Pages

Sunday, 2 March 2008

Al Risala | March 2008 (الرسالہ،مارچ)

2

- سب سے بڑا مسئلہ

3

- جہاد اسلامی تاریخ میں

15

- عظیم ترین شہادت

28

- گلوبل وارمنگ یا ڈِوائن وارننگ

31

- انسانی تاریخ کے دو دَور

35

- فرائض اور نوافل

38

- بریک اِن ہسٹری

40

- کامیابی کا فارمولا

41

- کثرت کے درمیان قلّت

42

- اِزد واجی زندگی

43

- حُسنِ تدبیر

44

- جھوٹ کی دو قسم

45

- غریبی اور امیری


سب سے بڑا مسئلہ

انسان کی زندگی ایک باشعور زندگی ہے۔ انسان ایک زندہ وجود ہے اور اسی کے ساتھ وہ اپنے زندہ ہونے کا شعور بھی رکھتا ہے۔ اس کا یہ شعور حسّاسیت (sensitivity)کی حد تک بڑھا ہوا ہے۔ انسان کامل درجے میں باشعور ہے اور اسی کے ساتھ وہ کامل درجے میں حسّاس بھی ہے۔انسان کی اِس صفت کا نتیجہ یہ ہے کہ اُس کو کوئی اچھا تجربہ ہو تو وہ بہت زیادہ خوش ہوتا ہے، اور اگر اس کو کوئی بُرا تجربہ پیش آئے تو وہ بہت زیادہ پریشان ہوجاتا ہے۔ خوشی اورغم دونوں قسم کے جذبات انسان کے اندر آخری انتہائی درجے تک پائے جاتے ہیں۔
انسان کے اندر یہ دونوں صفتیں پیدائشی طورپر پائی جاتی ہیں۔ اِس کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ آدمی بہت زیادہ جنت کا طالب بنے اور وہ بہت زیادہ جہنم سے ڈرنے والا بن جائے۔ کیوں کہ موت کے بعد ہر آدمی کا آخری ٹھکانہ یا تو جنت میںہونے والا ہے، یا جہنم میں۔ جنت ابدی طورپر خوشیوں اور راحتوں کی جگہ ہے اور جہنم ابدی طورپر غم اورحسرت کی جگہ۔ آدمی اپنے عمل کے اعتبار سے دونوں میںسے کسی انجام تک لازماً پہنچنے والا ہے۔ اِس لیے ہر انسان کو اِس معاملے میںسب سے زیادہ فکر مند ہونا چاہیے۔ مگر عجیب بات ہے کہ انسان اِس سنگین ترین معاملے میں اُس حدیثِ رسول کی تصویر بنا ہوا ہے جو اِن الفاظ میں آئی ہے: ما رأیتُ مثلَ الجنّۃ نامَ طالبُِہَا، ومارأیتُ مثلَ النّارِ نامَ ہَارِبُہَا ( الترمذی، کتاب صفۃُ جہنّم)۔ یعنی کیسی عجیب بات ہے کہ لوگ جنت جیسی قیمتی چیز کے طالب نہیں بنتے، اور کیسی عجیب بات ہے کہ لوگ جہنم جیسی خوف ناک چیز سے بچنے کی کوشش نہیں کرتے۔
خدا کا خوف کوئی منفی چیز نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ خدا کی معرفت جب اپنے آخری درجے میں پہنچتی ہے تو وہ خدا کا خوف بن جاتی ہے۔ ایسا آدمی بے پناہ حد تک جنت کا طالب بن جاتا ہے۔ اِسی کے ساتھ اُس کو ہر وقت یہ اندیشہ لگا رہتا ہے کہ اگر خدا نے اس کے لیے جنت کا فیصلہ نہ کیا تو اس کا کیا حال ہوگا۔ یہ معرفت کا اعلیٰ درجہ ہے، اور اِسی اعلیٰ معرفت کا نام تقویٰ ہے۔
واپس اوپر جائیں

جہاد اسلامی تاریخ میں

جہاد کے لفظی معنیٰ کوشش یا جدّ وجہد کے ہیں۔ اِس سے مراد اصلاً پُرامن کوشش ہے۔ قرآن کی سورہ نمبر پچیس میں ارشاد ہوا ہے— اُن سے جہاد کرو، قرآن کے ذریعے، بڑا جہاد (الفرقان: 52 ) قرآن کی اِس آیت میں جہاد یا ’جہادِ کبیر‘ سے مراد واضح طورپر پُرامن دعوتی جد و جہد ہے۔ اِسی طرح حدیث میں آیا ہے: المجاہد مَن جاہد نفسہ فی طاعۃ اللّٰہ (مسند احمد، جلد 6، صفحہ 22) یعنی مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس کے خلاف خدا کی اطاعت کے لیے جہاد کرے۔ اِس حدیثِ رسول میں جس چیز کو جہاد کہاگیا ہے، وہ بھی واضح طورپر ایک پُرامن عمل ہے، اُس کا جنگ اور قتال سے کوئی تعلق نہیں۔
تاہم، توسیعی معنوں میں کبھی جہاد کا لفظ قتال کے لیے بھی بولا جاتا ہے، یعنی حربی جہاد کے لیے۔ موجودہ زمانے میں جہاد کا لفظ عام طورپر مسلّح جہاد کے لیے استعمال ہونے لگا ہے۔ آج کل مختلف ملکوں میں مسلمان اپنے مفروضہ دشمنوں کے خلاف مسلّح کارروائیوں میں مشغول ہیں اور اُن کو وہ جہاد فی سبیل اللہ کہتے ہیں، مجھے اِس سے اتفاق نہیں۔ تاہم، زیر نظر مضمون میں ہم عمومی استعمال کے لحاظ سے جہاد کو مسلّح جہاد کے معنیٰ میں لیتے ہوئے اِس موضوع کا ایک تاریخی جائزہ لیں گے۔
1 - پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے 610 عیسوی میں مکہ میں اپنے مشن کا آغاز کیا۔ اُس وقت مکہ پر مشرک لوگوں کا اقتدار قائم تھا۔ اُس وقت مکہ میںآپ کی حیثیت داعی کی تھی اور بقیہ لوگوں کی حیثیت مدعو کی۔ مکہ کے مشرک سردار آپ کے نظریۂ توحید کے دشمن بن گیے اور آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو تشدد کا نشانہ بنانے لگے۔ اِسی حال میں تیرہ سال گزر گیے۔ اِس دوران مکہ اور اطرافِ مکہ اور مدینہ کے بہت سے لوگ اسلام قبول کرکے آپ کے ساتھی بن گیے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ مکی دَور کے آخر میں آپ کے ساتھیوں نے آپ سے اِصرار کیا کہ ہم مشرکینِ مکہ کے خلاف لڑیں گے۔ اُس وقت آپ کے ساتھیوں کی تعداد مجموعی طورپر تقریباً اتنی ہی تھی جتنی کہ غزوۂ بدر کے موقع پر شریک ہونے والے صحابہ کی۔ لیکن اُس وقت آپ نے جنگ کا فیصلہ نہیں کیا، بلکہ آپ نے اپنے ساتھیوں کو یہ جواب دیا کہ: اصبروا، فإنی لم أومر بالقتال یعنی تم لوگ صبر کرو، کیوں کہ مجھ کو جنگ کا حکم نہیں دیا گیا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ جواب، اسلام کی ایک اہم تعلیم کو بتاتاہے۔ وہ تعلیم یہ کہ جنگ ایک قائم شدہ حکومت کاکام ہے، غیر حکومتی تنظیمیں، یا افراد جنگ نہیں کر سکتے۔ اُن کے لیے غیر سیاسی میدان میں پُرامن جدوجہد کرنا ہے، نہ کہ مسلّح ٹکراؤ کرنا۔ اِسی بات کو دورِ تابعین میں مسیّب ابن رافع تابعی نے اِس طرح بیان کیا کہ کچھ اجتماعی چیزیں وہ ہیں، جن کا تعلق صرف حُکّام سے ہوتا ہے۔ اِسی لیے اُن کو ’صَوافی الأُمراء‘ کہاجاتا ہے،یعنی حاکموں کا میدان (جامع بیان العلم، جلد 2، صفحہ 144)۔ علماء کے اتفاق کے مطابق، مسلّح جہاد کا تعلق، صوافی الامراء سے ہے، یعنی اُس کا فیصلہ صرف حکام کرسکتے ہیں، نہ کہ عوام (الرّحیل للإمام)۔
مکی دَور کے تیرہ سالوں میں اہلِ اسلام کا اقتدار قائم نہیں ہوا تھا، اِس لیے مکی دور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظلم کے باوجود جنگ اور قتال کا فیصلہ نہیں فرمایا۔ اِس کے بعد جب ہجرت کا واقعہ پیش آیا اور مدینہ میں پیغمبر اسلام کا اقتدار قائم ہوگیا تو آپ نے دفاع کے لیے جنگ کی اجازت دی۔ اِسی زمانے میں غزوۂ بدر (2 ہجری)، غزوۂ اُحُد (3ہجری) اور غزوۂ حُنَین (8ہجری) کے واقعات پیش آئے، یہ سب دفاعی غزوات تھے۔ اسلام میں صرف دفاعی جنگ جائز ہے اور اُس کا اختیار بھی صرف حاکمِ وقت کو حاصل ہوتا ہے، کسی غیر حکومتی گروہ کو مسلح جہاد کی ہرگز اجازت نہیں۔
اسلام میں اگر چہ دفاع کے لیے جنگ کی اجازت ہے، لیکن اسی کے ساتھ شدت سے اِعراض کا حکم دیا گیا ہے، یعنی دفاع کے حالات پیدا ہونے کے باوجود آخری حد تک جنگ سے اعراض کی کوشش کی جائے گی اور جب اعراض کی تمام کوششیں ناکام ہوجائیں، اُ س وقت آخری چارۂ کار کے طور پر دفاعی جنگ کی جائے گی۔ اِس سلسلے میں یہ بات نہایت اہم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں صرف تین بار باقاعدہ جنگ(fullfledged war) ہوئی، یعنی بدر اور احد اور حنین کی جنگ۔ اس کے سوا جن واقعات کو ’غزوہ‘ کہا جاتا ہے، وہ یا تو صرف پُرامن مہمیں (peaceful campaigns)تھیں،مثلاً غزوۂ تبوک (9 ہجری)، یا جنگ کی حالت پیدا ہونے کے باوجود جنگ سے اعراض، مثلاً غزوۂ خندق (5 ہجری) یا بعض واقعات کی صورت میں صرف جھڑپیں (skirmishes)۔ غزوۂ خیبر (7 ہجری) کی نوعیت اِسی قسم کی ہے۔
جنگ کے باقاعدہ واقعات بھی اِس طرح ہوئے کہ اُن میں عملاً صرف آدھے دن کی لڑائی ہوئی، یعنی دوپہر کے بعد جنگ کا آغاز اور شام تک جنگ کا خاتمہ، جیسا کہ غزوۂ بدر اور غزوۂ احد اور عزوۂ حنین کے موقع پر پیش آیا۔ اِس لحاظ سے یہ کہنا درست ہوگا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے 23 سالہ دورِ نبوت میں مجموعی طورپر صرف ڈیڑھ دن کے لیے جنگ کی۔
2 - حدیث کی کتابوں میں دوسرے ابواب کے ساتھ عام طور پر ’کتابُ الفتن‘ کا باب ہوتا ہے۔ اِس باب کے تحت، بہت سی ایسی حدیثیں آئی ہیں، جن میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے شدت کے ساتھ امت کو یہ حکم دیا کہ تم لوگ کسی بھی حال میں وقت کے حاکموں سے جنگ نہ کرنا۔ آپ نے فرمایا کہ تمھارے نزدیک خواہ حکم رانوں میں کتنا ہی بگاڑ کیوں نہ آجائے ، لیکن تم اُن کے خلاف لڑائی نہ چھیڑنا۔ لوگوں نے پوچھا کہ پھر ایسے حالات میں ہم کیا کریں۔ آپ نے فرمایا کہ تم اپنے اونٹوں اور اپنی بکریوں کو لے کر پہاڑیوں میں چلے جاؤ، یا کسی کے پاس زمین ہے تو وہ اپنی زمین میں جاکر کاشت کرنے لگے (مشکاۃ المصابیح، جلد 3، صفحہ 1482 )۔
اِسی بنا پر علما کا اِس بات پر اتفاق ہے کہ حکم رانوں کے خلاف خروج کرنا، یا اُن سے جنگ کرنا اہلِ اسلام کے لیے جائز نہیں۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: صحیح مسلم، شرح نووی، جلد 12 ، صفحہ 129 )۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اِن صریح احکام اور علمائِ اسلام کے اِس پر اتفاقِ عام کی بنا پر یہ ہوا کہ امت میںعوام اور حکم رانوں کے درمیان سیاسی ٹکراؤ کا بالکل خاتمہ ہوگیا۔پیغمبر اسلام کے بعد تقریباً بارہ سوسال تک مسلم حکومتیں ساری دنیا میں قائم رہیں۔ اُن میں ہر طرح کے سیاسی بگاڑ بھی پیش آئے، لیکن وقت کے علما نے کبھی اُن کے خلاف سیاسی ٹکراؤ یا سیاسی جنگ نہیں چھیڑی۔
مفسرین اور محدثین، فقہا اور علما ہمیشہ اپنے علمی دائرے میں مشغول رہے۔ اُنھوں نے کبھی سیاسی بگاڑ کے حوالے سے وقت کے حکم رانوں سے مسلّح ٹکراؤ نہیں کیا۔ عدم ٹکراؤ کے یہی پالیسی تھی جس کے نتیجے میں اسلامی علوم کی تدوین ہوئی اور اسلام کا عظیم کتب خانہ وجود میں آیا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اسلام کا کتب خانہ تو نہ بنتا، البتہ ہر جگہ شہیدوں کا قبرستان ضرور بن جاتا۔
3 - بارہ سو سال کی اِس طویل مدت میں ہم کو صرف ایک استثنائی واقعہ ملتاہے اور وہ حسین بن علی (وفات: 680 ء) کا واقعہ ہے، مگر میں اپنے مطالعے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ جس حُسین کو لوگ جانتے ہیں، وہ ایک خود ساختہ شخصیت ہے، تاریخ میں ایسے کسی حُسین کا وجود نہیں۔
اصل واقعہ یہ ہے کہ حُسین بن علی مکہ میں تھے۔ اُن کو خبر ملی کہ کوفہ (عراق) کے کئی لوگوں نے اُن پر غائبانہ بیعت کرلی ہے اور وہ اُنھیں کوفہ بلا رہے ہیں۔ اِس خبر کو سُن کر وہ مکہ سے کوفہ کے لیے روانہ ہوئے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جس دن حضرت حسین مکہ سے روانہ ہوئے، اُس دن کوفہ کے لوگ اپنی بیعت توڑ چکے تھے۔ اگر وہ ٹیلی فون کا زمانہ ہوتا تو حضرت حسین کو فوراً ہی نقضِ بیعت کی خبر مل جاتی اور یقینا وہ مکہ سے کوفہ کے لیے روانہ نہ ہوتے۔ اگر چہ اُس وقت بہت سے صحابہ موجود تھے اور انھوں نے حضرت حسین کو سفر سے روکا، لیکن وہ اپنے اہلِ خاندان کے تقریباً اَسّی افراد کو لے کر کوفہ کے لیے روانہ ہوگیے۔ اِس سفر میں کوئی صحابی اُن کے ساتھ موجود نہ تھا۔ گویا کہ یہ کوئی جنگی سفر نہ تھا، بلکہ وہ نجی نوعیت کا ایک سفر تھا۔
حضرت حسین اپنے خاندان کے لوگوں کے ساتھ جب کوفہ کے قریب کربلا کے مقام پر پہنچے تو وہاں یزید کے مقامی حاکم عبید اللہ بن زیاد (وفات: 686 ء)نے اُن کو آگے بڑھنے سے روکا۔ مستند تاریخی روایات کے مطابق، اُس وقت حضرت حسین نے کہا کہ میں تم سے لڑنا نہیں چاہتا۔ تم مجھ کو چھوڑ دو، تاکہ میں واپس لوٹ کر مکہ پہنچ جاؤں، یا پھر تم مجھ کو یزید کے پاس دمشق لے چلو اور میں یزید کے ہاتھ پر بیعت کرلوں گا(إما أن أضع یدی فی ید یزید ، تاریخ الطَبری، جلد 4، صفحہ 313 )۔
اُس وقت کوفہ میں یزید کی حکومت کی طرف سے شَمِر بن ذی الجوشَن ایک فوجی دستے کے ساتھ موجود تھا۔ یزید کی کسی ہدایت کے بغیر اُس نے خود سے یہ فیصلہ کیا کہ حُسین کو واپس لوٹنے نہیں دینا ہے۔ اِس کے بعد اُس نے اپنے مسلّح فوجی دستے کے ساتھ حسین کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔ اُس نے حضرت حسین کے ساتھ وہی معاملہ کیا جس کو آج کل کی زبان میں فرضی مڈبھیڑ(fake encounter) کہاجاتا ہے۔ چناں چہ شمر ذی الجوشن نے حضرت حسین کی آمادگی کے بغیر اُن کو لڑنے پر مجبور کیا اور پھر انھیں قتل کرڈالا۔
حسین بن علی کے معاملے میں جو اصل واقعہ پیش آیا، اُس کو تاریخ طَبری یا البدایہ والنہایہ، وغیرہ میں دیکھا جاسکتا ہے۔اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ یزید کی رضا مندی کے بغیر ایک سرکش آدمی نے حُسین کو گھیر کر اُنھیں قتل کردیا۔ موجودہ زمانے میں جس طرح حُسین کی شہادت کے عنوان سے اُس کوبیان کیا جاتا ہے اور شاعری اور انشاپردازی کی زبان میںاُس کو جس طرح گلوری فائی کیا جاتا ہے، وہ تمام تر حُسین کی خود ساختہ تصویر ہے، اُس کا حقیقتِ واقعہ سے کوئی تعلق نہیں۔ اصل حقیقت بدستور یہی ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بارہ سوسال تک ایسا نہیں ہوا کہ علما سیاسی بگاڑ کے نام پر وقت کے حکم رانوں سے لڑائی کریں۔ اس کے بجائے، انھوں نے یہی کیا کہ حکّام سے عدم تعرض کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے اپنے آپ کو علمی اور دینی اور دعوتی کاموں میں مشغول رکھا۔
4 - یہ تاریخ اٹھارھویں صدی عیسوی کے آخر میں بدلتی ہے۔ اِس سے پہلے یہ ہوتا تھا کہ مسلم حکم راں تمام سیاسی اور فوجی معاملات سے نپٹتے رہے، لیکن اٹھارھویں صدی میں مغربی قوموں کے ظہور کے بعد علما نے محسوس کیا کہ اب مسلم حکم راں اپنے فرض کی ادائیگی میں کوتاہ ثابت ہورہے ہیں۔ مثلاً عثمانی تُرکوں کے بحری بیڑے کو اٹھارھویں صدی کے آخر میں مغربی قوموں نے تباہ کردیا۔1799 ء میں انگریزوں نے میسور کے سلطان ٹیپو کو ہلاک کردیا۔ ہندستان میں 1857ء میں برٹش فوج نے مغل سلطنت کا خاتمہ کردیا، وغیرہ۔
اِس طرح کے واقعات کے بعد پہلی بار ایسا ہوا کہ مسلم علما نے محسوس کیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ وہ اِس معاملے میں کچھ کریں۔ جس کام کو مسلم حکم راں انجام نہ دے سکے، اُس کو وہ اپنی مسلّح مداخلت کے ذریعے انجام دیں۔ اِس طرح ، اسلامی تاریخ میں پہلی بار انیسویں صدی عیسوی کے آغاز میں یہ واقعہ پیش آیا کہ مسلم علما اور مسلم رہ نماؤں نے اپنے دائرے سے نکل کر مسلّح سیاست کے دائرے میں قدم رکھ دیا۔
میں ذاتی طورپر اِس کو مُبتدعانہ سیاست سمجھتا ہوں۔ یہ اسلام میںبلا شبہہ ایک سیاسی بدعت تھی۔ اِس سیاسی بدعت کا آغاز غالباً سب سے پہلے انڈیا میںہوا۔ 1831 ء میں سید احمد بریلوی (وفات: 1831) اور اُن کے ساتھیوں نے مہاراجارنجیت سنگھ کے خلاف مسلّح جہاد کیا۔ وہ اور اُن کا حلقہ واضح طور پرایک غیر حکومتی گروہ کی حیثیت رکھتا تھا، اِس اعتبار سے انھیں مسلّح جہاد کا کوئی حق نہ تھا۔ مگر ان کاخیال تھا کہ مغل حکومت اتنی زیادہ کم زور ہوچکی ہے کہ وہ پیدا شدہ مسائل سے عہدہ برآ نہیں ہوسکتی۔ اُن کا یہ اقدام دینی اعتبار سے سیاسی بدعت اور عقلی اعتبار سے سیاسی نادانی کی حیثیت رکھتا تھا، کیو ں کہ مہاراجا رنجیت سنگھ کی فوج نہایت طاقت ور فوج تھی۔ مہاراجا نے فرانس کے رٹائرڈ جنرلوں کو بلا کر اپنی فوج کو ٹرینڈ کیا تھا۔ چناں چہ سید احمد بریلوی اور ان کے ساتھیوں کا پورا قافلہ بالا کوٹ کے میدان میں ہلاکت کا شکار ہوکر رہ گیا۔
اِس کے بعد1857ء میں سہارن پور (دیوبند) کے علما نے برٹش گورنمنٹ کے خلاف مسلّح جہاد کیا۔ اِس موقع پر طاقت کا توازن انتہائی غیر متناسب طورپر برطانیہ کے حق میں تھا۔ چناں چہ دوبارہ یک طرفہ تباہی کے سوا کچھ اور حاصل نہیں ہوا۔
انیسویں صدی عیسوی اور بیسویں صدی عیسوی میں اِس طرح کے کئی واقعات عالمِ اسلام میں ہوئے۔ مثلاً مَہدی سوڈانی (وفات:1885 ء) نے سوڈان (افریقہ) کے علاقے میں برٹش راج کے خلاف مسلّح جہاد کیا، حالاں کہ اُن کو حکومتی حیثیت حاصل نہ تھی۔اِس اقدام میں اُنھیں ابتدائی طورپر کچھ کامیابی ہوئی، مگر بعد کو لارڈ کِچنر(Horatio Hebert Kitchner) نے جدید ٹکنالوجی کا استعمال کرکے مہدی سوڈانی کی ’’بغاوت‘‘ کو کچل دیا۔ لارڈ کچنر کو 1898 ء میں برطانیہ کی طرف سے سوڈان کا گورنر جنرل بنایا گیا۔
اِسی طرح غیر حکومتی افراد کی طرف سے مسلّح جہاد کا ایک معاملہ وہ ہے جو لیبیامیں پیش آیا۔ 1911ء میں اٹلی نے سمندری راستے سے لیبیا پر حملہ کیا اور اُس پر اپنا قبضہ کرلیا۔میں نے فروری 1976ء کے سفر میں وہ وسیع مکان دیکھا، جس میں اٹلی کا گورنر رہتا تھا۔ اِس مکان کو اب قومی میوزیم بنا دیاگیا ہے۔ اٹلی کا یہ قبضہ 1911ء سے 1943 ء تک باقی رہا۔
اٹلی کے قبضے کے دوران یہاں مجاہدین کا ایک گروہ پیداہوا۔ یہ بھی غیر حکومتی گروہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ انھوں نے اٹلی کے قبضے کے خلاف مسلح جہاد کیا۔ اِس گروہ کے لیڈر احمد الشریف السَّنوسی (وفات: 1933 ) تھے۔ اِس ٹکراؤ میں مذکورہ گروہ نے غیر معمولی قربانیوں کا ثبوت دیا، لیکن انھیں اپنے مقصد میں کامیابی نہ ہوسکی۔ اس میوزیم میں ان مجاہدین کے کچھ آثار رکھے ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک کَتبہ وہ ہے جس کے اوپر یہ نعرہ لکھا ہوا ہے: مُوتوا الیوم أعزاء، قبل أن تموتوا غداً أذلاّء (آج عزّت کے ساتھ مرجاؤ، قبل اِس کے کہ کل تمھیں ذلّت کے ساتھ مرنا پڑے)۔
یہ جملہ بتاتا ہے کہ اِن عرب مجاہدین کے نزدیک، اُن کے لیے لیبیا میں صرف دو میں سے ایک کا انتخاب(option) تھا، یعنی بے عزتی کی زندگی جینا، یا عزت کے ساتھ مرجانا۔ مگر یہ صرف ایک ثَنائی سوچ (dichotomous thinking) تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ اُن کے لیے ایک تھرڈ آپشن (third option)بھی وہاںموجود تھا، جوبلاشہبہ اُن کے لیے زیادہ بہتر تھا، اور وہ تھا— سیاسی ٹکراؤ سے اعراض کرتے ہوئے غیرسیاسی میدان میں تعمیری کام کرنا۔ مثلاً تعلیم، دعوت، جدید ٹکنالوجی کو اقتصادی ترقی میں استعمال کرنا، وغیرہ۔
یہی معاملہ فلسطین میں پیش آیا۔ بالفور ڈیکلریشن (Balfour Declaration)کے تحت، فلسطین کے ایک حصے میں اسرائیل کا قیام عمل میںآیا۔یہ1948 کا زمانہ تھا۔ اُس وقت حسن البنا (وفات:1949 ) اور الاخوان المسلمون نے قاہرہ کی سڑکوں پر بہت بڑا جلوس نکالا۔ اِس جلوس کا نعرہ تھا: لبّیک، یا فلسطین، لبّیک، یا فلسطین۔ حسن البنا، یا الاخوان المسلمون کو بلاشبہہ حکومتی حیثیت حاصل نہ تھی، اِس کے باوجود انھوں نے اسرائیل کے خلاف مسلح جہاد چھیڑ دیا۔ اِس میں شک نہیں کہ یہ غیر حکومتی جہاد بھی ایک مبتدعانہ فعل تھا۔ چناں چہ وہ مکمل طورپرناکام ہوکر رہ گیا۔
اِسی طرح کا معاملہ جموں وکشمیر میں پیش آیا۔ یہاں مختلف ناموں کے ساتھ مجاہدین کی جماعتیں بنیں۔ اِن جماعتوں کو باہر کے مسلم ملکوں سے خفیہ امداد دی گئی۔چناں چہ انھوں نے زبردست جانی اور مالی قربانیوں کے ذریعے کشمیر میں مسلح جہاد شروع کردیا۔ یہ کشمیری مجاہدین، حکومت کا حصہ نہ تھے۔ اِس بنا پر اُنھیں مسلح جہاد کا کوئی شرعی حق نہیں تھا۔ مگر انھوںنے نہایت دھوم کے ساتھ مسلح جہاد شروع کیا۔ اگرچہ خود کُش بم باری کی آخری حد تک پہنچنے کے باوجود وہ اپنے مسلح جہاد میں کوئی بھی کامیابی حاصل نہ کرسکے۔وہ اپنے مطلوب نشانے تک پہنچنے میں پوری طرح ناکام ہوگیے۔
5 - غیر حکومتی گروہوں کے ذریعے مسلّح جہاد کا یہ عمل مکمل طورپر غیر شرعی تھا۔ اِس کے باوجود وہ کیوں جاری رہا۔ اِس کا واحد سبب یہ تھا کہ تمام دنیا کے علما نے یا تو اُس کی کھلی تائید کی، یا خاموش رہ کر اُس کی حوصلہ افزائی کی۔ دو سو سال کی اِس پوری مدت میں پوری مسلم دنیا کے علما کا یہی رویّہ تھا اور تادمِ تحریر اُن کا یہی رویہ بدستور قائم ہے۔ اِس معاملے میں کچھ علما، خاص طورپر عرب علما، اِس حد تک گیے کہ انھوں نے خودکُش بم باری کو بھی ایک جائز فعل قرار دیا۔مثلاً دکتور یوسف القرضاوی نے فلسطینیوں کی خود کش بم باری (suicide bombing) کو استشہاد قر ار دیا ہے، یعنی طلبِ شہادت کا عمل(عملیّۃ استشہادیۃ، المجتمع، 18 جون 1996 ،صفحہ 34, 35)۔ مگر یہ سرتاسر ایک غیر اسلامی فتویٰ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں شہید ہونا ہے، اسلام میں شہید کروانا نہیں، جن لوگوں نے خود کش بم باری کو استشہاد قرار دیا، انھوںنے بلا شبہہ ایک ایسا فعل کیا جس کا اسلامی شریعت میں کوئی جواز موجود نہیں۔
جیسا کہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے، اِس مدت میں چند علما ایسے نکلے جنھوں نے مذکورہ قسم کے مسلح جہاد سے اتفاق نہیں کیا۔ مثلاً سید احمد بریلوی نے مہاراجا رنجیت سنگھ کے خلاف 1831ء میں پنجاب میں جو مسلح جہاد کیا، اُس کے خلاف خود اُن کے حلقے کے ایک عالم نے اُس سے سخت اختلاف کیا۔ اُن کا نام یہ تھا— مولانا میر محبوب علی دہلوی (وفات: 1864ء)۔ جب سید احمد بریلوی نے ان کی بات نہیں مانی تو وہ اُن سے الگ ہوکر اپنے وطن (دہلی) واپس آگیے۔
اِسی طرح دیوبنداورسہارنپور کے علماء نے 1857 ء میں انگریزوں کے خلاف مسلّح جہاد کیا۔ اُس وقت وہاں ایک بڑے عالم مولانا شیخ محمد تھانوی (وفات: 1865 ) موجود تھے۔ انھوں نے کہا کہ آپ لوگوں کے لیے یہ مسلح جہاد جائز نہیں۔ اِس پر دیوبند کے علما سے اُن کی گفتگو ہوئی، لیکن علما اُن کی بات کو ماننے پر تیار نہیں ہوئے۔
اِسی طرح الاخوان المسلمون کے مُرشدِ عام حسَن الہُضیبی (وفات: 2004 ) ایک مصری عالم تھے۔ انھوں نے الاخوان المسلمون سے اختلاف کیا اور اس پر ایک کتاب بھی لکھی جو عربی میں ’دُعاۃ... لاقُضاۃ‘ کے نام سے قاہرہ سے شائع ہوچکی ہے۔ حسن الہضیبی اگر چہ الاخوان المسلمون کے مرشدِ عام تھے، لیکن اِس کتاب کا کوئی اثر الاخوان المسلمون کی تحریک پر نہیں پڑا۔
بعض علما کی یہ اصلاحی کوشش کیوں کامیاب نہ ہوسکی۔ اس کاسبب یہ تھا کہ یہ لوگ زیادہ مدلّل انداز میں اپنی بات پیش نہ کرسکے۔ اُن کے ارشادات زیادہ تر اختلاف کی نوعیت کے تھے، وہ معاملے کی مدلل تردید کی حیثیت نہیں رکھتے تھے۔ اِس بنا پر اُن کے خیالات کا بے اثر ہوجانا ایک فطری امر تھا اور عملاً ایسا ہی ہوا۔
6 - قرآن میں پیغمبر اور آپ کے ساتھیوں کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے: وقاتلوہم حتیٰ لاتکون فتنۃ، ویکون الدّینُ کلّہ للّٰہ (الأنفال:39 ) یعنی تم اُن سے جنگ کرو، یہاں تک کہ فتنہ نہ رہے اور دین سب کا سب اللہ کا ہوجائے۔اِس آیت میں ’قاتلوہم‘ سے مراد عوام سے جنگ نہیں، بلکہ سردارانِ وقت سے جنگ ہے۔ جنگ ہمیشہ اقتدار کے مالکوں سے کی جاتی ہے، جیسا کہ قرآن میں آیا ہے: قاتلوا أئمۃَ الکفر (التوبۃ: 12)
اِس آیت میں ’فتنۃ‘ کالفظ استعمال ہوا ہے۔ مفسرینِ قرآن نے عام طورپر یہ لکھا ہے کہ فتنہ سے مراد کفر اور شرک ہے۔ مگر اس کا مطلب مجرد شرک یا اعتقادی شرک نہیں ہوسکتا۔ کیوں کہ شرک یا کفر، دوسرے امتحانی پرچوں کی طرح امتحان کا ایک پرچہ ہے۔ امتحان کے تمام پرچے قیامت تک باقی رہیں گے۔ اُن میںسے کسی امتحانی پرچے کو قیامت سے پہلے منسوخ یا معدوم نہیں کیا جاسکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس آیت میں فتنہ سے مراد شرکِ جارح، یا کفرِ جارح ہے، جیسا کہ عبد اللہ بن عباس کی روایت سے معلوم ہوتا ہے۔
شرکِ جارح کیا چیز ہے، اِس سے مراد وہی چیز ہے جس کو آج کل کی اصطلاح میں مذہبی تعذیب کہاجاتا ہے۔اس کا ایک حوالہ قرآن کی سورہ نمبر 85 میں ملتا ہے۔ اس سورہ میں ارشاد ہوا ہے— ہلاک ہوئے خندق والے جس میں بھڑکتے ہوئے ایندھن کی آگ تھی۔ جب کہ وہ اُس پر بیٹھے ہوئے تھے۔ اور جو کچھ وہ ایمان والوں کے ساتھ کررہے تھے، وہ اُس کو دیکھ رہے تھے۔ اور اُن سے اُن کی دشمنی اِس کے سوا کسی وجہ سے نہ تھی کہ وہ ایمان لائے اللہ پر، جو زبردست ہے، تعریف والا ہے (البروج:4-8 )۔
اصل یہ ہے کہ قدیم زمانے میں مذہب کو اسٹیٹ کے معاملات (state affairs) میں سے ایک معاملہ سمجھتا جاتا تھا۔ اُس زمانے میں اسٹیٹ ریلیجن (state religion) کے سوا، کسی اور مذہب کو اختیار کرنا، اسٹیٹ سے بغاوت کے ہم معنیٰ تھا۔ یہ صورتِ حال، خدا کے تخلیقی نقشہ (creation plan) کے خلاف تھی۔ خدا کے تخلیقی نقشے کا تقاضا ہے کہ دنیا میں مذہبی جبر نہ ہو، بلکہ مذہبی آزادی ہو۔ تاکہ لوگوں کے بارے میں صحیح یا غلط کا حکم لگایا جاسکے۔اِس لیے خدا نے پیغمبر اور اصحابِ پیغمبر کو یہ حکم دیا کہ وہ اِس سیاسی جارحیت کا خاتمہ کردیں، تاکہ اسٹیٹ کا معاملہ اور مذہبی عقیدے کا معاملہ دونوں ایک دوسرے سے الگ ہوجائیں۔
اِس معاملے پرمزید غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ اِس تعلیم کا مطلب انسانی تہذیب میں ایک نیے دور کا آغاز کرنا تھا۔ ایک ایسا دورجس میں اسٹیٹ کا حاکمانہ تعلق صرف انتظامِ مُلکی سے رہے اور بقیہ تمام معاملات حکومتی اقتدار سے باہر کی چیز بن جائیں۔ یہ گویا کہ مذہبی آزادی کی تکمیل ہے۔ اِس معاملے کو دوسرے لفظوں میں، ڈی سنٹرلائزیشن آف پاور(de-centralization of power) کہا جاسکتا ہے۔
سیاسی اقتدار کی تحدید(demarcation) انسانی تاریخ میںایک انقلابی تبدیلی لانے کا معاملہ تھا۔ اِس قسم کا انقلاب تاریخ میں اچانک واقع نہیں ہوتا۔ وہ ہمیشہ ایک لمبے عمل (process) کے ذریعے ظہور میں آتا ہے۔ اِس معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا۔ رسول اور اصحابِ رسول کے زمانے میں شرکِ جارح کو ختم کیا گیا۔ یہ واقعہ عرب میں مشرکانہ اقتدار کے خاتمے اور دوسری طرف بازنطینی ایمپائر اور ساسانی ایمپائر کے خاتمے کے ذریعے پیش آیا۔
اس واقعے کے بعد تاریخ میں ایک نیا پراسس شروع ہوا۔ یہ ڈی سنٹرلائزیشن آف پاور کا پراسس تھا۔ یہ پراسس مدینہ سے شروع ہوا۔ اس کے بعد وہ مسلسل جاری رہا۔ اٹھارھویں صدی کاآخر اِس پراسس کا نقطۂ انتہا (culmination) تھا۔ اِس کے بعد رفتہ رفتہ ساری دنیا میں یہ نظام قائم ہوگیا کہ حکومتی اقتدار کاتعلق صرف انتظام ِ ملکی(administration) تک محدود ہوگیا۔اِس کے سوا، زندگی کے تمام شعبے سیاسی اقتدار سے آزاد ہوگیے۔ مثلاً تعلیم، مذہب، صحافت، نظریاتی اشاعت، صنعت اورتجارت، وغیرہ۔
اِس انقلاب کے بعد دنیا میںایک نیا دور آگیا، جس کو انسٹی ٹیوشن کا دور کہاجاتا ہے، یعنی وہ دور جب کہ آزاد ادارہ بنا کر کسی بھی کام کو کیا جاسکتا ہے۔ پولٹکل پاور کو اب یہ حق نہیں رہا کہ وہ اداروں کے قیام کو روکے۔ موجودہ زمانے میں سیاسی ادارہ صرف ایڈمنسٹریشن تک محدود ہوگیا۔ اِس کے سوا تمام دوسرے کام، آزاد اداروں کے ذریعے انجام دیے جاسکتے ہیں۔
قتالِ فتنہ کی مذکورہ آیت میں ارشاد ہوا تھا— ’’اور دین سب اللہ کا ہوجائے‘‘۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی انتظام کے سوا جو مذہبی معاملات ہیں، براہِ راست طورپر یا بالواسطہ طورپر، وہ سب سیاسی حاکمیت سے آزاد ہوجائیں۔ انسان کو یہ موقع حاصل ہوجائے کہ وہ مذہب کے معاملے میں آزادانہ طورپر جو چاہے کرے، کسی سیاسی اقتدار کو اُس پر پابندی عائد کرنے کا حق باقی نہ رہے۔
7 - وہ زمانہ جس کو موجودہ زمانہ کہاجاتاہے، وہ اِسی کامل مذہبی آزادی کا زمانہ تھا۔اِس زمانے میں اہلِ اسلام کو مکمل طورپر یہ موقع حاصل تھا کہ وہ سیاسی اقتدار کے محدود دائرے کے باہر اسلام کی تمام سرگرمیاں آزادانہ طورپر جاری کرسکیں۔ اسلامی تنظیم، اسلامی تعلیم، اسلامی دعوت، اسلامی اصلاح، اسلامی اقتصادیات، وغیرہ تمام معاملات میں انھیں پورا ختیار حاصل ہوچکا تھا، مگر زمانی تبدیلی سے بے خبری کی بنا پر اہلِ اسلام جدید مواقع کے استعمال کی منصوبہ بندی نہ کرسکے، بلکہ انتہائی نادانی کے ساتھ سیاست کی چٹان سے ٹکرانے لگے۔
جدید مواقع سے مراد مذہبی آزادی، جدید کمیونکیشن، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا، ادارتی تنظیم کی جدید سہولتیں، اشاعتِ افکار کے عالمی مواقع، سائنٹفک دلائل کا ظہور، ذہنی کٹرپن کا خاتمہ، اسپرٹ آف انکوائری، انگریزی کی صورت میں عالمی زبان کا وجود میں آنا، اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں کے قیام کے امکانات، وغیرہ۔ اِن جدید مواقع کو استعمال کرنے کی صوت میں مسلمان تمام اسلامی مقاصد کو اعلیٰ ترین درجے میں حاصل کرسکتے تھے۔
آغازِ اسلام کے بعد ایک ہزار سال سے زیادہ مدت تک علمائِ اسلام یہ کرتے رہے کہ حکم رانوں سے ٹکراؤ، یا مفروضہ ظالموں کے خلاف مسلّح جہاد سے وہ مکمل طورپر دور رہے۔ انھوںنے اپنی ساری توانائی قرآن اور حدیث اور دوسرے علومِ اسلامی کی خدمت میں لگا دی۔ وہ دعوتِ دین اور تعلیمِ اسلام جیسے کاموں میں مصروف رہے۔ انھوں نے مسجد اور مدرسہ جیسے تعمیری اور ربّانی ادارے قائم کرکے غیر سیاسی انداز میںاسلام کی خدمات انجام دیں۔ اِسی پالیسی کا یہ نتیجہ تھا کہ اسلام ایک اعلیٰ تہذیب اور ایک شان دار تاریخ کے روپ میں دنیا میں قائم ہوگیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ماضی میں اسلام کے تمام شان دار کارنامے علمائِ دین کی اِسی تعمیری پالیسی کا نتیجہ تھے۔
موجودہ زمانے میں علمائِ اسلام کو یہی موقع دوبارہ زیادہ بڑے پیمانے پر حاصل ہوا۔ اُن کو چاہیے تھا کہ وہ اہلِ اقتدار کے خلاف مسلّح جہاد کے ممنوعہ میدان میں نہ داخل ہوں، بلکہ وہ اسلام کو دوبارہ علمی اور فکری اور تہذیبی اعتبار سے آج کی دنیا میں قائم کرنے کی کوشش کریں۔ اگر وہ ایسا کرتے تو وہ قدیم سیاسی ایمپائر سے بھی زیادہ بڑے پیمانے پر اسلام کا غیر سیاسی ایمپائر بنا سکتے تھے، مگر علمائِ اسلام کو زمانی بصیرت سے محرومی کی یہ قیمت دینی پڑی کہ انھوں نے اپنے خیال کے مطابق، قربانی کی یادگاریں تو ضرور قائم کیں، لیکن وہ اسلام کو دنیا کے سامنے اِس طرح پیش نہ کرسکے کہ دینا، اسلام کو اپنے لیے زندگی کا سرچشمہ سمجھے اور حال کا انسان بھی اُس کو اُسی طرح قبول کرے جس طرح ماضی کے انسان نے اس کو آگے بڑھ کر قبول کیا تھا۔
واپس اوپر جائیں

