Pages

Monday, 1 August 2005

Al Risala | August 2005 (الرسالہ،اگست)

3

- اجتماعِ بھوپال


اجتماعِ بھوپال

بھوپال ایک تاریخی شہر ہے۔ وہ ہندستان کے وسط میں واقع ہے۔ ایک افغانی سردار دوست محمد خاں نے ۱۷۲۳ میں بھوپال کی بنیاد ڈالی۔ یہاں مختلف اہم مقامات ہیں۔ اُن میں سے ایک تاج المساجد ہے جو انیسویں صدی میں بنائی گئی۔ بھوپال یونیورسٹی ۱۹۷۰ میں قائم ہوئی۔
ڈاکٹر حمید اللہ ندوی بھوپال یونیورسٹی کے شعبۂ عربی میں ریڈر ہیں۔ وہ تحریک الرسالہ کے سینئر ترین ممبر ہیں۔ کئی سال سے ان کا اصرار تھا کہ بھوپال میںتحریک الرسالہ کا اجتماع رکھا جائے۔ آخر کار یہ طے ہوا کہ ۱۱۔۱۲۔۱۳ مارچ ۲۰۰۵ کو یہ اجتماع منعقد کیا جائے۔ تاہم میں نے یہ تاکید کر دی کہ اس اجتماع کا عام اعلان نہ کیا جائے بلکہ محدود طورپر کچھ منتخب افر اد کو اس کی اطلاع دی جائے۔ تاکہ وہ ایک بڑے جلسہ کی حیثیت اختیار نہ کرے۔
اس پروگرام کے مطابق، بھوپال کا سفر ہوا۔ ۱۱ مارچ ۲۰۰۵کو جٹ ایرویز کی فلائٹ کے ذریعہ روانگی ہوئی اور ۱۴ مارچ کو دوبارہ جٹ ایرویز کی فلائٹ کے ذریعہ واپسی ہوئی۔ میرے ساتھ سفر میں جو لوگ شریک تھے ان کے نام یہ ہیں: ڈاکٹر محمد اسلم خاں، دیش بھگت جی، محمد خالد انصاری، ڈاکٹر محمد اقبال پردھان، رجت ملہوترہ، نغمہ صدیقی، عصمت خاں، اُستتھی ملہوترا، ڈاکٹر فریدہ خانم، سعدیہ خان، منجو ورمانی۔ پریا ملک۔
۱۱ مارچ کو ۲ بجے میرے ساتھ جانے والے لوگ ہمارے آفس میں اکھٹا ہوگئے۔ مجھ کو لے کر کل تعداد ۱۳ تھی۔ سب سے پہلے میں نے انہیں برکت کے طورپر ایک چیز پیش کی۔
میرے بیگ میں ایک ڈبہ تھا۔ اس کے اندر بھُنا ہوا چنا تھا۔ اس چنے کے ساتھ گُڑ ملا ہوا تھا۔ اُس کو ’’گُڑ چنا‘‘ کہا جاتا ہے۔ میں نے سب لوگوں کو یہ چنا پیش کرتے ہوئے کہا : یہ پرشاد ہے۔ مگر وہ سادہ پرشاد نہیں۔ بلکہ وہ پرشاد پلس ہے۔ یعنی اس چنے کے ساتھ میری دعائیں شامل ہیں۔
ایک مسلمان نے کہا کہ آپ اس کو پرشاد کیوں کہتے ہیں، آپ اس کو تبرک کیوں نہیں کہتے۔ میںنے کہا کہ میرا مِشن لوگوں کے درمیان دوئی کو مٹانا ہے اور دوئی کو مٹانا وسیع المشربی کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ میں نے کہا کہ صوفیاء کا مشن بھی دوئی کو مٹانا تھا۔ چنانچہ اُنہوں نے یہی کیا کہ اُنہوں نے کئی لفظ دوسروں کی مذہبی روایات سے لیے اور ان کو اپنے یہاں رائج کردیا۔ صوفیا کے اس لبرل مسلک کی وجہ سے ان کو استہزاء کا موضوع بنایا گیا۔ ایک اُردو شاعر نے اسی صورت حال کو مبالغہ کے انداز میں اس طرح بیان کیا ہے:
میر کے دین ومذہب کی کیا پوچھ رہے ہو ان نے تو
قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا
اس کے بعد لوگوں کے مشورہ سے محمد خالد انصاری کو اس قافلہ کا امیر اور نغمہ صدیقی کو نائب امیر مقرر کیا گیا۔ اس سلسلہ میں میں نے امارت کے مسئلہ کی مختصر وضاحت کی۔
حدیث میں سفر کے بارہ میں یہ تعلیم دی گئی ہے: اذا خرج ثلاثۃ فی سفر فلیؤمروا احدہم(سنن ابی داؤد، کتاب الجہاد، باب فی القوم یسافرون یؤمرون احدہم) یعنی جب تین آدمی سفر پر نکلیں تو وہ اپنے میں سے ایک شخص کو اپنا امیر بنا لیں۔ یہ بے حد اہم تعلیم ہے۔ اسلام میں ہر حال میں اجتماعیت مطلوب ہے۔ نماز میں اجتماعیت، سفر میں اجتماعیت، ادارہ میں اجتماعیت، حکومتی نظام میں اجتماعیت، وغیرہ۔
اس اجتماعیت کو قائم کرنے کی صورت یہ ہے کہ جب بھی کئی لوگ کسی کام میں اکھٹا ہوں تو وہ اپنے میں سے ایک شخص کو امیر بنالیں۔ اس امارت کو کامیابی کے ساتھ چلانے کی دو خاص شرطیں ہیں۔ امیر کے لیے یہ شرط ہے کہ وہ امارت کو ایک ذمہ داری سمجھے، نہ کہ کوئی اعزاز۔ اسی طرح مامورین یا ماتحت افراد کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اطاعت کے جذبہ کے تحت امیر کی ماتحتی قبول کرلیں۔ امیر سے اگر اُنہیں کوئی اختلاف یا شکایت پیدا ہو تب بھی اس کو نظر انداز کرتے ہوئے وہ اپنی اطاعت کو جاری رکھیں۔ امیر کی اطاعت کو کسی قسم کی مجبوری نہ سمجھیں بلکہ اس کو عبادت سمجھتے ہوئے خوش دلی کے ساتھ نبھائیں۔
اس کے بعد دو گاڑیوں میں ہمارا قافلہ ائر پورٹ کی طرف روانہ ہوا۔ اس موقع پر میں نے کہا کہ اس دنیا میں تمام چیزیں سفر کرتی ہیں۔ حیوانات بھی اور غیر حیوانات بھی۔ مگر یہ صرف انسان کی استثنائی صفت ہے کہ وہ سواری پر سفر کرتا ہے۔ انسان کے سوا اس وسیع کائنات پر کوئی دوسری چیز نہیں جو اپنے سفر کے لیے سواری کو استعمال کرے۔ انسان کے ساتھ خدا کا یہ معاملہ ایسا ہے کہ ہمارے سینہ کو شکر کے جذبات سے بھرجانا چاہیے۔ پھر میں نے کہا کہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے: ولقد کرمنا بنی آدم وحملناہم فی البّر والبحر (الإسراء ۷۰) یعنی اللہ نے انسان کو عزت دی اور اس کو خشکی اور تری میں سفر کرنے کے لیے سواریاں عطا کیں۔ اس آیت میں بظاہر اگر چہ صرف خشکی اور تری کی سواریوں کا ذکر ہے مگر تبعاً اس میں فضائی سواریاں بھی شامل ہیں۔ اسی طرح قرآن میں دعائیہ انداز میں آیا ہے: سبحان الذی سخرلنا ہذا وماکنا لہ مقرنین (الزخرف ۱۳)۔
قرآن کی یہ آیت سادہ معنوں میں صرف آدابِ سفر کو نہیں بتاتی بلکہ وہ بتاتی ہے کہ انسان کو کن ربانی احساسات کے ساتھ سفر کرنا چاہیے۔ قرآن وحدیث میں مختلف مواقع کے لیے جو دعائیں آئی ہیں وہ بطور آداب (etiquettes) نہیں ہیں بلکہ وہ روح دین کو بتاتی ہیں۔ مثلاً مسجد میں داخل ہونے اور نکلنے کے وقت اللہم افتح لی ابواب رحمتک اور اللہم انی اسألک من فضلک کہنا صرف آداب مسجد نہیں ہے بلکہ یہ کلمات ان مواقع کے لیے ایمانی احساسات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ وہ مومن کی قلبی حالت کا لفظی اظہار ہیں۔
ہمارا قافلہ دہلی کی سڑکوں سے گزرتا ہوا ائر پورٹ کی طرف روانہ ہوا۔ میں نے محسوس کیا کہ قافلہ کا ہر ممبر اپنے اندر ایک نیا جوش محسوس کررہا ہے۔ وہ ہر چیز کو اس طرح دیکھتا ہے جیسے کہ وہ اس کو پہلی بار دیکھ رہا ہو۔ یہ انسان کی فطرت ہے۔ انسان کے ساتھ جب تبدیلی کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو وہ اس کی شخصیت کو نئے تجربات سے دوچار کرتا ہے۔ پھر میں نے لوگوں کو بتایا کہ اسلام میں سفر کی خاص اہمیت ہے۔ بلکہ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ قرآن میں سفر کو اسلامائز کیا گیا ہے۔
قرآن میں مومن مردوں کے لیے السائحون (التوبہ ۱۱۲) کا لفظ آیا ہے۔ اسی طرح مومن عورتوں کو قرآن میں السائحات (التحریم ۵) کہا گیا ہے۔ یعنی سفر کرنے والے مرد اور سفر کرنے والی عورتیں۔
اس سے مراد مجرد سفر نہیں ہے بلکہ اس سے مراد صاحبِ ایمان کا سفر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ السائحون اور السائحات سے مراد وہ مومنین اور مومنات ہیں جن کا سفر ان کی ربانی سوچ کی بنا پر معرفت کا سفر بن جائے۔ سفر کے دوران جو تخلیقی مشاہدات اُن کے سامنے آئیں، وہ اُن کے مومنانہ ذہن کی بنا پر اُن کے لیے معرفتِ حق میںڈھلتے چلے جائیں۔ وہ مخلوق میں خالق کا جلوہ دیکھیں۔ وہ فطرت کے مظاہر میں خالق کے کرشموں کا ادراک کریں۔ اسی حقیقت کو ایک عربی شاعر ابوالعتاہیہ نے اس طرح بیان کیا ہے:
وفی کل شیٔ لہ آیۃ تدل علی أنہ واحد
اس معاملہ کو ایک فارسی شاعر نے مزید وضاحت کے ساتھ اس طرح نظم کیا ہے:
برگ درختانِ سبز در نظرِ ہوشیار
ہر ورقے دفترے است معرفت کردگار
اس طرح بات کرتے ہوئے ہم لوگ ائر پورٹ پہنچے۔ یہاں میں نے لوگوں کو ایک سبق آموز بات یاد دلائی۔ میںنے کہا کہ اس سفر میں مجھ کو اور میری لڑکی فریدہ کو چھوڑ کر کل گیارہ مرد اور عورتیں ہیں۔ یہ تعداد بہت معنٰی خیز ہے۔ مماثلت کے انداز میں اس کے اندر ایک اہم سبق پایا جاتا ہے۔ اگر آپ انجیل کو پڑھیں تو آپ پائیں گے کہ آخر وقت میں حضرت مسیح کے ساتھ (مسیح اور مریم کو چھوڑ کر) گیارہ افراد تھے۔ انہی گیارہ افراد نے مسیح کے پیغام کو ساری دنیا میں پھیلایا۔ اس سلسلہ میں انجیل کا اقتباس یہ ہے:
پھر وہ اُن گیارہ کو بھی جب کھانا کھانے بیٹھے تھے دکھائی دیا اوراُس نے ان کی بے اعتقادی اور سخت دلی پر ان کو ملامت کی۔ کیوں کہ جنہوں نے اُس کے جی اُٹھنے کے بعد اُسے دیکھا تھا اُنہوں نے اُن کا یقین نہ کیا تھا۔ اور اُس نے ان سے کہا کہ تم تمام دنیا میں جاکر ساری خلق کے سامنے انجیل کی منادی کرو۔ جو ایمان لائے اور بپتسمہ لے وہ نجات پائے گا اور جو ایمان نہ لائے وہ مجرم ٹھہرایا جائے گا۔ اور ایمان لانے والوں کے درمیان یہ معجزے ہوں گے۔ وہ میرے نام سے بدروحوں کو نکالیں گے۔ نئی نئی زبانیں بولیں گے۔ سانپوں کو اٹھالیں گے اور اگر کوئی ہلاک کرنے والی چیز پئیں گے تو انہیں کچھ ضرر نہ پہنچے گا۔ وہ بیماروں پر ہاتھ رکھیں گے تو اچھے ہوجائیں گے (مرقس، ۱۶: ۱۴۔۱۸)
عجیب بات ہے کہ اس تاریخی سفر میں میرے ساتھ میری لڑکی کو چھوڑ کر کُل گیارہ افراد تھے۔ یہ گیارہ افراد در اصل علامتی انداز میں نمائندہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ الرسالہ مشن اب اللہ کے فضل سے ایک عالمی مشن بن چکا ہے۔ دنیا کے اکثر حصوں میں اس سے وابستہ افراد موجودہیں۔ میرے اندازے کے مطابق، ان کی تعداد گیارہ ہزار سے کم نہ ہوگی۔یہ عالمی حلقہ اب اللہ کے فضل سے ایک طاقتور حلقہ بن چکا ہے۔ مزید یہ کہ اس کی پشت پر ایک طاقتور لٹریچر وجود میں آچکا ہے۔ یہ حلقہ اور یہ لٹریچر انشاء اللہ اس بات کی ضمانت ہے کہ یہ مشن مسلسل جاری رہے۔
بھوپال کے لیے میرا پہلا سفر غالباً ۴۰ سال پہلے ہوا تھا۔ اس وقت میں ٹرین کے ذریعہ تنہا بھوپال گیا تھا۔ اب میں بھوپال جارہا ہوں تو ہمارا سفر ایک قافلہ کی صورت میں ہورہا ہے جس میں مجھ کو لے کر تیرہ آدمی ہوائی جہاز کے ذریعہ بھوپال جارہے ہیں۔
یہ واقعہ علامتی طورپر ہمارے مشن کی رفتار ترقی کو بتارہا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ۴۰ سال میں یہ مشن کہاں سے کہاں تک پہنچا ہے۔ تاریخ کا تجربہ ہے کہ کوئی جاندار مشن کبھی درمیان میں نہیں ٹھہرتا۔ وہ چلتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنی منزل تک پہنچ جائے۔ مجھے یقین ہے کہ ہمارے مشن کے ساتھ انشاء اللہ یہی تاریخ دہرائی جائے گی۔ جیسا کہ لوگ جانتے ہیں، اس دوران میں ہمارے مشن کو نقصان پہنچانے کے لیے بڑی بڑی مخالفانہ کوششیں کی گئیں۔ مگر یہ کوششیں ناکام رہیں اورمشن آگے بڑھتا رہا، وہ ایک دن کے لیے بھی نہیں رکا۔
حقیقت یہ ہے کہ کوئی مشن جب رکتا ہے تو وہ کسی خارجی رکاوٹ کی بنا پر نہیں رکتا۔ ایسا ہمیشہ خود مشن کی داخلی کمزوری کی بنا پر ہوتا ہے۔ جو مشن جذباتیت یا رومانیت کے زیر اثر اٹھایا جائے وہ کبھی دیر تک قائم نہیں رہتا۔ لیکن جو مشن حقائق فطرت کی بنا پر اٹھایا جائے وہ ایک سیل رواں کی مانند ہوتا ہے۔ کوئی چٹان بھی اس کا راستہ روکنے والی نہیں۔
راستہ میں مختلف سوالات پر گفتگو جاری رہی۔ ایک سوال یہ تھا کہ عورت کا درجہ اسلام میں کیا ہے۔ اس سلسلہ میں میںنے قرآن کے حوالہ سے کچھ باتیں کہیں۔
قرآن میں ارشاد ہوا ہے: وللرجال علیہن درجۃ (البقرۃ ۲۲۸) اسی طرح فرمایا: الرجال قوامون علی النساء (النساء ۳۴) قرآن کی ان آیتوں کی تشریح کچھ لوگ اس طرح کرتے ہیں گویا کہ اسلام میں مرد کو حاکم کا درجہ دیا گیا ہے اور عورت کو محکوم کا درجہ۔ مگر یہ صحیح نہیں۔ یہ بات بجائے خود درست ہے کہ دونوں جنسوں کے درمیان فرق رکھا گیا ہے۔ مگر اس فرق کی بنیاد امتیاز نہیں ہے بلکہ صرف انتظام ہے۔ یہ انتظامی تقسیم ہے نہ کہ امتیازی تفریق۔
یہ ایک انسانی ضرورت ہے کہ اجتماعی سرگرمیوں کو ایک ناظم کی ماتحتی میں انجام دیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر اجتماعی ادارہ میں ایک باس (Boss) ہوتا ہے۔ اس باس کی حیثیت انتظام کار کی ہوتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتو پورے ادارہ میں انارکی پھیل جائے اور کام کو منظم طورپر انجام دینا ممکن نہ رہے۔ اسی طرح خاندانی ادارہ میں مرد کو انتظام کار کا درجہ دیا گیا ہے۔ تاہم وہ مطلق نہیں ہے۔ بوقتِ ضرورت عورت بھی انتظامِ کار بن سکتی ہے۔
ایک ساتھی نے کیوٹی وی (Q.T.V.) کے بارہ میں میری رائے پوچھی۔ میں نے کہا کہ پچھلے ایک مہینہ کے دوران میںنے کیو ٹی وی کو مسلسل دیکھا ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں، کیوٹی وی چو بیس گھنٹہ آتا ہے۔ اس لیے آپ رات دن میں کسی بھی وقت اُس کو دیکھ سکتے ہیں۔مگر میری رائے کیو ٹی وی کے بارہ میں اچھی نہیں۔ میں نے کہا کہ ٹی وی کے دوسرے چینل اگر سیکولر انٹرٹینمنٹ کے اصول پر چلائے جارہے ہیں تو کیو ٹی وی ریلیجس انٹرٹینمنٹ کے اصول پر چلایا جارہا ہے۔
اس سلسلہ میں دوسری بات جو میںنے محسوس کی وہ یہ ہے کہ کیو ٹی وی اسلام کی ایک کمتر صورت (reduced form) کو پیش کرتا ہے۔ اس کو برابر دیکھنے والا شعوری یا غیر شعوری طورپر یہ سمجھے گا کہ اسلام کچھ رسوم (rituals)اور کچھ آداب (etiquettes) کا مجموعہ ہے۔ ایک اور چیز جو کیوٹی وی میں شدت سے محسوس ہوتی ہے وہ یہ کہ درگاہی کلچر کو اس میں اس طرح نمایاں طورپر مسلسل دکھایا جاتا ہے جیسے کہ وہ اسلام کا ایک اہم حصہ ہو۔ حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ درگاہی کلچر کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ سب سے بڑی بات یہ کہ کیو ٹی وی کے سارے پروگرام مسلم اورینٹڈ(Muslim Oriented) ہوتے ہیں۔ حالاں کہ قرآن کا پیغام مکمل طورپر انسان اورینٹیڈ(Insan Oriented) ہوتا ہے۔ گویا کہ کیو ٹی وی اسلام کو ایک کمیونل کلچر کے طورپر پیش کررہا ہے نہ کہ یونیورسل کلچر کے طورپر۔
دہلی سے بھوپال کا سفر جٹ ایرویز کے ذریعہ ہوا۔ جٹ ایرویز ایک پرائیویٹ ایرویز ہے۔ پرائیویٹ کمپنیوں میں اس کو سب سے بڑی کمپنی بتایاجاتا ہے۔انڈیا میں جب سے پرائیویٹ کمپنیاں آئی ہیں، ہوائی سفر کا معیار کافی بہتر ہوگیا ہے۔ اس سے پہلے صرف ایک سرکاری کمپنی تھی۔ اس وقت ہوائی سفر میں مقابلہ کا ماحول نہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ مقابلہ ترقی کی لازمی شرط ہے۔ مقابلہ (competition) نہیں تو ترقی بھی نہیں۔
عجیب بات ہے کہ ۱۹۴۷ سے پہلے کانگریس اور مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر جو لیڈر اُبھرے، دونوں ہی بظاہراس حقیقت سے بے خبر تھے۔ دونوں ہی نے مقابلہ کے بجائے تحفظ (protection) کے اصول کو کامیابی کا ذریعہ سمجھا۔ دونوں میں فرق صرف یہ تھا کہ کانگریس کے لیڈر سیکولر تحفظ کی بات کرتے تھے اور مسلم لیگ کے لیڈر ملّی تحفظ کی اصطلاح میں سوچ رہے تھے۔ کانگریسی لیڈروں نے آزاد انڈیا میں اقتصادی تحفظ کے نام پر بیرونی ملکوں کو ہندستان میں داخل ہونے سے روک دیا۔ مثلاً کارسازی کی صنعت میں ایمبیسیڈر کار کے سوا کسی بیرونی کمپنی کو نہ کار بنانے کی اجازت تھی اور نہ کار کو امپورٹ کرنے کی اجازت۔ اس پالیسی کا نتیجہ ملک کو اقتصادی پچھڑے پن کی صورت میں ملا۔
اسی طرح مسلم لیگ کے لیڈروں نے پاکستان کے نام سے مسلمانوں کے لیے ایک علیٰحدہ خطہ بنایاتاکہ وہ مسلمانوں کو بیرونی اثرات سے پاک رکھ سکیں۔ یہ لوگ اس حقیقت سے بے خبر تھے کہ ترقی کا راز تحفظ اور علیٰحدگی میں نہیں بلکہ مقابلہ اور انٹریکشن میں ہے۔ اس غیر فطری پالیسی کا نتیجہ صرف یہ ہوا کہ پاکستان دنیا کے نقشہ میں صرف ایک پچھڑا ہوا ملک بن کر رہ گیا۔
جہاز کے اندر مختلف اخبارات مطالعہ کے لیے موجود تھے۔ یہاں بعض اخبارات سے کچھ سبق آموز خبروں کا ذکر کیا جاتا ہے۔
ٹائمس آف انڈیا (۱۱ مارچ ۲۰۰۵) کے صفحہ اول پر ایک خبر کی تعجب خیز سرخی یہ تھی: دلائی لامہ نے تبتیوں سے کہا کہ وہ آزاد تبت کو بھول جائیں: چین ہمارے مستقبل کے لیے سب سے بہتر ہے:
Dalai Lama tells his folk to forget free Tibet: China best for our future.
خبر میں بتایا گیا تھا کہ تبتیوں کی اپرائزنگ (uprising) کی ۴۶ ویں سالگرہ کے موقع پر ایک بیان جاری کرتے ہوئے انہوںنے کہا ہے کہ تبتی آزاد تبت کا خواب دیکھنا چھوڑ دیں اور چین تبتیوں کی ترقی اور مستقبل کے لیے سب سے اچھا ملک ہے:
The Dalai Lama told Tibetians to give up their dream of an independent Tibet, saying he believed “China is best for Tibetan's progress and future”. (p. 1)
پچھلے ۴۵ سال سے تبتی لوگ چین کے خلاف باغیانہ تحریک چلائے ہوئے تھے۔ ہندستان کے تعاون سے دلائی لاما نے دھرم شالہ میں اپنی جلاوطن حکومت (government-in-exile) بنا لی تھی۔ تبتیوں کا نعرہ تھا کہ تبت ہمارا ملک ہے اور ہم اس کو چین سے آزاد کرائیں گے اور وہاں اپنا قومی جھنڈا لہرائیں گے۔ اس باغیانہ تحریک کے نتیجہ میں تبتیوں کو بے شمار نقصان اٹھانا پڑا۔ تاہم تبتی لیڈر شپ کی یہ بات قابل تعریف ہے کہ اس نے معاملہ کا از سرِ نو جائزہ لیا اور حقیقت پسندانہ انداز اختیار کرتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ وہ چین سے لڑائی کو ختم کردیں اور چین کے سیاسی ڈھانچہ میں اپنے مستقبل کی تعمیر کریں۔ دلائی لامہ نے کہا کہ ہم نے یہ طے کیا ہے کہ ہم درمیانی راستہ اختیار کریں گے:
We remain fully committed to the middle way approach of not seeking independence for Tibet and are willing to remain within the People's Republic of China.
یہ خبر بہت سبق آموز ہے۔ اس خبر کو پڑھ کر میںنے سوچا کہ موجودہ زمانہ کے مسلمان بھی مختلف مقامات پر ٹھیک اسی قسم کی صورت حال سے دوچار ہیں۔ وہ بہت سے ملکوں میںانصاف اور اپنے حقوق کے نام پر متشددانہ جدوجہدچھیڑے ہوئے ہیں اور اس کو جہاد بتاتے ہیں۔ مگر لمبی مدت تک جان ومال کی قربانی دینے کے باوجود وہ مثبت معنوں میں کوئی کامیابی حاصل نہ کرسکے۔ اُن کے خود ساختہ جہاد کے نتیجہ میں اُنہیں کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا۔
بدھسٹ لیڈر کے ساتھ بھی یہی واقعہ پیش آیا۔ مگر نصف صدی کے ناکام تجربہ کو دیکھ کر انہوں نے اپنی رائے بدلی اور تمام اندیشوںکو نظر انداز کرتے ہوئے کھلے طور پر اعلان کیا کہ اب ہم ٹکراؤ کا طریقہ ختم کرکے مصالحت کا طریقہ اختیار کریں گے۔ تاکہ اپنی قوم کو مزید تباہی سے بچائیں اور ممکن دائرہ میں اپنی ترقی کا نیا دور شروع کرسکیں۔ مگر مسلم لیڈروں میں سے کوئی بھی اس دانش مندانہ سیاست کا ثبوت نہ دے سکا۔ وہ اپنی تباہ کن جنگ کو اس آخری حد تک لے گئے کہ خود کُش بمباری کرکے اپنی تباہی میں مزید اضافہ کررہے ہیں۔
اس فرق کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ان مسلم لیڈروں نے خود ساختہ طورپر ایک نظریہ ایجاد کیا ہے۔ وہ یہ کہ مسلمان لڑائی میں مارے جائیں تو یہ ان کے لیے کوئی نقصان کی بات نہیں۔ کیوں کہ وہ مرتے ہی سیدھے جنت میں پہنچ جائیں گے۔ یہ بلا شبہہ ایک بے بنیاد نظریہ ہے۔ قرآن و حدیث میں اس کا کوئی ثبوت موجود نہیں۔ مگر مسلم نوجوانوں کے ذہن میں یہ مفروضہ اس طرح بھر دیا گیا ہے کہ اب وہ پَروانوں کی طرح جنگ کی آگ میں کود رہے ہیں۔ اگر چہ پیشگی طورپر انہیں معلوم ہے کہ اس اقدام کا نتیجہ تباہی کے سوا اور کچھ نہیں۔ میرے نزدیک یہ بلاشبہہ خسر الدنیا والآخرۃ کا مصداق ہے۔
ہندستان ٹائمس (۱۱ مارچ ۲۰۰۵) کے صفحہ ۹ کی ایک خبر کا عنوان یہ تھا— کلکتہ ائرپورٹ کو انٹرنیشنل معیار پر بنانے کے لیے جاپان کی پیش کش:
Japan offers to build airport
خبر میں بتایا گیا تھا کہ چین کی بڑھتی ہوئی اقتصادی طاقت کا مقابلہ کرنے کے لیے ہندستان کے ائر پورٹوں کو بین اقوامی معیار پر لانا ضروری ہے۔ یہ کام پچھلے کئی برسوں سے خاموشی کے ساتھ ہورہا ہے۔ دہلی کی شاندار مٹرو (Metro) کو مکمل طورپر جاپان نے بنایا ہے۔ دہلی کی ایک اچھی سڑک جو آشرم سے نوئیڈا جاتی ہے وہ بھی جاپان کی بنائی ہوئی ہے۔ بیرونی مدد سے اس طرح کے کام پورے انڈیا میں خاموشی کے ساتھ ہورہے ہیں۔
اس خبر کو پڑھ کر میں نے سوچا کہ یہی کام ۱۹۴۷ سے پہلے انگریز اس ملک میں کررہے تھے۔ وہ ملک کے ہر شعبہ کو جدید معیار پر ترقی دے رہے تھے۔ نوآبادیاتی دور میں ترقی کا یہ کام انگلستان کے بعد سب سے زیادہ انڈیا میں ہورہا تھا۔ مگر اس وقت ہمارے سیاسی لیڈروں نے اس کو اقتصادی غلامی سے تعبیر کیا۔ اب یہی اقتصادی غلامی زیادہ بڑے پیمانہ پر دوبارہ اس ملک میں جاری ہے۔ مگر اب اس کو بین اقوامی تعاون کا نام دے دیا گیا ہے۔
جٹ ایرویز کے فلائٹ میگزین کا نام جٹ ونگس (Jetwings) ہے۔ اس کا شمارہ مارچ ۲۰۰۵ دیکھنے کا موقع ملا۔ اس شمارہ میں رنگین تصویروں کے ساتھ ایک مضمون شامل تھا۔ رائٹر کا نام سونتا کٹاریا (Sonita Kataria) تھا۔ اس مضمون میں ایک پہاڑی سفر کی روداد درج تھی۔ اس کا عنوان یہ تھا۔ بلندیوں پر چڑھنے کی مہم:
Adventure in altitude
اس مضمون میں کُلو (Kullu) کی پہاڑیوں میں سفر کا ذکر تھا۔ کُلو ہمالیہ کے کوہستانی سلسلہ کا ایک حصہ ہے۔ وہ سرسبز وادیوں اور اونچے نیچے راستوںمیں واقع ہے۔ اس کوہستانی سلسلہ میں سفر بظاہرایک پُر مشقت سفر ہے۔ مضمون نگار کو ان پُر مشقت مراحل سے گذرنا پڑا۔ مگر مضمون نگار نے لکھا ہے کہ اس سفر میں ایک کے بعد ایک فتح یابی کا احساس ہوتا رہا اور یہ احساس مجھے برابر آگے بڑھاتا رہا۔ مجھے برابر خوشی کا غیر معمولی احساس ہوتا رہا:
But there was a sense of achievement that kept me going. At the end of the trek, I had a tremendous feeling of joy and accomplishment. (p. 84)
زندگی کے سفر میں یہی احساس کسی عورت یا مردکا سب سے بڑا سہارا ہے۔ اگر آدمی حال کے بجائے مستقبل پر نظر رکھے تو اُس کو بار بار یہ احساس ہوتا رہے گا کہ میں نے ایک منزل اور طے کرلی۔ میں کامیابی کی منزل کی طرف کچھ اور آگے بڑھا۔ یہ احساس اس کی ہمت بڑھاتا رہے گا۔ وہ اس قابل ہو جائے گا کہ وہ درمیان میں رُکے بغیر اپنا سفر جاری رکھ سکے۔
پرواز شروع سے آخر تک ہموار تھی۔ دہلی سے بھوپال تک کی یہ مسافت ڈیڑھ گھنٹہ میں طے ہوئی۔ سروس ہر اعتبار سے اطمینان بخش تھی۔ البتہ بھوپال ایر پورٹ پر لینڈنگ زیادہ اچھی نہ تھی۔ ایسا محسوس ہوا جیسے کہ جہاز اچانک زمین پر گر پڑا ہو۔
جہاز میں ایک بڑے انگریزی اخبار کے ایک جرنلسٹ بھی سوار تھے۔ ایر پورٹ پر جہاز کی رَف لینڈنگ پر اُنہیں غصہ آگیا۔ وہ کسی جھجھک کے بغیر جہاز کے پائلٹ کے پاس گئے اور اُس سے جرأـت مندانہ انداز میں پوچھ گچھ کی۔ گفتگو کے وقت ایک ایرہاسٹس وہاں کھڑی ہوئی تھی۔ اُس نے مسکراتے ہوئے کہا کہ اصل یہ ہے کہ آج صبح ان کا جھگڑا اپنی گرل فرینڈ سے ہوگیا تھا۔ اس انکشاف کے بعد پائلٹ خاموش نہ رہ سکا۔ اس نے اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ہاں، آج میرا ذہن کسی قدر منتشر (upset) تھا۔ اس بنا پر ایسا ہوا۔ اُس نے مذکورہ جرنلسٹ سے اس پر معافی مانگی۔موجودہ زمانہ میں جرأتمندی کے لیے انگریزی جاننا ضروری ہے۔
یہ واقعہ بتاتا ہے کہ جدید تہذیب نے کیسے کیسے پیچیدہ مسائل پیدا کیے ہیں۔ موجودہ زمانہ میں یہ بات عام ہوگئی ہے کہ کوئی مرد شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ، اس کی ایک گرل فرینڈ ہوتی ہے۔ اس گرل فرینڈ سے اس کا اکثر جھگڑا ہوتا رہتا ہے۔ اس طرح ہر آدمی جب زندگی کے میدان میں اپنی ڈیوٹی انجام دینے کے لیے باہر آتا ہے تو وہ معتدل حالت میں نہیں ہوتا۔ یہ صورت حال اکثر اجتماعی زندگی میں فساد کا باعث بن جاتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ وفادار خاندانی تعلق کوئی سادہ چیز نہیں۔اُس کا تعلق پوری زندگی سے ہے۔ گھر کے اندر ازدواجی مسرت، بچوں کی صحیح تربیت، زندگی کے فرائض کی حسن ادائیگی، مثبت طرز فکر، قومی زندگی کی تعمیر، تمام چیزوں سے اس کا رشتہ جڑا ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خاندانی زندگی اگر صحیح اخلاقی اصول پر قائم ہو تو اُس سے پوری زندگی درست ہوتی ہے اور اگر خاندانی زندگی میں اخلاقی بگاڑ آجائے تو پوری زندگی بگڑ کر رہ جائے گی۔
ایر پورٹ پر بھوپال کے ساتھی موجود تھے، مثلاً ڈاکٹر حمید اللہ ندوی، راجیندر سنگھ، ڈاکٹر گوتم، مولانا محمد صدیق قاسمی، وغیرہ۔
ایر پورٹ سے روانہ ہو کر ہم لوگ ڈاکٹر حمید اللہ ندوی کی رہائش گاہ پر پہنچے۔ یہاں کئی لوگ اکٹھا ہوگئے تھے۔ ان سے دیر تک گفتگو ہوتی رہی۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے میںنے کہا کہ ہندستان میں سیاسی بگاڑ کا اصل سبب تعلیم میں پچھڑا پن ہے۔ انڈیا میں آزادی کے بعد ڈیموکریسی آئی ہے۔ ڈیموکریسی کو بہتر طورپر چلانے کے لیے تعلیم یافتہ سماج ضروری ہے۔ جن سیاسی پارٹیوں کو ووٹ لینا ہے وہ مجبور ہیں کہ عوام کے معیار فہم کے مطابق وہ ان سے بات کریں۔ ہندستان میں سطحی سیاست اسی لیے رائج ہوگئی ہے کہ یہاں کے و وٹر اپنی تعلیمی پسماندگی کی بنا پر گہری باتیں نہیں سمجھ سکتے۔ صرف سطحی باتیں ہی انہیں اپیل کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہندستان میں سطحی قسم کی الیکشنی سیاست رائج ہوگئی ہے۔ یہ سیاست بلا شبہہ تمام خرابیوں کی جڑ ہے۔ اس سیاست کو ختم کرنے کا موثر طریقہ یہ ہے کہ عوام کو ایجوکیٹ کرکے اُن کی ذہنی سطح کو بلند کیا جائے۔ اس کے بعد یہ سطحی سیاست اپنے آپ ختم ہوجائے گی۔
شام کو راج ٹی وی کا عملہ آگیا۔ انہوں نے ایک ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ انہوں نے مسلم مسائل کے ضمن میں بہت سے سوالات کئے۔
