Pages

Friday, 2 April 2010

Al Risala | April 2010 (الرسالہ،اپریل)

2

-عجز اور اختیار

3

- ایک انسانی کمزوری

4

- موت کی یاد

5

- آخرت کا ائرپورٹ

6

- قرآن میں غور وفکر

7

- دوانتظامات

8

- ربّانی دعاء

9

- خیر ِ امت

14

- کتمانِ حق

15

- موت کا سبق

16

- معرفتِ اعلیٰ کی مثال

17

- دل ایک معجزہ

18

- موت کا زندہ تصور

19

- ذہنی افق

20

- گرہن ایک خدائی معجزہ

25

- دورِ جدید کا شجرِ ممنوعہ

26

- کارٹونسٹ کے لیے تحفہ

27

- سیاسی فتنہ

28

- امن، انصاف

29

- بچوں کا بگاڑ

30

- مواقع سے بے خبری

31

- زمین کی زرخیز سطح

32

- صحیح مشورہ

33

- قناعت، عدم قناعت

34

- اپنے آپ کو جانئے

35

- نفسیاتی خود کشی سے بچئے

36

- سوال وجواب

42

- خبرنامہ اسلامی مرکز


عجز اور اختیار

قرآن کی سورہ نمبر 35 کی ایک آیت یہ ہے: یا أیّہا الناس أنتم الفقراء إلی اللہ، واللہ ہو الغنی الحمید (فاطر: 15 ) یعنی اے لوگو، تم سب اللہ کے محتاج ہو۔ اور اللہ بہت بے نیاز اور تعریف والا ہے۔ یہی بات ایک حدیث میں اِن الفاظ میں آئی ہے: یا عبادی، کلّکم ضالّ، إلا مَن ہدیتُہ، فاستہدونی أہدِکم۔ یا عبادی، کلّکم جائع إلا من أطعمتہ، فاستطعمونی أطعمکم۔ یاعبادی، کلّکم عارٍ إلاّ من کسوتہ، فاستکسونی أکسُکم (صحیح مسلم، کتاب البرّ، باب تحریم الظلم) یعنی اے میرے بندو، تم سب کے سب بھٹکے ہوئے ہو، سوا اُس کے جس کو میں راہ دکھاؤں۔تم مجھ سے رہنمائی مانگو، میں تم کو رہنمائی دوں گا۔ اے میرے بندو، تم سب کے سب بھوکے ہو، سوا اس کے جس کو میں کھلاؤں۔ تم مجھ سے کھانا طلب کرو، میں تم کو کھانا دوں گا۔ اے میرے بندو، تم سب کے سب عاری ہو، سوا اُس کے جس کو میں پہناؤں۔ تم مجھ سے طلب کرو، میں تم کو پہناؤں گا۔
اللہ نے انسان کو ہر اعتبار سے ایک کامل وجود دیا، لیکن انسان کو کسی بھی اعتبار سے ذاتی اختیار حاصل نہیں۔ انسان مکمل طورپر ایک عاجز مخلوق ہے۔ اِس عجز کی تلافی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے۔ موجودہ دنیا میں اِس عجز کی تلافی بقدر ضرورت کی گئی ہے، جس کا اشارہ قرآن کی اِس آیت میں موجود ہے: واٰتاکم من کلّ ما سألتموہ (ابر اہیم: 34 )۔ آخرت میں اہلِ جنت کے لیے اِس عجز کی تلافی بقدر خواہش کی جائے گی، جیسا کہ قرآن میں آیا ہے: ولکم فیہا ما تشتہی أنفسکم (حم السجدۃ: 31 )۔
اِسی حقیقت کی دریافت سب سے بڑی معرفت ہے۔ قادرِ مطلق خدا کے مقابلے میں، اپنے عجزِتام کو شعوری طورپر دریافت کرنا، یہی معرفت کاآغاز ہے۔ اِس دریافت کے بغیر کسی انسان کے اوپر معرفت کا دروازہ نہیں کھلتا— معرفت سے بہرہ مند لوگوں کے لیے جنت ہے، اور معرفت سے بے بہرہ لوگوں کے لیے جہنم۔
واپس اوپر جائیں

ایک انسانی کمزوری

عورت اور مرد دونوں میں یہ کمزوری بہت عام ہے کہ وہ مثبت تجربے کے وقت اعتراف کا کلمہ نہیں بولتے، لیکن اگر اُنھیں کوئی منفی تجربہ ہو تو وہ فوراً بے اعترافی کی بولی بولنے لگتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے۔ اِس کا جواب قرآن کی سورہ نمبر 89 سے معلوم ہوتا ہے۔ انسان کی اِس کمزوری کا ذکر کرتے ہوئے قرآن میں ارشاد ہوا ہے: فأمّا الإنسان إذا ما ابتلاہ ربّہ فأکرمہ ونعّمہ فیقول ربّی أکرمن۔ وأمّا إذا ماابتلاہ فقدر علیہ رزقہ فیقول ربّی أہانن (الفجر: 15-16 ) یعنی انسان کا حال یہ ہے کہ جب اس کا رب اس کو آزماتا ہے اور اُس کو عزت اور نعمت دیتاہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھ کو عزت دی۔ اور جب وہ انسان کو آزماتا ہے اور اُس کا رزق اس پر تنگ کردیتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھ کو ذلیل کردیا۔
اصل یہ ہے کہ ہر عورت اور مرد، شعوری یا غیر شعوری طورپر، اپنے لیے استحقاق کا ایک درجہ مان لیتے ہیں۔ یہ درجہ ہمیشہ اپنے بارے میں برتر اندازہ(overestimation) پر قائم ہوتاہے۔ اِس بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ جب اُن کو دنیا کی نعمتوں میں سے کوئی نعمت ملتی ہے تو وہ سمجھتے ہیں کہ ایسا اِس لیے ہوا کہ میںاُس کا مستحق تھا، میرے ساتھ ایساہونا ہی چاہیے تھا۔
اِس کے برعکس، جب وہ ایک نعمت سے محروم ہوجاتے ہیںتو وہ اپنے مزاج کی بنا پر یہ سمجھتے ہیں کہ ایک چیز جس کا میں مستحق تھا، وہ مجھ کو نہیں ملی۔ اِس طرح، دونوں حالتوں میں ان کا رویہ غلط ہوجاتا ہے۔ پانے کے موقع پر وہ بے اعترافی کا شکار ہوجاتے ہیں اور نہ پانے کے موقع پر وہ شکایت کرنے لگتے ہیں۔
صحیح یہ ہے کہ آدمی کو جب کوئی چیز ملے تو اُس کے اندر شکر کی نفسیات پیدا ہو اور اس کا اظہار وہ اعتراف کے کلمات کے ساتھ کرے، اور جب اس کو محرومی کا تجربہ ہو تو وہ صبر کرے اور مزید اضافے کے ساتھ اللہ کی طرف متوجہ ہوجائے۔ یہی اِس معاملے میں ایک خدا پرست انسان کا طریقہ ہے۔
واپس اوپر جائیں

موت کی یاد

قرآن کی سورہ نمبر 3 میںیہ آیت آئی ہے: کلّ نفس ذائقۃ الموت (آل عمران: 185) یعنی ہر انسان موت کا ذائقہ چکھنے والا ہے۔ موت کے بارے میں بہت سی روایتیں آئی ہیں۔ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں: أکثروا ذکرَ ہاذم اللّذاتِ، الموت (الترمذی، النسائی، ابن ماجہ، مشکاۃ المصابیح، رقم الحدیث: 1607 ) یعنی موت کو بہت زیادہ یاد کرو جو لذتوں کو ڈھا دینے والی ہے۔
اِس کا مطلب دوسرے لفظوں میں یہ ہے کہ — موت کو بہت زیادہ یاد کرو جو مبنی برخواہش سوچ کو ڈھانے والی ہے، اور مبنی بر حقیقت سوچ کو پیدا کرنے والی ہے:
Remember death much. It demolishes desire-based thinking, and produces reality-based thinking.
لذت (pleasure) کو وسیع معنی میں لیاجائے تو اِس میں انسان کی تمام سرگرمیاں شامل ہوجاتی ہیں۔ ہر کام جو آدمی کرتا ہے، وہ اِسی لیے کرتا ہے کہ اس میں کہیں نہ کہیں اس کو لذت مل رہی ہوتی ہے۔ معلوم مادی لذتوں کے علاوہ، وہ تمام چیزیں بھی اِس فہرست میں شامل ہیں جو بظاہر غیر مادی نظر آتی ہیں۔ مثلاً عزت، شہرت، اقتدار، اسٹیج، سماجی رتبہ، مقبولیت، عوامی استقبال، وغیرہ۔ غرض تمام مادی اور غیر مادی چیزیں اِس فہرستِ لذت میں شامل ہیں۔ اگر لذت نہ ملے تو آدمی کوئی کام نہیں کرے گا۔
اِس طرح موت کا احساس آدمی کو آخری حد تک سنجیدہ اور حقیقت پسند بنا دیتا ہے۔ وہ کسی ایسی چیز کواپنا ہدف نہیںبنا سکتا جو آج ملے اور کل کے دن وہ مکمل طورپر اُس سے چھن جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ موت کی حیثیت کسی عورت یا مرد کے لیے سب سے بڑے معلم (teacher) کی ہے۔ موت کا تصور آدمی کے اندر انقلاب پیدا کردینے والا ہے۔
واپس اوپر جائیں

