترا۔ تائی پے کا ہوائی اڈہ اگر چہ دلی کے ہوائی اڈہ سے کافی بہتر تھا، مگر وہ بینکاک کے ہوائی اڈہ سے کم نظرآیا۔
تائی پے (Taipei) تائیوان کی راجدھانی ہے۔ وہ کافی سرسبز ہے ۔ وہ پیسیفک سمندر کے کنارے واقع ہے ۔ وہ چین کے جنوبی ساحل سے 121 میل دو رہے۔ 1949 میں چین میں کمیونسٹ پارٹی غالب آگئی ۔ا س وقت وہاں کی نیشنلسٹ گورنمنٹ کے افراد چین سے بھاگ کرتائیوان آگئے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہم چین کے حقیقی حکمراں ہیں، انہوں نے اپنی پرووزنل گورنمنٹ بنائی جس کا صدر مقام تائی پے تھا ۔ تائی پے ہر طرف پہاڑوں سے گھر اہوا ہے۔ یہاں کی آبادی زیادہ تران لوگوں پرمشتمل ہے، جو کمیونسٹ انقلاب کے بعد چین سے بھاگ کریہاں آئے تھے ۔
تائی پے اب ایک تجارتی مرکزکی حیثیت رکھتا ہے ۔ تائیوان میں مغربی ملکوں کی مدد سے کافی صنعتی ترقی ہوئی ہے۔ 1895 میں چین اور جاپان میں لڑائی ہوئی ۔ اس کے بعد تائیوان جاپان کے قبضے میں آگیا ۔ دوسری عالمی جنگ میں جاپان کی شکست کے بعد تائیوان دوبارہ چین کو مل گیا۔ 1949 سے وہ آزاد مملکت کی حیثیت سے قائم ہے ۔ تائی پے کارقبہ 272 مربع کلومیٹر ہے۔ نئی شہری پلاننگ میں یہاں زیادہ ترملٹی اسٹوری بلڈنگیں بنائی گئی ہیں۔
تائی پے میں ہم لوگ جہاز سے نکل کر ائرپورٹ کی عمارت میں آگئے۔ یہاں سے شہر کے کچھ مناظر دکھائی دے رہے تھے ۔ یہاں کے باتھ روم میں پانی کے جوٹیپ لگے ہوئے تھے ،ان کو گھمانے یا دبانے کی ضرورت نہ تھی ۔ ان کے نیچے ہاتھ لے جانے سے پانی اپنے آپ نکلنے لگتا تھا ۔ چنانچہ اس کے اوپر آٹو(auto) لکھا ہو اتھا ، یعنی خود کار۔
تائی پے سے آگے کے لیے روانگی ہوئی ۔ دوران پرواز تائیوان کاانگریزی اخباردی چائنا پوسٹ(The China Post) کا شمارہ 10اگست 2003 دیکھا۔ اس کے صفحہ 2 پر ایک خبر تھی ۔ اس کا عنوان یہ تھا:
Afghan Royalists move to restore the monarchy.
اس خبر کے تحت بتایا گیا تھا کہ افغانستان کے قدیم شاہی خاندان کے ایک فردحکیم نورزئی نے ایک تحریک شروع کی ہے جس کا مقصد افغانستان میں دوبارہ بادشاہ کی دستوری حکومت کی واپسی (return of the constitutional monrachy) ہے۔ حکیم نورزئی اب تک حامد کرزئی کی حکومت میں محکمہ انٹلی جینس کے ڈپٹی ہیڈ تھے ۔ اس عہدہ سے استعفا دے کر انہوں نے یہ تحریک شروع کی ہے۔ ان کی تحریک کے اکثر ممبران شاہی خاندان کے افرادہیں۔ میں نے اس خبر کو پڑھا تو میرے دل نے کہا کہ اس تحریک کانشانہ ماضی کی تاریخ کی واپسی ہے، اور ماضی کی گذری ہوئی تاریخ کبھی دوبارہ واپس نہیں آتی ۔ اسماعیل میر ٹھی نے بجا طور پرکہا ہے: گیا وقت پھر ہاتھ آتانہیں
اس سفر میں نئی دہلی کے فادر آرنلڈ ڈیوڈ(Fr. Arnold David) سے ملاقات ہوئی ۔ گفتگو کے دوران میں نے ان سے پوچھا کہ آپ یہ بتائیں کہ نوجوانوں کے لیے مسیحیت کی خاص ایڈوائس کیا ہے ۔انہوں نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ تم زندگی اس طرح گزار و کہ تم خدا کو اور دوسروں کو اور اپنے آپ کو بھی خوش کر سکو:
Spend your life in a way that makes you, others and God happy.
ہماری آخری منزل سول(Seoul) تھی۔ جہاز سول کے ہوائی اڈہ پر اتر ا تو 10 اگست ، شام 4 بجے کا وقت ہو چکا تھا ۔ یہاں کا یک واقعہ قابل ذکر ہے ۔ اس واقعہ کا آغاز دہلی ائر پورٹ سے ہوتا ہے۔ دہلی ائرپورٹ پر ہمارادستی بیگ جب مشین پر چک کر نے کے لیے رکھا گیا تو اس کی اسکرین پر خطرے کی علامت ظاہر ہو گئی ۔ اب عملہ کے کئی مرد اور عورت ہمارے بیگ کی تلاشی میں مصروف ہو گئے ۔ میں حیران تھا کہ آخر اس بیگ میں کیا چیز ہے، جس کی اتنی زیادہ جانچ ہورہی ہے ۔آخر تلاش بسیار کے بعد ایک بے ضررآئٹم بر آمد ہو ا۔ یہ ایک چھوٹی سی قینچی تھی، جس میں ایک چھوٹا ساچاقو بھی لگا ہوا تھا۔ اس کومجھے مانچسٹر میں ایک عرب تا جر نے دیا تھا، جس کو میں نے کبھی استعمال نہیں کیا ۔ عملہ نے اس کو فورا ًاپنے قبضہ میں لے لیا۔
تا ہم یہ ناخوشگوار واقعہ میرے لیے ایک تجربہ بن گیا ۔یہاں ائر پورٹ پر تھائی ائرویز کے عملہ نے بتایا کہ آپ کا سامان آپ کو سول(Seoul) ائرپورٹ پر مل جائے گا۔ ہمیں اس یقین دہانی پر زیادہ بھروسہ نہ تھا۔ مگر جب ہم اپنا سفر طے کرنے کے بعد سول ائرپورٹ پر پہنچے تو میں نے دیکھا کہ یہاں تھائی ائرویز کے کائونٹرپر ہمارے پہنچنے سے پہلے ہی ہماری قینچی پہنچ چکی تھی ۔ یہ ایک مضبوط اور خوبصورت لفافہ میں بند تھی جس پر لکھا ہواتھا :
Envelop for restricted item.
معلوم ہوا کہ عملہ کاایک آدمی میز پر میرے انتظار میں کھڑا ہو اتھا ۔ ترقی یافتہ ملکوں کے بارے میں میرا تجربہ ہے کہ یہ لوگ انسانی مشین(human machine) کی طرح کام کرتے ہیں ، اور یہی ان کی ترقی کااصل راز ہے۔
سول ائرپورٹ پر کانفرنس کی طرف سے کچھ افراد موجود تھے۔ ان کی رہنمائی میں ائر پورٹ سے شہر کے لیے روانگی ہوئی ۔ کانفرنس کے کچھ اور شرکا اسی وقت سول ائرپورٹ پر پہنچے تھے۔ ان سب لوگوں کو جدید طرز کی ایک بس میں بٹھا یا گیا ۔ یہ ایک بہت بڑی بس تھی، جو گویا ہوائی جہاز کے فرسٹ کلاس کی ایک توسیع معلوم ہو تی تھی ۔ اس ائرکنڈیشنڈ بس میں نہ صرف نہایت عمدہ نشستوں کاانتظام تھا ،بلکہ دوسری کئی چیزیں موجود تھیں۔ مثلاً اخبار ، میگزین ، لکھنے کا ڈیسک، گھڑی، وغیرہ۔ ان بسوں کو عام طور پر لیموزین(limousine) کہا جاتا ہے ۔ و ہ تیز رفتار ی کے ساتھ چل رہی تھی، مگر سارے راستہ میں کہیں ایک بار بھی کوئی جھٹکا محسوس نہیں ہوا۔ یہ عمدہ سڑک کاکرشمہ تھا۔ سڑک پرکاریں دوڑرہی تھیں، مگر یہ سب بڑی کاریں تھیں ۔ یہاں کوئی چھوٹی کاردکھائی نہیں دی ۔ سڑک کے دونوں طرف ترقی یافتہ شہر کے مناظر دکھائی دے رہے تھے ۔ صفائی اور ہریالی یورپ کے ترقی یافتہ شہروں کی مانند تھی ۔
کوریا ایک چھوٹا ملک ہے ۔ اس کے دوحصے ہیں، نارتھ کو ریا اور سائوتھ کوریا ۔ نارتھ کو ریا میں جائیے تو وہاں ہر طرف غربت اور پس ماندگی کے مناظر دکھائی دیں گے ۔ اس کے برعکس سائوتھ کوریا میں ترقی اور خوش حالی کے مناظر دکھائی دیتے ہیں۔ میں نے ایک صاحب سے اس فرق کا سبب پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اس فرق کا سبب یہ ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد جب جغرافیہ کانقشہ بدلا تو نارتھ کو ریا روس کے زیرِاثر چلا گیا، اور سائوتھ کوریا امریکا کے زیراثر رہا ۔ اس فرق کا تعلق صرف کوریا سے نہیں ہے بلکہ بہت سے دوسرے ملکوں میں یہی فرق دکھائی دیتا ہے ۔ روس یا کمیونسٹ لیڈرشپ کے زیرِ کنڑول ملکوں میں کوئی ترقی نہ ہو سکی ۔ اگر کچھ ترقی ہوئی تو ہتھیار سازی میں۔ کیوں کہ کمیونزم کافلسفہ یہ تھا کہ ہتھیار کی طاقت سے دنیا کے نظام کو بدلنا ۔ اس کے برعکس جو ملک امریکا کے زیرا ثر آئے، وہاں مادی ترقیوں کو فروغ حاصل ہوا ۔ کیوں کہ امریکی نظریہ مادی ترقی میں یقین رکھتا تھا ۔
سول(Seoul) سائوتھ کو ریا کی راجدھانی ہے ۔ سول کا مطلب کوریائی زبان میں اسپیشل شہر ہے۔ یہ شہر 1394 سے غیر منقسم کو ریا کی راجدھانی رہا ہے ۔ سول ایک قدیم شہر ہے جس کاتذکرہ پہلی صدی عیسوی کی تاریخوں میں ملتا ہے ۔ سول غیر منقسم کوریا کے تقریبا وسط میں واقع ہے ۔ اس لیے وہ ملک کی راجدھانی کے لیے قدیم زمانے سے موزوں مقام سمجھا جا تا رہا ہے ۔
یہاں کے ہر گھر میں ایک منزل گرم منزل ہوتی ہے ۔ اس کاڈیزائن سردی کے موسم کے لحاظ سے بنایاجاتا ہے۔ اس منزل کو گرم کرنے کے لیے کوئلہ کو بطور ایندھن استعمال کیاجاتا ہے۔ لیکن کوئلہ سے نکالی ہوئی گیس لوگوں میں زیادہ مقبول ہورہی ہے :
All houses have ondol ("heated") floors designed for the cold winter, coal is used as fuel to warm the ondol. but gases extracted from coal are increasingly in demand. 16/557
سول میں میرا قیام بلٹن ہوٹل کے کمرہ نمبر 526 میں تھا۔ اس کانفرنس میں 150 ملکوں کے تقریباً 350 آدمی آئے تھے ۔ وہ سب اسی ہوٹل میں ٹھہرائے گئے تھے ۔ ان شرکا میں مختلف ملکوں کے کئی مسلمان بھی شامل تھے ۔
ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمان نے گفتگو کے دوران کہا کہ میں ایک پریکٹسنگ مسلم ہوں۔ اسلام کو پرفکٹ ریلیجن مانتا ہوں، مگر ایک بات میری سمجھ میں نہیں آتی ۔ قرآن میں ہے: لَا إِکْرَاہَ فِی الدِّینِ(2:256)۔ یعنی دین کے معاملہ میں کوئی زبردستی نہیں۔اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ بعد کی صدیوں میں مسلمان مسلح فوج کے ساتھ مختلف ملکوں میں داخل ہو گئے، اور ایشیا اور افریقہ اور یورپ کے بہت سے ملکوں میں اپنی حکومت قائم کرلی ۔ آخر اس کاکیا جواز تھا۔
میں نے کہا کہ قرآن میں قتال کا حکم صرف ایک مقصد کے لیے دیا گیا تھا ، اور وہ تھا، فتنہ (religious persecution) کو ختم کرنا۔ یہ مشن خلافت راشدہ کے زمانے میں مکمل ہو گیا ۔ اس کے بعد مسلمانوں کے لیے دنیا میں صرف ایک کام باقی رہا ،اور وہ ہے پرامن دعوت۔
مزید وضاحت کرتے ہوئے میں نے کہا کہ ظہورِ اسلام سے پہلے کی پوری تاریخ مذہبی تشدد (religious persecution) کی تاریخ ہے۔ خدا نے ہزاروں سال کے درمیان ایک لاکھ سے زیادہ پیغمبر بھیجے ۔ ہر پیغمبر نے پرامن طور پر توحید کی دعوت دی ۔ مگر مذہبی آزادی نہ ہونے کی وجہ سے ان کاکام آگے نہ بڑھ سکا۔ یہ سلسلہ حضرت مسیح تک جاری رہا ۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا کہ وہ قتال کے ذریعے اس مذہبی جبر کاخاتمہ کرکے مذہبی آزادی کادور دنیا میں لائیں۔
یہ کام ظہور ِاسلام کے ابتدائی چالیس سالوں میں بنیادی طور پر انجام پاگیا ۔ تاہم دنیامیں توہمات (superstitions) کا عمومی غلبہ تھا۔ اس لیے اس کام کی تکمیل کے لیے مزید کئی صدیاں درکار تھیں۔ مسلم لیڈروں کی بعد کے زمانے کی سیاسی کارروائیاں ایک اعتبار سے اس پر اسس کی تکمیل کاذریعہ بنیں ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہزار سالہ مسلم اقتدار ہی واحد سبب ہے، جس نے قدیم تو ہمات کاخاتمہ کیا۔ ا س کے بعد ہی دنیا میں سائنسی دور کا آغاز ہو سکا ۔ اس طرح اگر چہ ساتویں صدی عیسوی ہی میں فتنے کی جڑیں کمزور ہو چکی تھیں۔ مگر اس عمل کی تکمیل اور علمی طرز فکر(scientific attitiude) کاکامل ظہور اٹھارویں صدی کے بعد ممکن ہو سکا۔ اب انسان ایک ایسی دنیا میں ہے جہاں مکمل طور پر مذہبی آزادی کو تسلیم کرلیا گیا ہے۔ سائنسی طرزِ فکر ساری دنیا میں آچکا ہے۔ فطرت میں چھپی ہوئی خدائی نشانیاں پوری طرح ظاہر ہو چکی ہیں۔ اب قتال کی کوئی ضرورت نہیں، اب عام حالات میں پرامن اسلوب ہی دعو ت الی اللہ کے عمل کوانجام دینے کے لیے بالکل کافی ہے۔
میں نے کہا کہ دعوت کا اسٹینڈ رڈپیٹرن صرف ایک ہے اور وہ پرامن دعوت ہے اور تمام پیغمبروں نے اسی طریقے پر دعوتی کام کیا۔ پیغمبر آخر الزماں کے ظہور کے بعد وقتی ضرورت کے تحت قتال کی تدبیر جزئی طور پر اختیار کی گئی تھی ۔ مگر اب حالات کی تبدیلی کے نتیجے میں دعوت کا اسٹینڈ رڈپیٹرن دوبارہ تاریخ میں واپس آگیا ہے ۔ اب اہل حق کو پرامن دعوت کے سواکسی اور چیز کی ضرورت نہیں۔
11 اگست کو دوپہر کے کھانے کی میز پر کئی لوگوں سے ملاقات ہوئی ۔ ڈاکٹر اوصاف علی صاحب لِوِنگ انسائیکلو پیڈیا(living Encyclopaedia) ہیں ۔ ان سے جو بات بھی پوچھیے، اس کے بارے میں ان کے پاس مکمل معلومات رہتی ہیں۔ ایک موقع پر میں نے پوچھا کہ دنیا میں ملکوں کی تعداد کیا ہے۔ انہوں نے فورابتایا کہ اقوام متحدہ میں جو ملک رجسٹرڈہیں ان کی تعداد 180 ہے ۔ ان کے علاوہ کئی چھوٹے چھوٹے ملک ہیں جن کی حیثیت رجواڑہ جیسی ہے ۔ مثلا لکسم برگ وغیرہ۔ ایسے چھوٹے ملکوں کو لے کر موجودہ تعداد 220 بنتی ہے۔
ایک گفتگو کے ذیل میں انہوں نے بتایا کہ بُہرافرقہ کے پیشواکی ایک تقریب میں بہت سے لوگ اکٹھا تھے ۔ ہوٹل میں کھانے کی میز پر حلب کے مفتی محمد الحکیم کھانا کھارہے تھے ۔ انہوں نے بتایا کہ ایک مسلم جماعت کے ایک لیڈر بھی وہاں موجود تھے۔ انہوں نے مفتی صاحب کی پلیٹ کی طرف اشارہ کر تے ہوئے کہا کہ کیا آپ نے تحقیق کرلی ہے کہ یہ کھانا حرام ہے یا حلال۔ مفتی حلب اس سوال پر غصہ ہو گئے۔ا نہوں نے کہا کہ کیا آپ نے قرآن میں یہ آیت نہیں پڑھی: یَاأَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْیَاءَ إِنْ تُبْدَ لَکُمْ تَسُؤْکُمْ (5:101)۔ یعنی اے ایمان والو، ایسی باتوں کے متعلق سوال نہ کرو کہ اگر وہ تم پر ظاہر کردی جائیں، تو وہ تم کو ناپسندیدہ لگے۔
حافظہ کاذکر ہو ا تو انہوں نے بتایا کہ آلڈ وس ہکسلے(Aldous Huxley) کا حافظہ (memory) بہت زبردست تھا۔ اس نے ایک بارکہا کہ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا لے آئو، میں اس کو اے سے زیڈ (A to Z)تک پڑھ کر اپنے حافظے میں رکھ لوں گا ۔ چنانچہ اس نے انسائیکلوپیڈیا کو اے سے لے کر زیڈ (A to Z) تک پڑھ ڈالا ۔ اس کے بعد انسائیکلو پیڈیا کے مضامین اس کے ذہن میں اس طرح محفوظ ہو گئے کہ دیکھے بغیر وہ بتا سکتا تھا کہ کس مسئلہ پر انسائیکلو پیڈیا میں کیا لکھا ہے ۔ وہ بہت زیادہ پڑھتا تھا یہاں تک کہ آخر عمر میں وہ نابینا ہو گیا۔
ایک دلچسپ قصہ انہوں نے مولانا عبدالعزیز میمن (1888-1978)کے بارے میں بتایا ۔ وہ علی گڑھ یونیورسٹی کے شعبہ عربی میں استاد تھے۔ ان کاحافظ بہت قوی تھا۔ ان کے دماغ میں ہر قسم کی معلومات بھری ہوئی تھیں۔ چنانچہ لوگ ان سے اپنے سوالات پوچھا کر تے تھے ۔مگر ان کا ایک عجیب دستور تھا۔ وہ ہر سوال کے جواب میں پیشگی طور پر ایک روپیہ وصول کرتے تھے ۔ علی گڑھ کے شعبۂ اسلامیات کے ایک صاحب نے بتایا کہ وہ ایک مقالہ لکھ رہے تھے، جس میں انہیں ایک مسئلہ کاذکر کر نا تھا ۔ اس کے بارے میں ان کو ضروری معلومات کہیں نہیں مل رہی تھیں۔ کسی نے بتایاکہ تم مولانا عبدالعزیز میمن کے پاس جائو وہ تم کو بتادیں گے ۔ مولانا نے کہا: کل صبح آنا اور ایک روپیہ اپنے ساتھ لے آنا ۔ چنانچہ وہ صبح کو ایک روپیہ کے ساتھ ان سے ملے، اور انہوں نے فوراًان کے سوال کامطلوب جواب دے دیا۔
لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ پیسہ کا کیا کرتے ہیں۔ یہ بات 1947 سے پہلے کے زمانے کی ہے جب کہ ایک روپیہ کی کافی قیمت تھی ۔ لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ مولانا عبدالعزیز میمن ایسا کیوں کرتے ہیں۔ مگر بعد کو معلوم ہوا کہ لوگوں سے پیسہ وہ اپنی ذات کے لیے نہیں لیتے تھے، بلکہ کتابوں کی خریداری کے لیے لیتے تھے ۔ وہ نہایت سادہ زندگی گزار تے تھے ۔ عام رواج کے خلاف وہ ملاقات کے وقت کسی کی تواضع نہیں کر تے تھے۔ وہ اپنا ساراپیسہ کتابوں کی خریداری میں خرچ کر تے تھے ۔
چنانچہ ان کے ذاتی کتب خانہ میں بہت زیادہ کتابیں اکٹھا ہوگئیں۔ 1947 کے بعد وہ اپنی کتابوں کے ساتھ پاکستان منتقل ہو گئے ۔ صدر محمد ایوب خاں نے اپنی صدارت کے زمانہ میں ایک بڑا اسلامی ادارہ کھولنا چاہا۔ اس سلسلہ میں انہوں نے عبدالعزیز میمن سے مدد چاہی ۔ عبدالعزیز میمن نے کہا کہ ایک معیاری تحقیقی ادارے کے لیے اچھا کتب خانہ بے حد ضروری ہے ۔ جہاں تک میرے کتب خانہ کا تعلق ہے، وہ تو میں اس ادارے کے حوالہ کردوں گا ۔ لیکن اس میں بہت سی ضروری کتابیں نہیں ہیں۔ان کتابوں کو حاصل کرنے کے لیے کم سے کم 20 لاکھ روپئے کی ضرورت ہو گی ۔ اس کے علاوہ جب میں مختلف ممالک میں کتابیں حاصل کرنے کے لیے جائوں گا ،تو اس میں کم سے کم 20 لاکھ مزید خرچ ہوں گے۔ صدرایوب نے 40 لاکھ رقم ان کے حوالہ کر دی ۔ وہ قاہرہ ، لندن، پیرس ، تہران، وغیرہ جا کر تمام ضروری کتابیں لے کر آئے۔ یہ ادارہ انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک ریسرچ کے نام سے پہلے کراچی میں قائم ہو اتھا ۔ بعد میں یہ ادارہ اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی( اسلام آباد) کا ایک حصہ بن گیا۔
11اگست کی شام کو کانفرنس کا افتتاح بلٹن ہوٹل کے بڑے ہال میں ہوا۔ یہ افتتاح ڈنر کے ساتھ ساتھ کیا گیا تھا۔ یعنی لوگ میزوں پر بیٹھ کر شام کاکھانا کھارہے تھے ،اور ساتھ ساتھ پروگرام بھی سن رہے تھے۔افتتاحی تقریر (invocation) شیوامورتی شیوااچاریہ نے کی ۔ اس تقریر میں انہوں نے امن کی عالمی اہمیت کو بیان کیا، اور قیام امن کی اہمیت پرزور دیا۔ اس کے بعد آرک بشپ اور ڈاکٹر ڈائناپر یز(Diana Perez) کی تقریر ہوئی ۔ افتتاحی اجلاس کا ایک اہم جزء امن کے موضوع پر بنا ہوا ایک ویڈیوٹیپ تھا جس کو بڑی اسکرین پر دکھایا گیا ۔ یہ دلچسپ اور معلوماتی تھا۔ اس میں اقوام متحدہ سے لے کر غیر سرکاری تنظیموں(NGOs) تک کی امن کی بارے میں سرگرمیاں باتصویر انداز میں بتائی گئی تھیں۔ اس پر وگرام کو لوگوں نے بہت شوق سے دیکھا۔
افتتاحی اجلاس میں سوامی شیوامورتی شیواچاریہ کی بھی تقریر تھی ۔ انہوں نے پہلے سنسکرت اشلوک سنائے، اور اس کے بعد انگریزی میں تقریر کی ۔ ان کی تقریر کا ایک خاص جملہ یہ تھا۔ ہم یہاں سول میں اس لیے جمع ہوئے ہیں تا کہ روحانیت کی تلاش کر سکیں:
we have all assembled here in seoul to do some soul-searching
ایک اور مقرر نے اپنی مختصر تقریر میں کہا:
O God. lead me from Unreality to Reality. from darkness to light. from death to eternity.
سوڈان کے الصادق المہدی نے اپنی دوکتاب دی ۔ ان کے نام یہ ہیں:
1۔ قضایا الوطن الراھنۃ فی خطاب السید الا مام وخطبۃ الا مین العام
2۔Second Birth in Sudan
انگریزی کتاب میں برصغیر ہند کے جائزہ کے تحت یہ درج تھا کہ ابوالا علیٰ مودودی خاص طور پر انڈیا کے مسلمانوں کے بارہ میں متفکر تھے کہ وہ ہندوازم سے مغلوبیت کے شکار ہوجائیں گے:
Abd al-Ala al_Mawdudi of India was particularly anxious about Moslems being overwhelmed by Hinduism in India (p. 46)
الصادق المہدی کو یہاں یہ بتانا چاہیے تھا کہ سید ابو الا علی مودودی کی تشویش غلط ثابت ہوئی ۔ ہندوازم خود مغربی تہذیب سے مغلوب ہو گیا، وہ نہ مسلمانوں کے اوپر غالب آسکا، اور نہ خود ہندوئوں کے اوپر۔
سول کی انٹرنیشنل کانفرنس میں تقریبا ہر مسلم ملک کے مسلمان آئے تھے ۔ میں نے ان میں سے اکثرکی یا تو تقریر سنی یا ان سے انفرادی گفتگو ہوئی ۔ ہر ایک بلا استثناء ایک ہی زبان بولتا تھا- مسلمانوں پر ظلم ۔ یہ سارے لوگ اپنے مقدمہ کو ثابت کرنے کے لیے ہیو من رائٹس اور اقوام متحدہ کے حوالے دیتے تھے۔ کسی کو بھی میں نے قرآن کے حوالہ سے سوچنے والا نہیں پایا۔ یہی قرآن کو کتاب مہجور بنانا ہے۔ اس غلط فکری کی وجہ سے ہر ایک نے اس کو حقوق انسانی کامسئلہ بنا رکھا ہے۔ جب کہ قرآن کی نظر سے دیکھا جائے تو یہ خدا کی سنت کا مسئلہ نظر آئے گا۔
حقوق انسانی کی تحریک بنیادی طور پر ردعمل کی تحریک ہے، ٹھیک اسی طرح جیسے اشترا کی تحریک ردعمل کی تحریک تھی ۔ اس بنا پر حقوق انسانی کے علم بردار اکثر اس غلطی میں مبتلا رہتے ہیں کہ وہ اپنے مزاج کے مطابق، مفروضہ مظلوم کی حمایت اور مفروضہ ظالم کی مخالفت کرتے ہیں۔ میرے نزدیک مسلمانوں کو حقوق انسانی کے علم برداروں کی تقریروں میں اپنے مسئلہ کاحل نہیں ڈھونڈنا چاہیے۔ مسلمانوں کے مسئلے کاحل قرآن میں بتایا گیا ہے، اور وہ یہ ہے کہ مسلمان اگر اپنے داخلی معاملے کو درست رکھیں، تو دوسروں کی طرف سے انہیں کبھی نقصان نہیں پہنچ سکتا۔ ایسی حالت میں مسلمانوں کا طریقہ احتساب خویش ہونا چاہیے، نہ کہ احتجاج غیر، جیسا کہ ہیومن رائٹس کے علم برداروں کا ہوتا ہے۔
سائوتھ کو ریا کی اس کانفرنس میں دنیا کے ہر حصے کے دانشور شریک ہوئے۔ یہ کانفرنس انسانی مسائل پر غور کرنے کے لیے بلا ئی گئی تھی ۔ مگر میں نے دیکھا کہ تقریبا ہر مرد اور عورت بار بار ہنستے تھے، اور تالیاں بجاتے تھے ۔ میں نے اپنے تجربہ میں لوگوں کے اندر انسانیت کا درد نہیں پایا۔
میں اس قسم کی بہت سی کانفرنسوں میں شریک ہواہوں۔ لوگوں کے رویہ کو دیکھ کر مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دانشور حضرات کے لیے یہ ایک قسم کی آئوٹنگ یاذہنی تفریح (Intellectual entertainment) ہے۔ لوگ رونے والے موضوعات کے نام پر فائیو اسٹار ہوٹلوں میں اکھٹا ہوتے ہیں، اور ہنسی اور قہقہہ کے ماحول میں کچھ وقت گذار کرواپس چلے جاتے ہیں۔جہاں تک میرا تعلق ہے، میں ان کانفرنسوں میں صرف اس لیے جاتا ہوں کہ وہاں کچھ نئے تجربات حاصل کروں، اور دعوتی مواقع کو بقدرامکان استعمال کروں۔
سائوتھ کو ریا کی اس کانفرنس میں دنیا کے مختلف حصوں کے لوگ بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔ان لوگوں سے ملاقاتوں کے دوران ایک نئی بات کااحساس ہوا۔ 1947 سے لے کر اب تک تقریباًتمام لکھنے اور بولنے والے مسلمان ساری دنیا میں ایک ہی بات بتا رہے ہیں ۔ وہ یہ کہ ہندوستان کے مسلمان مظلوم ہیں۔ ملک میں وہ پیسیووائس(Passive voice) بنے ہوئے ہیں۔ پاکستان کامیڈیا مسلسل طور پر اسی نظریہ کے تحت چلایا جارہا ہے۔
ہندوستان میں اس وقت مسلمان کسی بھی دوسرے مسلم ملک سے زیادہ ہیں۔ یعنی 22 کروڑ سے زیادہ ۔مگر باہر کی دنیا میں ہندوستانی مسلمانوں کاکوئی وزن نہیں۔ اس کا سبب خود مسلمانوں کی مذکورہ سیاست ہے ۔ اس قسم کی مظلومانہ تصویر کے نتیجہ میں کچھ مسلم افراد کو یہ موقع تو ضرور ملا ہے کہ وہ ہندوستانی مسلمانوں کی مظلومیت کے نام پر باہر سے بڑے بڑے چندے لائیں۔مگر دوسرانقصان یہ ہے کہ انٹرنیشنل اسٹیج پر ہندوستانی مسلمان بالکل بے وزن ہو گئے ہیں۔ میں جب لوگوں کو بتاتا ہوں کہ ہندوستان میں مسلمان اچھی پوزیشن میں ہیں۔ وہ تقریباً ایک سو پارلیمنٹ کی سیٹ پر فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں۔ پوری مسلم دنیا کا سب سے زیادہ دولت مند آدمی ہندوستان میں ہے۔ پوری مسلم دنیا میں سب سے بڑا سائنس داں ہندوستان میں ہے، پوری مسلم دنیا کا سب سے بڑا انڈسٹریل ہائوس انڈیا میں ہے ۔ پوری مسلم دنیامیں سب سے زیادہ دینی سرگرمیاں ہندوستان میں ہیں تو انہیں یقین نہیں آتا۔
ایک صاحب سے گفتگو کر تے ہوئے میں نے کہا کہ آج کل کی دنیا میں سب سے بڑا فتنہ وہ لوگ ہیں، جن کو انٹلکچول(intellectuals) کہا جاتا ہے ۔ یہ لوگ خوبصورت الفاظ بول کر لوگوں کو مغالطہ میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ مثال دیتے ہوئے میں نے کہا کہ سوویت یونین میں جب کمیونزم کاعملی تجربہ بری طرح ناکام ہو گیا ،توکمیونسٹ نظریہ کو بچانے کے لیے یہ کہا جانے لگا کہ اسٹالن جیسے کچھ لوگوں کی وجہ سے ایسا ہوا ہے ۔ اسی زمانہ میں ایک کمیونسٹ لیڈرنے اس موضوع پر ایک کتاب شائع کی جس کانام تھا- انقلاب کے ساتھ غداری(Revolution Betrayed)۔ حالانکہ کتاب کا صحیح ٹائٹل یہ ہونا چاہیے تھا- انقلاب ناکام (Revolution Failed) ۔ یہی کام موجود ہ زمانے میں مسلم انٹلکچول بھی بڑے پیمانہ پر کررہے ہیں۔
