Pages

Friday, 1 September 2006

Al Risala | September 2006 (الرسالہ،ستمبر)

2

- رمضان کا مہینہ

3

- فتویٰ ایکٹوزم یا ایجوکیشنل ایکٹوزم

7

- سب کچھ امتحان

10

- جنت کس کے لیے

13

- شناخت کا مسئلہ

16

- مقبول دعا

19

- جذبات کو ٹھیس پہنچنا

23

- ٹیم کی اہمیت

26

- سی پی ایس انٹرنیشنل

41

- ذہنی تناؤ کا مسئلہ

43

- سادہ فارمولا


رمضان کا مہینہ

رمضان میں ایک مہینے کے لیے روزہ رکھا جاتا ہے۔ یعنی دن کے اوقات میں کھانے اور پینے کو پوری طرح چھوڑ دینا۔ دوسرے لفظوں میں آدمی سال کے گیارہ مہینے تک کھانے اور پینے کا تجربہ کرتا ہے اور سال کے ایک مہینے میں وہ یہ تجربہ کرتا ہے کہ نہ کھانا کیا ہے اور نہ پینا کیا۔ یہ با خوراک زندگی کے بعد بے خوراک زندگی کا تجربہ ہے۔ یہ آزاد زندگی کے بعد پابند زندگی کا تجربہ ہے۔
غذا کی حیثیت ایک علامت کی ہے۔ غذا علامتی طورپر یہ بتاتی ہے کہ خدا نے اِس دنیا میںاستثنائی طورپر انسان کے لیے وہ عظیم سسٹم بنایا ہے جس کو لائف سپورٹ سسٹم کہا جاتا ہے۔ وسیع کائنات میں اَن گنت ستارے اور سیّارے ہیں لیکن کہیں بھی وہ لائف سپورٹ سسٹم نہیں جو صرف ہماری زمین میں خصوصی طورپر پایا جاتا ہے۔
رمضان کا مہینہ دراصل اِسی عظیم نعمت کی یاد دہانی ہے۔ رمضان کا مہینہ یہ یاد دلاتا ہے کہ اگر زمین پر لائف سپورٹ سسٹم موجود نہ ہو تو انسان کا کیا حال ہوگا۔ لائف سپورٹ سسٹم کے بغیر انسان بے یارومددگار ہو کر رہ جائے گا۔ وہ عجز کے آخری مقام پر پہنچ جائے گا۔ اس کے بعد زمین پر پانی نہ ہوگا جس کو وہ پیے۔ خوراک نہ ہوگی جس کو وہ کھائے۔ آکسیجن نہ ہوگا جس میں وہ سانس لے۔ سورج کی روشنی نہ ہوگی جس میں وہ چلے پھرے۔ زمین میں قوتِ کشش نہ ہوگی جس کے اوپر وہ اپنے تمدّن کی تعمیر کرے،وغیرہ۔
قرآن میں رمضان کے فائدے کو بتانے کے لیے دو لفظ استعمال کیے گیے ہیں۔ لعلکم تتقون، لعلکم تشکرون (البقرہ) اِس کا مطلب یہ ہے کہ رمضان، آدمی کو لائف سپورٹ سسٹم کی اہمیت یاد دلاتا ہے، تاکہ وہ شکرِ خداوندی کے احساس میں غرق ہوجائے۔ اِسی طرح وہ یہ بھی یاد دلاتا ہے کہ اگر یہ لائف سپورٹ سسٹم نہ ہو تو اس کی پوری زندگی تباہ ہو کر رہ جائے گی۔ رمضان کا مہینہ ایک اعتبار سے تقویٰ کا مزاج پیدا کرتا ہے، اور دوسرے اعتبار سے شکر کا مزاج۔ اور بلا شبہہ انھیں دونوں قسم کے احساسات میں جینے کا نام اسلام ہے۔
واپس اوپر جائیں

فتویٰ ایکٹوزم یا ایجوکیشنل ایکٹوزم

آج کل مختلف قسم کے ایکٹوزم (activism) کا چرچا ہے۔ مثلاً پولٹکل ایکٹوزم، سوشل ایکٹوزم، ملّی ایکٹوزم اور میڈیا ایکٹوزم، وغیرہ۔ انھیں میں سے ایک وہ ہے جس کو جوڈیشیل ایکٹوزم (judicial activism) کہا جاتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ پبلک انٹرسٹ (مفادِ عامہ) کے کاموں میں عدالت سے رجوع کرکے اس کا حکم حاصل کرنا، قانون کی مدد سے مفادِ عامّہ سے تعلق رکھنے والے مقاصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرنا۔ جوڈیشیل ایکٹوزم کا یہ طریقہ سیکولر طبقے کے لوگوں کے یہاں رائج ہے۔
اِسی طرح مسلمانوں کے کچھ مذہبی طبقے نے کچھ عرصے سے وہ طریقہ اختیار کر رکھا ہے جس کو فتویٰ ایکٹوزم کہا جاسکتا ہے۔ یہ لوگ مسلمانوں کی اصلاح کے مقصد کے لیے فتوے کا طریقہ اختیار کررہے ہیں۔ مثلاً کسی لباس کو غیر دینی لباس بتا کر اس کے خلاف فتویٰ دینا، کسی مشروب کو غیر اسلامی مشروب بتا کر اس کے حُرمت کا فتویٰ جاری کرنا، کسی مذہبی مقام پر عورتوں کے جانے کو ممنوع قرار دینے کے لیے فتویٰ جاری کرنا، کسی کو پیغمبر کی شان میں گستاخی کرنے والا بتا کر اس کے قتل کا فتویٰ صادر کرنا، کسی مصنف کو متنازعہ قرار دے کر یہ فتویٰ جاری کرنا کہ اس کی کتابیں نہ پڑھو، کسی کو مرتد قرار دے کر اس کے خلاف بائکاٹ کا فتویٰ جاری کرنا، ٹیلی ویژن یا اسی قسم کی اور چیزوں کو حرام قرار دے کر ان سے اجتناب کرنے کا فتویٰ دینا، بینکنگ اور اسی طرح دوسری نئی چیزوں کو غیر اسلامی قرار دے کر اس کے عدم استعمال کا فتویٰ دینا، وغیرہ۔
اِس قسم کے فتوے موجودہ زمانے میں ہزاروں کی تعداد میں دیے گیے ہیں مگر سب کے سب بے اثر ثابت ہوئے ہیں۔ اِن میں سے ہر فتوے کا صرف یہ انجام ہوا کہ وہ مطلوب نتیجہ پیدا نہ کرسکا۔ پورے جدید دو رمیں مجھے صرف ایک واقعہ معلوم ہے جب کہ مفتی نے استفتا کے باوجود فتویٰ دینے سے انکار کردیا۔ یہی طریقہ میرے نزدیک صحیح طریقہ تھا۔
برٹش دَور میں، دہلی میں، ایک عالم تھے ان کا نام مولانا عبد الحق حقّانی (وفات ۱۸۳۱)تھا۔ انھوں نے قرآن کی ایک تفسیر لکھی تھی جو ’’تفسیر حقّانی‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ ان کے زمانے میں انگریزی حکومت نے سونا چاندی کے سکّے کی جگہ کاغذی نوٹ جاری کیے۔ یہ کاغذی نوٹ روایتی فقہی مسئلے کے اعتبار سے بظاہر غیر اسلامی تھے۔ مولانا عبد الحق حقّانی سے یہ فتویٰ پوچھا گیا کہ کاغذی نوٹ کا طریقہ اسلامی نقطۂ نظر سے جائز ہے یا ناجائز۔ انھوں نے اِس استفتا پر کوئی فتویٰ نہیں دیا،انھوں نے صرف یہ کہا کہ — میرا فتویٰ نہیں چلے گا اور نوٹ چل جائے گا۔ اس طرح کے معاملے میں یہی صحیح اسلامی طریقہ ہے۔
فتویٰ کا لفظی مطلب رائے (opinion) ہے۔ فتویٰ کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ کوئی شخص خود اپنے بارے میں پوچھے کہ مجھے فلاں معاملہ درپیش ہے۔ میں اس میں کیا کروں۔ مثلاً ایک خاتون کھلاڑی اپنے ڈریس کے بارے میں پوچھے کہ کھیل کے دوران مجھے اسلامی نقطۂ نظر سے کون سا ڈریس استعمال کرنا چاہیے۔ ایسی حالت میں فتویٰ دینا درست ہے۔ یہ وہ حالت ہے جب کہ فتویٰ پوچھنے والاخود اپنے بارے میں حکم کی پیروی کی نیت سے مفتی سے سوال کرے۔ ایسی حالت میں مفتی کو فتویٰ پوچھنے والے کا جواب دینا چاہیے۔ فتوے کا صحیح استعمال اور اس کا درست محل یہی ہے۔
د وسری صورت یہ ہے کہ سماج میں ایک بُرائی موجود ہے۔ اس کے بارے میں خود سماج کی طرف سے کوئی سوال نہ کیا جارہا ہو۔ ایک شخص ذاتی طور پر اُس سماجی مسئلے کو لے کر اس کے متعلق، استفتاء مرتب کرے اور اس کے بارے میں مفتی سے فتویٰ پوچھے۔ اِس صورت میں اگر مفتی فتویٰ دیتا ہے تو وہ فتوے کا غلط استعمال کرتا ہے۔ ایسا فتویٰ مثبت معنوں میں کوئی اصلاح تو پیدا نہیں کرے گا، البتہ وہ اسلام کی بدنامی کا سبب بن جائے گا۔
مثال کے طور پر کئی سماجی برائیاں ہیں جن کے خلاف مفتی صاحبان نے موجودہ زمانے میں فتوے دیے ہیں۔ مگر مولانا عبد الحق حقانی کی زبان میں، یہ ہوا کہ ان کافتویٰ تو نہیں چلا، البتہ برائیاں بدستور جاری رہیں۔ مثلاً بدعات کے خلاف فتویٰ، مشرکانہ رسموں کے خلاف فتویٰ، شادیوں میں جہیز کے خلاف فتویٰ، ٹی وی اور سینما کے خلاف فتویٰ، لاؤڈاسپیکر کے خلاف فتویٰ، بینک انٹرسٹ کے خلاف فتویٰ، داڑھی نہ رکھنے کے خلاف فتویٰ، مغربی لباس کے خلاف فتویٰ، انگریزی تعلیم کے خلاف فتویٰ، وغیرہ۔ جیسا کہ معلوم ہے، یہ تمام فتوے بے نتیجہ ہو کر رہ گیے، معاشرے کے اوپر ان کا کوئی اثر نہیں پڑا۔
میرے مطالعے کے مطابق، اِس معاملے میں صحیح بات یہ ہے کہ صرف صاحبِ معاملہ کو اپنے بارے میں استفتا کا حق ہے، اور اِسی طرح کے معاملے میں مفتی کو فتویٰ دینا چاہیے۔ مثلاً اگر کوئی شخص مفتی کے پاس اِس قسم کا استفتا بھیجے کہ فلاں مسجد کے امام کی داڑھی چھوٹی ہے، تو کیا ایسے امام کے پیچھے مقتدیوں کی نماز ہوتی ہے یا نہیں۔ اِس قسم کا استفتا ایک فتنہ ہے نہ کہ حقیقتاً کوئی استفتا۔ مفتی کو چاہیے کہ وہ ایسے استفتا کا جواب نہ دے۔ استفتا کا تعلق، فتویٰ پوچھنے والے کے ذاتی معاملے سے ہے نہ کہ اس کی ذات کے باہر دوسروں کے معاملے سے۔
اب سوال یہ ہے کہ عمومی اصلاح یا معاشرتی اصلاح کے بارے میں اسلام کا طریقہ کیا ہے۔ یہ طریقہ تذکیر اور نصیحت کا طریقہ ہے نہ کہ فتوے کا طریقہ۔ یعنی تحریر اور تقریر کے ذریعے لوگوں کو سمجھانا۔ سمجھانے کا یہ کام ’’قولِ بلیغ‘‘ کی زبان میں ہوناچاہیے۔ یعنی ایسی زبان اور دلیل جو سننے والے کے دل میں اُتر جائے۔ یہاں تک کہ وہ اس کی صداقت کا اعتراف کرلے۔
نصیحت اور تذکیر کے اِس طریقے کو آج کل کی زبان میںایجوکیشنل ایکٹوزم کہا جاسکتا ہے۔ یعنی تعلیم اور تربیت کے ذریعے لوگوں کی اصلاح کرنا، لوگوں کے ذہن کو بدلنے کی کوشش کرنا۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اصلاحِ معاشرہ کے بارے میں اسلام کا اصول ایجوکیشنل ایکٹوزم پر مبنی ہے نہ کہ فتویٰ ایکٹوزم پر۔
اِس معاملے میںایک رہنما مثال وہ ہے جس کا ذکر صحیح البخاری میںآیا ہے۔ حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ اسلام کے ابتدائی زمانے میں قرآن کی جو آیتیں اُتریں ان میں جنت اور جہنم کا ذکر تھا۔ تاکہ لوگوں کے دلوں میں اسلام کے بارے میںنرم گوشہ پیداہو اور لوگوں کے اندر ذہنی آمادگی آجائے۔ اِس طرح جب قبولیت کی استعداد پیدا ہوگئی تو اس کے بعد قرآن میں اترا کہ زنا چھوڑ دو، اور شراب چھوڑ دو۔ ایسا حکم اگر پہلے اُترتا تو لوگ اس کی تعمیل نہ کرتے بلکہ وہ یہ کہتے کہ ہم تو زنا نہ چھوڑیں گے، ہم تو شراب نہ چھوڑیں گے۔(لاندع الزنا أبداً ولا ندع الخمرأبداً)
اِس سے معلوم ہوا کہ عمومی اصلاح کا کام فتویٰ یا حکم جاری کرنے سے نہیں ہوتا، بلکہ اِس کام کے لیے سب سے پہلے لوگوں کے اندر قبولیت کی استعدادپیدا کی جاتی ہے اِس کے بعد ان کو حکم دیا جاتا ہے۔ استعداد پیدا کیے بغیر حکم دینا کسی بھی درجے میں مسئلے کا کوئی حل نہیں۔
جب بھی کسی معاشرے میں بگاڑ آتا ہے تو اس کا سبب یہ نہیں ہوتا کہ لوگوں کو حُکم یا قانون کا علم نہیں ہے، اس لیے لا علمی کی بنا پر لوگ غلط کاموں میں مبتلا ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ معاشرتی بگاڑ کا سبب لوگوں کے اندر اسپرٹ کی کمی ہوتی ہے نہ یہ کہ وہ حکم اور قانون سے بے خبر ہیں۔
ایسی حالت میں سماج سُدھار یا معاشرے کی اصلاح کا نقطۂ آغاز یہ نہیں ہے کہ قانونی حکم کو لے کر فتویٰ صادر کیا جائے، بلکہ اس کا نقطۂ آغاز یہ ہے کہ لوگوں کے اندر اسپرٹ کو جگایا جائے، لوگوں کے اندر شعور کو زندہ کیا جائے، لوگوں کے اندر مادّۂ قبولیت پیدا کیا جائے۔ جب یہ کام قابلِ لحاظ حد تک ہوجائے اس کے بعد وہ وقت آتا ہے جب کہ لوگوں کو حکم اور قانون کی زبان میں مسائل سے آگاہ کیا جائے۔ داخلی استعداد پیدا کرنے سے پہلے، خارجی احکام کا اعلان کرنا ایک غلط ترتیب ہے۔ یہ گھوڑے کے آگے گاڑی باندھنا ہے جو کہ یقینی طورپر قابلِ عمل نہیں۔
فتویٰ ایکٹوزم ہو یا دوسرا کوئی ایکٹوزم، ہر ایک کو جانچنے کا طریقہ صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ عملی طورپر اس کا نتیجہ کیا نکلنے والا ہے۔ کسی عمل کی درستگی کو جاننے کا ذریعہ صرف اس کا صحیح نتیجہ ہے۔ یہ ایک مسلّم اصول ہے کہ عمل کو ہمیشہ نتیجہ رُخی عمل (result-oriented action) ہوناچاہیے۔ اور فتویٰ ایکٹوزم بلا شبہہ اِس اصول عام سے مستثنیٰ نہیں۔
واپس اوپر جائیں

سب کچھ امتحان

قرآن میں ارشاد ہوا ہے: ولنبلونکم بشیٔ من الخوف والجوع ونقص من الأموال والأنفس والثمرات وبشّر الصابرین (البقرہ: ۱۵۵)
اس آیت میں بتایاگیا ہے کہ خدا ہر انسان کو خوف، بھوک، جانی ومالی نقصان، اور فوائد میں گھاٹے کے ذریعہ آزماتا ہے۔ ایسی حالت میں اُن لوگوں کے لیے بشارت ہے جو ان نقصانات پر صبر کریں اور یہ کہہ دیں کہ ہم خدا کے لیے ہیں اور ہم کو خدا کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ نقصانات براہِ راست طورپر آسمان سے نازل ہوتے ہیں۔ بلکہ اِس کا مطلب یہ ہے کہ خدا نے موجودہ دنیا کو امتحان کے مقصد سے بنایا ہے۔ اِس بنا پر انسان کو آزادی دی ہے۔ یہ انسانی آزادی طرح طرح کے مسائل پیدا کرتی ہے۔ اسی آزادی کی بنا پر ایک انسان کو دوسرے انسان سے تلخ تجربات پیش آتے ہیں۔ اِن تجربات کے دوران اپنے آپ کو مؤمنانہ حالت پر برقر ار رکھنا، یہی امتحان پر پورا اترنا ہے اور ایسے ہی لوگوں کے لیے جنت کا وعدہ ہے۔
تجربہ بتاتا ہے کہ اس امتحان میں بیش تر لوگ ناکام ہوجاتے ہیں۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ پیش آنے والا ناخوش گوار تجربہ بظاہر کسی انسان کی طرف سے پیش آتا ہے۔ اِس ظاہری مشاہدے کی بنا پر آدمی اس کو کسی انسان کی طرف منسوب کردیتا ہے جس کی طرف سے اس کو یہ تجربہ پیش آیا تھا۔ اِس غلط انتساب کی بنا پر وہ اِس تجربے سے صرف غصہ وانتقام اور نفرت کی غذا لیتا ہے۔ وہ ساری عمر منفی نفسیات میں مبتلا رہتا ہے۔
اس معاملے میں صحیح بات یہ ہے کہ آدمی پیش آنے والے ناپسندیدہ واقعے کو خدا کی طرف منسوب کرے۔ وہ اس کو خدا کے قائم کردہ تخلیقی نظام کا نتیجہ قرار دے۔ ایسا کرنے کی صورت میں آدمی منفی نفسیات کا شکار نہ ہوگا۔ وہ اس کو نظامِ فطرت کا نتیجہ سمجھ کر اس پر راضی رہے گا، اور اِسی راضی رہنے کا دوسرا نام صبر ہے۔
کوئی شخص راستہ چل رہا ہو اور اچانک بارش آجائے جس میں اولے ہوں تو وہ کبھی اس پر غصہ نہیں ہوگا بلکہ وہ فوراً کسی قریبی جگہ میں جاکر پناہ لے گا۔ لیکن اسی انسان کو اگر کوئی شخص پـتھر مار دے تو وہ فوراً غصہ، انتقام اور نفرت کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس فرق کا سبب یہ ہے کہ آدمی اولے کو خدا کی طرف سے سمجھتا ہے اور پـتھر کو انسان کی طرف سے۔ یہی فرق اِس طرح کے معاملے میں انسان کی نفسیات کو بدل دیتا ہے۔ وہ اولے کے معاملے میں مثبت رد عمل کا مظاہرہ کرتا ہے اور پتھر کے معاملے میں منفی رد عمل کا مظاہرہ۔
اِس مثال سے زندگی کے معاملے کو سمجھا جاسکتا ہے۔ کامیاب اسلامی زندگی کا راز یہ ہے کہ آدمی ہر نقصان یا ہر ناخوش گوار تجربے کو خدا کی طرف سے سمجھے۔ ایسا سمجھنا اس کے اندر مثبت احساسات کی تعمیرکرے گا۔ وہ اس کو منفی نفسیات میں مبتلا ہونے سے بچائے گا۔ ایسے ہی لوگ خدا کے نزدیک صبر کرنے والے لوگ ہیں، یعنی خدا کے قائم کردہ نظام پر راضی رہنے والے۔ ایسے ہی انسان کو قرآن میں نفسِ مطمئنہ کہاگیا ہے، اور جنت انھیں لوگوں کے لیے مقدر ہے جونفس مطمئن کے ساتھ آخرت تک پہنچیں۔
ایک حدیثِ قدسی میں آیا ہے کہ: أنا عند المنکسرۃ قلوبہم۔ میں ٹوٹے ہوئے دلوں کے پاس رہتا ہوں۔ کون لوگ ہیں جو اِس ٹوٹے ہوئے دل کا شکار ہوتے ہیں— یہ وہ لوگ ہیں جن کے ساتھ مصیبتیں پیش آتی ہیں۔ جو نقصان اور محرومی کا تجربہ کرتے ہیں۔ جن کی زندگی غم میں گذرتی ہے۔ اِس صورت حال کی روشنی میںاِس حدیث پر اور غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ مصیبت اپنی حقیقت کے اعتبار سے مصیبت نہیں ہے بلکہ وہ ایک رحمت ہے۔ یہ زحمت میں رحمت (blessing in disguise) کا معاملہ ہے۔
اِس پہلو سے غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ وہ چیز جس کو فلاسفہ اور مفکرین خرابی کا مسئلہ (problem of evil) کہتے ہیں، وہ در اصل غلط تسمیہ (wrong nomenclature) کا معاملہ ہے۔ لوگ جس چیزکو خرابی کہتے ہیں وہ در اصل اِس لیے ہے تاکہ انسان سب سے بڑی حقیقت کا تجربہ کرے، یہ سب سے بڑی حقیقت عجز ہے۔ خدا کے مقابلے میں بندے کی حیثیت ایک عاجز مخلوق کی ہے۔ لیکن ہر آدمی کے چھپی ہوئی انا(ego) اس کو اپنے بارے میں دھوکے میں رکھتی ہے۔ مصیبت کا مقصد یہ ہے کہ آدمی انا کے فرضی خول سے باہر آئے اور اِس حقیقت کی دریافت کرے کہ وہ صرف ایک عاجز مخلوق ہے، اس کے سوا اور کچھ نہیں۔
عجز کا یہی احساس انسان کی سب سے بڑی خوبی ہے۔ عجز کا احساس آدمی کو متواضع (modest) بناتا ہے۔ اس کے اندر حقیقت پسندانہ سوچ پیدا ہوتی ہے۔ وہ مفروضات سے باہر آکر حقائق کا ادارک کرنے لگتا ہے۔ گویا کہ مصیبت ہی وہ چیز ہے جو اِس دنیا میں اعلیٰ انسانی شخصیت کی تشکیل کرتی ہے۔ اعلیٰ انسانی شخصیت کی تعمیر کا دوسرا کوئی کورس یہاں موجود نہیں۔
انسانی زندگی کو سمجھنے کا اصل سرا یہ ہے کہ آدمی یہ جانے کہ خدا کے تخلیقی نقشے کے مطابق‘ انسان کی پوزیشن موجود ہ دنیا میں کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ آدمی اِس دنیا میںامتحان کے لیے آباد کیاگیا ہے۔ اِس دنیا کی خوشی اور غم‘ کامیابی اور ناکامیابی‘ پانا اور کھونا‘ سب کچھ امتحان کے لیے ہے۔ یہاں طاقت ور آدمی بھی امتحان کی حالت میںہے، اور کمزور آدمی بھی امتحان کی حالت میں۔
اِس دنیا میں کامیابی کا راز یہ نہیں ہے کہ آدمی مادّی سازوسامان اپنے گرد اکھٹا کرلے۔ یہاں کامیابی کا راز یہ ہے کہ آدمی کو امتحان کاجو پرچہ دیاگیا ہے اس پرچے کو حل کرنے میں وہ کامیاب ٹھہرے۔
یہ نظریہ آدمی کو حقیقت پسند بناتا ہے۔ وہ آدمی کے اندر تواضع کی نفسیات پیدا کرتا ہے۔ وہ اس کو صبر و تحمل والا آدمی بنادیتا ہے۔ زندگی کا یہ نظریہ جس کے دل میں بیٹھ جائے وہ ہر قسم کی منفی نفسیات سے خالی ہوجائے گا۔ اس کا حال یہ ہوجائے گا کہ وہ دوسروں کے بارے میں سوچنے کے بجائے خود اپنے بارے میں سوچے۔ وہ دوسروں کی غلطیاں بتانے کے بجائے خود اپنی غلطی پر دھیان دینے لگے۔ فخر و غرورکی نفسیات کا اس کے اندر مکمل خاتمہ ہوجائے۔ سچائی کا اعتراف کرنے میںاس کے لیے کوئی چیز روک نہ بن سکے۔ وہ مصنوعی انسان کے بجائے ایک حقیقی انسان بن جائے۔
واپس اوپر جائیں

جنت کس کے لیے

ایک تعلیم یافتہ غیر مسلم نے کہا کہ میں لوگوں کے درمیان اچھے اخلاق کے ساتھ رہتا ہوں، کبھی کسی کو تکلیف نہیں دیتا۔ میری کوشش یہ رہتی ہے کہ میں اپنے سماج کا اچھا ممبر بنوں۔ اس لیے مجھے یقین ہے کہ موت کے بعد مجھ کو جنت ملے گی۔ جب میں ایک اچھا انسان ہوں تو خدا مجھے جہنم میں کیوں ڈال دے گا۔
میں نے کہا کہ صرف اچھے اخلاق کی بنا پر کوئی شخص جنت میں نہیں جائے گا۔ جنت کیا ہے، جنت دراصل خدا کے پڑوس کا نام ہے۔ خدا اپنے پڑوس میں صرف ان لوگوں کو رہنے کی جگہ دے گا جو خدائی اخلاقیات کے حامل ہوں، صرف سماجی اخلاقیات کی بنا پر کوئی شخص جنت میں داخلے کا مستحق نہیں بن سکتا۔
اصل یہ ہے کہ ایک اخلاق وہ ہے جو انسان بمقابلہ انسان (man versus man) کی نسبت سے پیداہوتا ہے، اور دوسرا اخلاق وہ ہے جو انسان بمقابلہ خدا (man versus God) کی نسبت سے پیدا ہوتا ہے۔ دونوں قسم کے اخلاق کا محرّک بالکل الگ الگ ہے۔ انسان کی نسبت سے جو اخلاق کسی کے اندر پیدا ہوتا ہے وہ دراصل سماجی اخلاق ہوتا ہے۔ اس کا محرّک یہ ہوتا ہے کہ آدمی اپنے سماج کے اندر بے ضرر زندگی حاصل کرسکے۔ وہ لوگوں کی نظر میں اچھا بنا ہوا ہو۔ لوگ اس کو سماج کا اچھا ممبر سمجھیں۔
اس کے مقابلے میں خدا کی نسبت سے جو اخلاق پیدا ہوتا ہے اس کا سرچشمہ دراصل معرفتِ خداوندی ہوتا ہے۔ ایک آدمی جب اپنے خالق کو دریافت کرتا ہے ،تو یہ دریافت اس کے ذہن کو بالکل بدل دیتی ہے۔ اس کی ربّانی فطرت جاگ اٹھتی ہے۔ اس کے نتیجے میں اس کے اندر وہ تمام صفات پیدا ہوجاتی ہیں جن کواعلیٰ انسانی اخلاق کہاجاتا ہے۔
انسان کی نسبت سے جواخلاقیات پیدا ہوتی ہیں وہ سماجی محرک کے تحت پیدا ہوتی ہیں۔ اس لیے سماج سے رشتہ ٹوٹنے کے بعد ان کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ ایسا اخلاق وقتی مقصد کے لیے ہوتا ہے اور وقت گذرنے کے ساتھ ہی وہ ختم بھی ہو جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں خدا کی نسبت سے جو اخلاقیات پیدا ہوتی ہیں وہ ابدی محرک کے تحت پیدا ہوتی ہیں۔ ان کا رشتہ خدا کی ابدیت کے ساتھ جڑا ہوا ہوتا ہے۔ اِس لیے ایسا انسان اِس قابل ٹھیرتا ہے کہ وہ خدا کی ابدی جنت میں جگہ پائے۔
خدائی اخلاقیات دراصل خدا کی معرفت سے پیدا ہونے والے کردار کا نام ہے۔ مثلاً خدا خالق ہونے کی حیثیت سے اپنے بندوں کے ساتھ محبت کرتا ہے۔ اس لیے ایسا انسان دوسرے انسانوں سے محبت کرنے لگتا ہے۔ خدا یوم الحساب کا جج ہے۔ یہ عقیدہ ایسے آدمی کے اندر شدید محاسبہ (accountability) کا احساس پیدا کردیتا ہے۔ وہ ہر ایسے قول یا فعل سے بچنے لگتا ہے جس میں یہ اندیشہ ہو کہ خدا اس کو پکڑے گا اور اس کو سخت سزا دے گا۔ ایسے انسان کا ذہن یہ بن جاتا ہے کہ دینے والا بھی خدا ہے اور چھیننے والا بھی خدا۔ یہ احساس اس کے اندر کبر کی نفسیات کو مکمل طورپر ختم کردیتا ہے۔ کسی انسان کو کم سمجھنا اس کے لیے ایک ایسی روش بن جاتی ہے جس کا وہ تحمل نہ کرسکے۔
پہلی قسم کے انسان کا اخلاق آزادانہ اخلاق ہوتا ہے، جب کہ دوسری قسم کے انسان کا اخلاق خدا کے ساتھ عبدیت کا تعلق قائم کرنے کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ پہلی قسم کے انسان کا اخلاق دُنیوی اخلاق ہوتا ہے، اور دوسری قسم کے انسان کا اخلاق جنّتی اخلاق۔ سماجی اخلاق ہمیشہ ایک حد پر پہنچ کر ختم ہوجاتا ہے۔ جب کہ خدائی اخلاق کا معاملہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کی کبھی اور کسی حال میں کوئی حد نہیں آتی۔
ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے اور جنت کی قیمت خدا کی معرفت ہے۔ معرفتِ خداوندی سے کم تر درجے کی کوئی چیز جنت کی قیمت نہیں بن سکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ جنت کی تصغیر ہے کہ معرفتِ اعلیٰ سے کم تر کسی چیز کو جنت کی قیمت سمجھا جائے۔
معرفت کیا ہے، معرفت (realization) دراصل خدا کی دریافت (discovery) کا نام ہے۔ یہ نہ دکھائی دینے والے خدا کو بصیرت کی آنکھ سے دیکھ لینا ہے۔ یہ اعلیٰ شعور کا ایک ایسا درجہ ہے جب کہ آدمی کے لیے خدا کے سوا ہر چیز غیر اہم بن جائے، جب کہ خدا کے سوا ہر چیز اپنی کشش کھودے۔ جب کہ خدا ہی انسان کا سب سے بڑا کنسرن (concern) بن جائے۔
یہ معرفت کوئی سادہ بات نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ معرفت کے اوپر شبہات (doubts) کے ہزاروں پردے پڑے ہوئے ہیں۔ جو آدمی شبہات کے اِن پردوں کو پھاڑ سکے وہی اُس اعلیٰ یقین کے درجے تک پہنچتا ہے جس کو معرفت کہا جاتا ہے۔ معرفت کے متلاشی کو بہر حال اس امتحان میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ جو آدمی شبہات کے پردے کو پھاڑنے کے اِس امتحان میں پورا اُترے وہی معرفتِ خداوندی کا تجربہ کرسکتا ہے۔
حصولِ معرفت کی حقیقی پہچان صرف ایک ہے، اور وہ داخلی ہے۔ یعنی یہ کہ آدمی خدا کو اِس طرح پائے کہ وہ کامل طورپر اس کی فطرت کی آواز بن جائے۔ آدمی پیدائشی طورپر ایک متلاشی انسان ہے۔ آدمی پیدائشی طورپر حقیقتِ اعلیٰ کو دریافت کرنا چاہتا ہے۔ معرفت اسی تلاش کا جواب ہے۔ ایک بچّہ اپنی ماںکی تلاش میں ہو تو اپنی ماں کو پاکر وہ اپنے پورے وجود کے ساتھ اُس سے لپٹ جاتا ہے۔ یہی معاملہ صاحبِ معرفت کا ہے۔ جب کسی انسان کو حقیقی معنوں میں خدا کی معرفت حاصل ہوتی ہے تو وہ اس کو پانے کے بعد اِس طرح کامل طورپر اپنے خدا کے ساتھ جُڑ جاتا ہے جس طرح ایک چھوٹا بچہ اپنی ماں کے ساتھ۔
معرفت کے معاملے میں کوئی بھی عُذر (excuse) قابلِ قبول نہیں۔ جوآدمی موجودہ دنیا میں معرفت کے حصول میں اندھا ثابت ہو وہ آخرت میں بھی اندھا رہے گا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ معرفت جب اپنے دلائل اور اپنی نشانیوں کے ساتھ سامنے آتی ہے تو کسی بینا انسان کے لیے ناممکن ہوجاتا ہے کہ وہ اس کو نہ پہچانے۔ اس کے وجود میں چھپا ہوا احساسِ معرفت کافی ہوجاتا ہے کہ وہ اس کو پہچاننے سے محروم نہ رہے۔
ایک بچے کی ماں غائب ہو اور پھر وہ اس کے سامنے آجائے تو یہ ناممکن ہوتا ہے کہ بچہ اپنی ماں کو پہچاننے میں ناکام رہ جائے۔ بچّے کے اندر ماں کی معرفت اتنی زیادہ قوی ہوتی ہے کہ اس کے لیے یہ ناممکن ہوجاتا ہے کہ اس کی ماں اس کے سامنے آجائے اور وہ اس کو پہچاننے سے قاصر رہے۔ اسی طرح جب دلائل اور نشانیوں کے ذریعے خدا کی معرفت کسی آدمی کے سامنے کھل جائے تو وہ اس کا تحمّل نہیں کرسکتا کہ وہ اس کو نہ پہچانے۔ جو بچہ اپنی ماں کو نہ پہچانے وہ بلا شبہہ اندھا ہے، وہ اپنی باہر کی آنکھ سے بھی محروم ہے اور اپنی اندر کی آنکھ سے بھی محروم۔
واپس اوپر جائیں