آخرت کا ائرپورٹ

ایک بار میں ہوائی جہاز سے سفر کرتے ہوئے ایک ائر پورٹ پر اترا۔ میںاور دوسرے اکثر مسافر ضروری مراحل سے گزرتے ہوئے باہر آگئے، لیکن چند مسافر ایسے تھے جن کو ائر پورٹ پر روک لیاگیا۔ اُن سے کہا گیا کہ آپ لوگ یہاں ٹھہریے، آپ لوگوں کی خصوصی چیکنگ ہوگی۔ ان افراد کے بارے میں کوئی خفیہ اطلاع ملی تھی، جس کی وجہ سے ائر پورٹ کے عملہ نے اُن کے ساتھ ایسا کیا۔ ائر پورٹ پر یہ منظر دیکھ کر مجھے قرآن کی ایک آیت یاد آئی۔ وہ آیت یہ تھی: وقفوہم، إنہم مسئولون (الصّافات: 24 ) یعنی ان لوگوں کو ٹھہراؤ، ان سے کچھ پوچھنا ہے۔
غور کیجئے تو زندگی کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ انسان جس زمین پر آباد ہے، وہ اپنے محور پر ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے مسلسل گھوم رہی ہے۔ گویا کہ ہم ایک ایسے ہوائی جہاز پر سوار ہیں جو تیزرفتاری کے ساتھ ایک ا ئر پورٹ کی طرف چلا جارہا ہے۔ یہ ائر پورٹ آخرت کا ائر پورٹ ہے۔ ایک وقت آئے گا، جب کہ تمام انسان آخرت کے ائر پورٹ پر اتار دئے جائیں گے۔یہاں یہ واقعہ ہوگا کہ کچھ لوگوں سے کہا جائے گا کہ تم یہاں ٹھہرو، تم سے ابھی پوچھ گچھ ہونے والی ہے۔ دوسری طرف، کچھ ایسے خوش نصیب لوگ ہوں گے جن کا استقبال فرشتے یہ کہہ کر کریں گے: سلام علیکم، طبتم، فادخلوہا خالدین (الزمر: 73 ) یعنی تم پر سلامتی ہو، تم شاد رہو، پس ہمیشہ کے لیے جنت میں داخل ہوجاؤ۔
یہ صورتِ حال سارے انسانوں کے ساتھ پیش آنے والی ہے۔ دنیا کے سفروں کا وقت مقرر رہتا ہے، لیکن آخرت کے اس سفر کا وقت مقرر نہیں۔ کسی بھی لمحہ انسان کے اوپر وہ وقت آسکتا ہے، جب کہ زندگی کا جہاز آخرت کے ائر پورٹ پر اتر جائے اور پھر وہاں کچھ لوگ پوچھ گچھ کے لیے روک لئے جائیں اور کچھ لوگوں کو فرشتے خوش آمدید کہتے ہوئے جنت میں داخل کردیں۔ بلاشبہہ یہی وہ سب سے بڑی بات ہے جس پر ہر عورت اور مرد کو سوچنا چاہئے، اور جس کے مطابق اپنی زندگی گزارنا چاہیے۔ آنے والاوقت اعلان کے بغیر کسی بھی وقت آجائے گا اور پھر کسی کے لیے یہ موقع نہ ہوگاکہ وہ لوٹ کر دوبارہ پیچھے کی طرف جاسکے۔
واپس اوپر جائیں

قرآن میں غور وفکر

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کتاب اِس لیے اتاری کہ اہلِ عقل اس کی آیتوں پر غور کریں اور اس سے نصیحت حاصل کریں (ص: 29 ) یہ ایک حقیقت ہے کہ قرآن میں گہری نصیحت موجود ہے، لیکن اِن نصیحتوں کو جاننے کے لیے ضروری ہے کہ قرآن کی آیتوں پر مسلسل غور کیا جائے۔
اِس معاملے کی ایک سادہ مثال یہ ہے کہ قرآن کی سورہ نمبر 2 میں بتایاگیا ہے کہ آدم کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کرنے کہ بعد جنت میں بسایا تھا، لیکن آدم نے اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کی۔ اِس کے نتیجے میں وہ گنہ گار ہوگئے۔ اِس کے بعد قرآن میں یہ آیت آئی ہے: فتلقّی آدم من ربہ کلمات فتاب علیہ، إنہ ہو التواب الرحیم (البقرۃ: 37 ) یعنی پھر آدم نے اللہ سے کچھ کلمات حاصل کئے تو اللہ اُس پر متوجہ ہوا۔ بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا، رحم کرنے والاہے۔
اگر آپ اِس آیت کو صرف تلاوت کے طورپر نہ پڑھیں، بلکہ اُس پر غور کریں تو آپ کے دل میں فوراً یہ سوال پیدا ہوگاکہ وہ کلماتِ دعا کیا تھے جو خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے آدم کو ملے۔ یہ کلماتِ دعااتنے موثر تھے کہ اس کو ادا کرنے کے بعد آدم کا گناہ معاف ہوگیا اور وہ دوبارہ اللہ کی رحمت کے مستحق قرار پائے۔
جب آپ اِس طرح غور کریں گے تو آپ پر کھلے گا کہ اِس الہامی دعاء کے کلمات اگرچہ یہاں مذکور نہیں ہیں، لیکن وہ قرآن میں دوسرے مقام پر بتادئے گئے ہیں۔ یہ دوسرا حوالہ ہم کو قرآن کی سورہ نمبر 7 میں اِن الفاظ کے ساتھ ملتا ہے: ربّنا ظلمنا أنفسنا، وإن لم تغفر لنا وترحمنا، لنکونن من الخاسرین (الأعراف: 23 )، یعنی آدم اور حوا نے دعاکرتے ہوئے کہا، اے ہمارے رب، ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا، اور اگر تو ہم کو معاف نہ کرے او رہم پر رحم نہ کرے تو ہم گھاٹا اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے— قرآن کو غور وفکر کے ساتھ پڑھا جائے تو قرآن آدمی کے لیے دریافت کی کتاب بن جائے گا، اور بلا شبہہ دریافت سے بڑی کوئی چیز انسان کے لیے نہیں۔
واپس اوپر جائیں

دوانتظامات

انسان کو اللہ تعالیٰ نے خصوصی عنایات کے ساتھ پیدا کیا۔ یہ عنایتیں بنیادی طورپر دو قسم کی ہیں۔ اُن میں سے ایک کو قرآن میں احسنِ تقویم (التین:4 ) کہاگیا ہے۔ اور دوسری عنایت کے لیے قرآن کی اِس آیت میں اشارہ ہے: واٰتاکم من کلّ ما سألتموہ (إبراہیم: 34) یعنی خدا نے تم کو وہ سب کچھ دیا جو تم نے اُس سے مانگا۔
احسنِ تقویم کو دوسری جگہ صورتِ احسن (الزمر:64 ) کے لفظ میں بیان کیا گیا ہے۔ اِس سے مراد یہ ہے کہ انسان کو نہایت موزوں جسم دیاگیا ہے۔ انسانی جسم بہت سے آرگن (organs) یا نظامات کا مجموعہ ہے۔ مثلاً دیکھنے کا نظام، سننے کا نظام، سانس لینے کا نظام، بولنے کا نظام، ہضم کا نظام، گردشِ خون کا نظام، حرکت کا نظام، وغیرہ۔ انسان کی عمر جب بڑھتی ہے تو ایک ایک نظام معطّل ہونے لگتا ہے، یہاں تک کہ سارے نظام معطل ہوجاتے ہیں اور انسان کی موت واقع ہوجاتی ہے۔
دوسرا انتظام وہ ہے جو انسانی وجود کے باہر خارجی دنیامیں کیا گیا ہے۔ مثلاً روشنی اور حرارت کا نظام، ہوا کانظام، آکسیجن کی سپلائی کا نظام، پانی اور بارش کا نظام، زراعت کا نظام، وغیرہ۔یہ خارجی نظامات انسانی زندگی کے لیے لازمی طورپر ضروری ہیں۔ یہ نظامات اگر جزئی یا کلی طورپر معطل ہوجائیں تو انسانی زندگی کا خاتمہ ہوجائے۔
مذکورہ تقسیم میں دوسرے نظام کو لائف سپورٹ سسٹم (life support system) کہا جاتا ہے۔ اِسی طرح پہلے نظام کو آرگن سپورٹ سسٹم (organ support system) کہا جاسکتا ہے۔ اِنھیں دونوں انتظامات پر انسان کی زندگی قائم ہے۔
اِن دونوں انتظامات کو گہرائی کے ساتھ جاننا، آدمی کے لیے معرفت کا دروازہ کھولتا ہے۔ اِس کے نتیجے میں شکر کے اعلیٰ جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ اِس سے آدمی کے اندر تمام مثبت صفات پیدا ہوتی ہیں۔ مثلاً تواضع، سنجیدگی، اعترافِ حق، وغیرہ۔
واپس اوپر جائیں

