Pages

Monday, 2 June 2008

Al Risala | June 2008 (الرسالہ،جون)

2

- حُبّ ِالٰہی، محبت ِرسول

4

- دوطرفہ معاملہ

5

- سب سے بڑا سوال

7

- تواصی بالحق ، تواصی بالصبر

12

- پہلے اپنی اصلاح

13

- قیامت کا بھونچال

15

- انسان نما حیوان

16

- ذہنی سکون کا راز

20

- دعوت کے نئے امکانات

21

- مسیحی مذہب کے عقائد

23

- قدیم شرک، جدید شرک

27

- فطرت کی آواز

28

- ایک علمی ملاقات

30

- مدرسہ کلچر

31

- عقل اور جذبات

32

- مسئلہ نہیںحل

33

- مقابلے کی دنیا

34

- زندگی کا فارمولا

35

- سوال وجواب

44

- خبر نامہ اسلامی مرکز — 185


حُبّ ِالٰہی، محبت ِرسول

مومن سے یہ مطلوب ہے کہ اس کو خدا سے اور خدا کے رسول سے نہایت گہرا قلبی تعلق ہو۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ مومن کو خدا سے محبت کے درجے کا تعلق ہونا چاہیے (البقرۃ: 165 )۔ جہاں تک رسول کا تعلق ہے، قرآن میںرسول کے لیے محبت کا لفظ نہیںآیاہے، بلکہ اتباع اور اطاعت کے الفاظ آئے ہیں(آل عمران: 31)۔ تاہم حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول سے بھی محبت کے درجے کا تعلق مطلوب ہے۔ البتہ اللہ سے محبت اور رسول سے محبت کے درمیان وہی فرق پایا جائے گا جو خود اللہ اور رسول کے درمیان پایا جاتا ہے۔
حبّ ِالٰہی سے مراد عشقِ الٰہی نہیں ہے۔ اِسی طرح محبت ِ رسول سے مراد عشقِ رسول نہیں ہے۔ اِس معاملے میں عشق کا لفظ قرآن اور حدیث میں اجنبی ہے۔ اِس معاملے میں عشق کا تصور بلا شبہہ ایک مُبتدعانہ تصور ہے، جو بعد کے زمانے میں پیدا ہوا۔ محبت کا تعلق شعوری معرفت سے ہے، جب کہ عشق صرف ایک والہانہ کیفیت کا نام ہے۔ حقیقی محبت اعلیٰ معرفت کے ذریعے پیدا ہوتی ہے، جب کہ عشق ایک ایسی مبہم کیفیت کا نام ہے جس کو صرف وجد (ecstasy) اور بے خودی جیسی پُراسرار حالت سے تعبیر کیاجاسکتا ہے۔
محبت ِ الٰہی کا سرچشمہ یہ ہے کہ آدمی جب بے شمار خدائی انعامات کے بارے میں سوچتا ہے، تو فطری طور پر اس کے اندر اِن انعامات کے مُنعم کے بارے میں گہرا جذبۂ اعتراف پیدا ہوتا ہے۔ اِس کے مقابلے میں رسول سے محبت کا جذبہ اِس اعتبار سے پیدا ہوتا ہے کہ رسول کے ذریعے ہم کو خدا کی ہدایت ملی۔ اِس کے بغیر ہم خدا کی ہدایت سے محروم رہتے۔
دونوں کے درمیان فرق کو اِس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ خدا سے محبت فوق الطبیعی جذبے کے تحت پیدا ہوتی ہے، اور رسول سے محبت طبیعی جذبے کے تحت۔ خدا سے محبت، ربّ العالمین سے محبت ہے، اور رسول سے محبت، رب العالمین کے فرستادہ سے محبت۔
ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لایؤمن أحدکم حتّٰی أکون أحبَّ إلیہ من والدہ وولدہ والنّاس أجمعین۔ ایک اور روایت میں اِن الفاظ کا اضافہ ہے: مِن أہلہ ومالہ (فتح الباری بشرح صحیح البخاری، کتاب الإیمان، باب حبّ الرّسول) یعنی تم میں سے کوئی شخص اُس وقت تک مومن نہیں ہوسکتاجب تک اُس کا یہ حال نہ ہوجائے کہ میںاس کے لیے اس کے والد سے اور اس کی اولاد سے اور اس کے اہل سے اور اس کے مال اور تمام انسانوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔
محبت ِ رسول کے بارے میں جو روایتیں حدیث کی کتابوں میں آئی ہیں، اُن میں یہ بات بہت زیادہ قابلِ غور ہے کہ اُن میں سے کسی روایت میںاِس قسم کے الفاظ نہیںآئے ہیں کہ تم رسول سے اُسی طرح محبت کرو، جس طرح تم خدا سے محبت کرتے ہو۔ اِس کے بجائے روایتوں میںاِس قسم کے الفاظ آئے ہیں کہ تمھارا ایمان باللہ اُس وقت مکمل ہوگا، جب کہ تم رسو ل سے اُس سے بھی زیادہ محبت کرو جتنا کہ تم اپنے والد سے، اپنے اہل سے اور اپنے مال اور اولاد سے محبت کرتے ہو، یعنی اِن روایتوں میں خداکے برابر محبت کا ذکر نہیں ہے، بلکہ اپنی محبوباتِ دنیا سے زیادہ، رسول سے محبت کا ذکر ہے۔
اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں محبتوں میں ایک نوعی فرق ہے۔ حبّ ِ الٰہی بہ معنیٰ تعظیم اور اِجلال مراد ہے، اور حبّ ِ رسول بہ معنی ترجیح اور تقابل مراد ہے۔ حبّ ِ الٰہی ایک مطلق نوعیت کی محبت ہے۔ اِس کے مقابلے میں حبّ ِ رسول کا معاملہ یہ ہے کہ وہ بہ مقابلہ محبوباتِ دنیا مراد ہے۔جو لوگ محبوباتِ دنیا سے اوپر نہ اٹھیں، وہ رسول کے ربّانی مشن میںاپنے آپ کو پوری طرح وقف نہیں کرسکتے۔ جوآدمی خدا کے رسول کو خدا کے رسول کی حیثیت سے پہچانتا ہے، وہ فوراً ہی یہ چاہنے لگتا ہے کہ وہ اصحابِ رسول کی طرح رسول کے دعوتی مشن میں شامل ہوجائے۔ یہ شُمولیت اعلیٰ درجے میںاُسی وقت ہوسکتی ہے، جب آدمی کو رسول کے ساتھ محبت کے درجے کا تعلق پیدا ہوجائے۔
رسول سے محبت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ رسول سے عاشقانہ اور والہانہ تعلق ہو، جیسا کہ کسی نعت خواں، یا قوّال میں بظاہر دکھائی دیتاہے۔ بلکہ رسول سے محبت کامطلب یہ ہے کہ رسول کے دعوتی مشن سے گہرا لگاؤ ہو۔ ہر دوسری چیز کو ثانوی (secondary) بناکر آدمی رسول کے دعوتی مشن کو اپنا دعوتی مشن بنالے، جس طرح خود رسول نے اپنی زندگی میں کیا تھا۔
واپس اوپر جائیں

دوطرفہ معاملہ

ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لایرمی رجلٌ رجلاً بالفسق ولا یرمیہ بالکفر إلاّ ارتدّت علیہ، إن لم یکن صاحبہ کذٰلک (مسند احمد، جلد 5 ، صفحہ 181) یعنی جب بھی ایک آدمی دوسرے آدمی پر کافر یا فاسق ہونے کا الزام لگاتا ہے، تو ضرور یہ الزام خود قائل کی طرف لوٹ آتا ہے، اگر دوسرا آدمی ویسا نہ ہو۔
یہ کوئی پُر اسرار بات نہیں۔ یہ فطرت کا ایک قانون ہے جس کو خدا نے اِس دنیا میں قائم کررکھا ہے۔ اِس قانون کو موجودہ زمانے میں بوم رَینگ (boomerang) کا قانون کہاجاتا ہے۔یعنی کسی چیز کو آپ جس قوت سے دوسرے کی طرف پھینکیں، اُسی قوت سے وہ آپ کی طرف لوٹ کر آئے گی:
It is the law of the boomerang — the harder and faster you throw it, the faster and more violently it comes back.
جب کوئی آدمی کسی کو بُرا کہتا ہے، یا اس کو فاسق یا کافر بتا تا ہے تو وہ اس کو اپنے داخلی احساس کے تحت صرف ایک یک طرفہ معاملہ سمجھتا ہے، یعنی ایک ایسی بات جس کا تعلق خود اس کی اپنی ذات سے نہیں ہے، بلکہ صرف دوسرے شخص کی ذات سے ہے۔ مگر یہ ایک خطرناک بھول ہے۔ کیوںکہ اگر دوسرا آدمی ویسا نہیں ہے جیسا آپ نے اس کو بتایا ہے، تو آپ کا کہا ہوا خود آپ کی طرف لوٹ آئے گا۔ جو الزام آپ دوسرے شخص کو دے رہے تھے، آپ خود اس کے مجرم بن جائیں گے۔
اب اگر یہ دیکھا جائے کہ فسق یا کفر کا تعلق انسان کے دل سے ہے، اور دل کا حال صرف خدا جانتا ہے تو ہر وہ شخص جو خدا سے ڈرتا ہو، اس کا حال یہ ہوجائے گا کہ اِس قسم کی زبان استعمال کرنے سے وہ آخری حد تک بچے گا۔ وہ اگر کسی شخص کے اندر کوئی برائی دیکھ رہا ہے تو وہ خیر خواہانہ انداز میں اس کو نصیحت کرے گا۔ وہ ہر گز ایسا نہیں کرے گا کہ وہ اس کے بارے میں فاسق اور کافر جیسی زبان بولنے لگے۔ وہ کسی شخص کے فسق اور کفر کو خدا کے اوپر چھوڑ دے گا، اوراپنی ذمے داری صرف یہ سمجھے گا کہ وہ نصیحت اور تلقین کے ذریعے دوسرے انسان کی اصلاح کی کوشش کرتا رہے۔
واپس اوپر جائیں

سب سے بڑا سوال

انسان بہترین جسم اور اعلیٰ دماغ کے ساتھ اِس دنیا میں آتا ہے۔ اُس کے لیے سوچنے کی سب سے پہلی بات یہ ہے کہ وہ کیسے بنا۔ پھر وہ جس دنیا میں آتا ہے، وہ محسوس کرتا ہے کہ وہ دنیا استثنائی طورپر اس کے لیے ایک انتہائی موافق دنیا ہے۔ یہاں وہ ایک ایسی زمین کو پاتا ہے جس پر وہ پُرراحت طورپر رہے۔ یہاں سورج ہے جو مسلسل طورپر اُس کو روشنی اور انرجی دے رہا ہے۔ یہاں زرخیز مٹی ہے جو اُس کے لیے مختلف قسم کی غذائیں اُگاتی ہے۔ یہاں وافر مقدار میں پانی ہے جو زندگی کے لیے لازمی طورپر ضروری ہے۔ یہاں ہوا ہے جو مسلسل طورپر اس کو آکسیجن سپلا ئی کررہی ہے۔
یہ سیارۂ زمین جس پر انسان آباد ہے، وہ بے شمار طریقوں سے اس کا مدد گار بنا ہوا ہے۔ یہاں نہایت اعلیٰ قسم کا لائف سپورٹ سسٹم ہے، جس کے بغیر انسان کے لیے یہاں زندہ رہنا اور ترقی کرنا ممکن ہی نہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کو اِس دنیا میں اتنی زیادہ نعمتیں ملی ہوئی ہیںجن کا شمار کرنا ممکن نہیں۔ اِن نعمتوں میں سے صرف کچھ نعمتوں کو سائنس نے دریافت کیا ہے۔ یہ دریافت کردہ نعمتیں بھی اتنی زیادہ ہیںکہ کوئی انسان ساری عمر مطالعہ کرے، تب بھی وہ کامل طورپر اُن سے واقف نہیں ہوسکتا۔
یہ صورت ِ حال اپنے آپ میںایک سوال ہے، اتنا بڑاسوال کہ کوئی بھی عورت یا مرد اُن کو نظرانداز نہیں کرسکتا۔ انسان کا اپنا حیرت ناک وجود اور آس پاس کی حسین دنیا مجبور کررہی ہے کہ ہر انسان اِن سوالات پر غور کرے اور ان کا جواب معلوم کرنے کی کوشش کرے۔
یہ سوالات گویا ایک خاموش پکار ہیں— مجھ کو کس نے بنایا۔ اِس دنیا کا بنانے والا کون ہے۔ وہ کون ہے جس نے مجھ کو اتنا زیادہ با معنیٰ قسم کا لائف سپورٹ سسٹم پیدا کرکے دے دیاہے۔ اِس دنیا میں ہر چیز ایک عظیم نعمت ہے، اور ہر نعمت زبانِ حال سے پکار رہی ہے اور دعوت دے رہی ہے کہ اِس معاملے پر غور کرو اور دریافت کرو کہ اِن نعمتوں (blessings) کا مُنعم (giver) کون ہے۔
اِسی کے ساتھ ایک اور نہایت سنگین سوال ہے جو اِن سوالات کے ساتھ جُڑا ہوا ہے، وہ یہ کہ انسان انتہائی قیمتی صلاحیتوں کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ اُس کا دماغ معجزاتی صلاحیتوں کا مالک ہوتا ہے۔ وہ اپنی اعلیٰ صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے لامحدود ترقی حاصل کرنا چاہتا ہے، بظاہر یہ سب کچھ ابدی معلوم ہوتا ہے، لیکن ابھی وہ اپنے سفرِ حیات کے درمیان میں ہوتا ہے کہ سوسال سے بھی کم عرصے میںکوئی نامعلوم طاقت مداخلت کرتی ہے۔ وہ اُس پر موت وارد کرکے اُس کو موجودہ دنیا سے اٹھا کر کسی اور دنیا میں پہنچا دیتی ہے۔
یہ تمام سوالات نہایت گمبھیر سوالا ت ہیں، وہ لازمی طورپر اپنا ایک جواب چاہتے ہیں۔ کوئی عورت یا مرد جو اپنی زندگی کے بارے میں سنجیدہ ہو، وہ اِن سوالات کا جواب معلوم کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اِن سوالات کا صحیح جواب ہی ہماری موجودہ زندگی کی درست توجیہہ کرتا ہے، اور اِسی کے ساتھ اِن سوالات کا جواب ہی ہم کو یہ بتاتا ہے کہ حقیقی طورپر زندگی کو با معنیٰ اور کامیاب بنانے کے لیے ہمیں کیا کرناچاہیے۔
اِن سوالات پر پوری تاریخ میں غور و فکر کیا جاتا رہا ہے۔ انتہائی بڑے بڑے دماغ اِن سوالات کا جواب معلوم کرنے کے لیے ہمیشہ سرگرم طورپر کوشش کرتے رہے ہیں۔ سب سے زیادہ جس جواب نے عالمی دماغوں کو مطمئن کیا ہے، وہ یہ کہ اِس دنیا کا ایک خدا ہے، وہی اِس کا خالق ہے، وہی اس کا مالک ہے، وہی اس کا انتظام کررہا ہے، وہی اپنی عظیم طاقتوں کے ساتھ اِس پوری دنیا کو سنبھالے ہوئے ہے۔
پھر یہ کہ اِس دنیا کو خدا نے ایک خصوصی تخلیقی پلان (creation plan) کے تحت پیدا کیا ہے۔ اِس پلان کے مطابق، انسان ایک ابدی مخلوق کی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن انسان کو پیداکرنے والے نے اس کی زندگی کو دو حصوں میں بانٹ دیا ہے۔ اس کا بہت تھوڑا حصہ موت سے قبل کے مرحلۂ حیات میںہے، اور اس کا زیادہ بڑا حصہ موت کے بعد کے مرحلۂ حیات میں۔ آدمی جب اِس دنیا میں مرتا ہے تو وہ ختم نہیں ہوتا، بلکہ وہ اگلی دنیا میں داخل ہوجاتاہے، تاکہ وہ اپنی بقیہ زندگی وہاں کے ابدی ماحول میں گزارے۔
واپس اوپر جائیں

تواصی بالحق ، تواصی بالصبر

27 اگست 2007 کو میں نے رات میں ایک خواب دیکھا۔ میں نے دیکھا کہ ایک آواز آئی۔ اُس نے کہا کہ اٹھو۔ میںنے کہا کہ میںتو اٹھا ہوا ہوں۔ اُس نے کہا ’تواصی بالحق‘ کو جانو، ’تواصی بالحق ‘ کو جانو، ’تواصی بالحق‘ کو جانو، میںنے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ یہ کیا ہے۔ اُس نے کہا، ’تواصی بالحق‘ کوجانو، میںنے کہا کہ آپ مجھے بتائیے۔ اُس نے کچھ دیر تک مجھے سمجھایا۔ میں نے کہا کہ آپ نے جو کہا، میں اس کو سمجھ نہیں پایا۔ اُس نے کہا کہ اِسی لیے تو میں کہتا ہوں کہ تواصی بالحق کو سمجھو۔ اِس کے بعد میری آنکھ کُھل گئی۔ یہ بڑی عجیب بات ہے کہ یہ لفظ نہ میرے مطالعے میں تھا اور نہ مجھے اُس کا مفہوم معلوم تھا۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ میں ’تواصی بالحق‘ کو کیسے سمجھوں۔ اِس میں آپ میری مدد فرمائیں (حبیب محمد، حیدر آباد)
’تواصی‘ کا لفظ قرآن کی سورہ نمبر 103 میںآیا ہے۔ اِس سورہ کا ترجمہ یہ ہے: زمانہ گواہ ہے کہ بے شک، انسان گھاٹے میں ہے۔ سوا اُن لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کیا، اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کی، اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی:
History is a witness that man is in loss. Except those who believe and do good, and exhort on each other truth, and exhort on each other patience.
قرآن کی اِس سورہ کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ ایک روایت میںبتایا گیا ہے کہ دو صحابی جب ایک دوسرے سے ملتے تھے تو وہ یاددہانی کے لیے آپس میں اِس سورہ کا تذکرہ کرتے تھے (عن أبی حُذیفہ قال: کان الرّجلان مِن أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إذا التقیا، لم یتفرّقا حتّٰی یقرأ أحدُہما علی الآخر سورۃَ العصر، ثمّ یسلّم أحدہما علی الآخر، رواہ البیہقی فی شعب الإیمان)۔
قرآن کی اِس سورہ میں مومنانہ زندگی کا کورس بتایا گیا ہے۔ یہ کورس بنیادی طورپر تین اجزا پر مشتمل ہے— ایمان اور عمل اور تواصی۔ ایمان یہ ہے کہ آدمی کو شعور کی سطح پر خدا کی معرفت حاصل ہو۔ یہ معرفت ایک انسان کے لیے ذہنی انقلاب کے ہم معنیٰ ہوتی ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آدمی نے اپنی تلاش کا جواب پالیا۔ آدمی کو اپنی فکری سرگرمیوں کے لیے صحیح فریم ورک مل گیا ۔ آدمی کو ظاہری بصارت کے ساتھ، داخلی بصیرت کی روشنی حاصل ہوگئی۔ آدمی کو اپنی ذہنی تگ و دَو کا مرکز حاصل ہوگیا۔ آدمی کے اندر اُس ہستی کا شعور پیداہوگیا، جس سے وہ سب سے زیادہ ڈرے اور جس سے وہ سب سے زیادہ محبت کرے۔
اِس کورس کا دوسرا جُز عملِ صالح ہے۔ عملِ صالح سے مراد وہ عمل ہے جو عین حقیقتِ واقعہ کے مطابق ہو۔ عملِ صالح کی اِس فہرست میں ذکر و دعا، عبادات، اخلاق اور معاملات، وغیرہ سب شامل ہیں۔ ہر وہ کام جس میں انسان کا جسمانی وجود شامل ہوتا ہے، وہ سب اُس کا عمل ہے اور یہ مطلوب ہے کہ اِن تمام اعمال کو صالحیت کی بنیاد پر قائم کیا جائے۔حقیقت یہ ہے کہ انسانی عمل کی دو قسمیں ہیں— ایک، خود رُخی(self-oriented) عمل اور دوسرے، خدا رُخی (God-oriented)عمل۔ اسلامی شریعت میں خود رخی عمل کا دوسرا نام غیر صالح عمل ہے اور خدا رخی عمل کا دوسرا نام صالح عمل۔
اِس کورس کا تیسرا جُز تواصی ہے۔ تواصی میں مشارکت پائی جاتی ہے۔اِس کا مطلب ہے ایک دوسرے کو نصیحت کرنا۔ دو آدمی ایک دوسرے کی خیر خواہی کے جذبے کے تحت، سنجیدہ موضوعات پر ایک دوسرے کے ساتھ جو گفتگو کریں، اُس کانام تواصی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ تواصی نام ہے باہمی تبادلۂ خیال(mutual discussion) کا۔ دینی موضوعات پر باہمی ڈسکشن کسی مومن کی زندگی کا اُسی طرح ایک ناگزیر حصہ ہے، جس طرح ایمان اور عملِ صالح۔
یہ باہمی تبادلۂ خیال، یا انٹلکچول ایکسچینج (intellectual exchange) ذہنی ترقی کے لیے بے حد ضروری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انٹلکچول ایکسچینج کے بغیر ذہنی ترقی بالکل ممکن نہیں۔ جب دو آدمی سنجیدگی کے ساتھ ایک موضوع پر تبادلۂ خیال کریں تو دو آدمیوں کی گفتگو کے دوران ایک تیسرا تصور ایمرج (emerge)کرتا ہے، جس طرح دو پتھروں کے ٹکرانے سے ایک تیسری چیز نکلتی ہے، یعنی چنگاری۔ اِسی طرح باہمی تبالۂ خیال دونوں کے لیے ذہنی ارتقاکا ذریعہ بنتا ہے۔
اہلِ ایمان کے لیے تواصی کے اِس عمل کا موضوع صرف دو ہے، اور وہ ہے— حق اور صبر۔ حق میں تمام مثبت موضوعات شامل ہیں۔ مثلاً قرآن اورحدیث کے گہرے معانی کو سمجھنے کے لیے باہمی تبادلۂ خیال کرنا۔ یہ مقصد صرف قرآن کی تلاوت سے حاصل نہیں ہوتا۔ اُس کے لیے ضروری ہے کہ قرآن اور حدیث کو چرچا اور تبادلۂ خیال کا موضوع بنادیا جائے۔ یہ مقصد صرف سنجیدہ ڈسکشن کے ذریعے حاصل ہوسکتا ہے۔مثلاً ہر گھر میں یہ واقعہ پیش آتا ہے کہ کبھی کسی نقصان کا تجربہ ہوتا ہے اور کبھی کسی فائدے کا تجربہ۔ عام طورپر یہ ہوتا ہے کہ گھروں میںنقصان کے واقعے کو لے کر لوگ منفی انداز میں بولنے لگتے ہیں۔ اِسی طرح فائدے کے واقعے کو لے کر خوشی اور فخر کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔ یہ دونوں طریقے غلط ہیں۔
اصل یہ ہے کہ ایسے موقع پر قرآن کی آیت: لکیلا تأ سَو علیٰ ما فاتکم ولا تفرحوا بما آتاکم (الحدید: 23 ) کو چرچا کا موضوع بنایا جائے، یعنی اگرنقصان کا تجربہ ہو تو اُس پر اِس انداز سے آپس میں بات کی جائے کہ مایوسی کا احساس لوگوں کے اندر سے ختم ہوجائے ۔ اور اگر فائدے کا تجربہ ہو، تب بھی اُس پر اِس انداز سے باہم گفتگو کی جائے کہ لوگوں کے اندر فخر کے بجائے شکر کا جذبہ پیدا ہو۔
اِسی طرح نئے واقعات بھی اِس تواصی کا موضوع بن سکتے ہیں۔مثلاً حال میں چھپی ہوئی ایک کتاب کے اندر یہ انکشاف کیا گیاہے کہ مدر ٹریسا (وفات:1997 ) جو تقریباً ستّر سال تک خدا کے نام پر سوشل سروس کرتی رہیں، مگر اُنھیں اپنے اِس عمل کے دوران کبھی سچائی کا تجربہ نہیںہوا۔ وہ مسلسل طورپر مذہبی اور روحانی اعتبار سے سوہانِ روح (agony) میںمبتلا رہیں (ٹائم میگزین، 3 ستمبر 2007)۔ اب اِس خبر پر آپ باہم ہمدردانہ تبادلۂ خیال کریں کہ مدر ٹریسا کے ساتھ یہ ٹریجڈی کیوں پیش آئی۔
تواصی کے عمل کا دوسرا موضوع صبر ہے۔ صبر کوئی انفعالی چیز نہیں۔ وہ اعلیٰ درجے کا مثبت عمل ہے۔ اِس دنیا میں آدمی کو مسلسل طور پر ناموافق حالات سے سابقہ پیش آتا ہے۔ ایسی حالت میں تو اصی بالصبر یہ ہے کہ دو آدمی یا چند آدمی اِس پر گفتگو کریں کہ ناموافق حالات کے باوجود، کس طرح ایمان اور عملِ صالح کی زندگی کی منصوبہ بندی کی جائے۔
میرے تجربے کے مطابق، اِس تواصی کا پہلا میدان آدمی کا اپنا خاندان ہے، خاندان، عورت اور مرد کے اُس مجموعے کا نام ہے جن کے درمیان خونی رشتہ(blood relationship) ہوتا ہے۔ اِس دنیا میں سماجی تعلقات کے درمیان سب سے زیادہ طاقت ور رشتہ خونی رشتہ ہوتا ہے۔ یہ خونی رشتہ انٹلکچول ایکسچینج کے لیے بے حد مفید ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ باہمی تبادلۂ خیال کے لیے دونوں فریق کے درمیان باہمی موانست بے حد ضروری ہے۔ اور خاندانی افراد کے درمیان یہ موانست کامل درجے میں پائی جاتی ہے۔
صحت مند تبادلۂ خیال کے لیے ایک لازمی شرط ہے، اور وہ یہ ہے کہ ساری گفتگو’حق‘ اور ’صبر‘ کے موضوع پر کی جائے۔ دیگر موضوعات سے مکمل طورپر پرہیز کیا جائے۔ دیگر موضوعات مثلاً نفرت اور شکایت کا چرچا، دنیوی اہمیت کی چیزیں اورسطحی موضوعات پر تفریحی باتیں، وغیرہ۔ یہ سب اِس معاملے میں ڈسٹریکشن ہیں۔ اور ڈسٹریکشن اتنی زیادہ تباہ کُن چیز ہے جس کا تحمل ایک حق پرست آدمی کبھی نہیں کرسکتا۔
قرآن کی سورہ نمبر 33میں اہلِ بیتِ رسول کے بارے میں ایک آیت آئی ہے۔ وہ آیت یہ ہے: یرید اللہ لیذہب عنکم الرجس أہل البیت، ویُطہّرکم تطہیراً (یعنی اللہ تو چاہتا ہے کہ تم اہلِ بیت سے آلودگی کو دور کرے اور تم کو پوری طرح پاک کردے (الأحزاب:33 )۔
اِس آیت میں بظاہر اہلِ بیتِ رسول کا ذکر ہے، مگر یہاں پرٹکلر ریفرنس (particular reference) میں ایک جنرل تعلیم دی گئی ہے۔ اِس اعتبار سے یہاں ہر صاحبِ ایمان کے اہلِ بیت مراد ہیں۔ اِس آیت میں دو چیزوں کا ذکر ہے— رِجس کو دور کرنا اور تطہیر کرنا۔ بظاہر اِن دونوں عمل کو خدا کی طرف منسوب کیاگیا ہے، لیکن حقیقت کے اعتبارسے یہ وہی چیز ہے جس کو تواصی کہاگیا ہے۔ تواصی کا یہ عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہلِ بیت کے لیے کیا۔ اِسی طرح ہر اہلِ ایمان عورت اور مرد کو اپنے اہلِ بیت پر تواصی کا فریضہ انجام دینا چاہیے۔
اہلِ بیت کی تواصی سے مراد سادہ طورپر خاندان کی اصلاح نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر مومن خاندان کے اندر یہ ماحول ہونا چاہیے کہ افرادِ خاندان ایک دوسرے کے ساتھ تواصی میں شریک ہوجائیں۔ہر گھر میں ایسا ہونا چاہیے کہ لوگوں کے درمیان چرچا یا تبادلۂ خیال صرف دو موضوعات پر ہو، یعنی حق کے موضوع پر اور صبرکے موضوع پر۔ ہر خاندان میںیہ ماحول ہو کہ دُنیوی چیزیں ضرورت کے خانے میں ڈال دی جائیں، دُنیوی چیزیں اہلِ خاندان کے درمیان چرچا کا موضوع نہ ہوں، بلکہ چرچا کا موضوع صرف وہ چیزیں ہوں جن کا تعلق دین اور آخرت سے ہو۔
مزید غور کیجیے تومعلوم ہوگا کہ ہر انسان کے لیے خدا نے اُس کے اہلِ بیت کی صورت میں ایک فطری گروپ فراہم کردیا ہے، جس کے ذریعے وہ تواصی بالحق اور تواصی بالصبر کی عبادت کرسکے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایمان اور عملِ صالح کے بعد ہر مومن کی ایک اور ضرورت ہے اور وہ ہے اس کا ذہنی ارتقا۔ اِس ذہنی ارتقا میں مطالعہ اور مشاہدہ کے علاوہ انٹلکچول ایکسچینج بہت زیادہ اہم ہے۔
کسی خاندان کے افراد کا سب سے بڑا رول یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کے لیے انٹلکچول پارٹنر (intellectual partners) بن جائیں، جس طرح کسی اکیڈمی میں کچھ اسکالر ہوں تو وہاں وہ شاپنگ اور آؤٹنگ کی بات نہیں کرتے، بلکہ وہاں وہ سنجیدہ علمی موضوعات پر بات کرتے ہیں۔یہی معاملہ ہر مومن خاندان کا ہونا چاہیے۔ مومن خاندان کے ہر عورت اور مرد کو یہ کرنا چاہیے کہ وہ ایک دوسرے سے جب بھی بات کریں تو وہ صرف علمی اور دینی موضوعات پر بات کریں۔ دوسرے موضوعات کو قصداً وہ اپنے لیے چرچا کا موضوع نہ بنائیں۔ ہر مومن فیملی کو چاہیے کہ وہ باہمی تبادلۂ خیال کے ذریعے یہ کوشش کرے کہ کسی فردِ خاندان کے اندر منفی جذبات پرورش نہ پائیں۔ ہر ایک مثبت ذہن کے ساتھ جینے والا انسان بن جائے۔
بچوں کی اصلاح کا بھی یہی سب سے زیادہ کارگر ذریعہ ہے۔ عام طورپر ماں باپ صرف یہ جانتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کی خوشی پوری کرتے رہیں، مگر یہ بچوں کے ساتھ محبت نہیں بلکہ وہ بچوں کے ساتھ دشمنی ہے۔ اِس معاملے میں ایک حدیثِ رسول، والدین کے لیے رہ نما اصول کی حیثیت رکھتی ہے: مانحلَ والدٌ ولدَہ من نُحْلٍ أفضلَ من أدبٍ حسَنٍ۔ یعنی کسی والد کی طرف سے اُس کی اولاد کے لیے سب سے اچھا عطیہ یہ ہے کہ وہ اُس کو اچھے اخلاق اور آدابِ حیات کی تعلیم دے (الترمذی، کتاب البِّر)۔
بچوں کی تعلیم وتربیت کا یہ مقصد اِس طرح حاصل نہیں ہوسکتا کہ والدین اپنے بچوں کو یہ کرو اور وہ نہ کرو (do’s and don’ts) کی زبان میں کچھ ہدایات دیتے رہیں، بلکہ یہ مقصد صرف اِس طرح حاصل ہوسکتا ہے کہ پورے گھر کے اندر تواصی بالحق اور تواصی بالصبر کا ماحول قائم ہوجائے۔ گھر کے اندر چرچا کا موضوع صرف ایک ہو اور وہ حق اور صبر ہو۔
واپس اوپر جائیں

