Pages

Thursday, 1 April 2004

Al Risala | April 2004 (الرسالہ،اپریل)

1

- میرٹھ کا سفر


میرٹھ کاسفر

میرٹھ کے گیان پریشد کی طرف سے ڈاکٹر کے ۔سی گپتا نے پہلے ٹیلی فون پر بات کی۔ پھر ان کا خط مورخہ ۳۰ اگست ۲۰۰۳ ملا۔ اس میں مجھے میرٹھ کے دو روزہ پروگرام میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔اس پروگرام کا خاص مقصد کمیونل ہارمنی اور ریلیجس انڈر اسٹینڈنگ تھا۔ ڈاکٹر کے ۔سی گپتا میرٹھ کالج میںپولیٹکل سائنس ڈپارٹمنٹ کے سابق ہیڈ ہیں۔یہ پروگرام میرٹھ کی گیان پریشد اور میرٹھ کے حلقہ الرسالہ کے تعاون سے کیا گیا۔
۶ ستمبر ۲۰۰۳ کی صبح کو چھ بجے اس سفر کے لیے بذریعہ روڈ روانگی ہوئی۔ یہ سفر ایک ٹیم کی صورت میں ہوا۔اس سفر میں میرے ساتھ اور جو افراد شامل تھے ان کے نام یہ ہیں—خالد انصاری، رجت ملہوترہ، ہارون رشید، پریا ملک، استھی ملہوترہ، نصرت الٰہی، فریدہ خانم۔
میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ قدیم یونان میں ایک گروہ تھا جس کو مشّائین (Travellers) کہا جاتا تھا۔ یہ گویا اسی قسم کا ایک قافلہ ہے۔ یہ وہ لوگ تھے جو میرے ہفتہ وار کلاس میں شریک ہوتے ہیں۔ وہ اسلام کو جدید حالات کے پس منظر میں سمجھنا چاہتے ہیں۔ یہ گویا ذہنی بیداری کا ایک کام ہے۔ یہ سفر گویا ایک قسم کا چلتا پھرتا کلاس تھا۔ کیوں کہ میرا طریقہ ہے کہ میں سفر کے دوران پیش آمدہ حالات اور تجربات کے حوالہ سے گفتگو کرتا رہتا ہوں۔ اس طرح میرا سفر ایک قسم کا فکری سفر بن جاتا ہے۔
گذشتہ کل (۵؍ستمبر) کو نیو جرسی سے جناب لئیق احمد نے ٹیلی فون پر بات کی۔ انہوں نے بتایا کہ امریکا میں بظاہر خوش حالی ہے مگر یہاں کا ہر انسان تناؤ (stress) کا شکار رہتا ہے۔ اس ذہنی تناؤ کو دور کرنے کے لیے عام طورپر ایسا ہوتا ہے کہ لوگ ہفتہ کی چھٹیوں (weekend) کو گھر سے باہر جانے میں بتاتے ہیں۔ وہ کار کے ذریعہ کئی کئی گھنٹہ سفر کرکے دور کے مقام پر جاتے ہیں تاکہ اپنا ذہنی تناؤ دور کرسکیں مگر عملی نتیجہ برعکس صورت میں نکلتا ہے۔
میںنے پوچھا کہ اس کی وجہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اصل یہ ہے کہ امریکامیں ہر چیز نظم کے ساتھ ہوتی ہے ۔ چنانچہ یہاں بہت سی ایجنسیاں ہیں جو تفریحی مقامات پر مختلف انداز کے تفریحی پروگرام کا انتظام کرتی ہیں۔ لوگ چھٹیوں کے دن ان کی فیس دے کر وہاں جاتے ہیں۔ وہ کار کے ذریعہ لمبا سفر طے کرکے جب وہاں پہنچتے ہیںتو معلوم ہوتا ہے کہ انہیں فوراً فلاں آئیٹم میں شریک ہونا ہے۔ اس طرح ایک کے بعد ایک مختلف پروگرام آتے رہتے ہیں۔ لوگ خواہ تھکے ہوئے ہوں، یا ان کا دل نہ چاہتا ہو، مگر ’’آغاکیا کھاتاہے، آغا پیسہ کھاتا ہے‘‘ کے اصول پر لوگ ہر حال میں ان میں شریک ہوتے ہیں۔ پھر جب وہ تھکن اور بورڈم کے ساتھ واپس گھر لوٹتے ہیں تو انہیں محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے تناؤ کو ختم نہیں کیا بلکہ مہنگی قیمت پر ایک نیا تناؤ خرید لیا ہے۔ لئیق صاحب نے بتایا کہ تناؤ کی اس قسم کو یہاں ہالی ڈے اسٹریس (Holiday Stress) کہا جاتا ہے۔
پچھلے دن (۵ ستمبر) جمعہ کا دن تھا۔ میں نے نظام الدین کی کالی مسجد میں نماز ادا کی۔ امام صاحب نے خطبہ سے پہلے اپنی تقریر میں بتایا کہ ۱۹۴۷ میں یہ مسجد کچھ ہندوؤں کے قبضہ میں چلی گئی تھی۔ ہم نے دوبارہ قبضہ کرکے اس کو آباد کرنا چاہا تو پولیس کیس بن گیا اور عدالتی کارروائی کی نوبت آگئی۔ عدالت کے سامنے یہ سوال تھا کہ کیا ۱۵ اگست ۱۹۴۷ سے پہلے یہ عمارت ایک مسجد تھی اور وہ مسجد کے طورپر استعمال ہوتی تھی۔ ہندو جج نے تین آدمیوں کی گواہی پر مسجد کے حق میں اپنا فیصلہ دیا۔یہ تینوں دہلی کے تین ہندو تھے۔ ان میں سے ایک بر ہمن تھا، دوسرا بنیا اور تیسرا ہریجن۔
کالی مسجد تقریباً ۸۰۰ سال پہلے تغلق دور میں بنائی گئی تھی۔ میں ۱۹۸۳ سے اس مسجد میں نماز پڑھتا رہا ہوں۔ پہلے یہ مسجد تقریباً کھنڈر کی حالت میں تھی۔ اب یہاں مسجد کی شاندار بلڈنگ کھڑی ہوئی ہے۔ یہ ایک علامت ہے جو بتاتی ہے کہ اس ملک میں ملت مسلمہ کا مستقبل دن بدن بہتر حالت کی طرف جارہا ہے۔
مجھے یاد آتا ہے کہ ۴۰ سال پہلے میں یوپی میںاپنے آبائی گاؤں میں رہتا تھا۔ میرے گھر کے قریب ایک مسجد تھی۔ اس میں اکثر ایسا ہوتا تھا کہ میں ہی مؤذن ہوتا تھا اور میں ہی امام اور مقتدی۔ خاص طورپر عشاء کی نماز مجھے اس طرح پڑھنا ہوتا تھا کہ میں لالٹین لے کر مسجد جاتا جو گاؤں کے باہر کھیتوں کے کنارے واقع تھی۔ رات کے سنسان ماحول میں عشاء کی نماز پڑھنا بڑا عجیب تجربہ تھا۔ اس وقت وہاں میرے ساتھ کوئی اور نمازی نہیں ہوتا تھا۔ میں خود ہی اذان دیتا اور خود ہی تکبیر کہہ کر جماعت کے طورپر نماز ادا کرتا اور پھر لالٹین لے کر واپس اپنے گھر آجاتا۔
مگر اب۴۰ سال کے بعد مسجد سمیت یہ پوری جگہ نہایت با رونق ہوگئی ہے۔ اب وہاں مسجد سے متصل سڑک گزررہی ہے۔ بجلی اور ٹیلی فون آچکا ہے۔ مسجد کے بالکل سامنے ایک معیاری اسکول قائم ہوگیا ہے۔ اب یہاں رات دن چہل پہل رہتی ہے۔
اس قسم کے واقعات ہر جگہ پیش آرہے ہیں۔ ان واقعات میں نہایت امید افزا پیغام چھپا ہوا ہے۔ مگر عجب بات ہے کہ موجودہ زمانہ میں تمام مسلمان، مذہبی اور غیر مذہبی دونوں شکایت کی بولی بولتے ہیں۔ مجھے اپنے تجربہ میں پوری مسلم دنیا میں کوئی شخص نہیں ملا جو شکر کے جذبہ سے سرشار ہو اور حقیقی طورپر شکر کے کلمات بولتا ہو۔
ہندستان ٹائمس (۵ ستمبر ۲۰۰۳) میں سوامی نکھل نندا کا ایک مضمون فیتھ (Faith) کے کالم میں چھپا ہوا تھا۔ اس کا عنوان یہ تھا: Practical Spirituality for All
اس مضمون میں سوامی جی نے ایک مثال دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر کھانے سے پہلے آپ یہ کہیں کہ میں اس کھانے کو خدا کے لیے پیش کرتا ہوں تو خود کھانا بھی ایک روحانی عمل بن جائے گا۔
“If just before eating you say “I offer this food to God” then eating itself becomes a spiritual act.”
میں نہیں سمجھ سکا کہ اس میں روحانیت کا پہلو کیا ہے۔ کھانا خدا کے لیے پیش کرنا یا تو ایک رسم ہے یا وہ یاد دلاتا ہے کہ انسان دینے والا ہے اور خدا پانے والا۔ اس قسم کا عمل کسی کے لیے روحانی تجربہ کیسے بن سکتا ہے۔
کھانا اور پانی بلا شبہہ عظیم روحانی تجربہ کا ذریعہ ہیں۔ کھانے پینے کا یہ روحانی فائدہ اس وقت مل سکتا ہے جب کہ آدمی خدا کو ایک زندہ وجود کی حیثیت سے مانتا ہو۔ وہ اس یقین میں جیتا ہو کہ کھانے پینے کی نعمتیں اس کو خدا نے دی ہیں۔ اس قسم کا زندہ احساس جب کسی آدمی کے اندر پیدا ہو تو اس وقت وہ ایک تھرلنگ اکسپیرینس (thrilling experience)کا تجربہ کرتا ہے۔ اسی تجربہ کا نام روحانیت ہے۔
۶ ستمبر کی صبح کو چھ بجے ہمارا قافلہ دہلی سے میرٹھ کے لیے بذریعہ کار روانہ ہوا۔ سب سے پہلے میں نے لوگوں سے کہا کہ آپ لوگ قرآن کی یہ آیت پڑھیں: سبحٰن الذی سخّر لنا ہذا وما کنا لہ مقرنین(پاک ہے وہ جس نے ان چیزوں کو ہمارے بس میں کردیا اور ہم ایسے نہ تھے کہ ان کو قابو میں کرتے) الزخرف ۱۳۔
میںنے کہا کہ چند سو سال پہلے سفر کرنا اتنا مشکل تھا کہ کہا جاتا تھا کہ السفر کالسقر (سفر جہنم کی مانند ہے) مگر آج مختلف ترقیوں کے نتیجہ میں سفر ایک قسم کی تفریح (entertainment) کی حیثیت حاصل کر چکا ہے۔
یہ خدا کی ایک عظیم نعمت ہے۔ اگر آدمی کو اس نعمت کا واقعی احساس ہو تو اس کا سفر ایک روحانی سفر بن جائے گا۔ میںنے کہا کہ سفر کے اس روحانی پہلو کی بنا پر خدا پرستوں کی صفت قرآن میں السائحون بتائی گئی ہے، یعنی سیاحت کرنے والے۔
سفر کو کیوں خدا پرست انسان کی صفت بتایا گیا ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ سفر میں مختلف قسم کے تجربات ہوتے ہیں۔ ان تجربات کے دوران مسافر کی زبان سے ذکر و دعا کے وہ الفاظ نکلتے ہیں جو مقیم کی زبان سے نہیں نکلتے۔ مثلاً آپ لوگ سفر پر چل رہے ہیں۔ سڑک کے اوپر آپ کی گاڑی دوڑتی ہوئی آگے بڑھ رہی ہے۔ اگر آپ کے ربّانی احساسات زندہ ہوں تو یہ سفر نفسیات کے اعتبار سے آپ کے لیے ایک اور سفر میں تبدیل ہوجائے گا۔ آپ کی زبان سے یہ دعا نکلے گی کہ خدایا، میرے سفر کو تو جنت کا سفر بنادے۔
ہماری گاڑی دہلی کی سڑکوں سے نکل کر آگے بڑھی تو ایک مقام پر سڑک کے کنارے ایک ٹرک الٹا ہوادکھائی دیا۔ یہ ٹرک سامان سے لدا ہوا تھا اور ڈرائیور کی کسی غلطی کی وجہ سے الٹ گیا۔ اب دوڑنے والا ٹرک سڑک کے کنارے اُلٹا ہوا پڑا تھا۔ منزل پر پہنچنے کے بجائے درمیان ہی میں اس کا سفر ختم ہوگیا۔ میں نے سوچا کہ انسانی زندگی کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ ہر انسان اپنی زندگی کی گاڑی دوڑا رہا ہے مگر صرف اسی کی گاڑی منزل مقصود پر پہنچتی ہے جو ہوش مندی کے ساتھ اپنا سفر طے کرے۔ جو لوگ ہوش مندی کا ثبوت نہ دیں، ان کا انجام یہی ہوتا ہے کہ ان کی زندگی کی گاڑی کسی حادثہ کا شکار ہوجائے اور ان کا خواب پورا ہونے سے پہلے بکھر جائے۔
سڑک دہلی سے میرٹھ تک مسلسل خراب نظر آئی۔ ہم جس گاڑی سے آئے وہ ایک نئی گاڑی تھی مگر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ہم کسی نا ہموار راستہ سے بیل گاڑی میں سفر کررہے ہیں۔ چنانچہ ڈیڑھ گھنٹہ کا راستہ تین گھنٹہ میں طے ہوا۔
ہمارے ملک میں اکثر سڑکوں کا کم وبیش یہی حال ہے۔ اس کا واحد سبب کرپشن ہے۔ میں نے بار بار مغربی ملکوں کا سفر کیا ہے۔ وہاں میں نے دیکھا کہ ہر جگہ نہایت عمدہ سڑکیں بنی ہوئی ہیں جن کے اوپر گاڑیاں پوری رفتار کے ساتھ دوڑتی ہیں۔
اس کا سبب یہ نہیں ہے کہ وہاں کرپشن جیسی چیزیں نہیں ہیں۔ وہاں بھی کرپشن موجود ہے۔ مگر ان کا کرپشن عقلمندی کے ساتھ ہے، نہ کہ بے وقوفی کے ساتھ۔ مثلاً انہوں نے بلا اعلان یہ طے کر رکھا ہے کہ ترقی کے لیے سب سے بڑی چیز انفراسٹرکچر ہے۔ ان کا طریقہ یہ ہے کہ وہ کرپشن کرتے ہیں مگر انفراسٹرکچر کی قیمت پر نہیں۔ وہ سڑک ،ٹیلی فون، بجلی اور اس طرح کی دوسری چیزیں اعلیٰ معیار کی بنائیں گے۔ وہ کسی بھی وجہ سے اس کے معیار میں کمی نہیں کریں گے۔ پھر اس کے بعد اپنے ذاتی مفادکے لیے جو کچھ کرنا ہے کریں گے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ وہ قومی مفاد کو مقدم رکھتے ہیں اور ذاتی مفاد کو مؤخر۔ بدقسمتی سے یہ اسپرٹ ہمارے ملک میں نہیں۔
سفر کرتے ہوئے ہم لوگ وہاں پہنچے جس کو میرٹھ۔ہاپوڑ بائی پاس کہاجاتا ہے۔ یہاں الرسالہ کے قارئین کی ایک جماعت ہمارے انتظار میں کھڑی ہوئی تھی۔ مثلاً مولانا محمد عرفان قاسمی صاحب، ساجد خاں صاحب، شہزاد علی صاحب، وغیرہ۔
عام طور پر سیاسی لیڈروں کا حال یہ ہے کہ جب وہ اس طرح کسی مقام پر پہنچیں اور وہاں لوگ ان کے استقبال کے لیے کھڑے ہوں تو اس منظر کو دیکھ کر وہ فخر کے جذبات سے بھر جاتے ہیں۔مگر میرا حال برعکس طورپر یہ ہوا کہ میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ یہ شکر کے آنسو تھے۔ میں نے سوچا کہ پچھلے زمانہ میں کبھی ایسا نہیں ہوسکتا تھا۔ موجودہ زمانہ میں موبائل ٹیلیفون نے اس کو ممکن بنا دیا ہے۔ موبائل ٹیلیفون اللہ تعالیٰ کی عجیب نعمت ہے۔ آپ کسی بھی مقام سے کسی بھی مقام کے لوگوں کو اپنا پیغام پہنچا سکتے ہیں، حتٰی کہ آپ سفر میں ہوں تب بھی۔ چنانچہ سفر کے دوران موبائل ٹیلیفون کے ذریعہ ہمارا رابطہ قارئین الرسالہ کے مذکورہ افرادسے جاری رہا۔دوران سفر اس ٹیلیفونی رابطہ کا نتیجہ تھا کہ جب ہماری گاڑی مذکورہ بائی پاس پر پہنچی تو وہاں الرسالہ کے قارئین پیشگی طور پر ہماری رہنمائی کے لیے موجود تھے۔
میرٹھ کی پر ہجوم سڑکوں سے گذرتے ہوئے ہمارا قافلہ جناب محمد ساجد خاں صاحب کے مکان پر پہنچا۔ اس وقت تقریباً ۹ بج چکے تھے۔ یہاں صبح کا ناشتہ کیا گیا۔ دہلی سے میں نے محمد ساجد خاں صاحب کو ٹیلیفون کیا تھا کہ ہم لوگ ۶ ستمبر کو صبح کا ناشتہ آپ کے یہاں کریں گے۔ مگر ناشتہ سادہ ہونا چاہئے۔ محمد ساجد خاں صاحب نے اس کا پورا لحاظ کیا اور میری پسند کے مطابق سادہ قسم کا ناشتہ کرایا۔اس کے بعد میرٹھ کا پہلا پروگرام شروع ہوا۔
ساجد خاں صاحب کے مکان کی اوپر کی منزل پر ہال نما کمرہ میں لوگ اکھٹا ہوگئے۔ یہاں مائک کا بھی انتظام تھا۔ پہلے مولانا محمد عرفان قاسمی نے خطاب کیا۔ انہوں نے اپنی تقر یر میں الرسالہ مشن کا تعارف کرایا۔ اس تعارف کے دوران انہوں نے ایک بات یہ کہی کہ گہرائی کے ساتھ دیکھا جائے تو ہر مسلمان کے انفرادی معاملات درست ہیں۔ مگر مسلمانوں کے اجتماعی معاملات بگڑے ہوئے ہیں۔ اس فرق پر غور کیجئے تو اس میں ہمارے سوالوں کا جواب مل جائے گا۔ یعنی مسلمان اپنے ذاتی مسئلہ کو جس فارمولا کو اختیار کرکے حل کئے ہوئے ہیں اسی فارمولا کو وہ ملت کے اجتماعی مسائل کے حل کے لیے استعمال نہیں کرتے۔ یعنی حالات زمانہ کی رعایت۔ اس دہرا روش کو بدل دیا جائے تو سارے مسائل اپنے آپ حل ہو جائیں گے۔
میں نے اپنی تقریر میں بتایا کہ انسانی تاریخ خدائی قانون کے تحت چل رہی ہے۔ کوئی بھی شخص اس قانون کو بدلنے پر قادر نہیں۔ وہ قانون یہ ہے کہ تاریخ ہمیشہ آگے کی طرف جائے، وہ کبھی پیچھے کی طرف اپنا سفر شروع نہ کرے۔ میں نے کچھ مثالیں دے کر بتایا کہ یہ خدائی قانون ہمارے حق میں بار بار درست ثابت ہوا ہے۔ مثلاً ۱۹۴۷ سے پہلے میں اپنی نوجوانی کی عمر میں یہ سنا کرتا تھا کہ ملک کے کچھ کٹّر لوگوں کا یہ منصوبہ ہے کہ وہ آزادی کے بعد ہندستان کو دوسرا اسپین بنائیں۔یعنی یہاں سے مسلمانوں کا خاتمہ کردینا، جیسا کہ پہلے اسپین میں ہوا۔ اسی مفروضہ ڈر کی بنا پر مسلمان اس انتہائی حد تک گئے کہ انہوں نے سخت ناعاقبت اندیشانہ طورپر ملک کی تقسیم کے غیر فطری فارمولے کا ساتھ دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ برصغیر ہند کے مسلمان جو پہلے ایک واحد ملت تھے وہ آج چار ٹکڑوں میں بٹ گئے—بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش اور کشمیر۔
مگر حالات بتاتے ہیں کہ یہ مفروضہ سراسر بے بنیاد تھا۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ ۱۹۴۷ میں بھارت کے اندر مسلمانوں کی تعداد چھ کروڑ تھی اور اب ہندی اخبار دینک جاگرن کی رپورٹ کے مطابق، یہاں مسلمانوں کی تعداد ۲۲ کروڑ سے زیادہ ہو چکی ہے۔ گویا کہ جو انتہا پسند لوگ تاریخ کی گاڑی کو پیچھے لے جانا چاہتے تھے وہ ہار گئے اور تاریخ آگے بڑھ گئی۔
تقریر کے آخر میں سوال و جواب کا پروگرام تھا۔ ایک سوال کے جواب میں مولانا محمد عرفان قاسمی نے کہا کہ کسی کو مستقل دشمن سمجھ لینا فطرت کے خلاف ہے۔ اور مسلمانوں کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ اُنہوں نے کچھ لوگوں کو اپنا مستقل دشمن سمجھ لیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر آدمی جو آج بظاہر دشمن نظر آتا ہے وہ مستقبل میں آپ کا دوست بن سکتا ہے۔ اسلام اسی امید کی تعلیم دیتا ہے( فصلت ۳۴)۔ اسلام امید کا مذہب ہے، نہ کہ نا امیدی کا مذہب۔
ایک صاحب نے یہ سوال کیا کہ ایمان جامد ہے یا ترقی پذیر۔ انہوں نے کہا کہ حدیث میں آیا ہے کہ الایمان یزید و ینقص۔ تاہم اکثر علماء کا رجحان یہ ہے کہ ایمان ایک جامد چیز ہے وہ ترقی پذیر چیز نہیں ۔
میں نے کہا کہ اس حدیث کو آپ اس وقت سمجھ سکتے ہیں جب اُس کو آپ قرآن کی آیتوں سے ملاکر دیکھیں۔قرآن کی مختلف آیتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ ایمان بڑھتا رہتا ہے۔ چنانچہ ایمان کو ایک شجر سے تشبیہہ دی گئی ہے جو ایک اضافہ پذیر چیز ہے اور جو نیچے سے شروع ہو کر اوپر تک پہنچ جاتا ہے۔مگر آدمی کی بے شعوری کے نتیجہ میں ایمان میں نقص بھی واقع ہوتا ہے، جیسا کہ حدیث میں بتایا گیا۔
میں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ یہ خیال بالکل بے بنیاد ہے کہ انڈیا میں مسلمان تباہ ہورہے ہیں۔ یہاں جو لوگ بیٹھے ہیں ان میں سے ہر شخص سے میں یہ کہتا ہوں کہ وہ سوچیں کہ ۱۹۴۷ سے پہلے ان کے خاندان کی معاشی حالت کیا تھی اور آج ان کے خاندان کی معاشی حالت کیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ میں سے ہر شخص یہ کہے گا کہ آج ہمارے خاندان کی معاشی حالت ۱۹۴۷ کے مقابلہ میں بہت زیادہ بہتر ہے۔ پھر مفروضہ تباہی کا واقعہ کہاں ہو رہا ہے۔ میں مانتا ہوں کہ انڈیا میں مسلمانوں کے کچھ مسائل ہیں۔ مگر یہ انڈیا کی بات نہیں بلکہ یہ قانون فطرت کی بات ہے۔ فطرت کے قانون کے تحت مسئلہ زندگی کا لازمی حصہ ہے وہ ہر جگہ موجود رہتا ہے، حتیٰ کہ مسلم حکومت میں بھی۔ مسئلہ کا حل حکیمانہ تدبیر میں چھپا ہوا ہے نہ کہ شکایت اور احتجاج میں۔
میں نے مزید کہا کہ میں ساری دنیا میں سفر کرتا رہتا ہوں، میں نے ساری دنیا کے حالات کا مطالعہ کیا ہے۔ ہر ملک کے لوگوں سے میری ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں۔ اس وقت دنیا میں ۵۷ مسلم ملک موجود ہیں۔ میں پوری سنجیدگی کے ساتھ کہتا ہوں کہ انڈیا کے مسلمان دوسرے تمام مسلم ملکوں سے زیادہ بہتر حالت میں ہیں۔ مثلاً انڈیا میں اس وقت مسلمان ۲۲ کروڑ ہیں۔ یہ تعداد کسی بھی مسلم ملک کی تعداد سے زیادہ ہے۔ پوری مسلم دنیا کا سب سے بڑا سائنسداں انڈیا میں ہے اور اس کا نام ڈاکٹر عبدالکلام ہے۔ پوری مسلم دنیا کا سب سے زیادہ دولت مند آدمی ہندستان میں ہے اور اس کا نام عظیم ہاشم پریم جی ہے۔ پوری مسلم دنیا کی سب سے بڑی مسلم کمپنی ہندستان میں ہے اور اس کا نام سِپلَہ ہے۔ پوری مسلم دنیا کی سب سے بڑی مسلم جماعت کا مرکز انڈیا میں ہے اور یہ وہ ہے جو تبلیغی جماعت کے نام سے مشہور ہے۔ پوری مسلم دنیا کے سب سے بڑے تعلیمی ادارے ہندستان میں ہیں۔ مثلاً مسلم یونیورسٹی علی گڈھ ، دار العلوم دیو بند، ندوۃ العلماء لکھنؤ ،وغیرہ۔
اس کے علا وہ اور بھی کئی چیزیں ہیں جو انڈیا میں موجود ہیں۔ مثلاً انڈیا میں مسلم کمیونٹی کے ساتھ ایک اور بڑی کمیونٹی ہندو کی شکل میں موجود ہے۔ اس بنا پر یہاں مسابقت (competition) کا ماحول قائم ہے۔ اور یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ترقی صرف اس قوم کو ملتی ہے جس کو مسابقت کے درمیان جینے کا موقع ملے۔ اسی طرح انڈیا میں بیک وقت دو بڑی نعمتیں موجود ہیں، امن اور آزادی۔ دنیا کے کسی بھی مسلم ملک میں یہ دونوں چیزیں بیک وقت موجود نہیں۔ اگر کہیں امن ہے تو آزادی نہیں اور اگر کسی ملک میں آزادی ہے تو امن نہیں۔
اس اجتماع میں تعلیم یافتہ خواتین بھی شریک تھیں ۔ ان کے لیے یہ انتظام کیا گیا تھا کہ ایک علیٰحدہ کمرہ میں لاؤڈاسپیکر اور اسی کے ساتھ وی سی آر لگایا گیا تھا۔ اس طرح وہ ہمارے پروگرام کو پوری طرح سن سکتی تھیں اور دیکھ سکتی تھیں۔
اس اجتماع کے آخر میں مجھے بتایا گیا کہ خواتین مجھ سے کچھ اور جاننا چاہتی ہیں۔ چنانچہ میں وہاں گیا۔ خواتین سے جو باتیں میں نے کیں ان میں ایک بات یہ تھی کہ آج کل اکثر ایسا ہوتا ہے کہ لڑکیاں نکاح کے بعد جب اپنی سسرال جاتی ہیں تو ان کے لیے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔ اکثر لڑکیاں اس احساس کے ساتھ زندگی گزارتی ہیں کہ ان کی شادی کامیاب شادی نہیں۔ میں نے کہا کہ لڑکی کے ماں باپ اس کی ذمہ داری عام طورپر سسرال والوں پر ڈالتے ہیں مگر میرے تجربے کے مطابق، اس کی اصل ذمہ داری لڑکی کے ماں باپ پر عائد ہوتی ہے۔
ماں باپ عام طورپر اپنی لڑکی کے بارے میں ایک ہی چیز جانتے ہیں، اور وہ لاڈ پیار ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ لڑکی کے ساتھ یہ لاڈ پیار (pampering) سب سے بڑی دشمنی ہے۔ یہ ماں باپ اپنی محبت میں یہ بھول جاتے ہیں کہ نکاح کے بعد لڑکی کو جہاں اپنی مستقل زندگی گذارنی ہے وہ لاڈ پیار کا ماحول نہیں ہوگا بلکہ وہاں زندگی کی حقیقتوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ شادی سے پہلے لڑکی کو یکطرفہ طورپر پیار و محبت مل رہا تھا مگر نکاح کے بعد اس کو جس ماحول میں رہنا ہے وہاں دو اورلو (Give and Take) کا اصول رائج ہے۔
مگر ماں باپ اپنی لڑکی کے ساتھ یہ ظلم کرتے ہیں کہ زندگی کا یہ راز اس کو نہیں بتاتے اور پھر لڑکی اپنی غیر حقیقت پسندانہ تربیت کے نتیجہ میں سسرال میں مسائل سے دوچار ہوتی ہے تو اس کی ذمہ داری سسرال پر ڈال دی جاتی ہے۔ اس معاملہ میں ماں باپ کو چاہئے کہ وہ خود اس کی ذمّہ داری لیں اور لڑکی کو حالات کے مطابق تیار کریں۔
سوالات کے وقفہ کے دوران ایک صاحب نے کچھ انتہا پسند ہندو لیڈروں کا نام لے کر کہا کہ ہندوؤں کے دل میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت ہے پھر اس مسئلہ کا حل کیا ہے۔ ہمارے قافلہ کے ایک صاحب مسٹر رجت ملہوترہ بھی اس موقع پر شریک تھے۔ انہوں نے کہا کہ مجھ کو دیکھئے ، میں اس سوال کا ایک عملی جواب ہوں۔
میں ایک ہندو فیملی میں پیدا ہوا۔ دو سال پہلے میں ویسا ہی ہندو تھا جیسا کہ آپ نے فرمایا۔ مگر آج میں پوری طرح بدل چکا ہوں۔ آج میرے دل میں اسلام سے اتنا ہی پیار ہے جتنا کسی مسلمان کو ہوسکتا ہے۔ میرے اندر یہ تبدیلی الرسالہ مشن کی وجہ سے آئی۔ میں پچھلے دو سال سے الرسالہ مشن میں شریک ہوں اور باقاعدہ اسلام کا مطالعہ کررہا ہوں۔ خدا کے فضل سے وہ تمام نفرتیں اور بدگمانیاں میرے دل سے ختم ہوچکی ہیں جو اس سے پہلے میرے اندر موجود تھیں۔ آپ یہ نہ دیکھئے کہ آدمی آج کیسا ہے بلکہ یہ دیکھئے کہ وہ کل کیسا ہوسکتا ہے۔
مولانا محمد عرفان قاسمی صاحب نے الرسالہ مشن کے بارے میں اپنے تأثرات بتاتے ہوئے کہا کہ الرسالہ مشن سمجھنے سے پہلے ہمیں یہ احساس تھا کہ ہم دور زوال کی صفِ آخر کے افراد میں سے ہیں۔ لیکن الرسالہ مشن کو سمجھنے کے بعد یہ احساس ہوا کہ ہم تو دور عروج کی صفِ اول کے افراد بن سکتے ہیں۔
انہوں نے اپنے تاثرات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا کہ الرسالہ مشن سے مجھے یہ حوصلہ ملا ہے کہ میری زبان سے اکثر یہ جملہ نکل جاتا ہے کہ ہم رجال ونحن رجال۔ یہ سن کر میں نے کہا کہ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کے پچھڑے پن کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ وہ اپنے مفروضہ بڑوں کے خول میں بند ہیں وہ ان سے آگے سوچ نہیں پاتے۔ اس سوچ نے ان کے اندر ذہنی جمود پیدا کردیا۔ یہی ذہنی جمود ان کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ جب تک اس ذہنی جمود کو توڑا نہ جائے اس وقت تک موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کی ترقی ممکن نہیں۔
مولانا محمد عرفان قاسمی کی باتوں کو سننے کے بعد میں نے کہا کہ آپ نے الرسالہ مشن کو بخوبی طورپر سمجھا ہے اور یہ میرے نزدیک ایک معجزہ سے کم نہیں ۔ میرا تجربہ ہے کہ جو لوگ کسی تعلیمی ادارہ یا کسی جماعتی گروہ کے ساتھ جڑے ہوئے ہوتے ہیں ان کے اندر وہ فکری کمزوری پیدا ہوجاتی ہے جس کو ذہنی کنڈیشننگ (conditioning) کہا جاتا ہے۔ میرا تجربہ ہے کہ ۹۹ فیصد سے زیادہ لوگ اس کنڈیشننگ میں مبتلا ہیں۔ اس لیے ان کا ذہنی ارتقا بھی رکا ہواہے۔ آپ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت ہے کہ آپ مدرسہ کی باقاعدہ تربیت کے باوجود اپنی کنڈیشننگ کو توڑنے میں کامیاب ہوگئے۔
دوپہر کا کھانا ساجد خاں صاحب کے مکان پر تھا۔ یہاں کھانے کے بعد دوبارہ بہت سے لوگ اکھٹا ہوگئے اور ان سے مختلف موضوعات پر باتیں ہوتی رہیں۔ محمد ساجد خاں صاحب کے مکان پر دینی چہل پہل دیکھ کر میں نے کہا کہ یہ گھر تو ایک باغ اسلام معلوم ہوتا ہے۔ معلوم ہوا کہ تقریباً تین سال سے الرسالہ مشن کا ہفتہ وار اجتماع محمد ساجد خاں صاحب کے مکان پر ہوتا ہے۔ اسی کے ساتھ الرسالہ اور مطبوعات الرسالہ کو پھیلانے کا کام بھی یہیں سے چلایا جارہا ہے۔
میرٹھ کے سفر میں بہت سے لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں اور بہت سے سبق آموز واقعات معلوم ہوئے۔ ماسٹر محمد چاند انصاری (۴۳) ایک مکینک اور ڈیزائنر ہیں۔ وہ اپنے کام کے ماہر ہیں اور دیانت دار بھی۔ چنانچہ کمپنی میں ان کا بہت احترام کیا جاتا ہے۔ وہ یہاں کی ایک ٹکسٹائل فیکٹری میں سپروائزر ہیں۔ وہ الرسالہ کے مستقل قاری ہیں۔ ۵ ستمبر ۲۰۰۳ کو انہوں نے فیکٹری کے مالک پی، سی جین سے بات چیت کی۔ انہوں نے کہا کہ میں کل (۶ ستمبر) کام پر نہیں آؤں گا۔ مسٹر جین انہیں چھٹی دینے پر راضی نہ تھے۔ محمد چاند انصاری صاحب نے جب اصرار کیا تو مسٹر جین نے پوچھا کہ آخر تم کس بات کے لیے کل چھٹی کرنا چاہتے ہو۔ انہوں نے کہا کہ کل مولانا وحید الدین صاحب میرٹھ آرہے ہیںاور مجھے ان کے پروگرام میں شریک ہونا ہے۔ مسٹر جین نے پوچھا کہ یہ مولانا وحید الدین کون ہیں۔ محمد چاند انصاری صاحب نے کہا کہ آپ ان کو نہیں جانتے۔ یہ وہ شخص ہیں جنہوں نے ۶ دسمبر ۱۹۹۲ کے بعد یہ کہا تھا کہ ایک مسجد کو چھوڑ کر اگر انسانیت بچتی ہو تو ہم کو چاہیے کہ ہم مسجد کو بھلا دیں اور انسانیت کو بچالیں۔ یہ سن کر مسٹر جین نے کہا کہ پھر تو تم ضرور ان کے پروگرام میں جاؤ۔
ماسٹر محمد چاند انصاری ۱۹۷۹ سے اس ٹکسٹائل فیکٹری میں کام کررہے ہیں۔ ۱۹۸۲ میں جب میرٹھ میں فساد ہوا تو چار مہینے تک شہر میں کرفیو لگا رہا اس لیے وہ اپنے کام پر نہ جاسکے۔ جب کرفیو کھلا تو وہ فیکٹری گئے۔ اس وقت فیکٹری کے مالک دھرم داس جین زندہ تھے۔ انہوں نے چار مہینے کی تنخواہ دینے سے انکار کردیا۔ اس پر چاند انصاری صاحب نے کہا کہ اگر آپ میری تنخواہ کاٹتے ہیں تو سمجھ لیجئے کہ میں کل سے کام پر نہیں آؤں گا۔ اس کو سننے کے بعد دھرم داس جین نے انہیں پوری تنخواہ دے دی اور ساتھ ہی اپنے بیٹوں سے یہ وصیت کردی کہ دیکھو تم لوگ ان کی تنخواہ کبھی نہ کاٹنا۔ چنانچہ اب دھرم داس جین کا انتقال ہوگیا اور اب ان کی جگہ ان کے بیٹے فیکٹری چلاتے ہیں اور یہ لوگ محمد چاند انصاری صاحب کے ساتھ انتہائی رعایت کا معاملہ کرتے ہیں۔ چاند انصاری صاحب کی مہارت اور دیانت داری پر انہیں اتنا بھروسہ ہے کہ وہ ان کے ساتھ ہمیشہ نرمی اور فیاضی کا معاملہ کرتے ہیں۔ وہ انہیں کبھی شکایت کا موقع نہیں دیتے۔