ربّانی دعاء

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ آدم سے جب یہ غلطی ہوئی کہ انھوں نے شجر ممنوعہ کا پھل کھالیا تو اچانک وہ اللہ کی رحمت سے محروم ہوگئے۔ اس کے بعد ان کو سخت ندامت ہوئی اور انھوں نے اللہ سے معافی کی دعاء کی۔ اِس سلسلے میں قرآن کے الفاظ یہ ہیں: فتلقّی آدم من ربّہ کلمات فتاب علیہ، إنہ ہو التواب الرحیم (البقرۃ: 37 )۔
اِس آیت میں تلقّی کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ تلقّی کے لفظی معنی ہیں ملنا (to receive)، یعنی آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمات اخذ کئے ، پھر اس کے مطابق، دعاء کی تو اللہ نے ان کی دعاء کو قبول فرمایا۔ یہاں یہ سوال ہے کہ اِس تلقّی کی صورت کیا تھی۔اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ نے آواز دے کر آدم کو بتایا، یا کوئی فرشتہ آیا اور اس نے انھیں اِن کلمات کی تلقین کی۔یہاں اِس قسم کا مفہوم لینا درست نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ الہام (inspiration) کا ایک معاملہ تھا۔ اِسی طرح کے معاملے کی بابت امام مالک بن انس نے کہا ہے: نورٌ یُلقیٰ فی قلب المؤمن۔یعنی یہ ایک روشنی ہے جو مومن کے دل میں ڈالی جاتی ہے۔ جب کسی بندے پر شدید انابت طاری ہوتی ہے، وہ گریہ و زاری کے ساتھ اللہ کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے، وہ آخری حد تک اپنے آپ کو اللہ کے آگے ڈال دیتا ہے، اُس وقت نفسیات کی سطح پر اس کے اوپر ربّانی کیفیات طاری ہوتی ہیں۔ یہ کیفیات کچھ خاص الفاظ میں ڈھل جاتی ہیں۔ اِسی کو ربانی دعا کہاجاتا ہے۔اس قسم کی ربانی دعا ء اپنے آپ میں قبولیت کی پیشگی خبر ہوتی ہے۔
اِس قسم کی ربانی دعاء کی توفیق کس کو ملتی ہے۔ یہ توفیق اُس شخص کو ملتی ہے جو اپنے آپ کو کامل عبدیت کے مقام پر پہنچائے، جو اِس حقیقت کو کامل سطح پر دریافت کرے کہ وہ پانے والا ہے اور خدا دینے والا۔ اِس قسم کا گہرا احساس جب آدمی کے اوپر طاری ہو تو وہ ایک ایسا لمحہ ہوتاہے جب کہ بندے کا خصوصی تعلق اللہ سے قائم ہوجاتا ہے۔ اُس وقت اس کی زبان سے ذکر ودعاء کے الہامی الفاظ نکلنے لگتے ہیں۔ اِسی کا نام ربانی دعاء ہے۔
واپس اوپر جائیں

