Pages

Sunday, 1 May 2005

Al Risala | May 2005 (الرسالہ،مئی)

2

- بامقصد زندگی

3

- مستقبل کا انتظار

4

- رزق خدا کے ہاتھ میں

5

- ایک کے بدلہ میں دس

6

- بچاؤ کی تدبیر

7

- آسان تدبیر

8

- لڑے بغیر مقابلہ

9

- محنت کا کرشمہ

10

- انسان کا کم تر اندازہ نہ کیجئے

11

- صلاحیت کا استعمال

12

- کام کی تلاش

13

- غیر فطری محبت

14

- مستقبل پر نظر

15

- تیسرا انتخاب

16

- کامیاب ازدواجی زندگی

17

- گھریلو جھگڑے

19

- تعلیم کی طرف

21

- یہ بدعت ہے

24

- ناشکری کا فتنہ

30

- یہ نمبر موجود نہیں

32

- ایک ملاقات

34

- ٹیلی فون سے خطاب

39

- دو خط

43

- خبر نامہ اسلامی مرکز


بامقصد زندگی

انسان دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ انسان جو سوچ سمجھ کر اپنی زندگی کا ایک واضح مقصد متعین کرے ۔ دوسرا انسان وہ ہے جس کے سامنے کوئی واضح مقصد نہ ہو۔ وہ حالات یا خواہشات کے تحت کبھی ایک کام کرے، اور کبھی دوسرا کام کرنے میں لگ جائے۔ پہلی قسم کے لوگ ہمیشہ کامیاب ہوتے ہیں اور دوسری قسم کے لوگ ہمیشہ ناکام۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ فرق کوئی سادہ فرق نہیں۔ ان سے دو الگ الگ قسم کی زندگیاں بنتی ہیں۔ جو آدمی اس طرح زندگی گذارے کہ اُس کے سامنے ایک واضح نشانہ ہو، اس کا حال یہ ہوگا کہ وہی نشانہ اُس کی تمام توجہات کا مرکز بن جائے گا۔ وہ اُسی کے لیے سوچے گا ۔ اُس کے تمام جذبات اُسی کے ساتھ جڑ جائیں گے۔ وہ اپنے وقت کا ایک ایک لمحہ اسی ایک کام میںصرف کرے گا۔ وہ اپنی ساری پونجی اسی راہ میں لگا دے گا۔ اسی مقصد کے تحت وہ کسی سے کٹے گا اور کسی کے ساتھ جڑ جائے گا۔ اسی کے مطابق، وہ کسی کو اپنا دوست بنائے گا اور کسی کو اپنا دشمن سمجھ لے گا۔ وہ اسی کے ساتھ اپنی شام کرے گا اور اسی کے ساتھ اس کی صبح طلوع ہوگی۔
اس قسم کی زندگی کا انجام پیشگی طورپر معلوم ہے، اور وہ انجام یہ ہے کہ ایسا شخص یقینی طورپر کامیاب ہوکر رہتا ہے۔ اپنی نادانی کے سوا کوئی بھی دوسری چیز اس کو ناکام کرنے والی نہیں۔
اس کے برعکس معاملہ اس انسان کا ہے جس کے سامنے زندگی کا کوئی واضح مقصد نہ ہو۔ ایسا انسان سمت کے شعور (sense of direction) سے محروم رہے گا۔ اس کی سوچ اور اس کا عمل دونوں مختلف راہوں میں بکھرے رہیں گے۔ وہ اپنی پونجی کو بے فائدہ طورپر اِدھر اُدھر ضائع کرتا رہے گا۔ وہ اپنی طاقت کو مختلف میدانوں میں بکھیر کر خود ہی اپنے آپ کو کمزور بنا لے گا۔ ایسے آدمی کا انجام یقینی طورپر تباہی ہے۔ وہ ناکامی کی زندگی گذارے گا اور آخر کار ناکام حالت میں مرجائے گا۔بامقصد زندگی کا نام کامیاب زندگی ہے، اور بے مقصد زندگی کا نام ناکام زندگی ۔
واپس اوپر جائیں

مستقبل کا انتظار

کوئی شخص اگر مجھ سے پوچھے کہ زندگی کو کامیاب بنانے کے لیے سب سے زیادہ یقینی فارمولا ایک لفظ میں کیا ہے تو میں کہوں گا کہ یہ سنگل پوائنٹ فارمولا صبر ہے۔ صبر کو اس معاملہ میں مشکل کُشا کی حیثیت حاصل ہے۔ تدبیر کار سمجھ میں آئے یا نہ سمجھ میں آئے، دونوں حالتوں میں صبر کرلیناہی آخر کار کامیاب ہونے کے لیے کافی ہے۔
صبر کیا ہے۔ صبر نہ تو بے ہمتی ہے اور نہ بے عملی۔ صبر اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک گہری عملی تدبیر ہے۔ صبر اُسی طرح ایک تدبیری عمل ہے جس طرح دوسرا کوئی عمل تدبیری عمل ہوتا ہے۔ دونوں کے درمیان فرق صرف یہ ہے کہ بے صبر آدمی نتیجہ کو حال میں پانا چاہتا ہے۔ اور صبر والا آدمی نتیجہ کے معاملہ کو مستقبل کے خانہ میں ڈال دیتا ہے۔ ایک اُردو شاعر نے کہا ہے:
رات دن گردش میں ہیں سات آسماں ہورہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا
یہ بظاہر ایک شاعرانہ بات ہے۔ مگر وہ شاعرانہ اُسلوب میںایک فطری حقیقت کا اظہار ہے۔ یہ ایک واقعہ ہے کہ موجودہ دنیا کا نظام تعمیر کے اصول پر بنایا گیا ہے۔ یہاں ہر تخریب کے بعد اپنے آپ ایسے اسباب فراہم ہونے لگتے ہیں جو اس کی نئی تعمیر کر سکیں۔ ایسی حالت میں صبر کا مطلب یہ ہے کہ فطرت کی تعمیری طاقتوں کو موقع دیا جائے کہ وہ اپنے کام کو تکمیل تک پہنچا سکیں۔
ہمارے جسم میں اگر کوئی زخم آجائے یا جسمانی نظام میں کوئی خرابی واقع ہوجائے تو جسم کا داخلی نظام اپنے آپ اس کی مرمّت اور درستگی میں لگ جاتا ہے۔ یہاں تک کہ جسم دوبارہ اپنی اصل حالت پر آجاتا ہے۔ یہی معاملہ جسم سے باہر کی زندگی کا ہے۔ انسانی زندگی میں جب بھی کوئی مسئلہ پیدا ہوجائے تو فطرت کا نظام اپنے آپ اس کی اصلاح کے لیے متحرک ہوجاتا ہے۔ اگر انسان صبر کرے اور انتظار کی روش اختیار کرے تو جلد ہی وہ دیکھے گا کہ اس کی براہِ راست کوشش کے بغیر سارا مسئلہ اُسی طرح حل ہوگیا ہے جیسا کہ وہ خود چاہتا تھا۔
واپس اوپر جائیں

رزق خدا کے ہاتھ میں

دہلی کے ایک تعلیم یافتہ نوجوان ہیں۔ انہوں نے ایم بی اے کاکورس کیا ہے۔ وہ ایک غیر ملکی کمپنی میں سروس کرتے ہیں۔ عام غیرملکی کمپنیوں کی طرح اس کمپنی کا اُصول یہ ہے کہ ملازمت دو اور برخاست کردو(hire and fire) اُنہوں نے مجھ سے ملاقات کی اور کہا کہ بظاہر میں ایک اچھی ملازمت میں ہوں۔ مگر مجھے ہر وقت ٹنشن رہتا ہے۔ ہر وقت مجھے سروس کھونے کا اندیشہ (fear of losing job) پریشانی میں مبتلا کیے رہتا ہے۔
میں نے کہا کہ آپ کی پریشانی ایک نفسیاتی پریشانی ہے، نہ کہ کوئی حقیقی پریشانی۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ رزق کی تقسیم خدا کی طرف سے ہوتی ہے۔ خدا جس کو چاہے دے اور خدا جس کو چاہے محروم کردے۔ میں نے کہا کہ میں آپ کو ایک سادہ فارمولا دیتا ہوں۔ اس کو آپ اپنے ذہن میں بٹھا لیجیے اور پھر آپ کو کوئی پریشانی نہ ہوگی۔ وہ فارمولا یہ ہے—ایک شخص آپ کی سروس کو چھین سکتا ہے مگر کوئی شخص اتنا طاقتور نہیں کہ وہ آپ سے آپ کی قسمت کو چھین لے:
One can take away your job, but no one has the power to take away your destiny.
کہیں میری سروس نہ چلی جائے— اس خیال میں فکر مند ہونے کے بجائے آدمی کو یہ کرنا چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو اتنا زیادہ لائق بنائے کہ کوئی شخص اُس کی سروس ختم کرنے کی ہمت ہی نہ کرسکے۔ اس مسئلہ کا حل اندیشہ میں مبتلا ہونا نہیں ہے بلکہ اپنے آپ کو زیادہ کار آمد بنانا ہے، اپنے آپ کو دوسروں کے لیے مفید تر بنانا ہے۔ کوئی بھی شخص ایک کار آمد انسان کو کھونے کا تحمل نہیں کرسکتا۔ یہ صرف ناکارہ لوگ ہیں جو محروم کیے جاتے ہیں، اور پھر اپنی محرومی پر شکایت کا دفتر کھول دیتے ہیں۔
آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنی فطری صلاحیت پر بھروسہ کرے نہ کہ دوسروں کے رویہ پر۔ ہر آدمی کی قسمت اس کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ مگر غلطی سے وہ اس کو دوسرے کے ہاتھ میں سمجھ لیتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

ایک کے بدلہ میں دَس

مارک ٹوین (Mark Twain) امریکا کا مشہور ناول نگار ہے۔ وہ ۱۸۳۵ میں پیدا ہوا اور ۱۹۱۰ میں اس کی وفات ہوئی۔ اس کا ایک قول یہ ہے—دینے اور لینے کا اصول در اصل ایک تدبیر کار ہے۔ یعنی ایک دو اور دس پاؤ:
The principle of give and take is the principle of diplomacy— give one and take ten.
دینے والا جب کسی معاملہ کو دے کر ختم کرتا ہے تو بظاہر وہ سمجھتا ہے کہ میں نے کچھ کھو دیا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ شرافت کا ایک معاملہ ہوتاہے۔ نتیجہ کے اعتبار سے اس دنیا میں اُسی کو کامیابی ملتی ہے جو شریفانہ اخلاق کا مظاہرہ کرے۔ وہ جتنا دیتا ہے اُس سے بہت زیادہ وہ آخر کار پالیتا ہے۔ وہ اگر ایک کے بقدر دیتا ہے تو واپس ہو کر وہ اُس کو دس کے بَقدر ملتا ہے۔
ایک دینا وہ ہے جو تجارتی لین دین کے تحت ہو۔ اس لین دین میں دونوں طرف انٹرسٹ ہوتا ہے۔ جو دیتا ہے وہ بھی انٹرسٹ کے لیے دیتا ہے اور جو لیتا ہے وہ بھی انٹرسٹ کے لیے لیتا ہے۔ اس طرح کے لین دین میں برابر کا اُصول ہے۔ یعنی جتنا دینا اُتنا پانا۔ دوسرا لین دین وہ ہے جو انسانی ہمدردی کے تحت کیا جاتا ہے۔ یعنی ایک شخص کسی ذاتی غرض کے بغیر دوسرے کی خدمت کرے، وہ دوسرے کو یک طرفہ طور پر کوئی عطیہ دے۔
جب کوئی شخص بے غرضانہ طورپر کسی کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے یا کسی ذاتی مفاد کے بغیر کوئی چیز اس کو دیتا ہے تو ایسا آدمی اپنے عطیہ کے ساتھ ایک اور انتہائی قیمتی چیز شامل کرتا ہے، اور وہ سچی ہمدردی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب دوسرے کی طرف سے اُس کو جوابی صلہ دیا جاتا ہے تو دینے والا اس کو دس گنا بڑھا کر دیتا ہے، بلکہ کبھی اس سے بھی زیادہ۔خود غرضانہ لین دین میں یہ اُصول ہے کہ جتنا دو اُتناپاؤ۔ لیکن بے غرضانہ لین دین کا اصول اس کے مقابلہ میں یہ ہے کہ — جتنا دو اُس سے بہت زیادہ پاؤ۔
واپس اوپر جائیں

بچاؤ کی تدبیر

انگریزی زبان کا ایک مَثل ہے کہ — جب دو ہاتھی لڑتے ہیں تو گھاس کُچلی جاتی ہے:
When two elephants fight, grass gets crashed.
اس کا مطلب یہ ہے کہ جب دو طاقتور انسان یا دو طاقتور قوم کے درمیان لڑائی ہو تو غریب عوام اُس کے دوران غیر ضروری طورپر نقصان اُٹھاتے ہیں۔ دو کمزور شخص کے درمیان لڑائی ہو تو وہی دوآدمی نقصان اٹھائیں گے جو کہ لڑ رہے ہیں۔ مگر جب دو طاقتور لڑیں تو دوسرے بہت سے لوگ بھی اس کی زد میں آجاتے ہیں۔ایسی حالت میں کمزور شخص کوکیا کرنا چاہیے۔ اس کا صرف ایک جواب ہے۔ اور وہ یہ کہ وہ اپنے آپ کو اس ٹکراؤ سے دور رکھے۔ وہ دوری اختیار کرکے اپنے آپ کو اس کی زد میں آنے سے بچائے۔ یہی وہ تدبیر ہے جس کو اسماعیل میرٹھی نے ایک شعر میں اس طرح بیان کیا ہے:
جب کہ دو موذیوں میں ہو کھٹ پَٹ اپنے بچنے کی فکر کر جھٹ پٹ
زندگی کا اُصول یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو صرف ان چیزوں میں اُلجھائے جس سے نپٹنے کی قدرت اس کے اندر موجود ہو۔ جس معاملہ میں وہ اپنے آپ کو عاجز پائے، آدمی پر لازم ہے کہ وہ اپنے آپ کو اُس میں اُلجھنے سے بچائے۔ غیر ضروری طورپر کسی معاملہ میں اُلجھنا اور جب اس سے نقصان کا تجربہ ہو تو اس کے بعد شکایت اور احتجاج کرنا صرف بزدل لوگوں کا طریقہ ہے۔بہادر آدمی وہ ہے جس کی پالیسی یہ ہو کہ وہ جس کو دبانے کی پوزیشن میں ہو اُس کو دبائے۔ لیکن جس کو دبانے کی طاقت اُس کے اندر نہ ہو اُس سے خود دب جائے۔ یہی بہادری ہے اور یہی شریف انسان کا طریقہ بھی۔
یہی جنگل کے شیر کا طریقہ ہے جس کو اس کی فطرت نے اُسے بتایا ہے۔ شیر کو جب بھوک لگتی ہے تو وہ ہرن کا شکار کرتا ہے۔ لیکن شیر کبھی ہاتھی کا شکار کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔ شیر جنگل کا سب سے زیادہ طاقتور جانور ہے۔ مگر شیر کبھی اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے کسی جانور پر حملہ نہیںکرتا۔ شیر ایک صلح پسند جانور ہے، نہ کہ کوئی جنگ پسند جانور۔
واپس اوپر جائیں

آسان تدبیر

میں نے اپنی ڈائری (۱۷ فروری ۲۰۰۴) میں یہ الفاظ لکھے—جب بھی مجھے کسی سے کوئی شکایت پیدا ہوتی ہے تو میںاس معاملہ میں خود اپنی غلطی دریافت کرلیتا ہوں۔ اس کے بعد وہ شکایت اپنے آپ ختم ہوجاتی ہے۔اصل یہ ہے کہ موجودہ دنیا ناخوشگوار باتوں سے بھری ہوئی ہے۔ یہاں ہر آدمی کو اپنی پسند کے خلاف باتوں کے درمیان جینا پڑتا ہے۔ایسی ایک ناموافق دنیا میں آدمی کس طرح زندگی گذارے ۔ وہ ناخوش گوار تجربات کے درمیان کس طرح اپنے لیے ایک خوش گوار زندگی کی تعمیر کرے۔ اس کا فارمولا صرف ایک ہے اوروہ ہے: ناخوش گواری کو خوش گواری میں بدل لینا۔
اس دنیا میں ہر قسم کی ترقی کا سب سے بڑا راز مثبت سوچ ہے۔ تمام ترقیاں اسی مثبت سوچ کے ساتھ بندھی ہوئی ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ منفی تجربات کے درمیان مثبت سوچ کو کس طرح برقرار رکھا جائے۔ اس کا سب سے آسان فارمولا یہ ہے کہ شکایت پیدا ہوتے ہی آدمی اس کو ڈیفیوز کرکے ختم کردے۔ڈیفیوز کرنے کے لیے آدمی اگر یہ طریقہ اختیار کرے کہ جس سے شکایت ہوئی ہے اُس سے بحث کرکے اُس کو قائل کرے تو اس طرح کی کوشش میں کامیابی تقریباً صفر کے برابر ہے۔ ایسی حالت میں بہترین تدبیر یہ ہے کہ آدمی خوداپنے اندر شکایت کا سبب دریافت کرے۔ اس طرح وہ ایک لمحہ کے اندر اپنے آپ کو معتدل بنا سکتا ہے، وہ کسی تاخیر کے بغیر اپنے اندر مثبت سوچ کا عمل دوبارہ جاری کرسکتا ہے۔
اس تدبیر کی معنویت یہ ہے کہ آدمی کو دوسروں کے اوپر تو کوئی اختیار نہیں۔ مگر ہر آدمی خود اپنے آپ پر پورا اختیار رکھتا ہے۔ شکایت کو رفع کرنے کے لیے د وسروں سے آغاز کرنا گویا ناممکن سے آغاز کرنا ہے۔ اس کے مقابلہ میں شکایت کو رفع کرنے کے لیے خود اپنے آپ سے آغازکرنا گویا ممکن سے آغاز کرنا ہے۔ اور جب ممکن سے آغاز کرنے کا راستہ کھلا ہوا ہو تو کوئی نادان ہی ایسا کرسکتا ہے کہ وہ ناممکن سے آغاز کرنے کی ناکام کوشش کرے۔
واپس اوپر جائیں

لڑے بغیر مقابلہ

صحابی ٔ رسول حضرت عبد اللہ بن عباس کا ایک قول ہے: إدفع بحلمک جہل من یجہل علیک (تم برداشت کے ذریعہ اس شخص کا مقابلہ کرو جو تمہارے ساتھ جہالت کرے)۔ یہ زندگی کا ایک اہم ترین اُصول ہے۔ اس کے مطابق، برداشت بھی ایک طاقت ہے، نہ لڑنا بھی لڑنے کی ایک کامیاب تدبیر ہے۔
ہر آدمی کی زندگی میںایسے مواقع پیش آتے ہیں جب کہ کسی کی بات پر اس کو غصہ آجائے۔ کسی کا قول سُن کر وہ مشتعل ہوجائے۔ کسی کی ایک ناپسندیدہ کارروائی پر اُس کے اندر انتقام کا جذبہ بھڑک اُٹھے۔ کسی کے تشدد کے خلاف آدمی کے اندر جوابی تشدد کا رجحان پیدا ہوجائے۔
اس قسم کا موقع ہر آدمی کے لیے بے حد نازک موقع ہوتا ہے۔ ایسے مواقع پر ہر آدمی وقتی جذبہ کے تحت فریق ثانی سے لڑائی شروع کردیتا ہے۔ لیکن اگر نتیجہ کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ایسی ہر لڑائی بے نتیجہ انجام پر ختم ہوتی ہے۔ ایسی ہر لڑائی ہمیشہ نقصان میں مزید اضافہ کا سبب بنتی ہے۔ اگر آدمی ایک لمحہ ٹھہر کر سوچے تو وہ کبھی جوابی کارروائی کی غلطی نہ کرے۔
نادان کی زیادتی کے خلاف جوابی زیادتی کرنا خود اپنے آپ کو بھی نادان ثابت کرنا ہے۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ جب کوئی شخص نادانی کرکے آپ کو مشتعل کردے تو آپ اس مقام سے ہٹ جائیں اور تھوڑی دیر کے لیے اپنے ذہن کو منفی تاثر سے آزاد کرکے نتیجہ کے بارہ میں سوچیں۔ آپ ٹھنڈے ذہن کے ساتھ یہ غور کریں کہ نتیجہ کے اعتبار سے جوابی کارروائی کرنا مفید ہے یا معاملہ کو نظر انداز کرکے چپ ہوجانا زیادہ مفید۔
اگر آپ غیر متاثر ذہن کے تحت سوچیں تو یقینا آپ اس رائے پر پہنچیں گے کہ اشتعال کے مواقع پر سب سے زیادہ کامیاب پالیسی یہ ہے کہ آپ مشتعل ہونے سے بچیں۔ آپ جوابی اشتعال کے بجائے تحمل کے ساتھ صورت حال کا مقابلہ کریں۔
واپس اوپر جائیں

محنت کا کرشمہ

محمد شفیع الدین نیّر اُردو کے ایک ادیب اور شاعر تھے۔ وہ عرصہ تک ماہنامہ پیام تعلیم (نئی دہلی) کے ایڈیٹر رہے۔ وہ بچوں کے لیے لکھا کرتے تھے۔ اُن کی ایک نظم کا ایک شعر یہ تھا:
محنت سے چل رہے ہیں دنیا کے کارخانے محنت سے مل رہے ہیں ہر قوم کو خزانے
شفیع الدین نیّر صاحب نے اپنے تمام بچوں میں اسی محنت کی روح پھونکی۔ چنانچہ ان کے تمام بچوں نے نہایت محنت اور لگن کے ساتھ تعلیم حاصل کی اور بڑی بڑی ترقیاں حاصل کیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ محنت تمام ترقیوں کا زینہ ہے۔ محنت کا مطلب کیا ہے۔ محنت کا مطلب ہے، لگاتار جدوجہد۔ جو کام شروع کرنا اُس کو چھوڑے بغیر برابر اپنی کوشش جاری رکھنا۔ اپنی تمام توجہ اور اپنی تمام صلاحیت کو پوری طرح اُس میںلگا دینا۔ اپنے وقت اور اپنی طاقت کو صرف اسی ایک محاذ پر صرف کردینا۔ اسی لگاتار جدوجہد کا نام محنت ہے۔
پھر یہ کہ یہ دنیا جس میں انسان اپنے کسی مقصد کے لیے محنت کرتا ہے وہ ہمیشہ یکساں نہیں رہتی۔ اس میں موافق اور غیر موافق دونوں قسم کے حالات پیش آتے رہتے ہیں۔ کبھی کبھی ایسی رکاوٹیں سامنے آتی ہیں جو آدمی کے حوصلہ کو توڑ دیں۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی تلخ تجربہ آدمی کے ذہن کو منفی سوچ کی طرف موڑ دیتا ہے۔ اس لیے آدمی کو اکثر ناموافق حالات میں اپنی محنت کا سفر جاری رکھنا پڑتا ہے۔
محنت بلا شبہہ ترقی کا زینہ ہے۔ مگر محنت صرف اُس آدمی کے لیے کارآمد بنتی ہے جو اُسی کے ساتھ یہ حوصلہ رکھتا ہوکہ وہ کسی عذر کو عذر نہیں بنائے گا۔ وہ حالات کی موافقت یا ناموافقت سے بے پروا ہو کر اپنے مقصد کے لیے محنت کرتا رہے گا۔ اس دنیا میں کامیابی کے لیے بلا شبہہ محنت درکار ہے، مگر محنت اُسی شخص کے لیے مفید بنتی ہے جو مسلسل محنت کا حوصلہ رکھتا ہو۔محنت اپنے آپ کو پوری طرح استعمال کرنے کا نام ہے، اور جو شخص اپنے آپ کو پوری طرح استعمال کرے وہ کبھی ناکام ہونے والا نہیں۔
واپس اوپر جائیں

انسان کا کم تر اندازہ نہ کیجئے

کوئی بھی آدمی آپ کا پیدائشی دشمن نہیں۔ آپ خود اپنے عمل سے کسی کو اپنا دشمن اور کسی کو اپنا دوست بنا لیتے ہیں—یہ ایک ایسی مسلّم حقیقت ہے جو ہر دور میں اور ہمیشہ صحیح ثابت ہوئی ہے۔ اگر چہ دنیامیں ایسے دانش مند انسانوں کی کمی ہے جو اس حقیقت کو سمجھیں اور اس کو اپنے حق میں استعمال کریں۔
انسان کوئی پتھر نہیں۔ انسان ایک ایسی مخلوق ہے جو اپنے اندر احساس رکھتا ہے۔ جو حالات سے متاثر ہوتا ہے۔ آدمی کے اندریہ صلاحیت ہے کہ وہ باتوں کو دلائل کی روشنی میں جانچے اور صحیح اور غلط کے درمیان فرق کرے۔ حق اور ناحق کے درمیان تمیز کرنا، یہ انسان کی ایک ایسی صفت ہے جس میں وہ ساری کائنات میں منفرد حیثیت رکھتا ہے۔
انسان کی اس صلاحیت کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو بدل سکتا ہے۔ کسی پتھر کے اندر یہ طاقت نہیں کہ وہ اپنے آپ کو بدل لے۔ مگر انسان کی یہ امتیازی صفت ہے کہ وہ اپنے آپ کو بدلنے کی طاقت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی انسان کو مستقل طور پر اپنا دشمن سمجھ لینا انسان کا کم تر اندازہ ہے۔ ایسی حالت میں آپ کو چاہیے کہ اگر کوئی شخص بظاہر آپ کو اپنا دشمن دکھائی دے تو آپ اس کو اپنا مستقل دشمن نہ سمجھ لیں۔ بلکہ یہ یقین رکھیں کہ آپ اُس کو اپنے حسنِ عمل سے اپنا دوست بنا سکتے ہیں۔
اگر کوئی شخص آپ کے بارہ میں غلط فہمی میں مبتلا ہوگیا ہے تو اس کی غلط فہمی کو دور کیجئے۔ کسی کو آپ سے سخت رویہ کی شکایت ہے تو اس کے ساتھ نرم رویہ اختیار کیجئے۔ کوئی آپ کو بے فائدہ سمجھتا ہے تو اس کو فائدہ پہنچا کر اس کا دل جیتئے۔ کسی کو آپ سے غلط سلوک کا تجربہ ہوا ہے تو اس سے معافی مانگ کر معاملہ کو ختم کردیجئے۔ کسی کو آپ سے لین دین کی شکایت ہے تو اپنے لین دین کو درست کرکے اُس کی شکایت رفع کیجئے۔ دوسرے کو غلط بتانے کے بجائے خود اپنے اندر غلطی کو تلاش کیجئے۔ اس اُصول پر یقین رکھئے کہ آپ اپنے کو بدل کر ساری دنیا کو بدل سکتے ہیں۔ اس دنیا میں دوستی ایک ابدی چیز ہے اور دشمنی صرف وقتی۔
واپس اوپر جائیں

صلاحیت کا استعمال

جب بھی میری ملاقات کسی ذہین آدمی سے ہوتی ہے تو اس کے حالات معلوم ہونے کے بعد اکثر مجھے یہ کہنا پڑتا ہے کہ آپ اپنی امکانی صلاحیت کا کمتر استعمال کر رہے ہیں:
You are underusing your potential.
میرا تجربہ ہے کہ اکثر ذہین لوگ اپنی صلاحیت کا وہ استعمال نہیں کر پاتے جو فطرت سے اُنہیں دی گئی ہے۔ مثال کے طورپر ایک شخص جو یونیورسٹی کا اُستاد بننے کے قابل ہے وہ تفریح (entertainment) کی انڈسٹری میں چلا جاتا ہے۔ کیوں کہ وہ دیکھتا ہے کہ وہ یونیورسٹی کی سروس میںاُتنی کمائی نہیں کرسکتا جتنی کمائی وہ تفریح کی انڈسٹری میںکرسکتا ہے۔
میرے نزدیک یہ انسانی صلاحیت کا ایک کمتر استعمال ہے۔ قلم کو اگر آپ زمین کھودنے کے لیے استعمال کریں تو وہ بھی قلم کا ایک استعمال ہوسکتا ہے۔مگریہ ایک حقیقت ہے کہ قلم کا اعلیٰ استعمال صرف یہ ہے کہ اس کو رائٹنگ کے کام کے لیے استعمال کیا جائے۔
انسان کی امتیازی صفت یہ ہے کہ وہ ایک مائنڈرکھتا ہے۔ وہ سوچ سکتا ہے جس کی صلاحیت کسی اور مخلوق میں نہیں۔ اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی انسان کا اعلیٰ استعمال کیا ہے۔ کوئی آدمی اگر اپنے باڈی کو خوبصورت کپڑے پہنا لے تو اُس کو انسانی ترقی نہیں کہا جائے گا۔ کیوں کہ خوبصورت کپڑا تو کسی حیوان کے بدن پر بھی پہنایا جاسکتا ہے۔
انسان کی ترقی یہ ہے کہ اس کے اندر اعلیٰ ذہنی سرگرمیاں (intellectual activities) جاری ہوں۔ وہ تخلیقی فکر کا حامل بن سکے۔ وہ ذہن کی سطح پر اعلیٰ حقیقتوں کو دریافت کرے۔ اسی ذہنی سرگرمی سے انسان کی تمام ترقیاں بندھی ہوئی ہیں۔ زندہ انسان وہ ہے جو اپنے آپ کو ذہنی ترقی کے اعلیٰ مرتبہ تک پہنچائے، وہ علم کی دنیا میں اپنے لیے اعلیٰ مقام حاصل کرسکے۔صلاحیت ایک خدائی عطیہ ہے، صلاحیت کا کم تر استعمال عطیہ کی ناقدری کے ہم معنٰی ہے۔
واپس اوپر جائیں

کام کی تلاش

۱۴ دسمبر ۲۰۰۴ کا واقعہ ہے۔ ایک مسلم نوجوان مجھ سے ملنے کے لیے آئے۔ اُنہوں نے اپنا نام محمد عیسیٰ بتایا۔ اُنہوں نے کہا کہ میں۱۹۹۸ سے بے کار ہوں اور کام کی تلاش میں دلی آیا ہوں۔ اُنہوں نے اپنے کچھ حالات بتائے جس سے اندازہ ہوا کہ انہیں صحیح مشورہ دینے والا کوئی شخص نہیں ملا۔ اُن کے ماں باپ نے بھی غالباً لاڈ پیار کے سوا کوئی ایسی بات نہیں بتائی جوان کی زندگی کی تعمیر کے لیے مفید ہو۔
میں نے کہا کہ میں آپ کو کوئی کام نہیں دے سکتا۔ البتہ میںآپ کو زندگی کی ایک حقیقت بتا سکتا ہوں جو دنیا میں کام پانے کے لیے ضروری ہے۔ وہ حقیقت یہ ہے کہ—دنیا کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں کہ آپ بے کار ہیں۔ دنیا کو واحد دلچسپی یہ ہے کہ آپ کے اندر کوئی ایسی صلاحیت ہے جو دنیا کے لیے کارآمد ہو۔ آپ کو اگر کام پانا ہے تو اپنے آپ کو کار آمد بنائیے۔ اس کے بعد کام خود آپ کو ڈھونڈھے گا، نہ کہ آپ کام کو ڈھونڈھیں۔
حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دنیا کے بنانے والے نے اس کو انٹرسٹ کی بنیاد پر بنایا ہے۔ ہر آدمی کا اپنا ایک انٹرسٹ ہے، اور اپنے اس انٹرسٹ کے لیے وہ دوڑ رہا ہے۔ ایسی دنیا میں کامیابی کی صورت صرف ایک ہے، وہ یہ کہ آپ یہ ثابت کرسکیں کہ آپ دنیا کے انٹرسٹ کو پورا کرسکتے ہیں۔ دنیا کے کام آئیے، اور دنیا آپ کو کام دینے پر مجبور ہوجائے گی۔
کام کی تلاش کا ذہن آدمی کے اندر مایوسی پیدا کرتا ہے۔ اور اپنے آپ کو کار آمد بنانے کا ذہن آدمی کے اندر یقین اورحوصلہ پیدا کرتا ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ دوسروں سے امید نہ رکھے۔ وہ اپنے کام کو خود اپنے اندر تلاش کرے۔ وہ اپنی صلاحیت کو دریافت کرے اور اپنی اس صلاحیت کو ترقی دے کر اپنے آپ کو سماج کے لیے کارآمد بنائے۔ وہ اتنی تیاری کرے کہ وہ دوسروں کی ضرورت بن جائے۔ دنیا میں کامیابی کا راز یہی ہے۔
واپس اوپر جائیں

غیر فطری محبت

۱۵ اکتوبر ۲۰۰۳ کو میں سورت (گجرات) میںتھا۔ وہاں میں ایک ہوٹل میں ٹھہرا ہوا تھا۔ ایک مقامی مسلمان مجھ سے ملنے کے لیے ہوٹل میںآئے۔ ان کے ساتھ ایک چھوٹا بچہ بھی تھا۔ وہ اس بچہ کو اپنی گود میں لئے ہوئے تھے۔ وہ بچہ کو کبھی کندھے پر بٹھاتے اور کبھی گود میں لیتے۔ وہ میرے کمرے میں آکر بیٹھے تو میں نے ان سے پوچھا کہ کیا یہ آپ کا بیٹا ہے۔ انہوں نے خوشی کے لہجہ میں کہا کہ ہاں۔ میں نے کہا کہ آپ اپنے بیٹے کے دشمن ہیں۔ اس کے ساتھ آپ کا پیار اس کے لیے دشمنی کے ہم معنٰی ہے۔ اس غیر متوقع تبصرہ کو سن کر وہ گھبرا گئے۔ انہوں نے پوچھا کہ وہ کیسے۔ میںنے کہا کہ آپ ہمیشہ اپنے صاحبزادے کو گود میں نہیں رکھ سکتے۔ آخر کار اس کو ایک ایسی دنیا میں جانا ہے جہاں کوئی اس کو گود میں لینے والا نہ ہوگا۔ بچہ کے لیے سچی محبت یہ ہے کہ آپ اس کو مستقبل کے حالات کا سامنا کرنے کے لیے تیار کریں، نہ یہ کہ اس کو اس سے بے خبر رکھ کر ایک ایسی دنیا میں جینے والا بنائیں جو آپ کی گود کے باہر کہیں اپنا وجود نہیں رکھتی۔ انہوں نے کہا کہ یہ تو ابھی چھوٹا بچہ ہے۔ میںنے کہا کہ آپ کی یہ سوچ فطرت کے خلاف ہے۔
اس کے بعد انہوں نے اپنے بچے کو گود سے اتار دیا۔ اتارتے ہی وہ بچہ زمین پر دوڑنے لگا۔ اس کا حال اس چڑیا جیسا ہوگیا جو پنجرے میں بند ہو اور پنجرہ سے آزاد ہوتے ہی فضا میں اڑنے لگے۔
فطرت کے نظام کے مطابق، بچہ ماں باپ کی گود میں رہنے کے لیے پیدا نہیں ہوتا۔ بچہ اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ وہ دنیا کے کھلے میدان میںدوڑے۔ وہ زندگی کی جد وجہد میں داخل ہو۔ وہ ہر قسم کے تجربات سے گزرتے ہوئے اپنے مستقبل کی تعمیر کرے۔ وہ موافق او رمخالف حالات کا سامنا کرتے ہوئے اپنی زندگی کا سفر طے کرے۔ ایسی حالت میں بچے کو ماں باپ کی شفقتوں کا عادی بنانا فطرت کی اسکیم کے خلاف ہے۔ وہ فطرت کے نظام سے لڑنا ہے۔ ماں باپ کو چاہیے کہ وہ اس فطری حقیقت کو سمجھیں اور اس کے مطابق اپنی اولاد کو بنائیں۔
واپس اوپر جائیں