میرٹھ شہر دو بڑے حصّوں میں بٹا ہوا ہے، میرٹھ سٹی اور میرٹھ کینٹ۔ میرٹھ سٹی کو قدیم شہر کہہ سکتے ہیں اور میرٹھ کینٹ کو جدید شہر۔ میرٹھ سٹی میں ہندو اور مسلم تقریباً برابر کی تعداد میں ہیں۔ لیکن میرٹھ کینٹ میں ہندو حضرات کی تعداد زیادہ ہے اور مسلمان کی تعداد کم۔ دونوں کے درمیان چلتے ہوئے یہ فرق نظر آیا کہ میرٹھ سٹی یا قدیم میرٹھ میں زیادہ تر گھنی آبادی ہے۔ اسی بنا پر وہ مسائل کا مجموعہ ہے۔ اس کے برعکس میرٹھ کینٹ یا جدید میرٹھ کافی کھلا ہوا ہے۔ یہاں کی سڑکیں چوڑی ہیں۔ یہاں سر سبزی بھی کافی دکھائی دیتی ہے۔
میرٹھ شہر کے بارے میں مشہور ہے کہ یہاں اکثر فرقہ وارانہ فساد ہوتا رہتا ہے۔ مگر یہ فساد میرٹھ سٹی میں ہوتے ہیں۔ غالباً کوئی فساد اب تک میرٹھ کینٹ میں نہیں ہوا۔
۶ ستمبر ۲۰۰۳ کی شام کو ۵ بجے میرٹھ کینٹ کے علاقے میں ایک پبلک جلسہ ہوا ۔یہ جلسہ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ہوٹل مینیجمنٹ کے ہال میں تھا۔ اس جلسہ کا انتظام گیان پریشد کی طرف سے کیا گیا تھا جس کے کنوینر ڈاکٹر کے۔ سی گپتا تھے اور اس کے صدر جسٹس نریندر سروپ گپتا رٹائرڈ جج (الٰہ آباد ہائی کورٹ) تھے۔
اس جلسہ میں شہر کے تعلیم یافتہ ہندو بڑی تعداد میں شریک تھے۔ ایک ہندو نے کہا کہ یہاں شہر کا پورا الیٹ کلاس موجود ہے۔ اس جلسہ کا واحد مقرر میں ہی تھا۔ پورا ہال بھرا ہوا تھا۔ مجھے تقریر کے لیے جو موضوع دیا گیا وہ تھا ’’اسلام اور آتنک واد‘‘۔ میں نے تقریباً سوا گھنٹے تقریر کی۔ میں نے کہا کہ اسلام کے ساتھ آتنک واد کو جوڑنا ایک کنفیوژن کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہ حضرات اگر اس حقیقت کو جان لیں کہ اسلام ایک اصولی تعلیم کا نام ہے اور مسلمان وہ لوگ ہیں جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم اسلام کو ماننے والے ہیں۔ ایسی حالت میں اصل معیار اسلام ہے، نہ کہ مسلمان۔ مسلمانوں کے عمل کو اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں جانچا جائے گا،نہ کہ اسلام کو مسلمانوں کے عمل کی روشنی میں۔
اس کے بعد میں نے قرآن و حدیث اور سیرت رسول کی روشنی میں بتایا کہ اسلام امن اور محبت اور خیر خواہی اور انسانیت اور اخلاق اور روحانیت کا مذہب ہے۔ جہاں تک قتال یا جنگ کاتعلق ہے، وہ اسلام میں صرف دفاع کے لیے ہے۔ جارحیت کے خلاف دفاع کے سوا کسی اور مقصد کے تحت لڑائی اسلام میں جائز نہیں۔
مزید یہ کہ دفاعی جنگ کی بھی بہت سی لازمی شرطیں ہیں۔ مثلاً دفاعی جنگ بھی باقاعدہ طورپر قائم شدہ حکومت لڑسکتی ہے۔ کسی غیر حکومتی تنظیم کے لیے جنگ لڑنا کسی بھی حال میں جائز نہیں۔ غیرحکومتی افراد کو اگر کوئی شکایت ہے تو ان کے لیے صرف دو ر و ّیوں میں سے ایک رویّہ کا انتخاب ہے۔ یا تو وہ صبر کریں یا مکمل طورپر پر امن رہتے ہوئے اپنے مطلوب کے لیے کوشش کریں۔
میری تقریر کے خاتمہ پر کچھ لوگوں نے سوالات کئے جن کا جواب میں نے مختصر طورپر دیا۔ یہ سوالات زیادہ تر منفی ذہن کی نمائندگی کرتے تھے۔ مگر قابل ذکر بات یہ ہے کہ اسٹیج پر جو دو ممتاز ہندو صاحبان تھے انہوں نے مکمل طورپر میری تقریر کی تائید کی۔ صدر جلسہ جسٹس نریندر سروپ گپتا نے میری تائید کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ مسلم ٹررسٹ کی بات کرتے ہیں۔ میں جج کی حیثیت سے ساری عمر کریمنل کیس کرتا رہا ہوں۔ خاص طورپر وہ کیس جن کو ٹررسٹ ریلیٹڈ کیس (terrorist related cases) کہا جاتا ہے۔ میں اپنے ذاتی تجربہ کی بنا پر کہتا ہوں کہ ان ماخوذ لوگوں میں اکثریت ہندو لوگوں کی ہوتی تھی۔ جسٹس گپتا نے جج کی حیثیت سے میرے خیالات کی تائید کی۔
اسی طرح کنوینر ڈاکٹر کے۔سی گپتا نے اپنی تقریرمیں مکمل طور پر میرے خیالات کی تائید کی۔ انہوں نے کہا کہ آپ لوگوں کو سنی سنائی باتوں پر یقین نہیں کرنا چاہئے ۔ باقاعدہ مطالعہ کرنے کے بعد اپنی رائے بنانی چاہئے۔
کئی لوگوں نے بتایا کہ ہندو سامعین کی اکثریت میری تقریر کے وقت سر ہلا ہلا کر اس کی تائید کر رہی تھی۔ یہاں تک کہ خطاب کے بعد جب چند افراد نے منفی انداز میں سوالات کئے تو سامعین کی طرف سے ان کی حوصلہ شکنی کی گئی۔ کئی ہندو یہ کہتے ہوئے سنے گئے کہ مولانا صاحب ،ہمارے سوالات کے جوابات پہلے ہی دے چکے تو پھر تم دوبارہ وہی بات کیوں پوچھتے ہو، وغیرہ۔
۶ ستمبر کی رات کا کھانا محمد ساجد صاحب کے مکان پر تھا۔کھانے کے بعد دوبارہ کئی ہندو اور مسلمان ہماری قیام گاہ پر اکٹھا ہوگئے۔ ان سے دیر تک باتیں ہوتی رہیں۔۶ ستمبر کی شام کے کھانے میں مسلمانوں کے ساتھ کئی ہندو بھی شریک تھے۔ ایک صاحب نے کہا کہ یہ علامتی طورپر گویا مستقبل کے ہندستان کی ایک تصویر ہے۔ یعنی وہ ہندستان جب کہ مسلمان اور ہندو دونوں بھائی بھائی کی طرح مل کر رہیں گے۔ وہ ایک ساتھ بیٹھیں گے اور ایک ساتھ کھانا کھائیں گے۔
جب ایسا ہوگا تو یہ صرف سماجی معنوں میں میل ملاپ کا واقعہ نہ ہوگا بلکہ وہ ایک ایسا انٹر یکشن ہوگا جو فطری انداز میں دین حق کے تعارف کا ذریعہ بن جائے گا۔
اسلامی تاریخ کے مطالعہ سے میں نے پایا ہے کہ اسلام کا سب سے زیادہ تعارف جس ذریعہ سے ہوا وہ نارمل ماحول میں انٹریکشن یا باہمی اختلاط سے ہوا۔ مسلمانوں اور غیر مسلموں کا اختلاط جب بھی ہوا وہ اسلام کے تعارف کا باعث بنا۔ ہمارے مشن کا خاص مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں اور غیرمسلموں کے درمیان کھلے ماحول میں پر امن ڈائیلاگ ہونے لگے۔
۶ ستمبر کی شام کو خطاب کے بعد دو مختلف واقعات پیش آئے۔ ایک یہ کہ سامعین میں سے ایک ہندو نے کہا کہ آج آپ کو سن کر پیغمبر صاحب کے بارے میں بہت کچھ جانکاری ہوئی۔ اس کے برعکس ایک زیادہ عمر کے مسلمان میرے پاس آئے اور اُنہوں نے میرے کان میں کہا کہ آپ نے رسول اللہﷺ کا نام ہی نہیں لیا۔
میں نے سوچا کہ ایک ہی تقریر کے بارے میں دو بالکل مختلف رائے کیوں ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ میں نے اپنی تقریر میں بار بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے دئے اور حدیثیں سنائیںجس کا اعتراف مذکورہ ہندو نے کیا۔ پھر مسلمان نے ایسا کیوں کہا کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تو نام ہی نہیں لیا۔اس پر سوچتے ہوئے میری سمجھ میں آیا کہ مسلم مقررین نے ایک خود ساختہ روایت قائم کی ہے جس کی وجہ سے یہ مسئلہ پیش آیا۔
ہمارے مقررین جب اسٹیج پر آتے ہیں تو وہ ایسا کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لینے سے پہلے بہت سارے القاب و آداب شامل کرتے ہیں۔ مثلاً آقائے مدنی، سرور کائنات، محبوب خدا ،سرکاردوعالم، شہنشاہ کونین، وغیرہ۔ حالاں کہ صحابہ اور تابعین اور عہد اوّل کے علماء کا طریقہ ایسا نہ تھا۔میں اللہ کے فضل سے ہر معاملہ میں قرآن و سنت اور صحابہ اور تابعین کے مسلک کی پیروی کرتا ہوں۔میرا معیار وہ دور ہوتا ہے جس کو قرون مشہود لہا بالخیر کہا گیا ہے۔ مگر موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کے لیے یہ طریقہ اجنبی بن گیا ہے۔ وہ صرف آج کل کے مقررین کے مصنوعی طریقوں ہی سے مانوس ہیں، وہ میرے انداز کو سمجھ نہ سکے۔ شاید یہ بھی اس معاملہ کا ایک پہلو ہے جس کو حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ ’’بدأ الاسلام غریباً و سیعود کما بدأ‘‘۔
اس حدیث میں یہ پیشین گوئی کی گئی ہے کہ بعد کے زمانہ میں اسلام اجنبی ہوجائے گا۔ غالباً اجنبی ہونے کا یہ بھی ایک پہلو ہے کہ لوگ دور اوّل کے اسلوب سے غیر مانوس ہوجائیں، وہ اس اہمیت کو سمجھنے سے عاجز رہیں۔
۶ ستمبر کی شام کو جب ہم لوگ میرٹھ کینٹ کی ایک سڑک سے گزر رہے تھے تو وہاں ایک جگہ چوراہے پر ایک ٹینک رکھا ہوا نظر آیا۔ لوگوں نے بتایا کہ یہ ایک پاکستانی ٹینک ہے۔ ۱۹۶۵ میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان جو لڑائی ہوئی تھی اس میں یہ ٹینک پکڑا گیا تھا اور اس کو یہاں لاکر رکھا گیا۔ اس ٹینک کے اوپر اردو میں موٹے حرفوں میں یہ لکھا ہوا تھا، شانِ خیبر، ۹۹۱۹۶۷۔
ڈاکٹر کرشن کمار گپتا (۶۶ ) سے ملاقات ہوئی۔ وہ آج کل اردو سیکھ رہے ہیں۔ انہوں نے ملاقات میں کئی باتیں بتائیں۔میری ایک کتاب کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اس میں میں نے ایک حدیث پڑھی ہے جس سے مجھے جھوٹ کی ایک نئی قسم معلوم ہوتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ آدمی کوئی بات سنے اور تحقیق کے بغیر اس کو پھیلانے لگے۔ اس حدیث کے عربی الفاظ یہ ہیں :کفیٰ بالمرء کذباً ان یحدث بکل ما سمع۔
۷ ستمبر ۲۰۰۳ کی صبح کو ایک صاحب مقامی ہندی اخبارات لے آئے۔ اُن میں کل شام کے پروگرام کی رپورٹنگ تھی۔ ہندی روزنامہ امر اجالا نے صفحہ ۶ پر تقریر کی تفصیلی رپورٹ شائع کی تھی۔ اس رپورٹ کا عنوان یہ تھا کہ ’’مولانا وحید الدین خود بھی روئے اور لوگوں کو بھی رلایا‘‘۔
۷ ستمبر کی صبح کو میری قیام گاہ پر کچھ مسلمان بیٹھے ہوئے تھے۔ اس موقع پر ان بعض ہندوؤں کا ذکر ہوا جنہوں نے کل شام کے جلسے میں کچھ ٹیڑھے قسم کے سوالات کئے تھے۔ ایک صاحب نے کہا کہ جلسہ کے بعد میری ملاقات اسی قسم کے ایک ہندو سے ہوئی۔ یہ ہندو کل شام کے جلسہ میں بظاہر بہت معاندانہ انداز میں بول رہا تھا۔ مگر جلسہ کے بعد وہ آپ کے سامنے آیا اور آپ کو پرنام کیا۔ پھر میں اُس سے ملا تو اُس نے مجھ سے نارمل انداز میں بات کی۔ یہ قصّہ بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کچھ لوگوں کا یہ مزاج ہوتا ہے کہ وہ جب کسی میٹنگ میں آتے ہیں تو صرف بولنے کے لیے بولتے ہیں، ورنہ ان کے دل کے اندر کچھ بھی نہیں رہتا۔
اس معاملہ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس قسم کے افرادکے دل میں شکایت کا لاوا بھرا ہوا ہے۔ ان کو ایک ایسا موقع مل جاتا ہے جہاں وہ اپنے لاوے کوباہر لا سکتے ہیں۔ اس طرح یہ ہوتا ہے کہ ان کے دل کی بھڑاس نکل جاتی ہے۔
مولانا محمد عرفان قاسمی (۴۲) دار العلوم دیوبند سے فارغ ہونے کے بعد میرٹھ میں مقیم ہوگئے۔ وہ ۱۹۸۰ سے الرسالہ کا مطالعہ کررہے ہیں۔ ان کی رہنمائی میں یہاں ہفتہ وار درس بھی ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنا تاثر بتاتے ہوئے کہا کہ الرسالہ فکر کو سمجھنے سے پہلے ہمارا خیال تھا کہ ہم تاریخ کے صرف معمول ہیں۔ لیکن الرسالہ فکر کو سمجھنے کے بعد احساس ہوا کہ ہم تاریخ ساز کردار ادا کرسکتے ہیں۔
۷ ستمبر کی صبح کو ڈاکٹر کے۔ سی گپتا کی رہائش گاہ (میرٹھ کینٹ) پر ایک اجتماع ہوا جس میں تعلیم یافتہ حضرات شریک ہوئے۔ جسٹس نریندر سروپ گپتا بھی اس میں موجود تھے، کچھ ریٹائرڈ فوجی بھی شریک تھے۔ یہاں مختلف موضوعات پر اظہار خیال ہوا۔ لوگوں کے سوال پر الرسالہ مشن کا تعارف کرایا۔ میں نے کہا کہ ہمارا مشن خاص طورپر امن اور اتحاد کا ماحول قائم کرناہے۔ امن کے ماحول کے بغیر کوئی بھی کام نہیں کیا جاسکتا ، نہ مذہبی اور نہ غیر مذہبی۔
ایک سوال کے جواب میں میں نے کہا کہ ہمارے ملک میں جو کمیاں ہیں ان سب کی جڑایجوکیشن کی کمی ہے۔ صحیح ایجوکیشن آدمی کے ذہن کو بیدار کرتی ہے۔ وہ آدمی کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ باتوں کو گہرائی کے ساتھ سمجھے اور درست رائے قائم کرے۔
اس سفر میں میرٹھ کا بازار دیکھنے کا موقع ملا۔ سب سے پہلے ہم لوگ موڈرن فوٹو اسٹوڈیو میں گئے جس کے مالک مسٹر پرویز عالم ہیں۔ انہوں نے ایک سوال کیا۔ انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ تصویر حرام ہے۔ آپ بتائیے کہ اس کا مسئلہ کیا ہے۔ میں نے کہا کہ اسلام میں صرف دو چیزیں حرام ہیں—خدا سے نڈر ہوجانا اور انسان سے نفرت کرنا۔ آپ صرف یہ کیجئے کہ ان دو پہلو سے اپنے دل کو ٹٹولتے رہیے کہ یہ دو باتیں آپ کے دل میں ہیں یا نہیں۔ اگر آپ پائیں کہ آپ ان دو معیاروں پر پورے اتررہے ہیں تو آپ کا معاملہ درست ہے اور اگر آپ اس معاملہ میں پورے نہ اتر رہے ہوں تو آپ کا معاملہ درست نہیں ہے۔
اس کے بعد ہم لوگ جناب محمد ساجد خاں صاحب کی دکان پر گئے جس کا نام ہائی وے ٹیلرس ہے۔ یہ ایک خوبصورت دکان تھی جو یہاں کے مین روڈ پر واقع ہے۔ مارکیٹ کے کچھ ہندو تاجر بھی میرے آنے کی خبر سن کر یہاں آگئے۔ اُن میں سے تین کے نام یہ ہیں، نریندر باش جین، امت، پنکی جین۔ یہ تینوں کپڑے کے تاجر ہیں۔ یہاں میں نے مختصر طورپر بتایا کہ اسلام کیا ہے۔ اسلام کا مطلب لڑائی بھڑائی نہیں ہے بلکہ اسلام کا مقصد یہ ہے کہ آدمی لوگوں کے درمیان امن اور اتحاد کے ساتھ زندگی گذارے۔
یہاں سے واپس ہو کر ہم لوگ محمد ساجد صاحب کے مکان پر پہنچے۔ یہاں دوبارہ کافی لوگ اکھٹا ہوگئے اور ان سے باتیں ہوتی رہیں۔ جناب شہزاد علی صاحب الرسالہ کے قاری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ الرسالہ کے مطالعہ سے اُس کا خلاصہ میں نے یہ سمجھا ہے کہ مخلوق سے ہجرت کرکے خالق تک پہنچنا۔
۷ ستمبر کی شام کو چار بجے محمد ساجد خاں صاحب کے مکان پر ایک اجتماع ہوا۔ اس موقع پر مختصر انداز میں اسلامی تعلیمات کی وضاحت کی۔
ماسٹر نفیس احمد انصاری الرسالہ کے مستقل قاری ہیں۔ انہوں نے اپنا تأثر بتاتے ہوئے کہا کہ مولانا صاحب کا میرٹھ کا دو روزہ دورہ اپنے مقصد میں ہر اعتبار سے کامیاب رہا۔ایم ساجد انصاری بھی الرسالہ کے قاری ہیں۔ انہوںنے اپنا احساس بتایا کہ آپ کے دورہ سے پہلے میرا خیال تھا کہ میرٹھ میں ہمارا یہ دعوت کا کام آہستہ آہستہ ہور ہا ہے۔ لیکن آپ کے آنے کے بعد یہ محسوس ہوا کہ انشاء اللہ اب یہ کام بہت تیز رفتار ہوگا۔
ایک بار کھانے کے وقت ایک صاحب نے کھانے کے ٹیسٹ کے بارے میں کوئی بات کہی۔ میں نے کہا کہ ہر سال روزہ کا تجربہ اہل ایمان کو اس لیے کرایا جاتا ہے کہ وہ یہ جانیں کہ کھانے کی اصل لذت مسالہ جیسی چیزوں میں نہیں ہے بلکہ اس میں ہے کہ آدمی کو بھوک کا تجربہ ہو اور پھر وہ کھانا کھائے اور پانی پئے۔ اسی حقیقت کو بنجیمن فرینکلن (Benjamin Franklin) نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے— دنیا میں سب سے اچھی چٹنی بھوک ہے:
The best sauce in the world is hunger.
۶ ستمبر ۲۰۰۳ کے ٹائمس آف انڈیا میں پہلے صفحہ پر ایک مغربی لیڈر ول راجرس (Will Rogers) کا قول چھپا ہوا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اگر تم نے سچائی کو سیاست میں داخل کیا تو تم کبھی کامیاب سیاست داں نہ بن سکو گے:
If you ever injected the truth into politics, you would have no politics.
سیاست کے بارہ میں اس قسم کاتصور ہمیشہ سے لوگوں کے اندر موجود تھا لیکن اس کو ایک باقاعدہ نظریہ کے طورپر جدید مغرب میں پیش کیاگیا اور اب ساری دنیا میں یہ حال ہے کہ جوآدمی سیاست میں داخل ہوتا ہے وہ شعوری یا غیر شعوری طورپر اسی نظریہ کو اختیار کر لیتا ہے۔ اس معاملہ میں سب سے زیادہ افسوس ناک مثال ان لوگوں کی ہے جو اسلام پسند سیاست داں کہے جاتے ہیں۔ انہوں نے بھی اپنی نام نہاد اسلامی سیاست کو اسی انداز پر چلا رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ زمانہ کی اسلامی سیاست ساری دنیا میں عملاً اسلام کے نام پر تخریب کاری کے ہم معنٰی بن گئی ہے۔
۶ستمبر ۲۰۰۳ کے ٹائمس آف انڈیا کے صفحہ ۴ پر دہلی کے بارے میں ایک خبر تھی۔ اس کا عنوان یہ تھا۔ اب دہلی میں پیدل چلنے والوں کے لیے صاف اور ہرے بھرے راستے:
Now, clean, green walkways for city.
میں دہلی میں ۱۹۶۷ سے رہتا ہوں۔ اس وقت سے اب تک برابر یہ منظر دکھائی دیتا رہا ہے کہ فٹ پاتھ کو توڑ پھوڑ کر اس کو پختہ بنانا۔ پہلے فٹ پاتھ کو اینٹ کے ذریعہ پختہ کیا گیا پھر اُس کو توڑ کر فٹ پاتھ پر پتھر لگائے گئے۔ پھر اس کو توڑ کر ٹائل لگائی گئی۔ پھر سیمنٹ کنکریٹ (concretisation) کا نظریہ اختیار کیا گیا۔ اب خبر کے مطابق، ڈی کنکریٹ(de-concretisation) کا طریقہ اختیار کیا جانے والا ہے۔
اصل یہ ہے کہ فٹ پاتھ کو مکمل طورپر پختہ کرنے کے بعد یہ نقصان ہوا کہ بارش کا پانی جو پہلے زمین کے نیچے چلا جاتا تھا وہ سطح کے اوپر سے بہہ کر باہر جانے لگا ۔ اس طرح بارش کے پانی کا دوبارہ استعمال بہت کم ہوگیا۔ اب ہمارے افسران نے یہ طے کیا ہے کہ موجودہ پختہ فٹ پاتھ کو توڑ کر وہاں نئے قسم کے ٹائل لگائے جائیں۔ ان ٹائلوں میں ایک طرف سوراخ رکھا جائے جس سے بارش کا پانی اندر داخل ہوسکے اور دوسری طرف ٹائلوں کے درمیان خالی جگہ چھوڑ کر وہاں گھاس اگائی جائے۔ اس طرح فٹ پاتھ بیک وقت بارش کے پانی کو بہہ جانے سے بچائے گا اور اسی کے ساتھ فٹ پاتھ پر سرسبز مناظر بھی دکھائی دینے لگیں گے۔ یہ طریقہ وہی ہے جس کو فرانس کے شہر لیان (Lyon) میں مختلف تجربات کے بعد آخر میں اختیار کیا گیا ہے۔
میں نے کہا کہ یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انسان کی منصوبہ بندی کتنی ناقص ہے۔ اس کے برعکس خالق کی منصوبہ بندی کائنات میں اتنی مکمل ہے کہ ایک بار بنانے کے بعد خالق کو یہ ضرورت پیش نہیں آئی کہ وہ کائنات کی از سر نو منصوبہ بندی کرے: فتبارک اللہ احسن الخالقین (المومنون ۱۴)
۶ ستمبر کے ٹائمس آف انڈیا میں ایک خبر ہندی روزنامہ دینک بھاسکر کے بارے میں تھی۔ اس میں بتایا گیا تھا کہ اس وقت آٹھ ریاستوں میں دینک بھاسکر کے اکیس ایڈیشن نکلتے ہیں۔ ہر دن اس کی جو تعداد چھپ کر فروخت ہوتی ہے وہ مجموعی طورپر ۲۴ لاکھ ہے۔
میں نے کہا کہ مسلمان ہر معاملہ میں دوسروں کی شکایت کرتے ہیں، حالانکہ انہیں اپنی کوتاہیوں کو جان کر اس کو درست کرنا چاہئے۔ موجودہ زمانہ میں اخبار بہت بڑی طاقت مانا جاتا ہے۔ مگر ہندستان میں مسلمانوں کا کوئی ایک بھی ایسا اخبار نہیں جس کی روزانہ اشاعت اتنی زیادہ ہو۔ ایسے حالات میں اگر اس ملک میں مسلمانوں کا کیس ایک کمزور کیس بن جائے تو اس کی شکایت انہیں اپنے آپ سے کرنا چاہیے، نہ کہ دوسروں سے۔
۷ ستمبر ۲۰۰۳ کے ٹائمس آف انڈیا کا ایڈیٹوریل اسرائیلی وزیر اعظم ایریل شیرون (Ariel Sharon)کے دورۂ ہند کے بارہ میں تھا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ اسرائیل کا کوئی وزیر اعظم انڈیا کے سرکاری دورہ پر آرہا ہے۔ اس موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے اخبار نے لکھا تھا کہ ہم دنیا کو یہ بتا سکتے ہیں کہ فلسطینیوں کی تحریک اپنے اسٹیٹ کے اقدام کے لیے ہے جس کی جڑیں خود اختیاری کے مسلّمہ اصول میں ہیں جب کہ اسرائیل کی کارروائیاں یہودی ریاست کی توسیع کے اصول پر مبنی ہیں:
We could tell the world that Palestinion aspirations for a state of their own were rooted in the Principle of self-determination while Israeli actions testified to the Jewish state's vile, self-aggrandising ambitions.
یہ بات بالکل درست ہے۔ اس کے باوجود فلسطینیوں کی تحریک ناکام کیوں ہے۔ اس کا سبب صرف ایک ہے، اور وہ ہے—صحیح مقصد کے لیے غلط طریقہ اختیار کرنا۔ فلسطینیوں کے لیے لازم تھا کہ وہ اپنی تحریک کو پوری طرح پُر امن طریق کار کے اصول پر چلائیں۔ مگر یہ عرب لیڈروں کی سنگین غلطی تھی کہ اُنہوں نے فلسطینی تحریک کو تشدد کی بنیاد پر چلایا۔
یہ غلطی اتنی عام ہوئی کہ ساری دنیا کے علماء اور رہنما اس معاملہ میں عربوں کے مسلّح موقف کے حامی بن گئے۔ مسلم دنیا میں میں اکیلا تھا جس نے اس پالیسی کو غلط بتایا۔ میرے علم کے مطابق، کوئی بھی دوسرا عالم یا غیر عالم اس معاملہ میں فلسطینیوں سے یہ نہ کہہ سکا کہ تم اپنی تحریک کو پُر امن دائرہ میں رہ کر چلاؤ۔ اب تشدد کے جواب میں جب فریق ثانی کی طرف سے جوابی تشدد کا معاملہ پیش آرہا ہے تو یہ تمام لوگ ظلم اور سازش کی فریاد کررہے ہیں۔
ایک مسلمان بزرگ نے اپنے یہاں کھانے پر بُلایا۔ میں اور میرے ساتھی وہاں پہنچے تو ایک بڑے کمرہ میں دستر خوان بچھا ہوا تھا۔ میں نے تاکید کی تھی کہ کھانا بالکل سادہ ہونا چاہیے۔ مذکورہ بزرگ نے اس کی رعایت کی۔ مگر جب ہم لوگ کھانا کھا چکے تو ’’سویٹ ڈش‘‘ لائی گئی۔ یہ نہایت خوشبودار کھیر تھی۔ میں نے صاحب خانہ سے کہا کہ مسلمان ابھی تک کھانے کے اصول کو نہیں جانتے۔ وہ صرف لذیذ کھانے کو کھانا سمجھتے ہیں۔ حالانکہ کھانے کا اصل مقصد تغذیہ (nutrition) ہے، یعنی متوازن خوراک لینا۔ میں نے کہا کہ آپ کے گھر کی خواتین نے کئی گھنٹہ کی محنت کے بعد یہ کھیر تیار کی ہوگی۔ مگر غذائی اعتبار سے اس کا فائدہ بہت کم ہے۔ میں نے کہا کہ میں نے یہاں کے بازار میں دیکھا کہ لوگ جگہ جگہ تازہ امرود بیچ رہے ہیں۔ آپ کے لیے زیادہ اچھا یہ تھا کہ آپ مہنگی کھیر کے بجائے یہ سستے امرود بازار سے لاتے اور اس کو خود بھی کھاتے اور دوسروں کو بھی کھلاتے۔ مگر بد قسمتی سے مسلمان بریانی اور مرغا کو کھانا سمجھتے ہیں۔ کھانے کے سائنٹفک تصور سے وہ ابھی تک واقف نہیں۔
جس دن مجھے میرٹھ جانا تھا اس سے صرف ایک دن پہلے میری ایک تازہ کتاب چھپ کر آئی۔ اُس کا موضوع مذہب پر عقلی استدلال ہے۔ وہ ۴۸ صفحات پر مشتمل ہے۔ اُس کا نام یہ ہے:
In Search of God
میرے ساتھیوں نے اس کتاب کے کچھ نسخے اپنے پاس رکھ لیے تھے۔ میرٹھ میں اُنہوں نے اس کتاب کو اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں میں تقسیم کیا۔ کتاب کے ٹائٹل پر ایک مفکر کے یہ الفاظ لکھے ہوئے تھے۔علم کی کمی آدمی کو خدا سے دور کردیتی ہے، زیادہ علم آدمی کو خدا کی طرف واپس لاتا ہے:
A smattering of knowledge turns people away from God. Greater knowledge brings back to Him.
۶ ستمبر کی شام کو پروگرام کے خاتمہ پر جب میں ہال سے باہر نکلنے لگا تو ایک صاحب نے اپنی ایک تحریر مجھے دی۔ اس تحریر کے نیچے محمد علی زیدی کا نام درج تھا۔ اس میں کچھ سوالات درج تھے مگر سب کے سب غیر واضح تھے۔ ایک سوال اُن کے اپنے الفاظ میں یہ تھا: شاہ بانو کیس شریعت کی تشریح کا معاملہ تھا—اجودھیا میں بابری مسجد کا کیس حقِّ ملکیت سے شروع ہوا ہے۔
سوچنے کا یہ طریقہ میرے نزدیک غیر منصفانہ ہے۔ ایک مسلمان کو اگر یہ کہنے کا حق ہے کہ اجودھیا کا معاملہ مسلمان کے لیے شریعت کا معاملہ ہے اور ہندو کے لیے وہ آستھا کا معاملہ ہے۔ اگر کوئی مسلمان ایسا کہے تو اُس کو یہی حق ہندو کو بھی دینا ہوگا۔ اس منطق کے مطابق، ہندو یہ کہیں گے کہ اجودھیا کا معاملہ ہمارے لیے عقیدہ کا معاملہ ہے اور مسلمانوں کے لیے وہ بے جا قبضہ کا معاملہ۔ اس طرح کی باتوں سے اجودھیا کا مسئلہ کبھی حل ہونے والا نہیں۔ اُس کے حل کی صورت صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ اس معاملہ کو بلا شرط عدالت کے حوالہ کردیا جائے۔
۷ ستمبر ۲۰۰۳ کی دوپہر کو پریس کانفرنس تھی۔ یہ کانفرنس پیس اینڈ پراگرس (P.P.) ہال میں ہوئی۔ اس میں پریس کے لوگوں کے علاوہ اور بہت سے لوگ آگئے۔اکثر سیٹیں بھری ہوئی نظر آئیں۔ میڈیا کی طرف سے حسب ذیل نمائندوں نے شرکت کی:
سنجیو
امر اجالا
Tel.: 9412204147
ارشد محمد
دینک جاگرن
9837294639
کمال بھارگو
سہارا سمے
2662543
راج کمار
دینک کیسر خوشبو
9837037373
وِجے مان
اِناڈو ٹی وی
2570969
عمومی خطاب کے موقع پر میڈیا کے اکثر نمائندے موجود تھے اور اس کی رپورٹ میڈیا میں تفصیل کے ساتھ آچکی تھی۔ اس وقت کی پریس کانفرنس میں زیادہ تر اُسی کے پس منظر میںسوالات اور جوابات ہوئے۔ ایک سوال کے جواب میں میں نے کہا کہ آج کل زیادہ تر یہ ہورہا ہے کہ مسلمان لکھنے اور بولنے والے ہندوؤں کو نصیحت کررہے ہیں اور ہندو لکھنے اور بولنے والے مسلمانوں کو نصیحت کررہے ہیں۔ اس کا عملی طورپر کوئی فائدہ نہیں۔ اس قسم کا عمل کسی کو اپنی کمیونٹی میں مقبولیت دے سکتا ہے مگر صورت حال کی اصلاح کے اعتبار سے اُس کا کوئی فائدہ نہیں۔
اصلاح کے پہلو سے مفید طریقہ یہ ہے کہ ہندو لوگ ہندوؤں کو نصیحت کریں اور مسلمان حضرات مسلمانوں کو نصیحت کریں۔ لوگ عام طورپر ایسا نہیں کرتے ۔کیوں کہ ایسا کرنے میں اُنہیں یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی کمیونٹی میں مقبولیت کھودیں گے۔ مگر یہ ایک فرضی اندیشہ ہے۔ لوگوں کوچاہئے کہ وہ اس فرضی اندیشہ سے باہر آئیں اور اپنی اپنی کمیونٹی پر ’’امر بالمعروف، نہی عن المنکر‘‘کا عمل جاری کریں۔ اس کے بغیر حالات میں سُدھارلانا ممکن نہیں۔
ایک اور سوال کے جواب میں میںنے کہا کہ اجودھیا کے مسئلہ پر کئی ہندو اور مسلمان پُرجوش طورپر اپنی اپنی رائے پیش کرتے رہتے ہیں۔ میرے نزدیک اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ دونوں ہی طرف کے لوگوں کو صرف ایک بات کہنا چاہئے۔ اور وہ یہ کہ اس معاملہ میں ۱۹۹۱ کے ایکٹ کو نافذ کیا جائے اور اُس کے مطابق، عدالت کا فیصلہ جلد سے جلد حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔ عدالت جو فیصلہ دے، دونوں فریق کسی شرط کے بغیر اُس کو مان لیں۔ اس معاملہ میں اس کے سوا کوئی اور بات قابلِ عمل نہیں۔
ایک سوال کے جواب میں میں نے کہا کہ ہمارا مقصد خاص طورپر یہ ہے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان امن قائم ہوجائے۔ امن یکساں طورپر دونوں ہی کی ضرورت ہے۔ امن کے بغیر دونوں میں سے کوئی بھی ترقی نہیں کرسکتا۔
ایک اور سوال کے جواب میں میں نے کہا کہ یکساں سول کوڈ کا نظریہ سراسر غیر عملی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یکساں سول کوڈ کا قانون بہت پہلے ہمارے یہاں بن چکا ہے۔ مگر یہ قانون عملاً نافذ نہ ہوسکا۔ پھر ایک اور قانون بنانے سے کیا فائدہ۔