عظیم ترین شہادت

شہادت کے لفظی معنٰی گواہی(witness) کے ہیں۔ شہادت، قرآن کی ایک خاص اصطلاح ہے۔ اس سے مراد وہی چیز ہے جس کو دوسرے لفظوں میں دعوت الی اللہ کہاگیا ہے۔ شہادت، واحد دینی عمل ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نصرت کا کام (الصّف: 14) بتایا ہے۔
اللہ کو یہ مطلوب ہے کہ تمام پیدا ہونے والے انسانوں کو ان کی موت سے پہلے بتادیا جائے کہ ان کے بارے میں خالق کا تخلیقی پلان (creation plan)کیا ہے۔ قبل از موت زندگی کیا ہے اور بعد از موت زندگی کیا ہے۔ اسی لیے اس کام کو قرآن میں اِنذار و تبشیر(الأحزاب: 45 ) کا کام قرار دیا گیا ہے۔
یہی وہ خاص کام ہے جس کے لیے خدا نے ہر زمانے میں اپنے پیغمبر بھیجے اور اب ختم ِ نبوت کے بعد یہی کام آپ کے امتیوں کو انجام دینا ہے۔ جو شخص انذار و تبشیر کے اس کام کو انجام دے وہ داعی ہے، اور جس کے اوپر اس کا م کو انجام دیا جائے وہ مدعو ہے۔ داعی اور مدعو کے اس تعلق کو قرآن میں شاہد اور مشہود (البروج: 3 ) کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔
دعوت یا شہادت کا یہ عمل انسان کی تخلیق کے آغاز ہی میں شروع ہوگیا تھا۔ چناں چہ آدم پہلے انسان بھی تھے اور پہلے پیغمبر بھی ۔ اس مقصد کے لیے ہر مقام پر او رہر زمانے میں پیغمبر آتے رہے۔ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم اس سلسلۂ نبوت کی آخری کڑی تھے۔ اب کوئی اور پیغمبر آنے والا نہیں، لیکن پیغمبر کا دعوتی کام پیغمبر کے متبعین کے ذریعے بدستور باقی ہے اور قیامت تک باقی رہے گا۔
تاہم تاریخی اعتبار سے اس دعوتی کام کے دو دور ہیں—قبل از سائنس دور اور بعد از سائنس دور۔ جدید سائنس کے ظہور سے پہلے دنیا میں توہمات (superstitions) کا غلبہ تھا۔ جدید سائنس نے پہلی بار اِس توہماتی دور کو ختم کیا۔ اس کے بعد دنیا میں عقلی طرزِ فکر کا دور آیا۔ اس اعتبار سے دعوتی عمل کے بھی دو مختلف ادوار ہیں۔ ایک، قدیم روایتی دور میں کیا جانے والا دعوتی کام اور دوسرا، جدید سائنسی دور میں کیا جانے والا دعوتی کام۔ جدید دورِ سائنس میں کیا جانے والا یہی دعوتی کام ہے جس کو حدیث میںعظیم ترین شہادت قرار دیا گیا ہے۔(صحیح مسلم، کتاب الفتن، باب ذکر الدّجال)
دعوت یا شہادت کے اِس عظیم ترین کام کا ذکر خود قرآن میں بھی موجود ہے۔ قرآن کی سورہ نمبر 42 میں بتایا گیا ہے کہ مستقبل میں ایسے دلائل ظاہر ہوں گے جن کے ذریعے حق کی تبیینِ اعلیٰ ممکن ہوجائے گی۔ اِس قرآنی آیت کا ترجمہ یہ ہے: عن قر یب ہم اُن کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے، کائنات میں بھی اور خود انسانوں کے اندر بھی، یہاں تک کہ لوگوں پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ بلاشبہہ حق ہے (حمٓ السجدۃ: 53 ) ۔
اوّل الذکر حدیثِ رسول میں بتایاگیا ہے کہ آخری زمانے میں جب کہ دجّالی فتنہ ظاہر ہوگا، ایک شخص اس کے مقابلے میں ’حَجیج‘ بن کر اٹھے گا۔ وہ دجّالی فتنے کو حجت اور دلیل (rational argument) کے ذریعے ختم کرے گا اور امرِ حق کو اعلیٰ ترین سطح پر مُبرہن کردے گا، اور یہ دعوتی کام اللہ رب العالمین کے نزدیک لوگوں کے اوپر امرِ حق کی اعلیٰ ترین شہادت کے ہم معنی ہوگا (ہٰذا أعظم الناس شہادۃً عند ربّ العالمین)۔
بظاہر اِس حدیث رسول میں ایک فرد (حجیج) کا ذکر ہے، لیکن اِس دنیا میں کوئی بھی بڑا کام ایک فرد کا ذاتی کارنامہ نہیںہوتا۔ اصل یہ ہے کہ زمانے میں کچھ خصوصی مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ یہ مواقع ہمیشہ لمبے تاریخی عمل کے ذریعے ظہور میں آتے ہیں۔ اِس معاملے میں فرد کا حصہ یہ ہے کہ وہ اِن مواقع کو دریافت کرتا ہے اور منصوبہ بند انداز میں اُن کو استعمال کرتاہے۔ اِس طرح وہ چیز ظہور میں آتی ہے جس کو انقلاب کہاجاتا ہے۔ کوئی انقلاب کبھی بھی شخصی چمتکار کا نتیجہ نہیں ہوتا، بلکہ وہ موجود مواقع کو دانش مندانہ انداز میں استعمال کرنے کا نتیجہ ہوتا ہے۔ یہی معاملہ دینی انقلاب کا بھی ہے اور یہی معاملہ سیکولر انقلاب کا بھی۔
اِس معاملے کی ایک سیکولر مثال انڈیا کے قومی لیڈر مہاتما گاندھی کی ہے۔ 1947میںانڈیا کو برطانیہ کے مقابلے میںجو سیاسی آزادی ملی، عام طورپر اُس کو مہاتما گاندھی کا کارنامہ بتایا جاتا ہے۔ اِس معاملے میں ایک مقبول نظم میں ایک شاعر گاندھی کی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے:
سابرمتی کے سنت، تونے کردیا کمال!
مگر حقیقت یہ ہے کہ ہندستان کی سیاسی آزادی، مہاتما گاندھی کا شخصی چمتکار نہ تھا، وہ دورِ جدید کے مواقع کو استعمال کرنے کا نتیجہ تھا۔ شہنشاہ اورنگ زیب (وفات: 1707 ) کے زمانے میں مرہٹہ لیڈر اورسکھ لیڈر اسی طرح کے سیاسی نشانے کو لے کر اٹھے، مگروہ کامیاب نہ ہوسکے۔ اس کے برعکس، مہاتما گاندھی برطانوی حکمرانوں کے مقابلے میں سیاسی مقصد کو لے کر اٹھے اور کامیاب ہوگئے۔ اِس فرق کا سبب زمانی فرق ہے۔ مہاتما گاندھی کو بیسویں صدی عیسوی کا زمانہ ملا، جب کہ دنیا میں ڈیماکریسی، سیکولرازم، قومی خودمختاری، صحافتی آزادی، حقوقِ انسانی(human rights) کا زمانہ آچکا تھا۔ اِس تبدیلی کے نتیجے میں مہاتما گاندھی کو وہ زمانی حمایت حاصل ہوچکی تھی جو اورنگ زیب کے زمانے میںاٹھنے والے لیڈروں کو حاصل نہ تھی۔ مہاتما گاندھی نے اِن جدید مواقع کو استعمال کیا۔ اِس طرح وہ اپنے سیاسی مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
یہی معاملہ دینی انقلاب کا بھی ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عظیم انقلاب برپا کیا۔ تمام مورخین اِس کو بطور واقعہ تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن یہ بھی شخصی چمتکار کا معاملہ نہ تھا، بلکہ وہ زمانے کے موجود مواقع کو استعمال کرنے کا معاملہ تھا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے کے موجود مواقع کو دانش مندی کے ساتھ استعمال کیا، اس کے نتیجے میں وہ انقلاب ظاہر ہوا جس کو ہم اسلامی انقلاب کہتے ہیں۔
یہ مواقع ڈھائی ہزار سالہ تاریخ کے نتیجے میں پیدا ہوئے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش (570 ء) سے تقریباً ڈھائی ہزار سال پہلے حضرات ابراہیم مکہ آئے، جو اُس وقت صرف ایک بے آب و گیاہ صَحرا کی حیثیت رکھتا تھا۔ وہاں انھوں نے اپنی اہلیہ ہاجرہ اور اپنے بیٹے اسماعیل کو بسا دیا۔ یہ واقعہ تفصیل کے ساتھ حدیث میںآیا ہے (صحیح البخاری، کتاب الأنبیاء)۔
اِس طرح متمدّن شہروں سے دور صحرا کے اِس فطری ماحول میں ایک نسل بننا شروع ہوئی۔ یہ نسل، انسانی تہذیب کی کنڈیشننگ سے پاک تھی۔ صحرا کے اس فطری ماحول میں تربیت پاکر ایک نئی قوم تیار ہوئی۔ ایک مستشرق نے بجا طور پر اس کو ہیروؤں کی قوم(a nation of heroes) کا نام دیا ہے۔ یہی انوکھی قوم پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کا میدان بنی۔ پیغمبر کی تعلیم و تربیت کے ذریعے اِنھیں کے اندر سے صحابہ کا وہ استثنائی گروہ نکلا، جس کو قرآن میں خیرِ امت (آل عمران: 110)کہا گیا ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے ساری دنیا پر مشرکانہ تہذیب کا غلبہ تھا۔ اِس ماحول میں پیدا ہونے والے ہر عورت اور مرد کا کیس کنڈیشننگ کا کیس بن چکا تھا۔ اِس کنڈیشننگ کی بنا پر وہ لوگ پیغمبر کے پیغام پر کھلے ذہن کے ساتھ سوچنے کے قابل نہ رہے۔ ڈھائی ہزار سال کی صحرائی ڈی کنڈیشننگ کے نتیجے میںایک نئی قوم پیدا ہوئی، جو آزادانہ طورپر سوچنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ قدیم اہلِ عرب کی یہی خصوصیت تھی جس کی بنا پر ایسا ہوا کہ انھوں نے پیغمبر اسلام کی دعوت کو سمجھا اور اس کو دل وجان کے ساتھ قبول کرلیا۔ اِس طرح وہ انقلابی ٹیم بنی جس کو اصحابِ رسول کہاجاتا ہے۔
یہی تاریخ موجودہ زمانے میں ایک نئی صورت میں دہرائی گئی ہے۔ موجودہ زمانے میں جو سائنسی انقلاب آیا، اُس کو مغربی مصنف جان فریڈرِک ویسٹ (John Fredrick West) نے اپنی کتاب میں عظیم ذہنی انقلاب (great intellectual revolution) کا ٹائٹل دیا ہے۔ زیر بحث موضوع کے اعتبار سے اِس انقلاب کو ڈی کنڈیشننگ کا ایک عظیم واقعہ(great event of de-conditioning) کہنا زیادہ صحیح ہوگا۔
جدید سائنسی انقلاب کا ایک پہلو، اس کا ٹکنکل پہلو ہے۔ اور اس کا دوسرا پہلو، اس کا فکری پہلو ہے۔ فکری پہلو کے اعتبار سے سائنس نے جو کارنامہ انجام دیا، وہ اپنی گہرائی اور وسعت کے اعتبار سے عالمی ڈی کنڈیشننگ (universal de-conditioning) کے ہم معنیٰ تھا۔ اِس کے نتیجے میں تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ مائتھا لوجی اور توہم پرستی(superstitions) کے زیر اثر سوچنے کا دور عملی طورپر ختم ہوگیا۔ اب لوگوں کے اندر بڑے پیمانے پر روحِ تجسس(spirit of inquiry) پیدا ہوئی۔ لوگ قومی اور سماجی تعصبات سے اوپر اٹھ کر خالص موضوعی (objective) انداز میں سوچنے لگے، چیزوں کو فارگرانٹیڈ(for granted)لینے کا دور ختم ہوگیا اور ثابت شدہ حقائق کی بنیاد پر اُن کو ماننے کا زمانہ آگیا۔ قدیم زمانے میں مسلّمات پر مبنی سوچ کا طریقہ رائج تھا، اب یہ ذہن بن گیا کہ حقیقی وجود صرف اُس چیز کا ہے جو سائنسی جانچ (scientific scrutiny) پر پوری اُترے۔
تحقیق کا یہ ذہن ابتداء ً مخصوص سائنسی موضوعات کے ذیل میں پیدا ہوا، مگر دھیرے دھیرے وہ مذہب کے دائرے تک پہنچ گیا۔ چناں چہ ایک نیا علمی موضوع پیدا ہوا جس کو تنقید ِعالیہ (higher criticism) کہا جاتا ہے۔ اِس سائنسی تنقید کے نتیجے میں تمام مذاہب کا علمی اور تاریخی استناد مشتبہ ہوگیا۔ اِس عموم میں صرف ایک استثنا تھا، اور وہ ہے مذہبِ اسلام کا استثنا۔
جدید سائنسی تحقیقات نے ایک طرف، دوسرے مذاہب کے بارے میں بتایا کہ وہ علمی اور تاریخی اعتبار سے ثابت شدہ مذہب کی حیثیت نہیں رکھتے۔ دوسری طرف، اِنھیں سائنسی تحقیقات کے ذریعے یہ ثابت ہوگیا کہ اسلام استثنائی طورپر ایک ایسا مذہب ہے جس کو علمی اور تاریخی اعتبار سے کامل استناد(credibility) کا درجہ حاصل ہے۔
اِسی کے ساتھ جدید سائنس نے اور بہت سے اُن موافق دلائل کو واضح کیا جس کو قرآن میں آیات (signs) کہاگیا ہے۔ اِس طرح دورِ جدید، دینِ خداوندی کے حق میں ایک عظیم نعمت کی حیثیت رکھتا تھا۔ اِس دور میںایک طرف یہ ہوا کہ بہت بڑے پیمانے پر لوگوں کی ڈی کنڈیشننگ عمل میں آئی، یعنی ایک ایسا گروہ وجود میں آیا جو ہر قسم کے پیشگی تعصبات (pre-occupations) سے آزاد ہو کر خالص جوہر (merit) کی بنیاد پر رائے قائم کرسکتا تھا۔
فیصلے کی یہ بنیاد جو موجودہ زمانے میں تاریخ کے طویل عمل کے بعد پیدا ہوئی، وہ عین دین ِخداوندی کے حق میں تھی، مگر اِس امکان کو حقیقی طورپر استعمال نہ کیا جاسکا۔ اِس کا سبب صرف ایک تھا، اور وہ یہ کہ موجودہ زمانے کے تقریباً تمام مسلم رہ نما اور مفکرین مواقع بلائنڈ (opportunity blind) ہوگئے، وہ جدید مواقع کو دیکھنے سے مکمل طورپر محروم رہے۔ انھوں نے انتہائی نادانی کے ساتھ جدید حالات کو اپنا دشمن سمجھ لیا اور اُس کے خلاف ایک ایسی غیر دانش مندانہ لڑائی میں مصروف ہوگئے جس کا انجام کامل تباہی کے سوا اورکچھ نہ تھا۔
موجودہ زمانہ میں دنیا بھر کے مسلم رہ نما، مواقع بلائنڈ کیوں ہوگئے، اِس کا جواب ہم کو ایک حدیثِ رسول سے ملتا ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حُبّک الشیٔ یعمی ویصمّ (أبوداؤد، کتاب الأدب) یعنی کسی چیز کی محبت تم کو اندھا اور بہرا بنا دیتی ہے۔ اِس قولِ رسول میںایک اور مفہوم بھی لازمی طورپر شامل ہے، وہ یہ کہ: بُغضُک الشیٔ یعمی ویصمّ، یعنی کسی چیز کے ساتھ دشمنی تم کو اندھا اور بہرا بنا دیتی ہے۔
یہی موجودہ زمانے کے مسلم رہ نماؤں کے ساتھ ہوا۔ موجودہ زمانے میں جو انقلاب آیا، وہ مغربی قوموں یا مغربی تہذیب کے ذریعے آیا تھا۔ بعض سیاسی اسباب کے تحت، موجودہ زمانے کے مسلم رہ نماؤں نے مغربی قوموں یا مغربی تہذیب کو اپنا دشمن سمجھ لیا، وہ ان سے نفرت کرنے لگے۔ اِس منفی نفسیات کی بنا پر ایسا ہوا کہ وہ مغرب کی طرف سے آئی ہوئی ہر چیز کو سازش اور دشمنی کی نظر سے دیکھنے لگے۔ مغربی قوموں یا مغربی تہذیب کے ذریعے اسلامی دعوت کے عظیم مواقع کھُلے تھے، لیکن یہ رہ نما اپنے منفی ذہن کی بنا پر اِن جدید مواقع کو دیکھنے سے قاصر رہے۔
میرے علم کے مطابق، اِس معاملے میں کسی بھی مسلم رہ نما کا کوئی استثنا نہیں۔ افغانستان کے سیدجمال الدین افغانی، عرب ورلڈ کے سید قطب، ایران کے آیت اللہ خمینی، انڈیا کے ڈاکٹر محمد اقبال سب یکساں طورپر اِس منفی نفسیات کا شکار بن گئے، حتی کہ مولانا حمید الدین فراہی جیسا غیر سیاسی آدمی بھی اپنے آپ کو اِس منفی نفسیات سے محفوظ نہ رکھ سکا۔ اب آخری وقت آگیا ہے کہ ہم اِس معاملے پر نظرِثانی کریں اور شخصیت پرستی کے دائرے سے باہر آکر جدید مواقع کو سمجھیں۔ اِس کے بغیر نہ جدید مواقع کی معرفت حاصل ہوگی اور نہ ان کو استعمال کرنا ممکن ہوسکے گا۔
جدید دور نے جو عظیم مواقع اسلامی دعوت کے حق میں پیدا کیے، اُن میں سے ایک یہ ہے کہ جدید دور میں پہلی بار حق کے داعیوں کو ایک عظیم استدلالی امکان حاصل ہوا، جس کو مشترک استدلالی بنیاد (mutually accepted ground) کہاجاسکتا ہے۔
قدیم زمانے میں جن داعیانِ حق نے دعوت الی اللہ کا کام کیا، اُن کے پاس اپنے پیغام کی صداقت کو ثابت کرنے کے لیے صرف روایتی دلیل ہوتی تھی۔ اُس زمانے کا ذہنی فریم ورک روایتی عقائد پر قائم تھا، اِس لیے اُس زمانے کے داعیوں نے اس فریم ورک کے مطابق کلام کیا اور روایتی دلائل کی زبان میں اپنا پیغام لوگوں تک پہنچایا۔ اِس میں استثنا صرف پیغمبروں کا ہے، جنھوں نے خدا کی خصوصی نصرت کے تحت کچھ معجزات پیش کیے، جن کو اُن کے معاصرین نے جادو کا کرشمہ کہا اور اس کو ماننے سے انکار کردیا۔
موجودہ زمانے میں سائنسی انقلاب کے بعد پہلی بار یہ امکان پیدا ہوا ہے کہ ایسی بنیاد پر اپنی بات کو ثابت کیا جائے جس کا دلیل ہونا، فریقِ ثانی کے نزدیک بھی تسلیم شدہ ہو۔ اِس قسم کی مشترک استدلالی بنیاد پہلے زمانے میں ممکن نہ تھی، مگر آج وہ پوری طرح ایک ممکن چیز بن گئی ہے۔ مگر موجودہ زمانے کے مسلم رہ نما اپنی منفی نفسیات کی بنا پر موجودہ زمانے کو صرف مسائل (problems) کی نظر سے دیکھتے رہے، وہ موجودہ زمانے کو مواقع(opportunities) کی نظر سے نہ دیکھ سکے۔ اِس بنا پر وہ اِن مواقع کو استعمال کرنے سے بھی قاصر رہے۔
مثلاً قدیم زمانے میں تمام فلاسفہ اور سیکولر مفکرین یہ سمجھتے تھے کہ دینی حقیقتوں کو ثابت کرنے کے لیے اوّل درجے کا استدلال (primary rationalism) موجود نہیں، دینی حقیقتوں کے لیے صرف ثانوی درجے کا استدلال (secondary rationalism) ممکن ہے۔مثال کے طورپر قدیم زمانے کے علمائِ الٰہیات، خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے وہ دلیل استعمال کرتے تھے، جس کو ڈزائن سے استدلال (argument from design) کہاجاتا ہے، یعنی دنیا کی چیزوں میں ڈزائن ہے تو ضرور اُن کا ایک ڈزائنر ہے:
Where there is a de sign, there is also a designer, and when designer is proved, existence of God is also proved.
اِس استدلال کو قدیم سیکولر مفکرین یہ کہہ کر نظر انداز کردیتے ہیں کہ یہ ایک استنباطی استدلال (inferential argument) ہے، نہ کہ براہِ راست استدلال (direct argument) ۔ لیکن موجودہ زمانے کی سائنسی تحقیقات نے اس اعتراض کو بے بنیاد ثابت کردیا۔ اب یہ ثابت ہوگیا کہ استنباطی استدلال واحد استدلال ہے جو اِس دنیا میں ممکن ہے، سیکولر حقیقتوں کو ثابت کرنے کے لیے بھی اور مذہبی حقیقتوں کو ثابت کرنے کے لیے بھی۔
یہ حقیقت اُس وقت سامنے آئی، جب کہ بیسویں صدی میں سائنس کی تحقیقات عالمِ کبیر (macro world) سے گزر کر عالمِ صغیر (micro world)تک پہنچ گئیں۔جب تک انسان کا علم عالم کبیر تک محدود تھا، یہ سمجھا جاتا تھا کہ چیزیں قابلِ مشاہدہ ہیں، صحیح استدلال وہی ہے جو مبنی بر مشاہدہ ہو، لیکن بیسویں صدی میں جب انسانی علم ترقی کرکے عالمِ صغیر تک پہنچ گیا تو معلوم ہوا کہ اس دنیا میں کوئی بھی چیز قابلِ مشاہدہ نہیں۔علم کی اس ترقی کا فکری نتیجہ تھا کہ استدلالی منطق میں تغیر واقع ہوگیا۔ اب یہ مان لیا گیا کہ استنباطی استدلال بھی اتنا ہی معقول (valid) ہے، جتنا کہ براہِ راست استدلال ۔
اصولِ استدلال میں اس تبدیلی سے الٰہیات یا علم کلام میں بنیادی تغیر واقع ہوگیا۔ اب یہ ممکن ہوگیا کہ مذہب کے تصورات کو ٹھیک اسی منطقی بنیاد پر ثابت کیا جاسکے، جس بنیاد پر اس سے پہلے غیر مذہبی تصورات کو ثابت کیا جاتا تھا۔ان مذہبی تصورات میں وہ تمام تصورات شامل ہیں جن کو مذہبی عقائد کہاجاتا ہے۔ مثلاً توحید، ملائکہ، نبوت، آخرت، جنت اور جہنم، وغیرہ۔ اس طرح منطقی اعتبار سے وہ فرق باقی نہ رہا جو روایتی طورپر مذہبی علم اور سیکولر علم کے درمیان سمجھا جاتا تھا۔ اب استدلالی بنیاد کے اعتبار سے دونوں کی سطح بالکل یکساں ہوگئی ہے۔ یہ بہت بڑا علمی انقلاب ہے جو جدید دور میں پیش آیا ہے۔
مہدی اور مسیح کی آمد
حدیث کی کتابوں میں کئی ایسے کردار کا ذکر ہے جو تاریخِ انسانی کے آخری د ور میں ظاہر ہوں گے۔ ان میں سے دو کردار وہ ہیں جن کے لیے حدیث میں مہدی اور مسیح کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن روایتوںکو لے کر مسلمانوں کے اندر شعوری یا غیر شعوری طورپر وہ ذہن بن گیا ہے جس کو ایک فارسی شاعر نے اِن الفاظ میں بیان کیا ہے:
مَردے از غیب بروں آید وکارے کند
یعنی وہ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ دینِ خداوندی کے سلسلے میں کوئی بڑا کام اُس وقت انجام پائے گا جب کہ کوئی ’’آنے والا‘‘ پُر اسر ار طورپر آئے گا اور معجزاتی طورپر بڑے بڑے کام کر ڈالے گا۔ اِس تصور نے مسلمانوں کے اندر ذہنی جمود (intellectual stagnation) کی حالت پیدا کردی ہے۔ ان کے اندر سے تخلیقی فکر(creative thinking) کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ دین کی دعوت کے لیے کسی بڑے کام کا حوصلہ ان کے اندر موجود نہیں ۔ عام انسانوں کے لیے ذمہ داری کا کوئی احساس وہ اپنے اندر نہیں پاتے۔ ان کا ذہن یہ بن گیا ہے کہ اپنے اور اپنے اہلِ خاندان کے معاملات کو درست کرنے میں لگے رہیں، اس کے علاوہ انسانیتِ عامہ کی نسبت سے جو وسیع تر ذمہ داریاں ہیں، ان کے سلسلے میں ان کو صرف یہ کرنا ہے کہ کسی آنے والے کا انتظار کرتے رہیں۔ ’’مَردے از غیب‘‘ کے اِس عقیدے کا انجام یہ ہوا ہے کہ ان میں سے تقریباًہر شخص کے اندر ایک کم زور شخصیت پیدا ہوگئی ہے۔
ہر ایک کا یہ حال ہے کہ اپنے ذاتی مفاد کے معاملے میں وہ آخری حد تک با عمل ہے، اور انسانیت عامہ کے مفاد کے معاملے میں آخری حد تک بے عمل ۔ وہ اکرامِ خویش کو جانتاہے لیکن وہ اکرامِ غیر کو نہیں جانتا۔ اس کے پاس اپنوں کے لیے دعائیں ہیں اور ’’اغیار‘‘ کے لیے صرف بد دعائیں۔ اپنے لیے تو انھوں نے جنت الفردوس میں رزرویشن کرارکھا ہے، لیکن دوسری قوموں کو جہنم سے بچانے کی ان کو کوئی فکر نہیں۔ وہ اپنے معاملات کے بارے میں آخری حد تک خوش فہم بنا ہوا ہے، وغیرہ۔ اس قسم کی کمزوریاں مسلمانوں کے اندر عام طورپر پیدا ہوگئی ہیں اور یہ صرف اس بات کا نتیجہ ہیں کہ موجودہ مسلمانوں نے یہ عقیدہ بنا لیا ہے کہ دینی دعوت کاکوئی بڑا کام صرف اس وقت انجام پائے گا جب کہ پُر اسرار طور پر ایک معجزاتی شخصیت، ہندو اصطلاح کے مطابق، اچانک پرکٹ ہوجائے گی اور پھر وہ خود ہی تمام مسلمانوں کے حصے کا کام کر ڈالے گی۔
اس قسم کے تمام خیالات بلا شبہہ بے بنیاد ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حدیث میں مہدی اور مسیح کے نام سے مستقبل کے جن کرداروں کا ذکر آیا ہے، وہ کردار کے حوالے سے مواقع کی پیشین گوئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بعد کے زمانے میں تاریخی عمل (process) کے نتیجے میں نئے قسم کے عظیم مواقع ظاہر ہوں گے۔ اُس وقت یہ ممکن ہوجائے گا کہ کوئی خدا کا بندہ ان مواقع کو استعمال کرکے بہت بڑا دعوتی کام انجام دے گا۔
اس قسم کی حدیثیں کسی کراماتی شخصیت کے ظہور کی پیشین گوئی نہیں ہیں، بلکہ وہ شخصیت کے حوالے سے کراماتی مواقع کے ظہور کی پیشین گوئی ہیں۔ موجودہ زمانے میں یہ عظیم مواقع مکمل طورپر ظہور میںآچکے ہیں۔ اب آخری وقت آگیا ہے کہ ان مواقع کو پہچانا جائے اور ان کا بھر پور استعمال کرکے دعوتِ حق یا عظیم ترین شہادت کا وہ کام انجام دے دیا جائے جو دورِ آخر کے لیے خدا نے مقدر کیا ہے۔
تاریخ کا خاتمہ قریب آگیا
حالیہ برسوں میں دنیا بھر کے سائنس دانوں نے ایک نئے موضوع پر بہت بڑے پیمانے پر تحقیقات کی ہیں۔ یہ موسمیاتی تبدیلی (climatic change) کا موضوع ہے۔ یہ تحقیقات سب سے بڑے عالمی ادارہ، اقوامِ متحدہ (یو این او) کے تحت کی گئی ہیں۔ان تحقیقات کے ذریعے نہایت حتمی معلومات حاصل ہوئی ہیں۔ یہ معلومات سائنسی تیقّن (scientific certainty) کی حد تک درست سمجھی جاتی ہیں۔ دنیا بھر کے سائنس دانوں نے متفقہ طورپر ان نتائجِ تحقیق کی تصدیق کی ہے۔
ان سائنسی تحقیقات کے نتیجے میں مسلّمہ طورپر یہ معلوم ہوا ہے کہ ہماری زمین کے اوپر جو لائف سپورٹ سسٹم قائم تھا، وہ تیزی سے تباہ ہورہا ہے۔ گلوبل وارمنگ، برف کے ذخیروں کا پگھلنا، سمندروں میں پانی کی سطح کا خطرناک حد تک بڑھنا، ہوائی کثافت، وغیرہ کے نتیجے میں زمین کے حالات، زندگی کے لیے خطرناک حد تک بدلتے جارہے ہیں۔ زمین کے مختلف حصوں میں تیزی سے جانور ہلاک ہورہے ہیں، سمندروں کی مچھلیاں ختم ہورہی ہیں۔ غرض مختلف قسم کے تباہ کن حالات بتارہے ہیں کہ زمین پر انسانی تاریخ کا خاتمہ قریب آگیا۔ اور انسانی تاریخ کے خاتمے ہی کا دوسرا نام قیامت کا آنا ہے۔
حال میں ایک عالمی سائنسی رپورٹ کو چھاپتے ہوئے نئی دہلی کے انگریزی اخبار ’ہندستان ٹائمس، نے اس کا یہ عنوان قائم کیا تھا— اب قیامت زیادہ د ور نہیں:
Doomsday not far
ایسی حالت میں یہ کہنا بالکل درست ہوگا کہ انتظار کا وقت ختم ہوگیا۔ خدا کی طرف سے فائنل کال آگئی۔ اب نہ الون ٹافلر(Alvin Toffler) جیسے سیکولر مفکرین کے لیے سُپر سویلائزیشن کی آمد کا انتظار کرنے کا موقع ہے اور نہ امتِ محمدی کے لیے اس انتظار کا موقع کہ مہدی اور مسیح کی صورت میں پُراسرار طورپر کسی شخصیت کا ظہور ہوگا اور وہ خدا کا مطلوب دعوتی کام عالمی سطح پر انجام دے دے گا۔
اب انتظار کرنے والوں کے لیے جو چیز مقدر ہے، وہ کسی طلسماتی شخصیت کا ظہور نہیں، بلکہ صورِ اسرافیل کااعلان ہے۔ پیغمبر ِ خاتِم پر ایمان رکھنے والوں کے لیے فرض کے درجے میں ضروری ہوگیا ہے کہ وہ اپنی توانائی کا ہر حصہ دعوت الی اللہ کے کام میں لگا دیں۔ وہ اسرافیل کے فائنل اعلان سے پہلے اپنے حصے کا کام کردیں۔
دابّہ کادَور
دعوتی پیغام کو پھیلانے کے دو ذریعے ہیں— قول اور تحریر۔ قدیم زمانے میں اِن دونوں طریقوں کو دعوت کے لیے استعمال کیاگیا، لیکن سائنسی دور سے پہلے دونوں ذریعے صرف محدود دائرے میںاستعمال ہوسکتے تھے۔ داعی کا قول صرف وہ لوگ سن سکتے تھے جواس کے قریب موجود ہوں۔ یہی معاملہ تحریر کا تھا۔ قدیم زمانے میں کوئی داعی صرف ہاتھ سے کسی لَوح یا کاغذ پر اپنا پیغام لکھ سکتا تھا۔ ہاتھ سے لکھنے کے سوا کوئی اور ذریعہ اُس وقت موجود نہ تھا۔ اِس محدودیت کی بنا پر حق کا داعی صرف اپنے قریبی دائرے میں حق کا پیغام پہنچانے کی استطاعت رکھتا تھا۔ گویا کہ قدیم زمانے میں ہر داعی ایک مقامی داعی کی حیثیت رکھتا تھا، نہ کہ بین اقوامی داعی کی حیثیت۔
موجودہ سائنسی دور میں کمیونکیشن میں غیر معمولی انقلاب آیا ہے۔ تاریخ میں پہلی بار انسان کو وہ چیز حاصل ہوئی جس کو پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کہاجاتا ہے۔ اِس طرح جدید ذرائع ابلاغ نے قول اور تحریر دونوں کے اندر تیز رفتاری کی صفت پیدا کردی۔ اب انسان کو وہ چیز حاصل ہوگئی جس کو فاصلاتی پیغام رسانی (telecommunication) کہا جاتا ہے۔
غالباً یہی وہ متحرک ذریعہ ہے جس کو قرآن میں دابّہ (النّمل: 82) کہاگیا ہے۔ دابّہ کے لفظی معنٰی ہیں رینگنے والا (creeper) ، یعنی وہ چیز جو متحرک ہو کر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچے۔ قرآن کا یہ ارشاد کہ بعد کے زمانے میں ایک دابّہ ظاہر ہوگا، اِس سے مراد غالباً یہی تیز رفتار مشینی حرکت کا دور ہے جو سائنسی انقلاب کے بعد سامنے آیا ہے۔ تیز نشریاتی ذرائع کی اِس ٹیکنیک نے مختلف صورتیں پیدا کی ہیں، جن کے مجموعے کو موجودہ زمانے میں ملٹی میڈیا(multi media) کہاجاتا ہے۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر آخر الزماں کو سارے عالم کے لیے نذیر بنا کر بھیجا ہے (الفرقان:1 ) مگر ساتویں صدی کے رُبع اوّل میں جب کہ پیغمبر آخر الزماں کا ظہور ہوا، اُس وقت عالمی ذرائع ابلاغ کا ظہور عمل میں نہیں آیا تھا۔ حدیث میںآیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آئندہ وہ زمانہ آنے والا ہے، جب کہ خدا اسلام کے کلمہ کو ساری دنیا کے تمام گھروں میں پہنچا دے (لایبقیٰ علیٰ وجہ الأرض بیت مدر ولا وبر، إلاّ أدخلہ اللہ کلمۃ الإسلام )
اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت، دعوت کی تاریخ میں ایک مسلسل عمل (process) کو ظہور میں لانے کے ہم معنٰی تھا۔ آپ کے ذریعے ایک ایسا دعوتی عمل ظہور میں آیا، جس کا آغاز عرب سے ہوا اور پھر ایک مسلسل عمل (process) کے روپ میں وہ بڑھتا رہا، یہاں تک کہ وہ سارے عالم پر محیط ہوگیا۔
مگر اسباب کی اِس دنیا میں ہر دعوتی کام انسانوں کے ذریعے انجام پاتا ہے۔دورِ اول میںاسلام کا پھیلاؤ اصحابِ رسول کے ذریعے ہوا تھا،بعد کے زمانے میں بھی یہ دعوتی عمل ایک انسانی گروہ کے ذریعے انجام پائے گا۔ غالباً اسی لیے حدیث میں بعد کے زمانے میں ظاہر ہونے والے ایک گروہ کا ذکر ہے جس کو ’اخوانِ رسول‘ کہاگیا ہے۔ اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ روایتی کمیونکیشن کے دور میں یہ دعوتی کام اصحابِ رسول کے ذریعے انجام پائے گا، اور سائنسی کمیونکیشن کے دور میں یہ دعوتی کام اُن لوگوں کے ذریعے انجام پائے گا جن کو حدیث میں اخوانِ رسول کا نام دیا گیا ہے۔
اصحابِ رسول کے بارے میں حضرت عمر فار وق نے فرمایا تھا: مَن سرّہ أن یکون من ہذہ الأمۃ، فلیؤدّ شرط اللہ فیہا (ابن کثیر، جلد1، صفحہ 396) یعنی جو شخص اصحابِ رسول کی اِس امت میںشامل ہونا چاہے، وہ اس کے بارے میں خدا کی شرط کو پورا کرے۔ وہ شرط یہ تھی کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتی مہم میںاپنے وقت اور اپنے مال اور اپنی توانائی کو پوری طرح لگا دینا۔ پیغمبر اسلام کے معاصر اہلِ ایمان نے اِس شرط کو پورا کیا، اِس لیے وہ اصحابِ رسول قرار پائے۔
موجودہ زمانے میں دوبارہ دعوت الی اللہ کے نئے امکانات کھلے ہیں۔ اب دوبارہ وہی صورتِ حال پیداہوگئی ہے کہ کچھ لوگ اٹھیں اور جدید مواقع دعوت کو استعال کرکے دینِ خداوندی کے پیغام کو سارے عالم تک پہنچا دیں۔ یہی وہ عالمی دعوتی کام ہے جس کو حدیث میںعظیم ترین شہادت قرار دیاگیا ہے۔ اصحاب رسول کو یہ درجہ مطلوب عمل کے ذریعے حاصل ہوا تھا، اِسی طرح اخوانِ رسول کو بھی اخوانِ رسول کا یہ درجہ مطلوب عمل کے ذریعے حاصل ہوگا۔ عمل کے بغیر نہ اصحابِ رسول، اصحابِ رسول بنے تھے، اور نہ اب یہ ممکن ہے کہ کوئی گروہ مطلوب عمل کے بغیر اخوانِ رسول کادرجہ حاصل کرلے۔
اخوانِ رسول تاریخ کا آخری خدائی اعزاز ہے۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اِس حقیقت کو سمجھیں اور اپنی توانائیوں کو نصرتِ خداوندی کے اِس مشن میں لگا کر خدا کے یہاں تاریخ کا عظیم انعام حاصل کریں۔
واپس اوپر جائیں