شناخت کا مسئلہ

ایک تعلیم یافتہ مسلمان سے ملاقات ہوئی۔ ان سے میرے ساتھی نے CPS International کا تعارف کرایا اور کہا کہ اِس تنظیم کے تحت، ہم غیر مسلموں میں دعوت کا کام کررہے ہیں۔انھوں نے کہا کہ میں نے الرسالہ میں اس کا ذِکر پڑھا ہے، مگر میں نے یہ بھی سُنا ہے کہ جو لوگ اسلام کو اپناتے ہیں آپ ان کا نام نہیں بدلتے۔ ان کو اسلامی لباس اور اسلامی وضع قطع اختیار کرنے کے لیے نہیں کہتے۔ ان کے قدیم تشخص کو بدل کر انھیں اسلامی تشخص پر لانے کی کوشش نہیں کرتے۔ آپ کا یہ طریقہ درست نہیں۔ ایسا آپ کیوں کررہے ہیں۔
میںنے کہا کہ مذکورہ تشخص(identity) نہ صرف غیر ضروری ہے بلکہ وہ ایک نقصان کی بات ہے۔ اسلام قبول کرنے والوں کی آئی ڈنٹٹی کو بدل کر آپ یہ کرتے ہیں کہ ان کا دعوتی رول ختم کردیتے ہیں۔ اگر ایسا ہو کہ اس کا دل اسلام کی صداقت پر پوری طرح مطمئن ہو اور وہ اپنا نام نہ بدلے تو وہ اپنی سوسائٹی سے کٹتا نہیں۔ اِس طرح وہ اِس قابل رہتا ہے کہ وہ اپنی سوسائٹی کے لوگوں میں اسلام کی دعوت کو پھیلا سکے۔ لیکن جب وہ اپنا نام اور اپنا ظاہری تشخص بدل لے تو اچانک ہی وہ اپنی سوسائٹی سے کٹ جاتا ہے۔ اس کے بعد فطری طورپر ایسا ہوتا ہے کہ وہ داعی کا رول ادا کرنے کے قابل نہیں رہتا۔
اِس معاملے میں قرآن کے اندر واضح رہنمائی موجود ہے۔قرآن کی سورہ نمبر ۴۰ میں حضرت موسیٰ کے ہم زمانہ مصری حکمراں فرعون کا ذکر ہے۔ حضرت موسی کی دعوت سننے کے بعد اس نے ارادہ کیاکہ وہ حضرت موسی کو قتل کردے۔ اس وقت فرعون کے دربار کے ایک ممبر نے مداخلت کی اور اس طرح بادشاہ کو قتل کے اِس ارادے سے روک دیا، اور حضرت موسی کو یہ موقع مل گیا کہ وہ حکومت کے تشدد سے محفوظ رہ کر اپنا پُرامن دعوتی کام جاری رکھ سکیں۔
دربارِ فرعون کے اس شخص کے بارے میں قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں: وقال رجل مؤمن من آلِ فرعون یکتم ایمانہ (المؤمن: ۲۸) یعنی آلِ فرعون میں سے ایمان لانے والے ایک شخص نے کہا جو کہ اب تک اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا۔
اِس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ فرعون کے شاہی حلقے کا ایک آدمی ایمان لاچکا تھا لیکن فرعون کو یا اس کے درباریوں کو اس کا کوئی علم نہ تھا۔ اِس شخص کا نام تفسیروں میںشمعان یا خبرک آیاہے ۔ سوال یہ ہے کہ اِس آدمی کو ایمان کا پیغام کیسے پہنچا۔ ظاہر ہے کہ وہ ہوا کے ذریعے نہیں پہنچا۔ یقینی طور پر وہ وقت کے پیغمبر حضرت موسیٰ کے ذریعہ پہنچا۔ اُس سے حضرت موسی کی ملاقات ہوئی۔ حضرت موسی نے اس کو حق کا پیغام پہنچایا اور پھر اس نے حضرت موسیٰ کے اوپر ایمان قبول کرلیا۔
یہاں واضح قرینے کے طورپر معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ نے اس کے ایمان کو تو قبول کر لیا لیکن آپ نے اس کا نام نہیں بدلا۔ آپ نے اس کی وضع قطع نہیں بدلی، آپ نے اس کو اس کے سابقہ تشخص پر باقی رہنے دیا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آدمی ایک نازک موقع پر ایک بے حد اہم رول ادا کرسکا۔ حضرت موسیٰ پر ایمان لاتے ہی اگر اس کا نام بدل دیا جاتا اور اس سے کہا جاتا کہ تم اپنے قدیم تشخص کو چھوڑو اور موسی کے تشخص کو اختیار کرلو۔ اگر ایسا کیا جاتا تو مذکورہ رجُل مؤمن فوراً فرعون کے حلقے سے کٹ جاتا۔ اس کے بعد وہ اِس قابل نہ رہتا کہ وہ فرعون کے دربار میں وہ اہم رول اداکرسکتا جو اس نے قرآن کے بیان کے مطابق، بعد کو ادا کیا۔
اِس واقعے سے ایک عظیم پیغمبرانہ سنت معلوم ہوتی ہے۔ وہ یہ کہ داعی کا کام آدمی کے دل کوبدلنا ہے نہ کہ اس کے ظاہری تشخص کو بدلنا۔ اِس عظیم حکمت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے موجودہ زمانے میں بڑے بڑے نقصانات ہوئے ہیں۔
بیسویں صدی میں بہت سے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد نے اسلام قبول کیا۔ مسلمانوں کی طرف سے کسی حقیقی دعوتی کوشش کے بغیر ان لوگوں نے قرآن کا مطالعہ کیا۔ ان کا دل اس پر مطمئن ہوگیا، اور پھر انھوں نے اسلام کو اپنا دین بنا لیا۔ ایسے افراد ہر ملک میں پائے جاتے ہیں۔ مگر عملاً یہ ہوا کہ اسلام قبول کرتے ہی ان کا دعوتی رول ختم ہوگیا۔ اس کا سبب یہ ہوا کہ اسلام قبول کرنے کے بعد جب وہ مسلمانوں سے ملے تو مسلمانوں نے فوراً ان کا نام بدلوایا، اور ان کے لباس اور وضع قطع کو بدل کر انھیں موجودہ مسلم معاشرے کا ایک فرد بنا لیا۔ ایسا کرتے ہی ان کا مطلوب دعوتی رول ختم ہوگیا۔ اس نام نہاد اسلامائزیشن کے بعد مسلمان تو خوش ہوگیے لیکن اسلامی دعوت کا عمل آگے نہ بڑھ سکا۔
مثلاً ہندستان میں ایک تعلیم یافتہ بنگالی ڈاکٹر نِشی کانت چٹوپادھیانے ذاتی مطالعے کے تحت اسلام قبول کیا۔ اس کے بعد فوراً مسلمانوں نے ان کانام بدل کر انھیں مسلم معاشرے کا ایک ممبر بنا لیا۔ وہ مشہور ہندو خاتون مسز سروجنی نائڈو کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ بہت بڑا دعوتی کام کرسکتے تھے مگر ظاہری تشخص کو بدلنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ مطلوب انداز میںاپنا دعوتی رول ادا کرنے کے قابل ہی نہ رہے۔ اِسی طرح ہنگری کے عبدالکریم جُرمانوس، آسٹریا کے محمد اسد، برطانیہ کے یوسف اسلام، امریکا کے حمزہ یوسف اور اِس طرح کے بہت سے لوگ ہیں جن کا انجام وہی ہوا جو ڈاکٹر نشی کانت کا ہوا۔ ان میں سے کوئی بھی ’’رجل مؤمن‘‘ کا رول ادا کرنے کے قابل نہ رہا۔ ہر ایک بس مسلم معاشرے کا ایک فرد بن کر رہ گیا۔
یہ انسانی نفسیات ہے کہ آدمی جب تک اپنا نام اور اپنا تشخص نہ بدلے وہ اپنی قوم کا ایک فرد شمار کیا جاتا ہے۔ وہ عقیدے یا نظریے کے معاملے میں الگ بات کہنے کے باوجود اپنی اِس حیثیت کو باقی رکھتا ہے کہ وہ جو کچھ کہے اس کو اس کی قوم کے افراد کسی توحّش کے بغیر سنیں۔ وہ اس کو اپنی ہی قوم کا ایک فرد سمجھ کر اس کی باتوں پر غور کریں۔ لیکن جب وہ اپنا نام اور اپنا تشخص بدل دے تو اس کے اور اس کی قوم کے درمیان ایک دوری قائم ہوجاتی ہے۔ وہ اس کو غیر کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں۔ اس کی باتوں کو سننے کے لیے ان کے اندر آمادگی باقی نہیں رہتی۔ اِس لیے یہ روش سراسر غیر حکیمانہ ہے کہ اسلام قبول کرتے ہی آدمی کا نام اور حلیہ بدل دیا جائے۔ کچھ نادان لوگ اِس سے خوش ہو سکتے ہیں لیکن خدا کے نزدیک وہ کوئی پسندیدہ بات نہیں، جیسا کہ آلِ فرعون کے ایک رجل مؤمن کی مثال سے واضح ہوتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

مقبول دعا

دعا آدمی کی پوری ہستی سے نکلتی ہے نہ کہ محض زبانی الفاظ سے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ خدا سے مانگنے والا کبھی محروم نہیں ہوتا۔ مگر مانگناصرف کچھ لفظوں کو دہرانے کا نام نہیں ہے۔ مانگنا وہی مانگنا ہے جس میں آدمی کی پوری ہستی شامل ہوگئی ہو۔ ایک شخص زبان سے کہہ رہا ہو ’’خدایا! مجھے اپنا بنالے‘‘ مگر عملاً وہ اپنی ذات کا بنا رہے، تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس نے مانگا ہی نہیں۔ اس کو جو چیز ملی ہوئی ہے، وہی دراصل اس نے خدا سے مانگی تھی۔ خواہ زبان سے اس نے جو لفظ بھی ادا کئے ہوں۔
ایک بچہ اپنی ماں سے روٹی مانگے تو یہ ممکن نہیں کہ ماں اس کے ہاتھ میں انگارہ رکھ دے۔ خدا اپنے بندوں پر تمام مہربانوں سے زیادہ مہربان ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ آپ خدا سے خشیت مانگیں اور وہ آپ کو قساوت دے دے۔ آپ خدا کی یاد مانگیں اوروہ آپ کو خدا فراموشی میں مبتلا کردے۔ آپ آخرت کی تڑپ مانگیں اور خداآپ کو دنیا کی محبت میں ڈال دے۔ آپ کیفیت سے بھری ہوئی دین داری مانگیں اور خداآپ کو بے روح دین داری میں پڑا رہنے دے۔ آپ حق پرستی مانگیں اور خدا آپ کو شخصیت پرستی کی کوٹھری میں بند کردے۔
آپ کی زندگی میں آپ کی مطلوب چیز کا نہ ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ نے ابھی تک اس کو مانگا ہی نہیں۔ اگر آپ کو دودھ خریدنا ہو اور آپ چھلنی لے کر بازار جائیں تو پیسے خرچ کرنے کے بعد بھی آپ خالی ہاتھ واپس آئیں گے۔ اسی طرح اگر آپ زبان سے دعا کے کلمات دہرارہے ہوں مگر آپ کی اصل ہستی کسی دوسری چیز کی طرف متوجہ ہو تو یہ کہنا صحیح ہوگا کہ نہ آپ نے مانگا تھا اور نہ آپ کو ملا۔ جو مانگے وہ کبھی پائے بغیر نہیں رہتا۔ یہ مالک کائنات کی غیرت کے خلاف ہے کہ وہ کسی بندے کو اس حال میں رہنے دے کہ قیامت میں جب خدا سے اس کا سامنا ہو تو وہ اپنے رب کو حسرت کی نظر سے دیکھے۔ وہ کہے کہ خدایا، میں نے تجھ سے ایک چیز مانگی تھی مگر تونے مجھے نہ دی۔ بخدا ،یہ ناممکن ہے۔ یہ ناممکن ہے۔ یہ ناممکن ہے۔ کائنات کا مالک تو ہر صبح وشام اپنے تمام خزانوں کے ساتھ آپ کے قریب آکر آواز دیتا ہے—’’کون ہے جو مجھ سے مانگے تاکہ میں اسے دوں‘‘ مگر جنھیں لینا ہے وہ اس سے غافل اور اندھے بنے ہوئے ہوں تو اس میں دینے والے کا کیا قصور۔
’’میرے لیے ایک بائیسکل خرید دیجئے‘‘ بیٹے نے باپ سے کہا۔ با پ کی آمدنی کم تھی۔ وہ بائیسکل خریدنے کی پوزیشن میں نہ تھا۔ اس نے ٹال دیا۔ لڑکا بار بار کہتا رہا اور باپ بار بار منع کرتا رہا۔ بالآخر ایک روز باپ نے ڈانٹ کر کہا ’’ میں نے کہہ دیا کہ میں بائیسکل نہیں خریدوں گا۔ اب آئندہ مجھ سے اس قسم کی بات مت کرنا‘‘۔
یہ سن کر لڑکے کی آنکھوں میںآنسو آگئے۔ وہ کچھ دیر چپ رہا۔ اس کے بعد روتے ہوئے بولا: ’’آپ ہی تو ہمارے باپ ہیں۔ پھر آپ سے نہ کہیں تو اور کس سے کہیں‘‘۔ اس جملے نے باپ کو تڑپا دیا۔ اچانک اس کا انداز بدل گیا۔ اس نے کہا: اچھا بیٹے اطمینان رکھو میںتمہارے لیے بائیسکل خریدوں گا، اور کل ہی خریدوں گا‘‘۔ یہ کہتے ہوئے باپ کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے۔ اگلے دن اس نے پیسے کا انتظام کرکے بیٹے کے لیے ایک نئی بائیسکل خرید دی۔
لڑکے نے بظاہر ایک لفظ کہا تھا۔ مگر یہ ایک ایسا لفظ تھا جس کی قیمت اس کی اپنی زندگی تھی، جس میں اس کی پوری ہستی شامل ہوگئی تھی۔ اس لفظ کا مطلب یہ تھا کہ اس نے اپنے آپ کو اپنے سرپرست کے آگے بالکل خالی کردیا ہے۔ یہ لفظ بول کر اس نے اپنے آپ کو ایک ایسے نقطے پر کھڑا کر دیا جہاں اس کی درخواست اس کے سرپرست کے لیے بھی اتنا ہی بڑا مسئلہ بن گئی جتنا کہ وہ خو د اس کے لیے تھی۔
اس واقعے سے سمجھا جاسکتا ہے کہ دعا کی وہ کون سی قسم ہے جس کے بعد خدا کی رحمتیں بندے کے اوپر امنڈ آتی ہیں۔ یہ رٹے ہوئے الفاظ کی تکرار نہیں ہے۔ نہ اس کا کوئی ’’نصاب‘‘ ہے۔ یہ دعا کی وہ قسم ہے جس میں بندہ اپنی پوری ہستی کو انڈیل دیتا ہے۔ جب بندے کی آنکھ سے عجز کا وہ قطرہ ٹپک پڑتا ہے جس کا تحمل زمین اور آسمان بھی نہ کرسکیں۔ جب بندہ اپنے آپ کو اپنے رب کے ساتھ اتنا زیادہ شامل کردیتا ہے کہ ’’مانگنے والا‘‘ اور ’’دینے والا‘‘ دونوں ایک ترازو پر آجاتے ہیں۔ یہ وہ لمحہ ہے جب کہ دعا ،محض لغت کا ایک لفظ نہیں ہوتا بلکہ وہ ایک شخصیت کے پھٹنے کی آواز ہوتا ہے۔ اس وقت خدا کی رحمتیں اپنے بندے پر ٹوٹ پڑتی ہے۔ بندگی اور خدائی دونوں ایک دوسرے سے راضی ہوجاتے ہیں۔ قادر مطلق ،عاجز مطلق کو اپنی آغوش میں لے لیتا ہے۔
حدیث میںآیا ہے کہ : لا یردّ القضاء إلا الدعاء (الترمذی، کتاب القدر، ابن ماجہ) یعنی قضا و قدر کے فیصلے کو صرف دعا بدل سکتی ہے۔ خدا نے اِس دنیا کا نظام اسباب و علل کی بنیاد پر قائم کیا ہے، اور پھر انسان کو مکمل آزادی دے دی ہے۔ اب انسان اپنی آزادی کے مطابق، عمل کرتا ہے اور خدا کے قائم کردہ نظام اسباب و علل سے مطابقت یا مخالفت کی بنیاد پر اس کا اچھا یا برُا نتیجہ اس کے سامنے آتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ نظام بالکل حتمی ہے۔ کوئی آدمی خواہ مخلص ہو یا غیر مخلص اُس کو بہر حال اِس نظام کو بھُگتنا ہے۔ کسی بھی شخص کے لیے اِس نظام کو منسوخ نہیں کیا جاتا۔
اِس معاملے میں صرف ایک استثنا ہے اور وہ دعا کا ہے۔ کوئی آدمی جب سچی دعا کرتا ہے اور اُس وقت اگر خدا اس کی دعا قبول کرلیتا ہے تو وہ اسباب کے نظام میں مداخلت کرکے اس کا راستہ ہموار کردیتا ہے۔ یہی مطلب ہے اِس بات کا کہ دعا، قضا وقدر کو بدل دیتی ہے۔
لیکن دعا الفاظ کی تکرار کا نام نہیں ہے۔ حتی کہ قرآنی دعائیں یا ماثور دعائیں بھی اگر صرف رَٹے ہوئے الفاظ کی تکرار ہوں تو وہ بھی مؤثر نہیں ہوسکتیں۔ نظامِ قضا کو بدلنے کے لیے وہ دعا درکار ہے جو دل کو پھاڑ کر کی جاتی ہے۔ جو دل کی پھٹن کی آواز ہوتی ہے۔ جس میںآدمی کی پوری شخصیت شامل ہوجاتی ہے۔
اِس قسم کی دعا کی قبولیت کی ایک اور شرط یہ ہے کہ دعا کرنے والے کا ذہنی تزکیہ اتنا زیادہ ہوچکا ہو کہ اس کی سوچ خدا کی سوچ بن جائے۔ ایسا آدمی وہی دعا کرے گا جو خدا کے نزدیک قابلِ قبول ہوتی ہے۔ اس کی زبان سے ایسی دعا نہیں نکلے گی جو خدا کی سنّت کے مطابق، قابلِ قبول ہی نہیں۔
واپس اوپر جائیں

جذبات کو ٹھیس پہنچنا

موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں ایک نئی اصطلاح ظہور میں آئی ہے۔ وہ ہے جذبات کو ٹھیس پہنچنا۔ اکثرایسا ہوتا ہے کہ کوئی ایسا واقعہ پیش آتا ہے جو مسلمانوں کے قومی جذبات کے خلاف ہوتا ہے۔ ایسے موقعے پر مسلمان بھڑک اٹھتے ہیں‘ اور مظاہرہ اور تشدد کی کارروائی کرنے لگتے ہیں۔ مسلم دانش ور یہ کہہ کر اس کو جائز بتاتے ہیں کہ اس واقعے سے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی اور جب ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچے گی تو فطری طورپر وہ مشتعل ہوجائیں گے۔ اور مظاہرے کریں گے‘ خواہ وہ تشدد تک پہنچ جائے۔
یہ دلیل بلا شبہہ غیر اسلامی ہے۔ مسلمان اگر اِس قسم کے پُر شور مظاہرے اپنے قومی جذبات کے اظہار کے نام پر کریں تو اِس پر کسی کو اعتراض نہ ہوگا۔ لیکن مسلمان اِس قسم کے پر شور مظاہروں کو اسلامی حمیت اور اسلامی غیرت کے نام پر کرتے ہیں۔ اِس بنا پر وہ ایک غلط فعل قرار پاتا ہے۔ کیوں کہ اس معاملے میں اسلام کی تعلیم سراسر اِس کے خلاف ہے۔
قرآن کی واضح تعلیم کے مطابق‘ یہ خود مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ دوسروں کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچائیں۔ جہاں تک دوسروں کی اشتعال انگیزی کا تعلق ہے تو اس پر مسلمانوں کے لیے صبر اور اعراض کا حکم ہے‘ نہ کہ بھڑک کر اس کے خلاف ہنگامہ آرائی کرنا۔ اس معاملے کو سمجھنے کے لیے قرآن کی دو آیتوں کا مطالعہ کیجئے۔ اِن دونوں آیتوں کا ترجمہ یہاں نقل کیا جاتا ہے:
پہلی آیت
’’اور اللہ کے سوا جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں تم ان کو گالی نہ دو‘ ورنہ یہ لوگ حد سے گذر کر جہالت کی بنا پر اللہ کو گالیاں دینے لگیں گے۔ اِسی طرح ہم نے ہر گروہ کی نظر میں اس کے عمل کو خوش نُما بنا دیا ہے۔ پھر اُن سب کو اپنے رب کی طرف پلٹنا ہے۔ اُس وقت اللہ انھیں بتا دے گا جو وہ کرتے تھے‘‘۔ (الانعام : ۱۵۹)
دوسری آیت
’’جب انکار کرنے والوں نے اپنے دلوں میں حمیت پیدا کی‘ جاہلیت کی حمیت۔ پھر اللہ نے اپنی طرف سے سکینت نازل فرمائی اپنے رسول پر اور ایمان والوں پر‘ اور اللہ نے ان کو تقویٰ کی بات پر جمائے رکھا اور وہ اس کے زیادہ حق دار اور اس کے اہل تھے۔ اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے‘‘۔ (الفتح: ۲۶)
پہلی آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو اس سے بچائیں کہ وہ دوسروں کے معبودوں یا اُن کے مقدس شعائروں کو بُرا بھلا کہیں اور اس کے نتیجے میں ایسا ہو کہ وہ ردّ عمل کا شکار ہوجائیں اور جواب میں مسلمانوں کے دین اور شعائر کو بُرا بھلا کہنے لگیں۔ اس آیت میں واضح طورپر مسلمانوں کو یہ تلقین کی گئی ہے کہ اُنھیں اپنے جذبات پر کٹرول کرنا ہے۔ انھیں ایسی کوئی بات لکھنا یا بولنا نہیں ہے جو دوسروں کے لیے اشتعال انگیز ثابت ہو‘اور جس کا نتیجہ یہ ہو کہ وہ بھڑک اٹھیں اور مسلمانوں کے دین کے خلاف منفی باتیں بولنے لگیں۔ اس آیت میں مسلمانوں کو اس سے روکا گیا ہے کہ وہ دوسروں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائیں۔
دوسری آیت صلح حُدیبیہ کے موقع کی ہے۔ اس موقع پر فریقِ مخالف نے سخت اشتعال انگیز باتیں کیں‘ مثلاً انھوں نے معاہدے کی تحریر میں رسول اللہ کے لفظ پر سخت اعتراض کیا اور رسول اور اصحابِ رسول کو معاہدے کی تحریر سے اس کو مٹانے پر مجبور کیا‘ وغیرہ۔ اِن باتوں سے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی تھی۔ لیکن خدا کی تعلیم کے مطابق‘ اُنھوں نے اپنے جذبات کو قابو میں رکھا۔ مذکورہ آیت کے مطابق‘ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ خود اپنے آپ کو ایمان اور تقویٰ کی روش پر قائم رکھیں۔ یہ کوئی صحیح بات نہیں ہے کہ مسلمان دوسروں سے یہ مطالبہ کریں کہ تم ہمارے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچاؤ۔ یہی اسلام کا اصول ہے اور یہی عقل کا تقاضا بھی۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن میںایسی تعلیم کیوں دی گئی ہے جو بظاہر نابرابری کی تعلیم معلوم ہوتی ہے۔ یعنی مسلمانوں کو مشتعل ہونے سے روکنا‘ اور دوسروں کی اشتعال انگیزی پر مسلمانوں کو صبر اور اعراض کی تلقین کرنا‘ یک طرفہ اخلاقیات کا یہ اصول اسلام میں کیوں رکھا گیا ہے۔ اس کا جواب قرآن کی دوسری آیتوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے۔
قرآن میں باربار یہ حکم دیا گیا ہے کہ تم صبر کی روش اختیار کرو۔ تم صبر سے مدد لو (استعینوا بالصبر) اسی طرح فرمایا کہ تم ان کی ایذارسانی سے اعراض کرو اور اللہ پر بھروسہ رکھو۔ (دع اذا ہم وتوکّل علی اللہ)۔ قرآن میں اِس طرح کی بہت سی آیتیں ہیں جو یہ تعلیم دیتی ہیں کہ اہلِ اسلام فریقِ مخالف کے مقابلے میں ردّعمل کا طریقہ اختیار نہ کریں، وہ یک طرفہ طورپر اپنے آپ کو صبر وتحمل کی روش پر قائم رکھیں۔
اِس یک طرفہ اخلاقیات کی معنویت قرآن کی ایک اور آیت سے معلوم ہوتی ہے۔ فرمایا کہ: وترجون من اللہ مالا یرجون (النساء : ۱۰۴) یعنی صابرانہ روش کی اہمیت فریقِ مخالف کو معلوم نہیں۔ کیوں کہ وہ موجودہ دنیا ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں۔ اس کے برعکس‘ تمہارا معاملہ یہ ہے کہ تم آخرت پر عقیدہ رکھتے ہو۔ تم کو یقین ہے کہ تمھاری صابرانہ روش کا انعام بے حساب مقدار میں آخرت میں ملے گا (إنما یُوفّی الصابرون أجرہم بغیر حساب)
یہ معاملہ کوئی پُراسرار معاملہ نہیں ۔ اصل یہ ہے کہ اہلِ اسلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک عالمی مشن دیا گیا ہے۔ اِسی عالمی مشن کی ادائیگی پر اُن سے جنت کا وعدہ کیا گیا ہے۔ یہ مشن‘ دعوت الی اللہ ہے۔ اِس دعوتی عمل کے لیے طرفین کے درمیان معتدل تعلقات ناگزیر طورپر ضروری ہیں۔ دونوں کے درمیان معتدل تعلقات کے بغیر دعوت کا عمل مؤثر طورپر جاری نہیں رہ سکتا۔
یک طرفہ طورپر صابرانہ روش کی حکمت یہی ہے۔ صابرانہ روش کے ذریعہ ہی یہ ممکن ہے کہ دونوں فریقوں کے درمیان نارمل تعلقات قائم ہوں‘ اور مسلمان وہ دعوتی عمل انجام دے سکیں جس کی انجام دہی پر مسلمانوں کے لیے دنیا میںکامیابی اور آخرت میں جنت کا وعدہ کیا گیا ہے۔ یہ انجام صرف اہلِ ایمان کے لیے مقدّر کیاگیا ہے۔ اس لیے اہلِ ایمان ہی کو یہ کرنا ہے کہ وہ فریقین کے درمیان نارمل تعلقات کو برقرار رکھنے کی ذمّے داری لیں۔ تاکہ وہ اللہ کے وعدے کے مطابق‘ بطور نتیجہ‘ عظیم خدائی انعامات سے بہرہ ور ہوسکیں۔
یہاں جس دوطرفہ روش کا ذکر کیاگیا وہ کوئی سادہ بات نہیں‘ یہ دراصل بامقصد انسان کا طریقہ ہے۔ بامقصد انسان یہ کرتا ہے کہ وہ اپنی روش کا تعین دوسروں کی روش کو دیکھ کر بطور ردّ عمل نہیں کرتا‘ اس کے بجائے اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کی ناپسندیدہ باتوں سے غیر متاثر رہ کر یہ سوچتا ہے کہ اس کے مقصد کے اعتبار سے اس کے لیے صحیح روش کیا ہے۔ وہ کون سی روش ہے جو اس کے مستقبل کے لیے زیادہ مفید ثابت ہوسکتی ہے۔ یہ سوچ بامقصد انسان کو مجبور کرتی ہے کہ وہ محض جذباتی اشتعال کے تحت کوئی اقدام نہ کرے بلکہ سوچے فیصلے کے تحت‘ اپنے عمل کا تعین کرے۔ اِسی کا نام منصوبہ بند عمل ہے‘ اور منصوبہ بند عمل با مقصد انسان کی ایک لازمی صفت ہے۔
تجربہ بتاتا ہے کہ جذباتی رد عمل ہمیشہ نقصان کا باعث ہوتا ہے اور منصوبہ بند عمل ہمیشہ مفید ثابت ہوتا ہے۔ جذباتی رد عمل میں آدمی کا رہنما اس کے منفی احساسات ہوجاتے ہیں۔ اِس کے برعکس‘ منصوبہ بند عمل میں اس کا رہنما اس کا مثبت ذہن ہوتا ہے۔ اِس فرق کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دونوں میں سے ایک تخریب کاری کا عمل بن جاتا ہے اور دوسرا مکمل معنوں میں تعمیر کاری کا عمل۔
حقیقت یہ ہے کہ اِس دنیا میں ایسے واقعات ہمیشہ ہوتے رہتے ہیں جن سے آدمی کے جذبات کو ٹھیس پہنچے۔ لیکن حقیقت پسندانہ بات یہ ہے کہ آدمی ایسے واقعات کو نظر انداز کرے۔ وہ اپنے آپ کو اپنے جذبات کے بجائے اپنی عقل کے تابع بنائے۔ واقعات بتاتے ہیں کہ جذبات کی پیروی کرنے والا ہمیشہ ناکام ہوتا ہے۔ اور عقل کی پیروی کرنے والا ہمیشہ کامیاب رہتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