مستقبل پر نظر

ایک صاحب نے اپنی لڑکی کی شادی دور افتادہ مقام پر ایک نوجوان سے کردی۔ بعد کو معلوم ہوا کہ اس نوجوان کی معاشی حالت بہت کمزور ہے۔ اس کے پاس جو گھر ہے وہ بھی ٹوٹا پھوٹا ہے۔ سماج میںاس کو کوئی ممتاز حیثیت حاصل نہیں۔ لوگوں کو جب اس شادی کا حال معلوم ہوا تو وہ باپ کو بر ا بھلا کہنے لگے۔ یہاں تک کہ کچھ لوگوں نے اس کے بارے میں یہ کہا کہ وہ دماغی خلل کا شکار ہے۔
مگر باپ نے اس معاملہ میں صبر کا طریقہ اختیار کیا۔ اُس نے صرف یہ کیا کہ وہ برابر اپنی لڑکی کے لیے دعا کرتا رہا۔ وہ یہ دعا کرتا رہا کہ خدایا، میری غلطی کی تلافی فرمائیے، میری لڑکی کی مددفرمائیے، اس کو اپنی رحمتوں کے سایے میں لے لیجئے۔
اس کے بعد اس لڑکی کے یہاں چند بچے پیدا ہوئے۔ یہ بچے تندرست اور محنتی تھے۔ اُنہوں نے اپنی محنت سے تعلیم حاصل کی اور اچھے نمبروں سے پاس ہوئے۔ ان کو اپنی لیاقت کی بنیاد پر اچھی سروس مل گئی۔ اب حالات بدل گئے۔ لڑکوں نے بڑے ہوکر نیا گھر بنایا۔ اُن کے پاس گاڑی اور دوسری چیزیں بھی ہوگئیں۔ اپنے حسن عمل سے انہوں نے سماج میں اچھا مقام حاصل کرلیا۔
اس طرح کی مثالیں ہر سماج میں ہیں۔ یہ مثالیں بتاتی ہیں کہ انسان کو ایسا نہیں کرنا چاہیے کہ وہ صرف حال کو دیکھ کر رائے قائم کرے۔ بلکہ اس کو مستقبل پر نظر رکھنا چاہیے۔ اس دنیا میں کوئی بھی محرومی ابدی محرومی نہیں۔ اس دنیا میں ہر انسان کے لیے یہ مواقع موجود ہیں کہ وہ محنت اور لیاقت کا ثبوت دے کر ترقی کی منزلیں طے کرے۔ وہ حال کی کمی کو مزید اضافہ کے ساتھ مستقبل میں پورا کرلے۔
کامیاب شادی کا راز یہ نہیں ہے کہ آپ اپنی لڑکی کی شادی کسی امیر آدمی سے کریں۔ اسی طرح ناکام شادی یہ نہیں ہے کہ آپ کی لڑکی کی شادی کسی غریب شخص سے ہوجائے۔ اس دنیا میں آج کا امیر کل کا غریب بن جاتا ہے اور آج کا غریب کل کے دن امیر بن جاتا ہے۔ زندگی میں اصل اہمیت محنت اور منصوبہ بندی کی ہے، نہ کہ امیری اور غریبی کی۔
واپس اوپر جائیں

تیسرا انتخاب

۱۸۔ ۱۹ دسمبر ۲۰۰۴ کو میں نے دہلی اور جے پور کے درمیان سفر کیا۔ سفر کے لیے میرے سامنے دو ممکن صورتیں تھیں، ٹرین یا ہوائی جہاز۔ غیر شعو ری طورپر میرا ذہن یہ بن گیا کہ یا تو ٹرین سے سفر کرنا ہے یا ہوائی جہاز سے۔ ٹرین (شتابدی ایکسپریس) دہلی سے صبح کے وقت جے پور جاتی تھی اور شام کے وقت جے پور سے دہلی آتی تھی۔ ٹرین کا انتخاب کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ میں ۱۸ دسمبر کی صبح کو جے پور گیا اور ۱۹ دسمبر کی شام کو دہلی واپس آیا۔ اس بنا پر ایسا ہوا کہ ۱۹ دسمبر کا دن میں نے کھو دیا۔ ۱۹ دسمبر کو دہلی میں ایک بہت ضروری پروگرام تھا مگر میںاس میں شرکت نہ کر سکا۔
یہ واقعہ ثنائی طرز فکر (dichotomous thinking)کی بنا پر پیش آیا۔ یعنی صرف دو انتخاب (options) کے درمیان سوچنا۔ بعد کو مجھے احساس ہوا کہ میرے لیے یہاں تیسرا انتخاب بھی تھا۔ وہ یہ کہ میں ۱۸ دسمبر کی صبح کو ٹرین کے ذریعہ جے پور جاؤں ، اور ۱۹ دسمبر کی صبح کو سواری بدل کر ہوائی جہازکے ذریعہ دہلی واپس آؤں۔ ایسی صورت میں میں ۱۹دسمبر کے پروگرام میں بخوبی شریک ہوسکتا تھا۔
یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انسان اکثر ثنائی طرز فکر کا شکار رہتا ہے۔ وہ اپنے مخصوص ذہن کی بنا پر یہ سمجھ لیتا ہے کہ اس کے لیے صرف د و صورتوں میں سے ایک صورت کا انتخاب ہے۔ حالاں کہ وہاں ایک تیسری صورت بھی موجود رہتی ہے جو زیادہ مفید ہوتی ہے۔
تاریخ کی بہت سی ناکامیاں اسی ثنائی طرزِ فکر کا نتیجہ تھیں۔ مثلاً بہت سے لوگوں نے اپنے حالات کے ناقص اندازہ کی بنا پر یہ سمجھ لیا کہ ان کے لیے صرف دو ممکن صورتیں ہیں، یا جنگ یاذلت کی زندگی۔ حالاں کہ وہاں تیسری صورت بھی موجود تھی، اور وہ یہ کہ جنگ کو اوائڈ کرکے امن قائم کرنا اور مواقع کو استعمال کرکے اپنے کو مستحکم بنانا۔ اس حکمت کو نہ جاننے کی وجہ سے بہت سے لوگوں نے غیر ضروری طورپر اپنے کو تباہ کرلیا، حالاں کہ اگر وہ تیسرے انتخاب کو لیتے تو وہ اس کو استعمال کرکے بہت بڑی کامیابی حاصل کرسکتے تھے۔
واپس اوپر جائیں

کامیاب ازدواجی زندگی

ہرعورت اور مرد کے ذہن میں شادی سے پہلے آئیڈیل شوہر اور آئیڈیل بیوی کا تصور بسا ہوا ہوتا ہے۔ مگر شادی کے بعد دونوں محسوس کرتے ہیں کہ انہوں نے جس کو اپنی زندگی کا ساتھی بنایا ہے وہ ان کے آئیڈیل سے کم ہے۔ یہی احساس مسئلہ پیدا کرتا ہے۔ عورت اور مرد دونوں شعوری یا غیر شعوری طورپر یہ محسوس کرنے لگتے ہیں کہ ان کا انتخاب درست نہ تھا۔
اس احساس کے آتے ہی دونوں کے درمیان اختلافات شروع ہوجاتے ہیں جس کا نتیجہ دو میں سے ایک کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ تلخ ازدواجی زندگی یا طلاق۔ مگر یہ دونوں ہی یکساں طورپر غلط اور غیر فطری ہیں۔
اصل یہ ہے کہ شوہر اور بیوی کے درمیان اختلاف کا سبب یہ نہیں ہوتا کہ دونوں کا انتخاب غلط تھا۔ اس کا سبب صرف یہ ہوتا ہے کہ دونوں فطرت کی ایک حقیقت کو سمجھنے میں ناکام رہے۔ وہ یہ کہ اختلاف زندگی کا ایک حصہ ہے، وہ کسی خاص عورت یا کسی مرد کا حصہ نہیں۔
یہی اس مسئلہ کا واحدحل ہے۔ عورت اور مرد دونوں اگر یہ سمجھ لیں کہ اُن کے ساتھ جو کچھ پیش آرہا ہے وہ خدا کے تخلیقی منصوبہ کی بنا پر پیش آرہا ہے، نہ کہ اُن کے غلط انتخاب کی بنا پر۔ اگر دونوں اس حقیقت کو سمجھ لیں تو ازدواجی زندگی کا مسئلہ اپنے آپ ختم ہوجائے گا۔
خالق نے خود اپنے تخلیقی منصوبہ کے مطابق، ہر دو انسان کے درمیان فرق رکھا ہے۔ اس مسئلہ کا حل فرق کو مٹانا نہیں ہے بلکہ اس کا حل یہ ہے کہ انسان اس ہنر کو جانے جس کو آرٹ آف ڈیفرنس مینیجمنٹ (art of difference management) کہا جاسکتا ہے۔ ڈیفرنس کو مٹانے کی کوشش نہ کیجئے بلکہ ڈیفرنس کے ساتھ جینا سیکھیے اور پھر آپ کی زندگی کامیاب ازدواجی زندگی بن جائے گی۔
خاندانی زندگی ہویا سماجی زندگی، دونوں میں اختلافات پیدا ہونا فطری ہے۔ اس مسئلہ کا حل صرف ایک ہے، اور وہ ہے—اختلاف کے باوجود متحد ہوکر رہنا۔
واپس اوپر جائیں

گھریلو جھگڑے

اکثر گھروں میں اہل خاندان کے درمیان جھگڑے جاری رہتے ہیں۔ یہ جھگڑے زیادہ تر نفسیاتی ہوتے ہیں۔ حقیقی معنوں میں ان کا کوئی مادی سبب نہیں ہوتا۔ لوگ اگر صبر و اعراض کی حکمت جان لیں تو اس قسم کے جھگڑے اپنے آپ ختم ہوجائیں۔ ہر گھر امن کا گھر بن جائے۔
ایک مشترک خاندان کی مثال ہے۔ وہاں دو بہوئیں ایک ساتھ رہتی تھیں۔ دونوں کے کام کے لیے دو الگ الگ خادمائیں تھیں۔ دونوں خادماؤں کے درمیان فطری طور پرکبھی کبھی تکرار ہوجاتی تھی۔ ایک بار ایسا ہوا کہ تکرار کے دوران ایک خادمہ نے دوسری خادمہ کو کہہ دیا کہ تمہاری بی بی جی تم کو کچھ نہیں بولتیں اس لیے تم شیطان ہوگئی ہو۔ خادمہ نے اپنی مالکہ سے اس کو نقل کیا تو بات کچھ بدل گئی۔ اس نے اس بات کو ان لفظوں میں نقل کیا: وہ کہہ رہی تھی کہ تمہاری بی بی جی نے تم کو شیطان بنا دیا ہے۔ اس کے بعد اس خاتون نے اس بات کو جب اپنے شوہر سے نقل کیا تو بات کچھ اور بدل کر اس طرح ہوگئی: تم بھی شیطان، تمہاری بی بی جی بھی شیطان۔ یہ سن کر ان کا شوہر غصہ ہوگیا اور گھر میں ایک طوفان برپا ہوگیا۔ دونوں بہوئیں ایک دوسرے سے نفرت کرنے لگیں۔ گھر کا سکون درہم برہم ہوگیا۔
اس طرح کے معاملات میں پہلا بہتر طریقہ یہ ہے کہ آدمی ان کو نظر انداز کردے۔ وہ سنی ہوئی بات کا کوئی اثر نہ لے اور نہ اس کو دوسرے سے نقل کرے۔ یہ رویہ اگر اختیار کیا جائے تو مسئلہ سرے سے پیدا ہی نہ ہوگا۔
دوسری صورت یہ ہے کہ سننے والا صرف ایک پارٹی کی بات سن کر کوئی رائے نہ بنائے۔ وہ غیر جانبداری کے ساتھ پہلے دونوں پارٹی کی بات سنے اور اس کے بعد ٹھنڈے طریقہ سے ایسی رائے قائم کرے جو انصاف کے مطابق ہو۔ وہ اصل بات کو گھٹانے یا بڑھانے کی غلطی نہ کرے بلکہ بات کو ویسا ہی لے جیسا کہ وہ ہے۔ ان دو طریقوں کے سوا ہر دوسرا طریقہ فساد پیدا کرنے والا ہے ، وہ آخر کار پورے خاندان میں بگاڑ پیدا کردیتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ جب کچھ لوگ مل جل کر رہتے ہیں تو لازمی طورپر ان کے درمیان کچھ خلاف مزاج واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ ان باتوں کو لے کر دوسروں سے لڑنا یا جھگڑنا مسئلہ کا حل نہیں۔ کیوں کہ اس قسم کا اختلاف ایک فطری امر ہے اور جو چیز فطری امر کی حیثیت رکھتی ہو اس کو مٹانا کسی کے لیے بھی ممکن نہیں۔ اس طرح کے مسائل کا حل صبر و اعراض ہے نہ کہ ان کو لے کر لڑنا جھگڑنا۔
مزید یہ کہ اس طرح کی باتوں پر آدمی کے اندر جو غصہ بھڑکتا ہے وہ ہمیشہ وقتی ہوتا ہے، وہ آخر کار ختم ہوجانے والا ہے۔ ایسی حالت میں بہترین طریقہ یہ ہے کہ آدمی ایسی بات پیش آنے کے موقع پر دو منٹ کے لیے چپ رہے، وہ ردّ عمل کے بجائے صبر کا طریقہ اختیار کرلے۔ اگر وہ ایسا کرے تو چند منٹ کے بعد اس کا غصہ ختم ہوجائے گا اور وہ اسی طرح ایک معتدل انسان بن جائے گا جس طرح وہ واقعہ سے پہلے ایک معتدل انسان نظر آتا تھا۔
اس معاملہ کا سب سے زیادہ اہم پہلو یہ ہے کہ ہر آدمی کے اندر کچھ مائنس پائنٹ ہوتے ہیں اور کچھ پلس پائنٹ ہوتے ہیں۔ کوئی بھی مرد یا عورت اس سے خالی نہیں۔ جب کسی آدمی کو غصہ آجائے تو یہ ہوتا ہے کہ وہ فریق ثانی کے پلس پائنٹ کو بھول جاتا ہے۔ اس کو اس وقت فریق ثانی کا صرف مائنس پائنٹ یاد رہتا ہے۔ یہی ذہنی حالت آدمی کو غیر معتدل بنا دیتی ہے۔ وہ ایسی روش اختیار کرلیتا ہے جس کو وہ معتدل حالت میں اختیار کرنے والا نہ تھا۔
ایسی حالت میں اس مسئلہ کا فطری حل یہ ہے کہ جب بھی کسی کے اندر دوسرے کے خلاف اشتعال پیدا ہو تو وہ اپنے آپ کو کنٹرول کرکے غیر جانب دارانہ انداز میں سوچے۔ وہ فریق ثانی کے پلس پائنٹ کو سوچے یا اس کی شخصیت کے مثبت پہلوؤں کو یادکرے۔ ایسا کرتے ہی یہ ہوگا کہ اس کا انتقامی جوش ٹھنڈا پڑ جائے گا۔ یہاں تک کہ وہ خود اپنے آپ کو ملامت کرے گا کہ میں نے ایک شخص کے ۹۹ پہلوؤں کو بھلا دیا اور اس کی شخصیت کے ایک پہلو کو لے کر اس کے خلاف بھڑک اٹھا۔
خاندان میں بگاڑ ہمیشہ کسی چھوٹی بات پر شروع ہوتا ہے۔ اگر شروع ہی میں اُس پر قابو پالیا جائے تو کبھی کوئی مسئلہ بڑا مسئلہ نہ بنے۔
واپس اوپر جائیں

تعلیم کی طرف

بی بی سی لندن کے اردو شعبہ کی ایک ٹیم نے انڈیا کی ریاست گجرات کا دورہ کیا۔ وہاں اس نے خاص طورپر گجرات کے مسلمانوں سے ملاقات کی اور اس موضوع پر ایک رپورٹ تیار کی۔ اس رپورٹ کا ایک حصہ میں نے ۲۲ جولائی ۲۰۰۴ کو بی بی سی لندن کے نشریہ میں سنا۔ اس نشریہ میں بتایا گیا تھا کہ ریاست میں پچھلے فرقہ وارانہ فساد فروری ۔مارچ ۲۰۰۲ کے بعد گجرات کے مسلمانوں میں بڑے پیمانہ پر ایک نیا رجحان پیدا ہوا ہے۔ اب یہاں کا ہر مسلمان تعلیم کے بارے میں سوچتا ہے۔ ہر ایک یہ کہہ رہا ہے کہ اپنے بچوں کو پڑھاؤ۔
یہ ایک نیا رجحان ہے۔ ۱۹۴۷ کے بعد ہندستانی مسلمانوں میں مسلسل طورپر ایک ہی ذہن پایا جارہا تھا۔ وہ تھا شکایت اور احتجاج اور تشدد کا جواب تشددسے دینا۔ نصف صدی سے زیادہ مدت کے تجربہ کے بعد یہ نظریہ ناکام ثابت ہوا۔ اب پہلی بار مسلمانوں میں یہ طرزِ فکر پیدا ہوا ہے کہ جوابی ذہن کے تحت سوچنا اور ماضی کے تلخ تجربوں میں جینا ایک بے فائدہ کام ہے۔ اب وہ پہلی بار پیچھے کو بھلا کر آگے کی طرف سوچ رہے ہیں۔ وہ انتقام کے بجائے تعمیر کا نظریہ اپنا رہے ہیں۔ اس جدید رجحان کو ایک جملہ میںاس طرح بیان کیا جاسکتا ہے: ماضی کو بھلاؤ، بچوں کو پڑھاؤ۔
۱۹۴۷ کے بعد پیش آنے والے ناخوش گوار واقعات کے نتیجہ میں تمام ہندستانی مسلمان رد عمل کی نفسیات کے شکار ہوگئے تھے۔ راقم الحروف نے پہلی بار مسلمانوں کو یہ بتانا شروع کیا کہ زندگی کا راز مثبت سوچ میںہے نہ کہ منفی سوچ میں۔ ۱۹۶۵ میں یہ کوشش میں نے لکھنؤ کے ہفت روزہ ندائے ملت کے ذریعہ شروع کی۔ اس کے بعد ۱۹۶۷ سے یہ کام دہلی کے ہفت روزہ الجمعیۃ کے ذریعہ جاری رہا۔ اس کے بعد ۱۹۷۶ میں میںنے دہلی سے ماہنامہ الرسالہ جاری کیا اور زیادہ منظم انداز میں اس کام کو کرنے لگا۔ اس کے علاوہ ملک کے مختلف اخبارات اور جرائد میں مسلسل اس کی تائید میں مضامین شائع کیے۔ پورے ملک میں سفر کرکے جلسوں اور اجتماعات کی صورت میںاس مثبت پیغام کو مسلمانان ہند تک پہنچایا۔
یہ نقطۂ نظر مسلمانوں کے لیے اجنبی تھا۔ ایک عربی مثل ہے کہ: الناس اعداء ما جہلوا (لوگ اس چیز کے دشمن بن جاتے ہیں جس سے وہ بے خبر ہیں) چنانچہ ابتدائی طور پر مسلمانوں میںاس کی مخالفت شروع ہوگئی ۔وہ صبر اور اعراض کے نظریہ کو دشمن کی چال سمجھنے لگے۔ مگر مسلسل تجربے کے بعد اب ان کی آنکھ کھل گئی ہے۔ اب نہ صرف گجرات بلکہ سارے ملک میں مسلمانوں کا ذہن بدل چکا ہے۔ وہ جان چکے ہیں کہ دوسروں کو الزام دینا سراسر بے فائدہ کام ہے۔ صحیح یہ ہے کہ ساری طاقت خود اپنے تعمیر و استحکام پر لگائی جائے۔
یہ بلاشبہہ ایک صحت مند رجحان ہے۔ سائنسی انقلاب کے بعد دنیا میں مکمل طورپر ایک نیا دور آگیاہے۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ تلوار میں طاقت ہے (ہر کہ شمشیر زند سکہ بہ نامش خوانند) مگر اب ہر باشعور آدمی جانتا ہے کہ طاقت کا راز علم ہے۔ پہلے اگر دنیا میں صاحب شمشیر لوگوں کا غلبہ ہوتا تھا تو اب دنیا میں غلبہ ان لوگوں کے لیے مقدر ہو چکا ہے جو صاحب علم ہوں۔
یہ دنیا مسابقت کی دنیا ہے۔ یہاں ہمیشہ ایسا ہوگا کہ دوسروں کی طرف سے آپ کو تلخ تجربات پیش آئیں گے ،اپنوں کی طرف سے بھی اور غیروں کی طرف سے بھی۔ وہ شخص نادان ہے جو تلخیوں کی یاد میں جئے۔ دانشمند وہ ہے جو تلخ یادوں کو بھلائے اور صبر و تحمل کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے مستقبل کی تعمیر میں لگا دے۔
تعلیم کا مقصد صرف سروس حاصل کرنا نہیں ہے۔ تعلیم کا اصل مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو باشعور بنایا جائے۔ اس دنیا میں سارے مسائل کی جڑ بے شعوری ہے، اور سارے مسائل کا حل یہ ہے کہ لوگ باشعور ہوں۔ وہ مسائل کی حقیقی نوعیت کو سمجھیں۔ وہ حالات کا بے لاگ تجزیہ کرسکیں۔ وہ اس بات کو جانیں کہ دنیا میںکیا چیز قابلِ حصول ہے، اور وہ کیا چیز ہے جو سرے سے قابلِ حصول ہی نہیں۔
تعلیم آدمی کو بے شعوری سے نکالتی ہے اور اس کے اندر شعور کی صفت پیدا کرتی ہے۔ اس دنیا کی تمام کامیابیاں بلا شبہہ تعلیم یافتہ انسان کے لیے مقدر ہیں۔ تعلیم کے بغیر کوئی ترقی ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں

یہ بدعت ہے

۱۰ اگست ۲۰۰۴ کو ایک مسلم نوجوان مجھ سے ملے۔ اُنہوں نے بتایا کہ پچھلے روز دہلی کے ایک آڈیٹوریم میں مسلمانوں کا ایک جلسہ ہوا۔ اس میں ایک مسلم رہنما کی تقریر ہوئی۔ وہ مسلمانوں میں کامیاب مقرر سمجھے جاتے ہیں۔ مسلم نوجوان نے بتایا کہ پورا آڈیٹوریم مسلمانوں سے بھرا ہوا تھا۔ شاندارتقریر کے دوران مسلسل تالیاں بجتی رہیں۔ تالیوں کی کثرت سے ہال گونج اُٹھا۔
میں نے مذکورہ مسلم نوجوان سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں مسلمانوں کو خطاب فرماتے تھے۔ حجۃ الوداع کے موقع پر آپ نے ایک لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کے درمیان خطاب فرمایا۔ کیا ان مواقع پر سامعین تالیاں بجاتے تھے۔ اُنہوں نے کہا کہ نہیں۔ پھر میں نے پوچھا کہ خلفائے راشدین بار بار مسلم اجتماعات میں خطاب کرتے تھے۔ کیا ان مواقع پر یہ مسلمان تالیاں بجاتے تھے۔ اُنہوں نے کہا کہ نہیں۔ پھر میں نے پوچھا کہ صحابہ اور تابعین بار بار مسلمانوں کے اجتماعات میں تقریر کرتے تھے۔ کیا وہ لوگ تقریر کو سُن کر تالیاں بجاتے تھے۔ اُنہوں نے کہا کہ نہیں۔
پھر میں نے کہا کہ حدیث کے مطابق، ابتدائی زمانہ کے تین دوروں کو قرون مشہود لہا بالخیر کہا گیا ہے۔ یہ تین دور ہیں۔ رسو ل اللہ کا دور، صحابہ کا دور اور تابعین کا دور۔ ان تینوں دوروں کے بارہ میں ثابت ہے کہ اُ س زمانہ میں مسلم ذمہ دار مسلم اجتماعات میں تقریریں کرتے تھے۔ مگر کبھی ایسا نہیں ہوا کہ یہ مسلم سامعین تقریر سُن کر تالیاں بجائیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جلسہ یا اجتماع میں تقریر کو سُن کر تالیاں بجانا ایک بدعت ہے۔
بدعت کے بارہ میں حدیث کی کتابوں میں نہایت سخت وعید یںآئی ہیں۔مثلاً ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من احدث فی امرنا ہذا ما لیس فیہ فہو رد (الصحیح للبخاری، کتاب الصلح، صحیح مسلم، کتاب الأقضیۃ، ابن ماجہ، مقدمہ، مسند احمد) یعنی جو شخص ہمارے اس دین میںکوئی نئی بات نکالے جو کہ اُس میں نہ ہو تو وہ رد ہے۔
اس طرح کی اور بھی کئی روایتیں کتابوں میں آئی ہیں۔ مثلاً ایک طویل روایت میں یہ الفاظ ہیں: وایاکم ومحدثات الامور فان کل محدثۃ بدعۃ و ان کل بدعۃ ضلالۃ (صحیح مسلم، کتاب الجمعۃ، سنن ابی داؤد، کتاب السنّۃ، سنن النسائی، کتاب العیدین، سنن ابن ماجہ، مقدمہ، سنن الدارمی، مقدمہ، مسند احمد) یعنی تم دین میں نئی چیز نکالنے سے بچو، کیوں کہ ہر نئی چیز گمراہی ہے۔
موجودہ زمانہ میں یہ عام رواج ہے کہ مقررین پرجوش تقریریں کرتے ہیں اور سامعین پُر جوش تالیاں بجاتے ہیں۔ یہ طریقہ بھی بلا شبہہ بدعت کی تعریف میں آتا ہے۔ یہ بھی اُنہی نئی مہلک چیزوں میں سے ہے جس کو حدیث میں بدعت کہاگیا ہے۔ مزید یہ کہ یہ اضافہ بدعت حسنہ نہیں ہے بلکہ یہ بدعتِ سیئہ ہے۔ یہ سطحیت اور بے حسی کا مظاہرہ ہے جو خدا کے دین میں محمود نہیں۔
اکثر لوگوں کا احساس یہ ہوتا ہے کہ یہ تو چھوٹی چیزیں ہیں اور اس قسم کی چھوٹی چیزوں میں کوئی قباحت نہیں ہوتی۔ مگر یہ طرزِ فکر خود دینی اعتبار سے ایک ہلاکت خیز طرزِ فکر ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ چھوٹے چھوٹے گناہوں سے بھی بچو ایاکم ومحقرات الذنوب۔ ایک روایت کے مطابق، ایک صحابی نے بعد کے زمانہ کے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: انکم لتعملون عملًا ہی ادق فی اعینکم من الشعر، ان کنا لنعدہا علی عہدالنبی صلی اللہ علیہ وسلم من الموبقات (صحیح البخاری، کتاب الرقاق، سنن الدارمی، کتاب الرقاق، مسند احمد) یعنی تم ایک ایسا عمل کرتے ہو جو عمل تمہاری نگاہوں میں بال سے بھی زیادہ ہلکا ہوتا ہے۔ مگر ہم رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایسی چیزوں کو تباہ کن عمل سمجھتے تھے۔
اصل یہ ہے کہ کسی عمل کے بُرا یا بھلا ہونے کا تعلق صرف اس کے ظاہر سے نہیں ہے بلکہ اس سے ہے کہ وہ کس جذبہ کے تحت کیا گیا۔ ایک بظاہر چھوٹا عمل اگر بے حسی اور آخرت فراموشی کے جذبہ سے کیا جائے تو وہ ایک بُرا عمل قرار پائے گا۔
مثلاً اسلام کے نام پر ایک اجتماع ہوتا ہے۔ اُس میں ایک مقرر شاندار تقریر کرتاہے۔ پھر اُس کو سُن کر سامعین تالیاں بجاتے ہیں۔ بظاہر یہ ایک سادہ واقعہ معلوم ہوتا ہے۔ مگر ا پنی حقیقت کے اعتبار سے وہ کوئی سادہ واقعہ نہیں۔ جو مقرر شاندار تقریرکررہا ہے وہ اپنی اس تقریر کے ذریعہ بتارہا ہے کہ وہ احتساب خویش کی نفسیات سے خالی ہے۔ اس کو اس حقیقت کا شعور نہیں جس کو قرآن میں اس طرح بیان کیا گیا ہے: ما یلفظ من قولٍ إلا لدیہ رقیب عتید۔ اُس کو یہ احساس نہیں کہ وہ اسٹیج پر کھڑا ہو کر جو الفاظ بول رہا ہے وہ انسانوں تک پہنچنے سے پہلے خدا وندِ عالم تک پہنچ رہے ہیں۔
جو آدمی اس قسم کی نفسیات میں جی رہا ہو اس کی تقریر کا انداز بالکل بدل جائے گا۔ اُس کی زبان سے وہ الفاظ ہی نہیں نکلیں گے جس کو سُن کر لوگ جوش میں آئیں اور تالیاں بجائیں۔ اس کی تقریر احساس ذمہ داری کو بڑھانے والی ہوگی، نہ کہ احساسِ فخر کو بڑھانے والی۔ رسول اور اصحابِ رسول کے زمانہ میں تقریر پر تالیاں نہیں بجائی جاتی تھیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایسی بات ہی نہیں کرتے تھے جس کو سُن کر لوگ جذبات میں آجائیں اور تالیاں بجائیں۔
یہی معاملہ سامعین کا ہے۔ سامعین کا تقریر کو سن کر تالیاں بجانا در اصل اس بات کا مظاہرہ ہے کہ اُن کا سینہ احساسِ ذمہ داری سے خالی ہے۔ اگر سامعین کا یہ حال ہو کہ وہ آخرت کی جواب دہی کے احساس میں جیتے ہو ں تو مقرر کی ہر بات اُنہیں خدا اور رسول کی یاد دلائے گی۔ وہ ان کے اندر جنت اور جہنم کے بارہ میں دینی احساس کو بیدار کرے گی۔ مقرر کی بات ان کے ربانی احساسات کو جگائے گی۔ جو لوگ اس قسم کی نفسیات میں جیتے ہوں اُن کا ہاتھ کبھی تالیاں بجانے کے لیے نہیں اُٹھے گا۔ وہ اپنے آپ کو خدا کے حضور میں محسوس کرنے لگیں گے۔ ظاہر ہے کہ ایسے لوگ کبھی تالیاں نہیں بجاسکتے۔ مقرر کی تقریر اُن کو مجبور کرے گی کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سوچیں، وہ اپنی کوتاہیوں کو سوچ کر آنسو بہائیں۔ ایسے لوگ کبھی اس قسم کا سطحی فعل نہیں کرسکتے جس کو تالیاں بجانا کہا جاتا ہے۔
سچی تقریر وہ ہے جو احتسابِ خویش (introspection) کا جذبہ اُبھارے، جو آدمی کو خود اپنی اصلاح کے لیے فکر مند بنادے۔ جو آدمی کے اندر ذمہ داری کا احساس جگائے۔ اس کے برعکس وہ تقریر جھوٹی تقریر ہے جو آدمی کے اندر فخر یا احتجاج کا جذبہ اُبھارے۔ ایسے مقررین کے لیے زیادہ بہتر یہ ہے کہ وہ چپ رہیں، نہ کہ بے فائدہ طورپر اسٹیج سے اپنے لفظی کرتب کا مظاہرہ کریں۔
واپس اوپر جائیں

