Pages

Saturday, 1 July 2006

Al Risala | July 2006 (الرسالہ،جولائی)

2

- غلطی کا اعتراف

7

- مسلمان نیے دور میں

10

- سازش کا تصور

12

- کنزیومر کمیونٹی

14

- کیفیات، کمّیات

15

- صلاحیت کا کم تر استعمال

16

- میڈٹیشن(Meditation)

22

- سوال و جواب

43

- خبر نامہ اسلامی مرکز ۱۷۵


غلطی کا اعتراف

میں نے ایک صاحب سے کہا کہ اگر کسی معاملے میں آپ دیکھیں کہ ننانوے فیصد غلطی فریقِ ثانی کی ہے اور صرف ایک فیصد غلطی آپ کی ہے تب بھی آپ یہ مان لیجئے کہ ساری غلطی آپ ہی کی ہے۔ آپ کھلے طورپر فریقِ ثانی سے کہہ دیجئے کہ آپ صحیح ہیں، میں ہی غلطی پر تھا:
You are right, I was worng.
اعتراف کی اِس روش کا فائدہ صرف یہ نہیںہے کہ نزاع فوری طور پر ختم ہوجاتی ہے۔ اس کا اس سے بھی زیادہ بڑا فائدہ یہ ہے کہ آپ کی یہ روش آپ کے ذہنی اور روحانی ارتقاء میں مددگار بنتی ہے۔
میرے تجربے کے مطابق، معروف قسم کی متصوّفانہ ورزشوں کا کوئی تعلق تزکیۂ روحانی سے نہیں۔ تزکیہ کا سب سے بڑا ذریعہ اپنی غلطی کا کھلا اعتراف ہے۔ حضرت عمر کے اندر اپنی غلطی کے اعتراف کا مادہ اتنا زیادہ تھا کہ وہ مبالغہ آمیز طور پر اپنی غلطی کا اعتراف کرتے تھے۔ مثلاً وہ کہتے کہ : لولا فلان لہلک عمر(اگر فلاں شخص نہ ہوتا تو عمر ہلاک ہوجاتا)۔
حقیقت یہ ہے کہ سب سے بڑا تزکیہ یہ ہے کہ آدمی کے اندر حقیقی تواضع کی صفت پیدا ہو۔ اس کے اندر سے کبر کا مزاج نکل جائے۔ غلطی کے اعتراف کا مزاج آدمی کے اندر یہی اعلیٰ صفت پیدا کرتا ہے۔ تزکیہ کا سب سے بڑا کورس یہی ہے۔
ایک صاحب سے گفتگو کے دوران میںنے اپنی کتاب ’’اسلامی زندگی‘‘ (صفحہ ۱۰) میں شائع شدہ خلیفۂ دوم عمر فاروق کے ایک قول کا حوالہ دیا۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے میں نے کہا کہ کوئی بڑا کام کرنے کہ لیے اہل صرف وہ شخص ہوتا ہے جو مجموعۂ تضادات (mixture of opposites) ہو۔ مثلاً نہایت اعلیٰ ذہن کا حامل ہونے کے باوجودوہ آخری حد تک متواضع (modest) ہو۔
مزید وضاحت کرتے ہوئے میں نے کہا کہ عالمِ حقائق (universe of facts) اتنا زیادہ وسیع ہے کہ کبھی کوئی شخص اس کا احاطہ نہیں کرسکتا۔ مگر حقائق کا ادراک کرنے کے لیے صرف اعلیٰ ذہن کافی نہیں۔ اسی کے ساتھ کامل تواضع لازمی طورپر ضروری ہے۔ کامل تواضع اس بات کی ضمانت ہے کہ اس کے لرننگ پراسس (learning process) پر کوئی فُل اسٹاپ نہ آئے۔ یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ کِبر، تعلّم (learning)کے عمل کو روک دیتا ہے۔ اِس کے برعکس،تواضع تعلّم کے عمل کو مسلسل طورپر جاری رکھتا ہے۔میں اپنے تجربے سے یہ سمجھتا ہوں کہ ذہنی ارتقاء کے لیے سب سے زیادہ ضروری شرط یہ ہے کہ آدمی ہر لمحہ یہ کہنے کے لیے تیار ہو کہ میں غلطی پر تھا:
I was wrong.
غلطی کو فوراً مان لینا، آدمی کے علم میںاضافہ کرتا ہے۔ اس کے برعکس، جس آدمی کے اندر اپنی غلطی کو ماننے کا مزاج نہ ہو وہ ذہنی جمود کا شکار ہوجائے گا، اس کے اندر ذہنی ارتقاء کا سفر کبھی جاری نہیں رہ سکتا۔
اعتراف کے ذریعے فکری ارتقاء کا جاری رہنا کوئی پُر اسرار بات نہیں۔ بلکہ وہ ایک معلوم بات ہے۔ اصل یہ ہے کہ ہر آدمی کا دماغ مختلف معلومات کا جنگل ہوتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہر آدمی کنفیوژن میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ وہ صحیح اور غلط کو ایک دوسرے سے الگ الگ کرکے دیکھ نہیں پاتا۔ یہ چیز آخر کار آدمی کو تشکیک تک لے جاتی ہے۔
اِس مسئلے کا حل صرف ایک ہے۔ اور وہ یہ کہ جب بھی مطالعہ یا ڈسکشن کے درمیان آدمی پر یہ واضح ہوکہ اس کے دماغ میں فلاں بات جو پڑی ہوئی ہے وہ غلط ہے، اس کو چاہیے کہ وہ اسی وقت کھلے طورپر اس کو مان لے کہ میں اِس معاملے میں غلطی پر تھا۔ اسی کا نام اعتراف ہے۔
اِس اعتراف کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی کے ذہن میں کرکشن اور تصحیح کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ ایک غلط بات جو اس کے ذہن میں صحیح بات کی حیثیت سے موجود تھی اب اس کا ذہن غلط مان کر اس کو غلطی کے خانے میں ڈال دیتا ہے۔ جب کہ اس سے پہلے وہ صحیح کے خانے میں پڑی ہوئی تھی۔ عام حالت میں یہ ہوتا ہے کہ صحیح آئٹم اور غلط آئٹم دونوں انسان کے دماغ میں ملے جُلے رہتے ہیں۔ غلطی ماننے کا مزاج یہ کرتا ہے کہ جو بات صحیح ثابت نہ ہو اس کو غلط کے خانے میں ڈالتا رہتا ہے، اِس طرح وہ اِس کنفیوژن سے باہر آجاتا ہے کہ وہ صحیح اور غلط میں فرق نہ کرے اور دونوں کو یکساں طورپر درست سمجھتا رہے۔
غلطی کو نہ ماننا کوئی سادہ بات نہیں۔ غلطی کو نہ ماننے کی نفسیات ہمیشہ یہ ہوتی ہے کہ آدمی اپنے کِبر کے مزاج کو توڑنا نہیں چاہتا۔ کبر دوسرے لفظوں میں خود پسندی کا نام ہے۔اپنی خود پسندی کی حفاظت میں آدمی یہ کرتا ہے کہ وہ غلطی کا اعتراف نہیں کرتا۔ اِس طرح فرضی طورپر وہ اپنے آپ کو اِس جرم میں مبتلا رکھتا ہے کہ میں درست ہوں، میرے اندر کوئی غلطی نہیں۔ بظاہر آدمی اپنی اِس خود پسندی کی حفاظت کرکے خوش ہوجاتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ میں نے اپنے آپ کو بچا لیا۔ حالاں کہ وہ اپنے کو تباہی کے غار میں ڈال رہا ہوتا ہے۔ اپنے اِس عمل کی اس کو یہ بھیانک قیمت دینی پڑتی ہے کہ اس کا علمی اور روحانی ارتقاء رُک جائے اور وہ معرفت کے اعلیٰ تجربے سے محروم ہو کر رہ جائے۔
معرفت تواضع کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ تواضع نہیں تو معرفت بھی نہیں۔ اور سچی تواضع کی علامت یہ ہے کہ آدمی کسی تحفظِ ذہنی کے بغیر حق کا کھلا اعتراف کرے۔ وہ بے اعترافی کا تحمل نہ کرکے حق کے آگے ڈھہ پڑے۔ جو شخص سچائی کا اعتراف نہیں کرتا وہ عملاً اِس بات کا ثبوت دیتا ہے کہ وہ حق سے بلند ہے۔ سچائی اِس دنیا میں خدا کی نمائندہ ہے۔ ایک شخص کے سامنے جب سچی دلیل آئے اور وہ اس کو نظر انداز کردے تو گویا اس نے خدا کو نظر انداز کردیا۔ ایسے لوگوں کے لیے خدا کے یہاں ابدی محرومی کے سوا اور کوئی انجام مقدر نہیں۔
قرآن میں آیا ہے: وقلیل من عبادی الشکور (السبا: ۱۳) یعنی میرے بندوںمیں بہت کم ہیں جو شکر کرنے والے ہیں۔شکر کیا ہے ۔ شکر در اصل وہ چیز ہے جس کو اعتراف (acknowledgement) کہا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اعتراف سب سے بڑی عبادت ہے۔ ایک طرف خدا کی نعمتوں کا اعتراف اور دوسری طرف انسان کے مقابلے میں اعتراف۔ یہ دوچیزیں گویا دین کا خلاصہ ہیں۔
لوگوں کا حال یہ ہے کہ یا تو وہ اعتراف کے وقت اعتراف نہیں کرتے یا دل سے تو مان لیتے ہیں مگر زبان سے بول کر وہ اپنی غلطی کا اعتراف ضروری نہیں سمجھتے۔ میں سمجھتا ہوں کہ دونوں میں بہت زیادہ فرق نہیں ہے۔ یہ سمجھنا کہ ہم نے دل سے تو مان لیا ہے زبان سے بولنے کی کیا ضروت ۔ یہ اپنی حققت کے اعتبار سے اعتراف نہیں ہے بلکہ منافقت ہے۔ جب آدمی قلبی اعتراف کے باوجود زبان سے کھُلے طورپر اس کا اظہار نہ کرے تو یہ بے اعترافی ہی کی ایک صورت ہوتی ہے۔ کیوں کہ بے اعترافی کا سبب یہ ہوتا ہے کہ آدمی دوسروں کے سامنے یہ ظاہر نہیںکرنا چاہتا کہ وہ اِس معاملے میں بے خبر تھا۔
ٹھیک یہی نفسیات اُس انسان کی ہوتی ہے جو دل میں محسوس کرنے کے باوجود زبان سے بول کر اس کا اظہار نہ کرے۔ یہ نہ بولنا بھی اسی لیے ہوتا ہے کہ آدمی اپنی پوزیشن کو بچانا چاہتا ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ دوسرے لوگ اِس بات کو جان لیں کہ وہ اب تک بے خبری کا شکار تھا، یا اس سے کوئی غلطی ہوگئی ہے، یا اس نے ایسی کوئی غلطی کردی جس کی اُسے تصحیح کرنا چاہیے۔
آدمی جب معاملے کی وضاحت کے باوجود اعتراف نہیں کرتا تو اس کا سبب یہ ہوتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ ایسا کرکے وہ اپنی پوزیشن کو گھٹا لے گا، دوسرے کے مقابلے میں اس کی برتری باقی نہ رہے گی۔ یہ نفسیات مکمل طورپر شیطانی نفسیات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب شیطان کو حکم دیا کہ وہ آدم کے آگے جھُکے تو یہ اعتراف ہی کا ایک معاملہ تھا۔ مگر شیطان نے اِس اعتراف سے انکار کیا۔ اُس نے کہا کہ میں آدم سے برتر ہوں (أنا خیر منہ)۔
جب بھی کوئی آدمی بے اعترافی کا مظاہرہ کرے تو اس کا سبب یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنی بڑائی کے احساس میں جی رہا ہوتا ہے۔ اپنی بڑائی کو باقی رکھنے کے لیے وہ اعتراف نہیں کرتا۔ حتی کہ اگر اس کا دل یہ محسوس کرلے کہ اِس معاملے میں میں غلطی پر ہوں تب بھی وہ زبان سے اِس کا اظہار نہیں کرنا چاہتا تاکہ ظاہری طورپر اس کی پوزیشن برقرار رہے ۔ اس کی پوزیشن پر کوئی حرف نہ آئے۔
یہ بلا شبہہ بہت بڑی بھول ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو آدمی سچائی کے لیے اپنے آپ کو جھُکا لے اُسی کو اس دنیا میں سرفرازی ملتی ہے، اور جو آدمی اپنے جھوٹے بچاؤ کے لیے کھُلے اعتراف سے پرہیز کرے وہ حقیقت کی نظر میں اپنے آپ کو نیچے گرالیتا ہے۔ حتی کہ خود اپنے ضمیر کے سامنے بھی وہ چھوٹا بن جاتا ہے۔
غلطی کا اعتراف ایک اعلیٰ درجے کی نیکی ہے۔ غلطی کا اعتراف دراصل اپنی تواضع کو ثابت شدہ بنانا ہے۔ جس شخص کے اندر غلطی کے اعتراف کا مزاج نہیں وہ یقینی طور پرتواضع سے بھی خالی ہوگا۔ اورتواضع کے بغیر کسی کا ایمان مکمل نہیں ہوتا۔
لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ یا تو غلطی کا اعتراف نہیں کریں گے۔ یا اپنے دل کے اندر غلطی کو محسوس کرکے یہ سمجھیں گے کہ انھوں نے غلطی کا اعتراف کرلیا۔ حالاں کہ غلطی کا ماننا وہی معتبر ہے جب کہ آدمی زبان سے بول کر اس کا کھُلااقرار کرے۔ دل میں غلطی کو محسوس کرنا اور زبان سے اس کا کھُلا اعتراف نہ کرنا منافقت کی علامت ہے۔ ضمیر ہر انسان کے اندر ہے، اِس بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ منافق انسان بھی اپنے دل میں محسوس کرتا ہے کہ اس معاملے میں مجھ سے غلطی ہوئی۔لیکن وہ زبان سے الفاظ کی صورت میں اس کا اظہار نہیں کرتا۔ اس کے برعکس، مؤمن کا طریقہ یہ ہے کہ جب اس کی غلطی اس پر واضح ہوجاتی ہے تو وہ فوراً کہہ اٹھتا ہے کہ میں نے غلطی کی۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر فاروق غلطی کے احساس کے بعد فوراً بول پڑتے تھے۔
مثلاً ایک بار انھوں نے کہاکہ : أصابت امرأۃ وأخطأ عمر، اور کُلُّ الناس أفقہ منک یا عمر( ایک عورت نے صحیح کہا، اور عمر نے غلطی کی۔ اے عمر، ہر آدمی تجھ سے زیادہ جانتا ہے) حقیقت یہ ہے کہ دل میں غلطی کو محسوس کرنا اور زبان سے بول کر اس کا اظہار نہ کرنا منافقانہ روش ہے۔ اور دل میں غلطی کا احساس پیدا ہوتے ہی زبان سے بول کر لفظوں میںاس کا کھُلا اعتراف کرنا مؤمنانہ روش۔
واپس اوپر جائیں

مسلمان نئے دَور میں

امریکا میں مسلمان تقریباً ۷ ملین کی تعداد میں رہتے ہیں۔ ایک حالیہ اقتصادی سروے میں بتایا گیا ہے کہ اِس وقت امریکا کی فی کس آمدنی ۳۴ ہزار ڈالر سالانہ ہے۔ لیکن جہاں تک امریکی مسلمانوں کا تعلق ہے، ان کی فی کس آمدنی ۴۲ ہزار ڈالر سالانہ ہے، یعنی دوسرے امریکیوں کے مقابلے میں تقریباً ۱۰ ہزار ڈالر زیادہ ۔
تقریباً یہی معاملہ ہندستان کا ہے۔ آزادی (۱۹۴۷) کے بعد مسلم رہنماؤں کی غلط رہنمائی کے نتیجے میں مسلمان ہندستان کے بارے میں منفی ذہنیت کا شکار تھے۔ مسلمان عام طور پر یہ سمجھتے تھے کہ ہندستان ان کے لیے ایک پرابلم کنٹری ہے۔ لیکن مختلف واقعات کے نتیجے میں مسلمانوں کے اوپر شعوری یا غیر شعوری طور پریہ حقیقت کھلی کہ ہندستان میں مسلمانوں کے لیے ایسے مواقع موجود ہیں جو خود مسلم ملکوں میں بھی نہیں ہیں۔ اس کے بعد یہاں کے مسلمان تیزی سے ترقی کی دوڑ میں سرگرم ہوگیے۔ اب یہ حال ہے کہ ہندستان کا مسلمان نہایت تیزی کے ساتھ ترقی کررہا ہے۔ بہت جلد وہ وقت آنے والا ہے جب کہ امریکا کی طرح ہندستان میں بھی مسلمان اقتصادی ترقی کے معاملے میں دوسری قوموں سے آگے بڑھ جائیں۔
ایسا کیوں ہے، اِس کا سبب یہ ہے کہ ۵۷ مسلم ملکوں میں سے ہر ایک میں، کم و بیش، ڈکٹیٹر شپ کا نظام قائم ہے۔ ڈکٹیٹر شپ کا نظام ہمیشہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہوتا ہے۔ جب کسی ملک میں ڈکٹیٹر شپ آتی ہے تو وہاں سے دو بنیادی چیزوں کا خاتمہ ہوجاتا ہے—امن اور آزادی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ترقی کے لیے امن اور آزادی دونوں لازمی طور پر ضروری ہیں— یہی وہ بنیادی سبب ہے جس کی بنا پر مسلمان مسلم ملکوں میں زیادہ ترقی نہ کرسکے۔
امریکا اور ہندستان جیسے ملکوں میں مسلمانوں کا ترقی کے راستے میں سرگرم ہونا اِس لیے ہے کہ یہاں جمہوریت ہے۔ یہاں سیکولر ازم اور آزادی کا ماحول ہے۔ یہاں ہر ایک کے لیے کام کرنے کے مواقع یکساں طور پر موجود ہیں۔ اِس لیے امریکا اور ہندستان جیسے ملکوں میں مسلمان کسی رکاوٹ کے بغیر ترقی کے راستے میں سرگرم ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان خود اپنی فطرت کے زور پر ترقی کی راہوں میں دوڑنا چاہتا ہے۔ انسان کی ترقی کے لیے اِس کے سوا کسی اور چیز کی ضرورت نہیں کہ اس کو تمام راہیں کُھلی ہوئی نظر آئیں۔ یہی معاملہ امریکا اور ہندستان جیسے ملکوں میں ہوا۔
مسلم ملکوں میں ڈکٹیٹر شپ کیوںآئی۔ اِس کا سبب عام طورپر خود مسلم حکمرانوں کو سمجھتا جاتا ہے۔ مگر یہ بات یقینی طورپر غلط ہے۔ اِس ڈکٹیٹر شپ کا سبب تمام تر وہ سیاسی جماعتیں ہیں جو اسلام پسند جماعتوںکے نام سے مشہور ہیں۔ اِن جماعتوں نے انتہائی بے دانشی کے ساتھ یہ کیا کہ نظامِ مصطفی اور قانونِ شریعت کے نفاذ کے نام پر اپنے ملکوں کے مسلم حکمرانوں کے خلاف انتہا پسندانہ تحریکیں شروع کردیں۔ یہ طریقہ مکمل طورپر وقت کے مصالح کے خلاف تھا۔ چنانچہ وہ الٹے نتیجے کا سبب بن گیا۔ یہی نام نہاد اسلام پسندانہ سیاست واحد سبب ہے جس کی وجہ سے مسلم ملکوں میں ہر جگہ ڈکٹیٹر شپ کا نظام قائم ہوگیا۔
مطالعہ بتاتا ہے کہ موجودہ زمانے کی اسلام پسند تحریکیں کسی مثبت فکر کے تحت نہیں اٹھیں وہ صرف حالات کے ردّعمل کے تحت اٹھیں۔ یہ دراصل رد عمل کی تحریکیں تھیں جن کو غلط طور پر اسلامی تحریک کا نام دے دیا گیا۔
اٹھارویں صدی عیسوی میں جب مغربی قومیں نئی طاقتوں کے ساتھ اُبھریں اور دھیرے دھیرے وہ پوری مسلم دنیا پر چھاگئیں۔ تہذیب اور سیاست دونوں اعتبار سے ان کا غلبہ مسلم دنیا پر قائم ہوگیا۔ یہاں تک کہ مغل سلطنت اور اسلامی سلطنت اور دوسری مسلم سلطنتیں یا تو ختم ہوگئیں یا مغلوب ہو کر رہ گئیں۔
یہ صورت حال پیش آنے کے بعد تمام دنیا کے مسلمانوں میں اس کے خلاف شدید ردعمل پیدا ہوا۔ اس کے مقابلے میں مسلمان کوئی ایجابی موقف اختیار نہ کرسکے۔ اُن کے درمیان جو ذہن اُبھرا وہ یا تو ٹکراؤ کا ذہن تھا یا تحفّظات کا ذہن۔ اِس ذہن کے تحت، مسلمانوں نے جہاد کے نام پر ٹکراؤ شروع کردیا۔ کچھ لوگوں نے شریعت کے تحفظ کا نعرہ اختیار کیا۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ ملّت کی شناخت خطرے میں ہے۔ اور وہ بطور خود ملت کی شناخت کی حفاظت میں مصروف ہوگیے۔ کچھ لوگوں نے یہ سوچا کہ جگہ جگہ مسلمانوں کا علاحدہ خطّہ بنانا چاہیے۔
اِس قسم کی تحفظاتی کوششوں پر اب تقریباً دو سو سال گذر چکے ہیں لیکن نتیجہ برعکس صورت میں ظاہر ہوا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ سوچ فطرت کے نظام کے خلاف تھی۔ فطرت کا نظام مسابقت (competition) کے اصول پر قائم ہے نہ کہ تحفّظ کے اصول پر۔ دنیا میں کبھی کسی گروہ کو تحفظ کے طریقے پر چل کر ترقی حاصل نہ ہوسکی۔
مسلم رہنماؤں نے مسلم حکومتوں کو اسلام کا ’’تحفظاتی قلعہ‘‘ قرار دیا تھا۔ لیکن اِس نام نہاد تحفظاتی قلعے میں مسلمان ترقی نہ کرسکے۔ اس کے مقابلے میں امریکا اور ہندستان جیسے سیکولر ملکوں کو انھوں نے مسلم دشمن کا ٹائٹل دیا تھا مگر انھیں ’’دشمن‘‘ ملکوں میں مسلمان سب سے زیادہ ترقی کررہے ہیں۔ اِس لیے کہ مسلم ملکوں میں ہر جگہ نظریاتی انتہا پسندی کا ماحول ہے، اور نظریاتی انتہا پسندی کے ماحول میں ہمیشہ ٹکراؤ بڑھتا ہے نہ کہ ترقی۔ اس کے مقابلے میں امریکا اور ہندستان جیسے ملکوں میں کھُلا ماحول پایا جاتا ہے۔ اور یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ترقی کا عمل ہمیشہ کھلے ماحول میں جاری ہوتا ہے۔ نظریاتی انتہا پسندی کے ماحول میں ترقی کا عمل جاری ہونا ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں

سازش کا تصور

ایک تعلیم یافتہ مسلمان نے کہاکہ موجودہ زمانے کے مسلمان اپنے دورِ زوال میں پہنچ چکے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کسی قو م پر زوال کیسے اور کب آتا ہے۔ میں نے کہا کہ آپ مسلمانوں کے کیس کو لیجئے۔ مسلمانوں کا معاملہ یہ ہے کہ وہ تقریباً ایک ہزار سال تک دنیا کے بڑے خطّے میںحالتِ اقتدار میں رہے۔ نوآبادیاتی دور میں مغربی قوموں کا عروج ہوا، اس وقت مسلمان تہذیب اور سیاست دونوں میں مغربی قوموں کے مقابلے میں مغلوب ہوگیے۔ اس وقت ساری دنیا کے مسلمانوں میں احیاء نو کی تحریک شروع ہوئی۔
اُس دور کے مفکرین (شبلی نعمانی، محمد اقبال، ابوالکلام آزاد، سید جمال الدین افغانی، امیر شکیب ارسلان وغیرہ) نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ مسلمانوں کے شان دار ماضی کو یاد دلا کر ان کے اندر یہ جذبہ پیدا کرنے کی کوشش کی کہ وہ اس شاندار ماضی کو دوبارہ جدید تاریخ میں واپس لائیں۔ مگر یہ الٹی تدبیر تھی۔ اس کے نتیجے میں وہ مہلک نفسیات پیدا ہوئی جس کو ’’پدرم سلطان بود‘‘ کہا جاتا ہے۔ اِس نفسیات نے مسلمانوں کو فخر ماضی میں مبتلا کردیا۔ اور فخر کی نفسیات کسی حقیقی عمل کے لیے مستقل رُکاوٹ کی حیثیت رکھتی ہے۔
اس تدبیر کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان دو طرفہ برائی میںمبتلا ہوگیے۔ اپنے بارے میں فخر کی نفسیات، اور دوسرے کے بارے میں نفرت کی نفسیات۔ اُس دور کے مصلحین نے مسلمانوں کو یہ یقین دلایا کہ ان کے ساتھ جو کچھ پیش آیا ہے وہ دوسری قوموں کی سازش کے نتیجے میں پیش آیا ہے۔ یعنی مسلمانوں کا زوال خود اپنی کسی کوتاہی کے نتیجے میں نہیں ہوا بلکہ دوسروں کی سازش کے نتیجے میں ہوا۔ یہ ایک سنگین غلطی تھی۔ اس غلطی کانتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان اپنے احیاء نو کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہ کرسکے۔
سازش کا نظریہ ایک بے بنیاد نظریہ ہے۔ جب بھی دو قوموں کے درمیان ٹکراؤ ہوتا ہے تو ہمیشہ بعض ایسے واقعات پیش آتے ہیں جن کو ’’سازش‘‘ کہاجاسکے۔ اس قسم کے واقعات ہمیشہ اور ہر قوم کی تاریخ میں موجود رہتے ہیں۔ خودمسلم تاریخ میں بھی اِس قسم کے انفرادی واقعات پائے جاتے رہے ہیں۔ مگر تجزیہ نگار کو یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ کسی معاملے میں فیصلہ کن سبب (decisive factor)کیا ہے۔ کسی جُزئی واقعے کو لے کر اس کو جنر لائز کرنا اور اسی کو زیرِ بحث واقعے کا اصل سبب قرار دینا سخت غیر علمی بات ہے۔ اس قسم کے جزئی واقعات کو لے کر اگر رائے قائم کی جائے تو مسلمانوں کی فتوحات بھی ’’سازش‘‘ کا نتیجہ دکھائی دے گی۔
تبصرہ نگار کو چاہیے کہ وہ جُزئی واقعات کو نظر انداز کرکے اُن کلّی اسباب کو دریافت کرے جو زیر بحث واقعے میں فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں۔ ورنہ پوری رائے غلط ہوجائے گی۔ مثال کے طورپر انگریز جب ہندستان میں آئے تو یہاں مسلم سلطنت قائم تھی۔ انگریزوں نے کامیابی کے ساتھ مسلم سلطنت کو ختم کیا اور انڈیا میں اپنا سیاسی اقتدار قائم کرلیا۔ اِس واقعے کو عام طور پر سازش کا نتیجہ کہا جاتا ہے۔ مثلاً کہا جاتا ہے کہ رُوہیلوں کا انگریز سے مغلوب ہونا، در اصل اودھ کے مسلم نواب کی غدّاری کی بنا پر ہوا۔ ایک مسلم شاعر نے کہا ہے:
نوّابِ اودھ نے جو یہ پاپڑ نہ ہوں بیلے
انگریز سے مغلوب نہ ہوسکتے روہیلے
اِس قسم کی باتیں تاریخ کے ناقص مطالعے کا نتیجہ ہیں۔ انگریزکا ہندستان میں غلبہ اِس لیے ہوا کہ وہ جدید طاقتوں سے مسلّح ہو کر یہاں آئے تھے، ایسی طاقتیں جن کا توڑ اس وقت کے مسلمانوں کے پاس موجود نہ تھا۔ انگریز–مسلم تصادم کے دوران بعض جُزئی واقعات پیش آئے جیسا کہ ہر تصادم کے وقت پیش آتے ہیں۔ مگر ان واقعات کی حیثیت محض ضمنی ہے۔ ہندستان میں انگریزوں کی کامیابی کا راز اس قسم کا کوئی جزئی سبب نہ تھا۔ وہ مکمل طورپر ایک کلی سبب کے تحت پیش آیا، اور وہ دونوں کے درمیان طاقت کا عدم توازن تھا۔ اگر یہ جزئی واقعات نہ پیش آتے تب بھی انگریز یقینا کامیاب ہوتے۔
واپس اوپر جائیں

کنزیومر کمیونٹی

جب کسی مذہبی کمیونٹی پر سکیڑوں سا ل گذر جائیں، اور وہ عددی اعتبار سے ایک بڑی کمیونٹی بن جائے تو اس کی حیثیت ایک کنزیومر کمیونٹی کی ہوجاتی ہے۔ ۶۱۰ عیسوی میں پیغمبر اسلام اکیلے مومن تھے۔ اس کے بعد دھیرے دھیرے ایک گروہ تیار ہوا جو عددی اعتبار سے ایک محدود گروہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ اُس وقت جو گروہ بنا وہ کوئی کنزیومر گروہ نہ تھا۔ لیکن آج مسلمان ساری دنیا میں سات بلین ہوچکے ہیں۔ صرف ہندستان میں ان کی تعداد بیس کروڑ سے زیادہ ہے۔
اس طرح آج کے مسلمان پورے معنوں میں ایک کنزیومر کمیونٹی بن چکے ہیں۔ ان کے درمیان ہر قسم کے تجارتی مواقع کھل گیے ہیں۔ تسبیح اور مصلّی ، اسلامی موبائل، اسلامی ٹی وی، اسلامی لٹریچر، اسلامی اجتماع اور اسلامی تحریک، اسلامی ادارہ اور اسلامی سروس، اسلامی سیاست اور اسلامی قیادت، اسلامی میڈیا اور اسلامی دفاع، اسلامی کمپیوٹر اور اسلامی انسائیکلوپیڈیا، اسلامی تقریر اور اسلامی تحریک، اسلامی نظام اور اسلامی بینکنگ حتی کہ زمزم اور کھجور، وغیرہ۔
اس قسم کی تمام چیزوں پر بظاہر اسلام کا لیبل لگا ہوا ہے مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ ایک قسم کا سامانِ تجارت (commodity) ہیں۔ وہ لوگوں کے لیے اسی طرح مفید ہیں جس طرح عام تجارتی سرگرمیاں مفید ہوتی ہیں۔ اب اسلام کے نام پر وہ سارے مادّی فا ئدے حاصل ہورہے ہیں جو پہلے صرف عام تجارتوں کے ذریعے حاصل ہوتے تھے۔ میڈیا کی شان و شوکت نے ان فوائد میں بہت زیادہ اضافہ کردیا ہے۔
غالباً یہی وہ صورتِ حال ہے جس کے بارے میں پیغمبر اسلام نے پیشگی طورپر خبر دے دی تھی۔ ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام نے فرمایا: ویقال للرجل ما أعقلہ وما أظرفہ وما أجلدہ، وما فی قلبہ مثقال حبّۃ خردل من إیمان۔(فتح الباری بشرح صحیح البخاری، جلد: ۱۱، صفحہ: ۳۴۱) یعنی میری امت پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جب کہ ایک شخص کی شان دار کارکردگی کو دیکھ کر کہا جائے گا کہ وہ کتنا زیادہ عقل والا ہے، وہ کتنا زیادہ ظرف والا ہے، وہ کتنا زبردست ہے۔ حالاں کہ اس کے دل میں رائی کے ایک دانے کے برابر بھی ایمان نہ ہوگا۔
اِس حدیث پر غور کرتے ہوئے سمجھ میں آتا ہے کہ یہ اس زمانے کی بات ہے جب کہ مذہب ایک پروفیشنل چیز بن جائے گا۔ لوگ اسلام کو پروفیشن یا کیریئر کے طورپر اختیار کریں گے۔ یہ ایک معلوم بات ہے کہ پروفیشنل کلام یا پروفیشنل سلوک ہمیشہ ظاہری طورپر زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ مثلاً ایک پروفیشنل سیلس مَین ہمیشہ عام انسانوں سے زیادہ، خوش گفتاری کا ثبوت دیتا ہے۔ حالاں کہ اس کے دل میں کوئی حقیقی جذبہ نہیں ہوتا۔یہ کنزیومر ایتھکس ہے۔ جب مسلم کمیونٹی ایک کنزیومر کمیونٹی بن جائے تو اس کے بعد اسی کردار والے لوگ پیدا ہوتے ہیں جس کا ذکر اوپر کی حدیث میں کیا گیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

کیفیات،کمّیات

موجودہ زمانے میں بہت سی مسلم جماعتیں اور مسلم تنظیمیں وجود میں آئی ہیں۔ ان میں ایک اور دوسرے کے درمیان بہت سے فرق پائے جاتے ہیں۔ مگر ایک چیز سب میں مشترک ہے، اور وہ یہ کہ ہر ایک نے کسی نہ کسی پہلو سے اسلام کی کمّیاتی تعبیر کر رکھی ہے۔ کیفیات پر مبنی تعبیر کے بجائے کمّیات پر مبنی تعبیر میرے نزدیک سرتا سر گمراہی ہے۔ اس نے موجودہ زمانے میں زبردست نقصان پہنچایا ہے۔
کیفیاتی تعبیر کی صورت میں آدمی ہمیشہ اپنی دین داری کے بارے میں شک میں مبتلا رہتا ہے۔ کیوں کہ کیفیات (تقویٰ، اور خشیّت) داخلی چیزیں ہیں، ان کو ناپا اور تولا نہیں جاسکتا۔ لیکن کمّیاتی تعبیرمیں دین داری ایک ایسی چیز بن جاتی ہے جس کو خارجی اعتبار سے ناپا اور تولا جاسکے۔ اس کے نتیجے میں یہ ہوتا ہے کہ آدمی بے خوف ہوجاتا ہے۔ وہ اپنے عمل کو ناپ تول میں ڈھال کر یہ سمجھ لیتا ہے کہ جو عمل مجھے کرنا تھا وہ میں نے کردیا۔ کیفیت پر مبنی سوچ خدا کا خوف پیدا کرتی ہے اور کمّیت پر مبنی سوچ آدمی کے اندر فرضی یقین پیدا کرکے اس کو خدا سے بے خوف بنا دیتی ہے۔
اصحابِ رسول ہمیشہ لرزاں اور ترساں رہتے تھے۔ کیوں کہ ان کے نزدیک، دین داخلی کیفیت کا نام تھا، اور داخلی کیفیت کو ناپ تول کی زبان میں معلوم نہیں کیا جاسکتا۔ موجودہ زمانے کے مسلمان خدا سے بے خوف ہوگیے ہیں کیوں کہ وہ اپنے کمیاتی ذہن کی بنا پر سمجھتے ہیں کہ جو کچھ کرنا تھا وہ ہم نے کردیا۔ اب ہمارا معاملہ بالکل درست ہے۔
سیاست پر مبنی تعبیر، مسائل پر مبنی تعبیر، فضائل پر مبنی تعبیر، برکت پر مبنی تعبیر، وسیلے پر مبنی تعبیر، عشقِ رسول پر مبنی تعبیر، مظاہرِ شرک پر مبنی تعبیر، خیر امت پر مبنی تعبیر، وغیرہ۔
یہ تمام تعبیریں ظواہرِ دین پر مبنی تعبیریں ہیں۔ دین مسلّمہ طورپر داخلی حقیقت کا نام ہے۔ اس لیے ہر وہ تعبیرِ دین جو ظواہر یا فارم پر مبنی ہو وہ بلاشبہہ باطل قرار پائے گی، اور ظواہر دین پر چلنا خود ساختہ دین پر چلنا ہے نہ کہ خدا کے بھیجے ہوئے دین پر چلنا۔
واپس اوپر جائیں