پہلے اپنی اصلاح

ایک تعلیم یافتہ مسلمان سے ملاقات ہوئی۔ انھوںنے کہا کہ آپ غیر مسلموں میں دعوت الی اللہ کی تحریک چلارہے ہیں، لیکن پہلا کام خود اپنی اصلاح ہے۔ آپ کو چاہیے کہ آپ پہلے مسلمانوں کی اصلاح کے لیے کام کریں۔ جب مسلمانوں کی اصلاح ہوجائے گی تو اس کے بعد غیر مسلموں میںدعوت کا کام اپنے آپ ہونے لگے گا۔
میںنے کہا کہ یہ نظریہ آپ نے خود اپنے ذہن سے بنایا ہے، یا آپ نے اس کو قرآن اور حدیث کے مطالعے سے معلوم کیا ہے۔ وہ اپنے اِس نظریے کے حق میں قرآن اور حدیث سے کوئی حوالہ نہ دے سکے۔ میںنے کہا کہ جو بات قرآن اورحدیث میںنہ کہی گئی ہو، اس کو اپنی طرف سے کہنے کا نام بدعت ہے، اور بدعت ایک گم راہی ہے۔ ’’پہلے اپنی اصلاح‘‘ کا نظریہ بھی اِسی قسم کی ایک بدعت ہے۔
میںنے کہا کہ دعوتی کام کے لیے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب ہمارے لیے نمونے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انھوںنے مسلسل دعوتی عمل کے ذریعے اسلام کو ہر طرف پھیلایا۔ آپ اصحابِ رسول کی زندگی کا مطالعہ کریں، تو آپ پائیں گے کہ ہر صحابی احساسِ بے عملی میںمبتلا تھا، نہ کہ احساسِ عمل میں۔ ہر صحابی اپنے آپ کو غیر اصلاح یافتہ سمجھتا تھا، اِس کے باوجود اُس نے دعوتِ عام کا کام کیا۔
حقیقت یہ ہے کہ دعوت کی شرط اگر یہ ہو کہ داعی اپنے آپ کو اصلاح یافتہ سمجھنے لگے، تو کبھی دعوت کا کام نہیں ہوگا۔ اس لیے کہ سچا مومن ہمیشہ اِس احساس میںمبتلا رہتا ہے کہ میں اپنی اصلاح نہ کرسکا۔ جو آدمی اپنے آپ کو اصلاح یافتہ سمجھ لے، وہ دعوت کے لیے سب سے زیادہ نااہل (incompetent) انسان بن جاتا ہے۔ اِسی لیے علماء نے لکھا ہے کہ دعوت ہر حال میں دی جائے گی، خواہ مسلمان اصلاح یافتہ ہوں، یا اصلاح یافتہ نہ ہوں۔ اصلاح اور دعوت دونوں کام ایک ساتھ کیے جاتے ہیں۔ ان میں سے کوئی کام نہ مقدم ہے اور نہ مؤخر۔حقیقت یہ ہے کہ اپنی اصلاح بھی اُسی وقت ہوتی ہے، جب کہ آدمی دوسروں کی اصلاح کی کوشش میں لگا ہوا ہو۔ اپنی اصلاح کوئی ایسا کام نہیں جو خلا میں انجام پائے۔
واپس اوپر جائیں

قیامت کا بھونچال

راقم الحروف کی کتاب —مذہب اور جدید چیلنج (God Arises) پہلی بار 1966 میں چھپی۔ اس میں دلیلِ آخرت (Argument for the Life Hereafter) کے باب کے تحت حسب ذیل سطریں درج تھیں:
’’سب سے پہلا تجربہ جو ہم کو قیامت کے امکان سے باخبر کرتاہے، وہ زلزلہ ہے۔ زمین کا اندرونی حصہ نہایت گرم سیّال (hot semi-molten) کی شکل میںہے۔ اس کا مشاہدہ آتش فشاں پہاڑوں سے نکلنے والے لاوا کی صورت میں ہوتا ہے۔ یہ مادّہ مختلف شکلوں میں زمین کی سطح کو متاثر کرتا ہے، جس کی وجہ سے بعض اوقات زمین کے اوپر زبردست گڑگڑاہٹ کی آواز محسوس ہوتی ہے اور کش مکش کی وجہ سے جھٹکے پیدا ہوتے ہیں۔ اِسی کا نام زلزلہ ہے۔ یہ زلزلہ آج بھی انسان کے لیے سب سے زیادہ خوف ناک لفظ ہے۔ یہ انسان کے اوپر قدرت کا ایسا حملہ ہے جس میں فیصلے کا اختیار تمام تر دوسرے فریق کو ہوتا ہے۔ زلزلے کے مقابلے میں انسان بالکل بے بس ہے۔ یہ زلزلے ہم کو یاد دلاتے ہیں کہ ہم ایک سُرخ پگھلے ہوئے نہایت گرم مادّے کے اوپر آباد ہیں، جس سے صرف پچاس کلو میٹر کی ایک پتلی سی چٹانی تہہ (crust) ہم کو الگ کرتی ہے۔ یہ چٹانی تہہ زمین کے مقابلے میں ویسی ہی ہے، جیسے سیب کے اوپر اس کا باریک چھلکا۔ ایک جغرافیہ داں کے الفاظ میں — ہمارے آبادشہروں اور نیلے سمندروں کے نیچے ایک قدرتی جہنم (Physical Hell) دہک رہا ہے۔ گویا کہ ہم ایک عظیم ڈائنا مائٹ کے اوپر کھڑے ہوئے ہیں، جو کسی بھی وقت پھٹ کر سارے نظامِ ارضی کو درہم برہم کرسکتا ہے۔‘‘ (صفحہ 88 )۔
45 سال پہلے یہ بات بطور امکان لکھی گئی تھی۔ اب یہ بات واقعہ بن چکی ہے۔ میڈیا میں ہر روز اس کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ دنیا بھر کے سائنس داں اپنے سروے کی بنیاد پر مسلسل یہ خبریں دے رہے ہیں کہ اب وہ دن زیادہ دور نہیں، جب کہ: إنّ زلزلۃ السّاعۃ شیٔ عظیم (الحج: 1) کی قرآنی پیشین گوئی واقعہ بن کرسامنے آجائے۔
اِس سلسلے کی ایک خبر وہ ہے جو حال میں میڈیا میں شائع ہوئی ہے۔ اس کا سورس یہ ہے:
US Geographical Survey, NASA, National Geographic, “Smithsonian Earth”.
نئی دہلی کے انگریزی روزنامہ ٹائمس آف انڈیا (26 مارچ2008 ) میں یہ رپورٹ حسب ذیل عنوان کے تحت چھپی ہے:
Fire Underground.
اِس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکا کا یلواسٹون نیشنل پارک ایک متحرک جوالہ ُ مکھی کے اوپر قائم ہے، جو کہ زمین کی سطح سے صرف پانچ میل نیچے ہے۔ بہ ظاہر اگرچہ اس کی کو ئی علامت دکھائی نہیں دیتی، مگر وہ ایک انفجار (eruption) کی طرف جارہا ہے۔ اِس قسم کا انفجار ایک عظیم ہلاکت کا سبب ہوگا۔ یلو اسٹون کے نیچے اگر اِس قسم کا انفجار ہوتا ہے، تو وہ امریکا کے بڑے رقبے کو قبرستان بنا دے گا:
Yellowstone National Park sits on an active volcanic system. Yellowstone’s magma chamber lies 5 miles below surface and although the system shows no signs that it is headed toward an eruption, such an eruption could be catastrophic.... If another eruption were to occur at Yellowstone, thick ash deposits would bury vast areas of the United States. (p. 37).
خدا نے یہ دنیا ابدی طورپر نہیں بنائی ہے، بلکہ ایک محدود مدت کے لیے بنائی ہے۔ زیر زمین آتش فشاں اِس بات کی وارننگ ہے کہ یہ محدود مدت پوری ہوتے ہی سب کچھ پھٹ جائے گا اور پوری تہذیب ایک کھنڈر بن کر رہ جائے گی۔
مذکورہ سروے گویا کہ آنے والی قیامت کی ایک پیشگی خبر ہے۔ اِس لحاظ سے دیکھئے تو اب آخری وقت آگیا ہے کہ انسان جاگ اٹھے۔ وہ آنے والے دن کی تیاری شروع کردے، اِس سے پہلے کہ وہ دن آجائے اور کسی کے لیے تیاری کا کوئی موقع باقی نہ رہے۔
واپس اوپر جائیں

انسان نما حیوان

فروری 2008 میں پرگتی میدان (نئی دہلی) میں ایک انٹرنیشنل بک فئر کا انعقاد کیاگیا۔ میں 9 فروری 2008 کو یہ بک فئر دیکھنے کے لیے وہاں گیا۔ پرگتی میدان کے وسیع رقبے میں ہر طرف کتابوں کے شان دار اسٹال لگے ہوئے تھے۔ ایسا معلوم ہوتاتھا، جیسے نئی دہلی کا پرگتی میدان علم کا شہر (city of knowledge) بن گیاہے۔ کثیر تعداد میں لوگ کتابوں کو پڑھتے ہوئے اور خریدتے ہوئے نظر آئے۔
جب میں بک فئر کے اندر چل پھر رہا تھا، اس وقت مجھے وہاں ایک انوکھا منظر دکھائی دیا۔ میںنے دیکھا کہ وہاںانسانوں کے علاوہ ایک کتّا بھی ہے۔ وہ لوگوں کے درمیان اِدھر اُدھر دوڑتا ہوا نظرآیا۔ بظاہر وہ بھی انسانوں کی طرح چل پھر رہا تھا، لیکن اس کو نہ اِس بات کا علم تھا کہ یہاں کتابوں کی صورت میں دنیا بھر کا علم موجود ہے، اور نہ اس کو یہ شوق تھا کہ وہ اس اتھاہ علمی ذخیرے سے اپنے لیے کوئی روشنی حاصل کرے۔
بک فئر کی دنیا میں ایک حیوان کی موجودگی دیکھ کر مجھے قرآن کی ایک آیت یاد آئی، جس میں بتایا گیا ہے کہ بہت سے لوگ بظاہر انسان دکھائی دیتے ہیں، لیکن وہ حیوان کی مانند ہیں۔ وہ اِس دنیا میں صرف کھاتے پیتے ہیں اور پھر مرجاتے ہیں۔ ایسے لوگ آخرت میں اندھے پن کے ساتھ اٹھائے جائیں گے (طٰہٰ: 125 )۔
موجودہ دنیا میں ہر طرف خالق کی نشانیاں (signs)بکھری ہوئی ہیں۔یہ نشانیاں مخلوق کی صورت میں خالق کا تعارف کرارہی ہیں۔ جو لوگ اِس تعارف میں خالق کو دریافت کریں اور اس کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالیں، وہ بینا لوگ ہیں۔ اور جو لوگ اِس تعارف میں خالق کو نہ دیکھیں، وہ گویا کہ اندھے تھے۔ وہ دنیا میں اندھے بن کررہے ، اِس لیے وہ آخرت میں بھی اندھے پن کی حالت میں اٹھائے جائیں گے۔ ایسے لوگ بظاہر انسان، مگر حقیقت میں وہ حیوان ہیں۔ دنیا میں ان کی یہ حقیقت چھپی ہوئی ہے، لیکن آخرت میں ان کی یہ حقیقت عیاں ہو کر سامنے آجائے گی۔
واپس اوپر جائیں

ذہنی سکون کا راز

چارلس ڈیوک (Charles Mass Duke Jr.) ایک امریکی خلاباز (astronaut) ہیں۔ وہ 1935 میں امریکا (North Carolina) میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے اسپیس سائنس میںاعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ وہ 1966 میں ناسا (NASA) کے پانچویں خلاباز گروپ کے لیے منتخب کیے گئے۔ انھوںنے خلا (space) میںکئی پروازیں کیں۔ 1972 میں انھوںنے اپالو (Apollo-16) کے ذریعے چاند کا سفر کیا۔ 16 اپریل 1972 میںوہ چاند کی سطح پر اُترے۔
21فروری 2008کی شام کو ہماری ٹیم کے دو ممبر (رجت ملہوترا، سعدیہ خان) ڈاکٹر چارلس ڈیوک سے نئی دہلی کے اشوکا ہوٹل میںانٹرویو کے لیے ملے۔ ملاقات کے وقت انھوںنے اپنے دست خط کے ساتھ اپنی ایک تصویر دی۔ اِس تصویر میں وہ خلائی سوٹ میں چاند کی سطح پر کھڑے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ تصویر اِس مضمون کے ایک الگ صفحے پر دیکھی جاسکتی ہے۔
ہماری ٹیم کے مذکورہ د ونوں ممبروں نے امریکی خلا باز ڈاکٹر چارلس ڈیوک کا ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ اِس انٹرویو کا موضوع اسپریچولٹی (spirituality) تھا۔ انٹرویو کے دوران اُن سے ایک سوال یہ کیا گیا کہ کیا آپ اپنی زندگی سے مطمئن ہیں، اور آپ کو پُرمسرت زندگی حاصل ہے۔ اِس کے جواب میں انھوں نے اپنے حالات بتاتے ہوئے کہا کہ — ابتدائی طورپر میری زندگی میں سکون نہ تھا۔ میںنے یہ سمجھا کہ چاند مجھ کو سکون دے گا۔ میںنے یہ سمجھا کہ خلابازی کی زندگی مجھے سکون عطا کرے گی۔ میںخلابازبن گیا، مگر خلابازی کی زندگی نے مجھ کو سکون نہیں دیا۔ پھر میںنے سوچا کہ میںاپنا کیریر بدل دوں۔ میںنے ناسا میںایسٹروناٹ کا جاب چھوڑ دیا اور بزنس شروع کردیا۔ میںنے کافی دولت کمائی، مگر اب بھی میری زندگی میں سکون نہ تھا۔ میںمحسوس کرتاہوں کہ اب بھی میری زندگی میںکوئی چیز مفقود ہے:
I had no peace in life. I thought the moon would give me peace. I thought all these goals, all these accomplishments, this great career would give me peace, but it didn’t, So I thought I'll change career. So I left NASA as an astronaut and went into business. Imade a lot of money but I still had no peace in my life. There was still something missing.
New Delhi, Charlse Duke Jr.
February 21, 2008
یہ معاملہ صرف ڈاکٹر چارلس ڈیوک کا نہیں، یہی موجودہ زمانے میں تمام لوگوں کا معاملہ ہے۔ موجودہ زمانے میں دولت اور شہرت اور اقتدار حاصل کرنے کے مواقع بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ لوگ نہایت تیزی کے ساتھ اِن چیزوں کو حاصل کرنے کے لیے دوڑ رہے ہیں۔ بہت سے لوگ اِن چیزوں کو پانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو سپر اچیورس (super achievers) کہاجاتا ہے۔ لیکن تجربہ بتاتا ہے کہ تمام سپر اچیور کا کیس سپر ناکامی (super failure) کا کیس تھا۔ سب کچھ پانے کے باوجود اِن لوگوں کو داخلی مسرت حاصل نہیں ہوئی۔ آخر کار وہ مایوسی کا احساس لے کر مر گئے۔
کہاجاتا ہے کہ موجودہ زمانہ بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کرنے کا زمانہ ہے۔ اِس صورتِ حال نے موجودہ زمانے میں ایک نئی اصطلاح پیدا کی ہے جس کو اعلیٰ کامیابی حاصل کرنے والے (super achievers) کہاجاتا ہے۔ مگر تجربہ بتاتا ہے کہ ہر بڑی کامیابی آخر میں صرف بڑی ناکامی (super failure)بن گئی۔ اِس قسم کے لوگ نئے قسم کے سنگین مسائل میں مبتلا ہوگئے۔ مثلاً مہلک بیماریاں، وغیرہ۔
اِنھیں نئے مسائل میں سے ایک ٹنشن (tension) یا اسٹریس (stress) ہے۔ لوگوں کے پاس دولت اور شہرت اور اقتدار سب کچھ موجود ہے، لیکن اِن ظاہری کامیابیوں کے باوجود لوگ مسلسل طورپر ٹنشن اور اسٹریس میں مبتلا رہتے ہیں۔ زیادہ دولت صرف زیادہ بیماری کا سبب بن رہی ہے۔ کہاجاتا ہے کہ موجودہ زمانے میں سب سے زیادہ رسرچ میڈیکل سائنس میں ہورہی ہے، تاکہ نئی نئی بیماریوں کا علاج دریافت کیا جاسکے۔اِس صورت ِ حال کے نتیجے میں ایک نیا بزنس شروع ہوگیا ہے جس کو ڈی اسٹریسنگ (de-stressing) کہاجاتا ہے۔ اِن اداروں میںبڑے بڑے ماہرین، لوگوں کو اسٹریس سے نجات دینے کے لیے سرگرم ہیں۔ لیکن واقعات بتاتے ہیں کہ لوگوں کا ٹنشن اور اسٹریس بدستور بڑھتا جارہا ہے۔ کہاجاتا ہے کہ موجودہ زمانے کا سب سے بڑا خطرہ تیسری عالمی جنگ کا خطرہ نہیں ہے، بلکہ ٹنشن اور اسٹریس کا خطرہ ہے۔
یہ صورت ِ حال ہم کو قرآن کی ایک آیت کی یاد دلاتی ہے۔ وہ آیت یہ ہے: ألا بذکر اللہ تطمئن القلوب (الرّعد: 28 ) اِسی بات کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اِن الفاظ میں فرمایا: اللہم لا عیش إلاّ عیش الآخرۃ (صحیح البخاری، کتاب الرّقاق) اِس کا مطلب یہ ہے کہ خدائے برتر ہی کو اپنا سپریم کنسرن (supreme concern) بنانے سے انسان کو سکون حاصل ہوتا ہے اور اپنی پسند کی جو زندگی انسان چاہتا ہے، وہ صرف موت کے بعد کے دورِ حیات میں کسی انسان کو ملے گی۔ موت سے پہلے کے دورِ حیات میں کسی کو اپنی پسند کی زندگی ملنے والی نہیں۔
اِس معاملے کا براہِ راست تعلق خالق کے کریشن پلان (creation plan of God) سے ہے۔ خالق نے موجودہ دنیا کو امتحان گاہ (testing ground) کے طور پر بنایا ہے۔ موجودہ دنیا کسی کے لیے بھی اپنی آرزوؤں کی تکمیل کی جگہ نہیں بن سکتی۔ موجودہ دنیا ہر عورت اور مرد کے لیے سفر کا مرحلہ ہے، اور بعد کو آنے والی آخرت کی دنیا اس کی ابدی منزل ہے۔
آپ، بس یا ٹرین یا ہوائی جہاز میں سفر کررہے ہوں اور اس کے اندر آپ گھر والی سہولتیں حاصل کرنا چاہیں، تو آپ اس کو حاصل نہ کرسکیں گے۔ کیوں کہ سواری صرف سواری ہے، وہ گھر کا بدل نہیں۔ اِس طرح موجود دنیا میں خواہشوں کی تکمیل (fulfillment) کسی کے لیے بھی ممکن نہیں۔ جو آدمی اپنی خواہشوں کی تکمیل چاہتا ہو، اس کو آخرت کے لیے کام کرنا چاہیے۔ یہی وہ حقیقت ہے جو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کی گئی ہے: لمثل ہٰذا فلیعمل العاملون (الصّافّات:61 ) ۔
واپس اوپر جائیں

دعوت کے نئے امکانات

سی پی ایس انٹرنیشنل (نئی دہلی) کی ٹیم کے ایک ممبر مسٹر رجت ملہوترا 7 مارچ 2008 کو دہلی سے بمبئی گئے۔ یہ سفر ان کی کمپنی کے تحت تھا۔ ان کا یہ سفر کنگ فشر (King Fisher) ائر لائنس کے ذریعے ہوا۔ نئی دہلی کے ائر پورٹ پر جب وہ جہاز کے اندر داخل ہوئے، تو انھوںنے دیکھا کہ فرسٹ کلاس کی اگلی سیٹ پر ایک ہندو لیڈر بیٹھے ہوئے ہیں۔وہ ہوائی پرواز(civil aviation) کے محکموں میں کیبنٹ منسٹر ہیں۔ اُس وقت مسٹررجت ملہوترا کی جیب میں ہمارے یہاں کا انگریزی میں چھپا ہوا پمفلٹ (The Reality of Life) موجود تھا۔ انھوںنے منسٹر صاحب کو ایک پمفلٹ یہ کہتے ہوئے پیش کیا:
Sir, this is for your inflight reading.
منسٹر صاحب نے شکریہ ادا کرتے ہوئے پمفلٹ کو لے لیا اور اُسی وقت اس کو پڑھنا شروع کردیا، مسٹر رجت ملہوترا نے جب یہ واقعہ مجھے بتایا، تو میںنے یہ سمجھا کہ موجودہ زمانے کے دعوتی امکانات میںسے ایک امکان یہ بھی ہے کہ حاکم (ruler) اور محکوم (ruled) دونوں ایک سواری پر سفر کریں، اور محکوم کسی قسم کے درباری رسوم ادا کیے بغیر حاکم کو بے تکلف ایک خوب صورت چھپا ہوا دعوتی پمفلٹ پیش کرسکے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی اتری، تو اُس میں یہ کہا گیا تھا: علّم بالقلم (القلم : 4 )۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی دعوت ایک مبنی بر لٹریچر (literature-based) دعوت ہے۔ قدیم زمانے میں جب کہ پرنٹنگ پریس وجودمیں نہیں آیا تھا، یہ دعوتی لٹریچر لوگوں کے حافظے میںہوتا تھا۔ آدمی کا حافظہ ہر وقت اس کے ساتھ ہوتا ہے۔ وہ ہر وقت اِس پوزیشن میںہوتاتھا کہ اپنے حافظے کی مدد سے لوگوں کو دعوتی پیغام دے سکے۔ اب پرنٹنگ پریس کے زمانے میں یہ کرنا ہے کہ داعی ہر وقت اپنے پاس چھپا ہوا دعوتی لٹریچر رکھے، اور ملاقاتوں کے دوران اُسے لوگوں کو دے سکے۔
واپس اوپر جائیں

مسیحی مذہب کے عقائد

مارک جے ایچ کلاسین (Mark J.H. Klassen) کناڈا کے ایک مسیحی عالم ہیں۔ وہ کناڈا کی ایک کمپنی (Kalora Interiors International Inc.) کے نمائندہ (representative)کے طور پر نئی دہلی میں مقیم ہیں۔ وہ 6 مارچ 2008 کو الرسالہ کے دفتر میں آئے۔ ان کے ساتھ ڈاکٹر اقبال پردھان بھی موجود تھے۔ اُن سے دیر تک مسیحی مذہب اور اسلام کے بارے میں گفتگو ہوئی۔
گفتگو کے دوران میں نے کہا کہ میں حضرت مسیح کو خدا کا پیغمبر مانتا ہوں، لیکن میں اُن کو خدا کا بیٹا نہیں مانتا۔ میں نے کہا کہ موجودہ مسیحیت (Christianity) کے تین بنیادی عقیدے ہیں— تثلیث (Trinity) ، ابنیّت ِ مسیح (Sonship) ، کفّارہ (Atonement) ۔ مگر یہ تینوں عقیدے نئے عہدنامہ (New Testament) کے اُن چار ابواب میںموجود نہیں ہیں جن کو گاسپل (Gospel) کہاجاتا ہے، حالاں کہ یہی چار ابواب مسیحیت کے مستند ماخذ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اِن عقیدوں کو مسیحی چرچ نے چوتھی صدی عیسوی میں وضع کیا، حضرت مسیح کی اصل تعلیمات سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔
انھوںنے کہا کہ گاسپل کے ایک راوی یوحنّا (John) ہیں، اور یوحنّا کے خطوط (Epistles) میں اِبنیّت (Sonship) کا عقیدہ پایا جاتا ہے۔ ان کے بیگ میں بائبل کا ایک نسخہ موجود تھا۔ انھوںنے یہ نسخہ نکالا اور اس کی یہ آیت مجھے دکھائی:
جوکچھ ہم نے دیکھا اور سنا ہے، تمھیں بھی اس کی خبر دیتے ہیں، تاکہ تم بھی ہمارے ساتھ شریک ہو، اور ہماری شرکت باپ کے ساتھ اور اس کے بیٹے یسوع مسیح کے ساتھ ہے:
That which we have seen and heard, we declare to you, that you also may have fellowship with us; and truly our fellowship is with the Father and with His Son Jesus Christ (The First Epistle of John: 3).
میںنے کہا کہ گاسپل (Gospel) اور خطوط (Epistles) میں بنیادی فرق پایا جاتا ہے۔ گاسپل، نئے عہد نامے کا وہ حصہ ہے جس میںمسیح کے براہِ راست شاگردوں نے مسیح کی زندگی اور ان کی تعلیمات کے بارے میں روایت کیا ہے:
Gospel: The history of the life and teachings of Jesus.
انھوں نے کہا کہ یہ خط بھی اُسی یوحنّا (John) کا ہے جو گاسپل کے چار راویوں میں سے ایک راوی ہیں۔ میں نے کہا کہ گاسپل اور خطوط میں ایک بنیادی فرق ہے، وہ یہ کہ گاسپل میں خود مسیح کی اپنی تعلیمات بیان کی گئی ہیں، مگر خطوط کا معاملہ یہ ہے کہ ان کو مسیح کے بعد ان کے کچھ متبعین(followers) نے ان کو اپنی طرف سے لکھا۔ ایسی حالت میں خطوط کا درجہ وہ نہیں ہوسکتا جو گاسپل کا درجہ ہے۔
یہ گفتگو کئی لوگوں کی موجودگی میں کافی دیر تک جاری رہی۔ آخر میں انھوں نے کہا کہ جب ہم بائبل اور چرچ کے درمیان فرق کو دیکھتے ہیں تو خود ہم کو مایوسی ہوتی ہے:
When we see the difference between the Bible and the Church, we are dissappointed.
مجھے اِس طرح کے تجربات بار بار ہوئے ہیں۔ میرا احساس یہ ہے کہ مسیحی لوگ اندر سے کنفیوژن کا شکار رہتے ہیں، لیکن سماجی تقاضے کی بنا پر وہ مسیحیت سے جڑے رہتے ہیں۔
یہ موجودہ مسیحی مذہب کی بہت بڑی کم زوری ہے۔ اِس اعتبار سے مسلم داعیوں کے لیے مسیحی حضرات کے درمیان دعوت الی اللہ کا بہت اچھا موقع تھا، لیکن مسلم علما کی ایک غلطی کی وجہ سے یہ امکان واقعہ نہ بن سکا۔ وہ غلطی یہ کہ انھوں نے مسیحی حضرات کو اسلام کا پیغام پہنچانے کے لیے دعوت کا انداز اختیار نہیں کیا، بلکہ مناظرہ (debate) کا انداز اختیار کیا۔
دعوت کے انداز سے مدعو کے دل میں قربت پیدا ہوتی ہے۔ اِس کے مقابلے میں مناظرے کا انداز مدعو کے اندر توحش کی کیفیت پیدا کردیتا ہے۔ مناظرے کا انداز مسلمانوں کو خوش کرسکتا ہے، لیکن وہ مدعو کو متاثر نہیں کرتا۔ یہ غلطی نو آبادیاتی دور میں شروع ہوئی تھی، مگر بد قسمتی سے وہ آج تک جاری ہے۔ مناظرہ بازی سے صرف منفی نتیجہ پیدا ہوتا ہے اور دعوت سے مثبت نتیجہ۔
واپس اوپر جائیں

قدیم شرک، جدید شرک

موجودہ دنیا میں انسان کے لیے زندگی کے دوراستے ہیں— سیدھا راستہ اور بھٹکاؤ کا راستہ (النّحل: 9 )۔ سیدھا راستہ یہ ہے کہ آدمی خالق کو اپنی زندگی میں مرکزی مقام دے، وہ خالق کو اپنا سب کچھ بنالے۔ بھٹکاؤ کا راستہ یہ ہے کہ آدمی مخلوق میں گُم ہو جائے، وہ مخلوق کی نسبت سے اپنی زندگی کا پورا نقشہ بنائے۔ پہلے طریقے کا نام توحید ہے،اور دوسرے طریقے کا نام شرک ہے۔ہماری کائنات میں صرف دو چیزیں ہیں— خالق اور مخلوق ۔ خالق کو اپنا کنسرن بنانے کا مذہبی نام توحید ہے، اور مخلوق کو اپنا کنسرن بنانے کا مذہبی نام شرک۔
جیسا کہ معلوم ہے، انسانیت کے آغاز ہی سے ہر زمانے میں خدا کے پیغمبر آتے رہے اور انسان کو صحیح اور غلط کی رہ نمائی دیتے رہے۔ ہر پیغمبر کا مشن ایک ہی تھا— انسان کو توحید کی طرف بلانا، اور اس کو شرک سے بچنے کی تلقین کرنا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جس طرح ہر زمانے میں توحیدایک تھی، اسی طرح شرک بھی ہمیشہ ایک ہی رہا ہے۔
قدیم شرک یا شرک کا قدیم ورژن (ancient version of shirk) نیچر پرستی (nature worship) پر قائم تھا۔ نیچر کی حیثیت مخلوق کی ہے۔ قدیم زمانے کے انسان نے نیچر کو معبود کا درجہ دے دیا۔ وہ نیچر پرستی (nature worship) کی بُرائی میںمبتلا ہوگیا، یعنی خالق کی پرستش کے بجائے مخلوق کی پرستش کرنا۔ اِسی کو مظاہرِ فطرت کی پرستش کہاجاتا ہے۔
موجودہ زمانے میں بھی یہ شرک اپنی پوری طاقت کے ساتھ موجود ہے۔ آج کا انسان بھی یہی کررہا ہے کہ وہ خالق کے بجائے مخلوق کو اپنا سب کچھ (supreme concern) بنائے ہوئے ہے۔ قدیم شرک اور جدید شرک کے درمیان جو فرق ہے، وہ ظاہر کے اعتبار سے ہے، نہ کہ حقیقت کے اعتبار سے۔
قدیم انسان نے نیچر کو پرستش کا موضوع (object of worship) بنایا تھا۔ جدید انسان نے نیچر کو تفریح کا موضوع(object of entertainment) بنا لیا ہے۔ جذباتِ عُبودیت کا مرکز پہلے بھی مخلوقات تھیں، اور اب بھی جذباتِ عبودیت کا مرکز مخلوقات ہیں۔
موجودہ زمانے کے انسان کا نظریہ یہ ہے کہ اپنے آج (now) میں خوش رہو، کل کی فکر چھوڑ دو۔ یہ ’’آج‘‘ کیا ہے۔ یہ وہی سامانِ حیات ہے جو ہم کو نیچر کی صورت میں ملا ہے۔ یہ سامانِ حیات خدا کی دی ہوئی نعمتیں ہیں۔ تفریح کے سامانوں میں سے کوئی بھی سامان انسان نے خود نہیں بنایا، وہ اس کو خالق کی طرف سے ملا ہے۔ یہ خالق ہے جو ساری چیزوں کو پیدا کرنے والا ہے۔ آج کے انسان نے یہ کیا کہ اُس نے نعمت (blessing) کو لیا، اور منعم (giver) کو چھوڑ دیا۔ یعنی خالق رُخی نظریے کو ترک کرکے، مخلوق رخی نظریے کو اختیار کرلیا۔
انسان کی یہ فطرت ہے کہ اُس کو جب کوئی چیز ملے تو وہ دینے والے کا اعتراف کرے۔ احساسِ تشکُّر (gratitude) انسان کی فطرت کا ایک لازمی تقاضا ہے۔ موجودہ زمانے میں انسان نے دوربارہ یہ کیا کہ اُس نے اپنے احساسِ تشکر کو خالق کے بجائے مخلوق کی طرف موڑ دیا۔ جو قلبی اعتراف اس کو مُنعم کے لیے پیش کرنا چاہیے تھا، اُس کو وہ منعم کی پیدا کردہ مخلوق کے لیے پیش کرنے لگا۔
آج کل کے لوگوں کی باتیں سنیے، یا ان کی تحریریں پڑھیے تو بار بار اِس قسم کے نمونے سامنے آتے ہیں۔ہر آدمی اپنے روزانہ کے تجربات میں اِس کے نمونے دیکھ سکتا ہے۔ یہاں مثال کے طورپر میںایک حوالہ نقل کروں گا۔ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (27 جنوری 2008 ) میں اِس موضوع پر ایک مضمون چھپا ہے۔ اِس کے لکھنے والے کا نام ڈونا (Donna Devane) ہے۔ اِس مضمون کاعنوان یہ ہے:
Be happy here and now.
آج کل کے زمانے میں انسان ایک عام مسئلے سے دوچار ہے۔ وہ ٹنشن یا اسٹریس (stress) ہے۔ یہ ٹنشن کیوںہے، اِس کا سبب یہ ہے کہ انسان اپنی فطرت کو اُس کی مطلوب خوراک نہیںدے رہا ہے۔ وہ خالق کی پیدا کی ہوئی چیزوں سے بھر پور انتفاع کررہا ہے، لیکن وہ خالق کا اعتراف نہیںکرتا۔ یہ بے اعترافی، یا عدم تشکر فطرت کے خلاف ہے۔ اِس لیے وہ انسان کے اندر شعوری یا غیر شعوری طورپر ٹنشن یا اسٹریس کا سبب بنا ہوا ہے۔ موجودہ انسان نے اِس کا یہ غیر فطری حل دریافت کیا ہے کہ دینے والے کے بجائے، خود دی ہوئی چیزوں پر تشکر کا اظہار کرنا۔ مذکورہ مضمون اِسی جدید ذہن کی نمائندگی کررہا ہے۔ چناں چہ اس میں کہاگیا ہے کہ — تم ملی ہوئی چیزوں پر خوب تشکر کا اظہار کرو اور تم ٹنشن سے بچ جاؤ گے۔ اِس سلسلے میں مضمون نگار کے الفاظ یہ ہیں:
Gratitude feels my soul as I enjoy my computer, more about my home, enjoy the feeling of a hug from my daughter. There is so much to be grateful for each moment of each day. I find that where gratitude goes, joy flows, spend a few moments throughout the day with thought shifter statements. A few of the thought shifter statements that I use are— I am so happy and joyful to believe. I am so happy and grateful for this wonderful mind, and body that allows me to enjoy touch, taste, sound, and movement. I am so happy and grateful for my family, and friends, and the love we share. I am so happy and grateful for my home and utilities. I am so happy and grateful for my computer, my internet, my ability to type and share with friends all over the world.
انسان کے اندر جس طرح بھوک اور پیاس کا طاقت ور جذبہ موجود ہے، اُسی طرح یہ جذبہ بھی انسان کے اندر نہایت طاقت ور شکل میںموجود ہے کہ وہ اپنے محسن کے احسان کا اعتراف کرے۔ اپنی فطرت کے اعتبار سے انسان اِس کا تحمل نہیںکرسکتا کہ اُس کو کسی سے کوئی بڑی چیز ملے اور وہ اس کا اعتراف نہ کرے۔ آدمی کا فطری مزاج یہ ہے کہ جب اُس کو کسی سے کوئی بڑا فائدہ پہنچتا ہے تو اس کی پوری شخصیت چاہتی ہے کہ چیخ کر وہ اس کا اعتراف کرے۔ یہ انسان کی ایک ایسی صفت ہے جس سے کوئی بھی عورت یا مرد خالی نہیں۔
انسان کے پاس جو کچھ ہے، وہ سب خداکا عطیہ ہے۔ خواہ اس کا اپنا وجود ہو یا اس کے باہر کا وہ پورا نظام جس کو لائف سپورٹ سسٹم (life support system) کہاجاتا ہے، سب کا سب اس کو خدا کی طرف سے یک طرفہ عطیہ کے طور پر ملا ہے۔ ایسی حالت میں انسان کی فطرت چاہتی ہے کہ وہ اِن تمام عطیات (blessings) کے لیے ان کے مُعطی (giver) کا بھر پوراعتراف کرے۔ اِن عطیات میںسے ایک قسم اُن عطیات کی ہے جو براہِ راست طورپر خدا کی طرف سے انسان کو مل رہے ہیں۔ مثلاً ہوا اور پانی اور روشنی ، وغیرہ۔ اور دوسری چیزیں وہ ہیں جو بالواسطہ طورپر خدا کا عطیہ ہیں۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن کو انسان نے عالمِ فطرت میں دریافت کرکے خدا کی دی ہوئی عقل کے ذریعے اُن کو مختلف قسم کی مصنوعات میںتبدیل کیا ہے۔ مثلاً تمام قسم کے کنزیومر گُڈس (consumer goods) ۔
یہ تمام عطیات تقاضا کرتے ہیں کہ انسان اپنے سارے دل اور سارے دماغ کے ساتھ اُن کا اعتراف کرے۔ لیکن خود ساختہ فلسفوں کے تحت ،انسان نے یہ کیا کہ اُس نے عطیات کو لیا، اور اُن کے معطی (giver) کو حذف کردیا۔ یہ ایک بھیانک غلطی تھی۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انسان کی فطرت ایڈریس ہونے سے رہ گئی:
The human nature was left unaddressed.
یہ کسی انسان کے لیے ایک داخلی تضاد کا معاملہ ہے۔ موجودہ زمانے میں تمام عورت اور مرد اِسی داخلی تضاد میں جی رہے ہیں۔ موجودہ زمانے کا وہ مسئلہ جس کو ٹنشن اور اسٹریس کہا جاتا ہے، وہ براہِ راست طورپر اِسی داخلی تضاد کا نتیجہ ہے۔
اِس حقیقت کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: ألا بذکر اللہ تطمئن القلوب (الرّعد:28 ) یعنی اللہ کے ذکر ہی سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتاہے:
Peace of mind can be achieved only through the remembrance of God (13: 28)
واپس اوپر جائیں