میں نے کہا کہ اس سے پہلے پارلیمنٹ نے سول میرج ایکٹ بنایا تھا۔ سول میرج ایکٹ عملی طورپر تقریباً وہی چیز ہے جس کو کامن سول کوڈ کہا جاتا ہے۔ کامن سول کوڈ کا جو مدّعا ہے وہ پوری طرح سوِل میریج ایکٹ میں موجود ہے۔ اب صرف اتنی بات باقی ہے کہ سوِل میریج کا طریقہ جو موجودہ قانون میں اختیاری ہے، اس کو قانونی طور پر لازم کردیا جائے۔ مگر ایسا قانون کبھی چلنے والا نہیں۔
کسی قانون کے تحت اگر سوِل میریج کو لازمی قرار دے دیا جائے تو اُس کے بعد یہ ہوگا کہ کوئی فرد یا کوئی تنظیم سپریم کورٹ میںاُس کے خلاف مرافعہ کرے گی۔ کیوں کہ ایسا قانون دستور کی دئی ہوئی مذہبی آزادی میں کھلی مداخلت ہوگی۔ وہ دستور ہند کی خلاف ورزی کے ہم معنٰی ہوگا۔ ایسی حالت میں یقینی طورپر یہ ہوگا کہ سپریم کورٹ ایسے قانون کو رد کردے گی۔ اس طرح مسئلہ جہاں اب ہے وہیں وہ قانون کے بعد بھی باقی رہے گا۔
میرٹھ شہر دہلی کے شمال مشرقی حصہ میں واقع ہے۔ میرٹھ کا پورا ضلع نہایت زرخیز ہے۔ اس کا ایک سبب غالباً یہ ہے کہ میرٹھ ضلع دو بڑی ندیوں، گنگا اور جمنا کے درمیان واقع ہے۔ میرٹھ میں پہلا کالج ۱۸۹۲ میں بنایا گیا۔ میرٹھ یونیورسٹی ۱۹۶۵ میں بنائی گئی۔
۱۸۵۷ میں انگریزوں کے خلاف جو بغاوت ہوئی وہ میرٹھ شہر سے شروع ہوئی تھی۔ یہ بغاوت کرنے والے زیادہ تر معمولی تعلیم یافتہ لوگ تھے۔ اُن کو یہ پتہ نہیں تھا کہ اس وقت ملک میں ایک ایسا انقلاب آچکا ہے جو مغل سلطنت کے زمانہ میں موجود نہ تھا۔ یعنی ٹیلی گراف کے ذریعہ کمیونیکیشن۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ ۱۸۵۷ کی بغاوت کو بہت جلد فرو کرنے میں انگریزوں کو جس چیز سے سب سے زیادہ مدد ملی وہ یہی کمیونیکیشن کا نیا نظام تھا۔ چنانچہ انگریزوں نے اپنے مختلف مراکز کو فوری طور پر پیغام بھیج کر ہر جگہ سے فوجی مدد حاصل کر لی اور اس طرح بغاوت کو تیزی سے دبا دینے میںوہ کامیاب ہوگئے۔
ایک صاحب نے ایک کتاب کا ذکر کیا اور اُس پر میری رائے پوچھی۔ اس کتاب کا عجیب وغریب نام ادراک زوالِ امت ہے۔ اس کتاب کی پہلی جلد ۵۳۳ صفحات پر مشتمل ہے اور وہ ۲۰۰۳ میں نئی دہلی سے چھپی ہے۔ یہ کتاب کا غذ، چھپائی، جلد بندی، وغیرہ ہر پہلو سے وقت کی اعلیٰ ترین معیار پر تیار کی گئی ہے۔ میں نے جب اُس کو دیکھا تو میرا پہلا تأثر یہ تھا کہ جوامت اتنی شاندار کتاب چھپوا سکتی ہو اُس کے بارہ میں لکھی جانے والی کتاب کا نام ادراک عروج امت ہونا چاہئے، نہ کہ ادراک زوال امت۔
اس ضخیم کتاب میں امت مسلمہ کے بارہ میں جو باتیں کہی گئی ہیں اُن کا خلاصہ کتاب کے آغاز میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:
’’خیر امت کی خوا ب آسا فضا میں جینے والی ملت کے لیے یہ سمجھنا انتہائی مشکل ہے کہ آخر اس کے ہاتھوں سے تاریخ کی لگام کیوں کر پھسلتی گئی ہے۔ چودہ صدیوں پر مشتمل ہماری ملّی تاریخ میں ایسے حوادث کی کمی نہیں جن سے مختلف اوقات میں ہمارے نہ تھمنے والے زوال کی بار بار تصدیق ہوتی رہی ہو۔ فتنۂ قتلِ عثمان ہو یا جمل اور صفین کی خانہ جنگیاں، بغداد اور غرناطہ کا سقوط ہو یا مغل دہلی اور خلافت عثمانی کی تباہی، یہ ہماری تاریخ کے وہ لمحات ہیں جب من حیث القوم ہمارا وجود اپنے زوال کی سرعت اور شدت کے سلسلہ میں ششدر رہ گیا تھا۔ ہم ابھی ایک حادثے کی ماہیت اور شدت کا پوری طرح ادراک بھی نہ کرپائے تھے کہ پے در پے دوسرے حوادث پیش آتے گئے۔ یہاں تک کہ تاریخ کو کبھی اپنی مٹھی میں رکھنے والی امت خود تاریخ بن کر رہ گئی‘‘۔
مصنف نے جس تاریخی ظاہرہ کے بارہ میں لکھا ہے کہ اُس کو سمجھنا مشکل ہے، اُس کاجواب قرآن میں بہت پہلے ان الفاظ میں دے دیا گیا ہے: تلک الایام نداولہا بین الناس (آل عمران ۱۴۰) اس کے مطابق، سیاسی اقتدار کسی قوم کی ابدی ملکیت نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاسی اقتدار صرف امتحان کا ایک پرچہ ہے اور خدائی قانون کے مطابق، وہ بدلتا رہتا ہے۔ وہ کبھی ایک قوم کو ملتا ہے اور کبھی دوسری قوم کو۔ سیاسی اقتدار ابدی طورپر کسی ایک قوم کے پاس رہناخدا کے تخلیقی منصوبہ کے خلاف ہے اور جو چیز خدا کے تخلیقی منصوبہ کے خلاف ہو وہ اس دنیا میں کبھی وقوع میں آنے والی ہی نہیں۔
گفتگو اور اظہار خیال
۱۔ فجر کی نماز کے بعد میں نے لوگوں کے سامنے یہ حدیث پڑھی: من صلّی الصبح فہو فی ذمّۃ اللہ۔ (جس نے صبح کی نماز پڑھی وہ اللہ کی ذمہ داری میں آگیا) میں نے کہا کہ اس حدیث میں نماز اور اللہ کے ذمہ کے درمیان جس تعلق کا ذکر ہے وہ کوئی پُر اسرار تعلق نہیں۔ یعنی اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو آدمی فجرکے وقت مسجد میں حاضر ہو کر مقرر انداز میں نماز ادا کرلے وہ کسی پُر اسرار تاثیر کے نتیجہ میں خود بخود اللہ کی ذمہ داری میں آجائے گا اور اُس کا سارا دن محفوظ گذرے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک پوری طرح معلوم تعلق ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص صبح کی نماز اس کی حقیقی اسپرٹ کے ساتھ پڑھے گا اُس کے اندرایسے اخلاقی اوصاف پیدا ہوجائیں گے جو اس کی حفاظت کے ضامن ہوں گے۔ مثلاً وضو کی روح تطہیر قلب ہے۔ جو آدمی اس طرح وضو کے دوران اپنا داخلی تزکیہ کررہا ہو وہ گویا اُس کے ذریعہ سے ایک نیا انسان بن جائے گا۔ اسی طرح اللہ اکبر کی اسپرٹ تواضع ہے۔ الحمد للہ کی اسپرٹ قناعت ہے، رکوع اور سجدہ کی اسپرٹ اپنے اندر اکڑکو ختم کرنا ہے۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ کی اسپرٹ یہ ہے کہ نمازی پورب پچھم اور اُتّر دکّن منھ پھیر کر یہ کہہ رہا ہے کہ ائے لوگو، تمہاری جان، تمہارا مال اور تمہاری آبرو مجھ سے محفوظ ہے۔ اسی طرح باجماعت نماز کی اسپرٹ یہ ہے کہ آدمی اپنے میں سے ایک کو آگے رکھ کر خودبیک سیٹ پر چلا جائے۔
فجر یا صبح کی نماز ادا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی مذکورہ قسم کے انسانی اوصاف کو اپنے اندر پیدا کرکے مسجد سے باہر کی دنیا میں نکلے اور جو آدمی ان اعلیٰ اوصاف کے ساتھ متصف ہو کر دنیا میں داخل ہو وہ بلا شبہہ ایک ایسا انسان ہوگا جو لوگوں کے درمیان اس طرح محفوظ طورپر رہے گویا کہ اللہ نے اُس کی حفاظت کا ذمّہ لے لیا ہے۔
۲۔ شہزاد علی صاحب نے کہا کہ میں نے اپنے تجربہ کی بنا پر جانا کہ امیری کے مقابلہ میں محتاجی زیادہ بڑی نعمت ہے۔ امیری کی حالت ہو تو آدمی غافل ہوجاتا ہے۔ مگر فقیری کی حالت آدمی کے اندر خدا کی یادجگاتی ہے۔ وہ پہلے سے زیادہ ذکر و دعا میں مشغول ہوجاتا ہے۔ وہ زیادہ گہرائی کے ساتھ خدا کی قربت کا تجربہ کرتا ہے۔
میں نے کہا کہ یہ بات بالکل درست ہے۔ اس کو حدیث میں ان الفاظ میںبتایا گیا ہے: اَنا عند المنکسرۃ قلوبہم( میں ٹوٹے دل والوں کے ساتھ رہتا ہوں) یہ بات اسلامی لٹریچر میں کثرت سے بیان کی گئی ہے۔ مگر اس معاملہ کا ایک اور پہلو ہے جس کو میرے علم کے مطابق، علماء اور صوفیا بتا نہ سکے۔ کم ازکم ان کی تحریروںسے ایسا ہی معلوم ہوتا ہے۔ چنانچہ الغزالی کی احیاء علوم الدین سے لے کر شاہ ولی اللہ کی حجۃ اللہ البالغۃ تک کسی بھی کتاب میں اُس کا ذکر نہیں ملتا۔ موجودہ زمانہ کے مسلم مفکرین بھی، میرے علم کے مطابق، اس کی نشاندہی نہ کرسکے۔
پھر میں نے کہا کہ یہ دوسری چیز ذہنی ارتقاء (intellectual development) ہے۔ امیری کی حالت میں انسان کا ذہن پُر سکون رہتا ہے۔ یہ سکون دماغ کے عمل کو معطّل کردیتا ہے۔ وہ جہاں ہے وہیں پڑا رہتا ہے۔ مگر محتاجی اور مصیبت ذہن کے اندر ہلچل پیدا کرتی ہے۔ وہ آدمی کے اندر ایک قسم کا دماغی طوفان (brain storm) ظہور میں لاتی ہے۔ اس طرح سویا ہوا دماغ جاگ اُٹھتا ہے۔ دماغی سِل (brain cells) متحرک ہوجاتے ہیں۔ یہ چیز آدمی کی فکری عمل کو بڑھاتی ہے۔ وہ اُس کو زیادہ باشعور انسان بنا دیتی ہے۔
میں نے کہا کہ حدیث میں یہ بات بتائی جاچکی ہے۔ مگر حدیث میں یہ بات تمثیل کی زبان میں ہے۔ اس لیے شارحین اُس کو سمجھ نہ سکے۔ ایک حدیث قدسی میںآیا ہے کہ’’ میں جب بندے کو کسی مصیبت میں مبتلا کرتا ہوں اور وہ اُس پر صبر کرلیتا ہے اور لوگوں سے اُس کی شکایت نہیں کرتا‘‘۔ اس کے بعد حدیث کے الفاظ یہ ہیں: ثم ابدلتہ لحماً خیراً من لحمہ ودماً خیراً من دمہ (رواہ الحاکم عن ابی ہریرہ) یعنی پھر میں اُس کے گوشت کو زیادہ بہتر گوشت سے بدل دیتا ہوں اور اُس کے خون کو زیادہ بہتر خون سے بدل دیتا ہوں۔
اس حدیث میں گوشت اور خون کا ذکر لفظی معنوں میں نہیں ہے بلکہ علامتی معنوں میںہے۔ اس کا مطلب خون اور گوشت کا مادّی معنوں میں بدلنا نہیں ہے بلکہ شخصیت کا معنوی معنوں میں بدلنا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صبر بغیر شکایت کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی کے اندر ایک فکری عمل شروع ہوجاتا ہے جو ذہنی ارتقاء (intellectual development) کا باعث ہوتا ہے۔ اُس کے اندر سنجیدگی پیدا ہوتی ہے۔ اُس کا ذہن زیادہ گہرائی کے ساتھ سوچنے لگتا ہے۔ اُس کی قوت تفکیر زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ ایک سادہ عالم مفکر عالم بن جاتا ہے۔
۳۔ ایک گفتگو کے دوران میں نے کہا کہ میرے اندر خدا کے فضل سے یہ بات ہے کہ میں اختلاف کے باوجود اعتراف کرتا ہوں۔ زندہ انسانوں کے درمیان ہمیشہ اختلاف ہوتا ہے۔ اس لیے اختلاف کو میں کوئی معیوب چیز نہیں سمجھتا۔ چنانچہ صحابہ، تابعین، تبع تابعین، محدثین، فقہاء اور علماء سب کے درمیان ہمیشہ کثرت سے اختلافات رہے ہیں۔ اس کے باوجود باہمی احترام اور اعتراف میں کوئی فرق نہیں آیا۔
جمعیۃ علماء ہند سے بعض جزئی امور میں مجھ کو اختلاف ہے۔ مگر اسی کے ساتھ میں جمعیۃ علماء ہند کی خدمات کا بھی کھلے طور پر اعتراف کرتا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندستان میں دوسری جماعتوں کے مقابلہ میں جمعیۃ علماء ہند کی خدمات سب سے زیادہ ہیں۔ جمعیۃ علماء ہند کا ایک کارنامہ یہ ہے کہ وہ واحد جماعت ہے جو ہندستان کے مسلمانوں کے لیے گویا ایک پولیٹیکل بیس کی حیثیت رکھتی ہے۔
۱۹۴۷ کے بعد جو آزاد ہندستان بنا اس میں ہندوؤں نے کانگریس میں شریک ہو کر حصہ لیا۔ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے تو اُن کی اکثریت مسلم لیگ کی حامی بن کر پاکستان کے حق میں چلی گئی۔ اس عموم میں واحد استثناء جمعیۃ علماء ہند کا تھا۔ جمعیۃ علماء ہند اگر چہ تنظیمی اعتبار سے بعد کو بنی۔ مگر علماء کی نسبت سے اس کے عمل کا آغاز ۱۸۵۷ سے شروع ہوتا ہے۔ ۱۸۵۷ سے لے کر ۱۹۴۷ تک علماء کا یہ گروہ آزادیٔ ہند کی جد و جہد میں سرگرم طورپر شریک رہا اور اُس کے لیے ہر قسم کی قربانیاں دیتا رہا۔
۱۹۴۷ کے بعد انتہا پسند ہندوؤں نے یہ کہنا شروع کیا کہ مسلمان جو پاکستان چاہتے تھے وہ پاکستان بن چکا۔ اب وہ ہندستان کو چھوڑ کر پاکستان چلے جائیں۔ مگر جیسا کہ معلوم ہے، یہ آواز زیادہ زور نہ پکڑ سکی۔ وہ صرف کچھ کٹّر ہندوؤں کی آواز بن کر رہ گئی۔ اس خطرناک آواز کا بے اثر ہو جانا کیوں ہوا۔ اس کا ایک بڑا حصہ جمعیۃ علماء ہند کا وجود ہے۔ جمعیۃ علماء ہند نے کھلے طور پر پاکستان کی مخالفت کی اور دو قومی نظریہ کو غلط بتایا۔ اُس کو اپنی اس مخالفت کی قیمت بھی ادا کرنی پڑی۔
علماء ہند کی اس تاریخ کی بنا پر یہاں کے مسلمان اس پوزیشن میںہوسکے کہ وہ نئے ہندستان میں کہہ سکیں کہ ہم نے بھی ہندستان کی آزادی کے لیے اُتنی ہی قربانی دی ہے جتنا کہ ہندوؤں نے دیا ہے۔ اس لیے ہندستان میں رہنے کا ہم کو بھی برابر کا حق ہے۔ اس طرح جمعیۃ علماء ہند نے ہندستان کے مسلمانوں کو وہ پولیٹیکل مبرّر(سیاسی وجہ جواز) دیا جس کی بنا پر وہ بھی اس ملک میں سر اُٹھا کر برابر کے شہری کے طورپر رہ سکیں۔ جمعیۃ علماء ہند کو حذف کرنا گویا اس پولیٹیکل مبرّر کو حذف کرنا ہے جس کے بغیر ہند ستان میں مسلمانوں کے لیے بظاہر کوئی سیاسی وجہ جواز باقی نہیں رہتا۔
۴۔ ایک موقع پر میںنے کہا کہ ۱۹۴۷ کے بعد ہندستان کے مسلمان یہاں کی حکومت سے برابر احتجاج اور ٹکراؤ میں مشغول رہے ہیں۔ کسی نہ کسی ملّی ایشو کو لے کر وہ مسلم ورسس حکومت کی فضا بنائے رہتے ہیں۔ یہ نا اہل مسلم رہنماؤں کی ناعاقبت اندیشانہ رہنمائی کے نتیجہ میں ہوتا ہے۔ اس کے بارہ میںاگر اُن سے کچھ کہا جائے تو اُن کا جواب یہ ہوتا ہے کہ دستورِ ہند نے ہم کو آزادی دی ہے۔ دستوری اعتبار سے ہمارا حق ہے کہ ہم اپنی شکایتوں کے لیے حکومت کے خلاف تحریک چلائیں۔
یہ سخت نادانی کی بات ہے۔ ہندستان ایک جمہوری ملک ہے۔ یہاں کوئی راجا یا بادشاہ حکومت نہیں کرتا جس کا عوام سے کوئی تعلق نہ ہو۔ یہاں کا حکمراں خود ہندستانیوں کے ووٹ سے بنتا ہے۔ ایسی حالت میں حکومت سے ٹکراؤ کرنا بالواسطہ طورپر عوام سے ٹکراؤ کرنا بن جاتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ ان عوام میں بہت بڑی اکثریت ہندوؤں کی ہوتی ہے۔ اس لیے حکومت سے ٹکراؤ کرنا بالواسطہ انداز میں مجاریٹی سے ٹکراؤ کرنا بن جاتا ہے۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ آپ کسی حکومت سے ٹکراؤ کر کے زندہ رہ سکتے ہیں مگر مجاریٹی سے ٹکراؤ کرکے آپ زندہ نہیں رہ سکتے۔
اس معاملہ میں ایک مفکر کا قول ان مسلم رہنماؤں پر صادق آتا ہے۔ اُس نے کہا کہ— عقلمند آدمی وہ ہے جو چیزوں کی اضافی قدر کو جانے:
A wise man is one who knows the relative value of things.
یہ ایک فطری حقیقت کا اظہار ہے۔ اس کی روشنی میں دیکھا جائے تو ہندستان کے نام نہاد رہنما یقینی طورپر غیر عاقل ثابت ہوئے ہیں۔ اُنہوں نے یہ تو جانا کہ دستور کے الفاظ کے اعتبار سے ہم کو حکومت سے ٹکراؤ کرنے کا حق حاصل ہے۔ مگر انہوں نے یہ نہیں جانا کہ اس ٹکراؤ کے نتیجہ میں یہ ہوگا کہ مسلمانوں اور یہاں کی اکثریتی فرقہ کے درمیان تناؤ اور نفرت کا ماحول پیدا ہوجائے گا۔ مسلمان حکومت سے ٹکراؤ کا تحمل تو کرسکتے ہیں مگر وہ اکثریتی فرقہ سے ٹکراؤ کا تحمل نہیں کرسکتے جو اُن کی مذکورہ سیاسی پالیسی کے نتیجہ میں لازماً پیش آئے گا۔
۵۔ ایک گفتگو کے ذیل میں میںنے کہا کہ زندگی کو کامیاب بنانے کے لیے جو اُصول ہیں، اُن میں سے ایک اہم اُصول یہ ہے کہ—اگر کسی شخص سے کسی معاملہ میں آپ کی نزاع پیدا ہوجائے تو پہلے ہی مرحلہ میں اُس کو ختم کردیجئے، خواہ اس میں آپ کو کچھ نقصان اُٹھانا پڑے۔ اگر آپ نے پہلے مرحلہ میںاس کو ختم نہیں کیا تو آپ اُس کو بعد کے مرحلہ میں ختم کرنے پر مجبور ہوں گے۔ مگر بعد کو ختم کرنا صرف زیادہ نقصان کی قیمت پر ہوگا اور آپ پر فارسی شاعر کا یہ شعر صادق آئے گا:
آں چہ داناکند کند ناداں
لیک بعد از خرابیٔ بسیار
۶۔ ایک صاحب کے سوال کے جواب میں میں نے کہا کہ جب کسی آدمی کو ذہنی ٹینشن (mental tension) ہوجائے تو وہ یہ چاہنے لگتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح اپنے ذہنی ٹینشن کو ختم کرے تاکہ اُس کو سکون حاصل ہوجائے۔ مگر یہ ایک ناقابل عمل تدبیر ہے۔ ذہنی ٹینشن کے ساتھ ہمیں جینا ہے، نہ کہ اُس کو ختم کرنے کی کوشش کرنا۔
ذہنی ٹینشن جب کسی کو ہوتا ہے تو وہ کسی کو اُس کا ذمہ دار سمجھ کر اُس کا شاکی بن جاتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ذہنی ٹینشن کسی انسانی سبب سے نہیں آتی۔ وہ براہِ راست طورپر فطرت کے نظام کا نتیجہ ہے۔ ہم فطرت کے نظام کو بدل نہیں سکتے۔ اس لیے ہم ٹینشن کا خاتمہ بھی نہیں کرسکتے۔ اس حقیقت کو سمجھ لیا جائے تو ٹینشن اپنے آپ ڈیفیوز ہوجائے گا۔
۷۔ ایک موقع پر میںنے کہا کہ اکثر لوگ یہ غلطی کرتے ہیں کہ اپنے محبوب رہنما کے اقدام کو اُس کے ان بولے ہوئے الفاظ سے جانچتے ہیں جو اس نے اپنے اقدام سے پہلے لکھا تھا یا بولا تھا۔ مگر جانچ کا یہ طریقہ صحیح نہیں۔ عملی اقدام کو اس کے عملی انجام کی روشنی میں جانچنا چاہئے ،نہ کہ رہنماکے قبل از اقدام قول کی روشنی میں۔
دنیا میں کسی اقدام کا نتیجہ اقدام کرنے والے کی خواہش کی بنیاد پر نہیں ہوتا بلکہ قانون فطرت کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ رہنما وہ ہے جو اس حقیقت کو جانے اور اقدام سے پہلے موجودہ حالات کو گہرائی کے ساتھ سمجھ کر یہ اندازہ کرے کہ اُس کا اقدام نتیجہ خیز ہوگا یا نہیں۔ جوآدمی واقعی حالات کا اندازہ کیے بغیر محض اپنی خواہش کے زیرِ اثر عملی اقدام کرے وہ رہنما نہیںہے بلکہ صرف ایک نادان انسان ہے۔ ایسے آدمی کا اقدام بندر کی چھلانگ ہے، نہ کہ دانا انسان کا منصوبہ بند عمل۔
فلسطین کا جہاد، کشمیر کا جہاد، پاکستان بنانے کا ہنگامہ اور مختلف مسلم ملکوں میںاسلامی قانون کے نفاذ کے نام پر ٹکراؤ کی سیاست چلانا وغیرہ سب اسی قسم کے نادانی کے اقدامات ہیں۔ یہ سب وہ لوگ تھے جن پر فرض تھا کہ وہ اپنی نااہلی کے بُرے انجام سے لوگوں کو بچائیں، نہ یہ کہ نا اہلی کے باوجود ایسے عملی نشانوں کی طرف چھلانگ لگا دیں جن کا کو ئی مثبت نتیجہ نکلنے والاہی نہیں۔
۱۹۶۵ کے زمانہ میں جب کہ میں ندوہ (لکھنؤ) میں مقیم تھا، وہاں کے ایک سینیر استاد میرے پاس آئے۔ اُنہوں نے کہا کہ برما میں اراکان کے سرحدی علاقہ میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ میں وہاں جانا چاہتا ہوں تاکہ اس حصہ کو الگ کرکے وہاں اسلامی حکومت بنائی جائے۔ اُنہوں نے کہا کہ اس معاملہ میں آپ میرا ساتھ دیں۔ میں نے کہا کہ استغفر اللہ، یہ کوئی منصوبہ نہیں، یہ تو نادانی کی ایک چھلانگ ہے۔ وہ اس پر غصہ ہوگئے اور یہ سمجھ کر چلے گئے کہ میرے اندر اسلامی حمیت نہیں۔
تاہم جیسا کہ معلوم ہے، اراکان میں کچھ جوشیلے رہنماؤں نے علیٰحدہ مسلم اسٹیٹ کی تحریک چلائی۔ اس تحریک کا نتیجہ صرف یہ ہوا کہ اراکان کے مسلمان تباہ ہوگئے۔ جب برما کی حکومت کی طرف سے ان باغیوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہوئی تو بہت سے مسلمان وہاں سے بھاگ کر بنگلہ دیش آگئے اور اب وہ بنگلہ دیش میں کسمپرسی کی زندگی گذار رہے ہیں۔ اراکان میں مفروضہ مسلم اسٹیٹ تو نہیں بنی البتہ جو کچھ مسلمانوں کو وہاں حاصل تھا وہ بھی تباہ ہوگیا۔ اس قسم کی تحریکیں بہت سے ملکوں میں چلائی گئیں۔ میںان تحریکوں کو پاکستانائیزیشن کہتا ہوں۔ اس قسم کی تحریک بلاشبہہ ایک نادان تحریک ہے۔ اُس کا کوئی جواز نہ عقل میں ہے اور نہ اسلام میں۔
۸۔ کچھ تعلیم یافتہ ہندوؤں سے بات کرتے ہوئے میںنے کہا کہ تاریخ بتاتی ہے کہ ہمیشہ دو قسم کے لیڈر دنیا میںر ہے ہیں۔ ایک وہ جن کو ریفارمر کہا جاسکتا ہے، اور دوسرے وہ جن کو پرافٹ کہا جاتا ہے۔ دونوں میں فرق یہ ہے کہ ریفارمر کا نظریہ انسان بمقابلۂ انسان(man versus man) کے اصول پر مبنی ہوتا ہے اور پرافٹ کا نظریہ انسان بمقابلۂ خدا (man versus God) کے اصول پر قائم ہے۔ ریفارمر کا طریقہ ہمیشہ انسانوں میں دو متحارب گروہ بناتا ہے۔ ریفارمر یہ کرتا ہے کہ وہ انسانیت کے ایک گروہ کو معصوم کے طورپر لیتا ہے اور دوسرے گروہ کو خطاوار کے طور پر۔ اور پھر وہ مفروضہ معصوم گروہ کو مفروضہ خطا وار گروہ سے ٹکرادیتا ہے۔
مثلاً فرانس کے سیاسی ریفارمر روسو نے انسانیت کو سیاسی مظلوم اور سیاسی ظالم کے نام سے دوگروہوں میں بانٹا۔ چنانچہ روسو کی کتاب معاہدۂ عمرانی (Social Contract) اس جملہ سے شروع ہوتی ہے—انسان آزاد پیدا ہوا تھا مگر میںاُس کو زنجیروں میں جکڑا ہوا پاتا ہوں:
Man was born free. But I find him in chains.
اس قسم کا نظریہ ہمیشہ انسانیت کو بانٹتا ہے۔ وہ انسانوں کے درمیان گروہی نزاع پیدا کرتاہے۔ وہ انسانوں کے درمیان نفرت اور تناؤ جیسے منفی جذبات پیدا کرتا ہے۔
پرافٹ کے طریقہ کی مثال دیتے ہوئے میں نے کہا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الخلق عیال اللّٰہ (سارے انسان خدا کی فیملی ہیں)۔ اس نظریہ میں ایک طرف خدا ہوتا ہے اور دوسری طرف تمام انسان۔ اس طرح یہ نظریہ تمام انسان کو ایک اُصول پر متحد کردیتا ہے۔ آپس میں ایک دوسرے کے لیے مثبت جذبات فروغ پاتے ہیں، نہ کہ منفی جذبات۔
۹۔ ایک صاحب نے حالات کی شکایت کی۔ اُس کے جواب میں میں نے کہا کہ خدا نے دنیا میں ایسے اسباب رکھ دیے ہیں کہ یہاں ہمیشہ ہلچل جاری رہے۔ آدمی ہر قسم کے موافق اور مخالف حالات کا تجربہ کرتا رہے۔ اس دو طرفہ تجربہ کے بغیر انسانیت کی تکمیل نہیں ہوسکتی۔
میں نے کہا کہ جو آدمی پھولوں کے چمن میں زندگی گذارے وہ یہ نہیں جانے گا کہ خارستان کیا ہے۔ جو آدمی بلبل کے نغموں کے درمیان جیتا ہو وہ یہ نہیں جانے گا کہ گدھے کی چیخ کیا ہے۔ جو آدمی بے آزار درختوں کے درمیان اپنے صبح و شام بسر کرتا ہو وہ نہیں جانے گا کہ خاردار جھاڑی کیا چیز ہوتی ہے۔ جو آدمی آرام دہ صوفہ پر زندگی گذار رہا ہو وہ نہیں جانے گا کہ ریت اور پـتھر کے اوپر سونا کیا ہے۔
۱۰۔ ایک اعتراض کے جواب میں میں نے کہا کہ ایک افغانی عالم دار العلوم دیو بند میںاُستاد تھے۔ ایک مجلس میںاُنہوں نے کہا کہ میں اتنے عرصہ سے ہندستان میں رہتا ہوں اور میری تعلیم دارالعلوم دیوبند میںہوئی ہے۔ چنانچہ اب میں اُردو زبان اچھی طرح سمجھنے لگا ہوں۔ ایک صاحب نے اُن کا امتحان لینے کے لیے پوچھا کہ ’’کریلا نیم چڑھا‘‘ کا مطلب کیا ہے۔افغانی بزرگ نے کچھ دیر سوچا اور اس کے بعد کہا کہ اس کا مطلب غالباً یہ ہے کہ آدھا پکا ہوا کریلا۔ انہوں نے نیم کو نصف کے معنٰی میں لیا اور چڑھا کو آگ پر ہانڈی چڑھا کر پکانے کے معنٰی میں۔
اس قسم کی زیادہ بڑی غلطی وہ لوگ کرتے ہیں جو اپنی کم فہمی کی بنا پر اسلام کی انوکھی تشریح کرتے ہیں۔ وہ قرآن و حدیث سے ایک دو لفظ کو لے کر خود ساختہ طورپر اس کا ایک مفہوم بناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسلام یہ ہے۔ مثلاً ایک ہندو نے ایک بار اپنی تقریر میں کہا کہ مسلمان یہ شکایت کرتے ہیں کہ تعصب کی بنا پر وہ اقتصادی بد حالی کا شکار ہیں۔ مگر یہ مسلمانوں کے لیے کوئی شکایت کی بات نہیں۔ اس لیے کہ اُن کے پیغمبر نے خود کہا ہے ’’بدأ الاسلام غریباً وسیعود کما بدأ‘‘۔ اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام غریبوں کا مذہب ہے، مسلمان پہلے بھی غریب تھے اور بعد کو بھی وہ غریب رہیں گے۔ ایسی حالت میں اگر مسلمان اقتصادی اعتبار سے کمزور ہوں تو اس میں شکایت کی کوئی بات نہیں۔ یہ تو عین وہی بات ہے جو خود اُن کے پیغمبر نے کہی ہے۔
مذکورہ ہندو نے حدیث کا یہ مطلب اس لیے نکالا کہ اُس نے اپنے ذہن کے مطابق، غریب کا مطلب محتاج (poor) سمجھا تھا۔ حالاں کہ غریب کا مطلب عربی زبان میں اجنبی (stranger) کے ہیں۔
اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ آپ سچّے خدا پرست بن کر رہیں، آپ اللہ کے دین کے داعی بنیں، آپ اللہ کی پسند والی زندگی گذاریں تو آپ کو کچھ ایسی چیزوں کو چھوڑنا پڑے گا جو آپ کی دینی زندگی کو ڈسٹرب کرنے والے ہوں۔ مثلاً اس کے لیے آپ کو حرص کو چھوڑنا پڑے گا۔ ورنہ آپ دنیا میں اس طرح پھنس جائیں گے کہ آخرت کے کام کے لیے آپ کے پاس وقت ہی نہیں رہے گا۔ اسی طرح آپ کو ر د عمل کی نفسیات سے اوپر اُٹھنا ہوگا، ورنہ آپ کا ذہن غصہ اور نفرت اور انتقام اور کینہ کا کارخانہ بن جائے گا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آپ اللہ کے سچے تعلق سے محروم ہو جائیں گے۔ اسی طرح آپ کو وقت کے ضیاع سے بچنا ہوگا ،ورنہ آپ کے پاس دین کے کام کے لیے کوئی ٹائم ہی نہیں رہے گا۔ اسی طرح آپ کو اسراف سے بچنا ہوگا، ورنہ آپ کا مالی بجٹ اس طرح غیر مستحکم ہوجائے گا کہ آپ ساری زندگی پیسہ کمانے میں لگے رہیں گے اور کوئی مزید کام نہ کرسکیں گے، وغیرہ۔
۱۱۔ ایک مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے میں نے کہا کہ نماز اللہ کی عبادت کا ایک محفوظ اور غیرمحرّف فارم ہے۔ یہ بلا شبہہ اہل اسلام کے لیے بہت بڑی نعمت ہے۔ کیوں کہ کسی دوسرے مذہبی نظام میں اللہ کی عبادت کا وہ فارم محفوظ نہیں جو اللہ کو مطلوب ہے اور جس کی تعلیم اُس نے پیغمبروں کے ذریعہ دی ہے۔
قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ: و ماکان صلٰوتہم عند البیت الا مکاء ً و تصدیۃ (التوبہ) عام طور پر اس آیت کا مطلب یہ سمجھا جاتا ہے کہ رسول اللہ جب کعبہ میں نماز پڑھتے تو مشرکین آپ کی نماز کو ڈسٹرب کرنے کے لیے سیٹی بجاتے اور تالی بجاتے۔ مگر آیت کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ اُن کے یہاں نماز تھی مگر وہ بگڑی ہوئی حالت میں تھی۔ پچھلے مذہبوں میں عبادت الٰہی کا جو فارم بتایا گیا تھا وہ بعد کے زمانہ میں اپنی ابتدائی شکل میں باقی نہیں رہا۔ دینی اسپرٹ اور اللہ سے تعلق میں کمی کے نتیجہ میں اُن کی عبادت خارجی مظاہر میں تبدیل ہو کر عبادت کا صرف ایک ناقص فارم بن گئی۔ یہی وہ ناقص فارم ہے جو آج اسلام کے سوا تمام مذہبوں میں دکھائی دیتا ہے۔ عبادت کے وقت گانا اور بجانا اور تالی پیٹنا اور رقص کرنا یا الفاظ کی جَپ (chanting) کرنا اس کی مثالیں ہیں۔
اسلام میں بھی بعد کے زمانہ میں طرح طرح کی بدعات کی صورت میں عبادت کے فارم کو بگاڑنے کی کوشش کی گئی۔ مگر یہ بدعات اسلام کے اصل عبادتی فارم کو بدلنے میں کامیاب نہیں ہوئیں۔
۱۲۔ ایک گفتگو کے ذیل میں میں نے کہا کہ شاہ ولی اللہ دہلوی نے لکھا ہے کہ جن مختلف چیزوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بتایا جاتا ہے اُن میں سے کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کی حیثیت سنتِ نبوی کی نہیں ہے بلکہ اُن کی حیثیت عادت عرب کی ہے۔ چوں کہ عرب کے سماج میں ان چیزوں کا رواج تھا اس لیے آپ نے بھی اُن کو اختیار کرلیا، مثلاً عمامہ، وغیرہ۔