صلاحیت کا کم تر استعمال

ایک گفتگو کے دَوران میں نے کہا کہ غالب کو اپنی زندگی میں کچھ ناخوشگوار تجربات پیش آئے۔ اِس پر اپنے ردّ عمل کا اظہار کرتے ہوئے انھوںنے کہا:
زندگی اپنی جب اِس طرح سے گذری غالب! ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے
میںنے کہا کہ غالب زندگی کی حقیقت کو سمجھ نہ سکے۔ زندگی میں مشکلات کا پیش آنا اِس لیے تھا تاکہ غالب خدائے برتر کو یادکریں۔ وہ خدا سے تعلق قائم کرکے اپنے اندر اعلیٰ روحانی شخصیت کی تعمیر کریں۔ مگر انھوں نے مشکلات کے مقابلے میں صرف منفی تاثر لیا۔ حالاں کہ ضرورت تھی کہ وہ اس کو مثبت تاثر میں ڈھال دیں۔ اسی طرح غالب کا ایک اور شعر اِس طرح ہے:
رنج کا خوگر ہُوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہوگئیں
یہ بھی غالب کی ایک سنگین غلطی ہے۔ مشکل کا عادی ہو کر اس کو اپنے لیے قابلِ برداشت بنا لیناکوئی صحیح بات نہیں۔ صحیح یہ ہے کہ آدمی مشکل کو اپنے ذہنی ارتقاء کا ذریعہ بنا سکے۔ وہ مشکل کو چیلنج کے روپ میں لے نہ کہ عادت کے روپ میں۔ غالب کے ساتھ یہ سانحہ پیش آیا کہ ان کو اپنے زمانے میں کوئی رہبر نہیں ملا جو ان کو صحیح سوچ دے، جو ان کی فکری رہنمائی کرے، جو اُن کو فکری ارتقاء کا راز بتائے۔ اِس بنا پر ایسا ہوا کہ غالب اپنی اعلیٰ ذہانت کے باوجود صرف شاعر ہو کر رہ گیے۔ وہ سخن وری میں اپنا کمال دکھاتے رہے۔ حالاں کہ اپنی اعلیٰ ذہانت کی بنا پر وہ اِس قابل تھے کہ کوئی بڑا علمی اور فکری کارنامہ انجام دے سکیں۔ وہ شاعر کے بجائے مفکّربن سکیں۔ اور پھر انسان کو فکری رہنمائی عطا کریں۔ مگر عملاً یہ ہوا کہ وہ اپنی صلاحیت کے صرف کم تر استعمال تک پہنچے، وہ لوگوں کو شاعرانہ اہتزاز سے زیادہ اور کچھ نہ دے سکے۔
کہا جاتا ہے کہ غالب نے الطاف حسین حالی سے کہا تھا کہ تم اگر شاعری نہیں کروگے تو اپنے آپ پر ظلم کروگے۔ میں سمجھتا ہوںکہ اِس سے زیادہ اہم بات یہ تھی کہ غالب خود اپنے بارے میں یہ دریافت کریں کہ میںنے شاعری کرکے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

میڈٹیشن(Meditation)

میڈٹیشن ایک مستقل ڈسپلن ہے۔ میڈٹیشن کا مقصد اسپریچول ڈیولپمنٹ ہے۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ انٹلکچول ڈیولپمنٹ کا تعلق، فارمل ایجوکیشن سے ہے، اور اس کے مقابلے میں میڈٹیشن کا تعلق، انفارمل ایجوکیشن سے۔ میڈٹیشن یا اسپریچول ڈسپلن کے کئی طریقے ہیں اور وہ کسی نہ کسی صورت میں قدیم زمانے سے چلے آرہے ہیں۔
میرے تجربے کے مطابق، میڈٹیشن یا اسپریچول ڈسپلن کے دو بڑے اسکول ہیں۔ ایک وہ جو مراقبہ (Meditation) پَر مبنی ہوتا ہے۔ اور دوسرا وہ جو تفکّر (Contemplation) کی بنیاد پر قائم ہے۔پہلا اسکول مبنی بر قلب (heart-based) اسکول ہے، اور دوسرا اسکول مبنی بَر ذہن (mind-based) اسکول ۔ میں ذاتی طور پر تفکّر والے اسکول سے تعلق رکھتا ہوں۔
اسپریچویلٹی کا جو اسکول میڈٹیشن یا مراقبے پر قائم ہے اس کو مسلم تاریخ میں تصوف کہا جاتا ہے۔ تصوف میںبہت سی چیزیں ویدانتا سے لی گئی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تصوف اور ویدانتامیں بہت زیادہ مشابہت ہے۔ دونوں ایک دوسرے سے گہرے طورپر متاثر ہوئے ہیں۔ اگر چہ ویدانتا کا ریفرنس پوائنٹ(reference point) وید ہے اور تصوف کا ریفرنس پوائنٹ قرآن ۔ لیکن اپنے مجموعی اسلوب کے اعتبار سے دونوں ایک دوسرے سے ملتے جُلتے ہیں۔
مثلاً تصوف میں لطائفِ ستّہ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ یہ اصطلاح براہِ راست طورپر ہندو سسٹم سے لی گئی ہے۔ غالباً یہ تصور پہلے ہندو سسٹم میںآیا اور اس کے بعد مسلم صوفیوں نے اپنے لیے مفید سمجھ کر اس کو اختیار کرلیا۔
لطائف ستّہ کا مطلب صوفیا کے نزدیک، یہ ہے کہ انسان کے جسم میں چھ مقامات (points) ہیں۔ یہ مقامات روحانی احساسات کے مراکز ہیں۔ دھیان اور توجّہ سے ان پر مسلسل زور ڈالا جائے تو یہ روحانی مقامات کُھل جاتے ہیں، اور اس کے نتیجے میں پوری انسانی شخصیت کو روحانی غذا ملنے لگتی ہے۔ اس قسم کی پریکٹس اور بعض دوسری قسم کی پریکٹس ہیں جن پر عمل کرکے آدمی اپنی شخصیت کے مادّی پہلو کو دباتا ہے اور اپنی شخصیت کے روحانی پہلو کو بیدار کرتا ہے۔
میںاپنے بارے میں کہہ سکتا ہوں کہ میںایک پیدائشی صوفی ہوں۔ میری پوری زندگی روحانی غور وفکر اور روحانی تجربات میں گذری ہے۔ میں لمبی مدت سے اِس مقصد کے لیے ایک ادارہ بھی چلا رہا ہوں۔ جس کا نام یہ ہے:
Center for Peace and Spirituality (CPS International)
لیکن میری روحانیت تمام تر ذہنی بیداری پر مبنی ہے۔ میں جس صوفی ازم کو مانتا ہوں اس کو تخلیقی صوفی ازم (creative sufism) کہا جاسکتا ہے۔
میرا ماننا یہ ہے کہ مبنی بَر قلب روحانیت، آدمی کو جس درجے تک پہنچاتی ہے وہ دراصل وجد (ecstasy) ہے۔مخصوص اعمال اور اشغال کے ذریعے آدمی کے اندر ایک خاص اہتزازی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ اس کو روایتی صوفی، روحانی یافت کا نام دیتے ہیں۔
روحانیت کے جس مسلک کو میں مانتا ہوں اس کا تعلق، تمام تر فکری عمل سے ہے۔ یہ روحانیت اِس طرح آتی ہے کہ آدمی یہ سوچتا ہے کہ میں کیا ہوں۔ میرے آس پاس کی دنیا کیا ہے۔ جس نے دنیا کو بنایا ہے اس کا وہ تخلیقی نقشہ (creation plan) کیا ہے جس کے تحت، اس نے انسان کو اور بقیہ کائنات کو بنایا ہے۔
روحانیت کا یہ سفر دراصل تلاشِ حقیقت کے جذبے کے تحت، شروع ہوتا ہے۔ یہاںتک کہ جب ایک متلاشی ٔ حق انسان سچائی کو دریافت کرلیتا ہے اور وہ خالق کے تخلیقی نقشے کو جان لیتا ہے تو اس کی زندگی ایک نئے دَور میںداخل ہوجاتی ہے۔ یہ دور وہ ہے جس کو روحانی اصولوں پر انسانی شخصیت کی تعمیر کا دور کہا جاسکتا ہے۔
یہ سفر مکمل طورپر ایک ذہنی سفر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر موجودہ دنیا میں ہر عورت اور مرد ایک تجربے سے دوچار ہوتے ہیں۔ یہ تجربہ منفی حوادث کا تجربہ ہے۔ چوں کہ موجودہ دنیا میںہر آدمی آزاد ہے۔ ہر آدمی کو موقع ہے کہ وہ اپنی آزادی کا غلط استعمال کرے۔ اِس بنا پر باربار یہ صورت پیش آتی ہے کہ ایک انسان کو دوسرے انسان سے دُکھ پہنچتا ہے۔ ایک انسان کو دوسرے انسان کی کسی کارروائی سے نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ ایک انسان کو دوسرے انسان سے کوئی ایسا ناخوش گوار تجربہ پیش آتا ہے جو اس کو مشتعل کردیتا ہے۔
ایک طبقے کے نزدیک ایسے حالات میں روحانیت کو باقی رکھنے کی ایک صورت یہ ہے کہ آدمی انسانی بستی سے دُورکے ماحول میں رہنا شروع کردے جہاں کوئی چیز اس کو مشتعل کرنے والی نہ ہو۔ اِسی نقطۂ نظر کی ترجمانی امریکا سے چھپی ہوئی اُس کتاب میں کی گئی ہے جس کا نام یہ ہے:
A monk who sold his ferrari
میں جس روحانی مدرسۂ فکر کو مانتا ہوں وہ اِس سے مختلف ہے ۔ اِس دوسرے مدرسۂ فکر کے مطابق، آدمی کوچاہیے کہ وہ اپنے منفی تجربات کو کنورٹ کرکے ان کو مثبت تجربے کی شکل دے۔ وہ مادّی واقعات کو روحانی تجربے میں تبدیل کرسکے۔ وہ ایک غیر روحانی واقعے کو روحانی واقعے کی صورت دے دے۔
یہ وہی اصول ہے جس پر انسان کے باہر کی پوری مادّی دنیا قائم ہے۔ اِس اصول کو تبدیلی کا اصول(principle of conversion) کہا جاسکتا ہے۔ مثال کے طورپر پانی کیا ہے، دو گیسیں جو اپنے آپ میں پانی نہیں ہیں وہ مل کر ایک اور چیز کی شکل اختیار کرتی ہیں جس کو ہم سیّال پانی کہتے ہیں۔ درخت کیا ہے، درخت در اصل غیر نباتاتی چیزوں کے کنورژن کا نتیجہ ہے۔
اسی کی ایک مثال گائے ہے۔ گائے اپنے جسم میں دودھ نہیں داخل کرتی۔ بلکہ وہ اپنے جسم کے اندر گھاس داخل کرتی ہے۔ پھر مخصوص نظام کے تحت، یہ گھاس کنورٹ ہو کر دودھ بن جاتی ہے۔ گویا کہ گائے ایک ایسی انڈسٹری ہے جو نان مِلک کو مِلک میں تبدیل کرتی ہے۔ اسی حقیقت کو ایک اردو شاعر نے اِس طرح بیان کیا ہے:
کل جو گھاس چری تھی بَن میں دودھ بنی وہ گائے کے تھن میں
کہا جاتا ہے کہ ایک شخص ایک بزرگ سے ملا۔ وہ کسی بات پر بزرگ سے غصہ ہوگیا۔ بزرگ اُس وقت بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ آدمی اٹھا اور اپنے پاؤں سے بزرگ کے سینے پر مار دیا۔ یہ بزرگ کے لیے ایک منفی رد عمل کا واقعہ تھا۔ مگر انھوں نے اِس منفی واقعے کو ایک مثبت تجربے میں تبدیل کیا اور اس آدمی سے کہا میرے آہنی سینے سے تمہارے نرم پاؤں کو چوٹ تو نہیں لگی۔ (واضح ہو کہ یہ ایک قصہ ہے نہ کہ ایک واقعہ)۔
حدیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ جب کسی بندے کو کوئی تکلیف پہنچے اور وہ اس پر صبر کرلے تو خدا اس کے گوشت کو ایک اور گوشت اور اس کے خون کو ایک اورخون بنا دیتا ہے۔
یہ تبدیلی فزیکل معنوں میں نہیںہوتی بلکہ وہ اسپریچول معنوں میں ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مصیبتوں پر صبر وشکر کا رسپانس پیش کرنا آدمی کے لیے ایک روحانی تربیت بن جاتا ہے۔ یہ اس کو منفی سوچ کے بجائے مثبت سوچ والا انسان بنا دیتا ہے۔ یہ اس کو دشمنی کرنے والے انسان کے بجائے محبت کرنے والا انسان بنا دیتا ہے۔ یہ اس کو پست سطح پر جینے والے انسان کے بجائے اونچی سطح پر جینے والا انسان بنا دیتا ہے۔ یہ اس کو دوطرفہ اخلاقیات (bilateral ethics) کے بجائے، یک طرفہ اخلاقیات (unilateral ethics) کا حامل بنا دیتا ہے۔
اِس قسم کا روحانی انسان اعلیٰ فکری عمل کے ذریعے بنتا ہے۔ ایسا انسان بننے کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی اپنی ڈی کنڈیشننگ کرے۔ وہ اپنے ذہن کی ری انجینئرنگ پر راضی ہوجائے۔ اِس مقصد کے لیے اپنی شخصیت کی توڑ پھوڑ کرنی پڑتی ہے۔ اپنی شخصیت کو پھر سے مولڈ کرنا پڑتا ہے۔ ایک انسان وہ ہے جو سماج کے اندر بنتا ہے، دوسرا انسان وہ ہے جو اسپریچویلٹی کے کارخانے میں بن کر تیار ہوتا ہے۔
جرمن فلسفی نٹشے نے ایک ترقی یافتہ انسان کو وجود میں لانے کا راز سیلف تھنکنگ کو بتایا تھا۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک ناقص سچائی ہے۔ پوری سچائی کی بات یہ ہے کہ ایک ترقی یافتہ انسان بننے کا راز اینٹی سیلف تھنکنگ میں چھپا ہوا ہے۔ اِس کا سب یہ ہے کہ ہر آدمی ایک معاشرے میں جیتا ہے۔ یہ معاشرہ ہر آن اس کے ذہن کی کنڈیشننگ کرتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ مکمل طورپر ایک کنڈیشنڈ مائنڈ بن جاتا ہے۔ امریکی عالمِ نفسیات جے۔بی۔ واٹسن (J.B.Watson) نے غلطی سے اسی کنڈیشنڈ انسان کو اصل انسان سمجھ لیا ۔ حالاں کہ وہ ایک مصنوعی انسان ہوتا ہے نہ کہ اصل انسان۔
اسپریچول ڈیولپمنٹ کا عمل در اصل اسی کنڈیشنڈ مائنڈ کی ڈی کنڈیشننگ سے شروع ہوتا ہے۔ کوئی شخص جتنا زیادہ اپنے مائنڈ کی ڈی کنڈیشننگ کرے گا اتنا ہی زیادہ وہ اسپریچول ڈیولپمنٹ کا مقصد حاصل کرے گا۔ مائنڈ کی ڈی کنڈیشننگ کے بغیر روحانی ترقی ممکن ہی نہیں۔
اصل یہ ہے کہ ہر انسان پیدائشی طورپر ایک اسپریچول انسان ہی کے طورپر پیدا ہوتا ہے۔ ہر انسان پیدائشی طورپر مسٹر نیچر یا مسٹر اسپریچول ہوتا ہے۔ لیکن پیدا ہونے کے بعد وہ جس سوسائٹی میںرہتا ہے اس کے مطابق، اس کی کنڈیشننگ شروع ہوجاتی ہے۔ اِس بعد کی کنڈیشننگ کو ختم کرکے اپنے آپ کو دوبارہ اپنی پیدائشی حالت یا فطری حالت کی طرف لے جانے ہی کا دوسرا نام اسپریچویلٹی ہے۔ اسپریچول سائنس در اصل مائنڈ کی ڈی کنڈیشننگ کا نام ہے۔ ڈی کنڈیشننگ نہیں تو اسپریچویلٹی بھی نہیں۔
اِس اعتبار سے انسانی دماغ کی مثال پیاز جیسی ہے۔ پیاز کے بیج میں ابتداء ًاس کا ایک چھوٹا سا مغز ہوتا ہے۔ اس کے بعد اس مغز کے اوپر پرت چڑھنے لگتی ہے۔ ایک کے بعد دوسری پرت دوسری کے بعد تیسری پرت، تیسری کے بعد چوتھی پرت۔ پرت چڑھنے کا یہ عمل جاری رہتا ہے یہاں تک کہ اندر کا مغز پوری طرح اِن خارجی پرتوں کے اندر ڈھک جاتا ہے۔ اب بظاہر صرف پرت دکھائی دیتی ہے۔ اندر کا مغز دکھائی نہیںدیتا۔
پیاز کے اندر کے مغز کو حاصل کرنے کے لیے اس کے اوپر کی تمام پرتیں ہٹانی پڑتی ہیں۔ اِسی طرح نیچر والے انسان کو دوبارہ سامنے لانے کے لیے اس کی کنڈیشننگ کو ختم کرنا پڑتا ہے۔ کنڈیشننگ کا یہ عمل ویسا ہی ہے جیسا کہ پیاز کے اوپر کی پرت کوہٹانے کا عمل۔ اسپریچول سائنس کا پورا معاملہ پیاز کی اِس مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔پیاز گویا اسپریچویلٹی کے معاملے کا ایک مادّی مظاہرہ ہے۔ پیاز انسان کو ایک مادی واقعے کے روپ میں بتارہی ہے کہ اس کو اپنے اندر روحانیت کی تعمیر کے لیے کیا کرنا چاہیے۔
خدا نے اِس دنیا میں حصولِ کمال کے لیے اکتشافی طریقہ (discovery method) رکھا ہے، مادّی چیزوں کے لیے بھی اور انسان کے لیے بھی۔ مادی دنیا میں خدا نے بنابنایا اسٹیل (steel) نہیں رکھا بلکہ خام لوہا (ore) رکھا۔ انسان اِس خام لوہے کو زمین سے نکال کر اپنی فیکٹری میں لاتا ہے اور وہاں مخصوص عمل (process) سے گذار کر اس کو اسٹیل کی صورت دیتا ہے۔ یہ فطرت کا قانون ہے۔ فطرت کسی کو بھی اسٹیل سپلائی نہیں کرتی۔ وہ صرف خام لوہا دیتی ہے۔ اب اسٹیل کے طالب کا اپنا کام ہے کہ وہ خام لوہے پر عمل کرکے اس کو اسٹیل بنائے۔
یہی معاملہ انسان کا ہے۔ یہاں بھی ایسا نہیں ہوتا کہ انسان کو روحانی پیکر کی صورت میں پیدا کردیا جائے۔ اس کے بجائے یہ ہوتا ہے کہ انسان پیدائشی طورپر ہر قسم کی روحانی صلاحیت لے کر پیدا ہوتا ہے۔ اب یہ خود انسان کا کام ہے کہ وہ اپنے اندر روحانی تشکیل کا عمل کرے۔ وہ اپنی تربیت کرکے اپنے آپ کو ایک کامل روحانی شخصیت میں ڈھال لے۔
روحانی انسان ایک خود تعمیر کردہ انسان کا نام ہے۔ روحانی انسان کسی پُر اسرار کرامت کے ذریعے نہیں بنتا، وہ ایک معلوم تربیتی عمل کے ذریعے بنتا ہے۔ یہ عمل تمام تر ذہنی سطح پر ہوتا ہے۔ کو ئی بھی پُر اسرار طریقہ روحانی انسان بنانے والا نہیں۔
واپس اوپر جائیں