خیر ِ امت

قرآن کی سورہ نمبر 3 کی ایک آیت اِن الفاظ میں آئی ہے: کنتم خیر أمۃ أخرجت للناس، تأمرون بالمعروف، وتنہون عن المنکر، وتؤمنون باللّٰہ (آل عمران: 110 ) یعنی تم بہترین گروہ ہو، جس کو لوگوں کے واسطے نکالا گیا ہے۔ تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
قرآن کی اِس آیت میں، خیر امت کا مطلب خیر الامم یا افضل الامم نہیں ہے۔ قرآن کے یہ الفاظ دراصل امت کی مسئولیت (responsibility) کو بتاتے ہیں۔ اِس مسئولیت کی طرف اشارہ ’النّاس‘ کے لفظ میں پایا جاتا ہے، یعنی لتکونوا شہداء علی الناس (البقرۃ: 143 )۔ اِس آیت کے ذریعے یہ اعلان کیا گیا کہ خاتم النبیین کے بعد پیغمبرانہ رول کی ادائیگی کے لیے امت محمدی کا تقرر کیاگیا ہے۔ پیغمبرکا کام شہادت علی الناس تھا۔ اب شہادت علی الناس کا یہی کام امت محمد ی کو قیامت تک انجام دیتے رہنا ہے (لیکون الرسول شہیداً علیکم، وتکونوا شہداء علی الناس)۔
لیکن امتِ محمدی کسی جامد گروہ کا نام نہیں ہے۔ دوسرے انسانی گروہوں کی طرح، امت محمدی میں بھی موت وحیات کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اِس طرح ایسا ہوتا ہے کہ ایک نسل اپنی عمر پوری کرکے ختم ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد اس کی جگہ دوسری نسل آجاتی ہے۔ اِس طرح توالد و تناسل کے ذریعے یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ امت کی حیثیت حکماً تو ہمیشہ یکساں طورپر باقی رہتی ہے، لیکن امت کے افراد ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں۔ مثلاً صحابہ کے گروہ کے بعد تابعین کا گروہ، تابعین کے گروہ کے بعد تبع تابعین کا گروہ، اور تبع تابعین کے گروہ کے بعد ہر دور کے دوسرے مسلم گروہ۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہم عصر مسلم گروہ (صحابہ) کی تربیت براہ راست کی تھی۔ اِس پیغمبرانہ تربیت کو قرآن میں تزکیہ (البقرۃ: 129 ) کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ پیغمبراسلام کی تربیت کے ذریعے صحابہ خیر امت کی پہلی ٹیم بنے۔ اب سوال یہ ہے کہ بعد کی نسلوں کو دوبارہ خیر امت کا مصداق بنانے کا طریقہ کیا ہوگا۔ یہی وہ بات ہے جس کو آیت کے اگلے حصے میں ان الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: تأمرون بالمعروف وتنہون عن المنکر۔اس آیت میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے مراد تآمُر بالمعروف اور تناہی عن المنکر ہے، یعنی اہلِ ایمان کا آپس میں ایک دوسرے کے اوپر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینا۔ اِس سے مراد دراصل داخلی تربیت کا نظام ہے۔ دوسرے الفاظ میں، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی حیثیت اصلاحی تدابیر (corrective measures) کی ہے جو امت کو نسل درنسل مسلسل طورپر حالتِ خیر پر باقی رکھنے کی ضمانت ہے۔
’خیر أمّۃ ‘سے مراد امت کی نمائندہ حیثیت ہے۔ ’للناس‘ کے لفظ میں یہ اشارہ ہے کہ اِس امت کا خارجی نشانہ شہادت علی الناس ہے۔ ’تأمرون بالمعروف، وتنہون عن المنکر‘ کے الفاظ میں، داخلی تربیت کے نظام کو بتایاگیا ہے۔ ’تؤمنون باللہ‘ سے مراد امت کے افرادمیں زندہ ایمان کو مسلسل طورپر باقی رکھنا ہے۔ یہی نظام امت کو، خیر امت کی حالت پر باقی رکھنے کی ضمانت ہے۔ امت کے اندر اگر امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا نظام باقی نہ رہے تو اللہ کے نزدیک امت کی حیثیت العیاذ باللہ، ملعون امت کی بن جائے گی، نہ کہ خیر امت کی۔ یہ انتباہ خود قرآن اور حدیث میں واضح طورپر دیاگیا ہے۔
اِس معاملے کی سنگینی ایک حدیثِ رسول سے معلوم ہوتی ہے۔ یہ روایت الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ الترمذی کے الفاظ یہ ہیں: لما وقعتْ بنو إسرائیل فی المعاصی نہتہم علمائہم فلم ینتہوا، فجالسوہم فی مجالسہم، واٰکلوہم وشاربوہم، فضرب اللہ قلوبَ بعضہم ببعض، فلعنہم علی لسان داؤد وعیسی ابن مریم ذلک بما عصوا وکانوا یعتدون۔ قال: فجلس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وکان متکئاً، فقال : لا، والذی نفسی بیدہ حتی تأطروہم أطْراً (کتاب التفسیر) یعنی جب بنی اسرائیل گناہوں میں پڑ گئے، اُن کے علماء نے ان کو روکا، مگر وہ نہیں رکے۔ پھر علماء ان کی مجلسوں میں بیٹھے۔ انھوںنے ان کے ساتھ کھایا اور ان کے ساتھ پیا، پھر اللہ نے لوگوں کے دلوںکو ایک دوسرے سے متاثر کردیا۔ چناں چہ اللہ نے داؤد اور عیسی بن مریم کی زبان سے اُن پر لعنت کی۔ یہی بات قرآن کی اس آیت میں بیان ہوئی ہے (ذلک بما عصوا وکانوا یعتدون۔ المائدۃ: 78)۔ راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُس وقت ٹیک لگائے ہوئے تھے پھر آپ اٹھ کر بیٹھ گئے۔ آپ نے فرمایا: اُس ذات کی قسم، جس کے قبضے میں میری جان ہے (لعنت کی حالت باقی رہے گی) یہاں تک کہ تم ان کو پوری کوشش سے روک دو۔
دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں: کلاّ، واللہ لتأمرنّ بالمعروف ولتنہونّ عن المنکر، ولتأخذنّ علی یدی الظالم، ولتأطرنّہ علی الحق أطْراً، ولتقصرنّہ علی الحق قصْراً، أو لیضربنّ اللہ بقلوب بعضکم علی بعض، ثمّ لیلعننّکم کما لعنہم (أبو داؤد، کتاب الملاحم) یعنی ہر گز نہیں، تم کو ضرور (آپس میں) معروف کا حکم دینا ہوگا اور تم کو ضرور ( آپس میں) منکر سے روکنا ہوگا، تم کو ضرور (آپس میں) ظالم کے ہاتھ کو پکڑنا ہوگا، تم کو ضرور اُسے حق کی طرف موڑنا ہوگا، تم کو ضرور اُس کو حق کی طرف لوٹانا ہوگا، ورنہ اللہ ضرور تمھارے دلوں کو ایک دوسرے سے متاثر کردے گا، پھر تم پر وہ اسی طرح لعنت کرے گا جس طرح اُس نے اِس سے پہلے یہود پر لعنت کی۔
لعنت کوئی پر اسرار لفظ نہیں۔ لعنت سے مراد ہے— امت کے خیر کی حیثیت کا چھن جانا، یعنی جب تک امت کے افراد، خاص طورپر اس کے علماء امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے عمل کو واقعی طورپر زندہ رکھیںگے، اُس وقت تک امت خیر پر باقی رہے گی اور جب امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا عمل حقیقی طورپر جاری نہ رہے تو اُس وقت امت کے خیر کی حیثیت لازماً چھن جائے گی۔ اور خیر کی حیثیت کے چھن جانے ہی کا دوسرا نام لعنت ہے۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے مراد صرف کچھ جزئی چیزیں نہیں ہیں۔ مثلاً کسی مسلمان کا پاجامہ ٹخنے سے نیچا ہو تو آپ کہیں کہ اپنا پاجامہ ٹخنے سے اوپر کرو، کسی مسلمان کی داڑھی چھوٹی ہو تو آپ کہیں کہ اپنی داڑھی بڑھاؤ، کسی مسلمان کے سر پر ٹوپی نہ ہو تو آپ کہیں کہ اپنے سر پر ٹوپی رکھو، وغیرہ۔ اِس قسم کی باتیں شریعت سے زیادہ مسلم کلچر کا حصہ ہیں، اور مسلم کلچر کا تحفظ اپنی حیثیت کے اعتبار سے، صرف ایک قومی کام ہے۔ اِس قسم کی باتوں سے ہر گز امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا نہیں ہوتا۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اپنی حقیقت کے اعتبار سے، ایک اصولی کام ہے۔ اس کا تعلق شریعت کے اصولی معاملات سے ہے۔ جزئی معاملات یا کلچرل شناخت کے معاملات میں امر ونہی کرنے سے اس کا حق ادا نہیں ہوتا۔ مثال کے طورپر پچھلے کئی سو سال کے دوران جو اسلامی لٹریچر تیار ہوا، اس میں دعوت الی اللہ کو حذف کردیا گیا، اور علماء اِس غلطی کی تصحیح کے لیے نہیں اٹھے۔ پچھلے تقریباً دوسو سال سے علماء، براہِ راست یا بالواسطہ طورپر، مسلح جہاد میں مشغول ہیں، اور علماء کی کسی جماعت نے یہ فتوی نہیں دیا کہ مسلح جہاد حکومت کا کام ہے، نہ کہ علماء کا کام۔ مسلم ملکوں میں مختلف جماعتیں اپنے ملک کی حکومتوں کے خلاف ’’خروج‘‘ کی تحریکیں چلا رہی ہیں، لیکن علماء کی کسی جماعت نے یہ فتویٰ نہیں دیا کہ قائم شدہ مسلم حکومت کے خلاف خروج کرنا حرام ہے۔
موجودہ زمانے میں ساری دنیا کے مسلمان غیر مسلم قوموں کے خلاف نفرت کی نفسیات میں مبتلا ہیں، مگر علماء کی کسی جماعت نے کھلے طور پریہ اعلان نہیں کیا کہ غیر مسلم قومیں ہمارے لیے مدعو کی حیثیت رکھتی ہیں، اور مدعو سے نفرت کرنا جائز نہیں۔ بعد کی صدیوں میں کچھ لوگوں نے غیر مسلم علاقوں کے بارے میں مبتدعانہ طورپر یہ اعلان کیا کہ وہ دار الکفر یا دار الحرب ہیں، لیکن علماء کی کسی جماعت نے ایسا نہیں کیا کہ وہ اِس تصور کو کھلے طورپر غلط بتائیں اور یہ کہیں کہ ساری دنیا دار الانسان یا دار الدعوہ ہے، کوئی بھی علاقہ نہ دار الکفر ہے اور نہ دار الحرب۔
نہی عن المنکر یا تناہی عن المنکر کوئی پر اسرار لفظ نہیں۔ یہ عین اُسی چیز کا نام ہے جس کو عام زبان میں، نقد یا تنقید (criticism) کہاجاتا ہے۔ اِسی صفت کو حدیث میں المؤمن مراٰۃ المؤمن (أبوداؤد، کتاب الأدب) کے لفظ میں بیان کیا گیا ہے، یعنی ایک مومن دوسرے مومن کے لیے آئینے کی حیثیت رکھتا ہے۔ آئینہ کسی تحفظ (reservation) کے بغیر بے کم وکاست آپ کے چہرے کو دکھا دیتا ہے۔ اِسی طرح مومن کو ایسا ہوناچاہیے کہ وہ دوسرے مومن کے بارے میں کھلے طورپر اظہار خیال کرے۔ وہ کھلے طورپر اپنی نصیحت دوسرے کو پہنچا دے۔ ایسا اُسی وقت ممکن ہے جب کہ مسلم معاشرے میں تنقید کو برا نہ مانا جائے، بلکہ تنقید کو کھلے دل کے ساتھ قبول کیاجائے۔
کسی مسلم معاشرے میں اگر کھلی تنقید کا ماحول نہ ہو تو یہ ایک سنگین خطرے کی علامت ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ لوگ دین کے بارے میں بے حسی کا شکار ہوچکے ہیں۔ سنانے والے مفاد پرستی میں مبتلا ہیں، اور سننے والے خود پرستی میں جی رہے ہیں۔ کسی معاشرے میں نہی عن المنکر یا تناہی عن المنکر کے ماحول کا ختم ہوجانا اِس بات کی علامت ہے کہ وہ معاشرہ ایسے افراد سے خالی ہوگیا ہے جو خدا کے لیے تڑپے، جو خدا کے دین کی پامالی پر بے قرار ہو۔ مزید یہ کہ معاشرہ ایسے افراد سے بھی خالی ہوگیا ہے جو تنقید سننے کے بعد یہ کہہ سکیںکہ: میں غلطی پر تھا۔ایسا معاشرہ دینی اعتبار سے، ایک مردہ معاشرہ ہے۔ ایسا معاشرہ گویا کہ زندوں کی بستی نہیں، بلکہ وہ مردوں کا قبرستان ہے۔ جب کوئی معاشرہ اِس حالت تک پہنچ جائے تو اس کے اوپر سے خدا کی نصرت اٹھ جاتی ہے۔ خدا کی نصرت سے اِسی محرومی کو قرآن اور حدیث میں لعنت کہاگیا ہے۔
’تؤمنون باللہ‘ —اللہ پر زندہ ایمان رکھنا، اللہ پر زندہ یقین کا مسلسل طورپر ذہن میں باقی رہنا، یہی ایمان باللہ ہے۔ اور اِس قسم کا ایمان باللہ ہی اِس بات کی ضمانت ہے کہ امت اپنی مطلوب حالت پر مسلسل باقی رہے۔ زندہ ایمان ہوگا تو امت کے اندر مسئولیت کا احساس تازہ رہے گا۔ زندہ ایمان ہوگا تو امت شہادت علی الناس کے فرض کی ادائیگی میں مسلسل طورپر سر گرم رہے گی۔ زندہ ایمان ہوگا تو امت کے افراد ایک دوسرے پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ مطلوب انداز میں انجام دیتے رہیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ پر زندہ ایمان تمام فرائض کی حسنِ ادائیگی کی یقینی ضمانت ہے۔
قرآن میںاللہ کی صفت یہ بتائی گئی ہے کہ:کل یوم ہو فی شأن (الرحمن: 29) یعنی اللہ ہر لمحہ ایک نئی شان کے ساتھ ہے۔ یہ اللہ کی صفت ہے۔ یہی صفت انسان کے اندر عبدیت کی سطح پر ہونا چاہیے۔ اللہ پر ایمان وہ ہے جو تخلیقی ایمان ہو، جو ہر لمحہ ایک نئی ذہنی سرگرمی کے ہم معنیٰ بن جائے۔ ایسا ایمان ہی کسی آدمی کو مسلسل طورپر زندہ یقین عطا کرسکتا ہے۔ ایسے ایمان والے لوگ ہی اُس ذمے داری کو حقیقی طورپر انجام دے سکتے ہیں جو خیر امت سے مطلوب ہے۔
واپس اوپر جائیں