ٹیم کی اہمیت

اقبال (وفات ۱۹۳۸ء) نے اپنی آخری عمر میں کہا تھا :
سُرودِ رفتہ باز آید کہ ناید
نسیمے از حجاز آید کہ ناید
سرآمد روزگارِ ایں فقیرے
دگر دانائے راز آید کہ ناید
اقبال اپنے آپ کو دانائے راز سمجھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ان کے مشن کو آئندہ جاری رکھنے کے لیے ضرورت ہے کہ اقبال کی طرح ایک اور دانائے راز پیدا ہو۔ مگر یہ ایک خیالی بات ہے جو فطرت کے قانون کے مطابق نہیں۔ فطرت کے قانون کے مطابق، کوئی تخلیقی انسان ایک ہی بار پیدا ہوتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار میں سعودی عرب میں تھا۔ شیوخ کی ایک مجلس تھی۔ اس میں ایک صاحب نے مجھ سے کہا کہ آپ نے عصری اسلوب میں اسلامی لٹریچر اور دعوت کا جو کام شروع کیا ہے وہ بہت قابلِ قدر ہے۔ لیکن آپ کے بعد اس کام کو کون جاری رکھے گا۔ ایک اور عرب شیخ نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا: وحیدالدین لا یکون إلا وحیداً(یعنی وحید الدین صرف ایک ہی ہوتا ہے) یہی بات اقبال اور اِس قسم کے دوسرے لوگوںکے لیے درست ہے۔
اِس دنیا میں کسی مشن کو جاری رکھنے کا فطری طریقہ یہ نہیں ہے کہ اقبال کے بعد ایک اور اقبال پیدا ہو۔ اِس قسم کی سوچ قانونِ فطرت کے خلاف ہے۔ اِس دنیا میں صحیح طریقہ وہ ہے جس کو سورہ صف کی آخری آیت میں بتایا گیا ہے۔ یعنی اپنی زندگی میںایک ایسی ٹیم تیار کرنا جو آدمی کے بعد اس کے مشن کے تسلسل کو جاری رکھ سکے۔ اِس ٹیم کو حضرت مسیح کے یہاں حواری کہاگیا ہے اور پیغمبر اسلام کے یہاں انصار۔ تاریخ بتاتی ہے کہ دونوں مثالوں میں دراصل صاحبِ مشن کی تیار کی ہوئی ٹیم تھی جس نے ان کے بعد ان کے مشن کو زندہ رکھا۔
میں خدا کی توفیق سے یہی کام کررہا ہوں۔میں نے اِس غیر عملی فارمولے کو اختیار نہیں کیا کہ ایک دانائے راز کے بعد دوسرے دانائے رازکا فرضی خواب دیکھوں۔ میںنے مسلسل جدوجہد کے ذریعے ایک ٹیم تیار کرنے کی کوشش کی۔ جو میرے بعدالرسالہ مشن کو آئندہ جاری رکھے۔ یہ ٹیم اللہ کے فضل سے تقریباً تیار ہوچکی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ ٹیم میرے بعد مزید متحرک ہو کر حواریین اور انصاراللہ کی تاریخ کو زندہ کرے گی اور الرسالہ مشن کو ساری دنیا میں پہنچا دے گی۔
انصار اللہ جیسی ٹیم کو بنانا بلا شبہہ ممکن ہے۔ البتہ اس کو بنانے کے لیے ایک قیمت درکار ہے۔ وہ قیمت یہ ہے کہ ٹیم کو بنانے والا اپنے آپ کو قربانی کی اعلیٰ سطح پر پہنچائے۔ وہ اِس محرومی پَر راضی ہو کہ اس کو عوامی مقبولیت نہ ملے۔ اس کی زندگی میں اس کے گِرد بھیڑ اکھٹا نہ ہو۔ وہ دنیا میں شہرت اور ترقی کے مواقع کو رد کرکے ٹیم بنانے میں پوری طرح لگارہے۔
ٹیم بنانے کا یہ کام افراد سازی کا کام ہے۔ یہ کام اِس طرح نہیں ہوسکتا کہ عوام کی بھیڑ اکھٹا کرکے اسٹیج سے اس کے سامنے تقریریں کی جائیں۔ یہ طریقہ ٹیم بنانے کے لیے بالکل غیر مفید ہے۔ ٹیم بنانے کا کام فرد فرد کو مخاطب کرکے ہوتا ہے۔ ایک ایک فرد سے محبت کرنا، ایک ایک فرد کے ذہن کی ڈی کنڈیشننگ کرنا، ایک ایک فرد پر لگاتار ذہنی تعمیر کی کوشش کرنا، ایک ایک فرد کو نشانہ بنا کر خاموش جدوجہد کرنا۔ اِس طرح کا کام بلاشبہہ ایک مشکل ترین قربانی کا طالب ہے ۔ مگر اِس قربانی کے ذریعے ہی کوئی ٹیم تیار ہوتی ہے۔
اصل یہ ہے کہ یہ فطرت کا ایک نظام ہے کہ کچھ لوگ پیدا ہوتے ہیں، پھر وہ جوان ہوتے ہیں اور پھر بڑھاپے کی عمر کو پہنچ کر وہ مرجاتے ہیں۔ اِس طرح نسل درنسل یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ یہ نظام اِس لیے ہے کہ پچھلی نسل کا تجربہ اگلی نسل کے لوگوں تک پہنچتا رہے۔ زیادہ عمر کے لوگوں کا فرض ہے کہ وہ صرف اپنی اولاد کے لیے زندہ نہ رہیں بلکہ وسیع تر معنوں میں وہ انسانیت کے لیے زندہ رہیں۔ وہ انسانیت کے خیر خواہ بن کر لوگوں کو اپنے علم اور اپنے تجربے کا سرمایہ منتقل کرتے رہیں۔ دوسری طرف نئی نسل کے لوگوں کا فرض ہے کہ وہ بے جا خود اعتمادی میں مبتلا نہ ہوں بلکہ پچھلے لوگوں سے زندگی کا درس لے کر اپنے سفرِ حیات کو زیادہ با معنٰی بنائیں۔
رواں دریامیں یہی عمل فطری قانون کے تحت ہوتا ہے۔ رواں دریا میں ہر لمحہ پہاڑیوں کی بلندی سے نیا پانی آتا ہے۔ پُرانا پانی بہہ کر آگے چلا جاتا ہے اور نیا پانی آکر اس میں شامل ہوجاتا ہے۔ یہ روانی مسلسل جاری رہتی ہے۔ اس لیے دریا کا پانی ٹھیرے ہوئے پانی کی طرح خراب نہیں ہوتا ۔ یہی عمل شعوری طورپر انسانی نسل کے اندر انجام پانا ہے۔ دریا میں یہ عمل فطری قانون کے تحت خود بخود انجام پاتا ہے۔ انسانی زندگی میں یہ عمل شعوری منصوبہ بندی کے تحت انجام پائے گا۔
قرآن کی سورہ نمبر ۹ میں ایک آیت ہے جس کا ترجمہ یہ ہے:
’’اور یہ ممکن نہ تھا کہ اہلِ ایمان سب کے سب نکل کھڑے ہوں۔ تو ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کے ہر گروہ میں سے ایک حصہ نکل کر آتا، تاکہ وہ دین میں گہری سمجھ پیدا کرتا، اور واپس جاکر اپنی قوم کے لوگوں کو آگاہ کرتا، تاکہ وہ بھی پر ہیز کرنے والے بنتے۔‘‘ (التوبہ ۱۲۲)
قرآن کی اِس آیت سے پیغمبرانہ عمل کی ایک حکمت معلوم ہوتی ہے۔ وہ یہ کہ ہر مشن کی ایک کورٹیم (core team)ہوتی ہے۔ یہی کورٹیم بعد میںمشن کو لے کر آگے بڑھتی ہے۔ عوام کی بھیڑ یہ کورٹیم نہیں بناتی۔ کورٹیم بنانے کی صورت صرف یہ ہے کہ کچھ افراد کو منتخب کرکے ان کے اوپر خصوصی محنت کی جائے۔ ان کی فکری تطہیر کرکے انھیں تیار کیا جائے۔
یہی لوگ ہیں جو بعد کو تربیت یافتہ گروپ کا درجہ حاصل کریں گے اور کام کو آگے بڑھائیں گے۔ میں اللہ کے فضل سے سی پی ایس کی ٹیم کی صورت میں یہی کام کررہا ہوں۔
واپس اوپر جائیں

سی پی ایس انٹرنیشنل (CPS International)

دعوت حق کی تاریخ میں دوگروپ کے لیے دو بڑا رول مقدرتھا۔ ایک وہ گروپ جس کو اصحابِ رسول کہا جاتا ہے۔ دوسرے وہ جس کے لیے حدیث میں اخوانِ رسول کے الفاظ آئے ہیں۔ اصحابِ رسول نے اپنا رول ساتویں صدی عیسوی میں پوری طرح ادا کردیا، اخوانِ رسول کا رول باقی ہے جس کو بعد کے زمانے میں انجام پانا ہے۔ اصحابِ رسول نے اپنا رول روایتی دور میں انجام دیا تھا۔ اخوانِ رسول اپنا رول سائنسی دور میں انجام دیں گے—سی پی ایس کی ٹیم اسی دوسرے رول کے لیے امیدوار گروپ کی حیثیت رکھتی ہے۔
واقعات بتاتے ہیں کہ اب وہ وقت پوری طرح آچکا ہے جب کہ دوسرے دَور کا دعوتی رول عالمی سطح پر انجام دیا جائے۔ تمام قرائن اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ کسی بھی سنجیدہ انسان کے لیے اِس حقیقت کو سمجھنا کچھ بھی مشکل کام نہیں۔
سی پی ایس انٹرنیشنل ایک خالص غیر سیاسی تنظیم ہے۔ کسی بھی مادّی یا قومی اشو سے اس کا کوئی تعلق نہیں، نہ براہِ راست طور پر اور نہ بالواسطہ طورپر۔ سی پی ایس کا واحد کنسرن یہ ہے کہ تمام انسانوں کو اُن کے حقیقی مقصدِ حیات سے باخبر کیا جائے۔ سی پی ایس کا نشانہ ہے—سائنسی دَور میں خدائی سچائی کا اعلانِ عام:
Proclamation of divine truth in modern scientific age.
انسانی تاریخ دو دوروں میں تقسیم ہے۔ ابتدائی زمانے سے لے کر پندرہویں صدی تک، سولھویں صدی سے لے کر موجودہ زمانے تک۔ (۱) پہلا زمانہ وہ ہے جب کہ دنیا میں توہّم پرستی (superstition) کا غلبہ تھا۔ (۲) دوسرے زمانے میں ساری دنیا میں سائنسی فکر کا غلبہ ہوگیا ہے۔پہلے دور کو قبل سائنس دَور (pre-scientific age) کہا جاسکتا ہے۔ اور دوسرے دَور کو عام طور پر بعدسائنس دَ ور (post-scientific age) کہا جاتا ہے۔
قبل سائنس دور میں انسان کو سب سے زیادہ بڑی چیز وہ دکھائی دیتی تھی جس کو مظاہر فطرت کہا جاتا ہے۔ چنانچہ اس زمانے کے انسان نے ہر اُس چیز کو معبود سمجھ کر اس کو پوجنا شروع کردیا جو بظاہر بڑی اورنمایاں دکھائی دیتی تھی۔ مثلاً چاند، سورج، ستارے، پہاڑ اور دریا، وغیرہ۔یہی وہ زمانہ ہے جب کہ ساری دنیامیں بت پرستی رائج ہوئی۔ اس زمانے میں بُت، انسان کے لیے توحید کا مدّ مقابل بن گیے۔
ابراہیم بن آزر خدا کے ایک پیغمبر تھے۔ وہ چار ہزار سال پہلے عراق میں ظاہر ہوئے۔یہ زمانہ وہی تھا جس کو توہم پرستی کا زمانہ کہاجاتا ہے۔ اس زمانے میں تمام لوگ سورج، چاند اور ستارے جیسی نمایاں چیزوں کو معبود سمجھ کر ان کو پوجنے لگے تھے۔ قرآن (ابراہیم ۴) کے بیان کے مطابق، پیغمبر نے اُس دَور کے انسانوں کے بارے میں یہ تبصرہ کیا تھا: ربّ إنہنّ أضللن کثیراً من الناس(اے میرے رب، انھوں نے بہت سے لوگوں کو بھٹکا دیا) یعنی لوگوں نے ان مظاہرِ فطرت کی ظاہری چمک کو دیکھ کر انھیں معبود سمجھ لیا۔
پچھلے ہزاروں سال کے دَوران خدا نے بہت سے پیغمبر بھیجے۔ ان پیغمبروں کا مشترک مشن یہ تھا کہ وہ انسانوں کو مظاہر فطرت کی پرستش سے نکالیں اور اُن کو حقیقی خدا جو صرف ایک ہے، اس کا پرستار بنائیں۔ مگر انسان مظاہر پرستی کو چھوڑنے پر راضی نہیں ہوا۔ چھٹی صدی عیسوی کے آخر تک یہی صورت حال باقی رہی۔
آخر کار پیغمبرِ اسلام محمد بن عبد اللہ پیدا ہوئے۔ ۶۱۰ عیسوی میں خدا نے ان کو اپنا پیغمبر بنایا۔ ان کو یہ مشن سپرد کیا گیا کہ وہ خدا کی خصوصی مددسے قدیم بت پرستی کے دور کا خاتمہ کردیں۔آپ کے اِس مشن کا ذکر قرآن میں اس طرح کیا گیا ہے: ’’وہ خدا ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اس کو تمام دین پر غالب کردے۔ اور اللہ گواہی کے لیے کافی ہے‘‘۔ (الفتح: ۲۸)
اِس آیت میں جس غلبہ (اظہار) کا ذکر ہے اس سے مراد فکری غلبہ ہے، یعنی دینِ شرک کو دلیل کی طاقت سے محروم کردینا اور دینِ توحید کو دلیل کی طاقت سے قائم کردینا۔ اس کام کو پیغمبر اسلام اور آپ کے اصحاب نے غیر معمولی جدوجہد کے ذریعے پوری طرح انجام دے دیا یہاں تک کہ قدیم دور کا خاتمہ ہوگیا اور شرک ایک غالب تہذیب کی حیثیت سے باقی نہ رہا۔
مابعد سائنس دور میں حالات بالکل بدل گیے ہیں۔ سائنس کے بطن سے جدید صنعتی دَورپیدا ہوا۔ اِس صنعتی دور نے بے شمار قسم کے دل کش سامان حیات پیدا کیے۔ ان سامانوں کو حاصل کرنے کے لیے مال کی ضرورت تھی۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ موجودہ زمانے میں پہلی بار مال کی اہمیت ہمیشہ سے زیادہ ہوگئی۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو پیغمبر اسلام نے اِس طرح بیان کیا ہے: لکلّ أمۃ فتنۃ و فتنۃ امتی المال (الترمذی، کتاب الزہد،مسند احمد) یعنی ہر امت کا ایک فتنہ ہے اور میری امت کا فتنہ مال ہے۔ یہاں امت سے مراد امت کا زمانہ ہے ۔ یعنی میری امت کے زمانے میں مال سب سے زیادہ فتنے کا سبب بن جائے گا۔
شرک یہ ہے کہ خدا کے سوا کسی اور چیز کو عظیم سمجھ کر اس کو اپنا سب سے بڑا کنسرن (concern) بنا لیا جائے۔ پچھلے زمانے میں مظاہر فطرت سب سے بڑی چیز دکھائی دیتے تھے اس لیے انسان مظاہرِ فطرت کو سب سے بڑی چیز سمجھ کر ان کو پوجتا رہا۔ اب دَور سائنس میں مظاہرِ فطرت کی الہیاتی عظمت ختم ہوگئی ہے۔ اب نیے حالات نے مال کو سب سے زیادہ اہم اور سب سے زیادہ بڑی چیز بنا دیا ہے۔ چنانچہ اب بت پرستی (Idol worship) کی جگہ دولت پرستی (money worship) نے لے لی ہے۔ اِس نیے دور کو دوسرے الفاظ میں مادیت(materialism) کہا جاتا ہے۔
مذاہب کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ہر مذہب میں یہ پیشین گوئی کی گئی ہے کہ بعد کے زمانے میں ایک نیا دورِ انقلاب آئے گا جب کہ خدائی سچائی ازسرِ نو ظاہر اور غالب ہوجائے گی۔یہ اظہار یا غلبہ فکری اعتبار سے ہوگا نہ کہ سیاسی اور معجزاتی اعتبار سے۔
مذاہب میں دورِ آخر کے جس انقلاب کی پیشین گئی کی گئی ہے اس سے مراد سائنسی دَور کا انقلاب ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سائنسی دور میں ایک تحریک اٹھے گی جو خدائی سچائی کو نیے حقائق کی روشنی میں ازسرِ نو مُبَرہن کردے گی۔ اس سے مراد کسی قسم کا سیاسی یا مادّی غلبہ نہیں ہے بلکہ اس سے مراد صرف یہ ہے کہ نظری دلائل کا زور دوبارہ خدائی سچائی کے حق میں ہوجائے گا۔ نیے حالات میں خدائی سچائی دوبارہ ایک ثابت شدہ سچائی بن جائے گی۔
مطالعہ بتاتا ہے کہ قدیم زمانے میں اگر مظاہر شرک، توحید کا مدّ مقابل بنے ہوئے تھے تو اب دورِ حاضر میں مال کو توحید کے مدّ مقابل کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے۔ پچھلے زمانے میں یہ ہوا کہ توحید کے حق میں دلائل فراہم کیے گیے اور مظاہرِ فطرت کی پرستش کو دلائل کے ذریعے رد کردیا گیا۔ اب بعد کے زمانے میں یہ ہوگا کہ توحید کو وقت کے دلائل کے ذریعے مدلّل کیا جائے گا اور مال پر مبنی مادّی تہذیب وقت کے دلائل کے ذریعے غلط قرار پاجائے گی۔
ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔اس کے الفاظ یہ ہیں: وددتُ انّا قدرأینا إخواننا، قالوا اولسنا اخوانک یا رسول اللہ۔ قال أنتم أصحابی وأخواننا الذین لم یأتو بعد۔(صحیح مسلم ، کتاب الطہارۃ، جلد ۳، صفحہ ۱۳۸) یعنی میری خواہش ہے کہ ہم اپنے اخوان کو دیکھیں۔ انھوں نے کہا کہ اے خدا کے رسول، کیا ہم آپ کے اخوان نہیں ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ تم میرے اصحاب ہو، اور ہمارے اخوان وہ ہیں جو ابھی نہیں آئے۔
اِس حدیث میں دو خاص گروہوں کا ذکر ہے— اصحابِ رسول اور اخوانِ رسول۔ اصحابِ رسول سے مراد وہ لوگ ہیں جو پیغمبر اسلام کے ہم عصر ساتھی تھے۔ جنھوں نے آپ کے ساتھ مل کر دور اول میں خدائی سچائی کا اعلان اور اظہار کیا۔ اور اخوان رسول سے مراد وہ لوگ ہیں جو آپ کے بعد آنے والے زمانے میں اٹھیں گے اور اُس وقت خدائی سچائی کا اعلان اور اظہار کریں گے۔ اصحابِ رسول کا تعلق قبل سائنس دور سے ہے اور اخوانِ رسول کا تعلق بعد سائنس دور سے۔
سی پی ایس انٹرنیشنل کی تحریک اسی بعد کے زمانے میں انجام پانے والے کام کے لیے اٹھی ہے۔ سی پی ایس کے لوگ گویا کہ اُس گروہ میں شمولیت کے امیدوار ہیں جس کو مذکورہ حدیث میں اخوانِ رسول کہاگیا ہے۔ سی پی ایس انٹرنیشنل کا مشن بعدسائنس دور میں خدائی سچائی کے اُس مطلوب اظہار کے لیے اٹھا ہے جس کا ذکر پچھلی تمام مذہبی کتابوں میں کیا گیا تھا۔
اخوان رسول کی پہچان کیاہوگی۔ اخوان رسول کی سب سے زیادہ واضح پہچان یہ ہوگی کہ وہ بعدکے زمانے میں ٹھیک وہی کام انجام دیں گے جو اس سے پہلے اصحاب رسول نے اپنے زمانے میں انجام دیا تھا۔ دونوں گروہوں کے درمیان زمانی فرق تو ضرور ہوگا لیکن دونوں کے درمیان کام کے اعتبار سے کوئی فرق نہ ہوگا۔
یہ ایک ثابت شدہ بات ہے کہ اصحاب رسول نے اپنے زمانے میں جو کام انجام دیا وہ دعوت الی اللہ کا کام ہے۔ اس کام کو قرآن میں خدا کی طرف سے گواہی دینا کہاگیا ہے۔ قرآن میں اصحاب رسول کے لئے شہداء علی الناس (الحج : ۷۸) کے الفاظ آئے ہیں۔ اسی طرح حدیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام نے اپنے اصحاب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ: انتم شہداء اللہ فی الارض (البخاری، کتاب الجنائز)
مطالعہ بتاتا ہے کہ بعد کے زمانے میں مسلمانوں کے اندر بہت سی سیاسی اور غیر سیاسی تحریکیں اٹھیں لیکن خالص دعوت الی اللہ کے لیے اصحاب رسول کے بعد اُن کے اندر کوئی بھی تحریک نہیں اٹھی۔ بعد کے زمانے میں ایسے لوگ تو پائے جاتے ہیں جنھوںنے دعوت اور تبلیغ کا لفظ استعمال کیا لیکن ان کے یہاں دعوت کا کوئی حقیقی تصور نہ تھا اور نہ انھوں نے عملی اعتبار سے وہ کام کیا جس کو قرآن میں دعوت الی اللہ کہا گیا ہے۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بعد کے زمانے میں دعوت (غیر مسلموں میں تبلیغ) کا تصور شعوری طورپر حذف ہوگیا۔ حتی کہ مسلمانوں کی داخلی اصلاح کے کام کو دعوت کا کام سمجھا جانے لگا۔حالانکہ مسلمانوں میںکئے جانے والے کام کمیونٹی ورک ہیں نہ کہ دعوہ ورک۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ سی پی ایس کی ٹیم اصحاب رسول کے بعد بننے والی پہلی ٹیم ہے جو خالص دعوت الی اللہ کے لیے اٹھی ہے۔ سی پی ایس بعد کی تاریخ میں بننے والی پہلی ٹیم ہے جو مکمل طورپر دعوتی لٹریچر کی بنیاد پر اٹھی ہے۔ جس کی ذہنی تربیت یا فکری تشکیل خالص دعوتی لٹریچر کی بنیاد پر ہوئی ہے۔ سی پی ایس کی ٹیم ایک ایسی تحریک کے نتیجے میں بنی ہے جس تحریک میں پہلی بار قرآن کی دعوتی تفسیر تیار ہوئی۔ جس میں پہلی بارحدیث کی دعوتی شرح لکھی گئی۔ جس میں پہلی بار پیغمبر اسلام کی دعوتی سیرت مرتب ہوئی۔ جس میں پہلی باراصحاب رسول کے دعوتی رول کو نمایاں کیاگیا۔ جس میں پہلی بار یہ بتایا گیا کہ اسلام کی سب سے بڑی طاقت اس کی دعوت ہے۔ جس میں پہلی بار وقت کے فکر ی مُستویٰ کے مطابق، اسلامی لٹریچر تیار کیا گیا۔جس میں پہلی بار جدید سائنسی تحقیقات سے مدلل کرتے ہوئے دعوتی اسلوب پر علم کلام تیار کیا گیا۔ جس میں پہلی بار اس حقیقت کا انکشاف کیاگیا کہ جدید دور اپنے تمام اجزاء کے ساتھ موافقِ دعوت دور ہے۔ جس میں پہلی بار یہ انکشاف کیا گیا کہ غیر مسلم قومیں مسلمانوں کے لیے مدعو کی حیثیت رکھتی ہیں، وہ دشمن یا حریف کی حیثیت نہیں رکھتیں۔جس میں پہلی بار یہ تصور پیش کیاگیا کہ غیر مسلم ممالک ہمارے لیے دارالدعوہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جس میں پہلی بار یہ بتایا گیا کہ امتِ مسلمہ کی اصل ذمے داری یہ ہے کہ وہ ہر قوم اور ہر زبان میں دعوت الی اللہ کے کام کو آخری حد تک انجام دے ۔ جس میں پہلی بار یہ بتایا گیا کہ مسلمانوں کے تمام ملّی مسائل کا حل غیر مسلموں کے اوپر دعوتی ذمے داری کو انجام دینا ہے، کسی بھی دوسری تدبیر سے ان کے ملی مسائل حل نہیں ہوسکتے۔
اصحابِ رسول کی حیثیت ایک دعوتی ٹیم کی تھی۔ یہ ٹیم ڈھائی ہزار سالہ تاریخ کے نتیجے میں بنی۔ اس کا آغاز اس وقت ہوا جب کہ ہاجرہ اور اسماعیل کو خدا کے حکم سے صحرا میں بسا دیا گیا۔ اصحاب رسول دراصل اِسی ڈھائی ہزار سالہ تاریخی پراسس کاculmination تھے۔ یہ بات قرآن میں اشارے کے طورپر اور حدیث میں تفصیل کے ساتھ موجودہے۔ مگر اصحابِ رسول کے بارے میں اس تاریخی منصوبہ بندی سے تمام تحریکیں بے خبر رہیں۔ اسلام کے بعد کی تاریخ میں بننے والے لٹریچر میں کہیں بھی اس کی نشاندہی نہیں ملتی۔ سی پی ایس کی پشت پر پیدا ہونے والا لٹریچر ہی وہ پہلا لٹریچر ہے جس نے اصحابِ رسول کے متعلق، اس تاریخی منصوبۂ خداوندی کی حقیقت کو نمایاں کیا اور سی پی ایس کی ٹیم کی ذہنی تشکیل کے لیے پہلی بار ایک تاریخی پس منظر فراہم کیا۔
جس طرح اصحاب رسول ڈھائی ہزار سالہ تاریخی عمل کے نتیجے میں بنے تھے۔ سی پی ایس کی ٹیم کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ اصحابِ رسول کے بعد تاریخ میں ایک نیا عمل(process) شروع ہوا۔ اسی عمل کا کلمنیشن (culmination) سی پی ایس کی ٹیم ہے۔ اصحابِ رسول کے دعوتی عمل کے نتیجے میں جو انقلاب آیا اور اس کے نتیجے میں فکری ارتقا کاجو عمل شروع ہوا وہ سب اس لٹریچر میں پایا جاتا ہے جو سی پی ایس کی ٹیم کے وجود میں آنے کی بنیاد بنا۔ گویا اصحابِ رسول اگر قدیم زمانے میں ڈھائی ہزار سالہ تاریخی عمل کا کلمنیشن(culmination) تھے تو سی پی ایس کی ٹیم بعد کے تقریباً ڈیڑھ ہزار سالہ عمل کا کلمنیشن ہے۔ اصحابِ رسول کے بعد بننے والی طویل تاریخ کے تمام مثبت عناصر سی پی ایس کی ٹیم میں جمع ہوگئے۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں پہلی بار اس کو یہ حیثیت ملی ہے کہ وہ دور حاضر میں اخوانِ رسول کا رول کرسکے۔
ساتویں صدی عیسویں میں اصحابِ رسول کا جو گروہ بنا تھا وہ کسی قسم کے کرشمے کے ذریعے نہیں بنا تھا۔ اصحابِ رسول در اصل اعلیٰ ذہنی ارتقاء کا نتیجہ تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جن پر پچھلی ڈھائی ہزار سالہ تاریخ منتہی ہوئی تھی۔ وہ قبل سائنس دور کی تمام بہترین روایات کے امین تھے۔ وہ اُس اعلیٰ خدائی منصوبے کا اظہار تھے جو حضرت ابراہیم سے شروع ہوا اور حضرت محمد پر ختم ہوا۔
یہی معاملہ اخوانِ رسول کا ہے۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جن پر ظہور ِ محمدی کے بعد بننے والی ڈیڑھ ہزار سالہ تاریخ منتہی ہوئی ہو۔ جن کی شخصیت کی تعمیر دورِ سائنس کے تمام بہترین اجزاء کے ذریعے ہوئی ہو۔جو دینِ حق کے سائنسی اظہار کے نمائندہ بن گیے ہوں۔ ایسے ہی لوگ اخوانِ رسول کا درجہ پانے کے مستحق ٹھیریں گے۔
اصحابِ رسول اور اخوانِ رسول دونوں میں ایک بات مشترک ہے۔ اور وہ معرفت (realization) ہے۔ اصحابِ رسول کا دین گہرے شعورِ معرفت کے اوپر قائم تھا۔ اسی طرح اخوانِ رسول کا دین بھی گہرے شعورِ معرفت کے اوپر قائم ہوگا۔ گہرے شعورِ معرفت سے مراد ہے سچائی کی ذاتی دریافت، وہ دریافت جو آدمی پر تمام حقیقتوں کے دروازے کھول دے۔ کائنات کا ہر جز جس کے لیے اس کی معرفت کی تصدیق بن جائے۔
خدا کو یہ مطلوب ہے کہ معرفت کی سطح پر خدا کے دین کا اظہار کیا جائے۔قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس اظہار حق کے دو دور ہیں۔ پہلا دور وہ تھا جب کہ حق کا اظہار سادہ فطری منطق (natural logic) کی بنیاد پر کیاگیا۔ اس کا بیان قرآن میں اِس طرح ملتا ہے:
’’آسمانوں اور زمین کی پیدائش میںاور رات اور دن کے باری باری آنے میں عقل والوں کے لیے بہت نشانیاں ہیں۔ جو کھڑے اور بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میںغور کرتے رہتے ہیں۔ وہ کہہ اٹھتے ہیں اے ہمارے رب، تو نے یہ سب بے مقصد نہیں بنایا‘‘۔ (آل عمران ۹۴ــ ۹۵)
یہ معرفتِ حق کی وہ سطح ہے جب کہ آدمی تخلیق کی سادہ سطح پر مطالعہ کرکے خالق کو پالیتا ہے۔ وہ کائنات کے سادہ مطالعے کے ذریعے خدا کے تخلیقی منصوبہ (creation plan of God) کو دریافت کرلیتا ہے۔ وہ فطرت کی سادہ سطح پر تخلیق کی معنویت کو جان لیتا ہے۔ اور اپنے آپ کو خدا کے حوالے کرکے زندگی گزارنے لگتا ہے۔
معرفت حق کی دوسری سطح وہ ہے جو قرآن کے مطابق، بعد کے زمانے میں ظاہر ہونے والی تھی۔ اس لیے اس کو استقبال کے صیغے میں بیان کیا گیا۔ زمانۂ نزولِ قرآن کے لحاظ سے یہ ایک مستقبل کی بات تھی لیکن اب وہ حال کی بات ہوچکی ہے۔ یہ تاریخی حقیقت قرآن کے درج ذیل بیان سے واضح ہوتی ہے:
’’عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں بھی اور خود ان کے اندر بھی۔ یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ قرآن حق ہے‘‘۔ (حٰم السجدہ ۵۳)
قرآن کی اس آیت میں جس واقعے کا ذکر کیاگیا ہے اس کو دوسرے لفظوں میں تاریخِ دعوت کا دوسرا مرحلہ کہا جاسکتا ہے۔ مزید غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دوسرا مرحلہ وہی ہے جس کو عام طورپر سائنسی انقلاب (scientific revolution) کہاجاتا ہے۔ پہلے دور میں فطری مشاہدے کی سطح پر انسان نے تخلیقِ خداوندی کو دیکھا تھا اور اس سے معرفت کی روشنی حاصل کی تھی۔ دوسرے مرحلے میں دور بینی اور خورد بینی مشاہدے کے ذریعے وہ تخلیقِ خداوندی کے گہرے رازوں کو دریافت کرے گا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ پہلے دور میںفطرت کے فریم ورک (natural framework) میں خدا کی معرفت حاصل کی گئی۔ دوسرے مرحلے میں انسان اس قابل ہوجائے گا کہ وہ سائنسی فریم ورک(scientific framework) کے ذریعے خدا کی گہری اور برتر معرفت حاصل کرسکے۔ معرفتِ حق کے اِن دو اَدوار کو حدیث میں ایک تمثیل کی صورت میں اس طرح بیان کیا گیا ہے۔ پیغمبر اسلام نے فرمایا: مثل امتی مثل المطر لایدری اولہ خیر ام آخرہ ( الترمذی، کتاب الأدب، مسند احمد، جلد ۳،صفحہ ۱۳۰)
یعنی میری امت کی مثال بارش جیسی ہے۔ نہیں معلوم کہ اس کا پہلا حصہ زیادہ اچھا ہوگا یا اس کا دوسرا حصہ ۔اس حدیث میں دراصل تاریخِ معرفت کے مذکورہ دونوں دوروں کو بتایا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اصحاب ایمان پہلے دور میں فطرت کے فریم ورک میں حق کی معرفت حاصل کریں گے اور دوسرے دور کے اہلِ ایمان کو یہ موقع حاصل ہوجائے گا کہ وہ سائنس کے فریم ورک یا علم انسانی کے فریم ورک میں حق کی معرفت حاصل کریں اور دوسروں کے سامنے اس کو پیش کریں۔ ان دونوں دوروں میںایسے لوگ اٹھیں گے جو اپنے زمانے کے اعتبار سے حق کا اظہار کریں گے۔
پہلے زمانے کے لوگ فطری فریم ورک کے ذریعے یہ کام انجام دیں گے اور دوسرے زمانے کے لوگ انسانی علم کے فریم ورک کو استعمال کرتے ہوئے اظہار حق کے اس کام کو انجام دیں گے، یعنی جدید اصطلاح کے مطابق، سائنٹفک فریم ورک کے ذریعے— حدیث میں پہلے دور کے گروہ کو اصحاب رسول کہاگیا ہے اور دوسرے دور کے گرو ہ کے لیے اخوان رسول کے الفاظ آئے ہیں۔
اصحاب رسول اور اخوانِ رسول کا زمانہ اگر چہ دو مختلف زمانہ ہوگا لیکن دونوں کا رول پوری طرح یکساں ہوگا، صرف اِس فرق کے ساتھ کہ اصحابِ رسول نے اپنا رول روایتی دو رمیں انجام دیا تھا اور اخوانِ رسول اپنا رول سائنسی دور میں انجام دیں گے۔
اصحابِ رسول کا خصوصی رول کیا تھا، اس کو بتانے کے لیے قرآن میںیہ الفاظ آئے ہیں: وکذلک جعلناکم امّۃً وسطاً لتکونوا شہداء علی الناس ویکون الرسول علیکم شہیداً۔ (البقرہ ۱۴۳) یعنی اور اِس طرح ہم نے تم کو بیچ کی امت بنا دیا تاکہ تم ہو بتانے والے لوگوں پر اور رسول ہو تم پر بتانے والا۔اِسی طرح حدیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام نے اپنے اصحاب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: أنتم شہداء اللہ فی الأرض (البخاری، کتاب الجنائز) یعنی تم زمین پر خدا کے گواہ ہو۔
اِس کے مطابق، اصحابِ رسول کی حیثیت ایک درمیانی گروہ (middle group) کی ہے۔ انھوںنے یہ کیا کہ انسانیت کے نام خدا کا پیغام رسول سے لیا اور اس کو دوسرے انسانوں تک بے کم وکاست پہنچا یا۔ اب اخوانِ رسول کی حیثیت بھی ایک درمیانی گروہ کی ہوگی۔ رسول کے ذریعے ملنے والا پیغام جو قرآن اور سنت کی شکل میں محفوظ ہے، اس کو بے کم و کاست لینا اور بعد کے زمانے کی انسانی نسلوں تک اس کو پہنچانا۔ اِس معاملے میںاصحابِ رسول اور اخوانِ رسول کے درمیان اصلاً لسان (ابراہیم ۴) کا فرق ہوگا۔ اصحابِ رسول نے اپنے زمانے کے اسلوب اور زبان میںیہ دعوتی کام انجام دیا تھا۔ اسی طرح اخوانِ رسول اپنے زمانے کے عصری اسلوب میں اِس دعوتی کام کو انجام دیں گے۔
بعد کے زمانے میں اٹھنے والی تمام تحریکوں میں صرف سی پی ایس انٹرنیشنل وہ تحریک یا گروپ ہے جو استثنائی طورپر اِس معیار پر پوری اترتی ہے۔ قرآن اور حدیث کی صراحت کے مطابق، اصحابِ رسول کی امتیازی صفت یہ تھی کہ وہ پورے معنوں میں ایک داعی گروہ بنے۔ مگر بعد کو بننے والے گروہوں میںکسی بھی گروہ کو حقیقی معنوں میں داعی گروہ کا درجہ نہیں دیا جاسکتا۔
دعوت کیا ہے۔ دعوت سے مراد وہی چیز ہے جس کے لیے قرآن میں شہادت اور انذار وتبشیر کے الفاظ آئے ہیں۔ یعنی خدا کے تخلیقی نقشے سے لوگوں کو باخبر کرنا۔ دعوت کا لفظ قرآن میں صرف غیر مسلموں میں خدا کا پیغام پہنچانے کے لیے آیا ہے۔ کوئی شخص مسلمانوں میں کام کرے تو اس کو اصلاح اور تذکیر کہاجائے گا۔ ایسے کام کو دعوت اور تبلیغ کا نام نہیں دیا جاسکتا۔
مطالعہ بتاتا ہے کہ بعد کے زمانے میں جب اسلامی علوم کی تدوین ہوئی تو اس میں دعوت اور تبلیغ کا باب حذف ہوگیا۔ چنانچہ پچھلے ہزار سال میں لکھی جانے والی کتابوں میں سے کسی بھی کتاب میں غیر مسلموں میں دعوتی ذمے داری ادا کرنے کے پہلو سے اس کا ذکر موجود نہیں۔ ایسا کیوں ہوا۔ غالباً اس کا سبب یہ تھا کہ آٹھویں صدی عیسوی میں مسلمان اپنے دورِ حکمرانی میں پہنچ گیے۔ اس کے بعد سیاست اور حکومت یا اس سے متعلق ابواب ہی ان کی توجہ کا مرکز بن گیے۔ یہاںتک کہ یہ ذہن اتنا عام ہوا کہ اب دوسرے ملّی مقاصد پر تحریکیں اٹھائی جاتی ہیں اوراس کو دعوت و تبلیغ کی تحریک سمجھ لیا جاتا ہے۔
یہ بات بڑی عجیب ہے کہ بعد کے زمانے میں تیار ہونے والے اسلامی لٹریچر میں دعوت کا تصور حذف ہوگیا۔ تاہم یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ اِس کے پیچھے ایک معلوم سبب کام کررہا ہے۔ اصل یہ ہے کہ عباسی دَور میں جب فقہ کی تدوین عمل میں آئی، اُس وقت مسلمان دنیا کے بڑے حصے میں سیاسی حاکم کی حیثیت رکھتے تھے۔ اُس زمانے میں مسلمانوں کا سیاسی امپائر قائم تھا۔
جب بھی اِس قسم کا کوئی سیاسی امپائر قائم ہوتا ہے تو فطری طورپر ایسا ہوتا ہے کہ دوسری قوموں سے اس کی رقابت (rivalry) قائم ہوجاتی ہے۔ بار بار دونوں کے درمیان چھوٹی یا بڑی لڑائیاں پیش آتی رہتی ہیں۔ اِس سیاسی پس منظر میں حالات کے تقاضے کے تحت، ایسا ہوا کہ فقہاء کے ذہن میں شعوری یا غیر شعوری طورپر یہ تقسیم قائم ہوگئی کہ جس علاقے میں مسلمانوں کی حکومت قائم ہے وہ علاقہ دارالاسلام ہے، اور جس علاقے میں مسلمانوں کی حکومت قائم نہیں وہ علاقہ دارالحرب ہے۔
فقہ کی کتابوں میں بالکل محدّد انداز میں دارالحرب کی تعریف نہیں ملتی۔ تاہم عمومی طورپر یہ کہاجاسکتا ہے کہ دارلحرب سے مراد وہ ملک ہے جس سے مسلمان یا تو عملاً بر سرِ جنگ ہوں یا وہ اُس ملک سے امکانی طورپر برسرِ جنگ (potentially at war) ہوں۔ یہی وہ ذہن ہے جس نے مسلمانوں کے عوام اور خواص کے ذہن سے دعوت کا تصور حذف کردیا۔ اب وہ غیر مسلموں کو حریف اور رقیب کی نظر سے دیکھنے لگے۔ اسلامی تعلیم کے مطابق، مسلم اور غیر مسلم کے درمیان داعی اور مدعو کا تعلق ہے۔ اِس تعلق کو قرآن میں شاہد اور مشہود (البروج ۳) کے الفاظ میںبیان کیا گیا ہے۔ لیکن غیرمسلم علاقے کو دارالحرب قرار دینے کا یہ فطری نتیجہ تھا کہ اُن علاقوں میں بسنے والے لوگ، مدعو کا درجہ نہ پاسکے۔
پچھلے ہزار سال میں پہلی بار ایسا ہوا کہ سی پی ایس انٹرنیشنل کے تحت تیار ہونے والے لٹریچر میں بتایا گیا کہ غیر مسلم ہمارے لیے مدعو اور تمام غیر مسلم علاقے اسلامی نقطۂ نظر سے دارالدعوہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پچھلے ہزار سال کے دوران مختلف زبانوں میں جو اسلامی کتابیں لکھی گئیں وہ اِس تصوّر سے پوری طرح خالی ہیں۔
تاہم جہاں تک دعوتی عمل (Dawah Process) کا تعلق ہے، وہ ہر زمانے میں خاموش طور پر جاری رہا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہر انسان پیدائشی طورپر طالبِ حق پیدا ہوتا ہے۔ ہر انسان خود اپنی فطرت کے زور پر حق کا متلاشی ہے۔ دوسری طرف قرآن استثنائی طورپر ایک محفوظ خدائی کلام کی حیثیت سے دنیا میں موجود ہے، چنانچہ فطرت اور کلامِ الٰہی کے باہمی تعامل کی بنا پر دعوت کا عمل خود اپنے زور پر ہمیشہ جاری رہا، اور اسی طرح وہ ہمیشہ جاری رہے گا۔
قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبروں کا پہلا خطاب ہمیشہ اپنے ہم عصر خواص سے ہوتا ہے۔ اِن خواص کے لیے قرآن میں مَلائِ قوم (الاعراف ۶۰)کا لفظ آیا ہے۔ اِس پیغمبرانہ نمونے سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر مسلموں میں دعوت کا عمل کس طرح کیا جائے۔ اس کا طریقہ ہمیشہ یہ ہوگا کہ غیر مسلم قوم کے خواص کو اپنا اوّلین مخاطب بنایا جائے گا۔ جہاں تک عوام کا تعلق ہے وہ بالواسطہ طورپر اس کے مخاطب بنتے چلے جائیں گے۔ یہی پیغمبرانہ طریقہ ہے۔ اِس کے بجائے عوام سے دعوت کے کام کا آغاز کرنا پیغمبرانہ نمونے سے انحراف کے ہم معنیٰ ہے۔
اِس ترتیب کی ایک خاص حکمت ہے۔ وہ یہ کہ خواص اپنے علم اور اپنے ذہنی مرتبے کے اعتبار سے اس قابل ہوتے ہیں کہ وہ اعلیٰ حقائق کو سمجھ سکیں۔ اِس بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ جب داعی، خواص کی نسبت سے اسلام کو پیش کرتا ہے تو اپنے آپ اسلام کی ترجمانی اعلیٰ سطح پر ہونے لگتی ہے۔ اب اسلام اپنی برتر سطح پر لوگوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے اور لوگوں کے لیے اعلیٰ سطح کے ایمان اور معرفت کے حصول کا سبب بنتا ہے۔
اِس کے برعکس، جب داعی نچلی سطح کے لوگوں کو اپنا مخاطب بنائے تو فطری طورپر ایسا ہوتا ہے کہ داعی کا طرزِ خطاب بدل جاتا ہے۔ اب اسلام کی نمائندگی نچلی سطح پر ہونے لگتی ہے۔ مثلاً اگر خواص آپ کے مخاطب ہوں تو آپ کہیں گے کہ اسلام کا آغاز سچائی کی دریافت (discovery) سے ہوتا ہے۔اِس کے برعکس، اگر آپ نچلی سطح کے لوگوں کو اپنا مخاطب بنائیں تو وہاں آپ کاطرزِ خطاب بدل جائے گا۔ اب آپ یہ کریں گے کہ ان کو کلمہ پڑھوائیں گے اور کلمہ کے الفاظ کی صحیح تلفظ کے ساتھ ادائیگی کے بعد یہ سمجھ لیں گے کہ آپ نے دعوت کا کام انجام دے دیا ۔
وہ چیز جس کو بدعت کہا جاتا ہے وہ زیادہ تراسی کا نتیجہ ہے۔ بدعت دراصل کم تر سطح پر اسلام کے اظہار کا نتیجہ ہوتی ہے۔ عرب اور برصغیر ہند میں فر ق کا یہی سبب ہے۔ عرب میں دعوت کا آغاز خواصِ قوم سے کیا گیا۔ چنانچہ وہاں بدعات کا مسئلہ پیدا نہیں ہوا۔ اِس کے برعکس، برصغیر ہند میں صوفیاء نے عوام کو اپنا نشانہ بنایا۔ اسی کا براہِ راست نتیجہ وہ دینی خرابی ہے جس کو بدعت کہا جاتا ہے۔
مطالعہ بتاتا ہے کہ بعد کے زمانے میں دعوت الی اللہ کا تصور ہی لوگوں کے ذہن سے حذف ہوگیا ۔ چنانچہ قرآن کی کوئی بھی تفسیر دعوتی انداز پر نہیں لکھی گئی۔ حدیث کی شرحوں میں سے کوئی بھی شرح دعوتی انداز پر لکھی جانے والی شرح نہیں ہے۔فقہ کو دیکھیے تو وہ بھی مکمل طورپر دعوت کے ابواب سے خالی ہے۔ علمِ کلام کی تدوین بھی دعوت کے انداز پر نہ کی جاسکی۔ پچھلی صدیوں میں جو بڑی بڑی کتابیں لکھی گئیں مثلاً الغزالی کی احیاء علوم الدین، ابن قیّم کی اعلام الموقعین، شاہ ولی اللہ کی حجۃ اللہ البالغۃ، اقبال کی تشکیل جدید الہیاتِ اسلامیہ(Reconstruction of Religious Thought in Islam) وغیرہ، کسی بھی کتاب کا موضوعِ بحث دعوت الی اللہ نہیں ہے۔
اسلامی لٹریچر کی تاریخ کا یہ منفی پہلو بتاتا ہے کہ بعد کے زمانے میں امت کے اندر وہ دعوتی فکر ہی نہیں بنا جس کی زمین پر حقیقی معنوں میں کوئی دعوتی تحریک اٹھے اور اس کے ذریعے کوئی دعوتی گر وپ بنے۔ بعد کی تاریخ میں سی پی ایس انٹرنیشنل واحد تحریک ہے جو خالص دعوت الی اللہ کے اصول پر اٹھی اور پھر اس کی زمین پر خالص دعوتی مقاصد کے لیے ایک گروپ بن کر تیار ہوا جس کو سی پی ایس کی ٹیم کہا جاتا ہے۔
اصحابِ رسول اور اخوانِ رسول کا معاملہ ایک تقابلی مثال سے بخوبی طورپر واضح ہوجاتا ہے۔ یہ ایک تاریخی واقعہ ہے جس کا تعلق افریقہ میں مسلم فتوحات سے ہے۔
عُقبہ بن نافع تابعی ۶۲۱عیسوی میں پیدا ہوئے اور ۶۸۳میں ان کی وفات ہوئی۔ وہ پیغمبر اسلام کے آخری زمانے میں پیدا ہوئے لیکن آپ سے ان کی ملاقات نہ ہوسکی۔
عقبہ بن نافع تابعی یزید بن معاویہ کے دَور خلافت میں افریقہ کی مسلم فوجوں کے سپہ سالار تھے۔ وہ مغربی افریقہ کے ملکوں کو فتح کرتے ہوئے اٹلانٹک کے ساحل تک پہنچ گیے۔ شہرِ اَسفیٰ ان کی آخری منزل تھی۔ وہاں انھوں نے اپنا گھوڑا سمندر میں ڈال دیا اور اس کے پانی میںکھڑے ہو کر کہا:
اللہم إنی لو أعلم وراء ہٰذا البحر بلداً لخضتہ إلیہ حتی لا یعبد أحد دونک (خدایا، اگر میں جانتا کہ اس سمندر کے اُس پار بھی کوئی ملک ہے تو میں سمندر میں گھس کر وہاں جاتا۔ یہاں تک کہ تیرے سوا کسی کی عبادت نہ کی جائے۔)
جیسا کہ معلوم ہے، افریقی ساحل کے دوسری طرف امریکا ہے۔ دونوں کے درمیان اٹلانٹک کا وسیع سمندر حال ہے۔ عقبہ بن نافع کے زمانے میں امریکا دریافت نہیں ہوا تھا۔ وہ بعد کو دریافت ہوا چنانچہ اس کو نئی دنیا کہا جاتا ہے۔
اِس واقعے کو علامتی طور پرلے کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ پہلے گروہ نے ’’قدیم دنیا‘‘ میں اپنا دعوتی رول ادا کیا تھا، اب کمیونکیشن کے نیے دَور میں دوسرے گروہ کو ’’نئی دنیا‘‘ کے درمیان اپنا دعوتی رول ادا کرنا ہے۔ پہلے گروہ نے روایتی دور میںاپنا دعوتی رول ادا کیا تھا اب دوسرا گروہ سائنسی دور میں اپنا دعوتی رول ادا کرے گا۔ پہلے گروہ نے زمین کے مخصوص حصّے میںاپنادعوتی رول انجام دیا تھا۔ اب دوسرا گروہ زمین کے پورے حصے میں اپنا دعوتی رول انجام دے گا۔ پہلے گروہ نے قدیم اسلوب میںاپنا دعوتی رول انجام دیا تھا، اب دوسرا گروہ جدید اسلوب میں اپنا دعوتی رول انجام دے گا، وغیرہ۔
سی پی ایس انٹرنیشنل کے نام سے موجودہ دعوتی کام جنوری ۲۰۰۱ کو دہلی میں شروع ہوا۔ لیکن اِس تنظیم کے صدر نے اِس دعوتی کام کو اِس سے بہت پہلے ۱۹۵۰ میں اعظم گڑھ (یو۔پی) میں ادارۂ اشاعتِ اسلام کے نام سے شروع کیا تھا۔ اس کے بعد سے یہ کام مسلسل بلا انقطاع جاری رہا۔ ۱۹۷۰ میں اِسی مقصد کے لیے اسلامی مرکز (نئی دہلی) کا قیام عمل میں آیا۔ ۱۹۷۶ میں اس نے الرسالہ مشن کی صورت اختیار کی۔ سی پی ایس انٹر نیشنل (۲۰۰۱) اسی کام کی تکمیلی صورت ہے۔ لمبی مدّت کے بعد اب خداکے فضل سے ساری دنیا میں یہ آواز پہنچ چکی ہے۔ اور اسی کے ساتھ اس کی ایک طاقت ور ٹیم بن چکی ہے جس کو ہم سی پی ایس ٹیم کہتے ہیں۔
ماضی اور حال کے تمام قرائن تقریباً یقینی طورپر بتاتے ہیں کہ سی پی ایس کی ٹیم ہی وہ ٹیم ہے جس کی پیشین گوئی کرتے ہوئے پیغمبر اسلام نے اس کو اخوانِ رسول کا لقب دیا تھا۔ اصحابِ رسول کوئی عجیب الخِلقت لوگ نہ تھے بلکہ وہ عام انسانوں کی طرح انسان تھے۔ اِسی طرح اخوانِ رسول بھی کوئی عجیب الخِلقت لوگ نہ ہوں گے بلکہ وہ بھی عام انسانوں کی طرح انسان ہوں گے۔ ان کی پہچان یہ نہ ہوگی کہ وہ انوکھے جسم والے ہوں گے یا یہ کہ وہ کرامتیں دکھائیں گے۔ ان کی پہچان صرف یہ ہوگی کہ وہ دعوتِ حق کے اُس ربّانی مقصد کے لیے کھڑے ہوں گے جس پر رسول اور اصحابِ رسول کھڑے ہوئے تھے۔
موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے د رمیان بہت سی تحریکیں اٹھیں ہیں مگر وہ اخوانِ رسول کا درجہ نہیں پاسکتیں۔ اس لیے کہ اخوانِ رسول کا درجہ صرف وہ لوگ پاسکتے ہیں جو ما أنا علیہ وأصحابی کا مصداق ہوں۔ موجودہ زمانے میں اٹھنے والی تمام تحریکیں ردّ عمل کی تحریکیں تھیں، ان میں سے کوئی بھی تحریک ایسی نہیں جس کا یہ کیس ہو کہ اس کے رہنما نے ردّ عمل کی نفسیات سے مکمل طورپر خالی ہو کر قرآن اور سنت کا مطالعہ کیا، اور پھر خالص مثبت بنیادوں پر اپنی تحریک کا آغاز کیا۔ یہ خصوصیت صرف سی پی ایس انٹرنیشنل کی تحریک میں پائی جاتی ہے۔
تاریخ میں اہلِ حق کے لیے جو بڑے بڑے امکانات رکھے گیے تھے، اب وہ سب امکانات ختم ہو چکے ہیں— پیغمبروں کا ساتھ دینا، مسیح کا حواری بننا، پیغمبرِ آخر الزماں کے اصحاب میں شامل ہونا۔ اب صرف ایک بڑا درجہ باقی رہ گیا ہے، یہ درجہ اخوانِ رسول کے گروپ کا حصہ بننا ہے۔ اس کے بعد جو چیز ہے وہ تاریخ کا خاتمہ(end of history) ہے۔ اس کے سوا کچھ نہیں۔ یہ تاریخ کا آخری مبارک موقع ہے۔ جس نے اِس موقع کو پالیا اس نے سب کچھ پالیا۔ اور جس نے اس موقع کو کھودیا اس نے سب کچھ کھودیا۔
واپس اوپر جائیں