سوال و جواب

سوال
کیا Life Insurance ہم خرید سکتے ہیں ۔ میں نے جب ۱۹۸۷ میں اس کو خریدا تھا تب میں اسلام سے بہت واقف نہ تھا۔ اور اس زمانے میں مَیںجناب پرویز صاحب کی کتابیں پڑھا کرتا تھا۔ لیکن ان کی ساری کتابیں پڑھنے کے بعد بھی دل کو اطمینان نہیں ہوا۔ ادھر ۱۹۹۹ میں میں نے ایک بُک اسٹور میں آپ کی ایک کتاب دیکھی جس کا نام تھا سفر نامہ۔ غیر ملکی اسفار (۱) ۔ ویسے بھی انگریزی میں Travel Books پڑھا کرتا ہوں۔ جب میں نے آپ کی کتاب دیکھی تو دل میں ہوا کہ چلو دیکھیں (گستاخی معاف) مُلّا دنیا کو کس نظر سے دیکھتا ہے۔ جب میںنے آپ کی کتاب پڑھی تو مجھے آپ کی باتیں بڑی اچھی لگیں اور آپ کے خیالات پڑھتے پڑھتے دل نے کہا کہ مجھے جس انسان کی تلاش تھی وہ یہی انسان ہے۔ تب سے آج تک آپ کی بہت ساری کتابیں پڑھیں ، دل کو سکون ہوا۔ پھر سے کلمہ پڑھا اور خدا کو پالیا۔ (احمد اچھا، لندن)
جواب
لائف انشورنس کے بارے میں علماء کے فتوے آچکے ہیں، وہ سب کو معلوم ہیں۔ میں اِس قسم کے فتووں سے ایک بنیادی اختلاف رکھتا ہوں، وہ یہ کہ یہ فتوے عباسی دور میں پیدا ہونے والے مدارسِ فقہ کو شعوری یا غیر شعور ی طورپر ماڈل مانتے ہیں۔ اور اسی کو اسلام کا آخری نمونہ سمجھ کر فتوے دیئے جاتے ہیں۔ مگر اصولی اعتبار سے یہ بات درست نہیں۔ اسلام کی ابتدائی تاریخ کو مکّی دور اور مدنی دور میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ عام طورپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ مکّی دور کی حیثیت اسلام کے ابتدائی دور کی ہے، اور مدنی دور کی حیثیت اسلام کے تکمیلی دَور کی۔ مگر یہ تصور مکمل طورپر غلط ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مکّی دور اور مدنی دَور دونوں یکساں طورپر، اسلامی نمونے کی حیثیت رکھتے ہیں۔مکّی دَور اُس حالت کا ایک معیاری نمونہ ہے جب کہ اہلِ اسلام سیاسی اقتدار کی حالت میں نہ ہوں اور مدنی دور اُس حالت کا ایک معیاری نمونہ ہے جب کہ اہلِ اسلام سیاسی اقتدار کے مالک ہوں۔ یہ دونوں نمونے ہمیشہ کے لیے معیاری نمونے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مسلمان جب سیاسی اقتدار کے مالک نہ ہوں تو اُنھیں مکّی دَور سے رہنمائی حاصل کرنا چاہیے اور جب وہ سیاسی اقتدار کے مالک بن جائیں تو اُنھیں مدنی دَور سے رہنمائی لے کر اپنا نظام بنانا چاہیے۔ اگر چہ یہ تقسیم مطلق تقسیم نہیں ہے۔ کیوں کہ مکّی دَور میں بھی مدنی تقاضے شامل رہتے ہیں، اِسی طرح مدنی دور میں بھی مکّی تقاضے شامل رہتے ہیں۔
قرآن سے یہ ثابت ہے کہ سیاسی اقتدار کبھی کسی کو مستقل طورپر نہیں ملتا۔ سیاسی اقتدار ایک پرچۂ امتحان ہے اس لیے وہ ہمیشہ بدلتا رہتا ہے، کبھی ایک گروہ کے پاس اور کبھی دوسرے گروہ کے پاس (تلک الأیام نداولہا بین الناس)۔ ایسی حالت میں عبّاسی دور میں بننے والا ماڈل ابدی طور پر اسلام کا معیاری ماڈل نہیں ہوسکتا۔ ماڈل ہمیشہ حالات کے تابع ہوگا نہ کہ کسی دَورِ حکومت کے تابع۔
واقعات بتاتے ہیں کہ موجودہ زمانے میں مسلمان ساری دنیا میں مکّی دَور جیسے حالات میں ہیں، مسلم اقلیت والے ملکوں ہی میں نہیں بلکہ مسلم اکثریت والے ملکوں میں بھی۔ یعنی جہاں مسلمانوں کی سیاسی حکومت قائم نہیں ہے وہاں بھی اور جہاں مسلمانوں کی سیاسی حکومت قائم ہے وہاں بھی، مسلم اقلیت والے ملکوں میں مقامی حالات کے اعتبار سے اور مسلم اکثریت والے ملکوں میں عالمی حالات کے اعتبار سے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ زمانے میں غیر مسلم قوموں کا سَیطرہ اتنے بڑے پیمانے پر قائم ہے کہ نام نہاد مسلم حکومتوں کے علاقے میں بھی مسلمان عملاً انھیں حالات میں ہیں جو کہ مکّی دور کے حالات تھے۔
ایسی حالت میں میرے نزدیک یہ اسلام کی تعمیل نہیں ہے کہ دَورِ اقتدار میں لکھی ہوئی کتابوں کے حوالے نکال کر موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے لیے فتوے دئے جائیں۔ یہ اسلام کو گویا مضحکہ بنانا ہے۔ کیوں کہ یہ یقینی ہے کہ غالب تہذیب کے تحت جو طریقے رائج ہو گیے ہیں وہ عالمی زور پر چلتے رہیں گے اور مفتی کا فتویٰ ایک مذاق بن کر رہ جائے گا۔
ایسی حالت میں میری رائے ہے کہ صحابی ٔ رسول وابصہ بن معبد والی حدیث پر عمل کیا جائے۔ وابصہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اِثم (گناہ) اور بِرّ (نیکی) کے بارے میں پوچھا۔ آپ نے فرمایا: یا وابصۃ، استفتِ قلبک(مسند احمد، الدّارمی، کتاب البیوع) یعنی اے وابصہ، تم اپنے دل سے فتویٰ پوچھو۔ ظاہرہے کہ رسول اللہ کا یہ جواب فاجر انسان کے لیے نہ تھا بلکہ صالح انسان کے لیے تھا۔ میری رائے ہے کہ جو شخص دین داری کی زندگی گذار رہا ہو، جس کے دل میں نیک نیتی ہو، جو آخرت میں اللہ کی پکڑ سے ڈرتا ہو اس کو ہر معاملے میں مفتی سے فتویٰ پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ کچھ چیزوں میں مسئلہ پوچھنا یقینا ضروری ہے مگر بہت سے امور ایسے ہیں جن میںآدمی کو اپنے قلب یا اپنے ضمیر کی رائے پر چلنا چاہیے۔
سوال
الرسالہ ستمبر ۲۰۰۵ کے صفحہ نمبر ۴۳ پر کشمیر کے عبد الرشید بٹ کے سوال کے جواب میں آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ—اصل بات یہ ہے کہ ایک باپ کو اپنی اولاد سے جوگہرا تعلق ہوتا ہے وہی تعلق آپ کو اپنے الرسالہ مشن سے بھی ہے۔ آپ کے اس جواب سے اس قدر متاثر ہوا ہوں کہ بقیہ زندگی اسی مشن میں گزارنے کا تہیہ کرچکا ہوں۔ مجھے یقین ہوچلا ہے کہ جس تنظیم یا مشن سے صاحب مشن کو اَولاد جیسا گہرا لگاؤ ہو اُس مشن کو زوال نہیں۔
راقم الحروف سنٹر گورنمنٹ کے ریلوے محکمہ سے بطورO.S. ریٹائرڈ ہوچکا ہے۔ ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد اہلیہ کا انتقال ہوگیا۔ دونوں لڑکے وطن سے بہت دُور برسرِ روزگار ہیں اور اب وطن میں آکر بسنا نہیں چاہتے۔ میں اپنے وطن میں تنہائی کی زندگی سے اُکتا چکا ہوں۔ چاہتا ہوں کہ اپنا ذاتی مکان کسی فلاحی تنظیم کے لیے وقف کردوں اور اپنی فیملی پینشن کسی ایسی بیوہ یا مطلقہ کے نام منسوب کردوں جو میرے بعد بھی اس مشن کو جاری رکھے ۔
تمنّا ہے تو بس شارق، تمنا آخری اپنی
جو گزرے، خدمتِ خلقت میں گزرے زندگی اپنی
اس بارے میں آپ کے پُر خلوص مشورے کا انتظار رہے گا۔ (شارق، آکولہ)
جواب
آپ نے دعوتی مشن کے لیے جو ارادہ کیا ہے وہ ایک قربانی کی بات ہے۔ اور قربانی کے جذبے کے اعتبار سے وہ بلاشبہہ قابل ثواب ہے۔ لیکن اسلام میں قربانی کا تصور حکمت کے ساتھ جُڑا ہوا ہے۔ اسلام میں وہی قربانی مطلوب قربانی ہے جو اپنے مقصد کے اعتبار سے نتیجہ خیز ہو۔ بے نتیجہ قربانی اسلام میں نہیں۔
دعوت الی اللہ کا کام بلڈنگ کے ذریعے یا پیسے کے ذریعے نہیں ہوتا۔ دعوت الی اللہ کا کام جب بھی ہوتا ہے اسپرٹ کے ذریعے ہوتا ہے۔ اور اسپرٹ کوئی ایسی چیز نہیں جو منتقل کی جاسکے۔ آپ کے اندر جو دعوتی اسپرٹ پیدا ہوئی ہے وہ آپ کے اوپر اللہ کا ایک خصوصی انعام ہے۔ اِس اسپرٹ کو آپ بطور خود کسی بھی تدبیر سے کسی اور کے اندر منتقل نہیں کرسکتے۔ آپ کے لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنی اِس دعوتی اسپرٹ کو اللہ کا انعام سمجھیں اور اس کو بھر پور طورپر استعمال کریں۔
آپ کے پاس جو مکان ہے یا آپ کو جو پنشن مل رہی ہے، اس کو آپ اپنے لیے خدا کی مدد سمجھیے۔ آپ یہ کیجئے کہ اپنے گھر میں ایک لائبریری قائم کیجئے اور جو ماہانہ رقم آپ کو ملتی ہے اس کو بقدر ضرورت اپنے اوپر خرچ کرنے کے بعد الرسالہ اور الرسالہ کی مطبوعات کو پھیلانے پر لگائیے۔ اپنے پیسے کو کسی اور کو دینے کے بجائے الرسالہ مشن کو پھیلانے میں لگائیے۔ جو لوگ الرسالہ خرید نہیں سکتے مگر وہ اس کو پڑھ سکتے ہیں، اُنھیں مفت الرسالہ پہنچائیے۔ اِس طرح اپنی پوری زندگی اِس مشن پر وقف کردیجئے۔ آپ کا وقت اورآپ کا پیسہ دونوں اس مشن کو فروغ دینے پر استعمال ہونا چاہیے۔ اپنا مکان اور اپنا پیسہ دوسروں کو دینا، میرے نزدیک کوئی حکیمانہ فیصلہ نہیں۔
سوال
۸؍اکتوبر ۲۰۰۵ کو پاکستان میں زلزلہ آیا۔ اِس سے بعض علاقوں میں شدید تباہی آ ئی۔ مثلاً اسلام آباد اور مظفر آباد (کشمیر) وغیرہ میں۔ اِس کے بعد یہاں کے مذہبی طبقے یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ خدا کا ایک عذاب تھا۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ عذاب اِس لیے آیا کہ پاکستان کے لوگوں نے یہاں ’’اسلامی نظام‘‘ قائم نہیں کیا۔ کسی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اسلامی اخلاقیات کو بہت پامال کیا جارہا تھا۔ کوئی کہتا ہے کہ پاکستان کے لوگ جھوٹ اور منافقت میں جی رہے تھے۔ آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے۔ کیا واقعی یہ خدا کا عذاب تھا۔ ( عبد اللطیف، کراچی)
جواب
میرے نزدیک زلزلے کے اِس واقعے کو عذاب کہنا درست نہیں۔ عذاب کا لفظ سزا کے لیے بھی بولا جاتا ہے اور تکلیف کے لیے بھی۔ سزا کے مفہوم میں یہ عذاب نہ تھا۔ البتہ تکلیف کے مفہوم میں اس کو عذاب کہہ سکتے ہیں۔
قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ عذاب یا تکلیف کی تین خاص صورتیں ہیں۔ ایک وہ جس کی حیثیت تنبیہہ یا وارننگ کی ہوتی ہے۔ اِس نوعیت کے عذاب کے لیے قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں: فلولا إذ جائہم بأسنا تضرّعوا (الانعام: ۴۳) اِس نوعیت کے معاملے کو تنبیہی عذاب کہا جاسکتا ہے۔ یہ تنبیہات انسان کو جھنجھوڑنے کے لیے آتی ہیں۔ ایسی تنبیہات ہمیشہ آتی رہی ہیں۔ موجودہ زمانے میں جو فرق ہوا ہے وہ صرف یہ کہ میڈیا کی وجہ سے بہت جلد عالمی طور پر لوگوں کو اس کا علم ہوجاتا ہے، جب کہ پچھلے زمانے میں ایسا واقعہ صرف ایک مقامی واقعہ بن کر رہ جاتا تھا۔
عذاب کی دوسری صورت وہ ہے جس کو قرآن میں دمّرناہم تدمیرا(الفرقان: ۳۶) کہاگیا ہے۔ اِس نوعیت کا عذاب ایک مخصوص گروہ کے لیے اُس وقت آتا ہے جب کہ اس کے پاس پیغمبر آئے اور وہ اتمامِ حجت کی حد تک اپنا پیغام اس کو پہنچا دے۔ یہ عذاب سزا اور ہلاکت کے معنیٰ میں ہوتا ہے۔ پیغمبری کا سلسلہ ختم ہونے کے بعد اب اِس قسم کا عذاب کسی قوم پر آنے والا نہیں۔
عذاب کی تیسری صورت وہ ہے جس کے لیے قرآن میں اِس قسم کے الفاظ آئے ہیں: إن زلزلۃ الساعۃ شیٔ عظیم(الحج: ۱) یہ معاملہ اُس وقت پیش آئے گا جب کہ خدا موجودہ دنیا کو ختم کرنے کا فیصلہ کرے گا۔ ایسا واقعہ صرف ایک بار پیش آئے گا، اور اس کا پیش آنا ابھی باقی ہے۔
سوال
الرسالہ کو عام کرنے میں مجھے بہت ہی صبر آزما حالات سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ یہاں بعض جماعتوں نے اپنا پروپیگنڈا شروع کردیا ہے۔ اور وہ الرسالہ کے خلاف کتابیں پھیلارہے ہیں۔ شہر کے لوگ بھی دھیرے دھیرے جاننے لگے ہیں کہ میں الرسالہ پھیلاتا ہوں۔ اس لیے لوگوں نے میری مخالفت شروع کردی ہے۔ (شاہ عمران حسن، مونگیر)
جواب
آپ کو اللہ تعالیٰ نے سلیم الطبع بنایا ہے۔ اِسی کے ساتھ آپ کو یہ ہمت بھی دی ہے کہ آپ حالات کی ناموافقت کے باوجود الرسالہ مشن کو لے کر کھڑے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر طرح آپ کی مدد فرمائے۔ اس سلسلے میں ایک حکمت کی بات یہ ہے کہ اقدام ہمیشہ بقدر تیاری ہونا چاہیے۔ آدمی جو مقصد حاصل کرنا چاہے اس کے مطابق، اس کے پاس ضروری تیاری ہونا چاہیے۔ پہلے تیاری اور اس کے بعد اقدام یہی کام کا فطری طریقہ ہے۔
سوال
میں ایم ۔اے ۔ انگریزی (M.A. English from IGNOU) کی طالبہ ہوں اور جنوری ۲۰۰۲ سے میں الرسالہ پڑھتی رہی ہوں۔ پہلی بار جب الرسالہ میرے ہاتھوں میںآیا تو میری خوشی کی انتہا نہ رہی اور پڑھنے کے بعد حقیقت میں دل بہت خوش ہوا اور سب سے بڑی بات یہ کہ میں الرسالہ سے فوراً متاثر ہوگئی۔ اس سے میری معلومات میں اضافہ ہوا۔ ایسا لگا جیسے الرسالہ صرف دل کو ہی نہیں بلکہ روح کو بھی تسکین دیتا ہے۔ تب سے میں نہایت ہی پابندی کے ساتھ الرسالہ کا مطالعہ ہر ماہ کررہی ہوں۔ بے شک اس کے مطالعے سے میں نے بہت کچھ سیکھا ہے۔ بہت کچھ حاصل کیا ہے اور میں اس کا پورا کریڈٹ آپ کے نام کروں گی۔ بلا شبہہ آپ کی عظیم شخصیت کی بدولت ہی یہ سب کچھ ممکن ہوسکا۔
بے شک مجھے اس کے ذریعے اسلام کی حقیقت سے روشناس ہونے کا موقع ملا۔ مگر کچھ باتوں سے میں متفق نہیں ہوں۔ وہ یہ کہ ہر معاملے میں مسلمانوں کو قصور وار ٹھہرانا۔تالی دونوں ہاتھ سے بجتی ہے۔پھر یہ کہنا کہاں تک درست ہے کہ یہ مسلمانوں کی غلطی کا ثمرہ ونتیجہ ہے۔(رخشاں ہاشمی، مونگیر)
جواب
’’مسلمانوں کو قصور وار ٹھہرانا‘‘ ایک غیر متعلق بات ہے۔ اس طرح کے معاملات میں اصل سوال یہ جاننے کا ہے کہ فطرت کا قانون کیا ہے۔ ہماری رائے فطرت کے قانون کے مطابق ہونی چاہیے نہ کہ اپنے جذبات یا خواہشات کے مطابق۔ قرآن میں فطرت کا یہ قانون اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وما أصابکم من مصیبۃ فبما کسبت أیدیکم (الشوری: ۳۰)
قرآن کی یہ آیت حتمی الفاظ میں بتارہی ہے کہ لوگوں کے اوپر جو مصیبت آتی ہے وہ ان کے اپنے ہی کیے کا نتیجہ ہوتی ہے۔ ایک او ر آیت میں فرمایا کہ: ان تصبروا وتتقوا لایضرکم کیدہم شیئاً (آلِ عمران: ۱۲۰) اِس دوسری آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس دنیا میں اصل مسئلہ ’’اغیار کی سازش‘‘ کی موجودگی نہیں ہے بلکہ خود مسلمانوں کے اندر صبر اور تقویٰ کی غیر موجودگی ہے۔ یعنی اگر مسلمانوں میں صبر اور تقویٰ ہوگا تو وہ اَغیار کی سازش سے محضوظ رہیں گے اور اگر صبراور تقویٰ نہیں ہوگا تو وہ اغیار کی سازشوں کا شکار ہوجائیں گے۔
ان قرآنی آیات کے مطابق، آپ نے جن باتوں کے بارے میں اپنے عدم اتفاق کا اظہار کیا ہے، اس کا تعلق الرسالہ سے نہیں ہے بلکہ خود قرآن سے ہے۔ آپ کو اگر کہنا ہے تو یہ کہیے کہ مجھ کو قرآن کی بات سے اتفاق نہیں ہے۔ کیوں کہ یہ بات الرسالہ کی بات نہیں ہے بلکہ وہ خود قرآن کی بات ہے۔
مذکورہ قسم کی آیتوں کا مطالعہ کرنے سے جو بات معلوم ہوتی ہے وہ یہ کہ جب کوئی اُفتاد پڑے تو مسلمانوں کے اندر احتسابِ خویش (introspection) کا جذبہ جاگنا چاہیے۔ دوسروں کے خلاف احتجاج اور شکایت کرنا، سراسر قرآن کی تعلیمات کے خلاف ہے۔
سوال
اپنی تشفی اور تفہیم (concept clearing) کے لیے اپنی ایک اُلجھن کے حل کے لیے آپ کی مدد چاہتا ہوں۔
اُلجھن— قرآن میں باربار خوفِ خدا کا ذکر آتا ہے۔ اور بندوں کو تلقین کی جاتی ہے کہ وہ اللہ کا خوف ہمیشہ اپنے دل میں رکھیں۔ مومنین کی صفات کے تذکرے میں خصوصی طور پر آتا ہے کہ وہ اللہ سے ڈرتے ہیں۔ مثلاً اتقوا ربکم واخشوا یعنی اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرو اور اس سے ڈرو۔ (لقمان : ۳۳) اس کا یہ مطلب ہوا کہ ہم اللہ کے غضب سے ڈر کر اس کی عبادت کریں۔ اس کے علاوہ متعدد مقامات پر اللہ سے خوف کھانے اور ڈرنے کو ہی مومن ہونے کے لیے لازم گردانا گیا ہے۔ جیسے:حقیقت یہ ہے کہ علم رکھنے والے ہی خدا سے ڈرتے ہیں (الفاطر: ۲۸) ،خدا ہی کو پکارو خوف کے ساتھ، وغیرہ ۔(الاعراف : ۵۶)
دوسری طرف بظاہر بالکل متضاد طورپر اللہ جل شانہُ سے محبت کرنے کو بھی عین ایمان قرار دیا جاتا ہے۔ الرسالہ کے مختلف issue میں بھی محبت الی اللہ کے بارے میں بارہا پڑھا۔
اُلجھن یہ ہے کہ ایک آدمی بیک وقت دو متضاد صفات کا حامل کیسے ہو۔ اللہ سے ڈرے بھی اور محبت بھی رکھے، کیسے؟ جس کسی سے محبت ہوتی ہے اس سے ڈرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اور جس کا ڈر اور خوف دل میں بیٹھ جائے اس سے محبت کرنا فطرتاً ممکن ہی نہیں ہوتا۔ آدمی اس سے صرف ڈر سکتا ہے اور ڈر اور خوف کی وجہ سے اس کا اتباع کر بھی لے تو یہ محبت تو نہ ہوئی۔ (جنید جاذب بھٹی، کشمیر)
جواب
ایک شخص اپنی ماں سے محبت کرتا ہے۔ اسی طرح ایک مؤمن خدا سے محبت کرتا ہے۔ بظاہر دونوں محبت کی صورتیں ہیں مگر دونوں میں بہت زیادہ فرق ہے۔ ماں کے ساتھ محبت میں صرف ایک جذبہ کام کرتا ہے، وہ یہ کہ ماں اپنے بیٹے کے حق میں آخری حد تک شفیق ہے۔ یہاں تک کہ بیٹا اگر کوئی غلط کام کرے تب بھی ماں کی طرف سے اس کو شفقت ہی ملتی ہے، ماں کی محبت صرف محبت ہے، ماں کی محبت میں انصاف کا پہلو شامل نہیں۔ اس لیے بیٹا اپنی ماں سے صرف محبت کرتا ہے۔ اس کے ذہن میں ماں کی نسبت سے ایسا کوئی سبب نہیں جو اس کو ماں سے ڈرنے پَر مجبور کرے۔
مگر خدا کا معاملہ ماں سے مختلف ہے۔ خدا اپنے بندوں کے حق میں شفیق بھی ہے، اور ساتھ ساتھ منصف بھی۔ خدا کے ساتھ محبت میں محاسبہ (accountability) کا پہلو جڑا ہوا ہے۔ انسان خدا سے اس لیے محبت کرتا ہے کہ خدا نے اس کو اَن گنت نعمتیں عطا فرمائی ہیں۔ لیکن اسی کے ساتھ انسان کے سامنے یہ تصور بھی رہتا ہے کہ خدا منصف ہے۔ موت کے بعد ایک فیصلے کا دن (Day of judgement) آنے والا ہے۔ اُس دن خدا تمام انسانوں کو عالَمِ آخرت میں اکھٹا کرے گا۔ وہ ہر ایک کے عمل کا جائزہ لے کر یہ فیصلہ کرے گا کہ کون اپنے عمل کے مطابق، جنت کا مستحق ہے اور کون اپنے عمل کے مطابق، جہنم کا مستحق۔
خدا کوئی خوف ناک چیز نہیں۔ خدا سے خوف، خدا کی خوف ناکی کی بنا پر نہیں ہوتا بلکہ اِس تخلیقی نقشے کی بنا پر ہوتا ہے کہ انسان کو دنیا میں جو نعمتیں ملی ہیں وہ بطور حق نہیں ملی ہیں، بلکہ وہ بطور امتحان ملی ہیں۔ انسان کو چاہیے کہ وہ نعمتوں کے ساتھ منعم کو یاد رکھے۔ وہ ایک ذمے دار انسان کی طرح یہ سوچے کہ میں آزاد نہیں ہوں کہ جو چاہوں کروں، بلکہ میں زیر امتحان ہوں۔ موت کے بعد وہ دن آنے والا ہے جب کہ قانونِ انصاف کے مطابق، میرے اعمال کا حساب لیاجائے، اور میرے اعمال کے مطابق، میرے ابدی مستقبل کا فیصلہ کیا جائے۔
ماں اور خدا کا یہی فرق، دونوں کے معاملے کو ایک دوسرے سے الگ کردیتا ہے۔ ماں کسی انسان کے لیے صرف محبت کا موضوع بنتی ہے۔ ماں کی محبت کے ساتھ خوف شامل نہیں ہوتا۔ مگر خدا کے ساتھ محبت میں فطری طورپر خوف شامل ہوجاتا ہے۔ ایک طرف خدا کی رحمتوں کی بنا پر اس سے محبت، اور دوسری طرف زندگی کی امتحانی نوعیت کی بنا پر شدید اندیشہ۔ یہی وجہ ہے کہ ماں سے محبت صرف محبت ہوتی ہے، جب کہ خدا سے محبت میں خوف اور اندیشے کی کیفیت بھی شامل ہو جاتی ہے۔
سوال
الرسالہ ستمبر ۲۰۰۵ کا شمارہ پڑھا۔ اس کے صفحہ ۳۳ پر ’’اعلیٰ عبادت ‘‘کے عنوان کے تحت، ایک حدیث اس طرح پڑھنے کو ملی:’’ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: المؤمن الذی یخالط الناس ویصبر علی اذاہم اعظم اجراً من الذی لایخالطہم ولایصبر علی اذاہم (ابن ماجہ کتاب الفتن، الترمذی کتاب القیامۃ، مسند احمد ۲؍۴۳) یعنی وہ مؤمن جو لوگوں کے ساتھ اختلاط کرتا ہے اور ان کی ایذاؤں پر صبر کرتا ہے اس کا اجر اس مؤمن سے زیادہ بڑا ہے جو کہ لوگوں کے ساتھ اختلاط نہیں کرتا اور ان کی ایذاؤں پر صبر نہیں کرتا‘‘۔
آپ نے اس حدیث کے صرف پہلے جزء پر روشنی ڈالی ہے جو کہ الرسالہ مشن سے بالکل مطابقت رکھتا ہے لیکن اس کے دوسرے جزء سے کہ —جو مؤمن لوگوں کے ساتھ اختلاط نہ رکھے اور ان کی ایذاؤں پر صبر نہ کرے، آپ نے صرفِ نظر فرمایا ہے۔ حالانکہ علمی تقاضا یہی تھا کہ حدیث کے دونوں پہلوؤں پر روشنی ڈالی جائے۔ اور دونوں باتیں عام قارئین الرسالہ کے سامنے بھی آجائیں۔ تاہم اگرچہ اس حدیث کے پہلے جزء سے ایک مؤمن کی نمایاں صفت یہی بتائی گئی ہے کہ وہ لوگوں کے ساتھ اختلاط رکھے گا اور ان کی ایذاؤں پر صبر کرنے میں بہت بڑا درجہ حاصل کرے گا۔ لیکن اس کے دوسرے جزء سے یہ بات بھی تو واضح ہو جاتی ہے کہ لوگوں کے ساتھ اختلاط نہ رکھنے اور ان کی ایذاؤں پر صبر نہ کرنے کی صورت میں بھی مؤمن اجر سے محروم نہیں رہے گا۔
اس طرح اس حدیث کا مجموعی طورپر یہی مفہوم سامنے آتا ہے کہ اول الذکر والے مؤمن کی بہ نسبت ثانی الذکر والے مؤمن کا طرز فکر وعمل اگر چہ کمتر و فروتر ضرور ہے مگر غلط یا شریعتِ اسلامی سے مختلف یا عند اللہ ثواب سے محرومی کا باعث نہیں ہے۔ نیز جو لوگ آپ کے صبر کے فلسفے سے اختلاف کرتے ہیں ان کا موقف مطلق طورپر اس حدیث کی روشنی میں غلط ٹھہرانا آسان نہیں معلوم ہوتا ہے۔ کیا آپ اس پر کوئی وضاحت کرنا چاہیں گے۔ (غلام نبی کشافی، سری نگر)
جواب
آپ کا خط ملنے کے بعد میں نے الرسالہ ستمبر ۲۰۰۵ میں شائع شدہ مضمون (اعلیٰ عبادت) کو دوبارہ پڑھا۔ میرے نزدیک اس میں کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں۔ علماء کا یہ عام طریقہ ہے کہ وہ کسی آیت یا حدیث کو لے کر اس کے چند پہلوؤں کی وضاحت کرتے ہیں نہ کہ اس کے سارے پہلوؤں کی۔ مُدرّس کے لیے ضروری ہے کہ وہ آیت یا حدیث کے سارے پہلوؤں کو بیان کرے، مگر داعی کا یہ طریقہ نہیں۔ داعی ہمیشہ دعوتی تقاضے کے تحت کچھ پہلوؤں کو نمایاں کرتا ہے۔ یہی ہر داعی کا طریقہ ہے۔
آپ نے اپنے خط میں یہ تاثر دیا ہے گویا کہ مذکورہ مضمون سے یہ ظاہر ہورہا ہے کہ ’’ثانی الذکر مسلمان کا طریقہ غلط یا شریعتِ اسلامی سے مختلف ہے، اور عند اللہ ثواب سے محرومی کا باعث ہے‘‘۔ میں عرض کروں گا کہ میرے مطبوعہ مضمون میںایسی کوئی بات موجود نہیں۔ آپ کا یہ تبصرہ پڑھ کر مجھے اردو شاعر کایہ شعر یاد آیا:
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہیں وہ بات ان کو بہت ناگوار گذری ہے
سوال
میںتصوف کے موضوع پر کام کرنا چاہتا ہوں اور فرداور معاشرے کی تطہیر کے باب میں تصوف کے رول کو اجاگر کرنا چاہتا ہوں۔ آپ سے گزارش ہے کہ اس سلسلے میں میری رہنمائی فرمائیں۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہوگا کہ تصوف کے بارے میں لوگوں نے الگ الگ خیالات ظاہر کیے ہیں۔ زیادہ تر لوگ اسے اچھی نظر سے نہیں دیکھتے۔ کچھ لوگوں نے تو اسے چنیا بیگم کہا ہے۔ میںتصوف کو اس پس منظر میں دکھانا چاہتا ہوں کہ وہ فرد کی شخصیت سازی کے لیے از حد ضروری ہے۔ کیا مستند تاریخ سے ایسی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں کہ ماضی میں تصوف نے ایسے کارہائے نمایاں انجام دیے اور تاریخ کی بڑی شخصیات کی زندگیوں میں ہلچل پیدا کی اور معاشرہ پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ آپ اس سلسلے میں کچھ رہنما کتابوں کی نشان دہی فرمائیں۔ خواہ وہ آپ کی کتاب ہوںیا کسی اور مصنف کی کتاب۔
پچھلے ڈھائی سالوں سے ایک غیر مسلم ڈاکٹر میرے رابطے میں ہیں ان کا ذہن اسلام سے قریب ہے۔ ایک بار انھوں نے خود مجھ سے فرمائش کی کہ آپ مجھے ہندی یا مراٹھی میں قرآن کا ترجمہ لا کردیں۔ میںنے انھیں مکتبہ اسلامی کا چھپا ہوا ترجمہ لاکر دے دیا۔ پھر خیال آیا کہ اسی کے ساتھ انھیں اسلامی موضوعات پر لٹریچر بھی پڑھاناچاہیے۔ ڈائریکٹ ترجمۂ قرآن پڑھانا شاید زیادہ مفید نہ ہو۔
آپ سے گزارش ہے کہ آپ کچھ ایسی کتابوں کے نام (فہرست) ارسال فرمادیں جو ڈاکٹر صاحب کے لیے مفید ہوں۔ خواہ وہ اسلامی مرکز کی کتابیں ہوں یا کسی اور ادارے کی۔ بس آپ اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ وہ کتابیں ہندی یا انگریزی میں ہوں۔ اور شخص مذکور (ڈاکٹر صاحب) کے ذہن کو اپیل کرنے والی ہوں۔ (شفیق الایمان، رتنا گیری)
جواب
آپ کے خط کا براہِ راست جواب نہ دیتے ہوئے میں ایک اصولی بات کہوں گا۔ اکثر لوگوں کا یہ حال ہے کہ وہ ایک موضوع لے کر اس کے بارے میں دوسروں سے سوال کرتے ہیں۔ حالاں کہ صحیح طریقہ یہ ہے کہ موضوع کا مطالعہ کرکے خود اپنے سوال کا جواب دریافت کیا جائے۔
مثلاً آپ تصوف کے سماجی رول پر کتاب لکھنا چاہتے ہیںتو خود آپ کو اپنے مطالعے سے اس کا مواد حاصل کرنا ہوگا۔ دوسروں سے اس موضوع پر سوال کرکے آپ کوئی قابل قدر کتاب نہیں لکھ سکتے۔
اسی طرح غیر مسلم کو اسلام کی کون سی کتاب پڑھائی جائے یہ پوچھنے کی بات نہیں ہے بلکہ خود دریافت کرنے کی بات ہے۔ آپ مذکورہ غیر مسلم سے بات چیت کرکے ان کے ذہن کو جاننے کی کوشش کریں۔ پھر آپ خود مختلف کتابوں کا مطالعہ کرکے یہ جانیں کہ کون سی کتاب مذکورہ غیر مسلم کے مائنڈ کو ایڈریس کرتی ہے۔
اصولی طورپر آپ اس بات کو سمجھ لیں کہ آپ کا کام کوئی دوسرا شخص نہیں کرسکتا۔ فطرت کا نظام ہے کہ کوئی شخص دوسرے کے حصے کا کھانا نہیں کھاسکتا۔ اسی طرح کوئی شخص دوسرے کے حصے کا ذہنی عمل بھی نہیں کرسکتا۔
سوال
میرا خیال ہے کہ مدرسے کے بچوں کو دینی تعلیم، اللہ اور اس کے رسول کی پیروی کی تربیت کے ساتھ ساتھ انھیں ذریعۂ معاش میں کفیل بنانے کی بھی فکر کی جائے۔ بچوں کو مدرسے کی تعلیم کے ساتھ ساتھ اُنھیں ہُنر بھی سکھائے جائیں۔ مدرسے میں دینی تعلیم کے ساتھ ان لڑکوں کو سلائی کی تربیت، ٹوپی بنانے کا ہنر، جائے نماز، لکڑی کے سامان تیار کرنے، لکڑی اور لوہے کے پائپ کے فرنیچر تیار کرنے کے ہنراور کشیدہ کاری کے کام بھی سکھائے جائیں، تاکہ جب یہ لڑکے مدرسے کی تعلیم سے فراغت پاکر دنیاوی زندگی میں قدم رکھیں تو اس لائق ہوسکیں کہ دین کی زندگی کے ساتھ ساتھ دنیاوی زندگی بھی سنوارنے میں کامیابی حاصل کرسکیں۔
عام اسکول اورکالجوں میں بھی لڑکوں کو جو تعلیم دی جاتی ہے وہ بھی Job oriented یعنی روزگار سے منسلک نہیں ہوتی ہے۔ لیکن ان کی تعلیم چونکہ دنیاوی زندگی کے تقاضوں پر مبنی ہوتی ہے۔ یعنی ان کے courses of studies میں ایسے ایسے سبجیکٹ پڑھائے جاتے ہیں کہ وہ ملازمت کے ممکنہ امتحانات میں بیٹھ کر ملازمت حاصل کرنے کے قابل ہوسکیں۔ اس کے برعکس، مدرسے کی تعلیمات میں ایسا نہیں ہوتا ہے۔ بلکہ ان کا دائرہ محدود ہوتا ہے۔ (محمد ابوالکلام، پھلواری شریف، پٹنہ)
جواب
اِس تجویز سے مجھے اصولی طورپر اتفاق ہے۔ آج کل عام مزاج یہ ہے کہ مدرسے کی تعلیم کے ساتھ کسی ہنر کو شامل کرنے کی بات کی جائے تو لوگ اُس کو پسند نہیں کرتے۔ کہا جاتاہے کہ اِس طرح کی پیوند کاری سے دینی تعلیم کو نقصان ہوگا۔ مگر یہ بات سراسر غلط ہے۔ اس کا ایک تجرباتی ثبوت یہ ہے کہ قدیم روایتی دَور میں مدارس کے تعلیمی نظام کے ساتھ عام طورپر خطّاطی یا جلد بندی اور طِب جیسے پروفیشنل کام کا شعبہ بھی موجود رہتا تھا۔ مگر ایسا نہیںہوا کہ اِس کی بنا پر تعلیم میں نقصان واقع ہوجائے۔ بلکہ تجربہ برعکس طورپر بتاتا ہے کہ پچھلے دَور میںمدارس سے بڑے بڑے علماء نکلے۔ جب کہ موجودہ زمانے میں مدارس سے اُس طرح کے بڑے بڑے علماء کی پیدائش تقریباً بند ہوگئی ہے۔
میری رائے یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں کم ازکم دو چیزوں کی تعلیم وتربیت کو ہر مدرسے میں ضرور شامل کیا جائے۔ ایک ہے انگریزی زبان اور دوسری چیز ہے کمپیوٹر۔ مجھے یقین ہے کہ مروّجہ تعلیم میں کسی بھی قسم کا نقصان کیے بغیر ان دونوں چیزوں کو مدرسے کے تعلیمی نظام میں شامل کیا جاسکتا ہے۔
سوال
میں ایک مسلم نوجوان ہوں۔ میں نے ایک دینی مدرسے میں تعلیم حاصل کی ہے۔مسلم معاشرے کی موجودہ حالت کو دیکھ کر میرے اندر اصلاح کا جذبہ ابھرتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کے اندر اصلاح معاشرہ کا کام کروں۔ اِس مقصد کے لیے میں اصلاحی مضامین لکھنا چاہتا ہوں۔ کیوں کہ موجودہ زمانہ پریس اور صحافت کا زمانہ ہے۔ آپ اِس معاملے میں مجھے اپنا مشورہ دیں اور رہنمائی فرمائیں۔ (ایک قاری الرسالہ، مہاراشٹر)
جواب
عرض یہ ہے کہ اصلاحی مضمون لکھنے کا کام کوئی سادہ کام نہیں۔ اس کے لیے خود اصلاح کے میدان میں اترنا پڑتا ہے۔ متعلقہ موضوعات کا گہرا مطالعہ کرنا پڑتا ہے۔ ان لوگوں کے دردمیں جینا پڑتا ہے جن لوگوں کے بارے میں آدمی اصلاحی مضمون لکھ رہا ہے۔ اصلاحی تحریر کوئی سائڈ بزنس یا پارٹ ٹائم جاب جیسا کام نہیں۔
آپ جانتے ہیں کہ قرآن کا آغاز بسم اللہ الرحمن الرحیم سے ہوتا ہے۔ معروف معنوں میں، یہ کوئی بر کت یا فضیلت کا کلمہ نہیں ہے، اور نہ وہ کوئی رسمی بول ہے۔ یہ زندگی کے ایک اصول کی طرف رہنمائی ہے۔ اِس میں یہ پیغام دیاگیا ہے کہ اپنا کام صحیح نقطۂ آغاز سے شروع کرو:
Begin your work from the right point of begining.
اصلاحِ معاشرہ کے کام کا آغاز خود اپنی تیاری سے شروع ہوتا ہے۔ اِس سلسلے میں سب سے پہلا کام یہ ہے کہ اپنے اندر تعمیری سوچ پیدا کی جائے۔ نفرت اور شکایت جیسے منفی جذبات کو مکمل طورپر ختم کردیا جائے۔ خارجی مطالبے کے بجائے داخلی تعمیر کو ساری اہمیت دی جائے۔ سیاسی طریقِ کار سے آخری حد تک پرہیز کیا جائے۔ جو کام کیا جائے وہ انسانی جذبے کے تحت کیا جائے نہ کہ قومی جذبے کے تحت۔ سب کچھ کرنے کے بعد بھی کسی سے معاوضے کی امید نہ رکھی جائے۔ کامیابی اور ناکامی کی پروا کیے بغیر اپنا کام مسلسل جاری رکھا جائے۔ یہی اصلاحِ معاشرہ کے کام کی شرطیں ہیں۔ ان شرطوں کو پورا کیے بغیر اصلاحِ معاشرہ کا کام مؤثر طور پر انجام نہیں دیا جاسکتا۔
سوال
الرسالہ دسمبر ۲۰۰۵ کے شمارے میں ثانیہ مرزا کے لباس کے بارے میں خبر نامے کے تحت صفحہ ۴۷ پر آپ کا تبصرہ پڑھنے کو ملا تو اس مسئلے پر دوسرے علماء کے فتوے بے وزن و بے معنی محسوس ہوئے۔
آپ نے ثانیہ مرزا کے بارے میں جو کچھ فرمایا ہے وہ بلاشبہہ درست ہے اور اس طرح کے سوالات کا اس کے سوا کوئی اور جواب نہیں ہوتا ہے۔ لیکن بد قسمتی سے دوسرے علماء اور اہل دانش اس طرح کے نت نئے مسائل کے بارے میں مثبت اور تعمیری وفکری جواب دینے سے ہمیشہ قاصر اور ناکام رہتے ہیں اور نتیجۃً ان کے غیر متعلق جوابات سے ہمیشہ فتنہ پیدا ہوتا ہے۔ اور اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی سوال کا جواب سرے سے دینا جانتے ہی نہیں ہیں۔ (غلام نبی کشافی، کشمیر)
جواب
ہمارے مدارس میںافتاء نویسی کا باقاعدہ شعبہ ہوتا ہے اور اس کے تحت، فتوؤں کا جواب دینے کی تربیت دی جاتی ہے۔ مگر افتاء نویسی کے اس شعبے میں ایک بنیادی کمی ہے۔ وہ یہ کہ اِس شعبے کے تحت، مسائلِ فتویٰ تو بتائے جاتے ہیں مگر حکمتِ فتویٰ نہیں بتائی جاتی ۔
حکمتِ فتویٰ سے میری مراد یہ ہے کہ مفتی کو یہ بتایا جائے کہ اس کو کب فتویٰ دینا ہے اور کب فتوے کی زبان استعمال نہیں کرناہے۔ مثلاً ایک شخص اگر خود اپنے لباس کے بارے میں فتویٰ پوچھے تو مفتی کو چاہیے کہ وہ اس کا جواب دے۔ لیکن اگر کوئی شخص ثانیہ مرزا کے بارے میں فتویٰ پوچھے، یا کسی امام کے وضع قطع کو لے کر فتویٰ پوچھے تو ایسے معاملے میں مفتی کو یہ جواب دینا چاہیے کہ تم جس کے بارے میں فتویٰ مانگ رہے ہو اس سے جاکر ملو اور اس کو تیار کرو کہ وہ خود اپنے بارے میں فتویٰ پوچھے۔ موجودہ شکل میں تمہارا طریقہ درست نہیں۔
اسی طرح ایک کیس اگر ملکی قانون کے تحت، فوج داری کا کیس ہو اور کوئی شخص اس کے بارے میں فتویٰ پوچھے تو مفتی کو یہ کہنا چاہیے کہ یہ ایک عدالتی معاملہ ہے۔ تم اِس بارے میں ہم سے فتویٰ مت پوچھو بلکہ اس معاملے میں عدالت سے رجوع کرو۔ اِسی طرح اگر کوئی شخص ایک ایسے معاملے میں فتویٰ پوچھے جس میں یقینی ہو کہ مفتی کا فتویٰ مؤثر نہیں ہوگا۔ مثلاً کوکوکولا کو پینے یا نہ پینے کا مسئلہ، تو ایسے معاملے میں بھی مفتی کو فتویٰ نہیں دینا چاہیے۔ بلکہ مفتی کو مولانا عبد الحق حقانی کی زبان میں یہ کہنا چاہیے کہ— میرا فتویٰ نہیں چلے گا’’کوکوکولا‘‘ چل جائے گا۔
میری قطعی رائے ہے کہ جو شخص قدیم فقہی کتابوں میں لکھے ہوئے مسائل کو جانے اور حالاتِ زمانہ کو نہ جانے، اس کے لیے فتویٰ دینا جائز نہیں۔
سوال
میں ۱۹۹۹ء میں بینک میں agriculture officer کے عہدے پر فائز ہوا تھا۔ دورانِ تعلیم الرسالہ کا مستقل قاری تھا لیکن ملازمت میں آنے کے بعد یہ سلسلہ منقطع ہوگیا۔ لیکن میں جب بھی گھر جاتا ہوں تو وہاں سے سارا الرسالہ اپنے ساتھ لے کر آتا ہوں۔ کیوں کہ میرے والد محترم اس کے مستقل قاری ہیں۔ میری شادی ہوئے اب تقریباً چار سال ہونے جارہے ہیں۔ ایک لڑکا بھی ہے۔ لیکن میرا مسئلہ یہ ہے کہ شادی ہونے کے اتنی مدّت کے بعد بھی ہم لوگوں میں خوشگوار ماحول نہیں بن سکا۔ شادی کے اوائل سے ہی جھگڑے ہوتے رہے۔ کئی بار ایسے حالات ہوئے کہ شاید ہم لوگوں کو الگ ہو جانا پڑے گا۔ لیکن میں ہمیشہ صبر اور تحمل سے کام لیتا رہا۔ اور اب بھی صبر کا دامن تھامے ہوئے بہتر حالات کی امید یں لگائے ہوئے ہوں۔
شادی کے اوائل سے ہی میری بیوی میرے گھر والوں سے نفرت کرنے لگی۔ پھر میرے والدین اور میرے سسرال والوں کے درمیان نا اتفاقی بڑھتی گئی۔ فرزانہ میرے خاندان کی پہلی بہو تھی۔ اس لئے میرے والدین کو بھی بہت ساری توقعات تھیں۔ لیکن اس نے کسی بھی طرح adjust کرنے کی کوشش نہیںکی۔ پھر کچھ دن بعد وہ سسرال جانے سے منع کرنے لگی۔ جب کہ وہ میرے ساتھ پیلی بھیت میں رہتی تھی۔ ہم لوگ لمبے وقفے کے بعد گھر جاتے تھے۔ دو چار دن گھر میں مہمان کی طرح گذار کر پھر واپس پیلی بھیت آجانا تھا۔ دوران قیام ہم لوگ مہمان ہی رہتے تھے۔ لیکن فرزانہ نے کبھی بھی میرے بوڑھے والدین کو ایک کپ چائے بنا کر نہیں پلائی۔ جب کہ میں ہمیشہ اسے یہی سمجھاتا تھا کہ ہم لوگ کچھ دنوں کے لیے آئے ہیں سب سے مل جل کر اور سب کو خوش کرکے واپس چلا جاؤں گا۔ لیکن اس نے میری باتوں کو کبھی نہیں مانا۔ جس کی وجہ سے میں upset رہتا تھا۔ پھر ہم لوگوں کے درمیان اِنھیں گھریلو معاملات کو لے کر جھگڑے بھی ہوئے۔ حالانکہ وہ میرا خوب خیال رکھتی ہے۔ لیکن میرے گھر والوں سے اس کی نفرت میںاضافہ ہوتا گیا۔ پھر وہ کہنے لگی کہ آپ اپنے بھائیوںکو خرچ نہیں دیںگے۔ میں نے اس کی بات نہیں مانی۔ اب وہ کہہ رہی ہے کہ اب میں اپنے میکے ہی میں رہوں گی جب تک آپ اپنے فرائض سے چھٹکارا نہیں پالیں گے۔ میں عید کے موقع پر اسے گھر چھوڑ آیا تھا۔ بقرعید کے موقع پر میں پھر اسے لینے گیا لیکن وہ آنے سے انکار کر گئی۔ میں ٹکٹ cancelکرکے واپس آگیا ہوں۔ میںنے صبر سے کام لے کر کسی قسم کا کوئی جھگڑا نہیں کیا۔چپ چاپ واپس پیلی بھیت آچکا ہوں۔ لیکن یہاں آنے کے بعد طرح طرح کے سوالات میرے ذہن کو پریشان کئے ہوئے تھے۔ انھیں tensions کی وجہ سے فرزانہ بیمار رہنے لگی ہے۔ اس کے سر میں ہمیشہ درد رہتا ہے۔ وہ گھنٹوں بے ہوش پڑی رہتی ہے۔ کافی علاج کرایا لیکن کوئی افاقہ نہیں ہوا۔ میں بہت پریشان ہوں کیوں کہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ شاید میری غلطی سے ہی حالات اتنے بگڑتے چلے گیے۔ یا پھر میرے گھر والوں کی کوئی کمی رہی۔ یا پھر میرے سسرال والوں نے اس کی صحیح رہنمائی نہیں کی۔ حالاں کہ میرے گھر والوں نے اس کا بہت خیال رکھنے کی کوشش کی۔یہ بھی کبھی اتفاق نہیںہوا کہ میری بیوی اپنے سسرال میں جاکر رہی ہو۔ جہاں میری غیر موجودگی میں میرے گھر والوں نے اس کے ساتھ بد سلوکی کی ہو۔ وہ جب بھی سسرال گئی میرے ساتھ ہی گئی اور میرے ساتھ ہی واپس آگئی۔
جہاں تک میری ازدواجی زندگی کا سوال ہے میں نے اپنے جانتے ہوئے کسی قسم کی کوئی کمی نہیں کی۔ ایک officer جن basic amenities کے ساتھ زندگی گذارتا ہے وہ ساری چیزیں دستیاب ہیں۔ میںاپنے بھائیوں کو صرف تین ہزار روپئے ماہانہ دیتا ہوں۔ اس کے علاوہ میںاپنے گھر میں کچھ بھی نہیں دیتا ہوں۔ میری بہت خواہش تھی کہ میںاپنے والدین کو کچھ دنوں کے لئے لاؤں اور U.P. دکھا دوں۔ لیکن میں یہ خواہش کبھی ظاہر کرنے کی ہمت نہیں کرسکا۔ کیوں کہ میںجانتا تھا کہ یہ میرے لئے ممکن ہی نہیں ہے۔ وہ کبھی بھی میرے گھر والوں کی خیریت دریافت نہیں کرتی ہے۔ جب کہ میرے گھر والے اکثر فون کر کے اس سے بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن وہ ہمیشہ بات کرنے سے گریز کرتی ہے۔ (نازش ریحان، پیلی بھیت)
جواب
آپ کے مسائل کی جڑ یہ ہے کہ آپ جب ملازمت میں آئے تو آپ نے الرسالہ کا مطالعہ چھوڑ دیا۔ یہ آپ کی بہت بڑی غلطی تھی۔ الرسالہ، زندگی کی سائنس بتاتا ہے۔ الرسالہ، آرٹ آف لونگ (art of living)کا شعور دیتا ہے۔ الرسالہ، یہ بتاتا ہے کہ زندگی کے مسائل کو کیسے مینیج کیا جائے۔ الرسالہ ایسی چیز نہیں ہے جس کو کچھ دن پڑھا جائے اور پھر اس کے بعد چھوڑ دیا جائے۔ الرسالہ پوری زندگی کا کورس ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ اب آپ دوبارہ الرسالہ پڑھنا شروع کردیں۔ اور پابندی کے ساتھ بلا ناغہ ہر ماہ پڑھیں۔
بیوی کے معاملے میں آپ کا نظریہ غیر فطری ہے۔ اِس حقیقت کو سمجھ لیجئے کہ آپ کو خونی رشتے کی بنا پر اپنے والدین سے جو دلچسپی ہے وہ آپ کی بیوی کو کبھی نہیں ہوسکتی ہے۔کیوں کہ آپ کی بیوی کا خونی رشتہ آپ کے والدین سے نہیں ہے۔ آپ کو میرا مشورہ ہے کہ آپ بیوی سے وہ امید نہ رکھیں جو فطرت کے قانون کے خلاف ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ خوش گوار زندگی گذاریں تو بیوی جیسی ہے ویسی ہی اس کو قبول کرلیں اور پھر اس پر راضی ہوجائیے۔ اور اگر آپ کے لیے ممکن ہو تو آپ مشترک خاندانی زندگی کو ختم کردیجئے، اور الگ گھر بنانا شروع کردیجئے۔
یاد رکھیے، زندگی حقیقت پسندی کا نام ہے۔ آپ اپنے جذبات کے مطابق، زندگی کا نقشہ نہیں بنا سکتے۔ زندگی کا نقشہ وہی رہے گا جو فطرت کے قانون کے مطابق ہونا چاہیے۔ آپ کی موجودہ شکایت آپ کے غیر حقیقت پسندانہ ذہن کی پیداوار ہے۔ آپ اپنے غیر حقیقت پسندانہ ذہن کو ختم کردیجئے اور پھر آپ کو کسی سے کوئی شکایت نہیں ہوگی۔
سوال
میرا لڑکا افسر ہے عرب میں رہتا ہے۔ بہت دیندار ہے۔ میں نے اپنے لڑکے کی شادی کی ہے۔ B.A. پاس بہو ہے۔ وہ لوگ بھی کھاتے پیتے خوش حال ہیں۔ ہم لوگ بہت ارمان سے بہو بیاہ کر لائے لیکن بہو کسی کو منہ نہیں لگاتی ہے۔ میں اور میرے گھر میں بہو کی بہت عزت ہوئی۔ کوئی روک ٹوک نہ کوئی دباؤ۔ جب میکے جانا چاہتی میں اسے بھیج دیتی۔ میں بلاتی تو وہ اپنی مرضی سے ہی آتی۔ شادی کو ۲ سال گذر گیے ہیں لیکن وہ سب سے الگ تھلگ رہتی ہے۔ میرے کسی رشتے دار کا فون آتا ہے تو بات نہیں کرتی۔ گھر کے کسی کام میں دلچسپی نہیںلیتی۔کبھی میں کوئی چیز بنانے کو کہتی تو کہتی ہے مجھے نہیں آتا ہے بنانا۔ بہو اچھی شکل وصورت کی ہے۔ میںنے کچھ نہیں کہا میں خودہی ہر کام کرلیتی۔ پھر بھی وہ میرے گھر خوش نہیں رہی۔ ہم لوگوں نے اور میرے بیٹے نے اسے ہر طرح کا سکھ دیا۔ ہر آدمی اس کے لیے کچھ سامان لاتا تاکہ وہ میرے گھر خوش رہے لیکن نہیں ۔ وہ کسی کو اپنا نہیں سمجھتی۔ نہ صبح میں ناشتہ بنانے کی فکر نہ کھانا بنانے کی۔ میرا بیٹا اسے عرب اپنے ساتھ لے گیا وہاں بھی اس کا وہی حال ہے۔ میرے بیٹے نے لکھا ہے کہ میں نے آرام کی ہر چیز گھر میں رکھ دی ہے کہ وہ خوش رہے لیکن اس کا یہاں دل نہیں لگتا۔ میرے بیٹے نے یہ بتایا کہ یہ میکے رہنا چاہتی ہے۔ مولانا صاحب مجھے اس مسئلے کا حل بتائیے۔ (ایک قاری الرسالہ)
جواب
زندگی میں ہمیشہ آدمی کے لیے دو میں سے ایک کا چوائس ہوتا ہے۔ مگر آدمی اکثر ایسا کرتا ہے کہ وہ تیسرا چوائس لینا چاہتا ہے، جب کہ تیسرا چوائس اس کے لیے ممکن نہیںہوتا۔ شادی کا معاملہ بھی یہی ہے۔
اکثر ماںباپ ایسا کرتے ہیں کہ وہ اپنے بیٹے کے لیے ڈھونڈ کر اچھی شکل و صورت والی بہو لاتے ہیں، اور پھر شادی کے بعد یہ شکایت کرتے ہیں کہ ان کی بہو اُن کی بات نہیں سُنتی۔ والدین کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ اچھی شکل و صورت والی بہو کبھی ان کی بات نہیں سنے گی۔ اگر وہ بات سننے والی بہو چاہتے ہیں تو انھیں چاہیے کہ وہ معمولی صورت والی بہو اپنے گھر میں لائیں۔ اِس معاملے میں کوئی اور چیز ان کے لیے قابلِ عمل نہیں۔
اچھی شکل و صورت والی لڑکی کے ساتھ یہ حادثہ پیش آتا ہے کہ دو چیزیں اس کے مزاج کو خراب کردیتی ہیں۔ ایک، اس کے ماں باپ، اور دوسرے، آئینہ۔ ایسی لڑکی کی جب شادی ہوتی ہے اور وہ اپنی سسرال میںآتی ہے تو یہ دونوں چیزیں اس کو بگاڑ چکی ہوتی ہیں۔ ایسی حالت میں لڑکے کے والدین کو چاہیے کہ وہ اگر اچھی شکل و صورت والی لڑکی کو اپنی بہو بناتے ہیں تو وہ اس سے کوئی امید نہ رکھیں۔ اور اگر وہ بہو کو اپنی امید کے مطابق دیکھنا چاہتے ہیں تو وہ ایسی لڑکی کو اپنے گھر لائیں جو صورت کے اعتبار سے پُرکشش نہ ہو۔
اِس معاملے میں سب سے بُرا کردار لڑکی کے ماں باپ کا ہے۔ لڑکی کے ماں باپ عام طور پر یہ کرتے ہیں کہ وہ اچھی شکل و صورت والی لڑکی کے ساتھ بہت زیادہ لاڈ پیار (over-pampering) کا معاملہ کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لڑکی جب شادی کے بعد اپنی سسرال میںجاتی ہے تو وہ شعوری یا غیر شعوری طورپر وہاں بھی اپنے لیے لاڈ پیار والے سلوک کی امیدوار رہتی ہے۔ مگر فطری طورپر ایسا ہونا ممکن نہیں۔ اِس لیے اِس قسم کی لڑکیاں ہمیشہ پریشان رہتی ہیں۔ اِس پریشانی کو دور کرنے کے لیے وہ بھاگ کر اپنے میکے جاتی ہیں جو کہ صرف ان کی پریشانی میںاضافے کا باعث بنتا ہے۔ اِس مسئلے کا حل یہ ہے کہ میکے والے اور سسرال والے دونوں حقیقت پسندانہ انداز اختیار کریں۔
سوال
پوجیہ مولانا صاحب کو عید کے مبارک موقعے پر میرا سلام قبول ہو۔ بہت عرصے سے آپ کے درشن کرنے کا موقع نہیں ملا۔ کئی سوال میرے ذہن میں گھوم رہے ہیں۔ کیا دھرتی پر کبھی ایسا بھی وقت آئے گا جب انسان کے بیچ میں بھائی بھائی کا رشتہ قائم ہو جائے گا۔ اگر ہاں، تو اس کو قائم کرنے میں آپ جیسے سنتوں، فقیروں کا کیا رول ہوگا۔ کیا آپ کو ایسا نہیں لگتا کہ آپ کو اس مقصد کے لیے کوئی بڑا initiative لینا چاہیے۔ کیوں کہ چھوٹے مو ٹے قدموں سے آج کے ماحول پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اگر آج ہی آپ نے اور آپ جیسے سنتوں نے positive دِشا میں کوئی بڑا قدم نہیں اٹھایا تو شایدکل حالات قابو سے باہر ہو جائیں گے۔
آپ سے عرض ہے کہ دنیا کے حالات کو سدھارنے کے لیے آپ historical initiative لیں تاکہ آنے والی پیڑھیوں کے لیے یہ دھرتی ایک محفوظ جگہ بن سکے۔ (سوامی اوم پورن سوتنتر، راجستھان)
جواب
آپ کے جذبات بہت قابلِ قدر ہیں۔ میں کہوں گا کہ میں CPS Internationalکے تحت، عین وہی کام کررہا ہوں جو آپ نے فرمایا۔ مگر اصل مسئلہ یہ ہے کہ لوگ بڑے بڑے کام کو کام سمجھتے ہیں۔ حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ بڑے کام کا آغاز چھوٹے کام سے ہوتا ہے، بڑی چھلانگ کے ذریعے کسی بھی کام کا آغاز نہیں ہوتا۔ ہم نے اپنے ملک میںدیکھا ہے کہ کئی لوگوں نے بڑے بڑے اقدامات سے کام کا آغاز کیا۔ مثلاً مہاتما گاندھی، جواہر لال نہرو، جَے پرکاش نرائن وغیرہ۔ مگر یہ بڑے بڑے اقدامات کوئی مثبت نتیجہ پیدا نہ کرسکے۔
اِن تجربات سے سبق لیتے ہوئے میںنے CPS International کے تحت، ایک کام کا آغاز کیا ہے۔ اس کام کا نشانہ بہت بڑا ہے۔ اوّلاً پورا ملک، اور پھر ساری دنیا۔ مگر حقیقت پسندانہ انداز اختیار کرتے ہوئے ہم نے اپنے کام کو چھوٹے آغاز کے ساتھ شروع کیا ہے۔ خدا کے فضل سے یہ کام دن بدن بڑھ رہا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یقینا وہ دن آئے گا جب کہ یہ چھوٹا آغاز بڑے نتیجے تک پہنچے گا۔
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز ۱۷۵