گلوبل وارمنگ یا ڈِوائن وارننگ

ساری دنیا کے سائنس دانوں کی طرف سے آج کل مسلسل گلوبل وارمنگ کی خبریں آرہی ہیں۔ پرنٹ میڈیا اور الکٹرانک میڈیا دونوں کے ذریعے روزانہ اِس خطرے کی بابت لوگوں کو آگاہ کیا جارہا ہے۔
20 دسمبر 2007 کو انڈیا ٹی وی (نئی دہلی) میںایک لمبا تفصیلی پروگرام تھا جس کاعنوان تھا— قیامت پانچ سال میں ۔ ان رپورٹوں میں سائنس دانوں کی زبان سے وارننگ کے طورپر آگاہ کیا گیا ہے کہ کلائمٹ چینج (climate change)اب کلائمٹ ڈزاسٹر (climate disaster)بنتا جارہا ہے۔ زمین پر گرمی بہت زیادہ بڑھ رہی ہے اور لائف سپورٹ سسٹم کا متوازن نظام ٹوٹ رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں ساری دنیا کے مختلف حصوں میں بسنے والے انسانوں کے لیے وہ وقت تیزی سے آرہا ہے جب کہ ان کے لیے اس سیارہ زمین پر زندہ رہنا ہی ممکن نہ ہوگا۔
جیسا کہ معلوم ہے، قطب شمالی اور قطب جنوبی میں برف کی بہت بڑی بڑی کیپ (ice cap) تھی۔ اسی طرح پہاڑوں کے اوپر گلیشیر کی صورت میں برف کے بہت بڑے بڑے تودے موجود تھے۔ یہ گویا میٹھے پانی کے بڑے بڑے اسٹور ہاؤس (store house) تھے۔ گلوبل وارمنگ کے اثر سے یہ ذخیرے بہت زیادہ تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ ان کا پانی دریاؤں کے راستے بہہ کر سمندر میں چلا جارہا ہے۔ اِس طرح میٹھا پانی دوبارہ کھاری پانی بنتا چلا جارہا ہے۔
اِس کا نتیجہ دو ناقابلِ برداشت ہلاکتوں کی صورت میں ظاہر ہونے والا ہے۔ اس کے نتیجے میں ایک طرف یہ ہوگا کہ بہت جلد سمندروں میں پانی کا لیول بہت اونچا ہوجائے گا۔ اِس بنا پر یہ ہوگا کہ ساحلی شہر ڈوب کر ختم ہوجائیں گے۔ مثلاً انڈیا میں کلکتہ اور بمبئی اور مدراس، وغیرہ۔ دوسری طرف، غیرساحلی مقامات خطرناک حد تک پانی کی کمی کا شکار ہوجائیں گے۔ پانی کی قلت اتنی زیادہ بڑھ جائے گی کہ عین ممکن ہے کہ پانی کے حصول کے لیے تیسری عالمی جنگ شروع ہوجائے۔
دریاؤں میں پانی مسلسل اس لئے رہتاہے کہ پہاڑوں کی برف پگھل کر دھیرے دھیرے چشموں کی صورت میں سال بھر اوپر سے نیچے آتی رہتی ہے اور دریاؤں میںشامل ہوتی رہتی ہے۔ لیکن جب پہاڑوں کی برف پگھل کر ختم ہوجائے گی توفطری طورپر دریاؤں کا پانی بھی خشک ہوجائے گا۔ دوسری طرف یہ سارا پانی سمندروں میں جاکر مل جائے گا اور تمام میٹھا پانی کھاری پانی بن جائے گا۔ اس کے بعد سمندروںمیں اگر چہ بہت پانی ہوگا لیکن سخت کھاری ہونے کی بنا پر یہ پانی نہ آب پاشی کے قابل ہوگا اور نہ پینے کے قابل۔ گویا کہ وہی صورتِ حال عالمی سطح پر پیدا ہو جائے گی جس کی تصویر اٹھارھویں صدی کے شاعر کولرج (Coleridge) نے اپنی ایک نظم میں ان الفاظ میں کھینچی تھی:
Water water everywhere
Nor a drop to drink
خدا کے پیغمبر برابر یہ بتاتے رہے تھے کہ موجودہ دنیا ابدی نہیں ہے۔ اس کا مسلسل کاؤنٹ ڈاؤن (countdown) ہو رہا ہے۔ ایک وقت آئے گا جب کہ وہ اپنی عمر پوری کرکے ختم ہوجائے گی۔ تمام قرائن بتارہے ہیں کہ اب یہ کاؤنٹ ڈاؤن بہت جلد اپنے آخری نمبر پر پہنچنے والا ہے۔
بیسویں صدی کے سائنس دانوں نے ضابطۂ ناکارگی (Law of Entropy) کو دریافت کرکے بتایا تھا کہ دنیا کی انر جی مسلسل ختم ہورہی ہے۔ اس عمل کو واپسی کی طرف لوٹایا نہیں جاسکتا۔اس لئے یہ یقینی ہے کہ ایک مقرر مدت کے بعد موجودہ دنیا کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اب اکیسویں صدی کے سائنس داںاپنی تازہ تحقیقات کے مطابق، بتارہے ہیں کہ اب خاتمے کی یہ مدت بہت زیادہ قریب آچکی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ مدت 10 سال یا 20 سال سے بھی کم ہو۔
یہ بات جو میڈیا میں گلوبل وارمنگ(global warming) کے عنوان سے آرہی ہے، وہ دراصل ڈوائن وارننگ (divine warning)ہے۔ یہ خالق کی طرف سے اِس بات کا اعلان ہے کہ خالق کے منصوبے کے مطابق ، اب دنیا کی مقرر مدت پوری ہوچکی ، دنیا کی مقرر مدت کا پہلا دور (first phase) ختم ہوچکا۔ اب بہت جلد یہ ہونے والا ہے کہ موجودہ دنیا کو ختم کرکے اس کی عمر کادوسرا دور (second phase) شروع کیا جائے۔ پہلا دور ٹسٹ کے لیے تھا اور ٹمپرری تھا۔ دوسرا دور انجام کے لیے ہے اور ابدی ہوگا۔
موجودہ دنیا میں انسان کو عمل کی آزادی دی گئی تھی۔ یہ آزادی کسی استحقاق کی بنا پر نہ تھی، بلکہ وقتی طورپر صرف امتحان کے لیے تھی۔ یہ اس لیے تھی تاکہ یہ دیکھا جائے کہ کون آزادی کا صحیح استعمال کرتا ہے اور کون اس کا غلط استعمال کرتاہے۔ فطرت کے نظام کے تحت ہر عورت اور مرد کا ریکارڈ تیار کیا جارہا ہے۔ اگلے مرحلۂ حیات میں یہ ریکارڈ خالق کے سامنے پیش ہوگا۔ جس شخص کا ریکارڈیہ بتائے گا کہ اس نے اپنی آزادی کا صحیح استعمال کیا، اس کو اس کا خالق جنت میں جگہ دے گا، جہاں وہ ابدی طورپر راحت اور مسرت کی زندگی گزارے گا۔ قرآن کے الفاظ میں، ایسے لوگ جنت الفردوس میں جگہ پائیں گے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے(الکہف: 107-108)۔ اس کے برعکس، جن لوگوں کا ریکارڈ بتائے گا کہ انھوںنے اپنی آزادی کا غلط استعمال کیا، ان کو خالق کے فیصلے کے تحت جہنم میں داخل کردیا جائے گا، جہاں پیغمبر مسیح کے الفاظ میں وہ ابد تک غم اور حسرت کی زندگی گزاریں گے:
There will be wailing and weeping for all eternity (Matthew 13:42)
اب آخری وقت آگیا ہے کہ سارے مرد اور عورت جاگ اٹھیں۔ وہ اپنا محاسبہ (introspection) کریں۔ وہ اگلے مرحلۂ حیات میںکامیاب زندگی حاصل کرنے کو اپنا واحد کنسرن بنائیں۔ ہر عورت اور مرد کو جاننا چاہیے کہ موجودہ دنیا میں ان کو جو چانس ملا تھا، وہ پہلا اور آخری چانس تھا، اس کے بعد کوئی دوسرا چانس انھیں ملنے والا نہیں ۔ موجودہ گلوبل وارمنگ بتارہی ہے کہ — اب لوگوں کے لیے پائنٹ آف نورٹرن (point of no return) آچکا ہے۔ ملے ہوئے موقع کو استعمال کرلیجئے، اس سے پہلے کہ اس کو استعمال کرنے کا وقت ہی ختم ہوجائے اور پھر نہ موجودہ دنیا کی طرف واپسی کا امکان ہو اور نہ اگلی دنیا میں عمل کرنے کا امکان۔
واپس اوپر جائیں

انسانی تاریخ کے دو دَور

خدا نے انسان کو ابدی مخلوق کی حیثیت سے بنایا۔ پھر اس نے انسان کی تاریخ کو دو دور میں بانٹ دیا۔ پہلا مختصر دور پیدائش سے لے کر موت تک، اور دوسرا طویل تر دور موت کے بعد، جس میں انسان ابدی طورپر رہے گا۔ اِن میں سے پہلا امتحان (test) کا دور ہے۔ اور دوسرا دور پہلے دور کے ریکارڈ کے مطابق، ابدی انجام پانے کا دور۔
تاریخ بتاتی ہے کہ انسانوں کی بہت بڑی اکثریت ہمیشہ اِس حقیقت سے بے خبر رہی۔ اِس کی سب سے بڑی وجہ غالباً وہ چیز ہے جس کو کنڈیشننگ (conditoning) کہاجاتا ہے۔ انسان جب اِس دنیا میں پیدا ہوتا ہے تو فوراً ہی اس کو ماں اور باپ اور رشتے دار مل جاتے ہیں۔ وہ کما کر پیسہ حاصل کرتا ہے اور پھر اپنے لیے ایک گھر بناتا ہے اور اپنی کوششوں کے ذریعے دھیرے دھیرے زندگی کے تمام سامان حاصل کرلیتا ہے۔ بظاہر وہ دیکھتا ہے کہ ہر چیز جو اس کو مل رہی ہے، وہ خود اس کی اپنی کوشش کے ذریعے مل رہی ہے۔
اِس طرح شعوری یا غیر شعوری طورپر اس کے اندر وہ ذہن بنتا ہے جس کو ملکیت (ownership) کہاجاتا ہے۔ اس کے اندریہ ذہن بن جاتا ہے کہ اِس دنیا میںاُس کو جو چیزیں ملی ہوئی ہیں، وہ سب اس کی ملکیت ہیں اوروہ اس کو اپنی ذاتی کوشش کے ذریعے حاصل ہوئی ہیں، یہ تمام چیزیں سامانِ ملکیت ہیں، اس کے سوا اور کچھ نہیں۔ اِسی کا نام کنڈیشننگ ہے۔ اِس کنڈیشننگ کی بنا پر وہ سمجھ نہیں پاتا کہ اپنی اصل حیثیت کے اعتبار سے چیزوں کی اصل نوعیت کیا ہے۔ اپنی اصل نوعیت کے اعتبار سے چیزیں سامانِ امتحان ہیں، مگر انسان کنڈیشننگ کی بنا پر اُن کو سامانِ ملکیت سمجھ لیتا ہے۔
یہی موجودہ دنیا میں کسی انسان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ خدا کے تخلیقی پلان (creation plan of God) کے مطابق، موجودہ دنیا میں انسان کی پوری زندگی زیر امتحان زندگی ہے۔یہاں انسان کو جو کچھ ملا ہوا ہے، وہ اس کے لیے پرچۂ امتحان (test paper) کی حیثیت رکھتا ہے۔ اِس اعتبار سے انسان کے لیے صحیح رویّہ یہ ہے کہ وہ اس دنیا میں ہر لمحہ اِس احساس کے ساتھ رہے کہ وہ آزاد نہیں ہے، بلکہ پابند ہے۔ وہ چیزوں کا مالک نہیں ہے، بلکہ تمام چیزیں وقتی طورپر اس کے تصرف میں دی گئی ہیں تاکہ اِن چیزوں میں جانچ کر دیکھا جائے کہ وہ صحیح عمل کرنے والا ہے، یا غلط عمل کرنے والا۔
اِس دنیا میں آدمی ایک گھر بناتا ہے اور اُس کو وہ ’’اپنا گھر‘‘ کہتا ہے۔ وہ اپنے نام پر اس کا نام رکھتا ہے۔ یہی معاملہ تمام چیزوں کا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اِس دنیا میں ہر گھر ٹسٹ ہاؤس ہے۔ اِس دنیا میں ہر کارٹسٹ کار ہے۔ اِس دنیا میں ہر پراپرٹی ٹسٹ پراپرٹی ہے۔ اِس دنیا میں ہر اولاد ٹسٹ اولاد ہے۔ اِس دنیا کی تمام چیزیں ٹسٹ کا سامان ہیں۔
مگر آدمی اِس سب سے بڑی حقیقت کو بھولا ہوا رہتا ہے، یہاں تک کہ اچانک اس کی موت آتی ہے اور وہ تمام چیزوں کو چھوڑ کر بالکل تنہا اگلے مرحلۂ حیات میں داخل ہوجاتا ہے۔ اُس وقت اس کو معلوم ہوتا ہے کہ جن چیزوں کو میں اپنی چیزیں سمجھتا تھا، وہ تو خدا کی طرف سے امتحان کے لیے وقتی طورپر ملی ہوئی تھیں۔ پچھلا دورِ حیات ختم ہوتے ہی وہ سب کی سب مجھ سے چھین لی گئیں۔ اب مجھے ایک ایسی دنیا میں رہنا ہے جہاں مجھے مکمل طورپر محرومی کی حالت میں زندگی گزارنا ہے۔ اِس سے مستثنیٰ صرف وہ لوگ ہوں گے جن کو اُن کے حسنِ عمل کے نتیجے میں دوبارہ تمام چیزیں بطور انعام دے دی جائیں گی۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شرّ البلاد الی اللہ أسواقہا(صحیح مسلم، کتاب المساجد) یعنی تمام جگہوں میں سب سے بُری جگہ بازار ہے۔ بازار کیا ہے۔ بازار، وہ مقام ہے جہاں سے آدمی چیزوں کو خرید کر حاصل کرتاہے۔ بازار خرید و فروخت کی علامت ہے۔ اس طرح بازار آدمی کے اندر یہ ذہن پیدا کرتا ہے کہ چیزیں صرف خرید کر ملتی ہیں۔ ہر چیز کی ایک قیمت ہے۔ چیز کی قیمت ادا کرو اور تم کو وہ چیز مل جائے گی۔
موجودہ دنیا میں ملکیت (ownership) کا قانون رائج ہے۔ اِس دنیا میں ہر چیز ملکیت کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔ مکان، گاڑی، سازوسامان، استعمال کی چیزیں ، کنزیومر گُڈس، تمام چیزیں آدمی کو اِس طرح ملتی ہیں کہ وہ ان کی قیمت ادا کرتا ہے اور پھر وہ ان کا مالک بن جاتا ہے۔
اِس طرح یہ دنیا ایک فریب کی جگہ(deceptive world) بن گئی ہے۔ حقیقت کے اعتبار سے دنیا کی ہر چیز امتحان کا پرچہ (test paper) ہے۔ وہ خدا کی طرف سے انسان کو اس کی آزمائش کے لیے دی گئی ہے۔ لیکن خرید وفروخت کے موجودہ نظام کی بنا پر آدمی غلط طورپر یہ سمجھ لیتا ہے کہ چیزیں اس کو قیمت ادا کرکے حاصل ہورہی ہیں۔
اِس صورت ِ حال کی بنا پر ہر آدمی ایک فریب میں جی رہا ہے۔ وہ امتحان کے ذریعے ملی ہوئی چیزوں کے بارے میں شعوری یا غیر شعوری طورپر، یہ سمجھ لیتا ہے کہ وہ اس کو بطورملکیت حاصل ہوئی ہیں۔یہ صورت حال بلاشبہہ سب سے بڑا دھوکہ ہے۔ اس صورت حال کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی احساسِ ملکیت کے تحت زندگی گزارتا ہے، حالاں کہ اس کو احساسِ ذمے داری کے تحت زندگی گزارنا چاہیے۔
موت اس صورتِ حال کا خاتمہ ہے۔ موت کے وقت اچانک یہ تمام چیزیں انسان سے چھن جاتی ہیں۔ اُس وقت اچانک انسان پر یہ کھلتا ہے کہ جن چیزوں کے درمیان وہ زندگی گزار رہا تھا، وہ چیزیں صرف امتحان کی مدت تک کے لیے تھیں، موت نے اِس مدت کا خاتمہ کردیا۔ موت سے پہلے آدمی اپنے کو ’’سب کچھ والا‘‘ سمجھ رہا تھا، مگر موت کے بعد اچانک وہ ’’بے کچھ والا‘‘ بن جاتا ہے۔ عقل مند وہ ہے جو موت سے پہلے، خود سے فریب کے اس پردے کو پھاڑ دے، ورنہ موت اس پردے کو پھاڑے گی، لیکن موت کی طرف سے پردے کا پھاڑا جانا کسی کے کچھ کام نہیں آئے گا۔
ثانیہ مرزا (21 سال) ٹینس کی مشہور کھلاڑی ہیں۔ ان کا وطن حیدرآباد ہے۔ ان کی برتھ ڈے پر ان کی ماں نسیمہ نے حیدر آباد کے ایک لگزری ہوٹل میں شان دار پارٹی دی۔ اِس کی رپورٹ نئی دہلی کے انگریزی روزنامہ ٹائمس آف انڈیا (16 نومبر2007) میں اِس عنوان سے چھپی ہے:
Surprise party brings in Sania’s 21st birthday.
رپورٹ کے مطابق، ثانیہ مرزا کی ماں نسیمہ نے اپنی بیٹی کے بارے میں کہا کہ— میں اپنی بیٹی کے اوپر ہر دن اور ہر لمحہ فخر کرتی ہوں:
I am proud of my daughter, every moment of the day. (p. 28)
یہی آج تقریباًتمام عورتوں اور مردوں کا حال ہے۔ آج تمام لوگ اِسی قسم کے جھوٹے فخر میں مبتلا ہیں۔ کسی کو اپنی اولاد پر فخر ہے، کسی کو اپنی جائداد اور اپنے سازوسامان پر فخر ہے، کسی کو اپنے عہدے اور مقبولیت پر فخر ہے۔ مگر کوئی یہ نہیں سوچتا کہ یہ تمام چیزیں اس کو کیسے ملیں۔ اگر آدمی گہرائی کے ساتھ سوچے تو وہ جان لے کہ ہر چھوٹی اور بڑی چیز جو اس کو ملی ہوئی ہے، وہ سب خدا کا عطیہ ہے۔ ہر چیز براہِ راست خدا کی دین ہے۔ اگر آدمی اِس حقیقت کو جان لے تو اس کا سینہ احساناتِ خدا وندی کے جذبے سے بھر جائے گا۔ وہ کہہ اٹھے گا کہ ہر دن اور ہر لمحہ میں خداوند برتر کا شکر گزار ہوں:
I am grateful to God Almighty, every moment of the day.
واپس اوپر جائیں

