Pages

Saturday, 2 February 2008

Al Risala | February 2008 (الرسالہ،فروری)

2

-اختیارِ اَیسر— ایک سنّت

6

- معرفتِ دین، احکامِ دین

10

- ارتقا کے تین درجے

14

- سب کچھ خدا کا عطیہ

16

- ففٹی ففٹی کا معاملہ

18

- جنت کی قیمت

19

- تقلید اور اجتہاد

21

- چند مثالی خواتین

25

- ماڈل کون

26

- ذاتی دفاع، قومی دفاع

27

- موت ایک رِمائنڈر

28

- شکر ایک قربانی کا عمل

29

- صحبت کا اثر

30

- ایک مشکل، دوآسانی

31

- حد سے تجاوز نہ کرنا

32

- عقل مند انسان

34

- جس خوشی کی ہمیں تلاش ہے

36

- قانونِ فطرت کو جانیے

39

- پیچھے کی سیٹ

41

- عظمتِ خداوندی کا اعتراف

42

- خبرنامہ اسلامی مرکز— 182


اختیارِ اَیسر— ایک سنّت

حضرت عائشہ کی ایک روایت ہے۔ یہ روایت صحیح البخاری، صحیح مسلم، ابوداؤد، الترمذی، المؤطا اور مسند احمد میں الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ آئی ہے۔ اِس روایت میں حضرت عائشہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمومی پالیسی بیان کی ہے۔ صحیح البخاری میں یہ روایت تین ابواب کے تحت نقل ہوئی ہے (کتاب المناقب: باب صفۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم؛ کتاب الأدب: باب مالا یُستحیا من الحقّ للتفقّہ فی الدّین؛ کتاب الحدود: باب إقامۃ الحدود، والإنتقام لحرمات اللہ) اِس روایت کے الفاظ یہ ہیں: ماخُیّر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بین أمرین، إلاّ اختار أیسرہما۔ یعنی جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو امر میں سے ایک امر کا انتخاب کرناہوتا تو آپ ہمیشہ دونوں میں سے آسان امر کا انتخاب فرماتے۔
یہ حدیث بے حد اہم ہے۔ اِس میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی جنرل پالیسی کو بیان کیاگیا ہے، مگر عجیب بات ہے کہ محدثین نے اِس کی زیادہ تشریح نہیں کی۔ ابنِ حجر کی فتح الباری کو حدیث کا انسائکلوپیڈیا سمجھا جاتا ہے۔ ابنِ حجر نے اِس حدیث کو تین ابواب کے تحت نقل کیا ہے، لیکن انھوں نے اِس حدیث کی کوئی واضح تشریح نہیں کی۔ انھوں نے صرف یہ لکھا ہے کہ اِس ’تخییر‘ کا تعلق، اُمورِ دنیا سے ہے، مگر انھوں نے امورِدنیا کی کوئی متعین عملی مثال نہیں دی(فتح الباری، جلد 12، صفحہ 88 )۔
یہ ایک معلوم بات ہے کہ ہر اصول کا ایک عملی انطباق ہوتا ہے۔ مثلاً اسپریچویلٹی کے عملی انطباق کو اپلائڈ اسپریچویلٹی (applied spirituality) کہاجاتاہے۔ اِسی طرح سائنس کے عملی انطباق کو اپلائڈ سائنس (applied science) کہاجاتا ہے۔ اِسی طرح حضرت عائشہ کے بیان کردہ پرنسپل کا ایک اپلائڈ پرنسپل (applied principle) ہے، لیکن اِس اپلائڈ پرنسپل کی مثالیں کسی بھی شارحِ حدیث کے یہاں نہیں ملتیں۔ میرے علم کے مطابق، اسلام کی پوری تاریخ میں کسی بھی عالم اور مصنف نے حضرت عائشہ کے اِس بیان کردہ اصول کے عملی انطباق کو وضاحت اور تعین کے ساتھ بیان نہیں کیا۔
اسلامی لٹریچرکا یہ خلا، بلا شبہہ ایک عظیم حادثے سے کم نہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ قرآن میں نماز کے بارے میں یہ حکم دیاگیا ہے کہ : أقیموا الصلوٰۃ ( البقرۃ: 43) یعنی نماز قائم کرو۔ یہ نماز کے بارے میں اصولی حکم ہے۔ اِس کے بعد یہ سوال تھا کہ اِس اصول کا عملی انطباق کیا ہے۔ علما نے احادیث کا مطالعہ کرکے نماز کی عملی صورت، یا اپلائڈ صلوٰۃ (applied Salah) کے بارے میں بڑی تعداد میںکتابیں لکھیں۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ امت کو غیر مشتبہ طورپر یہ معلوم ہوگیا کہ نماز کا عملی فارم کیا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا ہوتا تو لوگ حکمِ نماز کو توجانتے، لیکن اُس کی عملی صورت سے بے خبر ہونے کی بنا پروہ نماز کی باقاعدہ ادائیگی سے محروم رہ جاتے۔
حضرت عائشہ کی مذکورہ روایت کے بارے میں بھی یہی چیز درکار تھی۔یہاں بھی ضرورت تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمومی پالیسی کو بتاتے ہوئے اُس کے عملی انطباق کو بھی بتایا جاتا، یعنی یہ بتایا جاتا کہ رسول اللہ نے اپنی تیئس سالہ پیغمبرانہ زندگی میں کس طرح اِس اصول کو عملی طورپر اختیار فرمایا۔ بد قسمتی سے اِس دوسرے معاملے میں یہ کام نہ ہوسکا۔ چناں چہ اب یہ صورتِ حال ہے کہ حضرت عائشہ کی یہ قیمتی روایت، حدیث کی کتابوں میں موجود ہے، لیکن امت اُس کے عملی انطباق سے بالکل بے خبر ہے۔ خاص طورپر جدید دور میں امت کی زبوں حالی کا سب سے بڑا سبب سنتِ رسول سے لوگوں کی یہی بے خبری ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم، ابدی طورپر خدا کے دین کا عملی نمونہ ہیں۔ دوسری تمام چیزوں کی طرح، جہاد بھی وہی جہاد ہے جس کا نمونہ پیغمبر اسلام کی زندگی میں ملے۔ جہاد کاجو نمونہ پیغمبر اسلام کی زندگی میں موجود نہ ہو، وہ یقینی طورپر جہاد نہیںہے بلکہ وہ کوئی اور چیز ہے، خواہ اُس کو اسلامی جہاد کا نام دے دیا جائے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا تتمنّوا لقاء العدوّ، واسئلوا اللہ العافیۃ (صحیح البخاری، کتاب الجہاد) یعنی تم دشمن سے مڈ بھیڑ کی تمنّا نہ کرو، بلکہ خدا سے عافیت مانگو:
Don't wish confrontation with your enemy, ask always peace from God.
جیسا کہ عرض کیا گیا،حضرت عائشہ نے پیغمبر اسلام کی جنرل پالیسی کو اِن الفاظ میں بیان کیا ہے: ما خُیّر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بین أمرین، إلاّ اختارَ أیسرہما، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی دو امر میں سے ایک امر کا انتخاب کرنا ہوتا تو آپ ہمیشہ دونوں میں سے آسان امر کا انتخاب فرماتے:
Whenever the Prophet had to choose between the two, he always opted for the easier of the two.
اس قسم کی احادیث کے ساتھ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی کو دیکھا جائے اور پھر اِس معاملے کی تشریح کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ کہنا بالکل صحیح ہوگا کہ اسلام میں مسلّح جہاد، یا قتال صرف ایک غیر مطلوب انتخاب (undesirable option) ہے، وہ ہر گز کوئی مطلوب انتخاب (desirable option) نہیں۔ پیغمبراسلام کی زندگی کے واقعات واضح طورپر اِس نقطۂ نظر کی تائید کرتے ہیں۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے 610 عیسوی میں مکہ میں توحید کے مشن کا آغاز کیا۔ اُس وقت مکہ شرک کا مرکز بنا ہوا تھا۔ چناں چہ وہاں کے مشرک سردار آپ کے دشمن بن گیے، پھر بھی آپ کا مشن پھیلتا رہا اور لوگ آپ کے ساتھی بنتے رہے۔ اِس طرح تیرہ سال گزر گیے۔ اب مکہ کے مخالفین نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ آپ کو مارڈالیں۔
یہ 622 عیسوی کا واقعہ ہے۔ اُس وقت آپ کو دو میں سے ایک کے انتخاب کا موقع تھا۔ ایک یہ کہ مکہ کے سرداروں کے حربی چیلنج کو قبول کرتے ہوئے، اُن سے مسلّح مقابلہ کریں۔ اُس وقت تک مکہ اور اطرافِ مکہ میں کئی سو افراد آپ پر ایمان لا کر آپ کے ساتھی بن چکے تھے، اِس لحاظ سے آپ کے لیے یہ انتخاب بظاہر ایک ممکن انتخاب تھا۔
آپ کے لیے دوسرا انتخاب یہ تھا کہ آپ مسلح ٹکراؤ سے اعراض کریں، خواہ اِس مقصد کے لیے آپ کو مکہ سے ہجرت کرنا پڑے، یعنی آپ پُر امن طورپر مکہ کو چھوڑ کر باہر چلے جائیں، آپ نے یہی دوسرا طریقہ اختیار کیا۔ آپ نے مسلح ٹکراؤ کا طریقہ چھوڑ دیا اور پُرامن ہجرت کا طریقہ اختیار کرکے آپ مدینہ چلے گیے۔ اگر چہ ظاہر پسندوں کی نظر میں یہ کوئی باعزت طریقہ نہ تھا۔ چناں چہ سیکولر مؤرخین نے اِس واقعے کو ہجرت کے بجائے فرار (flight) کا نام دیا ہے۔
اِسی طرح کا ایک واقعہ وہ ہے جس کو صلحِ حدیبیہ کہاجاتا ہے۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ چھوڑ کر مدینہ آگیے تو آپ کو یہ موقع ملا کہ آپ دعوتِ توحید کا کام زیادہ بڑے پیمانے پر انجام دے سکیں۔ یہ بات مکہ کے سرداروں کو پسند نہیں آئی۔ انھوںنے آپ کے خلاف باقاعدہ حملہ شروع کردیا۔ اُس وقت آپ نے مکہ کے سرداروں سے گفت و شنید (negotiation) کا سلسلہ شروع کیا۔ اِس گفت و شنید کا مقصد یہ تھا کہ آپ اور مکہ والوں کے درمیان امن کا سمجھوتہ ہوجائے۔ یہ گفتگو، حدیبیہ کے مقام پر دو ہفتے تک جاری رہی۔
اِس گفت وشنید کے دوران یہ واضح ہوا کہ فریقِ ثانی اپنی یک طرفہ شرطوں پر اصرار کررہا ہے۔ وہ لوگ اِس معاملے میں کسی بھی طرح جھکنے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ آخر کار، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے سردارانِ قریش کی یک طرفہ شرطوں کو مان لیا، تاکہ دونوں فریقوں کے درمیان امن قائم ہوسکے۔ اِس طرح صلحِ حدیبیہ کا واقعہ انجام پایا، جو گویا آپ کے اور فریقِ ثانی کے درمیان دس سال کا ناجنگ معاہدہ (no-war pact) تھا۔ اِس واقعے کے ذریعے پیغمبر اسلام نے امت کو یہ نمونہ دیا کہ مسلح ٹکراؤ کا انتخاب کسی بھی حال میں نہیں لینا ہے، کوئی بھی قیمت دے کر ہر حال میں امن کو قائم رکھنا ہے— اسلام میں امن کی حیثیت عموم کی ہے اور جنگ کی حیثیت صرف استثنا کی۔
(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو راقم الحروف کی کتابیں— مطالعۂ سیرت، اور امنِ عالم، وغیرہ)
واپس اوپر جائیں

معرفتِ دین، احکامِ دین

دینِ خداوندی کے دو حصے ہیں۔ اس کے ایک حصے کو معرفت کہہ سکتے ہیں، اور اس کا دوسراحصہ وہ ہے جس کو احکام کہاجاتاہے۔ اگر چہ دونوں یکساں طورپر ضروری ہیں، جس طرح ایک انسانی شخصیت کے لیے روح اور جسم دونوںیکساں طورپر ضروری ہوتے ہیں۔ لیکن معرفت اور احکام میں یہ فرق ہے کہ معرفت، دین کا اصل حصہ(real part) ہے اور اس کے مقابلے میں، احکام کا حصہ دین کا اضافی حصہ (relative part) ہے۔ دین میں مذکورہ دو حصے کا ہونا نصّ کے ذریعے ثابت ہے۔ مثلاًپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کے بارے میں فرمایا: لکلِّ اٰیۃٍ منہا ظَہْرٌ وبَطْنٌ (مشکاۃ المصابیح، رقم الحدیث:238 ) یعنی قرآن کی ہر آیت کا ایک ظَہر(outer portion) ہے اور دوسرا اس کا بَطن (inner portion) ہے۔ دوسرے لفظوں میںیہ کہ قرآن کی آیات کا ایک پہلو سطور(lines) میں ہے اور اس کا دوسرا پہلو بین السطور(between the lines) میںملتا ہے۔ اِس حدیث کو لے کر کہا جاسکتا ہے کہ دین کی معرفت نام ہے داخلی معنویت کا، اوردین کے مسائل یا احکام سے مراد دین کا خارجی ڈھانچہ ہے۔
مثال کے طور پر ایمان کو لیجیے۔ فقہی اعتبار سے ایمان یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی زبان سے کہے کہ : أشہد أن لاّ إلٰہ إلاّ اللہ، وأشہد أن محمداً عبدُہ ورسولُہ۔ جس شخص نے اپنی زبان سے یہ الفاظ ادا کردیے، وہ فقہی مسئلے کے اعتبار سے مومن بن گیا، لیکن جہاں تک ایمان کی معرفت کی بات ہے، وہ اِس قسم کے تلفّظ سے الگ ایک چیز ہے۔ وہ کسی شخص کو ذہنی انقلاب (intellectual revolution)کے ذریعے حاصل ہوتاہے، نہ کہ محض ادایگیٔ الفاظ کے ذریعے۔
معرفت والا ایمان کیا ہے، اس کو قرآن کی اِس آیت سے سمجھئے: وإذا سمعوا ما أُنزل إلی الرّسول تریٰ أعینَہم تفیض من الدّمع مما عرفوا من الحق (الأنعام: 83 ) اِس آیت میں ایک ایسے گروہ کا ذکر ہے ، جو قرآن کی کچھ آیتوں کو سن کر ایمان لایا۔ انھوںنے بھی اُسی طرح اپنی زبان سے کلمۂ ایمان ادا کیا، لیکن اُن کی یہ ادایگی ایک قلبی عرفان کی بنیاد پر تھی۔ ان کا یہ عرفانِ حق اتنا گہرا تھا کہ ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب بہہ پڑا۔
ایمان کی نسبت سے اوپر جو بات کہی گئی ، وہی دین کی تمام باتوں کے لیے درست ہے۔ دین کی تمام تعلیمات کا معاملہ یہ ہے کہ اس کا ایک پہلو وہ ہوتا ہے، جو نص کے ظاہری الفاظ سے معلوم ہوتا ہے، اور اس کا دوسرا پہلو وہ ہے جو نص کے الفاظ پر گہرے غور وفکر سے معلوم ہوتا ہے۔
دین میں گہری معرفت حاصل کرنے کی شرط کیا ہے۔ اس کی واحد شرط تقویٰ ہے، یعنی خداکا خوف۔ معرفت کی یہ شرط قرآن سے ثابت ہے۔ قرآن میںارشاد ہوا ہے: اتّقوا اللہ ویعلّمکم اللہ (البقرۃ:282 )۔ یعنی تم اللہ سے ڈرو اور پھر اِس ڈر کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ کی توفیق سے تم دین کے گہرے علم تک پہنچ جاؤگے۔ دین کے ظاہری احکام کو جاننے کے لیے خوفِ خدا کی ضرورت نہیں، اِس کے لیے فقہ کی کتابوں کو پڑھ لینا کافی ہے۔ لیکن دین کے معرفت والے حصے تک پہنچنا، صرف اُس شخص کے لیے ممکن ہے جو خدا سے ڈرنے والا ہو، خدا کے خوف نے جس کو مَین کٹ ٹو سائز(man cut to size) بنا دیا ہو۔
اِس معاملے میں ایک حدیث پر غور کیجیے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَن کان یؤمن باللہ والیوم الآخر، فلیقل خیراً أو لیصمت (صحیح البخاری، کتاب الادب) یعنی جو شخص اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، اس کو چاہیے کہ وہ خیر کی بات بولے، ورنہ چپ رہے۔ یہ حدیث ہم کو کلامِ تقویٰ کی ایک پہچان دیتی ہے۔ وہ پہچان یہ ہے کہ جس آدمی کے دل میں اللہ کا ڈر سمایا ہوا ہو، وہ اگر کسی کے خلاف بولے گا تو وہ صرف اُس وقت بولے گا، جب کہ اس کے پاس اپنے قول کے حق میں ناقابلِ انکار دلیل موجود ہو۔ اگر اس کے پاس ایسی دلیل نہ ہو تو وہ اِس موضوع پر بالکل خاموش رہے گا۔
اِس سے معلوم ہوا کہ ایسا کرنا کہ آدمی کسی شخص کے بارے میں ایک مخالفانہ بیان (negative remark) دے، لیکن وہ صرف ایک مجرّد بیان ہو، اس بیان کے ثبوت کے لیے کوئی واضح دلیل موجود نہ ہو، تو ایسا بیان یقینی طورپر اِس بات کا ثبوت ہے کہ وہ آدمی خوفِ خدا سے کانپنے والا آدمی نہیں۔ اس کا بیان ایک بے خوفی کا بیان ہے، نہ کہ خوفِ خدا والابیان۔
مجھے ذاتی طورپر اِس معاملے میں نہایت تلخ تجربے ہوئے ہیں۔ بے ریش اور باریش دونوں قسم کے لوگوں نے ایسا کیا کہ انھوںنے میرے بارے میں مخالفانہ ریمارک دیے، جب کہ اِس ریمارک کے ساتھ کوئی دلیل شامل نہ تھی۔ مثلاً کسی نے میرے بارے میں کہا کہ وہ ایک ’’متنازعہ شخصیت‘‘ ہیں۔ کسی نے کہا کہ ان کی کتابوں کو پڑھ کر ’’اَسلاف سے بے اعتمادی‘‘ پیدا ہوتی ہے۔ کسی نے کہا کہ ان کی فکر میں ’’انتہا پسندی‘‘ ہے۔ کسی نے کہا کہ وہ ’’ردّ عمل کی نفسیات‘‘ کے تحت لکھتے ہیں۔ کسی نے کہا کہ ان کی تحریریں ’’بُزدلی‘‘ کا سبق دیتی ہیں۔ کسی نے کہا کہ وہ اسلام کو اس کی ٹوٹیلٹی (totality) میں پیش نہیں کرتے۔ کسی نے کہا کہ وہ جہاد فی سبیل اللہ کے ’’منکر‘‘ ہیں۔ کسی نے کہا کہ ان کی شناخت یہ ہے کہ ان کے یہاں ’’تنقیدات اور تفرّدات‘‘ کے سوا اور کچھ نہیں، وغیرہ۔
اِن تمام لوگوں کی مشترک صفت یہ ہے کہ وہ صرف مخالفانہ ریمارک دیتے ہیں، لیکن وہ اپنے ریمارک کی کوئی علمی دلیل نہیں دیتے، حتی کہ وہ اپنے اِس مخالفانہ ریمارک کے حق میں میری کسی تحریر سے کوئی اقتباس بھی پیش نہیں کرتے۔ وہ یا تو اقتباس پیش کیے بغیر اپنا بیان دیتے ہیں، یا اگر کوئی اقتباس پیش کرتے ہیں تو وہ ہمیشہ بدلی ہوئی اور ناقص صورت میں ہوتا ہے۔ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ میں نے اپنی تحریر میں خود کیا کہا ہے، بلکہ میری تحریر کا حوالہ دے کر وہ خود اپنی بات کہنے لگتے ہیں۔
اِس قسم کی تمام باتیں بلاشبہہ خدا سے بے خوفی کا نتیجہ ہیں۔ اور جو دل خدا کے خوف سے خالی ہو، وہ یقینی طورپر معرفت سے بھی خالی ہوگا۔ یہی آج کل تقریباً تمام لوگوں کا حال ہے۔ آج کل، دین کے موضوع پر لکھنے اور بولنے والوںکا سیلاب آیا ہوا ہے، لیکن اِن لوگوں کی تحریریں اور تقریریں محض الفاظ کا ڈھیر ہوتی ہیں۔ ڈکشنری کے تمام الفاظ بولنے کے باوجود ان کی تقریروں اور تحریروں سے سننے اور پڑھنے والے کودین کی کوئی معرفت حاصل نہیںہوتی۔ اس کا واحد سبب یہ ہے کہ یہ تمام تقریریں اور تحریریں لفظی معلومات کی بنیاد پر ہوتی ہیں، نہ کہ معرفتِ حق کی بنیاد پر۔
آج کل ہر طرف تقریروں اور تحریروں کا جنگل نظر آتا ہے، لیکن یہ تقریریں اور تحریریں سوکھی گھاس کی مانند ہوتی ہیں۔ اِن میںنہ تو معرفت کی خوش بو ہوتی ہے اور نہ حکمت کی روشنی۔ اِن میںنہ تو محبتِ الٰہی کی غذا ہوتی ہے اور نہ خوفِ خدا کی چنگاری۔ اِن تقریروں اور تحریر وں میں سطحی لوگوں کے لیے ادبی چاشنی یا قومی فخر جیسی منفی خوراک تو ضرور ہوتی ہے، لیکن اُن میں نہ وضوح (clarity) ہوتا ہے اور نہ دین کی گہری بصیرت۔
یہ تقریریں اور تحریریں صرف شَبد جنجال کا نمونہ ہوتی ہیں، لیکن اُن سے روحِ انسانی میں نہ اہتزاز (thrill) پیدا ہوتا اور نہ آنکھوںمیں آنسوؤں کا سیلاب اُمڈتاہے۔ اُن کو پڑھ کر اور سن کر انسان نہ جنت کی طرف دوڑنے والا بنتا ہے اور نہ جہنم سے بھاگنے والا۔ یہ تقریریں اور تحریریں انسان کے لیے خشک صحرا میں سفر کی مانند ہوتی ہیں، اِس کے سوا اور کچھ نہیں۔
اس معاملے کا تجربہ میں نے مختلف انداز سے کیا ہے۔ مثلاً ایک شخص مجھ سے ملے گا اور کسی مقرّر کی تقریر کا ذکر کرے گا۔ وہ نہایت پُر جوش طورپر ان کی تقریروں کی تعریف کرے گا۔ لیکن جب میں اُس سے پوچھوں گا کہ ان کی تقریر میں آپ کو کیا نئی اور خاص بات ملی تو وہ کچھ نہ بتاپائے گا۔ یہ تجربہ میںنے بار بار کیا ہے۔ آج کل کے تقریباً تمام مشہور مقررین کا حال یہ ہے کہ ان کی تقریروں کو سن کر لوگ خوب خوش ہوتے ہیں اور تالیاں بجاتے ہیں، لیکن وہ اِن تقریروں سے کچھ اپنے لیے لے کر نہیں لوٹتے۔ اِن تقریروں میں الفاظ کی بھر مار تو ضرور ہوتی ہے، لیکن اُن میں سننے والے کے لیے کچھ ٹیک اوے (take away) نہیں ہوتا۔
یہی معاملہ کتابوں کا ہے۔ کسی دینی کتاب کا حقیقی مقصد یہ ہے کہ اس کے ذریعے سے آدمی کو سچائی کی دریافت ہو، وہ خدا کو پہچانے، وہ اس کے ذریعے سے کوئی روحانی خوراک حاصل کرے۔ مگر یہاں بھی یہی حال ہے کہ لوگ مقالات اورکتابوں کی تعریفیں کرتے ہیں، مگر جب اُن سے پوچھا جائے کہ اِس کتاب میں تم کو خود اپنے لیے کیا ملا، اِس سے تم کو خود اپنے ذہنی ارتقا کے لیے کیا سامان حاصل ہوا۔ جب اُن سے ایسا سوال کیاجائے تو اِس کے جواب میں وہ کچھ بھی نہیںکہہ پاتے ۔ اُن کے پاس کہنے کے لیے کوئی ایسی نئی بات نہیں ہوتی، جس کو انھوں نے اِس کتاب کے مطالعے کے ذریعے پایا ہو۔
واپس اوپر جائیں

ارتقا کے تین درجے

ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ مسند امام احمد کے الفاظ یہ ہیں— حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: النّاس مَعادِن، کمعادن الفِضّۃ والذّہب، خِیارُہم فی الجاہلیۃ خیارُہم فی الاسلام إذا فقہوا (مسند احمد، جلد 2 صفحہ 539 ) یعنی انسان دھات کی مانند ہیں، جیسے سونے اور چاندی کی دھات۔ جاہلیت میںجو بہتر ہیں، وہی اسلام میں بھی بہتر ہیں، جب کہ وہ اپنے اندر سمجھ پیدا کریں۔
اِس حدیث میں انسان کے فکری ارتقا کے مراحل کو بتایا گیا ہے۔ ایک درجۂ فکری وہ ہے جس پر انسان پیدا ہوتا ہے۔ دوسرا درجۂ فکری وہ ہے جو انسان خود اپنی کوششوں سے بناتا ہے۔ تیسرا درجہ معرفت کا درجہ ہے۔ معرفت کے درجے میں پہنچ کر انسان اپنے ارتقا کی آخری منزل کو پالیتا ہے، یعنی وہ درجہ جس کا دوسرا نام اسلام ہے۔
اِس اعتبار سے انسان کی مثال دھات (metal) جیسی ہے۔ لوہا زمین سے نکلتا ہے۔ ابتدائی حالت میں وہ خام لوہا (ore) ہوتا ہے۔ اِس کے بعد اُس کو پگھلا کر صاف کیا جاتا ہے۔ اب وہ ترقی پاکر اسٹیل بن جاتاہے۔ اِس کے بعد وہ مزید صنعتی مراحل سے گزرتا ہے، یہاں تک کہ وہ باقاعدہ مشین کی صورت اختیار کرلیتا ہے— یعنی پہلے مرحلے میں خام لوہا، دوسرے مرحلے میںاسٹیل، اور تیسرے اور آخری مرحلے میں مشین۔
یہی معاملہ انسان کا ہے۔ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو گویا کہ وہ فطرت کی کان (mine) سے نکل کر باہر کی دنیا میںآتا ہے۔ اِس کے بعد وہ بڑا ہوتا ہے اور اپنی سوچ کو عمل میں لاتا ہے۔ وہ تعلیم و تربیت کے مراحل سے گزرتا ہے۔ اِس طرح پختگی کی عمر میں پہنچ کر وہ ایک باقاعدہ انسان بن جاتا ہے۔ یہ انسانی وجود کا درمیانی مرحلہ ہے۔ اِس کے بعد اگر وہ اپنی عقل کو صحیح رخ پر استعمال کرے تو وہ معرفتِ حق کے درجے میں پہنچ جاتا ہے۔ یہ وہ درجہ ہے جب کہ کوئی پیدا ہونے والا، کمالِ انسانیت کے مرحلے میں پہنچ کر عارف باللہ کا مقام حاصل کرلیتاہے۔ اِن تین ارتقائی مراحل کو حسب ذیل صورت میں بیان کیا جاسکتا ہے:
1 - پیدائشی شخصیت (born personality)
2 - تیار شدہ شخصیت (developed personality)
3 - عارفانہ شخصیت (realized personality)
پیدائشی شخصیت، خدا کی دی ہوئی شخصیت ہوتی ہے۔ پیدائشی شخصیت کے اعتبار سے ہر آدمی یکساں ہوتاہے۔ صلاحیت کے اعتبار سے اگر چہ ایک انسان اور دوسرے انسان میںہمیشہ فرق ہوتا ہے، لیکن اِس فطری فرق کے باوجود تمام انسان اِمکانی استعداد (potential capacity) کے اعتبار سے یکساں حیثیت کے مالک ہوتے ہیں۔
اِسی بات کو ایک حدیث میں اِس طرح بیان کیاگیا ہے: المؤمن القوّی خیرٌ و أحبُّ إلی اللہ من المؤمن الضّعیف، وفی کلٍّ خیر۔ احرِص علیٰ ما ینفعک واستعن باللہ ولا تعجز۔ وإن أصابک شیٔ فلا تقُل: لَوأنّی فعلتُ کان کذا وکذا، ولٰکن قُل: قدّر اللہ وماشاء فعل۔ فإنّ ’’لَو‘‘ تفتح عملَ الشیطان (صحیح مسلم، کتاب القدر؛ ابنِ ماجہ، مقدّمہ؛ مسنداحمد، جلد 2، صفحہ 370 )۔
یعنی قوی مومن، اللہ کے نزدیک ضعیف مومن سے زیادہ بہتر اور پسندیدہ ہے، اور ہر ایک میں خیر ہے۔ جوچیز تمھارے لیے نافع ہو، اس کے تم حریص بنو اور اللہ سے مدد چاہو اور عاجز نہ ہو۔ اور اگر تمھارے خلاف کوئی بات پیش آئے تو یہ نہ کہو کہ کاش، میں نے ایسااور ایسا کیاہوتا۔ بلکہ یہ کہو کہ یہ خدا کا تقدیری منصوبہ تھا، اسی نے جوچاہا کیا۔ کیوں کہ ’’اگر‘‘ کہنا شیطان کے عمل کا دروازہ کھولتا ہے۔
اِس حدیث میں مومن سے مراد انسان ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی انسان اگر اپنے اندر ایک اعتبار سے کمی محسوس کرے تو اس کو مایوس نہیں ہونا چاہیے، کیوں کہ دوسرے اعتبار سے اُس کے اندر کوئی اور صفت زیادہ ہوگی۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی خداداد صلاحیت کو دریافت کرے اور حوصلہ مندانہ انداز میں اپنی زندگی کی تعمیر کرے۔ جدوجہدِ حیات کے دوران اگر اس کو کوئی نقصان پہنچے تو اُس کو یقین کرنا چاہیے کہ اِس منفی تجربے میں بھی کوئی مثبت فائدہ شامل ہوگا۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے ہر منفی تجربے سے مثبت سبق لے، وہ کسی بھی حال میں پست ہمتی کا شکار نہ ہو۔
اس طرح آدمی اپنی شخصیت کی تعمیر کرتا رہتا ہے۔ وہ اپنا محاسبہ کرکے اپنی کنڈیشننگ کو دور کرتا رہتا ہے۔ وہ اپنے شعور کو بیدار کرکے اپنے اندر ایسی شخصیت کی پرورش کرتا رہتا ہے جس کے اندر قبولِ حق کی صلاحیت موجود ہو، جس کے اندر وہ صلاحیت ہو جس کو پیغمبر کی ایک دعا میں اِس طرح بیان کیاگیا ہے: اللّہم، أرنا الحقَّ حقّا، وارْزُقنَا اتِّباعہ، وأرِنا الباطل باطلاً، وارزقنا اجتِنابَہ، وأرِنا الأشیائَ کما ہِیَ۔ یعنی اے اللہ، تو مجھے حق کو حق کے روپ میں دکھا، اور اس کی پیروی کی توفیق دے۔ اور اے اللہ، تو مجھے باطل کو باطل کے روپ میں دکھا، اور تو مجھے اُس سے بچنے کی توفیق عطا فرما۔ اور اے اللہ، تو مجھے چیزوں کو ویسا ہی دکھا جیسا کہ وہ ہیں۔
یہی وہ انسان ہے جس کو ہم نے اوپر کی تقسیم میں تیار شدہ شخصیت (developed personality) کا نام دیا ہے۔ وہی آدمی دانش مند آدمی ہے جو اپنے اندر اِس قسم کی شخصیت کی تعمیر کرے۔ جہاں تک فطری وجود کی بات ہے، ہر انسان کو فطری وجود کا عطیہ خالق کی طرف سے یکساں طورپر ملتا ہے، لیکن اُس کے بعد اپنے آپ کو ایک تیار شدہ شخصیت بنانا، یہ ہر انسان کا خود اپنا عمل ہے۔ ٹھیک اُسی طرح جیسے خام لوہا فطرت کی طرف سے عطا کیا جاتا ہے، لیکن اِس خام لوہے کو اسٹیل اور مشین میں تبدیل کرنے کا عمل انسانی کارخانے میںانجام پاتا ہے۔
اِسی خود تیاری (self-preparation)کے عمل پر اگلے ارتقائی مرحلے کا انحصار ہے۔ جولوگ خود شناس بنیں، جو لوگ اپنا بے لاگ محاسبہ کرتے رہیں، جو لوگ اپنی کمیوں کو ڈھونڈ کر اپنی ڈی کنڈیشننگ کریں، جو لوگ ہر قیمت کو ادا کرتے ہوئے اپنے ’’خام لوہے‘‘ کو ’’اسٹیل‘‘ بنانے کا کام کریں، جن لوگوں کا یہ حال ہو کہ وہ انانیت اور کبر اور لالچ اور حسد اور غصہ اور انتقام جیسے منفی جذبات کا کبھی شکار نہ بنیں، جو کہ شخصیت کی تعمیر میں ایک مہلک رکاوٹ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ جو لوگ مسلسل طورپر اپنے اوپر تزکیہ کا عمل جاری کیے ہوئے ہوں، وہی لوگ ہیں جو خدا کی توفیق سے حق کو دریافت کرتے ہیں اور اس کو پوری آمادگی کے ساتھ قبول کرلیتے ہیں۔
تزکیہ کے لفظی معنٰی ہیں، پاک کرنا(purification) ۔ یہ ہر آدمی کی لازمی ضرورت ہے۔ یہ ہر آدمی کا مسئلہ ہے کہ وہ اپنے ماحول سے اثر قبول کرتا رہتا ہے، جس کو کنڈیشننگ (conditioning) کہاجاتا ہے۔ اپنے جذبات اور خواہشات کے تحت، اس کی کچھ عادتیں بن جاتی ہیں۔ اپنے مفادات اور مصالح کے زیر اثر، شعوری یا غیر شعوری طورپر، اس کا اپنا ایک مزاج بن جاتا ہے۔ یہ تمام چیزیں آدمی کی روحانی ترقی میں رکاوٹ ہیں۔اِن رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے آدمی کو خود اپنا نگراں (guard) بننا پڑتا ہے۔ وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنی غلطیوں کو نکالتا ہے۔ وہ ایک بے رحمانہ اصلاح (merciless deconditioning) کا عمل اپنے اوپر جاری کرتا ہے۔ یہ تزکیہ کی لازمی شرط ہے۔ اِس کے بغیر کسی کا حقیقی تزکیہ نہیں ہوسکتا— بے رحمانہ ذاتی اصلاح کے بغیر تزکیہ نہیں، اور تزکیہ کے بغیر جنت نہیں۔
جو لوگ اپنے آپ کو مذکورہ مراحل سے گزاریں اور اپنی تیاری کے نتیجے میں سچائی کو پالیں، اُنھیں کو قرآن میں النفس المطمٔنۃ (الفجر: 27 ) کہاگیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو خدا کے تخلیقی نقشے پر راضی ہوئے، جنھوں نے اپنے آپ کو اِس نقشے پر ڈھال کر اپنے اندر مطلوب شخصیت کی تعمیر کی۔ یہی وہ لوگ ہیں جو خداکی رضا مندی پائیں گے اور خدا کے فضل سے جنت کے ابدی باغوں میں بسائے جائیں گے۔
واپس اوپر جائیں