ایک سوال یہ تھا کہ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ بابری مسجد کوڈھائے جانے کے ذمہ دار سابق کانگریسی پرائم منسٹر نرسمہاراؤ ہیں۔ میںنے کہا کہ یہ بات واقعاتی طورپر غلط ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نرسمہا راؤ نے اپنے زمانۂ وزارت میں ایک بہت اہم کام انجام دیا تھا۔ ۱۹۹۱ء میں انہوں نے پارلیمنٹ میں ایک قانون پاس کرایا۔ اس کا نام ’’عبادت گاہوں کے تحفظ کا قانون‘‘ (Places of Worship Act 1991) تھا۔ اس قانون میں یہ طے کیا گیا تھا کہ ہندستان کی تمام عبادت گاہیں اپنی ۱۹۴۷ء کی حالت پر برقرار رکھی جائیں گی، البتہ اس میں یہ درج تھا کہ باستثناء بابری مسجد (Excluding Babri Masjid) ۔ اس جملہ کی بناء پر کچھ لوگ بھڑک اٹھے اور نرسمہاراؤ کو مسلم دشمن سمجھ لیا، حالاں کہ یہ بالکل غلط تھا۔ اس وقت بابری مسجد کا کیس عدالت میں زیر سماعت تھا، ایسی حالت میں یہ ممکن نہ تھا کہ بابری مسجد کے لیے قانون بنایا جائے۔ چنانچہ قانون میں یہ درج کیا گیا کہ بابری مسجد کے معاملہ میں عدالت جو فیصلہ دے گی اس کو نافذ کرنے کے لیے حکومت پابند ہوگی۔ دستورو قانون سے واقفیت رکھنے والا ہر شخص کہے گا کہ یہ بالکل درست تھا۔ مگر جذباتی افرادنے معاملہ کو سمجھے بغیر اس کی مخالفت شروع کردی۔ اس بناء پر وہ اس قانونی امکان سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔
۱۱ مارچ کو عشاء کی نماز کے بعد مدرسہ مفتاح العلوم کے جلسہ میں شرکت کرنے کا موقع ملا۔ یہاں میںنے طلبہ واساتذہ کے درمیان ایک تقریر کی۔ میںنے قاری محمد قاسم صاحب انصاری کی تلاوت کردہ آیات کو موضوع بنایا۔
انہوں نے اپنی قرأت میں یہ آیت تلاوت کی تھی ’’والکاظمین الغیظ والعافین عن الناس‘‘ غصہ کو پی جانے والے اور لوگوں کو معاف کرنے والے۔ میںنے کہاکہ اس قرآنی آیت میں ’’الکاظمین الغیظ‘‘ کے الفاظ آئے ہیں، نہ کہ ’’الفاقدین الغیظ‘‘ کے الفاظ۔ اس سے معلوم ہوا کہ خدا کے یہاں انسان کی پکڑ اس پر نہیں ہے کہ اس کو غصہ آجائے، بلکہ پکڑ اس بات پر ہے کہ اسے جب غصہ آیا تو اس نے اپنے غصہ پر کنٹرول نہیںکیا۔
دوسری بات میں نے یہ کہی کہ مدارس میںاس کی ضرورت نہیں کہ وہاں کا نصاب بدلا جائے یا سائنس یا انگریزی پڑھائی جائے۔ میرے نزدیک سیکولر تعلیم اور مذہبی تعلیم دونوں کا نظام الگ الگ ہونا ہی زیادہ صحیح اور مفید ہے۔پھر میں نے کہا کہ موجودہ حالت میں مدارس سے بڑے بڑے فائدے حاصل ہورہے ہیں، انہی میں سے ایک یہ ہے کہ ہندستان میںاردو زبان زیادہ تر مدارس ہی کی وجہ سے زندہ ہے۔ اسی طرح ۱۹۷۶ء کی ایک مثال دیتے ہوئے میں نے کہا کہ قرآن کی قرأت و تجوید جو مدارس میں سکھائی جاتی ہے وہ اسلام کی ایک عظیم خدمت ہے۔ واقعہ کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ’’سفرنامہ جلد اول صفحہ ۱۷۔۱۸‘‘
۱۲ مارچ کی صبح ہوئی تو فجر کی نماز کے بعد لوگ اس کمرہ میں جمع ہوگئے جہاں میرے قیام کا انتظام کیا گیا تھا۔ دیر تک دینی موضوعات پر باتیں ہوتی رہیں۔ قرآن کے بارہ میں گفتگو کرتے ہوئے میں نے کہا کہ آج کل ترتیب وار درسِ قرآن کا طریقہ رائج ہوگیا ہے۔ یہ طریقہ بجائے خود درست ہے۔ مگر میرے تجربہ کے مطابق، درسِ قرآن کو ترتیب نزولی کے اُصول پرچلایا جائے تو وہ زیادہ مفید ہوگا۔ یعنی حالات کے مطابق، قرآن کے منتخب حصوں کی تشریح وتفسیر۔ تاہم مارکیٹنگ کے اعتبار سے سلسلہ وار درسِ قرآن ہی زیادہ مفید ہے۔
پھر میں نے سورہ العصر اور سورہ التین کی روشنی میں ایک درس دیا۔ میں نے کہا کہ والعصر ان الانسان لفی خسر کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ زمانہ کی قسم، انسان بے شک گھاٹے میں ہے۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں، یہاں زمانہ(time) سے مراد انسانی تاریخ ہے۔ یعنی تاریخ گواہ ہے کہ انسان گھاٹے میں ہے:
History is a witness that man is in loss.
اس کا مطلب یہ ہے کہ تاریخ کا تجربہ بتاتا ہے کہ تمام انسانوں کا کیس گھاٹے کا کیس ہے۔ کامیاب انسان صرف وہ ہے جو ایمان اور عمل صالح کا ذخیرہ اپنے لیے جمع کرے۔
ماضی اور حال کے واقعات بتاتے ہیں کہ ہر انسان آخر کار احساسِ خسران میں مرتا ہے۔ کوئی شخص دولت کماتا ہے، کوئی عزت حاصل کرتا ہے، کوئی سیاسی اقتدار پر قبضہ کرتا ہے، کوئی لیڈر بن کر ابھرتا ہے، لیکن ہر شخص اپنی مطلوب منزل پر پہنچنے سے پہلے مرجاتا ہے۔ ہر شخص کے ذہن میں خوشیوں کی ایک دنیا بسی ہوئی ہے۔ وہ اس کو پانے کے لیے اپنی ساری طاقت لگا دیتا ہے۔ مگر ہر آدمی کا خاتمہ آخر کار اس احساس کے ساتھ ہوتا ہے کہ وہ اپنی مطلوب دنیا کو نہ پاسکا۔
اس کا سبب یہ ہے کہ آدمی کی خواہشیں لا محدود ہیں۔ مگر موجودہ دنیا ایک محدود دنیا ہے۔ اس محدود اور غیر معیاری دنیا میں لامحدود قسم کی معیاری خوشی حاصل نہیں کی جاسکتی۔ طالب اور مطلوب کے درمیان یہی فرق خسران کا اصل سبب ہے۔ یہ صورت حال اس بات کی یاد دہانی ہے کہ انسان کی مطلوب دنیا موت کے بعد کے دور حیات میں رکھ دی گئی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اس کی تیاری کرے۔ تاکہ جس مطلوب زندگی کو وہ موت سے پہلے نہ پاسکا اس کو وہ موت کے بعد کے عالَم میں پالے۔
ایک صاحب نے ۱۸ صفحات کا ایک پمفلٹ دکھایا۔ اس کا نام تھا—سچائی کی دریافت: (Exploring the Truth) ۔ یہ پمفلٹ ایک عرب ملک کی طرف سے سیاحوں کے درمیان تقسیم کرنے کے لیے چھاپا گیا تھا۔ ایک صاحب نے یہ پمفلٹ پڑھ کر سنایا۔ میںنے کہا کہ موجودہ زمانہ میں غیر مسلموں کے درمیان تقسیم کرنے کے لیے اس قسم کے بہت سے پمفلٹ چھاپے گئے ہیں مگر یہ کتابیں آج کے ذہن کو ایڈریس نہیں کرتیں۔ ایسی کتابیں کچھ روایتی مسلمانوں کو پسند آسکتی ہیں مگر جدید ذہن کی نسبت سے وہ بالکل بے فائدہ ہیں۔
اس کتاب کا پہلا عنوان تھا: مسلمان ہونے کے فوائد (Benefits of Becoming a Muslim)۔ یہ دعوت کی زبان نہیں۔ یہ کتاب غیر ملکی سیاحوں میںتقسیم کرنے کے لیے چھاپی گئی ہے۔ ان غیر ملکی سیاحوں کا یہ مسئلہ نہیں کہ وہ مسلم گروہ میں شامل ہونے کے فوائد جاننا چاہتے ہیں۔ البتہ وہ شعوری یا غیرشعوری طورپر سچائی کے متلاشی ہیں۔ وہ روحانیت کی تلاش میں ہیں۔ اسی قسم کی باتیں ان کو اپیل کرسکتی ہیں۔ ان لوگوں کے لیے اس طرزِ خطاب میں کوئی کشش نہیں کہ تم مسلمان ہوجاؤ تو تم کو یہ فوائد حاصل ہوں گے۔
پوری کتاب اس قسم کے غیر فطری انداز میں لکھی گئی ہے۔ موجودہ صورت میں وہ صرف کچھ روایتی مسلمانوںکو پسند آسکتی ہے۔ وہ تعلیم یافتہ غیر مسلموں کے اعتبارسے کوئی قابلِ مطالعہ کتاب نہیں۔
یہ کتاب بظاہر اسلام کی عمومی دعوت کے لیے لکھی گئی تھی۔ مگر وہ شروع سے آخر تک صرف مسلم ذہن کی نمائندگی کررہی تھی۔ اس کو پڑھ کر ایک پیدائشی مسلمان تو خوش ہوسکتا تھا مگر عام انسان کے لیے اس میں کو ئی اپیل نہ تھی۔ میرا تجربہ ہے کہ موجودہ زمانہ کے مسلم اہل قلم صرف ایسی کتابیں لکھ سکتے ہیں جو مسلم ذہن کو اپیل کریں۔ اپنے قومی ذہن کی بنا پر وہ اس کے لیے نااہل بن چکے ہیں کہ وہ ایسی کتاب تیار کریں جو عام انسان کے ذہن کو ایڈریس کرنے والی ہو۔
۱۲ مارچ کو بھوپال کی یونیورسٹی میں خطاب کا پروگرام تھا۔ اس خطاب کا عنوان یہ تھا: امنِ عالم میں بھارت کا رول۔ یونیورسٹی کے ہال میں طلبہ اور اساتذہ بڑی تعداد میں موجود تھے۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور دوسرے کئی حضرات نے شرکت کی۔
میںنے اپنی مفصل تقریر میں بتایا کہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ امن عالم کے معاملہ میں انڈیا کا رول بہت اہم ہے۔ مہاتما گاندھی انڈیا کے مشہور ترین لیڈر تھے۔ ۱۹۱۹ میں انہوں نے انڈیا کی جدوجہد آزادی کی قیادت سنبھالی۔ اس سے پہلے انڈیا اور ساری دنیا میں لوگوں کو سیاسی جدوجہد کا ایک ہی طریقہ معلوم تھا اور وہ پُر تشدد جدوجہد تھا۔ مہاتما گاندھی نے انڈیا کی جدوجہد آزادی کو نئی شکل دی۔ انہوں نے اس کو مکمل طورپر پُر امن طریقِ کار کی بنیاد پر قائم کیا۔ انڈیا کے تمام لیڈروں، بشمول مسلم لیڈروں نے، مہاتما گاندھی کا ساتھ دیا۔ یہ مہم کامیاب رہی۔ یہاں تک کہ ۱۵ اگست ۱۹۴۷ کو انڈیا مزید خون بہائے بغیر آزاد ہوگیا۔
انڈیا میں پُر امن طریقِ کار کے اس کامیاب تجربہ کا اثر عالمی سیاست پر پڑا۔ مختلف ملکوں کے لیڈروں نے اس کو اختیار کرلیا۔ مثلاً ساؤتھ افریقہ کے لیڈر نیلسن منڈیلا، امریکا کے سیاہ فام لیڈر مارٹن لوتھر کنگ، وغیرہ۔ میں نے مزید بتایا کہ پُر امن طریقِ کار کا یہ اصول اسلام میں بہت پہلے بتایا جاچکا تھا۔ مثلاً پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: ان اللہ یعطی علی الرفق مالا یعطی علی العنف( صحیح مسلم)۔ یعنی اللہ رفق پر وہ چیز دیتا ہے جو وہ عنف پر نہیں دیتا۔
God grants to non-violence what he does not grant to violence.
۱۲ مارچ کی شام کو دو قسطوں میں طویل نشست ہوئی۔ اس نشست کا عنوان یہ تھا: تحریک الرسالہ منزل بہ منزل۔ اس نشست میں میں نے تفصیل کے ساتھ الرسالہ مشن کے ماضی اور حال کو بیان کیا۔ اس پوری تقریر کی باقاعدہ طورپر آڈیو ریکارڈنگ ہوئی تاکہ اس کے کیسیٹ تیار کیے جاسکیں۔
میںنے اس تفصیلی تقریر میں جو کہا اس کا خلاصہ یہ تھا کہ الرسالہ مشن میری زندگی سے مکمل طورپر جُڑا ہوا ہے۔ اس لیے اس کی وضاحت کے لیے مجھے کچھ اپنے بارے میں بتانا ہوگا۔ میںنے کہا کہ میرے نزدیک الرسالہ مشن ۱۹۳۸ سے شروع ہوتا ہے۔ اس وقت میرے گھر کا جو ماحول تھا اُس کے لحاظ سے مجھے انگریزی تعلیم کی طرف جانا چاہیے تھا۔ مگر میرے چچا صوفی عبد المجید خاں (وفات ۱۹۴۸) نے اصرار کرکے میرا داخلہ عربی مدرسہ میںکرایا۔ اُنہوں نے شروع سے آخر تک تمام اخراجات کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لی۔ اس طرح یہ ممکن ہوا کہ میںایک عربی درسگاہ میں تعلیم حاصل کروں۔ میں سمجھتا ہوں کہ عربی درسگاہ میں تعلیم کے بغیر میرے لیے یہ ناممکن تھا کہ میں الرسالہ مشن جیسی دینی تحریک چلا سکوں۔ اس معاملہ کو میں نے مدرسہ کی کئی مثالوں سے واضح کیا۔ مدرسہ کے بارہ میں مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، راقم الحروف کی کتاب ،دین و شریعت، باب دینی مدارس۔
موجودہ زمانہ کے مسلم رہنما تقریباً سب کے سب کسی وقتی ردعمل کے تحت اُبھرے ہیں۔ مگر مدرسہ کے تحت میری تعلیم کا یہ نتیجہ ہوا کہ میری سوچ حالات کے رد عمل کے زیر اثر نہیں بنی بلکہ خود مذہبِ اسلام کی مثبت تعلیم کے تحت بنی۔ اُس زمانہ کی تحریکوں میں سے کسی بھی تحریک سے میں متاثر نہیں ہوسکا۔ میرا ذہن تمام تر قرآن اور حدیث اور سیرت کی روشنی میں بنتا رہا۔
میں نے کہا کہ اپنی پچھلی زندگی میں میں کئی مسلم جماعتوں سے محدود مدت کے لیے وابستہ رہا ہوں۔ مگر میری یہ وابستگی تنظیمی اعتبار سے تھی، وہ فکری یا نظریاتی اعتبار سے نہ تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ میں ایک پیدائشی داعی ہوں۔ آج میری جو سوچ ہے، میری وہی سوچ ابتدائی دور سے میرے اندر موجود رہی ہے۔ مثلاً میں ۱۹۴۸ میں جماعت اسلامی سے وابستہ ہوا۔ مگر یہ وابستگی زیادہ تر تنظیمی وابستگی تھی۔میرا فکر اُس وقت بھی وہی تھا جو بعد کو الرسالہ کے صفحات میں نمایاں ہوا۔
اس کا ایک ثبوت میری کتاب ’’قرآن کا مطلوب انسان ‘‘میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اس کتاب میں جو مضامین ہیں وہ سب کے سب اُس زمانہ میں لکھے گئے اور شائع ہوئے جب کہ میں جماعتِ اسلامی سے وابستہ تھا۔ کوئی بھی شخص جو اس کتاب کو پڑھے وہ پائے گا کہ جو ذہن آج الرسالہ کے صفحات میں نظر آتا ہے، ٹھیک وہی ذہن ان قدیم مضامین کو لکھتے وقت میرے اندر پایا جاتا تھا۔
مثال کے طورپرقرآن کا مطلوب انسان میںایک مضمون ’’دعوت اسلامی کے کارکنوں کی ذمہ داریاں‘‘ شامل ہے۔ یہ تحریر جماعت اسلامی کے ترجمان سہ روزہ دعوت کے شمارہ ۵ ستمبر ۱۹۵۵ میں شائع ہوئی تھی۔ کوئی آدمی اِس مضمون کو پڑھے اور اس کے بعد وہ اس کے پچاس سال بعد چھپنے والے اُس مضمون کو پڑھے جو الرسالہ دسمبر ۲۰۰۴ میں اس عنوان کے تحت چھپا ہے: ڈرو اس سے جو وقت ہے آنے والا، قاری محسوس کرے گا کہ لکھنے والے کا ذہن پچاس سال بعد بھی وہی ہے جو کہ پچاس سال پہلے اُس کا تھا۔
یہ میری خوش قسمتی تھی کہ میری تعلیم ایک ایسے عربی مدرسہ میں ہوئی جہاں پورا قرآن بطور نصاب پڑھایا جاتا تھا۔ اس بنا پر فطری طور پر ایسا ہوا کہ میرا ذہن ہر سوال کا جواب اور ہر مسئلہ کا حل قرآن سے اخذ کرنے لگا۔ میری ذہنی ساخت کے مطابق، کوئی اور چیز میرے فکر کا ماخذ نہ بن سکی۔
یہ عربی درسگاہ مدرسۃ الاصلاح تھی۔ ا س مدرسہ کے بانی مولانا حمید الدین فراہی نے اس کا نصاب قرآن کی بنیادپر وضع کیا تھا۔ مگر اسی کے ساتھ یہ ہوا کہ اس میں مولانا حمید الدین فراہی کا تفسیری اُصول شامل ہوگیا۔ مولانا فراہی کا ماننا تھا کہ نظم، فہم قرآن کی کلید ہے۔ چنانچہ مدرسہ میں قرآن کی تعلیم ’’نظام القرآن‘‘ کے اصول پر دی جاتی تھی۔ ابتداء ً میں بھی اس سے متاثر ہوا۔ مگر بعد کو میرے ذہن نے اس کو رد کردیا۔
اس تعلیم کے نتیجہ میں میرے اندر فکری طورپر قرآنی شاکلہ بنا۔ میں تمام معاملات کو قرآن کی روشنی میں دیکھنے لگا۔ ہر مسئلہ کا جواب قرآن میں تلاش کرنے لگا۔ مسلمانوں کے لیے راہ عمل کیا ہو، اس سوال کا جواب قرآن میں ڈھونڈھنے لگا۔ مدرسہ کی تعلیم کا یہ بلا شبہہ بہت بڑا فائدہ تھا جو مجھ کو اپنی ابتدائی عمر میں حاصل ہوگیا۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ۱۹۴۷ کے بعد ہندستان میں فرقہ وارانہ فسادات شروع ہوئے تو مسلمانوں کے تمام لکھنے اور بولنے والے لوگ صرف ایک ہی بات لکھنا اور بولنا جانتے تھے اور وہ یہ کہ حکومت کو اس کا ذمہ دار قرار دے کر اُس کے خلاف شکایت اور احتجاج کا لفظی ہنگامہ کھڑا کرنا۔ میں نے بتایا کہ اس مسئلہ کا یقینی حل قرآن میں بتایا گیا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ مسلمان اس معاملہ میں صبر اور تقویٰ کی روش اختیار کریں، اس کے بعد دوسروں کی سازش انہیں کچھ بھی نقصان نہ پہنچا سکے گی (آل عمران ۱۲۰) اسی اصول کو اختیار کرنے کا یہ نتیجہ ہے کہ اب ہندستان میں فرقہ وارانہ فسادات کا تقریباً خاتمہ ہوگیا ہے۔
میں نے مزید کہا کہ کسی کے لیے بھی مدرسہ کی تعلیم کافی نہیں ہوسکتی۔ رسمی تعلیم کسی کو معلومات دے سکتی ہے۔ مگر ایک اور چیز ہے جو مدرسہ کی تعلیم سے نہیں ملتی ۔ وہ ہمیشہ ذاتی مطالعہ اور غور وفکر کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے۔ یہ منطقی تجزیہ (logical analysis) ہے۔ تجزیہ اور تحلیل کے ذریعہ آدمی حاصل شدہ معلومات کو با معنٰی بناتا ہے۔ تجزیہ کی صلاحیت کے بغیر معلومات کا فائدہ بہت کم ہے۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ امیر شکیب ارسلان کی کتاب لما ذا تاخر المسلمون و تقدم غیرہم کو میں نے مدرسہ کے زمانہ میں پڑھا تھا۔ مگر اس کتاب میں کیا کمی ہے، اس کو میں اُس وقت دریافت نہ کرسکا۔ بہت دنوں کے بعد حال میں میں نے اس کتاب کو دوبارہ پڑھا۔ اب میں نے جانا کہ یہ کتاب اپنے شاندار ٹائٹل کے باوجود ایک سطحی کتاب ہے۔ اس کی زبان یقینا بہت عمدہ ہے۔ مگر وہ حقیقی معنویت سے خالی ہے۔
حالیہ مطالعہ کے بعد میںنے غور کیا کہ اس کتاب میںمسلم اور غیر مسلم دونوں کے لیے تقدم اور تاخر کا ایک ہی معیار تسلیم کیاگیا ہے، اور وہ سیاسی اور مادی ہے۔ مصنف دونوں گروہ کو اسی ایک کسوٹی پر جانچ رہے ہیں۔ حالاں کہ یہ مفروضہ غلط ہے۔ عجیب بات ہے کہ اس قسم کے لوگ ایک طرف مسلمانوں کو خیر الأمم اور أفضل الأمم بتاتے ہیں اور دوسری طرف وہ ان کو اُسی معیار سے جانچنے لگتے ہیں جو دوسری قوموں کے نزدیک ترقی اور تنزل کا معیار ہے۔ جب کہ دونوں کا معیار ایک نہیں ہوسکتا۔
الرسالہ مشن کے بارہ میں جو تفصیلات میںنے بتائیں اُس سے حاضرین بہت زیادہ متاثر ہوئے۔ کئی لوگوں کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ایک صاحب نے کہا کہ ہم کو یہ معلوم نہ تھا کہ الرسالہ مشن کے سلسلہ میں آپ کو اتنے سنگین مراحل سے گذرنا پڑا ہے۔ اس تقریر کو دو کیسٹ میں ریکارڈ کیا گیا تھا مگر وہ مکمل نہ ہوسکا۔اس سلسلہ میں تیسرے کیسٹ کی ریکارڈنگ ابھی باقی ہے۔ انشاء اللہ کسی اور موقع پر اس سلسلہ کا تیسرا کیسٹ تیار کیا جائے گا۔ اس کے بعد تینوں کیسٹ کی نقلیں تیار کی جائیںگی تاکہ مختلف مقامات کے لوگ اس کو حاصل کرسکیں۔
ایک مجلس میں مختلف موضوعات پر گفتگو ہوئی۔ ایک مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے میںنے کہا کہ تاریخ کا ایک دردناک تجربہ یہ ہے کہ پوری تاریخ میں کبھی مثبت معنوں میں کوئی زیادہ بڑا اور گہرا کام نہ ہوسکا۔ اس عموم میں صرف ایک ہی استثناء ہے اور وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے۔ آپ کے ذریعہ مسلمہ طورپر ایک عظیم انقلاب برپا ہوا، ایک ایسا انقلاب جو اپنے مثبت نتائج کے اعتبار سے نہ آپ سے پہلے پیش آیا اور نہ آپ کے بعد۔
مسلمان عام طورپر اس معاملہ کو فضیلت اور تقدس کی اصطلاحوں میں سوچتے ہیں۔ اس لیے اس واقعہ کے سبق آموز پہلو کو وہ سمجھ نہیں پاتے۔ میرے مطالعہ اور تجربہ کے مطابق کسی مشن کی حقیقی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ اس کو اعلیٰ صلاحیت رکھنے والے افراد کی ایک ٹیم حاصل ہوجائے۔ مگر تاریخ میں بار بار ایسا ہوا کہ ایک شخص نے ایک دور رس مشن شروع کیا۔ ابتداء میں اعلیٰ صلاحیت والے لوگ اس مشن سے جڑے مگر جلد ہی وہ اس سے الگ ہوگئے۔میرے تجربہ کے مطابق، اس کا سبب یہ ہوتا ہے کہ اعلیٰ صلاحیت کے افراد کے اندر جلد ہی یہ سوچ آجاتی ہے کہ ہم دوسرے کا ضمیمہ کیوں بنیں۔ کیوں نہ ہم خود اپنا ایک مستقل مشن کھڑا کریں۔ یہی واقعہ تاریخ کے تمام صاحب مشن افراد کے ساتھ پیش آیاہے۔
خود الرسالہ مشن کے بارے میں بھی میرا تجربہ یہی ہے۔ ابتدائی زمانہ میں کم ازکم ایک درجن ایسے افراد ہمارے ساتھ جڑے جو نہایت اعلیٰ صلاحیت رکھتے تھے۔ مگر بعد کو ان سب نے یہ کیا کہ ہم سے کٹ کر اپنی علیٰحدہ دنیا بنانے کی کوشش کی۔ ان میں سے کچھ نے خاموشی کے ساتھ اپنا الگ کام شروع کردیا اور کچھ نے الگ کام کے ساتھ ہماری مخالفت کو بھی ضروری سمجھا، شاید اس لیے کہ وہ اپنی علیٰحدگی کو جائز ثابت کرسکیں۔ تاہم ہمارے کئی ساتھی ایسے ہیں جو اعلیٰ صلاحیت کے باوجود ہمارے ساتھ مسلسل جڑے رہے۔ انہی میں سے ایک نام بھوپال کے ڈاکٹر محمد حمید اللہ ندوی کا ہے۔
ایک صاحب نے کہا کہ میں نے درسِ قرآن کا ایک کیسٹ سُنا۔ اُس میںقرآن کی یہ آیت آئی: یا ایہا الذین آمنوا کونوا قوامین بالقسط (النساء ۱۳۵) اُنہوں نے کہا کہ اس کیسٹ میں قرآن کی اس آیت کی تشریح یہ کی گئی تھی کہ اے ایمان والو، تم قسط کو قائم و نافذ کرنے والے بنو۔ ساری دنیا میں قسط اور عدل کا نظام قائم کرو۔ اس مقصد کے لیے جنگ کی ضرورت پیش آئے تو تم کو جنگ کرکے ساری دنیا میں قسط کا نظام برپا کرنا چاہیے۔ اُنہوں نے پوچھا کہ کیا آیت کی یہ تشریح درست ہے۔
میں نے کہا کہ یہ ایک بے بنیادتشریح ہے۔ اس کا قرآن سے کوئی تعلق نہیں۔ قوامین بالقسط کا مطلب، خود قسط کی پیروی کرنا ہے، نہ کہ خارجی دنیا میں قسط کا نظام نافذ کرنا۔ اس قسم کی تفسیروں سے نہایت غلط ذہن بنتا ہے۔ قرآن کے مطالعہ یا درس کا اصل فائدہ یہ ہے کہ آدمی کے اندر خود احتسابی کا مزاج بنے۔ وہ اصلاحِ خویش کے عمل میں مصروف ہوجائے۔ مگر مذکورہ قسم کے درسِ قرآن سے اُلٹی سوچ بنتی ہے۔ اس سے لوگوں کے اندر سیاسی اور خارجی ذہن بنتا ہے، نہ کہ داخلی ذہن، جو کہ اصلاً مطلوب ہے۔
اصل یہ ہے کہ عربی زبان میں دو لفظ الگ الگ ہیں، قائم اور مقیم۔ قائم کا لفظ لازم کا صیغہ ہے اور مقیم کا لفظ متعدی کا صیغہ۔ اس آیت میں قوّام کا لفظ قائم کامبالغہ ہے، وہ مقیم کا مبالغہ نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اے ایمان والو، تم خوب خوب قسط پر قائم ہوجاؤ، اپنی زندگی میں زیادہ سے زیادہ قسط کی پیروی کرو۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تم قسط کو زمین پر نافذ کرنے والے بنو۔ میرے نزدیک اس قسم کی تفسیر نحوی انحراف کا واقعہ ہے۔ قرآن میں اس قسم کا نحوی انحراف سخت جسارت کی بات ہے۔ میں نے اپنے مطالعہ میں اس قسم کا نحوی انحراف صرف اردو تفسیروں میں پایا ہے۔ قدیم عربی تفسیروں میں نہیں۔ البتہ سید قطب کی فی ظلال القرآن میں ایسے نحوی انحراف کی مثالیں موجود ہیں۔
کچھ لوگوں سے مسلم صحافت کے بارہ میں بات ہوئی۔ میں نے کہا کہ ۱۹۴۷ کے بعد مسلمانانِ ہند کے درمیان جو ملّی صحافت پیدا ہوئی اس کو لکھنؤ کے ایک سابق روزنامہ قائد نے اپنے ایڈیٹوریل میں لکھا تھا کہ ہندستان کی مسلم صحافت احتجاجی صحافت ہے (۱۹۶۷) بد قسمتی سے مسلم صحافت کا یہ انداز ابھی تک جاری ہے۔ حالاں کہ اب حالات اتنے زیادہ بدل چکے ہیں کہ اب ایسی صحافت کا ہندستان میں کوئی مستقبل نہیں۔
میں نے اُسی زمانہ میں لکھا تھا کہ مسلمانوں کی احتجاجی صحافت صرف اُس وقت تک چلے گی جب تک مسلمان بے خبری کے دَو رمیں جی رہے ہیں۔ میں نے لکھا تھا کہ انڈیا مسلمانوں کے لیے عظیم مواقع (opportunities) کا ملک ہے۔ مگر نام نہاد رہنماؤں کی غلط رہنمائی کے نتیجہ میں وہ انڈیا کو اپنے لیے ایک پرابلم کنٹری سمجھ رہے ہیں۔ جس دن ایسا ہوگا کہ مسلمان انڈیا کو امکانات کے ملک کی حیثیت سے دریافت کریں گے اُسی دن شکایت اور احتجاج پر مبنی صحافت اور سیاست ختم ہوجائے گی۔
یہ دور اب انڈیا میں خاموشی کے ساتھ آچکا ہے۔ اب انڈیا کے مسلمان جان چکے ہیں کہ یہاں ان کے لیے ترقی کے بھرپور مواقع موجود ہیں، حتیٰ کہ اس سے بھی زیادہ جتنا کہ پاکستان اور دوسرے مسلم ملکوں میں پائے جاتے ہیں۔ چنانچہ اب انڈیاکا مسلمان تیزی سے تعلیم و ترقی کے راستہ پر سرگرمِ سفر ہوگیا ہے۔ اب اس ملک میں قدیم طرز کی احتجاجی سیاست کامیاب ہونے والی نہیں۔
ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمان سے ملاقات ہوئی۔ وہ نہایت ذہین تھے اور رسمی تعلیم کے علاوہ انہوں نے اسلامیات کا مطالعہ بھی کیا تھا۔ اُنہوں نے کہا کہ آپ لوگ اسلام کو فائنل مذہب بتاتے ہیں۔ مگر مجھے تو اسلام ایک دُشوار گذار جنگل معلوم ہوتا ہے جس سے گذر کر اپنی منزل تک پہنچنا سخت دشوار ہو۔
اُنہوں نے کہا کہ قرآن بلا شبہہ ایک محفوظ کتاب ہے۔ مگر قرآن میں صرف اُصولی تعلیمات ہیں۔ اس بنا پر قرآن میں ایک سے زیادہ تعبیر (interpretation) کی گنجائش ہوگئی ہے۔ حدیث کے ذخیرہ میں ضعیف اور موضوع احادیث شامل ہوگئی ہیں۔ کتب صحاح بھی اس سے پاک نہیں۔ سیرت کو عملاً مغازی کی داستان بنا دیاگیا ہے۔ اسلامی تاریخ بھی سیاسی واقعات کی تاریخ بنی ہوئی ہے۔ فقہ بھی اختلافی بحثوں کا مجموعہ ہے۔ کتب عقائد بھی اختلافات سے خالی نہیں۔ ایسی حالت میں ایک طالب علم کے لیے یہ سمجھنامشکل ہوگیا ہے کہ اسلام حقیقت میںکیا ہے۔
میں نے کہا کہ آپ کی یہ بات بطور واقعہ ایک حد تک درست ہے۔ مگر جہاں تک میں سمجھتا ہوں، یہ کوئی نقص کی بات نہیں۔ اصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو تقلیدی اسلام مطلوب نہیں۔ اللہ تعالیٰ کو وہ انسان مطلوب ہے جو اسلام کو ایک ڈسکوری کے طورپر دریافت کرے۔ اس کو قرآن میں معرفتِ حق (المائدہ ۸۳) کہا گیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ایمان باللہ وہ ہے جو کسی کو معرفت کی سطح پر ملے، نہ کہ محض تقلید کی سطح پر۔
اسلام کی موجودہ صورت ہی کی بنا پر یہ ممکن ہوتا ہے کہ ایک آدمی کے اندر غور و فکر کا عمل اُبھرے۔ وہ گہرے مطالعہ اور تجزیہ کے مراحل سے دوچار ہو۔ وہ ابہام کی وادیوں سے گذرے۔ وہ اپنی تمام صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے اپنی تلاش کو یافت بنائے۔ وہ شک کے پردوں کو پھاڑ کر یقین کا مقام حاصل کرے۔ وہ اپنی بصیرت کو اس حد تک بیدار کرے کہ وہ نہ دکھائی دینے والے عالم کو دیکھنے لگے۔ وہ خدا کا اس طرح پرستار بن جائے جیسے کہ وہ خدا کو دیکھ رہا ہے۔ وہ افکار کے جنگل میں روشنی کے مینار کو پالے۔ اسی کا نام عارفانہ ایمان ہے، اور خدا کو عارفانہ ایمان مطلوب ہے، نہ کہ مقلدانہ ایمان۔
میں نے کہا کہ قرآن کی سورہ نمبر ۳ میں ارشاد ہوا ہے: آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات دن کے باری باری آنے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ جو کھڑے اور بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے رہتے ہیں۔ وہ کہہ اُٹھتے ہیں اے ہمارے رب، تو نے یہ سب بے مقصد نہیں بنایا۔ تو پاک ہے، پس ہم کو آگ کے عذاب سے بچا (آل عمران ۱۹۰۔۱۹۱)۔
اس قرآنی بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ آدمی غور وفکر کے ذریعہ سچائی تک پہنچتا ہے۔ اگر سچائی کو پانے کے لیے غوروفکر کی ضرورت نہ ہوتی تو قرآن کو ایک مینول (manual) کے روپ میں اتارا جاتا۔ اس میں ریاضیات کی زبان میں کچھ قانونی احکام ہوتے۔ آدمی کسی ذہنی کاوش کے بغیر سادہ طورپر صرف اس کو پڑھ کر جان لیتا۔
مگر اس قسم کا رسمیاتی ایمان خداکو مطلوب ہی نہیں۔ ایسا ایمان کسی روبوٹ جیسی مخلوق کا ہوسکتا ہے۔ مگر وہ انسان جیسی مخلوق کے لیے نہیں ہوسکتا۔انسان ایک زندہ اور صاحب فکر ہستی ہے۔ ایسے انسان سے یہی مطلوب ہے کہ وہ اپنی فکر ی صلاحیت کو متحرک کرکے حقیقت کو پائے۔اس طرح کی تلاش کے بعد جو حقیقت آدمی کوملے وہ اس کی پوری ہستی میں شامل ہوجاتی ہے۔ جب کہ مینول یا آداب (etiquette) جیسا ایمان آدمی کے وجود کا صرف ایک خارجی ضمیمہ ہوتا ہے۔ ایسا بے روح ضمیمہ خدا کو مطلوب نہیں۔