ذہنی تناؤ کا مسئلہ

آج کل ساری دنیا میں ایک نئی انڈسٹری وجود میں آئی ہے۔ اس کو ڈی اسٹرسنگ (de-stressing) کہاجاتا ہے۔ مشرق سے مغرب تک ہر ملک میں ایسے ادارے قائم ہوئے ہیں، اور ایسے ماہرین پیدا ہوئے ہیں جو لوگوں کے ذہنی تناؤ یا اسٹریس کو ختم کرنے کا کام بطور پروفیشن کررہے ہیں۔ یہ دَور جدید کا ایک کامیاب پروفیشن بن چکا ہے، اور ساری دنیا میں کروروں لوگ اِس سے وابستہ ہیں۔
ذہنی تناؤ یا اسٹریس کیا ہے، یہ دراصل خواہش اور واقعے کے درمیان پیدا ہونے والے بُعد (gap) کے نتیجے کانام ہے۔ یعنی آدمی جو کچھ چاہتا ہے، اور جو کچھ اس کو ملا ہوا ہے دونوں کے درمیان یکسانیت نہ ہونا۔ آدمی چاہتا ہے کہ اس کو اپنی خواہش کے مطابق، تمام چیزیں مل جائیں ۔ لیکن عملاً ایسا ہوتا ہے کہ اس کو جو چیز ملتی ہے وہ اس کی خواہش سے بہت کم ہوتی ہے۔ اِس سے آدمی کے اندر محرومی کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ اِسی احساسِ محرومی کا دوسرانام ذہنی تناؤ یا اسٹریس ہے۔
یہ تناؤ یا اسٹریس موجودہ زمانے کا ایک ظاہرہ ہے۔ قدیم زمانے میں انسان عام طورپر خوش رہتا تھا پھر کیوں ایسا ہوا کہ موجودہ زمانے میں وہ ذہنی تناؤ کا شکار ہوگیا۔ اصل یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں جب سائنس کا ظہور ہوا اور جدید صنعت اور ٹکنالوجی کے ذریعے بہت سی ایسی نئی چیزیں ظہور میں آئیں جن کا انسان نے پہلے تصور نہیں کیا تھا۔ مثلاً قدیم کہانیوں میںاُڑن کھٹولہ ایک خیالی سواری کے طور پر بتایا جاتا تھا۔ اب ہوائی جہازکی صورت میں ہر آدمی کے لیے مشینی اڑن کھٹولے پر بیٹھنا ممکن ہوگیا، وغیرہ۔
جدید صنعتی دَور کے ظہور کے بعد انسان یہ سمجھنے لگا کہ اب وہ وقت آگیا ہے جب کہ وہ اپنی تمام خواہشوں کو مکمل طورپر پورا کرسکے۔ چنانچہ ہر آدمی زیادہ سے زیادہ کمانے کے لیے دوڑنے لگا۔ ہر آدمی زیادہ سے زیادہ سامانِ حیات اکھٹا کرنے میں لگ گیا۔ مگر سب کچھ حاصل کرنے کے بعد بھی اس کی خواہشیں پوری نہ ہوسکیں۔اب بھی اس کے لیے بورڈم کا سوال باقی تھا۔ بیماری، حادثہ اور موت جیسے مسائل بدستور اس کی پریشانی کے لیے موجود تھے۔ یہ احساس اب بھی اس کو ستارہا تھا کہ واقعات اس کے کنٹرول میںنہیں ہیں۔ اس کی ہر خواہش صرف جُزئی طورپر پوری ہورہی تھی، کُلّی طورپر نہیں۔
اس کا سبب یہ تھا کہ انسان فطری طورپر لامحدود خواہشیں لے کر پیدا ہوتا ہے۔ لیکن وہ دنیا جس کے اندر وہ اپنی زندگی گذارتاہے وہ صرف ایک محدود دنیا ہے۔ انسان پیدائشی طورپر ایک معیار پسند (perfectionist) مخلوق ہے، لیکن یہ دنیا جس کے اندر وہ اپنی زندگی گذارتا ہے وہ ایک غیر معیاری دنیا ہے۔ طلب اور واقعے کے درمیان یہی فرق ہے جو ذہنی تناؤ کا سبب بنتا ہے۔ اس کا حل صرف ایک ہے، اور وہ ہے حقیقت کا اعتراف۔
اصل یہ ہے کہ خالق نے موجودہ دنیا کو صرف مقام امتحان کے طور پر بنایا ہے۔ اس بنا پر موجودہ دنیا کی ہر چیز محدود ہے، وہ اعلیٰ معیار سے کم ہے۔ کوئی بھی صنعتی ترقی محدود خواہشوں کو پورا نہیں کرسکتی۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ انسان اپنی خواہش کے اعتبار سے کامل ہے، لیکن موجودہ دنیا ایک غیر کامل دنیا ہے۔ انسان سب کچھ چاہتا ہے لیکن اس کو صرف کچھ ملتا ہے۔ محرومی کی یہی صورت حال، ذہنی تناؤ کا اصل سبب ہے۔
اِس مسئلے کا حل صرف یہ ہے کہ انسان اس بات کو جانے کہ کوئی بھی ترقی یا کوئی بھی کامیابی اپنی محدودیت کی بنا پر اس کو وہ سب کچھ نہیں دے سکتی جس کو وہ پانا چاہتا ہے۔ غیر کامل دنیا میں کامل یافت ممکن ہی نہیں۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اگلی دنیا کو اپنی طلب کی منزل بنائے۔ وہ یہ جانے کہ جو کچھ وہ آج کی دنیا میں پانا چاہتا ہے وہ صرف کَل کی دنیا میں ملنے والی ہے۔ کسی طالبِ علم کو امتحان ہال میں جاب نہیں مل سکتا۔ اِسی طرح کسی انسان کو موجودہ امتحانی دنیا میں اس کا تمام مطلوب حاصل نہیں ہوسکتا۔
ذہنی تناؤ کو دور کرنے کا راز صرف یہ ہے کہ آدمی خدا کے تخلیقی نقشے پر راضی ہوجائے۔ وہ اپنی خواہش کے مطابق جینے کے بجائے خدا کے منصوبے کے مطابق جینے لگے۔ وہ اپنی سوچ کو خدا کی سوچ کے تابع کردے۔ یہی ڈی اسٹریسنگ کا واحد کامیاب فارمولا ہے۔ یہی وہ واحدتصور ہے جو ذہنی تناؤ کو مکمّل طورپر ختم کرنے والا ہے۔
واپس اوپر جائیں

سادہ فارمولا

ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔نماز کا وقت ہواتو وہ ہمارے ساتھ نماز میں شریک ہوگیے۔ نماز کے دَوران ان کے موبائل ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ نماز ختم ہونے تک بار بار گھنٹی بجتی رہی۔ اس کی وجہ سے نمازی ڈسٹرب ہوتے رہے۔معلوم ہوا کہ یہ اُن کے نوجوان بیٹے کا ٹیلی فون تھا۔ وہ کہیں باہر گیے ہوئے تھے۔ واپس آئے تو انھوں نے اپنے باپ کو گھرپرنہ پایا۔ انھیں پریشانی ہوئی کہ والد صاحب کہاں چلے گیے۔ اِس پریشانی میں وہ بار بار ٹیلی فون کی گھنٹی بجاتے رہے۔ انھوں نے ٹیلی فون کرکے اپنے بیٹے کو بتایا کہ میںاِس وقت یہاں ہوں اور کچھ دیر کے بعد آؤں گا۔
میںنے کہا کہ یہ کوئی ایسی بات نہیں جس پر آپ کے صاحب زادے بار بار آپ کو ٹیلی فون کریں اور اِس طرح اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کریں۔ آپ نے اپنے صاحب زادے کو لاڈ پیار تو خوب کیا ہوگا لیکن ان کو زندگی کا اصول نہیں بتایا۔میں نے کہا کہ انگریزی کا ایک مقولہ ہے۔ یہ مقولہ لمبے انسانی تجربے کے بعد بنا ہے۔ وہ مقولہ یہ ہے کہ—خبر نہ ہونا اچھی خبر ہے:
No news is good news.
میں نے کہا کہ میں نے زندگی میں بار بار سفر کیے ہیں۔ مگر میرے گھر والے کبھی ایسا نہیں کرتے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ میںنے اپنے گھر والوں کو بہت پہلے یہ مقولہ بتادیا تھا۔ میں نے ان کو سمجھایا کہ اگر میرے بارے میں کوئی خبر نہ آئے تو سمجھ لو کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔ کیوں کہ اگر کوئی حادثہ پیش آئے تو فوراً اس کی خبر یہاںآجائے گی۔میری اِس بات پر مذکورہ بزرگ صرفمسکرا دیے۔ انھوںنے ایسا نہیںکیا کہ وہ اپنے بیٹے کو ٹیلی فون کرکے بتائیں کہ آج ایک بہت قیمتی اصول مجھ کومعلوم ہوا ہے۔ اس کو تم پکڑ لو۔ وہ اصول یہ کہ جب تک کوئی بُری خبر نہ آئے سمجھ لو کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔
انھوںنے کیوں اپنے بیٹے کو یہ بات نہیں بتائی۔اس کا سبب یہ تھا کہ وہ اپنے بیٹے کی محبت میںاتنا زیادہ سرشار تھے کہ وہ سوچ نہیں سکتے تھے کہ میرے بیٹے نے کوئی غلطی کی ہے۔ اِس قسم کی محبت کوئی سادہ چیز نہیں۔ وہ محبت کرنے والے کے لیے ایک عظیم نقصان کا باعث ہے۔ اِس کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کے اندر واضح فکر پیدا نہیں ہوتا۔ وہ ہمیشہ کنفیوژن میں مبتلا رہتا ہے۔
فکری وُضوح اور کنفیوژن کیا ہے۔ وہ دراصل سارٹنگ کا عمل ہے، یعنی ایک چیز سے دوسری چیز کو الگ کرنا۔ اسی سے ذہن کے اندر فکری وضوح آتا ہے۔ جب آدمی کسی وجہ سے سارٹنگ کا یہ کام نہ کرسکے تو اسی کے نتیجے کا نام وہ چیز ہے جس کو کنفیوژن کہاجاتا ہے۔
موصوف کو ’’نو نیوز از گڈ نیوز‘‘ کا فارمولا بظاہر پسندآیا۔ مگر بیٹے کی محبت کی وجہ سے وہ یہ نہ کرسکے کہ وہ دو چیزوں کو ایک دوسرے سے الگ کریں۔ یعنی اپنے بیٹے کی روش کو غلط قرار دیں اور میں نے جو فارمولا بتایا اس کو صحیح سمجھیں۔ اِس عدم سارٹنگ کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کا ذہن کنفوژن میںپڑا رہا۔ انھوںنے شعوری یا غیر شعوری طورپر یہ مان لیا کہ—یہ بھی ٹھیک ہے اور وہ بھی ٹھیک۔
پھر میں نے کہا کہ یہ کمیونیکیشن کا زمانہ ہے۔ آدمی کو تھوڑی دیر میں دور دور کی خبریں مل جاتی ہیں۔ اِس لیے موجودہ زمانے میں یہ فارمولا ہمیشہ سے زیادہ درست بن گیا ہے۔ اب تو منٹوں میںکوئی خبر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جاتی ہے۔ انھوںنے کہا کہ ایسا نہیں ہے۔ فلاں شخص کے ساتھ دور کے شہر میںایک حادثہ پیش آیا۔ وہ دو دن تک اسپتال میںرہا مگر ہمارے پاس اس کی خبر اس وقت آئی جب کہ اس کا انتقال ہوچکا تھا۔
میںنے کہا کہ آپ کی یہ سوچ ہمیشہ آپ کو کنفوژن میں مبتلا رکھے گی۔ کیوں کہ آپ خیالات کی سارٹنگ کاکام کرنا نہیں جانتے۔ میںنے کہا کہ اس معاملے میں آپ کی غلطی یہ ہے کہ آپ ایک استثناء (exception) کو جنرلائز کررہے ہیں۔ ہر دن ہزاروں خبریں منٹوں میںایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ رہی ہیں۔ آپ نے اس کو چھوڑ کر ایک استثنائی واقعہ لے لیا اور اسی سے اپنی رائے بنانے لگے۔
یہی بیش تر لوگوں کا حال ہے۔ لوگ کسی نہ کسی وجہ سے ایسا کرتے ہیں کہ وہ خیالات کی سارٹنگ کا کام نہیں کرتے۔ اِس بنا پر ان کا ذہن مختلف قسم کے خیالات کا جنگل بنا رہتا ہے۔ ان کے اندر نہ وضوحِ فکر پیدا ہوتا ہے اور نہ وہ اِس قابل ہوتے ہیںکہ تجزیہ وتحلیل کا کام انجام دے سکیں۔
واپس اوپر جائیں

Saturday, 1 July 2006

Al Risala | July 2006 (الرسالہ،جولائی)

2

- غلطی کا اعتراف

7

- مسلمان نیے دور میں

10

- سازش کا تصور

12

- کنزیومر کمیونٹی

14

- کیفیات، کمّیات

15

- صلاحیت کا کم تر استعمال

16

- میڈٹیشن(Meditation)

