Pages

Saturday, 2 January 2010

Al Risala | January 2010 (الرسالہ،جنوری)


پولینڈ کا سفر

ویٹکن (Vatican) کی سرپرستی میں ایک انٹرنیشنل مسیحی تنظیم قائم ہے۔ یہ تنظیم اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی تنظیم ہے۔ وہ 1986 میں قائم ہوئی۔ اِس کا نام کمیونٹی آف سینٹ ایجی ڈیو (Community of St. Egidio) ہے۔ اس کا ہیڈ کوارٹر روم (اٹلی) میں ہے۔ اِس تنظیم کی طرف سے ہر سال دنیا کے مختلف مقامات پر اجتماعات کئے جاتے ہیں۔ اِس میں ہر مذہب کے نمائندے شرکت کرتے ہیں۔ اِس سال یہ اجتماع پولینڈ کے شہر کریکو (Krakow) میں 6-8 ستمبر 2009 کو منعقد کیا گیا۔ اِس کی دعوت پر پولینڈ کا سفر ہوا۔ اِس کانفرنس کا موضوع یہ تھا:
70 Years After World War II Faiths and Cultures in Dialogue
پولینڈ کا نام سب سے پہلے 1939 میں میرے علم میں آیا۔ اُس وقت میں اعظم گڑھ (باقی منزل) میں رہتا تھا۔ ہمارے گھر کے سامنے ایک ہندو پرنسپل تھے۔ اُن کا نام مسٹر سَکَل دیپ سنگھ تھا۔ 18 ستمبر 1939 کی صبح کو وہ ایک انگریزی اخبار لے کر ہمارے یہاں آئے۔ یہ غالباً ڈیلی پانئر (Pioneer) تھا جو اُس وقت الٰہ آباد (یوپی) سے نکلتا تھا۔ انھوںنے کہا کہ یورپ میںایک بہت بڑی لڑائی چھڑ گئی ہے۔ جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کرکے اُس پر قبضہ کرلیا ہے۔ میں نے دیکھا تو انگریزی اخبار کی پہلی سرخی یہ تھی:
Poland in German Hand
اُس زمانے میں یوپی کے علاقے میں پانئر اخبار کی بہت دھوم تھی۔ مشہور شاعر اکبر الٰہ آبادی (وفات: 1921 ) نے اپنے ایک شعر میں کہا تھا :
بات وہ ہے جو پانئر میں چھپے
یہ دوسری عالمی جنگ کا آغاز تھا۔ یہ جنگ6 سال (1939-1945) تک جاری رہی اور پھر ہولناک تباہی کے بعد ختم ہوئی۔ اِس جنگ میںتقریباً 6ملین انسان مارے گئے۔
میںاُس وقت مدرسۃ الاصلاح (سرائے میر، اعظم گڑھ) میں پڑھتا تھا۔ اُس وقت مجھے ٹکٹ (postage stamp) جمع کرنے کا شوق ہوا۔ غالباً پہلا بیرونی ٹکٹ پولینڈ کا تھا۔ٹکٹ جمع کرنے کا یہ شوق مدرسے کی زندگی میں بالکل اجنبی تھا، لیکن مجھے اُس سے بہت فائدہ ہوا۔ ٹکٹ جمع کرنے کا شوق میرے لیے جغرافیہ اور تاریخ کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کا ذریعہ بن گیا۔
یہ جنگ جرمنی کے ڈکٹیٹر ہٹلر (Adolf Hitler) نے شروع کی تھی۔ اُسی زمانے میں ہٹلر کی خود نوشت سوانح عمری کا ترجمہ اردو میں ’’میری جدوجہد‘‘ کے نام سے چھپا تھا۔ میںنے اس کو پڑھا۔ بعد کو بھی میں ہٹلر کے بارے میں بہت کچھ پڑھتا رہا۔
میرا اندازہ ہے کہ ہٹلر غیر معمولی صلاحیتوں کا آدمی تھا۔ واقعات بتاتے ہیں کہ ہٹلر کو آخری زمانے میں یہ احساس ہوگیا تھا کہ جنگ چھیڑنا اس کی غلطی تھی۔ اس نے کہا تھا کہ نئے ہتھیاروں کے وجود میں آنے کے بعد اب جنگ بے فائدہ ہوچکی ہے۔ اگرتیسری جنگ ہوئی تو اُس میںکسی کو جیت حاصل نہ ہوگی، بلکہ صرف یہ ہوگا کہ کچھ لوگ عام تباہی سے بچ جائیں گے:
No victors, only survivors
ہٹلر کے اندر بے پناہ حد تک قوتِ ارادہ (will power) موجود تھی۔ میرا اندازہ ہے کہ ہٹلر اگر زندہ رہتا تو شاید وہ امن کے لیے کوئی بڑا کام کرتا۔ مگر اس کو ڈر تھا کہ الائڈ پاورس (Allied Powers) کی طرف سے اُس پر جنگی مجرم کی حیثیت سے مقدمہ چلایا جائے گا اور اس کو پھانسی دے دی جائے گی۔ اِسی اندیشے کی بنا پر اس نے ایک بنکر میں 30 اپریل 1945 کوخود کشی کرلی۔
پولینڈ کی یہ کانفرنس تین دن کے لیے تھی۔ اِس کا انعقاد ایک مسیحی تنظیم کمیونٹی آف سینٹ ایجی ڈیو (Community of Saint Egidio)کی طرف سے کیاگیا تھا۔ اِس تنظیم کا مقصد یہ ہے کہ مختلف مذہبی گروہوں کے درمیان امن اور دوستانہ تعلقات کو فروغ دیاجائے۔
سینٹ ایجی ڈیو (Saint Egidio) یونان کے ایک قدیم مسیحی راہب تھے۔ وہ 650 ء میں پیدا ہوئے اور 710 ء میں ان کی وفات ہوئی۔ اُنھیں کے نام پر یہ تنظیم قائم کی گئی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ دنیا کے 70 ملکوں میں ان کے 70 ہزار ممبران موجود ہیں۔ یہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ایک تنظیم ہے۔ مسٹرآندریہ رکاردی (Andrea Riccardi) اِس تنظیم کے بانی ہیں۔ عالمی اداروں کی طرف سے کمیونٹی کو مختلف قسم کے انعامات دئے گئے۔ مثلاً یونیسکو کی طرف سے 1999 میں اس کو پیس پرائز (Peace Prize) ملا، اور 2002میں اس کو نوبل پیس پرائز (Noble Peace Prize) دیاگیا۔
جس زمانے میں مجھے پولینڈ کا سفر کرنا تھا، اُس زمانے میں سوائن فلو (swine flu) کی خبریں بہت زیادہ آرہی تھیں۔ اِس بنا پر مجھے سفرکرنے میں تردد تھا۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا فیصلہ کیا جائے۔ اِس بارے میں میرے ایک ساتھی نے استخارہ کیا۔ اس کے بعد ان کو رات میں ایک خواب آیا۔ یہ خواب خود اُن کے قلم سے میری ڈائری میں اِس طرح موجود ہے:
’’10 اگست 2009 کی رات کو میںنے ایک خواب دیکھا۔ میںنے دیکھا کہ راقم
الحروف اور مولانا وحیدالدین خاں صاحب ایک جگہ فرش پر قعدہ کی حالت میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ اِس دوران دو عامل مولانا کے پاس آتے ہیں۔ مولانا اُن سے کہتے ہیں کہ آپ لوگ جو چاہیں پڑھ کر میرے اوپر پھونکیں، ان شاء اللہ مجھ پر اس کا کوئی منفی اثر نہیں ہوگا۔ چناںچہ دونوں عامل کافی دیر تک کچھ پڑھ کر مولانا کے اوپر پھونکتے رہے، مگر مولانا کے اوپر اس کا کوئی منفی اثر نہیں ہوا۔ کافی دیر کے بعد مذکورہ عامل جب پھونک کر فارغ ہوئے تو میں نے دیکھا کہ مولاناکے چہرے پر شکر کے گہرے آثار نمایاں تھے۔ مولانا کہہ رہے تھے کہ یہ سب خدا کی رحمت ہے کہ مجھ پر اِن لوگوں کے عمل کا کوئی منفی اثر نہیں ہوا۔ آخر میںاُن عاملوں نے کہا کہ ہم لوگوں نے ایسی ایسی چیزیں پڑھ کر پھونکی تھیں کہ آدمی کا بدن چھلنی ہوجائے، مگر تعجب ہے کہ مولانا کے اوپر اِس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ اِس کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔ یہ فجر سے پہلے کا وقت تھا‘‘۔ (محمد ذکوان ندوی)
ہر بار سفر کے موقع پر میرا معمول رہا ہے کہ میں سفر کے موقع پر یہ دعاء کرتا ہوں: اللہم أنت الصاحب فی السفر والخلیفۃ فی الأہل والمال (أبو داؤد، کتاب الجہاد) مگر پولینڈ کے سفر میں میری زبان سے ایک نئی دعاء نکلی۔ میںنے ایک پائنٹ آف ریفرنس کو لے کر دعا کی۔ کمیونٹی آف سینٹ ایجی ڈیو کے ایک ممبر ہیں ۔ اُن کانام ڈاکٹر لونارڈ و(Leonardo Palombi) ہے۔
کمیونٹی کے پچھلے سالوں کے ایک پروگرام میں ان کا ٹیلی فون آیا تو میںنے کہا کہ میں صرف ایک شرط پر آسکتا ہوں، اور وہ ہے — ائر پورٹ سے ائر پورٹ تک آپ کی موجودگی:
Your availibility from airport to airport
انھوں نے اِس کا وعدہ کیا۔ چناںچہ جب میں رومانیہ کے ائر پورٹ پر اترا تو وہ برابر میرے ساتھ رہے، یہاںتک کہ واپسی میں ائر پورٹ تک وہ ہمیں پہنچانے آئے۔
موجودہ سفر میں میرے اوپر عجز کا احساس غالب تھا۔ اِس احساس کے تحت میری زبان سے دعاء نکلی کہ یا اللہ، تو اِس سفر میں دہلی سے دہلی تک (from Delhi to Delhi) میرا ساتھی بن جا۔ یہ سفر میں صرف تیرے لئے کررہا ہوں، تو ہی اِس سفر میں میرا مددگار بن سکتا ہے۔
عجیب بات ہے کہ یہ دعاء کامل طورپر قبول ہوئی۔ پورے سفر میں اِس کا مشاہدہ ہوتا رہا۔ یہ پورا سفر اتنا آسان بن گیا کہ واپسی کے بعد میرے ساتھیوں نے کہا کہ یہ سفر ہمارے لیے گویا ایک خواب جیسا سفر (dream journey) تھا۔ ہم ابھی دہلی میں تھے کہ اس کے آثار دکھائی دینے لگے۔ ہمارے قافلے میں چارافراد شامل تھے— راقم الحروف، مسٹر رجت ملہوترا، سعدیہ خان، مولانا محمدذکوان ندوی۔ نئی دہلی میں پولینڈ کے سفارت خانے نے نہایت آسانی سے ہم کو ویزا دے دیا اور ہم سے ویزا کی فیس نہیں لی جس کی مجموعی رقم 16 ہزار روپئے تھی۔
4 ستمبر 2009 کی شام کو دہلی سے پولینڈ کے لیے روانگی ہوئی۔ آج کے اخباروں میں سب سے زیادہ نمایاں خبر یہ تھی کہ آندھرا پردیش کے چیف منسٹر ڈاکٹر راج شیکھر ریڈی کا انتقال ہوگیا۔ وہ ایک ہیلی کاپٹر میں سفر کررہے تھے۔ ان کا ہیلی کاپٹر بارش کے طوفان میں پھنس گیا اور ایک پہاڑی سے ٹکرا کر تباہ ہوگیا۔
راج شیکھر ریڈی کی موت کے بعد لوگوں کے تاثرات اِس قسم کے الفاظ میں سامنے آئے— ایک کریسمیٹک لیڈر (charismatic leader)چلا گیا، ایک کامیاب چیف منسٹر چلا گیا، ایک مقبولِ عام لیڈر چلا گیا، وغیرہ۔ میں نے حیدرآباد کے حبیب بھائی سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ آندھرا پردیش کے مسلمانوں کو یہ کہنا چاہیے کہ ایک مدعو چلا گیا۔آندھرا پردیش کے مسلمانوں کی یہ ذمے داری تھی کہ وہ اپنے اِس لیڈر تک خدا کا پیغام پہنچائیں، لیکن وہ اپنی اِس ذمے داری کو ادا نہ کرسکے اور جانے والا ہمیشہ کے لیے چلا گیا۔ اِس کوتاہی کی پچاس فی صد ذمے داری اگر جانے والے لیڈر پر ہے تو پچاس فی صد ذمے داری وہاں کے رہنے والے مسلمانوں پر ہے۔
4 ستمبر 2009 کی رات کو 10 بجے ہم لوگ ایک قافلے کی صورت میں ائر پورٹ کے لیے روانہ ہوئے۔راستے میں حسب معمول کاروں کی بھیڑ نظر آئی۔ میںنے سوچا کہ ہمارے ملک میں سڑکیں تو چوڑی نہیں کی گئیں، البتہ موٹر کار بنانے والی کمپنیوں نے تنگ سڑکوں پر کاروں کی بھرمار کردی۔ اب اُس میں مزید اضافہ یہ ہوا ہے کہ ایک بڑی کمپنی نے سستی کار بنائی ہے جس کا نام نینو (Nano) ہے۔ نینو کے آنے کے بعد سڑکوں پر کاروں کی بھیڑ اتنی زیادہ بڑھ جائے گی کہ انڈیا کے شہروںمیں سفر کرنا ہی مشکل ہوجائے گا۔ کوئی کار بنانے والی کمپنی اگر کار بنانے کے بجائے جدید قسم کی بائیسکل بناتی تو یہ غالباً قوم کی زیادہ بڑی خدمت ہوتی۔
جب ہم لوگ ائر پورٹ کے سامنے پہنچے تو وہاں بہت زیادہ بھیڑ دکھائی دی۔ ہمارے ساتھ دو گاڑیاں تھیں۔ اپنی عادت کے مطابق، میںنے کہا کہ اِس بھیڑ میں کہاں گاڑی کھڑی کریں گے اور کس طرح کتابوں کے یہ کارٹن اندر لے جائیں گے۔ یہ سوچ کر میں پریشان ہورہا تھا۔ لیکن ہمارے ساتھی مسٹر رجت ملہوترا بالکل مطمئن تھے۔ انھوں نے اطمینان کے ساتھ کہا:
Maulana, it is angel’s problem.
اور واقعۃً ایسا ہی ہوا۔ تمام مراحل اتنی آسانی سے طے ہوگئے، جیسے کہ ہمارے بدلے فرشتے سارا کام کررہے ہوں۔
ہمارے ساتھ قرآن کا انگریزی ترجمہ دس کارٹن میں موجود تھا۔ دہلی کے اندرا گاندھی انٹرنیشنل ائر پورٹ پر جب اس کو چیک ان (check in) کیا جارہا تھا تو بکنگ آفس پر بیٹھی ہوئی خاتون نے اس کو وزن کرنے کے بعد کہا کہ اِس کا وزن پندرہ کلو زیادہ ہے۔ خاتون نے پہلے کہا کہ یہ پندرہ کلو زیادہ ہے، اس کو آپ کم کیجئے۔ ہمارے ساتھی سوچنے لگے کہ کس طرح اس کو کم کیا جائے۔ مگر تھوڑی دیر کے بعد خاتون نے دوبارہ خود ہی کہا کہ کوئی بات نہیں، جانے دیجئے۔ چناں چہ ہمارے ساتھیوں نے کتابوں کے پیکٹ کو چیک ان کردیا۔
عجیب بات یہ ہے کہ عین اُسی وقت ایک اور مسافر آیا۔ اس کا سامان بھی زیادہ تھا۔ ائرپورٹ کی خاتون نے اس کا سامان صرف اُس وقت چیک اِن کیا جب کہ اُس نے کچھ سامان نکال کر اُس کا وزن کم کیا۔ اِس طرح کے واقعات پورے سفر میں پیش آتے رہے جن کا ذکر ان شاء اللہ اِس سفر نامے کے دوسرے مقامات پر آئے گا۔
ہمارے ساتھیوں کے بیگ میں دعوتی لٹریچر موجود تھا۔ چناں چہ انھوںنے ائر پورٹ ہی سے اُسے لوگوں کو دینا شروع کردیا۔ ائر پورٹ کے عملہ کی ایک خاتون کو ’’ریلٹی آف لائف‘‘ کی ایک کاپی دی گئی۔ بھیڑ کی وجہ سے خاتون نے عجلت کے ساتھ پمفلٹ لے کر رکھ لیا۔ ہم لوگ پملفٹ دے کر امیگریشن کاؤنٹر کی طرف بڑھ گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد ہم نے دیکھا کہ وہ خاتون تیزی کے ساتھ چلتی ہوئی ہماری طرف آرہی ہے۔ اس نے قریب آکر کہا کہ — آپ کے اِس خوب صورت پمفلٹ کے لیے آپ لوگوں کا بہت بہت شکریہ:
Thank you very much for this beautiful pamphlet!
’’تھینک یو‘‘ کہنا جدیدکلچر کا ایک لازمی حصہ ہے۔ کوئی آدمی اگر تھینک یو نہ کہے تو جدید معیار کے مطابق، اُس کو پس ماندہ شخص کہا جائے گا۔ اگرآپ کسی کو ایک ایسی کتاب دیں جو اُس کے اپنے مذہب کے علاوہ کسی اور مذہب سے تعلق رکھتی ہو تو جدید مذہب کے مطابق، اُس آدمی کا فرض ہے کہ وہ آپ کو تھینک یو کہے، خواہ وہ اس سے اتفاق رکھتا ہو یا اختلاف۔ یہ ایک نیا دعوتی امکان ہے جو موجودہ زمانے میں ساری دنیا میں پیدا ہواہے۔
ائرپورٹ کے رسمی مراحل سے گزرتے ہوئے ہم لوگ اندر داخل ہوگئے۔یہاں اوپر کی منزل میں شان دار لاؤنج (lounge) موجود تھا۔ یہاں آرام دہ نشست گاہوں کے درمیان کھانے پینے کی مختلف چیزیں موجود تھیں۔ ہم لوگ تقریباً ایک گھنٹہ یہاں بیٹھے۔
دہلی سے زیورک (Zurich) کے لیے ہماری فلائٹ رات کو ڈیڑھ بجے تھی۔ یہاں میرے ساتھیوںنے عملہ کے لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا اور پھر لاؤنج کے ایک حصے میں بیٹھ کر ہم لوگ مختلف موضوعات پر ڈسکشن کرتے رہے۔ یہاں مجھے فارسی شاعر کا ایک شعر یاد آیا۔ میں نے سوچا کہ فارسی شاعر نے جو بات اپنے زمانے کی نسبت سے کہی تھی، وہ موجودہ زمانے میں مزید اضافے کے ساتھ ممکن ہوگئی ہے۔ فارسی کا مذکورہ شعر یہ ہے:
منعم بہ کوہ ودشت وبیاباں غریب نیست ہر جا کہ رفت، خیمہ زد وبارگاہ ساخت
اِس موقع پر لاؤنج میں بیٹھ کر جو باتیں ہوئیں، اُن میں سے ایک بات یہ تھی کہ میں نے ریڈیو کے ایک انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایک سیاسی لیڈر نے روزے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ روزہ رکھنا ایک مشکل کام ہے۔ میںنے کہا کہ مشکل (difficult) ایک اضافی لفظ ہے۔ ہر چیز مشکل بھی ہوتی ہے اور آسان بھی۔ یہ آپ کا اپنا ذہن ہے جو کسی چیز کو مشکل سمجھتا ہے اور کسی چیز کو آسان۔
لاؤنج میں ہر طرف لوگ شان دار طورپر چلتے پھرتے دکھائی دے رہے تھے۔ اِس منظر کو دیکھ کر ہمارے ایک ساتھی مولانا محمد ذکوان ندوی نے کہا کہ انسان اپنے پورے وجود کے ساتھ ایک خصوصی مخلوق ہے۔ اس کی ہر چیز سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ پورے معنوں میں ایک جنتی وجود ہے۔ خدا نے انسان کو اصلاً جنت کے لیے پیدا کیا ہے۔ ایسی حالت میں اگر وہ جہنمی راستے پر چلتا ہے تو یہ اس کا اپنا انتخاب (choice)ہے۔ خدا کے تخلیقی پلان کے مطابق، انسان کا اصل مقام جنت ہے۔ جہنم خود انسان کا اپنا چوائس ہے۔
ایک سوال کے جوا ب میں میںنے کہا کہ یہ ایک عام بات ہے کہ لوگوں کو اپنے کارکنوں یا ساتھیوں سے شکایت رہتی ہے۔ ہر ادارے میں، ہر کمپنی میں، حتی کہ ہر گھر میں اِس کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ ایک غیر حقیقت پسندانہ ذہن ہے۔ ہم کو جاننا چاہیے کہ اِس دنیا میںہم کو صرف اضافی اعتبار سے بہتر شخص مل سکتا ہے، نہ کہ معیاری اعتبار سے:
We can find only a relatively better person, and not an ideally better person.
اپنے ساتھیوں سے بات کرتے ہوئے میں نے کہا کہ ایک شخص کو دوسرے شخص سے کچھ ملے تو اس کا اعتراف کرنا بہت بڑی نیکی ہے، خواہ یہ ملنا فکری اعتبار سے ہو یا مادّی اعتبار سے۔ مگر بہت کم انسان ہیں جو اعتراف کی اہمیت کو سمجھیں اور اس پر عمل کریں۔
اِس عام بے اعترافی کا سبب کیا ہے، اس کا سبب یہ ہے کہ ہر آدمی إنما أوتیتہ علیٰ علم عندی (القصص: 78) کی نفسیات میں جیتا ہے، یعنی جو کچھ آدمی کو ملتا ہے، اس کو وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر خود اپنا کارنامہ سمجھ لیتا ہے، نہ کہ کسی اور سے ملا ہوا عطیہ۔ وہ دوسرے کے کنٹری بیوشن (contribution) کو بھلا دیتا ہے اور جو کچھ اس کو ملتا ہے، وہ خود اس کو اپنے خانے میں ڈال لیتا ہے۔
دہلی ائر پورٹ پر جب ہم لوگ آخری چیکنگ کے مقام پر پہنچے تو وہاں ایک علاحدہ کیبن بنا ہوا تھا۔ میرے بقیہ ساتھی تو سادہ طورپر گزر گئے، لیکن مجھ سے اُس کیبن میں جانے کے لیے کہا گیا۔یہ کیبن اسکریننگ (screening) کے لیے تھا۔ اِس علاحدہ کیبن میں میری جانچ کی گئی۔
اِس امتیازی جانچ کو میں نے ایک نارمل چیز سمجھا۔ مطالبے کے بغیر میںنے اسکریننگ کے لیے اپنا جوتا بھی اتار دیا اور پھر تھینک یو کہتے ہوئے باہر آگیا۔ میرے ایک ساتھی فوراً آگے بڑھے اور اُس آدمی کو قرآن کے انگریزی ترجمہ کی ایک کاپی پیش کی جس کو اس نے خوشی کے ساتھ قبول کرلیا۔
یہی سادہ واقعہ ہے جو انڈیا کے بعض وی آئی پی (VIP)افراد کے ساتھ پیش آیا تو انڈیا میںایک ہنگامہ کھڑا کردیا گیا۔ یہ ہنگامہ بلا شبہہ سرتاسر لغو تھا— اِس طرح کی چیزیں ہمیشہ رُٹین کے طورپر ہوتی ہیں۔ اُن کو ہمیشہ معتدل انداز میں لینا چاہیے۔
نفرت اور کشیدگی اور تشدد کے واقعات ہمیشہ اِس لیے ہوتے ہیں کہ لوگ کسی سے ایک منفی بات سنتے ہیں اور اس کو ویسا ہی مان لیتے ہیں، جیسا کہ کہنے والے نے کہا تھا۔ مگر یہ ایک شدید قسم کی غلطی ہے۔ اِس طرح کے واقعات کو جب بھی کوئی شخص بیان کرتاہے تو وہ اصل واقعہ (actual event) کو نہیں بیان کرتا، بلکہ وہ اپنے ذاتی احساس (personal feeling) کو بیان کرتا ہے۔ لوگ اِس فرق کو نہیں سمجھتے، اِس لیے وہ نفرت اور تشدد میںمبتلا ہوجاتے ہیں۔
سننے والا اگر ایسا کرے کہ وہ اصل واقعہ اور رپورٹ کرنے والے کے ذاتی احساس میں فرق کرکے دیکھے تو وہ منفی رد عمل کا شکار نہ ہو۔ کیوں کہ رپورٹ کرنے والا کبھی ایسا نہیں کرتا کہ وہ اپنے احساس کو الگ رکھ کر صرف اصل واقعہ کو بیان کرے۔ یہ غلطی یکساں طورپر شخصی رپورٹ میں بھی پائی جاتی ہے اور میڈیا کی رپورٹ میں بھی۔
ائرپورٹ کے مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے ہم لوگ جہاز کے اندر داخل ہوئے۔ یہ سوئس انٹرنیشنل ائرویز (Swiss International Airways) کی فلائٹ نمبر LX 147 تھی۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ سواری کے ذریعے سفر کرنا انسان کی ایک امتیازی صفت ہے (الإسراء: 70 )۔ انسان نے پہلے حیوان کی پیٹھ پر بیٹھ کر سفر کرنا سیکھا، پھر اس نے پہیہ (wheel) ایجاد کی اور وہ پہیہ دار گاڑی پر بیٹھ کر سفر کرنے لگا، پھر اس نے کشتیاں بنائیں، تاکہ وہ دریاؤں اور سمندروںکی سطح پر سفر کرسکے، پھر اس نے موٹر کار اور ہوائی جہاز جیسی سواریاں ایجاد کیں۔
قدیم کہانیوں میں ’’اُڑن کھٹولہ‘‘ کا ذکر ہوتا تھا۔ مگر اُس زمانے میں اڑن کھٹولہ محض ایک خیالی چیز تھی،اس کا کوئی واقعی وجود نہ تھا۔ امریکا کے دو انجینئر جن کو رائٹ بردرس (Wright Brothers) کہا جاتا ہے، انھوںنے لمبی کوشش کے بعد 1903 میں پہلا ہوائی جہاز بنایا۔ وہ اُس پر بیٹھ کر ہوا میں اڑے۔ اِس طرح انھوںنے عملی طور پر ثابت کیا کہ انسان کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ ہوائی سواری کے ذریعے فضا میں پرواز کرسکے— ہوائی جہازخدا کی نسبت سے ایک غیر معمولی معجزہ ہے، اور انسان کی نسبت سے خدا کی دی ہوئی عقل کا غیر معمولی استعمال۔
دہلی سے روانگی کے بعد ہماری اگلی منزل زیورک تھی۔ زیورک سوئزر لینڈ کا ایک شہر ہے۔ دہلی سے زیورک کی مسافت 6155 کلومیٹر تھی۔ دہلی سے زیورک کا سفر 8 گھنٹے میں طے ہوا۔
سفر کے دوران مختلف اخبارات دیکھے۔ نیویارک ٹائمس (5 ستمبر2009) کے گلوبل ایڈیشن کے صفحہ 3 پر ایک خبر تھی۔ یہ خبر چین کے مغربی صوبہ سنکیانگ (xinjiang) کے بارے میں تھی۔ چین کے اِس علاقے میں مسلمان بڑی تعداد میں آباد ہیں۔یہ لوگ زیادہ تر ترکی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ اِس علاقے کے مسلم لیڈر عرصے سے یہ تحریک چلا رہے ہیں کہ اِس کو بقیہ چین سے الگ کرکے ایک آزاد مسلم ریاست کا درجہ دیا جائے۔
علاحدگی پسندی کی اس سیاست کو پاکستانائزیشن (Pakistanization) کہاجاتاہے۔ اِس قسم کی علاحدگی پسند تحریکیں مختلف ملکوں میں چل رہی ہیں۔ مثلاً برما اور فلپائن، وغیرہ۔ مگر اِن تحریکوں کا نتیجہ صرف مزید تباہی کی صورت میں برآمد ہوا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ’’پاکستانائزیشن‘‘ اپنے نتیجے کے اعتبار سے ایک قسم کی سیاسی خود کشی (political Suicide) ہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ موجودہ دنیا کے تقریباً تمام مسلم رہنما اِس میں شریک ہیں، کچھ لوگ عملاً اس کا حصہ بنے ہوئے ہیں اور کچھ لوگ لفظی طورپر اس کی حمایت کررہے ہیں۔
جہاز کے اندر مختلف مسافروں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ او رلٹریچر دیاگیا۔ اُن میں سے ایک ڈاکٹر لوزیوز(Luzius Wasescha) تھے۔ وہ اگر چہ خدا اور مذہب کے بارے میں لبرل تھے، لیکن انھوںنے شکریہ کے ساتھ قرآن کا انگریزی ترجمہ لیا۔ وہ سوئزر لینڈ کے رہنے والے تھے۔ مولانا محمد ذکوان ندوی کو انھوں نے اپنا جو وزیٹنگ کارڈ دیا، اُس پر یہ الفاظ درج تھے:
Ambassador Permanent Repersentative of Switzerland
Switzerland Deputy director general, Federal Office of Foreign Economic Affairs, Ministry of Economy, Berm. In charge of coordination of WTO affairs in Switzerland, negotiations between Switzerland and the European Union, and coordination of Swiss governmental information policy in the field of biotechnology. Head of the Swiss Delegation in several WTO forums, and the conference of the European Energy Charta Treaty.
یہ رات کا وقت تھا۔ اِس لیے زیادہ وقت سونے میں گزرا۔ یہ سفر بظاہر لمبا تھا، لیکن نیند کی وجہ سے وہ آسانی کے ساتھ طے ہوگیا۔ ہمارا جہاز 40 ہزار فٹ کی بلندی پر اڑ رہا تھا۔ اوپر ستارے جگ مگ کرتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے اور نیچے سیاہ بادل تھے جن کے درمیان بجلی چمک رہی تھی۔ اُس وقت ہم بادلوں کے اوپر تھے اور آسمان کے نیچے۔
یہ منظر بڑا عجیب تھا۔ اِس منظر کو دیکھ کر ہمارے ایک ساتھی نے کہا کہ ہماری زمین پر پائے جانے والے مسائل محض اضافی مسائل (relative problems) ہیں۔ یہاں صرف ایک مسئلہ ہے جس کی حیثیت حقیقی مسئلہ (real problem) کی ہے، اور وہ ہے آخرت کا مسئلہ۔ مگر عجیب بات ہے کہ اِسی سب سے بڑے مسئلہ کے متعلق لوگ بے خبری کا شکار ہیں۔
آٹھ گھنٹے کی مسلسل پرواز کے بعد 5 ستمبر 2009 کی صبح کو ہم لوگ مقامی ٹائم کے اعتبار سے ساڑھے چھ بجے زیورک (Zurich) ائر پورٹ پر اتر گئے۔ یہ سوئزر لینڈ کا انٹرنیشنل ائرپورٹ ہے۔ زیورک ائرپورٹ کو کلاٹین ائر پورٹ (Kaloten Airport) بھی کہا جاتاہے۔ کلاٹین یا کینٹن (Canton) ایک صوبہ ہے جو سوئزر لینڈ کے شمال مشرقی حصے میں واقع ہے۔ زیورک اِسی صوبے کا کیپٹل ہے۔ یہاں سے دنیا کے 77 مقامات کے لیے پروازیں روانہ ہوتی ہیں۔
5 ستمبر 2009کو ہم لوگ زیورک (سوئزر لینڈ) کے ائر پورٹ پر تھے۔ اسی دن سوئزر لینڈ کے دوسرے شہر جنیوا میںورلڈ کلائمیٹ کانفرنس ہورہی تھی۔ اِس میں مقررین گلوبل وارمنگ اور اس کے نتیجے میں موسمی تبدیلی کے موضوع پر تقریریں کررہے تھے اور اس کے نقصانات بتارہے تھے۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اِس کانفرنس پر کروروں روپئے خرچ ہوں گے، لیکن پیشگی طورپر یہ بات معلوم ہے کہ عملاً اِس کا کوئی فائدہ ہونے والا نہیں۔ اِس طرح کی کانفرنسیں پچھلے برسوں میں بار بار ہوچکی ہیں، لیکن وہ سب کی سب بے سود ثابت ہوئیں۔
اِس کا سبب یہ ہے کہ گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں پیداہونے والے مسائل کا براہِ راست تعلق جدید انسان کے لائف اسٹائل (life style) سے ہے۔ لائف اسٹائل میں تبدیلی کے لیے کوئی شخص تیار نہیں، اِس لیے یہ مسئلہ بھی کبھی حل ہونے والا نہیں۔ مثال کے طورپر ائر کنڈیشنربنانے کے کارخانے نہایت مضر گیس پیدا کرتے ہیں۔ لوگ ائر کنڈیشننگ کا طریقہ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں، اِس لیے ائرکنڈیشننگ کے کارخانے بھی بند ہونے والے نہیں۔ اِس طرح کاروں کے ذریعے جو کاربن امیشن (carbon emmission) ہوتا ہے، وہ بے حد مضر ہے۔ مگر لوگ ایسا کرنے والے نہیں کہ وہ کار کو چھوڑکر بائسکل پر سفر کرنے لگیں۔ اِس لیے یہ مسئلہ بھی حل ہونے والا نہیں۔ اِس معاملے میں کوئی جبر کام کرسکتا تھا، لیکن بظاہر اِس معاملے میں جبر کا بھی کوئی امکان نہیں۔
زیورک ائرپورٹ پر اگلی فلائٹ لینے کے لیے میں نے وھیل چئر کا استعمال کیا۔ میری وھیل چئر چلانے والا ایک سوئس نوجوان تھا۔ بات چیت کے درمیان معلوم ہوا کہ یہاں وھیل چئر چلانے والے کو اسپیشل اسسٹنٹ (special assistant) کہاجاتا ہے۔ نوجوان نے بتایا کہ وہ یونی ورسٹی میں ایم اے (اکنامکس) کا اسٹوڈنٹ ہے۔ وہ اپنی معاشی ضرورت کے لیے فارغ اوقات میں وھیل چئر چلاتا ہے۔ ہمارے ساتھیوں نے اِس نوجوان کو اور ائر پورٹ کے عملہ کے مختلف افراد کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا۔ اِن لوگوں نے تھینک یو کے ساتھ اس کو قبول کیا۔
زیورک سے دوسرا جہاز وارسا (Warsaw) کے لیے تھا۔ زیورک سوئزرلینڈ کا ایک شہر ہے اور وارسا پولینڈ کا ایک شہر۔ زیورک سے وارسا کا فاصلہ تقریباً ڈیڑھ ہزار کلو میٹر ہے، جو سوئس ائرویز کی فلائٹ نمبر LX 1342 کے ذریعے دو گھنٹے میں طے ہوا۔
جہاز میں پرواز کرتے ہوئے سوئزرلینڈ کا ایک طائرانہ منظر دکھائی دیا۔ سوئزر لینڈ پہاڑوں سے گھرا ہوا ملک ہے۔ یہ پہاڑ خشک پہاڑ نہیں ہیں، بلکہ سرسبز پہاڑ ہیں۔ اِس بنا پر سوئزرلینڈ مثالی خوب صورتی کا ملک بن گیا ہے۔ یہاں دور تک پہاڑی سلسلہ پھیلا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ ہمارے نیچے پہاڑی مناظر تھے اور ہم اس کے اوپر تیز رفتار جہاز کے ذریعے پرواز کررہے تھے۔
میں نے سوچا کہ جہاز اپنی اصل کے اعتبار سے صرف مادّہ (matter) ہے، لیکن یہ مادّہ انسان کے لیے متحرک ہوگیا ہے۔ انسانی تاریخ کے ابتدائی زمانے میں حیوان متحرک ہو کر سواری کا کام دیتے تھے۔ اب مادہ متحرک ہو کر زیادہ بہتر طورپر انسان کے لیے سواری کا کام کررہا ہے۔ یہ واقعہ اتنا عجیب ہے کہ انسان اگر اس کو حقیقی طورپر محسوس کرے تو وہ چاہے گا کہ میں ساری عمر خدا کے آگے سجدۂ شکر میں پڑا رہوں۔
5 ستمبر 2009 کی صبح کو 9 بجے ہم لوگ وارسا (Warsaw) پہنچے۔ یہاں ہم کو اگلا جہاز لینے کے لیے تقریباً چار گھنٹے ٹھہرنا تھا۔ میں اور میرے ساتھی جہاز سے اتر کر وارسا ائر پورٹ کے لاؤنج میں پہنچے۔ اُس وقت یہاں ہلکی بارش ہورہی تھی۔ لاؤنج میںہرطرح کا انتظام تھا۔ کھانے پینے کی اشیاء بھی وافر مقدار میں موجود تھیں۔ ہم لوگوں نے یہاں چار گھنٹے کا وقت گزارا۔ یہاں ہمارے ساتھیوں نے ائرپورٹ اور لاؤنج کے عملہ کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا۔ ان لوگوں نے شکریہ کے ساتھ اس کو لیا اور اپنی خوشی کا اظہار کیا۔
یہاں ائر پورٹ پر ایک واقعہ پیش آیا۔ ہمارے ایک ساتھی نے لاؤنج میں بیٹھے ہوئے چند نوجوانوں کو انگریزی میں چھپا ہوا دعوتی پمفلٹ(The Road to Paradise) دیا۔ اِس کو انھوںنے شکریہ کے ساتھ لیا۔ اس کے بعد اُن میں سے ایک نوجوان نے پمفلٹ کے ٹائٹل کو دیکھتے ہوئے کہا:
We are already in Paradise
جدید مادّی ترقیوں نے جو دنیا بنائی ہے، وہ اتنی پرکشش ہے کہ ہر آدمی اس میں گم ہوگیا ہے، ہر آدمی کی کوشش صرف ایک ہے— زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانا اور دنیا میں اپنے لیے ایک جنت بنانا ۔ موجودہ زمانے میں یہ حال تقریباً تمام عورتوں اور مردوں کا ہے، حتی کہ اُن لوگوں کا بھی جو بظاہر جنت پر عقیدہ رکھتے ہیں، لیکن اب ان کا عقیدہ محض ایک رسمی عقیدہ بن چکا ہے۔ عملی طورپر دیکھئے تو جنت کا عقیدہ رکھنے والوں اور جنت کا انکار کرنے والوں کے درمیان کوئی فرق نظر نہیں آتا۔
میں نے اپنے ساتھیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میرا تجربہ ہے کہ اکثر لوگ گفتگو اور تقریر کا فرق نہیں سمجھتے۔ مثلاً ایک شخص اگر اسٹیج پر دھوم سے تقریر کرتا ہے تو وہ بات چیت (conversation) میں بھی اِسی طرح دھوم کے ساتھ بولنے لگتا ہے۔ وہ تقریر اور گفتگو کے فرق کو ملحوظ نہیں رکھتا ، حالاں کہ تقریر اور گفتگو کے درمیان بہت بڑا فرق ہے۔
ایک شخص جب اسٹیج پر تقریر کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو اُس وقت ایک بولنے والا ہوتا ہے اور دوسرا سننے والا۔ یہ گویا کہ یک طرفہ بات (monologue) کا معاملہ ہوتا ہے۔ ایسے موقع پر اگر بولنے والا دھوم سے بولے تو اس میںکوئی حرج نہیں، لیکن جب وہ کسی موضوع پر ایک شخص سے بات کرتا ہے تو وہ دو طرفہ بات (dialogue) کا معاملہ ہوتا ہے۔ یہ ایک تبادلۂ خیال ہے جس میں آدمی کو سنانا بھی ہے اور سننا بھی ہے۔ اِس لیے دوطرفہ گفتگو کے موقع پر آدمی کو نہ تو دھوم سے بولنا چاہیے اور نہ اُس کو ایسا کرنا چاہیے کہ وہ اتنی لمبی گفتگو کرے کہ دوسرے کو اپنی بات کہنے کا موقع ہی نہ ملے۔
وارسا (Warsaw) سولھویں صدی عیسوی سے پولینڈ کی راجدھانی ہے۔ دوسری عالمی جنگ (1939-1945) میں یہ شہر تقریباً پورا تباہ ہوگیا تھا۔ بعد کو اُسے قدیم طرز پر دوبارہ تعمیر کیاگیا:
Warsaw is the capital from 16th century, and largest city of Poland. It is located on the Vistula River, roughly 370 Kilometers from both the Baltic Sea coast and the Carpathian Mountains. Warsaw is the 8th largest city in the European Union by population. Warsaw was severely damaged in World War II, rebuilt on old pattern.
وارسا کی تباہی کے بعد دوبارہ قدیم طرز (old pattern) پر اس کی تعمیر اِس لیے کی گئی تا کہ وارسا کی تاریخی حیثیت کو باقی رکھا جاسکے۔ یورپین قوموں میں تاریخی ذوق کامل طورپر موجود ہے۔ بدقسمتی سے مسلمانوں میں یہ تاریخی ذوق پیدا نہ ہوسکا۔ اِس کا آخری نمونہ یہ ہے کہ بعض انتہا پسند علماء اور رہنماؤں نے ’’ازالۂ بدعت‘‘ کے نام پر حجاز کے ان مقدس تاریخی مقامات کو ڈھا دیا جو بعد کی نسلوں کے لیے ایک عظیم پوائنٹ آف ریفرنس کی حیثیت رکھتے تھے، جو زائرین کے لیے ایک ربانی نقطۂ فیضان (point of inspiration) کے ہم معنیٰ تھے۔
اسلام میں تاریخی مقامات کی اہمیت کا اندازہ حسب ذیل واقعے سے کیا جاسکتا ہے:
عطاء خراسانی ایک تابعی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میںنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے گھر دیکھے ہیں۔ وہ کھجور کی ٹہنیوں کے تھے۔ ان کے دروازوں پر ٹاٹ کے پردے پڑے ہوئے تھے جو کالے بال سے تیار کیا جاتا تھا۔ اس کے بعد خلیفہ ولید بن عبد الملک اموی کی طرف سے مدینہ کے حاکم کے پاس خط آیا۔ اس خط میں مسجد نبوی کی نئی تعمیر کا حکم تھا اور یہ ہدایت دی گئی تھی کہ ازواجِ رسول کے حجرے توڑ کر ان کو مسجد نبوی میں شامل کر دیا جائے۔
اِس حکم کو معلوم کرکے مدینہ کے بہت سے لوگ روپڑے۔ حضرت ابو امامہ انصاری نے کہا — کاش ، یہ حجرے اسی طرح چھوڑ دئے جاتے اور گرائے نہ جاتے، تاکہ لوگ بڑی بڑی عمارتیں بنانے سے رک جاتے، اور وہ یہ دیکھ لیتے کہ اللہ اپنے نبی سے کس چیز پر راضی ہوا، حالاںکہ دنیا کے خزانوں کی چابیاں اس کے ہاتھ میں تھیں (لیتہا تُرکت فلم تُہدم حتی یقصر الناس عن البناء، ویروا ما رضی اللہ لنبیہ، ومفاتیح خزائن الدنیا بیدہ۔ طبقات ابن سعد، جلد 1،صفحہ 499)