یہاں ایک عرب عالم نے کہا کہ میں نے سناہے کہ آپ جہاد( بمعنی قتال) کو ایک موقت فریضہ مانتے ہیں۔ یعنی ایک وقت خاص میں وہ فرض کیا گیا تھا، اور اب اس کی فرضیت ساقط ہو گئی ہے ۔ میں نے کہا کہ استغفراللہ، ایسا میں نے نہ کبھی لکھا اور نہ کہا ۔ میں نے کہا کہ میراکہنا صرف یہ ہے کہ جہاد ( بمعنی قتال) ذریعہ ہے، نہ کہ مقصد۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ وہ حسن لذاتہ نہیں ہے، بلکہ وہ حسن لغیرہ ہے۔ یہ تو وہی بات ہے کہ جس کو تمام علما اور فقہا مانتے ہیں ۔ پھر اس میں اعتراض کاکیا پہلو ہے۔
ایک پروفیسر صاحب سے نظریۂ ارتقا پر گفتگو ہو ئی ۔ انہوں نے کہا کہ ارتقا(evolution) کانظریہ تو ایک حقیقت ہے۔ آپ دیکھیے، انسان اور حیوان میں ایک چھوٹا بچہ پیدا ہوتا ہے۔ پھر وہ بڑھتے بڑھتے انسان یاحیوان بن جاتا ہے۔ کیا یہ ارتقا نہیں ہے ۔ میں نے کہا کہ یہ تدریجی نشونما ہے۔ ڈاردینی ارتقا کا نظریہ اس سے مختلف ہے۔ ڈاروینی ارتقا یہ ہے کہ ایک نوع کے اندر سے دوسری نوع نکلی۔ یعنی مختلف انواع حیات الگ الگ پیدانہیں ہوئیں۔ بلکہ ایک ابتدائی نوع سے دوسری تمام انواع نکلتی رہیں۔یہ دوسرانظریہ ابھی تک صرف قیاس ہے۔ وہ کوئی ثابت شدہ چیز نہیں۔
دمشق کے جناب ڈاکٹر محمد الحبش سے ملاقات ہوئی ۔ وہ وہاں کی پارلیمنٹ کے ممبر ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ شام کے تعلیم یافتہ لوگ عام طور پر آپ کی کتابیں پڑھ چکے ہیں اور آپ کے خیالات سے پورااتفاق کرتے ہیں۔ اس سے پہلے لاس اینجلیز میں ان سے ملاقات ہوئی تھی ۔ اس لیے انہوں نے دیکھتے ہی مجھے پہچان لیا۔ یہاں آنے والے مسلمان شرکا اکثرمیری کتابوں کے ذریعے مجھ سے واقف تھے۔ اکثر سے مختصر گفتگو ہوئی ۔ یہ عرب لوگ’’ الا سلام یتحدی‘‘ کو بہت پسند کرتے تھے ۔ مگر جہاد او ر دعوت کے بارے میں میرے خیالات سے کچھ لوگوں کو پورا اتفاق نہ تھا۔
کچھ مسلمانوں نے رائٹ اور جسٹس کی بات کہی۔ انہوں نے کہا کہ آج کی دنیا میں مسلمانوں کے ساتھ جسٹس نہیں ہورہا ہے۔ انہیں ان کے رائٹ سے محروم کیا جارہا ہے۔ میں نے کہا کہ یہ آئڈ یلزم ہے، اور اس دنیا میں آئڈیلزم کبھی چلنے والا نہیں۔ آپ کے لیے صحیح یہ ہے کہ آپ عملی طریقہ اختیار کریں۔ ہم کو یہ نہیں دیکھنا ہے کہ نظری اعتبار سے کیا چیز ٹھیک ہے، بلکہ یہ دیکھنا ہے کہ عملی اعتبار سے کیا چیز ممکن ہے:
We should not see what is ideally right, but we have to see what is parctically possible.
یہی اس دنیا میں حقیقت پسندی کا طریقہ ہے۔ حقیقت پسندی کایہ فائدہ ہے کہ آدمی کوفوراًاپنے عمل کے لیے مثبت نقطۂ آغاز مل جاتا ہے، جب کہ دوسرے طریقے میں صرف لڑائی جھگڑاجاری رہتا ہے، اور مثبت معنوں میں نقطۂ آغاز کبھی نہیں ملتا۔
ایک تعلیم یافتہ کشمیری سے بات ہوئی ۔ وہ اب کشمیر کو چھوڑ کر برطانیہ میں رہتے ہیں۔ انہوں نے کشمیر کے بارے میں اقوام متحدہ کے رزولیوشن اور سیلف ڈٹر منزم ،وغیرہ کی باتیں کیں۔ میں نے کہا کہ زندگی میں کبھی لاجک نہیں چلتی ۔1947 سے پہلے مسلم لیڈر یہ کہا کرتے تھے کہ مسلمانوں کو اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزار نے کے لیے ایک علیحدہ ملک چاہیے ، ایک ایسا ملک جہاں وہ نہ انگریزوں کے زیراثر ہوں، اور نہ ہندوئوں کے زیراثر۔
مگر تقسیم کے بعد پاکستانی مسلمان بڑی تعداد میں پاکستان سے نکل کر برطانیہ اور امریکا جیسے ملکوں میں چلے گئے۔ جیسا کہ آ پ جانتے ہیں، پانچ لاکھ کشمیری مسلمان صرف برطانیہ میں رہتے ہیں۔ یہ تقسیم کی لاجک کے بالکل خلاف ہے۔ جب پاکستان بن گیا اور مسلمانوں کاعلیحدہ مطلوب مسلم خطہ قائم ہو گیا ،تو آپ لوگوں نے کیوں ایسا کیا کہ آپ دوبارہ انہیں انگریزوں کے زیر اقتدار آکر برطانیہ میں رہنے لگے، جن کو پہلے آپ سامراجی او رغیر اسلامی بتاتے تھے ۔ آخر اس غیر منطقی روش کے لیے آپ کے پاس کیادلیل ہے۔ میری اس بات کا ان کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔
ایک مسلمان پروفیسر نے یہ شکایت کی کہ اس وقت ساری دنیا میں مسلمانوں کو نظرانداز کیا جارہاہے ۔ انہوں نے کہا کہ افریقہ کے جنگل میں ایک درخت گرے تو کوئی اس کو دیکھنے والا نہ ہوگا۔ یہی حال آج کی دنیا میں مسلمانوں کاہور ہا ہے ۔ اگر مسلم دنیا میں کوئی آدمی ظلم کاشکار بنا یا جائے تو اس پر میڈیا میں کوئی رپورٹ نہیں آتی۔ میں نے کہا کہ آپ کی یہ شکایت بالکل بے جاہے۔ آپ میڈیا سے وہ امید رکھتے ہیں جو کبھی پوری ہونے والی نہیں۔ میڈیا کسی معاملے کو مسلم اور غیر مسلم کی نظر سے نہیں دیکھتا ،وہ اس کو اپنے انٹرسٹ کے لحاظ سے دیکھتا ہے ، میڈیا دوسری تجارتوں کی طرح ایک تجارت ہے، میڈیا کوئی فلاحی ٹرسٹ نہیں:
Media is a business like other business. Media is not a public trust.
میں نے کہا کہ آپ کو چاہیے کہ میڈیا کوایک تجارتی ادارے کی حیثیت سے دیکھیں ، نہ کہ ہیومن رائٹس کے آرگن کی حیثیت سے۔
ایک صاحب اقوام متحدہ میں سروس کرتے تھے ۔ وہ ایک اچھے عہدہ پر تھے۔ اب وہ ریٹائر ہو گئے ہیں ۔ انہوں نے پسماندہ رقم سے اپنا الگ ادارہ بنایا ہے۔ انہوں نے سول میں اپنی تقریر کے دور ان اقوام متحدہ پر کھل کر تنقید کی ۔ اس پر لوگوں نے خوب تالیا بجائیں اور قہقہے لگا ئے۔
دوسری طرف میں اپنی کر سی پر بیٹھا ہوا رور ہاتھا ۔ میرے ذہن میں بار بار یہ خیال آتا تھا کہ وہ لوگ کتنے غیرسنجیدہ ہیں، جو ایک ادارہ میں وفا دارانہ طور پر سروس کریں،اور جب اس سے رٹائرہوں، تو اس پر تنقید شروع کردیں۔ اس سے بھی زیادہ عجیب وہ لوگ ہیں جو اس قسم کی دو عملی پرتالیاں بجائیں۔
زمبابوے سے آئے ہوئے ایک صاحب نے بتایا کہ مجلس العلماء زمبابوے کی طرف سے پانچ سال سے زمبابوے کے یومیہ انگریزی اخباری ہیرالڈ(The Herald) میں ایک آرٹیکل ہفتہ میں ایک مرتبہ شائع ہوتا ہے ۔ اس کالم کانام دی ہولی قرآن اسپیکس(The Holy Qur'an Speaks) ہوتا ہے۔ اس میں قرآن مجید کی وہ آیتیں مع تفسیر وترجمہ شائع ہوتی ہیں،جو عمومی انسانیت کے لیے مفید ہوں۔ مثال کے طور پر- لَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَیْنَکُمْ(2:237)، لَا تَمْشِ فِی الْأَرْضِ مَرَحًا (17:37)،وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا (2:83)، وغیرہ۔ یہ آرٹیکل مسلم اور غیرمسلم دونوں میں مقبول ہے۔ مزید پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ اس کالم کی اشاعت کے لیے وہ ایک ماہانہ رقم مذکورہ اخبار کو ادا کرتے ہیں۔ گویا مذکورہ اخبار کے لیے وہ ایک ایڈورٹائزمنٹ ہے، اور شائع کرانے والوں کے لیے وہ ایک دعوتی صفحہ۔
ایک تعلیم یافتہ مسلمان سے ملاقات ہوئی ۔ وہ ایک مشرقی ملک میں پیدا ہوئے، اور اب وہ ایک مغربی ملک میں رہتے ہیں۔ میں نے کہا کہ فلسطین اور کشمیر اور پاکستان جیسے ملکوں سے بہت سے مسلمان بھاگ کرامریکا اور برطانیہ پہنچے ۔ اب وہ وہاں کے نظام سے پوری طرح ایڈجسٹ کرکے رہتے ہیں۔ وہ ان مغربی ملکوں میں آرام کی زندگی گزار رہے ہیں۔ مگر اسی کے ساتھ وہ ایک مجرمانہ روش میں مبتلا ہیں۔ وہ مشرقی ملکوں میں بسنے والے مسلمانوں کے اندر مسلسل طور پر منفی ذہن پیدا کررہے ہیں۔ میں نے پایا ہے کہ مغربی ملکوں میں بسنے والے یہ مسلمان ہمیشہ مشرقی ملکوں کی حکومتوں کے خلاف منفی تقریریں کرتے ہیں۔ حالاں کہ انہیں یہ کرنا چاہیے کہ وہ اپنے تجربے کی روشنی میں مشرقی ملکوں کے مسلمانوں سے کہیں کہ ہم مغربی ملکوں میں ایڈجسٹ کرکے رہتے ہیں اس لیے ہم کو یہاں امن اور خوشحالی ملی ہوئی ہے ۔ تم بھی اپنے ملکوں میں وہاں کی حکومت اور وہاں کے نظام سے ایڈجسٹ کرکے رہو۔ اس کے بعد تم کو بھی ہماری طرح امن اور خوشحالی حاصل ہوجائے گی ۔
آج اگست 2003 کی 12 تاریخ ہے۔ صبح کو اٹھا تو دیر ہو چکی تھی ۔ رات دیر تک مصروفیت رہی اس لیے صبح کو کسی قدر تا خیر سے نیند کھلی ۔ فجر کی نماز میں کم وقت کی وجہ سے میں نے چھوٹی سورتیں پڑھی- أَلَمْ تَرَ کَیْفَ اورلِإِیلَافِ قُرَیْشٍ ۔ أَلَمْ تَرَ کَیْفَ اورلِإِیلَافِ قُرَیْش کی تلاوت کرتے ہوئے یہ بات ذہن میں آئی کہ قرآن ایک ابدی ہدایت ہے۔ اس لیے یہ دونوں سورتیں قرآن میں صرف ایک گذرے ہوئے واقعہ کے حوالہ کے طور پرنہیں ہو سکتیں۔ یقیناً اس میں آج کے لیے بھی سبق ہے، اور وہ سبق یہ ہے - تم عبادت ِرب پر قائم ہو جائو ، اور پھر تمہارے معاصراصحابِ فیل کے مقابلہ میں خدا تمہارے لیے کافی ہوجائے گا۔ اس اعتبار سے آج مسلمانوں کا جو حال ہے اس کی تصویر فارسی کے ایک شعر میں اس طرح ملتی ہے:
خانۂ شرع خراب است کہ اربابِ صلاح درعمارت گریٔ گنبدِ اسلافِ خود اند
12 اگست کی شام کو تین بجے سے چوتھا اجلاس شروع ہو ا۔ اس کاموضوع مڈل ایسٹ میں قیام امن کا مسئلہ تھا ۔ بولنے والوں میں سے ایک برطانیہ کے لارڈنذ یر احمد تھے۔ انداز بیان اور انگریزی زبان کے لحاظ سے ان کی تقریر کافی اچھی تھی ۔ مگر جو بات انہوں نے کہی اس سے مجھے اتفاق نہ تھا ۔ اپنی عام عادت کے خلاف میں نے چاہا کہ جلسے کے بعد ان سے اس موضوع پر بات کروں ۔ اپنے وزٹنگ کارڈ کی پشت پر یہ مضمون لکھ کرانہیں بھیجا:
Dear Loard Nazir Ahmad.
I wish to meet you after this session. Can you please spare some time? (Room No. 526)
بعد کو لارڈنذیراحمد سے تفصیلی ملاقات ہوئی۔ وہ اصل کشمیری ہیں مگر اب وہ برطانیہ کے باشندہ بن چکے ہیں۔ وہ ٹونی بلیر کی پارٹی میں شریک ہو کر وہاں کی سیاست میں سرگرم حصہ لے رہے ہیں۔ چنانچہ انہیں برطانیہ کے ہائوس آف لارڈز کاممبر بنا دیا گیا ہے ( برطانیہ کاہائوس آف لارڈزانڈیا کے راجیہ سبھا کی مانند ہے) ،اسی بنا پر وہ لارڈنذیراحمد کہے جاتے ہیں۔
لارڈ نذیراحمد ( پیدائش 1957) سے کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ ایک گفتگو کے دوران انہوں نے کہا کہ ٹررزم کی بات سب کرتے ہیں، مگر اسٹیٹ ٹررزم کی بات کوئی نہیں کرتا ۔ میں نے کہا کہ ٹررزم کا لفظ غیر حکومتی لوگوں کی طرف سے مسلح کارروائی کے لیے بولا جاتا ہے۔ اسلام اور جدید بین اقوامی قانون کے مطابق، غیر حکومتی تنظیموں کو ہتھیار اٹھانے کاحق نہیں۔ اس معاملے میں اسلام کا مسلک یہ ہے کہ آپ کو اگر کسی سے شکایت ہے، تو آپ یا تو صبر کریں یا پر امن دائرے میں اپنی جدوجہد چلائیں۔ انفرادی ٹرزم اور ریاستی ٹررزم میں یہ فرق ہے کہ انفرادی ٹررزم اصولاًہی غلط ہے، جب کہ ریاستی ٹررزم عملی طور پر غلط ۔
انہوں نے مزید کہا کہ کوئی مذہب خودکش بمباری کو حق بجانب نہیں سمجھتا ،مگر مظلوم فلسطینی کیا کریں۔ ظلم ہے تو وہ ہتھیار اٹھائیں گے ۔ میں نے کہا کہ کوئی بھی عذر خودکش بمباری کے لیے وجہ جواز نہیں۔ فلسطینیوں کے لیے پرامن جدوجہد کاراستہ اسی طرح کھلا ہو اتھا، جس طرح گاندھی اور نیلسن منڈیلا نے انڈیا اور سائوتھ افریقہ میں پرامن جدوجہد کا طریقہ اختیار کیا۔ مگر فلسطینیوں نے اپنی تحریک کے آغاز ہی میں غلط رخ اختیار کرلیا۔ ان کی اس غلط روی کے ذمہ دار خود عرب رہنماہیں ، نہ کہ کوئی دوسر افریق۔
لارڈنذیر احمد نے برطانیہ میں اپنی سرگرمیوں کی تفصیل بتائی ۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ اس وقت جو کام کررہے ہیں، وہ صرف کمیونٹی ورک ہے ۔ مگر آپ کی صلاحیتوں کے اعتبار سے یہ آپ کے لیے ایک کمتر درجہ کاکام ہے۔ آپ اس سے زیادہ بڑا کام کر سکتے ہیں، اور وہ دعوہ ورک ہے۔ یورپ اور امریکا میں اس وقت سخت ضرورت ہے کہ مثبت انداز میں اسلام کی دعوت لوگوں تک پہنچائی جائے اور اسلام کا صحیح تعارف پیش کیا جائے۔ آپ یہ کام بہت اچھا کر سکتے ہیں۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ میری اس تجویز پر سنجید گی کے ساتھ غور کریں گے ۔
سول کے بک اسٹال پر راقم الحروف کی انگریزی کتابیں موجود تھیں۔ وہ میری ترغیب کے بغیر خود سے بک اسٹال پر گئے، اور میری کتابوں کا ایک سٹ حاصل کیا۔
میرا تجربہ ہے کہ کانفرنسوں میں زیادہ تر ان لوگوں کو تالیاں ملتی ہیں، جو اچھا حافظہ رکھتے ہوں، اور طرح طرح کی معلومات دیتے ہوں ۔ مگر اسی کے ساتھ میرا دوسراتجربہ یہ ہے کہ جن لوگوں کے اندر حافظ کی صلاحیت زیادہ ہو، ان میں تجزیہ کی صلاحیت اتنی ہی کم ہوتی ہے۔ نتیجہ یہ ہو تا ہے کہ زیادہ معلومات دینے والے کوئی مفکرانہ بات نہیں کہہ پاتے ۔ تفکیر کے لیے تجزیہ (analysis) کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن میرا تجربہ ہے کہ زیادہ حافظہ والے لوگ عام طور پر تجزیہ کی صلاحیت سے محروم ہو تے ہیں۔ حافظہ کی کمی ریفرینس کی کتابوں کے ذریعے پوری ہو سکتی ہے۔ لیکن تجزیاتی صلاحیت کی کمی کو کسی دوسرے ذریعے سے پورانہیں کیا جا سکتا۔
تاریخ کے کئی مشہور لوگ اس معاملے میں عبرتناک مثال پیش کرتے ہیں۔ مثلاً کارل مارکس کے اندر حافظہ کی غیر معمولی صلاحیت موجود تھی ۔ معلومات کے انبار سے اس کا دماغ گویا ایک انسائیکلوپیڈیا تھا ۔ مگر میرے انداز ہ کے مطابق، اس کے اندر تجزیاتی صلاحیت تقریباً مفقود تھی ۔ چنانچہ اس نے تجزیہ کے معاملے میں احمقانہ غلطیاں کیں۔ میں نے اپنی کتاب میں اس اعتبار سے کئی مثالیں دی ہیں۔ ملاحظہ ہو: مارکسزم ، تاریخ جس کو رد کر چکی ہے۔
کانفرنس کی طرف سے یہاں ایک بڑا بک اسٹال لگا یا گھا تھا ۔ اس بک اسٹال پر راقم الحروف کی انگریزی کتابیں موجود تھیں۔ گاڈارائزز(God Arises) نامی کتاب کے تمام نسخے پہلے ہی دن لوگوں نے خرید لیے۔ چھوٹے چھوٹے پمفلٹ بھی اسی طرح بہت جلد ختم ہو گئے ۔ کئی لوگوںنے کتابوں کا پوراسٹ لیا۔ ان میں سے ایک صاحب وہ تھے جو ڈنمارک سے آئے تھے ۔بک اسٹال کے ناظم ڈاکٹر ابراھام نے بتایا کہ میں نے آپ کی کتاب آئیڈیولوجی آف پیس (The Ideology of Peace) خریدی ہے، اور اس کو پڑھ رہاہوں۔ آپ کی یہ کتابیں اگر مجھ کو پہلے مل گئی ہو تیں، تو شاید میری زندگی کانقشہ دوسراہوتا ۔ تعلیم سے فراغت کے بعد وہ تلاش کے دور سے گزرے تھے۔ اس کے بعد وہ اس انٹرنیشنل تنظیم سے جڑ گئے جس نے موجودہ کانفرنس کا اہتمام کیا ہے۔
یہاں میں ایک بک اسٹال کو دیکھ رہا تھا۔ اس کے مالک نے میری دلچسپی کو دیکھ کر مجھے ایک کتاب گفٹ کے طور پر دی ۔ کتاب کانام یہ تھا:
Winning the human race
Zed Books Ltd. London and New Jersey, 1988
کتاب کے ایک باب کے تحت سابق امریکی صدر فرنکلن روزولٹ (1882-1945) کا ایک قول نقل کیا گیا تھا۔ وہ قول یہ تھا:
The motto of war is: Let the strong survive, let the week die.
The motto of peace is : Let the Strong help the week to survive.
میرے نزدیک یہ جملہ جنگ اور امن کاقدیم بیان ہے۔ نئی تعریف یہ ہونی چاہیے - جنگ کامقصد دو طرفہ تباہی ہے، اور امن کامقصد دو طرفہ نجات ہے۔
12 اگست کی شام کو ماس میڈیا کے پینل ڈسکشن میں شرکت کی۔ ہر مقرر نے بتایا کہ میڈیا اوپینین فارمیشن (opinion formation) کا ایک طاقتور ذریعہ ہے۔ اس سے پبلک کی رائے کو گہرے طور پر متاثر کیا جا سکتا ہے۔ مگر کسی نے اس سلسلے میں میڈیا کے تعمیری رول کی کوئی مثال پیش نہیں کی ۔ میں نے کہا کہ میرے لیے آپ لوگوں کی رائے سے اتفاق کرنا مشکل ہے ۔ میرے نزدیک میڈیا کوئی اصلاحی مشن نہیں، میڈیا ایک تجارتی ادارہ ہے۔ میڈیا کا کام نیوز کو سل(sell) کرنا ہے۔میڈیا کاکام تعمیری ذہن سازی نہیں۔
ایک مغربی پروفیسر نے زور دے کرکہا کہ امن کے لیے گڈگورنینس(good governance) کی سخت ضرورت ہے۔ اس موضوع پر بات کرتے ہوئے میں نے کہا کہ پیس کاتعلق گڈگورنینس سے نہیں ہے، بلکہ یہ کرائسس مینجمنٹ(crisis management) کاایک اشو ہے۔ امریکا میں اچھی حکومت موجود ہے، مگر امریکا ویت نام ، افغانستان ، عراق میں بے فائدہ جنگ کا مرتکب ہوا ، ایسی جنگ جس کے لیے امریکا کے پاس کوئی حقیقی مبر ر(justification)موجودنہ تھا۔
اصل یہ ہے کہ ہر قوم میں کرائسس کالمحہ آتا ہے۔ یہ فکری قیادت کاامتحان ہو تا ہے۔اگرقیادت آرٹ آف کرائسس مینجمنٹ کی اہل ہو تو وہ امن قائم کرنے میں کامیاب ہو گی ، اور اگر اس اعتبار سے وہ نااہل ہو، تو گڈگورنینس کے باوجود وہ اپنی قوم کو جنگ کی طرف لے جائے گی۔
13 اگست کی صبح کو امریکاسے آئے ہوئے ایک صاحب تقریر کررہے تھے۔ یہاں تک کہ صدر نے گھنٹی بجادی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ آپ کاوقت ختم ہو گیا۔ اس پر مقرر اور سامعین دونوں ہنس پڑے۔ اس قسم کے غیر سنجیدہ لوگ نہ درست طور پر سوچ سکتے ہیں، اور نہ کسی درست فیصلہ پر پہنچ سکتے ہیں۔ 13 اگست کی صبح کو ہمارے ناشتے کی میز کے پاس دوسری میز پر چھ جا پانی بیٹھے ہوئے تھے۔ ہر ایک سنجید گی کانمونہ بنا ہو اتھا۔ ایک بولتا تو سارے نہایت خاموشی کے ساتھ اس کی بات کو سنتے تھے۔ کوئی شخص درمیان میں کبھی نہیں بولتا تھا، نہ زور سے بولنا، نہ ہنسنا ، نہ جوک چھوڑنا۔
جاپانیوں میں یہ استثنائی صفت کیوں ہے، اس کاجواب مشکل ہے۔ مگرمیں یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ خواہ دینی معاملہ ہو یا سیکولر معاملہ، دونوں میں کامیابی کے لیے اسی قسم کی سنجید گی ضروری ہے۔ سنجیدگی کے بغیر اس دنیا میں کوئی بڑی کامیابی ممکن نہیں۔
ایک مقرر اسٹیج پرآئے ،تو انہوں نے کہا کہ یہاں مجھے انگریزی زبان میں بولنا ہے، حالانکہ میری مادری زبان انگریزی نہیں۔ یہ ایک مشکل کام ہے کہ آدمی جاپانی زبان میں سوچے، اور انگریزی میں بولے، یا وہ عربی زبان میں سوچے اور انگریزی زبان میں بولے:
It is difficult to think in japanese and speak in English or to think in Arbic and speak in English.
میرے ساتھ بھی یہی معاملہ اکثر پیش آتا ہے۔ میں اردو زبان میں سوچتا ہوں، مگر کانفرنسوں میں مجھے انگریزی زبان میں بولنا پڑتا ہے۔ ایسے مواقع پر میں یہ سوچ کر حیران رہ جاتا ہوں کہ خدا نے انسان کو کیسی عجیب قدرت دی ہے کہ وہ ایک زبان میں سوچے، اور عین اسی وقت وہ دوسر ی زبان میں کلام کرے۔
13 اگست کی صبح کو مجھے تقریر کرنی تھی ۔ صبح کو میں نے دورکعت صلاۃ الحاجۃ ادا کرکے قرآن میں مذکور حضرت موسی والی دعاپڑھی: وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسَانِی ، یَفْقَہُوا قَوْلِی (20:27-28)۔یعنی اور میری زبان کی گرہ کھول دے،تاکہ لوگ میری بات سمجھیں۔ حضرت موسیٰ کے زمانےمیں یہ حال تھا کہ داعی اور مدعو کی زبان ایک تھی ۔ میرا معاملہ اس سے مختلف ہے ۔ یہاں داعی کی زبان اور ہے ،اور مدعو کی زبان اور۔ دل میں خیال آیا کہ خدا یا ، تو اس دعا کو میرے لیے ایک اضافے کے ساتھ قبول فرما- اِفقَہ قَولَھُم ویَفقَھُو اقَولِی(میں ان کی بات کو سمجھوں، اور وہ لوگ میری بات کو سمجھیں)۔
13 اگست 2003 کو دوپہر بعد کے پروگرام میں میری تقریر تھی ۔ میری تقریر کا موضوع تھا: امن کاقابلِ عمل فارمولاکیا ہے ۔ میں نے اپنی تقریر میں قرآن وحدیث کے کچھ حوالے دیتے ہوئے بتایا کہ امن اس طرح قائم نہیں ہو سکتا کہ ہم بے امنی کاخاتمہ کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ بے امنی کو برداشت کرنے سے امن قائم ہوتا ہے، نہ کہ بے امنی کو ختم کرنے سے۔ اس دنیا میں منفی تجربات ضرور پیش آئیں گے مگر ہم کوان کاجواب مثبت اندا زمیں دینا ہے۔ ہمیں ڈیفرینس کو برداشت کرنا ہے۔ ہم کو اپنے دشمن کابھی احترام کرنا ہے۔ خدا کے تخلیقی نقشے کے مطابق کوئی اور چیز ممکن نہیں۔
صحافیوں کی ایک مجلس میں ایک مغربی صحافی نے کہا کہ صحافی کاکام سچائی کو بتانا ہے، صحافی کاکام یہ نہیں کہ وہ بتائے کہ سچائی کو کیا ہونا چاہیے:
Job of journalist is to tell the truth, job of jurnalist is not what the truth ought to be.
میں نے کہا کہ یہ آدھی بات ہے۔ آج کاصحافی صر ف یہ نہیں کرتاکہ وہ سچائی کو بتائے، بلکہ وہ آدھی سچائی کو بتاتا ہے۔ جدید صحافت کی اصل کمزوری یہ ہے کہ وہ انتخابی رپورٹنگ (selective reporting) کی انڈسٹری بن گئی ہے۔ صحافت اگر واقعہ کی مکمل رپورٹنگ کرے، تو ایسی حالت میں کوئی مسئلہ پیدا ہو نے والا نہیں۔
ایک مجلس میں کچھ ماہر ماحولیات(enviormentalist) اکٹھا تھے۔ ایک صاحب نے کہا کہ اس زمانے کا سب سے بڑا مسئلہ صنعتی کثافت(industrial pollution) ہے۔ میں نے کہا کہ صنعتی کثافت بلاشبہ ایک مسئلہ ہے۔ مگر میرے نزدیک اس سے بھی زیادہ بڑا مسئلہ وہ ہے، جس کو فکری کثافت (intellectual pollution) کہا جا سکتا ہے۔ پر یس اور میڈیا کے رواج کے بعد یہ ہوا ہے کہ ہر عورت اور ہر مرداپنے افکار فضا میں بکھیررہا ہے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ ساری دنیا مختلف افکار کا جنگل بن کررہ گئی ہے۔ فطری طرز فکر تقریبا ًختم ہو گیا۔ اسی مصنوعی صورت ِحال کایہ نتیجہ ہے کہ آج کی دنیا میں طرح طرح کی تحریکیں ابھر رہی ہیں، ایسی تحریکیں جو صرف مسائل میں اضافہ کرنے والی ہیں ، وہ مسائل کوختم کرنے والی نہیں۔
ایک مقرر نے اپنی تقریر کے خاتمہ پر یہ تجویز پیش کی کہ یہاں جومذہبی لیڈر جمع ہیں، وہ یہاں سے واپس جا کر اپنی اپنی کمیونٹی میں امن کے لیے کام کریں۔ جلسہ کے بعد ایک صاحب نے اس تجویز پر اپنی پسند یدگی کااظہار کیا۔ میں نے کہا کہ یہ کوئی سادہ با ت نہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ آج کل ہر کمیونٹی کایہ حال ہے کہ اس میں اپنے حقوق کو لے کر پر جوش تحریکیں چل رہی ہیں۔ ہر کمیونٹی جذباتی حد تک رائٹ کانشش(right conscious) ہو گئی ہے۔ جب کہ امن کے قیام کے لیے ایک ایسا سماج درکار ہے، جو ڈیوٹی کاشش(duty conscious) ہو۔ ایسی حالت میں صبر آزماقسم کے ایک مسلسل عمل کی ضرورت ہے۔ صرف کچھ تقریر یں کر دینے سے یہ مقصد حاصل نہیں ہو سکتا۔
ایک مقرر نے امن پر تقریر کرتے ہوئے پر جوش طور پر کہا کہ امن میرا پیدائشی حق ہے:
peace is my birth right.
مقرر کے یہ الفاظ لوگوں کو اتنے اچھے لگے کہ پوراہال تالیوں گونج اٹھا ۔ پورے ہال میں غالبا ًمیں اکیلا تھا جس نے تالی نہیں بجائی۔ میرے نزدیک یہ ایک سطحی بات ہے ۔ا من اگر انسان کا پیدائشی حق ہے، تو اسی کے ساتھ امن کے حالات کا قیام انسان کاپیدائشی فرض ہے۔ فرض کی ادائیگی کے بغیر کسی کو اس کا حق نہیں مل سکتا ،نہ امن اور نہ کوئی دوسری چیز۔
آج اگست 2003 کی 14 تاریخ ہے۔ صبح کے وقت ہوٹل کے کمرہ میں دیوار سے لگے ہوئے بڑے شیشے کے پاس بٹھا ہوا ہوں۔ سامنے سڑک کے دوسری طرف ایک پہاڑ نظرآرہا ہے۔ اس کے اوپر ایک سفید بلڈنگ صبح کی روشنی میں چمک رہی ہے۔ پہاڑ کے ا وپر گھر بنانے کارواج قدیم زمانہ سے ہے۔ قدیم زمانے میں پہاڑ پر چڑ ھنا بہت مشکل تھا، تب بھی انسان پہاڑ کے اوپر گھر بنا تاتھا۔ اب پہاڑ کے اوپر چڑھنا آسان ہے، تب بھی انسان پہاڑ کے اوپر گھر بنا رہا ہے۔ ’’ اونچی رہائش‘‘ ہر انسان کی تمنا ہے مگر ’’ اونچی سوچ‘‘ کی تمنا کرنے والے بہت کم ملیں گے ۔ سوچ کے اعتبار سے لوگ نچلی سطح پر جی رہے ہیں مگر رہائش کے اعتبارسے وہ اونچی سطح پر رہنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک تضادہے۔ مگر اس تضاد میں آج کے 99 فیصد سے زیادہ انسان مبتلا ہیں۔ وہ فکری بلند ی کو نہیں جانتے ، وہ صرف رہائشی بلندی کو جانتے ہیں۔