22

- سوال و جواب

43

- خبر نامہ اسلامی مرکز ۱۷۵


غلطی کا اعتراف

میں نے ایک صاحب سے کہا کہ اگر کسی معاملے میں آپ دیکھیں کہ ننانوے فیصد غلطی فریقِ ثانی کی ہے اور صرف ایک فیصد غلطی آپ کی ہے تب بھی آپ یہ مان لیجئے کہ ساری غلطی آپ ہی کی ہے۔ آپ کھلے طورپر فریقِ ثانی سے کہہ دیجئے کہ آپ صحیح ہیں، میں ہی غلطی پر تھا:
You are right, I was worng.
اعتراف کی اِس روش کا فائدہ صرف یہ نہیںہے کہ نزاع فوری طور پر ختم ہوجاتی ہے۔ اس کا اس سے بھی زیادہ بڑا فائدہ یہ ہے کہ آپ کی یہ روش آپ کے ذہنی اور روحانی ارتقاء میں مددگار بنتی ہے۔
میرے تجربے کے مطابق، معروف قسم کی متصوّفانہ ورزشوں کا کوئی تعلق تزکیۂ روحانی سے نہیں۔ تزکیہ کا سب سے بڑا ذریعہ اپنی غلطی کا کھلا اعتراف ہے۔ حضرت عمر کے اندر اپنی غلطی کے اعتراف کا مادہ اتنا زیادہ تھا کہ وہ مبالغہ آمیز طور پر اپنی غلطی کا اعتراف کرتے تھے۔ مثلاً وہ کہتے کہ : لولا فلان لہلک عمر(اگر فلاں شخص نہ ہوتا تو عمر ہلاک ہوجاتا)۔
حقیقت یہ ہے کہ سب سے بڑا تزکیہ یہ ہے کہ آدمی کے اندر حقیقی تواضع کی صفت پیدا ہو۔ اس کے اندر سے کبر کا مزاج نکل جائے۔ غلطی کے اعتراف کا مزاج آدمی کے اندر یہی اعلیٰ صفت پیدا کرتا ہے۔ تزکیہ کا سب سے بڑا کورس یہی ہے۔
ایک صاحب سے گفتگو کے دوران میںنے اپنی کتاب ’’اسلامی زندگی‘‘ (صفحہ ۱۰) میں شائع شدہ خلیفۂ دوم عمر فاروق کے ایک قول کا حوالہ دیا۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے میں نے کہا کہ کوئی بڑا کام کرنے کہ لیے اہل صرف وہ شخص ہوتا ہے جو مجموعۂ تضادات (mixture of opposites) ہو۔ مثلاً نہایت اعلیٰ ذہن کا حامل ہونے کے باوجودوہ آخری حد تک متواضع (modest) ہو۔
مزید وضاحت کرتے ہوئے میں نے کہا کہ عالمِ حقائق (universe of facts) اتنا زیادہ وسیع ہے کہ کبھی کوئی شخص اس کا احاطہ نہیں کرسکتا۔ مگر حقائق کا ادراک کرنے کے لیے صرف اعلیٰ ذہن کافی نہیں۔ اسی کے ساتھ کامل تواضع لازمی طورپر ضروری ہے۔ کامل تواضع اس بات کی ضمانت ہے کہ اس کے لرننگ پراسس (learning process) پر کوئی فُل اسٹاپ نہ آئے۔ یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ کِبر، تعلّم (learning)کے عمل کو روک دیتا ہے۔ اِس کے برعکس،تواضع تعلّم کے عمل کو مسلسل طورپر جاری رکھتا ہے۔میں اپنے تجربے سے یہ سمجھتا ہوں کہ ذہنی ارتقاء کے لیے سب سے زیادہ ضروری شرط یہ ہے کہ آدمی ہر لمحہ یہ کہنے کے لیے تیار ہو کہ میں غلطی پر تھا:
I was wrong.
غلطی کو فوراً مان لینا، آدمی کے علم میںاضافہ کرتا ہے۔ اس کے برعکس، جس آدمی کے اندر اپنی غلطی کو ماننے کا مزاج نہ ہو وہ ذہنی جمود کا شکار ہوجائے گا، اس کے اندر ذہنی ارتقاء کا سفر کبھی جاری نہیں رہ سکتا۔
اعتراف کے ذریعے فکری ارتقاء کا جاری رہنا کوئی پُر اسرار بات نہیں۔ بلکہ وہ ایک معلوم بات ہے۔ اصل یہ ہے کہ ہر آدمی کا دماغ مختلف معلومات کا جنگل ہوتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہر آدمی کنفیوژن میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ وہ صحیح اور غلط کو ایک دوسرے سے الگ الگ کرکے دیکھ نہیں پاتا۔ یہ چیز آخر کار آدمی کو تشکیک تک لے جاتی ہے۔
اِس مسئلے کا حل صرف ایک ہے۔ اور وہ یہ کہ جب بھی مطالعہ یا ڈسکشن کے درمیان آدمی پر یہ واضح ہوکہ اس کے دماغ میں فلاں بات جو پڑی ہوئی ہے وہ غلط ہے، اس کو چاہیے کہ وہ اسی وقت کھلے طورپر اس کو مان لے کہ میں اِس معاملے میں غلطی پر تھا۔ اسی کا نام اعتراف ہے۔
اِس اعتراف کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی کے ذہن میں کرکشن اور تصحیح کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ ایک غلط بات جو اس کے ذہن میں صحیح بات کی حیثیت سے موجود تھی اب اس کا ذہن غلط مان کر اس کو غلطی کے خانے میں ڈال دیتا ہے۔ جب کہ اس سے پہلے وہ صحیح کے خانے میں پڑی ہوئی تھی۔ عام حالت میں یہ ہوتا ہے کہ صحیح آئٹم اور غلط آئٹم دونوں انسان کے دماغ میں ملے جُلے رہتے ہیں۔ غلطی ماننے کا مزاج یہ کرتا ہے کہ جو بات صحیح ثابت نہ ہو اس کو غلط کے خانے میں ڈالتا رہتا ہے، اِس طرح وہ اِس کنفیوژن سے باہر آجاتا ہے کہ وہ صحیح اور غلط میں فرق نہ کرے اور دونوں کو یکساں طورپر درست سمجھتا رہے۔
غلطی کو نہ ماننا کوئی سادہ بات نہیں۔ غلطی کو نہ ماننے کی نفسیات ہمیشہ یہ ہوتی ہے کہ آدمی اپنے کِبر کے مزاج کو توڑنا نہیں چاہتا۔ کبر دوسرے لفظوں میں خود پسندی کا نام ہے۔اپنی خود پسندی کی حفاظت میں آدمی یہ کرتا ہے کہ وہ غلطی کا اعتراف نہیں کرتا۔ اِس طرح فرضی طورپر وہ اپنے آپ کو اِس جرم میں مبتلا رکھتا ہے کہ میں درست ہوں، میرے اندر کوئی غلطی نہیں۔ بظاہر آدمی اپنی اِس خود پسندی کی حفاظت کرکے خوش ہوجاتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ میں نے اپنے آپ کو بچا لیا۔ حالاں کہ وہ اپنے کو تباہی کے غار میں ڈال رہا ہوتا ہے۔ اپنے اِس عمل کی اس کو یہ بھیانک قیمت دینی پڑتی ہے کہ اس کا علمی اور روحانی ارتقاء رُک جائے اور وہ معرفت کے اعلیٰ تجربے سے محروم ہو کر رہ جائے۔
معرفت تواضع کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ تواضع نہیں تو معرفت بھی نہیں۔ اور سچی تواضع کی علامت یہ ہے کہ آدمی کسی تحفظِ ذہنی کے بغیر حق کا کھلا اعتراف کرے۔ وہ بے اعترافی کا تحمل نہ کرکے حق کے آگے ڈھہ پڑے۔ جو شخص سچائی کا اعتراف نہیں کرتا وہ عملاً اِس بات کا ثبوت دیتا ہے کہ وہ حق سے بلند ہے۔ سچائی اِس دنیا میں خدا کی نمائندہ ہے۔ ایک شخص کے سامنے جب سچی دلیل آئے اور وہ اس کو نظر انداز کردے تو گویا اس نے خدا کو نظر انداز کردیا۔ ایسے لوگوں کے لیے خدا کے یہاں ابدی محرومی کے سوا اور کوئی انجام مقدر نہیں۔
قرآن میں آیا ہے: وقلیل من عبادی الشکور (السبا: ۱۳) یعنی میرے بندوںمیں بہت کم ہیں جو شکر کرنے والے ہیں۔شکر کیا ہے ۔ شکر در اصل وہ چیز ہے جس کو اعتراف (acknowledgement) کہا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اعتراف سب سے بڑی عبادت ہے۔ ایک طرف خدا کی نعمتوں کا اعتراف اور دوسری طرف انسان کے مقابلے میں اعتراف۔ یہ دوچیزیں گویا دین کا خلاصہ ہیں۔
لوگوں کا حال یہ ہے کہ یا تو وہ اعتراف کے وقت اعتراف نہیں کرتے یا دل سے تو مان لیتے ہیں مگر زبان سے بول کر وہ اپنی غلطی کا اعتراف ضروری نہیں سمجھتے۔ میں سمجھتا ہوں کہ دونوں میں بہت زیادہ فرق نہیں ہے۔ یہ سمجھنا کہ ہم نے دل سے تو مان لیا ہے زبان سے بولنے کی کیا ضروت ۔ یہ اپنی حققت کے اعتبار سے اعتراف نہیں ہے بلکہ منافقت ہے۔ جب آدمی قلبی اعتراف کے باوجود زبان سے کھُلے طورپر اس کا اظہار نہ کرے تو یہ بے اعترافی ہی کی ایک صورت ہوتی ہے۔ کیوں کہ بے اعترافی کا سبب یہ ہوتا ہے کہ آدمی دوسروں کے سامنے یہ ظاہر نہیںکرنا چاہتا کہ وہ اِس معاملے میں بے خبر تھا۔
ٹھیک یہی نفسیات اُس انسان کی ہوتی ہے جو دل میں محسوس کرنے کے باوجود زبان سے بول کر اس کا اظہار نہ کرے۔ یہ نہ بولنا بھی اسی لیے ہوتا ہے کہ آدمی اپنی پوزیشن کو بچانا چاہتا ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ دوسرے لوگ اِس بات کو جان لیں کہ وہ اب تک بے خبری کا شکار تھا، یا اس سے کوئی غلطی ہوگئی ہے، یا اس نے ایسی کوئی غلطی کردی جس کی اُسے تصحیح کرنا چاہیے۔
آدمی جب معاملے کی وضاحت کے باوجود اعتراف نہیں کرتا تو اس کا سبب یہ ہوتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ ایسا کرکے وہ اپنی پوزیشن کو گھٹا لے گا، دوسرے کے مقابلے میں اس کی برتری باقی نہ رہے گی۔ یہ نفسیات مکمل طورپر شیطانی نفسیات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب شیطان کو حکم دیا کہ وہ آدم کے آگے جھُکے تو یہ اعتراف ہی کا ایک معاملہ تھا۔ مگر شیطان نے اِس اعتراف سے انکار کیا۔ اُس نے کہا کہ میں آدم سے برتر ہوں (أنا خیر منہ)۔
جب بھی کوئی آدمی بے اعترافی کا مظاہرہ کرے تو اس کا سبب یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنی بڑائی کے احساس میں جی رہا ہوتا ہے۔ اپنی بڑائی کو باقی رکھنے کے لیے وہ اعتراف نہیں کرتا۔ حتی کہ اگر اس کا دل یہ محسوس کرلے کہ اِس معاملے میں میں غلطی پر ہوں تب بھی وہ زبان سے اِس کا اظہار نہیں کرنا چاہتا تاکہ ظاہری طورپر اس کی پوزیشن برقرار رہے ۔ اس کی پوزیشن پر کوئی حرف نہ آئے۔
یہ بلا شبہہ بہت بڑی بھول ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو آدمی سچائی کے لیے اپنے آپ کو جھُکا لے اُسی کو اس دنیا میں سرفرازی ملتی ہے، اور جو آدمی اپنے جھوٹے بچاؤ کے لیے کھُلے اعتراف سے پرہیز کرے وہ حقیقت کی نظر میں اپنے آپ کو نیچے گرالیتا ہے۔ حتی کہ خود اپنے ضمیر کے سامنے بھی وہ چھوٹا بن جاتا ہے۔
غلطی کا اعتراف ایک اعلیٰ درجے کی نیکی ہے۔ غلطی کا اعتراف دراصل اپنی تواضع کو ثابت شدہ بنانا ہے۔ جس شخص کے اندر غلطی کے اعتراف کا مزاج نہیں وہ یقینی طور پرتواضع سے بھی خالی ہوگا۔ اورتواضع کے بغیر کسی کا ایمان مکمل نہیں ہوتا۔
لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ یا تو غلطی کا اعتراف نہیں کریں گے۔ یا اپنے دل کے اندر غلطی کو محسوس کرکے یہ سمجھیں گے کہ انھوں نے غلطی کا اعتراف کرلیا۔ حالاں کہ غلطی کا ماننا وہی معتبر ہے جب کہ آدمی زبان سے بول کر اس کا کھُلااقرار کرے۔ دل میں غلطی کو محسوس کرنا اور زبان سے اس کا کھُلا اعتراف نہ کرنا منافقت کی علامت ہے۔ ضمیر ہر انسان کے اندر ہے، اِس بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ منافق انسان بھی اپنے دل میں محسوس کرتا ہے کہ اس معاملے میں مجھ سے غلطی ہوئی۔لیکن وہ زبان سے الفاظ کی صورت میں اس کا اظہار نہیں کرتا۔ اس کے برعکس، مؤمن کا طریقہ یہ ہے کہ جب اس کی غلطی اس پر واضح ہوجاتی ہے تو وہ فوراً کہہ اٹھتا ہے کہ میں نے غلطی کی۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر فاروق غلطی کے احساس کے بعد فوراً بول پڑتے تھے۔
مثلاً ایک بار انھوں نے کہاکہ : أصابت امرأۃ وأخطأ عمر، اور کُلُّ الناس أفقہ منک یا عمر( ایک عورت نے صحیح کہا، اور عمر نے غلطی کی۔ اے عمر، ہر آدمی تجھ سے زیادہ جانتا ہے) حقیقت یہ ہے کہ دل میں غلطی کو محسوس کرنا اور زبان سے بول کر اس کا اظہار نہ کرنا منافقانہ روش ہے۔ اور دل میں غلطی کا احساس پیدا ہوتے ہی زبان سے بول کر لفظوں میںاس کا کھُلا اعتراف کرنا مؤمنانہ روش۔
واپس اوپر جائیں

مسلمان نئے دَور میں

امریکا میں مسلمان تقریباً ۷ ملین کی تعداد میں رہتے ہیں۔ ایک حالیہ اقتصادی سروے میں بتایا گیا ہے کہ اِس وقت امریکا کی فی کس آمدنی ۳۴ ہزار ڈالر سالانہ ہے۔ لیکن جہاں تک امریکی مسلمانوں کا تعلق ہے، ان کی فی کس آمدنی ۴۲ ہزار ڈالر سالانہ ہے، یعنی دوسرے امریکیوں کے مقابلے میں تقریباً ۱۰ ہزار ڈالر زیادہ ۔
تقریباً یہی معاملہ ہندستان کا ہے۔ آزادی (۱۹۴۷) کے بعد مسلم رہنماؤں کی غلط رہنمائی کے نتیجے میں مسلمان ہندستان کے بارے میں منفی ذہنیت کا شکار تھے۔ مسلمان عام طور پر یہ سمجھتے تھے کہ ہندستان ان کے لیے ایک پرابلم کنٹری ہے۔ لیکن مختلف واقعات کے نتیجے میں مسلمانوں کے اوپر شعوری یا غیر شعوری طور پریہ حقیقت کھلی کہ ہندستان میں مسلمانوں کے لیے ایسے مواقع موجود ہیں جو خود مسلم ملکوں میں بھی نہیں ہیں۔ اس کے بعد یہاں کے مسلمان تیزی سے ترقی کی دوڑ میں سرگرم ہوگیے۔ اب یہ حال ہے کہ ہندستان کا مسلمان نہایت تیزی کے ساتھ ترقی کررہا ہے۔ بہت جلد وہ وقت آنے والا ہے جب کہ امریکا کی طرح ہندستان میں بھی مسلمان اقتصادی ترقی کے معاملے میں دوسری قوموں سے آگے بڑھ جائیں۔
ایسا کیوں ہے، اِس کا سبب یہ ہے کہ ۵۷ مسلم ملکوں میں سے ہر ایک میں، کم و بیش، ڈکٹیٹر شپ کا نظام قائم ہے۔ ڈکٹیٹر شپ کا نظام ہمیشہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہوتا ہے۔ جب کسی ملک میں ڈکٹیٹر شپ آتی ہے تو وہاں سے دو بنیادی چیزوں کا خاتمہ ہوجاتا ہے—امن اور آزادی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ترقی کے لیے امن اور آزادی دونوں لازمی طور پر ضروری ہیں— یہی وہ بنیادی سبب ہے جس کی بنا پر مسلمان مسلم ملکوں میں زیادہ ترقی نہ کرسکے۔
امریکا اور ہندستان جیسے ملکوں میں مسلمانوں کا ترقی کے راستے میں سرگرم ہونا اِس لیے ہے کہ یہاں جمہوریت ہے۔ یہاں سیکولر ازم اور آزادی کا ماحول ہے۔ یہاں ہر ایک کے لیے کام کرنے کے مواقع یکساں طور پر موجود ہیں۔ اِس لیے امریکا اور ہندستان جیسے ملکوں میں مسلمان کسی رکاوٹ کے بغیر ترقی کے راستے میں سرگرم ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان خود اپنی فطرت کے زور پر ترقی کی راہوں میں دوڑنا چاہتا ہے۔ انسان کی ترقی کے لیے اِس کے سوا کسی اور چیز کی ضرورت نہیں کہ اس کو تمام راہیں کُھلی ہوئی نظر آئیں۔ یہی معاملہ امریکا اور ہندستان جیسے ملکوں میں ہوا۔
مسلم ملکوں میں ڈکٹیٹر شپ کیوںآئی۔ اِس کا سبب عام طورپر خود مسلم حکمرانوں کو سمجھتا جاتا ہے۔ مگر یہ بات یقینی طورپر غلط ہے۔ اِس ڈکٹیٹر شپ کا سبب تمام تر وہ سیاسی جماعتیں ہیں جو اسلام پسند جماعتوںکے نام سے مشہور ہیں۔ اِن جماعتوں نے انتہائی بے دانشی کے ساتھ یہ کیا کہ نظامِ مصطفی اور قانونِ شریعت کے نفاذ کے نام پر اپنے ملکوں کے مسلم حکمرانوں کے خلاف انتہا پسندانہ تحریکیں شروع کردیں۔ یہ طریقہ مکمل طورپر وقت کے مصالح کے خلاف تھا۔ چنانچہ وہ الٹے نتیجے کا سبب بن گیا۔ یہی نام نہاد اسلام پسندانہ سیاست واحد سبب ہے جس کی وجہ سے مسلم ملکوں میں ہر جگہ ڈکٹیٹر شپ کا نظام قائم ہوگیا۔
مطالعہ بتاتا ہے کہ موجودہ زمانے کی اسلام پسند تحریکیں کسی مثبت فکر کے تحت نہیں اٹھیں وہ صرف حالات کے ردّعمل کے تحت اٹھیں۔ یہ دراصل رد عمل کی تحریکیں تھیں جن کو غلط طور پر اسلامی تحریک کا نام دے دیا گیا۔
اٹھارویں صدی عیسوی میں جب مغربی قومیں نئی طاقتوں کے ساتھ اُبھریں اور دھیرے دھیرے وہ پوری مسلم دنیا پر چھاگئیں۔ تہذیب اور سیاست دونوں اعتبار سے ان کا غلبہ مسلم دنیا پر قائم ہوگیا۔ یہاں تک کہ مغل سلطنت اور اسلامی سلطنت اور دوسری مسلم سلطنتیں یا تو ختم ہوگئیں یا مغلوب ہو کر رہ گئیں۔
یہ صورت حال پیش آنے کے بعد تمام دنیا کے مسلمانوں میں اس کے خلاف شدید ردعمل پیدا ہوا۔ اس کے مقابلے میں مسلمان کوئی ایجابی موقف اختیار نہ کرسکے۔ اُن کے درمیان جو ذہن اُبھرا وہ یا تو ٹکراؤ کا ذہن تھا یا تحفّظات کا ذہن۔ اِس ذہن کے تحت، مسلمانوں نے جہاد کے نام پر ٹکراؤ شروع کردیا۔ کچھ لوگوں نے شریعت کے تحفظ کا نعرہ اختیار کیا۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ ملّت کی شناخت خطرے میں ہے۔ اور وہ بطور خود ملت کی شناخت کی حفاظت میں مصروف ہوگیے۔ کچھ لوگوں نے یہ سوچا کہ جگہ جگہ مسلمانوں کا علاحدہ خطّہ بنانا چاہیے۔
اِس قسم کی تحفظاتی کوششوں پر اب تقریباً دو سو سال گذر چکے ہیں لیکن نتیجہ برعکس صورت میں ظاہر ہوا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ سوچ فطرت کے نظام کے خلاف تھی۔ فطرت کا نظام مسابقت (competition) کے اصول پر قائم ہے نہ کہ تحفّظ کے اصول پر۔ دنیا میں کبھی کسی گروہ کو تحفظ کے طریقے پر چل کر ترقی حاصل نہ ہوسکی۔
مسلم رہنماؤں نے مسلم حکومتوں کو اسلام کا ’’تحفظاتی قلعہ‘‘ قرار دیا تھا۔ لیکن اِس نام نہاد تحفظاتی قلعے میں مسلمان ترقی نہ کرسکے۔ اس کے مقابلے میں امریکا اور ہندستان جیسے سیکولر ملکوں کو انھوں نے مسلم دشمن کا ٹائٹل دیا تھا مگر انھیں ’’دشمن‘‘ ملکوں میں مسلمان سب سے زیادہ ترقی کررہے ہیں۔ اِس لیے کہ مسلم ملکوں میں ہر جگہ نظریاتی انتہا پسندی کا ماحول ہے، اور نظریاتی انتہا پسندی کے ماحول میں ہمیشہ ٹکراؤ بڑھتا ہے نہ کہ ترقی۔ اس کے مقابلے میں امریکا اور ہندستان جیسے ملکوں میں کھُلا ماحول پایا جاتا ہے۔ اور یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ترقی کا عمل ہمیشہ کھلے ماحول میں جاری ہوتا ہے۔ نظریاتی انتہا پسندی کے ماحول میں ترقی کا عمل جاری ہونا ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں

سازش کا تصور

ایک تعلیم یافتہ مسلمان نے کہاکہ موجودہ زمانے کے مسلمان اپنے دورِ زوال میں پہنچ چکے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کسی قو م پر زوال کیسے اور کب آتا ہے۔ میں نے کہا کہ آپ مسلمانوں کے کیس کو لیجئے۔ مسلمانوں کا معاملہ یہ ہے کہ وہ تقریباً ایک ہزار سال تک دنیا کے بڑے خطّے میںحالتِ اقتدار میں رہے۔ نوآبادیاتی دور میں مغربی قوموں کا عروج ہوا، اس وقت مسلمان تہذیب اور سیاست دونوں میں مغربی قوموں کے مقابلے میں مغلوب ہوگیے۔ اس وقت ساری دنیا کے مسلمانوں میں احیاء نو کی تحریک شروع ہوئی۔
اُس دور کے مفکرین (شبلی نعمانی، محمد اقبال، ابوالکلام آزاد، سید جمال الدین افغانی، امیر شکیب ارسلان وغیرہ) نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ مسلمانوں کے شان دار ماضی کو یاد دلا کر ان کے اندر یہ جذبہ پیدا کرنے کی کوشش کی کہ وہ اس شاندار ماضی کو دوبارہ جدید تاریخ میں واپس لائیں۔ مگر یہ الٹی تدبیر تھی۔ اس کے نتیجے میں وہ مہلک نفسیات پیدا ہوئی جس کو ’’پدرم سلطان بود‘‘ کہا جاتا ہے۔ اِس نفسیات نے مسلمانوں کو فخر ماضی میں مبتلا کردیا۔ اور فخر کی نفسیات کسی حقیقی عمل کے لیے مستقل رُکاوٹ کی حیثیت رکھتی ہے۔
اس تدبیر کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان دو طرفہ برائی میںمبتلا ہوگیے۔ اپنے بارے میں فخر کی نفسیات، اور دوسرے کے بارے میں نفرت کی نفسیات۔ اُس دور کے مصلحین نے مسلمانوں کو یہ یقین دلایا کہ ان کے ساتھ جو کچھ پیش آیا ہے وہ دوسری قوموں کی سازش کے نتیجے میں پیش آیا ہے۔ یعنی مسلمانوں کا زوال خود اپنی کسی کوتاہی کے نتیجے میں نہیں ہوا بلکہ دوسروں کی سازش کے نتیجے میں ہوا۔ یہ ایک سنگین غلطی تھی۔ اس غلطی کانتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان اپنے احیاء نو کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہ کرسکے۔
سازش کا نظریہ ایک بے بنیاد نظریہ ہے۔ جب بھی دو قوموں کے درمیان ٹکراؤ ہوتا ہے تو ہمیشہ بعض ایسے واقعات پیش آتے ہیں جن کو ’’سازش‘‘ کہاجاسکے۔ اس قسم کے واقعات ہمیشہ اور ہر قوم کی تاریخ میں موجود رہتے ہیں۔ خودمسلم تاریخ میں بھی اِس قسم کے انفرادی واقعات پائے جاتے رہے ہیں۔ مگر تجزیہ نگار کو یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ کسی معاملے میں فیصلہ کن سبب (decisive factor)کیا ہے۔ کسی جُزئی واقعے کو لے کر اس کو جنر لائز کرنا اور اسی کو زیرِ بحث واقعے کا اصل سبب قرار دینا سخت غیر علمی بات ہے۔ اس قسم کے جزئی واقعات کو لے کر اگر رائے قائم کی جائے تو مسلمانوں کی فتوحات بھی ’’سازش‘‘ کا نتیجہ دکھائی دے گی۔
تبصرہ نگار کو چاہیے کہ وہ جُزئی واقعات کو نظر انداز کرکے اُن کلّی اسباب کو دریافت کرے جو زیر بحث واقعے میں فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں۔ ورنہ پوری رائے غلط ہوجائے گی۔ مثال کے طورپر انگریز جب ہندستان میں آئے تو یہاں مسلم سلطنت قائم تھی۔ انگریزوں نے کامیابی کے ساتھ مسلم سلطنت کو ختم کیا اور انڈیا میں اپنا سیاسی اقتدار قائم کرلیا۔ اِس واقعے کو عام طور پر سازش کا نتیجہ کہا جاتا ہے۔ مثلاً کہا جاتا ہے کہ رُوہیلوں کا انگریز سے مغلوب ہونا، در اصل اودھ کے مسلم نواب کی غدّاری کی بنا پر ہوا۔ ایک مسلم شاعر نے کہا ہے:
نوّابِ اودھ نے جو یہ پاپڑ نہ ہوں بیلے
انگریز سے مغلوب نہ ہوسکتے روہیلے
اِس قسم کی باتیں تاریخ کے ناقص مطالعے کا نتیجہ ہیں۔ انگریزکا ہندستان میں غلبہ اِس لیے ہوا کہ وہ جدید طاقتوں سے مسلّح ہو کر یہاں آئے تھے، ایسی طاقتیں جن کا توڑ اس وقت کے مسلمانوں کے پاس موجود نہ تھا۔ انگریز–مسلم تصادم کے دوران بعض جُزئی واقعات پیش آئے جیسا کہ ہر تصادم کے وقت پیش آتے ہیں۔ مگر ان واقعات کی حیثیت محض ضمنی ہے۔ ہندستان میں انگریزوں کی کامیابی کا راز اس قسم کا کوئی جزئی سبب نہ تھا۔ وہ مکمل طورپر ایک کلی سبب کے تحت پیش آیا، اور وہ دونوں کے درمیان طاقت کا عدم توازن تھا۔ اگر یہ جزئی واقعات نہ پیش آتے تب بھی انگریز یقینا کامیاب ہوتے۔
واپس اوپر جائیں

کنزیومر کمیونٹی

جب کسی مذہبی کمیونٹی پر سکیڑوں سا ل گذر جائیں، اور وہ عددی اعتبار سے ایک بڑی کمیونٹی بن جائے تو اس کی حیثیت ایک کنزیومر کمیونٹی کی ہوجاتی ہے۔ ۶۱۰ عیسوی میں پیغمبر اسلام اکیلے مومن تھے۔ اس کے بعد دھیرے دھیرے ایک گروہ تیار ہوا جو عددی اعتبار سے ایک محدود گروہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ اُس وقت جو گروہ بنا وہ کوئی کنزیومر گروہ نہ تھا۔ لیکن آج مسلمان ساری دنیا میں سات بلین ہوچکے ہیں۔ صرف ہندستان میں ان کی تعداد بیس کروڑ سے زیادہ ہے۔
اس طرح آج کے مسلمان پورے معنوں میں ایک کنزیومر کمیونٹی بن چکے ہیں۔ ان کے درمیان ہر قسم کے تجارتی مواقع کھل گیے ہیں۔ تسبیح اور مصلّی ، اسلامی موبائل، اسلامی ٹی وی، اسلامی لٹریچر، اسلامی اجتماع اور اسلامی تحریک، اسلامی ادارہ اور اسلامی سروس، اسلامی سیاست اور اسلامی قیادت، اسلامی میڈیا اور اسلامی دفاع، اسلامی کمپیوٹر اور اسلامی انسائیکلوپیڈیا، اسلامی تقریر اور اسلامی تحریک، اسلامی نظام اور اسلامی بینکنگ حتی کہ زمزم اور کھجور، وغیرہ۔
اس قسم کی تمام چیزوں پر بظاہر اسلام کا لیبل لگا ہوا ہے مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ ایک قسم کا سامانِ تجارت (commodity) ہیں۔ وہ لوگوں کے لیے اسی طرح مفید ہیں جس طرح عام تجارتی سرگرمیاں مفید ہوتی ہیں۔ اب اسلام کے نام پر وہ سارے مادّی فا ئدے حاصل ہورہے ہیں جو پہلے صرف عام تجارتوں کے ذریعے حاصل ہوتے تھے۔ میڈیا کی شان و شوکت نے ان فوائد میں بہت زیادہ اضافہ کردیا ہے۔
غالباً یہی وہ صورتِ حال ہے جس کے بارے میں پیغمبر اسلام نے پیشگی طورپر خبر دے دی تھی۔ ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام نے فرمایا: ویقال للرجل ما أعقلہ وما أظرفہ وما أجلدہ، وما فی قلبہ مثقال حبّۃ خردل من إیمان۔(فتح الباری بشرح صحیح البخاری، جلد: ۱۱، صفحہ: ۳۴۱) یعنی میری امت پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جب کہ ایک شخص کی شان دار کارکردگی کو دیکھ کر کہا جائے گا کہ وہ کتنا زیادہ عقل والا ہے، وہ کتنا زیادہ ظرف والا ہے، وہ کتنا زبردست ہے۔ حالاں کہ اس کے دل میں رائی کے ایک دانے کے برابر بھی ایمان نہ ہوگا۔
اِس حدیث پر غور کرتے ہوئے سمجھ میں آتا ہے کہ یہ اس زمانے کی بات ہے جب کہ مذہب ایک پروفیشنل چیز بن جائے گا۔ لوگ اسلام کو پروفیشن یا کیریئر کے طورپر اختیار کریں گے۔ یہ ایک معلوم بات ہے کہ پروفیشنل کلام یا پروفیشنل سلوک ہمیشہ ظاہری طورپر زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ مثلاً ایک پروفیشنل سیلس مَین ہمیشہ عام انسانوں سے زیادہ، خوش گفتاری کا ثبوت دیتا ہے۔ حالاں کہ اس کے دل میں کوئی حقیقی جذبہ نہیں ہوتا۔یہ کنزیومر ایتھکس ہے۔ جب مسلم کمیونٹی ایک کنزیومر کمیونٹی بن جائے تو اس کے بعد اسی کردار والے لوگ پیدا ہوتے ہیں جس کا ذکر اوپر کی حدیث میں کیا گیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

کیفیات،کمّیات

موجودہ زمانے میں بہت سی مسلم جماعتیں اور مسلم تنظیمیں وجود میں آئی ہیں۔ ان میں ایک اور دوسرے کے درمیان بہت سے فرق پائے جاتے ہیں۔ مگر ایک چیز سب میں مشترک ہے، اور وہ یہ کہ ہر ایک نے کسی نہ کسی پہلو سے اسلام کی کمّیاتی تعبیر کر رکھی ہے۔ کیفیات پر مبنی تعبیر کے بجائے کمّیات پر مبنی تعبیر میرے نزدیک سرتا سر گمراہی ہے۔ اس نے موجودہ زمانے میں زبردست نقصان پہنچایا ہے۔
کیفیاتی تعبیر کی صورت میں آدمی ہمیشہ اپنی دین داری کے بارے میں شک میں مبتلا رہتا ہے۔ کیوں کہ کیفیات (تقویٰ، اور خشیّت) داخلی چیزیں ہیں، ان کو ناپا اور تولا نہیں جاسکتا۔ لیکن کمّیاتی تعبیرمیں دین داری ایک ایسی چیز بن جاتی ہے جس کو خارجی اعتبار سے ناپا اور تولا جاسکے۔ اس کے نتیجے میں یہ ہوتا ہے کہ آدمی بے خوف ہوجاتا ہے۔ وہ اپنے عمل کو ناپ تول میں ڈھال کر یہ سمجھ لیتا ہے کہ جو عمل مجھے کرنا تھا وہ میں نے کردیا۔ کیفیت پر مبنی سوچ خدا کا خوف پیدا کرتی ہے اور کمّیت پر مبنی سوچ آدمی کے اندر فرضی یقین پیدا کرکے اس کو خدا سے بے خوف بنا دیتی ہے۔
اصحابِ رسول ہمیشہ لرزاں اور ترساں رہتے تھے۔ کیوں کہ ان کے نزدیک، دین داخلی کیفیت کا نام تھا، اور داخلی کیفیت کو ناپ تول کی زبان میں معلوم نہیں کیا جاسکتا۔ موجودہ زمانے کے مسلمان خدا سے بے خوف ہوگیے ہیں کیوں کہ وہ اپنے کمیاتی ذہن کی بنا پر سمجھتے ہیں کہ جو کچھ کرنا تھا وہ ہم نے کردیا۔ اب ہمارا معاملہ بالکل درست ہے۔
سیاست پر مبنی تعبیر، مسائل پر مبنی تعبیر، فضائل پر مبنی تعبیر، برکت پر مبنی تعبیر، وسیلے پر مبنی تعبیر، عشقِ رسول پر مبنی تعبیر، مظاہرِ شرک پر مبنی تعبیر، خیر امت پر مبنی تعبیر، وغیرہ۔
یہ تمام تعبیریں ظواہرِ دین پر مبنی تعبیریں ہیں۔ دین مسلّمہ طورپر داخلی حقیقت کا نام ہے۔ اس لیے ہر وہ تعبیرِ دین جو ظواہر یا فارم پر مبنی ہو وہ بلاشبہہ باطل قرار پائے گی، اور ظواہر دین پر چلنا خود ساختہ دین پر چلنا ہے نہ کہ خدا کے بھیجے ہوئے دین پر چلنا۔
واپس اوپر جائیں