فرائض اور نوافل

اسلامی تعلیم کے مطابق، ہر دینی عمل عبادت کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسلام کی عبادات میں کچھ عبادتیں فرض ہیں، اور کچھ عبادتیں نفل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ مثلاً روزانہ پانچ وقت کی نماز اسلام میں فرض ہے۔ اِسی کے ساتھ ایک عبادت وہ ہے جس کو تہجد کہاجاتا ہے۔ تہجد ایک نفل عبادت ہے، جیسا کہ قرآن میں آیا ہے: فتہجّد بہ نافلۃً لک (الإسراء:79 )۔ اِس طرح اشراق اور چاشت کی نمازیں اور دوسری غیر مفروض نمازیں نفل کا درجہ رکھتی ہیں۔
’نفل‘ یا ’نافلہ‘ کے معنیٰ زائد (زائدۃ علی الفریضۃ) کے ہیں۔ نفل عبادت کا مطلب ہے فرض کے علاوہ مزید عبادت (additonal prayers) ۔ نفل عبادت کے معاملے میں ایک مشہور روایت حدیث کی کتابوں میں آئی ہے۔ یہ حدیثِ قُدسی ہے۔ اس کے ایک حصے کا ترجمہ یہ ہے:
’’بندہ نوافل کے ذریعے مجھ سے قریب ہوتا رہتا ہے، یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ پھر جب میںاُس سے محبت کرتا ہوںتو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، میںاس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، میں اس کا قلب بن جاتا ہوں جس سے وہ باتوں کو سمجھتا ہے (وقلبہ الذی یعقل بہ)، اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اور اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے‘‘ (فتح الباری بشرح صحیح البخاری، کتاب الرقاق، با ب التواضع، جلد 11، صفحہ 348 )۔
نفلی عمل سے مراد زائد عمل ہے۔ زائد عمل کا تعلق صرف نفلی نمازوں سے نہیں، بلکہ اس کا تعلق ہر اُس اسلامی عمل سے ہے جو فرائض سے زیادہ کی حیثیت رکھتا ہو۔ اِس زائد اسلامی عمل میں ذکر اور تلاوت اور روزہ اور حج اور صدقات جیسے اعمال سے لے کر وہ اعمال بھی شامل ہیں جن کو توسّم اور تفکر اور تدبّر ، وغیرہ کہاجاتا ہے۔ یہ تمام نفلی اعمال تعلق باللہ میں اضافے کا ذریعہ ہیں۔ نفل کے لفظ کو روایتی مفہوم میں لینے کے بجائے اس کے لغوی معنیٰ میں لینا چاہیے۔ اِس طرح، نفل کے لفظ میں وہ تمام توسیعی مفہوم اپنے آپ شامل ہوجاتا ہے، جن کا اوپر ذکر کیا گیا۔
آدمی جب ایمان قبول کرتا ہے تو وہ کلمۂ شہادت ادا کرتا ہے۔ کلمۂ شہادت ، اسلام میں داخلے کا دروازہ ہے۔ یہ داخلہ اسلام کا آغاز ہے، اس کی منزل نہیں۔ اِس داخلے کے بعد بار بار ضرورت ہوتی ہے کہ آدمی کے ایمان میں اضافہ ہوتا رہے۔ اِس اضافے کو قرآن اور حدیث میں ’ازدیادِ ایمان‘ کہاگیا ہے۔ اضافے کا یہ عمل، ایمان کے لیے لازمی طور پر ضروری ہے۔ اِس عمل کے بغیر آدمی کا ایمان جامد ایمان بن جائے گا، وہ زندہ ایمان کی حیثیت سے باقی نہ رہے گا۔
میڈیکل اصطلاح میںایک لفظ ہے، جس کو بوسٹر ڈوز(booster doze) کہاجاتا ہے۔ ڈاکٹر جب مریض کو ایک دوا دیتا ہے تو صرف ایک خوراک دینا کافی نہیں ہوتا۔ ایک خوراک کے بعد دوا کے عمل کو تیز کرنے کے لیے بار بار مزید خوراکیں دینی پڑتی ہیں۔ دوا کی اِس مزید خوراک کو بوسٹر ڈوز کہاجاتاہے۔
یہی معاملہ صحت مند انسان کا بھی ہے۔ صحت مند انسان بھی بار بار غذائی خوراک لیتا ہے۔ صبح کے ناشتے کے بعد دوبارہ وہ دوپہر کا کھانا کھاتا ہے۔ دوپہر کے کھانے کے بعد وہ پھر رات کا کھانا کھاتا ہے۔ اِس طرح غذاؤں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ یہ بار بار کی غذا بھی بوسٹر فوڈ(booster food) کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگر کوئی آدمی ایک بار کھانا کھالے اور اس کے بعد وہ پھر کبھی نہ کھائے تو ایسا آدمی اپنی صحت کو برقرار نہیں رکھ سکتا۔
ایمان کے لیے نفلی اعمال اِسی طرح اضافی (additional doze) کا درجہ رکھتے ہیں۔ اِن اضافی خوراکوں کے بغیر کسی آدمی کا ایمان، زندہ اور متحرک ایمان نہیں بن سکتا۔ اِن اضافی خوراکوں میں جس طرح معروف عبادتی اعمال شامل ہیں، اسی طرح اس میں توسّم ، تذکّر اور تدبّر جیسے ذہنی اعمال بھی لازمی طورپر شامل ہیں۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ مطالعہ اور تدبر کے ذریعے مسلسل طورپر اپنے ذہنی ارتقا کا سامان کرتا رہے، ورنہ اس کا ایمان، جامد ایمان بن کر رہ جائے گا۔
جامد ایمان اور زندہ ایمان کے درمیان وہی فرق ہے جو ہری بھری شاخ اور سوکھی لکڑی کے درمیان ہوتا ہے۔ جو آدمی یہ چاہتا ہو کہ اس کا ایمان سوکھی لکڑی جیسا بن کر نہ رہ جائے، اُس کے لیے ضروری ہے کہ وہ مسلسل طورپر فکری خوراک لیتا رہے، جن کی حیثیت ایمان کی ترقی کے لیے بوسٹرفوڈ (booster food) کی ہے۔ اِس طرح کے بوسٹر ڈوز کے بغیر زندہ ایمان کا حصول ممکن نہیں۔ اس کے بغیر آدمی کا ایمان صرف ایک قانونی ایمان بن کر رہ جائے گا، وہ ربّانی ایمان کا درجہ حاصل نہ کرسکے گا۔
کان اور آنکھ اور عقل کے حوالے سے حدیث میں جو بات کہی گئی ہے، اس سے مراد یہ ہے کہ ایسے آدمی کا ذوق، خداوندی ذوق (divine taste) بن جاتا ہے۔ وہ حیوانی ذوق سے اوپر اٹھ کر ذوق کی اُس اعلیٰ سطح پر پہنچ جاتا ہے جس کو ربّانی ذوق سے تعبیر کیاجاسکتا ہے۔
حیوان کی سوچ اس کی ابتدائی ضرورتوں تک محدود رہتی ہے۔ انسان کی سوچ اِس سے وسیع ہوتی ہے، لیکن وہ بھی اپنی ذات کے دائرے میں عمل کرتی ہے۔ اِس کے برعکس، خدا کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اِس قسم کی تمام محدودیتوں سے برتر ہوتا ہے۔ جب کوئی آدمی حقیقی معنوں میں ’نوافل‘ کی کثرت کرتا ہے تو بلا تشبیہہ اس کی ذات میں خدا سے ایک قسم کی مماثلت کی شان پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کے ہر معاملے میں فطرت کا رنگ غالب آجاتا ہے۔ اس کی سوچ آفاقی سوچ بن جاتی ہے۔ اس کی پوری شخصیت خدا کے تخلیقی نقشے میں ڈھل جاتی ہے۔ یہی وہ ربّانی شخصیت ہے جس کو مذکورہ حدیث میں مخصوص تمثیلی انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

بریک اِن ہسٹری

Break in History
گورنمنٹ سروس کے قاعدوں میںسے ایک قاعدہ یہ ہے کہ اگر کوئی سرکاری ملازم بغیر رخصت (without an approved leave) دفتر میں حاضر نہ ہو، تو گورنمنٹ کو یہ حق ہوتا ہے کہ وہ اس کو شکستِ ملازمت (break in service) کا کیس قرار دے دے۔ شکستِ ملازمت کا مطلب یہ ہے کہ اس کی سینیرٹی (seniority) ختم ہوجائے گی۔ وہ حقوق ملازمت کے اعتبار سے واپس ہو کر اپنے پہلے دن کے حال پر پہنچ جائے گا، جب کہ اس کا تقرّر ہوا تھا، اس کے لیے ملازمت کے پچھلے ایام کے اعتبار سے پروموشن (promotion) کا حق باقی نہ رہے گا:
A break in service is any separation from employment status.
یہ اصول زیادہ بڑے پیمانے پر ہر عورت اور مرد پر منطبق ہوتا ہے۔ اِس دوسرے عمومی اصول کو شکستِ تاریخ(break in history) کہا جاسکتا ہے، یعنی تاریخ کا ختم ہوجانا۔ کسی آدمی نے اپنے عمل سے اپنی جو تاریخ بنائی ہے، اس کا اچانک مٹ جانا اور انسان کا اپنے بے تاریخ دَور کی طرف لوٹ جانا۔
اِس دنیا میں ہر آدمی اپنی بنائی ہوئی تاریخ کی بنا پر کھڑا ہوتا ہے۔ ایک انسان یہاں پیدا ہوتاہے۔ اس کے بعد وہ دھیرے دھیرے بڑا ہوتا ہے۔ اس کو مختلف قسم کے مواقع ملتے ہیں، جن کو استعمال کرکے وہ اپنی ایک تاریخ بناتا ہے۔ گھر اور جائداد اور خاندان اور حلقہ اور شہرت اور اقتدار اور مال اور اسباب، وغیرہ۔ اِس قسم کی چیزیں اس کے گِرد اکھٹا ہوجاتی ہیں۔
اِس طرح اس کی اپنی بنائی ہوئی ایک تاریخ ہوتی ہے جس کے ذریعے اس کا تشخّص قائم ہوتاہے، اس کے ذریعے وہ اپنے آپ کو جانتا ہے اور اس کے ذریعے دوسرے لوگ اس کو پہچانتے ہیں۔ یہ معاملہ ہر عورت اور مرد کے ساتھ پیش آتا ہے۔ ہر ایک مسلسل جدوجہد کے ذریعے اپنی ایک تاریخ بناتا ہے جس کے اوپر وہ کھڑا ہوتا ہے۔
لیکن کوئی بھی شخص لمبی مدت تک اپنی تاریخ میں جینے کا موقع نہیںپاتا۔ سو سال کے اندرہی اچانک وہ لمحہ آجاتا ہے جس کو موت کہتے ہیں۔ موت ایک ناقابلِ واپسی فیصلے کے طورپر ہر شخص کے اوپر آتی ہے اور اچانک قبل از موت مرحلۂ حیات سے جدا کرکے اُس کو بعد از موت مرحلۂ حیات میں پہنچا دیتی ہے۔
موت کو اِس اعتبار سے شکستِ تاریخ (break in history) کا معاملہ کہاجاسکتا ہے۔ شکستِ تاریخ کا یہ واقعہ ہر عورت اور ہر مرد کے ساتھ پیش آتا ہے۔ہر عورت اور مرد کا یہ معاملہ ہے کہ وہ اپنی ساری طاقت خرچ کرکے اپنی امیدوں اور اپنی تمناؤں کی ایک دنیا بناتے ہیں۔ ہر انسان اپنی بنائی ہوئی اِس دنیا میں جی رہا ہوتا ہے کہ اچانک اس کے لیے موت کا وقت آجاتا ہے۔ وہ مجبور ہوتا ہے کہ وہ اپنی اِس بنائی ہوی دنیا کو چھوڑ کر اچانک ایک اور دنیا میں پہنچ جائے، جس کے لیے اُس نے کچھ نہیں کیا تھا۔ اُس کے پیچھے اس کی بنائی دنیا ہوتی ہے جس کو وہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ چکا، اور اس کے آگے ایک ابدی صحرا ہوتا ہے جس کے لیے اس نے کچھ نہیں کیا۔ یافت کے احساس میں جینے والا انسان اچانک کامل محرومی کے دور میں داخل ہوجاتا ہے۔
قبل ازموت کا مرحلۂ حیات ہر انسان کے لیے پہلا اور آخری موقع ہے، اس کے بعد کسی کودوسرا موقع ملنے والا نہیں۔ اِس پہلے موقع کو جس شخص نے صرف دُنیوی سازوسامان کی فراہمی میں لگایا، وہ موت کے بعدکے مرحلۂ حیات میں کامل محرومی میں جینے پر مجبور ہوگا۔ کیوں کہ موت اس کی پچھلی تاریخ کواُس سے جدا کردے گی، اور موت کے بعد دوبارہ نئی تاریخ بنانے کا موقع اُس سے ہمیشہ کے لیے چھن چکا ہوگا۔ کیسا عجیب ہے آج کا وہ موقع جس کو انسان کھورہا ہے، اور کیسی بھیانک ہوگی کل کی وہ محرومی جس سے انسان دوچار ہوگا، اور جس سے اپنے آپ کو بچانا کسی کے لیے ممکن نہ ہوگا۔
واپس اوپر جائیں

کامیابی کا فارمولا

ایک صاحب نے پوچھا کہ موجودہ دنیا میںکامیاب زندگی کی تعمیر کا فارمولا کیا ہے۔ میںنے کہا کہ کامیاب زندگی کا انحصار دو چیزوں پر ہے— آدھا عمل پر، اور آدھا بے عملی پر۔ اُن کو میرا یہ جواب بہت عجیب معلوم ہوا۔ انھوںنے دوبارہ پوچھا کہ اس کا مطلب کیا ہے۔میںنے کہا کہ عمل یہ ہے کہ آپ اپنی صلاحیتوں کا بھر پور استعمال کریں۔ بے عملی یہ ہے کہ آپ دوسروں سے نہ ٹکرائیں۔ جب بھی دوسروں کے ساتھ کوئی شکایت کی بات پیش آئے تو اُس وقت آپ اُن کے مقابلے میں بے عمل بن جائیں، یعنی دوسروں سے الجھے بغیر اپنا سوچا سمجھا کام جاری رکھیں۔ موجودہ دنیا میںکامیابی کے لیے یہ دونوں چیزیں یکساں طورپر ضروری ہیں۔اِس اصول کا تعلق، انفرادی کامیابی سے بھی ہے اور اجتماعی کامیابی سے بھی۔
انفرادی معاملے کی ایک مثال یہ ہے کہ آپ کسی چیز کو لینے کے لیے لائن (قطار) میں کھڑے ہوئے ہیں۔ بعد کو ایک آدمی آتا ہے اور وہ لائن توڑ کر آگے بڑھ جاتا ہے اور اپنا کام پہلے کرالیتا ہے۔ ایسے موقع پر آپ خاموش مشاہد بن جائیے۔ اس کو نظر انداز کرتے ہوئے آپ اپنا کام کیجئے اور خاموشی کے ساتھ واپس چلے جائیے۔ یہ انفرادی معاملے میں ’’بے عملی‘‘ کی مثال ہے۔ اِس طرح کے معاملے میں اگر آپ غصہ ہوجائیں اور ٹکراؤ کا طریقہ اختیار کریں تو آپ کا ایسا کرنا ہمیشہ خود آپ کے لیے نقصان کا باعث ہوگا۔
اجتماعی معاملے کی ایک مثال پالٹکس آف اپوزیشن ہے۔ آج کل ہر لیڈر یہ کررہا ہے کہ وہ کوئی سماجی مسئلہ لے کر اتھارٹی کے خلاف احتجاج (protest) کی مہم چلادیتا ہے۔ اِس طریقِ کار کے نتیجے میں لیڈر کو تومقبولیت مل جاتی ہے، لیکن سماج کو اِس کا کوئی فائدہ نہیںملتا۔ یہاں بھی صحیح طریقہ یہ ہے کہ اتھارٹی کے خلاف احتجاجی مہم چلانے کے بجائے تعمیر کے میدان میں کوئی مثبت کام کیاجائے۔ مثلاً تعلیم کا میدان — اِس دنیا میں کامیابی کے لیے عمل جتنا زیادہ ضروری ہے، اتنا ہی یہ بھی ضروری ہے کہ آپ بے عمل ہونے کا فن بھی جانتے ہوں۔
واپس اوپر جائیں

کثرت کے درمیان قلّت

سموئل ٹیلر کولرج (Samuel Tailor Coleridge) مشہور انگریزی شاعر ہے۔ وہ 1772 میں پیدا ہوا،اور 1834 میں اس کی وفات ہوئی۔
اس کی ایک مشہور نظم ہے جس کا نام ہے —قدیم ملّاح(The Ancient Mariner) ۔ اس نظم میں وہ دکھاتا ہے کہ ملاح اپنی کشتی لے کر سمندر میں سفر کر رہا ہے۔ اس کے بعد کشتی طوفان کی زد میں آجاتی ہے۔ کشتی تباہ ہوجاتی ہے۔ ملاح ایک تختے کو پکڑ کر اس پر اپنے آپ کو ڈال دیتا ہے۔ وہ تختہ سمندر میں موجوں کے سہارے تیرنے لگتا ہے۔
ملاح کو پیاس لگتی ہے۔ اس کے چاروں طرف اگرچہ پانی ہے، مگر سخت کھاری ہونے کی وجہ سے وہ پینے کے قابل نہیں۔ یہ منظر دیکھ کر ملاح کہہ اٹھتا ہے— ہر طرف پانی ہی پانی ہے، مگر ایک قطرہ بھی پینے کے لیے نہیں:
Water, water everywhere,
Nor a drop to drink.
یہ بات جو مذکورہ ملاح نے سمندر کے پانی کے بارے میں کہی، وہ عمومی اعتبار سے بھی درست ہے۔ آج کی دنیا میں پوری انسانیت مذکورہ ملاح کے مانند ہے جس کے چاروں طرف پانی ہی پانی ہے، مگر پینے کے لیے ایک قطرہ بھی نہیں۔
پریس کے دورنے ہر طرف چھپے ہوئے کاغذات کا انبار لگا دیا ہے، مگر ایسے صفحات بہت کم ہیں جو واقعۃً پڑھنے کے قابل ہوں۔ دنیا کے بازارپُررونق سامان سے بھرے ہوئے ہیں، مگر وہ سامان کہیں نظر نہیں آتا جو انسان کی روح کو سکون دینے والا ہو۔ زمین پر جہاں بھی دیکھئے، انسانی سرگرمی کا طوفان دکھائی دے گا، مگر وہ سرگرمی کہیںنظر نہیں آتی جو اُس کو حقیقی منزل کی طرف لے جانی والی ہو۔
دنیا انسانوں سے بھری ہوئے ہے مگر وہ انسان معدوم ہورہے ہیں جو اُن فطری اوصاف کے حامل ہوں جن پر انسان کو پیدا کیا گیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

اِزدواجی زندگی

8 اکتوبر 2007 کو میں آل انڈیا ریڈیو پر ایک خصوصی پروگرام سُن رہا تھا۔ یہ پروگرام شادی اور نکاح کے بارے میں تھا۔ ایک خاتون نے بولتے ہوئے کہا کہ نکاح تین قسم کے رِنگ (انگوٹھی) پر مشتمل ہوتا ہے— منگنی کی رِنگ، شادی کی رِنگ اور مصیبت کی رِنگ:
Marriage includes three rings— engagement ring, wedding ring, suffering.
شادی شدہ زندگی کا ناخوش گوار زندگی بن جانا، موجودہ زمانے کا ایک عام مسئلہ ہے۔ اِس کا سبب کیا ہے۔ میںنے بہت سے ماڈرن لڑکوں اور لڑکیوں سے بات کرنے کے بعد سمجھا ہے کہ اِس مسئلے کا بڑا سبب وہ جدید تصور ہے جس کو صنفی مساوات (gender equality) کہاجاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک غیر فطری نظریہ ہے۔ ہر اجتماعی نظام کے لیے ہمیشہ ایک ناظم درکار ہوتاہے۔ ناظم کے بغیر کسی اجتماعی ادارے کا قیام ممکن نہیں۔
ایک عورت اور ایک مرد جب نکاح کے رشتے میں بندھ کر ایک خاندان بناتے ہیں تو وہ ایک اجتماعی زندگی کی تشکیل کرتے ہیں۔ ہر خاندان ایک اجتماعی تنظیم ہے۔ اِس تنظیم کو درست طورپر چلانے کے لیے بھی ایک ناظم درکار ہے۔ مرد اپنی فطری ساخت کی بنا پر ناظم کی ذمے داری کو زیادہ بہتر طورپر سنبھال سکتا ہے۔ اِسی لیے مرد کو خاندانی زندگی کا قوّام (النساء: 34 ) بنایا گیا ہے۔
قوّام سے مراد عین وہی چیز ہے، جس کو موجودہ زمانے میں باس (boss) کہاجاتا ہے۔ باس ازم(bossism) ہر تنظیم یا اجتماعی ادارے کی ایک فطری ضرورت ہے، اور خاندان بلا شبہہ اِس سے مستثنیٰ نہیں۔ شادی شدہ خواتین اگر اپنے شوہر کو گھر کے اندر اُسی طرح باس مان لیں، جس طرح وہ دفتر میں کسی کو اپنا باس مان کر اپنا کام معتدل طورپر کرتی ہیں، تو اِس کے بعد شادی شدہ زندگی کا تیسرا پہلو(suffering) اپنے آپ ختم ہوجائے۔
واپس اوپر جائیں

حسن ِتدبیر

ایک صاحب میرے پاس تحفے کے طورپر مٹھائی کا پیکٹ لے آئے۔ میں نے کہا کہ میں اِس قسم کے تحفے کو پسند نہیں کرتا۔ آپ کبھی میرے لیے کوئی تحفہ نہ لائیں۔ انھوں نے کہا یہ مٹھائی ہمارے علاقے کی مشہور مٹھائی ہے۔ میں جب بھی کسی عالم یا بزرگ سے ملنے جاتا ہوں تو ہمیشہ اُس کے لیے یہ تحفہ لے کر جاتاہوں۔
گفتگو کے دوران معلوم ہوا کہ وہ ایک بڑی رقم کے قرض دار ہیں۔ انھوںنے بتایا کہ میری ماں بیمار ہوگئی تھیں۔ میںنے اُن کے علاج کے لیے کچھ لوگوں سے قرض لیا جو اب تک ادا نہ ہوسکا۔ میںنے کہا کہ جب آپ کے اوپرقرض ہے تو آپ تحفے تحائف پر رقم کیوں خرچ کرتے ہیں۔ میںنے کہا کہ خرچ کو گھٹانا بھی آمدنی کو بڑھانا ہے۔آپ آج ہی یہ عہد کریں کہ آپ اپنے خرچ کو گھٹائیں گے۔ اِس طرح پیسہ بچا کر آپ اپنے قرض کو ادا کریں۔ عید کا زمانہ تھا۔ میںنے کہا کہ آپ عید میں کسی بھی قسم کاکوئی نیا سامان نہ خریدیں۔ بچوں کے لیے نیے کپڑے نہ بنوائیں۔ یہ سب آپ اُس وقت تک کرتے رہیں، جب تک آپ کا قرض ادا نہ ہوجائے۔
دو سال کے بعد اُن سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے بہت خوشی کے ساتھ بتایا کہ میں نے آپ کی نصیحت پر سختی کے ساتھ عمل کیا۔ اور اب اللہ کے فضل سے میرا قرض ادا ہو چکا ہے ۔ اب میںرات کو سکون کی نیند سوتا ہوں، جب کہ اِس سے پہلے سکون کے ساتھ سونا میرے لیے ناممکن ہوگیا تھا۔
ان کی اِس روش کا ان کے بچوں پر نہایت مثبت اثر ہوا۔ ان کے بڑے لڑکے نے ٹیلی فون کال کی ایک دکان کھول لی۔ یہ دکان جلد ہی کامیابی کے ساتھ چلنے لگی۔ اِس طرح گھر کی آمدنی میں ایک مستقل اضافہ ہوگیا۔ ان کی بیوی اور ان کے بچوں میں بھی تعمیری ذہن آگیا۔ ہر ایک کچھ نہ کچھ کام کرنے لگا۔ اب وہ صاحب خوشی کے ساتھ اپنے مقام پر رہ رہے ہیں۔ ان کے تمام مسائل آہستہ آہستہ حل ہوگیے۔ بچوں کی تعلیم بھی جاری ہوگئی— حسنِ تدبیر سے مسئلہ حل ہوتا ہے اور بدتدبیری سے مسئلہ اور زیادہ بگڑ جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

جھوٹ کی دو قسم

جھوٹ کی ایک قسم وہ ہے جس کو برہنہ جھوٹ، یا کذبِ صریح کہاجاتا ہے، یعنی جان بوجھ کر ایک سراسر خلافِ واقعہ بات کہنا۔ مثلاً ایک بار میں نے دیکھا کہ ایک لیڈر صاحب کے پاس ایک شخص اپنے کسی کام کے لیے آیا۔اِس کام کا تعلق ایک منسٹر سے تھا۔ انھوںنے فوراً ٹیلی فون پر کچھ نمبر ڈائل کیے۔ اِس کے بعد انھوںنے رسیور اٹھایا اور ہلو کرکے اِس طرح بات کرنے لگے، جیسے کہ وہ متعلق منسٹر سے بات کررہے ہیں۔بعد کو مجھے معلوم ہوا کہ یہ ایک جھوٹا ڈراما تھا۔ اِس جھوٹے ڈرامے کے ذریعے انھوںنے آنے والے کو یہ تاثّر دیا کہ اُن کا قریبی تعلق منسٹر صاحب سے ہے، اور وہ اُن سے براہِ راست بات کرسکتے ہیں۔ یہ برہنہ جھوٹ کی ایک مثال ہے۔
جھوٹ کی دوسری قسم وہ ہے جس کو بالواسطہ جھوٹ، یا کذبِ خفی کہاجاسکتا ہے۔کذبِ صریح کا ارتکاب تو بہت کم لوگ کرتے ہیں، لیکن جہاں تک کذبِ خفی کا تعلق ہے، غالباً ننّانوے فیصد سے بھی زیادہ لوگ اِس بُرائی میں مبتلا ہیں۔ کذبِ خفی کی بُرائی موجودہ سماج میں اتنا زیادہ عام ہوچکی ہے کہ لوگ اِس میں مبتلا ہوتے ہیں، مگر شعوری طورپر وہ نہیں جانتے کہ وہ ایک ایسی عادت کا شکار ہیں جو حقیقتاً ایک مہلک جھوٹ کی حیثیت رکھتی ہے۔
کذبِ خفی کیا ہے، وہ یہ ہے کہ کسی بات کو ٹھیک ٹھیک بیان نہ کیا جائے، بلکہ اُس کو بدلی ہوئی صورت میں بیان کیا جائے۔ ایسا کب ہوتا ہے، اِس کی مختلف صورتیں ہیں۔ مثلاً اپنی صفائی پیش کرنا، اپنے کو سماج میں اچھا بنائے رکھنا، اپنے آپ کو بدنامی سے بچانا، اپنے لوگوں کو دوسروں کی نظر میں اونچا دِکھانا، اپنی کمزوریوں کو چھپانے کی کوشش کرنا، غیر ضروری طورپر کسی چیز کا کریڈٹ لینا، اپنی غلطی کو نہ ماننے کے لیے اصل بات کو بدل کر پیش کرنا، وغیرہ۔ اِس قسم کی تمام صورتوں میں آدمی بات کو صاف طورپر بیان نہیں کرتا، مگر یہ سب بلا شبہہ جھوٹ کی صورتیں ہیں۔ اِس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتاہے کہ آدمی کے اندر کمز ور شخصیت (weak personality) پرورش پاتی ہے، اور کمزور شخصیت ہی کا دوسرا نام منافقانہ شخصیت ہے۔
واپس اوپر جائیں

غریبی اور امیری

ایک تعلیم یافتہ آدمی نے ایک بار کہا—برسات کے موسم میں چھتری والا اور بے چھتری والا، دونوں پانی میں بھیگتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ بے چھتری والے آدمی کے مقابلے میں چھتری والا آدمی شرمندگی سے بچ جاتا ہے۔ یہی معاملہ غریبی اور امیری کا ہے۔ غریبی بھی ایک مسئلہ ہے، اور امیری بھی ایک مسئلہ۔ فرق صرف یہ ہے کہ غریب آدمی کا مسئلہ ظاہر ہوجاتا ہے اور امیر آدمی کا مسئلہ لوگوں کے لیے چھپا رہتاہے۔
اصل یہ ہے کہ مسائل کا تعلق غریبی اور امیری سے نہیں ہے، وہ انسانی زندگی کا ایک فطری حصہ ہے۔ ہر انسان لازمی طورپر مسائل سے دوچار ہوتا ہے— جان ومال کا نقصان، دوسروں کی طرف سے لائی ہوئی ناخوش گواری، ذہنی تناؤ، مستقبل کے اندیشے، بچوں کی بے راہ روی، حادثہ، بڑھاپا اور آخر میں موت۔
آدمی کے لیے سب سے بڑی پریشانی غالباً یہ ہوتی ہے کہ وہ ہمیشہ یہ سوچتا رہتا ہے کہ اگر میں نے ایسا کیا ہوتا تو میرے لیے زیادہ اچھا ہوتا، حالاں کہ یہ صرف ایک فرضی سوچ ہوتی ہے۔ اِسی طرح ہر آدمی یہ کرتا ہے کہ وہ اپنا مقابلہ اپنے سے کم والوں سے نہیں کرتا، بلکہ وہ اپنا مقابلہ اپنے سے زیادہ والوں سے کرتا ہے۔ اِس طرح کی چیزیں آدمی کو مسلسل طور پر پریشان رکھتی ہیں۔ وہ خود ساختہ سوچ کے تحت، بے اطمینانی کی زندگی گزارتا رہتا ہے، یہاں تک کہ اِسی بے اطمینانی کی حالت میں وہ اِس دنیا سے چلا جاتا ہے۔
جب اس حقیقت کو دیکھا جائے کہ غریب آدمی جس طرح اپنی زندگی کی طرف سے غیر مطمئن ہے اسی طرح امیر آدمی بھی اپنی زندگی کی طرف سے غیر مطمئن ہے توغریبی کی حالت اور امیری کی حالت، دونوں اضافی (relative) معلوم ہونے لگتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس دنیا میں سکون کا راز صرف یہ ہے کہ آدمی یہ سمجھ لے کہ جس چیز کو وہ سکون سمجھتا ہے، وہ کبھی اِس دنیا میں ملنے والا نہیں۔ اِس دنیا میں سکون کا راز صرف ایک ہے اور وہ قناعت ہے، یعنی حالتِ موجودہ پر راضی ہو کر زندگی گزارنا۔
واپس اوپر جائیں

Saturday, 2 February 2008

Al Risala | February 2008 (الرسالہ،فروری)