فطرت کی آواز

کمیونسٹ حکومت کے آخری زمانے میں میںنے سوویت یونین (روس) کا سفر کیا تھا۔ اُس وقت میخائل گوربا چیف (Mikhail Gorbachev) وہاں کے صدر تھے۔ اُس زمانے میں وہاںآزادی کا دور شروع ہوچکا تھا۔ میںنے دیکھا کہ وہاں کے چرچ اور مسجدیں جو پہلے ویران رہا کرتی تھیں، اب وہاں مذہبی سرگرمی دکھائی دیتی ہے۔ میںنے اپنے گائڈ سے کہا کہ ہم نے پہلے سنا تھا کہ روس میں مذہب مر چکا ہے، مگر یہاں تو وہ زندہ حالت میں دکھائی دیتا ہے۔ گائڈ نے جواب دیا کہ مذہب یہاں ہمیشہ زندہ تھا۔ جو فرق ہوا ہے، وہ صرف یہ کہ پہلے یہاں مذہب اَنڈر گراؤنڈ (underground)تھا، اور اب وہ سامنے آگیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ خدا اور مذہب کا تصور انسان کی فطرت میں آخری حدتک پیوست ہے۔ کوئی شخص اگر اپنی زبان سے خدا کا انکار کرے، تب بھی خدا کا شعور اس کے دل کے اندر پوری طرح موجود رہتا ہے۔ سوویت یونین کے سابق صدر میخائل گوربا چیف پہلے ایک ملحد کمیونسٹ تھے، مگر اب ان کی دبی ہوئی فطرت جاگ اٹھی ہے۔ انھوںنے خود اِس کا اعتراف کیا ہے۔
برٹش نیوز پیپر ڈیلی ٹیلی گراف (The Daily Telegraph) کی ایک رپورٹ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (20 مارچ2008 ) میں چھپی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ گوربا چیف اٹلی کے ایک چرچ میں پہنچے اور وہاں انھوںنے اپنے عقیدے کے مطابق، خدا کی عبادت کی:
Gorbachev, who had earlier publicly pronounced himself as an atheist, acknowledged his Christian faith while paying a surprise visit to pray at the tomb of St Francis of Assisi in Italy (p. 22).
خدا کا شعور انسان کی فطرت میںاِس طرح شامل ہے کہ وہ کسی بھی حال میں اُس سے جدا نہیں ہوتا۔ اِس معاملے میں منکرین اور ملحدین کا بھی کوئی استثنا نہیں۔
واپس اوپر جائیں

ایک علمی ملاقات

30 مارچ 2008 کی شام کو دو اعلیٰ تعلیم یافتہ صاحبان سے ملاقات ہوئی۔ ایک، مشہور برطانی جنرلسٹ سرمارک تلی (Sir Mark Tully) ، اور دوسرے، برطانیہ کے ایک مسیحی عالم (Bishop of Kingston) ڈاکٹر رِچرڈ (Dr. Richard Cheetham) ۔ یہ لوگ اسلام کے بارے میں جاننا چاہتے تھے۔ چناں چہ اُن سے اسلام کے مختلف موضوعات پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔
سرمارک تلی نے کہا کہ اسلام کے اعتقادی نظام میں ایک خدا کے عقیدے کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ یہ صرف ایک مذہبی عقیدہ ہے، یا خدا کے وجود کا کوئی سائنسی ثبوت بھی ہے۔ میں نے کہا کہ اسلام میں کوئی عقیدہ محض ادّعائی عقیدہ (dogmatic belief) نہیں ہوتا، اسلام کے اعتقادی نظام فطرت کے اٹل اصولوں پر قائم ہے۔ اِسی کو موجودہ زمانے میں سائنسی بنیاد (scientific base) کہا جاتا ہے۔میں نے کہا کہ 1920 سے پہلے جو نیوٹنین میکانکس (Newtonian Mecanics) تھی، اس کے مطابق، مادّہ (matter) کی آخری اکائی (unit) ایٹم تھا۔ اُس وقت ایٹم (atom) ناقابلِ تقسیم سمجھا جاتا تھا۔ اُس وقت یہ سمجھا جاتا تھا کہ ہر چیز قابلِ مشاہدہ ہے، اِس لیے معقول استدلال (valid argument) وہی ہے جو براہِ راست استدلال (direct argument) کے اصول پر مبنی ہو۔
مگر1920 کے بعد نیوکلیر سائنس (nuclear science) میںجو نئی تحقیقات ہوئیں، اس کے نتیجے میںایٹم ٹوٹ گیا۔اب کلاسکل فزکس (classical physics) کی جگہ ویومیکانکس (wave mechanics) وجود میں آئی۔ اِس تبدیلی کا اثر اصولِ استدلال پر پڑا۔ اِس نئی دریافت نے استنباطی استدلال (inferential argument) کی اہمیت بڑھا دی۔ اب یہ مان لیا گیا کہ استنباطی استدلال بھی اتنا ہی معقول استدلال(valid argument) ہے، جتنا کہ براہِ راست استدلال (direct argument) ۔
بنائِ استدلال کی اِس تبدیلی کے بعد خدا کے عقیدے پر استدلال قائم کرنا اتنا ہی ممکن ہوگیا ہے، جتنا کہ الیکٹران پر استدلال قائم کرنا۔ جیسا کہ معلوم ہے، الیکٹران کے وجود کو استنباطی دلیل کے ذریعے ثابت کیا جاتا ہے۔ یہی استنباطی استدلال اب خدا کے وجود کو علمی طورپر ثابت کرنے کے لیے بھی حاصل ہوگیا ہے۔چناںچہ برٹرینڈرسل (وفات: 1970) نے ڈزائن سے استدلال (argument from design) کو اپنی نوعیت کے اعتبار سے، ایک سائنسی استدلال قرار دیا ہے۔
میری اِس بات کو سن کر ڈاکٹر رچرڈ نے کہا کہ یہ صحیح ہے کہ موجودہ طبیعیاتی علماء (physicists) اِس بات کا اعتراف کررہے ہیں کہ کائنات کی حد درجہ معنویت اِس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ موجودہ کائنات کسی ذہن (mind) کی تخلیق ہے، لیکن علمائِ حیاتیات (biologists) اِس کی تائید نہیںکرتے۔میں نے کہا کہ بطور واقعہ آپ کا کہنا صحیح ہے، لیکن علمائِ حیاتیات کی یہ رائے کسی سائنسی حقیقت پر مبنی نہیں، ان کی یہ رائے تمام تر ایک غلط مفروضے پر قائم ہے۔ چارلس ڈارون (وفات: 1802 ) نے اِس معاملے میں ایک غلط مفروضہ پیش کیا اور پھر تمام لوگوں نے اِس مفروضے کو بطور حقیقت مان لیا۔
ڈارون نے زندگی کے مختلف نمونوں کا تفصیل کے ساتھ مطالعہ کیا۔ اُس نے پایا کہ ہماری زمین پر بہت سی انواعِ حیات(species) پائی جاتی ہیں، مگر ان کے جسمانی ڈھانچے میں بہت زیادہ مشابہت ہے۔ مثلاً بلّی اور شیر کے ڈھانچے میں مشابہت، بکری اور زرافہ کے ڈھانچے میں مشابہت، انسان اور بندر کے ڈھانچے میں مشابہت، وغیرہ۔ اِن مشابہتوں (similarities) کو لے کر ڈارون نے یہ مفروضہ قائم کیا کہ یہاں نیچرل سلیکشن (natural selection) کے اصول کے تحت، ایک ارتقائی عمل (evolutionary process) ہواہے۔ اِس ارتقائی عمل کے تحت،ایک نوع دوسری نوع میںخود بخود تبدیل ہورہی ہے۔
میں نے کہا کہ اِس معاملے میں ڈارون کی غلطی یہ تھی کہ اس نے مختلف انواعِ حیات کے درمیان اِن مشابہتوں کی غلط توجیہہ کی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ مشابہتیں زندگی میں تنوّع (varieties) کو بتاتی ہیں، نہ کہ مفروضہ ارتقائی عمل کو۔ ہم متنوّع اقسامِ حیات کو دیکھ رہے ہیں۔ اِس لحاظ سے تنوع کا نظریہ اپنے آپ ثابت شدہ ہے۔ اِس کے مقابلے میں ارتقائی عمل کا تصور محض ایک قیاس ہے، جس کے حق میںکوئی واقعی ثبوت موجود نہیں۔انھوں نے میری بات سے اتفاق کیا۔
واپس اوپر جائیں

مدرسہ کلچر

مدرسہ کے بارے میں عام طورپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہاں دینی تعلیم ہوتی ہے، مگر زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ مدرسہ مبنی بر اقدار تعلیم (value education) کا ادارہ ہے۔ مدرسہ دراصل اُن قدیم روایات کے تسلسل کا نام ہے، جب کہ تعلیم کا مطلب اخلاقی تعلیم (moral education) ہوتا تھا، جب کہ انسانی اَقدار (human values) کو نصابِ تعلیم کا اہم جز سمجھا جاتا تھا۔
جدید نظامِ تعلیم کے برعکس، مدرسہ میں صرف سبجکٹ پڑھانے کے بجائے کتابوں کے ذریعے مختلف موضوعات کو پڑھایا جاتا ہے۔ اِس طرح اِن مدرسوں میں ابھی تک قدیم کتابوں کی اہمیت باقی ہے۔ قدیم روایات کے مطابق، یہ تمام کتابیں انسانی اقدار اور اخلاقی اصولوں پر مبنی ہوتی ہیں۔ اِس طرح مدارس تعلیم کے ساتھ اخلاقی تربیت کے ادارے بن گئے ہیں۔ اِن مدارس میں سماج کے اچھے شہری تیار کیے جاتے ہیں۔
مدارس کے ماحول میںہمیشہ خدا اور مذہب اور روحانیت کا چرچا رہتا ہے۔ اِس طرح یہ ممکن ہو جاتا ہے کہ مدارس میں تربیت پاکر جو لوگ تیار ہوں، وہ تعمیری سوچ کے حامل ہوں۔ وہ اجتماعی ذمے داریوں کو سمجھیں۔ وہ اپنے آپ کو خدا کے سامنے جواب دہ (accountable) سمجھیں۔ وہ اپنی ذات میں جینے والے نہ ہوں، بلکہ وہ دوسرے انسانوں کا شعور بھی یکساں طورپر رکھتے ہوں۔
مدرسے کے تعلیمی نظام میں مسلسل طورپر حقوق اللہ اور حقوق العباد کی بات دہرائی جاتی ہے۔ یہ دونوں تصور مدرسہ کے پورے نظامِ تعلیم میں براہِ راست یا بالواسطہ طورپر شامل ہیں۔ اِس طرح ہر مدرسہ گویا کہ ایک ایسا ادارہ بن جاتا ہے، جو فنّی تعلیم کے ساتھ انسانی اور اخلاقی کلچر کا مرکزہو۔ یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ موجودہ زمانے میں قدیم اخلاقی روایات کا تسلسل جن اداروں کے ذریعے قائم ہے، وہ یہی مدرسے ہیں۔ یہ مدرسے قدیم اخلاقی چراغ کو موجودہ زمانے میں بھی جلائے ہوئے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

مسجدوار دعوت

ایک سیّاح نے لکھا ہے کہ میںنے دنیا بھر میں مختلف ملکوںکا سفر کیا۔ میںنے پایا کہ دوسری قوموں کے لوگ جہاں جہاں گئے، وہاں انھوں نے بڑے بڑے قلعے بنائے، لیکن مسلمان جب عرب سے نکل کر دنیا کے مختلف ملکوں میں داخل ہوئے تو انھوںنے ہر جگہ مسجدیں بنائیں۔ یہ مسجدیں گویا کہ اسلام کے مراکز ہیں۔ اسلام کی حیثیت ایک غیر سیاسی ایمپائر کی ہے، اور یہ مسجدیں گویا کہ عالمی سطح پر قائم اِس غیر سیاسی ایمپائر کی شاخیں ہیں جو ساری دنیا میں تقریباً ہر شہر اور ہر بستی میں موجود ہیں۔
یہ مسجدیں ایک اعتبار سے اسلام کی عبادت گاہیں ہیں، دوسرے اعتبار سے یہ مسجدیں اسلام کے دعوتی مراکز ہیں۔ اِن مسجدوں کے ذریعے جس طرح عالمی سطح پر نماز کا نظام قائم ہے، اِسی طرح اِن مسجدوں کے ذریعے اسلام کی عالمی دعوت کو منظم کیا جاسکتا ہے۔ خاص طورپر جمعہ اور عیدین کا دن اِس مقصد کے لیے بہت زیادہ موزوں ہے۔ اِن دنوں میں مسلمان بڑی تعداد میں اِن مسجدوں میں اکھٹا ہوتے ہیں۔ اِسی کے ساتھ عالمی سیّاح (tourists) بھی اپنے سفر کے دوران اِن مسجدوں میںبرابر آتے رہتے ہیں۔ اِن لوگوں کے ذریعے اسلام کی دعوت تیزی سے عالمی سطح پر پھیل سکتی ہے۔
دعوت، اہلِ ایمان پر اُسی طرح فرض ہے، جس طرح نماز اُن کے اوپر فرض ہے (البقرۃ: 143)۔ مسجد اِن دونوں فرائض کی ادائیگی کے لیے فطری مرکز کی حیثیت رکھتی ہے۔
اِس مقصد کے لیے اسلامی مرکز نے اور گڈ ورڈ (Goodword) نے اور سی پی ایس انٹرنیشنل (نئی دہلی) نے بڑی تعداد میں پمفلٹ اور بروشر خوب صورت انداز میں چھپوائے ہیں۔ اِن میں اسلام کی تعلیمات کو سادہ اور عصری اسلوب میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ پمفلٹ اور بروشر اردو اور ہندی اور انگریزی زبان میں بڑی تعداد میں دستیاب ہیں۔ مسجدوں کے امام اِس دعوتی مہم میں نہایت آسانی کے ساتھ شریک ہوسکتے ہیں۔ وہ اِس لٹریچر کو منگواکر اپنے یہاں رکھیں اور آنے جانے والے لوگوں کے درمیان اُن کو تقسیم کریں۔ اِس طرح مسجدوں کے امام بیک وقت دو کام کرسکتے ہیں— نماز کی امامت، اور دعوتِ اسلامی کی اشاعت۔
واپس اوپر جائیں

عقل اور جذبات

موجودہ دنیا میں کسی کام کے بننے یا بگڑنے کا اصول صرف ایک ہے۔ جو کام عقلی طورپر غور وفکر کے ذریعے کیا جائے، وہ ہمیشہ کامیاب ہوتا ہے اور جو کام جذباتی ردّ عمل کی صورت میں کیا جائے، اُس کا نتیجہ ہمیشہ ناکامی کی صورت میں نکلتا ہے۔ عقلی غور وفکر کے ذریعے کیے ہوئے کام کو مثبت عمل کہہ سکتے ہیں، اور جذبات کے تحت کیے ہوئے کام کو منفی عمل۔
موجودہ دنیا میں ہمیشہ ایسے واقعات پیش آتے ہیں، جب کہ آدمی کے اندرمنفی جذبات بھڑک اٹھتے ہیں۔ مثلاً غصہ، حسد لالچ اور گھمنڈ، وغیرہ۔ یہ جذبات فوری طور پر آدمی کو شدت کے ساتھ متاثر کرتے ہیں۔ آدمی اگر اِس شدتِ تاثر کے تحت کوئی کام کرنے لگے، تو اِسی کا نام جذبات کے تحت کام کرنا ہے۔ ایسا کام کبھی باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت نہیں ہوتا۔ اُس میں حالات کا پورا جائزہ نہیں لیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ اِس طرح کا کام ہمیشہ بے نتیجہ انجام پر ختم ہوجاتا ہے۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ جب آدمی کے اندر جذبات بھڑکیں، وہ کسی صورتِ حال کے نتیجے میںشدت تاثر میں مبتلا ہو، تو وہ فوری طورپر کوئی کارروائی نہ کرے۔ وہ صبر تحمل کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے معاملے کے تمام موافق پہلوؤں اور ناموافق پہلوؤں پر غور کرے۔ وہ اپنی عقل کو استعمال کرے اور دوسرے صاحب الرّاے لوگوں سے مشورہ کرے۔ اِس طرح کے ایک صابرانہ کورس سے گزرنے کے بعد وہ اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرے۔
پہلا طریقہ گویا کہ اندھیرے میں چھلانگ لگانے کا طریقہ ہے۔ اور دوسرا طریقہ روشنی میںاپنا سفر طے کرنے کاطریقہ۔ تجربہ بتاتا ہے کہ اندھیرے میں چھلانگ لگانا ہمیشہ آدمی کو ہلاکت تک پہنچاتا ہے۔ اور روشنی میں سفر کا طریقہ ہمیشہ آدمی کو کامیابی تک پہنچانے کا ذریعہ بنتا ہے۔عقل اور جذبات دونوں فطری طور پر انسان کے اندر موجود ہیں، مگر عقل کی حیثیت رہ نماکی ہے، اور جذبات کا کام یہ ہے کہ وہ عقل کی رہ نمائی میں زندگی کا سفر طے کرے۔ جذبات کو اگر رہ نما کی حیثیت دے دی جائے تو اس کا انجام تباہی کے سوا اور کچھ نہیںہوسکتا۔
واپس اوپر جائیں

مسئلہ نہیںحل

ایک بار میں ایک فیکٹری کو دیکھنے کے لیے گیا۔میں اس کے مینیجر کے آفس میں بیٹھا ہوا تھا۔ اِس اثنا میں فیکٹر ی کا ایک کارکن کمرے میں داخل ہوا۔ اُس نے کہا: سر، پانی کی سپلائی رک گئی ہے۔ ہمارا کام بند ہوگیا ہے۔ مینجر نے یہ بات سنی تو اس نے تقریباً چیخ کر کہا: پرابلم مت لاؤ، سلیوشن لاؤ۔ کارکن واپس گیا اور کچھ دیر کے بعد دوبارہ واپس آیا۔ اس نے کہا کہ میںنے ساتھیوں سے مشورہ کیا، سب کا کہنا یہ ہے کہ کارپوریشن کے واٹر سپلائی کے بجائے، یہاں بورِنگ کرکے خود اپنا پانی کا انتظام ہونا چاہئے۔ اِس کے بعدمینیجر نے ٹیلی فون اٹھایا اور کسی ٹھیکے دار سے کہا کہ ہماری فیکٹری میں بورنگ کی ضرورت ہے۔ آپ آج ہی اُس کا کام شروع کردیں۔ اگلے دن فیکٹری میں پانی کا ذاتی انتظام ہوچکا تھا۔
یہی کام کا صحیح طریقہ ہے۔ اگر آپ کسی ادارے سے وابستہ ہیں، یا آپ کسی کمپنی میں کام کررہے ہیں تو آپ کو جاننا چاہیے کہ آپ کا کام شکایت کرنا نہیں ہے، بلکہ مسئلے کا حل تلاش کرنا ہے۔ آپ ذمے داروں کے پاس نہ شکایت لے جائیے اور نہ احتجاج۔ آپ ان کو بتائیے کہ مسئلے کا حقیقی حل کیا ہے۔ اور پھر آپ ادارے کے ایک مطلوب شخص بن جائیں گے۔
اگر آپ کسی ادارے سے وابستہ ہیں اور آپ وہاں کسی بات کو لے کر شکایت کرتے ہیں، تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ آپ وہاں ایک غیر جانب دار شخص بن کر رہ رہے ہیں۔ لیکن جب آپ مسئلے کا حل بیان کریں، تو آپ ادارے کے ایک مطلوب شخص بن جاتے ہیں۔ اب ادارہ آپ کو غیر کی نظر سے نہیں دیکھے گا، بلکہ اپنی تنظیم کے ایک فرد کی حیثیت سے دیکھے گا۔ یہی زندگی کا صحیح طریقہ ہے۔ اِسی طریقے میںآپ کی اپنی کامیابی بھی ہے، اور ادارے کی کامیابی بھی۔
کامیاب زندگی کا راز یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو دوسروں کی ضرورت بنادے۔ وہ دوسروں کے لیے سرمایہ (asset) بن جائے، نہ کہ بوجھ (liability) ۔ یہی اِس دنیا میں کامیابی کا واحد طریقہ ہے۔ اِس کے سوا اِس دنیا میں کامیابی کا کوئی اور طریقہ نہیں۔
واپس اوپر جائیں

مقابلے کی دنیا

ایک ہندستانی نوجوان بزنس کے لیے باہر کے ایک ملک میں گئے۔ یہ بیرونِ ملک کے لیے ان کا پہلا سفر تھا۔ دو ہفتے کے بعد وہ اپنے سفر سے واپس آئے۔ میںنے پوچھا کہ آپ نے اپنے اِس بیرونی سفر میں سب سے بڑا تجربہ کیا حاصل کیا۔ انھوں نے ایک لمحہ سوچا اور اس کے بعد کہا— یہ کہ آج کی دنیا میں انا کے لیے کوئی جگہ نہیں:
Ego has no place in the world.
یہ بے اہم بات ہے۔ ایک آدمی جب پیدا ہوتا ہے تو وہ اپنے گھر کے ماحول میں لاڈ پیار (pampering) کے ماحول میں رہتا ہے۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ گھر کے اندر اس کی شخصیت ہی مرکزی شخصیت ہے۔ دوسرے لوگ وہی کرتے ہیں جو وہ چاہے۔ گھر کے ماحول میں اس کی انا (ego) ہی مرکزی شخصیت کا درجہ رکھتی ہے۔
لیکن جب وہ گھر سے باہر نکلتا ہے تو اچانک اس کو محسوس ہوتا ہے کہ یہاں بالکل مختلف ماحول ہے۔ یہاں مکمل طورپر مقابلہ اور مسابقت (competition) کا ماحول ہے۔ یہاں جو کچھ کسی کو ملتا ہے، وہ اُس کے ذاتی جوہر (merit) کی بنیاد پر ملتا ہے۔ انسان کے ذاتی جوہر کے سوا، کسی اور چیز کی یہاںکوئی قیمت نہیں۔ باہر کی دنیا مکمل طورپر اِس اصول پر قائم ہے— مقابلہ کرکے جیو، یا مر جاؤ:
Compete, or perish
یہ زندگی کی ایک سنگین حقیقت ہے۔ اِس دنیا میں ہر عورت اور ہر مرد کو اِس سے سابقہ پیش آتا ہے۔ ماں باپ کی سب سے بڑی ذمے داری یہ ہے کہ وہ اپنی اولاد کو اِس آنے والے امتحان کے لیے تیار کریں۔ اِس معاملے میںکوئی بھی دوسری چیز ذاتی تیاری (self-pereparation) کا بدل نہیں بن سکتی۔
ذاتی تیاری ہی وہ چیز ہے جو کسی آدمی کو مقابلے کی اِس دنیا میں کامیاب بنا سکتی ہے۔ موجودہ دنیا حقائق کی بنیاد پر چل رہی ہے۔ ایسی حالت میں کسی غیر حقیقی بنیاد پر کامیابی کا حصول اِس دنیا میں ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں

زندگی کا فارمولا

انسان کے لیے زندگی کا کامیاب فارمولا صرف ایک ہے، اور وہ یہ ہے — آخرت کے لیے غم، اور دنیا کے لیے بے غم۔ یہی انسان کے تمام معاملات کا خلاصہ ہے۔ یہی واحد طریقِ زندگی (way of life) ہے جس میں انسان اپنے لیے سکون پاسکتاہے۔
انسان کے اندر پیدائشی طورپر طلب کا جذبہ پایا جاتا ہے۔ انسان اپنی پوری ساخت کے اعتبار سے چاہتا ہے کہ کوئی چیز ہو جس کو وہ اپنا اصل کنسرن (sole concern) بنائے، جس کے حصول کے لیے وہ اپنا سارا وقت اور اپنی ساری توانائی (energy)صرف کرے۔ یہ انسان کی فطرت کا تقاضا ہے، اور کوئی بھی شخص اِس فطری تقاضے سے خالی نہیں۔
انسان جب پیدا ہو کر اس دنیا میں آتا ہے تو وہ دیکھتا ہے کہ اس کے گرد و پیش ایک مادّی دنیا (material world)پھیلی ہوئی ہے۔ ہر آدمی اِس مادّی دنیا کے حصول کو اپنا کنسرن بنائے ہوئے ہے۔ وہ اُس کے حصول کے لیے رات دن کوشش کررہا ہے۔ اِس ماحول میں ہر پیدا ہونے والا آدمی وہی کرنے لگتا ہے جو دوسرے عورت اور مرد کررہے ہیں۔
مگر اِس کا نتیجہ کیا ہے۔ ہر آدمی ساری جدوجہد کے باوجود اپنے مطلوب کو حاصل نہیں کرپاتا اور مایوسی (despair) کے احساس میں مرجاتا ہے۔ اِس دنیا میںبیماری، حادثہ ، بڑھاپا، نقصانات اورموت، فیصلہ کُن طورپر اِس راہ میں رکاوٹ ہیں کہ آدمی اِس دنیا میں اپنی طلب کی تکمیل کرسکے۔
یہ عمومی نتیجہ ہر عورت اور مرد کے لیے ایک رہ نما واقعہ ہے۔ یہ نتیجہ بتاتا ہے کہ فطرت کی طلب کی تکمیل (fulfillment) موجودہ دنیا میں ممکن نہیں، اس کے حصول کا مقام آخرت ہے جو موت کے بعد آنے والی ہے۔ ایسی حالت میں انسان کے لیے کامیابی کا فارمولا صرف یہ ہے کہ وہ آخرت کو اپنا سپریم کنسرن بنائے، اور موجودہ دنیا کے معاملے میں وہ بقدر ضرورت پر راضی ہوجائے— دنیا میں بقدر ضرورت پر راضی ہوجانا، اور آخرت کو اپنا سپریم کنسرن بنا لینا، یہی اِس دنیا میں کامیاب زندگی کا فارمولا ہے۔
واپس اوپر جائیں