کتمانِ حق

قرآن کی سورہ نمبر 3 میں بتایا گیا ہے کہ یہود سے اللہ تعالی نے عہد (میثاق) لیا۔ اِس عہد میں اُن کو یہ تاکیدی حکم دیاگیا تھا کہ: لتبیننہ للناس ولا تکتمونہ(آل عمران:187) یعنی تم خدائی ہدایت کو ضرور لوگوں کے سامنے پوری طرح کھول کر بیان کروگے اور اُس کو لوگوں سے ہر گز نہ چھپاؤ گے۔
اِس آیت میں یہود کے بارے میں جس حکم کا ذکر کیاگیا ہے، وہ خود یہود کی اصلاح کا حکم نہیں ہے، اس سے مراد غیر یہود کو وہ ہدایت پہنچانا ہے جو یہود کو اُن کے پیغمبروں کے ذریعے دی گئی تھی۔یہ عین وہی حکم تھا جس کو امتِ محمدی کی نسبت سے، شہادت علی الناس (البقرۃ: 143 ) کے الفاظ میں بیان کیاگیا ہے۔ اِسی ذمے داری کی بنا پر یہود کو وہ خصوصی حیثیت دی گئی جس کو منتخب گروہ (chosen people) کے الفاظ میں بیان کیاگیا ہے۔
اِس تقرری کے عہد کا ذکر بائبل میں موجود ہے۔ مثلاً بائبل کی کتاب یسعیاہ میں یہود کے بارے میںہے کہ— تم میرے گواہ ہو:You are My witness (Isaiah 43: 10) ۔جیوش انسائکلوپیڈیا میں اِس حقیقت کو حسب ذیل الفاظ میںواضح طورپر بیان کیاگیا ہے: بنی اسرائیل کوخصوصی طورپر یہ ذمے داری تفویض کی گئی تھی کہ وہ لوگوں کے سامنے خدا کی توحید کا اعلان کریں:
Upon Israel specially devolved the duty of proclaiming God’s unity
شہادت علی الناس کی یہی ذمے داری اب امتِ محمدی کے اوپر ہے۔ قرآن کی مذکورہ آیت میں کتمان سے مراد کتاب کو یہود سے چھپانا نہیں ہے، بلکہ اس کو غیر یہود سے چھپانا ہے۔ یہی معاملہ امتِ محمدی کا ہے۔ امت محمدی اگر ایسا کرے کہ وہ خود قرآن کو پڑھے اور پڑھائے، لیکن وہ قرآن کو غیرمسلموں تک نہ پہنچائے تو یہ اس کے لیے قرآن کے کتمان کے ہم معنی ہوگا۔اِس قسم کا کتمان جس طرح یہود کے لیے خدا کے نزدیک اپنی اصل حیثیت کو کھونے کے ہم معنی تھا، اِسی طرح یہ کتمان امتِ محمدی کے لیے بھی اس کی اصل حیثیت کو کھونے کے ہم معنی ثابت ہوگا۔
واپس اوپر جائیں

موت کا سبق

17 جنوری 2010 کو جیوتی باسو (Jyoti Basu) کا انتقال ہوگیا۔ انتقال کے وقت ان کی عمر 96 سال تھی۔ وہ کمیونسٹ پارٹی کے بڑے لیڈروں میںسے تھے۔ وہ مسلسل 23 سال تک ویسٹ بنگال کے چیف منسٹر رہے۔ ان کی وفات کا سبب ڈاکٹروں نے جسم کے کئی اعضا کا فیل ہوجانا (multi organ failure) بتایا ہے۔
انسان کو اِس دنیا میں جو جسم ملا ہے، وہ ایک مکمل نوعیت کا زندہ کارخانہ ہے۔ اِس میں بیک وقت بہت سے نظام کام کررہے ہیں— سوچنے کا نظام، دیکھنے کا نظام، سننے کا نظام، ہضم کا نظام، حرکتِ قلب کا نظام، سانس لینے کا نظام، اعضاء کو متحرک کرنے کا نظام، وغیرہ۔
یہ تمام نظام نہایت متوافق طورپر عمل کرتے ہیں تب یہ ممکن ہوتا ہے کہ کوئی انسان ایک زندہ وجود کے طورپر دنیا میںاپنا کام کرے۔
مثلاً نظامِ حافظہ اگر کام نہ کرے تو آدمی کو کوئی بات یاد نہیں رہتی ، نظامِ بصارت کام نہ کرے تو آدمی اندھا ہوجاتا ہے، نظامِ سماعت کام نہ کرے تو آدمی کو کچھ سنائی نہیں دیتا، نظامِ نطق کام نہ کرے تو آدمی گونگا ہو جاتا ہے، نظام ہضم کام نہ کرے تو آدمی کی صحت خراب ہوجاتی ہے، نظامِ حرکت کام نہ کرے تو آدمی اپاہج بن جاتا ہے۔ نظامِ تنفس کام نہ کرے تو آدمی کے لیے سانس لینا مشکل ہوجاتا ہے۔ اور اگر نظامِ قلب کام نہ کرے تو آدمی کے لیے زندہ رہنا ہی ناممکن ہوجاتا ہے، وغیرہ۔
موت اِس حقیقت کا اعلان ہے کہ انسان کے وجود کے مختلف نظام کسی اور کے قبضۂ اختیار میں ہیں۔ وہ جب تک چاہے، انسان کو زندہ رکھے اور جب چاہے، انسان پر موت طاری کردے۔ ہر روز دنیامیں موت کے تقریباً ایک لاکھ واقعات ہوتے ہیں جو انسان کو یہ سب سے بڑی خبر سنا رہے ہیں۔ مگر عجیب بات ہے کہ یہی سب سے بڑی خبر ہے جس کا شعوری علم کسی زندہ انسان کو نہیں۔
واپس اوپر جائیں

معرفتِ اعلیٰ کی مثال

عبد اللہ بن ابی مُلیکہ کہتے ہیں کہ اُن سے بیان کیا ذکوان نے جو کہ حضرت عائشہ کے دربان تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ عبد اللہ بن عباس آئے اور انھوں نے حضرت عائشہ سے ملنے کی اجازت چاہی۔ میں حضرت عائشہ کے پاس گیا۔ اُس وقت ان کے بھتیجے عبد اللہ بن عبد الرحمن ان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے حضرت عائشہ سے کہا کہ عبد اللہ بن عباس آئے ہیں اور وہ آپ سے ملنے کی اجازت چاہتے ہیں۔ ان کے بھتیجے ان کی طرف جھکے اور کہا کہ یہ عبد اللہ بن عباس ہیں۔ حضرت عائشہ اُس وقت موت کے قریب تھیں۔ انھوںنے کہا کہ چھوڑو ابن عباس کو۔ انھوں نے کہا کہ اے میری ماں، ابن عباس آپ کی اولاد کے صالحین میں سے ہیں۔ وہ آپ کو سلام کہہ رہے ہیں اور آپ سے ملنے کی اجازت چاہتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اگر تم چاہتے ہو تو ان کو اجازت دے دو۔ پھر میں نے عبد اللہ بن عباس کو اندر داخل کیا۔ وہ بیٹھے اور کہا: آپ کو بشارت ہو، کیوں کہ آپ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحاب سے ملاقات میں اب اتنی ہی دوری ہے کہ روح آپ کے جسم سے نکل جائے۔ آپ، رسول اللہ صلی اللہ کی ازواج میں سب سے زیادہ محبوب تھیں اور رسول اللہ صرف پاک روح سے محبت کرسکتے تھے۔ ابواء کی رات میں آپ کا ہار گر گیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے رات کو روانہ ہوئے، یہاںتک کہ منزل پر صبح کی۔ اُس وقت لوگوں کے پاس پانی نہیں تھا، تو اللہ تعالیٰ نے تیمم کی آیت (المائدۃ: 6 ) اتاری۔ یہ آپ کے سبب سے ہوا۔ اِس طرح امت کے لیے رخصت کا حکم اترا۔ اور آپ کے لیے ساتویں آسمان سے برأت لے کر جبریل امین اترے۔ چناں چہ ہر مسجد میں صبح و شام آپ کا ذکر ہونے لگا اور وہ آیتیں پڑھی جانے لگیں۔ اِس کو سن کر حضرت عائشہ نے کہا: دعْنی منک یا ابن عباس، فوا الذی نفسی بیدہ، لوددتُ أنّی کنت نسیاً منسیًّا (اے ابن عباس، مجھ کو چھوڑو۔ اُس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، میں تو یہ چاہتی ہوں کہ میں بھولی بسری بن جاؤں (الطبقات الکبری لابن سعد، جلد 8 ،صفحہ 51، بحوالہ: کتاب احکام النساء لعبد الرحمن بن علی الجوزی، صفحہ 431، الطبعۃ الثانیۃ، 1993 ، وزارۃ الاوقاف والشئون الاسلامیۃ، قطر)
واپس اوپر جائیں

دل ایک معجزہ

انسان کے جسم میں بہت سے آرگن (organ) ہیں۔ اِن تمام آرگن کے درست طورپر چلنے سے انسان زندہ رہتا ہے، اور جب یہ آرگن کام نہ کریں تو انسان مرجاتا ہے۔ اِنھیں میں سے ایک آرگن وہ ہے جس کو دل (heart) کہاجاتا ہے۔ دل ایک عجیب آرگن ہے جو گردشِ خون کے نظام کو جسم کے اندر جاری رکھتا ہے:
Organ that serves as a pump to circulate the blood.
دل ایک بے حد پیچیدہ نظام ہے۔ وہ رُکے بغیر مسلسل حرکت کرتاہے۔ اِس حرکت کی رفتار عمر کے لحاظ سے کم یا زیادہ ہوتی ہے۔ ایک بالغ آدمی کے دل کی حرکت اوسطاً 80 بار فی منٹ ہوتی ہے:
The average adult rate is 80 per minute.
دل کی یہ مسلسل حرکت فطری نظام کے تحت آٹومیٹک طورپر رات دن جاری رہتی ہے۔ اگر ایساہو کہ آدمی کو خود اپنے ہاتھ سے اس کو پمپ کرنا پڑے تو زندگی ناممکن ہوجائے۔ اِس کے بعد آدمی کے لیے کسی اور کام کا وقت ہی نہیں رہے گا، حتی کہ وہ رات کے وقت سو بھی نہیں سکے گا، کیوںکہ زندگی کو باقی رکھنے کے لیے رات کے وقت بھی پمپ کرنے کے اِس کام کو جاری رکھنا ہے۔
اس طرح ان گنت فطری نظام ہیں جو انسانی جسم کے اندر اور انسانی جسم کے باہر مسلسل کام کرتے ہیں، اس کے بعد ہی اِس زمین پر انسان جیسی مخلوق کا وجود ممکن ہوتا ہے۔ یہ انتظامات اتنے زیادہ ہیں کہ آدمی اُن کو گن بھی نہیں سکتا۔
اگر آدمی گہرائی کے ساتھ سوچے تو ہر وقت وہ شکر کے احساس میں جینے لگے۔ وہ کامل طورپر غرور اور سرکشی کی نفسیات سے خالی ہوجائے۔ وہ مکمل طورپر ایک متواضع (modest) انسان بن جائے۔ وہ بے اعترافی جیسی چیزوں کا تحمل نہ کرسکے۔ یہی معرفت ہے۔ اسی معرفت کا شعور انسان کو وہ مطلوب انسان بناتا ہے جس کو قرآن میں ربانی انسان کہاگیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