سب کچھ خدا کا عطیہ

عرب میںجب پٹرول کی دولت آئی تو وہاں اچانک زندگی کا نقشہ بدل گیا۔ ایک عرب شیخ پہلے معمولی خیمے میں رہتا تھا۔ اُس کی زندگی کاانحصار تمام تر اونٹ کے اوپر تھا، پھر اچانک اُس کے پاس پٹرول کی دولت آگئی۔ اس کے ایک دوست نے اس کے لیے سویزرلینڈ میں جدید طرز کا ایک شان دار مکان خریدا۔ عرب شیخ ہوائی جہاز سے سفر کرکے وہاں پہنچا اور اپنے خوب صورت مکان کو دیکھا تو اس کو یقین نہیں آتا تھا کہ یہ اُسی کا مکان ہے۔ اس کو ایسا محسوس ہوا جیسے کہ وہ کوئی خواب دیکھ رہا ہے۔
وہ اپنے مکان کی دیوار اور اس کے فرنیچر کو ہاتھ سے چھو کر دیکھتا تھا کہ وہ سچ مچ اپنے مکان میں ہے، یا وہ خواب میں کوئی تصوراتی محل دیکھ رہا ہے۔ بہت دیر کے بعد جب اس کو یقین ہوا کہ یہ ایک حقیقی مکان ہے اور وہ اُسی کا اپنا مکان ہے تو وہ خوشی کے آنسوؤں کے ساتھ سجدے میں گر پڑا اور دیر تک اِسی حالت میں پڑا رہا۔
یہ کیفیت جو ایک عرب شیخ کے اوپر گزری، یہی کیفیت ہر انسان کے اوپر بہت زیادہ بڑے پیمانے پر گزرنا چاہیے۔ اس لیے کہ موجودہ دنیا کی صورت میںہر انسان کو وہی چیز ملی ہوئی ہے، جو عرب شیخ کو سویزر لینڈ کے مکان کی صورت میں ملی۔ سویزر لینڈ کا مکان عرب شیخ کے لیے جتنا عجیب تھا، اس سے بے شمار گُنا زیادہ عجیب موجودہ کائنات ہے جو کوئی قیمت ادا کیے بغیر ہر اِنسان کو ہر لمحہ ملی ہوئی ہے۔ ہر انسان کاکیس مزید اضافے کے ساتھ وہی ہے جو مذکورہ عرب شیخ کا کیس تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان، کامل طورپر عاجز اورمحروم انسان ہے۔ پھر اس کو موجودہ دنیا کی صورت میں سب کچھ دے دیا جاتا ہے۔ فطرت اپنے تمام خزانوں کے ساتھ تاحیات اس کی خدمت گزار بن جاتی ہے۔
انسان کا پیدا ہونا ایک حیرت ناک عجوبہ ہے۔ انسان اگر اپنے بارے میں سوچے تووہ ایک ایک چیز پر دہشت زدہ ہو کر رہ جائے گا۔ ایک ایسا انسان جوزندگی رکھتا ہے، جس کے اندر دیکھنے اور سننے کی صلاحیت ہے، جو سوچتا ہے اور چلتا ہے، جو منصوبہ بناتا ہے اور اس کو اپنے حسب منشا عمل میں لاتا ہے۔ یہ سب اتنی زیادہ انوکھی صفات ہیں جو انسان کو اپنے آپ بلا قیمت ملی ہوئی ہیں۔ انسان اگر اِس پر سوچے تو وہ شکر کے احساس میں ڈوب جائے۔
پھر یہ دنیا جس کے اندر انسان رہتا ہے، وہ حیرت ناک حد تک ایک موافقِ انسان دنیا ہے۔ زمین جیسا کُرہ ساری وسیع کائنات میںکوئی دوسرا نہیں۔ یہاں پانی ہے، یہاں سبزہ ہے، یہاںہواہے، یہاںدھوپ ہے، یہاں کھانے کا سامان ہے اور دوسری اَن گنت چیزیں خالق کے یک طرفہ عطیے کے طورپر موجود ہیں۔ یہ چیزیں زمین کے سوا کہیں اور موجود نہیں۔
اگر آدمی اِس حقیقت کو سوچے تو وہ مذکورہ عرب شیخ کی طرح شکر کے احساس سے سجدے میں گر پڑے، مگر ایسا نہیں ہوتا۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ انسان دنیا کی چیزوں کو فارگرانٹیڈ(for granted) طور پر لیے رہتاہے۔ وہ شعوری یا غیر شعوری طورپر یہ سمجھتا ہے کہ جوکچھ ہے، اُس کو ہونا ہی چاہیے۔ جوکچھ اُس کو ملا ہوا ہے، وہ اُس کو ملنا ہی چاہیے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں انسان کا امتحان ہے۔
انسان کو چاہیے کہ وہ اِس معاملے میں اپنے شعور کو زندہ کرے۔ وہ بار بار سوچ کر اِس حقیقت کو سمجھے کہ وہ سرتا پا ایک عاجز مخلوق ہے۔ اس کو جو کچھ ملا ہوا ہے، وہ مکمل طورپر خدا کے دینے سے ملا ہے۔ خدا اگر نہ دے تو اُس کو کچھ بھی ملنے والا نہیں۔ جو چیزیں انسان کو بظاہر اپنے آپ مل رہی ہیں، اُن کو وہ اِس طرح لے، جیسے کہ وہ ہر وقت براہِ راست خدا کی طرف سے بھیجی جارہی ہیں۔ وہ ملی ہوئی چیزوں کو دی ہوئی چیزوں کے طور پر دریافت کرے۔
خدا کا مطلوب انسان وہ ہے جو اپنے ذہن کو اتنا زیادہ بیدار کرے کہ وہ بظاہر اسباب کے تحت ملنے والے سامانِ حیات کو بلااسباب خدا کی طرف سے ملاہوا سمجھے، وہ معمول(usual) کو خلافِ معمول (unusual) کے طورپر دیکھ سکے، وہ غیب کو شُہود کے درجے میں دریافت کرے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کو آخرت میںخدا کا دیدار نصیب ہوگا اور یہی وہ لوگ ہیں جو خدا کے پڑوس میںبنائی جانے والی ابدی جنت میں جگہ پائیں گے۔
واپس اوپر جائیں

ففٹی ففٹی کا معاملہ

قرآن کی سورہ نمبر 28 میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: إنّک لا تہدی مَن أحببتَ، ولٰکنّ اللہ یہدی مَن یشاء، وہو أعلم بالمُہتدین(القصص: 56)۔ یعنی تم جس کو چاہو ہدایت نہیں دے سکتے، بلکہ اللہ جس کو چاہتا ہے، اُس کو ہدایت دیتا ہے۔ اور وہی خوب جانتا ہے جو ہدایت قبول کرنے والے ہیں۔
قرآن کی اِس آیت سے معلوم ہوا کہ ہدایت کا معاملہ کسی انسان کے لیے ففٹی ففٹی کا معاملہ ہے، یعنی اُس کا پچاس فی صد تعلق ، داعی کی دعوت سے ہے۔ دعوت کی تعریف قرآن کے مطابق، یہ ہے کہ اُس کو اِس طرح پیش کیا جائے کہ وہ مدعو کے دل میں اُتر جائے (النساء: 63 )۔ اِس سے مراد یہ ہے کہ بات کو اِس طرح کہاجائے کہ وہ سننے والے کے مائنڈ کو ایڈریس کرے۔ مثلاً ایک شخص جس کے اندر ریشنل تھنکنگ ہو، اُس کے سامنے اگر دعوت کو ٹریڈیشنل انداز میں پیش کیاجائے تو اس کا مائنڈ ایڈریس نہیںہوگا۔ اِس کا نام حکمتِ تبلیغ ہے۔ داعی کو چاہیے کہ وہ حکمتِ تبلیغ کا پورا لحاظ کرتے ہوئے دعوت کاکام کرے۔
قرآ ن کی مذکورہ آیت کے مطابق، ہدایت کا دوسرا نصف حصہ مشیتِ خداوندی سے تعلق رکھتا ہے۔ یہاں مشیتِ خداوندی سے مراد فطرتِ خداوندی ہے۔ قرآن کا یہ اسلوب ہے کہ اس میں فطرت کے قانون کو خدا کی طرف منسوب کرکے بتایا جاتا ہے۔ آیت کے الفاظ بظاہر یہ ہیں کہ ’’بلکہ جس کو اللہ چاہے‘‘ لیکن اصل حقیقت کے اعتبار سے اِس کا مطلب یہ ہے کہ دعوت اور تبلیغ کے باوجود ہدایت صرف اُس کو ملتی ہے، جو خود بھی طالبِ ہدایت ہو۔ اگر مدعو طالبِ ہدایت نہیں ہے تو داعی کی یک طرفہ کوشش سے اُس کو ہدایت نہیں مل سکتی۔
طالبِ ہدایت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے ذہن کو ہدایت کے معاملے میںاُسی طرح متحرک کرے، جس طرح وہ دُنیوی معاملات میںاپنے ذہن کو متحرک کرتاہے۔ مثلاً ایک شخص کو دولت حاصل ہوجائے تو وہ احساسِ برتری میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ یہاں ضرورت تھی کہ وہ اپنے ذہن کواستعمال کرکے یہ سمجھے کہ دولت کا تعلق دنیا کی ضرورتوں سے ہے، دولت کا تعلق سچائی سے نہیں۔ دولت پانے کا مطلب یہ نہیں کہ اُس نے سچائی کو بھی پالیا۔ اگر آدمی اپنے ذہن کو زندہ رکھے تو وہ دولت اور سچائی کے اِس فرق کو سمجھے گا اور احساسِ برتری میں مبتلا ہوکر اپنے آپ کو حق سے مستغنی سمجھنے کی غلطی نہیںکرے گا، اور پھر وہ سچائی کو پانے میں کامیاب ہوجائے گا۔
اِسی طرح ایک شخص جب ایک ماحول میںلمبی مدت تک رہتا ہے تو اُس کو اُس ماحول کے افکار سے متعصبانہ تعلق ہوجاتا ہے، اور ماحول کی طرف سے اُس کو جو کچھ ملا ہے، اُس کو وہ حق سمجھنے لگتا ہے۔ یہ مزاج اُس کے لیے حق کو پہچاننے میںرُکاوٹ بن جاتاہے۔ اب اگر آدمی اپنے ذہن کو زندہ رکھے تو وہ متعصابہ فکر اور حقیقی فکر کے فرق کو سمجھے گا، اور جس آدمی کے اندر ایک چیز اور دوسری چیز کے درمیان فرق کی صلاحیت ہو، اُس کے سامنے جب حق آتا ہے تو وہ اس کو پہچان لیتا ہے اور پھر پورے دل وجان کے ساتھ وہ اس کا ساتھی بن جاتا ہے۔
سچائی کو پانے کے دو مرحلے ہیں۔ پہلا مرحلہ تلاش کا ہے اور دوسرا مرحلہ دریافت کا۔ یہ دونوں مرحلے قرآن سے واضح طورپر معلوم ہوتے ہیں۔قرآن میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ذیل میں فرمایا: ووجدک ضالاّ فہدیٰ (الضّحیٰ: 7 ) یعنی خدا نے تم کو تلاشِ حق میں سرگرداں پایا، پھر تم کو اُس نے ہدایت دے دی۔ اِس آیت میں فطرت کا ایک قانون بتایا گیا ہے۔
اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ آدمی پہلے حق کا مُتلاشی (seeker) بنتا ہے، پھر اُس کو حق کی دریافت ہوتی ہے۔ متلاشی بننے کا مطلب ذہنی استعداد ہے۔ جب کسی آدمی کے اندر ذہنی استعداد پیدا ہوجائے تو وہ اِس قابل ہوجاتا ہے کہ اُس کے سامنے حق آئے تو وہ اس کو اپنی تلاش کا جواب سمجھے اور پوری آمادگی کے ساتھ اس کو فوراً مان لے۔
واپس اوپر جائیں

جنت کی قیمت

جنت ابدی راحتوں کی دنیا ہے۔ وہ کون لوگ ہیں جو موت کے بعد اِس قابل ٹھیریں گے کہ وہ جنت کی معیاری دنیا میں جگہ پائیں۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جنھوںنے موت سے پہلے کی زندگی میں، فکری اور عملی اعتبار سے،اپنے آپ کو جنت جیسی معیاری دنیا میں رہنے کا مستحق بنایا ہوگا۔
یہ جنت کا کم تر اندازہ ہے کہ کسی اور چیز کوجنت کی قیمت سمجھ لیا جائے۔ مثلاً یہ ماننا کہ کسی بزرگ کا دامن تھامنے سے جنت مل جائے گی، اِسی طرح کسی گروہ سے وابستہ ہونا، کچھ رسمی اعمال کرلینا، کسی مقدس مقام کی زیارت کرلینا، دین کے نام سے کسی دھوم کا مظاہرہ کرنا، حمد اور نعت کے لفظی ترانے اسٹیج پر گانا،اور اَوراد ووظائف میںمشغول رہنا، دین کے نام پر شان دار بلڈنگ بنانا، جلسے اور جلوس کے ہنگامے کھڑے کرنا، اسلام کو اپنے لیے فخر کی چیز بنا لینا، وغیرہ۔ اِس قسم کی کسی چیز کا کوئی تعلق جنت سے نہیں، اِس قسم کی کوئی بھی چیز آدمی کو ہر گز جنت میں لے جانے والی نہیں۔
جنت میں صرف وہ لوگ داخل کیے جائیں گے جو جنّتی شخصیت لے کر وہاں پہنچیں۔ جنتی شخصیت کو قرآن میں تزکیہ یافتہ شخصیت (purified personality) کہاگیا ہے (طٰہٰ: 76 )۔ جنتی شخصیت وہ ہے جو جنت کے تقاضوں کی نسبت سے ایک تیار شدہ شخصیت(prepared personality) ہو۔ شخصیت کی یہ تیاری اِسی موجودہ دنیا میں ہوتی ہے۔ موجودہ دنیا میں مختلف قسم کے حالات اور تجربات کے دوران آدمی اپنے آپ کو پاکیزہ شخصیت بناتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو منفی جذبات سے بچا کر مثبت مزاج پر قائم رکھتا ہے۔ ناموافق حالات کے باوجود وہ اصول پسند بنا رہتا ہے، وہ انصاف کی روش سے کبھی نہیں ہٹتا۔ وہ اپنی خواہشوں پر کنٹرول کرتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو آزادی کے غلط استعمال سے بچاتا ہے۔ وہ کسی دباؤ کے بغیر دوسروں کا حق ادا کرتا ہے۔ وہ ہمیشہ سچ بولتا ہے۔ وہ دوسروں کے ساتھ کیے ہوئے وعدوں کو پورا کرتا ہے۔ نہ کوئی ناکامی اُس کو مایوس کرتی ہے اورنہ کوئی کامیابی اس کو سرکش بناتی ہے۔ یہی جنّتی شخصیت ہے، اور ایسے ہی لوگ جنت کے باغوں میں جگہ پائیں گے۔
واپس اوپر جائیں

تقلید اور اجتہاد

تقلید کی دو صورتیں ہیں۔ ایک صورت اسلامی تعلیم کے مطابق ہے، اور دوسری صورت اسلامی تعلیم کے خلاف۔ یہ دونوں صورتیں قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتی ہیں۔ دونوں صورتوں کے متعلق، قرآن میں واضح رہ نمائی ملتی ہے۔
تقلید کی غیر محمود صورت کا ذکر قرآن کی سورہ نمبر 23 میں ہے۔ سابق حاملینِ کتاب کے اندر اُن کے زوال کے زمانے میں جو صورتِ حال پیدا ہوئی، وہ تقلید کی یہی غیر محمود صورت تھی۔ اِس کا حوالہ دیتے ہوئے قرآن میں ارشاد ہوا ہے: فتقطّعوا أمرَہم بینہم زُبراً، کُلُّ حزبٍ بما لدیہم فرحون (المؤمنون: 53 ) یعنی انھوںنے اپنے دین کو اپنے درمیان ٹکڑے ٹکڑے کردیا، ہر گروہ اُسی پر نازاں ہے جو اُس کے پاس ہے۔ یہ تقلید کی وہ صورت ہے جب کہ تقلیدی مزاج کے تحت لوگ گروہوں میں بٹ جائیں، ہر گروہ اپنے کو برحق سمجھنے لگے۔تقلید کی اِس قسم میں تقلید کو عقیدے کا درجہ دے دیا جاتا ہے۔ اِس کے نتیجے میں لوگوں کے اندر دو شدید برائی پیدا ہوجاتی ہے۔ ایک، کٹّر پن اور دوسرے، تعصّب۔
تقلید کی محمود صورت وہ ہے جو عملی ضرورت کے تحت پیدا ہوتی ہے۔ اِس دوسری تقلید کا اصول قرآن کی اِس آیت سے اخذ ہوتا ہے: فاسئلوا أہل الذّکر إن کنتم لا تعلمون (النّحل: 43) یعنی اپنے قلّتِ علم کی تلافی کے لیے کسی معاصر عالم کو اپنا دینی رہ نما، یا دینی مُشیر بنالینا۔
موجودہ زمانے میں تقلید کی جو صورت ہے، وہ بلاشبہہ اسلامی روح کے خلاف ہے— آج کل یہ مان لیا گیا ہے کہ عبّاسی دَور کے چار امام مجتہدِمطلق تھے۔ انھوں نے جو فقہی اسکول بنائے، وہی فقہی اسکول اسلام میں آخری طورپر درست اسکول ہیں۔ حق اِنھیں چاروں کے درمیان ہے۔ اب نجات کی صرف یہ صورت ہے کہ اِن میں سے کسی ایک کی پوری طرح تقلید کی جائے۔اِس تصور نے تقلید کو عقیدے کا درجہ دے دیا۔ اور جب کسی نئی چیز کو عقیدے کا درجہ دے دیا جائے تو اُس سے مزید بہت سی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ مثلاً گر وہ بندی، تنگ نظری اور تعصب اور کٹّرپن، وغیرہ۔ تقلید کا یہ منفی نتیجہ آج عام طورپر مسلمانوں میں دکھائی دے رہا ہے۔
تقلید کا دوسرا طریقہ انسانی سماج کی ایک فطری ضرورت ہے۔ انسانی سماج ہمیشہ عوام اور خواص میں بٹا ہوا ہوتا ہے۔ عوام کا حال ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی پہنچ علم کے سرچشمے تک نہیں ہوتی۔ ان کی یہ ضرورت ہوتی ہے کہ معاملات میں کوئی ان کی رہ نمائی کرتا رہے۔ تقلید کی دوسری قسم اِسی ضرورت کی پیداوار ہے۔
یہ تقلید مبنی بر ضرورت ہوتی ہے، مگر اِس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اِس کی ضرورت نہیں کہ چار اماموں کو مجتہد ِ مطلق ماناجائے۔ اور ان کے پیدا کردہ اسکول کو ابدی طور پر معیاری اسکول کا درجہ دے دیا جائے۔ یہ مقصد معاصر علما کے ذریعے پوری طرح حاصل ہوجاتا ہے۔ علمِ دین کے تسلسل کے نتیجے میں ہر جگہ عالمِ دین موجود ہوتے ہیں۔ اب عوام کو صرف یہ کرنا ہے کہ اپنے قریبی ماحول میں کسی عالمِ دین کو وہ اپنا رہ نما بنا لیں اور اس کے ذریعے اپنے معاملاتِ زندگی میں ضروری رہ نمائی حاصل کرتے رہیں۔ اِس تقسیم میں کسی عالم کو نہ مقدس کا درجہ حاصل ہوتا ہے اور نہ مجتہد کا۔ یہ علما وقتی طورپر عوام کی ضرورت کو پورا کرتے ہیں اور اس کے بعد دوسرے علما آجاتے ہیں جو ہر نسل میں لوگوں کی اِس ضرورت کو پورا کرتے رہیں۔
اب اجتہاد کو لیجیے، اجتہاد کوئی پُر اسرار چیز نہیں اور نہ وہ کوئی خطرناک دائرۂ عمل ہے جس میں بعد کے لوگ داخل نہیں ہوسکتے۔ یہ دائرہ آج بھی ہر صاحبِ علم کے لیے کھلا ہوا ہے، جس طرح وہ پہلے کھلا ہوا تھا۔
اجتہاد، اسلام کی ایک ناگزیر ضرورت ہے، وہ اسلام کے اعتقادی تسلسل کے لیے لازمی شرط کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث میں اجتہاد کی اتنی زیادہ حوصلہ افزائی کی گئی ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ درست اجتہاد پر بھی ثواب ہے اور نادرست اجتہاد پر بھی ثواب۔ گویا کہ اِس معاملے میں اصل اہمیت کوششِ اجتہاد کی ہے۔ یہ کوشش اسلام کے بقا اور ترقی کے لیے اتنا زیادہ ضروری ہے کہ اجتہادی خطا کا رِسک لے کر بھی اُس کو جاری رہنا چاہیے (فتح الباری، جلد 13 ، صفحہ 331)۔
واپس اوپر جائیں

چند مثالی خواتین

تاریخ میں کچھ ایسی خواتین گزری ہیں جن کو دوسروں کے لیے نمونے کا درجہ دیا جاسکتا ہے۔ اِن خواتین میں سے چند خواتین کا مختصر تذکرہ یہاں کیا جاتا ہے۔
ہاجرہ اُمّ ِاسماعیل
اِن خواتین میں سے ایک ہاجرہ اُمِّ اسماعیل ہیں جو پیغمبر ابراہیم کی زوجہ تھیں۔ ان کا زمانہ چار ہزار سال پہلے کا زمانہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق، حضرت ابراہیم نے یہ منصوبہ بنایا کہ عرب میں صحرا کے فطری ماحول میں ایک نئی نسل بنائی جائے، جو مشرکانہ کلچر کی کنڈیشننگ سے پاک ہو۔ اِس مقصد کے لیے ایک خاتون کی قربانی درکار تھی۔ ہاجرہ امِ اسماعیل نے یہ قربانی دی۔ وہ مکہ کے غیرآباد صحرا میں اپنے بچے کو لے کر مقیم ہوگئیں۔
یہ نہایت صبر آزما عمل تھا۔ بظاہر یہ موت کے حالا ت میں زندگی تلاش کرنے کے ہم معنیٰ تھا۔ جب حضرت ابرہیم نے انھیں بتایا کہ یہ خدا کا حکم ہے، اُس وقت ہاجرہ نے غیر آباد اور بے آب وگیاہ صحرا میں کہا کہ— پھر توخدا ہمیں ضائع نہیں کرے گا: إذَن لا یُضیِّعُنَا (صحیح البخاری، کتاب الأنبیاء، باب قول اللہ تعالیٰ: واتّخذ اللہ إبراہیم خلیلاً)۔تاریخ بتاتی ہے کہ ایسا ہی پیش آیا۔ اُن کی نسل سے وہاں ایک ایسی قوم بنی جس کو ایک مغربی اسکالر نے ہیروؤں کی ایک قوم (a nation of heroes) کہا ہے۔
اِس واقعے میں تمام خواتین کے لیے ایک عظیم سبق ہے، یہ کہ اگر وہ خداکے بھروسے پرآگے بڑھ کر کوئی نیک کام کریں تو اُن کو یقینی طورپر خداکی مدد حاصل ہوگی۔ نیک کام میںان کی قربانی ضرور نتیجہ خیز ثابت ہوگی، وہ کبھی رائگاں نہ جائے گی۔
آسیہ بنتِ مُزاحم
اِسی طرح کی ایک مثال آسیہ بنتِ مُزاحم کی ہے۔ اُن کا زمانہ ساڑھے تین ہزار سال پہلے کا زمانہ تھا۔ اُن کے زمانے میں پیغمبر موسیٰ کا ظہور ہوا۔ اُس وقت فرعون مصر کا بادشاہ تھا۔ فرعون، حضرت موسیٰ کا دشمن ہوگیا۔ لیکن فرعون کی بیوی آسیہ بنت مزاحم حضرت موسیٰ کے پیغام توحید سے متاثر ہوئیں اور اُن پر ایمان لائیں۔ اِس پر فرعون سخت برہم ہوا اور آسیہ کے قتل کا حکم دے دیا۔
آسیہ بنت مزاحم نے قتل ہونا منظور کرلیا، لیکن وہ دینِ توحید کو چھوڑنے پر راضی نہیں ہوئیں۔ یہ اُن کے لیے ایک عظیم قربانی کا عمل تھا۔ اُن کی اِس قربانی کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان کے ایمان کو قبول کرلیا۔ اُس وقت ان کی زبان سے یہ دعا نکلی: ربّ ابْنِ لی عندک بیتاً فی الجنۃ، ونجِّنی مِن فرعون وعملہ، ونجّنی من القوم الظّالمین (التّحریم: 11 ) یعنی اے میرے رب، میرے لیے اپنے پاس جنت میں ایک گھر بنادے،اور مجھ کو فرعون اور اُس کے عمل سے بچالے، اور مجھ کو ظالم قوم سے نجات دے۔
یہ دعا اسمِ اعظم کے ساتھ کی ہوئی دعا تھی جو اُسی وقت مقبول ہوگئی۔ اِس واقعے میں یہ نصیحت ہے کہ اگر کوئی عورت (یا مرد) آسیہ جیسی قربانی کا ثبوت دے تواُس کو اسمِ اعظم کے ساتھ دعا کی توفیق ملتی ہے، اس کو یقینی طورپر قبولیت کا درجہ حاصل ہوتاہے۔
مریم والدہ حضرت مسیح
اِسی طرح کی ایک مثال حضرت مریم کی ہے جو پیغمبر مسیح کی والدہ تھیں۔ اُن کا زمانہ ڈھائی ہزارسال پہلے کا زمانہ تھا۔انھوںنے اپنی زندگی کو مکمل طورپر خداکے کام کے لیے اور خدا کے ذکر و دعا کے لیے وقف کر دیا تھا۔ اِس کے نتیجے میں اُنھیں خدا کی طرف سے یہ خصوصی عنایت حاصل ہوئی کہ اُن کو رزقِ خداوندی (آلِ عمران: 37 )پہنچنے لگا۔
’رزقِ خداوندی‘ کیا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی روحانی غذا ہے۔ یہ خدائی فیضان (divine inspiration) ہے ، جو خدا کی طرف سے اُس کے خاص بندوں کو عطا ہوتا ہے۔ ایسی عورتیں (یا ایسے مرد) اعلیٰ ربّانی کیفیات میں جینے لگتے ہیں۔ اُن کو وہ چیز عطا ہوتی ہے جس کو ربانی حکمت (divine wisdom) کہاجاتاہے۔ ایسے لوگ خدا کے خصوصی الہامات کا مہبط بن جاتے ہیں۔
خدا کی یہ خصوصی رحمت جو حضرت مریم کو حاصل ہوئی، اُس کا دروازہ ہر عورت اورہر مرد کے لیے کھلا ہوا ہے، بشرطیکہ وہ اُس اخلاص کا ثبوت دے جس کا ثبوت حضرت مریم نے دیا تھا۔
خدیجہ بنت خویلد
اِسی طرح کی ایک مثالی خاتون خدیجہ بنت خویلد (وفات: 620 ء) ہیں۔ وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی زوجہ تھیں۔ ان کویہ درجہ حاصل ہے کہ انھوں نے آگے بڑھ کرپیغمبر اسلام کی دعوت کو قبول کیا۔ پیغمبر اسلام کے لیے مکہ کا زمانہ بہت زیادہ تکلیف اور صعوبت کا زمانہ تھا۔ اِس پوری مدت میں انھوں نے کھلے دل کے ساتھ آپ کا ساتھ دیا۔ پیغمبر اسلام سے نکاح کے بعد ان کو بہت زیادہ مصیبتیں پیش آئیں، لیکن انھوںنے کبھی آپ سے شکایت نہیں کی۔ وہ ہرحال میں صبر اور شکر کا نمونہ بنی رہیں۔
روایات میں آتا ہے کہ ایک دن حضرت جبریل ان کے گھر آئے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل کو دیکھا لیکن حضرت خدیجہ نے جبریل کو نہیںدیکھا۔ پیغمبراسلام نے حضرت خدیجہ نے کہا کہ یہ جبریل ہیں اور وہ تم کو خدا کی طرف سے سلام پہنچانے کے لیے آئے ہیں۔ وہ تم کو خوش خبری دے رہے ہیںکہ جنت میں تمھارے لیے ایک خوب صورت گھر ہے، جہاں نہ شور ہوگا اورنہ تکلیف (لا صخب فیہ ولا نصب۔ سیرت ابن ہشام، جلد 1 ، صفحہ 259 )۔
حضرت خدیجہ کو اِس دنیا میں جنت کی خوش خبری دی گئی۔ یہ واقعہ ایک استثنائی معاملے کو نہیں بتاتا، بلکہ وہ ایک نمونے کو بتار ہا ہے۔ حضرت خدیجہ کے ذریعے تاریخ میں یہ نمونہ قائم ہواکہ جوعورت (یا مرد) حضرت خدیجہ جیسے صبر اور شکر کا ثبوت دے، اُس پر خدا کے فرشتے اُتریں گے اور اِسی دنیا میں وہ اُس کو اِس بات کی بشارت دیں گے کہ اگلے مرحلۂ حیات میں تمھارے لیے جنت ہے، یعنی خوشیوں اور راحتوں کی ابدی دنیا۔
عائشہ بنت ابی بکر
اِسی طرح کا ایک مثالی نمونہ عائشہ بنت ابی بکر الصدیق (وفات: 678 ء) کا ہے۔ وہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ تھیں۔ وہ پیغمبر اسلام کی وفات کے بعد تقریباً پچاس سال تک زندہ رہیں، اور پیغمبر اسلام کے بعد لمبی مدت تک لوگوں کو اسلام کا حکیمانہ پیغام پہنچاتی رہیں۔ وہ ریکارڈنگ کے زمانے سے پہلے پیغمبر اسلام کا زندہ ریکارڈ بنی رہیں۔ اُن کی اسلامی معرفت اتنی بڑھی ہوئی تھی کہ اصحابِ رسول اُن سے علمِ دین سیکھنے کے لیے دور دور سے آتے تھے۔
حضرت عائشہ کی زندگی تمام خواتین کے لیے ایک اعلیٰ نمونے کی حیثیت رکھتی ہے۔ حضرت عائشہ نے انتہائی سادہ زندگی اختیار کی۔ معاشی اور مادی معاملات میںانھوںنے آخری حد تک قناعت کا طریقہ اختیار کیا۔ اِس طرح ان کو یہ موقع ملا کہ وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت سے کامل فائدہ اٹھائیں۔ انھوں نے اپنی زندگی پیغمبر اسلام سے علمِ دین سیکھنے میںوقف کردی۔ اِس بنا پر حضرت عائشہ کو یہ موقع ملا کہ وہ پیغمبر اسلام کی وفات کے بعد لمبی مدت تک تمام لوگوں کے لیے دین کی معلّم بنی رہیں۔
یہی امکان تمام خواتین کے لیے کھُلا ہوا ہے۔ اگر وہ سادہ زندگی اختیار کریں، اپنے آپ کو دین کا علم سیکھنے میں وقف کردیں تو اُنھیں بھی خدا کی نصرت حاصل ہوگی اور وہ لوگوں کے لیے اُسی طرح رحمت بن جائیں گی، جس طرح حضرت عائشہ اپنے زمانے میں بنیں۔
واپس اوپر جائیں