سوال وجواب

سوال
الرسالہ، مارچ 2008 ملا۔ یوں تو میں الرسالہ کا دس سال سے زائد مدت سے مطالعہ کرتا آرہا ہوں اور ہر مضمون سے الحمد للہ نفع حاصل ہوتا ہے، لیکن اِس ماہ کے الرسالہ میں مضمون ’’جھوٹ کی دو قسم‘‘ ایک چشم کشا (eye opener) مضمون ثابت ہوا۔ اِس مضمون کو پڑھ کر ایسا معلوم ہوا کہ گویا اب تک اپنی زندگی کا بہت بڑا حصّہ میں نے جھوٹ کی بنیاد پر قائم کررکھا تھا۔ اللہ آپ کو اِس نصیحت اور خیر خواہی کے لیے جزائے خیر عطا فرمائے۔اس مضمون کے مطالعہ کے بعد اب میری کوشش ہے کہ میں ہر حال میں کذبِ خفی سے بچوں۔ اللہ سے اس کے لیے دعا بھی کرتا ہوں۔
مضمون کے آخری حصہ، جس میں کذب خفی کا انجام، کمزور شخصیت، کی شکل میں ظاہر ہونا لکھا گیا ہے،اس نے بھی خاص طورپر متاثر کیا۔ ابھی تک منافقانہ شخصیت کا جو تصور ذہن میں بناہوا تھا، اس کے اندر کافی تبدیلی آگئی۔ کذب خفی بھی منافقانہ شخصیت کی پرورش کرتا ہے، اس کا علم پہلی بار ہوا۔ اب تو میں سمجھتا ہوں کہ کذب خفی سے بچنا فرض کے درجہ میں ضروری ہوگیاہے ،جس طرح ہر ایمان والے کے لیے منافقانہ صفات سے بچنا فرض کے درجہ میں ضروری ہے (ساجد انور، مہاراشٹر)۔
جواب
حدیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ شرک کی دو قسمیں ہیں—شرکِ جَلی اور شرکِ خفی۔ اِس پر قیاس کرکے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اِسی طرح کذب کی بھی دو قسمیں ہیں— کذبِ جلی، اور کذبِ خفی۔ جہاں تک کذبِ جلی کا معاملہ ہے، وہ ایک معلوم بات ہے۔ ہر آدمی بہ آسانی یہ سمجھ سکتا ہے کہ کون سا بیان کذبِ جلی کی تعریف میں آتا ہے۔ البتہ کذبِ خفی کو صرف سنجیدہ غور وفکر کے ذریعے معلوم کیا جاسکتا ہے۔
کذبِ خفی تقریباً وہی چیز ہے جس کو ٹو ِسٹ (twist) کرنا کہتے ہیں، یعنی بات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا۔ یہ عمل آدمی خاص طورپر دو مقصد سے کرتا ہے۔ کسی معاملے میں جب آدمی کی اپنی ذات زد میں آرہی ہو، تو وہ بات کو اِس طرح پیش کرتا ہے کہ اس کی اپنی ذات پر کوئی حرف نہ آئے۔ اِسی طرح جب ایک آدمی دوسرے شخص کو بدنام کرنا چاہے، تو وہ اس کی بات کو صحیح صورت میں نہ پیش کرکے، بدلی ہوئی صورت میں پیش کرتا ہے۔ جیسے کہ کہاجاتا ہے — اخبار نے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا:
The newspaper was accused of twisting the facts.
ٹوسٹ کرکے بات کو پیش کرنے کا طریقہ موجودہ زمانے میں اتنا زیادہ عام ہوچکا ہے کہ شاید ہی کوئی انسان اِس برائی سے بچا ہوا ہو۔
اِس معاملے کوجاننے کا سب سے زیادہ آسان طریقہ یہ ہے کہ آدمی خود اپنے ضمیر (conscience) سے اِس کو دریافت کرے۔ کوئی عورت یا مرد جب کسی بات کو ٹوسٹ کرکے کہتے ہیں، تو ان کا ضمیر فوراً اس کی خلش محسوس کرنے لگتا ہے۔ ضمیر اپنی خاموش زبان میں کہتا ہے کہ تم اِس معاملے میں صاف گوئی سے کام نہیں لے رہے ہو، بلکہ تم اس کو بدلی ہوئی صورت میں پیش کررہے ہو۔ آدمی اگر اپنے ضمیر کی اِس آواز کو سنے، تو یہ آواز ہی اِس معاملے میں اس کی اصلاح کے لیے کافی ہوجائے۔
سوال
میںالرسالہ کا پچھلے 5-6 سال سے مسلسل مطالعہ کررہا ہوں اور الرسالہ کی ہر بات سے اتفاق رکھتا ہوں۔ الرسالہ میںاسلامی تعلیمات کو اِس انداز میں بیان کیا جاتا ہے کہ وہ پڑھنے اور سننے والے کے مائنڈ کو ایڈرس کرتی ہیں۔ یہ طریقہ کہیں اور دیکھنے اور سننے میں نہیںآتا۔ میں شروع میں تبلیغی جماعت سے جڑا تھا اور 4-5 بار 3-3 دن بھی لگایا۔ لیکن اس کے بعد جب الرسالہ مجھے ملا اور میں نے اس کو پڑھنا شروع کیا تو میری سوئی ہوئی فطرت جاگ اٹھی۔ یہ تجربہ مجھے جماعت میں جانے سے نہیں ہوا تھا۔ تبلیغی جماعت میں دین کے صرف ظاہری فارم کو بنانے کی بات پر زور دیا جاتا ہے، نہ کہ اندرونی انسان سازی پر۔ پہلے میں یہ سمجھتا تھا کہ یہ طریقہ امت کے عوام طبقہ کے لیے درست ہوسکتا ہے، جس کو سرے سے اس بات کا علم ہی نہیں کہ دین کیا ہے، خدا، رسول اور آخرت کیا ہے۔ لیکن اب میری سمجھ میں یہ بات آئی ہے کہ عوام ہوں یا خواص، تبلیغی جماعت میں جڑنے کے بعد مسلمان ذہنی جمود کا شکار ہو جاتا ہے۔ وہ اپنے سے باہر کسی بات پر سوچنے اور سمجھنے کے قابل نہیں رہتا۔ اِس لیے کہ اس میں کچھ گنی چنی باتوں کو دہرایا جاتا ہے اور خالص روایتی انداز میں بات کہی جاتی ہے، بنا کسی دلیل کے۔
میرے محلّے کا واقعہ ہے۔ ایک صاحب نے بتایا کہ کچھ دنوں پہلے میری بیٹی کے گھرڈلیوری ہونے والی تھی، میرے داماد پرمحلے کی جماعت کے ساتھیوں نے چار مہینہ جماعت میں لے جانے کے لیے زور دیا۔ اس پر میں نے یہ بات جماعت والوںکو بتائی تو انھوں نے کہا کہ سب اللہ اچھا کرے گا۔ ایسا کہہ کر وہ اس کو اپنے ساتھ لے گئے۔ کچھ دنوںبعد میری لڑکی کی طبیعت خراب ہوگئی۔پھر میں اس کو اپنے گھر لایا اور اسپتال میں بھرتی کرایاجس میں مجھے قریب 17000 روپئے کا خرچ اٹھانا پڑا۔ نہیں تو میری بچّی کی جان خطرے میں تھی۔
یہ بات جب میںنے اپنے داماد کو جماعت سے واپس آنے پر بتائی تو وہ میرا احسان ماننے کے بجائے مجھ سے جھگڑا کرنے لگے اور 17000میں سے ایک پیسہ بھی مجھے نہیںدیا۔ تب سے مجھے جماعت کے نام سے نفرت ہوگئی ہے۔یہ بات مذکورہ صاحب نے مجھے اُس وقت بتائی جب میں نے ان سے فجر کی نماز کے بعد مسجد سے باہر نکلتے وقت پوچھا کہ آج کل آپ تعلیم میں کیوں نہیں بیٹھتے۔ اسی طرح کے اور بھی واقعات ہیں۔
اصل یہ ہے کہ تبلیغی جماعت میں بھیڑ دیکھ کر آدمی اُس سے جڑ تو جاتا ہے لیکن وہ خدا کی معرفت اور دین کی حقیقت سے ہمیشہ بے خبر رہتا ہے۔ الرسالہ پڑھنے کے بعد جب میرے اندر صحیح طرز فکر پیدا ہوا تو میں نے ان حضرات سے کہا کہ آپ لوگ صبح شام ایک ہی کتاب پڑھتے رہتے ہیں اور وہ فضائل اعمال ہے۔ اور بات کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کی۔ حالاں کہ آپ کا طریقہ تو یہ تھا کہ آپ لوگوں کو قرآن پڑھ کر سناتے تھے اور قر آن سے ہی دعوت دیتے تھے، جب کہ ان کی مخاطب قوم تو جہالت کی حد پر تھی۔ پھر جب وہ قوم قرآن کے ذریعے ہمارے لیے نمونہ بنا دی گئی تو ہمیں جھوٹے فضائل کی ضرورت کیوں پڑ رہی ہے۔ جس دین میں خدا کی کتاب ہی کاوجود نہیں، وہ دین کیسا۔
میری اس بات کا ان کے پاس کوئی جوا ب نہیں تھا۔ لہذا وہ کسی مفتی سے یہ جواب لے کر آئے کہ قرآن کو صرف علماء ہی سمجھ سکتے ہیں، عام مسلمان اس کو پڑھنے سے بھٹک سکتا ہے۔ اس طرح کی باتوں سے جماعت کے آدمی کا ذہن ایسا ہوجاتا ہے کہ وہ خود کسی بات پر کھلے ذہن کے ساتھ سوچ نہیں پاتا۔ بس ایک بات یا جملہ ان کے بڑوں نے کہہ دیا تو وہ پتھر کی لکیر ہوگئی، صحیح ہے یا غلط اس پر کسی کو عقل لگانے کی ضرورت نہیں۔
میرے ساتھ اللہ کا یہ بڑا احسان ہوا جو اس نے مجھے الرسالہ کے ذریعہ اس گمراہی سے باہر نکال لیا۔اب میرے ساتھ یہ معاملہ ہوگیا ہے کہ نہ صرف میںخود الرسالہ پڑھتاہوں،بلکہ الرسالہ کی اردو اور انگریزی کاپیاں اپنے ساتھ بیگ میں ہمیشہ رکھتا ہوں اور اپنے آفس میں، اور دوستوں کو پڑھنے کے لیے دیتا رہتا ہوں۔ ابھی فی الحال میںنے ایسا کیا ہے کہ میں اپنے رشتہ داروں کے ایڈرس الرسالہ آفس میں ڈی ڈی کے ساتھ بھیجنا شروع کیا ہے اور ایک سال کا الرسالہ مذکورہ لوگوں کے لیے جاری کرایا ہے۔ الرسالہ کے ساتھ ساتھ آپ کی ساری کتابیں بھی میں مسلسل پڑھ رہا ہوں اور اس سے مجھے غیر معمولی فائدہ حاصل ہورہا ہے۔
میرے ذہن میں کچھ سوالات تھے جو مسلسل الرسالہ اور آپ کی کتابوں کا مطالعہ کرنے سے دور ہوگئے۔ لیکن ایک غلطی کی تلافی کے لیے آپ کی مدد چاہتا ہوں۔ وہ یہ کہ میری شادی 2004 میں ہوئی، اس میں میری سسرال والوں نے مجھے کافی جہیز دیا جس میں دوسری چیزوں کے ساتھ10 تولا سونا بھی موجود ہے۔ اس وقت تو میں نے ان کو منع کیا تھا کہ آپ یہ سب چیزیں نہ دیں، لیکن وہ نہیں مانے۔ ظاہر ہے کنڈیشنڈ مائنڈ ہونے کی وجہ سے انھوں نے ایسا کیا اور میں بھی یہ سارا سامان لے کر گھر چلا آیا۔ اب جیسا کہ آپ کی تحریریں مسلسل پڑھنے سے میری ڈی کنڈیشننگ ہورہی ہے تو خدا کی پکڑ اور آخرت کے ڈر سے میں یہ سوچ کر پریشان ہورہا ہوں کہ یہ چیز کہیں آخرت میں گھاٹے کا سبب نہ بن جائے۔ آپ مہربانی کرکے مجھے بتائیں کہ کیا مجھے اس کی رقم اپنے سسر کو واپس کرنا چاہیے یا پھر اس کی اور کوئی دوسری صورت ہے جس سے اس کی تلافی ہوسکے۔
قرآن میںجو خدا کی عظمت اور اس کے جلال کا، جنت کا، جہنم کا، قیامت کی ہولناکی کا ذکر ہے، اس کو پڑھنے کے بعد میں زیادہ تر اسی کے بارے میں سوچتا رہتاہوں۔ کبھی کبھی تو میں آفس میں کام کرتا رہتا ہوں اور پھر اچانک مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ کہیں میں اپنا زیادہ وقت تو دنیا کمانے میں نہیں لگا رہا ہوں۔ یہ سوچتے ہوئے میں کام کرتے کرتے رک جاتا ہوں اور اِس پر دیر تک بیٹھا سوچتا رہتاہوں۔ یہ معرفت مجھے الرسالہ کے ذریعہ ہی سے حاصل ہوئی ہے۔
میں2003 میں آپ سے آپ کی رہائش گاہ پر ملاتھا۔ میں نے الرسالہ میں جو کچھ پڑھا تھا، آپ کی شخصیت میں اس کو عملاًویسا ہی پایا۔ جس سنجیدگی کی بات آپ کرتے ہیں وہ آپ کے چہرے پر صاف دکھائی دیتی ہے۔ آپ سادگی اور سنجیدگی کی ایک مثال ہیں جو اسی آدمی کی اصلاح کا ذریعہ بنے گی جس کے اندر حقیقت پسندی والا ذہن ہو، جو باتوں کو اپنے ذاتی خول سے باہر نکل کر صرف اصول کی بنا پر حقیقت پسندانہ انداز میں سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہو (شکیل احمد، اندور)۔
جواب
1 - تبلیغی جماعت کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس کے ذمے داروں نے عوام کے اندر دینی شوق پیدا کرنے کے لیے اس کام کو شروع کیا۔ انھوںنے محسوس کیا کہ عوام زیادہ گہری باتوں کو سمجھ نہیںسکتے، اِس لیے انھوںنے فضائل کی روایات کے اوپر اپنی تحریک کی بنیاد رکھی۔
عوام کی اصلاح کے اعتبار سے یہ طریقہ مفید ہوسکتا ہے، لیکن بعد کو یہ ہوا کہ تبلیغ کے ذمّے داروں نے اپنے طریقِ کار کو بدلے بغیر، خواص کو اپنے دائرۂ عمل میں شامل کرلیا۔ تبلیغی جماعت کی یہ توسیع الٹا نتیجہ پیدا کرنے کا سبب بن گئی۔ کیوں کہ فضائل کی روایتیں عوام کو متاثر کرسکتی تھیں، لیکن خواص کا ذہن اس سے ایڈریس نہیں ہوتا تھا۔ چناں چہ خواص، تبلیغی جماعت سے قریب ہونے کے بعد جلد ہی اس سے دور ہونے لگے۔
خواص کی یہ دوری سادہ طور پر تبلیغ سے دوری نہ تھی، بلکہ عملاً وہ دین سے دوری کا سبب بن گئی۔ خواص یہ سمجھنے لگے کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو عوام کی ضرورت کو تو پوری کرتا ہے، لیکن اس میں خواص کے لیے اطمینان کا سامان نہیں۔ دہلی کے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمان جو پہلے تبلیغی جماعت سے قریب ہوئے تھے اور پھر وہ دل برداشتہ ہوکر اُس سے دور ہوگئے۔ انھوںنے اِس معاملے کو بتاتے ہوئے یہ بامعنیٰ جملہ کہا— تبلیغ والوںنے پہلے میواتیوں کو مسلمان بنایا، اب وہ مسلمانوں کو میواتی بنا رہے ہیں۔
2 - جہیز کے سلسلے میں عرض ہے کہ شادیوں میں جہیز کاموجودہ طریقہ بلاشبہہ ایک بدعت ہے۔ اِس اعتبار سے جہیز کے رواج کو ختم کیا جانا چاہیے۔ لیکن ملے ہوئے جہیز کا معاملہ اِس سے الگ معاملہ ہے۔ اس کی واپسی کی ضرورت نہیں۔ البتہ اگر ممکن ہو تو آپ اس کو کسی تعمیری کام میںاستعمال کریں۔ مثلاً اپنے لیے گھر بنانا، وغیرہ۔
سوالات کے سلسلے میں ایک اصولی بات یہ سمجھ لیجیے کہ ایک صحابی کہتے ہیں: نُہینا عن کثرۃ السؤال ( صحیح البخاری، کتاب الرّقاق) یعنی ہم کو زیادہ سوال کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ ایسا کیوں ہے۔ اِس لیے کہ سوال کرنا اِس بات کی علامت ہے کہ آدمی خود غور و فکر کرنے کے بجائے کسی دوسرے سے اپنے سوال کا جواب معلوم کرنا چاہتا ہے۔ آپ مطالعہ کیجیے اور سوچنے کی عادت ڈالیے، اور کامن سنس (common sense)استعمال کیجیے، آپ کو خود ہی اپنے سوال کا جواب معلوم ہوجائے گا۔
سوال
علوم قطعیہ نے کلّی طورپر یہ ثابت کردیا ہے کہ صرف دماغ ہی تمام جذبات و احساسات اور غور وفکر کا مرکز ہے۔ جب کہ ہم اب بھی ایک خاص طریقے پر کچھ مخصوص کلمات کا ورد کرکے قلب پر ضرب لگاکر تطہیر قلب کا دعویٰ کرتے ہیں اور بشمول افرادِ خانہ، محلے کے لوگوں کی نیند خراب کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ اس کے بجائے جدید منطق کے پیش نظر، تطہیر دماغ کے لیے آپ ہیمرنگ (hammering) کا نظریہ پیش کرتے ہیں۔ اس کا طریقۂ کار کیا ہو، اس کی وضاحت فرمائیے (محمد جمیل اختر، کشن گنج، بہار)۔
جواب
ذکر بالجہر کا فلسفہ یہ ہے کہ آدمی کا دل اس کے تمام احساسات کا مرکز ہے،بُرے احساسات کا بھی اور اچھے احساسات کا بھی۔ کوئی آدمی جب بلند آواز سے لاإلٰہ کہہ کر اپنے دل پر ضرب لگاتا ہے، تو اس کے دل سے تمام بُرے احساسات نکل جاتے ہیں۔ اور پھر جب وہ بلند آواز سے إلاّ اللہ کہہ کر دوبارہ اپنے دل پر ضرب لگاتا ہے، تو اس کا دل تمام اچھے احساسات سے بھر جاتا ہے۔قدیم ر وایتی دور میں ایک مفروضہ کے طورپر اِس کو مان لیا گیا تھا، لیکن موجودہ سائنسی دور میں یہ نظریہ بے بنیاد (baseless)ثابت ہوچکا ہے۔ اب دل پر ضرب لگانا، ٹھیک ویسا ہی ہے جیسے ہاتھ کی ہتھیلی پر ضرب لگانا۔
دین میں تزکیہ بلا شبہہ ایک مطلوب عمل ہے۔ تزکیہ کا یہ عمل ذہن کی سطح پر انجام پاتا ہے۔ کیوں کہ انسان کا ذہن ہی ہر قسم کے افکار اور احساسات کا مرکز ہے۔ ایک حدیث کے مطابق، ہر انسان اپنے ماحول سے اثر قبول کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ اُسی میں آدمی کے ذہن کی کنڈیشننگ (conditioning) ہوجاتی ہے۔ ایسی حالت میں تزکیہ کا صحیح آغاز یہ ہے کہ اِس ذہنی کنڈیشننگ کو ’’ضرب‘‘ کا موضوع بنایا جائے، یعنی فکری ضرب (intellectual beating) کے ذریعے اپنے کنڈیشنڈ مائنڈ کی ڈی کنڈیشننگ (de-conditioning) کی جائے۔ اِسی فکری ضرب کا دوسرا نام فکری ہیمرنگ (intellectual hammering) ہے۔
سوال
آپ کی مایہ ناز کتاب ’’مسائلِ اجتہاد‘‘ واقعی حکمت کا مخزن ہے۔صفحہ 37 میں مغل بادشاہ اکبر کے موقف تالیفِ قلب کے لیے آپ نے سراہاہے۔ تائید میں ایک اقتباس از سید حسین احمد مدنی بحوالہ مکتوبات شیخ الاسلام (صفحہ 141) بطور دلیل درج ہے، جب کہ اکبر نے جودھا بائی سے مشرکانہ رواج میں شادی کی اور ایک مشرکہ سے نکاح اللہ تعالیٰ نے سختی سے منع فرمایا ہے۔ (البقرۃ:221 ) اتنی اچھی کتاب ہے آپ کی۔ مگر اکبری دین کی حمایت میں یہ کیسا داغ اِس میں موجود ہے (نثار احمد خاں السلفی ،مومن پورہ، ناگ پور)۔
جواب
مذکورہ کتاب میںاکبر کی مثال ایک معیاری مسلمان کی حیثیت سے نہیں دی گئی ہے۔ اِس مضمون کا مقصد اکبر کی مجموعی زندگی پر رائے دینا نہیں ہے، بلکہ اکبر کی زندگی کے صرف ایک مثبت پہلو کو بتانا ہے۔ اوراِس قسم کا مثبت پہلو کسی بھی شخص کی زندگی میں ہوسکتا ہے۔ آپ کا سوال اِس معاملے میں غلو پسندی کی ایک مثال ہے۔ حالاں کہ غلو اسلام میں نہیں (لا غُلوّ فی الإسلام)۔ غلو دراصل انتہا پسندی کا دوسرا نام ہے۔ اور انتہا پسندی ہمیشہ نقصان کا باعث ہوتی ہے۔
ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إنّ اللہ لیؤید ہٰذا الدین بالرّجل الفاجر (صحیح البخاری، کتاب الجہاد)۔ اِس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک شخص اگر کسی پہلو سے ’’فاجر‘‘ ہو، تب بھی وہ کسی اور پہلو سے اسلام کے حق میں تائید کا سبب بن سکتا ہے۔ ہم کو چاہیے کہ اگر کسی آدمی کی زندگی میں کوئی فجور کا پہلو ہو، تو اِس پہلو سے اس کے لیے دعا کریں۔ اور اگر اس کی زندگی میں کسی اعتبار سے کوئی مفید پہلو ہو تو اس کا اعتراف کریں۔ یہی صحیح اسلامی اسپرٹ ہے۔
سوال
عرض خدمت ہے کہ راقم نے ایک نہایت ہی اہم موضوع پر اپنی اولین تحقیقی کتاب بنا م ’’قرآن عظیم کی آفاقیت اور اس کا فلسفہ کائنات‘‘ تصنیف کی ہے، جس کا مسودہ حاضر خدمت ہے۔ جیساکہ سرورق سے عیاں ہے، اس کتاب میں خارج از زمین زندگی اور خود انسان اور کتاب الٰہی کی حقیقت پر جدید قرآنی بصائر کو منکشف کرتے ہوئے عالم انسانی پر قرآن مجید کے عظیم ترین علمی اعجاز کی نقاب کشائی کی کوشش کی گئی ہے۔ اس تحقیق کی عوامی سطح پر اشاعت سے قبل میںاس پر عالمِ اسلام کے چند منتخب اہلِ علم اور علمی و دینی مراکز کے تاثرات حاصل کرنا چاہ رہا ہوں، جن میں آںجناب کا نام نامی بھی شامل ہے۔ لہذا آںجناب سے میری مخلصانہ درخواست ہے کہ موضوع کی اہمیت وافادیت کے پیش نظر اولین فرصت میں اس پر اپنے گراں قدر تاثرات کا اظہار فرمایا جائے (سعید الرحمن ندوی، بنگلور)۔
جواب
آپ کی کتاب (قرآنِ عظیم کی آفاقیت اور اس کا فلسفۂ کائنات) کا مسوّدہ موصول ہوا۔ آپ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ قرآن کی آفاقیت کا تعلق صرف موجودہ زمین پر آباد انسانوں سے نہیںہے، بلکہ اس کا تعلق یکساں طورپر کائنات میں موجود دوسرے سیاروں پر آباد امکانی مخلوقات سے بھی ہے۔ قرآن ان مخلوقات کے لیے بھی کتابِ ہدایت کی حیثیت رکھتا ہے۔ عرض یہ کہ مجھے آپ کے اِس نظریے سے اتفاق نہیں ہے۔ قرآن بلا شبہہ ایک آفاقی کتاب ہے، لیکن اُس کی آفاقیت کا تعلق موجودہ سیّارۂ زمین سے ہے، نہ کہ بقیہ کائنات میں دوسرے مفروضہ سیّاروں سے۔
قرآن کی دعوتِ عام ہمارے اوپر فرض ہے، لیکن اِس کا تعلق موجودہ زمین پر بسنے والے انسانوں سے ہے، نہ کہ کائنات کے کسی اور سیارے پر آباد مفروضہ مخلوقات سے۔ ہمارا فرض یہ ہے کہ موجودہ سیارۂ زمین پر جو انسان آباد ہیں، اُن کو قرآن کا پیغام پہنچائیں، اُن کے لیے قرآن کی دعوت کو قابلِ فہم بنائیں اور اس مقصد کے لیے تمام ضروری وسائل اختیار کریں۔ آپ نے اپنی کتاب میں جو کچھ لکھا ہے، وہ صرف ایک مفروضہ بحث ہے۔ اس کا تعلق نہ ہماری ذمّے داری سے ہے، اور نہ کسی معلوم حقیقت سے۔ میںآپ کو مشورہ دوں گا کہ آپ اپنے نظریات کی بنیاد مسلّمات پر قائم کریں، نہ کہ مفروضات پر۔
آپ کے نظریات کو زیادہ سے زیادہ استنباط کہاجاسکتاہے، لیکن یہ استنباط کوئی معقول استنباط (valid inference) نہیں۔ کیوں کہ اصولِ استدلال کے مطابق، معقول استنباط وہ ہے جوکسی ثابت شدہ حقیقت پر قائم کیاگیا ہو۔ ایک ایسا واقعہ جو خود ثابت شدہ نہ ہو، اس کی بنیاد پر کوئی معقول استنباط نہیں کیا جاسکتا۔
واپس اوپر جائیں

خبر نامہ اسلامی مرکز — 185

1- 06 Feb. 2008
Al-Risala is the only book which gives the life style to all humankind. This is the Great monthly magzine that I read in my life. It provides us the right thought, right direction of life. I pray to God that you continue to go on like. (Rafeeq Ahmad, Canada)
2 - نیشنل بک ٹرسٹ آف انڈیا کے زیر اہتمام پرگتی میدان (نئی دہلی) میں ہر دوسال پر ایک ورلڈ بک فئر لگتا ہے۔ اِس سال یہ بک فئر 2 فروری سے 10 فر وری 2008 تک کے لیے تھا۔ گڈورڈ بکس (نئی دہلی) نے اِس میں اپنا اسٹال لگایا۔ یہ اسٹال اردو اور انگریزی کے دونوں ہال میں لگایا گیا تھا۔ دونوں اسٹال سے لوگوں نے کافی تعداد میں صدر اسلامی مرکز کی کتابیں خریدیں اور بہت کم قیمت پر ہندی اور انگر یزی ترجمۂ قرآن حاصل کیا۔ ہمالین پیس اینڈ ویلفئر ٹرسٹ (راجوری، جمّوں) نے بڑی تعداد میں یہاں سے قرآن خرید کر غیر مسلم حضرات کے درمیان ہدیۃً تقسیم کیا۔ 9 فروری 2008 کو صدر اسلامی مرکز نے بک فئر میں آکر دونوں اسٹال کا معائنہ کیا۔ اِس سے اسٹال پر موجودکارکنان اور سی پی ایس انٹرنیشنل کے ممبران کی کافی حوصلہ افزائی ہوئی۔
3 - ایک خط: برادرم محمد ذکوان ندوی حرّسک اللہ من أعین الحسد! السلام علیکم ورحمۃ اللہ، ماہ نامہ الرسالہ کا تازہ شمارہ (جنوری 2008 ) موصول ہوا۔ بہت بہت شکریہ۔ مزید شکریہ اِس بات کا کہ آپ نے میرے نام ایک سال کے لیے الرسالہ جاری کردیا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کوجزائے خیر عطا فرمائے۔ میں تو زمانہ ٔ طالب علمی سے محترم مولانا وحیدالدین خاں صاحب کی تحریروں کو پڑھتا رہا ہوں۔ میرے دل میںاِن تحریروں کی بہت قدر ہے، میںان کا بہت مداح ہوں۔عصری اسلوبِ نگارش کا مالک یہ مفکر، جدید ہندستان اور عالمِ اسلام میںایک عظیم معمار کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہندستان کے ایک سطحی حلقے نے مولانا کی مخالفت محض اِس بنیاد پر کی ہے کہ یہ شخص عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق کیوں گفتگوکرتا ہے، یا روایتی قسم کے لوگوں کے خاص اندازِ فکر سے ہٹ کر وہ کیوں سوچتا ہے۔ مگر بادِ مخالف، دعوت اور ربانیت کے اِس چراغِ ہدایت کو ہر گز بجھا نہیں سکتی۔ میںذاتی طورپر نہ صرف مولانا کا قائل ہوں بلکہ جدید ذہن کو اسلام کی صداقت پر مطمئن کرنے کے حوالے سے ان کی گراں قدر خدمات کا کھلے دل سے معترف بھی ہوں۔ مولانا سے اِس نیاز مند کا سلام عرض کیجیے۔ خدا آپ کو راہِ دعوت میں ثابت قدم رکھے (مولانا محمد احمد بیگ ندوی، استاد دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ، 22 فروری 2008 )۔
4- 27 Feb. 2008
I am in receipt of your Al-Risala for the month of March 2008 first time. Many many thanks for that. I have gone through the magazine, it's a very good collection of informative articles and very beautiful and effective response to the present problems of the Muslim Ummah. This is the call of the times. even the caption on the front page give us a great food for thought. I hope now insha-Allah we will get Al-Risala regularly. If you need any sort of co-operation from me please do not hesitate to write, I am always at your disposal. Please convey my Salam to your family Members and co-workers. (Muhammad Omer Khan, General Secretary, Bengal Educational & Social Trust, Kolkata)
5 -مسلم یونی ورسٹی (علی گڑھ) میں 22-23 فروری 2008 کو ایک آل انڈیا پروگرام ہوا۔ اِس پروگرام کا عنوان تھا — کا مرشیلائزیشن اور ویلوسسٹم:
Commercialization and Value System.
اِس پروگرام میںشرکت کے لیے صدر اسلامی مرکز کو خصوصی دعوت نامہ موصول ہوا اور کئی ٹیلی فون آئے۔ لیکن بعض وجوہ سے وہ اِس پروگرام میں شریک نہ ہوسکے، البتہ مذکورہ موضوع پر ایک تحریری مقالہ منتظمین کو بھیج دیا گیا۔ یہ مقالہ انگریزی کے گیارہ سو الفاظ پر مشتمل تھا۔
6 - امریکا میں کرسچین بردرس (Christian Brothers) کے نام سے ایک تنظیم قائم ہے۔ اِس تنظیم کے تقریباً 10 افراد 24 فروری 2008 کو اسلامی مرکز (نئی دہلی) میںآئے۔ اِس گروپ کی قیادت ڈاکٹر بنڈیلا (Yesupadam Bandela) کررہے تھے۔ ڈاکٹر بنڈیلا گاسپل ایسوسی ایشن آف انڈیا (Gospel Assocaition) کے صدر ہیں۔ اِن لوگوں نے صدر اسلامی مرکز سے اسلام اور صوفی ازم، اسلام اور امن جیسے موضوعات پر تفصیلی بات کی۔ یہ لوگ بہت مطمئن ہوئے۔ ان کو انگریزی زبان میں اسلامی لٹریچر دیاگیا۔
7 - امریکا میں کرسچن بردرس (Christian Brothers) کے نام سے ایک تنظیم قائم ہے۔ اِس میں اعلیٰ تعلیم یافتہ عیسائی شریک ہیں۔ اِس تنظیم کے 24 سینئر افراد انڈیا آئے۔ 28 فروری 2008 کو وہ اسلامی مرکز میں آئے۔ اُن کے ساتھ کچھ اور افراد بھی شریک تھے۔ یہاں اسلامی مرکز (نئی دہلی) کے آڈی ٹوریم میںصدر اسلامی مرکز سے ملے۔ ان کی فرمائش پر صدر اسلامی مرکز نے یہاںاسلام اور صوفی ازم (Islam and Sufism) کے موضوع پر ایک گھنٹہ تقریر کی۔ اِس کے بعد سوال و جواب ہوا۔یہ پورا پروگرام انگریزی زبان میں تھا۔ آخر میں اُن کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور انگریزی زبان میں چھپا ہوا اسلامی لٹریچر دیاگیا۔پروگرام کے بعد اُن لوگوں نے اپنے گہرے تاثر کا اظہار کیا۔ انھوںنے کہا کہ پہلی بار ہم کو اِس طرح اسلام کا تعارف حاصل ہوا ہے، اِس پروگرام کے بعد اسلام کے متعلق ہماری غلط فہمیاں دور ہوگئیں۔ اب ہم اپنے اپنے مقامات پر اِس لٹریچر کو عام کرنے کی سنجیدہ کوشش کریں گے۔
8 - اسٹار نیوز (Star News) کی ٹیم نے 11 مارچ 2008 کو صدر اسلامی مرکزکاویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ انٹرویور کا نام کمل جیت سندھو تھا۔مسیحی پوپ نے ویٹکن سے ایک بیان جاری کیا ہے، جس میں موجودہ زمانے کی بہت سی چیزوں کو گناہ (sin) قرار دیا ہے۔ مثلاً مووی، وغیرہ۔ اِس سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ اِس قسم کی چیزیں شرعی معنوں میں گناہ نہیں ہیں، لیکن یہ تمام چیزیں ڈسٹریکشن (distraction) کا ذریعہ ہیں۔ اِس اعتبار سے وہ قابلِ ترک ہیں۔ اِس قسم کی چیزیں آدمی کو اس کے اعلیٰ مقصد سے ہٹا دیتی ہیں۔ وہ ٹائم کو برباد کرنے کا سبب بنتی ہیں۔ اِسی ڈسٹریکشن کا نیتجہ ہے کہ موجودہ زمانے میں لوگوں کا انٹلیکچول ڈیولپ منٹ اور اسپریچول ڈیولپ منٹ نہیں ہورہا ہے۔
9 - خدا کے فضل سے الرسالہ مشن اور سی پی ایس انٹرنیشنل کے ذریعے مسلسل طورپر دعوت الی اللہ کا کام نہایت تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ اِس سلسلے میں ایک واقعہ مارچ 2008 میں سامنے آیا ہے۔ اس کو یہاںنقل کیا جارہا ہے۔ بنگلور میں الرسالہ کے دعوتی حلقے سے جڑے ہوئے ایک ساتھی نے یہ طے کیا کہ وہ مختلف شہروں میں جاکر الرسالہ کا دعوتی لٹریچر پھیلائیں۔ اِس سلسلے میں انھوںنے مقامی حلقے کے ایک ساتھی سے کہا کہ آپ ہمارے لیے ایک سکنڈ ہینڈ کار (van) کا انتظام کردیں، تاکہ میں اُس پر دعوتی میٹریل رکھ کر اس کے ذریعے مختلف شہروں کا سفر کروں، اور وہاں پر آبادانسانوں تک خدا کا پیغام پہنچاؤں۔ مذکو رہ ساتھی نے جب یہ بات سنی، تو وہ بہت غصہ ہوئے۔ انھوںنے کہا— اپنے لیے نئی کار اور خدا کے کام کے لیے سکنڈ ہینڈ کار۔ نہیں ایسا نہیں ہوسکتا۔ اِس کے بعد انھوںنے اپنے ساتھی سے کہا کہ آپ کار کے شو روم میں جائیں اور وہاں جو کار آپ کو اپنے مقصد کے اعتبار سے پسند آئے، اس کو خرید لیں۔ اِس کے بعد انھوںنے ایک نئی کار (van) کی قیمت ان کو دے دی۔ اب اِس کارکے ذریعے مختلف شہروں میں دعوتی لٹریچر عام کیا جارہا ہے۔ لوگ بہت دل چسپی اورشوق کے ساتھ وہاں سے دعوتی لٹریچر حاصل کررہے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

Friday, 2 May 2008

Al Risala | May 2008 (الرسالہ،مئی)

2

- نماز اور تعمیر ِحیات

3

- قیامت کا زلزلہ

5

- یاد دِہانی کی موت

6

- معرفت یا معلومات

7

- ٹی وی کے ذریعہ

8

- اسلام کی سیاسی تعبیر

14

- مدر ٹریسا

17

- مواقع کی دنیا

21

- موت سے بے خبری کیوں

37

- کامیاب زندگی کا راز

38

- سوچ کا فرق

39

- مسئلے کا حل

40

- امتیازی صلاحیت

41

- اعتراف یا سرکشی

42

- سوال و جواب

44

- خبرنامہ اسلامی مرکز— 184


نماز اور تعمیر ِحیات

نماز اپنی اصل حقیقت کے اعتبار سے خدا کی عبادت ہے، لیکن اُس کا عملی نظام اِس طرح مقرر کیا گیا ہے کہ وہ انسان کی پوری زندگی کو مثبت انداز میں تعمیر کرنے کا ذریعہ بن گئی ہے۔ نماز ایک اعتبار سے ربّانی تربیت ہے، اور دوسرے اعتبار سے وہ حیاتِ دنیا کے لیے ایک مکمل قسم کا تعمیری کورس۔
نماز کا آغاز وضوسے ہوتا ہے۔ وضو گویا کہ ایک غسلِ صغیرہے۔ وہ آدمی کی تطہیر (purification) کا ایک مستقل ذریعہ ہے۔ اِس کے بعد نماز کا پہلا کلمہ اللہ اکبر ہے۔ اذان اور نماز دونوں کو ملا کر روزانہ تقریباً تین سو بار یہ کلمہ دہرایا جاتا ہے۔ اللہ اکبر (اللہ بڑا ہے) کادوسرا مطلب یہ ہے کہ میں بڑا نہیںہوں۔ اِس طرح نماز، انسان کو تواضع (modesty) کے لیے تیار کرتی ہے، اور بلا شبہہ تواضع موجودہ دنیا میں سب سے زیادہ قابلِ قدر انسانی صفت ہے۔
نماز رات اور دن کے دوران ، پانچ مقرر اوقات میں پڑھی جاتی ہے۔ یہ گویا کہ ٹائم مینج مینٹ (time management) کی تعلیم ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان کے پاس سب سے بڑی چیز وقت (time) ہے۔ وقت کو منظم انداز میں استعمال کرنا ہر قسم کی ترقی کی لازمی شرط ہے، اور نماز تنظیمِ اوقات کی اِسی صفت کے لیے آدمی کو تیار کرتی ہے۔
نماز کے لیے حکم ہے کہ اُس کو باجماعت انداز میں ادا کیا جائے۔ یہ اتحاد کی اعلیٰ تربیت ہے۔ باجماعت نماز میں یہ ہوتا ہے کہ ایک شخص کو بطور امام آگے کھڑا کرکے سب لوگ اس کے پیچھے صف باندھ کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اِس طرح نماز یہ سبق دیتی ہے کہ اپنے میںسے ایک کو آگے کرکے سب لوگ پیچھے کی سیٹ (back seat) پر چلے جاؤ۔ یہ طریقہ بلا شبہہ اتحاد کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
نماز کا خاتمہ ’السّلام علیکم ورحمۃ اللہ‘ پر ہوتا ہے، یعنی تمام انسانوں کے لیے امن کی اسپرٹ لے کر مسجد کے باہر آنا۔ گویا کہ نماز ایک طرف تواضع کی صفت پیدا کرتی ہے اور دوسری طرف امن پسندی کی صفت۔ یہ صفتیں بلا شبہہ موجودہ دنیا میں بہتر سماج بنانے کا سب سے زیادہ موثر ذریعہ ہیں۔
واپس اوپر جائیں