۱۲ مارچ کو ایک خصوصی پروگرام تھا۔ مدھیہ پردیش کے چیف منسٹر کی دعوت پر میں اُن کی سرکاری رہائش گاہ پر گیا۔ میرے ساتھ پندرہ افراد تھے۔ تعداد کو محدود رکھنا تھا اس لیے کئی ساتھی اس میں نہ جاسکے۔ اُن میں سے دو کے نام یہ ہیں: استتھی ملہوترہ اور منجو ورمانی۔جب میں چیف منسٹر کی رہائش گاہ سے واپس آیا تو معلوم ہوا کہ دونوں خواتین بہت غم زدہ ہیں اور اس محرومی پر رو رہی ہیں۔
میںنے دونوں کو بلایا اور کہا کہ آپ کا یہ منفی تاثر ہمارے مشن کی اسپرٹ سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ہمارا مشن یہ ہے کہ ہر منفی تجربہ کو مثبت سوچ میں تبدیل کیا جائے۔ میںنے کہا کہ آپ اپنی سوچ کو بدلیے۔ اس معاملہ میں آپ اس طرح سوچئے کہ اس موقع پر دوسروں کو اگر شرکت (participation) کا موقع ملا تو آپ کو یہ موقع ملا کہ آپ قربانی (sacrifice) کا ثبوت دے کر زیادہ بڑے انعام کے مستحق بن سکیں۔ یہ بات ان کی سمجھ میں آگئی اور دونوں خواتین محرومی کے احساس کو بھلا کر یافت کے احساس سے خوش ہوگئیں۔
سوال و جواب
بھوپال کے اجتماع کے موقع پر بہت سے لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ ان میں مسلم بھی تھے اور غیر مسلم بھی۔ ان ملاقاتوں کے درمیان لوگوں نے مختلف قسم کے سوالات کیے۔ اس سوال و جواب کی مختصر روداد یہاں نقل کی جاتی ہے۔
۱۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے میں نے کہا کہ بعد کے دور کے مسلم علماء نے جو باتیں کہی ہیں، ان کی ایک قسم وہ ہے جو نص قطعی پر مبنی ہو۔ کوئی عالم جب ایک ایسی بات کہے جو قرآن وحدیث کے ثابت شدہ حوالوں پر مبنی ہو تو ایسی رائے پر کسی کو تنقید کا حق نہیں۔ مثلاً ایک عالم اگر یہ کہتا ہے کہ نماز اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک رُکن ہے تو اس پر کوئی شخص تنقید کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ کیوں کہ یہ رائے ایک معلوم نص پر مبنی ہے۔
رائے کی دوسری قسم وہ ہے جو قرآن و حدیث پر اضافہ کے ہم معنٰی ہو۔ مثلاً دار الکفر، دار الحرب اور دار الاسلام کی اصطلاحیں مقرر کرنا۔ ایسی رائے شرعی اصطلاح کے مطابق ایک اجتہاد ہے۔ اجتہاد کے بارے میں شریعت کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ مجتہد کا اجتہاد صحیح بھی ہوسکتا ہے اور غلط بھی (المجتہد یخطیٔ ویصیب) اس کا مطلب یہ ہے کہ جو رائے اجتہاد کی نوعیت رکھتی ہو اس کے بارے میں ہر ایک کو حق ہے کہ وہ اس کو جانچ کر دیکھے کہ و ہ عالم کا صحیح اجتہاد ہے یا غلط اجتہاد۔ گویا جہاں اجتہاد آیا وہاں اس سے اختلاف کرنا ممکن ہوگیا۔ ایسی حالت میں کسی عالم کی اجتہادی رائے پر علمی تنقید کرنا یقینی طور پر جائز ہے۔ جو لوگ ایسی تنقید کو بُرا سمجھیں وہ خود شرعی اعتبار سے ایک غلطی کا ارتکاب کررہے ہیں۔
۲۔ ایک سوال کے جواب میں میں نے کہا کہ میںاسلامی ریاست کے قیام کا مخالف نہیں ہوں۔ میرا کہنا صرف یہ ہے کہ ریاست سے پہلے ہمیشہ افرادِ ریاست کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیوں کہ یہ دراصل افراد ہیں جو کسی نظریاتی ریاست کو قائم کرتے ہیں۔ اسلامی ریاست کاغذ سے نکل کر زمین پر قائم نہیں ہوتی۔
آج بھی دنیا میں مسلمانوں کی ۵۷ ریاستیں ہیں۔ ان میں وہ ریاستیں بھی موجود ہیں جو اسلامی ریاست کے نام ہی پر قائم کی گئیں۔ مگر جیساکہ معلوم ہے، ا ن میں سے کوئی بھی ریاست حقیقی معنوں میں اسلامی ریاست نہیں۔ حتیٰ کہ ان میں سے کسی ریاست کو کامیاب قومی ریاست بھی نہیں کہا جاسکتا، جیسا کہ سنگاپور یا جاپان کو کامیاب قومی ریاست کہا جاتا ہے۔
اسلامی ریاست بلا شبہہ ایک مطلوب چیز ہے۔ مگر اس کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے فکری عمل کے ذریعہ اسلامی افراد تیار کیے جائیں۔ اس کے بعد غیر سیاسی تحریک کے ذریعہ اسلامی معاشرہ بنایا جائے۔ اس کے بعد وہ وقت آئے گا جب کہ اسلامی ریاست کسی زمینی خطہ میں قائم ہو۔ اسلامی ریاست کے نام پر جنگجویانہ تقریر یں کرنا یا قائم شدہ حکومتوں کے خلاف سیاسی ہنگامے کھڑے کرنا بلا شبہہ ایک مجرمانہ فعل ہے، وہ کسی درجہ میں بھی اسلامی ریاست کی طرف کوئی اقدام نہیں۔
۱۹۴۷ میں جب پاکستان بنا تو وہاں کے ایک مسلم رہنما نے کہا تھا کہ : پاکستان اسلام کے نام الاٹ ہوچکا ہے۔ اُنہوں نے اس مفروضہ کی بنیاد پر پاکستان میں اسلامی حکومت کے قیام کے لیے دھواں دھار تحریک شروع کردی۔ مگر آخر میں یہ معلوم ہوا کہ پاکستان اسلام کے نام الاٹ نہیں ہوا تھا بلکہ وہ صرف ایک بگڑی ہوئی مسلم قوم کے نام الاٹ ہوا تھا۔ یہ تلخ تجربہ کافی ہے کہ اب دوبارہ اس نام نہاد اسلامی سیاست کو نہ دہرایا جائے۔
۳۔ ایک اور سوال کے جواب میں میںنے کہا کہ انڈیا میں مسلمانوں کو ہر قسم کے اعلیٰ مواقع حاصل ہیں۔ مگر میرے تجربہ کے مطابق، یہاں شاید کوئی ایک بھی مسلمان نہیں جو اس کو ایک نعمت سمجھے اور اس پر خدا کا شکر ادا کرے۔ ۱۹۴۷ کے بعد سے اب تک مسلمانوں کے تمام لکھنے اور بولنے والے صرف بے بنیاد شکایتوں کا دفتر کھولے ہوئے ہیں۔ یہ بلاشبہہ ناشکری کا ایک واقعہ ہے۔ بدقسمتی سے ناشکری کے اس ناروا فعل میں مسلمانوں کے مذہبی اور سیکولر د ونوں قسم کے لوگ مبتلا ہیں۔
میں نے کہا کہ ہندستان کے ایک مسلم اسپیکر نے ملی موضوعات پر ایک تقریر کی۔ تقریر کے آخرمیں ایک ہندو نے سوال کیا کہ آپ لوگ کیوں ہم کو کافر کہتے ہیں، حالاں کہ کافر ایک ڈیروگیٹری (derogatory) لفظ ہے۔ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے مسلم مقرر نے کہا کہ ہمارے نزدیک جو شخص مسلم نہیں وہ کافر ہے۔ کافر کا لفظ نان مسلم کے ہم معنٰی ہے۔ آپ اسلام قبول کرکے مسلم بن جائیں تو ہم آپ کو کافر نہیں کہیں گے۔
یہ بلا شبہہ ایک غلط جواب ہے۔ اس کی غلطی اس طرح سمجھی جاسکتی ہے کہ پاکستان میں اگر کوئی ہندو مقرر ہندوازم پر تقریر کرے اور پھر ایک پاکستانی مسلمان اُس سے کہے کہ آپ لوگ مسلمانوں کو ملچھ کیوں سمجھتے ہیں اور ہندو مقرر اس کے جواب میں یہ کہے کہ ہمارے نزدیک جو شخص ہندونہیں وہ ملچھ ہے، آپ لوگ اپنا مذہب بدل کر ہندو بن جائیں تو ہم آپ کو ملچھ نہیں کہیں گے۔ اگر پاکستان کا کوئی ہندو پبلک اسٹیج پر اس طرح بولے تو اس کو اُسی وقت قتل کردیا جائے گا۔ اس کے برعکس ہندستان کے مذکورہ مسلم مقرر بدستور امن کے ساتھ ہندستان میں رہ رہے ہیں۔ ان کی تقریر کے ویڈیو کیسیٹ جگہ جگہ دیکھے اور سنے جارہے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہندستان مسلمانوں کے لیے کتنی بڑی نعمت ہے۔ تاہم مذکورہ قسم کا واقعہ ہندستان کی آزادی کو مِس یوز (misuse) کرنے کے ہم معنٰی ہے۔ ایسا فعل شریعت کے خلاف بھی ہے اور عقل کے خلاف بھی۔
۴۔ ایک مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے میں نے کہا کہ موجودہ زمانہ میں کئی ایسے لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے انگریزی زبان میں اسلام پر کتابیں لکھیں۔ مثلاً جسٹس امیر علی اور پروفیسر مجیب، وغیرہ۔ مگر ان لوگوں نے اسلام کی مرعوبانہ تشریح کی۔ وہ اسلام کو اس کی صحیح صورت میں پیش نہ کرسکے۔
مثلاً جسٹس امیر علی نے اپنی کتاب اسپرٹ آف اسلام میں تعدد ازواج کی توجیہہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ قرآن کی اس تعلیم کو قدیم قبائلی رواج کی روشنی میں دیکھنا چاہیے، کیوں کہ اس وقت تعدد ازواج کا عام رواج تھا اور اس کو بُرا نہیں مانا جاتا تھا۔ مگر یہ توجیہہ درست نہیں۔ اس قسم کی توجیہات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسلام قدیم زمانہ کے لیے تھا۔ موجودہ زمانہ میں اسلام قابلِ عمل نہیں۔
۵۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے میںنے کہا کہ آج کل سوشل ورک اور کمیونٹی ورک وغیرہ کا بہت چرچا ہے مگر اسلامی نقطۂ نظر کے مطابق یہ سوچ درست نہیں۔ قرآن میں ارشاد ہوا ہے: کہو کہ اگر تمہارے با پ اور تمہارے لڑکے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارا قبیلہ اور وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور وہ تجارت جس کے بند ہونے سے تم ڈرتے ہو اور وہ گھر جن کو تم پسند کرتے ہو، یہ سب تم کو اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم بھیج دے اور اللہ نافرمان لوگوں کو راستہ نہیں دیتا (التوبہ ۲۴)
اس آیت کے مطابق، انسانی تعلق کی دو قسمیں ہیں۔ ایک ہے قلبی تعلق (loving relationship) اور دوسرا ہے عملی تعلق (working relationship) خدا کے نقشۂ تخلیق کے مطابق، دلی محبت کا تعلق صرف خالق کے ساتھ ہونا چاہیے۔ کوئی انسان خالق کے سوا کسی اور سے اگر دلی تعلق قائم کرتا ہے تو وہ خالق کے لیے قابل قبول نہیں ہوگا۔ ایسا آدمی خدا کی رحمت سے محروم کردیا جائے گا۔ البتہ جہاں تک عملی تعلق یا ضرورت کے تحت تعلق کی بات ہے، وہ کسی بھی غیر خدا کے ساتھ ہوسکتا ہے۔
اس اعتبار سے دیکھا جائے تو کمیونٹی ورک، فیملی لائف، ملی خدمت، قومی تعلق، سوشل ورک وغیرہ اگر ضرورت کے دائرہ میںکئے جائیں تو وہ خدا کی شریعت میں جائز قرار پائیں گے مگر ایسے کام کی حیثیت سکنڈری ہوگی نہ کہ پرائمری۔لیکن اگر انہی چیزوں کو سب کچھ بنا دیا جائے، آدمی کا ذہن انہی کاموں کے لیے سوچے، اس کا وقت اور پیسہ انہی کاموں پر خرچ ہو، وہ انہی باتوں کا چرچا کرے، وہ انہی باتوں کے لیے تحریکیں چلائے تو خدا کے نزدیک وہ قابل قبول نہیں ہوگا۔ یہی وہ سرگرمیاں ہیں جن کے بارے میں قرآن میں آیا ہے کہ وہ ان کو بہت اچھا کام سمجھتے ہیں مگر خدا کے یہاں وہ حبط اعمال کے خانہ میں ڈال دئے جائیں گے۔
۶۔ ایک سوال کی وضاحت کرتے ہوئے میںنے کہا کہ قرآن میں ایک مقام پر پچھلے پیغمبروں کا ذکر کرتے ہوئے پیغمبر اسلام سے کہاگیا ہے کہ : اولٰئک الذین ہدی اللہ فبہداہم اقتدہ (الأنعام ۹۰) ۔ یہی لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت بخشی، پس تم بھی ان کے طریقہ پر چلو۔
قرآن کی اس آیت سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ ہدایت کے اعتبار سے تمام پیغمبروں کا درجہ برابر ہے۔ ہر پیغمبر یکساں طورپر قابل اتباع ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ مختلف پیغمبر مختلف حالات میں پیدا ہوئے۔ ہر پیغمبر کی زندگی یہ بتاتی ہے کہ ان حالات میں دین خداوندی کی پیروی کا طریقہ کیا ہے۔ پیغمبروں کے درمیان فرق کرنا اس حکمتِ الٰہیہ کی تردید ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ جب بھی ایسا ہو کہ کسی پیغمبر کے زمانہ میں جو حالات تھے وہی حالات دوبارہ پیش آئیں تو بعد کے لوگوں کے لیے سابقہ پیغمبرکے طریقہ کی پیروی عین اسلام قرار پائے گی۔ یہ دراصل حالات کے فرق کا معاملہ ہے نہ کہ پیغمبروں کے درمیان فرق کا معاملہ۔
اس اُصول کو ملحوظ نہ رکھنے کی صورت میں خود پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی قابل عمل نہ رہے گی۔ مثلاً اگر یہ مانا جائے کہ فتح مکہ کے بعد کا دور نبوت تکمیلی دورِ نبوت ہے اور فتح مکہ سے پہلے کا دورِ نبوت غیر تکمیلی دورِ نبوت، تو پچھلے دور کے تمام پیغمبرانہ نمونے منسوخ قرار پائیں گے۔
مثلاً مکہ کے ابتدائی زمانہ میں چھپ کر نماز پڑھنا یا خفیہ دعوت دینا، کعبہ میں بتوں کی موجودگی سے تعرض نہ کرتے ہوئے دعوت کا کام کرنا، مخالفینِ قریش کے ظلم کو سہنا مگر اُن سے ٹکراؤ نہ کرنا، مکہ میں جنگی چیلنج سے اعراض کرتے ہوئے خاموشی سے مکہ چھوڑ کر مدینہ چلے جانا، طائف کے مشرک سرداروں سے پناہ طلب کرنا، ہجرت کے سفر میںدشمنوں کے خوف سے غارِ ثور میں چھپنا، مدینہ کے ابتدائی دور میں یہود کے ساتھ مصالحت کا معاملہ کرنا، وغیرہ۔ اس قسم کے تمام پیغمبرانہ واقعات بلا شبہہ اسلامی زندگی کے مطلوب نمونے ہیں۔ مگر فتح مکہ کے بعد کے زمانہ کو اعلیٰ زمانہ قرار دینے کی صورت میں یہ تمام نمونے منسوخ قرار پائیں گے اور ان نمونوں کی حکمت اہلِ اسلام کے لیے ناقابلِ فہم بن جائے گی۔ اسلام میں اصل چیز یہ ہے کہ مختلف حالات میں اہلِ ایمان نے کیا رسپانس دیا۔ اس لحاظ سے مکی دور اور مدنی دور دونوں کی حیثیت یکساں ہے۔ دونوں ہی دوروں میں قابل لحاظ بات یہ ہے کہ اہل ایمان اپنے حالات کے اعتبار سے وہ رسپانس دے سکیں جو اس وقت ان سے مطلوب تھا۔
۷۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے میں نے کہا کہ بیسویں صدی پوری تاریخ انسانی کی ایک استثنائی صدی تھی۔ اس صدی میں جدید افکار اپنے عروج پر پہنچ گئے۔ اس صدی میں دو انتہائی بڑے دماغ پیدا ہوئے۔ برطانیہ میں برٹرینڈ رسل اور انڈیا میں ڈاکٹر رادھا کرشنن۔ دونوں کا زمانہ تقریباً ایک ہے۔ برٹرینڈ رسل کی وفات ۱۹۷۰ میں ہوئی اور ڈاکٹر رادھا کرشنن کی وفات ۱۹۷۵ میں۔ دونوں نے لمبی عمر پائی۔ برٹرینڈ رسل نے الحاد کو ایک منظم فکر کی حیثیت دی، اور رادھا کرشنن نے شرک کو فلسفیانہ بنیاد فراہم کرنے کی کوشش کی۔
یہ دونوں مفکرین بلا شبہہ غلط سوچ کا شکار ہوئے۔ برٹرینڈ رسل نے الحاد کے لیے فلسفیانہ بنیاد فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ خدا نے اگر کائنات کو بنایا ہے تو خدا کو کس نے بنایا۔ مگر سائنسی حقائق، خاص طورپر بِگ بینگ کی دریافت، نے اس دلیل کو غیر سائنسی ثابت کردیا۔ ان دریافتوں کے بعد اب انسان کے لیے بے خدا کائنات اور باخدا کائنات کے درمیان چوائس نہیں رہا ہے بلکہ اب جو چوائس ہے وہ با خدا کائنات یا غیر موجود کائنات میں ہے۔ جدید دریافتوں کے بعد ہم علمی طورپر بے خدا کائنات کا چوائس نہیں لے سکتے۔ اس لیے ہم مجبور ہیں کہ ہم با خدا کائنات کا انتخاب کریں:
Now the choice is not between universe with God and universe without God. The real choice is between universe with God or no universe at all. Since we cannot opt for the second choice, we are compelled to opt for the first choice, that is universe with God.
۸۔ مذکورہ سوال کی مزید وضاحت کرتے ہوئے میں نے کہا کہ بیسویں صدی میں مذہبی نقطۂ نظر سے بڑا دماغ وہ تھا جس کو ڈاکٹر رادھا کرشنن کہا جاتا ہے۔ رادھا کرشنن نے شرک کو فلسفیانہ بنیاد فراہم کرنے کی کوشش کی۔ اُن کے افکار کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم جب خدا کی پرستش کے لیے بُت کو سامنے رکھتے ہیں تو وہ اس لیے نہیں ہوتا کہ ہم خود بُت کو خدا سمجھتے ہیں۔ بُت کو علامتی طورپر سامنے رکھنا صرف ذہنی ارتکاز (concentration) کے لیے ہوتا ہے۔
یہ توجیہہ بلا شبہہ غیر علمی اور غیر منطقی ہے۔ یہ اس مفروضہ پر قائم ہے کہ انسان نہ دکھائی دینے والی حقیقت کو ذہنی طور پر فوکس نہیں کرسکتا۔ حالاں کہ واقعہ اس کے برعکس ہے۔انسان کی سب سے بڑی صفت تصوراتی فکر (conceptual thinking) ہے۔ اسی صلاحیت کو استعمال کرکے انسان نے تمام بڑی بڑی حقیقتوں کو دریافت کیا ہے۔ حتیٰ کہ خود رادھا کرشنن نے اسی انسانی صلاحیت کوا ستعمال کرکے اپنا مذکورہ فلسفہ بنایاہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ انسان اپنی اس صلاحیت کو خدا کی پرستش کے معاملہ میں استعمال نہ کرسکے۔
حقیقت یہ ہے کہ بُت کو سامنے رکھ کر خدا کی پرستش کرنا خدا کی تصغیر ہے۔ یہ پرستش کی ایک کمتر صورت (reduced form) ہے۔ عبادت کے عمل کو کچھ رسمیات (rituals) کا درجہ دینا ہے۔ یہ ایک عجیب بات ہوگی کہ انسان دوسری اعلیٰ حقیقتوں کو تو اپنی تصوراتی تفکیر کے ذریعہ حاصل کرے۔ مگر خدا سے عبادتی تعلق کے لیے وہ اپنی تصوراتی فکر کی صلاحیت کو استعمال کرنے میں ناکام رہے۔
۹۔ مذکورہ مسئلہ کی مزید وضاحت کرتے ہوئے میں نے کہا کہ یہ ایک نہایت عجیب بات ہے کہ بیسویں صدی میں الحاد کو ایسے اعلیٰ ذہن ملے جنہوں نے الحادکو فلسفیانہ بنیاد فراہم کرنے کی کوشش کی۔ اسی طرح اس صدی میںایسے اعلیٰ ذہن ملے جنہوں نے شرک کو فلسفیانہ بنیاد فراہم کرنے کے لیے غیر معمولی کوشش کی۔ یہی کام موجودہ زمانہ میں توحید کے نظریہ کے بارہ میں ہونا چاہیے۔ مگر میرے مطالعہ کے مطابق، کوئی بھی بڑا ذہن ایسا نہیں اُبھرا جو توحید کے نظریہ کو فلسفیانہ بنیاد فراہم کرنے کا اہم کام انجام دے۔
یہ واقعہ ہے کہ بیسویں صدی میں توحید پرستوں کے حلقہ میں نہایت بڑے بڑے دماغ پیدا ہوئے۔ مثلاً سید جمال الدین افغانی، ڈاکٹر محمد اقبال، مولانا ابو الکلام آزاد، وغیرہ۔ مگر ان دماغوں نے اپنی اعلیٰ صلاحیت کو دوسرے غیر متعلق کاموں میں ضائع کیا۔ ان میں سے کوئی بھی یہ نہ کرسکا کہ وہ اپنی اعلیٰ صلاحیت کو برٹرینڈ رسل اور رادھا کرشنن کی سطح پر توحید کے نظریہ کو فلسفیانہ بنیاد فراہم کرنے کے لیے استعمال کرے۔
سید جمال الدین افغانی نہایت اعلیٰ صلاحیت کے آدمی تھے۔ مگر انہوں نے اپنی صلاحیتوں کو بے فائدہ سیاست میں ضائع کردیا۔ مولانا ابوالکلام آزاد ایک عبقری انسان تھے۔ مگر وہ بھی اپنی اعلیٰ صلاحیت کو وقتی سیاست میں ضائع کرتے رہے، یہاں تک کہ وہ دنیا سے چلے گے۔
ڈاکٹر محمد اقبال نے اس موضوع پر کچھ خطبات دیے جن کا مجموعہ تشکیل جدیدالٰہیات اسلامیہ (Reconstruction of Religious Thought in Islam) کے نام سے چھپا۔ مگر کتاب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود اس معاملہ میں غلط فکری کا شکار ہوکر رہ گئے۔ ان کا کام یہ تھا کہ وہ توحید کے حق میں اعلیٰ فکری استدلال فراہم کریں۔ مگر انہوں نے توحید کو وحدتِ وجود (monism) کے ہم معنیٰ سمجھ لیا۔ حالاں کہ وحدتِ وجود ایک منحرف عقیدہ ہے نہ کہ توحید کا پیغمبرانہ نظریہ۔
۱۰۔ اس مسئلہ کی مزید وضاحت کرتے ہوئے میںنے کہا کہ الرسالہ مشن اسی کمی کو پورا کرنے کی ایک کوشش ہے۔ الرسالہ مشن کے تحت درجنوں کی تعداد میں جو کتابیں اُردو، عربی، انگریزی، وغیرہ زبانوں میں چھاپی گئی ہیں وہ در اصل توحید کے نظریہ کو عصری اُسلوب اور عصری دلائل کی صورت میں پیش کرنا ہے تاکہ توحید کی صداقت کو ازسرِ نو وقت کے معیار ذہنی پر مدلل کیا جاسکے، اور اس کو وقت کے انسان کے لیے قابل فہم بنایا جاسکے۔
ایک صاحب جو بھوپال کے اجتماع میں شریک ہوئے تھے انہوں نے کہا کہ میں الرسالہ میں آپ کے سفرنامے پڑھتا تھا، مگر مجھے ابھی تک ان سفرناموں کی اہمیت سمجھ میں نہیں آئی تھی۔ آپ کے بھوپال کے سفر میں شریک ہوکر میں نے یہ جانا کہ آپ کا سفر عام سفروں سے بالکل الگ ہوتا ہے۔ اس میں اتنے زیادہ فائدے ہیں جو کسی سفر نامہ میں نہیں آسکتے۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں چاہتا ہوں کہ میں آپ کے ہر سفر میں شرکت کروں تاکہ آپ کے سفروں سے پورا پورا فائدہ حاصل کرسکوں۔ میںنے کہا کہ عملی طورپرایسا ممکن نہیں۔ اس کے بجائے آپ کو یہ کرنا چاہیے کہ اپنے اندر یہ صلاحیت پیدا کریں کہ سطور کے ساتھ آپ بین السطور کو پڑھ سکیں۔ اگر آپ اپنے اندر یہ صلاحیت پیدا کرلیں تو انشاء اللہ ہر سفر نامہ کو پڑھنے سے آپ کو وہی فائدہ ہوگا جو بھوپال کے سفر میں شرکت کی وجہ سے آپ کو حاصل ہوا ہے۔
۱۲ مارچ کی شام کو نماز عشاء کے بعد میری رہائش گاہ پر کئی ہندو لیڈر اور جرنلسٹ آگئے۔ یہ وہ لوگ تھے جن کو مقامی طورپر کٹروادی (hardliners) کہا جاتا ہے۔ ان لوگوں نے جب گفتگو شروع کی تو آغاز میں اُن کے لہجے میں کسی قدر تلخی تھی۔ مگر جب میں نے گفتگو شروع کی تو جلد ہی اُن کی تلخی ختم ہوگئی اور بالکل معتدل ماحول میں ساری گفتگو ہوتی رہی۔ آخر میں وہ لوگ اس طرح رخصت ہوئے کہ لوگوں کے بیان کے مطابق، ان کی آنکھوں میں خوشی اور اطمینان کی جھلک دکھائی دیتی تھی۔
گفتگو کے دوران ایک بنیادی بات میں نے یہ کہی کہ آپ لوگوں کی ساری غلط فہمی کا سبب یہ ہے کہ آپ مسلمان اور اسلام کے درمیان فرق نہیں کرتے۔ آپ مسلمانوں کے عمل کو اس طرح دیکھتے ہیں جیسے کہ وہی اسلام ہو۔ حالاں کہ دونوں ایک دوسرے سے بالکل الگ ہیں۔ میں نے کہا کہ اگر آپ کو یہ جاننا ہو کہ گیتا کی تعلیم کیا ہے تو اس کے لیے آپ گیتا کو پڑھیں گے۔ آپ ایسا نہیں کریں گے کہ ہندوؤں کو دیکھ کر یہ رائے بنالیں کہ اسی کا نام گیتا ہے۔ میں نے کہا کہ ہمارے ملک کا ایک دستور ہے۔ یہاں بھی آپ ایسا نہیں کریں گے کہ ملک کے لوگوں کو دیکھیں اور یہ مان لیں کہ اسی کا نام دستور ہے۔ میںنے کہا کہ اسی طرح آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے کہ مسلمان جو کچھ کریں اُسی کو آپ اسلام کی تعلیم سمجھ لیں۔ آپ کو چاہیے کہ آپ اسلام اور مسلمان میں فرق کریں۔ آپ مسلمانوں کو اسلام کی روشنی میں دیکھیں نہ کہ اسلام کو مسلمانوں کی روشنی میں:
You have to differentiate between Islam and Muslims.
You have to judge Muslims in the light of Islamic teachings and not vice versa.
۱۳ مارچ کی صبح کو نماز فجر کے بعد حسب معمول بہت سے لوگ میری رہائش گاہ پر آگئے۔ یہاں دیر تک مختلف قسم کے دینی اور ملّی موضوعات پر بات ہوتی رہی۔ ایک صاحب نے کہا کہ آپ اکثر غیر مسلموںمیں دعوت کی بات کرتے ہیں۔ ابھی تو خود مسلمانوں کی اصلاح نہیں ہوئی۔ مسلمانوں کے اندر بہت زیادہ خرابیاں موجود ہیں۔ آپ کو چاہیے کہ پہلے مسلمانوں کی اصلاح کریں اور اس کے بعد غیر مسلموں میں اسلامی دعوت پہنچانے کی کوشش کریں۔
میںنے کہا کہ بہت سے لوگ اس طرح کی بات کرتے ہیں۔ مگر ان لوگوں نے اس مسئلہ پر گہرائی کے ساتھ غور نہیںکیا۔ اصل یہ ہے کہ پچھلے دوسو سال کے درمیان مسلمانوں کے اندر دو سو سے بھی زیادہ تحریکیں اُٹھی ہیں۔ یہ تمام کی تمام تحریکیں مسلمانوں کی اصلاح کے لیے اُٹھائی گئیں۔ اس پوری مدت میںکوئی بھی ایسی قابلِ ذکر تحریک نہیںجو حقیقی معنوں میں غیر مسلموں میں دعوتِ اسلام کے لیے اُٹھائی گئی ہو۔ غالباً ہمارا مشن پہلا مشن ہے جو غیر مسلموں کے درمیان باقاعدہ طورپر اسلام کی دعوت پہنچانے کا کام کررہا ہے۔
مگر مختلف گروہوں کی دو سو سالہ کوشش کے باوجود مسلمانوں کی مطلوب اصلاح نہ ہوسکی۔ایسی حالت میں سوچنے کی اصل بات وہ نہیں ہے جو آپ فرمارہے ہیں بلکہ سوچنے کی اصل بات یہ ہے کہ غیر معمولی کوشش کے باوجود مسلمانوں کی اصلاح کیوں نہ ہوسکی۔ گویا کہ اصل مسئلہ مسلمانوں کی اصلاح کا نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ اصلاحی کوشش کے باوجود اصلاح کا نتیجہ نہ ملنے کا ہے۔
اصل یہ ہے کہ قانونِ فطرت کے مطابق، موجودہ مسلمانوں کی حیثیت ایک زوال یافتہ قوم کی ہوچکی ہے۔ جب کوئی قوم زوال کے درجہ میں پہنچ جائے تو صرف داخلی کوشش اس کی اصلاح کے لیے کافی نہیں ہوتی۔ اب ضرورت ہوتی ہے کہ پُرانے خون (old blood)میں نیا خون (new blood) داخل کیا جائے۔ یعنی تبلیغ و دعوت کے ذریعہ مسلمانوں کے اندر دوسری قوموں کے افراد بڑی تعداد میں شامل کیے جائیں۔ موجودہ مسلمانوں کو دوبارہ ایک زندہ قوم بنانے کی یہی واحد تدبیر ہے۔بندپانی میں خوشبو ڈالنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ بند پانی میں جاری پانی کا دھاراداخل کردیجئے، اس کے بعد بند پانی اپنے آپ سیلاب کی صورت اختیار کرلے گا۔
بھوپال میں ملّا رموزی سنسکرتی بھون کے نام سے ایک بڑا ادارہ قائم ہے۔ ۱۳ مارچ کو ۱۱ بجے دن میں الرسالہ اکیڈمی کے زیر اہتمام اس کے وسیع ہال میں ایک پبلک جلسہ ہوا۔ اس میں ہندو اور مسلمان دونوں شریک ہوئے۔ اس میںخطاب کا موضوع یہ تھا: کثیر المذاہب معاشرہ، مسائل اور حل۔
اس موضوع پر میںنے اسلام کی روشنی میںایک مفصل تقریر کی۔ اس کا خلاصہ یہ تھا کہ موجودہ دنیا تنوع کے اصول پر قائم ہے۔ اس اُصول کا تعلق جس طرح دوسری چیزوں سے ہے اُسی طرح اس کا تعلق مذہب سے بھی ہے۔ لوگ پیدائشی طورپر مختلف ذوق کے ہوتے ہیں۔ اس لیے فطری طور پر ہر سماج میں مختلف مذاہب موجود رہیں گے۔ مذاہب کے اس تنوع کو ہمیں اسی مثبت ذہن کے تحت لینا چاہیے جس کا اظہار ذوق دہلوی نے اپنے ایک شعر میں اس طرح کیا ہے:
گلہائے رنگ رنگ سے ہے زینتِ چمن اے ذوق اس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے
میںنے کہا کہ مذاہب کے تنوع کو ختم کرنے کی کوشش جب بھی کی گئی وہ ناکام ہوئی۔ مثال کے طورپر دوسری عالمی جنگ کے بعدامریکا میںامریکی بنانے (Americanisation) کی تحریک شروع کی گئی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ امریکی معاشرہ میںمذہب اور کلچر کے فرق کو ختم کرکے یکساں سماج بنایاجائے۔ مگر یہ تحریک مکمل طورپر ناکام ہوگئی۔ امریکا میںہر مذہب کو قبول کرلیا گیا۔ میںنے دیکھا ہے کہ وہاں کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ہر مذہب کو یکساں طورپر آزادی دی جاتی ہے۔ ان کا نظریہ ہے کہ کسی مذہب کے لوگ اپنی مذہبی روایات سے جُڑ کر زیادہ اچھا کام کرتے ہیں۔ اگر ان کو ان کی مذہبی روایات سے اکھاڑ دیا جائے تووہ سماج کے زیادہ بہتر کارکُن نہیںبنتے۔
اسی طرح دوسری عالمی جنگ کے بعد کناڈا میںیونی کلچرلزم کی تحریک چلائی گئی۔ مگر آخر کار وہ ناکام ہوئی اور اس کے بجائے ملٹی کلچرلزم کے اصول کو وہاں باقاعدہ طورپر اختیار کرلیا گیا۔
یہ ایک تفصیلی تقریر تھی۔ میں نے ا س تقریر میں اسلامی تعلیمات کو بیان کیا۔ لوگوں نے بہت دلچسپی کے ساتھ پوری تقریر کو سُنا۔ پروگرام کے خاتمہ پر ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ ہندو خاتون مِز شکنتلا نے کہا—اگر اسلام وہی ہے جو مولانا صاحب نے اپنی اسپیچ میںبتایا ہے تو پھر کوئی مسئلہ ہی نہیں:
If it is Islam then where is the problem.
