Pages

Thursday, 1 September 2005

Al Risala | September 2005 (الرسالہ،ستمبر)

2

- توحید کا عقیدہ

4

- خدا اور انسان

9

- اسلام ہر زمانے کے لیے

15

- اسلامی نظام

20

- قولِ بلیغ کیا ہے

22

- صبر وشکر

24

- عورت اور مرد کے دماغ کا فرق

26

- اجتماعی معاملات

28

- قیادت کا مسئلہ

31

- کلمۂ معرفت

33

- اعلی عبادت

35

- تاریخ گواہ ہے

37

- قصور اپنا نکل آیا

38

- سوال وجواب

44

- خبرنامہ اسلامی مرکز


توحید کا عقیدہ

توحید کاآغاز معرفت (realization) سے ہوتا ہے۔ یعنی خدا کو خالق و مالک کی حیثیت سے دریافت کرنا ۔ کسی انسان کو جب خدا کی یہ معرفت حاصل ہوتی ہے تو اس کا حال کیا ہوتا ہے۔ اس کو قرآن میں تفصیل کے ساتھ بتایا گیا ہے۔ اس سلسلہ میںایک آیت کا ترجمہ یہ ہے:
اور جب وہ اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول پر اتارا گیا ہے تو تم دیکھو گے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں اِس سبب سے کہ ان کو حق کی معرفت حاصل ہوئی۔ وہ پکار اٹھتے ہیں کہ اے ہمارے رب، ہم ایمان لائے۔ پس تو ہم کو گواہی دینے والوں میں لکھ لے۔ اور ہم کیوں نہ ایمان لائیں اللہ پر اور اُس حق پر جو ہمیں پہنچا ہے جب کہ ہم یہ آرزو رکھتے ہیں کہ ہمارا رب ہم کو صالح لوگوں کے ساتھ شامل کرے۔ پس اللہ ان کو اِس قول کے بدلہ میں ایسے باغ دے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے اور یہی بدلہ ہے نیک عمل کرنے والوں کا (المائدہ ۸۵۔۸۳)
خدا کی معرفت آدمی کے اندر کس قسم کی شخصیت پیدا کرتی ہے، اس کو قرآن میں مختلف انداز سے بتایا گیا ہے۔ اِس سلسلہ میں قرآن کی ایک آیت کا ترجمہ یہ ہے: ایمان والے تو وہ ہیں کہ جب اللہ کا ذِکر کیا جائے تو ان کے دل دہل جائیں اور جب اللہ کی آیتیں ان کے سامنے پڑھی جائیں تو وہ ان کا ایمان بڑھا دیتی ہیں اور وہ اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہیں (الانفال ۲)
توحید کے عقیدہ کا خطاب اصلاً انسان سے ہے نہ کہ کسی نظام سے۔ یہ عقیدہ ایک فرد کے اندر جگہ پکڑتا ہے۔ وہ فرد کو یہ یقین دلاتا ہے کہ خدا اس کا خالق اور مالک ہے۔ وہ فرد کو خدا کی عظمت کے احساس میں سرشار کردیتا ہے۔ وہ انسان کی پوری شخصیت کو خدا کے رنگ میں رنگ دیتا ہے۔ وہ انسان کے فکر اور احساس کا کامل رہنما بن جاتا ہے۔ ایسا انسان خدا کو یاد کرنے والا بن جاتا ہے۔ وہ خدا کی پکڑ سے بچنا چاہتا ہے اور خدا کے انعام کا حریص بن جاتا ہے۔ توحید کا عقیدہ انسان کی داخلی شخصیت میں اِس طرح بھونچال بن کر داخل ہوتا ہے کہ وہ اس کی پوری زندگی کو ہِلا دیتا ہے۔ وہ خدا کو اپنا سب کچھ بنا لیتا ہے۔ اس کا جینا اور مرنا خدا کے لیے بن جاتا ہے۔ اس کی پوری زندگی خدا رخی زندگی (God-oriented life) بن جاتی ہے۔
دین کا اصل نشانہ حکومتِ الٰہیہ نہیںہے۔ دین کااصل نشانہ معرفتِ الٰہیہ ہے۔ انسان خدا کی معرفت حاصل کرے۔ اس کو سچائی کا عرفان ہوجائے۔ اُس کی روح خدا کی دریافت سے چمک اُٹھے۔ اُس کی شخصیت کامل طورپر عارفانہ شخصیت بن جائے۔ یہی دین کا اصل مقصود ہے۔ اس اعتبار سے دین کا اصل نشانہ فرد ہے، نہ کہ اجتماع۔
سیاسی اقتدار کی حیثیت اسلام میں مطلوب ثانوی کی ہے نہ کہ مطلوبِ اول کی۔ اِسی لیے قرآن میں اُس کی بابت یہ الفاظ آئے ہیں: وَأخریٰ تحبونہا ، نصرمن اللہ وفتح قریب (الصف)
معرفتِ خداوندی کے دو درجے ہیں۔ ایک روایتی معرفت، اور دوسرے علمی معرفت۔ قبل سائنسی دَور میں انسان کے لیے روایتی معرفت ممکن ہوتی تھی۔ بعد سائنسی دور میں انسان کے لیے علمی معرفت ممکن ہوگئی۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو ایک حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: مثل امتی کمثل المطر لا یدریٰ اولہ خیر ام آخرہ (میری امت کی مثال بارش جیسی ہے، نہیں معلوم کہ اُس کا پہلا دَور زیادہ اچھا ہے یا اُس کا دوسرا دَور زیادہ اچھا۔
واپس اوپر جائیں

خدا اور انسان

اِنتھراپالوجی ایک ڈسپلن ہے۔ اس ڈسپلن کے تحت انسان کی اسٹڈی کی جاتی ہے۔ انتھراپالوجی کے تحت قدیم ترین معلوم زمانہ سے لے کر اب تک کی تفصیلی اسٹڈی کی گئی ہے۔اِس اسٹڈی کے ذریعہ جو باتیں معلوم ہوئی ہیں ان میں سے ایک اہم بات یہ ہے کہ خدا کا تصور انسان کی فطرت میں نہایت گہرائی کے ساتھ پیوست ہے۔ ہر عورت اور ہر مردپیدائشی طور پر خدا کے تصور کو لے کر اس دنیا میں آتے ہیں۔ وہ شعوری یا غیر شعوری طورپر مجبور ہیں کہ اِس تصور کے ساتھ زندگی گزاریں۔
مزید مطالعہ بتاتا ہے کہ خدا انسان کی ایک لازمی ضرورت ہے۔ انسان ایک توجیہہ طلب حیوان (explanation seeking animal) ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اپنے وجود اور اپنے اِرد گِرد کی دنیا کی توجیہہ کرے۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ خدا کو مانے بغیر اس کی توجیہہ ممکن نہیں۔ اسی طرح انسان اپنی محدودیت کی بنا پر اپنے آپ کو بے سہارا محسوس کرتا ہے۔ اِس احساس کی تلافی بھی صرف خدا جیسی ایک ہستی کو جاننے سے ہوتی ہے۔ تجربہ بتاتا ہے کہ ہر انسان ناتمام خواہشوں (unfulfilled desires) میں جیتا ہے۔ یہ صرف خدا ہے جس کے ذریعہ اس کو تکمیل کی امید ہوسکتی ہے۔ انسان اپنے مخصوص نیچر کی بنا پر یقین (conviction)میں جینا چاہتا ہے۔ اس یقین کا سورس بھی خدا کے سوا اور کوئی نہیں۔
انسان کو اپنی سرگرمیوں کے لیے ایک نشانہ درکار ہے تاکہ وہ مطمئن ہو کر اس کی طرف اپنا سفر جاری رکھے۔ یہ نشانہ بھی اس کو صرف خدا کے عقیدہ کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے۔
مطالعہ بتاتا ہے کہ دنیا کے تمام عورت اور مرد کسی نہ کسی طور پر خداکو مانتے ہیں۔ حتیٰ کہ بظاہر منکرِ خدا (atheist) لوگوں کا بھی یہ حال ہے کہ جب ان پر کوئی کرائسس (crisis) آتا ہے تو وہ بے اختیارانہ طورپر خدا کو پکار اٹھتے ہیں۔ معلوم طورپر اِس معاملہ میں کسی بھی عورت یا مرد کا کوئی استثناء نہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ جب ہر شخص خدا میں عقیدہ رکھتا ہے تو اس کو وہ نتیجہ کیوں نہیں ملتا جو خدا میں عقیدہ رکھنے کی صورت میں ملنا چاہیے۔ خدا کو مانتے ہوئے بھی ہر انسان کا یہ حال ہے کہ وہ ربّانی احساس (divine inspiration) سے محروم ہے۔ اس کوذہنی سکون (peace of mind) حاصل نہیں۔ ہم خداپر یقین رکھتے ہیں (We trust in God) کا بورڈ لگانے والے بھی حقیقی معنوں میں گاڈ میں ٹرسٹ کرنے کی نعمت سے محروم ہیں۔ لوگ خدا کو مانتے ہیں مگر وہ محسوس کرتے ہیں کہ خدا کے ساتھ ان کا ربط(communion) قائم نہیں ہوتا۔ خدا کو ماننے کے باوجود لوگوں کی زندگیوں میںخدا کی رحمت (blessing) کے آثار دکھائی نہیں دیتے۔
اس کا سبب یہ ہے کہ لوگ خدا کے نام پر غیر خدا سے اپنے آپ کووابستہ (associate) کئے رہتے ہیں۔ زبان سے وہ کہتے ہیں کہ ہم خدا کو مانتے ہیں مگر عملاً وہ اپنے آپ کو کسی نہ کسی غیر خدا کے ساتھ وابستہ کیے ہوئے رہتے ہیں۔
کوئی کسی زندہ یا مردہ انسان کو خدا کی جگہ بٹھائے ہوئے ہے۔ کوئی سورج دیوتا (Sun god) اورچاند دیوتا (Moon god) جیسے خداؤں میں اٹکا ہوا ہے۔ کوئی ہیومنزم کے نام پر وہ کر رہا ہے جس کوعہدہ کا خدا سے انسان کی طرف منتقل ہونا کہا جاتا ہے:
Transfer of seat from God to Man
کوئی قانونِ فطرت(law of nature) کو خدا کا بدَل سمجھے ہوئے ہے۔ اِسی طرح کچھ لوگ مانسٹِک(monistic) تصورِ خدا کو لیے ہوئے ہیں۔ جس میں خدا ایک vague اسپرٹ ہوتا ہے نہ کہ کوئی مستقل وجود جس سے ربط قائم کیا جاسکے، وغیرہ۔
اگر آپ اپنے ٹیلی فون پر کسی نمبر کوڈائل کریں اور اتفاق سے غلط نمبر ڈائل ہوجائے تو دوسری طرف سے یہ آواز آئے گی کہ یہ نمبر موجود نہیں: (This number does not exist) ۔ یہی آج لوگوں کا حال ہے۔ وہ خدا کے نام پر ایسی ہستیوںکو پکار رہے ہیں جن کا حقیقت میںکوئی وجود نہیں۔ اِس لیے ان کی ہر پکار کا جواب یہ آرہا ہے کہ یہ خدا موجود نہیں (This god does not exist) ۔
اِس مسئلہ کا حل یہ ہے کہ ہر آدمی اس پورے معاملہ کا از سَرِنو جائزہ لے۔ اگر وہ اس معاملہ میں سنجیدہ ہوگا تو یقینی طورپر وہ اِس نتیجہ پر پہنچے گا کہ اس کو اُس سسٹم آف تھاٹ کو دریافت کرنا ہے جس میں خدا کا تصور اپنی خالص صورت میں آدمی کو مل جائے۔ یہ ہر عورت اور مرد کا مسئلہ ہے۔ ہر عورت اور مرد اعتقادی طورپر کسی نہ کسی خدا کو اپنا خدا بنائے ہوئے ہے۔ مگر خدا کو ماننے کے جو نتائج ہیں وہ اس کو حاصل نہیں۔ ہر انسان اپنے ذاتی تجربہ کے تحت یہ محسوس کرسکتا ہے کہ اس کے لیے مسئلہ خدا پر عقیدہ نہ رکھنے (lack of belief in God) کا نہیں ہے بلکہ عقیدۂ خدا کا نتیجہ نہ ملنے(lack of result of belief in God) کا مسئلہ ہے۔یہ ایک ایسی یونیورسل حقیقت ہے جس کو ہر آدمی اپنے ذاتی تجربہ کے تحت جان سکتا ہے۔
عقیدہ اور نتیجۂ عقیدہ کے درمیان اِس فرق کا ممکن سبب صرف ایک ہی ہوسکتا ہے اور وہ یہ کہ اس نے خدا کے نام پر کسی غیر خدا پر اپنا عقیدہ بنا رکھا ہو۔ ایسی حالت میں فطری طورپر یہ ہوگا کہ عقیدہ کے باوجود آدمی کو عقیدہ کا نتیجہ حاصل نہیں ہوگا۔
بہت سے اسکالرس نے اس مسئلہ پر ریسرچ کی ہے اور اس کا جواب معلوم کیا ہے۔انہی میں سے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ بنگالی ڈاکٹرنِشی کانت چَٹوپادّھیائے ہیں۔ انہوں نے ۱۹۰۴ میں حیدرآباد دکن میں ایک مطبوعہ لکچر میںاپنا دریافت کردہ جواب بتایا تھا۔ وہ یہ کہ’’ اِس معاملہ میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ ساتویں صدی عیسوی سے پہلے جو مذاہب دنیا میں آئے وہ اگر چہ اعتقادی طور پر ایک ہی خدا کو ماننے والے تھے مگر بعد کے زمانہ میں ان کا اوریجنل ٹکسٹ محفوظ نہ رہ سکا۔ ہر مذہب کے ساتھ یہ ہوا کہ اس میں خدا کا تصور تبدیلی کا شکار ہوگیا اور خدا کے معاملہ میں ان مذاہب کی اوریجنل تعلیم محفوظ نہ رہ سکی۔
ساتویں صدی کے رُبع اول میں اسلام کا ظہور ہوا۔اسلام بھی اگر چہ دوسرے مذاہب کی طرح ایک مذہب تھا لیکن اسلام کی امتیازی صفت یہ ہے کہ اس کا اوریجنل ٹکسٹ پوری طرح محفوظ رہا۔ اس لیے اب بعد کی جنریشن کے لیے خدا کے درست عقیدہ کو جاننے کا معتبر ماخذ صرف اسلام رہ گیا ہے۔ جو آدمی اس معاملہ میں سنجیدہ ہو اور خدا کے معاملہ میں درست عقیدہ کو جاننا چاہے اس کے لیے اب اسلام کے سوا کوئی دوسراانتخاب (choice) موجود نہیں‘‘۔
قرآن واحد محفوظ کتاب ہے۔قرآن کے مطابق، خدا ایک ہے۔ وہی انسان اور کائنات کا خالق اور مالک ہے۔ وہ پورے عالم کاقَیّوم (Sustainer) ہے۔ خدا ایک زندہ ہستی ہے۔وہ دیکھنے اور سننے والا ہے۔ ہر لمحہ اور ہر جگہ انسان کے لیے ممکن ہے کہ وہ خدا سے بر اہِ راست کنٹیکٹ کرسکے۔ خدا اپنی بے پناہ طاقتوں کے ساتھ انسان کی ہر کمی کی تلافی کرنے والا ہے۔ خدا قبل از موت دَور(pre-death period) اوربعد از موت دَور (post-death period) دونوں مرحلہ میں انسان کا مددگار ہے۔ خدا انسان کے لیے پیس اورسکون کا اتھاہ خزانہ ہے۔ خدا ہر معاملہ میں انسان کو اپنے پیغمبروں کے ذریعہ ہدایت فراہم کرتا ہے۔
خدا کی صفت یہ ہے کہ وہ انسان کا خالق(Creator) اور اس کا قیوم (Sustainer) ہے۔ اِس بنا پر ایسا ہے کہ خدا انسان کی ماہیت کو پوری طرح جانتا ہے۔ وہ انسان کی ضرورتوں سے آخری حد تک باخبر ہے۔ اِس بنا پر خدا ہی اِس قابل ہے کہ وہ انسان کے معاملہ کو سمجھے اور اُس کو وہ سب کچھ دے سکے جس کی انسان کو ضرورت ہے۔یہی اکیلا خدا انسان کا خدا بن سکتا ہے۔ اس کے سوا کسی مفروضہ ہستی کو یہ طاقت حاصل نہیں کہ وہ انسان کی اس ضرورت کو پورا کرسکے جس کو خدا کہا گیاہے۔
قرآن اسی خدا کا مستنَد تعارف ہے۔ قرآن واحد ماخذ ہے جس کے ذریعہ کوئی شخص خدا کے بارے میں قابلِ اعتماد تعارف حاصل کرسکے ۔
مِلْیَنز اور ملینز انسانوں نے اپنے ذاتی تجربہ کے تحت اِس بات کی گواہی دی ہے کہ انہوں نے قرآن کا مطالعہ کیا اوراس میں انہوں نے خدا کا وہ تعارف حاصل کیا جو ان کی فطرت تلاش کررہی تھی۔ انہوں نے اِس بات کا اقرار کیا ہے کہ خدا کے دوسرے تصورات ان کی اندرونی طلب کا جواب نہیں بن رہے تھے۔ مگر جب انہوں نے قرآن میں دیے ہوئے تصورِ خدا کو جانا تو ان کا دل پکار اٹھا کہ یہی ان کا وہ مطلوب خدا ہے جس میں ان کی شخصیت کے لیے کامل (fulfilment) موجود ہے۔
ہر زمانہ کا انسان اپنی فطرت کے تحت خدا کا طالب تھا۔ ہر زمانہ کے مذاہب انسان کو اس کی طلب کے مطابق خدا کا علم دیتے رہے۔ مگر قدیم زمانہ میں کتابوں کے لکھنے اور اس کو محفوظ رکھنے کا بے خطا نظام نہیں بنا تھا۔ اِس لیے یہ مذہبی کتابیں اپنی اصل حالت میں محفوظ نہ رہیں۔ آخر کار ساتویں صدی کے آغاز میں قرآن کا ظہور ہوا۔ مخصوص اہتمام کی بنا پر یہ ممکن ہوا کہ قرآن اپنی اوریجنل صورت میں مکمل طورپر محفوظ ہو جائے۔ اب جو شخص بھی اپنی زندگی کی تعمیر کا طالب ہو وہ قرآن کا مطالعہ کرکے اس خدا کو دریافت کرسکتا ہے جس کے بغیر کسی انسان کے لیے اپنے مستقبل کی حقیقی تعمیر ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں

اسلام ہر زمانے کے لیے

ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف، لکل آیۃ منہا ظَہَر وبَطن ولکل حد مطلع (مشکوٰۃ المصابیح، رقم الحدیث ۲۳۸) یعنی قرآن سات حرفوں (لہجوں) پر نازل کیاگیا ہے۔ اور ہر حد کے لیے ایک مطلع ہے۔
اس حدیث میںظہرِ آیت اور بطنِ آیت کے لفظوں میںجو بات کہی گئی ہے اس کا ایک پہلو غالباً یہ ہے کہ ظہرِ آیت سے مراد زمانی رعایت ہے اور بطنِ آیت سے مُراد اَبدی رعایت۔ قرآن ایک خاص زمانے میں اُترا۔ لیکن جیسا کہ معلوم ہے، قرآن ہر زمانہ کے لحاظ سے ہدایت کی کتاب ہے۔ اس بنا پرقرآن میں دونوں پہلوؤں کی رعایت ہے، زمانی پہلو کی بھی اور ابدی پہلو کی بھی۔ اس معاملہ کی ایک مثال یہاں درج کی جاتی ہے۔
قرآن کی سورہ نمبر ۸ میں اہل ایمان کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے: واعدوا لہم مااستطعتم من قوۃ ومن رباط الخیل ترہبون بہ عدواللہ وعدوکم (الانفال ۶۰) یعنی اور ان کے لیے جس قدر تم سے ہوسکے تیار رکھو قوت اور پَلے ہوئے گھوڑے کہ اس سے تمہاری ہیبت رہے اللہ کے دشمنوں پر اور تمہارے دشمنوں پر۔
اِس آیت میں خَیل (گھوڑے) کا لفظ زمانی رعایت کے اعتبار سے ہے اور اِرہاب (خوف دِلانا) کا لفظ ابدی پہلو کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ’’ اعداد قوت‘‘ کا اصل معیار اس کے اندر اِرہاب کی صفت ہونا ہے۔ قدیم زمانہ میں جنگی گھوڑے کے اندر اِرہاب کی صفت ہوتی تھی۔ مگر موجودہ زمانہ میں یہ صفتِ ارہاب دوسری چیزوں میں پیدا ہوگئی ہے۔ مثلاً سائنس اور ٹیکنالوجی۔ اس لیے موجودہ زمانہ میں اِس آیت کی تعمیل، گھوڑوں کی فراہمی نہ ہوگی بلکہ یہ ہوگی کہ جو چیز آج کی قوتِ مُرہِبَہ ہو اس کو حاصل کیا جائے۔
یہی دو طرفہ خصوصیت قرآن کی دوسری اکثر آیتوں میں پائی جاتی ہے۔ قرآن میں ایک اعتبار سے ہم عصر اہلِ ایمان کے لیے رہنمائی تھی، دوسرے اعتبار سے بعد کے اہلِ ایمان بھی اُس کی آیتوں میں تدبر کر کے اپنے لیے واضح رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں۔ اسی بنا پر حدیث میں قرآن کے بارے میں آیا ہے کہ : لا تنقضی عجائبہ (الدارمی، فضائل القرآن، الترمذی، ثواب القرآن) اس معاملہ کی مزید وضاحت کے لیے یہاں چند مثالیں درج کی جاتی ہیں۔
۱۔ قرآن کی سورہ نمبر ۲ میں ارشاد ہوا ہے: کم من فئۃ قلیلۃ غلبت فئۃ کثیرۃ، بإذن اللّٰہ (البقرۃ ۲۴۹) یعنی کتنی ہی چھوٹی جماعتیں اللہ کے حکم سے بڑی جماعتوں پر غالب آئی ہیں۔ مفسرین نے اس آیت کی جو تشریح کی ہے اس کے اعتبار سے اس میں اُس فرق کو بتایا گیا ہے جو جنگ کے موقع پر مقاتلین کے درمیان ہوتا ہے۔مثلاً اصحابِ طالوت اور اصحابِ بدر کے مقابلہ میںاُن کے اَعداء کی تعداد ۔
قرآن کی اِس آیت میں جس اُصول کو بتایا گیا ہے اس کا ایک عصری مفہوم بھی ہے۔ اس اعتبار سے یہ آیت جدید زمانہ تک کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔موجودہ زمانہ میں ایک نئی تبدیلی وقوع میںآئی ہے۔ پہلے زمانہ میں طاقت کا ذریعہ صرف ایک چیز ہوتی تھی اور وہ سیاسی اقتدار ہے۔ سیاسی طاقت کا انحصار فوجی طاقت پر ہوا کرتا تھا۔ موجودہ زمانہ میں یہ صورتِ حال بدل گئی ہے۔ اب سیاسی اقتدار کے علاوہ ایک اور چیز ظہور میںآئی ہے جس کو ادارہ (institution) کہا جاتا ہے۔ موجودہ زمانہ میں بے شمار قسم کے ادارے بنانا ممکن ہوگیا ہے۔ یہ غیر سیاسی ادارے اتنے طاقتور ہوتے ہیں کہ وہ خود سیاسی اقتدار کو اپنے زیرِ اثر کرلیتے ہیں۔
واقعات بتاتے ہیں کہ مو جودہ زمانہ میں اقلیتیں اداروں پر قابض ہوکر حکومت تک کو اپنے اثر میں لے لیتی ہیں۔ اقلیتی گروہ ان مواقع کو استعمال کرکے اکثریتی گروہ کے اوپر چھا جاتا ہے۔ اس کی ایک مثال امریکا میں مقیم یہودیوں کی ہے۔ وہ اپنے غیر سیاسی اداروں کی طاقت ہی کے ذریعہ وہاں کے سیاسی اقتدار کو مغلوب کیے ہوئے ہیں، نہ کہ معروف معنوں میں کسی سازش کے ذریعہ۔
۲۔ قرآن کی سورہ نمبر ۹ میں اہلِ ایمان کے معاملہ کو اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: قل ہل تربصون بنا الّا احدی الحسنیین (التوبہ ۵۳) یعنی کہو تم ہمارے لیے صرف دو بھلائیوں میں سے ایک بھلائی کے منتظر ہو۔ اس آیت میں ایک اہم اصول بیان کیا گیا ہے۔آیت کے ابتدائی مصداق کے اعتبار سے اس کاتعلق زمانی حالات سے ہے لیکن آیت کے وسیع انطباق کے لحاظ سے اس کا تعلق ابدی ہوجاتا ہے۔
قدیم مفسرین نے اس آیت میں دو بہتر انجام سے، غنیمت اور شہادت یا فتح اور شہادت مراد لیاہے۔اس تفسیر کے مطابق، یہ آیت جنگی حالات سے متعلق ہوجاتی ہے۔ مگر وسیع تر مفہوم کے اعتبار سے اِس کا تعلق پُر امن حالات سے بھی ہے، فردکے لیے بھی اور اجتماع کے لیے بھی۔ مثلاً ایک شخص انڈیا سے امریکا جاتا ہے۔ وہاں لمبی مدت تک کوشش کے باوجود اس کو اقامتی ویزا نہیں ملتااور اس کو اپنے وطن واپس آنا پڑتا ہے۔ اس سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اِحدَی الحُسنَیَیْن کے اصول کے مطابق، تم کو دو میں سے ایک بہتر چیز ملی۔ تم اگر چہ ویزا حاصل نہ کرسکے مگر تم کو اِس دوران مغربی دنیا کا تجربہ ہوا، اور یہ تجربہ یقینا ویزا سے کم نہیں۔
۳۔ قرآن کی سورہ نمبر ۴ میں قدیم مکہ کے اہل ایمان کو ہجرت کا حکم دیا گیا تھا۔ فرشتوں کی زبان سے یہ جملہ نقل کیا گیاہے: الم تکن أرض اللہ واسعۃ فتہاجروا فیہا (النساء ۹۷) یعنی کیا خدا کی زمین کُشادہ نہ تھی کہ تم وطن چھوڑ کر وہاں چلے جاتے۔ ہجرت کا یہ حکم قرآن کی دوسری سورتوں میں بھی مختلف الفاظ میں آیا ہے۔
دورِ اول میں جب یہ آیتیں اُتریں اُس وقت ہجرت سے مراد ہجرتِ مکانی ہوتا تھا۔چنانچہ بہت سے لوگوں نے اس حکم پر عمل کیا۔ مگر موجودہ زمانہ میں ہجرتِ مکانی کا طریقہ زیادہ قابل عمل نہیں رہا ہے۔ تاہم موجودہ زمانہ میں بھی یہ اُصول اپنی حقیقت کے اعتبار سے بدستور باقی ہے۔ مثلاً کسی ملک کے مسلمان اگر سیاسی سرگرمیوں کی بنا پر وہاں کی حکومت کے عِتاب کا شکار ہورہے ہیں تو اُن سے یہ کہا جائے گا کہ تم اِس عتاب کا شکار صرف اس لیے ہورہے ہو کہ تم نے اپنے ملک کی حکومت سے متشددانہ قسم کا سیاسی ٹکراؤ جاری کررکھا ہے۔ تم سیاست کا میدان چھوڑ کر غیر سیاسی میدان میں آجاؤ اور پُر امن تعمیری کام کرو۔ قدیم ہجرت اگر جغرافی ہجرت تھی تو یہ دوسری ہجرت میدان کار کے اعتبار سے ہجرت قرار پائے گی۔ اِس طرح ہجرت کا اُصول آج بھی پوری طرح قابل عمل بن جاتا ہے۔
یہاں یہ اضافہ کرنا ضروری ہے کہ قدیم زمانہ میں جو حالات تھے اُن میں صرف مکانی ہجرت ہی قابل عمل ہوتی تھی۔ اُس زمانہ میں میدانِ کار کے اعتبار سے ہجرت کا کوئی امکان نہ تھا۔ مگر موجودہ زمانہ میں نئے حالات اور نئے مواقع کے ظہور کے بعد میدانِ کار کے اعتبار سے ہجرت ایک عظیم تصور بن چکا ہے۔آج سیاسی اعتبار سے مغلوب مسلمان میدانِ کار کی تبدیلی کے ذریعہ وہ سب کچھ اپنے لیے حاصل کرسکتے ہیں جس کے لیے انہوں نے سیاسی ٹکراؤ کا راستہ اختیار کیا تھا۔
۴۔ قرآن کی سورہ نمبر ۲۴ میںآداب ملاقات کو بتاتے ہوئے حکم دیاگیا ہے کہ : ائے ایمان والو، تم اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہو جب تک اجازت حاصل نہ کرلو اور گھر والوں کو سلام نہ کرلو۔ یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔ تاکہ تم یاد رکھو (النور ۲۷) اس آیت میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ کسی کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے داخلہ کی اجازت حاصل کی جائے اور اس کی صورت یہ بتائی گئی کہ دروازہ پر پہنچ کر آدمی بلند آواز سے یہ کہے: السلام علیکم۔ یہ گویا حصول اجازت کا ایک طریقہ ہے اور جب اندر سے اجازت کا اشارہ مل جائے تو اس کے بعد گھر میں داخل ہو۔
اِس آیت کا اصل مدعا ملاقات کے لیے پہلے سے اجازت حاصل کرناہے۔ یہ تعلیم اپنی نوعیت کے اعتبار سے دَوامی ہے۔ اس کے بعد جہاں تک السلام علیکم کہنے کا طریقہ ہے، وہ زمانی نوعیت کی ایک صورت ہے۔ موجودہ زمانہ میں ٹیلی فون اور رابطہ کے دوسرے ذرائع حاصل ہوچکے ہیں۔ اب یہ ضروری نہیں کہ آدمی دروازہ پر کھڑے ہو کر بلند آواز سے السلام علیکم کہے۔ اب آدمی کو چاہیے کہ وہ عصری ذرائع کو استعمال کرے۔ جس سے ملاقات کرنا ہے اس کو ٹیلی فون کرے یا اس کے نام خط بھیجے۔ اس طرح پیشگی اجازت لے کر صاحبِ ملاقات کے پاس جائے۔ یہ گویا اس کے لیے ایک قرآنی حکم کا عصری انطباق ہوگا۔
۵۔ عام طورپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ابتدائی زمانہ میں اسلام کے دو دَور تھے—مکی دَور اور مدنی دَور۔ ہجرت سے پہلے مکی دور کو دعوت کا دور سمجھا جاتا ہے اور ہجرت کے بعد مدنی دور کو جہاد کا دور۔ اس تقسیمی طرز فکر کا نتیجہ یہ ہے کہ مکی دور کی کئی تعلیمات کو مدنی دور پیش آنے کے بعد منسوخ سمجھ لیا گیاہے۔ مثلاً مکہ کے دعوتی دو رمیں صبر اور اعراض اور تالیف قلب اور مدعوگروہ کے ساتھ یک طرفہ حُسن سلوک، وغیرہ۔ مگر مدنی دور میں ان تعلیمات کو منسوخ کرکے فریقِ ثانی سے صرف قتال کا حکم دے دیا گیا۔
ناسخ اور منسوخ کا اصول اسلامی شریعت کا ایک اہم اصول ہے۔مگر یہ حکم حالات کے تابع ہے، یعنی حالات کے بدلنے سے ایک حکم منسوخ قرار پائے گا۔ مگر دوبارہ جب سابقہ حالات پیدا ہوجائیں تو اس وقت منسوخ چیز دوبارہ جائز اور مطلوب ہوجائے گی۔ اس اصول کا لحاظ نہ رکھنے کی وجہ سے اسلام کے بعد کی تاریخ میں بہت بڑا نقصان واقع ہوا ہے۔ شعوری یا غیر شعوری طورپر یہ سمجھ لیا گیا کہ مدنی دور میں جو احکام منسوخ ہوئے تھے وہ ہمیشہ کے لیے منسوخ ہوگئے۔
اِس مفروضہ کی بنا پر یہ ہوا کہ صبر اوراعراض اور تالیفِ قلب اور مدعو کے ساتھ ناصحانہ معاملہ امت کے حافظہ سے عملاً محو ہوگیا ہے۔ اسی کا یہ شدید تر نتیجہ ہوا کہ دعوت الی اللہ کی ذمہ داری بھی عملاً فراموش کردی گئی۔ دعوت ایک ایسا عمل ہے جو صبر اور اعراض اور تالیف قلب اور مدعو کے ساتھ خیر خواہی کا طالب ہے۔ جب یہ اخلاقیات منسوخ قرار پائیں تو فطری طور پر یہ ہوا کہ دعوت کا کام بھی عملی طورپر ایک منسوخ حکم بن گیا۔
اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ بعد کے زمانہ میں جب حدیث اور فقہ کی کتابیں لکھی گئیں اور دوسرے اسلامی موضوعات پر تصنیفات تیار کی گئیں تو ان تمام کتابوں میںدعوت الی اللہ کا باب حذف ہوگیا۔ اب یہ ہوا کہ ان تمام کتابوں میںجہاد اور قتال کا باب تفصیل کے ساتھ شامل کیا گیا۔ مگر پُر امن دعوت کا با ب غالباً کسی بھی کتاب میں درج نہ ہوسکا۔
اس مسئلہ کا حل یہ ہے کہ ناسخ اور منسوخ کو کوئی حتمی حکم نہ سمجھا جائے۔ بلکہ ان کو حالات پر مبنی قرار دیا جائے۔ اس طرح یہ ہوگا کہ ایک طرف دعوت الی اللہ کا متروک عمل زندہ ہوجائے گا اور دوسری طرف امن پر مبنی اقدار دوبارہ اہمیت اختیار کر لیں گی جو کہ جہاد و قتال کے ذہن کی بنا پر عملاً متروک قرار پا گئی تھیں۔
یہ صحیح ہے کہ اسلام کی دعوت و اشاعت کا کام بعد کے زمانہ میں مسلسل جاری رہا ہے اور کثیر تعداد میں لوگ اسلام قبول کرتے رہے ہیں اور اب بھی قبول کررہے ہیں۔ مگر اسلام کی یہ اشاعت اسلام کی اپنی طاقت کی بنا پر ہو رہی ہے نہ کہ مسلمانوں کی کسی باقاعدہ دعوتی جدوجہد کے نتیجہ میں۔
اِس کا راز یہ ہے کہ مذہب انسان کی فطری ضرورت ہے۔ ہر انسان خود اپنی فطرت کے زور پر مذہب کی تلاش میں رہتا ہے۔ مگر صورت حال یہ ہے کہ اسلام کے سوا تمام دوسرے مذاہب تحریف اور تبدیلی کا شکار ہوچکے ہیں۔ اس بنا پر دیگر مذاہب نے فطرتِ انسانی کے ساتھ اپنی مطابقت کھو دی ہے۔ یہی وجہ ہے جو لوگوں کو اسلام کی طرف لے آتی ہے۔ جو آسمان کے نیچے واحد غیر محرَّف مذہب ہے۔ اسلام کی اسی استثنائی صفت نے اُس کے اندر یہ طاقت پیدا کردی ہے کہ وہ کسی باقاعدہ دعوتی عمل کے بغیر لوگوں کے درمیان پھیلتا رہے۔
واپس اوپر جائیں