میں اس بات کو لفظ بدل کر یہ کہوں گا کہ پیغمبر اسلام نیز ہر پیغمبر کی زندگی میں دو قسم کی چیزیں ہوتی ہیں۔ ایک، سنت پیغمبر اور دوسرے، عادت انسانی۔ سنت پیغمبر کا تعلق اُن افعال سے ہے جن پر آخرت کی نجات کا انحصار ہے اور عادت انسانی کا تعلق اُن چیزوں سے ہے جن کا تعلق دنیا میں صاف ستھری زندگی گذارنے سے ہے۔
مثلاً حضرت ابراہیم گھوڑے پر سواری کرتے تھے اور رسول اللہ ﷺکی سواری اونٹ تھی۔اس فرق کا سبب یہ تھا کہ قدیم عراق میں گھوڑے کی سواری کا رواج تھا اور قدیم عرب میں اونٹ کی سواری کا رواج۔ رسول اللہ ﷺنے مدعو کی زیادتیوں پر صبر کیا۔ یہ بھی آپ کی ایک سنت تھی۔ اس سنت کا تعلق آخرت کی کامیابی سے ہے۔ اسی طرح رسول اللہ ﷺنے عمامہ اور خضاب،وغیرہ کے معاملہ میں ایک طریقہ اختیار فرمایا۔ ان طریقوں کا تعلق حقیقۃً عادتِ انسانی سے تھا، نہ کہ سنتِ نبوی سے۔
ان دونوںقسم کے طریقوں یا سنتوں میں فرق کرنا بے حد ضروری ہے۔ اگر ان دونوں کے درمیان فرق نہ کیا جائے تو اُس کا نقصان یہ ہوگا کہ لوگ دنیوی اہمیت کی چیزوں کو وہ درجہ دے دیں گے جو آخرت والی اہمیت کی چیزوں کا درجہ ہے۔ وہ اُس کو تقویٰ کی علامت سمجھ لیں گے۔ حالاں کہ تقویٰ کا تعلق دل سے ہے، نہ کہ ظاہری چیزوں سے۔
۱۳۔ ایک صاحب کو نصیحت کرتے ہوئے میں نے کہا کہ گرنے کا نام ہار نہیں۔ ہارنے والا وہ ہے جو گرنے کے بعد اُٹھنے والا نہ بن سکا۔ اس دنیا کا نظام اس طرح بنا ہے کہ یہاں گرنا بھی ہوتا ہے اور اُٹھنا بھی۔ یہاں کامیابی بھی آتی ہے اور ناکامی بھی۔ یہاں کبھی فائدہ ہوتا ہے اور کبھی نقصان۔ ایسی حالت میں یہ ناممکن ہے کہ کوئی شخص اس دنیا میں ہمیشہ کامیاب ہو، اس کو کبھی ناکامی کا تجربہ پیش نہ آئے۔ اس دنیا میں کامیابی کی صحیح تعریف یہ ہے کہ آدمی کو جب فطرت کے قانون کے مطابق، ناکامی کا تجربہ پیش آئے تو وہ مایوس نہ ہو، وہ اپنا حوصلہ نہ کھوئے۔ وہ ہر ناکامی کے بعد دوبارہ اپنی جدوجہد شروع کردے، وہ ہر ناکامی کے بعد از سرِ نو اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرسکے۔
۱۴۔ ایک مجلس میں ایک صاحب نے مرزا غالب کا ایک واقعہ بیان کیا۔ اُنہوں نے بتایا کہ ایک مرتبہ مرزا غالب کے پاس اُن کے ایک تاجر دوست جو اُن کے معتقد تھے آئے اور کہا کہ میں دہلی چھوڑ کر کلکتہ جارہا ہوں۔ آپ سے رخصتی ملاقات کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ مرزا غالب نے پوچھا کہ آپ دہلی چھوڑ کر کلکتہ کیوں جارہے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ دلّی میں میرا کاروبار نہیں چل رہا ہے وہاں جاکر کوشش کروں گا۔ مرزا غالب نے کہا کہ جب آپ کلکتہ پہنچیں تو وہاں کے اللہ میاں کو ہمارا سلام کہنا۔ اس پر مذکورہ تاجر دوست نے کہا کہ کیا وہاںکے اللہ میاں الگ ہیں۔ مرزا غالب نے جواب دیا کہ اگر وہاں کے اللہ الگ نہ ہوتے تو آپ دلّی چھوڑ کر کلکتہ نہیں جاتے۔ اس کے بعد دوست لاجواب ہوگئے اور اُنہوں نے کلکتہ جانے کا ارادہ ترک کردیا۔
بات کہنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک منطقی انداز اور دوسرا پُر لطف انداز۔ مرزا غالب کا مذکورہ واقعہ کسی بات کو پُر لطف انداز میں کہنے کی ایک مثال ہے۔ اس کے مقابلہ میں دوسرا طریقہ علمی اور منطقی طریقہ ہے۔ پہلا طریقہ ہر آدمی کو اپیل کرتا ہے اور دوسرا طریقہ صرف سنجیدہ لوگوں کو اپیل کرے گا۔
۱۵۔ ایک مجلس میں میں نے کہا کہ کوئی شخص پیدا ہوتے ہی ہر قسم کا مادی سازوسامان پالے ۔ باپ کی کمائی کی بنیاد پر اُس کو ابتدا ہی میں ہر قسم کی آسانیاں مل جائیں تو عام لوگ اس کو ایک خوش قسمت انسان سمجھتے ہیں۔ انگریزی میںایسے آدمی کے بارہ میں کہا جاتا ہے کہ—فلاں شخص اپنے منھ میں چاندی کا چمچہ لے کرپیدا ہوا۔
He was born with a silver spoon in his mouth.
مگر میرے تجربہ کے مطابق، سب سے زیادہ محروم انسان وہ ہے جو اپنی کم عمری ہی میں اپنی پسندیدہ چیز پالے۔ مثلاً پُر کشش بیوی، شاندار مکان، زرق برق کار، بینک بیلنس ، دوستوں کا حلقہ، محنت کے بغیر کافی آمدنی، عزت اور عہدہ، وغیرہ۔ ابتدائی عمر میں آدمی زیادہ گہرائی کے ساتھ سوچنے کے قابل نہیں ہوتا۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ملی ہوئی چیز کو کافی سمجھ کر بس اسی میں گُم ہوجاتا ہے ۔ راحت اور لذّت ہی کو وہ اپنا سب کچھ سمجھ لیتا ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ بس ایک فربہ او رخوش پوش حیوان بن کر رہ جاتا ہے۔ اُس کی ذہنی سطح حیوانی سطح سے آگے نہیں بڑھتی۔
اصل یہ ہے کہ انسان فطرت سے بے پناہ صلاحیت لے کر پیدا ہوتا ہے۔ یہ صلاحیت ابتداء ً غیر پختہ حالت میں ہوتی ہے۔ پینتیس سال کے بعدانسان پختگی کی حالت پر پہنچتا ہے۔ اس طرح ہر انسان گویا ایک خام لوہا (ore) ہوتا ہے جس کو دوبارہ اسٹیل(steel) بننا ہے۔ یہ ارتقائی مرحلہ صرف پُرمشقت حالات کے درمیان طے ہوتا ہے۔ پُر مشقت حالات اور چیلنج کے سوا کوئی دوسری چیز نہیں جو اس ارتقائی عمل میں کار آمد ہوسکے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو آدمی زندگی کے آغاز ہی میں وہ حالات پالے جس میں اُس کو کچھ کیے بغیر سب کچھ مل جائے، وہ گویا خام لوہے کے درجہ میں پڑا رہے گا۔ اس کے برعکس جو آدمی پُر مشقت حالات سے گذ رے اور چیلنج کاسامنا کرکے اپنی زندگی بنائے وہ اس عمل کے دوران خام لوہے سے ترقی کرکے قیمتی اسٹیل بن جائے گا۔
۱۶۔ ایک مجلس میں میں نے کہا کہ حدیث میں آیا ہے کہ: عجب اللہ من قوم یدخلون الجنّۃ فی السلاسل (صحیح البخاری، کتاب الجہاد، سنن ابی داؤد کتاب الجہاد،مسند احمد) یعنی کچھ لوگ زنجیروں میں باندھ کر جنت میں داخل کیے جائیں گے۔ اس حدیث کا مطلب عام طورپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ زنجیر میں باندھنے کا یہ واقعہ آخرت میں پیش آئے گا۔ مگر یہ بات درایت یا کامن سنس کے خلاف ہے۔ اس لیے کہ آخرت میں اگر کسی کو معلوم ہوجائے کہ اس کو جنت دے دی گئی ہے تو وہ خود ہی بھاگ کر جنت میں داخل ہو جائے گا، نہ یہ کہ اس کو باندھ کر زبردستی جنت میں پہنچانا پڑے۔
صحیح یہ ہے کہ یہ واقعہ دنیا میں پیش آئے گا۔ زنجیر میں باندھنا اس کو دنیا کی مصیبتوں میں ڈالنا ہے۔ زنجیر میں باندھنا دنیا کی مصیبتوں میں مبتلا کرنے کی ایک تعبیر ہے۔ یہ معاملہ غالباً ان مخصوص لوگوں کے ساتھ پیش آئے گا جن کے اندر یہ صلاحیت ہو کہ وہ مصیبتوں میں پڑیں تو وہ منفی نفسیات کا شکار نہ ہوجائیں۔ بلکہ مصیبت کا واقعہ ان کے اندر رجوع الی اللہ کی کیفیت پیدا کردے۔ وہ ان کو اللہ سے قریب کرنے کا ذریعہ بن جائے۔ جن افراد کے اندر یہ صلاحیت موجود ہوتی ہے اُن کے لیے مصیبت کا تجربہ ربّانی نفسیات جگانے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ وہ غفلت سے نکل کر اللہ کی یاد کرنے والے بن جاتے ہیں اور اس طرح وہ جنت کے مستحق ہوجاتے ہیں۔ یہ پورا واقعہ آج کی دنیا میں ہوتا ہے، نہ کہ آخرت کی دنیا میں۔
۱۷۔ ایک مجلس میں میںنے کہا کہ قدیم زمانہ میں پرنٹنگ پریس موجود نہ تھا۔ اس بنا پر ناول اور افسانے عمومی طورپر پائے نہیں جاتے تھے۔ ٹی وی اور سینما جیسی تفریحی چیزیں بھی موجود نہ تھیں۔ چنانچہ قدیم زمانہ میں ہر جگہ کچھ ایسے لوگ ہوا کرتے تھے جن کو قصاص یا قصہ گو (story teller) کہا جاتا تھا۔ یہ افراد لوگوں کے لیے تفریح کا سامان فراہم کرتے تھے۔ دور پریس سے پہلے اس قسم کے افراد ہر سماج میں ہر مقام پر ہوا کرتے تھے۔ میںنے خود بھی اپنے بچپن میں ایک قصہ گو کو دیکھا ہے۔ یہ ایک مسلمان تھے جن کا نام گُھرہُو تھا۔ وہ بچوں یا بڑوں کو اکھٹا کر کے عجیب و غریب قصے سنایا کرتے تھے۔ یہ فرضی قصے اتنے دلچسپ ہوتے تھے کہ آدمی گھنٹوں سننے کے باوجود اکتاتا نہ تھا۔
فتوحات کے بعد جب اسلام شام و ایران اور مصر و عراق وغیرہ جیسے ملکوں میں داخل ہوا تو وہاں اس قسم کے بہت سے قصاص موجود تھے۔ ان لوگوں کے اثر سے مسلمانوں میں بھی قصاص کا گروہ پیدا ہوگیا۔ ان لوگوں نے مزید یہ کیا کہ قصہ گوئی کو اسلامائز کر لیا۔ یعنی عجیب و غریب قسم کی کہانیوں کو رسول اور اصحاب رسول اور بزرگانِ دین کے حوالہ سے بیان کرنے لگے۔ یہ قصہ گوئی چونکہ عربی زبان میں ہوتی تھی۔ اس لیے جب ان کا مجموعہ کتابی شکل میں مرتب ہو کر پھیلا تو لوگ اس کو سچ مُچ حدیث کی طرح مقدس سمجھنے لگے۔ یہ فرضی قسم کی مقدس کہانیاں مسلم دنیا میں پھیل گئیں اور پھر وہ ترجمہ ہو کر ہندستان جیسے ملکوں میں بھی پہنچ گئیں۔
اس قسم کی پُر اسرار اور پُر عجوبہ کہانیاں سراسر بے اصل ہیں۔ وہ مسلمانوں کا ذہن بگاڑتی ہیں۔ وہ مسلمانوں سے صحیح دینی اسپرٹ ختم کر دینے والی ہیں۔ ان انوکھی کہانیوں میں دنیا کی بھی تباہی ہے اور آخرت کی بھی تباہی ۔ دنیا کی تباہی اس لیے کہ اس قسم کی کہانیاں آدمی کے اندر غیر حقیقت پسندی کا مزاج پیدا کرتی ہیں اور آخرت کی تباہی اس لیے کہ آدمی اس جھوٹے بھرم میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ حقیقی عمل کے بغیر سستے اعمال کرکے وہ جنت حاصل کرسکتا ہے۔
۱۸۔ ایک مجلس میں میں نے قرآن کی دو آیتوں کی تشریح کی۔ ان کا ترجمہ یہ ہے: کیا ایمان والوں کے لیے وہ وقت نہیں آیا کہ اُن کے دل اللہ کی نصیحت کے آگے جھک جائیں اور اُس حق کے آگے جو نازل ہوا ہے۔ اور وہ ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائیں جن کو پہلے کتاب دی گئی تھی، پھر اُن پر لمبی مدت گزر گئی تو اُن کے دل سخت ہوگئے اور اُن میں سے اکثر نافرمان ہیں۔ جان لو کہ اللہ زمین کو زندگی دیتا ہے اُس کی موت کے بعد۔ ہم نے تمہارے لیے نشانیاں بیان کردی ہیں، تاکہ تم سمجھو (الحدید۱۶۔۱۷)
اس آیت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اُمت مسلمہ پُر اسرار طورپر قساوت میں مبتلا ہونے سے محفوظ کردی گئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قساوت کا تعلق فطرت کے قانون سے ہے اور وہ ہر امت کے ساتھ بعد کی نسلوں میں ڈی جنریشن(de-generation) کے نتیجہ میں پیش آتا ہے۔ اصل یہ ہے کہ پیغمبر کی امت کی پہلی جنریشن معرفت (realization)کے ذریعہ خدا کے دین میں داخل ہوتی ہے۔ اس کا ایمان ذہنی انقلاب کے ہم معنیٰ ہوتا ہے۔ مگربعد کی نسلوں میں ایسا ہوتا ہے کہ لوگ صرف پیدائش کی بنا پر مسلم گروہوں میں شامل ہوجاتے ہیں۔ اس لیے امت کے بعد کی نسلوںمیں خشوع کا عنصر ختم ہوجاتا ہے۔ کیوں کہ خشوع معرفت سے آتا ہے، نہ کہ پیدائشی وراثت سے ۔
فرمایا کہ بعد کی نسلوں میں جب ایسا ہو تو یہ کرنا ہوگا کہ دوبارہ لوگوں کے شعور کو جگایا جائے اور اُنہیں پھر سے معرفت والے ایمان پر کھڑاکیا جائے۔ اسلام کو اُن کے لیے ری ڈسکوری (re-discovery) بنایا جائے۔ اس معاملہ کی وضاحت کے لیے قرآن میں زمین کی مثال دی گئی ہے۔ زمین کے ساتھ بھی یہی ہوتا ہے کہ وہ کچھ عرصہ کے بعد مردہ (بنجر) ہوجاتی ہے۔ اُس وقت کسان زرعی عمل کرکے اُس زمین کو دوبارہ فصل کے قابل بناتا ہے۔ ڈی جنریشن کے بعد ری جنریشن (re-generation) کا یہی معاملہ امت میں نسل در نسل جاری رہنا چاہیے۔ تاکہ وہ قساوت سے بچے اور وہ خشوع والے ایمان پر قائم رہے۔
۱۹۔ ایک مجلس میں میں نے مولانا اسحاق کمال قادری کا واقعہ بیان کیا۔ وہ عرصہ سے ماہنامہ الرسالہ اور میری کتابوں کا مطالعہ کررہے ہیں۔ ایک بار حیدر آباد میں کئی دن اُن کو میری صحبت میںرہنے کا موقع ملا۔ اس دوران میں نے اُن سے پوچھا کہ اس تجربہ کی روشنی میں آپ بتائیں کہ تحریر اور صحبت میں کیا فرق ہے۔ یعنی کسی شخص کو کتابوں میں پڑھ کر اُس کے بارہ میں کتنا علم ہوتا ہے اور اُس کی صحبت میں رہ کر براہ راست اُس کی زبان سے سننے میں کیا حاصل ہوتا ہے۔ میرے بارہ میں تجربہ کی نسبت سے آپ اس فرق کو بتائیں۔
اُنہوں نے کہا کہ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اس شخصیت کے قول و عمل میںتضاد ہے یا نہیں، اس کا اندازہ صرف تحریر کو پڑھ کر نہیں ہوسکتا مگر صحبت سے بخوبی طورپر ہوجاتا ہے۔ چنانچہ صحبت کے بعد یا تو آدمی کی عظمت گھٹ جاتی ہے یا اُس کی عظمت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ پھر اُنہوں نے میرے بارہ میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ میرا تجربہ تو یہ ہے کہ میں نے آپ کی تحریر اور آپ کے عمل میں کوئی تضاد نہیں پایا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ کے ساتھ قلبی تعلق میںاور زیادہ اضافہ ہوگیا۔
۲۰۔ کم آمدنی والے لوگوں میں میں نے اکثر ایک مشترک مزاج پایا ہے۔ وہ یہ کہ یہ لوگ اکثر اس فکر میں رہتے ہیں کہ اپنی آمدنی کو کسی نہ کسی طرح بڑھائیں تاکہ اُن کے بچوں کو زیادہ آرام وراحت مل سکے۔ اس قسم کے ایک صاحب کو مشورہ دیتے ہوئے میں نے کہا کہ یہ ایک غلط مزاج ہے۔ یہ مزاج آدمی کو طرح طرح سے نقصان پہنچاتا ہے۔ یہاں تک کہ اُس کا ملا ہوا سکون بھی درہم برہم ہو جاتا ہے۔
اس کے برعکس صحیح مزاج یہ ہے کہ آدمی آئندہ ترقی کے معاملہ کو بچوں پر چھوڑ دے۔ اُس کو جو کچھ مل رہا ہے اُس پر وہ راضی رہ کر گزارہ کرنے کی کوشش کرے۔ اس کی آمدنی اگر فطری طورپر بڑھ جائے تو وہ اُس کو اللہ کا انعام سمجھ کر ادا کرے۔ لیکن وہ اپنی آمدنی کو بڑھانے کے لیے زیادہ ہاتھ پاؤں نہ مارے۔ اُس کو چاہئے کہ وہ زیادہ آمدنی کے لیے اپنے بچوں کو تیار کرے۔ بچوں کو تعلیم دینا، بچوں کو ہُنر سکھانا، بچوں کے اندر شعورِ حیات پیدا کرنا، یہ سب مستقبل کے لیے اُس کا نشانہ ہونا چاہئے۔ اس کا دونکاتی فارمولا یہ ہونا چاہئے—اپنے لیے قناعت، اوربچوں کے لیے ترقی۔
۲۱۔ ایک مجلس میں میںنے کہا کہ ایک دیہاتی مقولہ ہے: بِتَّہ بھر جوتے، کچہری میں کھوکھے۔ یعنی آدمی کے پاس جوتنے کے لیے ایک بالشت زمین ہو مگر کچہری میں وہ آئے دن پہنچا رہے۔ یہ مقولہ اُن لوگوں کے لیے ہے جو مقدمہ بازی کو اپنی عادت بنالیتے ہیں۔ مقدمہ لڑنے کے لیے عدالت میں جانا جن کا مشغلۂ حیات بن جاتا ہے۔
دوسرے لوگ وہ ہیں جو سنجیدہ اور شریف ہوتے ہیں۔ جن کو مقدمہ بازی ایک ناقابلِ برداشت مصیبت معلوم ہوتی ہے۔ اگر اتفاقاً وہ کسی مقدمہ میں پھنس جائیں تو وہ مسلسل ذہنی کوفت میں مبتلا رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو میرا بہترین مشورہ یہ ہے کہ وہ یہ سوچ لیں کہ وہ یا تو مقدمہ جیتیں گے یا مقدمہ ہاریں گے۔ اس کے سوا کوئی تیسری صورت ہونے والی نہیں اور پھر وہ دونوں کے لیے یکساں طورپر تیار ہوجائیں۔
اگر وہ اپنے اندر یہ سوچ پیدا کرلیں تو اس کا پہلا فائدہ یہ ہوگا کہ عدالت کا سامنا کرنا اُن کے لیے آسان ہوجائے گا۔ وکیل کی صورت میں جب قانونی مُکَّہ باز (legal boxer) سے اُن کا مقابلہ پیش آئے گا تو وہ معتدل ذہن کے ساتھ اُس کو جواب دے سکیں گے۔ عام لوگ اس اندیشہ میںمبتلا رہتے ہیں کہ کہیں وہ مقدمہ ہار نہ جائیں۔ لیکن جب ایک شخص ہار کا بھی استقبال کرنے کے لیے تیار ہو تو اُس کے اندر ایک نیا حوصلہ پیدا ہوجاتا ہے۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ حوصلہ مند آدمی اس قابل ہوتا ہے کہ وہ زیادہ بہتر طورپر زندگی کے مسائل کا سامنا کرسکے۔
۲۲۔ ایک گفتگو کے دوران میں نے کہا کہ مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قیامت قریب آگئی ہے۔قرآن کے مطابق، قیامت سے پہلے پیش آنے والے تین واقعات ظاہر ہوچکے ہیں۔ ایسی حالت میں اب قیامت میں زیادہ تاخیر کی بظاہر کوئی وجہ نہیں۔
اس سلسلہ میں پہلی چیز قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتی ہے: اولم یر الذین کفروا ان السمٰوات والارض کانتا رتقاً ففتقناہما (الأنبیاء ۳۰) اس آیت میںمجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قرآن مستقبل کے منکرینِ خدا کو خطاب کررہا ہے اور بتارہا ہے کہ تمہارے سامنے ایک ایسی کھُلی شہادت ظاہر ہونے والی ہے جس کے بعد خدا کے وجود کاانکار عقلی طور پر ناممکن ہوجائے۔ یہ شہادت موجودہ زمانہ میں بِگ بینگ(Big Bang) کا کائناتی نظریہ ہے۔ یہ نظریہ اب سائنسی طورپر ثابت ہوچکا ہے۔ یہ خالص علم انسانی کی سطح پر یہ ثابت کررہا ہے کہ کائنات کا پیدا کرنے والا ایک خالق ہے۔ اُس نے تقریباً ۲۰ بلین سال پہلے ہماری کائنات کو وجود دیا۔
اس سائنسی تحقیق کے بعد اب کسی سنجیدہ انسان کے لیے خدا کے وجود کا انکار کرنے کی کوئی معقول وجہ نہیں۔ اس تحقیق کے بعداب انسان کے سامنے صرف دو میں سے ایک کا انتخاب ہے۔ یا تو وہ خالق کے وجود کو مانے یا کائنات کے وجود کاانکار کردے اور خود اپنے وجود کا بھی۔
قرآن میں ایک پیشگی اطلاع یہ دی گئی تھی کہ —ہم اُن کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں بھی اور خود اُن کے اندر بھی۔ یہاںتک کہ اُن پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ قرآن حق ہے(حٰم السجدہ ۵۳)
اس آیت میں بتایا گیاتھا کہ مستقبل میں خالص علمی تحقیق کے ذریعہ ایسی شہادتیں سامنے آئیں گی جو قرآن کی صداقت کا یقینی ثبوت ہوں۔ یہ شہادتیں یا نشانیاں اب پوری طرح ظاہر ہوچکی ہیں۔ اس موضوع پر مختلف زبانوں میں بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک کتاب ڈاکٹر مَورث بُکائی کی ہے جو فرانسیسی زبان میں لکھی گئی تھی اور پھر مختلف زبانوں میں اس کا ترجمہ ہوا۔ انگریزی میں اس کتاب کا نام یہ ہے:
The Bible, The Qur’an and Science
اس سلسلہ میں تیسری چیز دابۃ ہے جس کا ذکر قرآن میں اس طرح کیا گیا ہے—اور جب اُن پر بات آپڑے گی تو ہم اُن کے لیے زمین سے ایک دابۃ نکالیں گے جو اُن سے کلام کرے گا کہ لوگ ہماری آیتوں پر یقین نہیں رکھتے تھے (النمل ۸۲)
اس آیت میں دورِ آخر میں نکلنے والے دابۃ کا ذکر ہے۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ زمانہ میں موبائل ٹیلی فون اسی دابۃ کی مشینی تعبیر ہے۔ موبائل ٹیلی فون نے یہ ثابت کیا ہے کہ انسان اور انسان کے درمیان بعید فاصلوں سے ربط قائم کیا جاسکتا ہے۔ جب کہ دونوں کے درمیان بظاہر کوئی مادّی رشتہ موجود نہ ہو۔ اور جب انسان اور انسان کے درمیان فاصلہ کے باوجود غیر مرئی طورپر ربط قائم ہوسکتا ہو تو انسان اور خدا کے درمیان ربط قائم ہونا اپنے آپ ثابت ہو جاتا ہے۔ اور یہی رسالت اور وحی کا معاملہ ہے۔
اس طرح اب خدا کی طرف سے انسانی نسلوں کے اوپر خود علم انسانی کے ذریعہ آخر ی اتمام حجت ہو چکا ہے۔ اور جب لوگوں کے اوپر آخری اتمامِ حجت ہوجائے تو اُس کے بعد قیامت کے ظہور میںکوئی سببِ تاخیر باقی نہیں رہتا۔
۲۳۔ میرٹھ کے سفر میںایک خاص بات میں نے یہ دیکھی کہ یہاں جو لوگ الرسالہ مشن سے جڑے ہوئے ہیں وہ اسی کے ساتھ وہ کا م بھی کررہے ہیں جس کو موجودہ زمانہ میں سوشل سروس کہا جاتا ہے۔ ایک طرف وہ دعوہ ورک مستقل طورپر کرتے ہیں اور اسی کے ساتھ ساتھ سوشل ورک بھی مستقل طورپر انجام دیتے ہیں۔ مولانا عرفان صاحب، ساجد خاں صاحب اور شہزاد علی صاحب وغیرہ، سب اس میں شریک ہیں، ان کا سوشل ورک مسلمانوں سے زیادہ غیر مسلموں میں ہورہا ہے۔
یہ طریقہ بے حد اہم ہے۔ موجودہ صورت حال یہ ہے کہ مختلف اسباب سے مسلمانوں اور غیر مسلموں میںدوری پیدا ہوگئی ہے۔ نفرت اور کشیدگی کا ماحول بن گیا ہے۔ ایسی حالت میں دعوت کا کام عملی طورپر کامیاب نہیں ہوسکتا۔ موجودہ حالات میں پہلا کام یہ ہے کہ دوری کو مٹایا جائے۔ نفرت کو ختم کیا جائے۔ لوگوں کے دلوں کو نرم کیا جائے اس کے بعد ہی داعی اور مدعو کے درمیان وہ معتدل ماحول بنے گا جس کے تحت کامیابی کے ساتھ دعوہ ورک ہوسکے۔ میرٹھ کا حلقہ اس معاملہ کی ایک قابل تقلید مثال ہے۔
ایک صاحب سے اس مثال کا تذکرہ کرتے ہوئے میںنے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ میرٹھ میں دعوت کا کام آگے بڑھے گا۔ کیونکہ یہاں دعوت کی ابتدائی بنیاد موجود ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہر جگہ مسلمانوں کو سچی خیر خواہی کے ساتھ سوشل ورک کرناچاہئے، صرف مسلمانوں کے لیے نہیںبلکہ ساری انسانیت کے لیے۔ میںنے کہا کہ ’’امت پنا‘‘ کا تصور اسلام کی آفاقی روح کے خلاف ہے۔ اسلام کی اصل روح ’’انسانیت پنا‘‘ ہے نہ کہ ’’امت پنا‘‘۔ اس معاملہ میں موجودہ مسلمانوں کا مزاج دعوت کے راستہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ جب تک یہ مزاج نہ بدلے، حقیقی معنوں میں دعوت کا کام نہیں ہوسکتا۔
۲۴۔ ایک مجلس میں میںنے کہا کہ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں میں ایک دینی صفت بالکل اُٹھ گئی ہے اور وہ سادگی ہے۔ حالاں کہ سادگی کی اتنی زیادہ اہمیت ہے کہ اس کو ایمان کا ایک جزء بتایا گیا ہے۔ ایک صحابی کہتے ہیں کہ: ہم کو تکلف سے منع کیا گیا ہے (نہیناعن التکلف) ہر معاملہ میں سادگی کا طریقہ اسلام کا طریقہ ہے اور تکلف کا طریقہ غیر اسلامی طریقہ ہے۔ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں میںیہ بیماری اتنی عام ہے کہ ہر ملک میں اس کا منظر دکھائی دیتا ہے۔
کھانا صحت کے لیے ہے۔ صحت بخش کھانا وہی ہے جو سادہ کھانا ہو۔ مگر مسلمانوں نے ساری دنیا میں کھانے کو لذت کی چیز سمجھ لیا ہے۔ ہر مسلمان کی کمائی کا سب سے بڑا حصہ اس پر خرچ ہوتا ہے کہ کھانے کو زیادہ سے زیادہ لذیذ بنایا جائے۔ یہ لذیذ کھانا اسراف بھی ہے، وہ صحت کو بھی خراب کرتا ہے اور سادگی کے مزاج کو بھی ختم کرتا ہے۔ جب کہ سادگی ایمان کی پرورش کے لیے بے حد ضروری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو آدمی لذیذ کھانا کھائے وہ نہ صرف اپنی صحت کو کھوتا ہے بلکہ وہ اس سے بھی محروم ہوجاتا ہے کہ اس کو اعلیٰ ایمانی کیفیات کا تجربہ ہو۔ لذیذ کھانا گہرے ایمانی احساس کے لیے قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔ جولوگ لذیذ کھانے سے اوپر نہ اٹھ سکیں وہ ایک قسم کے خوش پوش حیوان ہیں، انہیں کبھی بلند انسانیت کا تجربہ نہیںہوسکتا۔
اسی طرح لباس اور تیوہار اور تقریبات اور شادی بیاہ اور سماجی رسوم اور خاندانی رواج میں اور بچوں کی ناز برداری میں تقریباً ہر مسلمان اتنا زیادہ پیسہ خرچ کرتا ہے جو بلا شبہہ اسراف اور تبذیر کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور اسراف و تبذیر میں مبتلا ہونے والوں کو قرآن میںشیطان کا بھائی کہا گیا ہے۔ یہ بے حد خطرناک بات ہے۔ ایسے لوگوں کا اس وقت کیا حال ہوگا جب کہ آخرت میںان کے بارے میں اعلان کیا جائے کہ یہ لوگ شیطان کے بھائی ہیں۔ ان کو اس مقام پر لے جاؤ جس کو شیطانوں کے لیے مخصوص کیا گیا ہے۔
۲۵۔ ایک مجلس میں میں نے کہا کہ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں میںایک برائی بہت عام ہے۔ وہ کسی ایک حدیث کو لے لیں گے اور اس کو مطلق اور عمومی بنا کر اس کے معاملہ میںآخری حد تک پہنچ جائیں گے اور کہیں گے کہ ہم فلاں حدیث پر عمل کررہے ہیں۔ حالانکہ یہ سراسر غیر اسلامی فعل ہے۔ اس روش پر سخت مواخذہ کا اندیشہ ہے۔
مثال کے طورپر لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ ایک حدیث سے اَولموا (ولیمہ کرو) کا لفظ لے لیں گے۔ اور اپنی شادیوں میں ولیمہ کے نام پر اتنا زیادہ خرچ کریں گے جو اپنی حقیقت کے اعتبار سے شیطانی طریقہ پر عمل کرنا ہوگا، نہ کہ سنت کے طریقہ پر عمل کرنا۔
۲۶۔ ایک صاحب نے کہا کہ امت میںآج اتنازیادہ اختلاف ہے۔ بے شمار جماعتیں اور تنظیمیں بنی ہوئی ہیں۔ اس کی وجہ سے پوری امت انتشار میں مبتلا ہے۔ ایسی حالت میں اتحاد کی کیا صورت ہوسکتی ہے۔ میں نے کہا کہ اتحاد ہمیشہ اختلاف کے باوجود ہوتا ہے، نہ کہ اختلاف کے بغیر۔ اتحاد کا راز اختلاف کو برداشت کرنا ہے، نہ کہ اختلاف کو مٹانا۔ حقیقت یہ ہے کہ رایوں کا اختلاف یا تنظیموں کی کثرت ایک فطری امر ہے۔ یہ چیز بجائے خود کوئی مسئلہ نہیں۔ جو چیز مسئلہ پیدا کرتی ہے وہ انتہا پسندی(extremism) ہے جس کو قرآن وحدیث میں غلو کہا گیا ہے۔
اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے میںنے کہا کہ حیدر آباد میں مولانا سید اکبر الدین قاسمی (ایم اے عثمانیہ) کا تجربہ اس معاملہ کی ایک کامیاب مثال ہے۔ وہ اپنا ایک واضح مسلک رکھتے ہیں۔ وہ اپنا مستقل ادارہ بھی چلارہے ہیں۔ وہ ہمارے مشن کے ساتھ بالکل شروع سے جڑے ہوئے ہیں۔ وہ پابندی کے ساتھ ماہنامہ الرسالہ کی ایجنسی (۲۵ کاپیاں) چلارہے ہیں۔ اس کے باوجود ان کا نہایت خوش گوار تعلق ہر جماعت اور ہر تنظیم سے ہے۔ اس کا سبب ان کی اعتدال پسندی ہے۔ اپنے متحمل مزاج کی بنا پر وہ طبقہ کے درمیان مقبول ہیں۔ وہ ایک مغربی مفکر کے ایک قول کی ایک معیاری مثال ہیں۔ میرے اندر اتنا زیادہ وسعت ہے کہ تمام تضادات کو اپنے اندر سمو سکوں:
I am large enough to contain all these contradictions.
یہی وسعت نظری اور اعتدال پسندی اتحاد اور اتفاق کی اصل ضمانت ہے۔
(افسوس کہ مولانا سید اکبر الدین قاسمی ایک کار ایکسیڈنٹ میں شدید طورپر زخمی ہوگئے۔ اور ایک ہفتہ اسپتال میں رہ کر ۲۸ جنوری ۲۰۰۴ کو انتقال کرگئے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے۔ وہ حیدر آباد میں بہت بڑا تعلیمی کام کررہے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے اس کام کو حسن خوبی کے ساتھ جاری رکھے اور اس کو ترقی کے اعلیٰ منازل تک پہنچائے اور ان کے پس ماندگان کے لیے حسن تلافی کا انتظام فرمائے۔ مولانا اکبر الدین صاحب کی موت راقم الحروف کے لیے ایک ذاتی حادثہ کی حیثیت رکھتی ہے)۔
۸ ستمبر ۲۰۰۳ کی صبح کو میرٹھ سے واپس ہو کر دہلی پہنچا۔ واپسی کا یہ سفر اُسی سڑک سے ہوا جس سڑک سے پہلی بار میں میرٹھ گیا تھا۔ میرٹھ میں قیام کے دوران اور بھی کئی واقعات پیش آئے۔ مگر سفرنامہ میں اُن کو درج نہ کیا جاسکا۔ تاہم میں سمجھتا ہوں کہ زندگی کا ہر سفر نامکمل ہے، خواہ اُس کے ہر لمحہ کو الفاظ کی صورت دے کر کاغذ پر لکھ دیا جائے۔ حقیقت کی دنیا غیر محدود ہے اور الفاظ کی دنیا محدود۔ پھر محدود کس طرح غیر محدود کا احاطہ کرسکتا ہے۔
واپس اوپر جائیں