5 ستمبر2009 کی دوپہر کو دو بجے وارسا سے کریکو (Krakow) کے لیے روانگی ہوئی۔ وارسا سے کریکو کا فاصلہ تقریباً ڈھائی سو کلومیٹر ہے۔ یہ سفر پولش ائرلائنز (Lot Polish Airlines) کی فلائٹ نمبر 3913 کے ذریعے طے ہوا۔ یہ صرف پچاس منٹ کی پرواز تھی اور اس کا جہاز بھی چھوٹا تھا۔ پرواز کرتے ہوئے جب ہمارا جہاز کریکو کے انٹرنیشنل ائر پورٹ جان پال دوئم (John Paul II) پر اترا تو مسافروں نے تالیاں بجائیں۔ اُس وقت میرا دل بھی جذباتِ شکر سے بھرا ہوا تھا، لیکن میرے ہاتھ دوسروں کی طرح تالی بجانے کے لیے نہیں اٹھے۔
میں نے اِس فرق پر غور کیا تو میری سمجھ میں آیا کہ دوسرے لوگ جہاز کے اِس طرح منزل پر پہنچنے کو صرف ایک مادّی واقعہ سمجھتے ہیں، اِس لیے وہ اِس پر مادّی سطح کا رسپانس (response) دے رہے ہیں۔ لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ خالص ایک خدائی واقعہ ہے جو فرشتوں کے مدد سے اپنی کامیابی تک پہنچا۔ میںنے محسوس کیا کہ جس وقت لوگ تالیاں بجارہے تھے، اُس وقت میں خاموش ہو کر خدا کی یاد میں مشغول تھا اور انسان پر خدا کی رحمتوں کو یاد کرکے شکرِ خداوندی کے جذبات سے مغلوب تھا۔
کریکو ائرپورٹ پر ہم کو ریسیو (receive) کرنے کے لیے کمیونٹی آف سینٹ ایجی ڈیو کے تین افراد موجود تھے۔ ان کے ساتھ سواریاں تھیں۔وہ ہم کو ائر پورٹ سے لے کر چلے اور شہر کے مشہور ہوٹل (Sheraton Krakow) تک پہنچایا۔ یہاں ہمارے لیے اور ہمارے ساتھیوں کے لیے جدید طرز کے دو کمرے پہلے سے رِزرو تھے۔ یہاں دوسری تمام سہولتیں موجود تھیں۔
اِس تجربے سے میرا دل بھر آیا۔میںنے روتے ہوئے کہا — خدایا، اِسی طرح میری زندگی کا جہاز ایک اورمنزل پر پہنچنے والا ہے۔ یہ آخرت کی منزل ہے۔ وہاں بھی تو میرے ساتھ یہ احسان فرماکہ جب میںآخرت کی ابدی منزل پر پہنچوں تو وہاں رحمت کے فرشتے میرا اور میرے ساتھیوں کا استقبال کرنے کے لیے موجود ہوں۔ وہ ہم کو اپنے ساتھ لے کر چلیں اور ہم کو جنت کی ابدی رہائش گاہوں میں پہنچادیں۔
کریکو ائر پورٹ پر جب ہم نے کنویئر بیلٹ (conveyer belt) سے اپنا سامان حاصل کیا تو معلوم ہوا کہ ہمارے پانچ پیکیٹ زیورک ائرپورٹ پر چھوٹ گئے ہیں۔ وہ کریکو آنے والے جہاز کے ذریعے یہاں نہیں پہنچے۔ کریکو ائرپورٹ کے عملہ کو یہ بات بتائی گئی تو انھوں نے کہا کہ ہم آپ کے سامان کو دوسرے جہاز سے منگارہے ہیں اور وہ شام کو سات بجے تک آپ کے ہوٹل میں پہنچا دیا جائے گا۔ چناں چہ ایسا ہی ہوا، شام کو سات بجے یہ پانچ پیکٹ ہمارے ہوٹل کے کمرے میں موجود تھے۔
یہ بلا شبہہ خدا کی خصوصی مدد تھی۔ ہوائی سفر میں سامان چھوٹنے کے واقعات بہت ہوتے ہیں، لیکن اِس طرح ٹھیک وقت پر اس کا واپس ملنا ایک انوکھا واقعہ تھا جو خدا کی خصوصی مدد سے پیش آیا۔ خدا کی خصوصی مدد کے بغیر ایسا ہونا ممکن نہیں۔
کریکو، پولینڈ کا ایک تاریخی شہر ہے۔ کریکو گیارھویں صدی سے سولھویں صدی عیسوی تک پولینڈ کا دارالسلطنت رہا ہے۔ کیتھولک چرچ کے سب سے بڑے مذہبی عہدے دار کو پوپ کہاجاتا ہے۔ پوپ ہمیشہ اٹلی کے کسی مسیحی کو بنایا جاتا رہا ہے۔ جان پال دوئم پہلے غیر اطالوی پوپ ہیں، وہ پولینڈ کے اِسی قدیم شہر کریکو میں پیدا ہوئے تھے ۔ ذیل میں کریکو کے متعلق مختصر معلومات دی جارہی ہے:
Krakow is one of the largest and oldest cities in Poland. Situated on the Vistula river. Krakow has traditionally been one of the leading centres of Polish academic, cultural and artistic life, and is one of Poland's most important economic centres. It was the capital of Poland from 1038 to 1596. After the invasion of Poland by Nazi Germany at the start of the Second World War, Krakow was turned into the capital of Germany’s General Government. Karol Wojtyla, Archbishop of Krakow, was elevated to the papacy as John Paul II, the first non-Italian pope in 455 years, and the first ever Slavic pope.
6 ستمبر 2009 کی شام کو 5 بجے کانفرنس کا افتتاحی اجلاس (opening assembly) تھا۔ یہ اجلاس کریکو شہر کے آڈی ٹوریم میکسمم (Auditorium Maximum) میں ہوا۔ یہ ایک وسیع اور شان دار آڈی ٹوریم تھا۔ اِس پروگرام میں کانفرنس کے شرکاء کے علاوہ بہت بڑی تعداد میں مقامی لوگ موجود تھے۔ اِس اجلاس کے مقررین حسب ذیل تھے:
PART I
Chairperson
Frncoise Riviere
Assistant Director-General for Culture of UNESCO, France
Welcome greetings
Karol Musiol
Rector of the Jagiellonian University, Poland
Inaugral greetings
Stanislaw Dziwisz
Cardinal, Archbishop of Krakow, Poland
Radoslaw sikorski
Minister of Foreign Affairs, Poland
Keynote address
Andrea Riccardi
Community of Sant'Egidio, Italy
Contribution
Michel Camdessus
Honorary Governor of the Bank of France
PART II
Chairperson
Hanna Suchocka
Ambassador of Poland to the Holy See
Keynote address
Jose Manuel Barroso
President of the European Commission, Belgium
Contributions
Henri de Luxembourg
Grand Duke of Luxembourg
Filip Vujanovic
President of the Republic of Montenegro
Yona Metzger
Chief Rabbi of Israel
Walter Kasper
Cardinal, President of the Pontifical Council for Christian Unity, Holy See
Ahmad Al-Tayyeb
Rector of al-Azhar University, Egypt
اِس موقع پر پروفیسر احمد الطیب (ریکٹر، الازہر یونی ورسٹی، قاہرہ) نے مسلم مقرر کی حیثیت سے عربی زبان میں خطاب کیا، جس کو ہیڈ فون کے ذریعے مختلف زبانوں میں سنا گیا۔ انھوںنے اپنی تقریر میں اہلِ مغرب کی شکایت کرتے ہوئے کہا کہ اسلام نے ہر زمانے میں ان کے ساتھ اچھے سلوک کا معاملہ کیا ہے، لیکن اہلِ مغرب ابھی تک اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ انصاف کا معاملہ نہ کرسکے۔ انھوںنے مزید کہا کہ مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں کے ساتھ دوسرے درجے کے شہری جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ مذکورہ مسلم مقرر نے اپنی تقریر میں اِس طرح کی متعدد منفی اور شکایتی باتیں کہیں، لیکن عجیب بات ہے کہ مسیحی حضرات نے اِن باتوں کو خاموشی کے ساتھ سن لیا اور اِس کے خلاف کسی قسم کے رد عمل کا اظہار نہیں کیا۔
اِس جلاس کی صدارت ایک مسیحی خاتون (Hanna Suchoka) کر رہی تھیں۔ وہ پولینڈ کی طرف سے ویٹکن میں سفیر ہیں۔ انھوں نے پروفیسر احمد الطیب کی تقریر کے بعد اپنے مختصر ریمارک میں کہا کہ ہم پروفیسر صاحب کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انھوں ہماری کمی کی طرف ہم کو توجہ دلائی۔ ہم ان کی تنقید کا استقبال کرتے ہیں۔
عجیب بات ہے کہ مسلم مقررین کو بین اقوامی اسٹیج پر اظہار خیال کا موقع ملتا ہے، لیکن وہ اپنے منفی ذہن کی بنا پر اسلام کی صحیح نمائندگی نہیں کرپاتے۔ مثلاً ایک بار مجھے ایک عرب شیخ کو سننے کا موقع ملا۔ وہ ایک بین اقوامی اسٹیج سے بول رہے تھے۔ انھوں نے اپنی تقریر میں، اسلام کی پالیسی کو بتاتے ہوئے قرآن کی اِس آیت کا حوالہ دیا: فما استقاموا لکم فاستقیموا لہم (التوبۃ: 7 ) یعنی جب تک وہ تم سے سیدھے رہیں، تم بھی اُن سے سیدھے رہو۔
عرب شیخ کا یہ حوالہ ایک غیر متعلق (irrelevant) حوالہ ہے۔ قرآن کی اِس آیت میں جس مساویانہ سلوک کا ذکر کیاگیا ہے، وہ اُس صورتِ حال کے لیے ہے جب کہ مسلم سلطنت اور غیر مسلم سلطنت کے درمیان باقاعدہ جنگی حالت قائم ہوگئی ہو۔ جہاں تک عمومی زندگی کا تعلق ہے، اس کے لیے خلقِ عظیم (القلم: 4 ) کا طریقہ مطلوب ہے، یعنی برتر اخلاقیات کا طریقہ۔ اِسی روش کی بابت حدیث میںآیا ہے کہ: لاتکونوا إمّعۃ (الترمذی، کتاب البر )
افتتاحی اجلاس کے اِس موقع پر قرآن کا انگریزی ترجمہ بڑی تعداد میں لوگوں کو دیاگیا۔ جب ہمارے ساتھیوں نے لوگوں تک قرآن پہنچانے کا یہ کام شروع کیا تو وہاں بیٹھے ہوئے ایک بڑے مسیحی پادری نے ہماری ٹیم کی ایک ممبر سعدیہ کو ناراضگی کی نظر سے دیکھا ۔سعدیہ نے الفاظ میں ان کو کوئی جواب نہیں دیا، بلکہ یہ کیا کہ پادری کے سامنے جاکر متواضعانہ انداز میں اپنا سر جھکاتے ہوئے کہا:
Bless me, father!
اِس کے بعد مذکورہ پادری کا لہجہ بالکل نرم پڑ گیا۔ انھوںنے کہا کہ — اوکے، اوکے (Ok, Ok) ۔
اِس مثال سے دعوت کا ایک اصول معلوم ہوتا ہے۔ دعوت کے دوران اگر کسی سے کوئی مسئلہ پیدا ہو تو اس کو ہر گز دلیل دینے کی کوشش مت کیجئے، بلکہ تواضع کا انداز اختیار کیجئے۔ تواضع، دعوت کے بند راستے کو کھولتی ہے اور غیر متواضعانہ روش دعوت کے کھلے دروازے کو بند کردیتی ہے۔
پولینڈ کے شہر کریکو میںہونے والی اِس کانفرنس میں 22 پینل (panel) بنائے گئے تھے۔ ہر پینل الگ الگ موضوع پر تھا۔ ہمارے ساتھی اِن پروگراموں میں دعوتی لٹریچر لے کر جاتے۔ وہ وہاں لوگوں سے انٹرایکشن کرکے انھیں مطالعے کے لیے قرآن کا انگریزی ترجمہ اور اسلامی لٹریچر دیتے۔ لوگ اس کو خوشی سے لیتے اور شکریہ ادا کرتے۔یہاں پینل کے موضوعات نقل کئے جارہے ہیں:
1. Do Not Forget Auschwitz
2. Memory and Prophecy: The Legacy of John Paul II
3. 70 Years After World War II, War is not a Destiny
4. Europe's Mission in the World 20 Years After 1989
5. Latin America in a Globalized World
6. Market Society, Religions and the Challenge of Materialism
7. Dialogue of Faith and Culture
8. Faiths and the Value of Life
9. Fafith s in Asia: Building a World Without Violence
10. Xenophobia and Philoxenia: Europe at a Crossrads
11. Living Together in a Plural World
12. John Paul II and the “Spirit of Assisi”
13.Africa, Land of Opoorunity
14. 1989: A Peaceful Transition
15. Humankind’s Spiritual Quest in a Time of Economic Crisis
16. No to the Death Penalty: No Justice Without Life
17. Religions and Global Health of the World: The Rebirth of Africa
18. Christian Unity, for the World to Believe
19. The Power of Prayer Over History
20. Martyrdom and Resistance to Evil
21. The Scriptures in Monotheistic Faiths
22. Faith and Science
7ستمبر 2009 کو پینل 12میں میری تقریر تھی۔ اِس پینل کا موضوع یہ تھا:
John Paul II and the “Spirit of Assisi”
یہ پینل نسبتاً زیادہ بڑا تھا۔ اس کی کارروائی کریکو کے مشہور تھیئٹرسلوواک نیشنل تھیئٹر (Slovak National Theater) کے کشادہ ہال میں کی گئی۔
سینٹ فرانسس آف اسیسی (St. Francis of Assisi) ایک مشہور مسیحی راہب تھے۔ وہ 1182 ء میں پیدا ہوئے اور 1226 ء میں اٹلی میں ان کی وفات ہوئی۔ انھوں نے اپنی ایک دعاء میں کہا تھا کہ —اے خدا، مجھ کو تو امن کے قیام کا ذریعہ بنا:
O Lord, Make me an instrument of Your peace.
اِس دعاء کو میں نے اپنی تقریر میں کلمۂ سواء (آل عمران: 64 ) کے طورپر استعمال کیا۔ میںنے کہا کہ اسلام اور مسیحیت کے درمیان امن ایک مشترک قدر (common value) کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسیسی پیغام بھی امن پر مبنی ہے اور اسلام کا پیغام بھی امن پر مبنی:
Spirit of Assisi and spirit of Makkah both are one and the same.
اِس کے بعد میںنے موقع کی مناسبت سے اسلام کی کچھ مثبت تعلیمات کو بیان کیا۔ یہ اندازِ خطاب بہت موثر ثابت ہوا۔ پینل کے چئر مین مسٹر راجر(Roger Etchegaray) نے بہت اچھے الفاظ کے ساتھ اس کا اعتراف کیا۔ سامعین کے اندر جو فضا بنی، اس کو استعمال کرتے ہوئے ہمارے ساتھیوں نے یہاں قرآن کا انگریزی ترجمہ اور اسلامی لٹریچر لوگوں کو دیا۔ لوگوں نے بہت خوشی کے ساتھ اس کو لیا۔ اِس پینل میں تقریباً 500 لوگ شریک تھے۔ چناں چہ قرآن کے تمام نسخے فوراً ختم ہوگئے۔ہمارے ساتھیوں نے بقیہ لوگوں کا پتہ لکھ لیا، تاکہ دہلی سے اُنھیں بذریعہ ڈاک قرآن کی کاپیاں روانہ کی جاسکیں۔
پینل 12کے آغاز میںمیری طرف سے لوگوں کے درمیان حسب ذیل پیپر تقسیم کیاگیا:
Prayer means establishing a spiritual communion with God or higher reality. This kind of communion is most unique experience for a man or a woman. It is going to the deeper world of inner reality. Prayer is the greatest attainment of higher truth. Prayer is life for soul as well as man.
There is a well known saying that prayer is power. But according to my experience I would like to say that prayer is the greatest power. There are two kinds of power— physical power and spiritual power. Physical power is a limited power, it can work only in space and time. But prayer can go beyond space and time. Prayer is universal in nature. Prayer can engulf both, physical world and non-physical world.
There is a difference between physical power and spiritual power. Physical power is bound to create reaction. Newton’s well known formula applies here: every action has equal and opposite reaction. In other words, physical power always creates some new problem. Even it can prove to be counter-productive. It is not possible to use physical power without facing its reaction. Physical power solves the problem at the cost of creating some new problem.
But the power of prayer in terms of spiritual power is quite different. It is completely different. It is completely positive in nature, it solves the problem without creating any new problem or creating any new kind of reaction. There are ample examples of it in history as well as in the present times.
Prayer is the gist of all religions including Islam. Jesus Christ has said, love your enemy. This saying is the best definition of prayer.
Love can conquer the enemy. There is a verse in the Quran in this regard, it says, “Do good deeds in return for enemy’s bad deeds. And in result you will find that your enemy has become your dearest friend.” (Quran 41:34)
It means that your enemy is your potential friend. So turn this potential into actual.
The most important quality of prayer is that it inculcates positive thinking in your mind and builds a positive personality. Moreover, prayer enables you to convert negativity into positivity. Prayer is a boon for man in terms of theory as well as in practice.
Prayer is not only an individual behaviour, prayer includes the social domain also. Through prayer one can find peace in his mind. prayer can turn an immature person into a mature person.
Prayer has also the power to establish peace in social life as well as in international relationships. United Nations has issued a joint declaration called Universal Declaration of Human Rights. I think prayer can contribute to the humanity better than this and that will be, Universal Declaration of Human Duties. Prayer can build a duty conscious society and it is a fact that duty conscious society is far more important than the right-conscious society.
اِس کانفرنس کے موقع پر کئی گروپ نے انٹرویو لیے۔ ان میں سے ایک ویٹکن ریڈیو کاانٹرویو تھا۔ 7 ستمبر 2009 کو وہ شریٹن (Sheraton) ہوٹل کے میرے کمرے میں آئے اور تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ انٹرویور کا نام مسٹر اسٹیفینو (Stefano Leszczynsti) تھا۔
ان کا ایک سوال یہ تھا کہ آپ کا مشن کیا ہے۔ میںنے بتایا کہ ہمارا مشن پیس اور اسپریچویلٹی کو فروغ دینا ہے اور اسلام کی مثبت تعلیمات کو لوگوں تک پہنچانا اور اسلام کے بارے میں لوگوں کی غلط فہمیوں کو دور کرنا ہے۔ ان کا ایک سوال یہ تھا کہ یورپ میں اسلام کی جو منفی تصویر بن گئی ہے، وہ کس طرح درست کی جائے۔ میںنے کہا کہ ہم اِس پہلو سے مسلسل کوشش کررہے ہیں۔ ہماری کوشش یہ ہے کہ ہم لوگوں کو یہ بتائیں کہ آپ اسلام اور مسلمانوں میں فرق کریں۔ آپ مسلمانوں کے کسی عمل کو لے کر اسلام کے بارے میں رائے قائم نہ کریں، بلکہ براہِ راست قرآن اور حدیث کی روشنی میں اسلام کو سمجھنے کی کوشش کریں:
You have to differentiate between Islam and Muslims, you have to judge Muslims in the light of Islamic teachings and not vice versa.
اِس معاملے کی ایک مثال یہ ہے کہ میڈیا کی رپورٹ کے مطابق، یکم اگست 2009 کو پاکستانی پنجاب کے شہر گوجرہ میں ’’قرآن کی بے حرمتی‘‘ کے نام پر وہاں کے مشتعل گروہ نے ایک مسیحی آبادی پر حملہ کردیا۔ اِس موقع پر مسیحیوں کے تقریباً 40 گھر نذر آتش کردئے گئے تھے جس میں کئی مسیحی افراد ہلاک ہوگئے۔ ویٹکن آرک بشپ آف کینٹربری اور ورلڈ کونسل آف چرچز (WCC) نے اِن واقعات کی مذمت کی تھی۔
میںنے کہا کہ ’’قرآن کی بے حرمتی‘‘ کے نام پر اِس طرح کا کام بلا شبہہ ایک مجرمانہ کام ہے، وہ کوئی دینی کام نہیں۔ قرآن اور حدیث میںکہیں یہ تعلیم نہیں دی گئی ہے کہ جو لوگ بظاہر قرآن کی بے حرمتی کریں، ان کو مارو اور ان کے گھروں کو جلاؤ۔ قرآن اور حدیث میں اگر کسی کام کو قابلِ سزا قراردیاگیا ہو، تب بھی یہ سزا ایک باضابطہ عدالت دے سکتی ہے۔ عوام کو کسی بھی حال میں اورکسی بھی عذر کی بنا پرقانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں۔ جو لوگ ایسا کریں، وہ فساد برپا کرنے والے لوگ ہیں، نہ کہ اسلام کو ماننے والے لوگ۔
دوسری بات یہ کہ اِس طرح کے واقعات کے اصل ذمے دار عوام نہیں، بلکہ علماء ہیں۔ علماء نے مسلسل ایسا کیا ہے کہ وہ ’’قرآن کی بے حرمتی‘‘ اور ’’رسول کی گستاخی‘‘ جیسے موضوعات پر جذباتی تقریر کرکے یا جذباتی تحریریں شائع کرکے لوگوں کو مشتعل کررکھا ہے۔ یہی اشتعال مذکورہ قسم کے واقعات کی شکل میں ظاہر ہوتاہے۔ علماء کی دوسری غلطی یہ ہے کہ وہ اِس قسم کے مسلمانوں کو کھلے طورپر کنڈم نہیں کرتے، وہ ان کا ہاتھ نہیں پکڑتے۔ یہی وہ علماء ہیںجن کو حدیث میں علمائِ سوء کہا گیا ہے۔
انٹرویور کا ایک سوال یہ تھا کہ انڈیا میں فرقہ وارانہ ذہنیت کی موجودگی میں ڈائلاگ کس طرح ممکن ہے۔ اِس کے جواب میں بتایاگیا کہ اختلافات فطری ہیں۔ اصل مسئلہ اختلاف کا ہونا نہیںہے، بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اختلاف کے بارے میں رواداری (tolerance) کا ذہن لوگوں کے اندر موجود نہیں۔میںنے کہا کہ یورپ میں بھی اس طرح کے اختلافات ہیں، لیکن وہاں اختلافات سنگین مسئلہ نہیں بنتے، کیوں کہ وہاں ڈائلاگ کلچر ہے، جب کہ انڈیا میں ڈبیٹ کلچر(debate culture) ہے۔ میں اور میرے ساتھی یہ کوشش کررہے ہیں کہ انڈیا میں بھی لوگوں کے درمیان ڈائلاگ کلچر آجائے۔
انٹرویو کے دوران ایک بات یہ کہی گئی کہ اصلاح کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ مسلم کمیونٹی کے افراد خود اپنی کمیونٹی کی غلطیوں کے خلاف بولیں، اور ہندو کمیونٹی کے افراد ہندو کمیونٹی کے غلطی پر تنقید کریں۔ مسلمان اگر ہندو کمیونٹی کے خلاف بولیں یا ہندو، مسلم کمیونٹی کے خلاف بولیں تواصلاح کے نقطۂ نظر سے اِس کا کوئی فائدہ نہیں۔
میں نے ایک بات یہ کہی کہ سیاسی اعتبار سے ویٹکن میں مسلمانوں کے لیے ایک قابلِ تقلید نمونہ موجود ہے۔ انیسویں صدی عیسوی میں پوپ اور اسٹیٹ کے درمیان وہی مسئلہ پیداہوا جو ترکی میں خلیفہ اور سیکولر گورنمنٹ کے درمیان پیدا ہوا۔ پوپ نے دانش مندی سے کام لیتے ہوئے ٹکراؤ کو ختم کردیا اور اُس حکیمانہ فارمولے کو اختیار کیا جس کو کم پر راضی ہونا کہاجاتاہے۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ویٹکن کے نام سے ان کی ایک چھوٹی سی ریاست قائم ہوگئی اور اِس طرح پوپ کا تاریخی ٹائٹل باقی رہا۔
اِس کے برعکس، ترکی کے معاملے میں یہ ہوا کہ ساری دنیا کے علماء اور غیر علماء خلافت کو اس کی مکمل صورت میں باقی رکھنے پر اصرار کرتے رہے۔ اِس کا اندوہ ناک انجام یہ ہوا کہ ’’خلیفہ‘‘ کا تاریخی ٹائٹل ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا۔ بدقسمتی سے موجودہ زمانے کے مسلم علماء نے مسلمانوں سے تعلق رکھنے والے نزاعی معاملات میں صرف منفی رول ادا کیا، اِس طرح کے کسی بھی معاملے میں وہ مثبت رول ادا نہ کرسکے۔
موجودہ زمانے کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے علماء، عرب اور غیر عرب دونوں، صرف روایتی مسائل سے واقف تھے، وہ جدید دور کے مسائل سے بے خبر تھے۔ اِس بنا پر یہ ہوا کہ جب بھی کوئی نیا مسئلہ پیش آیا تو انھوں نے فوراً ردّ عمل کا اظہار کیا۔ حالاں کہ صحیح یہ تھا کہ نئے مسائل پیش آنے کے بعد وہ ری ایڈجسٹ مینٹ (re-adjustment) کا طریقہ اختیار کریں۔ مثلاً انھوںنے موجودہ زمانے میں سیکولرازم کو لادینیت کہہ کر رد کردیا، اور جمہوریت کو غیر اسلامی بتا کر وہ اس کے خلاف ہوگئے۔ حالاں کہ اِن دونوں کے معاملے میں علماء کو ری ایڈجسٹ مینٹ کا طریقہ اختیار کرنا چاہیے تھا، نہ یہ کہ وہ اِن جدید نظریات کو غیر اسلامی بتا کر اُن کے مخالف بن جائیں۔
مغربی دنیا کا سفر کرتے ہوئے ایک احساس یہ ہوتاہے کہ اہلِ مغرب ہی وہ لوگ ہیں جن کو قرآن میں یاجوج اور ماجوج (الأنبیاء: 96 ) کہاگیا ہے۔ مغربی قوموں نے جس طرح فطرت میں چھپے ہوئے رازوں کو کھولا اور جدید تہذیب بنائی، وہ تاریخ کا ایک انوکھا واقعہ ہے۔ بظاہر ایسامحسوس ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہلِ مغرب کو ایک اہم کام کا ذریعہ بنایا، وہ ہے— موجودہ دنیا میں جنت کا تعارف جس کا ذکر قرآن میںاِن الفاظ میں کیاگیا ہے: ویُدخِلہم الجنۃ عرّفہا لہم (محمد: 6 )۔
پُر رونق مغربی تہذیب کے ظہور سے پہلے جنت زیادہ تر ایک اعتقادی چیز تھی۔ اب وہ ایک متعارف چیز بن چکی ہے۔ یہ کام بلاشبہہ اللہ تعالیٰ نے اہلِ مغرب سے لیا ہے۔ مثال کے طورپر قدیم زمانے میںکہا جاتا تھا کہ: السفر کالسقر (سفر جہنم کے مانندہے) جب کہ آج کا مسافر، حدیث کے الفاظ میں، کالملوک علی الأسرّہ (تخت پر بیٹھے ہوئے بادشاہوں کے مانند) ہوتاہے۔
جنت کے بارے میں قرآن میں آیا ہے کہ جنتیں دو ہیں (الرحمن: 46 )۔ قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ بنیادی طور پر جنت کی دو کیٹگری (category) ہے۔ ایک، وہ جس کو قرآن میں خدا کا پڑوس (التحریم:11 ) کہاگیا ہے۔ جنت کے اِس درجے کو ’’عند اللہ کیٹگری ‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ اہلِ جنت کی دوسری قسم وہ ہے جو خدا کے پڑوس میں توجگہ نہیں پائیں گے، لیکن وہ جہنم کے عذاب سے محفوظ رہیںگے (الأنبیاء: 101)۔ جنت کے اِس درجے کو قرآن کے الفاظ میں ’’مبعد عن النارکیٹگری ‘‘ کہا جاسکتا ہے۔
پولینڈ کی یہ کانفرنس ایک انٹرنیشنل کانفرنس تھی۔ اِس کانفرنس میںکئی عرب علماء آئے ہوئے تھے۔ ایک عرب عالم نے اِس کانفرنس کے بارے میں کچھ شکایتی بات کہی۔ میں نے کہا کہ آپ اِس طرح سوچئے کہ کیا آپ کسی عرب ملک میں اِس طرح کی منظم کانفرنس اتنے بڑے پیمانے پر کرسکتے ہیں۔ انھوںنے کہا کہ نہیں۔ میںنے کہا کہ پھر آپ اِس پہلو پر غور کیجئے اور اِس سے سبق لیجئے۔ یہ ایک انٹرنیشنل کانفرنس تھی، لیکن ہر پہلو سے وہ نہایت منظم تھی۔ ایسا منظم اجتماع کسی بھی مسلم ملک میں نہ میںنے دیکھا اور نہ میں نے سنا۔
یہاں میں نے دیکھا کہ کمیونٹی آف سینٹ ایجی ڈیو کے کئی عورت اور مرد روانی کے ساتھ عربی زبان بول رہے تھے۔ ہمارے ایک ساتھی نے ان سے پوچھا کہ آپ نے عربی زبان کیسے سیکھی۔ انھوںنے کہا کہ ہمارا سابقہ بار بار عربوں کے ساتھ پیش آتا ہے، اِس لیے ہم نے باقاعدہ کوشش کرکے عربی زبان سیکھی، تاکہ ہم براہِ راست عربوں سے تعلق قائم کرسکیں۔
قرآن اور حدیث دونوں میں بتایا گیا ہے کہ مسیحی لوگوں میںخصوصی طورپر رافت اور رحمت کی صفت پائی جاتی ہے۔ خود میں نے بار بار اِس کا تجربہ کیا ہے۔ قرآن میں اُن کے متعلق، رافت اور رحمت (الحدید: 27 ) کا لفظ آیا ہے۔ اورحدیث میں اِس معاملے کی مزید تفصیل بیان کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے: إنّہم لأحلم الناس عند فتنۃ، وأجبر الناس عند مصیبۃ، وخیر الناس لمساکینہم وضعفائہم (صحیح مسلم، کتاب الفتن وأشراط الساعۃ)
میں سمجھتا ہوں کہ اِس کا سبب غالباً حضرت مسیح کی ایک استثنائی تعلیم ہے۔ حضرت مسیح نے اپنے ایک بیان میں حواریین سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ —اپنے دشمن سے محبت کرو:
Love your enemies (Luke 6: 35)
میرے علم کے مطابق، مذکورہ الفاظ میں ’’دشمن سے محبت‘‘ کی تعلیم استثنائی طورپر صرف مسیحیت میں پائی جاتی ہے۔ غالباً اِسی تعلیم کا یہ نتیجہ ہے کہ مسیحیوں میں رافت اور رحمت کلچر بہت زیادہ عام ہوا، حتی کہ وہی ان کی پہچان بن گیا۔ مسیحی حضرات کی اِس استثنائی صفت کا تجربہ مجھے اِس کانفرنس کے دوران بھی بار بار ہوا۔
مسلمانوں کی نفسیات اور مسیحی لوگوں کی نفسیات کے تقابلی مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں کے درمیان بہت زیادہ فرق پایا جاتاہے۔ بعد کے زمانے میں مسلمانوںکی جو سیاسی تاریخ بنی اور ان کے یہاں جو لٹریچر تیار ہوا، اُس کے نتیجے میں مسلمانوں کا ذہن یہ بنا کہ — دشمن سے لڑو:
Fight your enemy
اِس کے برعکس، مسیحی لوگوں کا ذہن ان کی روایات کے مطابق، یہ بنا کہ— دشمن سے محبت کرو:
Love your enemy
یہی نفسیات دونوں قوموں کے اندر عمومی طورپر پائی جاتی ہے۔ جہاںتک صلیبی جنگوں، یا پہلی عالمی جنگ اور د وسری عالمی جنگ کا معاملہ ہے، وہ مسیحی عوام کی نفسیات کا مظاہرہ نہ تھا، بلکہ وہ کچھ مسیحی لیڈروں کی سیاسی معرکہ آرائی اور کشور کشائی کا نتیجہ تھا۔
کمیونٹی کے ایک ذمے دار ڈاکٹر فیڈرکو (Federico Di Leo) نے مجھ سے کہا کہ آپ چند ایسے مسلم اسکالر کے نام ہمیں دیجئے جو آپ کے نزدیک امن کی واقعی اہمیت کو جاننے والے ہوں۔میںنے اپنے ساتھی کو چند نام بتائے۔ میرے ساتھی نے مسٹر فیڈرکو سے کہا کہ مولانا نے کچھ نام بتائے ہیں، لیکن اِس وقت ہمارے پاس ان لوگوں کا مکمل ایڈریس موجود نہیں ہے۔ ہم انڈیا پہنچ کر آپ کو ان کا پورا ایڈریس روانہ کردیں گے۔
مسٹر فیڈرکو نے کہا کہ نہیں، ہم لوگ لیت ولعل (procrastination) کو پسند نہیں کرتے۔ اگر آپ کو ان لوگوں کے نام معلوم ہیں تو آپ اِس وقت ہم کو صرف ان کے نام لکھوا دیجئے۔ بعد کو ہم آپ سے ان کا مکمل ایڈریس حاصل کرلیں گے۔ کیا معلوم ہم لوگ یہاں سے واپس جاکر بھول جائیں اور یہ اہم کام پورا ہونے سے رہ جائے۔
6 ستمبر 2009 کی شام کو کانفرنس کے شرکاء کو ایک خصوصی رسپشن (reception) دیاگیا۔ یہ رسپشن کریکو کے میئر (Mayor of Krakow) کی طرف سے تھا۔ یہ دعوت نامہ انگریزی اور پولش (Polish) زبان میں تھا۔ اس کے انگریزی الفاظ یہ تھے:
Jacck Majchrowski
Mayor of Krakow
Has the honor of inviting you to a reception on the international meeting for Peace-People and Religions The Spirit of Assisi in Krakow.
اِس کی دعوت پر ہمارے ساتھیوں نے میئر آف کریکو کے پیلیس (Wielopolski Palace) میں رکھے گئے اِس رسپشن میں شرکت کی۔ یہاں شرکائِ کانفرنس کے علاوہ، اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد اور مختلف ملکوں کے اعلیٰ عہدے داران موجود تھے۔ ہمارے ساتھیوں نے ان لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا۔ شرکاء نے اس کو نہایت خوشی کے ساتھ قبول کیا اور شکریہ ادا کیا۔
اِس تجربے کے بعدمیرے ایک ساتھی نے کہا کہ قدیم مذہبی جبر کے زمانے میں حاکمِ وقت خود اپنی طرف سے داعی کو اپنے محل میں نہیں بلاتا تھا۔ داعی کو خوف (طٰہٰ: 45 ) کی نفسیات کے تحت وہاں جانا پڑتا تھا۔ اب زمانہ اتنا زیادہ بد ل چکا ہے کہ خود حاکمِ وقت داعی کو اپنے محل میں بلاتا ہے اور وہاں اس کے ساتھ عزت واکرام کا معاملہ کرتا ہے۔ اِس طرح داعی کو یہ موقع ملتاہے کہ وہ خدا کے کلام کو حاکمِ وقت اور اس کے دوسرے ساتھیوں کے سامنے پیش کرے جس کو وہ خوشی کے ساتھ قبول کریں۔
پولینڈ کی یہ کانفرنس تین دن تک جاری رہی۔ اس کے ہر پینل میں ہمارے ساتھیوں نے کھلے طورپر قرآن کا انگریزی ترجمہ لوگوں کو مطالعے کے لیے دیا اور لوگوں نے اس کو شوق سے لیا اور اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا۔ خود کمیونٹی کے افراد نے ہمارے ساتھیوں کے ساتھ اِس سلسلے میں تعاون اور حوصلہ افزائی کا معاملہ کیا۔
کانفرنس کے ایک ذمے دار ڈاکٹر فلپو (Philippo Sbrana) نے ہمارے یہاں سے چھپے ہوئے انگریزی ترجمہ قرآن کو اپنے ہاتھ میں لیا اور سب کے سامنے اپنی پسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ — یہ قرآن کا پیس فل ترجمہ ہے:
It is a peaceful translation of the Quran.
اِس تجربے سے معلوم ہوا کہ جدید ذہن یا مسیحی ذہن کو نفسِ قرآن سے کوئی الرجی نہیں ہے۔ ان کی الرجی کا سبب مسلم علماء کے اپنے اضافے ہیں جو انھوںنے قرآن کی تفسیر میں یا اپنی کتابوں میں کررکھے ہیں۔ اِن اضافوںسے الگ کرکے اگر قرآن کو اس کی خالص شکل میں پیش کیا جائے تو وہ اس کو خوشی کے ساتھ قبول کریں گے۔
8 ستمبر 2009 کی صبح کو ہم لوگوںکو کریکو شہر کے باہر اُس مقام پر لے جایاگیا جس کو کنسنٹریشن کیمپ (Concentration Camp) کہاجاتاہے۔ یہ کیمپ جس ایریا میں واقع ہے، اس کا نام آشو ِز (Auschsitz Birkenau) ہے۔ کار کے ذریعے یہ تقریباً ایک گھنٹے کا راستہ تھا۔
دوسری عالمی جنگ کے دوران پولینڈ پر قبضہ کرنے کے بعد ہٹلر نے یہ کیمپ بنوائے تھے۔ اِس کو عام طورپر کنسنٹریشن کیمپ(Concentration Camp) کہا جاتا ہے۔ اِس سے مراد وہ مقام ہے جہاں کوئی حکومت اپنے نا پسندیدہ عناصر کو بند کردے، یا ان کو سزا دے کر انھیں ختم کرنے کی کوشش کرے:
Concentration Camp: Institution for detention of undesirable elements of population deemed dangerous by regime.
یہ اصطلاح پہلی بار برٹش ایمپائر کے ذریعے بوئر جنگ (Boer War-1899-1902) کے زمانے میں استعمال کی گئی۔ اس کے بعد دوسری عالمی جنگ کے زمانے میں ہٹلر نے اپنے ناپسندیدہ عناصر (undesirables) کے لیے اس کو استعمال کیا۔مثلاً یہود اور پولینڈ کے کچھ باشندے۔ کہاجاتا ہے کہ ان کیمپوں میں تقریباً 4 ملین انسان گیس چیمبر میں ڈال کر ختم کردئے گئے۔ اِن مرنے والوں میں تقریباً نوے فی صد لوگ یہودی تھے جو مختلف ملکوں سے یہاں لائے گئے تھے۔ یہ گیس چیمبر اب بھی وہاں سیاحوں کی زیارت کے لیے موجود ہیں۔
ہٹلر (Adolf Hitler) اپنے مزاج کے اعتبار سے، ایک غالی نسل پرست (racist) تھا۔ اِسی کے ساتھ وہ ایک شعلہ بیان خطیب (rabble-rouser) تھا۔ مشہور اقتصادی بحران کے زمانے میں اُس کو یہ موقع ملاکہ وہ جذباتی تقریریں کرکے اپنے گرد ایک بھیڑ اکھٹا کرلے اور جرمنی میں سیاسی اقتدار پر قابض ہوجائے:
Economic depression after 1929, brought mass support, making Nazis largest party in Reichstag. Hitler was appointed chancellor and established dictatorship in 1933.
ہٹلر کی سیاسی پارٹی کا نام نازی پارٹی تھا۔ یہ پارٹی 1923 میں قائم ہوئی۔ یہ پارٹی یورپ میں نسلی پیوریٹی کے نام پر بنائی گئی تھی۔ یہ لوگ جرمن آرین نسل کو سب سے بڑا درجہ دیتے تھے۔ اُن کو یہ شکایت تھی کہ غیر آرین لوگ ہمارے لیے غیر وفادار ہیں۔ اِس کا ایک اظہار وہ تھا جو فرسٹ انٹرنیشنل (1866) کے بعد ہوا:
Nazi party was founded on principles of ‘racial purity’, (Aryans representing ‘master race’), allgiance to führer (leader).
ہٹلر نے اپنے اِن نظریات کو اپنی کتاب — میری جدوجہد (Mein Kampf) میں لکھ دیا تھا۔ جرمنی میں سیاسی اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد ہٹلر نے اپنے اِن انتہا پسندانہ نظریات کے تحت یہودی نسل کو ختم کرنے کی کوشش کی، لیکن دوسری عالمی جنگ میں جرمنی کی شکست نے ہٹلر کی اِس تحریک کا خاتمہ کردیا۔
آشو ِز کا یہ وسیع کیمپ دو حصوں میں بٹا ہوا ہے۔ شروع میں ہم لوگ کیمپ کے پہلے حصہ (Auschwitz I) میں گئے۔ یہاں دور تک سرخ اینٹ کی پختہ عمارتیں پھیلی ہوئی تھیں۔ یہعمارتیں قیدیوں کے لیے بطور جیل استعمال کی جاتی تھیں۔ جنگ کے بعد 1947 میں یہاں ایک میوزیم (Auschwitz-Birkenau State Museum) بنا دیاگیا ہے، جہاں سیاح کثرت سے آتے ہیں۔ بتایاجاتاہے کہ اِن سیاحوں کی سالانہ تعداد تقریبا 70 ہزار ہوتی ہے۔
یہ پہلا کیمپ میوزیم اور گیس چیمبرس پر مشتمل ہے۔ اِس میوزیم میں یہاں مارے گئے لوگوں (victims) کی چیزیں مثلاً بال، جوتے، کنگھے، عینک، اور تصاویر وغیرہ موجود ہیں۔ ایک وسیع ہال میں یہاں لائے گئے مردوں اور عورتوں کے سر کے بال شیشہ کے کیس میں رکھے ہوئے تھے، اِسی طرح اور دوسری چیزیں بھی۔
8 ستمبر 2009 کو جب کنسنٹریشن کیمپ میں ہم لوگ گیس چیمبر (gas chambers) دیکھ کر باہر آئے تو وہاں ویٹکن ٹی وی (Rai) کے نمائندہ مسٹر رابرٹو(Roberto Olla) نے مجھ سے پوچھا کہ کنسنٹریشن کیمپ کو دیکھنے کے بعد آپ کا تاثر کیا ہے۔ میںنے کہا کہ یہ ایک دہشت ناک تجربہ تھا۔ اِس تجربے کو بیان کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ یقین نہیں آتا کہ ایک انسان دوسرے انسان کے ساتھ اتنا زیادہ بے رحمانہ سلوک کرسکتا ہے۔ یہ کہتے ہوئے میری آنکھوں میںآنسو آگئے۔ میری یہ حالت دیکھ کر انٹرویور بھی رونے لگے۔
میںنے کہا کہ اِس وقت میں اپنے آپ کو اسپیچ لیس (speechless) پارہا ہوں۔ میں صرف یہی کہہ سکتا ہوں کہ خدا ہماری مدد کرے اور اِس قسم کا سفاکانہ واقعہ دوبارہ تاریخ میں نہ پیش آئے۔
یہاں میوزیم میںجو مختلف سبق آموز چیزیں تھیں، اُن میں سے ایک یہ تھی کہ ایک جگہ دیوار پر ایک کالا بورڈ لگا ہوا تھا۔ اِس بورڈ پر سفید حروف میں مشہور فلسفی جارج سنٹیانا (وفات: 1952 ) کا ایک قول اِن الفاظ میں لکھا ہوا تھا— جو شخص تاریخ کو یاد نہیں رکھتا، وہ ضرور اس کا اعادہ کرے گا:
“The one who does not remember history, is bound to live through it again.” (George Santayana)
اِس کے بعد ہم کو کیمپ کے دوسرے حصہ (Auschwitz II)میں جانا تھا جو ایک میل کے فاصلے پر واقع تھا۔ یہاں جو پروگرام تھا، اس کی بابت گائڈ بک میںیہ الفاظ درج تھے:
Memorial Ceremony: Ceremony at the Execution wall, silent March along the rail tracks and Memorial ceremony at the Monument for the victims of Nazi-facism
پروگرام کے مطابق، پہلے مختلف مذاہب کے نمائندوں کے ایک وفد نے الگ الگ مقامات پر پھول ڈالا۔ اسلام کے نمائندہ کے طورپر راقم الحروف نے عرب علماء کے ایک وفد کے ساتھ ایک یادگار مقام پر پھول ڈالا۔ یہاں کئی لوگوں کی تقریریں ہوئیں۔ اِن میں سے اکثر لوگ وہ تھے جو دوسری عالمی جنگ کے موقع پر کنسنٹریشن کیمپ میں پکڑ کر لائے گئے تھے، لیکن وہ کسی وجہ سے زندہ بچ گئے۔ اِن مقررین میں سے ایک سابق ربائی مسٹر اسرائیل (Israel Meir Lau) تھے جو اُس وقت آٹھ سال کی عمر میں تھے۔ اب وہ یروشلم میں رہتے ہیں۔ وہاں سے وہ کانفرنس میںشرکت کے لیے آئے تھے۔
اِس موقع پر انھوں نے انگریزی زبان میں تقریرکی۔ہمارے ساتھیوں نے اُن کو انگریز ی ترجمہ قرآن کا ایک نسخہ دیا۔ انھوںنے اس کو خوشی کے ساتھ لیااور کہا کہ آپ لوگوں کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے مجھ کو قرآن کا نسخہ دیا۔ میںقرآن کو پڑھنا چاہتا تھا مگر میں ابھی تک اس کا کوئی نسخہ حاصل نہ کرسکا تھا۔انھوں نے اپنی تقریر میںجو کچھ کہا، اس کو انھیں کے الفاظ میں یہاں نقل کیا جاتاہے:
In September 1993, this week 16 years ago, I had a long talk with Pope John Paul II in Castelgandolfo, in Italy. At the beginning of our long talk he said to me, “I remember your grandfather in the city of Krakow, where I served as a bishop, during World War II. I remember your grandfather, Rabbi Frankel … walking to the synagogue, on Shabbat, on Saturday, surrounded by very many children. [The Pope] asked, “How many grandchildren do you have?” He answered, “47.” So the Pope asked me, “How many survived the Holocaust?” My answer was, “only 5.” Forty-two, including my brother, who was 13 years old, and all my cousins, perished during Holocaust. He lifted up his face to the ceiling and the Pope said to me: “I was visiting already a hundred States. Wherever I go I emphasize that we, all mankind, are obliged and committed for the future and the continuity of our senior brothers, the Jewish people.” I will finish my words very personal, as I have started, with the memories of the Pope. He asked me “Chief Rabbi, do you have children?” I said, “Yes I do.” “Do they live in Israel?” “Yes all of them, my grandchildren as well live in Israel.” He said to me, “This is the way to promise what I spoke about, the future and the continuity of the Jewish people.” When I was, in ’95, at the concentration camp of Buchenwald, in the city of Weimar in Germany, where I was liberated at less than 8 years old, I saw in a window, the wall of the window of the torture room, you can see it today, one word, written with a nail of one of the prisoners, a Jewish one, because it was in Yiddish, in the Jewish language, the word was necume, take revenge. This was the last word of a man tortured in that room, a victim in Buchenwald. Revenge. What revenge can we take?
Amazing. I am a believer, I believe in the Lord almighty, not only because I am a Rabbi or because I am Jewish, but because I am a man, a human being.
I believe from heaven it happened: two or three hours ago, here in the city of Krakow, I arrived last night only for this ceremony, I received a phone call from my granddaughter. “Grandfather — she said — half an hour ago I brought you a great grandchild.” She gave birth to a son at seven o’ clock in the morning today in Israel.
This is my revenge. This is my answer. This is my solution. Live and let live. Live together, in friendship, in love, in peace. Thank you.
یہاں اسلام کے نمائندے کے طورپر پھول ڈالنے کا کام مجھے سونپا گیا۔ جب میں پھول لے کر آگے بڑھ رہا تھا تو میرے ساتھ چلنے والے ایک عرب عالم نے مجھ سے کہا: یا شیخ ، المسیحیون قتلوا الیہود، والیہود قتلوا المسیحیین، ونحن علی طرف (مسیحیوں نے یہود کو قتل کیا اور یہود نے مسیحیوں کو قتل کیا، ہمارا اِس سے کوئی تعلق نہیں)۔ اُس وقت کچھ کہنے کا موقع نہیں تھا۔ بعد کو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہاکہ یہ یہودی اور مسیحی کی بات نہیں ہے، بلکہ یہ انسان کی بات ہے اور ہمیں دکھ ہونا چاہیے کہ انسان نے انسان کے ساتھ ایسا سفاکانہ سلوک کیا۔
یہاں میرے پاس جامعۃ الازہر کے ایک استاد دکتور حسن حنفی بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے اُن سے فلسطین کے مسئلے پر بات شروع کی۔ میںنے کہا کہ آپ کا کیا خیال ہے، عرب علماء اور رہنما مسئلۂ فلسطین کا کوئی حل دریافت کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ انھوں نے کہا کہ جب ایک فریق کھلے طور پر جارحیت کر رہا ہو تو پھر ایسی حالت میں اِس مسئلے کا کوئی حل کیسے نکل سکتاہے۔
میںنے کہا کہ مسئلہ فلسطین کاکوئی حل اُس وقت نہیں نکل سکتا، جب تک فلسطین تحریک اپنی مسلم جدوجہد کو یک طرفہ طورپر ختم (disarmed) کرنے کے لیے تیار نہ ہوجائے۔ انھوںنے کہا کہ یہ تو فریقِ مخالف کے سامنے سرینڈر کرنا ہے۔ اِس طرح کے یک طرف سرینڈر کے ذریعے کیسے کوئی حل نکل سکتاہے۔ میںنے کہا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اِس کا واضح نمونہ صلح حدیبیہ کی صورت میں موجود ہے۔ حدیبیہ کے موقع پر رسول اور اصحابِ رسول نے اِس یک طرفہ صلح کے ذریعے وہ کامیابی حاصل کی جس کو قرآن میں ’’فتحِ مبین‘‘ کہاگیا ہے۔ ایسی حالت میں یہ ناجنگ معاہدہ فتحِ مبین (الفتح: 1 ) کے دروازے کو کھولنے کے ہم معنیٰ ہے، نہ کہ مفروضہ طورپر دشمن کے سامنے سرینڈر کرنے کے ہم معنی۔ میری بات سن کر وہ خاموش ہوگئے۔
کنسنٹریشن کیمپ سے میں بذریعہ کار سیدھے ہوٹل (Sheraton) لوٹ آیا۔ لیکن دوسرے شرکائِ کانفرنس کو کمیونٹی کی طرف سے آشوز(Austhwitz) کے ایک رسٹورنٹ میںسادہ رسپشن دیا گیا۔ اس میں معروف لنچ(lunch) کے بجائے لوگوں کو صرف جوس اور فروٹ (snack) دیاگیا تھا۔ ایسا انھوں نے رمضان کے احترام میں کیا تھا۔ یہ گویا ترکِ طعام کے بجائے تقلیلِ طعام کا ایک مظاہرہ تھا۔
میںنے اپنے ساتھیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہٹلر کے عروج وزوال میںبہت بڑا سبق ہے۔ ہٹلر کی کتاب میری جدوجہد (My Struggle) پڑھئے تو معلوم ہوگا کہ وہ اپنے سیاسی حوصلے میں سرشار ہے۔ اس کو یقین ہے کہ وہ پورے یورپ میںنازی ازم (Nazism) کو غالب کردے گا۔ اِسی تصور کے تحت اس نے 1939 میں دوسری عالمی جنگ چھیڑ دی، لیکن اس کا انجام صرف یہ ہوا کہ جرمنی تباہ ہوگیا اور خود ہٹلر نے ایک بنکر (bunker) کے اندر خودکشی کرلی۔
یہی انجام اِس قسم کے دوسرے لوگوں کا بار بار ہوا ہے۔ مثلاً اسکندر اعظم، چنگیز خاں، نادر خاں، نپولین، اسٹالن، وغیرہ۔ جب کسی آدمی کو بڑی سیاسی طاقت مل جائے تو وہ شعوری یا غیرشعوری طور پر یہ سمجھ لیتا ہے کہ میں سب کچھ کرسکتا ہوں۔ اِس قسم کے لوگ اپنی طاقت کا غلط اندازہ کرکے اکثر بڑی بڑی سیاسی چھلانگ لگاتے ہیں جس کا نتیجہ ہمیشہ منفی صورت میں نکلتا ہے۔
ایک گفتگو کے دوران میں نے کہا کہ تاریخ کا ایک عجیب المیہ ہے کہ لوگ ہمیشہ ادارہ (institution) کو اہمیت دیتے ہیں، نہ کہ فرد(individual) کو، حالاں کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ تمام بڑے بڑے کام افراد نے انجام دئے ہیں، نہ کہ کسی ادارے نے۔
اِس کا سبب کیا ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ کسی بڑے کام کے لیے بہت بڑے محرک (incentive) کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ دراصل بڑا محرک ہے جو کسی بڑے کام کا سبب بنتاہے۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ بڑا محرک ایک فرد کے دماغ میں پیدا ہوتا ہے، نہ کہ کسی ادارے کے مجموعی دماغ میں۔ چناں چہ کہاجاتا ہے کہ کوئی بڑا آرٹ ہمیشہ انفرادی دماغ (individual mind) نے تخلیق کیا ہے۔ کبھی ایسا نہیںہوا کہ کئی لوگوں کے مجموعی دماغ (collective mind) نے کسی بڑے آرٹ کی تخلیق کی ہو۔
سوویت یونین میں بعد کے زمانے میں جب کہ اُن کے یہاں کوئی بڑا لیڈر موجود نہ رہا تو ان کے یہاں ایک نیا تصور پیداہوا جس کو وہ لوگ اجتماعی قیادت (collective leadership) کہتے تھے۔ لیکن یہ ’’اجتماعی قیادت‘‘ سوویت یونین کے زوال کو بچا نہ سکی۔ سوویت یونین کا عظیم ادارہ اب بھی موجودتھا، لیکن لینن (وفات: 1924 ) اور اسٹالن (وفات: 1953 ) جیسا کوئی فرد نہ ہونے کی وجہ سے ظاہری اعتبار سے بڑا سیاسی ادارہ ہونے کے باوجود سوویت یونین منہدم ہو کر رہ گیا۔
8 ستمبر 2009 کی دوپہر کو ہم لوگ آشوز (Auschwitz) سے لوٹ کر اپنی قیام گاہ پر واپس آگئے۔ آج شام کو کانفرنس کا آخری پروگرام تھا۔ یہ پروگرام بہت بڑے پیمانے پر ہوتا ہے۔ اس کو دعائِ امن (prayer for peace) کہاجاتاہے۔
اِس کا طریقہ یہ ہے کہ ہر مذہب کے لوگ مختلف مقامات پر اکھٹا ہو کر اپنے مذہب کے مطابق، عبادت کرتے ہیں۔ وہاں وہ امن کی دعاء کرتے ہیں۔ اِس کے بعد یہ تمام لوگ یکجا ہو کر جلوس کی شکل میں چلتے ہیں۔ سڑک کے دونوں طرف مقامی لوگ بڑی تعداد میںاستقبال کے لیے کھڑے رہتے ہیں، پھر یہ قافلہ چلتا ہوا ایک مقام تک پہنچتا ہے جہاں بہت بڑا اسٹیج بنا ہوا ہوتا ہے۔ یہاں کانفرنس کے لوگ بلند اسٹیج پر بنی ہوئی مخصوص نشستوں پر بیٹھتے ہیں۔ یہاں امن کے موضوع پر تقریر یں ہوتی ہیں، امن کی مشعل جلائی جاتی ہے، امن کے ڈیکلریشن پر دستخط کئے جاتے ہیں، وغیرہ۔ آخر میں پیس پیس (peace, peace) کہتے ہوئے سب لوگ ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔
کانفرنس کا یہ آخری اجلاس (final ceremony) جس مقام پر ہوا، اس کو مارکیٹ اسکوائر (Market Square) کہتے ہیں۔یہ ایک وسیع اورکشادہ جگہ ہے۔ یہاں چاروں طرف بڑے بڑے چرچ (Cathedral) اور بڑی بڑی عمارتیں ہیں۔ یہاں لوگ بہت بڑی تعداد میں اکھٹا ہوئے تھے۔ میرے ساتھیوں نے یہاں قرآن کا انگریزی ترجمہ بڑے پیمانے پر لوگوں کو دیا۔
آخری اجلاس کے موقع پر جن لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا گیا، ان میں سے ایک مسٹریوشع(Joshua P. Du Bois) تھے۔ وہ صدر امریکا براک اوباما کے خصوصی معاون ہیں۔ میرے ساتھیوں نے مسٹر یوشع کو قرآن کے انگریزی ترجمے کی مزید کاپیاں دیتے ہوئے کہا کہ براہِ کرم، اِس کو آپ صدر امریکا اور وائٹ ہاؤس کے دیگر افراد تک پہنچانے میں ہمارا تعاون فرمائیں۔ مسٹر یوشع نے خوشی کے ساتھ اِس درخواست کو قبول کیا اور کہا کہ ہم ضرور اِس کو صدر اوبامہ تک پہنچا دیں گے۔ مسٹریوشع نے اپنا جو وزٹنگ کارڈ دیا، اس میں ان کے بارے میں یہ الفاظ درج تھے:
Special Assistant to the President Obama and Executive Director, White House Office of Faith-Based and Neighborhood Partnerships, The White House, Washington, D.C.
اِس اجلاس کے بعد کانفرنس کی رسمی کارروائی ختم ہوچکی تھی۔ آج شام کے کھانے کا انتظام کریکو کے ایک تاریخی مقام (Gardens of the Archeological Museum) پر کیاگیا تھا۔ اِس کا جو دعوت نامہ ہم لوگوں کو ملا، اس کے اوپر یہ الفاظ درج تھے:
The Marshal of the Voivodship of Matopolska is privileged to invite you to a dinner.
یہاں میوزیم کے خوب صورت پارک کے اندر خاص انداز سے سفید کپڑوں کے ذریعے بنایا ہوا ایک بہت بڑا ہال تیار کیاگیا تھا۔ اِسی ہال میں ہم لوگوں کے کھانے کا انتظام تھا۔ اِس موقع پر ہمارے ساتھیوں نے ایک میز پر قرآن کے انگریزی ترجمے کی کاپیاں رکھ دیں۔ وہ حاضرین سے مل کر انھیں قرآن کا انگریز ی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دے رہے تھے۔
عجیب بات ہے کہ اِس کانفرنس میںجو عرب آئے ہوئے تھے، انھوں نے اِس دعوتی کام سے کوئی دل چسپی نہیں لی، بلکہ کانفرنس کے دوران انھوںنے ہمارے ساتھیوں کی اِس دعوتی جدوجہد کی حوصلہ شکنی کی۔ ان لوگوں سے بات کرنے کے بعد اندازہ ہوا کہ ان کے اندر دعوت الی اللہ کا کوئی جذبہ موجود نہیں۔ اسلام کے نام پر جس چیز سے وہ باخبر ہیں، وہ صرف اُن کا قومی فخر ہے، اِس کے سوا کچھ اور نہیں۔
یہاں جن لوگوں سے ملاقات ہوئی، اُن میں سے ایک مز کیتھرین تھیں۔ وہ سویڈن کے شہر اُپسالا (Uppsala) کے چرچ کی نمائندہ تھیں۔ میرے ساتھی مولانا محمد ذکوان ندوی نے اُن سے سویڈش (Swedish)زبان میں بات کی اور اُن کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیا۔ وہ بہت خوش ہوئیں۔ مولانا محمد ذکوان ندوی اِس سے پہلے سویڈن (یورپ) کے دار السلطنت اسٹاک ہوم (Stockholm) میں چار سال تک رہ چکے ہیں۔ مز کیتھرین نے کہا کہ مجھ کو اِس ترجمہ قرآن کی ایک مزید کاپی چاہیے۔ میںاُسے اپنے ساتھی کو مطالعے کے لیے دوں گی۔ مز کیتھرین کے کارڈ پر اُن کے متعلق یہ الفاظ درج تھے:
Ann-Cathrin Jarl
PhD, Reverend, Chaplain to the Archbishop
وارسا کے ایک ڈیلی نیوز پیپر (Rzeczpospolita)کی نمائندہ مزایوا (Ewa Czaczkowska) نے کانفرنس سے متعلق میرے تأثرات پوچھے۔ میں نے حسب ذیل الفاظ میں اپنے تأثرات کا اظہار کیا:
According to my experience, the International meeting at Kracow organized by the community of St. Egidio, is very important. I see it in term of a process. Karacow meeting is a part of a continued process. It is like reviving the spirit of Assisi. The Community of St. Egidio is trying to mobilize people on the spirit of peace. Such mibilization itself is very important. I have participated in some meeting of this kind. I have found that it always yields positive result, specially in terms of peace and brotherhood. I hope that Kracow meeting will surely boost this peace process.
پولینڈ نسبتاً یورپ کا ایک پس ماندہ ملک ہے، لیکن یہاں کا انفراسٹرکچر (infrastructure) تقریباً اُسی معیار کا نظر آیاجو یورپ کے دوسرے ترقی یافتہ ملکوں میں دکھائی دیتا ہے۔ مثلاً سوئزرلینڈ اور جرمنی، وغیرہ۔اِس کا سبب یہ ہے کہ مسیحی یورپ (بااستثنائِ ترکی) ہر جگہ یہ ذہن پایا جاتاہے کہ انفراسٹرکچر کے مطالعے میں کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا ہے۔ یورپ میں دوسری کئی برائیاں پائی جاتی ہیں، لیکن انفراسٹرکچر کے معاملے میں سب کا ذہن ایک ہے، وہ یہ کہ انفراسٹرکچر کو اعلیٰ معیار پر باقی رکھنا ہے۔ وہاں کا کوئی کنٹریکٹر (contractor)اگر کوئی سڑک بنائے یا تعمیرات کرے تو وہ ایسا کبھی نہیں کرے گا کہ اپنے فائدے کے لیے وہ طے شدہ معیار میں کمی کردے۔
انڈیا اور پاکستان کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ یہاں کی سپریم چیز صرف ایک ہے، اور وہ صرف پیسہ (money) ہے۔ یہاں کا انجینئر اور کنٹریکٹر کم تر معیار کی چیزیں بنائے گا، صرف اِس لیے کہ اس کی اپنی کمائی میںاضافہ ہوسکے۔
کریکو میںایک بار ایساہوا کہ ہم سڑک پر بذریعہ کار سفر کررہے تھے۔ درمیان میں ایک جگہ کار تقریباً 15 منٹ تک آہستہ آہستہ چلتی رہتی رہی۔ میں نے اپنے ساتھی سے پوچھا کہ ایسا کیوںہے۔ انھوںنے بتایا کہ ہماری کار کے آگے ایک گھوڑا گاڑی چل رہی ہے۔
اِس قسم کی گاڑی یہاں سیاحوں کی تفریح کے لیے چلائی جاتی ہے جس کو جوائے رائڈ (joy ride) کہاجاتاہے۔ انڈیا میںاِس طرح کے موقع پر کار کا ڈرائیور مسلسل ہارن بجائے گا، لیکن وہاں ایک بار بھی ڈرائیور نے ہارن نہیں بجایا۔ وہ صبر کے ساتھ چلتا رہا، یہاں تک کہ راستہ صاف ہوگیا، پھر اس نے اپنی گاڑی تیز چلائی۔
ہم لوگ پولینڈ میں تین دن تک رہے۔ ہمیں یہاںکی مختلف سڑکوں پر گزرنے کا موقع ملا، لیکن کہیں کوئی شور وغل یا ہارن کی آواز سنائی نہیں دی، کسی مقام پر ایسا نہیں ہوا کہ بھیک ماننے والے لوگ ہماری گاڑی کو گھیر کر کھڑے ہوجائیں۔ انڈیا میں گانے والے لوگ اِس قسم کے گیت گاتے ہیں:
مرے دیش کی دھرتی سونا اگلے، اگلے ہیرے موتی
لیکن پہلا موقع پاتے ہی وہ اپنے بیٹے اور بیٹی کو یورپ اور امریکا بھیج دیتے ہیں— انڈیا کے سارے بگاڑ کا سبب صرف ایک ہے اور وہ کرپشن (corruption) ہے۔ بظاہر حالات انڈیا میں کرپشن کے خاتمے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔
ایک عرب عالم سے مجدد اور تجدید دین کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے میں نے کہا کہ مجدد کون ہے۔ مجدد کوئی پُر اسرار لفظ نہیں۔ مجدد دراصل وہ ہے جو بدلے ہوئے حالات میںاسلام کے ریلونس (relevance) کو دریافت کرے۔ مثلاً موجودہ زمانے میں سیکولرازم اور جمہوریت کے سیاسی نظریات سامنے آئے تو تمام مسلم رہنماؤں نے اس کے خلاف منفی رد عمل کا اظہار کیا، حالاں کہ تجدیدی نقطۂ نظر سے کرنے کا اصل کام یہ تھا کہ وہ سیکولر ازم اور جمہوریت کے مقابلے میں اسلام کی مثبت پوزیشن کو دوبارہ دریافت کریں۔
کریکو سے واپسی کا سفر 9ستمبر 2009 کو شروع ہوا۔ واپسی کا سفر بھی دوبارہ اُسی راستے سے طے ہوا جس راستے سے ہم لوگ دہلی سے کریکو گئے تھے۔ راستے میںایک انگریزی اخبار میں ایک خبر پڑھنے کو ملی۔ یہ خبر نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (8 ستمبر 2009) میں بھی چھپی ہے۔ اِس خبر کاعنوان یہ تھا — خدا کا عقیدہ انسان کے دماغ میں پیوست ہے:
Belief in God hardwired in our brain
خبر میں بتایا گیا تھا کہ انگلینڈ کی برسٹول یونی ورسٹی (Bristol University) میںایک رسرچ ہوئی ہے جس کے نتائج ٹائمس آن لائن (Times Online) میں چھپے ہیں۔ اِس رسرچ میں بتایاگیاہے کہ— خدا کا عقیدہ انسان کے اندر پیدائشی طور پر موجود ہوتاہے۔ ارتقاء کے دوران انسان کی اِس طرح پروگریمنگ ہوئی ہے کہ وہ خدا پر عقیدہ رکھے، کیوں کہ اِس سے اُنھیں زندہ رہنے کا زیادہ بہتر موقع ملتاہے:
We are born believers. Human beings are programmed by evolution to believe in God, because it gives them a better chance to survival. (p. 17)
اِس بیان میں عقیدہ خدا کا فطری ہونا تو رسرچ کا حصہ ہے، لیکن ارتقاء (evolution) والی بات رسرچ کرنے والوں کا اپنا اضافہ ہے —حقیقی مشاہدات میںاِسی قسم کے مفروضات کے اضافے سے حیاتیاتی ارتقاء کا پورا نظریہ قائم کیاگیا ہے۔
9 ستمبر 2009 کو پولینڈ سے واپسی تھی۔ائرپورٹ جانے کے لیے ہمیں صبح سویرے چار بجے ہوٹل سے نکلنا تھا۔ کمیونٹی کے ایک ممبر نے کہا کہ میں آپ کو اپنی کار سے ائر پورٹ لے جاؤں گا۔ میںاپنے مزاج کی بنا پر متردد تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ ٹھیک وقت پر ہماری قیام گاہ پرنہ پہنچ سکیں، کیوں کہ وہ کسی دوسری جگہ ٹھہرے ہوئے تھے۔ لیکن صبح کو جب ہم لوگ ہوٹل کے رسپشن سے چیک آؤٹ (check-out) کرکے ہوٹل کے گیٹ پر پہنچے تو ہم نے دیکھا کہ مذکورہ نوجوان وہاں پیشگی طورپر اپنی گاڑی لے کر کھڑے ہوئے ہیں۔ خدمت کرنے والے یہ لوگ کوئی عام لوگ نہ تھے۔ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے اور اچھے عہدوں سے تعلق رکھنے والے تھے۔
ہوٹل سے روانہ ہو کر ہم لوگ کریکو ائر پورٹ پہنچے۔ کریکو ائر پورٹ نسبتاً ایک چھوٹا ائر پورٹ ہے۔ ہم لوگوں نے فجر کی نماز ائر پورٹ پر ادا کی۔ ائر پورٹ کی رسمی کارروائی کے بعد ہم جہاز کی طرف بڑھے۔ یہاں ہمارے ساتھیوں نے کچھ مسافروں اور ائر پورٹ کے عملہ کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیا۔
مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے ہم لوگ جہاز کے اندر داخل ہوئے۔ یہ ایک چھوٹا جہاز تھا۔ کریکو سے وارسا کا یہ سفر پولش ائر لائنز کی فلائٹ نمبر 3910 کے ذریعے ہوا۔ صرف 50 منٹ کی پرواز کے بعد ہم لوگ وارسا ائرپورٹ پر اتر گئے۔ وارسا ائرپورٹ پر ہم لوگ یہاں کے لاؤنج میں چلے گئے۔ وہاں بیٹھنے کے علاوہ کھانے پینے کا بھی انتظام تھا۔
لاؤنج کے مختلف حصوں میں بہت سے لوگ بیٹھے ہوئے تھے، لیکن وہاں کسی قسم کا کوئی شور نہ تھا۔ ہر عورت اور مرد خاموشی کے ساتھ اپنا اپنا کام کررہے تھے۔ مغربی دنیا میں جس طرح ورک کلچر ہے، اسی طرح یہاں خاموشی کلچر ہے۔ یہ لوگ یا تو چپ رہتے ہیں، یا وہ بہت آہستہ آہستہ بات کرتے ہیں، تاکہ آس پاس کے لوگ ڈسٹرب نہ ہوں۔ یہاں بھی ہمارے ساتھیوں نے لاؤنج میں بیٹھے ہوئے مختلف لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا۔
وارسا کے لاؤنج میں تقریباً 2 گھنٹے انتظار کرنے کے بعد ہم لوگ دوپہر کے وقت اگلے جہاز پر سوار ہوئے۔ یہ جہاز وارسا سے زیورک جانے والا تھا۔ وارسا سے زیورک کا جہاز کسی وجہ سے آدھ گھنٹہ لیٹ ہوگیا۔ یہ ہمارے لیے ایک سنگین مسئلہ تھا۔ کیوں کہ زیورک ائرپورٹ پر اگلے جہاز کا وقت اِس طرح تھا کہ جب یہ جہاز وہاں پہنچے گا تو اُس وقت وہ جہاز زیورک سے دہلی کے لیے روانہ ہو چکاہوگا۔
لیکن اس موقع پر ہم لوگوں کے ساتھ خدا کی خصوصی مدد ہوئی۔ زیورک پہنچنے پر معلوم ہوا کہ زیورک سے دہلی جانے والا جہاز آدھ گھنٹہ لیٹ تھا۔ اِس تاخیر کی بنا پر ہم لوگوں کو زیورک ائر پورٹ پر مزید رکنا نہیں پڑا اور آسانی سے اگلا جہاز مل گیا۔ زیورک ائر پورٹ پر جب ہم کو یہ بات بتائی گئی تو ہمارے ساتھیوں نے اللہ تعالیٰ کا خصوصی شکر ادا کیا۔ مجھے ایسامحسوس ہوا کہ دہلی سے چلتے ہوئے میںنے دہلی سے دہلی تک (from Delhi to Delhi) کی جو دعا کی تھی، وہ اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی اور اسی کا یہ کرشمہ ہے کہ ہمیں زیورک میں اگلا جہاز آسانی کے ساتھ مل گیا۔
زیورک ائر پورٹ کی ایک قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ یہاں ہمیں ائر پورٹ کی لمبی دوری طے کرکے فوراً جہاز تک پہنچنا تھا۔ اِس کے لیے مجھے یہاں ایک خصوصی وھیل چئر فراہم کی گئی۔ شروع میں ہماری وھیل چئر ائرپورٹ کی ایک خاتون چلا رہی تھیں۔ وہ بہت آہستہ آہستہ چلا رہی تھیں جس کی وجہ سے میں بہت پریشان تھا اور اندر ہی اندر دعا کررہا تھا۔ اتنے میںائر پورٹ کے عملے کا ایک مرد آگیا اور تیزی سے وھیل چئرکو دوڑاتے ہوئے جہاز کے دروازے تک پہنچا دیا۔ ہمارے ساتھیوں نے یہاں بھی ائر پورٹ کے عملے کے لوگوں کو دعوتی لٹریچر دیا۔
زیورک سے دہلی کا یہ سفر 8 گھنٹے کا تھا۔ اِس دوران سوئس انٹرنیشنل ائرلائنز (Swiss International Air Lines) کا فلائٹ میگزین(Swiss Universe) دیکھنے کو ملا۔ یہ میگزین دو زبانوںمیں تھا — سوئس اور انگلش۔ 96 صفحے کے اِس میگزین میں صرف تین موضوعات شامل تھے— فیشن، بزنس، ٹریویل۔ اس کے دوصفحے میں خریداری کے لیے عورتوں کا چوائس اور مردوں کا چوائس الگ الگ بتایاگیا تھا۔ مردوںکا چوائس (Men’s Choice) خاص طورپر تین چیزیں تھیں— cellphone ، bicycle ، motorbike ۔ اِس کے برعکس، عورتوں کا چوائس (Ladies’ Choice) یہ بتایا گیاتھا— White-gold necklace, White-gold ring, Rose-gold watch ۔
قرآن میں عورتوں کے بارے میں آیا ہے: أو من یُنشَّأ فی الحلیۃ (الزّخرف: 18) یعنی عورت آرائش میں پرورش پاتی ہے۔ فلائٹ میگزین کے مذکورہ صفحے کو دیکھ کر میںنے سوچا کہ قدیم عورت کی جو نفسیات تھی، وہی جدید عورت کی بھی نفسیات ہے۔
وارسا کے لاؤنج میںکچھ اخبارات مطالعے کے لیے موجود تھے۔ اُن میں سے ایک لندن کا اخبار ٹائمس (The Times) تھا۔ یہ اخبار 90 صفحات پر مشتمل تھا۔ اخبار کے صفحہ 15 کی ایک سرخی یہ تھی— مسجد پر اسلام مخالف مظاہرہ کی صور ت میں تشدد کا اندیشہ:
Violence fears as anti-Islam protest targets mosque
خبر میں بتایا گیا تھا کہ کچھ شدت پسند عناصر 11 ستمبر 2001 کے واقعے کو لے کر لندن کی سنٹرل مسجد (Harrow Central Mosque) پر مظاہرہ کرنے کا منصوبہ بنارہے ہیں۔ اِس بنا پر یہ اندیشہ کیا جارہا ہے کہ ایسے موقع پر مظاہرین اور مسلمانوں کے درمیان تصادم (clash) ہوسکتاہے۔ مگر یہ ایک بے بنیاد بات ہے۔ اِس قسم کے مظاہرے کا صحیح جواب یہ ہے کہ اس کا جواب ہی نہ دیاجائے۔ ایسے مواقع پر یہ دراصل جوابی رد عمل ہے جو مسئلہ پیدا کرتاہے، نہ کہ خود عمل۔ یہی وہ حکمت ہے جس کو حضرت عمر فاروق نے اِن الفاظ میں بیان کیا تھا۔ أمیتوا الباطل بالصّمت عنہ (باطل کا خاتمہ کرو، اس کے معاملے میں چپ رہ کر)
اخبار کے صفحہ 32 پر کچھ اقوال نقل کئے گئے تھے۔ اُن میں ایک قول یہ تھا— اپنے بچوں کو دیانت کی تعلیم دینے سے پہلے ہمیں دنیاکو دیانت دار بنانا ہوگا:
‘We must make the world honest, before we can honestly say to our children that honesty is the best policy’. George Bernard Shaw
برنارڈ شا کا یہ قول ایک دل چسپ قول ہوسکتاہے، لیکن حقیقت کے اعتبار سے وہ ایک غیر عملی بات ہے۔ دنیا کے تمام لوگوں کو دیانت داربنانا ایک غیر عملی منصوبہ بنانا ہے۔ اِس قسم کا آئڈیل سماج اِس دنیا میں کبھی نہیں بن سکتا۔ لیکن افراد کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ اپنے آپ کو بقدر امکان دیانت دار بنائیں۔ دوسری بات یہ کہ دیانت داری صرف عملی برتاؤ کا نام نہیں ہے۔ دیانت داری سب سے پہلے دیانت دارانہ سوچ (honest thinking) کانام ہے، اور کسی فرد کے لئے دیانت دارانہ سوچ ہمیشہ اور ہر حال میں قابل عمل ہوتی ہے۔
جہاز کے اندر جب مسافروں کے لیے کھانا آیا تو میںنے دیکھا کہ اس کے پیکٹ کے اوپر یہ الفاظ درج تھے— کھانے کا لطف اٹھائیے: Enjoy your meal
یہ بات کھانے کے پیکٹ پر پانچ زبانوں میں لکھی ہوئی تھی۔ عربی زبان میں یہ الفاظ تھے:
بالہنا والشفا
یہ جدید مادّی کلچر کا ایک نمونہ ہے۔ زندگی کا مادّی نقطہ نظر (materialistic concept of life) پورا کا پورا تفریح (entertainment) کے اصول پر مبنی ہے۔ اِس کے مقابلے میں، مومنانہ نقطۂ نظر یہ ہے کہ ہر چیز میں خدا کی رحمت کو دیکھا جائے۔ کھانے کو الحمد للہ کہہ کر کھایا جائے۔ لیکن یہ الحمد للہ صرف لسانی تلفظ نہیںہے، بلکہ وہ شکر سے معمور قلب کا ایک گہرا اظہار ہے۔
9 ستمبر 2009 کی رات کو بارہ بجے ہم لوگ دہلی ائر پورٹ پر اترے۔ایر پورٹ کی طرف سے مجھ کو وھیل چئر مہیا کی گئی۔ میںاِس وھیل چئر پر بیٹھ کر چلا، مگر تھوڑی دیر میں مجھے سخت انقباض ہونے لگا۔ یہ وھیل چئر ایک انڈین آدمی چلا رہا تھا۔ وہ اتنے سست انداز میں وھیل چئر چلا رہا تھا جس کو عوامی زبان میں ’مارے باندھے‘ طریقے پر چلانا کہاجاتا ہے، جب کہ اِس سے پہلے وارسا اور زیورک ائر پورٹ پر یورپین آدمی پورے جوش و خروش کے ساتھ وھیل چئر چلا رہا تھا۔ مجھے یہ بات سخت ناگوار ہوئی اور میں پاؤ ںسے چل کر ائر پورٹ کے باہر آیا۔
دہلی ائر پورٹ پر پہنچنے کے بعد میرے ساتھی نے مسٹر اشوک ڈرائیور کو ٹیلی فون کیا۔ انھوںنے بتایا کہ میںائرپورٹ کے باہر موجود ہوں۔ یہ کرشمہ موبائل ٹیلی فون کا تھا۔ موبائل کے دورسے پہلے مسافر کو یہ معلوم نہیں ہوتا تھا کہ اس کی کار یا اس کو رسیو کرنے والے لوگ ائر پورٹ پر آئے ہوئے ہیں یا نہیں۔ اب موبائل کی بناپر یہ ممکن ہوگیا ہے کہ ہوائی جہاز کے لینڈ کرتے ہی یہ معلوم کرلیا جائے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی عجیب نعمت ہے۔ اِس نعمت کو بے شمار لوگ استعمال کررہے ہیں، ریلوے اسٹیشن پر بھی اور ائر پورٹ پر بھی، لیکن میں نے کسی کو نہیں دیکھاجو اس عظیم نعمت پر شکر ِ خداوندی کے جذبے سے سرشار ہورہا ہو۔
جب میں دہلی سے سفر کرکے پولینڈ گیا تھا تو وہاں بھی ائر پورٹ پر مجھ کو رسیو کرنے والے لوگ موجود تھے۔ جب میں وہاں سے دہلی آیا تو یہاں کے ائر پورٹ پر بھی ایسا ہی ہوا۔ میںنے دعا کی کہ خدایا، اِسی طرح میری زندگی کا جہاز ایک دن آخرت کے ائرپورٹ پر اترنے والا ہے۔ تو اپنے فرشتوں کو حکم دے دے کہ وہ وہاں میری مدد کے لیے موجود ہوں اور مجھے اپنے ساتھ لے کر اُس قیام گاہ تک پہنچا دیں جس کے بارے میں قرآن میں بتایا گیا ہے کہ جہاں نہ خوف ہوگا اور نہ حزن۔
(یہ سفرنامہ مولانا محمد ذکوان ندوی کے تعاون سے تیار کیا گیا)
زر تـعـــاون الــرســــالــہ
واپس اوپر جائیں