اسلامی نظام

انیسویں صدی کے نصف آخر میں کمیونسٹ نظریہ پھیلا۔ ۱۹۱۷ میں سوویت یونین میں پہلا کمیونسٹ نظام قائم ہوا۔ اب زیادہ منظم انداز میں اسٹیٹ کی سطح پر کمیونسٹ نظریہ کا پروپیگنڈا پوری طاقت سے ہونے لگا۔ اُس زمانہ میں کمیونزم کا نظریہ اتنا زیادہ پھیلا کہ پروفیسر گالبریتھ کے الفاظ میں: دنیا میں کبھی کسی نظریہ کو اتنا زیادہ فروغ حاصل نہیں ہوا جتنا فروغ کمیونزم کے نظریہ کو حاصل ہوا۔
اس فکری ماحول میں جس طرح دوسرے لوگ متاثر ہوئے اسی طرح مسلمانوں کے بہت سے اہل علم بھی متاثر ہوگئے۔ مثلاً مولانا حسرت موہانی، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، ڈاکٹر محمد اقبال، جمال عبد الناصر، وغیرہ۔ اس ماحول سے متاثر ہوکر مولانا ابو الاعلیٰ مودودی نے اسلام کو نظام کی اصطلاح میں بیان کرنا شروع کیا۔ اُنہوں نے کہا کہ اسلام ایک مکمل اجتماعی نظام ہے اور مسلم ملّت کا یہ فرض ہے کہ وہ اس آئیڈیل انسانی نظام کو دنیا میں قائم کرے۔ ان لوگوں کے نزدیک جہاد کا مقصد یہ تھا کہ وہ انسانی ساخت کے نظاموں کو مغلوب کرے اور ان کی جگہ اسلام کے اعلیٰ نظام کا غلبہ قائم کردے۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ تصور کمیونزم کے رد عمل میں پیدا ہوا۔گویا کہ وہ کمیونزم کا اسلامی ایڈیشن تھا۔ قرآن میں اس کی کوئی بنیاد موجود نہیں۔ حتیٰ کہ پیغمبر اسلام اور خلفائے راشدین کے زمانہ میں بھی ایسا کوئی ’’معیاری نظام‘‘ موجود نہ تھا۔ اگر دین خداوندی کا مقصد دنیا میں معیاری سماجی نظام بنانا ہو تو یہ نشانہ پوری تاریخ میں کبھی کسی پیغمبر کے زمانہ میں پورا نہیں ہوا۔ گویا نظری اور عملی دونوں اعتبار سے یہ تصور ایک غیر ثابت شدہ تصور ہے اور اسی کے ساتھ ناقابلِ عمل بھی۔
قرآن میں جو احکام دیے گئے ہیں وہ زیادہ تر انفرادی نوعیت کے ہیں۔ نہ صرف ایمان اور عملِ صالح بلکہ دوسرے معاملاتی احکام کی نوعیت بھی یہی ہے۔ مثلاً أقیموا الدین، لیقوم الناسُ بالقسط، تامرون بالمعروف وتنہون عن المنکر، وغیرہ بھی اصلاً انفرادی احکام ہیں، نہ کہ حکومت کے ذریعہ نافذ کیے جانے والے احکام۔
یہ صحیح ہے کہ قرآن میں کچھ ایسے قانونی احکام ہیں جو حکومتی معاملات سے تعلق رکھتے ہیں۔ مثلاً چوری، زنا، شراب خوری، قذَف، قتل، وغیرہ۔ مگر اس قسم کے احکام بہت کم ہیں۔ ان احکام کو وضع کرنے کا مقصد ’’معیار ی سماج‘‘بنانا نہیں ہے بلکہ ان کا اصل مقصد یہ ہے کہ سماج میں ضروری نظم برقرار رہے:
It is just to maintain a necessary level of order in society.
اس نقطۂ نظر کا ایک ثبوت یہ ہے کہ معیاری سماج بنانے کے لیے جو نظام مطلوب ہے اس کے کئی انتہائی اہم اجزاء کے بارہ میں اسلام میں کوئی واضح حکم موجود نہیں۔ مثال کے طورپر یہ کہ خلیفہ (حاکم) کا تقرر کس طرح کیا جائے— پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد، عمر بن عبد العزیز کو شامل کرتے ہوئے پانچ ایسے صدر ریاست ہوئے ہیں جن کو متفقہ طورپر خلیفۂ راشد کہا جاتا ہے۔ مگر ان پانچوں کے لیے تقرر کا طریقہ الگ الگ اختیار کیاگیا۔ اسی طرح شوریٰ کے بارہ میں کوئی متعین نظام یا ڈھانچہ اسلام کے دور اول میں موجود نہیں جو نمونہ کی حیثیت رکھتا ہو۔
موجودہ دنیا امتحان کے لیے بنائی گئی ہے۔ یہاں ہمیشہ ہر ایک کے لیے ناموافق حالات موجود رہیں گے، تاکہ امتحان کے تقاضے کو پورا کیا جاسکے۔ خدائی تخلیق کے مطابق، معیاری دنیا موت کے بعد صرف جنت میں بنے گی۔ موجودہ دنیا میں انسان کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس قابل بنائے کہ اس کو اگلے دورِ حیات میں بننے والی معیاری دنیا (جنت)میں داخلہ مل سکے۔ موجودہ دنیا میں معیاری سماجی نظام بنانے کی کوشش کرنا گویا جنت کو موجودہ دنیا ہی میں تعمیر کرنا ہے جو خدائی نقشہ کے مطابق، سرے سے ممکن ہی نہیں۔ خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد مدینہ میں اس کے سابقہ نظام کو علیٰ حالہٖ فتح مکہ تک باقی رکھا۔
سماجی نظام کے بارہ میں اسلام کا تصور یہ ہے کہ اگر ایسا نظام عملاً موجود ہو جو اہلِ ایمان کے لیے کوئی مسئلہ پیدا نہ کرے تو اُس سے ٹکراؤ نہیں کیا جائے گا۔ اُس کو عملاً تسلیم کرتے ہوئے اُس کے تحت افراد اور ادارہ کی سطح پر اسلام کی پیروی جاری رکھی جائے گی۔ یہی وجہ ہے جس کی بنا پر حضرت یوسف نے اپنے وقت کے مشرک بادشاہ سے ٹکراؤ نہیں کیا۔ کیوں کہ وہ ایک عادل بادشاہ تھا اور اس کے تحت وہ توحید کے تقاضے پورے کرتے ہوئے رہ سکتے تھے۔ اسی طرح پیغمبر اسلام کے اصحاب مکی دور کے آخر میں مکہ سے ہجرت کرکے حبش گئے۔ اس وقت وہاں ایک عیسائی بادشاہ کی حکومت تھی۔ اصحابِ رسول نے اس سے ٹکراؤ نہیں کیا۔ کیوں کہ وہ ایک عادل بادشاہ تھا اور اس نے لوگوں کو مذہبی آزادی دے رکھی تھی۔
یہ تصور کہ اسلام ایک معیاری سماجی نظام ہے اور اس کو دنیا میں عملاً قائم کرنا امت ِ مسلمہ پر فرض ہے، یہ نظریہ اسلام کے اصل مقصد کے خلاف ہے، وہ اسلام کے نشانہ کو بدل دینے والا ہے۔ اسلام کا اصل نشانہ یہ ہے کہ ہر فرد خدا کی معرفت حاصل کرے۔ ہر فرد عبادت اور اخلاقیات میں ربّانی بنے۔ ہر فرد فلاحِ آخرت کو اپنا ہدف بنائے۔ مگر مذکورہ نظریہ آخرت کے بجائے دنیا کو آدمی کا نشانہ بنادیتا ہے۔ وہ تعمیر آخرت کے بجائے تعمیر دنیا کو اپنی منزل مقصود سمجھ لیتا ہے۔ اسلام ایک ربّانی مذہب ہے۔ مگر مذکورہ تصور اسلام کو ایک مادّی اور سیاسی مذہب میں تبدیل کردیتا ہے۔
اسلام کا اصل مقصد یہ ہے کہ آدمی خدا کو دریافت کرے۔ وہ اپنے اندر ربانی شخصیت کی تعمیر کرے۔ وہ اپنے روز مرہ کے واقعات میں حقیقتِ اعلیٰ کی جھلکیاں دیکھنے لگے۔ وہ دنیا کی زندگی کو فتنہ (آزمائش) اور آخرت کی زندگی کواصل مطلوب سمجھنے لگے۔ جو آدمی اس قسم کا ذہن رکھتا ہو اس کے لیے موجودہ دنیا میں معیاری قسم کا سماجی اور سیاسی نظام بنانا ایسا ہی ہے جیسے کہ ٹرین کا کوئی مسافر کسی پلیٹ فارم پر اپنی پسند کا گھر بنانے لگے۔
قرآن میں جنت کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے: لِمثل ہذا فلیعمل العاملون (الصافات ۶۱) اسی طرح حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: لا عیشَ الا عیش الآخرۃ (صحیح البخاری، کتاب الرقاق، باب ما جاء فی الرِقاق، وأن لا عیش الاّ عیش الآخرۃ)
اس طرح کی تعلیمات قرآن وحدیث میں کثرت سے آئی ہیں۔ ان تعلیمات سے ایک شخص کے اندر جو ذہن بنتا ہے وہ مذکورہ نظامی تصور سے مطابقت نہیں رکھتا۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ مذکو رہ قسم کا نقطۂ نظر آدمی کو ایک قسم کا ’’اسلامی کمیونسٹ‘‘ بناتا ہے۔ وہ حقیقی معنوں میں اسلامی شخصیت کی تعمیر نہیں کرتا۔
اس فرق کو بتانے کے لیے ربانی اسلام اور سیاسی اسلام کا لفظ استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ربانی اسلام آدمی کے اندر معرفتِ خداوندی کا ذہن بناتا ہے۔ وہ آدمی کے اندر احتسابِ خویش کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ وہ جنت کے تصور میںجینے لگتا ہے۔ اُس کے صبح وشام آخرت کی یادوں میں بَسر ہونے لگتے ہیں۔ وہ دنیا کی کامیابی کو غیر اہم اور آخرت کی کامیابی کو اہم سمجھنے لگتا ہے۔ وہ دنیا کو صرف بقدر ضرورت لینا چاہتا ہے اور آخرت کو بقدرِ شوق۔ اُس کی نظر میں دنیا کی کامیابی غیر اہم بن جاتی ہے اور آخرت کی کامیابی اہم ۔
اس کے برعکس ذہن وہ ہے جو سیاسی اسلام کے نظریہ کے تحت تیار ہوتا ہے۔ ایسے آدمی کی سوچ سیاسی سوچ ہوتی ہے۔ سیاسی اور حکومتی چیزیں اس کی توجہ کا مرکز بن جاتی ہیں۔ سیاسی نوعیت کی چیزیں شعوری یا غیر شعوری طورپر اس کے لیے اولین بن جاتی ہیں اور ربانی نوعیت کی چیزیں عملاً ثانوی حیثیت اختیار کرلیتی ہیں۔ عبادت کے معاملہ میں وہ صرف اس کے ظاہری فارم پر قناعت کرلیتا ہے۔ اس کے اخلاق سیاسی مصلحتوں کے تابع ہوجاتے ہیں۔ تقویٰ اور خشیت اور اخباط اور تضرع جیسی چیزیں اس کے مزاج کے اعتبار سے اجنبی چیزیں بن جاتی ہیں۔ ایسے لوگوں کی مجلس میں اگر آپ بیٹھیں تو آپ کو زیادہ تر سیاسی باتیں سننے کو ملیں گی، نہ کہ ربّانیت اور للِّٰہیت کی باتیں۔
اسلام کا اصل مقصد فرد بنانا ہے، نہ کہ سماجی اور حکومتی نظام بنانا ۔ جس سماج میں افراد قابل لحاظ تعداد میں تیار ہوجائیں وہاں یقینا سماجی سطح پر بھی اس کا ظہور ہوگا۔ مگر جہاں تک دعوتی نشانہ کا تعلق ہے، اسلام کا اصل نشانہ تعمیر افراد ہے، نہ کہ سماجی اور حکومتی ڈھانچہ بنانا۔
اسلام کے فکری مطالعہ میں اس کو بطور اصول ماننا ضروری ہے۔ اگر اس کو نہ مانا جائے تو کہنے والا یہ کہہ سکتا ہے کہ کسی بھی پیغمبر نے مکمل نظام کے احکام نہیں بتائے اور نہ کسی بھی پیغمبر نے عملی طورپر اس کا کوئی نمونہ پیش کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس اصول کو ملحوظ نہ رکھنے کی صورت میں تمام پیغمبروں کی تحریک، نعوذ باللہ ، فکری اور عملی دونوں اعتبار سے ناقص اور ناتمام نظر آتی ہے۔
قرآن کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبروں کی تحریک کا اصل مقصد یہ تھا کہ ایسے اعلیٰ افراد کو تیار کیا جائے جو آخرت کی ابدی جنت میں بسائے جانے کے قابل ہوں۔ پیغمبروں کی تحریک کا مقصد یہ نہیں تھا کہ آج ہی لوگوں کے لیے ایک ایسی دنیا بنائی جائے جہاں وہ آخرت اور یوم الحساب سے پہلے ہی اپنے رہنے کے لیے ایک جنت کو حاصل کرسکیں۔
واپس اوپر جائیں

قولِ بلیغ کیا ہے

قرآن کی سورہ نمبر ۴ میںارشاد ہوا ہے : فأعرض عنہم وعظہم وقل لہم فی انفسہم قولاً بلیغا (النساء ۳۶) یعنی تم اُن سے اعراض کرو اور اُن کو نصیحت کرو اور اُن سے ایسی بات کہو جو اُن کے اندر تک پہنچ جانے والی ہو۔
بلیغ کے وہی معنٰی ہیں جو بالغ کے معنٰی ہیں، یعنی پہنچنے والا۔ آیت کی نحوی ترتیب یہ ہے: وقل لہم قولاً بلیغاً فی انفسہم۔ یعنی اُن سے بات کہو اُن کے اندر تک پہنچ جانے والی بات۔ لفظ بدل کر کہا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اُن سے وہ بات کہو جو اُن کے مائنڈ کو ایڈرس کرے، جو اُن کے ذہن کو خطاب کرنے والی ہو۔ جس میں اُن کے فکر واحساس کی پوری رعایت شامل ہو۔
مثلاً مکی دور کی روایات میںآیا ہے کہ ایک بار قریش کے سردار رسول اللہ کے چچا ابو طالب کے مکان پر اکھٹا ہوئے۔ اس موقع پر جو گفتگو ہوئی اس میں آپ نے سردارانِ قریش کے ایک سوال کے جواب میں کہا: کلمۃ واحدۃ تعطونیہا تملکون بہا العرب وتدین لکم بہا العجم (حیاۃ الصحابہ ۱؍۵۶) یعنی میں تم کو ایک حکم کی طرف بلاتا ہوں، تم مجھے یہ کلمہ دے دو، تم اس کے ذریعہ عرب کے مالک بن جاؤ گے اور اس سے عجم تمہارے تابع ہوجائیں گے۔
رسول اللہ کا یہ قول مطلق معنوں میں نہیں ہے۔ یعنی اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کا اصل مقصد یہی تھا کہ آپ عرب و عجم کے اوپر حکومت وسیادت حاصل کریں۔ یہ بات آپ نے سردارانِ قریش کے مزاج کی رعایت کرتے ہوئے فرمائی۔ یہ سردارانِ قریش حاکمانہ نفسیات میں جی رہے تھے، محکومی ان کے لیے خارج از بحث تھی۔اِس لیے اس وقت اِسی قسم کا ایک قول اُن کے مائنڈ کو ایڈریس کرنے والا بن سکتا تھا جو کہ آپ نے فرمایا۔
مذکورہ قولِ رسول کو اس مفہوم میں لینے کا ثبوت یہ ہے کہ دوسرے بہت سے مواقع پر آپ سے اسی قسم کا سوال کیاگیا لیکن آپ نے اس سے مختلف انداز میں سائل کا جواب دیا۔ احادیث کا مطالعہ بتاتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف انداز میں لوگوں کے سوال کا جوا ب دیا ہے۔ یہ اختلاف یا فرق اسی لیے تھا کہ آپ نے ہر ایک سے ایسے اُسلوب میں کلام کیا جو مخاطب کے مائنڈ کو ایڈریس کرنے والا ہو۔
دعوت کے عمل میں قولِ بلیغ کا یہ اُصول بے حد اہم ہے۔ یہ ایک واقعہ ہے کہ لوگوں کے سوچنے کا انداز یکساں نہیں ہوتا۔ ہر ایک الگ الگ انداز سے سوچتا ہے۔ ایسی حالت میں مؤثر دعوتی خطاب وہی ہوسکتا ہے جس میں مخاطب کے ذہن کی رعایت کرتے ہوئے اپنی بات اُس کو پہنچائی جائے۔
مثلاً ایک شخص تلاشِ حقیقت کے سوال سے دوچار ہے تو اُس سے ایسی بات کہی جائے گی جس میں وہ اپنی تلاش کا جواب پارہا ہو۔ اُس وقت اگر کوئی دوسری بات اُس سے کہی جائے تو وہ اُس کو غیر متعلق نظر آئے گی اور وہ اس کو رد کردے گا۔ اسی طرح کوئی شخص روحانی سکون کا طالب ہو تو اُس سے ایسے اُسلوب میں بات کی جائے گی جس میں وہ اپنے داخلی سوال کا جواب پارہا ہو۔ اسی طرح اگر کوئی شخص خالص علمی اور منطقی انداز میں دین کی صداقت کو سمجھنا چاہتا ہو تو اُس سے اُسی اسلوب میں بات کی جائے گی جو اُس کے منطقی طرزِ فکر کو تسکین دینے والی ہو۔ اسی طرح اگر کوئی شخص بعد از موت کے احوال جاننا چاہتا ہو تو اُس کو اُس کی طلب کے مطابق فکری خوراک پہنچائی جائے گی تاکہ وہ محسوس کرے کہ آپ کے جواب سے اُس کا ذہن ایڈرس ہورہا ہے، وغیرہ۔
قولِ بلیغ کے اس اسلوب کا کوئی لگا بندھا طریقہ نہیں ہے۔ اس کے لیے ضرورت ہے کہ داعی کے دل میں خیر خواہی کا جذبہ ہو۔ وہ مخاطب کے ذہن کو اچھی طرح پڑھے اور پھر اُس کے ذہن کی رعایت کرتے ہوئے اُس سے کلام کرے۔ قول بلیغ کے اس اصول کو اپنانے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ داعی پہلے ہی خطاب میں سب کچھ کہہ دینے کا مزاج نہ رکھتا ہو بلکہ وہ تدریجی اصول پر یقین رکھتے ہوئے پہلے خطاب میں پہلی بات کہے اور دوسری باتوں کو اگلے خطاب کے لیے مؤخر کردے۔
قولِ بلیغ وہ ہے جس میں مخاطب کی پوری رعایت کی گئی ہو۔ مخاطب کی رعایت کے بغیر کوئی قول کبھی قولِ بلیغ نہیں بن سکتا۔
واپس اوپر جائیں

صبر وشکر

ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن کا معاملہ بڑا عجیب ہے۔ اس کا ہر معاملہ اس کے لئے خیر ہے۔ اور ایسا مومن کے سوا کسی اور کے لیے نہیں ۔اگر اس کو آرام ملتا ہے تو وہ شکر کرتا ہے۔ پس وہ اس کے لیے خیر بن جاتا ہے۔ اور اگر اس پر مصیبت آتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے۔ پس وہ اس کے لیے خیر بن جاتا ہے:
عن صہیب، قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: عجبًا لأمر المؤمن! إنّ أمرہ کلّہ لہ خیر، ولیس ذالک لأحد إلا للمؤمن، إن أصابتہ سرّاء شکر فکان خیرا لہٗ وإن أصابتہ ضرّاء صبر فکان خیرا لہ (صحیح مسلم، بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح، رقم الحدیث ۵۲۹۷)
The affair of the believer is truly strange. Every situation proves good for him and this is special to a believer alone. If he finds himself in a pleasant situation, he is thankful to God, and that is good for him. If he is faced with unpleasant situation he keeps patience and again that is good for him.
مومن کے ساتھ دو طرفہ خیر کا یہ معاملہ کسی پر اسرار سبب سے نہیں ہوتا ، وہ مکمل طورپر ایک معلوم سبب کے تحت پیش آتا ہے۔ اصل یہ ہے کہ مومن اس انسان کا نام ہے جس کو دریافت کی سطح تک خدا کی معرفت حاصل ہوئی ہو۔ ایسے انسان کے اندر ایک ذہنی انقلاب آجاتا ہے۔ اس کے اندر شعوری بیداری کی صفت پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ معاملات اور تجربات کو حقیقت کی نظر سے دیکھے۔ وہ وقتی جذبات سے بلند ہو کر معاملہ کی گہرائی کو سمجھ سکے۔
مومن اپنی اس حقیقت شناسی کی بنا پر اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ جس تجربہ سے بھی گزرے وہ اس کو مثبت نتیجہ میں تبدیل کرسکے۔ وہ ہر واقعہ میں خدا کی کارفرمائی کو دیکھے۔ وہ ذاتی تجربہ کو خدا کے تخلیقی نقشہ میں رکھ کر دیکھ سکے۔ مومن کی یہی وہ صفات ہیںجو اس کے اندر یہ با معنٰی صلاحیت پیدا کردیتی ہیں کہ اس کو جب خوشی اور راحت کا تجربہ ہو تو وہ سرکش نہ بن جائے۔وہ اس کو خدا کا عطیہ سمجھ کر خدا کی خدائی کا اعتراف کرے۔ اسی اعتراف خداوندی کا نام شکر ہے۔ شکر بلاشبہہ ایک عظیم عبادت ہے۔
تاہم دنیا کی زندگی میں آدمی کو ہمیشہ خوش گوار تجربے نہیں ہوتے۔ بار بار ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کو ناخوش گوار تجربات سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس وقت مومن کی شعوری بیداری اس کو اس سے بچا لیتی ہے کہ وہ اس پر شکایت یا فریاد کرنے لگے۔ وہ ناخوش گوار تجربہ کو خدا کے تخلیقی نقشہ کے مطابق سمجھتا ہے۔ وہ ناخوش گوار تجربہ کو ایک فطری عمل سمجھ کر اس سے یہ یقین حاصل کرتا ہے کہ یہ ایک وقتی چیز ہے۔ حالات یقینا بدلیں گے اور وہ جلدہی مجھ کو زیادہ بہترزندگی عطا کریں گے، خواہ آج کی دنیا میں یا آج کے بعد بننے والی دوسری ابدی دنیا میں۔
حقیقت یہ ہے کہ صبر بھی شکر ہی کی ایک صورت ہے۔ ناخوش گوار صورت حال کو رضامندی کے ساتھ قبول کرنا اور اس کو خدا کی طرف سے آیا ہوا مان کر مثبت ذہن کے تحت اس کا استقبال کرنا یہی صبر ہے۔ اور یہ صبر ہمیشہ شاکرانہ قلب سے ظاہر ہوتا ہے۔ ناشکری سے بھرا ہوا دل کبھی صبر کا ثبوت نہیں دے سکتا۔
واپس اوپر جائیں

عورت اور مرد کے دماغ کا فرق

موجودہ زمانہ میں انسانی دماغ پر بہت زیادہ ریسرچ کی گئی ہے اور نئے نئے حقائق دریافت ہوئے ہیں۔ اس موضوع پر امریکی ماہرین کی ایک ٹیم کی سروے رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ اس ریسرچ میں برین اسکیننگ کی جدید ٹیکنیک (FMRI) استعمال کی گئی تھی۔ اس کا مقصد یہ جاننا تھا کہ جب ان کو کچھ بتایا جائے یا پڑھ کر سنایا جائے تو ان کے دماغ میں کس قسم کی اعصابی حرکات ہوتی ہیں:
Using a brain scanning technique called Functional Magnetic Resonance Imaging (FMRI) the work does highlight the differences in natural activity between men and women listening to something read aloud.
اِس ریسرچ کے ذریعہ یہ معلوم ہوا ہے کہ مرد اپنے دماغ کے صرف ایک جانب سے سنتے ہیں جب کہ عورتیں اپنے دماغ کے دونوں سمت کو استعمال کرتی ہیں:
Research released Tuesday shows that men listen with one side of their brains, while women use both sides.
اس ریسرچ میں ۱۰ تندرست مرد اور ۱۰ تندرست عورتوں پر تجربات کئے گئے۔ اس ریسرچ سے معلوم ہوا کہ مرد اور عورت کے دماغ یقینی طورپر یکساں نہیں ہیں:
They are difinitely not the same — in size, sense or sensibilities (p.1)
Loss Angeles Times, Loss Angeles, Nov. 29, 2000
یہ ریسرچ بتاتی ہے کہ عورت اور مرد کے اس دماغی فرق کی بنا پر دونوں کے دیکھنے اور سننے میں فرق ہوجاتا ہے۔ مرد اپنے دماغی بناوٹ کی بنا پر ایسا کرتا ہے کہ وہ کسی ایک چیز پر فوکس کرسکے، وہ کسی ایک چیز کو زیادہ مُرَکَّز انداز میں دیکھے۔ اس کے مقابلہ میں عورت کی دماغی بناوٹ کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ اس کا فوکس پھیل جاتا ہے۔ وہ بیک وقت مختلف چیزوں کو دیکھتی اور سنتی ہے۔ مرد کا مرکز توجہ ایک چیزہوتی ہے اور عورت کا مرکز توجہ کئی چیزیں۔
عورت اور مرد کے دماغ کا یہ تخلیقی فرق بے حد اہم ہے۔ اس کا یہ فائدہ ہے کہ عورت اور مرد دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہوئے زیادہ بہتر طورپر زندگی گزاریں۔ وہ ایک دوسرے کی کمیوں کی تلافی کرتے ہوئے زندگی کو زیادہ مفید اور بامعنٰی بنا سکیں۔
اس ریسرچ سے اس بات کا بھی جواب ملتا ہے کہ اسلام میں عورت اور مرد کی گواہی کے درمیان فرق کیوں رکھا گیا ہے۔ جیسا کہ قرآن میںارشاد ہوا ہے: اور تم اپنے مردوں میں سے دو آدمیوں کو گواہ کرلو۔ اور اگر دومرد نہ ہوں تو پھر ایک مرد اور دو عورتیں، ان لوگوں میں سے جن کو تم پسند کرتے ہو، تاکہ اگر ایک عورت بھول جائے تو دوسری عورت اس کو یاد دلا دے (البقرہ ۲۸۲)
مذکورہ دریافت کے مطابق، عورت اور مرد کے درمیان اس فرق کا سبب یہ ہے کہ دونوں کے دماغ کی بناوٹ میں فرق ہے۔ مرد کا دماغ سنگل فوکس مائنڈ (uni-focal mind) ہے۔ اس کے مقابلہ میں عورت کا دماغ پیدائشی طورپر ملٹی فوکس مائنڈ(multi focal mind) ہے۔
اس فرق کی بنا پر ہمیشہ یہ امکان رہے گا کہ جس واقعہ کی گواہی دینا ہے اُس واقعہ کو مرد کے دماغ نے اپنی پوری صورت میں رجسٹر کیا ہو۔ جب کہ عورت کے معاملہ میں یہ امکان ہے کہ مختلف فطری بناوٹ کی بنا پر کسی ایک عورت کے دماغ نے واقعہ کو اس کے تمام اجزاء کے ساتھ رجسٹر نہ کیا ہو۔ ایسی حالت میں دو عورتوں کو گواہ بنانے میں یہ حکمت ہے کہ اگر واقعہ کا ایک پہلو ایک عورت سے چھوٹ جائے تو دوسری عورت اس کی تلافی کردے۔
یہی وہ حقیقت ہے جس کو قرآن کی مذکورہ بالا آیت میں بیان کیا گیا ہے۔ سائنسی تحقیق کے مطابق، قرآن کا یہ حکم صرف ایک حکم نہیں رہتا بلکہ وہ خود فطرت کا ایک اصول بن جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

اجتماعی معاملات

زندگی کے معاملات دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جن کا تعلق مسلمانوں اور مسلمانوں کے باہمی معاملات سے ہو۔ دوسرا وہ جس کا تعلق مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان معاملات سے ہو۔ جو معاملات مسلمانوں اور مسلمانوں کے باہمی معاملات سے تعلق رکھتے ہوں ان کے فیصلہ کی بنیاد ہمیشہ کے لیے صرف ایک ہے، اور وہ قرآن اور سنت ہے۔ اس قسم کے باہمی معاملات میں مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ ابدی طورپر قرآن و سنت سے رہنمائی حاصل کریں اور جو کچھ وہاں سے ملے اُس پر دل کی رضامندی کے ساتھ قائم ہوجائیں (النساء: ۶۵۔۶۴)۔
معاملات کی دوسری قسم وہ ہے جو مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان پیش آنے والے مسائل سے تعلق رکھتی ہے۔ اس دوسرے قسم کے معاملات میں فیصلہ کی بنیاد وہ ہوگی جو دونوں کے لیے قابل قبول ہو۔ دوسرے لفظوں میں، اس کو اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان معاملات میں فیصلہ کی بنیاد وہ بین اقوامی معیارات (international norms) ہوں گے جو کسی زمانہ میں رائج ہوجائیں ۔
مثال کے طورپر، ایک ایسے سماج کو لیجئے جس میں کئی مذاہب کے ماننے والے ہوں۔ ایسے سماج میں باہمی تعلقات کی بنیاد وہ ہوگی جو ہر ایک کے لیے یکساں طورپر قابل قبول ہو۔ یہ بنیاد صرف ایک ہے، اور وہ ہے باہمی احترام(mutual respect) ۔ اسی اصول کو قرآن میں ان الفاظ میں بتایا گیا ہے: لکم دینکم ولی دین (الکافرون )۔ یعنی تمہارے لیے تمہارا دین اور میرے لیے میرادین۔
اسی طرح مثال کے طورپر قدیم زمانہ میں مسلم حکومتوں کے تحت رہنے والے غیر مسلموں کو ذمّی کہاگیا اور ان پر جزیہ عاید کیاگیا۔ اب موجودہ زمانہ میں اگر اسلامی ریاست قائم ہو تو اس میں ایسا نہیں کیا جائے گا۔ بلکہ اس معاملہ میںاُسی بین اقوامی معیار کو اختیار کر لیا جائے گا جو آج کی دنیا میں عالمی سطح پر تسلیم کرلیا گیا ہے۔
یہ اصول پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سنت سے ثابت ہوتا ہے۔ آپ کے زمانہ میں یمن کے علاقہ میںایک مُدَّعیِ نبوت ظاہر ہوا۔ اس کو تاریخ کی کتابوں میں مُسَیلمہ کَذّاب کہا جاتا ہے۔ اُس نے اپنی طرف سے دو رُکنی وفد مدینہ بھیجا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ پیغام دیا کہ آپ میری نبوت کو تسلیم کریں۔ اُس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر یہ عالمی رواج نہ ہوتا کہ سفیر قتل نہیں کیے جاتے تو میں تم دونوں کی گردن مار دیتا (لولا ان الرسل لا تقتل لضربت اعناقکما)
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول سے یہ اصول مستنبط ہوتا ہے کہ کسی اجتماعی معاملہ میں جو بین اقوامی اصول ہو وہی اُصول اسلامی ریاست میںبھی تسلیم کرلیا جائے گا۔ اس طرح کے معاملات میں اسلام میں بھی اُسی معیار کو مان لیا جائے گا جو کسی زمانہ میں بین اقوامی طور پر مسلّمہ معیار بن چکا ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ بین اقوامی معاملات میں اس کے سوا کوئی اور قابل عمل اُصول نہیں۔ مسلمان دنیا میں اپنا کوئی علیٰحدہ سیاسی جزیرہ نہیں بنا سکتے۔ بین اقوامی زندگی کا نظام باہمی احترام اور باہمی رضامندی کے اُصول پر چلتا ہے۔ یہ اُصول جس طرح دوسری قوموں کے لیے قابل قبول ہے اُسی طرح وہ اسلام کے لیے بھی قابل قبول ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ سنت کا تعلق محدودطورپر صرف سفیر کے معاملہ سے متعلق نہیں ہے بلکہ وہ ایک عمومی اُصول ہے۔ اس سنت میںایک ایسی رہنمائی ملتی ہے جس کی روشنی میں تمام بین اقوامی معاملات کو قائم کیا جاسکے۔
واپس اوپر جائیں