۱۳ مارچ کی شام کو خواتین کا ایک اجتماع کیا گیا۔ میںنے اپنی تقریر میں کہا کہ ہمارے پروگر ام میں یہ عام رواج ہوگیا ہے کہ خواتین کا اجتماع الگ سے کیا جاتا ہے۔ مگر مجھ کو یہ طریقہ غیر ضروری معلوم ہوتا ہے۔ میرے نزدیک مرد اور عورت د ونوں کا اجتماع ایک ساتھ ہونا چاہیے۔ کیوں کہ اسلام کی تعلیمات صنفی فرق پر مبنی نہیںہیں۔ دونوں ہی صنفوں کے لیے اسلام کی تعلیم یکساں ہے۔ جزئی نوعیت کے بعض مسائل ضرور الگ ہیں مگر یہ مسائل انتہائی جزئی ہیں۔ ورنہ جہاں تک اسلام کی اصل دعوت کا تعلق ہے، وہ دونوں صنفوں کے لیے یکساں ہے۔
ایک بات میںنے یہ کہی کہ آج کل خاندانی زندگی کا بگاڑ عام ہے۔ میرے نزدیک اس کا سبب صرف بے شعوری ہے۔ اصل یہ ہے کہ عورت جب اپنے میکے میں ہوتی ہے تو وہ خونی رشتہ داروں کے درمیان ہوتی ہے۔ اس کے بعد جب وہ سسرال میں جاتی ہے تو وہاں اس کو ایسے لوگوں کے درمیان رہنا پڑتا ہے جن سے اس کا کوئی خونی رشتہ نہیںہوتا۔ لڑکی اگر اس فرق کو شعوری طورپر جان لے تو اس کی شادی ہر حال میں کامیاب رہے گی۔ اس سلسلہ میںسب سے زیادہ ذمہ داری ماں باپ کی ہوتی ہے۔
دوسری بات یہ کہ ایک کامیاب زندگی کا راز یہ نہیں ہے کہ گھر میں زیادہ آمدنی ہو اور ہر قسم کے سازوسامان کا ڈھیر گھر کے اندر موجود ہو۔ بلکہ پُر سکون زندگی کا راز یہ ہے کہ لوگ سادگی کی اہمیت کوجان لیں۔
ایک بات میں نے یہ کہی کہ کامیاب ازدواجی زندگی کا سب سے بڑا راز میرے نزدیک یہ ہے کہ شوہر اور بیوی دونوں ایک دوسرے کے لیے فکری رفیق (intellectual partner) بن جائیں۔ آج کل ماں باپ یہ سوچتے ہیں کہ شادی ایسی ہو جس میں دونوں مل کر زیادہ آمدنی کرسکیں۔ مثلاً عورت اور مرد دونو ں ڈاکٹر ہوں ۔ مگر میرے نزدیک یہ کامیاب شادی کی پہچان نہیں۔ کامیاب شادی وہ ہے جس میں عورت اورمرد دونوں ایک دوسرے کے فکری شریک اور معاون بن جائیں۔ دونوں آپس میں تبادلۂ خیال کے ذریعہ اپنا فکری ارتقاء کرتے رہیں۔
آخری خطاب
میں ایک پیدائشی داعی ہوں۔ دعوت ہمیشہ سے میرا نشانہ رہا ہے۔ ۱۹۵۰ میں جب کہ ابھی میں پختہ عمر کو نہیں پہنچا تھا، میںنے قر آن کے ایک لفظ کو لے کر، من أنصاری إلی اللّٰہ کے نام سے ایک ادارہ بنایا۔ پھر اس کام کے لیے ادارۂ اشاعتِ اسلام کا نام اختیار کیا۔ اُس وقت میںاپنی فیملی کے ساتھ اعظم گڑھ میں رہتا تھا۔ اُس زمانہ میں میں نے کئی چھوٹی کتابیں شائع کی تھیں۔ ان میں سے ایک کتاب کا نام یہ تھا: نئے عہد کے دروازہ پر (On the Threshold of a New Era) ۔
میرا دعوتی سفر مختلف صورتوں میں مسلسل جاری رہا۔ یہاں تک کہ ۱۹۷۶ میں میں نے دہلی سے ماہنامہ الرسالہ جاری کیا اور اسلامک سنٹر قائم کرکے اس کے تحت دعوتی کتابوں کی اشاعت شروع کی۔ اب خدا کے فضل سے ان دعوتی کتابوں کی تعداد دو سو سے زیادہ ہو چکی ہے۔ یہ کتابیں مختلف ملکی اور عالمی زبانوں میں شائع ہوئی ہیں۔ وہ جدید وسائلِ ابلاغ کے تحت ساری دنیا میں پھیل رہی ہیں۔
لمبے مطالعہ اور تجربہ کے بعد میں نے یہ سمجھا ہے کہ دعوتِ حق کا صحیح طریقہ وہ ہے جو انفرادی اپروچ کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔ یعنی ایک ایک فرد کو بدلنا، ایک ایک ذہن کے اوپر ڈی کنڈیشننگ اور ری انجینئرنگ کا عمل کرنا۔ میرے مطالعہ کے مطابق، یہی پیغمبروں کا طریقہ ہے۔ اس طریقِ کار کے دو مستند تاریخی نمونے ہیں۔ ایک کو مسیحی ماڈل اور دوسرے کو محمدی ماڈل کہا جاسکتا ہے۔
کسی تحریک کے دوطریقے ہوتے ہیں۔ ایک ہے، عوام کو خطاب کرنا، اور دوسرا ہے، افراد کو خطاب کرنا۔ عوام سے خطاب کرنے کے لیے تحریک کو ایک عوامی اشو لینا پڑتا ہے، یعنی ایسا اِشو جس کے بارے میں پہلے سے عوام کے اندر شدید جذبات موجود ہوں۔ مثلاً بر صغیر ہند میں ۱۹۴۷ سے پہلے مہاتما گاندھی کا بیرونی راج کے خلاف عوام کو پُکارنا۔ یا محمد علی جناح کا ہندو خطرہ کے خلاف مسلمانوں کو موبیلائز کرنا۔
اس طرح کی عوامی تحریک میں یہ ہوتا ہے کہ بہت جلد لیڈر کے گرد لوگوں کی بھیڑ اکھٹا ہوجاتی ہے۔ مگر ایسی کسی تحریک کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلتا۔ ایسی تحریک تخریبِ غیر کے لیے تو مفید ہوتی ہے مگر وہ تعمیر خویش کے لیے بالکل مفید نہیں ہوتی۔
تحریک کا دوسرا طریقہ وہ ہے جو انفرادی اپر وچ کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔ اس دوسرے طریقہ میں سارا فوکس فرد کی اصلاح پر دیا جاتا ہے۔ اس کا نشانہ افراد سے چل کر عوام تک پہنچنا ہوتا ہے، نہ کہ عوام کی بھیڑ اکھٹا کرکے افراد کو اپنے قبضہ میں لینا۔
کسی مشن کے لیے کام کرنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک وہ جس کو سیاسی ماڈل کہا جاسکتا ہے اور دوسرا وہ جس کو روحانی ماڈل کہا جاسکتا ہے۔ دونوں ہی کا مائنس پائنٹ اور پلس پائنٹ ہے۔
سیاسی ماڈل میں کراؤڈ کو ایڈریس کیا جاتا ہے۔ اس میں ہمیشہ کسی ایسے منفی اشو کو لیا جاتا ہے جو خارجی ہو۔ کیوں کہ کوئی خارجی اشو ہی کراؤڈ کا اشو بن سکتا ہے۔ سیاسی ماڈل کا پلس پائنٹ یہ ہے کہ اس میں بہت جلد لوگوں کی بھیڑ اکٹھا ہو جاتی ہے۔ لیکن سیاسی ماڈل کا مائنس پائنٹ یہ ہے کہ اس میں individual ذہن ایڈریس نہیں ہوتا۔ اس لیے اس میں فرد کی تعمیر ممکن نہیں ہوتی۔کمیاتی اعتبار سے مشن بہت بڑا دکھائی دیتا ہے لیکن کیفیاتی اعتبار سے وہ بالکل nill ہوتا ہے۔
اس کے مقابلہ میں دوسرا ماڈل روحانی ماڈل ہے۔ روحانی ماڈل میں فردکے ذہن کو ایڈریس کرنے کی کوشش کی جاتی ہے نہ کہ کسی کراؤڈ کو۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ روحانی ماڈل کے تحت بھیڑ اکھٹا نہیں ہوتی۔ البتہ اس میں فرد کی تعمیر گہرائی کے ساتھ ہوتی ہے۔ مشن سے وابستہ ایک ایک فرد prepared mind اور purified soul بن جاتا ہے۔روحانی ماڈل کو انٹٹی کے اعتبار سے بظاہر کم دکھائی دیتا ہے۔ مگر کوالٹی کے اعتبار سے وہ بہت عظیم ہوتا ہے۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ سیاسی ماڈل صرف تخریبی واقعہ وجود میں لاتا ہے۔ جب کہ روحانی ماڈل تعمیری واقعہ کو وجود میں لانے کا سبب بنتا ہے۔ الرسالہ مشن میں سیاسی ماڈل کو اختیار نہیں کیا گیا ہے، بلکہ اس میں روحانی ماڈل کو اختیار کیا گیا ہے۔ اس میں ساری کوشش اس بات کی کی گئی ہے کہ ایک ایک فرد کا ذہن بنایا جائے۔ تیار افراد کی ایک ٹیم بنائی جائے۔ ایسے افراد جن میں سے ہر شخص ایک طرف سنجیدہ ہو اور دوسری طرف وہ آرٹ آف تھنکنگ کو بخوبی طور پر جانتا ہو۔الرسالہ مشن کا فطری کورس یہ ہے کہ افراد کی ایک مضبوط ٹیم بنے اور پھر یہ ٹیم مشن کے پیغام کو وسیع تر انسانیت تک پہنچا دے۔
مشہور سیرت نگار محمد بن اسحاق (وفات: ۱۵۱ھ۔۷۶۸ء) نے ایک روایت نقل کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرۃ الحدیبیہ (۶۲۳ء) کی ادائیگی کے بعد، اپنے منتخب اصحاب کو خطاب کیا۔ آپ نے فرمایا کہ: ’’اللہ نے مجھے سارے عالم کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے، پس تم میرے بارے میں اختلاف نہ کرو، جیسا کہ حواریوں نے عیسیٰ بن مریم سے اختلاف کیا۔ آپ کے اصحاب نے پوچھا کہ اے خدا کے رسول! حواریوں نے کس طرح اختلاف کیا تھا؟ آپ نے فرمایا کہ: عیسیٰ بن مریم نے اُنہیں اس چیز کی طرف بلایاجس کی طرف میں نے تمہیں بلایا ہے۔ پس جس کو اُنہوں نے قریب کے علاقے کی طرف بھیجا تو وہ اس پر راضی ہوگیا اور اس کو مان لیا۔ اور جس کو انہوں نے دور کے علاقے کی طرف بھیجا تو وہ اس کو پسند نہیں آیا اور اُس نے گرانی محسوس کی۔ عیسیٰ بن مریم نے اللہ سے اس کی شکایت کی۔ تو جن لوگوںکو ناگواری ہوئی اُن کا حال یہ ہوا کہ اُن میں سے ہر ایک اس قوم کی زبان بولنے لگا جس کی طرف اس کوجانے کے لیے کہاگیا تھا۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب میں سے کچھ قاصد بھیجے اور ان کو بادشاہوں کے نام مکتوب لکھ کر دیا۔ اس میں ان بادشاہوں کو اسلام کی طرف بُلایا گیا تھا۔(سیرۃ النبی لابن ہشام، الجزء الرابع، ۲۷۸۔۲۷۹)
مذکورہ روایت میںحضرت مسیح کے جس واقعہ کا ذکر ہے، اُس کا ذکر قرآن میں بھی اجمالی طور پر آیا ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے:
’’اے ایمان والو! تم اللہ کے مدد گار بنو،جیسا کہ عیسیٰ بن مریم نے حواریوں سے کہا: کون اللہ کے واسطے میرا مددگار ہوتا ہے۔ حواریوں نے کہا: ہم ہیں اللہ کے مددگار! پس بنی اسرائیل میں سے کچھ لوگ ایمان لائے اور کچھ نے انکار کیا۔ پھر ہم نے ایمان لانے والوں کی، ان کے دشمنوں کے مقابلے میں مدد کی۔ پس وہ غالب ہوگئے۔ (الصف ۱۴)
جیسا کہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح الحدیبیہ کے بعد اطرافِ عرب کے تقریباً ایک درجن حکمرانوں کو دعوتی خطوط لکھے اور اُنہیں اپنے سفیروں کے ساتھ متعلقہ حکمرانوں کی طرف روانہ کیا۔ ان حکمرانوں میں سے کچھ نے آپ کے مکتوب کا مثبت جواب دیا اور کچھ نے ان کو پڑھنے کے بعد منفی رویّہ اختیار کیا۔ اس کی تفصیل سیرت کی کتابوں میں موجود ہے (ملاحظہ ہو، سیرت ابن کثیر، جلد ۳)
اس روایت سے دعوتی تحریک کا پیغمبرانہ ماڈل معلوم ہوتا ہے۔ یعنی دعوتی مہم کا تین مرحلوں سے گذر کر اپنی تکمیلی منزل تک پہنچنا۔
۱۔ بندۂ خدا پر حقیقت کا کھلنا، اس کا سچائی کو مکمل طورپر دریافت کرنا۔ اس طرح ایک عارف یا باخبر انسان کا وجود میں آنا۔
۲۔ پھر یہ انسان دوسرے کاموں کے علاوہ یہ کرتا ہے کہ وہ غیر معمولی جدوجہد کے ذریعہ افراد کی ایک ٹیم بناتا ہے۔ یہ وہ افراد ہوتے ہیں جو حقیقت کا شعوری ادراک رکھتے ہیں۔ ان کے اندر مشنری اسپرٹ کمال درجے میں موجود ہوتی ہے۔ وہ گویا عارفینِ حق کا منتخب کردہ ہوتا ہے۔
۳۔ اس کے بعد یہ ٹیم اس پیغام کو لے کر آگے بڑھتی ہے اور کمیونیکیشن کے ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے اُس کو تمام انسانوں تک پہنچا دیتی ہے۔
سہ گانہ مرحلے کی یہی ترتیب فطری ترتیب ہے۔ مسیحی ماڈل اور محمدی ماڈل دونوں اسی کی تائید کرتے ہیں۔ حضرت مسیح کے زمانہ میں اسی ترتیب سے کام ہوا۔ اور پیغمبرآخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملہ میں بھی یہی تاریخ دوہرائی گئی۔ یعنی ایک فرد سے کام کا آغاز، اور پھر ایک ٹیم کا بننا، اس کے بعد دعوت کی عمومی توسیع۔ یہ ترتیب دعوتی کام کی فطری ترتیب ہے۔ اس لیے یہی ترتیب بعد کے زمانہ میں بھی اس کام کے لیے باقی رہے گی۔
الرسالہ مشن کے مستقبل کے بارے میں میں اکثر سوچتا تھا۔ ۱۲؍ مئی ۲۰۰۵ کی صبح کو میں اس موضوع پر غور وفکر کررہا تھا کہ اچانک مجھ پر یہ بات منکشف ہوئی کہ یہ دعوتی مشن بھی اسی فطری ترتیب کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ یہ عمل فطرت کے زیر اثر پہلے سے جاری تھا۔ مگر مئی ۲۰۰۵ میں اس واقعہ کو میں نے شعوری طورپر دریافت کیا۔
جیسا کہ عرض کیا گیا، میںنے اپنا دعوتی مشن ۱۹۵۰ء میں شروع کیا تھا، اس کے بعد وہ مختلف مراحل سے گذرتا رہا۔ تحریر و تقریر کے ایک مسلسل عمل کی صورت میں وہ برابر جاری رہا۔ یہاں تک کہ اس تحریک کی پشت پر ایک طاقت ور لٹریچر تیار ہوگیا۔ یہ لٹریچر اسلام کے تمام پہلوؤں کو عصری اسلوب میں بیان کرنے والا تھا۔
اس کے بعد تیسرا تاریخ ساز واقعہ یہ ہوا کہ جنوری ۲۰۰۱ ء میں ہمارے دہلی کے دفتر میں اسپریچول کلاس کے نام سے ہفتہ وار اجتماع کا سلسلہ قائم ہوا۔ ان ہفتے وار اجتماعات کے دوران خدا کی غیر معمولی نصرت ظاہر ہوئی۔چند سال کی مدت میں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی ایک مضبوط ٹیم تیار ہوگئی۔ ان میں سے ہر شخص دعوتی اسپرٹ سے بھرا ہوا تھا اور عمل کا بے پناہ جذبہ اپنے اندر رکھتا تھا۔
۲۰۰۵ میں یہ تاریخ یہاں تک پہنچ چکی ہے۔اس کے بعد جو کچھ ہونا چاہیے اس کا عمل بھی خدا کی خصوصی نصرت سے شروع ہوچکا ہے۔ یعنی دعوتِ حق کی اشاعت و توسیع۔ مجھے یقین ہے کہ یہ عمل رُکنے والا نہیں۔ خدا کی نصرت اس بات کی ضامن ہے کہ یہ عمل رُکے بغیر مسلسل جاری رہے یہاںتک کہ وہ اپنی منزل تک پہنچ جائے۔
مذکورہ حدیث پرغور کیجئے تو اس معاملہ کا ایک عملی پہلو سامنے آتا ہے۔ وہ یہ کہ جب مذکورہ تقسیم کے مطابق، ایک ٹیم وجود میں آجائے تو اس کے بعد دعوت کی توسیع واشاعت ایک یقینی امر بن جاتی ہے۔ اس کے بعد ممکن طورپر صرف ایک چیز ہے جو اس عمل کی تکمیل میں رکاوٹ بن سکے، اور وہ حدیث کے الفاظ میں اختلاف کا معاملہ ہے۔باہمی اختلاف ایسی بُری چیز ہے جو پورے نقشے کو تباہ کرسکتا ہے۔ ٹیم بن جانے کے بعد باہمی اختلاف کے سوا کوئی بھی چیز نہیں جو اس دعوتی سیلاب کو اس کی منزل تک پہنچنے سے روک سکے۔
یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ فکر کا اختلاف ایک فطری امرہے۔ ہر انسانی مجموعے میں یہ ہوتا ہے کہ اس کے افراد کے درمیان فکری اختلافات ظہور میں آتے ہیں۔ اس لیے اصل مسئلہ فکری اختلاف کا نہیں ہے، بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ لوگ اُس فن کو نہ جانتے ہوں، جس کو ’’آرٹ آف ڈفرینس مینیجمنٹ‘‘ کہا جاسکتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ کسی بھی ٹیم میں رائے کا اختلاف پیدا ہونا لازمی ہے۔ البتہ ٹیم کے افراد کوذہنی طورپر اتنا زیادہ پختہ ہونا چاہیے کہ وہ رائے کے اختلاف اور عملی ٹکراؤ میں فرق کرنا جانیں۔ وہ اختلاف کے باوجود متحد ہو کر اپنا کام جاری رکھیں۔ رائے کا اختلاف ایک صحت مند علامت ہے۔ کیوں کہ وہ ڈائیلاگ کا سبب بنتا ہے اور ڈائیلاگ فکری ارتقاء کا ذریعہ ہے۔
الرسالہ مشن کے تحت جو پُر امن دعوت کا کام کرنا ہے وہ بنیادی طورپر اشاعتِ کتب کا کام ہے۔ یہ کام سب سے پہلے انگریزی کتابوں کی اشاعت سے ہوگا۔ کیوں کہ آج دنیا کی آبادی کا ۶۰ فیصد حصہ انگریزی زبان بولتا اور سمجھتا ہے۔ اس کے بعد حالات کے مطابق یہ کام دوسری زبانوں تک وسیع ہوگا۔ نظریاتی اشاعت کے اس کام کے بنیادی طورپر چند اجزاء ہیں:
۱۔ قرآن کا صحیح انگریزی ترجمہ کم قیمت پر ساری دنیا میں پھیلانا (قرآن کا یہ انگریزی ترجمہ خدا کے فضل سے الرسالہ مشن کے تحت زیر تیاری ہے)۔
۲۔ الرسالہ مشن کی مطبوعہ کتابوں کو زیادہ سے زیادہ پھیلانا۔ مثلاً:God Arises ، تذکیرالقرآن، مطالعہ سیرت، مطالعہ حدیث ،وغیرہ وغیرہ۔
۳۔ چھوٹے چھوٹے دعوتی پمفلٹ، مثلاً ان سرچ آف گاڈ، کریشن پلان آف گاڈ وغیرہ جو کئی درجن کی تعداد میں چھپ چکے ہیں، ان کو زیادہ سے زیادہ پھیلانا، یہاں تک کہ وہ تمام تعلیم یافتہ انسانوں تک پہنچ جائیں۔
الرسالہ مشن مکمل طور پر ایک غیر سیاسی مشن ہے۔ اس کا مقصد کوئی اقتدار قائم کرنا نہیں ہے بلکہ صرف خدا کے پیغام کو پُرامن طورپر اور فکری طورپر تمام انسانوں تک پہنچانا ہے اور لوگوں کو خدا کے کریشن پلان سے دلائل کی زبان میں با خبر کرنا ہے تاکہ لوگ حقیقت کو سمجھیں اور صحیح رخ پر اپنے مستقبل کا نقشہ بنائیں۔ دعوت الی اللہ کا یہ فکری مشن خدا کا سب سے زیادہ مطلوب مشن ہے۔ اس مشن میں خدا کی نصرت ہمیشہ یقینی ہوتی ہے۔
مجھے یقین ہے کہ خدا کی نصرت کا وعدہ اس مشن پر پورا ہوگا۔ اور وہ وقت آئے گا جب کہ تمام انسانوں تک خدا کا وہ پیغام پہنچ جائے گا جس کے پہنچنے کا ساری کائنات کو انتظار ہے۔دعوت الی اللہ کے کام سے زیادہ بڑا کوئی اور کام نہیں اور خدا کی مدد حاصل کرنے کے لیے دعوت الی اللہ سے زیادہ اور کوئی یقینی ضمانت نہیں۔ یہ خدا کا ابدی قانون ہے۔ اور وہ وقت دور نہیں جب کہ خدا کا یہ وعدہ اپنی کامل صورت میں پورا ہوجائے۔
میں نے اپنی کتاب پیغمبر انقلاب میں لکھا تھا کہ اسلام کے دور اول میں جو لوگ توحید کا انقلاب لائے وہ ایسے لوگ تھے جن پر پچھلی ڈھائی ہزار سالہ تاریخ منتہی ہوئی تھی۔ اب دوبارہ اسی طرح ایک نیا عصابہ (گروہ) درکار ہے جس پر پچھلی ہزار سالہ تاریخ منتہی ہوئی ہو۔ جو اپنے شعور کے اعتبار سے پچھلی ہزار سالہ تاریخ کا وارث ہو۔ جو اپنے کردار کے اعتبار سے ان امکانات کو واقعہ بنانے کا اٹل ارادہ اپنے اندر لیے ہوئے ہو، جو سنجیدہ فیصلے کی اس حد پر پہنچا ہوا ہو جہاں پہنچ کر آدمی اس قابل ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے مقصد سے پوری طرح وابستہ رہے۔ کوئی بھی خارجی واقعہ اس کو اس کے نشانہ سے ہٹانے والا ثابت نہ ہو۔ یہی وہ لوگ ہیں جو خدا کے کاگ میں اپنا کاگ ملائیں گے اور بالآخر یقینی کامیابی کی منزل تک پہنچیں گے (صفحہ ۲۰۴) ۔
میری دعا ہے کہ الرسالہ مشن سے وابستہ ہونے والے لوگ اس کا مصداق ثابت ہوں۔
۱۴ مارچ کی صبح کو بھوپال سے دہلی کے لیے واپسی تھی۔ صبح کو نمازِ فجر کے بعد ایک نشست ہوئی جس میں میں نے لوگوں کو کچھ آخری نصیحتیں کیں۔ ایک بات میں نے یہ کہی کہ آپ میں سے ہر شخص کو وَن مین، ٹو مشن(one man, two mission) کی مثال بننا ہے۔ آپ میں سے ہر ایک کو اپنے وقت اور طاقت کا ایک حصہ معاشی کاموں میں لگانا ہے اور اس کا دوسرا حصہ دعوتی مشن کے لیے وقف کرنا ہے۔ یہ دونوں کام یکساں طورپر ضروری ہیں اور ہر ایک کو اس کے مطابق اپنی زندگی کی منصوبہ بندی کرنا ہے۔
میںنے کہا کہ دعوتی عمل کے لیے کوئی لگا بندھا پروگرام نہیںہوتا۔ دعوتی عمل دراصل ایسے افراد کا طالب ہے جن کے اندر دعوت کا گہرا جذبہ پیدا ہوچکا ہو۔ یہ جذبہ یااسپرٹ اپنے آپ پروگر ام بنا لیتا ہے۔ قرآن پورے معنوں میں ایک دعوتی کتاب ہے۔ مگر قرآن میں کہیں بھی وہ چیز نہیں بتائی گئی ہے جس کو دعوتی پروگرام کہا جاتا ہے۔ اس کے بجائے قرآن میں یہ کیا گیا ہے کہ مختلف اندازسے دعوت کی روح جگائی گئی۔ اسی دعوتی روح کا یہ نتیجہ تھا کہ دور اول کے اہل ایمان نے اتنا بڑا دعوتی عمل کیا کہ زمین کے ایک بڑے حصہ میں اسلام پھیل گیا۔ دور اول میں جو عظیم دعوتی عمل ہوا اس کی پُشت پر کوئی لگا بندھا دعوتی پروگر ام نہ تھا بلکہ دعوتی اسپرٹ تھی جو ان لوگوں کو مسلسل متحرک کیے ہوئے تھی۔
بھوپال کے اجتماعات میں کتابوں کا بُک اسٹال رکھاگیا تھا۔ لوگوں نے کتابوں میں بہت دلچسپی لی۔ بیشتر کتابیں لوگوں نے خرید کر حاصل کیں اور کچھ کتابیں لوگوں کے درمیان تقسیم کردی گئیں۔ بُک اسٹال کا طریقہ بہت مفید طریقہ ہے۔ اس کو ہر اجتماع کے موقع پر استعمال کرنا چاہیے۔
بھوپال کے قیام کے دوران یہاں کے اخبارات اور ٹی وی کے مختلف چینل نے انٹرویوکیے۔ ہر انٹرویو کے موقع پر لوگوں کی کافی بھیڑ اکھٹا رہتی تھی۔ لوگوں کا تأثر یہ تھا کہ ہر انٹرویو کافی کامیاب رہا۔ یہ انٹرویو تفصیل کے ساتھ اخباروں میں چھپے اور ٹی وی چینلوں میںدکھائے گئے۔
۱۴ مارچ کی صبح کو ہم لوگ روانہ ہو کر بھوپال ایر پورٹ پہنچے۔ یہاں کافی لوگ پہنچانے کے لیے آگئے تھے۔ اُن سے دیر تک باتیں ہوتی رہیں۔ ایک صاحب نے آج کے اخبارات دکھائے۔ ان اخبارات میں میرے خطابات کی رپورٹیں شائع ہوئی تھیں۔ میں نے کہا کہ یہ زمانہ کیسا عجیب زمانہ ہے۔ قدیم زمانہ میں اگر آپ کوئی مشن لے کر اُٹھیں تو اس کی پبلسٹی آپ کو خود کرنی پڑتی تھی۔ آپ کے سوا کوئی دوسرا ادارہ اس کام کے لیے موجود نہ تھا۔ آج یہ حال ہے کہ آپ ایک مشن چلائیں تو آپ کو خود اُس کی پبلسٹی کرنے کی ضرورت نہیں۔ پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا آپ کے پیغام کو دوسروں تک پہنچانے کے لیے ہر جگہ موجودرہتا ہے ۔ آپ سے کوئی قیمت لیے بغیر وہ آپ کے پیغام کو عمومی طورپر پھیلانے میںلگ جاتا ہے۔ ایسا ادارہ پہلے زمانہ میں موجود نہ تھا۔
ایر پورٹ کے مراحل سے گذر کر ہم لوگ جٹ ایرویز کے جہاز میں داخل ہوئے۔ جہاز ٹھیک وقت پر بھوپال سے روانہ ہوا۔ ڈاکٹر اقبال پردھان نے کہا کہ ہم جہاز کے اندر بھی دعوہ ورک کریں گے۔ چنانچہ انہوں نے اور دوسرے ساتھیوں نے مسافروں سے ملاقاتیں کیں اور انہیں انگریزی کے پمفلٹ مطالعہ کے لیے دیے۔ لوگوں نے نہایت دلچسپی کے ساتھ اس کو قبول کیا۔
جہاز کے اندر انگریزی روزنامہ ایشین ایج کا شمارہ ۱۴ مارچ ۲۰۰۵ دیکھا۔ اس میںایک رپورٹ کے تحت بتایاگیا تھا کہ پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف نے اسلام آباد کی اسلامک یونیورسٹی میں کانووکیشن ایڈریس دیتے ہوئے کہا کہ اسلام کے خلاف غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے پاکستان کے معتدل طبقہ کا انتہا پسندانہ طاقتوں کے خلاف متحد ہو جانا چاہیے۔ اسلام کے خلاف غلط فہمیوں کو دور کرنا ضروری ہے تاکہ دنیا میں پائیدار امن قائم ہوسکے:
He urged moderates in Pakistan to unite against extremist forces to remove “misperceptions” about Islam in the world. Misperceptions about Islam need to be removed through the strategy of enlightened moderation for durable and lasting peace in the world. (p. 5)
مسلم ملکوں کے خلاف امریکا کے تباہ کن آپریشن کے بعد تمام دنیا کے مسلمانوں کی رائے بدل گئی ہے۔ اب دنیا بھر کے مسلمان امن کی باتیں کررہے ہیں۔ حالاں کہ ایک وقت تھا جب کہ ساری مسلم دنیا میں راقم الحروف تنہا امن کی بات کررہا تھا۔ بقیہ تمام لکھنے اور بولنے والے تقریباً بلا استثناء متشددانہ جہاد کی باتیں کررہے تھے۔ عرب دنیا کا پریس الجہاد ہوالحل الوحید جیسے نعروں سے بھرا ہوا ہوتا تھا اور بر صغیر ہند کے مسلمان لڑا دے ممولے کو شہباز سے کا رجزیہ ترانہ گا رہے تھے۔ مگر اب یہ لوگ ہر جگہ امن کے علم بردار بنے ہوئے ہیں۔
میرے نزدیک یہ عین وہی روش ہے جس کو قرآن میں انا کنا معکم (العنکبوت ۱۰) کے الفاظ میں بتایا گیا ہے۔ ایسے لوگوں کو امن پسندی کا کریڈٹ صرف اُسی وقت مل سکتا ہے جب کہ وہ اعلان کے ساتھ یہ کہیں کہ اس سے پہلے ہم دیوانے تھے کہ ہم نے جنگ پسندی کی پالیسی اختیار کی۔ اب ہم اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے امن کے راستہ پر چلنا چاہتے ہیں۔ غلطی کا اعتراف کیے بغیر ان لوگوں کو امن پسندی کا کریڈٹ ملنے والا نہیں۔ اعتراف کے بغیر اس قسم کی باتیں ویحبون ان یحمدوا بما لم یفعلوا (آل عمران ۱۸۸) کا مصداق ہیں۔
مسلم دنیا میں ’’کاروانِ امن‘‘ کے اس نئے رجحان پر تبصرہ کرتے ہوئے بھوپال کے حاجی محمد ادریس صاحب نے کہا کہ یہ واقعہ مجھے بنی اسرائیل کے اس واقعہ سے مشابہ نظر آتا ہے جس کا ذکر قرآن میں اس طرح کیا گیا ہے: اور جب ہم نے پہاڑ کو ان کے اوپر اٹھایا گویا کہ وہ سائبان ہے۔ اور انہوں نے گمان کیا کہ وہ اُن پر آپڑے گا۔ پکڑو اس چیز کو جو ہم نے تم کو دی ہے مضبوطی سے، اور یاد رکھو جو اس میں ہے تاکہ تم بچو (الاعراف ۱۷۱) حاجی محمد ادریس صاحب نے کہا کہ مسلم دنیا میں امریکا کی جارحانہ مداخلت اسی قسم کا ایک واقعہ تھی۔ خدانے امریکا کے فوجی پہاڑ کو مسلمانوں کے اوپر مسلط کرکے کہا کہ الرسالہ کے پیغام امن کو مانو ورنہ یہ پہاڑ تمہارے اوپر گرا دیا جائے گا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ساری دنیا میں مسلمانوں کا رویہ بدل گیا۔
۱۴ مارچ ۲۰۰۵ کی دوپہر کو ہمارا جہاز دہلی ایرپورٹ پر اُترا۔ لینڈنگ نہایت ہموار تھی۔ جہاز سے نکل کر ہم لوگ ایر پورٹ میں داخل ہوئے۔ انڈیا میں بہت دنوں سے یہ چرچا ہے کہ ایرپورٹ کو ورلڈ کلاس ایر پورٹ بنایا جائے۔ مگر ابھی تک ایسا نہ ہوسکا۔ میرے نزدیک اس معاملہ میںاصل رکاوٹ کرپشن ہے۔ گورنمنٹ ایر پورٹ اور اس قسم کے دوسرے اداروں کی تعمیر پر بہت زیادہ رقم خرچ کرتی ہے۔ مگر مطلوب نتیجہ نہیں نکلتا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ گورنمنٹ اس مقصد کے لیے جو رقم مختص کرتی ہے اس کا بڑا حصہ کرپشن کی نذر ہوجاتا ہے۔
میرے نزدیک انڈیا میں اصل مسئلہ عالمی معیار کی تعمیر نہیں ہے بلکہ ملک سے کرپشن کو دور کرنا ہے۔ انڈیا میں کرپشن اتنا زیادہ بڑھ چکا ہے کہ غالباً اب کوئی بھی چھوٹا یا بڑا گوشہ اس سے خالی نہیں۔ ہرنئی حکومت بڑے بڑے وعدے کرتی ہے۔ مگر کرپشن میںکوئی کمی نہیں آتی۔
دہلی ایر پورٹ پر جو لوگ آئے تھے ان میں مسٹر نودیپ کپور بھی تھے۔ وہ ایک اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے خاندان میں ۱۳۰ سال سے کتابوں کا بزنس ہورہا ہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ پہلے مجھے اپنے بزنس میں کافی ٹنشن رہتا تھا۔ مگر اب میں نے آپ کی صحبت کے نتیجہ میں یہ کیا کہ قناعت کو اپنا اُصول بنا لیا ہے۔ جب سے میںنے ایسا کیا ہے میرا ٹنشن بھی ختم ہوگیا ہے۔ اب میں سکون کی زندگی گزار رہا ہوں۔
بھوپال کے اجتماع میں شریک ہونے والوں میں سے ایک سعدیہ خان بھی تھیں۔ اجتماع سے واپسی کے بعد اُن سے اُن کا تأثر پوچھا گیا۔ اُنہوں نے کئی باتیںبتائیں۔ اُن میں سے ایک یہ تھی کہ میں کالج میں پڑھتی ہوں۔ مجھے گھر اور کار اور دوسری سہولتیں حاصل ہیں۔ پہلے میں دوسری لڑکیوں کی طرح سمجھتی تھی کہ یہ سہولتیں انجوائے کرنے کے لیے ہیں۔ مگر اب میں یہ سوچنے لگی ہوں کہ یہ چیزیں دراصل سپورٹ سسٹم ہیں۔ ان کو خدا نے مجھے اس لیے دیا ہے کہ میں ان کو ذریعہ کے طورپر استعمال کروں اور اپنی زندگی کو اعلیٰ مقصد میںلگاؤں۔
بھوپال کے اجتماع میں میںنے اپنی تقریروں میں یہ بات نہیں کہی تھی۔ پھر سعدیہ خان کے ذہن میںیہ بات کہاںسے آئی۔ اس پر غور کرتے ہوئے میری سمجھ میں آیا کہ اگر آپ کسی کے ذہن کو مثبت رخ پر متحرک کردیں تو اس کے بعد اس کے ذہن کی کھڑکیاں کھل جاتی ہیں۔ وہ گہرائی کے ساتھ سوچنے لگتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ایسی باتوں کو دریافت کرلیتا ہے جو کہنے والے نے اُس سے نہیں کہی تھی۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے دماغ سے کنٹرول ہوتا ہے۔ انسان کے اندر تبدیلی لانے کا راز یہ ہے کہ اس کے اندر سوچنے کی صلاحیت پیدا کی جائے۔ انسان کے ذہن میں امکانی طورپر تمام باتیں موجود ہیں۔ مگر عام طورپر وہ سوئی ہوئی حالت میں ہوتی ہیں۔ مصلح کا کام یہ ہے کہ وہ اس سوئے ہوئے ذہن کو جگا دے۔ اس کے بعدیہ بیدارمسافر اپنے آپ زندگی کی راہوں میں رواں دواں ہوجائے گا۔
واپس اوپر جائیں