ناروے(Norway) کے ایک مسلمان ملے۔ ان کانام مسٹر اسلم احسن تھا۔ انہوں نے بتایا کہ میں پاکستان سے وہاں گیا۔ ناروے ایک ترقی یافتہ اور خوش حال ملک ہے۔ مگر وہاں بہت سردی رہتی ہے ۔ ٹمپر یچر آج 14 اگست کو بھی نقطہ انجما د سے نیچے ہے۔ ناروے میں عام طور پر، چھ ماہ رات، چھ ماہ دن رہتا ہے اور کبھی تو مسلسل سورج رہتا ہے اور رات نہیں آتی ۔ انہوں نے بتایا کہ اس موسم کے باوجود وہاں سارے کام معمول کے مطابق ہو تے رہتے ہیں ۔ وہ کتابوں کاکاروبار کرتے ہیں۔ وہ بک اسٹال سے ہماری کتابیں خرید کر لے گئے۔
انہوں نے کہا کہ ناروے میں ( اور اسی طرح دوسرے مغربی ملکوں میں) ہمارے جیسے لوگوں کے لیے سب سے بڑا پراہلم صرف ایک ہے، اور وہ یہ ہے کہ بچوں کو یہاں کی مادی تہذیب کے اثرات سے کس طرح بچا یا جائے۔ میں نے کہا کہ اس معاملے میں دفاعی تدبیر کبھی مؤثر نہیں ہو سکتی ۔ صرف اقدامی تدبیرہی مؤثر ہو سکتی ہے اور وہ دعوت ہے۔ لیکن دعوت کو اگرصرف ایک تدبیر کے طور پر اختیار کیا گیا تو وہ مفید نہ ہو گا ۔ دعوت کاکام طلب آخرت اور انسانوں کی خیر خواہی کے جذبے کے تحت ہونا چاہیے۔
14اگست کو دوپہر کاسیشن خاص طور پر سائوتھ کو ریا اور نارتھ کوریا کے مسئلہ پر بحث کے لیے تھا۔ کئی ماہرین کی تقریریں ہوئیں ۔مگر مسئلہ کا کوئی حل سامنے نہ آسکا ۔ایک مقرر نے اپنی تقریر کاخاتمہ اس طرح کیا کہ ضرورت ہے کہ نیو آرڈ رآف کوآپریشن(new order of co-operation) دنیا میں لایا جائے۔ مگر وہ نہ بتا سکے کہ یہ نیوآرڈ رآف کو آپریشن کیا ہے۔
ایک موقع پر یہ ذکر آیا کہ نارتھ کو ریا سخت قسم کے مسائل ومصائب میں مبتلا ہے۔ ایک مغربی اسکالر نے کہا کہ نارتھ کو ریا کے مسائل کاذمہ دار امریکا ہے۔ اس نے معاشی پابندیاں لگا کر یہ صورت حال پیدا کی ہے:
All the misery, North Korea is facing , is due to the American's economic warfare.
میں نے کہا کہ یہ نظریہ درست نہیں، امریکا جو کچھ کررہا ہے وہ جوابی کارروائی ہے۔ اور جب بھی آپ کسی کے لیے مسئلہ بنیں گے تو وہ آپ کے خلاف جوابی کارروائی کرے گا۔ اس قسم کی جوابی کارروائی کبھی برابری کے اصول پر نہیں ہو تی ۔ یعنی ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ جتنا کریں ، ٹھیک اتنا ہی دوسرا بھی کرے ۔ اس قسم کی برابری موجودہ دنیا میں کبھی ممکن نہیں ہو تی ۔ اس لیے جو کمزور ہو اس کو چاہیے کہ وہ طاقتور سے ٹکرائو نہ کرے، اور اگر وہ ٹکرائو کرتا ہے، تو پھر شکایت اور احتجاج نہ کرے۔ وہ اس کو یہ سمجھ کر قبول کرے کہ یہ خود میرے عمل کی قیمت ہے جو مجھ کو مل رہی ہے ۔
آج 15 اگست کی صبح ہے۔ دہلی (انڈیا)کے لیے آج کا دن آزادی ملنے کادن ہے۔ مگر سول (Seoul) میں زندگی اپنے معمول پرجاری ہے۔یہاں 15 اگست کی تاریخ کسی قومی یادگار سے وابستہ نہیں۔ ہندوستان کی سیاسی تاریخ کی وجہ سے وہاں کے لوگوں کے جذبات 15 اگست کی تاریخ سے وابستہ ہو گئے ہیں۔ مگر کو ریا کے لوگوں کے لیے 15 اگست کے لفظ میں اس قسم کی کوئی جذباتی وابستگی نہیں۔ اسی قسم کی اضافی چیزیں ہیں ،جو ایک قوم کو دوسری قوم سے الگ کرتی ہیں۔ آدمی اپنے ملک کے اندر ان کو حقیقی سمجھنے لگتا ہے۔ حالانکہ وہ اپنے ملک کے باہر جائے تو محسوس کرے گا کہ ان کی کوئی اہمیت نہیں۔
کئی لوگ پر جوش طور پر یہ تجویز پیش کررہے تھے کہ اقوام متحدہ میں انٹریلیجس کونسل قائم کی جائے۔ یہ لوگ اس تجویز کاتذکرہ اس طرح کرتے تھے جیسے کہ وہ مسئلہ کے حل کی جانب کوئی بہت بڑا قدم ہے۔ مگر یہ ایک خوبصورت تجویز کے سوا اور کچھ نہیں۔ اس طرح کے ادارے پہلے ہی سے اقوام متحدہ کے اندر موجود ہیں۔ پھر ننے نام کے ساتھ ایک اور دارہ قائم کرنے سے کیا فائدہ۔
میری معلومات کے مطابق، اقوام متحدہ میں دو قسم کے شعبے قائم ہیں۔ ایک، امدادی شعبہ ، اور دوسرا، رہنما شعبہ۔ پہلی قسم کے شعبے وہ ہیں، جن کے تحت اقوام متحدہ مال یا سامان کے ذریعے لوگوں کی مدد کرتی ہے۔ یہ شعبے کامیابی کے ساتھ چل رہے ہیں۔ دینے والا جب دے رہا، ہو تو کوئی بھی لینے والا اس سے انکارنہیں کر تا ۔ اس کے مقابلے میں دوسرے شعبے وہ ہیں، جو قوموں سے کچھ کرنے کے لیے کہتے ہیں۔ واقعات بتا تے ہیں کہ اس دوسرے شعبے کے تحت کوئی قوم اقوام متحدہ کی ہدایت کو قبول نہیں کر تی ۔ جہاں تک انٹرریلیجس کو نسل کامعاملہ ہے ، وہ اس دوسرے شعبہ سے متعلق ہے۔ پھر عملی طو رپر وہ کس طرح مؤثر ثابت ہو سکے گا۔
اسرائیل کے اندر اب بھی عربوں کی ایک تعداد اسرائیلی شہری کی حیثیت سے رہتی ہے ۔ ان میں سے ایک عرب سائو تھ کو ریا کی کانفرنس میں بھی آئے تھے۔ ان کا نام محمد خلیل کیوان (Tel. 049881238 058758234) ہے۔ ان سے میں نے پوچھا کہ اسرائیل کے اندر جو مسلمان رہتے ہیں، ان کا حا ل کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ وہ خیر کی حالت میں ہیں۔ ان پر کوئی پابندی نہیں۔ اِلّا یہ کہ کوئی وہاں کے امن میں خلل ڈالے۔ پر امن عربوں کے لیے وہاں کوئی مسئلہ نہیں۔
اجتماع کے آخری دن الوداعی تقریب میں کانفرنس کے تمام شرکا ڈنر کی میز پر تھے۔ اس وقت کانفرنس کے ایک ذمہ دار کی تقریر ہوئی، اور اس کے بعد کچھ ساز ونغمہ کاپروگرام ہوا ۔ اس دوران مذکورہ اسرائیلی عرب مائک پر آگئے۔ پہلے وہ کچھ بولے، اور پھر انہوں نے گانے کے انداز میں لا الہ الا اللہ کہنا شروع کر دیا۔ وہ بار بار مائک پر لا الہ الا اللہ کہتے تھے، او رتمام شرکا تالیاں بجا بجا کر لا الٰہ الا اللہ کو دہراتے تھے ۔ تقریب کے خاتمے پر ایک شخص نے ان سے کہا کہ آپ نے پوراکلمہ نہیں پڑھوایا۔ انہوں نے ہنستے ہوئے جواب دیا کہ آج آدھا کلمہ پڑھوادیا ہے، اگلے موقع پر ان شاء اللہ ان کو پورا کلمہ پڑھوائوں گا۔
کانفرنس کے بعض مقررین کی کچھ باتیں یہاں نقل کی جاتی ہیں۔
امریکا کے پال ایف چیمبرلن(Paul F. Chamberlin) نے ایک سیشن میں اپنا تفصیلی پیپر پیش کیا۔ اس کاعنوان تھا- قوموں کے درمیان امن قائم کرنے کے لیے درگذر اور عالی ظرفی کی اہمیت:
Forgiveness and Magnanimity as instruments of peace between Nations.
اس پیپر میں نارتھ کو ریا کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ امریکا کو یہ شکایت ہے کہ نارتھ کور یا بڑی مقدار میں خطرناک ہتھیار بنا رہا ہے، اور یہ کہ اس سلسلے میں اس کے ارادے جارحانہ ہیں۔ نارتھ کو ریا کو اس سے روکنے کے لیے امریکا نے اس کے خلاف اقتصادی پابندیاں لگا رکھی ہیں۔ اس کا بھی اندیشہ ہے کہ امریکا اس کے اوپر باقاعدہ حملہ کر دے۔ مگر یہ حملہ صرف نارتھ کو ریا کو نقصان نہیں پہنچائے گا، بلکہ اسی کے ساتھ وہ سائو تھ کوریا، جاپان اور خود امریکا کے لیے بھی سخت نقصان کا باعث ہو گا۔ ایسی حالت میں ضروری ہے کہ نارتھ کو ریا سے مقابلے کے لیے طریق کار کو بدلاجائے۔ انہوں نے اپنا یہ پیپر ان الفاظ میں ختم کیا تھا- آئیے ہم موت کے مقابلہ میں زندگی کا انتخاب کریں:
Let's schoose life.
امریکی اسکالر پال ایف چمبرلن(Paul F. Chamberlin) خارجہ پالیسی کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ انہوں نے ایک تقریر کی، جس کا عنوان یہ تھا- بین اقوامی معاملات میں امریکا کارول:
The Role and Responsibility of the United State in Internationa Affairs
انہوں نے بتایا کہ 1797 میں صدر جارج واشنگٹن نے اپنی الوداعی تقریر میں کہا تھا کہ امریکا کو اپنے مفاد کے لیے کام کرنا چاہیے، نہ کہ دوسروں کے مفاد کے لیے:
He counselled that the United States must act in its own intrests, not those of others.
مگر صدر ٹرومین نے دوسری عالمی جنگ کے بعد یہ پالیسی بدل دی۔ 1990 میں کولڈوار کے خاتمہ کے بعد جارج بش سینیر کے زمانے میں نیوورلڈ آرڈر کے نام سے اس میں مزید اضافہ ہوا۔ 11ستمبر 2001 کے واقعے کے بعد جارج بش جو نیر کے زمانہ میں امریکا کی خارجہ پالیسی میں یہ تو سیع بہت زیادہ بڑھ گئی ۔ اس قسم کی باتیں بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امریکا کی اقتصادیات اتنے زیادہ بوجھ کو کب تک برداشت کر تی رہیں گی۔
کنا ڈامیں مقیم ڈاکٹر قاری حسین(Auckbaraullee) نے اپنے پیپر میں اسلام کے بارے میں کچھ باتیں کہیں۔ انہوںنے کہا کہ تاریخی طور پر اسلام الہام کے لمبے ترقیاتی سفر کا آخری مرحلہ ہے:
Historically, Islam is the last phase of a long development of Revelation in history.
اسلام کی یہ تعبیر درست نہیں۔ اسلام کسی لمبے الہامی سفر کی ارتقائی صورت نہیں ہے۔ یہ ارتقائی اصول اس معاملے پر منطبق نہیں ہوتا ۔ اصل یہ ہے کہ اسلام خدا کے دین کی محفوظ صورت ، وہ اس کی ارتقائی صور ت نہیں۔
سویڈن کے برٹل پر سن (Bertil Person) کاایک پمفلٹ یہاں تقسیم کیا گیا۔یہ دراصل ایک لکچر تھا، جو انہوں نے یونائٹیڈ کنگ ڈم(Saint Hill Manor, East Grinstead) میں 23-26 مئی 2002 کو دیا تھا ۔ اس کا ٹائٹل یہ تھا:
Filling the moral vacuum
اس لکچر میںجو کچھ بتا یا گیا تھا اس کا خلاصہ یہ تھا کہ انسان کی زندگی میں اس وقت جو خلا پیدا ہو گیا ہے، اس کو بامعنی طور پر صرف روحانیت پُر سکتی ہے:
The only thing that can fill the present moral vacuum with meaningful contents and quality of life is spirituality.
پمفلٹ میں بتایا گیا تھا کہ روحانیت کا خلاصہ وہ چیز ہے، جس کو گاڈ کہا جاتا ہے:
Spirituality is the essence for "That which we call God"
پھر اسی پمفلٹ میں یہ بھی درج تھا کہ خدا کاعقیدہ ابھی بھی فکری سوال کادرجہ حاصل نہیں کر سکاہے:
"Belief in God" is still not an intellectual question.
اس پمفلٹ میں مجھے دو کمیاں نظرآئیں۔ ایک یہ کہ اس میں واضح طور پر یہ نہیں بتا یا گیا تھا کہ روحانیت کیا ہے ۔ دوسرے یہ کہ اس میں ایک طرف روحانیت کو عقیدۂ خدا پر مبنی قرار دیا گیا تھا، اور دوسری طرف اس میں یہ اعتراف بھی کیا گیا تھا کہ خدا کا عقیدہ ابھی تک علمی اعتبار سے کوئی ثابت شدہ عقیدہ نہیں۔ جن لوگوں کا یہ خیال ہو کہ خدا صرف ایک مفروضہ ہے، نہ کہ کوئی حقیقی واقعہ ، ایسے لوگوں کے لیے خدا کا تصور کس طرح ایک حقیقی روحانیت کا ماخذبن سکتا ہے۔
روس کے ویلیری ساکھ رو(valerity Sakharov) نے 12 اگست 2003 کو اپنا لکچر دیا۔ وہ کئی انٹرنیشنل اداروں کے ذمہ داررہے ہیں۔ انہوں نے اپنی تقریر میں امن سے متعلق مسائل کاذکرکرتے ہوئے اس پر زوردیا کہ مختلف پارٹیوں کے درمیان ڈائیلاگ ہو نا چاہیے۔ مسائل پر ڈائیلاگ کی بات تقریبا تمام اہل علم کرتے ہیں ۔ مگر سوال یہ ہے کہ یہ ڈائیلاگ تو کئی نسلوں سے جاری ہے ۔ ایسی حالت میں اصل سوال یہ ہے کہ ڈائیلاگ کے باوجود مسائل کے حل کاراستہ کیوں نہیں نکلا۔ گویا اصل سوال ڈائیلاگ کے فقدان کا نہیں ہے، بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ ڈائیلاگ کے باوجود مسائل کا حل کیوں ابھی تک دریافت نہ ہو سکا ۔ میں نے بہت سے نیشنل اور انٹرنیشنل ڈائیلاگ میں حصہ لیا ہے۔ یہ ڈائیلاگ ہمیشہ انٹلیکچول لوگوں کے درمیان ہو تا ہے ۔ میرا تجربہ ہے کہ ہر انٹلیکچول ایگو ئسٹ ہو تا ہے ۔ چنانچہ یہ تمام ڈائیلاگ عملاً دو فریقوں کے درمیان ایگو کلیش (ego clash) بن کررہ جاتے ہیں۔ وہ کسی مفاہمت تک نہیں پہنچتے ۔
کوریا کے چی ہولیو(Chi Holew) نے سائو تھ کو ریا اور نارتھ کوریا کے تعلقات پر لکچر دیا۔انہوں نے کہا کہ ایک عجیب صورتِ حال ہے کہ ایک ہی ملک کے دو حصےہیں، اور دونوں ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ مثلاًنارتھ کوریا میں غربت ہے، اور سائوتھ کو ریا میں خو ش حالی ۔ نارتھ کو ریا میں آمریت ہے، اور سائوتھ کو ریا میں آزادی ۔ ایک طرف بندسماج ہے اور دوسری طرف کھلا سماج:
One side is a closed society, the other side is an open one.
تاہم اس مسئلہ کا وہ کوئی حل نہ بتا سکے۔ میرے نزدیک اس معاملے میں زیادہ ذمہ داری نارتھ کو ریا کی کمیونسٹ حکومت کی ہے۔ عجیب بات ہے کہ روس اور چین کی کمیونسٹ حکومتوں نے زمانے کے حالات کے اعتبار سے حقیقت پسندی کاانداز اختیار کر لیا۔ مگر نارتھ کو ریا اور برماجیسی بعض حکومتیں ابھی تک اس معاملے میں غیرحقیقت پسندانہ انداز ختیار کیے ہوئے ہیں، اور اس کی نہایت مہنگی قیمت ان ملکوں کے عوام ادا کررہے ہیں۔
مالوڈوا(Molodova) کے نمائندہ ڈاکٹر وائرل پر یس کاری(Viorel Prisacari) نے مذہبی ہم آہنگی پر تقریر کی ۔ انہوں نے اس سلسلہ میں اقوام متحدہ کے رول پر خصوصی زور دیتے ہوئے کہا:
The United Nations has to become involved into establishing peace among religions. In order to work for this goal, the United Nations structure has to undergo serious changes.
یہ صرف ایک کہنے کی بات ہے۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد جمعیت اقوام (League of Nations) بنی تھی ۔ اس کے بعد اسی تبدیلی کے نظریے کے تحت یہ ہوا کہ جمعیت اقوام کی جگہ اقوام متحدہ کانیا ادارہ وجود میں آیا، مگر اصل مسئلہ بد ستور اپنی جگہ پر قائم رہا۔
اصل یہ ہے کہ اقوام یا اقوام متحدہ یا کوئی تیسری بین اقوامی تنظیم ، ہر ایک کی محدودیت ہے۔ اس قسم کی کوئی بھی تنظیم کبھی ورلڈ گورنمنٹ کی حیثیت اختیار نہیں کر سکتی ۔ اس مسئلہ کا حل صرف یہ ہے کہ اس حقیقت کو تسلیم کر لیا جائے۔
ہونولولو (Honolulu)کے ڈاکٹر الیگزینڈر دائی مان سور(Alexandre Y. Mansourov) نے ایک تفصیلی پیپر پیش کیا ۔ اس کا عنوان یہ تھا۔ روس اور کوریا کے جزیرہ نما کا مستقبل:
Russia and the Future of the Korean Peninsula.
اس پیپر میں موضوع سے متعلق بہت سی باتیں تھیں۔ ایک قابلِ ذکر بات یہ تھی کہ انہوں نے بتایا کہ نارتھ کو ریا اور سائوتھ کو ریا کا دوبارہ اتحاد دونوں ملکوں کی قیادت کی نئی نسل سامنے آنے کے بعد زیادہ آسان ہو سکتاہے:
It may be easier to solve the problem of unification for a new generation of South and North Korean leaders.
یہ اصول انڈیا اور پاکستان جیسے ملکوں پر بھی منطبق ہو تا ہے۔ اگر دونوں ملکوں میں اتحاد کی تحریک اٹھے، تو سرحد کے دونوں طرف اس کو امید افزاجواب مل سکتا ہے، خاص طور پر نوجوان نسل میں۔
مصرکے سابق پرائم منسٹر عبدالعزیز حجازی (پیدائش 1923)نے ایک لمبا پیپر پڑھا ۔ میرا احساس ہے کہ یہاں کی اکثر تقریریں ایسی تھیں، جو کانفرنس کے اصل موضوع سے کم ہی تعلق رکھتی تھیں۔ مصر کے سابق پرائم منسٹر کاپیپر اس معاملے میں مستثنیٰ نہ تھا ۔ اس پیپر کا عنوان یہ تھا:
The World at a Turning Point
A Global Vision of Peace and Good Governance.
کمبو ڈیا کے سڈک کروم خون نوروڈم(Sdeck Krom Khun Norodom) نے ایک تقریر کی ۔ وہ کمبوڈیا کی کئی تنظیموں کے ذمہ دار ہیں۔ ان کی تقریر کا عنوان یہ تھا:
Peace in South-East Asia: The Way for world.
انہوں نے اپنی تقریر میں سائو تھ ایسٹ ایشیا کے کئی مسائل بتائے، اور کہا کہ ہمیں ان مسائل کو حل کرنا ہے۔ مثلا:
Human trafficking, drung smuggling, sea piracy, illegal trade for small arms, cyber crime and terrorism.
مقرر نے اس طرح کے مسائل بتا کر کہا کہ ہمیں ان مسائل سے لڑنا ہے اور ان سے فائٹ کرنا ہے۔ مگر انہوں نے یہ نہیں بتا یا کہ کس طرح لڑنا ہے، اور کس طرح ان مسائل کو حل کرنا ہے۔ یہ مسائل تو ہر ایک کو معلوم ہیں۔ اصل ضرورت یہ ہے کہ ان مسئلوں کاکوئی قابل عمل حل بتایا جائے۔
کروشیا (Croatia)کےڈاکٹر مارکوٹارل (Marko Tarle) کی تقریر کا عنوان تھا:
Cultural Heterogeneousness and Biotechnological Challenges.
انہوں نے پوسٹ ماڈرن ورلڈ(Post Modern World) کا ذکر کیا، اور اس سلسلے میں مختلف باتیں کہیں ۔ انہوں نے کہا کہ تاریخ کاخاتمہ ابھی نزدیک نہیں ہے ،کیوں کہ سائنس ابھی اپنے خاتمے تک نہیں پہنچی ہے:
The end of history is not near since the end of science is far from being reached.
یہ بات درست نہیں۔ کیوں کہ تاریخ کاخاتمہ خدا کے فیصلے کے طور پر ہو گا ، نہ کہ سائنس کے کسی مرحلے کے طورپر۔مقرر نے کہا کہ گلو بلائزیشن نے اس بات کو ممکن بنا دیا ہے کہ انسانی علم اور انسانی حقوق کو ساری دنیا میں پھیلا یا جا سکے:
Globalisation makes possible the spread of human knowledge and human rights all over the world.
یہی معاملہ سچائی کو پھیلا نے کا بھی ہے ۔ قدیم زمانے میں حق کی دعوت صرف محدود دائرے کے اندر کی جا سکتی تھی ۔ا ب حق کی دعوت عالمی سطح پر پھیلائی جا سکتی ہے۔ جدید نسل کے لیے یہ ایک ایسا موقع ہے ،جو پچھلی کسی بھی نسل کو حاصل نہ تھا ۔
کر غیز ستان چنگیزایٹ ماٹو(Chingis Aitmaotv) کی تقریر کا عنوان یہ تھا۔ دنیا انقلاب کے موڑ پر ، امن اور بہترحکومت کاعالمی نقشہ:
The World at a Turning Point
A Global Vision of Peace and Good Governance.
انہوں نے کہا کہ آج دنیا سمیٹ کر ایک ہو گئی ہے۔ کسی بھی جگہ سے دوسری جگہ کے لیے ڈائرکٹ فون کال ممکن ہو گئی ہے۔ چند گھنٹوں میں دنیا کے کسی بھی حصہ تک پرواز کرکے پہنچنا ممکن ہو گیا ہے ۔ مگر ابھی بھی ہم دوسروں کو دشمن کی نظر سے دیکھتے ہیں:
We still see an enemy in others.
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ انسانی دور ی کو ختم کرنے کے لیے ایک عالمی آئیڈ یالوجی کی ضرورت ہے، صرف عالمی ٹکنالوجی کے ذریعے ایسا ہو ناممکن نہیں۔
سوئزرلینڈ سے آئے ہوئے اقوام متحدہ کے سابق انڈر سکریٹری جنرل ڈاکٹر نہادفہمی (Nihad Fahmy) نے ایک پیپر پیش کیا۔ اس پیپر کا عنوان یہ تھا - تہذیبوں کے درمیان ڈائیلاگ:
Dialogue Among Civilizations
مقرر نے اس سلسلے میں باہمی گفت وشنید کے لیے کچھ اصول بتائے تھے۔ ان میں سے ایک اصول، ان کے الفاظ میں مینجمنٹ آف کانفلکٹ(management of conflicts) تھا۔ یہ اصول بہت اچھا ہے۔ مگر اس کا کوئی واضح فارمولامذکورہ تقریر میں موجود نہ تھا۔ میرے نزدیک اکثرحالات میں نزاع کو ختم کرنے کی سب سے زیادہ آسان صورت یہ ہو تی ہے کہ اسٹیٹس کو (status quo) کو مان لیا جائے، یعنی حالت موجودہ پر تصفیہ کرکے معاملہ کو ختم کر دیا جائے تا کہ تعمیر کا سفر رکے بغیر جاری رہے ۔
فلپائن کے ڈاکٹر اسٹینس لو سش کیوک(Stanislav Shushkevich) نے اپنی تقریر میں بتایا کہ آئی آئی ایف ڈبلیوپی(IIFWP) کی یہ کوشش ہے کہ اقوام متحدہ کے اندر ایک سپریم ریلیجس کونسل (Supreme Religious Council) قائم کی جائے جو عالمی سطح پر مذہبی امور کی نگراں ہو۔ انہوں نے بتایا کہ فلپائن کی حکومت اس کے لیے راضی ہو گئی ہے کہ وہ اس تجویز کو اپنی طرف سے اقوام متحدہ میں باضابطہ طور پر پیش کرے۔
یہ تجویز بظاہر بہت اچھی ہے ۔ مگر اس کی افادیت زیادہ یقینی نہیں۔ 1993 میں اقوام متحدہ کی طرف سے دنیا کے تمام مذاہب کی ایک عالمی کانفرنس نیویارک میں ہوئی تھی ۔ اس کے لیے کافی اہتمام کیا گیا تھا ۔ مگر عملاً وہ بے فائدہ رہی۔ اقوام متحدہ کی یہ کانفرنس مذاہب کے درمیان اتحاد قائم کرنے میں کوئی مؤثر آغاز بھی نہ کر سکی ۔ ایسی حالت میں اس قسم کی ایک نئی تجویز سے کیا فائدہ حاصل ہو گا۔
اسرائیل کی ایک نمائندہ مسز شیلا گھ شلیو(Shelagh shalev) نے اپنی تقریر میں کہا کہ میڈیا میں پیش کر دہ تصویر کے برعکس ، مجھے پورایقین ہے کہ مڈل ایسٹ کے لوگ امن کے خواہش مند ہیں، اور امن قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اس معاملے میں وہ دنیا کے دوسرے لوگوں سے مختلف نہیں۔ دونوں جانب کی بالغ آبادی میں کی گئی رائے شماری اور سروے سے اندازہ ہوتا ہے کہ عرب اور اسرائیل دونوں کی بڑی اکثریت امن چاہتی ہے، اوراس مقصد کے لیے دونوں ہی سمجھوتہ کرنے پر تیار ہیں:
Unlike the picture painted in the media, I fimly believe that the peoples of Middle East yearn and seek for peace, not different that all peoples world-wide. Polls and serveys conducted in the adult population on each side indicate that the vast majority of Israelies and Palestinians want peace and are willing to make compromises towards that goal.
پنا ما سے آئی ہوئی ڈاکٹر اناموراڈ ی ویک لینڈ(Ana Mora de Wakeland) کی تقریر کا عنوان یہ تھا - لاطینی امریکا میں اکیسویں صدی میں خاندان کا رول:
The Role of the Family in the 21st century in Latin America.
انہوں نے اپنی تقریر میں جو باتیں کہیںان میں سے ایک یہ تھی کہ تعلیم کا آخری مقصدیہ ہے کہ طلبہ کی مدد کرکے انہیں اس قابل بنایا جائے کہ وہ اپنے پورے امکانات اور صلاحیتوں کے ساتھ انسانیت کی خدمت کر سکیں:
The final goal of education is to help the student place the fullness of his potentialites and talents to the service of fellow humans.
یہ مقصد بجائے خود درست ہے۔مگر اصل مسئلہ یہ ہے کہ انسان کے اندر سیلف انٹرسٹ کا طاقتور جذبہ ہے ۔ ایسی حالت میں دوسروں کی خدمت کو کس طرح انسان کا گول بنا یا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک انسانی خدمت کے لیے زیادہ طاقتور محرک نہ ہو، کوئی شخص صحیح معنوں میں انسانی خدمت نہیں کر سکتا ۔
کریبین جزیرہ گراناڈا(Granada) کے گور نر جنرل دانیال ولیمس(Daniel Williams) کی تقریر کاعنوان یہ تھا:
The World at a Turning Point: Innovative Approaches to Peace through Responsible Leadership and Good Governance.
انہوں نے اپنی تقریر میں موجودہ زمانہ کی مادی ترقیوں کاذکر کیا، اور کہا کہ ترقیوں کے ساتھ دنیا میں سنگین مسائل موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر امن اور خوشی دونوں دولت کے اضافے کے باوجود ایک ساتھ نہیں چل رہے ہیں، تو یہ ایک اجتماعی مسئلہ ہے جس کو بہر حال حل کیا جانا چاہیے:
If Peace and happiness are not marching side by side with the incrasing wealth of the world, then the world has serious societal problems to be addressed.
اس معاملے میں اصل مسئلہ ضرورت کو بتانے کانہیں ہے، بلکہ اس کا قابلِ عمل فارمولا بتا نے کا ہے، اور یہ چیز مذکورہ تقریر میں مجھے نظرنہیں آئی۔
برطانیہ کے ڈاکٹر کلنٹن بینیٹ(Clinton Bennett) کی تقریر کاعنوان یہ تھا - عالمی حکومت اور امن، انٹرنیشنل نظام کے محاسبہ کی تجویز:
Global Governance and Peace
Proposal to Audit the International Order.
انہوں نے مختلف باتیں کہیں۔ مثلا انہوں نے کہا کہ عالمی مسائل کا حل یہ ہے کہ ایک واحد عالمی حکومت قائم کی جائے:
The answer to the world's problem lies in a single world Government.