ماڈل کون

قرآن اور حدیث کی صراحت کے مطابق، اسلام میں چار ماڈل ہیں— رسول، اصحابِ رسول، خلفائِ راشدین اور محدّثین۔ قرآن میںارشاد ہوا ہے کہ: لقد کان لکم فی رسول اللہ أسوۃ حسنۃ (الأحزاب: 21 ) اِس سے معلوم ہوا کہ دعوتی عمل کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اصحابِ رسول کو قرآن میںانصارُ اللہ (الصّف: 14 ) کہاگیا ہے۔ ’انصار اللہ‘ میںمکہ کے اہلِ ایمان اور مدینہ کے اہلِ ایمان دونوں شامل ہیں۔ اِس طرح اصحابِ رسول، نصرتِ خداوندی کا ماڈل ہیں۔ حدیث میں آیا ہے کہ: علیکم بسنّتی، وسنّۃ الخلفاء الراشدین المہدیّین (مسند احمد، جلد 4، صفحہ 126 )۔ اِس سے معلوم ہوا کہ حکم رانی کے لیے خلفائِ راشدین ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔
اِسی طرح حدیث میں ارشاد ہوا ہے کہ: العلماء وَرَثۃ الأنبیاء (البخاری، کتاب العلم) اِس حدیث کے مطابق، امت کے علما خدمتِ دین کا ماڈل ہیں۔ علما کے اِس طبقے میں سب سے پہلے محدثین کانام آتا ہے۔ محدثین کی حیثیت معیاری علما کی ہے۔ محدثین، امتِ مسلمہ کے اولین علما ہیں۔ اِس اعتبار سے محدثین بعد کے تمام علما کے لیے واحد ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔
تاریخ بتاتی ہے کہ علمائِ محدثین کا طریقہ یہ تھا کہ انھوںنے اپنے آپ کو غیر سیاسی دائرے میں خدمتِ دین کے لیے وقف کردیا۔ محدثین کا زمانہ عبّاسی سلطنت کازمانہ ہے۔ اُس زمانے میں حکم رانوں کے اندر وہ تمام بگاڑ آچکے تھے، جو بعد کے حکم رانوںمیں نظر آتے ہیں۔ لیکن محدثین نے وقت کے سیاسی بگاڑ سے مکمل اعراض کرتے ہوئے اپنے آپ کو دینی خدمت کے میدان میں مشغول رکھا، انھوںنے سیاسی بگاڑ کے مسئلے سے مکمل اعراض کیا۔ اِس سے معلوم ہوا کہ علمائِ حق کون ہیں، اور علمائِ سُوء کون۔ علمائِ حق وہ ہیں جو سختی سے محدثین کے ماڈل پر قائم رہیں، علمائِ سُوء وہ ہیں جو اِس ماڈل سے انحراف (deviation) کریں اور سیاسی اصلاح کے نام پر حکم رانوں سے ٹکراؤ شروع کردیں۔
واپس اوپر جائیں

ذاتی دفاع، قومی دفاع

حملے کے وقت اپنا دفاع کرنا، ایک جائز حق تسلیم کیاجاتاہے۔ لیکن حملے کی دو قسمیں ہیں، اور اِس اعتبار سے دفاع کی دو قسمیں بنتی ہیں— ذاتی دفاع (self defence) اور قومی دفاع (national defence) ۔ دونوں قسم کے حملے کی نوعیت ایک دوسرے سے مختلف ہے، اِس بنا پر دونوں کے لیے دفاع کا حکم بھی الگ ہے۔
ذاتی دفاع وہ ہے جب کہ کسی ایک شخص پردوسرے شخص کی طرف سے حملہ کیاگیا ہو، یا اس کا مال چھیننے کی کوشش کی جائے۔ ایسے موقع پر فرد کا یہ حق ہے کہ وہ اپنے بچاؤ کے لیے حملہ آور سے لڑے۔ یہ ایک جائز لڑائی ہے۔ اِسی قسم کی لڑائی کے بارے میں حدیث میںآیا ہے کہ: مَن قُتل دون مالہ فہو شہید (صحیح البخاری، کتاب المظالم؛ صحیح مسلم، کتاب الایمان)
دوسری صورت وہ ہے جب کہ ایک ملک کی فوج دوسرے ملک کی سرحد میں داخل ہوجائے اور وہ اس پر حملہ کردے۔ ایسے موقع پر ملک کو بچانے کے لیے لڑنا مسلّمہ طورپر جائز ہے، اِسی قسم کی جارحیت کے خلاف لڑائی کو قومی دفاع کہاجاتا ہے۔
قومی دفاع مکمل طورپر قائم شدہ ریاست کا ایک حق ہے۔ مگر قومی دفاع صرف ریاست کی طرف سے کیاجائے گا، غیر حکومتی عوام کو یہ حق نہیں کہ وہ بطور خود تنظیمیں بنا کر حملہ آور کے خلاف لڑائی چھیڑ دیں۔ اگر حکومتِ وقت، عوام کو پکارے تو وہ پکار کے مطابق، دفاع کی مہم میںشریک ہوسکتے ہیں، ورنہ جہاں تک ذمّے داری کا سوال ہے، صرف قائم شدہ ریاست ہی ایسے موقع پر دفاعی جنگ کی خدمت انجام دے گی۔ اسلامی فقہ میں اِسی مسئلے کو اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: الرّحیل للإمام۔
اِس فرق کو نہ جاننے کی صورت میں ایسا ہوگا کہ غیر حکومتی تنظیمیں ،یا غیر حکومتی افراددفاع کے نام پر جنگ چھیڑ دیں گے اور اس کو جائز جنگ سمجھیں گے، حالاں کہ یقینی طورپر وہ ایک ناجائز جنگ ہوگی۔ وہ ایک ایسی جنگ ہوگی جس میں قربانیوں کے باوجود لڑنے والے کو خدا کا انعام حاصل نہیںہوگا۔
واپس اوپر جائیں

موت ایک رِمائنڈر

موت مرنے والے کے لیے موت ہے، اور زندہ رہنے والے کے لیے اپنی موت کا رمائنڈر (reminder)۔ جب کوئی شخص مرتا ہے تو بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک بولنے والا چپ ہوگیا، لیکن اُس کا چُپ ہونا اپنے آپ میں ایک اعلان ہوتا ہے۔ یہ اعلان کہ — آنے والا وقت میرے اوپر آچکا ، اب یہی وقت تمھارے اوپر آنے والا ہے۔ تم آنے والے وقت کے لیے تیار ہوجاؤ۔
رواج ہے کہ جب کسی شخص کی عمر کا ایک سال پورا ہوتا ہے اور اس کی عمر کا اگلا سال شروع ہوتا ہے تو اُس وقت اس کی سال گرہ (birthday) منائی جاتی ہے۔ مگر زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اُس کو موت کی یاد کا دن سمجھا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر عورت اور مرد کی عمر کا مسلسل کاؤنٹ ڈاؤن (count down) ہورہا ہے۔ ہر سال گرہ صرف یہ بتاتی ہے کہ تمھاری مدتِ حیات کا ایک اور سال کم ہوگیا۔ موت اِسی کاؤنٹ ڈاؤن کی تکمیل ہے۔
لوگ اپنے یومِ پیدائش کو ہیپی برتھ ڈے(happy birthday) کے طورپر مناتے ہیں، لیکن حقیقتِ واقعہ کے اعتبار سے دیکھیے تو معاملہ اِس کے برعکس ہے۔ ہر نئی سال گرہ دراصل اِس بات کی یاد دہانی ہے کہ موت یا یوم الحساب کا وقت اور زیادہ قریب آچکا، آخرت کی تیاری کا ایک اور سال کم ہوگیا۔
موت کا ایک پہلو یہ ہے کہ آدمی موجودہ دنیا سے چلا گیا۔ موت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ آدمی اپنی تمناؤں کی تکمیل کے بغیر مرجائے۔ یہ اِس بات کا اشارہ ہے کہ موجودہ دنیا انسان کے لیے تمناؤں کی تکمیل کی دنیا نہ تھی۔ تمناؤں کی تکمیل کی دنیا صرف اگلی دنیا ہے۔ عقل مند وہ ہے جو اِس اشارے کو سمجھے اور موجودہ دنیا کی زندگی کو تیاری کا مرحلہ سمجھ کر اپنے آپ کو اگلی دنیا کے قابل بنائے۔
زندگی عمل کا وقفہ ہے اور موت خدا کی عدالت میں پیشی کا وقت۔ یہ ہر انسان کے لیے بے حد سنگین معاملہ ہے۔ دانش مند وہ ہے جو اِس معاملے کو سمجھے اور اس کو اپنا سب سے بڑا کنسرن (supreme concern) بنائے۔
واپس اوپر جائیں

شکر ایک قربانی کا عمل

شکر سب سے بڑی عبادت ہے۔ شکر جنت کی قیمت ہے۔ شکر کے بغیر ایمان نہیں۔ شکر کے بغیر سچی خدا پرستی نہیں۔ شکر کے بغیر آدمی اُن اعلیٰ کیفیات کا تجربہ نہیں کرسکتا جس کو قرآن میں ربّانیت (آل عمران: 79 ) کہاگیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دین داری کی اصل روح شکر ہے۔ شکر کے بغیر دین داری ایسی ہی ہے جیسے پھل کااوپری چھلکا۔
لیکن شکر محض زبان سے کچھ الفاظ ادا کردینے کا نام نہیں، شکر ایک قربانی کا عمل ہے، بلکہ سب سے بڑی قربانی کا عمل۔ جو آدمی سب سے بڑی قربانی کردینے کے لیے تیار ہو، وہی اُس شکر کا تجربہ کرسکتا ہے جو خدا کو مطلوب ہے۔
اصل یہ ہے کہ موجودہ دنیا میںہر انسان کسی نہ کسی اعتبار سے احساسِ محرومی کا شکار ہوتاہے۔ ہر انسان کے دل میںکسی نہ کسی کے خلاف منفی جذبات موجود رہتے ہیں۔ ہر انسان مختلف اسباب سے شکایت اور نفرت کی نفسیات میں جینے لگتا ہے۔ یہی وہ صورتِ حال ہے جو شکر کو کسی انسان کے لیے مشکل ترین کام بنا دیتی ہے۔ آدمی زبان سے شکر کے الفاظ بولتا ہے، لیکن اس کا دل حقیقی جذباتِ شکر سے بالکل خالی ہوتا ہے۔
ایسی حالت میںصرف وہی انسان شکر کا عمل کرسکتاہے جس کا شعور اتنا زیادہ بیدار ہوچکا ہو کہ وہ ناشکری کے اسباب کے باوجود شکر کرسکے، جو منفی خیالات کے جنگل میں رہتے ہوئے مثبت احساس میں جینے والا بن جائے۔ وہ اپنے اندر سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر خلافِ شکر چیزوں کو نکالے، وہ اپنے اندر حقیقی جذباتِ شکر کی تخلیق کرسکے۔
شکر ایک عبادت ہے جو ہر حال میں مطلوب ہے۔ جو آدمی یہ سمجھے کہ شکر اُس وقت کرنا ہے جب کہ ہر چیز اُس کو اس طرح حاصل ہوجائے جیساکہ وہ انھیں حاصل کرنا چاہتاتھا، ملی ہوئی چیز اُس کی مرضی کے مطابق اُس کو مل جائے۔ ایسا آدمی کبھی شکر کرنے والا نہیں بن سکتا۔ خدا کا حقیقی شکر گزار وہی ہے جو شکایت کے باوجود شکر گزاری کار از دریافت کرے۔
واپس اوپر جائیں

صحبت کا اثر

شیخ مصلح الدین سعدی شیرازی (وفات: 1291 ء) کی کتاب ’’گُلستاں‘‘ بہت مشہور ہے۔ اِس کتاب میں کہانی کے انداز میں اخلاقی تعلیم دی گئی ہے۔ ایک کہانی یہ ہے کہ شیخ ایک باغ میں گئے۔ وہاں ایک مقام پر انھوں نے پایا کہ وہاں کی مٹی سے خوش بو آرہی ہے۔ انھوں نے مٹی سے پوچھا کہ تمھارے اندر یہ خوش بو کہاں سے آگئی۔ مٹی نے کہا کہ — دیکھو، یہاں گلاب کا درخت اُگا ہوا ہے۔ اس کی شاخوں پر خوش بودار پھول ہیں۔ میں خوش بودار پھولوں کے پڑوس میں رہتی ہوں۔ اِن خوش بودار پھولوں نے مجھ کو بھی خوش بو دار بنا دیا:
جمالِ ہم نشیں، درمن اثر کرد وگرنہ، من ہُما خاکم کہ ہستم
یہ کہانی تمثیل کے روپ میں صحبت کے اثر کو بتارہی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ زندہ انسانوںکی صحبت آدمی کے اوپر گہرا اثر ڈالتی ہے۔ اچھے لوگوں کی صحبت سے آدمی اچھا بن جاتا ہے، اور برے لوگوں کی صحبت میں آدمی بُرا بن جاتا ہے۔ اِسی لیے فارسی شاعر نے کہا ہے:
صحبتِ صالح تُرا، صالح کُند صحبتِ طالح تُرا، طالح کند
کسی بگڑے ہوئے آدمی کو درست کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اس کو اچھے لوگوں میںاٹھنے بیٹھنے کا موقع دیاجائے۔ کوئی بھی آدمی اگر لمبی مدت تک اچھے لوگوں میں بیٹھے تو ضرور وہ ان سے متاثر ہوگا۔ یہ ایک فطری قانون ہے۔ اِس قانون میں مشکل ہی سے کوئی استثنا ملے گا۔
تاہم، صحبت کو مفید بنانے کی ایک لازمی شرط ہے، اور وہ صبر ہے۔ جب بھی ایسا ہو کہ اچھے لوگوں کی صحبت میں ایک بُرا آدمی آجائے تو اچھے لوگوں کو چاہیے کہ وہ اس کے معاملے میں صبر وتحمل سے کام لیں۔ وہ پہلے ہی دن اس کے معاملے میں تبدیلی کی امید نہ رکھیں۔ وہ تبدیلی اور اصلاح کے معاملے میں انتظار کریں۔ وہ اِس حقیقت کو جانیں کہ یہ معاملہ اچانک تغیر کا نہیں ہے، بلکہ بتدریج تغیر کا ہے— ہر آدمی کی اصلاح ممکن ہے، بشرطیکہ مُصلح اس کاانتظار کرسکے۔
واپس اوپر جائیں

ایک مشکل، دوآسانی

قرآن کی سورہ نمبر 94 میں فطرت کے ایک قانون کو اِن الفاظ میں بتایا گیا ہے: فإن مع العُسر یُسراً، إن مع العسرِ یُسراً (الإنشراح: 5-6 ) یعنی بے شک، مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ بے شک، مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس آیت کی تشریح اِن الفاظ میں کی ہے: لن یغلبَ عُسرٌ یُسرَین، لَن یغلب عُسرٌ یُسرین (ابنِ کثیر ) یعنی ایک مشکل دو آسانی پر غالب نہیں آسکتی، ایک مشکل دو آسانی پر غالب نہیں آسکتی۔
اِس تشریح کی مزید وضاحت عبد اللہ بن عباس کے ایک قول میں ملتی ہے۔ انھوںنے کہا: یقول اللہ تعالیٰ: خلقتُ عُسراً واحداً، وخلقتُ یُسرین۔ ولن یغلب عُسرٌ یُسرین (القرطبی) یعنی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے مشکل ایک پیدا کی، اور آسانی دو پیدا کی۔ اور دوآسانی پر ایک مشکل غالب نہیں آسکتی۔یہ کوئی پُر اسرار بات نہیں، یہ ایک معلوم واقعہ ہے اور فطرتِ انسانی کا مطالعہ کرکے اس کو سمجھا جاسکتا ہے۔ نفسیات کے تحت انسان کا جو مطالعہ کیا گیا ہے، اُس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان جب کسی مشکل سے دوچار ہو،اور وہ بے حوصلہ نہ ہوجائے تو اس کے اندر ڈبل طاقت آجاتی ہے۔ ایک طاقت وہ جو نارمل صورت میں پہلے سے موجودتھی، اور دوسری طاقت وہ جو اضافہ شدہ محرک (incentive) کی وجہ سے اُس کے اندر آئی۔ اِس طرح مشکل پیش آنے کی صورت میںآدمی اضافہ شدہ محرک کی بنا پر اِس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ زیادہ عزم اور زیادہ ہمت کے ساتھ مشکل کا سامنا کرسکے۔
آدمی کو چاہیے کہ وہ فطرت ِ انسانی کے اِس راز کو جانے، مشکل پیش آنے کی صورت میں وہ اپنے آپ کو معتدل حالت میں باقی رکھے۔ ایسا کرکے وہ فطرت انسانی کو یہ موقع دے گا وہ اس کے اندر مشکلات سے مقابلہ کرنے کی طاقت کو ڈبل کرسکے اور اِس طرح اس کی کامیابی کو یقینی بنا دے— مشکل، فطرت کے نظام کا ایک حصہ ہے۔ اِسی طرح یہ بھی فطرت کا ایک حصہ ہے کہ جب آدمی پر کوئی مشکل پڑے تو وہ ڈبل طاقت کے ساتھ اس کا سامنا کرنے کے قابل ہوجائے۔
واپس اوپر جائیں

حد سے تجاوز نہ کرنا

فطرت کا ایک قانون یہ ہے کہ ہر چیز اپنے دائرے میں حرکت کرے، وہ اپنی فطری حد سے تجاوز نہ کرے۔ یہی اصول انسان سے بھی مطلوب ہے، اِس فرق کے ساتھ کہ بقیہ کائنات میں یہ اصول جبری طورپر نافذ ہے اور انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ اپنی مرضی کے تحت اس اصول کو اختیار کرے۔ گویا بقیہ دنیا فطری کنٹرول کے تحت چل رہی ہے اور انسان کو سیلف کنٹرول کا کلچر اپنانا ہے۔
حدیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خدا نے ہر معاملے کی ایک حد مقرر کردی ہے، تم اُس سے تجاوز نہ کرو (وحدّ حدوداً، فلا تعتدوہا) حدود کی پابندی کا یہی اصول انسان کے ٹسٹ کا بنیادی اصول ہے۔
مثلاً انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ دوسروں کا خیر خواہ بنے، وہ ان کا بد خواہ نہ بنے۔ وہ مثبت طرزِ فکر کو اپنائے اور منفی طرزِ فکر سے پوری طرح دور رہے۔ وہ غصے کو پی جائے، وہ غصے کو انتقام تک نہ جانے دے۔ وہ معاملے کے وقت انصاف پر قائم رہے، وہ بے انصافی کا طریقہ اختیار نہ کرے۔ وہ اپنے وعدے کو پورا کرے اور وعدہ خلافی سے مکمل طورپر بچے۔ وہ لوگوں کے سلوک کا اعتراف کرے، اس کی روش بے اعترافی کی روش نہ ہو۔ اس کا کردار تواضع کا کردار ہو، نہ کہ تکبر اور سرکشی کا کردار۔
اِسی طرح وہ ہمیشہ پر امن رہے، وہ تشدد کا طریقہ اختیار نہ کرے۔ وہ دشمنی کا مقابلہ دوستانہ سلوک سے کرے، نہ کہ جنگ جویانہ کارروائی سے۔ وہ انسانی سماج کا بے مسئلہ ممبر(no-problem member) ہو، نہ کہ مسئلہ پیدا کرنے والا ممبر(problem-member)۔ وہ دوسروں کو دینے والا ہو، نہ کہ دوسروں سے صرف لینے والا۔
موجودہ دنیا انتخاب کی جگہ ہے۔ یہاںہر ایک کے ریکارڈ کے مطابق، اس کا انتخاب کیا جارہا ہے۔ کسی کے لیے اس کی حسن کرداری کی بنا پر ابدی جنت کا فیصلہ کیا جارہا ہے، اور کسی کے لیے اس کی بدکرداری کی بنا پر ابدی جہنم کا فیصلہ۔
واپس اوپر جائیں

عقل مند انسان

جیسا کہ معلوم ہے، آدم پہلے انسان تھے۔ ان کے دو بیٹوں، قابیل اور ہابیل کے درمیان ایک معاملے میں نزاع پیداہوئی ۔ یہاں تک کہ بڑے بیٹے قابیل نے چھوٹے بیٹے ہابیل سے کہا کہ میں تم کو مار ڈالوں گا۔ ہابیل نے کہا کہ اگر تم میرے خلاف تشدد کرو تو میں تمھارے خلاف تشدد کرنے والا نہیں(المائدۃ: 28 )۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر اپنے اصحاب کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ میرے بعد تم لڑائی جھگڑے کی سیاست سے مکمل پرہیز کرنا۔ اور اگر نزاع تمھارے سر تک پہنچ جائے تو تم آدم کے دو بیٹوں میں سے بہتر بیٹے کی مانند بن جانا (فلیکن کخیر ابنَی آدم۔ أبوداؤد، کتاب الفتن)۔
اِس پیغمبرانہ نصیحت کا تعلق، صرف سیاسی ٹکراؤ سے نہیں بلکہ اُس کا تعلق عام زندگی سے ہے۔ مثلاً اگر آپ کے یہاں ایک کارکُن ہے۔ وہ بہت محنتی اور بہت دیانت دار ہے۔ ایسا کارکن ہمیشہ اپنی ذات کے معاملے میں بہت زیادہ حسّاس ہوتا ہے۔ اگر آپ اس کی کسی کارکردگی کو لے کر سختی کے ساتھ گرفت کریں تو یقینا وہ غصے میںآجائے گا۔ شعوری یا غیر شعوری طورپر اس کو یہ احساس ہوگا کہ میں اتنا زیادہ وفاداری کے ساتھ کام کررہا ہوں اور یہ مجھ کو ڈانٹ رہے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ اس کے بعد آپ اس قیمتی آدمی کو کھودیں۔
اس معاملے میں دو افراد شامل ہیں، ایک، آپ اور دوسرا، آپ کا کارکن۔ اِس مسئلے کا حل یہ ہے کہ دونوں میں سے کوئی ایک عقل مند آدمی بن جائے۔ یا تو آپ کا کارکن آپ کی ڈانٹ کو نظر انداز کردے اور وہ اس کو حساسیت کے درجے تک نہ پہنچائے، یا آپ خود عقل مندی کا ثبوت دیں اور کارکن کے منفی ردّ عمل کو زیادہ سنجیدگی سے نہ لیتے ہوئے اُس کو فراموشی کے خانے میں ڈال دیں۔ اگر دونوںمیں سے کوئی ایک بھی عقل مندی کا ثبوت نہ دے سکے تو اس کے بعد اُس کا نتیجہ یقینی طورپر تباہ کن صورت میں نکلے گا۔
اسی طرح مثال کے طورپر آپ نہایت ذہین آدمی ہیں۔ آپ کے اندر اخذ(grasp) کا غیر معمولی مادّہ ہے۔ ایسی حالت میں اگر آپ کسی کے اندر کوئی کمی دیکھیں تو فی الفور آپ اس کو نہایت شدت کے ساتھ محسوس کریں گے۔ اس کا فطری نتیجہ یہ ہوگا کہ آپ اُس کمی کے بارے میں نہایت شدت کے ساتھ اپنی رائے ظاہر کریں گے۔ عام تجربے کے مطابق، یہ کہا جاسکتا ہے کہ دوسرا آدمی اُس پر برہم ہوجائے گا۔
یہ صورت حال دونوں کے لیے عقل مندی کا امتحان ہے۔ اگر دوسرا آدمی عقل مندی کا ثبوت دے اور اپنی برہمی کو ظاہر نہ ہونے دے تو یہ اُس کے لیے عقل مندی کی بات ہوگی۔ لیکن اگر دوسرا آدمی اِس عقل مندی کا ثبوت نہ دے تو ایسے موقع پر خود آپ کو عقل مند بننا ہوگا، یعنی آپ اُس کی برہمی کا منفی اثر نہ لیں اور اس کو یک سر نظر انداز کردیں۔ اگر دونوں میں سے کوئی بھی اپنے آپ کو عقل مند ثابت نہ کر سکے تو اُس کا نتیجہ یقینی طورپر تباہی کی صورت میں برآمد ہوگا۔
باہمی تعلقات کی کامیابی کے لیے یہ ایک بے حد اہم اصول ہے۔ اس اصول کا تعلق، خاندانی زندگی سے بھی ہے اور سماجی زندگی سے بھی، اور وسیع تر معنوں میں قومی زندگی سے بھی۔ اِس اصول میں ناکامی کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ خاندانی جھگڑے پیدا ہوتے ہیں۔ شوہر اور بیوی میں طلاق واقع ہوتی ہے۔ اداروں اور جماعتوں میں ٹکراؤ کی صورتیں پیدا ہوتی ہیں۔ قوموں کے درمیان جنگ پیش آتی ہے، وغیرہ۔
میرے علم کے مطابق، اِسی اصول کو اختیار نہ کرنے کی بنا پر بر صغیر ہند میںتقسیم (1947) کا واقعہ پیش آیا۔ دونوں فریقوں میں سے کوئی فریق اگر عقل مندی کا ثبوت دیتا تو یقینی طورپر تقسیم کا ناخوش گوار واقعہ پیش نہ آتا۔ تاہم اِس معاملے میں زیادہ بڑی ذمّے داری مسلم قیادت کی ہے۔ کیوں کہ اِس معاملے میں مسلم قیادت کی حیثیت مطالبہ کرنے والے فریق کی تھی، اور دوسرے فریق کی حیثیت حالات کے دباؤ کے تحت مطالبے کو مان لینے والے کی۔
واپس اوپر جائیں

جس خوشی کی ہمیں تلاش ہے

ایک بار میں راجستھان کے ایک مقام پر گیا۔ یہ سفر مولانا محمد تقی امینی (وفات: 1991 ) کے ساتھ ہوا تھا۔ ہم دونوں ایک صاحب سے ملے۔ وہ آبادی سے باہر ایک فارم ہاؤس میں رہتے تھے۔ اُن کو اپنے والد سے کافی مال وراثت میں ملا تھا۔ انھوں نے اپنی پسند کی ایک خاتون سے شادی کی ، اور دونوں اس فارم ہاؤس میں رہنے لگے۔ بظاہر یہ فارم ہاؤس ایک خوب صورت دنیا کا منظر پیش کررہا تھا، لیکن اُس کے اندر جو عورت اور مرد رہ رہے تھے، وہ کامل افسردگی کی تصویر تھے۔
اِن دونوں نے اپنی پسند کی شادی کی، اور پھر اِس فارم ہاؤس کے اندر ایک پُر مسرت اِزدواجی زندگی گزارنے لگے۔ کچھ سالوں تک دونوں بہت خوش تھے۔ اُس کے بعد دونوں، فارم ہاؤس کی اِس زندگی سے اکتا گیے۔ میں اور مولانا محمد تقی امینی اُس گھر میں ایک رات اور ایک دن ٹھیرے۔ اِس مدتِ قیام میں میں نے ایک بار بھی نہیں دیکھا کہ وہ دونوں آپس میں باتیں کررہے ہوں۔ یہ فارم ہاؤس جو کبھی خوشیوں کا گہوارہ معلوم ہوتاہوگا، اب وہ افسردگی کا ایک قبرستان بنا ہوا نظر آتا تھا۔
میں نے اپنی زندگی میںاِس طرح کے بہت سے لوگ دیکھے ہیں، مسلمانوں میںبھی اور غیرمسلموں میں بھی۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے نہایت محنت سے مال کمایا، لیکن جب مال اُنھیں حاصل ہوگیا تو انھوںنے دریافت کیا کہ مال میں اُن کے لیے کوئی خوشی نہیں۔
کسی نے نہایت ذوق وشوق کے ساتھ اپنی پسند کی شادی کی، لیکن تھوڑے دنوں کے بعد انھیں معلوم ہوا کہ شادی اُن کے لیے صرف ایک خشک ذمے داری ہے، نہ کہ خوشیوں کی پُرمسرت زندگی۔ کسی نے اپنی پوری زندگی کو سیاست میں وقف کیا، تاکہ وہ سیاسی اقتدار کی کرسی پر پہنچ سکے، لیکن جب سیاسی اقتدار حاصل ہوگیا تو اُس کے لیے خوشیوں کا خاتمہ ہوچکا تھا۔کسی کا نشانہ یہ تھا کہ اُس کے پاس ایک کشادہ اور خوب صورت مکان ہو، لیکن مکان جب بن کر تیار ہوگیا تو اس کے چہرے سے خوشی رخصت ہوچکی تھی، وغیرہ۔
موجودہ دنیا کا سب سے زیادہ الم ناک پہلو یہ ہے کہ یہ دنیا انسان کے لیے المیہ (tragedy)کے سوا اور کچھ نہیں۔ بڑے بڑے ادیبوں نے ہر زبان میں لاکھوں کی تعداد میں ناول لکھے ہیں۔ یہ ناول گویا انسانی جذبات کی ترجمانی کی حیثیت رکھتے ہیں، تاہم یہ ایک عجیب حقیقت ہے کہ کسی بھی زبان میں کوئی طَربیہ (comedy)ناول کبھی زیادہ مقبول نہ ہوسکا۔دنیا میں جتنے بھی مقبول ناول ہیں، وہ سب کے سب المیہ (tragedy)ہیں۔
اِس کا سبب یہ ہے کہ ہر انسان اِس احساس میں جی رہا ہے کہ وہ جس خوشی کو پانا چاہتا تھا، وہ اس کو حاصل نہ ہوسکی۔ یہی وجہ ہے کہ المیہ ناول انسان کے دل کو چھوتے ہیں، طربیہ ناول انسان کے مائنڈ کو ایڈریس نہیں کرتے۔
یہ انسانی زندگی کا بڑا عجیب پہلو ہے کہ ہر انسان کی عمر کا پہلا نصف حصہ خوشی کی تلاش میں گزرتا ہے، اور بقیہ نصف حصہ اِس احساس میں کہ بظاہر خوشیوں کے سامان حاصل کرنے کے باوجود میں اپنے لیے خوشیوں کی مطلوب دنیا نہ بناسکا۔
تاریخ کا یہ تجربہ بتاتا ہے کہ انسان کی موجودہ زندگی اِس لیے نہیں ہے کہ وہ یہاں اپنے لیے خوشیوں کی ایک دنیا بنائے۔ موجودہ زندگی صرف اس لیے ہے کہ آدمی حسنِ عمل سے اپنے آپ کو اِس قابل بنائے کہ وہ موت کے بعد کی ابدی زندگی میں خوشیوں کی مطلوب دنیا پاسکے۔ موت سے پہلے کا مرحلۂ حیات ،اپنے آپ کو جنت کا مستحق بنانے کا مرحلہ ہے، اور موت کے بعد کا مرحلۂ حیات حسب استحقاق جنت میں داخلے کا مرحلہ، یعنی خوشیوں کی اُس دنیا میں داخلے کا مرحلہ،جس کو ہر آدمی کی روح تلاش کررہی ہے۔
واپس اوپر جائیں