Wednesday, 2 December 2009

Alrisala December 2009 (الرسالہ دسمبر)

2

-عید ِ اضحی کا پیغام

4

- حج: ایک انتباہ

5

- قربانی اور اسلام

5

- اسلام کے پانچ ارکان

9

- ذبحِ عظیم

15

- حضرت ابراہیم علیہ السلام

16

- علامتی ذبیحہ

18

- قربانی کی حقیقت

20

- حلال اور حرام کا تصور

21

- انسان کی غذائی ضرورت

23

- تاریخ کے فکری مغالطے

26

- استدلال کی نئی بنیاد

31

- غیر فطری نظریہ

32

- انڈیا کے ریفرنس میں

37

- خاتمہ

39

- سوال وجواب

43

- خبر نامہ اسلامی مرکز— 199


عید ِ اضحی کا پیغام

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ نے پوچھا کہ اے خدا کے رسول، یہ قربانیاں کیا ہیں۔ آپ نے جواب دیا کہ تمھارے باپ ابراہیم کا طریقہ (ماہذہ الأضاحی، قال: سنّۃ أبیکم إبراہیم (مسند احمد، جلد 4،صفحہ 368؛ ابن ماجہ، کتاب الأضاحی)۔ اِس حدیثِ رسول سے معلوم ہوتا ہے کہ عید ِاضحی کی حقیقت کیاہے، وہ ہے —حضرت ابراہیم کے طریقے کو علامتی طورپر انجام دے کر اُس کو عملی اعتبار سے اپنی زندگی میں شامل کرنے کا عہد کرنا۔
عید اضحی ہر سال ماہِ ذو الحجہ کی مخصوص تاریخوں میں دہرائی جاتی ہے۔ وہ دراصل حج کی عالمی عبادت کاحصہ ہے۔ حج پورے معنوں میں، حضرت ابراہیم کی زندگی کا علامتی اعادہ (symbolic performance) ہے۔ اِس کا ایک حصہ وہ ہے جو ہر مقام پر عید ِ اضحی کی شکل میں جزئی طورپر انجام دیا جاتا ہے۔
حضرت ابراہیم کا مشن عالمی دعوتی مشن تھا۔ آپ نے اِس مشن کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ کا سفر کیا ۔ آپ نے اپنے اہلِ خاندان کو اِسی کام میں لگایا۔ آپ نے اِس دعوتی مشن کے مرکز کے طورپر کعبہ کی تعمیر کی اور اُس کا طواف کیا۔ آپ نے صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرکے بتایا کہ دنیا میں میری دوڑ دھوپ تمام تراللہ کے لیے ہوگی۔ آپ نے قربانی کرکے اپنے اندر اِس عزم کو پیدا کیا کہ آپ اپنی زندگی کو پوری طرح، اللہ کے کام کے لیے وقف کریں گے۔ آپ نے احرام کی شکل میں سادہ کپڑے پہنے جو اِس بات کی علامت تھے کہ ان کی زندگی مکمل طور سادہ زندگی ہوگی۔ آپ نے شیطان کو کنکریاں مار کر اِس بات کا اظہار کیا کہ وہ اپنے آپ کو شیطان کے بہکاوے سے آخری حد تک بچائیں گے، وغیرہ۔
اِسی ابراہیمی طریقِ زندگی کو جزئی طور پرہر سال عید ِ اضحی کے موقع پر تمام مسلمان اپنے اپنے مقام پر دہراتے ہیں۔ اِس طرح یہ عید ِ اضحی، حضرت ابراہیم کے طریقِ حیات کو اپنی زندگی میںاپنانے کا ایک سالانہ عہد ہے۔ یہی وہ نمونہ ہے جس کو سامنے رکھ کر ہر شخص کو یہ جانچنا چاہیے کہ اُس نے عید ِ اضحی کے دن کو صحیح طور پر منایا، یا صحیح طورپر نہیں منایا۔
عید اضحی کے دن مسلمان اپنے قریب کے لوگوں سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔ یہ ملاقاتیں گویا اُس دعوتی سرگرمی کی تجدید ہیں جو حضرت ابراہیم نے اپنے وقت کی آباد دنیا میں انجام دیں۔ اِسی طرح آج ہر مسلمان کو اپنے زمانے کے لوگوں کے درمیان دعوتی ذمے داریوں کو ادا کرنا ہے۔ پھرہر جگہ کے مسلمان اللّٰہُ أکْبَرُ اللّٰہُ أکْبَرُ، لاَ إلٰہَ إلاّ اللّٰہُ وَاللّٰہُ أکْبَرُ، اللّٰہُ أکْبَرُ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُکہتے ہوئے مسجدوں میں جاتے ہیں اور وہاں دو رکعت نمازِ عید ادا کرتے ہیں اور امام کا خطبہ سنتے ہیں۔ یہ اپنے اندر اِس روح کو زندہ کرنا ہے کہ میں خدا کی پکار پر لبیک کہنے کے لیے تیار ہوں، اور یہ کہ میری پوری زندگی عبادت اور اطاعت کی زندگی ہوگی۔ اِسی کے ساتھ امام کے پیچھے نماز ادا کرنا اور نماز کے بعد خطبہ سننا، اِس بات کا عہد ہے کہ میںاِس دنیامیں اجتماعی زندگی گزاروں گا، نہ کہ متفرق زندگی۔
عید ِ اضحی کے دن قربانی کی جاتی ہے۔ اِس قربانی کے وقت یہ کلمات ادا کیے جاتے ہیں: إنّ صلا تی ونُسکی ومحیای ومماتی للہ ربّ العالمین (الأنعام:161 ) یعنی بے شک، میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا صرف اللہ رب العالمین کے لیے ہوگا۔
قربانی کے وقت ادا کیے جانے والے یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ قربانی کی اصل روح یا اس کی اصل حقیقت کیا ہے۔ قربانی دراصل ایک علامتی عہد (symbolic covenant)ہے۔ اِس علامتی عہد کا تعلق پوری زندگی سے ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ عید اضحی کے دن آدمی علامتی طورپر یہ عہد کرتا ہے کہ اس کی زندگی پورے معنوں میں، خدا رخی زندگی (God-oriented life) ہوگی۔ وہ اپنی زندگی میںعبادتِ الٰہی کو اُس کے تمام تقاضوں کے ساتھ شامل کرے گا۔ وہ اپنے آپ کو خدا کے مشن میں وقف کرے گا۔ وہ دنیا میں سرگرم ہوگا تو خدا کے مشن کے لیے سرگرم ہوگا۔ اُس پر موت آئے گی تو اِس حال میں آئے گی کہ اُس نے اپنے آپ کو پوری طرح خدا کے مشن میں لگا رکھا تھا، وہ پورے معنوںمیں خداوند ِ عالم کا بندہ بناہوا تھا۔ اُس کا جینا خدا کے لیے جینا تھا، نہ کہ خود اپنے لیے جینا۔
واپس اوپر جائیں