ناشکری کا فتنہ

۱۲ جولائی ۲۰۰۴ کی شام کو دہلی کے ای ٹی وی (Eenadu TV) کے اسٹوڈیو میں ایک پینل ڈسکشن تھا۔ اس کا موضوع ’’ہندستانی مسلمان اور ریزرویشن‘‘ تھا۔ اس میں میرے سوا دہلی کے چار معروف مسلم دانشور شریک تھے۔ یہ ڈسکشن ایک گھنٹہ تک جاری رہا۔
مذکورہ چاروں مسلم دانشوروں کی رائے زیر بحث موضوع پر تقریباً ایک جیسی تھی۔ ہر ایک کا یہ خیال تھا کہ ہندستانی مسلمان ایک پچھڑی ہوئی کمیونٹی (backward community) بن گئے ہیں اور اب مسلمانوں کو ملک کے دوسرے فرقوں کے برابر لانے کے لیے ضروری ہے کہ انہیں تعلیم اور سرکاری ملازمتوں میں ریزرویشن دیا جائے۔ ریزرویشن کے بغیر وہ آگے نہیں بڑھ سکتے۔
میں نے کہا کہ میرے نزدیک ہندستانی مسلمانوں کی پسماندگی کی بات محض ایک افسانہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ۱۹۴۷ کے بعد مسلمانوں نے اس ملک میں تقریباً سوگنا زیادہ ترقی کی ہے حتیٰ کہ اقتصادی اعتبار سے آج وہ مغل حکومت کے زمانہ سے بھی زیادہ بہتر حالت میں ہیں۔ آپ کسی بھی شہر یا گاؤں کا سروے کرکے اس حقیقت کو جان سکتے ہیں۔
آپ ایک ملک گیر سروے کریں اور مسلمانوں سے صرف ایک سوال پوچھیں۔ وہ یہ کہ ۱۹۴۷ میں تمہارے خاندان کی جو اقتصادی حالت تھی اس کے مقابلہ میں آج تمہارے خاندان کی حالت کیا ہے۔ تقریباً ہر ایک سے آپ کو یہی جواب ملے گا کہ ۱۹۴۷ کے مقابلہ میں آج ہم بہت زیادہ بہتر حالت میں ہیں۔ پہلے اگر ہمارے پاس کچا مکان تھا تو اب ہمارے پاس پکا مکان ہے۔ پہلے اگر ہمارے پاس کوئی سواری نہیں تھی تو آج ہمارے پاس جدید سواری موجود ہے۔ پہلے ہمارے پاس بجلی اور ٹیلی فون جیسی چیزیں موجود نہ تھیں مگر آج ہم کو یہ سب چیزیں حاصل ہیں۔ پہلے ہمارے بچے صرف معمولی تعلیم حاصل کرسکتے تھے۔ آج ہمارے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے ہیں، وغیرہ۔
میں نے کہا کہ آپ ایک آسان جائزہ لیجئے۔ ملک میں ایسی بہت سی جماعتیں اور ادارے موجود ہیںجو اپنے آپ کو ہندستانی مسلمانوں کا نمائندہ بتاتے ہیں۔ آپ ان نمائندہ جماعتوں اور اداروں کا سروے کیجئے اور دیکھئے کہ آج ۱۹۴۷ کے مقابلہ میں ان کی حالت کیا ہے۔ مثلاً تبلیغی جماعت، جمعیۃ علمائے ہند، جماعت اسلامی ہند، دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ، دار العلوم، دیوبند، جامعہ دار السلام، عمر آباد، مدرسۃ الاصلاح، اعظم گڈھ، وغیرہ۔ میں ذاتی طورپر جانتا ہوں اور آپ بھی تحقیق کے ذریعہ معلوم کرسکتے ہیں کہ یہ جماعتیں اور ادارے ۱۹۴۷ میں بالکل معمولی حالت میں تھے۔ آج ان کو دیکھئے تو معلوم ہوگا کہ اب وہ کم ازکم سوگنا زیادہ ترقی کرچکے ہیں۔ مالیات، بلڈنگ ، کار، ٹیلی فون اور دوسری سہولتیں جو ۱۹۴۷ میں ان میں سے کسی کے پاس موجود نہ تھیں، آج ان میں سے ہر ایک کے پاس اس قسم کی سہولتیں وافر مقدار میں موجود ہیں۔ ایسی حالت میں پسماندگی کی بات کہنا صرف ناشکری کی زبان بولنا ہے نہ کہ حقیقت واقعہ کا اظہار۔
ہندستان میں روزنامہ دینک جاگرن کے سروے کے مطابق، اس وقت ۲۲ کروڑ مسلمان موجود ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ ان میں سے ہر شخص یکساں درجہ میں خوش حال نہیں۔ ان میں سے کسی کے پاس زیادہ ہے اور کسی کے پاس کم ۔مگر اس فرق یا نابرابری کا تعلق کسی ملک یا حکومت سے نہیں۔ یہ فرق تمام تر فطرت کے قانون کی بنا پر ہے۔ وہ خودخالق کے تخلیقی نقشہ کے مطابق ہے۔ اس بنا پر یہ فرق مسلمانوں میںاور دوسری قوموں میں ہمیشہ رہا ہے اور ہمیشہ باقی رہے گا۔
اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک رکن زکوٰۃ ہے۔ زکوٰۃ و صدقات کے بارے میں پیغمبر اسلام نے فرمایا ہے کہ : تؤخذ من اغنیاء کم و ترد إلی فقرائکم (صدقات تمہارے امیروں سے لیے جاتے ہیں اور وہ تمہارے غریبوں کی طرف لوٹا دیئے جاتے ہیں)۔ اس شرعی حکم کے مطابق، سماج میں ہمیشہ امیر اور غریب دونوں قسم کے لوگ موجود رہتے ہیں۔ فرق کی یہ حالت پیغمبر اسلام کے بنائے ہوئے نظام میں بھی موجود تھی۔ اس کے بعد خلافت راشدہ، اموی سلطنت، عباسی سلطنت، فاطمی سلطنت، ایوبی سلطنت، مغل سلطنت، عثمانی سلطنت اور اسپینی سلطنت ،غرض ہر دور میں یہ صورت حال موجود رہی۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ علمائے اسلام نے اعلان کیا ہو کہ اب سماج میں فقراء باقی نہیں رہے ہیں اس لیے زکوٰۃ و صدقات کے احکام اب منسوخ قرار پاگئے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ پچھلے چودہ سو برس کے دوران ہر زمانہ میں اور ہر ملک میں مسلم معاشرہ کا اقتصادی اعتبار سے وہی حال رہا ہے جو آج ہندستان میں پایا جاتا ہے۔ مگر اسلامی تاریخ کی طویل مدت میں کبھی علمائے اسلام نے یہ اعلان نہیں کیا کہ مسلمان ایک پس ماندہ ملت بن چکے ہیں۔ یہ بدعت پہلی بار ہندستان کے نام نہاد رہنماؤں نے نکالی ہے اور اس کی حقیقت ایک سطحی سیاست کے سوا اور کچھ نہیں۔
آج کی دنیا میں ۵۷ مسلم ممالک ہیں۔ یہ وہ ممالک ہیں جہاں خود مسلمانوں کی اپنی حکومت قائم ہے۔ لیکن ہر جگہ وہی اقتصادی فرق پایا جاتا ہے جو ہندستان میںموجود ہے۔ حتیٰ کہ اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں ہر دور میں اور ہر ملک میں یہ فرق موجود رہا ۔ اس فرق کو مٹانا سرے سے ممکن نہیں۔
نئی دہلی کے مذکورہ ڈسکشن میں میںنے مزید کہا کہ ’’غریبی‘‘ کوئی برائی نہیں، غریبی ایک چیلنج ہے اور چیلنج ہی واحد چیز ہے جس کے ذریعہ تمام ترقیات ظہور میں آتی ہیں۔ چیلنج نہیں تو ترقی بھی نہیں۔ میں نے کہا کہ بڑی کامیابی حاصل کرنے والے تمام لوگ غریب خاندانوں میں پیدا ہوئے۔ کوئی سپر اچیور(super achiever) کبھی کسی بِل گیٹ(Bill Gate) کے محل میں پیدا نہیں ہوا۔ ہمارے ملک میں جواہر لال نہرو کو چھوڑ کر تمام لیڈر غریب فیملی ہی میں پیدا ہوئے۔ اس کی ایک زندہ مثال صدر جمہوریہ ڈاکٹر عبد الکلام ہیں۔
اوپر میںنے مسلم دانشوروں کے بارے میں جس تجربہ کا ذکر کیا، وہ کوئی ایک تجربہ نہیں۔ ملک کے باہر اور ملک کے اندر ہر جگہ میں نے مسلمانوں کے لکھنے اور بولنے والے طبقہ سے اسی قسم کی بات سنی ہے۔ مسلمانوں کے اخبارات اور میگزین، مسلمانوں کے جلسے، مسلمانوں کی کتابیں، غرض ہر جگہ پسماندگی کی اسی مفروضہ کہانی کو دہرایا جارہا ہے۔ ہر مسلم زبان اور ہر مسلم قلم یکساں طورپر مسلمانوں کی مظلومی اور پسماندگی کے خلاف شکایت اور احتجاج میں مشغول ہے۔
میں نے اس مسئلہ پر بہت زیادہ غور کیا۔ میں نے جاننا چاہا کہ آخر ایسا کیوں ہے۔ اس معاملہ کا سب سے زیادہ عجیب پہلو یہ ہے کہ جو مسلم عالم یا دانشور مسلمانوں کی بدحالی پر لکھتے یا بولتے ہیں وہ خود تقریباً بلا استثناء ایک خوش حال زندگی گزار رہے ہیں۔ کم ازکم میں نے اپنی لمبی عمر میں جس شخص کو بھی مسلمانوں کے مسائل پر لکھتے یا بولتے ہوئے دیکھا وہ اسی کی مثال تھا۔ یعنی وہ اپنے باپ دادا کے زمانہ کے مقابلہ میں آج بہت زیادہ بہتر زندگی گزار رہا تھا۔ اس کے باوجود وہ مسلمانوں کی مفروضہ حالت پر مرثیہ خوانی کررہا تھا۔
ایک بار میں نے دیکھا کہ ہندستان کے ایک نوجوان عالم ایک عرب ملک میں گئے۔ وہاں انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ہندستان کے مسلمان چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پس رہے ہیں(مسلموا الہند بین فکی الرحیٰ) یہ مسلمان عالم ماشاء اللہ فربہ جسم کے تھے۔ ان کے لباس اور ان کے چہرہ پر خوش حالی نمایاں تھی۔ ان کے لہجہ میں بھی سکون اور اعتمادجھلک رہا تھا۔ میں نے کہا کہ میرے بھائی، آپ بھی تو ایک ہندستانی شہری ہیں پھر کیسے آپ اس عام تباہی سے بچ گئے اور اگر آپ کے پاس ایسا کوئی نسخہ ہے جس کے ذریعہ آدمی تباہی کی عمومی حالت میں بھی شاندار زندگی حاصل کرسکے تو آپ بربادی کی داستان بتانے کے بجائے مسلمانوں کو یہی ذاتی نسخہ بتائیے۔
غور و فکر کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ شیطان ہر زمانہ میں ایک عمومی فتنہ برپا کرتا ہے۔ کسی انسان کا سب سے بڑا ٹسٹ یہ ہوتا ہے کہ وہ اس عمومی فتنہ سے اپنے آپ کو بچا سکے۔
میرے نزدیک قدیم زمانہ کا فتنہ شرک تھا۔ اس زمانہ میں شیطان نے فکر و عمل کے تمام نقشوں کو اس طرح شرک کے رنگ میں رنگ دیا تھا کہ ہر عورت اور مرد اس کے اثر میں آگئے۔ ہر ایک نے مشرکانہ کلچر کو اختیار کرلیا۔ یہ صورت حال جاری رہی، یہاں تک کہ رسول اور اصحاب رسول کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اس فتنہ کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا۔
مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ زمانہ کا فتنہ ناشکری کا فتنہ ہے جو یقینی طورپر شیطان کا پیداکردہ ہے۔ شیطان کا طریقہ یہ ہے کہ وہ حالات کا غلط مطالعہ کراتا ہے اور اس طرح لوگوں کو بے بنیاد طورپر غلط فہمی میں ڈال دیتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ ایک ایسے واقعہ کو سمجھنے سے بھی قاصر رہتے ہیں جو ان کے قدموں کے نیچے موجود ہو۔
مثال کے طورپر دہلی میں ایک بار میری ملاقات ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص سے ہوئی۔ وہ ایک غریب خاندان میں پیداہوئے مگر آج وہ دہلی میں ایک شاندار مکان میں رہتے ہیں۔ ان کے پاس موٹر کار اور دوسری جدید سہولیات موجود ہیں۔اُ ن کے بچے مہنگی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ مگر وہ بے تکان اس رواجی قول کو دہرارہے تھے کہ ہندستان کے مسلمان اقتصادی اعتبار سے بدحالی کا شکار ہور ہے ہیں۔ میں نے کہا کہ آپ بھی تو ایک ہندستانی مسلمان ہیں۔ مگر آپ راجدھانی میں ایک خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔ پھر آپ اپنے ذاتی تجربہ سے سبق کیوں نہیں لیتے۔
پھر میں نے کہا کہ دہلی کا ہمدرد دواخانہ ۱۹۴۷ میں کرایہ کے ایک معمولی مکان میں تھا۔ مگر آج ہمدرد دواخانہ ایک ایمپائر بن چکا ہے۔ انہوں نے فوراً کہا کہ آپ ہمدرد دواخانہ کا تقابل ڈابر کمپنی سے کیوں نہیں کرتے جو ہمدرد دواخانہ کے مقابلہ میں بہت زیادہ ترقی کرچکا ہے۔ میں نے کہا کہ آپ ایک غیر منطقی بات کررہے ہیں۔ کیوں کہ آپ حضرات کا یہ کہنا ہے کہ ۱۹۴۷ کے بعد انڈیا کی حکومت نے مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا اس لیے وہ بدحالی کے شکار ہوگئے۔ اس لیے اصل سوال کی نسبت سے ہم کو مسلمانوں کی ۱۹۴۷ کی اپنی حالت کا مقابلہ آج کے مسلمانوں کی اپنی حالت سے کرنا ہوگا اس پر وہ خاموش ہوگئے۔
اصل یہ ہے کہ یہ سارا معاملہ کسی دوسرے کے ظلم کا نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کے اپنے غلط مزاج کا ہے اور وہ مزاج ناشکری کا مزاج ہے۔ اسی مزاج کی بنا پر آج یہ حالت ہے کہ ہر مسلمان ناشکری کی زبان بول رہا ہے، خواہ وہ ایسی شاندار زندگی گزار رہا ہو جس کا اس کے باپ دادا نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔
مثال کے طورپر موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کی بڑی بڑی جماعتیں اور ادارے قائم ہوئے ہیں۔ مگر کسی بھی جماعت یا ادارہ میں شکر خداوندی کا چرچا نہیں۔ مثال کے طورپر تبلیغی جماعت میں تعلیم کے لیے ایک ضخیم کتاب تبلیغی نصاب یا فضائل اعمال کوعام طورپر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کتاب میں کئی چیزوں کے فضائل پر ابواب موجود ہیں مگر اس میںفضائل شکر کا کوئی با ب نہیں۔ جماعت اسلامی میں (اسلام کے مکمل نظام) پر بہت سی کتابیں چھاپی گئی ہیں۔ مگر شکر خداوندی پر ان کے یہاں کوئی کتاب موجود نہیں۔ یہی حال دوسرے تمام اداروں کا ہے۔ مسلمانوں کے جلسوں میں دوسرے موضوعات پرجوشیلی تقریریں ہوتی ہیں۔ مگر میرے علم کے مطابق، شکر خداوندی کے موضوع پر کوئی تقریر نہیں ہوتی۔
میں اپنے تجربہ کے مطابق کہہ سکتا ہوں کہ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں سے سب سے بڑی چیز جو اٹھ گئی ہے وہ شکر خداوندی کی اسپرٹ ہے۔ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کی محرومی یہی ہے۔ اسی محرومی کا یہ نتیجہ ہے کہ اب ان کی زبان سے شکر کے کلمات نہیں نکلتے، ہر ایک بس ناشکری کے الفاظ بول رہا ہے۔ یہ بلا شبہہ ایک بے حد خطرناک علامت ہے۔ ہماری اصلاحی کوششوں کا نشانہ یہی داخلی کمزوری ہونا چاہیے نہ کہ کوئی بیرونی خطرہ۔
واپس اوپر جائیں

یہ نمبر موجود نہیں

آپ اگر اپنے ٹیلی فون پر کسی شخص کا نمبر ڈائل کریں اور کوئی غلط بٹن دب جائے تو آپ کی کال مطلوب شخص تک نہیں پہنچے گی۔ آپ کو دوسری طرف سے ہیلو کی آوازنہیں آئے گی بلکہ کمپیوٹرائزڈ سسٹم کے تحت یہ ہوگا کہ ٹیلی فون اکسچینج سے ریکارڈ کی ہوئی آواز سنائی دے گی۔ ۳۱ اکتوبر ۲۰۰۴ کو میرے ساتھ ایسا ہی ہوا۔ میںنے اپنے ٹیلی فون پر دہلی کے ایک صاحب کا نمبر ڈائل کیا۔ دوسری طرف سے یہ آواز سنائی دی—یہ نمبر موجود نہیںہے:
This number does not exist.
اکسچینج کی یہ آواز سن کر اچانک میرے ذہن میں خیالات کا ایک طوفان برپا ہوگیا۔ میںنے سوچا کہ اس مادی واقعہ میں ایک بہت بڑا روحانی سبق موجود ہے۔ وہ یہ کہ اگر کوئی انسان خدا سے ربط قائم کرنا چاہے اور وہ اپنے غلط ذہن کی بنا پر خدا کے سوا کسی اور کو اپنا خدا سمجھ بیٹھے اور خدا سمجھ کر اس کو پکارنے لگے تو اس کے ساتھ بھی یہی ہوگا کہ براہِ راست خدا کی طرف سے تو اس کو کوئی جواب نہیں ملے گا۔ البتہ ایک اور آواز اس کو سنائی دے گی جو اس سے کہہ رہی ہوگی کہ تم نے جس خدا کو پکارا ہے وہ خدا سرے سے موجود نہیں:
This God does not exist
خدا کی طلب انسان کی فطرت میں موجود ہے۔ ہر انسان پیدائشی طورپر خدا کو پانا چاہتا ہے۔ مگر تاریخ میں ہمیشہ یہ ہوا ہے کہ لوگوں نے وہ غلطی کی جس کو شرک کہا جاتا ہے۔ حقیقی خدا کو پالینے کا نام توحید ہے اور حقیقی خدا کے سوا دوسری چیز کو خدا کا درجہ دے کر اس سے قلبی تعلق قائم کرنا شرک ہے۔ حقیقی خدا سے رشتہ قائم ہونا انسان کے لیے سب سے بڑی رحمت ہے۔ جس عورت یا مرد کا رشتہ خدا کے ساتھ قائم ہوجائے اس کی زندگی میں ہدایت کا نور آجائے گا۔ اس کے اندر ربّانی شخصیت پیدا ہوگی۔ اس کو ذہنی ارتقاء کا اعلیٰ درجہ حاصل ہوگا۔ اس کے برعکس جو شخص شرک میں مبتلا ہو وہ اندھیروں میں بھٹکتا رہے گا۔
موجودہ زمانہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہر آدمی خدا کا نام لیتا ہے۔ ہر آدمی کسی نہ کسی چیز کو خدا کا درجہ دے کراس کو اپنا لیتا ہے۔ مگر جہاں تک خدا کی رحمت اور رباّنی شخصیت کا تعلق ہے، اس کا کہیں وجود نہیں۔ اس کا سبب واضح طورپر یہی ہے کہ لوگ غیرخداؤں کو اپنا خدا بنائے ہوئے ہیں۔وہ کسی نہ کسی غیر خدا کو ٹیلی فون کررہے ہیں۔ مگر جواب میں ہر ایک کے پاس یہ آواز آرہی ہے کہ جو نمبر تم نے ڈائل کیا ہے وہ نمبر موجود نہیں، جس کو تم خدا سمجھ کر پکاررہے ہو اس خدا کا کہیں وجود ہی نہیں، اس لیے تم کو اس کی طرف سے کوئی جواب بھی ملنے والا نہیں۔
یہی وہ حقیقت ہے جس کو قرآن میں اس طرح بیان کیا گیاہے:
سچا پکارنا صرف خدا کے لیے ہے۔ اور اس کے سوا جن کو لوگ پکارتے ہیں وہ ان کی اس سے زیادہ داد رسی نہیں کرسکتے جتنا پانی اس شخص کی کرتا ہے جو اپنے دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلائے ہوئے ہو تاکہ وہ اس کے منھ تک پہنچ جائے اور وہ اس کے منھ تک پہنچنے والا نہیں۔ اور منکرین کی پکار سب بے فائدہ ہے (الرعد ۱۴)
ہر آدمی کی یہ پہلی ذمہ داری ہے کہ وہ حقیقی خدا کو دریافت کرے اور پھر یہ معلوم کرے کہ اس خدا سے ربط قائم کرنے کا ذریعہ کیا ہے۔ اس دریافت کے بغیر انسانی زندگی نہ صرف نامکمل ہے بلکہ وہ یقینی طور پر تباہی کے انجام سے دوچار ہونے والی ہے۔ یہی کسی انسان کا سب سے بڑا مقصد ہے، یہی انسان کی جدوجہد کا سب سے بڑا نشانہ ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو انسانی زندگی کو بامعنی بناتی ہے۔ جس انسان کی زندگی اس دریافت سے خالی ہو وہ بلاشبہہ سب سے بڑا مفلس ہے، خواہ بظاہر اس نے مادی چیزوں کا ڈھیر اپنے گرد اکھٹا کرلیا ہو۔
مزید سنگین بات یہ ہے کہ کسی انسان کو یہ موقع صرف قبل ازموت مدت حیات میں ملتا ہے۔ بعد ازموت کی مدت حیات میں کسی انسان کو یہ موقع ملنے والا نہیں۔ انسان کے لیے اُس کے خالق کا بنایا ہوا قانون یہ ہے—موت سے پہلے کی زندگی میں کرنا، اور موت کے بعد کی زندگی میں صرف بھگتنا۔
واپس اوپر جائیں

ایک ملاقات

۲۶ جون ۲۰۰۴ کو جَین ٹی وی (نئی دہلی) میں ایک پینل ڈسکشن تھا۔ اس میں اَینکر کے علاوہ تین آدمیوں نے حصہ لیا۔ ان کے نام یہ ہیں، پروفیسر امتیاز احمد (جواہر لال نہرو یونیورسٹی) مسٹر ترن وجے (ایڈیٹر ہندی روزنامہ پانچ جنیہ) اور راقم الحروف۔ اس ڈسکشن کا موضوع ہندو تو اور مسلمان تھا۔
مسٹر ترن وجے نے کہاکہ ہندوتو کوئی مذہبی چیز نہیں، وہ بھارتیتہ کی پہچان ہے۔ اُس کا تعلق ہندو اور مسلمان سب سے ہے۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہندوتو کو سبھی فرقے اختیار کریں۔ مگر ہمارا یہ ارادہ نہیں کہ ہم اس کو دوسروں کے اوپر زبردستی امپوز (impose) کریں۔
میں نے کہا کہ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں۔ اصل یہ ہے کہ ہندوتو اگر آپ کا پرسنل ایجنڈہ ہو تو مجھ کو یا کسی کو اُس پر کوئی اعتراض (objection) نہ ہوگا۔ لیکن اگر آپ ہندوتو کو نیشنل ایجنڈا بنانا چاہیں تو یہ ایک قابلِ اعتراض بات ہوگی۔ کیوں کہ پرسنل ایجنڈا اور نیشنل ایجنڈا کا معاملہ ایک دوسرے سے الگ ہے۔ ہمارے ملک میں آزادی ہے۔ اس لیے آپ کسی بھی چیز کو اپنا پرسنل ایجنڈا بنا سکتے ہیں، بشرطیکہ وہ دوسروں کے لیے ضرر رساں (harmful) نہ ہو۔
مگر جہاں تک نیشنل ایجنڈا کی بات ہے، اس کو آپ صرف اپنی خواہش کے تحت نہیںمقرر کر سکتے۔ نیشنل ایجنڈا اسی چیز کی بنیاد پر بن سکتاہے جو دستورِ ہند میں تسلیم کیا گیا ہو، ملک کی پارلیمنٹ نے اس کے حق میں قانون وضع کیا ہو یا سپریم کورٹ نے اُس کے حق میں اپنا فیصلہ دیا ہو۔ آپ جانتے ہیں کہ ہندو تو کا لفظ صرف ایک پارٹی کا لفظ ہے۔ دستور یا پارلیمنٹ یا عدالت نے ابھی تک اُس کو سندِ جواز عطا نہیں کی۔ ایسی حالت میں اگر آپ ہندوتو کو نیشنل ایجنڈا بنانا چاہتے ہیں تو آپ کو سب سے پہلے ملک کے دستور کو بدلنا چاہیے۔ پارٹی کے اسٹیج سے اس پر تقریر کرنا کوئی معنٰی نہیں رکھتا۔
میں نے کہا کہ آپ کا یہ کہنا درست نہیں کہ آپ اس کو زبردستی امپوز کرنا نہیں چاہتے۔ ہندو تو جیسا ایک پروگرام کوئی سادہ پروگرام نہیں، وہ اپنے آپ میں اس کا طالب ہے کہ اس کو امپوز کیا جائے۔ پھر میں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ اجودھیا میں رام مندر بنانا بھی ہندوتو کے ایجنڈہ کا ایک حصہ تھا۔ پھر آپ نے وہاں کیا کیا۔ آپ نے وہی کیا جس کو ’’امپوز‘‘ کرنا کہتے ہیں۔ آپ لوگ ایک بھیڑ کی صورت میں اجودھیا میں گھس گئے اور ۶ دسمبر ۱۹۹۲ کو یہ کیا کہ بابری مسجد توڑ کر وہاں ایک عارضی مندر بنادیا۔ حالاں کہ یہ معاملہ ابھی تک عدالت میں زیرِ سماعت تھا۔ آپ لوگوں نے اجودھیا میںجو کچھ کیا اسی کا نام امپوز کرنا ہے۔
میں نے کہا کہ اگر آپ لوگ ہندوتو کی صداقت پر یقین رکھتے ہوں تو آپ لوگ اپنی ذاتی زندگی میں ضرور اس کو استعمال کریں۔ مگر نیشنل لائف میں اس کو نافذ کرنا دستور، قانون، عدالت، کسی بھی لحاظ سے درست نہیں۔ مزید یہ کہ آپ لوگوں کے لیے ہندوتو کا پروگر ام اب محض ایک نعرہ بن کر رہ گیا۔ آپ لوگوں کا پروگرام یہ تھا کہ ہندوتوکے نام پر ووٹ لے کر ملک میں حکومت بنانا اور ہندوتو کے اصول پر اُس کا نقشہ بدلنا۔
مگر انتخابات کا تجربہ بتاتا ہے کہ یہ آپ لوگوں کے لیے سرے سے ممکن نہیں۔ مئی ۲۰۰۴ کے الیکشن میں یہ بات آخری طورپر ثابت ہوچکی ہے کہ ہندوتو کا گروہ اس ملک میں اقلیت کی حیثیت رکھتا ہے۔سب لوگ جانتے ہیں کہ تعلیم یافتہ ہندو آپ لوگوں کی حمایت نہیں کرتے۔ نچلی ذات کے ہندو آپ کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں۔ مسلمان اور عیسائی آپ کو ووٹ دینے کے لیے تیار نہیں۔ ایسی حالت میں یہ ناممکن ہے کہ آپ پارلیمنٹ میں مطلق اکثریت میں آسکیں اور جب تک آپ کو مطلق اکثریت حاصل نہ ہو، ہندوتو کو نیشنل ایجنڈہ بنانا سرے سے ممکن ہی نہیں۔
میں نے کہا کہ مشہور انگریزی مقولہ ہے—سیاست ممکن کا کھیل ہے، وہ ناممکن کا کھیل نہیں:
Politics is the art of the possible.
یہ فطرت کا ایک اُصول ہے۔ کوئی بھی اس کو بدل نہیں سکتا۔ ایسی حالت میں کسی ناممکن اِشو کو لے کر اُس پر سیاست چلانا اپنا وقت بھی ضائع کرنا ہے اور دوسروں کا وقت بھی ضائع کرنا۔
واپس اوپر جائیں

ٹیلی فون سے خطاب

۲۷؍ جون ۲۰۰۴ کو امریکا میں مقیم کچھ مسلمانوں نے میرے ایک ٹیلی فونی خطاب کا انتظام کیا۔ میں نے دہلی میں اپنے آفس کے ٹیلی فون پر ایک تقریر کی اور اسی وقت اس کو امریکا کے شہر فلاڈلفیا کے اجتماع میں سنا گیا۔ یہ تقریباً ایک گھنٹہ کا پروگرام تھا۔ پہلے میں نے ۱۵ منٹ تقریر کی۔ اس کے بعد سننے والے ٹیلی فون پر سوال کرتے رہے اور میں ٹیلی فون پر اس کا جواب دیتا رہا۔ خطاب کے آغاز میں میں نے کہا کہ میں اپنی بات شکر خدا وندی کے جذبہ سے شروع کرتا ہوں۔ یہ جدید کمیونیکیشن بلا شبہہ ایک عظیم نعمت ہے جس نے اس بات کو ممکن بنایا کہ ایک شخص دہلی میں بولے اور عین اسی وقت امریکا میں اس کو سنا جارہا ہو۔
موجودہ زمانہ میں کمیونیکیشن کی طاقت کو زیادہ تر غیر مسلم قومیں استعمال کررہی ہیں، اس لیے اکثر مسلمان یہ سمجھنے لگے ہیں کہ جدید کمیونیکیشن در اصل گلوبلائزیشن (globlization) کا ایک ہتھیار ہے جس کے ذریعہ مسلم دشمن قومیں مسلمانوں کو اپنی غلامی میں جکڑ لینا چاہتی ہیں۔ یہ ایک بے شعوری کی بات ہے۔ جدید کمیونیکیشن کی حیثیت ایک طاقت کی ہے، جو بھی چاہے اس کو اپنے حق میں استعمال کرسکتا ہے۔
پھر میںنے کہا کہ اس وقت میں جہاد کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں کیوں کہ جہاد آج کل بہت زیادہ نیوز میں ہے۔ عام طورپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ جہاد کے معنٰی جنگ کے ہیں، مگر یہ درست نہیں۔ جنگ کے لیے قرآن میں قتال کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ جہاد کے لفظی معنٰی کوشش یا جدوجہد کے ہیں۔ جہاد دراصل اس پر امن جدوجہد کا نام ہے جو کسی اعلیٰ مقصد کے حصول کے لیے کیا جائے۔ جہاد عبادت کی طرح ایک مسلسل عمل ہے۔ جب کہ قتال صرف ایک وقتی کارروائی ہے جو خارجی حملہ کی صورت میں دفاع کے لیے کیا جائے۔
حدیث میں آیا ہے کہ جہاد اسلام میں چوٹی کا عمل ہے (وذروۃ سنامہ الجہاد) اس حدیث کی روشنی میں غور کیجئے تو جہاد کبھی متشددانہ عمل کا عنوان نہیں ہوسکتا۔ جہاد کی عظمت تقاضا کرتی ہے کہ وہ ایک مثبت عمل ہے نہ کہ منفی عمل۔ حقیقت یہ ہے کہ عقل عام ہی یہ جاننے کے لیے کافی ہے کہ جہاد کی متشددانہ تعبیر درست نہیں:
Common sense is enough to understand that militant interpretation of Jihad is incorrect.
قرآن کے مطالعہ سے جہاد کے دو مثبت پہلو معلوم ہوتے ہیں۔ ایک کو قرآن میں جہاد فی اللہ (Jihad in God) کہا گیا ہے اور دوسرے کو جہاد فی سبیل اللہ (Jihad for the sake of God) بتایا گیا ہے۔ یہ دونوں مثبت عمل ہیں، اور اصلاً انہیں کا نام جہاد ہے۔
جہاد فی اللہ (اللہ میں جہاد) کیا ہے۔ یہ وہی چیز ہے جس کو قرآن میں دوسری جگہ اپنے آپ کو اللہ کے رنگ میں رنگنا بتایاگیا ہے: صبغۃ اللہ ومن احسن من اللہ صبغۃ- یعنی اپنی زندگی کو خدا کی پسند میں ڈھالنا۔ اپنی سوچ کو خدا رخی سوچ (God-oriented thinking) بنانا۔ اللہ کو معرفت کے درجہ میں حاصل کرنے کے لیے فکری عمل کرنا۔ اپنے جذبات اور احساسات کوخدا کے تابع بنانے کے لیے محنت کرنا۔ اپنے اوپر تزکیہ کا عمل جاری کرنا۔ خدا کے ساتھ خوف شدید اور حب شدید کا تعلق قائم کرنا۔ اپنے کنڈیشنڈ مائنڈ کی ڈی کنڈیشننگ (de-conditioning) کرنا۔ اپنے اندر اس شخصیت کی تعمیر کرنا جس کو قرآن میں نفس مذکی یا نفس مطمئن کہا گیا ہے۔ دنیا کی مشغولیتوں میں رہتے ہوئے خدا اور جنت کا طالب بن جانا۔
یہ جہاد بلا شبہہ ایک مشکل ترین عمل ہے۔ یہ اپنی نئی تخلیق کے ہم معنٰی ہے۔ اسی لیے اس کو بڑا جہاد بتایا گیا ہے۔ پیغمبر اسلام نے ایک بار اپنے دشمنوں کے خلاف اقدام کیا۔ آپ اس سے واپس ہو کر مدینہ پہنچے تو آپ نے فرمایا: رجعنا من الجہاد الأصغر إلی الجہاد الأکبر۔ یعنی ہم چھوٹی جدوجہد سے واپس ہو کر بڑی جدوجہد کی طرف آئے ہیں۔
اس حدیث کے مطابق، بڑا جہاد اس عمل کا نام ہے جواس وقت مدینہ میں انجام دیا جاتا تھا۔ یہ عمل کیا تھا۔ وہ تھا پیغمبر اسلام سے نصیحت لینا، قرآن کا مطالعہ کرنا، ذکر و عبادت میں مشغول رہنا، اجتماعی زندگی کی غلطیوں کو یک طرفہ برداشت کرنا۔
جہاد فی سبیل اللہ (اللہ کے راستہ میں جہاد کرنا) کیا ہے۔ یہ قرآن کی ایک آیت سے معلوم ہوتا ہے۔ ارشاد ہوا ہے: وجاہدہم بہ جہاداً کبیراً۔ یعنی ان کے اوپر قرآن کے ذریعہ بڑا جہاد کرو۔ یعنی قرآن کو لوگوں تک پہنچانے میں ان کی مدد کرو۔ ظاہر ہے کہ قرآن کوئی ہتھیار نہیں، وہ عقیدہ اور نظریہ کی ایک کتاب ہے۔ ایسی حالت میں قرآن کے ذریعہ جہاد کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کی فکر کو لوگوں تک پہنچاؤ۔ چنانچہ پیغمبر اسلام کی دعوتی سرگرمی کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ آپ لوگوں کے پاس جاتے اور ان کو قرآن پڑھ کر سناتے (فأعرض علیہم الاسلام و تلا علیہم القرآن) یہ دونوں قسم کے جہاد سخت محنت کے طالب ہیں۔ مثلاً اگر آپ نفس مطمئن بننے کا فیصلہ کریں تو آپ کو زبردست جدوجہد کے مرحلہ سے گزرنا ہوگا،کیوں کہ زندگی میں ہر لمحہ لوگوں کی طرف سے تلخ تجربات پیش آتے ہیں۔ ایسی حالت میں ضروری ہوتا ہے کہ آدمی اپنے آپ کو منفی نفسیات سے بچائے اور ہر حال میں اپنے آپ کو مثبت نفسیات پر قائم رکھے۔ ایسا زبردست جدوجہد کے بغیر نہیں ہوسکتا۔
دعوتی جہاد بھی بلاشبہہ ایک بے حد مشکل عمل ہے۔ دعوتی عمل ان لوگوں پر انجام دینا پڑتا ہے جو اکثر اہل اسلام کو اپنے دشمن کے روپ میں نظر آتے ہیں۔ ایسی حالت میں دعوت کاعمل دشمن کے ساتھ یک طرفہ محبت و شفقت کے سلوک کے ہم معنٰی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک ایسا عمل ہے جو عظیم جدوجہد کے بغیر نہیں ہوسکتا۔
جہاں تک قتال (جنگ) کا تعلق ہے، وہ صرف ایک مقصد کے لیے پیش آتا ہے، اور وہ ہے، جارحانہ حملہ کے وقت دفاعی مقابلہ کرنا۔ اسلام میں قتال کی بہت سی شرطیں ہیں۔ ان شرطوں کے بغیر جو قتال کیا جائے وہ اسلام کا جائزکردہ قتال نہیں۔ اس کی لازمی شرط یہ ہے کہ صرف باقاعدہ طورپر قائم شدہ حکومت ہی جنگ کا اعلان کرسکتی ہے۔ غیر حکومتی تنظیموں کو ہر گز جنگ کرنے کی اجازت نہیں۔ اگر کسی شخص یا جماعت کو یہ احساس ہو کہ جنگ کرنا ضروری ہوگیا ہے تو وہ صرف یہ کرسکتا ہے کہ حکومت وقت سے جنگی اقدام کے لیے کہے اور اپنے آپ کو مکمل طورپر امن کے حدود میں قائم رکھے۔ جنگ کے لیے اسلام نے جو شرطیں مقرر کی ہیں ان کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ناگزیر حالت میں صرف دفاعی جنگ جائز ہے۔ جنگ کی دوسری قسمیں مثلاً گوریلا وار، پرا کسی وار، بلا اعلان وار اور جارحانہ وار اسلام میں ہرگز جائز نہیں۔
اسلام کا اقدامی عمل دعوت ہے نہ کہ جنگ۔ اسلام کا نشانہ انسان کو زندگی دینا ہے۔ انسان کو جہنم سے بچا کر جنت کا راستہ دکھانا ہے۔ انسان کو غیر خدا پرستی سے نکال کر خدا پرستی کی طرف لانا ہے۔ انسان کے اندر وہ اعلیٰ صفات پیدا کرنا ہے جو اس کو جنت میں داخلہ کا مستحق قرار دے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کا اقدامی عمل کامل طورپر ایک تعمیری عمل ہے اور کوئی تعمیری عمل صرف پر امن ذرائع سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔
خطاب کے آخر میں سوال و جواب کا پروگر ام تھا۔ سامعین نے ٹیلی فون پر سوالات کئے اور میں نے ٹیلی فون پر ان کے جوابات دئے۔ ایک سوال یہ تھا کہ حال میں مجاہدین نے عراق وغیرہ میں کچھ لوگوں کو پکڑا۔ انہوںنے ان کوچند دن یرغمال بنا کر رکھا اور پھر ان کے سر کاٹ کر انہیں ہلاک کردیا۔ ان واقعات کی رپورٹیں تصویر کے ساتھ مغربی میڈیا میں کثرت سے آئی ہیں اور ان کی وجہ سے لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ اسلام ایک وحشیانہ مذہب ہے۔ میں نے کہا کہ اس طرح یرغمال بنانا اور گن یا تلوار کے ذریعہ انہیں ہلاک کرنا سراسر ایک حرام فعل ہے۔ اسلام کے نام پر کرنے کی وجہ سے ایسا عمل جائز نہیں ہوسکتا۔ اسلام میں سزا کا معاملہ مکمل طورپر ایک عدالتی معاملہ ہے۔ عدالت کے سوا کسی دوسرے کو ہرگز یہ حق نہیں کہ وہ بطور خود کسی کو مجرم قرار دے کر اس کی گردن کاٹے یا اس کو گولی مار دے۔ عدالتی سزا کے لیے بھی شہادت ضروری ہے۔ کوئی شخص اگر جرم کا فعل کرتا ہے تو وہ عدالت کے سامنے پیش ہوگا۔ معاملہ کی تحقیق اور گواہوں کی گواہی کے بعد عدالت اپنا فیصلہ دے گی۔ اور حکومت اس کو طاقت کے ذریعہ نافذ کرے گی۔ اسلام میں جرم پر سزا کی اس کے سوا اور کوئی صورت نہیں۔
ایک صاحب نے اس فلسطینی تحریک کے بارے میں سوال کیا جس کو انتفاضہ (resurgence) کہا جاتا ہے۔ سوال یہ تھا کہ اسلامی نقطۂ نظر سے اس تحریک کا حکم کیا ہے۔ میں نے کہا کہ انتفاضہ کی موجودہ تحریک میرے نزدیک ایک غیر اسلامی تحریک ہے۔ یہ تحریک متشددانہ طریق کار کے اصول پر قائم ہے۔ یہی چیز اس کو غیر اسلامی بنا دیتی ہے۔ کیوں کہ کسی قومی یا سیاسی مقصد کے لیے ہتھیار اٹھانا صرف ایک قائم شدہ حکومت کے لیے جائز ہے۔ غیر حکومتی افراد یا تنظیموں کے لیے یہ جائز ہی نہیں کہ وہ کسی کو دشمن قرار دے کر اس کے خلاف ہتھیار اٹھائیں۔ اور جیسا کہ معلوم ہے، انتفاضہ کی تحریک غیرحکومتی افراد چلا رہے ہیں نہ کہ کوئی قائم شدہ حکومت۔
انتفاضہ سے وابستہ لوگوں کے لیے یہ راستہ کھلاہوا ہے کہ وہ اپنے مقصد کے لیے پر امن تحریک چلائیں مگر کسی بھی عذر کی بنا پر ہتھیار اٹھانا ان کے لیے جائز نہیں۔
واپس اوپر جائیں