Friday, 1 July 2005

Al Risala | July 2005 (الرسالہ،جولائی)

2

- شخصیت کی تعمیر

6

- جیسا بونا ویسا کاٹنا

9

- اعترافِ خطا ایک نعمت

10

- سفر کا آغاز

11

- غصہ کا نقصان

12

- زندگی کے دو طریقے

13

- مسئلہ کا حل

14

- دو درجے

15

- برداشت کرنا واحد حل

16

- سب سے بڑی طاقت

17

- مسائل اور ان کا حل

18

- منفی پہلو میں مثبت پہلو

19

- خاندانی زندگی

20

- تحفہ کی نفسیات

21

- ایک نصیحت

22

- مثبت سوچ کی ضرورت

23

- غلط فہمی

24

- صبر کا فائدہ

25

- مشورہ کی اہمیت

26

- دو کشتی کی سواری

27

- آدھی کہانی

28

- نشانِ منزل

29

- سوال وجواب

41

- خبر نامہ اسلامی مرکز ۱۷۰


شخصیت کی تعمیر

قرآن کی سورہ نمبر ۸۳ میں اہل تکذیب کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے: کلا بل رانَ علی قلوبہم ما کانوا یکسبون(التطفیف ۱۴) یعنی ان کے دلوں پر اُن کے اعمال کا زنگ چڑھ گیا ہے۔ اس آیت میں ایک نفسیاتی معاملہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو ان لوگوں کے ساتھ پیش آتا ہے جو ضد اور سرکشی کا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ اس معاملہ کو حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:
عن ابی ہریرۃ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ان المؤمن اذا أذنب کانت نکتۃ سوداء فی قلبہ فان تاب ونزع واستغفر صقل قلبہ وإن زاد زادت حتی یعلو قلبہ (ابن ماجہ، کتاب الزہد، مسند احمد ، جلد ۲، صفحہ ۲۹۷)۔ یعنی مومن جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک کالا دھبہ پڑ جاتا ہے۔ اگر وہ توبہ کرے اور اُس کو مٹادے اور استغفار کرے تو اس کا د ل دھبہ سے پاک ہوجاتا ہے۔ اور اگر دھبہ میں مزید اضافہ ہو تو وہ بڑھتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اس کے پورے دل پر چھا جاتا ہے۔
یہ تمثیل کی زبان میں ایک نفسیاتی معاملہ کو بتایا گیا ہے۔ جب کوئی انسان برائی کرے اور پھر وہ جلد ہی متنبہ ہوجائے۔ وہ برائی کے احساس کو اپنے دل سے نکال ڈالے تواس کا دل پاک و صاف ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر ایسا ہو کہ آدمی ایک کے بعد ایک برائی کرتا رہے۔ وہ اپنا محاسبہ کرکے اپنے دل سے اس کے اثرکو زائل نہ کرے تو دھیرے دھیرے اس کا پورا دل بے حسی کا شکار ہوجاتا ہے۔ اب وہ برائیوں ہی میں جینے لگتا ہے اور سچائی کی بات اس کو متاثر نہیں کرتی۔
جدید نفسیاتی مطالعہ نے اس معاملہ کو مزید واضح کیا ہے۔ اب یہ بات ایک پر اسرار عقیدہ نہیں رہی، بلکہ وہ ایک معلوم حقیقت بن گئی ہے۔ اب وہ خالص علمی اعتبار سے انسان کے لیے قابل فہم ہے۔
جدید نفسیاتی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ انسان کے دماغ کے تین بڑے حصے ہیں۔ یہ تینوں حصے ہر عورت اور ہر مرد کے دماغ میں پائے جاتے ہیں۔ وہ پیدائشی طورپر ہر انسانی دماغ کا حصہ ہیں۔ وہ تین حصے یہ ہیں:
۱۔ شعوری ذہن (conscious mind)
۲۔ تحت شعور (sub-conscious mind)
۳۔ لاشعور(unconscious mind)
تجربہ و تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ کوئی بھی خیال جب وہ ایک بار دماغ میں آجائے تو وہ ہمیشہ کے لیے انسانی دماغ کا حصہ بن جاتا ہے، اور جیسا کہ معلوم ہے، انسانی دماغ ہی در اصل انسانی شخصیت کا دوسرا نام ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی خیال انسان کے دماغ میں آجائے تو وہ ہمیشہ کے لیے انسان کی شخصیت کا حصہ بن جاتا ہے۔ حتیٰ کہ اگر وہ اس کو اپنی شخصیت سے الگ کرنا چاہے تو وہ اس کو الگ کرنے پر قادر نہیں ہوتا۔
جب کوئی بات انسان کے دماغ میں آتی ہے، خواہ وہ منفی ہو یا مثبت تو وہ سب سے پہلے دماغ کے شعوری حصہ میں آتی ہے۔اس کو زندہ حافظہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ اس کے بعد آدمی جب رات کو سوتا ہے تو فطری عمل کے تحت اپنے آپ ایسا ہوتا ہے کہ وہ بات شعوری ذہن سے چل کر ذہن کے تحت الشعور حصہ میںپہنچ جاتی ہے۔ جب ایسا ہوتا ہے تو اس کے خیال کے اوپر آدمی کا شعوری کنٹرول صرف پچاس فیصد رہ جاتا ہے۔ پچاس فیصد وہ اس کے شعوری کنٹرول سے باہر ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد جب وہ اگلی رات کو سوتا ہے تویہ خیال مزید سفر کرکے ذہن کے لاشعور حصہ میں پہنچ جاتا ہے۔ جب ایسا ہوتا ہے تو اس کے بعد یہ خیال اس کے شعوری کنٹرول سے پوری طرح باہر ہو جاتا ہے۔
انسانی ذہن کے یہ تینوں حصے شعور کے اعتبار سے ذہن کی تین حالتوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ مگر جہاں تک انسانی شخصیت کا تعلق ہے، وہ ہر حال میں یکساں طورپر اُس کا معمول بنی رہتی ہے۔ کوئی خیال جب تک زندہ حافظہ میں ہو تو وہ انسانی شخصیت کا معلوم حصہ ہوتا ہے۔ مگر جب وہ تحت شعور میں پہنچ جائے تو اگر چہ اب بھی وہ مکمل طورپر انسانی شخصیت کا حصہ ہوتا ہے مگر عام حالات میں وہ انسان کے علم میں تازہ نہیں ہوتا۔
یہی روز مرہ کے افکار جو انسان کے ذہن میں آتے ہیں وہی اس کی شخصیت کی تعمیر کرتے ہیں۔ جیسے افکار ویسی شخصیت۔ مثبت افکار سے مثبت شخصیت بنے گی۔ لیکن اگر یہ افکار منفی افکار ہوں تو انسان کی شخصیت بھی منفی بنتی چلی جائے گی۔
آج کل یہ حال ہے کہ آپ جس عورت یا مرد سے ملئے ہر ایک کو آپ منفی سوچ میں مبتلا پائیں گے۔ اگر کوئی شخص بظاہر باتیں کرتا ہوا نظر آئے تب بھی اس کی یہ بات صرف اوپری طور پر ہوگی۔ اگر آپ مزید گفتگو کرکے اس کی اندرونی شخصیت کو جاننے کی کوشش کریں تو آپ پائیں گے کہ اس کی اندرونی شخصیت بھی اُتنی ہی منفی تھی جتنی کہ دوسروں کی شخصیت۔ اس طرح موجودہ زمانہ کا ہر آدمی اپنے آپ کو منفی قبرستان میں دفن کیے ہوئے ہے، اگر چہ اس کو خود بھی اس ہلاکت خیز واقعہ کی خبر نہیں۔ اس میں غالباً مذہبی انسان اور سیکولر انسان میں کوئی فرق نہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ سب سے بُری شخصیت منفی شخصیت ہے اور سب سے زیادہ اچھی شخصیت وہ ہے جو مثبت شخصیت ہو۔ ایسی حالت میں یہ سوال ہے کہ مثبت شخصیت کی تعمیر کس طرح کی جائے۔ مذکورہ اسلامی تعلیم اور مذکورہ نفسیاتی تحقیق دونوں کو سامنے رکھ کر غور کیا جائے تو اس کی ایک واضح عملی صورت بنتی ہے۔ اس کو یہاں درج کیا جاتا ہے ۔
اس عمل کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ جب کوئی منفی خیال آدمی کے ذہن میں آجائے تو وہ اس کو پہلے ہی مرحلہ میں ختم کردے۔ خصوصی تدبیر کے ذریعہ اُس کے منفی پہلو کو مثبت پہلو میں تبدیل کرلے۔ مثلاً وہ غصہ کو فوراً معاف کردے تاکہ اس کا غصہ انتقام کی صورت اختیار نہ کرنے پائے۔ کسی کی ترقی اُس کو پسند نہ آئے تو اُسی وقت وہ اس کو نظر انداز کردے تاکہ وہ اس کی شخصیت میں حسد بن کر شامل نہ ہوسکے، وغیرہ۔
ہر بُرے خیال کے ساتھ فوراً ہی تبدیلی کا یہ عمل کرنا چاہیے۔ اگر اس میں دیر ہوئی تو جلد ہی ایسا ہوگا کہ وہ آدمی کے تحت شعور میں چلا جائے گا۔ اور پھر کچھ عرصہ بعد وہ اس کے لاشعور میں داخل ہوجائے گا۔ اور جب ایسا ہوگا تو وہ آدمی کی شخصیت کا اس طرح لازمی حصہ بن جائے گا کہ آدمی چاہے بھی تو وہ اس کو اپنے سے جُدا نہ کرسکے۔
لوگ عام طورپر ایسا نہیں کرتے اور اس کی یہ بھیانک قیمت ادا کر رہے ہیں کہ ہر ایک خوبصورت کپڑوں کے پیچھے ایک منفی شخصیت کی لاش لیے ہوتا ہے۔ منفی شخصیت دراصل جہنمی شخصیت ہے۔ جو عورت یا مرد اس ہلاکت خیز انجام سے بچنا چاہتے ہوں ان کو چاہیے کہ وہ مذکورہ عمل تصحیح کو اپنی روزانہ کی زندگی میں شامل کرلیں۔ اس کے سوا اس مسئلہ کا کوئی اور حل موجود نہیں۔
واپس اوپر جائیں

جیسا بونا ویسا کاٹنا

انسان کی زندگی دو دوروں میں تقسیم ہے۔ قبل از موت دور (pre-death period) اور بعد ازموت دور (post-death period) ۔ موت سے پہلے کا محدود دور ٹسٹ کے لیے ہے اور موت کے بعد کا ابدی دور ٹسٹ کے مطابق اچھا یا برا انجام پانے کے لیے۔ ٹسٹ میں پورا اترنے والوں کے لیے جنت ہے اور ٹسٹ میں فیل ہونے والوں کے لیے جہنم۔
خالق کے مطابق، یہی اس دنیا کے لیے تخلیق کا نقشہ ہے۔ مگر جنت اور جہنم دونوں کی نوعیت یکساں نہیں۔ تخلیق کا اصل مقصود اہل جنت ہیں۔ جہاں تک اہل جہنم کا تعلق ہے، وہ تخلیق کا صرف اضافی جزء ہیں، وہ اس کا حقیقی جزء نہیں۔ اہل جہنم کا اصل رول یہ ہے کہ وہ اُس ماحول کو بناتے ہیں جس میں لوگوں کا ٹسٹ لیا جاسکے اور اس کے مطابق اہل جنت کا سلیکشن ہوسکے۔
موت سے پہلے کی دنیا ٹسٹ کے تقاضوں کے مطابق بنائی گئی ہے۔ ٹسٹ کی مدت پور ی ہونے کے بعد نہ اس دنیا کی ضرورت رہے گی اور نہ اس ٹسٹ میں فیل ہوجانے والوں کی۔ اس مدت کے پورا ہونے کے بعد کائنات میں صرف جنت باقی رہے گی اور وہ لوگ جو جنت کی معیاری دنیا میں بسائے جانے کے لیے منتخب کئے گئے ہوں۔
اس تخلیقی اسکیم سے لوگوں کو باخبر کرنے کے لیے خالق نے مختلف انتظامات کئے ہیں۔ پہلا انتظام یہ کہ خود انسان کی فطرت میںاس کا گہرا شعور رکھ دیا گیا ہے۔ہر انسان کا یہ تجربہ ہے کہ موجودہ دنیا میں اس کو کامل تسکین نہیں ملتی۔یہاں نہ غریب آدمی اپنی مطلوب تسکین حاصل کرتا ہے اور نہ امیر آدمی۔ یہاں نہ کمزور آدمی کو اطمینان حاصل ہوتا ہے اور نہ طاقت ور آدمی کو۔ یہاں ہر آدمی بے تسکینی کی حالت میں جیتا ہے اور تھوڑے دنوں کے بعد اسی حال میں مرجاتا ہے۔ یہ عمومی بے تسکینی کی حالت ہر عورت اور مرد کو یاد دلاتی ہے کہ تمہاری منزل کوئی اور ہے۔ تمہاری مطلوب دنیا قبل از موت دورِ حیات میں موجود نہیں۔ اس لیے اس کو بعد از موت دور حیات میں حاصل کرنے کی کوشش کرو۔
اس تخلیقی نقشہ سے باخبر کرنے کے لیے خالق نے بہت سے انتظامات اس دنیا میں کئے ہیں۔ مثلاً موجودہ دنیا کو اس طرح بنایا ہے کہ یہاں کوئی آرام کی زندگی نہ پاسکے۔ یہاں مسائل ہیں، یہاں بیماری ہے، یہاں حادثات ہیں، یہاں بورڈم ہے، یہاں طرح طرح کے نقصانات ہیں اور پھر تھوڑی مدت کے بعد اچانک مرجانا ہے۔ اس طرح دنیا کے ناموافق حالات بار بار آدمی کو یہ یادد لاتے رہتے ہیں کہ تم اپنی مطلوب دنیا یہاں نہیں بنا سکتے۔ یہ دنیا تمہاری تمناؤں کی تکمیل کے لیے فیصلہ کن طورپر ناکافی ہے۔ یہ ناموافق صورت حال آدمی کو مسلسل حقیقت کی تلاش پر مجبور کرتی ہے۔
اسی طرح موجودہ دنیا میں بہت سے لوگ مصیبت (suffering) میں مبتلا ہو کر لوگوں کے لیے نمونۂ عبرت بن جاتے ہیں۔ ایک شخص مفلوج ہو کر وھیل چیر پر جی رہا ہے، یا کسی لا علاج بیماری میں مبتلا ہو کر زندگی کی کشش کھو دیتا ہے۔ اس طرح کے مختلف لوگ گویا خالق کی طرف سے نشان منزل (sign post) کا کام کررہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ موجودہ دنیا کی زندگی کتنی بے حقیقت ہے۔ ایسے لوگ گویا خاموش زبان میں بتا رہے ہیں کہ انسان کے لیے ممکن نہیں کہ وہ خود سے اپنی مرضی کی دنیا اپنے لیے بنا سکے۔
حالات کے کورس میں جن لوگوں کو اس طرح سائن پوسٹ کا رول اداکرنے کا موقع ملے وہ لوگ اگر چہ بظاہر مصیبت میں دکھائی دیتے ہیں مگر ان کے لیے ایک بہت بڑی خوش خبری ہے۔ موت کے بعد آنے والے فیصلہ کے دن ان سے چھوٹے عمل کو قبول کرلیا جائے گا۔ اپنی مصیبت کی بنا پر وہ جسمانی اعتبار سے اس قابل نہیں تھے کہ وہ کوئی بڑا عمل کرسکیں۔ اس بنا پر ان کے لیے صرف یہی کافی ہوجائے گا کہ وہ اپنے اس رول پر راضی ہوجائیں جو سائن پوسٹ کی حیثیت سے ان کے لیے مقدر ہوا تھا۔ وہ جس مصیبت میں مبتلا ہوئے ہیں اس پر صبرکرلیں۔ صبر اور رضا مندی ہی کی بنا پر کسی مزید عمل کے بغیر ان کو جنت میں داخلہ مل جائے گا۔
اسی کے ساتھ زندگی کی اس حقیقت کا لفظی اعلان پیغمبروں کے ذریعہ کیا گیا ہے۔ پیغمبروں نے بتایاہے کہ موت سے پہلے کے دور حیات میں تم اپنی پسند کی دنیا نہیں بنا سکتے۔ یہاں تم اچھے عمل کرو تاکہ بعد ازموت دور حیات میں تم اپنی پسند کی دنیا پاسکو۔ جنت اگلی دنیا میں بنے گی، لیکن جنتی انسان آج ہی کی دنیا میں بن رہا ہے۔
جنت کیا ہے۔ موجودہ دنیا کو دیکھ کر جنت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ موجودہ دنیا ایک اعتبار سے گویا جنت کا تعارف ہے۔ یہ جنت کا ایک بہت چھوٹا نمونہ ہے۔ جنت در اصل موجودہ دنیا کا تکمیلی ایڈیشن ہے۔ موجودہ دنیا میں جو نعمتیں ہیں وہی تمام نعمتیں جنت میں بھی ہیں ، فرق یہ ہے کہ موجودہ دنیا ناقص ہے اور جنت اس کے مقابلہ میں کامل۔ موجودہ دنیا غیر معیاری ہے اور جنت کی دنیا معیاری۔ موجودہ دنیا فانی ہے اور جنت کی دنیا ابدی۔ موجودہ دنیا میں خوف اور حزن ہے، یہاں شور اور تکلیف ہے جبکہ جنت وہ جگہ ہے جہاں نہ خوف ہوگا اور نہ حزن، جہاں نہ شور ہوگا اور نہ ہی تکلیف۔ موجودہ دنیا محدود یت اور ڈس ایڈوانٹج سے بھری ہوگی۔ جب کہ جنت وہ جگہ ہے جہاں نہ محدودیت ہوگی اور نہ کسی قسم کا ڈس ایڈوانٹج۔ جنت میں انسان کو فل فلمنٹ حاصل ہوگا جب کہ موجودہ دنیا میں کسی کو بھی فلفلمنٹ حاصل نہیں ہوتا۔
جہنم وہ جگہ ہے جو اس کے بالکل برعکس ہوگی۔ جہنم کی دنیا میں وہ تمام تکلیفیں مزید اضافہ کے ساتھ جمع کردی جائیں گی جن کا تجربہ ہم موجودہ دنیا میں کرتے ہیں۔
موت سے پہلے کا دوراور موت کے بعد کا دور، دونوں ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ دونوں کے درمیان وہی نسبت ہے جو بونے اور فصل کاٹنے میں ہوتی ہے۔ موت سے پہلے کا زمانہ گویا بونے کا زمانہ ہے، اور موت کے بعد کا زمانہ گویا فصل کاٹنے کا زمانہ۔ جیسا بونا ویسا کاٹنا، یہ ایک ابدی اُصول ہے۔ یہ اُصول بعد ازموت دور حیات پر بھی اتنا ہی منطبق ہوتا ہے جتنا کہ قبل ازموت دورِ حیات پر۔
واپس اوپر جائیں

اعترافِ خطا ایک نعمت

انس بن مالک روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کل بنی آدم خطّاء و خیر الخطائین التوّابون (الترمذی، کتاب القیامۃ، ابن ماجہ، کتاب الزہد، الدارمی، کتاب الرقاق، مسند احمد، مشکوٰۃ المصابیح، رقم الحدیث ۲۳۴۱) یعنی ہر انسان غلطی کرتا ہے اور سب سے بہتر غلطی کرنے والا وہ ہے جو اپنی غلطی کا کھلا اعتراف کرلے۔
غلطی کرنے کے بعد اُس سے لوٹنا یا غلطی کا اعتراف کرنا احتساب خویش (introspection) کا معاملہ ہے۔ غلطی کا اعتراف کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ اپنی اصلاح آپ کا عمل ہے۔ جس آدمی کے اندر یہ ذہنی جرأت ہو کہ وہ غلطی کرنے کے بعد فوراً اس کا اعتراف کرلے۔ اس کو دوسرے فائدوں کے ساتھ یہ فائدہ حاصل ہوتا ہے کہ اس کی فکر میں وضوح آتارہتا ہے۔ وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ زیادہ واضح انداز میں رائے قائم کرے اور زیادہ واضح انداز میں معاملات کا تجزیہ کرسکے۔
ایک آدمی ایک غلط بات کہتا ہے۔ بعد کو معلوم ہوتا ہے کہ اُس کی کہی ہوئی بات غلط تھی۔ اب اس آدمی کے لیے دو میں سے ایک کا اختیار ہے۔ ایک یہ کہ وہ غلطی واضح ہونے کے بعد بھی اس کا اعتراف نہ کرے۔ ایسے آدمی کے ذہن میں صحیح اور غلط دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ملے رہیںگے۔ لیکن جب آدمی یہ جرأت کرے کہ غلطی واضح ہونے کے بعد وہ کہہ دے کہ میں غلطی پر تھا تو اس کے بعد یہ ہوتا ہے کہ اس کے ذہن میں صحیح اور غلط دونوں ایک دوسرے سے الگ ہوجاتے ہیں۔ وہ صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط صورت میں دیکھنے لگتا ہے۔فکری انتشار (confused thinking) بہت بڑی برائی ہے۔ یہ بُرائی کسی کے اندر در اصل غلطی کے عدم اعتراف سے پیداہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ صحیح کو غلط سے نہ چھاٹنے کی کوتاہی کا نتیجہ ہی وہ چیز ہے جس کو ذہنی انتشار کہا جاتا ہے:
Confusion is the result of our failure to sort out the right from the wrong.
واپس اوپر جائیں

سفر کا آغاز

سفر کا آغازہمیشہ آج سے ہوتا ہے لیکن اکثر لوگ اپنے سفر کا آغاز کل سے کرنا چاہتے ہیں۔ یہی مزاج ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اسی مزاج کا یہ نتیجہ ہے کہ اکثر لوگ غیر مطمئن زندگی گزار کر مرجاتے ہیں۔ وہ اپنا نشانہ پورا کئے بغیر موجودہ دنیا سے چلے جاتے ہیں۔
ہر آدمی جب پیدا ہوتا ہے تو پیدا ہوتے ہی اس کو کچھ حالات ملتے ہیں۔ اگر بالفرض خارجی طورپر اس کو کچھ چیزیں نہ ملیں تب بھی اس کا اپنا وجود اس کو یقینی طور پر حاصل رہتا ہے۔ زندگی کے سفر کا سب سے زیادہ کامیاب آغاز یہ ہے کہ آدمی جہاں ہے وہیں سے وہ اپنا سفر شروع کردے۔ وہ حاصل شدہ مواقع کو استعمال کرکے اپنی دنیا بنائے۔ وہ ایسا نہ کرے کہ جو چیز اس کو ابھی نہیں ملی ہے اس کو پانے کے لیے اپنی ساری توجہ لگا دے۔ اس طریقہ کو ایک لفظ میں پازیٹیو اسٹیٹس کو ازم(positive status quoism) کہا جاسکتا ہے۔ یعنی ٹکراؤ کا طریقہ چھوڑ کر حالات موجودہ کو قبول کرلینا اور بروقت جو مواقع (opportunities) موجود ہیں ان کو استعمال کرکے پر امن انداز میں اپنی زندگی کی تعمیر کرنا۔
پیدا ہونے کے بعد آدمی کو بروقت جوکچھ ملا ہوا ہوتا ہے وہ اس کو اپنے حوصلہ کے مقابلہ میں کم معلوم ہوتا ہے۔ وہ چاہنے لگتا ہے کہ پہلے زیادہ حاصل کرے اور اس کے بعد زندگی کی مثبت تعمیر کی طرف بڑھے۔ مگر یہ سوچ غیر فطری ہے۔ صحیح یہ ہے کہ ملے ہوئے کو مواقع کی نظر سے دیکھا جائے اور اس کو لے کر فوراً ہی زندگی کی مثبت تعمیر شروع کردی جائے۔
حاصل شدہ نقشۂ کار کے اندر مثبت جدوجہد کرنے کا نام پازیٹیو اسٹیٹس کو ازم ہے۔ یہی کامیابی کا واحد طریقہ ہے۔ جو لوگ حاصل شدہ نقشۂ کار کو ناکافی سمجھ کر نئے نقشۂ کار کی طرف دوڑیں ان کے لیے اس دنیا میں تباہی کے سوا کوئی اور انجام مقدر نہیں۔
زندگی کی جدوجہد ہمیشہ ملے ہوئے سے ہوتی ہے۔ جو لوگ نہ ملے ہوئے سے زندگی کی جدوجہد شروع کرنا چاہیں وہ یہ خطرہ مول لے رہے ہیں کہ ان کی جدوجہد کبھی شروع ہی نہ ہو۔
واپس اوپر جائیں

غصہ کا نقصان

اگر تاریخ کے تمام واقعات کو اکھٹا کیا جائے اور دیکھا جائے کہ جو کام بگڑا وہ کس لیے بگڑا، اور جو کام بنا وہ کس لیے بنا۔ اس کا جواب یقینی طور پر یہ ملے گا کہ جو کام بگڑے ان سب کے پیچھے غصہ اور نفرت کا عنصر موجود تھا۔ اس کے مقابلہ میں جو کام بنے ان سب کے پیچھے اعتدال پسندی اور عفو ودرگزر کا عنصر پایا جاتا تھا۔
جب کسی آدمی کو غصہ آتا ہے تو اس کے اندر نفرت اور انتقام کی آگ بھڑک اٹھتی ہے۔ اس کے اندر منفی نفسیات اُبھر آتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی اپنے فطری ذہن کے تحت سوچ نہیں پاتا۔ وہ غیر فطری انداز میں سوچتا ہے اور غیر فطری فیصلہ کرتا ہے۔ اور یہ ایک مسلّم بات ہے کہ فطرت کے راستہ سے ہٹ کر جو کام کیا جائے اس کا ناکام ہونا یقینی ہے۔
اس کے برعکس جب ایسا ہو کہ آدمی کو غصہ آئے تو وہ اپنے آپ کو سنبھال لے۔ وہ اپنی عقل کی صلاحیت کو معتدل انداز میں استعمال کرے۔ ایسا کرنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی کی سوچ فطرت کے دائرہ میں رہتی ہے۔ وہ اپنے عمل کا جو منصوبہ بناتا ہے وہ فطرت کے اصول کے مطابق ہوتا ہے۔ اس بنا پر فطرت کا پورا نظام اس کی موافقت پر آجاتا ہے۔ اور جس آدمی کو فطرت کے نظام کی موافقت حاصل ہوجائے اس کی کامیابی اُتنی ہی یقینی ہے جتنا کہ رات کے بعد روشن صبح کا آنا۔
غصہ ایک آگ ہے۔ صبر و تحمل اس آگ کو بجھادینے والا ہے۔ غصہ اگر روکا نہ جائے تو وہ نفرت اور تشدد پیدا کرتا ہے اور نفرت اور تشدد ایک ایسی برائی ہے جس سے زیادہ بڑی برائی شاید اور کوئی نہیں۔ صبر و تحمل کے ذریعہ اعلیٰ انسانی شخصیت بنتی ہے۔ اور بے صبری اور عدم برداشت انسان کو اخلاقی پستی میں گرادینے والی ہے۔
غصہ منفی ذہن پیدا کرتا ہے اور غصہ دلانے کے باوجود غصہ نہ ہونا مثبت ذہن کی تشکیل کرتاہے۔ مثبت سوچ اعلیٰ انسانیت کی پہچان ہے، اور منفی سوچ پست انسانیت کی پہچان۔
واپس اوپر جائیں