۱۔ نیشنل بک ٹرسٹ اور حکومت میزورم کے تعاون سے میزورم کی راجدھانی ایزول میں ایک بُک فئر لگائی گئی۔ وہ ۵مارچ سے ۱۱ مارچ ۲۰۰۶تک جاری رہی۔ اِس موقعے پر گُڈ ورڈ بُکس (نئی دہلی) کی طرف سے ایک بُک اسٹال لگایا گیا۔ مسٹر مصطفی عمری نے اس کو سر انجام دیا۔ انھوں نے بتایا کہ میزورم میں یہ پہلا اسلامی بُک اسٹال تھا۔ لوگوں نے کافی دلچسپی لی۔ خاص طورپر قرآن (انگریزی) کے تمام نسخے لوگوں نے حاصل کرلیے۔ ادارے کی دوسری اسلامی کتابیں بھی لوگوں نے کافی دلچسپی کے ساتھ خریدیں۔ میزورم کے گورنر بھی بُک اسٹال پر آئے اور انھوںنے اسلام کے بارے میں اپنی دلچسپی کا اظہار کیا۔
۲۔ ۶ مارچ ۲۰۰۶ کو روزنامہ راشٹریہ سہارا کے نمائندہ مسٹر سُنیل نے ٹیلی فون پر صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ اُن کا سوال بنارس میں ایک مندر پر بم دھماکے کے حوالے سے تھا۔ انھوں نے پوچھا کہ کسی عبادت گاہ پر بم دھماکے کے لیے اسلام میں کیا حکم ہے۔جواب میں بتایاگیا کہ اِس قسم کا بم دھماکہ ہر حال میں حرام ہے، خواہ وہ کسی مندر پر کیا جائے یاکہیں اور کیا جائے۔ اِس قسم کے بم دھماکوں میں بے قصور لوگ مارے جاتے ہیں، اور بے قصور لوگوں کو مارنے کے بارے میں قرآن میں آیا ہے کہ جس نے ایک بھی بے قصور آدمی کو قتل کیا تو اس نے گویا کہ سارے ہی انسانوں کو قتل کر ڈالا۔ اس قسم کا متشددانہ فعل ہر حال میں قابلِ مذمت ہے۔ کوئی بھی عذر اس کو جائز ثابت نہیں کرتا۔ اختلاف یا شکایت کے موقع پر اسلام میں پُر امن حل کی تلقین کی گئی ہے۔ پُر تشدد کارروائی اسلام میں سرے سے جائز نہیں۔
۳۔ دور درشن (نئی دہلی) کے نمائندہ مسٹر وریندر شرما نے ۸ مارچ ۲۰۰۶کو صدر اسلامی مرکز کا ایک ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ اِس انٹرویو کا موضوع ۷ مارچ کو بنارس میں ہونے والا بم دھماکہ تھا جس میں ایک مندر کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ جوابات کے ذیل میں بتایا گیا کہ اِس قسم کا بم دھماکہ اسلام کی تعلیم کے سراسر خلاف ہے۔ اسلام کے مطابق، ہر عبادت گاہ قابلِ احترام ہے، خواہ وہ کسی بھی مذہب کی عبادت گاہ ہو۔ عبادت گاہ پر بم دھماکہ کرنا دہرا گناہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک ہے عبادت گاہ پر متشددانہ حملہ کرنا اور دوسرا ہے بے قصور لوگوں کی جان لینا۔ یہ واقعہ ہر اعتبار سے سخت قابلِ مذمت ہے۔
۴۔ حبیب بھائی نے حیدرآباد (جُبلی ہِل) میں ایک دعوتی سنٹر بنایا ہے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے حیدرآباد کا سفر کیا۔ یہ سفر۹ مارچ سے ۱۱ مارچ ۲۰۰۶ کے درمیان ہوا۔ ان کے ساتھ سی پی ایس کے دس اور افراد اِس سفر میں شامل تھے۔ حیدر آباد میں عام ملاقاتوں کے علاوہ کئی باقاعدہ پروگرام ہوئے۔ حبیب بھائی کے سنٹر میں دعوتی کام کی اہمیت پر تفصیلی خطاب ہوا۔ پرگنا بھارتی کی طرف سے بھارتیہ وِدّیا بھون کے ہال میں ایک پروگرام کیا گیا جس کا موضوع تھا: بقائِ باہم اور اسلام:
Co-existance in Islam.
اِس موضوع پر تفصیلی خطاب ہوا۔ جامعہ دار الفرقان للبنات (سعید آباد) میںایک پروگرام ہوا جس کا موضوع تھا: خواتین کا درجہ اسلام میں۔ ایک پروگرام یونیورسٹی آف حیدرآباد میںتھا۔ یونیورسٹی کی ہال میں خطاب ہوا۔ اِس کا موضوع تھا: امن (Peace) ، وغیرہ۔ اِس سفر کی تفصیلی روداد انشاء اللہ سفر نامے کے تحت، الرسالہ میں شائع کر دی جائے گی۔
۵۔ ۱۹۔۲۲ مارچ ۲۰۰۶ کو اسپین کے شہر اشبیلیہ (Seville) میں ایک انٹرنیشنل کانفرنس ہوئی۔ یہ کانفرنس امن کے موضوع پر تھی۔ اِس میں مسلم اور یہود کے مذہبی پیشواؤں کو بلایا گیا تھا:
Second World Congress of Imams and Rabbis for Peace. Orgnized by the Hommes de Parole Foundation Svelle, Spain
اس کانفرنس میںصدر اسلامی مرکز کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ اس کا دعوت نامہ مؤرخہ ۲۳ فروری ۲۰۰۶ مسز نائلہ(Nayla A. Khalek)کے دستخط سے ملا تھا۔ اس سلسلے میں ان کی طرف سے کئی ٹیلی فون آئے۔ ان کے ایک نمائندہ بھی مرکز میں آئے۔ لیکن بعض وجوہ سے اس میں شرکت کے لیے سفر کا پروگرام نہ بن سکا۔ البتہ CPS کے کچھ انگریزی پمفلٹس اور مضامین ان کو بھیج دیے گئے۔ جو کہ امن کے موضوع سے متعلق تھے۔
۶۔ ای ٹی وی (نئی دہلی) کی ٹیم نے ۲۳ مارچ ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا۔ اس انٹرویو کا تعلق موجودہ زمانے کی متشددانہ مسلم تنظیموں سے تھا۔ سوالات کے جواب میں بتایا گیا کہ آج کل جس طرح اسلامی شخصیتوں یا اسلامی ناموں کو لے کر تنظیمیں بنائی جارہی ہیں وہ بدعت ہے۔ صحابہ نے کبھی اس قسم کی تنظیمیں نہیں بنائیں۔ ایک سوال کے جوا ب میں بتایا گیا کہ اسلام میں مسلح جہاد خالصۃً باقاعدہ طورپر قائم شدہ حکومت کا حق ہے۔ یہ غیر حکومتی تنظیموں کا حق نہیں۔ ایک اور سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ امریکا نے مسلم ملکوں پر حملہ کیا تو اس سے غیر حکومتی تنظیموں کو یہ جواز نہیں ملتا کہ وہ امریکا کے خلاف متشددانہ جہاد شروع کردیں۔ اس طرح کی جارحیت کے مقابلے میں صرف مسلم حکومتوں کو سامنے آنا چاہیے نہ کہ غیر حکومتی تنظیموں کو۔
۷۔ پرگتی پیٹھ (نئی دہلی) ایک فلاحی تنظیم ہے۔ اس کے زیراہتمام ۲۵ مارچ ۲۰۰۶ کوایک سیمنار ہوا۔ یہ سیمنار چنمئی (Chinmay) مشن کے آڈیٹوریم میں منعقد کیاگیا تھا۔ اس میں ڈاکٹر کرن سنگھ اور دوسرے مذہبوں کے نمائندے شریک ہوئے۔ اس کا موضوع یہ تھا:
ٗٗWhat is religion?
اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ یہ پروگرام انگریزی زبان میں ہوا۔ انھوں نے اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں اس موضوع پر آدھ گھنٹہ تقریر کی۔ تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ اسلام کے مطابق، مذہب بنیادی طورپر دو قسم کی تعلیمات پر مشتمل ہے—خدا کی عبادت گذاری، اور انسان کے ساتھ امن اور خیر خواہی کے ساتھ رہنا۔
۸۔ نئی دہلی کے ٹی۔وی ایس۔ون چینل (S-1 Channel) کے تحت، ۲۵ مارچ ۲۰۰۶ کی شام کو ایک پینل ڈسکشن ہوا۔ اِس میں ہندو اور مسلمان دونوں شریک ہوئے۔ اِس پروگرام کا عنوان یہ تھا—ہندو اور مسلم بھائی چارہ کیسے قائم ہو۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ انھوں نے اپنی گفتگو میں کہا کہ بھائی چارہ عملًا قائم ہے۔ اگر بھائی چارہ نہ ہو تو ملک میں بحران پیدا ہوجائے۔ آپ کسی مسلمان سے اس کے ہندو پڑوسی کے بارے میں پوچھئے تو وہ اس کے بارے میں اچھی رائے دے گا۔ اسی طرح آپ کسی ہندو سے اس کے مسلمان پڑوسی کے متلق پوچھئے تو ہ اس کے بارے میں اچھی رائے دے گا۔ یہ مسئلہ زیادہ تر میڈیا کا پیدا کردہ ہے۔ میڈیا اپنے مزاج کے مطابق، سنسنی خیز خبروں کو منتخب کرکے ان کو نمایاں کرتا ہے۔ مگر یہ ہندستانی سماج کی صحیح تصویر نہیں۔ بعض ناخوشگوار واقعات ضرورہوتے ہیںلیکن وہ ہر جگہ ہوتے ہیں حتی کہ مسلم ملکوں میں بھی۔ ان کی بنیاد پر کوئی عمومی رائے نہیں بنائی جاسکتی۔
۹۔ برٹش صحافی سر مارک تُلی (Mark Tully) نے ۴ ؍اپریل ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا ایک تفصیلی انٹرویو لیا۔ وہ ریلیجس انڈراسٹینڈنگ پر انگریزی میں ایک کتاب لکھ رہے ہیں۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ اِس موضوع پر اسلام کا نقطۂ نظر کیا ہے۔ انھیں تفصیل کے ساتھ قرآن اور حدیث کی تعلیمات بتائی گئیں۔ انھیں بتایا گیا کہ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ مختلف مذاہب کے درمیان ہر حال میں معتدل تعلقات قائم رکھے جائیں، اور پُرامن ماحول کو برقرار رکھا جائے۔ کیوں کہ امن کے بغیر کوئی بھی تعمیری کام نہیں ہوسکتا۔ جہاں تک مذہبی اختلاف کی بات ہے، اِس معاملے میں اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اپنے مذہب پر پوری طرح قائم رہتے ہوئے دوسروں کے مذہب کا پورا احترام کیا جائے۔
۱۰۔ ہمدرد پبلک اسکول نئی دہلی) میں ۱۵؍ اپریل ۲۰۰۶ کو ایک پروگرام ہوا۔اس کا انعقاد اسکول کے ہال میں کیاگیا۔ تمام طلبا اور اساتذہ اس میں شریک ہوئے۔ جناب سید حامد صاحب (بانیٔ اسکول) بھی اس میں موجود تھے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور سیرتِ رسول کے موضوع پر ایک تقریر کی۔ تقریر میں منتخب احادیث کی روشنی میں بتایا گیا کہ زندگی کی تعمیر کے لیے پیغمبر اسلام نے کیا رہنما اصول دیے ہیں۔ یہ تقریر چالیس منٹ تک ہوئی۔ اِس موقع پر اسکول کے اساتذہ اور پرنسپل سے ملاقات ہوئی۔ طلبا اور اساتذہ نے خصوصی دل چسپی کا اظہار کیا۔ اِس پروگرام میں سی پی ایس کی ٹیم کے بھی کچھ افراد شریک ہوئے۔
۱۱۔ ہمدرد یونیورسٹی (نئی دہلی) میں ۱۴؍ اپریل ۲۰۰۶ کوسیرت النبی کے عنوان کے تحت ایک پروگرام ہوا۔ اس میں ڈاکٹر موسی رضا وغیرہ نے تقریر کی۔ صدر اسلامی مرکز کو بھی اس میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ چنانچہ وہ بھی اس میں شریک ہوئے اور سیرتِ رسول کے موضوع پر ایک تقریر کی۔ اِس تقریر میں بتایا گیا کہ اسلام ہمیشہ امن کے حالات پسند کرتا ہے۔ کیوں کہ اسلام کا جو مشن ہے وہ صرف امن کے حالات میں حاصل ہوسکتا ہے۔ اسلام کامشن یہ ہے کہ لوگوں کو توحید کا پیغام پہنچایا جائے۔ لوگوں کے اندر جنت اور جہنم کا شعور پیدا کیا جائے۔ لوگوں کو خدا کے تخلیقی نقشے سے باخبر کیا جائے۔ یہ پروگرام یونیورسٹی کے ایک کنونشن سنٹر میں ہوا۔ اس موقع پر دوسرے حضرات کے علاوہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور ڈاکٹر اوصاف علی بھی وہاں موجود تھے۔ اِس موقع پر سی پی ایس کی ٹیم کے افراد شریک ہوئے۔ انھوںنے حاضرین کے درمیان دعوتی پمفلٹ اور بروشر تقسیم کیے۔ لوگوں نے نہایت شوق کے ساتھ ان کو پڑھا۔
۱۲۔ رابعہ گرلس پبلک اسکول (نئی دہلی) میں ۱۹؍ اپریل ۲۰۰۶ کو سیرت النبی کے موضوع پر ایک جلسہ ہوا۔ اس میں تین مختلف اسکولوں کے ٹیچر اور اسٹوڈنٹ شریک ہوئے۔ شہر کے کچھ ممتاز افراد بھی اس میں شریک ہوئے۔ یہ جلسہ صدر اسلامی مرکز کی تقریر کے لیے رکھا گیاتھا۔ انھوں نے وہاں موضوع پر ایک گھنٹہ تقریر کی۔ آخر میں سوال وجواب ہوا۔ تقریر سننے کے بعد کئی ہندو اور مسلم ٹیچروں نے کہا کہ آج ہمیں اسلام اور پیغمبر اسلام کا صحیح تعارف حاصل ہوا۔ اسکول کے مینیجر نے کہا کہ آپ کی تقریر عصری اسلوب میں ہونے کے ساتھ ساتھ بڑوں اور بچوں دونوں کے لیے یکساں طورپر بڑی مفید اور قابلِ فہم تھی۔
۱۳۔ ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ امریکا کی ڈیوک یونیورسٹی (درہم) میں پروفیسر ہیں۔ ان کا تعلق، ڈپارٹمنٹ آف ریلیجس اسٹڈیز سے ہے۔ وہ ۱۹؍ اپریل ۲۰۰۶ کو ایک کیمرہ مین کے ساتھ دفتر میںآئے، اور صدر اسلامی مرکز کا ایک تفصیلی ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ وہ یونیورسٹی کے ایک پروجیکٹ کے تحت، ایک کتاب لکھ رہے ہیں جس کا نام یہ ہے:
Inside Madrasas
ان کے سوالات کا تعلق مدرسے سے، مسلمانوں کے مسائل سے اور اسلام اور عصر حاضر سے تھا۔ یہ پورا انٹرویو انگریزی میں تھا۔ گفتگو کے دوران ایک بات یہ کہی گئی کہ مسلم مسائل پر تمام بولنے اور لکھنے والے دفاعی انداز اختیار کرتے ہیں۔ یعنی مسلمانوںکو ہر حال میں درست ثابت کرنا۔ یہ طریقہ سخت مہلک ہے۔ اس سے آپ کو یہ فائدہ تو مل سکتا ہے کہ آپ کو مسلمانوں کے درمیان مقبولیت حاصل ہوجائے۔ مگر اس کا یہ عظیم نقصان ہے کہ وہ مسلمانوں کے اندر احتساب کا ذہن نہیں پیدا کرتا۔ آج سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر re-assesment کی تحریک اُٹھے۔ مگر دفاعی یا وکیلانہ انداز اِس عمل کو زندہ کرنے میں مستقل رکاوٹ ہے۔
۱۴۔ نئی دہلی کے سائی انٹرنیشنل سنٹر (لودی روڈ) میں ۲۷ اپریل ۲۰۰۶ کو ایک پروگرام ہوا۔ اِس پروگرام میں مختلف سَینک اسکولوں کے پرنسپل شریک ہوئے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکزنے اس میں شرکت کی۔ ان کو یہاں اِس موضوع پر بولنے کے لیے مدعو کیا گیا تھا کہ اسلام میں بیسک ہیومن ویلوز کا تصور کیا ہے۔ انھوںنے آدھ گھنٹہ اس موضوع پر تقر یر کی۔ اس کے بعد پندرہ منٹ تک سوال اور جواب ہوا۔ انھوںنے اپنی تقریر میں اسلام میں حسب ذیل ہیومن ویلوز بتائے:
Peace, Love, Truth, Non-violence, Tolerance, Good conduct.
اِس پروگرام میں سی پی ایس (انٹرنیشنل) کی ٹیم کے افراد بھی شریک ہوئے۔ تقریر کے بعد انھوں نے لوگوں سے ملاقاتیں کرکے اُن سے اسلام کے موضوع پر باتیں کیں۔ اس کے علاوہ لوگوں کے درمیان اسلامی پمفلٹ اور اسلامی بروشر بھی تقسیم کیے گیے۔
۱۵۔ الرسالہ کے درج ذیل قدیم شمارے بقیمت درکار ہیں:
اکتوبر، نومبر، دسمبر ۱۹۷۶، جنوری، جون، ستمبر، اکتوبر، نومبر دسمبر ۱۹۷۷، جنوری، فروری، مارچ، اپریل، جون، جولائی، اگست، ستمبر، اکتوبر ۱۹۷۸، جنوری، فروری، مارچ، اپریل، ستمبر ۱۹۷۹، اگست ، دسمبر ۱۹۸۰، فروری، مارچ، اپریل، مئی، نومبر ۱۹۸۱، فروری، مارچ، اپریل، مئی، اگست، ستمبر، اکتوبر، نومبر، دسمبر ۱۹۸۲، جنوری، فروری، مارچ، اپریل، مئی، اگست، نومبر، ۱۹۸۳، جنوری، مارچ، اپریل، جون، جولائی، ستمبر، اکتوبر ۱۹۸۴، اگست، اکتوبر ۱۹۸۵، جون، اگست ۱۹۸۶، دسمبر ۱۹۸۸، اگست ۱۹۹۳۔
جن حضرات کے پاس الرسالہ کے مذکورہ شمارے برائے فروخت موجود ہوں وہ مطلوبہ قیمت کی وضاحت کے ساتھ درج ذیل پتے پر مطلع فرمائیں:
Shah Imran Hasan, Mahalla Dilawarpur, Ward No. 19, Kali Tazia Road, Distt. Munger, Bihar—811201
۱۶۔ الرسالہ کے قاریوں کی سہولت کی خاطر یہ کیا گیا ہے کہ الرسالہ کی قیمتیںگھٹا دی گئی ہیں۔ اب الرسالہ کی قیمتیں حسب ذیل ہوں گی—اندرونِ ملک سالانہ زرِ تعاون صرف ایک سو روپیہ، اوربیرونی ممالک کے لیے سالانہ زرِتعاون (ہوائی ڈاک سے) صرف$10 ۔
واپس اوپر جائیں

Monday, 1 May 2006

Al Risala | May 2006 (الرسالہ،مئی)