قیامت کا زلزلہ

قر آن میںجس قیامت کی پیشین گوئی کی گئی تھی، وہ بہ ظاہر اب بالکل قریب آگئی ہے۔ قرآن کی سورہ نمبر 99 میں یہ خبر دی گئی تھی کہ وہ وقت آنے والا ہے، جب کہ زمین ایک شدید زلزلہ کے ذریعے ہلادی جائے گی— إذا زلزلت الأرض زلزالھا:
When the earth is shaken with massive earthquakes (99:1)
موجودہ زمانے میں گلوبل وارمنگ کے بارے میں مسلسل خبریں آرہی ہیں جو قرآن کی اِس پیشین گوئی (prediction)کی تصدیق کرنے والی ہیں۔ نیشنل جاگریفک نیوز (National Geographic News) کے حوالے سے ایک رپورٹ آئی ہے جس کو نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (16 مارچ 2008 ) نے حسب ذیل عنوان کے تحت نقل کیاہے:
Melting ice sheets can trigger massive earthquakes.
خبر کے مطابق، ایک نئے مطالعے کے ذریعے معلوم ہوا ہے کہ قطب شمالی اور قطب جنوبی میں برف کے بڑے بڑے تودے نہایت تیزی سے پگھل رہے ہیں، اور اس کی وجہ سے سمندروں میں پانی کی سطح میں خطرناک اضافہ ہورہا ہے۔ اِس عمل کی وجہ سے جو محصور توانائی (pent-up energy) خارج ہوگی، اس کے باعث زمین پر شدید زلزلے آئیں گے:
A new study has indicated that melting ice sheets can release pent-up energy and trigger massive earthquakes. According to a report in National Geographic News, as a result of global warming, ice sheets are melting worldwide, which is triggering off earthquakes. For the study, the researches had taken into account a series of large earthquakes that had shook Scandinavia around 10,000 years ago, along faults that are now quiet (p. 24).
تازہ رپورٹ کے مطابق، گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں زمین کے برفانی تودے (glaciers) نہایت تیزی سے پگھل رہے ہیں، جو زمین پرزلزلہ برپا کرنے کا سبب بنیں گے۔ اِس کے نتیجے میں زمین پر شدید زلزلوں کا ایک سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ جیسا کہ اسکینڈی نیویا (Scandinavia)کے علاقے میں دس ہزار سال پہلے پیش آیا تھا۔
گلوبل وارمنگ اور اس کے متعلق پہلوؤں پر موجودہ زمانے میں وسیع پیمانے پر مطالعہ کیا گیا ہے۔ اِس مطالعے کا ایک حصہ یہ ہے کہ زمین کے نارتھ پول اور ساؤتھ پول میں پہاڑ کی مانند برف کے بڑے بڑے تودے (glaciers) ہیں۔ اِن تودوں کے نیچے بڑے بڑے آتش فشاں پہاڑ (volcanoes) چھپے ہوئے ہیں۔ یہ آتش فشاں پہاڑ محصور توانائی (pent-up energy) کے بھاری ذخیرے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اِن کے اوپر برف کے تودے گویا کہ بڑے بڑے فطری ڈھکن تھے جو اِس آتش فشاں کو پھٹ کر باہر آنے سے روکے ہوئے تھے۔
گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں نارتھ پول اور ساؤتھ پول کے یہ برفانی ڈھکن تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ اُن کا پگھلا ہوا پانی سمندروں میں شامل ہورہا ہے۔ اِس طرح شدید طورپر یہ خطرہ پیدا ہوگیا ہے کہ نارتھ پول اور ساؤتھ پول کا برفانی ڈھکن بہت جلد پگھل کر ختم ہوجائے اور ان کے اندر چھپا ہوا آتش فشا ں پھٹ کر آگ اور لاوا کی صورت میں باہر آجائے۔
یہ صورت حال زمین کے اوپر ہر قسم کی زندگیوں کے لیے سنگین خطرہ ہوگی۔ کوئی بھی انسانی تدبیر ان کا مقابلہ کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے گی۔ بالواسطہ یا براہِ راست طورپر اس کا اثر تمام انسانی آبادیوں تک پہنچ جائے گا۔
حالات بتاتے ہیں کہ بہت جلد وہ وقت آنے والا ہے، جب کہ موجودہ دنیا کا خاتمہ ہوجائے اور ایک نئی دنیا بنے، جہاں خدا کا عدل قائم ہو۔ جہاں نیک لوگوں کو جنت میں داخلہ ملے، اور بُرے لوگوں کو جہنم کے عذاب خانے میں ڈال دیا جائے۔ اب آخری وقت آگیا ہے کہ ہر زندہ عورت اور مرد اُس آنے والے انصاف کے دن (Day of Judgement) کے لیے تیاری کریں جو بہر حال آکر رہے گا اور جوآنے کے بعد پھر واپس جانے والا نہیں۔
واپس اوپر جائیں

یاد دِہانی کی موت

نصیر احمد خاں بنارسی گڈورڈ بکس اورمکتبہ الرسالہ کے ایک ممبر تھے۔ 16 مارچ 2008 کو دہلی میں ان کا انتقال ہوگیا۔ بوقت انتقال ان کی عمر تقریباً 50 سال تھی۔ اُس وقت وہ تندرستی کی حالت میں تھے۔ بہ ظاہر موت کے کوئی آثار نہ تھے، مگر 16 مارچ کو ان کے ساتھ ایک حادثہ پیش آیا اور اُس میں اچانک ان کا انتقال ہوگیا۔
موت دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک، متوقّع موت (expected death) اور دوسری، غیرمتوقع موت (unexpected death)۔ متوقع موت وہ ہے، جب کہ انسان بوڑھا ہوگیا ہو، وہ بیمار ہو کر بستر پر پڑ جائے اور لوگ پیشگی طورپر یہ سمجھ لیں کہ اب اس کا آخری وقت آگیا ہے۔ ایسی موت کو لوگ ایک ہونے والا واقعہ سمجھتے ہیں، وہ اُس سے اپنے لیے کوئی سبق نہیں لیتے۔
دوسری موت وہ ہے جو غیر متوقع ہو۔ اِس طرح کی موت میں ایسا ہوتا ہے کہ مرنے والا ابھی جوانی کی عمر میں ہوتا ہے۔ وہ تندرست حالت میں اپنا کام کررہا ہوتا ہے اور پھر اچانک اس کی موت آجاتی ہے۔ ایسی موت کو عام طورپر بے وقت کی موت (untimely death) کہاجاتا ہے۔ مگر ایسی موت بے وقت کی موت نہیں ہوتی۔ زیادہ صحیح طورپر وہ یاد دہانی کی موت (reminder death) ہوتی ہے۔ وہ ایک چشم کُشا موت ہوتی ہے، تاکہ لوگ موت کو یاد کرکے اپنی اصلاح کرلیں۔
جو واقعہ معمول کے طورپر پیش آئے، اُس کے بارے میں لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ ایک ہونے والی بات تھی جو ہوئی۔ مگر جو واقعہ غیر معمولی طورپر یا خلافِ توقع پیش آئے، وہ لوگوں کے لیے ایک دھماکہ خیز واقعہ بن جاتا ہے۔ ایسا واقعہ لوگوں کو سوچنے پر مجبور کردیتا ہے۔ مذکورہ قسم کی موت ایسا ہی ایک دھماکہ خیز واقعہ ہے۔ وہ لوگوں کے لیے ایک یاد دہانی ہے۔ ایسا ایک واقعہ گویا کہ بیداری کا ایک الارم ہوتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ سونے والوجاگو، کیوں کہ اب غفلت کا وقت ختم ہوچکا— عام موت ایک خاموش سبق ہے، اور مذکورہ قسم کی موت ایک بولتا ہوا سبق۔
واپس اوپر جائیں

معرفت یا معلومات

ایک تعلیم یافتہ مسلمان سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے بتایا کہ وہ پابندی کے ساتھ، ماہ نامہ الرسالہ پڑھتے ہیں۔ میںنے پوچھا کہ الرسالہ سے آپ نے کیا حاصل کیا۔ انھوں نے کہا کہ الرسالہ بہت معلوماتی پرچہ ہے۔ کسی اور پرچے میں ہم کو ایسی معلومات نہیں ملتیں۔ پھر میں نے پوچھا کہ آپ الرسالہ کا کوئی شمارہ کتنی بار پڑھتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ایک بار۔ میںنے کہا کہ جس شخص نے الرسالہ کو ایک بار پڑھا، اس نے الرسالہ کو نہیں پڑھا۔ چوں کہ آپ ماہ نامہ الرسالہ کو صرف ایک بار پڑھتے ہیں، اِس لیے آپ ابھی تک اس کو سمجھ نہیں سکے۔ آپ نے صرف الرسالہ کے سطور (lines) کو پایا ہے، آپ نے ابھی تک اس کے بین السطور(between the lines) کو نہیں پایا ۔
پھر میںنے کہا کہ ماہ نامہ الرسالہ کوئی معلوماتی پرچہ نہیں ہے، بلکہ وہ معرفت کا پرچہ ہے۔ الرسالہ میں جو معلومات ہوتی ہیں، وہ بہ ذاتِ خود مقصود نہیں ہوتیں، اُن کا مقصد کچھ اور ہوتا ہے۔ یہ مقصد توسّم (الحجر: 75 ) ہے، یعنی معلومات کے حوالے سے معرفت اور معنویت کا سبق دینا۔
اصل یہ ہے کہ اِس دنیا میں ہم کو دو قسم کی خوراک کی ضرورت ہے۔ ایک، مادّی خوراک (materail dose) جو ہمارے جسم کی صحت کا ذریعہ ہے۔ دوسرے، معرفت کی خوراک (spiritual dose) جو ایمان باللہ کوطاقت بخشنے کا ذریعہ ہے۔ اِس کو قرآن میںاضافۂ ایمان، یا اِزدیادِ ایمان (الفتح: 4 ) کہاگیا ہے۔ ماہ نامہ الرسالہ کا مقصد اِسی اِزدیادِ ایمان کی تربیت ہے۔
ماہ نامہ الرسالہ ازدیادِ ایمان کا دسترخوان ہے۔ الرسالہ کے ہر صفحے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ آپ کو معرفت کی خوراک دے۔ وہ آپ کے دل میں خدا اور آخرت کااحساس جگائے۔ یہی الرسالہ کااصل مقصد ہے۔ جس شخص نے الرسالہ سے معرفت کی یہ خوراک لی، اُسی نے الرسالہ کو پڑھا۔ اور جس کو الرسالہ سے یہ خوراک نہیں ملی، اس نے الرسالہ کو پڑھا ہی نہیں۔ الرسالہ کو معلومات کے لیے پڑھنا،الرسالہ کے ساتھ ظلم کرنا ہے۔ ایسا آدمی نہ الرسالہ کے ساتھ انصاف کرنے والا ہے، اورنہ خود اپنے ساتھ انصاف کرنے والا۔
واپس اوپر جائیں

ٹی وی کے ذریعہ

ہمارا مشن تقریباً نصف صدی سے پر نٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا، دونوں ذریعے سے اپنا مثبت دعوتی کام مسلسل انجام دے رہا ہے۔ اب خدا کے فضل سے اُس میںایک نئے باب کا اضافہ ہوا ہے۔ وہ اضافہ یہ ہے کہ انڈیا کے ایک مقبول ٹی وی چینل میں روزانہ صبح کے وقت ایک پروگرام آرہا ہے۔ یہ پروگرام 18 مارچ 2008 سے شروع ہوا ہے۔ اِس کے تحت، سب ٹی وی SAB TV (نئی دہلی) میںصبح کی نشریات کے تحت، راقم الحروف کی ایک مختصر تقریر روزانہ کی بنیاد پر آرہی ہے۔ اِس کا وقت صبح سات بج کر پچپن منٹ ہے۔ یہ وہ وقت ہے جس کو ٹی وی کی اصطلاح میں پرائم ٹائم (prime time) کہاجاتا ہے۔
18 مارچ کی تقریر کا موضوع تھا— خدا کا تخلیقی پلان (creation plan of God) ۔ اُس میں کہا گیا کہ انگلینڈ کے ایک صاحب کار میں سفر کررہے تھے ۔ اُن کے اپنے ملک کے ٹریفک رول کے مطابق، بائیں چلو (left- hand drive) کا اصول تھا، مگر وہ اِس دوسرے ملک میں بھی ’’بائیں چلو‘‘ کے اصول پر اپنی گاڑی دوڑارہے تھے۔ وہاں کی ٹریفک پولس نے ان کو روکا۔ کار کا نمبر دیکھ کر پولس مین سمجھ گیا کہ یہ آدمی کس ملک سے آرہا ہے۔ اُس نے مذکورہ شخص سے کہا— جناب، آپ اِس وقت ایک ایسے ملک میں ہیں، جہاں دائیں چلو کا اصول ہے، نہ کہ آپ کے ملک کے مطابق، بائیں چلو کا اصول۔
پانچ منٹ کی اِس تقریر میںبتایا گیا کہ یہی معاملہ زیادہ بڑے پیمانے پر خدا کے تخلیقی پلان کا ہے۔ خدا نے انسان کو پیدا کیا ہے۔ انسان پر لازم ہے کہ وہ اِس دنیا میں خدا کے حکموں پر چلے۔ جو لوگ ایسا نہ کریں، وہ خدا کی دنیا میں خدا کی منشا کے خلاف عمل کررہے ہیں۔ ایسے لوگ قیامت کے دن سخت سزا کے مستحق قرار پائیں گے۔ کائنات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ پورے معنوں میں ایک بامعنیٰ کائنات ہے۔ ایسی ایک با معنیٰ کائنات، بے معنی انجام پر ختم نہیں ہوسکتی۔ ضرور ہے کہ اِس دنیا کا ایک تخلیقی منصوبہ ہو، اور اس تخلیقی منصوبے کے مطابق، دنیا کا خالق اس کے بارے میں ایک منصفانہ فیصلہ کرے۔
واپس اوپر جائیں

اسلام کی سیاسی تعبیر

پانچ ستمبر 2007کو تمام اخباروں کے پہلے صفحے کی ایک نمایاں خبر یہ تھی کہ پاکستان کے عسکری شہر راول پنڈی میں دو بم پھٹے۔ اِس کے نتیجے میں پچیس آدمی مر گیے اور ستر آدمی زخمی ہوئے۔ بقیہ نقصانات اِس کے علاوہ ہیں۔ اس کو دیکھ کر ایک صاحب نے مجھ سے کہا کہ پاکستان، اسلام کے نام پر بنایاگیا تھا، پھر وہاں اتنا زیادہ تشدد کیوں ہے۔ 1947 میں پاکستان بننے کے بعداُس کے پہلے وزیر اعظم نواب زادہ لیاقت علی خاں کو کراچی کی سڑک پر گولی مار کر ہلاک کردیاگیا۔ اُس وقت سے لے کر اب تک وہاںمسلسل تشدد کا سلسلہ جاری ہے۔ ایسا کیوں ہے۔
میںنے کہا کہ اکثر یہ کہا جاتاہے کہ پاکستان، اسلام کے نام پر بنا، مگر صحیح بات یہ ہے کہ پاکستان پولٹکل اسلام کے نام پر بنا، اور اسلام اور پولٹکل اسلام میں اتنا ہی دوری ہے جتنا کہ گاندھی اور دہشت گرد گاندھی میں۔
موجودہ زمانے میں ساری دنیا میں ٹررازم کے خلاف تقریر یں ہورہی ہیں۔ امریکا نے جارج بش سینئر اور جارج بش جونئر کے زمانے میں تاریخ کی سب سے بڑی فوجی کارروائی کی، لیکن ٹررازم کو ختم کرنے کے معاملے میں یہ فوجی کارروائی مکمل طورپر ناکام رہی۔ میںنے اِس کارروائی سے پہلے پیشگی طور پر یہ کہہ دیا تھا کہ موجودہ ٹررازم کا معاملہ گَن ورسز گن (gun vs gun) کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ وہ ایک آئڈیا لوجی کا معاملہ ہے اور اس کا مقابلہ کاؤنٹر آئڈیالوجی(counter ideology) ہی کے ذریعے کیا جاسکتا ہے۔ میں نے نئی دہلی کے اخبار ’ٹائمس آف انڈیا‘ کو اِس معاملے میںایک انٹرویو دیا تھا۔ یہ انٹرویو مذکورہ اخبار کے شمارہ 16 ستمبر 2001 میں اِس عنوان کے تحت چھپا تھا کہ — امریکا کی متشددانہ کارروائی، اُس کے خلاف صرف الٹا نتیجہ ثابت ہو گی:
US Aggression would be counter-productive.
مگراب تمام لوگ اِس کا اعتراف کررہے ہیں کہ عراق کے خلاف امریکا کی فوجی کارروائی ایک واضح غلطی تھی۔ برطانیہ کے سابق جنرل مائک جیکسن(Mike Jackson) نے کہا کہ امریکا کا یہ فوجی اقدام ایک ذہنی دیوالیہ پن (intellectual bankruptcy) کے ہم معنیٰ تھا (ٹائمس آف انڈیا، 4 ستمبر 2007)۔
یہ معاملہ بہت زیادہ غور و فکر کا معاملہ ہے۔ یہاں خاص طورپر ہم کو یہ سمجھنا ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں اتنا زیادہ تشدد کیسے آگیا۔ موجودہ زمانے کے مسلمان اتنے زیادہ تشددپسند کیوں ہوگیے کہ اب وہ اُس کی آخری حد پر جاکر جگہ جگہ خود کُش بم باری (suicide bombing) کرنے لگے۔ میرے نزدیک، اِس تشدد پسندی یا لوگوں کے دیے ہوئے نام کے مطابق، ٹررازم کی ذمّے داری صرف اُن مسلم گروہوں تک محدود نہیں ہے جو براہِ راست طورپر اِس میں ملوّث ہیں۔ کیوں کہ راقم الحروف کے واحد استثنا کو چھوڑ کر، پوری مسلم دنیا میں غالباً کوئی بھی قابلِ ذکر عالمِ دین یا رہ نما نہیں جو کھلے طورپر اِس کو غیر اسلامی فعل بتائے۔ اِس لیے اسلامی اصول کے مطابق، اگر کچھ تشدد پسند مسلمان اِس میں براہِ راست طورپر شریک ہیں تو بقیہ لوگ اِس میں بالواسطہ طورپر شریک ہیں۔
یہاں یہ سوال ہے کہ مسلمانوں میں یہ تشدد پسندی کیسے آئی اور کیسے وہ اتنا زیادہ پھیل گئی کہ ساری مسلم دنیا میں راقم الحروف کو چھوڑ کر کوئی بھی کھُلے طورپر اِس کی مذمت کرنے والا نہیں ۔ میرے مطالعے کے مطابق، اِس کا سبب نہایت گہرا ہے۔ اِس کے پیچھے ماضی کی تقریباً ہزار سالہ تاریخ کی روایات ہیں۔ اُس کو جب تک گہرائی کے ساتھ سمجھا نہ جائے، اِس کو ختم کرنا ممکن نہیں۔ یہاں ہم پوری تاریخ کے پس منظر میں اِس معاملے کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ اِس معاملے کا خلاصہ یہ ہے کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو سوچنے کا جو فریم ورک دیا تھا، وہ غیر سیاسی فریم ورک (non-political framework) تھا۔ لیکن بعد کو لوگوں میں سوچ کا سیاسی فریم ورک (political framework)رائج ہوگیا۔ یہی اِسمعاملے کی اصل جڑ ہے۔
واقعات بتاتے ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ میں اپنے پیغمبرانہ مشن کا آغاز کیا تو وہاں کے سرداروں نے آپ کی شخصیت سے متاثر ہوکر، آپ کو یہ پیش کش کی کہ اگر آپ بادشاہی چاہتے ہیں تو ہم آپ کو اپنے اوپر بادشاہ بنانے کے لیے تیار ہیں (إن ترید مُلکًا، ملّکناک علینا) آپ نے جواب دیا کہ نہیں (ما أطلب الملک علیکم)۔ میںاِس کام کے لیے تمھارے پاس نہیں بھیجا گیا ہوں (ما بِہٰذا بُعثت إلیکم):
I have not been sent to you for this purpose.
اِس سے واضح طورپر معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کا نشانہ، سیاسی اقتدار نہیںتھا۔ پھر آپ کا نشانہ کیا تھا۔ اِس کا جواب قرآن میں موجود ہے۔ قرآن کی یہ آیت اِس کا جواب ہے: یأیّہا المدّثر، قُم فأنذر (المدثر: 1-2)۔ اِس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ کا نشانہ اِنذار تھا، یعنی خدا کے تخلیقی پلان سے انسان کو آگاہ کرنا۔ سیرتِ رسول کا مطالعہ بتاتا ہے کہ آپ کی پوری زندگی کا محور یہی دعوتی نشانہ تھا۔ یہ مکمل طورپر ایک غیر سیاسی نشانہ ہے۔ اُس کو خالص غیر سیاسی انداز میں اور پوری طرح پُرامن طریقے سے انجام دیا جاسکتا ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا دیا ہوا یہ فکر ایک عرصے تک امت میں رہا، پھر دھیرے دھیرے اِس میں انحراف آگیا، یہاں تک کہ غیر سیاسی اسلام بدل کر سیاسی اسلام بن گیا۔ موجودہ زمانے میں ہم اِس انحراف کی آخری صورت دیکھ رہے ہیں۔
اِس معاملے کو مزید سمجھنے کے لیے ایک حدیث کا مطالعہ کیجیے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک روایت، الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ، حدیث کی مختلف کتابوں میںآئی ہے۔ صحیح مسلم کے الفاظ یہ ہیں: عن عائشۃ قالت: سأل رجلٌ النّبی صلی اللہ علیہ وسلم، أیّ الناس خیر۔ قال: القرن الذی أنا فیہ، ثمّ الثانی، ثمّ الثالث۔ یعنی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھاگیا کہ بہتر لوگ کون ہیں، آپ نے فرمایا کہ وہ دَور جس کے اندر میں ہوں۔ اس کے بعد دوسرا دَور، اور اس کے بعد تیسرا دَور (صحیح مسلم، فضائل الصحابۃ)۔
یہ تین دور امت میں ’قرون مشہود لہا بالخیر‘ تسلیم کیے گیے ہیں۔ پہلا دور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دور ہے، دوسرا دور صحابہ کا دور ہے، اور تیسرا دور تابعین کا دور۔ اِن تین دوروں کو عہد ِرسالت، عہد ِ خلافتِ راشدہ اور عہد ِ بنو امیہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ اِن تینوں دوروں کی تاریخی ترتیب یہ ہے:
1 - عہدِ رسالت: 610-632 ء
2 - عہدِ خلافتِ راشدہ: 632-661 ء
3 - عہد ِبنو اُمیّہ:661-750 ء
4 - عہدِ بنو عبّاس: 750-1258 ء
پہلے تینوں دَور میں عربوں کا غلبہ تھا۔ عرب لوگ وہ تھے جن کو براہِ راست پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہدایت ملی تھی اور اُن کو کم و بیش آپ کی تربیت حاصل ہوئی، لیکن چوتھے دورمیں مسلم سماج او رمسلم تنظیمات پر ایرانیوں کا غلبہ ہوگیا۔ ایرانی وہ لوگ تھے جنھوں نے براہِ راست پیغمبر اسلام سے تربیت حاصل نہیں کی تھی، یہی عباسی دور، جس میں ایرانیوں کا غلبہ ہوگیا تھا، اِسی دورمیں تمام فکری انحرافات شروع ہوئے، اور ان کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔
وہ تمام کتابیں جن کو اسلامی کتب خانہ کہاجاتا ہے، وہ تقریباً سب کی سب اِس عباسی دور میں تیار کی گئیں۔ اِس دور میں اسلام، کم و بیش، ایک پولٹکل اسلام بن چکا تھا۔ دعوت کا عمل اب بھی خود اپنی طاقت پر جاری تھا، لیکن فکری اعتبار سے دعوت کا تصور تقریباً غیر موجود ہوگیا تھا۔ اِس کا اثر بعد کی تمام کتابوں پر پڑا۔
مثلاً قرآن کو آپ کسی تفسیر کے بغیر پڑھیں تو آپ کو محسوس ہوگا کہ قرآن مکمل طورپر ایک دعوتی کتاب ہے۔ایک عالمِ کے الفاظ میں، قرآن اِنذار اور تبشیر کی سرگذشت ہے، لیکن اگر آپ قرآن کی تفسیروں کو پڑھیں تو آپ کے ذہن میں یہ نقشہ بالکل بدل جائے گا۔ مثلاً دعوت کا پہلو قرآن کا سب سے اہم پہلو ہے، لیکن تمام تفسیروں میں قرآن کا یہی پہلو گُم ہوگیا ہے۔ مثلاً صبر، اعراض اور تالیف ِ قلب دعوت کے اہم اجزا ہیں، لیکن قرآن کی موجودہ تفسیروں میں اِن دعوتی اجزاکے بارے میں کہاگیا ہے کہ جہاد کی آیتیں اترنے کے بعد یہ چیزیں منسوخ ہوگئیں۔
یہی معاملہ حدیث کے ساتھ پیش آیا۔ حدیث حقیقت میںایک پیغمبر داعی کا کلام ہے۔ حدیث میں دعوت کے تمام اجزا موجود ہیں، لیکن ذہنی شاکلہ بدل جانے کی وجہ سے ایسا ہوا کہ علماء نے حدیث کی جو کتابیں مدوّن کیں، اُن میں انھوںنے دعوت کا باب سرے سے قائم نہیں کیا۔ حدیث کے مجموعوں میں آپ ’کتاب الصلاۃ‘ ، ’کتاب الجہاد‘ جیسے عنوانات پائیں گے، لیکن حدیث کے کسی بھی مجموعے میں آپ کو ’کتاب الدعوۃ والتبلیغ‘ نہیں ملے گا۔
یہی معاملہ فقہ کے ساتھ بھی پیش آیا۔ فقہ کے موضوع پر کثیر تعداد میں کتابیں لکھی گئیں۔ یہاں تک کہ یہ سمجھا جانے لگا کہ اسلام کی تمام تعلیمات فقہ کی کتابوں میںآگئی ہیں، اسلام کو سمجھنے کے لیے فقہ کی کتابوں کا مطا لعہ کافی ہے۔ لیکن ذہنی شاکلہ بدل جانے کی وجہ سے یہاںبھی یہ حادثہ پیش آیا کہ فقہ کی کسی بھی کتاب میں ’کتاب الدعوۃ، والتبلیغ‘ شامل نہ ہوسکا۔ فقہ کی کتابوں میںآپ کو ہر قسم کے ابواب تفصیل کے ساتھ ملیں گے، لیکن دعوت اور تبلیغ کا باب فقہ کی کسی بھی کتاب میں نظر نہ آئے گا۔
مدون کتابوں کے علاوہ، دوسری جو کتابیں اسلام کے موضوعات پر لکھی گئیں، اُن کا بھی یہ حال ہے کہ اُن میں دعوت الی اللہ کا باب سرے سے موجود نہیں۔ مثلاً الغزالی کی ’احیاء علوم الدین‘، ابن تیمیہ کی ’کتاب النّبوات‘، شاہ ولی اللہ کی ’حجۃ اللہ البالغۃ، وغیرہ کا نام اِس معاملے میں بطور مثال لیا جاسکتا ہے۔ ابن ِ تیمیہ نے شتمِ رسول کے مسئلے پر ’الصّارم المسلول علی شاتمِ الرسول‘ کے نام سے ایک ضخیم کتاب تیار کردی، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوتی اُسوہ کو لے کر وہ کوئی کتاب نہ لکھ سکے، نہ پچھلے اَدوار میں کسی اور عالم نے اِس موضوع پر کوئی اور کتاب لکھی۔
عباسی دور میں اسلامی فکر میں یہ انحراف آیا کہ نان پولٹکل اسلام لوگوں کی اپنی تعبیرات کے نتیجے میںپولٹکل اسلام بن گیا۔ اِس کا ایک نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان دوسری قوموں کو اپنا غیر سمجھنے لگے۔ حالاں کہ یہ دعوتی اسپرٹ کے سرتاسر خلاف تھا۔ قرآن کو آپ پڑھیے تو اُس میں بار بار ’الانسان‘ اور ’النّاس‘ کا ذکر ملے گا۔ گویا قرآن کے نزدیک ساری دنیا انسانوں کی دنیا ہے، ساری دنیا ’دار الانسان‘ کی حیثیت رکھتی ہے، یعنی مسلم بھی انسان اور بقیہ لوگ بھی انسان۔
یہی صحیح اسلامی ذہن ہے، لیکن عباسی دور میں جو فقہ بنی، اُس نے یہ کیا کہ دنیا کو بطور خود دو طبقوں میں بانٹ دیا— دار الاسلام اور دار الحرب۔ دار الاسلام سے مراد وہ علاقہ تھا جہاں مسلمانوں کا اقتدار قائم ہو۔ اور دار الحرب سے مراد وہ علاقہ، جہاں غیر مسلم آبادہوںاور جن سے مسلمان امکانی طورپر برسرِ جنگ (potentially at war) ہوں۔ یہ تقسیم بلاشبہہ بے اصل تھی، لیکن وہ اتنا عام ہوئی کہ وہ مسلم فکر کا جُز بن گئی۔ اِس فکر کا نتیجہ یہ ہوا کہ وسیع تر انسانیت، مسلمانوں کو غیر دکھائی دینے لگی، وسیع تر انسانیت اُن کا کنسرن نہ رہی۔ اِس کا فطری نتیجہ یہ ہوا کہ دعوت کا ذہن مسلمانوں سے تقریباً معدوم ہوگیا۔دعوت ہمیشہ انسان کی خیر خواہی کے جذبے سے اُبھرتی ہے۔ اور جن لوگوں کے اندر انسان کی خیر خواہی نہ رہے، وہ انسان کے اوپر دعوت کا عمل بھی نہیں کریں گے۔
پولٹکل طرزِ فکر اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک منفی طرزِ فکر ہے۔ اُس کا نتیجہ ہمیشہ تفریق کی صورت میں نکلتا ہے۔ پولٹکل ایکٹوزم کا نتیجہ کبھی مثبت صورت میں نہیں نکلا ہے اور نہ کبھی اس کا نتیجہ مثبت صورت میں نکل سکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے پولٹکل ایکٹوزم کو اسلام میںتقریباً حرام کا درجہ دے دیا۔ اِس سلسلے میں جو احادیث آئی ہیں، اُن کے مطابق، مسلمانوں کے لیے صرف یہی ایک انتخاب ہے کہ وہ غیر سیاسی میدان میںپُر امن دعوہ ورک کریں۔ سیاسی ٹکراؤ یا سیاسی اپوزیشن جیسی چیزیں اسلام میں سرے سے جائز ہی نہیں۔ )تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو راقم الحروف کا مضمون ’جہاد اسلامی تاریخ میں‘ مطبوعہ: ماہ نامہ الرسالہ، مارچ2008 (
موجودہ زمانے میں مسلمانوں کو اپنی پولٹکل سوچ کا بہت بڑا نقصان اٹھانا پڑا۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ دورِ جدید کے ایک عظیم امکان سے بالکل بے خبر رہے۔ اِس کا سبب یہ تھا کہ یہ عظیم امکان غیرسیاسی میدان میںتھا، اور موجودہ زمانے کے مسلم علما اور رہ نما اپنے سیاسی ذہن کی بناپر اِس جدید تبدیلی کو سمجھ ہی نہ سکے۔ دوسری قوموں نے اِس جدید امکان کو سمجھا اور اس کو استعمال کیا، لیکن مسلمان اُس سے بالکل فائدہ نہ اٹھا سکے۔ انھوں نے صرف یہ کیا کہ اپنی بے شعوری کی بنا پر سیاست کی چٹان پر اپنا سر پٹکتے رہے اور یک طرفہ طورپر صرف اپنے نقصان میں اضافہ کرتے رہے— اب آخری وقت آگیا ہے کہ اِس پورے معاملے پر نظر ثانی کرکے نئے حالات میں دعوت الی اللہ کے کام کی از سرِ نو منصوبہ بندی کی جائے۔
واپس اوپر جائیں