ایک خط

محترمہ صوفیہ حیدر السلام علیکم ورحمۃ اللہ
آپ کا خط مورخہ ۲۳ جنوری ۲۰۰۵ ملا۔ آپ کے حالات معلوم ہوئے۔ اللہ تعالیٰ ہر طرح آپ کی مدد فرمائے اور آپ کے کل کوآپ کے آج سے بہتر بنائے۔
زندگی ایک امتحان ہے۔ زندگی ہر ایک کے لیے وہی ہے جو کسی دوسرے کے لیے ہے۔ زندگی کو خوشگوار بنانے کا راز یہ نہیں ہے کہ ناخوشگواریوں کا خاتمہ ہوجائے۔ بلکہ اس کا راز یہ ہے کہ آدمی ناخوشگواریوں میں جینا سیکھ لے۔ وہ منفی تجربات کو مثبت سبق میں ڈھال لے۔
یہی الرسالہ مشن کا مقصد ہے۔ الرسالہ کاکوئی بھی شمارہ پڑھئے تو آپ کواس میں یہی میسج ملے گا۔ مثال کے طورپر الرسالہ دسمبر ۲۰۰۴ کے صفحہ اول پر یہ پیغام درج تھا:
’’ماضی کی تلخ یادوں کو بھلانا ہی مستقبل کی طرف کامیاب اقدام کی پہلی شرط ہے‘‘۔
مجھے آپ کے حالات کا صحیح اندازہ نہیں۔ مگر ایک عمومی بات یہ ہے کہ زندگی ہر ایک کے لیے دوسرے موقع (second chance) کو استعمال کرنے کا نام ہے۔ اس دنیا میں ہر آدمی پہلے موقع کو کھوتا ہے۔ جو شخص پہلے موقع کو سبق میں ڈھال سکے وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ دوسرے موقع کو کامیابی کے ساتھ استعمال کرسکے ۔الرسالہ ایک اعتبار سے فطرت کے ابدی قانون کا تعارف ہے۔ اور فطرت کا قانون یہ ہے کہ اس دنیا میں ہر عسر کے ساتھ یسر لگا ہوا ہے۔ اس دنیا میں کوئی بھی عسر اتنا بڑا نہیں کہ وہ یسر کے امکانات کو یکسر ختم کردے۔میں عرض کروں گا کہ آپ کسی بھی حال میں ہمت نہ ہاریں۔ آپ اپنے ذہن کی طاقتوں کو پھر سے مجتمع کریں۔ آپ اپنی زندگی کی از سرِنو منصوبہ بندی کریں۔ جب آپ ایسا کریں گی تو مجھے یقین ہے کہ آپ اپنے حالا ت میں نئے امکانات کو دریافت کرلیں گی۔ آپ ایک ایسا نقطۂ آغاز پالیں گی جس سے چل کر آپ دوبارہ اپنی مطلوب منزل تک پہنچ سکیں۔
نئی دہلی، ۳۱ جنوری ۲۰۰۵ وحید الدین
ایک خط
برادر محترم عبد السلام اکبانی صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ
آپ کے وطن ناگپور سے ایک کتاب شائع ہوئی ہے۔ اس کا نام یہ ہے: ’’حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی صاحب عرف علی میاں صاحب کے خطوط حضرت مولانا عبد الکریم پاریکھ صاحب کے نام‘‘۔
۳۹۳ صفحات کی یہ کتاب ستمبر ۱۹۹۹ میں چھپی ہے۔ اس مجموعہ میں مولانا ابو الحسن علی ندوی کے ۲۲۱ خطوط شامل ہیں۔ اس کے خط نمبر ۱۱۳ میں راقم الحروف کی کتابوں کے بارے میں منفی رائے دیتے ہوئے تحریر ہے:
میں یہ خط اس ضرورت سے بھی لکھ رہا ہوں کہ میرے پاس حیدر آباد سے ایک فہیم و سنجیدہ دوست کا خط آیا ہے کہ ’’ندوۃ ایجنسی‘‘ کے نام سے سیدجمیل الدین صاحب کی طرف سے جو اشتہار شائع ہوا ہے اس کا تعارف کرایا گیا ہے۔ اس میں میری کتابوں کے علاوہ جہاں بعض اور دوسرے حضرات کی تصنیفات کا تذکرہ ہے ان میں مولوی وحید الدین خاں کی کتابوں کے دستیاب ہونے کا بھی اعلان ہے۔ میں سید جمیل الدین صاحب کو براہِ راست نہیں لکھنا چاہتا۔ آپ اشارہ کردیں کہ مولوی وحیدالدین خاں صاحب کے بہت سے خیالات سے اتفاق نہیں، ہماری اور ان کی کتابوں کا جوڑ نہیں۔ اس لیے آئندہ سید جمیل الدین صاحب اس کا لحاظ رکھیں، آپ اپنے انداز میں مناسب طریقہ سے لکھ دیجئے گا۔ مجھے مولوی وحید الدین خاں صاحب سے کوئی ذاتی خصومت نہیں۔ لیکن ان کے خیالات میں سخت ناہمواری اور بے اعتدالی ہے اور سلف و مجاہدین و شہدائے اسلام سے بدعقیدگی پیدا ہوتی ہے‘‘۔ (صفحہ ۲۰۴)
مولانا سید ابو الحسن علی ندوی کی اس بات پر مجھے کوئی ذاتی شکایت نہیں البتہ اس کو پڑھ کر تعجب ضرور ہوا۔ یہ الفاظ اس بات کا ثبوت ہیں کہ حضرت مولانا اس چیز سے کس قدر محروم تھے جس کو حدیث میں بصیرت زمانہ کہاگیا ہے۔ حضرت مولانا یہ چاہتے ہیں کہ لوگ ہمارے ادارہ کی کتابوں کو نہ پڑھیں۔ حالاں کہ اب وہ زمانہ آچکا ہے کہ لوگ صرف ہمارے ادارہ ہی کی کتابیں پڑھنا چاہتے ہیں۔ حضرت مولانا کے مذکورہ الفاظ تاریخ کے دھارے سے ٹکرانے کے ہم معنٰی ہیں۔ حالانکہ کوئی بھی شخص اتنا طاقتور نہیں کہ وہ تاریخ کے دھارے سے ٹکرا سکے۔
یہ بلا شبہہ نہایت اہم بات ہے۔ کوئی شخص آج اس حقیقت سے انکار کرسکتا ہے۔ مگر عنقریب وہ وقت آنے والا ہے جب کہ یہ حقیقت اتنی زیادہ مبرہن ہوچکی ہوگی کہ اس کو نہ ماننا خود اپنی بے خبری کے اشتہار کے ہم معنٰی بن جائے گا۔
اصل یہ ہے کہ سلطان ٹیپو سے لے کر یاسر عرفات تک کازمانہ وہ زمانہ تھا جب کہ ساری دنیا کے مسلمانوں پر جہاد (بمعنیٰ قتال) کا نقطۂ نظر چھایا ہوا تھا۔ ساری دنیا کے مسلمان یہ سمجھتے تھے کہ مسلح جہاد ہی مسلمانوں کے مسئلہ کا واحد حل ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، ہر عمل کو جاری رکھنے کے لیے اس کی پشت پر ایک ایسا لٹریچر درکار ہوتا ہے جو اس کے لیے فکری تائید کا کام کرے۔ پچھلے زمانہ میں پیدا ہونے والا جہادی لٹریچر یہی کام کررہا تھا۔ اس بنا پر مسلمانوں کے درمیان اس کو عمومی مقبولیت حاصل ہوئی۔
مگر اب عسکریت پسندی کا یہ دور ختم ہوگیا۔ اس لیے اب وہ لٹریچر بھی غیر متعلق (irrelevant) بن چکا ہے جو مسلح جہاد کے لیے فکری جواز (ideological justification) فراہم کررہا تھا۔ شہدائے سیاست کو ماڈل بنا کر جو نام نہاد انقلابی لٹریچر تیار کیا گیا تھا وہ حالات کی تبدیلی کے بعد اب ایک فرسودہ (obsolete) لٹریچر کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔
مسلح جہاد کی مکمل ناکامی کو دیکھ کر ا ب ساری دنیا کے مسلمانوں میں ایک نیا ذہن ابھرا ہے۔ یہ امن پسندی کا ذہن ہے۔ اب ساری دنیا کے مسلمان مسلح طریق کار کو چھوڑ کر پر امن طریق کار کو اپنا رہے ہیں۔ اس تبدیلی کا ثبوت پوری مسلم دنیا میں دیکھا جاسکتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اب ساری دنیا کے مسلمانوں کو ایک نئے لٹریچر کی ضرورت ہے۔ ایک ایسا لٹریچر جو پر امن طریق عمل کے حق میں فکری تائید فراہم کرتا ہو۔ یہ ایک معلوم بات ہے کہ ہمارے ادارہ نے جو لٹریچر تیا رکیا ہے وہ عین یہی لٹریچر ہے۔ وہ پر امن طریق عمل کے حق میں طاقتور فکری تائید کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایسی حالت میں ہمارے ادارہ کی مطبوعات وقت کی مانگ کا جواب ہیں۔ اور جوچیز وقت کی مانگ کا جواب ہو اس کو کسی مخالف کی مخالفت یا کسی مفتی کا فتویٰ لوگوں تک پہنچنے سے روک نہیں سکتا۔
اس سلسلہ میں دوسری اہم بات یہ ہے کہ حضرت مولانا علی میاں نے راقم الحروف کی کتابوں کے بارہ میں جو منفی رائے دی ہے وہ مکمل طورپر بلا دلیل ہے۔ میرے علم کے مطابق، حضرت مولانا نے نہ اس مجموعۂ خطوط میں اور نہ اپنی کسی دوسری تحریر میں یہ بتایا ہے کہ میرے کون سے خیالات ہیںجوان کے نزدیک غلط ہیں اور وہ کس دلیل کی بنیاد پر غلط ہیں۔ حضرت مولانا کی یہ روش یقینی طورپر غیر اسلامی ہے۔
اس دنیا میں ہر شخص کو آزادی حاصل ہے۔ رسول اور اصحابِ رسول کے بعد کسی بھی شخص پر تنقید کی جاسکتی ہے۔ مگر ناقد کے لیے فرض کے درجہ میں ضروری ہے کہ وہ اپنی تنقید کے حق میں باقاعدہ حوالہ دے اور دلیل کے ذریعہ اُس کو برحق ثابت کرے۔ مدلل تنقید بلا شبہہ ایک جائز فعل ہے لیکن غیر مدلل تنقید یقینی طورپر جائز نہیں۔ حدیث کے مطابق، ایک مسلمان کی عِرض دوسرے مسلمان پر حرام ہے (کل المسلم علی المسلم حرام، دمہ ومالہ وعرضہ) مذکورہ قسم کی غیر مدلل تنقید بلا شبہہ ایک مسلم کی عِرض پر حملہ ہے۔ حضرت مولانا کا مذکورہ مکتوب اسی محرم فعل کے ارتکاب کے ہم معنٰی ہے۔ اس معاملہ میں کوئی بھی توجیہہ اس کے جواز کے لیے کافی نہیں ہوسکتی۔
نئی دہلی ، ۳۱ جنوری ۲۰۰۵ وحید الدین
واپس اوپر جائیں

خبر نامہ اسلامی مرکز ۱۶۹

۱۔ کیرالا کے شانتی گری آشرم کی طرف سے کوٹایم (Kottayam) میںایک انٹرنیشنل سیمینار ہوا۔ اس کا موضوع امن اور روحانیت تھا۔ اس میں سابق صدر مسٹر کے آر نارائنن بھی شریک ہوئے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور وہاں کے اجلاس میں حصہ لیا۔ یہ سیمینار ۳۔۵ جنوری ۲۰۰۵ کو منعقد کیا گیا۔ اس سفر کی روداد انشاء اللہ الرسالہ میں شائع کردی جائے گی۔
۲۔ انڈین ایکسپریس نئی دہلی کے نمائندہ اروناوا داس گپتا (Arunava Dasgupta)نے ۷ جنوری ۲۰۰۵ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر حج کے مقصد کے بارہ میں تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ حج کا مقصد انسانی اور روحانی بنیاد پر لوگوں کا اتحاد ہے۔
۳۔ سب ٹی وی(نئی دہلی) کے تحت ۱۰ جنوری ۲۰۰۵ کو ان کے اسٹوڈیو میں جَن سنسد کا پروگرام ہوا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ اس کا موضوع یہ تھا: فیملی پلاننگ اور اسلام۔ انہوں نے بتایا کہ اسلام میں زندگی کو ختم کرنا حرام ہے خواہ وہ بعد از وضع حمل ہو یا قبل از وضع حمل۔ مگر جہاں تک منع حمل کی تدابیر کا تعلق ہے، وہ اسلام میں جائز ہے۔
۴۔ انڈیا ٹی وی (نئی دہلی) نے ۱۲ جنوری ۲۰۰۵ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو ریکارڈ کیا۔ انٹرویور مسٹر موہن مشرا تھے۔ سوالات کا تعلق عورتوں کے مسجد میں نماز پڑھنے سے تھا۔ جواب میں بتایا گیا کہ مردوں کے لیے مسجد میں جاکر نماز پڑھنا ضروری ہے۔ مگر عورتوں کے لیے مسجد میں نماز پڑھنا اختیاری ہے۔ اس معاملہ میں عورتوں پر کوئی پابندی نہیں۔ مزید بتایا گیا کہ مکہ اور مدینہ کی مسجدیں جو نمائندہ مساجد کی حیثیت رکھتی ہیں وہاں روزانہ پانچ وقت مسلم خواتین آکرجماعت کے ساتھ نماز پڑھتی ہیں۔
۵۔ ٹیڈ سیونسن(Ted Sevensson) سویڈن کے رہنے والے ہیں۔ وہ لندیونیورسٹی (Lund University) میں ایک ریسرچ اسکالر ہیں۔ اُن کی ریسرچ کا موضوع یہ ہے:
Muslim Identity in India
۱۳ جنوری ۲۰۰۵ کو انہوں نے اس سلسلہ میں صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کی اور اپنے موضوع پر ان کا تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ انٹرویو کے دوران بتایا گیا کہ انڈیا میں مسلمانوں کا مستقبل نہ صرف محفوظ ہے بلکہ یہاں وہ ترقی کررہے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ انڈیا کے مسلمانوں پر برطانی مؤرخ آرنلڈ ٹوائن بی کا نظریہ منطبق ہوتا ہے۔ غیر مسلم اکثریت ان کے لیے ایک نعمت ہے۔ کیوں کہ اس بنا پر وہ چیلنج کی حالت میں ہیں اور اس چیلنج کی بنا پر وہ دن بدن تخلیقی اقلیت(creative minority) بن رہے ہیں۔ آخر میں ان کو مندرجہ ذیل کتاب دی گئی:
Indian Muslims: A Positive Outlook
۶۔ سائی بابا انٹر نیشنل سنٹر (نئی دہلی) میں ۱۸ جنوری ۲۰۰۵ کو ایک پروگرام ہوا۔ اس کے تحت نوودے ودیالیہ اسکولوں کے پرنسپل اکھٹاہوئے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے وہاں خطاب کیا۔ ان کے خطاب کا عنوان یہ تھا:
Basic Human Values in Islam
انہوں نے اس موقع پرآدھ گھنٹہ تقریر کی اور اس کے بعد سوال و جواب کا پروگرام ہوا۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں بتایا گیا کہ اسلام میں بنیادی انسانی اقدار کی تعلیمات کیا ہیں۔ شرکاء کے درمیان اسلامی مرکز کی دعوۃبک لٹ تقسیم کی گئیں۔
۷۔ مسٹر عبد اللہ نعیم ابراہیم مالدیپ کے رہنے والے ہیں۔ وہ آفاتھس (Aafathis)ڈیلی نیوز کے مینیجنگ ایڈیٹر ہیں۔ انہوں نے ۱۸ جنوری ۲۰۰۵ کو صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کی۔ گفتگو کا موضوع یہ تھا کہ اسلامی مرکز کے لٹریچر کو کس طرح مالدیپ کی زبان میں منتقل کیا جائے۔ انہوں نے بتایا کہ عرصہ سے وہ الرسالہ اور الرسالہ مطبوعات کے مضامین مالدیپی زبان میں شائع کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اب وہ اسلامی مرکز کی کچھ کتابوں کا مالدیپی زبان میں ترجمہ چھپوانے کا انتظام کررہے ہیں۔
۸۔ فرنچ نیوز ایجنسی (AFP) نئی دہلی، کی نمائندہ پینی میکرا (Peni Macrae) نے ۱۸ جنوری ۲۰۰۵ کو ٹیلی فون پر صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ یہ انٹرویو گودھرا کے حادثہ کے بارے میں تھا۔ ایک سوال یہ تھا کہ بنرجی کمیشن کی رپورٹ سے گودھرا حادثہ کے بارے میں جو لوگ ماخوذ ہیں کیا ان کو اس سے فائدہ پہنچے گا۔ اس کے جواب میں کہا گیا کہ انڈیا میں عدالتی فیصلے زیادہ ترٹیکنیکل گراؤنڈ پر ہوتے ہیں اور ٹیکنیکل گراؤنڈ میں اتنی گنجائش ہوتی ہے کہ کوئی بھی فیصلہ خلاف توقع نہیں۔ اس لیے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کمیشن کی رپورٹ کا کتنا اثر عدالتی فیصلہ پر پڑے گا۔
۹۔ سمیاودیا وہار (Somaiya Vidyavihar) کی طرف سے بمبئی میں ۲۰، ۲۱، ۲۲ جنوری ۲۰۰۵ کو ایک کانفرنس ہوئی۔ اس کانفرنس کا موضوع یہ تھا:
Religions as Instruments of Social Transformation
اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکزنے اس میں شرکت کی اور اسلام کی روشنی میں موضوع پر اظہار خیال کیا۔ اس سفر کے موقع پر بہت سے ہندوؤں اور مسلمانوں سے ملاقاتیں ہوئیں اور ملک و ملت کے مسائل پر ان سے تبادلۂ خیال کیا گیا۔
۱۰۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی اور ٹمپل آف انڈر اسٹینڈنگ کے تعاون سے نہرو یونیورسٹی میں ۲۴ جنوری ۲۰۰۵ کو ایک سیمینار ہوا۔ اس میں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد شریک ہوئے۔ اس کا عنوان تھا:
Interfaith Harmony and Social Cohesion
اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور مذکورہ موضوع پر ایک تقریر کی۔ ان کی تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ سماجی اتحاد کا فارمولا یہ نہیں ہے کہ مذہبی اختلاف کو مٹایا جائے بلکہ اس کا قابل عمل فارمولا صرف یہ ہے کہ لوگوں کے اندر باہمی احترام کا مزاج پیدا کیاجائے، یعنی:
Follow one and respect all
۱۱۔ زی ٹی وی (نئی دہلی) اور اسٹار ٹی وی نے ۴ فروری ۲۰۰۵ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ دونوں کا موضوع ایک تھا۔ پٹنہ ہائی کورٹ نے ہائی کورٹ کی بلڈنگ سے قریب کی ایک مسجد کے بارے میں حکم جاری کیا تھا کہ ظہر اور عصر کی نماز کے لیے وہاں لاؤڈاسپیکر پر اذان نہ دی جائے کیوں کہ اس کی آواز سے ہائی کورٹ کے کام میں خلل پڑتا ہے۔ اس پر پٹنہ کے مسلمانوں نے مظاہرے کیے۔ اس مسئلہ پر اظہار خیال کرتے ہوئے صدر اسلامی مرکز نے کہا کہ انڈیا ایک سیکولر کنٹری ہے۔ یہاں کے مسلمانوں کو یہاں کے قانون کی اسی طرح پابندی کرنا چاہیے جس طرح وہ دنیا کے دوسرے سیکولر ملکوں میں قانون کی پابندی کرتے ہیں۔ اولاً تو اذان کے لیے لاؤڈ اسپیکر کا استعمال اسلام سے کوئی تعلق نہیں رکھتا اور اگر بالفرض وہ ضروری ہو تو اس کا نفاذ مسلم ملکوں میںکیا جانا چاہیے نہ کہ سیکولر ملکوں میں۔
۱۲۔ جے پور میں ۱۲۔ ۱۳ فروری ۲۰۰۵ کو ایک انٹرنیشنل سیمینار ہوا۔ اس کا انعقاد مائی ہندستان اے پیس موومنٹ(My Hindustan A Peace Movement) کی طرف سے کیا گیا تھا۔ اس سیمینار کا موضوع امن اور فرقہ وارانہ اتحاد اور حب الوطنی کو فروغ دینا تھا۔ صدر اسلامی مرکز کو اس میں خصوصی مقرر کی حیثیت سے شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ مگر بعض اسباب سے وہ اس میں شریک نہ ہوسکے۔ البتہ اُنہوں نے ایک پیغام بھیج دیاجو سیمینار میں پڑھ کر سُنایا گیا۔ وہ پیغام یہ تھا:
میرے نزدیک بھارت کے مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ صرف ایک ہے اور وہ Separatist Tendency ہے۔یہ tendency ٹو نیشن ـتھیوری کے نتیجہ میں پیدا ہوئی۔ مہاتما گاندھی نے اس با ت کو بھر پور طورپر محسوس کیا تھا۔ چنانچہ آزادی کے وقت انہوں نے کہا تھا:
Hindus and Musalmans should learn to live together in peace and harmony. Otherwise I should die in the attempt
میںنے اپنی زندگی کو اسی مشن کے لیے وقف کررکھا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ بھارت کی ہر سنستھا کو چاہیے کہ وہ اس کو پوری اہمیت کے ساتھ لے۔ ہندوؤں اور مسلمانوں میں میل ملاپ سارے معاملہ کی جڑ ہے۔ میں مسلمانوں کو یہ پیغام دیتا رہا ہوں کہ وہ negative thinking کو مکمل طورپر ختم کردیں اور صد فی صد positive thinking کو اپنائیں۔ یہی مسلمانوں کے لیے اچھا ہے۔ یہی تمام فرقوں کے لیے اچھا ہے اور یہی ملک کے لیے اچھا ہے۔ ہمارا مستقبل سب سے زیادہ جس چیز سے جڑا ہوا ہے وہ یہی ہے۔ اسی سوچ سے سچی حب الوطنی پیدا ہوگی۔اسی سوچ سے سارے معاملات درست ہوں گے۔ (۱۱ فروری ۲۰۰۵ )
۱۳۔ جاپان فاؤنڈیشن کے تحت ۱۷۔۲۰ فروری ۲۰۰۵ کو بنارس میںایک سیمینار منعقد کیا گیا۔ اس میں انڈیا او رجاپان کے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد شریک ہوئے۔ اس موقع پر ڈسکشن کا موضوع یہ تھا:
Changing Dynamics of Hinduism and Islam
صدر اسلامی مرکز کو اس سیمینار میںشرکت کی دعوت دی گئی تھی مگر وہ بعض وجوہ سے اس میں شریک نہ ہوسکے۔ البتہ موضوع پر دو صفحہ کی ایک تحریر انہیں بھیج دی گئی جس کو سیمینار میںپڑھ کر سنایا گیا۔
۱۴۔ ای ٹی وی (نئی دہلی) کی ٹیم نے ۲۰ فروری ۲۰۰۵ کو صدر اسلامی مرکز کاانٹرویو لیا۔ ۱۰ محرم کو لکھنؤ میں تعزیہ کے جلوس کے سلسلہ میں شیعہ۔ سنّی جھگڑا ہوگیا۔ اس میں کچھ افراد مارے گئے۔ یہ انٹرویو اسی کے بارے میں تھا۔ جواب میں بتایا گیا کہ تعزیہ کے جلوس کے سوال پر اکثر فساد ہوتا ہے۔ یہ سراسر غیر اسلامی ہے۔ اس مسئلہ کا حل یہ نہیں ہے کہ جلوس کو بند کرنے یا اس کی روٹ بدلنے کا مطالبہ کیا جائے۔ اس مسئلہ کا حل صرف ایک ہے اور وہ یہ ہے کہ جو لوگ اس سے اختلاف رکھتے ہیں وہ اس پر صبر وتحمل کا طریقہ اختیا رکریں۔
۱۵۔ ہندی روزنامہ نو بھارت ٹائمس (نئی دہلی) کے نمائندہ مسٹر رندھیر کمار نے ۲۲ فروری ۲۰۰۵کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ سوال و جواب کا تعلق زیادہ تر صوفی ازم سے تھا۔ بتایا گیا کہ ہندستان میں ہندوؤں اورمسلمانوں کے درمیان میل ملاپ بڑھانے کی تدبیر یہ ہے کہ یہاں صوفی کلچر کو زندہ کیا جائے۔ صوفی کلچر صلح کُل پر مبنی ہے۔ صوفی تعلیمات یہ ہیں کہ ہر ایک کے ساتھ محبت اور رواداری کا معاملہ کیا جائے۔ صوفی کلچر کا ایک چھوٹا سا نمونہ اب بھی صوفیوں کے مزار پر دیکھا جاسکتا ہے ۔یہاں آج بھی ہندو اور مسلمان دونوں کے درمیان میل ملاپ کا منظر دکھائی دیتا ہے۔ اسی میل ملاپ کو پورے ملک میں عام کیا جائے۔ ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ کشمیر کے مسئلہ کا حل وہی ہے جو پنجاب میں خالصہ تحریک کے مقابلہ میں اختیار کیا گیا۔ یعنی لوگوں کی سوچ کو بدل کر ان کے اندر سے علیٰحدگی کا رجحان ختم کرنا۔
۱۶۔ صدر اسلامی مرکز کی تقریروں کے کچھ ویڈیو کیسیٹ تیار کیے جارہے ہیں۔ فی الحال دو ویڈیو کیسیٹ تیار ہوا ہے۔ ایک کا عنوان ہے، حج کی حقیقت اور دوسرے کا عنوان ہے، نماز کی حقیقت۔ اسی طرح دوسرے اسلامی موضوعات پر بھی ویڈیو کیسٹ انشاء اللہ تیار کیے جائیں گے۔ اس سلسلہ میں مزید تفصیل دفتر سے معلوم کی جاسکتی ہے۔
۱۷۔ چند نئی کتابیں تیار ہوئی ہیں۔ ان میں سے ایک نشانِ منزل ہے۔ دو سو آٹھ صفحہ کی یہ کتاب زیر طبع ہے۔ یہ کتاب راز حیات اور کتابِ زندگی کے انداز پر لکھی گئی ہے۔
واپس اوپر جائیں

Saturday, 1 January 2005

Al Risala | January 2005 (الرسالہ،جنوری)