2

-اختیارِ اَیسر— ایک سنّت

6

- معرفتِ دین، احکامِ دین

10

- ارتقا کے تین درجے

14

- سب کچھ خدا کا عطیہ

16

- ففٹی ففٹی کا معاملہ

18

- جنت کی قیمت

19

- تقلید اور اجتہاد

21

- چند مثالی خواتین

25

- ماڈل کون

26

- ذاتی دفاع، قومی دفاع

27

- موت ایک رِمائنڈر

28

- شکر ایک قربانی کا عمل

29

- صحبت کا اثر

30

- ایک مشکل، دوآسانی

31

- حد سے تجاوز نہ کرنا

32

- عقل مند انسان

34

- جس خوشی کی ہمیں تلاش ہے

36

- قانونِ فطرت کو جانیے

39

- پیچھے کی سیٹ

41

- عظمتِ خداوندی کا اعتراف

42

- خبرنامہ اسلامی مرکز— 182


اختیارِ اَیسر— ایک سنّت

حضرت عائشہ کی ایک روایت ہے۔ یہ روایت صحیح البخاری، صحیح مسلم، ابوداؤد، الترمذی، المؤطا اور مسند احمد میں الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ آئی ہے۔ اِس روایت میں حضرت عائشہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمومی پالیسی بیان کی ہے۔ صحیح البخاری میں یہ روایت تین ابواب کے تحت نقل ہوئی ہے (کتاب المناقب: باب صفۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم؛ کتاب الأدب: باب مالا یُستحیا من الحقّ للتفقّہ فی الدّین؛ کتاب الحدود: باب إقامۃ الحدود، والإنتقام لحرمات اللہ) اِس روایت کے الفاظ یہ ہیں: ماخُیّر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بین أمرین، إلاّ اختار أیسرہما۔ یعنی جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو امر میں سے ایک امر کا انتخاب کرناہوتا تو آپ ہمیشہ دونوں میں سے آسان امر کا انتخاب فرماتے۔
یہ حدیث بے حد اہم ہے۔ اِس میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی جنرل پالیسی کو بیان کیاگیا ہے، مگر عجیب بات ہے کہ محدثین نے اِس کی زیادہ تشریح نہیں کی۔ ابنِ حجر کی فتح الباری کو حدیث کا انسائکلوپیڈیا سمجھا جاتا ہے۔ ابنِ حجر نے اِس حدیث کو تین ابواب کے تحت نقل کیا ہے، لیکن انھوں نے اِس حدیث کی کوئی واضح تشریح نہیں کی۔ انھوں نے صرف یہ لکھا ہے کہ اِس ’تخییر‘ کا تعلق، اُمورِ دنیا سے ہے، مگر انھوں نے امورِدنیا کی کوئی متعین عملی مثال نہیں دی(فتح الباری، جلد 12، صفحہ 88 )۔
یہ ایک معلوم بات ہے کہ ہر اصول کا ایک عملی انطباق ہوتا ہے۔ مثلاً اسپریچویلٹی کے عملی انطباق کو اپلائڈ اسپریچویلٹی (applied spirituality) کہاجاتاہے۔ اِسی طرح سائنس کے عملی انطباق کو اپلائڈ سائنس (applied science) کہاجاتا ہے۔ اِسی طرح حضرت عائشہ کے بیان کردہ پرنسپل کا ایک اپلائڈ پرنسپل (applied principle) ہے، لیکن اِس اپلائڈ پرنسپل کی مثالیں کسی بھی شارحِ حدیث کے یہاں نہیں ملتیں۔ میرے علم کے مطابق، اسلام کی پوری تاریخ میں کسی بھی عالم اور مصنف نے حضرت عائشہ کے اِس بیان کردہ اصول کے عملی انطباق کو وضاحت اور تعین کے ساتھ بیان نہیں کیا۔
اسلامی لٹریچرکا یہ خلا، بلا شبہہ ایک عظیم حادثے سے کم نہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ قرآن میں نماز کے بارے میں یہ حکم دیاگیا ہے کہ : أقیموا الصلوٰۃ ( البقرۃ: 43) یعنی نماز قائم کرو۔ یہ نماز کے بارے میں اصولی حکم ہے۔ اِس کے بعد یہ سوال تھا کہ اِس اصول کا عملی انطباق کیا ہے۔ علما نے احادیث کا مطالعہ کرکے نماز کی عملی صورت، یا اپلائڈ صلوٰۃ (applied Salah) کے بارے میں بڑی تعداد میںکتابیں لکھیں۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ امت کو غیر مشتبہ طورپر یہ معلوم ہوگیا کہ نماز کا عملی فارم کیا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا ہوتا تو لوگ حکمِ نماز کو توجانتے، لیکن اُس کی عملی صورت سے بے خبر ہونے کی بنا پروہ نماز کی باقاعدہ ادائیگی سے محروم رہ جاتے۔
حضرت عائشہ کی مذکورہ روایت کے بارے میں بھی یہی چیز درکار تھی۔یہاں بھی ضرورت تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمومی پالیسی کو بتاتے ہوئے اُس کے عملی انطباق کو بھی بتایا جاتا، یعنی یہ بتایا جاتا کہ رسول اللہ نے اپنی تیئس سالہ پیغمبرانہ زندگی میں کس طرح اِس اصول کو عملی طورپر اختیار فرمایا۔ بد قسمتی سے اِس دوسرے معاملے میں یہ کام نہ ہوسکا۔ چناں چہ اب یہ صورتِ حال ہے کہ حضرت عائشہ کی یہ قیمتی روایت، حدیث کی کتابوں میں موجود ہے، لیکن امت اُس کے عملی انطباق سے بالکل بے خبر ہے۔ خاص طورپر جدید دور میں امت کی زبوں حالی کا سب سے بڑا سبب سنتِ رسول سے لوگوں کی یہی بے خبری ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم، ابدی طورپر خدا کے دین کا عملی نمونہ ہیں۔ دوسری تمام چیزوں کی طرح، جہاد بھی وہی جہاد ہے جس کا نمونہ پیغمبر اسلام کی زندگی میں ملے۔ جہاد کاجو نمونہ پیغمبر اسلام کی زندگی میں موجود نہ ہو، وہ یقینی طورپر جہاد نہیںہے بلکہ وہ کوئی اور چیز ہے، خواہ اُس کو اسلامی جہاد کا نام دے دیا جائے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا تتمنّوا لقاء العدوّ، واسئلوا اللہ العافیۃ (صحیح البخاری، کتاب الجہاد) یعنی تم دشمن سے مڈ بھیڑ کی تمنّا نہ کرو، بلکہ خدا سے عافیت مانگو:
Don't wish confrontation with your enemy, ask always peace from God.
جیسا کہ عرض کیا گیا،حضرت عائشہ نے پیغمبر اسلام کی جنرل پالیسی کو اِن الفاظ میں بیان کیا ہے: ما خُیّر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بین أمرین، إلاّ اختارَ أیسرہما، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی دو امر میں سے ایک امر کا انتخاب کرنا ہوتا تو آپ ہمیشہ دونوں میں سے آسان امر کا انتخاب فرماتے:
Whenever the Prophet had to choose between the two, he always opted for the easier of the two.
اس قسم کی احادیث کے ساتھ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی کو دیکھا جائے اور پھر اِس معاملے کی تشریح کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ کہنا بالکل صحیح ہوگا کہ اسلام میں مسلّح جہاد، یا قتال صرف ایک غیر مطلوب انتخاب (undesirable option) ہے، وہ ہر گز کوئی مطلوب انتخاب (desirable option) نہیں۔ پیغمبراسلام کی زندگی کے واقعات واضح طورپر اِس نقطۂ نظر کی تائید کرتے ہیں۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے 610 عیسوی میں مکہ میں توحید کے مشن کا آغاز کیا۔ اُس وقت مکہ شرک کا مرکز بنا ہوا تھا۔ چناں چہ وہاں کے مشرک سردار آپ کے دشمن بن گیے، پھر بھی آپ کا مشن پھیلتا رہا اور لوگ آپ کے ساتھی بنتے رہے۔ اِس طرح تیرہ سال گزر گیے۔ اب مکہ کے مخالفین نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ آپ کو مارڈالیں۔
یہ 622 عیسوی کا واقعہ ہے۔ اُس وقت آپ کو دو میں سے ایک کے انتخاب کا موقع تھا۔ ایک یہ کہ مکہ کے سرداروں کے حربی چیلنج کو قبول کرتے ہوئے، اُن سے مسلّح مقابلہ کریں۔ اُس وقت تک مکہ اور اطرافِ مکہ میں کئی سو افراد آپ پر ایمان لا کر آپ کے ساتھی بن چکے تھے، اِس لحاظ سے آپ کے لیے یہ انتخاب بظاہر ایک ممکن انتخاب تھا۔
آپ کے لیے دوسرا انتخاب یہ تھا کہ آپ مسلح ٹکراؤ سے اعراض کریں، خواہ اِس مقصد کے لیے آپ کو مکہ سے ہجرت کرنا پڑے، یعنی آپ پُر امن طورپر مکہ کو چھوڑ کر باہر چلے جائیں، آپ نے یہی دوسرا طریقہ اختیار کیا۔ آپ نے مسلح ٹکراؤ کا طریقہ چھوڑ دیا اور پُرامن ہجرت کا طریقہ اختیار کرکے آپ مدینہ چلے گیے۔ اگر چہ ظاہر پسندوں کی نظر میں یہ کوئی باعزت طریقہ نہ تھا۔ چناں چہ سیکولر مؤرخین نے اِس واقعے کو ہجرت کے بجائے فرار (flight) کا نام دیا ہے۔
اِسی طرح کا ایک واقعہ وہ ہے جس کو صلحِ حدیبیہ کہاجاتا ہے۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ چھوڑ کر مدینہ آگیے تو آپ کو یہ موقع ملا کہ آپ دعوتِ توحید کا کام زیادہ بڑے پیمانے پر انجام دے سکیں۔ یہ بات مکہ کے سرداروں کو پسند نہیں آئی۔ انھوںنے آپ کے خلاف باقاعدہ حملہ شروع کردیا۔ اُس وقت آپ نے مکہ کے سرداروں سے گفت و شنید (negotiation) کا سلسلہ شروع کیا۔ اِس گفت و شنید کا مقصد یہ تھا کہ آپ اور مکہ والوں کے درمیان امن کا سمجھوتہ ہوجائے۔ یہ گفتگو، حدیبیہ کے مقام پر دو ہفتے تک جاری رہی۔
اِس گفت وشنید کے دوران یہ واضح ہوا کہ فریقِ ثانی اپنی یک طرفہ شرطوں پر اصرار کررہا ہے۔ وہ لوگ اِس معاملے میں کسی بھی طرح جھکنے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ آخر کار، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے سردارانِ قریش کی یک طرفہ شرطوں کو مان لیا، تاکہ دونوں فریقوں کے درمیان امن قائم ہوسکے۔ اِس طرح صلحِ حدیبیہ کا واقعہ انجام پایا، جو گویا آپ کے اور فریقِ ثانی کے درمیان دس سال کا ناجنگ معاہدہ (no-war pact) تھا۔ اِس واقعے کے ذریعے پیغمبر اسلام نے امت کو یہ نمونہ دیا کہ مسلح ٹکراؤ کا انتخاب کسی بھی حال میں نہیں لینا ہے، کوئی بھی قیمت دے کر ہر حال میں امن کو قائم رکھنا ہے— اسلام میں امن کی حیثیت عموم کی ہے اور جنگ کی حیثیت صرف استثنا کی۔
(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو راقم الحروف کی کتابیں— مطالعۂ سیرت، اور امنِ عالم، وغیرہ)
واپس اوپر جائیں

معرفتِ دین، احکامِ دین

دینِ خداوندی کے دو حصے ہیں۔ اس کے ایک حصے کو معرفت کہہ سکتے ہیں، اور اس کا دوسراحصہ وہ ہے جس کو احکام کہاجاتاہے۔ اگر چہ دونوں یکساں طورپر ضروری ہیں، جس طرح ایک انسانی شخصیت کے لیے روح اور جسم دونوںیکساں طورپر ضروری ہوتے ہیں۔ لیکن معرفت اور احکام میں یہ فرق ہے کہ معرفت، دین کا اصل حصہ(real part) ہے اور اس کے مقابلے میں، احکام کا حصہ دین کا اضافی حصہ (relative part) ہے۔ دین میں مذکورہ دو حصے کا ہونا نصّ کے ذریعے ثابت ہے۔ مثلاًپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کے بارے میں فرمایا: لکلِّ اٰیۃٍ منہا ظَہْرٌ وبَطْنٌ (مشکاۃ المصابیح، رقم الحدیث:238 ) یعنی قرآن کی ہر آیت کا ایک ظَہر(outer portion) ہے اور دوسرا اس کا بَطن (inner portion) ہے۔ دوسرے لفظوں میںیہ کہ قرآن کی آیات کا ایک پہلو سطور(lines) میں ہے اور اس کا دوسرا پہلو بین السطور(between the lines) میںملتا ہے۔ اِس حدیث کو لے کر کہا جاسکتا ہے کہ دین کی معرفت نام ہے داخلی معنویت کا، اوردین کے مسائل یا احکام سے مراد دین کا خارجی ڈھانچہ ہے۔
مثال کے طور پر ایمان کو لیجیے۔ فقہی اعتبار سے ایمان یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی زبان سے کہے کہ : أشہد أن لاّ إلٰہ إلاّ اللہ، وأشہد أن محمداً عبدُہ ورسولُہ۔ جس شخص نے اپنی زبان سے یہ الفاظ ادا کردیے، وہ فقہی مسئلے کے اعتبار سے مومن بن گیا، لیکن جہاں تک ایمان کی معرفت کی بات ہے، وہ اِس قسم کے تلفّظ سے الگ ایک چیز ہے۔ وہ کسی شخص کو ذہنی انقلاب (intellectual revolution)کے ذریعے حاصل ہوتاہے، نہ کہ محض ادایگیٔ الفاظ کے ذریعے۔
معرفت والا ایمان کیا ہے، اس کو قرآن کی اِس آیت سے سمجھئے: وإذا سمعوا ما أُنزل إلی الرّسول تریٰ أعینَہم تفیض من الدّمع مما عرفوا من الحق (الأنعام: 83 ) اِس آیت میں ایک ایسے گروہ کا ذکر ہے ، جو قرآن کی کچھ آیتوں کو سن کر ایمان لایا۔ انھوںنے بھی اُسی طرح اپنی زبان سے کلمۂ ایمان ادا کیا، لیکن اُن کی یہ ادایگی ایک قلبی عرفان کی بنیاد پر تھی۔ ان کا یہ عرفانِ حق اتنا گہرا تھا کہ ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب بہہ پڑا۔
ایمان کی نسبت سے اوپر جو بات کہی گئی ، وہی دین کی تمام باتوں کے لیے درست ہے۔ دین کی تمام تعلیمات کا معاملہ یہ ہے کہ اس کا ایک پہلو وہ ہوتا ہے، جو نص کے ظاہری الفاظ سے معلوم ہوتا ہے، اور اس کا دوسرا پہلو وہ ہے جو نص کے الفاظ پر گہرے غور وفکر سے معلوم ہوتا ہے۔
دین میں گہری معرفت حاصل کرنے کی شرط کیا ہے۔ اس کی واحد شرط تقویٰ ہے، یعنی خداکا خوف۔ معرفت کی یہ شرط قرآن سے ثابت ہے۔ قرآن میںارشاد ہوا ہے: اتّقوا اللہ ویعلّمکم اللہ (البقرۃ:282 )۔ یعنی تم اللہ سے ڈرو اور پھر اِس ڈر کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ کی توفیق سے تم دین کے گہرے علم تک پہنچ جاؤگے۔ دین کے ظاہری احکام کو جاننے کے لیے خوفِ خدا کی ضرورت نہیں، اِس کے لیے فقہ کی کتابوں کو پڑھ لینا کافی ہے۔ لیکن دین کے معرفت والے حصے تک پہنچنا، صرف اُس شخص کے لیے ممکن ہے جو خدا سے ڈرنے والا ہو، خدا کے خوف نے جس کو مَین کٹ ٹو سائز(man cut to size) بنا دیا ہو۔
اِس معاملے میں ایک حدیث پر غور کیجیے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَن کان یؤمن باللہ والیوم الآخر، فلیقل خیراً أو لیصمت (صحیح البخاری، کتاب الادب) یعنی جو شخص اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، اس کو چاہیے کہ وہ خیر کی بات بولے، ورنہ چپ رہے۔ یہ حدیث ہم کو کلامِ تقویٰ کی ایک پہچان دیتی ہے۔ وہ پہچان یہ ہے کہ جس آدمی کے دل میں اللہ کا ڈر سمایا ہوا ہو، وہ اگر کسی کے خلاف بولے گا تو وہ صرف اُس وقت بولے گا، جب کہ اس کے پاس اپنے قول کے حق میں ناقابلِ انکار دلیل موجود ہو۔ اگر اس کے پاس ایسی دلیل نہ ہو تو وہ اِس موضوع پر بالکل خاموش رہے گا۔
اِس سے معلوم ہوا کہ ایسا کرنا کہ آدمی کسی شخص کے بارے میں ایک مخالفانہ بیان (negative remark) دے، لیکن وہ صرف ایک مجرّد بیان ہو، اس بیان کے ثبوت کے لیے کوئی واضح دلیل موجود نہ ہو، تو ایسا بیان یقینی طورپر اِس بات کا ثبوت ہے کہ وہ آدمی خوفِ خدا سے کانپنے والا آدمی نہیں۔ اس کا بیان ایک بے خوفی کا بیان ہے، نہ کہ خوفِ خدا والابیان۔
مجھے ذاتی طورپر اِس معاملے میں نہایت تلخ تجربے ہوئے ہیں۔ بے ریش اور باریش دونوں قسم کے لوگوں نے ایسا کیا کہ انھوںنے میرے بارے میں مخالفانہ ریمارک دیے، جب کہ اِس ریمارک کے ساتھ کوئی دلیل شامل نہ تھی۔ مثلاً کسی نے میرے بارے میں کہا کہ وہ ایک ’’متنازعہ شخصیت‘‘ ہیں۔ کسی نے کہا کہ ان کی کتابوں کو پڑھ کر ’’اَسلاف سے بے اعتمادی‘‘ پیدا ہوتی ہے۔ کسی نے کہا کہ ان کی فکر میں ’’انتہا پسندی‘‘ ہے۔ کسی نے کہا کہ وہ ’’ردّ عمل کی نفسیات‘‘ کے تحت لکھتے ہیں۔ کسی نے کہا کہ ان کی تحریریں ’’بُزدلی‘‘ کا سبق دیتی ہیں۔ کسی نے کہا کہ وہ اسلام کو اس کی ٹوٹیلٹی (totality) میں پیش نہیں کرتے۔ کسی نے کہا کہ وہ جہاد فی سبیل اللہ کے ’’منکر‘‘ ہیں۔ کسی نے کہا کہ ان کی شناخت یہ ہے کہ ان کے یہاں ’’تنقیدات اور تفرّدات‘‘ کے سوا اور کچھ نہیں، وغیرہ۔
اِن تمام لوگوں کی مشترک صفت یہ ہے کہ وہ صرف مخالفانہ ریمارک دیتے ہیں، لیکن وہ اپنے ریمارک کی کوئی علمی دلیل نہیں دیتے، حتی کہ وہ اپنے اِس مخالفانہ ریمارک کے حق میں میری کسی تحریر سے کوئی اقتباس بھی پیش نہیں کرتے۔ وہ یا تو اقتباس پیش کیے بغیر اپنا بیان دیتے ہیں، یا اگر کوئی اقتباس پیش کرتے ہیں تو وہ ہمیشہ بدلی ہوئی اور ناقص صورت میں ہوتا ہے۔ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ میں نے اپنی تحریر میں خود کیا کہا ہے، بلکہ میری تحریر کا حوالہ دے کر وہ خود اپنی بات کہنے لگتے ہیں۔
اِس قسم کی تمام باتیں بلاشبہہ خدا سے بے خوفی کا نتیجہ ہیں۔ اور جو دل خدا کے خوف سے خالی ہو، وہ یقینی طورپر معرفت سے بھی خالی ہوگا۔ یہی آج کل تقریباً تمام لوگوں کا حال ہے۔ آج کل، دین کے موضوع پر لکھنے اور بولنے والوںکا سیلاب آیا ہوا ہے، لیکن اِن لوگوں کی تحریریں اور تقریریں محض الفاظ کا ڈھیر ہوتی ہیں۔ ڈکشنری کے تمام الفاظ بولنے کے باوجود ان کی تقریروں اور تحریروں سے سننے اور پڑھنے والے کودین کی کوئی معرفت حاصل نہیںہوتی۔ اس کا واحد سبب یہ ہے کہ یہ تمام تقریریں اور تحریریں لفظی معلومات کی بنیاد پر ہوتی ہیں، نہ کہ معرفتِ حق کی بنیاد پر۔
آج کل ہر طرف تقریروں اور تحریروں کا جنگل نظر آتا ہے، لیکن یہ تقریریں اور تحریریں سوکھی گھاس کی مانند ہوتی ہیں۔ اِن میںنہ تو معرفت کی خوش بو ہوتی ہے اور نہ حکمت کی روشنی۔ اِن میںنہ تو محبتِ الٰہی کی غذا ہوتی ہے اور نہ خوفِ خدا کی چنگاری۔ اِن تقریروں اور تحریر وں میں سطحی لوگوں کے لیے ادبی چاشنی یا قومی فخر جیسی منفی خوراک تو ضرور ہوتی ہے، لیکن اُن میں نہ وضوح (clarity) ہوتا ہے اور نہ دین کی گہری بصیرت۔
یہ تقریریں اور تحریریں صرف شَبد جنجال کا نمونہ ہوتی ہیں، لیکن اُن سے روحِ انسانی میں نہ اہتزاز (thrill) پیدا ہوتا اور نہ آنکھوںمیں آنسوؤں کا سیلاب اُمڈتاہے۔ اُن کو پڑھ کر اور سن کر انسان نہ جنت کی طرف دوڑنے والا بنتا ہے اور نہ جہنم سے بھاگنے والا۔ یہ تقریریں اور تحریریں انسان کے لیے خشک صحرا میں سفر کی مانند ہوتی ہیں، اِس کے سوا اور کچھ نہیں۔
اس معاملے کا تجربہ میں نے مختلف انداز سے کیا ہے۔ مثلاً ایک شخص مجھ سے ملے گا اور کسی مقرّر کی تقریر کا ذکر کرے گا۔ وہ نہایت پُر جوش طورپر ان کی تقریروں کی تعریف کرے گا۔ لیکن جب میں اُس سے پوچھوں گا کہ ان کی تقریر میں آپ کو کیا نئی اور خاص بات ملی تو وہ کچھ نہ بتاپائے گا۔ یہ تجربہ میںنے بار بار کیا ہے۔ آج کل کے تقریباً تمام مشہور مقررین کا حال یہ ہے کہ ان کی تقریروں کو سن کر لوگ خوب خوش ہوتے ہیں اور تالیاں بجاتے ہیں، لیکن وہ اِن تقریروں سے کچھ اپنے لیے لے کر نہیں لوٹتے۔ اِن تقریروں میں الفاظ کی بھر مار تو ضرور ہوتی ہے، لیکن اُن میں سننے والے کے لیے کچھ ٹیک اوے (take away) نہیں ہوتا۔
یہی معاملہ کتابوں کا ہے۔ کسی دینی کتاب کا حقیقی مقصد یہ ہے کہ اس کے ذریعے سے آدمی کو سچائی کی دریافت ہو، وہ خدا کو پہچانے، وہ اس کے ذریعے سے کوئی روحانی خوراک حاصل کرے۔ مگر یہاں بھی یہی حال ہے کہ لوگ مقالات اورکتابوں کی تعریفیں کرتے ہیں، مگر جب اُن سے پوچھا جائے کہ اِس کتاب میں تم کو خود اپنے لیے کیا ملا، اِس سے تم کو خود اپنے ذہنی ارتقا کے لیے کیا سامان حاصل ہوا۔ جب اُن سے ایسا سوال کیاجائے تو اِس کے جواب میں وہ کچھ بھی نہیںکہہ پاتے ۔ اُن کے پاس کہنے کے لیے کوئی ایسی نئی بات نہیں ہوتی، جس کو انھوں نے اِس کتاب کے مطالعے کے ذریعے پایا ہو۔
واپس اوپر جائیں

ارتقا کے تین درجے

ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ مسند امام احمد کے الفاظ یہ ہیں— حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: النّاس مَعادِن، کمعادن الفِضّۃ والذّہب، خِیارُہم فی الجاہلیۃ خیارُہم فی الاسلام إذا فقہوا (مسند احمد، جلد 2 صفحہ 539 ) یعنی انسان دھات کی مانند ہیں، جیسے سونے اور چاندی کی دھات۔ جاہلیت میںجو بہتر ہیں، وہی اسلام میں بھی بہتر ہیں، جب کہ وہ اپنے اندر سمجھ پیدا کریں۔
اِس حدیث میں انسان کے فکری ارتقا کے مراحل کو بتایا گیا ہے۔ ایک درجۂ فکری وہ ہے جس پر انسان پیدا ہوتا ہے۔ دوسرا درجۂ فکری وہ ہے جو انسان خود اپنی کوششوں سے بناتا ہے۔ تیسرا درجہ معرفت کا درجہ ہے۔ معرفت کے درجے میں پہنچ کر انسان اپنے ارتقا کی آخری منزل کو پالیتا ہے، یعنی وہ درجہ جس کا دوسرا نام اسلام ہے۔
اِس اعتبار سے انسان کی مثال دھات (metal) جیسی ہے۔ لوہا زمین سے نکلتا ہے۔ ابتدائی حالت میں وہ خام لوہا (ore) ہوتا ہے۔ اِس کے بعد اُس کو پگھلا کر صاف کیا جاتا ہے۔ اب وہ ترقی پاکر اسٹیل بن جاتاہے۔ اِس کے بعد وہ مزید صنعتی مراحل سے گزرتا ہے، یہاں تک کہ وہ باقاعدہ مشین کی صورت اختیار کرلیتا ہے— یعنی پہلے مرحلے میں خام لوہا، دوسرے مرحلے میںاسٹیل، اور تیسرے اور آخری مرحلے میں مشین۔
یہی معاملہ انسان کا ہے۔ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو گویا کہ وہ فطرت کی کان (mine) سے نکل کر باہر کی دنیا میںآتا ہے۔ اِس کے بعد وہ بڑا ہوتا ہے اور اپنی سوچ کو عمل میں لاتا ہے۔ وہ تعلیم و تربیت کے مراحل سے گزرتا ہے۔ اِس طرح پختگی کی عمر میں پہنچ کر وہ ایک باقاعدہ انسان بن جاتا ہے۔ یہ انسانی وجود کا درمیانی مرحلہ ہے۔ اِس کے بعد اگر وہ اپنی عقل کو صحیح رخ پر استعمال کرے تو وہ معرفتِ حق کے درجے میں پہنچ جاتا ہے۔ یہ وہ درجہ ہے جب کہ کوئی پیدا ہونے والا، کمالِ انسانیت کے مرحلے میں پہنچ کر عارف باللہ کا مقام حاصل کرلیتاہے۔ اِن تین ارتقائی مراحل کو حسب ذیل صورت میں بیان کیا جاسکتا ہے:
1 - پیدائشی شخصیت (born personality)
2 - تیار شدہ شخصیت (developed personality)
3 - عارفانہ شخصیت (realized personality)
پیدائشی شخصیت، خدا کی دی ہوئی شخصیت ہوتی ہے۔ پیدائشی شخصیت کے اعتبار سے ہر آدمی یکساں ہوتاہے۔ صلاحیت کے اعتبار سے اگر چہ ایک انسان اور دوسرے انسان میںہمیشہ فرق ہوتا ہے، لیکن اِس فطری فرق کے باوجود تمام انسان اِمکانی استعداد (potential capacity) کے اعتبار سے یکساں حیثیت کے مالک ہوتے ہیں۔
اِسی بات کو ایک حدیث میں اِس طرح بیان کیاگیا ہے: المؤمن القوّی خیرٌ و أحبُّ إلی اللہ من المؤمن الضّعیف، وفی کلٍّ خیر۔ احرِص علیٰ ما ینفعک واستعن باللہ ولا تعجز۔ وإن أصابک شیٔ فلا تقُل: لَوأنّی فعلتُ کان کذا وکذا، ولٰکن قُل: قدّر اللہ وماشاء فعل۔ فإنّ ’’لَو‘‘ تفتح عملَ الشیطان (صحیح مسلم، کتاب القدر؛ ابنِ ماجہ، مقدّمہ؛ مسنداحمد، جلد 2، صفحہ 370 )۔
یعنی قوی مومن، اللہ کے نزدیک ضعیف مومن سے زیادہ بہتر اور پسندیدہ ہے، اور ہر ایک میں خیر ہے۔ جوچیز تمھارے لیے نافع ہو، اس کے تم حریص بنو اور اللہ سے مدد چاہو اور عاجز نہ ہو۔ اور اگر تمھارے خلاف کوئی بات پیش آئے تو یہ نہ کہو کہ کاش، میں نے ایسااور ایسا کیاہوتا۔ بلکہ یہ کہو کہ یہ خدا کا تقدیری منصوبہ تھا، اسی نے جوچاہا کیا۔ کیوں کہ ’’اگر‘‘ کہنا شیطان کے عمل کا دروازہ کھولتا ہے۔
اِس حدیث میں مومن سے مراد انسان ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی انسان اگر اپنے اندر ایک اعتبار سے کمی محسوس کرے تو اس کو مایوس نہیں ہونا چاہیے، کیوں کہ دوسرے اعتبار سے اُس کے اندر کوئی اور صفت زیادہ ہوگی۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی خداداد صلاحیت کو دریافت کرے اور حوصلہ مندانہ انداز میں اپنی زندگی کی تعمیر کرے۔ جدوجہدِ حیات کے دوران اگر اس کو کوئی نقصان پہنچے تو اُس کو یقین کرنا چاہیے کہ اِس منفی تجربے میں بھی کوئی مثبت فائدہ شامل ہوگا۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے ہر منفی تجربے سے مثبت سبق لے، وہ کسی بھی حال میں پست ہمتی کا شکار نہ ہو۔
اس طرح آدمی اپنی شخصیت کی تعمیر کرتا رہتا ہے۔ وہ اپنا محاسبہ کرکے اپنی کنڈیشننگ کو دور کرتا رہتا ہے۔ وہ اپنے شعور کو بیدار کرکے اپنے اندر ایسی شخصیت کی پرورش کرتا رہتا ہے جس کے اندر قبولِ حق کی صلاحیت موجود ہو، جس کے اندر وہ صلاحیت ہو جس کو پیغمبر کی ایک دعا میں اِس طرح بیان کیاگیا ہے: اللّہم، أرنا الحقَّ حقّا، وارْزُقنَا اتِّباعہ، وأرِنا الباطل باطلاً، وارزقنا اجتِنابَہ، وأرِنا الأشیائَ کما ہِیَ۔ یعنی اے اللہ، تو مجھے حق کو حق کے روپ میں دکھا، اور اس کی پیروی کی توفیق دے۔ اور اے اللہ، تو مجھے باطل کو باطل کے روپ میں دکھا، اور تو مجھے اُس سے بچنے کی توفیق عطا فرما۔ اور اے اللہ، تو مجھے چیزوں کو ویسا ہی دکھا جیسا کہ وہ ہیں۔
یہی وہ انسان ہے جس کو ہم نے اوپر کی تقسیم میں تیار شدہ شخصیت (developed personality) کا نام دیا ہے۔ وہی آدمی دانش مند آدمی ہے جو اپنے اندر اِس قسم کی شخصیت کی تعمیر کرے۔ جہاں تک فطری وجود کی بات ہے، ہر انسان کو فطری وجود کا عطیہ خالق کی طرف سے یکساں طورپر ملتا ہے، لیکن اُس کے بعد اپنے آپ کو ایک تیار شدہ شخصیت بنانا، یہ ہر انسان کا خود اپنا عمل ہے۔ ٹھیک اُسی طرح جیسے خام لوہا فطرت کی طرف سے عطا کیا جاتا ہے، لیکن اِس خام لوہے کو اسٹیل اور مشین میں تبدیل کرنے کا عمل انسانی کارخانے میںانجام پاتا ہے۔
اِسی خود تیاری (self-preparation)کے عمل پر اگلے ارتقائی مرحلے کا انحصار ہے۔ جولوگ خود شناس بنیں، جو لوگ اپنا بے لاگ محاسبہ کرتے رہیں، جو لوگ اپنی کمیوں کو ڈھونڈ کر اپنی ڈی کنڈیشننگ کریں، جو لوگ ہر قیمت کو ادا کرتے ہوئے اپنے ’’خام لوہے‘‘ کو ’’اسٹیل‘‘ بنانے کا کام کریں، جن لوگوں کا یہ حال ہو کہ وہ انانیت اور کبر اور لالچ اور حسد اور غصہ اور انتقام جیسے منفی جذبات کا کبھی شکار نہ بنیں، جو کہ شخصیت کی تعمیر میں ایک مہلک رکاوٹ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ جو لوگ مسلسل طورپر اپنے اوپر تزکیہ کا عمل جاری کیے ہوئے ہوں، وہی لوگ ہیں جو خدا کی توفیق سے حق کو دریافت کرتے ہیں اور اس کو پوری آمادگی کے ساتھ قبول کرلیتے ہیں۔
تزکیہ کے لفظی معنٰی ہیں، پاک کرنا(purification) ۔ یہ ہر آدمی کی لازمی ضرورت ہے۔ یہ ہر آدمی کا مسئلہ ہے کہ وہ اپنے ماحول سے اثر قبول کرتا رہتا ہے، جس کو کنڈیشننگ (conditioning) کہاجاتا ہے۔ اپنے جذبات اور خواہشات کے تحت، اس کی کچھ عادتیں بن جاتی ہیں۔ اپنے مفادات اور مصالح کے زیر اثر، شعوری یا غیر شعوری طورپر، اس کا اپنا ایک مزاج بن جاتا ہے۔ یہ تمام چیزیں آدمی کی روحانی ترقی میں رکاوٹ ہیں۔اِن رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے آدمی کو خود اپنا نگراں (guard) بننا پڑتا ہے۔ وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنی غلطیوں کو نکالتا ہے۔ وہ ایک بے رحمانہ اصلاح (merciless deconditioning) کا عمل اپنے اوپر جاری کرتا ہے۔ یہ تزکیہ کی لازمی شرط ہے۔ اِس کے بغیر کسی کا حقیقی تزکیہ نہیں ہوسکتا— بے رحمانہ ذاتی اصلاح کے بغیر تزکیہ نہیں، اور تزکیہ کے بغیر جنت نہیں۔
جو لوگ اپنے آپ کو مذکورہ مراحل سے گزاریں اور اپنی تیاری کے نتیجے میں سچائی کو پالیں، اُنھیں کو قرآن میں النفس المطمٔنۃ (الفجر: 27 ) کہاگیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو خدا کے تخلیقی نقشے پر راضی ہوئے، جنھوں نے اپنے آپ کو اِس نقشے پر ڈھال کر اپنے اندر مطلوب شخصیت کی تعمیر کی۔ یہی وہ لوگ ہیں جو خداکی رضا مندی پائیں گے اور خدا کے فضل سے جنت کے ابدی باغوں میں بسائے جائیں گے۔
واپس اوپر جائیں