مدر ٹریسا

مدر ٹریسا، یورپ میں مقدونیہ(Maccdonia) کے علاقہ(Skopje) میں 1910 میں پیدا ہوئیں۔ 1997میں کلکتہ )انڈیا( میںاُن کا انتقال ہوا۔ خدا کے نام پر غریبوں کی خدمت کو انھوںنے اپنا مشن بنایا۔ اُن کا مرکز کلکتہ میں تھا۔ اِس میدان میں اُن کو اتنا بڑا درجہ ملا کہ اُن کو اِسی خدمت کے نام پر 1979 میں نوبل پرائز دیا گیا۔ خدا کے نام پر انسان کی خدمت اُن کی پہچان بن گئی۔ ہر موقع پر وہ خدا اور روحانیت کے الفاظ بولتی رہیں۔اُن کے سوانح نگار مسٹر نوین چاؤلا نے اُن کے اوپر 280 صفحے کی ایک کتاب (Mother Teresa) لکھی ۔ یہ کتاب پہلی بار پینگوئن بکس(UK) سے 1998میں شائع ہوئی۔ اِس کتاب میں شامل کرنے کے لیے انھوںنے مدر ٹریسا سے ایک تحریر مانگی۔ مدر ٹریسا نے اپنے قلم سے یہ الفاظ لکھ کر اُن کو بھیج دیے، جو کہ اِس کتاب میں بطور فورورڈ(foreword) شامل ہے:
All you do, all you write, do it all for the glory of God, and the good of all people. Let your book be love for God in action. (February, 24, 1991)
یعنی تم جو کچھ کرو، جو کچھ تم لکھو، اُس کو تمام تر خداکی بڑائی کے لیے اور لوگوں کی بھلائی کے لیے کرو۔ اپنی کتاب کو خدا کی محبت کے لیے کیا جانے والا عمل بنا دو۔
مدر ٹریسا، جدید دنیامیں اسپریچول ہیرو سمجھی جانے لگیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ مسیح کو تم غریبوں میں پاسکتے ہو۔ خدا اور روحانیت کے بارے میں اُن کے اقوال اور بیانات ہر جگہ چھپنے لگے۔ بہت سے لوگوں نے ان کو اپنی زندگی کے لیے ماڈل بنا لیا۔ویٹکن )روم( نے اعلان کردیا کہ مدر ٹریسا کی اعلیٰ خدمات کی بنا پر پوپ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ مدر ٹریسا کو سینٹ ہُڈ(sainthood) کا خطاب دیا جائے گا۔
مگر مدر ٹریسا کی وفات کے بعد اُن کے بارے میں ایک کتاب چھپی ہے، جس میں مدر ٹریسا کی بالکل مختلف تصویر پیش کی گئی ہے۔ اِس میں بتایا گیا ہے کہ مدر ٹریسا کو اپنے 66 سالہ عمل کے باوجود خدا نہیں ملا۔وہ مسلسل طورپر روحانی فاقہ (spiritual starvation)میں جیتی رہیں۔ اِس کتاب کا نام یہ ہے:
Mother Teresa: Come Be My Light, by Rev Brian Kolodiejchut.
نیویارک کے ٹائم میگزین ) 3 ستمبر2007 (نے اِس کتاب کو اپنی کور اسٹوری بنایا ہے۔ اِس میگزین میں مدر ٹریسا کی کہانی کے اوپر یہ عنوان قائم کیاگیا ہے— مدر ٹریسا کاذہنی کرب (Her Agony)۔ میگزین کاٹا ئٹل حسب ذیل ہے:
The Secret Life of Mother Teresa
مذکورہ کتاب میں بتایا گیا ہے کہ مدر ٹریسا کی زندگی بظاہر خدا اور روحانیت کی زندگی تھی، لیکن ان کی زندگی خدا اور روحانیت سے بالکل خالی تھی۔ اُن کے اپنے الفاظ کو لے کر نئی دہلی کے ٹائمس آف انڈیا ) 25اگست 2007 (نے اس کی رپورٹ پر یہ عنوان قائم کیا ہے— مدر ٹریسا زبان سے خدا کا نام لیتی رہیں، لیکن اپنے دل میںانھوں نے کبھی خدا کو نہیں پایا:
Mother Teresa had God on her lips, but never felt Him (p. 11)
مدر ٹریسا کی زندگی کا یہ دوسرا پہلو اُن کے نجی خطوط کے ذریعے سامنے آیا۔ مدر ٹریسا نے اپنے یہ خط اپنے کچھ قریبی ساتھیوں کو لکھے تھے۔ اِن خطوط کی تعداد تین درجن سے زیادہ ہے۔ مدر ٹریسا نے اپنے ایک خط میں لکھا تھا کہ ان خطوط کو ضائع کردیا جائے، لیکن اُن کے یہ خطوط محفوظ رہے اور مدر ٹریسا کی وفات کے بعد ویٹکن کی اجازت سے وہ شائع کیے گیے ہیں۔ مدر ٹریسا نے اپنے اِن خطوط میں کھُلے طورپر اِس کا اعتراف کیا ہے کہ اُنھوں نے غریبوں کے پاس خدا کو ڈھونڈھا، مگر ان کو خدا نہیں ملا۔ ایک خط میں وہ اپنے ایک ساتھی کو لکھتی ہیں کہ— خدا کے بارے میں ہمارا اشتیاق کتنا زیادہ ہے، اِس کے باوجود وہ ہم سے کتنا زیادہ دور ہے:
Your longing for God is so deep, and yet He keeps Himself away from you. (Time, p. 33)
مدر ٹریسا کے مطبوعہ خطوط سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو سخت تنہائی (loneliness) میں پاتی تھیں۔ انھوں نے ایک خط میں اپنے ایک ساتھی کو لکھا کہ— میری روح کے اندر اتنا زیادہ کرب اور اتنا زیادہ تاریکی کیوں ہے:
Why is there so much pain and darkness in my soul. (p. 31)
مدر ٹریسا کو اپنی پوری عمر صرف کرنے کے باوجود خداکیوں نہیں ملا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ وہ مخلوق میں خدا کو تلاش کررہی تھیں ۔ اور جو لوگ مخلوق میں خدا کو تلاش کرتے ہیں، ان کاانجام ہمیشہ یہی ہوا ہے۔ خدا نے مدر ٹریسا کے اِس واقعے کی صورت میں اُن لوگوں کے لیے تاریخ میں ایک عبرت ناک مثال قائم کردی ہے جو دعوہ ورک کے مقابلے میں کمیونٹی ورک کو اپنے لیے روحانی سکون کا ذریعہ سمجھے ہوئے ہیں۔
قدیم زمانے میں انسان نے نیچر کو خدا سمجھ لیا۔ دریا، پہاڑ اورسورج اورچاند ہر ایک کو اُس نے خدائی کا درجہ دے دیا، مگر یہ سب مخلوقات تھیں، اِس لیے قدیم زمانے کا انسان خدا کو نہ پاسکا۔ اِسی طرح انسان نے بادشاہ کو اور اپنے بزرگوں کو خدا کا درجہ دے دیا۔ یہ بھی مخلوق کو خدا بنانا تھا، اِس لیے انسان یہاں بھی اپنی تلاش میں ناکام رہا۔ اس کے بعد یہ سمجھا گیا کہ طبیعیاتی طاقتیں(physical forces) خدائی کا درجہ رکھتی ہیں، مگر یہاں بھی انسان کو خدا کی یافت نہ ہوسکی، کیوں کہ طبیعی طاقتیں مخلوقات ہیں، نہ کہ خدا۔خدا، مخلوقات سے الگ اپنا ایک مستقل وجود رکھتا ہے، اور اس کو علاحدہ اور مستقل وجود ہی کی حیثیت سے دریافت کیا جاسکتا ہے۔
اِس معاملے میں انسان کی تلاش کی ناکامی کی تصویر قرآن کی ایک آیت میں دی گئی ہے۔ اِس آیت کا ترجمہ یہ ہے: اور جن لوگوں نے انکار کیا، اُن کے اعمال ایسے ہیں جیسے چٹیل میدان میں سراب، پیاسا اُس کو پانی خیال کرتا ہے، یہاں تک کہ جب وہ اُس کے پاس آیا تو اُس نے اُس کو کچھ نہ پایا۔ اور اُس نے وہاں اللہ کو موجودپایا، پس اُس نے اس کا حساب چکا دیا۔ اور اللہ جلد حساب کرنے والا ہے )النّور: 39 (
واپس اوپر جائیں

مواقع کی دنیا

نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا 14) ستمبر 2007 ( میں ایک رپورٹ چھپی ہے۔ اِس رپورٹ کو یہاں صفحے کے نیچے درج کیا جارہا ہے۔ اِس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انڈیا کے ایک مسلمان عظیم ہاشم پریم جی اِس وقت پوری دنیا میں سب سے زیادہ دولت مند مسلمان ہیں۔ اِس معاملے میں سب سے زیادہ قابل غور بات یہ ہے کہ یہ واقعہ ’’ہندو انڈیا‘‘ میں ہوا، جہاں کے بارے میں عام طورپر مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ وہ یہاں محرومی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
Premji richest Muslim tycoon
New York: India’s software czar Azim Premji now has a new nomenclature – the world’s richest Muslim entrepreneur – as he holds more wealth than any other Muslim outside the Persian Gulf royalty, a US media report said. Financial daily ‘Wall Street Journal’ has written a front-page profile on chairman of India’s third largest IT exporter Wipro, saying Premji defies all the conventional wisdom about Islamic tycoons – he does not hail from the Persian Gulf, did not make his money in petroleum, and does not wear his faith on his sleeve. “Premji has tapped India’s abundant engineering talent to transform a family vegetable-oil firm, Wipro, into a technology and outsourcing giant. By serving Western manufactures, airlines and utilities, the company has brought Premji a fortune of some $17 billion,” the report said. Premji is ahead of Russia’s metal and real estate baron Suleman Kerimov ($14 billion), Kuwait’s Nasser Kharafi ($11 billion), Saudi Arabia’s Mohammad Amoudi ($8 billion), UAE’s Abdulaziz Ghurair ($8 billion), Russia’s Iskander Mahmudov ($8 billion), Saudi’s Maan Sanea ($7.5 billion) and Saudi’s Suleiman Rajhi ($7.5 billion) among the richest Muslim entrepreneurs. The daily quoted Premji in the report titled, “How a Muslim Billionaire Thrives in Hindu India” as saying that such success shows globalization is turning into “two-way traffic” that can bring tangible benefits to developing countries. “We have always seen ourselves as Indian. We’ve never seen ourselves as Hindus, or Muslims, or Christians or Budhists,” Premji said.
(The Times of India, New Delhi, September 14, 2007, P. 25)
عظیم ہاشم پریم جی کے اِس واقعے پر غور کیجیے تو اِس سے ایک بہت بڑی حقیقت کا علم حاصل ہوتا ہے۔ یہ انفرادی واقعہ ایک عالمی قانون کو بتا رہا ہے۔ وہ یہ کہ یہ دنیا مواقع (opportunities) کی دنیا ہے۔ اِس دنیا میں مواقع اتنے زیادہ ہیں کہ وہ کسی بھی حال میں ختم نہیں ہوتے۔ کو ئی بھی شخص یا گروہ اتنا طاقت ور نہیں کہ وہ فطرت کے اِس قانون کو بدل سکے، یا وہ اس قانون کو منسوخ کردے۔ یہ فطرت کا ایک ابدی قانون ہے۔ وہ قرآن کی آیت کے مطابق، لا تبدیل لخلق اللہ )الروم: 30 ( کے عمومی حکم میں شامل ہے۔
عظیم ہاشم پریم جی نے اپنے انٹرویو میں اِسی حقیقت کو اپنے لفظوں میں اِس طرح بیان کیا ہے— اِس قسم کی کامیابی بتاتی ہے کہ گلوبلائزیشن دو طرفہ ٹریفک کا معاملہ ہے، یعنی اُس کا فائدہ ترقی یافتہ ممالک کے علاوہ، زیرترقی ممالک کو بھی پہنچ رہا ہے:
Such success shows globalization is turning into “two-way traffic” that can bring tangible benefits to develping countries.
موجودہ زمانے کے مسلم رہ نما اور مفکرین ایک مشترک غلطی کا شکار ہوئے۔ انھوںنے قدیم زمانے کی اصطلاحوں میں جدید زمانے کو سمجھنا چاہا، اِس بنا پر وہ دورِ جدید کی نوعیت کو سمجھنے میں مکمل طورپر ناکام رہے۔ انھوں نے موجودہ زمانے کے مسلمانوں کو غلط رہ نمائی دی۔ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے تمام مسائل اِسی غلط رہ نمائی کا نتیجہ ہیں، جن کو غیر واقعی طورپر ’’اَغیار کی سازش‘‘ کہاجاتا ہے۔
مومن کی ایک صفت حدیثِ رسول میں یہ بتائی گئی ہے کہ وہ اپنے زمانے کا جاننے والا ہوتا ہے (أن یکون بصیراً بزمانہ)۔ مگر عجیب بات ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلم رہ نما بصیرتِ زمانہ کا ثبوت نہ دے سکے، اِس کے باوجود انھوں نے مسلمانوں کو رہ نمائی دینے کی کوشش کی جو بلاشبہہ درست نہ تھی۔ اب آخری وقت آگیا ہے کہ اِس معاملے میں اپنی غلطی کا اعتراف کیا جائے اور ازسرِ نو اپنے معاملے کی صحیح منصوبہ بندی کی جائے۔
تاریخی اعتبار سے دیکھیے تو موجودہ زمانے میں مسلم مسائل کا آغاز اُس دور سے ہوتا ہے جس کو عام طورپر نوآبادیاتی د ور کہا جاتا ہے۔ بعض مبصّرین نے اِس دورِ زوال کے آغاز کا تعین 1799 کیا ہے۔ اُن کے خیال کے مطابق، 1799 وہ سال تھا جب کہ مسلمانوں کا دورِ عروج ختم ہوکر اُن کا دورِ زوال شروع ہوگیا۔ اِس تاریخ کے تعین میں اختلاف ہوسکتا ہے، لیکن اصل واقعے کے بارے میں اختلاف کی گنجائش نہیں۔
قدیم نَوآبادیاتی دور کو ہمارے رہ نما یورپین امپیریل ازم (European emperialism) کا نام دیتے ہیں اور بیسویں صدی کے نصف آخر میں امریکا کے عروج سے جو صورتِ حال پیدا ہوئی، اُس کو امریکی ایمپیریل ازم (American emperialism) کہاجاتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ دونوں غلط تسمیہ (wrong nomenclature) کا کیس ہے، اور یہ غلط تسمیہ اِس لیے وجود میں آیا کہ لوگ زمانی بصیرت کی روشنی میں اِس معاملے کو نہ دیکھ سکے۔
میں کہوں گا کہ ایمپیریل ازم زرعی دورِ سیاست کی اصطلاح ہے، آج کے حالات کے مطابق یہ اصطلاحیں منطبق نہیں ہوتیں۔ قدیم زمانے میںاِس طرح کے واقعات توسیعِ بادشاہت کے ہم معنیٰ ہوتے تھے، مگر موجودہ زمانے میں اِس طرح کے واقعات توسیعِ مواقع کے ہم معنیٰ ہیں۔ قدیم زمانے کی توسیعِ بادشاہت اصلاً یک طرفہ فوائد کے حصول کے لیے ہوا کرتی تھی، مگر موجودہ زمانے میں یہ توسیع، فوائد میں دو طرفہ حصے دار بننے کے لیے ہوتی ہے۔
اس پہلو کو سامنے رکھا جائے تو یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ جدید صورتِ حال کو بتانے کے لیے ایمپریل ازم زیادہ صحیح لفظ نہیں ہے۔ اِس مقصد کے لیے زیادہ صحیح لفظ گلوبلائزیشن (globalization) ہے۔ یورپی نوآبادیات کا دورگویا کہ مِنی گلوبلائزیشن (mini-globalization) کا دور تھا،او ر نام نہاد امریکی ایمپریل ازم کا دور سُپر گلوبلائزیشن (super globalization) کا دور ہے۔ قدیم ایمپریل ازم زیادہ تر یک طرفہ فائدے کے لیے ہوتا تھا، مگر جدید گلوبلائزیشن دو طرفہ فائدے کے اصول پر مبنی ہے۔ مثالوں کے ذریعے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔
قدیم امپیریل ازم کے زمانے میں بادشاہ لوگ بڑے بڑے قلعے اور بڑے بڑے محل بناتے تھے،وہ شاہانہ شخصیتوں کے بڑے بڑے مقبرے تعمیر کرتے تھے۔ اِس قسم کی چیزوں سے عملاً صرف شاہانہ طبقے کے لوگوں کو فائدہ ہوتا تھا، عوا م کا اُس میں کوئی قابلِ ذکر حصہ نہ تھا۔ مگر موجودہ زمانے میں گلوبلائزیشن کے تحت جو کام کیے جاتے ہیں، اُن کا فائدہ دونوں طبقوں کو مشترک طورپر پہنچتا ہے۔
مثال کے طورپر یورپی نَوآبادیات کے زمانے میں وسیع پیمانے پر انڈیا میں ریلوے لائن بچھائی گئی۔ ہمارے لیڈروں نے اِس ریلوے لائن کو لوہے کی غلامانہ زنجیر بتایا، مگر یہ بلاشبہہ مبالغہ تھا۔ اصل واقعہ یہ ہے کہ اِس ریلوے لائن سے ایک طرف برطانی حُکم رانوں کو یہ فائدہ ملا کہ وہ اپنے فوجیوں اور اپنے سامانِ تجارت کو ایک حصے سے دوسری طرف منتقل کرسکتے تھے۔ لیکن دوسری طرف، ملکی باشندوں کو اِس سے یہ فائدہ ملا کہ اُن کے لیے ملک میں، ہر طرف سفر کرنا آسان ہوگیا۔ اِس سفری سہولت سے ملکی باشندوں کو عظیم فائدے حاصل ہوئے۔
یہی معاملہ موجودہ گلوبلائزیشن کا ہے۔ اِس گلوبلائزیشن کے زمانے میں غیر ملکی کمپنیوں نے، براہِ راست یا بالواسطہ طورپر، موبائل کی انڈسٹری قائم کی۔ اِس کا ایک نتیجہ یہ تھا کہ غیر ملکی تجارتی اداروں کو مالی فائدہ اٹھانے کا موقع ملا۔ لیکن دوسری طرف، ملک کے باشندوں کو تاریخ میں پہلی بار ٹیلی کمیونکیشن (tele-communication)کا ذریعہ حاصل ہوگیا۔ اِس کے نتیجے میں لوگوں کے کاروبار بہت زیادہ پھیل گیے۔ تجارتی فوائد کی یہ توسیع ہمارے ملک کے لیے ایک ایسی نعمت ثابت ہوئی جو اِس سے پہلے کبھی اُنھیں حاصل نہ تھی۔
واپس اوپر جائیں