2

- مثبت شخصیت کی تعمیر

7

- حقیقت کی دریافت

11

- بھُلاوَہ کلچر

15

- یہ تضاد کیوں

19

- کائنات میںانسان کا مقام

24

- جنت کا استحقاق

26

- حج کا سانحہ

28

- کارٹون کا مسئلہ

33

- اعراض کی ضرورت

37

- تعلیم سب کچھ ہے

39

- خبر نامہ اسلامی مرکز 173


مثبت شخصیت کی تعمیر

روسو(Jean Jacques Rousseau) فرانس کا مشہور جمہوری مفکر ہے۔ وہ ۱۷۱۲ میں پیدا ہوا اور ۱۷۷۸ میںاس کی وفات ہوئی۔ وہ شخصی بادشاہت کے مقابلے میں عوامی حکمرانی کا علم بردار تھا۔ وہ اپنی مشہور کتاب معاہدۂ عُمرانی (Social Contract) کا آغاز اس جملے سے کرتا ہے — نسان آزاد پیدا ہوا تھا، مگر میں اس کو زنجیروں میں بندھا ہوا دیکھتا ہوں:
Man was born free, but I see him in chain.
مگر انسان کا ایک اور مسئلہ ہے جو شاید اس سے بھی زیادہ سنگین ہے، اور وہ کنڈیشننگ ہے۔ ہر عورت اور مرد کسی ماحول میں رہتے ہیں۔ ماحول کی نسبت سے ہر ایک کے ذہن کی کنڈیشننگ ہوجاتی ہے جو اس کو صحیح طرزِ فکر سے محروم کردیتی ہے۔ آدمی اس قابل نہیں رہتا کہ وہ فطری انداز میں سوچ سکے۔ اِس مسئلے کو دیکھتے ہوئے روسو کے جملے کو زیادہ بہتر طورپر اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ—انسان فطرت پیدا ہوا تھا، مگر وہ ہر جگہ کنڈیشنڈ دکھائی دیتا ہے:
Man was created on divine nature, but I see him psychologically conditioned.
ایک بچہ جب ماں کے پیٹ سے پیداہوتا ہے، اس وقت اس کو دیکھیے تو وہ معصومیت کا پیکر دکھائی دے گا۔ ایسا معلوم ہوگا جیسے کہ فرشتے نے انسان کی صورت اختیار کرلی ہے۔ پیدائش کے وقت انسان اپنے ذہن کے اعتبار سے خالص ذہن کا حامل ہوتا ہے۔ اس کی سوچ عین وہی فطری سوچ ہوتی ہے جو بطور واقعہ ہونا چاہیے۔ مگر انسان ایک سماجی حیوان(social animal) ہے۔ اس کو اپنی ساری زندگی دوسروں کے بنائے ہوئے سماج کے اندر گذارنا ہوتا ہے۔اس بنا پر اس کا ذہن ہر آن خارجی تأثر قبول کرتا رہتا ہے۔ جس کو کنڈیشننگ کہاجاتا ہے۔ یہ تاثر پذیری بڑھتی رہتی ہے، یہاں تک کہ انسان مکمل طورپر کنڈیشننگ کا کیس بن جاتا ہے۔
سن شعور کو پہنچنے کے بعد ہر عورت اور مرد کی یہ لازمی ذمّے داری ہے کہ وہ اس کنڈیشننگ کو سمجھے اور اپنے ذہن کی ڈی کنڈیشننگ کرکے دوبارہ اپنے آپ کو حالتِ فطری کی طرف واپس لے جائے، وہ اپنے آپ کو انسانِ مصنوعی کے بجائے انسانِ فطری بنائے۔
موجودہ زمانے میں علمِ نفسیات میںایک نظریہ بہت عام ہوگیا ہے جس کو بہیویرازم (behaviourism) کہاجاتا ہے۔ نفسیات کے اس مدرسۂ فکر میں یہ مان لیا گیا ہے کہ یہ کنڈیشننگ ہی انسان کی مستقل حالت ہے، انسان اپنی پیدائش کے اعتبار سے کچھ نہیں، یہ دراصل ماحول کی کنڈیشننگ ہے جو انسان کی شخصیت سازی کرتی ہے۔ اس نظریے کے حاملین کہتے ہیں کہ انسان نیچر (nature) سے نہیں بنتا۔ بلکہ وہ نرچر(nurture) سے بنتا ہے۔ یعنی ماحول کی پرورش سے۔ اس نفسیاتی مدرسۂ فکر کے لوگ کہتے ہیں کہ —انسان جہاں پیدا ہوتا ہے وہیں کے حالات اس کی شخصیت کی تشکیل کرتے ہیں:
He was nurtured when he was born. (Wotton)
انسانی شخصیت کی زیادہ گہری تحقیق اس نظریے کو رد کررہی ہے۔زیادہ گہرا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان اپنی پیدائش کے اعتبار سے ایک مکمل شخصیت ہوتا ہے۔ جنیٹک کوڈ کی حالیہ دریافت مذکورہ نظریے کی مکمل تردید ہے۔ اس دریافت کے ذریعے یہ ثابت ہوا ہے کہ جنیٹک کوڈ کے اندر پیدائشی طورپر ہر انسان کی مکمل شخصیت موجود ہوتی ہے۔ بعد کے دور میں انسان کی جو شخصیت بنتی ہے، وہ اسی جنیٹک کوڈ کی صرف اَن فولڈنگ(unfolding) ہے۔
اِس نقطۂ نظر کے مطابق، زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ ماحول کی کنڈیشننگ اصل انسان کے اوپر ایک مصنوعی پردے کی حیثیت رکھتی ہے۔ گویا انسان کی شخصیت پیاز کی مانند ہے۔ پیاز کے اندر مٹر کی مانند ایک مغز ہوتا ہے۔ اس داخلی مغز کے اوپر خارجی پردے کے مانند بہت سے چھلکے ہوتے ہیں۔ اگر ان چھلکوں کو ہٹایا جائے تو پیاز کا اندرونی مغز کھل کر سامنے آجائے گا۔ یہی معاملہ انسان کا ہے۔ انسان کی شخصیت کے اوپر ماحول کے اثر سے مصنوعی پردے پڑ جاتے ہیں۔ ان پردوں کو ہٹا دیا جائے تو انسان کی اصل شخصیت کھل کر سامنے آجائے گی۔
انسانی شخصیت کے انھیں خارجی پردوں کو ہٹانے کانام ڈی کنڈیشننگ ہے۔ جو آدمی سچائی کا طالب ہو، اس پر لازم ہے کہ وہ اپنی ڈی کنڈیشننگ کرکے مصنوعی پَردوں کو ختم کرے تاکہ اس کی اصل شخصیت سامنے آسکے۔
مذہب میں یہ تسلیم کیاگیا ہے کہ انسان خدا کی خاص تخلیق ہے۔ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو وہ اسی خدائی شخصیت (Divine Personality) پر پیدا ہوتا ہے۔ وہ اپنے داخلی وجود کے اعتبار سے ایک صحیح اور کامل شخصیت ہوتا ہے۔ ابدی کامیابی کے لیے لازمی شرط یہ ہے کہ آدمی سب سے پہلے اپنی اس فطری شخصیت کی حفاظت کرے۔ وہ اپنے آپ کو اس حالتِ فطری پر قائم کرے جس پر اس کے پیدا کرنے والے نے اس کو پیدا کیا ہے۔ اسی خود تعمیری جدوجہد کانام ڈی کنڈیشننگ ہے۔
مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان جب ایک ماحول میں پرورش پاتا ہے توہر دن اس کے ساتھ مختلف منفی تجربے پیش آتے ہیں۔ یہ تجربے اس کی اصل شخصیت پر غیر مطلوب پردے ڈالتے رہتے ہیں۔ مثلاً ایک شخص اس کے مقابلے میں زیادہ ترقی کر گیا۔ یہ تجربہ اس کے اندر حسد کے جذبات پیدا کرتا ہے۔ اور اس کی شخصیت کے اندر حسد کا ایک عنصر شامل ہوجاتا ہے۔ اسی طرح ایک شخص اس کے ساتھ ناپسندیدہ سلوک کرتا ہے۔ یہ تجربہ اس کی شخصیت میں نفرت کا ایک عنصر شامل کردیتا ہے۔ ایک مشاہدہ اس کے سامنے آتا ہے اس کو دیکھ کر اس کے اندر وہ چیز پیدا ہوتی ہے جس کو لالچ کہاجاتا ہے۔ یہ تجربہ اس کی شخصیت میں لالچ کا ایک عنصر داخل کردیتا ہے۔ اسی طرح کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص اس کے ساتھ ظلم کا معاملہ کرتا ہے۔ یہ تجربہ اس کے اندرتشدد کا جذبہ جگاتا ہے، اوراس کی شخصیت میں تشدد کا عنصر شامل ہوجاتا ہے۔
اس طرح ماحول کے اندر آدمی کو مختلف قسم کے تجربات سے سابقہ پیش آتا رہتا ہے، اور ہر تجربہ ایک منفی عنصر بن کر اس کی شخصیت کی تشکیل کرتا رہتا ہے۔ یہاںتک کہ انسان کی اصل شخصیت پردوں میں ڈھک جاتی ہے۔ انسانِ فطری بدل کر انسانِ مصنوعی بن جاتا ہے۔
ڈی کنڈیشننگ اسی مصنوعی صورتِ حال کی تصحیح ہے۔ یہ ڈی کنڈیشننگ ہر انسان کی ایک لازمی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر انسان کی شخصیت ایک ناقص شخصیت بنی رہے گی، وہ کبھی کامل شخصیت کا درجہ نہ پاسکے گی۔
اس ڈی کنڈیشننگ کا بنیادی ذریعہ احتساب خویش (introspection) ہے۔ ہر عورت اور مرد کو یہ کرنا ہے کہ وہ خود اپنا نگراں بن جائے۔ وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنے اندر سے ہر منفی آئٹم کو نکالے اور اس کو فکری تصحیح کے عمل سے گذار کر مثبت آئٹم بنائے۔ اور پھر اسی مثبت آئٹم کو اپنی شخصیت میں واپس داخل کرے۔ جس طرح مویشی جگالی کرکے اپنے اندر سے غیر ہضم شدہ غذا کو نکالتے ہیںاور پھر اس کو قابل ہضم بنا کر اپنے پیٹ میں دوبارہ داخل کرتے ہیں۔ اسی طرح ہر عورت اور مرد کو چاہیے کہ وہ ڈی کنڈیشننگ کے ذریعے اپنی شخصیت کی تعمیر و تشکیل کریں۔
نفسیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان کے دماغ کے دوبڑے حصے ہیں—شعور اور لاشعور۔ انسان کے ساتھ جب کوئی ناخوشگوار تجربہ گذرتا ہے تو وہ سب سے پہلے اس کے ذہن کے شعوری خانے میں ایک منفی آئٹم کے طور پر داخل ہوتا ہے۔ یہ منفی آئٹم چند دن تک زندہ شعور کے خانے میں رہتا ہے۔ اس کے بعد دھیرے دھیرے وہ اس کے لاشعور کے خانے میں چلا جاتا ہے۔ اور پھر ہمیشہ کے لیے اس کے ذہن کا حصہ بن جاتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ ہر آدمی پہلے ہی دن یا چند دن کے اندر ہر منفی آئٹم کو مثبت آئٹم میں تبدیل کرے۔ تا کہ یہ آئٹم جب زندہ شعور سے گذر کر اس کے لاشعور میںیا حافظے کے اسٹور میں پہنچے تو وہ ایک مثبت آئٹم کے طورپر وہاں محفوظ ہو۔
یہی وہ عمل ہے جو انسانی شخصیت کی تعمیر میںاصل فیصلہ کن عامل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی عمل کے دوران یہ فیصلہ ہوتا ہے کہ کوئی انسان منفی شخصیت کا حامل ہو یا مثبت شخصیت کا حامل۔
جو آدمی اپنے روز مرّہ کے تجربات پر تصحیح کا عمل کرکے اس کو مثبت آئٹم میں ڈھالتا رہے،اس کے لاشعور یا حافظے کے اسٹور میں تمام آئٹم مثبت آئٹم کے طورپر جمع ہوں گے۔ ایسے انسان کی شخصیت ایک مثبت شخصیت ہوگی۔ اس کے برعکس جو انسان تجربے کے پہلے ہی مرحلے میںتصحیح کا یہ عمل جاری نہ کرسکے اس کو پیش آنے والے تمام منفی آئٹم اس کے لاشعور کے خانے میں صرف منفی آئٹم کے طورپر جگہ پائیں گے۔ اس کا نیتجہ یہ ہوگا کہ اس کی پوری شخصیت ایک منفی شخصیت بن جائے گی۔
انسان جو بھی عمل کرتا ہے، خواہ وہ اس کی سوچ ہو یا وہ اس کا قول ہو یا وہ اس کا عمل، سب کچھ اس کے لاشعور کے تحت ہوتا ہے۔ کوئی انسان اپنے شعور کے کم اور اپنے لاشعور کے زیادہ تابع ہوتا ہے۔ جس انسان کا لاشعور منفی آئٹم کا ذخیرہ بن جائے، اس کے تمام اقوال و اعمال منفی نوعیت کے ہوں گے۔ اس کے برعکس، جس انسان کا لاشعور خود تعمیری کے نتیجے میں مثبت آئٹم کا ذخیرہ بنا ہوا ہو، اس کے تمام اقوال و اعمال صحت مند اور مثبت انداز کے حامل ہوں گے۔
حق کی تلاش یا حق کی یافت دونوں ہی مثبت شخصیت کا فعل ہیں۔ یہ دراصل مثبت شخصیت ہے جس کے اندر تلاشِ حق کا اعلیٰ جذبہ جاگتا ہے۔ اور یہ مثبت شخصیت ہی ہے جو اپنی سلامتِ فکر کی بنا پر آخر کار حق کی یافت کے مرحلے تک پہنچتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

حقیقت کی دریافت

Discovering the Truth
انسان ایک متلاشیٔ حق حیوان ہے(Man is a truth-seeking animal) ۔ میں نے خود اپنی ذات میں اس کا تجربہ کیا ہے۔ میرے اندر بچپن سے سچائی کی تلاش کا جذبہ کسی نہ کسی طرح موجود تھا۔ ۱۹۴۲ میں یہ جذبہ پوری شدت کے ساتھ ابھر آیا۔ اُس زمانے میں میرا حال یہ تھا کہ میں جنگلوں اور ویرانوں میں چلا جاتا اور تنہائی میں رو رو کر یہ کہتا کہ : ’’خداوند، تو کب آئے گا۔ میں کب تک تیرے آنے کا انتظار کروں‘‘۔
آخر کار ایک خدائی کلام میں مجھے اس کا جواب ملا۔ اس کے مطابق، خدا نے فرمایا ہے: کنتُ کنزاً مخفیّا فاردتُ ان اُعرف فخلقت الخلق (میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا، پھر میں نے چاہا کہ میں جانا جاؤں۔ پھر میں نے انسان کو پیدا کیا)۔ اس ارشاد کے مطابق انسان کا مقصد وجود یہ ہے وہ اپنے خالق کی معرفت حاصل کرے۔ اور اس معرفت کی قیمت میں وہ ابدی جنت میں جگہ پائے۔ موت کے پہلے کا دور حیات حصول معرفت کا دَور ہے اور موت کے بعد کا دَور حیات آرام اور راحت کی ابدی جنت کی دنیا میں زندگی گذارنے کا دَور۔
یہ معرفتِ رب کوئی سادہ چیز نہیں۔ یہ ایک مشکل ترین مہم ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ابتدائی دَور حیات میں انسان کے رہنے کے لیے خدا نے جو دنیا بنائی وہ مکمل طورپر شبہات سے بھری ہوئی تھی۔ اس کے ہرجُز میں ایک شبہہ کا عنصر (element of doubt) پایا جاتا ہے۔ اس دنیا میں کوئی بھی فکری یاعملی چیز ایسی نہیں جو شبہہ سے خالی ہو۔ موت سے پہلے کے اِس دَورِ حیات میں انسان کا کام یہ ہے کہ وہ شبہات کے پردے کو پھاڑ کر حقیقت کو دیکھے، وہ شبہات کے باوجود کامل یقین کا درجہ حاصل کرے۔
دنیا میں جتنی بھی چیزیں ہیں ان سب پر شہات کا پردہ پڑا ہوا ہے۔ انسان پیدا ہوتے ہی اپنے آپ کو اَفکار کے ایک جنگل میں پاتا ہے۔زندگی کے بارے میں مختلف قسم کے فلسفے اس کو حیرانی کا تحفہ دیتے ہیں۔ یہاں درجنوں مذاہب ہیں اور ہر مذہب اپنے بارے میں سچا ہونے کا دعویٰ کررہا ہے۔ ہر انسان اپنے اندر جذبات و خواہشات کا ایک طوفان لیے ہوئے ہے جو خالص عقلی رویّہ اختیار کرنے میں مسلسل رکاوٹ بنتا ہے۔ اسی طرح ہر آدمی کا یہ حال ہے کہ وہ خاندانی اور سماجی بندھن میں پھنسا ہوا ہے۔ ہر آدمی مفادات کے خول میں جی رہا ہے۔ ہر آدمی کی عادتیں اور رجحانات اس کو اپنے ساتھ باندھے ہوئے ہیں۔ ہرآدمی مال و اولاد، اور رشتے داروں کے جال میں اس طرح پھنسا ہواہے کہ اس کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے کہ وہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔
ایسی حالت میں سچائی کی معرفت صرف اُس انسان کو حاصل ہوتی ہے جو اپنے اندر موضوعی طرزِ فکر (objective thinking) کی تشکیل کرسکے۔ وہ اپنے اندر یہ صلاحیت پیدا کرسکے کہ وہ شبہات کے پردے کو پھاڑ کر حق کو حق کے روپ میں دیکھے اور باطل کو باطل کے روپ میں دیکھے۔ وہ چیزوں کو ویسا ہی دیکھے جیسا کہ وہ ہیں۔
اسی کے ساتھ اس کے اندر وہ صلاحیت ہو جس کو انقلابی صلاحیت (revolutionary nature) کہا جاتا ہے۔ یعنی جب ایک بات سمجھ میں آجائے تو کسی بھی مصلحت کی پَروا کیے بغیر وہ کھُلے طورپر اس کو قبول کرلے۔ وہ اپنی زندگی کا رُخ بدل کر دریافت شدہ حقیقت کو اپنی زندگی کا نشانہ بنالے۔
شبہات کے اِس پَردے کو پھاڑنے کا ذریعہ صرف ایک ہے۔ اوروہ ہے خالق کے تخلیقی منصوبہ (creation plan) کو جاننا۔ یہ تخلیقی منصوبہ چیزوں کی اس طرح تَوجیہہ کر دیتا ہے کہ شبہات کے تمام پردے ہٹ جاتے ہیں اور حقیقت اسی طرح نمایاں ہوکر سامنے آجاتی ہے جس طرح کالے بادل چھٹنے کے بعد روشن سورج سامنے آجاتا ہے۔
خدا کا تخلیقی منصوبہ کیا ہے۔ اِس تخلیقی منصوبے کا کلیدی پہلو یہ ہے کہ انسان کو ہر قسم کی صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے اورپھر اس کو مکمل طورپر آزاد کردیا گیا ہے۔ اب انسان کا امتحان یہ ہے کہ وہ اپنی آزادی کو صرف صحیح طورپر استعمال کرے، وہ اپنی آزادی کا کبھی غلط استعمال (misuse) نہ کرے۔ اِسی استعمال کے اوپر انسان کے ابدی مستقبل کا فیصلہ ہونے والا ہے۔ آزادی کا صحیح استعمال کرنے والوں کے لیے جنت ہے اور آزادی کا غلط استعمال کرنے والوں کے لیے جہنم۔ اِس آزادی کا ایک پہلو یہ ہے کہ اس سے مسابقت اور چیلنج پیدا ہوتا ہے اور مسابقت اور چیلنج کے بغیر کوئی ترقی ممکن نہیں۔
فلسفے میں انسان اور خدا کی نسبت سے سب سے زیادہ قابلِ بحث سوال وہ رہا ہے جس کو بُرائی کا مسئلہ(problem of evil) کہا جاتا ہے۔ یعنی انسانی دنیا میں اتنی زیادہ مصیبت (suffering) کیوں ہے۔ خدا اگر مکمل خوبی ہے تو اس نے ایسی دنیا کیوں بنائی جہاں انسان طرح طرح کی مصیبتوں کا سامنا کرنے پر مجبور ہے۔
خدا کے تخلیقی نقشے کو سمجھنے کے بعد یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے۔ یہ تمام مصیبتیں کسی نہ کسی پہلو سے آزادی کے غلط استعمال کی قیمت ہیں۔ یہ قیمت بظاہر ایک بہت سخت قیمت ہے لیکن خدا کی طرف سے یہ خوش خبری ہے کہ موت کے بعد جب یوم الحساب ( Day of Judgement) آئے گا تو خدا کسی انسان کو اس کے صرف اُس عمل پر پکڑے گا جس میں یہ ثابت ہو کہ آدمی نے اپنی ملی ہوئی آزادی کا استعمال کیا تھا۔ اس کے سوا خالق کے تخلیقی نقشے کی بنا پر کسی کو جومصیبت پیش آئے گی اُس کے لیے ایسی تلافی (compensation) کا انتظام کردیا جائے گا کہ وہ بلا اشتباہ یہ سمجھ لے گا کہ اس کے ساتھ جو ہوا وہ عین انصاف کا تقاضا تھا۔ مزید یہ کہ یہ مصیبت ایک اعتبار سے شاک ٹریٹمنٹ ہے(Shock treatment) ہے۔ کیوں کہ وہ انسان کے لیے ذہنی ارتقاء کا ذریعہ بنتی ہے۔
سفرنگ کے مسئلے کو سمجھنے کے لیے یہ طریقہ کافی نہیں ہے کہ اپنے ذہنی قیاس کے تحت اس پر رائے قائم کرنے کی کوشش کی جائے۔ زیادہ بہتر طریقہ یہ ہے کہ اس کو تاریخ انسانی کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی جائے۔مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان کی ترقی کے لیے زیادہ بڑا عامل آرام نہیں ہے بلکہ مصیبت ہے۔ آرام میںانسان کی صلاحیتیں مفولج ہو کر رہ جاتی ہیں۔ اس کے برعکس، مصیبتوں میں جو انسان بنتے ہیں وہ زیادہ بڑی بڑی ترقیاں حاصل کرتے ہیں۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ:
It is not ease but effort, not facility but difficulty that makes men.
مغرب کے ترقی یافتہ سماجوں کا مطالعہ بتاتا ہے کہ وہاں ایک نئی ’’بیماری ‘‘ پیدا ہوئی ہے جس کو افلوئنزا(affluenza) کانام دیا گیا ہے۔ یہ خوش حال طبقے کی بیماری ہے۔ خوش حال گھرانوں میں ذہنی سورماؤں کے بجائے ذہنی بونے (intellectual dwarf) بن رہے ہیں۔ ان کا آئی کیو (IQ) بہت کم ہوتاہے۔ وہ کاہل ہوتے ہیں اور کام میں حصہ نہیں لے پاتے۔ آج بھی اور پچھلی تاریخ میں ایسا ہوا ہے کہ مصیبتوں میں پلنے والے لوگوں نے بڑے بڑے کام کئے ہیں، انڈیا میں تقریباً تمام بڑے لیڈروں نے مشکل حالات میں پرورش پائی۔ اسی طرح جتنے بڑے بڑے دولت مند لوگ ہیں وہ سب غریب گھرانوں میں پیدا ہوئے اور پھر محنت کرکے ترقی حاصل کی۔
انسانی تاریخ کے ہر دور میں ایسے مفکر پیدا ہوتے رہے جنھوں نے یہ کوشش کی کہ وہ آئیڈیل انسانی سماج بنائیں یا آئیڈیل ریاست قائم کرنے میں کامیاب ہوسکیں۔ ہر ایک اپنی تمام کوششوں کے باوجود صرف ایک غیر معیاری سماج بنا سکا۔
تاریخ کا یہ ظاہرہ بھی خالق کے تخلیقی منصوبے کو سامنے رکھنے سے پوری طرح سمجھ میں آجاتا ہے۔ خالق نے موجودہ دنیا اِس لیے نہیں بنائی کہ یہاں آئیڈیل سماج یا آئیڈیل ریاست قائم ہو۔ موجودہ دنیا کی محدودیت اور اس کے اندر مختلف قسم کے ڈس ایڈوانٹیج(disadvantage) کا ہونا حتمی طورپر اِس امر میں مانع ہے کہ یہاں کوئی آئیڈیل سماج یا آئیڈیل ریاست قائم ہوسکے۔
واپس اوپر جائیں

بھُلاوَہ کلچر

موجودہ زمانے میں جو ترقی یافتہ کلچر ساری دنیا میں رائج ہوا ہے اس کے مختلف نام دئے جاتے ہیں—ماڈرن کلچر، کنزیومر کلچر، مٹیریل کلچر، انٹرٹینمنٹ کلچر، سیکولر کلچر، ویسٹرن کلچرل وغیرہ۔ مگر زیادہ صحیح طورپر اس کا نام صرف ایک ہے اور وہ ہے بھلاوہ کلچر۔
اس کلچر نے موجودہ زمانے میں پہلی بار یہ کیا ہے کہ بہت بڑے پیمانے پر انسان کو بھلاوہ میں ڈال دیا ہے۔ آج کا انسان مختلف قسم کی نئی نئی چیزوں میں مشغول رہتا ہے۔ اس طرح اس کی زندگی میں وہ موقع ہی نہیں آتا کہ وہ حقیقتِ اعلیٰ کے بارے میں سوچ سکے۔
قدیم زمانے میں انسان کے پاس بہت سے ایسے لمحات ہوتے تھے جب کہ وہ مشغولیت سے خالی ہوتا تھا۔ ان خالی اوقات کو وہ معنویت کی تلاش میں گزارتا تھا۔ وہ اشیاء کی حقیقت پر غور کرتا تھا۔ وہ کوشش کرتا تھا کہ ظاہری دنیا کے پیچھے جو اعلیٰ حقیقت ہے اس کو سمجھ سکے۔ مگر موجودہ زمانے کی مصنوعی سرگرمیوں نے انسان کو اپنی طرف اتنا زیادہ کھینچ لیا ہے کہ کسی کے پاس بھی اب زیادہ با معنی سوالات پر غورکرنے کا وقت نہیں۔
انسانی زندگی کے بارے میں ایک سوال یہ ہے کہ مادی ضرورتوں کی تکمیل کس طرح کی جائے۔ پچھلے زمانے میں یہ سوال ایک سادہ سوال کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ زندگی کی ضرورت کو فراہم کیاجاسکے۔ مگر جدید کلچر نے اس مسئلے کو بہت زیادہ بڑھایا۔ پہلے یہ سوال تھا کہ زندگی کے لیے سہولتیں کس طرح حاصل کی جائیں۔ اس کے بعدآگے بڑھ کر یہ سوال توجہ کا اصل مرکز بن گیا کہ زندگی کے عیش (luxuries) کو کس طرح فراہم کیا جائے۔ مزید آگے بڑھ کر یہ سوال یہاں تک پہنچا کہ زندگی کو کس طرح زیادہ سے زیادہ پر لطف بنایا جائے۔ انسانی خواہشوں کو کس طرح زیادہ سے زیادہ پورا کیا جائے۔ یہاں پہنچ کر انسان نے اپنی پوری زندگی صرف راحت کے مادی سامانوں کی فراہمی میں لگادی۔ اس کے پاس اس کا وقت ہی نہ رہا کہ وہ زندگی کو زیادہ بامعنیٰ بنانے کے لیے سوچے یا وہ اس کے لیے کچھ کرے۔یہی وہ صورت حال ہے جس کی بنا پر ہم نے موجودہ کلچر کو بھلاوہ کلچر کہا ہے۔
انسانی زندگی کے دو پہلو ہیں۔ ایک ہے زندگی کی ضرورت، اور دوسرا ہے زندگی کا مقصد۔ موجودہ زمانے کی ترقیوں کا ایک بُرا پہلو یہ ہے کہ اس نے ضرورت کے سامان بہت زیادہ بڑھا دیے اور ان سامانوں کو بہت زیادہ خوش نما بنا دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب انسان کی ساری توجہ ضرورت کی چیزوں پر لگ گئی۔ ضرورت کی فہرست اتنی زیادہ لمبی ہوگئی جو کبھی ختم ہونے والی نہیں۔ ضرورت کے سامانوں کا حصول ہی انسان کے لیے سب کچھ بن گیا۔ پچھلے زمانے میں ضرورت کی تکمیل چند سادہ چیزوں سے ہوجاتی تھی، مگر اب اس کی فہرست اتنی زیادہ بڑھ گئی ہے کہ وہ کبھی ختم ہی نہیں ہوتی۔
سامانِ ضرورت نے اب ایک مستقل مذہب کی صورت اختیار کرلی ہے، جس کا نام کنزیومرازم ہے۔ اس کا سنگین انجام یہ ہوا ہے کہ اب کسی انسان کے پاس مقصدِ حیات کے سوال پر سوچنے کا وقت نہیں۔ اب اعلیٰ مقصد ایک نامانوس لفظ بن گیاہے۔ اِس صورت حال کو ایک لفظ میں اس طرح بیان کی جاسکتا ہے کہ جدید کنزیومرازم نے انسان کو حیوانی سطح پر جینے کے لیے مجبور کردیا ہے۔ انسانیت کی اعلیٰ سطح پر جینا، اب لوگوں کے لیے ایک غیر معروف لفظ کی حیثیت رکھتا ہے۔
اس صورت حال کی بھاری قیمت انسان کو یہ دینی پڑی ہے کہ اس کا ذہنی ارتقاء (intellectual development) رُک گیا ہے۔ آج تقریباً تمام انسانوں کا یہ حال ہو رہا ہے کہ ان سے اُن کے پروفیشنل موضوع پر بات کیجئے تو وہ اس میں خوب ماہر دکھائی دیں گے۔ لیکن اگر ان کے پروفیشنل موضوع کے علاوہ دوسرے انسانی موضوعات پر بات کیجئے تو ایسا محسوس ہوگا گویا کہ آپ ایک نادان انسان سے بات کررہے ہیں۔ جسمانی اعتبار سے بظاہر وہ پُر رونق دکھائی دیں گے لیکن ذہنی معیار کے اعتبار سے وہ ایک بَونا انسان معلوم ہوں گے۔
موجودہ کنزیومر کلچر کو اگر حیوانی کلچر کانام دیا جائے تو شاید وہ غلط نہ ہوگا۔ حیوانی کلچر کے اِس فروغ کا یہ سنگین نتیجہ برآمد ہوا ہے کہ موجودہ زمانے کے عورت اور مرد ایک قسم کے ذہنی بونے پن (intellectual dwarfism) کا شکار ہو کر رہ گیے ہیں۔
آج کے انسان کا حال یہ ہے کہ اس کو جسمانی غذا تو خوب مل رہی ہے، مگر دوسرے پہلو سے وہ ذہنی فاقہ (intellectual starvation) کا شکار ہو کر رہ گیا ہے۔ آج انسان کی پہلی ضرورت یہ ہے کہ اس کو ذہنی فاقے کے اِس بحران سے باہر نکالا جائے۔ اس کو شعوری اعتبار سے اِس قابل بنایا جائے کہ وہ زیادہ گہرے حقائق پر سوچ سکے۔ وہ زیادہ با معنیٰ موضوعات کو اپنی توجہ کا مرکز بنا سکے۔ وہ حیوان کی سطح سے بلند ہو کر انسان کی سطح پر جینے لگے۔
انسان کی ذہنی تاریخ کے دو دَور ہیں۔ ایک، کنزیومر کلچر کے فروغ سے پہلے، اور دوسرا، کنزیومر کلچر کے فروغ کے بعد۔ گہرائی کے ساتھ دیکھیے تو معلوم ہوگا کہ کنزیومر کلچر کے فروغ سے پہلے انسان نے علم اور ادب کے میدان میں بہت زیادہ ترقیاں حاصل کی تھیں۔ اس زمانے میں بہترین علمی اور ادبی کتابیں وجود میں آئیں۔ مگر کنزیومر کلچر کے فروغ کے بعد یہ ہوا کہ علم و ادب کی ترقی رُک گئی۔ بعد کے اِس دو رمیں مشکل ہی سے کسی ایسی کتاب کا نام لیا جاسکتا ہے جو علم و ادب کے اعتبار سے اعلیٰ معیار پر تیار کی گئی ہو۔
اس فرق کا معاملہ خود سائنس تک پہنچا ہے۔ کنزیومر کلچر کے فروغ سے پہلے نظری سائنس کو زبردست ترقی ہوئی تھی۔ سائنس کے شعبوں میں بڑے بڑے اہلِ دماع پیدا ہوئے، مگر کنزیومر کلچر کے فروغ کے بعد نظری سائنس کی ترقی تقریباً رُک گئی۔ اب اہلِ سائنس زیادہ تر اُن موضوعات پر کام کررہے ہیں جو آج کل کی اصطلاح میں مارکیٹ ایبل (marketable) آئٹم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پچھلے دَور میں سائنس، علمی تحقیق کا نام تھی۔ مگر اب سائنس زیادہ تر ایک قسم کی اقتصادی سرگرمی (commercial activity) بن کر رہ گئی ہے۔
اِس صورتِ حال کا یہ بھیانک نتیجہ ہوا ہے کہ علمی اور ذہنی ترقی کا سفر تقریباً رُک گیا ہے۔ ہر طرف خوش نما انسان چلتے پھرتے نظر آتے ہیں مگر حقیقی انسان تلاش کرنے کے باوجود کہیں نہیں ملتا۔ اِس صورتِ حال کو بدلنا نہایت ضروری ہے۔ ورنہ انسانی آبادی ایک نیے قسم کا جنگل بن کر رہ جائے گی، قدرتی جنگل اور تمدنی جنگل میں صرف یہ فرق ہوگا کہ قدرتی جنگ کے حیوان فطرت کے لباس میں چل پھر رہے ہوں گے، اور تمدّن کے جنگل میں خوش پوش حیوان چلتے پھرتے دکھائی دیں گے۔
نظریۂ ارتقاء کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان اور حیوان کا جسم بہت زیادہ ایک دوسرے سے مشابہ ہے۔ جسمانی افعال دونوں کے اندر یکساں قسم کے پائے جاتے ہیں۔ غذائی ہضم کا نظام جو ایک کے اندر ہے وہی دوسرے کے اندر بھی ہے۔ گویا کہ حیوان چار پاؤں سے چلنے والا انسان ہے، اور انسان دو پیروں سے چلنے والا حیوان۔
مگر نفسیات کا مطالعہ ایک مختلف تصویر پیش کرتا ہے۔ نفسیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان ساری کائنات میں ایک انتہائی استثنائی مخلوق کی حیثیت رکھتا ہے۔ انسان کی اس استثنائی حیثیت کا سبب صرف ایک ہے اور وہ انسان کا دماغ ہے۔ انسان کا دماغ انسان کو نہ صرف حیوانات سے بلکہ کائنات کی تمام چیزوں سے ممتاز طورپر مختلف بنا دیتا ہے۔ انسان کا دماغ انسان کی سب سے زیادہ قیمتی متاع ہے۔ یہ دماغ انسان کو ایک ایسی ممتاز حیثیت دے دیتا ہے جو وسیع کائنات میں کسی بھی دوسری چیز کو حاصل نہیں۔
کنزیومرازم کے کلچر نے انسان کے جسمانی حصے کو تو بہت کچھ دیا مگر اس کے ذہنی حصّے کو تقریباً معطّل کردیا۔ حالاں کہ یہ ذہنی حصّہ ہی انسان کا اصل وجود ہے۔ یہ ذہنی حصہ ہی انسان کو انسان بناتا ہے۔ ذہنی حصے کے بغیر انسان صرف حیوان ہے۔
اس کمی کو کو دور کرنے کے لیے ضرورت ہے کہ آج احیائِ انسانیت کی تحریک چلائی جائے۔ انسان کو دوبارہ اس کی فطرت کی طرف لوٹایا جائے۔ انسان کو دوبارہ انسان بنایا جائے۔ انسان کو اِس قابل بنایا جائے کہ وہ دوبارہ اپنے ذہنی امکانات کو بروئے کار لائے۔ وہ ذہنی ارتقاء کے راستے پر دوبارہ سرگرمِ سفر ہوجائے۔
واپس اوپر جائیں