موت کا زندہ تصور

31 جنوری 2010 کو میرے چھوٹے بھائی انجینئر عبد المحیط خاں (پیدائش1932 )کا انتقال ہوگیا۔ انتقال کے وقت وہ فیض آباد میں تھے۔ ان کی عمر77 سال تھی۔میںنے اپنی لمبی عمر میں ہزاروں افراد کو مرتے ہوئے دیکھا ہے یا ان کی موت کی خبر سنی ہے۔ لیکن میرے بھائی کی موت میرے لیے ایک بالکل نیا تجربہ تھا۔ اس نے میرے اندر ایک نیا تصور پیدا کیا۔ اس کو اگر میںکوئی نام دوں تو میں کہوں گا کہ موت کا زندہ تصور (living concept of death) ۔
میںنے غور کیا کہ موت کے بارے میں یہ نیا شعور میرے اندر کیوں پیدا ہوا۔ اصل یہ ہے کہ ہم لوگ 6بھائی بہن تھے۔ چھوٹے بھائی کے انتقال کے بعد مجھے اچانک محسوس ہوا کہ میرے سوا تمام بھائی بہن مرچکے ہیں۔ اِس اعتبار سے، اب میں اکیلا رہ گیا ہوں۔ اِس احساس سے مجھے سخت جھٹکا لگا۔ میں نے سوچا کہ میرے بھائی اور بہن کل تک اِسی دنیا میںتھے جہاں کہ میں ہوں، لیکن اب وہ ایک ایک کرکے مرچکے ہیں، یہاں تک کہ 6بہن بھائیوں میں اب میں اکیلا رہ گیا ہوں۔ وہ لوگ اِس دنیا سے نکل کر ایک اور دنیا میں پہنچ چکے ہیں۔ اب نہ وہ مجھ سے مل سکتے ہیں اور نہ میں اُن سے مل سکتا۔ موت نے مجھ کو اپنے تمام بھائی بہنوں سے ابدی طورپر جدا کردیا۔
موت کیا ہے۔ موت ایک جبری انخلا (compulsory expulsion) کا معاملہ ہے۔ موجودہ زندگی میں ہر آدمی اپنے لیے ایک دنیا بناتا ہے— گھر، جائداد، بزنس، اولاد، تعلقات، شہرت، عوامی حلقہ، عہدہ، سماجی پوزیشن، وغیرہ۔ اِن تمام چیزوں کی بنیاد پر ہر آدمی کی اپنی ایک چھوٹی یا بڑی دنیا ہوتی ہے، جس کے اندر وہ اپنے صبح و شام گزارتا ہے۔ وہ اس کو اپنی دنیا سمجھتا ہے۔ لیکن اچانک موت کا وقت آجاتا ہے اور فرشتے اس کو جبری طورپر موجودہ دنیا سے نکال کر اُس دنیا میں پہنچا دیتے ہیں، جہاں اس کے پاس اپنے ذاتی وجود کے سوا کچھ اور نہیں ہوتا— موت کے واقعے کو صرف وہ شخص جانتا ہے جو اِس حقیقت کا زندہ شعور رکھتا ہو۔
واپس اوپر جائیں

ذہنی افق

ذہنی افق (intellectual horizon) کے کئی درجے یا کئی سطحیں ہیں۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ معاملہ افق بالائے افق کا معاملہ ہے۔ اعلیٰ حقیقتوں کا ادراک صرف وہ افراد کرسکتے ہیں جو اعلیٰ ذہنی افق کے مالک ہوں۔ کم تر ذہنی افق کے لوگ اعلیٰ حقیقتوں سے آشنا نہیں ہوسکتے۔یہی معاملہ ایمان کا ہے۔
اِس سلسلے میں کچھ صحابہ کی مثال قابلِ ذکر ہے جو حدیث کی کتابوں میں آئی ہے۔ مثلاً عمر بن الخطاب (وفات: 23 ھ)، معاذ بن جبل (وفات: 18 ھ)، عبد اللہ بن رواحہ الانصاری (وفات: 8 ھ)۔ اِن حضرات کا طریقہ تھا کہ وہ بعض صحابہ کے ساتھ بیٹھ کر اللہ کا چرچاکرتے اور کہتے کہ ایسا ہم اضافۂ ایمان کے لیے کررہے ہیں۔ ایک بار عبد اللہ بن رواحہ نے ایک صحابی سے کہا کہ آؤ ہم ایک ساعت کے لیے ایمان لائیں۔ وہ صحابی غصہ ہوگئے۔ انھوں نے کہا کہ کیا ہم مؤمن نہیں ہیں، پھر وہ صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے۔ انھوں نے کہا کہ اے خدا کے رسول، کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ عبد اللہ بن رواحہ آپ پر ایمان کے بعد ایک ساعت کا ایمان حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ ابن رواحہ پر رحم کرے، وہ ایسی مجلسوں کو پسند کرتے ہیں جن پر فرشتے بھی رشک کرتے ہیں (رحم اللہ ابن رواحۃ، إنہ یحب المجالس التی تتباہیٰ بہا الملائکۃ) حیاۃ الصحابۃ، باب إیمان الصحابہ بالغیب، مجالس الإیمان، جلد 3، صفحہ 13۔
ایمان باللہ کا ابتدائی درجہ وہ ہے جو کلمۂ شہادت ادا کرنے کے بعد کسی آدمی کو حاصل ہوجاتا ہے۔ لیکن ایمان باللہ ایک اضافہ پذیر چیز ہے۔ چناں چہ قرآن میں ایمان کو پودے سے تشبیہہ دی گئی ہے جو مسلسل بڑھتا رہتا ہے (إبراہیم: 24-25 )۔ ایک مومن جب اللہ کے بارے میں سوچتاہے، جب وہ اِس موضوع کا مطالعہ کرتا ہے، جب وہ اِس پہلو سے کائنات کا مشاہدہ کرتاہے تو اِس عمل کے دوران اللہ پر اُس کا یقین بڑھتا رہتا ہے، وہ اللہ کی اعلیٰ صفات کی بار بار دریافت کرتا رہتا ہے، اُس کو بار بار یقین وایمان کی نئی خوراک ملتی رہتی ہے۔ یہ وہ اہلِ ایمان ہیں جو اعلیٰ ذہنی افق پر ایمان باللہ کا تجربہ کرتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