2

- ـاسپین کا سفر

43

- خبر نامہ اسلامی مرکز


ـاسپین کا سفر

اسپین کے شہر اشبیلیہ (Seville) میں ورلڈ ریلیجس لیڈرس کی کانفرنس تھی۔ یہ کانفرنس ۱۴ دسمبر سے ۱۸ دسمبر ۲۰۰۳ تک جاری رہی۔ اس انٹرنیشنل کانفرنس کا اہتمام تین اداروں کی طرف سے کیا گیا تھا۔ حکومت اندلس، یونیسکو اور الیجا اسکول(Elijah School) ۔
اس کی دعوت پر اسپین کاسفر ہوا۔ ۱۱ دسمبر کی رات کو دہلی سے روانگی ہوئی اور ۱۹ دسمبر ۲۰۰۳ کو سفر سے واپسی ہوئی۔ اس سفر کی مختصر روداد یہاں درج کی جاتی ہے۔
نظام الدین سے نکل کر ائرپورٹ کے لیے روانہ ہوا تو سڑک کے دائیں طرف مغل حکمراں ہمایوں کا مقبرہ دکھائی دے رہا تھا۔ اور آگے بڑھا تو سڑک کے بائیں طرف صفدر جنگ کا مقبرہ تھااور دائیں طرف ابراہیم لودھی کا مقبرہ۔ اس سے کچھ فاصلہ پر دہلی کا مشہور لال قلعہ کھڑا ہوا تھا جس کے بارے میں ۱۹۴۷ میں ایک شاعر نے اپنی نظم میں یہ شعر شامل کیا تھا:
اے قلعۂ سرخ اے اثر شاہجہانی برباد شدہ عظمت ماضی کی نشانی
اس طرح کی یاد وں کے ہجوم میں میری گاڑی آگے بڑھ رہی تھی اور دہلی کا قدیم زمانہ یاد آرہا تھا جب کہ یہاں مسلمانوں کا سیاسی غلبہ قائم تھا۔ یہ غلبہ عملاً بہت پہلے ختم ہونا شروع ہوگیا تھا تاہم ۱۸۵۷ میں وہ آخری طور پر ختم ہوگیا۔ اس کے بعد ایک اردو شاعر نے ایک لمبی نظم لکھی جس کا ایک شعر یہ تھا:
تذکرہ دہلیٔ مرحوم کا اے دوست نہ چھیڑ نہ سنا جائے گا ہم سے یہ فسانہ ہر گز
تاریخ کا یہ تصور مجھے نہایت محدود نظر آتا ہے کہ صرف حکمرانوں کے حوالے سے تاریخ کو پڑھا اور سمجھا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ تاریخ کسی حکمراں یا حکمراں خاندان سے بہت زیادہ وسیع ہے۔ موجودہ زمانہ میں ان غیر سیاسی پہلوؤں کی وسعت اور زیادہ بڑھ گئی ہے۔ابن خلدون (وفات ۱۴۰۶ء) نے اپنے مقدمہ میں اس پہلو کی طرف نہایت وضاحت کے ساتھ نشاندہی کی تھی۔ مگر مسلم علماء اور دانشوروں میں یہ تاریخی تصور کبھی رائج نہ ہوسکا۔ اسی طرز فکر کا نتیجہ ہے کہ موجودہ مسلمان یہ دریافت نہ کرسکے کہ آج وہ قدیم مسلم حکومت کے دور کے مقابلہ میں ہر اعتبار سے زیادہ بہتر حالت میں ہیں۔ حتیٰ کہ سیاست کے اعتبار سے بھی۔
ایر پورٹ پہنچا تو مسافروں کی بھیڑ دکھائی دی۔ اس کو دیکھ کر بظاہر کوئی شخص یہ رائے قائم کرے گا کہ انڈیا میںہوائی جہاز کا سفر بہت بڑھ گیا ہے۔ حالاں کہ اسی ایرپورٹ پر اگر کو ئی شخص دن کے وقت آئے تو اس کو یہاں سناٹا دکھائی دے گا۔ جب کہ مغرب کے ترقی یافتہ ملکوں میں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ وہاں دن کے اوقات میں مسافروں کی بھیڑ ہوتی ہے اور رات کے وقت سناٹے کا عالم ہوتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ مغربی ملکوں کے لوگ ہوائی جہازوں کے شور سے اپنی نیند کو خراب کرنا گوارا نہیں کرتے۔ اس لیے انہوں نے اپنے ائر پورٹ پر نائٹ کرفیو (night curfew) لگا رکھا ہے۔ انڈیا جیسے غیر ترقی یافتہ ملک اس کی قیمت اس طرح ادا کرتے ہیں کہ ان کے یہاں بین اقوامی پروازیں زیادہ تر رات کو اترتی ہیں اور روانہ ہوتی ہیں۔
ائر پورٹ کے اندر ایک جگہ کاؤنٹر پر یہ الفاظ لکھے ہوئے تھے:
اسپیشل ہینڈلنگ(special handling)
یہ ونڈو ان لوگوں کے لیے تھی جو اپنی کسی معذوری کی بنا پر وہیل چئر پر بٹھا کر جہاز تک لے جائے جاتے ہیں۔ گویا معذور لوگوں کے لیے خصوصی مدد کا انتظام ہے۔ اس دنیا میں معذوری بھی ایک پلس پوائنٹ کی حیثیت رکھتی ہے۔
یہ سفر ٹرکش ائرلائنز کی فلائٹ نمبر TK 1071کے ذریعہ ہوا۔ دلی سے اس کا مقرر وقت ساڑھے ۴ بجے تھا۔ آدھا گھنٹہ لیٹ ہوکر جہاز ۵ بجے صبح دہلی سے روانہ ہوا۔ دہلی سے استانبول کا سفر بغیر رکے ہوئے سات گھنٹہ کا تھا۔راستہ میں نیند آتی رہی اور سفر آسانی کے ساتھ طے ہوگیا۔ پوری پرواز ہموار (smooth) تھی۔
راستہ میں ۱۲ دسمبر ۲۰۰۳کے بعض اخبارات دیکھے۔ایک اخبار میں ایک آرٹیکل کے تحت مشہور کوہ پیما سَر ایڈمنڈہیلری کا تذکرہ تھا۔وہ کئی بار ناکام ہونے کے بعدمئی ۱۹۵۳ میں ہمالیہ کی چوٹی پر پہنچا تھا۔ایک ناکامی کے بعد اس نے اپنی مٹھی بلند کی اور پہاڑ سے کہا: ’’تم نے مجھے ہرایا ہے مگر میں دوبارہ آؤں گااور تم کو ہراؤں گا۔ کیوں کہ تم اور زیادہ بڑے نہیں ہوسکتے مگر میں ہوسکتا ہوں‘‘:
You have defeated me but I will return and I will defeat you because you can not get any bigger but I can.
دہلی سے سات گھنٹہ کی پرواز کے بعد جہازاستانبول کے ہوائی اڈہ پر اترا۔یہ ہوائی اڈہ کافی اچھا بنا ہوا تھا۔ وہ ایک یورپی ہوائی اڈہ معلوم ہوتا تھا۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ دہلی کے انٹرنیشنل ائرپورٹ اور استانبول کے ائر پورٹ میں کوئی مقابلہ نہیں۔
استانبول کے شاندار ایر پورٹ پر میں نے دیکھا کہ وہاں کے طویل رن وے پر ایک کے بعد ایک جہاز وں کی لائن لگی ہوئی ہے۔ یہاں ہر وقت یا تو کوئی جہاز اترتا ہے یا کوئی جہاز اڑ کر فضا میں داخل ہوتا ہے۔ اس منظر کو دیکھ کر میں نے سوچا کہ مسلمان سو سال سے ترکی کی عثمانی خلافت کے خاتمہ پر سوگ منا رہے ہیں۔ شبلی نعمانی (وفات ۱۹۱۴) کا یہ شعر اس معاملہ میں مسلم نفسیات کی ترجمانی کرتا ہے:
زوال دولت عثماں زوال شرع و ملّت ہے عزیزو فکر فرزندو عیال و خانماں کب تک
جب کہ حال یہ ہے کہ آج کا ترکی پہلے کے مقابلہ میں بہت زیادہ ترقی کر چکا ہے۔
پرنٹنگ پریس کا زمانہ ایک عظیم خدا ئی نعمت کا ظہور تھا۔ مگر اخبار اور کتاب دونوں کے ذریعہ پریس کا جو استعمال ہوا وہ ایسا تھا کہ اس نے مسلمانوں کو کھوئی ہوئی عظمت سے تو مبالغہ آمیز طورپر باخبر کیا مگر ملی ہوئی عظمت سے ان کو بالکل بے خبر رکھا۔ چنانچہ مسلمان عظمت ماضی کے تصور میں اتنا زیادہ گم رہے کہ وہ حال کی عظمت سے بالکل بے خبر ہوگئے۔
استانبول کا قدیم نام قسطنطنیہ(Constantinople) تھا۔ یہ ترکی کا سب سے بڑا شہر ہے۔ یہ شہر پہلے بازنطینی ایمپائر کی راجدھانی تھا۔ اس کے بعد وہ عثمانی خلافت کی راجدھانی بنا۔ قدیم شہر کی دیوار ابھی تک یہاں موجود ہے۔ استانبول کی تاریخ ۲۵۰۰ سال پیچھے تک پھیلی ہوئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یونانیوں نے ۶۵۷قبل مسیح میں استانبول کی بنیاد رکھی۔ موجودہ استانبول دو حصوں میں بٹا ہوا ہے— قدیم شہر اور جدید شہر۔ قدیم شہر میں تنگ گلیاں ہیں اور وہی ماحول ہے جو دہلی کے پرانے علاقہ میں دکھائی دیتا ہے۔ البتہ جدید استانبول ماڈرن یوروپ کے انداز میں بنایا گیا ہے۔
استانبول میںایک مشہوراسلامک رائٹر رہتے ہیں۔ ان کا نام مسٹرہارون یحییٰ ہے۔ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ انہوں نے اسلام پر بہت سی کتابیں لکھی ہیں۔ یہ کتابیں انہوں نے ترکی زبان میں لکھی تھیں۔ پھر ان کا ترجمہ انگریزی زبان میں ہوا۔ ان کا ایک بڑا ادارہ استانبول میں ہے۔
ہارون یحییٰ کے ادارہ کی ایک ذمہ دار خاتون سسٹر بانو ڈیرن(Sister Banu Derin) کی طرف سے مجھے دہلی میں ٹیلی فون پر یہ پیغام ملا تھا کہ میں استانبول میں کچھ وقت کے لیے ٹھہروں اور ان کے ادارہ کو دیکھوں۔ مجھے خود اس کا شوق تھا۔ مگر پہلے سے اس کے مطابق پروگرام نہ بن سکا۔ چنانچہ میں استانبول میں نہ ٹھہر سکا اور معمول کے مطابق، استانبول ایر پورٹ سے دوسرے جہاز کے ذریعہ آگے کے لیے روانہ ہوگیا۔
مز پریا ملک نے ہارون یحییٰ کی اکثر کتابیں پڑھی ہیں۔ میں نے ان سے ہارون یحییٰ کی کتابوں کے بارے میں ان کا تاثر پوچھا تو انہوں نے اپنا تاثر ان الفاظ میں بیان کیا:
Harun Yahya tries to increase faith through scientific reasoning. But the only problem is that he becomes too technical in his scientific description which at times makes it difficult to comprehend. (Priya Malik)
استانبول سے ہمیں میڈرڈ کے لیے اگلا جہاز لینا تھا۔ وقت بہت کم تھا۔ مگر ہوائی اڈہ کے عملہ نے ساری کارروائی اتنی تیزی سے انجام دی کہ ہم وقت پر ہوائی جہاز کے اندر پہنچ گئے۔
استانبول سے میڈرڈ کی پرواز ساڑھے تین گھنٹہ کی تھی۔ راستہ میں ٹرکش ایرلائن کی فلائٹ میگزین اسکائی لائف(Skylife) کا شمارہ دسمبر ۲۰۰۳ دیکھا۔ اس کے مضامین ٹرکش اور انگریزی دونوں زبانوں میں تھے۔ اس کا ایک مضمون بداپسٹ(Budapest) کے بارے میں تھا۔
جیسا کہ معلوم ہے، بداپسٹ ایک زمانہ میں ترکوں کی عثمانی سلطنت کے تحت تھا۔ چنانچہ مضمون میں بتایا گیا تھا کہ اب بھی عثمانیوں کے آثار شہر میں ترکی طرز کے غسل خانوں کی صورت میں موجود ہیں جوکہ پورے شہر میں پھیلے ہوئے ہیں ۔ دریائے دانوب (Danube) کے کنارے اب بھی گل بابا کا مزار موجود ہے جس کو یحییٰ پاشا نے سولہویں صدی میں اس گلاب پسند درویش کی یادگار میں بنایا تھا:
Even the Ottomans have a place in it with their baths scattered throughout the city and the Gulbaba Tomb built by Yahya Pasazade Mehmet Pasha in the 16th century to commemorate the rose loving Bektashahi dervish. p. 29
میڈرڈ اسپین کی راجدھانی ہے۔ ۱۲ دسمبر کی صبح کو میں یہاں کے ائر پورٹ پر پہنچ چکا تھا۔ میڈرڈ ائرپورٹ نہایت وسیع اور شاندار ہے۔ یہاں مسافروں کی سہولت کے لیے ہر قسم کا اعلیٰ انتظام تھا۔ جب میں میڈرڈ کے شاندار ائر پورٹ پرچل رہا تھا تو بے اختیار میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ میں نے روتے ہوئے کہا کہ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں میں سب سے زیادہ جو چیز کھوئی گئی وہ اعتراف اور انسانیت کی خیر خواہی ہے۔ اگر ان کے اندر یہ صفت موجود ہوتی تو وہ اس واقعہ پر تڑپ اٹھتے۔ وہ یہاں آکر ان لوگوںسے کہتے کہ ہم آپ کے کارناموں کا اعتراف کرتے ہیں۔ ہم نے انسانی قافلہ کو روایتی ترقی کے دور تک پہنچایا تھا، آپ نے اپنی محنت سے انسانیت کو سائنسی ترقی کے دور تک پہنچا دیا اور تاریخ میں پہلی بار ایک خوبصورت دنیا تعمیر کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ آئیے ہم دونوں مل کر خالق کا شکریہ ادا کریں۔ تاکہ ہم دونوں خدا کی زیادہ بہتر دنیا میں داخلہ کے مستحق قرار پائیں۔ وہ معیاری دنیا جس کی صرف ایک جھلک خدا نے آج کی دنیا میں رکھی ہے تاکہ ہم بعد کی زیادہ بہتر دنیا کا پیشگی تعارف حاصل کرسکیں،یعنی وہ دنیا جس کا نام جنت ہے۔
ایک مسلم شاعر نے کہا ہے کہ —ہر ملک ہمارا ہے، کیوں کہ وہ ہمارے خدا کی ملکیت ہے:
ہر ملک مُلکِ ما است کہ مِلکِ خدائے ما است
اس شعر میں مجھے سیاسی توسیع کی بوآتی ہے۔ اس لیے وہ مجھے پسند نہیں۔ اس کے مقابلہ میں میرا ذوق یہ ہے کہ میں ہر ترقی کو اپنی ترقی سمجھتا ہوں، کیوں کہ وہ انسان کی ترقی ہے جس کا میں بھی ایک حصہ ہوں۔ اسی انسانی ذہن کو میںداعیانہ ذہن سمجھتا ہوں۔ داعی تمام انسانوں کو ایک فیملی کے روپ میں دیکھتا ہے، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے: الخلق عیال اللہ۔ اس سے عمومی خیر خواہی کا وہ ذہن بنتا ہے جس کو قرآن میں نُصح کہا گیا ہے۔ دعوت کا عمل دوسرے انسانوں کے ساتھ خیر خواہی کا عمل ہے،نہ کہ دوسرے انسانوں کے اوپر اپنی برتری قائم کرنے کا عمل۔
میڈرڈ ملک کے تقریباً وسط میں واقع ہے۔ وہ اسپین کی راجدھانی ہے۔ ۱۰۸۳ تک میڈرڈ میں مسلمانوں کی سلطنت تھی۔ اس سال الفانسو ششم (Alfanso VI) نے اس کو مسلمانوں سے چھین کر اپنی سلطنت میں داخل کیا۔۱۳۲۹ میں یہاں پارلیمنٹ قائم ہوئی اور اس کو باقاعدہ طورپر اسپین کی راجدھانی کی حیثیت ملی۔ ۱۵۶۱ میں فلپ دوم نے یہاں اپنا قلعہ بنایا۔ میڈرڈ کے بارے میں ایک سیاح نے لکھا ہے کہ میڈرڈ ایک ایسا شہر ہے جہاں رنگ کے مقابلہ میں روشنی اور خوبصورتی کے مقابلہ میں مہربانی زیادہ اہمیت رکھتی ہے:
Madrid is a city in which light is more important than colour, grace more than beauty.
کہا جاتا ہے کہ میڈرڈ کے لوگ ایک قسم کے رومانی خیالات میں جیتے ہیں۔اس کے بارہ میں ایک فرانسیسی مشاہد نے لکھا ہے کہ ان کا عقیدہ ہے کہ میڈرڈ عظمتوں اور مسرتوں کا مرکز ہے:
They believe Madrid to be the very centre of all glory and happiness.
مذکورہ فرانسیسی مشاہد نے مزید لکھا ہے کہ میڈرڈ والوں کے نزدیک جنت کا راستہ میڈرڈ سے جاتا ہے اور جنت میں ایک کھڑکی ہے جس سے میڈرڈ کو دیکھا جاسکے:
…From Madrid to Heaven, and in Heaven a little window from which to look at Madrid.
میڈرڈ میں اب بھی وہ محل موجود ہے جس کو مسلم عہد میں بنایا گیا تھا۔ اس کا نام القصر تھا، اس کو اب الکیزر(Alcazar) کہا جاتا ہے جو القصر کے لفظ کی اسپینی صورت ہے۔ فلپ سوم(Philip III) نے میڈرڈ کو اپنی راجدھانی بنایا۔
میڈرڈ ملک کے تقریباً وسط میں واقع ہے۔ وہ ۱۶۰۷ ء میں راجدھانی بنایا گیا۔اس وقت وہاں بادشاہ کی حکومت تھی۔ کسی ملک کی راجدھانی عام طورپر کسی بڑے دریا کے کنارے ہوتی ہے یا کسی تجارتی صحرا پر۔ مگر اسپین کے جائے وقوع کے بارے میں اس قسم کا کوئی سبب موجود نہیں۔
میڈرڈ ایرپورٹ پر ہر کاؤنٹر کے آگے ایک جملہ لکھا ہوا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ مستعدی ہمارا مقصد ہے جس کا فائدہ آپ کو بھی ملے گا اور ہم کو بھی:
Punctuality is our aim. You will benefit so will we all.
وقت کی پابندی (punctuality) کی اہمیت زندگی میں بہت زیادہ ہے۔ انسان کو جو وقت ملا ہے وہ بہت محدود ہے۔ وقت کی پابندی کا مطلب در اصل وقت کا صحیح اور بھر پور استعمال ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وقت کسی انسان کا سب سے بڑا خزانہ ہے۔ جو انسان اپنے اس خزانہ کو درست طورپر استعمال کرنا جان لے، اس کی کامیابی کے لیے صرف یہی خزانہ کافی ہو جائے گا۔ یہ خزانہ اس کی ہر دوسری کمی کی تلافی بن جائے گا۔
دہلی سے استانبول تک کا سفر ٹرکش ائرلائنز کے ذریعہ ہوا تھا۔ میڈرڈ سے اشبیلیہ کا سفر آئبیرین ایر لائنس کے ذریعہ طے ہوا۔ آئبیرین ایر لائنس کا ٹکٹ ہمارے پاس انٹرنیٹ کے ذریعہ بھیجا گیا تھا۔ اس کو الکٹرانک ٹکٹ کہتے ہیں۔ وہ ایک سادہ کاغذ پر ایک ٹائپ شدہ خط جیسا ہوتا ہے۔ اس طریقہ نے سفر میں بہت سہولت پیدا کر دی ہے۔ الکٹرانک ٹکٹ کا طریقہ تقریباً چھ ماہ پہلے شروع ہوا اور تیزی سے مقبول ہوتا جارہا ہے۔
میڈرڈ سے اشبیلیہ (Seville) کا سفر اس علاقہ کے اوپر سے ہوا جو کبھی مسلم سلطنت کا حصہ تھا۔جب ہمارا جہاز اس علاقہ کے اوپر سے گزررہا تھا تو میں نے سوچا کہ مسلمان جب اس علاقہ میں آئے تو وہ گھوڑوں پر سوار ہوکر آئے تھے۔ آج میں اسی علاقہ کے اوپر ہوائی جہاز کے ذریعہ سفر کررہا ہوں۔ میرا ذہن سوچنے لگا کہ قدیم اور جدید کے اس فرق میں کیا سبق ہے۔ کیا وجہ ہے کہ مسلمان گھوڑے کی سواری کے دور میں دنیا میں غالب حیثیت رکھتے تھے اور ہوائی جہاز کی سواری کے دور میں وہ مغلوب ہو کر رہ گئے۔
پھر میں نے سوچا کہ یہ طرز فکر درست نہیں۔ تاریخ کا سفر خود اپنے قوانین کے تحت ہوتا ہے۔ اس کو مسلم اور غیر مسلم کے خانوں میں بانٹ کر نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ اس کو انسانیت کی تاریخ کے طورپر دیکھنا چاہیے۔ مسلم اور غیر مسلم کے خانوں میں بانٹ کر تاریخ کو دیکھا جائے تو اس سے متعصبانہ ذہن بنتا ہے۔ لیکن جب تاریخ کو انسانیت عامہ کے حوالہ سے دیکھا جائے تو اس سے ایجابی ذہن پیدا ہوگا۔ اور یہی فرق یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ تاریخ کی ترقیوں کوانسانی قافلہ کے سفر کے طورپر دیکھنا ہی مطالعہ تاریخ کا صحیح طریقہ ہے۔
اشبیلیہ کے ائر پورٹ پر مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے جب ہم آخری چکنگ کاؤنٹر پر پہنچے تو یہاں کچھ آدمی کھڑے تھے جو ہر مسافر کے بیگ کو کھول کردیکھ رہے تھے۔ میرے ساتھی نے میرا بیگ ٹیبل پر رکھا تو ائر پورٹ کے آدمی نے پوچھا کہ آپ کہاں سے آرہے ہیں۔ میںنے کہا کہ انڈیا سے۔ وہ بہت خوش ہوا۔ اس نے کہا کہ بہت خوب۔ میں بھی انڈیا جانا چاہتا ہوں۔
Great, I want to go to India.
یہ کہہ کر اس نے میرا بیگ مزید تفتیش کے بغیر میرے حوالہ کردیا۔انڈیا کی تصویر پہلے دنیا کی نظر میں یہ تھی کہ وہ ہاتھیوں اور سانپوں کا ملک ہے۔ یہاں جادوگر اور سپیرے رہتے ہیں۔ مگر پچھلے کچھ سالوں کے درمیان انڈیا کی امیج مکمل طورپربدل گئی ہے۔ ہر ملک، بشمول مسلم ملک میں انڈیا کے لوگوں کی قدردانی بہت بڑھ گئی ہے۔ اس میں خاص طورپر دو باتوں کا دخل ہے۔ ایک یہ کہ امریکا اور برطانیہ کے بعد انڈیا انگریزی دانی میں نمبر تین ملک سمجھا جاتا ہے۔ اس بنا پر یہاں جدید ترین شعبہ (انفارمیشن ٹکنالوجی) میں بہت زیادہ ترقی ہوئی ہے۔ دوسری بات وہ ہے جو سفر سے صرف ایک دن پہلے مجھے امریکا میں مقیم ایک تعلیم یافتہ مسلمان نے بتائی۔ وہ دہلی سے تعلق رکھتے ہیں اور آج کل وہ نیو جرسی (امریکا) میں کمپیوٹر انجینئر کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکا میں چھ ملین سے زیادہ مسلمان ہیں اور تقریباً اتنی ہی تعداد میں ہندو بھی وہاں رہتے ہیں۔ مگر یہاں کے ہندو ہر اعتبار سے مسلمانوں سے آگے ہیں۔ وہ نہ صرف زیادہ دولت مند ہیں بلکہ ان کو یہاں زیادہ باعزت درجہ ملا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کا سبب کوئی تعصب یا یہودی پروپیگنڈہ نہیں ہے بلکہ اس کا سبب صرف ایک ہے۔ اور وہ یہ کہ ہندو اپنے تمام کام پروفیشنل(professional) انداز میں کرتے ہیں۔ جب کہ مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ ابھی تک ان کے یہاں پروفیشنلزم کا تصور بھی نہ آسکا۔ انہوں نے کہا کہ امریکا میں پروفیشنلزم بہت زیادہ ہے۔ وہ یہاں کا کلچر ہے۔ اس لیے فطری طورپر ایسا ہوا کہ ہندو لوگ امریکیوں کو اپنے ورک کلچر کے مطابق نظر آنے لگے۔ جب کہ مسلمانوں کے بارے میں ان کا عام خیال یہ ہوگیا کہ وہ کسی کام کو پروفیشنل انداز میں کرنا نہیں جانتے۔ ڈکشنری کے مطابق پروفیشنلزم یہ ہے:
Professionalism: doing a job in an organized way, with great skill and competence, meeting with the required standard.
۱۲ دسمبر ۲۰۰۳ کی شام کو اشبیلیہ ائرپورٹ سے شہر کی طرف روانگی ہوئی۔ سڑک کافی چوڑی اور ہموار تھی۔ سڑک کے دونوں طرف جدید طرز کے کھلے ہوئے مکان اور دکانیں نظر آئیں۔ پورا راستہ شاداب اور پر رونق تھا۔ یہ وہی شہر ہے جو مسلم دور میں اشبیلیہ کے نام سے مشہور تھا۔
میں نے سوچا کہ اگر قدیم اشبیلیہ اورجدید اشبیلیہ کو سامنے رکھ کر تقابل کیا جائے تو ایسا معلوم ہوگا کہ پہلے یہ ایک ٹاؤن تھا اور اب وہ ایک ماڈرن شہر ہے۔ مسلمانوں کے لکھنے اور بولنے والے لوگوں کا حال یہ ہے کہ جب اسپین کا حوالہ آتا ہے تو وہ صرف ’’آسماں نے دولت غرناطہ جب برباد کی‘‘ جیسی زبان بولنا جانتے ہیں۔
میں نے سوچا کہ ایسا کیوں ہے۔ جب کہ اسپین مسلم عہد کے مقابلہ میں آج زیادہ ترقی یافتہ ملک بن چکا ہے تو اس قسم کی منفی باتیں کیوں۔ میری سمجھ میں آیا کہ موجودہ مسلمان اپنے مزاجی بگاڑ کی بنا پر خود اپنی عظمت پر فخر کرنا تو جانتے ہیں مگر وسیع تر معنٰی میں انسانی ترقی سے وہ اپنے آپ کو وابستہ نہ کرسکے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ آج کا ایک مسلمان مغل دور اور عثمانی دور اور اندلسی دور سے سو گنا زیادہ بہتر حالت میں رہتا ہے۔ مگر اپنے اس بگڑے ہوئے مزاج کی بنا پر وہ شکایت اور مایوسی کے سوا کوئی اور زبان بولنا نہیںجانتا۔ ورنہ اس کی زبان مثبت باتوں سے سرشار رہتی۔ وہ سمجھتا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم پہلے سے بھی زیادہ خدا کے شکر میں جینے والے بن جائیں۔
ہمارے ہوٹل کے سامنے دور تک سنترے کے درختوں کی قطاریں لگی ہوئی تھیں۔ شہر کے دوسرے حصوں میں بھی کثرت سے سنترے کے ہرے بھرے درخت نظر آئے۔ یہ درخت لال سنترے سے بھرے ہوئے تھے۔ میں نے اپنے مقامی ساتھی سے پوچھا کہ کیا ان پیڑوں کے سنترے لوگ توڑتینہیں ۔ انہوں نے کہا کہ یہ تو ایسے ہی کثرت سے اُگتے ہیں (They grow wild) ۔ ان کے پھل یہاں نمائشی طورپر باقی رکھے جاتے ہیں۔ یہاں کوئی انہیں توڑتا نہیں، نہ مالک اور نہ کوئی دوسرا شخص۔ میں نے سوچا کہ اگر اس طرح پھلوں سے بھرے ہوئے درخت انڈیا میں کھلے راستوں پر ہوں تو شاید وہاں ایک پھل بھی درخت پر نہ بچے۔
اشبیلیہ میں آنے جانے کے دوران بعض چیزیں ایسی دیکھیں جو غالباً قدیم عرب کے بقایا کے طورپر یہاں اب بھی موجود ہیں۔ مثلاً دکان کے باہر بازار کا سائن بورڈ۔ بہت سے الفاظ سے پہلے ال کا استعمال مثلاً الکیزر(Al Kazares) وغیرہ۔ یہ غالباً قدیم عرب دور کے اثرات ہیں جو ابھی تک باقی ہیں۔ جیسا کہ معلوم ہے، اسپین میں مسلمانوں کی حکومت تقریباً ۸ سو سال تک قائم رہی۔ اشبیلیہ بھی اس کا ایک حصہ تھا۔ مسلمانوں نے یہاں کی چیزوں پر زبان سے لے کر طرز تعمیر تک زبردست اثرات ڈالے۔ اس کے اثرات اب بھی یہاں دکھائی دیتے ہیں۔ مجھے اشبیلیہ میں جس ہوٹل میں ٹہرایا گیا تھا اس کا طرز تعمیر بھی قدیم عرب طرز سے ملتا جلتا تھا۔
اشبیلیہ (Seville) اسپین کا مشہور شہر ہے۔ قدیم زمانہ میں وہ مسلم اسپین کا کیپٹل تھا۔ اشبیلیہ ۷۱۱ ء تک رومیوں کے وی زی گوتھ کا کیپٹل رہا۔ اس کے بعد یہاں مسلمانوں کا سیاسی غلبہ قائم ہوا۔ اس سلسلہ میں انسائکلو پیڈیا برٹانیکا میں اس طرح کے الفاظ ہیں:
Seville was known as Hispalis under the Romans and was a visigothic capital until 711, when it was captured by the Moors. After the Muslims were driven out in 1248, the city rapidly rose to eminence.
یعنی اشبیلیہ رومن ماتحتی کے دور میں ہسپالس کہا جاتا تھا اور وہ ۷۱۱ تک وی سی گوتھ کی راجدھانی تھا، جب کہ اس پر مسلمانوں نے قبضہ کیا۔ یہاں تک کہ ۱۲۴۸ میں مسلمان یہاں سے نکال دئے گئے۔ اس کے بعد شہر تیزی سے اہمیت اختیار کرگیا۔
ان الفاظ میں مسلم دور کا ذکر جس طرح تحقیری انداز میں کیا گیا ہے اس سے مسلم عہد کی مثبت تصویر سامنے نہیں آتی۔ تاہم دوسرے مغربی مورخین نے نہایت فیاضی کے ساتھ اسپین کے مسلم عہد کے کارناموں کا اعتراف کیا ہے۔
میںنے حال میں ایک معروف عالم کا ایک مضمون پڑھا۔ اس میں انہوں نے جوش کے ساتھ لکھا تھا کہ ہم کو مسلمانوں کی ماضی کی تاریخ پر فخر ہے۔ اس مضمون میں اس قسم کی باتیں تو پر جوش انداز میں بیان کی گئی تھیں۔ مگر اس میں انسانیت کی حالیہ ترقی کا کوئی حوالہ نہ تھا۔ اس مضمون کو پڑھنے والا صرف یہ سوچ سکتا تھا کہ وہ شاندار ماضی کو کھوکر تباہ شدہ حال میں جی رہا ہے۔ مذکورہ عالم کی زبان سے اس قسم کی غیر علمی بات لمبی مدت سے چھا پ کر پھیلائی جارہی ہے۔ یہاں تک کہ اب یہ حال ہے کہ مسلمانوں کا ذہن عام طورپر نفرت اور مایوسی کا شکار ہو کر رہ گیا ہے۔ کوئی مثبت پیغام یا کوئی تعمیری منصوبہ ان کی سمجھ میں نہیں آتا۔ اپنے ماضی کی مفروضہ عظمت میں جینا کوئی سادہ بات نہیں۔یہ انسان کوبیک وقت دو برائیوں میںمبتلا کر دیتاہے— انسانیت کے ساتھ خیر خواہی کا خاتمہ، اور مثبت انداز میں سوچنے کے قابل نہ رہنا۔
آج دسمبر ۲۰۰۳ کی ۱۳ تاریخ ہے۔ اس وقت میں اسپین کے شہر اشبیلیہ (Seville) کے ہوٹل میکرینا(Tryp. Macarena) کے روم نمبر ۳۳۸ میں ہوں۔ یہاں آج رات کو میں نے ایک خواب دیکھا۔ میں نے دیکھا کہ ایک چھوٹا بچہ ہے۔اس کے سر پر ترکی ٹوپی ہے۔اس خواب کے بعد مجھے وہ دور یاد آیا جو ۱۹۳۰ کے لگ بھگ زمانہ میں اعظم گڑھ (اور دوسرے مقامات) میں پایا جاتا تھا۔ اس وقت مسلم شرفاء جھبّو دار ترکی ٹو پی پہنا کرتے تھے۔ میں بھی اس زمانہ میں ترکی ٹوپی پہنتا تھا۔اس وقت اگر چہ ترکوں کی عثمانی خلافت ختم ہوچکی تھی مگر ان کے زیر اثر جو مسلم تہذیب بنی تھی وہ اب بھی کسی نہ کسی صورت میں مسلمانوں کے درمیان موجود تھی۔
یہ پہلی عالمی جنگ اور دوسری عالمی جنگ کے درمیان کا زمانہ ہے۔اس زمانہ میں ابھی انڈیا قدیم زرعی دور میں تھا۔ زرعی دور سے مراد وہ زمانہ ہے جب کہ مبنی بر زمین اکانومی (land-based economy) کا غلبہ تھا۔ زرعی دور میں معیشت کی بنیاد تمام تر زمین پر ہوتی تھی۔ زمین کے سوا کوئی اور اقتصادی ذریعہ اس زمانہ میں موجود ہی نہ تھا۔ چنانچہ سامان حیات زیادہ تر زمین داروں کے پاس ہوتا تھا۔ عام لوگ معمولی حیثیت میں زندگی گزارتے تھے۔
مجھے یاد ہے کہ اس زمانہ میں ہمارے گاؤں میں اور آس پاس کے پورے علاقے میں صر ف دو فیملی تھی جس کے پاس گھوڑا ہوا کرتا تھا۔ ہماری فیملی اور خلیل خاں صاحب کی فیملی۔ اس زمانہ میں گھوڑا اسی طرح ثروت کا نشان تھا جس طرح آج موٹر کار کو ثروت کا نشان سمجھا جاتا ہے۔
یہ سوچتے ہوئے میرا دھیان اپنے گاؤں کی طرف گیا جہاں میں پیدا ہوا تھا۔ میں نے غور کیاکہ ۱۹۳۰ اور ۲۰۰۳ کے درمیان ہمارے گاؤں میں کیا فرق ہوا ہے۔ میری سمجھ میں آیا کہ پچھلے زمانہ میں ہمارے گاؤں میں صرف دو خاندان تھے جن کے پاس زیادہ سامان حیات موجود تھا۔ آج گاؤں کے تقریباً ہر خاندان کے پاس ساری سہولتیں موجود ہیں۔ مثلاً سڑک، بجلی، ٹیلی فون، پختہ مکان، کوکنگ گیس، کار، بچوں کے لیے بہتر تعلیم، علاج کا انتظام، سفر کی سہولت وغیرہ۔
ٹوپی کا مذکورہ خواب بظاہر بہت با معنٰی معلوم ہوتا ہے۔ غالباً اس کی تعبیر یہ ہے کہ پچھلے زمانہ میں عام لوگوں کو صرف ایک رنگین ٹوپی ملی ہوئی تھی جو ان کو ایک قسم کا تہذیبی فخر دیتی تھی۔ اس کے سوا حقیقی معنوں میں سہولیات زندگی انہیںحاصل نہ تھی۔ جب کہ آج یہ حالت ہے کہ زمانہ کی تبدیلی کے نتیجہ میں دولت اور سہولیات زندگی کا ایک سیلاب آچکا ہے جس میں ہر آدمی کو اپنا حصہ مل رہا ہے۔
اس پر غور کرتے ہوئے مزید میری سمجھ میں آیا کہ مسلم رہنماؤں کے دئے ہوئے ذہن کی بنا پر آج بھی مسلمان ایک سنگین غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔ وہ عثمانی خلافت کے دور اور مغل سلطنت کے دور کو عظمت کا دور سمجھتے ہیں اور اس کے ختم ہونے کے بعد وہ سمجھتے ہیں کہ اب ان کے پاس کچھ نہیں رہا۔ اس معاملہ میںمسلم نفسیات کی ترجمانی دہلی کے ایک قدیم عالم نے ان الفاظ میں کی تھی:
’’مسلمان کے سر سے عزت کی پگڑی اسی وقت اتر گئی جب کہ دہلی میں مغل سلطنت کا خاتمہ ہوگیا‘‘۔
مسلمانوں کے لکھنے اور بولنے والے جو الفاظ لکھ رہے ہیں اور بول رہے ہیں ان کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آج بھی وہ لوگ اسی قدیم نفسیات میں جی رہے ہیں۔ حالاںکہ لکھنے اور بولنے والے سمیت تمام مسلمان آج جن سہولیات سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، وہ عثمانی دور اور مغل دور میں کسی کو حاصل نہ تھیں، حتیٰ کہ بادشاہوںاور نوابوں اور جاگیر داروں کو بھی نہیں۔
کچھ دن پہلے میرے پاس ایک مسلمان ملاقات کے لیے اپنی نئی کار پر بیٹھ کر آئے۔ ان کے ہاتھ پر ایک شاندار گھڑی بندھی ہوئی تھی اور جیب میں خوبصورت قلم لگا ہوا تھا۔ ان کے چہرے پر لگی ہوئی خوبصورت عینک دیکھی جو ان کے شخصی وقار میں اضافہ کر رہی تھی۔ وہ بیٹھتے ہی مسلمانوں کی زبوں حالی کی داستان سنانے لگے۔ اتنے میں ان کی جیب میں رکھے ہوئے موبائل ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ اس کو کان پر رکھ کر وہ دور کے کسی صاحب سے بات کرنے لگے۔ جب وہ بات کرچکے تو میں نے ان سے پوچھا کہ جس عثمانی دور اور مغل دور کو آپ لوگ اپنے لیے بڑی چیز سمجھتے ہیں کیا اس زمانہ میں کوئی ایک بھی مسلمان ایسا تھا جس کے پاس موبائل ٹیلی فون ہو یا اس کے پاس موٹر کار ہو یا اس کے پاس ایسی گھڑی ہو جو آپ اس وقت پہنے ہوئے ہیں، یا وہ آپ جیسی عینک پہن سکتا ہو جو آپ کی شخصیت کو دوبالا کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ میں نے کہا کہ پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ آج کا ایک مسلمان قدیم زمانہ کے نوابوں اور بادشاہوں سے بھی زیادہ بہتر زندگی گزار رہا ہے۔ ایسی حالت میں آپ لوگوں کو یہ کرنا چاہیے کہ پہلے سے بھی زیادہ آپ لوگ خدا کا شکر ادا کریں، نہ یہ کہ شکایت اور مایوسی کی بات کرکے اپنے سینہ کو ناشکری کا قبرستان بنا لیں۔
۱۳ دسمبر کی شام کو میں نے دیکھا کہ ہوٹل کی لابی میں تین صاحبان بیٹھے ہوئے ہیں۔ میںاپنے ساتھی کے ہمراہ وہاں گیا اور خالی کرسی پر بیٹھ گیا۔ تعارف کے دوران معلوم ہوا کہ وہ تینوں مسلمان ہیں۔ ان میں ایک پیرس کے ڈنٹسٹ تھے۔ وہ یہودی خاندان میں پیدا ہوئے۔ پھر انہوں نے اسلام قبول کرلیا۔ دوسرے ٹیونس کے ایک تاجر تھے۔ اور تیسرے اسپین کے ایک نو مسلم تھے۔ اسپینی بزرگ نے بتایا کہ ان کے پورے خاندان نے اسلام قبول کرلیا ہے۔ اسپین میں کثرت سے زیتون کے باغات ہیں۔ وہ بھی زیتون کے ایک باغ کے مالک ہیں۔ قبول اسلام کا سبب پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ مغربی سماج میں انسان ایک قسم کی مشینی زندگی گزارتا ہے۔ وہ محبت اور انسانیت کے ماحول سے محروم رہتا ہے۔ اسی کمی کے احساس نے انہیں ایک صوفی ماسٹر تک پہنچایا۔ وہ نقشبندی سلسلہ سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے ہاتھ پر انہوں نے اسلام قبول کرلیا۔ یہ تینوں صوفی مزاج کے تھے اور تینوں کے ہاتھ میںتسبیح دکھائی دیتی تھی۔ ان کے نام یہ ہیں:
Dr. Richard Abdul Hany Lejoyeuk — Paris
Muhammad Farhat —Tunisia
Omar Margarit— Granada, Spain
میرے ساتھی نے میرے بارے میںبتایا کہ وہ الاسلام یتحدی کے مصنف ہیں۔ یہ سن کر وہ بہت خوش ہوئے اور کہا کہ الاسلام یتحدی میںنے پڑھی ہے اور اس کی ایک کاپی میرے پاس گھر پر موجود ہے۔ یہ کتاب ٹیونس کے کالجوں میں باقاعدہ طورپر داخل نصاب ہے۔
الاسلام یتحدی جو میری کتاب مذہب اور جدید چیلنج کا عربی ترجمہ ہے وہ عرب دنیا میں بہت زیادہ پھیلی ہے۔ بیرونی سفروں کے درمیان جب بھی میری ملاقات کسی عرب سے ہوتی ہے تو اکثر وہ یہی کہتا ہے کہ میں نے آپ کی کتاب الاسلام یتحدی پڑھی ہے۔ (لقد قرأت کتابک الاسلام یتحدی)
ابھی تک مجھے اس کتاب پر تنقید کرنے والا کوئی عرب نہیں ملا۔ صرف ریاض کے ایک صاحب دکتور عبد الرحمن الجہنی نے اصل کتاب کا اعتراف کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ اس کا نام زیادہ صحیح طورپر الاسلام یُتحدی ہونا چاہیے۔ میں نے کہا کہ یہ نام میرا رکھا ہوا نہیں ہے بلکہ وہ قاہرہ کے مشہور عالم اور وکیل الازہر شیخ محمدعبد اللطیف دراز (وفات ۱۹۷۶) کا رکھا ہوا ہے۔ پھر میں نے کہا کہ میرے نزدیک یہ نام درست ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جدید فکری چیلنج کے مقابلہ میں اسلام کا کیس اتنا زیادہ طاقتور ہے کہ وہ خود جدید الحادی افکار کوچیلنج دینے کی پوزیشن میں ہے۔ گویا کہ کتاب کے ٹائٹل کا مطلب ہے— اسلام جوابی چیلنج کرتا ہے۔ اس معاملہ میں اسلام اقدام کی پوزیشن میں ہے نہ کہ صرف دفاع کی پوزیشن میں۔
میرے ساتھی نے فرانس کے نومسلم ڈنٹسٹ سے پوچھا کہ آپ یہودیت کو چھوڑ کر اسلام میں کیسے آئے۔ انہوں نے جواب دیا کہ پہلے گویا کہ میں چاند پر تھا اور اب میں زمین پر آگیا ہوں:
Earlier I was living on the moon, now I am living on earth.
مذکورہ نومسلم کا مطلب یہ تھا کہ پہلے میں اپنی فطرت کی مطلوب دنیا کے لیے گویا خلا میں سرگرداں تھا اب میںنے اپنی فطرت کی آواز کے مطابق یہ مطلوب دنیا پالی ہے۔ ان کو اسلام کی یہ دریافت ایک صوفی بزرگ کے ذریعہ ہوئی۔ وہ مادّی دنیا سے غیر مطمئن تھے۔ مادی ترقیوں میں انہیں اپنی فطرت کا جواب نہیں مل رہا تھا۔ پھر جب وہ صوفی بزرگ سے ملے تو انہیں روحانیت کی سطح پر اپنی فطرت کا جواب مل گیا۔ میں نے دیکھا کہ وہ اب نہایت اطمینان کی حالت میں ہیں۔ ان کو کامل ذہنی سکون مل گیا ہے۔ وہ اپنا زیادہ وقت ذکر اور تسبیح میں گزارتے ہیں۔ تاہم ان کے اندر میں نے عمومی دعوت کا جذبہ زیادہ نہیں پایا۔
موجودہ زمانہ میں مسلم علماء او ر دانشوروں کے مطالعہ کا ایک ہی مشترک انداز ہے۔ وہ یہ کہ مسلمانوں کے تمام مسائل و مصائب کو اہل مغرب کی سازش کا نتیجہ قرار دے کر شکایت اور احتجاج میں مشغول ہوجانا۔ اس کی ایک مثال ایک معروف اسلامی میگزین میں نظر آئی جس میں ایک مشہور مسلم دانشور کا مقالہ چھپاہوا تھا۔ اس مقالہ میں بتایا گیا تھا کہ مغربی تہذیب کے علم بردار کس طرح مسلم دنیا پر اپنی ساری طاقت کے ساتھ حملہ آور ہیں۔ اس مقالہ کا ایک حصہ یہ تھا:
۱۹۸۹ء میں جب روس نے افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلائیں، تو اسی سال کے اکانومسٹ (لندن) نے ایک خصوصی مضمون شائع کیا اور اس میں پوری تاریخ انسانی کے بیس اہم لمحات بیان کئے اور ان میں آخری لمحہ روس کی پسپائی کے بعد بننے والا نیا سیاسی اور تہذیبی نقشہ تھا۔ اس میں ایک جملہ بڑا اہم تھا۔ اس نے کہا کہ روس کی فوجیں تو واپس چلی گئیں، دیوار برلن بھی ٹوٹ گئی، اشتراکیت بھی پسپا ہوگئی لیکن کیا ہمارے پاس دنیا کو دینے کے لیے کوئی نیا حیات بخش نظریہ ہے جو اس خلا کو پر کرسکے۔ اس کا کہنا یہ تھا کہ جو کچھ ہمارے پاس ہے وہ اس خلا کو پر نہیں کرسکتا اور پھر اپنے مخصوص انداز میں یہ بات کہی کہ البتہ مسلمانوں کو یہ زعم ہے کہ ان کے پاس ایک نظریہ ہے جو اس خلا کو پر کرسکتا ہے۔ گویا کہ یہ تنبیہہ (warning) تھی کہ اب کشمکش کا جو نیا آہنگ ہے وہ کیا ہوسکتا ہے۔
اسلامی دانشور مزید لکھتے ہیں —اس کے دس سال کے بعد ایک اور دلچسپ چیز اکانومسٹ میں آئی اور وہ یہ تھی کہ انہوں نے یہ بتایا کہ آج سے ایک ہزار سال بعد روس کا ایک مؤرخ گزرے ہوئے ہزار سال کا جائزہ لیتا ہے۔ دو ہزاریے ختم ہوگئے ہیں۔ تیسرا ہزار یہ شروع ہورہا ہے۔ وہ جائزہ لیتا ہے اور وہ جائزہ لیتے ہوئے اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ سرد جنگ کے ختم ہونے کے بعد اور روس کی اور اشتراکیت کی پسپائی کے بعد امریکا ایک عالمی کردارلے کر اٹھا لیکن اس کے بعد پھر چین اور مسلم دنیا یہ دو نئی قوتیں ابھریں اور اس طرح ایک نئی خلافت قائم ہوئی۔ اس کا مقصد یہ نہیں تھا کہ ایسا ہوگا۔ مقصد یہ تھا کہ ایسا نہ ہونے پائے، ہمیں اس کے لیے پیش بندی کرنی چاہیے۔ یہی وہ خیالات ہیں جنہوں نے مغرب کی ذہنی اور فکری فضا بنائی ہے اور آج ان کے تھنک ٹینکس اور سیاسی قیادت سب اس پس منظر میں کام کرتے ہیں اور حکمت عملی بناتے ہیں۔
ہمیں ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کا واقعہ اسی پس منظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ واقعہ کیسے ہوا۔ کس نے کیا۔ کون کون معاون قوتیں تھیں۔ سارے واویلے کے باوجود ان سوالات کا جواب دینے کی کوئی کوشش نہیں ہوئی ہے اور نہ ہو رہی ہے۔ اس کے برعکس ۱۹۸۹ ء سے ۲۰۰۱ ء تک نئے تہذیبی تصادم کی جو فضا بنائی گئی تھی اس واقعہ کو بنیاد بنا کر اس نقشہ میں رنگ بھرا جارہا ہے۔
اکانومسٹ کے مذکورہ اقتباس میں سب سے اہم بات یہ تھی کہ اس میں ایک مثبت پہلو موجود تھا۔ یعنی اسلام کا نظریاتی اعتراف۔ مگر اس سے ایک منفی نتیجہ نکال لیا گیا۔ یعنی یہ کہ مغربی قومیں خاص طورپر امریکا کی ساری پلاننگ اسلام کو مٹانے کے لیے ہورہی ہے اور یہ کہ ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ کو ورلڈ ٹریڈ ٹاورکے ساتھ جو حادثہ ہوا وہ خود امریکا کی سازش کا نتیجہ تھا۔ چنانچہ اس کو استعمال کرکے اسلام کے خلاف سوچی سمجھی کارروائی شروع کر دی گئی۔ کمیونزم کے بعد اسلام کو صفحۂ ہستی سے مٹانا امریکا کا سوچا سمجھا منصوبہ ہے اور اسی کے تحت اس کی تمام جارحانہ کارروائیاں ہو رہی ہیں۔
یہ تجزیہ سراسر بے بنیاد ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے یہ کہا جائے کہ اجودھیا کی بابری مسجد کو خود مسلمانوںنے ڈھایا تھا تاکہ وہ فرقہ پرست ہندوؤں کے خلاف اپنی دفاعی مہم کو تیز تر کرسکیں۔ بدقسمتی سے آج تک مسلم دنیا کے تمام لکھنے اور بولنے والے اسی قسم کی منفی بولیاں بول رہے ہیں۔ ان بولیوں نے مسلمانوں کو منفی سوچ کا کارخانہ بنا دیا ہے۔ مجھے کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے کہ شاید منفی سوچ کا یہی وہ فتنہ ہے جس کو حدیث میں فتنۃ دھیماء کہا گیا ہے۔
اکانومسٹ کے مذکورہ اقتباس کا سب سے اہم جزء اس کا یہ جملہ تھا: ’’البتہ مسلمانوں کو یہ زعم ہے کہ ان کے پاس ایک نظریہ ہے جو اس خلا کو پر کرسکتا ہے‘‘۔ یہ جملہ بتاتا ہے کہ خود مغربی جریدہ کے اعتراف کے مطابق، جدید دنیا میں اسلام کے حق میں ایک قیمتی امکان موجود ہے۔ یہ دعوت کا امکان ہے۔ آج کی ترقی یافتہ دنیا کے پاس سب کچھ ہے مگر اُس کے پاس وہ چیز نہیں جس کو نظریۂ حیات کہا جاتا ہے۔ جدید مغربی انسان کے پاس سامان حیات تو ہے مگر اُس کے پاس نظریۂ حیات نہیں۔ یہ محرومی ایسے ہی ہے جیسے کسی شخص کا جسم تو موجود ہو مگر اُس کی روح اُس سے نکل گئی ہو۔ یہی حال آج کے مغربی انسان کا ہے۔یہ صورت حال ہمیں موقع دیتی ہے کہ ہم جدید انسان کو اسلام کے نظریۂ حیات سے متعارف کریں۔ گویا پیاسے انسان کو خدا کا پیدا کیا ہوا پانی پہنچا دیں۔
یہ بات بے حد غور طلب ہے کہ کیوں ایسا ہوا کہ پچھلے دو سو برس کے اندر پیدا ہونے والے ہزاروں علماء اور مفکرین اسلام کی صحیح فہم سے عاجز رہے۔ وہ اسلام کو اس کی صحیح صورت میں پیش نہ کر سکے۔ میرے نزدیک اس کا سبب یہ ہے کہ یہ تمام لوگ اسلام اور مسلمان کو الگ الگ کرکے نہ دیکھ سکے۔ وہ دونوں کو ایک سمجھ کر ان کا مطالعہ کرتے رہے۔
مثلاً جب انہوں نے اسلام کو سمجھنا چاہا تو بعد کے زمانہ میں بننے والی مسلم تاریخ کو شامل کرکے اسلام کی تصویر بنائی۔ حالاں کہ یہ دونوں الگ الگ موضوعات تھے۔ اسی طرح جب انہوں نے مسلمانوں کی قومی لڑائیوں کو بیان کیا تو اس کو اسلامی جہاد کا عنوان دیتے رہے۔ اس غلط مطالعہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ لوگ نہ اسلام کو اس کی اصل صورت میں سمجھ سکے اور نہ مسلمانوں کے معاملات کا صحیح تجزیہ کرسکے۔
۱۴ دسمبر کی صبح کو ہوٹل کے مطعم میں ناشتہ کیا۔ یہاں کھانے کے لیے مختلف چیزیں موجود تھیں۔ دودھ کے ایک برتن کے اوپر مندرجہ ذیل الفاظ لکھے ہوئے تھے:
Leche, Milk
میرے ایک ساتھی اس کو گلاس میں لے کر آئے اور کہا کہ یہ لیچی کا مِلک ہے۔ بظاہر اس کا مطلب یہ تھا کہ یہ لیچی سے بنا ہوا دودھ ہے۔ یہ بات بڑی عجیب تھی۔ پھر میز پر بیٹھے ہوئے ایک صاحب نے بتایا کہ یہ لفظ لیچی نہیں ہے بلکہ لِشے ہے۔ اسپینی زبان میں اس کا مطلب دودھ ہوتا ہے۔ دودھ کے اس برتن پر انہوں نے ایک طرف اسپینی زبان میں لِشے لکھ دیا اور دوسری طرف انگریزی زبان میں مِلک۔ یہ دونوں ہم معنٰی الفاظ ہیں۔ اس چھوٹی سی مثال سے اندازہ ہوتا ہے کہ غلط فہمیاں کس طرح پیدا ہوتی ہیں۔
میں اپنے تجربہ کے مطابق کہہ سکتا ہوں کہ زندگی میں اکثر اختلاف اور ٹکراؤ اور دشمنی کے واقعات صرف غلط فہمی کی بنا پر پیدا ہوتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ شاید انسان کے دین اور عقل دونوں کا سب سے بڑا امتحان یہ ہے کہ وہ غلط فہمی کے مواقع پر اپنے آپ کو غلط فہمی کے شکار ہونے سے بچا سکے۔
میرے نزدیک صرف دو قسم کے لوگ غلط فہمی کی مہلک برائی سے بچ سکتے ہیں۔ ایک وہ مومن جو خدا کی پکڑ کا خوف رکھتا ہو اور اس بنا پر وہ معاملات میں بے حد محتاط ہوگیا ہو۔ ایسا آدمی دوسرے کے بارے میں بری رائے قائم کرنے سے اپنے کو بچائے گا تاکہ اس کو آخرت میں خدا کی طرف سے سزا کا سامنا نہ کرناپڑے۔ دوسرا انسان وہ ہے جس کے اندر پورے معنوں میں ذہنی بیداری آچکی ہو۔ جس کا شعور اتنا زیادہ بڑھا ہوا ہو کہ وہ جو کچھ سنے یا دیکھے اس کو وہ فوراً مان نہ لے بلکہ وہ اس کا عقلی تجزیہ کرے۔ وہ واقعہ کی اصل حقیقت تک پہنچ کر اپنی رائے بنائے۔ میرے تجربہ کے مطابق، آج ننانوے فی صد لوگوں کے اندر دونوں میں سے کوئی ایک صفت بھی نہیں پائی جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل بیشتر لوگ نہایت آسانی سے غلط فہمی کا شکار بن جاتے ہیں۔
مجھے اپنی ذات کے معاملہ میں بار بار یہی تجربہ ہوا ہے۔ میرے بارے میں لوگوں کے اندر عجیب و غریب قسم کی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ چنانچہ ان میں سے کوئی شخص جب مجھ سے دہلی میں ملاقات کرتا ہے تو وہ یہ کہہ کر واپس جاتا ہے کہ ہم تو آپ کے بارے میں اخباروں کو دیکھ کرعجیب قسم کا تصور رکھتے تھے۔ حالاں کہ آپ اسی طرح اسلام کے ایک عالم ہیں جس طرح دوسرا کوئی قابل احترام عالم۔
میرے بارے میں ان غلط فہمیوں کا ذریعہ صرف ایک ہے او ر وہ اخبارات ہیں۔ اخبارات کا مزاج یہ ہے کہ جب کوئی شخص نیوز میں آجائے تو وہ اس کے بارے میں سنسنی خیز قسم کی باتیں چھاپتے رہتے ہیں۔کیوں کہ ان کو یقین ہوتا ہے کہ ان کے قارئین دلچسپی کے ساتھ انہیں پڑھیں گے۔ اب دین اور عقل دونوں کا تقاضا ہے کہ میرے بارے میں رائے قائم کرنے والے میری اپنی تحریروں کی روشنی میں رائے قائم کریں نہ کہ اخباری رپورٹوں کی روشنی میں۔کسی کو مزید تحقیق درکار ہو تو اس کو میرے پاس آکر مجھ سے پوچھنا چاہیے۔ مگر لوگوں کے اندر نہ دینی سنجیدگی ہے اور نہ عقلی بصیرت۔ اس لیے وہ بے بنیاد طورپر غلط فہمیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔
کچھ لوگ میرے بارہ میں محض قیاس کی بنا پر ایک عجیب وغریب قسم کی غلط فہمی میں رہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ الرسالہ میں سفر نامے اس لیے چھاپے جاتے ہیں کہ الرسالہ کے مرتب کے پاس مضامین کی کمی ہوگئی ہے۔ چنانچہ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے الرسالہ میں سفرنامے چھاپے جارہے ہیں۔
یہاں میں دوباتیں کہوں گا—اللہ کے فضل سے الرسالہ کے دفتر میں مضامین کی کمی نہیں، بلکہ برعکس طورپر مضامین کی افراط ہے۔ اس وقت بھی دفتر میں اللہ کے فضل سے اتنے زیادہ غیر مطبوعہ مضامین موجود ہیں جوانشاء اللہ کئی سال کے لیے کافی ہوسکتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ الرسالہ کا سفر نامہ محض سفر نامہ نہیں ہوتا۔ وہ خود متنوع مضامین کا مجموعہ ہوتا ہے۔ کوئی شخص الرسالہ میں چھپے ہوئے کسی بھی سفر نامہ کو دیکھے اور قلم کاغذ لے کر اس کے موضوعات کو نوٹ کرے تو انشاء اللہ وہ پائے گا کہ اُس کے ہر صفحہ پر ایک نیا مضمون ہے۔ درحقیقت سفر نامہ اور دیگر مضامین دونوں اسلوب کے فرق کے ساتھ ایک ہی چیز ہیں۔ سفر نامہ بھی مضامین کا مجموعہ ہے، فرق صرف یہ ہے کہ اس کا اسلوب بدلا ہوا ہے۔ گویا کہ جو بات عام مضامین میں کتابی مطالعہ کے حوالہ سے لکھی جاتی ہے، وہی بات سفر نامہ میں سفری تجربات کی نسبت سے کہی جاتی ہے۔
۱۴ دسمبر کی صبح کو کانفرنس کا رسمی افتتاح ہوا۔ یہ افتتاح اشبیلیہ کی ایک نو تعمیر عمارت میں ہوا۔ یہ وسیع اور عالی شان عمارت مراکو کے کنگ کے تعاون سے بنائی گئی ہے۔ اس میں جدید طرز کا بہت بڑا ہال ہے۔ بلڈنگ کے چاروں طرف ہرے بھرے لان اس کی خوبصورتی کو بڑھارہے ہیں۔ یہ خوبصورت عمارت مسلم عہد کے اسپینی طرز تعمیر پر بنائی گئی ہے۔ اس عمارت کا نام یہ ہے: کنگ حسن ثانی پویلین۔
۱۴ دسمبر کو افتتاح کے بعد گروپ ڈسکشن ہوئے۔ میں جس گروپ ڈسکشن میں شریک ہوا وہ مختلف مذاہب میں وزڈم(wisdom) کے تصور پر تھا۔ میں نے اپنی گفتگو میں بتایا کہ قرآن میں وزڈم کا تصور کیا ہے۔ قرآن میں وزڈم کو بہت اونچا درجہ دیا گیا ہے۔ تاہم قرآن کے مطابق، انسان کو علم قلیل دیاگیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے پاس غور و فکر کے لیے جو فریم ورک ہے وہ محدود ہے نہ کہ لامحدود۔ اس فطری حقیقت کو ماننے کے بعد ہی انسان وزڈم کے اعلیٰ درجہ تک پہنچ سکتا ہے۔ جو لوگ اس حقیقت کو نہ مانیں وہ صرف کنفیوژن تک پہنچیں گے۔ ایسے لوگوں کے لیے اس دنیا میں صحیح معنوں میں عقلی ارتقاء مقدر نہیں۔
۱۴ دسمبر کو اشبیلیہ میںکنگ حسن ثانی پویلین میں جن لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں ان میں سے یروشلم کے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ یہودی الون (Alon Goshen-Gottstein) تھے۔ ان سے اسلام کے موضوع پر گفتگو ہوئی۔ وہ اتنے ذہین تھے کہ چند جملوں میں پوری بات سمجھ جاتے تھے۔ میں نے کہا کہ اسلام کو سمجھنے کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ آپ اسلام اور مسلمانوں کو ایک دوسرے سے الگ کر کے دیکھیں:
You have to differentiate between Islam and Muslims.
پھر انہوں نے سوال کیا کہ موجودہ مسلمان اسلام کی غلط تصویر پیش کررہے ہیں تو اب مسلمانوں کے ریفارم کے لیے آپ کا فارمولا کیا ہے۔ میں نے کہا کہ یہ وہی فارمولاہے جس کو حدیث میں احیاء (revival) کہا گیا ہے۔یعنی مسلمانوں کے اندر دوبارہ اصل اسپرٹ پیدا کرنا۔
مزید گفتگو کے دوران میں نے کہا کہ موجودہ مسلمانوں کا یہ ظاہرہ دراصل ڈی جنریشن (de-generation) کاظاہرہ ہے جو ہر مذہبی گروہ میں پیش آتا ہے۔ خود یہودیوں میں بھی پیش آچکا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ہر مذہبی گروہ کی پہلی نسل میں مذہب اپنی پوری اسپرٹ کے ساتھ زندہ رہتا ہے۔ پھر نسل در نسل زوال شروع ہوتا ہے یہاں تک کہ مذہب اپنی اصل روح سے الگ ہوجاتا ہے۔ وہ صرف ایک کلچر بن کر رہ جاتا ہے۔ اس وقت مسلمان (اور اسی طرح یہودی اور عیسائی بھی) اپنے اصل مذہب پر نہیں ہیں بلکہ بعد کے دور میں بنے ہوئے کلچر پر ہیں۔ ان میں فارم تو ہے مگر اصل روح گم ہوچکی ہے۔
انہوںنے اس تجزیہ سے اتفاق کرتے ہوئے پوچھا کہ آپ کا مشن اس سلسلہ میں کیا کر رہا ہے۔ میںنے کسی قدر تفصیل کے ساتھ بتایا کہ ہمارا مشن یہی احیاء اسلام (revival of Islam) کا مشن ہے۔ ہم پچھلے چالیس سال سے یہی کام کررہے ہیں۔ خدا کے فضل سے ہزاروںلوگوں کی زندگیوں میں ایک نیا انقلاب آیا ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ غیر مسلموں میں بھی ہم نے بڑے پیمانہ پر یہ کوشش کی ہے کہ انہیں اسلام کی اصل تعلیمات سے آگاہ کیا جائے۔ گفتگو کے آخر میں مسٹر الون کو ہمارے یہاں کی چند کتابیں دی گئیں۔ مثلاً:
In Search of God
Ideology of Peace
Spirituality in Islam
Tell Me About Prophet Musa
اس کانفرنس میں ونسنٹ کارنیل (Vincent J. Cornell)سے ملاقات ہوئی۔ وہ ایک مسیحی عالم ہیں۔ گفتگو کے دوران معلوم ہوا کہ انہوں نے اسلام اور قرآن کا صرف نام سنا ہے، انہوں نے اس کا مطالعہ نہیں کیا۔ اسلام کے بارے میں ان کی معلومات صرف ان پروگراموں تک محدود ہیں جو انہوں نے کبھی کبھی ٹی وی میں دیکھے ہیں۔
میںنے کہا کہ میں نے تو اسلام کے ساتھ مسیحیت کا بھی تفصیلی مطالعہ کیا ہے۔میں نے مسیحیت کے اوپر کئی مضامین بھی لکھے ہیں۔اس سلسلہ میں میرا ایک مضمون وہ ہے جس کا عنوان ہے: کرشچینیٹی اینڈ اسلام (Christianity and Islam)۔ یہ مضمون دہلی سے چھپنے والی ایک کتاب میں شامل ہے۔ یہ کتاب ۱۴۸ صفحات پر مشتمل ہے اور اس کا نام یہ ہے:
Pilgrims to the Light (2000) Edited by Valson Thampu
انہوں نے کہا کہ جب آپ پختہ مسلمان ہیں تو آپ نے مسیحیت کا مطالعہ کیوں کیا۔ میں نے کہا کہ میرا تجربہ ہے کہ ایک ڈسپلن کو صحیح طورپر جاننے کے لیے دوسرے ڈسپلن کو بھی جانناپڑتا ہے۔ اسی طرح ایک مذہب کو درست طورپر سمجھنے کے لیے دوسرے مذاہب کو سمجھنا ضروری ہے۔ مثلاً اسلامی تعلیم کے مطابق، میں مسیح کو خدا کا پیغمبر مانتا ہوں۔ پھر جب میں نے مسیحی لٹریچر میں پڑھا کہ مسیحی لوگ حضرت مسیح کو خدا کا بیٹا بتاتے ہیں تو اس تقابل کے بعد مجھے یہ موقع ملا کہ میں اپنے عقیدہ کو زیادہ واضح طورپر ایک شعوری حقیقت کے طورپر دریافت کروں۔ انہوں نے میری بات غور سے سنی اور کہا کہ میں بھی آئندہ اسی طرز مطالعہ کو اختیار کروں گا۔ یہی مذہبی مطالعہ کا صحیح طریقہ ہے۔
اسپین کے سفر میں کئی ایسے لوگوں سے ملاقات ہوئی جن کو مقامی مسلمان کہا جاسکتا ہے۔ ان میں سے ایک ابوبکر اشبیلی تھے۔ ان سے تفصیلی گفتگو ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ موجودہ اسپین میں تین قسم کے مسلمان پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ جو بزنس یا روزگار کے تحت یہاں کچھ مدت کے لیے آتے ہیں اور پھر چلے جاتے ہیں۔ دوسرے لوگ وہ ہیں جن کو نو مسلم کہا جاسکتا ہے۔ اسپین میںکوئی قابل ذکر دعوتی کام تو غالباً نہیں ہے مگر مختلف اسباب سے کچھ اسپینی باشندے مسلمان ہوگئے ہیں اور ہوتے رہتے ہیں۔ تیسری قسم ان مسلمانوں کی ہے جو مسلم دور سے چلے آرہے ہیں۔ پچھلی صدیوں میں خوف کی بنا پر انہوں نے اپنے دین کو چھپا رکھا تھا مگر اب حالات بدل گئے ہیں۔ یہاں مذہبی آزادی آگئی ہے، اس لیے قدیم مسلمان بھی اب کھلے طورپر اپنی شناخت کو بتانے لگے ہیں۔ تاہم لباس اور ظاہری وضع کے اعتبار سے ان مسلمانوں اور عام اسپینیوں میں کوئی فرق دکھائی نہیں دے گا۔ موجودہ اسپین میں ایسے اسپینی اسکالر پیدا ہورہے ہیں جو اپنی تقریر و تحریر میں اسلام کا غیر متعصبانہ اعتراف کرتے ہیں۔
ایک میگزین دیکھا جس میں تحمل (patience) پر مختلف اقوال درج تھے۔ ان میں سے کچھ اقوال یہاں نقل کئے جاتے ہیں:
1. Patience is the companion of wisdom.
2. Patience is the ability to wait for any expected outcome without tension and frustration.
3. Patience is the ability to wait for the gradual long lasting changes which take time and effort rather than impulsive quick changes.
4. Patience is the ability to develop the art of listening.
5. Patience is the ability to be thankful for what you already have, while you pursue all that you want.
6. Patience is a powerful tool in our hands.
(You can Change the World)
اسپین کی کانفرنس میں جو اہل علم اور اداروں کے نمائندے شریک ہوئے، ان کی تمام باتوں کا احاطہ اس سفر نامہ میں ممکن نہیںہے۔ تاہم ان میں سے بعض حوالے یہاں نقل کیے جاتے ہیں تاکہ کانفرنس کے شرکاء کے خیالات کا ایک سرسری اندازہ ہوسکے۔
الون گوشن (Alon Goshen-Gottstein) ایک یہودی اسکالر ہیں۔ وہ یروشلم سے آئے تھے۔ انہوں نے اپنی تقریر میں جو باتیں کہیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ اسرائیل کی بنیادی شناخت یہ ہے—اپنے آپ سے آگاہی اور اپنے اور غیر میں فرق کا احساس:
Awareness of self and otherness is fundamental to Israel's identity.
میں نے اس کو سنا تو میں نے سوچا کہ یہودی نقطۂ نظر اور موجودہ مسلمانوں کے نقطۂ نظر میں بڑی عجیب مشابہت ہے۔ موجودہ مسلم فکر بھی انہی دو اجزاء سے بنا ہے۔ ایک، اقبال کے الفاظ میںخودی کا تصور اور دوسرا وہ جس کو ملّی شناخت کہا جاتا ہے۔ مگرجہاں تک میں نے سمجھا ہے، مسلم ذہن حقیقی معنوں میں صرف ایک تصور سے بنتا ہے اور وہ خدا کی معرفت ہے۔ بقیہ تمام چیزیں اسی کے براہ راست یا بالواسطہ اجزاء کی حیثیت رکھتی ہیں۔
اسٹفن اسکائز (Stephen Skyes) نے اپنی تقریر میں کہا کہ اگر چہ مسیح نے یہ تعلیم دی تھی کہ اپنے دشمن سے محبت کرو مگر مسیحیوں اور دوسروں میں اختلافات کے نتیجہ میں دونوں کے درمیان نفرت کی سیاست نے جنم لیا:
Despite Jesus' teaching of love of the enemy, the marks of such historical opposition between Christians and others have given and continue to give rise to exclusionary politics of hatred.
اس مسئلہ کا تعلق صرف مسیحیت سے نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق ہر مذہب سے ہے۔ آج تمام مذہبوں کا یہ حال ہے کہ ان کی مقدس کتابوں میں تو امن اور محبت کی باتیں لکھی ہوئی ہیں مگر مذہب کے ماننے والوں نے اپنے مادی مفادات کی بنا پر، نہ کہ مذہب کی اصولی تعلیم کی بنا پر، دوسرے گروہوں سے مادی لڑائی چھیڑ رکھی ہے۔ یہ ظاہرہ خودمسلمانوں کے یہاں بھی پایا جاتا ہے۔ ہنٹنگٹن (Samuel P. Huntington) نے اپنی کتاب تہذیبوں کا تصادم (Clash of Civilizations) میں تہذیبوں کے تصادم کی بات کہی ہے۔ مگر حقیقۃً یہ اہل تہذیب کا تصادم ہے نہ کہ خود تہذیب کا تصادم یا ٹکراؤ۔ اس اعتبار سے دیکھئے تو ہنٹنگٹن کی کتاب کا زیادہ صحیح نام یہ ہونا چاہیے:
Clash of Peoples of Civilizations
ونسنٹ کارنل (Vincent Cornell) نے اپنے پیپر میں دوسری باتوں کے علاوہ ایک بات یہ کہی کہ اسلام ایک ٹائم بم کے اوپر بیٹھا ہوا ہے جو کسی بھی وقت یا تو اپنے داخلی سبب سے پھٹ سکتا ہے یا کسی عالمی سبب سے:
Islam is sitting on a time bomb that may explode to its own detriment and that of the world at large.
جو بات اس اقتباس میں اسلام کے بارے میں کہی گئی ہے وہ مسلم گروہ کے بارے میں درست ہوسکتی ہے بلکہ شاید وہ درست ثابت ہورہی ہے۔ مگر جہاں تک اسلام کا تعلق ہے اس کا معاملہ مسلمانوں سے الگ ہے۔ اس قسم کے تمام خطرات کا تعلق گروہ مسلم سے ہے نہ کہ مذہب اسلام سے۔
اشوک ووہرا (Ashok Vohra) نے ہندوازم کے بارے میں اپنے خیالات پیش کئے۔ انہوں نے ایک بات یہ کہی کہ انسانی ہمدردی ہندو مذہب کا فطری مزاج ہے۔ اس کی بنیاد تمام زندہ چیزوں کی فوق الفطری یکسانیت میں پائی جاتی ہے:
Hospitality is the natural state of the Hindu mentality, founded as it is upon a recognition of the metaphysical unity of all life.
مقرر کا مطلب یہ تھا کہ ہندو ازم کے مطابق، انسان اور خالق ِانسان دونوں ایک ہی حقیقت کے اجزاء ہیں۔ اس لیے ہندوازم میں ایک انسان اور دوسرے انسان کے درمیان ہمدردی اور محبت ایک فطری تقاضہ ہے۔ یہ بات تقریباً تمام ہندو مفکرین کہتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ عملاً ایسا کیوں نہیں۔ سوامی وویکا نند نے اعتراف کیا ہے کہ عملی ادوئت واد جوکہ تمام انسانوں کو ایک روح کے طور پرسمجھتی ہے، ہندوؤں کے درمیان کبھی عملاً وجود میں نہ آسکا:
Yet practical advaitism, which looks upon and behaves to all mankind as one's own soul, was never developed among the Hindus. Letters of Swami Vivekananda (p. 379)
بدھسٹ اسکالر رچرڈ ہیز (Richard Hayes) نے اپنے پیپر میں جو باتیںکہیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ بدھسٹ نقطۂ نظر تمام عداوتوں کی جڑ غیر صحیح فہم میں سمجھتا ہے جو کہ ذہن کی تنظیم سے دور ہوسکتا ہے:
The Buddhist perspective too sees the root of all hostility in an inappropriate understanding that must be corrected through discipline of the mind.
یہ بات عین فطرت کے مطابق ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ تمام منفی خیالات ابتداء ً دماغ میں پیدا ہوتے ہیں اور پھر وہ واقعہ بنتے ہیں۔ اس لیے اس معاملہ میں اصلاح کا آغاز ذہن کی اصلاح سے ہی ہوسکتا ہے۔
راقم الحروف نے اس موقع پر جو باتیں کہیں ان میں سے ایک بات یہ تھی کہ پیغمبر اسلام نے اپنے ایک ارشاد میں فرمایا : الا کلکم بنو آدم و آدم من تراب(سنو کہ تم میں سے ہر ایک آدم کی اولاد ہے اور آدم مٹی سے تھے):
All of you are children of Adam and Adam was created from clay.
میںنے کہا کہ یہ ایک نہایت جامع ارشاد ہے۔ اس قول کے پہلے جزء کا مطلب ہے یونیورسل بردرہڈ (universal brotherhood) اور اس کے دوسرے جزء کا مطلب ہے مساوات۔ پہلی بات سے تمام مثبت احساسات جنم لیتے ہیں۔ اور دوسری بات کا نتیجہ یہ ہے کہ تمام منفی احساسات دل سے نکل جاتے ہیں۔
۱۴ دسمبر کے دوپہر کا کھانا ایک بڑی عمارت کے اندر کھایا گیا۔ اس کو کسی قدیم بادشاہ نے اپنی رہائش گاہ کے طور پر بنایا تھا۔ یہ عمارت بہت زیادہ وسیع تھی۔ اس میں بڑے بڑے لان تھے۔ اس پوری عمارت کو دوبارہ اس طرح آراستہ کیا گیا ہے کہ اس کا قدیم طرز پوری طرح باقی ہے۔ اسی کے ساتھ اس میں جدید سہولتیں پوری طرح موجود ہیں۔ مثلاً ہموار راستے، پانی کا انتظام، صاف ستھرے باتھ روم، وغیرہ۔
قدیم مسلم عہد کی ان عمارتوں کو دیکھتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ مسلم سیاحوں نے اپنے سفرناموں میں ان کا ذکر ’’برباد ماضی‘‘ کے عنوان کے تحت کیا ہے۔ مگر میں نے اس کو دیکھا تو مجھے خیال آیا کہ یہ تو تجدید ماضی کا واقعہ ہے۔ جدید حالات نے خود اسپین کے اندر یہ داعیہ پیدا کیا کہ وہ ان مسلم یادگاروں کو دوبارہ سجائیں۔ یہ سجانا مسلم عہد کے نام سے ہوا ہے۔ کیوں کہ اگر ان سے مسلم عہد کی یادگار کا لفظ نکال دیا جائے تو ان کی تاریخی حیثیت ختم ہوجائے گی اور ان کی تاریخی حیثیت کا ختم ہونا اسپین کی حکومت کے سیاحتی مفاد میں نہیں۔
۱۴ دسمبر ۲۰۰۳ کو جب کہ میں اسپین میں تھا ایک سنسنی خیز خبر میڈیا کے ذریعہ معلوم ہوئی۔ وہ عراق کے سابق صدر صدام حسین کی گرفتاری تھی۔ یہ واقعہ عراق میں ہوا مگر جدید کمیونیکیشن کے ذریعہ منٹوں کے اندر اس کی خبر ساری دنیا میں پھیل گئی۔ ہر جگہ بس اسی کا چرچا ہونے لگا۔اس خبر کا خلاصہ ایک اخبار سے لے کر یہاں نقل کیا جاتا ہے:
امریکی فوج نے سابق عراقی صدر صدام حسین کو اُن کے آبائی وطن تکریت میں چھاپہ مار کر زندہ گرفتار کرلیا۔ عراق میں امریکی انتظامیہ نے اس کی اطلاع دی۔ بغداد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عراق میں امریکی انتظام کار پال بریمر(Paul Bremer ) نے سابق عراقی صدر صدام حسین کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ خواتین و حضرات ہم نے صدام کو پکڑ لیا:
Ladies and gentlemen, we got Saddam Husain.