حج: ایک انتباہ

حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یأتی علی الناس زمانٌ یحجّ أغنیاء الناس للنزاہۃ، وأوساطہم للتّجارۃ، وقرّاؤہم للرّیاء والسُمعۃ، وفقراء ہم للمسئلۃ (کنز العُمّال، رقم الحدیث: 12363 ) یعنی لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا، جب کہ مال دار لوگ تفریح کے لیے حج کریں گے، اور اُن کے درمیانی درجے کے لوگ تجارت کے لیے حج کریں گے، اور ان کے علماء دکھاوے اور شہرت کے لیے حج کریں گے، اور ان کے غریب لوگ مانگنے کے لیے حج کریں گے۔
یہ حدیث بہت ڈرا دینے والی ہے۔ اس کی روشنی میں موجودہ زمانے کے مسلمانوں کو خاص طور پر اپنا احتساب کرنا چاہیے۔ اُنھیں غور کرنا چاہیے کہ اُن کا حج اِس حدیثِ رسول کا مصداق تونہیں بن گیا ہے۔ مال دار لوگ سوچیں کہ ان کے حج میں تقویٰ کی اسپرٹ ہے ، یا سیر و تفریح (outing) کی اسپرٹ۔ عام لوگ یہ سوچیں کہ وہ دینی فائدے کے لیے حج کرنے جاتے ہیں یا تجارتی فائدے کے لیے۔ علماء غور کریں کہ وہ عبدیت کا سبق لینے کے لیے بیت اللہ جاتے ہیں، یا اپنی پیشوایانہ حیثیت کو بلند کرنے کے لیے۔ اِسی طرح غریب لوگ سوچیں کہ حج کو انھوں نے خدا سے مانگنے کا ذریعہ بنایا ہے، یا انسانوں سے مانگنے کا ذریعہ۔
اِس حدیثِ رسول میں پیشین گوئی کی زبان میں بتایا گیا ہے کہ امت پر جب زوال آئے گا تو اُس وقت لوگوں کا حال کیا ہوگا۔ دورِ عروج میں امت کا حال یہ ہوتا ہے کہ دین کا روحانی پہلو غالب رہتا ہے اور اس کا مادّی پہلو دبا ہوا ہوتا ہے۔ دورِ زوال میں برعکس طورپر یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے درمیان دین کا روحانی پہلو دب جاتا ہے اور اس کا مادّی پہلو ہر طرف نمایاں ہوجاتا ہے۔ پہلے دور میں، تقویٰ کی حیثیت اصل کی ہوتی ہے اور مادّی چیزیں صرف ضرورت کے درجے میں پائی جاتی ہیں۔ اس کے برعکس، دورِزوال میں مادی چیزیں اصل بن جاتی ہیں اور کچھ ظاہری اور نمائشی چیزوں کا نام تقویٰ بن جاتا ہے۔ یہی معاملہ حج اور عمرہ کے ساتھ بھی پیش آتا ہے اور اسلام کی دوسری عبادات کے ساتھ بھی۔
واپس اوپر جائیں

قربانی اور اسلام

حج اور عید اضحی کے موقع پر تمام دنیا کے مسلمان ایک مخصوص دن میں خدا کے نام پر جانور کی قربانی کرتے ہیں۔ یہ قربانی عام زندگی سے کوئی علاحدہ چیز نہیں، اس کا تعلق انسان کی تمام زندگی سے ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ اہلِ ایمان کو چاہیے کہ وہ قربانی کی اسپرٹ کے ساتھ دنیا میں رہیں۔ قربانی کی اسپرٹ تمام اسلامی اعمال کا خلاصہ ہے۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ: وما خلقتُ الجنّ والإنس إلاّ لیعبدون (الذّاریات: 56) یعنی انسان اور جن کو صرف اِس لیے پیدا کیا گیا ہے کہ وہ خداوند ِ عالم کی عبادت کریں ۔ عبادت کیا ہے۔ اس کو ایک حدیثِ رسول میں اِس طرح بیان کیاگیا ہے: تعبد اللہ کانّک تراہ (البخاری ومسلم)۔
اِس حدیث رسول سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کے تصورِ عبادت کے مطابق، انسان کے لیے زندگی کا صحیح طریقہ کیا ہے۔ وہ طریقہ یہ ہے کہ انسان، خدا کی ہستی کو اِس طرح دریافت کرے کہ اُس کو ہر لمحہ خدا کی موجودگی (presence) کا احساس ہونے لگے۔
اس کا شعور اِس معاملے میں اتنا بیدار ہو جائے کہ اس کو ایسا محسوس ہونے لگے گویا کہ وہ خدا کو دیکھ رہا ہے۔ یہ احساس اس کی پوری زندگی کو خدائی رنگ میںرنگ دے۔ اس کے ہر قول اور ہر عمل سے ایسا محسوس ہونے لگے جیسے کہ وہ خدا کو دیکھ رہا ہے، جیسے کہ وہ جو کچھ کر رہا ہے، خدا کی براہِ راست نگرانی کے تحت کررہا ہے۔ اِسی زندہ شعور کے ساتھ زندگی گزارنے کا نام عبادت ہے۔ یہ درجہ کسی آدمی کو صرف اُس وقت ملتا ہے، جب کہ اس نے خدا کو اپنا واحد کنسرن (sole concern) بنالیا ہو۔
واپس اوپر جائیں

اسلام کے پانچ ارکان

عبادت کا تعلق انسان کی پوری زندگی سے ہے۔ ان میں سے پانچ چیزیں بنیادی عبادت کی حیثیت رکھتی ہیں۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بُنی الإسلام علی خمسٍ: شہادۃ أن لا إلٰہ إلااللہ وأنّ محمداً عبد ہ ورسولہ، وإقام الصلوۃ، وإیتاء الزکوۃ، والحج، وصوم رمضان (متفق علیہ) یعنی اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر قائم ہے۔اِس بات کی گواہی دینا کہ ایک خدا کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اور محمد، اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ اور نماز قائم کرنا، اور زکوٰۃ ادا کرنا، اور حج پورا کرنا،اور رمضان کے روزے رکھنا۔
یہ گویا کہ پانچ ستون (pillars) ہیں جن کے اوپر اسلام کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ عمارت ایک دکھائی دینے والی چیز ہے۔اِس حدیث میں عمارتی ڈھانچے کو بطور تمثیل استعمال کرتے ہوئے اسلام کی حقیقت کو بتایا گیا ہے۔ جس طرح ستونوں کے بغیر کوئی عمارت کھڑی نہیں ہوتی، اسی طرح ان پانچ ارکان کے بغیر اسلام کا قیام بھی نہیںہوتا۔ اسلام کو قائم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان پانچ ستونوں کو زندگی میں قائم کیا جائے۔
اسلام کے ان پانچ ارکان کی ایک اسپرٹ ہے، اور ایک اس کا فارم ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اصل اہمیت ہمیشہ اسپرٹ کی ہوتی ہے، لیکن فارم بھی یقینی طورپر ضروری ہے۔ جس طرح جسم کے بغیر روح نہیں، اسی طرح فارم کے بغیر اسلام بھی نہیں۔ اِس معاملے میں بھی اسپرٹ کا اہتمام بہت ضروری ہے، لیکن یہ اہتمام فارم کے ساتھ ہوسکتاہے، فارم کے بغیر نہیں۔
کلمۂ توحید
ان ارکان میں سے پہلا رکن کلمۂ توحید ہے۔ اس کلمہ کا ایک فارم ہے اور اسی کے ساتھ اس کی ایک اسپرٹ ہے۔ اس کا فارم یہ ہے کہ آپ عربی کے مذکورہ الفاظ (کلمۂ شہادت) کو اپنی زبان سے ادا کریں ۔ کلمہ کی اسپرٹ معرفت ہے، یعنی خدا کو دریافت کے درجے میں پالینا۔ کلمۂ توحید کی وہی ادائیگی معتبر ہے جو معرفت کی بنیاد پر ہو۔ معرفت کے بغیر کلمہ پڑھنا صرف کچھ عربی الفاظ کا تلفّظ ہے، وہ حقیقی معنی میں کلمۂ توحید نہیں۔
یونان کے قدیم فلسفی ارشمیدس (Archimedes) کو یہ جستجو تھی کہ کشتی پانی کے اوپر کیسے تیرتی ہے۔ وہ اس کی تلاش میںتھا۔ ایک دن وہ پانی کے حوض میں لیٹا ہوا نہا رہا تھا۔ اچانک اس کو فطرت کے اس قانون کی دریافت ہوئی جس کو بائنسی (law of buoyancy) کہاجاتا ہے۔ اس وقت اس کے اندر اہتزاز(thrill) کی کیفیت پیدا ہوئی۔ وہ اچانک حوض سے نکلا۔ اور یہ کہتا ہوا بھاگا کہ: میں نے پالیا، میں نے پالیا(Eureka, Eureka) ۔
اِس مثال سے سمجھا جاسکتا ہے کہ کلمہ کی ادائیگی کیا ہے۔ کلمۂ توحید کی ادائیگی دراصل داخلی معرفت کا ایک خارجی اظہار ہے۔ یہ حکم بلا شبہہ اسلام کے ارکان میں اولین اہمیت کا حامل ہے، لیکن یہ اہمیت اس کی داخلی معرفت کی بنا پر ہے، نہ کہ صرف لسانی تلفظ کی بنا پر۔
نماز
اسلام کا دوسرا رکن نماز ہے۔ دوسرے ارکان کی طرح نماز کا بھی ایک فارم ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، یہ فارم قیام اور رکوع اور سجود پر مبنی ہے۔ اسی کے ساتھ نماز کی ایک اسپرٹ ہے، وہ اسپرٹ سرنڈر (surrender) ہے، یعنی اپنے آپ کو پوری طرح خدا کے حوالے کردینا۔ خدا کو کامل معنوں میں اپنا مرکز ِ توجہ بنا لینا۔ پورے معنوں میں خدا رخی زندگی (God-oriented life) اختیار کرلینا۔اِسی اسپرٹ کادوسرا نام قرآن میں ذکر ِ کثیر (الأحزاب: 41) ہے، یعنی خدا کو بہت زیادہ یاد کرتے ہوئے زندگی گزارنا۔ نماز کا مقصد بھی قرآن میں ذکر بتایاگیا ہے (طٰہٰ:14 ) ذکر کامطلب رسمی طورپر صرف کسی قسم کی تسبیح خوانی نہیں، بلکہ ہر موقع پر سچے احساس کے ساتھ خدا کو یاد کرتے رہنا ہے۔
آدمی جب دنیا میں زندگی گزارتا ہے تو وہ مختلف قسم کے مشاہدات اور تجربات سے گزرتا ہے۔ اس وقت اس کے اندر وہ چیز پیدا ہونا چاہیے جس کو قرآن میںتوسّم (الحجر:75 ) کہاگیا ہے، یعنی ہر دنیوی تجربے کو خدا ئی تجربے میں کنورٹ کرتے رہنا۔ ہر چیز سے ربّانی غذا حاصل کرتے رہنا۔ حقیقی نماز وہی ہے جو آدمی کے اندر یہ ذہن پیدا کردے کہ وہ ہر چیز سے اپنے لیے توسّم کی غذا حاصل کرتا رہے۔
روزہ
اسلام کے ارکان میں سے تیسرا رُکن روزہ ہے۔ روزہ کا فارم یہ ہے کہ آدمی صبح سے شام تک کھانا اور پینا چھوڑ دے۔ وہ اپنے دن کو بھوک اور پیاس کی حالت میں گزارے۔ روزہ کی اسپرٹ صبر ہے۔ حدیث میںآیا ہے کہ : ہو شہر الصبر(رمضان کا مہینہ صبر کا مہینہ ہے)۔
صبر (patience) کیا ہے۔ صبر کا مطلب یہ ہے کہ آدمی دنیا میں سلف ڈسپلن (self-discipline) کی زندگی گزارنے لگے۔ وہ اپنی خواہشوں پرروک لگائے۔ وہ اشتعال انگیزی کے باوجود مشتعل نہ ہو۔ وہ اپنی انا کو گھمنڈ نہ بننے دے۔ وہ لوگوں کے درمیان نوپرابلم (no problem) انسان بن کر رہے۔ سماجی زندگی میں جب اس کو کوئی شاک (shock) لگے تو وہ اس شاک کو اپنے اوپر سہے، وہ اس کو دسرے تک پہنچنے نہ دے۔
نماز کے فارم کے ساتھ جب یہ اسپرٹ شامل ہوجائے تب کسی آدمی کی نماز حقیقی نماز بنے گی، ورنہ حدیثِ رسول کی زبان میں، اس سے کہہ دیا جائے گا کہ : ارجع فصلّ فإنّک لم تصلِّ ( صحیح البخاری، کتاب الصلاۃ) یعنی جاؤ پھر سے نماز پڑھو، کیوں کہ تم نے نماز نہیں پڑھی۔
زکوٰۃ
اسلام کا چوتھا رکن زکوٰۃ ہے۔ زکوٰۃ کا فارم یہ ہے کہ آدمی اپنی کمائی کے ایک حصے سے اپنی ضرورتوں کو پورا کرے، اور اپنی کمائی کا کچھ حصہ خدا کے حکم کے مطابق، وہ دوسرے انسانوں پر خرچ کرے۔ یہ زکوٰۃ کا فارم ہے۔ زکوٰۃ کی اسپرٹ انسان کی خیر خواہی ہے، یعنی تمام انسانوں کو اپنا سمجھنا۔ حقیقی معنوں میں انسان دوست رویہ (human-friendly behaviour) اختیار کرنا۔ صرف اپنے لیے جینے کے بجائے، ساری انسانیت کے لیے جینا۔ آدمی اگر زکوٰۃ کی رقم دے دے، لیکن دل سے وہ انسانوں کا خیر خواہ نہ بنے تو اس کی زکوٰۃ ادھوری زکوٰۃ مانی جائے گی۔ ایسے آدمی کی زکوٰۃ پورے معنوںمیں زکوٰۃ نہیں ہوگی۔
حج
اسلامی ارکان میںسے پانچواں رکن حج ہے۔ حج کے لفظی معنی ہیں قصد کرکے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا۔ شرعی اصطلاح میں، حج سے مراد وہ عبادتی سفر ہے جس میں آدمی اپنے وطن سے نکل کر مکہ (عرب) جاتا ہے اور وہاں ماہِ ذو الحجّہ کی مقرر تاریخوںمیں حج کے مراسم ادا کرتاہے اور خدا کے نام پر جانور کو قربان کرتا ہے۔ یہ حج کا فارم ہے ۔ حج کی اسپرٹ قربانی (sacrifice) ہے۔ حج کا فارم اور حج کی اسپرٹ دونوں جب کسی کی زندگی میںاکھٹا ہوں تو وہ حج کی عبادت کرنے والا قرار پاتاہے۔
حج کے دوران منٰی کے مقام پر تمام حاجی، جانور کی قربانی پیش کرتے ہیں۔ انھیں تاریخوں میں دنیا بھر میں مختلف مقامات پر مسلمان عید اضحی مناتے ہیں۔ عید اضحی گویا کہ حجکی عبادت میںایک قسم کی جُزئی شرکت ہے۔ عید اضحی کے ذریعے تمام دنیا کے مسلمان مکہ میں کئے جانے والے حج کے ساتھ اپنی وابستگی کا اظہار کرتے ہیں۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ اے خدا کے رسول، یہ قربانیاں کیا ہیں (ما ہذہ الأضاحی یا رسول اللہ)۔ آپ نے فرمایا کہ یہ تمھارے باپ ابراہیم کی سنت ہے (سنۃ أبیکم إبراہیم) اِس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حج کے زمانے میں جو قربانی دی جاتی ہے، وہ اُس طریقے پر عمل کرنے کے لیے ہوتی ہے جس کا نمونہ حضرت ابراہیم نے قائم کیا تھا۔
اِس لیے حج اور قربانی کی حقیقت کو جاننے کے لیے ضروری ہے کہ اس پہلو سے پیغمبر ِ خدا، حضرت ابراہیم کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے۔ اِس مطالعے سے نہ صرف یہ ہوگا کہ ہم کوحج اور قربانی کا تاریخی پس منظر معلوم ہوگا، بلکہ اس کی اصل حقیقت کو سمجھنا بھی ہمارے لیے ممکن ہوجائے گا۔ حج یا عیداضحی میں قربانی دراصل حضرت ابراہیم کی سنت کو دوبارہ زندہ کرنے کا عہد ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ حضرت ابراہیم کی زندگی کی روشنی میں قربانی کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔
واپس اوپر جائیں

ذبحِ عظیم

قرآن کی سورہ نمبر 37 میں حضرت ابراہیم کے واقعے کا ذِکر ہے۔ آپ نے اپنے ایک خواب کے مطابق، اپنے بیٹے اسماعیل کو ذبح کرنے کے لیے زمین پر لٹا دیا۔ اُس وقت، اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتے نے بتایا کہ تمھاری قربانی قبول ہوگئی، اب تم بیٹے کے بدلے ایک دنبہ ذبح کردو۔ چناں چہ آپ نے ایسا ہی کیا۔ اُس موقع پر قرآن میں یہ آیت آئی ہے: وفدیناہ بذِبحٍ عظیم (الصّافات: 107 ) یعنی ہم نے اسماعیل کو ایک عظیم قربانی کے ذریعے بچا لیا۔
اِس آیت میں ذِبح عظیم (عظیم قربانی) کا لفظ اسماعیل کے لیے آیا ہے، نہ کہ دنبہ کے لیے۔ دنبہ کو حضرت ابراہیم نے بطور فدیہ ذبح کیا، اور اسماعیل کو ایک عظیم تر قربانی کے لیے منتخب کرلیا گیا۔ یہ عظیم تر قربانی کیا تھی، وہ یہ تھی کہ اِس کے بعد اسماعیل کو اپنی ماں ہاجرہ کے ساتھ مکہ کے صحرا میں آباد کر دیا گیا، تاکہ اُن کے ذریعے سے ایک نئی نسل تیار ہو۔ اُس وقت یہ علاقہ صرف صحرا کی حیثیت رکھتا تھا۔ وہاں اسبابِ حیات میں سے کوئی چیز موجود نہ تھی۔ اِس لیے اس کو قرآن میں ذبحِ عظیم کا درجہ دیاگیا ۔
یہ عظیم قربانی، اللہ تعالیٰ کا ایک منصوبہ تھا، جس کو فرزند ِ ابراہیم (اسماعیل) کے ذریعے عرب کے صحرا میں عمل میں لایا گیا۔ قرآن (إبراہیم: 37 ) میںاِس واقعے کا ذکر مختصر اشارے کے طورپر آیا ہے اور حدیث میںاس کا ذکر تفصیل کے ساتھ ملتا ہے۔
ہاجرہ پیغمبر ابراہیم کی بیوی تھیں۔ اُن سے ایک اولاد پیدا ہوئی جس کا نام اسماعیل رکھا گیا۔ ایک خدائی منصوبہ کے تحت، حضرت ابراہیم نے ہاجرہ اوراُن کے چھوٹے بچے (اسماعیل) کو عرب میں مکہ کے مقام پر لے جاکر بسا دیا جو اُس وقت بالکل غیر آباد تھا۔ اس واقعہ کے بارہ میں قرآن میںمختصرطورپر یہ حوالہ ملتا ہے:
’’اور جب ابراہیم نے کہا، اے میرے رب، اس شہر کو امن والا بنا اور مجھ کو اور میری اولاد کو اس سے دور رکھ کہ ہم بتوں کی عبادت کریں۔ اے میرے رب، ان بتوں نے بہت لوگوں کو گمراہ کردیا۔ پس جس نے میری پیروی کی وہ میرا ہے۔ اور جس نے میرا کہا نہ مانا تو تو بخشنے والا، مہربان ہے۔ اے ہمارے رب، میں نے اپنی اولاد کو ایک بے کھیتی کی وادی میں تیرے محترم گھر کے پاس بسایا ہے۔ اے ہمارے رب، تاکہ وہ نماز قائم کریں۔ پس تو لوگوں کے دل ان کی طرف مائل کردے اور اُن کو پھلوں کی روز ی عطا فرما، تاکہ وہ شکر کریں‘‘۔ (إبراہیم :35-37 )۔
ہاجرہ کے بارے میں قرآن میں صرف مختصر اشارہ آیا ہے۔ تاہم حدیث کی مشہور کتاب صحیح البخاری میں ہاجرہ کے بارے میں تفصیلی روایت موجود ہے۔ یہ روایت یہاں نقل کی جاتی ہے:
’’عبد اللہ بن عباس کہتے ہیں کہ عورتوں میں سب سے پہلے ہاجرہ نے کمر پٹّہ باندھا تاکہ سارہ کو اُن کے بارے میں خبر نہ ہوسکے۔ پھر ابراہیم، ہاجرہ اور اُن کے بچے اسماعیل کو مکہ میں لے آئے ۔ اُس وقت ہاجرہ اسماعیل کو دودھ پلاتی تھیں۔ ابراہیم نے ان دونوں کو مسجد کے اوپری حصہ میں ایک بڑے درخت کے نیچے بٹھا دیا جہاں زمزم ہے۔ اُس وقت مکہ میں ایک شخص بھی موجود نہ تھا اور نہ ہی وہاں پانی تھا۔ ابراہیم نے کھجور کا ایک تھیلا اور پانی کی ایک مشک وہاں رکھ دیا اور خود وہاں سے روانہ ہوئے۔ ہاجرہ اُن کے پیچھے نکلیں اور کہا کہ اے ابراہیم، ہم کو اس وادی میں چھوڑ کر آپ کہاں جارہے ہیں، جہاں نہ کوئی انسان ہے اور نہ کوئی اور چیز۔ ہاجرہ نے ابراہیم علیہ السلام سے یہ بات کئی بار کہی اور ابراہیم نے ہاجرہ کی بات پر کوئی دھیان نہیں دیا۔ ہاجرہ نے ابراہیم سے کہا کہ کیا اللہ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے۔ ابراہیم نے کہا کہ ہاں۔ ہاجرہ نے کہا پھر تو اللہ ہم کوضائع نہیں کرے گا (إذن لا یُضَیِّعُنَا)۔ ہاجرہ لوٹ آئیں۔ ابراہیم جانے لگے۔ یہاں تک کہ جب وہ مقامِ ثنیہ پر پہنچے جہاں سے وہ دکھائی نہیں دیتے تھے تو اُنہوں نے اپنا رخ ادھر کیا جہاں اب کعبہ ہے اور اپنے دونوں ہاتھ اُٹھا کر یہ دعا کی کہ: اے ہمارے رب، میںنے اپنی اولاد کو ایک ایسی وادی میں بسایا ہے جہاں کچھ نہیں اُگتا، یہاں تک کہ آپ دعا کرتے ہوئے لفظ یشکرون تک پہنچے۔
ہاجرہ اسماعیل کو دودھ پلاتیں اور مشک میں سے پانی پیتیں۔ یہاںتک کہ جب مشک کا پانی ختم ہوگیا تو وہ پیاسی ہوئیں اور ان کے بیٹے کو بھی پیاس لگی۔ انھوں نے بیٹے کی طرف دیکھا تو وہ پیاس سے بے چین تھا۔ بیٹے کی اس حالت کو دیکھ کر وہ مجبور ہو کر نکلیں۔ انھوں نے سب سے قریب پہاڑ صفا کو پایا۔ چناںچہ وہ پہاڑ پر چڑھیں اور وادی کی طرف دیکھنے لگیں کہ کوئی شخص نظر آجائے۔ وہ کسی کو نہ دیکھ سکیں۔ وہ صفا سے اتریں۔ یہاں تک کہ جب وہ وادی تک پہنچیں تو اپنے کُرتہ کا ایک حصہ اُٹھایا پھر وہ تھکاوٹ سے چور انسان کی طرح دوڑیں۔ وادی کو پار کرکے وہ مروہ پہاڑ پر آئیں۔ اُس پر کھڑے ہو کر اُنہوں نے دیکھا تو کوئی انسان نظر نہ آیا۔ اس طرح اُنھوں نے صفا و مروہ کے درمیان سات چکر لگائے۔ عبد اللہ بن عباس کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگ ان دونوں کے درمیان سعی کرتے ہیں۔ پھر وہ مروہ پر چڑھیں۔ اُنہوں نے ایک آواز سُنی۔ وہ اپنے آپ سے کہنے لگیں کہ چپ رہ۔ پھر سُننا چاہا تو وہی آواز سُنی۔ اُنہوں نے کہا کہ تو نے اپنی آواز مجھ کو سنا دی تو اس وقت ہماری مدد کرسکتا ہے۔ دیکھا تو مقام زمزم کے پاس ایک فرشتہ ہے۔ فرشتہ نے اپنی ایڑی یا پنکھ زمین پرمارا، پانی نکل آیا۔ ہاجرہ اُس کو حوض کی طرح بنانے لگیں اور ہاتھ سے اُس کے گرد مینڈ کھینچنے لگیں۔ وہ پانی چلّو سے لے کر اپنی مشک میں بھرتیں۔ وہ جس قدر پانی بھرتیں چشمہ اُتنا ہی زیادہ اُبلتا۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ ہاجرہ پر رحم کرے، اگر وہ زمزم کو اپنے حال پر چھوڑ دیتیں، یا آپ نے یہ فرمایا کہ اگر وہ چلّو بھر کرپانی نہ لیتیں تو زمزم ایک بہتا چشمہ ہوتا۔ہاجرہ نے پانی پیا اور اپنے بیٹے کو پلایا۔ فرشتہ نے ہاجرہ سے کہا کہ تم ضائع ہونے کا اندیشہ نہ کرو۔ یہ اللہ کا گھر ہے۔ یہ بچہ اور اُس کے باپ دونوں اس گھر کو بنائیں گے اور اللہ اپنے گھر والوں کو ضائع نہیں کرتا۔ اُس وقت گھر (کعبہ) ٹیلے کی طرح زمین سے اونچا تھا۔ سیلاب آتا اور وہ اس کے دائیں بائیں جانب سے نکل جاتا۔ کچھ دنوں تک ہاجرہ نے اسی طرح زندگی گزاری۔ یہاںتک کہ جُرہُم قبیلہ کے کچھ لوگ یا جرہم کے گھر والے کدا کے راستہ سے آرہے تھے۔ وہ مکہ کے نشیبی حصہ میں اُترے۔ اُنھوں نے وہاںایک پرندہ کو دیکھا جو گھوم رہا تھا۔ وہ کہنے لگے کہ یہ پرندہ تو پانی پر گھومتا ہے۔ ہم اس وادی میں رہے ہیں اور یہاں پانی نہ تھا۔ اُنہوں نے ایک یا دو آدمی کو خبر لینے کے لیے وہاں بھیجا۔ اُنہوں نے پانی دیکھا۔ وہ واپس لوٹ کر گئے اورلوگوں کو پانی کی خبر دی۔ وہ لوگ بھی آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاجرہ پانی کے پاس تھیں۔ اُنہوں نے ہاجرہ سے کہا کہ کیا تم ہم کو یہاں ٹھہرنے کی اجازت دیتی ہو۔ ہاجرہ نے کہا کہ ہاں لیکن پانی پر تمہارا کوئی حق نہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ ہاں۔ عبد اللہ بن عباس کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاجرہ خود چاہتی تھیں کہ یہاں انسان آباد ہوں۔ اُن لوگوں نے یہاں پر قیام کیا اور اپنے گھر والوں کو بھی بُلا بھیجا، وہ بھی یہیں ٹھہرے۔ جب مکہ میں کئی گھر بن گئے اور اسماعیل جوان ہوگئے اور اسماعیل نے جرہم والوں سے عربی زبان سیکھ لی۔ جرہم کے لوگ اُن سے محبت کرنے لگے تو اُنہوں نے اپنی ایک لڑکی سے اُن کا نکاح کردیا۔ ہاجرہ کا انتقال ہوگیا۔ جب اسماعیل کا نکاح ہوچکا تو ابراہیم اپنی اولاد کو دیکھنے آئے۔ اُنہوں نے وہاں اسماعیل کو نہیں پایا۔ چنانچہ اُن کی بیوی سے اُن کے بارہ میں پوچھا۔ اُس نے کہا کہ وہ ہمارے لیے رزق کی تلاش میں نکلے ہیں۔ ابراہیم نے اُس سے اُن کے گزر بسر اور حالت کے بارہ میں پوچھا۔ اُس نے کہا کہ ہم تکلیف میں ہیں۔ ہم بہت زیادہ تنگی میں ہیں۔ اُس نے ابراہیم سے شکایت کی۔ ابراہیم نے کہا کہ جب تمہارے شوہر آئیں تو تم اُن کو میرا سلام کہنا اور اُن سے یہ بھی کہنا کہ وہ اپنے دروازہ کی چوکھٹ کو بدل دیں۔ جب اسماعیل آئے۔ اُنھوں نے کچھ محسوس کرلیا تھا۔ اُنھوں نے کہاکہ کیا تمہارے پاس کوئی آیا تھا۔ اُس نے کہا کہ ہاں۔ ایک بوڑھا شخص اس اس صورت کا آیا تھا۔ اُنہوں نے آپ کے بارہ میں پوچھا، میں نے اُن کو بتایا۔ اُنہوں نے مجھ سے پوچھا کہ ہماری گزرکیسے ہوتی ہے۔ میں نے کہا کہ بڑی تکلیف اور تنگی سے۔ اسماعیل نے کہا کہ کیا اُنہوں نے تم سے اور کچھ کہا ہے ۔ اُس نے کہا کہ ہاں۔ اُنھوں نے مجھ سے آپ کو سلام کہا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ اپنے دروازہ کی چوکھٹ کو بدل دو۔ اسماعیل نے کہا کہ وہ میرے باپ تھے۔ انھوں نے مجھ کو حکم دیا ہے کہ میں تم کو چھوڑ دوں۔ تم اپنے گھر والوں میں چلی جاؤ۔ اسماعیل نے اُس کو طلاق دے دی۔ اور جرہم کی ایک دوسری عورت سے اُنہوں نے نکاح کرلیا۔ ابراہیم اپنے ملک میں ٹھہرے رہے جس قدر اللہ نے چاہا۔ اس کے بعد ابراہیم اسماعیل کے یہاں آئے تو پھر اُن کو نہیں پایا۔ وہ اسماعیل کی بیوی کے پاس آئے اور اُس سے اسماعیل کے بارہ میں پوچھا۔ اُس نے کہا کہ وہ ہمارے لیے رزق کی تلاش میں نکلے ہیں۔ ابراہیم نے کہا کہ تم لوگ کیسے ہو۔ اس نے کہا کہ ہم لوگ خیریت سے ہیں اورکشادگی کی حالت میں ہیں۔ اُس نے اللہ عزّوجل کی تعریف کی۔ ابراہیم نے کہا کہ تمہارا کھانا کیا ہے۔ اُس نے کہا کہ گوشت۔ ابراہیم نے کہا کہ تم کیا پیتے ہو۔ اُس نے کہا کہ پانی۔ ابراہیم نے دعا کی کہ اے اللہ، تو اُن کے گوشت اور پانی میں برکت دے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اُس وقت مکہ میں اناج نہ تھا۔ اور اگر وہاںاناج ہوتا تو ابراہیم اس میں بھی برکت کی دعا کرتے۔ مکہ کے علاوہ کسی دوسرے ملک کے لوگ اگر گوشت اور پانی پر گزر کریں تو وہ اُن کو موافق نہ آئے۔ ابراہیم نے کہا کہ جب تمہارے شوہر آئیں تو تم اُن کو میرا سلام کہنااور میری طرف سے اُن کو یہ حکم دینا کہ وہ اپنے دروازے کی چوکھٹ کو باقی رکھیں۔ پس جب اسماعیل آئے تو اُنہوں نے کہا کہ کیا تمہارے پاس کوئی شخص آیا تھا۔ اُس نے کہا کہ ہاں، ہمارے پاس ایک اچھی صورت کے بزرگ آئے تھے اور اُس نے آنے والے کی تعریف کی۔ اُنہوں نے مجھ سے آپ کے بارہ میں پوچھا تو میں نے اُنہیں بتایا۔ اُنہوں نے مجھ سے دوبارہ ہمارے گزر بسر کے بارہ میں پوچھا۔ میںنے اُنھیں بتایا کہ ہم خیریت سے ہیں۔ اسماعیل نے کہا کہ کیا انھوں نے تم سے کچھ اور بھی کہا ہے۔ اُس نے کہا کہ ہاں۔ اُنہوں نے آپ کو سلام کہا ہے اور آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ اپنے دروازہ کی چوکھٹ کو باقی رکھیں۔ اسماعیل نے کہا کہ وہ میرے باپ تھے اور تم چوکھٹ ہو۔ اُنھوں نے مجھ کو حکم دیا ہے کہ میں تمہیں اپنے پاس باقی رکھوں۔ پھر ابراہیم اپنے ملک میں ٹھہرے رہے جب تک اللہ نے چاہا۔ اس کے بعد وہ آئے اور اسماعیل زمزم سے قریب ایک درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے اپنے تیر درست کررہے تھے۔ جب اسماعیل نے ابراہیم کو دیکھا تو وہ کھڑے ہوگئے۔ پس انھوںنے وہی کیا جو ایک باپ اپنے بیٹے سے اور ایک بیٹا اپنے باپ سے کرتا ہے۔ ابراہیم نے کہا کہ اے اسماعیل، اللہ نے مجھ کو ایک حکم دیا ہے۔ اسماعیل نے کہا کہ پھر جو آپ کے رب نے حکم دیا ہے اُسے کر ڈالیے۔ ابراہیم نے کہا کہ کیا تم میری مدد کروگے۔ اسماعیل نے کہا کہ میں آپ کی مدد کروں گا۔ ابراہیم نے کہا کہ اللہ نے مجھ کو یہ حکم دیا ہے کہ میں یہاں ایک گھر بناؤں اور ابراہیم نے اس کے گرد ایک بلند ٹیلہ کی طرف اشارہ کیا۔ اُس وقت اُن دونوں نے گھر کی بنیاد اٹھائی۔ اسماعیل پتھر لاتے تھے اور ابراہیم تعمیر کرتے تھے، یہاں تک کہ جب دیوار اونچی ہوگئی تو اسماعیل یہ پتھر (حجر اسود) لائے اور اُس کو وہاں رکھ دیا۔ ابراہیم اُس پتھر پر کھڑے ہو کر تعمیر کرتے تھے اور اسماعیل اُن کو پتھر دیتے تھے۔ اور وہ دونوں کہتے تھے کہ —اے ہمارے رب، تو ہماری طرف سے یہ قبول کر، بیشک تو بہت زیادہ سننے والا اور بہت زیادہ جاننے والا ہے۔ پس وہ دونوں تعمیر کرتے اور اس گھر کے ارد گرد یہ کہتے ہوئے چکر لگاتے کہ اے ہمارے رب، تو ہماری طرف سے یہ قبول کر۔ بیشک تو بہت زیادہ سننے والا اور بہت زیادہ جاننے والا ہے‘‘۔
صحیح البخاری، کتاب الانبیاء، باب قول اللہ تعالیٰ واتّخذ اللہ ابراہیم خلیلاً
(رقم الحدیث : 3364 )
ہاجرہ کے شوہر حضرت ابراہیم بن آزر تقریباً ساڑھے چار ہزار سال پہلے عراق میں پیدا ہوئے اور 175 سال کی عمر پا کر اُن کی وفات ہوئی۔ اُنہوں نے اپنے زمانہ کے لوگوں کو توحید کی دعوت دی۔ مگر شرک اور بُت پرستی کا غلبہ ان لوگوں کے ذہن پر اتنا زیادہ ہوگیا تھا کہ وہ توحید کے پیغام کو قبول نہ کر سکے۔ حضرت ابراہیم نے ایک سے زیادہ جنریشن تک لوگوں کو توحید کا پیغام دیا۔ مگر اس زمانہ میں شرک ایک تہذیب کی صورت اختیار کرکے لوگوں کی زندگی میں اس طرح شامل ہوچکا تھا کہ وہ اس سے الگ ہو کر سوچ نہیں سکتے تھے۔ پیدا ہوتے ہی ہر آدمی کو شرک کا سبق ملنے لگتا تھا۔ یہاں تک کہ ماحول کے اثر سے اُس کا ذہن پوری طرح شرک میں کنڈیشنڈ ہوجاتا تھا۔
اُس وقت اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت ابراہیم نے ایک نیا منصوبہ بنایا۔ وہ منصوبہ یہ تھا کہ متمدّن شہروں سے باہر غیر آباد صحرا میں ایک نسل تیار کی جائے۔ اسی مقصد کے لیے حضرت ابراہیم نے ہاجرہ اور اسماعیل کو مکہ میں آباد کیا۔
واپس اوپر جائیں