میرے نزدیک یہ کوئی تجویز نہیں، یہ صرف ایک خیالی بات ہے ۔ کیوں کہ ایسی عالمی حکومت قائم ہونا سرے سے ممکن ہی نہیں۔ اسی طرح انہوں نے کہا کہ لوگ ساری دنیا میں سیاست پر شک و شبہ میں مبتلا ہیں، اور حکومت کے بارے میں مایوس ہیں۔ ایسی حالت میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ حکومتیں اپنے عوام کی کتنی نمائندہ ہیں:
Peoples throughout the world are suspicious of polities and disillusioned with Government, so that the degree that Governments really represent their citizens is questionable.
عوام کااپنی حکومتوں سے مایوس ہو نا کسی حقیقی بنیاد پر نہیں ہے۔ اس کا سبب زیادہ ترصرف ایک ہے ، اور وہ ہے ضرورت سے زیادہ امید(over expectation) ۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت کے عمل کی ایک حدہوتی ہے۔ اس حد کے باہر حکومت غیر مؤثر ہو جاتی ہے۔ یہ معاملہ دراصل ففٹی ففٹی کا ہے۔ یعنی آدھی ذمے داری مصلحین کی ہے۔ ان کاکام یہ ہے کہ قوم کے اندر شعوری بیداری لائیں، اور بقیہ آدھا کام حکومت کا ہے، جو انتظام کو درست کرے۔ مثلاً مصلحین اگر صرف حقوق کے مطالبہ کی تحریک چلائیں، تو پوراسماج رائٹ کانشش (right conscious) ہوجائے گا ، وہ ڈیوٹی کانشش(duty conscious) نہ رہے گا۔ ایسے سماج میں کوئی بھی حکومت عوام کو مطمئن نہیں کر سکتی ۔
سوڈان کے سابق پرائم منسٹر امام الصادق المہدی (پیدائش 1935)نے ایک پیپر پڑھا۔ اس پیپر کا موضوع یہ تھا کہ مڈل ایسٹ میں امن کس طرح قائم کیا جائے ۔ا نہوں نے اس مسئلے کا جوحل بتایا ،اس کی پہلی شرط ان کے نزدیک یہ تھی کہ مڈل ایسٹ میں موجودہ نزاع کا بنیادی سبب مقامی نہیں ہے،،وہ باہر سے امپورٹ کیا گیا ہے۔ بین اقوامی برادری ، خاص طور پر، امریکا اور یورپ کو یہ اعتراف کرنا ہوگاکہ اس صورتِ حال کے پیدا کرنے میں ان کا حصہ ہے:
The basic causes of the present conflict in the Middle East are not home-made. They are imported from abroad. The international community, particularly the Euro-American community must recognize its share in creating this conflict.
یہ ایک غیر عملی مطالبہ ہے ۔ اس قسم کا اعتراف خود مسلمان بھی نہیں کریں گے پھر دوسری قوموں سے اس کی امید کیسے کی جا سکتی ہے۔ سیاست دراصل ممکن کاآرٹ ہے، نہ کہ ناممکن کا کھیل۔
امریکا کے ڈاکٹر جو آنے ہک مین(Jo Anne Hickman) کی تقریر کا عنوان یہ تھا- تعلیم کارول(The Role of Educaiton)۔انہوں نے اپنی تقریر میں دوسری باتوں کے ساتھ اس پر زور دیا کہ بچوں کی تعلیم میں سرپرستوں کی شمولیت(parental involvement) بے حد ضروری ہے۔انہوں نے کہا کہ میں خود ایک اسکول کاٹیچر ہوں، اور میں نے اس سلسلے میں ایک تجربہ کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم نے اپنے اسکول میں بچوں کے سرپر ستوں کو بلایا ، اور انہیں بعض مضامین کی عملی تربیت دی ۔اس کانتیجہ یہ ہوا کہ یہ سرپرست اپنے بچوں کو زیادہ بہتر طور پر تعلیمی مدددینے کے قابل ہو گئے، اور بچوں کا رزلٹ پہلے سے بہتر رہا۔ میں سمجھتاہوں کہ یہ ایک مفید تجویز ہے، اور اسکول کے علاوہ مدرسہ میں بھی اس کا تجربہ کیا جا سکتاہے۔
نارتھ کور یا کے ڈاکٹر سی کنیتھ کا ئننس(C.Kenneth Quinones) نے ایک مفصل رپورٹ پیش کی ۔ وہ نارتھ کو ریا میں پیداہوئے ، مگر اب وہ واشنگٹن کے ایک ادارے سے منسلک ہیں۔ نارتھ کو ریا اور امریکا کے درمیان نیوکلیر ہتھیار بنانے پر جو نزاع ہے، اس پر انہوں نے ایک تفصیلی رپورٹ پیش کی۔ اپنی رپورٹ میں انہوں نے کہا کہ اس مسئلے کاحل اس طرح ہو سکتا ہے کہ دونوں پارٹیاں سمجھوتہ اور رعایت پر تیار ہوں:
This would require compromise and concessions on both sides.
یہ بات بظاہر معقول معلوم ہوتی ہے ۔ مگر تجربہ بتا تا ہے کہ وہ قابلِ عمل نہیں ۔ اس دنیا میں نزاع کاخاتمہ زیادہ تر یک طرفہ بنیاد پر ہو تا ہے۔ دو طرفہ بنیاد پر نزاع کے خاتمے کی کوشش کر نے کانتیجہ صرف یہ ہے کہ نزاع کبھی ختم ہی نہ ہو، اور تعمیر وترقی کاکام رُکا رہے۔
جاپان کے پروفیسر ماس اہساہیشی(Masahisa Hayashi) نے ایک پیپر پیش کیا جس کا موضوع یہ تھا- جزیرہ نما کو ریا میں پیس کاقیام اور اس میں جاپان کارول:
The peace on the Korean peninsula and the Role of Japan.
جاپانی پر وفیسر نے اس سلسلے میں کئی باتیں کہیں ۔ ایک بات یہ تھی کہ حقیقی دنیا میں انتخاب سب کچھ اور کچھ نہیں کے درمیان نہیں ہے، بلکہ مارجنل کا سٹ (marginal cost)اور مارجنل فائدہ کے درمیان تقابل میں مسئلہ کامؤثر حل پایا جا تاہے:
The choice in the real world is not of the nature of all or nothing, but the comparision of marginal costs and marginal benefits is essential to achieve the efficient solution.
امریکا کے پال ایف چیمبرلن (paul F. Chamberlin) کے پیپر کا عنوان یہ تھا - امریکا کے لیے ایک حقیقت پسند انہ پالیسی:
A realistic U.S Policey
جیسا کہ معلوم ہے ، دوسری جنگ عظیم سے پہلے کوریا ایک واحد ملک تھا۔ اس کے بعد کوریا کو دو برابر حصوں میں 38 خط متوازی(38 parallels) پر بانٹ دیا گیا ۔ نارتھ کو ریا روس کے زیرا نتظام رہا اور سائوتھ کو ریا امریکا کے زیر انتظام۔
نارتھ کو ریا میں نیوکلیر ہتھیار وں کے سوا کوئی او رترقی نہ ہو سکی ۔ دوسری طرف سائوتھ کو ریا نے غیر محدود ترقی کی ۔ا ب کوشش ہو رہی ہے کہ دونوں حصوں کو ایک کر دیا جائے۔ پیپر میں اس موضوع پر مختلف باتوں کا ذکر کرتے ہوئے یہ بتایا گیا تھا کہ متحد ہ کو ریا بلا شبہ شمال مشرقی ایشیا کا تجارتی مرکز بن جائے گا:
Unified Korea will undoubtedly seek to become the commercial hub of Northeast Asia.
جو بات کو ریا کے اتحاد کے بارے میں درست ہے، وہی انڈیا اور پاکستان کے اتحاد کے بارے میں بھی درست ہو سکتی ہے۔ مگر ضد کی سیاست نے ذہنوں کو اتنا زیادہ مائو ف کر دیا ہے کہ اب کوئی بھی اس پر سوچنے کے لیے تیا رنہیں۔
فلپائن(Philippine) کے جوس ڈی وینیسیا(Josede venecia, Jr.) نے اپنی تقریر میں تفصیل سے بتایا کہ فلپائن کی حکومت کس طرح یہ کوشش کررہی ہے کہ اقوام متحدہ اپنے نظام میں مستقل طو رپر ایک انٹرریلیجس کو نسل قائم کرے ۔ انہوں نے جو باتیں کہیں ان میں سے ایک بات یہ تھی کہ ہم یہ تجویز کرتے ہیں کہ یہ اعلان کیا جائے کہ اقوام متحدہ میں 2004 کا سال انٹر فیتھ کونسل کا سال ہو گا۔
We propose that 2004 shall be declared as the year of the Interfaith Council in the UN.
کسی مقصد کے لیے سال منانا یا مہینہ اور ہفتہ منا نا ایک پر انا طریقہ ہے ۔ اب تک کے تجربے کے مطابق، یہ طریقہ مکمل طو پر ناکام ثابت ہوا ہے۔ ایسی حالت میں سمجھ میں نہیں آتا کہ لوگ کیوں ایک ناکام طریقے کو بار بار دہرانے کی با ت کرتے ہیں۔
ایک صاحب نے گفتگو کے دوران کہا کہ تقابلی مذہب کا جامع مطالعہ اخلاقی اور روحانی قدروں کی یکسانیت کو بتائے گا۔ یہ اہلِ مذاہب کو اس قابل بنائے گا کہ وہ انسانی مسائل کے بارہ میں مشترک نقطۂ نظراختیار کر سکیں:
A Comprehensive study of comparative Religion would reveal the essential universality of spiritual and ethical values, and could enable believers to spell out a common approach to the resolution of the problems of the Humanity.
میرے نزدیک مذاہب کے درمیان نہایت واضح فرق پائے جاتے ہیں۔ اس لیے اس معاملے میں صحیح فارمولا اختلاف کے باوجود اتحاد ہے، نہ کہ اختلاف کے بغیر اتحاد۔
ایک مسلم اسکالر نے مالک بن بنی کے حوالے سے کہا کہ یہ دراصل دور جدید میں مسلمانون کا ذہنی جمود(intellectual stagnation) تھا جس نے نوآباد یاتی نظام(Colonization) کا راستہ ہموار کیا، اور اس طرح مشرقی قوموں پر مغربی قوموں کا غلبہ قائم ہوا۔ اسلامی نقطہ نظر سے زیادہ صحیح با ت یہ ہے کہ یہ وہ معاملہ تھا، جس کو قرآن میں: وَتِلْکَ الْأَیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیْنَ النَّاسِ ( 3:140) کے الفاظ میں بیان کیاگیا ہے۔ یعنی قانونِ فطرت کے تحت ایک قوم کاغلبہ ختم ہونا اور دوسری قوم کا غلبہ قائم ہونا۔
ایک صاحب نے گفتگو میں کہا کہ قرآن واضح طور پر دوسرے مذاہب کی حقانیت کا اعتراف کرتا ہے اور ہر مذہب کے ماننے والے کو مسلم بتا تا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام مذہبی تعدد کو ان کے حق کے طور پر تسلیم کرتا ہے، نہ کہ محض عملی موافقت کے طور پر :
In fact Islam accepts religious plurality as a matter of right not mere convenience.
صحیح بات یہ ہے کہ اسلام کے سوامذاہب جو دوسرے پیغمبروں سے منسوب ہیں ،وہ اپنی ابتداء میں بلاشبہ یکساں طور پر برحق تھے۔ مگراپنی موجودہ شکل میں وہ مستند مذہب کی حیثیت نہیں رکھتے ۔ کیوں کہ بعد کے زمانہ میں ان میں تبدیلیاں ہوئیں، اور وہ اپنی اصل حالت پر باقی نہ رہے۔
ایک صاحب نے مذاہب کے باہمی بقا(Inter-Religious co-existence) پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس کامطلب ہے مذہبی تعدد کا باہمی اعتراف ، مذہبی آزادی کا تحفظ ، مذہبی رواداری ، پرامن باہمی تعاون اور مذاہب کے درمیان صحت مند مسابقت:
This means mutual acceptance of religious plurality, protection of religious freedom. religious toleration and peaceful co-operation and competition between the faiths.
اس جملہ میں پہلی بات درست نہیں ، یعنی مذہبی تعدد کا نظریہ۔ مذہبی تعدد کا مطلب یہ ہے کہ ہر مذہب یکساں طور پر سچا ہے۔ یہ بات بداہۃً ہی ناقابلِ قبول ہے۔ کیوں کہ مختلف مذاہب میں اتنا زیادہ فرق پایا جاتا ہے کہ ہر مذہب کو یکساں طور پر برحق سمجھنا سرے سے قابلِ عمل ہی نہیں۔
ایک عرب اسکالر نے گفتگو کے دوران ایران کاتذکرہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ انقلاب کے بعد ایران میں جو تشدد ہو ااس کی ذمہ داری مغربی قوموں پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ دراصل امریکا اور برطانیہ کے خلاف ایرانیوں کی ناراضگی تھی، جو 1979 کے اسلامی انقلاب کا سبب بنی ۔ خاص طور پر 1953 کا واقعہ جب کہ امریکا کے خفیہ جاسوسی ادارہ سی آئی اے (CIA)کے ذریعے مصدق کی جمہوری حکومت کو زبردستی ختم کرکے شاہِ ایران کو دوبارہ اقتدار میں واپس لایا گیا :
It was Iranian resentment against Britain and America that resulted in the islamic revolution of 1979 in iran.
میں نے کہا کہ اگر آپ کا تجزیہ درست مان لیا جائے تو اس کے مطابق ایران کے انقلاب کو قومی انقلاب کہنا صحیح ہوگا، نہ کہ اسلامی انقلاب۔
ایک تعلیم یافتہ عرب نے کہا کہ وہ مسائل جو دنیا کو تقسیم کرتے ہیں، اگروہ غیر حل شدہ باقی رہیں، تو ایک طرف دولت مند ملک تباہ کن ہتھیار جمع کریں گے، اور دوسری طرف غریب ملکوں میں وہ چیز پیدا ہو گئی، جس کو دہشت گردی کہا جاتاہے:
If the problems which divide the world remain unresolved. then while the haves of the world would be armed with weapons of mass destruction. the have not would resort to massive spoling and obstruction, namely, terrorism.
لکھنے اور بولنے والے طبقہ کی یہی باتیں ہیں جو دہشت گردی کے لیے جو از فراہم کرتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مسائل ہمیشہ دنیا میں موجود رہتے ہیں۔ ایسی حالت میں لوگوں کو بتانا چاہیے کہ تمہارے مسئلہ کاحل پرامن تعمیر واستحکام میں ہے۔ تشدد کا طریقہ صرف مسائل میں اضافہ کرنے والا ہے، نہ کہ مسائل کو حل کرنے والا۔
ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمان نے گفتگو کے دوران کہا کہ برصغیر ہند کے سرجیکل آپریشن (surgical Operation) کانتیجہ یہ ہوا کہ انڈیا اور پاکستان دوحریف ملک وجود میں آگئے۔ دونوں کے درمیان نصف صدی سے بھی زیادہ مدت سے ٹکرائو کی سیاست جاری ہے۔ اس کا فائدہ نہ پاکستانی مسلمانوں کو ہوا، اور نہ ہندوستانی مسلمانوں کو ۔ یہ بتاتے ہوئے انہوں نے کہا- میں نہیں سمجھتا کہ بانیان پاکستان کے ذہن میں یہ چیز موجود تھی :
I do not think this is what the founding fathers had in their mind.
میں نے کہا کہ اجتماعی معاملات میں انتہاپسند انہ اقدام بے حد خطرناک کام ہے۔ اس طرح کے معاملہ میں اقدام صرف صاحبِ بصیرت رہنمائوں کو کرنا چاہیے، جو مستقبل بینی کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ جن لوگوں کے اندر یہ صلاحیت نہ ہو، انہیں چاہیے کہ وہ صرف انفرادی زندگی گزار یں۔ایسے لوگوں کے لیے اجتماعی قیادت میں داخل ہونا درست نہیں۔ ایک مسلم ملک کے ایک سیاسی لیڈر نے کہا کہ ہمارے خارجہ تعلقات اس بنیاد پر قائم نہیں کیے جا سکتے ،جو اکثر قدیم فقہا نے وضع کی تھی ۔ انہوں نے دنیا کو وہ حصوں میں تقسیم کیا تھا- اسلامی ملک اور دشمن ملک:
Our foreign relations will not be on the basis of that formulated by many ancient Muslim jurists considering the world in terms of two camps, the islamic and the enemy.
موجودہ مسلمان جن فکری مسائل سے دو چار ہیں ان میں غالباًسب سے بڑا مسئلہ یہی ہے۔ قدیم فقہا کا ساری دنیا کو دار الاسلام اور دارالحرب میں تقسیم کرنا ایک غیر اسلامی فعل تھا۔ اس نظریے نے تمام مسلمانوں ، خاص کر علما کے ذہن کو غیر حقیقت پسند بنا دیا۔ غیر مسلم دنیا کے بارے میں وہ مثبت سوچ سے محروم ہو گئے ۔ میرے نزدیک ساری دنیا دار الانسان ہے۔ اگر اس کو عقیدے کے اعتبار سے تقسیم کیا جائے تو اس کو دار الاسلام اور دارالد عوہ کہا جا سکتا ہے، نہ کہ دارالاسلام اور دارالحرب۔
فلپائن کی حکومت کے نمائندہ جو س ڈی وینیسیا(Jose de venecia ) نے پر اعتماد لہجے میں بتایا کہ وہ صدر امریکا جارج بش سے ملے اور ان کے سامنے اپنی یہ تجویز رکھی کہ اقوام متحدہ کے ایک آرگن کے طور پر ان میں انٹر ریلیجس کو نسل قائم کی جائے۔ جارج بش نے اس سے اتفاق کیا اور انہوں نے نیشنل سیکورٹی ایڈوائز ر کو ہدایت دی کہ وہ اس معاملے میں ہماراتعاون کرے۔
I am happy to report to you that when president Arroyo and I mentioned this to President Bush, he welcomed this positively and directed Condoleezza Rice, the National security Adviser to cooordinate with us in promithing this peace initiative.
لوگ حکومت کے ذمہ داروں سے ملتے ہیں، اور خوشی کے ساتھ دنیا کو یہ خبر دیتے ہیں کہ انہوں نے ہماری تجویز کو پسند کیا۔ مگر اعلیٰ سطح کی ملاقاتوں کے باوجود نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلتا ۔ میں ذاتی طور پر کام کے اس طریقے کو سراسر بے فائدہ سمجھتا ہوں ۔ جس آدمی کے دل میں کسی کام کا درد پیدا ہو اس کو چاہیے کہ وہ خود اپنے ممکن دائرے میں اس پر عمل شروع کر دے۔ اس طرح کے معاملے میں بڑے بڑے لوگوں سے ملنا میڈیا آئیٹم بنا نے کاذریعہ ہو سکتا ہے، مگر وہ مقصد کی تکمیل میں معاون نہیں۔
آئی آئی ایف ڈبلیوپی (IIFWP)کے چیر مین ڈاکٹر چنگ ہان کا ک(Chung Hwan Kwak) نے کانفرنس کے افتتاح کے موقع پر کی نوٹ ایڈرس(Keynote Address) پڑھا ۔ انہوں نے جدید تبدیلیوں کا ذکر کر تے ہوئے کہا کہ اخلاقی اور روحانی شخصیتیں سیاسی اور فوجی شخصیتوں سے زیادہ اہم حیثیت حاصل کر رہی ہیں:
Moral and spiritual authority, to some extent, are becoming more important than political and milirary authority.
یہ مبالغہ نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے ۔ قدیم زمانے میں سیاسی اقتدار ہی سب کچھ سمجھا جا تا تھا۔ موجودہ زمانہ اداروں(institutions) کازمانہ ہے۔ جدید حالات نے اس بات کوممکن بنا دیا ہے کہ مختلف اجتماعی مقاصد کے تحت بڑے بڑے ادارے قائم کیے جائیں ۔ ان اداروں کے اثرات اتنے زیادہ ہمہ گیرہیں کہ اب ان کے مقابلے میں حکومتی اقتدار ثانوی اہمیت کی چیزبن گیا ہے۔ اب سیاسی اقتدار کے بغیر سارے مقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں ، حتیٰ کہ خود سیاسی اقتدار کو بھی بڑے پیمانہ پر متاثر کیا جا سکتا ہے۔
15 اگست 2003 کو کانفرنس کاآخری دن تھا۔ اختتامی اجلاس سول شہر سے 20 کیلو میٹر دور ایک اسکول لٹل اینجلس( Little Angels) میں رکھا گیا تھا ۔ تمام شرکا بذریعہ روڈ سول سے لٹل اینجلس لے جائے گئے ۔ وہاں اسکول کے وسیع ہال میں کچھ تقریریں ہوئیں۔ سب سے لمبی تقریر ریورنٹ مون کی تھی ۔ تقریروں کے بعد کلچرل شوکا پروگرام ہوا جو تالیوں کی گونج میں ایک گھنٹے سے زیادہ دیر تک چلتا رہا ۔ مجھے ذاتی طو رپر کلچرل شوسے کوئی دلچسپی نہ تھی ۔ تاہم ہال کے دوسرے حاضرین کافی دلچسپی کے ساتھ دیکھتے رہے ،اور ان کے پر شوق تقاضوں کی وجہ سے یہ کلچرل شومقررہ وقت سے زیادہ دیر تک چلتا رہا ۔ شام کا کھانا اسی اسکول کے اندر کھایا گیا ۔
16اگست 2003 کو واپسی تھی ۔ صبح 6 بجے ہم لوگوں نے ہوٹل چھوڑ دیا ، اور بذریعہ روڈ روانہ ہوکر سول ایرپورٹ پہنچے ۔ کئی لوگ ساتھ تھے اس لیے مجھے خو دکچھ کرنا نہیں پڑا۔ ایرپورٹ کے مراحل طے کرنے کے بعد دوبارہ تھائی ایرلائن سے دہلی کے لیے روانگی ہوئی ۔ یہ جہاز سول ایرپورٹ سے مقامی وقت کے مطابق صبح ساڑھے نوبجے روانہ ہوا۔
سفر سے واپسی میں ایک عجیب واقعہ پیش آیا ۔ بینکاک میں جب جہاز لینڈ کرنے کے لیے نیچے اتر رہا تھا تو ڈاکٹر اوصاف علی کو ناک سے خون آنے لگا۔ پر یشر کی وجہ سے ایسا ہوا ۔ خون اتنا گرا کہ ان کی قمیص لال ہو گئی۔ یہ منظر دیکھ کر میں گھبرا گیا۔ مگر ڈاکٹر اوصاف علی صاحب حیرت انگیز طور پر بالکل مطمئن دکھائی دے رہے تھے۔ وہ بالکل نارمل انداز سے بات کرتے رہے ۔انہوں نے اطمینان کے ساتھ کہا کہ کوئی پریشانی کی بات نہیں۔ چند دن کے اندر جسم کے خود کارنظام کے تحت خون کی یہ کمی پوری ہو جائے گی۔ دہلی ایرپورٹ پراتر کر وہ اطمینان کے ساتھ اپنی رہائش گا ہ کی طرف روانہ ہو گئے۔
اس غیر معمولی تجربہ پر میں غور کرتا رہا۔ آخر کار میری سمجھ میں آیا کہ اضطراب اور اطمینان دونوں اصلاً دماغی حالتیں ہیں۔ تکلیف بظاہر آدمی کے جسم پر ہوتی ہے مگر اس پر نفسیاتی کیفیت کو انسان کادماغ کنٹرول کرتا ہے۔ اگر آدمی کے اعصاب مضبوط ہوں، تو ظاہری تکلیف کے باوجود پوری طرح مطمئن رہ سکتا ہے، اور اگر اعصاب کمزور ہوں تو ہر تکلیف پر وہ بے چین ہوجائے گا جتنی کہ چھوٹی اور معمولی تکلیف پر بھی ۔ اصل یہ ہے کہ کوئی پریشانی صرف اس وقت تک پریشانی رہتی ہے جب تک آپ کے پاس اس کی توجیہہ (explanation) نہ ہو ۔ تو جیہہ کرنے کے بعد پریشانی یاذہنی تنائو فوراًختم ہو جاتا ہے۔
سول سے روانہ ہو کرہمارا جہاز ہانگ کا نگ (Hong Kong) کے ایرپورٹ پر اتر ا۔ ہانگ کا نگ ایرپورٹ بینکاک ایرپورٹ جیسا شاندار نظرنہیں آیا۔ ہانک کانگ ایرپورٹ پر اتفاق سے دو مسلم تاجروں سے ملاقات ہو ئی ۔ ان میں سے ایک پاکستان سے تعلق رکھتے تھے، اور دوسرے بنگلہ دیش سے ۔ دونوں سے دیر تک گفتگو ہوئی ۔ میں نے سوچا کہ ہانگ کانگ میں یہ دونوں خوشی کے ساتھ مل رہے ہیں، مگر ’’ مشرقی پاکستان‘‘ میں دونوں ایک ساتھ رہنے پر راضی نہ ہو سکے۔
ہانگ کا نگ چین کے جنوبی ساحل پر واقع ہے۔یہ کئی جزیروں کا مجموعہ ہے۔ وہ سابق پرتگالی مقبوضہ مکائو(Macau) سے 40 میل دور ہے۔ ہانگ کانگ کاکل رقبہ 1062 مربع کلومیٹر ہے۔ ہانگ کانگ کی بندرگاہ بہترین قدرتی بندرگاہ(Harbour) سمجھی جاتی ہے۔ہانگ کانگ کا علاقہ زیادہ تر پہاڑوں پر مشتمل ہے۔ یہاں کی سب سے بلند چوٹی(Taj Moshan) کی اونچائی 957 میٹر(1403 فٹ) ہے۔
ہانگ کانگ میں لمبی مدت سے جنگلوں کی کٹائی ہوتی رہی ہے ۔ اب یہاں کی زمین کے صرف 13 فیصد حصے پر جنگلات باقی ہیں۔ تاہم اب جنگلات کی کٹائی کے خلاف سخت قوانین بنائے گئے ہیں، اور دوبارہ جنگل اگائو(reafforestation) کی مہم تیزی کے ساتھ چلائی جارہی ہے ۔ پہلے ہانگ کانگ میں شیر ،وغیرہ پائے جاتے تھے ،مگر اب یہاں اس قسم کے جانوروں کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ یہاں کثرت سے ایسے مکانات ہیں جن کے بیسمنٹ میں شاپنگ سنٹرہیں، اور اوپر رہائشی فلیٹ۔
برطانی استعمار کے زمانہ میں انگریزوں نے ہانگ کانگ کو پٹہ(lease) پر ننانوے سال کے لیے لیا تھا۔ پٹہ کی یہ مدت1997میں ختم ہو رہی تھی ۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد جب برطانی ایمپائر کمزور ہو ا،تو چین نے ہانگ کانگ کی واپسی کامطالبہ شروع کر دیا۔ مگر چین نے اپنے آپ کو گفت وشنید کی حدتک محدودرکھا۔ اس نے کبھی اس معاملہ میں یہ پروگرام نہیں بنایا کہ وہ ہانگ کانگ میں اپنی فوجیں داخل کرکے اس پر قبضہ کرلے۔ اگر چہ ہانگ کانگ کاجزیرہ چین سے ملاہوا ہے۔ برطانی حکومت سے چین کی یہ گفت وشنید جاری رہی ۔ یہاں تک کہ 1997 میں جب پٹہ کی مدت پوری ہوئی تو ہانگ کانگ سے برطانیہ کااقتدار بھی ختم ہو گیا۔ ہانگ کانگ اب چین کے باقاعدہ قبضے میں ہے۔
اس کے برعکس مثال مصر کی ہے ۔ نہر سو یز کو بھی برطانی اور فرانسیسی کمپنیوں نے مصر سے پٹہ پر لیا تھا۔ پٹہ کے معاہدہ کے مطابق نہر سو یز پر کمپنی کاکنٹرول 99 سال تک رہنا تھا۔ اس مدت کو 1968 میں ختم ہونا تھا۔ مگر مصر کے سابق صدر جمال عبدالناصر نے اس مدت کے خاتمے کاانتظار نہیں کیا، بلکہ 29 اکتوبر 1956 کو یک طرفہ طور پر پٹہ کے خاتمے کااعلان کر دیا، اور نہر سوئز پر اپنا پیشگی قبضہ قائم کر لیا۔ جس وقت جمال عبدالناصر نے یہ کام کیا اس وقت تمام عرب رہنمائوں نے براہ راست یا بالواسطہ طور پر اس کی تائید کی۔ عرب کے باہر مسلم رہنمائوں نے بھی اس پر اپنی خوشی کااظہار کیا۔ مگر یہ انتہائی غیر وانش مندانہ اقدام تھا۔ اس کے بعد برطانیہ اور فرانس نے اسرائیل کی مدد کی ۔ چنانچہ اسرائیل نے مصر کے اوپر اچانک حملہ کرکے مصر کی فوجی طاقت کو تباہ کر دیا اور مزید علاقوں پر قبضہ کرکے ریاست اسرائیل کے رقبہ کو پانچ گنا بڑھا لیا۔
مصرکے سابق صدر جمال عبدالنا صر کا یہ اقدام بلا شبہ احمقانہ حدتک غلط تھا۔ مگر میرے نزدیک تمام عرب اور غیر عرب رہنما اور دانشوراس غلطی میں یکساں طور پر شریک ہیں۔ یہ ہمارے رہنمائوں کی جذباتی سیاست تھی، جس نے جمال عبدالناصر کو اس تباہ کن چھلا نگ کاحوصلہ دیا۔ اگر ہمارے علما اور دانشوروں نے امت کے اندر حقیقت پسندانہ سیاست کاماحول بنا یا ہو تا، تو جمال عبدالناصر کو کبھی ایسے احمقانہ اقدام کی جرات نہ ہو تی ۔ہانگ کانگ سے روانہ ہو کر ہماراجہازدہلی کے ہوائی اڈے پر اترا۔ رات کے تقریبا دس بجے کا وقت ہو چکاتھا۔ ایرپورٹ پرکوئی مسئلہ پیش نہ آیا۔ باہر نکلے تو یہاں مسٹر خالد انصاری، مسٹر رجت ملہوترہ اپنے دو اور ساتھیوں کے ہمراہ موجود تھے۔ ان کے ساتھ روانہ ہو کر گھر واپس پہنچا۔
واپس اوپر جائیں