قیادت کا مسئلہ

قائد خدا پیداکرتاہے۔ مگر قائد کو قائد ماننا انسان کا کام ہے۔ خدا کے تخلیقی نظام کے مطابق، کسی گروہ کے لیے کوئی ایسا وقت نہیں آسکتا جب کہ اس کے درمیان قائدانہ اوصاف والی شخصیت موجود نہ ہو۔ مگر کوئی حقیقی قائد اپنا قائدانہ رول صرف اس وقت ادا کرسکتا ہے جب کہ اس کی قوم اس کو اپنا قائد مانے اور اس کی اطاعت کرے۔
اس معاملہ میں سب سے زیادہ نازک (crucial) با ت یہ ہے کہ حقیقی قائد کو اکثر کوئی غیر مقبول فیصلہ (unpopular decision) لینا پڑتا ہے۔ یعنی ایک ایسا فیصلہ جو عوامی مزاج کے مطابق نہ ہو۔ مگر صورت حال کے مطابق اس فیصلہ سے قوم کا نیا مستقبل بننے والا ہو۔ یہ صورت حال مذہبی قائد کے ساتھ بھی پیش آتی ہے اور غیر مذہبی قائد کے ساتھ بھی۔
مذہبی اعتبار سے اس کی ایک مثال یہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے موقع پر فریقِ ثانی سے یَک طرفہ صلح کا معاہدہ کیا۔ یہ معاہدہ آپ کے ساتھیوں کے لیے سخت ناگوار تھا۔ حتیٰ کہ عمر فاروق نے اس کو دنیئہ (ذلیل) معاہدہ قرار دیا۔ لوگ اس معاہدہ کی تاریخی اہمیت صرف اس وقت سمجھ سکے جب کہ دو سال بعد اس کا شان دار نتیجہ سامنے آیا۔ اسی طرح غیر مذہبی دائرہ میں اسی کی ایک مثال فرانس کے ایک سابق صدر جنرل ڈیگال کی ہے۔ افریقہ کے فرانسیسی مقبوضات کو آزاد کرنے کے بعد وہ فرانس کے عوام میں بے حد غیر مقبول ہوگئے۔ مگر آج تمام لوگ اس کے فیصلہ کو ایک ایسا فیصلہ قرار دیتے ہیں جو گہری دانش مندی پر مبنی تھا۔
یہی معاملہ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کا ہے۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں کا کو ئی قائد نہیں۔ مگر یہ بات خدا کے تخلیقی نقشہ کو رد کرنے کے ہم معنٰی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خدا آج بھی مسلمانوں میں قائدانہ اوصاف والے افراد پیدا کررہا ہے مگر موجودہ مسلمان اپنے بگڑے ہوئے مزاج کی بنا پر اس کو قبول نہیں کرپاتے۔ قائد بلاشبہہ موجود ہیں مگر مسلمانوں کی عدم قبولیت کی بنا پر وہ اپنا قائدانہ کردار ادا کرنے سے قاصر ہو رہے ہیں۔
موجودہ زمانہ میں مسلمان جس حالت میں ہیں اس میں سب سے پہلا کام یہ معلوم کرنا ہے کہ ان کی تعمیرِ نَو کا نُقطۂ آغاز (starting point) کیا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کا جواب صرف ایک ہے۔ اور وہ یہ کہ مسلمانوں کے اندر منفی سوچ (negative thinking) کو مکمل طورپر ختم کیا جائے، اور اس کے بجائے ان کے اندر مثبت سوچ (positive thinking) لائی جائے۔ کسی قوم کی حقیقی تعمیر صرف مثبت انداز فکر کے ذریعہ ہوتی ہے، منفی انداز فکر کے ذریعہ کبھی کسی قوم کی تعمیر نہیں ہوتی۔
موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ، مثلاً انڈیا میں، ہندوؤں کو پرومسلم اور اینٹی مسلم کے خانوں میں بانٹے ہوئے ہیں۔ اسی طرح عالمی سطح پر ان کا حال یہ ہے کہ وہ ، مثلاً امریکا کو اسلام دشمن اور چین کو اسلام دوست سمجھتے ہیں۔ انسانوں کو اس طرح دو قسموں میں بانٹنا ایک ایسی مہلک غلطی ہے جس کے بعد حقیقی معنوں میں ملی تعمیر کا کوئی امکان ہی نہیں۔
اس طرح طریق عمل کے بارے میں ساری دنیا کے مسلمان جہادی طریق کار کو اپنے مسئلہ کا واحد حل سمجھنے لگے ہیں۔ایسی حالت میں جو شخص دعوتی طریقِ کار کی طرف مسلمانوں کو بلائے تو وہ ان کو اپیل نہیں کرتا۔ حالانکہ موجودہ حالات میں جہادی طریق کار صرف بے فائدہ لڑائی کے ہم معنٰی ہے۔ جب کہ دعوتی طریق کار ابدی طورپر ایک نتیجہ خیز (result oriented) جدوجہد کی حیثیت رکھتا ہے۔
موجودہ زمانہ میں جو بھی حقیقی قائد ہوگا وہ مسلمانوں کو یہ پیغام دے گا کہ تم لوگ ساری دنیا کو یکساں طور پر انسان کی نظر سے دیکھو نہ کہ دوست اور دشمن کی نظر سے۔ اس طرح وہ کہے گا کہ تم جہاد کے نام پر کی جانے والی مسلح جدو جہد کو چھوڑو اور پر امن دعوتی جدوجہد کو اختیار کرو۔ مگر مسلمانوں کے بگڑے ہوئے مزاج کی بنا پر یہ باتیں مسلمانوں کو اپیل نہیں کریں گی۔ قائد موجود ہوگا مگر قائد اپنا قیادتی کردار ادا کرنے میں ناکام رہے گا۔
ایسی حالت میں مسلمانوںکے اندر کسی حقیقی آغاز کی صورت صرف یہ ہے کہ خدا کے کچھ بندے وہ قربانی دیں جو اس دنیا میں بلا شبہہ سب سے بڑی قربانی ہے۔ یعنی وہ غیر مقبول بننے کی قیمت پر مسلمانوں کو وہ رہنمائی دیں جو حقیقت کے اعتبار سے سچی رہنمائی ہو۔ اس قسم کی رہنمائی ابتدائی طورپر انہیں غیر مقبول بنادے گی ۔ مگر یہ بھی یقینی ہے کہ مسلمانوں کی اگلی نسلیں اس کو سمجھیں گی اور دل سے اُس کا اعتراف کریں گی۔
اصل یہ ہے کہ قیادت کا مسئلہ پچاس فیصد قائد سے تعلق رکھتا ہے اور پچاس فیصد زیرِقیادت قوم سے۔ قائداگر اعلیٰ صلاحیت کا حامل ہو تب بھی قوم کے اندر صحیح مزاج ہونا چاہیے۔ اگر قوم کے اندر صحیح مزاج نہ ہو تو اعلیٰ صلاحیت کے باوجود قوم اپنے قائد کو رد کردے گی۔ قائد اپنے منصوبہ کو مکمل کرنے میں ناکام رہے گا۔
موجودہ زمانہ کی مسلم دنیا میںاس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ افغانستان میںامان اللہ خاں، پاکستان میںمحمد ایوب خاں اور ہندستان میں ابوالکلام آزاد اس کی نمایاں مثالیں ہیں۔ یہ تینوں افراد مسلّمہ طور پر اعلیٰ قیادتی اوصاف کے حامل تھے۔ مگر اُن کی قوم نے ان کو قبول نہیں کیا۔ چنانچہ یہ تینوں قائد اپنی قیادتی خدمت انجام دیے بغیر اِس دنیا سے چلے گئے۔
اس معاملہ میں اصل مسئلہ قائد کی تعمیر کا نہیں ہے بلکہ قوم کے مزاج کی تعمیر کا ہے۔ قائد تو خود فطری قانون کے تحت ہمیشہ پیدا ہوتا ہے۔ لیکن یہ قوم کے مزاج پر منحصر ہو تا ہے کہ قائد کو عمل کا موقع ملے گا یا نہیں۔ اس لیے صالح قیادت کی تشکیل کا آغاز قوم کے اندر صالح مزاج کی تشکیل سے ہونا چاہیے، نہ کہ اس شکایت سے کہ قوم کے اندر صالح قائد موجود نہیں۔ جس معاشرہ میں صالح مزاج موجود ہو وہاں لازماً صالح قائد بھی موجود ہوگا۔ اور جس معاشرہ میں صالح قائد موجود نہ ہو تو مزید تحقیق کے بغیر یہ مان لیجئے کہ قوم کے اندر صالح مزاج موجود نہیں ہے۔
واپس اوپر جائیں

کلمۂ معرفت

صحیح البخاری میں روایات کی کُل تعداد (مکرَّرات سمیت) ۷۵۶۳ ہے۔ اس مجموعہ کی آخری حدیث یہ ہے: کلمتان حبیبتان إلی الرحمن، خفیفتان علی اللسان، ثقیلتان فی المیزان: سُبحان اللہ وبحمدہٖ، سبحان اللہ العظیم۔ (دو کلمے رحمن کو بہت محبوب ہیں، وہ زبان پر ہلکے ہیں مگر وہ میزان میں بھاری ہیں۔ وہ دو کلمے یہ ہیں: سبحان اللہ وبحمدہ، سبحان اللہ العظیم۔
اِس حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سبحان اللہ و بحمدہ، سبحان اللہ العظیم کے الفاظ میں پُر اسرار خواص چھپے ہوئے ہیں اور ان الفاظ کو زبان سے ادا کرتے ہی طلسماتی طورپر ان کے یہ خواص ظاہر ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح اس حدیث کا یہ مطلب بھی نہیں کہ سبحان اللہ وبحمدہ، سبحان اللہ العظیم کے الفاظ میں پُراسرار طورپر وزن چھپا ہوا ہے اور قیامت کے تراز و میں رکھتے ہی وہ پلڑے کو جھکا دیں گے۔ ترازو کی تَول میں ان الفاظ کا بھاری ہونا در اصل تمثیل کی زبان میں ہے، نہ کہ حقیقت کی زبان میں۔ اس سے مراد اس کلمہ کا معنوی وزن ہے، نہ کہ مادی وزن۔
اصل یہ ہے کہ انسان کے تمام اعمال میں سب سے بڑا عمل خدا کی معرفت ہے۔ یعنی خداوندِعالّم کو شعوری طورپر دریافت کرنااور اس دریافت کا انسان کی پوری شخصیت میں اُتر جانا۔ سبحان اللہ وبحمدہ، سبحان اللہ العظیم در اصل معرفتِ خداوندی کے کلمے ہیں۔ جب ایک انسان خدا کی ذات کو اِس حیثیت سے دریافت کرتا ہے کہ وہ ہمہ تن پاک ہے، وہی ہر قسم کی تعریف اور شکر کا مستحق ہے۔ وہ تمام عظمتوں کا تنہا مالک ہے۔ یہ دریافت جب شدتِ یقین کے ساتھ کسی انسان کی زبان پر ایک شعوری اظہارکے طورپر جاری ہو جائے تو وہ کائنات کا سب سے بڑا عمل ہوتا ہے۔ وہ اتنا عظیم ہوتا ہے کہ ہر دوسری چیز اس کے مقابلہ میں چھوٹی قرار پائے۔
معرفت سب سے بڑی عبادت ہے۔ یہ شعورکی سطح پر خدا کو پالینا ہے۔ معرفت اپنی حقیقت کے اعتبار سے کسی آدمی کی داخلی شخصیت کے اندر وجود میں آنے والا ایک واقعہ ہے۔ یہ واقعہ جب کسی انسان کے اندر وجود میں آتا ہے تو وہ اس کے اندر ایک روحانی طوفان برپا کردیتا ہے۔ اس طوفانی تجربہ کے وقت اس کی زبان سے وہ روحانی الفاظ جاری ہوجاتے ہیں جن کا ذِکر اوپر کی حدیث میں کیاگیا ہے۔
مذکورہ کلمہ کے بارہ میں حدیث میں بتایا گیا ہے کہ وہ زبان سے کہنے میں ہلکے ہیں مگر وہ اجر کے اعتبار سے بھاری ہیں۔ میرے علم کے مطابق، شارحین اس بیان کی زیادہ بامعنٰی تشریح نہ کرسکے۔ اصل یہ ہے کہ اس کلمہ کا بھاری ہونا اس لیے نہیں ہے کہ خود یہ کلمہ بھاری ہے۔ اس کا تعلق کلمہ سے نہیں ہے بلکہ معرفت سے ہے۔
اس حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سبحان اللہ وبحمدہ، سبحان اللہ العظیم کے الفاظ میں کوئی پُراسرار صفت ہے۔ اس لیے وہ میزان میں بھاری ہوجاتے ہیں۔ اس کا تعلق کلمہ کی داخلی حقیقت سے ہے، نہ کہ کلمہ کے ظاہری الفاظ سے۔ یہ کلمہ معرفتِ الٰہی کا کلمہ ہے۔ معرفتِ الٰہی اور اس کا اظہار بِلا شبہہ سب سے بڑی عبادت ہے۔ جن کلمات میں یہ معرفت شامل ہو جائے ان کلمات کو وہ ناقابلِ بیان حدتک عظیم بنادیتی ہے۔
مزید یہ کہ ان کلمات کو محض زبان سے ادا کرنا کسی کو مذکورہ عظیم اجر کا مستحق نہیں بناتا۔ اس عظیم اجر کا مستحق صرف وہ شخص ہے جس نے مطلوب عارفانہ کیفیت کے ساتھ اُس کو ادا کیا ہو۔ ان کلمات کی ادائیگی کا معاملہ بھی وہی ہے جو دوسرے دینی اعمال کامعاملہ ہے۔ کوئی بھی دینی عمل اپنی کیفیت کے اعتبار سے عظیم یا غیر عظیم بنتا ہے۔ اسی طرح یہ کلمات بھی اُسی وقت عظیم ہیں جب کہ وہ داخلی کیفیت کے ایک فطری اظہار کے طورپر زبان سے نکلے ہوں۔ عارفانہ کیفیت کے بغیر صرف زبان سے الفاظ کی ادائیگی کوئی دینی قدر وقیمت نہیں رکھتی۔
واپس اوپر جائیں

اعلیٰ عبادت

ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: المؤمن الذی یخالط الناس ویصبر علی اذاہم أعظم اجراً من الذی لا یخالطہم ولا یصبر علی أذاہم (ابن ماجہ، کتاب الفتن، الترمذی، کتاب القیامۃ، مسند احمد ۲؍۴۳) یعنی وہ مومن جو لوگوں کے ساتھ اختلاط کرتا ہے اور ان کی ایذاؤں پر صبر کرتا ہے اس کا اجراس مومن سے زیادہ بڑا ہے جو کہ لوگوں کے ساتھ اختلاط نہیں کرتا اور ان کی ایذاؤں پر صبر نہیں کرتا۔
اس حدیث میں اِختلاط(interaction) سے مراد سادہ طورپر صرف اختلاط نہیں ہے۔ بلکہ اس سے مراد وہ اختلاط ہے جس کے نتیجہ میں لوگوں کی طرف سے ایذاء کا تجربہ پیش آئے۔ اختلاط اپنے آپ میں ایذاء کا سبب نہیں ہے۔ اگر آپ لوگوں سے اس طرح ملیں کہ لوگوں سے میٹھے انداز میں بولیں، لوگوں کے ساتھ سمجھوتے کا طریقہ اختیار کریں، آپ لوگوں سے تفریحی باتیں کریں، آپ اپنے کلام میں وہ باتیں بولیں جو لوگ سننا چاہتے ہیں تو آپ لوگوں کی نظر میں ہر دِل عزیز بن جائیں گے۔ پھر آپ کو لوگوں کی طرف سے صرف اچھے سلوک کا تجربہ پیش آئے گا۔
مثلاً اگر آپ دو قوموں کے جھگڑے میںاپنی قوم کی ہر حال میں وکالت کریں اور دوسری قوم کو ہر حال میںبُرا بتائیں تو یقینی طورپر آپ کی قوم آپ کو اپنا ہیرو بنا لے گی۔ اگر آپ لوگوں کو ایسی باتیں بتائیں جس میں ان کو اپنے فخر پسند مزاج کی غذا ملتی ہو تو کوئی آپ کو کیوں ستائے گا۔ اگر آپ لوگوں کو ایسی کہانیاں سُنائیں جن میں انہیں سَستی قیمت پر جنت مل رہی ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ لوگ آپ کو ستانے کے لیے کھڑے ہوجائیں۔ لوگوں کے اقتصادی مطالبات، ان کی قومی شکایتیں، ان کے سیاسی موقف کو درست مان کر اگر آپ وہ بولی بولیں جس میں انہیں اپنا موقف درست نظر آتا ہو تو کوئی شخص بھی آپ کو ستانے والا نہیں ملے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ حدیث میں اختلاط سے مراد مُجرَّد اختلاط نہیں ہے۔ بلکہ اِس سے مراد وہ اختلاط ہے جس میں آپ وہ باتیں کہیں جو لوگوں کے مزاج کے خلاف ہو۔ جس میں ان کے موقف کو غلط ٹھہرایا گیا ہو۔ جس میں انہیں ان کی غلطیوں پر سرزنش کی گئی ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ اس حدیث میں اختلاط سے مراد وہ اختلاط ہے جس میں آپ لوگوں کے غلط رویّے کی نشاندہی کرکے ان پَر تنقید کریں، جس میں آپ لوگوں سے ان کی روش میں تبدیلی کا مطالبہ کریں، آپ لوگوں سے ایسی باتیں کہیں جس میں لوگوں کو اپنا وجود غلط نظر آنے لگے۔
اِس دوسری صورت میں ایسا ہوتا ہے کہ لوگوں کی طرف سے آپ کو ایذا رسانی کا تجربہ ہوتا ہے۔ لوگ آپ کی تنقیدی باتوں پر بھڑک کر آپ کے مخالف بن جاتے ہیں۔ لوگ اپنے آپ کو جائز ٹھہرانے کے لیے آپ کی کردار کُشی کرنے لگتے ہیں۔ ایسا شخص لوگوں کے لیے ان کو برہنہ (expose) کرنے کا سبب بن جاتا ہے۔
لوگوں کی طرف سے ایذا رسانی کا یہ تجربہ خاص طور پر اُس وقت پیش آتا ہے جب کہ آپ شریعت کے اُس حکم پر عمل کریں جس کو ’’امر بالمعروف اور نہی عن المنکَر‘‘کہاگیا ہے، یعنی لوگوںکو معروف کا حکم کرنا اور اُن کو منکر سے روکنا۔ اس عمل میں لازماً ایسا ہوتا ہے کہ آپ کو لوگوں کا احتساب کرنا پڑتا ہے۔ لوگوں کے اوپر تنقید کرنے کی صورتیں پیش آتی ہیں۔ لوگ جن برائیوں میں مبتلا ہیں اُن پر اُنہیں ٹوکنا پڑتا ہے۔ حتیٰ کہ اگر لوگ جہاد کے نام پر تشدد کررہے ہوں تو ان کی مذمت کرنی پڑتی ہے۔ اگر اکابر کے نام پر اُنہوں نے غلط کو صحیح بنا رکھا ہو تو اُس کا تجزیہ کرکے بتانا پڑتا ہے کہ حقیقی معنوں میں صحیح کیا ہے اور غلط کیا۔ اگر وہ اپنے قومی مفاد کے لیے دین کا استحصال کررہے ہوں تو اُس کے خلاف کھل کر بولنا پڑتا ہے کہ حقیقی معنوں میں صحیح کیا ہے اور غلط کیا۔ اختلاط کی یہی وہ صورتیں ہیں جو اختلاط کو ایذا رسانی کے ہم معنٰی بنادیتی ہیں۔مزید یہ کہ داعی جب مَدعو قوم کے ساتھ دعوتی اختلاط کرتا ہے تو اُس وقت داعی کو مَدعو قوم کی بہت سی نارَوا چیزوں اور رسومات کو گوارا کرنا پڑتا ہے، جو اُس کے لیے اجنبی اور نادرست ہوتی ہیں۔ یہ چیزیں داعی کے لیے تکلیف دہ ہوتی ہیں۔ مگر دعوتی کام کی یہ لازمی قیمت ہے۔ اِس کے بغیر دعوتی عمل ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں

تاریخ گواہ ہے

قرآن کی سورہ نمبر ۱۰۳ میں زندگی کی حقیقت بتائی گئی ہے۔ اس سورہ کا ترجمہ یہ ہے: زمانہ کی قَسم، بے شک انسان گھاٹے میں ہے۔سِوا اُن لوگوں کے جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کئے اور انہوں نے ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کی اور انہوں نے ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی (العصر)
قرآن کی اس سورہ میں قسم سے مراد گواہی ہے اور زمانہ سے مراد تاریخ۔ یعنی انسانی تاریخ گواہ ہے کہ اس دنیا میں بیشتر انسانوں کا کیس ناکامی کا کیس ہے۔ اس سے مستثنیٰ صرف وہ لوگ ہیں جو دنیا کی زندگی میں ایمان اور عمل صالح کا ثبوت دیں اور جو لوگوں کے درمیان اس طرح رہیں کہ وہ انہیں حق کا پیغام پہنچارہے ہوں اور انہیں صبر کی تلقین کررہے ہوں۔
اصل یہ ہے کہ انسان پیدائشی طورپرایک مُتلاشیِ لذت حیوان (pleasure-seeking animal) ہے۔ یہ انسان کی استثنائی صفت ہے ۔ ساری کائنات میں کوئی بھی دوسری معلوم مخلوق نہیں جو اپنے اندر لذت اور مسرت کی طلب لئے ہوئے ہو۔
اسی فطری مزاج کی بنا پر ایساہوتا ہے کہ ہر انسان جو اس دنیا میں پیدا ہوتا ہے وہ اپنی ساری کوشش اس میں لگا دیتا ہے کہ وہ اپنی خواہش کے مطابق اپنے لیے خوشیوں کی ایک دنیا بنا سکے مگر تاریخ بتاتی ہے کہ کوئی بھی انسان اپنی کوشش میں کامیاب نہ ہوسکا۔ اس کی کوشش مکمل بھی نہیں ہوپاتی، یہاں تک کہ اس پر موت آجاتی ہے اور وہ اچانک اس میدان عمل سے ہٹا دیا جاتا ہے۔
اس عمومی ناکامی کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انسان کی طلب یا اس کی خواہش لامحدود ہے جب کہ موجودہ دنیا ایک محدود دنیا ہے۔ طلب اور مقامِ طلب کے درمیان یہی وہ تضاد ہے جس کی بنا پر کوئی بھی شخص موت سے پہلے اپنی مطلوب دنیا کی تعمیر نہیں کرپاتا۔
مذکورہ آیت میں ایمان سے مراد اسی حقیقت کی دریافت ہے اور عمل صالح سے مراد اس دریافت کے مطابق عمل کرنا۔ جو لوگ زندگی کی اس حقیقت کو جان لیںاور وہ اس کے مطابق اپنی سرگرمیوں کا منصوبہ بنائیں وہ مذکورہ عموم سے مستثنیٰ لوگ ہیں۔ کیوں کہ وہ اس دریافت کی بنا پر یہ جان لیتے ہیں کہ موجودہ دنیا ان کے لیے اپنا مطلوب پانے کی جگہ نہیں۔ موجودہ دنیا جنت کا استحقاق ثابت کرنے کی جگہ ہے، وہ جنت کو عملاً پانے کی جگہ نہیں۔
سورہ کے آخری حصہ میں یہ حقیقت بتائی گئی ہے کہ سچی دریافت ہمیشہ دعوت بن جاتی ہے۔ دریافت اور دعوت دونوں جُڑے ہوئے ہیں۔ مزید یہ کہ دعوت اپنی حقیقت کے اعتبار سے یک طرفہ پیغام رسانی کا عمل نہیں، وہ دو طرفہ نوعیت کی چیز ہے—وہ تعلیم بھی ہے اور اسی کے ساتھ تعلّم بھی ۔
دریافت ہمیشہ اظہار چاہتی ہے۔ اظہار کی یہ اسپرٹ آدمی کو تنہا رہنے نہیں دیتی، وہ اس کو دوسروں کے ساتھ جوڑ دیتی ہے۔ اس طرح دعوت کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ آدمی کا دوسروں کے ساتھ ڈائیلاگ اور ڈسکشن شروع ہوجاتا ہے۔ دوسروں کے ساتھ اس کا فکری تبادلہ (intellectual exchange) جاری رہتا ہے۔
اس اجتماعی عمل کے دو بنیادی نکتے ہوتے ہیں۔ ایک ہے، دریافت کی ہوئی سچائی کا دوسروں میں چرچا کرنا اور اسی کے ساتھ دوسروں کی طرف سے پیش آنے والی ناخوشگواریوں پر صبر کرنا۔ حق کا ظہور ہمیشہ نزاع کا سبب بنتا ہے اور حق پرست آدمی کے لیے نزاع سے نپٹنے کا سب سے زیادہ موثر طریقہ یہ ہے کہ وہ اس کے مقابلہ میں صبر اور اعراض کی روش اختیار کرے۔
واپس اوپر جائیں

قصور اپنا نکل آیا

۸ جولائی۲۰۰۵کو ایک مسلمان بزرگ مجھ سے ملے۔ اُن کے ساتھ ان کی اہلیہ بھی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم آپ کے پاس مشورہ کے لیے آئے ہیں۔ پھر اُنہوں نے بتایا کہ اُن کا ایک بیٹا ہے۔ اس نے کمپیوٹر کی تعلیم حاصل کی ہے۔ شادی سے پہلے وہ ہمارا بہت فرماں بردار تھا۔ مگر شادی کے بَعد وہ بدل گیا ہے۔ اب وہ ہمارا زیادہ خیال نہیں رکھتا۔ آپ ہم کو کوئی وظیفہ یا دعاء بتائیں جس سے ہمارا بیٹا دوبارہ پہلے کی طرح ہمارا خیال رکھے۔
میں نے اُن سے پوچھا کہ آپ اپنے بیٹے کے لیے جو بہو لائے ہیں وہ زیادہ خوبصورت ہے یا معمولی صورت کی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ خوبصورت ہے۔ میں نے کہا کہ یہی آپ کے مسئلے کی جَڑ ہے۔ آپ لوگ اپنی نادانی سے خود ایک مسئلہ پیدا کرتے ہیں اور پھر اس کی ذمّے داری دوسروں کے اوپر ڈال دیتے ہیں۔ یہ مسئلہ وظیفہ پڑھنے سے حل نہیں ہوگا۔ اس کے لیے ضرورت ہے کہ آپ اپنی سوچ کو درست کریں۔
میں نے کہا کہ آپ جیسے لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے بیٹے کی محبت میں تلاش کرکے خوبصورت بَہو لاتے ہیں، اور یہ خوبصورت بہو آکر جب فطر ی طور پر آپ کے بیٹے پر قبضہ کرلیتی ہے تو آپ بہو پر غصہ ہوتے ہیں کہ اُس نے میرے بیٹے کو مجھ سے چھین لیا یا یہ شکایت کرتے ہیں کہ میرا بیٹا اب میرا فرماں بردار نہیں رہا۔ یہ ایک ایسی غلطی ہے جس میں اکثر ماں باپ مبتلا رہتے ہیں۔ آپ کو یہ جاننا چاہیے کہ خوبصورت بَہو جب گھر میں آئے گی تو اس کے بعد لازماً یہ ہوگا کہ وہ بیٹے کی توجہ کا مرکز بن جائے گی۔ نوجوان بیٹے کی دل چسپیاں فطری طورپر اپنے ماں باپ سے زیادہ اپنی خوبصورت بیوی سے وابستہ ہو جائیں گی۔
آپ جیسے والدین کو چاہیے کہ وہ اگربیٹے کو اپنا فرماں بردار دیکھنا چاہتے ہیں تو اُس کے لیے زیادہ خوبصورت بیوی تلاش نہ کریں۔ اور اگر وہ اس کے لیے خوبصورت بیوی لاتے ہیں تو اُن کو ذہنی طور پر پہلے ہی سے اس کے لیے تیّار رہنا چاہیے کہ اب بیٹے کی دلچسپیوں کا مرکزاس کی بیوی ہوگی نہ کہ اس کے والدین۔
واپس اوپر جائیں