گرہن ایک خدائی معجزہ

گرہن (eclipse) ایک فلکیاتی ظاہرہ ہے۔ اکلپس (eclipse) کا لفظ قدیم یونانی زبان کے لفظ (ékleipsis) سے ماخوذ ہے۔ خلا میں گرہن کے مختلف واقعات ہوتے رہتے ہیں، لیکن معروف طورپر دو قسم کے گرہن کو گرہن کہا جاتا ہے۔ ایک سورج گرہن (Solar eclipse) اور دوسرا چاند گرہن (Lunar eclipse) ۔ عام طورپر سورج گرہن سال میں دوبار یا تین بار ہوتاہے اور چاندگرہن سال میں دو بار واقع ہوتا ہے۔ چاند گرہن چند گھنٹوں تک رہتا ہے، جب کہ کامل سورج گرہن کچھ منٹ تک رہتا ہے:
A lunar elicpse lasts for a few hours, whereas a total solar eclipse lasts for only a few minutes at any given place.
گرہن کا یہ واقعہ محکم فلکیاتی قانون کے تحت پیش آتا ہے۔ یہاں تک کہ بہت پہلے ان کی قطعی پیشین گوئی کی جاسکتی ہے۔ مثال کے طورپر 2010 میں 15جنوری کو سورج گرہن ہوا۔ علمائِ فلکیات کی پیشگی خبر کے مطابق، پہلے سے لوگوں کو اِس گرہن کا علم تھا۔
گرہن کیا ہے۔ گرہن دراصل سایہ پڑ جانے کا دوسرا نام ہے۔ گردش کے دوران جب چاند، زمین اور سورج کے درمیان آجائے تو سورج اس آڑ کی بنا پر جزئی یا کلّی طورپر دکھائی نہیں دے گا۔ اِسی کا نام سورج گرہن ہے۔ اور جب زمین، چاند اور سورج کے درمیان آجائے تو چاند پر جزئی یا کلی طورپر زمین کا سایہ پڑجائے گا۔ اِسی کا نام چاند گرہن ہے:
Eclipse: In astronomy, partial or complete obscuring of one celestial body by another as viewed from a fixed point. Solar eclipses occur when shadow of Moon falls on Earth, which happens two or three times per year. Lunar eclipses occur when shadow of Earth falls on Moon; at most two seen per year.
قدیم زمانے میں گرہن کے بارے میں عجیب قسم کے توہماتی عقائد قائم تھے۔ مثلاً کچھ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ آسمان میں ایک بہت بڑا اژدہا ہے، وہ کبھی غصہ ہو کر چاند کو نگل لیتاہے، اس وقت چاندگرہن پڑتا ہے۔ اسی طرح کچھ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ زمین پر جب کسی بادشاہ یا کسی بڑے آدمی کی موت ہوتی ہے تو اس کی وجہ سے سورج پر اندھیرا چھا جاتا ہے۔ اسی کا نام سورج گرہن ہے، وغیرہ۔
اِس قسم کے توہماتی تصورات ہزاروں سال تک قوموں میں رائج تھے، یہاں تک کہ دور بین (telescope) ایجاد ہوئی۔ گلیلیو نے پہلی بار 1609 میں دور بین کے ذریعہ سیاراتی نظام (planetary system) کا مشاہدہ کیا۔ اس کے بعد دور بین کو ترقی ہوئی اور مزید مشاہدات کئے گئے۔ یہاں تک کہ معلوم ہوا کہ سورج گرہن اور چاند گرہن کا تعلق مذکورہ قسم کے توہماتی تصورات سے نہیں ہے، یہ تمام تر ایک فلکیاتی مظہر ہے۔وہ صرف اس لئے واقع ہوتا ہے کہ گردش کے دوران دو خلائی اجسام (celestial bodies) کے درمیان تیسرا جسم آجاتا ہے۔ اس کی بنا پر وہاں ایک آڑ قائم ہوجاتی ہے۔ اسی آڑ کی بنا پر پیش آنے والے واقعہ کا نام گرہن ہے۔
قدیم زمانے میں گرہن صرف ایک توہماتی (superstitious)واقعہ بنا ہوا تھا۔ انیسویں صدی عیسوی میں سائنسی مشاہدہ کے ذریعہ معلوم ہوا کہ یہ سادہ نوعیت کا ایک خلائی واقعہ ہے۔ اس واقعہ میں کوئی پُراسراریت شامل نہیں۔ گرہن کے موضوع پر موجودہ زمانے میں کثیر تعداد میں کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ چند کتابوں کے نام یہ ہیں:
Eclipses of the Sun and Moon (1937) by Sir F.W. Dyson
Eclipse Phenomena in Astronomy (1969) by F. Link
Eclipses in the Second Millennium BC (1954) by G. Van Bergh
گرہن کی تاریخ کا پہلا دور وہ ہے جب کہ اس معاملے میں توہماتی عقائد کا رواج تھا۔ گرہن کا دوسرا دور موجودہ زمانے میں دور بین کی ایجاد (1608) کے بعد شروع ہوا۔ گرہن کی تاریخ کا تیسرا دور وہ ہے جو اسلام کے ذریعہ انسان کے علم میں آیا، وہ یہ کہ گرہن کا تعلق نہ توہمات سے ہے اور نہ وہ صرف ایک مادی نوعیت کا فلکیاتی واقعہ ہے، بلکہ وہ خالقِ کائنات کے باشعور تخلیقی نظام کا ایک حصہ ہے۔ وہ خدا کی قدرتِ کاملہ کا ایک مظہر ہے، وہ انسان کے لیے خداوند ِ عالم کا ایک تعارف ہے، گرہن خاموش زبان میں خدا کی حکیمانہ تخلیق کا اعلان کررہا ہے۔
ہجرت کے بعد کا واقعہ ہے ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادہ ابراہیم مدینہ میں پیدا ہوئے۔ ڈیڑھ سال کی عمر میں شوال 10 ہجری 632)ء ( میں ان کا انتقال ہوگیا۔ اتفاق سے اسی دن سور ج گرہن پڑا۔ قدیم توہماتی رواج کے مطابق، مدینہ کے کچھ لوگوں نے کہا کہ یہ سورج گرہن پیغمبر کے بیٹے کی موت کی وجہ سے ہوا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات بہت ناپسند ہوئی۔ آپ نے لوگوں کو جمع کرکے تقریر کی۔ آپ نے فرمایا: إنّ الشمس والقمر لا یخسفان لموت أحد من الناس، ولٰکنہما آیتان من آیات اللہ، فإذا رأیتموہا فصلّوا (صحیح البخاری، کتاب الکسوف)یعنی سورج اورچاند میں کسی انسان کی موت سے گرہن نہیں لگتا، وہ اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہے۔ جب تم ایسا دیکھو تو نماز پڑھو۔
’’چاند گرہن اور سورج گرہن خدا کی نشانیوں میں سے دونشانیاں ہیں‘‘— یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ دراصل اس معاملے کے اصل معنوی پہلو کی طرف اشارہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چاند گرہن اور سورج گرہن جس طرح ہوتا ہے، اس پر غور کیا جائے تو وہ آدمی کے لئے خدا کی دریافت کا ذریعہ بن جائے گا۔ وہ سادہ طورپر فلکیاتی نشانی کے بجائے، زیادہ گہرے معنوں میں خدائی نشانی ثابت ہوگا۔
چاند گرہن یا سورج گرہن ایک انوکھا تخلیقی معجزہ ہے، اس کے پیچھے خالقِ کائنات کی معجزانہ صنّاعی نظر آتی ہے۔ جیسا کہ عرض کیاگیا، گرہن اُس وقت پیش آتا ہے جب کہ تین خلائی اجسام، زمین، چاند، سورج،گردش کرتے ہوئے ایک سیدھ میں آجائیں۔ تینوں کے سائز میں بہت زیادہ فرق ہے۔ چاند کو اگر سرسوں کے دانے کے برابر سمجھا جائے تو اس کے مقابلے میں زمین فٹ بال کے برابر ہوگی اور سورج ہمالیہ پہاڑ سے بھی زیادہ بڑا ہوگا۔
یہ تین مختلف سائز کے اجسام حرکت کرتے ہوئے ایسے تناسب سے ایک سیدھ میں آجاتے ہیں کہ زمین سے دیکھنے والا ان کو یکساں سائز میں دیکھنے لگے۔ جب تینوں کے درمیان چاند ہو تو سورج گرہن واقع ہوگا۔ اور جب ان کے درمیان زمین ہو تو چاند گرہن واقع ہوگا۔ یہ وسیع خلا میں ایک انتہائی انوکھی پوزیشننگ کا معاملہ ہے:
It is a unique well- calculated positioning of three moving bodies, highly inequal in size, in the vast space.
گرہن (eclipse) اُس وقت واقع ہوتا ہے جب کہ وسیع خلا کے تین اَجرام، زمین، چاند، سورج، انتہائی متناسب دوری کے ساتھ بالکل ایک سیدھ میں آجائیں۔ یہ ایک انتہائی حیرت ناک ظاہرہ ہے۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے انسائیکلوپیڈیا بریٹنکا کے مقالہ نگار نے لکھا ہے کہ — ایک انتہائی غیر معمولی توافق کی بنا پر سورج اور چاند کا سائز اور دوری ایسے ہو جاتے ہیں کہ زمین سے بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے گویا کہ دونوں بالکل برابر ہوں:
By a remarkable coincidence, the sizes and distances of the Sun and Moon are such that they appear as very nearly the same angular size as the earth. (EPB 6/189)
گرہن کے اِس عجیب واقعے کو مقالہ نگار نے محض اتفاق (coincidence) قرار دیا ہے۔ مگر یہ بالکل غیر منطقی بات ہے۔ اِس قسم کا نادر اتفاق اولاً تو ممکن نہیںاور بالفرض اگر ایسا ہوجائے تو وہ بمشکل ایک بار ہوسکتا ہے، لیکن فلکیاتی تاریخ بتاتی ہے کہ گرہن کا یہ واقعہ لاکھوں برس سے اِسی طرح پابندی (regularity)کے ساتھ ہر سال پیش آرہا ہے۔ اِس قسم کی کامل باضابطگی ہر گز اتفاقاً نہیں ہوسکتی۔ یقینی طورپر وہ ایک قادرِ مطلق ہستی کی مسلسل کار فرمائی کے باعث ہی ممکن ہے۔ اتفاق کا لفظ اِس حیرت ناک فلکیاتی ظاہرے کی توجیہہ کے لیے آخری حد تک ناکافی ہے۔
گرہن، خلا میں پیش آنے والے اُن بے شمار معجزاتی واقعات میں سے ایک ہے جن کے بارے میں قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں: ذلک تقدیر العزیز العلیم (یٰس: 38 ) یعنی یہ عزیز اور علیم خدا کا مقرر کیا ہوا اندازہ ہے:
That is the dispostion of the Almighty, the All Knowing.
وسیع خلا میں بے شمار اجزا ہیں۔ یہ تمام اجزا مکمل طورپر خداوند ِ عالم کے کنٹرول میں ہیں۔ سیاروں اور ستاروں کی گردش انتہائی حد تک خدا کے مقرر ضابطہ کی پابندی میں ہوتی ہے۔ شمسی نظام اِسی کا ایک نمونہ ہے جس کے اندر ہماری زمین واقع ہے۔ یہ نظام اپنی خاموش زبان میں اعلان کررہا ہے کہ اِس کائنات کا ایک قادرِ مطلق خدا ہے جو وسیع خلا میں اُن پر کامل کنٹرول کئے ہوئے ہے۔
اِنھیں معجزاتی واقعات میں سے ایک گرہن کا واقعہ ہے۔ سورج گرہن اور چاند گرہن ہمارے قریبی مشاہدے کی چیزیں ہیں۔ لوگ اُس کو عجوبہ کے طورپر یا زیادہ سے زیادہ ایک فلکیاتی کورس کے طورپر دیکھتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ پیغمبر اسلام کے الفاظ میں، وہ خدا کی ایک عظیم نشانی ہے۔ اِسی لیے اسلام میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ جب گرہن واقع ہو تو لوگ خدا کی عبادت کریں۔ اِس عبادت کو صلاۃِ کُسوف اور صلاۃِ خُسوف کہاجاتا ہے۔ گرہن کے وقت خدا کی عبادت کرنا اِس بات کا اعتراف ہے کہ گرہن ایک خدائی ظاہرہ ہے، نہ کہ محض ایک فلکیاتی ظاہرہ۔
واپس اوپر جائیں