یہ تضاد کیوں

شیلے(Percy Bysshe Shelley) ایک انگلش شاعر ہے۔ وہ ۱۷۹۲ میں پیدا ہوا۔ اور ۱۸۲۲ میں اس کی وفات ہوئی۔ اس نے ایک بار کہا تھا کہ ہمارے سب سے زیادہ شیریں نغمے وہ ہیں جو سب سے زیادہ غم ناک نغمے ہیں:
Our Sweetest songs are those that are saddest songs.
یہ ایک عام تجربے کی بات ہے ۔ ہر عورت اور مرد کا یہ حال ہے کہ اس کو دردناک کہانیاں یا غم انگیز اشعار زیادہ پسند آتے ہیں۔ اکثر مقبول ناول وہ ہیں جو طَربیہ نہیں ہیں بلکہ المیہ ہیں۔ اسی طرح اکثر ایسا ہوتا ہے کہ وہ گیت کار زیادہ مقبول ہوتے ہیں جو پُر سوز لہجے میں گانے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ ایسا کیوں ہے۔ کیا وجہ ہے کہ پُر سوز اشعاریا پُر سوز کہانیاں انسان کے دل کے تاروں کو چھیڑنے میں زیادہ کامیاب ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہر انسان عملاً محرومی یا عدم یافت کی نفسیات میں جیتا ہے۔ ایسی حالت میں خوشی کی بات اس کو غیر واقعی معلوم ہوتی ہے۔اس کے مقابلے میں غم کی بات اس کو زیادہ مبنی بَر واقعہ نظر آتی ہیں۔
زیادہ گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیجئے تو معلوم ہوگا کہ انسان ایک لذت پسند حیوان ہے:
Man is a pleasure-seeker animal.
ناقابلِ پیمائش حد تک وسیع کائنات کے اندر انسان ایک استثنائی مخلوق ہے۔ اِس عالم میں انسان ایک واحد مخلوق ہے جو احساس لذّت کی صفت رکھتا ہے۔ یہ انسان کی انوکھی صفت ہے کہ وہ مختلف قسم کی لذّتوں کا احساس رکھتا ہے اور اس سے لطف اندوز ہوسکتا ہے۔ وسیع کائنات میں بے شمار مخلوقات ہیں مگر لذت سے لطف اندوز ہونے کی صفت استثنائی طورپر صرف انسان کے اندر پائی جاتی ہے۔
انسان کے لیے سوچنا بھی لذت ہے، دیکھنا بھی لذّت ہے، سننا بھی لذت ہے، بولنا بھی لذّت ہے، کھانا اور پینا بھی لذت ہے، سونگھنا بھی لذت ہے اور چھونا بھی لذت ہے، حتی کہ ہری گھاس کا لان ہواور اس پرآپ ننگے پاؤں چلیں تو اِس لمس میں بھی آپ کو بے پناہ لذت محسوس ہوگی۔
مگر یہاں ایک عجیب تضاد پایا جاتا ہے۔ انسان کے اندر لذت کااحساس تو انتہا درجے میں موجود ہے مگر لذت سے لطف اندوز ہونا اس دنیا میں اس کے لیے ممکن نہیں۔ میں ایک بار کشمیر گیا، وہاں پہل گام کے علاقے میں ایک پہاڑی دریا ہے جو پہاڑوں کے اوپر برف پگھلنے سے جاری ہونے والے چشموں کے ذریعہ سے بنتا ہے۔اس کا پانی انتہائی خالص پانی ہے۔ جب میں پہل گام پہنچا اور وہاں دریا کے صاف و شفاف پانی کو دیکھا تو مجھے خواہش ہوئی کہ میںاس کا پانی پیوں۔ میں نے بہتے ہوئے دریا سے ایک گلاس پانی لے کر پیا تو وہ مجھے بہت زیادہ اچھا لگا، تمام مشروبات سے زیادہ اچھا۔ میں نے ایک گلاس کے بعد دوسرا گلاس پیا، یہاں تک کہ میں چھ گلاس پانی پی گیا۔
چھٹے گلاس کے بعد بھی میرا اشتیاق باقی تھا، مگر میںمزید پانی نہ پی سکا۔ اب میرے سر میں سخت درد شروع ہوگیا ۔ درد اتنا شدید تھا کہ مجھے فوراً وہاں سے واپس ہونا پڑا۔ میں واپس ہوکر سری نگر پہنچا۔ سری نگر میں ایک کشمیری تاجر کے یہاں میرے شام کے کھانے کا انتظام تھا۔ کئی اور لوگ اِس موقع پر بلائے گیے تھے۔ میں وہاں پہنچا تو میرے سر میں اتنا شدید درد ہو رہا تھا کہ میں کھانے میں شریک نہ ہوسکا۔ بلکہ ایک اور کمرے میں جاکر لیٹ گیا۔
یہی حال دنیا کی تمام لذتوں کا ہے۔ انسان دولت کماتا ہے۔ اقتدار حاصل کرتا ہے۔ اپنی پسند کی شادی کرتا ہے۔ اپنے لیے شان دار گھر بناتا ہے۔ عیش کے تمام سامان اکھٹا کرتا ہے۔ مگر جب وہ یہ سب کچھ کر چکا ہوتا ہے تو اس کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے اور لذتوں کے درمیان ایک حتمی رکاوٹ حائل ہے۔ کسی بھی لذت سے وہ اپنی خواہش کے مطابق لطف اندوز نہیں ہوسکتا۔ لذت کے تمام سامان بھی اس کو خوشی اور سکون دینے میں ناکام رہتے ہیں۔
لذتوں کے بارے میں انسان کی خواہش لامحدود ہے۔ مگر لذتوں کو استعمال کرنے کے لیے وہ خود ایک محدودصلاحیت رکھنے والا انسان ہے۔ انسان کی یہی محدودیت ہر جگہ اس کے اور سامانِ لذت کے درمیان حائل ہوجاتی ہے۔ سب کچھ پانے کے بعد بھی وہ بدستور احساسِ محرومی میں مبتلا رہتاہے۔ انسان کی جسمانی کمزوری، جوانی کا زوال، بڈھاپا، بیماری، حادثات اور آخر میںموت، مسلسل طورپر اس کی خواہشوں کی نفی کرتے رہتے ہیں۔ لذت کا سامان حاصل کرلینے کے باوجود یہ ہوتاہے کہ جب وہ اس کو استعمال کرنا چاہتا ہے تو خواہش کی تکمیل سے پہلے ہی اس کی طاقت کی حد آجاتی ہے۔ وہ ایک ختم شدہ طاقت(spent force) کی مانند بن کر رہا جاتا ہے۔
اس تضاد کو لے کر مزید مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ تضاد در اصل تضاد نہیں ہے بلکہ وہ ترتیب کے فرق کا نتیجہ ہے۔ وہ فرق یہ ہے کہ فطرت کے نظام کے تحت، انسان کے لیے یہ مقدر کیاگیا ہے کہ وہ موت سے قبل کے دَور میں اپنی مطلوب لذتوں کا صرف تعارف حاصل کرے اور موت کے بعد کے دَور میں ان لذتوں کو حقیقی طورپر اور مکمل طورپر حاصل کرے۔
یہ ترتیب اتفاقی نہیں ہے، وہ خود فطرت کا حصہ ہے، وہ فطرت کے پورے نظام میں پائی جاتی ہے۔ اِس دنیا میں انسان کو جو کامیابی بھی ملتی ہے وہ اسی ترتیب کے اصول کے تحت ملتی ہے۔ اس دنیا کی کوئی بھی کامیابی ترتیب کے اس اصول سے مستثنیٰ نہیں۔
زراعت میں پہلے بونا ہوتا ہے اس کے بعد کاٹنا۔ باغبانی میںپہلے پَودا اُگانا ہوتا ہے اور اس کے بعد اس کا پھل حاصل کرنا۔ لوہے کے ساتھ پہلے پگھلانا ہوتا ہے اور اس کے بعد اس کو اسٹیل بنانا۔ غرض اس دنیا میں جتنی بھی چیزیں ہیں ان میں سے ہرایک کے ساتھ یہی ترتیب اور تدریج کا معاملہ ہوتا ہے۔ ہر چیز پہلے اپنے ابتدائی دَور سے گذرتی ہے اور پھر وہ اپنے انتہائی مرحلے تک پہنچتی ہے۔ فطرت کے اِس اصول میں کسی بھی چیزکا کوئی استثنا نہیں۔
یہی معاملہ انسان کا ہے۔ انسان کو لذت کا لامحدود احساس دیا گیا ہے مگر لذتوں سے لامحدود طور پر تمتُّع کرنے کا سامان موت کے بعد آنے والی اگلی دنیا میں رکھ دیا گیا ہے۔ موجودہ دنیا میں آدمی اپنی لذت طلبی کی صلاحیت کو دریافت کرتا ہے اور اگلی دنیا میں وہ اپنی لذت طلبی کے مطابق، لذت کے تمام سامانوں کو حاصل کرے گا۔ موت سے پہلے کے مرحلۂ حیات میں لذت کا احساس، اور موت کے بعد کے مرحلۂ حیات میں لذت سے تمتع۔
خالقِ کائنات نے اپنے تخلیقی نقشے کے مطابق، ایسا کیا ہے کہ موجودہ دنیا میں وہ انسان کو ممکن لذتوں کاابتدائی تعارف کراتا ہے۔ اس طرح وہ انسان کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ اگر تم اِن لذتوں سے ابدی طورپر اور کامل طورپر متمتّع ہونا چاہتے ہو تو اپنے اندراس کا استحقاق پیدا کرو۔
یہ استحقاق کیا ہے۔ یہ استحقاق، ایک لفظ میں یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو پاکیزہ روح (purified soul) بنائے ۔وہ اپنے آپ کو ہر قسم کے منفی احساسات سے پاک کرے۔ وہ اپنے آپ کو لالچ، خود غرضی، حسد، بددیانتی، جھوٹ، غصّہ، انتقام، تشدّد اور نفرت جیسے تمام غیر انسانی جذبات کا شکار ہونے سے بچائے۔ وہ اپنے اندر وہ اعلیٰ انسانی شخصیت پیدا کرے جو مکمل طورپر مثبت شخصیت ہو۔ جو اپنے اعلیٰ اوصاف کے اعتبار سے اس قابل ہو کہ وہ خدا کے پڑوس میں رہ سکے۔ جو شیطانی انسان سے اوپر اٹھ کر ملکوتی انسان (divine personality) بن جائے۔
انسان کی زندگی دو مرحلوں میں تقسیم ہے—موت سے پہلے ، اور موت کے بعد۔ اس مرحلۂ حیات کا نسبتاً مختصر حصّہ موت سے پہلے کے دو رمیں رکھا گیا ہے۔ اور اس کا زیادہ طویل عرصہ موت کے بعد کے دَور میں۔ انسان کی کہانی کو اگر صرف موت سے پہلے کے مرحلۂ حیات کی نسبت سے دیکھا جائے تو وہ ایک المیہ(tragedy) نظر آئے گی۔ لیکن اگر انسان کی کہانی کو موت کے بعد کے مرحلۂ حیات کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو وہ مکمل طورپر ایک (comedy) نظر آنے لگے گی۔
فطرت کے اس تخلیقی نقشہ (creation plan) کے مطابق، انسان ایک انتہائی نازک مقام پر کھڑا ہوا ہے۔ وہ ایک ایسے مقام پر ہے جہاں اس کو دو ممکن انتخابات میںسے ایک کا انتخاب کرنا ہے— موجودہ دنیا کے مواقع کو فطرت کے نقشے کے مطابق استعمال کرنا اور پھر ابدی لذتوں میں جینے کا مستحق بن جانا۔ یا موجودہ دنیا میں غفلت کی زندگی گذارنا، اوربعد کے دورِ حیات میں ابدی طورپر لذتوں سے محروم ہوجانا۔
واپس اوپر جائیں

کائنات میں انسان کا مقام

انسان اور انسان کے درمیان تعلق کی نوعیت کیا ہے اس کو مصلحین (reformers) اور مفکرین نے درست طور پر دریافت کیا۔ یہ تعلق مختصر طورپر یہ تھا— ہر انسان آزاد ہے، اس وقت تک جب تک کہ ایک انسان کی آزادی دوسرے انسان کی آزادی میں خلل ڈالنے والی نہ ہو۔ اس نظریے کو ایک کہانی میں اس طرح بیان کیا گیاہے۔
کہا جاتا ہے کہ امریکا جب یورپ کے سیاسی قبضے سے آزاد ہوا، اس وقت ایک امریکی شہری اپنے گھر سے باہر نکلا۔ وہ اپنی آزادی کا جشن منانا چاہتا تھا۔ وہ ایک سڑک پر اپنے دونوں ہاتھ ہلاتا ہوا بے فکری کے ساتھ چل رہا تھا۔ اِس اثنا میں اس کا ایک ہاتھ دوسرے مسافر کی ناک سے ٹکرا گیا۔مسافر کو غصہ آگیا۔ اس نے کہا کہ یہ کیا بیہودگی ہے۔ تم نے کیوں اپنے ہاتھ سے میری ناک پر مارا۔ امریکی شہری نے جواب دیا کہ آج امریکا آزاد ہے۔ اب میں آزاد ہوں کہ میں جو چاہوں کروں۔ مسافر نے کہا کہ میرے بھائی، تمہاری آزادی وہاں ختم ہوجاتی ہے جہاں سے میری ناک شروع ہوتی ہے:
My brother, your freedom ends where my nose begins.
یہ قصہ انسان اور انسان کے درمیان تعلق کے اصول کو درست طورپر بیان کرتا ہے۔ مگر جہاں تک انسان اور خدا کے درمیان تعلق کی بات ہے اس کو انسان درست طورپر دریافت نہ کرسکا۔ اس طرح اس معاملے میںانسان کی دریافت صرف پچاس فیصد کے بقدر تھی۔
تاہم یہ کوئی مشکل بات نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان اور انسان کے درمیان تعلق کا اصول ہی یہ بتا رہا ہے کہ انسان اور خدا کے درمیان درست تعلق کا اصول کیا ہے۔ مذکورہ اصول کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ اس تعلق کا اصول مختصر طورپر یہ ہے—انسان کی آزادی اس حد پر ختم ہوجاتی ہے جہاں سے خدا کی حد شروع ہوتی ہے:
Man's freedom ends where God's domain begins.
اس دنیا میں انسان کو جو چیزیں ملی ہیں وہ سب کا سب خدا کا عطیہ ہیں۔ تمام چیزیں خدا کے دینے سے انسان کو ملی ہیں۔ ٹھیک یہی معاملہ آزادی کا بھی ہے۔ اس دنیا میں انسان کو جو آزادی ملی ہوئی ہے وہ مکمل طورپر خدا کا عطیہ ہے۔ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ ہر عطیہ اپنے ساتھ ذمّے داری بھی لاتا ہے۔ اس عام اصول کے تحت، انسان کو ملی ہوئی آزادی بھی ایک لازمی ذمے داری کے ساتھ بندھی ہوئی ہے۔ وہ ذمے داری یہ ہے کہ—انسان اپنی آزادی کا صرف صحیح استعمال کرے، وہ کبھی اس آزادی کا غلط استعمال نہ کرے۔
آزادی کا غلط استعمال یہ ہے کہ آدمی اِس آزادی کو اپنا حق سمجھ لے۔ وہ یہ یقین کرلے کہ میںاس آزادی کا مالک ہوں۔ میں جس طرح چاہوں اِس آزادی کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کروں۔ اپنی آزادی کو استعمال کرنے کے بارے میں مجھے کسی اور سے پوچھنے کی ضرورت نہیں۔
اس کے مقابلے میں آزادی کا صحیح استعمال یہ ہے کہ آدمی یہ جاننے کی کوشش کرے کہ اس کو جو آزادی حاصل ہے، وہ اس کو کسی کے دینے سے ملی ہے۔ اور پھر یہ معلوم کرے کہ جو آزادی کا دینے والا ہے اس کی منشا اس آزادی سے کیا ہے، اور اس کی منشا کے مطابق، مجھے اپنی آزادی کو کس طرح استعمال کرنا چاہے۔ یہی وہ دریافت ہے جو کسی آدمی کے لیے اپنی آزادی کو استعمال کرنے کا جواز فراہم کرتی ہے۔
مطالعہ بتا تا ہے کہ آزادی کا صحیح استعمال اور غلط استعمال کوئی پُر اسرار چیز نہیں۔ کوئی بھی شخص اگر سنجیدہ ہے تو وہ یقینی طورپر اس کو دریافت کرسکتا ہے۔ کسی بھی حقیقت کو دریافت کرنے کے لیے سنجیدگی ضروری ہے۔ اس طرح آزادی کے اِس قانون کو دریافت کرنے کے لیے بھی سنجیدگی لازمی شرط کی حیثیت رکھتی ہے۔
جو آدمی اِس سوال پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرے تو وہ سب سے پہلے اس دریافت تک پہنچے گا کہ ہر عورت اور مرد کے اندر پیدائشی طورپر صحیح اور غلط کی ایک کسوٹی رکھی ہوئی ہے۔ ہر آدمی خود اپنے فطری شعور کے تحت یہ جان سکتا ہے کہ کون سا رویّہ صحیح ہے اور کون سار ویّہ غلط۔ فطرت کی یہ کسوٹی وہی ہے جس کو ضمیر (conscience) کہا جاتا ہے۔ اِسی کا دوسرا نام کامن سنس (common sense) بھی ہے۔
اس طرح آدمی خود اپنی فطرت کی آواز کے تحت، یہ جان سکتا ہے کہ وہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔ ہر آدمی کی فطرت گویا اس کے لیے ایک گائڈ کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہر آدمی کے اندرایک متنبّہ کرنے والا عنصر (warner) موجود ہے۔ تجربہ بتاتا ہے کہ یہ عنصر کبھی غافل نہیںہوتا۔ وہ کبھی اپنی ڈیوٹی کی بجا آوری میں کوتاہی نہیں کرتا۔
اس سلسلے میں پہلی بات جو فطرت کے اس نظام کے تحت معلوم ہوتی ہے وہ یہ کہ انسان کے اندر پیدائشی طورپر ایک طاقت ور جذبہ موجود ہے۔ یہ اعتراف (acknowledgement) کا جذبہ ہے۔ ہر عورت اور مرد ذاتی طورپر اس کا تجربہ کرتے ہیں۔ ہر آدمی اپنے ضمیر یا کامن سنس کے ذریعے یہ جانتا ہے کہ جب بھی ایک شخص دوسرے شخص کے ساتھ کوئی اچھا سلوک کرے تو دوسرے شخص کو چاہیے کہ وہ بھر پور طورپر اس کا اعتراف کرے۔ انسان کا داخلی گائڈ اعتراف کو ایک اعلیٰ اخلاقی قدر سمجھتا ہے۔ انسانی فطرت کے مطابق، اعتراف مسلّمہ طورپر شرافت کا اعلیٰ وصف ہے۔ اور بے اعترافی پستی اور ذلت کی پہچان ہے۔ اعتراف کرنے والا اپنی حیثیتِ انسانی کو برقرار رہتا ہے، اور اعتراف نہ کرنے والا اپنے آپ کو انسانی درجے سے نیچے گرالیتا ہے۔
ضمیر یا کامن سنس کا یہ فیصلہ خالق کے معاملے میں بھی یکساں طورپر در ست ہے۔ ہر انسان کو چاہیے کہ وہ خود اپنی فطرت کی آواز کے تحت اپنے خالق کا اعتراف کرے ۔ وہ اپنے خالق کے احسانات کو مانے۔ اس کے خالق نے اس کو جو نعمتیں عطا کی ہیں، ان کو اپنے دل کی گہرائی کے ساتھ محسوس کرے اور زبان سے کھلے طورپر اس کا اعلان کرے۔ خالق کا اعتراف فطرتِ انسانی کے مطابق ہے، اور خالق کا عدم اعتراف فطرتِ انسانی سے انحراف کی حیثیت رکھتا ہے۔
اسی طرح ہر عورت اور مرد کا تجربہ ہے کہ اس کا ضمیر ایک اخلاقی کسوٹی ہے۔ جو ہر موقعے پر اس کو آگاہ کرتا رہتا ہے۔ یہ ضمیر جھوٹ بولنے پر اس کو ملامت کرتا ہے اور سچ بولنے پر اس کے لیے اطمینان کا باعث بنتا ہے۔ یہ ضمیر ناانصافی کو بُرا سمجھتا ہے، اور انصاف کو ہمیشہ اچھا بتاتا ہے۔ یہ ضمیر بد دیانتی (dishonesty) پر اپنی بے زاری ظاہر کرتا ہے اور دیانت داری پر اپنے اطمینان کا اظہار کرتا ہے۔ یہ ضمیر تشدد کو غیر انسانی چیز سمجھتا ہے اور امن کو ایک اعلیٰ انسانی اصول کا درجہ دیتا ہے۔ یہ ضمیر نفرت کو پست کرداری کی حیثیت دیتا ہے، اور محبت کو اعلیٰ انسانی قدر کا درجہ عطا کرتا ہے۔ یہ ضمیر غصّے کو رد کردیتا ہے، اور معافی پر اپنی پسندیدگی کا سرٹفکٹ عطا کرتا ہے، وغیرہ۔
اسی طرح انسان جب اپنے باہر کی دنیا کو دیکھتا ہے تو وہ پاتا ہے کہ اس کے علاوہ تمام مخلوقات سختی کے ساتھ اپنے خالق کے قانون میں بندھی ہوئی ہے۔ زمین سے لے کر وسیع خلا تک، ہر چیز انتہائی ڈسپلن کے ساتھ اپنے مُفوّضہ عمل کو انجام دیتی ہے۔ کوئی چیز، خواہ وہ چھوٹی ہو یا بڑی، اِس ڈسپلن سے انحراف نہیں کرتی۔ زمین کے جمادات، نباتات اور حیوانات سے لے کر خلا کے ستاروں اور سیّاروں تک ہر چیز مکمل طورپر اِس آفاقی ڈسپلن میںبندھی ہوئی ہے۔
یہ ڈسپلن خالق کا قائم کیا ہوا ہے۔ یہی ڈسپلن انسان سے بھی مطلوب ہے۔ انسان کو بقیہ کائنات کی طرح اس کائناتی ڈسپلن کا حصہ بن جانا ہے، صرف اِس فرق کے ساتھ کہ کائنات کی بقیہ چیزیں مجبورانہ طورپر اِس عالمی ڈسپلن میں بندھی ہوئی ہیں جب کہ انسان کو اختیارانہ طورپر اپنے آپ کو اس ڈسپلن میںشامل کرلینا ہے۔
مثلاً شمسی نظام کے تمام سیّارے (planets) سورج کے گرد گھوم رہے ہیں۔ اسی طرح انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ خالق کو اپنا مرکز ومحور بنا کر اس کے گرد اپنی زندگی کی تشکیل کرے۔ اِس دنیا کی کوئی بھی چیز ٹھہری ہوئی نہیں ہے، بلکہ یہاں کی چیز مسلسل طورپر حرکت میں ہے۔ پوری کائنات ایک عظیم کارخانے کی مانند حرکت وعمل میں مصروف ہے، مگر ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں نہ شور ہے اور نہ دھواں۔ یہاں کسی بھی قسم کی کوئی کثافت نظر نہیں آتی۔ اسی طرح انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی سرگرمیوں کا نقشہ اس طرح بنائے کہ اس کی سرگرمیاں کسی بھی قسم کی کثافت(pollution) کا سبب نہ بنیں۔ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کی ہر چیز نفع رسانی کے اصول پر قائم ہے۔ روشن سورج سے لے کر بہتے ہوئے دریا تک، اور سر سبز درختوں سے لے کر ہواؤں کے جھونکوں تک، اور پہاڑوں سے لے کر کیڑے مکوڑوں تک، ہر چیز کوئی مفید عمل انجام دے رہی ہے۔ اس وسیع کائنات کا ہر جُز یک طرفہ طور پر دینے والا ہے نہ کہ لینے والا۔ اسی طرح انسان کو چاہیے کہ وہ اس دنیا میں اپنی زندگی کا نقشہ اس طرح بنائے کہ وہ دوسروں کے لیے نفع بخش بن جائے۔ ہرانسان سے دوسرے انسان کو فائدہ پہنچ رہا ہو۔
اسی طرح مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان ہمیشہ انجام کو سوچ کر اپنے عمل کا نقشہ بناتا ہے۔ انسان کی سوچ ایک نتیجہ رُخی (result-oriented) سوچ ہے۔ انسان اسی عمل کو پسند کرتا ہے جس کا کوئی مثبت نتیجہ نکلے۔ انسان کی فطرت اِس سے اِبا کرتی ہے کہ وہ کوئی ایسا کام کرے جس کا کوئی نتیجہ نکلنے والا نہ ہو۔
اِس انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ انسان وسیع تر معنوں میںاِس اصول کے مطابق اپنی زندگی کا نقشہ بنائے۔ جس طرح وہ موت سے پہلے کے عرصۂ حیات میں اپنے عمل کی منصوبہ بندی نتیجے کو سامنے رکھ کر کرتا ہے، اسی طرح وہ موت کے بعد کے عرصۂ حیات کے لیے بھی نتیجے کو معیار بنائے۔ وہ قبل از موت اپنی زندگی کی سرگرمیوں کو اس طرح منظم کرے جو بعد از موت عرصۂ حیات میں اس کے لیے مفید ثابت ہونے والا ہو۔
جیسا کہ معلوم ہے، ہماری دنیا کا نظام آج اور کَل یا حال اور مستقبل میں بَٹا ہوا ہے۔ مگر انسان کے سوا اِس دنیا میں جو مخلوقات ہیں وہ سب کی سب آج میں عمل کرتی ہیں۔ آج یا حال کے سوا ان کے اندر زندگی کا کوئی تصور نہیں ۔ کَل (tomorrow) کا لفظ صرف انسان کی ڈکشنری میں پایا جاتا ہے۔ دوسری مخلوقات کی ڈکشنری کل کے لفظ سے خالی ہے۔
یہ فرق گویا فطرت کا ایک اشارہ ہے۔ اس فرق کی صورت میں فطرت انسان کو بتارہی ہے کہ تم صرف آج (today) پر قناعت نہ کرو بلکہ تمہیں کل (tomorrow) کو سامنے رکھ کر اپنی سرگرمیوں کا نقشہ بنانا ہے۔ دوسری مخلوقات کی کامیابی صرف یہ ہے کہ وہ اپنے آج کو پالیں۔ مگر انسان کی کامیابی یہ ہے وہ آج کے بعد اپنے کل میں بھی کامیاب رہے۔ وہ موت کے بعد آنے والی ابدی دنیا میں اپنے لیے بہتر مقام حاصل کرلے۔
واپس اوپر جائیں

جنت کا استحقاق

جنت بے حد عظیم نعمت ہے۔ وہ بے حد مہنگی قیمت پر کسی کو ملے گی۔ بہت تھوڑے خوش نصیب لوگ ہوں گے جو جنت کی لطیف دنیا میں بسائے جانے کے قابل ٹھہریں۔
جنت میں داخلے کا پہلا امتحان یہ ہے کہ آدمی معرفت کے درجے میں اپنے رب کو پائے۔ افکار و خیالات کے جنگل میں وہ سچائی کو دریافت کرے۔ وہ نہ دکھائی دینے والے واقعے کو دیکھے۔ وہ نہ محسوس ہونے والی چیز کو محسوس کرے۔ وہ ظاہری ہنگاموںسے گزر کر باطن کی دنیا کا مسافر بن جائے۔
اسی طرح جنت میں داخلے کی شرط یہ ہے کہ آدمی سرکشی کا اختیار رکھتے ہوئے اپنے آپ کوخدا کے آگے جھکادے۔ خود پرست بننے کے تمام محرکات کو نظر انداز کرتے ہوئے وہ سچا خداپرست بن جائے۔ کشش اور جاذبیت کے بے شمار مراکز سے منہہ موڑ کر وہ ہمہ تن خدا کی طرف متوجہ ہوجائے۔
اسی طرح جنت میں داخلہ صرف اس شخص کے لیے ممکن ہوگا جو منفی حالات کے درمیان ہمیشہ مثبت ذہن پر قائم رہے۔ جو اپنے سینے میں اٹھنے والے حسد اور گھمنڈ اور انتقام جیسے جذبات کو دفن کر کے یک طرفہ طور پر لوگوں کے لئے شفقت اور خیر خواہی کا پیکر بن جائے۔ جو ظلم اور بے انصافی کے مواقع کو پانے کے باوجود انہیں استعمال نہ کرے اور ہرحال میں اپنے آپ کو عدل و انصاف کا پابند بنالے۔
جنت ایک نفیس ترین خدائی کالونی ہے۔ اس نفیس کالونی میں صرف وہی روحیں داخل ہوں گی جو آخرت میں اس طرح پہنچیں کہ دنیا میں انھوں نے اپنے اوپر تطہیر کا عمل کر لیا تھا۔
موجودہ دنیا امتحان کی دنیا ہے۔ یہاں ہر آدمی کثیف شخصیت کے ساتھ پیدا کیا جاتا ہے۔ اب ہر آدمی کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنی ذات پر خود تطہیری کا ایک مسلسل عمل شروع کرے۔ یہاں تک کہ اس کی کثیف شخصیت پاک و صاف ہو کر لطیف شخصیت میں بدل جائے۔
جنتی انسان وہ انسان ہے جو کانٹوں کے درمیان پھول بن کر رہے ۔ جو اندھیروں کے درمیان روشنی کا مینار بن سکے۔ جو زلزلوں اور طوفانوں کے درمیان سکون کا راز پالے۔جو نفرتوں کے درمیان محبت کا ثبوت دے۔ جو لوگوں کی زیادتیوں کے باوجود یک طرفہ طور پر انھیں معاف کر دے۔ جو کھونے میں بھی پانے کا تجربہ کرے۔
جنتی انسان وہ ہے جو بظاہر خدا سے دور ہوتے ہوئے بھی خدا سے قریب ہوگیا ہو۔ جو سورج کی شعاعوں میں خدا کے نور کو دیکھے۔ جو ہواؤں کے جھونکے میںلمسِ ربانی کا تجربہ کرے۔ جو پہاڑوں کی بلندی میں خدا کی عظمت کا تعارف حاصل کرسکے۔ جو دریاؤں کی روانی میں خدا کی رحمت کا مشاہدہ کرے۔ جو مخلوقات کے آئینے میں خالق کا جلوہ دیکھنے لگے۔
خدا نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے یہ بتا دیا ہے کہ جنتی انسان کی صفات کیا ہوتی ہیں۔ جو لوگ دنیا کی زندگی میں اپنے اندر جنتی صفات پیدا کریں، وہ موت کے بعد جنت میں داخلے کے مستحق قرار پائیں گے۔
جنت میں داخلہ نہ کسی سفارش کی بنیاد پر ہوگا، نہ کسی کے ساتھ نسبت کی بنیاد پر اورنہ کسی پراسرار عملیات کی بنیاد پر۔ جنت میں داخلہ پوری طرح معلوم حقیقت پر مبنی ہے۔ اور وہ یہ کہ جو آدمی موجودہ دنیا میں اپنے قول و عمل کے اعتبار سے جنتی انسان بن کررہے گا، وہ آخرت کی جنت میں داخلہ پائے گا۔
قرآن کے مطابق، جنت اہل تزکیہ کے لئے ہے(طٰہٰ: 76 )۔ تزکیہ یہ ہے کہ آدمی غفلت کی زندگی کو ترک کرے اور شعور کی زندگی کو اپنائے۔ وہ اپنے آپ کو ان چیزوں سے بچائے جو حق سے روکنے والی ہیں۔ مصلحت کی رکاوٹ سامنے آئے تو اس کو نظر اندازکر دے۔ نفس کی خواہش ابھرے تو وہ اس کو کچل دے۔ ظلم اور گھمنڈ کی نفسیات جاگے تو وہ اس کو اپنے اندر دفن کردے۔
واپس اوپر جائیں