سوال وجواب

سوال
آپ کہتے ہیں کہ علم کی کمی انسان کو خدا سے دور کردیتی ہے اور زیادہ علم خدا سے قریب کر دیتا ہے، تو پھر ایسا کیوںہے کہ جاہل لوگ ہی ہر معاملہ میں اسلامی کام کرتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کو وہ اچھے سے پکڑتے ہیں اور عمل کرتے ہیں۔ جب کہ عالم ایسا نہیں کرتے۔ جاہل لوگ فوراً مسجد، مدرسہ اور فقیر کو چندہ دے دیتے ہیں۔ مگر عالم لوگ ایسا بہت کم کرتے ہیں۔ عالم حضرات اگر کچھ کرتے بھی ہیں تو اس کا خوب پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ تو ایسی حالت میں یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ علم کی کمی انسان کو خدا سے دور کردیتی ہے۔ (شاہ عمران حسن، مونگیر،بہار)
جواب
علم اور بے علمی کے بارے میں جو بات میںنے لکھی ہے وہ کوئی میری بات نہیں۔ یہ بات خود قرآن میں موجود ہے۔ مثلاً قرآن میں فرمایا کہ اللہ سے وہی لوگ ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں (فاطر ۲۸) اسی طرح قرآن میں ایسی آیتیں بھی ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ ہدایت سے محروم وہ لوگ رہتے ہیں جو علم نہیں رکھتے۔ (البقرہ ۷۵)
اصل یہ ہے کہ جب بھی کوئی لفظ استعمال کیا جائے تو اس میں اپنے آپ وہ چیز شامل ہوتی ہے۔ کوئی بھی لفظ بالکل مجرد معنوں میں صرف ڈکشنری میں استعمال ہوسکتا ہے۔ کسی بامعنٰی کلام میں ایسا کبھی نہیں ہوتا۔
’’زیادہ علم انسان کو خدا سے قریب کردیتا ہے‘‘ اس جملہ میں یہ بات اپنے آپ شامل ہے کہ وہ علم جس کے ساتھ سنجیدگی بھی شامل ہو۔ سنجیدگی (sincerity) کے بغیر کوئی علم علم نہیں۔یہ بات ہر انسان کے بارے میں صحیح ہے۔ مثلاً سوال کرنے والا اگر سنجیدہ نہ ہو تو وہ علم کے باوجود غیر متعلق سوال کرے گا۔ غیر سنجیدہ آدمی ایک عبارت کو پڑھے گا اور علم کے باوجود اس سے الٹا مطلب نکالے گا۔ ایک غیر علم والے کے سامنے کوئی دلیل لائی جائے گی جو نہایت واضح ہوگی لیکن سننے والا اگر سنجیدہ نہیں ہے تو وہ دلیل کو نہیں مانے گا اور ایک عجیب و غریب شوشہ نکال کر اس کو رد کردے گا۔
علم بلاشبہہ تمام انسانی خوبیوں کی جڑ ہے۔ مگر اس سے مراد صرف وہ علم ہے جس کے ساتھ سنجیدگی موجود ہو۔ سنجیدہ عالم کے بارے میں امید کی جاسکتی ہے کہ وہ ایک قابل پیشین گوئی رد عمل (predictable reaction) کا ثبوت دے گا۔ مگر جس شخص کے پاس علم تو ہو لیکن اس کے پاس سنجیدگی نہ ہو تو اس کے بارے میں کوئی بھی پیشین گوئی نہیں کی جاسکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ سنجیدگی علم کو بامعنٰی بناتی ہے۔ اور جہاں سنجیدگی نہ ہو وہاں علم کے باوجود معنویت پائی نہیں جائے گی۔
سوال
اگر کسی مسلمان نے اپنی بیوی کو غصّے میں ٹیلیفون پر بول دیا کہ میں نے تجھے تین طلاق یعنی طلاق ، طلاق اور طلاق دے دیا۔ اور بیوی نے اس کو قبول نہیں کیا اور گواہ بھی کوئی نہیں تھا۔ پھر بعد میں مرد کو غلطی کا احساس ہوا، اس نے توبہ کی۔ تو کیا پھر یہ دونوں دوبارہ میاں بیوی کی طرح رہ سکتے ہیں۔ جواب سے مطلع فرمائیں ۔(ایک قاری، الرسالہ)
جواب
مذکورہ مسلمان نے جو فعل کیا وہ میرے نزدیک طلاق نہیں تھا بلکہ سرکشی تھی۔ اس قسم کے واقعات پر طلاق کا واقع کرنا میرے نزدیک درست نہیں۔ البتہ ایسا شخص شریعت کی بے حرمتی کرنے اور شریعت کو کھلواڑ بنانے کا مجرم ہے۔ ایسا آدمی در اصل سزا کا مستحق ہے۔ اس کو میرے نزدیک ایک سو کوڑے مارے جانے چاہئیں مگر کوڑا مارنے کا کام کوئی فرد یا جماعت نہیں کرسکتی ہے۔ یہ کام ایک اسٹیٹ کے تحت قائم شدہ عدالت کے ذریعہ ہونا چاہیے۔
سوال
الرسالہ دسمبر ۱۹۹۵ میں آپ کا ایک سفر نامہ (بڑودہ کا سفر) پڑھا۔ اس کے صفحہ نمبر ۳۵ کے پیراگراف تین میں آپ نے ایک بات لکھی ’’ختم نبوت کے بعد مسلمان مقامِ نبوت پر ہیں‘‘ اس سے صاف طور پریہی معنٰی اخذ کیا جاسکتاہے کہ مِن حیثُ القوم مسلمان نبی ہیں اور ان کے اندر روحانی صلاحیت، یہاں تک کہ وحی کا نازل ہونا بھی ہے۔ یہ بات میری سمجھ سے باہر ہے۔ آپ اس کو قرآن وحدیث کی روشنی میں واضح کریں۔ (نوشاد علی، گورکھپور)
جواب
’’امت محمدی مقام نبوت پر ہے ‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ امت محمدی ذمہ داری کے اعتبار سے مقام نبوت پر ہے۔ اس جملہ میں امت محمدی کی داعیانہ ذمہ داری کو بتایا گیا ہے نہ یہ کہ امت محمدی خود پیغمبرانہ صفات رکھتی ہے۔ یعنی امت محمدی خود پیغمبر نہیں مگر ختم نبوت کے بعد اس کو دنیا میں پیغمبر والا دعوتی کام انجام دینا ہے۔
اس بات کو قرآن وحدیث میں مختلف الفاظ میں بیان کیاگیا ہے۔ مثلاً حَجۃ الوداع کے خطبہ میں رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ان اللہ بعثنی للناس کافۃ فادوا عنی۔ یعنی اللہ نے مجھ کو تمام دنیا کے لوگو ں کی طرف پیغمبر بنا کر بھیجا ہے، پس تم میری طرف سے لوگوں تک میرا پیغام پہنچا دو۔ اسی طرح حدیث میں آیا ہے کہ المسلمون شہداء اللہ فی الأرض(مسلمان زمین میںاللہ کے گواہ ہیں)۔
امت محمدی کی یہ حیثیت اس لیے ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت ختم ہوگئی مگر کارِ نبوت بدستور باقی ہے۔ اس لیے امت محمدی پر بیک وقت دو ذمہ داری ہے، ایک یہ کہ وہ اپنے آپ کو پیغمبر کی تعلیم کے مطابق بنائے۔ اور دوسرے یہ کہ پیغمبر کے بعد وہ پیغمبر کی تعلیمات کو نسل در نسل دوسروں تک پہنچاتی رہے۔ یہی دوگُنا ذمہ داری ہے جس کی بنا پر امت محمدی کا ثواب زیادہ رکھا گیا ہے۔ مگر یہ ثواب محض پیغمبر سے انتساب کی بنا پر نہیں ہے۔ اس ثواب کے مستحق صرف وہ لوگ قرار پائیں گے جو فی الواقع مذکورہ دونوں قسم کی ذمہ داریوں کو ادا کریں۔
سوال
۱۔ تبلیغی والے کہتے ہیں کہ ہمارے بڑوں کے ہاتھ پر بیعت کرو۔ میں نے کہا کہ میں نے قلمی بیعت مولانا سے کر لی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بیعت نہیں ہے۔ کیوں کہ اپنے مُرَبّی کے ساتھ مہینے میں ایک بار ملاقات ضروری ہے۔ اس لیے یہ بیعت کیسے ہوسکتی ہے۔ کیا بیعت کرنا ضروری ہے۔ اگر ضروری ہے تو اس کا شرعی اصول کیا ہے۔
۲۔ آپ کی معرفت اسلام کے بارے میںبات کرنا لوگوں کو بہت عجیب لگتا ہے۔ خاص کر کشمیر میں جب بھی جماعت اسلامی کے کسی فرد سے بات کی جاتی ہے تو وہ عجیب و غریب باتیں کرتا ہے جو صرف بے بنیادالزام ہوتا ہے۔ مجھے حال میںایک کتاب پڑھنے کو ملی ’’وحید الدین خان کی گمراہیاں‘‘۔ مطالعہ کے بعد ایسا لگا کہ اس کا نام ہونا چاہیے تھا ’’وحید الدین خان پر بے بنیاد الزامات‘‘۔ اس میں جو نکتے اٹھائے گئے ہیں ان کا مجھ جیسا کم علم بھی جواب دے سکتا ہے۔ آخر لوگ آپ کے متعلق غلط فہمیوں کا شکار کیوں ہیں۔
۳۔ کیا چمڑے کے موزے پر ہی مسح جائز ہے۔ جیسا کہ تبلیغی جماعت کہتی ہے۔ مجھے یہ تنگ ذہنیت لگتی ہے۔ نیز کیا گھر میں یا مسجد میں فضائل اعمال کا مطالعہ کرنا چاہیے یا قرآن کریم کا۔
۴۔ آپ کے ہم خیال بہت سارے لوگ یہاں موجود ہیں لیکن غیر منظم ہیں۔ اس کی تنظیم کی کیا صورت ہے۔ اس سلسلہ میں آپ ہماری رہنمائی کیجئے۔ (محمد یوسف شاہ)
جواب
۱۔ تبلیغی جماعت یا دوسرے حلقوںمیں بیعت کا جو طریقہ رائج ہے اس کی کوئی سند کتاب اور سنت میں موجود نہیں۔ یہ طریقہ ظہور اسلام کے کئی سو سال بعد مسلم صوفیاء نے رائج کیا۔ اگر اس کو بدعت نہ کہا جائے تب بھی یقینی طورپر وہ ایک اجتہادی معاملہ ہے۔ اور یہ ایک مسلّم بات ہے کہ کوئی اجتہادصرف ان افراد کے لیے لازم ہوسکتا ہے جنہوں نے یہ اجتہادکیا ہو یا جو اس کی صحت پر یقین رکھتے ہوں۔ دوسرے لوگوں کے لیے وہ نہ حجت ہے اور نہ کسی کو یہ حق ہے کہ وہ اس سے مذکورہ قسم کا مطالبہ کرے۔
بعدکے زمانہ میں بیعت کا جو طریقہ رائج ہوا، محتاط طورپر اس کو عملی ضرورت کہا جاسکتا ہے۔ اگر کچھ لوگ اس کو عملی ضرورت کے طورپر اختیار کریں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن جو لوگ اس کو اعتقادی یا شرعی مسئلہ بنائیں انہیں کتاب و سنت سے اس کی واضح دلیل دینا ہوگا۔ اگر وہ قرآن و سنت سے اس کی تائید میں ناقابل انکار دلیل نہ دے سکیں تو وہ خود قصوار وار ٹھہریں گے۔
۲۔ میرے خلاف جو لوگ بے بنیاد الزامات لگاتے ہیں اور بے اصل باتیں پھیلاتے ہیں، وہ صرف ہمارے اجر میں اضافہ کررہے ہیں۔ ایسے لوگوں کی باتوں کا جواب صرف یہ ہے کہ انہیں کوئی جواب نہ دیا جائے اور ان کے حق میں دعا کی جائے۔
۳۔ موزہ پر مسح کے بارے میں علماء عرب کا فتویٰ آچکا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ جس طرح چمڑے کے موزہ پر مسح کرناجائز ہے ٹھیک اسی طرح جدید طرز کے صنعتی موزوں پر مسح کرنا بھی جائز ہے۔ اس میں کوئی شرعی قباحت نہیں۔فضائل اعمال کے نام سے جو کتاب آج کل رائج ہے وہ دینی تعلیم کے لیے صرف ایک ناقص کتاب ہے۔ دینی تعلیم کے صحیح اور مفید ذریعے صرف تین ہیں— قرآن، سنت رسول اور سنت صحابہ۔ اس کے بعد کوئی بھی چوتھا ذریعہ مستقل حیثیت سے معتبر نہیں۔ ہر چوتھے ذریعہ کو قرآن و سنت پر جانچا جائے گا۔ اگر وہ کتاب و سنت کے مطابق ہے تو وہ قابل اعتبار ہے اور اگر وہ کتاب و سنت کے مطابق نہیں تو یقینی طورپر وہ قابل رد ہے۔ بطور خود اگر کچھ لوگ کسی چوتھے ذریعہ کو مقدس مان لیں تو ان کے ماننے سے وہ ذریعہ مقدس نہیں بنے گا۔ اس بارے میں علمائے راسخین کا مسلک ہمیشہ سے یہی رہا ہے۔
۴۔ آپ نے تنظیم کی بابت جو سوال کیا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ آپ دو چیز سے اپنے کام کا آغاز کریں، ہفتہ وار اجتماع اور الرسالہ کی ایجنسی۔ لوگوں کو منظم کرنے اور مقصد کی اشاعت کا صحیح آغاز یہی ہے۔ اگر آپ یہ دو کام شروع کردیں تو انشاء اللہ دھیرے دھیرے بقیہ تمام مقاصد حاصل ہوجائیں گے۔
سوال
الرسالہ کا شمارہ ستمبر ۲۰۰۴ پڑھا۔ صفحہ ۳۲ پر آپ رقم طراز ہیں کہ ایک باریش بزرگ سے آپ کی ملاقات ہوئی۔ وہ عرب امارات میں رہتے ہیں۔ اُنہوں نے ہندستان میں رہ کر الرسالہ پڑھا ہے۔ اب چونکہ وطن سے دور عرب امارات میں ان کی آپ سے ملاقات ہوئی تو اُنہوں نے آپ سے دریافت کیا کہ کیا الرسالہ ابھی نکل رہا ہے۔ آپ کو یہ بات سن کر بہت غصہ آیا۔ مگر آپ نے صرف جواباً کہا ’’کہ اگر میں آپ سے کہوں کہ کیا آپ کے فرزند ابھی تک زندہ ہیں تو آپ کا جواب کیا ہوگا‘‘۔
دراصل آپ کا یہ جواب غصہ کی علامت ہے۔ اگر آپ جواباً فرماتے کہ الحمد للہ ابھی تک جاری وساری ہے تو شاید بزرگ دوسری بات یہ کہتے کہ جناب میں الرسالہ کہاں سے منگواؤں۔ مگر قارئین جب آپ کا جواب پڑھتے ہیں تو لگتا ہے کہ یہ جواب مولانا وحید الدین خان صاحب کا نہیں ہوسکتا کیوں کہ الرسالہ سرے سے نصیحتوں کا رسالہ ہے۔ مجھے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ کم ازکم اس معاملہ میں آپ نے صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا۔ آپ جیسے داعی کا اس انداز میں بات کرنا شریعت اسلامی اور خود الرسالہ مشن کے تقاضوں کے برخلاف لگتا ہے۔ یہ جواب سن کر اُس بزرگ کے دل پر کیا بیتی ہوگی۔ اس کی ٹھیس میں یہاں بیٹھے بیٹھے محسوس کررہا ہوں۔ کیا آپ اس بزرگ کو معذرت کے ساتھ اس بارے میں تحریر فرمائیں گے۔ کیوں کہ غصہ کرنا مسلمان پر حرام ہے۔ یہ میں نے الرسالہ میں پڑھا ہے۔ (عبدالرشید بٹ، سوپور ، کشمیر)
جواب
یہ بات صحیح نہیں کہ اسلام میں غصہ کرنا حرام ہے۔ غصہ انسانی فطرت کا ایک حصہ ہے، وہ حرام کیسے ہوسکتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ آتا تھا۔چنانچہ آپ کے بارہ میں حدیثوں میںاس طرح کے الفاظ آتے ہیں کہ: اشتد غضبہ (آپ سخت غضب ناک ہوگئے) نامعقول بات پر غصہ آنا ایک فطری امر ہے۔ البتہ غصہ کو انتقام تک نہیں جانا چاہیے۔
مذکورہ صاحب کو میں نے جوجواب دیا وہ ان کی معروف نفسیات کے مطابق، معاملہ کو واضح کرنا تھا۔ اصل یہ ہے کہ ایک باپ کو اپنی اولاد سے جو گہرا تعلق ہوتا ہے وہی ایک صاحب مشن کو اپنے مشن سے ہوتا ہے۔ جس طرح یہ ایک نامعقول روش ہے کہ کسی باپ سے پوچھا جائے کہ کیا آپ کے فرزند زندہ ہیں، اسی طرح یہ بھی ایک سخت نامعقول روش ہے کہ کسی صاحب مشن سے یہ سوال کیا جائے کہ کیا آپ کا مشن ابھی تک چل رہا ہے۔ الرسالہ صاحبِ مشن کے لیے ایک مشن ہے، وہ عام معنوں میں محض ایک پرچہ نہیں۔ ایسی حالت میں مذکورہ سوال کا صحیح ترین جواب وہی ہوسکتا تھا جو اُنہیں دیا گیا۔
واپس اوپر جائیں

خبر نامہ اسلامی مرکز ۱۷۱

۱۔ اسلامی مرکز میں ہفتہ وار اسپریچول کلاس کا سلسلہ پابندی کے ساتھ جاری ہے۔ یہ کلاس ہر اتوار کو شام ۵ بجے سے ۷ بجے تک ہوتی ہے۔ ۱۵مئی ۲۰۰۵ سے اس میں ایک اضافہ کیا گیا ہے۔ مولانا محمد ذکوان ندوی کے تعاون سے ہر اتوار کی شام ساڑھے تین بجے سے پانچ بجے تک اردو اور عربی زبان کی کلاس ہوتی ہے۔ اس میں لوگ نہایت دلچسپی کے ساتھ شریک ہورہے ہیں۔ یہ ایک قسم کی لینگویج کلاس ہے۔ اس طرح ہر اتوار کو پہلے ڈیڑھ گھنٹہ کی لینگویج کلاس ہوتی ہے اور اس کے بعد د و گھنٹہ کی اسپریچول کلاس۔
۲۔ سائی انٹرنیشنل سینٹر (نئی دہلی) میں ۱۸ مئی ۲۰۰۵ کو ایک پروگرام ہوا۔ اس پروگرام میں آرمی اسکولوں کے پرنسپل شریک ہوئے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں ایک گھنٹہ کی تقریر کی۔ تقریر کا موضوع یہ تھا: بنیادی انسانی افکار اور اسلام۔ قرآن وحدیث میں دی ہوئی انسانی اور اخلاقی تعلیمات کو بتایا گیا۔ اس سلسلہ میں خصوصیت کے ساتھ یہ بات بتائی گئی کہ اسلام کی تعلیمات میں ایک اہم تعلیم وہ ہے جس کو محاسبۂ آخرت (accountability) کہا جاتا ہے۔ اسلام کی یہ تعلیم اخلاقی سلوک کے لیے محرک فراہم کرتی ہے۔یہ تعلیم حسنِ اخلاق کو ہر آدمی کا ذاتی انٹرسٹ بنا دیتی ہے۔ کیوں کہ اس کو یہ ڈر ہوتا ہے کہ اگر اُس نے دوسروں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا تو آخرت میں اُس کے ساتھ بھی اچھا سلوک نہیں کیا جائے گا۔
۳۔ ای ٹی وی (نئی دہلی) کی ٹیم نے ۱۹ مئی ۲۰۰۵ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر خود کُش بمباری کے بارے میں تھا۔ بتایا گیا کہ خود کُش بمباری اسلام میں حرام ہے۔ کسی بھی عذر کی بنا پر اس کو جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ خود کُش بمباری حملہ آور کے خلاف بھی جائز نہیں۔ خود کُش بمباری میں یہ ہوتا ہے کہ آدمی اپنے آپ کو مار کر دوسرے کو مارتا ہے۔ یہ واضح طورپر خود کُشی ہے۔ اس کو استشہاد (طلب شہادت) کہنا سراسر غلط ہے۔ اسلام میں شہید ہونا ہے، اسلام میں شہید کروانا نہیں ہے۔ خود کُش بمباری کے اس طریقے نے موجودہ زمانہ میں اسلام کو بہت زیادہ بدنام کیا ہے۔ کچھ عرب علماء نے اگر چہ خود کُش بمباری کو جائز قر ار دیا ہے۔ مگر یہ سب سیاسی فتوے ہیں۔ کسی فتویٰ کے ذریعہ حرام کو حلال نہیں کیا جاسکتا۔
۴۔ آج تک ٹی وی (نئی دہلی) کی ٹیم نے ۲۰ مئی ۲۰۰۵ کوصدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ انٹرویو ر مسٹر بریش بنرجی (Biresh Banerjee) تھے۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر تعلیمی داخلہ میں رزرویشن سے تھا۔ یعنی مسلمانوں کو حکومت ہند کی اس پالیسی سے اتنا فائدہ ملے گا جس کے مطابق، مسلم یونیورسٹی میں مسلمانوں کو پچاس فیصد رزرویشن دیا گیا ہے (ٹائمس آف انڈیا، ۲۰ مئی ۲۰۰۵) جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ اس سے ہندستانی مسلمانوں کو کوئی حقیقی فائدہ ملنے والا نہیں۔ ہندستان میں ۲۰ کروڑ سے زیادہ مسلمان ہیں۔ ان میں سے صرف چند لوگ رزرویشن کی اس پالیسی سے بظاہر فائدہ اٹھائیں گے۔ مگر اس کا نقصان تمام مسلمانوں کو پہنچے گا۔کیوں کہ اس کی وجہ سے عام طور پر مسلمانوں کے اندر یہ ذہن بنے گا کہ ترقی کے لیے رزرویشن کی ضرورت ہے۔ حالانکہ صحیح بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر عمومی طور پر یہ ذہن بنایا جائے کہ آج کی دنیا مقابلہ کی دنیا ہے اور اس دنیا میں صرف وہی لوگ آگے بڑھ سکتے ہیں جو مقابلہ کا سامنا کرکے آگے بڑھیں۔
۵۔ اسپریچول کلاس جو جنوری ۲۰۰۱ ء میں چند افراد کے ساتھ شروع کی گئی تھی اب اس میں شرکت کرنے والوں کی تعداد کافی بڑھ گئی ہے۔ چنانچہ ۲۲ مئی ۲۰۰۵ سے اُس کے لیے لاؤڈ اسپیکر کا استعمال شروع کیا گیا ہے۔ بہت جلد یہ اسپریچول کلاس زیادہ بڑی جگہ منتقل کردی جائے گی۔ یہ ہفتہ وار اسپریچول کلاس مکمل طورپر غیر سیاسی نظریہ کے تحت ہوتی ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں میں اسلام کو مقبول اور قابل فہم بنایا جائے۔ اس کلاس میں ہندو اور مسلمان دونوں شریک ہوتے ہیں۔ اس کلاس میں زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہوتی ہے جو اعلیٰ انگریزی تعلیم یافتہ طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔
۶۔ انڈیا ٹی وی (نئی دہلی) کی ٹیم نے ۳۰ مئی ۲۰۰۵ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر نکاحِ تفویض کے مسئلہ سے تھا۔ بتایا گیا کہ نکاح تفویض اسلام کا ایک جائز طریقہ ہے۔ شریعت کے مطابق، عورت اور مرد دونوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ نکاح کے بعد ایک دوسرے سے علیٰحدگی اختیار کر سکیں جس کو طلاق کہا جاتا ہے۔ شوہر کو یہ حق ہے کہ وہ خود اپنے فیصلہ سے اپنی بیوی کو طلاق دے سکتا ہے۔ لیکن بیوی کے لیے تفریق کے معاملہ میں خُلع کا طریقہ ہے۔ یعنی بیوی عدالت سے رجوع کرے گی اور عدالت کے فیصلہ کے تحت تفریق حاصل کرے گی۔ لیکن اگر نکاح کے وقت یہ واضح کردیا جائے کہ یہ نکاح تفویض ہے تو اس کے بعد عورت کو یہ حق حاصل ہوجاتا ہے کہ وہ مرد ہی کی طرح خود اپنے فیصلہ سے طلاق حاصل کرلے۔
۷۔ بمبئی کے ادارہ (ICRA) کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے بمبئی کا سفر کیا۔ یہ سفر تین دن (۹ جون۔۱۲ جون ۲۰۰۵) کے لیے تھا۔ اس دوران بمبئی میں مختلف پروگرام ہوئے۔ اس کی روداد انشاء اللہ سفر نامہ کے تحت الرسالہ میں شائع کردی جائے گی۔
۸۔ سائی انٹرنیشنل سینٹر (نئی دہلی) نے ۱۵ جون ۲۰۰۵ کو اپنے سینٹر میں ایک سیمینار کا اہتمام کیا۔ اس میں مختلف اسکولوں کے پرنسپل شریک ہوئے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ انہیں ایک گھنٹہ کا وقت دیاگیا تھا۔ تقریر کا موضوع تھا: بیسک ہیومن ویلوز اِن اسلام۔ تقریر کے بعد سوال وجواب کا پروگرام ہوا۔
۹۔ بمبئی میں ایک ادارہ قائم ہوا ہے۔ اس کا نام یہ ہے:
Islamic Centre for Research & Awareness (ICRA)
اس ادارہ میں برابر دعوتی اور تربیتی پروگرام ہوتے ہیں۔ اسی کے ساتھ کتابوں کی ایک دُکان قائم کی گئی ہے۔ اس میں ماہنامہ الرسالہ، اسپریچول میسیج اور دوسری تمام کتابیں برائے فروخت دستیاب ہیں۔ اس ادارہ کا پتہ اور ٹیلی فون نمبر یہ ہے:
ICRA 3, Shantaram Patil Bldg. Gauthan 4th lane, S.V. Road, Behind Firdaus Mithai Wala,
Near Andheri Station (W) Mumbai-58, Tel: 6285223
۱۰۔ اس سے پہلے راز حیات، تعمیر حیات اور کتاب زندگی کے نام سے کتابیں چھپ چکی ہیں۔ ان کتابوں کا موضوع یہ ہے کہ زندگی کو کس طرح کامیاب بنایا جائے۔ ان کتابوں سے بہت زیادہ لوگوں کو فائدہ پہنچا ہے۔ اب اسی نوعیت کی ایک نئی کتاب زیر طبع ہے۔ اس کتاب کا نام رہنمائے حیات ہے۔ وہ دو سو آٹھ صفحات پر مشتمل ہے۔
۱۱۔ دعوہ ورک کے لیے انگریزی زبان میں چھوٹے چھوٹے پمفلٹ اور بروشر چھاپے گئے ہیں۔ یہ سب انگریزی زبان میں ہیں اور دعوتی کام کے لیے بہت مفید ہیں۔ دفتر سے ان کو حاصل کیاجاسکتا ہے۔ اب اس قسم کے چھوٹے چھوٹے کتابچے ہندی زبان میں بھی تیار کیے جارہے ہیں۔
۱۲۔ تذکیر القرآن کا انگریزی ترجمہ تیار ہوچکا ہے۔ اسی کے ساتھ قرآن کا انگریزی ترجمہ تیار کیا جارہا ہے۔ تیاری کے بعد جلد ہی ان کو دو صورتوں میں چھاپا جائے گا۔ ایک، تذکیر القرآن کے انگریزی ایڈیشن کی صورت میں۔ اس کے علاوہ قرآن کا انگریزی ترجمہ علیٰحدہ جلد کی صورت میں شائع کیا جائے گا۔ انشاء اللہ العزیز۔
واپس اوپر جائیں

Monday, 1 August 2005

Al Risala | August 2005 (الرسالہ،اگست)