Sunday, 1 February 2004

Al Risala | Februay 2004 (الرسالہ،فروری)

2

- اتحاد میں خدا کی مدد

4

- سیاسی اختلاف

6

- فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور قومی اتحاد

26

- اتحاد ایمان کا حصّہ ہے

28

- ایک خط

29

- سوال و جواب


اتحاد میں خدا کی مدد

ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال اللہ عزوجل: انا ثالث الشریکین مالم یخن احدہما صاحبہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں دو شریکوں کے ساتھ تیسرا ہوتا ہوں، جب تک ان میں کا کوئی ایک ساتھی اپنے دوسرے ساتھ کے ساتھ خیانت نہ کرے۔
اس حدیث کو لفظی طورپر لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دوآدمی اگر خدا کے لیے آپس میں متحد ہوجائیں تو ان کے ساتھ خدا خود ایک تیسرے رکن کی حیثیت سے شریک ہوجاتا ہے اور جس اتحادی مجموعہ میں خود خدا شریک ہوجائے اس کی طاقت بلا شبہہ بے پناہ حد تک بڑھ جاتی ہے۔ ان کا اتحاد ناقابل تسخیر حد تک مضبوط ہوجاتا ہے۔
یہ کوئی پر اسرار بات نہیں۔ یہ ایک سادہ فطری حقیقت ہے ۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ جب کچھ لوگ صرف اللہ کی خاطر متحد ہوں تو ان کی نفسیاتی حالت عام لوگوں سے مختلف ہوجاتی ہے۔ ایسے لوگوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ ہر معاملے کو اپنی ذات کی نظر سے دیکھنے کے بجائے خدا کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں۔ انہیں اگر اپنے ساتھی سے کوئی شکایت ہو تو وہ یہ سوچ کر اسے بھلا دیتے ہیں کہ میں تو خدا کے لیے متحد ہوا ہوں نہ کہ کسی انسان کے لیے۔ کسی موقع پر اگر ان کی انا کو چوٹ لگتی ہے تو وہ اس کا اثر نہیں لیتے کیوں کہ وہ پہلے ہی اپنی اَنا کو خدا کے لیے چھوڑ چکے ہوتے ہیں۔ اجتماعی زندگی میں انہیں کوئی نقصان پہنچاتا ہے تو وہ اس کی پروا نہیں کرتے۔ کیوں کہ ان کا ذہن یہ ہوتا ہے کہ میںنے آخرت کا فائدہ لینے کے لیے اس اتحاد میں شرکت کی ہے نہ کہ دنیا کا فائدہ لینے کے لیے۔
حقیقت یہ ہے کہ خدا کے لیے متحد ہونا اپنے آپ میںایک طاقت ہے۔ خدا کے لیے متحد ہونے والے لوگوں میں وہ مزاج بن جاتا ہے جو اختلاف کا قاتل ہے۔ یہ رباّنی مزاج اس بات کی ضمانت بن جاتا ہے کہ کوئی بھی اختلافی سبب ان کے اتحاد کو نہ توڑے۔ وہ تمام اختلافات کو بھلا کر پوری مضبوطی سے اتّحاد کی رسّی کے ساتھ بندھے ہوئے رہیں۔
اتحاد کی یہ برکت اس وقت تک باقی رہتی ہے جب تک اتّحادیوں میں خیانت کی ذہنیت نہ پیدا ہو۔ خیانت کیا ہے۔ خیانت یہ ہے کہ ایک شریکِ اتّحاد دوسرے شریکِ اتّحاد کا خیر خواہ نہ رہے، ایک شریکِ اتّحاد، دوسرے شریک اتّحاد کو غیر سمجھ لے۔ جب لوگوں میں یہ نفسیاتی برائی آجائے تو لوگوں کے دل ایک دوسرے سے دور ہو جاتے ہیں۔ ان میں ایک دوسرے کو اپنا سمجھنے کا مزاج باقی نہیں رہتا۔ وہ ایک دوسرے کو شک کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں۔ جب ایسا ہو جائے تو ان کے اتحاد کی تمام اینٹیں ہل جاتی ہیں۔ ان کا آپس کا جوڑ ختم ہوجاتا ہے۔ اتّحاد کے افراد پہلے اگر جمی ہوئی اینٹوں کے مانند تھے تو اب وہ بکھری ہوئی اینٹوں کے مانند ہوجاتے ہیں۔ اب ان کا اتحاد بھی ختم ہوجاتا ہے اور ان کی طاقت بھی۔
اتحاد پیدا ہونا نہایت آسان ہے، مگر اتحاد کو باقی رکھنا اتنا ہی مشکل ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اتحاد کے بعد لازماً آپس میں شکایتیں پیدا ہوجاتیں ہیں۔ ایک کو دوسرے سے نقصان پہنچتا ہے۔ اب لوگوں کے لیے دو راستے ہوتے ہیں۔ ایک خیانت کا اور دوسرا اخلاص کا۔ اتحادی افراد میں جب خیانت کامزاج آجائے تو ان کی شکایتیں بڑھتی رہیں گی۔یہاں تک کہ ان کا اتّحاد ٹوٹ پھوٹ کر ختم ہوجائے گا۔ اس کے برعکس جب لوگوں میںاخلاص کا مزاج ہو تو ہر شکایت پیدا ہوتے ہی ختم ہوجائے گی۔ کوئی بھی شکایت اختلاف کے درجے تک نہ پہنچے گی۔
واپس اوپر جائیں

سیاسی اختلاف

حدیث کے مجموعوں میں کتاب الفتن کے تحت کثرت سے ایسی روایتیں آئی ہیں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پیشین گئی فرمائی ہے کہ میرے بعد حکمرانوں کے اندر بگاڑ پیدا ہوگا۔ لوگ اس سیاسی بگاڑ کی اصلاح کے نام پر حکمرانوں سے لڑیں گے۔ یہ لڑائیاں میری امت کو تباہ کردیں گی۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کی جنگ سے شدّت کے ساتھ منع فرمایا۔ آپ نے تاکید کی کہ حکمرانوں میں خواہ تم کتنا ہی بگاڑ دیکھو مگر تم ان سے جنگ نہ کرنا۔ تم ان کے مقابلہ میں صرف صبر اور خاموشی کا طریقہ اختیار کرنا۔
اس سلسلہ میں حدیث کی ہر کتاب میںکثرت سے روایتں آئی ہیں۔ مثلاً رسو ل اللہﷺنے فرمایا: من کرہ من امیرہ شیئا فلیصبرہ (جو شخص اپنے امیر میں کوئی ناپسندیدہ چیزدیکھے تو وہ اس پر صبر کرے)۔ اس موضوع پر سعودی عرب سے ایک کتاب چھپی ہے جس کا نام ہے الغلو فی الدین (عبدالرحمن بن مُعلاّ اللویحق)۔ چھ سو صفحے کی اس کتاب میں اس موضوع پر تمام احادیث اور آثار کو جمع کردیا گیا ہے۔ تفصیل کے طالب اس کو دیکھ سکتے ہیں۔
تجربہ بتاتا ہے کہ تاریخ میں سب سے زیادہ لڑائیاں سیاسی اختلاف کی بنا پر پیدا ہوئی ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ سیاست کبھی پوری طرح بگاڑ سے خالی نہیں ہوسکتی۔ سیاسی اقتدار اور بگاڑ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں۔ اس میں کچھ نادر شخصیتوں کا استثناء ہوسکتا ہے۔ مگر عمومی قاعدہ یہی ہے۔
اب ایسا ہوتا ہے کہ لوگ جب سیاسی حکمرانوں میں بگاڑ دیکھتے ہیں تو وہ فوراً اس کی اصلاح کے نام پر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ وہ اصلاح سیاست کے نام پر حکمرانوں سے جنگ چھیڑ دیتے ہیں۔ یہ اصلاحی جنگ ہمیشہ فسادی جنگ بن جاتی ہے۔ پوری تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی اصلاح کے نام پر سیاسی حکمرانوں سے لڑائی کی گئی تو اس کے نتیجہ میںصرف بگاڑ اور فساد میں اضافہ ہوا، مزید یہ کہ مسلمانوں کا اجتماعی اتّحاد ٹوٹ گیا۔ مسلمان دو گروہ —حکمراں اورغیر حکمراں میںتقسیم ہوکر آپس میں لڑنے لگے۔ تمام دینی اور تعلیمی سرگرمیاں ختم ہو کر رہ گئیں۔
ایسی حالت میں اہل اسلام کے لیے لازم ہے کہ وہ اخفّ المفسدتین کا طریقہ اختیار کریں۔ ایسی حالت میں حکمراں سے لڑنا زیادہ بڑی برائی ہے اور حکمرانوں سے ٹکراؤ کو اعراض کرتے ہوئے پُرامن دائرہ میںدینی اور تعلیمی خدمات انجام دیتے رہنا چھوٹی برائی۔ اور جب انتخاب چھوٹی برائی اور بڑی برائی کے درمیان ہوتو بہترین عقل مندی یہ ہے کہ بڑی برائی سے بچا جائے اور چھوٹی برائی کو گوارا کر لیا جائے۔
اتحاد اسی حکمت کی نقد قیمت ہے۔ جب بھی یہ حکیمانہ تدبیر اختیار کی جائے تو امّت کے اندر اتّحاد اور اتفاق کی فضا قائم ہوگی اور جب اس حکیمانہ تدبیر کو چھوڑ دیا جائے تو اس کے بعد لازماً ایسا ہوگا کہ اتحاد اور اتفاق کا خاتمہ ہوجائے گا،اور اسی کے ساتھ تمام تعمیری کاموں کا خاتمہ بھی۔
سیاسی بگاڑ کے موقع پر سوچنے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ یہ ایک بگاڑ ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کو درست کریں۔ اس کے مقابلے میں سوچنے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اگر ہم بگاڑ کو درست کرنے کے لیے اٹھیں تو اس کا عملی نتیجہ کیا ہوگا۔ اسلام کی تعلیم بتاتی ہے کہ اہل ایمان کے لیے صرف دوسرا طریقہ درست ہے، پہلا طریقہ ان کے لیے درست نہیں۔ یعنی عملی نتیجہ کو دیکھ کر اقدام کرنا۔
جب حالات بتاتے ہوں کہ اہل ایمان اگراصلاح کے نام پر ارباب اقتدار کے خلاف اقدام کریں تو اس کا عملی نتیجہ الٹا نکلے گا۔ ایسا اقدام صرف بگاڑ کو بڑھانے کا سبب بنے گا جب صورت حال ایسی ہو تو اہلِ ایمان پر فرض ہوگا کہ وہ عملی اقدام سے اپنے آپ کو بچائیں۔ وہ دعا کریں اور خاموشی کے ساتھ پر امن دائرہ میں اصلاح کی کوشش کریں۔ ایسی حالت میںاہل اقتدار کے خلاف اقدام کرنا ایک گناہ کاکام ہے، وہ کوئی ثواب کا کام نہیں۔
واپس اوپر جائیں

فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور قومی اتحاد

Communal Harmony and National Integration
بر صغیر ہند لمبی جدوجہد کے بعد ۱۵ اگست ۱۹۴۷ کو آزاد ہوا۔ یہ آزادی دو قومی نظریہ کے اصول پر ہوئی۔ تا ہم جو چیز تقسیم ہوئی وہ جغرافیہ تھا، نہ کہ قوم۔ یعنی انڈیا او رپاکستان کے نام پر دو ملک بن گئے مگردونوں قوم کے افراد دونوں حصوں میں بدستور آباد رہے۔ یہ ایک خطرناک صورت حال تھی۔ کیوںکہ قومی جھگڑے کو ختم کرنے کے نام پر ملک کو تو تقسیم کردیا گیا مگر قوم بدستور غیر منقسم رہی۔ اس طرح زمینی بٹوارہ کے باوجود نزاعی صورت حال بدستور قائم رہی، بلکہ زیادہ شدت کے ساتھ۔ پہلے اگر وہ دو بے اقتدار قوموں کا جھگڑا تھا تو اب وہ دو بااقتدار ریاستوں کا جھگڑا بن گیا۔
اس مسئلہ کی نزاکت کو مہاتما گاندھی نے پہلے ہی دن محسوس کرلیا تھا۔ چنانچہ آزادی کے وقت اُنہوں نے اپنے ایک مضمون میں یہ تاریخی الفاظ لکھے تھے—ہندو ؤںاور مسلمانوں کو امن اور ہم آہنگی سے ایک ساتھ رہنا ہوگا، ورنہ میں اس کوشش میں اپنی جان دے دوں گا:
Hindus and Musalmans should learn to live together with peace and harmony, otherwise I should die in the attempt.
سوئے اتفاق سے مہاتما گاندھی کو آزادی ہند کے جلد ہی بعد گولی مار کر ہلاک کردیا گیا۔ یہ بلاشبہہ بہت بڑا حادثہ تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ امن و اتحاد قائم کرنے کا عمل اپنے پہلے ہی مرحلہ میں اپنے سب سے بڑے لیڈر سے محروم ہوگیا۔
جیسا کہ معلوم ہے، آزادی کے ساتھ ہی خطّ تقسیم کے دونوں طرف فرقہ وارانہ تشدد ایک بھیانک عمل کی صورت میں شروع ہوگیا۔ تشدد کا یہ سلسلہ کئی سال تک جاری رہا۔ آخر کار اُس وقت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے اس مسئلہ پر ایک نیشنل کانفرنس بلائی۔ اس کااجلاس نئی دہلی میں ۲۸ ستمبر سے یکم اکتوبر ۱۹۶۱ تک جاری رہا۔ اس کانفرنس میں اتفاق رائے سے ایک آرگنائزیشن (تنظیم) کی تشکیل کی گئی جس کا نام نیشنل انٹگریشن کونسل (قومی یکجہتی کونسل)تھا۔ اس کا مرکزی دفتر نئی دہلی میں قائم کیا گیا۔ اس تنظیم کا مقصد یہ بتایا گیا تھا کہ وہ قومی یکجہتی سے متعلق تمام مسائل کا جائزہ لے اور ضروری سفارشیں پیش کرے۔
اس کونسل کا اجلاس دوسری بار ۲۔۳ جون ۱۹۶۲ کو نئی دہلی میںہوا۔ شرکاء نے تقریریں کیں اور فرقہ وارانہ مسئلہ کے حل کے لیے کئی تجویزیں پیش کیں۔ مگر ان تجویزوں پر کوئی عمل نہ ہوسکا۔ یہاں تک کہ دوبارکے بعد اس کونسل کاکوئی تیسرا اجلاس جواہر لال نہرو کی زندگی میں نہیں ہوا۔
اس کے بعد جب اندرا گاندھی ملک کی وزیر اعظم بنیں تو انہوں نے محسوس کیا کہ نیشنل انٹگریشن کونسل کو دوبارہ زندہ کیا جائے۔ اُنہوں نے ۲۰۔۲۱ جون ۱۹۶۸ کو سری نگر میں تنظیم کا اجلاس بُلایا۔ یہاں تفصیلی بحثیں ہوئیں۔ آخر کار ایک مکمل لائحہ عمل ترتیب دیاگیا۔ اس کا ایک حصّہ یہ تھا:
فرقہ وارانہ سرگرمی کے معنیٰ یہ قرار دیے جائیں کہ ہر وہ فعل جو مختلف مذہبی فرقوں، یا نسلی گروپوں یا ذاتوں یا برادریوں کے درمیان مذہب، نسل، ذات پات یا برادری کی بنیاد پر یا کسی بھی بنیاد پر دشمنی یا نفرت پھیلائے یا پھیلانے کی کوشش کرے۔ یہ جرم قابلِ دست اندازی پولیس ہو اور اُس کے تحت سزا پانے والے کو عوامی نمائندگی کے قانون کے تحت نااہل قرار دے دیاجائے۔ افواہ پھیلانا یا گھبرادینے والی خبریں اور افکار کی اشاعت کو دفعہ ۱۵۳ (اے) کے تحت جرم قرار دے دیا جائے۔
کونسل کے جلسوں میں اس قسم کی بہت سی تجویزیں اتفاق رائے کے ساتھ پاس کی گئیں۔ اُس کے بعد اُس کی تائید میں بہت سے قانون اور ضابطے بنائے گئے۔ مگر عملاً ان کا کچھ بھی فائدہ نہیں ہوا۔ اس اعتبار سے ملک کی حقیقی صورت حال اب بھی تقریباً وہی ہے جیسی کہ وہ ۱۹۴۷ میں تھی۔
اس ناکامی کا سبب کیا ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اس مسئلہ کو سادہ طورپر لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ سمجھ لیاگیا۔ مگر اپنی اصل حقیقت کے اعتبار سے یہ مسئلہ لااینڈ آرڈر کا مسئلہ نہیں۔ وہ ذہنی تعمیر یا شعوری بیداری کا مسئلہ ہے۔ اس مسئلہ کے حل کے لیے اصل ضرورت یہ ہے کہ لوگوں کوایجوکیٹ کیا جائے۔ اُن کے اندر صحیح سوچ پیدا کی جائے۔ اُن کے اندر یہ صلاحیت پیدا کی جائے کہ وہ ایک چیز اور دوسری چیز کے فرق کو سمجھیں۔ وہ نتیجہ خیز عمل اور بے نتیجہ عمل کے درمیان تمیز کرنا جانیں۔ وہ یہ جانیں کہ اُنہیں کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے۔ وہ اس حقیقت کو سمجھیں کہ عملی اقدام سے پہلے سوچنے کے مراحل کی تکمیل ضروری ہوتی ہے۔ عمل کو سوچ کے تابع ہونا چاہئے، نہ کہ سوچ کو عمل کے تابع بنا دیا جائے۔
اس قسم کا باشعور سماج گویا کہ وہ زمین ہے جہاں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی فصل اُگائی جاسکتی ہے۔ قانون کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ سماج کے استثنائی بگاڑکو جرّاحی جیسے عمل کے ذریعہ درست کیا جائے۔ کوئی بھی قانون سماج کی عمومی حالت کی اصلاح کے لیے نہیںہوتا۔ جرّاحی کا عمل جسم کی ایک جزئی بیماری کو شفا دینے کے لیے ہوتاہے۔ اگر پورا جسم عمومی طورپر مرض کا شکار ہوجائے تو ایسی حالت میں جرّاحی کے عمل کاکوئی فائدہ نہیں۔
یہاں میں اس مسئلہ کے چند بنیادی پہلوؤں کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں۔ یہ پہلو براہِ راست طورپر عوام کی ذہنی تشکیل کے سوال سے تعلق رکھتے ہیں۔ بے حد ضروری ہے کہ ان سوالات کا واضح جواب ہمارے ذہن میں ہو تاکہ کسی کنفیوژن کے بغیر ذہنی تشکیل یا شعوری تعمیر کا کام عمل میںلایا جاسکے۔
مذہبی اختلاف
اس سلسلہ میں پہلا نظری مسئلہ وہ ہے جو مذہبی اختلاف سے تعلق رکھتا ہے۔ مذاہب کا تقابلی مطالعہ بظاہر یہ بتاتا ہے کہ مذاہب کے درمیان واضح اختلافات پائے جاتے ہیں۔ مثلاً کسی مذہبی گروہ کا عقیدہ وحدتِ وجود(monism) کے تصور پر قائم ہے اور کسی گروہ کا عقیدہ توحید(monotheism) کے تصور پر قائم ہے۔ کسی مذہب میں خود دریافت کردہ سچائی (self-discovered truth) کا تصور ہے اور کسی مذہب میں الہامی سچائی(revealed truth)کا۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ مذہبی فرق و اختلاف ہی تمام فرقہ وارانہ نزاعات کی اصل جڑ ہے۔ ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی صرف اُس وقت پیدا کی جاسکتی ہے جب کہ کسی نہ کسی طرح ان مذہبی اختلافات کا خاتمہ کردیا جائے۔ کچھ انتہا پسند لوگ، اُن کو بلڈوز کردو(buldose them all) کی زبان بولتے ہیں۔ مگر وہ اتنی زیادہ ناقابلِ عمل ہے کہ وہ سرے سے قابلِ تذکرہ ہی نہیں۔ کچھ دوسرے لوگ یہ کوشش کررہے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح یہ ثابت کیا جائے کہ تمام مذاہب کی تعلیمات ایک ہیں۔
اس دوسرے گروہ میںایک نمایاں نام ڈاکٹر بھگوان داس (1869-1958) کا ہے۔ وہ نہایت قابل آدمی تھے۔ اُنہوں نے تمام بڑے بڑے مذاہب کے لمبے مطالعہ کے بعد ایک کتاب تیار کی جس میں یہ دکھایا گیا ہے کہ تمام مذاہب کی تعلیم ایک ہے۔ یہ کتاب ۹۲۹ صفحات پر مشتمل ہے اور اس کا نام یہ ہے:
Essential Unity Of All Religions
منتخب اقتباسات کو لے کر ہر مذہب کو ایک ثابت کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص مختلف ملکوں کے دستور کو لے اور پھر ہر دستور سے کچھ منتخب دفعات کو جمع کر کے ایک کتاب چھاپے اور اُس کی بنیاد پر یہ دعویٰ کرے کہ ہر ملک کا دستور ایک ہے اور ایک ہی قسم کی دفعات کا مجموعہ ہے۔ اس قسم کا آفاقی دستور کسی مصنف کو تو خوش کرسکتا ہے مگر وہ کسی ایک ملک کے لیے بھی قابلِ قبول نہ ہوگا۔ ہر ملک اس کو شکر یہ کے ساتھ رد کردے گا۔ یہی معاملہ اتحاد مذہب کے بارہ میں مذکورہ قسم کی کتابوں کا ہے۔ اس قسم کی کتاب اُس کے مرتب کو خوش کرسکتی ہے مگر وہ اہلِ مذاہب کے لیے قابلِ قبول نہیں ہوسکتی۔
میں نے بھی اس موضوع کا تفصیلی مطالعہ کیا ہے۔ میں نے اپنے مطالعہ میں پایا ہے کہ تمام مذ۱ہب کو ایک بتانا واقعہ کے مطابق نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مختلف مذاہب میں اتنے زیادہ اختلافات ہیں کہ اُن کو ایک ثابت کرنا عملی طورپر ممکن ہی نہیں۔ مثلاً کسی مذہب کا کہنا ہے کہ خدا ایک ہے۔ کوئی مذہب کہتا ہے کہ خدا دو ہیں۔ کوئی مذہب بتاتا ہے کہ خدا تین ہیںاور کسی مذہب کادعویٰ ہے کہ خداؤں کی تعداد ۳۳ یا ۳۳کروڑ ہے۔ کسی کے نزدیک خداؤں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ اُن کی گنتی ہی ممکن نہیں۔ ایسی حالت میں ہر مذہب کی تعلیم کو ایک بتانا ایک ایسا بیان ہے جوکسی خوش فہم کے دماغ میں تو جگہ پاسکتا ہے مگر عملی اور منطقی طورپر اس کو سمجھنا ممکن ہی نہیں۔
حتیٰ کہ بالفرض کسی تدبیر سے تمام مذاہب کے ٹیکسٹ کو ایک ثابت کردیاجائے تب بھی اختلاف ختم نہ ہوگا۔ کیوں کہ ہم دیکھتے ہیں کہ مختلف مذاہب میں ہر ایک کا ایک تسلیم شدہ ٹیکسٹ ہے مگر اس ٹیکسٹ کی تعبیر میں دوبارہ اختلافات پیدا ہوجاتے ہیں اور ایک مذہبی ٹیکسٹ خود داخلی طورپر کئی مذہبی فرقے (sects) وجود میں لانے کا سبب بن جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اختلاف یا فرق صرف مذہب کی بات نہیں۔ ہماری دنیا پوری کی پوری فرق اور تنوع کے اصول پر قائم ہے۔ یہ فرق اتنا زیادہ ہمہ گیر ہے کہ کوئی بھی دو چیز یا کوئی بھی دو انسان فرق سے خالی نہیں۔ کسی نے بجا طورپر کہا ہے کہ فطرت یکسانیت سے نفرت کرتی ہے:
Nature abhors uniformity
جب فرق و اختلاف خود نیچر کا ایک قانون ہو تو مذہب اُس سے مستثنیٰ کیوں کر ہوسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح دنیا کی تمام چیزوں میں ایک اور دوسرے کے درمیان فرق پایا جاتا ہے اسی طرح مذاہب میں بھی ایک اور دوسرے کے درمیان فرق ہے۔ دوسرے معاملات میں ہم نے فرق کو مٹانے کی ضروری کوشش نہیں کی بلکہ یہ کہہ دیا کہ آؤ ہم اس پر اتفاق کرلیں کہ ہمارے درمیان اختلاف ہے:
Let us agree to disagree
یہی عملی فارمولا ہمیں مذہب کے معاملہ میں بھی اختیار کرنا چاہئے۔ یہاں بھی ہمیں فرق و اختلاف کے باوجود اتحاد پر زور دینا چاہئے، نہ کہ فرق و اختلاف کے بغیر اتحاد پر۔ حقیقت یہ ہے کہ مذہبی اختلافات کے مسئلہ کا حل صرف ایک ہے او روہ ہے—ایک کی پیروی کرو اور سب کا احترام کرو:
Follow one and respect all
کلچر کا اختلاف
اس سلسلہ میں دوسرا مسئلہ کلچر کا اختلاف ہے۔ مختلف گروہوں کے درمیان کلچر کا اختلاف ایک حقیقت ہے۔ کچھ لوگوں کاخیال ہے کہ یہی اختلاف تمام نزاعات کی جڑ ہیں۔ اُن کے نزدیک اس مسئلہ کا حل یہ ہے کہ کلچر کے نام پر جو اختلافات سماج میں پائے جاتے ہیں اُن کو یکسر مٹادیا جائے اور ایسا سماج قائم کیا جائے جس کے اندر کلچرل یونٹی ہو۔
یہ تجویز بھی سراسر غیر عملی ہے۔ کلچر نہ کسی کے بنانے سے بنتا اورنہ کسی کے مٹانے سے مٹ جاتا۔ کلچر ہمیشہ تاریخی عوامل کے تحت لمبی مدت کے درمیان بنتا ہے۔ کسی دفتر میں بیٹھ کر کلچر کا نقشہ نہیں بنایا جاسکتا۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد کئی ملکوں میں ایسے نظریہ ساز (idealogue) پیدا ہوئے جنہوں نے قومی اتحاد کے لیے ایک کلچر کا سماج بنانے پر زور دیا۔ مثلاً کناڈا میں اسی نظریہ کے تحت یونی کلچرل ازم کی تحریک چلائی گئی۔ مگر تجربہ نے بتایا کہ یہ قابلِ عمل نہیں۔چنانچہ بیس سال کے اندر ہی اندر اس نظریہ کو ترک کر دیا گیا۔اب کناڈا میںسرکاری طورپر ملٹی کلچرلزم کے اصول کواختیار کر لیا گیا ہے اور یونی کلچرلزم کے نظریہ کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا گیاہے۔
یہی معاملہ امریکا کا ہے۔ امریکا میں دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکنائزیشن کی تحریک چلائی گئی۔ اس کا مقصد بھی یہی تھا۔ مگر لمبی جدوجہد کے بعد معلوم ہوا کہ وحدت کلچر کایہ نظریہ قابلِ عمل نہیں۔ چنانچہ اس نظریہ کو ترک کر دیا گیا اور امریکا میںبھی ملٹی کلچرلزم کے اصول کو اختیار کرلیا گیا۔
حقیقت یہ ہے کہ کلچر کا اختلاف دوگروہوں کے درمیان اختلاف کا معاملہ نہیں ہے۔ خودایک گروہ کے درمیان بھی یہ اختلاف پایا جاسکتاہے۔ اس داخلی اختلاف کی مثالیں ہر گروہ میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ اس لیے مختلف مذاہب کے درمیان اتحاد اور ہم آہنگی لانے کے لیے مذہبی تعلیمات میںتبدیلی ضروری نہیں۔ ضرورت صرف یہ ہے کہ اہل مذاہب کے اندر وہ سوچ پیدا کی جائے جس کو جیو اور جینے دو (live and let live) کہا جاتاہے۔
کچھ لوگ اس ناکام تجربہ کو اب بھی دوہرانا چاہتے ہیں اور اس کا نام انہوں نے سوشل ری انجینیرنگ رکھ دیا ہے:
Social re-engineering of Indian Society
اس کا مطلب یہ ہے کہ سماج کے مختلف گروہوں میں کلچر کے اعتبار سے جو فرق پایا جاتا ہے اس کی دوبارہ تشکیل دی جائے اور ایسا سماج بنایا جائے جس میں کلچر کا فرق ختم کردیا گیا ہو اور ملک کے تمام لوگ ایک ہی مشترک کلچر کے مطابق زندگی گزاریں۔
یکساں کلچر بنانے کے کام کو جوبھی نام دیا جائے، نتیجہ بہر حال سب کا ایک ہے۔ اور وہ یہ کہ اس کا کوئی نتیجہ نہیں۔ اس قسم کا نظریہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے کلچرل بلڈوزنگ ہے۔ اس کو خواہ سوشل ری انجینئرنگ کہا جائے یا کلچرل نیشنلزم، وہ بہر حال ناقابلِ عمل ہے۔ اور جو چیز فطری قوانین کے مطابق، سرے سے قابلِ عمل ہی نہ ہو اس کو اپنے عمل کا نشانہ بنانا صرف اپنا وقت ضائع کرنا ہے۔
اس معاملہ میں میرا اختلاف نظریاتی بنیاد پر نہیں ہے بلکہ عملی بنیاد پر ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ غلط ہے بلکہ میں کہتا ہوں کہ یہ ناقابلِ عمل ہے۔ اگر بالفرض ایسا ممکن ہوتا کہ پورے ملک کی ایک زبان ایک کلچر ، رہن سہن کا ایک طریقہ بن جائے تو میں کہتا کہ ضرور ایسا کرنا چاہئے۔ مگر فطرت اور تاریخ کے قوانین کے اعتبار سے ایسی یکسانیت ممکن ہی نہیں۔ نہ کبھی وہ ماضی میں ممکن ہوئی ہے اور نہ وہ مستقبل میں ممکن ہو سکتی ہے۔ کلچر ہمیشہ خود اپنے قوانین کے تحت بنتا ہے۔ ایسا ممکن نہیں کہ کسی دفتر میں کلچر کا ایک خود پسند نقشہ بنایا جائے اور اس کو ملک کے تمام گروہوں میں رائج کردیا جائے۔
ایسی حالت میں ہم کو وہی کرنا چاہئے جو ہم دوسرے اختلافی معاملات میں کرتے ہیں، یعنی رواداری (tolerance) کے اصول پر اپنے مسئلہ کو حل کرنا۔ حقیقتِ واقعہ سے ہم آہنگی کا طریقہ اختیار کرکے اس سے نپٹنا، نہ کہ اس سے ٹکراؤ کا طریقہ اختیار کرنا۔اس معاملہ میں ٹکراؤ کا طریقہ صرف مسئلہ کو بڑھانے والا ہے نہ کہ اس کو حل کرنے والا۔
یہاں ایک اور بات کی وضاحت ضروری ہے۔کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہندو تو انڈیا میں پیدا ہوئے ۔ ان کی وفاداری کے مراکز اسی ملک میں ہیں۔ لیکن مسلمانوں کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ مسلمانوں کے اعتقادی مراکز (مثلاً مکہ اور مدینہ) انڈیا سے باہر ہیں۔ اس لیے مسلمان کبھی اس ملک کے وفادار نہیں ہوسکتے۔
میں کہوں گا کہ یہ ایک انسانی مسئلہ ہے اور اس کا تعلق ہندو اور مسلمان دونوں سے ہے۔ مثلاً ایک ہندو اگر سومناتھ کے مندر سے عقیدت رکھتا ہو تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اجودھیا کے مندر کا عقیدت مند نہیں ہو سکتا۔ ایک ہندو کے دل میں اگر اپنی ماں کی محبت ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کا دل باپ کی محبت سے خالی ہوگا۔
یہی معاملہ مسلمانوں کا بھی ہے۔ مسلمان اگر مکہ اور مدینہ سے قلبی لگاؤ رکھتاہو تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کو انڈیا سے قلبی لگاؤ نہ ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کی سوچ انسان کی تصغیر (underestmation) ہے۔ کوئی شخص ہندو ہو یا مسلمان دونوں حالتوں میں وہ فطرت کا ایک مظہر ہے اور فطرت نے جو انسان پیدا کیا ہے اُس کے اندر اتنی وسعت موجود ہے کہ وہ بیک وقت کئی محبتوں اور وفاداریوں کو یکساں طورپر اپنے دل میں جگہ دے سکے۔
یہ ایک ایسی فطری حقیقت ہے جس کا تجربہ ہر انسان کررہا ہے۔ ہر مرد اور عورت خود اپنے ذاتی تجربہ کے تحت اس کو جانتے ہیں۔ اس فطری حقیقت کو ایک مغربی مفکر نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے— میرے اندر اتنی زیادہ وسعت ہے کہ میں مختلف تضادات کو بیک وقت اپنے اندر جگہ دے سکوں:
I am large enough to contain all these contradictions.
مذہب اور سیاست
فرقہ وارانہ جھگڑوں میںاکثر مذہب کا نام استعمال کیا جاتا ہے۔ بار بار ایسا ہوتا ہے کہ کوئی سیاسی یاقومی چیز مذہبی ایشو بن جاتی ہے اور پھر تیزی سے لوگوں کے جذبات بھڑک اُٹھتے ہیں جو مختلف فرقوں کے درمیان متشددانہ ٹکراؤ کا سبب بن جاتے ہیں۔ اس بنا پر بہت سے لوگ خود مذہب کے مخالف بن گئے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ انسان کو مذہب کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس لیے مذہب کا خاتمہ کردینا چاہئے۔اس کے بغیر سماجی اتحاد ممکن نہیں۔
مگر یہ ایک انتہا پسندی کے جواب میں دوسری انتہا پسندی ہے۔ یہ مذہبی انتہا پسندی کا مقابلہ سیکولر انتہا پسندی سے کرنا ہے جو نہ تو ممکن ہے اور نہ مفید۔ اصل یہ ہے کہ مذہب بذاتِ خود کوئی مسئلہ نہیں۔ مذہب انسانی زندگی کا ایک صحت مند حصہ ہے۔ جو چیز مسئلہ ہے وہ کچھ مفاد پرست لوگوں کی طرف سے مذہب کا سیاسی ایکسپلائٹیشن ہے۔ اس لیے اصل کام ایکسپلائٹیشن کو ختم کرنا ہے نہ کہ خود مذہب کو۔
مذہب کے دو حصے ہیں—انفرادی اوراجتماعی۔ مذہب کے انفرادی حصہ سے مراد عقیدہ اور عبادت اور اخلاق اور روحانیت کاحصہ ہے۔ اور اجتماعی حصہ سے مراد اُس کے سیاسی اور سماجی احکام ہیں۔ اس معاملہ میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ عام حالات میں صرف مذہب کے انفرادی حصہ پر زور دیا جائے۔ ساری توجہ مذہب کی روح زندہ کرنے پر لگائی جائے۔
جہاں تک مذہب کے سماجی اور سیاسی احکام کا معاملہ ہے، اُس کو اُس وقت تک نہ چھیڑا جائے جب تک پورا معاشرہ اُس کے لیے سازگار نہ ہوجائے۔ سماجی اور سیاسی احکام پورے سماج کی اجتماعی رضامندی سے قائم ہوسکتے ہیں۔ اس لیے ایسے احکام کے معاملہ میں کسی عملی اقدام سے اُس وقت تک بچنا چاہئے جب تک پورے سماج کا اجتماعی ارادہ اُس کی موافقت میں نہ ہوجائے۔
اس معاملہ کو مذہب او ر سیاست کے درمیان عملی تفریق کہا جاسکتا ہے۔ یعنی نظری طورپر سیاست کو مذہب کا حصّہ مانتے ہوئے عملی حقائق کی بنا پر سیاسی احکام کے عملی نفاذ کو موخر یا ملتوی کردیا جائے۔ اسی کا نام حکمت ہے۔ اس حکمت کا یہ فائدہ ہے کہ مذہب اور سیاست دونوں کے تقاضے پورے ہوجاتے ہیں۔ مذہب کے تقاضے حال میں، اور سیاست کے تقاضے مستقبل میں۔ اس کے برعکس اگر اس حکمت کو ملحوظ نہ رکھا جائے اور دونوں پہلوؤں کو بیک وقت اُبھار دیا جائے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ مذہبی تقاضے اور سیاسی تقاضے دونوں ہی پورے ہونے سے رہ جائیں ۔
نارتھ انڈیا اور ساؤتھ انڈیا کا فرق
کمیونل ہارمنی کا سوال بنیادی طورپر نارتھ انڈیا کا سوال ہے۔ ساؤتھ انڈیا میںآج بھی کمیونل ہارمنی پوری طرح پائی جاتی ہے۔ کمیونل ہارمنی یا نیشنل انٹگریشن کے نام سے ہم جیسا سماج بنانا چاہتے ہیں وہ سماج بر وقت ہی ساؤتھ انڈیا میں موجود ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، فرقہ وارانہ جھگڑوں کے تقریباً تمام واقعات نارتھ انڈیا کے علاقہ میں ہوتے ہیں۔ جہاں تک ساؤتھ انڈیا کا تعلق ہے، وہاں فرقہ وارانہ جھگڑے اتنے کم ہیں کہ وہ کسی گنتی میں نہیں آتے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس فرق کا مطالعہ ہمارے لیے ایک رہنما مطالعہ بن سکتا ہے۔
مزید یہ کہ خود نارتھ انڈیا کے بھی دو حصے ہیں۔ ایک شہری علاقہ اور دوسرا دیہات کا علاقہ۔ واقعات بتاتے ہیں کہ بیشتر فرقہ وارانہ جھگڑے شہروں میں ہوئے ہیں یا ہوتے ہیں۔ جہاں تک دیہات کے علاقہ کا تعلق ہے، وہاں شاذونادر ہی اس قسم کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے۔ اس فرق کا مطالعہ بھی بے حد اہم ہے۔ اس سے ہمیں نہ صرف واقعات کی توجیہہ میں مدد ملتی ہے بلکہ یہ فیصلہ کرنا بھی آسان ہوجاتا ہے کہ فرقہ وارانہ نزاعات کو ختم کرکے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا ماحول پیدا کرنا ان تدابیر کے ذریعہ ممکن ہے۔
قومی یکجہتی کے سلسلہ میں ہندوؤں کے کچھ عقائد ہیں جن سے مسلمانوں کو شکایت ہے۔ یہاں میں ان سے بحث نہیں کروں گا۔ اس معاملہ میں میرا مشورہ مسلمانوں کو یہ ہے کہ وہ اسلامی اصول کے مطابق اعراض اور رواداری (avoidance and tolerance) کا طریقہ اختیار کریں۔ البتہ کچھ شکایتیں یا غلط فہمیاں ہندوؤں کو مسلمانوں کے بارے میں ہیں۔ یہاں میں اس دوسرے مسئلہ کی کچھ وضاحت کرنا چاہتا ہوں اور کچھ اسلامی اصطلاحات کی تشریح کرناچاہتا ہوں جو دونوں فرقوں کے درمیان غلط فہمی کا باعث ہیں یا باعث بن سکتی ہیں۔
یہاں میں ضمناً ایک بات کہوں گا۔ ہمارے یہاں عام رواج یہ ہے کہ مسلمان کوئی غلطی کریں تو ہندو اس کے خلاف لکھتے اور بولتے ہیں۔ اسی طرح ہندو اگر کوئی غلطی کریں تو مسلمان اُس کے خلاف لکھتے اور بولتے ہیں۔ یہ طریقہ اصلاح کے نقطۂ نظر سے بالکل بے فائدہ ہے۔ ایسی باتوں کو ایک فریق اپنی وکالت سمجھ کر خوش ہوگا مگر دوسرا فریق اُس سے کوئی مثبت اثر نہ لے گا۔
اس کے برعکس صحیح اور مفید طریقہ یہ ہے کہ مسلمان اگر غلطی کریں تو خود مسلمانوں کے علماء اور دانشور اس کے خلاف بولیں اور لکھیں۔ اسی طرح ہندو اگر کوئی غلطی کریں تو ہندوؤں کے ذمہ دار اس کے خلاف لکھیں اور بولیں۔ ٹھیک اسی طرح جیسے کسی گھر کا کوئی لڑکااگر غلطی کرے تو سب سے پہلے اُس کا اپنا باپ اُس کی تنبیہہ کرتا ہے۔ باپ اس کا انتظار نہیں کرتا کہ محلہ کے لوگ آکر اس کے خلاف بولیں۔ اور اگر محلہ کے لوگ آکر اس کے خلاف بولیں تو بچہ پر اس کا کوئی اثر نہ ہوگا۔
یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ اپنوں کی تنبیہہ کو آدمی مثبت ذہن سے سنتا ہے اور اپنی اصلاح کرتا ہے۔اس کے برعکس غیر کی تنبیہہ کو وہ وقار کا مسئلہ بنا لیتا ہے۔ وہ اس کا کوئی مثبت اثر قبول نہیں کرتا۔ فرقہ وارانہ اتحاد کے سلسلہ میں اس حکمت عملی کو ملحوظ رکھنا بہت ضروری ہے۔
قوم اور قومیت
اس سلسلہ میں چند اسلامی اصطلاحیں ہیں جن کی وضاحت ضروری ہے۔ ان اصطلاحوں کا صحیح مفہوم مسلم اور غیر مسلم کے درمیان اتحاد اور ہم آہنگی پیدا کرتا ہے اور ان اصطلاحوں کا غلط مفہوم برعکس طورپر دونوں کے درمیان دوری کا سبب بن جاتا ہے۔
ان میں سے ایک قومیت کا مسئلہ ہے۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر پیغمبر نے اپنے غیر مومن مخاطبین کو اے میری قوم، (یا قومی) کے لفظ سے خطاب کیاہے۔ اس قرآنی بیان کے مطابق، مومن اور غیر مومن کی قومیت (نیشنلیٹی) ایک ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قومیت کا تعلق مذہب سے نہیں ہے بلکہ وطن سے ہے۔ مذہبی اشتراک کو بتانے کے لیے ملّت کا لفظ بولا جائے گا اور وطنی اشتراک کو بتانے کے لیے قومیت کا لفظ۔ موجودہ زمانہ میں وطن (home land) کو قومیت کی بنیاد سمجھا جاتاہے۔ اسلام کا اصول بھی یہی ہے۔ اسلام کے مطابق، بھی وطن ہی قومیت کی بنیاد ہے۔
اس اعتبار سے دو قومی نظریہ ایک غیر اسلامی نظریہ ہے۔ دو قومی نظریہ مسلمانوں میں یہ ذہن پیدا کرتا ہے کہ ہم الگ قوم ہیں اور دوسرے لوگ الگ قوم۔ جب کہ صحیح اسلامی ذہن یہ ہے کہ مسلمان اپنے آپ کو دوسروں کا ہم قوم سمجھیں، وہ دوسروں کو اے میری قوم کے لوگو، کہہ کر خطاب کرسکیں، جیسا کہ تمام پیغمبروں نے کیا۔ قرآن میں ارشاد ہوا ہے: اے لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا۔ اور تم کو شعوب اور قبائل میں تقسیم کردیاتاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو (الحجرات ۱۳) اس آیت میںشعب سے مراد وطنی اشتراک سے بننے والی قوم ہے اور قبیلہ سے مراد نسلی اشتراک سے بننے والا گروہ۔ قرآن کے مطابق، یہ دونوں قسم کی گروہ بندی صرف تعارف کے لیے ہے، وہ عقیدہ یا مذہب کے رشتہ کو بتانے کے لیے نہیں۔
۱۹۴۷ سے پہلے کے دور میں مولانا حسین احمد مدنی نے کہا تھا کہ ’’فی زمانہ قومیں اوطان سے بنتی ہیں‘‘۔ مولانا موصوف کا یہ بیان بجائے خوددرست تھا۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ اُس میں فی زمانہ (موجوہ زمانہ) کی شرط درست نہ تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ قوم ہمیشہ وطن ہی کی بنیاد پر تشکیل پاتی رہی ہے۔ موجودہ زمانہ میں صرف یہ ہوا ہے کہ دوسری بہت سی چیزوں کی طرح، اس معاملہ میں بھی تعین اور تشخص کے لیے جدید طریقے استعمال کئے گئے۔ مثلاً پاسپورٹ میں قومیت کا اندارج، جب کہ پہلے پاسپورٹ کا طریقہ رائج نہ تھا، بین اقوامی حقوق کے تعیّن کے لیے قومیت کی قانونی تعریف، ملک کی نسبت سے کسی قوم کے افراد کے حقوق کو قانون کی زبان میں متعین کرنا، وغیرہ۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ قوم کا لفظ موجودہ زمانہ میں بھی اصلاً اسی معنٰی میں بولا جاتا ہے جس معنٰی میں وہ قدیم زمانہ میں بولا جاتا تھا، صرف اس فرق کے ساتھ کہ پہلے وہ مجمل مفہوم میں بولا جاتا تھا اور اب وہ مفصل مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔
کچھ لوگ قومیت کی تشریح انتہا پسندانہ انداز میں کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ قومیت کو مذہب کے ہم معنٰی بنا دیتے ہیں، مگر یہ ایک نظریاتی انتہا پسندی ہے۔ اس قسم کی نظریاتی انتہا پسندی کی مثالیں خود مذہب میں بھی پائی جاتی ہیں۔ مثلاً موجودہ زمانہ میں کچھ مسلم مفکرین نے اسلام کی تشریح ایسے انتہا پسندانہ انداز میں کی کہ اسلام کے سوا ہر نظام طاغوتی نظام بن گیا۔ کسی مسلمان کے لیے اس طاغوتی نظام میں موافقت کرکے رہنا حرام قرار پاگیا۔ حتی کہ اس مفروضہ طاغوتی نظام میں تعلیم حاصل کرنا، سرکاری ملازمت کرنا، ووٹ دینا، نزاعات کے قانونی تصفیہ کے لیے ملکی عدالت سے رجوع کرنا، سب کا سب حرام قرار پاگیا۔
طاغوتی نظام کا یہ نظریہ بعض افراد کے انتہا پسندانہ ذہن کی پیداوار تھا، اُس کا خدا و رسول والے اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حقائق نے اس نظریہ کے وابستگان کو مجبور کیا کہ وہ اپنی عملی زندگی میں اس سے دست بردار ہوجائیں۔ چنانچہ اب یہ تمام لوگ بلا اعلان عملی طور پر اس انتہا پسندانہ نظریہ کو چھوڑ چکے ہیں۔ یہی معاملہ قومیت کا بھی ہے۔ مغرب کے کچھ انتہا پسند مفکرین نے قومیت کو توسیع دے کر مکمل مذہب کے روپ میں پیش کیا۔ مگر حقائق کی چٹان سے ٹکرا کر یہ نظریہ ٹوٹ کر ختم ہوگیا۔ اب عملی طور پر قومیت کا تصور تقریباً اسی فطری معنی میں بولا جاتا ہے جس فطری معنٰی میں وہ قرآن کے اندر استعمال ہوا تھا۔
بیسویں صدی کے نصف اوّل میں اُٹھنے والے مسلم رہنما اس فرق کو سمجھ نہ سکے۔ اُنہوں نے قومیت اور وطنیت کے معاملہ میں اس غیر فطری انتہا پسندی کو اصل سمجھ لیا اور اس بنا پر اُس کے غیر اسلامی ہونے کا اعلان کردیا۔ اس کی ایک مثال مشہور مسلم شاعر اقبال (وفات ۱۹۳۸) کی ہے۔ انہوں نے قومیت اور وطنیت کے اس انتہا پسندانہ وقتی تصور کو اصل سمجھ کر اُس کے بارہ میں یہ اشعار کہے تھے:
اس دور میں مے اور ہے جام اور ہے جم اور
تہذیب کے آزر نے ترشوائے صنم اور
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اُس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
قومیت اور وطنیت کے بارہ میں یہ نظریہ بلا شبہہ بے بنیاد ہے۔ عجیب بات ہے کہ اُس دور کے اکثر مسلم علماء اور دانشوروں نے سیاسی نوعیت کی چیزوں کو مذہب یا اسلام کے لیے موت و حیات کا مسئلہ سمجھ لیا۔ حالاں کہ کوئی بھی سیاسی اُتار چڑھاؤ مذہب اسلام کی ابدیت کے لیے چیلنج نہیں بن سکتا۔ مثلاً بیسویں صدی کے آغاز میںترکی کی عثمانی سلطنت ٹوٹی تو شبلی نعمانی نے یہ شعر کہا:
زوال دولتِ عثماں زوالِ شرع و ملت ہے عزیز و فکرِ فرزند و عیال و خانماں کب تک
یہ تصور یقینی طورپر بے بنیاد ہے کہ کسی حکومت کا ٹوٹنا ’’شرع و ملّت‘‘ کے لیے زوال کے ہم معنیٰ ہے۔ ایسا نہ کبھی ہوا اور نہ ایسا کبھی ہوسکتا ۔ دور اول میںخلافتِ راشدہ ٹوٹی مگر اسلام کی پُر امن توسیع مسلسل جاری رہی۔ اس کے بعد اموی سلطنت ٹوٹی تب بھی اسلام کا سفر بدستور جاری رہا، اس کے بعد عباسی سلطنت ٹوٹی، اندلس کی مسلم سلطنت ٹوٹی، مصر کی فاطمی سلطنت ٹوٹی، ہندستان کی مغل سلطنت ٹوٹی، وغیرہ وغیرہ۔ مگر سلطنتوں کا یہ زوال اسلام کے زوال کا سبب نہ بن سکا۔
اسی طرح بیسویں صدی میں کئی انتہا پسندانہ نظریات اُبھرے۔ مثلاً کمیونزم، نازی ازم، نیشنلزم اور وطنیت، وغیرہ۔ مگر ان سب کا آخری انجام یہ ہوا کہ فطرت کا قانون اُن کے انتہا پسندانہ عناصر کو رد کرتا ہے اور آخر کار جو چیز بچی وہ وہی تھی جو قانونِ فطرت کے مطابق مطلوب تھی۔ فطرت کا ابدی قانون ہر دوسری چیز پر بالا ہے۔ فطرت کا قانون اپنے آپ یہ کرتا ہے کہ وہ غیر معتدل افکار کو رد کرکے اُنہیں میدانِ حیات سے ہٹا دیتا ہے اور اُن کے بجائے معتدل افکار کو کام کرنے کا موقع دیتا ہے۔
کفر اور کافر کا تصور
اسی طرح اس معاملہ میں ایک متعلق اصطلاح کفر کی ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ مسلمانوں میںکفر اور کافر کا جوتصور پایا جاتا ہے وہ قومی یکجہتی کی راہ میں ایک مستقل رکاوٹ ہے۔ مگر یہ خیال ایک غلط فہمی پر مبنی ہے۔ اس کا قرآن سے کوئی تعلق نہیں۔
کفر کے لفظی معنٰی انکار کے ہوتے ہیں اور کافر کا مطلب ہے، انکار کرنے والا۔ یہ دونوں الفاظ قرآن میں پیغمبر کی نسبت سے بولے گئے ہیں، وہ عام لوگوں کی نسبت سے نہیں بولے گئے۔ مزید یہ کہ کفر یاکافر ایک شخصی کردار ہے۔ وہ کسی گروہ کا نسلی یا وراثتی نام نہیں۔ کفر یا انکار کا تحقق کسی کے بارہ میں اُس وقت ہوتا ہے جب کہ اُس کے اوپر پیغمبرانہ قسم کی دعوت جاری کی جائے اور اُس کو تکمیل کی حد تک پہنچایا جائے جس کو اتمامِ حجت کہا جاتا ہے۔ اس طرح کی پیغمبرانہ دعوت کے بغیر کسی کے بارہ میںیہ کہنا درست نہیں کہ اُس نے کفر یا انکار کا فعل کیا ہے۔
اسی طرح کسی فرد یا مجموعۂ افراد کے بارہ میں متعین اور مشخص طورپر یہ اعلان کرناکہ وہ کافر ہوچکے ہیں، عام لوگوں کے لیے جائز نہیں۔ کفر کے فعل کاتعلق حقیقتاً نیت سے ہے اور نیت کا حال صرف اللہ کو معلوم ہے۔ اس لیے متعین اور مشخص طورپر کسی کے بارے میں یہ اعلان کرنا کہ وہ کافر ہوگیا ہے، یہ خالصتاً اللہ کا کام ہے یا اللہ کے دیے ہوئے علم کی بنا پر پیغمبر کا۔ چنانچہ قرآن میںصرف ایک ایسا حوالہ ہے جب کہ قدیم زمانہ کے کچھ لوگوں کو متعین طورپر کافر قرار دے کر کہا گیا کہ : قل یا ایہا الکافرون (الکافرون ۱)۔ اس انداز کا مشخص خطاب قرآن میں کسی بھی دوسرے گروہ کے لیے نہیں آیا ہے۔ یعنی قرآن میں اس ایک استثناء کو چھوڑ کر فعلِ کفر کا ذکر تو ہے مگر مشخص طورپر کسی کو فاعلِ کفر کا درجہ نہیں دیا گیا۔
دار الحرب کی اصطلاح
دار الحرب کی اصطلاح دورِ عباسی میں بننے والی فقہ میں ضرور استعمال ہوئی ہے مگریہ اصطلاح قرآن اور حدیث میںمذکور نہیں۔ یہ فرق واضح کرتا ہے کہ دار الحرب کی اصطلاح ایک اجتہادی اصطلاح ہے، وہ کوئی منصوص اصطلاح نہیں۔ اور جو نظریہ اجتہادی ہو اُس کے بارہ میں یہ ثابت ہے کہ وہ صحیح بھی ہوسکتا ہے اور غلط بھی۔
میرے نزدیک دار الحرب کی اصطلاح ایک اجتہادی خطا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میںہر قسم کے واقعات پیش آئے۔ مگر آپ نے کسی بھی علاقہ کو دار الحرب قرار نہیں دیا۔ اگر قرآن وسنت میںاجتہاد کرکے اس سلسلہ میںکوئی اصطلاح بنائی جائے تو وہ صرف ایک ہوگی، اور وہ دار الدعوہ ہے۔ یہی اسلامی روح کے مطابق ہے۔ اسلام ہر قوم کو مدعو کی نظر سے دیکھتا ہے،خواہ اہلِ اسلام کاتعلق اُن سے امن کا ہو یا حرب کا۔ اس لیے صحیح اسلامی نظریہ کے مطابق، صرف دو اصطلاحیں درست ہیں—دار الاسلام اور دار الدعوہ۔ اس کے سوا جو بھی اصطلاحیں بولی گئی ہیں وہ سب میرے نزدیک اجتہادی خطا کا درجہ رکھتی ہیں۔ مثلاً دار الحرب، دار الکفر، دار الطاغوت، وغیرہ۔
جہاد کا تصور
کچھ مسلمانوں کی غلط تعبیر کے نتیجہ میں، جہاد کا تصور یہ بن گیا ہے کہ جہاد کا مطلب ہے، مصلحانہ جنگ۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ مسلمان دنیا میں خدا کے خلیفہ ہیں۔ مسلمان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ خدا کی نیابت میںخدا کی حکومت دنیا میں قائم کرے۔ وہ خدا کی طرف سے لوگوں کو خدا کے احکام کا پابند بنائے۔ اُن کے نزدیک اس لڑائی کا نام جہاد ہے۔جہاد کا یہ تصور بلا شبہہ بے اصل ہے۔ قرآن و سنت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔
مصلحانہ جنگ اپنے نتیجہ کے اعتبارسے صرف مفسدانہ جنگ ہے۔ اجتماعی زندگی میں پرامن اظہار خیال کا حق تو ہر ایک کو ہے لیکن طاقت کو استعمال کرکے اصلاح کرنے کا نظریہ بین اقوامی زندگی میں ناقابل قبول ہے۔ اجتماعی یا بین اقوامی زندگی میںکوئی گروہ اپنے لیے ایک ایسا حق نہیں لے سکتا جسے وہ دوسروں کو دینے کے لیے تیار نہ ہو۔ اگر ایک گروہ اپنے لیے اصلاحی جنگ کا حق لینا چاہے تو یقینی طورپر اسے دوسروں کو بھی اصلاحی جنگ کا یہ حق دینا ہوگا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہر گروہ خود ساختہ اصلاح کے نام پر دوسرے سے جنگ شروع کردے گا۔ اس کے نتیجہ میںاصلاح تونہ ہوگی البتہ اس کی وجہ سے ایک ایسا فساد برپا ہوگا جو کبھی ختم نہ ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ جنگ کی جائز صورت صرف ایک ہے، اور وہ دفاع ہے اگر ایک قوم اپنی جغرافی حد سے تجاوز کرکے دوسری قوم کے اوپرکھلا حملہ کردے تو ایسی صورت میں زیر حملہ قوم کواپنے بچاؤ میں جوابی جنگ کا حق حاصل ہے۔ اس ایک صورت کے سوا کسی بھی دوسری صورت میں متشددانہ جنگ کا کوئی جواز نہیں۔
یہ اجتماعی اصول اسلام میں بھی اسی طرح مسلّم ہے جس طرح سے وہ دوسرے نظاموں میںتسلیم کیاگیا ۔ اس اجتماعی اصول کے معاملہ میںاسلام اور غیر اسلام کے درمیان کوئی فرق نہیں۔
اس سلسلہ میںایک مسئلہ وہ ہے جو پچھلی تاریخ سے تعلق رکھتا ہے۔ پچھلا زمانہ بادشاہی زمانہ تھا۔ ساری دنیا میں ہر جگہ کچھ خاندان حکومت کرتے تھے۔ اُس زمانہ میں بادشاہ کا یہ حق سمجھا جاتا تھا کہ وہ قانون سے بالا تر ہے اور وہ جو چاہے کرے۔ اس بنا پر قدیم شاہی زمانہ میں ہر بادشاہ نے ایسے کام کئے جو اخلاقی یا قانونی اعتبار سے درست نہ تھے۔ قدیم زمانہ میں ہندستان کے مسلم بادشاہوں نے بھی ایسا ہی کیا۔ مثلاً محمود غزنوی نے سومناتھ کے ہندو مندر کو ڈھایا اور اُس کے سونے کے ذخیرہ کو لوٹا۔ اسی طرح کہا جاتا ہے کہ اورنگ زیب نے بنارس کے ایک ہندو مندر کو ڈھایا اور اُسی جگہ مسجد تعمیر کی، وغیرہ۔
بادشاہوں کی طرف سے اس قسم کے واقعات قدیم زمانہ میں ہر ملک میںہوئے۔ مگر وہ صرف قدیم تاریخ کا ایک حصہ بن کر رہ گئے، وہ بعدکے زمانہ میں دو قوموں کے درمیان مستقل نزاع کا سبب نہ بن سکے۔ صرف ہندستان میںایسا ہوا کہ اس طرح کے واقعات یہاں کے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان مستقل طورپر تلخی کا سبب بن گئے۔ اس کے نتیجہ میں فرقہ وارانہ فساد بھی بار بار ہوئے۔ وہ قومی یکجہتی کا ماحول قائم کرنے کی راہ میں ایک مستقل رکاوٹ بن گئے۔
میرے نزدیک اس استثنائی صورت حال کا بنیادی سبب یہ ہے کہ مسلم علماء اور دانشوروں نے ہندستان کی مسلم حکومتوں کو اسلامی حکومت کا نام دے دیا۔ وہ اس کو اسلام کی تاریخ کا ایک باب سمجھنے لگے۔حالاں کہ ان حکومتوں کی حیثیت صرف کچھ مسلم خاندانوں کی حکومت (dynasty) کی تھی۔ اُن کو اُصولی اعتبار سے اسلام کی حکومت بتانا درست نہ تھا۔ اس فرق کو ملحوظ نہ رکھنے کی بنا پر ایسا ہوا کہ جو واقعات ایک مخصوص مسلم خاندان کی حکمرانی سے تعلق رکھتا تھا وہ اسلام کے نام کے ساتھ جُڑگیا۔
اس فرق کو ملحوظ نہ رکھنے کی بنا پر یہ شدید غلطی ہوئی کہ مسلمان ان حکمرانوں کے دورِ حکومت کو اپنے لیے اسلامی فخر کے طور پر لینے لگے۔ وہ اُس کوغلبۂ اسلام کی علامت سمجھنے لگے۔دوسری طرف ہندوؤں میں وہ نظریہ پیدا ہوا جس کو تاریخی غلطیوں (historical wrongs) کی اصلاح کہا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ واضح طورپرباہمی تلخی کی صورت میں نکلا۔ مسلمانوں نے جب اس کو اپنا فخر بنایا تو شعوری یا غیر شعوری طورپر وہ اُن کی مذہبی تاریخ کا ایک مقدّس حصہ بن گیا اور دوسری طرف ہندوؤں نے اُس کو تاریخی غلطی سمجھ کر اُس کی اصلاح کی کوشش شروع کردی۔
میرے نزدیک اس معاملہ میں دونوں فریق غلطی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ مسلمان کی غلطی یہ ہے کہ وہ اس تاریخ کو مذہبی حیثیت دینے کی بنا پر اُس پر نظر ثانی کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اور دوسری طرف ہندوؤں کی غلطی یہ ہے کہ وہ گذری ہوئی تاریخ کو بھولنے پر تیار نہیں۔ وہ ماضی کی غلطیوں کی تصحیح پر اصرار کررہے ہیں، خواہ اُس کے نتیجہ میں حال کے امکانات برباد ہوکر رہ جائیں۔
میرے نزدیک اس معاملہ میں دونوں فریقوں کو حقیقت پسند بننا چاہئے۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ پچھلے مسلم بادشاہوں کو اسلامی حاکم کا درجہ نہ دیں بلکہ اُن کی حکومت کو صرف ایک خاندان کی حکومت (dynasty) قرار دیں۔ وہ ان مسلم بادشاہوں کی غیر اسلامی اور غیر اخلاقی کارروائیوں کا انکار (disown) کریں، وہ کھلے طورپر اُن کی مذمت کریں، خواہ، وہ محمود غزنوی ہو یا اورنگ زیب یا کوئی اور۔
دوسری طرف ہندوؤں کو چاہئے کہ وہ مضٰی ما مضی (gone is gone) کے اُصول پر ماضی کو بھلا دیں۔ وہ اس معاملہ میںجذباتی طریقہ کو چھوڑ کر حقیقت پسندانہ انداز اختیار کریں۔ ہندوؤں کو جاننا چاہئے کہ تاریخی غلطیاں ہمیشہ ہوئی ہیں مگر کوئی بھی کبھی تاریخی غلطیوں کی تصحیح نہ کرسکا۔ تاریخی غلطیوں کی تصحیح کا نظریہ بلاشبہہ غیر دانش مندانہ ہے۔ یہ ماضی کی تصحیح کے نام پر حال کی تخریب ہے۔ یہ فطرت کے اُصول کے خلاف ہے۔ ایسے لوگ ماضی کو پانے کے نام پر اپنے حال اور مستقبل کو بھی کھو دیتے ہیں۔
بد قسمتی سے ہندستان کے حق میں یہ بات پوری طرح واقعہ بن گئی ہے۔ جن ملکوں نے اپنے ماضی کو بھُلا کر اپنے حال کی تعمیر کرنا چاہا، اُنہوں نے زبردست کامیابی حاصل کی۔ اس کی ایک مثال جاپان ہے۔ جاپان نے امریکہ کی غلطیوں کی تصحیح کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جاپان آج ایک اقتصادی سُپر پاور بنا ہوا ہے۔ دوسری مثال ہندستان کی ہے۔ ہندستان میں ماضی کی غلطیوں کی تصحیح کی کوشش کی گئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہندستان صرف ایک پچھڑا ہوا ملک بن کر رہ گیا۔
قومی ترقی کی لازمی شرط یہ ہے کہ قومی ترقی کے سوال کو اصل بنایا جائے اور بقیہ تمام چیزوں کو سیکنڈری حیثیت دے دی جائے۔ لوگوں میں یہ سوچا سمجھا ذہن موجود ہو کہ اصل اہمیت کی چیز یہ ہے کہ قومی ترقی کا عمل کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رہے۔ اس کے سوا جو جذباتی مسائل ہیں یا اور جو ذاتی مفروضات ہیں وہ اگر قومی ترقی کے عمل میں رکاوٹ ڈالے بغیر حاصل ہوتے ہوں تو ٹھیک، ورنہ وہ ہمیں منظور نہیں۔ یہی واحد طریقہ ہے جس کی پیروی کرکے ملک کو حقیقی معنوں میں ترقی دی جاسکتی ہے، اس کے بغیر امن ممکن نہیں۔
مشہور قصہ ہے کہ ایک قاضی کے پاس ایک کیس آیا۔ ایک نوزائیدہ بچہ تھا اور دو عورتیں یہ دعویٰ کررہی تھیں کہ وہ اُس کی ماںہے اور اس بچہ کو اس کے حوالہ کردینا چاہئے۔ مگر دونوں میں سے کسی کے پاس بھی کوئی قانونی ثبوت موجود نہ تھا۔ یہ قاضی کے لیے ایک بڑا امتحان تھا۔ آخر کار اُس نے یہ حکم دیا کہ بچہ کے جسم کو بیچ سے کاٹ کر دو ٹکڑے کردیئے جائیں اور پھر اُس کا ایک ٹکڑا ایک عورت کو دیاجائے اور اُس کا دوسرا ٹکڑا دوسری عورت کو دیا جائے۔
قاضی نے جب اپنا یہ حکم سنایا تو جو عورت بچہ کی ماں ہونے کی فرضی دعویدار تھی اُس پراس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ مگر جو عورت بچہ کی حقیقی ماں تھی وہ چیخ اٹھی ۔ اُس نے کہا کہ بچہ کو مت کاٹو۔ اُس کو تم دوسری عورت کے حوالہ کردو۔ یہی محبت کا حقیقی معیار ہے۔ جن لوگوں کو ملک سے حقیقی محبت ہے اُنہیں چلّا کر کہنا چاہئے کہ ہم دیش کی تباہی کو دیکھ نہیں سکتے۔ پچھلی تاریخ میں جو کچھ ہوا اُس کو ہم بھلاتے ہیں تاکہ حال کے مواقع کو بھر پور طورپر استعمال کیا جاسکے اور ملک کا ایک نیا شاندار مستقبل پیدا کیا جاسکے۔
قومی زندگی میںامن اور اتحاد کا اصول صرف toleration کی بنیاد پر ممکن ہے۔ یہ فطرت کا اصول ہے کہ مختلف افراد اور مختلف گروہوں کے درمیان اختلافات پیداہوں۔ فرق اور اختلاف زندگی کا لازمی حصہ ہیں۔ اس لئے فرقہ وارانہ زندگی میں اعتدال کا ماحول فرق اور اختلاف کو مٹا کر قائم نہیں کیا جاسکتا۔ یہ مقصد جب بھی حاصل ہوگا تحمل اور ٹالرنس کی بنیاد پر حاصل ہوگا۔
حقیقت یہ ہے کہ اختلاف کو مٹانے کی کوشش کسی انسانی گروہ کے خلاف نہیں ہے بلکہ وہ فطرت کے عالم گیر قانون کے خلاف ہے۔ کوئی بھی شخص یا گروہ اتنا طاقت ور نہیں کہ وہ فطرت سے لڑکر جیت سکے۔ اس لیے حقیقت پسندی کا تقاضہ یہ ہے کہ اس معاملہ میںبرداشت کے اصول کو اپنایا جائے نہ کہ ٹکراؤ کے اصول کو۔ اختلاف کو گوارا کرو تاکہ اتحاد قائم ہو۔ کیوں کہ اختلاف کو مٹا کر اتحاد قائم کرنے کا منصوبہ تو سرے سے ممکن ہی نہیں۔
واپس اوپر جائیں