Monday, 1 December 2003

Al Risala | December 2003 (الرسالہ،دسمبر)

2

- اسلام اور دوسرے مذاہب

8

- دارالاسلام، دارالحرب

12

- اختلاف کو حل کرنے کی تدبیر

17

- دعوت عام کی ذمہ داری

19

- قومیت کا مسئلہ

23

- کفر اور کافر کا مسئلہ

38

- ایک خط

40

- خبر نامہ اسلام مرکز


اسلام اور دوسرے مذاہب

اسلام اور دوسرے مذہبوں کے درمیان یہ فرق نہیں ہے کہ اسلام افضل دین ہے اور دوسرے مذاہب غیر افضل دین یا اسلام کامل دین ہے اور دوسرے مذاہب غیر کامل دین ۔اسلام اور دوسرے مذہبوں میں یہ ارتقائی فرق بھی نہیں ہے کہ اسلام مذہب کی اعلیٰ صورت (higher form) ہے اور دوسرے مذاہب اس کی ادنیٰ صورت (lower form) ۔ اسلام اور دوسرے مذاہب کے درمیان اس قسم کی تقسیم سراسر بے بنیاد ہے۔ اس کا ماخذ نہ قرآن و حدیث میںہے اور نہ تاریخی ریکارڈمیں۔
اسلام اور دوسرے مذاہب کے درمیان اصلی فرق یہ ہے کہ اسلام ایک محفوظ مذہب ہے اور دوسرے مذاہب غیر محفوظ مذہب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ سائنٹفک ریکارڈ کے مطابق، اسلام کو تاریخی اعتباریت (historical credibility) حاصل ہے۔ جب کہ دوسرے مذاہب میں سے کوئی بھی مذہب ایسا نہیں جس کو تاریخی اعتباریت کا درجہ حاصل ہو۔
اسلام اور دوسرے مذہبوں کا یہ فرق کسی پر اسرار عقیدہ پر قائم نہیں ہے بلکہ وہ خالص علمی طور پر قابل فہم ہے۔ وہ ایک واضح موضوعی حقیقت (objective fact) پر مبنی ہے۔اس معاملہ کا اشارہ خود قرآن میں موجود ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے قرآن کی دو آیتوں کا مطالعہ کیجئے۔ قرآن میں پچھلی الہامی کتابوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے: بما استحفظوا من کتاب اللہ (المائدۃ۔۴۴) یعنی پچھلی کتابوں کے حاملین پر یہ ذمہ داری ڈالی گئی تھی کہ وہ اپنی کتاب کی حفاظت کریں۔
For to them, was entrusted the protection of Allah’s Book.
قرآن کی اس آیت میںاستحفاظ کا لفظ آیا ہے۔ استحفاظ باب استفعال سے ہے۔ عربی قاعدہ کے مطابق، با ب استفعال میں طلب کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ اس اعتبار سے استحفاظ کا مطلب ہے، حفاظت چاہنا یا حفاظت طلب کرنا۔ عربی میں کہا جاتا ہے، استحفظ مالا۔ مال محفوظ رکھنے کو کہنا (سألہ أن یحفظہ)
اس وضاحت کے مطابق، مذکورہ قرآنی آیت کا مطلب یہ ہے کہ پچھلی آسمانی کتابیں جن لوگوں کے اوپر اتاری گئیں ان سے کہا گیا تھا کہ ان کو خود ان کتابوں کی حفاظت کرنا ہے۔ اُن کو انہیں نہ صرف پڑھنا ہے بلکہ ان کو محفوظ بھی رکھنا ہے۔
اس کے برعکس، جہاں قرآن کا ذکر ہے وہاں اس سے مختلف الفاظ آئے ہیں۔ چنانچہ ارشاد ہوا ہے: انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحفظون (الحجر۔ ۹) یعنی اللہ نے قرآن کو اتارا ہے اور اللہ ہی اس کی حفاظت کرنے والا ہے۔
It was We who revealed the Quran, and We will certainly preserve it.
اس تقابل سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن اور دوسری آسمانی کتابوں میں بنیادی فرق کیا تھا۔ وہ فرق یہ تھا کہ پچھلی آسمانی کتابوں کو محفوظ رکھنے کی ذمہ داری انسان کے اوپر تھی جب کہ قرآن کی حفاظت کا کام خود خدا نے اپنے ذمہ لے لیا۔ گویا قرآن اور اس سے پہلے کی آسمانی کتابوں میں جو فرق تھا وہ تعلیمات کے اعتبار سے نہ تھا بلکہ یہ فرق حفاظت کی ذمہ داری کے اعتبارسے تھا۔
مزید غور کیجئے تو معلوم ہوتا ہے کہ فرق کا یہ معاملہ کوئی پر اسرار معاملہ نہیں بلکہ وہ ایک معلوم تاریخی معاملہ ہے۔ اس کو خالص سائنٹفک مطالعہ کے ذریعہ سمجھا جاسکتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ حفاظتِ کتاب کے اعتبار سے تاریخ کے دو دو رہیں۔ پہلا دور وہ ہے جب کہ کسی پیغام کی حفاظت کا معاملہ زیادہ ترانسان کے اوپر منحصر ہوتاتھا۔ کوئی پیغام عملاً انسان کی یاد داشت میں موجود رہتا تھا۔ انسان اگر اس کو بھول جائے یا وہ مرجائے تو اس کے ساتھ پیغام بھی معدوم ہوجاتا تھا۔ مزید یہ کہ انسان ایک صاحب ارادہ مخلوق ہے۔ وہ اس پر قادر ہے کہ اس کے پاس جو پیغام ہے اس کو اس کی اصلی حالت پر باقی رکھے یا وہ اس کو بدل ڈالے۔
اس قدیم دور کو انسانی دور حفاظت کہا جاسکتا ہے، یعنی وہ دور جب کہ حفاظت کا کام تمام تر انسان کی مرضی پر منحصر ہوتا تھا۔ قرآن سے پہلے کی تمام آسمانی کتابیں بنیادی طورپر اسی انسانی حفاظت کے دور میں آئیں۔ یہ عملی طور پر حفاظت کا ایک غیر یقینی ذریعہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ قدیم کتابیں اپنی اصل حالت میں محفوظ نہ رہ سکیں۔ انسان نے قصداً یا بلا قصد پچھلی تمام آسمانی کتابوں کو غیر محفوظ بنا دیا۔
پیغام کی حفاظت کا دوسرا دور وہ ہے جس کو میکنیکل حفاظت کا دور کہا جاسکتا ہے۔ یہ دور وہ ہے جب کہ کسی پیغام کی حفاظت کا کام زندہ انسان کے ہاتھ سے نکل کر جامد مادہ کے دائرہ میںآگیا۔ یعنی وہ دور جب کہ پیغام کو کاغذ پر لکھا جانے لگا اور چھاپ کر اس کی ہو بہو نقلیں (copies) انسانی حافظہ سے باہر تیار کی جانے لگیں۔ اس دوسرے دور میں پہنچ کر اس پیغام کی حفاظت کا معاملہ تغیر پذیر انسان کے تابع نہ رہابلکہ وہ غیر تغیر پذیر مادہ کے ہاتھ میں آگیا۔
قرآن اسی دوسرے دور حفاظت میں آیا۔ مذکورہ آیت میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیاگیا ہے۔ یہ دوسرا دور جن فطری اسباب کے تحت ممکن ہوا ہے وہ تمام اسباب براہ راست طور پر خدا کے پیدا کئے ہوئے ہیں۔ اس لیے اس دوسرے دو ر کو خدا کی طرف منسوب کرکے کہاگیا کہ خدا خود قرآن کی حفاظت کرنے والا ہے۔
اس بات کو تاریخ کی اصطلاح میں کہنا ہو تو اُس کو اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ قرآن کتابوں کی حفاظت کے دور میں آیا۔ اس کے مقابلہ میں دوسری آسمانی کتابیںاُس دور میں آئیں جب کہ کتابوں کی حفاظت کے لیے ابھی تک کوئی یقینی انتظام موجود نہ تھا۔ دور کایہی وہ فرق ہے جس کوقرآن میں مخصوص خدائی اسلوب میں اُن دو آیتوں میں بیان کیا گیا ہے جن کو اوپر نقل کیا گیا۔
تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ کتابت(writing) کا کام قبل مسیح دور میں شروع ہوا ۔اس زمانہ میں سادہ چیزوں پر لکھنے کا رواج تھا۔ مصر میں ایک پودا پایا جاتا تھا جس کا یونانی نام پیپرس (papuros) تھا۔ اس پودے کے اندر باریک پرت (layer) ہوتی تھی۔ اس پرت کو نکال کر عرصہ تک اس کو کاغذ کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا۔ اسی لیے کاغذکا نام پیپر (paper) پڑ گیا۔
دوسری صدی عیسوی میں چین میں لکڑی وغیرہ سے کاغذ بنایا جانے لگا۔ یہ کاغذ تاجروں کے ذریعہ مسلم دنیا میں آنے لگا۔ کاغذ بنانے کا فن ۷۵۱ میں سمرقند میں پہنچا اور ۷۹۳ میں بغداد میں ہارون رشید کے زمانہ میں پہلی بار کاغذ بنایا گیا۔ اس کے بعد کاغذ یہاں سے یوروپ تک پہنچا:
The art of paper making reached Samarkand, in central Asia in 751; and in 793 the first paper was made in Baghdad during the time of Harun-ar-Rashid, with the golden age of Islamic culture, that brought paper making to the frontiers of Europe. (13/966)
جیسا کہ معلوم ہے، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی ۶۱۰ میں مکہ میں اتری اور ۶۳۲ء تک نجماً نجماً جاری رہی، جب کہ مدینہ میںآپ کی وفات ہوئی۔ ۲۳ سال کی اس مدت میں یہ طریقہ تھا کہ جب بھی قرآن کا کوئی حصہ فرشتہ کے ذریعہ آپ تک پہنچتا، آپ اور آپ کے اصحاب اُس کو یاد کرلیتے۔ اُس زمانہ میں کثرت استعمال کی بنا پر لوگوں کے حافظے بہت اچھے ہوا کرتے تھے، اس لیے نازل شدہ حصۂ قرآن کو یاد کرنا کچھ بھی مشکل نہ تھا۔ اسی کے ساتھ اُترنے کے بعد فوراً ہی اُس کو جھلّی وغیرہ پر لکھ لیاجاتا تھا۔
ڈاکٹر موریس بُکائی نے اس دو طرفہ طریقہ کو ڈبل چیکنگ کا طریقہ (double checking system) بتایا ہے۔ یعنی حافظہ کا تقابل تحریر سے کیا جائے اور تحریر کا تقابل حافظہ سے کیا جائے۔ اس طرح ایک کو دوسرے سے چیک کرتے ہوئے اُس کی صحت کا تیقن حاصل کیا جائے۔
حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: لا تکتبوا عنی غیر القرآن۔ یعنی تم لوگ صرف قرآن کو لکھو، تم میرے اپنے کلام کو نہ لکھو۔ پیغمبر اسلام کی یہ ہدایت صرف مذکورہ ۲۳ سال کے لیے تھی جب کہ قرآن اُتر رہا تھا۔ آپ چاہتے تھے کہ قرآن اور کلامِ رسول دونوں ایک دوسرے میں مل نہ جائیں۔ آخری زمانہ میں جب کہ قرآن کا نزول تقریباً مکمل ہوگیا تو آپ نے کلامِ رسول کو لکھنے کی اجازت دے دی اور فرمایا: قیدوالعلم بالکتابۃ(علم کو تحریر کے ذریعہ محفوظ کرو)۔پیغمبر اسلام ﷺکی وفات ہوئی تو پورا قرآن ہزاروں لوگوں کے حافظوں میں محفوظ ہوچکا تھا۔ اسی کے ساتھ مدینہ میں بہت سے ایسے لوگ تھے جنہوں نے جھلّی اور دوسری چیزوں پر پورے قرآن کو لکھ لیا۔
خلیفۂ اول ابو بکر صدیق نے اپنے زمانہ میں اس معاملہ میںایک اور کام کیا۔ اُس وقت زید بن ثابت انصاری موجود تھے جو کاتبِ وحی بھی تھے اور پورے قرآن کے اچھے حافظ بھی۔ اُنہوں نے زیدبن ثابت انصاری کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کی یاد داشت اور تحریری ذخیرہ کی مدد سے مکمل قرآن لکھیں۔ چنانچہ اُنہوں نے ایک مہم کے طورپر کتابتِ قرآن کے کام کو شروع کیا اور اُس کو تکمیل تک پہنچایا۔ یہ کتابت غالباً قدیم زمانہ کے کاغذ پر کی گئی تـھی۔ یہ کاغذ وہی تھا جس کو مصر میں پیپرس (Papuros) نامی پودے کی فطری پرت (layer) کے ذریعہ تیار کیا گیا تھا۔
زید بن ثابت انصاری نے کتابت کی تکمیل کے بعد اُس کے اوراق کو یکجا کرکے اُس کی جلد بنائی۔ یہ گویا مجلّد قرآن کا پہلا نسخہ تھا جو اپنی شکل کے اعتبار سے چوکور تھا۔چنانچہ اُس کو رَبعہ کہا جاتا تھا۔ خلیفہ اول نے قرآن کے اس نسخہ کو زوجۂ رسول حضرت حفصہ کے گھر پر رکھوا دیا۔ خلیفہ ثالث عثمان بن عفان کا زمانہ آیا تو اُس وقت تک کاغذ اور بھی زیادہ عام ہوچکا تھا۔ چنانچہ حضرت عثمان نے زید بن ثابت انصاری کے نسخہ کو لے کر اُس کی کئی نقلیں تیار کرائیں اور اُن نقلوں کو بڑے بڑے شہروں میں بھیج دیا تاکہ عمومی استفادہ کے لیے اُن کو شہر کی جامع مسجد میں رکھ دیا جائے۔
اس کے بعد کئی سو سال تک مسلم دنیا میں دو طریقے رائج رہے۔ ایک یہ کہ مسلمانوں میں قرآن کو حفظ کرنے کا عمومی رواج ہوگیا۔ نسل در نسل ایسے لوگ کثرت سے پیدا ہوتے رہے جن کو پورا قرآن اچھی طرح یاد تھا۔ اسی کے ساتھ قرآن کے عثمانی نسخہ کو لے کر لوگ اُس کی نقلیں تیار کرتے رہے۔ اس طرح قرآن کی نقلیں قدیم زمانہ کے کاغذ پر تیار ہو کر کثیر تعدادمیں گھر گھر پہنچ گئیں۔
اسی کے ساتھ قرآن کی حفاظت اور صحتِ تلاوت کے لیے دوسرے کئی کام مختلف لوگوں کے ذریعہ انجام پائے۔ مثلاً بنو امیہ کے زمانہ میں قرآن کی آیتوں پر اعراب لگائے گئے اور حروف پرنقطے لکھے گئے۔ یہ کام زیادہ تر حجاج بن یوسف کے ذریعہ انجام پایا۔ اس کے بعد عباسی خلافت کے زمانہ میں طرزِ کتابت میں مزید ترقی ہوئی اور خطِّ کوفی ایجاد ہوا۔ اس ایجاد نے قرآن کی کتابت میں حُسن کا پہلو پیدا کردیا۔ یہ کام زیادہ تر ابن مُقلہ کے ذریعہ انجام پایا۔
اس طرح قرآن کی کتابت اور حفاظت کا سفر جاری رہا۔ یہاں تک کہ اٹھارویں صدی کا زمانہ آگیا۔ اس زمانہ میں اہلِ یورپ نے پرنٹنگ پریس ایجاد کیا۔ نپولین بونا پارٹ ۱۷۹۸میں مصر میں داخل ہوا۔نپولین پہلا شخص تھا جو مسلم دنیا میں پرنٹنگ پریس لے آیا۔ اُس وقت تک زیادہ بہتر قسم کا کاغذ عام ہوچکا تھا۔ یہ وہ زمانہ ہے جب کہ قرآن پہلی بار پرنٹنگ پریس کے ذریعہ چھاپا گیا۔ اس کے بعد ساری مسلم دنیا میں قرآن کو چھاپنے کاعمل شروع ہوگیا۔ یہاں تک کہ اب یہ حالت ہے کہ تمام دنیا میں مسلمانوں کے گھر، مسجدیں اور مدرسے اور کتب خانے اور بازار قرآن کے مطبوعہ نسخوں سے بھر گئے ہیں۔ اس طرح اب قرآن کی حفاظت کا کام آخری طورپر مکمل ہوچکا ہے۔
قرآن مکمل طور پر ایک محفوظ کتاب ہے، یہ ایک ایسی تاریخی حقیقت ہے جس کا اعتراف عام طور پر اہل علم نے کیا ہے۔ یہاں اس سلسلہ میں صرف ایک حوالہ نقل کیا جاتا ہے۔ انڈیا کے مشہور مذہبی لیڈر سوامی وویکا نند فروری ۱۸۹۱میں الور آئے۔ وہاں ہندو اور مسلمان دونوں نے ان کا استقبال کیا۔ انہوں نے ایک مسلم عالم سے کہا کہ قرآن کی ایک امتیازی صفت یہ ہے کہ آج بھی وہ اسی اصل حالت میں موجود ہے جیسا کہ وہ گیارہ سو سال پہلے تھا۔ اس کتاب نے اپنی خالص حیثیت کوپوری طرح محفوظ رکھا ہے وہ کسی بھی ملاوٹ سے پوری طرح پاک ہے:
In Alwar, where Swamiji arrived one morning in the beginning of February 1891, he was cordially received by Hindus and Moslems alike. To a Moslem scholar he said: ‘There is one thing very remarkable about the Qur’an. Even to this day it exists as it was recorded eleven hundred years ago. The book has retained its original purity and is free from interpolation’.
Vivekananda: A Biography
by Swami Nikhilananda
Advaita Ashram, Calcutta, 2001, p. 102
واپس اوپر جائیں

دار الاسلام، دار الحرب

دار الاسلام اور دار الحرب کی اصطلاح زمانہ نبوت کے ڈیڑھ سو سال بعد عباسی دور میں بنی۔ یہ الفاظ قرآن اور حدیث میں استعمال نہیں ہوئے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ کہنا درست ہوگا کہ یہ دونوں اصطلاحیں مبتدعانہ اصطلاحیں تھیں۔ ان کو قرآنی اصطلاح یا مسنون اصطلاح نہیں کہا جاسکتا۔
فقہاء کے نزدیک دار الاسلام سے مراد وہ ملک ہے جہاں مسلمانوں کو اسلام پر عمل کرنے کی پوری آزادی حاصل ہو۔ دار الحرب سے مراد وہ ملک ہے جو مسلمانوں کے لیے معاند ملک کی حیثیت رکھتا ہو، جس سے مسلمان امکانی طورپر جنگ (potentially at war) کی حالت میں ہوں۔ یہ دونوں اصطلاحیں ذاتی قیاس کے تحت بنائی گئیں۔ حالانکہ صحیح بات یہ ہے کہ اتنی اہم اصطلاح خالص قرآن کی روشنی میں بنائی جائے۔
اس نظر سے قرآن کو دیکھیے تو معلوم ہوگا کہ دو قسم کے علاقوں کے اس فرق کو بتانے کے لیے زیادہ درست الفاظ دوسرے ہیں۔ اور وہ دارالخوف اور دار الامن کے الفاظ ہیں۔ اس رائے کا مأخذ قرآن کی وہ آیت ہے جس کا ترجمہ یہ ہے:
اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو زمین میں اقتدار دے گا جیسا کہ ان سے پہلے لوگوں کو اقتدار دیا تھا۔ اور ان کے لیے ان کے دین کو جما دے گا جس کو اس نے ان کے لیے پسند کیا ہے۔ اور ان کی خوف کی حالت کے بعد اس کو امن کی حالت سے بدل دے گا۔ وہ صرف میری عبادت کریں گے اور کسی بھی چیز کو میرا شریک نہ بنائیں گے۔ اور جو اس کے بعد انکار کرے تو ایسے ہی لوگ نافرمان ہیں۔ (النور۔۵۵)
قرآن کی اس آیت کے مطابق، دور اول کے مسلمان اپنے ابتدائی دو رمیں خوف کی حالت میں تھے۔ پھر اللہ نے ان کو امن کی حالت میں پہنچا دیا۔ یعنی وہ پہلے دار الخوف میں رہ رہے ـتھے، پھر اللہ نے ان کو دار الامن عطا فرمایا۔
وسیع تر تقسیم کے لحاظ سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ دار الخوف سے مراد بنیادی طورپر وہ زمانہ ہے جس کو سیرت کی کتابوں میں مکی دور کہا جاتا ہے اور دار الامن سے مراد بنیادی طورپر وہ زمانہ ہے جس کو سیرت کی کتابوں میں مدنی دور کہا گیا ہے۔
گویا کہ وہ چیز جس کو بعد کے فقہاء نے دار الحرب سے تعبیر کیا، اس کو قرآن میں دار الخوف کہا گیا تھا۔ اس طرح ان فقہاء نے جس حالت کو دار الاسلام سے تعبیر کیا، اس کے لیے قرآن میں دارالامن کا لفظ استعمال کیا گیا۔
مذکورہ حالت اسلام کے ظہور کے تقریباً بیس سال بعد تک رہی۔ اُس کے بعد خدا کی مزید عنایت ہوئی۔ پیغمبر اسلام کے آخری زمانہ میں وہ اہم اعلان کیاگیا جو قرآن کی سورہ نمبر ۵ میں موجود ہے۔ اُس کا ترجمہ یہ ہے:
آج انکار کرنے والے لوگ تمہارے دین کی طرف سے مایوس ہوگئے۔ پس تم اُن سے نہ ڈرو، اور تم صرف مجھ سے ڈرو۔آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لیے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کرلیا۔ (المائدہ ۳)
قرآن کی یہ آیت اس بات کا ایک خدائی اعلان ہے کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کی تکمیل کے بعد دنیا میں ایک ایسا انقلاب آیا ہے جس نے ہمیشہ کے لیے اس امکان کو ختم کردیا ہے کہ زمین کا کوئی حصہ اہلِ اسلام کے لیے دوبارہ دار الخوف بن جائے۔ اب قیامت تک کے لیے اہل اسلام امن کے دو رمیں داخل ہوچکے ہیں۔ اب ساری دنیا میں اہلِ اسلام کے لیے ایک ایسا دور آچکا ہے جس میں اُن کے لیے خشیت انسانی کا مسئلہ باقی نہیں رہا۔ اب انسانی تاریخ خشیت الٰہی کے دور میں داخل ہوگئی ہے۔ گویا اب ساری دنیا ہمیشہ کے لیے دار الامن ہے، اب وہ اہل اسلام کے لیے کبھی دارا لخوف بننے والی نہیں۔ اب اہل اسلام کا کام یہ ہے کہ وہ حاصل شدہ مواقع کو استعمال کریں، نہ کہ وہ مفروضہ خوف کے نام پر اہل عالَم سے بے فائدہ لڑائی چھیڑ دیں۔
اب مسلمانوں کو یہ نہیں کرنا ہے کہ وہ دار الاسلام یا دار الامن قائم کرنے کے نام پر غیر مسلم قوموں سے لڑائی کریں۔ اس کے برعکس اب اہل اسلام کو یہ کرنا ہے کہ وہ ہر حال میں دار الامن کے محافظ بنے رہیں۔ اب مسلمانوں کو اُس نادانی سے بچنا ہے جس کا ذکر حدیث میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے:
عن حذیفۃ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: لا ینبغی لمسلم ان یذل نفسہ، قیل و کیف یذل نفسہ قال یتعرض من البلاء لما لا یطیق (مسند احمد ، ۵؍۴۰۵)
حضرت حذیفہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: کسی مسلم کے لیے یہ درست نہیں کہ وہ خود اپنے آپ کو ذلیل کرے۔ پوچھا گیا کہ کوئی شخص خود اپنے آپ کو کیسے ذلیل کرے گا۔ آپ نے فرمایا کہ وہ ایک ایسی بلا سے تعرض کرے جس کی وہ طاقت نہ رکھتا ہو۔
قرآن کی مذکورہ آیت کے مطابق ، دنیا کا ہر ملک اب اہلِ اسلام کے لیے دار الامن بن چکا ہے۔ دار الامن سے مراد وہ جگہ ہے جہاں پُرامن دینی عمل کے مواقع موجود ہوں۔ اب جب کہ خُدا نے تمام دنیا کو مسلمانوں کے لیے دار الامن بنا دیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اب اہلِ اسلام کے لیے فرض کے درجہ میں ضروری ہوگیا ہے کہ وہ اپنا ملّی اور دینی عمل مکمل طورپر امن کے حدود میں رہتے ہوئے انجام دیں۔ اب اُن کے لیے یہ جائز ہی نہیں کہ وہ پُر امن طریقِ کار کو چھوڑ کر پُر تشدد طریقِ کار اختیار کریں۔
پُر امن طریقِ کار کی یہ فرضیت صحیح البخاری کی ایک روایت سے معلوم ہوتی ہے۔ حضرت عائشہ نے پیغمبر اسلام کی عمومی پالیسی کو بتاتے ہوئے کہا: ما خیّر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بین أمرین الا اختار ایسرہما(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی دو امر میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوتا تو آپ ہمیشہ مشکل طریقہ کو چھوڑ کر آسان طریقہ اختیار فرماتے)۔
اس حدیث کے مطابق، پُر تشدد طریقِ کار ایک مشکل طریقِ کار ہے اور پُر امن طریقِ کار ایک آسان طریقِ کار۔ اب سنّت رسول کی پیروی میں اہلِ اسلام کو یہ کرنا ہے کہ وہ پُر تشدد طریقِ کار سے مکمل طورپر بچیں، اور پُر امن طریقِ کار پر سختی کے ساتھ کار بند رہتے ہوئے اپنا دینی اور ملّی مقصد حاصل کریں۔ اب پُر تشدد طریقِ کار کواستعمال کرنا سنتِ رسول کی کھلی خلاف ورزی ہے، اور جو لوگ سنّتِ رسول کی خلاف ورزی کریں وہ کبھی فلاح پانے والے نہیں۔
مذکورہ تفصیل کی روشنی میں یہ بات حتمی طورپر واضح ہوجاتی ہے کہ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کو دوسری قوموں کی طرف سے جس متشددانہ سلوک کا تجربہ ہورہا ہے وہ دوسری قوموں کے ظلم کی بنا پر نہیں ہے بلکہ اُس کا سبب تمام تر یہ ہے کہ مسلمانوں نے سنتِ رسول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یہ کیا کہ اُنہوں نے پُر امن طریقِ کار کو چھوڑ کر پُر تشدد طریقِ کار کو اختیار کر لیا۔ اب وہ جس ہلاکت کا تجربہ کررہے ہیں اُس کا سبب خود اُن کا مسنون طریقِ کار سے انحراف ہے، نہ کہ کسی مفروضہ دشمن کی طرف سے سازش یا ظلم کا معاملہ۔
واپس اوپر جائیں