3

- اجتماعِ بھوپال


اجتماعِ بھوپال

بھوپال ایک تاریخی شہر ہے۔ وہ ہندستان کے وسط میں واقع ہے۔ ایک افغانی سردار دوست محمد خاں نے ۱۷۲۳ میں بھوپال کی بنیاد ڈالی۔ یہاں مختلف اہم مقامات ہیں۔ اُن میں سے ایک تاج المساجد ہے جو انیسویں صدی میں بنائی گئی۔ بھوپال یونیورسٹی ۱۹۷۰ میں قائم ہوئی۔
ڈاکٹر حمید اللہ ندوی بھوپال یونیورسٹی کے شعبۂ عربی میں ریڈر ہیں۔ وہ تحریک الرسالہ کے سینئر ترین ممبر ہیں۔ کئی سال سے ان کا اصرار تھا کہ بھوپال میںتحریک الرسالہ کا اجتماع رکھا جائے۔ آخر کار یہ طے ہوا کہ ۱۱۔۱۲۔۱۳ مارچ ۲۰۰۵ کو یہ اجتماع منعقد کیا جائے۔ تاہم میں نے یہ تاکید کر دی کہ اس اجتماع کا عام اعلان نہ کیا جائے بلکہ محدود طورپر کچھ منتخب افر اد کو اس کی اطلاع دی جائے۔ تاکہ وہ ایک بڑے جلسہ کی حیثیت اختیار نہ کرے۔
اس پروگرام کے مطابق، بھوپال کا سفر ہوا۔ ۱۱ مارچ ۲۰۰۵کو جٹ ایرویز کی فلائٹ کے ذریعہ روانگی ہوئی اور ۱۴ مارچ کو دوبارہ جٹ ایرویز کی فلائٹ کے ذریعہ واپسی ہوئی۔ میرے ساتھ سفر میں جو لوگ شریک تھے ان کے نام یہ ہیں: ڈاکٹر محمد اسلم خاں، دیش بھگت جی، محمد خالد انصاری، ڈاکٹر محمد اقبال پردھان، رجت ملہوترہ، نغمہ صدیقی، عصمت خاں، اُستتھی ملہوترا، ڈاکٹر فریدہ خانم، سعدیہ خان، منجو ورمانی۔ پریا ملک۔
۱۱ مارچ کو ۲ بجے میرے ساتھ جانے والے لوگ ہمارے آفس میں اکھٹا ہوگئے۔ مجھ کو لے کر کل تعداد ۱۳ تھی۔ سب سے پہلے میں نے انہیں برکت کے طورپر ایک چیز پیش کی۔
میرے بیگ میں ایک ڈبہ تھا۔ اس کے اندر بھُنا ہوا چنا تھا۔ اس چنے کے ساتھ گُڑ ملا ہوا تھا۔ اُس کو ’’گُڑ چنا‘‘ کہا جاتا ہے۔ میں نے سب لوگوں کو یہ چنا پیش کرتے ہوئے کہا : یہ پرشاد ہے۔ مگر وہ سادہ پرشاد نہیں۔ بلکہ وہ پرشاد پلس ہے۔ یعنی اس چنے کے ساتھ میری دعائیں شامل ہیں۔
ایک مسلمان نے کہا کہ آپ اس کو پرشاد کیوں کہتے ہیں، آپ اس کو تبرک کیوں نہیں کہتے۔ میںنے کہا کہ میرا مِشن لوگوں کے درمیان دوئی کو مٹانا ہے اور دوئی کو مٹانا وسیع المشربی کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ میں نے کہا کہ صوفیاء کا مشن بھی دوئی کو مٹانا تھا۔ چنانچہ اُنہوں نے یہی کیا کہ اُنہوں نے کئی لفظ دوسروں کی مذہبی روایات سے لیے اور ان کو اپنے یہاں رائج کردیا۔ صوفیا کے اس لبرل مسلک کی وجہ سے ان کو استہزاء کا موضوع بنایا گیا۔ ایک اُردو شاعر نے اسی صورت حال کو مبالغہ کے انداز میں اس طرح بیان کیا ہے:
میر کے دین ومذہب کی کیا پوچھ رہے ہو ان نے تو
قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا
اس کے بعد لوگوں کے مشورہ سے محمد خالد انصاری کو اس قافلہ کا امیر اور نغمہ صدیقی کو نائب امیر مقرر کیا گیا۔ اس سلسلہ میں میں نے امارت کے مسئلہ کی مختصر وضاحت کی۔
حدیث میں سفر کے بارہ میں یہ تعلیم دی گئی ہے: اذا خرج ثلاثۃ فی سفر فلیؤمروا احدہم(سنن ابی داؤد، کتاب الجہاد، باب فی القوم یسافرون یؤمرون احدہم) یعنی جب تین آدمی سفر پر نکلیں تو وہ اپنے میں سے ایک شخص کو اپنا امیر بنا لیں۔ یہ بے حد اہم تعلیم ہے۔ اسلام میں ہر حال میں اجتماعیت مطلوب ہے۔ نماز میں اجتماعیت، سفر میں اجتماعیت، ادارہ میں اجتماعیت، حکومتی نظام میں اجتماعیت، وغیرہ۔
اس اجتماعیت کو قائم کرنے کی صورت یہ ہے کہ جب بھی کئی لوگ کسی کام میں اکھٹا ہوں تو وہ اپنے میں سے ایک شخص کو امیر بنالیں۔ اس امارت کو کامیابی کے ساتھ چلانے کی دو خاص شرطیں ہیں۔ امیر کے لیے یہ شرط ہے کہ وہ امارت کو ایک ذمہ داری سمجھے، نہ کہ کوئی اعزاز۔ اسی طرح مامورین یا ماتحت افراد کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اطاعت کے جذبہ کے تحت امیر کی ماتحتی قبول کرلیں۔ امیر سے اگر اُنہیں کوئی اختلاف یا شکایت پیدا ہو تب بھی اس کو نظر انداز کرتے ہوئے وہ اپنی اطاعت کو جاری رکھیں۔ امیر کی اطاعت کو کسی قسم کی مجبوری نہ سمجھیں بلکہ اس کو عبادت سمجھتے ہوئے خوش دلی کے ساتھ نبھائیں۔
اس کے بعد دو گاڑیوں میں ہمارا قافلہ ائر پورٹ کی طرف روانہ ہوا۔ اس موقع پر میں نے کہا کہ اس دنیا میں تمام چیزیں سفر کرتی ہیں۔ حیوانات بھی اور غیر حیوانات بھی۔ مگر یہ صرف انسان کی استثنائی صفت ہے کہ وہ سواری پر سفر کرتا ہے۔ انسان کے سوا اس وسیع کائنات پر کوئی دوسری چیز نہیں جو اپنے سفر کے لیے سواری کو استعمال کرے۔ انسان کے ساتھ خدا کا یہ معاملہ ایسا ہے کہ ہمارے سینہ کو شکر کے جذبات سے بھرجانا چاہیے۔ پھر میں نے کہا کہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے: ولقد کرمنا بنی آدم وحملناہم فی البّر والبحر (الإسراء ۷۰) یعنی اللہ نے انسان کو عزت دی اور اس کو خشکی اور تری میں سفر کرنے کے لیے سواریاں عطا کیں۔ اس آیت میں بظاہر اگر چہ صرف خشکی اور تری کی سواریوں کا ذکر ہے مگر تبعاً اس میں فضائی سواریاں بھی شامل ہیں۔ اسی طرح قرآن میں دعائیہ انداز میں آیا ہے: سبحان الذی سخرلنا ہذا وماکنا لہ مقرنین (الزخرف ۱۳)۔
قرآن کی یہ آیت سادہ معنوں میں صرف آدابِ سفر کو نہیں بتاتی بلکہ وہ بتاتی ہے کہ انسان کو کن ربانی احساسات کے ساتھ سفر کرنا چاہیے۔ قرآن وحدیث میں مختلف مواقع کے لیے جو دعائیں آئی ہیں وہ بطور آداب (etiquettes) نہیں ہیں بلکہ وہ روح دین کو بتاتی ہیں۔ مثلاً مسجد میں داخل ہونے اور نکلنے کے وقت اللہم افتح لی ابواب رحمتک اور اللہم انی اسألک من فضلک کہنا صرف آداب مسجد نہیں ہے بلکہ یہ کلمات ان مواقع کے لیے ایمانی احساسات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ وہ مومن کی قلبی حالت کا لفظی اظہار ہیں۔
ہمارا قافلہ دہلی کی سڑکوں سے گزرتا ہوا ائر پورٹ کی طرف روانہ ہوا۔ میں نے محسوس کیا کہ قافلہ کا ہر ممبر اپنے اندر ایک نیا جوش محسوس کررہا ہے۔ وہ ہر چیز کو اس طرح دیکھتا ہے جیسے کہ وہ اس کو پہلی بار دیکھ رہا ہو۔ یہ انسان کی فطرت ہے۔ انسان کے ساتھ جب تبدیلی کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو وہ اس کی شخصیت کو نئے تجربات سے دوچار کرتا ہے۔ پھر میں نے لوگوں کو بتایا کہ اسلام میں سفر کی خاص اہمیت ہے۔ بلکہ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ قرآن میں سفر کو اسلامائز کیا گیا ہے۔
قرآن میں مومن مردوں کے لیے السائحون (التوبہ ۱۱۲) کا لفظ آیا ہے۔ اسی طرح مومن عورتوں کو قرآن میں السائحات (التحریم ۵) کہا گیا ہے۔ یعنی سفر کرنے والے مرد اور سفر کرنے والی عورتیں۔
اس سے مراد مجرد سفر نہیں ہے بلکہ اس سے مراد صاحبِ ایمان کا سفر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ السائحون اور السائحات سے مراد وہ مومنین اور مومنات ہیں جن کا سفر ان کی ربانی سوچ کی بنا پر معرفت کا سفر بن جائے۔ سفر کے دوران جو تخلیقی مشاہدات اُن کے سامنے آئیں، وہ اُن کے مومنانہ ذہن کی بنا پر اُن کے لیے معرفتِ حق میںڈھلتے چلے جائیں۔ وہ مخلوق میں خالق کا جلوہ دیکھیں۔ وہ فطرت کے مظاہر میں خالق کے کرشموں کا ادراک کریں۔ اسی حقیقت کو ایک عربی شاعر ابوالعتاہیہ نے اس طرح بیان کیا ہے:
وفی کل شیٔ لہ آیۃ تدل علی أنہ واحد
اس معاملہ کو ایک فارسی شاعر نے مزید وضاحت کے ساتھ اس طرح نظم کیا ہے:
برگ درختانِ سبز در نظرِ ہوشیار
ہر ورقے دفترے است معرفت کردگار
اس طرح بات کرتے ہوئے ہم لوگ ائر پورٹ پہنچے۔ یہاں میں نے لوگوں کو ایک سبق آموز بات یاد دلائی۔ میںنے کہا کہ اس سفر میں مجھ کو اور میری لڑکی فریدہ کو چھوڑ کر کل گیارہ مرد اور عورتیں ہیں۔ یہ تعداد بہت معنٰی خیز ہے۔ مماثلت کے انداز میں اس کے اندر ایک اہم سبق پایا جاتا ہے۔ اگر آپ انجیل کو پڑھیں تو آپ پائیں گے کہ آخر وقت میں حضرت مسیح کے ساتھ (مسیح اور مریم کو چھوڑ کر) گیارہ افراد تھے۔ انہی گیارہ افراد نے مسیح کے پیغام کو ساری دنیا میں پھیلایا۔ اس سلسلہ میں انجیل کا اقتباس یہ ہے:
پھر وہ اُن گیارہ کو بھی جب کھانا کھانے بیٹھے تھے دکھائی دیا اوراُس نے ان کی بے اعتقادی اور سخت دلی پر ان کو ملامت کی۔ کیوں کہ جنہوں نے اُس کے جی اُٹھنے کے بعد اُسے دیکھا تھا اُنہوں نے اُن کا یقین نہ کیا تھا۔ اور اُس نے ان سے کہا کہ تم تمام دنیا میں جاکر ساری خلق کے سامنے انجیل کی منادی کرو۔ جو ایمان لائے اور بپتسمہ لے وہ نجات پائے گا اور جو ایمان نہ لائے وہ مجرم ٹھہرایا جائے گا۔ اور ایمان لانے والوں کے درمیان یہ معجزے ہوں گے۔ وہ میرے نام سے بدروحوں کو نکالیں گے۔ نئی نئی زبانیں بولیں گے۔ سانپوں کو اٹھالیں گے اور اگر کوئی ہلاک کرنے والی چیز پئیں گے تو انہیں کچھ ضرر نہ پہنچے گا۔ وہ بیماروں پر ہاتھ رکھیں گے تو اچھے ہوجائیں گے (مرقس، ۱۶: ۱۴۔۱۸)
عجیب بات ہے کہ اس تاریخی سفر میں میرے ساتھ میری لڑکی کو چھوڑ کر کُل گیارہ افراد تھے۔ یہ گیارہ افراد در اصل علامتی انداز میں نمائندہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ الرسالہ مشن اب اللہ کے فضل سے ایک عالمی مشن بن چکا ہے۔ دنیا کے اکثر حصوں میں اس سے وابستہ افراد موجودہیں۔ میرے اندازے کے مطابق، ان کی تعداد گیارہ ہزار سے کم نہ ہوگی۔یہ عالمی حلقہ اب اللہ کے فضل سے ایک طاقتور حلقہ بن چکا ہے۔ مزید یہ کہ اس کی پشت پر ایک طاقتور لٹریچر وجود میں آچکا ہے۔ یہ حلقہ اور یہ لٹریچر انشاء اللہ اس بات کی ضمانت ہے کہ یہ مشن مسلسل جاری رہے۔
بھوپال کے لیے میرا پہلا سفر غالباً ۴۰ سال پہلے ہوا تھا۔ اس وقت میں ٹرین کے ذریعہ تنہا بھوپال گیا تھا۔ اب میں بھوپال جارہا ہوں تو ہمارا سفر ایک قافلہ کی صورت میں ہورہا ہے جس میں مجھ کو لے کر تیرہ آدمی ہوائی جہاز کے ذریعہ بھوپال جارہے ہیں۔
یہ واقعہ علامتی طورپر ہمارے مشن کی رفتار ترقی کو بتارہا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ۴۰ سال میں یہ مشن کہاں سے کہاں تک پہنچا ہے۔ تاریخ کا تجربہ ہے کہ کوئی جاندار مشن کبھی درمیان میں نہیں ٹھہرتا۔ وہ چلتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنی منزل تک پہنچ جائے۔ مجھے یقین ہے کہ ہمارے مشن کے ساتھ انشاء اللہ یہی تاریخ دہرائی جائے گی۔ جیسا کہ لوگ جانتے ہیں، اس دوران میں ہمارے مشن کو نقصان پہنچانے کے لیے بڑی بڑی مخالفانہ کوششیں کی گئیں۔ مگر یہ کوششیں ناکام رہیں اورمشن آگے بڑھتا رہا، وہ ایک دن کے لیے بھی نہیں رکا۔
حقیقت یہ ہے کہ کوئی مشن جب رکتا ہے تو وہ کسی خارجی رکاوٹ کی بنا پر نہیں رکتا۔ ایسا ہمیشہ خود مشن کی داخلی کمزوری کی بنا پر ہوتا ہے۔ جو مشن جذباتیت یا رومانیت کے زیر اثر اٹھایا جائے وہ کبھی دیر تک قائم نہیں رہتا۔ لیکن جو مشن حقائق فطرت کی بنا پر اٹھایا جائے وہ ایک سیل رواں کی مانند ہوتا ہے۔ کوئی چٹان بھی اس کا راستہ روکنے والی نہیں۔
راستہ میں مختلف سوالات پر گفتگو جاری رہی۔ ایک سوال یہ تھا کہ عورت کا درجہ اسلام میں کیا ہے۔ اس سلسلہ میں میںنے قرآن کے حوالہ سے کچھ باتیں کہیں۔
قرآن میں ارشاد ہوا ہے: وللرجال علیہن درجۃ (البقرۃ ۲۲۸) اسی طرح فرمایا: الرجال قوامون علی النساء (النساء ۳۴) قرآن کی ان آیتوں کی تشریح کچھ لوگ اس طرح کرتے ہیں گویا کہ اسلام میں مرد کو حاکم کا درجہ دیا گیا ہے اور عورت کو محکوم کا درجہ۔ مگر یہ صحیح نہیں۔ یہ بات بجائے خود درست ہے کہ دونوں جنسوں کے درمیان فرق رکھا گیا ہے۔ مگر اس فرق کی بنیاد امتیاز نہیں ہے بلکہ صرف انتظام ہے۔ یہ انتظامی تقسیم ہے نہ کہ امتیازی تفریق۔
یہ ایک انسانی ضرورت ہے کہ اجتماعی سرگرمیوں کو ایک ناظم کی ماتحتی میں انجام دیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر اجتماعی ادارہ میں ایک باس (Boss) ہوتا ہے۔ اس باس کی حیثیت انتظام کار کی ہوتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتو پورے ادارہ میں انارکی پھیل جائے اور کام کو منظم طورپر انجام دینا ممکن نہ رہے۔ اسی طرح خاندانی ادارہ میں مرد کو انتظام کار کا درجہ دیا گیا ہے۔ تاہم وہ مطلق نہیں ہے۔ بوقتِ ضرورت عورت بھی انتظامِ کار بن سکتی ہے۔
ایک ساتھی نے کیوٹی وی (Q.T.V.) کے بارہ میں میری رائے پوچھی۔ میں نے کہا کہ پچھلے ایک مہینہ کے دوران میںنے کیو ٹی وی کو مسلسل دیکھا ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں، کیوٹی وی چو بیس گھنٹہ آتا ہے۔ اس لیے آپ رات دن میں کسی بھی وقت اُس کو دیکھ سکتے ہیں۔مگر میری رائے کیو ٹی وی کے بارہ میں اچھی نہیں۔ میں نے کہا کہ ٹی وی کے دوسرے چینل اگر سیکولر انٹرٹینمنٹ کے اصول پر چلائے جارہے ہیں تو کیو ٹی وی ریلیجس انٹرٹینمنٹ کے اصول پر چلایا جارہا ہے۔
اس سلسلہ میں دوسری بات جو میںنے محسوس کی وہ یہ ہے کہ کیو ٹی وی اسلام کی ایک کمتر صورت (reduced form) کو پیش کرتا ہے۔ اس کو برابر دیکھنے والا شعوری یا غیر شعوری طورپر یہ سمجھے گا کہ اسلام کچھ رسوم (rituals)اور کچھ آداب (etiquettes) کا مجموعہ ہے۔ ایک اور چیز جو کیوٹی وی میں شدت سے محسوس ہوتی ہے وہ یہ کہ درگاہی کلچر کو اس میں اس طرح نمایاں طورپر مسلسل دکھایا جاتا ہے جیسے کہ وہ اسلام کا ایک اہم حصہ ہو۔ حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ درگاہی کلچر کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ سب سے بڑی بات یہ کہ کیو ٹی وی کے سارے پروگرام مسلم اورینٹڈ(Muslim Oriented) ہوتے ہیں۔ حالاں کہ قرآن کا پیغام مکمل طورپر انسان اورینٹیڈ(Insan Oriented) ہوتا ہے۔ گویا کہ کیو ٹی وی اسلام کو ایک کمیونل کلچر کے طورپر پیش کررہا ہے نہ کہ یونیورسل کلچر کے طورپر۔
دہلی سے بھوپال کا سفر جٹ ایرویز کے ذریعہ ہوا۔ جٹ ایرویز ایک پرائیویٹ ایرویز ہے۔ پرائیویٹ کمپنیوں میں اس کو سب سے بڑی کمپنی بتایاجاتا ہے۔انڈیا میں جب سے پرائیویٹ کمپنیاں آئی ہیں، ہوائی سفر کا معیار کافی بہتر ہوگیا ہے۔ اس سے پہلے صرف ایک سرکاری کمپنی تھی۔ اس وقت ہوائی سفر میں مقابلہ کا ماحول نہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ مقابلہ ترقی کی لازمی شرط ہے۔ مقابلہ (competition) نہیں تو ترقی بھی نہیں۔
عجیب بات ہے کہ ۱۹۴۷ سے پہلے کانگریس اور مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر جو لیڈر اُبھرے، دونوں ہی بظاہراس حقیقت سے بے خبر تھے۔ دونوں ہی نے مقابلہ کے بجائے تحفظ (protection) کے اصول کو کامیابی کا ذریعہ سمجھا۔ دونوں میں فرق صرف یہ تھا کہ کانگریس کے لیڈر سیکولر تحفظ کی بات کرتے تھے اور مسلم لیگ کے لیڈر ملّی تحفظ کی اصطلاح میں سوچ رہے تھے۔ کانگریسی لیڈروں نے آزاد انڈیا میں اقتصادی تحفظ کے نام پر بیرونی ملکوں کو ہندستان میں داخل ہونے سے روک دیا۔ مثلاً کارسازی کی صنعت میں ایمبیسیڈر کار کے سوا کسی بیرونی کمپنی کو نہ کار بنانے کی اجازت تھی اور نہ کار کو امپورٹ کرنے کی اجازت۔ اس پالیسی کا نتیجہ ملک کو اقتصادی پچھڑے پن کی صورت میں ملا۔
اسی طرح مسلم لیگ کے لیڈروں نے پاکستان کے نام سے مسلمانوں کے لیے ایک علیٰحدہ خطہ بنایاتاکہ وہ مسلمانوں کو بیرونی اثرات سے پاک رکھ سکیں۔ یہ لوگ اس حقیقت سے بے خبر تھے کہ ترقی کا راز تحفظ اور علیٰحدگی میں نہیں بلکہ مقابلہ اور انٹریکشن میں ہے۔ اس غیر فطری پالیسی کا نتیجہ صرف یہ ہوا کہ پاکستان دنیا کے نقشہ میں صرف ایک پچھڑا ہوا ملک بن کر رہ گیا۔
جہاز کے اندر مختلف اخبارات مطالعہ کے لیے موجود تھے۔ یہاں بعض اخبارات سے کچھ سبق آموز خبروں کا ذکر کیا جاتا ہے۔
ٹائمس آف انڈیا (۱۱ مارچ ۲۰۰۵) کے صفحہ اول پر ایک خبر کی تعجب خیز سرخی یہ تھی: دلائی لامہ نے تبتیوں سے کہا کہ وہ آزاد تبت کو بھول جائیں: چین ہمارے مستقبل کے لیے سب سے بہتر ہے:
Dalai Lama tells his folk to forget free Tibet: China best for our future.
خبر میں بتایا گیا تھا کہ تبتیوں کی اپرائزنگ (uprising) کی ۴۶ ویں سالگرہ کے موقع پر ایک بیان جاری کرتے ہوئے انہوںنے کہا ہے کہ تبتی آزاد تبت کا خواب دیکھنا چھوڑ دیں اور چین تبتیوں کی ترقی اور مستقبل کے لیے سب سے اچھا ملک ہے:
The Dalai Lama told Tibetians to give up their dream of an independent Tibet, saying he believed “China is best for Tibetan's progress and future”. (p. 1)
پچھلے ۴۵ سال سے تبتی لوگ چین کے خلاف باغیانہ تحریک چلائے ہوئے تھے۔ ہندستان کے تعاون سے دلائی لاما نے دھرم شالہ میں اپنی جلاوطن حکومت (government-in-exile) بنا لی تھی۔ تبتیوں کا نعرہ تھا کہ تبت ہمارا ملک ہے اور ہم اس کو چین سے آزاد کرائیں گے اور وہاں اپنا قومی جھنڈا لہرائیں گے۔ اس باغیانہ تحریک کے نتیجہ میں تبتیوں کو بے شمار نقصان اٹھانا پڑا۔ تاہم تبتی لیڈر شپ کی یہ بات قابل تعریف ہے کہ اس نے معاملہ کا از سرِ نو جائزہ لیا اور حقیقت پسندانہ انداز اختیار کرتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ وہ چین سے لڑائی کو ختم کردیں اور چین کے سیاسی ڈھانچہ میں اپنے مستقبل کی تعمیر کریں۔ دلائی لامہ نے کہا کہ ہم نے یہ طے کیا ہے کہ ہم درمیانی راستہ اختیار کریں گے:
We remain fully committed to the middle way approach of not seeking independence for Tibet and are willing to remain within the People's Republic of China.
یہ خبر بہت سبق آموز ہے۔ اس خبر کو پڑھ کر میںنے سوچا کہ موجودہ زمانہ کے مسلمان بھی مختلف مقامات پر ٹھیک اسی قسم کی صورت حال سے دوچار ہیں۔ وہ بہت سے ملکوں میںانصاف اور اپنے حقوق کے نام پر متشددانہ جدوجہدچھیڑے ہوئے ہیں اور اس کو جہاد بتاتے ہیں۔ مگر لمبی مدت تک جان ومال کی قربانی دینے کے باوجود وہ مثبت معنوں میں کوئی کامیابی حاصل نہ کرسکے۔ اُن کے خود ساختہ جہاد کے نتیجہ میں اُنہیں کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا۔
بدھسٹ لیڈر کے ساتھ بھی یہی واقعہ پیش آیا۔ مگر نصف صدی کے ناکام تجربہ کو دیکھ کر انہوں نے اپنی رائے بدلی اور تمام اندیشوںکو نظر انداز کرتے ہوئے کھلے طور پر اعلان کیا کہ اب ہم ٹکراؤ کا طریقہ ختم کرکے مصالحت کا طریقہ اختیار کریں گے۔ تاکہ اپنی قوم کو مزید تباہی سے بچائیں اور ممکن دائرہ میں اپنی ترقی کا نیا دور شروع کرسکیں۔ مگر مسلم لیڈروں میں سے کوئی بھی اس دانش مندانہ سیاست کا ثبوت نہ دے سکا۔ وہ اپنی تباہ کن جنگ کو اس آخری حد تک لے گئے کہ خود کُش بمباری کرکے اپنی تباہی میں مزید اضافہ کررہے ہیں۔
اس فرق کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ان مسلم لیڈروں نے خود ساختہ طورپر ایک نظریہ ایجاد کیا ہے۔ وہ یہ کہ مسلمان لڑائی میں مارے جائیں تو یہ ان کے لیے کوئی نقصان کی بات نہیں۔ کیوں کہ وہ مرتے ہی سیدھے جنت میں پہنچ جائیں گے۔ یہ بلا شبہہ ایک بے بنیاد نظریہ ہے۔ قرآن و حدیث میں اس کا کوئی ثبوت موجود نہیں۔ مگر مسلم نوجوانوں کے ذہن میں یہ مفروضہ اس طرح بھر دیا گیا ہے کہ اب وہ پَروانوں کی طرح جنگ کی آگ میں کود رہے ہیں۔ اگر چہ پیشگی طورپر انہیں معلوم ہے کہ اس اقدام کا نتیجہ تباہی کے سوا اور کچھ نہیں۔ میرے نزدیک یہ بلاشبہہ خسر الدنیا والآخرۃ کا مصداق ہے۔
ہندستان ٹائمس (۱۱ مارچ ۲۰۰۵) کے صفحہ ۹ کی ایک خبر کا عنوان یہ تھا— کلکتہ ائرپورٹ کو انٹرنیشنل معیار پر بنانے کے لیے جاپان کی پیش کش:
Japan offers to build airport
خبر میں بتایا گیا تھا کہ چین کی بڑھتی ہوئی اقتصادی طاقت کا مقابلہ کرنے کے لیے ہندستان کے ائر پورٹوں کو بین اقوامی معیار پر لانا ضروری ہے۔ یہ کام پچھلے کئی برسوں سے خاموشی کے ساتھ ہورہا ہے۔ دہلی کی شاندار مٹرو (Metro) کو مکمل طورپر جاپان نے بنایا ہے۔ دہلی کی ایک اچھی سڑک جو آشرم سے نوئیڈا جاتی ہے وہ بھی جاپان کی بنائی ہوئی ہے۔ بیرونی مدد سے اس طرح کے کام پورے انڈیا میں خاموشی کے ساتھ ہورہے ہیں۔
اس خبر کو پڑھ کر میں نے سوچا کہ یہی کام ۱۹۴۷ سے پہلے انگریز اس ملک میں کررہے تھے۔ وہ ملک کے ہر شعبہ کو جدید معیار پر ترقی دے رہے تھے۔ نوآبادیاتی دور میں ترقی کا یہ کام انگلستان کے بعد سب سے زیادہ انڈیا میں ہورہا تھا۔ مگر اس وقت ہمارے سیاسی لیڈروں نے اس کو اقتصادی غلامی سے تعبیر کیا۔ اب یہی اقتصادی غلامی زیادہ بڑے پیمانہ پر دوبارہ اس ملک میں جاری ہے۔ مگر اب اس کو بین اقوامی تعاون کا نام دے دیا گیا ہے۔
جٹ ایرویز کے فلائٹ میگزین کا نام جٹ ونگس (Jetwings) ہے۔ اس کا شمارہ مارچ ۲۰۰۵ دیکھنے کا موقع ملا۔ اس شمارہ میں رنگین تصویروں کے ساتھ ایک مضمون شامل تھا۔ رائٹر کا نام سونتا کٹاریا (Sonita Kataria) تھا۔ اس مضمون میں ایک پہاڑی سفر کی روداد درج تھی۔ اس کا عنوان یہ تھا۔ بلندیوں پر چڑھنے کی مہم:
Adventure in altitude
اس مضمون میں کُلو (Kullu) کی پہاڑیوں میں سفر کا ذکر تھا۔ کُلو ہمالیہ کے کوہستانی سلسلہ کا ایک حصہ ہے۔ وہ سرسبز وادیوں اور اونچے نیچے راستوںمیں واقع ہے۔ اس کوہستانی سلسلہ میں سفر بظاہرایک پُر مشقت سفر ہے۔ مضمون نگار کو ان پُر مشقت مراحل سے گذرنا پڑا۔ مگر مضمون نگار نے لکھا ہے کہ اس سفر میں ایک کے بعد ایک فتح یابی کا احساس ہوتا رہا اور یہ احساس مجھے برابر آگے بڑھاتا رہا۔ مجھے برابر خوشی کا غیر معمولی احساس ہوتا رہا:
But there was a sense of achievement that kept me going. At the end of the trek, I had a tremendous feeling of joy and accomplishment. (p. 84)
زندگی کے سفر میں یہی احساس کسی عورت یا مردکا سب سے بڑا سہارا ہے۔ اگر آدمی حال کے بجائے مستقبل پر نظر رکھے تو اُس کو بار بار یہ احساس ہوتا رہے گا کہ میں نے ایک منزل اور طے کرلی۔ میں کامیابی کی منزل کی طرف کچھ اور آگے بڑھا۔ یہ احساس اس کی ہمت بڑھاتا رہے گا۔ وہ اس قابل ہو جائے گا کہ وہ درمیان میں رُکے بغیر اپنا سفر جاری رکھ سکے۔
پرواز شروع سے آخر تک ہموار تھی۔ دہلی سے بھوپال تک کی یہ مسافت ڈیڑھ گھنٹہ میں طے ہوئی۔ سروس ہر اعتبار سے اطمینان بخش تھی۔ البتہ بھوپال ایر پورٹ پر لینڈنگ زیادہ اچھی نہ تھی۔ ایسا محسوس ہوا جیسے کہ جہاز اچانک زمین پر گر پڑا ہو۔
جہاز میں ایک بڑے انگریزی اخبار کے ایک جرنلسٹ بھی سوار تھے۔ ایر پورٹ پر جہاز کی رَف لینڈنگ پر اُنہیں غصہ آگیا۔ وہ کسی جھجھک کے بغیر جہاز کے پائلٹ کے پاس گئے اور اُس سے جرأـت مندانہ انداز میں پوچھ گچھ کی۔ گفتگو کے وقت ایک ایرہاسٹس وہاں کھڑی ہوئی تھی۔ اُس نے مسکراتے ہوئے کہا کہ اصل یہ ہے کہ آج صبح ان کا جھگڑا اپنی گرل فرینڈ سے ہوگیا تھا۔ اس انکشاف کے بعد پائلٹ خاموش نہ رہ سکا۔ اس نے اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ہاں، آج میرا ذہن کسی قدر منتشر (upset) تھا۔ اس بنا پر ایسا ہوا۔ اُس نے مذکورہ جرنلسٹ سے اس پر معافی مانگی۔موجودہ زمانہ میں جرأتمندی کے لیے انگریزی جاننا ضروری ہے۔
یہ واقعہ بتاتا ہے کہ جدید تہذیب نے کیسے کیسے پیچیدہ مسائل پیدا کیے ہیں۔ موجودہ زمانہ میں یہ بات عام ہوگئی ہے کہ کوئی مرد شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ، اس کی ایک گرل فرینڈ ہوتی ہے۔ اس گرل فرینڈ سے اس کا اکثر جھگڑا ہوتا رہتا ہے۔ اس طرح ہر آدمی جب زندگی کے میدان میں اپنی ڈیوٹی انجام دینے کے لیے باہر آتا ہے تو وہ معتدل حالت میں نہیں ہوتا۔ یہ صورت حال اکثر اجتماعی زندگی میں فساد کا باعث بن جاتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ وفادار خاندانی تعلق کوئی سادہ چیز نہیں۔اُس کا تعلق پوری زندگی سے ہے۔ گھر کے اندر ازدواجی مسرت، بچوں کی صحیح تربیت، زندگی کے فرائض کی حسن ادائیگی، مثبت طرز فکر، قومی زندگی کی تعمیر، تمام چیزوں سے اس کا رشتہ جڑا ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خاندانی زندگی اگر صحیح اخلاقی اصول پر قائم ہو تو اُس سے پوری زندگی درست ہوتی ہے اور اگر خاندانی زندگی میں اخلاقی بگاڑ آجائے تو پوری زندگی بگڑ کر رہ جائے گی۔
ایر پورٹ پر بھوپال کے ساتھی موجود تھے، مثلاً ڈاکٹر حمید اللہ ندوی، راجیندر سنگھ، ڈاکٹر گوتم، مولانا محمد صدیق قاسمی، وغیرہ۔
ایر پورٹ سے روانہ ہو کر ہم لوگ ڈاکٹر حمید اللہ ندوی کی رہائش گاہ پر پہنچے۔ یہاں کئی لوگ اکٹھا ہوگئے تھے۔ ان سے دیر تک گفتگو ہوتی رہی۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے میںنے کہا کہ ہندستان میں سیاسی بگاڑ کا اصل سبب تعلیم میں پچھڑا پن ہے۔ انڈیا میں آزادی کے بعد ڈیموکریسی آئی ہے۔ ڈیموکریسی کو بہتر طورپر چلانے کے لیے تعلیم یافتہ سماج ضروری ہے۔ جن سیاسی پارٹیوں کو ووٹ لینا ہے وہ مجبور ہیں کہ عوام کے معیار فہم کے مطابق وہ ان سے بات کریں۔ ہندستان میں سطحی سیاست اسی لیے رائج ہوگئی ہے کہ یہاں کے و وٹر اپنی تعلیمی پسماندگی کی بنا پر گہری باتیں نہیں سمجھ سکتے۔ صرف سطحی باتیں ہی انہیں اپیل کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہندستان میں سطحی قسم کی الیکشنی سیاست رائج ہوگئی ہے۔ یہ سیاست بلا شبہہ تمام خرابیوں کی جڑ ہے۔ اس سیاست کو ختم کرنے کا موثر طریقہ یہ ہے کہ عوام کو ایجوکیٹ کرکے اُن کی ذہنی سطح کو بلند کیا جائے۔ اس کے بعد یہ سطحی سیاست اپنے آپ ختم ہوجائے گی۔
شام کو راج ٹی وی کا عملہ آگیا۔ انہوں نے ایک ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ انہوں نے مسلم مسائل کے ضمن میں بہت سے سوالات کئے۔