زندگی کے دو طریقے

دنیا میں زندگی گذارنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی کسی قائم شدہ نظام سے اپنے آپ کو وابستہ کرلے۔ مثلاً وہ کسی کمپنی کا ملازم بن جائے یا حکومت میں کوئی سروس حاصل کرلے یا کسی بڑے ادارہ کا کارکن بن جائے، وغیرہ۔
دوسری صورت یہ ہے کہ آدمی خود اپنی سوچ کے تحت ایک کام شروع کرے۔ وہ خود اپنے نقشہ کے مطابق، دنیا میں جینا چاہے۔ دونوں ہی کی ایک قیمت ہے اور کوئی آدمی اُسی وقت کامیاب ہوسکتا ہے جب کہ وہ اس کی قیمت ادا کرے، خواہ وہ کسی رائج نظام کا معاملہ ہو یا خود اپنے سوچے ہوئے نقشہ کا معاملہ ۔قائم شدہ نقشہ کامعاملہ یہ ہے کہ اس میں آدمی کو بہت جلد سہولت کی ایک زندگی حاصل ہوجاتی ہے۔مگر اس کی قیمت یہ ہے کہ آدمی کا ذہنی ارتقاء رُک جاتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں اپنے نقشہ پر چلنے پر بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ ایک چیلنج بھرا راستہ ہے۔ مگر اس کا فائدہ یہ ہے کہ اس میںآدمی کو وہ فکری نعمت حاصل ہوتی ہے جس کو ذہنی ارتقاء (intellectual development) کہا جاتا ہے۔
زندگی کے یہ دونوں طریقے درست طریقے ہیں۔ آدمی دونوں میں سے کسی کو بھی اختیار کرسکتا ہے۔ البتہ آدمی کو جاننا چاہیے کہ دونوں ہی طریقوں میں ایسا ہے کہ وہ ایک چیز کو پائے گا مگر وہ دوسری چیز کو کھو دے گا۔چیلنج سے خالی راستہ میں مادی سہولت ملے گی، مگر وہاں ذہنی ارتقاء کا فائدہ حاصل نہ ہوگا۔ اس کے مقابلہ میں چیلنج والی زندگی میں ذہنی ارتقاء حاصل ہوگا لیکن مادی سہولت کے حصول کا معاملہ غیر یقینی ہوجائے گا۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنے لیے جس راستہ کو اختیار کرے، یہ سمجھ کر اختیار کرے کہ ا س میں وہ کیا کھوئے گا اور کیا پائے گا۔ کیا چیز اس کو ملے گی اور کیا چیز اُس کو نہیں ملے گی۔ یہی حقیقت پسندی ہے اور یہی اس دنیا میں پُرسکون زندگی حاصل کرنے کا کامیاب اُصول بھی۔ہر ترقی کی ایک قیمت ہے اور کوئی ترقی وہی شخص پاتا ہے جو اس کی قیمت ادا کرے۔
واپس اوپر جائیں

مسئلہ کا حل

اکثر لوگ منفی نفسیات میں جیتے ہیں۔ وہ مسائل کے حوالہ سے شکایت کرتے رہتے ہیں۔ وہ اس کوشش میں رہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح کوئی ایسا نسخہ دریافت کرلیں جو مسائل کو ختم کرنے والا ہو۔ تاکہ انہیں سکون کی زندگی حاصل ہوسکے۔ یہ ذہن فطرت کے قانون کے خلاف ہے، اور جو چیز فطرت کے خلاف ہو وہ کبھی حاصل ہونے والی نہیں۔
مسائل زندگی کا حصہ ہیں، وہ کبھی ختم نہیں ہوتے۔ مسئلہ کا حل مسئلہ کے ساتھ جینا ہے، نہ کہ مسئلہ کو ختم کرکے بے مسئلہ زندگی حاصل کرنا۔ کوئی چیز اُسی وقت تک مسئلہ نظر آتی ہے جب کہ اس کو مسئلہ سمجھا جائے۔ اگر مسئلہ کو زندگی کا لازمی حصہ سمجھ لیا جائے تو اس کے بعد مسئلہ معمول کی چیز بن جائے گا، وہ پریشان کن مسئلہ کی حیثیت سے باقی نہیں رہے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں بے مسئلہ زندگی اوربا مسئلہ زندگی کے درمیان انتخاب نہیں ہے بلکہ یہاں انسان کے لیے صرف ایک ہی انتخاب ہے۔ اور وہ یہ کہ وہ بامسئلہ زندگی کو معمول کی چیز سمجھ کر اس پر راضی ہو جائے۔ مسئلہ کے بارے میں وہ اپنی منفی سوچ کو ختم کردے۔
مسئلہ کیا ہے۔ مسئلہ در اصل اجتماعی زندگی کی قیمت ہے۔ انسان اکیلا نہیں رہ سکتا۔ وہ اپنی ساخت کے اعتبار سے مجبور ہے کہ اجتماعی زندگی گذارے اور جب بھی وہ اجتماعی زندگی میں رہے گا تو اس کے ساتھ مسائل بھی ضرور پیش آئیں گے۔ انفرادی زندگی بے مسئلہ زندگی ہوسکتی ہے۔ مگر انفرادی زندگی گذارنا کسی کے لیے ممکن نہیں۔ انسانی تقاضے صرف اجتماعی زندگی میں پورے ہوسکتے ہیں۔ اس لیے انسان کو چاہیے کہ وہ مسئلہ کو اجتماعی زندگی کے لازمی جزء کی حیثیت سے قبول کرے۔
مسئلہ زندگی کی سرگرمیوں سے جڑا ہوا ہے۔جہاں سرگرمیاں ہوں گی وہاں مسائل بھی لازمی طورپر پائے جائیں گے۔ مسئلہ کو مسئلہ نہ سمجھنا ہی مسئلہ کا واحد یقینی حل ہے۔مسئلہ کا حل ہمیشہ آدمی کے ذہن میں ہوتا ہے نہ کہ اس کے باہر۔
واپس اوپر جائیں

دو درجے

زندگی میں کامیابی کے دو درجے ہیں۔ ایک ہے اوسط درجہ کی کامیابی۔ اور دوسرا ہے اعلیٰ درجہ کی کامیابی۔ اس دنیا میں دو نوں ہی ممکن ہے۔ مگر دونوں کی شرطیں ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ اس کا خلاصہ یہ ہے—چھوٹی کوشش چھوٹی کامیابی، بڑی کوشش بڑی کامیابی۔
جہاں تک چھوٹی کامیابی یا اوسط درجہ کی کامیابی کا معاملہ ہے وہ ہر شخص حاصل کرلیتا ہے۔ ہر آدمی کے حالات اس کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ اپنی اور اپنے گھر والوں کی ضرورت پورا کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ کرے۔ اس طرح ضرورت کے تقاضے کے تحت ہر آدمی کوئی نہ کوئی کام کرلیتا ہے۔ خواہ وہ سروس ہو یاکوئی آزاد تجارت۔
مگر بڑی کامیابی زیادہ بڑی کوشش سے ملتی ہے۔ بڑی کامیابی حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کے اندر بڑی سوچ ہو۔ وہ زیادہ معلومات رکھتا ہو۔ وہ منصوبہ بندی کے اصول کو اختیار کرے۔ اس کے اندر بلند اخلاقی صفات ہوں۔ وہ صبر و تحمل کے ساتھ کام کرنا جانتا ہو۔ اس کے معاملات معلوم اصول کی بنیاد پر قائم ہوں۔ وہ لوگوں کے اندر بے ضرر اور نفع بخش بن کررہے۔
اس دنیا میں ہر چیز کی ایک قیمت ہے۔ اسی طرح کامیابی کی بھی ایک قیمت ہے۔ جو شخص بڑی کامیابی حاصل کرنا چاہتا ہے اس کو جاننا چاہیے کہ بڑی کامیابی حاصل کرنے کے لیے اس کو بڑی قیمت بھی دینی پڑے گی۔ چھوٹی قیمت دے کر بڑی کامیابی حاصل کرنا اس دنیا میں ممکن نہیں۔
بڑی کامیابی کا مطلب ہے، دنیا سے زیادہ لینا۔ فطرت کا اصول ہے کہ جو شخص دنیا سے زیادہ لینا چاہتا ہو اس کو اپنی طرف سے بھی زیادہ دینا پڑے گا۔ اس دنیا میں کسی کو بھی دیے بغیر کچھ نہیں مل سکتا۔ کامیابی ایک دو طرفہ عمل ہے۔ وہ کسی کے لیے بھی یک طرفہ عمل نہیں۔
کامیابی کے دو درجے ہیں اور دونوں ہی درجے اہم ہیں۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ اس معاملہ میں باشعور ہو۔ اس کے بعد اس کو کسی سے کوئی شکایت نہ ہوگی۔
واپس اوپر جائیں

برداشت کرنا واحد حل

زندگی ناقابل برداشت کو برداشت کرنے کا دوسرا نام ہے۔ زندگی مسائل اور مصائب کا مجموعہ ہے۔ زندگی کا سفر ہمیشہ محرومیوں کے درمیان طے ہوتا ہے۔ ہر آدمی مجبور ہے کہ وہ ناخوشگوار یادوں کے درمیان زندگی گزارے۔ یہ صورت حال ہر ایک کے لیے ہے، خواہ وہ امیر ہو یا غریب۔ خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا، خواہ وہ با اختیار ہو یا بے اختیار۔ یہ ایک ایسا کلیہ ہے جس میں کوئی استثناء نہیں۔
ایسی حالت میں پر اطمینان زندگی کا فارمولا کیا ہے۔ وہ فارمولا صرف ایک ہے۔ تلخ یادوں کو ذہن سے نکالتے رہنا۔ ماضی اور حال کو بھلا کر مستقبل پر نظر رکھنا۔ جو ملا اس پر مطمئن رہنا اور جو نہیں ملا اس کے بارے میں یہ سمجھ لینا کہ وہ ملنے والا ہی نہ تھا۔
دنیا میں کوئی شخص اکیلا نہیں۔ ہر انسان مجبور ہے کہ وہ ایک بڑے انسانی مجموعے میں زندگی گزارے۔ یہی اجتماعیت زندگی کے تمام مسئلے پیدا کرتی ہے۔ ایسی حالت میں خود مسئلہ کو ختم کرنا ممکن نہیں۔ جو چیز ممکن ہے وہ صرف یہ کہ مسائل کے ساتھ جینے کا فن سیکھا جائے۔
فطرت نے انسان کو جو صلاحیتیں دی ہیں ان میں سے ایک صلاحیت وہ ہے جس کو بھلانا یا فراموش کرنا کہا جاتا ہے۔ انسان جب کسی یاد کو زندہ حافظہ میں نہ رکھے، وہ اپنے دماغ کو دوسری باتوں میں مشغول کرکے اس کو بھلانے کی کوشش کرے تو بہت جلد ایسا ہوتا ہے کہ وہ بات دماغ کے پچھلے خانہ میں چلی جاتی ہے۔ حافظہ کے ریکارڈ میں اگر چہ وہ اب بھی موجود ہوتی ہے مگر اس کے بعد ایسا نہیں ہوتا کہ وہ تلخ یاد بن کر ہر وقت آدمی کو ستاتی رہے۔ یہ فطرت کا نظام ہے۔ اس نظام کو استعمال کرکے تلخ یادوں کی کڑواہٹ کو دور کیا جاسکتا ہے۔ تلخ یادوں کو بھلانا بظاہر ایک مشکل کام ہے مگر تلخ یادوں کے مسئلہ کا اس سے زیادہ آسان حل اور کوئی نہیں۔
برداشت کوئی مجبوری نہیں، برداشت زندگی کا ایک اصول ہے۔ برداشت بہادری کی روش ہے، نہ کہ بزدلی کی روش۔
واپس اوپر جائیں

سب سے بڑی طاقت

لوگ سمجھتے ہیں کہ سب سے بڑی طاقت جنگ جوئی کی طاقت ہے۔ یعنی لوگوں سے نہ دبنا، لوگوں سے سختی کے ساتھ معاملہ کرنا، اگر ضرورت پڑے تو لوگوں کے خلاف تشدد کا طریقہ استعمال کرنا۔ عام طورپر لوگ اس کو طاقت سمجھتے ہیں۔ مگر یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ اس قسم کا خیال فطرت کے نقشہ کے سراسر خلاف ہے۔
فطرت کا مطالعہ بتاتا ہے کہ سختی کے مقابلہ میں نرمی کا طریقہ زیادہ مؤثر ہے۔ نرمی کا طریقہ اختیار کرکے آپ انسان کو جیت لیتے ہیں۔ کسی کو زیر کرنے کے لیے سب سے زیادہ کار گر اصول یہ ہے کہ اس کے ساتھ ایسا معاملہ کیا جائے جو اس کے ضمیر کو آپ کا ہمنوا بنا دے۔ یہ فائدہ صرف نرمی کے ذریعہ حاصل ہوسکتا ہے۔
اس مفہوم میں اپنے آپ کو طاقتور بنانے کا ایک آسان فارمولا یہ ہے کہ آپ غلطی کے اعتراف کی عادت ڈالیں۔ جب کسی کے ساتھ آپ کی تکرار ہوجائے اور آپ محسوس کریں کہ آپ غلطی پر تھے تو عزت کا خیال کیے بغیر فوراً یہ کہہ دیجئے کہ آپ صحیح ہیں اور میں غلط ہوں:
You are right, I am wrong.
یہ اعتراف در اصل خود اپنی تربیت ہے۔ اعتراف آدمی کے اندر تواضع کی کیفیت پیدا کردیتا ہے۔ فطرت کے مطابق، بے اعترافی سرکشی کی غذا ہے اور اعتراف تواضع کی غذا۔ جو آدمی اعتراف نہ کرے وہ گویا اپنے اندر چھپی ہوئی انانیت اور سرکشی کو غذا دے رہا ہے۔ وہ اپنی انانیت اور سرکشی کو زیادہ پختہ کررہا ہے۔ ایسا آدمی سب سے بڑی طاقت سے محروم ہوجائے گا۔
اس کے برعکس جو آدمی غلطی کے وقت فوراً اپنی غلطی کا اعتراف کرلے وہ اپنے اندر تواضع کی پرورش کررہا ہے۔ وہ اپنی تواضع کو غذا دے کر اس کو اور زیادہ بڑھا رہا ہے۔ وہ اپنے اندر تواضع کی صفت کو اور زیادہ مستحکم کررہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ، اپنے آپ کو طاقتور سے طاقتور تربنا رہا ہے۔
واپس اوپر جائیں

مسائل اور ان کا حل

انسان کے ساتھ جو مسائل پیش آتے ہیں ان کا بنیادی سبب اجتماعیت ہے۔ زمین پر اگر صرف ایک انسان موجود ہوتا تو یہاں کوئی مسئلہ پیدا نہ ہوتا مگر انسان ایک سماجی مخلوق ہے۔ وہ اجتماعی طورپر زندگی گزارتا ہے۔ یہ اجتماع ہی تمام مسائل کی اصل جڑ ہے۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کسی مسئلہ کا حل یہ ہے کہ فرد اور اجتماع کے درمیان موافقت تلاش کی جائے۔ جب بھی کسی شخص کو کوئی مسئلہ پیش آتا ہے تو اس کا سبب ہمیشہ صرف ایک ہوتا ہے وہ یہ کہ آدمی صرف اپنی ذاتی خواہش کے مطابق مسئلہ کو حل کرنا چاہتا ہے۔ وہ بھول جاتا ہے کہ وہ بہت سے دوسرے لوگوں کے درمیان ہے۔ وہ دوسرے لوگوں کو نظر انداز کرکے یک طرفہ خواہش کی بنیاد پر اپنا مسئلہ حل نہیں کرسکتا۔ یہی انسانی مسائل کا اصل سبب ہے اور اسی سبب کی رعایت کرکے مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے۔
مثلاً آپ سڑک پر اپنی گاڑی دوڑا رہے ہیں۔ آپ کا نظریہ یہ ہے کہ سیدھے ہاتھ کی طرف چلنا زیادہ بہتر ہے۔ آپ اگر اس بے لچک نظریہ کو لے کر سڑک پر اپنی گاڑی دوڑانے لگیں تو آپ اپنی منزل کی بجائے صرف قبرستان تک پہنچیں گے۔ آپ کے عقیدہ کے مطابق، دائیں طرف چلنا سیدھی طرف چلنا ہے اور بائیں طرف چلنا الٹی طرف چلناہے۔ یہ عقیدہ آپ کے نزدیک خواہ کتناہی درست ہو مگر یہ عقیدہ کامیاب سفر کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔ آپ کو اس معاملہ میں اپنے اندر لچک پیدا کرنا ہوگا۔ سڑک پر چلتے ہوئے آپ کو ٹرافک رول کے اجتماعی قواعدکی پابندی کرنی ہوگی۔ اجتماعیت کے اندر کامیاب زندگی حاصل کرنے کا یہی واحد اصول ہے۔
اجتماعی زندگی ملی جلی زندگی کانام ہے۔ کسی سماج کا ہر فرد اس اجتماعیت سے جڑا ہوا ہے۔ اسی اجتماعی تقاضہ کی رعایت کا نتیجہ کامیابی ہے اور اسی اجتماعی تقاضہ کی رعایت نہ کرنے کا نتیجہ ناکامی ۔
مسئلہ بظاہر دوسرے شخص کی طرف سے پیدا ہوتا ہے۔ مگر اس کا حل ہمیشہ اپنی ذات میں ہوتا ہے۔اپنے آپ کو حقیقت پسند بنانا ہی کسی مسئلہ کا واحد یقینی حل ہے۔
واپس اوپر جائیں

منفی پہلو میں مثبت پہلو

۱۹۴۷ سے پہلے ہندستان میں بر ٹش راج تھا۔ اُس زمانہ میں برٹش حکمرانوں نے ہندستان میں انگریزی زبان کو سرکاری زبان بنایا اور پوری طاقت سے انگریزی زبان کو ہندستان میں رائج کیا۔ یہاں تک کہ انگریزی زبان کے اعتبار سے امریکا اور برطانیہ کے بعد ہندستان تیسرا سب سے بڑا ملک بن گیا۔
برٹش حکمرانوں نے اپنے خیال کے مطابق، ہندستان میں انگریزی زبان کو اس لیے رائج کیا تھا کہ وہ اس ملک پر ہمیشہ کے لیے اپنا غلبہ قائم رکھیں۔ برٹش حکومت نے انگریزی زبان کو صرف اپنے مفاد کے لیے یہاں جاری کیا تھا۔ مگر آج یہی انگریزی زبان ہمارے ملک کے لیے سب سے بڑا سرمایہ بن گئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انفارمیشن ٹکنالوجی تمام تر انگریزی زبان پرقائم ہے اور انگریزی زبان میں ہندستان دوسرے ملکوں کے مقابلہ میں بہت آگے ہے۔ چین اور روس دونوں بہت بڑے ملک ہیں۔ مگر دونوں ہندستان سے کہہ رہے ہیں کہ ہم کو تمہاری انگریزی کی ضرورت ہے، ہمیں اپنی انگریزی اکسپورٹ کرو۔
اس مثال سے ایک اہم حقیقت معلوم ہوتی ہے۔ وہ یہ کہ آپ کا حریف خواہ اپنے ذاتی مفاد کے لیے کوئی عمل کرے مگر عین ممکن ہے کہ مستقبل کے لحاظ سے وہ تمام تر آپ کے فائدے میںہو۔ حتیٰ کہ حریف اگر آپ کے خلاف کوئی سازشی منصوبہ بنائے تب بھی یہ امکان باقی رہے گا کہ اس کی سازش آپ کے لیے ترقی کا ایک زینہ بن جائے۔ حریف کی بنائی ہوئی دنیا آخر کار آپ کے حصہ میں آجائے۔
اس دنیا میں ہر منفی واقعہ میں مثبت پہلو موجود رہتا ہے۔ اگر آپ اس مثبت پہلو کو دریافت کرسکیں تو آپ کو کسی کے خلاف شکایت کرنے کی ضرورت نہ ہوگی۔ مثبت پہلو کی دریافت آپ کو اپنی تعمیر میں اتنا زیادہ مشغول کردے گی کہ آپ کے پاس دوسروں کے خلاف لکھنے اور بولنے کے لیے وقت ہی نہ رہے۔
واپس اوپر جائیں

خاندانی زندگی

شادی شدہ زندگی کو خوشگوار بنانے کا راز کیا ہے۔ وہ صرف ایک ہے— ناخوشگواری میں خوشگواری کو دریافت کرنا۔ ناپسندیدہ صورت حال کو اپنے لیے پسندیدہ بنادینا۔ اس کو ایک لفظ میں یہ کہہ سکتے ہیں:
The art of situation management
اصل یہ ہے کہ کوئی بھی عورت یا مرد اسٹیچو نہیں ہوتے۔فطری نقشہ کے مطابق، ہر عورت اور ہر مردکی سوچ الگ ہوتی ہے۔ ہر ایک کا ذوق ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ ایک اور دوسرے کے درمیان یہی وہ فرق ہے جو دونوں کے درمیان ناخوشگواری پیدا کرتا ہے۔
جب ایسا ہوتا ہے تو دونوں فریق یہ غلطی کرتے ہیں کہ وہ اس کا ذمہ دار فریق ثانی کو بنا لیتے ہیں اور پھر اس سے جھگڑنے لگتے ہیں۔ حالاں کہ فرق واختلاف کی جو صورت حال پیدا ہوئی ہے وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے فطرت کی پیداکی ہوئی ہے نہ کہ کسی عورت یا کسی مرد کی۔ اگر دونوں اس راز کو سمجھ لیں تو کوئی مسئلہ زیادہ شدت اختیار نہ کرے، ہر مسئلہ اپنی حد کے اندر رہے اور دونوں فریق اس کو نظر انداز کرکے آگے بڑھ جائیں۔
انسانوں کے درمیان فرق واختلاف کوئی برائی نہیں ہے۔ بلکہ وہ ایک خوبی ہے۔ اسی فرق و اختلاف سے ایسا ہوتا ہے کہ لوگوں کے درمیان ڈائیلاگ ہوتا ہے۔ بحث و گفتگو کے دوران معاملہ کے مختلف پہلو سامنے آتے ہیں۔ اس طرح یہ اختلاف ذہنی ترقی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اگر لوگوں کے درمیان اختلاف نہ ہو تو زندگی جمود کا شکار ہوکر رہ جائے گی۔
فطرت نے اپنی تقسیم میں یہ طریقہ رکھا ہے کہ کسی کے اندر ایک صلاحیت ہوتی ہے اور کسی کے اندر دوسری صلاحیت۔ اگر فرق و اختلاف کو نظرانداز کیاجائے تو ہر ایک کی صلاحیت استعمال ہونے لگے گی۔ ہر ایک اپنی اضافی لیاقت کے ذریعہ دوسرے کے لیے قیمتی مددگار بن جائے گا۔ ہر ایک دوسرے کی کمی کی تلافی کرنے لگے گا۔
واپس اوپر جائیں

تحفہ کی نفسیات

ایک سفر میں میری ملاقات کویت کے ایک عرب پروفیسر سے ہوئی۔ ان کے ہاتھ پر ایک خوبصورت گھڑی بندھی ہوئی تھی۔ میں نے ان سے ٹائم پوچھا تو وہ اپنی گھڑی کی شکایت کرنے لگے۔ میں نے کہا کہ کویت میں تو اچھی گھڑیاں ملتی ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ آپ کا کہنا صحیح ہے مگر یہ تحفہ کی گھڑی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تحفہ کی نفسیات یہ ہے کہ لوگ خوش نما چیز دیتے ہیں نہ کہ کار آمد چیز۔
تحفہ کے بارے میں یہ عام مزاج ہے۔ تحفہ میں اکثر لوگ کئی چیزیں دیتے ہیں مگر ہر چیز ناقص ہوتی ہے۔ زیادہ بہتر یہ ہے کہ جو پیسہ چار چیزوں میں لگایا گیا ہے اس سے صرف ایک چیز خریدی جائے اور اس کو تحفہ میں دیا جائے۔تحفہ کا مقصد یہ ہے کہ آپس میں دوستی بڑھے ، آپس میں ایک دوسرے کے درمیان اعتماد قائم ہو۔ لوگ ایک دوسرے کے خیر خواہ بن کر زندگی گذاریں مگر مذکورہ قسم کے تحفہ کا نتیجہ ہمیشہ الٹا ہوتا ہے۔نمائشی مزاج کے تحت دیا ہوا تحفہ کبھی کسی حقیقی فائدہ کا سبب نہیں بن سکتا۔ نمائشی تحفہ صرف ایک دوسرے کے درمیان تلخی اور بے اعتمادی پیدا کرتا ہے۔ ایسا تحفہ کبھی محبت کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔
تحفہ پانے والا جب دیکھتا ہے کہ تحفہ دینے والے نے اپنے بیٹے اور اپنی بیٹی کو تو کار آمد تحفہ دیا ہے اور مجھ کو صرف نمائشی تحفہ دے دیا ہے تو ایسا تحفہ صرف بیزاری پیدا کرتا ہے۔ تحفہ پانے والا تحفہ دینے والے کے بارے میں سخت بد گمان ہوجاتا ہے۔ تحفہ دینے والے کے بارے میں اس کی رائے خراب ہو جاتی ہے۔
صحیح طریقہ یہ ہے کہ یا تو تحفہ نہ دیا جائے، یا اگر تحفہ دینا ہے تو اچھا اور کار آمد تحفہ دیا جائے جس کو لے کر تحفہ پانے والا خوش ہو۔ اگر لوگ یہ کرتے ہیں کہ ایک شخص سے انہیں ایک نمائشی تحفہ ملا اور پھر اس کو انہوں نے کسی دوسرے کے حوالہ کردیا۔ تحفہ دینے والے کو جاننا چاہیے کہ یہ بات کبھی چھپتی نہیں۔ تحفہ پانے والا کسی نہ کسی طرح اس کو جان لیتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تحفہ دینے والے کے بارے میں اگر تحفہ پانے والے کی رائے اچھی تھی تو اب اس کے بارے میں اس کی رائے خراب ہوجاتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

ایک نصیحت

ایک مسلم لڑکی نے مجھ سے ملاقات کی۔ وہ بہت گھبرائی ہوئی تھیں۔ اُنہوں نے کہا کہ میرے باپ نے میرا رشتہ طے کردیا ہے اور اب جلد ہی میری شادی ہونے والی ہے۔ شادی کے بعد مجھے ایک مشترک خاندان میں رہنا ہوگا۔ میں ڈرتی ہوں کہ آئندہ کیاہوگا۔ سسرال والے میرے ساتھ اچھا سلوک کریں گے یا برا سلوک کریں گے۔ یہ سوچ کر میں بہت پریشان ہورہی ہوں۔
میں نے کہا کہ اس معاملہ کی کنجی خود آپ کے ہاتھ میں ہے۔ اس دنیا کا اُصول یہ ہے کہ جیسا دینا ویسا پانا۔ آپ اگر چاہتی ہیں کہ دوسرے لوگ آپ کے ساتھ اچھا سلوک کریں تو آپ کو خود بھی ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنا چاہیے۔ یہ فطرت کا اُصول ہے جس میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ آپ اگر دوسروں کے ساتھ اچھا سلوک کریں تو دوسرے لوگ اس کا تحمل نہیں کرسکتے کہ وہ آپ کے ساتھ برا سلوک کریں۔
پھر میں نے کہا کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی خود تو اچھا سلوک نہیں کرتا مگر وہ دوسروں سے اچھے سلوک کی امید کرنے لگتا ہے۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو عملاً تو اچھا سلوک نہیں کرتے مگر خود ساختہ طور پر یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ان کا سلوک دوسروں کے ساتھ اچھا ہے۔ یہ بہت بڑی بھول ہے۔ اگر دوسرے لوگ آپ کے سلوک کے بارے میں اچھی رائے نہ رکھتے ہوں تو آپ یقین کرلیجئے کہ آپ کا سلوک ویسا ہی ہے جیسا کہ دوسرے لوگ بتاتے ہیں۔ آپ کو چاہیے کہ آپ خوش فہم نہ بنیں بلکہ حقیقت پسند بنیں۔ اس کے بعد آپ کو کسی سے کوئی شکایت نہ ہوگی۔
مسئلہ کا حل ہمیشہ آدمی کے اپنے اندر ہوتا ہے۔ مگر وہ اس کو اپنے سے باہر تلاش کرنے لگتاہے۔ یہی مزاج اصل مسئلہ ہے۔ کسی مسئلہ کے حل میں اس سے بڑی کوئی اور رکاوٹ نہیں کہ آپ اس کا ذمہ دار دوسروں کو بتا کر دوسروں سے اس کے حل کا مطالبہ کرنے لگیں۔ ہر مسئلہ کی کنجی آپ کے اپنے پاس ہے، نہ کہ کسی دوسرے کے پاس۔
واپس اوپر جائیں

مثبت سوچ کی ضرورت

تمام ناکامیوں کا سبب منفی سوچ ہے اور تمام کامیابیوں کا سبب مثبت سوچ— یہی ایک لفظ میں زندگی کا خلاصہ ہے۔ منفی سوچ والا آدمی اس دنیا میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا اور اگر وہ بظاہر کامیاب دکھائی دے تو اس کی کامیابی وقتی ہوگی۔ اس کے برعکس مثبت سوچ والے آدمی کے لیے کامیابی پائیدار بھی ہے اور یقینی بھی۔
منفی سوچ کیا ہے اور مثبت سوچ کیا۔ منفی سوچ یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو جانے مگر وہ دوسروں کو نہ جانے۔ وہ مسائل کو جانے مگر وہ مواقع کو نہ جانے۔ وہ حال کو جانے مگر وہ مستقبل سے بے خبر ہو۔ وہ اپنے قریبی حالات کو جانے مگر وہ دور کے حالات سے باخبر نہ ہو۔
منفی سوچ والے آدمی کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ اپنے ذہنی خول میںجیتا ہے۔ اُس کے ذہن کے اندر جو خیال آجائے اُسی کو وہ اصل حقیقت سمجھ لیتا ہے۔ وہ اپنی نفسیاتی پیچیدگی کی بنا پر اس قابل نہیں ہوتا کہ اُس کے ذہن کے باہر جو حقیقتیں ہیں اُن کو جانے اور ان کی روشنی میں زیادہ درست رائے قائم کرے۔ منفی سوچ دراصل بند سوچ کا دوسرا نام ہے۔
اس کے مقابلہ میں مثبت سوچ وہ ہے جو کھُلی سوچ ہو۔ مثبت سوچ والا آدمی تعصبات سے آزاد ہوکر سوچتا ہے۔ وہ معاملات میں بے لاگ رائے قائم کرتا ہے۔ اس کی رائے ہمیشہ انصاف پر مبنی ہوتی ہے۔ وہ وہی سوچتا ہے جو ازروئے واقعہ اس کو سوچنا چاہیے اور وہی بولتا ہے جو ازروئے واقعہ اس کو بولنا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ مثبت سوچ والے آدمی کی راہیں کبھی بند نہیں ہوتیں، جب کہ منفی سوچ والے آدمی کو ہر طرف اپنی راہیں بند دکھائی دیتی ہیں۔
منفی سوچ مایوسی کی سوچ ہے اور مثبت سوچ امید کی سوچ۔ منفی سوچ راستہ کو بند حالت میں دیکھتی ہے، جب کہ مثبت سوچ والے آدمی کو ہر طرف راستے کھلے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ مثبت سوچ بصیرت ہے اور منفی سوچ بے بصیرتی۔
واپس اوپر جائیں

غلط فہمی

سماج ایک ایسے انسانی مجموعہ کا نام ہے جہاں بہت سے لوگ مل جُل کر رہتے ہیں۔ فطرت کے نظام کے تحت ہر ایک کا کام الگ الگ ہوتا ہے۔ ہر ایک کا فائدہ الگ الگ ہوتا ہے۔ ہر ایک کا میدانِ عمل الگ الگ ہوتا ہے۔ ہر ایک کی سوچ الگ الگ ہوتی ہے۔ اس بنا پر بار بار آپس میں شکایتیں پیدا ہوتی ہیں۔ یہ شکایتیں بڑھتے بڑھتے دشمنی تک پہنچ جاتی ہیں اور پھر مزید تلخ واقعات پیدا ہوتے ہیں۔
ان شکایتوں کا سبب زیادہ تر حالات میں صرف ایک ہوتا ہے، اور وہ غلط فہمی ہے۔ غلط فہمی (misunderstanding) اتنی زیادہ عام ہے کہ وہ ہر جگہ پائی جاتی ہے۔ خاندان میں، ادارہ میں، پڑوس میں، یہاں تک کہ قومی اور بین اقوامی سطح پر بھی۔ غلط فہمی اکثر بے بنیاد ہوتی ہے، کسی سماج میں اکثر اجتماعی نزاعات غلط فہمی ہی کے سبب سے پیدا ہوتے ہیں۔
غلط فہمی کیا ہے۔ غلط فہمی دراصل ناقص واقفیت کی بنا پر کسی کے بارے میں رائے قائم کرنے کا دوسرا نام ہے۔ اکثر لوگوں کاحال یہ ہے کہ وہ کسی کے بارہ میں ایک بات سنتے ہیں اور اُسی کی بنیاد پر اُس کے بارے میں اپنی رائے بنا لیتے ہیں۔ یہی مزاج اکثر حالات میں غلط فہمی کا سبب ہوتا ہے۔
صحیح طریقہ یہ ہے کہ جب بھی کسی شخص کے بارے میں کوئی منفی بات ذہن میں آئے یا کوئی بری بات معلوم ہو تو کبھی ایسا نہیں کرنا چاہیے کہ فوراً ہی اس کو درست مان لیا جائے۔ اس کے بجائے ضروری ہے کہ اس کی پوری تحقیق کی جائے۔ تمام ضروری پہلوؤں کو جانچنے سے پہلے ہر گز اس کو مان نہ لیا جائے۔ اس طرح کے معاملہ میں آدمی کے لیے صرف دو میں سے ایک کا انتخاب ہے یا تو وہ سنی ہوئی بات پر دھیان نہ دے ،وہ اس کو نظر انداز کردے اور کسی سے اس کا چرچا نہ کرے ۔ یہ اس طرح کے معاملہ میں محفوظ طریقہ ہے۔لیکن اگر کوئی شخص اس طرح کی بات پر بولنا چاہتا ہے یا اس کا چرچا کرنا چاہتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اس کی تحقیق کرے۔ تحقیق میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ صاحب معاملہ سے اس کی حقیقت معلوم کرے۔ ان مراحل سے گزرنے کے بعد ہی وہ اس پر بولنے کا حق رکھتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