صلاحیت کا کم تر استعمال

ایک گفتگو کے دَوران میں نے کہا کہ غالب کو اپنی زندگی میں کچھ ناخوشگوار تجربات پیش آئے۔ اِس پر اپنے ردّ عمل کا اظہار کرتے ہوئے انھوںنے کہا:
زندگی اپنی جب اِس طرح سے گذری غالب! ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے
میںنے کہا کہ غالب زندگی کی حقیقت کو سمجھ نہ سکے۔ زندگی میں مشکلات کا پیش آنا اِس لیے تھا تاکہ غالب خدائے برتر کو یادکریں۔ وہ خدا سے تعلق قائم کرکے اپنے اندر اعلیٰ روحانی شخصیت کی تعمیر کریں۔ مگر انھوں نے مشکلات کے مقابلے میں صرف منفی تاثر لیا۔ حالاں کہ ضرورت تھی کہ وہ اس کو مثبت تاثر میں ڈھال دیں۔ اسی طرح غالب کا ایک اور شعر اِس طرح ہے:
رنج کا خوگر ہُوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہوگئیں
یہ بھی غالب کی ایک سنگین غلطی ہے۔ مشکل کا عادی ہو کر اس کو اپنے لیے قابلِ برداشت بنا لیناکوئی صحیح بات نہیں۔ صحیح یہ ہے کہ آدمی مشکل کو اپنے ذہنی ارتقاء کا ذریعہ بنا سکے۔ وہ مشکل کو چیلنج کے روپ میں لے نہ کہ عادت کے روپ میں۔ غالب کے ساتھ یہ سانحہ پیش آیا کہ ان کو اپنے زمانے میں کوئی رہبر نہیں ملا جو ان کو صحیح سوچ دے، جو ان کی فکری رہنمائی کرے، جو اُن کو فکری ارتقاء کا راز بتائے۔ اِس بنا پر ایسا ہوا کہ غالب اپنی اعلیٰ ذہانت کے باوجود صرف شاعر ہو کر رہ گیے۔ وہ سخن وری میں اپنا کمال دکھاتے رہے۔ حالاں کہ اپنی اعلیٰ ذہانت کی بنا پر وہ اِس قابل تھے کہ کوئی بڑا علمی اور فکری کارنامہ انجام دے سکیں۔ وہ شاعر کے بجائے مفکّربن سکیں۔ اور پھر انسان کو فکری رہنمائی عطا کریں۔ مگر عملاً یہ ہوا کہ وہ اپنی صلاحیت کے صرف کم تر استعمال تک پہنچے، وہ لوگوں کو شاعرانہ اہتزاز سے زیادہ اور کچھ نہ دے سکے۔
کہا جاتا ہے کہ غالب نے الطاف حسین حالی سے کہا تھا کہ تم اگر شاعری نہیں کروگے تو اپنے آپ پر ظلم کروگے۔ میں سمجھتا ہوںکہ اِس سے زیادہ اہم بات یہ تھی کہ غالب خود اپنے بارے میں یہ دریافت کریں کہ میںنے شاعری کرکے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

میڈٹیشن(Meditation)

میڈٹیشن ایک مستقل ڈسپلن ہے۔ میڈٹیشن کا مقصد اسپریچول ڈیولپمنٹ ہے۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ انٹلکچول ڈیولپمنٹ کا تعلق، فارمل ایجوکیشن سے ہے، اور اس کے مقابلے میں میڈٹیشن کا تعلق، انفارمل ایجوکیشن سے۔ میڈٹیشن یا اسپریچول ڈسپلن کے کئی طریقے ہیں اور وہ کسی نہ کسی صورت میں قدیم زمانے سے چلے آرہے ہیں۔
میرے تجربے کے مطابق، میڈٹیشن یا اسپریچول ڈسپلن کے دو بڑے اسکول ہیں۔ ایک وہ جو مراقبہ (Meditation) پَر مبنی ہوتا ہے۔ اور دوسرا وہ جو تفکّر (Contemplation) کی بنیاد پر قائم ہے۔پہلا اسکول مبنی بر قلب (heart-based) اسکول ہے، اور دوسرا اسکول مبنی بَر ذہن (mind-based) اسکول ۔ میں ذاتی طور پر تفکّر والے اسکول سے تعلق رکھتا ہوں۔
اسپریچویلٹی کا جو اسکول میڈٹیشن یا مراقبے پر قائم ہے اس کو مسلم تاریخ میں تصوف کہا جاتا ہے۔ تصوف میںبہت سی چیزیں ویدانتا سے لی گئی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تصوف اور ویدانتامیں بہت زیادہ مشابہت ہے۔ دونوں ایک دوسرے سے گہرے طورپر متاثر ہوئے ہیں۔ اگر چہ ویدانتا کا ریفرنس پوائنٹ(reference point) وید ہے اور تصوف کا ریفرنس پوائنٹ قرآن ۔ لیکن اپنے مجموعی اسلوب کے اعتبار سے دونوں ایک دوسرے سے ملتے جُلتے ہیں۔
مثلاً تصوف میں لطائفِ ستّہ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ یہ اصطلاح براہِ راست طورپر ہندو سسٹم سے لی گئی ہے۔ غالباً یہ تصور پہلے ہندو سسٹم میںآیا اور اس کے بعد مسلم صوفیوں نے اپنے لیے مفید سمجھ کر اس کو اختیار کرلیا۔
لطائف ستّہ کا مطلب صوفیا کے نزدیک، یہ ہے کہ انسان کے جسم میں چھ مقامات (points) ہیں۔ یہ مقامات روحانی احساسات کے مراکز ہیں۔ دھیان اور توجّہ سے ان پر مسلسل زور ڈالا جائے تو یہ روحانی مقامات کُھل جاتے ہیں، اور اس کے نتیجے میں پوری انسانی شخصیت کو روحانی غذا ملنے لگتی ہے۔ اس قسم کی پریکٹس اور بعض دوسری قسم کی پریکٹس ہیں جن پر عمل کرکے آدمی اپنی شخصیت کے مادّی پہلو کو دباتا ہے اور اپنی شخصیت کے روحانی پہلو کو بیدار کرتا ہے۔
میںاپنے بارے میں کہہ سکتا ہوں کہ میںایک پیدائشی صوفی ہوں۔ میری پوری زندگی روحانی غور وفکر اور روحانی تجربات میں گذری ہے۔ میں لمبی مدت سے اِس مقصد کے لیے ایک ادارہ بھی چلا رہا ہوں۔ جس کا نام یہ ہے:
Center for Peace and Spirituality (CPS International)
لیکن میری روحانیت تمام تر ذہنی بیداری پر مبنی ہے۔ میں جس صوفی ازم کو مانتا ہوں اس کو تخلیقی صوفی ازم (creative sufism) کہا جاسکتا ہے۔
میرا ماننا یہ ہے کہ مبنی بَر قلب روحانیت، آدمی کو جس درجے تک پہنچاتی ہے وہ دراصل وجد (ecstasy) ہے۔مخصوص اعمال اور اشغال کے ذریعے آدمی کے اندر ایک خاص اہتزازی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ اس کو روایتی صوفی، روحانی یافت کا نام دیتے ہیں۔
روحانیت کے جس مسلک کو میں مانتا ہوں اس کا تعلق، تمام تر فکری عمل سے ہے۔ یہ روحانیت اِس طرح آتی ہے کہ آدمی یہ سوچتا ہے کہ میں کیا ہوں۔ میرے آس پاس کی دنیا کیا ہے۔ جس نے دنیا کو بنایا ہے اس کا وہ تخلیقی نقشہ (creation plan) کیا ہے جس کے تحت، اس نے انسان کو اور بقیہ کائنات کو بنایا ہے۔
روحانیت کا یہ سفر دراصل تلاشِ حقیقت کے جذبے کے تحت، شروع ہوتا ہے۔ یہاںتک کہ جب ایک متلاشی ٔ حق انسان سچائی کو دریافت کرلیتا ہے اور وہ خالق کے تخلیقی نقشے کو جان لیتا ہے تو اس کی زندگی ایک نئے دَور میںداخل ہوجاتی ہے۔ یہ دور وہ ہے جس کو روحانی اصولوں پر انسانی شخصیت کی تعمیر کا دور کہا جاسکتا ہے۔
یہ سفر مکمل طورپر ایک ذہنی سفر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر موجودہ دنیا میں ہر عورت اور مرد ایک تجربے سے دوچار ہوتے ہیں۔ یہ تجربہ منفی حوادث کا تجربہ ہے۔ چوں کہ موجودہ دنیا میںہر آدمی آزاد ہے۔ ہر آدمی کو موقع ہے کہ وہ اپنی آزادی کا غلط استعمال کرے۔ اِس بنا پر باربار یہ صورت پیش آتی ہے کہ ایک انسان کو دوسرے انسان سے دُکھ پہنچتا ہے۔ ایک انسان کو دوسرے انسان کی کسی کارروائی سے نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ ایک انسان کو دوسرے انسان سے کوئی ایسا ناخوش گوار تجربہ پیش آتا ہے جو اس کو مشتعل کردیتا ہے۔
ایک طبقے کے نزدیک ایسے حالات میں روحانیت کو باقی رکھنے کی ایک صورت یہ ہے کہ آدمی انسانی بستی سے دُورکے ماحول میں رہنا شروع کردے جہاں کوئی چیز اس کو مشتعل کرنے والی نہ ہو۔ اِسی نقطۂ نظر کی ترجمانی امریکا سے چھپی ہوئی اُس کتاب میں کی گئی ہے جس کا نام یہ ہے:
A monk who sold his ferrari
میں جس روحانی مدرسۂ فکر کو مانتا ہوں وہ اِس سے مختلف ہے ۔ اِس دوسرے مدرسۂ فکر کے مطابق، آدمی کوچاہیے کہ وہ اپنے منفی تجربات کو کنورٹ کرکے ان کو مثبت تجربے کی شکل دے۔ وہ مادّی واقعات کو روحانی تجربے میں تبدیل کرسکے۔ وہ ایک غیر روحانی واقعے کو روحانی واقعے کی صورت دے دے۔
یہ وہی اصول ہے جس پر انسان کے باہر کی پوری مادّی دنیا قائم ہے۔ اِس اصول کو تبدیلی کا اصول(principle of conversion) کہا جاسکتا ہے۔ مثال کے طورپر پانی کیا ہے، دو گیسیں جو اپنے آپ میں پانی نہیں ہیں وہ مل کر ایک اور چیز کی شکل اختیار کرتی ہیں جس کو ہم سیّال پانی کہتے ہیں۔ درخت کیا ہے، درخت در اصل غیر نباتاتی چیزوں کے کنورژن کا نتیجہ ہے۔
اسی کی ایک مثال گائے ہے۔ گائے اپنے جسم میں دودھ نہیں داخل کرتی۔ بلکہ وہ اپنے جسم کے اندر گھاس داخل کرتی ہے۔ پھر مخصوص نظام کے تحت، یہ گھاس کنورٹ ہو کر دودھ بن جاتی ہے۔ گویا کہ گائے ایک ایسی انڈسٹری ہے جو نان مِلک کو مِلک میں تبدیل کرتی ہے۔ اسی حقیقت کو ایک اردو شاعر نے اِس طرح بیان کیا ہے:
کل جو گھاس چری تھی بَن میں دودھ بنی وہ گائے کے تھن میں
کہا جاتا ہے کہ ایک شخص ایک بزرگ سے ملا۔ وہ کسی بات پر بزرگ سے غصہ ہوگیا۔ بزرگ اُس وقت بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ آدمی اٹھا اور اپنے پاؤں سے بزرگ کے سینے پر مار دیا۔ یہ بزرگ کے لیے ایک منفی رد عمل کا واقعہ تھا۔ مگر انھوں نے اِس منفی واقعے کو ایک مثبت تجربے میں تبدیل کیا اور اس آدمی سے کہا میرے آہنی سینے سے تمہارے نرم پاؤں کو چوٹ تو نہیں لگی۔ (واضح ہو کہ یہ ایک قصہ ہے نہ کہ ایک واقعہ)۔
حدیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ جب کسی بندے کو کوئی تکلیف پہنچے اور وہ اس پر صبر کرلے تو خدا اس کے گوشت کو ایک اور گوشت اور اس کے خون کو ایک اورخون بنا دیتا ہے۔
یہ تبدیلی فزیکل معنوں میں نہیںہوتی بلکہ وہ اسپریچول معنوں میں ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مصیبتوں پر صبر وشکر کا رسپانس پیش کرنا آدمی کے لیے ایک روحانی تربیت بن جاتا ہے۔ یہ اس کو منفی سوچ کے بجائے مثبت سوچ والا انسان بنا دیتا ہے۔ یہ اس کو دشمنی کرنے والے انسان کے بجائے محبت کرنے والا انسان بنا دیتا ہے۔ یہ اس کو پست سطح پر جینے والے انسان کے بجائے اونچی سطح پر جینے والا انسان بنا دیتا ہے۔ یہ اس کو دوطرفہ اخلاقیات (bilateral ethics) کے بجائے، یک طرفہ اخلاقیات (unilateral ethics) کا حامل بنا دیتا ہے۔
اِس قسم کا روحانی انسان اعلیٰ فکری عمل کے ذریعے بنتا ہے۔ ایسا انسان بننے کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی اپنی ڈی کنڈیشننگ کرے۔ وہ اپنے ذہن کی ری انجینئرنگ پر راضی ہوجائے۔ اِس مقصد کے لیے اپنی شخصیت کی توڑ پھوڑ کرنی پڑتی ہے۔ اپنی شخصیت کو پھر سے مولڈ کرنا پڑتا ہے۔ ایک انسان وہ ہے جو سماج کے اندر بنتا ہے، دوسرا انسان وہ ہے جو اسپریچویلٹی کے کارخانے میں بن کر تیار ہوتا ہے۔
جرمن فلسفی نٹشے نے ایک ترقی یافتہ انسان کو وجود میں لانے کا راز سیلف تھنکنگ کو بتایا تھا۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک ناقص سچائی ہے۔ پوری سچائی کی بات یہ ہے کہ ایک ترقی یافتہ انسان بننے کا راز اینٹی سیلف تھنکنگ میں چھپا ہوا ہے۔ اِس کا سب یہ ہے کہ ہر آدمی ایک معاشرے میں جیتا ہے۔ یہ معاشرہ ہر آن اس کے ذہن کی کنڈیشننگ کرتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ مکمل طورپر ایک کنڈیشنڈ مائنڈ بن جاتا ہے۔ امریکی عالمِ نفسیات جے۔بی۔ واٹسن (J.B.Watson) نے غلطی سے اسی کنڈیشنڈ انسان کو اصل انسان سمجھ لیا ۔ حالاں کہ وہ ایک مصنوعی انسان ہوتا ہے نہ کہ اصل انسان۔
اسپریچول ڈیولپمنٹ کا عمل در اصل اسی کنڈیشنڈ مائنڈ کی ڈی کنڈیشننگ سے شروع ہوتا ہے۔ کوئی شخص جتنا زیادہ اپنے مائنڈ کی ڈی کنڈیشننگ کرے گا اتنا ہی زیادہ وہ اسپریچول ڈیولپمنٹ کا مقصد حاصل کرے گا۔ مائنڈ کی ڈی کنڈیشننگ کے بغیر روحانی ترقی ممکن ہی نہیں۔
اصل یہ ہے کہ ہر انسان پیدائشی طورپر ایک اسپریچول انسان ہی کے طورپر پیدا ہوتا ہے۔ ہر انسان پیدائشی طورپر مسٹر نیچر یا مسٹر اسپریچول ہوتا ہے۔ لیکن پیدا ہونے کے بعد وہ جس سوسائٹی میںرہتا ہے اس کے مطابق، اس کی کنڈیشننگ شروع ہوجاتی ہے۔ اِس بعد کی کنڈیشننگ کو ختم کرکے اپنے آپ کو دوبارہ اپنی پیدائشی حالت یا فطری حالت کی طرف لے جانے ہی کا دوسرا نام اسپریچویلٹی ہے۔ اسپریچول سائنس در اصل مائنڈ کی ڈی کنڈیشننگ کا نام ہے۔ ڈی کنڈیشننگ نہیں تو اسپریچویلٹی بھی نہیں۔
اِس اعتبار سے انسانی دماغ کی مثال پیاز جیسی ہے۔ پیاز کے بیج میں ابتداء ًاس کا ایک چھوٹا سا مغز ہوتا ہے۔ اس کے بعد اس مغز کے اوپر پرت چڑھنے لگتی ہے۔ ایک کے بعد دوسری پرت دوسری کے بعد تیسری پرت، تیسری کے بعد چوتھی پرت۔ پرت چڑھنے کا یہ عمل جاری رہتا ہے یہاں تک کہ اندر کا مغز پوری طرح اِن خارجی پرتوں کے اندر ڈھک جاتا ہے۔ اب بظاہر صرف پرت دکھائی دیتی ہے۔ اندر کا مغز دکھائی نہیںدیتا۔
پیاز کے اندر کے مغز کو حاصل کرنے کے لیے اس کے اوپر کی تمام پرتیں ہٹانی پڑتی ہیں۔ اِسی طرح نیچر والے انسان کو دوبارہ سامنے لانے کے لیے اس کی کنڈیشننگ کو ختم کرنا پڑتا ہے۔ کنڈیشننگ کا یہ عمل ویسا ہی ہے جیسا کہ پیاز کے اوپر کی پرت کوہٹانے کا عمل۔ اسپریچول سائنس کا پورا معاملہ پیاز کی اِس مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔پیاز گویا اسپریچویلٹی کے معاملے کا ایک مادّی مظاہرہ ہے۔ پیاز انسان کو ایک مادی واقعے کے روپ میں بتارہی ہے کہ اس کو اپنے اندر روحانیت کی تعمیر کے لیے کیا کرنا چاہیے۔
خدا نے اِس دنیا میں حصولِ کمال کے لیے اکتشافی طریقہ (discovery method) رکھا ہے، مادّی چیزوں کے لیے بھی اور انسان کے لیے بھی۔ مادی دنیا میں خدا نے بنابنایا اسٹیل (steel) نہیں رکھا بلکہ خام لوہا (ore) رکھا۔ انسان اِس خام لوہے کو زمین سے نکال کر اپنی فیکٹری میں لاتا ہے اور وہاں مخصوص عمل (process) سے گذار کر اس کو اسٹیل کی صورت دیتا ہے۔ یہ فطرت کا قانون ہے۔ فطرت کسی کو بھی اسٹیل سپلائی نہیں کرتی۔ وہ صرف خام لوہا دیتی ہے۔ اب اسٹیل کے طالب کا اپنا کام ہے کہ وہ خام لوہے پر عمل کرکے اس کو اسٹیل بنائے۔
یہی معاملہ انسان کا ہے۔ یہاں بھی ایسا نہیں ہوتا کہ انسان کو روحانی پیکر کی صورت میں پیدا کردیا جائے۔ اس کے بجائے یہ ہوتا ہے کہ انسان پیدائشی طورپر ہر قسم کی روحانی صلاحیت لے کر پیدا ہوتا ہے۔ اب یہ خود انسان کا کام ہے کہ وہ اپنے اندر روحانی تشکیل کا عمل کرے۔ وہ اپنی تربیت کرکے اپنے آپ کو ایک کامل روحانی شخصیت میں ڈھال لے۔
روحانی انسان ایک خود تعمیر کردہ انسان کا نام ہے۔ روحانی انسان کسی پُر اسرار کرامت کے ذریعے نہیں بنتا، وہ ایک معلوم تربیتی عمل کے ذریعے بنتا ہے۔ یہ عمل تمام تر ذہنی سطح پر ہوتا ہے۔ کو ئی بھی پُر اسرار طریقہ روحانی انسان بنانے والا نہیں۔
واپس اوپر جائیں