قانونِ فطرت کو جانیے

عمران احمد اصلاحی (پیدائش1974 ) اعظم گڑھ میں لال گنج کے علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ عرصے سے وہ دہلی میں رہ رہے ہیں۔13 اگست 2007 کی ملاقات میں ،میں نے اُن کے گھر کے حالات دریافت کیے۔ معلوم ہوا کہ اُن کے یہاں تین سال کا ایک بچّہ ہے۔ میںنے پوچھا کہ بچّے کی تعلیم کے لیے آپ نے کیا سوچا ہے۔ میرے ذہن میں یہ تھا کہ وہ کہیں گے کہ بچے کو دہلی لانا پڑے گا، کیوں کہ گاؤںمیں تعلیم کا کوئی اچھاانتظام نہیں۔
مگر میری توقّع کے خلاف، انھوںنے کہا کہ ہمارے علاقے میں بہت سے اچھے اسکول کھُل گیے ہیں۔ اِن میں انگریزی کی معیاری تعلیم ہوتی ہے۔ انگریزی کے اعلیٰ معیار کو برقرار رکھنے کے لیے اُن لوگوں نے ساؤتھ انڈیا سے ٹیچروں کو بلایا ہے۔ اِسی کے ساتھ وہاں اسکول بس کا بھی اچھا انتظام ہے۔ اِس کے تحت،پِک اینڈ ڈراپ سروس (pick & drop service) قائم ہے۔ اِس لیے بچے کی تعلیم کے سلسلے میں اِن شاء اللہ ، کوئی مسئلہ نہیںہوگا۔
میرے لیے یہ ایک نئی خبر تھی، کیوں کہ پہلے وہاں اِس قسم کی تعلیم کا انتظام موجود نہ تھا۔ مزید پوچھنے پر انھوں نے بتایا کہ اِس علاقے کے بہت سے مسلمان دُبئی وغیرہ کمانے کے لیے گیے۔ یہ لوگ تعلیم یافتہ نہ تھے، اِس لیے انھیںزیادہ تر لیبر کلاس (labour class)کا کام ملا۔ اِسی دوران انھوں نے دیکھا کہ دوسرے مقامات کے لوگ جو جدید تعلیم لے کر وہاں آئے ہیں، اُن کووہاں اچھے اچھے کام مل رہے ہیں۔
اِس تقابل اور اِس انٹریکشن (interaction)کے ذریعے اُن کے ذہن میں ایک بھونچال آیا۔ انھوںنے سوچا کہ ہم تو تعلیم یافتہ نہ ہونے کی وجہ سے لیبر کلاس کا کام کررہے ہیں اور اِسی حال میں مریں گے، مگر اب ہم کو یہ کوشش کرنا ہے کہ ہمارے بچے اور ہماری اگلی نسلیں تعلیم میں آگے بڑھیں، تاکہ وہ ترقی کی دوڑ میں دوسروں سے پیچھے نہ رہیں۔
اس سوچ کا نتیجہ یہ ہوا کہ اِن لوگوں نے اپنی کمائی کو تعلیم کے میدان میں خرچ کرنے کا فیصلہ کیا۔ انھوںنے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت، اِس علاقے میں بہت سے اسکول کھول دیے۔ باہر کے تجربے سے اُن کو یہ بھی معلوم ہوا کہ اس زمانے میں سب سے زیادہ اہمیت معیار کی ہے، اِس لیے آج صرف تعلیم کی ضرورت نہیں ہے بلکہ معیاری تعلیم (standard education)کی ضرورت ہے۔ اِس انقلابی سوچ کا یہ نتیجہ ہوا کہ اِس ایریا میں بہت سے اعلیٰ معیار کے اسکول کھل گیے۔ اب یہاں گاؤں کے بچے بڑی تعداد میں تعلیم حاصل کرنے میں مشغول ہیں۔
پچھلے ساٹھ برس کے دوران تمام مسلم لیڈر، بغیر کسی استثنا کے، صرف ایک بات کہتے رہے ہیں، وہ یہ کہ انڈیا میں مسلمانوں کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پیچھے دھکیلا جارہا ہے۔ انڈیا میں یہ سازش کی جارہی ہے کہ یہاں مسلمانوں کو پَس ماندہ طبقہ بن کر رہنے پر مجبور کر دیا جائے۔ مگر اِسی دوران انڈیا کے مسلمان ترقی کی دوڑ میں شامل ہوگیے، یہاں تک کہ آج انڈیا کے مسلمان تعمیر و ترقی کے معاملے میں پاکستان کے مسلمانوں سے بھی بہت آگے جاچکے ہیں۔
اوپر جس واقعے کا ذکر ہوا، وہ صرف اعظم گڑھ میں پیش نہیں آیا بلکہ وہ سارے ملک میں پیش آرہا ہے۔ آج ملک کے ہر حصے میں مسلمان تیزی سے ترقی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یہ واقعہ فطرت کے قانون کے تحت ہوا ہے، وہ اِس طرح کہ مسلمانوں کو دوسرے طبقوں سے انٹریکشن پیش آیا۔ انھوںنے دوسری قوموں کی ترقی کو دیکھا۔ وہ چیلنج اور مسابقت کے ماحول سے گزرے۔ ہر ایک نے چاہا کہ میری اولاد ترقی میںدوسروں سے پیچھے نہ رہے۔ اِس طرح مسلمانوں میں فطرت کا ایک عمل(process) جاری ہوا۔ یہی فطر ی عمل مذکورہ قسم کے واقعات کی صورت میں اپنا نتیجہ دکھا رہا ہے۔
یہاں یہ سوال ہے کہ کیوںایسا ہوا کہ مسلمانوںکے نام نہاد لیڈر اس عظیم واقعے سے بے خبر رہ گیے۔ اِس کا سبب موجودہ زمانے کا میڈیا ہے۔ مسلمانوں کے یہ نام نہاد لیڈر اخباروں کو پڑھ کر اپنی رائے بناتے ہیں۔ اُن کی معلومات کا ذریعہ عام طور پرصرف اخبار کی رپورٹیں ہیں
اخبار، یا جدید میڈیا اپنے مخصوص مفادات کے تحت صرف منفی خبروں کو منتخب کرتا ہے۔ اِس کے علاوہ تاریخی عوامل، یا فطرت کے قوانین موجودہ میڈیا کا موضوع نہیں۔ ہمارے نام نہاد لیڈروں کا انحصار چوں کہ اِسی میڈیا پر ہے، اِس لیے وہ مسلم سماج کے صرف کچھ منفی پہلوؤں ہی کو جان پاتے ہیں، تاریخ کے عوامل، یا فطرت کے قوانین کے زیرِ اثر جو کچھ ہورہا ہے، اُس کی انھیں مطلق خبر نہیں۔
اِسی بنا پر ایسا ہے کہ جس زمانے میں مسلمانوں کے نام نہاد لیڈر اور نام نہاد دانش ور، مسلمانوں کے خلاف ہونے والے مظالم کی داستان سنا رہے تھے، عین اُسی زمانے میں مسلمانوں کا قافلہ کامیابی کے ساتھ ترقی کی شاہ راہ پر پہنچ گیا۔ نام نہاد رہ نما اور دانش ور، مسلمانوں کو مایوسی اور دل شکستگی کی غذا دے رہے تھے، لیکن خدا کے قائم کردہ قانونِ فطرت نے اُن کو امید اور حوصلے کے اعلیٰ مقام پر پہنچا دیا۔
موجودہ زمانے میں ایسا ہوا ہے کہ لوگوں کے لیے میڈیا (اخبار اور ٹیلی ویژن) معلومات کا ذریعہ بن گیا ہے، مگر باتوں کو جاننے کے لیے یہ صرف ایک ناقص ذریعہ ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، میڈیا، حقیقتِ حال کی مبنی بر صداقت رپورٹنگ کا نام نہیں ہے، میڈیا ایک انڈسٹری ہے جو اپنے تجارتی مقصد کے مطابق، کچھ منتخب واقعات کو لیتا ہے اور کچھ دوسرے واقعات کو چھوڑ دیتا ہے۔
ایسی حالت میں جو لوگ میڈیا کے ذریعے معلومات حاصل کرتے ہیں، وہ کسی معاملے کا درست تصور قائم نہیں کرپاتے۔ وہ اپنے ذاتی معاملات کے سوا، دوسرے تمام معاملات میں ہمیشہ یک طرفہ سوچ کا شکار رہتے ہیں۔
مسلمانوں کے معاملے کو، یا کسی اور معاملے کو درست طورپر سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ میڈیا کی بنائی ہوئی امیج سے باہر آکر اُس کو سمجھا جائے۔ یہ کسی معاملے میں منصفانہ رائے قائم کرنے کی لازمی شرط ہے، اس کے بغیر معاملات میں درست اور منصفانہ رائے قائم کرنا ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں

پیچھے کی سیٹ

انگریزی زبان کی ایک مشہور مثل ہے کہ — ٹاپ کی جگہ ہمیشہ خالی رہتی ہے:
There is always room at the top
یہ بات بجائے خود درست ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اِس سے زیادہ درست اور اہم بات وہ ہے جو اِس قول کے برعکس ہے، اور وہ یہ کہ— پیچھے کی سیٹ پر ہمیشہ جگہ خالی رہتی ہے:
There is always room at the back seat.
بَیک سیٹ پر جانا، کسی آدمی کے لیے بظاہر شکست خوردگی اور پسپائی کی بات ہوتی ہے۔ لیکن بیک سیٹ کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں سے آدمی کو ہر حال میںایک نیا آغاز مل جاتا ہے، وہ کھوئی ہوئی چیز کو دوبارہ نئی صورت میں حاصل کرنے کی پوزیشن میںہوجاتا ہے۔
مسیحیت میں بعد کے زمانے میں پوپ کا مذہبی عہدہ شروع ہوا۔ اس کی اتنی ترقی ہوئی کہ قرونِ وسطیٰ کے زمانے میں پوپ عملی طورپر پورے یورپ کا پولٹکل ہیڈ بن گیا تھا۔یورپ کی نشأۃِ ثانیہ کے بعد چرچ کے خلاف طاقت ور تحریک اٹھی، یہاں تک کہ یہ ناممکن ہوگیا کہ پوپ کی سیاسی طاقت بدستور باقی رہے۔
اُس وقت مسیحی چرچ اور سیاسی لیڈروں کے درمیان ایک معاہدہ ہوا، جس کو لیٹرین ٹریٹی (Lateran Treaty) کہاجاتا ہے۔ یہ معاہدہ1929میں ہوا، جب کہ اٹلی میں مسولینی (وفات: 1945) حکومت کررہا تھا۔ اِس معاہدے کے مطابق، پوپ پچھلی سیٹ پر بیٹھنے پر راضی ہوگیا۔ چناں چہ روم کے اندر ویٹکن سٹی(Vatican City) کے نام سے ایک خود مختار اسٹیٹ وجود میں آئی، جس کا رقبہ تقریباً ایک سو دس ایکڑ تھا۔
اس طرح ویٹکن کے محدود رقبے پر راضی ہونے کا یہ فائدہ مسیحی چرچ کو ملا کہ پوپ کا پُر عظمت تاریخی ٹائٹل محفوظ رہا— پوپ، دنیا کی سب سے چھوٹی اسٹیٹ کا ہیڈ ہے۔ لیکن عملاً اس کو پوری دنیا کے اندر ایک عظیم مقام ملا ہوا ہے۔ وہ اِس پوزیشن میں ہے کہ پوری دنیا میں مسیحی سرگرمیوں کو منظم کرسکے۔
اس کے برعکس اب دوسری مثال لیجیے۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسلمانوں میں خلافت کا سیاسی ادارہ قائم ہوا۔ وہ ایک ہزار سال تک شوکتِ اسلام کی علامت بنا رہا۔ آخری مرحلے میں تُرکی اِس خلافت کا صدر مقام تھا۔ یہاں خلیفۃ المسلمین رہتا تھا، جو عملاً ساری مسلم دنیا کے لیے انٹرنیشنل ہیڈ کی حیثیت رکھتا تھا۔
پہلی عالمی جنگ میں ترک خلافت، جرمنی کے اتحاد میں شریک ہوئی۔ اِس جنگ میں ترک خلافت کو زبردست شکست ہوئی۔ اِسی زمانے میں نیشنل ازم کا عروج ہوا اور بین الاقوامی خلافت کا بقا عملاً ناممکن ہوگیا۔ اِس طرح یہ مسلم خلافت عملاً ٹوٹ پھوٹ گئی، یہاں تک کہ کمال اتاترک نے 1924 میں اِس ختم شدہ خلافت کے رسمی خاتمے کا اعلان کردیا۔
اِس معاملے میں مسلمانوں کے لیے بھی یہ موقع تھا کہ وہ بیک سیٹ پر چلے جائیں۔ اور پوپ کی طرح خلیفۃ المسلمین کے ٹائٹل کو محفوظ رکھیں جو ہزار سالہ تاریخی روایات کے نتیجے میں ایک پُراسرار عظمت حاصل کرچکا تھا۔ اُس زمانے کے مسلم رہ نما اگر ایک محدود رقبۂ زمین میں خلیفۃ المسلمین کا مرکز قائم کرنے پر راضی ہوجاتے تو آج مسلمانوں کے پاس بھی ایک اسلامی ویٹکن (Islamic Vatican) موجود ہوتا۔
مگر اُس زمانے کے مسلم رہ نما، مثلاً سید جمال الدین افغانی، محمد علی جوہر اور ابولکلام آزاد، وغیرہ نے انتہائی نادانی کے ساتھ غَوغائی سیاست برپا کردی۔ وہ بیک سیٹ پر جانے کے بجائے، خلافت کو دوبارہ اُس کی قدیم حیثیت کے ساتھ باقی رکھنا چاہتے تھے، مگر عملاً اِس سیاست کی کامیابی کاکوئی امکان نہ تھا۔ چناںچہ ایک ذلّت آمیز ناکامی کے سوا، مسلم رہ نماؤں کو کچھ اور نہیں ملا۔ ہزار سال کی تاریخی روایات نے خلیفۃ المسلمین کا پُرشوکت ٹائٹل بنایا تھا، پیچھے کی سیٹ پر بیٹھنے کی صورت میں یہ ٹائٹل بلاشبہہ اُسی طرح باقی رکھا جاسکتا تھا، جس طرح پوپ کا ٹائٹل باقی ہے۔ مگر مسلم رہ نماؤں کی ناقابلِ فہم نادانی کے نتیجے میں یہ امکان واقعہ نہ بن سکا۔
واپس اوپر جائیں

عظمتِ خداوندی کا اعتراف

دور ِ اول میں خلافتِ اسلامی کو غیر معمولی پھیلاؤ ہوا، اس کے باوجود بنو اُمیہ کے عہد تک خلافت کا ایک ہی مرکز (دمشق) تھا۔ عباسی انقلاب کے بعد اندلس میںعلاحدہ سلطنت قائم ہوئی، اِس طرح حکومتِ اسلامی کے دومرکز ہوگیے۔ جلد ہی بعد مراکش میںتیسرا آزاد سیاسی مرکز قائم ہوا، پھر مصر میں خود مختار حکومت قائم ہوگئی۔ اِس طرح ایک کے بعد ایک، آزاد مسلم سلطنتیں قائم ہوتی چلی گئیں۔ ایک عظیم مسلم سلطنت چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہوگئی۔اِنھیں آزاد سلطنتوں میں سے ایک سلطنت وہ تھی جس کو دولتِ سامانیہ کہاجاتاہے۔ سامانی سلطنت، ایران میںابھری اور تقریباً ڈیڑھ سوسال تک قائم رہ کر ختم ہوگئی۔
سامانی سلطنت کا ایک حاکم نصر بن احمد بن سامان (وفات: 892ء) تھا۔ کہاجاتا ہے کہ جب اس نے نیشا پور کو اپنی سلطنت میںشامل کیا تو وہاں اس نے ایک جشن منعقد کیا۔ جب وہ اپنے شاہی تخت پر بیٹھا تو اس کی فرمائش کے مطابق، تخت نشینی کی افتتاحی رسم قرآن کی تلاوت سے شروع ہوئی۔ مجلس میں ایک عالم موجود تھے۔ انھوں نے قرآن کی تلاوت کی۔ انھوں نے سورہ المومن کا ایک حصہ پڑھا، جس میںیہ آیت بھی تھی: یوم ہُم بارزون لا یخفیٰ علی اللہ منھم شیٔ۔ لِمَن الملک الیوم، للہ الواحد القہار (المؤمن : 16 )۔ یعنی جس دن کہ وہ ظاہر ہوں گے، اللہ سے ان کی کوئی چیز چھپی نہ ہوگی۔ آج بادشاہی کس کے لیے ہے، اللہ واحد وقہار کے لیے۔ مذکورہ عالم تلاوت کرتے ہوئے جب اِس آیت پر پہنچے تو سلطان نصربن احمد پر لرزہ طاری ہوگیا۔ وہ ہیبت زدہ ہوکر تخت سے اُتر پڑا۔ تاج کو اپنے سر سے اتارا اور سجدے میںگر گیا۔ اس نے کہا: اے میرے رب، بلا شبہہ بادشاہی تیری ہے، نہ کہ میری۔
اعلی دعا اور اعلیٰ ذکر ِخداوندی کا تعلق الفاظ سے نہیں ہے، بلکہ انسان کی اپنی نفسیات سے ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ: مَن تَواضع للہ رفعہ اللہ (مشکاۃ المصابیح، رقم الحدیث: 5119 )۔ اِس حدیث کا ایک مطلب یہ ہے کہ جو شخص اپنے آپ کو پوری طرح خدا کے سامنے جھکا دے، وہی وہ شخص ہے جس کو خدا اِس طرح عزت دیتا ہے کہ اُس کو اسمِ اعظم کے ساتھ ذکر اور دعا کی توفیق ملتی ہے، اور جس شخص کو اسمِ اعظم کے ساتھ ذکر اور دعا کی توفیق ملے، اس کو بلا شبہہ دنیا ہی میں خدا کی جنت حاصل ہوگئی۔
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز— 182

1 - سائی انٹرنیشنل سنٹر (نئی دہلی) میں 19 ستمبر 2007 کو حسب معمول ایک پروگرام ہوا۔ اِس میں مختلف مقامات سے کیندریہ وِدّیالیہ کے پرنسپل حضرات شریک ہوئے۔ اِس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اِس میں ایک مفصل تقریر کی۔ تقریر کا موضوع یہ تھا:
Basic Human Values in Islam
قرآن اور حدیث کی روشنی میں اِس موضوع پر اظہار خیال کیاگیا ۔ آخر میںکچھ سوالات کیے گیے۔ ایک بات یہ کہی گئی کہ مغربی کلچر میں فریڈم کو خیر اعلیٰ(Summum Bonum) مانا جاتا ہے، لیکن اسلام میں امن (peace) کو خیرِاعلیٰ کی حیثیت حاصل ہے۔
2 - راشٹریہ سہارا (ہندی) کے نمائندہ مسٹر کمار وجے نے 2 اکتوبر 2007 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا۔ یہ انٹرویو ٹیلی فون پر ریکارڈ کیا گیا۔ یہ انٹرویو جہادکے موضوع پر تھا۔ قرآن اور حدیث کی روشنی میں اُن کے سوالات کا جواب دیاگیا۔
3 - آل انڈیا ریڈیو (نئی دہلی) سے 4 اکتوبر 2007 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو نشر کیاگیا ، اِس انٹرویو کا موضوع— نان وائلنس تھا۔ یہ انٹرویو صبح کے نشریے کے تحت، نشر کیاگیا۔
4 - اسٹار نیوز (نئی دہلی) کے نمائندے نے 4 اکتوبر 2007 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا۔ اِس انٹرویو کا موضوع تھا: خط کے ذریعے عورت کو طلاق دینے کا مسئلہ۔ اِس موضوع پر قرآن اور حدیث کی روشنی میں ان کے سوالات کا جواب دیاگیا۔
5 - سرودھرم سنسد (Parliament of religions) کے اُدگھاٹن کے طورپر 5 اکتوبر 2007 کی شام کو انڈیا اسلامک کلچرل سنٹر (نئی دہلی) میںایک بڑا فکشن ہوا۔ اِس میں سوامی اگنی ویش، شری شری روی شنکر، اور فادر والسن تھمپو، وغیرہ شریک ہوئے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے بھی اِس میں شرکت کی اور تقریباً پندرہ منٹ کی ایک تقریر کی۔ انھوں نے اپنی تقریر میں سماجی اصلاح کے لیے ایجوکیشن کی اہمیت پر زور دیا۔ اِس موقع پر سی پی ایس انٹرنیشنل کے افراد نے بھی اِس پروگرام میں شرکت کی اور انگریزی میں چھپے ہوئے اسلامی بروشرز بڑی تعداد میں لوگوں کے درمیان تقسیم کیے۔ یہ پروگرام اسلامک کلچر سنٹر کے بڑے آڈی ٹوریم میں ہوا۔ پورا ہال سامعین سے بھرا ہوا تھا۔
6 - نوئڈا کے ایک ٹی وی پرگیا ویژن (Pragya Vision) کی ٹیم نے 10 اکتوبر 2007 کو صدر اسلامی مرکز کے انٹرویو کی ویڈیو ریکارڈنگ کی۔ اس کے انٹرویور مسٹر طارق عالم خان تھے۔ انٹرویو کا موضوع— مذہب اور روحانیت تھا۔ اِس سلسلے میں اسلام اور صوفیوں کے نقطۂ نظر کو بتایا گیا۔
7 - سائی انٹر نیشنل سنٹر (نئی دہلی) میں 10 اکتوبر 2007 کو حسب معمول، ایک پروگرام ہوا۔ اِس میں مختلف نوودے ودّیالیہ کے پرنسپل حضرات شریک ہوئے۔ اِس موقع پر صدر اسلامی مرکز کو دعوت دی گئی تھی کہ وہ اسلام میں بنیادی انسانی اقدار(Basic Human Values in Islam) پر ایک تقریر کریں۔ اِس کے مطابق، انھوںنے وہاں اِس موضوع پر ایک مفصل تقریر کی۔ تقریر کے آخر میں سامعین کی طرف سے سوالات کیے گیے، جن کا جواب دیاگیا۔ حاضرین نے اُس پر کافی پسندیدگی کا اظہار کیا۔ آخر میں اُن کے درمیان انگریزی میں چھپے ہوئے اسلامی پمفلٹ تقسیم کیے گیے، جس کو انھوںنے نہایت شوق سے لیا۔
8 - ٹائمس ناؤ (Times Now) کے نمائندے نے 11 اکتوبر 2007 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا۔ یہ انٹرویو اجمیر میں بم دھماکے سے متعلق تھا۔ سوالات کے دوران بتایا گیا کہ اِس طرح کا متشددانہ فعل ہر اعتبار سے قابلِ مذمت ہے۔ اسلام امن اور رحمت کا مذہب ہے، نہ کہ تشدد اور بے رحمی کا مذہب۔
9 - راشٹریہ سہارا، ہندی (نئی دہلی) کے نمائندہ وجے کمار نے 12 اکتوبر 2007 کو صدر اسلامی کا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا۔ یہ انٹرویو اجمیر کے بم دھماکہ (11 اکتوبر 2007 ) کے موضوع پر تھا۔ جواب میں بتایا گیا کہ اسلام میں تشدد کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ اسلام میں معصوم لوگوں کو مارنا حرام ہے۔ جو لوگ اِس قسم کا متشددانہ فعل کررہے ہیں، وہ امن کی طاقت سے بے خبر ہیں۔ اسلام میںامن سب سے بڑی طاقت ہے، نہ کہ تشدد۔
10 - ای ٹی وی (نئی دہلی) کے نمائندہ مسٹر قاسم ندوی نے 17 اکتوبر 2007 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا۔ یہ انٹرویو روزے سے متعلق تھا۔ سوالات کے دوران قرآن اور حدیث کی روشنی میں روزے کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی۔
11 -انڈیا اسلامک کلچرل سنٹر (لودھی روڈ، نئی دہلی) میں 20 اکتوبر 2007 کی شام کو ایک پروگرام ہوا۔ اِس کا انتظام سی پی ایس اور گڈ ورڈ بکس کی طرف سے کیاگیا۔ یہ پروگرام صدر اسلامی مرکز کی تقریر کے لیے کیا گیا تھا۔اُس کا موضوع تھا— قرآن کا پیغام:
The Message of the Quran
اِس پروگرام میں تعلیم یافتہ لوگ شریک ہوئے ۔ کچھ ہندو حضرات بھی وہاں موجود تھے۔ تقریباً ایک گھنٹے تقریر ہوئی۔ تقریر کے بعد سوال و جواب کا پروگرام ہوا۔ یہاں آنے والوں کو اسلامی دعوت کے مطبوعہ انگریزی بروشر دیے گیے۔ یہاں گُڈورڈبکس کی طرف سے اسلامی کتابوں کا ایک بُک اسٹال بھی لگایا گیا تھا۔ لوگوں نے یہاں سے کتابیں حاصل کیں۔
12 - 18 اکتوبر 2007کو صدر اسلامی مرکز کے نام ایک خط موصول ہوا ۔وہ خط یہاں نقل کیا جاتا ہے:
حضرت مولانا وحید الدین خاں صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ
الرسالہ جون 2007 کے شمارے میں شائع ایک مضمون ’’مسیحی ماڈل‘‘ کے خلاف اگست 2007کے مہینے میں یہاں سری نگر (کشمیر) کے بعض علما، واعظین اور ائمۂ مساجد کی طرف سے سخت ردّ عمل سامنے آرہا ہے اور اس سلسلے میں مقامی اخبارات میںایسے بیانات منظر عام پر آئے ہیں جن کا علم و دلیل اور زبان و ادب کی شائستگی سے کوئی تعلق نہیں۔ اِن بیانات میںکہیں بھی یہ بات نہیں ثابت کی گئی ہے کہ آپ نے کہاں غلطی کی اور آپ کس طرح (العیاذ باللہ) اہانتِ رسول کے مرتکب ٹھہرے۔ لہذا جب ان کے پاس آپ کا نقطہ نظر غلط ثابت کرنے کے لیے کوئی دلیل نہیں ہے تو ثابت ہوا کہ حق اُن لوگوں کا نہیں، آپ کا ساتھ دے رہا ہے۔ کیوں کہ آپ اپنی ہر بات کو قرآن و حدیث کے واضح دلائل کی روشنی میں پیش کرتے ہیں اور زیر نظر مضمون میں بھی آپ نے اسی اسلوب کو اختیار فرمایا ہے۔الرسالہ اکتوبر 2007 کا شمارہ نظر سے گزرا۔ اِس شمارے میں ’’دین اور منہاج‘‘ کے عنوان سے ایک فکر انگیز مضمون پڑھنے کو ملا۔ یہ مضمون علمی دلائل کے اعتبا رسے بہت ہی جامع اور مدلل ہے۔ میں نے اس مضمون کی ایک ایک سطر پر غور کیا اور اب میں اِس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ آپ سے اختلاف کرنا کسی عام واعظ وامام تو کُجا، بڑے سے بڑے عالمِ دین کے بھی بس کی بات نہیں ہے۔ اس بات کا کھلا ہوا ثبوت یہ ہے کہ آپ نے مولانا مودودی کے تصورِ دین پر جو جامع اور مدلل تنقید کی ہے، اس کا جواب نہ مولانا مودودی سے بن پایا اور نہ آج تک جماعت اسلامی کے علما میں سے کسی نے اس کا علمی جواب دینے کی جرأت کی ہے۔ سچائی یہ ہے کہ آپ کی یہ تحریریں آج بھی جواب کے لیے منتظر ہیں۔آپ بلا شبہہ علمی اورفکری اعتبار سے پورے عالمِ اسلام میںاپنی نوعیت کے واحد عالم ِ دین ہیں۔اگر چہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے علما کی کوئی کمی نہیں ہے، مگر آپ کے اندر جو گوں نا گوں علمی وفکری، ذہنی و قلمی صلاحیتیں ہیں اور عصری ودینی علوم پر جو گہری نظراور دست رس آپ کو حاصل ہے، وہ کسی دوسرے عالمِ دین کے یہاں نہیں ملتی ہے۔ اِس لحاظ سے آپ کا علمی و فکری قد بہت اونچا اور بلند ہے اور بلاشبہہ آپ جیسے مصلح، داعی اور مفکر صدیوں کے بعد ہی پیداہوتے ہیں۔ الرسالہ اکتوبر 2007 کے اِس تازہ مضمون (دین اور منہاج) کی اِس بات نے مجھے خاص طورپر زیادہ متاثر کیا ہے کہ آپ نے اِس مضمون میںاپنے مخالفین، جن پر اگر ’’بدترین مخالفین‘‘ کے الفاظ بھی استعمال کیے جائیں گے تو کم پڑ جائیں گے، ان کا کوئی تذکرہ نہیں کیا ، بلکہ نفسِ مسئلہ کی طرف اپنے فکر و نظر اور قلم و ذہن کو مرکوز رکھا ہے، جب کہ نئی دہلی سے شائع ہونے والا ایک ماہ نامہ خاص طورپر آپ ہی کی بے جا اور سطحی مخالفت میں شائع ہوتاہے اور جس میں کثرت سے ایسی تحریریں شائع ہوتی ہیں جن میںزیادہ تر آپ کی ذات کو ہدفِ ملامت بنایا جاتا ہے اور آپ کے خلاف ہر لکھی جانے والی تحریر، خواہ اس میں علم و دلیل کا فقدان ہی کیوں نہ ہو اور اسلوب تحریر کتنا ہی غیر اخلاقی وغیر شرعی کیوں نہ ہو، اس کو صرف اِس وجہ سے خوش آمدید کے ساتھ شائع کیا جاتا ہے کہ وہ آپ کے خلاف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جہاں ایک طرف، آپ کے مخالفین، الرسالہ مشن سے سخت خائف ہیں اور اس کو ناکام بنانے کے لیے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کررہے ہیں، وہاں دوسری طرف، اللہ تعالیٰ ’الرسالہ مشن‘ کے فروغ کے سلسلے میں غیب سے اسباب مہیا فرمارہا ہے اور وہ الرسالہ کے حلقۂ قارئین میں روز افزوں اضافہ کررہا ہے۔ اس سلسلے میں ایک تازہ اور دل چسپ مثال ملاحظہ کیجیے۔بریلوی مکتب فکر کا ایک ماہ نامہ ’’جامِ نور‘‘ دہلی سے شائع ہوتا ہے جس کے خصوصی شماروں میں آپ کے بھی کئی انٹرویو شائع ہوئے ہیں۔ حال ہی میں اس کا ایک خصوصی شمارہ ’’اجتہاد و تقلید‘‘ کے عنوان سے منظر عام پر آیا ہے اور اس شمارے میں بھی آپ کا ایک طویل انٹرویو شائع ہوا ہے۔اس کے آخر میں آپ نے اُس رسالے کے متعلق، اپنے تاثرات کا اس طرح تذکرہ فرمایا ہے: ’’ماہ نامہ جامِ نور میرے پاس آتا ہے، میں اس کو ایک اچھا رسالہ سمجھتا ہوں، میں یہی کہہ سکتاہوں کہ میری دعا ہے کہ ماہ نامہ جامِ نور ہمیشہ ترقی کرتا رہے اور مسلمانوں کے لیے زیادہ سے زیادہ نفع کا باعث بنے(ماہ نامہ جامِ نور، اپریل 2007 ، ص : 96) ۔ لیکن اِسی رسالے کے ایک اور شمارے میں ایک مستقل کالم (اظہارِ خیال) کے تحت، ایک قاری کا ایک جگہ آپ کے اور الرسالہ کے بارے میں تعصب و تنگ نظری سے بھر پور یہ ریمارک اِس طرح شائع ہوا ہے:’’میں آپ کو شہر گُل برگہ کی بات بتاؤں کہ ایک اسٹال پر’’الرسالہ‘‘ کثیر تعداد میں پہنچتا ہے اور صف بستہ منتظرین اس کو ہاتھوں ہاتھ اٹھا لے جاتے ہیں، حالاں کہ دس کی جگہ یہاں قارئین گیارہ روپیے دیتے ہیں، یہاں کی اکثر لائبریریوں میں جہاں کوئی رسالہ پہنچتا ہے ’’الرسالہ‘‘ ضرور پہنچتا ہے، جب کہ اہلِ سنت کے کسی بھی رسالے سے لائبریریاں خالی ہیں۔ لائبریریوں میں مستقل آکر پڑھنے والوں کا حال یہ ہے کہ وہ دیگر رسائل کو چھوڑ کر’’ الرسالہ‘‘ ہی ایک دوسرے سے لے کر پڑھنے کے منتظر رہتے ہیں… میں پُر امید ہو کر یہ کہوں گا کہ جولائی کے الرسالہ پر بھی تبصرہ لکھیے جو اسلامی تعلیمات کے مخالف سوچ اور فکر سے پُر ہے‘‘(جامِ نور، ستمبر 2007، ص: 28 ) یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ ایک طرف آپ نے اپنے اوپر دیے گئے اقتباس میں جامِ نور کی تعریف کی اور مسلمانوں کے لیے زیادہ سے زیادہ نفع کا باعث بننے کی دعا فرمائی ہے مگر دوسری طرف اس اقتباس میں خود آپ کے خلاف اور الرسالہ کے خلاف بے بنیاد طور پر رائے زنی کی گئی ہے۔ تاہم اس اقتباس سے اتنا ضرور معلوم ہوتاہے کہ جو مسلکی تعصب اور فرقہ بندی کے چنگل سے آزاد ہیں اور دل و دماغ کے اعتبار سے بیدار بھی ہیں، الرسالہ ایک بار پڑھنے سے وہ اُنھیں فطرت کی آواز اور اسلام کی روح معلوم ہوتا ہے اور وہ اس کی طرف پلٹ جاتے ہیں اور اس کی خریداری کے لیے صف بستہ کھڑے ہو کر انتظار کرتے ہیں ، یہ خوش آئند بات نہیں توکیا ہے۔ چوں کہ الرسالہ، اسلام کی دریافت ہے اور اس میں اسلام کی دعوت کو بے لوث اور حکیمانہ انداز میں پیش کیا جاتا ہے اور اس طرح کی دعوت جب تحریک اور مشن کی شکل اختیار کرلیتی ہے تو اس وقت اس دعوتِ حق کو روکنے کی طاقت کسی میں نہیں ہوتی ہے اور جو بھی دعوت الی اللہ کے راستے میں روڑے اٹکاتا اوررکاوٹیں کھڑی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ خود اس کا وجود اور اس کا نام ونشان مٹا دیتا ہے، جیسا کہ ارشادِ خداوندی ہے: یُریدُونَ لِیُطْفِؤا نُورَ اللہِ بِأَفوَاہِہِمْ وَاللہُ مُتِمُّ نُورِ ہٖ وَلَوکَرِہَ الْکافِرُونَ (الصّف: 8)اگرکوئی چاہے کہ سورج کو اپنی پھونکوں سے بجھادے تو یہ اس کی سراسر حماقت ہوگی۔ جس طرح سورج روشن رہے گااور روشنی دیتا رہے گا، اُسی طرح حق کی روشنی اپنا راستہ ڈھونڈ نکالے گی، خواہ اس کے مخالفین اسے بجھانے کے لیے کتنی بھی تدبیر اور ہتھکنڈے آزمائیں، مگر اللہ تعالیٰ کی غیبی مدد سے اس کی تکمیل ہوکر رہے گی۔ حق کی یہ روشنی دنیا کے کونے کونے اور گوشے گوشے کو روشن کردے گی۔ تاہم یہ نصیحت صرف اس آدمی کو فائدہ پہنچانے والی ہے جو حق کے معاملے میں انتہائی سنجیدہ ہو اور حق کی تڑپ رکھتا ہو، ورنہ اندھے مخالفین کے لیے ساری تفصیلیں اور ساری شرحیں مبہم ہیں۔ (غلام نبی کشافی، سری نگر، کشمیر )
13 - ایک خط: قابلِ احترام مولانا وحیدالدین خاں صاحب! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ آپ کا موقرجریدہ الرسالہ باقاعدگی سے مل رہا ہے جس کے لیے بے حد ممنون ہوں۔ نومبر 2007 کے تازہ شمارے میں ’’اسمائِ حسنیٰ اور اسمِ اعظم‘‘ کے موضوع پر آپ کا بصیرت افروز مضمون نہ صرف قابلِ تعریف اور فکر انگیزہے، بلکہ وہ اسمِ اعظم کے تعلق سے ہمیں ایک نئے زاویۂ فکر سے روشناس بھی کراتا ہے۔ آپ نے ٹھوس دلائل کے ذریعے سے اسمِ اعظم کی وضاحت جس طرح فرمائی ہے، اس کے نتیجے میں عوامی سطح پر پھیلے ہوئے شکوک اور مفروضات کا ازالہ ہوجانا چاہیے۔ بہر حال آپ نے یہ بڑا نیک کام انجام دیا ہے۔ مبارک باد قبول فرمائی (سعید رحمانی، ایڈیٹر اخبارِ اُڑیسہ،کٹک، 22 اکتوبر، 2007)۔
14 - ایک خط: حضرت مولانا وحید الدین خاں صاحب، السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ خدا آپ پر اور آپ کے تمام اہل خانہ پر کرم کا معاملہ فرمائے، آمین۔ نومبر 2007 کا الرسالہ زیر مطالعہ ہے۔ پریشان ہوں کہ بات کیا اور کہاں سے شروع کروں کیوں کہ مجھے اپنی کم علمی کا پورا احساس ہے۔ ایک سند یافتہ عالم کے سامنے بات پیش کرنا اور بات ہے لیکن جب سامنے معرفت کی سطح پر زندگی گزارنے والا اور اللہ کی طرف سے خیرِ کثیر (البقرۃ: 269 ) سے نوازا ہوا شخص ہو، تو قلم حرکت کرنے سے عاجز ہو جاتاہے۔ یوں آپ کی بیش تر تحریروں نے اکثر مجھ کو رُلایا ہے۔ تب بھی میں بہت رویا تھا جب آپ کی کتاب ’’الاسلام‘‘ کے عنوان ’’عبادت‘‘ (صفحہ 7) سے گزرا تھا۔ لیکن آج تو حد ہوگئی، کس جملے اور کون سے صفحے کی بات کروں۔ بے شک دنیا کے تمام الفاظ مل کر بھی اسمائِ حسنیٰ کی تعریف بیان نہیں کرسکتے، لیکن اس شمارے میں جیسے خدا نے لفظوں کو گویائی عطا کردی ہے۔یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اس شمارے نے بہت سی روحوں کو رُلایا ہوگا اور اسمِ اعظم کو شعوری سطح پر پانے کا احساس زندہ کیا ہوگا۔ سچ کہوں تو اس شمارے کو ’’اسم اعظم اور خیرِکثیر نمبر‘‘ کہنا زیادہ مناسب ہے۔ ایک خیرِ کثیر کے طالب کے لیے اِس خاص کتاب کا روزانہ مطالعہ معرفت کی سطح پر زندگی گزارنے کے لئے بے حد معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ دل چاہتا ہے کہ اس شمارے کی لاتعداد کاپیاں چھپواکر ایک ایک بندے تک پہنچا دوں (محمد وسیم اختر، بہادر گنج، بہار، 23 اکتوبر 2007 )۔
15 - 28 اکتوبر 2007کو بیروہ (کشمیر) میں حلقۂ الرسالہ کا ایک اجتماع ہوا۔ اِس میں بڑی تعداد میں تعلیم یافتہ حضرات شریک ہوئے۔ اِس موقع پر جناب غلام نبی کشافی نے ’’اسوۂ حسنہ اور مسیحی ماڈل‘‘ کے عنوان سے ایک مفصل مقالہ پیش کیا۔ اِس میں قرآن اور حدیث کے واضح دلائل کے ذریعے اِس سلسلے میں اٹھنے والے شبہات کا مدلل جواب دیا گیا۔ اِس میں بتایاگیا کہ ’دین‘ اور ’منہاج‘ کے معاملے میںالرسالہ کا نقطۂ نظر وہی ہے، جو تمام علمائِ اسلام کا نقطۂ نظر ہے۔ اِس سلسلے میں محدثین اور علمائِ سلف کی تحریروں کے کئی حوالے پیش کیے گئے۔ ایک بات یہ کہی گئی کہ سیرتِ رسول کے موضوع پر مطبوعاتِ الرسالہ کے تحت، ایک درجن سے زیادہ کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ ایسی حالت میں علمی طریقہ صرف یہ ہوگا کہ اِن مطبوعہ کتابوں کو سامنے رکھ کر اس معاملے میں کوئی رائے قائم کی جائے، نہ کہ صرف ایک بات کو لے کر اُس کے خلاف سطحی قسم کی بے معنی دھوم مچائی جائے۔
واپس اوپر جائیں