حضرت ابراہیم علیہ السلام

حضرت ابراہیم 1985ق م میں عراق کے قدیم شہر اُر (Ur) میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے 175 سال سے زیادہ عمر پائی۔ ’’اُر‘‘ قدیم عراق کی راجدھانی تھا۔ مزید یہ کہ یہ علاقہ قدیم آباد دنیا (میسو پوٹامیا) کا مرکز تھا۔ حضرت ابراہیم نے اپنی تمام اعلیٰ صلاحیتوں اور کامل درد مندی کے ساتھ اپنے معاصرین کو توحید کی طرف بلایا۔ اس وقت کے عراقی بادشاہ نمرود (Nemrud) تک بھی اپنی دعوت پہنچائی۔ لیکن کوئی بھی شخص آپ کی دعوت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہوا، حتی کہ آپ جب اتمامِ حجت کے بعد عراق سے نکلے تو آپ کے ساتھ صرف دو انسان تھے— آپ کے بھتیجے او ر آپ کی اہلیہ۔
حضرت ابر اہیم سے پہلے، مختلف زمانوں اور مختلف علاقوں میں خدا کے پیغمبر آتے رہے اور لوگوں کو توحید کی دعوت دیتے رہے۔ لیکن ان تمام پیغمبروں کے ساتھ یکساں طورپر یہ ہوا کہ لوگ ان کا انکار کرتے رہے۔ انھوںنے پیغمبروں کا استقبال استہزا( یٰسٓ: 30 )کے ساتھ کیا۔
حضرت ابراہیم کے اوپر پیغمبر کی تاریخ کا ایک دور ختم ہوگیا۔ اب ضرورت تھی کہ دعوت الی اللہ کی نئی منصوبہ بندی کی جائے۔ اس منصوبہ کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کا انتخاب کیا۔ چناںچہ حضرت ابراہیم عراق سے نکلے اور مختلف شہروں سے گزرتے ہوئے آخر کار وہاں پہنچے جہاں آج مکہ آباد ہے۔ جیسا کہ صحیح البخاری کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے، آپ کا یہ سفر فرشتہ جبرئیل کی رہنمائی میںطے ہوا۔
واپس اوپر جائیں

علامتی ذبیحہ

اسی دوران یہ واقعہ پیش آیا کہ حضرت ابراہیم نے خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے اسماعیل کو اپنے ہاتھ سے ذبح کررہے ہیں۔ اس خواب کے مطابق، حضرت ابراہیم اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کے لیے تیار ہوگئے۔ لیکن یہ ایک تمثیلی خواب تھا، یعنی اس کا مطلب یہ تھا کہ اب خدائی منصوبہ کے مطابق، اپنے بیٹے کو توحید کے مشن کے لیے وقف (dedicate) کردو، ایک ایسا مشن جو عرب کے بے آب وگیاہ صحرا میں شروع ہونے والا تھا۔
قرآن میںحضرت ابراہیم کے اس خواب کا ذکر سورہ نمبر 37 میںآیا ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ پیغمبر ابراہیم نے خواب کے بعد جب اپنے بیٹے کو قربان کرنا چاہا تو اس وقت خدا کے فرشتے نے آپ کو بتایا کہ آپ بیٹے کے فدیہ کے طورپر ایک دنبہ ذبح کردیں۔ چناں چہ حضرت ابراہیم نے ایسا ہی کیا۔ اس بات کو بتاتے ہوئے قر آن میں ارشاد ہوا ہے: وفدیناہ بذبح عظیم (الصّافات: 107 )۔
جیسا کہ صحیح البخاری کی روایت سے معلوم ہوتا ہے، اس کے بعد حضرت ابراہیم نے اپنی بیوی ہاجرہ اور اپنے بیٹے اسماعیل کو عرب کے ایک صحرائی مقام میں آباد کردیا۔ یہ وہی مقام تھا جہاں اب مکہ آباد ہے۔ اسی مقام پر بعد کو حضرت ابراہیم اور آپ کے بیٹے اسماعیل نے کعبہ کی تعمیر کی، اور حج کا نظام قائم فرمایا۔
ہاجرہ اوراسماعیل کو صحرا میں اس طرح آباد کرنے کا مقصد کیا تھا۔ اس کا مقصد تھا ایک نئی نسل بنانا۔ اس زمانہ کی شہری آبادیوں میں مشرکانہ کلچر مکمل طورپر چھاچکا تھا۔اس ماحول میں جو بھی پیدا ہوتا وہ مشرکانہ کنڈیشننگ کا شکار ہوجاتا۔ اس بنا پر اس کے لیے توحید کے پیغام کو سمجھنا ممکن نہ رہتا۔ متمدن شہروں سے دور صحرا میں ہاجرہ اور اسماعیل کو اس لیے بسایا گیا تاکہ یہاں فطرت کے ماحول میںان کے ذریعہ سے ایک نئی نسل تیار ہو، ایک ایسی نسل جو مشرکانہ کنڈیشننگ سے پوری طرح پاک ہو۔ تو الد وتناسل کے ذریعہ یہ کام جاری رہا یہاںتک کہ بنو اسماعیل کی قوم وجود میں آئی۔
اسی قوم کے اندر 570 ء میں پیغمبر اسلام محمد بن عبداللہ بن عبد المطلب پیدا ہوئے۔ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو 610 ء میں اللہ تعالیٰ نے نبی مقرر کیا۔ اس کے بعد آپ نے توحید کے مشن کا آغاز کیا۔ بنو اسماعیل کے اندر سے آپ کو وہ قیمتی افراد ملے جن کو اصحابِ رسول کہاجاتا ہے۔ ان لوگوں کو ساتھ لے کر آپ نے تاریخ میں پہلی بار یہ کیا کہ توحید کی دعوت کو فکری مرحلے سے آگے بڑھا کر انقلاب کے مرحلہ تک پہنچایا۔
حضرت ابراہیم کے ذریعہ جو عظیم دعوتی منصوبہ زیر عمل آیا، حج کی عبادت گویا اسی کاایک ریہرسل ہے۔ ذو الحجہ کے مہینہ کی مخصوص تاریخوں میں ساری دنیا کے مسلمان اکھٹا ہو کر ریہرسل کے روپ میں اس تاریخ کو دہراتے ہیں جو حضرت ابراہیم اور ان کی اولاد کے ساتھ پیش آئی۔
اس طرح تمام دنیا کے مسلمان ہر سال اپنے اندر یہ عزم تازہ کرتے ہیں کہ وہ پیغمبر کے اس نمونہ کو اپنے حالات کے مطابق، مسلسل دہراتے رہیں گے۔ ہر زمانہ میں وہ دعوت الی اللہ کے اس عمل کو مسلسل زندہ رکھیں گے، یہاں تک کہ قیامت آجائے۔
اس ابراہیمی عمل میں قربانی کو مرکزی درجہ حاصل ہے۔ یہ ایک عظیم عمل ہے جس کی کامیاب ادائیگی کے لیے قربانی کی اسپرٹ ناگزیر طورپر ضروری ہے۔ اس قربانی کی اسپرٹ کو مسلسل طورپر زندہ رکھنے کے لیے حج کے زمانہ میں منیٰ میں، اورعیداضحی کی صورت میں تمام دنیا کے مسلمان اپنے اپنے مقام پرجانور کی قربانی کرتے ہیں اور خدا کو گواہ بنا کر اس اسپرٹ کو زندہ رکھنے کا عہد کرتے ہیں۔
حج اور عید اضحی کے موقع پر جانور کی جو قربانی کی جاتی ہے، وہ دراصل جسمانی قربانی کی صورت میں با مقصد قربانی کے عزم کے ہم معنی ہے۔ یہ دراصل داخلی اسپرٹ کا خارجی مظاہرہ ہے:
It is an external manifestation of internal spirit.
آدمی کے اندر پانچ قسم کے حواس (senses)پائے جاتے ہیں۔ نفسیاتی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ جب کوئی ایسا معاملہ پیش آئے جس میں انسان کے تمام حواس شامل ہوں تو وہ بات انسان کے دماغ میں زیادہ گہرائی کے ساتھ بیٹھ جاتی ہے۔ قربانی کی اسپرٹ کو اگر آدمی صرف مجرد شکل میں سوچے تو وہ آدمی کے دماغ میں بہت زیادہ ذہن نشین نہیں ہوگی۔ قربانی اسی کمی کی تلافی ہے۔
جب آدمی اپنے آپ کو وقف کرنے کے تحت جانور کی قربانی کرتا ہے تو اس میں عملاً اس کے تمام حواس شامل ہوجاتے ہیں۔ وہ دماغ سے سوچتا ہے، وہ آنکھ سے دیکھتا ہے، وہ کان سے سنتا ہے، وہ ہاتھ سے چھوتا ہے، وہ قربانی کے بعد اس کے ذائقے کا تجربہ بھی کرتا ہے۔ اس طرح اس معاملہ میں اس کے تمام حواس شامل ہوجاتے ہیں۔ وہ زیادہ گہرائی کے ساتھ قربانی کی اسپرٹ کو محسوس کرتا ہے، وہ اِس قابل ہوجاتا ہے کہ قربانی کی اسپرٹ اس کے اندر بھر پور طورپر داخل ہوجائے، وہ اس کے گوشت کا اور اس کے خون کا حصہ بن جائے۔
واپس اوپر جائیں

قربانی کی حقیقت

حج یا عید ِاضحی کے موقع پر جانور کی قربانی دی جاتی ہے۔ اس قربانی کے دو پہلو ہیں۔ ایک اس کی اسپرٹ، اور دوسرے اس کی ظاہری صورت۔اسپرٹ کے اعتبار سے قربانی ایک قسم کا عہد (pledge) ہے۔ قربانی کی صورت میں عہد کا مطلب ہے عملی عہد (pledge in action) ۔ عہد کے اس طریقہ کی اہمیت کو عمومی طورپر تسلیم کیاجاتا ہے۔ اس میں کسی کو بھی کوئی اختلاف نہیں۔
یہاں اس نوعیت کی ایک مثال دی جاتی ہے، جس سے اندازہ ہوگا کہ قربانی کا مطلب کیا ہے۔ نومبر 1962 کا واقعہ ہے۔ ہندستان کی مشرقی سرحد پر ایک پڑوسی طاقت کی جارحیت کی وجہ سے زبردست خطرہ پیداہو گیا تھا۔ سارے ملک میں سنسنی خیزی کی کیفیت چھائی ہوئی تھی۔
اُس وقت قوم کی طرف سے جو مظاہرے ہوئے، اس میں سے ایک واقعہ یہ تھا کہ احمد آباد کے 25 ہزار نوجوانوں نے مشترکہ طورپر یہ عزم کیا کہ وہ ملک کے بچاؤ کے لیے لڑیں گے اورملک کے خلاف باہر کے حملہ کا مقابلہ کریں گے، خواہ اسی راہ میں ان کو اپنی جان دے دینی پڑے۔ یہ فیصلہ کرنے کے بعد انھوں نے یہ کیا کہ ان میں سے ہر شخص نے اپنے پاس سے ایک ایک پیسہ دیا اور اس طرح 25 ہزار پیسے جمع ہوگئے۔ اس کے بعد انھوںنے اپنے ان پیسوں کو اس وقت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کی خدمت میں پیش کیا۔ پیسہ دیتے ہوئے انھوںنے ہندستانی وزیر اعظم سے کہا کہ یہ 25 ہزار پیسے ہم 25 ہزار نوجوانوں کی طرف سے اپنے آپ کو آپ کے حوالے کرنے کا نشان ہیں:
To give ourselves to you
مذکورہ نوجوانوں نے اپنی قربانی کا علامتی اظہار 25 ہزار پیسوں کی شکل میں کیا۔ 25 ہزار پیسے خود اصل قربانی نہیں تھے۔ وہ اصل قربانی کی صرف ایک علامت(token) تھے۔ یہی معاملہ جانور کی قربانی کا ہے۔ قربانی کے عمل میں جانور کی حیثیت صرف علامتی ہے۔ جانور کی قربانی کے ذریعے ایک مومن علامتی طورپر اس بات کاعہد کرتا ہے کہ وہ اسی طرح اپنی زندگی کو خدا کی راہ میں پوری طرح لگادے گا۔ اسی لیے قربانی کے وقت یہ کہا جاتا ہے کہ: اللہم منک ولک،یعنی اے خدا یہ تو نے ہی دیا تھا، اب میں اس کو تیرے سپرد کرتا ہوں۔
جہاں تک قربانی کی اسپرٹ کا سوال ہے، اس میں کسی کو کوئی اختلاف نہیںہوسکتا۔ یہ ایک عالمی طورپر تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ اس قسم کی اسپرٹ کے بغیر کبھی کوئی بڑا کام نہیں ہوسکتا۔ البتہ جہاں تک قربانی کی شکل کا تعلق ہے، یعنی جانور کا ذبیحہ، اس پر کچھ لوگ شک و شبہہ کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جانور کو ذبح کرنا تو ایک بے رحمی کی بات ہے، پھر ایسے ایک بے رحمی کے عمل کو ایک مقدس عبادت میں کیوں شامل کیا جاتا ہے۔
اس معاملہ پر غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ یہ کوئی حقیقی اعتراض نہیں۔ یہ صرف ایک بے اصل بات ہے جو توہمانہ کنڈیشننگ (superstitious conditioning) کے نتیجہ میں پیدا ہوئی ہے، اس کے پیچھے کوئی علمی بنیاد نہیں۔
واپس اوپر جائیں

حلال اور حرام کا تصور

کھانے پینے کے معاملے میں کچھ چیزیں انسان کے لیے حلال ہیں اور کچھ چیزیں حرام ہیں۔ حلال اور حرام کا یہ فرق کس بنیادپر قائم ہوتا ہے۔ایک طبقہ کا یہ کہنا ہے کہ اصل حرام فعل یہ ہے کہ کسی زندگی کو ہلاک کیا جائے۔ اس معاملہ میں ان کا فارمولا یہ ہے— ایک حسّاس زندگی کو مارنا حرام ہے، اور حسّاس زندگی کو نہ مارنا سب سے بڑی نیکی ہے:
Killing of a sensation is sin and vice versa.
یہ نظریہ بلاشبہہ ایک بے بنیاد نظریہ ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ موجودہ دنیا میں یہ سرے سے قابل عمل ہی نہیں، جیسا کہ اس مضمون میں دوسرے مقام پر واضح کیا جائے گا ۔ زندگی کو مارنا ہمارا اختیار (option) نہیں۔ انسان جب تک زندہ ہے، وہ شعوری یا غیر شعوری طورپر بے شمار زندگیوں کو ہلاک کرتا رہتا ہے۔ جو آدمی اس ’’گناہ‘‘ سے بچنا چاہے، اس کے لیے دو چیزوں میں سے ایک کا اختیار (option) ہے، یا تو وہ خود کشی کرکے اپنے آپ کو ختم کرلے، یا وہ ایک اور دنیا کی تخلیق کرے جس کے قوانین اس سے مختلف ہوں جو موجودہ دنیا کے قوانین ہیں۔
اسلام میں غذاؤں میںحلال اور حرام کا اصول بنیادی طورپر یہ ہے کہ چند مخصوص چیزوں کو اسلام میں حرام قرار دیاگیا ہے۔ ان کے علاوہ بقیہ تمام چیزیں اسلام میں جائز خوراک کی حیثیت رکھتی ہیں۔
حرام اور حلال کا یہ اصول جو اسلام نے بتایا ہے، وہ فطرت کے قوانین پر مبنی ہے۔ چناں چہ آج بھی ایک محدود گروہ کو چھوڑ کر ساری دنیا حرام و حلال کے اسی اصول کا اتباع کررہی ہے۔ یہ محدود گروہ بھی صرف کہنے کے لیے اپنا نظریہ بتاتا ہے، ورنہ جہاں تک عمل کا تعلق ہے، وہ بھی بالفعل اسی فطری اصول پر قائم ہے۔ مثلاً یہ تمام لوگ عام طورپر دودھ اور دہی وغیرہ استعمال کرتے ہیں۔ پہلے یہ لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ دودھ اور دہی وغیرہ غیر حیوانی غذائیں ہیں۔ مگر اب قطعیت کے ساتھ یہ ثابت ہوچکا ہے کہ یہ سب بھی پورے معنی میں حیوانی غذائیں ہیں۔ جس آدمی کو اس بات پر شک ہو، وہ کسی بھی قریبی تجربہ گاہ (laboratory) میں جاکر خورد بین (microscope)میں دودھ اور دہی کا مشاہدہ کرے۔ ایک ہی نظر میں وہ جان لے گا کہ اس معاملہ میں حقیقت کیا ہے۔
اسلام میں حلال جانور اور حرام جانور کی جو تفریق کی گئی ہے، وہ بنیادی طورپر اس اصول پر مبنی ہے کہ لحمی غذاکھانے والے جانور حرام ہیں اور غیر لحمی غذا کھانے والے جانور حلال ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ جو جانور براہِ راست حیوانات کو کھا کر اپنی خوراک بناتے ہیں، ان کا گوشت انسان کے لیے باعتبار صحت موزوں نہیں ہوتا۔ دوسرے جانوروں کا معاملہ یہ ہے کہ ان کے اندر مخصوص فطری نظام ہوتا ہے جس کے مطابق، ایسا ہوتا ہے کہ جو زرعی غذا وہ کھاتے ہیں اس کو وہ مخصوص عمل کے ذریعہ پروٹین میں تبدیل کرتے ہیں ، چناں چہ وہ ہمارے لیے صحت بخش اور زود ہضم بن جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

انسان کی غذائی ضرورت

غذا انسان کی لازمی ضرورت ہے۔ قدیم زمانہ میں غذا کا مطلب صرف دو ہوا کرتا تھا— ذائقہ لینا اور بھوک مٹانا۔ لیکن موجودہ زمانہ میں یہ دونوں چیزیں اضافی بن چکی ہیں۔ موجودہ زمانہ میں سائنسی تحقیقات کے بعد یہ معلوم ہوا کہ خوراک کا مقصد ہے کہ جسم کو ایسی غذا فراہم کرنا جس کو موجودہ زمانہ میں متوازن غذا(balanced diet) کہاجاتا ہے جس میں بنیادی طور پر چھ اجزا شامل ہیں:
A balanced diet is one which contains carbohydrate, protein, fat, vitamins, mineral salts and fibre in the correct proportions.
ان اجزاء میں سے پروٹین (protein) کی اہمیت بہت زیادہ ہے کیوں کہ پروٹین کا ہمارے جسم کی بناوٹ میں بنیادی حصہ ہے:
Protein is the main building block of our body.
پروٹین کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ لحمی غذا ہے۔ لحمی غذا سے ہم کو اعلیٰ پروٹین حاصل ہوتی ہے۔ غیر لحمی غذاؤں سے بھی کچھ پروٹین ملتی ہے لیکن وہ نسبتًا ناقص پروٹین ہوتی ہے:
Meat is the best source for high-quality protein. Plant protein is of a lower biological value.
مزید یہ کہ لحمی پروٹین اور غیر لحمی پروٹین کی تقسیم بھی صرف تقریب فہم کے لیے ہے، وہ حقیقی تقسیم نہیں۔ اس لیے کہ خوردبین کی دریافت کے بعد سائنس کے میدان میں جو مطالعہ کیا گیا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام غذائی اشیاء کے اندر بے شمار بیکٹیریا موجود رہتے ہیں جو مکمل طورپر زندہ اجسام کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جن غیر لحمی غذاؤں کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ ان میں بڑی مقدار میں پروٹین ہوتا ہے مثلاً دودھ، دہی، پنیر وغیرہ، وہ سب بیکٹیریا کے ناقابلِ مشاہدہ پراسس کے ذریعہ انجام پاتا ہے۔ بیکٹیریا کا عمل اگر اس کے اندر نہ ہو تو کسی بھی غیر لحمی غذا سے پروٹین حاصل نہیںکیا جاسکتا۔
بیکٹیریا کو علمی زبان میں مائیکرو آرگنزم (micro-organism) کہاجاتا ہے، یعنی اجسام صغیر۔ اس کے مقابلہ میں حیوانات مثلاً بکری اور بھیڑ وغیرہ کی حیثیت میکرو آرگنزم (macro organism) کی ہے، یعنی اجسام کبیر۔ اس حقیقت کو سامنے رکھئے تو یہ کہنا بالکل صحیح ہوگا کہ ہر آدمی عملاً لحمی غذا کھارہا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ نام نہاد ویجیٹیرین اس کو اجسام صغیر کی صورت میں لے رہے ہیں اور نان ویجیٹیرین لوگ اس کو اجسام کبیر کی صورت میں لے رہے ہیں۔
دوسرے لفظوں میں یہ کہ ہر انسان کا معدہ ایک عظیم مذبح (slaughter house) کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس غیر مرئی مذبح میں ہر روز ملین اینڈ ملین اجسام صغیر ختم ہوتے رہتے ہیں۔ ان کی تعداد اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ ساری دنیا میں اجسام کبیر کے جومذبح خانے ہیں ان کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ۔
اس سارے معاملے کا تعلق خالق کے تخلیقی نظام سے ہے۔ خالق نے تخلیق کا جو نظام مقرر کیاہے، وہ یہی ہے کہ انسان کے جسم کی غذائی ضرورت زندہ اجسام (living organism) کے ذریعے پوری ہو۔ فطرت کے نقشہ کے مطابق، زندہ اجسام کو اپنے اندر داخل کیے بغیر کوئی مرد یا عورت اپنی زندگی کو باقی نہیں رکھ سکتا۔ خالق کے نقشہ کے مطابق، زندہ چیزیں ہی زندہ وجود کی خوراک بنتی ہیں۔ جن چیزوں میں زندگی نہ ہو، وہ زندہ لوگوں کے لیے خوراک کی ضرورت فراہم نہیں کرسکتیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ویجیٹیرین ازم (vegetarianism)اور نان ویجیٹیرین ازم (non-vegetarianism) کی اصطلاحیں صرف ادبی اصطلاحیں ہیں، وہ سائنسی اصطلاحیں نہیں۔
اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں آدمی کے لیے اس کے سواکوئی چوائس (choice)نہیں کہ وہ نان ویجیٹیرین بننے پر راضی ہو۔ جو آدمی خالص ویجیٹیرین بن کر زندہ رہنا چاہتا ہو، اس کو یاتو اپنے آپ کو موت کے حوالے کرنا ہوگا یا پھر اس کو ایک اور عالم تخلیق کرنا ہوگا جہاں کے قوانین موجودہ دنیا کے قوانین سے مختلف ہوں۔ ان دو کے سوا کوئی دوسرا چوائس کسی انسان کے لیے نہیں۔
واپس اوپر جائیں