ایک سوال یہ تھا کہ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ بابری مسجد کوڈھائے جانے کے ذمہ دار سابق کانگریسی پرائم منسٹر نرسمہاراؤ ہیں۔ میںنے کہا کہ یہ بات واقعاتی طورپر غلط ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نرسمہا راؤ نے اپنے زمانۂ وزارت میں ایک بہت اہم کام انجام دیا تھا۔ ۱۹۹۱ء میں انہوں نے پارلیمنٹ میں ایک قانون پاس کرایا۔ اس کا نام ’’عبادت گاہوں کے تحفظ کا قانون‘‘ (Places of Worship Act 1991) تھا۔ اس قانون میں یہ طے کیا گیا تھا کہ ہندستان کی تمام عبادت گاہیں اپنی ۱۹۴۷ء کی حالت پر برقرار رکھی جائیں گی، البتہ اس میں یہ درج تھا کہ باستثناء بابری مسجد (Excluding Babri Masjid) ۔ اس جملہ کی بناء پر کچھ لوگ بھڑک اٹھے اور نرسمہاراؤ کو مسلم دشمن سمجھ لیا، حالاں کہ یہ بالکل غلط تھا۔ اس وقت بابری مسجد کا کیس عدالت میں زیر سماعت تھا، ایسی حالت میں یہ ممکن نہ تھا کہ بابری مسجد کے لیے قانون بنایا جائے۔ چنانچہ قانون میں یہ درج کیا گیا کہ بابری مسجد کے معاملہ میں عدالت جو فیصلہ دے گی اس کو نافذ کرنے کے لیے حکومت پابند ہوگی۔ دستورو قانون سے واقفیت رکھنے والا ہر شخص کہے گا کہ یہ بالکل درست تھا۔ مگر جذباتی افرادنے معاملہ کو سمجھے بغیر اس کی مخالفت شروع کردی۔ اس بناء پر وہ اس قانونی امکان سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔
۱۱ مارچ کو عشاء کی نماز کے بعد مدرسہ مفتاح العلوم کے جلسہ میں شرکت کرنے کا موقع ملا۔ یہاں میںنے طلبہ واساتذہ کے درمیان ایک تقریر کی۔ میںنے قاری محمد قاسم صاحب انصاری کی تلاوت کردہ آیات کو موضوع بنایا۔
انہوں نے اپنی قرأت میں یہ آیت تلاوت کی تھی ’’والکاظمین الغیظ والعافین عن الناس‘‘ غصہ کو پی جانے والے اور لوگوں کو معاف کرنے والے۔ میںنے کہاکہ اس قرآنی آیت میں ’’الکاظمین الغیظ‘‘ کے الفاظ آئے ہیں، نہ کہ ’’الفاقدین الغیظ‘‘ کے الفاظ۔ اس سے معلوم ہوا کہ خدا کے یہاں انسان کی پکڑ اس پر نہیں ہے کہ اس کو غصہ آجائے، بلکہ پکڑ اس بات پر ہے کہ اسے جب غصہ آیا تو اس نے اپنے غصہ پر کنٹرول نہیںکیا۔
دوسری بات میں نے یہ کہی کہ مدارس میںاس کی ضرورت نہیں کہ وہاں کا نصاب بدلا جائے یا سائنس یا انگریزی پڑھائی جائے۔ میرے نزدیک سیکولر تعلیم اور مذہبی تعلیم دونوں کا نظام الگ الگ ہونا ہی زیادہ صحیح اور مفید ہے۔پھر میں نے کہا کہ موجودہ حالت میں مدارس سے بڑے بڑے فائدے حاصل ہورہے ہیں، انہی میں سے ایک یہ ہے کہ ہندستان میںاردو زبان زیادہ تر مدارس ہی کی وجہ سے زندہ ہے۔ اسی طرح ۱۹۷۶ء کی ایک مثال دیتے ہوئے میں نے کہا کہ قرآن کی قرأت و تجوید جو مدارس میں سکھائی جاتی ہے وہ اسلام کی ایک عظیم خدمت ہے۔ واقعہ کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ’’سفرنامہ جلد اول صفحہ ۱۷۔۱۸‘‘
۱۲ مارچ کی صبح ہوئی تو فجر کی نماز کے بعد لوگ اس کمرہ میں جمع ہوگئے جہاں میرے قیام کا انتظام کیا گیا تھا۔ دیر تک دینی موضوعات پر باتیں ہوتی رہیں۔ قرآن کے بارہ میں گفتگو کرتے ہوئے میں نے کہا کہ آج کل ترتیب وار درسِ قرآن کا طریقہ رائج ہوگیا ہے۔ یہ طریقہ بجائے خود درست ہے۔ مگر میرے تجربہ کے مطابق، درسِ قرآن کو ترتیب نزولی کے اُصول پرچلایا جائے تو وہ زیادہ مفید ہوگا۔ یعنی حالات کے مطابق، قرآن کے منتخب حصوں کی تشریح وتفسیر۔ تاہم مارکیٹنگ کے اعتبار سے سلسلہ وار درسِ قرآن ہی زیادہ مفید ہے۔
پھر میں نے سورہ العصر اور سورہ التین کی روشنی میں ایک درس دیا۔ میں نے کہا کہ والعصر ان الانسان لفی خسر کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ زمانہ کی قسم، انسان بے شک گھاٹے میں ہے۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں، یہاں زمانہ(time) سے مراد انسانی تاریخ ہے۔ یعنی تاریخ گواہ ہے کہ انسان گھاٹے میں ہے:
History is a witness that man is in loss.
اس کا مطلب یہ ہے کہ تاریخ کا تجربہ بتاتا ہے کہ تمام انسانوں کا کیس گھاٹے کا کیس ہے۔ کامیاب انسان صرف وہ ہے جو ایمان اور عمل صالح کا ذخیرہ اپنے لیے جمع کرے۔
ماضی اور حال کے واقعات بتاتے ہیں کہ ہر انسان آخر کار احساسِ خسران میں مرتا ہے۔ کوئی شخص دولت کماتا ہے، کوئی عزت حاصل کرتا ہے، کوئی سیاسی اقتدار پر قبضہ کرتا ہے، کوئی لیڈر بن کر ابھرتا ہے، لیکن ہر شخص اپنی مطلوب منزل پر پہنچنے سے پہلے مرجاتا ہے۔ ہر شخص کے ذہن میں خوشیوں کی ایک دنیا بسی ہوئی ہے۔ وہ اس کو پانے کے لیے اپنی ساری طاقت لگا دیتا ہے۔ مگر ہر آدمی کا خاتمہ آخر کار اس احساس کے ساتھ ہوتا ہے کہ وہ اپنی مطلوب دنیا کو نہ پاسکا۔
اس کا سبب یہ ہے کہ آدمی کی خواہشیں لا محدود ہیں۔ مگر موجودہ دنیا ایک محدود دنیا ہے۔ اس محدود اور غیر معیاری دنیا میں لامحدود قسم کی معیاری خوشی حاصل نہیں کی جاسکتی۔ طالب اور مطلوب کے درمیان یہی فرق خسران کا اصل سبب ہے۔ یہ صورت حال اس بات کی یاد دہانی ہے کہ انسان کی مطلوب دنیا موت کے بعد کے دور حیات میں رکھ دی گئی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اس کی تیاری کرے۔ تاکہ جس مطلوب زندگی کو وہ موت سے پہلے نہ پاسکا اس کو وہ موت کے بعد کے عالَم میں پالے۔
ایک صاحب نے ۱۸ صفحات کا ایک پمفلٹ دکھایا۔ اس کا نام تھا—سچائی کی دریافت: (Exploring the Truth) ۔ یہ پمفلٹ ایک عرب ملک کی طرف سے سیاحوں کے درمیان تقسیم کرنے کے لیے چھاپا گیا تھا۔ ایک صاحب نے یہ پمفلٹ پڑھ کر سنایا۔ میںنے کہا کہ موجودہ زمانہ میں غیر مسلموں کے درمیان تقسیم کرنے کے لیے اس قسم کے بہت سے پمفلٹ چھاپے گئے ہیں مگر یہ کتابیں آج کے ذہن کو ایڈریس نہیں کرتیں۔ ایسی کتابیں کچھ روایتی مسلمانوں کو پسند آسکتی ہیں مگر جدید ذہن کی نسبت سے وہ بالکل بے فائدہ ہیں۔
اس کتاب کا پہلا عنوان تھا: مسلمان ہونے کے فوائد (Benefits of Becoming a Muslim)۔ یہ دعوت کی زبان نہیں۔ یہ کتاب غیر ملکی سیاحوں میںتقسیم کرنے کے لیے چھاپی گئی ہے۔ ان غیر ملکی سیاحوں کا یہ مسئلہ نہیں کہ وہ مسلم گروہ میں شامل ہونے کے فوائد جاننا چاہتے ہیں۔ البتہ وہ شعوری یا غیرشعوری طورپر سچائی کے متلاشی ہیں۔ وہ روحانیت کی تلاش میں ہیں۔ اسی قسم کی باتیں ان کو اپیل کرسکتی ہیں۔ ان لوگوں کے لیے اس طرزِ خطاب میں کوئی کشش نہیں کہ تم مسلمان ہوجاؤ تو تم کو یہ فوائد حاصل ہوں گے۔
پوری کتاب اس قسم کے غیر فطری انداز میں لکھی گئی ہے۔ موجودہ صورت میں وہ صرف کچھ روایتی مسلمانوںکو پسند آسکتی ہے۔ وہ تعلیم یافتہ غیر مسلموں کے اعتبارسے کوئی قابلِ مطالعہ کتاب نہیں۔
یہ کتاب بظاہر اسلام کی عمومی دعوت کے لیے لکھی گئی تھی۔ مگر وہ شروع سے آخر تک صرف مسلم ذہن کی نمائندگی کررہی تھی۔ اس کو پڑھ کر ایک پیدائشی مسلمان تو خوش ہوسکتا تھا مگر عام انسان کے لیے اس میں کو ئی اپیل نہ تھی۔ میرا تجربہ ہے کہ موجودہ زمانہ کے مسلم اہل قلم صرف ایسی کتابیں لکھ سکتے ہیں جو مسلم ذہن کو اپیل کریں۔ اپنے قومی ذہن کی بنا پر وہ اس کے لیے نااہل بن چکے ہیں کہ وہ ایسی کتاب تیار کریں جو عام انسان کے ذہن کو ایڈریس کرنے والی ہو۔
۱۲ مارچ کو بھوپال کی یونیورسٹی میں خطاب کا پروگرام تھا۔ اس خطاب کا عنوان یہ تھا: امنِ عالم میں بھارت کا رول۔ یونیورسٹی کے ہال میں طلبہ اور اساتذہ بڑی تعداد میں موجود تھے۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور دوسرے کئی حضرات نے شرکت کی۔
میںنے اپنی مفصل تقریر میں بتایا کہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ امن عالم کے معاملہ میں انڈیا کا رول بہت اہم ہے۔ مہاتما گاندھی انڈیا کے مشہور ترین لیڈر تھے۔ ۱۹۱۹ میں انہوں نے انڈیا کی جدوجہد آزادی کی قیادت سنبھالی۔ اس سے پہلے انڈیا اور ساری دنیا میں لوگوں کو سیاسی جدوجہد کا ایک ہی طریقہ معلوم تھا اور وہ پُر تشدد جدوجہد تھا۔ مہاتما گاندھی نے انڈیا کی جدوجہد آزادی کو نئی شکل دی۔ انہوں نے اس کو مکمل طورپر پُر امن طریقِ کار کی بنیاد پر قائم کیا۔ انڈیا کے تمام لیڈروں، بشمول مسلم لیڈروں نے، مہاتما گاندھی کا ساتھ دیا۔ یہ مہم کامیاب رہی۔ یہاں تک کہ ۱۵ اگست ۱۹۴۷ کو انڈیا مزید خون بہائے بغیر آزاد ہوگیا۔
انڈیا میں پُر امن طریقِ کار کے اس کامیاب تجربہ کا اثر عالمی سیاست پر پڑا۔ مختلف ملکوں کے لیڈروں نے اس کو اختیار کرلیا۔ مثلاً ساؤتھ افریقہ کے لیڈر نیلسن منڈیلا، امریکا کے سیاہ فام لیڈر مارٹن لوتھر کنگ، وغیرہ۔ میں نے مزید بتایا کہ پُر امن طریقِ کار کا یہ اصول اسلام میں بہت پہلے بتایا جاچکا تھا۔ مثلاً پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: ان اللہ یعطی علی الرفق مالا یعطی علی العنف( صحیح مسلم)۔ یعنی اللہ رفق پر وہ چیز دیتا ہے جو وہ عنف پر نہیں دیتا۔
God grants to non-violence what he does not grant to violence.
۱۲ مارچ کی شام کو دو قسطوں میں طویل نشست ہوئی۔ اس نشست کا عنوان یہ تھا: تحریک الرسالہ منزل بہ منزل۔ اس نشست میں میں نے تفصیل کے ساتھ الرسالہ مشن کے ماضی اور حال کو بیان کیا۔ اس پوری تقریر کی باقاعدہ طورپر آڈیو ریکارڈنگ ہوئی تاکہ اس کے کیسیٹ تیار کیے جاسکیں۔
میںنے اس تفصیلی تقریر میں جو کہا اس کا خلاصہ یہ تھا کہ الرسالہ مشن میری زندگی سے مکمل طورپر جُڑا ہوا ہے۔ اس لیے اس کی وضاحت کے لیے مجھے کچھ اپنے بارے میں بتانا ہوگا۔ میںنے کہا کہ میرے نزدیک الرسالہ مشن ۱۹۳۸ سے شروع ہوتا ہے۔ اس وقت میرے گھر کا جو ماحول تھا اُس کے لحاظ سے مجھے انگریزی تعلیم کی طرف جانا چاہیے تھا۔ مگر میرے چچا صوفی عبد المجید خاں (وفات ۱۹۴۸) نے اصرار کرکے میرا داخلہ عربی مدرسہ میںکرایا۔ اُنہوں نے شروع سے آخر تک تمام اخراجات کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لی۔ اس طرح یہ ممکن ہوا کہ میںایک عربی درسگاہ میں تعلیم حاصل کروں۔ میں سمجھتا ہوں کہ عربی درسگاہ میں تعلیم کے بغیر میرے لیے یہ ناممکن تھا کہ میں الرسالہ مشن جیسی دینی تحریک چلا سکوں۔ اس معاملہ کو میں نے مدرسہ کی کئی مثالوں سے واضح کیا۔ مدرسہ کے بارہ میں مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، راقم الحروف کی کتاب ،دین و شریعت، باب دینی مدارس۔
موجودہ زمانہ کے مسلم رہنما تقریباً سب کے سب کسی وقتی ردعمل کے تحت اُبھرے ہیں۔ مگر مدرسہ کے تحت میری تعلیم کا یہ نتیجہ ہوا کہ میری سوچ حالات کے رد عمل کے زیر اثر نہیں بنی بلکہ خود مذہبِ اسلام کی مثبت تعلیم کے تحت بنی۔ اُس زمانہ کی تحریکوں میں سے کسی بھی تحریک سے میں متاثر نہیں ہوسکا۔ میرا ذہن تمام تر قرآن اور حدیث اور سیرت کی روشنی میں بنتا رہا۔
میں نے کہا کہ اپنی پچھلی زندگی میں میں کئی مسلم جماعتوں سے محدود مدت کے لیے وابستہ رہا ہوں۔ مگر میری یہ وابستگی تنظیمی اعتبار سے تھی، وہ فکری یا نظریاتی اعتبار سے نہ تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ میں ایک پیدائشی داعی ہوں۔ آج میری جو سوچ ہے، میری وہی سوچ ابتدائی دور سے میرے اندر موجود رہی ہے۔ مثلاً میں ۱۹۴۸ میں جماعت اسلامی سے وابستہ ہوا۔ مگر یہ وابستگی زیادہ تر تنظیمی وابستگی تھی۔میرا فکر اُس وقت بھی وہی تھا جو بعد کو الرسالہ کے صفحات میں نمایاں ہوا۔
اس کا ایک ثبوت میری کتاب ’’قرآن کا مطلوب انسان ‘‘میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اس کتاب میں جو مضامین ہیں وہ سب کے سب اُس زمانہ میں لکھے گئے اور شائع ہوئے جب کہ میں جماعتِ اسلامی سے وابستہ تھا۔ کوئی بھی شخص جو اس کتاب کو پڑھے وہ پائے گا کہ جو ذہن آج الرسالہ کے صفحات میں نظر آتا ہے، ٹھیک وہی ذہن ان قدیم مضامین کو لکھتے وقت میرے اندر پایا جاتا تھا۔
مثال کے طورپرقرآن کا مطلوب انسان میںایک مضمون ’’دعوت اسلامی کے کارکنوں کی ذمہ داریاں‘‘ شامل ہے۔ یہ تحریر جماعت اسلامی کے ترجمان سہ روزہ دعوت کے شمارہ ۵ ستمبر ۱۹۵۵ میں شائع ہوئی تھی۔ کوئی آدمی اِس مضمون کو پڑھے اور اس کے بعد وہ اس کے پچاس سال بعد چھپنے والے اُس مضمون کو پڑھے جو الرسالہ دسمبر ۲۰۰۴ میں اس عنوان کے تحت چھپا ہے: ڈرو اس سے جو وقت ہے آنے والا، قاری محسوس کرے گا کہ لکھنے والے کا ذہن پچاس سال بعد بھی وہی ہے جو کہ پچاس سال پہلے اُس کا تھا۔
یہ میری خوش قسمتی تھی کہ میری تعلیم ایک ایسے عربی مدرسہ میں ہوئی جہاں پورا قرآن بطور نصاب پڑھایا جاتا تھا۔ اس بنا پر فطری طور پر ایسا ہوا کہ میرا ذہن ہر سوال کا جواب اور ہر مسئلہ کا حل قرآن سے اخذ کرنے لگا۔ میری ذہنی ساخت کے مطابق، کوئی اور چیز میرے فکر کا ماخذ نہ بن سکی۔
یہ عربی درسگاہ مدرسۃ الاصلاح تھی۔ ا س مدرسہ کے بانی مولانا حمید الدین فراہی نے اس کا نصاب قرآن کی بنیادپر وضع کیا تھا۔ مگر اسی کے ساتھ یہ ہوا کہ اس میں مولانا حمید الدین فراہی کا تفسیری اُصول شامل ہوگیا۔ مولانا فراہی کا ماننا تھا کہ نظم، فہم قرآن کی کلید ہے۔ چنانچہ مدرسہ میں قرآن کی تعلیم ’’نظام القرآن‘‘ کے اصول پر دی جاتی تھی۔ ابتداء ً میں بھی اس سے متاثر ہوا۔ مگر بعد کو میرے ذہن نے اس کو رد کردیا۔
اس تعلیم کے نتیجہ میں میرے اندر فکری طورپر قرآنی شاکلہ بنا۔ میں تمام معاملات کو قرآن کی روشنی میں دیکھنے لگا۔ ہر مسئلہ کا جواب قرآن میں تلاش کرنے لگا۔ مسلمانوں کے لیے راہ عمل کیا ہو، اس سوال کا جواب قرآن میں ڈھونڈھنے لگا۔ مدرسہ کی تعلیم کا یہ بلا شبہہ بہت بڑا فائدہ تھا جو مجھ کو اپنی ابتدائی عمر میں حاصل ہوگیا۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ۱۹۴۷ کے بعد ہندستان میں فرقہ وارانہ فسادات شروع ہوئے تو مسلمانوں کے تمام لکھنے اور بولنے والے لوگ صرف ایک ہی بات لکھنا اور بولنا جانتے تھے اور وہ یہ کہ حکومت کو اس کا ذمہ دار قرار دے کر اُس کے خلاف شکایت اور احتجاج کا لفظی ہنگامہ کھڑا کرنا۔ میں نے بتایا کہ اس مسئلہ کا یقینی حل قرآن میں بتایا گیا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ مسلمان اس معاملہ میں صبر اور تقویٰ کی روش اختیار کریں، اس کے بعد دوسروں کی سازش انہیں کچھ بھی نقصان نہ پہنچا سکے گی (آل عمران ۱۲۰) اسی اصول کو اختیار کرنے کا یہ نتیجہ ہے کہ اب ہندستان میں فرقہ وارانہ فسادات کا تقریباً خاتمہ ہوگیا ہے۔
میں نے مزید کہا کہ کسی کے لیے بھی مدرسہ کی تعلیم کافی نہیں ہوسکتی۔ رسمی تعلیم کسی کو معلومات دے سکتی ہے۔ مگر ایک اور چیز ہے جو مدرسہ کی تعلیم سے نہیں ملتی ۔ وہ ہمیشہ ذاتی مطالعہ اور غور وفکر کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے۔ یہ منطقی تجزیہ (logical analysis) ہے۔ تجزیہ اور تحلیل کے ذریعہ آدمی حاصل شدہ معلومات کو با معنٰی بناتا ہے۔ تجزیہ کی صلاحیت کے بغیر معلومات کا فائدہ بہت کم ہے۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ امیر شکیب ارسلان کی کتاب لما ذا تاخر المسلمون و تقدم غیرہم کو میں نے مدرسہ کے زمانہ میں پڑھا تھا۔ مگر اس کتاب میں کیا کمی ہے، اس کو میں اُس وقت دریافت نہ کرسکا۔ بہت دنوں کے بعد حال میں میں نے اس کتاب کو دوبارہ پڑھا۔ اب میں نے جانا کہ یہ کتاب اپنے شاندار ٹائٹل کے باوجود ایک سطحی کتاب ہے۔ اس کی زبان یقینا بہت عمدہ ہے۔ مگر وہ حقیقی معنویت سے خالی ہے۔
حالیہ مطالعہ کے بعد میںنے غور کیا کہ اس کتاب میںمسلم اور غیر مسلم دونوں کے لیے تقدم اور تاخر کا ایک ہی معیار تسلیم کیاگیا ہے، اور وہ سیاسی اور مادی ہے۔ مصنف دونوں گروہ کو اسی ایک کسوٹی پر جانچ رہے ہیں۔ حالاں کہ یہ مفروضہ غلط ہے۔ عجیب بات ہے کہ اس قسم کے لوگ ایک طرف مسلمانوں کو خیر الأمم اور أفضل الأمم بتاتے ہیں اور دوسری طرف وہ ان کو اُسی معیار سے جانچنے لگتے ہیں جو دوسری قوموں کے نزدیک ترقی اور تنزل کا معیار ہے۔ جب کہ دونوں کا معیار ایک نہیں ہوسکتا۔
الرسالہ مشن کے بارہ میں جو تفصیلات میںنے بتائیں اُس سے حاضرین بہت زیادہ متاثر ہوئے۔ کئی لوگوں کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ایک صاحب نے کہا کہ ہم کو یہ معلوم نہ تھا کہ الرسالہ مشن کے سلسلہ میں آپ کو اتنے سنگین مراحل سے گذرنا پڑا ہے۔ اس تقریر کو دو کیسٹ میں ریکارڈ کیا گیا تھا مگر وہ مکمل نہ ہوسکا۔اس سلسلہ میں تیسرے کیسٹ کی ریکارڈنگ ابھی باقی ہے۔ انشاء اللہ کسی اور موقع پر اس سلسلہ کا تیسرا کیسٹ تیار کیا جائے گا۔ اس کے بعد تینوں کیسٹ کی نقلیں تیار کی جائیںگی تاکہ مختلف مقامات کے لوگ اس کو حاصل کرسکیں۔
ایک مجلس میں مختلف موضوعات پر گفتگو ہوئی۔ ایک مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے میںنے کہا کہ تاریخ کا ایک دردناک تجربہ یہ ہے کہ پوری تاریخ میں کبھی مثبت معنوں میں کوئی زیادہ بڑا اور گہرا کام نہ ہوسکا۔ اس عموم میں صرف ایک ہی استثناء ہے اور وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے۔ آپ کے ذریعہ مسلمہ طورپر ایک عظیم انقلاب برپا ہوا، ایک ایسا انقلاب جو اپنے مثبت نتائج کے اعتبار سے نہ آپ سے پہلے پیش آیا اور نہ آپ کے بعد۔
مسلمان عام طورپر اس معاملہ کو فضیلت اور تقدس کی اصطلاحوں میں سوچتے ہیں۔ اس لیے اس واقعہ کے سبق آموز پہلو کو وہ سمجھ نہیں پاتے۔ میرے مطالعہ اور تجربہ کے مطابق کسی مشن کی حقیقی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ اس کو اعلیٰ صلاحیت رکھنے والے افراد کی ایک ٹیم حاصل ہوجائے۔ مگر تاریخ میں بار بار ایسا ہوا کہ ایک شخص نے ایک دور رس مشن شروع کیا۔ ابتداء میں اعلیٰ صلاحیت والے لوگ اس مشن سے جڑے مگر جلد ہی وہ اس سے الگ ہوگئے۔میرے تجربہ کے مطابق، اس کا سبب یہ ہوتا ہے کہ اعلیٰ صلاحیت کے افراد کے اندر جلد ہی یہ سوچ آجاتی ہے کہ ہم دوسرے کا ضمیمہ کیوں بنیں۔ کیوں نہ ہم خود اپنا ایک مستقل مشن کھڑا کریں۔ یہی واقعہ تاریخ کے تمام صاحب مشن افراد کے ساتھ پیش آیاہے۔
خود الرسالہ مشن کے بارے میں بھی میرا تجربہ یہی ہے۔ ابتدائی زمانہ میں کم ازکم ایک درجن ایسے افراد ہمارے ساتھ جڑے جو نہایت اعلیٰ صلاحیت رکھتے تھے۔ مگر بعد کو ان سب نے یہ کیا کہ ہم سے کٹ کر اپنی علیٰحدہ دنیا بنانے کی کوشش کی۔ ان میں سے کچھ نے خاموشی کے ساتھ اپنا الگ کام شروع کردیا اور کچھ نے الگ کام کے ساتھ ہماری مخالفت کو بھی ضروری سمجھا، شاید اس لیے کہ وہ اپنی علیٰحدگی کو جائز ثابت کرسکیں۔ تاہم ہمارے کئی ساتھی ایسے ہیں جو اعلیٰ صلاحیت کے باوجود ہمارے ساتھ مسلسل جڑے رہے۔ انہی میں سے ایک نام بھوپال کے ڈاکٹر محمد حمید اللہ ندوی کا ہے۔
ایک صاحب نے کہا کہ میں نے درسِ قرآن کا ایک کیسٹ سُنا۔ اُس میںقرآن کی یہ آیت آئی: یا ایہا الذین آمنوا کونوا قوامین بالقسط (النساء ۱۳۵) اُنہوں نے کہا کہ اس کیسٹ میں قرآن کی اس آیت کی تشریح یہ کی گئی تھی کہ اے ایمان والو، تم قسط کو قائم و نافذ کرنے والے بنو۔ ساری دنیا میں قسط اور عدل کا نظام قائم کرو۔ اس مقصد کے لیے جنگ کی ضرورت پیش آئے تو تم کو جنگ کرکے ساری دنیا میں قسط کا نظام برپا کرنا چاہیے۔ اُنہوں نے پوچھا کہ کیا آیت کی یہ تشریح درست ہے۔
میں نے کہا کہ یہ ایک بے بنیادتشریح ہے۔ اس کا قرآن سے کوئی تعلق نہیں۔ قوامین بالقسط کا مطلب، خود قسط کی پیروی کرنا ہے، نہ کہ خارجی دنیا میں قسط کا نظام نافذ کرنا۔ اس قسم کی تفسیروں سے نہایت غلط ذہن بنتا ہے۔ قرآن کے مطالعہ یا درس کا اصل فائدہ یہ ہے کہ آدمی کے اندر خود احتسابی کا مزاج بنے۔ وہ اصلاحِ خویش کے عمل میں مصروف ہوجائے۔ مگر مذکورہ قسم کے درسِ قرآن سے اُلٹی سوچ بنتی ہے۔ اس سے لوگوں کے اندر سیاسی اور خارجی ذہن بنتا ہے، نہ کہ داخلی ذہن، جو کہ اصلاً مطلوب ہے۔
اصل یہ ہے کہ عربی زبان میں دو لفظ الگ الگ ہیں، قائم اور مقیم۔ قائم کا لفظ لازم کا صیغہ ہے اور مقیم کا لفظ متعدی کا صیغہ۔ اس آیت میں قوّام کا لفظ قائم کامبالغہ ہے، وہ مقیم کا مبالغہ نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اے ایمان والو، تم خوب خوب قسط پر قائم ہوجاؤ، اپنی زندگی میں زیادہ سے زیادہ قسط کی پیروی کرو۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تم قسط کو زمین پر نافذ کرنے والے بنو۔ میرے نزدیک اس قسم کی تفسیر نحوی انحراف کا واقعہ ہے۔ قرآن میں اس قسم کا نحوی انحراف سخت جسارت کی بات ہے۔ میں نے اپنے مطالعہ میں اس قسم کا نحوی انحراف صرف اردو تفسیروں میں پایا ہے۔ قدیم عربی تفسیروں میں نہیں۔ البتہ سید قطب کی فی ظلال القرآن میں ایسے نحوی انحراف کی مثالیں موجود ہیں۔
کچھ لوگوں سے مسلم صحافت کے بارہ میں بات ہوئی۔ میں نے کہا کہ ۱۹۴۷ کے بعد مسلمانانِ ہند کے درمیان جو ملّی صحافت پیدا ہوئی اس کو لکھنؤ کے ایک سابق روزنامہ قائد نے اپنے ایڈیٹوریل میں لکھا تھا کہ ہندستان کی مسلم صحافت احتجاجی صحافت ہے (۱۹۶۷) بد قسمتی سے مسلم صحافت کا یہ انداز ابھی تک جاری ہے۔ حالاں کہ اب حالات اتنے زیادہ بدل چکے ہیں کہ اب ایسی صحافت کا ہندستان میں کوئی مستقبل نہیں۔
میں نے اُسی زمانہ میں لکھا تھا کہ مسلمانوں کی احتجاجی صحافت صرف اُس وقت تک چلے گی جب تک مسلمان بے خبری کے دَو رمیں جی رہے ہیں۔ میں نے لکھا تھا کہ انڈیا مسلمانوں کے لیے عظیم مواقع (opportunities) کا ملک ہے۔ مگر نام نہاد رہنماؤں کی غلط رہنمائی کے نتیجہ میں وہ انڈیا کو اپنے لیے ایک پرابلم کنٹری سمجھ رہے ہیں۔ جس دن ایسا ہوگا کہ مسلمان انڈیا کو امکانات کے ملک کی حیثیت سے دریافت کریں گے اُسی دن شکایت اور احتجاج پر مبنی صحافت اور سیاست ختم ہوجائے گی۔
یہ دور اب انڈیا میں خاموشی کے ساتھ آچکا ہے۔ اب انڈیا کے مسلمان جان چکے ہیں کہ یہاں ان کے لیے ترقی کے بھرپور مواقع موجود ہیں، حتیٰ کہ اس سے بھی زیادہ جتنا کہ پاکستان اور دوسرے مسلم ملکوں میں پائے جاتے ہیں۔ چنانچہ اب انڈیاکا مسلمان تیزی سے تعلیم و ترقی کے راستہ پر سرگرمِ سفر ہوگیا ہے۔ اب اس ملک میں قدیم طرز کی احتجاجی سیاست کامیاب ہونے والی نہیں۔
ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمان سے ملاقات ہوئی۔ وہ نہایت ذہین تھے اور رسمی تعلیم کے علاوہ انہوں نے اسلامیات کا مطالعہ بھی کیا تھا۔ اُنہوں نے کہا کہ آپ لوگ اسلام کو فائنل مذہب بتاتے ہیں۔ مگر مجھے تو اسلام ایک دُشوار گذار جنگل معلوم ہوتا ہے جس سے گذر کر اپنی منزل تک پہنچنا سخت دشوار ہو۔
اُنہوں نے کہا کہ قرآن بلا شبہہ ایک محفوظ کتاب ہے۔ مگر قرآن میں صرف اُصولی تعلیمات ہیں۔ اس بنا پر قرآن میں ایک سے زیادہ تعبیر (interpretation) کی گنجائش ہوگئی ہے۔ حدیث کے ذخیرہ میں ضعیف اور موضوع احادیث شامل ہوگئی ہیں۔ کتب صحاح بھی اس سے پاک نہیں۔ سیرت کو عملاً مغازی کی داستان بنا دیاگیا ہے۔ اسلامی تاریخ بھی سیاسی واقعات کی تاریخ بنی ہوئی ہے۔ فقہ بھی اختلافی بحثوں کا مجموعہ ہے۔ کتب عقائد بھی اختلافات سے خالی نہیں۔ ایسی حالت میں ایک طالب علم کے لیے یہ سمجھنامشکل ہوگیا ہے کہ اسلام حقیقت میںکیا ہے۔
میں نے کہا کہ آپ کی یہ بات بطور واقعہ ایک حد تک درست ہے۔ مگر جہاں تک میں سمجھتا ہوں، یہ کوئی نقص کی بات نہیں۔ اصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو تقلیدی اسلام مطلوب نہیں۔ اللہ تعالیٰ کو وہ انسان مطلوب ہے جو اسلام کو ایک ڈسکوری کے طورپر دریافت کرے۔ اس کو قرآن میں معرفتِ حق (المائدہ ۸۳) کہا گیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ایمان باللہ وہ ہے جو کسی کو معرفت کی سطح پر ملے، نہ کہ محض تقلید کی سطح پر۔
اسلام کی موجودہ صورت ہی کی بنا پر یہ ممکن ہوتا ہے کہ ایک آدمی کے اندر غور و فکر کا عمل اُبھرے۔ وہ گہرے مطالعہ اور تجزیہ کے مراحل سے دوچار ہو۔ وہ ابہام کی وادیوں سے گذرے۔ وہ اپنی تمام صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے اپنی تلاش کو یافت بنائے۔ وہ شک کے پردوں کو پھاڑ کر یقین کا مقام حاصل کرے۔ وہ اپنی بصیرت کو اس حد تک بیدار کرے کہ وہ نہ دکھائی دینے والے عالم کو دیکھنے لگے۔ وہ خدا کا اس طرح پرستار بن جائے جیسے کہ وہ خدا کو دیکھ رہا ہے۔ وہ افکار کے جنگل میں روشنی کے مینار کو پالے۔ اسی کا نام عارفانہ ایمان ہے، اور خدا کو عارفانہ ایمان مطلوب ہے، نہ کہ مقلدانہ ایمان۔
میں نے کہا کہ قرآن کی سورہ نمبر ۳ میں ارشاد ہوا ہے: آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات دن کے باری باری آنے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ جو کھڑے اور بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے رہتے ہیں۔ وہ کہہ اُٹھتے ہیں اے ہمارے رب، تو نے یہ سب بے مقصد نہیں بنایا۔ تو پاک ہے، پس ہم کو آگ کے عذاب سے بچا (آل عمران ۱۹۰۔۱۹۱)۔
اس قرآنی بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ آدمی غور وفکر کے ذریعہ سچائی تک پہنچتا ہے۔ اگر سچائی کو پانے کے لیے غوروفکر کی ضرورت نہ ہوتی تو قرآن کو ایک مینول (manual) کے روپ میں اتارا جاتا۔ اس میں ریاضیات کی زبان میں کچھ قانونی احکام ہوتے۔ آدمی کسی ذہنی کاوش کے بغیر سادہ طورپر صرف اس کو پڑھ کر جان لیتا۔
مگر اس قسم کا رسمیاتی ایمان خداکو مطلوب ہی نہیں۔ ایسا ایمان کسی روبوٹ جیسی مخلوق کا ہوسکتا ہے۔ مگر وہ انسان جیسی مخلوق کے لیے نہیں ہوسکتا۔انسان ایک زندہ اور صاحب فکر ہستی ہے۔ ایسے انسان سے یہی مطلوب ہے کہ وہ اپنی فکر ی صلاحیت کو متحرک کرکے حقیقت کو پائے۔اس طرح کی تلاش کے بعد جو حقیقت آدمی کوملے وہ اس کی پوری ہستی میں شامل ہوجاتی ہے۔ جب کہ مینول یا آداب (etiquette) جیسا ایمان آدمی کے وجود کا صرف ایک خارجی ضمیمہ ہوتا ہے۔ ایسا بے روح ضمیمہ خدا کو مطلوب نہیں۔