اختلاف کو حل کرنے کی تدبیر

قدیم زمانہ میں کہا جاتا تھا کہ الحرب انفٰی للحرب (جنگ کا توڑ جنگ ہے) یہ فکر ہزاروں برس سے انسان کے اندر چلا آرہا تھا۔ بد قسمتی سے یہی فکر تاریخی تسلسل کے نتیجہ میں خود مسلمانوں میں کسی نہ کسی طورپر جاری رہا۔ حضرت عثمان کی شہادت سے لے کر اب تک کی مسلم تاریخ میں اس کے نمونے پھیلے ہوئے ہیں۔ ۱۹۴۸ میں فلسطین کا مسئلہ پیدا ہوا جو عملاً پوری مسلم دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ بن گیا۔ اس وقت بھی تمام مسلم ذہن اسی ڈھنگ پر سوچنے لگے۔ اس سوچ کی نمائندگی ایک عرب شاعر کے شعر میں ان الفاظ میں ملتی ہے:
ہاتِ صلاح الدین ثانیۃ فینا جددی حطین أو شبہ حطینا
اقبال اپنے علم اور ذہانت کے باوجود اس فکر سے اوپر نہ اُٹھ سکے۔ ان کا پورا کلام کسی نہ کسی طورپر اسی فکر کی نمائندگی کرتا ہے۔ مثال کے طورپر ان کا یہ شعر پڑھئے۔
گفتند جہانِ ما آیا بتو می سازد گفتم کہ نمی سازد گفتند کہ برہم زن
اسلام اس معاملہ میں انقلابی تبدیلی کا پیغام تھا۔ جنگ کیوں ہوتی ہے۔جنگ ہمیشہ اختلافات کے نتیجہ میں ہوتی ہے۔ لوگ اختلاف کو صرف مٹانا جانتے تھے، اس لیے وہ فوراً فریقِ ثانی سے لڑ جاتے تھے۔ اسلام نے اس معاملہ میں ایک نئے اُصول کو رواج دیا۔ قرآن میں یہ اُصول ان الفاظ میں بتایا گیا ہے: الصلح خیر (النساء ۱۲۸)
اس آیت کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ صلح بہتر ہے۔ صلح کیا ہے۔ صلح یہ ہے کہ اختلاف کو مٹانے پر زور نہ دیا جائے بلکہ اختلاف کو گوارہ کرتے ہوئے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کی جائے۔ گویا اس کا مطلب ہے، اختلاف کے باوجود اتحاد۔ اس فارمولے کو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے:
Art of difference management
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی اسی تدبیر کا عملی نمونہ ہے۔ مثال کے طورپر آپ نے قدیم مکہ میں ۶۱۰ء میں دعوتِ توحید کا مشن شروع کیا۔ اس وقت توحید کے نقطۂ نظر سے مکہ میں سب سے زیادہ سنگین مسئلہ یہ تھا کہ توحید کے گھر (کعبہ) میں ۳۶۰ بت رکھے ہوئے تھے۔ مگر اس وقت قرآن میں اس مفہوم کی کوئی آیت نہیں اتری: طَہِّر الکعبۃ من الأصنام (کعبہ کو بتوں سے پاک کرو)بلکہ اس کے بجائے قرآن میں یہ آیت اتری کہ : وثیابک فطہر(اپنے اخلاق کو درست کرو)
اس قرآنی اُصول پر عمل کرتے ہوئے پیغمبر اسلام نے یہ کیا کہ آپ نے مکہ کے تیرہ سالہ قیام کے زمانہ میں کبھی بتوں کو توڑنے کی کوشش نہیں کی۔ اس کے بجائے آپ نے یہ کیا کہ لوگوں کو توحید کا پیغام دینے کی پر امن جدوجہد شروع کردی۔ پیغمبر اسلام کی زندگی میں اس قسم کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔ انہی میں سے ایک نمایاں واقعہ صلح حدیبیہ ۶۲۸ء کا ہے۔ یہ صلح گویا ڈیفرنس مینجمنٹ(difference management) کی ایک کامیاب مثال تھی جو انسانی تاریخ میں غالباً پہلی بار نہایت کامیابی کے ساتھ قائم کی گئی۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو سخت انتباہ دیا تھا کہ اختلاف خواہ کتنا ہی بڑا ہو وہ ہرحال میں ڈیفرنس مینجمنٹ کے اُصول پر اس کو حل کرے۔ کسی بھی حال میں وہ ایسا نہ کرے کہ اتحاد کے نام پر اختلاف کو مٹانے کی کوشش کرے۔ حدیث کے مجموعوں میں کتاب الفتن کے تحت کثرت سے اس قسم کی روایتیں آئی ہیں جن میں یہ کہا گیا ہے کہ میرے بعد امراء اور حکام کے اندر بگاڑ آئے گا مگر تم ہرگز ان سے ٹکراؤ نہ کرنا۔ تم ظلم کے باوجود ان کا حق ادا کرنا اور اپنے حق کے لیے اللہ سے دعا کرنا(ادوا الیہم حقہم واسئلوا اللہ حقکم)
اس معاملہ میں ایک حدیث وہ ہے جو ابوداؤد، الترمذی، ابن ماجہ اور مسند احمد میں آئی ہے۔ یہ ایک لمبی روایت ہے، اس کا آخری حصہ یہ ہے:
وإنی لا أخاف علی أمتی إلا الأئمۃ المضلین فإذا وضع السیف فی امتی لم یرفع عنہم إلی یوم القیامۃ (مسند احمد ۴؍۱۲۳) یعنی مجھے اپنی امت کے بارے میں سب سے زیادہ اندیشہ گمراہ کن لیڈروں سے ہے او رجب تلوار میری امت میں داخل ہوگی تو پھر وہ اس سے قیامت تک نہیں اٹھائی جائے گی۔
اس حدیث کا مطلب در اصل یہ ہے کہ امت میں جب اختلافات پیدا ہوں گے تو نا اہل لیڈر ڈیفرنس مینجمنٹ کے اُصول پر اس کو رفع نہ کرسکیں گے بلکہ وہ اختلاف کو دور کرنے کے نام پر لڑائی چھیڑ دیں گے اور جب ایک بار امت میں دین کے نام پر لڑائی کی روایت قائم ہوگئی تو اجتماعی نفسیات کی بنا پر وہ قیامت تک جاری رہے گی۔
حدیث کی یہ پیشین گوئی بد قسمتی سے امت کی بعد کی تاریخ کے بارے میں درست ثابت ہوئی۔ امت کے اندر وضع سیف کا یہ معاملہ خلیفہ ثالث عثمان بن عفان کی شہادت کے ساتھ شر وع ہوا۔ پھر اس کے بعد وہ اس طرح مسلسل جاری ہو گیا کہ امت کی ہزار سالہ تاریخ میں وہ کبھی ختم نہیں ہوا۔ خلیفہ چہارم اور دمِ عثمان کے نام پر اُٹھنے والوں کے درمیان جنگ، حسین اور یزید کے درمیان جنگ، بنوامیہ اور بنو عباس کے درمیان جنگ، سنی اور شیعہ کے درمیان جنگ، مغلوں اور غیر مغلوں کے درمیان جنگ، اسی طرح موجودہ زمانہ میں سیکولر حکمرانوں اور اسلام پسند جماعتوں کے درمیان جنگ، وغیرہ سب اسی کی مثالیں ہیں۔
حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اختلاف امتی رحمۃ (میری امت کا اختلاف رحمت ہے) اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اختلاف (difference) خدا کے تخلیقی نقشہ کا ایک حصہ ہے۔ وہ فطرت کا ایک لازمی جزء ہے اس لیے اختلاف کبھی زندگی سے ختم نہیں ہوتا۔ امت کے اصحاب علم و معرفت اس راز کو سمجھیں گے اور اختلاف کو مٹانے کے بجائے اختلاف کے ساتھ جینے کی کوشش کریں گے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ وہ ڈیفرنس مینجمنٹ کے اصول پر اس مسئلہ کو حل کریں گے۔ اس طرح سنت کی پیروی کی صورت میں اختلاف امت محمدی کے لیے رحمت بن جائے گا۔ اختلاف کے ہوتے ہوئے وہ ترقی کا پر امن سفر کامیابی کے ساتھ طے کر سکیں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ جس طرح دوسری بہت سی سنتیں ہیں اسی طرح وہ چیز بھی ایک سنت رسول ہے جس کو ہم نے آرٹ آف ڈیفرنس مینجمنٹ کا نام دیا ہے۔ اس اُصول کا تعلق اسلام کے تمام پہلوؤں سے ہے، کوئی بھی پہلو اس سے خالی نہیں۔
مثال کے طورپر فقہی اختلافات جو ہزار سال سے اب تک ٹکراؤ کا سبب بنے ہوئے ہیں ان کے معاملہ میں ڈیفرنس مینجمنٹ کا سادہ اُصول یہ ہے کہ یہ مان لیا جائے کہ یہ اختلافات توسع پر مبنی ہیں،نہ کہ تعددپر۔ ان میں سے جس طریقہ کی بھی پیروی کی جائے وہ درست ہوگا(بایہم اقتدیتم اہتدیتم)
اسی طرح علی اور معاویہ کا معاملہ یا یہ سوال کہ چاروں خلفاء کے درمیان تفضیل کی بحث۔ اس قسم کے معاملات میں ڈیفرنس مینجمنٹ کے اُصول کا انطباق (application) یہ ہے کہ اس کو خدا کے حوالہ کردیا جائے اور ہر فرقہ اپنی آج کی ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں مشغول ہوجائے۔
موجودہ زمانہ میں اکثر مسلم ملکوں میں سیکولر حکمرانوں اور اسلام پسند جماعتوں کے درمیان تباہ کن ٹکراؤ جاری ہے۔ اس معاملہ میں ڈیفرنس مینجمنٹ کا انطباق یہ ہے کہ اسلام پسند جماعتیں حکومت کے دائرہ میں براہ راست مداخلت کا طریقہ چھوڑ دیں ۔ وہ غیر حکومتی دائرہ ، مثلاً تعلیم اور اصلاح اور دعوت کے شعبوں میں، اپنی کوششیں صرف کریں۔
موجودہ زمانہ میںہم دیکھتے ہیں کہ مسلمان لیڈر یا مسلم گروہ مختلف ملکوں میں کسی نہ کسی قومی یا ملّی مقصد کے حوالہ سے غیر مسلم حکومتوں سے متشددانہ ٹکراؤ کا سلسلہ جاری کئے ہوئے ہیں۔ مثلاً فلسطین اور کشمیر او رچیچنیا اور فلپائن ،وغیرہ میں۔ ان مقامات پر ڈیفرنس مینجمنٹ کے اُصول کا انطباق یہ ہے کہ ہر قسم کے تشدد کو مکمل طورپر ترک کردیا جائے اور صرف مسلّمہ پرامن طریق کار کی پابندی کرتے ہوئے اپنی تحریک چلائی جائے۔
قرآن کی آیت: الصلح خیر(النساء ۱۲۸) بتاتی ہے کہ ڈیفرنس مینجمنٹ کا مذکورہ طریقہ مطلق طورپر خیر کا سببہے۔ وہ ہر حال میں قابل عمل ہے۔ یہ طریقہ صرف اس وقت ناقابل عمل بن جاتا ہے جب کہ مسلمان تشدد کا آغاز کرکے فضا کو بگاڑدیں۔ تشدد کا آغاز لازمی طورپر جوابی تشدد پیدا کرے گا اور پر امن طریق کار کو اختیار کرنا ممکن نہ رہے گا۔ اگر مسلمان یہ غلطی کریں کہ تشدد کا آغاز کرکے وہ صورت حال کو بگاڑ دیں تو خود انہیں کو دوبارہ صورت حال کو نارمل بنانے کی ذمہ داری لینی پڑے گی۔ اور وہ ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے تشدد کو یک طرفہ طورپر ختم کردیں تا کہ وہ موافق فضا پیدا ہو جس میں ڈیفرنس مینجمنٹ پر عمل کرنا ممکن ہو جائے۔
اسلام دین فطرت ہے۔ مذکورہ اصول فطرت ہی کا ایک اصول ہے جس کو اسلام میں اختیار کیا گیاہے۔ اصل یہ ہے کہ موجودہ دنیا کا نظام خدا نے اس طرح بنایا ہے کہ یہاں لازماً ایک اور دوسرے کے درمیان اختلافات پیدا ہوں۔ ایک اور دوسرے کے درمیان مختلف اعتبار سے اتنا زیادہ فرق پایا جاتا ہے کہ ہر انسان کو مسٹر ڈیفرنس کہنا صحیح ہوگا۔ اس دنیا میں ہر سماج فرق و اختلاف والا سماج ہے۔ یہ فرق و اختلاف چونکہ خود فطرت کا ایک لازمی حصہ ہے اس لیے اس کو ختم کرنا ممکن نہیں۔
ایسی حالت میںقابل عمل صورت صرف یہ ہے کہ فرق کے ساتھ نبھانے کا اصول اختیار کیا جائے نہ کہ فرق کو مٹانے کا۔
It requires difference management rather than eliminating the difference.
فطرت کے اس اصول کا تعلق مذہبی معاملہ سے بھی ہے اور سیکولر معاملہ سے بھی۔ اس دنیا میں کوئی بھی نظام مذہبی ہو یا غیر مذہبی، کامیاب طورپر وہی لوگ بنا سکتے ہیں جو ڈیفرنس مینجمنٹ کا آرٹ جانتے ہوں۔ فرق و اختلاف کو مٹانا تشدد پیدا کرتا ہے اور فرق و اختلاف کو مینج کرنا امن اور ہم آہنگی کا سبب بنتا ہے۔
فرق و اختلاف کوئی بُرائی نہیں، وہ ترقی کا زینہ ہے۔ فرق و اختلاف سے اجتماعی زندگی میں چیلنج پیدا ہوتا ہے۔ اور چیلنج کا سامنا کرنا ہی اس دنیا میں ہر قسم کی ترقی کا واحد راز ہے۔
واپس اوپر جائیں

دعوتِ عام کی ذمہ داری

بیان کیا جاتا ہے کہ پچھلے انبیاء مقامی آبادیوں کے لیے آئے۔ وہ جس قوم میں پیدا ہوئے وہی قوم اُن کی دعوت کامیدان ہوتی تھی۔ مگر پیغمبر آخر الزماں ﷺکے بعد کوئی اور پیغمبر آنے والا نہ تھا اس لیے آپ ساری دنیا کے لیے داعی اور منذر بنا کر بھیجے گیے(الفرقان ۱)۔ اسی لیے پیغمبراسلام کے لیے قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں: وما ارسلنٰک الا رحمۃ للعالمین(الانبیاء ۱۰۷) یعنی ہم نے تم کو تمام دنیا والوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔
یہ بات اہل اسلام کے لیے فخر یا فضیلت کی بات نہیں ہے بلکہ وہ ایک سنگین ذمہ داری کی بات ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے پیغمبروں کی امتوں کی دعوتی ذمہ داری اگر مقامی دائرہ تک محدود رہتی تھی تو امتِ محمدی کی ذمہ داری سارے عالم تک پھیلی ہوئی ہے۔ اُمّت محمدی کا اُمّت محمدی ہونا صرف اُس وقت متحقّق ہو سکتا ہے جب کہ وہ تمام دنیا کی قوموں کے اوپر اپنی دعوتی ذمہ داری کو ادا کرے۔ اس دعوتی عمل کے بغیر اُس کا اُمتِ محمدی ہونا ہی مشتبہ ہے (المائدۃ ۶۷)
مزید یہ کہ اس دعوتی ذمہ داری کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اُمت کے لوگ تمام دنیا میں مسلم وار تحریکیں چلائیں بلکہ اُنہیں لازمی طورپر غیر مسلم وار تحریکیں چلانا ہے۔ مسلم وار تحریک یا ملت وار تحریک امت کا داخلی مسئلہ ہے جب کہ غیر مسلم وار تحریک، خارجی معنوں میں اُمّت کی لازمی ذمہ داری ہے۔
علمائے اسلام کا اس امر پر اتفاق ہے کہ دعوت کے بغیر جہاد نہیں۔ ابن رشد نے الفصل الرابع فی شرط الحرب کے تحت لکھا ہے: فاما شرط الحرب فہو بلوغ الدعوۃ باتفاق، اعنی انہ لا یجوز حرابتہم حتی یکونوا قد بلغتھم الدعوۃ، وذلک شیٔ مجتمع علیہ من المسلمین لقولہ تعالیٰ:وما کنا معذبین حتی نبعث رسولاً (بدایۃ المجتہد۱؍۳۸۶) یعنی جنگ کی شرط متفقہ طورپر یہ ہے کہ ان لوگوں تک دعوت پہنچ چکی ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان سے اس وقت تک جنگ جائز نہیں جب تک کہ انہیں دعوت نہ پہنچ جائے۔
اس معیارکی روشنی میں دیکھئے تو معلوم ہوگا کہ پچھلے تقریباً تین سو سال سے مسلم رہنما جہاد کے نام پر غیر قوموں سے جو لڑائیاں لڑ رہے ہیں ان میں سے کوئی بھی جہاد نہیں۔ اور اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ یہ لڑائیاں دعوت و تبلیغ کے بغیر لڑی گئیں۔ مثلاً شاہ ولی اللہ دہلوی کی (بالواسطہ) جنگ مراٹھوں سے، شہیدین کی جنگ سکھوں سے، علمائے ہندکی جنگ انگریزوں سے، عربوں کی جنگ اسرائیلیوں سے، پاکستانیوں اور کشمیریوں کی جنگ ہندوؤں سے، فلپائنی مسلمانوں کی جنگ وہاں کے عیسائیوں سے، چیچن مسلمانوں کی جنگ روسیوں سے، وغیرہ۔
یہ اور موجودہ زمانہ کی دوسری لڑائیاں جو مسلم رہنما لڑتے رہے یا لڑ رہے ہیں، ان میں سے کوئی بھی جہاد فی سبیل اللہ نہیں۔ کیوں کہ یہ لڑائیاں دعوت و تبلیغ کی شرط کے بغیر شروع کردی گئیں۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ زمانہ کی یہ تمام لڑائیاں حبط اعمال کا شکار ہوگئیں۔ مسلمانوں کی یک طرفہ تباہی کے سوا ان کا اور کوئی نتیجہ بر آمد نہیں ہوا۔
کسی غیر مسلم قوم کے خلاف جہاد(بمعنٰی قتال) چھیڑنے کے لیے یہ وجہ کافی نہیں ہے کہ اس نے مسلمانوں پر ملک و مال کے اعتبار سے کوئی نقصان پہنچایا ہو۔ ایسے کسی مسئلہ کے حل کے لیے پر امن تدبیر ہے نہ کہ متشددانہ جنگ۔ غیر مسلموں کے سلسلہ میں مسلمانوں کی اول و آخر ذمہ داری دعوت و تبلیغ ہے۔ جہاد (بمعنٰی قتال) صرف مخصوص اور متعین شرطوں ہی پر جائز ہے، اور موجودہ زمانہ میں یہ شرطیں کسی بھی مقام کے مسلمانوں کے حق میں موجود نہیں۔
کسی قوم کے خلاف دعوت کے بغیر جہاد چھیڑنانہایت سنگین ذمہ داری ہے۔ حضرت یونس علیہ السلام نے صرف یہ کیا تھا کہ دعوت کی تکمیل سے پہلے انہوں نے اپنی مدعو قوم سے ہجرت کا معاملہ کیا۔ اب وہ لوگ جنہوں نے سرے سے دعوت کا عمل ہی نہ کیا ہو اور پھر صرف مادّی نزاع کی بنا پر اپنی مدعو قوم کے خلاف مسلّح جنگ چھیڑ دیں، اُن کا معاملہ حضرت یونس کے مقابلہ میں اللہ کی نظر میں کتنا زیادہ سنگین ہوگا، اس کا تصور بھی لرزا دینے کے لیے کافی ہے۔
واپس اوپر جائیں

قومیت کا مسئلہ

سید جمال الدین افغانی ۱۸۳۸ میں پیدا ہوئے اور ۱۸۹۷ میں اُن کی وفات ہوئی۔ وہ اُس نظریہ کی ایک علامت ہیں جو ترکی کے سلطان عبدالحمید کی حمایت سے شروع ہوئی اور جس کو اتحادِاسلامی(پان اسلامزم) کہا جاتا ہے۔ سید جمال الدین افغانی کے زمانہ میں تقریباً پوری مسلم دنیا انگریزوں اور فرانسیسیوں کی سیاسی ماتحتی میں آگئی تھی۔ جمال الدین افغانی اس مغربی اقتدار کو ختم کرنے کے لیے اُٹھے ۔ اس مقصد کو طاقت دینے کے لیے اُنہوں نے اتحادِ اسلامی کا نظریہ بنایا۔ اُن کا کہنا تھا کہ تمام دنیا کے مسلمان، خواہ وہ اکثریتی ملک میں ہوں یا اقلیتی ملک میں، وہ سب کے سب ایک واحداُمّت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ سب کے سب ایک ہی سیاسی وحدت میں بندھے ہوئے ہیں۔
سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اسی نظریہ کے مطابق کہا کہ تمام دنیا کے مسلمان ایک انٹرنیشنل پارٹی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آیت اللہ خمینی اور دوسرے رہنماؤں نے اس کو الأمّہ(Ummah) کا لفظ دیا جو بہت جلد تمام دنیا کے مسلمانوں میں مقبول ہوگیا۔ اسی نظریہ کو اقبال نے اپنے ایک شعر میں اس طرح بیان کیا ہے:
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاکِ کاشغر
یہ بین اقوامی نظریہ نو آبادیاتی دور میں حالات سے متصادم نہیں معلوم ہوتا تھا۔ اُس وقت دنیا کے بیشتر ملک عملاً ایک ہی سیاسی نظام کے تحت تھے۔ تقریباً تمام مسلمان اس ایک سیاسی نظام کے شہری شمار ہوتے تھے۔ مگر جب نو آبادیاتی نظام ٹوٹا اور نیشنلزم کا دور آیا تو بہت سی الگ الگ سیاسی وحدتیں بن گئیں۔ پہلے اگر ایک ایمپائر کی وفاداری کا مسئلہ تھا تو اب ایک سو قومی وحدتوں کی الگ الگ وفاداری کا مسئلہ سامنے آگیا:
Pan-Islamism was the dominant ideology of the Muslim world of the 19th century before the rise of Nationalism. (7:719)
دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا کا نقشہ بدلا تو مسلمان فکری اعتبار سے ایک پیچیدہ صورت حال میں مبتلا ہوگئے۔ جو لوگ عالمی قومیت کے ڈھانچہ میں اپنی سیاسی شناخت بنائے ہوئے تھے، اب اُن کو مقامی قومیت کے ڈھانچے میں دوبارہ اپنی سیاسی شناخت کو تلاش کرنا پڑا۔ اس نازک وقت میں، میرے علم کے مطابق، پوری مسلم دنیا میں صرف ایک عالم تھا جس نے اس سوال کا جواب فراہم کرنے کی کوشش کی۔ یہ مولانا سید حسین احمد مدنی(۱۹۵۷۔۱۸۷۹) تھے۔ اُنہوں نے ۱۹۴۷ سے پہلے کی ہنگامی سیاست کے زمانہ میں یہ جرأتمندانہ اعلان کیا کہ: فی زمانہ قومیں اوطان سے بنتی ہیں۔ یہ بلا شبہہ ایک اجتہادی رہنمائی تھی۔ مگر بد قسمتی سے مولانا موصوف کی وفات کے بعد خود دیوبند کے علماء نے یہ اعلان کرکے اُس کو کالعدم کردیا کہ: حضرت نے اس سلسلہ میں جو فرمایا وہ صرف ایک خبر تھی، وہ انشا نہ تھی۔
یہ معاملہ کوئی سادہ معاملہ نہیں۔ یہ بے حد نازک معاملہ ہے۔ ضرورت ہے کہ اس معاملہ میں انتہائی غیر جانبدارانہ انداز کے ساتھ غور کیا جائے۔ مذکورہ اعلان کردہ موقف کی صورت میں نظری یا اعتقادی پوزیشن یہ ہے کہ تمام دنیا کے مسلمانوں کی قومیت (Nationality) اسلام ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ مسلمانوں کی سیاسی وفاداری مشترک طورپر اُن کے مذہب کے ساتھ وابستہ ہے۔ اب جب کہ ہر ملک میں نیشنلٹی کو وطن (home-land) کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے تو یہ نظریہ ہر جگہ مقامی تقاضوں سے متصادم ہوگیا ہے۔
مثلاً امریکا یا برطانیہ یا انڈیا میں جدید تصورِ قومیت کا تقاضا یہ ہے کہ ان ملکوں میں بسنے والے مسلمانوں کی سیاسی وفاداریاں صرف اپنے وطن کے ساتھ وابستہ ہوں، اُن کی کوئی خارج از وطن سیاسی وفاداری (extra-terrestrial loyalty) نہ ہو۔ جب کہ الأمّہ کا نظریہ برعکس طورپر یہ کہتا ہے کہ مسلمانوں کی وفاداریاں بین اقوامی اسلام کے ساتھ ہونی چاہئیں، نہ کہ ملکی وطنیت کے ساتھ۔ اس تضاد نے ساری دنیا کے ہر اُس ملک میں مسلمانوں کی نیشنل وفاداری کو مشتبہ کردیا ہے جہاں مسلمان ایک اقلیت کے طورپر رہتے ہیں۔
یہ ایک بے حد سنگین مسئلہ ہے۔ خالص نظری طور پر مسلمانوں کے لیے دو میں سے ایک کا چوائس ہے۔ یا تو وہ اپنے اعلان کردہ موقف کے مطابق، یہ کہیں کہ ہم عالمی اسلامی قومیت کے فرد ہیں، ہم مقامی قومیت کے قائل نہیں۔ وہ اس موقف کو اختیار کریں اور پھر اُس کی ہر قیمت کو دل کی آمادگی کے ساتھ ادا کریں۔ مثلاً اگر کسی ملک میں اُن کی وطنی وفاداری کو مشتبہ سمجھ کر اُنہیں ملکی فوج میں نہ لیا جائے، اُنہیں وزارت خارجہ میں شامل نہ کیا جائے، اُنہیں سفیر کا عہدہ نہ ملے، ملک کی بین اقوامی نمائندگی کے فورم میں اُن کو جگہ نہ دی جائے، اُن کو اپنے ملک میں درجہ دوم کا شہری سمجھا جائے تو اُنہیں چاہئے کہ وہ اُسے اپنے عقیدہ کی فطری قیمت سمجھ کر اُس کو قبول کریں۔
مسلمانوں کے لیے دوسرا چوائس یہ ہے کہ وہ کھُلے طورپر یہ اعلان کریں کہ الأمّہ کا مذکورہ بین اقوامی نظریہ کچھ مسلم رہنماؤں کا ذاتی نظریہ تھا جو اُنہوں نے مخصوص حالات کے رد عمل میں اختیار کیا اور اُس کو غلط طورپر اسلام کا نام دے دیا۔ اب ہم اس نظریہ کو رد کرتے ہیں اور جیسا کہ مولانا حسین احمد مدنی نے اعلان کیا تھا، ہم اس رائے کو اختیار کرتے ہیں کہ عقیدہ اور مذہب کے اعتبار سے بلا شبہہ تمام دنیا کے مسلمان ہم مذہب ہیں مگر جہاں تک قومیت (nationality) کا تعلق ہے، ہر مسلمان کی قومیت وہی ہے جو اُس کا وطن ہے۔ قومیت کا تعلق وطن سے ہے، نہ کہ مذہب سے۔ یہ اعلان اگر مسلمانوں کی طرف سے کھلے طورپر کر دیا جائے تو مذکورہ تضاد ختم ہوجائے گا اور پھرکسی کو یہ موقع نہ ہوگا کہ وہ اُن کی وطنی وفاداری پر شک کرے۔
مسلمان اگر ان دونوں میں سے کوئی موقف اختیار نہ کریں بلکہ وہ یہ کریں کہ موقف کے بارے میںکھُلے اعلان کے بغیر وہ اپنے اپنے ملک کی مادّی تقسیم میں اپنا حصہ لینے لگیں تو یہ ایک منافقانہ روش ہوگی۔ یعنی اپنے نظری یا اعتقادی موقف میں تبدیلی کا اعلان کیے بغیر خاموشی کے ساتھ اپنے عملی موقف کو بدل لینا۔ اس قسم کی روش ایک افادی(utilitarian) روش قرار پائے گی، نہ کہ کوئی اصولی روش۔
اس طرح دوعملی کی روش اختیار کرنا کوئی سادہ بات نہیں۔ اس کے نقصانات بے حد سنگین ہیں۔ ایسا کرنے کی صورت میں یہ ہوگا کہ مسلمانوں کے اندر سے بااصُول کردار کا مزاج ختم ہوجائے گا۔ اُن کا روحانی ارتقاء(spiritual development) رک جائے گا۔ اُن کے اندر فکری عمل (intellectual process) جاری نہ ہوسکے گا۔ اُن کی شخصیت ارتقائی منازل طے کرنے سے محروم ہوجائے گی۔ وہ اُس عظیم نعمت سے لذت نا آشنا ہوجائیں گے جس کو قرآن میں ازدیادِ ایمان (الفتح ۴) کہا گیا ہے۔ اس صورت حال کا آخری نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ جمود ذہنی کا شکار ہو کر رہ جائیں گے۔ وہ اس قابل نہ رہیں گے کہ وہ علم و فکر کے اعتبار سے دنیا میں کوئی بڑا کارنامہ انجام دے سکیں۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ ہر پیغمبر کی امت کو خدا کی طرف سے الگ الگ شریعت اور منہاج دیا گیا(المائدہ ۴۸)۔ یہ بات بظاہر امت کے حوالے سے کہی گئی ہے، مگر وہ حقیقۃً زمانہ کی نسبت سے مقصود ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر زمانہ کے لوگوں کو ان کے زمانی حالات کی نسبت سے انہیں شریعت اور منہاج عطا کیا گیا۔ اسی لیے فقہ میں یہ متفقہ مسئلہ بنا ہے کہ: تتغیر الاحکام بتغیر الزمان والمکان (زمانہ اور مقام کے بدلنے سے احکام بدل جاتے ہیں)۔
تشریع الٰہی کا یہ اصول صرف پیغمبر اسلام سے پہلے کے لوگوں کے لیے نہیں تھا۔ بلکہ وہ پیغمبراسلام کے بعد آپ کی امت کے لیے بھی اسی طرح مطلوب ہے۔ صرف اس فرق کے ساتھ کہ پچھلی امتوں کو براہ راست پیغمبر کے ذریعہ اس تبدیلیٔ حکم کی تعلیم دی جاتی تھی۔ اور اب ختم نبوت کے بعد علماء کے اجتہاد کے ذریعہ تبدیلی ٔ حکم کا یہ کام انجام پائے گا۔
اس تشریعی اصول کے مطابق، بجا طورپر کہا جاسکتا ہے کہ قومیت (nationality) کے معاملہ میں موجودہ زمانہ میں جو تصور عالمی سطح پر رائج اور مسلّم ہوگیا ہے اس کی روشنی میں اجتہاد کرکے دوبارہ اس معاملہ میں شریعت کا موقف متعین کیا جائے گا۔ اور یہ موقف وہی ہے جس کا اعلان ۱۹۴۷ سے پہلے کے زمانہ میں مولانا سید حسین احمد مدنی نے کیا تھا۔
یہ شرعی موقف یہ ہے کہ موجودہ زمانہ کے مسلمان عقیدہ اور مذہب کے اعتبار سے بلا شبہہ ایک عقیدہ اور ایک مذہب رکھتے ہیں مگر جہاں تک قومیت کا تعلق ہے وہ ملک کی نسبت سے متعین ہوگی۔ یعنی ہر ملک کے مسلمانوں کی قومیت وہی قرار پائے گی جو اس ملک کے دوسرے گروہوں کی ہے۔
واپس اوپر جائیں