موت سے بے خبری کیوں

میں آل انڈیا ریڈیو سُن رہا تھا۔ اُس پر ایک انڈین رائٹر کا ریکارڈ کیا ہوا انٹرویو آرہا تھا۔ چندمہینے پہلے اِس رائٹر کا انتقال ہوچکا ہے۔ اس کی موت کے بعد جب میں نے دوبارہ ریڈیو پر اس کی آواز سنی، تو اچانک ایسا محسوس ہوا کہ وہ رائٹر پہلے موجودہ دنیا میں بول رہا تھا، اب وہ دوسری دنیامیں چلا گیا ہے اور وہاں سے بول رہا ہے۔ موجودہ زمانے میں ریکارڈ کی ہوئی آواز علامتی طورپر اِس حقیقت کا مظاہرہ ہے کہ انسان مرنے کے بعد ختم نہیں ہوتا، بلکہ وہ اپنی عمر کے ایک دَور سے نکل کر، اپنی عمر کے دوسرے دور میں پہنچ جاتا ہے۔
مطالعہ بتاتا ہے کہ علمِ انسانی کے تمام شعبے اِس بات کی تصدیق کررہے ہیں کہ موت کے بعد انسان ختم نہیں ہوتا، بلکہ وہ کسی نہ کسی صورت میں دوبارہ زندگی پالیتا ہے۔ مثلاً حیاتیاتی سائنس کے جدید مطالعے کے مطابق، انسان کا جسم ایک سو ٹریلین سے زیادہ سیل (cells) کا مجموعہ ہوتا ہے۔ یہ سیل مسلسل ٹوٹتے رہتے ہیں اور ان کی جگہ دوسرے سیل آتے رہتے ہیں۔ جسم کے اندر یہ عمل مسلسل طورپر جاری رہتا ہے۔ گویا کہ انسان جسمانی اعتبار سے ہر چند سال کے بعد مرجاتا ہے اور دوبارہ زندگی پالیتا ہے۔
بار بار کی جسمانی موت کے باوجود انسان کی شخصیت (personality) بدستور قائم رہتی ہے۔مثلاً انسان کا حافظہ(memory) جیسے پہلے تھا، ویسا ہی وہ بعد کو باقی رہتا ہے۔ اِس سے یہ ثابت ہوا کہ جسم کسی انسان کی صرف ایک سواری (vehicle) ہے۔ سواری بدل جاتی ہے، لیکن انسان کی شخصیت بدستور اپنی اصل حالت پر باقی رہتی ہے۔ اِس حقیقت کو حیاتیات کے ایک مغربی عالم نے اِن الفاظ میں بیان کیا :
Personality is changelessness in change.
ایسی حالت میںانسان پر موت کا وارد ہونا، صرف یہ معنٰی رکھتا ہے کہ انسان سفر کرکے موجودہ دنیا سے ایک اور دنیا میں پہنچ گیا۔اِس لحاظ سے دیکھیے تو انسان کو موت کے بارے میں بہت زیادہ سوچنا چاہیے، بلکہ اُس کو سب سے زیادہ موت ہی کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ کیوں کہ موت ایک نئی دنیا کی طرف چھلانگ ہے۔ ایسی حالت میں ضروری ہے کہ انسان، موت کے بعد کے صورتِ حال کے لیے تیاری کرے۔ اس کی سوچ ہر اعتبار سے موت رُخی سوچ (death-oriented thinking) بن جائے۔
موت کسی آدمی کے لیے سب سے زیادہ یقینی واقعے کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہر آدمی کو بار بار موت کی یاددہانی کا تجربہ ہوتا رہتا ہے۔ ہر آدمی اپنے گھر میں اور اپنے قریبی ماحول میں لوگوں کی موت کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے، مگر عملاً ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی بھی شخص موت کو لے کر نہیں سوچتا۔ ہر آدمی اِس طرح زندگی گزار رہا ہے، جیسے کہ اُس کو مرنا نہیں ہے، بلکہ اس کو ہمیشہ کے لیے اِسی دنیا میں زندہ رہنا ہے۔ پوری تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی شخص نہ مرے۔ اِس کے باوجود انسان موت کے واقعات سے سبق نہیں لیتا۔ وہ موت کی حقیقت کا اعتراف صرف اُس وقت کرتا ہے، جب کہ خود اُس پر موت آجائے۔ اور مجبورانہ فیصلے کے تحت وہ موت کے دروازے میں داخل ہوجائے۔
ایک آدمی جب سفر کرتا ہے، خواہ اُس کا سفر ٹرین سے ہو، یاکار سے ہو، یا ہوائی جہاز سے ہو، توو ہ اِس سوچ کے تحت سفر کرتا ہے کہ چند گھنٹے کے بعد اُس کا سفر ختم ہوجائے گا اور وہ ایک نئے مقام پر پہنچ جائے گا۔ اِس مقصد کے تحت وہ اپنے سفر کی تیاری کرتا ہے۔ وسیع تر معنوں میں انسان کا معاملہ بھی ایک سفر کا معاملہ ہے۔ ہر انسان زندگی سے موت کی طرف سفر کررہا ہے، لیکن کوئی بھی شخص اِس دوسرے سفر کے معاملے میں موت کو لے کر نہیں سوچتا۔ ہر آدمی اس طرح اپنی زندگی کا سفر طے کررہا ہے جیسے کہ یہی سفر اُس کے لیے ابدی سفر ہے، وہ اِسی موجودہ صورت میں ہمیشہ باقی رہے گا۔
میرا آبائی وطن اعظم گڑھ (یوپی) ہے۔ آزادیٔ ہند سے پہلے کے دور میں وہاں ایک راجا ہَرکھ چند تھے۔ انھوں نے شہر کے مین روڈ پر اپنے لیے ایک بہت بڑی کوٹھی بنوانا شروع کیا۔نقشے کے مطابق، یہ ایک تین منزلہ کوٹھی تھی۔ چوتھی منزل پر ایک خصوصی کمرہ تھاجس میں اُنھیں اپنی اہلیہ کے ساتھ قیام کرناتھا۔ اِس کوٹھی میںانھوںنے بہت زیادہ پیسہ خرچ کیا۔ یہ بہت مضبوط قسم کی ایک قلعہ نما کوٹھی تھی۔اس کی دیواروں اور چھت پر ہر طرف نہایت اعلیٰ پیمانے پر آرٹ ورک کیا گیا تھا۔ یہ کوٹھی بہت لمبی مدت تک بنتی رہی، یہاں تک کہ اُس کی آخری تکمیل سے پہلے 1946 میں راجا ہرکھ چند کا انتقال ہوگیا، اور وہ اِس کوٹھی میں قیام نہ کرسکے۔
یہی معاملہ ہر انسان کا ہے۔ ہر آدمی اپنی زندگی کا منصوبہ اِس طرح بناتا ہے، جیسے کہ اس کو ابدی طورپر اپنے اِس منصوبے کے مطابق زندگی گزرانا ہے۔ جیسے کہ اس کے اور اُس کی اِس بنائی ہوئی دنیا کے درمیان کبھی جدائی ہونے والی نہیں۔
یہ ایک سنگین سوال ہے کہ تمام انسان موت کے بارے میں کیوںاتنا زیادہ غافل رہتے ہیں۔ وہ وسروں کو مرتا ہوا دیکھتے ہیں، لیکن خود اپنی موت کے بارے میں اُنھیں کبھی خیال نہیں آتا۔ ایک روایت کے مطابق، پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگ جب کسی آدمی کی تدفین کے بعد قبرستان سے لَوٹتے ہیں، تو اُس وقت خدا کا ایک فرشتہ قبر کے پاس آتا ہے۔ وہ قبر کی مٹی اٹھا کر لوٹنے والے لوگوں کی طرف پھینکتا ہے اور کہتا ہے کہ جاؤ غافل ہو جاؤ، جاؤ دوبارہ تم اپنی دنیا میں مشغول ہوجاؤ(للہ تعالی ملک مؤکل بالمقابر، فإذا دُفن المیت، وسوی علیہ، وتحولوا لینصرفوا، قبض قبضۃ من تراب القبر، فرمی بہا أقفیتہم، وقال: انصرفوا إلی دنیاکم، وانسوا موتاکم) ذکرہ السیوطی فی الحبائک، رقم الحدیث:413
اِس حدیثِ رسول میں تمثیل کی زبان میں ایک حقیقت کو بتایا گیا ہے۔ یہ تمثیل کی زبان میں فرشتوں کی طرف سے گویا کہ ایک نکیر ہے۔ لوگ ایک انسان کو اپنے سامنے مرتا ہوا دیکھتے ہیں۔ وہ اس کی تجہیز اور تکفین میں شریک ہوتے ہیں۔ لوگ دیکھتے ہیں کہ ایک انسان جو زمین میں چل پھر رہا تھا، وہ قبر میں دفن ہوگیا، لیکن اِس واقعے سے وہ اپنے لیے کوئی سبق نہیں لیتے۔ موت کے اِس واقعے سے پہلے وہ جس طرح غفلت کی زندگی گزار رہے تھے، اُسی قسم کی غفلت کی زندگی وہ اب بھی گزارتے رہتے ہیں۔یہی واقعہ پوری تاریخ میں پیش آرہا ہے۔ ساری انسانی تاریخ میں کچھ استثنائی افراد کو چھوڑ کر، کوئی انسان نظر نہیں آتا جو موت کے معاملے کو گہر ائی کے ساتھ سمجھے اور اُس سے اپنے لیے سبق لے۔
اِس عمومی غفلت کا راز کیا ہے۔ یہ راز پروگریمنگ (programming) کے نظریے سے سمجھ میں آتا ہے۔ پروگریمنگ کا مطلب ہے کسی معاملے کی پیشگی طورپر طے شدہ ترتیب:
A pre-arranged plan of procedure.
سائنسی مطالعے سے یہ معلوم ہوا ہے کہ انسان جو کچھ کرتا ہے، وہ خود اپنے ذہن کی پروگریمنگ کے تحت کرتا ہے۔ یہ پروگریمنگ فطری طورپر ہر انسان کے ذہن میں موجود ہوتی ہے۔ مثلاً بھوک لگنا، پیاس لگنا، نیند آنا، وغیرہ، سب اپنے ذہن کی فطری پروگریمنگ کے تحت پیش آتے ہیں۔ آدمی کی یہ صفت ہے کہ وہ ہمیشہ پروپروگریمنگ (pro-programming) کے تحت سوچتا ہے، وہ اینٹی پروگریمنگ (anti-programming) کے تحت نہ سوچتا ہے اور نہ عمل کرتا ہے۔ اینٹی پروگریمنگ سوچ دراصل اینٹی سیلف سوچ کا نام ہے، اور اینٹی سیلف سوچ بلا شبہہ تمام کم یاب چیزوں میں سب سے زیادہ کم یاب چیز ہے۔ یہ پروگریمنگ حالات کے زیراثر جزئی طورپر بدل سکتی ہے، لیکن شعوری طور پر اپنی پروگریمنگ کے خلاف سوچنا، انتہائی حد تک ایک دشوار کام ہے۔
میرے ساتھ ایسا ہوا کہ ایک بار میں مانچسٹر (انگلینڈ) گیا۔ وہاں میں لمبی مدت تک مقیم رہا۔ مانچسٹر ایسے جغرافی علاقے میں ہے، جہاں کبھی رات لمبی ہوتی ہے اور دن چھوٹا، اور کبھی دن لمبا ہوتا ہے اور رات چھوٹی۔ میں جس زمانے میں وہاں گیا تھا، اس زمانے میں وہاں رات بہت چھوٹی ہوتی تھی اور اس کے مقابلے میں دن زیادہ لمبا۔ چناںچہ ایسا ہوتا تھا کہ ہم نے مغرب کی نماز ادا کی، اس کے جلد ہی بعد عشا کا وقت آگیا، اور پھر عشا کی نماز کے بعد جلد ہی فجر کا وقت آگیا۔ اِس طرح رات کو وہاں سونے کا موقع نہیں ملتا تھا۔ وہاں ہم رات کے وقت جاگتے تھے اور دن کے وقت سوتے تھے۔
چناں چہ مقامی حالات کے دباؤ کے تحت، مانچسٹر کے زمانۂ قیام میں سونے اور جاگنے کے بارے میں میرے ذہن کی پروگریمنگ وقتی طور پر بدل گئی ۔ پھر جب میں انڈیا واپس آیا، تو اِس بدلی ہوئی پروگریمنگ کی بنا پر مجھے یہاں رات کو نیند نہیں آتی تھی، بلکہ دن کو نیند آتی تھی۔ یہ صورت ِ حال ایک عرصے تک باقی رہی۔ اس کے بعد میری پروگریمنگ اپنی سابقہ حالت پر لوٹ آئی۔
جیسا کہ معلوم ہے، کمپیوٹر میں پروگریمنگ کا طریقہ رائج ہے۔ جیسی پروگریمنگ کی جاتی ہے، اسی کے مطابق، کمپیوٹر اپنا کام کرتا ہے۔ یہی معاملے زیادہ بڑے پیمانے پر انسانی دماغ کا ہے۔ فطرت کی طرف سے اِس طرح ہر انسانی دماغ کی پروگریمنگ کردی گئی ہے۔ اس کے مطابق، ہر عورت اور مرد اپنی زندگی کے تمام کام کرتے رہتے ہیں۔ وہ اِسی حال میں جیتے ہیں اور اسی حال میں مرجاتے ہیں۔
ہر انسان صرف محدودیت تک جیتا ہے اور اس کے بعد وہ مرجاتا ہے۔لیکن عجیب بات ہے کہ کوئی بھی انسان موت کے بارے میں نہیں سوچتا۔ ہر عورت اور مرد بار بار دوسروں کو مرتا ہوا دیکھتے ہیں، لیکن وہ اپنے آپ کو اس سے مستثنیٰ کئے رہتے ہیں۔ دوسروں کو مرتا ہوا دیکھنے کے باوجود ہر آدمی اِس احساس میں جیتا ہے، جیسے کہ خود اُس پر موت آنے والی نہیں۔
اِس کا سبب پروگریمنگ کا معاملہ ہے۔ فطرت نے انسانی دماغ کی جو پروگریمنگ کی ہے۔ اس میں سب کچھ ہے، لیکن ایک چیز اس پروگریمنگ میں موجود نہیں، اور وہ موت ہے۔ انسانی دماغ کی پروگریمنگ میں بھوک ہے، پیاس ہے، نیند ہے اور دوسری تمام چیزیں ہیں، لیکن پروگریمنگ کی اِس فہرست میں موت سرے سے شامل نہیں۔یہی وجہ ہے جس کی بنا پر ہم دیکھتے ہیں کہ ہر انسان اس طرح جیتا ہے جیسے کہ اس پر موت آنے والی نہیں۔ اپنے داخلی شعور کے اعتبار سے ہر آدمی ابدیت (eternity) کے احساس میںجیتا ہے۔ اپنے ذاتی احساس کے اعتبار سے ہر آدمی اپنے آپ کو ابدی مخلوق سمجھتا ہے۔ وہ اپنے تمام معاملات کی منصوبہ بندی اس طرح کرتا ہے، جیسے کہ اس کو ہمیشہ کے لیے موجودہ دنیا میں رہنا ہے۔
اِس معاملے میں انسان کی مثال ایک ایسے کمپیوٹر کی ہے جس کی پروگریمنگ میں موت (death) کا لفظ یا اس کا تصور شامل نہ کیاگیا ہو۔ ایسا کمپیوٹر آپ کو ہر بات بتائے گا، لیکن جہاں تک موت کا تعلق ہے، وہ اس بارے میں آپ کو کچھ نہیں بتاسکے گا۔ کمپیوٹر اپنی پروگریمنگ کے مطابق کام کرتا ہے۔ کوئی لفظ یا کوئی تصور جو کمپیوٹر کی پروگریمنگ میںشامل نہ کیا گیا ہو، اگر آپ اُس لفظ یا تصور کے بارے میں کمپیوٹر سے سوال کریں، تو کمپیوٹر اُس کا جواب نفی کی صورت میں دے گا۔ مثلاً کمپیوٹر کی اسکرین پر یہ جملہ لکھا ہوا سامنے آجائے گا:
Your search did not match any document.
ڈی این اے (DNA) حیاتیاتی سائنس کی ایک نئی شاخ ہے۔ موجودہ زمانے میں اُس پر بہت زیادہ کام ہوا ہے اورانسانی شخصیت کے بارے میں انوکھی معلومات حاصل ہوئی ہیں۔ ڈی ای اے کا فُل فارم یہ ہے:
Deoxyribonucleic Acid
جدید تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ ڈی این اے، یا جینٹک کوڈ (genetic code) میں کسی انسان کی شخصیت کے بارے میں تمام چھوٹی اور بڑی معلومات درج ہوتی ہیں۔ کوئی انسان کیسے دیکھے گا، کیسے سنے گا، کیسے مسکرائے گا، کیسے کلام کرے گاوغیرہ، تمام معلومات پوری تفصیل کے ساتھ اُس میں کیمیائی حروف (chemical letters) کی صورت میںدرج رہتی ہیں۔ یہ معلومات انسانی زندگی کے تقریباً تین بلین مختلف موضوعات (3 billion different subjects) سے متعلق ہوتی ہے۔ ایک انسان کے جنیٹک کوڈ میں اتنی زیادہ معلومات ہوتی ہیں کہ اُن کو اگر ڈی کوڈ(decode) کرکے لکھا جائے تو اس کے لیے موجودہ انسائکلو پیڈیا بریٹانکا جیسی انسائیکلوپیڈیا کی ایک ہزار جلدیں درکار ہوں گی۔
لیکن یہ عجیب بات ہے کہ کسی انسان کے جنیٹک کوڈ میںانسائکلو پیڈیائی معلومات ہونے کے باوجود اُس میں موت (death) کے بارے میں کچھ بھی موجود نہیں۔ انسانی شخصیت کے اِس دفتر میںاُس کے بارے میں تمام تفصیلات درج ہیں، لیکن اُس میں موت کا کوئی اندراج نہیں۔ایسا کیوں ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ موت کے معاملے کو خدا نے انسان کی اپنی اختیاری دریافت کے خانے میں رکھ دیا ہے۔ انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ اپنی پروگریمنگ سے باہر نکل کر اپنی موت کے بارے میں سوچے اور اس کے مطابق، اپنے عمل کا منصوبہ بنائے۔
نیند کی مثال لیجیے۔ نیند اور موت کے درمیان ایک مشابہت پائی جاتی ہے۔ اِس فطری حقیقت کو ایک حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: النّوم أختُ الموت (نیند موت کی بہن ہے) کسی شخص کو جب نیند آتی ہے تو وہ بے خبر ہوجاتا ہے، اِس طرح موت بھی بظاہر آدمی کو بے خبر کردیتی ہے۔ لیکن نیند اور موت کے درمیان ایک بنیادی فرق ہے۔ نیند کا وقت ہر ایک کے لیے مقرر ہے، لیکن موت کا معاملہ کسی کے لیے اِس طرح کی توقیتِ فطری (natural timing) کے ساتھ مقرر نہیں، موت بالکل نامعلوم طور پر اچانک آجاتی ہے۔ کوئی بچپن میں مرجاتا ہے، کسی کی موت جوانی میں آتی ہے اور کسی کی موت بڑھاپے میں۔
نیند اور موت کا یہ فرق ایک گہری حقیقت کو بتا رہاہے۔ یہ حقیقت کہ نیند ہر آدمی کی پروگریمنگ کا فطری حصہ ہے، لیکن موت آدمی کی پروگریمنگ کا فطری حصہ نہیں۔ موت جب بھی آتی ہے، خدا کے براہِ راست فیصلے کے تحت آتی ہے۔ یہ خدا ہے جو خود اپنے فیصلے کے تحت، کسی کی موت کو مقدم کردیتا ہے اور کسی کی موت کو مؤخر۔ موت کا تعلق نہ آدمی کی اپنی سوچ سے ہے، اور نہ اس کی فطری پروگر یمنگ سے۔
جب کسی شخص کی موت واقع ہوتی ہے تو اِس کا مطلب خاتمۂ حیات نہیں ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ ظاہری موت کے باوجود اصل انسان اُس وقت بھی زندہ ہوتا ہے۔ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ موت دراصل ایک منتقلی (transfer) کا معاملہ ہے۔ موت اُس خصوصی لمحے کا نام ہے، جب کہ انسان ایک مرحلۂ حیات (period of life) سے گزر کر دوسرے مرحلۂ حیات میں داخل ہوجاتا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی مسافر اگلے اسٹیشن پر ایک سواری کو چھوڑ دے اور اس کے بعد دوسری سواری کے ذریعے اپنا مستقل سفر جاری رکھے۔
پروگریمنگ کے اِس ظاہرہ (phenomenon) کا مطالعہ کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ موت کے بارے میں انسان کی غفلت کیوں ہے۔ کیوں ایسا ہے کہ انسان اپنے روز مرّہ کے سفر کی پلاننگ ٹائم لمٹ(time limit) کو دھیان میں رکھتے ہوئے کرتاہے، لیکن زندگی کا سفر جو بظاہر موت پر ختم ہورہا ہے، اس کی پلاننگ وہ اِس عام اصول کے مطابق نہیں کرتا۔ کوئی عورت اور مرد اپنی زندگی کا سفر وقت پر مبنی پلاننگ (time based planning) کے تحت نہیںکرتے، یعنی وہ اِس طرح نہیں سوچتے کہ چند دن میں تومرنا ہے، پھر زیادہ سامان اکھٹا کرنے کی کیا ضرورت۔ وہ تکاثُر (more and more) کی نفسیات میں جیتے جیتے رہتے ہیں، یہاںتک کہ اچانک مرجاتے ہیں۔ انسانیت کی پوری تاریخ میںایسا ہی ہوتا رہا ہے اور آج بھی ایسا ہی ہورہا ہے۔
یہ معاملہ اُس وقت سمجھ میں آتا ہے جب کہ خدا کے تخلیقی پلان (creation plan) کی روشنی میں اس کا مطالعہ کیا جائے۔ الہامی علم (revealed knowledge) کا مطالعہ بتاتا ہے کہ خدا نے جب انسان کو پیدا کیا تو پہلے ہی دن اس کو ابدی صورت میں پیدا کیا۔ خدا نے انسان کو پیدا کیا تو پہلے ہی دن اس کو ابدی صورت میں پیدا کیا۔ خدا نے انسان کو ایک لامحدود مائنڈ دیا اور اس میں ہر قسم کی معلومات بھر دیں۔ ڈی این اے (DNA) کے جدید مطالعے سے یہ بات سائنسی طورپر ثابت ہورہی ہے۔
کہاجاتا ہے کہ ایک انسانی دماغ میں جو اعصاب (nerves) ہیں، وہ اتنے زیادہ ہیں کہ اگر ان کو پھیلایا جائے تو گلوب کے چاروں طرف ان کو تقریباً 25 بار لپیٹا جاسکتا ہے۔اِس تخلیق کے مطابق، ہر انسان پیدائشی طورپر یہ شعور لے کر پیدا ہوتا ہے کہ وہ ایک ابدی وجود ہے۔ اس کا سفر موت پر ختم نہیں ہوتا، بلکہ وہ موت کے بعد بھی مسلسل طورپر جاری رہتا ہے۔ ہر انسان اسی ابدیت کے شعور میں جیتا ہے۔ داخلی احساس کے تحت ہر انسان کی شخصیت ابدیت کی وسعتوں میں پھیلی ہوئی ہے۔
اِس بات کو دوسرے لفظوں میںاس طرح کہا جاسکتا ہے کہ خالق نے بطور واقعہ انسانی فطرت کی جو پروگریمنگ کی ہے، وہ ابدیت (eternity) کے حوالے سے کی ہے، یعنی جینے کے معاملے میں انسان کی جو نفسیات ہوتی ہے، وہ اُس سے مکمل طورپر مختلف ہوتی ہے جو ٹرین یا ہوائی جہاز کے سفر کے وقت ہوتی ہے۔ ٹرین یا ہوائی جہاز کے سفر میں انسانی ذہن کی پروگریمنگ محدود وقت کو لے کر ہوتی ہے۔ جب کہ زندگی کے معاملے میں انسانی ذہن کی پروگریمنگ زمان اور مکان کی محدودیت سے بالکل ماورا (beyond time and space) ہوتی ہے۔
نیچر کی یہی پروگریمنگ موت کے بارے میں انسان کی موجودہ نفسیات (psyche) کا اصل سبب ہے۔ انسان انسان جب بھی کسی کو مرتے ہوئے دیکھتا ہے تو وہ اس کے لیے اپنی نفسیات کے اعتبار سے ایک اجنبی واقعہ ہوتا ہے۔ اس کی اپنی فطرت کی پروگریمنگ اس کو بتارہی ہوتی ہے کہ میںایک ابدی شخصیت (eternal personality) رکھنے والا آدمی ہوں۔ اِس طرح اپنے بارے میں اس کا شعورِ ابدیت (sense of eternity) اِس میں رکاوٹ بن جاتا ہے کہ وہ موت کے اِس خارجی واقعے کو اپنے اوپر منطبق (apply) کرے۔ وہ اپنی نفسیات کے تحت ایسے کسی واقعہ کو ’’غیر‘‘ کا واقعہ (someone else's phenomenon) سمجھ کر اسے نظر انداز کردیتا ہے۔
ایسی حالت میں زندگی کی صحیح منصوبہ بندی کے لیے ضروری ہے کہ آدمی اپنے اندر اینٹی پروگریمنگ سوچ پیدا کرے۔ وہ خود اپنے خلاف سوچنے کی صلاحیت کا ثبوت دے۔ اس کے بعد ہی یہ ممکن ہے کہ وہ پروگریمنگ کے اِس معاملے سے اوپر اٹھے۔ وہ اپنی زندگی کے قبل از موت دور، اور بعد از موت دورمیں فرق کرے، اور پھر اپنی زندگی کے لیے مبنی بر حقیقت منصوبہ بندی کرسکے۔ اِس طرزِ فکر کو ایک لفظ میں انفصالی طرزِ فکر (detached thinking) کہاجاسکتا ہے۔ ایک شاعر نے اِس قسم کی سوچ کو تجرید تصور کا نام دیا ہے۔ اس کا شعر یہ ہے:
ہے داد کے قابل، میری تجرید تصور کرتا ہوں تجھے غیر کی محفل سے جُدا یاد
اِس فطری نقشے کو سامنے رکھیے تو معلوم ہوگا کہ کسی انسان کے لیے اپنی زندگی کی مطابقِ واقعہ منصوبہ بندی صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ اس کی منصوبہ بندی مبنی بر موت منصوبہ بندی (death- based planning) ہو، یعنی وہ اپنی زندگی کی منصوبہ بندی اِس حقیقت کو ملحوظ رکھتے ہوئے کرے کہ اس کا عرصۂ حیات(life span) موت سے پہلے کے دَورسے لے کر موت کے بعد کے دور تک پھیلا ہوا ہے۔ تمثیل کی زبان میں کہاجاسکتا ہے کہ موجودہ زندگی کسی انسان کے لیے ایک عارضی سفر ہے، اور موت گویا وہ اسٹیشن ہے جہاں اتر کر وہ اپنے مستقل دورِ حیات میں پہنچنے والا ہے۔
اِس اصول کو سامنے رکھ کر جب غور کیا جائے تو الہامی علم (revealed knowledge) دوبارہ ہم کو رہ نمائی دیتا ہے۔ اِس رہ نمائی کے مطابق، موت سے پہلے کا مرحلۂ حیات تیاری کا مرحلہ ہے، اور موت کے بعد کا مرحلۂ حیات تیاری کے مطابق اپنا مستقل انجام پانے کا مرحلہ۔ گویا کہ ہماری موجودہ زندگی ایک قسم کے امتحان ہال میں گزررہی ہے۔ یہاں کی ہر چیز پرچۂ امتحان (test paper) ہے۔ یہاں جو کچھ ہمارے ساتھ پیش آتا ہے، خواہ وہ اچھا ہو یا بُرا، وہ سب کا سب اپنی نوعیت کے اعتبار سے پرچۂ امتحان ہوتا ہے۔ موجودہ دنیا میں کوئی بھی چیز جو انسان کو ملتی ہے، وہ اُس کے لیے نہ انعام ہے اور نہ سزا۔ انعام اور سزا دونوں کا معاملہ موت کے بعد کے مرحلۂ حیات سے متعلق ہے، وہ موت سے پہلے کے مرحلۂ حیات سے متعلق نہیں۔
یہی انسانی زندگی کی اصل حقیقت ہے۔ ہر عورت یا مرد کو اِسی حقیقت کے مطابق، اپنی زندگی کا نقشہ بنانا ہے۔ فطرت کی پروگریمنگ کے مطابق، انسان موجودہ زندگی ہی کو اپنی مستقل زندگی سمجھ لیتا ہے۔ حالاں کہ موجودہ زندگی صرف ایک عارضی زندگی ہے۔ جس طرح کوئی طالبِ علم عارضی طورپر امتحان ہال میں کچھ وقت گزارتا ہے اور اس کے بعد وہ اپنی اصل زندگی کی طرف لوٹ جاتا ہے، اِسی طرح انسان موجودہ دنیا میں عارضی طورپر آیا ہے۔ اس کے بعد وہ اپنی اصل دنیا کی طرف لوٹ جائے گا۔
موجودہ دنیا میں مبنی بر حقیقت منصوبہ بندی کے لیے اینٹی پروگریمنگ سوچ یا آؤٹ آف پروگریمنگ سوچ کی ضررت ہے۔ بظاہریہ ایک بے حد مشکل کام معلوم ہوتا ہے، کیوں کہ اینٹی پروگریمنگ سوچ ایک دو طرفہ سوچ کا نام ہے۔ اِس میں آدمی کو ایک طرف موجودہ عارضی مدتِ حیات کے اعتبار سے سوچنا پڑتا ہے، اور عین اُسی وقت ضرورت ہوتی ہے کہ وہ بعد ازموت ابدی مدتِ حیات کے اعتبار سے سوچے۔ مگر یہ دو طرفہ سوچ انسان کے لیے کوئی مشکل کام نہیں۔ انسانی دماغ کی صلاحیت (capacity) اتنی زیادہ ہے کہ وہ ہر قسم کی متضاد سوچ کا احاطہ کرسکتا ہے۔ اِسی حقیقت کو ایک برطانی مفکر (Walt Whitman) نے اِن الفاظ میں بیان کیا ہے:
I am large enough to contain all these contradictions.
انسان کی زندگی کا مطالعہ بتاتا ہے کہ وہ اپنی پسند کے دوسرے معاملات میں اِسی متضاد طرزِ فکر کو سمیٹے ہوئے ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں اینٹی پروگریمنگ سوچ انسان کے لیے کوئی ناممکن سوچ نہیں، وہ ہر عورت اور مرد کے لیے پوری طرح ممکن ہے۔ اب ہر عورت اور مرد کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اپنی موجودہ عارضی زندگی کو کس نہج پر گزارتا ہے، ایسے نہج پر جو اُس کو اپنے ابدی دورِ حیات میں جنت میں پہنچانے والا ہے، یا جہنم میں۔
جدید تہذیب مادّی راحت (material comfort) کے تصور پر قائم ہے۔ جدید تہذیب کے تحت انسانی زندگی کا جونقشہ بنا ہے، اُس میں صرف آج (today) کا تصور ہے، اُس میں کل (tomorrow) کا تصور نہیں۔ چناں چہ کہاجاتا ہے کہ — خوب کام کرو اور خوب عیش کرو:
Work hard, party hard
اِس جدید ذہن کا کلمہ یہ ہے— ابھی اور اِسی وقت (right here, right now) ۔موجودہ زمانے میں اِس نظریے پر بہت زیادہ لکھا گیا ہے۔ جدید میڈیا تمام تر اِسی تصور پر چلایا جاتا ہے۔ بطور مثال یہاں صرف ایک آرٹکل کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ نئی دہلی کے انگریزی روزنامہ ٹائمس آف انڈیا (27 جنوری2008 ) میں ایک آرٹکل اِس موضوع پر چھپا ہے۔ اس کے لکھنے والے کا نام ڈونا(Donna Devane) ہے۔ یہ آرٹکل حسب ذیل عنوان کے تحت مذکورہ اخبار میں شائع ہوا ہے:
Be happy here and now.
زندگی کو کامیاب بنانے کا یہ تصور فطرت کے نقشے کے بالکل خلاف ہے۔ ڈی این اے(DNA) اور جنیٹک کوڈ(genetic code) کے مطابق، انسان کی زندگی پورے معنوں میں ایک ابدی زندگی ہے۔ وہ آج سے لے کر کل تک پھیلی ہوئی ہے۔ فطرت کے تخلیقی نقشے کے مطابق، یہ ایک خطرناک قسم کا ناقص تصورِ حیات ہے کہ آج کو لیا جائے اور کل کے بارے میں کچھ نہ سوچا جائے۔ جب ڈی این اے کی دریافت بتاتی ہے کہ انسان ایک مسلسل حیاتیاتی سلسلے کا نام ہے، تو انسان کے لیے مفید طریقہ یہی ہے کہ وہ اپنی زندگی کا نقشہ ابدیت (eternity) کو لے کر بنائے، نہ کہ صرف وقتی لمحہ (moment) کو لے کر ۔
یہ ایک عام بات ہے کہ لوگ دوسروں کو مرتاہوا دیکھتے ہیں، لیکن وہ یہ نہیں سوچ پاتے کہ مجھے خود بھی مرنا ہے۔ لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ آخر وقت تک موت کو بھولے رہتے ہیں، یہاں تک کہ وہ اچانک اِس دنیا سے چلے جاتے ہیں۔
اِس معاملے کی وضاحت کے لیے یہاں ایک مثال درج کی جاتی ہے۔ روسی کرنجیا (Russy Karanjia) انڈیا کے ایک مشہور صحافی تھے۔ وہ پارسی فیملی میں پیداہوئے۔ وہ سنسنی خیز صحافت (sensational journalism) کے امام تھے۔ ان کو فرینک مورس، شیام لال اور خوش ونت سنگھ کے درجے کا صحافی سمجھا جاتا تھا۔ انھوںنے دوسری عالمی جنگ میں وارکرسپانڈنٹ (war correspondent) کاکام کیا تھا۔ انھوں نے 1941 میں اپنا ہفت روزہ انگریزی اخبار بلٹز (Blitz) جاری کیا۔ اُن کے اخبار پر یہ ماٹو (motto) لکھا رہتا تھا: Free, Frank, and Fearless
روسی کرنجیا کے تعلقات بڑے بڑے لوگوں سے تھے۔مثلاً جواہر لال نہرو، مارشل ٹٹو، صدر جمال عبد الناصر اور ایران کے رضا شاہ پہلوی، وغیرہ۔ اُن پر دوبار ہارٹ اٹیک ہوا۔ یکم فروری 2008 کو ان کی موت بمبئی کے ایک اسپتال میں ہوئی۔ انتقال کے وقت ان کی عمر 92 سال تھی۔ ٹائمس آف انڈیا (2 فروری 2008 ) کی رپورٹ کے مطابق، اپنی موت سے پہلے انھوںنے جس واحد احساس کا ذکر کیا، وہ یہ تھا:
The only thing he complained about was that, the nurses skirts were not short enough.
روسی کرنجیا اُس وقت بسترِ مرگ پر تھے۔ اُس وقت وہ موت کے دروازے پر پہنچ چکے تھے۔ لیکن اُس وقت بھی اُن کے دماغ میں جو چیز چھائی ہوئی تھی، وہ یہ کہ اسپتال کی نرسوں کا اسکرٹ زیادہ چھوٹا نہ تھا جس سے اُن کے جسم کے زیادہ حصّے دکھائی دیں۔ حالاں کہ اُس وقت بطور حقیقت یہ چاہیے تھا کہ وہ موت کے بعد والے حالات کو سوچیں۔ اِس بے شعوری کا سبب یہ تھا کہ موت کے بعد والے حالات کے متعلق سوچنے کے لیے ضرورت تھی کہ وہ اپنی پروگریمنگ سے اوپر اٹھ کر سوچ سکیں۔ مگر شعوری ناپختگی کی بنا پر وہ ایسا نہ کرسکے۔ اِس لیے آخر وقت تک وہ موت کی حقیقت سے بے خبر رہے۔
قرآن میں پیغمبر کے مشن کو اِنذار کا مشن بتایا گیا ہے، یعنی لوگوں کی بے خبری کو توڑنا اور انھیں حقیقتِ حال سے باخبر کرنا۔ مذکورہ تفصیل کی روشنی میں دیکھیے تو انذار سے مراد یہی معاملہ ہے۔ انسان کے جنیٹک کوڈ میں چوں کہ موت (death) کا اندراج نہیں۔ موت ہر انسان پر براہِ راست خدائی فیصلے کے تحت آتی ہے۔ اِس لیے کوئی آدمی اِس معاملے کو اُسی وقت سمجھ سکتا ہے، جب کہ وہ برتر سوچ کی صلاحیت کا ثبوت دے۔ پیغمبر کا مشن یہی ہے کہ ہر عورت اور مرد کے اندر وہ اِس برتر سوچ کی صلاحیت پیدا کرے۔ تاکہ ہر انسان موت سے پہلے موت کی حقیقت کو جان لے۔ وہ موت سے پہلے وہ ضروری تیاری کرے، جو اُس کو موت کے بعد کی زندگی میں کامیاب بنانے والی ہو۔
یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ لوگ بار بار موت کے واقعات کو دیکھـتے ہیں، لیکن موت کے معاملے پر وہ زیادہ سنجیدگی کے ساتھ غور نہیں کرتے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ موت اُنھیں صرف خاتمۂ حیات کے ہم معنی نظر آتی ہے۔ وہ شعوری یا غیر شعوری طورپر اِس سے بے خبر رہتے ہیں کہ موت ایک نئے زیادہ با معنیٰ دورِ حیات کا آغاز ہے۔ اگر وہ اِس حقیقت کو جان لیں تو ان کی زندگی کا پورا نقشہ بدل جائے۔ ان کی تمام سرگرمیوں کا مرکز و محور یہ بن جائے کہ وہ اپنی موت کے بعد کی زندگی کو زیادہ کامیاب بنا سکیں۔
اِس اعتبار سے دیکھیے تو موت زندگی کی مثبت سرگرمیوں کے لیے سب سے زیادہ طاقت ور محرک (incentive) بن جائے گی۔ موت کی یاد آدمی کو بے عمل (inactive) نہیں بناتی، موت کی یاد آدمی کو زیادہ سرگرم (active) بنا دیتی ہے۔ موت آدمی کے اندر یہ سوچ پیدا کرتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ عمل کرو، کیوں کہ موت کے بعد عمل کا موقع باقی نہیں رہے گا۔ موت زندگی کا خاتمہ نہیں، بلکہ موت مواقعِ عمل کا خاتمہ ہے۔ اِس اعتبار سے موت کا رول محرکِ عمل کا رول ہے، نہ کہ مانعِ عمل کا رول۔
اصل یہ ہے کہ انسان کو اس کے پیدا کرنے والے نے ابدی مخلوق کی حیثیت سے پیدا کیا۔ اس کو ابدی صلاحیت والا دماغ دیا۔ اس کے دماغ کی پلاننگ ہر اعتبار سے ابدیت کی بنیاد پر کی گئی۔ اِس اعتبار سے انسان کی اصل قیاہ گاہ جنت کی ابدی دنیا ہے۔ لیکن پیدائش کے بعد انسان کو ایک محدود مدت کہ لیے موجودہ دنیا میں رکھا جاتا ہے۔ دنیا کا یہ عارضی قیام اس کے ٹسٹ کے لیے ہے۔ موجودہ دنیا کی عارضی مدت میں یہ دیکھا جارہا ہے کہ کون شخص اس ٹسٹ میں پورا اترتا ہے اورکون شخص اس میں پورا نہیں اترتا۔ جو عورت یا مرد اس ٹسٹ میں پورے اتریں گے، ان کو منتخب کرکے جنت میں بسا دیاجائے گا۔ اور جو عورت یا مرد اس ٹسٹ میں پورے نہ اتریں ، ان کو قابلِ رد (rejected lot) قرار دے کر الگ کردیا جائے گا۔
موت دراصل ایک ابدی سفر کا صرف ایک درمیانی اسٹیشن ہے۔ موت انسان کے ابدی تسلسل کا درمیانی انقطاع نہیں، بلکہ وہ خود تسلسلِ حیات کا ایک لمحاتی حصہ ہے— موت کا کوئی وقت نہیں، اور نہ موت کی کوئی مدت ہے۔ کوئی بھی شخص اپنی موت کے بارے میں کچھ نہیں جان سکتا۔ موت کا اہم ترین پہلو یہ ہے کہ وہ ہماری اپنی پروگریمنگ کا حصہ نہیں، وہ براہِ راست خدا کی طرف سے آنے والا ایک فیصلہ ہے۔ خدا نے موت کے وقت کی خبر کسی انسان کو نہیںدی، نہ براہِ راست طورپر اور نہ بالواسطہ طورپر۔
یہی وجہ ہے کہ کوئی انسان اپنی موت کے بارے میں نہیں سوچتا اور نہ وہ اس کا کوئی شعور رکھتا۔ آدمی جیتا رہتا ہے، یہاںتک کہ اچانک مرجاتا ہے۔ فطرت کی پروگریمنگ کے مطابق، ہر انسان بطور واقعہ ابدی بن گیا ہے۔ انسان کی اس ابدیت کو کوئی توڑنے والا نہیں۔ البتہ خدا جب دیکھتا ہے کہ آدمی کے ٹسٹ کی مدت پوری ہوگئی، تو وہ خوداپنے فیصلے کے تحت اِس عمل میںمداخلت کرتا ہے۔ وہ انسان کو موجودہ دنیا سے نکال کر بعد کی ابدی دنیا میں پہنچادتیا ہے۔ اِسی وقفۂ انتقال (transfering period) کا نام موت ہے۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے موت ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے (transportation) کا معاملہ ہے، نہ کہ زندگی کے خاتمے کا معاملہ۔
یہ صورتِ حال بتاتی ہے کہ زندگی میں کامیابی کے لیے ہر عورت اور مرد کو اپنے اندر ایک خصوصی صلاحیت پیدا کرنا ہے، یہ ہے اینٹی پروگریمنگ سوچ۔ یہ گویا کہ خود اپنے خلاف سوچنے کا معاملہ ہے۔ جو لوگ اس انقلابی طرزِ فکر میں کامیاب ہوں، وہی اس معاملے کو سمجھیں گے، وہی ایسا کرسکیں گے کہ اپنی پروگریمنگ کے خلاف سوچ کر موت کے معاملے کو جانیں اور قبل از موت مرحلۂ حیات میں، بعداز موت مرحلۂ حیات کی تیّاری کریں۔
فرانس کے صدر نکولس سارکوزی (Nicholas Sarkozy) جنوری 2008 میں انڈیا آئے۔ 26 جنوری کو یومِ جمہوریہ کی تقریب میںوہ خصوصی مہمان کی حیثیت سے شریک ہوئے۔ اس کے بعد اپنے دورۂ ہند کے آخری مرحلے میں وہ دہلی سے آگرہ گئے، تاکہ وہاں مشہور تاریخی عمارت تاج محل کو دیکھ سکیں۔ ان کے سفر آگرہ کی جو رپورٹ اخبار میں آئی ہے، ا س میں ایک سبق آموز جُز شامل ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صدر فرانس جب تاج محل کو دیکھ چکے تو ان کے سامنے حسب معمول گسٹ بک (Guest Book) لائی گئی تاکہ وہ اس پر اپنا تاثر درج کرسکیں۔صدر فرانس نے اختصار کے ساتھ اس میں ایک لفظ لکھا۔ یہ فرانسیسی زبان میں اُروواغ (Uruvor) تھا۔ اس فرانسیسی لفظ کا مطلب ہے: جلد ہی پھر ملیں گے (See you soon, again) ۔
میں نے یہ رپورٹ پڑھی تو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ یہ صرف ایک شخص کے ذاتی احساس کی بات نہیں۔ یہ لفظ پوری انسانیت کی نمائندگی کررہا ہے۔ تاج محل کو اگر جنت کا نمائندہ سمجھا جائے تو یہ جملہ پوری انسانیت کے احساس کو بتا رہا ہے۔ اِس دنیا میں پیداہونے والے تمام انسان اپنے داخلی احساس کے تحت اپنے دماغ میںایک جنتی دنیا کا خواب لئے ہوئے ہیں۔ ہر آدمی کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ خوابوں کی اِس دنیا کی تعمیر کرسکے۔
جیسا کہ معلوم ہے، انسان کو پیدا کرنے کے بعد خدا نے اس کو جنت میں رکھا۔ اس وقت یہ جنت اس کو صرف عارضی مشاہدے کے لیے دی گئی تھی۔اس عارضی مشاہدے کے بعد انسان کو موجودہ دنیا میں بسا دیاگیا اور یہ اصول مقرر کیاگیا کہ ہر انسان کی زندگی کا ریکارڈ دیکھا جائے گااور آخر میں انتخابی بنیاد (selective basis) پر اس کے لیے جنت کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اِس خدائی منصوبے کے تحت، انسان موجودہ دنیا میں آباد کیا گیا ہے۔
اب صورتِ حال یہ ہے کہ فطرت کی پروگریمنگ کے تحت، انسان ابدی احساس میں جی رہا ہے، اس کی پروگریمنگ کے اندر موت کا تصور شامل نہیں۔ لیکن آزمائشی پیریڈ کے اعتبار سے اس کو موت کا تجربہ کرنا پڑتا ہے جس کا کوئی وقت مقرر نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر عورت اور مرد کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے شعور کو حرکت میں لاکر اپنے اندر ایک خصوصی صلاحیت پیدا کرے۔ یہ صلاحیت اینٹی پروگریمنگ سوچ کی صلاحیت ہے۔ ہر ایک کو یہ کرناہے کہ وہ اپنی پروگریمنگ سے باہر آکر اپنے معاملے کو جانے۔ وہ پروگریمنگ میںشامل نہ ہونے کے باوجود موت کے معاملے کو دریافت کرے۔ اس دریافت کے بعد ہی یہ ممکن ہے کہ ہر آدمی اپنی زندگی کی صحیح منصوبہ بندی کرے اور ابدی کامیابی کا مستحق ٹھہرے۔
موجودہ پروگریمنگ کے زیراثر آدمی یہ کررہا ہے کہ وہ اِسی موجودہ دنیا میں اپنے لئے جنت کی تعمیر میںلگا ہوا ہے۔ یہ گویا کہ سفر کو منزل سمجھ لینا ہے، اور ایسا ہونا کبھی ممکن نہیں۔ موجودہ دنیا میں آدمی جو بھی تعمیر کرے گا اچانک موت اُس کا خاتمہ کردے گی۔ آدمی سب کچھ موجودہ دنیا میں چھوڑ کر اگلی دنیا کی طرف بالکل خالی ہاتھ چلا جائے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دنیا ہر انسان کے لیے ایک سفرکا معاملہ ہے۔ آپ ٹرین سے سفر کریں یا ہوائی جہاز سے، آپ اپنے کو مسافر سمجھتے ہیں۔ اس لیے آپ سکون کے ساتھ اپنا سفر طے کرتے ہیں۔ اگر آپ سفر کومنزل سمجھ لیں اور سفر کے دوران وہ تمام سہولتیں حاصل کرنا چاہیں جو صرف حالتِ قیام میںحاصل ہوتی ہیں، تو آپ کا سفر سخت تکلیف کا سفر بن جائے گا، خواہ آپ ٹرین یا ہوائی جہاز کے فرسٹ کلا س میں سفر کررہے ہوں۔
یہی اِس دنیا میںہر عورت اور مرد کا معاملہ ہے۔ جو عورت اور مرد اِس حقیقت کو سمجھ لیں، وہ آخرکار کامیاب زندگی کے مستحق قرار پائیں گے۔ اور جو لوگ اِس حقیقت کو نہ سمجھیں وہ صرف یہ کریں گے کہ فطرت کی طرف سے ملا ہوا قیمتی موقع کھو دیں، جب کہ یہ موقع دوبارہ کسی کو ملنے والا نہیں۔موت اِس حقیقت کا اعلان ہے کہ موجودہ زندگی میں انسان کو جو مختلف چیزیں ملی ہوئی تھیں، وہ بطور استحقاق نہ تھیں، بلکہ وہ صرف پرچہ ہائے امتحان (test papers) کے طورپر تھیں۔ موت کا آنا امتحان کے وقت کا ختم ہوجانا تھا۔ مدتِ امتحان کے ختم ہوتے ہی وہ تمام چیزیں بھی انسان سے چھِن گئیں جو اس کو بطور امتحان ملی تھیں۔
اِس طرح موت ہر انسان کو یہ بتاتی ہے کہ موت کے بعد کے مرحلۂ حیات میں تم بالکل اکیلے ہو جاؤ گے۔ اُن تمام چیزوں میںسے کوئی بھی چیز تمھارا ساتھ نہ دے گی، جو موت سے پہلے کے مرحلۂ حیات میںتم کو حاصل تھی۔ یہ صورتِ حال بے حد سنگین ہے۔ یہ صورتِ حال آدمی کو متنبہ کررہی ہے کہ تم موت کے بعد کے مرحلہ ٔ حیات کے لیے تیاری کرو۔ اگر تم ضروری تیاری کے بغیر موت کے بعد کے مرحلۂ حیات میں داخل ہوگئے، تو اچانک تم اپنے آپ کو انتہائی بے سروسامانی کی حالت میں پاؤ گے۔ تم اچانک دیکھو گے کہ موجودہ زندگی میں جو کچھ تم کو حاصل تھا، وہ سب تمھارا ساتھ چھوڑچکا ، اور اب نئے مرحلۂ حیات میں جینے کے لیے جو کچھ درکار ہے، وہ سرے سے تم کو حاصل ہی نہیں۔
واپس اوپر جائیں