اتحاد ایمان کا حصّہ ہے

ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا تباغضوا ولا تحاسدوا ولا تدابرو، وکونوا عباد اللہ اخوانا، ولا یحل لمسلم ان یہجر اخاہ فوق ثلاث لیال (رواہ ابو داؤد) یعنی آپس میںایک دوسرے سے بغض نہ کرو۔ ایک دوسرے سے حسد نہ کرو۔ ایک دوسرے سے پیٹھ نہ پھیرو۔ سب اللہ کے بندے، بھائی بھائی بن جاؤ۔ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کو تین رات سے زیادہ چھوڑے۔
یہ حدیث بظاہر حکم کی زبان میں ہے مگراپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ یہ بتا رہی ہے کہ ایمان آدمی کے اندر کس قسم کی صفات پیدا کرتا ہے۔ خدا کی معرفت انسان کو کس قسم کے کردار والا انسان بناتی ہے۔ اس حدیث میں در اصل کسی ایمان والے آدمی کی ان صفات کو بتایا گیا ہے جن کو اجتماعی صفات کہا جاتا ہے۔ گویا کہ یہ چیزیں ایمان کی اجتماعی پہچان ہیں۔
ذاتی دائرہ میں ایمان اللہ سے تعلق کا نام ہے۔ لیکن جب ایمان والے لوگ دوسروں کے ساتھ مل جل کر رہیں تو اس وقت باہمی اختلاط کے نتیجے میں بار بار مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ جب معاملہ صرف خدا اور انسان کاہو تو وہاں کوئی مسئلہ پیدا نہ ہوگا، مگر جب انسان آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر رہیں، تو ایسی صورت میں ایک دوسرے کے خلاف مسائل کا پیدا ہونا لازمی ہے۔ اس طرح اجتماعی زندگی ایک پہچان بن جاتی ہے ۔ جو یہ بتائے کہ لوگوں کے اندر ایمان کی سچی اسپرٹ موجود ہے یا نہیں۔
اللہ کے وہ بندے جو اللہ کو حقیقی معنوں میں اپنا معبود بنالیں، ان کا دل ہر قسم کے منفی جذبات سے خالی ہو جاتا ہے۔ جن لوگوں کا دل خدا کی بلندیوں میں اٹکا ہوا ہو، وہ دنیا کی پستیوں میں لت پت ہو کر نہیں رہ سکتے۔ ایسے لوگ اپنے بھائیوں کے درمیان اس طرح رہنے لگتے ہیں جیسے ہوا لوگوں کے درمیان سے گزرتی ہے، مگر وہ کسی سے نہیں ٹکراتی۔ جیسے پھول کی مہک ہر ایک کو پہنچتی ہے مگر وہ ایک اور دوسرے کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتی۔ جیسے روشنی ہر ایک کے پاس آتی ہے مگر وہ کسی سے خوش اور کسی سے خفا نہیں ہوتی۔ ایسے لوگ اسی طرح ایک دوسرے کے مکمل ساتھی ہوتے ہیں۔ جیسے باغ کے درخت ایک دوسرے کے ساتھ بغیر کسی قسم کی باہمی رنجش کے ایک مقام پر کھڑے ہوئے ہوں۔
اسلام کے رزق سے آدمی کو حصہ ملا ہے یا نہیں، اس کی ایک واضح پہچان یہ ہے کہ وہ اپنے بھائیوں کے درمیان اس طرح رہنے لگے کہ اس کو نہ کسی سے بغض ہو اور نہ کسی سے حسد۔ کسی قابل شکایت بات پیش آنے پر وہ اپنے بھائی سے بگڑ نہ جاتا ہو، وہ سارے لوگوں کو اللہ کی عیال سمجھ کر اس طرح رہ رہا ہو جیسے ایک باپ کی اولاد مل جل کر رہتی ہے۔ اس قسم کا ذہن جس شخص کے اندر پیدا ہوجائے وہ اپنے مزاج کے اعتبار سے ایسا ہوجائے گا کہ کسی بھائی سے اگر اس کا بگاڑ ہو جائے اور وقتی تأثر سے مغلوب ہو کر وہ اس سے جدائی اختیار کرلے تو تین دن گزرتے گزرتے اس کا سینہ پھٹنے لگے گا۔ وقتی جذبہ نے اس کو جس بھائی سے دور کیا تھا، اس سے وہ اپنے رب کی خاطر دوبارہ اس طرح مل جائے گا جیسے کہ اِس کے ساتھ کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
واپس اوپر جائیں

ایک خط

برادر محترم جناب محمد حنیف صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ
ٹیلی فون کے ذریعہ معلوم ہوا کہ آج کل آپ اسپتال میں زیر علاج ہیں۔ دوبارہ ٹیلی فون کے ذریعہ معلوم ہوا کہ آپ کی صحت ٹھیک ہورہی ہے اور آپ جلد ہی گھر واپس آجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو لمبی مدت تک صحت اور عافیت کے ساتھ قائم رکھے تاکہ آپ زیادہ سے زیادہ دین کی خدمت کرسکیں۔
آپ کی بیماری کی خبر سن کر مجھے قرآن کی آیت (البلد ۴) یاد آئی۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ خدا نے انسان کو کبد یعنی مشقت (toil) میں پیدا کیا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ زندگی میں بار بار ناخوش گوار واقعات پیش آتے ہیں۔ اس کے ساتھ بیماری، حادثہ اور بڑھاپا جیسی چیزیں بھی ہر ایک کے ساتھ پیش آتی ہیں۔ اس قسم کی باتیں زندگی کا لازمی حصہ ہیں وہ زندگی سے کبھی جدا نہیں ہوتیں۔
میں نے سوچا کہ ایسا کیوں ہے۔ اس میں خدا کی کون سی مصلحت کام کررہی ہے۔ غور کرنے کے بعد سمجھ میں آیا کہ یہ خدا کی ایک رحمت (blessing) ہے۔ خدا نے انسانی زندگی کا یہ نظام اس لیے بنایا ہے کہ وہ ہماری زندگی کو تجربہ بنا دے۔ تجربہ کے بغیر انسان کی زندگی ادھوری ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے ہماری زندگی میں کبد کے ذریعہ تجربات کو شامل کردیا گیا ہے۔
علم کا مطلب جاننا ہے اور تجربہ کا مطلب سیکھنا۔ علم آدمی کو معلومات دیتا ہے اور تجربہ آدمی کو گہری سوچ عطا کرتا ہے۔ علم کسی آدمی کو ایک زندہ کمپیوٹر بنا سکتا ہے اور تجربہ اس کی شخصیت کو ایک اعلیٰ انسانی شخصیت بنادیتا ہے۔ اعلیٰ انسانی شخصیت وہ ہے جس کے اندر پختگی (maturity) ہو۔ جس کو معرفت (realization) کا رز ق ملا ہو، جس کے اندر سنجیدگی (sincerity) کا مزاج پایا جاتا ہو، جو بلند فکری(high thinkink) کی صفت رکھتا ہو۔ جس کو وہ نعمت مل جائے جسے درد مند قلب کہا جاتا ہے۔ خدا آپ کو یہ تمام چیزیں وافر مقدار میں عطا فرمائے۔
نئی دہلی ۵ نومبر ۲۰۰۳ دعا گو وحید الدین
واپس اوپر جائیں