صبر کا فائدہ

اجتماعی زندگی میں بار بار ایسا ہوتا ہے کہ ایک کو دوسرے سے شکایت ہوجاتی ہے۔ ایک کی کسی بات سے دوسرے کے اندر غصہ اور نفرت کے جذبات پیدا ہوجاتے ہیں۔ ایک کا کوئی رویہ دوسرے کے اندر انتقامی جذبات بھڑکا دیتا ہے۔ ایسے موقع پر اکثر لوگ بدلہ کے ذہن سے سوچنے لگتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم اپنی بے عزتی پر چپ ہوجائیں تو یہ ہماری غیرت کے خلاف ہوگا۔ یہ حمیت اور غیرت سے سودا کرنے کے ہم معنٰی ہوگا۔
مگر یہ سوچ درست نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسا موقع ذلت کا موقع نہیں بلکہ وہ فکری اور روحانی ترقی حاصل کرنے کا موقع ہے۔ غصہ کے موقع پر صبر کرنا کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ دراصل خود اپنی تربیت کا موقع ہے۔ وہ اپنے اندر یہ صلاحیت پیدا کرنے کا موقع ہے کہ آدمی اپنی داخلی شخصیت کو اتنا مضبوط بنائے کہ وہ خارجی حالات سے اثر لیے بغیر زندہ رہ سکے۔
جو آدمی غصہ اور نفرت اور اشتعال میں مبتلا ہوجائے وہ اپنی اس روش سے اس بات کا ثبوت دے رہا ہے کہ وہ خارجی اشتعال انگیزی کے وقت غیر متاثر نہ رہ سکا۔ ایسے آدمی کا ذہنی اور روحانی سفر رک جائے گا۔ اس کی شخصیت میں فکری ارتقاء کا عمل جاری نہ ہوسکے گا۔
اس دنیا میں پانے کی سب سے بڑی چیز یہ ہے کہ آدمی کا فکر مسلسل ترقی کررہا ہو۔ اسی فکری ترقی سے روحانی ترقی بھی جڑی ہوئی ہے۔ جہاں فکری ارتقاء ہو گا وہاں روحانی ترقی بھی ضرورپائی جائے گی۔ اور یہ فکری ارتقاء اسی وقت ممکن ہے جب کہ آدمی اپنے آپ کو اتنا طاقتوربنائے کہ وہ منفی سوچ کو اپنے اندر داخل ہونے سے روک دے۔
صبر در اصل خود اپنے فکری اور روحانی ترقی کی قیمت ہے۔ اس دنیا میں کوئی بھی چیز ضروری قیمت کے بغیر نہیں ملتی۔ اسی طرح فکری اور روحانی ترقی بھی اس خوش قسمت انسان کا حصہ ہے جو صبر کی صورت میںاس کی قیمت دے سکے۔
واپس اوپر جائیں

مشورہ کی اہمیت

ایک مسلم نوجوان نے ایک تعلیم یافتہ خاتون سے شادی کی۔ یہ لوگ کچھ برسوں تک ایک ساتھ رہے۔ پھر ان کے یہاں دو بچے پیدا ہوئے۔ اس کے بعد دونوں کے درمیان جھگڑا ہوگیا۔ یہاں تک کہ بیوی اپنے دونوں بچوں کو لے کر اپنے میکہ چلی گئی۔ اب دونوں کے درمیان ایک بحرانی کیفیت پیدا ہوگئی۔ دونوں طرف سخت باتیں ہونے لگیں۔
اس طرح کا موقع بحران کی تنظیم (crisis management) کا موقع ہوتا ہے۔ بحران کو اگر حکمت کے ساتھ دور کرلیا جائے تو وقتی تلخی کے بعد دوبارہ دونوں کے درمیان معتدل تعلقات قائم ہوجائیں گے۔ لیکن اگر بحران کو درست طورپر حل نہ کیا جائے تو معاملہ اور زیادہ بڑھ جائے گا اور پوری زندگی تباہ ہو کر رہ جائے گی۔
جب کوئی شخص بحران میں مبتلا ہو تو وہ خود زیادہ معتدل انداز میں سوچ نہیں پاتا۔ وہ منفی سوچ یا انتہاپسندی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ ایسی حالت میں مشورہ کی بے حد اہمیت ہے۔ ایسے وقت میں صاحب معاملہ کے ساتھیوں کا فرض ہوتا ہے کہ وہ ٹھنڈے ذہن سے سوچ کر معاملہ کی نزاکت کوسمجھیں اور بحران میں مبتلا شخص کو صحیح مشورہ دیں۔ مگر بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ بحران کی حالت میں مشورہ دینے والے خود بھی بحران کا شکار ہوجاتے ہیں۔
مثلاً مذکورہ معاملہ میں جوشخص بحران میں مبتلا ہوا اس کے کچھ ساتھیوں نے اس کو یہ مشورہ دیا کہ تم موجودہ بیوی کو طلاق دے دو اور دوسری شادی کرلو۔ مگر یہ مشورہ سخت تباہ کن تھا۔ اس مشورہ پر عمل کرنے کا یقینی نتیجہ یہ تھا کہ آدمی چھوٹے مسئلہ سے نکل کر زیادہ بڑے مسئلہ میں اپنے آپ کو مبتلا کردے۔ مجھے معلوم ہوا تو میں نے اس آدمی کو مشورہ دیا کہ تم یک طرفہ بنیاد پر اپنی بیوی کے ساتھ مصالحت کرو۔ اپنی زبان پر کنٹرول رکھو۔ بیوی کو یا اس کے رشتہ داروں کو ہر گز برا نہ کہو اور پھر بیوی کے ساتھ معتدل انداز میں نئی زندگی شروع کردو۔ اس نے ایسا ہی کیا اور اب دونوں پر سکون طورپر ایک گھر میں رہ رہے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

دو کشتی کی سواری

اکثر لوگوں میں یہ کمزوری ہوتی ہے کہ وہ واضح انداز میں سوچ نہیں پاتے۔ وہ ایک چیز اور دوسری چیز کے درمیان فرق نہیں کرپاتے۔ اس بنا پر اکثر لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ بیک وقت دو کشتی کی سواری کرنا چاہتے ہیں حالاں کہ دو کشتی کی سواری عملاً ممکن نہیں۔
مثلاً ایک شخص بر صغیرہند میں پیدا ہوتا ہے پھر وہ اپنے وطن کو چھوڑ کر امریکا چلا جاتا ہے۔ یہ ایک سماج سے نکل کر دوسرے سماج میں جانے کا نام ہے۔ بر صغیر ہند کے اندر پابند سماج کا ماحول ہے تو امریکا میں بے قید سماج کا ماحول ہے۔ مگر مذکورہ شخص امریکا میں قیام کرنے کے باوجود یہ چاہتا ہے کہ اس کے بچے وہاں کے بے قید سماج سے متاثر نہ ہوں۔ اس کے بچے وہاں بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ کا کلچر اختیار نہ کریں۔ مگر یہ دو کشتی کی سواری ہے اور دو کشتی کی سوار ی عملاً ممکن نہیں۔ چنانچہ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کو اپنے بچوں کے بارے میں خلاف امید تجربات پیش آتے ہیں۔ آدمی پیسہ کی فراوانی کے باوجود ذہنی اضطراب میں جینے پر مجبور ہوجاتا ہے۔
اس دنیا میں آدمی صرف ایک ہی کشتی میں سواری کرسکتا ہے۔ دوکشتی میں سواری کرنا عملاً کسی کے لیے ممکن نہیں۔ دو کشتی کی سواری صرف خیالی طور پر ممکن ہوسکتی ہے۔ عملی طور پر دوکشتی کی سواری کسی کے لیے بھی ممکن نہیں۔
اصل یہ ہے کہ آدمی بیک وقت دو قسم کے فائدے حاصل کرنا چاہتا ہے۔اسی دو طرفہ مزاج کی بنا پر وہ دو کشتی میں سواری کرنے کا خیالی منصوبہ بنا لیتا ہے۔ مگر آدمی کو جاننا چاہیے کہ دو کشتی کا سفر صرف خیالات کی دنیا میں ممکن ہے۔ ایسا سفر کبھی حقیقت کی دنیا میں ممکن نہیں۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ ترجیح کا اصول اختیار کرے۔ وہ ایک چیز کو پانے کے لیے دوسری چیز کو چھوڑنے پر راضی ہوجائے۔ وہ ایک منزل تک پہنچنے کے لیے دوسری منزل کی طرف دوڑنا نہ چاہے۔اس معاملہ میں آدمی کے پاس اس کے سوا کوئی اور انتخاب نہیں۔
واپس اوپر جائیں

آدھی کہانی

عام طور پر لوگوں کا یہ مزاج ہے کہ وہ اپنی کہانی کا نصف آخر حصہ بیان کرتے ہیں۔ وہ اس کا ابتدائی نصف حصہ چھوڑ دیتے ہیں۔ مثلاً ایک شخص کو کسی نے سڑک پر مار دیا تو اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے وہ کہے گا کہ فلاں شخص نے مجھے سڑک پر مارا۔ مگر وہ یہ نہیں بتائے گاکہ خود میں نے کیا بات کی جس کی وجہ سے وہ مشتعل ہوگیا اور اشتعال کے تحت مجھ کو مار دیا۔
اسی طرح دو گروہوں کے درمیان جھگڑا ہو اور ظلم و زیادتی کے واقعات پیش آئیں تو اس میں یقینا کوئی ایک گروہ ہوتا ہے جو اپنے کسی فعل سے دوسرے گروہ کو بھڑکادیتا ہے۔ اس طرح دوسرا گروہ بھڑک کر فساد کرنے لگتا ہے۔ مگر پہلا گروہ جب اس واقعہ کو بتائے گا تو وہ صرف واقعہ کے دوسرے حصے کو بیان کرے گا۔ وہ کہے گا کہ فلاں گروہ نے اس طرح ہمارے خلاف فساد کیا مگر وہ یہ نہیں بتائے گا کہ ہم نے خود فلاں فعل کیا جس کی وجہ سے دوسرا فریق غصہ ہو کر ہم سے انتقام لینے لگا۔ اس کو ایک لفظ میں ناقص رپورٹنگ کہہ سکتے ہیں۔
یہ ناقص رپورٹنگ ہمارے سماج میں عام ہے۔ ہر عورت اور مرد کا یہ حال ہے کہ وہ اس طرح کے معاملہ میں اپنے حصہ کی بات کو چھپا لیتے ہیں اور صرف دوسرے کے حصہ کی بات کو بیان کرتے ہیں۔ یہ ایک غیر منصفانہ رپورٹنگ ہے۔ غیر منصفانہ رپورٹنگ کے بیک وقت دو نقصانات ہیں—ایک یہ کہ صحیح طرز فکر پیدا نہ ہونا، دوسرے یہ کہ مسئلہ کا کبھی حل نہ نکلنا۔
مزید یہ کہ اس قسم کی رپورٹنگ ذہنی بددیانتی کا ایک فعل ہے۔ وہ انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ اس قسم کی ناکافی رپورٹنگ اخلاقی اعتبار سے بھی غلط ہے اور مسئلہ کا حل تلاش کرنے کے اعتبار سے بھی بے فائدہ۔
کسی معاملہ کی آدھی کہانی بیان کرنے والا اپنے دل میں خوش ہوسکتا ہے لیکن اس کے وجود سے باہر کی دنیا میںاس روش کا کوئی فائدہ نہیں۔
واپس اوپر جائیں

نشانِ منزل

ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لیے جب سڑک بنائی جاتی ہے تو اس میں جگہ جگہ نشانات لگائے جاتے ہیں۔ یہ نشانات مسافر کو بتاتے ہیں کہ وہ کدھر جائے اور کدھر نہ جائے۔ یہ نشانات بتاتے ہیں کہ مسافر کے لیے صحیح سمت کیا ہے۔ وہ کو ن سا راستہ ہے جس پر چلتے ہوئے وہ آخر کار اپنی مطلوب منزل تک پہنچ جائے۔ جو آدمی ان نشانات کی پیروی کرتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھے گا۔ وہ یقینا اپنی منزل پر پہنچ جائے گا۔
اسی طرح زندگی کے سفر کا بھی ایک راستہ ہے۔ اس راستہ میں بھی کچھ نشانات مقرر کردیے گئے ہیں۔ جو آدمی چاہتا ہے کہ وہ راستہ چلتے ہوئے اپنی منزل تک پہنچ جائے تو اس پر لازم ہے کہ وہ راستہ کے نشانات کو پڑھے اور پوری طرح اس کی پیروی کرے۔
زندگی کے سفر کے یہ نشانات کیا ہیں۔ اس سلسلہ میں سب سے پہلی ضرورت یہ ہے کہ آدمی سوچ سمجھ کر اپنے لیے ایک راستہ کا انتخاب کرے، ایک ایسا راستہ جس کو پھر کبھی چھوڑنے کی ضرورت پیش نہ آئے۔ راستہ بدلنا گویا اپنے سفر کو پیچھے لے جانا ہے۔ وہ اپنے سفر کی مدت کو کم کرنا ہے۔ کامیابی ہر راستہ میں ممکن ہے مگر جو آدمی اپنا راستہ بدلتا ہے وہ کبھی اپنی منزل پر نہیں پہنچ سکتا۔
اس کے بعد دوسری ضروری چیز یہ ہے کہ وہ راستہ کی رکاوٹوں میں کبھی نہ الجھے۔ وہ ہر رکاوٹ سے اعراض کرتے ہوئے آگے بڑھتا چلا جائے۔ رکاوٹوں سے ٹکرانا زندگی کے سفر کو روک دیتا ہے اور رکاوٹوں کو نظر انداز کرنا زندگی کے سفر کو مسلسل جاری رکھتا ہے۔
پھر مسافر کو چاہیے کہ وہ درمیان میں ملنے والے چھوٹے چھوٹے فائدوں پر قانع نہ ہو، وہ اپنے نشانہ سے کبھی نظر نہ ہٹائے۔ بڑی کامیابی پانے کے لیے ایسا کرنا ضروری ہے۔ اس دنیا میں بڑی کامیابی صرف اس انسان کا حصہ ہے جو چھوٹی کامیابی پر راضی نہ ہو۔ جو بڑے فائدہ کی خاطر چھوٹے فائدہ کو نظر انداز کرسکے۔ جو مستقبل کی امید میں حال سے اوپر اٹھ جائے۔
واپس اوپر جائیں

سوال وجواب

سوال
اپنے علم میں اضافہ کی غرض سے میں نے اپنے ۲۱ جون ۲۰۰۴ء کے خط میں آپ کی مدد چاہی تھی۔ مگر آپ کا جواب مورخہ ۳ جولائی اپنی نوعیت میں میرے استفسار کا جواب نہیں ہے بلکہ محض میرے سوال کی تردید ہے۔ عالمانہ جواب باقی ہے۔
’’ذوالکفل‘‘ نص ہی کے تو الفاظ ہیں۔ النبی الخاتم کا حوالہ اس لیے نہیں تھا کہ آپ میرے ہم خیال ہوجائیں بلکہ اس لیے تھا کہ براہِ راست اسے دیکھ لیں اور اس کی روشنی میں دوسرے علماء و مفسرین جن تک میری رسائی نہیں ہے، اور آپ کی یقینا ہوسکتی ہے، ان کی تحقیق یا آراء کی روشنی میں مفصل رہنمائی فرمائیں۔ (محمد رضوان احمد ، شیخ پورہ، بہار)
جواب
ذوالکفل کا ذکر قرآن میں دو سورتوں میں آیا ہے: سورہ جن اور سورہ الأنبیاء۔ مگر قرآن یا حدیث میں ذو الکفل کے بارے میں مزید تفصیل مذکور نہیں۔ بعض مفسرین مثلاً مفسر آلوسی (صاحب روح المعانی) نے لکھا ہے کہ ذو الکفل سے مراد وہ بزرگ ہیں جن کا ذکر بائبل میں حزقی ایل پیغمبر کی حیثیت سے آیا ہے۔ مگر یہ محض قیاس ہے۔ اس کی کوئی بنیاد نہ تاریخ میں موجود ہے اورنہ قرآن و حدیث میں۔ خود بائبل میں حزقی ایل کا ذکر تو ہے مگر بائبل میں یہ نہیںبتایا گیا ہے کہ حزقی ایل کا لقب ذو الکفل تھا۔ ذوالکفل کے لفظی معنیٰ صاحب نصیب کے ہوتے ہیں۔
میرے نزدیک اس قسم کے مسائل میں زیادہ غور و خوض کرنا درست نہیں۔ غور و خوض مفید طورپر صرف اُن مسائل میںکیا جاسکتا ہے جن میں رائے قائم کرنے کے لیے کوئی متفق علیہ بنیاد موجود ہو۔ یہ بنیاد صرف دو ہوسکتی ہے، تاریخ یا وحی۔ مگر ذوالکفل کے بارہ میں رائے قائم کرنے کے لیے دونوں میں سے کوئی بھی بنیاد دستیاب نہیں۔ ایسی حالت میں اس سوال کو اُس خانہ میں ڈالنا چاہیے جس کی بابت حدیث میں آیا ہے کہ خدا نے کچھ باتوں کو علم کے باوجود ظاہر نہیں کیا ہے۔ اس لیے انسان کو چاہیے کہ وہ ان معاملات میں بحث نہ کرے (وسکت عن اشیاء من غیر نسیان فلا تبحثوا عنہا)۔
ذوالکفل کے بارہ میں زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اُن کا ذکر قرآن میں کس پہلو سے آیا ہے۔ وہ پہلو یہ ہے کہ ذوالکفل اور دوسرے انبیاء کا ذکر کرکے قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ یہ سب کے سب صبر کرنے والے لوگ تھے (الأنبیاء ۸۵) ایسی حالت میں ہمیں اس سے یہ نصیحت لینا چاہیے کہ ذو الکفل اور دوسرے پیغمبروں کا کردار صابرانہ کردار تھا۔ ہمیں بھی اسی پیغمبرانہ اُسوہ کو لیتے ہوئے ہر معاملہ میںصبر کی روش اختیار کرنا چاہیے۔
سوال
سورہ المائدہ ،آیت نمبر۳۵ کا ترجمہ آپ کی تفسیر تذکیر القرآن میں اس طرح ہے:
’’اے ایمان والو، اللہ سے ڈرو اور اُس کا قرب تلاش کرو اور اس کی راہ میں جدوجہد کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔(المائدہ ۳۵)
اس آیت میں ’’وسیلہ‘‘ عربی لفظ ہے جس کے معنٰی یہاںکے علماء بزرگان دین کا وسیلہ لیتے ہیں۔ مجھے اس سے اتفاق نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ کے یہاں کسی بادشاہ کے پاس حاضر ہونے کے لیے جس طرح مصاحب یا سفارشی کی ضرورت پڑتی ہے ایسا نہیں ہے۔ انسان اللہ پاک سے براہِ راست بلاکسی انسانی واسطہ کے قرب حاصل کرسکتا ہے۔ میں کہاں تک صحیح سمجھتا ہوں مطلع فرمائیں۔ (ایس۔ اے رضوی۔ حیدر آباد)
جواب
وسیلہ کے معنٰی عربی زبان میں تقرب کے ہوتے ہیں۔ آیت کے الفاظ بتاتے ہیں کہ یہاں جو بات کہی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اہل ایمان کو چاہیے کہ وہ خوف خدا اور دینی جد وجہد کے ذریعہ اللہ کی قربت تلاش کریں۔ آیت کے الفاظ اگر یہ ہوتے کہ و ابتغوا الوسیلۃ الیہ تو اس کا مطلب ہوتا کہ خدا کا تقرب تلاش کرو۔ لیکن آیت کے الفاظ یہ ہیں کہ: وابتغوا الیہ الوسیلۃ، یعنی الیہ کا لفظ وسیلۃ سے پہلے لایا گیا ہے۔ اس سے یہاں حصر کا مفہوم پیدا ہوگیا یعنی خدا کی ہی قربت تلاش کرو۔
حقیقت یہ ہے کہ اس آیت میں دوسروں کا تقرب تلاش کرنے کی نفی کی گئی ہے نہ یہ کہ دوسروں کو وسیلہ بنا کر خدا کی قربت حاصل کرو۔ خدا سے تقرب کے لیے دوسروں کو وسیلہ بنانا سراسر قرآن کی روح کے خلاف ہے۔ اس طرح کی کسی بات کا ثبوت خود نص قرآنی میں ہونا چاہیے۔ کوئی خارجی تمثیل اس طرح کی بات کو ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں۔
سوال
قرآن میں ہے ’’ولکُلِّ قومٍ ہاد‘‘ مگر قرآن ہی کی رو سے صرف عرب ممالک میں پیغمبروں کی بعثت ثابت ہے، نہ ایشیا کے دوسرے ممالک اور نہ یورپی ممالک کا ذکر ہے، مثلاً:
نوح ؈ عراق میں تبلیغ کرتے رہے
لوط ؈ اردن میں ؍؍ ؍؍
ہود ؈ یمن میں ؍؍ ؍؍
شعیب ؈ مدین میں ؍؍ ؍؍
صالح ؈ شمالی عرب میں ؍؍ ؍؍
موسی ؈ مصرمیں ؍؍ ؍؍
عیسی ؈ فلسطین میں ؍؍ ؍؍
وغیرہ وغیرہ۔ ہندستان کے بدھ، رام، کرشن وغیرہ کے بارے میں بھی کئی وجوہ کی بنا پر رائے قائم نہیں کی جاسکتی ۔اس طرح موجودہ دنیا کا بہت بڑا خطہ اور بہت ساری قومیں ایسی ہیں جن میں پیغمبر کے آنے کا ثبوت کہیں بھی نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں میں آپ کی رائے جاننا چاہتا ہوں (عبدالاحد، بنگلور)
جواب
قرآن کوئی تاریخ الانبیاء نہیںہے۔ اس لیے قرآن میں تمام نبیوں کا تذکرہ موجود نہیں۔ اس معاملہ میں صحیح بات یہ ہے کہ ہم مجمل طور پر یہ مانیں کہ ہر زمانہ میں اور ہر مقام پر خدا نے اپنے پیغمبر بھیجے، جیسا کہ قرآن میں بتایا گیا ہے۔ قرآن کا اصل مقصد انسان کو جنت کا راستہ دکھانا ہے، اور اس مقصد کے لیے تمام انبیاء کی فہرست جاننا ضروری نہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہ سوال صرف غیر مذکورانبیاء کے بارے میں نہیں ہے۔ خالص علمی اعتبار سے دیکھا جائے تو تمام پچھلے انبیاء صرف اعتقادی شخصیتیں ہیں۔ خالص تاریخی معیار کے مطابق، وہ ثابت شدہ نہیں۔ انبیاء کی طویل فہرست میں صرف ایک استثناء ہے اور وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے۔ ایک مستشرق نے آپ کی اس استثنائی حیثیت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ محمد تاریخ کی پوری روشنی میں پیدا ہوئے:
Mohammad was born within the full light of history.
اس سلسلہ میں تیسری بات یہ ہے کہ خود قرآن کے مطابق بھی یہ سوال صرف غیر مذکور انبیاء کے بارے میں نہیں ہے۔ وہ خود مذکورہ شخصیتوں کے بارے میں بھی ہے۔ مثلاً ان انبیاء کا ذکر تو قرآن میں آیا ہے مگر دیگر ضروری تفصیلات موجود نہیں۔ حتیٰ کہ کچھ بزرگ شخصیتوں کے نام بھی قرآن میں موجود نہیں۔ مثلاً قرآن میں ایک حق پسند انسان کا ذکر رَجُل کے لفظ کے ساتھ آیا ہے مگر ان صاحب کے بارے میں اور کچھ قرآن میں مذکور نہیں (یٰس ۲۰)
ایسی حالت میں صحیح اور محفوظ طریقہ یہ ہے کہ اپنی ذہنی کاوش ان باتوں کے دائرہ میں محدود رکھی جائے جو قرآن میں مذکور ہیں۔ جو باتیں قرآن میں مذکور نہیں ان کے بارے میں ذہنی کاوش کرنا آدمی کو صرف کنفیوژن تک پہنچائے گا۔ وہ کسی کو یقین کے درجہ تک پہنچانے والا نہیں۔
سوال
الرسالہ جولائی ۲۰۰۴ کو پڑھ کر میرے ذہن میں چند سوالات ابھرے جس نے مجھے خط لکھنے پر مجبور کردیا۔آپ الرسالہ کے صفحہ ۵ پر لکھتے ہیں کہ ’’اگر انگریز ہندستان نہ آتے تو ہندستان ابھی کم ازکم ۱۰۰ سال پیچھے ہوتا‘‘۔ مجھے آپ کا یہ جملہ بے حد شاک گزرا۔ کیوں کہ اس جملہ میں آپ نے لفظ ’’اگر‘‘ کا استعمال کیا ہے جو کہ خلاف شرع ہے۔ جیسا کہ خود آنجناب نے اپنی مرتب کردہ کتاب ’’حدیث رسول‘‘ کے صفحہ ۱۸ پر حدیث نمبر ۴۳ کا ترجمہ اس طرح کیاہے ’’ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ طاقتور مومن بہتر ہے کمزور مومن سے، اور ہر ایک کے لیے خیر ہے۔ تم اس چیز کے حریص نہ بنو جو تم کو نفع دینے والی ہے اور اللہ سے مدد مانگو اور ہمت نہ ہارو۔ اور اگر تمہارے اوپر کوئی مصیبت آئے تو یہ نہ کہو کہ اگر میںنے ایسا اور ایسا کیا ہوتا تو بچ جاتا۔ بلکہ یہ کہو کہ اللہ کا مقدر تھا۔ اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ کیوں کہ ’’اگر‘‘ شیطان کے عمل کا دروازہ کھولتا ہے۔
مذکورہ حدیث کی روشنی میں آپ کا جملہ کیا ظاہر کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی مرضی سے انگریز ہندستان آئے اور اللہ ہی کی مرضی سے ہندستان کا نقشہ بدلا۔ پھر یہ کیوں کہا جائے کہ اگر ایسا ہوتا تو ایسا ہوتا۔ وہ بھی ایک عالم دین کو تو ہر گز ایسی بات نہ لکھنی چاہیے۔ پھر بھی آپ نے اتنی بڑی بات کیسے لکھ دی۔ وضاحت کریں۔
الرسالہ کے اسی شمارہ میں صفحہ ۲۳ پر آپ لکھتے ہیں کہ ۲۴ نومبر ۲۰۰۳ کو دوپہر کے کھانے کے بعد حسب معمول کھانا شرکاء کانفرنس کے ساتھ کھایا۔ گویا کہ آپ نے رمضان المبارک کے مہینے میں بھی روزہ توڑ دیا اور آپ باضابطہ اس کا اعلان کررہے ہیں کہ میں نے دن میں کھانا کھایا۔ یہ بھی واقعہ خلاف شرع ہے کہ آدمی اسلام کی نمائندگی کرنے کے لیے غیر مسلموں کے اجتماع میں جائے اور روزہ نہ رکھے۔ حالانکہ ایسے موقع پر تو روزہ رکھ کر غیر مسلم حضرات کو مزید متاثر کیا جاسکتا ہے کہ دیکھو ہر معاملہ میں اسلام ہی ہمارے لیے سب سے اونچی چیز ہے۔ جو کہ اپنی خواہشوں کی قربانی مانگتا ہے جو کہ ہر حالت میں اور ہر وقت اللہ کی مرضی پر عمل کرنے والا انسان بنا دیتا ہے۔ مگر آپ نے ایسا نہیں کیا۔ اس پر مزید اضافہ یہ کہ آپ لوگوں کو بتابھی رہے ہیں۔ میں پوچھتا ہوں کہ کیا سفر کی تمام سہولت کے باوجود بھی شریعت کی وہی بات لاگو ہوگی ’’سفر میں قصر‘‘۔ حالاں کہ شریعت کا اصول ہے کہ حالات کے تحت احکام بدل جاتے ہیں۔ کیا آپ اس کی وضاحت کریں گے کہ آپ نے اس دن روزہ کیوں نہیں رکھا۔
مذکورہ واقعہ پر خود آپ کی بات آپ ہی پر لاگو ہوگی جو کہ آپ نے ایک صاحب کے بارے میں الرسالہ کے اسی شمارہ صفحہ ۱۹ پر ایک حدیث کا ترجمہ کیا ہے کہ ’’مجھے سب سے زیادہ اندیشہ اس منافق انسان سے ہے جو حکمت کی بات کرے مگر اس کا عمل اس کے خلاف ہو۔مولانا صاحب کیا آپ وضاحت کرکے ہم قارئین کو مطمئن کریں گے۔(شاہ عمران حسن، دلاور پور، بہار)
جواب
(۱) یہ صحیح ہے کہ حدیث میں لَو (اگر) کے استعمال سے منع کیا گیا ہے مگر یہ ممانعت مطلق معنوں میں نہیں ہے۔ چنانچہ حدیث اور اقوال صحابہ میں کثرت سے اس کا استعمال موجود ہے۔ مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لو کان موسیٰ حیا ما وسعہ الا اتباعی۔ اسی طرح حضرت عمر فاروق نے فرمایا: لو لا عَلِیّ لہلک عمر۔ لو کا استعمال کس موقع پر منع ہے اس کو آپ میرے مذکورہ مضمون میں پڑھ کر جان سکتے ہیں۔
(۲) رمضان کے مہینہ میںاگر سفر پیش آجائے تو روزہ قضا کیا جاسکتا ہے۔یہ خود قرآن میں موجود ہے اور تمام علماء اور فقہاء کا اس پر اتفاق ہے۔ میرے سفر نامہ میں جس واقعہ کا ذکر ہے وہ حالت سفر کا واقعہ ہے ، وہ حالت حضر کا واقعہ نہیں۔
(۳) ایک عربی مثل میں کہا گیا ہے کہ الناس أعداء ما جہلوا (لوگ اس چیز کے دشمن ہوجاتے ہیں جس سے وہ بے خبر ہیں)۔میرا تجربہ ہے کہ اکثر لوگوں کی تنقیدیں اور الزامات اسی قول کا مصداق ہوتے ہیں۔ مجھے ان لوگوں پر سخت تعجب ہے جو علم تو حاصل نہیں کرتے البتہ اپنا یہ حق سمجھتے ہیں کہ وہ زبان و قلم سے بے مہابا تنقید کرتے رہیں۔ حالاں کہ اس قسم کی تنقید اخلاقی نقطۂ نظر سے ایک غیر سنجیدہ فعل ہے اور اسلامی نقطۂ نظر سے وہ سخت گناہ کی بات ہے۔
سوال
الرسالہ جون ۲۰۰۴ کے صفحہ ۲۸، سوال نمبر ۱۲ کے جواب میں آپ نے فرمایا ’’مدارس پر الزام لگانا غلط ہے۔ مگر اسی کے ساتھ یہ بھی صحیح ہے کہ مدارس کے نظام میں عین وہی ذہن بنتا ہے جس کو جہادی ذہن کہا جاتا ہے‘‘ ۔اور جواب کے آخری جملہ میں آپ نے تحریر فرمایا ہے ’’ایسی حالت میں مدارس کو اس معاملہ میں مکمل طور پر بے قصور نہیں کہا جاسکتا‘‘۔
جولائی ۲۰۰۴ کے الرسالہ میں صفحہ ۲۹۔۳۰ پر ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے آپ نے فرمایا ’’میں خود ایک مدرسہ کا پروڈکٹ ہوں۔ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ مدرسہ کا کوئی تعلق ٹررزم سے نہیں ہے۔ کم ازکم مجھے کوئی ایسا مدرسہ معلوم نہیں جہاں مدرسہ کے نظام کے تحت ٹررزم کی تعلیم دی جاتی ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ مدرسہ صرف تعلیم کے لیے ہے۔ وہاں کے نصاب یا وہاں کے نظام کا کوئی تعلق اس چیز سے نہیں جس کو آج کل ٹررزم کہا جاتا ہے‘‘۔
ایک طرف آپ کو اس حقیقت کااعتراف ہے کہ مدرسوں میں صرف دینی تعلیم دی جاتی ہے اور آج کل جسے ٹررزم کہا جاتا ہے اس کا تعلق ان مدارس سے نہیں ہے۔ اور اسی کے ساتھ یہ بھی آپ کہہ رہے ہیںکہ ان مدارس کے نظام میں وہی ذہن بنتا ہے جس کو جہادی ذہن کہا جاتا ہے، یہ کہاں تک درست ہے۔ کیا یہ تضاد بیانی اس بات کی گواہ نہیں ہے کہ دینی مدارس کے تعلق سے آپ کی تحقیق حقیقت پر غالب آگئی ہے اور اس الزام کو تقویت دیتی ہے کہ دینی مدارس میں جہادی ذہن سازی ہوتی ہے جو ٹررزم کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے۔گذارش ہے کہ آپ اس تضاد بیانی کو الرسالہ کے کسی آئندہ شمارے میں واضح فرمائیں گے ۔ (محمد بشیر احمد)
جواب
آپ نے دو باتوں کے فرق کو نہیں سمجھا۔ اس لیے آپ کو میرے مضمون میں تضاد نظر آیا۔ جو لوگ فرق کے اصول کو نہیں سمجھتے ان کو قرآن میں بھی تضاد نظر آتا ہے۔ مثلاً ایک مستشرق نے لکھا ہے کہ قرآن میں ایک جگہ کہا گیا ہے کہ منکرین قیامت میں اندھے اٹھائے جائیں گے (طٰہ ۱۲۵) اور دوسری جگہ قرآن میں منکرین کے بارے میں ارشاد ہوا ہے کہ قیامت میں ان کی نگاہ بہت تیز ہوگی (ق ۲۲) مستشرق نے اس کو تضاد کا معاملہ سمجھا۔ حالاں کہ یہ فرق کا معاملہ ہے۔ یعنی ایک بات کے دو الگ الگ پہلوؤں کو بتانا۔
میں نے اپنی تحریروں میں بار بار یہ بات لکھی ہے کہ ہمارے علماء جو مدارس میں تیار ہو کر نکلے، وہ تقریباً سب کے سب فکری اعتبار سے جہاد (بمعنٰی قتال) کا ذہن لے کر نکلے۔ ہر ایک نے اپنی تقریروں اور تحریروں میں کہا کہ اسلام کا اقدامی عمل جہاد (بمعنٰی قتال) ہے۔ اس کی ایک تازہ مثال مولانا تقی عثمانی کی کتاب فقہی مقالات ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے اپنے والد مولانا مفتی محمد شفیع صاحب کا یہ نظریہ بتایا ہے کہ اسلام کا اقدامی عمل جہاد (بمعنٰی قتال) ہے۔
میں اس نقطۂ نظر کو غلط سمجھتا ہوں۔ میں نے اپنی تحریروں میں بار بار یہ واضح کیا ہے کہ اسلام کا اقدامی عمل پر امن دعوت ہے۔ جہاد (بمعنٰی قتال) ایک دفاعی کارروائی ہے جو استثنائی طورپر کبھی پیش آتی ہے۔ مزید یہ کہ اس دفاعی کارروائی کا حق صرف باضابطہ طورپر قائم شدہ حکومت کو ہے۔ غیر حکومتی تنظیموں کو ہرگز مسلح جہاد کی اجازت نہیں۔ جس شخص نے میری تحریروں کو پڑھا ہو اس کو میرا یہ نقطۂ نظر پوری طرح معلوم ہوگا۔
البتہ اسی کے ساتھ میرا یہ خیال ہے اور اس کو میںنے بار بار اپنی تحریروں میںواضح کیا ہے کہ ہندستان کے مدارس میں عملی عسکریت یا عملی ٹررزم کی نہ تو تربیت ہوتی ہے اور نہ یہ مدارس اس قسم کی کسی عملی تحریک کا اڈہ ہیں۔ البتہ بعض دوسرے ملکوں میں ایسے مدارس ضرور پائے جاتے ہیں جو عملی عسکریت میں ملوث ہیں۔ میں نے ان مدارس پر تنقید کی ہے اور یہ لکھا ہے کہ کسی بھی مدرسہ کے لیے یہ جائز نہیں کہ عملی طور پر وہ عسکریت کا نظام چلائے۔ بالفرض کسی ملک میں دفاعی جہاد کی ضرورت پیدا ہوجائے تب بھی عملی دفاع کی ذمہ داری صرف قائم شدہ حکومت کی ہوگی۔ اسلامی تعلیم کے مطابق، کسی مدرسہ یا کسی غیر حکومتی تنظیم کے لیے ہر گز یہ جائز نہیں کہ وہ جہاد کے نام پر مسلح جدوجہد شروع کردے۔
سوال
میں آپ کا الرسالہ برابر پڑھتا ہوں اور آپ کی بیشتر کتابیں بھی میں نے پڑھی ہیں۔ آپ اکثر دوسروں کے اوپرتنقید کرتے ہیں۔ میری ادباً آپ سے گذارش ہے کہ آپ اپنی تحریروں میں تنقیدی باتوں کو نہ لائیں تو بہتر ہے۔ کئی لوگ آپ کے تعلق سے مشکوک ہوجاتے ہیں۔ اس طرح اُمت کا ایک بڑا طبقہ آپ کی دینی کتابوں سے دوری اختیار کیے ہوئے ہے۔ یہ امت کا بہت بڑا خسارہ ہے (قاضی ظہور الدین ، اورنگ آباد)
جواب
تنقیدی اسلوب کے بارہ میں اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ کو ن اُس کو پسند کرتا ہے اور کون اُس کو پسند نہیں کرتا۔ اس معاملہ میں اصل سوال یہ ہے کہ مسنون اُسلوب کیا ہے۔ واقعات بتاتے ہیں کہ تمام پیغمبربشمول پیغمبر اسلام کا اُسلوب تنقیدی ہی تھا۔ اسی لیے اُن کے معاصرین اُن سے غصہ ہوتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ تنقیدی اُسلوب مسنون اُسلوب ہے اور غیر تنقیدی اُسلوب مبتدعانہ اُسلوب۔
تنقید کے معاملہ میں صرف ایک شرط عاید کی جاسکتی ہے۔ وہ یہ کہ تنقید کو تنقیص یا تعییب نہیں ہونا چاہیے۔ تنقید کو تمام تر دلائل پر مبنی ہونا چاہیے۔ تجربہ بتاتا ہے کہ تنقیدی اسلوب ہی کے ذریعہ ذہنوں میں انقلاب آتا ہے۔ غیر تنقیدی اسلوب کے ذریعہ کوئی حقیقی تبدیلی لانا ممکن نہیں۔ غیر تنقیدی اُسلوب عوام کی بھیڑ تو اکھٹا کر سکتا ہے مگروہ سیرت و کردار میں انقلاب نہیں لا سکتا۔
سوال
میں آپ کے کام کو جہاد سمجھتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ آپ کے کام میں برکت عطا فرمائے۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر آپ چند شاگرد تیار کردیتے تاکہ آپ کے بعد آپ کا یہ مشن جاری رہتا۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ کوئی دوسرا شخص آپ کے معیار پر پورا نہیں اُترتا ہوگا کیوں کہ آپ perfectionist ہیں۔ اگر آپ اس جانب توجہ فرمائیں تو بہت بہتر ہوگا۔ (ناصر مصطفی، راولپنڈی، پاکستان)
جواب
ایک ایسا مشن جو انسانی فطرت پر مبنی ہو اور جس کے اندر یہ طاقت ہو کہ وہ ذہن کی تشکیل نو کرسکے، وہ اپنے آپ ایسے افراد پیدا کرتا ہے جو مشن کو جاری رکھنے کی ضمانت ہے۔ یہ ایک طاقتور مشن کی تصغیر ہے کہ اس کے بارے میں یہ سوال کیا جائے کہ وہ مشن کو زندہ رکھنے کے لیے افراد پیدا کررہا ہے یا نہیں۔ اللہ کے فضل سے الرسالہ مشن کے تحت ساری دنیا میں ایسے افراد پیدا ہورہے ہیں جو اس مشن کو مستقبل میں جاری رکھنے کی ضمانت ہیں۔
ہمارے مشن کے تحت جو عام تقریری اور تحریری سرگرمیاں جاری ہیں ان کا مختصر تذکرہ الرسالہ میں آتا رہتا ہے۔ اس کے علاوہ ہم اسپریچول کلاس کے نام سے دہلی میں ایک ہفتہ وار کلاس چلاتے ہیں۔ اس میں اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلم اور غیر مسلم شریک ہوتے ہیں۔ اللہ کے فضل سے اس کے نتائج بے حد امید افزا ہیں۔ یہ کہنا شاید مبالغہ نہ ہو کہ اس کلاس کے ذریعہ پہلی بار یہ کوشش کی جارہی ہے کہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ذہنی تعمیر کی جائے۔ اس کلاس میں مسلم اور غیر مسلم دونوں ہی لوگ شریک ہوتے ہیں۔
آج کل ہمارے خلاف جو بے بنیاد پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے۔ اس کو دیکھ کر منفی رائے قائم کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس قسم کے پروپیگنڈے صرف مشن کی قوت کا اعتراف ہیں۔ اس قسم کے پروپیگنڈے کبھی کسی مشن کو روکنے والے ثابت نہیں ہوئے ۔ ہمارے مشن کو بھی انشاء اللہ وہ کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں گے۔
سوال
میں حفظ کا طالب علم تھا۔ حفظ کے دوران میں نے ایک مدرسہ کو چھوڑ کر دوسرے مدرسہ میں داخلہ لیا۔ استاد صاحب نے مجھ سے کہا کہ تم کیوں مدرسہ چھوڑ رہے ہو۔ میں نے انہیں کوئی وجہ نہیں بتائی تو انہوں نے کہا کہ اگر تم بغیر کسی وجہ کے مدرسہ چھوڑ رہے ہو تو تم تعلیم حاصل نہیں کرسکتے۔ استاد صاحب کی بات بالکل صحیح ہوئی اور میری یادداشت بہت کم ہوگئی۔ مجھے کچھ بھی یاد کرنے میں مشکل ہوتی ہے اور جلد بھول بھی جاتا ہوں اور میں یہ بھی نہیں جانتا کہ وہ اس وقت کہاں ہیں۔ مدرسہ چھوڑنے کی وجہ استاد صاحب کا ڈر تھا۔ اب مجھے کیا کرنا چاہیے۔ (عاطف، کراچی)
جواب
آپ کی یاد داشت اگر کم ہوگئی ہو تو اس کا سبب ہر گز استاذ صاحب کا مذکورہ قول نہیں ہے۔ کسی کے قول سے یا کسی کی بد دعا سے کسی شخص کا حافظہ ختم نہیں ہوسکتا۔ یہ قانون فطرت کے خلاف ہے۔
میرے اندازہ کے مطابق، آپ کی یاد داشت پہلے ہی کمزور ہوچکی تھی اور غالباًاس کی وجہ سے آپ کو دشواری پیش آرہی تھی۔ آپ کی دشواری پر پچھلے استاد نے ہمدردانہ غور نہیں کیا بلکہ آپ کے ساتھ سختی شروع کردی۔ اس بنا پر آپ نے پچھلا مدرسہ چھوڑ دیا۔ اب حافظہ کی کمزوری کا تجربہ جوآپ کو ہورہا ہے وہ در اصل پچھلی حالت کا تسلسل ہے اس کے سوا اور کچھ نہیں۔
اس معاملہ میں غلطی آپ کی نہیں ہے بلکہ آپ کے سرپرستوں اور آپ کے اساتذہ کی ہے۔ آج کل یہ ایک عجیب رواج ہوگیا ہے کہ وہ مطلق طورپر اور بچہ کے ذہن کا اندازہ کئے بغیر لوگ اس کو تحفیظ القرآن کے مدرسہ میں ڈال دیتے ہیں۔ اس عمومی رواج کا سبب وہ بے اصل روایتیں ہیں جن میں حافظ قرآن کے بارے میں عجیب وغریب قسم کے غیر ثابت شدہ فضائل عوام میں پھیل گئے ہیں۔ حفظ بلا شبہہ ایک اچھا کام ہے مگر ہر ایک کو حافظ بنانا ہر گز ضروری نہیں۔ اب ہم پریس کے دور میں ہیں۔ قرآن آخری طورپر محفوظ کتاب بن چکا ہے۔ اب اصل اہمیت تعلیم قرآن کی ہے نہ کہ تحفیظ قرآن کی۔ یہ طریقہ بلا شبہہ درست نہیں کہ لوگ خود ساختہ عقائد کے تحت چھوٹے بچوں پر حفظ قرآن کا بوجھ ڈال دیتے ہیں جس کے نتیجہ میں ان کا دماغ ہمیشہ کے لیے کمزور ہوجاتا ہے۔ اگر کوئی شخص حفظ قرآن کو ضروری سمجھتا ہو تو اس کو یہ کام پختہ عمر میں پہنچنے کے بعد کرنا چاہیے ۔ ناپختہ عمر میں چھوٹے بچوں کو حفظ قرآن کرانا بلا شبہہ نظام فطرت کے خلاف ہے اور جو چیز نظام فطرت کے خلاف ہو وہ کبھی مطلوب نہیں۔
میرا مشورہ ہے کہ آپ اب حفظ قرآن کا ارادہ چھوڑ دیجئے اور دوسرا کوئی کام کریں جس میں آپ کو اپنے دماغ پر زیادہ بوجھ نہ ڈالنا پڑے۔ خواہ وہ تعلیم کا کام ہو یا کوئی عملی کام۔
یہاں ایک اور بات کی وضاحت ضروری ہے۔ قرآن میں ارشاد ہوا ہے: ولقد یسرنا القرآن للذکر فہل من مدکر (القمر ۱۷) قرآن کی اس آیت کا ترجمہ کچھ لوگ یہ کرتے ہیں کہ ہم نے قرآن کو یاد کرنے کے لیے آسان کردیا، پس ہے کوئی یاد کرنے والا۔ مفسر القرطبی نے اس رائے کو ان الفاظ میں نقل کیا ہے: ای سہلناہ للحفظ فہل من طالب لحفظہ (۱۷؍۱۳۴)
مذکورہ قرآنی آیت کی یہ تفسیر درست نہیں۔ شاہ عبد القادر صاحب نے آیت کا ترجمہ درست طورپر یہ کیا ہے: اورہم نے آسان کردیا قرآن سمجھنے کو پھر ہے کوئی سوچنے والا۔
اس آیت میں ذکر سے مراد نصیحت ہے نہ کہ الفاظ قرآن کو رٹ کر اس کو یاد کرنا۔ اس آیت کاکوئی تعلق اس عمل سے نہیں ہے جس کو عام طورپر تحفیظ کہا جاتا ہے۔
اس آیت میں یسرنا سے مراد سادہ طورپر سہل کردینا نہیں ہے۔ اس سے مراد در اصل وہ چیز ہے جس کو وضوح (clarity) کہا جاتا ہے۔ یعنی قرآن کا اندازِ بیان فنی کتابوں کی طرح مغلق نہیں ہے بلکہ وہ ایسی کتاب ہے جس کو پڑھ کر اور جس پر غور کرکے آسانی کے ساتھ اس کو سمجھا جاسکتا ہے۔
سوال
میں نے بعض علماء دین سے سنا ہے کہ داڑھی کا ایک مُشت ہونا واجب ہے۔ اگر کوئی شخص داڑھی بالکل نہیں رکھتا یا ایک مُشت سے کم رکھتا ہے تو وہ ہر وقت گناہ میںمبتلا رہتا ہے جب تک کہ اس کی داڑھی مکمل ایک مشت نہ ہوجائے۔ کیا یہ بات صحیح ہے۔ (یحییٰ بن زکریا ، سنگم وہار، نئی دہلی)
جواب
داڑھی کے معاملہ میں ایک مُشت کا مسئلہ ایک استنباطی مسئلہ ہے۔ وہ کسی نص شرعی سے ثابت نہیں۔ صحیح مسلک یہ ہے کہ آدمی کو داڑھی رکھنا چاہیے۔ مگر لمبی داڑھی ضروری نہیں۔ اس معاملہ میں میرا ذاتی مسلک یہ ہے کہ میں نے تقریباً تیس سال سے داڑھی کا ایک بال بھی نہیں کاٹا۔ مگر جہاں تک شرعی مسئلہ کا تعلق ہے، وہ وہی ہے جو اوپر بیان ہوا۔
اس سلسلہ میں اصولی بات یہ ہے کہ اسلام میں اصل اہمیت فارم کی نہیں ہے بلکہ اسپرٹ کی ہے۔ آخرت میں نجات کا مسئلہ کسی فارم پر منحصر نہیں۔ اس کا فیصلہ تمام تر نیت یا داخلی کیفیت پر ہوگا۔ جو لوگ فارم پر زیادہ زور دیتے ہیں وہ شفٹ آف امفیسس(shift of emphasis) کی غلطی کرتے ہیں۔
میرے نزدیک دین میںاصل اہمیت دو چیزوں کی ہے—خدا کا خوف اور بندوں کی خیر خواہی۔ یہ دو صفتیں اگر نہ ہوں تو فارم اور مظاہر کی کوئی بھی مقدار آدمی کو خدا کی رحمتوں کا مستحق بنانے والی نہیں۔
واپس اوپر جائیں