سوال و جواب

سوال
کیا Life Insurance ہم خرید سکتے ہیں ۔ میں نے جب ۱۹۸۷ میں اس کو خریدا تھا تب میں اسلام سے بہت واقف نہ تھا۔ اور اس زمانے میں مَیںجناب پرویز صاحب کی کتابیں پڑھا کرتا تھا۔ لیکن ان کی ساری کتابیں پڑھنے کے بعد بھی دل کو اطمینان نہیں ہوا۔ ادھر ۱۹۹۹ میں میں نے ایک بُک اسٹور میں آپ کی ایک کتاب دیکھی جس کا نام تھا سفر نامہ۔ غیر ملکی اسفار (۱) ۔ ویسے بھی انگریزی میں Travel Books پڑھا کرتا ہوں۔ جب میں نے آپ کی کتاب دیکھی تو دل میں ہوا کہ چلو دیکھیں (گستاخی معاف) مُلّا دنیا کو کس نظر سے دیکھتا ہے۔ جب میںنے آپ کی کتاب پڑھی تو مجھے آپ کی باتیں بڑی اچھی لگیں اور آپ کے خیالات پڑھتے پڑھتے دل نے کہا کہ مجھے جس انسان کی تلاش تھی وہ یہی انسان ہے۔ تب سے آج تک آپ کی بہت ساری کتابیں پڑھیں ، دل کو سکون ہوا۔ پھر سے کلمہ پڑھا اور خدا کو پالیا۔ (احمد اچھا، لندن)
جواب
لائف انشورنس کے بارے میں علماء کے فتوے آچکے ہیں، وہ سب کو معلوم ہیں۔ میں اِس قسم کے فتووں سے ایک بنیادی اختلاف رکھتا ہوں، وہ یہ کہ یہ فتوے عباسی دور میں پیدا ہونے والے مدارسِ فقہ کو شعوری یا غیر شعور ی طورپر ماڈل مانتے ہیں۔ اور اسی کو اسلام کا آخری نمونہ سمجھ کر فتوے دیئے جاتے ہیں۔ مگر اصولی اعتبار سے یہ بات درست نہیں۔ اسلام کی ابتدائی تاریخ کو مکّی دور اور مدنی دور میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ عام طورپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ مکّی دور کی حیثیت اسلام کے ابتدائی دور کی ہے، اور مدنی دور کی حیثیت اسلام کے تکمیلی دَور کی۔ مگر یہ تصور مکمل طورپر غلط ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مکّی دور اور مدنی دَور دونوں یکساں طورپر، اسلامی نمونے کی حیثیت رکھتے ہیں۔مکّی دَور اُس حالت کا ایک معیاری نمونہ ہے جب کہ اہلِ اسلام سیاسی اقتدار کی حالت میں نہ ہوں اور مدنی دور اُس حالت کا ایک معیاری نمونہ ہے جب کہ اہلِ اسلام سیاسی اقتدار کے مالک ہوں۔ یہ دونوں نمونے ہمیشہ کے لیے معیاری نمونے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مسلمان جب سیاسی اقتدار کے مالک نہ ہوں تو اُنھیں مکّی دَور سے رہنمائی حاصل کرنا چاہیے اور جب وہ سیاسی اقتدار کے مالک بن جائیں تو اُنھیں مدنی دَور سے رہنمائی لے کر اپنا نظام بنانا چاہیے۔ اگر چہ یہ تقسیم مطلق تقسیم نہیں ہے۔ کیوں کہ مکّی دَور میں بھی مدنی تقاضے شامل رہتے ہیں، اِسی طرح مدنی دور میں بھی مکّی تقاضے شامل رہتے ہیں۔
قرآن سے یہ ثابت ہے کہ سیاسی اقتدار کبھی کسی کو مستقل طورپر نہیں ملتا۔ سیاسی اقتدار ایک پرچۂ امتحان ہے اس لیے وہ ہمیشہ بدلتا رہتا ہے، کبھی ایک گروہ کے پاس اور کبھی دوسرے گروہ کے پاس (تلک الأیام نداولہا بین الناس)۔ ایسی حالت میں عبّاسی دور میں بننے والا ماڈل ابدی طور پر اسلام کا معیاری ماڈل نہیں ہوسکتا۔ ماڈل ہمیشہ حالات کے تابع ہوگا نہ کہ کسی دَورِ حکومت کے تابع۔
واقعات بتاتے ہیں کہ موجودہ زمانے میں مسلمان ساری دنیا میں مکّی دَور جیسے حالات میں ہیں، مسلم اقلیت والے ملکوں ہی میں نہیں بلکہ مسلم اکثریت والے ملکوں میں بھی۔ یعنی جہاں مسلمانوں کی سیاسی حکومت قائم نہیں ہے وہاں بھی اور جہاں مسلمانوں کی سیاسی حکومت قائم ہے وہاں بھی، مسلم اقلیت والے ملکوں میں مقامی حالات کے اعتبار سے اور مسلم اکثریت والے ملکوں میں عالمی حالات کے اعتبار سے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ زمانے میں غیر مسلم قوموں کا سَیطرہ اتنے بڑے پیمانے پر قائم ہے کہ نام نہاد مسلم حکومتوں کے علاقے میں بھی مسلمان عملاً انھیں حالات میں ہیں جو کہ مکّی دور کے حالات تھے۔
ایسی حالت میں میرے نزدیک یہ اسلام کی تعمیل نہیں ہے کہ دَورِ اقتدار میں لکھی ہوئی کتابوں کے حوالے نکال کر موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے لیے فتوے دئے جائیں۔ یہ اسلام کو گویا مضحکہ بنانا ہے۔ کیوں کہ یہ یقینی ہے کہ غالب تہذیب کے تحت جو طریقے رائج ہو گیے ہیں وہ عالمی زور پر چلتے رہیں گے اور مفتی کا فتویٰ ایک مذاق بن کر رہ جائے گا۔
ایسی حالت میں میری رائے ہے کہ صحابی ٔ رسول وابصہ بن معبد والی حدیث پر عمل کیا جائے۔ وابصہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اِثم (گناہ) اور بِرّ (نیکی) کے بارے میں پوچھا۔ آپ نے فرمایا: یا وابصۃ، استفتِ قلبک(مسند احمد، الدّارمی، کتاب البیوع) یعنی اے وابصہ، تم اپنے دل سے فتویٰ پوچھو۔ ظاہرہے کہ رسول اللہ کا یہ جواب فاجر انسان کے لیے نہ تھا بلکہ صالح انسان کے لیے تھا۔ میری رائے ہے کہ جو شخص دین داری کی زندگی گذار رہا ہو، جس کے دل میں نیک نیتی ہو، جو آخرت میں اللہ کی پکڑ سے ڈرتا ہو اس کو ہر معاملے میں مفتی سے فتویٰ پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ کچھ چیزوں میں مسئلہ پوچھنا یقینا ضروری ہے مگر بہت سے امور ایسے ہیں جن میںآدمی کو اپنے قلب یا اپنے ضمیر کی رائے پر چلنا چاہیے۔
سوال
الرسالہ ستمبر ۲۰۰۵ کے صفحہ نمبر ۴۳ پر کشمیر کے عبد الرشید بٹ کے سوال کے جواب میں آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ—اصل بات یہ ہے کہ ایک باپ کو اپنی اولاد سے جوگہرا تعلق ہوتا ہے وہی تعلق آپ کو اپنے الرسالہ مشن سے بھی ہے۔ آپ کے اس جواب سے اس قدر متاثر ہوا ہوں کہ بقیہ زندگی اسی مشن میں گزارنے کا تہیہ کرچکا ہوں۔ مجھے یقین ہوچلا ہے کہ جس تنظیم یا مشن سے صاحب مشن کو اَولاد جیسا گہرا لگاؤ ہو اُس مشن کو زوال نہیں۔
راقم الحروف سنٹر گورنمنٹ کے ریلوے محکمہ سے بطورO.S. ریٹائرڈ ہوچکا ہے۔ ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد اہلیہ کا انتقال ہوگیا۔ دونوں لڑکے وطن سے بہت دُور برسرِ روزگار ہیں اور اب وطن میں آکر بسنا نہیں چاہتے۔ میں اپنے وطن میں تنہائی کی زندگی سے اُکتا چکا ہوں۔ چاہتا ہوں کہ اپنا ذاتی مکان کسی فلاحی تنظیم کے لیے وقف کردوں اور اپنی فیملی پینشن کسی ایسی بیوہ یا مطلقہ کے نام منسوب کردوں جو میرے بعد بھی اس مشن کو جاری رکھے ۔
تمنّا ہے تو بس شارق، تمنا آخری اپنی
جو گزرے، خدمتِ خلقت میں گزرے زندگی اپنی
اس بارے میں آپ کے پُر خلوص مشورے کا انتظار رہے گا۔ (شارق، آکولہ)
جواب
آپ نے دعوتی مشن کے لیے جو ارادہ کیا ہے وہ ایک قربانی کی بات ہے۔ اور قربانی کے جذبے کے اعتبار سے وہ بلاشبہہ قابل ثواب ہے۔ لیکن اسلام میں قربانی کا تصور حکمت کے ساتھ جُڑا ہوا ہے۔ اسلام میں وہی قربانی مطلوب قربانی ہے جو اپنے مقصد کے اعتبار سے نتیجہ خیز ہو۔ بے نتیجہ قربانی اسلام میں نہیں۔
دعوت الی اللہ کا کام بلڈنگ کے ذریعے یا پیسے کے ذریعے نہیں ہوتا۔ دعوت الی اللہ کا کام جب بھی ہوتا ہے اسپرٹ کے ذریعے ہوتا ہے۔ اور اسپرٹ کوئی ایسی چیز نہیں جو منتقل کی جاسکے۔ آپ کے اندر جو دعوتی اسپرٹ پیدا ہوئی ہے وہ آپ کے اوپر اللہ کا ایک خصوصی انعام ہے۔ اِس اسپرٹ کو آپ بطور خود کسی بھی تدبیر سے کسی اور کے اندر منتقل نہیں کرسکتے۔ آپ کے لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنی اِس دعوتی اسپرٹ کو اللہ کا انعام سمجھیں اور اس کو بھر پور طورپر استعمال کریں۔
آپ کے پاس جو مکان ہے یا آپ کو جو پنشن مل رہی ہے، اس کو آپ اپنے لیے خدا کی مدد سمجھیے۔ آپ یہ کیجئے کہ اپنے گھر میں ایک لائبریری قائم کیجئے اور جو ماہانہ رقم آپ کو ملتی ہے اس کو بقدر ضرورت اپنے اوپر خرچ کرنے کے بعد الرسالہ اور الرسالہ کی مطبوعات کو پھیلانے پر لگائیے۔ اپنے پیسے کو کسی اور کو دینے کے بجائے الرسالہ مشن کو پھیلانے میں لگائیے۔ جو لوگ الرسالہ خرید نہیں سکتے مگر وہ اس کو پڑھ سکتے ہیں، اُنھیں مفت الرسالہ پہنچائیے۔ اِس طرح اپنی پوری زندگی اِس مشن پر وقف کردیجئے۔ آپ کا وقت اورآپ کا پیسہ دونوں اس مشن کو فروغ دینے پر استعمال ہونا چاہیے۔ اپنا مکان اور اپنا پیسہ دوسروں کو دینا، میرے نزدیک کوئی حکیمانہ فیصلہ نہیں۔
سوال
۸؍اکتوبر ۲۰۰۵ کو پاکستان میں زلزلہ آیا۔ اِس سے بعض علاقوں میں شدید تباہی آ ئی۔ مثلاً اسلام آباد اور مظفر آباد (کشمیر) وغیرہ میں۔ اِس کے بعد یہاں کے مذہبی طبقے یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ خدا کا ایک عذاب تھا۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ عذاب اِس لیے آیا کہ پاکستان کے لوگوں نے یہاں ’’اسلامی نظام‘‘ قائم نہیں کیا۔ کسی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اسلامی اخلاقیات کو بہت پامال کیا جارہا تھا۔ کوئی کہتا ہے کہ پاکستان کے لوگ جھوٹ اور منافقت میں جی رہے تھے۔ آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے۔ کیا واقعی یہ خدا کا عذاب تھا۔ ( عبد اللطیف، کراچی)
جواب
میرے نزدیک زلزلے کے اِس واقعے کو عذاب کہنا درست نہیں۔ عذاب کا لفظ سزا کے لیے بھی بولا جاتا ہے اور تکلیف کے لیے بھی۔ سزا کے مفہوم میں یہ عذاب نہ تھا۔ البتہ تکلیف کے مفہوم میں اس کو عذاب کہہ سکتے ہیں۔
قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ عذاب یا تکلیف کی تین خاص صورتیں ہیں۔ ایک وہ جس کی حیثیت تنبیہہ یا وارننگ کی ہوتی ہے۔ اِس نوعیت کے عذاب کے لیے قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں: فلولا إذ جائہم بأسنا تضرّعوا (الانعام: ۴۳) اِس نوعیت کے معاملے کو تنبیہی عذاب کہا جاسکتا ہے۔ یہ تنبیہات انسان کو جھنجھوڑنے کے لیے آتی ہیں۔ ایسی تنبیہات ہمیشہ آتی رہی ہیں۔ موجودہ زمانے میں جو فرق ہوا ہے وہ صرف یہ کہ میڈیا کی وجہ سے بہت جلد عالمی طور پر لوگوں کو اس کا علم ہوجاتا ہے، جب کہ پچھلے زمانے میں ایسا واقعہ صرف ایک مقامی واقعہ بن کر رہ جاتا تھا۔
عذاب کی دوسری صورت وہ ہے جس کو قرآن میں دمّرناہم تدمیرا(الفرقان: ۳۶) کہاگیا ہے۔ اِس نوعیت کا عذاب ایک مخصوص گروہ کے لیے اُس وقت آتا ہے جب کہ اس کے پاس پیغمبر آئے اور وہ اتمامِ حجت کی حد تک اپنا پیغام اس کو پہنچا دے۔ یہ عذاب سزا اور ہلاکت کے معنیٰ میں ہوتا ہے۔ پیغمبری کا سلسلہ ختم ہونے کے بعد اب اِس قسم کا عذاب کسی قوم پر آنے والا نہیں۔
عذاب کی تیسری صورت وہ ہے جس کے لیے قرآن میں اِس قسم کے الفاظ آئے ہیں: إن زلزلۃ الساعۃ شیٔ عظیم(الحج: ۱) یہ معاملہ اُس وقت پیش آئے گا جب کہ خدا موجودہ دنیا کو ختم کرنے کا فیصلہ کرے گا۔ ایسا واقعہ صرف ایک بار پیش آئے گا، اور اس کا پیش آنا ابھی باقی ہے۔
سوال
الرسالہ کو عام کرنے میں مجھے بہت ہی صبر آزما حالات سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ یہاں بعض جماعتوں نے اپنا پروپیگنڈا شروع کردیا ہے۔ اور وہ الرسالہ کے خلاف کتابیں پھیلارہے ہیں۔ شہر کے لوگ بھی دھیرے دھیرے جاننے لگے ہیں کہ میں الرسالہ پھیلاتا ہوں۔ اس لیے لوگوں نے میری مخالفت شروع کردی ہے۔ (شاہ عمران حسن، مونگیر)
جواب
آپ کو اللہ تعالیٰ نے سلیم الطبع بنایا ہے۔ اِسی کے ساتھ آپ کو یہ ہمت بھی دی ہے کہ آپ حالات کی ناموافقت کے باوجود الرسالہ مشن کو لے کر کھڑے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر طرح آپ کی مدد فرمائے۔ اس سلسلے میں ایک حکمت کی بات یہ ہے کہ اقدام ہمیشہ بقدر تیاری ہونا چاہیے۔ آدمی جو مقصد حاصل کرنا چاہے اس کے مطابق، اس کے پاس ضروری تیاری ہونا چاہیے۔ پہلے تیاری اور اس کے بعد اقدام یہی کام کا فطری طریقہ ہے۔
سوال
میں ایم ۔اے ۔ انگریزی (M.A. English from IGNOU) کی طالبہ ہوں اور جنوری ۲۰۰۲ سے میں الرسالہ پڑھتی رہی ہوں۔ پہلی بار جب الرسالہ میرے ہاتھوں میںآیا تو میری خوشی کی انتہا نہ رہی اور پڑھنے کے بعد حقیقت میں دل بہت خوش ہوا اور سب سے بڑی بات یہ کہ میں الرسالہ سے فوراً متاثر ہوگئی۔ اس سے میری معلومات میں اضافہ ہوا۔ ایسا لگا جیسے الرسالہ صرف دل کو ہی نہیں بلکہ روح کو بھی تسکین دیتا ہے۔ تب سے میں نہایت ہی پابندی کے ساتھ الرسالہ کا مطالعہ ہر ماہ کررہی ہوں۔ بے شک اس کے مطالعے سے میں نے بہت کچھ سیکھا ہے۔ بہت کچھ حاصل کیا ہے اور میں اس کا پورا کریڈٹ آپ کے نام کروں گی۔ بلا شبہہ آپ کی عظیم شخصیت کی بدولت ہی یہ سب کچھ ممکن ہوسکا۔
بے شک مجھے اس کے ذریعے اسلام کی حقیقت سے روشناس ہونے کا موقع ملا۔ مگر کچھ باتوں سے میں متفق نہیں ہوں۔ وہ یہ کہ ہر معاملے میں مسلمانوں کو قصور وار ٹھہرانا۔تالی دونوں ہاتھ سے بجتی ہے۔پھر یہ کہنا کہاں تک درست ہے کہ یہ مسلمانوں کی غلطی کا ثمرہ ونتیجہ ہے۔(رخشاں ہاشمی، مونگیر)
جواب
’’مسلمانوں کو قصور وار ٹھہرانا‘‘ ایک غیر متعلق بات ہے۔ اس طرح کے معاملات میں اصل سوال یہ جاننے کا ہے کہ فطرت کا قانون کیا ہے۔ ہماری رائے فطرت کے قانون کے مطابق ہونی چاہیے نہ کہ اپنے جذبات یا خواہشات کے مطابق۔ قرآن میں فطرت کا یہ قانون اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وما أصابکم من مصیبۃ فبما کسبت أیدیکم (الشوری: ۳۰)
قرآن کی یہ آیت حتمی الفاظ میں بتارہی ہے کہ لوگوں کے اوپر جو مصیبت آتی ہے وہ ان کے اپنے ہی کیے کا نتیجہ ہوتی ہے۔ ایک او ر آیت میں فرمایا کہ: ان تصبروا وتتقوا لایضرکم کیدہم شیئاً (آلِ عمران: ۱۲۰) اِس دوسری آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس دنیا میں اصل مسئلہ ’’اغیار کی سازش‘‘ کی موجودگی نہیں ہے بلکہ خود مسلمانوں کے اندر صبر اور تقویٰ کی غیر موجودگی ہے۔ یعنی اگر مسلمانوں میں صبر اور تقویٰ ہوگا تو وہ اَغیار کی سازش سے محضوظ رہیں گے اور اگر صبراور تقویٰ نہیں ہوگا تو وہ اغیار کی سازشوں کا شکار ہوجائیں گے۔
ان قرآنی آیات کے مطابق، آپ نے جن باتوں کے بارے میں اپنے عدم اتفاق کا اظہار کیا ہے، اس کا تعلق الرسالہ سے نہیں ہے بلکہ خود قرآن سے ہے۔ آپ کو اگر کہنا ہے تو یہ کہیے کہ مجھ کو قرآن کی بات سے اتفاق نہیں ہے۔ کیوں کہ یہ بات الرسالہ کی بات نہیں ہے بلکہ وہ خود قرآن کی بات ہے۔
مذکورہ قسم کی آیتوں کا مطالعہ کرنے سے جو بات معلوم ہوتی ہے وہ یہ کہ جب کوئی اُفتاد پڑے تو مسلمانوں کے اندر احتسابِ خویش (introspection) کا جذبہ جاگنا چاہیے۔ دوسروں کے خلاف احتجاج اور شکایت کرنا، سراسر قرآن کی تعلیمات کے خلاف ہے۔
سوال
اپنی تشفی اور تفہیم (concept clearing) کے لیے اپنی ایک اُلجھن کے حل کے لیے آپ کی مدد چاہتا ہوں۔
اُلجھن— قرآن میں باربار خوفِ خدا کا ذکر آتا ہے۔ اور بندوں کو تلقین کی جاتی ہے کہ وہ اللہ کا خوف ہمیشہ اپنے دل میں رکھیں۔ مومنین کی صفات کے تذکرے میں خصوصی طور پر آتا ہے کہ وہ اللہ سے ڈرتے ہیں۔ مثلاً اتقوا ربکم واخشوا یعنی اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرو اور اس سے ڈرو۔ (لقمان : ۳۳) اس کا یہ مطلب ہوا کہ ہم اللہ کے غضب سے ڈر کر اس کی عبادت کریں۔ اس کے علاوہ متعدد مقامات پر اللہ سے خوف کھانے اور ڈرنے کو ہی مومن ہونے کے لیے لازم گردانا گیا ہے۔ جیسے:حقیقت یہ ہے کہ علم رکھنے والے ہی خدا سے ڈرتے ہیں (الفاطر: ۲۸) ،خدا ہی کو پکارو خوف کے ساتھ، وغیرہ ۔(الاعراف : ۵۶)
دوسری طرف بظاہر بالکل متضاد طورپر اللہ جل شانہُ سے محبت کرنے کو بھی عین ایمان قرار دیا جاتا ہے۔ الرسالہ کے مختلف issue میں بھی محبت الی اللہ کے بارے میں بارہا پڑھا۔
اُلجھن یہ ہے کہ ایک آدمی بیک وقت دو متضاد صفات کا حامل کیسے ہو۔ اللہ سے ڈرے بھی اور محبت بھی رکھے، کیسے؟ جس کسی سے محبت ہوتی ہے اس سے ڈرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اور جس کا ڈر اور خوف دل میں بیٹھ جائے اس سے محبت کرنا فطرتاً ممکن ہی نہیں ہوتا۔ آدمی اس سے صرف ڈر سکتا ہے اور ڈر اور خوف کی وجہ سے اس کا اتباع کر بھی لے تو یہ محبت تو نہ ہوئی۔ (جنید جاذب بھٹی، کشمیر)
جواب
ایک شخص اپنی ماں سے محبت کرتا ہے۔ اسی طرح ایک مؤمن خدا سے محبت کرتا ہے۔ بظاہر دونوں محبت کی صورتیں ہیں مگر دونوں میں بہت زیادہ فرق ہے۔ ماں کے ساتھ محبت میں صرف ایک جذبہ کام کرتا ہے، وہ یہ کہ ماں اپنے بیٹے کے حق میں آخری حد تک شفیق ہے۔ یہاں تک کہ بیٹا اگر کوئی غلط کام کرے تب بھی ماں کی طرف سے اس کو شفقت ہی ملتی ہے، ماں کی محبت صرف محبت ہے، ماں کی محبت میں انصاف کا پہلو شامل نہیں۔ اس لیے بیٹا اپنی ماں سے صرف محبت کرتا ہے۔ اس کے ذہن میں ماں کی نسبت سے ایسا کوئی سبب نہیں جو اس کو ماں سے ڈرنے پَر مجبور کرے۔
مگر خدا کا معاملہ ماں سے مختلف ہے۔ خدا اپنے بندوں کے حق میں شفیق بھی ہے، اور ساتھ ساتھ منصف بھی۔ خدا کے ساتھ محبت میں محاسبہ (accountability) کا پہلو جڑا ہوا ہے۔ انسان خدا سے اس لیے محبت کرتا ہے کہ خدا نے اس کو اَن گنت نعمتیں عطا فرمائی ہیں۔ لیکن اسی کے ساتھ انسان کے سامنے یہ تصور بھی رہتا ہے کہ خدا منصف ہے۔ موت کے بعد ایک فیصلے کا دن (Day of judgement) آنے والا ہے۔ اُس دن خدا تمام انسانوں کو عالَمِ آخرت میں اکھٹا کرے گا۔ وہ ہر ایک کے عمل کا جائزہ لے کر یہ فیصلہ کرے گا کہ کون اپنے عمل کے مطابق، جنت کا مستحق ہے اور کون اپنے عمل کے مطابق، جہنم کا مستحق۔
خدا کوئی خوف ناک چیز نہیں۔ خدا سے خوف، خدا کی خوف ناکی کی بنا پر نہیں ہوتا بلکہ اِس تخلیقی نقشے کی بنا پر ہوتا ہے کہ انسان کو دنیا میں جو نعمتیں ملی ہیں وہ بطور حق نہیں ملی ہیں، بلکہ وہ بطور امتحان ملی ہیں۔ انسان کو چاہیے کہ وہ نعمتوں کے ساتھ منعم کو یاد رکھے۔ وہ ایک ذمے دار انسان کی طرح یہ سوچے کہ میں آزاد نہیں ہوں کہ جو چاہوں کروں، بلکہ میں زیر امتحان ہوں۔ موت کے بعد وہ دن آنے والا ہے جب کہ قانونِ انصاف کے مطابق، میرے اعمال کا حساب لیاجائے، اور میرے اعمال کے مطابق، میرے ابدی مستقبل کا فیصلہ کیا جائے۔
ماں اور خدا کا یہی فرق، دونوں کے معاملے کو ایک دوسرے سے الگ کردیتا ہے۔ ماں کسی انسان کے لیے صرف محبت کا موضوع بنتی ہے۔ ماں کی محبت کے ساتھ خوف شامل نہیں ہوتا۔ مگر خدا کے ساتھ محبت میں فطری طورپر خوف شامل ہوجاتا ہے۔ ایک طرف خدا کی رحمتوں کی بنا پر اس سے محبت، اور دوسری طرف زندگی کی امتحانی نوعیت کی بنا پر شدید اندیشہ۔ یہی وجہ ہے کہ ماں سے محبت صرف محبت ہوتی ہے، جب کہ خدا سے محبت میں خوف اور اندیشے کی کیفیت بھی شامل ہو جاتی ہے۔
سوال
الرسالہ ستمبر ۲۰۰۵ کا شمارہ پڑھا۔ اس کے صفحہ ۳۳ پر ’’اعلیٰ عبادت ‘‘کے عنوان کے تحت، ایک حدیث اس طرح پڑھنے کو ملی:’’ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: المؤمن الذی یخالط الناس ویصبر علی اذاہم اعظم اجراً من الذی لایخالطہم ولایصبر علی اذاہم (ابن ماجہ کتاب الفتن، الترمذی کتاب القیامۃ، مسند احمد ۲؍۴۳) یعنی وہ مؤمن جو لوگوں کے ساتھ اختلاط کرتا ہے اور ان کی ایذاؤں پر صبر کرتا ہے اس کا اجر اس مؤمن سے زیادہ بڑا ہے جو کہ لوگوں کے ساتھ اختلاط نہیں کرتا اور ان کی ایذاؤں پر صبر نہیں کرتا‘‘۔
آپ نے اس حدیث کے صرف پہلے جزء پر روشنی ڈالی ہے جو کہ الرسالہ مشن سے بالکل مطابقت رکھتا ہے لیکن اس کے دوسرے جزء سے کہ —جو مؤمن لوگوں کے ساتھ اختلاط نہ رکھے اور ان کی ایذاؤں پر صبر نہ کرے، آپ نے صرفِ نظر فرمایا ہے۔ حالانکہ علمی تقاضا یہی تھا کہ حدیث کے دونوں پہلوؤں پر روشنی ڈالی جائے۔ اور دونوں باتیں عام قارئین الرسالہ کے سامنے بھی آجائیں۔ تاہم اگرچہ اس حدیث کے پہلے جزء سے ایک مؤمن کی نمایاں صفت یہی بتائی گئی ہے کہ وہ لوگوں کے ساتھ اختلاط رکھے گا اور ان کی ایذاؤں پر صبر کرنے میں بہت بڑا درجہ حاصل کرے گا۔ لیکن اس کے دوسرے جزء سے یہ بات بھی تو واضح ہو جاتی ہے کہ لوگوں کے ساتھ اختلاط نہ رکھنے اور ان کی ایذاؤں پر صبر نہ کرنے کی صورت میں بھی مؤمن اجر سے محروم نہیں رہے گا۔
اس طرح اس حدیث کا مجموعی طورپر یہی مفہوم سامنے آتا ہے کہ اول الذکر والے مؤمن کی بہ نسبت ثانی الذکر والے مؤمن کا طرز فکر وعمل اگر چہ کمتر و فروتر ضرور ہے مگر غلط یا شریعتِ اسلامی سے مختلف یا عند اللہ ثواب سے محرومی کا باعث نہیں ہے۔ نیز جو لوگ آپ کے صبر کے فلسفے سے اختلاف کرتے ہیں ان کا موقف مطلق طورپر اس حدیث کی روشنی میں غلط ٹھہرانا آسان نہیں معلوم ہوتا ہے۔ کیا آپ اس پر کوئی وضاحت کرنا چاہیں گے۔ (غلام نبی کشافی، سری نگر)
جواب
آپ کا خط ملنے کے بعد میں نے الرسالہ ستمبر ۲۰۰۵ میں شائع شدہ مضمون (اعلیٰ عبادت) کو دوبارہ پڑھا۔ میرے نزدیک اس میں کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں۔ علماء کا یہ عام طریقہ ہے کہ وہ کسی آیت یا حدیث کو لے کر اس کے چند پہلوؤں کی وضاحت کرتے ہیں نہ کہ اس کے سارے پہلوؤں کی۔ مُدرّس کے لیے ضروری ہے کہ وہ آیت یا حدیث کے سارے پہلوؤں کو بیان کرے، مگر داعی کا یہ طریقہ نہیں۔ داعی ہمیشہ دعوتی تقاضے کے تحت کچھ پہلوؤں کو نمایاں کرتا ہے۔ یہی ہر داعی کا طریقہ ہے۔
آپ نے اپنے خط میں یہ تاثر دیا ہے گویا کہ مذکورہ مضمون سے یہ ظاہر ہورہا ہے کہ ’’ثانی الذکر مسلمان کا طریقہ غلط یا شریعتِ اسلامی سے مختلف ہے، اور عند اللہ ثواب سے محرومی کا باعث ہے‘‘۔ میں عرض کروں گا کہ میرے مطبوعہ مضمون میںایسی کوئی بات موجود نہیں۔ آپ کا یہ تبصرہ پڑھ کر مجھے اردو شاعر کایہ شعر یاد آیا:
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہیں وہ بات ان کو بہت ناگوار گذری ہے
سوال
میںتصوف کے موضوع پر کام کرنا چاہتا ہوں اور فرداور معاشرے کی تطہیر کے باب میں تصوف کے رول کو اجاگر کرنا چاہتا ہوں۔ آپ سے گزارش ہے کہ اس سلسلے میں میری رہنمائی فرمائیں۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہوگا کہ تصوف کے بارے میں لوگوں نے الگ الگ خیالات ظاہر کیے ہیں۔ زیادہ تر لوگ اسے اچھی نظر سے نہیں دیکھتے۔ کچھ لوگوں نے تو اسے چنیا بیگم کہا ہے۔ میںتصوف کو اس پس منظر میں دکھانا چاہتا ہوں کہ وہ فرد کی شخصیت سازی کے لیے از حد ضروری ہے۔ کیا مستند تاریخ سے ایسی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں کہ ماضی میں تصوف نے ایسے کارہائے نمایاں انجام دیے اور تاریخ کی بڑی شخصیات کی زندگیوں میں ہلچل پیدا کی اور معاشرہ پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ آپ اس سلسلے میں کچھ رہنما کتابوں کی نشان دہی فرمائیں۔ خواہ وہ آپ کی کتاب ہوںیا کسی اور مصنف کی کتاب۔
پچھلے ڈھائی سالوں سے ایک غیر مسلم ڈاکٹر میرے رابطے میں ہیں ان کا ذہن اسلام سے قریب ہے۔ ایک بار انھوں نے خود مجھ سے فرمائش کی کہ آپ مجھے ہندی یا مراٹھی میں قرآن کا ترجمہ لا کردیں۔ میںنے انھیں مکتبہ اسلامی کا چھپا ہوا ترجمہ لاکر دے دیا۔ پھر خیال آیا کہ اسی کے ساتھ انھیں اسلامی موضوعات پر لٹریچر بھی پڑھاناچاہیے۔ ڈائریکٹ ترجمۂ قرآن پڑھانا شاید زیادہ مفید نہ ہو۔
آپ سے گزارش ہے کہ آپ کچھ ایسی کتابوں کے نام (فہرست) ارسال فرمادیں جو ڈاکٹر صاحب کے لیے مفید ہوں۔ خواہ وہ اسلامی مرکز کی کتابیں ہوں یا کسی اور ادارے کی۔ بس آپ اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ وہ کتابیں ہندی یا انگریزی میں ہوں۔ اور شخص مذکور (ڈاکٹر صاحب) کے ذہن کو اپیل کرنے والی ہوں۔ (شفیق الایمان، رتنا گیری)
جواب
آپ کے خط کا براہِ راست جواب نہ دیتے ہوئے میں ایک اصولی بات کہوں گا۔ اکثر لوگوں کا یہ حال ہے کہ وہ ایک موضوع لے کر اس کے بارے میں دوسروں سے سوال کرتے ہیں۔ حالاں کہ صحیح طریقہ یہ ہے کہ موضوع کا مطالعہ کرکے خود اپنے سوال کا جواب دریافت کیا جائے۔
مثلاً آپ تصوف کے سماجی رول پر کتاب لکھنا چاہتے ہیںتو خود آپ کو اپنے مطالعے سے اس کا مواد حاصل کرنا ہوگا۔ دوسروں سے اس موضوع پر سوال کرکے آپ کوئی قابل قدر کتاب نہیں لکھ سکتے۔
اسی طرح غیر مسلم کو اسلام کی کون سی کتاب پڑھائی جائے یہ پوچھنے کی بات نہیں ہے بلکہ خود دریافت کرنے کی بات ہے۔ آپ مذکورہ غیر مسلم سے بات چیت کرکے ان کے ذہن کو جاننے کی کوشش کریں۔ پھر آپ خود مختلف کتابوں کا مطالعہ کرکے یہ جانیں کہ کون سی کتاب مذکورہ غیر مسلم کے مائنڈ کو ایڈریس کرتی ہے۔
اصولی طورپر آپ اس بات کو سمجھ لیں کہ آپ کا کام کوئی دوسرا شخص نہیں کرسکتا۔ فطرت کا نظام ہے کہ کوئی شخص دوسرے کے حصے کا کھانا نہیں کھاسکتا۔ اسی طرح کوئی شخص دوسرے کے حصے کا ذہنی عمل بھی نہیں کرسکتا۔
سوال
میرا خیال ہے کہ مدرسے کے بچوں کو دینی تعلیم، اللہ اور اس کے رسول کی پیروی کی تربیت کے ساتھ ساتھ انھیں ذریعۂ معاش میں کفیل بنانے کی بھی فکر کی جائے۔ بچوں کو مدرسے کی تعلیم کے ساتھ ساتھ اُنھیں ہُنر بھی سکھائے جائیں۔ مدرسے میں دینی تعلیم کے ساتھ ان لڑکوں کو سلائی کی تربیت، ٹوپی بنانے کا ہنر، جائے نماز، لکڑی کے سامان تیار کرنے، لکڑی اور لوہے کے پائپ کے فرنیچر تیار کرنے کے ہنراور کشیدہ کاری کے کام بھی سکھائے جائیں، تاکہ جب یہ لڑکے مدرسے کی تعلیم سے فراغت پاکر دنیاوی زندگی میں قدم رکھیں تو اس لائق ہوسکیں کہ دین کی زندگی کے ساتھ ساتھ دنیاوی زندگی بھی سنوارنے میں کامیابی حاصل کرسکیں۔
عام اسکول اورکالجوں میں بھی لڑکوں کو جو تعلیم دی جاتی ہے وہ بھی Job oriented یعنی روزگار سے منسلک نہیں ہوتی ہے۔ لیکن ان کی تعلیم چونکہ دنیاوی زندگی کے تقاضوں پر مبنی ہوتی ہے۔ یعنی ان کے courses of studies میں ایسے ایسے سبجیکٹ پڑھائے جاتے ہیں کہ وہ ملازمت کے ممکنہ امتحانات میں بیٹھ کر ملازمت حاصل کرنے کے قابل ہوسکیں۔ اس کے برعکس، مدرسے کی تعلیمات میں ایسا نہیں ہوتا ہے۔ بلکہ ان کا دائرہ محدود ہوتا ہے۔ (محمد ابوالکلام، پھلواری شریف، پٹنہ)
جواب
اِس تجویز سے مجھے اصولی طورپر اتفاق ہے۔ آج کل عام مزاج یہ ہے کہ مدرسے کی تعلیم کے ساتھ کسی ہنر کو شامل کرنے کی بات کی جائے تو لوگ اُس کو پسند نہیں کرتے۔ کہا جاتاہے کہ اِس طرح کی پیوند کاری سے دینی تعلیم کو نقصان ہوگا۔ مگر یہ بات سراسر غلط ہے۔ اس کا ایک تجرباتی ثبوت یہ ہے کہ قدیم روایتی دَور میں مدارس کے تعلیمی نظام کے ساتھ عام طورپر خطّاطی یا جلد بندی اور طِب جیسے پروفیشنل کام کا شعبہ بھی موجود رہتا تھا۔ مگر ایسا نہیںہوا کہ اِس کی بنا پر تعلیم میں نقصان واقع ہوجائے۔ بلکہ تجربہ برعکس طورپر بتاتا ہے کہ پچھلے دَور میںمدارس سے بڑے بڑے علماء نکلے۔ جب کہ موجودہ زمانے میں مدارس سے اُس طرح کے بڑے بڑے علماء کی پیدائش تقریباً بند ہوگئی ہے۔
میری رائے یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں کم ازکم دو چیزوں کی تعلیم وتربیت کو ہر مدرسے میں ضرور شامل کیا جائے۔ ایک ہے انگریزی زبان اور دوسری چیز ہے کمپیوٹر۔ مجھے یقین ہے کہ مروّجہ تعلیم میں کسی بھی قسم کا نقصان کیے بغیر ان دونوں چیزوں کو مدرسے کے تعلیمی نظام میں شامل کیا جاسکتا ہے۔
سوال
میں ایک مسلم نوجوان ہوں۔ میں نے ایک دینی مدرسے میں تعلیم حاصل کی ہے۔مسلم معاشرے کی موجودہ حالت کو دیکھ کر میرے اندر اصلاح کا جذبہ ابھرتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کے اندر اصلاح معاشرہ کا کام کروں۔ اِس مقصد کے لیے میں اصلاحی مضامین لکھنا چاہتا ہوں۔ کیوں کہ موجودہ زمانہ پریس اور صحافت کا زمانہ ہے۔ آپ اِس معاملے میں مجھے اپنا مشورہ دیں اور رہنمائی فرمائیں۔ (ایک قاری الرسالہ، مہاراشٹر)
جواب
عرض یہ ہے کہ اصلاحی مضمون لکھنے کا کام کوئی سادہ کام نہیں۔ اس کے لیے خود اصلاح کے میدان میں اترنا پڑتا ہے۔ متعلقہ موضوعات کا گہرا مطالعہ کرنا پڑتا ہے۔ ان لوگوں کے دردمیں جینا پڑتا ہے جن لوگوں کے بارے میں آدمی اصلاحی مضمون لکھ رہا ہے۔ اصلاحی تحریر کوئی سائڈ بزنس یا پارٹ ٹائم جاب جیسا کام نہیں۔
آپ جانتے ہیں کہ قرآن کا آغاز بسم اللہ الرحمن الرحیم سے ہوتا ہے۔ معروف معنوں میں، یہ کوئی بر کت یا فضیلت کا کلمہ نہیں ہے، اور نہ وہ کوئی رسمی بول ہے۔ یہ زندگی کے ایک اصول کی طرف رہنمائی ہے۔ اِس میں یہ پیغام دیاگیا ہے کہ اپنا کام صحیح نقطۂ آغاز سے شروع کرو:
Begin your work from the right point of begining.
اصلاحِ معاشرہ کے کام کا آغاز خود اپنی تیاری سے شروع ہوتا ہے۔ اِس سلسلے میں سب سے پہلا کام یہ ہے کہ اپنے اندر تعمیری سوچ پیدا کی جائے۔ نفرت اور شکایت جیسے منفی جذبات کو مکمل طورپر ختم کردیا جائے۔ خارجی مطالبے کے بجائے داخلی تعمیر کو ساری اہمیت دی جائے۔ سیاسی طریقِ کار سے آخری حد تک پرہیز کیا جائے۔ جو کام کیا جائے وہ انسانی جذبے کے تحت کیا جائے نہ کہ قومی جذبے کے تحت۔ سب کچھ کرنے کے بعد بھی کسی سے معاوضے کی امید نہ رکھی جائے۔ کامیابی اور ناکامی کی پروا کیے بغیر اپنا کام مسلسل جاری رکھا جائے۔ یہی اصلاحِ معاشرہ کے کام کی شرطیں ہیں۔ ان شرطوں کو پورا کیے بغیر اصلاحِ معاشرہ کا کام مؤثر طور پر انجام نہیں دیا جاسکتا۔
سوال
الرسالہ دسمبر ۲۰۰۵ کے شمارے میں ثانیہ مرزا کے لباس کے بارے میں خبر نامے کے تحت صفحہ ۴۷ پر آپ کا تبصرہ پڑھنے کو ملا تو اس مسئلے پر دوسرے علماء کے فتوے بے وزن و بے معنی محسوس ہوئے۔
آپ نے ثانیہ مرزا کے بارے میں جو کچھ فرمایا ہے وہ بلاشبہہ درست ہے اور اس طرح کے سوالات کا اس کے سوا کوئی اور جواب نہیں ہوتا ہے۔ لیکن بد قسمتی سے دوسرے علماء اور اہل دانش اس طرح کے نت نئے مسائل کے بارے میں مثبت اور تعمیری وفکری جواب دینے سے ہمیشہ قاصر اور ناکام رہتے ہیں اور نتیجۃً ان کے غیر متعلق جوابات سے ہمیشہ فتنہ پیدا ہوتا ہے۔ اور اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی سوال کا جواب سرے سے دینا جانتے ہی نہیں ہیں۔ (غلام نبی کشافی، کشمیر)
جواب
ہمارے مدارس میںافتاء نویسی کا باقاعدہ شعبہ ہوتا ہے اور اس کے تحت، فتوؤں کا جواب دینے کی تربیت دی جاتی ہے۔ مگر افتاء نویسی کے اس شعبے میں ایک بنیادی کمی ہے۔ وہ یہ کہ اِس شعبے کے تحت، مسائلِ فتویٰ تو بتائے جاتے ہیں مگر حکمتِ فتویٰ نہیں بتائی جاتی ۔
حکمتِ فتویٰ سے میری مراد یہ ہے کہ مفتی کو یہ بتایا جائے کہ اس کو کب فتویٰ دینا ہے اور کب فتوے کی زبان استعمال نہیں کرناہے۔ مثلاً ایک شخص اگر خود اپنے لباس کے بارے میں فتویٰ پوچھے تو مفتی کو چاہیے کہ وہ اس کا جواب دے۔ لیکن اگر کوئی شخص ثانیہ مرزا کے بارے میں فتویٰ پوچھے، یا کسی امام کے وضع قطع کو لے کر فتویٰ پوچھے تو ایسے معاملے میں مفتی کو یہ جواب دینا چاہیے کہ تم جس کے بارے میں فتویٰ مانگ رہے ہو اس سے جاکر ملو اور اس کو تیار کرو کہ وہ خود اپنے بارے میں فتویٰ پوچھے۔ موجودہ شکل میں تمہارا طریقہ درست نہیں۔
اسی طرح ایک کیس اگر ملکی قانون کے تحت، فوج داری کا کیس ہو اور کوئی شخص اس کے بارے میں فتویٰ پوچھے تو مفتی کو یہ کہنا چاہیے کہ یہ ایک عدالتی معاملہ ہے۔ تم اِس بارے میں ہم سے فتویٰ مت پوچھو بلکہ اس معاملے میں عدالت سے رجوع کرو۔ اِسی طرح اگر کوئی شخص ایک ایسے معاملے میں فتویٰ پوچھے جس میں یقینی ہو کہ مفتی کا فتویٰ مؤثر نہیں ہوگا۔ مثلاً کوکوکولا کو پینے یا نہ پینے کا مسئلہ، تو ایسے معاملے میں بھی مفتی کو فتویٰ نہیں دینا چاہیے۔ بلکہ مفتی کو مولانا عبد الحق حقانی کی زبان میں یہ کہنا چاہیے کہ— میرا فتویٰ نہیں چلے گا’’کوکوکولا‘‘ چل جائے گا۔
میری قطعی رائے ہے کہ جو شخص قدیم فقہی کتابوں میں لکھے ہوئے مسائل کو جانے اور حالاتِ زمانہ کو نہ جانے، اس کے لیے فتویٰ دینا جائز نہیں۔
سوال
میں ۱۹۹۹ء میں بینک میں agriculture officer کے عہدے پر فائز ہوا تھا۔ دورانِ تعلیم الرسالہ کا مستقل قاری تھا لیکن ملازمت میں آنے کے بعد یہ سلسلہ منقطع ہوگیا۔ لیکن میں جب بھی گھر جاتا ہوں تو وہاں سے سارا الرسالہ اپنے ساتھ لے کر آتا ہوں۔ کیوں کہ میرے والد محترم اس کے مستقل قاری ہیں۔ میری شادی ہوئے اب تقریباً چار سال ہونے جارہے ہیں۔ ایک لڑکا بھی ہے۔ لیکن میرا مسئلہ یہ ہے کہ شادی ہونے کے اتنی مدّت کے بعد بھی ہم لوگوں میں خوشگوار ماحول نہیں بن سکا۔ شادی کے اوائل سے ہی جھگڑے ہوتے رہے۔ کئی بار ایسے حالات ہوئے کہ شاید ہم لوگوں کو الگ ہو جانا پڑے گا۔ لیکن میں ہمیشہ صبر اور تحمل سے کام لیتا رہا۔ اور اب بھی صبر کا دامن تھامے ہوئے بہتر حالات کی امید یں لگائے ہوئے ہوں۔
شادی کے اوائل سے ہی میری بیوی میرے گھر والوں سے نفرت کرنے لگی۔ پھر میرے والدین اور میرے سسرال والوں کے درمیان نا اتفاقی بڑھتی گئی۔ فرزانہ میرے خاندان کی پہلی بہو تھی۔ اس لئے میرے والدین کو بھی بہت ساری توقعات تھیں۔ لیکن اس نے کسی بھی طرح adjust کرنے کی کوشش نہیںکی۔ پھر کچھ دن بعد وہ سسرال جانے سے منع کرنے لگی۔ جب کہ وہ میرے ساتھ پیلی بھیت میں رہتی تھی۔ ہم لوگ لمبے وقفے کے بعد گھر جاتے تھے۔ دو چار دن گھر میں مہمان کی طرح گذار کر پھر واپس پیلی بھیت آجانا تھا۔ دوران قیام ہم لوگ مہمان ہی رہتے تھے۔ لیکن فرزانہ نے کبھی بھی میرے بوڑھے والدین کو ایک کپ چائے بنا کر نہیں پلائی۔ جب کہ میں ہمیشہ اسے یہی سمجھاتا تھا کہ ہم لوگ کچھ دنوں کے لیے آئے ہیں سب سے مل جل کر اور سب کو خوش کرکے واپس چلا جاؤں گا۔ لیکن اس نے میری باتوں کو کبھی نہیں مانا۔ جس کی وجہ سے میں upset رہتا تھا۔ پھر ہم لوگوں کے درمیان اِنھیں گھریلو معاملات کو لے کر جھگڑے بھی ہوئے۔ حالانکہ وہ میرا خوب خیال رکھتی ہے۔ لیکن میرے گھر والوں سے اس کی نفرت میںاضافہ ہوتا گیا۔ پھر وہ کہنے لگی کہ آپ اپنے بھائیوںکو خرچ نہیں دیںگے۔ میں نے اس کی بات نہیں مانی۔ اب وہ کہہ رہی ہے کہ اب میں اپنے میکے ہی میں رہوں گی جب تک آپ اپنے فرائض سے چھٹکارا نہیں پالیں گے۔ میں عید کے موقع پر اسے گھر چھوڑ آیا تھا۔ بقرعید کے موقع پر میں پھر اسے لینے گیا لیکن وہ آنے سے انکار کر گئی۔ میں ٹکٹ cancelکرکے واپس آگیا ہوں۔ میںنے صبر سے کام لے کر کسی قسم کا کوئی جھگڑا نہیں کیا۔چپ چاپ واپس پیلی بھیت آچکا ہوں۔ لیکن یہاں آنے کے بعد طرح طرح کے سوالات میرے ذہن کو پریشان کئے ہوئے تھے۔ انھیں tensions کی وجہ سے فرزانہ بیمار رہنے لگی ہے۔ اس کے سر میں ہمیشہ درد رہتا ہے۔ وہ گھنٹوں بے ہوش پڑی رہتی ہے۔ کافی علاج کرایا لیکن کوئی افاقہ نہیں ہوا۔ میں بہت پریشان ہوں کیوں کہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ شاید میری غلطی سے ہی حالات اتنے بگڑتے چلے گیے۔ یا پھر میرے گھر والوں کی کوئی کمی رہی۔ یا پھر میرے سسرال والوں نے اس کی صحیح رہنمائی نہیں کی۔ حالاں کہ میرے گھر والوں نے اس کا بہت خیال رکھنے کی کوشش کی۔یہ بھی کبھی اتفاق نہیںہوا کہ میری بیوی اپنے سسرال میں جاکر رہی ہو۔ جہاں میری غیر موجودگی میں میرے گھر والوں نے اس کے ساتھ بد سلوکی کی ہو۔ وہ جب بھی سسرال گئی میرے ساتھ ہی گئی اور میرے ساتھ ہی واپس آگئی۔
جہاں تک میری ازدواجی زندگی کا سوال ہے میں نے اپنے جانتے ہوئے کسی قسم کی کوئی کمی نہیں کی۔ ایک officer جن basic amenities کے ساتھ زندگی گذارتا ہے وہ ساری چیزیں دستیاب ہیں۔ میںاپنے بھائیوں کو صرف تین ہزار روپئے ماہانہ دیتا ہوں۔ اس کے علاوہ میںاپنے گھر میں کچھ بھی نہیں دیتا ہوں۔ میری بہت خواہش تھی کہ میںاپنے والدین کو کچھ دنوں کے لئے لاؤں اور U.P. دکھا دوں۔ لیکن میں یہ خواہش کبھی ظاہر کرنے کی ہمت نہیں کرسکا۔ کیوں کہ میںجانتا تھا کہ یہ میرے لئے ممکن ہی نہیں ہے۔ وہ کبھی بھی میرے گھر والوں کی خیریت دریافت نہیں کرتی ہے۔ جب کہ میرے گھر والے اکثر فون کر کے اس سے بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن وہ ہمیشہ بات کرنے سے گریز کرتی ہے۔ (نازش ریحان، پیلی بھیت)
جواب
آپ کے مسائل کی جڑ یہ ہے کہ آپ جب ملازمت میں آئے تو آپ نے الرسالہ کا مطالعہ چھوڑ دیا۔ یہ آپ کی بہت بڑی غلطی تھی۔ الرسالہ، زندگی کی سائنس بتاتا ہے۔ الرسالہ، آرٹ آف لونگ (art of living)کا شعور دیتا ہے۔ الرسالہ، یہ بتاتا ہے کہ زندگی کے مسائل کو کیسے مینیج کیا جائے۔ الرسالہ ایسی چیز نہیں ہے جس کو کچھ دن پڑھا جائے اور پھر اس کے بعد چھوڑ دیا جائے۔ الرسالہ پوری زندگی کا کورس ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ اب آپ دوبارہ الرسالہ پڑھنا شروع کردیں۔ اور پابندی کے ساتھ بلا ناغہ ہر ماہ پڑھیں۔
بیوی کے معاملے میں آپ کا نظریہ غیر فطری ہے۔ اِس حقیقت کو سمجھ لیجئے کہ آپ کو خونی رشتے کی بنا پر اپنے والدین سے جو دلچسپی ہے وہ آپ کی بیوی کو کبھی نہیں ہوسکتی ہے۔کیوں کہ آپ کی بیوی کا خونی رشتہ آپ کے والدین سے نہیں ہے۔ آپ کو میرا مشورہ ہے کہ آپ بیوی سے وہ امید نہ رکھیں جو فطرت کے قانون کے خلاف ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ خوش گوار زندگی گذاریں تو بیوی جیسی ہے ویسی ہی اس کو قبول کرلیں اور پھر اس پر راضی ہوجائیے۔ اور اگر آپ کے لیے ممکن ہو تو آپ مشترک خاندانی زندگی کو ختم کردیجئے، اور الگ گھر بنانا شروع کردیجئے۔
یاد رکھیے، زندگی حقیقت پسندی کا نام ہے۔ آپ اپنے جذبات کے مطابق، زندگی کا نقشہ نہیں بنا سکتے۔ زندگی کا نقشہ وہی رہے گا جو فطرت کے قانون کے مطابق ہونا چاہیے۔ آپ کی موجودہ شکایت آپ کے غیر حقیقت پسندانہ ذہن کی پیداوار ہے۔ آپ اپنے غیر حقیقت پسندانہ ذہن کو ختم کردیجئے اور پھر آپ کو کسی سے کوئی شکایت نہیں ہوگی۔
سوال
میرا لڑکا افسر ہے عرب میں رہتا ہے۔ بہت دیندار ہے۔ میں نے اپنے لڑکے کی شادی کی ہے۔ B.A. پاس بہو ہے۔ وہ لوگ بھی کھاتے پیتے خوش حال ہیں۔ ہم لوگ بہت ارمان سے بہو بیاہ کر لائے لیکن بہو کسی کو منہ نہیں لگاتی ہے۔ میں اور میرے گھر میں بہو کی بہت عزت ہوئی۔ کوئی روک ٹوک نہ کوئی دباؤ۔ جب میکے جانا چاہتی میں اسے بھیج دیتی۔ میں بلاتی تو وہ اپنی مرضی سے ہی آتی۔ شادی کو ۲ سال گذر گیے ہیں لیکن وہ سب سے الگ تھلگ رہتی ہے۔ میرے کسی رشتے دار کا فون آتا ہے تو بات نہیں کرتی۔ گھر کے کسی کام میں دلچسپی نہیںلیتی۔کبھی میں کوئی چیز بنانے کو کہتی تو کہتی ہے مجھے نہیں آتا ہے بنانا۔ بہو اچھی شکل وصورت کی ہے۔ میںنے کچھ نہیں کہا میں خودہی ہر کام کرلیتی۔ پھر بھی وہ میرے گھر خوش نہیں رہی۔ ہم لوگوں نے اور میرے بیٹے نے اسے ہر طرح کا سکھ دیا۔ ہر آدمی اس کے لیے کچھ سامان لاتا تاکہ وہ میرے گھر خوش رہے لیکن نہیں ۔ وہ کسی کو اپنا نہیں سمجھتی۔ نہ صبح میں ناشتہ بنانے کی فکر نہ کھانا بنانے کی۔ میرا بیٹا اسے عرب اپنے ساتھ لے گیا وہاں بھی اس کا وہی حال ہے۔ میرے بیٹے نے لکھا ہے کہ میں نے آرام کی ہر چیز گھر میں رکھ دی ہے کہ وہ خوش رہے لیکن اس کا یہاں دل نہیں لگتا۔ میرے بیٹے نے یہ بتایا کہ یہ میکے رہنا چاہتی ہے۔ مولانا صاحب مجھے اس مسئلے کا حل بتائیے۔ (ایک قاری الرسالہ)
جواب
زندگی میں ہمیشہ آدمی کے لیے دو میں سے ایک کا چوائس ہوتا ہے۔ مگر آدمی اکثر ایسا کرتا ہے کہ وہ تیسرا چوائس لینا چاہتا ہے، جب کہ تیسرا چوائس اس کے لیے ممکن نہیںہوتا۔ شادی کا معاملہ بھی یہی ہے۔
اکثر ماںباپ ایسا کرتے ہیں کہ وہ اپنے بیٹے کے لیے ڈھونڈ کر اچھی شکل و صورت والی بہو لاتے ہیں، اور پھر شادی کے بعد یہ شکایت کرتے ہیں کہ ان کی بہو اُن کی بات نہیں سُنتی۔ والدین کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ اچھی شکل و صورت والی بہو کبھی ان کی بات نہیں سنے گی۔ اگر وہ بات سننے والی بہو چاہتے ہیں تو انھیں چاہیے کہ وہ معمولی صورت والی بہو اپنے گھر میں لائیں۔ اِس معاملے میں کوئی اور چیز ان کے لیے قابلِ عمل نہیں۔
اچھی شکل و صورت والی لڑکی کے ساتھ یہ حادثہ پیش آتا ہے کہ دو چیزیں اس کے مزاج کو خراب کردیتی ہیں۔ ایک، اس کے ماں باپ، اور دوسرے، آئینہ۔ ایسی لڑکی کی جب شادی ہوتی ہے اور وہ اپنی سسرال میںآتی ہے تو یہ دونوں چیزیں اس کو بگاڑ چکی ہوتی ہیں۔ ایسی حالت میں لڑکے کے والدین کو چاہیے کہ وہ اگر اچھی شکل و صورت والی لڑکی کو اپنی بہو بناتے ہیں تو وہ اس سے کوئی امید نہ رکھیں۔ اور اگر وہ بہو کو اپنی امید کے مطابق دیکھنا چاہتے ہیں تو وہ ایسی لڑکی کو اپنے گھر لائیں جو صورت کے اعتبار سے پُرکشش نہ ہو۔
اِس معاملے میں سب سے بُرا کردار لڑکی کے ماں باپ کا ہے۔ لڑکی کے ماں باپ عام طور پر یہ کرتے ہیں کہ وہ اچھی شکل و صورت والی لڑکی کے ساتھ بہت زیادہ لاڈ پیار (over-pampering) کا معاملہ کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لڑکی جب شادی کے بعد اپنی سسرال میںجاتی ہے تو وہ شعوری یا غیر شعوری طورپر وہاں بھی اپنے لیے لاڈ پیار والے سلوک کی امیدوار رہتی ہے۔ مگر فطری طورپر ایسا ہونا ممکن نہیں۔ اِس لیے اِس قسم کی لڑکیاں ہمیشہ پریشان رہتی ہیں۔ اِس پریشانی کو دور کرنے کے لیے وہ بھاگ کر اپنے میکے جاتی ہیں جو کہ صرف ان کی پریشانی میںاضافے کا باعث بنتا ہے۔ اِس مسئلے کا حل یہ ہے کہ میکے والے اور سسرال والے دونوں حقیقت پسندانہ انداز اختیار کریں۔
سوال
پوجیہ مولانا صاحب کو عید کے مبارک موقعے پر میرا سلام قبول ہو۔ بہت عرصے سے آپ کے درشن کرنے کا موقع نہیں ملا۔ کئی سوال میرے ذہن میں گھوم رہے ہیں۔ کیا دھرتی پر کبھی ایسا بھی وقت آئے گا جب انسان کے بیچ میں بھائی بھائی کا رشتہ قائم ہو جائے گا۔ اگر ہاں، تو اس کو قائم کرنے میں آپ جیسے سنتوں، فقیروں کا کیا رول ہوگا۔ کیا آپ کو ایسا نہیں لگتا کہ آپ کو اس مقصد کے لیے کوئی بڑا initiative لینا چاہیے۔ کیوں کہ چھوٹے مو ٹے قدموں سے آج کے ماحول پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اگر آج ہی آپ نے اور آپ جیسے سنتوں نے positive دِشا میں کوئی بڑا قدم نہیں اٹھایا تو شایدکل حالات قابو سے باہر ہو جائیں گے۔
آپ سے عرض ہے کہ دنیا کے حالات کو سدھارنے کے لیے آپ historical initiative لیں تاکہ آنے والی پیڑھیوں کے لیے یہ دھرتی ایک محفوظ جگہ بن سکے۔ (سوامی اوم پورن سوتنتر، راجستھان)
جواب
آپ کے جذبات بہت قابلِ قدر ہیں۔ میں کہوں گا کہ میں CPS Internationalکے تحت، عین وہی کام کررہا ہوں جو آپ نے فرمایا۔ مگر اصل مسئلہ یہ ہے کہ لوگ بڑے بڑے کام کو کام سمجھتے ہیں۔ حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ بڑے کام کا آغاز چھوٹے کام سے ہوتا ہے، بڑی چھلانگ کے ذریعے کسی بھی کام کا آغاز نہیں ہوتا۔ ہم نے اپنے ملک میںدیکھا ہے کہ کئی لوگوں نے بڑے بڑے اقدامات سے کام کا آغاز کیا۔ مثلاً مہاتما گاندھی، جواہر لال نہرو، جَے پرکاش نرائن وغیرہ۔ مگر یہ بڑے بڑے اقدامات کوئی مثبت نتیجہ پیدا نہ کرسکے۔
اِن تجربات سے سبق لیتے ہوئے میںنے CPS International کے تحت، ایک کام کا آغاز کیا ہے۔ اس کام کا نشانہ بہت بڑا ہے۔ اوّلاً پورا ملک، اور پھر ساری دنیا۔ مگر حقیقت پسندانہ انداز اختیار کرتے ہوئے ہم نے اپنے کام کو چھوٹے آغاز کے ساتھ شروع کیا ہے۔ خدا کے فضل سے یہ کام دن بدن بڑھ رہا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یقینا وہ دن آئے گا جب کہ یہ چھوٹا آغاز بڑے نتیجے تک پہنچے گا۔
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز ۱۷۵