۱۲ مارچ کو ایک خصوصی پروگرام تھا۔ مدھیہ پردیش کے چیف منسٹر کی دعوت پر میں اُن کی سرکاری رہائش گاہ پر گیا۔ میرے ساتھ پندرہ افراد تھے۔ تعداد کو محدود رکھنا تھا اس لیے کئی ساتھی اس میں نہ جاسکے۔ اُن میں سے دو کے نام یہ ہیں: استتھی ملہوترہ اور منجو ورمانی۔جب میں چیف منسٹر کی رہائش گاہ سے واپس آیا تو معلوم ہوا کہ دونوں خواتین بہت غم زدہ ہیں اور اس محرومی پر رو رہی ہیں۔
میںنے دونوں کو بلایا اور کہا کہ آپ کا یہ منفی تاثر ہمارے مشن کی اسپرٹ سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ہمارا مشن یہ ہے کہ ہر منفی تجربہ کو مثبت سوچ میں تبدیل کیا جائے۔ میںنے کہا کہ آپ اپنی سوچ کو بدلیے۔ اس معاملہ میں آپ اس طرح سوچئے کہ اس موقع پر دوسروں کو اگر شرکت (participation) کا موقع ملا تو آپ کو یہ موقع ملا کہ آپ قربانی (sacrifice) کا ثبوت دے کر زیادہ بڑے انعام کے مستحق بن سکیں۔ یہ بات ان کی سمجھ میں آگئی اور دونوں خواتین محرومی کے احساس کو بھلا کر یافت کے احساس سے خوش ہوگئیں۔
سوال و جواب
بھوپال کے اجتماع کے موقع پر بہت سے لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ ان میں مسلم بھی تھے اور غیر مسلم بھی۔ ان ملاقاتوں کے درمیان لوگوں نے مختلف قسم کے سوالات کیے۔ اس سوال و جواب کی مختصر روداد یہاں نقل کی جاتی ہے۔
۱۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے میں نے کہا کہ بعد کے دور کے مسلم علماء نے جو باتیں کہی ہیں، ان کی ایک قسم وہ ہے جو نص قطعی پر مبنی ہو۔ کوئی عالم جب ایک ایسی بات کہے جو قرآن وحدیث کے ثابت شدہ حوالوں پر مبنی ہو تو ایسی رائے پر کسی کو تنقید کا حق نہیں۔ مثلاً ایک عالم اگر یہ کہتا ہے کہ نماز اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک رُکن ہے تو اس پر کوئی شخص تنقید کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ کیوں کہ یہ رائے ایک معلوم نص پر مبنی ہے۔
رائے کی دوسری قسم وہ ہے جو قرآن و حدیث پر اضافہ کے ہم معنٰی ہو۔ مثلاً دار الکفر، دار الحرب اور دار الاسلام کی اصطلاحیں مقرر کرنا۔ ایسی رائے شرعی اصطلاح کے مطابق ایک اجتہاد ہے۔ اجتہاد کے بارے میں شریعت کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ مجتہد کا اجتہاد صحیح بھی ہوسکتا ہے اور غلط بھی (المجتہد یخطیٔ ویصیب) اس کا مطلب یہ ہے کہ جو رائے اجتہاد کی نوعیت رکھتی ہو اس کے بارے میں ہر ایک کو حق ہے کہ وہ اس کو جانچ کر دیکھے کہ و ہ عالم کا صحیح اجتہاد ہے یا غلط اجتہاد۔ گویا جہاں اجتہاد آیا وہاں اس سے اختلاف کرنا ممکن ہوگیا۔ ایسی حالت میں کسی عالم کی اجتہادی رائے پر علمی تنقید کرنا یقینی طور پر جائز ہے۔ جو لوگ ایسی تنقید کو بُرا سمجھیں وہ خود شرعی اعتبار سے ایک غلطی کا ارتکاب کررہے ہیں۔
۲۔ ایک سوال کے جواب میں میں نے کہا کہ میںاسلامی ریاست کے قیام کا مخالف نہیں ہوں۔ میرا کہنا صرف یہ ہے کہ ریاست سے پہلے ہمیشہ افرادِ ریاست کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیوں کہ یہ دراصل افراد ہیں جو کسی نظریاتی ریاست کو قائم کرتے ہیں۔ اسلامی ریاست کاغذ سے نکل کر زمین پر قائم نہیں ہوتی۔
آج بھی دنیا میں مسلمانوں کی ۵۷ ریاستیں ہیں۔ ان میں وہ ریاستیں بھی موجود ہیں جو اسلامی ریاست کے نام ہی پر قائم کی گئیں۔ مگر جیساکہ معلوم ہے، ا ن میں سے کوئی بھی ریاست حقیقی معنوں میں اسلامی ریاست نہیں۔ حتیٰ کہ ان میں سے کسی ریاست کو کامیاب قومی ریاست بھی نہیں کہا جاسکتا، جیسا کہ سنگاپور یا جاپان کو کامیاب قومی ریاست کہا جاتا ہے۔
اسلامی ریاست بلا شبہہ ایک مطلوب چیز ہے۔ مگر اس کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے فکری عمل کے ذریعہ اسلامی افراد تیار کیے جائیں۔ اس کے بعد غیر سیاسی تحریک کے ذریعہ اسلامی معاشرہ بنایا جائے۔ اس کے بعد وہ وقت آئے گا جب کہ اسلامی ریاست کسی زمینی خطہ میں قائم ہو۔ اسلامی ریاست کے نام پر جنگجویانہ تقریر یں کرنا یا قائم شدہ حکومتوں کے خلاف سیاسی ہنگامے کھڑے کرنا بلا شبہہ ایک مجرمانہ فعل ہے، وہ کسی درجہ میں بھی اسلامی ریاست کی طرف کوئی اقدام نہیں۔
۱۹۴۷ میں جب پاکستان بنا تو وہاں کے ایک مسلم رہنما نے کہا تھا کہ : پاکستان اسلام کے نام الاٹ ہوچکا ہے۔ اُنہوں نے اس مفروضہ کی بنیاد پر پاکستان میں اسلامی حکومت کے قیام کے لیے دھواں دھار تحریک شروع کردی۔ مگر آخر میں یہ معلوم ہوا کہ پاکستان اسلام کے نام الاٹ نہیں ہوا تھا بلکہ وہ صرف ایک بگڑی ہوئی مسلم قوم کے نام الاٹ ہوا تھا۔ یہ تلخ تجربہ کافی ہے کہ اب دوبارہ اس نام نہاد اسلامی سیاست کو نہ دہرایا جائے۔
۳۔ ایک اور سوال کے جواب میں میںنے کہا کہ انڈیا میں مسلمانوں کو ہر قسم کے اعلیٰ مواقع حاصل ہیں۔ مگر میرے تجربہ کے مطابق، یہاں شاید کوئی ایک بھی مسلمان نہیں جو اس کو ایک نعمت سمجھے اور اس پر خدا کا شکر ادا کرے۔ ۱۹۴۷ کے بعد سے اب تک مسلمانوں کے تمام لکھنے اور بولنے والے صرف بے بنیاد شکایتوں کا دفتر کھولے ہوئے ہیں۔ یہ بلاشبہہ ناشکری کا ایک واقعہ ہے۔ بدقسمتی سے ناشکری کے اس ناروا فعل میں مسلمانوں کے مذہبی اور سیکولر د ونوں قسم کے لوگ مبتلا ہیں۔
میں نے کہا کہ ہندستان کے ایک مسلم اسپیکر نے ملی موضوعات پر ایک تقریر کی۔ تقریر کے آخرمیں ایک ہندو نے سوال کیا کہ آپ لوگ کیوں ہم کو کافر کہتے ہیں، حالاں کہ کافر ایک ڈیروگیٹری (derogatory) لفظ ہے۔ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے مسلم مقرر نے کہا کہ ہمارے نزدیک جو شخص مسلم نہیں وہ کافر ہے۔ کافر کا لفظ نان مسلم کے ہم معنٰی ہے۔ آپ اسلام قبول کرکے مسلم بن جائیں تو ہم آپ کو کافر نہیں کہیں گے۔
یہ بلا شبہہ ایک غلط جواب ہے۔ اس کی غلطی اس طرح سمجھی جاسکتی ہے کہ پاکستان میں اگر کوئی ہندو مقرر ہندوازم پر تقریر کرے اور پھر ایک پاکستانی مسلمان اُس سے کہے کہ آپ لوگ مسلمانوں کو ملچھ کیوں سمجھتے ہیں اور ہندو مقرر اس کے جواب میں یہ کہے کہ ہمارے نزدیک جو شخص ہندونہیں وہ ملچھ ہے، آپ لوگ اپنا مذہب بدل کر ہندو بن جائیں تو ہم آپ کو ملچھ نہیں کہیں گے۔ اگر پاکستان کا کوئی ہندو پبلک اسٹیج پر اس طرح بولے تو اس کو اُسی وقت قتل کردیا جائے گا۔ اس کے برعکس ہندستان کے مذکورہ مسلم مقرر بدستور امن کے ساتھ ہندستان میں رہ رہے ہیں۔ ان کی تقریر کے ویڈیو کیسیٹ جگہ جگہ دیکھے اور سنے جارہے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہندستان مسلمانوں کے لیے کتنی بڑی نعمت ہے۔ تاہم مذکورہ قسم کا واقعہ ہندستان کی آزادی کو مِس یوز (misuse) کرنے کے ہم معنٰی ہے۔ ایسا فعل شریعت کے خلاف بھی ہے اور عقل کے خلاف بھی۔
۴۔ ایک مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے میں نے کہا کہ موجودہ زمانہ میں کئی ایسے لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے انگریزی زبان میں اسلام پر کتابیں لکھیں۔ مثلاً جسٹس امیر علی اور پروفیسر مجیب، وغیرہ۔ مگر ان لوگوں نے اسلام کی مرعوبانہ تشریح کی۔ وہ اسلام کو اس کی صحیح صورت میں پیش نہ کرسکے۔
مثلاً جسٹس امیر علی نے اپنی کتاب اسپرٹ آف اسلام میں تعدد ازواج کی توجیہہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ قرآن کی اس تعلیم کو قدیم قبائلی رواج کی روشنی میں دیکھنا چاہیے، کیوں کہ اس وقت تعدد ازواج کا عام رواج تھا اور اس کو بُرا نہیں مانا جاتا تھا۔ مگر یہ توجیہہ درست نہیں۔ اس قسم کی توجیہات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسلام قدیم زمانہ کے لیے تھا۔ موجودہ زمانہ میں اسلام قابلِ عمل نہیں۔
۵۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے میںنے کہا کہ آج کل سوشل ورک اور کمیونٹی ورک وغیرہ کا بہت چرچا ہے مگر اسلامی نقطۂ نظر کے مطابق یہ سوچ درست نہیں۔ قرآن میں ارشاد ہوا ہے: کہو کہ اگر تمہارے با پ اور تمہارے لڑکے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارا قبیلہ اور وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور وہ تجارت جس کے بند ہونے سے تم ڈرتے ہو اور وہ گھر جن کو تم پسند کرتے ہو، یہ سب تم کو اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم بھیج دے اور اللہ نافرمان لوگوں کو راستہ نہیں دیتا (التوبہ ۲۴)
اس آیت کے مطابق، انسانی تعلق کی دو قسمیں ہیں۔ ایک ہے قلبی تعلق (loving relationship) اور دوسرا ہے عملی تعلق (working relationship) خدا کے نقشۂ تخلیق کے مطابق، دلی محبت کا تعلق صرف خالق کے ساتھ ہونا چاہیے۔ کوئی انسان خالق کے سوا کسی اور سے اگر دلی تعلق قائم کرتا ہے تو وہ خالق کے لیے قابل قبول نہیں ہوگا۔ ایسا آدمی خدا کی رحمت سے محروم کردیا جائے گا۔ البتہ جہاں تک عملی تعلق یا ضرورت کے تحت تعلق کی بات ہے، وہ کسی بھی غیر خدا کے ساتھ ہوسکتا ہے۔
اس اعتبار سے دیکھا جائے تو کمیونٹی ورک، فیملی لائف، ملی خدمت، قومی تعلق، سوشل ورک وغیرہ اگر ضرورت کے دائرہ میںکئے جائیں تو وہ خدا کی شریعت میں جائز قرار پائیں گے مگر ایسے کام کی حیثیت سکنڈری ہوگی نہ کہ پرائمری۔لیکن اگر انہی چیزوں کو سب کچھ بنا دیا جائے، آدمی کا ذہن انہی کاموں کے لیے سوچے، اس کا وقت اور پیسہ انہی کاموں پر خرچ ہو، وہ انہی باتوں کا چرچا کرے، وہ انہی باتوں کے لیے تحریکیں چلائے تو خدا کے نزدیک وہ قابل قبول نہیں ہوگا۔ یہی وہ سرگرمیاں ہیں جن کے بارے میں قرآن میں آیا ہے کہ وہ ان کو بہت اچھا کام سمجھتے ہیں مگر خدا کے یہاں وہ حبط اعمال کے خانہ میں ڈال دئے جائیں گے۔
۶۔ ایک سوال کی وضاحت کرتے ہوئے میںنے کہا کہ قرآن میں ایک مقام پر پچھلے پیغمبروں کا ذکر کرتے ہوئے پیغمبر اسلام سے کہاگیا ہے کہ : اولٰئک الذین ہدی اللہ فبہداہم اقتدہ (الأنعام ۹۰) ۔ یہی لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت بخشی، پس تم بھی ان کے طریقہ پر چلو۔
قرآن کی اس آیت سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ ہدایت کے اعتبار سے تمام پیغمبروں کا درجہ برابر ہے۔ ہر پیغمبر یکساں طورپر قابل اتباع ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ مختلف پیغمبر مختلف حالات میں پیدا ہوئے۔ ہر پیغمبر کی زندگی یہ بتاتی ہے کہ ان حالات میں دین خداوندی کی پیروی کا طریقہ کیا ہے۔ پیغمبروں کے درمیان فرق کرنا اس حکمتِ الٰہیہ کی تردید ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ جب بھی ایسا ہو کہ کسی پیغمبر کے زمانہ میں جو حالات تھے وہی حالات دوبارہ پیش آئیں تو بعد کے لوگوں کے لیے سابقہ پیغمبرکے طریقہ کی پیروی عین اسلام قرار پائے گی۔ یہ دراصل حالات کے فرق کا معاملہ ہے نہ کہ پیغمبروں کے درمیان فرق کا معاملہ۔
اس اُصول کو ملحوظ نہ رکھنے کی صورت میں خود پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی قابل عمل نہ رہے گی۔ مثلاً اگر یہ مانا جائے کہ فتح مکہ کے بعد کا دور نبوت تکمیلی دورِ نبوت ہے اور فتح مکہ سے پہلے کا دورِ نبوت غیر تکمیلی دورِ نبوت، تو پچھلے دور کے تمام پیغمبرانہ نمونے منسوخ قرار پائیں گے۔
مثلاً مکہ کے ابتدائی زمانہ میں چھپ کر نماز پڑھنا یا خفیہ دعوت دینا، کعبہ میں بتوں کی موجودگی سے تعرض نہ کرتے ہوئے دعوت کا کام کرنا، مخالفینِ قریش کے ظلم کو سہنا مگر اُن سے ٹکراؤ نہ کرنا، مکہ میں جنگی چیلنج سے اعراض کرتے ہوئے خاموشی سے مکہ چھوڑ کر مدینہ چلے جانا، طائف کے مشرک سرداروں سے پناہ طلب کرنا، ہجرت کے سفر میںدشمنوں کے خوف سے غارِ ثور میں چھپنا، مدینہ کے ابتدائی دور میں یہود کے ساتھ مصالحت کا معاملہ کرنا، وغیرہ۔ اس قسم کے تمام پیغمبرانہ واقعات بلا شبہہ اسلامی زندگی کے مطلوب نمونے ہیں۔ مگر فتح مکہ کے بعد کے زمانہ کو اعلیٰ زمانہ قرار دینے کی صورت میں یہ تمام نمونے منسوخ قرار پائیں گے اور ان نمونوں کی حکمت اہلِ اسلام کے لیے ناقابلِ فہم بن جائے گی۔ اسلام میں اصل چیز یہ ہے کہ مختلف حالات میں اہلِ ایمان نے کیا رسپانس دیا۔ اس لحاظ سے مکی دور اور مدنی دور دونوں کی حیثیت یکساں ہے۔ دونوں ہی دوروں میں قابل لحاظ بات یہ ہے کہ اہل ایمان اپنے حالات کے اعتبار سے وہ رسپانس دے سکیں جو اس وقت ان سے مطلوب تھا۔
۷۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے میں نے کہا کہ بیسویں صدی پوری تاریخ انسانی کی ایک استثنائی صدی تھی۔ اس صدی میں جدید افکار اپنے عروج پر پہنچ گئے۔ اس صدی میں دو انتہائی بڑے دماغ پیدا ہوئے۔ برطانیہ میں برٹرینڈ رسل اور انڈیا میں ڈاکٹر رادھا کرشنن۔ دونوں کا زمانہ تقریباً ایک ہے۔ برٹرینڈ رسل کی وفات ۱۹۷۰ میں ہوئی اور ڈاکٹر رادھا کرشنن کی وفات ۱۹۷۵ میں۔ دونوں نے لمبی عمر پائی۔ برٹرینڈ رسل نے الحاد کو ایک منظم فکر کی حیثیت دی، اور رادھا کرشنن نے شرک کو فلسفیانہ بنیاد فراہم کرنے کی کوشش کی۔
یہ دونوں مفکرین بلا شبہہ غلط سوچ کا شکار ہوئے۔ برٹرینڈ رسل نے الحاد کے لیے فلسفیانہ بنیاد فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ خدا نے اگر کائنات کو بنایا ہے تو خدا کو کس نے بنایا۔ مگر سائنسی حقائق، خاص طورپر بِگ بینگ کی دریافت، نے اس دلیل کو غیر سائنسی ثابت کردیا۔ ان دریافتوں کے بعد اب انسان کے لیے بے خدا کائنات اور باخدا کائنات کے درمیان چوائس نہیں رہا ہے بلکہ اب جو چوائس ہے وہ با خدا کائنات یا غیر موجود کائنات میں ہے۔ جدید دریافتوں کے بعد ہم علمی طورپر بے خدا کائنات کا چوائس نہیں لے سکتے۔ اس لیے ہم مجبور ہیں کہ ہم با خدا کائنات کا انتخاب کریں:
Now the choice is not between universe with God and universe without God. The real choice is between universe with God or no universe at all. Since we cannot opt for the second choice, we are compelled to opt for the first choice, that is universe with God.
۸۔ مذکورہ سوال کی مزید وضاحت کرتے ہوئے میں نے کہا کہ بیسویں صدی میں مذہبی نقطۂ نظر سے بڑا دماغ وہ تھا جس کو ڈاکٹر رادھا کرشنن کہا جاتا ہے۔ رادھا کرشنن نے شرک کو فلسفیانہ بنیاد فراہم کرنے کی کوشش کی۔ اُن کے افکار کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم جب خدا کی پرستش کے لیے بُت کو سامنے رکھتے ہیں تو وہ اس لیے نہیں ہوتا کہ ہم خود بُت کو خدا سمجھتے ہیں۔ بُت کو علامتی طورپر سامنے رکھنا صرف ذہنی ارتکاز (concentration) کے لیے ہوتا ہے۔
یہ توجیہہ بلا شبہہ غیر علمی اور غیر منطقی ہے۔ یہ اس مفروضہ پر قائم ہے کہ انسان نہ دکھائی دینے والی حقیقت کو ذہنی طور پر فوکس نہیں کرسکتا۔ حالاں کہ واقعہ اس کے برعکس ہے۔انسان کی سب سے بڑی صفت تصوراتی فکر (conceptual thinking) ہے۔ اسی صلاحیت کو استعمال کرکے انسان نے تمام بڑی بڑی حقیقتوں کو دریافت کیا ہے۔ حتیٰ کہ خود رادھا کرشنن نے اسی انسانی صلاحیت کوا ستعمال کرکے اپنا مذکورہ فلسفہ بنایاہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ انسان اپنی اس صلاحیت کو خدا کی پرستش کے معاملہ میں استعمال نہ کرسکے۔
حقیقت یہ ہے کہ بُت کو سامنے رکھ کر خدا کی پرستش کرنا خدا کی تصغیر ہے۔ یہ پرستش کی ایک کمتر صورت (reduced form) ہے۔ عبادت کے عمل کو کچھ رسمیات (rituals) کا درجہ دینا ہے۔ یہ ایک عجیب بات ہوگی کہ انسان دوسری اعلیٰ حقیقتوں کو تو اپنی تصوراتی تفکیر کے ذریعہ حاصل کرے۔ مگر خدا سے عبادتی تعلق کے لیے وہ اپنی تصوراتی فکر کی صلاحیت کو استعمال کرنے میں ناکام رہے۔
۹۔ مذکورہ مسئلہ کی مزید وضاحت کرتے ہوئے میں نے کہا کہ یہ ایک نہایت عجیب بات ہے کہ بیسویں صدی میں الحاد کو ایسے اعلیٰ ذہن ملے جنہوں نے الحادکو فلسفیانہ بنیاد فراہم کرنے کی کوشش کی۔ اسی طرح اس صدی میںایسے اعلیٰ ذہن ملے جنہوں نے شرک کو فلسفیانہ بنیاد فراہم کرنے کے لیے غیر معمولی کوشش کی۔ یہی کام موجودہ زمانہ میں توحید کے نظریہ کے بارہ میں ہونا چاہیے۔ مگر میرے مطالعہ کے مطابق، کوئی بھی بڑا ذہن ایسا نہیں اُبھرا جو توحید کے نظریہ کو فلسفیانہ بنیاد فراہم کرنے کا اہم کام انجام دے۔
یہ واقعہ ہے کہ بیسویں صدی میں توحید پرستوں کے حلقہ میں نہایت بڑے بڑے دماغ پیدا ہوئے۔ مثلاً سید جمال الدین افغانی، ڈاکٹر محمد اقبال، مولانا ابو الکلام آزاد، وغیرہ۔ مگر ان دماغوں نے اپنی اعلیٰ صلاحیت کو دوسرے غیر متعلق کاموں میں ضائع کیا۔ ان میں سے کوئی بھی یہ نہ کرسکا کہ وہ اپنی اعلیٰ صلاحیت کو برٹرینڈ رسل اور رادھا کرشنن کی سطح پر توحید کے نظریہ کو فلسفیانہ بنیاد فراہم کرنے کے لیے استعمال کرے۔
سید جمال الدین افغانی نہایت اعلیٰ صلاحیت کے آدمی تھے۔ مگر انہوں نے اپنی صلاحیتوں کو بے فائدہ سیاست میں ضائع کردیا۔ مولانا ابوالکلام آزاد ایک عبقری انسان تھے۔ مگر وہ بھی اپنی اعلیٰ صلاحیت کو وقتی سیاست میں ضائع کرتے رہے، یہاں تک کہ وہ دنیا سے چلے گے۔
ڈاکٹر محمد اقبال نے اس موضوع پر کچھ خطبات دیے جن کا مجموعہ تشکیل جدیدالٰہیات اسلامیہ (Reconstruction of Religious Thought in Islam) کے نام سے چھپا۔ مگر کتاب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود اس معاملہ میں غلط فکری کا شکار ہوکر رہ گئے۔ ان کا کام یہ تھا کہ وہ توحید کے حق میں اعلیٰ فکری استدلال فراہم کریں۔ مگر انہوں نے توحید کو وحدتِ وجود (monism) کے ہم معنیٰ سمجھ لیا۔ حالاں کہ وحدتِ وجود ایک منحرف عقیدہ ہے نہ کہ توحید کا پیغمبرانہ نظریہ۔
۱۰۔ اس مسئلہ کی مزید وضاحت کرتے ہوئے میںنے کہا کہ الرسالہ مشن اسی کمی کو پورا کرنے کی ایک کوشش ہے۔ الرسالہ مشن کے تحت درجنوں کی تعداد میں جو کتابیں اُردو، عربی، انگریزی، وغیرہ زبانوں میں چھاپی گئی ہیں وہ در اصل توحید کے نظریہ کو عصری اُسلوب اور عصری دلائل کی صورت میں پیش کرنا ہے تاکہ توحید کی صداقت کو ازسرِ نو وقت کے معیار ذہنی پر مدلل کیا جاسکے، اور اس کو وقت کے انسان کے لیے قابل فہم بنایا جاسکے۔
ایک صاحب جو بھوپال کے اجتماع میں شریک ہوئے تھے انہوں نے کہا کہ میں الرسالہ میں آپ کے سفرنامے پڑھتا تھا، مگر مجھے ابھی تک ان سفرناموں کی اہمیت سمجھ میں نہیں آئی تھی۔ آپ کے بھوپال کے سفر میں شریک ہوکر میں نے یہ جانا کہ آپ کا سفر عام سفروں سے بالکل الگ ہوتا ہے۔ اس میں اتنے زیادہ فائدے ہیں جو کسی سفر نامہ میں نہیں آسکتے۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں چاہتا ہوں کہ میں آپ کے ہر سفر میں شرکت کروں تاکہ آپ کے سفروں سے پورا پورا فائدہ حاصل کرسکوں۔ میںنے کہا کہ عملی طورپرایسا ممکن نہیں۔ اس کے بجائے آپ کو یہ کرنا چاہیے کہ اپنے اندر یہ صلاحیت پیدا کریں کہ سطور کے ساتھ آپ بین السطور کو پڑھ سکیں۔ اگر آپ اپنے اندر یہ صلاحیت پیدا کرلیں تو انشاء اللہ ہر سفر نامہ کو پڑھنے سے آپ کو وہی فائدہ ہوگا جو بھوپال کے سفر میں شرکت کی وجہ سے آپ کو حاصل ہوا ہے۔
۱۲ مارچ کی شام کو نماز عشاء کے بعد میری رہائش گاہ پر کئی ہندو لیڈر اور جرنلسٹ آگئے۔ یہ وہ لوگ تھے جن کو مقامی طورپر کٹروادی (hardliners) کہا جاتا ہے۔ ان لوگوں نے جب گفتگو شروع کی تو آغاز میں اُن کے لہجے میں کسی قدر تلخی تھی۔ مگر جب میں نے گفتگو شروع کی تو جلد ہی اُن کی تلخی ختم ہوگئی اور بالکل معتدل ماحول میں ساری گفتگو ہوتی رہی۔ آخر میں وہ لوگ اس طرح رخصت ہوئے کہ لوگوں کے بیان کے مطابق، ان کی آنکھوں میں خوشی اور اطمینان کی جھلک دکھائی دیتی تھی۔
گفتگو کے دوران ایک بنیادی بات میں نے یہ کہی کہ آپ لوگوں کی ساری غلط فہمی کا سبب یہ ہے کہ آپ مسلمان اور اسلام کے درمیان فرق نہیں کرتے۔ آپ مسلمانوں کے عمل کو اس طرح دیکھتے ہیں جیسے کہ وہی اسلام ہو۔ حالاں کہ دونوں ایک دوسرے سے بالکل الگ ہیں۔ میں نے کہا کہ اگر آپ کو یہ جاننا ہو کہ گیتا کی تعلیم کیا ہے تو اس کے لیے آپ گیتا کو پڑھیں گے۔ آپ ایسا نہیں کریں گے کہ ہندوؤں کو دیکھ کر یہ رائے بنالیں کہ اسی کا نام گیتا ہے۔ میں نے کہا کہ ہمارے ملک کا ایک دستور ہے۔ یہاں بھی آپ ایسا نہیں کریں گے کہ ملک کے لوگوں کو دیکھیں اور یہ مان لیں کہ اسی کا نام دستور ہے۔ میںنے کہا کہ اسی طرح آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے کہ مسلمان جو کچھ کریں اُسی کو آپ اسلام کی تعلیم سمجھ لیں۔ آپ کو چاہیے کہ آپ اسلام اور مسلمان میں فرق کریں۔ آپ مسلمانوں کو اسلام کی روشنی میں دیکھیں نہ کہ اسلام کو مسلمانوں کی روشنی میں:
You have to differentiate between Islam and Muslims.
You have to judge Muslims in the light of Islamic teachings and not vice versa.
۱۳ مارچ کی صبح کو نماز فجر کے بعد حسب معمول بہت سے لوگ میری رہائش گاہ پر آگئے۔ یہاں دیر تک مختلف قسم کے دینی اور ملّی موضوعات پر بات ہوتی رہی۔ ایک صاحب نے کہا کہ آپ اکثر غیر مسلموںمیں دعوت کی بات کرتے ہیں۔ ابھی تو خود مسلمانوں کی اصلاح نہیں ہوئی۔ مسلمانوں کے اندر بہت زیادہ خرابیاں موجود ہیں۔ آپ کو چاہیے کہ پہلے مسلمانوں کی اصلاح کریں اور اس کے بعد غیر مسلموں میں اسلامی دعوت پہنچانے کی کوشش کریں۔
میںنے کہا کہ بہت سے لوگ اس طرح کی بات کرتے ہیں۔ مگر ان لوگوں نے اس مسئلہ پر گہرائی کے ساتھ غور نہیںکیا۔ اصل یہ ہے کہ پچھلے دوسو سال کے درمیان مسلمانوں کے اندر دو سو سے بھی زیادہ تحریکیں اُٹھی ہیں۔ یہ تمام کی تمام تحریکیں مسلمانوں کی اصلاح کے لیے اُٹھائی گئیں۔ اس پوری مدت میںکوئی بھی ایسی قابلِ ذکر تحریک نہیںجو حقیقی معنوں میں غیر مسلموں میں دعوتِ اسلام کے لیے اُٹھائی گئی ہو۔ غالباً ہمارا مشن پہلا مشن ہے جو غیر مسلموں کے درمیان باقاعدہ طورپر اسلام کی دعوت پہنچانے کا کام کررہا ہے۔
مگر مختلف گروہوں کی دو سو سالہ کوشش کے باوجود مسلمانوں کی مطلوب اصلاح نہ ہوسکی۔ایسی حالت میں سوچنے کی اصل بات وہ نہیں ہے جو آپ فرمارہے ہیں بلکہ سوچنے کی اصل بات یہ ہے کہ غیر معمولی کوشش کے باوجود مسلمانوں کی اصلاح کیوں نہ ہوسکی۔ گویا کہ اصل مسئلہ مسلمانوں کی اصلاح کا نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ اصلاحی کوشش کے باوجود اصلاح کا نتیجہ نہ ملنے کا ہے۔
اصل یہ ہے کہ قانونِ فطرت کے مطابق، موجودہ مسلمانوں کی حیثیت ایک زوال یافتہ قوم کی ہوچکی ہے۔ جب کوئی قوم زوال کے درجہ میں پہنچ جائے تو صرف داخلی کوشش اس کی اصلاح کے لیے کافی نہیں ہوتی۔ اب ضرورت ہوتی ہے کہ پُرانے خون (old blood)میں نیا خون (new blood) داخل کیا جائے۔ یعنی تبلیغ و دعوت کے ذریعہ مسلمانوں کے اندر دوسری قوموں کے افراد بڑی تعداد میں شامل کیے جائیں۔ موجودہ مسلمانوں کو دوبارہ ایک زندہ قوم بنانے کی یہی واحد تدبیر ہے۔بندپانی میں خوشبو ڈالنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ بند پانی میں جاری پانی کا دھاراداخل کردیجئے، اس کے بعد بند پانی اپنے آپ سیلاب کی صورت اختیار کرلے گا۔
بھوپال میں ملّا رموزی سنسکرتی بھون کے نام سے ایک بڑا ادارہ قائم ہے۔ ۱۳ مارچ کو ۱۱ بجے دن میں الرسالہ اکیڈمی کے زیر اہتمام اس کے وسیع ہال میں ایک پبلک جلسہ ہوا۔ اس میں ہندو اور مسلمان دونوں شریک ہوئے۔ اس میںخطاب کا موضوع یہ تھا: کثیر المذاہب معاشرہ، مسائل اور حل۔
اس موضوع پر میںنے اسلام کی روشنی میںایک مفصل تقریر کی۔ اس کا خلاصہ یہ تھا کہ موجودہ دنیا تنوع کے اصول پر قائم ہے۔ اس اُصول کا تعلق جس طرح دوسری چیزوں سے ہے اُسی طرح اس کا تعلق مذہب سے بھی ہے۔ لوگ پیدائشی طورپر مختلف ذوق کے ہوتے ہیں۔ اس لیے فطری طور پر ہر سماج میں مختلف مذاہب موجود رہیں گے۔ مذاہب کے اس تنوع کو ہمیں اسی مثبت ذہن کے تحت لینا چاہیے جس کا اظہار ذوق دہلوی نے اپنے ایک شعر میں اس طرح کیا ہے:
گلہائے رنگ رنگ سے ہے زینتِ چمن اے ذوق اس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے
میںنے کہا کہ مذاہب کے تنوع کو ختم کرنے کی کوشش جب بھی کی گئی وہ ناکام ہوئی۔ مثال کے طورپر دوسری عالمی جنگ کے بعدامریکا میںامریکی بنانے (Americanisation) کی تحریک شروع کی گئی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ امریکی معاشرہ میںمذہب اور کلچر کے فرق کو ختم کرکے یکساں سماج بنایاجائے۔ مگر یہ تحریک مکمل طورپر ناکام ہوگئی۔ امریکا میںہر مذہب کو قبول کرلیا گیا۔ میںنے دیکھا ہے کہ وہاں کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ہر مذہب کو یکساں طورپر آزادی دی جاتی ہے۔ ان کا نظریہ ہے کہ کسی مذہب کے لوگ اپنی مذہبی روایات سے جُڑ کر زیادہ اچھا کام کرتے ہیں۔ اگر ان کو ان کی مذہبی روایات سے اکھاڑ دیا جائے تووہ سماج کے زیادہ بہتر کارکُن نہیںبنتے۔
اسی طرح دوسری عالمی جنگ کے بعد کناڈا میںیونی کلچرلزم کی تحریک چلائی گئی۔ مگر آخر کار وہ ناکام ہوئی اور اس کے بجائے ملٹی کلچرلزم کے اصول کو وہاں باقاعدہ طورپر اختیار کرلیا گیا۔
یہ ایک تفصیلی تقریر تھی۔ میں نے ا س تقریر میں اسلامی تعلیمات کو بیان کیا۔ لوگوں نے بہت دلچسپی کے ساتھ پوری تقریر کو سُنا۔ پروگرام کے خاتمہ پر ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ ہندو خاتون مِز شکنتلا نے کہا—اگر اسلام وہی ہے جو مولانا صاحب نے اپنی اسپیچ میںبتایا ہے تو پھر کوئی مسئلہ ہی نہیں:
If it is Islam then where is the problem.