کفر اور کافر کا مسئلہ

بیسویں صدی میں کمیونسٹ نظریہ بڑے پیمانہ پر ساری دنیا میں پھیلا۔ اس کے تحت انسانی سماج کو دو طبقوں میں بانٹ دیا گیا۔ ایک محنت کش طبقہ (working class) اور دوسرا بورژوا طبقہ۔
بورژوا (bourgeois) ایک فرانسیسی لفظ ہے۔ یہ لفظ اپنے ابتدائی مفہوم کے اعتبار سے متوسط طبقہ کے لیے بولا جاتا تھا۔ مگر مارکسی فلسفہ کے زیر اثر وہ ایک تحقیری (derogatory) لفظ بن گیا۔ اس نظریہ کے تحت سماج دو طبقوں میں بٹ گیا۔ ایک محنت کش طبقہ جو ہر اعتبار سے معصوم طبقہ کی حیثیت رکھتا تھا اور دوسرا بورژوا طبقہ جو مارکسی تصور کے مطابق، سرمایہ دار طبقہ (capitalist class) کے ہم معنٰی تھا اور جو مارکس کے مطابق، ہر قسم کی سماجی اور اقتصادی برائی کی جڑ تھا۔
ایسا ہی کچھ معاملہ کافر کے لفظ کے ساتھ پیش آیا ہے۔ کافر کا لفظ ابتدائی طورپر صرف ایک سادہ مفہوم رکھتا تھا۔ لغوی اعتبار سے کافر کے معنٰی ہیں، انکار کرنے والا۔ مگر بعد کے زمانہ میں کافر کا لفظ ایک تحقیری لفظ (derogatory word) بن گیا۔ موجودہ زمانہ میں نظری اعتبار سے یہ غالباً مسلم اور غیر مسلم کے درمیان سب سے بڑا نزاعی مسئلہ ہے جس سے موجودہ زمانہ کے مسلمان دوچار ہیں۔ ایک مثال سے اس معاملہ کی وضاحت ہوگی۔ اقبال کا خاندان پہلے ایک برہمن خاندان تھا۔ بعد کو وہ لوگ اسلام میں داخل ہوگئے۔ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اقبال نے اپنے ایک شعر میں کہا ہے:
مرا بنگر کہ در ہندوستاں دیگر نمی بینی برہمن زادۂ دانائے رمز روم و تبریز است
اس شعر میںبرہمن زادہ کا لفظ سننے والوں کو برا نہیں لگتا۔ ابتدائی مفہوم کے اعتبارسے برہمن زادہ اور کافر زادہ دونوں ہم معنٰی الفاظ ہیں۔ لیکن اگر اقبال کے اس شعر کو بدل کر اس طرح کہا جائے:
کہ کافر زادۂ دانائے رمزروم و تبریز است
اگر شعر میں ایسی تبدیلی لائی جائے تو تمام اقبال پسند لوگ غصہ ہو جائیں گے۔ کیوں کہ برہمن ایک سادہ لفظ ہے جب کہ کافر استعمال کے اعتبارسے ایک تحقیری لفظ بن گیا ہے۔
کمیونسٹ اور بورژوا کی تقسیم نے بیسویں صدی میں غیر کمیونسٹ دنیا کو کمیونسٹ لوگوں سے متنفّر کردیا تھا۔ یہی معاملہ اب مسلمانوں کے ساتھ پیش آیا ہے۔ مسلمانوں کی طرف سے مومن اورکافر کی تقسیم نے غیرمسلم دنیا کو مسلمانوں سے بیزار کردیا ہے۔ حتٰی کہ اب اشوک سنگھل اور پروین توگڑیا جیسے لوگ یہ مانگ کرنے لگے ہیں کہ اسلام پر نظر ثانی کرو اور کافر کے لفظ کو اسلام کی لغت سے خارج کرو۔ جب تک اسلام میں یہ ریفارم نہ لایا جائے، مسلم اور غیر مسلم معتدل طورپر ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔
مگر تجربہ بتاتا ہے کہ یہ مسئلہ صرف اشوک سنگھل اور پروین توگڑیا جیسے انتہا پسند لوگوں کا نہیں ہے بلکہ اب وہ خود مسلمانوں کا مسئلہ بن چکا ہے۔ آج کے صنعتی سماج میں مسلم اور غیر مسلم دونوں ایک ساتھ مل کر رہتے ہیں۔ ایسی حالت میں تعلیم یافتہ مسلمان عام طورپر یہ محسوس کررہے ہیں کہ وہ ’’کافر‘‘ کے رواجی تصور کے ساتھ مشترک سماج میں معتدل طورپر نہیں رہ سکتے۔ وہ شعوری یا غیرشعوری طورپر یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ اسلام نے موجودہ زمانہ میں اپنا ریلونس (relevance) کھو دیا ہے۔ اُن کی سمجھ میں نہیں آتا کہ ایسے اسلام کو لے کر وہ آج کے سماج میں عزت کے ساتھ کس طرح رہیں۔
دہلی میں ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمان ہیں۔ ان سے اکثر میری ملاقات ہوتی رہتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میری پیدائش اگرچہ مسلمان کے گھر میں ہوئی مگر اب اسلام پر میرا عقیدہ باقی نہیں رہا۔ وہ کہتے ہیں کہ میرا مذہب ڈیموکریسی (جمہوریت) ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلام انسانیت کو مومن اور کافر کے دو نامساوی طبقوں میں بانٹتا ہے۔ جب کہ ڈیموکریسی سارے انسانوں کو برابر کا درجہ دیتی ہے۔انہوں نے ایک بار مجھ سے کہا کہ میرے یہاں جب کوئی بچہ پیدا ہوگا تو میںاس کے کان میں اذان نہیں دلواؤں گا بلکہ کسی پروفیسر کو بلاؤں گا جو بچہ کے کان میں کہے گا—ڈیموکریسی، ڈیموکریسی، ڈیمو کریسی۔
حقیقت یہ ہے کہ کافر کا مسئلہ صرف غیرمسلم لوگوں کامسئلہ نہیں۔ اب جدید سماج میں وہ بڑے پیمانہ پر خود مسلمانوں کا مسئلہ بن چکا ہے۔ ضرورت ہے کہ اس مسئلہ کو گہرائی کے ساتھ سمجھا جائے اور اس کے صحیح مفہوم کو سامنے لا یا جائے تاکہ اسلام لوگوں کو وقت کا مذہب معلوم ہو اور مسلم اور غیر مسلم دونوں جدید سماج میں معتدل طورپر دوسروں کے ساتھ رہ سکیں۔
گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ سارا معاملہ غلط فہمی پر مبنی ہے۔ رواجی تصور میں یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ کافر اور غیر مسلم دونوں ہم معنٰی الفاظ ہیں۔ جو لوگ مسلمان نہیں وہ سب کے سب کافر ہیں۔ یہ بلا شبہہ ایک غلط تصور ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کافر کا لفظ غیر مسلم کے مترادف نہیں:
The word Kafir is not synonymous with non-Muslim.
داعی اور مدعو کارشتہ
شریعت کے اعتبار سے، مسلمان کی حیثیت داعی کی ہے اور غیر مسلم کی حیثیت مدعو کی۔ یہ رشتہ لازم کرتا ہے کہ داعی اپنے مدعو کے ساتھ ہمیشہ معتدل تعلق قائم رکھے۔ کہا جاتا ہے کہ تاجر کو ہمیشہ کسٹمر فرینڈلی (customer friendly) ہونا چاہئے۔ اسی طرح داعی کا فارمولا یہ ہونا چاہئے کہ وہ ہمیشہ مدعو فرینڈلی ہو۔
Be always Mad‘u friendly.
مدعو کے حق میں داعی کے اندر خیر خواہانہ جذبات ہونے چاہئیں۔اگر داعی کے اندر مدعو کے لیے یہ مطلوب جذبات موجود ہوں تو وہ ہر گز اس کو پسند نہیں کرے گا کہ وہ ایسے الفاظ بولے جس سے مدعو کے دل میں اُس کے خلاف نفرت پیدا ہوجائے۔ حتیٰ کہ اگر وہ سچا داعی ہے تو اپنے دل میں بھی وہ ایسی بات نہیں سوچے گا۔ دعوت کا جذبہ نفرت کا قاتل ہے۔ داعی کا دل ایک درد مند دل ہوتا ہے۔ ایسے دل کے اندر محبت اور خیر خواہی کے سوا کوئی اور چیز پرورش نہیں پاسکتی۔
قدیم زمانہ میں آرین لوگ جب انڈیا میںآئے تو یہاں کے مقامی لوگوں کو انہوں نے ملچھ کہا۔ اسی طرح مسیحی علماء نے مسلمانوں کو اپنی کتابوں میں انفڈل (Infidels) لکھا۔ ملچھ اور انفڈل دونوں تحقیری الفاظ (derogatory words) ہیں۔ کہنے والا ان الفاظ کو بول کر خوش ہوتا ہے مگر جس کے بارے میں یہ لفظ بولا گیا ہے وہ اس کو سخت ناپسند کرتا ہے۔ اس معاملہ میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ ایسے الفاظ استعمال کئے جائیں جن میںکوئی تحقیری مفہوم (derogatory sense) نہ ہو بلکہ وہ سادہ طورپر صرف اظہار واقعہ کے ہم معنٰی ہو۔
بد قسمتی سے اس معاملہ میں مسلم علماء احتیاط کا پہلو اختیار نہ کرسکے۔وہ اپنی کتابوں میں اور قرآن کے ترجموں میںکافر کے لیے بے تکلف انفڈل کا لفظ استعمال کرنے لگے۔ مثال کے طورپر مولاناعبدالماجد دریابادی نے اپنے انگریزی ترجمۂ قرآن میں قل یا ایہا الکافرن کا ترجمہ ان الفاظ میں کیا ہے:
Say thou: infidels (4:535)
در اصل مسلم علماء اور رہنماؤں کی اسی قسم کی غیر احتیاطی باتیں ہیں جن کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ہندستان میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان سخت تناؤ پیدا ہوگیا ہے جس کا نتیجہ مختلف ناخوشگوار صورتوں میں سامنے آتا رہتا ہے۔
یہی غلطی قرآن کے اُردو اور فارسی مترجمین نے بھی کی ہے۔ قرآن کے بہت سے ترجمے شائع ہوئے ہیں۔ مگر غالباً صرف ایک مترجم (شاہ عبد القادر) کو چھوڑ کر تمام مترجمین نے اس معاملہ میں بے احتیاطی کا انداز اختیار کیا ہے۔ قل یاایہا الکافرون کے کچھ ترجمے یہاں نقل کیے جاتے ہیں:
بگو اے کافراں (شاہ ولی اللہ)
کہہ اے کافرو (شاہ رفیع الدین)
آپ ان کافروں سے کہہ دیجئے (اشرف علی تھانوی)
کہہ دو کہ اے کافرو (ابو الاعلیٰ مودودی)
کہہ دو، اے کافرو (امین احسن اصلاحی)
تو کہہ، ائے منکرو (شاہ عبدالقادر)
اس قرآنی آیت کے تحت اکثر مترجمین نے اسی قسم کے ترجمے کئے ہیں۔ اس آیت میں کافر کا ترجمہ درست نہیں۔ بالفرض وہ خالص لغوی اعتبار سے غلط نہ ہو تب بھی وہ دوسری قوموں کے لیے ایک قابل اعتراض لفظ ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس ترجمہ سے احتراز کیا جائے۔ پھر یہ صرف ترجمہ کی بات نہیں، اسی ترجمہ کی بنیاد پر ذہن بنتا ہے اور تقریر و تحریر میںاس کا اظہار ہوتا ہے۔ اس طرح یہ ترجمہ پوری ملت کی منفی ذہن سازی کا سبب بن جاتا ہے۔یہ ترجمہ ہم اور وہ (we and they) کا ذہن پیدا کرتا ہے۔ اور اس قسم کا تقسیمی ذہن دعوتی اعتبار سے درست نہیں۔
جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا،غالباً ایک ہی عالم ہیں جنہوں نے قرآن کے ان الفاظ کا درست ترجمہ کیا ہے اور وہ شاہ عبد القادر دہلوی ہیں۔ شاہ عبد القادر صاحب کا اُردو ترجمہ تمام علماء کے نزدیک نہایت مستند مانا گیا ہے۔ انہوں نے مذکورہ آیت کا ترجمہ ’منکرو‘ کیا ہے۔
قرآن کی سورہ نمبر ۱۰۹ میں قل یاایہا الکافرون (کہو کہ ائے منکرو) کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ طرزِ خطاب پورے قرآن میں صرف ایک بار اسی ایک سورہ میں استعمال ہوا ہے۔ کافر یا کفّار یا کافرون کے الفاظ تو قرآن میںمتعدد بار آئے ہیں۔ مگر ایہا الکافرون جیسے متعین خطاب کی صورت میںاس کا استعمال قرآن میں کسی اور مقام پر نہیں ہوا ہے۔
مفسرین کی رائے کے مطابق، یہاںالکافرون میں الف لام عہد کا ہے۔ یعنی وہ ایک گروہ خاص کے لیے مشخّص طورپر آیا ہے، نہ کہ عمومی طورپر ہر اُس شخص کے لیے جو مسلم گروہ سے باہر ہو۔ ذیل میں کچھ مفسرین کے اقوال درج کیے جاتے ہیں:
(قل یٰایہا الکافرون) المخاطبون کفرۃ مخصوصون قد علم اللہ انہم لایؤمنون (تفسیر النسفی)
و عنی بالکافرین قوماً معینین لا جمیع الکافرین (تفسیر القرطبی)
خطاب لجماعۃ مخصوصۃ (تفسیر المظہری)
قل یٰایہا الکافرون ایک مخصوص خطاب ہے، اُس کو عمومی طورپراستعمال نہیںکیا جاسکتا۔ یعنی قل یٰایہا الکافرون سے مراد ہمیشہ کے لیے صرف قدیم منکرینِ قریش رہیں گے جو پیغمبراسلام کے معاصر تھے اور پیغمبرانہ اتمام حجت کے باوجود، جنہوں نے پیغمبر کی بات کو ماننے سے انکار کیا۔ زمانۂ نبوت کے بعد کے لوگوں کو ایہا الانسان کے لفظ سے خطاب کیا جائے گا، نہ کہ ایہا الکافرون کے لفظ سے۔ اب یہی انداز ِخطاب ہمیشہ جاری رہے گا۔ یہاں تک کہ قیامت آجائے۔
کافر کا مفہوم
عربی زبان میں کفر کے معنٰی انکار کے ہیں اور کافرکا مطلب ہے، انکار کرنے والا۔ اسلام کے مطابق، کافر ایک کردار ہے، کافر کسی قوم کا اجتماعی لقب نہیں:
Kafir is an individual character rather than a group title of a certain race or community.
کافر وہ ہے جو منکر ہو (One who refuses to accept) ۔قرآن کے اُردو ترجموں میں سب سے زیادہ صحیح ترجمہ شاہ عبد القادر دہلوی کا مانا جاتا ہے۔ اُنہوں نے اپنے ترجمۂ قرآن میں کافر کا ترجمہ منکر کے لفظ سے کیا ہے۔ یہی اس لفظ کا صحیح ترجمہ ہے۔ قرآن کے انگریزی مترجمین اکثر کافر کا ترجمہ اَن بلیور(unbeliever) کے لفظ سے کرتے ہیں۔ یہ ترجمہ صحیح نہیں۔ اَن بلیور کا مطلب غیرمومن یا غیر معتقد ہوتاہے۔ جب کہ کافر کا مطلب صرف غیر معتقد نہیں ہے بلکہ اس سے مراد وہ شخص ہے جو اتمام حجت کے باوجود ماننے سے انکار کرے۔
دور اوّل میں جب قرآن کی ابتدائی آیتیں اتریں تو ان میں پیغمبر کے مخاطبین کو کافر نہیں کہا گیا بلکہ ان کے لیے انسان جیسے الفاظ استعمال ہوئے۔ مثلاً قرآن میں پیغمبر کو خطاب کرتے ہوئے کہاگیا کہ: یا ایہا الرسول بلغ ما أنزل الیک من ربک…واللہ یعصمک من الناس۔اس آیتمیں دیکھئے۔ یہاں یعصمک من الناس(خدا تمہیں لوگوں سے محفوظ رکھے گا) کے الفاظ آئے ہیں۔ایسا نہیںہوا کہ یہاں یعصمک من الکفار کا لفظ استعمال کیا جائے۔ قرآن میں کثرت سے اس طرح کی آیتیں ہیں جو بتاتی ہیں کہ ہر گروہ کے لیے اصلاً انسان جیسا عمومی لفظ استعمال کیا جائے گا۔ کافر کا لفظ صرف ان افراد تک مخصوص رہے گا جن کے لیے خدا نے خود کافر کا لفظ استعمال کیا ہو۔ کافر کا لفظ ایک خدائی اعلان ہے، وہ انسان کا دیا ہوا خطاب نہیں۔
فعل اور فاعل کا فرق
قرآن کی سورہ نمبر ۱۰۹کی پہلی آیت یہ ہے: قل یاایہا الکافرون (الکافرون ۱) اس آیت میںالکافرون سے مراد قدیم مکّہ کے منکرین قریش ہیں۔ ان الفاظ میں قریش کے منکرین کے بارہ میں اتمام حجت کے بعد یہ اعلان کیا گیا کہ تم لوگ اللہ کی نظر میںکافر ہوچکے ہو۔ قرآن میںاس طرح تعین اور تشخص کی زبان میں کسی اور گروہ کے کافر ہونے کا اعلان نہیں کیا گیا۔
قرآن میں دوسرے مقامات پر کفر اور کافر کے الفاظ آئے ہیں۔ مثلاً فرمایا: فمنکم کافر ومنکم مومن(التغابن ۲)اسی طرح ارشاد ہوا ہے: فمنہم من آمن و منہم من کفر (البقرہ ۲۵۳) ان دوسری قسم کی آیتوں میںفعل کا ذکر ہے مگر مشخّص طورپر فاعل کا ذکر نہیں۔ یعنی یہ تو کہا گیاہے کہ فلاں فعل کا ارتکاب کفر ہے یافلاں فعل کا ارتکاب کرنے والا خدا کی نظر میں کافر بن جاتاہے۔ مگر ان دوسری قسم کی آیتوں میں ایسا نہیں کیا گیا ہے کہ کسی گروہ کو مشخص اور متعین کرکے اُس کے بارہ میں یہ اعلان کیا جائے کہ فلاں فلاں گروہ کافر ہیں۔
قرآنی بیان میں اس فرق سے ایک اصول معلوم ہوتا ہے اور وہ اُصول یہ ہے کہ یہ کہنے کا حق ہر داعی کو ہے کہ فلاںفعل کا ارتکاب کفر ہے۔ مگر یہ حق کسی بھی داعی یا عالم کو نہیںکہ وہ مشخّص طورپر یہ اعلان کرے کہ فلاں گروہ یا فلاں قوم کافر ہے۔
ایک متوازی مثال سے اس معاملہ کی مزید وضاحت ہوتی ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ : من ترک الصلاۃ متعمداً فقد کفر۔ دوسری حدیث میںیہ الفاظ ہیں کہ بین العبد و بین الکفر ترک الصلاۃ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی مسلمان جان بوجھ کرمسلسل نماز ترک کرے تو وہ شریعت کے مطابق، کافر ہو جاتا ہے۔ اس حدیث کو لے کر کوئی مصلح اگر یہ کرے کہ وہ عمومی طور پر ترغیب و ترہیب کے انداز میں مسلمانوں کو نماز کی طرف متوجہ کرے اور ترک صلاۃکی وعید بتائے تو اُس کا ایسا کرنا بالکل جائز ہوگا۔ لیکن اگر کوئی مصلح ایسا کرے کہ وہ نماز نہ پڑھنے والے مسلمانوں کی نام بنام ایک فہرست تیار کرے اور اس فہرست کو لے کر مشخّص طورپر یہ اعلان کرے کہ فلاں فلاں مسلمان ترک صلاۃ کی بناپرکافر ہو چکے ہیںتو اُس کا ایساکرنا بالکل غلط ہوگا۔
ٹھیک اسی طرح کوئی داعی یا مصلح قرآن کی آیتوں کو لے کر یہ مسئلہ بیان کرسکتا ہے کہ وہ کون سے اعمال ہیں جن کا ارتکاب کرنے سے کوئی شخص اللہ کی نظر میں کافر ہو جاتا ہے۔ لیکن اُس کا ایسا کرنا اپنی حد سے تجاوز ہوگا کہ وہ غیر مسلم افراد یا گروہوں کے نام لے کر یہ اعلان کرے کہ فلاں فلاں غیر مسلم لوگ کافرہیں۔
اس معاملہ میں فعل اور فاعل کے درمیان فرق کرنا لازمی طورپر ضروری ہے۔ یہ حق صرف اللہ تعالیٰ کو ہے کہ وہ مشخّص طورپر فاعل کا اعلان کرے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان صرف ایک بار قدیم منکرینِ قریش کے بارہ میں کیا ہے جن کے اوپر پیغمبر نے براہ راست اتمام حجت کیا تھا۔ بقیہ انسانوں کے بارہ میں وہ آخرت میں اعلان فرمائے گا۔ ہمارا کام صرف دعوت دینا ہے، نہ کہ لوگوں کے کافر ہونے کا اعلان کرنا۔
کریڈٹ کا مسئلہ
کافر یا منکر کا لفظ بیک وقت دو کردار سے تعلق رکھتا ہے۔ ایک وہ جس نے کوئی بات پیش کی ہو۔ دوسرا وہ جس نے اس پیش کی ہوئی بات کا انکار کیا ہو۔ ان میں سے ایک کردار کو داعی کہہ سکتے ہیںدوسرے کردار کو مدعو کہہ سکتے ہیں۔
کافر ایک کردار ہے، کافر کسی گروہ کا قومی لقب نہیں۔ کسی گروہ کا کافر قرار پانا ایک بے حد غیرمعمولی واقعہ ہے۔ اس کا مطلب ایک کو انکار کی بنا پر ڈس کریڈٹ (discredit)کرنا اور دوسرے کو اس کے دعوتی عمل کی بنا پر کریڈٹ دینا ہے۔ کریڈٹ اور ڈس کریڈٹ کا یہ معاملہ فتویٰ یا بیان کے ذریعہ نہیں ہوتا۔ یہ ایک نہایت سنجیدہ دعوتی محنت کا طالب ہے۔
اس دعوتی محنت کا معیار ی نمونہ پیغمبر اسلام کا تیرہ سالہ مکی دور ہے۔ پیغمبر اسلام نے جب مکہ کے لوگوں میں دعوتی کام کا آغاز کیا تو آپ کے خطاب کے الفاظ یہ تھے: یا ایہا الانسان۔ اس طرح تیرہ سال لوگوں کو بحیثیت انسان خطاب کرنے کے بعد جب لوگ جان بوجھ کر انکار پر قائم رہے تو آخر میں قرآن کی یہ آیت اتری: قل یا ایہا الکافرون۔اُس وقت بھی یہ ایک براہِ راست خدائی اعلان تھا، نہ کہ خود پیغمبر کا اپنا خطاب۔
اس اصول کے مطابق، ہندستان کے ہندو یا دوسرے ملکوں کے غیر مسلم کی حیثیت اسلامی نقطۂ نظر سے صرف انسان کی ہے۔ ان میں سے کسی کو بھی کافریا کفار نہیں کہا جاسکتا۔ کیوں کہ ہندوؤں اور موجودہ زمانہ کے دوسرے غیر مسلموں پر یہ ضروری شرط پوری نہیں ہوئی کہ انہیں مکّی معیار کی تیرہ سالہ دعوت دی جائے اور وہ پھر بھی انکار کریں۔ اسی طرح اُنہیں منکر قرار دینا بھی درست نہیں۔
مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان جو نزاعات ہیں اور مسلمانوں کو غیر مسلموں کے بارے میں جو شکایتیں ہیں وہ سب کی سب قومی اور مادی ہیں۔ یہ تمام تر اسی طرح کے دنیاوی جھگڑے ہیں جو خود غیر مسلم گروہوں میں ایک دوسرے کے خلاف پیش آتے ہیں۔ اِن نزاعات کو کافر اور مسلم کے درمیان دینی نزاع نہیں کہا جائے گا بلکہ اس کودو گروہوں کے درمیان دنیوی نزاع کہا جائے گا۔ ان قوموں پر اتمام حجت کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ مسلمان اُن سے ان دنیوی جھگڑوں کو یک طرفہ طورپر ختم کر دیں۔
کفر کا تحقق
کسی شخص کے بارے میں کب یہ متحقق (establish) ہوگا کہ وہ منکر یا انکار کرنے والا بن چکا ہے۔ اس سوال کا جواب خود قرآن میںموجود ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، قرآن کے نزول کا آغاز ۶۱۰ء میں مکہ میںہوا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کے ذریعہ مکہ کے لوگوں تک توحید کی دعوت پہنچاتے رہے۔ اس دعوتی مہم میں آپ نے کبھی ایسا نہیں کیا کہ اپنے مخاطبین کو کافر کہہ کر خطاب کریں۔اس دوران میںجو آیتیں اتریں ان سب میں انسان جیسے الفاظ تھے۔ آپ نے انہیں اپنی قوم کا حصہ قرار دیتے ہوئے انہیں اپنا پیغام پہنچایا۔
دعوت کی یہ مہم آپ نے اس طرح چلائی کہ آپ گہرے طورپر ان کے خیر خواہ بنے رہے۔ آپ نے ان کی ایذاؤں پر یکطرفہ صبر کیا۔ آپ نے ان سے کسی بھی قسم کا کوئی مطالبہ نہیں کیا۔ آپ نے ان سے کبھی بھی کوئی ایسی بات نہیں کہی جس سے آپ کے اور ان کے درمیان مادّی نوعیت کی کوئی نزاع قائم ہو جائے۔ آپ یک طرفہ طورپر ہمیشہ اُن کے خیر خواہ بنے رہے۔ آپ کو ان کی طرف سے طرح طرح کی مصیبتیں پہنچیں مگر آپ ہمیشہ ان کے لیے دعا کرتے رہے۔
دعوت کی یہ صبرآزما جدوجہد تیرہ سال تک چلتی رہی۔ تیرہ سال کے بعد بھی پیغمبر اسلام نے اپنی زبان سے ان کے لیے کبھی کافر کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ آخر میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ آیت اتری کہ : قل یا ایہا الکفرون (تم کہہ دو کہ اے انکار کرنے والو) ۔ اس سے معلوم ہوا کہ پیغمبرانہ معیار کی تیرہ سال کی جدوجہد کے بعد وہ وقت آتا ہے جب کہ مخاطبین کا انکار ثابت ہو جائے اور ان کے بارے میں یہ کہا جاسکے کہ اے انکار کرنے والو۔ اس قسم کے دعوتی کورس سے پہلے کسی کو منکر یا کافر قرار دینا جائز نہیں۔اب جب کہ پیغمبرانہ معیار کی تیرہ سالہ جدوجہد کے بعد وہ وقت آتا ہے جب کہ کسی کو کافر یا منکر قرار دیا جاسکے تو عام لوگوں کے لیے تو ایک سو تیرہ سال کی مدت بھی اس کام کے لیے ناکافی ہوگی۔
کفر کی اصطلاح
مکّی دور میں قرآن میں بعض ایسی آیتیں اُتریں جن کاتعلق بیرون عرب کے غیرمسلموں سے تھا۔ مثلاً قرآن کی سورہ نمبر ۳۰ کے آغاز میں رومیوں (عیسائیوں) کا ذکر ہے جو وقتی طورپر ایرانیوں سے مغلوب ہوگئے تھے۔ مگر آیت میں یہ نہیں کہا گیا کہ غلبت الکفار فی ادنی الارض (روم کے کفار جو مغلوب ہوگئے ہیں) بلکہ یہ فرمایا کہ غلبت الروم فی ادنی الارض (رومی جومغلوب ہوگئے ہیں)۔ اسی طرح سورہ نمبر ۱۰۵ میں یمن کے غیر مسلم حاکم ابرہہ کا ذکر ہے۔ مگر قرآن میں اُس کا ذکر یمن کے ایک کافر حکمراں کے طورپر نہیں کیا گیا بلکہ اصحابِ فیل کے لفظ سے اُس کا ذکر کیا گیا۔
قدیم مکّہ کے منکرین کے لیے قرآن میں کفر اورکافر کے الفاظ استعمال کیے گئے تھے۔ مگر ایسا نہیں ہوا کہ اس کے بعد اُس زمانہ کے اہل اسلام تمام غیر مسلموں کو کافر کے لفظ سے پکارنے لگیں۔ مثلاً ہجرت کے بعد رسول اور آپ کے اصحاب مدینہ آئے تو انہوں نے یہاںکے لوگوں کو کافر کے لفظ سے خطاب نہیںکیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یثرب پہنچ کر وہاں کے لوگوں کو جو پہلا خطاب کیا اس میںآپ نے انہیں اے لوگو(ایہا الناس، اتقوا النار ولو بشق تمرۃ) کے لفظ سے خطاب کیا۔اسی طرح مدینہ کے باہر ملک کے اطراف میں بہت سے غیرمسلم قبیلے موجود تھے۔ مگر اُن کو بھی کافرانِ عرب یا کافر قبائل کا نام نہیں دیا گیا۔ بلکہ اُن کے معروف نام سے اُنہیں پکارا گیا۔ مثلاً اہلِ سقیف، اہل نجران، اہل بحرین، وغیرہ۔
تاریخ بتاتی ہے کہ دور اول میں اہل اسلام جب عرب سے نکل کر ایشیا اور افریقہ کے ملکوں میں داخل ہوئے تو یہاں مختلف مذہب کے ماننے والے لوگ آباد تھے۔ دو راول کے مسلمانوں نے ایسا نہیں کیا کہ ان غیر مسلموں کو کافر کے نام سے پکاریں۔ اُنہوں نے ہر ایک کو اُس کے اپنے اختیار کردہ نام سے پکارا۔ مثلاً شام کے مسیحیوں کو مسیحی کہا، فلسطین کے یہودیوں کو یہودی کہا، ایران کے مجوسیوں کو مجوسی کہا، افغانستان کے بودھوں کو بودھ (بوذا) کہا، وغیرہ۔
اسی طرح دور اول کے یہ مسلمان جب ہندستان آئے تو یہاں بھی اُنہوں نے یہی کیا۔ اُنہوں نے یہاں کے لوگوں کو ہندو کہا جو سندھو کا عربی تلفظ ہے۔ ابو الریحان البیرونی (وفات ۱۰۴۸ء) نے ہندستان کا سفر کیا۔ اُس نے سنسکرت زبان سیکھی اور ہندستان کے بارہ میں ایک عربی کتاب تاریخ الہند لکھی۔ اُس میں وہ یہاں کے غیر مسلموں کو ہندو کہتا ہے، نہ کہ کافرانِ ہند۔
ہزا ر سال سے زیادہ مدت تک یہی رواج باقی رہا۔ اب بھی کثرت سے ہندستان اور پاکستان کے علاوہ بقیہ دنیا میں یہی رواج بالفعل قائم ہے۔ مسلمان امریکا اور یورپ کے مختلف ملکوں میں آباد ہیں۔ وہاں اُن کا سابقہ غیر مسلم قوموں سے پڑتا ہے۔ مگر ہر ایک کو وہ اُن کے اپنے اختیار کردہ نام سے پکارتے ہیں، وہ اُنہیں کافر یا کفار نہیں کہتے۔
چند تاریخی مثالیں
جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا، قرآن میں ایہا الکافرون کے انداز میں خطاب کی مثال صرف منکرین مکّہ کے لیے آئی ہے اور وہ بھی تیرہ سال کے پیغمبرانہ اتمام حجت کے بعد۔ منکرین مکہ کے سوا کسی اور کو اس طرح مشخّص انداز میں خطاب نہیں کیا گیا۔
پیغمبر اسلام ﷺنے جب مکہ میں دعوت کا آغاز کیا تو ابتدائی دور میں آپ نے اس طرح خطاب نہیں کیا کہ یا ایہا الکفار۔ بلکہ قرآن میں یہ آیت اُتری:یا ایہاالانسان ما غرّک بربک الکریم۔ ہجرت کے بعد صحیفۂ مدینہ کا ایک جملہ یہ تھا: للیہود دینہم و للمسلمین دینہم۔ ایسا نہیں ہوا کہ یہ لکھا جائے کہ للکفار دینہم وللمسلمین دینہم۔ فتح مکہ کے بعد عرب کے مشرک قبائل کے وفود رسول اللہ سے گفت وشنید کے لیے مدینہ آئے۔ مگر یہاں بھی خطاب کا انداز یہی تھا: مثلاً یمن کے لوگ مدینہ آئے تو آپ نے فرمایا کہ: اتاکم اہل الیمن۔ اس کے بجائے آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ اتاکم کفار الیمن۔ اسی طرح رسول اللہ ﷺنے اطرافِ عرب کے حکمرانوں کو دعوتی مکاتیب روانہ کیے تو اُن کا انداز بھی یہی تھا۔ مثلاً آپ نے رومی حکمراں کو جو خط لکھا اُس کا پہلا جملہ یہ تھا: من محمد بن عبد اللہ الی ہرقل عظیم الروم۔ اس کے بجائے آپ نے یہ نہیں لکھا کہ الی ہرقل کافر الروم۔ حجۃ الوداع کے خطبہ میں آپ نے صحابہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ان اللہ بعثنی کافۃ للناس فادّوا عنی۔ اس میں بھی آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ ان اللہ بعثنی کافۃ للکفار۔ حضرت عمر فاروق کے زمانہ میں صحابہ کی فوج ایران میں داخل ہوئی تو روایات کے مطابق، وہاں ایران کے غیر مسلم حکمراں کوخطاب کرتے ہوئے ایک صحابی نے اپنے آنے کا مقصد بتاتے ہوئے کہا: لنخرج العباد من عبادۃ العباد الی عبادۃ اللہ۔ اُنہوں نے ایسا نہیں کیا کہ یہ کہیں کہ لنخرج الکفار من عبادۃ الکفار الی عبادۃ اللہ۔
اس طرح دور اوّل کے مسلمان جب عرب سے نکل کر بیرونی ملکوںمیں پھیلے تو کسی بھی ملک میں اُنہوں نے لوگوں کو کافر یا کفار کے الفاظ سے خطاب نہیں کیا بلکہ ہر قوم کو اُسی لفظ سے خطاب کیا جس لفظ کو اُس نے خود اختیار کر رکھا تھا۔ مثلاً مسیحی کو مسیحی، یہود کو یہود، مجوس کو مجوس، بَودھ کو بَودھ، وغیرہ۔
کافر کا تحقق اُس وقت ہوتا ہے جب کہ متعلقہ شخص کے اوپر کامل اتمامِ حجت کیا جاچکا ہو اور اس اتمام حجت کا ماڈل صرف ایک ہے۔ اور وہ پیغمبر اسلام کے دور میں مکّہ کی تیرہ سالہ دعوتی جدو جہد ہے۔ یہ تیرہ سالہ دعوتی عمل ہمیشہ کے لیے دعوت یا اتمام حجت کے ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے۔مزید یہ کہ اتمامِ حجت کے بعد بھی متعین طورپر کسی کے کافر ہونے کا اعلان خدا کی طرف سے ہوگا، نہ کہ داعی کی طرف سے۔
قریش کی مثال
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے سال پیدائش ۵۷۰ میں ایک بڑا واقعہ ہوا۔ یمن کے عیسائی حاکم ابرہہ نے ایک بڑی فوج کے ساتھ مکہ کی طرف اقدام کیا۔ اُس کا ارادہ تھا کہ وہ کعبہ کو ڈھادے۔ مگر اللہ کی خصوصی مدد کی بنا پر اُسے کامیابی نہیںملی۔ قرآن کی سورہ نمبر ۱۰۵ میں اس تاریخی واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
۶۱۰ء میں جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل ہونا شروع ہوا تو نزولِ قرآن کے اس ابتدائی زمانہ میں قرآن کی سورہ نمبر ۱۰۶ اُتری۔ اس سورہ کا ترجمہ یہ ہے: اس واسطے کہ قریش مانوس ہوئے، جاڑے اور گرمی کے سفر سے مانوس۔ تو اُن کو چاہئے کہ اس گھر کے رب کی عبادت کریں جس نے اُن کو بھوک میںکھانا دیا اور خوف سے اُن کو امن دیا۔ (قریش ۱۔۴)اس سورہ میں قریش کو صرف قریش کہاگیا، نہ کہ کفار یا کفارِ قریش۔
پیغمبر اسلام توحید کے داعی تھے۔ آپ نے مکّہ میںاپنی دعوت شروع کی تو مسلسل تیرہ سال تک اسی انداز میں لوگوں کو پکارتے رہے کہ اے قریش کے لوگو، اے انسانو، ائے میری قوم ۔ پُر امن دعوتی مہم کی اس پوری مدت میں آپ نے کبھی کافر کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ فریقِ ثانی کی طرف سے ہر قسم کی زیادتیاں کی گئیں۔ لیکن اُن کے لیے آپ کی خیر خواہی کا جذبہ ختم نہیں ہوا۔ اُن کی ایذاؤں پر یک طرفہ صبر کرتے ہوئے آپ نے اپنی پُر امن دعوتی جدوجہد جاری رکھی۔ آخر کار تیرہ سال بعد قرآن میں سورہ نمبر ۱۰۹ اتری۔ اس میں پہلی بار خدا کی طرف سے ان الفاظ میں اعلان کیا گیا کہ: قل یٰایّہا الکفرون(کہہ دو کہ ائے انکار کرنے والو)
اس سے معلوم ہوا کہ کافر (منکر) کا لفظ ایک صفت کو بتاتا ہے، نہ کہ کسی قوم کو۔ اگر کافر سے مراد کوئی قوم ہوتی تو قرآن میں آیت کے الفاظ لایلٰف قریش کے بجائے لِایلٰف الکفار ہونا چاہئے تھا اور اس کی وجہ یہی ہے کہ کافر کا لفظ صفتِ انکار کو بتانے کے لیے ہے، نہ کہ قومی تعلق کوبتانے کے لیے۔ مزید یہ کہ اس بات کا تحقق کہ کسی کے اندر صفت انکار ہے یا نہیں، قیاس کی بنیاد پر نہیں ہوگا، بلکہ حقیقی تجربہ کی بنیادپر ہوگا۔ اور وہ تجربہ یہ ہے کہ پیغمبر کی سطح پر کم ازکم تیرہ سال تک اعلیٰ ترین معیار کی دعوتی جدو جہد چلائی جائے۔اس کے بغیر خود پیغمبر کے زمانہ میں بھی کسی کو کافر کہنا درست نہیں۔
مناظرہ
بر صغیر ہند میں برٹش حکومت کے زمانہ میںاہل اسلام کے درمیان ایک مبتدعانہ رواج ظہورمیں آیا جس کو مناظرہ کہا جاتاہے۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان دعوت کے بجائے مناظرہ بازی شروع ہوئی جس نے دونوں فرقوں کے درمیان غیر معتدل فضا پیدا کرنے کا کام کیا۔ مسلمان مناظر نے ہندو کے خلاف کتاب لکھی اور اُس کو ’کفر توڑ‘ کے نام سے شائع کیا۔ اس کے بعد ہندو مناظر نے مسلمانوں کے خلاف کتاب لکھی جو ’کفر توڑکا بھانڈہ پھوڑ‘ کے نام سے شائع کی گئی۔
اسلام کاطریقہ دعوت ہے جو نصح (خیر خواہی) اور شفقت اور یک طرفہ صبر کے اُصول پر جاری ہوتا ہے۔ جب کہ مناظرہ (debate) کا مقصد فریقِ ثانی کو شکست دینا ہوتا ہے۔ مناظر کا نشانہ فریق ثانی کو ہرانا ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ اس قسم کی زبان بولتا ہے کہ اُن کے اوپر بلڈوزر چلا دو:
Bulldoze them all.
اس سے دونوں گروہوں کے درمیان نفرت اور کشیدگی پیدا ہوتی ہے جو طرح طرح کے مسائل پیدا کرنے کا سبب بن جاتی ہے۔
دار الدعوہ
دار الکفر یا بلاد الکفارکے الفاظ عباسی دور میں استعمال کیے گیے۔اس سے پہلے یہ اصطلاحیں اہل اسلام کے درمیان رائج نہ تھیں۔ میرے نزدیک یہ اضافہ درست نہیں۔ صحیح یہ ہے کہ جو ملک اسلامی ملک ہواُس کو دارالاسلام کہا جائے اور بقیہ تمام ملکوں کو دار الدعوہ کہا جائے۔ دار الاسلام کے سوا ہر ملک دار الدعوہ ہے، خواہ وہ مسلمانوں کے حق میں بظاہر دشمن ہی کیوں نہ ہو۔
قرآن میں پیغمبر اسلام کی نسبت سے ارشاد ہوا ہے: وہذا کتاب انزلنہ مبرک مصدق الذی بین یدیہ ولتنذر ام القری ومن حولہا (الانعام ۹۳)- یعنی یہ ایک کتاب ہے جو ہم نے اُتاری ہے، برکت والی ہے، تصدیق کرنے والی اُن کی جو اس سے پہلے ہیں۔ اور تاکہ توڈرائے اُم القری کو اور اُس کے آس پاس والوں کو۔
قرآن کی اس آیت میں ام القری سے مراد مکہ ہے۔ جب یہ آیت اُتری، اُس وقت مکّہ غیر مسلموں کے قبضہ میں تھا۔ حتیٰ کہ کعبہ کو بتوںکا مرکزبنا دیاگیا تھا۔ مگر اس آیت میں قدیم مکّہ کو دار الکفر یا مدینۃ الکفرنہیںکہا گیا بلکہ أم القریٰ کہا گیا اور وہاں انذار، بالفاظ دیگر، دعوت کاحکم دیاگیا۔ اس سے مستنبط ہوتا ہے کہ وہ تمام مقامات جہاں غیر مسلموں کا غلبہ ہو وہ اسلامی اصطلاح میں دار الدعوہیا دارالانذار قرار پائیں گے۔ ایسے کسی بھی مقام کے لیے دار الکفر یا بلاد الکفار جیسے الفاظ کا استعمال درست نہ ہوگا۔
کسی ملک کا حوالہ جب جغرافی اعتبار سے دینا ہو تو اُس کا ذکر اُس نام سے کیا جائے گا جس نام سے وہ عمومی طورپر معروف ہے۔ مثلاً سری لنکا کو سری لنکا اور جنوبی کوریا کو جنوبی کوریا۔ اور جب اہلِ اسلام کی ذمہ داری کے اعتبار سے کسی ملک کا حوالہ دینا ہو تو اُس کو دار الدعوہ کہا جائے گا۔ دار الدعوہ کا لفظ جغرافی تقسیم کو نہیں بتاتا بلکہ وہ اہلِ اسلام کی دعوتی ذمہ داری کو بتاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