۱۔ نیشنل بک ٹرسٹ اور حکومت میزورم کے تعاون سے میزورم کی راجدھانی ایزول میں ایک بُک فئر لگائی گئی۔ وہ ۵مارچ سے ۱۱ مارچ ۲۰۰۶تک جاری رہی۔ اِس موقعے پر گُڈ ورڈ بُکس (نئی دہلی) کی طرف سے ایک بُک اسٹال لگایا گیا۔ مسٹر مصطفی عمری نے اس کو سر انجام دیا۔ انھوں نے بتایا کہ میزورم میں یہ پہلا اسلامی بُک اسٹال تھا۔ لوگوں نے کافی دلچسپی لی۔ خاص طورپر قرآن (انگریزی) کے تمام نسخے لوگوں نے حاصل کرلیے۔ ادارے کی دوسری اسلامی کتابیں بھی لوگوں نے کافی دلچسپی کے ساتھ خریدیں۔ میزورم کے گورنر بھی بُک اسٹال پر آئے اور انھوںنے اسلام کے بارے میں اپنی دلچسپی کا اظہار کیا۔
۲۔ ۶ مارچ ۲۰۰۶ کو روزنامہ راشٹریہ سہارا کے نمائندہ مسٹر سُنیل نے ٹیلی فون پر صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ اُن کا سوال بنارس میں ایک مندر پر بم دھماکے کے حوالے سے تھا۔ انھوں نے پوچھا کہ کسی عبادت گاہ پر بم دھماکے کے لیے اسلام میں کیا حکم ہے۔جواب میں بتایاگیا کہ اِس قسم کا بم دھماکہ ہر حال میں حرام ہے، خواہ وہ کسی مندر پر کیا جائے یاکہیں اور کیا جائے۔ اِس قسم کے بم دھماکوں میں بے قصور لوگ مارے جاتے ہیں، اور بے قصور لوگوں کو مارنے کے بارے میں قرآن میں آیا ہے کہ جس نے ایک بھی بے قصور آدمی کو قتل کیا تو اس نے گویا کہ سارے ہی انسانوں کو قتل کر ڈالا۔ اس قسم کا متشددانہ فعل ہر حال میں قابلِ مذمت ہے۔ کوئی بھی عذر اس کو جائز ثابت نہیں کرتا۔ اختلاف یا شکایت کے موقع پر اسلام میں پُر امن حل کی تلقین کی گئی ہے۔ پُر تشدد کارروائی اسلام میں سرے سے جائز نہیں۔
۳۔ دور درشن (نئی دہلی) کے نمائندہ مسٹر وریندر شرما نے ۸ مارچ ۲۰۰۶کو صدر اسلامی مرکز کا ایک ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ اِس انٹرویو کا موضوع ۷ مارچ کو بنارس میں ہونے والا بم دھماکہ تھا جس میں ایک مندر کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ جوابات کے ذیل میں بتایا گیا کہ اِس قسم کا بم دھماکہ اسلام کی تعلیم کے سراسر خلاف ہے۔ اسلام کے مطابق، ہر عبادت گاہ قابلِ احترام ہے، خواہ وہ کسی بھی مذہب کی عبادت گاہ ہو۔ عبادت گاہ پر بم دھماکہ کرنا دہرا گناہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک ہے عبادت گاہ پر متشددانہ حملہ کرنا اور دوسرا ہے بے قصور لوگوں کی جان لینا۔ یہ واقعہ ہر اعتبار سے سخت قابلِ مذمت ہے۔
۴۔ حبیب بھائی نے حیدرآباد (جُبلی ہِل) میں ایک دعوتی سنٹر بنایا ہے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے حیدرآباد کا سفر کیا۔ یہ سفر۹ مارچ سے ۱۱ مارچ ۲۰۰۶ کے درمیان ہوا۔ ان کے ساتھ سی پی ایس کے دس اور افراد اِس سفر میں شامل تھے۔ حیدر آباد میں عام ملاقاتوں کے علاوہ کئی باقاعدہ پروگرام ہوئے۔ حبیب بھائی کے سنٹر میں دعوتی کام کی اہمیت پر تفصیلی خطاب ہوا۔ پرگنا بھارتی کی طرف سے بھارتیہ وِدّیا بھون کے ہال میں ایک پروگرام کیا گیا جس کا موضوع تھا: بقائِ باہم اور اسلام:
Co-existance in Islam.
اِس موضوع پر تفصیلی خطاب ہوا۔ جامعہ دار الفرقان للبنات (سعید آباد) میںایک پروگرام ہوا جس کا موضوع تھا: خواتین کا درجہ اسلام میں۔ ایک پروگرام یونیورسٹی آف حیدرآباد میںتھا۔ یونیورسٹی کی ہال میں خطاب ہوا۔ اِس کا موضوع تھا: امن (Peace) ، وغیرہ۔ اِس سفر کی تفصیلی روداد انشاء اللہ سفر نامے کے تحت، الرسالہ میں شائع کر دی جائے گی۔
۵۔ ۱۹۔۲۲ مارچ ۲۰۰۶ کو اسپین کے شہر اشبیلیہ (Seville) میں ایک انٹرنیشنل کانفرنس ہوئی۔ یہ کانفرنس امن کے موضوع پر تھی۔ اِس میں مسلم اور یہود کے مذہبی پیشواؤں کو بلایا گیا تھا:
Second World Congress of Imams and Rabbis for Peace. Orgnized by the Hommes de Parole Foundation Svelle, Spain
اس کانفرنس میںصدر اسلامی مرکز کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ اس کا دعوت نامہ مؤرخہ ۲۳ فروری ۲۰۰۶ مسز نائلہ(Nayla A. Khalek)کے دستخط سے ملا تھا۔ اس سلسلے میں ان کی طرف سے کئی ٹیلی فون آئے۔ ان کے ایک نمائندہ بھی مرکز میں آئے۔ لیکن بعض وجوہ سے اس میں شرکت کے لیے سفر کا پروگرام نہ بن سکا۔ البتہ CPS کے کچھ انگریزی پمفلٹس اور مضامین ان کو بھیج دیے گئے۔ جو کہ امن کے موضوع سے متعلق تھے۔
۶۔ ای ٹی وی (نئی دہلی) کی ٹیم نے ۲۳ مارچ ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا۔ اس انٹرویو کا تعلق موجودہ زمانے کی متشددانہ مسلم تنظیموں سے تھا۔ سوالات کے جواب میں بتایا گیا کہ آج کل جس طرح اسلامی شخصیتوں یا اسلامی ناموں کو لے کر تنظیمیں بنائی جارہی ہیں وہ بدعت ہے۔ صحابہ نے کبھی اس قسم کی تنظیمیں نہیں بنائیں۔ ایک سوال کے جوا ب میں بتایا گیا کہ اسلام میں مسلح جہاد خالصۃً باقاعدہ طورپر قائم شدہ حکومت کا حق ہے۔ یہ غیر حکومتی تنظیموں کا حق نہیں۔ ایک اور سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ امریکا نے مسلم ملکوں پر حملہ کیا تو اس سے غیر حکومتی تنظیموں کو یہ جواز نہیں ملتا کہ وہ امریکا کے خلاف متشددانہ جہاد شروع کردیں۔ اس طرح کی جارحیت کے مقابلے میں صرف مسلم حکومتوں کو سامنے آنا چاہیے نہ کہ غیر حکومتی تنظیموں کو۔
۷۔ پرگتی پیٹھ (نئی دہلی) ایک فلاحی تنظیم ہے۔ اس کے زیراہتمام ۲۵ مارچ ۲۰۰۶ کوایک سیمنار ہوا۔ یہ سیمنار چنمئی (Chinmay) مشن کے آڈیٹوریم میں منعقد کیاگیا تھا۔ اس میں ڈاکٹر کرن سنگھ اور دوسرے مذہبوں کے نمائندے شریک ہوئے۔ اس کا موضوع یہ تھا:
ٗٗWhat is religion?
اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ یہ پروگرام انگریزی زبان میں ہوا۔ انھوں نے اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں اس موضوع پر آدھ گھنٹہ تقریر کی۔ تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ اسلام کے مطابق، مذہب بنیادی طورپر دو قسم کی تعلیمات پر مشتمل ہے—خدا کی عبادت گذاری، اور انسان کے ساتھ امن اور خیر خواہی کے ساتھ رہنا۔
۸۔ نئی دہلی کے ٹی۔وی ایس۔ون چینل (S-1 Channel) کے تحت، ۲۵ مارچ ۲۰۰۶ کی شام کو ایک پینل ڈسکشن ہوا۔ اِس میں ہندو اور مسلمان دونوں شریک ہوئے۔ اِس پروگرام کا عنوان یہ تھا—ہندو اور مسلم بھائی چارہ کیسے قائم ہو۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ انھوں نے اپنی گفتگو میں کہا کہ بھائی چارہ عملًا قائم ہے۔ اگر بھائی چارہ نہ ہو تو ملک میں بحران پیدا ہوجائے۔ آپ کسی مسلمان سے اس کے ہندو پڑوسی کے بارے میں پوچھئے تو وہ اس کے بارے میں اچھی رائے دے گا۔ اسی طرح آپ کسی ہندو سے اس کے مسلمان پڑوسی کے متلق پوچھئے تو ہ اس کے بارے میں اچھی رائے دے گا۔ یہ مسئلہ زیادہ تر میڈیا کا پیدا کردہ ہے۔ میڈیا اپنے مزاج کے مطابق، سنسنی خیز خبروں کو منتخب کرکے ان کو نمایاں کرتا ہے۔ مگر یہ ہندستانی سماج کی صحیح تصویر نہیں۔ بعض ناخوشگوار واقعات ضرورہوتے ہیںلیکن وہ ہر جگہ ہوتے ہیں حتی کہ مسلم ملکوں میں بھی۔ ان کی بنیاد پر کوئی عمومی رائے نہیں بنائی جاسکتی۔
۹۔ برٹش صحافی سر مارک تُلی (Mark Tully) نے ۴ ؍اپریل ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا ایک تفصیلی انٹرویو لیا۔ وہ ریلیجس انڈراسٹینڈنگ پر انگریزی میں ایک کتاب لکھ رہے ہیں۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ اِس موضوع پر اسلام کا نقطۂ نظر کیا ہے۔ انھیں تفصیل کے ساتھ قرآن اور حدیث کی تعلیمات بتائی گئیں۔ انھیں بتایا گیا کہ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ مختلف مذاہب کے درمیان ہر حال میں معتدل تعلقات قائم رکھے جائیں، اور پُرامن ماحول کو برقرار رکھا جائے۔ کیوں کہ امن کے بغیر کوئی بھی تعمیری کام نہیں ہوسکتا۔ جہاں تک مذہبی اختلاف کی بات ہے، اِس معاملے میں اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اپنے مذہب پر پوری طرح قائم رہتے ہوئے دوسروں کے مذہب کا پورا احترام کیا جائے۔
۱۰۔ ہمدرد پبلک اسکول نئی دہلی) میں ۱۵؍ اپریل ۲۰۰۶ کو ایک پروگرام ہوا۔اس کا انعقاد اسکول کے ہال میں کیاگیا۔ تمام طلبا اور اساتذہ اس میں شریک ہوئے۔ جناب سید حامد صاحب (بانیٔ اسکول) بھی اس میں موجود تھے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور سیرتِ رسول کے موضوع پر ایک تقریر کی۔ تقریر میں منتخب احادیث کی روشنی میں بتایا گیا کہ زندگی کی تعمیر کے لیے پیغمبر اسلام نے کیا رہنما اصول دیے ہیں۔ یہ تقریر چالیس منٹ تک ہوئی۔ اِس موقع پر اسکول کے اساتذہ اور پرنسپل سے ملاقات ہوئی۔ طلبا اور اساتذہ نے خصوصی دل چسپی کا اظہار کیا۔ اِس پروگرام میں سی پی ایس کی ٹیم کے بھی کچھ افراد شریک ہوئے۔
۱۱۔ ہمدرد یونیورسٹی (نئی دہلی) میں ۱۴؍ اپریل ۲۰۰۶ کوسیرت النبی کے عنوان کے تحت ایک پروگرام ہوا۔ اس میں ڈاکٹر موسی رضا وغیرہ نے تقریر کی۔ صدر اسلامی مرکز کو بھی اس میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ چنانچہ وہ بھی اس میں شریک ہوئے اور سیرتِ رسول کے موضوع پر ایک تقریر کی۔ اِس تقریر میں بتایا گیا کہ اسلام ہمیشہ امن کے حالات پسند کرتا ہے۔ کیوں کہ اسلام کا جو مشن ہے وہ صرف امن کے حالات میں حاصل ہوسکتا ہے۔ اسلام کامشن یہ ہے کہ لوگوں کو توحید کا پیغام پہنچایا جائے۔ لوگوں کے اندر جنت اور جہنم کا شعور پیدا کیا جائے۔ لوگوں کو خدا کے تخلیقی نقشے سے باخبر کیا جائے۔ یہ پروگرام یونیورسٹی کے ایک کنونشن سنٹر میں ہوا۔ اس موقع پر دوسرے حضرات کے علاوہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور ڈاکٹر اوصاف علی بھی وہاں موجود تھے۔ اِس موقع پر سی پی ایس کی ٹیم کے افراد شریک ہوئے۔ انھوںنے حاضرین کے درمیان دعوتی پمفلٹ اور بروشر تقسیم کیے۔ لوگوں نے نہایت شوق کے ساتھ ان کو پڑھا۔
۱۲۔ رابعہ گرلس پبلک اسکول (نئی دہلی) میں ۱۹؍ اپریل ۲۰۰۶ کو سیرت النبی کے موضوع پر ایک جلسہ ہوا۔ اس میں تین مختلف اسکولوں کے ٹیچر اور اسٹوڈنٹ شریک ہوئے۔ شہر کے کچھ ممتاز افراد بھی اس میں شریک ہوئے۔ یہ جلسہ صدر اسلامی مرکز کی تقریر کے لیے رکھا گیاتھا۔ انھوں نے وہاں موضوع پر ایک گھنٹہ تقریر کی۔ آخر میں سوال وجواب ہوا۔ تقریر سننے کے بعد کئی ہندو اور مسلم ٹیچروں نے کہا کہ آج ہمیں اسلام اور پیغمبر اسلام کا صحیح تعارف حاصل ہوا۔ اسکول کے مینیجر نے کہا کہ آپ کی تقریر عصری اسلوب میں ہونے کے ساتھ ساتھ بڑوں اور بچوں دونوں کے لیے یکساں طورپر بڑی مفید اور قابلِ فہم تھی۔
۱۳۔ ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ امریکا کی ڈیوک یونیورسٹی (درہم) میں پروفیسر ہیں۔ ان کا تعلق، ڈپارٹمنٹ آف ریلیجس اسٹڈیز سے ہے۔ وہ ۱۹؍ اپریل ۲۰۰۶ کو ایک کیمرہ مین کے ساتھ دفتر میںآئے، اور صدر اسلامی مرکز کا ایک تفصیلی ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ وہ یونیورسٹی کے ایک پروجیکٹ کے تحت، ایک کتاب لکھ رہے ہیں جس کا نام یہ ہے:
Inside Madrasas
ان کے سوالات کا تعلق مدرسے سے، مسلمانوں کے مسائل سے اور اسلام اور عصر حاضر سے تھا۔ یہ پورا انٹرویو انگریزی میں تھا۔ گفتگو کے دوران ایک بات یہ کہی گئی کہ مسلم مسائل پر تمام بولنے اور لکھنے والے دفاعی انداز اختیار کرتے ہیں۔ یعنی مسلمانوںکو ہر حال میں درست ثابت کرنا۔ یہ طریقہ سخت مہلک ہے۔ اس سے آپ کو یہ فائدہ تو مل سکتا ہے کہ آپ کو مسلمانوں کے درمیان مقبولیت حاصل ہوجائے۔ مگر اس کا یہ عظیم نقصان ہے کہ وہ مسلمانوں کے اندر احتساب کا ذہن نہیں پیدا کرتا۔ آج سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر re-assesment کی تحریک اُٹھے۔ مگر دفاعی یا وکیلانہ انداز اِس عمل کو زندہ کرنے میں مستقل رکاوٹ ہے۔
۱۴۔ نئی دہلی کے سائی انٹرنیشنل سنٹر (لودی روڈ) میں ۲۷ اپریل ۲۰۰۶ کو ایک پروگرام ہوا۔ اِس پروگرام میں مختلف سَینک اسکولوں کے پرنسپل شریک ہوئے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکزنے اس میں شرکت کی۔ ان کو یہاں اِس موضوع پر بولنے کے لیے مدعو کیا گیا تھا کہ اسلام میں بیسک ہیومن ویلوز کا تصور کیا ہے۔ انھوںنے آدھ گھنٹہ اس موضوع پر تقر یر کی۔ اس کے بعد پندرہ منٹ تک سوال اور جواب ہوا۔ انھوںنے اپنی تقریر میں اسلام میں حسب ذیل ہیومن ویلوز بتائے:
Peace, Love, Truth, Non-violence, Tolerance, Good conduct.
اِس پروگرام میں سی پی ایس (انٹرنیشنل) کی ٹیم کے افراد بھی شریک ہوئے۔ تقریر کے بعد انھوں نے لوگوں سے ملاقاتیں کرکے اُن سے اسلام کے موضوع پر باتیں کیں۔ اس کے علاوہ لوگوں کے درمیان اسلامی پمفلٹ اور اسلامی بروشر بھی تقسیم کیے گیے۔
۱۵۔ الرسالہ کے درج ذیل قدیم شمارے بقیمت درکار ہیں:
اکتوبر، نومبر، دسمبر ۱۹۷۶، جنوری، جون، ستمبر، اکتوبر، نومبر دسمبر ۱۹۷۷، جنوری، فروری، مارچ، اپریل، جون، جولائی، اگست، ستمبر، اکتوبر ۱۹۷۸، جنوری، فروری، مارچ، اپریل، ستمبر ۱۹۷۹، اگست ، دسمبر ۱۹۸۰، فروری، مارچ، اپریل، مئی، نومبر ۱۹۸۱، فروری، مارچ، اپریل، مئی، اگست، ستمبر، اکتوبر، نومبر، دسمبر ۱۹۸۲، جنوری، فروری، مارچ، اپریل، مئی، اگست، نومبر، ۱۹۸۳، جنوری، مارچ، اپریل، جون، جولائی، ستمبر، اکتوبر ۱۹۸۴، اگست، اکتوبر ۱۹۸۵، جون، اگست ۱۹۸۶، دسمبر ۱۹۸۸، اگست ۱۹۹۳۔
جن حضرات کے پاس الرسالہ کے مذکورہ شمارے برائے فروخت موجود ہوں وہ مطلوبہ قیمت کی وضاحت کے ساتھ درج ذیل پتے پر مطلع فرمائیں:
Shah Imran Hasan, Mahalla Dilawarpur, Ward No. 19, Kali Tazia Road, Distt. Munger, Bihar—811201
۱۶۔ الرسالہ کے قاریوں کی سہولت کی خاطر یہ کیا گیا ہے کہ الرسالہ کی قیمتیںگھٹا دی گئی ہیں۔ اب الرسالہ کی قیمتیں حسب ذیل ہوں گی—اندرونِ ملک سالانہ زرِ تعاون صرف ایک سو روپیہ، اوربیرونی ممالک کے لیے سالانہ زرِتعاون (ہوائی ڈاک سے) صرف$10 ۔
واپس اوپر جائیں