اس پریس کانفرنس کے دوران ایک ویڈیو دکھایا گیا جس میں صدام حسین لمبے بکھرے سفید بال اور گھنی داڑھی رکھے نظر آئے۔امریکی فوج کے لفٹننٹ جنرل ریکارڈو سینچیز(Lt. Gen. Recardo Sanchez) نے بتایا کہ کئی ماہ کے دوران جمع کی گئی انٹلی جنس رپورٹ کی بنیادپر یہ چھاپا مارا گیا جس کا نام ’’آپریشن ریڈ ڈان‘‘ تھا۔ ا س چھاپے میں ایک بھی گولی نہیں چلانی پڑی۔ اس آپریشن میں کُل چھ سو سے زائد فوجیوں نے حصہ لیا۔ امریکی افسر نے بتایا کہ جب امریکی فوج نے صدام حسین کو گھیرے میں لیا تو ان کی طرف سے کوئی بھی مزاحمت نہیں ہوئی۔ امریکی آفیشیل نے مزید جانکاری دی کہ جہاں صدام حسین چھپے ہوئے تھے وہاں سے ۳، اے کے۔۴۷ رائفلیں اور ۵۷ ہزار امریکی ڈالر برآمد ہوئے ہیں۔
’’خبروں کے مطابق، جب امریکی فوج ان کے مقام پر پہنچی تو وہ ایک فارم ہاؤس کے بنکر میں چھپے ہوئے تھے۔ صدام کی گرفتاری کے فوراً بعد ان کی شناخت کی جانچ کے لیے ان کا ڈی این اے ٹسٹ کیا گیا جس سے یہ ثابت ہوگیا کہ گرفتار کیا جانے والا شخص ہی صدام حسین ہے۔ ۹ اپریل۲۰۰۳ کو صدام کو معزول کیے جانے کے بعد سے عراق میںاتحادی فوجوں پر مسلسل حملے ہورہے تھے۔ صدام حسین نے اپنے بیٹوں عدی اور قصی کی امریکی فوج کے ہاتھوں موت کے بعد بھی اپنے پوشیدہ ٹھکانوں سے امریکیوں کے خلاف حملوں کی اپیلیں جاری رکھی تھیں۔
امریکا نے صدام حسین کی گرفتاری کے لیے ۲۵ ملین ڈالر کا انعام رکھا تھا۔ عُدی اور قُصی کی موصل میں موجودگی کی خبر دینے والے مخبر کو ۳۰ ملین ڈالر کے علاوہ امریکا میں پناہ(asylum) دی گئی ہے۔ ۶۶ سالہ سابق عراقی صدر ۹ اپریل ۲۰۰۳ سے مفرور تھے جب سے امریکا نے بغداد پر قبضہ کیا تھا۔ وہ امریکا کے ۵۵ مطلوبہ لوگوں کی لسٹ میں سر فہرست تھے۔
۱۵ دسمبر کا دن کانفرنس کے منتظمین نے اشبیلیہ کی تاریخی عمارتوں کو دیکھنے کے لیے خاص کیا تھا۔ تمام شرکاء جدید طرز کی دو بسوں پر سوار ہوکر مختلف عمارتوں کو دیکھتے رہے۔ یہ سب مسلم عہد کی عمارتیں تھیں۔ مسلم عہد کے خاتمہ کے بعد ان عمارتوں کا حال وہ ہوگیا تھا جس کی تصویر کشی الطاف حسین حالی نے اپنے اس شعر میں کی ہے:
کوئی قرطبہ کے کھنڈر جاکے دیکھے مساجد کے محراب و در جاکے دیکھے
مگرپچھلے پچیس سالوں میں حالات بہت بدل گئے ہیں۔ یہ سیاحت کی انڈسٹری کا کرشمہ ہے۔ موجودہ زمانہ میں سیاحت کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ اسپین میں سیاحوں کی دلچسپی کا سب سے بڑا مرکز مسلم عہد کی عمارتیں تھیں۔ ان عمارتوں میںاب اقتصادی قیمت(commercial value) پیدا ہوگئی ہے۔ جب کہ اس سے پہلے وہ صرف خارجی حملہ آوروں کی علامت کے طورپر دیکھی جاتی تھیں۔ چنانچہ اس جدید ضرورت کے تحت اسپین کی حکومت نے ان قدیم عمارتوں کو دوبارہ آراستہ کیا۔ ان کے اندر جو ٹوٹ پھوٹ آئی تھی ان کو مرمت کرکے اس کو ازسرنو شاندار بنا دیا گیا۔ چنانچہ یہاں ساری دنیا کے سیاح کثرت سے آتے ہیں۔ سیاحت اسپین کی آمدنی کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ ایک وسیع محل میں میںنے دیکھا کہ قدیم طرز کی شاہی گھوڑا گاڑی موجود تھی اور سیّاح اُس کے اوپر بطور تفنن محل کے مختلف حصوں کا سفر کر رہے تھے۔
الطاف حسین حالی نے اسپین کے ان ’’کھنڈروں‘‘ کے بارے میں لکھا تھا کہ اگرچہ ا ب وہ کھنڈر ہوچکے ہیں مگر اب بھی ان کے اندر ماضی کی شان و شوکت جھلک رہی ہے:
جلال ان کے کھنڈر وںمیں ہے یوں چمکتا
کہ ہو خاک میں جیسے کندن دمکتا
حالی اور اس قسم کے دوسرے لوگوں نے ان ’’کھنڈروں‘‘ میں صرف ماضی کی برباد شدہ عظمت کی جھلک دیکھی تھی۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک منفی نقطۂ نظر ہے۔ میں اپنے مزاج کے تحت تاریخ کو مسلم اور غیر مسلم کے خانوںمیں بانٹ کر نہیں دیکھتا۔ میں تاریخ کو انسانیت کے ایک تسلسل کے روپ میں دیکھتا ہوں۔ اس لیے جب میں نے مسلم عہد کی قدیم طرز کی عمارتوں کو دیکھا اور دوسری طرف جدید طرز کی سڑکوں کے کنارے جدید طرز کی بلند بالا بلڈنگوں کو دیکھا تو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں انسانی ترقی کے ارتقائی عمل کو دیکھ رہا ہوں۔ میرے دل نے کہا کہ مسلمانوں نے اسپین میں ترقی کی ابتدائی بنیاد رکھی تھی۔ بعد کے لوگ اب اس کے اوپر اس کی اگلی منزلیں تعمیر کررہے ہیں اور ظاہر ہے کہ بنیاد کے بغیر کوئی اگلی تعمیر کھڑی نہیں کی جاسکتی۔
اشبیلیہ میں سعودی عرب کے تعاون سے ایک شاندار عمارت بنائی گئی ہے۔ یہ گویا اسلامک کلچرل سنٹر ہے۔ اس سنٹر کا نام یہ ہے:
کنگ فہد سنٹر فار مڈل ایسٹ اینڈ اسلامک اسٹڈیز
اس ادارہ کے ڈائرکٹر سے ملاقات ہوئی۔ ان سے عالم اسلام کے موجودہ حالات پر گفتگو ہوئی۔ دوسرے مسلمانوں کی طرح ان کا خیال بھی یہ تھا کہ آج کی مسلم دنیا غیر اقوام کی سازشوں کا شکار ہے۔ میں نے کہا کہ سازش کسی غیر قوم کی تخلیق نہیں وہ خود خالق کے تخلیقی نقشہ کا ایک حصہ ہے۔ اس دنیا میں سازش ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ اس کے مقابلہ میں تدبیر کا انداز اختیار کرنا چاہیے نہ کہ شکایت اور احتجاج کا انداز۔ انہوں نے اس سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ یہ میرے لیے ایک نیا نقطۂ نظر ہے۔ میں اس پر سنجیدگی کے ساتھ غور کروں گا۔
اس کانفرنس کو اصلاً جس ادارہ نے آرگنائزکیا اس کا نام یہ تھا:
The Elijah Interfaith Institute
اس ادارہ کے تعارفی پمفلٹ میں اس کے بارے میں یہ الفاظ لکھے ہوئے تھے:
The Elijah Interfaith Institute is dedicated to fostering peace among faith communities worldwide through interfaith dialogue, education, research and dissemination.
اسپین کی اس کانفرنس میں شری روی روی شنکر بھی شریک تھے۔ ان کی ایک مخصوص فلاسفی ہے جس کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ دنیا بھر میں ۲۰ ملین آدمی کو اس سے فائدہ پہنچ رہا ہے۔ انہوں نے ایک اخباری انٹرویو دیا۔ اس انٹرویو میں ایک سوال یہ تھا کہ زندگی میں آپ کا مشن کیا ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ زیادہ سے زیادہ چہرے پر مسکراہٹ لے آنا:
To put a smile on as many faces as possible.
ایک سوال یہ تھا کہ جو لوگ امن اور خوشی چاہتے ہیں ان کے لیے آپ کی ایڈوائس کیا ہے۔ انہوں نے جواب دیا:
Get rid of stress, know that peace is there where you are and that it is in your heart. Peace is your very nature.
میرے نزدیک یہ ایک مبہم جواب ہے۔ اس جوا ب میں سائل کو واضح رہنمائی نہیں ملتی۔ اس سے بھی زیادہ مبہم ان کا آخری سوال و جواب تھا۔ انٹرویور نے خاتمہ پر پوچھا۔ قارئین کے لیے آپ کا آخری پیغام کیا ہے۔ انہوں نے جواب دیا:
Compare the problem to a dog, the solution is its tail, if you don't see its tail, just wait for a while, it will wag itself. Then you will see the solution.
اس جواب کو میں نے کئی بار پڑھا۔ مگر میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ بظاہر وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ مسئلہ کا حل اپنے آپ آتا ہے۔ مگر انہوں نے اس کے لیے کتے کی دم کی جو مثال دی ہے اس مثال کا کوئی تعلق اس جواب سے نظر نہیں آتا۔
تائیوان سے ایک صاحب آئے تھے جو شنٹو مذہب کے دھرم ماسٹر کہے جاتے تھے۔ ان کا نام سین تاؤ (Hsin Tao) تھا۔انہوں نے بتایا کہ انہوں نے تائیوان میںعالمی مذاہب کا ایک میوزیم قائم کیا ہے جس کا نام ہے(Museum of World Religions) ۔ اس کا مقصد انہوں نے یہ بتایا:
In order to encourage the exchange of ideas and mutual respect between different cultures and religions, and thereby to avert war and conflict, the Museum of World Religions was born.
اسپین کا مشہور اخبار اے بی سی ڈی سیول (ABC DE Seville) ہے۔ اس کے شمارہ ۱۷دسمبر ۲۰۰۳ میں کانفرنس کی تفصیلی رپورٹ چھپی۔ یہ رپورٹ اسپینی زبان میں تھی۔ اس لیے میں اس کو سمجھ نہیں سکا۔ البتہ ایک چیز اس رپورٹ میں واضح تھی۔ وہ یہ کہ میری تصویر کو انہوں نے سب سے زیادہ نمایاں انداز میں پیش کیا تھا۔ تصویر کے ساتھ اخبار نے کانفرنس کے ڈیکلریشن (Seville Declaration) کو شائع کیاتھا۔
میری اس تصویر کے بیک گراؤنڈ میں پتھر کی ایک دیوار دکھائی دیتی ہے۔ یہ مسلم دور کے ایک محل کی دیوار ہے۔ اس قسم کی قدیم عمارتیں یہاں ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں۔ ان عمارتوں کو جو پہلے غیر آباد پڑی ہوئی تھیں، ان کی پھر سے تجدید کی گئی ہے اور ان میں جدید سہولتیں فراہم کی گئی ہیں۔ مثلاً جگہ جگہ عمدہ نشستوں کا انتظام، صاف ستھرے باتھ روم، جدید طرز کی عمدہ سڑکیں، عمارت سے متصل پارک اور باغ اور ان کے منٹیننس کا انتظام، وغیرہ۔
اسپین (اندلس) میں ایک علاقہ کا نام وادیٔ الکبیر ہے۔ یہاں قدیم طرز کا ایک اونچا ٹاور ہے جس کو قلعۃ الحر کہا جاتا ہے۔ وہ باہر سے ناتراشیدہ پتھروں کا ایک اونچا ٹاور معلوم ہوتا ہے۔ لیکن اندر سے اس کو جدید انداز میں آراستہ کیا گیا ہے۔ اس کو ہم نے تفصیل کے ساتھ دیکھا۔ یہ ٹاور اتنا بڑا تھا کہ اس کے ایک فلور پر کئی کئی کمرے تھے۔ اس وقت اس کو مسلم میوزیم کے طورپر استعمال کیا جاتا ہے اور وہ نوڈو فاؤنڈیشن کے زیر انتظام ہے۔ اس میں مسلم اسپین کے تمام تاریخی عمارتوں کے عمدہ ماڈل بنا کر رکھے گئے ہیں۔ مثلاًالحمراء کا ماڈل، مسجد قرطبہ کا ماڈل، وغیرہ۔ یہ ماڈل فنی اصول پر معیاری انداز میں بنائے گئے ہیں۔ اسی طرح اس میں عرب دور کے بہت سے قدیم مخطوطات رکھے ہوئے تھے۔ اس میں ساؤنڈ سسٹم اس طرح بنایا گیاتھا کہ وہاں گائڈ کی ضرورت نہیں تھی۔ اس کے بجائے ہر وزیٹر کو ایک ہیڈسیٹ دیا جاتا تھا۔ اس ہیڈ سٹ کے ذریعہ وزیٹر جس ماڈل کو دیکھ رہا ہوتا اس کے بارہ میں اس کو اپنی مطلوب زبان میں معلومات ملتی رہتی تھی۔ ہیڈ سٹ کے اس طریقہ کا یہ فائدہ تھا کہ وہاں آواز کا کوئی شور نہیںتھا بلکہ ہر شخص دھیمی آواز میں اپنی مطلوب معلومات لیتا رہتا تھا۔
اس کانفرنس میں مختلف مذہبوں کے نمائندے موجود تھے۔ یہودیت کی نمائندگی کرنے کے لیے یہاں اسرائیل کے چیف ربائی شلومو اَمَر(Shlomo Amar) بھی شریک تھے۔ زبان اور طرز ادا کے اعتبار سے ان کی تقریر ایک اچھی تقریر کہی جاسکتی ہے۔ انہوں نے ٹکراؤ کے ماحول کو ختم کرنے کی پرزور وکالت کرتے ہوئے کہا: ہم اس دنیا میں اس لیے آئے ہیں کہ ہم مل جل کر زندگی گزاریں نہ یہ کہ آپس میں لڑکر مرجائیں:
We are here to live together not to die together.
اب سوال یہ ہے کہ یہ مقصد کس طرح حاصل ہو۔ جواب یہ ہے کہ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے ذریعہ سے۔
اس کانفرنس میں پنڈت روی روی شنکر بھی شریک تھے۔ ان کے لیے ویجیٹیرین کھانے کا انتظام ان کے مقامی شاگرد کرتے تھے۔ کھانے کے وقت وہ خود اپنے ہاتھ سے میرے لیے یہ ویجیٹیرین کھانا لے کر آتے اور شوق کے ساتھ مجھ کو کھلاتے۔
میں یہ جانتا ہوں کہ روی روی شنکر کے نظریات درست نہیں ہیں۔ اس معاملہ میں اُن سے ایک بار تفصیل کے ساتھ میری بات بھی ہوچکی ہے۔ یہ گفتگو کئی لوگوں کی موجود گی میں ہوئی تھی۔ یہ لوگ اس بات کے گواہ ہیں کہ وہ میرے سوالات کا جواب دینے سے عاجز رہے۔ مگر اس کے باوجود یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ بہت مقبول گرو ہیں۔ میرے تجربہ کے مطابق، ان کی مقبولیت کا خاص سبب اُن کی خوش اخلاقی ہے۔ اس معاملہ میں غالباً شاعر کاوہ شعر درست آتا ہے جس میں اُس نے شراب خانہ میںلوگوں کی بھیڑ کا سبب یہ بتایا تھا:
فقط یہ بات کہ پیرِ مغاں ہے مردِ خلیق
۱۸ دسمبر کو کانفرنس کے تمام شرکاء اشبیلیہ سے قرطبہ لے جائے گئے۔ یہ پورا سفر سر سبز وادیوں میںطے ہوا۔ سڑک نہایت عمدہ تھی۔ درمیان میں بعض تاریخی مقامات کو دیکھنے کے لیے ہم لوگ رکے۔ اسپین کا پورا ملک، خاص طورپر اندلس تاریخی یادگاروں سے بھرا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں سیّاح لوگ نہایت کثرت سے آتے ہیں۔
اسپین کی آب و ہوا بھی بہت اچھی ہے۔ یورپ کے دوسرے ملکوں کے مقابلہ میں اسپین نسبتاً معتدل آب و ہوا کا ملک سمجھا جاتا ہے۔ راستہ میں ہم ایک مقام پر ٹھہرے۔یہاں ایک بہت بڑی تاریخی عمارت تھی۔ یہ عمارت سیاحوں سے بھری ہوئی تھی۔ خاص طور پر لڑکے اور لڑکیاں کثرت سے دکھائی دیتی تھیں۔ مگر وہاں کوئی شور نہ تھا۔ یہ لوگ متحرک مجسموں کی طرح ادھر ادھر جاتے ہوئے نظر آتے تھے۔
یہ منظر ہندستان کے سیاحتی مقامات سے بہت مختلف تھا۔ ہندستان میں عام طورپر ایسے مقامات پر دو چیزیں عام ہیں۔ ایک، شوروغل، اور دوسرے، کھانے پینے کی چیزوں کے خالی پیکٹ۔ اس طرح چلتے ہوئے ہم لوگ قرطبہ پہنچے تو وہاں دوپہر بعد کا وقت ہوچکا تھا۔ قرطبہ میں بہت سی تاریخی عمارتیں ہیں مگر سب سے زیادہ مشہور مسجد قرطبہ اور مسیحی کیتھیڈرل ہے۔
قرطبہ میں ہم کو سیاحت کے ڈپارٹمنٹ کی طرف سے مختلف لٹریچر دئے گئے۔ ایک پمفلٹ کے ٹائٹل پر یہ الفاظ لکھے ہوئے تھے:
Brief Guide to the Holy Cathedral Church Former Mosque of Cordoba.
اس میں بتایا گیا تھا کہ قرطبہ میں مسلم عہد سے پہلے ایک گرجا ہال(basilica) تھا۔عبدالرحمن اوّل نے اس کو توڑ کر اس کی جگہ مسجد قرطبہ بنائی جو پمفلٹ کے مطابق، مغربی دنیا میں پہلی مسلم عبادتی عمارت تھی۔ مسلم عہد کے خاتمہ پر عیسائی بشپانجلو(Martin Fernandez de Angulo) کے حکم سے سولہویں صدی میں اس مسجد کو دوبارہ کیتھیڈرل میں تبدیل کیاگیا۔
اس مسجد کو میں نے تفصیل کے ساتھ دیکھا۔ یہ مسجد بہت بڑی تھی اور تعمیر کے اعتبار سے نہایت خوبصورت اور پرشکوہ انداز میں بنائی گئی تھی۔ دیکھنے کے بعد جہاں تک میں نے اندازہ کیا مجھے ایسا محسوس ہوا کہ مسلم عہد کے خاتمہ کے بعد مسجد کو توڑا نہیں گیا البتہ اُس کے تقریباً نصف حصہ کو چرچ میں تبدیل کر دیاگیا اور بقیہ نصف حصہ مسجد کی صورت میں باقی رہا۔ امام کے کھڑے ہونے کی جگہ اب بھی پہلے کی طرح ہے اور نہایت شاندار انداز میں بنائی گئی ہے۔ وسیع محراب پر سونے کا کام بنا ہوا تھا۔ اُس کے قریب جانے پر پابندی تھی۔
قرطبہ میں ہم کو ایک گلی میں لے جایا گیا۔ اس گلی میں کار نہیں گذر سکتی ۔یہاں پیدل جانا ہوتا ہے۔ اس گلی کے اندر ہم کو ایک گھر دکھایا گیا۔ یہ مسلم عہد میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اس گھر کو ایک فرانسیسی نو مسلم خاتون نے خرید لیا ہے۔ ان خاتون کا نام عائشہ ہے۔ اس گھر میںقدیم عربی انداز میں ہماری تواضع کی گئی۔
قدیم طرز کے بنے ہوئے اس گھر کے ہر حصہ میں مسلم عہد کی یادگاریں نمائش کے لیے رکھی گئی تھیں۔ لوگ دیر تک اُن کو دیکھتے رہے۔ اس گھر کو اس کی قدیم صورت پر برقرار رکھا گیا ہے۔ یہ گھر صاف ستھرا تھا مگر اُس کے کمرے چھوٹے تھے۔ کھڑکیاں بہت کم تھیں۔ فرش بھی آج کل کی طرح ہموار نہ تھا۔ گھر کے افراد میں کوئی عربی جاننے والا نہیں ملا۔ یہ لوگ اسپینی زبان بولتے تھے۔ اسی کے ساتھ وہ ٹوٹی پھوٹی انگریزی بھی بول سکتے تھے۔ تاہم ترجمان نے یہ کمی پوری کردی۔
قرطبہ ایک قدیم شہر ہے جو اندلس کے علاقہ میں واقع ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بائبل میں ترشیش (Tarshish) کے نام سے جس بستی کا ذکر ہے وہ یہی قرطبہ ہے۔ قرطبہ ۱۵۲ ق م میں رومی نوآبادیات کے طورپر قائم کیاگیا ۔ جولیس سیزر(Julius Ceaser) نے ۴۵ ق م میں اس شہر پر حملہ کیا اور وہاں کے بیس ہزار افرادکو مارڈالا۔ لوکان (Lucan) اور بشپ ہاسیس(Hosius) اسی قرطبہ میں پیدا ہوئے جنہوں نے شاہ قسطنطین کو مسیحی بنانے میں اہم رول ادا کیا۔
قرطبہ میں مسلمانوں کی حکومت ۷۵۶ سے ۱۲۳۶ تک رہی۔ عبد الرحمن اول نے ۷۵۶ میں قرطبہ کو اپنی اسپینی سلطنت کی راجدھانی بنایا۔ مسجد قرطبہ کی بنیاد اسی عبد الرحمن اول نے رکھی جس کو اس کے جانشینوں نے ۹۷۶ میں مکمل کیا۔اموی سلطنت کے زمانہ میں قرطبہ یورپ کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ شہر سمجھا جاتا تھا۔
اُس زمانہ میں قرطبہ مشرق و مغرب کے لیے علم کا مرکز بن گیا تھا۔ اس نسبت سے میں تقریباً ہر دن قرطبہ کو یاد کرتا ہوں۔ اس لیے کہ قرطبی علماء کی دوسری کتابوں کے علاوہ میرے پاس ابو عبد اللہ محمد بن احمد الانصاری القرطبی (وفات ۶۷۱ھ) کی عربی تفسیر الجامع لأحکام القرآن موجود ہے جس کو میں تقریباً روزانہ دیکھتا ہوں۔ یہ تفسیر بیس جلدوں میں ہے اور جامع تفسیروں میں شمار ہوتی ہے۔ مجھے ذاتی طورپر یہ تفسیر کافی پسند ہے۔یہ تفسیر مجھے ایک عرب شیخ نے تحفہ میں دی تھی۔
سید رشید رضا نے اپنی کتاب میں مسلم اسپین کی شان و شوکت بتاتے ہوئے لکھا ہے:
’’شہر قرطبہ کا تصور کیجئے جسے ’’یورپ کی دلہن‘‘ کہنا بجا ہوگا۔ یہاں کی جامع مسجد کی وسعت کا اندازہ اس طرح ہوسکتا ہے کہ اس کے اندرونی حصے میںپچاس ہزار اور صحن میں تیس ہزار لوگ آسانی سے نماز پڑھ سکتے تھے۔ جامع مسجد کے علاوہ باقی مسجدوں کی تعداد سات سو تھی‘‘۔
جو ش اور فخر سے بھری ہوئی اس قسم کی سطروں کے بعد سیدرشید رضا لکھتے ہیں:
’’جب میں غرناطہ کے الزّہراء محل کو دیکھنے گیا تو میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی، گویا میں نے محل نہیں دیکھا بلکہ ایک مکمّل شہر دیکھا۔ اس کی لمبائی نو سو میٹر اور چوڑائی آٹھ سو میٹر تھی۔ اہل ہسپانیہ اس محل کو ’’شہر زہراء‘‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔
اگر ہم دوسرے شہروں کوچھوڑ کر صرف غرناطہ ہی کو لے لیں جو یورپ میں مسلمانوں کی سب سے چھوٹی سلطنت کا دارالخلافہ تھا تو ہم اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ پندرہویں صدی عیسوی تک یورپ میں اتنا عظیم الشان اور با رونق شہر کوئی نہ تھا۔ جس زمانے میں ہسپانیوں نے اس شہر کو فتح کیا تھا، اس کی آبادی پچاس ہزار تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ تمام یورپ میں ایک بھی ایسا شہر نہ ملتا تھا جو غرناطہ کی نصف آبادی ہی کے برابر ہوتا۔ پھر الحمراء کے عظیم الشان محل کی طرف توجہ کیجئے۔ اس کی تعریف میں صرف اتنا ہی کہہ دینا کافی ہے کہ تمام روئے زمین پر اس کی کوئی مثال نظر نہیں آتی‘‘۔
موجودہ زمانہ کے تقریباً تمام مسلم رہنما اسی قسم کی بات لکھتے اور بولتے رہے ہیں۔ مگر یہ طریقہ خود مسلمانوں کے لیے سخت تباہ کن ہے۔ یہ لوگ مشترک طورپر یہ غلطی کرتے ہیں کہ وہ قدیم یورپی قوموں کا تقابل قدیم مسلمانوں سے کرکے مسلمانوں کو فخر کی غذا دیتے رہتے ہیں۔ اس کے برعکس صحیح طریقہ یہ ہے کہ قدیم عہد کی مسلم ترقیوں کا تقابل جدید یورپ کی ترقیوں سے کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ قدیم مسلمان آج کی یورپی ترقی سے اتنا ہی پیچھے ہیں جتنا کہ قدیم زمانہ میں دوسری قومیں مسلمانوں سے پیچھے تھیں۔ سید رشید رضا اور دوسرے لوگوں کے تقابل میں یہ غلطی ہے کہ وہ مسلم تاریخ کے زمانۂ اختتام کو لے رہے ہیں اور یورپی تاریخ کے زمانۂ آغاز کو۔ یہ ایک غیر منصفانہ تقابل ہے۔ ایسا تقابل دین کے خلاف بھی ہے اور عقل کے خلاف بھی۔
یہ غلط تقابل مسلمانوں کے لیے سخت تباہ کن ہے۔ غلط تقابل سے آج کے مسلمانوں کو فرضی فخر کی غذا ملتی ہے۔ وہ غیر حقیقی طورپر پدرم سلطان بود کی فرضی نفسیات میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر صحیح تقابل کیا جائے تو آج کے مسلمانوں کے اندر عمل کا جذبہ پیدا ہوگا۔ وہ اپنے پچھڑے پن کو دور کرنے کی کوشش کریں گے نہ کہ مفروضہ طورپر اپنے کو آگے سمجھ کر اس پر بے بنیاد فخر کرتے رہیں۔
کارمونا (Carmona) اسپین کا ایک قدیم شہر ہے۔ ۱۷ دسمبرکو کانفرنس کے تمام شرکاء یہاں لے جائے گئے اور یہاں کے میئر کی طرف سے انہیں الوداعی خطاب کیا گیا۔ یہاں قدیم زمانہ کا ایک بہت بڑا قلعہ ہے۔ یہ قلعہ مسلم عہد میں بنا تھا۔ اس قلعہ کے اندر الوداعی تقریبات انجام پائیں۔ اس قلعہ کو ازسر نو آراستہ کرکے اس کو شاندار بنا دیا گیا ہے۔
۷۱۳ء میں موسیٰ بن نُصیر نے کارمونا کو فتح کیا۔ اس کے بعد سے وہ مسلم اندلس کا ایک حصہ بن گیا۔ یہاں آباد ہونے والے عرب اور بربر نے اس کا نام کارمونا رکھا۔کارمونا کے میئر کی طرف سے ہمیں جو کتابیں اور پمفلیٹ دئے گئے ان میں سے ایک میں یہ لکھا ہوا تھا۔ اس فتح کے بعد شہر کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ فاتح اور مفتوح امن کے ساتھ مل جل کر رہنے لگے۔ یہاں تک کہ اکثریت نے اسلام کے کلچر کو اختیار کرلیا:
Thus began a new golden age for the city which became a cultural crossroad where the Arabs and Berber conquerors lived peacefully beside the conquered Hispano-Visigothic population untill the majority finally embraced the culture of Islam.
اشبیلیہ کی کانفرنس (۱۴۔۱۷ دسمبر ۲۰۰۳) کے خاتمہ پر ایک ڈکلریشن جاری کیا گیا۔ اس ڈکلریشن کے پانچ پوائنٹ تھے۔ اس میں یہ اعلان کیاگیا تھا کہ پانچ بڑے عالمی مذاہب کے نمائندے جو اشبیلیہ میں جمع ہوئے تھے وہ مشترک طورپر یہ اپیل کرتے ہیں کہ ہر مذہب کے ذمہ دار ایسے اقدامات کریں جو مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینے والا ہو۔
یہ ڈکلریشن بجائے خود بلاشبہہ اچھے جذبات کا اظہار تھا۔ مگر سوال یہ ہے کہ ایسے سینکڑوں ڈکلریشن جاری کیے گئے مگر مذاہب کے درمیان مطلوب فضا اب تک قائم نہ ہوسکی۔ میرے تجربہ کے مطابق، اس مقصد کے لیے کانفرنس کے اجتماعی خطاب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ افراد کے اندر مطلوب ذہن بنانے کی کوشش کی جائے۔ یہ مقصد حقیقۃً افراد کی ذہن سازی کے ذریعہ حاصل ہوگا، نہ کہ اجتماعی خطابات سے۔
۱۸ دسمبر کی شام کو اشبیلیہ سے واپسی کا سفر ہوا۔ اشبیلیہ ایر پورٹ سے آئبیرین ایر لائنز کے ذریعہ ہم لوگ بارسلونا پہنچے۔ یہ سفر ایک چھوٹے جہاز کے ذریعہ طے ہوا۔ اس کے مسافر تقریباً ۹۹ فیصد یورپی لوگ تھے۔
ہماری پہلی منزل بارسلونا تھی۔ بارسلونا میںکچھ دیر قیام کرنے کے بعد ہم کو آگے جانا تھا۔ بارسلونا کا ایرپورٹ یورپی انداز کا ایک خوبصورت ایر پورٹ تھا۔ وہ نہایت صاف ستھرا اور منظم دکھائی دیا۔ یہاں کے لوگ انگریزی زبان کم اور اسپینی زبان زیادہ جانتے تھے۔ کسی مرحلہ پر بھی ایر پورٹ پر ہم سے کوئی پوچھ گچھ نہیں کی گئی۔ ایر پورٹ کی دیواروں میں لگے ہوئے بڑے بڑے شیشے کے باہر شہر بارسلونا کا ایک منظر دکھائی دے رہا تھا۔ اس قسم کے بڑے بڑے شیشے یوروپ کے ایر پورٹوں میں عام ہیں۔ مگر انڈیا کے ایرپورٹوں پر ایسا بہت کم نظر آتا ہے۔
بارسلونا میڈیٹیرینین سمندر کے ساحل پر واقع ہے۔ وہ ایک تجارتی سنٹر ہے اور اسپین کی سب سے بڑی بندرگاہ ہے۔ یہاں کی قدیم تاریخی عمارتیں سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز ہیں۔ بارسلونا ایک قدیم شہر ہے۔ وہ مختلف سلطنتوں کے تحت رہا ہے۔ تیسری صدی کے آخر میں اس کی پہلی شہری دیوار بنائی گئی۔ ۷۱۷ء میں بارسلونا مسلم سلطنت کے تحت آیا۔ ۸۰۱ میں شہنشاہ لوئی اول نے عربوں کو یہاں سے نکال دیا اور اس شہر کو اپنی سلطنت میں شامل کرلیا۔
Barcelona fell, around 717, under the sway of the Islamic world. In 801 the Carolingian emperor Louis I the Pious expelled the Arabs and added the city to his domains. (Vol. 2/720)
سید رشید رضا مشہور عرب عالم ہیں۔ وہ عربی کے علاوہ اور بھی کئی زبانیں جانتے تھے۔ وہ فرانسیسی زبان بھی اچھی طرح جانتے تھے۔ سید رشید رضا نے تقریباً ۷۰ سال پہلے ایک سلسلۂ مضامین اپنے مجلہ المنار میں شائع کیا تھا جو بعد کو کتاب کی صورت میں چھپا۔ اس کتاب کا نام یہ تھا: لماذا تأخر المسلمون وتقدم غیرہم (مسلمان کیوں پیچھے ہوگئے اور ان کے سوا دوسرے کیوں آگے ہوگئے)۔
اس کتاب میں مصنف نے قدیم مسلمانوں کی شجاعت کے کئی واقعات پرجوش طورپر بیان کئے ہیں ۔ ماضی کے ان واقعات کو بیان کرکے موجودہ مسلمانوں کو ابھارا ہے کہ وہ بھی اپنے اسلاف کی اس بہادرانہ تاریخ کو دہرائیں۔ اس سلسلہ میں انہوں نے اسپین کے شہر بارسلونا کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا:
’’افسوس ہے کہ ہم وہ زمانہ بھول گئے ہیں جب کہ محض بیس مسلمان بارسلونا سے فرانس کے جنوب میں فراکسیمہ کو آئے اور پہاڑ پر قبضہ کرکے اور ایک قلعہ بنا کر رہنے لگے اور پھر آہستہ آہستہ اُن کی تعداد بڑھتی چلی گئی، یہاں تک کہ وہ ایک سو ہوگئے۔ تب انہوں نے ایک باقاعدہ حکومت قائم کی، اور فرانس کے جنوبی حصہ کے علاوہ ا ٹلی کے شمالی حصہ پر بھی قبضہ کرلیا۔ مسلمانوں کی تعداد صرف ایک سو تھی۔ مگر اس حال میں بھی گردونواح کے بادشاہ اُن کی دوستی کے طلب گار تھے۔ کوہِ الپ کی چوٹی اور فرانس اور اٹلی کے وسطی پہاڑوں کی شاہراہیں ان کے قبضہ میں تھیں اور اِن راستوں سے جس قدر بھی قافلے گزرتے تھے، وہ اُن سب سے ٹیکس وصول کرتے تھے۔ اس چھوٹی سی جماعت نے یہاں تک ترقی کی کہ وہ یورپ اور سوئزرلینڈ کے وسط میں بحیرۂ کونستانزہ تک پہنچ گئی اور پورے پچانوے سال تک ان علاقوں پر حکمراں رہی۔ آخر کار تمام اہل فرنگ متحدہ قوت سے ان کو مٹانے پر کمر بستہ ہوگئے، یہاں تک کہ وہ مسلسل لڑائیوں کے بعد مٹا دئے گئے۔ اس وقت مسلمان عربوں کی تعداد ۱۵۰۰ سے زیادہ نہ تھی۔‘‘
سید رشید رضا نے اپنے خیال کے مطابق، اس کو دردناک بزدلی قرار دیتے ہوئے لکھاہے:
’’مسلمانوں کے تنزل کا ایک بڑا سبب بزدلی ہے۔ ہمارے اسلاف تمام اقوام عالم میں شجاعت و شحامت کے لیے مشہور تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب ایک مسلمان تن تنہا دس آدمیوں کا اور بعض دفعہ سو کا مقابلہ کرتا تھا۔ مگر آج یہ حالت ہے کہ وہ موت کے نام سے بھی ڈرتے ہیں۔ زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ ہم اپنی آنکھوں سے یہ دیکھ رہے ہیں کہ اسلام کے دشمن اپنی قوم اور وطن کے لیے کس کس طرح موت سے کھیل رہے ہیں۔ لیکن ہم پھر بھی شرم نہیں کرتے۔ پرانے زمانہ کی یہ روایات بدل گئی ہیں۔اب ان کے چند آدمی مسلمانوں کی بڑی تعداد کا مقابلہ کرکے مسلمانوں کو شکست دے دیتے ہیں۔‘‘
سید رشید رضا اور ان کے جیسے دوسرے رہنماؤں کا معاملہ یہ ہے کہ وہ غلط تقابل کا شکار ہیں۔ وہ زوال یافتہ قوم کا تقابل عروج یافتہ قوم سے کر رہے ہیں۔ دور اول میں مسلمان عروج پر تھے اور یورپی قومیں زوال پر۔ بعد کو یہ ہوا کہ یورپی قوموں میں احیاء کا عمل ہوا اور وہ عروج پر پہنچ گئیں۔ جب کہ اس کے مقابلہ میں مسلمان قانونِ فطرت کے تحت اپنے زوال کے دور میں پہنچ چکے تھے۔
اس فرق کو نہ رشید رضا اور شکیب ارسلان نے سمجھا اور نہ اقبال اور شبلی نعمانی اس کو سمجھ سکے۔ اس بے خبری کی بنا پر ان لوگوں نے مسئلہ کا حل صرف یہ سمجھا کہ ہدی خوانی کرکے مسلمانوں کو ابھارا جائے۔ مگر یہ ہدی خوانی یا بانگ درا کا مسئلہ نہ تھا بلکہ یہ مسلمانوں کے احیاء نو کا مسئلہ تھا۔
قرآن کے الفاظ میں،یہ بنجر زمین کو دوبارہ محنت کرکے زرخیز بنانے کا مسئلہ تھا (الحدید ۱۶۔۱۷)۔ یہ تشخیص کی غلطی تھی۔ تشخیص کی اس غلطی کا نتیجہ یہ ہوا کہ سو سال سے بھی زیادہ لمبی جدوجہد بے نتیجہ ہوکر رہ گئی، وہ کسی مثبت نتیجہ تک نہیں پہنچی۔
بار سلونا سے اگلے جہاز کے ذریعہ استانبول کے لیے روانگی ہوئی۔ یہ نسبتاً مختصر سفر تھا۔ لمبے سفر میں عام طورپر ڈائرکٹ فلائٹ نہیں ہوتی۔ مسافر کو یہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ ایک ایر پورٹ سے دوسرے ایرپورٹ پہنچے اور جہاز کو بدل کر اپنا سفر جاری رکھے۔
جہاز کو بدلنے کا یہ معاملہ میرے ذوق کے سخت خلاف ہے۔ تاہم اس کا ایک فائدہ ہے۔ ایک ہی جہاز کے ذریعہ زیادہ لمبا سفر کرنے سے آدمی اکتا جاتا ہے، خواہ وہ فرسٹ کلاس میں سفر کر رہا ہو۔ کیوں کہ سفر بہر حال سفر ہے۔ جہاز بدلنے کی صورت میں مسافر کو ایک قسم کی راحت مل جاتی ہے۔ ایرپورٹ پر چڑھنے اترنے اور نقل و حرکت کی وجہ سے سفر کی اکتاہٹ بڑی حدتک کم ہوجاتی ہے۔
استانبول پہنچے تو دوبارہ وہی دیکھا ہوا منظر سامنے تھا۔ استانبول یورپ کا ایک شہر ہے مگر یورپ کے دوسرے ترقی یافتہ شہروں کے مقابلہ میں ابھی وہ بہت پیچھے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترکی ابھی تک یورپین یونین کا ممبر نہ بنایا جاسکا۔
مسلمان عام طورپراس کو تعصب کا ایک معاملہ سمجھتے ہیں۔ مگر مجھے اس سے اتفاق نہیں۔ ترکی کو یورپی یونین کے ساتھ ملانے کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی غریب شخص ایک امیر شخص سے کہے کہ آؤ ہم اور تم اپنے دسترخوان کو ملالیں اور مشترک طورپر ایک ساتھ کھائیں۔ یورپ کے ناقدین خود اپنے معاملہ میں کبھی ایسی غیر مساوی مشارکت کو قبول نہیں کریں گے پھر وہ کیوں کر امید کررہے ہیںکہ ترقی یافتہ یورپ اس کو قبول کرلے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ ترکی کو یورپی یونین سے ملانے کے عمل کا آغاز ترکی کو ہر اعتبار سے مغربی معیار کے مطابق ترقی یافتہ بنانے سے ہوتا ہے نہ کہ ترکی کو اس کی موجودہ حالت پر باقی رکھتے ہوئے دونوں کو یکساں طورپر ایک درجہ دینے کا۔
استانبول سے دہلی کا سفرایک لمبا سفر تھا۔ یہ سفر ایر انڈیا کے ذریعہ طے ہوا۔
واپس اوپر جائیں