حج کا سانحہ

اِس سال حج کی ادائیگی کے موقعے پر۱۲ جنوری ۲۰۰۶ ء کو ایک دردناک حادثہ پیش آیا۔ رپورٹ کے مطابق، اِس سال تقریباً ۲۶ لاکھ مسلمان حج کی ادائیگی کے لیے مکہ پہنچے تھے۔ یہ لوگ ساٹھ ملکوں سے آئے ـتھے۔ اتنے بڑے مجمع میں اگر لوگ باشعور نہ ہوں تو ہمیشہ کوئی نہ کوئی ناخوشگوار صورتِ حال پیش آئے گی۔ چنانچہ جَمرات پر کنکری پھینکنے کی سنّت اداکرنے کے لیے لوگ بڑی تعداد میں وہاں جمع ہوگیے۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ لوگ ہجوم کرکے جمرات کی طرف آگے بڑھے۔ اِس اثنا میں ایک معمولی واقعے پر مجمع میں بھگدڑ مچ گئی، جس کے نتیجے میں 362 آدمی دب کر مر گیے اور ایک ہزار سے زائد عورت اور مرد زخمی ہوگیے۔
حج کے موقع پر اس طرح کا حادثہ تقریباً ہر سال پیش آتا ہے۔ ضرورت ہے کہ اس کا اصل سبب دریافت کیا جائے۔ اصل سبب کو دریافت کیے بغیر اِس صورت ِ حال کی اصلاح نہیںہوسکتی۔
میرا خیال ہے کہ اس طرح کے حادثات کا اصل سبب یہ ہے کہ لوگ حج کو مخصوص مراسم (rituals) کی ادائیگی کا ایک معاملہ سمجھتے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ حج کے کچھ ظاہری مراسم ہیں، اور ان کی ادائیگی ضروری ہے، لیکن اصل اہمیت روح (spirit) کی ہے، مراسم کی حیثیت اضافی ہے، اور روح کی حیثیت حقیقی۔ اسی ذہن کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ لوگ جب جمرات کے مقام پر پہنچتے ہیں تو وہ بھول جاتے ہیں کہ جمرات پر کنکریاں پھینکنے کا معاملہ رسمی رمی(symbolic stoning) کا معاملہ ہے، نہ کہ سچ مچ ہی شیطان کو پتھر مارنے کا معاملہ۔
جیسا کہ معلوم ہے، مِنیٰ کے مقام پَرجن جَمرات پر کنکری ماری جاتی ہے، وہ خود شیطان نہیں ہوتا، بلکہ وہ پتھر کی صورت میں شیطان کی صرف ایک مادّی علامت ہوتی ہے۔ جب حاجی کنکری پھینکتا ہے تو اس کی کنکری خود شیطان کو نہیں مارتی بلکہ وہ اس کے علامتی پتھر پر جاکر گرتی ہے۔ لیکن جذبات کے وفور میں لوگ اِس فرق کو بھول جاتے ہیں، اور رمی کے وقت اِس طرح جوش میں آجاتے ہیں جیسے کہ وہ خود شیطان پر سنگ باری کر رہے ہوں۔اگر ایسا ہوتا کہ شیطان مجسّم ہو کر ایک زندہ وجود کی صورت میں وہاں موجود ہوتا تو شیطان کو مارنے کے لیے یہ ضروری ہوتا کہ حاجی کی ہر کنکری شیطان کے جسمانی وجود پر جاکر گرے۔ لیکن علامتی طورپر مارنے کی بنا پراس کی حیثیت بدل جاتی ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ شیطان کو کنکری مارنا، مکمل طورپر ایک علامتی فعل ہے، نہ کہ حقیقی فعل۔ یہی وجہ ہے کہ شرعی مسئلے کے مطابق، حاجی کی کنکری کا جَمرہ پر گرنا ضروری نہیں۔ اِسی طرح حاجی اگر کمزور ہے اور مجمع میں گھس کر جَمرہ کے قریب پہنچنا اس کے لیے مشکل ہے تو وہ نیابۃً بھی کنکری مار سکتا ہے۔ یعنی وہ اپنی کنکری کسی دوسرے شخص کو دے دے اور وہ اس کی طرف سے اس کو جمرہ کی طرف پھینک دے۔
اگر لوگ شعوری طور پر اس بات کو جانیں کہ وہ زندہ شیطان کو کنکری نہیں ماررہے ہیں بلکہ وہ شیطان کے علامتی پـتھر پر، صرف علامتی طورپر کنکری پھینک رہے ہیں تو رمی کے واقعے میں جذبات کا وفور شامل نہ ہوگا، بلکہ رمی کا واقعہ ایک سادہ واقعہ بن جائے گا۔ رمی کے موقع پر حاجیوں کے اندر جوش کا پیدا ہونا، صرف اس لیے ہوتا ہے کہ وہ غیر شعوری طور پر یہ سمجھ لیتے ہیں کہ وہ خود شیطان کو پتھر ماررہے ہیں۔ اگر ان کے ذہن میں یہ بات موجود ہو کہ یہ صرف علامتی رمی (symbolic stoning) ہے تو یہ معاملہ جذباتی جوش و خروش کا معاملہ نہ بنے بلکہ صرف ایک سادہ کارروائی کے طورپر اس کی ادائیگی ہوجائے۔
ہر سال حج سے پہلے حج کی تعلیم وتربیت کے نام پر لوگوں کو حج کے طریقے بتائے جاتے ہیں۔ اور مختلف قسم کی دعاؤں کے الفاظ یاد کرائے جاتے ہیں۔یہ سلسلہ حاجیوں کی وطن سے روانگی کے وقت سے لے کر مکّہ پہنچنے تک، حتی کہ خود جہاز کے اندر جاری رہتا ہے۔ مگر یہ تمام تعلیم وتربیت حج کے ظاہری مراسم کوبتانے کے لیے ہوتی ہے ۔میرے علم کے مطابق، کوئی ایسا نہیں کرتا کہ وہ حج کی اصل اسپرٹ کو بتائے۔ اس کے نتیجے میں ہر حاجی کا ذہن یہ بن جاتا ہے کہ حج کی بجا آوری کچھ بے روح مراسم کی صحتِ ادائیگی کا نام ہے، اسپرٹ یا شعور کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ میرے تجربے کے مطابق، اِسی مخصوص مزاج نے سارے مسائل پیدا کیے ہیں۔
ایسے موقع پر اکثر لوگ سعودی حکومت کو ذمے دار ٹھہرا کر انتظامی اصلاح کی تجویزیں پیش کرتے ہیں۔ اِس قسم کی تجویزیں بے فائدہ ہیں۔ اصل ضرورت یہ ہے کہ حاجیوں کی ذہن سازی کی جائے۔ ان کی شعوری تربیت کی جائے۔ مثال کے طورپر رمی ٔ جمرات کے سلسلے میں انھیں بتایا جائے کہ تم خود شیطان پر ضرب نہیں لگارہے ہو بلکہ علامتی طورپر خود اپنے اندر یہ زندہ ارادہ پیدا کررہے ہو کہ تم شیطان کے وسوسوں کا اثر نہیں لوگے بلکہ شیطان کو اپنے سے دور بھگا کر خدا کے احکام کی پَیروی کروگے۔ یہی اِس مسئلے کا حقیقی حل ہے۔ (۱۷جنوری ۲۰۰۶)
واپس اوپر جائیں

کارٹون کا مسئلہ

شمالی یورپ کا ایک علاقہ ہے جس کو اسکینڈی نیویا کہتے ہیں۔ اِس علاقے میں چار ممالک واقع ہیں— سویڈن، ناروے، فِن لینڈ اور ڈنمارک(Denmark) ۔ یہاں کی آبادی میں تقریباً 2 لاکھ مسلمان ہیں۔ اسکینڈی نیویا یورپ کا ایک پُر امن خطّہ سمجھا جاتا رہا ہے۔ مگر پچھلے چند مہینوں سے وہ بَرعکس انداز میں، میڈیا میں نمایاں ہورہا ہے۔
ڈنمارک میں ڈینش(Danish) زبان لکھی اور بولی جاتی ہے۔ ایک ڈینش اخبار شیلاندس پوستین(Jyllands Posten) کے شمارہ ۳۰ ستمبر ۲۰۰۶ میں ایک کارٹون چھپا۔ کارٹون، جدید صحافت کا ایک لازمی حصہ ہے۔ کارٹون کا مقصد نہ تعریف ہے اورنہ توہین۔ کارٹون دراصل صحافت کا ایک تفنُّن آمیز جُز(Comic item) ہے۔ چنانچہ عام طور پر لوگ کارٹون کو دیکھ کر یا تو اس سے محظوظ ہوتے ہیں یا سادہ طورپر اس کو نظر انداز کردیتے ہیں۔
تاہم ڈنمارک کے اخبار کا مذکورہ کارٹون مسلمانو ںکے لیے سخت قابلِ اعتراض ثابت ہوا ۔ قصہ یہ تھا کہ اِس اخبار میں ایک مضمون کے تحت کچھ کارٹون شامل کیے گیے۔اِن میں پیغمبر اسلام ﷺکا خاکہ پیش کیا گیا تھا۔ مثلاً ایک کارٹون میں دکھایا گیا تھاکہ پیغمبر اسلام اپنے ہاتھ میں ایک چھری لیے ہوئے ہیں اور آپ کے سر پر ایک پگڑی ہے جس کے اوپر بم رکھا ہوا ہے۔
اِس کارٹون کی خبر جب عام ہوئی تو ہر جگہ کے مسلمان اُس کو دیکھ کر یا اس کو سُن کر مشتعل ہوگیے۔ ان کے نزدیک یہ کارٹون پیغمبر اسلام کی توہین کے ہم معنیٰ تھا۔ جو کہ مسلمانوں کے لیے ناقابلِ برداشت حد تک قابلِ اعتراض ہے۔
چنانچہ ساری دنیا میں مسلمانوں نے اس کے خلاف مظاہرے شروع کردیے۔ بڑے بڑے جلوس نکالے گیے۔ ڈنمارک کے سفارت خانوں میں آتش زنی اور توڑ پھوڑ ہوئی۔ اِن پُر شور مظاہروں میں کئی افراد مارے گیے اور بہت سے لوگ زخمی ہوئے۔ دنیا کے مختلف حصوں میں یہ مظاہرے اتنے بڑھے کہ حکومتوں کے لیے ان پر قابو پانا مشکل ہوگیا۔ اِس کے نتیجے میں جوناخوش گوار واقعات پیش آئے ان میں سے ایک واقعہ یہ تھا کہ کئی عرب ممالک نے ڈنمارک سے اپنے سفارتی تعلقات توڑ لیے اور اس سے اپنی تجارت منقطع کردی۔
ڈنمارک ،ڈیری صنعتوں کے لیے مشہور ہے۔ یہاں کی ڈیری صنعت کا تقریباً ۲۵ فیصد سامان عرب ممالک اور دیگر مسلم ممالک میں جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ڈنمارک کی کئی فیکٹریاں بند ہوگئیں اور بھاری تجارتی نقصان کی صورت میں ڈنمارک کو اس کی قیمت ادا کرنی پڑی۔اس کے نتیجے میں ڈنمارک کو روزانہ ایک ملین ڈالر کا نقصان ہونے لگا۔
اِس معاملے میں ڈنمارک اور دوسرے مغربی ملکوں کا موقف یہ ہے کہ مغربی تہذیب کے مطابق، آزادیٔ اظہار انسان کا ناقابلِ تنسیخ حق ہے، اور مذکورہ کا رٹون اِسی حق کا ایک استعمال تھا۔ اِس لیے ڈنمارک کے اخبار میں مذکورہ کارٹون کی اشاعت ان کے نزدیک کوئی قابلِ اعتراض چیز نہیں۔ ان کے خیال کے مطابق، مسلم جذبات کے لیے وہ ایک قابلِ اعتراض چیز ہوسکتی ہے لیکن ڈنمارک کے لوگوں کے نزدیک وہ صرف اپنی آزادی کا ایک استعمال تھا، اور مُلکی قانون کے مطابق، وہ آزادی کے اِس استعمال کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔
اجتماعی معاملات میں سوچنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک، یہ کہ آئیڈیل کیا ہے، اور دوسرے یہ کہ پریکٹکل طور پر کیا ممکن ہے اور کیا ممکن نہیں۔ اِس معاملے میں اہلِ ڈنمارک کا جواب آئیڈیل کے اعتبار سے بظاہر درست ہوسکتا ہے، لیکن پریکٹکل کے اعتبار سے دیکھیے تو وہ بالکل نادرست قرار پائے گا۔ آزادی کا استعمال ایک فرد اپنے کمرے میں کرے تو اُس سے کوئی اجتماعی مسئلہ پیدا نہیں ہوگا۔ لیکن جب وہ اپنی آزادی کا استعمال اجتماعی زندگی میں کرے تو یقینی طورپر مسائل پیدا ہوں گے۔ ایسی حالت میں فرد کو یہ سوچنا چاہیئے کہ کیا وہ اُن منفی نتائج کا تحمل کرسکتا ہے جو آزادی کے لامحدود استعمال کی صورت میںاس کے لیے پیدا ہوں گے۔
استعمالِ آزادی کے اِسی پہلو کو لے کر امریکا کے پروفیسر اسکنر(Skinner) نے کہا تھا کہ لامحدود آزادی کا تصور نہایت خطرناک ہے، ہم ایسی آزادی کا تحمّل نہیں کرسکتے:
We can't afford freedom.
ڈنمارک کے لوگ روایتی طورپر امن پسند لوگ ہیں، وہ مادّی خوش حالی میں یقین رکھتے ہیں، میں نہیں سمجھتا کہ ڈنمارک کے لوگ یہ نادانی کریں گے کہ وہ اِس حد تک نظریہ پرست بن جائیں گے کہ وہ اپنی آزادی کا لامحدوداستعمال کرتے رہیں ، خواہ اس کے نتیجے میں ان کے بین اقوامی تعلقات خراب ہوں، ان کی فیکٹریاں بند ہوجائیں۔ ان کو ناقابلِ تلافی حد تک تجارتی نقصان کا سامنا کرنا پڑے۔ یقینا اب وہ اِس معاملے میں اپنی پالیسی کو بدلیں گے۔ مگر فارسی شاعر کے مطابق، آدمی ایسا کام کیوں کرے جس کا نتیجہ شرمندگی ہو:کُجا کارے کند عاقل کہ باز آیدپشیمانی
اِس معاملے میں مسلمانوں کو بھی اسلامی تعلیم کے مطابق، احتسابِ خویش (introspection) سے کام لینا چاہیے۔ مسلمانوں کو بھی اِس معاملے میں حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے یہ سوچنا چاہیے کہ اِس طرح کے معاملے میں صحیح ردّ عمل کیا ہے اور نتیجہ خیز (result oriented) تدبیر کیا ہوسکتی ہے۔
اسلامی طرزفکر کے مطابق، سوچنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اس کو صرف ’’سازش‘‘ کی اصطلاح میں نہ سوچا جائے بلکہ زیادہ حقیقت پسندانہ انداز میں اس کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ مذکورہ کارٹونسٹ نے جس تصور کو اپنے خاکے میں پیش کیا وہ تصور اس کو کہاں سے ملا۔ اگر غیر جذباتی انداز میں سوچا جائے تو خود مسلمان بھی اس میں یکساں طور پر شریک نظر آئیں گے۔
مثلاً کارٹونسٹ نے اپنے کارٹون میں دکھایا تھا کہ پیغمبر اسلام اپنے ہاتھ میں ایک چھُری لیے ہوئے ہیں۔ بے لاگ انداز میں غور کیجئے تو کارٹونسٹ یہ کہہ سکتا ہے کہ مجھ کو یہ تصوّر مسلم شاعر ڈاکٹر محمد اقبال سے ملا۔ اقبال نے خود اپنے ایک شعر میں پیغمبر اسلام کے ماننے والوں کی تصویر اِن الفاظ میں پیش کی ہے: ہر مسلماں رگِ باطل کے لیے نشتر تھا۔ اقبال کے اِس مصرعے کا انگریزی ترجمہ مسٹر خوشونت سنگھ نے اِن الفاظ میں کیا ہے:
To every vein of falsehood, every muslim was a knife.
اسی طرح ڈنمارک کا کارٹونسٹ یہ کہہ سکتا ہے کہ پیغمبر اسلام کو ماننے والے خود یہ کررہے ہیں کہ اپنے جسم پر بم باندھ کر وہ اجتماعی مقامات پر جاتے ہیں اور دھماکہ کرکے وہاں بہت سے لوگوں کو ہلاک کردیتے ہیں۔ میں نے اپنے کارٹون میں صر ف یہ کیا تھا کہ بم کو جسم پر باندھنے کے بجائے اس کو سر کے اوپر رکھ دیا— ظاہر ہے کہ اس بات کا مسلمانوں کے پاس کوئی ایسا جواب نہ ہوگاجو مذکورہ کارٹونسٹ کو مطمئن کرسکے۔
اسلام کا ایک اہم اصول یہ بھی ہے کہ مسلمان ایسا کوئی کام نہ کریں جو دوسروں کو یہ کہنے کا موقع دے کہ ہم تو وہی کررہے ہیں جس کا نمونہ ہم کو تمہاری اپنی زندگی میں ملا تھا(ایں گناہے ست کہ در شہر شما نیز کنند) ۔ مسلمان اگر یہ چاہتے ہیں کہ کوئی شخص ان کی پر تشدد تصویر نہ بنائے تو خود ان کو بھی اپنے آپ کو پر تشدد اعمال سے بچاناہوگا۔ یہ ناممکن ہے کہ مسلمان ایک پر تشدد عمل کریں اور میڈیا میں جب اس کی خبر آئے تواس کے عنوان میں تشدد کے بجائے امن لکھا ہوا ہو۔
اسی طرح اسلام اور عقل دونوں کے اعتبار سے وہی عمل صحیح عمل ہے جو اپنے انجام کے اعتبار سے مثبت نتیجے کا حامل ہو۔ ایسا اقدام جو اپنے نتیجے کے اعتبار سے کاؤنٹر پروڈکٹیو(counter productive) ثابت ہو، وہ نہ اسلام کے اعتبار سے درست ہے اور نہ عقل کے اعتبار سے۔
اس اصول کی روشنی میں دیکھئے تو اقدام کا نتیجہ برعکس صورت میں برآمد ہوا ہے یعنی اسلام لوگوں کی نظر میں ایک ایسا مذہب بن گیا ہے جو آزادی کے خلاف ہے اور اپنے پیروؤں کو تشدد کی تعلیم دیتا ہے۔ حالانکہ یہ اسلام کی صحیح تصویر نہیں۔پیغمبر اسلام کے زمانے میں مدینہ میں ایک شخص تھا جس کا نام عبداللہ بن اُبی تھا۔ وہ اسلام، پیغمبر اسلام اور اہلِ بیتِ رسول کے خلاف سخت سازشوںکی بنا پر اس قابل ہوچکا تھا کہ اس کو قتل کردیا جائے مگر پیغمبر اسلام نے قصداً اس کو قتل نہیں کیا اور فرمایا کہ موجودہ حالات میں اس کا قتل اسلام کی بدنامی کا سبب بن جائے گا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ آج اس اصول کی اہمیت پہلے سے بھی زیادہ ہوچکی ہے۔ کیوں کہ پہلے بدنامی کی خبر صرف زبانی طورپر پھیل سکتی تھی مگر آج ایسی خبر پرنٹ میڈیا اور الکٹرانک میڈیا کے دور میں بجلی کی رفتار سے پھیلتی ہے۔
اس معاملے میں احتجاجات کا نتیجہ عملا صرف معکوس صورت میں برآمد ہوا ہے اس کی ایک مثال یہ ہے کہ 30 ستمبر 2005کو جب یہ کارٹون ڈنمارک کے اخبار میں چھپا تو بہت تھوڑے لوگوں نے اس کو دیکھا تھا۔ مگر اس کے خلاف مسلمانوں کے پرشور احتجاج کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ کارٹون انٹرنٹ پر آگیا۔ اور ساری دنیا میں کروڑوں لوگ اس توہین آمیز کارٹون کو انٹرنٹ پر دیکھنے لگے۔
اسلام کی تعلیمات میں سے ایک تعلیم وہ ہے جس کو اعراض (avoidance)کہا جاتا ہے۔ اعراض کا مطلب کسی ناپسندیدہ صورت حال میں ہَجرِ جمیل کا طریقہ اختیار کرنا ہے۔ یعنی اعلیٰ ظرفی کا وہی طریقہ جس کو تمثیل کی زبان میں اس طرح بیان کیاگیا ہے:
کتے بھونکتے رہتے ہیںاور ہاتھی چلتا رہتا ہے
اس معاملے میں پیغمبر اسلام کی زندگی میں ایک انوکھا نمونہ پایا جاتا ہے۔ ابن اسحاق نے ایک روایت میں بتایا ہے کہ قدیم مکہ میں عرب کے مخالفین، پیغمبر اسلام کو مذمَّم یعنی مذمت کیا ہوا (Condemned Person) کہتے تھے۔ جب کوئی شخص آپ کے سامنے آکر آپ کو مذمم کہتا تو آپ اس کا کوئی جواب نہ دیتے بلکہ سادہ طور پر یہ فرماتے کہ ان لوگوں کو دیکھو، یہ مجھ کو مذمم بتا کر مجھ کو برا بھلا کہتے ہیں۔ حالانکہ میرا نام تو محمد (قابلِ تعریف) ہے۔ یعنی ان کی بری باتیں اس شخص پر پڑیں گی جس کا نام مذمم ہو۔ وہ مجھ پر پڑنے والی نہیں۔ کیوں کہ میرا نام تو محمد ہے، مذمّم نہیں۔
موجودہ زمانے کا ایک مسلّمہ اصول یہ ہے کہ اگر آدمی امن کے دائرے میں رہے تو وہ اپنے کسی بھی نظریے کو بلا روک ٹوک پیش کرسکتا ہے۔ البتہ تشدد کا طریقہ اختیار کرتے ہی اس کی آزادی ختم ہوجاتی ہے۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنی ہر تحریک پر امن دائرے میں رہ کر چلا ئیں تاکہ کوئی شخص ان کے خلاف بولنے کا موقع نہ پاسکے، خواہ کارٹون کا معاملہ ہو یا کوئی اور معاملہ۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ سختی کے ساتھ اپنی جدوجہد کو پر امن طریق کار کا پابند رہتے ہوئے چلائیں۔
مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اس اہم اصول کو ہمیشہ اپنے ذہن میں رکھیں۔ وہ اپنی تحریکوں کو اس بین اقوامی اصول کے مطابق چلائیں۔ اس کے بعد ان کی تحریک زیادہ مؤثر ہوگی اور مزید یہ کہ اسلام اور مسلمان دونوںبدنام ہونے سے بھی بچ جائیں گے ۔ (۱۷ فروری ۲۰۰۶ )
واپس اوپر جائیں

اعراض کی ضرورت

جس طرح تصویر جدید صحافت کا ایک حصہ ہے، اسی طرح کارٹون بھی جدید صحافت کا ایک حصہ ہے۔ تصویر اور کارٹون دونوں کا مقصد ایک ہے—صحافت کو قارئین کے لیے دلچسپ بنانا۔ کارٹون کامقصد نہ کسی کی تعریف ہوتی ہے اور نہ کسی کی توہین۔ وہ اخبار کا صرف ایک تفنّن آمیز جُز (comic item) ہوتا ہے۔ سنجیدہ آدمی کا رٹون کو دیکھ کر یا اس سے محظوظ ہوگا یا وہ سادہ طورپر اس کو نظرانداز کردے گا۔
ڈنمارک کے ایک اخبار شیلاندس پوستین (Jyllands Posten) ۳۰ ستمبر ۲۰۰۵ میں ایک مضمون کے تحت، ایک کارٹون چھپا۔ اس کارٹون میں پیغمبر اسلام ﷺ کا ایک خاکہ بنایا گیا تھا،اور آپ کے سر پر ایک پگڑی دکھائی گئی تھی جس کی بناوٹ بم کی مانند تھی۔ اس کارٹون کی خبر جب مسلم دنیا تک پہنچی تو تمام مسلمان اس پر برہم ہو گئے۔ کچھ لوگوں نے توڑ پھوڑ شروع کردی۔ کچھ لوگوں نے تقریر اور تحریر میں اس کے خلاف احتجاج کیا۔ میرے علم کے مطابق، ساری مسلم دنیامیں غالباً کوئی شخص نہیں تھا جو مسلمانوں کے اِس منفی ردّعمل کی کھُلی مذمت کرے۔قابلِ اعتراض کارٹون کی مذمت کرنا اور منفی احتجاج کی مذمت نہ کرنا بلاشبہہ اسلامی تعلیم کے خلاف ہے۔
کارٹون کے خلاف اِس منفی ردّ عمل کو یہ کہہ کر جائز قرار دیا گیا کہ وہ پیغمبر اسلام کو بدنام کرنے کی مہم کے تحت کیاگیا ہے اور اِس قسم کی مہم ہمارے لیے ناقابلِ برداشت ہے۔ مگر یہ سوچ اسلامی تعلیمات کے مطابق نہیں۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق، اِس طرح کے معاملے میں صحیح سوچ یہ ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ اس کا اصل سبب کیا ہے، اوراصل سبب کی نسبت سے اپنے ردّ عمل کا تعیّن کیا جائے۔ غور کیجئے تو اِس قسم کے کارٹون کو وجود میں لانے کے ذمّے دار خودمسلمان ہیں۔ ایسی حالت میں مسلمانوں کے اندرذاتی احتساب(introspection) کا ذہن اُبھرنا چاہیے نہ کہ دوسرے کے خلاف احتجاج ظاہر کرنے کا ذہن۔
عربی مثل ہے کہ تعرف الاشیاء باضدادھا (چیزیں اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہیں) اس اصول کو اِس معاملے میں استعمال کرکے دیکھے۔ دنیا میں ایک درجن بڑے مذاہب ہیں۔ ہر مذہب کے مقدس پیشوا ہیں۔ مگر اِن پیشواؤں کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا کہ ان کے سر پر بم رکھاہوا دکھایا جائے۔ پھر کیوں ایسا ہے کہ پیغمبر اسلام کے ساتھ اس قسم کا معاملہ پیش آیا۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ مسلمان لمبے عرصے سے اسلام کے نام پر جگہ جگہ تشدد کررہے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ دوسرے مذاہب کے لوگ بھی تشدد میں ملوّث ہیں۔ مثلاً آئر لینڈ میں عیسائی ، آسام میں ہندو، سری لنکا میں بدھسٹ وغیرہ۔ مگر فرق یہ ہے کہ دوسرے مذہب کے لوگ اپنا متشددانہ عمل اپنے قومی مفاد کے نام پر کرتے ہیں، جب کہ مسلمان اپنے متشددانہ عمل کو اسلامی جہاد کے نام پر کرتے ہیں۔
ایسی حالت میں یہ ایک فطری بات ہے کہ دوسری قوموں کا متشددانہ عمل ان کی اپنی قوم کی طرف منسوب کیا جائے۔ اور مسلمانوں کا متشددانہ عمل ان کے مذہب کی طرف منسوب ہو اور مذہبِ اسلام کی بدنامی کا سبب بنے۔ اس اعتبار سے غور کیجئے تو مذکورہ اخباری کارٹون کو دیکھنے کے بعد مسلمانوں کے اندر ذاتی احتساب کا جذبہ اُبھرنا چاہیے تھا۔ وہ کہتے کہ ہم نے خود اپنی روش کے ذریعے دنیا کو یہ تاثر دیا ہے کہ پیغمبر اسلام کا مذہب، تشدد کا مذہب ہے۔ اس لیے ہم کو چاہئے کہ ہم اسلام کے نام پر کیے جانے والے تشدد کو مکمل طورپر چھوڑ دیں۔ یا اگر تشدد کرنا ہے تو اس کو اسلام کے نام پر نہ کریں ، جیسا کہ دوسرے مذاہب کو ماننے والے کررہے ہیں۔
اسلام کی تعلیمات میں سے ایک اہم تعلیم وہ ہے جس کے لیے قرآن میں صبر اور اعراض کے الفاظ آئے ہیں۔ صبر اور اعراض ، تشدد کے برعکس رویّے کا نام ہے۔ تشدد یہ ہے کہ کوئی بات جو آپ کو ناگوار معلوم ہو اس پر مشتعل ہوجانا، اور احتجاج یا تخریب کاری کی صورت میں اپنے انتقامی جذبے کا اظہار کرنا۔ اس کے برعکس، صبر و اعراض یہ ہے کہ ناخوش گوارباتوں کا سامنا تحمل کے ساتھ کیا جائے۔ اپنے آپ کو منفی کارروائیوں سے بچایا جائے تاکہ اپنے مقصد کی طرف مثبت سفر کو جاری رکھا جاسکے۔
موجودہ دنیا امتحان کی دنیا ہے۔ یہاں فطری طورپر ایسا ہوگا کہ بہت سے لوگ اپنی آزادی کا غلط استعمال کریں گے۔ جس سے آپ کے جذبات کو ٹھیس پہنچے گی۔ لیکن یہ صورت حال کسی فرد یا قوم کی سازش کا نتیجہ نہیں ہے۔ بلکہ وہ خدا کے تخلیقی نقشہ (creation plan) کا نتیجہ ہے۔ خدا نے لوگوں کو جب امتحان کے لیے آزادی دی ہے تو ضرور ایسا ہوگا کہ لوگ اپنی آزادی کا غلط استعمال کریں۔ خدا جب تک لوگوں کی آزادی کو منسوخ نہ کرے اس کا غلط استعمال بھی بہر حال جاری رہے گا۔
ایسی حالت میں ناخوش گوار واقعات پر مشتعل ہونا، کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ اِس بات کا ثبوت ہے کہ آدمی خدا کے تخلیقی نقشے پر راضی نہیں۔ خدا کی قائم کردہ دنیا اس کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ ایک اور دنیا ہو جو اس کی اپنی مرضی کے مطابق ہو۔ مگر ایسا ہونا کبھی ممکن نہیں۔ انسان اپنی پسند کی ایک اور دنیا نہیں بنا سکتا۔ اس لیے اس پر لازم ہے کہ وہ خدا کے تخلیقی نقشے کو مان کر اس کے تحت، اپنی زندگی کی منصوبہ بندی کرے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں جس طرح دوسری باتوں کے نمونے موجود ہیں، اسی طرح مذکورہ صورت حال میں بھی آپ کی زندگی میں ہمارے لیے نمونہ موجود ہے۔ مثال کے طورپر ابنِ اسحاق کی روایت کے مطابق، قریش نے رسول اللہﷺ کا نام مُذمَّم (قابلِ مذمّت) رکھا تھا۔ پھر وہ آپ پر سبّ و شتم کرتے تھے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے تھے کہ کیا تم کو اِس پر تعجب نہیں کہ اللہ نے مجھ کو قریش کی ایذا رسانی سے بچا لیا۔ وہ مجھ کو مذمم کہہ کر میرا سب وشتم کرتے ہیں اور میری ہجو کرتے ہیں، حالاں کہ میں محمد (قابل تعریف) ہوں۔ (سیرتِ ابن ہشام، جلد اول، صفحہ ۳۷۹ ) یعنی اُن کی باتیں میرے اوپر پڑنے والی نہیں۔ یہ لوگ مذمم پر سب وشتم کررہے ہیں جب کہ میرا نام محمد ہے نہ کہ مذمّم۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس نمونے کی روشنی میں یہ ہونا چاہیے تھا کہ مسلمان جب مذکورہ کارٹون کو دیکھیں تو وہ یہ کہہ کر اس کو نظر انداز کردیں کہ پیغمبر اسلام تو بم بردار نہیں تھے بلکہ وہ امن بردار تھے۔ اس لیے یہ کارٹون پیغمبر اسلام سے متعلق نہیں ہوسکتا۔ وہ کسی اور انسان سے متعلق مانا جائے گا جو بم بردار ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ اِس طرح کے معاملے میں دیکھنے کی اصل بات یہ نہیں ہے کہ ہمارے اپنے نقطۂ نظر سے صحیح کیا ہے اور غلط کیا بلکہ دیکھنے کی اصل بات یہ ہے کہ اگر ہم نے اقدام کیا تو اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ جیسا کہ معلوم ہے، جب سے پریس کا زمانہ آیا ہے اِس طرح کے معاملات بار بار پیش آتے ہیں۔ ہر بار مسلمان اس پر سخت برہمی کا ظہار کرتے ہیں۔ حتی کہ وہ توڑ پھوڑ اور تشدد کا طریقہ بھی اختیار کرتے ہیں۔ لیکن تجربہ بتاتا ہے کہ نتیجہ ہمیشہ برعکس صورت میں نکلتا ہے۔ یعنی اخباروں یا کتابوں میں مسلم نقطۂ نظر سے ناخوش گوار باتوں کا چھپنا تو بند نہیں ہوتا، البتہ اسلام شدید طور پر بدنام ہوجاتا ہے، اور مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان تعلقات کی فضا بگڑ جاتی ہے۔ دونوں کے درمیان وہ معتدل ماحول باقی نہیں رہتا جو کسی مثبت کام کے لیے ضروری ہے۔ خاص طورپر دعوتی کام کے اعتبار سے دیکھئے تو اس طرح کا منفی ردّ عمل، قاتلِ دعوت کی حیثیت رکھتاہے۔
موجود ہ زمانے میں اخباروں اور کتابوں میں برابر ایسی چیزیں چھپتی رہتی ہیں جو اسلام کی تصویر کو بگاڑنے والی ہوتی ہیں۔ اس کا صحیح جواب یہ نہیں ہے کہ اس کے خلاف مظاہرے کیے جائیں بلکہ اس کا صحیح اور مؤثر جواب یہ ہے کہ ایسی کتابیں تیار کرکے چھاپی جائیں جو ہر اعتبار سے نہایت اعلیٰ معیار کی ہوں۔ ان میں ایسے دلائل کے ذریعے اسلام کی مثبت تصویر کو پیش کیا جائے جو لوگوں کے ذہنوں کو مطمئن کرنے والے ہوں، اور لوگوں کے دلوں میں اُتر جائیں۔
موجودہ صورتِ حال میں اسلام کی نسبت سے، سب سے بڑا مسئلہ وہ ہے جس کو امیج بلڈنگ (image building) کہا جاتا ہے۔ یعنی اسلام کے خلاف غلط فہمیوں کو دور کرنا اور اسلام کی صحیح تصویر لوگوں کے سامنے لانا۔ یہی کرنے کا اصل کام ہے، اور کرنے والوں کو یہی کام کرنا چاہیے—لمثل ہٰذا فلیعمل العاملون۔
واپس اوپر جائیں