سب کچھ خدا کا عطیہ

عرب میںجب پٹرول کی دولت آئی تو وہاں اچانک زندگی کا نقشہ بدل گیا۔ ایک عرب شیخ پہلے معمولی خیمے میں رہتا تھا۔ اُس کی زندگی کاانحصار تمام تر اونٹ کے اوپر تھا، پھر اچانک اُس کے پاس پٹرول کی دولت آگئی۔ اس کے ایک دوست نے اس کے لیے سویزرلینڈ میں جدید طرز کا ایک شان دار مکان خریدا۔ عرب شیخ ہوائی جہاز سے سفر کرکے وہاں پہنچا اور اپنے خوب صورت مکان کو دیکھا تو اس کو یقین نہیں آتا تھا کہ یہ اُسی کا مکان ہے۔ اس کو ایسا محسوس ہوا جیسے کہ وہ کوئی خواب دیکھ رہا ہے۔
وہ اپنے مکان کی دیوار اور اس کے فرنیچر کو ہاتھ سے چھو کر دیکھتا تھا کہ وہ سچ مچ اپنے مکان میں ہے، یا وہ خواب میں کوئی تصوراتی محل دیکھ رہا ہے۔ بہت دیر کے بعد جب اس کو یقین ہوا کہ یہ ایک حقیقی مکان ہے اور وہ اُسی کا اپنا مکان ہے تو وہ خوشی کے آنسوؤں کے ساتھ سجدے میں گر پڑا اور دیر تک اِسی حالت میں پڑا رہا۔
یہ کیفیت جو ایک عرب شیخ کے اوپر گزری، یہی کیفیت ہر انسان کے اوپر بہت زیادہ بڑے پیمانے پر گزرنا چاہیے۔ اس لیے کہ موجودہ دنیا کی صورت میںہر انسان کو وہی چیز ملی ہوئی ہے، جو عرب شیخ کو سویزر لینڈ کے مکان کی صورت میں ملی۔ سویزر لینڈ کا مکان عرب شیخ کے لیے جتنا عجیب تھا، اس سے بے شمار گُنا زیادہ عجیب موجودہ کائنات ہے جو کوئی قیمت ادا کیے بغیر ہر اِنسان کو ہر لمحہ ملی ہوئی ہے۔ ہر انسان کاکیس مزید اضافے کے ساتھ وہی ہے جو مذکورہ عرب شیخ کا کیس تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان، کامل طورپر عاجز اورمحروم انسان ہے۔ پھر اس کو موجودہ دنیا کی صورت میں سب کچھ دے دیا جاتا ہے۔ فطرت اپنے تمام خزانوں کے ساتھ تاحیات اس کی خدمت گزار بن جاتی ہے۔
انسان کا پیدا ہونا ایک حیرت ناک عجوبہ ہے۔ انسان اگر اپنے بارے میں سوچے تووہ ایک ایک چیز پر دہشت زدہ ہو کر رہ جائے گا۔ ایک ایسا انسان جوزندگی رکھتا ہے، جس کے اندر دیکھنے اور سننے کی صلاحیت ہے، جو سوچتا ہے اور چلتا ہے، جو منصوبہ بناتا ہے اور اس کو اپنے حسب منشا عمل میں لاتا ہے۔ یہ سب اتنی زیادہ انوکھی صفات ہیں جو انسان کو اپنے آپ بلا قیمت ملی ہوئی ہیں۔ انسان اگر اِس پر سوچے تو وہ شکر کے احساس میں ڈوب جائے۔
پھر یہ دنیا جس کے اندر انسان رہتا ہے، وہ حیرت ناک حد تک ایک موافقِ انسان دنیا ہے۔ زمین جیسا کُرہ ساری وسیع کائنات میںکوئی دوسرا نہیں۔ یہاں پانی ہے، یہاں سبزہ ہے، یہاںہواہے، یہاںدھوپ ہے، یہاں کھانے کا سامان ہے اور دوسری اَن گنت چیزیں خالق کے یک طرفہ عطیے کے طورپر موجود ہیں۔ یہ چیزیں زمین کے سوا کہیں اور موجود نہیں۔
اگر آدمی اِس حقیقت کو سوچے تو وہ مذکورہ عرب شیخ کی طرح شکر کے احساس سے سجدے میں گر پڑے، مگر ایسا نہیں ہوتا۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ انسان دنیا کی چیزوں کو فارگرانٹیڈ(for granted) طور پر لیے رہتاہے۔ وہ شعوری یا غیر شعوری طورپر یہ سمجھتا ہے کہ جوکچھ ہے، اُس کو ہونا ہی چاہیے۔ جوکچھ اُس کو ملا ہوا ہے، وہ اُس کو ملنا ہی چاہیے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں انسان کا امتحان ہے۔
انسان کو چاہیے کہ وہ اِس معاملے میں اپنے شعور کو زندہ کرے۔ وہ بار بار سوچ کر اِس حقیقت کو سمجھے کہ وہ سرتا پا ایک عاجز مخلوق ہے۔ اس کو جو کچھ ملا ہوا ہے، وہ مکمل طورپر خدا کے دینے سے ملا ہے۔ خدا اگر نہ دے تو اُس کو کچھ بھی ملنے والا نہیں۔ جو چیزیں انسان کو بظاہر اپنے آپ مل رہی ہیں، اُن کو وہ اِس طرح لے، جیسے کہ وہ ہر وقت براہِ راست خدا کی طرف سے بھیجی جارہی ہیں۔ وہ ملی ہوئی چیزوں کو دی ہوئی چیزوں کے طور پر دریافت کرے۔
خدا کا مطلوب انسان وہ ہے جو اپنے ذہن کو اتنا زیادہ بیدار کرے کہ وہ بظاہر اسباب کے تحت ملنے والے سامانِ حیات کو بلااسباب خدا کی طرف سے ملاہوا سمجھے، وہ معمول(usual) کو خلافِ معمول (unusual) کے طورپر دیکھ سکے، وہ غیب کو شُہود کے درجے میں دریافت کرے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کو آخرت میںخدا کا دیدار نصیب ہوگا اور یہی وہ لوگ ہیں جو خدا کے پڑوس میںبنائی جانے والی ابدی جنت میں جگہ پائیں گے۔
واپس اوپر جائیں

ففٹی ففٹی کا معاملہ

قرآن کی سورہ نمبر 28 میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: إنّک لا تہدی مَن أحببتَ، ولٰکنّ اللہ یہدی مَن یشاء، وہو أعلم بالمُہتدین(القصص: 56)۔ یعنی تم جس کو چاہو ہدایت نہیں دے سکتے، بلکہ اللہ جس کو چاہتا ہے، اُس کو ہدایت دیتا ہے۔ اور وہی خوب جانتا ہے جو ہدایت قبول کرنے والے ہیں۔
قرآن کی اِس آیت سے معلوم ہوا کہ ہدایت کا معاملہ کسی انسان کے لیے ففٹی ففٹی کا معاملہ ہے، یعنی اُس کا پچاس فی صد تعلق ، داعی کی دعوت سے ہے۔ دعوت کی تعریف قرآن کے مطابق، یہ ہے کہ اُس کو اِس طرح پیش کیا جائے کہ وہ مدعو کے دل میں اُتر جائے (النساء: 63 )۔ اِس سے مراد یہ ہے کہ بات کو اِس طرح کہاجائے کہ وہ سننے والے کے مائنڈ کو ایڈریس کرے۔ مثلاً ایک شخص جس کے اندر ریشنل تھنکنگ ہو، اُس کے سامنے اگر دعوت کو ٹریڈیشنل انداز میں پیش کیاجائے تو اس کا مائنڈ ایڈریس نہیںہوگا۔ اِس کا نام حکمتِ تبلیغ ہے۔ داعی کو چاہیے کہ وہ حکمتِ تبلیغ کا پورا لحاظ کرتے ہوئے دعوت کاکام کرے۔
قرآ ن کی مذکورہ آیت کے مطابق، ہدایت کا دوسرا نصف حصہ مشیتِ خداوندی سے تعلق رکھتا ہے۔ یہاں مشیتِ خداوندی سے مراد فطرتِ خداوندی ہے۔ قرآن کا یہ اسلوب ہے کہ اس میں فطرت کے قانون کو خدا کی طرف منسوب کرکے بتایا جاتا ہے۔ آیت کے الفاظ بظاہر یہ ہیں کہ ’’بلکہ جس کو اللہ چاہے‘‘ لیکن اصل حقیقت کے اعتبار سے اِس کا مطلب یہ ہے کہ دعوت اور تبلیغ کے باوجود ہدایت صرف اُس کو ملتی ہے، جو خود بھی طالبِ ہدایت ہو۔ اگر مدعو طالبِ ہدایت نہیں ہے تو داعی کی یک طرفہ کوشش سے اُس کو ہدایت نہیں مل سکتی۔
طالبِ ہدایت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے ذہن کو ہدایت کے معاملے میںاُسی طرح متحرک کرے، جس طرح وہ دُنیوی معاملات میںاپنے ذہن کو متحرک کرتاہے۔ مثلاً ایک شخص کو دولت حاصل ہوجائے تو وہ احساسِ برتری میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ یہاں ضرورت تھی کہ وہ اپنے ذہن کواستعمال کرکے یہ سمجھے کہ دولت کا تعلق دنیا کی ضرورتوں سے ہے، دولت کا تعلق سچائی سے نہیں۔ دولت پانے کا مطلب یہ نہیں کہ اُس نے سچائی کو بھی پالیا۔ اگر آدمی اپنے ذہن کو زندہ رکھے تو وہ دولت اور سچائی کے اِس فرق کو سمجھے گا اور احساسِ برتری میں مبتلا ہوکر اپنے آپ کو حق سے مستغنی سمجھنے کی غلطی نہیںکرے گا، اور پھر وہ سچائی کو پانے میں کامیاب ہوجائے گا۔
اِسی طرح ایک شخص جب ایک ماحول میںلمبی مدت تک رہتا ہے تو اُس کو اُس ماحول کے افکار سے متعصبانہ تعلق ہوجاتا ہے، اور ماحول کی طرف سے اُس کو جو کچھ ملا ہے، اُس کو وہ حق سمجھنے لگتا ہے۔ یہ مزاج اُس کے لیے حق کو پہچاننے میںرُکاوٹ بن جاتاہے۔ اب اگر آدمی اپنے ذہن کو زندہ رکھے تو وہ متعصابہ فکر اور حقیقی فکر کے فرق کو سمجھے گا، اور جس آدمی کے اندر ایک چیز اور دوسری چیز کے درمیان فرق کی صلاحیت ہو، اُس کے سامنے جب حق آتا ہے تو وہ اس کو پہچان لیتا ہے اور پھر پورے دل وجان کے ساتھ وہ اس کا ساتھی بن جاتا ہے۔
سچائی کو پانے کے دو مرحلے ہیں۔ پہلا مرحلہ تلاش کا ہے اور دوسرا مرحلہ دریافت کا۔ یہ دونوں مرحلے قرآن سے واضح طورپر معلوم ہوتے ہیں۔قرآن میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ذیل میں فرمایا: ووجدک ضالاّ فہدیٰ (الضّحیٰ: 7 ) یعنی خدا نے تم کو تلاشِ حق میں سرگرداں پایا، پھر تم کو اُس نے ہدایت دے دی۔ اِس آیت میں فطرت کا ایک قانون بتایا گیا ہے۔
اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ آدمی پہلے حق کا مُتلاشی (seeker) بنتا ہے، پھر اُس کو حق کی دریافت ہوتی ہے۔ متلاشی بننے کا مطلب ذہنی استعداد ہے۔ جب کسی آدمی کے اندر ذہنی استعداد پیدا ہوجائے تو وہ اِس قابل ہوجاتا ہے کہ اُس کے سامنے حق آئے تو وہ اس کو اپنی تلاش کا جواب سمجھے اور پوری آمادگی کے ساتھ اس کو فوراً مان لے۔
واپس اوپر جائیں

جنت کی قیمت

جنت ابدی راحتوں کی دنیا ہے۔ وہ کون لوگ ہیں جو موت کے بعد اِس قابل ٹھیریں گے کہ وہ جنت کی معیاری دنیا میں جگہ پائیں۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جنھوںنے موت سے پہلے کی زندگی میں، فکری اور عملی اعتبار سے،اپنے آپ کو جنت جیسی معیاری دنیا میں رہنے کا مستحق بنایا ہوگا۔
یہ جنت کا کم تر اندازہ ہے کہ کسی اور چیز کوجنت کی قیمت سمجھ لیا جائے۔ مثلاً یہ ماننا کہ کسی بزرگ کا دامن تھامنے سے جنت مل جائے گی، اِسی طرح کسی گروہ سے وابستہ ہونا، کچھ رسمی اعمال کرلینا، کسی مقدس مقام کی زیارت کرلینا، دین کے نام سے کسی دھوم کا مظاہرہ کرنا، حمد اور نعت کے لفظی ترانے اسٹیج پر گانا،اور اَوراد ووظائف میںمشغول رہنا، دین کے نام پر شان دار بلڈنگ بنانا، جلسے اور جلوس کے ہنگامے کھڑے کرنا، اسلام کو اپنے لیے فخر کی چیز بنا لینا، وغیرہ۔ اِس قسم کی کسی چیز کا کوئی تعلق جنت سے نہیں، اِس قسم کی کوئی بھی چیز آدمی کو ہر گز جنت میں لے جانے والی نہیں۔
جنت میں صرف وہ لوگ داخل کیے جائیں گے جو جنّتی شخصیت لے کر وہاں پہنچیں۔ جنتی شخصیت کو قرآن میں تزکیہ یافتہ شخصیت (purified personality) کہاگیا ہے (طٰہٰ: 76 )۔ جنتی شخصیت وہ ہے جو جنت کے تقاضوں کی نسبت سے ایک تیار شدہ شخصیت(prepared personality) ہو۔ شخصیت کی یہ تیاری اِسی موجودہ دنیا میں ہوتی ہے۔ موجودہ دنیا میں مختلف قسم کے حالات اور تجربات کے دوران آدمی اپنے آپ کو پاکیزہ شخصیت بناتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو منفی جذبات سے بچا کر مثبت مزاج پر قائم رکھتا ہے۔ ناموافق حالات کے باوجود وہ اصول پسند بنا رہتا ہے، وہ انصاف کی روش سے کبھی نہیں ہٹتا۔ وہ اپنی خواہشوں پر کنٹرول کرتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو آزادی کے غلط استعمال سے بچاتا ہے۔ وہ کسی دباؤ کے بغیر دوسروں کا حق ادا کرتا ہے۔ وہ ہمیشہ سچ بولتا ہے۔ وہ دوسروں کے ساتھ کیے ہوئے وعدوں کو پورا کرتا ہے۔ نہ کوئی ناکامی اُس کو مایوس کرتی ہے اورنہ کوئی کامیابی اس کو سرکش بناتی ہے۔ یہی جنّتی شخصیت ہے، اور ایسے ہی لوگ جنت کے باغوں میں جگہ پائیں گے۔
واپس اوپر جائیں

تقلید اور اجتہاد

تقلید کی دو صورتیں ہیں۔ ایک صورت اسلامی تعلیم کے مطابق ہے، اور دوسری صورت اسلامی تعلیم کے خلاف۔ یہ دونوں صورتیں قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتی ہیں۔ دونوں صورتوں کے متعلق، قرآن میں واضح رہ نمائی ملتی ہے۔
تقلید کی غیر محمود صورت کا ذکر قرآن کی سورہ نمبر 23 میں ہے۔ سابق حاملینِ کتاب کے اندر اُن کے زوال کے زمانے میں جو صورتِ حال پیدا ہوئی، وہ تقلید کی یہی غیر محمود صورت تھی۔ اِس کا حوالہ دیتے ہوئے قرآن میں ارشاد ہوا ہے: فتقطّعوا أمرَہم بینہم زُبراً، کُلُّ حزبٍ بما لدیہم فرحون (المؤمنون: 53 ) یعنی انھوںنے اپنے دین کو اپنے درمیان ٹکڑے ٹکڑے کردیا، ہر گروہ اُسی پر نازاں ہے جو اُس کے پاس ہے۔ یہ تقلید کی وہ صورت ہے جب کہ تقلیدی مزاج کے تحت لوگ گروہوں میں بٹ جائیں، ہر گروہ اپنے کو برحق سمجھنے لگے۔تقلید کی اِس قسم میں تقلید کو عقیدے کا درجہ دے دیا جاتا ہے۔ اِس کے نتیجے میں لوگوں کے اندر دو شدید برائی پیدا ہوجاتی ہے۔ ایک، کٹّر پن اور دوسرے، تعصّب۔
تقلید کی محمود صورت وہ ہے جو عملی ضرورت کے تحت پیدا ہوتی ہے۔ اِس دوسری تقلید کا اصول قرآن کی اِس آیت سے اخذ ہوتا ہے: فاسئلوا أہل الذّکر إن کنتم لا تعلمون (النّحل: 43) یعنی اپنے قلّتِ علم کی تلافی کے لیے کسی معاصر عالم کو اپنا دینی رہ نما، یا دینی مُشیر بنالینا۔
موجودہ زمانے میں تقلید کی جو صورت ہے، وہ بلاشبہہ اسلامی روح کے خلاف ہے— آج کل یہ مان لیا گیا ہے کہ عبّاسی دَور کے چار امام مجتہدِمطلق تھے۔ انھوں نے جو فقہی اسکول بنائے، وہی فقہی اسکول اسلام میں آخری طورپر درست اسکول ہیں۔ حق اِنھیں چاروں کے درمیان ہے۔ اب نجات کی صرف یہ صورت ہے کہ اِن میں سے کسی ایک کی پوری طرح تقلید کی جائے۔اِس تصور نے تقلید کو عقیدے کا درجہ دے دیا۔ اور جب کسی نئی چیز کو عقیدے کا درجہ دے دیا جائے تو اُس سے مزید بہت سی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ مثلاً گر وہ بندی، تنگ نظری اور تعصب اور کٹّرپن، وغیرہ۔ تقلید کا یہ منفی نتیجہ آج عام طورپر مسلمانوں میں دکھائی دے رہا ہے۔
تقلید کا دوسرا طریقہ انسانی سماج کی ایک فطری ضرورت ہے۔ انسانی سماج ہمیشہ عوام اور خواص میں بٹا ہوا ہوتا ہے۔ عوام کا حال ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی پہنچ علم کے سرچشمے تک نہیں ہوتی۔ ان کی یہ ضرورت ہوتی ہے کہ معاملات میں کوئی ان کی رہ نمائی کرتا رہے۔ تقلید کی دوسری قسم اِسی ضرورت کی پیداوار ہے۔
یہ تقلید مبنی بر ضرورت ہوتی ہے، مگر اِس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اِس کی ضرورت نہیں کہ چار اماموں کو مجتہد ِ مطلق ماناجائے۔ اور ان کے پیدا کردہ اسکول کو ابدی طور پر معیاری اسکول کا درجہ دے دیا جائے۔ یہ مقصد معاصر علما کے ذریعے پوری طرح حاصل ہوجاتا ہے۔ علمِ دین کے تسلسل کے نتیجے میں ہر جگہ عالمِ دین موجود ہوتے ہیں۔ اب عوام کو صرف یہ کرنا ہے کہ اپنے قریبی ماحول میں کسی عالمِ دین کو وہ اپنا رہ نما بنا لیں اور اس کے ذریعے اپنے معاملاتِ زندگی میں ضروری رہ نمائی حاصل کرتے رہیں۔ اِس تقسیم میں کسی عالم کو نہ مقدس کا درجہ حاصل ہوتا ہے اور نہ مجتہد کا۔ یہ علما وقتی طورپر عوام کی ضرورت کو پورا کرتے ہیں اور اس کے بعد دوسرے علما آجاتے ہیں جو ہر نسل میں لوگوں کی اِس ضرورت کو پورا کرتے رہیں۔
اب اجتہاد کو لیجیے، اجتہاد کوئی پُر اسرار چیز نہیں اور نہ وہ کوئی خطرناک دائرۂ عمل ہے جس میں بعد کے لوگ داخل نہیں ہوسکتے۔ یہ دائرہ آج بھی ہر صاحبِ علم کے لیے کھلا ہوا ہے، جس طرح وہ پہلے کھلا ہوا تھا۔
اجتہاد، اسلام کی ایک ناگزیر ضرورت ہے، وہ اسلام کے اعتقادی تسلسل کے لیے لازمی شرط کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث میں اجتہاد کی اتنی زیادہ حوصلہ افزائی کی گئی ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ درست اجتہاد پر بھی ثواب ہے اور نادرست اجتہاد پر بھی ثواب۔ گویا کہ اِس معاملے میں اصل اہمیت کوششِ اجتہاد کی ہے۔ یہ کوشش اسلام کے بقا اور ترقی کے لیے اتنا زیادہ ضروری ہے کہ اجتہادی خطا کا رِسک لے کر بھی اُس کو جاری رہنا چاہیے (فتح الباری، جلد 13 ، صفحہ 331)۔
واپس اوپر جائیں

چند مثالی خواتین

تاریخ میں کچھ ایسی خواتین گزری ہیں جن کو دوسروں کے لیے نمونے کا درجہ دیا جاسکتا ہے۔ اِن خواتین میں سے چند خواتین کا مختصر تذکرہ یہاں کیا جاتا ہے۔
ہاجرہ اُمّ ِاسماعیل
اِن خواتین میں سے ایک ہاجرہ اُمِّ اسماعیل ہیں جو پیغمبر ابراہیم کی زوجہ تھیں۔ ان کا زمانہ چار ہزار سال پہلے کا زمانہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق، حضرت ابراہیم نے یہ منصوبہ بنایا کہ عرب میں صحرا کے فطری ماحول میں ایک نئی نسل بنائی جائے، جو مشرکانہ کلچر کی کنڈیشننگ سے پاک ہو۔ اِس مقصد کے لیے ایک خاتون کی قربانی درکار تھی۔ ہاجرہ امِ اسماعیل نے یہ قربانی دی۔ وہ مکہ کے غیرآباد صحرا میں اپنے بچے کو لے کر مقیم ہوگئیں۔
یہ نہایت صبر آزما عمل تھا۔ بظاہر یہ موت کے حالا ت میں زندگی تلاش کرنے کے ہم معنیٰ تھا۔ جب حضرت ابرہیم نے انھیں بتایا کہ یہ خدا کا حکم ہے، اُس وقت ہاجرہ نے غیر آباد اور بے آب وگیاہ صحرا میں کہا کہ— پھر توخدا ہمیں ضائع نہیں کرے گا: إذَن لا یُضیِّعُنَا (صحیح البخاری، کتاب الأنبیاء، باب قول اللہ تعالیٰ: واتّخذ اللہ إبراہیم خلیلاً)۔تاریخ بتاتی ہے کہ ایسا ہی پیش آیا۔ اُن کی نسل سے وہاں ایک ایسی قوم بنی جس کو ایک مغربی اسکالر نے ہیروؤں کی ایک قوم (a nation of heroes) کہا ہے۔
اِس واقعے میں تمام خواتین کے لیے ایک عظیم سبق ہے، یہ کہ اگر وہ خداکے بھروسے پرآگے بڑھ کر کوئی نیک کام کریں تو اُن کو یقینی طورپر خداکی مدد حاصل ہوگی۔ نیک کام میںان کی قربانی ضرور نتیجہ خیز ثابت ہوگی، وہ کبھی رائگاں نہ جائے گی۔
آسیہ بنتِ مُزاحم
اِسی طرح کی ایک مثال آسیہ بنتِ مُزاحم کی ہے۔ اُن کا زمانہ ساڑھے تین ہزار سال پہلے کا زمانہ تھا۔ اُن کے زمانے میں پیغمبر موسیٰ کا ظہور ہوا۔ اُس وقت فرعون مصر کا بادشاہ تھا۔ فرعون، حضرت موسیٰ کا دشمن ہوگیا۔ لیکن فرعون کی بیوی آسیہ بنت مزاحم حضرت موسیٰ کے پیغام توحید سے متاثر ہوئیں اور اُن پر ایمان لائیں۔ اِس پر فرعون سخت برہم ہوا اور آسیہ کے قتل کا حکم دے دیا۔
آسیہ بنت مزاحم نے قتل ہونا منظور کرلیا، لیکن وہ دینِ توحید کو چھوڑنے پر راضی نہیں ہوئیں۔ یہ اُن کے لیے ایک عظیم قربانی کا عمل تھا۔ اُن کی اِس قربانی کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان کے ایمان کو قبول کرلیا۔ اُس وقت ان کی زبان سے یہ دعا نکلی: ربّ ابْنِ لی عندک بیتاً فی الجنۃ، ونجِّنی مِن فرعون وعملہ، ونجّنی من القوم الظّالمین (التّحریم: 11 ) یعنی اے میرے رب، میرے لیے اپنے پاس جنت میں ایک گھر بنادے،اور مجھ کو فرعون اور اُس کے عمل سے بچالے، اور مجھ کو ظالم قوم سے نجات دے۔
یہ دعا اسمِ اعظم کے ساتھ کی ہوئی دعا تھی جو اُسی وقت مقبول ہوگئی۔ اِس واقعے میں یہ نصیحت ہے کہ اگر کوئی عورت (یا مرد) آسیہ جیسی قربانی کا ثبوت دے تواُس کو اسمِ اعظم کے ساتھ دعا کی توفیق ملتی ہے، اس کو یقینی طورپر قبولیت کا درجہ حاصل ہوتاہے۔
مریم والدہ حضرت مسیح
اِسی طرح کی ایک مثال حضرت مریم کی ہے جو پیغمبر مسیح کی والدہ تھیں۔ اُن کا زمانہ ڈھائی ہزارسال پہلے کا زمانہ تھا۔انھوںنے اپنی زندگی کو مکمل طورپر خداکے کام کے لیے اور خدا کے ذکر و دعا کے لیے وقف کر دیا تھا۔ اِس کے نتیجے میں اُنھیں خدا کی طرف سے یہ خصوصی عنایت حاصل ہوئی کہ اُن کو رزقِ خداوندی (آلِ عمران: 37 )پہنچنے لگا۔
’رزقِ خداوندی‘ کیا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی روحانی غذا ہے۔ یہ خدائی فیضان (divine inspiration) ہے ، جو خدا کی طرف سے اُس کے خاص بندوں کو عطا ہوتا ہے۔ ایسی عورتیں (یا ایسے مرد) اعلیٰ ربّانی کیفیات میں جینے لگتے ہیں۔ اُن کو وہ چیز عطا ہوتی ہے جس کو ربانی حکمت (divine wisdom) کہاجاتاہے۔ ایسے لوگ خدا کے خصوصی الہامات کا مہبط بن جاتے ہیں۔
خدا کی یہ خصوصی رحمت جو حضرت مریم کو حاصل ہوئی، اُس کا دروازہ ہر عورت اورہر مرد کے لیے کھلا ہوا ہے، بشرطیکہ وہ اُس اخلاص کا ثبوت دے جس کا ثبوت حضرت مریم نے دیا تھا۔
خدیجہ بنت خویلد
اِسی طرح کی ایک مثالی خاتون خدیجہ بنت خویلد (وفات: 620 ء) ہیں۔ وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی زوجہ تھیں۔ ان کویہ درجہ حاصل ہے کہ انھوں نے آگے بڑھ کرپیغمبر اسلام کی دعوت کو قبول کیا۔ پیغمبر اسلام کے لیے مکہ کا زمانہ بہت زیادہ تکلیف اور صعوبت کا زمانہ تھا۔ اِس پوری مدت میں انھوں نے کھلے دل کے ساتھ آپ کا ساتھ دیا۔ پیغمبر اسلام سے نکاح کے بعد ان کو بہت زیادہ مصیبتیں پیش آئیں، لیکن انھوںنے کبھی آپ سے شکایت نہیں کی۔ وہ ہرحال میں صبر اور شکر کا نمونہ بنی رہیں۔
روایات میں آتا ہے کہ ایک دن حضرت جبریل ان کے گھر آئے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل کو دیکھا لیکن حضرت خدیجہ نے جبریل کو نہیںدیکھا۔ پیغمبراسلام نے حضرت خدیجہ نے کہا کہ یہ جبریل ہیں اور وہ تم کو خدا کی طرف سے سلام پہنچانے کے لیے آئے ہیں۔ وہ تم کو خوش خبری دے رہے ہیںکہ جنت میں تمھارے لیے ایک خوب صورت گھر ہے، جہاں نہ شور ہوگا اورنہ تکلیف (لا صخب فیہ ولا نصب۔ سیرت ابن ہشام، جلد 1 ، صفحہ 259 )۔
حضرت خدیجہ کو اِس دنیا میں جنت کی خوش خبری دی گئی۔ یہ واقعہ ایک استثنائی معاملے کو نہیں بتاتا، بلکہ وہ ایک نمونے کو بتار ہا ہے۔ حضرت خدیجہ کے ذریعے تاریخ میں یہ نمونہ قائم ہواکہ جوعورت (یا مرد) حضرت خدیجہ جیسے صبر اور شکر کا ثبوت دے، اُس پر خدا کے فرشتے اُتریں گے اور اِسی دنیا میں وہ اُس کو اِس بات کی بشارت دیں گے کہ اگلے مرحلۂ حیات میں تمھارے لیے جنت ہے، یعنی خوشیوں اور راحتوں کی ابدی دنیا۔
عائشہ بنت ابی بکر
اِسی طرح کا ایک مثالی نمونہ عائشہ بنت ابی بکر الصدیق (وفات: 678 ء) کا ہے۔ وہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ تھیں۔ وہ پیغمبر اسلام کی وفات کے بعد تقریباً پچاس سال تک زندہ رہیں، اور پیغمبر اسلام کے بعد لمبی مدت تک لوگوں کو اسلام کا حکیمانہ پیغام پہنچاتی رہیں۔ وہ ریکارڈنگ کے زمانے سے پہلے پیغمبر اسلام کا زندہ ریکارڈ بنی رہیں۔ اُن کی اسلامی معرفت اتنی بڑھی ہوئی تھی کہ اصحابِ رسول اُن سے علمِ دین سیکھنے کے لیے دور دور سے آتے تھے۔
حضرت عائشہ کی زندگی تمام خواتین کے لیے ایک اعلیٰ نمونے کی حیثیت رکھتی ہے۔ حضرت عائشہ نے انتہائی سادہ زندگی اختیار کی۔ معاشی اور مادی معاملات میںانھوںنے آخری حد تک قناعت کا طریقہ اختیار کیا۔ اِس طرح ان کو یہ موقع ملا کہ وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت سے کامل فائدہ اٹھائیں۔ انھوں نے اپنی زندگی پیغمبر اسلام سے علمِ دین سیکھنے میںوقف کردی۔ اِس بنا پر حضرت عائشہ کو یہ موقع ملا کہ وہ پیغمبر اسلام کی وفات کے بعد لمبی مدت تک تمام لوگوں کے لیے دین کی معلّم بنی رہیں۔
یہی امکان تمام خواتین کے لیے کھُلا ہوا ہے۔ اگر وہ سادہ زندگی اختیار کریں، اپنے آپ کو دین کا علم سیکھنے میں وقف کردیں تو اُنھیں بھی خدا کی نصرت حاصل ہوگی اور وہ لوگوں کے لیے اُسی طرح رحمت بن جائیں گی، جس طرح حضرت عائشہ اپنے زمانے میں بنیں۔
واپس اوپر جائیں

ماڈل کون

قرآن اور حدیث کی صراحت کے مطابق، اسلام میں چار ماڈل ہیں— رسول، اصحابِ رسول، خلفائِ راشدین اور محدّثین۔ قرآن میںارشاد ہوا ہے کہ: لقد کان لکم فی رسول اللہ أسوۃ حسنۃ (الأحزاب: 21 ) اِس سے معلوم ہوا کہ دعوتی عمل کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اصحابِ رسول کو قرآن میںانصارُ اللہ (الصّف: 14 ) کہاگیا ہے۔ ’انصار اللہ‘ میںمکہ کے اہلِ ایمان اور مدینہ کے اہلِ ایمان دونوں شامل ہیں۔ اِس طرح اصحابِ رسول، نصرتِ خداوندی کا ماڈل ہیں۔ حدیث میں آیا ہے کہ: علیکم بسنّتی، وسنّۃ الخلفاء الراشدین المہدیّین (مسند احمد، جلد 4، صفحہ 126 )۔ اِس سے معلوم ہوا کہ حکم رانی کے لیے خلفائِ راشدین ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔
اِسی طرح حدیث میں ارشاد ہوا ہے کہ: العلماء وَرَثۃ الأنبیاء (البخاری، کتاب العلم) اِس حدیث کے مطابق، امت کے علما خدمتِ دین کا ماڈل ہیں۔ علما کے اِس طبقے میں سب سے پہلے محدثین کانام آتا ہے۔ محدثین کی حیثیت معیاری علما کی ہے۔ محدثین، امتِ مسلمہ کے اولین علما ہیں۔ اِس اعتبار سے محدثین بعد کے تمام علما کے لیے واحد ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔
تاریخ بتاتی ہے کہ علمائِ محدثین کا طریقہ یہ تھا کہ انھوںنے اپنے آپ کو غیر سیاسی دائرے میں خدمتِ دین کے لیے وقف کردیا۔ محدثین کا زمانہ عبّاسی سلطنت کازمانہ ہے۔ اُس زمانے میں حکم رانوں کے اندر وہ تمام بگاڑ آچکے تھے، جو بعد کے حکم رانوںمیں نظر آتے ہیں۔ لیکن محدثین نے وقت کے سیاسی بگاڑ سے مکمل اعراض کرتے ہوئے اپنے آپ کو دینی خدمت کے میدان میں مشغول رکھا، انھوںنے سیاسی بگاڑ کے مسئلے سے مکمل اعراض کیا۔ اِس سے معلوم ہوا کہ علمائِ حق کون ہیں، اور علمائِ سُوء کون۔ علمائِ حق وہ ہیں جو سختی سے محدثین کے ماڈل پر قائم رہیں، علمائِ سُوء وہ ہیں جو اِس ماڈل سے انحراف (deviation) کریں اور سیاسی اصلاح کے نام پر حکم رانوں سے ٹکراؤ شروع کردیں۔
واپس اوپر جائیں

ذاتی دفاع، قومی دفاع

حملے کے وقت اپنا دفاع کرنا، ایک جائز حق تسلیم کیاجاتاہے۔ لیکن حملے کی دو قسمیں ہیں، اور اِس اعتبار سے دفاع کی دو قسمیں بنتی ہیں— ذاتی دفاع (self defence) اور قومی دفاع (national defence) ۔ دونوں قسم کے حملے کی نوعیت ایک دوسرے سے مختلف ہے، اِس بنا پر دونوں کے لیے دفاع کا حکم بھی الگ ہے۔
ذاتی دفاع وہ ہے جب کہ کسی ایک شخص پردوسرے شخص کی طرف سے حملہ کیاگیا ہو، یا اس کا مال چھیننے کی کوشش کی جائے۔ ایسے موقع پر فرد کا یہ حق ہے کہ وہ اپنے بچاؤ کے لیے حملہ آور سے لڑے۔ یہ ایک جائز لڑائی ہے۔ اِسی قسم کی لڑائی کے بارے میں حدیث میںآیا ہے کہ: مَن قُتل دون مالہ فہو شہید (صحیح البخاری، کتاب المظالم؛ صحیح مسلم، کتاب الایمان)
دوسری صورت وہ ہے جب کہ ایک ملک کی فوج دوسرے ملک کی سرحد میں داخل ہوجائے اور وہ اس پر حملہ کردے۔ ایسے موقع پر ملک کو بچانے کے لیے لڑنا مسلّمہ طورپر جائز ہے، اِسی قسم کی جارحیت کے خلاف لڑائی کو قومی دفاع کہاجاتا ہے۔
قومی دفاع مکمل طورپر قائم شدہ ریاست کا ایک حق ہے۔ مگر قومی دفاع صرف ریاست کی طرف سے کیاجائے گا، غیر حکومتی عوام کو یہ حق نہیں کہ وہ بطور خود تنظیمیں بنا کر حملہ آور کے خلاف لڑائی چھیڑ دیں۔ اگر حکومتِ وقت، عوام کو پکارے تو وہ پکار کے مطابق، دفاع کی مہم میںشریک ہوسکتے ہیں، ورنہ جہاں تک ذمّے داری کا سوال ہے، صرف قائم شدہ ریاست ہی ایسے موقع پر دفاعی جنگ کی خدمت انجام دے گی۔ اسلامی فقہ میں اِسی مسئلے کو اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: الرّحیل للإمام۔
اِس فرق کو نہ جاننے کی صورت میں ایسا ہوگا کہ غیر حکومتی تنظیمیں ،یا غیر حکومتی افراددفاع کے نام پر جنگ چھیڑ دیں گے اور اس کو جائز جنگ سمجھیں گے، حالاں کہ یقینی طورپر وہ ایک ناجائز جنگ ہوگی۔ وہ ایک ایسی جنگ ہوگی جس میں قربانیوں کے باوجود لڑنے والے کو خدا کا انعام حاصل نہیںہوگا۔
واپس اوپر جائیں