کامیاب زندگی کا راز

فطرت کے اصولوں کی پابندی کرنے کا نتیجہ ہمیشہ کامیابی ہوتا ہے، اور فطرت کے اصولوں سے انحراف کا نتیجہ ہمیشہ ناکامی۔
واپس اوپر جائیں

سوچ کا فرق

ایک مسلم نوجوان مجھ سے ملے۔ وہ ایک بڑے دینی مدرسے میں تعلیم حاصل کررہے تھے۔ انھوں نے غم زدہ لہجے میں مجھ سے کہا کہ میرے لیے دعا کیجئے۔ میرے والد کا انتقال ہوگیا ہے۔ اب میں مجبور ہوں کہ تعلیم کو ادھورا چھوڑ کر گھر واپس جاؤں، کیوں کہ والد کے بعد میرے سوا کوئی اور گھر کو سنبھالنے والا نہیں۔
میں نے سنا تو اچانک میری زبان سے نکلا— اگر آپ بھی مرجائیں تو۔ میرا یہ جملہ مذکورہ طالبِ علم کے لیے ایک فکری بھونچال ثابت ہوا۔ اِس کو سن کر ان کی سوچ کا رُخ اچانک بدل گیا۔ وہ چند منٹ چپ رہے اور پھر انھوں نے کہا کہ اب میں گھر نہیں جاؤں گا۔ اب میں گھر کے معاملے کو خدا کے حوالے کرتے ہوئے بدستور اپنے اِس تعلیمی ادارے میں رہوں گا، اور پہلے سے بھی زیادہ محنت کے ساتھ اپنی تعلیم کومکمل کروں گا۔ اِس کے بعد وہ خاموشی کے ساتھ واپس چلے گئے۔
تقریباً دس سال کے بعد دوبارہ اُن سے ملاقات ہوئی تو وہ بہت خوش تھے۔ انھوں نے کہا کہ آپ کے ایک جملے نے میری زندگی بدل دی۔ اُس کے بعد میںنے اپنی تعلیم میں بہت زیادہ محنت کرنا شروع کردیا۔ میں نے عربی کے ساتھ انگریزی بھی سیکھی۔ انڈیا میں تعلیم سے فارغ ہوکر میں باہر کے ایک ملک میں چلا گیا۔ وہاں میں نے کافی پیسہ کمایا۔ میںنے اپنے آبائی گھر کو دوبارہ تعمیر کروایا، بھائیوں کو پڑھایا، اور بہنوں کی شادی کی۔ اللہ نے میرے تمام کاموں کو درست کردیا۔
اِس واقعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ زندگی میں سوچ کی اہمیت کتنی زیادہ ہے۔ ہر آدمی کی زندگی میں بُحرانی واقعات پیش آتے ہیں۔ ایسے موقع پر ضرورت ہوتی ہے کہ آدمی کے اندر پختہ سوچ ہو۔ وہ کرائسس مینج مینٹ (crisis management) کی صلاحیت رکھتا ہو۔ وہ بحران کے موقع پر منفی سوچ (negativ thinking) کا شکار نہ ہو، بلکہ وہ مثبت سوچ (positive thinking) کا ثبوت دے سکے۔ ایسے ہی لوگ زندگی میں کامیاب ہوتے ہیں۔ کامیابی دراصل صحیح طرزِ فکر کے نتیجے کا دوسرا نام ہے۔
واپس اوپر جائیں

مسئلے کا حل

ایک بار میں یورپ کے ایک شہر میں گیا۔ وہاں میں ایک عرب نوجوان کے ساتھ مقیم تھا۔ وہ یہاں سیاسی پناہ(political asylum) کے تحت رہتے تھے۔ انھوںنے ایم اے کرنے کے بعد تعلیم چھوڑ دی تھی۔ میںنے اصرار کیا کہ وہ ڈاکٹریٹ بھی ضرور کریں۔ چناں چہ انھوں نے وہاں کی ایک یونی ورسٹی میں ڈاکٹریٹ کے لیے اپنا رجسٹریشن کروالیا۔
کچھ عرصے بعد دوبارہ مجھے اس مغربی شہر میں جانا پڑا۔ وہاں میں مذکورہ عرب نوجوان کے ساتھ مقیم تھا۔ انھوں نے بتایا کہ ڈاکٹریٹ کے لیے انھوں نے ریسرچ کا کام شروع کیا تھا، لیکن اب وہ چھوٹ گیا ہے۔ اب وہ مزید تعلیم کا کام نہیں کررہے ہیں۔ میں نے وجہ پوچھی تو انھوںنے بتایا کہ ایک عرب خاتون کے ساتھ انھوں نے شادی کی ہے۔ یہ عرب خاتون انگریزی زبان بالکل نہیںجانتیں۔ اِس بنا پر وہ یہاں باہر کاکوئی کام نہیںکرسکتیں۔ چناں چہ گھر کے سارے کام مجھ کو کرنے پڑتے ہیں۔
میں نے سخت انداز میں ان کو نصیحت کی۔ میں نے کہا کہ تعلیم کو چھوڑنے کے لیے یہ کوئی عذر نہیں۔ میںنے کہا کہ آپ تعلیم جاری رکھیں، بقیہ مسائل اپنے آپ حل ہوجائیں گے۔ میںنے اُن کو زندگی کا یہ فارمولا بتایا کہ — مسئلے کو حل نہ کرنا بھی مسئلے کو حل کرنے کا ایک طریقہ ہے:
Not to solve the problem, is also a way of salving the problem.
کچھ عرصے بعد تیسری بار مجھے اُس مغربی شہر جانے کا اتفاق ہوا۔ مذکورہ عرب نوجوان نے خوشی کے ساتھ بتایا کہ میںنے آپ کے بتائے ہوئے فارمولے پر عمل کیا، اور اب میری بیوی بقدر ضرورت انگریزی بولنا سیکھ گئی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ مجبورانہ صورتِ حال(compulsive situation) بھی مسئلے کو حل کرنے کی ایک کامیاب صورت ہے۔ مجبورانہ صورتِ حال اپنے آپ آدمی کے لیے ایک طاقت ور معلم بن جاتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

امتیازی صلاحیت

حضرت علی بن ابی طالب (وفات: 661ء) اسلامی تاریخ کی ایک عظیم شخصیت مانے جاتے ہیں۔ حکمت اور دانائی کے اعتبار سے اُن کا درجہ بہت بڑا ہے۔ ان کے اقوال اور ان کے خطبات پر مشتمل ایک مستقل کتاب تیار کی گئی ہے۔ اِس کتاب کا نام ’نہج البلاغۃ‘ ہے۔
حضرت علی بن ابی طالب کے اقوال میں سے ایک قول یہ ہے: قیمۃ المرء ما یُحسنہ۔ یعنی انسان کی قیمت اس کے امتیازی عمل میں ہے:
The value of a person lies in excellence.
یکساں قد کے انسانوں میں اگر کوئی شخص زیادہ اونچے قد کا ہو تو وہ دور سے لوگوں کو دکھائی دے گا۔ ایسا انسان فوراً لوگوں کی نظر میں آجائے گا۔ اِسی طرح جو شخص اپنے اندر کوئی امتیازی صفت رکھتا ہو، وہ فوراً لوگوں کو دکھائی دینے لگتا ہے۔ بہت جلد اُس کو لوگوں کے درمیان ممتاز مقام حاصل ہوجاتا ہے۔
امتیازی صفت اپنی کسی بالقوہ صلاحیت (potential) کو بالفعل(actual) بنانے کا نام ہے۔ ہر آدمی فطرت سے اپنے اندر کوئی اضافی صلاحیت (additional quality) لے کر پیدا ہوتا ہے۔ اپنی اِس اضافی صلاحیت کو دریافت کیجیے، اور خصوصی محنت کے ذریعے اس کو ترقی دیجئے۔ اِس کے بعد آپ ایک امتیازی صلاحیت کے مالک ہوجائیں گے۔ اور جو شخص امتیازی صلاحیت کا مالک ہو، وہ اپنے آپ لوگوں کے درمیان قبولیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہر آدمی اپنی پیدائش کے اعتبار سے ایک ممتاز آدمی ہے۔ لیکن یہ امتیاز ہمیشہ امکانی اعتبار سے ہوتا ہے۔ اِس امکان کو واقعہ بنانا انسان کا اپنا کام ہے۔ ہر عورت اور مرد کو چاہیے کہ وہ اپنے فطری امکان کو پہچانے، اور اپنی پوری توانائی کو صرف کرکے اِس امکان (potential) کو واقعہ (actual) بنائے۔ اِسی عمل میں کسی انسان کی امتیازی کامیابی کا راز چھپا ہوا ہے۔ اِسی عمل میں ناکام ہونے کا نام ناکامی ہے، اور اِسی عمل میں کامیاب ہونے کا نام کامیابی۔
واپس اوپر جائیں

اعتراف یا سرکشی

حضرت علی بن ابی طالب (وفات: 661 ء) کا قول ہے: اتّقِ شرَّ من أحسنتَ إلیہ (اُس آدمی کے شر سے بچو، جس کے ساتھ تم نے احسان کیا ہے)۔ اِسی طرح مشہور عرب شاعر المتنبّی (وفات: 965 ء) کا ایک شعر یہ ہے— اگر تم شریف آدمی کے ساتھ احسان کرو تو تم اس کو اپنا مملوک بنا لوگے، اور اگر تم ذلیل آدمی کے ساتھ احسان کرو تو وہ تمھارے مقابلے میں سرکش بن جائے گا:
إذا أنت أکرمتَ الکریمَ مَلَکتَہ وإنْ أنت أکرمتَ اللَّئیمَ تمرّدا
ایسا کیو ںہوتا ہے۔ اِس کا سبب اعتراف کا معاملہ ہے۔ جب آپ ایک آدمی کے ساتھ کوئی سلوک کرے تو اِس کے بعد یہ سوال ہوتا ہے کہ وہ آدمی اِس سلوک کو کس کے خانے میں ڈالے، وہ کس کو اُس کا کریڈٹ (credit) دے۔
ایسی صورتِ حال میں جب آدمی دینے والے کو اُس کا کریڈٹ دے تو اِس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دینے والا اُس سے بڑا ہے اور وہ خود اُس سے چھوٹا ہے۔ یہ اپنے مقابلے میں دوسرے کی بڑائی کا اعتراف کرنا ہے۔ اِس قسم کا اعتراف آدمی کی انا (ego) سے ٹکراتا ہے۔ دوسرے کا اعتراف کرنا خود اپنی نفی کے ہم معنیٰ ہوتا ہے۔ اِس قسم کا اعتراف کسی انسان کے لیے بلاشبہہ سب سے زیادہ مشکل چیز ہے۔ اِس لیے آدمی کسی کے احسان کا اعتراف کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔
یہ بے اعترافی کسی حد پر نہیں رکتی، مزید آگے بڑھ کر وہ سرکشی بن جاتی ہے۔ آدمی اپنے محسن کا درجہ گھٹانے کی کوشش میں لگ جاتا ہے، تاکہ اس کی بے اعترافی لوگوں کو ایک معقول اورجائز فعل نظر آئے۔ سرکشی کی یہ قسم دراصل اپنی بے اعترافی کے جواز کے لیے ہوتی ہے، خواہ شعوری طورپر، یا غیرشعوری طورپر۔ ایسا آدمی بھول جاتا ہے کہ اعتراف سب سے بڑی نیکی ہے اور بے اعترافی سب سے بڑی بُرائی۔ اعتراف شریف آدمی کی پہچان ہے، اور بے اعترافی ذلیل آدمی کی پہچان۔
واپس اوپر جائیں

سوال و جواب

سوال
علما اور فقہا عام طورپر یہ مانتے ہیں کہ اسلامی شریعت کے مصادر چار ہیں— قرآن، سنّت، اجماع، قیاس۔ آپ نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ اسلامی شریعت کے مصادر چار نہیں ہیں، بلکہ اصلاً وہ تین ہیں— قرآن ، سنّت اور اجتہاد۔ اِس کا ماخذ کیا ہے۔ براہِ کرم اِس کی وضاحت فرمائیں۔ (محمد ذکوان ندوی، نئی دہلی)
جواب
میںنے جو کچھ لکھا ہے، اُس کا ماخذ قرآن ہے۔ یہ ایک بے حد بنیادی مسئلہ ہے کہ شریعت کے مصادر کیا ہیں۔ اِس سوال کا جواب صرف وہی درست ہوسکتا ہے جو قرآن سے ثابت ہوتا ہو۔ قرآن سے کم درجے کا استدلال اِس معاملے میں معتبر نہیں۔
شریعت کے تین مصادر ہونے کی بات قرآن کی اِس آیت سے براہِ راست طورپر نکل رہی ہے: أطیعوا اللہ وأطیعوا الرسول، وأولی الأمر منکم (النّساء: 59 ) ۔ اِس آیت میں سب سے پہلے اللہ کی اطاعت کا ذکر ہے۔ اِس کا ماخذ بلا شبہہ قرآن ہے۔ اِس کے بعد اِس آیت میں اطاعتِ رسول کا ذکر ہے۔ اس کا ماخذ متفقہ طورپر پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت ہے۔ اس کے بعد اِس آیت میںتیسرے ماخذ کے طورپر أولی الأمر کا ذکر کیا گیا ہے۔
اُولوالامر (اصحابِ امر) کا نقطۂ نظر معلوم کرنے کا ذریعہ کیا ہے۔وہ قرآن کی ایک اور آیت سے معلوم ہوتا ہے۔ قرآن کی سورہ نمبر 4 میں کہاگیا ہے کہ اپنے معاملات کے لیے اصحابِ امر سے رجوع کرو، تاکہ وہ استنباط کرکے تم کو رہ نمائی دے سکیں (النساء: 83 )
سوال
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ اور رسول کی اطاعت کرو، اوراپنے اولو الامر کی اطاعت کرو (النساء: 59 )۔ اِس آیت میںاللہ اور رسول کی اطاعت کا معاملہ تو بالکل واضح ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ’اولوالامر‘ کی اطاعت سے کیا مراد ہے (محمد مصطفی عمری، نئی دہلی)۔
جواب
اولوالامر کا لفظی مطلب ہے: اصحاب امر، یعنی وہ لوگ جن کے اوپر مسلمانوں کے امورِتنظیم کی ذمے داری ہو۔ اِس آیت میںاولوالامر سے مراد کوئی وقتی گروہ نہیں ہے، بلکہ وہ ایک ایسا گروہ ہے جو ہر زمانے میں مسلمانوں کے درمیان موجود رہتا ہے۔ دنیوی اعتبار سے مسلمانوں کی جماعت دو قسم کے حالات میں ہوسکتی ہے۔ ایک، وہ جب کہ سیاسی حاکم موجود ہو۔ اور دوسرے وہ جب کہ مسلمانوں کی جماعت موجود ہو، لیکن وہاں سیاسی اعتبار سے کوئی مسلم حاکم موجود نہ ہو۔ اولوالامر کے شرعی معاملے کا تعلق حالات کے مطابق، دونوں قسم کی صورتِ حال سے ہے۔
ایسے حالات میں جب کہ مسلمانوں کا اپنا سیاسی نظام ہو اور کوئی مسلم حاکم ان کے اوپر حاکمانہ حیثیت رکھتا ہو، تو ایسی صورت میں اِسی مسلم حاکم کو اولو الامر کا درجہ حاصل ہوگا۔ تمام مسلمانوں کا فرض ہوگا کہ وہ اِس مسلم حاکم کی اطاعت کریں۔ کسی بھی عذر کی بنا پر وہ اس کے خلاف خروج (بغاوت) نہ کریں۔
دوسری صورت وہ ہے جب کہ مسلم جماعت کے اوپر ان کا اپنا سیاسی حاکم نہ ہو۔ ایسی حالت میں علمائِ اسلام مسلمانوں کی دینی تنظیم کے ذمے دار ہوں گے۔ ان کو غیر سیاسی دائرے میں مسلمانوں کے اوپر ناظم کی حیثیت حاصل ہوگی۔ دوبارہ تمام مسلمانوں کا یہ فرض ہوگا کہ وہ غیر سیاسی دائرے میں اِن علما کی اطاعت کریں۔ کسی بھی عذر کی بنا پر وہ ان کی دینی رہ نمائی کو ترک نہ کریں۔ اِس کے بغیر مسلمانوں کی ترقی اور ان کی اجتماعی تنظیم ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز— 184

1 - مکہ ریڈیو (جدّہ) نے 11 دسمبر 2007 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک تفصیلی انٹرویو لیا۔ یہ انٹرویو ٹیلی فون پر ریکارڈ کیا گیا۔ اس کے انٹرویور مسٹر سراج وہاب تھے۔ سوالات کا تعلق، موجودہ زمانے کے مسلمانوں کو پیش آمدہ مسائل سے تھا۔ ایک سوال کے جواب میں کہاگیا کہ قرآن کے مطابق، موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے مسائل کسی دوسرے کی سازش کا نتیجہ نہیں ہوسکتے۔ یہ مسلمانوں کی اپنی داخلی کم زوری کا نتیجہ ہیں۔ سب سے بڑی داخلی کم زوری یہ ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلم رہ نما، حدیث کے الفاظ میں: أن یکون بصیراً بزمانہ کا مصداق نہ بن سکے۔ اب سب سے زیادہ ضروری چیز ہے— اپنی موجودہ پالیسی پر نظر ثانی اور اپنی غلطیوں کو مان کر دوبارہ منصوبہ بندی۔
2 - انڈیا انٹرنیشنل سنٹر (نئی دہلی) میں 29 دسمبر 2007 کو ایک پروگرام ہوا۔انڈیا انٹرنیشنل سنٹر کے ہال میں یہ پروگرام صدر اسلامی مرکز کی تقریر کے لیے منعقد کیاگیا تھا۔ ہندو اور مسلمان دونوں اِس میں بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔ اِس تقریر کا عنوان یہ تھا:
The Role of Spirituality in Stress Management.
ابتدائی تعارف مسٹر رجت ملہوترا نے کیا۔ اس کے بعد صدر اسلامی مرکز نے تقریباً ایک گھنٹے تک تقریر کی۔ اس کے بعد سوال و جواب ہوا۔لوگوں نے تحریری سوالات کیے جن کا جواب دیاگیا۔ آخر میں اسلامی لٹریچر لوگوں کے درمیان تقسیم کیا گیا۔ اِس موقع پر گڈورڈ بکس کی طرف سے ہال کے باہر اسلامی کتابوں کا ایک اسٹال بھی لگایا گیا۔ لوگوں نے بڑی تعداد میں وہاں سے کتابیں حاصل کیں۔
3 - اسلامک کلچرل سنٹر (لودھی روڈ، نئی دہلی) میں 5 جنوری 2008 کو ایک انٹرنیشنل سیمنار ہوا۔ اِس میں انڈیا، پاکستان، بنگلہ دیش اور بعض دوسرے ملکوں کے علماء اور دانش ور شریک ہوئے۔ اِس کا موضوع یہ تھا:
Peace Building Process in Islam.
اِس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی، اور وہاں موضوع پر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایک تقریر کی۔ یہ پورا پروگرام انگریزی زبان میں تھا۔ اِس موقع پر تمام شرکاء کے درمیان سی پی ایس انٹرنیشنل کی طرف سے انگریزی میں چھپے ہوئے دعوتی لٹریچر تقسیم کیے گئے۔
4 - شری رام اسکول (گُڑ گاؤں) میں ’’تعارفِ اسلام‘‘ کے موضوع پر 18 جنوری 2008 کو ایک پروگرام ہوا۔ اِس میں اسکول کے سینئر طلبا اور اساتذہ شریک ہوئے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ اِس پروگرام کا آغاز نماز سے ہوا۔ تمام طلبا اور اساتذہ نماز میں شریک ہوئے۔ ان کے سامنے نماز کی اہمیت بتائی گئی اور سادہ انداز میں اسلام کا تعارف پیش کیاگیا۔ اس موقع پر سی پی ایس ٹیم کے افراد بھی وہاں موجود تھے۔ پروگرام کے بعد انھوں نے طلبا اور اساتذہ سے انٹریکشن کیا اور ان کے درمیان دعوتی لٹریچر تقسیم کیا۔ خاص طورپر قرآن کے انگریزی ترجمے کی ایک ایک کاپی بھی ان کو بطور ہدیہ پیش کی گئی۔ طلبا نے اس کو بہت شوق سے لیا اور اپنی دل چسپی کا اظہار کیا ۔
5 - ای ٹی وی (نئی دہلی) کے اسٹوڈیو میں 19 جنوری 2008 کو ایک پینل ڈسکشن تھا۔ اس کے اینکر مسٹر عبید صدیقی تھے اِس ڈسکشن کا عنوان یہ تھا:
Did Benazir Bhutto pay the price of going against fundamentalism.
بے نظیر بھٹو (سابق وزیر اعظم پاکستان) کو 28 دسمبر کو پاکستان (راول پنڈی) میں قتل کردیاگیا۔ اُس وقت ان کی عمر 54 سال تھی۔ اِس ڈسکشن میںحصہ لینے کے لیے صدر اسلامی مرکز کو بھی بلایا گیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ بے نظر بھٹو کا قتل ان کی اپنی نادانی کے سبب ہوا:
Benazir Bhutto paid the price of going against reason.
بے نظیر بھٹو دوبار پاکستان کی وزیر اعظم بن چکی تھیں۔ حالات واضح طورپر بتارہے تھے کہ اب ان کے لیے تیسری بار وزیر اعظم بننے کا امکان نہیں ہے۔ اِس کے باوجود وہ لندن کا قیام چھوڑ کر پاکستان گئیں۔ یہ ان کے لیے مشہور انگریزی مثل کا مصداق تھا:
Fools rush in where angels fear to tread
6- 22 January, 2008
I have just recieved the Dawah packet containing brochures, and CDs and two books on Reality of life- No doubt, a great message of Peace and Non-violence to the world at unrest. Congratulations to Maulana Sahab, and to the CPS team for doing this great humanitarian/philanthropic work– that , in fact, is the need of the hour. I will give these brochures to Islamic libraries here in Asmara- so that this message of peace should reach to maximum people.
(Dr. M. Ashaq Malik, Assistant Professor & Director of Research, Eritrea Institute of Technology, Africa)
7 - سائی انٹر نیشنل سنٹر (نئی دہلی) میں 23 جنوری 2008 کو ایک پروگرام ہوا۔ اِس پروگرام میں کیندریہ نوودیہ ودّیالیہ کے پرنسپل حضرات شریک ہوئے۔ اس کا موضوع تھا— اسلام میں انسانی اقدار کا بنیادی تصور۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ اورموضوع کے مطابق، قرآن اور حدیث کی روشنی میں آدھ گھنٹے تقریر کی۔ تقریر کے بعد سوال اور جواب کا پروگرام تھا۔ اِس موقعے پر سی پی ایس انٹرنیشنل (نئی دہلی) کی ٹیم کے افراد بھی وہاں موجود تھے۔ انھوںنے حاضرین کے درمیان انگریزی میں چھپے ہوئے خوب صورت پمفلٹ اور بروشر تقسیم کیے۔
8- 25 January, 2008
I would like to inform you that yesterday night I was changing channels of my tv and on ETV Urdu I saw you and stopped there I attracted to your personality. I went on watching and listening to your program until it finished. I was really impressed by your intellectual conversation and noted your website from where I got your email address when I arrived at my office.
On website I read your brief life sketch and observed Almighty Allah has blessed you to work for the peace and harmony among the human beings. Masha'Allah, it is a great blessing.
I would request you to kindly keep me in your prayers and would like to seek guidance from your goodself for better life here and after. (K. B. Shakir, Karachi, Pakistan)
9 - الرسالہ جون 2007 کے شمارے میں شائع ایک مضمون کے خلاف پورے دو ماہ بعد اگست 2007 میں سری نگر میں بعض واعظین، ائمہ مساجد اور دانشوروں کی طرف سے سخت رد عمل سامنے آیا۔ذاتی طورپر اگرچہ مجھے آپ کی ہر تحریر سے مجموعی طور پر ہمیشہ اتفاق رہا ہے لیکن اس بار میں خود بھی سخت کنفیوژن کا شکار ہوگیا تھا کہ ایک طرف قرآن وحدیث کے گہرے مطالعہ وتحقیق کے بعد مجھے الرسالہ کی تحریروں میں آج تک کوئی قابل اعتراض اور خلاف اسلام بات نظر نہیں آئی ہے ۔الرسالہ ہی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے میرے اندر دینی شعور بخشا، دعوت و تبلیغ کا جذبہ ابھارا، مطالعہ و تحریر کی تحریک دی اور اسلام کو از سرِ نو دریافت کرنے کا ذوق پیدا کیاہے۔ لیکن دوسری طرف اس بار یہ بات میرے قلب و ذہن کو اندر ہی اندر کھائے جارہی تھی کہ لوگ الرسالہ کی کیوں اتنی زیادہ مخالفت کررہے ہیں۔میںاسی ذہنی کشمکش میں تھا اور یہ سوچ رہا تھا کہ کاش کسی بڑے اور معتبر عالم دین سے معلوم ہوجائے کہ الرسالہ کے بارے میں وہ کیا رائے رکھتا ہے۔ لیکن بظاہر ہندستان میں اس طرح کا کوئی قابل اعتماد عالم دین میری نظر میں نہیں تھا کہ جس سے میں خط کے ذریعے الرسالہ کے بارے میں اس کی رائے دریافت کرتا اور وہ بھی خدا ترسی کے ساتھ اپنی رائے کا اظہار فرماتا۔
اس طرح میںاسی اضطراب وبے چینی میںمبتلا تھا کہ10 اگست2007 کو میںنے ایک خواب دیکھا۔ میں نے دیکھا کہ آپ ہمارے گھر میں تشریف فرما ہیں۔ چہرے پر خاص بشاشت نمایاں طورپر نظر آرہی ہے، آپ کمرے کے ایک طرف تکیہ لگائے ہوئے بیٹھے ہیں اور دوسری طرف آپ کے مقابل میں ہندستان کے مایہ ناز اور ممتاز عالمِ دین مولانا ابو الکلام آزاد تشریف فرما ہیں۔ چوں کہ میں ذاتی طورپر مولانا ابو الکلام آزاد اور آپ سے بہت زیادہ متاثر ہوں او راستفادہ بھی بہت کیا ہے۔ لیکن موجودہ دور میں میں صرف آپ کو امت مسلمہ کا حقیقی اور واحد قائد اور رہنما مانتا ہوں۔ اس لحاظ سے آپ کو اور مولانا آزاد کو ایک ساتھ خواب میں دیکھنا میرے لیے بہت اچھا اور نیک شگون تھا۔ میرے گھر میں میرے سوا دوسرے افراد بھی تھے لیکن وہ سب آپ کی طرف متوجہ تھے اور آپ کی نصیحت سے لبریز باتوں کو توجہ سے سن رہے تھے۔ چناں چہ میں اس وقت موقع غنیمت جانتے ہوئے مولانا ابوالکلام آزاد سے الرسالہ
اور آپ کے بارے میں دریافت کرنے لگا۔ مولانا آزاد نے مسکراتے ہوئے مجھے سے قلم اور کاغذ لانے کے لیے کہا، میں نے یہ دونوں چیزیں حاضر کردیں۔ مولانا آزاد نے بڑے اچھے اور خوشگوار موڈ میں ایک پورا صفحہ لکھ کرمجھے دیا۔ میں نے اس تحریر کو دیکھے بغیر پہلے آپ کو پڑھنے کے لیے دے دیا۔ آپ اس تحریر کو پڑھ رہے تھے اور مسکراتے ہوئے نظر آرہے تھے۔ اس دوران میں محسوس کررہا تھا کہ مولانا آزاد نے جس عقیدت ومحبت کے ساتھ اس تحریر کو لکھا اور آپ نے جس اطمینان وتسکین کے ساتھ اس کو پڑھا اس سے یہی سمجھ میںآرہا تھا کہ مولانا آزاد نے آپ کے اور الرسالہ کے بارے میں ضرور مثبت رائے کا اظہارفرمایا ہوگا۔ اس کے بعد میں نے چاہا کہ میں بھی اس تحریر کو پڑھوں لیکن میںاس تحریر کو پڑھے بغیر نیند سے جاگ گیا۔
میں نے پھر اپنے طورپر جب اس خواب پر غور کیا تو میری سمجھ میں آیا کہ الرسالہ کوئی عام پرچہ نہیں ہے بلکہ یہ اپنی نوعیت کا پورے عالم اسلام میں واحد پرچہ ہے اور اصولی طور پر تمام علماء ربانی اس سے متفق ہیں اور اس سے انھیں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ جیسا کہ ایک دفعہ مولانا عبد الباری ندوی مرحوم نے بھی آپ کے متعلق کہا تھا کہ آپ جدید طبقہ کے لیے مبعوث ہیں بلا شبہ بات درست ہے۔حقیقت یہ ہے کہ مخالفین کی طرف سے ہر طرح کی بہتان طرازی والزام تراشی اور کردار کشی ودشنام طرازی کے باوجود الرسالہ مشن اپنے منزل مقصود کی طرف رواں دواں ہے اور آپ کی تحریریںجو قرآن وحدیث کی صحیح تعبیر وتشریح پر مبنی ہیں، شائع ہور ہی ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو علم و بصیرت کے سب سے اونچے منصب پر فائز فرمایا ہے۔ کیوں کہ خصوصاً آج کل الرسالہ میں جو تحریریں شائع ہوتی ہیں وہ بہت زیادہ ذہانت کی پختگی اور قرآن وحدیث پر زیادہ گہرے غور وفکر کی عکاسی کرتی ہیں۔
میںاپنے اس خط کے ذریعہ کھلے لفظوں میں اس حقیقت کا اقرار کرنا چاہتا ہوں کہ میں آپ کے فکر ونظر سے مکمل اتفاق رکھتا ہوں اور اسی جذبہ خلوص و محبت کے تحت میں نے یہ خط لکھا ہے (غلام نبی کشافی، سری نگر، کشمیر،26 جنوری 2008)۔
10- 28 January 2008
Maulana please accept my gratitude on giving me the actual face of Islam which was always in my mind. Luckily I was not reading religious books so I couldn't develop those kind of two great evils namely, bias and rigidness. Where I am working a friend of mine introduced your literature and the only thing that came out of my mind was that this is the actual face of Islam. I feel so fortunate that Allah has guided me through you. You are the real and only scholar of Islam in my view. May Allah succeed your sincere efforts of spreading Islam in its real form.
(Waseem Nasir)
11 -یکم فروری 2008 کو اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کا ایک وفد اسلامی مرکز میں آیا۔ یہ مختلف مغربی ملکوں کے لوگ تھے۔ یہ ایک درجن افراد تھے۔ اُن میں سے چند افراد کے نام یہ ہیں:
Linda Shehy, Rachel Gould, Inger Thoresen, Gill Bleaden, Pat Bartlett.
ِیہ لوگ مذاہب کے مطالعے کے لیے انڈیا آئے ہیں۔ اسلام کو سمجھنے کے لیے وہ صدر اسلامی مرکز سے ملے۔ اِن لوگوں سے اسلام کے مختلف موضوعات پر ڈیڑھ گھنٹے تک گفتگو ہوئی۔ انھوں نے بہت دھیان کے ساتھ تمام باتوں کو سنا۔ آخرمیں اُنھیں انگریزی میں اسلامی لٹریچر دیاگیا۔ اِس کو انھوں نے بہت شوق سے لیا۔ انھوں نے کہا کہ آج اسلام کے بارے میں ہماری بہت سی غلط فہمیاں دور ہوگئیں۔
واپس اوپر جائیں