ایک خط

برادر محترم جناب ہارون شیخ صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ
کل شام کو جناب عبد السلام اکبانی صاحب نے ٹیلی فون پر بتایا کہ آپ کی والدہ کا انتقال ہوگیا۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ جنوبی کوریا سے ۱۷ اگست کو آتے ہوئے میں ممبئی کے راستہ سے واپس ہوسکتا تھا۔ اس طرح مجھے آپ کی والدہ محترمہ کی آخری رسوم میںشریک ہونے کی سعادت مل جاتی۔ مگر شاید ایسا ہونا مقدر نہ تھا۔
اسلام کی ایک عجیب تعلیم دعا ہے۔ دعا کی مختلف صورتوں میں سے ایک صورت یہ ہے کہ کسی کے ساتھ اگر عملی اعتبار سے کوتاہی ہوجائے تو انسان کو چاہئے کہ وہ اُس کے حق میں نیک دعائیں کرے۔ میں دعا کے ساتھ آپ کے جذبات میں شریک ہوتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ کو جنت الفردوس میں جگہ دے۔ اُن کے ساتھ ہمارے لیے بھی جنت میں داخلہ کی صورت پیدا فرمائے۔
ماں بلاشبہہ ہر مرد وعورت کے لیے ایک عظیم نعمت ہے۔ مگر غالباً ماں کی سب سے زیادہ انوکھی اور امتیازی صفت یہ ہے کہ وہ انسان کے لیے رحمتِ خداوندی کا ایک عملی تعارف ہے۔ خدا تمام رحم کرنے والوں سے زیادہ رحیم ہے۔ عام حالات میں یہ ایک نظری عقیدہ ہے مگر ماں کی صورت میں خدا نے اپنی اس صفت کو پیشگی طورپر دکھا دیا ہے۔ ماں کی شفقت اور محبت میں ہر بندۂ خداکے لیے اس امید کا سامان موجود ہے کہ اُس کا خدا اُس کے ساتھ یک طرفہ طورپر رحمت کا معاملہ فرمائے گا، جیسا کہ ماں ہر حال میں اپنی اولاد کے ساتھ یک طرفہ طورپر رحمت کا معاملہ کرتی ہے۔
ماں کی وفات عام طورپر اس وقت ہوتی ہے جب کہ اس کی اولاد ابھی دنیا میں زندہ رہتی ہے۔ ماں کی وفات کا یہ پہلو اپنے اندر ایک اور اہم نصیحت رکھتا ہے۔ وہ یہ کہ ماں دنیا سے رخصت ہو کر اپنے پس ماندگان کو بتاتی ہے کہ اسی طرح تمہیں بھی رخصت ہونا ہے۔ ماں اپنی عمر پوری کرکے یہ پیغام دیتی ہے کہ اے زندہ رہنے والو، یاد رکھو کہ تمہارا بھی کاؤنٹ ڈاؤن ہورہا ہے۔ اس طرح تمہیں بھی ایک دن اپنی موت سے دوچار ہونا ہے۔
یہ یاددہانی کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ سوتے ہوئے انسان کو جگانے کے ہم معنٰی ہے۔ یہ غیرمتحرک لوگوں کو حرکت میں لانے کا ذریعہ ہے۔ یہ اس بات کی یاد دہانی ہے کہ اے لوگو، اب وقت بہت کم رہ گیا ہے۔ اپنے وقت کا ایک ایک لمحہ بھر پور طورپر استعمال کرو، اس سے پہلے کہ اپنے وقت کو استعمال کرنے کا موقع ہی ختم ہوجائے۔
قرآن کے مطابق، موت ہر پیدا ہونے والے کے لیے مقدر ہے۔ موت بلا شبہہ ہر انسان کے لیے سب سے بڑا حادثہ ہے۔ مگر خدا نے حیرت انگیز طورپر اس کو ہمارے لیے رحمت کا سبب بنا دیا ہے۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ جب موت کا تجربہ پیش آئے تو پسماندگان کو چاہئے کہ وہ صبر کا طریقہ اختیار کریں۔ صبر کرنے والوں کے لیے عظیم انعام کی بشارت ہے۔
اس طرح کے معاملہ میں صبر کرنا کیوں خدائی انعام کا ذریعہ بنتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ یہ صبر در اصل خدا کے فیصلہ پر راضی ہونے کے ہم معنٰی ہے۔ بلاشبہہ کسی بندہ کے لیے یہ سب سے بڑی سعادت ہے کہ خدا اُس کے لیے ایک ناپسندیدہ چیز کا فیصلہ کرے اور وہ اُس کو خدا کی طرف سے سمجھ کر اُس پر دل سے راضی ہوجائے۔ اس قسم کی موت اپنے پسماندگان کے لیے اسی عظیم خدائی انعام کا ذریعہ ہے۔
یہ بھی خدا کی ایک عجیب رحمت ہے کہ جانے والا تو چلا گیا۔ اُس کو اپنے مقرر وقت پر جانا ہی تھا۔ مگر اس واقعہ میں خدا نے اپنی رحمت سے یہ ناقابلِ بیان حد تک قیمتی پہلو رکھ دیا کہ پسماندگان اگر اُس کو خدائی فیصلہ سمجھ کر اُس پر راضی ہوجائیں تو خدا اُن کی اس رضا مندی کی اس طرح قدر دانی کرے گا کہ جو چیز اُنہوں نے کھوئی ہے وہ مزید اضافہ کے ساتھ اُنہیں واپس مل جائے۔
موت کا واقعہ بظاہر ایک حادثہ ہے مگر اس دنیا میں ہر مائنس کے ساتھ پلس موجود ہوتا ہے۔ اور بلا شبہہ موت کا واقعہ اس عام قانون سے مستثنیٰ نہیں۔
نئی دہلی ۲۳ اگست ۲۰۰۳ دعا گو وحید الدین
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز ۱۶۰

۱ ۱۰ فروری ۲۰۰۳ کو وگیان بھون (نئی دہلی) میں ایک انٹرنیشنل کانفرنس ہوئی۔ اس کو بی جے پی کی یووا شاخ نے آرگنائز کیا تھا۔ اس کا موضوع تھا، ٹررزم۔ صدر اسلامی مرکز نے اس کی دعوت پر اس میں شرکت کی اور اسلام کے حوالہ سے بتایا کہ ٹررزم کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ ٹررزم انتہا پسندی کی ایک پیداوار ہے۔ وہ مذہب کی پیداوار نہیں۔
۲ ۱۰ فروری ۲۰۰۳ کو دور درشن کی ٹیم نے صدر اسلامی مرکز کا ایک ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر اس مسئلہ سے تھا کہ جدید دور میں اسلام کیا رہنمائی دیتا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں کہا گیا کہ اسلام ابدی صداقتوں کی تعلیم دیتا ہے۔ اس لیے زمانہ میں خواہ کوئی بھی تبدیلی آئے اسلام پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ وقتی مسائل میں اسلام نے انسان کوپوری رعایت دی ہے۔
۳ ۱۲ فروری ۲۰۰۳ کو نئی دہلی کے انڈیا انٹرنیشنل سنٹر (انکسی ) میں ایک پروگرام ہوا۔ یہ ڈاکٹرمحمدیونس (مقیم کناڈا) کی کتاب Islam a Threat to Civilizations کے اجراء کے لیے تھا۔ صدر اسلامی مرکز نے اس میں صدر کی حیثیت سے شرکت کی۔ انہوں نے اپنی تقریر میں بتایا کہ اسلام کسی بھی اعتبار سے تہذیب کے لیے یا انسانیت کے لیے خطرہ نہیں ہے۔ اسلام دین رحمت ہے۔
۴ ۱۲ فروری ۲۰۰۳ کو اشوک ہوٹل (نئی دہلی) کے کنونشن ہال میں ایک انٹرنیشنل سیمینار ہوا۔ اس کا موضوع تھا: What is Life ۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور اسلامی نقطۂ نظر سے لائف کے سوال پر تقریر کی۔ لائف سائنسز کے بارہ میں انہوںنے کہا کہ انسانی علم اور تجربہ سے جو چیز حقیقی طورپر مفید ہو وہ اسلام میں بھی جائز قرار پائے گی۔
۵ راشٹریہ سہارا کے لیے ۱۲ جون ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا گیا ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کی سیاسی جماعت بنانا ایک ناکام تجربہ کو دہرانے کے ہم معنٰی ہے۔ اس سے پہلے مسلمانوں کے بڑے بڑے لیڈروں نے مسلمانوں کی علیٰحدہ سیاسی جماعت بنانے کی کوشش کی مگر وہ سرتاسر ناکام رہی۔ اب مسلمانوں میںویسا کوئی لیڈر نہیں ہے۔ ایسی حالت میں اس قسم کی بات کہنا صرف اردو اخباروں کی ایک خبر ہے۔ اس سے زیادہ اس کی اور کوئی حقیقت نہیں۔ بنیادی کام مسلمانوں کو تعلیم یافتہ بنانا ہے۔
۶ بی بی سی لندن کے نمائندہ مسٹر شکیل اختر نے ۲۴ جون ۲۰۰۳ کو صدراسلامی مرکز کا انٹرویو ریکارڈ کیا۔ ہندستان میں مسلمانوں کے مستقبل کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہندستان میں مسلمانوں کا مستقبل ۵۷ مسلم ملکوں سے زیادہ روشن ہے۔ اس کا ایک اظہار یہ ہے کہ پوری مسلم دنیا کاسب سے زیادہ دولت مند آدمی (عظیم ہاشم پریم جی)ہندستان میں ہے۔ پوری مسلم دنیا کا سب سے بڑا سائنٹسٹ ڈاکٹر عبد الکلام ہندستان میںہے، وغیرہ۔ اسلام کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ دعویٰ غلط ہے کہ اسلام موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کی رہنمائی کرنے میں ناکام ہے۔ اصل یہ ہے کہ موجودہ زمانہ میں جو مسلم رہنما اٹھے وہ سب ردّ عمل کی نفسیات کا شکار تھے۔ انہوں نے ہر چیز کی تعبیر منفی انداز میں کی۔ اس بنا پر موجودہ مسلمانوں کی سوچ منفی ہو گئی۔ مثلاً انہوں نے جدید مغربی تہذیب کو زہر بتایا۔ انہوں نے سیکولرزم کو لادینیت کہا، انہوں نے ڈیماکریسی کو طاغوتی نظام بتایا۔انہوں نے وطنی قومیت کو ’’تازہ خدا‘‘ قرار دیا۔ انہوں نے جدید انڈسٹر ی کو مسلم دشمن قوموں کا سازشی جال بتایا، وغیرہ۔ اس بنا پر مسلمان مثبت سوچ سے محروم ہوئے اور موجودہ دور کے جدید مواقع کو استعمال نہ کرسکے۔
۷ گڑگاؤں (ہریانہ) میں جنگلات کے درمیان کئی بڑے بڑے رزورٹ بنائے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک واٹر بینک رزورٹ ہے۔ یہاں ۲۸۔۲۹ جون ۲۰۰۳ کو الرسالہ کے کچھ قارئین کا ایک تربیتی کیمپ کیا گیا۔ اس میں دہلی کے تقریباً دس افراد شریک ہوئے ۔ صدر اسلامی مرکزنے لوگوں کو تربیتی انداز میں دین کی حقیقت سمجھائی۔ اس کا آغاز کلمۂ شہادت کی اجتماعی ادائیگی سے ہوا۔ اس کے بعد مختلف مجلسوں میں ذکر، عبادت، توحید، نبوت، آخرت، تفکر و تدبر اور تزکیہ جیسے موضوعات پر تربیتی انداز میں وضاحت کی گئی۔ اس کے شرکاء سب کے سب انگریزی تعلیم یافتہ لوگ تھے۔
۸ نئی دہلی میں شکتی مٹھ (عقب قطب مینار) میں ایک فنکشن ہوا۔ یہ فنکشن کیلاش مان سروور یاترا کو رخصت کرنے کے لیے تھا۔اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے یکم جولائی ۲۰۰۳ کی شام کو اس میں شرکت کی۔ انہوں نے اپنی تقریر میں زور دیا کہ ہم سب کو اتحاد اور محبت کے ساتھ مل جُل کر رہنا چاہئے۔ اسی میں اپنی ترقی ہے اور اسی میں ملک کی ترقی بھی۔
۹ نئی دہلی کے اردو میگزین عالمی سہارا کے نمائندہ مسٹر فاروق نے ۲ جولائی ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر اجودھیا کی بابری مسجد سے تھا۔ جواب کا خلاصہ یہ تھا کہ یہ مسئلہ زیادہ گمبھیر ہوچکا ہے، وہ عام قانون کے تحت حل نہیں ہوسکتا۔ اب وہ قانونِ ضرورت (law of necessity) کے تحت حل ہوگا۔ پہلا کام یہ ہے کہ حالات کے اعتبار سے قابلِ عمل فریم ورک دریافت کیا جائے۔
۱۰ ۶؍جولائی ۲۰۰۳ کو انٹگری ٹی وی (Integri TV) کے ڈائرکٹر سویساچی جین (Savyasaachi Jain) اپنی T.V. ٹیم کے ساتھ دفتر میں آئے اور صدر اسلامی مرکز کا ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ یہ انٹرویو دو گھنٹہ تک جاری رہا۔ اس کاموضوع مذہب اور روحانیت تھا۔ یہ ویڈیو انٹرویو دور درشن (نئی دہلی) کے لیے ریکارڈ کیا گیا۔ مذہب اور روحانیت کے ہر پہلو پر اظہار خیال کیا گیا۔ ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ اسلام ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کو انتہا پسند لیڈروں نے اپنی غلط رہنمائی سے انہیں ترقی کے راستہ سے ہٹادیا ہے۔ تاہم اب مسلمان ان لیڈروں کو چھوڑ کر اسلام کی سچی تعلیمات کی طرف آرہے ہیں۔
۱۱ دور درشن (نئی دہلی) کے اسٹوڈیو میں ۷ جولائی ۲۰۰۳ کو ایک پینل ڈسکشن ہوا۔ اس میں نئی دہلی کے چار ممتاز افراد شریک تھے۔ یہ انگریزی میں تھا اور اس کا موضوع تھا ڈائیلاگ امنگ سویلائزیشن (Dialogue among Civilizations) اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ انہوں نے بتایا کہ اس معاملہ میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ دور جدید میں ترقی کی ایک دوڑ شروع ہوئی۔ اس میں کچھ قومیں آگے بڑھ گئیں اور کچھ قومیں آگے نہ بڑھ سکیں۔ یہ کلیش کامسئلہ نہیں ہے بلکہ پچھڑے پن کا مسئلہ ہے۔ جو لوگ شکایت کرتے ہیں اُنہیں چاہئے کہ اس کے بجائے وہ اپنے پچھڑے پن کو دور کریں۔
۱۲ نئی دہلی کے ہندی روزنامہ راشٹریہ سہارا کے نمائندہ جتندر شرما نے ۱۹ جولائی ۲۰۰۳ کو صدراسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر ہنٹنگٹن کی کتاب تہذیبوں کا تصادم (Clash of Civilizations) سے تھا۔ جواب میں بتایا گیا کہ یہ کتاب کوئی علمی کتاب نہیں۔ وہ سنسنی خیز صحافت کا ایک نمونہ ہے۔ اس قسم کی کتابیں زیادہ تر تجارتی نقطۂ نظر سے لکھی جاتی ہیں۔ ان کا مقصد نہ اصلاح ہوتا ہے اور نہ واقعات کا بیان۔
۱۳ ماہنامہ طوبیٰ (نئی دہلی) کے نمائندہ مسٹر ظلّ الرحمن نے ۲۳ جولائی ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ ان کے ساتھ ماہنامہ طوبیٰ کے ایڈیٹر مولانا محمد ارشد المدنی بھی موجود تھے۔ یہ ایک تفصیلی سوالنامہ کا جواب تھا جس کاتعلق زیادہ تر مسلمانان عالم کے جدید مسائل سے تھا۔ یہ انٹرویو طوبیٰ کے شمارہ ستمبر ۲۰۰۳ میں چھپ چکا ہے۔
۱۴ ٹائمس آف انڈیا (نئی دہلی) کے نمائندہ موہوا چٹر جی(Mohua Chatterjee) اور آنندبازار پتریکا کی نمائندہ جینتا گھوشل (Jayanta Ghosal) نے مشترک طور پر ۲۴ جولائی ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ سوالات کاتعلق زیادہ تر بابری مسجد او ر اجودھیا کے مسائل سے تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ یہ مسئلہ گفت و شنید کے ذریعہ طے نہیں ہوسکتا۔ اس کو طے کرنے کی واحد صورت یہ ہے کہ سپریم کورٹ اس کے بارے میں واضح فیصلہ دے۔ پلیسز آف ورشپ ایکٹ۱۹۹۱ میں یہ کہا گیا تھا کہ انڈیا کی تمام مسجدوں کو ان کی ۱۹۴۷ کی حالت پر برقرار رکھا جائے گا، ماسوا بابری مسجد۔ بابری مسجد کا معاملہ کورٹ کے فیصلہ سے طے ہوگا۔ بتایا گیا کہ اس معاملہ میں دو بنیادی نکات ہیں۔ اول یہ کہ گورنمنٹ اس بات کی باقاعدہ یقین دہانی کرائے کہ دوسری کسی بھی مسجد کو چھیڑا نہیں جائے گا اور یہ کہ بابری مسجد کا مسئلہ کور ٹ کے ذریعہ طے ہوگا۔ اس معاملہ کے حل کا یہی واحد عملی طریقہ ہے۔یہ انٹرویو ٹائمس آف انڈیا کے شمارہ ۲۵ جولائی ۲۰۰۳ میں صفحہ ۷ پر شائع ہوا ہے۔
۱۵ ای ٹی وی (Enadu TV) کی ٹیم نے ۲۵ جولائی ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر کامن سول کوڈ سے تھا۔ جواب میں بتایا گیا کہ کامن سول کوڈ ایک غیر عملی نظریہ ہے۔ اس پر قانون سازی کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ قانون سازی کے بعد بھی موجودہ صورت حال عملاً اُسی طرح باقی رہے گی جس طرح بہت سے دوسرے معاملات میں قانون سازی کے بعد بھی باقی ہے۔ مثلاً جہیز کے خلاف ایکٹ اور سول میریج ایکٹ، وغیرہ۔
۱۶ گجراتی روزنامہ دیبیہ بھاسکر کے نامہ نگار مسٹر پرمود کمار نے ۳ اگست ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر کامن سول کوڈ کے مسئلہ سے تھا۔ جواب میںبتایا گیا کہ یہ ایک غیر فطری چیز ہے اور غیر دستوری بھی۔ کامن سول کوڈ پر عملاً اس سے پہلے قانون بن چکا ہے۔ یہ سِول میریج ایکٹ ہے۔ سب لوگ جانتے ہیں کہ سول میریج ایکٹ باقاعدہ قانون بننے کے باوجود ایک فیصد بھی عملاً رائج نہیں۔ پھر ایک اور قانون بنانے سے کیا فائدہ۔ یہ قانون بہرحال دستور کے تحت ہوگا اور دستور کے مطابق کامن سول کوڈ کو جبری طور پر لازم نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اور اگر ایسا قانون بنے تو وہ سپریم کورٹ میں رد ہوجائے گا۔
۱۷ ہندی روزنامہ ویر ارجن (نئی دہلی) کے نمائندہ نے صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر کامن سول کوڈ کے مسئلہ سے تھا۔ یہ انٹرویو ویر ارجن کے شمارہ ۴ اگست ۲۰۰۳ کے صفحہ ۵ پر شائع ہوا ہے۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ کامن سول کوڈ کا نفاذ عملاً ممکن نہیں۔ ایسے مسئلہ پر قانون سازی کرنا جس کا نفاذ عملی طور پر ممکن نہ ہو وہ صرف قانون کا احترام ختم کرتا ہے۔ اس طرح کی قانون سازی ہندستان میںبار بار کی گئی ہے اور اس کا نتیجہ یہی ہوا ہے کہ ہمارے ملک میں قانون کا احترام ختم ہوگیا ہے۔ مثال کے طورپر جہیز کے خلاف کئی قوانین بنائے گئے مگر وہ ایک فیصد بھی نافذ نہ ہوسکے۔ لوگ شادیوں میں نہایت اطمینان کے ساتھ بڑھ چڑھ کر جہیز دیتے ہیں جیسے کہ وہ سرے سے قانون کی خلاف ورزی ہی نہیں۔
۱۸ پاکستان کا ایک خط یہاں نقل کیا جاتا ہے:’’ ہم لوگ ایک عرصہ سے الرسالہ (بتوسُّط ’’تذکیر‘‘ لاہور) کے قاری ہیں۔ آپ کی فکر انگیز تحریروں نے ہمیں کامیابی اور پیش رفت کے حقیقی گُر ’’اِعراض‘‘ سے واقف کرایا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو لومۂ لائم سے بے پروا ہو کر سچ لکھنے پر اجر سے نوازیں۔ ہم قریب پانچ سال تک ’’تذکیر‘‘ لاہور (طابع و ناشر : محمد احسان صاحب تہامی) کے تیس پرچے منگواتے تھے، اب اِن شاء اللہ تعالیٰ ماہِ آئندہ مئی ۲۰۰۳ ء سے پچاس پرچے منگوانے لگیں گے۔ ہم سب لوگ آپ کے طرزِ فکر و تجزیہ کے مدّاح ہیں اور ایک دوسرے کی دست گیری کرکے اپنی خامیوں اور کوتاہیوں کو درست کرنے میں لگے ہیں۔ آپ کی گراں قدر کتابوں سے ہماری سوچ کی بہت اصلاح ہوئی ہے۔ آپ کی تازہ کتاب ’’دین و شریعت‘‘ تو ایک عہد ساز کتاب ہے‘‘۔ (محمد امتیاز اور احباب، راولپنڈی)
واپس اوپر جائیں