تعلیم سب کچھ ہے

مولانا الطاف حسین حالی۱۸۳۷ میں پیدا ہوئے، اور ۱۹۱۴ میں ان کا انتقال ہوا۔ وہ سرسید احمد خاں کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔ ان کی کتاب مسدّس حالی ایک مشہور کتاب ہے۔ اپنی اِس کتاب میں جدید دور میں تعلیم کی اہمیت کو بتاتے ہوئے وہ کہتے ہیں:
بس اب وقت کا حکمِ ناطق یہی ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہے تعلیم ہی ہے
یہ بات آج پہلے سے بھی زیادہ درست قرار پاچکی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ زمانے میں کسی بھی شعبے میں ترقی کے لیے علم اور تعلیم کی اہمیت بے حد بنیادی ہوچکی ہے، سیکولر شعبوں میں بھی اور مذہبی شعبوں میں بھی۔
تعلیم کی اِس اہمیت کا سبب موجودہ زمانے میں سائنس اور ٹکنالوجی کا فروغ ہے۔ جدید دَور میں سائنسی تحقیقات کے نتیجے میں تمام علوم کو از سرِ نو مدوَّن کیاگیا ہے۔ مثلاً قدیم زمانے میں سمجھا جاتا تھا کہ آسمان کے ستارے اتنے ہی بڑے ہیں جتنے بڑے کہ وہ آنکھوں سے دکھائی دیتے ہیں۔ مگر موجودہ زمانے میں دور بینی مطالعے نے بتایا کہ آسمان کے ستارے بہت زیادہ بڑے ہیں، اور تعداد میں بھی وہ اس سے بہت زیادہ ہیںجتنا کہ بظاہر وہ دکھائی دیتے ہیں۔ اِس طرح موجودہ زمانے میں بے شمار نئی معلومات حاصل ہوئی ہیں۔ نئی معلومات کی روشنی میں دنیا کو جاننے کے لیے علم کی ضرورت ہے۔ آج بے علم آدمی صرف ایک ناخواندہ انسان نہیں ہے، بلکہ وہ حقائق کی دنیا سے بے خبر انسان کی حیثیت رکھتا ہے۔
اسی طرح ٹکنالوجی کی ترقی نے قدیم روایتی دَور کو بالکل بدل دیا ہے۔ مثلاً قدیم زمانے میں سواری کا ذریعہ یہ تھا کہ جنگل میں خچر، گھوڑے اور اونٹ فطری طورپر بڑی تعداد میں موجود تھے۔ آدمی ان کو پکڑتا اور انھیں سواری اور باربرداری کے لیے استعمال کرتا۔ مگر آج سواری، مشینی سواریوں کا نام ہوگیا ہے، اور مشینی سواریاں علم کے بغیر نہ بنائی جاسکتی ہیں، اور نہ انھیں استعمال کیا جاسکتاہے۔
قدیم زمانے میں کہاجاتا تھا کہ : العلم علمان، علم الأدیان وعلم الأبدان۔ یعنی علم کی دو قسمیں ہیں، مذہب کا علم، اور علاج معالجے کا علم۔ مگر آج علم کی بے شمار نئی قسمیں وجود میں آچکی ہیں۔ ان علوم کو جانے بغیر کسی بھی شعبے میں ترقی کرنا ممکن نہیں۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ بہت سے وہ شہر جو قدیم زمانے میں دستی صنعت کے لیے مشہور تھے، اب وہاں ایک نیا دَور آچکا ہے۔ وہاں کے جن لوگوں نے جدید تعلیم حاصل کی وہ اپنی دست کاری میں نئے ٹکنکل طریقوں کو استعمال کرکے بہت آگے بڑھ گیے،اور جو لوگ روایتی علم پر باقی رہے وہ ترقی کی نئی دَوڑ میں دوسروں سے پیچھے ہوگیے۔ یہ منظر آج بہت سے شہروں میں دیکھا جاسکتا ہے۔
سابق صدر امریکا، لنڈن جانسن نے کہا تھا کہ امریکا کی ترقی کے لیے تعلیم بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ یہی معاملہ ہر گروہ کا ہے۔ جو گروہ بھی ترقی کی دوڑ میں آگے بڑھنا چاہے، اس کو یہ کرنا ہوگا کہ اپنی نسلوں کو زیادہ سے زیادہ تعلیم یافتہ بنائے۔ کسی نے درست طورپر کہا ہے کہ موجودہ زمانے میں ترقی کے لیے تین چیزوں کی ضرورت ہے: اول تعلیم، دوم تعلیم، سوم تعلیم، اور آخر میں پھر تعلیم۔
دوسری عالمی جنگ میں جاپان پوری طرح تباہ ہوگیا تھا۔ ۱۹۴۶میں جاپان کو یہ فیصلہ کرنا تھا کہ وہ جاپان کی ازسرِ نو تعمیر کے لیے کیا کرے۔ جاپان کی قیادت نے یہ فیصلہ کیا کہ انھیں اپنی نئی نسلوں کو سب سے پہلے اعلیٰ تعلیم دلانا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے جاپان میں تیس سالہ تعلیمی منصوبہ بنایا گیا۔ جب یہ تیس سالہ منصوبہ پورا ہوا تو دنیانے دیکھا کہ جاپان دوبارہ ایک ترقی یافتہ ملک بن چکا ہے۔
تعلیم کا مقصد صرف جاب حاصل کرنا نہیں ہے۔ بلاشبہہ تعلیم کے ذریعے جاب بھی حاصل ہوتا ہے، لیکن تعلیم ایک اور چیز کے حصول کا ذریعہ ہے۔ یہ چیز جاب سے بھی زیادہ اہم ہے، اور وہ فکر و شعور کی ترقی ہے۔ تعلیم، آدمی کو باشعور بناتی ہے۔ تعلیم آدمی کو اِس قابل بناتی ہے کہ وہ اپنے حالات کو بخوبی طورپر سمجھے، اور اپنی زندگی کی درست منصوبہ بندی کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی گروہ کے لیے تعمیر وترقی کا سنگل پوائنٹ فارمولا صرف ایک ہے، اوروہ وہی چیز ہے جس کو تعلیم یا ایجوکیشن کہا جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

خبر نامہ اسلامی مرکز ۱۷۳

۱۔ انڈیا ٹی وی (نئی دہلی) کے نمائدنہ مسٹر کرشنا موہن مشرا نے ۱۶اگست۲۰۰۵ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو ریکارڈ کیا۔ ان کے سوالات کا تعلق زیادہ تر اِس بات سے تھاکہ مذہبی اختلافات کے بارے میں اسلام کی رہنمائی کیا ہے۔ انھیں بتایاگیا کہ اسلام ہر حال میں امن چاہتا ہے۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اختلافات کو برداشت کرو۔ اِس سے زیادہ اگر کچھ کرنا ہے تو پُر امن بات چیت(peaceful dialouge) کرو۔ اسلام میں تشدد کسی بھی حال میں جائز نہیں۔
۲۔ ڈنمارک کے ایک اخبار میں ۳۰ ستمبر ۲۰۰۵ کو پیغمبر اسلام کے بارے میں کچھ کارٹون شائع ہوئے۔ جس کے بعد ساری دنیا میں مسلمانوں نے سخت مظاہرہ کیا۔ اس سلسلے میں سعودی ٹیلی ویژن کی ایک ٹیم فروری ۲۰۰۷ کو ڈنمارک گئی۔ وہاں انھوں نے مختلف لوگوں کے ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیے۔ اس سلسلے میں سعودی ٹیلی ویژن کی طرف سے اسلامی مرکز کے دفتر میں ٹیلی فون آیا۔ انھوں نے کہا کہ ہم سیرتِ رسول کے موضوع پر دو انگریزی کتابیں ڈنمارک لے جاکر وہاں کے تعلیم یافتہ لوگوں کو دینا چاہتے ہیں۔ کیرن آرم اسٹرانگ کی سیرت پر کتاب دو سو، اور اسلامی مرکز کی چھپی ہوئی کتاب پیغمبر انقلاب (انگریزی) دوسو۔ اس کے مطابق، ان کو پیغمبر انقلاب کی مطلوب کاپیاں بذریعہ ہوائی جہاز بھیج دی گئیں۔ ان کتابوں کو سعودی ٹیلی ویژن نے ڈنمارک میں تقسیم کیا۔
۳۔ نئی دہلی کے انگریزی میگزین لائف پازیٹیو کے زیرِ اہتمام انڈیا ہیبٹیٹ سنٹر (نئی دہلی) میں ایک نیشنل سیمنار ہوا۔ اِس کا موضوع این لائٹن مینٹ (Enlightenment) تھا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی، اور اس کے آخری اجلاس۵دسمبر ۲۰۰۵ میں مذکورہ موضوع پر ایک تقریر کی۔ تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ این لائٹن مینٹ کے مختلف مفہوم ہیں—فلسفیانہ، مذہبی اور روحانی۔ لیکن روزمرہ کی زندگی کے اعتبار سے اس کا عمومی مفہوم یہ ہے کہ آدمی ذہنی اعتبار سے اتنا زیادہ بیدار ہوچکا ہو کہ وہ منفی تجربے کو بدل کر اُسے مثبت تجربہ بنا سکے۔
۴۔ د ور درشن (نئی دہلی) نے صدر اسلامی مرکز کے ایک تفصیلی انٹرویو کی ویڈیو ریکارڈنگ کی۔ یہ ریکارڈنگ ۷دسمبر ۲۰۰۵کو دور درشن کے اسٹوڈیو میں ہوئی۔ مسٹر راجیو مہروترا اس کے انٹرویور تھے۔یہ انٹرویو پورے آدھ گھنٹے کا تھا۔ یہ پورا انٹرویو الرسالہ اور صاحبِ الرسالہ کے بارے میں تھا۔ سوالات کے دوران بتایاگیا کہ ہمارا مشن پیس اور اسپریچولٹی ہے۔ اسلامی تعلیمات کے بارے میں سوالات کا جواب دیتے ہوئے بتایاگیا کہ قر آن میں صرف اساسی تعلیمات ہیں۔ حالاتِ زمانہ کے لحاظ سے اجتہاد کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔ اسلام میں ہر وہ اجتہاد جائز ہے جو شریعت کی بنیادی تعلیمات سے نہ ٹکراتا ہو۔ ایک سوال کے جوا ب میں بتایا گیا کہ فتویٰ کا مطلب شخصی رائے ہوتا ہے۔ فتویٰ کی حیثیت عدالتی حکم کی نہیں ہے۔ مزید یہ کہ فتویٰ دینے میں مفتی غلطی بھی کرسکتا ہے۔ یہ تمام سوالات وجوبات انگریزی زبان میں تھے۔
۵۔ سپریم کورٹ آف انڈیا کے قانون داں حضرات کی ایک تنظیم سرچ(Search) کے نام سے قائم ہے۔ ۹ دسمبر ۲۰۰۵ کو اس کے تحت، انڈیا انٹرنیشنل میں ایک سیمینار ہوا۔ اس کے صدر جسٹس کرشنا آئر تھے۔ اِس موقع پر خطاب کے لیے صدر اسلامی مرکز کو دعوت دی گی۔ اِس موقع پر انھوں نے پینتالیس منٹ کی ایک تقریر کی:
Image and Reality of Islam
تقریر کے بعد سوال وجواب ہوا۔ یہ پورا پروگرام انگریزی زبان میں تھا۔
۶۔ آزادیٔ ہند(۱۹۴۷) کے بعد ہندستان میں ، خاص طورپر پنجاب اور ہریانہ کے علاقے میں مسلمانوں کے پاؤں اکھڑ گیے۔ اس موقع پر مہاتما گاندھی اٹھے۔ ۱۹ دسمبر ۱۹۴۷ کو وہ میوات کے علاقہ گھاسیڑہ گیے۔ یہاں اَطراف کے دس ہزار مسلمان اکھٹا ہوئے۔ مہاتما گاندھی نے تقریر کرتے ہوئے کہ انڈیا آپ کا وطن ہے، آپ کو یہاں بے خوف ہوکر رہنا چاہیے۔ اس کے بعد مسلمانوں میںاستحکام آگیا۔ اِس تاریخی دن کی یاد میں ۱۹ دسمبر ۲۰۰۵ کو گھاسیڑہ میں ایک کانفرنس ہوئی۔ اس کا انتظام ڈاکٹر راجیندر پرشاد اور مولانا شیر محمد امینی وغیرہ نے کیا تھا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی، اور امن اور اتحاد کی اہمیت پر ایک تقریر کی۔
۷۔ ۲۲ دسمبر۲۰۰۵ کو آل انڈیا ریڈیو نئی دہلی(شعبۂ اردو) کے اسٹوڈیو میں صدر اسلامی مرکز کا ایک تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیاگیا۔ اس کے انٹرویور مسٹر انوار احمد تھے۔ آدھ گھنٹے کے اِس انٹرویو کا موضوع صد راسلامی مرکز کی حیات اور اُن کا مشن تھا۔ ایک سوال یہ تھا کہ آپ کو عام طورپر ماڈرن مولوی سمجھا جاتا ہے، کیا یہ صحیح ہے۔ بتایاگیا کہ ماڈرن مولوی ایک صحیح چیز کا غلط نام ہے۔ اصل یہ ہے کہ حدیث کے مطابق، عالِم کو اپنے زمانے سے باخر ہونا چاہیے (أن یکون بصیراً بزمانہ)علماء عام طورپر صرف مدرسے کی تعلیم پر اکتفاء کرتے ہیں۔ میں نے یہ کیا کہ مدرسے کی باقاعدہ تعلیم کے بعد پرائیویٹ طور پر انگریزی پڑھی اور پھر جدید علوم کا تفصیلی مطالعہ کیا۔ اس کے بعد میں نے اسلام کی تعلیمات کو عصری اسلوب میں پیش کرنے کی کوشش کی تاکہ وہ جدید ذہن کے لیے قابلِ فہم اور قابلِ اعتماد ہوسکے۔
۸۔ ۹ جنوری اور۱۰ جنوری ۲۰۰۶کو حج اور عید الاضحی کے تعلق سے کئی ٹی وی چینل نے صدر اسلامی مرکز کا ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا— اسٹار نیوز، دور درشن، آج تک، ای ٹی وی۔ دور درشن نے اپنے تین چینل کے لیے ریکارڈنگ کی۔ ہر انٹرویو میں حج اور عید الاضحی کے بارے میں وضاحت کی گئی۔ انٹرویو میں بتایا گیا کہ یہ تہوار اِس لیے ہیں تاکہ عبادت اور قربانی اور انسانی قدروں کو لوگوں میں فروغ دیا جائے۔
۹۔ برون کمار(Mr. Barun Kumar) نئی دہلی میں ایم۔ اے۔ جنرل ازم کا کورس کررہے ہیں۔ (Tel: 9873031260) انھوں نے یونیورسٹی پروگرام کے تحت، ۱۲ جنوری ۲۰۰۶کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں تھا۔ ایک سوال کے جواب میں بتایاگیا کہ موجودہ زمانے میں اسلام کی تصویر تشدد پسند مذہب کی ہوگئی ہے۔ اِس کا الزام عام طورپر میڈیا کو دیا جاتا ہے مگر صحیح بات یہ ہے کہ اس کے ذمے دار خود مسلمان ہیں۔ میڈیا، سنسنی خیز خبروں کو منتخب کرتا ہے۔ مسلمان اگر سنسنی خیز خبریں ظہور میں نہ لائیں تو ان کی رپورٹنگ بھی میڈیا میں نہیں ہوگی۔
۱۰۔ سعودی عرب کے عربی روزنامہ عُکاظ کے نمائندہ فہیم الحامد نے ۱۸ جنوری ۲۰۰۶ کو ٹیلی فون پر صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ ایک سوال یہ تھا کہ ہمارا مرکز امن اور ٹررازم کے اِشو پر کیا کام کررہا ہے۔ اِس سلسلے میں انھیں ضروری معلومات دی گئیں۔ ایک اور سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ ہندستان کی حکومت اور انڈین کمیونٹی دونوں حقیقت پسند لوگ ہیں۔ اس لیے یہاں اسلام اور مسلمانوں کے لیے کوئی غیر ضروری مسئلہ نہیں۔ایک اور سوال کے جواب میں بتایاگیا کہ سعودی کنگ کا سفرِ ہند نہایت مفید ثابت ہوگا۔ اس سے انڈیا اور سعودی عرب کے تعلقات اور زیادہ بہتر ہوجائیں گے۔
۱۱۔ایک عرب میڈیا کمپنی (Al-baath, News Paper, Aleppo-Syria) کی ٹیم نے ۲۰ جنوری ۲۰۰۶کو صدر اسلامی مرکز کا ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ انٹرویور دکتور محمد بسّام النعسّان (Dr. M.B. Na'assan) تھے۔ سعودی حکمراں ملک عبد اللہ ۲۶ جنوری۲۰۰۶ کو دہلی آنے والے ہیں۔ اِسی نسبت سے یہ انٹرویو تھا۔ مختلف سوالات کے جواب میں بتایا گیا کہ سعودی عرب اور انڈیا کے درمیان تعلقات بہت اچھے ہیں، اور اِس دَورے کے بعد یقینی طورپر اس میں مزید اضافہ ہوگا۔ ہندستانی مسلمانوں کے بارے میں سوالات کا جواب دیتے ہوئے بتایا گیا کہ انڈیا میں سیکولر نظام ہے جو مسلمانوں کے لیے بہت مفید ہے۔ اسلامی مرکز اور CPS اور الرسالہ مشن کے بارے میں سوالات کا جواب دیتے ہوئے بتایاگیا کہ ہمارا مقصد اسلام کی پُر امن اور مثبت تعلیمات کا تعارف ہے۔ ہندستان میں پُر امن اسلامی دعوت کے بہترین مواقع موجود ہیں۔ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم وسیع پیمانے پر اسلامی دعوت کا کام کررہے ہیں۔
۱۲۔ انسٹی ٹیوٹ آف گاندھین اسٹڈیز، واردھا کے تحت، تعارفِ مذاہب کا ایک پروگرام ہوا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ ۲۵جنوری ۲۰۰۶ کو پورا دن انھیں دیا گیا۔ اس طرح اسلام کے تفصیلی تعارف کا موقع ملا۔ یہ پورا پروگرام انگریزی زبان میں تھا۔ لوگوں نے بہت پسندیدگی کا اظہار کیا۔ ایک صاحب نے کہا:
Today we have re-discovered the religion of Islam.
اِس موقع پر کامٹی کے حلقۂ الرسالہ سے بھی ملاقات ہوئی۔ یہ لوگ کامٹی میں منظّم انداز میں دعوت کا کام کررہے ہیں۔ ان لوگوں نے واردھا کے پروگرام کا مکمل ویڈیو ریکارڈ بھی تیارکیا۔ اس سلسلے میں ایک دن ناگپور شہر میں گذرا۔ یہاں بھی ملاقات اور گفتگو کے انداز میں کئی لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں اور اسلام کے بارے میں سوالات کی وضاحت کا موقع ملا۔ سفر میں ہر جگہ انگریزی لٹریچر بھی لوگوں کو دیا گیا۔ انسٹی ٹیوٹ آف گاندھین اسٹڈیز میںاس سے پہلے بھی اس قسم کے دوپروگرام ہوچکے ہیں۔ موجودہ پروگرام اس نوعیت کا تیسرا پروگرام تھا۔ پچھلے دونوں پروگراموں کی روداد سفرنامے کے تحت، الرسالہ میں شائع ہوچکی ہے۔ موجودہ پروگرام کی روداد بھی انشاء اللہ سفر نامے کے تحت، ماہ نامہ الرسالہ میںشائع کی جائے گی۔
۱۳۔ نئی دہلی (پَر گتی میدان) میںانٹرنیشنل بُک فئر ہوئی۔ وہ ۲۷جنوری ۲۰۰۶ سے لے کر ۴ فروری ۲۰۰۶ تک جاری رہی۔ اِس بُک فئر میں گُڈورڈ (Goodword) اور سی۔پی۔ایس۔ کی طرف سے اسٹال لگایا گیا۔ لوگ بڑی تعداد میں یہاں آئے۔ سی۔پی۔ ایس۔ کی ٹیم کے افراد ہر وقت وہاں موجود رہتے ـتھے۔ بڑے پیمانے پر لوگوں سے اسلام کے موضوع پر تبادلۂ خیال ہوا۔ لوگوں کو دعوتی بروشر تقسیم کیے گیے۔ اس کے علاوہ لوگوں نے انگریزی اور اردو اور ہندی میں چھپی ہوئی اسلام پرکتابیں حاصل کیں۔ اِس موقع کے لیے خصوصی طورپر یہ اعلان کیا گیا تھا کہ جوشخص ایک سو روپیے کی کتابیں خریدے گا، اُس کو ماہ نامہ الرسالہ ایک سال کے لیے فری جاری کیا جائے گا۔ اِس اسکیم کے تحت بہت سے لوگوں نے فائدہ اٹھایا۔ عام طور پر لوگوں نے سی۔ پی۔ایس۔ کے مشن سے گہرا اتفاق ظاہر کیا۔ لوگوں کو جب سی۔پی۔ایس۔ کے دعوتی بروشر دئے گیے تو انھوں نے اُس کو اِس طرح لیا جیسے وہ اِسی کی تلاش میں تھے۔ غیر مسلم حضرات خصوصاً نوجوان مَردوں اور عورتوں نے انگریزی اور ہندی قرآن بہت بڑی تعداد میں حاصل کیے۔
۱۴۔ ورلڈ کاؤنسل آف ریلیجنس (World Council of Religious) کے زیرِ اہتمام ۲۹ جنوری ۲۰۰۶ کو ایک کنونشن ہوا۔ اس کنونشن کا انعقاد نئی دہلی کے انڈیا انٹرنیشنل سنٹر (روم نمبر ۲) میںکیا گیا۔ اِس میںمختلف بڑے مذاہب کے نمائندے شریک ہوئے۔ اس کا عنوان یہ تھا:
Promoting Commonalities among diverse faiths for world peace.
اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی، اور اسلام کی روشنی میں موضوع پر ایک تقریر کی۔ اس سلسلے میں انھوں نے کہا کہ اسلام کی تمام تعلیمات امن کے تصور پر مبنی ہیں۔ کیوں کہ امن کے بغیر کوئی تعمیری کام نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام میں صرف دفاعی جنگ جائز ہے۔ غیر حکومتی تنظیموں کو کسی بھی حال میں ہتھیا راٹھانے کی اجازت نہیں۔
۱۵۔ حسب معمول ۵ فروری ۲۰۰۶ کو اتوار کا اسپریچول کلاس ہوا۔ یہ کلاس نظام الدین ویسٹ مارکیٹ میں مرکزکی بلڈنگ میں ہوتا ہے۔ یہ سلسلہ پابندی کے ساتھ جنوری ۲۰۰۱ سے جاری ہے۔ ۵فر وری کی کلاس کی حسب معمول ویڈیو ریکارڈنگ بھی ہوئی۔ اِس میں درس کا موضوع توحید تھا۔ اس میں سی۔پی۔ایس کا مشن اِن الفاظ میں بتایاگیا :
Our mission is to proclaim the glory of God
۵فروری کے اسپریچول کلاس میں زیادہ لوگ آئے تھے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ حالیہ بک فئر کے موقع پر سی۔ پی۔ ایس کی ٹیم نے لوگوں کو ہفتے وار اسپریچول کلاس کا تعارف کرایا تھا، اور لوگوں کو دعوت دی تھی کہ وہ یہاں آسکتے ہیں۔ چناں چہ بہت سے نئے لوگ ۵ فروری کے کلاس میںشریک ہوئے۔
۱۶۔ ٹائم لائف(Time-Life) کے نمائندہ مسٹر احمد حسن قدوائی (Tel. 9873107411) نے ۶فر وری ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کاایک انٹرویو ریکارڈ کیا۔ ان کے سوالات کا تعلق زیادہ تر اسلام میں عورت کے مقام کے بارے میں تھا۔ اس سلسلے میں انھیں قرآن اور حدیث کی روشنی میںضروری معلومات دی گئیں۔
۱۷۔ دور درشن (نئی دہلی) پَر ۹ فروری ۲۰۰۶ کو صدر اسلام مرکز کی ایک تقریر لائیوٹیلی کاسٹ کے تحت، نشر کی گئی۔ وہ ۱۰ محرم اور حضرت حسین کی یاد پر تھی۔ تقریر میں بتایا گیا کہ ۱۰محرم۶۱ ھجری کو حضرت حسین کی شہادت کی صورت میں جو واقعہ ہوا وہ تاریخی اعتبار سے خود حضرت حسین کی طرف سے کسی جارحیت کے سبب سے نہ تھا۔ حضرت حسین، پُر امن مشن کے تحت مکّہ سے روانہ ہوئے تھے۔ مگر کوفہ (عراق) کی سرحد پر شِبر بن جَوشن نے انھیں لڑنے پر مجبور کردیا۔ اس زمانے میں اگر ٹیلی فون موجود ہوتا تو یہ جنگ نہ ہوتی۔ کیوں کہ حضرت حسین یا یزید کی فوج کا افسر کوفہ سے دمشق ٹیلی فون کرکے یزید سے پوچھتا اور یزید یقینی طورپر ان کو جنگ سے روک دیتا۔ اِس جنگ کی یزید کو کوئی خبر نہ تھی۔ بعد کو جب اس کو خبر ملی تو اُس نے اِس پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا۔
۱۸۔ ۱۲ فروری ۲۰۰۶ کو حسب معمول اتوار کا اسپریچول کلاس ہوا۔ اب اِس کلاس میں برابر اضافہ ہورہا ہے۔ حسب معمول اس کی ویڈیو ریکارڈنگ ہو رہی ہے۔ تقریر کا موضوع زکوٰۃ تھا۔ لوگوں نے بہت دل چسپی کے ساتھ سُنا۔ تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ زکوٰۃ کی مد میں سال میں ڈھائی فیصد کی رقم ایک علامتی چیز ہے۔ وسیع تر مفہوم میں زکوٰۃ زندگی کے کامل تزکیہ وتطہیر کا نام ہے۔ زکوٰۃ کا توسیعی پہلو قرآن کی ایک مکی سورہ میں اس طرح آیا ہے: وہم للزکوۃ فاعلون(المؤمنون: ۴)۔ اِس آیت میں یؤدّون کے بجائے فاعلونکا لفظ آیا ہے۔ یعنی تزکیہ کا فعل کرنا۔ اصل یہ ہے کہ موجودہ دنیا میں ایسے اسباب ہیں جو ہر وقت انسان کو آلودہ کرتے رہتے ہیں۔ اِس آلودگی سے بچا کر اپنے آپ کو مُزَکّٰی (پاکیزہ) بنانا، اسلامی زندگی کا اصل نشانہ ہے۔ زکوٰۃ اسی عمل کے لیے ایک علامتی فعل ہے۔ جو لوگ اپنے آپ کو دنیوی آلودگی سے بچائیں اور اپنے اندر پاکیزہ شخصیت کی تعمیر کریں وہی آخرت میں جنت کے مستحق قرار پائیں گے۔
۱۹۔ اسلامی مرکز میں ملک اور ملک کے باہر سے غیر مسلم افراد برابر آتے رہتے ہیں۔ اُنھیں اسلامی لٹریچر دیا جاتا ہے، اور اسلام کے موضوعات پر ان کے سوالات کا اطمینان بخش جواب دیاجاتا ہے۔ ۱۲ فروری ۲۰۰۶ کو حسب ذیل تین افراد مرکز میں آئے:
Brahma Rupa, U.S.a. (Tel: 989937114)
Jemal, Italy. (Tel: 9873239980)
Allon, Israel
پہلے دونوں صاحبان فی الحال گُڑگاؤں میں ہیں، ان لوگوں سے نہایت تفصیل کے ساتھ اسلام کے مختلف پہلوؤں پر گفتگو ہوئی۔ ان کا ایک سوال خدا کے تصور کے بارے میں تھا۔ بتایاگیا کہ آرین مذاہب میں خدا کا تصور وحدتِ وجود (monoism) کے تصور پَر مبنی ہے۔ لیکن اسلام میں توحید (monotheism) کا تصور ہے۔ اِسی طرح جہادکے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے بتایا گیا کہ جہاد اصلاً پُر امن دعوتی جدوجہد کانام ہے۔ موجودہ زمانے میں اسلامی جہاد کے نام پر جو متشددانہ عمل کیا جارہا ہے اس کا جہاد سے کوئی تعلق نہیں۔ اِسی طرح اسلام میں عورت کے مقام کے بارے میں ان کے سوالات کا جواب دیا گیا۔
۲۰۔ ٹائمس آف انڈیا (بمبئی) کی نمائندہ مسز بیلا جے سنگھانی نے ۱۵ فروری ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ یہ انٹرویو ٹیلی فون پر ریکارڈ کیا گیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر ڈنمارک کے اخبارJyllands Posten میں شائع شدہ کارٹون (۳۰ ستمبر ۲۰۰۵) سے تھا۔ جواب میں بتایا گیا کہ اس قسم کے نزاعی مسائل پر اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اس کو پُر امن انداز تک محدود رکھا جائے۔ کسی بھی حال میں تشدد کا طریقہ نہ اختیار کیا جائے۔ کارٹون کی حیثیت ایک تفنّن آمیز آئٹم(comic item) کی ہے۔ لوگ ایسی چیزوں کو سنجیدگی کے ساتھ نہیں لیتے۔ بالفرض اگر کچھ لوگوں کے نزدیک کارٹون قابل اعتراض تھا تب بھی اس کے لئے پُر شور احتجاج درست نہیں ہوسکتا۔ موجودہ زمانہ انٹرنیٹ کا زمانہ ہے۔ چنانچہ یہ کارٹون انٹرنٹ پر آگیا۔ پہلے یہ قابلِ اعتراض آئٹم اگر ایک ملک کے تھوڑے سے لوگوں نے دیکھا تھا تو اب انٹرنٹ کے ذریعے وہ تمام دنیا کے لوگوں تک آگیا۔
۲۱۔ بی سی لندن نے ۱۶ فروری ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو لیا۔یہ انٹرویو لندن اور دہلی کے درمیان ٹیلی فون پر ریکارڈ کیا گیا۔ انٹرویو لینے والے مسٹر راجیش جوشی تھے۔ سوالات کا تعلق مسلمانان ہند کے مسائل سے تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ مسلمانوں کا اصل مسئلہ تعلیم ہے۔ مسٹر محمد علی جناح نے مسلمانوں کی بہبود کے لئے چودہ نکاتی پروگرام بنایا تھا۔ اب گورنمنٹ نے ۱۵ نکاتی پروگرام بنایا ہے۔ مگر میرے نزدیک اس قسم کے پروگراموں کا کوئی خاص فائدہ مسلمانوں کو نہیں ملے گا۔ مسلمانوں کی ترقی کا سنگل پائنٹ پروگرام تعلیم ہے۔ مسلمانوں میں اگر اچھی تعلیم آجائے تو بقیہ تمام مسائل اپنے آپ حل ہوجائیں گے۔
۲۲۔ سینئر انڈیا (Senior India) نئی دہلی کے نمائندہ مسٹر منوج کرشنا (Tel: 9868655357)نے ۱۶ فروری ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ انٹرویو کا موضوع تھا—ہندستانی مسلمانوں میں تبدیلی کی لہر۔ سوالات کے دَوران بتایا گیا کہ آزادی کے بعد ہندستان کے مسلمان بے یقینی کی حالت میں مبتلا ہوگیے تھے۔ انھیں کوئی لائن آف ڈائریکشن دکھائی نہیں دیتی تھی۔ میںنے ۱۹۶۵ سے باقاعدہ طورپر اس معاملے میں مسلمانوں کو رہنمائی دینا شروع کی۔ لمبی جدوجہد کے بعد اب مسلمانوں میں بہت زیادہ شعوری بیداری آچکی ہے۔ پہلے وہ انڈیا کو ایک پرابلم کنٹری سمجھتے تھے۔ اب وہ اِس ملک کو مواقع کی سرزمین سمجھتے ہیں اور تعلیم وترقی کے ہرمیدان میں تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ مدارس کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہاگیا کہ مدارس کے نظام میں بھی بدلاؤ شروع ہوگیا ہے۔ تقسیم کی تحریک کے نتیجے میں مسلمان علیحدگی کو بڑی چیز سمجھ بیٹھے تھے۔ اب وہ جان رہے ہیں کہ زندگی میں سب سے بڑی چیز انٹرایکشن اور مقابلہ ہے۔
۲۳۔ نئی دہلی کے اسٹار نیوز (ٹی وی) نے ۱۷ فروری ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا دو انٹرویو لیا۔ ایک لائیو ٹیلی کاسٹ کے تحت تھا، اور دوسرا اسلامی مرکز کے دفتر میں ویڈیو ریکارڈنگ کے طورپر۔ انٹرویور مسٹر راجیش کوشِک تھے۔ دونوں انٹرویو کا موضوع اُس کارٹون سے متعلق تھا جو ڈنمارک کے ایک اخبار میں ستمبر ۲۰۰۵ میں چھپا تھا۔ مختلف سوالات کا جواب دیتے ہوئے بتایا گیا کہ اِس معاملے کا ایک پہلو وہ ہے جو نظری حیثیت رکھتا ہے، اور دوسرا پہلو وہ ہے جو طریقِ کار سے متعلق ہے۔ نظری حیثیت سے ہر شخص کو آزادی ہے کہ وہ جس چیز کو درست سمجھے اس کا اظہارکرے۔ یہ ہر فرد اور ہر گروہ کا حق ہے۔ اِس اعتبار سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ کارٹون کے موضوع پر مظاہرہ کرنے والے اپنے حق کا استعمال کررہے ہیں۔ لیکن طریقِ کار کے معاملے میں کسی بھی فرد یا گروہ کو تشدد تک جانے کی اجازت نہیں، نہ براہِ راست طورپر اور نہ بالواسطہ طور پر۔ مثلاً یہ اعلان کرنا کہ جو شخص کارٹونسٹ کو مارڈالے گااس کو سونے میں تول دیا جائے گا۔ یا ایسے حالات پیدا کرنا کہ فائرنگ ہو اور بے گناہ لوگ مارے جائیں۔ بلڈنگ کو جلانا، اپنی آزادی کے نام پر دوسروں کی آزادی میں خلل ڈالنا وغیرہ۔ یہ سب انتہا پسندی کے طریقے ہیں۔ اور انتہا پسندی درست نہیں، نہ اسلام کے مطابق، اور نہ عقل کے مطابق۔
۲۴۔ ۱۹ فروری 2006 کو حسبِ معمول 1، نظام الدین ویسٹ مارکیٹ میں ہفتے وار اسپریچول کلاس ہوا۔ اس میں تقریر کا موضوع ڈنمارک کے اخبار میں شائع شدہ کارٹون کا مسئلہ تھا۔ ڈیڑھ گھنٹے کی تقریر میں بتایا گیا کہ کارٹون کے مسئلے پر مشتعل ہونا اور مظاہرے کرنا، اسلامی تعلیم کے مطابق نہیں۔ اِس طرح کی چیزوں کو نظر انداز کرنا چاہیے نہ کہ ان کو لے کر پُر تشدد مظاہرے کیے جائیں۔ مسلمان ایک داعی گروہ کا نام ہے، اور داعی گروہ اِس کا تحمل نہیں کرسکتا کہ وہ ایسے مظاہرے کرے جس کے نتیجے میں داعی اور مدعو کے درمیان دوری پیدا ہوجائے اور اسلام لوگوں کی نظر میں ایک بدنام مذہب بن جائے۔ مزید بتایا گیا کہ ساتویں صدی عیسوی میںاسلامی انقلاب کے بعد جو تاریخی پراسس جاری ہوا، اس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ دعوہ ورک کے نیے امکانات سامنے آگئے۔ اب ہمارا کام اِن امکانات کو استعمال کرنا ہے نہ کہ منفی کارروائیوں سے ماحول کو اتنا خراب کرنا کہ دعوہ ورک مشکل ہوجائے تقریر کے آخر میں آدھ گھنٹہ سوال اور جواب کے لیے دیا گیا۔ ایک سوال یہ تھا کہ آپ صبر واعراض کی تلقین کرتے ہیں۔ اگر ہم لوگ صبر واعراض کا طریقہ اختیار کریں تو لوگ اور زیادہ دلیر ہوجائیں گے اور ہم کو بزدل سمجھ لیں گے۔ جواب میں بتایا گیا کہ یہ سوچ صحیح نہیں ہے۔ صبر واعراض بے عملی کا نام نہیں بلکہ وہ ایک منصوبہ بند عمل کا نام ہے۔ صبر واعراض کا مطلب اپنے لیے وقفۂ تعمیر حاصل کرنا ہے۔ ایک سوال یہ تھا کہ رسول اور اصحابِ رسول نے اُس وقت صبر کا طریقہ اپنایا جب کہ وہ تعداد میں بہت کم تھے۔ آج مسلمان عددی اعتبار سے ایک بلین ہوگیے ہیں۔ کیا ایسی حالت میں بھی صبر واعراض کا طریقہ اپنایا جائے گا۔ جواب میں کہا گیا کہ یہ مسئلہ تعداد کا نہیں ہے بلکہ اصول کا ہے۔ صبر واعراض ایک ابدی اصول ہے وہ ہر حال میں اختیار کیا جائے گا خواہ مسلمانوں کی تعداد کم ہو یا زیادہ۔ جس طرح نماز ہر حال میں پڑھی جائے گی خواہ مسلمان کم ہوں یا زیادہ۔
واپس اوپر جائیں