خبر نامہ اسلامی مرکز ۱۷۰

۱۔ امریکا میں یونیورسٹی آف ناٹرے ڈیم (Notre Dame) کے تحت ایک ادارہ قائم ہے جس کا نام یہ ہے:
The Joan B. Kroc Institute for International Peace Studies
اس ادارہ کے پروفیسر مسٹر اے رشید عمر ۲۴ فروری ۲۰۰۵ کو نئی دہلی میں صدر اسلامی مرکز سے ملے۔ وہ اس ادارہ کے ایک پروجیکٹ کے کوآرڈینیٹر ہیں جس کا موضوع یہ ہے:
Religion, Conflict and Peace-building
اس سلسلہ میں انہوں نے اسلام اینڈ پیس کے موضوع پر صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ سوالات کے جوابات کے تحت بتایا گیا کہ اسلام کی تمام تعلیمات بالواسطہ یا براہِ راست طورپر امن پر مبنی ہیں۔ اسلام میں جہاد پر امن دعوتی جدوجہد کے لیے ہے۔ اسلام میں قتال صرف دفاع کے لیے جائز ہے اور یہ دفاع بھی صرف ایک قائم شدہ حکومت کرسکتی ہے۔ کسی غیر حکومتی تنظیم کے لیے کسی بھی حال میں مسلح جدوجہد جائز نہیں۔ آخر میں پروفیسر موصوف کو اسلامی مرکز کی امن کے موضوع پر شائع شدہ انگریزی کتابیں دی گئیں۔
۲۔ ڈاکٹر مرسیا ہرمن سن (Mercia Hermansen) امریکا کی ایک نومسلم خاتون ہیں۔ اُنہوں نے مسلم ممالک کا سفر کرکے اسلام کی تعلیم حاصل کی ہے۔ وہ شکاگو کی ایک یونیورسٹی (Loyola University) میںاسلامک اسٹڈیز کی پروفیسر ہیں۔ آج کل وہ اسلامی خلیفہ عمر فاروق پر ریسرچ کررہی ہیں۔ وہ ۷ مارچ ۲۰۰۵ کو صدر اسلامی مرکز سے نئی دہلی میں ملیں۔ انہوں نے اپنے ریسرچ کے موضوع پر تفصیلی انٹرویو لیا۔ یہ ملاقات تقریباً دو گھنٹہ جاری رہی۔ اُن کو خلیفہ عمر فاروق کی زندگی کے مختلف پہلوؤں سے آگاہ کیاگیا۔ ایک سوال کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا گیا کہ اسلام کی ابتدائی تاریخ میں عمر فاروق کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ مگر یہ کارنامہ ایک شخصی فضیلت کی بات نہیں۔ اس میں دوسرے اصحابِ رسول پوری طرح شریک ہیں۔ خلیفۂ چہارم حضرت علی سے پوچھا گیا کہ آپ کے زمانہ میں حالات بگڑ گئے۔ جب کہ ابوبکر و عمرکی خلافت کے زمانہ میں حالات اچھے تھے۔ اُنہوں نے جواب دیا: ان ابابکر و عمر کانا والیین علی مثلی وأنا والٍ علی مثلکم۔ اس سے معلوم ہوا کہ عمر فاروق کا کارنامہ صحابہ کی وجہ سے ممکن ہوا۔ جب کہ علی بن ابی طالب کے زمانہ میں صحابہ مسلم معاشرہ میں اقلیت بن گئے ـتھے۔ خلیفہ عمر فاروق پر بہت سی عربی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ ایک کتاب شبلی نعمانی کی الفاروق ہے۔ اس کا انگریزی ترجمہ ظفر علی خاں نے کیا ہے جو اس نام سے چھپا ہے: الفاروق عمر دی گریٹ۔
۳۔ عالمی سہارا ویکلی (نئی دہلی) کے نمائندہ عبد القادر شمس نے ۲۱ مارچ ۲۰۰۵ کو ٹیلی فون پر صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ امریکا کی ایک خبر کے مطابق، سوال یہ تھا کہ کیا عورت نماز کی امامت کرسکتی ہے۔ جواب میں بتایا گیا کہ اگر صرف خواتین کی جماعت ہو تو اس کی امامت ایک خاتون کرسکتی ہے۔ لیکن اگر عورتوں کے ساتھ مرد بھی موجودہوں تو مرد ہی امامت کرے گا۔ عورتوں کی مسجد الگ بنانا اگر چہ جائز ہے لیکن اس قسم کی تفریق وسیع تر مصلحت کے اعتبار سے درست نہیں۔
۴۔ اٹلی کا نیشنل ٹی وی(RAI) کی ٹیم ۲۵ مارچ ۲۰۰۵ کو اسلامی مرکز میں آئی۔ اس نے صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ انٹرویو رآندری پزی (Andrea Pezzi) تھے۔سوالات کا تعلق زیادہ تر تصوف اور اس سے متعلق مسائل سے تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ اسلام کے آغاز میں تصوف کا لفظ موجود نہ تھا۔ قرآن میں اس کے لیے ربانی کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ عباسی دور میں کچھ لوگ تھے جو اون (صوف) کے کپڑے پہنتے تھے جو اس زمانہ میں سادگی کی علامت تھے۔ چنانچہ ایسے لوگوں کو صوفی کہا جانے لگا۔ بعد کو اسی سے تصوف کا لفظ بنا۔ پھر تصوف انڈیا میں آیا۔ یہاں یوگ کے اثر سے تصوف میں مزید انڈین عناصرشامل ہوئے۔ ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ سائنسی اور سیاسی دور کے بعد سوسائٹی پر صوفیوں کا اثر بہت کم ہوگیا۔ اب تصوف زیادہ تر انفرادی سطح پر پایا جاتا ہے۔ سوسائٹی کی سطح پر اس کا کوئی قابل ذکر اثر نہیں۔
۵۔ اسلامک سینٹر (نئی دہلی) میں اسپریچول کلاس کے نام سے ایک ہفتہ وار اجتماع ہوتا ہے۔ اس میں تعلیم یافتہ ہندو اور مسلمان دونوں شریک ہوتے ہیں۔ یہ کلاس جنوری ۲۰۰۱ سے ہر اتوار کو پابندی کے ساتھ جاری ہے۔ ہر ہفتہ صدر اسلامی مرکز کسی اسلامی موضوع پر ایک تقریر کرتے ہیں۔ اس کو کلاس کے تمام افراد اسی وقت لکھ لیتے ہیں۔ ۲۷ مارچ ۲۰۰۵ سے یہ نیا سلسلہ شروع ہوا ہے کہ مز نغمہ صدیقی تقریر کے دوران پوری تقریر کو انگریزی میں چھوٹے کمپیوٹر پر ٹائپ کرتی ہیں۔ اس طرح اس ہفتہ وار تقریر کا ریکارڈ کمپیوٹر پر تیار ہورہا ہے۔
۶۔ بھوپال میںحلقۂ الرسالہ کی طرف سے مارچ ۲۰۰۵کو تین روزہ اجتماع کا انتظام کیا گیا۔ ا س میں مقامی لوگوں کے علاوہ دوسر ے مقامات کے لوگ بھی شریک ہوئے۔ صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور مختلف پروگرام میں حصہ لیا۔ اس اجتماع کی روداد انشاء اللہ الرسالہ میں شائع کردی جائے گی۔
۷۔ ۳ اپریل ۲۰۰۵ کو پوپ جان پال دوم کا روم میں ۸۴ سال کی عمر میں انتقال ہوگیا۔ اس موقع پر ای ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے صدر اسلامی مرکز نے کہا کہ پوپ جان پال دوم نہایت معتدل درجہ کے آدمی تھے۔ انہوں نے اپنے ۲۶ سالہ مدت میں اکثر ملکوں کا دورہ کیا۔ پیس اور ہارمنی کا ماحول قائم کرنے کی کوشش کی۔ خدا انہیں اپنی رحمت سے نوازے اور ان کے پیس مشن کو مکمل کرنے کا انتظام فرمائے۔
۸۔ ہندی روزنامہ پربھات خبر (رانچی) کے نمائندہ مسٹر پروین کمار جھا نے ۸ اپریل ۲۰۰۵ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ اس انٹرویو کا موضوع یہ تھا— بی جے پی ۲۵ سال بعد۔ اس موضوع پر یہ ایک تفصیلی انٹرویو تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ شروع میں بی جے پی کا یہ احساس تھا کہ اس کو ہندوؤں کے بیشتر ووٹ ملیں گے اور اس طرح وہ ہندو ووٹروں کی مدد سے مرکز میں حکومت بنالے گی۔ مگر اس کا یہ اندازہ غلط ثابت ہوا۔ کیوں کہ نچلی ذات کے ہندو اُس سے الگ ہوگئے۔ اب بی جے پی کے لیے کامیابی کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ وہ مسلم ووٹوں کو اپنی طرف مائل کرسکے۔ لیکن مسلم ووٹوں کو حاصل کرنے کے لیے بی جے پی کو یہ کرنا ہوگا کہ وہ مسلم ووٹروں کے اندر اعتماد حاصل کرے۔ جب کہ اس سے پہلے اُس نے مسلم ووٹروں کی کوئی پروا نہیں کی تھی۔
۹۔ عقیل احمد صاحب (میرٹھ روڈ، مظفر نگر) کی پوتی کی شادی ۹ اپریل ۲۰۰۵ کو ہوئی۔ اس موقع پر گریٹر نائڈا کے ہرٹیج کلب میں نکاح کی تقریب ہوئی۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور موقع کی مناسبت سے کامیاب ازدواجی زندگی پر ایک تقریر کی۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اُنہوں نے بتایا کہ کامیاب ازدواجی زندگی کا راز قرآن کے الفاظ میں الصلح خیر ہے۔ یعنی اختلاف کو نظر انداز کرتے ہوئے مل جل کر رہنا۔ اسی میں دنیا کا بھی فائدہ ہے اور آخرت کا بھی۔ اختلاف فطرت کا ایک حصہ ہے۔ اختلاف کا حل ہے:
One has the art of difference management rather than art of eliminating the differences.
۱۰۔ سائی انٹرنیشنل سینٹر (نئی دہلی) میں ۲۰ اپریل ۲۰۰۵ کو ایک سیمینار ہوا۔ اس کا موضوع تھا: بیسک ہیومن ویلوز اِن اسلام۔ اس میں اسکولوں کے پرنسپل حضرات شریک ہوئے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور موضوع پر ایک گھنٹہ تقریر کی۔ اس کے بعد آدھ گھنٹہ سوال و جواب کا پروگرام تھا۔ جن انسانی قدروں پر کلام کیا گیا وہ یہ تھیں:
Truthfulness, Honesty, Justice, Equality, Compassion, Tolerance, Modesty, Generosity, Forgiveness, Admitting Mistake.
۱۱۔ دوردرشن کی ایک ٹیم نے ۲۱ اپریل ۲۰۰۵ کو صدر اسلامی مرکز کی تقریر ریکارڈ کی۔ یہ تقریر سیرت رسول کے بارے میں تھی۔ اس تقریر میں سیرت کے عمومی انسانی پیغام کو بتایا گیا۔
۱۲۔ دوردرشن (نئی دہلی) پر ۲۲ اپریل ۲۰۰۵ کو ۱۲ ربیع الاول کے موقع پر میلاد النبی کا پروگرام تھا۔ اس میں لائیو ٹیلی کاسٹ کے تحت صدر اسلامی مرکز کی ۱۰ منٹ کی تقریرنشر کی گئی۔ اس میں انہوں نے پیغمبر اسلام کی سیرت پر کلام کیا۔ خاص طورپر یہ بتایا کہ آپ اخلاقیات کی تکمیل کے لیے مبعوث کیے گئے۔
۱۳۔ ٹوٹل ٹی وی (نئی دہلی) نے یکم مئی ۲۰۰۵ کو لائیوٹیلی کاسٹ کے تحت صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو نشر کیا۔ یہ انٹرویو نکاح اور طلاق کے بارے میں تھا۔ ایک سوال کے جواب میںانہوں نے کہا کہ نابالغ لڑکی کے نکاح کے بارے میں مسلمانوں کو الگ سے کسی فتویٰ کی ضرورت نہیں۔ اس معاملہ میں جو ملکی قانون ہے وہی دوسری لڑکیوں کے ساتھ مسلم لڑکیوں پر بھی قابل انطباق ہونا چاہیے۔
۱۴۔ انڈیا انٹرنیشنل سینٹر (انیکسی) میں یکم مئی ۲۰۰۵ کو گڈورڈ بُکس کی طرف سے صدر اسلامی مرکز کے ایک خصوصی لکچر کا اہتمام کیا گیا۔ اس کا موضوع تھا: یونیورسل میسیج آف قرآن۔ یہ دوگھنٹہ کا پروگرام تھا۔ اس میں تفصیل کے ساتھ بتایا گیا کہ قرآن کا یونیورسل میسیج کیا ہے۔ لوگوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ سامعین میں ہندو اور مسلمان دونوں شریک تھے۔
۱۵۔ ہندی روزنامہ پربھات خبر (رانچی) کے نمائندہ مسٹر پروین کمار جھا نے ۲ مئی ۲۰۰۵ کو ٹیلی فون پر صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ اُن کے سوالات کا تعلق زیادہ تر ماڈل نکاح نامہ سے تھا۔ جواب میں بتایا گیا کہ جاننے والوں کو پہلے سے یہ بات معلوم تھی کہ ماڈل نکاح نامہ عملاً چلنے والا نہیں۔ اسی لیے اب بورڈ کے لوگوں نے اس کو آپشنل نکاح نامہ کہا ہے۔ پھر ایسے نکاح نامہ سے کیا فائدہ۔ دوسری بات یہ کہ مسلم سماج میں جو اصل کمی ہے وہ تعلیم کی کمی ہے۔ تمام درد مند لوگوں کو چاہیے کہ وہ مسلم سماج کو تعلیم میں آگے بڑھائیں۔ اس کے بعد تمام مسائل خود ہی حل ہوجائیں گے۔ تیسری بات یہ کہ عورتوں کی جو مانگیں ہیں ان کے معاملہ میں کڑا رویہ اپنانا مسئلہ کا حل نہیں۔ اس کے بجائے ان مانگوں پر نرم رویہ اختیار کیا جانا چاہیے۔
۱۶۔ ہندی روزنامہ ہندستان (نئی دہلی) کے نمائندہ مسٹر فضل غفران نے ۴ مئی ۲۰۰۵ کو ٹیلی فون پر صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ انٹرویو ماڈل نکاح نامہ کے حوالے سے تھا۔ جواب کا خلاصہ یہ تھا کہ اس قسم کا نکاح نامہ کبھی چلنے والا ہی نہیں۔ حتیٰ کہ بنانے والے گھروں میں بھی وہ نہیں چل سکتا۔ مسلم سماج کی اصل کمی یہ ہے کہ وہ تعلیم میں پچھڑی ہوئی ہے۔ ان لوگوں کو چاہیے کہ وہ کوئی ٹھوس کام کریں۔ وہ مسلم پرسنل لا بورڈ کو ختم کرکے مسلم تعلیمی بورڈ بنائیں۔
۱۷۔ ہندی روزنامہ ویر ارجن (نئی دہلی) کے نمائندہ ویر اکرم سنگھ نے ۶؍مئی ۲۰۰۵ کو ٹیلی فون پر صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو ریکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر ماڈل نکاح نامے سے تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ اس قسم کا نکاح نامہ سِرے سے قابل عمل ہی نہیں۔ کیوں کہ اس کے پیچھے نہ لوگوں کا اتفاقِ رائے ہے اور نہ اس کی پشت پر کوئی تنفیذی طاقت ہے۔ اسی لیے خود ماڈل نکاح نامہ بنانے والوں نے اس کو آپشنل (اختیاری) قرار دے دیاہے۔سوال یہ ہے کہ جب وہ آپشنل ہے تو پھر اس کو وضع کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ صحیح یہ ہے کہ یا تو مسلم عوام کے اندر شعوری بیداری لائی جائے، یا حکومت سے مطالبہ کرکے اس کے موافق ایکٹ بنوایا جائے، جیسا کہ شاہ بانو کے معاملے میں کیا گیا تھا۔
۱۸۔ ہندی روزنامہ مہامے دھا (نئی دہلی) کے سب ایڈیٹر مسٹر سنجے کمار نے ۷مئی ۲۰۰۵ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر ماڈل نکاح نامہ سے تھا جس کو آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے تیار کیا ہے۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ یہ ایک ایسا کام ہے جو بے فائدہ بھی ہے اور ناقابلِ عمل بھی۔ نکاح اسلام میں ایک سادہ عمل ہے۔ لڑکا اور لڑکی کے درمیان ایجاب و قبول اور اس کے اعلان سے شرعی نکاح واقع ہوجاتا ہے۔ اس معاملہ میں جو خرابیاں پیدا ہوئی ہیں وہ مسلم سماج کی پیداکی ہوئی ہیں، نہ کہ شریعت کی پیدا کی ہوئی۔ اس لیے اس معاملہ میں کرنے کا کام یہ ہے کہ ماڈل مسلم سماج بنایا جائے، نہ کہ ماڈل نکاح نامہ۔ اصل یہ ہے کہ موجودہ مسلم سماج تعلیمی پس ماندگی کا شکار ہے۔ تعلیم سے سوجھ بوجھ آتی ہے۔ معاملات کو سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ اس لیے اصل ضرورت یہ ہے کہ مسلم سماج کو تعلیم یافتہ سماج بنایا جائے۔ اس کے بعد تمام مسائل اپنے آپ حل ہوجائیں گے۔ یہ انٹرویو اخبار کے شمارہ ۸ مئی ۲۰۰۵ میں شائع ہوا۔
۱۹۔ اسلامی مرکز کے تحت دو نئی کتابیں تیار ہوئی ہیں۔ وہ جلد ہی چھپ کر شائع ہوجائیں گی۔ ان کے نام یہ ہیں: حکمتِ اسلام، نشانِ منزل۔
۲۰۔ مجھے الرسالہ کے مندرجہ ذیل شمارے مطلوب ہیں:
(۱) اکتوبر ۱۹۷۶ء تا دسمبر ۱۹۹۳۔
(۲) ۱۹۹۴ فروری، اپریل، جولائی، اگست، ستمبر، اکتوبر، نومبر اور دسمبر۔
(۳) ۱۹۹۵ جنوری، جون، جولائی، ستمبر، اور اکتوبر۔
(۴) ۱۹۹۶ مارچ، اپریل اور اگست تا دسمبر۔
(۵) ۱۹۹۷، مارچ، اپریل، مئی، جولائی، ستمبر، نومبر اور دسمبر۔
(۶) ۱۹۹۸ جنوری، فروری، مارچ اور اکتوبر ۔
پتہ یہ ہے: Shah Imran Hasan
At: Dilawarpur, Ward No. 19, Kali Tazia Road
Post + Distt: Munger, Bihar-811201
واپس اوپر جائیں