Saturday, 1 December 2007

Al Risala | December 2007 (الرسالہ،دسمبر)

2

-ہر حال میں خیر

3

- ذریعۂ سکون

4

- عورت معاونِ حیات

5

- اہلِ بیت

6

- سب سے بڑی نعمت

7

- ایک حدیث

8

- قو ّامیت یا باس ازم

9

- صنفی مساوات

10

- ایک شادی یا کئی شادی

11

- زوجین کے درمیان کامل مطابقت

12

- انٹلیکچول پارٹنر

13

- کنڈیشننگ کو توڑنا

14

- باہمی اعتماد

15

- بامقصد انسان

16

- مشن کے بغیر

17

- بے مقصد زندگی

18

- سادگی ایک اصولِ حیات

19

- جذباتیت بمقابلہ انانیت

20

- فارمولا آف تھرٹی سکینڈ

21

- آرٹ آف فیلیر مینج منٹ

22

- لائف مینج منٹ

23

- انتظار کی پالیسی

24

- گھر :بہتر انسان بنانے کا کارخانہ

26

- تعلیم اور خواتین

27

- صورت یا سیرت

28

- لَو میریج ناکام کیوں

29

- غصے پر کنٹرول کیجیے

30

- سختی یا عزم

31

- چھوٹی بات کو بڑی بات نہ بنائیے

32

- عدم مداخلت کی پالیسی

33

- ایک دانش مند خاتون

34

- میکے کے تصور میں جینا

35

- غیر فطری تمنّا

36

- میکے اور سُسرال کا فرق

37

- ایک مشاہدہ

38

- ماؤں کا غلط رول

39

- لاڈ پیار کا نقصان

40

- ماں باپ کا رول

41

- ایک واقعہ

42

- برابری میںنکاح


ہر حال میں خیر

شوہر اور بیوی کے درمیان بہتر تعلق کی تعلیم دیتے ہوئے قرآن میں ارشاد ہوا ہے: وعاشروہن بالمعروف فإن کرہتموہن فعسی أن تکرہوا شیئاً ویجعل اللہ فیہ خیراً کثیراً (النساء: 19 ) یعنی عورتوں کے ساتھ اچھی طرح گز ر بسر کرو۔ اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تم کو پسند نہ ہو مگر اللہ نے اُس میں تمھارے لیے بہت بڑی بھلائی رکھ دی ہو۔
یہ بات اپنی حقیقت کے اعتبار سے شوہر اور بیوی دونوں ہی کے لیے ہے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ حسنِ معاشرت یا بہتر ازدواجی زندگی کا انحصار اِس پر نہیں ہے کہ شوہر کو بالکل اپنی پسند کی بیوی مل جائے، یا بیوی کو بالکل اپنی پسند کے مطابق شوہر مل جائے۔
حقیقت یہ ہے کہ قانونِ فطرت کے مطابق، ایسا ہونا ممکن نہیں۔ کامیاب ازدواجی زندگی کا راز پسند کے خلاف زَوج(spouse) کے ساتھ موافقت (adjustment) کرنا ہے، ناپسندیدگی میں پسند کا پہلو تلاش کرلینا ہے۔
عورت اور مرد عام طورپر ایک مشترک مسئلے سے دوچار رہتے ہیں۔ ہر ایک یہ سمجھتا ہے کہ اُس کو جو ساتھی ملا ہے، یا اُس کو جو زندگی ملی ہے، وہ اس کے مطلوب سے کم ہے۔ اپنی حاصل شدہ زندگی سے غیر مطمئن ہو کر ہر آدمی ایک اور مفروضہ زندگی کی تلاش میں رہتا ہے۔ یہ تصور انتہائی حد تک غیرحقیقت پسندانہ ہے۔ کوئی عورت یا مرد جس مفروضہ زندگی کو اپنے ذہن میں لیے ہوئے ہے، وہ مفروضہ زندگی اگر بالفرض اس کو مل جائے تب بھی وہ بدستور غیر مطمئن ہی رہے گا۔
یاد رکھیے، خوش گوار زندگی خود آپ کے ذہن میں ہے۔ آپ کے ذہن سے باہر کسی خوش گوار زندگی کا کوئی وجود نہیں۔ سوچنے کا ہنر (art of thinking) سیکھیے، اور پھر ہر زندگی آپ کے لیے آپ کی پسند کی زندگی بن جائے گی۔ خوش گوار زندگی کی تعمیر آدمی اپنے آپ کرتا ہے۔ کوئی دوسرا نہیں جو آپ کو خوش گوار زندگی کا تحفہ اپنی طرف سے پیش کرے۔
واپس اوپر جائیں

ذریعہ ٔ سکون

قرآن کی سورہ نمبر تیس میں ارشاد ہوا ہے: خلق لکم من أنفسکم أزواجاً لتسکنوا إلیہا (الرّوم: 21 ) یعنی خدا نے تمھاری جنس سے تمھارے لیے جوڑے پیدا کیے، تاکہ تم اُن سے سکون حاصل کرو۔ اِس آیت میں سُکون سے مراد صرف معروف اِزدواجی سکون نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد زیادہ برتر سکون ہے۔ اِس کا مطلب ہے— زندگی کا رول ادا کرنے کے لیے ایک پُرسکون پارٹنر حاصل کرنا:
To find a peaceful partner for playing a greater role in life.
اِس دنیا میںکوئی بڑا کام صرف اجتماعی کوشش کے ذریعے ممکن ہے۔ اکیلا ایک آدمی کوئی بڑا کام نہیں کرسکتا۔ اِس اجتماع کی پہلی اور فطری صورت نکاح کے ذریعے ایک عورت اور ایک مرد کا باہم اکھٹا ہونا ہے۔ دو روحوں کا یہ اجتماع سب سے زیادہ کامیاب اجتماع ہے۔ یہ واحد اجتماع ہے جس میں طَرفین قلبی سکون اور کامل اعتماد کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھی بنتے ہیں۔
نکاح کے ذریعے ایک عورت اور ایک مرد کی یک جائی اِس دنیا میں میں بننے والی سب سے بڑی کمپنی ہے۔ طرفین کو اگر اس کا احساس ہو تو وہ اِس کو ایک عظیم نعمت سمجھیں اور دونوں مل کر اتنا بڑا کام کریں جو انسانوں کی کوئی دوسری کمپنی نہیں کرسکتی۔
اِس معاملے کی ایک مثال فرانس کے ایک جوڑے کی ہے۔ اُن کا نام پیرے کیوری (وفات: 1906 ) اور میری کیوری (وفات: 1934 ) تھا۔ اِن دونوں نے مل کر بہت اہم کام کیا۔ ماڈرن سائنس میں ان کا کام اتنا بڑا تھا کہ ان کو 1903 اور 1911 میں نوبل پرائز دیے گیے۔ یہی امکان ہر عورت اور ہر مرد کے لیے موجود ہے۔ اپنے اپنے میدان کے اعتبار سے ہر جوڑا یہی کام انجام دے سکتا ہے۔
فطرت نے ہر عورت اور ہر مرد کو اعلیٰ صلاحیت دی ہے۔ جو لوگ بھی جدوجہد کی مطلوب شرط کو پورا کریں، وہ اپنے اپنے دائرے میںاِس قسم کی اعلیٰ کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔بدقسمتی سے عورت کا برتر رول، شعوری طورپر، نہ مشرقی دنیا دریافت کرسکی اور نہ مغربی دنیا۔
واپس اوپر جائیں

عورت معاونِ حیات

قرآن کی سورہ نمبر دو میں عورت اور مرد کے تعلق کے بارے میں ایک آیت آئی ہے، اس کا ترجمہ یہ ہے: تمھاری عورتیں تمھاری کھیتیاں ہیں۔ پس اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو جاؤ، اور اپنے لیے آگے بھیجو، اور اللہ سے ڈرو، اور جان لو کہ تمھیں ضرور اس سے ملنا ہے۔ اور ایمان والوں کو خوش خبری دے دو:
And do good beforehand for yourselves (2:223)
اِس آیت میںاپنے لیے آگے بھیجو (قدّموا لأنفسکم) کا لفظ بنیادی لفظ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی مرکزی لفظ سے پوری آیت کا مفہوم سمجھ میں آتا ہے۔ آیت کا مطلب دوسرے لفظوں میں یہ ہے کہ تمھارا اصل نشانہ یہ ہونا چاہیے کہ تم وہ کام کرو جو مستقبل میں تمھارے لیے مفید بننے والا ہو (قدّموا ما ینفعکم غداً) یعنی آدمی موجودہ امتحان کی دنیا میں اپنے آپ کو اس طرح تیار کرے کہ وہ آگے آنے والی آخرت کی دنیا میں کامیاب زندگی حاصل کرسکے۔ یہ کسی انسان کا اصل مقصدِ حیات ہے۔ آیت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ اِسی مقصدِ حیات کی نسبت سے عورت کے معاملے کو سمجھو۔ عورت کو اللہ تعالیٰ نے تمھارے لیے ایک معاونِ حیات کی حیثیت سے پیدا کیا ہے، جس طرح کھیت کسی کسان کے لیے اس کے مقصد کی نسبت سے معاونِ حیات کا درجہ رکھتا ہے۔
جس زمانے میں یہ قرآنی آیت اتری، اُس زمانے میں مدینہ (اور بقیہ دنیا) میں یہ بحث چھڑی ہوئی تھی کہ عورت کا درجہ انسانی زندگی میں کیا ہے۔ اس معاملے میں لوگ اپنے سابق ذہنی نقشے کی بناپر صرف دو باتیں جانتے تھے— صنفی تسکین اور بقائِ نسل۔ قرآن میںبتایا گیا کہ اس قسم کے پہلوؤں سے زیادہ اہم پہلو یہ ہے کہ عورت تمھارے لیے اپنی زندگی کی تعمیر میں ایک معاون کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لیے تم کو چاہیے کہ تم اپنے اِس فطری معاون کا بھر پور استعمال کرو اور اس کو اپنی تکمیلِ حیات کا ذریعہ بناؤ۔ عورت کا اِس سے کم کوئی تصور عورت کا کم تر تصور ہے۔ نکاح کی صورت میں عورت اور مرد کی یک جائی اس لیے ہوتی ہے، تاکہ دونوں وسیع تر انسانیت کی تعمیر میں اپنا مشترک رول ادا کریں۔
واپس اوپر جائیں

اہلِ بیت

قرآن کی سورہ نمبر 33 میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اہلِ بیت کی نسبت سے یہ آیت آئی ہے: إنّما یرید اللہ لیذہب عنکم الرِّجس أہل البیت، ویطہّرکم تطہیراً (الأحزاب: 33 ) یعنی اللہ تو چاہتا ہے کہ تم اہلِ بیت سے آلودگی کو دور کرے اور تم کو پوری طرح پاک کردے۔اِس آیت میں بظاہر اہلِ بیتِ رسول سے خطاب کیا گیا ہے۔ اہل بیتِ رسول تمام اہلِ ایمان کے لیے نمونے کی حیثیت رکھتے ہیں، اِس لیے اِس آیت کا تعلق تمام اہلِ ایمان سے ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس آیت میں بالواسطہ طورپر مسلم معاشرے کے ہر گھر سے خطاب کیاگیا ہے۔ ہر مسلم خاندان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اُسی تعمیری کورس کو اختیار کرے جس کا حکم اہلِ بیتِ رسول کے لیے دیا گیا تھا۔
ہر گھر سماج کا ایک یونٹ ہوتا ہے۔ بہت سے گھروں سے مل کر ایک سماج بنتا ہے۔ اگر سماج کا ہر یونٹ درست ہوجائے تو پورا سماج درست ہوجائے گا، اور اگر سماج کے یونٹ بگڑ ے ر ہیں تو سماج بھی ایک بگڑا ہوا سماج بن جائے گا۔اِس اعتبار سے ہر مسلم خاندان کی وہی حیثیت ہے جو قرآن کے الفاظ میں ’’اہلِ بیت‘‘ کی تھی۔ ہر مسلم خاندان کو اپنے افراد کی تطہیر اور تزکیہ کا کام کرنا ہے۔ وہ اپنے افراد کے اندر سے برائی کو نکالے اور اُن کے اندر بھلائی کو فروغ دے۔ ہر گھر کے مَردوں اور عورتوں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ اپنے خاندان کو صالح خاندان بنائیں، تاکہ اُن کے مجموعے سے صالح معاشرہ وجود میںآسکے۔
اِس معاملے میں عورت اور مرد دونوں کی ذمے داری یکساں ہے۔ تعمیر کے اِس کام میں مرد کی حیثیت اگر ناظم کی ہے تو عورت کی حیثیت معاون کی۔ دونوں کے اوپر فرض ہے کہ وہ اپنی ذمے داری کو سمجھیں اور اپنے اپنے دائرے میںخاندان کی صحت مند تعمیر کا کام انجام دیں۔ یہ خدا کی طرف سے عائد کردہ ایک ذمے داری ہے۔ عورت اور مرد اگر اِس ذمے داری کو درست طورپر انجام دیں تو اُن کے لیے خدا کے یہاں بہت بڑا انعام ہے۔ اور اگر وہ اِس ذمے داری کو ادا کرنے میں کوتاہ ثابت ہوں تو وہ خدا کے یہاں پکڑے جائیں گے، اور خدا کی پکڑ بلا شبہہ نہایت سخت ہے۔
واپس اوپر جائیں

سب سے بڑی نعمت

ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خیر متاع الدنیا، المرأۃ الصّالحۃ (صحیح مسلم، کتاب الرضاع؛ نسائی، کتاب النکاح ) یعنی دنیا کی چیزوں میں سے سب سے اچھی چیز صالح عورت ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہر عورت جو پیدا ہوتی ہے، وہ اپنے فطری امکان (potential) کے اعتبار سے کسی مرد کے لیے سب سے اچھی متاعِ حیات ہے۔ لیکن اِس امکان کو واقعہ (actual) بنانا مرد کا کام ہے۔ جس طرح خام لوہا (ore) فطرت کا عطیہ ہوتا ہے، لیکن خام لوہے کو اسٹیل بنا نا، انسان کا اپنا کام ہے۔ یہی معاملہ عورت کا بھی ہے۔
مرد کی پہلی ذمے داری یہ ہے کہ وہ عورت کا قدر داں بنے۔ وہ عورت کے اندر چھپے ہوئے جوہر کو پہچانے۔ وہ عورت کے حسنِ باطن کو دریافت کرے۔ عورت کی شکل میں ہر مرد کو ایک اعلیٰ فطری امکان ملتا ہے۔ اب یہ خود مرد کے اوپر ہے کہ وہ اِس واقعے کو امکان بنائے، یا وہ اس کو ضائع کردے۔
اِس عمل کا آغاز یہاں سے ہوتا ہے کہ جو عورت کسی آدمی کو بیوی کے طورپر ملی ہے، وہ اس کو خدا کی طرف سے بھیجا ہوا عطیہ سمجھے۔ جب وہ اپنی بیوی کو خدا کا براہِ راست عطیہ سمجھے گا تو فطری طورپر وہ اس کے بارے میں سنجیدہ ہوجائے گا اور یہ یقین کرے گا کہ خدا کا انتخاب غلط نہیں ہوسکتا۔ خدا کا انتخاب جس طرح دوسرے تمام عالمی معاملات میں درست ہوتاہے، اسی طرح یہاں بھی وہ درست ہے۔ مرد کے اندر جب یہ ذہن بنے گا تو اس کے بعد وہ عمل اپنے آپ شروع ہوجائے گا جو عورت کے امکان کو واقعہ بنانے کے لیے ضروری ہے۔ اپنی بیوی کو خدا کا عطیہ سمجھنے کے بعد اس کے ساتھ معاملہ کرنے کو وہ اپنے لیے عبادت سمجھے گا۔ وہ ہرممکن قیمت ادا کرتے ہوئے یہ کوشش کرے گا کہ اس کی بیوی حقیقی معنوںمیں اس کے لیے دنیا کی سب سے اچھی متاعِ حیات بن جائے۔
ہر آدمی چاہتاہے کہ اس کو اچھی بیوی ملے۔لیکن اچھی بیوی کسی کو ریڈی میڈ سامان کی طرح نہیں ملتی۔ شوہر کو یہ کام خود کرنا پڑتا ہے۔ اِس عمل کی کامیابی کے لیے مرد کے اندر دو صفت کا ہونا ضروری ہے— سچی ہم دردی اور صبر و تحمل۔
واپس اوپر جائیں

ایک حدیث

اِزدواجی رشتے کے بارے میں ایک جامع نصیحت حدیثِ رسول میںآئی ہے۔ حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا یفرکُ مؤمنٌ مومنۃً، إن کرِہ منہا خُلقاً، رضی منہا اٰخر (صحیح مسلم، کتاب الرّضاع، باب الوصیۃ بالنساء) یعنی کوئی مومن مرد کسی مومن عورت سے بغض نہ رکھے۔ اگر عورت کی ایک خصلت اُس کو ناپسند ہو تو اُس کے اندر کوئی دوسری خصلت موجود ہوگی جو اس کو پسندآئے۔
اصل یہ ہے کہ کسی عورت یا مرد کے اندر ساری اچھی صفات پائی نہیں جاتیں۔ یہ فطرت کا نظام ہے کہ کسی کے اندر ایک صفت موجود ہوتی ہے تو اس کے اندر دوسری صفت موجود نہیں ہوتی۔ مثلاً عام طورپر دیکھا گیا ہے کہ ایک عورت یا مرد اگر ظاہری دل کَشی کے اعتبار سے زیادہ ہوں تو وہ داخلی خصوصیات کے اعتبار سے کم ہوں گے۔ اور اگر کسی میں داخلی خصوصیات زیادہ ہوں تو اس کے اندر خارجی صفات کم پائی جائیں گی۔
انسان کا یہ مزاج ہے کہ وہ کسی کے منفی پہلو کو زیادہ دیکھتا ہے، اُس کے مثبت پہلو اکثر اس کی نگاہ سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔ یہ ایک تباہ کُن مزاج ہے۔ اِسی مزاج کی وجہ سے رشتوں میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ اِس کے بجائے اگر ایسا کیا جائے کہ مثبت پہلو پر دھیان دیاجائے اور منفی پہلو کو نظر انداز کردیا جائے تو تعلقات خود بخود خوش گوار ہوجائیں گے۔ ایسا کرنے کی صورت میں ہر مرد کو اُس کی بیوی بہترین رفیقِ حیات دکھائی دے گی اور ہر عورت کو اُس کا شوہر بہترین رفیقِ زندگی نظر آئے گا۔
خدا نے کسی عورت یا مرد کو کم تر پیدا نہیں کیا۔حقیقت یہ ہے کہ ہر عورت اور ہر مرد اپنے آپ میں باعتبار تخلیق کامل ہوتے ہیں۔ یہ ہمارے اپنے فہم کا قصور ہے کہ ہم کسی کو کم اور کسی کو زیادہ سمجھ لیتے ہیں۔ عورت اور مرد اگر اِس حقیقت کو جان لیں تو ان کی زندگی شکر کی زندگی بن جائے، شکایت یا محرومی کا احساس ان کے اندر باقی نہ رہے اور پھر وہ زیادہ بہتر طورپر زندگی کی تعمیر کے قابل ہوجائیں۔
واپس اوپر جائیں

قو ّامیت یا باس ازم

قرآن کی سورہ نمبر چار میں ارشاد ہوا ہے کہ : الرّجال قوّامون علی النّساء (النّساء: 34) یعنی مرد عورتوں کے اوپر قوّام ہیں۔ اِس کا مطلب یہ نہیں کہ مرد عورتوں کے اوپر حاکم ہیں۔ حاکم کا لفظ اپنے ساتھ مخصوص روایات رکھتاہے۔ اِس لفظ سے یہ مفہوم سامنے آتا ہے کہ ایک حاکم ہے اور دوسرا محکوم، مگر قوّام کا یہ مطلب نہیں۔ قوّام کا مطلب صرف انتظام کار ہے، نہ کہ حاکم یا دوسرے سے برتر۔
موجودہ زمانے میں باس اور باس ازم(bossism) کا تصور ایک معروف تصور ہے۔ اِس کی مثال سے قوام کے معاملے کو سمجھا جاسکتا ہے۔ قوام کا مطلب صرف یہ ہے کہ مرد گھر کے اندر باس (boss) کی حیثیت رکھتا ہے، ٹھیک اُسی طرح جس طرح کسی ادارے یا کمپنی کا ایک باس ہوتا ہے۔ یہ باس کمپنی کے لیے ایک تنظیمی ضرورت ہوتا ہے، وہ کمپنی کاحاکم نہیں ہوتا۔ کہاجاتا ہے کہ — باس ہمیشہ درست ہوتا ہے (boss is always right) ۔ اس کا مطلب بھی یہ نہیں کہ باس دوسرے سے برتر ہے۔ یہ اصول صرف اِس لیے ہے کہ کسی تنظیم میں جب تک ایک شخص کو اتھارٹی نہ مانا جائے، تنظیم کامیابی کے ساتھ نہیں چل سکتی۔
اِسی طرح گھر بھی ایک ادارہ ہے۔ اِس ادارے کو کامیابی کے ساتھ چلانے کے لیے ایک تنظیمی اتھارٹی (management authority) ضروری ہے۔ قرآن میں اِسی اعتبار سے مرد کو قوّام کہاگیا ہے۔ کسی گھر کا قوّام اُس کے مساوی ممبران کے درمیان ایک ناظم کا درجہ رکھتا ہے۔ اِس اصول کو نہ ماننا صرف اِس قیمت پر ہوگا کہ ہر گھر انارکی کا شکار ہو کر رہ جائے۔
باس ازم ایک ذمے داری ہے، وہ ایک کے اوپر دوسرے کی برتری کا ٹائٹل نہیں۔ اِسی طرح قوامیت بھی ایک ذمے داری ہے، وہ ایک کے اوپر دوسرے کی برتری کے ہم معنیٰ نہیں۔ یہ ایک انتظامی ضرورت کامعاملہ ہے، نہ کہ کسی قسم کی فضیلت کا معاملہ۔ عملی ضرورت اور نظریاتی شرف کے فرق کو اگر پوری طرح سمجھ لیا جائے تو قوام اور قوامیت کے معاملے کو سمجھنا آسان ہوجائے گا۔
واپس اوپر جائیں

ِصنفی مساوات

دہلی کے ایک سیمنار میںمیری ملاقات ایک رٹائرڈ جج سے ہوئی۔ انھوںنے کہا کہ— مولاناصاحب، آپ جانتے ہیں کہ اسلام کا سب سے زیادہ کم زور پوائنٹ کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ اسلام صنفی مساوات (gender equality) کو نہیں مانتا۔ آج کے انسان کے لیے اِس قسم کا تصور کبھی قابلِ قبول نہیں ہوسکتا۔ آج کا زمانہ صنفی مساوات کا زمانہ ہے،جب کہ اسلام صنفی نامساوات (gender inequality) کی بات کرتا ہے۔
موجودہ زمانے میں یہ بات بہت زیادہ کہی جاتی ہے، لیکن اِس کے پیچھے کوئی گہری سوچ نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جس چیز کو صنفی نامساوات کہاجاتا ہے، وہ صنفی فرق کا معاملہ ہے نہ کہ صنفی نامساوات کا معاملہ۔ ہماری دنیا پوری کی پوری اِسی فرق کے اصول پر قائم ہے۔ اور عورت اور مرد کا معاملہ بلاشبہہ اِس عام اصول سے مُستثنیٰ نہیں ہوسکتا۔
فرق کوئی منفی (negative) چیز نہیں، فرق مکمل طورپر ایک مثبت (positive) چیز ہے۔ یہ فرق ایسا ہی ہے جیسے ایک گاڑی کے دو پہیے۔ ایک پہیہ دوسرے پہیے کے مقابلے میں غیر مساوی نہیں۔ ایک پہیہ دوسرے پہیے کے لیے تکمیلی حصہ (complementary part) کی حیثیت رکھتاہے۔ یہی معاملہ عورت اور مرد کا ہے۔ عورت اور مرد کے درمیان فطرت نے حیاتیاتی اور نفسیاتی فرق رکھا ہے۔ یہ فرق اِسی لیے ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے لیے بہتر رفیقِ حیات بنیں، دونوں ایک دوسرے کے لیے تکمیلی حصے کا رول ادا کریں۔
صنفی مساوات کا تصور ایک غیر فطری تصور ہے۔ وہ زَوجین کے درمیان غیر ضروری نزاع پیدا کرنے والا ہے۔ اِس کے مقابلے میں صنفی فرق کا تصور ایک فطری تصور ہے۔ وہ زوجین کے درمیان تعاون کا ذہن پیدا کرتاہے۔ وہ زوجین کو اِس قابل بناتا ہے کہ دونوں دو پہیوں کی طرح باہم مل کر زندگی کی گاڑی کامیابی کے ساتھ چلاتے رہیں۔
واپس اوپر جائیں

ایک شادی یا کئی شادی

قرآن کی سورہ نمبر چار میں یہ اجازت دی گئی ہے کہ ایک آدمی چار خواتین سے نکاح کرسکتا ہے (النساء: 3 ) اِس کا مطلب یہ نہیں کہ چار نکاح کرنے کی کھُلی اجازت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک استثنائی حکم ہے، نہ کہ عمومی حکم۔ عام حکم تو یہی ہے کہ ایک آدمی صرف ایک نکاح کرے، لیکن جب کوئی حقیقی ضرورت پیش آجائے، اُس وقت ایک آدمی ایک سے زیادہ نکاح کرسکتا ہے، یعنی دو یا تین یا چار۔
یہ ضرورت اصلاً صرف ایک وجہ سے پیش آتی ہے، اور وہ یہ ہے کہ کسی حادثے کی بنا پر معاشرے میں عورتوں کی تعداد زیادہ (surplus) ہوجائے اور مردوں کی تعداد عورتوں کے مقابلے میں کم ہوجائے۔ ایسی حالت میں ایک نکاح کے اصول کو اختیار کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ سماج میںبہت سی عورتیں شوہر کے بغیر رہ جائیں۔
کسی سماج میں عورتیں جب مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہوجائیں تو یہ ایک نازک موقع ہوتا ہے۔ اُس وقت انتخاب (choice) ایک نکاح اور کئی نکاح کے درمیان نہیں ہوتا، بلکہ انتخاب ایک نکاح اور صنفی انارکی کے درمیان ہوجاتا ہے۔ ایسی حالت میں معاشرے کو صنفی انارکی سے بچانے کے لیے اس کے سوا کوئی اور صورت نہیں ہوتی کہ تعدّدِ اَزواج کے اصول کو اختیار کرلیاجائے اور ایک مرد کو کئی نکاح کی اجازت دے دی جائے۔
حقیقت یہ ہے کہ نکاح کا فطری طریقہ یہی ہے کہ ایک عورت اور ایک مرد۔ عورت کے اندر فطری طورپر سوکن کے خلاف منفی جذبات ہوتے ہیں۔ یہی واقعہ اِس بات کے ثبوت کے لیے کافی ہے کہ یک زوجیت(monogamy) کا طریقہ ہی فطری طریقہ ہے۔ اور تعددِ زوجیت (polygamy) کا طریقہ ایک استثنائی اجازت ہے، جو قانونِ ضرورت (law of necessity) کے تحت روا رکھا گیاہے۔ اِس قسم کا استثنائی قانون زندگی کے ہر معاملے میں ہوتاہے، مگر استثنائی قانون صرف ایک استثنائی قانون ہے، اس کو عمومی قانون کا درجہ نہیں دیاجاسکتا۔
واپس اوپر جائیں