تاریخ کے فکری مغالطے

فلسفہ قیاسی علوم (speculative sciences) میں سے ایک علم ہے۔ فلسفہ قدیم ترین شعبۂ علم ہے۔ دنیاکے بڑے بڑے دماغ فلسفیانہ غور وفکر میں مشغول رہے ہیں۔ لیکن لمبی تاریخ کے باوجود فلاسفہ کا گروہ انسان کو کوئی مثبت چیز نہ دے سکا، بلکہ فلسفے نے صرف انسان کی فکری پیچیدگیوں میںاضافہ کیا۔ فارسی شاعر نے بالکل درست طور پر کہا ہے:
فلسفی سِرِّ حقیقت نہ توانست کشود گشت رازِ دگر آں راز کہ افشامی کرد
فلسفہ نے انسان کو جو چیزیں دیں، ان کو ایک لفظ میں فکری مغالطہ کہا جاسکتا ہے، یعنی ایسے قیاسات جو حقیقت واقعہ پر مبنی نہ ہوں۔ افکار کی تاریخ ان مثالوں سے بھری ہوئی ہے۔
تمام فلسفیوں کی مشترک غلطی یہ رہی ہے کہ ہر ایک کے ذہن میں چیزوں کا ایک معیاری ماڈل (ideal model) بسا ہوا تھا، جو کبھی اور کسی دور میں حاصل نہ ہوسکا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ فلسفیوں کا یہ ماڈل دنیا کے بارے میں خالق کے تخلیقی نقشہ سے مطابقت نہ رکھتا تھا۔ خالق نے موجودہ دنیا کو امتحان کے لیے پیدا کیا ہے، نہ کہ انعام کے لیے۔ اسی امتحان کے لیے انسان کو آزادی دی گئی ہے۔ یہ امتحانی آزادی اس راہ میں رکاوٹ ہے کہ اس دنیا میں کبھی کوئی معیاری نظام بن سکے۔
معیاری نظام صرف اس وقت بن سکتا ہے جب کہ تمام لوگ بغیر استثناء اپنی آزادی کو بالکل صحیح صورت میں استعمال کریں، تاہم مختلف اسباب سے ایسا ہونا کبھی ممکن نہیں۔ اس لیے اس دنیا میں معیاری نظام کا بننا بھی کبھی ممکن نہیں۔ تاریخ کے تمام فلسفی اس حقیقت سے بے خبر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام فلسفی اپنے ذہنی ماڈل کے مطابق، معیاری نظام کا خواب دیکھتے رہے۔ مگر فطرت کے قانون کے مطابق، ان کا یہ خواب کبھی پورا نہ ہوسکا۔ یہاں بطور نمونہ چند مثالیں درج کی جاتی ہیں:
1 - افلاطون (Plato) قدیم یونان کا مشہور فلسفی ہے۔ اس نے 387 ق م میںایتھنز (Athens)میںایک رائل اکیڈمی قائم کی۔ اس کا مقصد حکمراں طبقہ (ruling elite) کو ایجوکیٹ کرکے فلاسفر کنگ بنانا تھا۔ اس کا نشانہ یہ تھا کہ اس اکیڈمی میںتیار شدہ فلاسفر کنگ یونان میں آئڈیل اسٹیٹ قائم کریں گے جو ساری دنیا کے لیے ایک نمونہ کی اسٹیٹ ہوگی۔ شہزادہ الگزنڈر (Alexander) افلاطون کا محبوب شاگرد تھا۔ اپنے باپ فلپ کے مرنے کے بعد 336 میں وہ یونان کا بادشاہ بنا۔ لیکن شاہی تخت پر بیٹھنے کے بعد ہی وہ فلاسفر کنگ کے بجائے اکسپلائٹر کنگ (exploiter king) بن گیا۔ آیڈیل اسٹیٹ قائم کرنے کے بجائے اس کا نشانہ یہ ہوگیا کہ وہ ساری دنیا میں اپنا عالمی اقتدار قائم کرے۔ افلاطون کے خواب کے بجائے وہ لارڈ ایکٹن کے اس قول کا مصداق بن گیا:
Power corrupts and abslute power corrupts absolutely.
آئڈیل ازم کا یہ فلسفیانہ تصور پوری تاریخ میں چھایا رہا ہے۔ آئڈیل اسٹیٹ، آئڈیل سماج، آئڈیل نظام کا نشانہ ہمیشہ تمام فلسفیوں اور مفکروں کا خوب صورت خواب رہا ہے، مگر یہ خواب کبھی پورا نہ ہوسکا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ یہ خواب اس غلط فکری پر مبنی تھا کہ موجودہ دنیا میں آئڈیل زندگی صرف جنت میں قابل حصول ہے۔ موجودہ دنیا صرف اس لیے بنی ہے کہ انسان یہاں اپنے آپ کو جنت کا اہل ثابت کرے، تاکہ وہ مرنے کے بعد جنت کی آئڈیل دنیا میں جگہ پاسکے۔ جس طرح ایک طالب علم کو امتحان ہال کے اندر اپنا مطلوب جاب نہیں مل سکتا، اس طرح موجودہ دنیا میں کسی انسان کو آئڈیل جنت بھی ملنے والی نہیں۔
2 - انیسویں صدی عیسوی میں جب سائنسی مشاہدے کا طریقہ دنیا میں رائج ہوا تو فلسفیوں کے اندر ایک نیا فکر پیدا ہوا جس کا یہ کہنا تھا کہ حقیقت وہی ہے جو قابلِ مشاہدہ (observable) ہو، جو معلوم سائنسی طریقوں کے مطابق قابل تصدیق (verifiable) ہو۔ اسی سوچ کے تحت مختلف اسکول آف تھاٹ بنے۔ مثلاً انیسویں صدی کا فرنچ فلسفی آگسٹ کامٹے(Auguste Comte) کا پازیٹیوازم (Positivism) اوربیسویں صدی کے جرمن فلاسفر رڈولف کارنیپ (Rudolf Carnap) کا لاجیکل پازی ٹیوازم وغیرہ۔
اس قسم کے مفکروں اور فلسفیوں نے تقریباً سوسال تک دنیا بھر کے ذہنوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ جو چیز مشاہدہ میں نہ آئے وہ حقیقت بھی نہیں۔ ان نظریات کے تحت وہ فلسفہ پیدا ہوا جس کو سائنسی الحاد(scientific atheism) کہاجاتا ہے۔ ان نظریات کے مطابق، خدا اور مذہب کا عقیدہ علمی اعتبار سے بے بنیاد ثابت ہوگیا۔
علمی حلقوں میں سائنسی الحاد پر چرچا جاری تھا کہ خود سائنس نے اس نظریے کو بے بنیاد ثابت کردیا۔سائنس میں یہ تبدیلی اس وقت آئی جب کہ سائنس دانوں نے اس حقیقت کو دریافت کیا جس کو کوانٹم میکینکس (quantum mechanics) کہاجاتا ہے۔ اس دریافت کو عظیم ترین فکری فتح (greatest intellectual triumph) کہاجاتا ہے۔ اس سائنسی نظریہ کا ایک نتیجہ یہ تھا کہ ایٹمی ذرات کو امواج (waves) سمجھا جانے لگا۔ اس سائنسی دریافت میں خاص طورپر حسب ذیل سائنس دانوں کے نام شامل ہیں:
Paul Dirac, Heisenberg, Jordan, Schrodinger, Einstein
اس سائنسی دریافت نے قدیم نیوٹانین میکینکس کو علمی طورپر قابل رد قرار دے دیا۔ اب علم کا دریا عالمِ کبیر (macro world) سے گزر کر عالمِ صغیر (micro world) تک پہنچ گیا، یعنی دکھائی دینے والی چیزوں کے علاوہ نہ دکھائی دینے والی چیزیں بھی علم کا موضوع بن گئیں۔
واپس اوپر جائیں

استدلال کی نئی بنیاد

یہ ایک دور رس فکری انقلاب تھا جو بیسویں صدی کے نصف اول میں پیش آیا۔ اس کے نتیجہ میں جو نظریاتی تبدیلیاں ہوئیں، ان میں سے ایک اہم تبدیلی یہ تھی کہ استدلال کا اصول (principle of reason) بدل گیا۔ اس فکری انقلاب سے پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ جائز استدلال (valid argument) وہی ہے جو براہِ راست استدلال (direct argument) ہو، یعنی مشاہدہ اور تجربہ پر مبنی استدلال۔ مگر اب استنباطی استدلال (inferential argument) بھی یکساں طورپر جائز استدلال بن گیا۔ جب جوہری ذرّات (subatomic particles) ناقابل مشاہدہ ہونے کے باوجود صرف استنباطی استدلال کی بنیاد پر ایک سائنسی واقعہ تسلیم کر لیے گئے تو لازمی طور پر اس کا مطلب یہ بھی تھا کہ استنباطی استدلال کی بنیاد پر خدا کا استدلال بھی عین اسی طرح جائز سائنسی استدلال ہے۔
علمائِ الٰہیات خدا کے وجود پر ایک دلیل وہ دیتے تھے جس کو ڈزائن سے استدلال (argument from design) کہاجاتا ہے۔ یعنی جب ڈزائن ہے تو ضروری ہے کہ اس کا ایک ڈزائنر ہو۔ اس استدلال کو پہلے ثانوی استدلال (secondary rationalism) مانا جاتا تھا۔ مگراب جدید سائنسی انقلاب کے بعد یہ استدلال بھی اسی طرح ابتدائی استدلال (primary rationalism) کی فہرست میںآچکا ہے، جیسا کہ دوسرے معروف سائنسی استدلالات۔
3 - انھیں فکری مغالطوںمیں سے ایک مغالطہ وہ ہے جس کو ڈارونزم (Darwinism) کہا جاتا ہے۔ اس فکر کو موجودہ زمانہ میں بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ اس نظریہ کے بارے میں بے شمار کتابیں لکھی گئی ہیں اور تمام یونیور سٹیوں میں اس کو باقاعدہ نصاب میں داخل کیاگیا ہے۔ لیکن اس کا سائنٹفک تجزیہ کیجیے تو وہ ایک خوب صورت مغالطہ کے سوا اور کچھ نہیں۔ ڈارونزم کے نظریہ کو دوسرے لفظوں میں عضویاتی ارتقاء (organic evolution) کہاجاتا ہے۔
اس کا خلاصہ یہ ہے کہ بہت پہلے زندگی ایک سادہ زندگی سے شروع ہوئی۔ پھر توالد وتناسل کے ذریعہ وہ بڑھتی رہی۔ حالات کے اثر سے اس میں مسلسل تغیر ہوتا رہا۔ یہ تغیرات مسلسل ارتقائی سفر کرتے رہے۔ اس طرح ایک ابتدائی نوع مختلف انواع (species) میںتبدیل ہوتی چلی گئی۔ اس لمبے عمل کے دوران ایک مادی قانون اس کی رہنمائی کرتا رہا۔ یہ مادی قانون ڈارون کے الفاظ میں نیچرل سلکشن تھا۔ اس نظریہ میں بنیادی خامی یہ ہے کہ وہ دو مشابہہ نوع کا حوالہ دیتا ہے اور پھر یہ دعویٰ کرتا ہے کہ لمبے حیاتیاتی ارتقا کے ذریعہ ایک نوع دوسری نوع میں تبدیل ہوگئی۔ مثلاً بکری دھیرے دھیرے زرافہ بن گئی،وغیرہ۔
یہ نظریہ بکری اور زرافہ کو تو ہمیں دکھاتا ہے، لیکن وہ درمیانی انواع اس کی فہرست میں موجودنہیں ہیں جو تبدیلی کے سفر کو عملی طورپر دکھائیں۔ نظریۂ ارتقا کے وکیل ان درمیانی کڑیوں کو مسنگ لنک (missing link) کہتے ہیں۔ لیکن یہ مسنگ لنک صرف ایک قیاسی لنک ہے۔ مشاہدہ اور تجربہ کے اعتبار سے سرے سے ان کا کوئی وجود نہیں۔
اس نظریہ کی مقبولیت کا راز صرف یہ تھا کہ وہ سیکولر اہل علم کو ایک کام چلاؤ نظریہ (workable theory) دکھائی دیا۔ لیکن کوئی نظریہ اس طرح کے قیاس سے ثابت نہیں ہوتا۔ کسی نظریہ کو ثابت شدہ نظریہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی پشت پر معلوم حقائق موجود ہوںجو اس کی تصدیق کرتے ہوں، لیکن ڈارونزم کی تائید کے لیے ایسے حقائق موجود نہیں۔ مثال کے طورپر، ڈارونزم کے مطابق، حیاتی ارتقا کے لیے بہت زیادہ لمبی مدت درکار ہے۔ سائنسی دریافت کے مطابق موجودہ زمین کی عمر اس کے مقابلہ میں بہت زیادہ کم ہے۔ایسی حالت میں بالفرض اگر ارتقاء حیات کا ڈرامہ ڈاروینی نظریہ کے مطابق پیش آیا ہو تو وہ موجودہ محدود زمین کے اوپر کبھی واقع نہیں ہوسکتا۔
زمین کی محدود عمر کے بارے میں جب سائنس کی دریافت سامنے آئی تو اس کے بعد ارتقاء کے وکیلوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ زندگی باہر کسی اور سیارہ پر پیدا ہوئی، پھر وہاں سے سفر کرکے زمین پر آئی۔ اس ارتقائی نظریہ کو انھوںنے مفروضہ طورپر پینس پرمیا (Panspermia) کا نام دیا۔ اب دور بینوں اور خلائی سفروں کے ذریعہ خلا میں کچھ مفروضہ سیاروں کی دریافت شروع ہوئی۔ مگر بے شمار کوششوں کے باوجود اب تک یہ مفروضہ سیارہ دریافت نہ ہوسکا۔
4 - اسی قسم کا فکری مغالطہ وہ ہے جس کو ہیومنزم (Humanism) کہاجاتا ہے۔ یعنی مبنی برانسان توجیہہ کائنات(human-based explanation of universe)۔ اس فلسفہ کے تحت خدا کے عقیدہ کو حذف کرکے صرف انسان کی بنیاد پر زندگی کی توجیہہ کی جاتی ہے۔ اس نظریہ کا خلاصہ ان الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے— سیٹ کا خدا سے ٹرانسفر ہوکر انسان کو دے دینا:
Transfer of seat from God to man.
اس نظریہ کی حمایت میں بیسویں صدی عیسوی میں بہت سی کتابیں لکھی گئیں۔ انھیں میں سے ایک کتاب وہ ہے جو انگریزفلسفی جولین ہکسلے (وفات: 1975 )نے تیار کرکے شائع کی۔ کتاب کے موضوع کے مطابق، اس کا ٹائٹل یہ تھا:
Man stands alone
یہ کتاب پوری کی پوری صرف دعویٰ اور قیاس پر مبنی ہے۔ اس میں کوئی حقیقی دلیل موجود نہیں۔ مثلاً اس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ اب انسان کو وحی کی ضرورت نہیں، اب انسان کی رہنمائی کے لیے عقل بالکل کافی ہے۔ مگر اس دعوی کی تائید میں کتاب کے اندر کوئی حقیقی دلیل موجود نہیں۔ امریکی سائنس داں کریسی ماریسن (وفات: 1951 ) نے خالص علمی انداز میں اس کتاب کا جواب دیا۔ یہ کتاب جولین ہکسلے کے دعوی کو بالکل بے بنیاد ثابت کرتی ہے:
Man does not stand alone
5 - بدھ ازم کو موجودہ زمانہ میں سیکولرطبقہ کے درمیان کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس کو یہ مقبولیت کسی سائنسی بنیاد پر نہیں ہوئی ہے بلکہ صرف ایک مغالطہ کی بنیاد پر ہوئی ہے۔ عام طور پر لوگ چیزوں کا سائنسی تجزیہ کرکے اس کی حقیقت تک پہنچنے کی کوشش نہیں کرتے۔ اس بنا پر اکثر لوگ مغالطہ آمیز فکر کا شکار ہوتے ہیں۔ بدھ ازم کی موجودہ مقبولیت بھی انھیں میں سے ایک ہے۔
بدھسٹ فلسفہ کے مطابق انسان نسل درنسل ایک لمبا سفر کررہا ہے۔ اس کی آخری منزل نروان ہے۔ اس آخری منزل تک پہنچنے کا ایک حتمی کورس ہے۔ یہ علت اور سبب کا کورس ہے۔ ہر عورت یا مرد اپنے عمل کے مطابق، ایک جنم کے بعد دوسرے جنم میں پیدا ہوتے رہتے ہیں، کبھی اچھی حالت میں اور کبھی بری حالت میں۔ اس نظریہ کو پنر جنم کہا جاتا ہے۔ اور پھر کئی ملین سال تک یہ سفر کرتے کرتے وہ نجات (salvation) تک پہنچتے ہیں جس کو بدھ ازم میں’’ نروان‘‘ کا نام دیاگیا ہے:
They all hold in common a doctrine of Karman (efftects), the law of cause and effect, which states that what one does in this present life will have its effect in the next life. (EB/VIII: 488)
یہ فلسفہ صرف ایک مغالطہ ہے۔ پنر جنم کا یہ نظریہ کہتا ہے کہ آدمی اپنے پچھلے جنم میں کئے ہوئے کرم کے مطابق اگلے جنم میں اچھی حالت یا بری حالت میںپیدا ہوتا ہے۔ اگر یہ بات درست ہے تو ہرایک کو اپنے پچھلے جنم کا حال یاد رہنا چاہیے جس طرح جیل میں سزا پانے والے ایک قیدی کو اپنے پچھلے دنوں کا جرم یاد رہتاہے، یا ترقی پر پہنچنے والے ایک شخص کو اپنے پچھلے زمانہ کی وہ کوششیں یاد رہتی ہیں جس کی وجہ سے وہ اس عہدے تک پہنچا۔ لیکن جیسا کہ معلوم ہے، دنیا بھر میں بسنے والے عورتوں اور مردوں کو اپنے پچھلے جنم کے بارے میں کچھ بھی یاد نہیں۔
یہ واقعہ پنر جنم کے فلسفہ کو سراسر غیر علمی ثابت کررہا ہے۔ موجودہ زمانہ میں نفسیات کے تحت انسان کا نہایت تفصیلی مطالعہ کیاگیا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوا ہے کہ یاد داشت (memory) انسان کی شخصیت (personality) کا لاینفک حصہ ہے۔ انسانی شخصیت کو اس کی یادداشت سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن پنر جنم کے معاملہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہر آدمی کی شخصیت ایک جنم سے دوسرے جنم کی طرف اس طرح سفر کرتی ہے کہ اپنے پچھلے زمانہ کے بارے میں اس کی یادداشت اس کے ساتھ موجود نہیں ہوتی۔ کسی آدمی کے اگلے جنم میں اگر اس کی پچھلی شخصیت منتقل ہوتی ہے تو اس کی یاد داشت بھی اس کے ساتھ لازماً موجود رہنی چاہیے۔ یہ واقعہ اس پورے نظریہ کو سرتاسر بے بنیاد ثابت کررہا ہے۔
قبل سائنسی دور میں فرضی قیاس کے تحت اس قسم کا نظریہ مانا جاسکتا تھا۔ لیکن سائنسی دور میں وہ بالکل ناقابل قبول ہوچکا ہے۔ جدید سائنس نے جس طرح دوسرے تمام فرضی تصورات کو بے بنیاد ثابت کردیا ہے، اسی طرح پنر جنم کا تصور بھی اب بلا شبہہ بے بنیاد قرار پائے گا۔
6 - انھیں فکری مغالطوں میں سے ایک مغالطہ وہ ہے جو ویجیٹیرین ازم (vegetarianism) کے نام سے معروف ہے۔یہاں اِس معاملے کی مختصر وضاحت کی جاتی ہے۔
لوہے اور پتھر جیسی چیزیں غیر ذی روح مادہ(dead matter) کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کے وجود کے لیے زندہ اجسام کی ضرورت نہیں۔ مگر انسان کی حیثیت ایک زندہ وجود کی ہے۔ زندگی کی بقا کے لیے زندگی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اپنے وجود کو باقی رکھنے کے لیے اسے ہر لمحہ زندگی بخش غذاؤں کی ضرورت ہے۔ یہ غذا انسان کو سبزی اورپھل اور اناج وغیرہ کی صورت میں حاصل ہوتی ہے۔ ان غذائی اجزا کو کھا کر پیٹ میں ڈالنا ہی کافی نہیں۔ اس کے بعد ایک اور عمل درکار ہے جس کو عمل ہضم کہاجاتا ہے۔ یہ عمل ایک پیچیدہ نظام ہضم (digestive system) کے تحت انجام پاتا ہے۔ اس کے بعد ہی یہ غذائی اجزاء جسم کا جزء بنتے ہیں۔ اس ہضمیاتی عمل (digestive process) میں اصل حصہ زندہ بیکٹیریا کا ہوتا ہے۔ بیکٹیریا اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ وہ آنکھوں سے دکھائی نہیں دیتے۔ لیکن وہ مکمل معنوں میں ایک زندہ وجود ہیں۔ یہ بیکٹیریا بے شمار تعداد میں انسان کے جسم میں داخل ہو کر ہضمیاتی عمل کی تکمیل کرتے ہیں۔ اگر بیکٹیریا کی مدد نہ ملے تو کوئی بھی غذا انسان کے لیے صحت بخش غذا نہ بن سکے۔
اس معاملے کو سمجھنے کے لیے ایک مثال لیجئے۔ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (26دسمبر 2007 ) کے صفحہ اول پر ایک نمایاں اور رنگین اشتہار چھپا ہے۔ اس کا عنوان جلی الفاظ میں یہ ہے— ڈیلی پیو، ہیلدی جیو:
Daily piyo, healthy jiyo
یہ ایک انٹرنیشنل مشروب کا اشتہار ہے جس کو صحت بخش مشروب (pro-biotic drink) بتایا گیا ہے اور اس کا نام یاکلٹ(Yakult) ہے۔ یہ 1935 میں بنایا گیا اور 30 ملکوں میں استعمال کیا جارہا ہے۔ اب انڈیا میں بھی اس کا استعمال شروع کیا گیا ہے۔
اس اشتہار میں اس کی سائنٹفک تشریح کرتے ہوئے یہ بتایا گیا ہے کہ اس میں مفید بیکٹیریا بہت بڑی تعداد میں موجود ہوتے ہیں جو ہضم کے عمل میں بے حد معاون ہوتے ہیں، وہ مختلف پہلوؤں سے انسان کو طاقت دیتے ہیں:
Yakult is a probiotic drink that contains special beneficial bacteria, lactobacillus casie strain shirota. Every 65 ml bottle of Yakult contains over 6.5 billion friendly bacteria. Yakult's bacteria are unique and reach the intestines alive to impart various health benefits. Yakult aids digestion, builds immunity, and prevents infection.
زندگی بخش بیکٹیریا ہر آن انسان کے جسم میں مختلف طریقوں سے داخل ہوتے رہتے ہیں۔ مذکورہ مشروب اسی عمل کو تیز تر کرنے کی ایک تدبیر ہے۔
معلوم ہوا کہ لحمی غذا انسان کے لیے اختیاری بات نہیں، وہ انسان کی مجبورانہ ضرورت ہے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ غذا انسان کے لیے ضروری ہے۔ اس معاملہ میں ویجٹیرین فوڈ اور نان ویجٹیرین فوڈ کی تقسیم صرف ایک اعتباری تقسیم ہے، وہ حقیقی تقسیم نہیں۔ کیوں کہ اصل حقیقت کے اعتبار سے ہر غذا آخر کار ایک لحمی غذا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ نان ویجیٹیرین فوڈ میں اس کا لحمی ہونا آنکھوں سے دکھائی دیتا ہے۔ ویجیٹیرین فوڈ میں بھی لحمی عنصر مکمل طورپر شامل رہتا ہے، اگر چہ وہ آنکھوں سے دکھائی نہیں دیتا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ نان ویجیٹیرین آدمی حیوانِ کبیر (macro organism) کو اپنی غذا بناتا ہے اور نام نہاد ویجیٹیرین آدمی حیوانِ صغیر (micro organism) کو اپنی غذا بنا رہا ہے۔ بظاہر دونوں ایک دوسرے سے مختلف دکھائی دیتے ہیں، لیکن حقیقت کے اعتبار سے دونوں میں کوئی فرق نہیں۔
واپس اوپر جائیں

غیر فطری نظریہ

جو لوگ کہتے ہیں کہ ویجیٹیرین فوڈ ہی انسان کے لیے صحیح فوڈ ہے، وہ ایک ایسی بات کہتے ہیں جو صرف ان کے اپنے ذہن کی پیداوار ہے۔ ان کے اپنے ذہن کے باہر اس کی کوئی دلیل موجود نہیں۔ جیسا کہ عرض کیا گیا، ان لوگوں کا کلمہ یہ ہے— احساس کو مارنا گناہ ہے، اس کے برعکس احساس کو زندگی دینا نیکی:
Killing of a sensation is sin and vice versa.
یہ ایک خود ساختہ فارمولا ہے اس کی کوئی بنیاد (base) نہ تو فطرت کے قانون میں ہے اور نہ سائنس کی دریافتوں میں ۔ یہ نظریہ مکمل طورپر ایک غیر فطری نظریہ ہے۔ مثلاً یہ لوگ انسانی دانت کی ساخت کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ انسان کے دانت درندہ جانور سے مختلف ہیں، اِس لیے وہ سبزی خور حیوان (herbivorous) ہے، وہ گوشت خور حیوان (carnivorous) نہیں۔ مگر یہ بات درست نہیں۔
اصل یہ ہے کہ انسان کے دانت درندہ جانور سے مختلف نہیں بلکہ مشابہ ہوتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ درندے جانور کے گوشت کو کچا کھاتے ہیں، اس لیے ان کے دانت مختلف بنائے گئے ہیں۔ لیکن انسان گوشت کو پکا کرکھاتا ہے، اس لیے انسان کے دانت درندہ جانور سے جزئی طور پرمشابہ تو ضرور ہیں لیکن وہ عین اس کے مطابق نہیں۔
جیسا کہ معلوم ہے، سیارۂ زمین کا تقریباً 71 فی صد حصہ سمندر ہے جو کہ پانی سے بھرا ہوا ہے۔ زمین میں خشکی کا حصہ نسبتاً بہت کم ہے۔ جب کہ زرعی پیداوار حاصل کرنے کے لیے خشک زمین ضروری ہے۔ زمین کا یہ دستیاب خشک حصہ تمام انسانوں کے لیے زرعی خوراک فراہم کرنے کے لیے بالکل ناکافی ہے۔ جب کہ اسی محدود خشک حصہ پر انسانی آبادیاں ہیں، بڑے بڑے کارخانے ہیں۔ جنگل اور صحرا اور پہاڑاور جھیل اور دریائیں ہیں۔ ایسی حالت میں اگر صرف زرعی خوراک پر انحصار کرنا ہو تو انسانوں کے بڑے حصے کو فاقہ کشی کا شکار ہونا پڑے گا۔
واضح ہو کہ اس وقت کرہ زمین کے اوپر ساتبلین سے زیادہ انسان آباد ہیں۔ ایسی حالت میں زرعی خوراک کی یہ کمی صرف لحمی خوراک سے پوری کی جاسکتی ہے جیسا کہ دنیا میں ہورہا ہے۔ خالق کو یہ بات معلوم تھی۔ چناں چہ اس نے سمندروں میں نان ویجیٹیرین فوڈ کا بہت بڑا ذخیرہ رکھ دیا۔ اسی کے ساتھ خدا نے فضاؤں میں اڑنے والی چڑیاں بنائیں اور جنگلوں میں مختلف حیوانات پیدا کردیے۔ یہ سب اس لیے ہوا، تاکہ انسان زرعی خوراک کی کمی کو لحمی خوراک کے ذریعے پورا کرسکے۔
واپس اوپر جائیں

انڈیا کے ریفرنس میں

ڈاکٹر ایم ایس سوامی ناتھن (پیدائش : 1925 ) انڈیا کے مشہور زرعی سائنٹسٹ ہیں۔ وہ انڈیا میںگرین ریولیوشن (green revolution) کے بانی سمجھے جاتے ہیں۔ ان کو انٹرنیشنل ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔ نئی دہلی کے انگریزی اخبار اسٹیٹس مین کے شمارہ 4 ستمبر 1967 میں سوامی ناتھن کا ایک خصوصی انٹرویو چھپا جو انھوںنے یواین آئی کے نمائندہ کو دیا تھا۔ ا س میں یہ انتباہ دیاگیا تھا کہ انڈیا کے لوگ اپنی غذائی عادتوں کی بنا پر پروٹینی فاقہ (protein hunger) کے خطرہ سے دوچار ہیں۔ اس بیان میں کہاگیا تھا کہ:
’’اگلے دو دہوں میںہندستان کو بہت بڑے پیمانہ پر ذہنی بونا پن (intellectual dwarfism) کے خطرہ کا سامنا کرنا ہوگا، اگر پروٹینی فاقہ کا مسئلہ حل نہیںہوا‘‘۔ یہ الفاظ ڈاکٹر ایم، ایم، سوامی ناتھن نے یو این آئی کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہے تھے جو انڈین ایگری کلچرل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (نئی دہلی) کے ڈائرکٹر رہ چکے ہیں۔انھوںنے کہا تھا کہ متوازن غذا کا تصور اگر چہ نیا نہیں ہے، مگر دماغ کے ارتقا ء کے سلسلہ میں اس کی اہمیت ایک نئی حیاتیاتی دریافت کی ہے۔ اب یہ بات قطعی ہے کہ چار سال کی عمر میں انسانی دماغ 80 فی صدسے لے کر 90 فیصد تک اپنے پورے وزن کو پہنچ جاتا ہے۔ اور اگر اس نازک مدت میں بچّہ کو مناسب پروٹین نہ مل رہی ہو تو دماغ اچھی طرح نشوونما نہیں پاسکتا— ڈاکٹر سوامی ناتھن نے کہا کہ مختلف نسلی گروہوں کے ذہنی فرق کا تقابلی مطالعہ مستقبل میںاس نقطۂ نظر سے بھی کرنا چاہیے۔اگر ناقص تغذیہ اور پروٹینی فاقہ کے مسئلہ پر جلد توجہ نہ دی گئی تو اگلے دو دہوں میں ہمیں یہ منظر دیکھنا پڑے گا کہ ایک طرف متمدن قوموں کی ذہنی طاقت (intellectual power) میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور دوسری طرف ہمارے ملک میں ذہنی بونا پن بڑھ رہا ہے۔نوجوان نسل کو پروٹینی فاقہ سے نکالنے میں اگر ہم نے جلدی نہ کی تو نتیجہ یہ ہوگا کہ ہر روز ہمارے یہاں دس لاکھ ذہنی بونے (intellectual dwarfs) وجود میں آئیں گے۔ اس کا بہت کچھ اثر ہماری نسلوں پر تو حالیہ برسوں ہی میں پڑ چکا ہوگا۔
پوچھا گیا کہ اس مسئلہ کا حل کیا ہے۔ ڈاکٹر سوامی ناتھن نے جواب دیا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنی کارروائیوں کے ذریعہ عوام کے اندر پروٹینی شعور(protein-consciousness) پیدا کرے۔ اور اس سلسلہ میں رائے عامہ کو بیدار کرے۔
غیر لحمی غذاؤں میں دالیں پروٹین حاصل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ اور حیوانی غذاؤں مثلاً دودھ میں زیادہ اعلیٰ قسم کا پروٹین پایا جاتا ہے۔ پروٹین کی ضرورت کا تخمینہ مقدار اور نوعیت دونوں کے اعتبار سے کرنا چاہیے۔ اوسط نشوونما کے لیے پروٹین کے مرکبات میں 80 قسم کے امینوایسڈ (amino acid) ہونا ضروری ہیں۔ انھوںنے کہا کہ غیر لحمی غذاؤں میں بعض قسم کے ایسڈ مثلاً لائسین (Lysine) اور میتھیونین(Methionine) کا موجود ہونا عام ہے، جب کہ جوار میں لائسین کی زیادتی اُن علاقوں میں بیماری کا سبب رہی ہے جہاں کی خاص غذا یہی اناج ہے۔
اگرچہ حیوانی غذا (دودھ) کا بڑے پیمانے پر حصول پسندیدہ چیز ہے، مگر ان کا حصول بہت مہنگا ہے۔ کیوں کہ نباتاتی غذا کو حیوانی غذا کی شکل دینے کے لیے بہت زیادہ قوت ضائع کرنی پڑتی ہے۔ ایگری کلچرل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں دنیا کے تمام حصوں سے گیہوں اور جوار کی قسمیں منگواکر جمع کی گئیں اور اس اعتبار سے ان کا تجزیہ کیاگیا کہ کس قسم میں کتنے امینو ایسڈ پائے جاتے ہیں۔ تحقیق سے ان میں دلچسپ فرق معلوم ہوا۔ ان میں پروٹین کی مقدار 7 فی صدسے لے کر 16 فی صد تک موجود تھی۔یہ بھی معلوم ہوا کہ نائٹروجن کی کھاد استعمال کرکے نصف کے قریب تک ان کا پروٹین بڑھایا جاسکتا ہے۔
کسانوں کے اندر پروٹینی شعور پیدا کرنے کے لیے ڈاکٹر سوامی ناتھن نے یہ تجویز بتائی تھی کہ گیہوں کی خریداری کے لیے قیمتوں کا تعین اس بنیاد پر کیا جائے کہ کس قسم میں کتنا پروٹین پایا جاتا ہے۔ انھوںنے بتایا کہ ایگری کلچرل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ غلّہ کے بعض بازاروں میں پروٹین جانچ کی ایک سروس جاری کرے گا اور جب اطمینان بخش حقائق جمع ہوجائیں گے تو یہ معیار (criterion) تعینِ قیمت کی پالیسی میں شامل کیا جاسکے گا۔ غلّے کی مقدار کو بڑھانے اور اس کی قسم (quality) کو بہتر بنانے کے دو طرفہ کام کو نسلی طورپر اس طرح مربوط کیا جاسکتا ہے کہ زیادہ فصل دینے والے اور زیادہ بہتر قسم کے اناج، باجرے اور دالوںکی کاشت کی جائے۔ذہنی بونے پن (intellectual dwarfism) کا جو خطرہ ہمیں درپیش ہے، اس کا مقابلہ کرنے کا یہ سب سے کم خرچ اور فوری طور پر قابلِ عمل طریقہ ہے‘‘۔ (اسٹیٹس مین ، دہلی ، 4 ستمبر1967)
ڈاکٹر سوامی ناتھن کے مذکورہ بیان کی اشاعت کے بعد مختلف اخبارات و رسائل میںاس پر تبصرے کیے گیے۔ نئی دہلی کے انگریزی اخبار انڈین اکسپریس (7 ستمبر 1967) نے اپنے اداریے میں جو کچھ لکھا تھا، اس کا ترجمہ یہاں نقل کیا جاتا ہے:
’’انڈسٹری کی طرح زراعت میں بھی ہمیشہ یہ ممکن نہیںہوتا کہ ایک متحرک پالیسی کے نتائج کا شروع ہی میں اندازہ کیا جاسکے۔ اس طرح جب مرکزی حکومت نے اناج کی قیمت کے سلسلے میں تائیدی پالیسی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا تو مشکل ہی سے یہ شبہہ کیا جاسکتا تھا کہ غلے کی بہتات کے باوجود پروٹینی فاقہ (protein hunger) کا مسئلہ سامنے آجائے گا— جیسا کہ انڈین ایگری کلچرل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر سوامی ناتھن نے نشاندہی کی ہے۔ غلوں پر زیادہ اعتماد سے ایسی صورت حال پیدا ہوگی جس سے اچھے کھاتے پیتے لوگ بھی ناقص تغذیہ (malnutrition) میں مبتلا ہوجائیں گے۔ جو لوگ پروٹینی فاقہ سے دوچار ہوں گے، جسمانی تکلیفات کے علاوہ ان کے ذہنوں پر بھی اثرات پڑیں گے۔ ڈاکٹر سوامی ناتھن کے بیان کے مطابق، یہ ہوگا کہ بچوںکی ذہنی صلاحیت پوری طرح نشو ونما نہیں پائے گی۔ چوں کہ انسانی دماغ اپنے وزن کا 80 فی صد سے لے کر 90 فی صد تک چار سال کی عمر کو پہنچتے پہنچتے پورا کرلیتا ہے، اس لیے اس کمی کے نتیجے میںایک بڑا نقصان حالیہ برسوں ہی میں ہوچکا ہوگا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہمارے ملک میں ذہنی بونا پن(intellectual dwarfism) وجود میں آجائے گا۔ اس چیز کو دیکھتے ہوئے موجودہ زرعی پالیسی پر نظر ثانی ضروری ہے۔
مگر وہ حد بندیاں (limitations) بھی بہت زیادہ ہیں جن میں حکومت کو عمل کرنا ہوگا۔ سب سے پہلے یہ کہ زرعی پیداوار کو حیوانی پروٹین میں تبدیل کرنا بے حد مہنگا ہے۔ حکومت نے اگرچہ متوازن خوراک (balanced diet) اور گوشت، انڈے اور مچھلی کے زیادہ استعمال کی ایک مہم چلائی ہے، مگر اس کے باوجود عوام اپنی غذائی عادتوں (food habits) کو بدلنے میں بہت سُست ہیں۔
عمومی طورپر بھوک کا مسئلہ جانوروں کو پالنے کی مہم چلانے میں اخراجات کا مسئلہ اور لوگوں کی غذائی عادتوں (food habits) کو بدلنے کی مشکلات وہ اسباب ہیں جن کی وجہ سے حکومت کو زراعت کی بنیاد پر اپنی پالیسی بنانی پڑتی ہے۔ مگر مستقبل قریب کو دیکھتے ہوئے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکومت سوامی ناتھن کی وارننگ کو نظر انداز نہ کرسکے گی۔ دُور رس نتائج کے اعتبار سے زراعتی پالیسی کی مشکلات کو، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اقتصادیات نہیں بلکہ سائنس حل کرے گی۔ تجربات سے معلوم ہوا ہے کہ اناج خاص طور پر گیہوں کو پروٹین سے مالا مال کیا جاسکتا ہے۔ کھاد جو کہ پیداوار بڑھانے کے لیے استعمال ہوتی ہے، وہ بھی گیہوں کے اندر پروٹین کے جزو کو بڑھاتی ہے۔
تاہم یہ امر مشتبہ ہے کہ صرف غلہ کی کاشت کے طریقہ میںتبدیلی اس مسئلہ کا جواب فراہم کرے گی۔ جب تک پروٹین کی اونچی اقسام رکھنے والے گیہوں دریافت نہ ہوجائیں۔ جب تک ایسا نہ ہو گورنمنٹ کو چاہیے کہ دالوں اور حیوانی پیداوار کی اسی طرح حوصلہ افزائی کرے جس طرح وہ اناج کی حوصلہ افزائی کررہی ہے‘‘۔(انڈین اکسپریس، 7 ستمبر 1967)
جیسا کہ معلوم ہے، ہندستان کو اگلے بیس برسوں میں ایک نیا انتہائی بھیانک خطرہ درپیش ہے، یہ خطرہ زرعی تحقیق کے ادارہ کے ڈائریکٹر کے الفاظ میں ’’ذہنی بونا پن‘ ‘ کا خطرہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری آ ئندہ نسلیں بظاہر جسمانی اعتبار سے دوسروں کے برابر ہوں گی، مگر ذہنی استعداد کے اعتبار سے ہم دنیا کی دوسری متمدن قوموں سے پست ہوچکے ہوں گے۔
یہ خطرہ جو ہمیں در پیش ہے، اس کی وجہ ڈاکٹر سوامی ناتھن کے الفاظ میں یہ ہے کہ ہماری غذا میں پروٹین کا جزء بہت کم ہوتا ہے، یہاں کی آبادی ایک قسم کے پروٹینی فاقہ میں مبتلا ہوتی جارہی ہے۔
پروٹین ایک غذائی جُز ہے جو انسانی جسم کی صحیح نشونما کے لیے ضروری ہے ۔ یہ پروٹین اپنی اعلیٰ ترین شکل میں گوشت سے حاصل ہوتا ہے۔ گوشت کا پروٹین نہ صرف قسم میں اعلیٰ ہوتا ہے، بلکہ وہ انتہائی وافر اور سستی مقدار میں دنیا کے اندر موجود ہے۔
واپس اوپر جائیں