سوال و جواب

سوال
الحمد للہ تقریباً ۲۰ سال سے الرسالہ کا قاری ہوںاور تقریباً آپ کی زیادہ تر کتابیں میری لائبریری میں موجود ہیں۔ آپ کی تحریروں سے جو فائدہ ہوا ہے اُسے بیان کرنا ناممکن ہے۔ کتابیں تو میں نے اہل دیو بند او رجماعت اسلامی کی بھی بہت پڑھی ہیں مگر جو thinking آپ کی تحریروں سے بنی ہے اب اس کے بعد کسی اور کی کتاب دیکھنے کو جی نہیں چاہتا۔
میں تبلیغی جماعت کے ساتھ کام کرتا ہوں۔ مگر یہاں آج کل بہت زیادہ ’’نکلنے‘‘ پر زور دیا جارہا ہے۔ چار مہنیہ، چالیس دن اور روزانہ کے ڈھائی گھنٹہ پر بہت زیادہ اصرار کیا جاتا ہے۔ میں اپنی مصروفیت اور دوسرے مشاغل کی وجہ سے مطلوبہ وقت دے نہیں پاتا مگرساتھی اس کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔اس میں شک نہیں کہ یہ بھی دین کا کام ہے اور اپنے بھائیوں میں دین کی لائن سے فکر کرنا کہ کیسے وہ اعمال پر آجائیں بہت اونچی بات ہے۔ مگر کیا یہ ’’نکلنا‘‘ اتنا زیادہ ضروری ہے اور اس کا ثواب بھی وہی ہے جو یہ ’’اللہ کے راستے میں‘‘ نکلنے کا بتاتے ہیں (عبد الرزاق، ممبئی)
جواب
موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کے درمیان جو تحریکیں اُٹھیں، بد قسمتی سے تقریباً ہر ایک میں انتہا پسندی کاوہی غیر مطلوب عنصر پایا جاتا ہے جس کوقرآن اور حدیث میں غلو کہا گیا ہے۔ مثلاً جماعت اسلامی میں سیاسی انتہا پسندی، تبلیغی جماعت میں فضائلی انتہا پسندی، مدارس میں مسائلی انتہاپسندی، قومی تحریکوں میں مظاہراتی انتہا پسندی، مسلم پرسنل لاء بورڈ میں تشخّصی انتہا پسندی، وغیرہ۔
دین میںاصل اہمیت روح کی ہے، نہ کہ مظاہر کی۔ غلو ہمیشہ مظاہر کی بنیاد پر پیدا ہوتا ہے۔ ’’نکلنے‘‘ جیسی چیزیں بھی مظاہر سے تعلق رکھتی ہیں۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ روح دین پر زور دیا جائے۔ فارم کے بجائے اسپرٹ کو زندہ کرنے میں ساری طاقت صَرف کی جائے۔ اسپرٹ جب زندہ ہوتی ہے تو فارم اپنے آپ زندہ ہوجاتا ہے۔ اوراگر اس کے برعکس فارم پر محنت کی جائے تو فارم تو زندہ ہوسکتا ہے مگر اس سے اسپرٹ زندہ نہ ہوگی۔ ایسے لوگوں کے بارہ میں قرآن کی زبان میں یہ کہا جائے گا کہ ایمان کی ظاہری صورت تو تمہاری زندگیوں میں آئی مگر تمہارے دلوں میں ایمان ابھی تک داخل نہیں ہوا۔ (الحجرات۱۴)
سوال
آپ اپنی تحریروں میں اکثر صلح حدیبیہ کا ذکر کرتے ہیں۔ آپ بتاتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے حدیبیہ کے موقع پر اپنے مخالف کی شرطوں کو یک طرفہ طورپر مان کر اُن سے صُلح کرلی تھی۔ آپ کا کہنا ہے کہ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کو اپنے حریفوں کے ساتھ ایسا ہی کرنا چاہئے۔ اس سلسلہ میں ایک صاحب کا سوال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اس کے برعکس دوسرا واقعہ بھی ملتاہے۔ یہ وہ واقعہ ہے جب کہ بعد کو ابو سفیان مکہ والوں کے نمائندہ کی حیثیت سے مدینہ آئے اور صُلح حدیبیہ کی تجدید و توثیق کی درخواست کی۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کو قبول نہیں فرمایا اور اپنے اصحاب کے ساتھ مکہ کی طرف اقدام کا فیصلہ کیا۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ کیسے معلوم ہوگا کہ ہمیں دونوں میں سے کس سنت کی کس وقت پیروی کرنی چاہئے۔ (شمشاد محمد خاں، برمنگھم)
جواب
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ حقیقی صورتِ حال یہ فیصلہ کرے گی کہ ہم اپنے حالات کے لحاظ سے دونوں میں سے کس سُنّت کے مخاطب ہیں۔ شریعت اور عقل دونوں کا یہ اصول ہے کہ عمل کو ہمیشہ نتیجہ رُخی (result oriented) ہونا چاہئے۔ متوقع نتیجہ کو سامنے رکھ کر یہ فیصلہ کرنا چاہئے کہ ہم دونوں میں سے کس روش کو اختیارکریں۔
موجودہ زمانہ میں مسلمان جن حالات سے دوچار ہیں اُن میں بلا اشتباہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اُنہیں صبر کے اُصول پر اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرنی چاہئے، نہ کہ اقدام کے اصول پر۔ پچھلے دو سو سال میںمسلمان با ربا راقدام کا تجربہ کرتے رہے ہیں اور ہر بار وہ مکمل ناکامی سے دوچار ہوئے ہیں۔ کیوں کہ موجودہ زمانہ کے مسلمان اپنی استعداد یا تیاری کے اعتبار سے فریقِ ثانی کے مقابلہ میں اتنا کم ہیں کہ کسی بھی اقدام کا نتیجہ اُن کے حق میںنکلنا ممکن نہیں۔
حدیث میں آیا ہے کہ: المؤمن لا یلدغ من جحر مرّتین (مومن ایک بل سے دوبار نہیں ڈسا جاتا) ۔ واقعات بتاتے ہیں کہ مسلمانوں نے پچھلے دو سوسال میں لا تعداد بار چھوٹے اور بڑے اقدامات کیے اور ہر باروہ یکطرفہ ناکامی سے دوچار ہوئے۔ ایسی حالت میں اُن پر لازم ہے کہ وہ صبر کی سنت پر عمل کریں، نہ کہ اقدام کی سنت پر۔ حالات کا اندازہ کرنے میں مسلمان اگر ایک بار دھوکہ کھائیں تو وہ قابل معافی قرار پاسکتے ہیں۔ مگر حالات کا اندازہ کرنے میں بار بار دھوکہ کھانا کسی بھی حال میں اُن کے لیے قابلِ معافی نہیں ۔
سوال
اسلام میں لَے پالک یا منہ بولا بیٹا یا متبنّیٰ بنانے کو حرام کیا گیا ہے۔قرآن کی سورہ الاحزاب آیت ۴ میں یہ حکم موجود ہے۔ اس کے علاوہ اس کی بابت کئی حدیثیں آئی ہیں۔ مثلاً یہ حدیث کہ: من ادعیٰ الی غیر ابیہ و ہو یعلم انہ غیر ابیہ فالجنۃ علیہ حرام (بخاری، مسلم، ابو داؤد) یعنی جس نے اپنے آپ کو اپنے باپ کے سوا کسی اور کا بیٹا کہا، حالانکہ وہ جانتا ہو کہ وہ شخص اُس کا باپ نہیں ہے، اُ س پر جنت حرام ہے۔ سوال یہ ہے کہ متبنّیٰ کے بارے میں اسلام میں اتنا سخت حکم کیوں ہے کہ اُس کو حرام قرار دے دیا گیا۔ (ڈاکٹر ایس اے صدیقی، نئی دہلی)
جواب
اسلام کا ایک اصول یہ ہے کہ جو فعل ناجائز ہو اُس سے مشابہت بھی جائز نہیں۔ متبنّٰی کا معاملہ یہی ہے۔ بیٹا ہمیشہ ایک عورت اور ایک مرد کے درمیان جنسی تعلق کے ذریعہ پیدا ہوتا ہے۔ اس تعلق کی صرف ایک ہی جائز صورت ہے اور وہ نکاح ہے۔ نکاح کے بغیر جو بیٹا پیدا ہو، وہ اُس عورت اور مرد کی جائز اولاد نہیں کہی جائے گی۔ ایسی حالت میں کسی کو اپنا منھ بولا بیٹا بنانا اور اُس کے ساتھ حقیقی بیٹے جیسا معاملہ کرنا غیر منکوحہ تعلق سے مشابہت کے ہم معنٰی ہے۔ اسی مشابہت سے بچنے کے لیے اُس کو حرام قرار دے دیا گیا۔
سوال
ہمارے شہر میں ہر سال ماہ نومبر میں بُک فیر لگتا ہے، جہاں اردو کا ہمارا واحد اسٹال ہوتاہے۔ یہ بُک فیر تقریباً ۱۸ سالوں سے لگ رہا ہے۔ وہاں آپ کی مطبوعات خصوصی دلچسپی کا باعث ہوتی ہیں۔ آپ سے اتفاق کرنے والوں کا ایک حلقہ یہاں موجود ہے۔ عام آدمی آپ کی کتابوں کو بے حد پسند کرتا ہے۔ جو لوگ جماعتوں سے جڑے ہوتے ہیں وہی لوگ تنقید کرتے ہیں ورنہ تمام پڑھے لکھے مسلمان آپ کی باتوں پر توجہ دیتے ہیں بلکہ اپنی زندگی میں ان باتوں کو استعمال کرکے فائدہ بھی اٹھاتے ہیں۔ایسا کیوں ہے۔ (عبد الستار خاں، جمشید پور)
جواب
حدیث میںواضح طور پر حکم دیا گیا ہے کہ امت کے اندر مزید جماعتیں نہ بنائی جائیں۔ قرآن میںاس کو تفرّق (آل عمران ۱۰۵) کہا گیا ہے۔ موجودہ زمانہ میں مختلف عنوانات کے تحت جو جماعت بندیاں ہوئی ہیں وہ سب کی سب اس حکم کی خلاف ورزی ہیں۔ اس ممانعت کا سبب یہ ہے کہ جماعت کے لوگوں میں ایک عرصہ کے بعد لازمی طورپر جماعتی تعصب پیدا ہوجاتا ہے۔ یہ تعصب شعوری یا غیر شعوری طورپر یہ مزاج پیدا کرتا ہے کہ ہماری جماعت مکمل حق پر ہے۔ اب ہمیں حق کے لیے کسی اور فرد یا جماعت سے کچھ لینے کی ضرورت نہیں۔
اسی کا وہ نتیجہ ہے جو آپ نے اپنے تجربے میں پایا۔ جماعتی افراد گروہی صداقت کا ذہن رکھنے کی وجہ سے اپنی جماعت کے باہر کسی اورکتاب کوقابل مطالعہ نہیں سمجھتے۔ لیکن جو لوگ جماعتی گروہ بندی سے باہر ہیں وہ اس متعصبانہ مزاج سے آزاد ہوتے ہیں۔ اُن کا ذہن ہر وقت تیار رہتا ہے کہ جب بھی کوئی بات دلائل کے ساتھ اُن کے سامنے آئے تو وہ کسی تحفظِ ذہنی کے بغیر اُس کو قبول کرلیں۔
سوال
میں پچھلے دنوں دہلی میں تھا۔ ۸ مارچ ۲۰۰۲ کو وہاں آپ کے ہفتہ وار در س میں شریک ہوا۔ آپ نے قرآن کی مختلف آیتوں کو لے کر اپنی بات کی وضاحت کی۔ میری تجویز ہے کہ آپ معروف طریقہ کے مطابق، سلسلہ وار قرآن کا درس دیں۔ اس طرح پورا قرآن لوگوں کے سامنے مجموعی طورپرآسکے گا۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں، یہی طریقہ عام طورپر درسِ قرآن کے لیے رائج ہے۔ امید ہے کہ اس بارے میںاپنی رائے سے مطلع کریں گے۔ (سلیم احمد، سری نگر)
جواب
جیسا کہ آپ جانتے ہیں، تقریباً دو سو سال سے مسلمانوں میں درسِ قرآن کا طریقہ رائج ہے۔ خاص طورپر بر صغیر ہند کی بیشتر مسجدوں میں اس پر عمل ہورہا ہے۔ یہ درس ہمیشہ مصحفی ترتیب کے ساتھ ہوتا ہے۔ مگرتجربہ بتاتا ہے کہ عملاً اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ ان درسوں میں لوگ عقیدت کے جذبہ کے تحت آتے ہیں اور ثواب اور برکت کے لیے اُن کو سنتے ہیں۔ مگر اصل مقصد—لوگوں کے اندر قرآنی طرزِ فکر پیدا ہونا اور ذہنی انقلاب برپا ہونا، کسی بھی درجہ میں حاصل نہ ہوسکا۔
میں نے اس سوال پر کافی غور کیا ہے۔ میںاس نتیجہ پر پہنچاہوں کہ جہاں تک تلاوت یا تراویح یا اکیڈمک مطالعہ کا تعلق ہے، اُس میں مصحفی ترتیب ہی کی پیروی کی جائے گی۔ مگر جہاں تک اصلاح و دعوت کاتعلق ہے، دوبارہ وہی ترتیب مطلوب ہوگی جو دور اول میں نزولِ قرآن کے وقت مطلوب تھی۔ یعنی جیسے حالات ہوں گے، اُس کے مطابق، قرآن کا کوئی حصہ لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ دورِ اول میں قرآن اسی طرح حالات کے لحاظ سے اُترا۔ بعدکو اُسے موجودہ شکل میں ترتیب دے دیا گیا۔
حالات کی نسبت سے قرآنی آیتوں کے نزول کی حکمت یہ بتائی گئی ہے کہ اُس سے مقصود تثبیتِ قلب (الفرقان ۳۲) ہے۔ یعنی جو قرآنی حکم لوگوں کے سامنے آئے وہ اُن کے دل میں بیٹھتا چلا جائے۔ سنتے ہی وہ اُن کے شعور کا جزء بن جائے۔ اسی مصلحت کی بنا پر قرآن بیک وقت مکمل کتاب کی صورت میں نہیں اُتارا گیا بلکہ اس طرح اُتارا گیا کہ جس وقت لوگوں کے ذہن میں جو سوالات تھے، اُس کی نسبت سے اُنہیں رہنمائی دی گئی۔
غور و فکر کے بعد میںنے سمجھا ہے کہ اصلاح و دعوت کے لیے دوبارہ یہی انداز اختیار کیا جائے گا۔ یعنی مصحفی ترتیب کے بجائے حالات کی نسبت سے قرآن کے متعلق حصّوں کو پیش کرنا اور اُس کو لوگوں کے لیے دل نشیں بنانے کی کوشش کرنا۔ میںنے اپنے در س کے لیے اسی طریقہ کو اپنایا ہے۔ تجربہ سے یہ طریقہ بہ مفید ثابت ہوا ہے۔
مثال کے طورپر ۸ مارچ ۲۰۰۳ کے اجتماع میں آپ نے دیکھا ہوگا کہ ایک ہندو خاتون اُس میں شریک تھیں۔ اُن کی عمر ۳۷ سال ہے اور وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ وہ ایک بڑی کمپنی میں اچھے عہدہ پر ہیں۔ ۸ مارچ کو وہ پہلی بار ہمارے درس میں آئیں۔ وہ لمبے عرصہ سے سخت ذہنی خلفشار میں مبتلا تھیں۔ اُنہوں نے بتایا کہ وہ تین بار خود کُشی کی کوشش کرچکی ہیں جو کامیاب نہ ہوسکی۔ اُنہوں نے بتایا کہ وہ پچھلے برسوں میں بہت سے ہندو پیشواؤں اورعیسائی پادریوں سے ملیں۔ بُدھ مذہب اور سکھ مذہب کے گروؤں سے بھی ملیں۔ مگر اُن کا ذہنی انتشار ختم نہ ہوسکا۔ کسی کے بتانے پر وہ میرے یہاں آئیں۔ میںنے یہ کیا کہ پہلے اُن کے ذہن کو پڑھا اور پھر اُن کے ذہن کی نسبت سے کچھ آیتوں اور حدیثوں کی تشریح کی۔
اُنہوں نے نہایت غور سے میری باتوں کوسُنا۔ وہ ایک ماڈرن خاتون ہیں۔ لیکن شرکاء درس نے بتایا کہ ختم اجتماع پر جب وہ میرے کمرہ سے نکلیں تو وہ اس طرح رو رہی تھیں کہ اُن کے آنسو آنکھوں سے نکل کر فرش پر گررہے تھے۔ بعد کو خاتون کے ایک ساتھی نے مجھے ٹیلی فون پر بتایا کہ اُنہوں نے درس کے بارہ میں اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ میری زندگی میں پہلا موقع تھا کہ مجھے محسوس ہوا کہ مجھ کو میرے سوالات کا جواب مل رہا ہے:
For the first time in my life I felt that my questions are being addressed.
اگر میں اپنے ہفتہ وار اجتماع میں سلسلہ وار قرآن کا درس دے رہا ہوتا تو عین ممکن تھا کہ ۸ مارچ کو سلسلہ وار ترتیب میںقرآن کاکوئی ایسا حصہ اُن کے سامنے آتا جو اُنہیں اپنی بروقت سوچ کے اعتبار سے غیر متعلق معلوم ہوتا۔ مگر جب میںنے اُن کے ذہن کو سمجھ کر اُس سے متعلق آیت اور حدیث اُن کے سامنے پیش کی تو اُنہیں محسوس ہوا کہ اُن کے سوالات کو ایڈرس کیا جارہا ہے۔ یہی وہ دعوتی حکمت ہے جس کی بنا پر قرآن کی ترتیبِ نزول اُس کی ترتیب تلاوت سے مختلف ہے۔ تلاوت کے لیے آج بھی مصحفی ترتیب ہی پر عمل کیا جائے گا لیکن جب دعوت و تبلیغ کا معاملہ ہو تو سامعین کی نسبت سے قرآن کاایسا حصہ اُن کے سامنے لایا جائے گا جس میں اُنہیں محسوس ہو کہ بوقتِ خطاب اُن کے ذہن میں جو سوالات تھے وہ ایڈرس ہورہے ہیں۔
سوال
میں انجینیرنگ کالج کا طالب علم ہوں۔ میری عمر ۲۳ سال ہے۔ میں ایک اچھا کرکٹ کھلاڑی ہوں۔میں انٹرنیشنل کرکٹ کھلاڑی بننا چاہتا ہوں۔ میں کرکٹ کھیلنے کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات پر عمل بھی کرتا ہوں۔اس بابت ایک سوال مجھے اکثر پریشان کرتا رہتا ہے ۔ وہ یہ کہ کیا اسلام میں کرکٹ کھیلنا اور اس کو ذریعہ معاش بنانا جائز ہے یا نہیں ۔ (اقبال رشید بیگ، سری نگر ، کشمیر)
جواب
کرکٹ یا اور کوئی گیم اسلام میں منع نہیں ہے۔ گیم کے ذریعہ اگر آپ اپنی معاش حاصل کریں تو یہ بھی اسلام میں جائز ہوگا۔ البتہ جو چیز اسلام میں منع ہے وہ یہ ہے کہ آدمی میچ فکسنگ کرے یا وہ خدا کی عبادت میں اُس سے غافل ہوجائے۔
سوال
ہمارا ایک سوال ہے۔ وہ یہ کہ ملک کی ایک مشہور تنظیم اس وقت ایک مہم چلارہی ہے کہ پسماندہ طبقات کو ساتھ لے کر اوران سے اتحاد پیدا کرکے حالات کا رخ موڑا جائے، کیا صرف پسماندہ طبقات کو ساتھ لے کر کامیابی مل سکتی ہے۔ اس سلسلہ میں آپ کی رائے جاننا چاہتے ہیں۔ (عبدالعلیم قاسمی، امتیاز احمد خاں مفتاحی، عادل آباد)
جواب
دلت ۔مسلم اتحاد کا نعرہ کوئی نیا نعرہ نہیں۔ دلت۔ مسلم اتحاد کی بات بار بار کی گئی ہے اور ہر بار وہ ناکام ہوئی ہے۔ موجودہ کوشش بھی یقینی طورپر اس مقصد میں ناکام ہوگی۔ اگر آپ کو تفصیل معلوم ہوتو یہ کوشش پہلے ہی دن خود اپنے اسٹیج پر ناکام ہوچکی ہے۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ عین اسٹیج کے اوپر مسلم ارکان آپس میں ٹکرا گئے۔ پھر جب خود مسلمان آپس میں متحد نہ ہوں تو دوسروں کو اتحاد کا پیغام دینا کیسے موثر ہوسکتا ہے۔
پچھلے سوسال کے اندر مسلمانوں نے بار بار اتحاد کانفرنسیں کی ہیں۔ مگر وہ سب کی سب بے نتیجہ رہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اتحاد جلسوں اور تقریروں سے قائم نہیں ہوتا۔ اُس کے لیے کچھ اور زیادہ گہرے اسباب درکار ہیں—مثلاً مسلمانوں میں اختلاف کو برداشت کرنے کا مزاج، دوسرے طبقات میں یہ احساس کہ مسلمانوں کے ساتھ متحد ہو کر انہیں کوئی بڑا فائدہ مل سکتا ہے۔ اتحاد کانفرنس کے انعقاد سے پہلے اُس کے حق میں گراؤنڈ ورک، وغیرہ۔ اتحاد کے حق میں ابھی تک اس قسم کے موافق اسباب موجود نہیں۔ ایسی حالت میں اتحاد کی بات اُسی طرح ایک خیالی شاعری ہے جیسا کہ اس سے بہت پہلے اقبال نے بے نتیجہ طورپر اس طرح کی تھی :
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاکِ کاشغر
سوال
میں Engineering کی طالبہ ہوں۔ میں آپ سے دو سوالات کررہی ہوں۔ کیا اسلام میں یہ جائز ہے کہ ہم اپنے جسم کاکوئی بھی اہم حصہ donate کرسکتے ہیں، ہمارے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد جس سے کسی دوسرے انسان کو ایک نئی زندگی ملے۔
کوئی لڑکی یا عورت کی آواز اگر سریلی ہو تو کیا وہ کسی اجتماع یا پھر کسی function کے آغاز میں حمد، نعت یا پھر کسی ترانہ کے ذریعہ اپنی آواز کو ظاہر کرسکتی ہے یا نہیں۔ براہِ کرم میرے ان دوسوالوں کا جواب دیں۔ (فرح جبیں)
جواب
یہ خدا کے بنائے ہوئے قانون فطرت کا نتیجہ ہے کہ انسانی جسم کا کوئی حصہ، مثلاً آنکھ، اُس کی موت کے بعد بھی کسی زندہ کے کام آسکتی ہے۔ جس طرح دوسرے قوانین فطرت انسان کے لیے رحمت ہیں۔ اس طرح یہ فطری قانون بھی انسان کے لیے ایک رحمت ہے اور اُس کو ضرور استعمال کرنا چاہئے۔ یہ مرے ہوئے آدمی کی طرف سے زندہ کے لیے ایک صدقۂ جاریہ ہوگا۔
میںذاتی طورپر جلسوں کے آغاز میں نظم یا ترانہ کوغیر مفید سمجھتا ہوں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جلسہ یا اجتماع میں سنجیدگی کا ماحول ختم ہو جاتا ہے اور تفریح لینے اور تالیاں بجانے کا ماحول قائم ہوجاتا ہے۔ اسی قسم کے رواج کا یہ نتیجہ ہے کہ ہمارا ہراجتماع صرف ایک قسم کا شو بن کر رہ جاتا ہے۔ ایسی حالت میں میرے نزیک اس قسم کی شعر خوانی ہر حال میں نادرست ہے، خواہ وہ لڑکوں کے ذریعہ ہو یا لڑکیوں کے ذریعہ۔
سوال
الرسالہ دسمبر ۲۰۰۲ ملا۔ صفحہ ۲۷ پر آپ نے لکھا ہے کہ یہ دنیا امتحان کے اصول پر مبنی ہے۔ عرض یہ ہے کہ اللہ نے دنیا کواور تمام انسانوں کو پیدا کیا ہے، اُس کے تخلیق کردہ بندے کیسے ہیں، اُس سے پوشیدہ نہیں۔ کس انسان میں کیا خوبی یا کمی ہے اللہ کو اچھی طرح معلوم ہے۔ پھر امتحان کیوں ضروری ہے۔ (معصوم علی، راجستھان)
جواب
اس امتحان کا تعلق علم خداوندی سے نہیں ہے۔ اس کا مقصد در اصل انتخاب (selection) ہے۔ اللہ تعالیٰ نے موجودہ دنیا کے پورے نظام کو اسی اصول کے تحت بنایا ہے۔ یہاں ہر آدمی اپنا امتحان دے رہا ہے اور اس امتحان کے دوران ہر آدمی اپنے بارہ میں بتاتا ہے کہ کیا وہ اس قابل ہے کہ جنت کی رہائش گاہ کے لیے اُس کا انتخاب کیاجائے۔ جو لوگ موجودہ دنیامیں اپنے آپ کو اس انتخاب کا اہل ثابت کریں گے وہ آخرت کی ابدی جنت میں داخل کیے جائیں گے اور جو لوگ اپنے آپ کو اُس کا اہل ثابت کرنے میںناکام رہیں گے اُن کو ناکارہ قرار دے کر جہنم کے کوڑا خانہ میں ڈال دیا جائے گا۔
سوال
کچھ صحافتی اصطلاحات کے جوابات مطلوب ہیں۔ امید کہ آپ اپنی روایت کی مانند جوابات سے ممنون فرمائیں گے۔ (۱) ایلو جرنلزم (yellow journalism) (۲) ایلو پریس(yellow press) (۳) الٹا اہرام(inverted pyramid) (۴) فورتھ اسٹیٹ کی صحیح اسپیلنگ اور اس کا مطلب (۵) اسپینی امریکی جنگ، وغیرہ۔
جواب
۱۔ ایلو جرنلزم (yellow journalism) سے مراد صحافت کی وہ قسم ہے جس کوعام طورپر سنسنی خیز جرنلزم کہا جاتا ہے۔ یعنی خبروں کو سنسنی انداز میں پیش کرنا تاکہ اخبار کی اشاعت زیادہ سے زیادہ بڑھے۔ یہ طریقہ امریکہ کے دو اخباروں ورلڈ اور جنرل نے ایک دوسرے کے مقابلہ میں شروع کیا تھا۔ اس کے بعد ۱۸۹۰ میں ایلو جرنلزم کی اصطلاح رائج ہوئی۔
۲۔ ایلو پریس (yellow press) اور ایلو جرنلزم دونوں ایک ہی چیز کے دو مختلف نام ہیں۔ ایلوپریس سے مراد اشتعال انگیز اخبارات ہیں۔ وہ اخبارات جو ہیجان خیز خبریں شائع کرتے ہیں، جو تعصبات کو بھڑکانے والی خبریں چھاپ کر اپنی اشاعت بڑھاتے ہیں۔
۳۔ مصر کے اہرام مثلّث شکل کے ہیں۔ یعنی نیچے کی طرف چوڑا اور چوٹی کی طرف نوکیلا۔ صحافت کی اصطلاح میں اُلٹا اہرام (inverted pyramid) کا مطلب یہ ہے کہ کسی خبر کو واقعاتی ترتیب کے بجائے اُلٹی طرف سے بیان کرنا۔ مثلاً قتل کا واقعہ بہت سے سرگرمیوں سے شروع ہو تا ہے اور آخر کار قتل تک پہنچتا ہے۔ مگر اخبار میں جب ایسی کسی خبر کو چھاپا جاتا ہے تو اُس کی سُرخی اس طرح لگائی جاتی ہے: شہر میں ایک قتل۔ یعنی خبر کے آخری جزء کو پہلے بیان کرنا۔
۴۔ فورتھ اسٹیٹ (fourth estate) کا لفظ پریس یا جرنلزم کے لیے بولا جاتا ہے۔ فیوڈل دور میں پولیٹکل پاور کے چار ستون سمجھے جاتے تھے۔ کلرجی (clergy) نابلٹی(Nobility) اور بورژوا(bourgeoisie)۔ پھر جب پرنٹنگ کا طریقہ وجود میں آیا اور پریس (اخبارات) کی طاقت کا ظہور ہوا تو پریس کو چوتھا اسٹیٹ کہا جانے لگا۔
۵۔ اسپین اورامریکہ کی جنگ (Spanish-American War) ۱۸۹۸ء میں ہوئی۔ اس کے بعد امریکا پر اسپین کا نوآبادیاتی اقتدار ختم ہوگیا۔ یہی وہ زمانہ ہے جب کہ امریکہ میں وہ چیز پیدا ہوئی جس کو ایلو جرنلزم کہا جاتا ہے۔
سوال
برائے مہربانی حدیث و قرآن کی روشنی میں اس سوال کی وضاحت کرنے کی زحمت فرمائیں کہ کسی شخص کی سنِ بلوغ سے قبل کی عبادات (مثلاً روزہ نماز وغیرہ) کا میدان محشر میں اس کے اعمال کے ساتھ شمار ہوگا کہ نہیں؟ بالفاظ دیگر سن بلوغ سے قبل کی عبادات حشرکے دن کام آئیں گی کہ نہیں؟ (زبیراحمد،بھاگلپور)
جواب
اس قسم کے سوالات غیر سنجیدہ ذہن کی علامت ہیں۔ سنجیدہ ذہن ہمیشہ یہ سوچے گا کہ بلوغ کے بعد میں جو عبادت کر رہا ہوں اُس کا حشر قیامت میں کیا ہوگا۔ وہ قبول ہوگی یا نہیں۔ اس کے بجائے یہ سوچنا غیر سنجیدگی کی علامت ہے کہ فلاں شخص نے بالغ ہونے سے پہلے جو نمازیں پڑھی تھیں اُس کا انجام آخرت میں کیا ہوگا۔ نماز یا کسی بھی عبادت کی قیمت اُس وقت ہے جب کہ خدا اُس کو قبول کرلے۔ اس حقیقت کا ادراک آدمی کو اتنا زیادہ اندیشہ ناک بنا دیتا ہے کہ وہ غیر متعلق سوالات میں اپنے ذہن کو مشغول نہیں کرسکتا۔
سوال
اسلامی شریعت میں قتل کی جائز تین شرطیں ہیں جن میںسے ایک یہ ہے کہ اگر ایک مسلمان اپنے دین سے پھر جائے تو اسے بھی قتل کیا جائے۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ (مذہب میںکوئی زبردستی نہیں) والی بات کیسے پوری ہوگی۔ اگرکوئی قوم اس کی ہوڑ میں کہے کہ ہم بھی ایسا قانون بنائیں گے کہ کوئی دوسرا مذہب قبول کرے تو اس کی سزا قتل ہوگی تو پھر وہ اسلام میں کیسے داخل ہوں گے۔ (صائمہ بھوپال)
جواب
مجھے اس مسئلہ سے اتفاق نہیں کہ مرتد کی سزا قتل ہے۔ اسلامی تاریخ میں کبھی صرف ارتداد کی بنا پر کسی کو قتل نہیں کیا گیا۔ خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیق نے جو جنگ کی تھی وہ مانعین زکاۃ کے خلاف تھی، نہ کہ معروف معنوں میں مرتدین کے خلاف۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ اس جنگ کا سبب ریاست سے بغاوت تھا، نہ کہ اعتقادی طورپر مرتد ہوجانا۔ جیسا کہ معلوم ہے، ان لوگوں نے اسلام کو ترک نہیں کیا تھا بلکہ صرف یہ کہا تھا کہ ہم اپنی زکوۃ کی رقم مقامی طورپر خرچ کریں گے۔ اُس کو مرکزی خلافت کے خزانہ میں نہیں دیں گے۔ اس اعتبار سے دیکھئے تو حضرت ابوبکرکے اس اقدام کا تعلق مرتد کے مسئلہ سے نہیں ہے بلکہ ریاست سے بغاوت کے مسئلہ سے ہے۔
اس سوال پر میں نے اپنی کتاب ’’شتم رسول کا مسئلہ‘‘ میںکسی قدر تفصیل کے ساتھ بحث کی ہے۔ یہاں میں صرف ایک حوالہ نقل کروں گا۔ قرآن کی ایک آیت کا ترجمہ یہ ہے : اور تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھرے گا اور کفر کی حالت میں مرجائے تو ایسے لوگوں کے عمل ضائع ہوگئے دنیا میں اور آخرت میں۔ اور وہ جہنم والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیںگے (البقرہ ۲۱۷)
قرآن کی اس آیت میں واضح طورپر مرتد کا ذکر ہے مگر اس میں مرتد کی دنیوں سزا نہیں بتائی گئی ہے بلکہ صرف اُخروی سزا بتائی گئی ہے۔ اس آیت کے مطابق، کوئی مرتد دنیا میں تو اپنی طبعی موت مرے گا۔ البتہ آخرت میں وہ اپنے گناہ کی سزا پائے گا۔
سوال
سوال یہ ہے کہ انسان کی خودداری کی اہمیت کیا ہے اور گھر والوں سے خود کس حد تک برتی جاسکتی ہے اور دنیا والوں سے کس حد تک۔ (حافظ محمد الیاس، بیجا پوری)
جواب
آج کل جس چیز کو خود داری کہا جاتا ہے اُس کی تائید میں مجھے کوئی لفظ قرآن وحدیث میں نہیں ملا۔ میں اس خود داری کو غیر اسلامی سمجھتا ہوں۔ میرے نزدیک یہ عین وہی چیز ہے جس کے لیے قرآن میںحمیت جاہلیہ کا لفظ آیا ہے۔
اسلام کے نزدیک اصل مطلوب چیز خود داری نہیں ہے بلکہ خود شکنی ہے۔ حمیت نہیں ہے بلکہ تواضع ہے۔ اصرار نہیں ہے بلکہ اعتراف ہے۔ اسلام میں نہ خودی ہے اور نہ بے خودی۔ اسلام میں جو چیز مطلوب ہے وہ تقویٰ ہے۔ تقویٰ سے مراد یہ ہے کہ آدمی کے فکر و عمل کا محور خدا بن جائے، اُس کی محبوب چیز تواضع اور انکساری ہو۔
اس مزاج کاتعلق گھر کے اندر کی زندگی سے بھی ہے اور باہر کی زندگی سے بھی۔ ایک حدیث کے مطابق، مومن کو نرم پودے کی طرح ہوجانا چاہیے جو اکڑ سے خالی ہوتا ہے۔ خودداری در اصل اکڑ کا خوبصورت نام ہے۔ جو آدمی لچک یا اعتراف کو بے عزتی سمجھتا ہے وہ اپنی اس کمزوری کے جوازکے لیے اُس کو خود داری کا نام دے دیتا ہے۔
سوال
۱۔ سنجیدگی سے قرآن پاک کا مطالعہ کرنے والا ایک عام قاری الرسالہ خدا کے فضل و کرم سے عمر فاروقؓ کے قول’’لیس العاقل الذی یعرف الخیر من الشر ولٰکنہ الذی یعرف خیر الشرین‘‘ کا مصداق بن پاتا ہے۔ لیکن یہ سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ علم، تقویٰ، خلوص، خشوع اور انابت جیسی اہم خصوصیات سے متصف حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور عبد الرشید گنگوہیؒ جیسی عظیم شخصیات جہاد بالسیف کے سلسلے میں ۱۸۵۷ء میں مولانا محمد شاہ صاحب دیوبندی کے معقول عندیہ کو کیوں سمجھ نہ سکے۔
۲۔ ۱۹۱۲ء میں مصری عالم دین حضرت مولانا سید رشید رضا نے جو دعوتی پروگرام علماء ہند کے سامنے تجویز فرمایا تھا، آخر وہ کیا کمی تھی کہ علماء نے اس کی طرف توجہ نہ فرما کر بس تحفظاتی کردار ادا کرتے رہے۔ اور تادمِ تحریر علماء امت سمجھا سمجھا کر institutional and scientific age میں قائدانہ کردار ادا نہیں کر پارہے ہیں۔
۳۔ علیٰ ہٰذا القیاس حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ مسلمہ طور پر ایک عظیم صوفی گزرے ہیں لیکن کیاوجہ ہے کہ ’’انا قائم الزمان‘‘ کا خواب دیکھنے والا اور’’ الہمنی ربی ‘‘ کا دعویٰ کرنے والا بھی عصری تقاضوں کو سمجھ نہ سکا۔
۴۔ محترم مولانا وحید الدین صاحب! آپ نے فہمِ دین کی نسبت سے التفکر والاعتبار، کان النہار أجمع خالیاًیتفکر، واتقوا اللہ ویعلمکم اللہ ،وغیرہ کا حوالہ دیا ہے۔ متذکرہ بالا بزرگان دین میں یہ چیزیں اگر بدرجۂ اولیٰ موجود تھیں تو کیا وجہ ہے کہ اس کے باوجود بھی یہ لوگ مطلوب قائدانہ کردار ادا نہ کرسکے۔ (جاوید حسین وانی، اننت ناگ)
جواب
۱۔ ۱۸۵۷ میں جن بزرگوں نے انگریزوں کے خلاف جہاد بالسیف کیا، وہ میرے نزدیک اجتہادی خطا کا معاملہ تھا۔ اجتہاد کا شرعی مسئلہ یہ ہے کہ صحیح اجتہاد پر آدمی کو دو ہرا ثواب ملے گا اور اجتہادی خطا پر ایک ثواب۔ تاہم یہ آخرت کے اعتبار سے ہے۔ جہاں تک دنیا کا تعلق ہے، تو دنیا کا نظام اسباب و علل کے اصول پر مبنی ہے۔ اجتہادی خطا کا دنیوی انجام وہی ہوگا جو اسباب کے اعتبار سے اس کا ہونا چاہئے۔
۲۔ اُس زمانہ کے علماء کا خیال یہ تھا کہ دعوت کا کام برطانی اقتدار کے تحت نہیں ہوسکتا جو اُن کے مفروضہ تصور کے مطابق، اسلام دشمن طاقت تھی۔ مگر یہ تمام تر اجتہادی خطا کی بنا پر تھا۔ اپنی اسی اجتہادی خطا کی وجہ سے وہ رشید رضا کے مشورہ کی اہمیت کو سمجھ نہ سکے۔ انہوں نے انگریز کو دیکھا مگر وہ زمانی مواقع کو نہ دیکھ سکے جو انگریز سے بھی زیاد ہ بڑی طاقت کی حیثیت رکھتے تھے۔
اجتہادی خطا کی یہ مثال موجودہ زمانہ میں بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ علماء کی حمایت سے آج مختلف مقامات پر مسلّح جہاد کیا جارہا ہے۔ یہاں بھی یہی مفروضہ ہے کہ سیاسی اقتدار کے حصول کے بغیر اسلامی دعوت کا کام نہیں کیاجاسکتا۔ مگر یہ سراسر اجتہادی خطا ہے۔ یہ لوگ جدید دعوتی امکانات سے واقف نہ تھے۔ اس لیے وہ سیاسی انقلاب کے سوا اپنے عمل کاکوئی اور نقشہ وضع نہ کرسکے۔
۳۔ شاہ ولی اللہ دہلوی کو جو تجربہ ہوا وہ الہام یاخواب کی نوعیت کا تجربہ تھا، وہ کوئی وحی کا تجربہ نہ تھا۔ جیسا کہ معلوم ہے، الہام یا خواب میںہمیشہ یہ امکان رہتا ہے کہ آدمی اُس کی تعبیر میںغلطی کرجائے۔ تعبیری خطا کے امکان سے پاک صرف وحی ہوتی ہے، اور وحی پیغمبر کے سوا کسی اور کے پاس نہیں آتی۔
۴۔ یہ بھی اجتہادی خطا کا معاملہ تھا۔ یہ علماء علمی اعتبار سے تقلید میںمبتلا تھے اور دینی اعتبار سے وہ تصوف سے بہت زیادہ متاثر تھے۔ ان دو اسباب کا نتیجہ یہ ہوا کہ اُن کے اندر تفکر اور تدبر کا طریقہ رائج ہی نہ ہوسکا۔ وہ اپنے اخلاص کی بنا پر یقینا آخرت میں جنت کے مستحق قرار پائیں گے مگر اُن کی اس اجتہادی خطا نے اُنہیں بصیرت زمانہ سے محروم کر دیا۔ ایسی حالت میں اسباب و علل کی اس دنیا میں اُن کی کوششوں کا وہی نتیجہ ہوسکتا تھا جو ہوا۔
سوال
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر عمل خواہ کسی بھی شعبہ سے تعلق رکھتاہو سنت ہے جیسا کہ علماء فرماتے ہیں۔ مگر آپﷺ کی پوری حیاتِ طیبہ کو یعنی آپ کے تمام اعمال و کردار کو اسی طرح ہمہ وقت سامنے نہیںرکھا جاتا جس طرح آنجناب کی چند مشہور سنتوں کو مکمل طورپر برتا جاتا ہے ۔یعنی علماء بطورخاص اور عوام بطور عام اسی طریقہ پر عمل پیرا ہیں۔ مثلاً ڈاڑھی بڑھانا سنت ہے۔ اس پر اتنا زیادہ زور ہے کہ لگتا ہے یہ سنت فرض ہے۔ میرا مقصد خدانخواستہ گنجائش ڈھونڈنا نہیں ہے۔ اس کے بالمقابل سر کے بال رکھنے میں بھی آنجناب کی سنت موجود ہے۔ اس کا ذکر و تذکرہ بہت کم ہوتا ہے۔ برائے کرم اس کی وضاحت فرمائیں۔ (عبدالواحد، جگادھری)
جواب
داڑھی اور مونچھ وغیرہ کے بارہ میں جو سنتیں بتائی جاتی ہیں وہ بلاشبہہ سنت ہیں۔ مگر سنت رسول کے تذکرہ کے ذیل میں اسی قسم کی جزئی چیزوں کو بیان کرنا کافی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر وہ عمل سنت ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو۔ اس اعتبار سے دعوت بھی سنت ہے، صبر بھی سنت ہے۔ مگر موجودہ زمانہ میں مسلمانوں نے عام طور پر ان سنتوں کو چھوڑ رکھا ہے۔ حتی کہ اگر انہیں یہ یاد دلایا جائے کہ تم غیر مسلموں کو اسلام کا پیغام مثبت طورپر پہنچاؤ اور اگر ان کی طرف سے کوئی ایذا رسانی ہو تو اُس پر صبر کرتے ہوئے پُر امن دعوتی عمل کو جاری رکھو تو لوگوں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی۔ حتی کہ جو لوگ داڑھی اور مونچھ جیسی چیز کی موافقت میں پُر زور بحثیں کرتے ہیں وہ دعوت اور صبر کے احیاء کی تحریک کے مخالف بن جاتے ہیں۔ یہ روش بلا شبہہ ایک خلافِ سنت روش ہے۔ آج سب سے زیادہ ضروری یہ بات ہے کہ اس منفی روش کی اصلاح کی جائے۔
سوال
مختلف مذاہب کے لوگ اپنے اپنے مذہب کو اسی طرح سچا مانتے ہیں جس طرح مسلمان اسلام کو۔ میرے ذہن میں یہ سوال آتا ہے کہ پھر اسلام ہی واحد سچا مذہب کیوں ہے۔ اگر میں کسی اور مذہب کے ماننے والے کے گھر میں پیدا ہوتا تو اس مذہب کو اسی طرح سچا مانتا جس طرح اب اسلام کو مانتا ہوں۔ اس بات نے میرے ذہن کو منتشر کردیا۔ (اویس صدیقی، علیگڑھ)
جواب
اسلامی تعلیم کے مطابق، ہر پیغمبر کو خدا نے ایک ہی دین کے ساتھ بھیجا۔ خدا کی طرف سے آئے ہوئے ادیان میںایک اور دوسرے کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ جب دنیا میں دین کے نام پر بہت سے مذاہب موجود ہیں تو کس مذہب کو لیا جائے اور کس مذہب کو نہ لیاجائے۔
اس ترک و اختیار کا معیار (criterion) صرف ایک ہے۔ اوروہ یہ کہ یہ دیکھا جائے کہ مختلف ادیان میں سے کون سا دین محفوظ دین کی حیثیت رکھتا ہے۔ یعنی وہ کون سا دین ہے جو آج بھی اُسی ابتدائی حالت میں موجود ہے جیسا کہ پیغمبر نے اُسے دیا تھا۔
اس موضوع پر میںنے اپنی کتابوں میں کافی تفصیل کے ساتھ لکھا ہے۔ اُس کا مطالعہ کرکے آپ جان سکتے ہیں کہ دوسرے تمام مذاہب میں اضافے اور تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ حتی کہ اُن کا ابتدائی متن بھی محفوظ نہیں۔ اس کے برعکس اسلام مکمل طورپر اپنی ابتدائی حالت میں موجود ہے۔ اسلام کی مقدس کتا ب میں کسی بھی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ اس لیے اب اسلام ہی واحد قابل اعتبار مذہب ہے۔ اسلام کی اسی امتیازی صفت نے اُس کو خدائی سچائی کا واحد مستند ماخذ بنا دیا ہے۔
سوال
ہم کو کوئی ایسا ذریعہ بتائیے کہ جس سے ہم محبت خداوندی میں اپنے آپ کو غرق کردیں۔ ہمارا ہر کام ہر لفظ جو کہ زبان سے نکلے اس کا مقصد صرف اور صرف رضائے الٰہی ہو (ایک قاری، الرسالہ)
جواب
خدا کے ساتھ گہری محبت ہونا ایمان کی علامت ہے۔ جیسا کہ قرآن میں آیا ہے: والذین آمنوا اشد حبا للہ۔ خدا کے ساتھ گہری محبت ہونا ایک اعلیٰ ترین متاع ہے۔ ہر متاع کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ اسی طرح محبت الٰہی کی بھی ایک قیمت ہے۔ وہ قیمت یہ ہے کہ آدمی ہر دوسری چیز کواپنی زندگی میں ثانوی بنا دے۔ مال، اولاد، عزت، شہرت، مقبولیت، بڑائی، سرخ روئی، وغیرہ وہ چیزیں ہیں جن کو لوگ اپنا محبوب بنائے رہتے ہیں۔ اسی کے ساتھ وہ چاہتے ہیں کہ خدا اُن کے جذبات محبت کا مرکز بن جائے۔ یہ ناممکن ہے۔ خدا کی محبت کسی کو اُسی وقت مل سکتی ہے جب کہ وہ بقیہ کی محبت سے اپنے سینہ کو خالی کرلے۔ جو آدمی ایسا نہ کرسکے اُس کو محبت خدا کی بات بھی نہ کرنا چاہئے۔
سوال
مسلم برادری کی تاریخی حیثیت کیاہے۔ قوم جولاہا جو مومن برادری اور انصاری برادری سے موسوم ہے اس کی تاریخی حیثیت کیاہے۔ اس لئے کہ اس ذات سے دیگر مسلم برادریاں ایسے ہی نفرت رکھتی ہیں جیسے غیر مسلم مسلم سے اسلام کی بنیاد پر۔ جب کہ ان کی شرافت صبر و تحمل، سادگی، اور انسانی ہمدردی شر وفساد سے دوری یہ سب باتیں اس قوم میں بہت پاتا ہوں۔ اس کے باوجود لوگ انہیںنفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ، ایسا کیوں ہے۔(محمد افروز عالم، نالندہ)
جواب
اسلام میں برادری یا ذات پات کا کوئی نظام نہیں ہے۔اب بھی یہ نظام صرف برّ صغیر ہند میں پایا جاتا ہے۔ دوسرے مسلم ممالک میںاس قسم کا نظام موجود نہیں۔ یہ دراصل اسلام کا ہندوائزیشن ہے جو پچھلی صدیوں میںپیش آیا۔ اصل یہ ہے کہ ہندستان میں اسلام کی اشاعت علماء کے ذریعہ نہیں ہوئی بلکہ صوفیا کے ذریعہ ہوئی۔ صوفیا کو علم اور تعلیم سے زیادہ لگاؤ نہ تھا۔ اُن کے ذریعہ ہندوؤں نے لاکھوں کی تعداد میں اسلام قبول کیا۔ صوفیا نے ان لوگوں کو کلمہ اور نماز اور ذکر جیسی چیزیں تو بتائیں مگر اُن کی تعلیم دین کا کوئی انتظام نہیں کیا۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام سے پہلے وہ جن ہندو رسموں اور رواجوں سے مانوس تھے، اُنہی رسموں اوررواجوں کو اُنہوں نے اسلام میں بھی باقی رکھا۔ صوفیاء نے اگر ایسے لوگوں کی باقاعدہ تعلیم کا انتظام کیا ہوتا تو یقینی طورپر اس قسم کے رواج ختم ہوجاتے۔ مگر صوفیا اپنے مخصوص مزاج کی بنا پر ایسا نہ کرسکے۔ اس غلطی کا وہ نتیجہ ہے جس کو ہم آج مسلمانوں کے درمیان ذات پات کی صورت میں پارہے ہیں۔
سوال
حدیث میں آیا ہے کہ اللہ کا فرمان ہے کہ مجھ سے مانگو میں دوں گا۔ اللہ اپنے بندے سے اُس کی ماں سے بھی زیادہ محبت کا معاملہ کرتا ہے۔ ایک دوسری حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ دعا مصیبت و پریشانی کو روکنے کا ایک ذریعہ ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ہم مسلمان جو اللہ سے برابر دعا کرتے ہیں اس کے باوجود ہماری دعائیں مقبول کیوں نہیں ہوتیں۔ ہم کیوں اتنی زیادہ مصیبت او رپریشانی کا شکار رہتے ہیں۔ اس کے برعکس منکرین جو اللہ کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے اور اس کی بنا پر وہ دعا کرنے کا جواز نہیں رکھتے پھر بھی وہ ہم سے بہتر حالت میں ہیں۔ ایسا کیوں ہے۔ (عمر احمد علی، پربھنی)
جواب
دعا کی قبولیت کے لیے یہ کافی نہیں کہ آدمی مسلم خاندان میں پیدا ہوا ہو۔ قبولیت کی شرط قرآن میںان الفاظ میں بتائی گئی ہے: الیہ یصعد الکلم الطیب والعمل الصالح یرفعہ (فاطر ۱۰) اس آیت کے مطابق، وہی دعا خدا تک پہنچتی ہے جس کے ساتھ عمل صالح شامل ہو۔ ایسی حالت میںاگر مسلمان یہ محسوس کریں کہ اُن کی دعا قبول نہیں ہورہی ہے تو انہیں خود اپنے اندر اس کا سبب تلاش کرنا چاہئے۔ اس آیت کے مطابق، دعا کی عدم قبولیت کا سبب یقینی طورپر یہ ہوگا کہ دعا کرنے والے عمل صالح کی شرط کو پورا نہیں کررہے ہوں گے۔ اس لیے اُنہیں چاہئے کہ وہ اپنا احتساب کرکے اس شرط کو پورا کریں۔ اُس کے بعد دعا کی قبولیت یقینی ہوجائے گی۔
جہاں تک غیر مسلمین کا تعلق ہے، اُن کا معاملہ فطرت کے قانون پر منحصر ہے۔ اگر وہ فطرت کے قانون کو معلوم کرکے اُس سے مطابقت کریں گے تو دنیا میں وہ مادّی کامیابی کو پالیں گے۔
واپس اوپر جائیں