زوجین کے درمیان کامل مطابقت

ایک عورت اور ایک مرد جب نکاح کے بعد ایک دوسرے کے ساتھی بنتے ہیں تو یہ اجتماع ساری کائنات کاسب سے زیادہ انوکھاواقعہ ہوتا ہے۔وسیع کائنات میں اَن گنت چیزیں ہیں۔ یہاں کی اکثر چیزیں جوڑے (pair) کی صورت میں ہیں، مگر کسی بھی دو چیز کے درمیان وہ کامل مطابقت(complete compatibility) نہیں جو عورت اور مرد کے درمیان پائی جاتی ہے۔ جب ایک عورت اور ایک مرد جیون ساتھی بن کر ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتاہے کہ دونوں شعوری منصوبے کے تحت ایک دوسرے کے لیے بنائے گیے تھے۔
زوجین کے درمیان یہ شعور اگر زندہ ہو تو دونوں ایک دوسرے کو پاکر شکر کے جذبات میں سرشار ہوجائیں۔ دونوں اہتزاز(thrill) کے درجے میں ایک دوسرے کو اپنے لیے نعمت سمجھیں۔ یہ اہتزاز اتنا زیادہ طاقت ور ہو جو کبھی اُن سے جُدا نہ ہو۔ دونوں ایک ساتھ اِس طرح رہیں جیسے کہ دونوں کو ان کی سب سے زیادہ محبوب چیز مل گئی ہو۔ دونوں آخری حد تک مثبت احساس میں جینے لگیں۔
دنیا میں اگر صرف عورتیں ہوں اور کوئی مرد وہاں موجود نہ ہو۔ اِسی طرح اگر ایساہو کہ صرف مرد ہوں اورکوئی عورت موجود نہ ہو۔ ایک ایسی دنیا میں بظاہر زندگی ہوگی، مگر وہ خوشیوں سے خالی ہوگی۔ ایسی دنیا میں ہر طرف ایک ایسی کمی کا احساس چھایا رہے گا جو کبھی اور کسی حال میں ختم نہ ہوگا۔ صرف مردوں کی دنیا بھی ایک بے معنی دنیا ہے، اور صرف عورتوں کی دنیا بھی ایک بے معنیٰ دنیا۔ موجودہ دنیا اِسی لیے ایک بامعنیٰ دنیا ہے کہ یہاںعورت اور مرد دونوں موجود ہیں۔
عورت اور مرد اگر اِس حقیقت پر غور کریں تو اُنھیں اُس سے بھی زیادہ خوشی حاصل ہو جو کسی سائنس داں کو ایک نئی چیز کی دریافت سے حاصل ہوتی ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف شکایت کی بات اُن کو آخری حد تک بے معنیٰ دکھائی دینے لگے۔ حقیقت یہ ہے کہ عورت اور مرد دونوں تخلیق کا شاہ کار ہیں۔ نکاح کا مطلب دو تخلیقی شاہ کاروں کی یک جائی ہے۔ اِس سے بڑا واقعہ پوری معلوم کائنات میں کوئی دوسرا نہیں۔
واپس اوپر جائیں

انٹلیکچول پارٹنر

انسان جب پیدا ہوتا ہے تو وہ خام لوہا(ore) کی مانند ہوتا ہے۔ یہ فطرت کی طرف سے پیدا شدہ انسان ہے۔ اِس کے بعد کا سارا کام انسان کو خود کرنا ہے۔ فطرت، خام لوہا پیدا کرتی ہے۔ اس کے بعد اُس کو اسٹیل کی صورت میں کنورٹ کرنا یا اس کو مشین بنانا، انسان کا اپناکام ہے۔
خود سازی کے اِس فطری عمل میں سب سے زیادہ اہمیت ذہنی ترقی (intellectual development) کی ہوتی ہے۔ اپنی شخصیت بنانے کے سلسلے میں سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ ہر آدمی اپنے ذہن کو ارتقا یافتہ ذہن بنائے۔ وہ اپنے شعور کو بیدار کرکے اپنے ذہن کی تکمیل کرے۔
اِس عمل میں بنیادی طورپر تین چیزوں کی ضرورت ہے— مطالعہ، مشاہدہ، اور دوسرے انسانوں سے فکری تبادلہ(intellectual exchange)۔ مطالعے کا سب سے بڑا ذریعہ کتابیں ہیں۔ اِسی طرح مشاہدے کا سب سے بڑا ذریعہ عالم فطرت ہے۔افکار وخیال کے تبادلے کے سلسلے میں ضروری ہے کہ آدمی کے اندر دوسروں سے سیکھنے کا مزاج ہو۔ وہ ہر ایک کے ساتھ سیکھنے کے عمل(learning process) کو مسلسل جاری رکھے۔
سیکھنے کے عمل کے سلسلے میں ہر مرد کے لیے اس کی بیوی اور ہر بیوی کے لیے اس کا شوہر قریبی انٹلیکچول پارٹنر (intellectual partner) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اِزدواجی زندگی اِس اعتبار سے ایک عظیم موقع کی حیثیت رکھتی ہے۔ ازدواجی زندگی کی صورت میں ہر عورت اور مرد اپنے لیے ایک انٹلیکچول پارٹنر پالیتے ہیں جس کے ذریعے وہ اپنے ذہنی ارتقا کے عمل کو بلا انقطاع جاری رکھیں۔
ذہنی ارتقا (intellectual development) ہر عورت اور مرد کی ایک لازمی ضرورت ہے۔ ازدواجی زندگی کی صورت میں دونوں ایسے انٹلیکچول پارٹنر کو پالیتے ہیں جوہر وقت قابلِ حصول ہو۔ ذہنی ترقی کے اِس عمل کو کامیابی کے ساتھ چلانے کی شرط صرف ایک ہے، وہ یہ کہ دونوں ذہنی ترقی کی اہمیت کو سمجھیں اور وہ اس کو اوّلین ترجیح کی حیثیت دے کر اپنی روز مرہ کی زندگی میں شامل کرلیں۔
واپس اوپر جائیں

کنڈیشننگ کو توڑنا

شادی کے بعد جب ایک عورت اور ایک مرد باہم اکھٹا ہوتے ہیں تو یہ کوئی سادہ بات نہیں ہوتی، یہ دو مختلف شخصیتوں کا ایک ساتھ جمع ہونا ہے۔ اِن میں سے ہر ایک دوسرے سے الگ ہوتا ہے۔ ایک لفظ میں، عورت مِز کنڈیشنڈ ہوتی ہے اور مرد مسٹر کنڈیشنڈ۔
یہ ایک فطری حقیقت ہے کہ کوئی عورت یا مرد جب پیدا ہوتے ہیں تو اپنے اپنے ماحول کے لحاظ سے دونوں کی کنڈیشننگ شروع ہوجاتی ہے۔ گھر کا ماحول اور گھر کے باہر کا ماحول دونوں کے اثر سے ہر ایک دھیرے دھیرے ایک متأثر ذہن (conditioned mind) بن جاتا ہے۔ ہر ایک کے اوپر اُس کا یہ متاثر ذہن اتنا زیادہ چھا جاتا ہے کہ ہر ایک اپنے خول میں جینے لگتا ہے۔ ہر ایک اپنے کو درست سمجھنے لگتا ہے اور دوسرے کو نادرست۔ اِسی تاثر پذیری کو کنڈیشننگ کہاجاتا ہے۔ کنڈیشننگ کا یہ معاملہ ہر ایک کے ساتھ بلا استثنا پیش آتا ہے۔
ایسی حالت میں جب ایک عورت اور ایک مرد باہم اکھٹا ہوتے ہیں تو دونوں ایک دوسرے کے لیے مسئلہ بن جاتے ہیں۔ عورت اپنی کنڈیشننگ کی وجہ سے ایک چیز کو ہرے رنگ میںدیکھ رہی ہوتی ہے، اور مرد کو وہی چیز اپنی کنڈیشننگ کی وجہ سے نیلے رنگ میں دکھائی دیتی ہے۔ اِس فرق کی بنا پر دونوں میں بار بار اختلافات پیدا ہوتے ہیں جو بڑھ کر شدت اختیار کرلیتے ہیں۔
اِس مسئلے کا واحد حل ڈی کنڈیشننگ ہے، اور ڈی کنڈیشننگ کا واحد طریقہ یہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ کھلے ذہن سے ڈسکشن کریں۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ برابر انٹلیکچول ایکسچینج کریں۔ اِسی کے ساتھ دونوں کے اندر اعتراف کا مزاج لازمی طورپر ضروری ہے۔ یعنی حقیقت کھل جانے کے بعد فوراً اس کو مان لینا اور فوراً یہ کہہ دینا کہ —اِس معاملے میں میں غلطی پر تھا:
I was wrong.
اپنی غلطی کو کھلے طورپر مان لینا، یہی اپنی ڈی کنڈیشننگ کا واحد کامیاب طریقہ ہے۔
واپس اوپر جائیں

باہمی اعتماد

دو آدمی جب مل کر کام کریں تو کامیاب کارکردگی کے لیے ضروری ہے کہ دونوں کے درمیان کامل اعتماد ہو۔دونوں ایک دوسرے کے اوپر ہر اعتبار سے بھروسہ رکھتے ہوں۔ دونوں کے درمیان اجنبیت کی کوئی دیوار باقی نہ رہے۔ باہمی اعتماد کا یہ اصول شوہر اور بیوی کے درمیان انتہائی حد تک ضروری ہے۔ اِس کے بغیر کوئی گھر اچھا گھر نہیں بن سکتا۔
شوہر اور بیوی کے درمیان کیوں ایسا ہوتا ہے کہ مطلوب قسم کا باہمی اعتماد پیدا نہیں ہوتا۔ دونوں کے درمیان اجنبیت کی ایک غیر محسوس دیوار مسلسل طورپر باقی رہتی ہے۔ اِس نا مطلوب صورتِ حال کی ذمے داری عورت اور مرد دونوں کے اوپر یکساں طورپر عائد ہوتی ہے۔ عورت کی غلطی یہ ہے کہ وہ نکاح کے بعد اپنے ذہن کو نیے حالات کے مطابق نہیں بنا پاتی۔ وہ بدستور اپنے میکے کو اپنا گھر سمجھتی رہتی ہے۔ اِس کا اظہار بار بار اس کے رویے سے ہوتا رہتاہے۔ مثلاً جب وہ اپنے میکے کا ذکر کرے گی تو وہ اِس طرح کہے گی کہ میرے گھر میںایسا تھا، یا میرے گھرمیں ایسا ہوتا ہے۔ یہ چیز فطری طورپر مرد کو ناگوار ہوتی ہے۔ وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر محسوس کرتا ہے کہ اُس کے اور اس کی بیوی کے درمیان ایک قسم کی غیریت موجودہے، جو کسی طرح ختم نہیں ہوتی۔
دوسری طرف مرد کے اندر عام طورپر ایک کم زوری ہوتی ہے، جو مطلوب نوعیت کے باہمی اعتماد میںمسلسل طورپر رکاوٹ بنی رہتی ہے۔ وہ یہ کہ ہر مرد کے ذہن میں ایک مفروضہ عورت کا تصور بساہوا ہوتاہے،یہ مفروضہ مرد کے ذہن میں مسلسل طورپر بسا ہوا ہوتا ہے۔ اِس بنا پر وہ اپنی موجود بیوی کے ساتھ مطلوب قسم کا باہمی اعتماد قائم نہیں کر پاتا ۔شوہر اور بیوی کے درمیان باہمی اعتماد قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ دونوں اپنی اصلاح کریں۔ دونوں اپنے آپ کو مذکورہ قسم کے واہمہ (obsession) سے باہر نکالیں۔ دونوں یہ کریں کہ وہ خیالی دنیا میں جینے کے بجائے عملی حالات کے مطابق، اپنا ذہن بنائیں۔ جب وہ ایسا کریں گے تو دونوں کے درمیان اپنے آپ باہمی اعتماد قائم ہوجائے گا۔
واپس اوپر جائیں

بامقصد انسان

ایک تعلیم یافتہ مسلمان ہیں۔ وہ دعوت کا کام کافی سرگرمی کے ساتھ کررہے ہیں۔انھوںنے اپنی ایک لڑکی کی شادی ایک نوجوان سے کی، جو کہ ایک مغربی ملک میں رہتے ہیں۔ شادی کے بعد لڑکی اپنے شوہر کے پاس چلی گئی۔ وہاں وہ چند سال رہی۔ اُس کے یہاں ایک بچہ بھی پیدا ہوا، مگر شوہر اور بیوی کے درمیان اختلاف ہوگیا۔ آخر کار لڑکی غصہ ہو کر اپنے باپ کے پاس انڈیا آگئی۔ لڑکی کی زبان سے شکایتوں کو سُن کر اس کے باپ نے یقین کرلیا کہ ان کی لڑکی بے خطا ہے اور سارا قصور اس کے شوہر کا ہے۔
مذکورہ مسلمان سے میری ملاقات ہوئی۔ حالات سننے کے بعد میں نے کہا کہ اِس معاملے میں آپ باپ کے دل سے بول رہے ہیں، آپ داعی کے دل سے نہیں بول رہے ہیں۔ انھوںنے کہاکہ میں نے ٹیلی فون پر اپنے داماد کو سمجھانے کی کوشش کی، مگر وہ بہت سخت(adamant) ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ— میں نہیں بدلوں گا، آپ کی بیٹی کو میرے ساتھ ایڈجسٹ کرنا چاہیے۔
میں نے کہا کہ اِس قسم کے اختلاف ہر شادی شدہ زندگی میں پیش آتے ہیں۔ میں نے کہا کہ اختلاف کی دو قسمیں ہیں۔ ایک یہ کہ شوہر کے اندر بُری عادتیں ہوں۔ مثلاً شراب پینا، وغیرہ۔ دوسری قسم کا اختلاف وہ ہے جو مزاجی (temperamental) نوعیت کا ہوتا ہے۔ میںنے کہا کہ میرے اندازے کے مطابق، آپ کے داماد میں پہلی قسم کی خرابی نہیں ہے۔ اِس لیے آپ کو اُسے زیادہ سنجیدگی کے ساتھ نہیں لینا چاہیے۔ موجودہ صورت میں آپ کو چاہیے کہ آپ اپنی بیٹی کو سمجھائیں کہ تم اپنے شوہر سے ایڈجسٹ کرو۔ تم گھر کی زندگی میں اپنے شوہر کو اپنا باس(boss) بنا لو۔ یہی واحد قابلِ عمل صورت ہے۔ اِس کے سوا کوئی اور صورت ممکن نہیں۔میں نے کہا کہ آپ داعی ہیں۔ داعی ایک بامقصد انسان ہوتا ہے۔ اور بامقصد انسان اِس کا تحمل نہیں کرسکتا کہ وہ اپنے مقصد کے سوا کسی اور چیز کو اپنا مسئلہ بنائے۔ آپ اپنی بیٹی کو سمجھا بُجھا کر اس کے شوہر کے پاس بھیج دیجئے، ورنہ یہ بیٹی آپ کی مقصدی زندگی کا خاتمہ کردے گی۔ اِس کے بعد آپ صرف باپ کی حیثیت سے زندہ رہیں گے، نہ کہ داعی کی حیثیت سے۔
واپس اوپر جائیں

مشن کے بغیر

ایک بار مجھے ایک تعلیم یافتہ مسلمان کے گھر پر ٹھہرنے کا موقع ملا۔ یہ مسلمان دعوہ مشن میں سرگرمی کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔ مجھے معلوم ہوا کہ ان کی ایک بیٹی ہیں۔ ان کی شادی ہوئی مگر وہ سسرال میں نباہ نہ کرسکیں۔ وہ شوہر کو چھوڑ کر اپنے ماں باپ کے پاس آگئیں۔ میں نے لڑکی سے کہا کہ آپ کو ایک فیصلہ لینا پڑے گا۔ اِس طرح آپ زندگی نہیں گزار سکتیں۔ انسان کو جینے کے لیے ہمیشہ ایک مشن درکار ہوتا ہے۔ آپ کے لیے صرف دو میں سے ایک کا آپشن ہے۔ موجودہ صورت میں آپ تیسرا آپشن لیے ہوئے ہیں، اور تیسرا آپشن یقینی طورپر کوئی ممکن آپشن نہیں۔
انسان مشن کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ایک عورت جب شادی شدہ زندگی اختیار کرتی ہے تو دھیرے دھیرے وہ اس کے لیے ایک مشن بن جاتا ہے۔ گھر سنبھالنااور بچوں کی تعلیم وتربیت، وغیرہ۔ اس دنیا میں وہ اپنی ایک مستقل پوزیشن کی مالک ہوتی ہے۔ یہاں اس کی اپنی بنائی ہوئی ایک ’’اسٹیٹ‘‘ ہوتی ہے۔ اور اس اسٹیٹ کو چلانا اس کا تاعمر مشن بن جاتا ہے۔
میںنے کہا کہ آپ یاتو اپنے شوہر کے پاس واپس جائیں اور وہاں اپنے لیے اس طرح کی دنیا بنائیں۔ آپ کے لیے دوسرا آپشن یہ ہے کہ آپ اپنے والد کے ساتھ دعوہ مشن کو اپنی زندگی کا مشن بنائیں۔ یہ بھی آپ کے لیے ایک قابلِ عمل آپشن ہے۔ لیکن اس کے لیے اپنے آپ کو از سرنو تیار کرنا پڑے گا۔ آپ اپنے مطالعہ کو بڑھائیں، اپنے لائف اسٹائل کو بدلیں،اپنی زندگی کی ازسرِ نومنصوبہ بندی کریں۔ آپ اپنی ترجیحات پر نظر ثانی کریں اور ان کو دوبارہ نئے ڈھنگ سے قائم کریں۔
اگر آپ ایسا کریں تو آپ کو ایک مکمل زندگی حاصل ہوجائے گی۔ شوہر کے ساتھ اگر آپ کی ایک فیملی اسٹیٹ ہوتی تو اپنے والد کے ساتھ آپ کی ایک دعوہ اسٹیٹ بن جائے گی۔ میں نے کہا کہ اس وقت آپ جو کچھ کررہی ہیں وہ محض جذبات کی بنیاد پر کررہی ہیں۔آپ جذبات کے ساتھ بہت دیر تک نہیں رہ سکتیں۔ اس طرح آپ بہت جلد مایوسی کا شکار ہو جائیں گی اور کسی انسان کے لیے مایوسی سے زیادہ بری کوئی چیز نہیں۔
واپس اوپر جائیں

بے مقصد زندگی

ایک سفر میں میری ملاقات ایک تعلیم یافتہ مسلمان سے ہوئی۔ وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ رہ رہے تھے۔ ان کا مکان کافی بڑا تھا۔ لیکن اس میں دو کے سوا کوئی اور فرد موجود نہ تھا۔ بظاہر سجے ہوئے مکان کے اندر دو بالکل سادہ انسان رہ رہے تھے۔گفتگو کے دوران معلوم ہوا کہ ان کے یہاں ایک بیٹی اور ایک بیٹا پیداہوا۔ دونوں کو انھوں نے اچھی تعلیم دلائی، مگر تعلیم کی تکمیل کے بعد دونوں باہر چلے گیے۔ اب دونوں باہر کے ایک ملک میں رہ رہے ہیں اور غالباً وہاں کے شہری بن گئے ہیں۔ میں نے خاتون سے پوچھا کہ کیا آپ کو بچوں کی یاد آتی ہے۔ انھوںنے کہا کہ ہم یہ سوچ کر خوش ہوجاتے ہیں کہ ہمارے بچے جہاں ہیں، وہاں وہ خوش ہیں۔
اِس طرح کے بہت سے جوڑے ہیں۔ انھوںنے بڑے شوق کے ساتھ اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلائی، لیکن جب بچے تعلیم یافتہ ہوگئے تو وہ باہر چلے گیے۔ اب یہ لوگ اپنے شان دار گھرو ںمیں بے شان زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے پاس گزرے ہوئے دنوں کی یادوں کے سوا اور کچھ نہیں۔ یہ کہانی اکثر ان لوگوں کے ساتھ پیش آرہی ہے جو پیسے کے اعتبار سے خوش حال سمجھے جاتے ہیں۔ ان لوگوں نے پیسہ کما کر بظاہر اپنے لیے ایک کامیاب دنیا بنائی، لیکن جلد ہی ان کی امیدوں کی دنیا اُجڑ گئی۔اس کا سبب یہ ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی کا کوئی مستقل مقصد نہیں بنایا تھا۔ ان کا واحد مقصد بچوں کو خوش کرنا تھا۔ بعد کو جب بچوں نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا تو ان کے سامنے زندگی کا کوئی نشانہ باقی نہ رہا۔
مقصد وہ ہے جس کا تعلق انسان کی اپنی ذات سے ہو، کسی کے رہنے یا نہ رہنے سے اس میں فرق نہ آتا ہو۔ ایک عورت اور ایک مرد نکاح کے رشتے میں بندھ کر اِس قابل بنتے ہیں کہ وہ خود اپنی ایک دنیا تعمیر کریں، مگر غیر حقیقی محبت کے نتیجے میں وہ اپنے بچوں کو اپنی امیدوں کا مرکز بنالیتے ہیں۔ بچوں کی تعلیم وتربیت والدین کی ذمے داری ہے، نہ کہ ان کی زندگی کا مقصد۔ والدین اگر اِس فرق کو سمجھ لیں تو وہ اس کے مطابق، اپنی زندگی کی منصوبہ بندی کریں گے اور پھر وہ کبھی افسردگی اور مایوسی کا شکار نہ ہوں گے۔
واپس اوپر جائیں

سادگی ایک اصولِ حیات

میرے تجربے کے مطابق، تقریباً تمام والدین کا یہ حال ہے کہ وہ سادگی کو ایک اصولِ حیات کے طورپر نہیں جانتے۔ کسی معاملے میں بطور مجبوری وہ سادگی کا طریقہ اختیار کرسکتے ہیں، لیکن اپنے آزادانہ اختیار کے تحت وہ سادگی کا طریقہ اختیار نہیں کرتے۔ والدین کا یہ مزاج ان کے بچوں تک پہنچتا ہے۔ اُن کے بچے بھی سادگی کو اصولِ حیات کے طور پر دریافت نہیں کرپاتے۔ اور پھر اپنی پوری زندگی میں وہ اِس کی بھاری قیمت ادا کرتے رہتے ہیں۔
سادگی کیا ہے۔ سادگی یہ ہے کہ آدمی یہ جانے کہ اس کی زندگی کا مقصد کیا ہے۔ اِس مقصد کو وہ اپنی زندگی میں اوّلین اہمیت دے۔ اِس کے سوا ہر چیز کو وہ ثانوی(secondary) درجے میں رکھے۔
زندگی میںہر ایک کے لیے سب سے زیادہ اہمیت یہ ہے کہ وہ اپنے اندر اعلیٰ شخصیت کی تعمیر کرے۔ خالق کی طرف سے ہر عورت اور مرد کو اعلیٰ امکانات(potentials) عطا کیے جاتے ہیں، لیکن اِس امکان کو واقعہ بنانا ہر عورت اور مرد کا اپنا کام ہے۔ امکانات دینا خالق کا کام ہے، لیکن امکانات کو واقعہ بنانا ہمیشہ آدمی کا اپنا کام ہوتاہے۔
اِس معاملے میں پہلی چیز یہ ہے کہ ہر عورت اور ہر مرد اپنی امکانی صلاحیتوں کو دریافت کرے۔ اس کے بعد ہر ایک کو یہ کرنا ہے کہ وہ مقصدی بنیادوں پر اپنی زندگی کی منصوبہ بندی کرے۔ وہ مطالعے اور تجربے کے ذریعے اپنے ذہن کی تشکیل کرے۔ وہ اُس ہنر کو جانے جس کو ٹائم مینج منٹ (time management) کہا جاتا ہے۔ وہ اپنے تمام ذرائع کو اپنے مقصد کے حصول میں لگا دے۔
با مقصد زندگی ایک طریقِ حیات ہے۔ اِس طریقِ حیات کو کامیابی کے ساتھ اختیار کرنے کے لیے سادگی لازمی طورپر ضرور ی ہے۔ سادگی آدمی کواِس نقصان سے بچاتی ہے کہ وہ اپنے پیسے یا اپنے ذرائع کو غیر ضروری چیزوں میں لگا دے اور پھر وہ مقصد کے حصول میں زیادہ کارگر جدوجہد نہ کرسکے۔اِس معاملے میں غفلت ہر ایک کے لیے تباہ کُن ہے۔
واپس اوپر جائیں

جذباتیت بمقابلہ انانیت

ایک عورت اور ایک مرد جب نکاح کے رشتے میں بندھ کر ایک ساتھ اکھٹا ہوتے ہیں تو یہ دو متضاد شخصیت کا اجتماع ہوتا ہے۔ عورت اپنی پیدائش کے اعتبار سے جذباتی (emotional) ہوتی ہے، اور مرد اپنی پیدائش کے اعتبار سے انانیت پسند (egoist) ہوتا ہے۔ یہ دونوں باتیں فطری ہیں۔ وہ لازمی طورپر ہر عورت اور ہر مرد کی شخصیت کاحصہ ہوتی ہیں۔ اِس معاملے میں کسی کا بھی کوئی استثنا نہیں ۔
لیکن اِن دونوں صفتوں کا ایک مثبت پہلو ہے اور دوسرا اُن کا منفی پہلو۔ اگر اِن صفات کو مثبت انداز میں استعمال کیا جائے تو وہ انسانیت کے لیے خیر ثابت ہوں گے، اور اگر ان کو منفی انداز میںاستعمال کیاجائے تووہ انسانیت کے لیے شر بن جائیں گے۔
انانیت (ego) کا مثبت پہلویہ ہے کہ اس کی وجہ سے انسان کے اندر کسی مقصد کے لیے جمنے کا مزاج پیداہوتاہے۔ اگر آدمی کے اندر یہ صفت نہ ہو تو وہ موم کی مانند ہوجائے گا اور عزم وجزم کے ساتھ وہ کوئی کام نہ کرسکے گا۔ انانیت کا منفی پہلو یہ ہے کہ آدمی کے اندر گھمنڈ کا مزاج پیدا ہوجائے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنی انانیت کو اِس منفی حد تک نہ جانے دے، ورنہ وہ تعمیر پسند انسان کے بجائے ایک تخریب پسند انسان بن جائے گا۔
اِسی طرح عورت پیدائشی طورپر جذباتی (emotional) ہوتی ہے۔ اِس صفت کے بھی مثبت اور منفی پہلو ہیں۔ اِس صفت کا مثبت پہلو یہ ہے کہ اِس کی وجہ سے عورت کے اندر نرمی اور شفقت کا مزاج زیادہ ہوتاہے، جو بلاشبہہ ایک خوبی کی بات ہے۔ اِس صفت کا منفی پہلو یہ ہے کہ عورت کے اندر ضد کا مزاج پیدا ہوجائے۔ وہ معاملات میں ضدّی پن دکھانے لگے۔ یہ دوسرا پہلو اِس صفت کا منفی پہلو ہے۔ اگر عورت کے اندر یہ منفی مزاج پیداہوجائے تو اس کی فطری صفت اپنا مثبت فائدہ کھو دے گی۔
عورت اور مرد دونوں کو چاہیے کہ وہ اپنے اِس فطری مزاج کو سمجھیں۔ وہ شعوری طورپر اِس کا اہتمام کریں کہ ان کا یہ مزاج مثبت دائرے میں رہے، وہ منفی رُخ اختیار نہ کرے۔ اِسی انضباط میں عورت اورمرد دونوں کے لیے کامیابی کا راز چھپا ہوا ہے۔
واپس اوپر جائیں

فارمولا آف تھرٹی سکینڈ

مرد اپنی فطرت کے اعتبار سے انانیت پسندہے، اور عورت اپنی فطرت کے اعتبار سے جذباتی ہے۔ اِسی فرق کی بنا پر اکثر دونوں میں جھگڑا کھڑا ہوجاتا ہے۔ دونوں کے درمیان اِس فرق کو مٹایا نہیں جاسکتا۔اِس مسئلے کا حل صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ — جب مرد کی انا بھڑکے تو عورت خاموش ہوجائے، اور جب عورت کے جذبات بھڑکیں تو مرد خاموشی اختیار کرلے۔ دونوں میںسے کوئی بھی ردّعمل کا طریقہ اختیار نہ کرے۔ اِس کے سوا اِس مسئلے کا کوئی اور حل سرے سے ممکن ہی نہیں۔
ہر منفی جذبہ ، مثلاً غصے وغیرہ کا معاملہ یہ ہے کہ جب وہ بھڑکتا ہے تو وہ اپنے آپ بھڑکتا ہے، لیکن ابتدائی طورپر وہ ایک حد کے اندر ہی رہتاہے۔ حد سے آگے جانے کے لیے ضرورت ہوتی ہے کہ اُس کو کوئی بڑھاوا (boost) دینے والا بڑھاوا دے۔ یہ بڑھاوا دینے والا خود کوئی انسان ہوتا ہے۔ اگر آدمی اپنی طرف سے بوسٹ فراہم نہ کرے تو ہر منفی جذبہ تھوڑی دیر کے بعد اپنے آپ ختم ہوجائے گا۔ منفی جذبے کے بارے میں فطرت کا قانون یہ ہے کہ وہ پیدا ہونے کے بعد تھرٹی سکینڈ تک اوپر کی طرف جاتا ہے۔اس کے بعد اگراُس کو مزید بُوسٹ نہ ملے تو تھرٹی سکینڈ کے بعد وہ فطری طورپر نیچے کی طرف جانے لگتا ہے۔
شوہر اور بیوی دونوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ فطرت کے اِس قانون کو سمجھیں، جس کو ہم نے تیس سکینڈ کا فارمولا(formula of 30-seconds) کہا ہے۔ فطرت کے اِس قانون کو جاننا شادی شدہ زندگی کی کامیابی کا سب سے بڑا راز ہے۔ جو شوہر اور بیوی اِس قانون کو جان لیں، ان کی زندگی میںکبھی ایسا بُحران (crisis) نہیں آئے گا جو بڑھ کر بریک ڈاؤن (breakdown) تک پہنچ جائے۔خالق نے فطرت کے اندر تمام ضروری تحفّظات (safeguard) رکھ دیے ہیں۔ کسی عورت یا مرد کو صرف یہ کرناہے کہ وہ فطرت کے اندر پہلے سے موجود اِن تحفظات کو جانے اور ان کو اپنی عملی زندگی میںاستعمال کرے۔ فطرت کا طریقہ یہ ہے کہ وہ خاموش زبان میں بولتی ہے۔ جو لوگ خاموش زبان کو سننے کی استعداد رکھتے ہوں، وہی لوگ فطرت کی اِس آواز کو سنیں گے اور اُس سے فائدہ ا ٹھا کر اپنی زندگی کو کامیاب بنائیں گے۔
واپس اوپر جائیں