موت ایک رِمائنڈر

موت مرنے والے کے لیے موت ہے، اور زندہ رہنے والے کے لیے اپنی موت کا رمائنڈر (reminder)۔ جب کوئی شخص مرتا ہے تو بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک بولنے والا چپ ہوگیا، لیکن اُس کا چُپ ہونا اپنے آپ میں ایک اعلان ہوتا ہے۔ یہ اعلان کہ — آنے والا وقت میرے اوپر آچکا ، اب یہی وقت تمھارے اوپر آنے والا ہے۔ تم آنے والے وقت کے لیے تیار ہوجاؤ۔
رواج ہے کہ جب کسی شخص کی عمر کا ایک سال پورا ہوتا ہے اور اس کی عمر کا اگلا سال شروع ہوتا ہے تو اُس وقت اس کی سال گرہ (birthday) منائی جاتی ہے۔ مگر زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اُس کو موت کی یاد کا دن سمجھا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر عورت اور مرد کی عمر کا مسلسل کاؤنٹ ڈاؤن (count down) ہورہا ہے۔ ہر سال گرہ صرف یہ بتاتی ہے کہ تمھاری مدتِ حیات کا ایک اور سال کم ہوگیا۔ موت اِسی کاؤنٹ ڈاؤن کی تکمیل ہے۔
لوگ اپنے یومِ پیدائش کو ہیپی برتھ ڈے(happy birthday) کے طورپر مناتے ہیں، لیکن حقیقتِ واقعہ کے اعتبار سے دیکھیے تو معاملہ اِس کے برعکس ہے۔ ہر نئی سال گرہ دراصل اِس بات کی یاد دہانی ہے کہ موت یا یوم الحساب کا وقت اور زیادہ قریب آچکا، آخرت کی تیاری کا ایک اور سال کم ہوگیا۔
موت کا ایک پہلو یہ ہے کہ آدمی موجودہ دنیا سے چلا گیا۔ موت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ آدمی اپنی تمناؤں کی تکمیل کے بغیر مرجائے۔ یہ اِس بات کا اشارہ ہے کہ موجودہ دنیا انسان کے لیے تمناؤں کی تکمیل کی دنیا نہ تھی۔ تمناؤں کی تکمیل کی دنیا صرف اگلی دنیا ہے۔ عقل مند وہ ہے جو اِس اشارے کو سمجھے اور موجودہ دنیا کی زندگی کو تیاری کا مرحلہ سمجھ کر اپنے آپ کو اگلی دنیا کے قابل بنائے۔
زندگی عمل کا وقفہ ہے اور موت خدا کی عدالت میں پیشی کا وقت۔ یہ ہر انسان کے لیے بے حد سنگین معاملہ ہے۔ دانش مند وہ ہے جو اِس معاملے کو سمجھے اور اس کو اپنا سب سے بڑا کنسرن (supreme concern) بنائے۔
واپس اوپر جائیں

شکر ایک قربانی کا عمل

شکر سب سے بڑی عبادت ہے۔ شکر جنت کی قیمت ہے۔ شکر کے بغیر ایمان نہیں۔ شکر کے بغیر سچی خدا پرستی نہیں۔ شکر کے بغیر آدمی اُن اعلیٰ کیفیات کا تجربہ نہیں کرسکتا جس کو قرآن میں ربّانیت (آل عمران: 79 ) کہاگیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دین داری کی اصل روح شکر ہے۔ شکر کے بغیر دین داری ایسی ہی ہے جیسے پھل کااوپری چھلکا۔
لیکن شکر محض زبان سے کچھ الفاظ ادا کردینے کا نام نہیں، شکر ایک قربانی کا عمل ہے، بلکہ سب سے بڑی قربانی کا عمل۔ جو آدمی سب سے بڑی قربانی کردینے کے لیے تیار ہو، وہی اُس شکر کا تجربہ کرسکتا ہے جو خدا کو مطلوب ہے۔
اصل یہ ہے کہ موجودہ دنیا میںہر انسان کسی نہ کسی اعتبار سے احساسِ محرومی کا شکار ہوتاہے۔ ہر انسان کے دل میںکسی نہ کسی کے خلاف منفی جذبات موجود رہتے ہیں۔ ہر انسان مختلف اسباب سے شکایت اور نفرت کی نفسیات میں جینے لگتا ہے۔ یہی وہ صورتِ حال ہے جو شکر کو کسی انسان کے لیے مشکل ترین کام بنا دیتی ہے۔ آدمی زبان سے شکر کے الفاظ بولتا ہے، لیکن اس کا دل حقیقی جذباتِ شکر سے بالکل خالی ہوتا ہے۔
ایسی حالت میںصرف وہی انسان شکر کا عمل کرسکتاہے جس کا شعور اتنا زیادہ بیدار ہوچکا ہو کہ وہ ناشکری کے اسباب کے باوجود شکر کرسکے، جو منفی خیالات کے جنگل میں رہتے ہوئے مثبت احساس میں جینے والا بن جائے۔ وہ اپنے اندر سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر خلافِ شکر چیزوں کو نکالے، وہ اپنے اندر حقیقی جذباتِ شکر کی تخلیق کرسکے۔
شکر ایک عبادت ہے جو ہر حال میں مطلوب ہے۔ جو آدمی یہ سمجھے کہ شکر اُس وقت کرنا ہے جب کہ ہر چیز اُس کو اس طرح حاصل ہوجائے جیساکہ وہ انھیں حاصل کرنا چاہتاتھا، ملی ہوئی چیز اُس کی مرضی کے مطابق اُس کو مل جائے۔ ایسا آدمی کبھی شکر کرنے والا نہیں بن سکتا۔ خدا کا حقیقی شکر گزار وہی ہے جو شکایت کے باوجود شکر گزاری کار از دریافت کرے۔
واپس اوپر جائیں

صحبت کا اثر

شیخ مصلح الدین سعدی شیرازی (وفات: 1291 ء) کی کتاب ’’گُلستاں‘‘ بہت مشہور ہے۔ اِس کتاب میں کہانی کے انداز میں اخلاقی تعلیم دی گئی ہے۔ ایک کہانی یہ ہے کہ شیخ ایک باغ میں گئے۔ وہاں ایک مقام پر انھوں نے پایا کہ وہاں کی مٹی سے خوش بو آرہی ہے۔ انھوں نے مٹی سے پوچھا کہ تمھارے اندر یہ خوش بو کہاں سے آگئی۔ مٹی نے کہا کہ — دیکھو، یہاں گلاب کا درخت اُگا ہوا ہے۔ اس کی شاخوں پر خوش بودار پھول ہیں۔ میں خوش بودار پھولوں کے پڑوس میں رہتی ہوں۔ اِن خوش بودار پھولوں نے مجھ کو بھی خوش بو دار بنا دیا:
جمالِ ہم نشیں، درمن اثر کرد وگرنہ، من ہُما خاکم کہ ہستم
یہ کہانی تمثیل کے روپ میں صحبت کے اثر کو بتارہی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ زندہ انسانوںکی صحبت آدمی کے اوپر گہرا اثر ڈالتی ہے۔ اچھے لوگوں کی صحبت سے آدمی اچھا بن جاتا ہے، اور برے لوگوں کی صحبت میں آدمی بُرا بن جاتا ہے۔ اِسی لیے فارسی شاعر نے کہا ہے:
صحبتِ صالح تُرا، صالح کُند صحبتِ طالح تُرا، طالح کند
کسی بگڑے ہوئے آدمی کو درست کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اس کو اچھے لوگوں میںاٹھنے بیٹھنے کا موقع دیاجائے۔ کوئی بھی آدمی اگر لمبی مدت تک اچھے لوگوں میں بیٹھے تو ضرور وہ ان سے متاثر ہوگا۔ یہ ایک فطری قانون ہے۔ اِس قانون میں مشکل ہی سے کوئی استثنا ملے گا۔
تاہم، صحبت کو مفید بنانے کی ایک لازمی شرط ہے، اور وہ صبر ہے۔ جب بھی ایسا ہو کہ اچھے لوگوں کی صحبت میں ایک بُرا آدمی آجائے تو اچھے لوگوں کو چاہیے کہ وہ اس کے معاملے میں صبر وتحمل سے کام لیں۔ وہ پہلے ہی دن اس کے معاملے میں تبدیلی کی امید نہ رکھیں۔ وہ تبدیلی اور اصلاح کے معاملے میں انتظار کریں۔ وہ اِس حقیقت کو جانیں کہ یہ معاملہ اچانک تغیر کا نہیں ہے، بلکہ بتدریج تغیر کا ہے— ہر آدمی کی اصلاح ممکن ہے، بشرطیکہ مُصلح اس کاانتظار کرسکے۔
واپس اوپر جائیں

ایک مشکل، دوآسانی

قرآن کی سورہ نمبر 94 میں فطرت کے ایک قانون کو اِن الفاظ میں بتایا گیا ہے: فإن مع العُسر یُسراً، إن مع العسرِ یُسراً (الإنشراح: 5-6 ) یعنی بے شک، مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ بے شک، مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس آیت کی تشریح اِن الفاظ میں کی ہے: لن یغلبَ عُسرٌ یُسرَین، لَن یغلب عُسرٌ یُسرین (ابنِ کثیر ) یعنی ایک مشکل دو آسانی پر غالب نہیں آسکتی، ایک مشکل دو آسانی پر غالب نہیں آسکتی۔
اِس تشریح کی مزید وضاحت عبد اللہ بن عباس کے ایک قول میں ملتی ہے۔ انھوںنے کہا: یقول اللہ تعالیٰ: خلقتُ عُسراً واحداً، وخلقتُ یُسرین۔ ولن یغلب عُسرٌ یُسرین (القرطبی) یعنی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے مشکل ایک پیدا کی، اور آسانی دو پیدا کی۔ اور دوآسانی پر ایک مشکل غالب نہیں آسکتی۔یہ کوئی پُر اسرار بات نہیں، یہ ایک معلوم واقعہ ہے اور فطرتِ انسانی کا مطالعہ کرکے اس کو سمجھا جاسکتا ہے۔ نفسیات کے تحت انسان کا جو مطالعہ کیا گیا ہے، اُس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان جب کسی مشکل سے دوچار ہو،اور وہ بے حوصلہ نہ ہوجائے تو اس کے اندر ڈبل طاقت آجاتی ہے۔ ایک طاقت وہ جو نارمل صورت میں پہلے سے موجودتھی، اور دوسری طاقت وہ جو اضافہ شدہ محرک (incentive) کی وجہ سے اُس کے اندر آئی۔ اِس طرح مشکل پیش آنے کی صورت میںآدمی اضافہ شدہ محرک کی بنا پر اِس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ زیادہ عزم اور زیادہ ہمت کے ساتھ مشکل کا سامنا کرسکے۔
آدمی کو چاہیے کہ وہ فطرت ِ انسانی کے اِس راز کو جانے، مشکل پیش آنے کی صورت میں وہ اپنے آپ کو معتدل حالت میں باقی رکھے۔ ایسا کرکے وہ فطرت انسانی کو یہ موقع دے گا وہ اس کے اندر مشکلات سے مقابلہ کرنے کی طاقت کو ڈبل کرسکے اور اِس طرح اس کی کامیابی کو یقینی بنا دے— مشکل، فطرت کے نظام کا ایک حصہ ہے۔ اِسی طرح یہ بھی فطرت کا ایک حصہ ہے کہ جب آدمی پر کوئی مشکل پڑے تو وہ ڈبل طاقت کے ساتھ اس کا سامنا کرنے کے قابل ہوجائے۔
واپس اوپر جائیں

حد سے تجاوز نہ کرنا

فطرت کا ایک قانون یہ ہے کہ ہر چیز اپنے دائرے میں حرکت کرے، وہ اپنی فطری حد سے تجاوز نہ کرے۔ یہی اصول انسان سے بھی مطلوب ہے، اِس فرق کے ساتھ کہ بقیہ کائنات میں یہ اصول جبری طورپر نافذ ہے اور انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ اپنی مرضی کے تحت اس اصول کو اختیار کرے۔ گویا بقیہ دنیا فطری کنٹرول کے تحت چل رہی ہے اور انسان کو سیلف کنٹرول کا کلچر اپنانا ہے۔
حدیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خدا نے ہر معاملے کی ایک حد مقرر کردی ہے، تم اُس سے تجاوز نہ کرو (وحدّ حدوداً، فلا تعتدوہا) حدود کی پابندی کا یہی اصول انسان کے ٹسٹ کا بنیادی اصول ہے۔
مثلاً انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ دوسروں کا خیر خواہ بنے، وہ ان کا بد خواہ نہ بنے۔ وہ مثبت طرزِ فکر کو اپنائے اور منفی طرزِ فکر سے پوری طرح دور رہے۔ وہ غصے کو پی جائے، وہ غصے کو انتقام تک نہ جانے دے۔ وہ معاملے کے وقت انصاف پر قائم رہے، وہ بے انصافی کا طریقہ اختیار نہ کرے۔ وہ اپنے وعدے کو پورا کرے اور وعدہ خلافی سے مکمل طورپر بچے۔ وہ لوگوں کے سلوک کا اعتراف کرے، اس کی روش بے اعترافی کی روش نہ ہو۔ اس کا کردار تواضع کا کردار ہو، نہ کہ تکبر اور سرکشی کا کردار۔
اِسی طرح وہ ہمیشہ پر امن رہے، وہ تشدد کا طریقہ اختیار نہ کرے۔ وہ دشمنی کا مقابلہ دوستانہ سلوک سے کرے، نہ کہ جنگ جویانہ کارروائی سے۔ وہ انسانی سماج کا بے مسئلہ ممبر(no-problem member) ہو، نہ کہ مسئلہ پیدا کرنے والا ممبر(problem-member)۔ وہ دوسروں کو دینے والا ہو، نہ کہ دوسروں سے صرف لینے والا۔
موجودہ دنیا انتخاب کی جگہ ہے۔ یہاںہر ایک کے ریکارڈ کے مطابق، اس کا انتخاب کیا جارہا ہے۔ کسی کے لیے اس کی حسن کرداری کی بنا پر ابدی جنت کا فیصلہ کیا جارہا ہے، اور کسی کے لیے اس کی بدکرداری کی بنا پر ابدی جہنم کا فیصلہ۔
واپس اوپر جائیں

عقل مند انسان

جیسا کہ معلوم ہے، آدم پہلے انسان تھے۔ ان کے دو بیٹوں، قابیل اور ہابیل کے درمیان ایک معاملے میں نزاع پیداہوئی ۔ یہاں تک کہ بڑے بیٹے قابیل نے چھوٹے بیٹے ہابیل سے کہا کہ میں تم کو مار ڈالوں گا۔ ہابیل نے کہا کہ اگر تم میرے خلاف تشدد کرو تو میں تمھارے خلاف تشدد کرنے والا نہیں(المائدۃ: 28 )۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر اپنے اصحاب کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ میرے بعد تم لڑائی جھگڑے کی سیاست سے مکمل پرہیز کرنا۔ اور اگر نزاع تمھارے سر تک پہنچ جائے تو تم آدم کے دو بیٹوں میں سے بہتر بیٹے کی مانند بن جانا (فلیکن کخیر ابنَی آدم۔ أبوداؤد، کتاب الفتن)۔
اِس پیغمبرانہ نصیحت کا تعلق، صرف سیاسی ٹکراؤ سے نہیں بلکہ اُس کا تعلق عام زندگی سے ہے۔ مثلاً اگر آپ کے یہاں ایک کارکُن ہے۔ وہ بہت محنتی اور بہت دیانت دار ہے۔ ایسا کارکن ہمیشہ اپنی ذات کے معاملے میں بہت زیادہ حسّاس ہوتا ہے۔ اگر آپ اس کی کسی کارکردگی کو لے کر سختی کے ساتھ گرفت کریں تو یقینا وہ غصے میںآجائے گا۔ شعوری یا غیر شعوری طورپر اس کو یہ احساس ہوگا کہ میں اتنا زیادہ وفاداری کے ساتھ کام کررہا ہوں اور یہ مجھ کو ڈانٹ رہے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ اس کے بعد آپ اس قیمتی آدمی کو کھودیں۔
اس معاملے میں دو افراد شامل ہیں، ایک، آپ اور دوسرا، آپ کا کارکن۔ اِس مسئلے کا حل یہ ہے کہ دونوں میں سے کوئی ایک عقل مند آدمی بن جائے۔ یا تو آپ کا کارکن آپ کی ڈانٹ کو نظر انداز کردے اور وہ اس کو حساسیت کے درجے تک نہ پہنچائے، یا آپ خود عقل مندی کا ثبوت دیں اور کارکن کے منفی ردّ عمل کو زیادہ سنجیدگی سے نہ لیتے ہوئے اُس کو فراموشی کے خانے میں ڈال دیں۔ اگر دونوںمیں سے کوئی ایک بھی عقل مندی کا ثبوت نہ دے سکے تو اس کے بعد اُس کا نتیجہ یقینی طورپر تباہ کن صورت میں نکلے گا۔
اسی طرح مثال کے طورپر آپ نہایت ذہین آدمی ہیں۔ آپ کے اندر اخذ(grasp) کا غیر معمولی مادّہ ہے۔ ایسی حالت میں اگر آپ کسی کے اندر کوئی کمی دیکھیں تو فی الفور آپ اس کو نہایت شدت کے ساتھ محسوس کریں گے۔ اس کا فطری نتیجہ یہ ہوگا کہ آپ اُس کمی کے بارے میں نہایت شدت کے ساتھ اپنی رائے ظاہر کریں گے۔ عام تجربے کے مطابق، یہ کہا جاسکتا ہے کہ دوسرا آدمی اُس پر برہم ہوجائے گا۔
یہ صورت حال دونوں کے لیے عقل مندی کا امتحان ہے۔ اگر دوسرا آدمی عقل مندی کا ثبوت دے اور اپنی برہمی کو ظاہر نہ ہونے دے تو یہ اُس کے لیے عقل مندی کی بات ہوگی۔ لیکن اگر دوسرا آدمی اِس عقل مندی کا ثبوت نہ دے تو ایسے موقع پر خود آپ کو عقل مند بننا ہوگا، یعنی آپ اُس کی برہمی کا منفی اثر نہ لیں اور اس کو یک سر نظر انداز کردیں۔ اگر دونوں میں سے کوئی بھی اپنے آپ کو عقل مند ثابت نہ کر سکے تو اُس کا نتیجہ یقینی طورپر تباہی کی صورت میں برآمد ہوگا۔
باہمی تعلقات کی کامیابی کے لیے یہ ایک بے حد اہم اصول ہے۔ اس اصول کا تعلق، خاندانی زندگی سے بھی ہے اور سماجی زندگی سے بھی، اور وسیع تر معنوں میں قومی زندگی سے بھی۔ اِس اصول میں ناکامی کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ خاندانی جھگڑے پیدا ہوتے ہیں۔ شوہر اور بیوی میں طلاق واقع ہوتی ہے۔ اداروں اور جماعتوں میں ٹکراؤ کی صورتیں پیدا ہوتی ہیں۔ قوموں کے درمیان جنگ پیش آتی ہے، وغیرہ۔
میرے علم کے مطابق، اِسی اصول کو اختیار نہ کرنے کی بنا پر بر صغیر ہند میںتقسیم (1947) کا واقعہ پیش آیا۔ دونوں فریقوں میں سے کوئی فریق اگر عقل مندی کا ثبوت دیتا تو یقینی طورپر تقسیم کا ناخوش گوار واقعہ پیش نہ آتا۔ تاہم اِس معاملے میں زیادہ بڑی ذمّے داری مسلم قیادت کی ہے۔ کیوں کہ اِس معاملے میں مسلم قیادت کی حیثیت مطالبہ کرنے والے فریق کی تھی، اور دوسرے فریق کی حیثیت حالات کے دباؤ کے تحت مطالبے کو مان لینے والے کی۔
واپس اوپر جائیں

جس خوشی کی ہمیں تلاش ہے

ایک بار میں راجستھان کے ایک مقام پر گیا۔ یہ سفر مولانا محمد تقی امینی (وفات: 1991 ) کے ساتھ ہوا تھا۔ ہم دونوں ایک صاحب سے ملے۔ وہ آبادی سے باہر ایک فارم ہاؤس میں رہتے تھے۔ اُن کو اپنے والد سے کافی مال وراثت میں ملا تھا۔ انھوں نے اپنی پسند کی ایک خاتون سے شادی کی ، اور دونوں اس فارم ہاؤس میں رہنے لگے۔ بظاہر یہ فارم ہاؤس ایک خوب صورت دنیا کا منظر پیش کررہا تھا، لیکن اُس کے اندر جو عورت اور مرد رہ رہے تھے، وہ کامل افسردگی کی تصویر تھے۔
اِن دونوں نے اپنی پسند کی شادی کی، اور پھر اِس فارم ہاؤس کے اندر ایک پُر مسرت اِزدواجی زندگی گزارنے لگے۔ کچھ سالوں تک دونوں بہت خوش تھے۔ اُس کے بعد دونوں، فارم ہاؤس کی اِس زندگی سے اکتا گیے۔ میں اور مولانا محمد تقی امینی اُس گھر میں ایک رات اور ایک دن ٹھیرے۔ اِس مدتِ قیام میں میں نے ایک بار بھی نہیں دیکھا کہ وہ دونوں آپس میں باتیں کررہے ہوں۔ یہ فارم ہاؤس جو کبھی خوشیوں کا گہوارہ معلوم ہوتاہوگا، اب وہ افسردگی کا ایک قبرستان بنا ہوا نظر آتا تھا۔
میں نے اپنی زندگی میںاِس طرح کے بہت سے لوگ دیکھے ہیں، مسلمانوں میںبھی اور غیرمسلموں میں بھی۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے نہایت محنت سے مال کمایا، لیکن جب مال اُنھیں حاصل ہوگیا تو انھوںنے دریافت کیا کہ مال میں اُن کے لیے کوئی خوشی نہیں۔
کسی نے نہایت ذوق وشوق کے ساتھ اپنی پسند کی شادی کی، لیکن تھوڑے دنوں کے بعد انھیں معلوم ہوا کہ شادی اُن کے لیے صرف ایک خشک ذمے داری ہے، نہ کہ خوشیوں کی پُرمسرت زندگی۔ کسی نے اپنی پوری زندگی کو سیاست میں وقف کیا، تاکہ وہ سیاسی اقتدار کی کرسی پر پہنچ سکے، لیکن جب سیاسی اقتدار حاصل ہوگیا تو اُس کے لیے خوشیوں کا خاتمہ ہوچکا تھا۔کسی کا نشانہ یہ تھا کہ اُس کے پاس ایک کشادہ اور خوب صورت مکان ہو، لیکن مکان جب بن کر تیار ہوگیا تو اس کے چہرے سے خوشی رخصت ہوچکی تھی، وغیرہ۔
موجودہ دنیا کا سب سے زیادہ الم ناک پہلو یہ ہے کہ یہ دنیا انسان کے لیے المیہ (tragedy)کے سوا اور کچھ نہیں۔ بڑے بڑے ادیبوں نے ہر زبان میں لاکھوں کی تعداد میں ناول لکھے ہیں۔ یہ ناول گویا انسانی جذبات کی ترجمانی کی حیثیت رکھتے ہیں، تاہم یہ ایک عجیب حقیقت ہے کہ کسی بھی زبان میں کوئی طَربیہ (comedy)ناول کبھی زیادہ مقبول نہ ہوسکا۔دنیا میں جتنے بھی مقبول ناول ہیں، وہ سب کے سب المیہ (tragedy)ہیں۔
اِس کا سبب یہ ہے کہ ہر انسان اِس احساس میں جی رہا ہے کہ وہ جس خوشی کو پانا چاہتا تھا، وہ اس کو حاصل نہ ہوسکی۔ یہی وجہ ہے کہ المیہ ناول انسان کے دل کو چھوتے ہیں، طربیہ ناول انسان کے مائنڈ کو ایڈریس نہیں کرتے۔
یہ انسانی زندگی کا بڑا عجیب پہلو ہے کہ ہر انسان کی عمر کا پہلا نصف حصہ خوشی کی تلاش میں گزرتا ہے، اور بقیہ نصف حصہ اِس احساس میں کہ بظاہر خوشیوں کے سامان حاصل کرنے کے باوجود میں اپنے لیے خوشیوں کی مطلوب دنیا نہ بناسکا۔
تاریخ کا یہ تجربہ بتاتا ہے کہ انسان کی موجودہ زندگی اِس لیے نہیں ہے کہ وہ یہاں اپنے لیے خوشیوں کی ایک دنیا بنائے۔ موجودہ زندگی صرف اس لیے ہے کہ آدمی حسنِ عمل سے اپنے آپ کو اِس قابل بنائے کہ وہ موت کے بعد کی ابدی زندگی میں خوشیوں کی مطلوب دنیا پاسکے۔ موت سے پہلے کا مرحلۂ حیات ،اپنے آپ کو جنت کا مستحق بنانے کا مرحلہ ہے، اور موت کے بعد کا مرحلۂ حیات حسب استحقاق جنت میں داخلے کا مرحلہ، یعنی خوشیوں کی اُس دنیا میں داخلے کا مرحلہ،جس کو ہر آدمی کی روح تلاش کررہی ہے۔
واپس اوپر جائیں

قانونِ فطرت کو جانیے

عمران احمد اصلاحی (پیدائش1974 ) اعظم گڑھ میں لال گنج کے علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ عرصے سے وہ دہلی میں رہ رہے ہیں۔13 اگست 2007 کی ملاقات میں ،میں نے اُن کے گھر کے حالات دریافت کیے۔ معلوم ہوا کہ اُن کے یہاں تین سال کا ایک بچّہ ہے۔ میںنے پوچھا کہ بچّے کی تعلیم کے لیے آپ نے کیا سوچا ہے۔ میرے ذہن میں یہ تھا کہ وہ کہیں گے کہ بچے کو دہلی لانا پڑے گا، کیوں کہ گاؤںمیں تعلیم کا کوئی اچھاانتظام نہیں۔
مگر میری توقّع کے خلاف، انھوںنے کہا کہ ہمارے علاقے میں بہت سے اچھے اسکول کھُل گیے ہیں۔ اِن میں انگریزی کی معیاری تعلیم ہوتی ہے۔ انگریزی کے اعلیٰ معیار کو برقرار رکھنے کے لیے اُن لوگوں نے ساؤتھ انڈیا سے ٹیچروں کو بلایا ہے۔ اِسی کے ساتھ وہاں اسکول بس کا بھی اچھا انتظام ہے۔ اِس کے تحت،پِک اینڈ ڈراپ سروس (pick & drop service) قائم ہے۔ اِس لیے بچے کی تعلیم کے سلسلے میں اِن شاء اللہ ، کوئی مسئلہ نہیںہوگا۔
میرے لیے یہ ایک نئی خبر تھی، کیوں کہ پہلے وہاں اِس قسم کی تعلیم کا انتظام موجود نہ تھا۔ مزید پوچھنے پر انھوں نے بتایا کہ اِس علاقے کے بہت سے مسلمان دُبئی وغیرہ کمانے کے لیے گیے۔ یہ لوگ تعلیم یافتہ نہ تھے، اِس لیے انھیںزیادہ تر لیبر کلاس (labour class)کا کام ملا۔ اِسی دوران انھوں نے دیکھا کہ دوسرے مقامات کے لوگ جو جدید تعلیم لے کر وہاں آئے ہیں، اُن کووہاں اچھے اچھے کام مل رہے ہیں۔
اِس تقابل اور اِس انٹریکشن (interaction)کے ذریعے اُن کے ذہن میں ایک بھونچال آیا۔ انھوںنے سوچا کہ ہم تو تعلیم یافتہ نہ ہونے کی وجہ سے لیبر کلاس کا کام کررہے ہیں اور اِسی حال میں مریں گے، مگر اب ہم کو یہ کوشش کرنا ہے کہ ہمارے بچے اور ہماری اگلی نسلیں تعلیم میں آگے بڑھیں، تاکہ وہ ترقی کی دوڑ میں دوسروں سے پیچھے نہ رہیں۔
اس سوچ کا نتیجہ یہ ہوا کہ اِن لوگوں نے اپنی کمائی کو تعلیم کے میدان میں خرچ کرنے کا فیصلہ کیا۔ انھوںنے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت، اِس علاقے میں بہت سے اسکول کھول دیے۔ باہر کے تجربے سے اُن کو یہ بھی معلوم ہوا کہ اس زمانے میں سب سے زیادہ اہمیت معیار کی ہے، اِس لیے آج صرف تعلیم کی ضرورت نہیں ہے بلکہ معیاری تعلیم (standard education)کی ضرورت ہے۔ اِس انقلابی سوچ کا یہ نتیجہ ہوا کہ اِس ایریا میں بہت سے اعلیٰ معیار کے اسکول کھل گیے۔ اب یہاں گاؤں کے بچے بڑی تعداد میں تعلیم حاصل کرنے میں مشغول ہیں۔
پچھلے ساٹھ برس کے دوران تمام مسلم لیڈر، بغیر کسی استثنا کے، صرف ایک بات کہتے رہے ہیں، وہ یہ کہ انڈیا میں مسلمانوں کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پیچھے دھکیلا جارہا ہے۔ انڈیا میں یہ سازش کی جارہی ہے کہ یہاں مسلمانوں کو پَس ماندہ طبقہ بن کر رہنے پر مجبور کر دیا جائے۔ مگر اِسی دوران انڈیا کے مسلمان ترقی کی دوڑ میں شامل ہوگیے، یہاں تک کہ آج انڈیا کے مسلمان تعمیر و ترقی کے معاملے میں پاکستان کے مسلمانوں سے بھی بہت آگے جاچکے ہیں۔
اوپر جس واقعے کا ذکر ہوا، وہ صرف اعظم گڑھ میں پیش نہیں آیا بلکہ وہ سارے ملک میں پیش آرہا ہے۔ آج ملک کے ہر حصے میں مسلمان تیزی سے ترقی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یہ واقعہ فطرت کے قانون کے تحت ہوا ہے، وہ اِس طرح کہ مسلمانوں کو دوسرے طبقوں سے انٹریکشن پیش آیا۔ انھوںنے دوسری قوموں کی ترقی کو دیکھا۔ وہ چیلنج اور مسابقت کے ماحول سے گزرے۔ ہر ایک نے چاہا کہ میری اولاد ترقی میںدوسروں سے پیچھے نہ رہے۔ اِس طرح مسلمانوں میں فطرت کا ایک عمل(process) جاری ہوا۔ یہی فطر ی عمل مذکورہ قسم کے واقعات کی صورت میں اپنا نتیجہ دکھا رہا ہے۔
یہاں یہ سوال ہے کہ کیوںایسا ہوا کہ مسلمانوںکے نام نہاد لیڈر اس عظیم واقعے سے بے خبر رہ گیے۔ اِس کا سبب موجودہ زمانے کا میڈیا ہے۔ مسلمانوں کے یہ نام نہاد لیڈر اخباروں کو پڑھ کر اپنی رائے بناتے ہیں۔ اُن کی معلومات کا ذریعہ عام طور پرصرف اخبار کی رپورٹیں ہیں
اخبار، یا جدید میڈیا اپنے مخصوص مفادات کے تحت صرف منفی خبروں کو منتخب کرتا ہے۔ اِس کے علاوہ تاریخی عوامل، یا فطرت کے قوانین موجودہ میڈیا کا موضوع نہیں۔ ہمارے نام نہاد لیڈروں کا انحصار چوں کہ اِسی میڈیا پر ہے، اِس لیے وہ مسلم سماج کے صرف کچھ منفی پہلوؤں ہی کو جان پاتے ہیں، تاریخ کے عوامل، یا فطرت کے قوانین کے زیرِ اثر جو کچھ ہورہا ہے، اُس کی انھیں مطلق خبر نہیں۔
اِسی بنا پر ایسا ہے کہ جس زمانے میں مسلمانوں کے نام نہاد لیڈر اور نام نہاد دانش ور، مسلمانوں کے خلاف ہونے والے مظالم کی داستان سنا رہے تھے، عین اُسی زمانے میں مسلمانوں کا قافلہ کامیابی کے ساتھ ترقی کی شاہ راہ پر پہنچ گیا۔ نام نہاد رہ نما اور دانش ور، مسلمانوں کو مایوسی اور دل شکستگی کی غذا دے رہے تھے، لیکن خدا کے قائم کردہ قانونِ فطرت نے اُن کو امید اور حوصلے کے اعلیٰ مقام پر پہنچا دیا۔
موجودہ زمانے میں ایسا ہوا ہے کہ لوگوں کے لیے میڈیا (اخبار اور ٹیلی ویژن) معلومات کا ذریعہ بن گیا ہے، مگر باتوں کو جاننے کے لیے یہ صرف ایک ناقص ذریعہ ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، میڈیا، حقیقتِ حال کی مبنی بر صداقت رپورٹنگ کا نام نہیں ہے، میڈیا ایک انڈسٹری ہے جو اپنے تجارتی مقصد کے مطابق، کچھ منتخب واقعات کو لیتا ہے اور کچھ دوسرے واقعات کو چھوڑ دیتا ہے۔
ایسی حالت میں جو لوگ میڈیا کے ذریعے معلومات حاصل کرتے ہیں، وہ کسی معاملے کا درست تصور قائم نہیں کرپاتے۔ وہ اپنے ذاتی معاملات کے سوا، دوسرے تمام معاملات میں ہمیشہ یک طرفہ سوچ کا شکار رہتے ہیں۔
مسلمانوں کے معاملے کو، یا کسی اور معاملے کو درست طورپر سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ میڈیا کی بنائی ہوئی امیج سے باہر آکر اُس کو سمجھا جائے۔ یہ کسی معاملے میں منصفانہ رائے قائم کرنے کی لازمی شرط ہے، اس کے بغیر معاملات میں درست اور منصفانہ رائے قائم کرنا ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں

پیچھے کی سیٹ

انگریزی زبان کی ایک مشہور مثل ہے کہ — ٹاپ کی جگہ ہمیشہ خالی رہتی ہے:
There is always room at the top
یہ بات بجائے خود درست ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اِس سے زیادہ درست اور اہم بات وہ ہے جو اِس قول کے برعکس ہے، اور وہ یہ کہ— پیچھے کی سیٹ پر ہمیشہ جگہ خالی رہتی ہے:
There is always room at the back seat.
بَیک سیٹ پر جانا، کسی آدمی کے لیے بظاہر شکست خوردگی اور پسپائی کی بات ہوتی ہے۔ لیکن بیک سیٹ کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں سے آدمی کو ہر حال میںایک نیا آغاز مل جاتا ہے، وہ کھوئی ہوئی چیز کو دوبارہ نئی صورت میں حاصل کرنے کی پوزیشن میںہوجاتا ہے۔
مسیحیت میں بعد کے زمانے میں پوپ کا مذہبی عہدہ شروع ہوا۔ اس کی اتنی ترقی ہوئی کہ قرونِ وسطیٰ کے زمانے میں پوپ عملی طورپر پورے یورپ کا پولٹکل ہیڈ بن گیا تھا۔یورپ کی نشأۃِ ثانیہ کے بعد چرچ کے خلاف طاقت ور تحریک اٹھی، یہاں تک کہ یہ ناممکن ہوگیا کہ پوپ کی سیاسی طاقت بدستور باقی رہے۔
اُس وقت مسیحی چرچ اور سیاسی لیڈروں کے درمیان ایک معاہدہ ہوا، جس کو لیٹرین ٹریٹی (Lateran Treaty) کہاجاتا ہے۔ یہ معاہدہ1929میں ہوا، جب کہ اٹلی میں مسولینی (وفات: 1945) حکومت کررہا تھا۔ اِس معاہدے کے مطابق، پوپ پچھلی سیٹ پر بیٹھنے پر راضی ہوگیا۔ چناں چہ روم کے اندر ویٹکن سٹی(Vatican City) کے نام سے ایک خود مختار اسٹیٹ وجود میں آئی، جس کا رقبہ تقریباً ایک سو دس ایکڑ تھا۔
اس طرح ویٹکن کے محدود رقبے پر راضی ہونے کا یہ فائدہ مسیحی چرچ کو ملا کہ پوپ کا پُر عظمت تاریخی ٹائٹل محفوظ رہا— پوپ، دنیا کی سب سے چھوٹی اسٹیٹ کا ہیڈ ہے۔ لیکن عملاً اس کو پوری دنیا کے اندر ایک عظیم مقام ملا ہوا ہے۔ وہ اِس پوزیشن میں ہے کہ پوری دنیا میں مسیحی سرگرمیوں کو منظم کرسکے۔
اس کے برعکس اب دوسری مثال لیجیے۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسلمانوں میں خلافت کا سیاسی ادارہ قائم ہوا۔ وہ ایک ہزار سال تک شوکتِ اسلام کی علامت بنا رہا۔ آخری مرحلے میں تُرکی اِس خلافت کا صدر مقام تھا۔ یہاں خلیفۃ المسلمین رہتا تھا، جو عملاً ساری مسلم دنیا کے لیے انٹرنیشنل ہیڈ کی حیثیت رکھتا تھا۔
پہلی عالمی جنگ میں ترک خلافت، جرمنی کے اتحاد میں شریک ہوئی۔ اِس جنگ میں ترک خلافت کو زبردست شکست ہوئی۔ اِسی زمانے میں نیشنل ازم کا عروج ہوا اور بین الاقوامی خلافت کا بقا عملاً ناممکن ہوگیا۔ اِس طرح یہ مسلم خلافت عملاً ٹوٹ پھوٹ گئی، یہاں تک کہ کمال اتاترک نے 1924 میں اِس ختم شدہ خلافت کے رسمی خاتمے کا اعلان کردیا۔
اِس معاملے میں مسلمانوں کے لیے بھی یہ موقع تھا کہ وہ بیک سیٹ پر چلے جائیں۔ اور پوپ کی طرح خلیفۃ المسلمین کے ٹائٹل کو محفوظ رکھیں جو ہزار سالہ تاریخی روایات کے نتیجے میں ایک پُراسرار عظمت حاصل کرچکا تھا۔ اُس زمانے کے مسلم رہ نما اگر ایک محدود رقبۂ زمین میں خلیفۃ المسلمین کا مرکز قائم کرنے پر راضی ہوجاتے تو آج مسلمانوں کے پاس بھی ایک اسلامی ویٹکن (Islamic Vatican) موجود ہوتا۔
مگر اُس زمانے کے مسلم رہ نما، مثلاً سید جمال الدین افغانی، محمد علی جوہر اور ابولکلام آزاد، وغیرہ نے انتہائی نادانی کے ساتھ غَوغائی سیاست برپا کردی۔ وہ بیک سیٹ پر جانے کے بجائے، خلافت کو دوبارہ اُس کی قدیم حیثیت کے ساتھ باقی رکھنا چاہتے تھے، مگر عملاً اِس سیاست کی کامیابی کاکوئی امکان نہ تھا۔ چناںچہ ایک ذلّت آمیز ناکامی کے سوا، مسلم رہ نماؤں کو کچھ اور نہیں ملا۔ ہزار سال کی تاریخی روایات نے خلیفۃ المسلمین کا پُرشوکت ٹائٹل بنایا تھا، پیچھے کی سیٹ پر بیٹھنے کی صورت میں یہ ٹائٹل بلاشبہہ اُسی طرح باقی رکھا جاسکتا تھا، جس طرح پوپ کا ٹائٹل باقی ہے۔ مگر مسلم رہ نماؤں کی ناقابلِ فہم نادانی کے نتیجے میں یہ امکان واقعہ نہ بن سکا۔
واپس اوپر جائیں

عظمتِ خداوندی کا اعتراف

دور ِ اول میں خلافتِ اسلامی کو غیر معمولی پھیلاؤ ہوا، اس کے باوجود بنو اُمیہ کے عہد تک خلافت کا ایک ہی مرکز (دمشق) تھا۔ عباسی انقلاب کے بعد اندلس میںعلاحدہ سلطنت قائم ہوئی، اِس طرح حکومتِ اسلامی کے دومرکز ہوگیے۔ جلد ہی بعد مراکش میںتیسرا آزاد سیاسی مرکز قائم ہوا، پھر مصر میں خود مختار حکومت قائم ہوگئی۔ اِس طرح ایک کے بعد ایک، آزاد مسلم سلطنتیں قائم ہوتی چلی گئیں۔ ایک عظیم مسلم سلطنت چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہوگئی۔اِنھیں آزاد سلطنتوں میں سے ایک سلطنت وہ تھی جس کو دولتِ سامانیہ کہاجاتاہے۔ سامانی سلطنت، ایران میںابھری اور تقریباً ڈیڑھ سوسال تک قائم رہ کر ختم ہوگئی۔
سامانی سلطنت کا ایک حاکم نصر بن احمد بن سامان (وفات: 892ء) تھا۔ کہاجاتا ہے کہ جب اس نے نیشا پور کو اپنی سلطنت میںشامل کیا تو وہاں اس نے ایک جشن منعقد کیا۔ جب وہ اپنے شاہی تخت پر بیٹھا تو اس کی فرمائش کے مطابق، تخت نشینی کی افتتاحی رسم قرآن کی تلاوت سے شروع ہوئی۔ مجلس میں ایک عالم موجود تھے۔ انھوں نے قرآن کی تلاوت کی۔ انھوں نے سورہ المومن کا ایک حصہ پڑھا، جس میںیہ آیت بھی تھی: یوم ہُم بارزون لا یخفیٰ علی اللہ منھم شیٔ۔ لِمَن الملک الیوم، للہ الواحد القہار (المؤمن : 16 )۔ یعنی جس دن کہ وہ ظاہر ہوں گے، اللہ سے ان کی کوئی چیز چھپی نہ ہوگی۔ آج بادشاہی کس کے لیے ہے، اللہ واحد وقہار کے لیے۔ مذکورہ عالم تلاوت کرتے ہوئے جب اِس آیت پر پہنچے تو سلطان نصربن احمد پر لرزہ طاری ہوگیا۔ وہ ہیبت زدہ ہوکر تخت سے اُتر پڑا۔ تاج کو اپنے سر سے اتارا اور سجدے میںگر گیا۔ اس نے کہا: اے میرے رب، بلا شبہہ بادشاہی تیری ہے، نہ کہ میری۔
اعلی دعا اور اعلیٰ ذکر ِخداوندی کا تعلق الفاظ سے نہیں ہے، بلکہ انسان کی اپنی نفسیات سے ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ: مَن تَواضع للہ رفعہ اللہ (مشکاۃ المصابیح، رقم الحدیث: 5119 )۔ اِس حدیث کا ایک مطلب یہ ہے کہ جو شخص اپنے آپ کو پوری طرح خدا کے سامنے جھکا دے، وہی وہ شخص ہے جس کو خدا اِس طرح عزت دیتا ہے کہ اُس کو اسمِ اعظم کے ساتھ ذکر اور دعا کی توفیق ملتی ہے، اور جس شخص کو اسمِ اعظم کے ساتھ ذکر اور دعا کی توفیق ملے، اس کو بلا شبہہ دنیا ہی میں خدا کی جنت حاصل ہوگئی۔
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز— 182

1 - سائی انٹرنیشنل سنٹر (نئی دہلی) میں 19 ستمبر 2007 کو حسب معمول ایک پروگرام ہوا۔ اِس میں مختلف مقامات سے کیندریہ وِدّیالیہ کے پرنسپل حضرات شریک ہوئے۔ اِس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اِس میں ایک مفصل تقریر کی۔ تقریر کا موضوع یہ تھا:
Basic Human Values in Islam
قرآن اور حدیث کی روشنی میں اِس موضوع پر اظہار خیال کیاگیا ۔ آخر میںکچھ سوالات کیے گیے۔ ایک بات یہ کہی گئی کہ مغربی کلچر میں فریڈم کو خیر اعلیٰ(Summum Bonum) مانا جاتا ہے، لیکن اسلام میں امن (peace) کو خیرِاعلیٰ کی حیثیت حاصل ہے۔
2 - راشٹریہ سہارا (ہندی) کے نمائندہ مسٹر کمار وجے نے 2 اکتوبر 2007 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا۔ یہ انٹرویو ٹیلی فون پر ریکارڈ کیا گیا۔ یہ انٹرویو جہادکے موضوع پر تھا۔ قرآن اور حدیث کی روشنی میں اُن کے سوالات کا جواب دیاگیا۔
3 - آل انڈیا ریڈیو (نئی دہلی) سے 4 اکتوبر 2007 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو نشر کیاگیا ، اِس انٹرویو کا موضوع— نان وائلنس تھا۔ یہ انٹرویو صبح کے نشریے کے تحت، نشر کیاگیا۔
4 - اسٹار نیوز (نئی دہلی) کے نمائندے نے 4 اکتوبر 2007 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا۔ اِس انٹرویو کا موضوع تھا: خط کے ذریعے عورت کو طلاق دینے کا مسئلہ۔ اِس موضوع پر قرآن اور حدیث کی روشنی میں ان کے سوالات کا جواب دیاگیا۔
5 - سرودھرم سنسد (Parliament of religions) کے اُدگھاٹن کے طورپر 5 اکتوبر 2007 کی شام کو انڈیا اسلامک کلچرل سنٹر (نئی دہلی) میںایک بڑا فکشن ہوا۔ اِس میں سوامی اگنی ویش، شری شری روی شنکر، اور فادر والسن تھمپو، وغیرہ شریک ہوئے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے بھی اِس میں شرکت کی اور تقریباً پندرہ منٹ کی ایک تقریر کی۔ انھوں نے اپنی تقریر میں سماجی اصلاح کے لیے ایجوکیشن کی اہمیت پر زور دیا۔ اِس موقع پر سی پی ایس انٹرنیشنل کے افراد نے بھی اِس پروگرام میں شرکت کی اور انگریزی میں چھپے ہوئے اسلامی بروشرز بڑی تعداد میں لوگوں کے درمیان تقسیم کیے۔ یہ پروگرام اسلامک کلچر سنٹر کے بڑے آڈی ٹوریم میں ہوا۔ پورا ہال سامعین سے بھرا ہوا تھا۔
6 - نوئڈا کے ایک ٹی وی پرگیا ویژن (Pragya Vision) کی ٹیم نے 10 اکتوبر 2007 کو صدر اسلامی مرکز کے انٹرویو کی ویڈیو ریکارڈنگ کی۔ اس کے انٹرویور مسٹر طارق عالم خان تھے۔ انٹرویو کا موضوع— مذہب اور روحانیت تھا۔ اِس سلسلے میں اسلام اور صوفیوں کے نقطۂ نظر کو بتایا گیا۔
7 - سائی انٹر نیشنل سنٹر (نئی دہلی) میں 10 اکتوبر 2007 کو حسب معمول، ایک پروگرام ہوا۔ اِس میں مختلف نوودے ودّیالیہ کے پرنسپل حضرات شریک ہوئے۔ اِس موقع پر صدر اسلامی مرکز کو دعوت دی گئی تھی کہ وہ اسلام میں بنیادی انسانی اقدار(Basic Human Values in Islam) پر ایک تقریر کریں۔ اِس کے مطابق، انھوںنے وہاں اِس موضوع پر ایک مفصل تقریر کی۔ تقریر کے آخر میں سامعین کی طرف سے سوالات کیے گیے، جن کا جواب دیاگیا۔ حاضرین نے اُس پر کافی پسندیدگی کا اظہار کیا۔ آخر میں اُن کے درمیان انگریزی میں چھپے ہوئے اسلامی پمفلٹ تقسیم کیے گیے، جس کو انھوںنے نہایت شوق سے لیا۔
8 - ٹائمس ناؤ (Times Now) کے نمائندے نے 11 اکتوبر 2007 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا۔ یہ انٹرویو اجمیر میں بم دھماکے سے متعلق تھا۔ سوالات کے دوران بتایا گیا کہ اِس طرح کا متشددانہ فعل ہر اعتبار سے قابلِ مذمت ہے۔ اسلام امن اور رحمت کا مذہب ہے، نہ کہ تشدد اور بے رحمی کا مذہب۔
9 - راشٹریہ سہارا، ہندی (نئی دہلی) کے نمائندہ وجے کمار نے 12 اکتوبر 2007 کو صدر اسلامی کا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا۔ یہ انٹرویو اجمیر کے بم دھماکہ (11 اکتوبر 2007 ) کے موضوع پر تھا۔ جواب میں بتایا گیا کہ اسلام میں تشدد کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ اسلام میں معصوم لوگوں کو مارنا حرام ہے۔ جو لوگ اِس قسم کا متشددانہ فعل کررہے ہیں، وہ امن کی طاقت سے بے خبر ہیں۔ اسلام میںامن سب سے بڑی طاقت ہے، نہ کہ تشدد۔
10 - ای ٹی وی (نئی دہلی) کے نمائندہ مسٹر قاسم ندوی نے 17 اکتوبر 2007 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا۔ یہ انٹرویو روزے سے متعلق تھا۔ سوالات کے دوران قرآن اور حدیث کی روشنی میں روزے کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی۔
11 -انڈیا اسلامک کلچرل سنٹر (لودھی روڈ، نئی دہلی) میں 20 اکتوبر 2007 کی شام کو ایک پروگرام ہوا۔ اِس کا انتظام سی پی ایس اور گڈ ورڈ بکس کی طرف سے کیاگیا۔ یہ پروگرام صدر اسلامی مرکز کی تقریر کے لیے کیا گیا تھا۔اُس کا موضوع تھا— قرآن کا پیغام:
The Message of the Quran
اِس پروگرام میں تعلیم یافتہ لوگ شریک ہوئے ۔ کچھ ہندو حضرات بھی وہاں موجود تھے۔ تقریباً ایک گھنٹے تقریر ہوئی۔ تقریر کے بعد سوال و جواب کا پروگرام ہوا۔ یہاں آنے والوں کو اسلامی دعوت کے مطبوعہ انگریزی بروشر دیے گیے۔ یہاں گُڈورڈبکس کی طرف سے اسلامی کتابوں کا ایک بُک اسٹال بھی لگایا گیا تھا۔ لوگوں نے یہاں سے کتابیں حاصل کیں۔
12 - 18 اکتوبر 2007کو صدر اسلامی مرکز کے نام ایک خط موصول ہوا ۔وہ خط یہاں نقل کیا جاتا ہے:
حضرت مولانا وحید الدین خاں صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ
الرسالہ جون 2007 کے شمارے میں شائع ایک مضمون ’’مسیحی ماڈل‘‘ کے خلاف اگست 2007کے مہینے میں یہاں سری نگر (کشمیر) کے بعض علما، واعظین اور ائمۂ مساجد کی طرف سے سخت ردّ عمل سامنے آرہا ہے اور اس سلسلے میں مقامی اخبارات میںایسے بیانات منظر عام پر آئے ہیں جن کا علم و دلیل اور زبان و ادب کی شائستگی سے کوئی تعلق نہیں۔ اِن بیانات میںکہیں بھی یہ بات نہیں ثابت کی گئی ہے کہ آپ نے کہاں غلطی کی اور آپ کس طرح (العیاذ باللہ) اہانتِ رسول کے مرتکب ٹھہرے۔ لہذا جب ان کے پاس آپ کا نقطہ نظر غلط ثابت کرنے کے لیے کوئی دلیل نہیں ہے تو ثابت ہوا کہ حق اُن لوگوں کا نہیں، آپ کا ساتھ دے رہا ہے۔ کیوں کہ آپ اپنی ہر بات کو قرآن و حدیث کے واضح دلائل کی روشنی میں پیش کرتے ہیں اور زیر نظر مضمون میں بھی آپ نے اسی اسلوب کو اختیار فرمایا ہے۔الرسالہ اکتوبر 2007 کا شمارہ نظر سے گزرا۔ اِس شمارے میں ’’دین اور منہاج‘‘ کے عنوان سے ایک فکر انگیز مضمون پڑھنے کو ملا۔ یہ مضمون علمی دلائل کے اعتبا رسے بہت ہی جامع اور مدلل ہے۔ میں نے اس مضمون کی ایک ایک سطر پر غور کیا اور اب میں اِس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ آپ سے اختلاف کرنا کسی عام واعظ وامام تو کُجا، بڑے سے بڑے عالمِ دین کے بھی بس کی بات نہیں ہے۔ اس بات کا کھلا ہوا ثبوت یہ ہے کہ آپ نے مولانا مودودی کے تصورِ دین پر جو جامع اور مدلل تنقید کی ہے، اس کا جواب نہ مولانا مودودی سے بن پایا اور نہ آج تک جماعت اسلامی کے علما میں سے کسی نے اس کا علمی جواب دینے کی جرأت کی ہے۔ سچائی یہ ہے کہ آپ کی یہ تحریریں آج بھی جواب کے لیے منتظر ہیں۔آپ بلا شبہہ علمی اورفکری اعتبار سے پورے عالمِ اسلام میںاپنی نوعیت کے واحد عالم ِ دین ہیں۔اگر چہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے علما کی کوئی کمی نہیں ہے، مگر آپ کے اندر جو گوں نا گوں علمی وفکری، ذہنی و قلمی صلاحیتیں ہیں اور عصری ودینی علوم پر جو گہری نظراور دست رس آپ کو حاصل ہے، وہ کسی دوسرے عالمِ دین کے یہاں نہیں ملتی ہے۔ اِس لحاظ سے آپ کا علمی و فکری قد بہت اونچا اور بلند ہے اور بلاشبہہ آپ جیسے مصلح، داعی اور مفکر صدیوں کے بعد ہی پیداہوتے ہیں۔ الرسالہ اکتوبر 2007 کے اِس تازہ مضمون (دین اور منہاج) کی اِس بات نے مجھے خاص طورپر زیادہ متاثر کیا ہے کہ آپ نے اِس مضمون میںاپنے مخالفین، جن پر اگر ’’بدترین مخالفین‘‘ کے الفاظ بھی استعمال کیے جائیں گے تو کم پڑ جائیں گے، ان کا کوئی تذکرہ نہیں کیا ، بلکہ نفسِ مسئلہ کی طرف اپنے فکر و نظر اور قلم و ذہن کو مرکوز رکھا ہے، جب کہ نئی دہلی سے شائع ہونے والا ایک ماہ نامہ خاص طورپر آپ ہی کی بے جا اور سطحی مخالفت میں شائع ہوتاہے اور جس میں کثرت سے ایسی تحریریں شائع ہوتی ہیں جن میںزیادہ تر آپ کی ذات کو ہدفِ ملامت بنایا جاتا ہے اور آپ کے خلاف ہر لکھی جانے والی تحریر، خواہ اس میں علم و دلیل کا فقدان ہی کیوں نہ ہو اور اسلوب تحریر کتنا ہی غیر اخلاقی وغیر شرعی کیوں نہ ہو، اس کو صرف اِس وجہ سے خوش آمدید کے ساتھ شائع کیا جاتا ہے کہ وہ آپ کے خلاف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جہاں ایک طرف، آپ کے مخالفین، الرسالہ مشن سے سخت خائف ہیں اور اس کو ناکام بنانے کے لیے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کررہے ہیں، وہاں دوسری طرف، اللہ تعالیٰ ’الرسالہ مشن‘ کے فروغ کے سلسلے میں غیب سے اسباب مہیا فرمارہا ہے اور وہ الرسالہ کے حلقۂ قارئین میں روز افزوں اضافہ کررہا ہے۔ اس سلسلے میں ایک تازہ اور دل چسپ مثال ملاحظہ کیجیے۔بریلوی مکتب فکر کا ایک ماہ نامہ ’’جامِ نور‘‘ دہلی سے شائع ہوتا ہے جس کے خصوصی شماروں میں آپ کے بھی کئی انٹرویو شائع ہوئے ہیں۔ حال ہی میں اس کا ایک خصوصی شمارہ ’’اجتہاد و تقلید‘‘ کے عنوان سے منظر عام پر آیا ہے اور اس شمارے میں بھی آپ کا ایک طویل انٹرویو شائع ہوا ہے۔اس کے آخر میں آپ نے اُس رسالے کے متعلق، اپنے تاثرات کا اس طرح تذکرہ فرمایا ہے: ’’ماہ نامہ جامِ نور میرے پاس آتا ہے، میں اس کو ایک اچھا رسالہ سمجھتا ہوں، میں یہی کہہ سکتاہوں کہ میری دعا ہے کہ ماہ نامہ جامِ نور ہمیشہ ترقی کرتا رہے اور مسلمانوں کے لیے زیادہ سے زیادہ نفع کا باعث بنے(ماہ نامہ جامِ نور، اپریل 2007 ، ص : 96) ۔ لیکن اِسی رسالے کے ایک اور شمارے میں ایک مستقل کالم (اظہارِ خیال) کے تحت، ایک قاری کا ایک جگہ آپ کے اور الرسالہ کے بارے میں تعصب و تنگ نظری سے بھر پور یہ ریمارک اِس طرح شائع ہوا ہے:’’میں آپ کو شہر گُل برگہ کی بات بتاؤں کہ ایک اسٹال پر’’الرسالہ‘‘ کثیر تعداد میں پہنچتا ہے اور صف بستہ منتظرین اس کو ہاتھوں ہاتھ اٹھا لے جاتے ہیں، حالاں کہ دس کی جگہ یہاں قارئین گیارہ روپیے دیتے ہیں، یہاں کی اکثر لائبریریوں میں جہاں کوئی رسالہ پہنچتا ہے ’’الرسالہ‘‘ ضرور پہنچتا ہے، جب کہ اہلِ سنت کے کسی بھی رسالے سے لائبریریاں خالی ہیں۔ لائبریریوں میں مستقل آکر پڑھنے والوں کا حال یہ ہے کہ وہ دیگر رسائل کو چھوڑ کر’’ الرسالہ‘‘ ہی ایک دوسرے سے لے کر پڑھنے کے منتظر رہتے ہیں… میں پُر امید ہو کر یہ کہوں گا کہ جولائی کے الرسالہ پر بھی تبصرہ لکھیے جو اسلامی تعلیمات کے مخالف سوچ اور فکر سے پُر ہے‘‘(جامِ نور، ستمبر 2007، ص: 28 ) یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ ایک طرف آپ نے اپنے اوپر دیے گئے اقتباس میں جامِ نور کی تعریف کی اور مسلمانوں کے لیے زیادہ سے زیادہ نفع کا باعث بننے کی دعا فرمائی ہے مگر دوسری طرف اس اقتباس میں خود آپ کے خلاف اور الرسالہ کے خلاف بے بنیاد طور پر رائے زنی کی گئی ہے۔ تاہم اس اقتباس سے اتنا ضرور معلوم ہوتاہے کہ جو مسلکی تعصب اور فرقہ بندی کے چنگل سے آزاد ہیں اور دل و دماغ کے اعتبار سے بیدار بھی ہیں، الرسالہ ایک بار پڑھنے سے وہ اُنھیں فطرت کی آواز اور اسلام کی روح معلوم ہوتا ہے اور وہ اس کی طرف پلٹ جاتے ہیں اور اس کی خریداری کے لیے صف بستہ کھڑے ہو کر انتظار کرتے ہیں ، یہ خوش آئند بات نہیں توکیا ہے۔ چوں کہ الرسالہ، اسلام کی دریافت ہے اور اس میں اسلام کی دعوت کو بے لوث اور حکیمانہ انداز میں پیش کیا جاتا ہے اور اس طرح کی دعوت جب تحریک اور مشن کی شکل اختیار کرلیتی ہے تو اس وقت اس دعوتِ حق کو روکنے کی طاقت کسی میں نہیں ہوتی ہے اور جو بھی دعوت الی اللہ کے راستے میں روڑے اٹکاتا اوررکاوٹیں کھڑی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ خود اس کا وجود اور اس کا نام ونشان مٹا دیتا ہے، جیسا کہ ارشادِ خداوندی ہے: یُریدُونَ لِیُطْفِؤا نُورَ اللہِ بِأَفوَاہِہِمْ وَاللہُ مُتِمُّ نُورِ ہٖ وَلَوکَرِہَ الْکافِرُونَ (الصّف: 8)اگرکوئی چاہے کہ سورج کو اپنی پھونکوں سے بجھادے تو یہ اس کی سراسر حماقت ہوگی۔ جس طرح سورج روشن رہے گااور روشنی دیتا رہے گا، اُسی طرح حق کی روشنی اپنا راستہ ڈھونڈ نکالے گی، خواہ اس کے مخالفین اسے بجھانے کے لیے کتنی بھی تدبیر اور ہتھکنڈے آزمائیں، مگر اللہ تعالیٰ کی غیبی مدد سے اس کی تکمیل ہوکر رہے گی۔ حق کی یہ روشنی دنیا کے کونے کونے اور گوشے گوشے کو روشن کردے گی۔ تاہم یہ نصیحت صرف اس آدمی کو فائدہ پہنچانے والی ہے جو حق کے معاملے میں انتہائی سنجیدہ ہو اور حق کی تڑپ رکھتا ہو، ورنہ اندھے مخالفین کے لیے ساری تفصیلیں اور ساری شرحیں مبہم ہیں۔ (غلام نبی کشافی، سری نگر، کشمیر )
13 - ایک خط: قابلِ احترام مولانا وحیدالدین خاں صاحب! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ آپ کا موقرجریدہ الرسالہ باقاعدگی سے مل رہا ہے جس کے لیے بے حد ممنون ہوں۔ نومبر 2007 کے تازہ شمارے میں ’’اسمائِ حسنیٰ اور اسمِ اعظم‘‘ کے موضوع پر آپ کا بصیرت افروز مضمون نہ صرف قابلِ تعریف اور فکر انگیزہے، بلکہ وہ اسمِ اعظم کے تعلق سے ہمیں ایک نئے زاویۂ فکر سے روشناس بھی کراتا ہے۔ آپ نے ٹھوس دلائل کے ذریعے سے اسمِ اعظم کی وضاحت جس طرح فرمائی ہے، اس کے نتیجے میں عوامی سطح پر پھیلے ہوئے شکوک اور مفروضات کا ازالہ ہوجانا چاہیے۔ بہر حال آپ نے یہ بڑا نیک کام انجام دیا ہے۔ مبارک باد قبول فرمائی (سعید رحمانی، ایڈیٹر اخبارِ اُڑیسہ،کٹک، 22 اکتوبر، 2007)۔
14 - ایک خط: حضرت مولانا وحید الدین خاں صاحب، السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ خدا آپ پر اور آپ کے تمام اہل خانہ پر کرم کا معاملہ فرمائے، آمین۔ نومبر 2007 کا الرسالہ زیر مطالعہ ہے۔ پریشان ہوں کہ بات کیا اور کہاں سے شروع کروں کیوں کہ مجھے اپنی کم علمی کا پورا احساس ہے۔ ایک سند یافتہ عالم کے سامنے بات پیش کرنا اور بات ہے لیکن جب سامنے معرفت کی سطح پر زندگی گزارنے والا اور اللہ کی طرف سے خیرِ کثیر (البقرۃ: 269 ) سے نوازا ہوا شخص ہو، تو قلم حرکت کرنے سے عاجز ہو جاتاہے۔ یوں آپ کی بیش تر تحریروں نے اکثر مجھ کو رُلایا ہے۔ تب بھی میں بہت رویا تھا جب آپ کی کتاب ’’الاسلام‘‘ کے عنوان ’’عبادت‘‘ (صفحہ 7) سے گزرا تھا۔ لیکن آج تو حد ہوگئی، کس جملے اور کون سے صفحے کی بات کروں۔ بے شک دنیا کے تمام الفاظ مل کر بھی اسمائِ حسنیٰ کی تعریف بیان نہیں کرسکتے، لیکن اس شمارے میں جیسے خدا نے لفظوں کو گویائی عطا کردی ہے۔یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اس شمارے نے بہت سی روحوں کو رُلایا ہوگا اور اسمِ اعظم کو شعوری سطح پر پانے کا احساس زندہ کیا ہوگا۔ سچ کہوں تو اس شمارے کو ’’اسم اعظم اور خیرِکثیر نمبر‘‘ کہنا زیادہ مناسب ہے۔ ایک خیرِ کثیر کے طالب کے لیے اِس خاص کتاب کا روزانہ مطالعہ معرفت کی سطح پر زندگی گزارنے کے لئے بے حد معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ دل چاہتا ہے کہ اس شمارے کی لاتعداد کاپیاں چھپواکر ایک ایک بندے تک پہنچا دوں (محمد وسیم اختر، بہادر گنج، بہار، 23 اکتوبر 2007 )۔
15 - 28 اکتوبر 2007کو بیروہ (کشمیر) میں حلقۂ الرسالہ کا ایک اجتماع ہوا۔ اِس میں بڑی تعداد میں تعلیم یافتہ حضرات شریک ہوئے۔ اِس موقع پر جناب غلام نبی کشافی نے ’’اسوۂ حسنہ اور مسیحی ماڈل‘‘ کے عنوان سے ایک مفصل مقالہ پیش کیا۔ اِس میں قرآن اور حدیث کے واضح دلائل کے ذریعے اِس سلسلے میں اٹھنے والے شبہات کا مدلل جواب دیا گیا۔ اِس میں بتایاگیا کہ ’دین‘ اور ’منہاج‘ کے معاملے میںالرسالہ کا نقطۂ نظر وہی ہے، جو تمام علمائِ اسلام کا نقطۂ نظر ہے۔ اِس سلسلے میں محدثین اور علمائِ سلف کی تحریروں کے کئی حوالے پیش کیے گئے۔ ایک بات یہ کہی گئی کہ سیرتِ رسول کے موضوع پر مطبوعاتِ الرسالہ کے تحت، ایک درجن سے زیادہ کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ ایسی حالت میں علمی طریقہ صرف یہ ہوگا کہ اِن مطبوعہ کتابوں کو سامنے رکھ کر اس معاملے میں کوئی رائے قائم کی جائے، نہ کہ صرف ایک بات کو لے کر اُس کے خلاف سطحی قسم کی بے معنی دھوم مچائی جائے۔
واپس اوپر جائیں