خبر نامہ اسلامی مرکز ۱۶۶

۱۔ زی نیوز (نئی دہلی) کے اسٹوڈیو میں ۲۲ ستمبر ۲۰۰۴کو ایک خصوصی پروگرام ہوا۔چار سال پہلے ایسا ہوا کہ عارف نامی ایک فوجی نے کارگل کی لڑائی میں حصہ لیا۔ پھر وہ غائب ہوگیا۔ لڑائی پر جانے سے صرف چند مہینہ پہلے عارف کی شادی ایک مسلم خاتون سے ہوئی جس کا نام گڑیا تھا۔ تین سال سے زیادہ مدت گذرنے کے بعد عارف کو مفقود الخبر قرار دے دیا گیا اور گڑیا کا دوسرا نکاح توفیق نامی ایک شخص سے کردیا گیا۔ مگر عارف زندہ تھا اور وہ پاکستان کی جیل میں تھا۔ چار سال بعد وہ چھوٹ کر آیا۔ اُس وقت تک گڑیا دوسرے شوہر کے ذریعہ حاملہ ہوچکی تھی۔ اب یہ سوال تھا کہ گڑیا کا معاملہ کس طرح طے کیا جائے۔ ۲۲ ستمبر کو گاؤں کے لوگ، نیز متعدد علماء زی ٹی وی کے اسٹوڈیو میں اکھٹا ہوئے اور یہاں ایک گھنٹہ سے زیادہ بحث کے بعد فقہی مسئلہ کے مطابق، اس کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں بطور ایک اکسپرٹ کے شرکت کی اور معاملہ کو حل کرنے میں مدد کی۔ خدا کے فضل سے معاملہ خوش اُسلوبی کے ساتھ طے ہوگیا۔
۲۔ ٹی وی نیٹ ورک آج تک (نئی دہلی) کی ٹیم نے ۳۰ ستمبر ۲۰۰۴ کی شام کو صدر اسلامی مرکز کا ویڈیو انٹرویوریکارڈ کیا۔ اس کے انٹرویور مسٹر محمد انس زبیر اور کیمرہ مین دھیرج ہیلان تھے۔ انٹرویو کا موضوع شب برأت تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ قرآن کی سورہ نمبر ۴۴ (الدخان) میں ایک آیت ہے جس میں ایک بابرکت رات کا ذکر ہے۔ اس رات کو اہم خدائی فیصلے کئے جاتے ہیں۔ قرآن میں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ یہ رات کس تاریخ کو ہوتی ہے۔ البتہ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ۱۵ شعبان کی رات ہے۔ اس رات کو تلاوت اور عبادت اور دعا کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔ دنیا اور آخرت کی کامیابی کی دعائیں کی جاتی ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ عبادت کا ثواب یا دعا کی مقبولیت پر اسرار طورپر نہیں ہوتی۔ اس کا تعلق اخلاص اور دل کی نیت سے ہے۔
۳۔ نروندنا کی ٹیم نے ۳۰ ستمبر ۲۰۰۴ کو دور درشن کے لیے صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا۔ اس انٹرویو کے سوالات زیادہ تر دو موضوع سے متعلق تھے۔ ایک یہ کہ اسلام میں قومی اتحاد کا تصور کیا ہے۔ جواب میں بتایا گیا کہ ایک خالق اور ایک انسان کا تصور قومی ایکتا اور انسانی اتحاد پیدا کرتا ہے۔ دوسرا سوال یہ تھا کہ ہندستان کی ندیوں کا رول اس سلسلہ میں کیا ہے۔ اس کے جواب میں بتایا گیا کہ ندی یا پہاڑ یا سورج یا چاند کوئی چیز اسلام میں مقدس نہیں ہے۔ البتہ نیچر کو اسلام میں اخلاقی ماڈل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ مثلاً دریا اور پیڑ انسان کو کسی معاوضہ کے بغیر بہت سے فائدے پہنچاتے ہیں۔ اسی طرح انسان کو فائدہ بخش بن کر دنیا میں رہنا چاہیے۔
۴۔ گاندھی درشن سمیتی (نئی دہلی) میں یکم اکتوبر ۲۰۰۴ کو ایک نیشنل سیمینار ہوا۔ یہ سیمینار مشہور کانگریسی لیڈر نِرمل دیش پانڈے کی صدارت میں ہوا۔ اس میں کئی ممتاز شخصیتیں شریک ہوئیں۔ یہ سیمینار گاندھی اور گنگا کے موضوع پر ہوا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ اُنہوں نے کہا کہ گاندھی اور گنگا کو ملک کی پہچان بتایا جاتا ہے۔مگر آزادی کے بعد ملک میں گاندھی اور گنگا کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا۔ حالاں کہ گاندھی اور گنگا کے نام پر اربوں روپئے خرچ کیے جاچکے۔ اصل یہ ہے کہ انڈیا میں سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے۔ کرپشن کی وجہ سے یہاں کے ہر کام بگڑے ہوئے ہیں۔ ان حالات میں انڈیا میں کسی بھی اصلاحی اور تعمیری کام کا آغاز کرپشن کے خاتمہ کے بعد ہی ہوسکتا ہے۔ موجودہ کرپشن کی صورت میں کوئی تعمیری کام ہونے والا نہیں۔
۵۔ جین مہا سبھا کی طرف سے دہلی میں ۲ اکتوبر ۲۰۰۴ کو ایک سرودھرم سمبھاؤ سماروہ منعقد ہوا۔ اس میں مختلف مذاہب کے نمائندوں نے اظہار خیال کیا۔ اس کا افتتاح دہلی کی چیف منسٹر شیلا دکشت نے کیا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ ان کو تقریر کا جو موضوع دیا گیا تھاوہ یہ تھا:
Universal Friendship and Forgiveness
انہوں نے بتایا کہ ہر مذہب میں اور اسی طرح اسلام میں ان دونوں باتوں پر کافی زور دیا گیا ہے۔ ایک طرف اسلام میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ مذہبی یا کلچرل فرق کے باوجود تمام لوگوں کو انسان کے روپ میں دیکھا جائے۔دوسری طرف سچے مومن کی یہ صفت بتائی گئی ہے کہ وہ لوگوں کو معاف کرنے والا ہوتا ہے (والعافین عن الناس) لوگوں کے اندر عفو و درگذر کا مزاج بہت ضروری ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو تمام انسانوں سے دوستانہ تعلق قائم نہیں ہوسکتا۔
۶۔ منسٹری آف ہوم افئرس کے تحت قائم شدہ ادارہ نیشنل فاؤنڈیشن فار کمیونل ہارمنی کی طرف سے صدر اسلامی مرکز کے نام دعوت نامہ (۲۲ ستمبر ۲۰۰۴) موصول ہوا۔ اس میں دعوت دی گئی تھی کہ وہ ادارہ کی گورننگ باڈی کے ممبر کی حیثیت سے ۵ اکتوبر کو ہونے والی میٹنگ میں شرکت کریں۔ یہ میٹنگ ہوم منسٹر شیوراج پاٹل کی صدارت میں ہوئی۔ اس کا موضوع ملک میں کمیونل ہارمنی کے مسئلہ پر غور کرنا تھا۔ مگر صدر اسلامی مرکز بعض وجوہ سے اس میں شرکت نہ کرسکے۔ البتہ کمیونل ہارمنی اور پیس کے موضوع پر ان کی تازہ مطبوعہ کتاب امن عالم (صفحات ۲۰۸) بھیج دی گئی جو ہوم منسٹر مسٹر شیوراج پاٹل کو دستی طورپر پہنچائی گئی۔
۷۔ اسٹار نیوز (نئی دہلی) میں ۹ اکتوبر ۲۰۰۴ کی شام کو خبروں کی بلیٹن میں ’’ماڈل نکاح نامہ‘‘ کی خبر نشر ہوئی جو کچھ لوگوں کی طرف سے بنایا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں پروگرام کے دوران اکسپرٹ کے طورپر صدر اسلامی مرکز کی رائے بلیٹن میں شامل کرکے نشر کی گئی۔ اس کی صورت یہ تھی کہ انہوں نے اپنے آفس سے ٹیلی فون پر اپنی رائے بتائی اور وہ بلیٹن کے ساتھ ان کے لائیو ٹیلی کاسٹ میں شامل کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ماڈل نکاح نامہ موجودہ حالات میں عملاً چلنے والا نہیں۔ اس سے پہلے اسی مسلم تنظیم نے شاہ بانو کے مسئلہ پر ماڈل ایکٹ بنوایا تھا مگر وہ عملاً رائج نہ ہوسکا۔ خود مسلمان اس کے خلاف عدالتوں سے فیصلے لیتے رہے۔ اس معاملہ میں اصل مسئلہ مسلمانوں کی سوچ کو بدلنا ہے نہ کہ کوئی دستاویز جاری کرنا۔
۸۔ آج تک ٹی وی (نئی دہلی) کی ٹیم نے ۱۱ اکتوبر ۲۰۰۴ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو ریکارڈ کیا۔ اس کے انٹرویور مسٹر محمدانس زبیر تھے۔ اس کا موضوع ارکان خمسہ تھا۔ اس کے تحت بتایا گیا کہ یہ پانچ ارکان گویا اسلام کے چار بنیادی اقدار (basic values) ہیں۔ اول توحید، توحید کا مطلب ہے خدا رخی زندگی اختیار کرنا۔ دوم نماز، نماز اس بات کی تربیت ہے کہ آدمی دنیا میں تواضع کے ساتھ رہے، وہ تکبر اور سرکشی سے بچے۔ سوم روزہ، روزہ کا مقصد سلف کنٹرول کی تربیت ہے۔ چہارم زکوٰۃ، زکوٰۃ کی حقیقت یہ ہے کہ اہل ایمان کے اندر انسانی ہمدردی اور خیر خواہی کا جذبہ پیدا کیا جائے۔ پنجم حج، حج عالمی اتحاد کا سبق ہے۔ حج کا مقصد یہ ہے کہ لوگ اختلاف کے باوجود متحد ہو کر رہنا سیکھیں۔
۹۔ ہندی روزنامہ سہارا سمے (نئی دہلی) کے نمائندہ مسٹر سنیل کمار نے ۱۱ اکتوبر ۲۰۰۴ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو ریکارڈ کیا۔ اس کا موضوع ’’ہندستان میں فرقہ واریت کا مسئلہ‘‘ تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ فرقہ وارانہ اختلاف ختم نہیں کیاجاسکتا۔ اصل ضرورت یہ ہے کہ لوگوں کو اتنا زیادہ تعلیم یافتہ اور باشعور بنا دیا جائے کہ وہ بھڑکانے والوں کے شکار نہ بنیں۔ سماج میں ہمیشہ اختلاف بھی ہوتا ہے اور اختلاف کو بھڑکانے والے بھی۔ اس کا علاج سماج کو با شعور بنانا ہے نہ کہ اختلاف کو یا بھڑکانے والوں کو مٹانا۔
۱۰۔ ہفت روزہ نئی دنیا (نئی دہلی) کے نمائندہ مسٹر جمشید عادل نے ۱۸ اکتوبر ۲۰۰۴ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ یہ انٹرویو نئی دنیا کے قرآن نمبر کے لیے تھا۔اظہار خیال کے دوران بتایا گیا کہ قرآن ایک ابدی کتاب ہے اور وہ تمام انسانوں کے لیے ہے۔ قرآن اب بھی اسی اصل حالت میںمحفوظ ہے جیسا کہ وہ پیغمبر اسلام کے زمانہ میں اُترا تھا۔
۱۱۔ ای ٹی وی (نئی دہلی) کی ٹیم نے ۲۵ اکتوبر ۲۰۰۴ کو صدر اسلامی مرکز کا ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ انٹرویور مسٹر محمد قاسم انصاری تھے۔ سوالات کا تعلق رمضان اور روزہ سے تھا۔ اس سلسلہ میں جو کچھ بتایا گیا اُس کا خلاصہ یہ تھا کہ روزہ در اصل صبر کی تربیت ہے۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے: ہو شہر الصبر۔ زندگی میں صبر کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ صبر کے بغیر آدمی نہ دین پر قائم رہ سکتا اور نہ دنیا میں ترقی حاصل کرسکتا۔ اسی لیے سال کے ایک مہینہ کو صبر کی تربیت کے لیے شریعت میں خاص کیاگیا ۔
۱۲۔ سائی انٹرنیشنل سینٹر (نئی دہلی) میں ۲۷ اکتوبر ۲۰۰۴ کو ایک سیمینار ہوا۔ اس میں مختلف مذاہب کے نمائندوں نے اپنے اپنے مذہب پر اظہار خیا ل کیا۔ صدر اسلامی مرکز نے اس کی دعوت پر اس میں شرکت کی اور ہیومن ویلوز اِن اسلام کے موضوع پر تقریر کی۔ یہ پروگرام ایک گھنٹہ کا تھا۔ اس موقع پر اسلامی مرکز کی انگریزی کتابیں بھی لوگوں میں تقسیم کی گئیں۔
۱۳۔ نئی دہلی کے انڈیا انٹرنیشنل سنٹر (انیکسی) میں ۲ نومبر ۲۰۰۴ کو دوروزہ سیمینار ہوا۔ اس میں ملک اور بیرون ملک کے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ شریک ہوئے۔ اس کا انتظام جس ادارہ کی طرف سے کیا گیا تھا اس کا نام یہ ہے:
Foundation for Universal Responsibility of the Dalai Lama.
اس سیمینار کا موضوع Understanding Death تھا۔ مختلف مذاہب کے نمائندوں نے اپنے اپنے مذہب کی تعلیمات کی روشنی میں موضوع پر اظہار خیال کیا۔ صدر اسلامی مرکز کو بھی دعوت دی گئی کہ ۲ نومبر کے اجلاس میں خطاب کریں۔ ان کو حسب ذیل موضوع دیاگیا تھا:
Islam and the Day of Judgement.
انہوںنے قرآن و حدیث کی تعلیمات کی روشنی میں اس موضوع پر تقریر کی۔ اس سیمینار کی پوری کارروائی انگریزی زبان میں ہوئی۔ کچھ انگریزی کتابیں بھی لوگوں کے درمیان تقسیم کی گئیں۔
۱۴۔ سری گرو گوبند سنگھ کالج آف کامرس (نئی دہلی) میں ۴۔۵ نومبر ۲۰۰۴ کو ایک سیمینار ہوا۔ یہ سیمینار سکھوں کی مقدس کتاب گرو گرنتھ صاحب کی تالیف (compilation) پر چار سو سال پورا ہونے پر کیا گیا۔ اس میں بہت سے اسکالر اور ممتاز افراد شریک ہوئے۔ مثلاً سابق پرائم منسٹر اندر کمار گجرال، گاندھیائی لیڈر نرمل دیش پانڈے، ساؤتھ افریقہ کے سابق سفیر ڈاکٹر جسپال سنگھ، جامعہ ملّیہ اسلامیہ کے سینیر پروفیسر اختر الواسع صاحب، وغیرہ۔اس سیمینار کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ انہوں نے ۴ نومبر کے افتتاحی اجلاس میں مقرر موضوع پر ایک تقریر کی۔ اس تقریر میں اقبال کے دو شعر کو بنیاد بنایا گیا۔ اقبال نے گرو نانک کے بارے میں کہا تھا:
نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا
میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے
اس موقع پر اسلامک سنٹر کی انگریزی کتابیں بڑی تعداد میں لوگوں کے درمیان تقسیم کی گئیں۔ خاص طورپر چھوٹی کتابوں کو لوگوں نے بہت پسند کیا۔
۱۵۔ ٹیلی فون کے ذریعہ دور کے مقامات پر دہلی سے دعوتی خطاب کا سلسلہ جاری ہے۔ ۵ نومبر ۲۰۰۴ کو سویڈن (اسٹاک ہوم) کے ایک اجتماع کو ٹیلی فون کے ذریعہ خطاب کیا گیا۔ اس کا موضوع تھا: قرآن کا پیغام۔یہ سویڈن کے لیے پانچواں ٹیلی فونی خطاب تھا۔ اسی طرح ۷ نومبر ۲۰۰۴ کو ٹیلی فون پر دہلی سے فلوریڈا (امریکا) کی ایک مجلس کو خطاب کیاگیا۔ اس کا موضوع اسلامی عبادت تھا۔ یہ امریکا کے لیے اس قسم کا دسواں ٹیلی فونی خطاب تھا۔
۱۶۔ حسب ذیل نئی کتابیں چھپ کر آگئی ہیں—سیرت رسول، عورت معمارِ انسانیت، امن عالم۔ ان کے علاوہ کچھ اور کتابیں تیار ہوئی ہیں جو انشاء اللہ جلد ہی چھپیں گی۔ ان کتابوں کے نام یہ ہیں: حکمتِ اسلام، کامیابی کا راز، وغیرہ۔
۱۷۔
I am Azra. I live in Sharjah, UAE. Your articles are wonderful. Most of the books seem to be boring after reading for some time, but the books written by you are never boring and in fact I feel that your book should never finish. I don't understand why some people criticise you, though your work is excellent and based on truth. I am lucky that I managed to find Al-Risala of 1980, 1986 and so on, and I am astonished to find that what you wrote at that time is proved true even in today's state of the world. (Oct. 3, 2004)
۱۸۔
Thanks be to Allah Subhanahu wa Ta'ala for the guidance through you. I have successfully set up the Al Falah Study Centre which consists of a class room, library and a book store of Goodword Publications. I have also taken agency of Urdu Al-Risala. A brochure explaining the nature of work at the study centre is enclosed, the books are priced at a very low profit margin.
Maulana Saheb, Allah knows best, my intention is to spread the Goodword and I beseech Allah (SWT) for His special favour and blessing in the form of my two sons (now 11 and 9 years old) doing dawah work when they grow up Inshaallah.
I conduct classes thrice a week. On Tuesdays I teach in Urdu, on Thursdays in English, 15 to 20 ladies attend the classes and I teach children on Saturdays. Right now I am teaching from your book Qalallah wa Qalar Rasool and for the month of Ramazan we have discussed the articles from Saum-e-Ramazan.
The safarnama in Al-Risala are very very enlightening. I read each one several times. I am doing Islahi work regularly and Dawah work as and when the opportunity arises within the known circle of non-Muslims.
Maulana, I try my best to balance between my home and the work at the study centre and have become more time conscious. I keep asking Allah in my own words to help me manage all my work efficiently. I would like to know if there is a specific dua for this purpose.
My father is conveying his most respectful regards. We all pray daily for your well-being and a long life. I feel especially blessed to be a small part of your method of spreading the word of Allah. Goodword publications are the best books in every way from the message to the style and quality. (Fatima Sara, Banglore)
واپس اوپر جائیں