آرٹ آف فیلیر مینج منٹ

ایک صنعت کار اپنی بیٹی کو لے کر میرے پاس آئے۔ انھوںنے کہاکہ میری بیٹی کی شادی کی تاریخ طے ہوگئی ہے۔ جلد ہی ان کی شادی ہونے والی ہے۔ آپ دعا کیجیے کہ ان کی شادی شدہ زندگی (married life) کامیاب ہو۔ میںنے ان کی بات سنی اور پھر میری زبان سے نکلا:
Every marriage is doomed to failure, except for the one who knows the art of failure management.
یعنی ہر شادی کے لیے مقدر ہے کہ وہ ناکام ہو، سوا اُس کے جو ناکامی کو کامیابی میں بدلنے کا آرٹ جانتا ہو۔انھوں نے کہا کہ پھر ہم کو وہی آرٹ بتائیے۔ میں نے کہا کہ وہ آرٹ یہ ہے کہ آدمی شادی کو آئڈیل کی نظر سے نہ دیکھے، بلکہ پریکٹکل کی نظر سے دیکھے اور پھر جو شادی اس کے حصے میں آئی ہے اُسی کو ممکن سمجھ کر اس پر راضی ہوجائے۔شادی کے بعد عام طورپر یہ ہوتا ہے کہ لوگ اپنے ساتھی کو آئڈیل سے ناپتے ہیں۔ چوں کہ آئڈیل کا حصول ممکن نہیں، اس لیے اُن کا احساس یہ ہوتا ہے کہ انھیں رائٹ جیون ساتھی نہیں ملا۔ شادی کے دونوں فریق اِسی احساس میں مبتلا رہتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ شادی کے نام پر ایک دوسرے کے ساتھ اکھٹا ہوتے ہیں، لیکن اُنھیں شادی یا خوشی کا کبھی تجربہ نہیںہوتا۔
حقیقت یہ ہے کہ ہر عورت وہی ہے جو دوسری عورت ہے۔ اِسی طرح ہر مرد وہی ہے جو دوسرا مرد ہے۔ ظاہری صورتوں کے لحاظ سے خواہ لوگ ایک دوسرے سے مختلف ہوں، لیکن داخلی شخصیت کے اعتبار سے ہر ایک یکساں حیثیت کا مالک ہے۔ لوگ اگر اس حقیقت کو جان لیں توہر مرد کو یہ محسوس ہوگا کہ اس کو جو بیوی ملی ہے، وہ دنیا کی سب سے اچھی بیوی ہے۔ اِسی طرح ہر عورت کو یہ محسوس ہوگا کہ اُس کو جو شوہر ملا ہے، وہ دنیا کا سب سے اچھا شوہر ہے۔ جب دونوں اِس حقیقت کو دریافت کریں گے تو اس کے بعد اُن کی زندگی سے مایوسی اور رنج کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اور پھر وہ اُس خوش گوار زندگی کو پالیں گے جس کی انھیں تلاش تھی۔
واپس اوپر جائیں

لائف مینج منٹ

اِس دنیا میںکامیاب زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی اُس ہنر کو جانے جس کو آرٹ آف لائف مینج منٹ(art of life management) کہا جاتا ہے۔آرٹ آف لائف مینج منٹ یہ ہے کہ آدمی ایک طرف اپنے آپ کو جانے اور دوسری طرف اپنے سے باہر کے حالات کو سمجھے، اور پھر خالص حقیقت پسندانہ انداز میں اپنی زندگی کا نقشہ بنائے۔ پھر وہ اِس نقشے پر اِس طرح عمل کرے کہ نتیجے کو دیکھتے ہوئے بار بار وہ اپنے نقشے پر نظر ثانی کرتا رہے۔
زندگی کے کسی نقشے یا منصوبے کے درست یا نادرست ہونے کا صرف ایک معیار ہے اور وہ اُس کا نتیجہ ہے۔ جس نقشۂ عمل کا نتیجہ منفی صورت میں نکلے، وہ نقشۂ عمل نادرست ہے۔ اور جس نقشۂ عمل کا نتیجہ مثبت صورت میں نکلے، وہ درست ہے۔ کسی نقشۂ عمل کو نظری معیار پر جانچنادانش مندی نہیں۔ دانش مندی یہ ہے کہ اپنے بنائے ہوئے نقشے کو اُس کے نتیجے کی روشنی میں جانچا جائے۔
شادی شدہ زندگی کے بارے میں بھی یہی اصول ایک صحیح اصول ہے۔ شادی شدہ زندگی کی نزاکت یہ ہے کہ وہ غیرخونی رشتے کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے۔ جہاں دو فرد کے درمیان خونی رشتہ موجود ہو، وہاں کسی شعوری منصوبہ بندی کے بغیر بھی تعلقات قائم ہوسکتے ہیں۔ لیکن شوہر اور بیوی کا تعلق غیرخونی رشتے کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔ ایسے تعلق کو درست طورپر چلانے کی تدبیر صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ اُس کو پوری طرح عقل کے تابع رکھا جائے، نہ کہ جذبات کے تابع۔
خونی رشتے میں فطری طورپر جذباتی تعلق موجود ہوتاہے۔ یہ جذباتی تعلق ہر چیز کا بدل بن جاتا ہے، لیکن غیر خونی رشتے کی کامیابی کا انحصار تمام تر اِس پر ہے کہ اُس کو سوچ سمجھ کر چلایا جائے۔خونی رشتہ فطرت کے زور پر اپنے آپ جاری رہتاہے، لیکن غیر خونی رشتے میں اِس قسم کا فطری زور موجود نہیں ہوتا۔ غیر خونی رشتے کو عقلی مینج منٹ(rational management) کے بغیر کامیابی کے ساتھ چلانا ممکن نہیں—خونی رشتہ فطرت کے تحت قائم ہوتا ہے اور غیر خونی رشتہ شعور کے تحت۔
واپس اوپر جائیں

انتظار کی پالیسی

انتظار کرو اور دیکھو (wait and see) ایک قدیم مقولہ ہے۔ یہ صرف ایک مقولہ نہیں، وہ فطرت کاایک قانون ہے۔ انتظار کی پالیسی بہتر انجام کے استقبال کے ہم معنیٰ ہے۔ ایک چیز جو آج آپ کو نہیں ملی، اُس کو پانے کے لیے آپ کَل کا انتظار کریں تو یہ بلاشبہہ ایک اعلیٰ دانش مندی کی بات ہوگی۔ عین ممکن ہے کہ جو کچھ آپ کو آج نہیںملا، وہ کل اپنی پوری مطلوب صورت میں آپ کو مل جائے۔
شادی شدہ زندگی میں شوہر اور بیوی دونوں یہ غلطی کرتے ہیں کہ وہ اپنے ساتھی کوآج ہی ویسا دیکھنا چاہتے ہیں، جیسا کہ وہ اُن کے دماغ میں بساہوا ہے۔ اِس معاملے میں وہ وقت کے عامل (factor) کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ حالاں کہ یہ ایک معلوم بات ہے کہ کوئی چیز وقت سے پہلے کسی کو نہیں ملتی۔ عورت اورمرد دونوں کو جاننا چاہئے کہ اِس دنیا میں ایسا نہیں ہوسکتاکہ جو چیز کل ملنے والی ہے، وہ آج ہی آپ کو مل جائے۔
نکاح کے بعد جب ایک عورت اور ایک مرد ایک گھر میں اکھٹا ہوتے ہیں تو یہ دونوں کے لیے ایک نیا تجربہ ہوتاہے۔ دونوں فطری طورپر ایک دوسرے سے سیکھنا چاہتے ہیں۔ دونوں فطری طورپر اپنے آپ کو ایک دوسرے کے مطابق بنا نا چاہتے ہیں۔ یہ فطری عمل نکاح کے پہلے دن سے شروع ہو جاتا ہے۔ زوجین کا کام یہ ہے کہ وہ اِس فطری عمل (process) کو جاری رکھنے میں مدد گار بنیں۔ وہ ایسا کوئی کام نہ کریں جو اِس فطری عمل کو درہم برہم کردینے والا ہو۔
انتظار کا مقصد اِسی فطری عمل میں مدد دینا ہے۔ انتظار کا مقصد یہ ہے کہ یہ فطری عمل بلا روک ٹوک جاری رہے، یہاں تک کہ وہ اپنی آخری حد پر پہنچ جائے۔ انتظار ایک عمومی اصول ہے۔ اُس کا تعلق ہر بڑی کامیابی سے ہے۔ یہی اصول شوہر اور بیوی کے معاملے میں بھی درست ہے۔ آپ صرف یہ کیجیے کہ انتظار کیجیے، اور اس کے بعد آپ کو یقینی طورپر اپنی مطلوب چیز مل جائے گی۔یہ فطرت کا قانون ہے اور اِس دنیا میں فطرت کے قانون سے بڑا کوئی قانون نہیں۔
واپس اوپر جائیں

گھر :بہتر انسان بنانے کا کارخانہ

ماں کی حیثیت سے عورت کا رول اگلی نسل کی تیاری ہے۔ انسان کی نسل ایک رواں دریا کی مانند ہے جس میں ہر وقت پرانا پانی بہہ کر چلا جاتاہے اور نیا پانی اس کی جگہ لے لیتا ہے۔ یہی معاملہ انسانی قافلے کا ہے۔ یہاں بھی مسلسل ایسا ہوتا ہے کہ پچھلی نسل جاتی رہتی ہے اور نئی نسل اس کی جگہ لیتی رہتی ہے۔ ماں کا کام اِسی نئی نسل کی تیاری ہے۔ ماں کے ذمے داری یہ ہے کہ وہ ہر بار اگلی نسل کے لیے بہتر انسان بنا کر بھیجے۔
بہتر انسان کون ہے۔ بہتر انسان وہ ہے جس کے اندر زندگی کا حوصلہ ہو۔ جو منفی سوچ سے بلند ہو اور مثبت سوچ کا حامل ہو۔ جو اپنے ذہن کے اعتبار سے اِس قابل ہو کہ وہ چیز تعمیری بنیادوں پر زندگی کی منصوبہ بندی کرسکے۔ جو اپنے سماج کے لیے کوئی نیا پرابلم پیدا نہ کرے۔ جو اپنے سماج کا دینے والا ممبر (giver member) ہو، نہ کہ صرف لینے والا ممبر (taker member) ۔
اِس معاملے میں ماں کو کیا کرنا چاہیے۔ اس کو ہم چند مثالوں کے ذریعے واضح کریں گے۔ ان مثالوں کاخلاصہ یہ ہے کہ ماں کو چاہیے کو وہ اپنی اولاد کے اندر وہ چیز پیدا کرے جس کو پختگی (maturity) کہاجاتا ہے، وہ ناپختگی (immaturity) کا ذہن لے کر اپنی اولاد کو سماج میںنہ بھیجے۔
امریکا کی ایک خاتون نینسی اَلوا ایڈیسن کا ایک بیٹا تھا۔ اُس کا نام ٹامس الوا ایڈیسن (وفات: 1931)تھا۔ وہ پیدائشی طورپر کم سنتاتھا۔ اس کے اسکول ٹیچر نے دیکھا کہ وہ کلاس میں ٹیچر کی باتوںکو سن نہیں پاتا اور اسکول کے کام کو ٹھیک سے نہیں کرتا۔ اسکول ٹیچر اس پر غصہ ہوگیا۔ اس نے ایڈیسن کو معذور بچہ (retarded boy) قر ار دے اس کو اسکول سے خارج کردیا۔
لیکن ایڈیسن کی ماں نے یہاں ایک تعمیری رول ادا کیا۔ اس نے ایڈیسن کے اندر یہ ذہن پیدا کیا کہ تم ایک معذور بچے نہیں ہو بلکہ یہ معذوری تمھارے لیے ایک چیلنج ہے۔ تم اپنی فطری صلاحیتوں کو استعمال کرو اور اس چیلنج کا مقابلہ کرکے تم ایک کامیاب انسان بن سکتے ہو۔ ماںنے ایڈیسن کی تعلیم کو اپنا مشن بنا لیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایڈیسن کا نام تاریخ میں ایک بڑے سائنس داں کی حیثیت سے درج کیا گیا۔
اسی طرح عام ذہن یہ ہے کہ جو آدمی دولت مند گھر میں پیدا ہو، اُس کو خوش قسمت سمجھا جاتا ہے۔ اور جو آدمی غریب گھر میں پیدا ہو، اس کو بد قسمت انسان کہا جاتا ہے۔ یہاں ماں کا رول یہ ہے کہ اگر اس کا بچہ غریب گھر میں پیدا ہوا ہے تو وہ اس کو بتائے کہ غریب ہونا کوئی محرومی کی بات نہیں۔ ایسی ماں کو چاہیے کہ وہ اپنے بچے کو زندگی کا یہ فلسفہ بتائے کہ دولت مند بچے کے پاس اگر دولت ہوتی ہے تو غریب بچے کے پاس بڑھا ہوا محرک (incentive) موجود ہوتا ہے۔ یہ محرک اُس کی زندگی کی طاقت بن کر اس کا ساتھ دیتا ہے:
If a rich person is born with a silver spoon in his mouth, the poor person is born with an incentive spoon in his mouth.
ماں کو چاہیے کہ وہ اپنے بچے کو بتائے کہ ہر امیر بچے کے باپ اور دادا غریب ہی تھے، پھر وہ محنت کرکے امیر بنے۔ اِسی طرح تم بھی محنت کرکے سب کچھ حاصل کرسکتے ہو۔
اِسی طرح ایک اور فکری گمراہی ہے۔ ماں کو چاہیے کہ اس گمراہی سے وہ اپنے بچے کو باہر نکالے۔ وہ یہ کہ عام طور پر انسانی طبقات کو محروم اور غیر محروم (Haves and have nots) میں تقسیم کیا جاتا ہے، مگر یہ ایک غلط ڈائکاٹمی (wrong dichotomy) ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ بچپن میں ایک شخص محروم طبقے کا فرد ہوتا ہے، لیکن بعد میں وہ ایک غیر محروم طبقے کا فرد بن جاتا ہے۔ مثلاً سی وی رمن، جی ڈی برلا، آبرائے، دھیرو بھائی امبانی، ڈاکٹر عبدالکلام، وغیرہ۔ اس قسم کے ہزاروں لوگ ہیں جو اپنے بچپن میں بظاہر محروم طبقے سے تعلق رکھتے تھے، لیکن بعد کو وہ غیرمحروم طبقے کے اعلیٰ فرد بن گیے۔ اِس لیے اِس دنیا میں صحیح ڈائکاٹمی محروم اور غیر محروم کی نہیں ہے، بلکہ امکانی غیرمحروم اور واقعی غیر محروم (pontential haves and actual haves) کی ہے۔
کسی انسان کی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت کی چیز حوصلہ اور مثبت شعور ہے۔ ہر پچھلی نسل کا فرض ہے کہ وہ اگلی نسل کو با حوصلہ اور باشعور بنا کر زندگی کے میدان میں داخل کرے۔
واپس اوپر جائیں

تعلیم اور خواتین

تعلیم کی اہمیت جتنی زیادہ مَردوں کے لیے ہے، اتنی ہی زیادہ اس کی اہمیت عورتوں کے لیے بھی ہے۔ تعلیم کے بغیر دونوں ہی ادھورے ہیں۔ تعلیم ہر عورت اور مرد کی ایک ایسی ضرورت ہے جس کو دونوں میں سے کوئی بھی نظر انداز نہیں کرسکتا۔ تعلیم کو نظر انداز کرنا اپنے لیے یہ خطرہ مول لینا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے مطلوبِ اعلیٰ تک نہ پہنچیں، وہ مطلوبِ اعلیٰ تک پہنچے بغیر ناکامی کے احساس کے ساتھ مرجائیں۔
عورت اور مرد دونوں کے لیے تعلیم اتنا زیادہ ضروری ہے کہ اِس معاملے میں کوئی بھی عُذر قابلِ قبول نہیں۔ مشہور مقولہ اِس معاملے میں پوری طرح صادق آتا ہے— اگر تمھارے پاس ایک اچھا عذر ہے، تب بھی تم اُس کو استعمال نہ کرو:
If you have a good excuse , don't use it.
تعلیم کی اہمیت صرف جاب کے لیے نہیں ہے، بلکہ اس کی اہمیت بہتر زندگی کی تعمیر کے لیے ہے۔ موجودہ زمانے میں تمام چیزوں کا تعلق علم اور تعلیم سے ہوگیا ہے۔ ایسی حالت میںکوئی عورت یا مرد اِس کا تحمل نہیں کرسکتے کہ وہ تعلیم سے بے بہرہ رہ جائیں۔ کیوں کہ تعلیم سے بے بہرہ رہ جانا یہ معنی رکھتا ہے کہ ایسا شخص ایک حقیقی انسانی زندگی گزارنے کے قابل نہ ہوسکے۔
ہر آدمی ایک حیوان ہے۔ حیوانیت کے مقام سے اوپر اٹھا کر جو چیز اُس کو انسان کے مقام تک پہنچاتی ہے، وہ تعلیم ہے۔ حیوان اور انسان کے درمیان جو چیز فرق کرتی ہے، وہ تعلیم ہے۔ تعلیم آدمی کو اِس قابل بناتی ہے کہ وہ اپنی شخصیت کے اندر چھپے ہوئے اعلیٰ امکانات کو بروئے کار لائے، وہ اپنے امکان (potential) کو واقعہ(actual) بنا سکے۔ یہ کام کبھی تعلیم کے بغیر انجام نہیں پاسکتا۔
تعلیم سے مراد پروفیشنل ایجوکیشن نہیں ہے، بلکہ حقیقی ایجوکیشن ہے۔ تعلیم سے مراد اپنے آپ کو علم وحکمت کی دنیا تک پہنچانا ہے۔ پروفیشنل ایجوکیشن کسی آدمی کو صرف جاب دیتی ہے، لیکن علم وحکمت کا حصول آدمی کو اعلیٰ مرتبۂ انسانیت تک پہنچا دیتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

صورت یا سیرت

اکثر نوجوان یہ خواب دیکھتے رہتے ہیںکہ ان کو خوب صورت بیوی مل جائے۔ مگر یہ صرف ایک نادانی کی خواہش ہے۔ نام نہاد خوب صورت عورت اکثر پُر مسائل بیوی (problem wife)ثابت ہوتی ہے۔ ایسی عورت کی دل کَشی صرف چند دن کی ہوتی ہے اور اس کے بعد سارا جنون ختم ہوجاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نکاح کے معاملے میں آدمی کو اصل اہمیت سیرت کو دینا چاہیے۔ جو عورت سیرت میںاچھی ہو، وہی سب سے اچھی بیوی ہے۔
فرینک فرٹ یونی ورسٹی کے ماہرِ نفسیات ڈاکٹر جان (Dr. John Ockert) نے ایک جائزے میں بتایا کہ— زیادہ خوب صورت لڑکیاں عام طورپر زندگی میں ناکام رہتی ہیں:
Gorgeous women feel beuty is the only asset, and they cannot be ar the ageing. Marilyn Monroe, one of the prettiest woman to emerge from Hollywood, is stated to have wept bitterly when she saw first traces of wrinkles in the mirror.
دل کَش عورتیں سمجھتی ہیں کہ خوب صورتی اُن کا واحدسرمایہ ہے اور بڑھاپے کو وہ برادشت نہیں کرسکتیں۔ میری لین مانرو، جو ہالی وُڈ کی ایک انتہائی خوب صورت عورت تھی، کہا جاتا ہے کہ وہ اُس وقت بُری طرح رونے لگی، جب کہ اُس نے آئینے میں پہلی بار اپنے چہرے پر جھُرّیوں کے نشانات دیکھے۔
جس آدمی کو پُرکشش عورت نہ ملے، وہ زیادہ خوش قسمت ہے۔ کیوں کہ غیر پُرکشش عورت عملی زندگی میں زیادہ بہتر رفیق ثابت ہوتی ہے۔ نکاح کا مقصد ایک نِسوانی کھلونا حاصل کرنا نہیں ہے، بلکہ نکاح کا مقصد یہ ہے کہ آدمی کو ایک کار آمد رفیقۂ حیات مل جائے۔ اور بہتر رفیقۂ حیات وہی ہے جو سیرت کے اعتبار سے بہتر ہو، نہ کہ صرف صورت کے اعتبار سے بہتر۔ یہ تجربہ اتنا عام ہے کہ ہر آدمی اپنے قریب کے لوگوں میں اِس کی مثالیں دیکھ سکتا ہے، بشرطیکہ اس کے اندر چیزوں کو حقیقت پسندانہ انداز سے دیکھنے کی صلاحیت موجود ہو۔
واپس اوپر جائیں

لَو میریج ناکام کیوں

جدید دور میں جب لو میرج (love marriage) کا طریقہ رائج ہوا تو اکثر عورت اور مرد نے یہ یقین کرلیا کہ اب انھوںنے نکاح کے معاملے میں آخری فارمولا دریافت کرلیا ہے۔ اب یہ ممکن ہوگیا ہے کہ ہر عورت اور مرد لو میریج کے ذریعے اپنی پسند کی شادی کرے اور پھر اپنی پسند کے مطابق، اپنے لیے بہترین زندگی کی تعمیر کرے۔لیکن تجربہ بتاتا ہے کہ لو میریج کا طریقہ پوری طرح ناکام ثابت ہوا۔ آج کل ساری دنیا میں یہ حال ہے کہ لڑکے اور لڑکیاں لو میریج کے ذریعے اپنی پسند کی شادیاں کرتے ہیں، لیکن سروے کے مطابق، پچاس فی صد سے زیادہ شادیاں ناکام ہوتی ہیں۔ لو میریج نے لوگوں کو خوش گوار ازدواجی زندگی کا تحفہ نہیں دیا۔
لومیریج کی ناکامی کا سبب کیا ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ لو میریج صرف ایک غیر فطری میریج کا خوب صورت نام ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ ایک نوجوان عورت اور ایک نوجوان مرد ایک دوسرے کو دیکھتے ہیںاور ظاہری خوش نُمائی کی بنا پر وہ ایک دوسرے کو پسند کرلیتے ہیں۔ مگر پھر جب دونوں کے درمیان عملی تعلق قائم ہوتا ہے تو اُن پر کھلتا ہے کہ انھوں نے جس چمک دار چیز کو سونا سمجھا تھا، وہ سونا ہی نہ تھا۔
اصل یہ ہے کہ نکاح سے پہلے جو لو اَفئر (love affair) ہوتا ہے، وہ صرف نظر فریبی کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ نکاح کے بعد جب دونوں کے درمیان عملی تعلق ہوتا ہے تو نظر فریبی کا سَراب ختم ہوجاتا ہے اور حقیقی صورتِ حال سامنے آجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قبل از نکاح جو چیز غیر معمولی نظر آئی تھی، وہ بعد از نکاح صرف ایک معمولی چیز بن کر رہ جاتی ہے۔ اب مایوسی کا دور شروع ہوتا ہے جو آخر کار طلاق یا کم ازکم دوری تک پہنچ جاتا ہے۔
درست طریقہ صرف یہ ہے کہ لڑکے اور لڑکیاں نکاح کے معاملے کو اپنے والدین پر چھوڑ دیں۔ تاہم والدین کو اِس معاملے میں ایسا کرنا چاہیے کہ وہ اپنی اولاد سے اِس بارے میں رائے لیں، اِس کے بعد ہی وہ کوئی آخری فیصلہ کریں۔
واپس اوپر جائیں

غصے پر کنٹرول کیجیے

عورت اور مرد کے درمیان بگاڑ کا سب سے بڑا سبب غصہ ہوتا ہے۔ کسی معاملے میں ایک کو دوسرے کے اوپر غصہ آجاتا ہے۔ اس کے بعد دونوں میں تکرار ہوتی ہے۔ یہ تکرار آخر کار نفرت میں بدل جاتی ہے، او رپھر یہ نفرت مختلف قسم کی برائیوں کی صورت میں ظاہر ہوتی رہتی ہے۔ باہمی زندگی میں ننانوے فی صد بگاڑ غصے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ غصہ ایک فطری جذبہ ہے، غصے کا حل غصے کو کنٹرول کرنا ہے۔ غصہ خود کوئی بُری چیز نہیں، بُری چیز صرف یہ ہے کہ غصے کو کنٹرول نہ کرکے اُس کو مزید برائی تک پہنچنے دیا جائے۔
نفسیاتی اعتبار سے غصہ صرف ایک وقتی اشتعال کا معاملہ ہے۔اشتعال ایک غیر معتدل حالت کا نام ہے۔ یہ ایک ایسی آگ ہے جو وقتی طورپر بھڑکتی ہے اور اس کے بعد بہت جلد وہ بجھ جاتی ہے، بشرطیکہ اس کو مزید بھڑکایا نہ جائے۔ آدمی اگر اِس حقیقت کو جانے تو اُس کا غصہ کبھی کسی مستقل فساد کا سبب نہ بنے۔
غصہ گویا ایک نفسیاتی آگ ہے۔ غصہ اچانک کسی بات پر بھڑک اٹھتا ہے، لیکن نفسیاتی اعتبار سے غصے کی زندگی صرف تھوڑی دیر کے لیے ہوتی ہے۔ غصہ آنے کے وقت اگر آپ چپ رہیں اور اس کا جواب دینے کے بجائے غصے کے مقام سے ہٹ جائیں تو بہت جلد آپ دیکھیں گے کہ آپ کا غصہ اندر ہی اندر ٹھنڈا ہوگیا ہے۔ اب آپ اُسی طرح ایک نارمل انسان بن گیے ہیں، جیسا کہ آپ غصے سے پہلے ایک نارمل انسان تھے۔
غصے کا فطری اصول یہ ہے کہ وہ کچھ دیر کے لیے بھڑکتا ہے اور پھر اپنے آپ بجھنا شروع ہوجاتا ہے۔ اگر غصہ کرنے والا فوری طور پر خاموشی اختیار کرلے اور اپنے ذہن کو دوسری طرف موڑ دے تو اس کے بعد ابتدائی محرّک ختم ہوجائے گا اور رفتہ رفتہ اپنے آپ معمول کی حالت قائم ہوجائے گی۔
اپنے غصے کو چند لمحوں کے لیے تک سنبھالیے، اس کے بعد غصے کوحرکت دینے والا عنصر اپنے آپ کم زور پڑجائے گا اور جلد ہی ایسا ہوگا کہ غصے کی آگ بجھ جائے گی اور اپنے آپ معمول کی حالت قائم ہوجائے گی۔
واپس اوپر جائیں

سختی یا عزم

ایک مغربی سفر میں میری ملاقات ایک مسیحی خاتون سے ہوئی۔ انھوںنے کہا کہ میرا شوہر سخت (stubborn) ہے۔ مجھے اس کے لیے کیا کرنا چاہیے۔ میں نے کہا کہ یہ کوئی حقیقی مسئلہ نہیں، یہ صرف سوچ کا مسئلہ ہے۔ آپ اپنی سوچ درست کر لیجیے اور پھر یہ مسئلہ اپنے آپ ختم ہوجائے گا۔ آپ یہ نہ سوچیے کہ آپ کا شوہر سخت ہے۔ سخت ایک منفی لفظ ہے۔ منفی الفاظ میں آپ کسی بات کو سوچیں تو اس کے بارے میں معتدل انداز میں سوچنا ممکن نہیں ہوتا۔ اس کے بجائے آپ کو اِس بارے میں مثبت الفاظ استعمال کرنا چاہیے، تاکہ آپ جو کچھ سوچیں، وہ مثبت ذہن کے تحت سوچیں، نہ کہ منفی ذہن کے تحت۔
میں نے کہا کہ آپ یہ کہیے کہ آپ کے شوہر کے اندر عزم (determination) کا مادّہ ہے۔ وہ کسی چیز کے بارے میں سوچتے ہیں تو اَٹل انداز میں سوچتے ہیں۔ یہ ایک مردانہ صفت ہے اور وہ بلاشبہہ ایک اچھی صفت ہے۔ اگر یہ صفت نہ ہو تو آدمی ہمت کے ساتھ زندگی کے چیلنج کا سامنا نہیں کرسکتا۔ اور جو آدمی چیلنج کا سامنا نہ کرسکے، وہ کبھی زندگی میں کامیاب بھی نہیں ہوسکتا۔
مذکورہ خاتون کئی زبان جانتی تھیں اور وہ پروفیشن کے اعتبار سے ترجمان (interpreter) تھیں۔ میں نے کہا کہ آپ کا پروفیشن چیلنجنگ پروفیشن نہیں ہے۔ اِس پروفیشن میں نرم ہونا ایک اچھی بات ہے۔ آپ کا نرمی کا مزاج آپ کے پروفیشن کے عین مطابق ہے، مگر آپ کے شوہر ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں مینیجر ہیں۔اس کام میں ان کو ہر وقت چیلنج کا سامنا رہتا ہے۔ خدا نے آپ کو نرم بنایا، تاکہ آپ اپنے پروفیشن کو کامیابی کے ساتھ کرسکیں۔ اِس کے برعکس، خدا نے آپ کے شوہر کو سختی کا مزاج دیا جو کہ اُن کے پروفیشن کے اعتبار سے ضروری تھا۔ آپ کو چاہیے کہ اِس تقسیم پر آپ شکر کریں، نہ کہ شکایت۔
معاملات میں مثبت رخ پر سوچنا آدمی کو مثبت نتیجے تک پہنچاتا ہے، اور منفی رخ پر سوچنا اُس کو منفی نتیجے تک پہنچاتا ہے۔اِس اصول کا تعلق جس طرح زندگی کے دوسرے معاملات سے ہے، اِسی طرح اس کا تعلق ازدواجی زندگی سے بھی ہے۔ اِس اصول کو جاننا بلا شبہہ اِس دنیا میں کامیاب زندگی کی کلید ہے۔
واپس اوپر جائیں

چھوٹی بات کو بڑی بات نہ بنائیے

زوجین کے درمیان جو جھگڑے ہوتے ہیں، وہ اکثر چھوٹی باتوں پر ہوتے ہیں۔ کسی چھوٹی بات کو لے کر اختلاف شروع ہوتا ہے اور وہ اختلاف بڑھتے بڑھتے بڑا بن جاتا ہے۔زوجین وہ عورت اور مرد ہیںجو رات اور دن ایک ساتھ رہتے ہیں۔ یہی چیز نزاع کا اصل سبب ہے۔ یہی دونوں عورت اورمرد اگر اتفاقاً کچھ دیر کے لیے ملیں، مثلاً کسی سفر میں یا کسی سیمنار میں تو اُن کے درمیان کبھی مذکورہ قسم کا جھگڑا پیدا نہیں ہوگا۔جھگڑا ہمیشہ ایک معتدل چیز پر غیر معتدل ردّ عمل کا نتیجہ ہوتا ہے۔
زوجین اگر اِس حقیقت کو جان لیںتو اِس کے بعد اُن کے درمیان کبھی کوئی اختلاف شدید نوعیت اختیار نہ کرے۔ اِس حقیقت سے بے خبری کی بنا پر ایساہوتا ہے کہ دونوں پیش آئے ہوئے اختلاف کو حقیقی اختلاف سمجھ لیتے ہیں، حالاں کہ وہ صرف ایک اِضافی نوعیت کا اختلاف ہوتا ہے۔
ہرعورت اور مرد کا مزاج فطری طورپر ایک دوسرے مختلف ہوتاہے۔ یہ مزاجی اختلاف ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ وقتی ملاقاتوں میں وہ کبھی مسئلہ نہیںبنتا، لیکن جب ایک عورت اور ایک مرد مستقل طورپر ایک ساتھ رہنے لگیں تو یہ اختلافات بار بار ظاہر ہوتے ہیں اور پھر دھیرے دھیرے وہ شدید نوعیت اختیار کرلیتے ہیں۔ عورت اور مرد اگر اِس بات کو جانیں کہ یہ ایک نفسیاتی نوعیت کا مسئلہ ہے، نہ کہ حقیقی نوعیت کا مسئلہ تو وہ فوراً اُس کو نظر انداز کردیں، جس طرح وہ وقتی ملاقاتوںمیںایسی چیزوں کو نظر انداز کردیتے ہیں۔
اِسی بے خبری کی بنا پر ہر عورت اور مرد کی زندگی ایک متضاد رویّے کا شکار رہتی ہے۔ وہ اپنے گھر کے اندر لڑتے جھگڑتے ہیں، لیکن یہی لوگ جب گھر کے باہر کی دنیا میں آتے ہیں توان کا رویّہ لوگوں کے ساتھ بالکل معتدل ہوجاتا ہے۔ زوجین کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو اِس متضاد رویّے سے بچائیں۔ اِس کے بعد ان کی گھر کی زندگی بھی اُسی طرح معتدل بن جائے گی، جس طرح ان کی باہر کی زندگی معتدل بنی ہوئی ہے۔زندگی کے اکثر مسائل صرف بے شعوری کی بنا پر پیدا ہوتے ہیں۔ اپنے آپ کو باشعور بنائیے، اورپھر آپ خود بخود غیر ضروری مسائل سے بچ جائیں گے۔
واپس اوپر جائیں