۱۳ مارچ کی شام کو خواتین کا ایک اجتماع کیا گیا۔ میںنے اپنی تقریر میں کہا کہ ہمارے پروگر ام میں یہ عام رواج ہوگیا ہے کہ خواتین کا اجتماع الگ سے کیا جاتا ہے۔ مگر مجھ کو یہ طریقہ غیر ضروری معلوم ہوتا ہے۔ میرے نزدیک مرد اور عورت د ونوں کا اجتماع ایک ساتھ ہونا چاہیے۔ کیوں کہ اسلام کی تعلیمات صنفی فرق پر مبنی نہیںہیں۔ دونوں ہی صنفوں کے لیے اسلام کی تعلیم یکساں ہے۔ جزئی نوعیت کے بعض مسائل ضرور الگ ہیں مگر یہ مسائل انتہائی جزئی ہیں۔ ورنہ جہاں تک اسلام کی اصل دعوت کا تعلق ہے، وہ دونوں صنفوں کے لیے یکساں ہے۔
ایک بات میںنے یہ کہی کہ آج کل خاندانی زندگی کا بگاڑ عام ہے۔ میرے نزدیک اس کا سبب صرف بے شعوری ہے۔ اصل یہ ہے کہ عورت جب اپنے میکے میں ہوتی ہے تو وہ خونی رشتہ داروں کے درمیان ہوتی ہے۔ اس کے بعد جب وہ سسرال میں جاتی ہے تو وہاں اس کو ایسے لوگوں کے درمیان رہنا پڑتا ہے جن سے اس کا کوئی خونی رشتہ نہیںہوتا۔ لڑکی اگر اس فرق کو شعوری طورپر جان لے تو اس کی شادی ہر حال میں کامیاب رہے گی۔ اس سلسلہ میںسب سے زیادہ ذمہ داری ماں باپ کی ہوتی ہے۔
دوسری بات یہ کہ ایک کامیاب زندگی کا راز یہ نہیں ہے کہ گھر میں زیادہ آمدنی ہو اور ہر قسم کے سازوسامان کا ڈھیر گھر کے اندر موجود ہو۔ بلکہ پُر سکون زندگی کا راز یہ ہے کہ لوگ سادگی کی اہمیت کوجان لیں۔
ایک بات میں نے یہ کہی کہ کامیاب ازدواجی زندگی کا سب سے بڑا راز میرے نزدیک یہ ہے کہ شوہر اور بیوی دونوں ایک دوسرے کے لیے فکری رفیق (intellectual partner) بن جائیں۔ آج کل ماں باپ یہ سوچتے ہیں کہ شادی ایسی ہو جس میں دونوں مل کر زیادہ آمدنی کرسکیں۔ مثلاً عورت اور مرد دونو ں ڈاکٹر ہوں ۔ مگر میرے نزدیک یہ کامیاب شادی کی پہچان نہیں۔ کامیاب شادی وہ ہے جس میں عورت اورمرد دونوں ایک دوسرے کے فکری شریک اور معاون بن جائیں۔ دونوں آپس میں تبادلۂ خیال کے ذریعہ اپنا فکری ارتقاء کرتے رہیں۔
آخری خطاب
میں ایک پیدائشی داعی ہوں۔ دعوت ہمیشہ سے میرا نشانہ رہا ہے۔ ۱۹۵۰ میں جب کہ ابھی میں پختہ عمر کو نہیں پہنچا تھا، میںنے قر آن کے ایک لفظ کو لے کر، من أنصاری إلی اللّٰہ کے نام سے ایک ادارہ بنایا۔ پھر اس کام کے لیے ادارۂ اشاعتِ اسلام کا نام اختیار کیا۔ اُس وقت میںاپنی فیملی کے ساتھ اعظم گڑھ میں رہتا تھا۔ اُس زمانہ میں میں نے کئی چھوٹی کتابیں شائع کی تھیں۔ ان میں سے ایک کتاب کا نام یہ تھا: نئے عہد کے دروازہ پر (On the Threshold of a New Era) ۔
میرا دعوتی سفر مختلف صورتوں میں مسلسل جاری رہا۔ یہاں تک کہ ۱۹۷۶ میں میں نے دہلی سے ماہنامہ الرسالہ جاری کیا اور اسلامک سنٹر قائم کرکے اس کے تحت دعوتی کتابوں کی اشاعت شروع کی۔ اب خدا کے فضل سے ان دعوتی کتابوں کی تعداد دو سو سے زیادہ ہو چکی ہے۔ یہ کتابیں مختلف ملکی اور عالمی زبانوں میں شائع ہوئی ہیں۔ وہ جدید وسائلِ ابلاغ کے تحت ساری دنیا میں پھیل رہی ہیں۔
لمبے مطالعہ اور تجربہ کے بعد میں نے یہ سمجھا ہے کہ دعوتِ حق کا صحیح طریقہ وہ ہے جو انفرادی اپروچ کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔ یعنی ایک ایک فرد کو بدلنا، ایک ایک ذہن کے اوپر ڈی کنڈیشننگ اور ری انجینئرنگ کا عمل کرنا۔ میرے مطالعہ کے مطابق، یہی پیغمبروں کا طریقہ ہے۔ اس طریقِ کار کے دو مستند تاریخی نمونے ہیں۔ ایک کو مسیحی ماڈل اور دوسرے کو محمدی ماڈل کہا جاسکتا ہے۔
کسی تحریک کے دوطریقے ہوتے ہیں۔ ایک ہے، عوام کو خطاب کرنا، اور دوسرا ہے، افراد کو خطاب کرنا۔ عوام سے خطاب کرنے کے لیے تحریک کو ایک عوامی اشو لینا پڑتا ہے، یعنی ایسا اِشو جس کے بارے میں پہلے سے عوام کے اندر شدید جذبات موجود ہوں۔ مثلاً بر صغیر ہند میں ۱۹۴۷ سے پہلے مہاتما گاندھی کا بیرونی راج کے خلاف عوام کو پُکارنا۔ یا محمد علی جناح کا ہندو خطرہ کے خلاف مسلمانوں کو موبیلائز کرنا۔
اس طرح کی عوامی تحریک میں یہ ہوتا ہے کہ بہت جلد لیڈر کے گرد لوگوں کی بھیڑ اکھٹا ہوجاتی ہے۔ مگر ایسی کسی تحریک کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلتا۔ ایسی تحریک تخریبِ غیر کے لیے تو مفید ہوتی ہے مگر وہ تعمیر خویش کے لیے بالکل مفید نہیں ہوتی۔
تحریک کا دوسرا طریقہ وہ ہے جو انفرادی اپر وچ کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔ اس دوسرے طریقہ میں سارا فوکس فرد کی اصلاح پر دیا جاتا ہے۔ اس کا نشانہ افراد سے چل کر عوام تک پہنچنا ہوتا ہے، نہ کہ عوام کی بھیڑ اکھٹا کرکے افراد کو اپنے قبضہ میں لینا۔
کسی مشن کے لیے کام کرنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک وہ جس کو سیاسی ماڈل کہا جاسکتا ہے اور دوسرا وہ جس کو روحانی ماڈل کہا جاسکتا ہے۔ دونوں ہی کا مائنس پائنٹ اور پلس پائنٹ ہے۔
سیاسی ماڈل میں کراؤڈ کو ایڈریس کیا جاتا ہے۔ اس میں ہمیشہ کسی ایسے منفی اشو کو لیا جاتا ہے جو خارجی ہو۔ کیوں کہ کوئی خارجی اشو ہی کراؤڈ کا اشو بن سکتا ہے۔ سیاسی ماڈل کا پلس پائنٹ یہ ہے کہ اس میں بہت جلد لوگوں کی بھیڑ اکٹھا ہو جاتی ہے۔ لیکن سیاسی ماڈل کا مائنس پائنٹ یہ ہے کہ اس میں individual ذہن ایڈریس نہیں ہوتا۔ اس لیے اس میں فرد کی تعمیر ممکن نہیں ہوتی۔کمیاتی اعتبار سے مشن بہت بڑا دکھائی دیتا ہے لیکن کیفیاتی اعتبار سے وہ بالکل nill ہوتا ہے۔
اس کے مقابلہ میں دوسرا ماڈل روحانی ماڈل ہے۔ روحانی ماڈل میں فردکے ذہن کو ایڈریس کرنے کی کوشش کی جاتی ہے نہ کہ کسی کراؤڈ کو۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ روحانی ماڈل کے تحت بھیڑ اکھٹا نہیں ہوتی۔ البتہ اس میں فرد کی تعمیر گہرائی کے ساتھ ہوتی ہے۔ مشن سے وابستہ ایک ایک فرد prepared mind اور purified soul بن جاتا ہے۔روحانی ماڈل کو انٹٹی کے اعتبار سے بظاہر کم دکھائی دیتا ہے۔ مگر کوالٹی کے اعتبار سے وہ بہت عظیم ہوتا ہے۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ سیاسی ماڈل صرف تخریبی واقعہ وجود میں لاتا ہے۔ جب کہ روحانی ماڈل تعمیری واقعہ کو وجود میں لانے کا سبب بنتا ہے۔ الرسالہ مشن میں سیاسی ماڈل کو اختیار نہیں کیا گیا ہے، بلکہ اس میں روحانی ماڈل کو اختیار کیا گیا ہے۔ اس میں ساری کوشش اس بات کی کی گئی ہے کہ ایک ایک فرد کا ذہن بنایا جائے۔ تیار افراد کی ایک ٹیم بنائی جائے۔ ایسے افراد جن میں سے ہر شخص ایک طرف سنجیدہ ہو اور دوسری طرف وہ آرٹ آف تھنکنگ کو بخوبی طور پر جانتا ہو۔الرسالہ مشن کا فطری کورس یہ ہے کہ افراد کی ایک مضبوط ٹیم بنے اور پھر یہ ٹیم مشن کے پیغام کو وسیع تر انسانیت تک پہنچا دے۔
مشہور سیرت نگار محمد بن اسحاق (وفات: ۱۵۱ھ۔۷۶۸ء) نے ایک روایت نقل کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرۃ الحدیبیہ (۶۲۳ء) کی ادائیگی کے بعد، اپنے منتخب اصحاب کو خطاب کیا۔ آپ نے فرمایا کہ: ’’اللہ نے مجھے سارے عالم کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے، پس تم میرے بارے میں اختلاف نہ کرو، جیسا کہ حواریوں نے عیسیٰ بن مریم سے اختلاف کیا۔ آپ کے اصحاب نے پوچھا کہ اے خدا کے رسول! حواریوں نے کس طرح اختلاف کیا تھا؟ آپ نے فرمایا کہ: عیسیٰ بن مریم نے اُنہیں اس چیز کی طرف بلایاجس کی طرف میں نے تمہیں بلایا ہے۔ پس جس کو اُنہوں نے قریب کے علاقے کی طرف بھیجا تو وہ اس پر راضی ہوگیا اور اس کو مان لیا۔ اور جس کو انہوں نے دور کے علاقے کی طرف بھیجا تو وہ اس کو پسند نہیں آیا اور اُس نے گرانی محسوس کی۔ عیسیٰ بن مریم نے اللہ سے اس کی شکایت کی۔ تو جن لوگوںکو ناگواری ہوئی اُن کا حال یہ ہوا کہ اُن میں سے ہر ایک اس قوم کی زبان بولنے لگا جس کی طرف اس کوجانے کے لیے کہاگیا تھا۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب میں سے کچھ قاصد بھیجے اور ان کو بادشاہوں کے نام مکتوب لکھ کر دیا۔ اس میں ان بادشاہوں کو اسلام کی طرف بُلایا گیا تھا۔(سیرۃ النبی لابن ہشام، الجزء الرابع، ۲۷۸۔۲۷۹)
مذکورہ روایت میںحضرت مسیح کے جس واقعہ کا ذکر ہے، اُس کا ذکر قرآن میں بھی اجمالی طور پر آیا ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے:
’’اے ایمان والو! تم اللہ کے مدد گار بنو،جیسا کہ عیسیٰ بن مریم نے حواریوں سے کہا: کون اللہ کے واسطے میرا مددگار ہوتا ہے۔ حواریوں نے کہا: ہم ہیں اللہ کے مددگار! پس بنی اسرائیل میں سے کچھ لوگ ایمان لائے اور کچھ نے انکار کیا۔ پھر ہم نے ایمان لانے والوں کی، ان کے دشمنوں کے مقابلے میں مدد کی۔ پس وہ غالب ہوگئے۔ (الصف ۱۴)
جیسا کہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح الحدیبیہ کے بعد اطرافِ عرب کے تقریباً ایک درجن حکمرانوں کو دعوتی خطوط لکھے اور اُنہیں اپنے سفیروں کے ساتھ متعلقہ حکمرانوں کی طرف روانہ کیا۔ ان حکمرانوں میں سے کچھ نے آپ کے مکتوب کا مثبت جواب دیا اور کچھ نے ان کو پڑھنے کے بعد منفی رویّہ اختیار کیا۔ اس کی تفصیل سیرت کی کتابوں میں موجود ہے (ملاحظہ ہو، سیرت ابن کثیر، جلد ۳)
اس روایت سے دعوتی تحریک کا پیغمبرانہ ماڈل معلوم ہوتا ہے۔ یعنی دعوتی مہم کا تین مرحلوں سے گذر کر اپنی تکمیلی منزل تک پہنچنا۔
۱۔ بندۂ خدا پر حقیقت کا کھلنا، اس کا سچائی کو مکمل طورپر دریافت کرنا۔ اس طرح ایک عارف یا باخبر انسان کا وجود میں آنا۔
۲۔ پھر یہ انسان دوسرے کاموں کے علاوہ یہ کرتا ہے کہ وہ غیر معمولی جدوجہد کے ذریعہ افراد کی ایک ٹیم بناتا ہے۔ یہ وہ افراد ہوتے ہیں جو حقیقت کا شعوری ادراک رکھتے ہیں۔ ان کے اندر مشنری اسپرٹ کمال درجے میں موجود ہوتی ہے۔ وہ گویا عارفینِ حق کا منتخب کردہ ہوتا ہے۔
۳۔ اس کے بعد یہ ٹیم اس پیغام کو لے کر آگے بڑھتی ہے اور کمیونیکیشن کے ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے اُس کو تمام انسانوں تک پہنچا دیتی ہے۔
سہ گانہ مرحلے کی یہی ترتیب فطری ترتیب ہے۔ مسیحی ماڈل اور محمدی ماڈل دونوں اسی کی تائید کرتے ہیں۔ حضرت مسیح کے زمانہ میں اسی ترتیب سے کام ہوا۔ اور پیغمبرآخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملہ میں بھی یہی تاریخ دوہرائی گئی۔ یعنی ایک فرد سے کام کا آغاز، اور پھر ایک ٹیم کا بننا، اس کے بعد دعوت کی عمومی توسیع۔ یہ ترتیب دعوتی کام کی فطری ترتیب ہے۔ اس لیے یہی ترتیب بعد کے زمانہ میں بھی اس کام کے لیے باقی رہے گی۔
الرسالہ مشن کے مستقبل کے بارے میں میں اکثر سوچتا تھا۔ ۱۲؍ مئی ۲۰۰۵ کی صبح کو میں اس موضوع پر غور وفکر کررہا تھا کہ اچانک مجھ پر یہ بات منکشف ہوئی کہ یہ دعوتی مشن بھی اسی فطری ترتیب کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ یہ عمل فطرت کے زیر اثر پہلے سے جاری تھا۔ مگر مئی ۲۰۰۵ میں اس واقعہ کو میں نے شعوری طورپر دریافت کیا۔
جیسا کہ عرض کیا گیا، میںنے اپنا دعوتی مشن ۱۹۵۰ء میں شروع کیا تھا، اس کے بعد وہ مختلف مراحل سے گذرتا رہا۔ تحریر و تقریر کے ایک مسلسل عمل کی صورت میں وہ برابر جاری رہا۔ یہاں تک کہ اس تحریک کی پشت پر ایک طاقت ور لٹریچر تیار ہوگیا۔ یہ لٹریچر اسلام کے تمام پہلوؤں کو عصری اسلوب میں بیان کرنے والا تھا۔
اس کے بعد تیسرا تاریخ ساز واقعہ یہ ہوا کہ جنوری ۲۰۰۱ ء میں ہمارے دہلی کے دفتر میں اسپریچول کلاس کے نام سے ہفتہ وار اجتماع کا سلسلہ قائم ہوا۔ ان ہفتے وار اجتماعات کے دوران خدا کی غیر معمولی نصرت ظاہر ہوئی۔چند سال کی مدت میں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی ایک مضبوط ٹیم تیار ہوگئی۔ ان میں سے ہر شخص دعوتی اسپرٹ سے بھرا ہوا تھا اور عمل کا بے پناہ جذبہ اپنے اندر رکھتا تھا۔
۲۰۰۵ میں یہ تاریخ یہاں تک پہنچ چکی ہے۔اس کے بعد جو کچھ ہونا چاہیے اس کا عمل بھی خدا کی خصوصی نصرت سے شروع ہوچکا ہے۔ یعنی دعوتِ حق کی اشاعت و توسیع۔ مجھے یقین ہے کہ یہ عمل رُکنے والا نہیں۔ خدا کی نصرت اس بات کی ضامن ہے کہ یہ عمل رُکے بغیر مسلسل جاری رہے یہاںتک کہ وہ اپنی منزل تک پہنچ جائے۔
مذکورہ حدیث پرغور کیجئے تو اس معاملہ کا ایک عملی پہلو سامنے آتا ہے۔ وہ یہ کہ جب مذکورہ تقسیم کے مطابق، ایک ٹیم وجود میں آجائے تو اس کے بعد دعوت کی توسیع واشاعت ایک یقینی امر بن جاتی ہے۔ اس کے بعد ممکن طورپر صرف ایک چیز ہے جو اس عمل کی تکمیل میں رکاوٹ بن سکے، اور وہ حدیث کے الفاظ میں اختلاف کا معاملہ ہے۔باہمی اختلاف ایسی بُری چیز ہے جو پورے نقشے کو تباہ کرسکتا ہے۔ ٹیم بن جانے کے بعد باہمی اختلاف کے سوا کوئی بھی چیز نہیں جو اس دعوتی سیلاب کو اس کی منزل تک پہنچنے سے روک سکے۔
یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ فکر کا اختلاف ایک فطری امرہے۔ ہر انسانی مجموعے میں یہ ہوتا ہے کہ اس کے افراد کے درمیان فکری اختلافات ظہور میں آتے ہیں۔ اس لیے اصل مسئلہ فکری اختلاف کا نہیں ہے، بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ لوگ اُس فن کو نہ جانتے ہوں، جس کو ’’آرٹ آف ڈفرینس مینیجمنٹ‘‘ کہا جاسکتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ کسی بھی ٹیم میں رائے کا اختلاف پیدا ہونا لازمی ہے۔ البتہ ٹیم کے افراد کوذہنی طورپر اتنا زیادہ پختہ ہونا چاہیے کہ وہ رائے کے اختلاف اور عملی ٹکراؤ میں فرق کرنا جانیں۔ وہ اختلاف کے باوجود متحد ہو کر اپنا کام جاری رکھیں۔ رائے کا اختلاف ایک صحت مند علامت ہے۔ کیوں کہ وہ ڈائیلاگ کا سبب بنتا ہے اور ڈائیلاگ فکری ارتقاء کا ذریعہ ہے۔
الرسالہ مشن کے تحت جو پُر امن دعوت کا کام کرنا ہے وہ بنیادی طورپر اشاعتِ کتب کا کام ہے۔ یہ کام سب سے پہلے انگریزی کتابوں کی اشاعت سے ہوگا۔ کیوں کہ آج دنیا کی آبادی کا ۶۰ فیصد حصہ انگریزی زبان بولتا اور سمجھتا ہے۔ اس کے بعد حالات کے مطابق یہ کام دوسری زبانوں تک وسیع ہوگا۔ نظریاتی اشاعت کے اس کام کے بنیادی طورپر چند اجزاء ہیں:
۱۔ قرآن کا صحیح انگریزی ترجمہ کم قیمت پر ساری دنیا میں پھیلانا (قرآن کا یہ انگریزی ترجمہ خدا کے فضل سے الرسالہ مشن کے تحت زیر تیاری ہے)۔
۲۔ الرسالہ مشن کی مطبوعہ کتابوں کو زیادہ سے زیادہ پھیلانا۔ مثلاً:God Arises ، تذکیرالقرآن، مطالعہ سیرت، مطالعہ حدیث ،وغیرہ وغیرہ۔
۳۔ چھوٹے چھوٹے دعوتی پمفلٹ، مثلاً ان سرچ آف گاڈ، کریشن پلان آف گاڈ وغیرہ جو کئی درجن کی تعداد میں چھپ چکے ہیں، ان کو زیادہ سے زیادہ پھیلانا، یہاں تک کہ وہ تمام تعلیم یافتہ انسانوں تک پہنچ جائیں۔
الرسالہ مشن مکمل طور پر ایک غیر سیاسی مشن ہے۔ اس کا مقصد کوئی اقتدار قائم کرنا نہیں ہے بلکہ صرف خدا کے پیغام کو پُرامن طورپر اور فکری طورپر تمام انسانوں تک پہنچانا ہے اور لوگوں کو خدا کے کریشن پلان سے دلائل کی زبان میں با خبر کرنا ہے تاکہ لوگ حقیقت کو سمجھیں اور صحیح رخ پر اپنے مستقبل کا نقشہ بنائیں۔ دعوت الی اللہ کا یہ فکری مشن خدا کا سب سے زیادہ مطلوب مشن ہے۔ اس مشن میں خدا کی نصرت ہمیشہ یقینی ہوتی ہے۔
مجھے یقین ہے کہ خدا کی نصرت کا وعدہ اس مشن پر پورا ہوگا۔ اور وہ وقت آئے گا جب کہ تمام انسانوں تک خدا کا وہ پیغام پہنچ جائے گا جس کے پہنچنے کا ساری کائنات کو انتظار ہے۔دعوت الی اللہ کے کام سے زیادہ بڑا کوئی اور کام نہیں اور خدا کی مدد حاصل کرنے کے لیے دعوت الی اللہ سے زیادہ اور کوئی یقینی ضمانت نہیں۔ یہ خدا کا ابدی قانون ہے۔ اور وہ وقت دور نہیں جب کہ خدا کا یہ وعدہ اپنی کامل صورت میں پورا ہوجائے۔
میں نے اپنی کتاب پیغمبر انقلاب میں لکھا تھا کہ اسلام کے دور اول میں جو لوگ توحید کا انقلاب لائے وہ ایسے لوگ تھے جن پر پچھلی ڈھائی ہزار سالہ تاریخ منتہی ہوئی تھی۔ اب دوبارہ اسی طرح ایک نیا عصابہ (گروہ) درکار ہے جس پر پچھلی ہزار سالہ تاریخ منتہی ہوئی ہو۔ جو اپنے شعور کے اعتبار سے پچھلی ہزار سالہ تاریخ کا وارث ہو۔ جو اپنے کردار کے اعتبار سے ان امکانات کو واقعہ بنانے کا اٹل ارادہ اپنے اندر لیے ہوئے ہو، جو سنجیدہ فیصلے کی اس حد پر پہنچا ہوا ہو جہاں پہنچ کر آدمی اس قابل ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے مقصد سے پوری طرح وابستہ رہے۔ کوئی بھی خارجی واقعہ اس کو اس کے نشانہ سے ہٹانے والا ثابت نہ ہو۔ یہی وہ لوگ ہیں جو خدا کے کاگ میں اپنا کاگ ملائیں گے اور بالآخر یقینی کامیابی کی منزل تک پہنچیں گے (صفحہ ۲۰۴) ۔
میری دعا ہے کہ الرسالہ مشن سے وابستہ ہونے والے لوگ اس کا مصداق ثابت ہوں۔
۱۴ مارچ کی صبح کو بھوپال سے دہلی کے لیے واپسی تھی۔ صبح کو نمازِ فجر کے بعد ایک نشست ہوئی جس میں میں نے لوگوں کو کچھ آخری نصیحتیں کیں۔ ایک بات میں نے یہ کہی کہ آپ میں سے ہر شخص کو وَن مین، ٹو مشن(one man, two mission) کی مثال بننا ہے۔ آپ میں سے ہر ایک کو اپنے وقت اور طاقت کا ایک حصہ معاشی کاموں میں لگانا ہے اور اس کا دوسرا حصہ دعوتی مشن کے لیے وقف کرنا ہے۔ یہ دونوں کام یکساں طورپر ضروری ہیں اور ہر ایک کو اس کے مطابق اپنی زندگی کی منصوبہ بندی کرنا ہے۔
میںنے کہا کہ دعوتی عمل کے لیے کوئی لگا بندھا پروگرام نہیںہوتا۔ دعوتی عمل دراصل ایسے افراد کا طالب ہے جن کے اندر دعوت کا گہرا جذبہ پیدا ہوچکا ہو۔ یہ جذبہ یااسپرٹ اپنے آپ پروگر ام بنا لیتا ہے۔ قرآن پورے معنوں میں ایک دعوتی کتاب ہے۔ مگر قرآن میں کہیں بھی وہ چیز نہیں بتائی گئی ہے جس کو دعوتی پروگرام کہا جاتا ہے۔ اس کے بجائے قرآن میں یہ کیا گیا ہے کہ مختلف اندازسے دعوت کی روح جگائی گئی۔ اسی دعوتی روح کا یہ نتیجہ تھا کہ دور اول کے اہل ایمان نے اتنا بڑا دعوتی عمل کیا کہ زمین کے ایک بڑے حصہ میں اسلام پھیل گیا۔ دور اول میں جو عظیم دعوتی عمل ہوا اس کی پُشت پر کوئی لگا بندھا دعوتی پروگر ام نہ تھا بلکہ دعوتی اسپرٹ تھی جو ان لوگوں کو مسلسل متحرک کیے ہوئے تھی۔
بھوپال کے اجتماعات میں کتابوں کا بُک اسٹال رکھاگیا تھا۔ لوگوں نے کتابوں میں بہت دلچسپی لی۔ بیشتر کتابیں لوگوں نے خرید کر حاصل کیں اور کچھ کتابیں لوگوں کے درمیان تقسیم کردی گئیں۔ بُک اسٹال کا طریقہ بہت مفید طریقہ ہے۔ اس کو ہر اجتماع کے موقع پر استعمال کرنا چاہیے۔
بھوپال کے قیام کے دوران یہاں کے اخبارات اور ٹی وی کے مختلف چینل نے انٹرویوکیے۔ ہر انٹرویو کے موقع پر لوگوں کی کافی بھیڑ اکھٹا رہتی تھی۔ لوگوں کا تأثر یہ تھا کہ ہر انٹرویو کافی کامیاب رہا۔ یہ انٹرویو تفصیل کے ساتھ اخباروں میں چھپے اور ٹی وی چینلوں میںدکھائے گئے۔
۱۴ مارچ کی صبح کو ہم لوگ روانہ ہو کر بھوپال ایر پورٹ پہنچے۔ یہاں کافی لوگ پہنچانے کے لیے آگئے تھے۔ اُن سے دیر تک باتیں ہوتی رہیں۔ ایک صاحب نے آج کے اخبارات دکھائے۔ ان اخبارات میں میرے خطابات کی رپورٹیں شائع ہوئی تھیں۔ میں نے کہا کہ یہ زمانہ کیسا عجیب زمانہ ہے۔ قدیم زمانہ میں اگر آپ کوئی مشن لے کر اُٹھیں تو اس کی پبلسٹی آپ کو خود کرنی پڑتی تھی۔ آپ کے سوا کوئی دوسرا ادارہ اس کام کے لیے موجود نہ تھا۔ آج یہ حال ہے کہ آپ ایک مشن چلائیں تو آپ کو خود اُس کی پبلسٹی کرنے کی ضرورت نہیں۔ پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا آپ کے پیغام کو دوسروں تک پہنچانے کے لیے ہر جگہ موجودرہتا ہے ۔ آپ سے کوئی قیمت لیے بغیر وہ آپ کے پیغام کو عمومی طورپر پھیلانے میںلگ جاتا ہے۔ ایسا ادارہ پہلے زمانہ میں موجود نہ تھا۔
ایر پورٹ کے مراحل سے گذر کر ہم لوگ جٹ ایرویز کے جہاز میں داخل ہوئے۔ جہاز ٹھیک وقت پر بھوپال سے روانہ ہوا۔ ڈاکٹر اقبال پردھان نے کہا کہ ہم جہاز کے اندر بھی دعوہ ورک کریں گے۔ چنانچہ انہوں نے اور دوسرے ساتھیوں نے مسافروں سے ملاقاتیں کیں اور انہیں انگریزی کے پمفلٹ مطالعہ کے لیے دیے۔ لوگوں نے نہایت دلچسپی کے ساتھ اس کو قبول کیا۔
جہاز کے اندر انگریزی روزنامہ ایشین ایج کا شمارہ ۱۴ مارچ ۲۰۰۵ دیکھا۔ اس میںایک رپورٹ کے تحت بتایاگیا تھا کہ پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف نے اسلام آباد کی اسلامک یونیورسٹی میں کانووکیشن ایڈریس دیتے ہوئے کہا کہ اسلام کے خلاف غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے پاکستان کے معتدل طبقہ کا انتہا پسندانہ طاقتوں کے خلاف متحد ہو جانا چاہیے۔ اسلام کے خلاف غلط فہمیوں کو دور کرنا ضروری ہے تاکہ دنیا میں پائیدار امن قائم ہوسکے:
He urged moderates in Pakistan to unite against extremist forces to remove “misperceptions” about Islam in the world. Misperceptions about Islam need to be removed through the strategy of enlightened moderation for durable and lasting peace in the world. (p. 5)
مسلم ملکوں کے خلاف امریکا کے تباہ کن آپریشن کے بعد تمام دنیا کے مسلمانوں کی رائے بدل گئی ہے۔ اب دنیا بھر کے مسلمان امن کی باتیں کررہے ہیں۔ حالاں کہ ایک وقت تھا جب کہ ساری مسلم دنیا میں راقم الحروف تنہا امن کی بات کررہا تھا۔ بقیہ تمام لکھنے اور بولنے والے تقریباً بلا استثناء متشددانہ جہاد کی باتیں کررہے تھے۔ عرب دنیا کا پریس الجہاد ہوالحل الوحید جیسے نعروں سے بھرا ہوا ہوتا تھا اور بر صغیر ہند کے مسلمان لڑا دے ممولے کو شہباز سے کا رجزیہ ترانہ گا رہے تھے۔ مگر اب یہ لوگ ہر جگہ امن کے علم بردار بنے ہوئے ہیں۔
میرے نزدیک یہ عین وہی روش ہے جس کو قرآن میں انا کنا معکم (العنکبوت ۱۰) کے الفاظ میں بتایا گیا ہے۔ ایسے لوگوں کو امن پسندی کا کریڈٹ صرف اُسی وقت مل سکتا ہے جب کہ وہ اعلان کے ساتھ یہ کہیں کہ اس سے پہلے ہم دیوانے تھے کہ ہم نے جنگ پسندی کی پالیسی اختیار کی۔ اب ہم اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے امن کے راستہ پر چلنا چاہتے ہیں۔ غلطی کا اعتراف کیے بغیر ان لوگوں کو امن پسندی کا کریڈٹ ملنے والا نہیں۔ اعتراف کے بغیر اس قسم کی باتیں ویحبون ان یحمدوا بما لم یفعلوا (آل عمران ۱۸۸) کا مصداق ہیں۔
مسلم دنیا میں ’’کاروانِ امن‘‘ کے اس نئے رجحان پر تبصرہ کرتے ہوئے بھوپال کے حاجی محمد ادریس صاحب نے کہا کہ یہ واقعہ مجھے بنی اسرائیل کے اس واقعہ سے مشابہ نظر آتا ہے جس کا ذکر قرآن میں اس طرح کیا گیا ہے: اور جب ہم نے پہاڑ کو ان کے اوپر اٹھایا گویا کہ وہ سائبان ہے۔ اور انہوں نے گمان کیا کہ وہ اُن پر آپڑے گا۔ پکڑو اس چیز کو جو ہم نے تم کو دی ہے مضبوطی سے، اور یاد رکھو جو اس میں ہے تاکہ تم بچو (الاعراف ۱۷۱) حاجی محمد ادریس صاحب نے کہا کہ مسلم دنیا میں امریکا کی جارحانہ مداخلت اسی قسم کا ایک واقعہ تھی۔ خدانے امریکا کے فوجی پہاڑ کو مسلمانوں کے اوپر مسلط کرکے کہا کہ الرسالہ کے پیغام امن کو مانو ورنہ یہ پہاڑ تمہارے اوپر گرا دیا جائے گا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ساری دنیا میں مسلمانوں کا رویہ بدل گیا۔
۱۴ مارچ ۲۰۰۵ کی دوپہر کو ہمارا جہاز دہلی ایرپورٹ پر اُترا۔ لینڈنگ نہایت ہموار تھی۔ جہاز سے نکل کر ہم لوگ ایر پورٹ میں داخل ہوئے۔ انڈیا میں بہت دنوں سے یہ چرچا ہے کہ ایرپورٹ کو ورلڈ کلاس ایر پورٹ بنایا جائے۔ مگر ابھی تک ایسا نہ ہوسکا۔ میرے نزدیک اس معاملہ میںاصل رکاوٹ کرپشن ہے۔ گورنمنٹ ایر پورٹ اور اس قسم کے دوسرے اداروں کی تعمیر پر بہت زیادہ رقم خرچ کرتی ہے۔ مگر مطلوب نتیجہ نہیں نکلتا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ گورنمنٹ اس مقصد کے لیے جو رقم مختص کرتی ہے اس کا بڑا حصہ کرپشن کی نذر ہوجاتا ہے۔
میرے نزدیک انڈیا میں اصل مسئلہ عالمی معیار کی تعمیر نہیں ہے بلکہ ملک سے کرپشن کو دور کرنا ہے۔ انڈیا میں کرپشن اتنا زیادہ بڑھ چکا ہے کہ غالباً اب کوئی بھی چھوٹا یا بڑا گوشہ اس سے خالی نہیں۔ ہرنئی حکومت بڑے بڑے وعدے کرتی ہے۔ مگر کرپشن میںکوئی کمی نہیں آتی۔
دہلی ایر پورٹ پر جو لوگ آئے تھے ان میں مسٹر نودیپ کپور بھی تھے۔ وہ ایک اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے خاندان میں ۱۳۰ سال سے کتابوں کا بزنس ہورہا ہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ پہلے مجھے اپنے بزنس میں کافی ٹنشن رہتا تھا۔ مگر اب میں نے آپ کی صحبت کے نتیجہ میں یہ کیا کہ قناعت کو اپنا اُصول بنا لیا ہے۔ جب سے میںنے ایسا کیا ہے میرا ٹنشن بھی ختم ہوگیا ہے۔ اب میں سکون کی زندگی گزار رہا ہوں۔
بھوپال کے اجتماع میں شریک ہونے والوں میں سے ایک سعدیہ خان بھی تھیں۔ اجتماع سے واپسی کے بعد اُن سے اُن کا تأثر پوچھا گیا۔ اُنہوں نے کئی باتیںبتائیں۔ اُن میں سے ایک یہ تھی کہ میں کالج میں پڑھتی ہوں۔ مجھے گھر اور کار اور دوسری سہولتیں حاصل ہیں۔ پہلے میں دوسری لڑکیوں کی طرح سمجھتی تھی کہ یہ سہولتیں انجوائے کرنے کے لیے ہیں۔ مگر اب میں یہ سوچنے لگی ہوں کہ یہ چیزیں دراصل سپورٹ سسٹم ہیں۔ ان کو خدا نے مجھے اس لیے دیا ہے کہ میں ان کو ذریعہ کے طورپر استعمال کروں اور اپنی زندگی کو اعلیٰ مقصد میںلگاؤں۔
بھوپال کے اجتماع میں میںنے اپنی تقریروں میں یہ بات نہیں کہی تھی۔ پھر سعدیہ خان کے ذہن میںیہ بات کہاںسے آئی۔ اس پر غور کرتے ہوئے میری سمجھ میں آیا کہ اگر آپ کسی کے ذہن کو مثبت رخ پر متحرک کردیں تو اس کے بعد اس کے ذہن کی کھڑکیاں کھل جاتی ہیں۔ وہ گہرائی کے ساتھ سوچنے لگتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ایسی باتوں کو دریافت کرلیتا ہے جو کہنے والے نے اُس سے نہیں کہی تھی۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے دماغ سے کنٹرول ہوتا ہے۔ انسان کے اندر تبدیلی لانے کا راز یہ ہے کہ اس کے اندر سوچنے کی صلاحیت پیدا کی جائے۔ انسان کے ذہن میں امکانی طورپر تمام باتیں موجود ہیں۔ مگر عام طورپر وہ سوئی ہوئی حالت میں ہوتی ہیں۔ مصلح کا کام یہ ہے کہ وہ اس سوئے ہوئے ذہن کو جگا دے۔ اس کے بعدیہ بیدارمسافر اپنے آپ زندگی کی راہوں میں رواں دواں ہوجائے گا۔
واپس اوپر جائیں