خاتمہ

ہسٹری آف تھاٹ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ افکار کے اعتبار سے انسانی تاریخ کے دو دور ہیں۔ ایک قبل سائنس دور (pre-scientific era) اور دوسرا ،بعد سائنس دور (post-scientific era)۔ قبل سائنس دور میں لوگوں کو اشیا کی حقیقت معلوم نہ تھی، اس لیے محض قیاس آرائی کے تحت چیزوں کے بارے میں رائے قائم کرلی گئی۔ اس لیے قبل سائنس دور کو توہماتی دور (age of superstition) کہاجاتا ہے۔ مذکورہ اعتراض دراصل اسی قدیم دور کی ایک یادگار ہے۔ یہ اعتراض دراصل توہماتی افکار کی کنڈیشننگ کے تحت پیدا ہوا، جو روایتی طورپر اب تک چلا جارہا ہے۔
قدیم توہماتی دور میں بہت سے ایسے خیالات رائج ہوگئے جو حقیقت کے اعتبار سے بے بنیاد تھے۔ سائنسی دور آنے کے بعد ان خیالات کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ مثلاً شمسی نظام کے بارے میں قدیم جیوسنٹرک (geocentric) تھیوری ختم ہوگئی اور اس کی جگہ ہیلیو سنٹرک (heliocentric) تھیوری آگئی۔ اسی طرح ماڈرن کیمسٹری کے ظہور کے بعد قدیم آلکیمی ختم ہوگئی۔ اسی طرح ماڈرن ایسٹرانمی کے ظہور کے بعد قدیم اسٹرالوجی (astrology)کا خاتمہ ہوگیا، وغیرہ۔ مذکورہ اعتراض بھی اسی نوعیت کا ایک اعتراض ہے، اور اب یقینی طورپر اس کا خاتمہ ہوجانا چاہیے۔
گلیلیو سترھویںصدی عیسوی کا اٹیلین سائنٹسٹ تھا۔ اس نے قدیم ٹالمی کے نظریے سے اختلاف کرتے ہوئے یہ کہا کہ زمین شمسی نظام کے سنٹر میں نہیں ہے، بلکہ زمین ایک سیارہ ہے جو سورج کے گرد مسلسل گھوم رہا ہے۔ یہ نظریہ مسیحی چرچ کے عقیدہ کے خلاف تھا۔ اس وقت مسیحی چرچ کو پورے یورپ میں غلبہ حاصل تھا۔ چناںچہ مسیحی عدالت (inquisition) میں گلیلیو کو بلایا گیا اور سماعت کرنے کے بعد اس کو سخت سزا دی گئی۔ بعد کو اس کی سزا میں تخفیف کرکے اس کو اپنے گھر میں نظر بند (house arrest) کردیاگیا۔ گلیلیو اسی حال میں 8 سال تک رہا، یہاں تک کہ 1642ء میں وہ اندھا ہوکر مر گیا۔
اس واقعہ کے تقریباً 400 سال بعد مسیحی چرچ نے اپنے عقیدہ پر نظر ثانی کی۔ اس کو محسوس ہوا کہ گلیلیو کانظریہ صحیح تھا، اور مسیحی چرچ کا عقیدہ غلط تھا۔ اس کے بعد مسیحی چرچ نے سائنٹفک کمیونٹی سے معافی مانگی اور اپنی غلطی کا اعلان کردیا۔ یہی کام ان لوگوں کو کرنا چاہیے جو غلو آمیز ویجیٹیرین ازم (extremist vegetarianism) کے وکیل بنے ہوئے ہیں۔ یہ نظریہ اب سائنسی تحقیقات کے نتیجہ میں غلط ثابت ہوچکا ہے۔ اب ان حضرات کو چاہیے کہ وہ اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے سابق نظریہ سے رجوع کرلیں، ورنہ ان کے بارے میں کہا جائے گا کہ وہ سائنسی دور میں بھی توہم پرست (superstitious)بنے ہوئے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

سوال وجواب

سوال
ماہ نامہ الرسالہ، اکتوبر 2009 میں ’’فلسطین کا مسئلہ‘‘ کے عنوان سے لکھے گئے مضمون کو غور کے ساتھ پڑھا۔ اس میں فلسطین کی تاریخ کو بہت ہی اچھے اور معلوماتی انداز میں سلسلے وار بیان کیاگیا ہے جو قارئین کو قیمتی معلومات کے ساتھ ساتھ حقیقت سے آگاہ کرنے کا ذریعہ ہے۔ اِس مضمون کو پڑھ کر بہت سی غلط فہمیاں دور ہوئیں۔یہاں حسب ذیل سوالوں کا جواب مطلوب ہے:
1 - مسجد اقصی کے کیمپس میں صخرہ ایک چوکو رچٹان ہے۔ اِسی چٹان کو یہودی اپنے لئے مقدس سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہی وہ صخرہ ہے جس پر حضرت ابراہیم نے اپنے بیٹے اسحاق کی قربانی پیش کی تھی۔ اسلامی تاریخ میںاس قربانی کا مقام منیٰ بتایا گیا ہے۔ یہودیوں کے اس عقیدہ اور تاریخ کی بنیاد کیا ہے۔ کیا تورات میںاس کا ذکر موجود ہے۔
2 - مسجد اقصیٰ کو آپ نے یروشلم کی یہودی عبادت گاہ (ہیکل) بتایا ہے۔ قرآن میں مسجد اقصیٰ کا ذکر ہے جس کے معنی آپ نے دور کی مسجد (farthest place of worship) کے بتائے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ کون سا مقام یا مسجد ہے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کے موقع پر انبیائِ سابقین کو امامت کے ساتھ نماز پڑھائی تھی۔
3 - مسجد اقصیٰ میں نماز ادا کرنے پر، اور مسجدوں کے مقابلے میں 25 ہزار ، مسجد نبوی میں 50 ہزار اور مسجد حرام میں ایک لاکھ درجہ ثواب بتایا جاتا ہے۔ اس مسجد اقصیٰ سے کیا مراد ہے۔ (ابرار حسین قریشی، مدھیہ پردیش)
جواب
1 - یہ ایک عقیدے کی بات ہے، نہ کہ تاریخ کی۔ مسلمان، حضرت اسماعیل کو ذبیح مانتے ہیں اور منیٰ (مکہ) کو قربانی کا مقام قرار دیتے ہیں۔ اِس کے برعکس یہود، حضرت اسحاق کو ذبیح مانتے ہیں اور صخرہ (یروشلم) کو اس قربانی کا مقام قرار دیتے ہیں۔ حضرت اسحاق کے ذبیح ہونے کا ذکر یہود کے مقدس صحیفہ تورات کی کتاب پیدائش (Genesis) کے باب 22 میں موجود ہے۔
2 - پیغمبر آخر الزماں محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب (صلی اللہ علیہ وسلم) کی امامت میں انبیائِ سابقین کی نماز کا ذکر حدیث میں آیا ہے (صحیح مسلم، کتاب الإیمان، باب ذکر المسیح، رقم الحدیث: 278 ) یہ واقعہ غالباً 621 عیسوی میں پیش آیا۔ تاریخی شواہد کے مطابق، اُس وقت وہاں مسجد اقصیٰ کی موجودہ عمارت موجود نہ تھی۔ اُس وقت یہ مقام کھنڈر کی صورت میں تھا۔ اِس لیے یہ ماننا ہوگا کہ یہ نماز مسجد اقصٰی کی سائٹ (site) پر ہوئی، نہ کہ مسقَّف عمارت کے اندر۔
3 - قرآن میں مسجد اقصیٰ سے مراد مسجد کی سائٹ (site) ہے۔ حدیث میں جس اقصیٰ کا ذکر ہے، وہ حال کے اعتبار سے سائٹ کے معنی میں ہے اور مستقبل کے اعتبار سے مسقف مسجد کے معنی میں۔
جہاں تک نماز کی فضیلت کی بات ہے، اس کا تعلق مجرد طورپر صرف مقامات سے نہیں ہے، بلکہ ان مقامات کی تاریخی حیثیت سے ہے۔ مسجد حرام کی اہمیت یہ ہے کہ اس سے حضرت ابراہیم کی تاریخ وابستہ ہے۔ جب کوئی شخص مکہ جاکر مسجد حرام میں نماز ادا کرتا ہے تو اس کو اِس ابراہیمی تاریخ کی یاد آتی ہے۔ اِس بنا پر اس کی نماز میں غیر معمولی کیفیات پیدا ہوجاتی ہیں۔ اِنھیں بڑھی ہوئی کیفیات کی بنا پر مسجد حرام میں نماز کی اہمیت ہے، نہ کہ صرف درودیوار کے اعتبار سے۔
اِسی طرح مسجد نبوی سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ وابستہ ہے۔ وہاں جب آدمی نماز، پڑھتا ہے تو اس تاریخ کی یاد آدمی کے اندر غیر معمولی کیفیت پیدا کردیتی ہے۔ اِنھیں کیفیات کی بناپر مسجد نبوی کی نماز دوسری مساجد کی نماز سے بہت زیادہ مختلف ہوجاتی ہے۔
اِسی طرح مسجد اقصی سے اسرائیلی پیغمبروں کی تاریخ وابستہ ہے۔ جب کو ئی شخص مسجد اقصی میں نماز ادا کرتا ہے تو اِس تاریخ کی یاد اس کے اندر خصوصی کیفیات پیدا کردیتی ہے۔ اِس طرح یہاں ادا کی ہوئی نماز دوسری مسجدوں کی نماز سے مختلف ہوجاتی ہے۔
موجودہ زمانے میں عرب علماء نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ جب تک مسجد اقصی پر یہود کا قبضہ باقی ہے، اُس وقت تک باہر کے مسلمانوں کے لیے جائز نہیں کہ وہ سفر کرکے وہاں جائیں اور مسجد اقصی میں نماز ادا کریں۔ یہ فتویٰ بالکل بے بنیاد ہے، اس فتوے کی کوئی شرعی اہمیت نہیں۔ مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یروشلم کا سفر کیا اور وہاں نماز ادا کی، اُس وقت یہ جگہ رومیوں کے قبضے میں تھی۔ اگر رومیوں کے قبضہ کے باوجود مسجد اقصی کے مقام پر نماز پڑھنا جائز تھا تو یہود کے ’’قبضہ‘‘ کے وقت وہاں نماز ادا کرنا کیوں ناجائز ہوجائے گا۔ اِس قسم کے فتوے بلا شبہہ سیاسی فتوے ہیں، نہ کہ شرعی فتوے۔
موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں یہ افواہ پھیلی ہوئی ہے کہ اسرائیلی فوجی مسلمانوں کو مسجد اقصی کے اندر جانے نہیں دیتے، وہ مسلمانوں کو اِس عظیم سعادت سے محروم کئے ہوئے ہیں کہ وہ مسجد اقصیٰ میں جاکر نماز ادا کریں۔ یہ بلاشبہہ ایک خلافِ واقعہ بات ہے۔ مسجد اقصی میں مسلمانوں کے لیے نماز اداکرنے پر اسرائیل کی طرف سے کوئی پابندی نہیں۔ اگر پابندی ہے تو وہ سیاسی مظاہرہ کرنے پر ہے، نہ کہ وہاں نماز ادا کرنے پر۔ جو لوگ اِس قسم کی بے بنیاد باتیں کہیں، اُنھیں سوچنا چاہیے کہ کہیں وہ خدا کے یہاں مقعد ِ صدق (القمر: 55 ) پر جگہ پانے سے محروم نہ ہوجائیں، اور بلا شبہہ اِس سے بڑی کوئی محرومی نہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ آخرت کی دنیا میں صداقت کے مقام پر کھڑے ہونے کی سعادت صرف انھیں لوگوں کو ملے گی جنھوں نے اِس دنیا کی زندگی میں صداقت پر کھڑے ہونے کا ثبوت دیا ہو۔
سوال
الرسالہ نے میری زندگی بالکل بدل دی ہے۔ میں نے الرسالہ کے مختلف مضامین کا کئی بار مطالعہ کیا۔ الرسالہ کے ذریعے مجھے زندگی کا ایک راستہ ملا، اور یہ راستہ ان شاء اللہ جنت الفردوس تک جاکرختم ہوگا۔ آپ کے مضامین میں ایک لفظ نے مجھے برابر سوچنے پر مجبور کیا ہے، وہ لفظ ہے — اعراض۔ آپ اس لفظ کا استعمال الرسالہ میں اکثر کرتے ہیں۔ کیا اعراض پر آپ کی کوئی مکمل کتاب بھی ہے۔ اگر ہاں، تو نام ضرور بتائیں (فاروق عبد اللہ، چمپارن، بہار)
جواب
اعراض (avoidance) کی اہمیت کو سمجھنے میں اکثر لوگوں کو دقت پیش آتی ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ وہ اپنے غلط تصور کی بنا پر اعراض کو پسپائی کا ایک فعل سمجھتے ہیں، حالاں کہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے، اعراض ایک عبادت ہے۔ اعراض کرتے ہوئے اگر آدمی کو یہ احساس ہو کہ وہ عبادت کا ایک فعل کررہا ہے تو وہ اعراض کی پالیسی کو اطمینانِ قلب کے ساتھ قبول کرے گا۔ وہ کبھی اُس کے بارے میں کنفیوژن (confusion) کا شکار نہ ہوگا۔
اعراض کیا ہے۔ اعراض خدا کے فیصلے پر راضی ہونے کا دوسرا نام ہے۔ خدا نے دنیا کا نظام اِس طرح بنایا ہے کہ یہاں ہر ایک کو کامل آزادی حاصل ہے۔ کیوں کہ اِس دنیا میں انسان ٹسٹ (امتحان) کے لیے رکھا گیا ہے، اور آزادی کے بغیر کسی کا ٹسٹ نہیں لیا جاسکتا۔
اِسی آزادی کی بنا پر وہ مسائل پیدا ہوئے ہیں جن میں اعراض کا حکم دیاگیا ہے— کوئی اپنی آزادی کا غلط استعمال کرتا ہے، کوئی شخص اپنی بے جاروش سے ایسے اسباب پیدا کرتا ہے جس کے نتیجے میں لوگ بھڑک اٹھیں، کوئی شخص نفرت اور تشدد کی بولی بول کر دوسروں کو بھی نفرت اور تشدد میں مبتلا کردیتا ہے۔ یہی وہ مواقع ہیں جہاں اعراض کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔اعراض در اصل یہ ہے کہ نا خوش گوار حالات میں اپنے آپ کو ردّ عمل کی نفسیات سے بچایا جائے ، نا خوش گواریوں کے باوجود اپنے آپ کو اعتدال کی حالت پر قائم رکھا جائے۔
اعراض کی یہ روش اِس لیے ضروری ہے کہ اپنے آپ کو منفی راہوں میں بھٹک جانے سے بچایا جائے، اور اپنے آپ کو ہر حال میں مثبت عمل پر قائم رکھا جائے۔
اعراض کا طریقہ اختیار کرنے میں مشکل پیش آنے کی وجہ یہ ہے کہ کسی آدمی کے سامنے جب اِس طرح کی صورتِ حال آتی ہے تو وہ اس کو خدا کے تخلیقی پلان (creation plan of God) سے جوڑ کر دیکھ نہیں پاتا۔ وہ پیدا شدہ مسئلے کو صرف ایک انسان کا پیدا کردہ مسئلہ سمجھتا ہے، اِس بنا پر وہ اُس انسان کے خلاف منفی ذہن کا شکار ہوجاتا ہے۔ اِس کے برعکس، اگر آدمی یہ سوچے کہ یہ مسئلہ خدا کی دی ہوئی آزادی کی بنا پر پیش آیا ہے تو فوراً اس کا ذہن معتدل ہوجائے گا۔ جس مسئلے کو وہ پہلے ایک انسان کا پیدا کردہ مسئلہ سمجھ رہا تھا، اس کو معلوم ہوگا کہ وہ خود خدا کے تخلیقی پلان کے مطابق پیش آنے والا ایک مسئلہ ہے، وہ سادہ طورپر صرف کسی انسان کا پیدا کردہ مسئلہ نہیں۔
واپس اوپر جائیں

خبر نامہ اسلامی مرکز— 199

1 - جامعہ ملیہ اسلامیہ (نئی دہلی) میں یکم تا 9 اگست 2009 ایک بک فئر لگایا گیا۔ اِس میں گڈ ورڈ بکس (نئی دہلی) نے بھی اپنا اسٹال لگایا۔ اِس اسٹال پر کافی وزٹرس آئے ۔ یہاں بڑی تعداد میں لوگوں کو دعوتی لٹریچر دیاگیا۔
2 - انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (نئی دہلی) نے 16ستمبر 2009 کو اپنے دفتر واقع بہادر شاہ ظفر مارگ میں اسلام اور ہندوازم کے موضوع پر ایک ڈائلاگ کا انتظام کیا۔ اسلام کی نمائندگی صدر اسلامی مرکز نے کی اور ہندوازم کی نمائندگی شری شری روی شنکر نے کی۔ یہ ڈائلاگ ویڈیو کانفرنسنگ کی صورت میں ہوا۔ صدر اسلامی مرکز ٹائمس آف انڈیا کے آفس( نئی دہلی) میں تھے، اور شری شری روی شنکر بنگلور سے بول رہے تھے۔ اس ڈائلاگ میں دونوں نے حسب ذیل موضوعات پر اپنے اپنے مذہب کی نمائندگی کی— جہاد اور کروک شیتر کی مہابھارت،خدا کا تصور ،اسلام اور ہندوازم میں اور ڈیلی لائف کے لیے اسلام اور ہندو ازم کی تعلیمات ، وغیرہ۔ اخبار کے اسٹاف نے اِس ڈائلاگ کا ریکارڈ تیار کیا۔ وہ ٹائمس آف انڈیا کے ایک خصوصی شمارہ (The Crest Edition 26 Sep-2 Oct, 2009, p. 31) میں شائع کیا جائے گا۔ ڈائلاگ کے بعد اسٹاف کے لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔
3 - سرودھرم سنسد (نئی دہلی) کی طرف سے 17 ستمبر 2009 کو سری فورٹ آڈی ٹوریم (نئی دہلی)میں ایک آل انڈیا کانفرنس ہوئی۔ یہ کانفرنس عالمی امن کے موضوع پر تھی۔ اِس میں تقریباً 3 ہزار اعلیٰ تعلیم یافتہ غیرمسلم حضرات موجود تھے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اپنی ٹیم کے 12 افراد کے ساتھ اس میں شرکت کی اور موضوع پر ایک تقریر کی۔ سی پی ایس کی طرف سے حاضرین کو دعوتی لٹریچر اور قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔
4 - رمضان 1430 ہجری کے آخری جمعہ (18 ستمبر 2009) کو الرسالہ مشن سے وابستہ افراد نے دہلی اوراطراف کی مسجدوں کے علاوہ یوپی، بہار اور دیگر صوبوں میں رمضان کے موضوع پر اردو میں چھپے ہوئے بروشر تقسیم کئے۔ رمضان کے مہینے میں سی پی ایس کی طرف سے مختلف مساجدمیں ’’تذکیر القرآن‘‘ پہنچایا گیا۔ خاص طور پر پٹنہ اور پھلواری شریف (بہار) کی تقریباً 100 مساجد میں وہاں کے ساتھیوں نے تذکیر القرآن پہنچایا۔
5 - شری ستیہ سائی سیوا سمیتی کی طرف سے 19 ستمبر 2009 کو ’’روزہ اور عید الفطر‘‘ کے موضوع پر نوئیڈا کے سائی سنٹر (سیکٹر 21) میں ایک پروگرام ہوا۔ صدر اسلامی مرکز کو اس میں چیف گیسٹ کے طورپر بلایا گیا تھا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے سی پی ایس کی ٹیم کے افراد کے ساتھ اس پر وگرام میں شرکت کی اور روزہ و عید الفطر کے متعلق تعارفی انداز میں اسلام کی تعلیمات پر روشنی ڈالی۔ افطار کے بعد سائی سنٹر کے آشرم میں مغرب کی نماز با جماعت ادا کی گئی۔ یہاں افطار میں کچھ مقامی مسلمان بھی موجود تھے۔ اِس موقع پر حاضرین کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا گیا۔ مسلم افراد نے یہاں سے اردو لٹریچر اور تذکیر القرآن کے نسخے حاصل کیے۔سائی سیوا سمیتی کے ذمے داروں نے بڑے پیمانے پر قرآن کا انگریزی ترجمہ خرید کر اپنی لکھنؤ برانچ کو بھیجا ہے ۔
6 - سائی انٹرنیشنل سنٹر (نئی دہلی) میں 23 ستمبر 2009 کو حسب ذیل موضوع پر ایک پروگرام ہوا:
Basic Human Values in Islam
اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بنیادی اقدارِ انسانی کے موضوع پر ایک گھنٹہ تقریر کی۔ تقریر کے بعد سوال و جواب کا پروگرام ہوا۔ اِس موقع پر انڈیا کے مختلف مقامات کے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہندو پرنسپل موجود تھے۔ سی پی ایس کی طرف سے اُن کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔ پروگرام کے بعد ایک پرنسپل نے کھڑے ہو کر اِس ترجمہ قرآن کے لیے سی پی ایس کا شکریہ اداکیا۔ جنرل چھبر نے پرنسپل حضرات سے پرجوش طورپر کہا کہ —اِس کو پڑھیے اور دوسروں تک پھیلائیے۔
7 - بحرین کے ایگزی بیشن سنٹر (مناما) میں 30 ستمبر تا 9 اکتوبر 2009 ایک انٹرنیشنل بک فئر لگایا گیا۔ اِس بک فئر کوبحرین کے اخبار الایّام نے اسپانسر کیا تھا۔ یہاں گڈ ورڈ بکس (نئی دہلی) نے بھی اپنا اسٹال لگایا۔ اِس موقع پر بڑے پیمانے پر لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیاگیا۔ میڈیا نے اس کو نمایاں طورپر کور (cover)کیا۔
8 - سی پی ایس کی طرف سے بڑے پیمانے پر غیر مسلم حضرات تک قرآن کے انگریزی ترجمہ پہنچانے کا کام جاری ہے۔ ہمارے ساتھی مختلف مذاہب کے نمائندوں اور سیاسی رہنماؤں اور دیگر عالمی شخصیات سے رابطہ کرکے انھیں قرآن پہنچارہے ہیں۔ مثلاً یکم اکتوبر 2009 کوانڈیا کے مشہور سائنٹسٹ ڈاکٹر سوامی ناتھن کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔ اِسی طرح نیوجرسی (امریکا) کی خاتون ایسٹرڈ (Astrid Thoening) کو ان کے سو سالہ یومِ پیدائش کے موقع پر بذریعہ ڈاک انگریزی قرآن کا ایک نسخہ روانہ کیاگیا۔
9 - نئی دہلی کے تھنکرس فورم (Thinkers' Forum on Peace and Non-Violence) کی طرف سے یکم اکتوبر 2009 کو ایک سیمنار ہوا۔ یہ سیمنار یو این ڈی پی بلڈنگ (لودھی اسٹیٹ، نئی دہلی) کے یو این کانفرنس ہال میں کیاگیا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ سیمنار کا موضوع یہ تھا:
Challenges to Peace and Coexistence: The Option of Non-violence
انگریزی زبان میں صدر اسلامی مرکز کی آدھ گھنٹے کی تقریر کے بعد سوال وجواب کا پروگرام ہوا۔ اِس موقع پر سی پی ایس انٹرنیشنل (نئی دہلی) کی طرف سے حاضرین کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا گیا۔ حاضرین میں ہندو اور مسیحی مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ موجودتھے۔ انھوں نے شکریہ کے ساتھ قرآن کے نسخے حاصل کیے۔ کئی لوگوں نے قرآن کی تین تین کاپیاں لیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ نسخے ہم اپنے ساتھیوں کو دیں گے۔
10 - انڈین بدھسٹ سوسائٹی (ISBS) کی طرف سے کشمیر یونی ورسٹی میں 5-7 اکتوبر 2009 کو ایک کانفرنس ہوئی۔ یہ کانفرنس امن کے موضوع پر تھی۔ اِس موقع پر کشمیر کے حلقہ الرسالہ سے وابستہ افراد نے بڑے پیمانے پر حاضرین کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا۔
11 - جامعہ کمیونٹی سنٹر (نئی دہلی) میں 9 اکتوبر 2009 کی شام کو نکاح کی ایک تقریب تھی۔ اس کی دعوت پر صدراسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ یہاں سی پی ایس کی طرف سے حاضرین کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور اسلامی لٹریچر دیاگیا۔
12 -کرزن روڈ(نئی دہلی) پر واقع مسجد کستوربا گاندھی مارگ کے احاطے میں 10 اکتوبر 2009 کو ایک تعزیتی پروگرام ہوا۔ یہ پروگرام مولانا جمیل احمد الیاسی (وفات 18 اگست 2009) کے بارے میں تھا۔ اِس پروگرام میں دہلی اور اطراف کے ائمہ مساجد کے علاوہ مختلف مذاہب کے مذہبی اور سیاسی رہنما موجود تھے۔ سی پی ایس کے کچھ افراد نے اِس پروگرام میں شرکت کی اورحاضرین کو مطالعے کے لیے حسب ذیل لٹریچر دیاگیا —انگریزی ترجمہ قرآن، پوتر قرآن (ہندی)، آخرت کا سفر، مقصد حیات، اپنی تعمیر آپ، مسلمان کی اصل حیثیت، با اصول زندگی، ستیہ کی کھوج، ریلٹی آف لائف۔ اِس موقع پر ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی کو بھی قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا ۔
13 - انڈیا اسلامک کلچرل سنٹر (نئی دہلی) میں 10 اکتوبر 2009 کو ایک فنکشن ہوا۔ یہ فنکشن ویب وار تا (webvarta) کے افتتاح کے طورپر کیاگیا جو ایک آن لائن نیوز ایجنسی ہے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور ایک مختصر تقریر کی۔ سی پی ایس کے ممبروں نے اِس موقع پر حاضرین کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور اسلامی لٹریچر مطالعے کے لیے دیا۔
14 - شری مدھیہ بھارت ہندی سمیتی گراؤنڈ (اندور) میں 12-20 ستمبر 2009 ایک بک فئر لگایا گیا۔ اِس موقع پر گڈ ورڈ بکس (نئی دہلی) نے اپنابک اسٹال لگایا۔ اسٹال پر بڑی تعداد میں وزٹرس (visitors)آئے۔ یہاں آنے والے لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی پمفلٹ اور بروشر دیاگیا۔
15 - فرینکفرٹ (جرمنی) میں 14-18 اکتوبر 2009 کے درمیان ایک انٹرنیشنل بک فئر لگایا گیا۔ اِس موقع پر گڈورڈ بکس (نئی دہلی) نے بھی اپنا اسٹال لگایا۔ یہاں دنیا بھر سے پبلشنگ ٹریڈ (publishing trade) سے وابستہ لوگ آئے ہوئے تھے۔ بک فئر میں بڑی تعداد میں لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔ لوگوں نے بہت شوق سے اس کو لیا۔ ایک صاحب کو قرآن کا نسخہ دیاگیا تو انھوں نے کہا:
I love to read the Quran, as it is so much in the news.
16 - سی پی ایس کے کچھ افراد 20 اکتوبر 2009 کو نئی دہلی کے نہروپلینٹیریم (Nehru Planetarium) گئے۔ یہاں انھوں نے لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیا۔
17 - مرکز الدوحۃ الدولی لحوار الادیان (Doha International Center for Interfaith Dialogue) کی طرف سے 20-21 اکتوبر 2009 کو دوحہ (قطر) میں التضامن الإنسانی (Human Solidarity) کے موضوع پر ایک انٹرنیشنل کانفرنس ہوئی۔ اِس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اِس کانفرنس میں شرکت کی۔ اِس سفر کی تفصیل ان شاء اللہ سفر نامے کے تحت الرسالہ میں شائع کردی جائے گی۔
واپس اوپر جائیں