عدم مداخلت کی پالیسی

میں نے ایک تعلیم یافتہ شخص سے پوچھا کہ آپ کی ازدواجی زندگی کیسی ہے، خوش گوار یا ناخوش گوار۔ انھوںنے کہا کہ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میری ازدواجی زندگی پوری طرح ایک خوش گوار زندگی ہے۔ میرے گھر میںمعتدل ماحول رہتا ہے۔ ہم دونوں کے درمیان کوئی لڑائی جھگڑا نہیں ہوتا۔ میں نے پوچھا کہ اِس خوش گوار زندگی کے لیے آپ کا فارمولا کیا ہے۔ انھوںنے کہا کہ ہمارا فارمولا، ایک لفظ میں، عدم مداخلت(non-interference) ہے۔ یعنی ہم نے اپنے یہاںتقسم کار کے اصول کو اپنا لیا ہے۔ نہ میں بیوی کے معاملے میں دخل دیتا ہوں اور نہ بیوی میرے معاملے میں دخل دیتی ہیں۔
میں نے کہا کہ ازدواجی زندگی کو خوش بنانے کے لیے یہ بلا شبہہ ایک بہترین اصول ہے۔ کیوں کہ خالق نے ہر عورت اور مرد کو الگ الگ مزاج کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ہر مرد مسٹر ڈفرنٹ ہے اور ہر عورت مِس ڈفرنٹ۔ایسی حالت میں ازدواجی تعلق گویا دو ڈفرنٹ افراد کے درمیان تعلق کا نام ہے۔ یہ فرق چوں کہ خالق کا پیدا کیا ہوا ہے، اِس لیے ہم اس کو بدلنے پر قادر نہیں۔ ہم کو چاہیے کہ ہم اِس فرق کو بدلنے کی ناکام کوشش نہ کریں، بلکہ فرق کے ساتھ نِباہ کرنے کی کوشش کریں۔ اِس اصول کو ایک لفظ میں آرٹ آف ڈفرنس مینج منٹ (art of difference management) کہاجاسکتا ہے۔
پھر یہ فرق کوئی برائی نہیں۔ اِس فرق کے اندر ایک عظیم فائدہ چھپا ہوا ہے۔ فرق کا مطلب صرف فرق نہیں، بلکہ اس کا مطلب دو مختلف صلاحیتیں ہیں۔ اگر عورت اور مرد دونوں میں ہر اعتبار سے یکسانیت پائی جائے تو وہ کوئی اچھی بات نہ ہوگی۔ یکسانیت نہ ہونا، ذہنی ترقی کا راز ہے۔ اِسی لیے کہاگیا ہے کہ — جب تمام لوگ یکساں طورپر سوچیں تو کوئی بھی زیادہ نہیں سوچتا:
When everyone thinks alike, no one thinks very much.
مشترک زندگی کے لیے عدم مداخلت کی پالیسی بہترین پالیسی ہے۔ یہ پالیسی گھر کے باہر کی زندگی کے لیے بھی بہترین ہے اور گھر کے اندر کی زندگی کے لیے بھی بہترین۔
واپس اوپر جائیں

ایک دانش مند خاتون

مہاراشٹر کے ایک خاندان کا واقعہ میرے علم میںآیا۔ ایک لڑکی کی شادی اُس کی اپنی پسند کے مطابق، ایک تعلیم یافتہ مسلمان سے ہوئی۔ دونوں ایک ساتھ رہنے لگے۔ اُن کے یہاں ایک لڑکا بھی پیدا ہوا، لیکن جلد ہی دونوں میںاختلافات شروع ہوگیے۔ بڑھتے بڑھتے نوبت یہاں تک پہنچی کہ لڑکی اپنے شوہر سے خفا ہو کر اپنے میکے میں اپنی ماں کے پاس چلی گئی۔ اور ماں سے اپنے شوہر کے خلاف شکایتی باتیں بتانے لگی۔ ماںنے سننے کے بعد کہا کہ —شادی دوبار نہیں کی جاتی۔ یا تو تم اپنے شوہر سے نباہ کرو یا زہر کھا کر مرجاؤ۔
لڑکی کے لیے اپنی ماں کا یہ جواب اُس کی امیدوں کے سراسر خلاف تھا۔ اِس جواب کو سن کر وہ رونے لگی اور چند دن تک وہاں اِسی حال میں رہی۔ اس کی ماں نے کہا کہ —تم چاہے روؤ یا چلاّؤ، میں نے اپنا جواب تم کو بتا دیا۔ میرا جواب بدلنے والا نہیں۔
ماں کا جواب لڑکی کے لیے ایک دھماکے سے کم نہ تھا، لیکن اِس دھماکہ خیز جواب نے لڑکی کے اندر نئی سوچ پیدا کردی۔ اِسی دوران لڑکی کو راقم الحروف کی کتاب ’’رازِ حیات‘‘ (صفحات: 292) مل گئی۔ اس کو اس نے پڑھا۔ کتاب کو پڑھنے کے بعد اس کو معلوم ہوا کہ اس کی ماں نے جو کچھ کہا تھا، وہی اِس معاملے میں صحیح بات ہے۔ مجھے اپنے شوہر کے ساتھ مل جُل کر رہنا ہے۔ اب میرے لیے اس کے سوا کوئی اور انتخاب (option) نہیںہے۔
اِس طرح وہ لڑکی چند دن سوچتی رہی۔ آخر کار اس نے فیصلہ کیا کہ مجھے اپنے شوہر کے پاس واپس چلا جانا چاہیے۔ چناں چہ وہ کسی شرط کے بغیر اپنے شوہر کے پاس چلی گئی اور وہاں رہنے لگی۔ میںنے خود اپنے ایک سفر کے دوران دیکھا ہے کہ دونوں میاں اور بیوی خوشی سے ایک ساتھ رہ رہے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے کامیاب رفیقِ حیات بنے ہوئے ہیں— اختلاف کا معاملہ ربر کی مانند ہے۔ آپ چاہیں تو اس کوکھینچ کر بڑھادیں اور چاہیں تو اس کو نہ بڑھائیں اور اس کو اپنی فطری حالت پر رہنے دیں۔
واپس اوپر جائیں

میکے کے تصور میں جینا

مشرقی خواتین میںایک مزاج بہت عام ہے۔ نکاح کے بعد وہ اپنی سُسرال آجاتی ہیں، لیکن نفسیاتی اعتبار سے بدستور وہ اپنے میکے میں جیتی رہتی ہیں۔ جسمانی اعتبار سے وہ سسرال میں ہوتی ہیں، لیکن ذہنی اعتبار سے وہ بدستور اپنے میکے کی یادوں میں گُم رہتی ہیں۔ خواتین کا یہ مزاج ایک غیر حقیقی مزاج ہے۔ اِس غیر حقیقی مزاج کی بھاری قیمت اُن کو یہ دینی پڑتی ہے کہ وہ اپنی سسرال میں غیر ضروری طورپر پریشان رہیں، ان کو کبھی سکون کی زندگی حاصل نہ ہو۔
خواتین کے اندر اِس غیر حقیقی مزاج کی اصل ذمے داری اُن کے والدین پر ہے۔ والدین اپنی نام نہاد محبت کی بنا پر ایسی باتیں کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی بیٹی کو نئی زندگی کا شعور حاصل نہیں ہوتا۔ والدین اپنی بیٹی کے ساتھ یہ معاملہ محبت کے نام پر کرتے ہیں، لیکن انجام کے اعتبار سے وہ دشمنی ہوتا ہے۔ والدین تو کچھ دنوں کے بعد اس دنیا سے چلے جاتے ہیں، لیکن اپنی بیٹی کو وہ ہمیشہ کے لیے ایک غیر حقیقی مسئلے میں مبتلا کرکے چھوڑ جاتے ہیں۔
مجھے ایک باپ کا حال معلوم ہے۔ نکاح کے بعد جب انھوںنے اپنی بیٹی کو رخصت کیا تو انھوںنے اپنی بیٹی سے کہہ دیا کہ —جہاں تم جارہی ہو، وہی اب تمھارا گھر ہے۔ وہیں کے ماں باپ، تمھارے ماں باپ ہیں۔ ہم تمھارے لیے دعا کرتے رہیں گے، لیکن اِس حقیقت کو سمجھ لو کہ اب تمھارا گھر بھی بدل چکا ہے اور تمھارے ماں باپ بھی۔ بیٹی کے لیے اپنے والد کی یہ نصیحت بہت مفید ثابت ہوئی۔ سسرال پہنچتے ہی انھوں نے سسرال کو اپنا گھر بنا لیا۔ اِس کے بعد اُن کو زندگی کی وہ تمام خوشیاں اپنی سسرال میں مل گئیں جو اُنھیں اس سے پہلے اپنے میکے میں حاصل تھیں۔
زندگی میں کامیابی کا راز حقیقت پسندی ہے۔ اِسی طرح زندگی کے تمام مسائل کا سبب غیرحقیقت پسندانہ مزاج ہے۔ جوعورت یا مرد اِس راز کو سمجھ لیں، وہ یقینی طورپر اپنی زندگی کو خوش گوار بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
واپس اوپر جائیں

غیر فطری تمنّا

مشہور ہندستانی سِنگر محمد رفیع (وفات: 1980 ) کا ایک گانا اتنامقبول ہوا کہ وہ ہر ماں باپ کے دل کی دھڑکن بن گیا۔ کہا جاتا ہے کہ محمد رفیع نے جب اِس کو گایاتو وہ شدتِ تاثّر سے روپڑے۔ اِس گانے میں باپ اپنی بیٹی کو رخصت کرتے ہوئے کچھ اشعار کہتا ہے۔ اُس کا ایک حصہ یہ ہے:
بابُل کی دعائیں لیتی جا جا، تجھ کو ُ سکھی سنسار ملے
میکے کی کبھی نہ یاد آئے سسرال میں اتنا پیار ملے
یہ بات فطرت کے قانون کے خلاف ہے۔ موجودہ دنیا میں کسی لڑکے یا لڑکی کو اِس طرح ’’سکھ اور پیار‘‘ نہیںمل سکتا۔ ایسی حالت میں مذکورہ قسم کے سُکھ اور پیار کو زوجین کے لیے کامیاب زندگی کا معیار بتانا، زوجین کے ساتھ نا انصافی ہے۔ کیوںکہ اس کے نتیجے میں دونوں کے اندر غیرحقیقت پسندانہ ذہن بنتا ہے۔ اور غیر حقیقت پسندانہ ذہن کے ساتھ اِس دنیا میں کامیاب اِزدواجی زندگی گزارنا کسی کے لیے ممکن نہیں۔
اِس غیر فطری معیار کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ والدین اور ان کی بیٹی دونوں ہمیشہ اِس احساس میں جیتے ہیںکہ ان کی لڑکی کی شادی غلط ہوگئی۔ دونوں اسی منفی احساس میںجیتے ہیں اور اِسی منفی احساس میں مرجاتے ہیں۔ اگرلوگ زندگی کی حقیقت کو جانیں تو والدین اپنی بیٹی کے بارے میں غیر فطری تمنا کرنے کے بجائے، اُس کو نیے دورِ حیات کے لیے تیار کریں اور خود لڑکی جب نیے حالات میں پہنچے تو وہ اس کو مثبت ذہن کے ساتھ لے۔ وہ نیے حالات کو اپنے لیے فطرت کا ایک چیلنج سمجھے اور اپنی خداداد صلاحیتوں کو استعمال کرکے نیے حالات میںاپنے لیے کامیاب زندگی کی تعمیر کرلے۔
زندگی ایک چیلنج ہے، عورت کے لیے بھی اور مرد کے لیے بھی۔ جو لوگ اِس حقیقت کو جانیں، وہ چیلنج کو ترقی کا ایک زینہ سمجھیں گے اور اُس پر چڑھتے ہوئے اعلیٰ مراتبِ حیات تک پہنچ جائیں گے۔ سُکھ مادّی راحت کا نام نہیں۔ سکھ یہ ہے کہ آدمی اپنے حالات سے مطابقت کا راز جان لے۔
واپس اوپر جائیں

میکے اور سُسرال کا فرق

ایک لڑکی جب اپنی میکے میں ہوتی ہے تو وہ اُن لوگوں کے درمیان ہوتی ہے جن سے اس کا خونی تعلق ہے۔ اِس خونی تعلق کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ میکے میں اس کو یک طرفہ محبت کے ماحول میں جینا ہوتا ہے۔ میکے میں لڑکی کے لیے یہ ماحول ہوتا ہے کہ — تم کچھ نہ کرو تب بھی تم کو ہر چیز ملتی رہے گی۔
سسرال کا معاملہ اِس سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ سسرال میں لڑکی کو غیر خونی رشتے داروں کے درمیان رہناپڑتا ہے۔ میکے کا کلچر اگر دیے بغیر پانے کے اصول پر قائم تھا تو سسرال کا کلچر یہ ہوتا ہے کہ دوگے تو پاؤے گے، اگر نہیں دیا تو تم کو بھی کچھ ملنے والا نہیں۔
لڑکیاں عام طورپر میکے اور سسرال کے اِس فرق کو نہیں سمجھتیں۔ چناںچہ وہ ہمیشہ ایک غیرحقیقی احساس میں جیتی رہتی ہیں— میکے کو اچھا سمجھنا اور سسرال کو اُس کے مقابلے میں بُرا سمجھنا۔ یہ مزاج خواتین میں عام ہے۔ اِس کا نقصان سب سے زیادہ خود خواتین کو بھگتنا پڑتا ہے۔ اپنے اِس غیرحقیقی مزاج کی بنا پر وہ اپنے شوہر سے اور اپنے سسرال والوں سے گہرا تعلق قائم نہیں کر پاتیں۔
خالق نے ہر عورت اور مرد کو مخصوص صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ اِس دنیا میں ہرعورت اور مرد کے لیے کوئی بڑا رول مقدر ہے۔ اِس رول کے لیے ضروری ہے کہ عورت اپنے نیے رشتے داروں کے ساتھ بھر پور تعلق قائم کرکے رہے۔ مگراکثر عورتیں اپنے سسرال والوں کے ساتھ یہ تعلق قائم نہیں کر پاتیں اور نتیجۃً وہ رول ادا نہیں کر پاتیں جو اُن کے خالق نے اُن کے لیے مقدر کیا تھا۔
اِس دنیا میں کسی بڑے رول کے لیے اجتماعی کوشش ضروری ہے۔ گھر اِسی قسم کا ایک اجتماعی ادارہ ہے۔ ہر گھر اپنی اجتماعی کوشش سے ایک بڑا کام کرسکتا ہے، لیکن یہ بڑا کام اُسی گھر کے لوگ انجام دیں گے جو اپنے گھر کو حقیقی معنوں میں ایک اجتماعی ادارہ بنادیں۔
حقیقت یہ ہے کہ کسی عورت کے لیے اس کی سسرال بھی اُسی طرح اس کا اپنا گھر ہے جس طرح اس کا میکہ اس کے لیے اس کا اپنا گھر تھا۔
واپس اوپر جائیں

ایک مشاہدہ

امریکا کے ایک سفر میں مجھے ایک امریکی مسلمان کے گھر میں چند دن قیام کا موقع ملا۔ مذکورہ مسلمان کا نکاح ایک ایسی خاتون سے ہوا جو پاکستان میں پیدا ہوئیں، ان کی پوری پرورش پاکستان میں ہوئی۔ شادی کے بعد وہ امریکا چلی آئیں اور وہاں اپنے شوہر کے ساتھ رہنے لگیں۔
ایک دن ایسا ہوا کہ مرد اپنے جاب پر باہر چلے گیے۔ اُس وقت خاتون مجھ سے ملنے کے لیے آئیں۔ بظاہر وہ مجھ سے نصیحت لینا چاہتی تھیں، لیکن میرے کمرے میں آتے ہی وہ رونے لگیں۔ وہ کچھ بول نہ سکیں اور اِسی حال میں واپس چلی گئیں۔ اگلے دن انھوں نے بتایا کہ میرے شوہر مجھ سے خوش نہیں رہتے۔ میں سوچتی ہوں کہ میں یہاں سے واپس ہوکر اپنے ماں باپ کے پاس چلی جاؤں۔
میں نے اِس مسئلے پر کافی غور کیا اور پورے معاملے کو سمجھنے کی کوشش کی۔ آخر کار میںنے دریافت کیا کہ اِس معاملے کا اصل سبب عورت کے ماں باپ کی نادانی ہے۔ معاملہ یہ تھا کہ خاتون کے ماں باپ نے پاکستان میںاُن کو لاڈ پیار کے ساتھ رکھا، انھیں کبھی گھر کا کام کرنے نہیں دیا۔ گھر کا کام کرنا یا گھر سنبھالنا، اِس کی کوئی تربیت ان کو اپنے میکے میں نہیں ملی۔ اِس کے بعد یہ ہوا کہ ان کے والدین نے ان کا نکاح امریکا میں مقیم ایک مسلمان کے ساتھ کردیا۔ اِس مسلمان میںاخلاقی اعتبار سے کوئی برائی نہ تھی، لیکن ایک عملی پہلو اُن کی زندگی میں ناخوش گواری کا سبب بن گیا۔
انڈیا اور پاکستان میںگھر کے کام کے لیے آسانی کے ساتھ ملازم مل جاتے ہیں۔ اِس لیے یہاں کے والدین ایسا کرسکتے ہیں کہ وہ اپنے گھر کا سارا کام ملازم سے کروائیں اور اپنی بیٹی کو کوئی کام نہ کرنے دیں، لیکن امریکا کی زندگی اِس سے بالکل مختلف ہے۔ امریکا میں گھریلو ملازم نہیں ملتے، چناں چہ یہاں کی خواتین کو گھر کا تمام کام خود کرنا پڑتا ہے۔ دونوں ملک کا یہی فرق مذکورہ خاتون کے لیے مسئلہ بن گیا۔ ان کے ماں باپ نے اُن کو گھر کا کام کرنے کا عادی نہیں بنایا تھا، جب کہ امریکا میں وہ مجبور تھیں کہ گھر کا سارا کام خود کریں۔ والدین کی اِسی نادانی نے مذکورہ خاتون کی زندگی کو اُن کے لیے ایک مصیبت بنا دیا۔
واپس اوپر جائیں

ماؤں کا غلط رول

ماں کو اپنی اولاد سے گہرا جذباتی تعلق ہوتا ہے۔ اس کا نتیجہ عام طورپر یہ ہوتا ہے کہ اولاد کے معاملے میں ماں کے جذبات اس کی عقل پر چھا جاتے ہیں۔ اولاد کے معاملے میں وہ اپنی عقل پر نہیں چلتی، بلکہ جذبات کے تحت چلتی رہتی ہے۔ اس کی سب سے زیادہ کوشش یہ ہوجاتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کی ہر خواہش کو پورا کرتی رہے۔ حالاں کہ ماں کی حیثیت سے اپنی اولاد کے لیے اس کا سب سے بڑا کام یہ ہے کہ وہ اپنی اولاد کو کامیاب انسان بنانے کی کوشش کرے۔ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتاہے۔ پیدائش کے اعتبار سے ہر بچہ مسٹرنیچر ہوتا ہے، لیکن بعد کی کنڈیشننگ کے نتیجے میں ہر بچہ اپنی حقیقی فطرت سے دور چلا جاتا ہے۔یہی مقام ہے جہاں ماں کو اپنا تعمیری رول ادا کرنا ہے۔ اس کو بچے کی خواہشوں کو پورا کرنے کا ذریعہ نہیں بنناہے، بلکہ اپنے بچے کو ہر قسم کے انحراف سے بچا کر اس کی حقیقی فطرت پر اس کو قائم رکھنا ہے۔
مائیں اپنی بڑھی ہوئی محبت کی بنا پر یہ چاہتی ہیں کہ وہ اپنے بچوں کی ہر خواہش کو پورا کریں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بچہ اِس مزاج کے ساتھ جوان ہوتاہے کہ اس کی ہر خواہش کو پورا ہونا چاہیے۔ اس کے بعد جب یہ نوجوان باہر کی دنیا میں آتا ہے تو وہ یہاں برعکس تجربہ کرتا ہے۔ اِس تضاد کا نتیجہ نہایت بری شکل میں نکلتا ہے۔ اس قسم کے نوجوان، شعوری یا غیر شعوری طورپر، یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ان کے گھر کے لوگ بہت اچھے تھے اور باہر کے تمام لوگ نہایت بُرے لوگ ہیں۔گھر کی زندگی اور باہر کی زندگی کا یہی فرق وہ سب سے بڑا سبب ہے جس نے آج تمام انسانوں کو منفی سوچ والا انسان بنادیا ہے۔ آج ہرانسان دوسروں سے کھلی یا چھپی نفرت کرتا ہے۔ اس صورت حال کی سب سے زیادہ ذمّے داری ان عورتوں کے اوپر ہے جو ماں کی حیثیت سے اپنا رول ادا کرنے میں ناکام ہورہی ہیں۔خالق نے ہر ماں کے دل میں اپنی اولاد کے لیے بے پناہ محبت رکھ دی ہے۔ یہ محبت اس لیے تھی تاکہ مائیں ہر مشکل کا سامنا کرتے ہوئے اپنی اولاد کی صالح تربیت کریں، لیکن ماؤں نے اپنی اِس فطری محبت کو صرف لاڈ پیار تک محدود کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پوری انسانیت بگڑے ہوئے انسانوں کا جنگل بن گئی۔
واپس اوپر جائیں

لاڈ پیار کا نقصان

لڑکی کے والدین کی سوچ عام طورپر یہ ہوتی ہے کہ اُن کی لڑکی جب سسرال جائے گی تووہاں اس کو گھر کے سب کام کرنے پڑیں گے، اِس لیے وہ چاہتے ہیں کہ اپنے یہاںوہ اپنی لڑکی سے کوئی کام نہ کرائیں۔ حالاں کہ جو لڑکی اپنے میکے میں کام نہ سیکھے یا کام کی عادی نہ بنے، وہ سُسرال پہنچتے ہی اچانک ایسی نہیں ہوجائے گی کہ وہ زور دار طورپر سارے کام کرنے لگے۔ والدین کا یہ طریقہ ایک جھوٹا لاڈ پیارہے، وہ سچی محبت کا طریقہ نہیں۔
میںنے ایسے والدین دیکھے ہیں جو بچی کے پیدا ہوتے ہی اُس کے لیے جہیز کاسامان تیار کرنے لگتے ہیں، مگریہ صرف ایک نادانی ہے۔ تجربہ بتاتا ہے کہ کبھی کوئی جہیز لڑکی کی زندگی میںاس کے کام نہیں آتا۔ ہرجہیز صرف ایک وقتی نمائش ہے، وہ کسی بھی درجے میں لڑکی کی زندگی کی تعمیر کا کوئی ذریعہ نہیں۔تعمیر کا تعلق تیاری سے ہے، نہ کہ نمائش سے۔
والدین کااصل کام جہیز کی تیاری نہیں ، بلکہ اُن کا اصل کام یہ ہے کہ وہ خود لڑکی کو تیار کریں۔ وہ اپنی لڑکی کو اعلیٰ تعلیم دلائیں۔ وہ اپنی لڑکی کی اچھی تربیت کریں۔ وہ اپنی لڑکی کو عملی زندگی کے آداب سکھائیں۔ وہ اپنی لڑکی کے اندر وہ دانش مندانہ مزاج پیدا کریں جو اجتماعی زندگی کو کامیاب بنانے کے لیے ضروری ہے۔
لاڈ پیار(pampering) ایک پورے کلچر کا نام ہے۔ اُس کا اظہار ہر معاملے میں ہوتا ہے۔ مثلاً بچے کی ہر خواہش پوری کرنا، بچے کی ہر غلطی کو یہ کہہ کر ٹال دیناکہ ابھی بچہ ہے، بڑاہونے پر ٹھیک ہوجائے گا۔ اپنی اولاد کو معصوم سمجھنا اور ہر معاملے میں دوسروں کو ذمے دار ٹھیرانا۔ کھانے پینے کے معاملے میں بچے کی ہر مانگ پوری کرنا، خواہ اس کی صحت خراب ہوجائے۔ بچے کو کوئی کام نہ کرنے دینا۔ اپنے بچے کو ہمیشہ اچھا سمجھنا اور دوسروں کو غلط بتانا۔ اپنے بچے کو آرام کا عادی بنانا۔ اپنی اولاد کو زندگی کی جدوجہد سے دور رکھنا۔ جھوٹی محبت کی بنا پر بچوں کے لیے ہر فیشن کی چیز فراہم کرنا۔ ان کو بچپن ہی سے فیشن کا عادی بنانا، وغیرہ۔
واپس اوپر جائیں

ماں باپ کا رول

میرے تجربے کے مطابق، شادی کے ناکام ہونے کا سب سے بڑا سبب لڑکی کے ماں باپ کا غلط رول ہے۔ میںنے پایا ہے کہ ماں باپ شادی کے وقت تو خوب دھوم مچاتے ہیں۔ وہ اپنی استطاعت سے زیادہ پیسہ خرچ کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ فضول خرچی کا وہ کام کرتے ہیں جس کو قرآن میں شیطانی کام بتایا گیا ہے (الإسراء: 27 )۔ لیکن لڑکی کے ماں باپ کے لیے اِس سے زیادہ ضروری ایک اورکام ہے، اس کو وہ بالکل انجام نہیں دیتے۔ اور وہ ہے لڑکی کو اِس اعتبار سے تیار کرنا کہ وہ شادی کے بعد خوش گوار زندگی گزار سکے۔ تقریباً تمام ماں باپ کا یہ حال ہے کہ وہ اپنی لڑکیوں کے ساتھ لاڈ پیار تو خوب کرتے ہیں، لیکن وہ حقیقی محبت کے معاملے میں ناکام رہتے ہیں۔
ماں باپ کو یہ جاننا چاہیے کہ وہ اپنی لڑکی کو ہمیشہ اپنے پاس نہیں رکھ سکتے۔ ایک وقت آئے گا جب کہ وہ اپنے خاندان سے باہر کے ایک مرد سے اس کا نکاح کریں گے اور اس کے ساتھ رہنے کے لیے لڑکی کو بھیج دیں گے۔ یہ ایک کھلی ہوئی بات ہے کہ ماں باپ کے ساتھ جس ماحول میں لڑکی رہتی ہے، وہ اُس سے بالکل مختلف ہوتا ہے جو بعد کو شوہر کے ساتھ رہنے کی صورت میں اُسے پیش آتا ہے۔ یہ بھی ایک واضح بات ہے کہ لڑکی کا اپنے ماں باپ کے ساتھ رہنا عارضی ہوتا ہے اور شوہر کے ساتھ مستقل۔ ایسی حالت میں ماں باپ کو چاہیے کہ اپنی لڑکی کووہ آداب سکھائیں جو اُس کے لیے بعد کی زندگی میںکام آنے والے ہیں۔ وہ اُس کو تربیت دے کر شوہر کی رفیقِ حیات بنائیں، نہ کہ محض والدین کی نورِ نظر۔
میرا تجربہ ہے کہ ننانوے فی صد سے زیادہ ماں باپ اِس معاملے میںاپنی ذمے داری کو ادا کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ اُن کی اِس کوتاہی کی سزا اُن کی لڑکی کو ساری عمر اپنی بعد کی زندگی میںبھگتنی پڑتی ہے۔ مثلاً عورت اپنی غیر حقیقی تربیت کی بنا پر ہمیشہ اپنے میکے کو اپنا گھر سمجھتی رہتی ہے، حالاں کہ صحیح یہ ہے کہ وہ شادی کے بعد اپنی سُسرال کو اپنا گھر سمجھے۔ اِسی طرح والدین شادی کے بعد بھی اپنی لڑکی پر اپنا حق سمجھتے ہیں اور غیر ضروری مداخلت کرتے رہتے ہیں۔ والدین کا یہ رویّہ محبت کے نام پر دشمنی ہے۔ وہ صرف نادان دوستی ہے اور نادان دوستی ہمیشہ اُلٹا نتیجہ پیدا کرتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

ایک واقعہ

ایک روز انڈیا کے ایک شہر سے میرے پاس ٹیلی فون آیا۔ ایک مسلم خاتون ٹیلی فون پر بول رہی تھیں۔ انھوںنے کہا کہ میری بہن اور ان کے شوہر کے درمیان شادی کے بعد اختلافات پیدا ہوگیے جو حل نہ ہوسکے۔ اب آخری طورپر یہ طے کیاگیا ہے کہ دونوں کے درمیان طلاق کرادی جائے۔ آج شام کو طلاق نامے پر دستخط ہونے والے ہیں۔ آپ دعا کیجیے کہ طلاق کے بعد میری بہن کی زندگی خوش گوار رہے۔
میںنے کہا کہ آپ اپنی بہن سے کہیے کہ وہ مجھ سے بات کریں۔ اِ س کے بعد اُن کی بہن سے ٹیلی فون پر بات ہوئی۔ میںنے پوچھا کہ آپ کے اور آپ کے شوہر کے درمیان کیا اختلافات ہیں۔ انھوںنے کچھ باتیں بتائیں۔ میںنے کہا کہ آپ جو کچھ بتارہی ہیں، وہ کوئی اہم بات نہیں۔ وہ اختلاف کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ یہ آپ کی بڑھی ہوئی حساسیت کا مسئلہ ہے۔ بعض چیزوں کے بارے میں آپ غیر ضروری طورپر حساس ہوگئی ہیں۔ آپ اپنی اس حساسیت پر کنٹرول کیجیے۔ آپ یہ ذہن ختم کردیجیے کہ —’’میں ہی کیوں اُن کی بات مانوں، ان کو بھی میری بات ماننا چاہیے‘‘۔
میںنے کچھ واقعات بتاتے ہوئے اُن سے کہا کہ زندگی دو طرفہ (bilateral) بنیاد پر نہیں چلتی، بلکہ زندگی ہمیشہ یک طرفہ (unilateral) بنیاد پر چلتی ہے۔ آپ اس معاملے میں کوئی استثنا نہیں ہیں۔ اِسی اصول کو قرآن میںقوّامیت(النّساء: 34 ) سے تعبیر کیاگیا ہے۔ یعنی جس طرح ہر کمپنی میں اور ہر اجتماعی ادارے میں ایک ناظم یا باس (boss) ہوتا ہے،اِسی طرح گھر کے اندر بھی ایک فرد کو ناظم، یا باس (boss) کا درجہ دیا جانا چاہیے۔ یہ ایک فطری اصول ہے۔ اس کا تعلق صِنفی برابری یا صنفی نا برابری سے نہیں۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو گھر کے اندر نظم قائم نہ ہوسکے گا۔ اور نظم کے بغیر کسی ادارے میں ترقی ممکن نہیں۔
مذکورہ خاتون نے میری بات مان لی اور باہم مل کر رہنے کا فیصلہ کیا۔انھوں نے طلاق کے مطالبے کو واپس لیتے ہوئے اپنے شوہر سے کہہ دیا کہ— میں آپ کو اپنا باس مانتی ہوں اور کسی شرط کے بغیر آپ کے ساتھ رہنے کے لیے تیار ہوں۔ اِس کا نتیجہ مثبت شکل میں نکلا۔ اب وہ دونوں اپنے گھر میں خوش گوار زندگی گزار رہے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

برابری میںنکاح

عام طورپر سمجھا جاتا ہے کہ نکاح ہمیشہ کُفو میںہونا چاہیے، غیر کفو میں نہیں۔یعنی برابری کے رشتوں میں نکاح ہو تو دونوں کے درمیان آسانی کے ساتھ نباہ ہوگا، اور اگر دونوں میں معاشی اور خاندانی اعتبار ے نابرابری ہو تو شوہر اور بیوی دونوں ہمیشہ پریشان رہیں گے۔مگر یہ صرف ایک مفروضہ ہے۔ نتیجے کے اعتبار سے دیکھاگیا ہے کہ نام نہاد کفو کے درمیان شادی بھی اتنا ہی مسائل کا شکار رہتی ہے جتنا کہ نام نہاد غیر کفو کے درمیان شادی۔ اصل یہ ہے کہ کامیاب شادی کا تعلق کفو یا غیرکفو سے نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق اِس بات سے ہے کہ طرفین شادی شدہ زندگی کو گزارنے کا آرٹ جانتے ہوں۔
عام طورپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ زوجین میں سے ایک نے اگر مشرقی تعلیم پائی ہے اور دوسرے کو اگر مغربی تعلیم ملی ہو، یا ایک امیر فیملی کا ہو اور دوسرا غریب فیملی کا، یا ایک گاؤں کا ہو اوردوسرا شہر کا، ایک اسمارٹ ہو اور دوسرا غیر اسمارٹ، ایک سفید فام ہو اور دوسرا سیاہ فام، ایک کی عمر زیادہ ہو اور دوسرے کی عمر کم، وغیرہ۔زوجین کے درمیان اگر اس قسم کا فرق پایا جائے تو یہ نابرابری کی شادی ہے اور ایسی شادی کا ناکام ہونا مقدر ہے۔
مگر یہ ایک غلط مفروضہ ہے۔ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ گھر کی حیثیت ایک مکمل ادارہ (institute) کی ہے۔ عام ادارے کی طرح، گھر کے ادارے کے بھی مختلف شعبے ہوتے ہیں۔ مذکورہ نابرابری کو مینج (manage) کرنے کا نہایت آسان طریقہ یہ ہے کہ عورت اور مرد دونوں تقسیم کار کے اصول کو اپنا لیں۔ ہر ایک اپنی صلاحیت کے اعتبار سے ایک شعبے کو لے لے اور اس کو اپنی صلاحیت کے مطابق، آزادانہ طورپر چلائے۔
تقسیم کار کے اِس اصول کی کامیابی کی شرط صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ دونوں فریق یہ بات طے کرلیں کہ انھیں اپنے آپ کو صرف اپنے شعبے تک محدود رکھنا ہے، کسی ایک کو دوسرے کے شعبے میں مداخلت نہیں کرنا ہے۔ نابرابری کے نکاح کا حل تقسیم کار ہے۔ اس کے سوا کوئی اور فارمولا اِس مسئلے کا حل نہیں۔
واپس اوپر جائیں