دورِ جدید کا شجرِ ممنوعہ

اللہ تعالیٰ نے پہلے انسان (آدم) کو پیدا کیا تو اُن کو جنت میں آباد کیا۔ پوری جنت ان کے لیے کھلی ہوئی تھی۔ لیکن وہاںایک درخت تھا جو اس سے مستثنی تھا۔ اُن کو ہدایت دی گئی کہ وہ اِس درخت کے پاس نہ جائیں اور اِس کا پھل نہ کھائیں۔ لیکن وہ اس ہدایت پر قائم نہ رہ سکے اور جنت کے اُس شجرِ ممنوعہ کا پھل کھالیا۔ اِس کے بعد وہ جنت سے نکال دئے گئے۔
شجرِ ممنوعہ ( forbidden tree) کا تعلق صرف ایک مخصوص درخت سے نہیں۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ سورس آف ڈسٹریکشن (source of distraction) کا نام ہے۔ اِس اعتبار سے دیکھئے تو ہر دور کا ایک شجرِ ممنوعہ ہوتا ہے۔ موجودہ زمانے کا بھی ایک شجرِ ممنوعہ ہے، اور وہ وہی چیز ہے جس کو موبائل (mobile) کہاجاتاہے۔
آج کل لوگوں کا حال یہ ہے کہ ہر آدمی کی جیب میںموبائل ہوتا ہے۔ اس کا ذہن مسلسل طورپر اِسی موبائل میں مشغول رہتا ہے۔ وہ مجلس میں ہو یا مسجد میں ہو، وہ کسی جلسے میں ہو یا حالت ِ سفر میں ہو، ہر جگہ اور ہر وقت وہ اپنے موبائل میں مشغول رہتا ہے۔ اِس طرح موبائل موجودہ زمانے میں ڈسٹریکشن (distraction)کا سب سے بڑاسبب بن گیا ہے۔ لوگ موبائل کے ذریعے سطحی باتوں میں مشغول رہتے ہیں، گہری باتوں کے بارے میں سوچنے کا اُن کے پاس وقت ہی نہیں۔ اِس موبائل کلچر نے تمام عورتوں اور مردوں کو معرفت سے محروم کردیا ہے۔ معاملات میں گہری سوچ سے وہ آشنا نہیں، وہ تجزیہ (analysis) کی صلاحیت سے محروم ہوگئے ہیں۔
کسی بھی شخص سے بات کیجئے تو وہ گہری عقل کی کوئی بات نہیں کہہ پائے گا۔ ہر آدمی کا ذہن کنفیوژن کا جنگل بناہوا ہے۔ ہر آدمی بے شعوری کی حالت میں جی رہا ہے۔ زندگی ہمارے لیے ایک نہایت قیمتی موقع ہے، لیکن لوگ اِس موقع کے اعلیٰ استعمال سے محروم ہو رہے ہیں۔ اور موجودہ زمانے میں اِس کا سب سے بڑا سبب بلا شبہہ موبائل ہے۔ اِس عموم میں اگر کوئی استثناء ہے تو وہ ایک فی صد سے بھی کم ہے۔
واپس اوپر جائیں

کارٹونسٹ کے لیے تحفہ

8 فروری 2010 کو نئی دہلی میں ایک تعلیم یافتہ نو مسلم سے ملاقات ہوئی۔ ان کا نام یہ ہے: عبد الواحد (Abdul Wahid Pederson)۔ وہ ڈنمارک کی راجدھانی کوپن ہیگن (Copenhagen) میں رہتے ہیں۔ ان سے پہلی ملاقات اکتوبر 2009 میں دوحہ (قطر) کی انٹرنیشنل کانفرنس میں ہوئی تھی۔ 8 فروری 2010 کی ملاقات میں انھوں نے ہمارے یہاں کا مطبوعہ اسلامی لٹریچر لیا، تاکہ وہ اس کو ڈنمارک کے لوگوں تک پہنچائیں۔
گفتگو کے دوران میں نے کہا کہ عرصے سے میری تمنا تھی کہ ڈنمارک کے اُس کارٹونسٹ کو سیرت کے موضوع پر ایک کتاب پہنچائی جائے جس کا ایک کارٹون ڈنمارک کے ایک اخبار میں چھپا تھا۔ انھوںنے کہا کہ مجھے اِس سے اتفاق ہے۔ پھر میں نے ان کو سیرتِ رسول کے موضوع پر اپنی تازہ مطبوعہ کتاب ’’پرافٹ آف پیس‘‘ (The Prophet of Peace) کے دو نسخے دئے جو حال میں انٹرنیشنل اشاعتی ادارہ پنگوئن بکس (Penguin Books) نے شائع کی ہے۔ انھوںنے کہا کہ میں ان شاء اللہ قرآن کا انگریزی ترجمہ اور یہ کتاب دستی طورپر مذکورہ کارٹونسٹ تک پہنچاؤں گا۔مسٹر عبدالواحد نے بتایا کہ کار ٹون کو لے کرمسلم دنیا میں جو احتجاج کیا گیا، اُس سے باہر کے مسلمانوں میں یہ ذہن بنا کہ ڈنمارک کے لوگ اسلام کے مخالف ہیں، مگر یہ بات خلافِ واقعہ ہے۔ ڈنمارک کے لوگ بہت سادہ مزاج کے ہوتے ہیں۔ وہاں تیزی سے اسلام پھیل رہا ہے اور وہاں کے بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کیا ہے۔
احتجاج اور مظاہرے کا طریقہ بلاشبہہ ایک غیر اسلامی طریقہ ہے۔ صحیح یہ ہے کہ اگر کارٹون جیسا کوئی واقعہ پیش آئے تو اس کو دعوت کے ایک موقع کے طورپر لیا جائے اور لوگوں تک اسلام کا مثبت پیغام پہنچایا جائے۔ اِسی کو قرآن میں اعراض (avoidance) کہاگیا ہے۔ اعراض کی پالیسی کے بغیر دعوت کاکام موثر طورپر انجام نہیں دیا جاسکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ دعوت کے عمل میںاعراض کی اہمیت اتنی ہی زیادہ ہے، جتنا کہ خود دعوت کی اہمیت۔
واپس اوپر جائیں

سیاسی فتنہ

حدیث کی کتابوں میں کثرت سے ایسی روایتیں ہیں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو یہ ہدایت دی کہ تم لوگ سیاسی بگاڑ کے مسئلے کو لے کر حکمرانوں سے ہر گز ٹکراؤ نہ کرنا۔ اِس سلسلے میں حضرت ثوبان بن یجدد کی ایک روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں: إذا وُضع السیف فی أمّتی، لم یُرفع عنہا إلی یوم القیامۃ (رواہ احمد وابو داؤد، بحوالہ مشکاۃ المصابیح، رقم الحدیث: 5406 )یعنی جب میری امت کے اندر تلوار داخل کی جائے گی تو اس کے بعد وہ قیامت تک اُس سے اٹھائی نہیں جائے گی۔
اِس حدیث میں سادہ طورپر صرف ایک اخلاقی تعلیم نہیں ہے، بلکہ اس میں ایک نہایت گہری سیاسی حکمت چھپی ہوئی ہے۔ اگر چہ اِس حکمت کو پوری تاریخ میں کوئی شخص دریافت نہ کرسکا۔ اِسی کا یہ نتیجہ ہے کہ امت کے اندر حضرت عثمان کے زمانے میں تلوار داخل ہوئی تو اب تک وہ امت سے رفع نہ ہوسکی۔
جن مسلمانوں نے حضرت عثمان کو قتل کیا، انھوں نے کیوں ایسا کیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ ان کو حضرت عثمان آئڈیل سیاست کے معیار پر کم دکھائی دئے۔ مگر یہ معاملہ حضرت عثمان پر نہیں رکا۔ اس کے بعد دوبارہ سیاسی معیار کو لے کر حضرت علی کو شہید کردیاگیا، اِسی معیار کی بنیاد پر لوگوں نے حضرت معاویہ سے جنگ کی، اِسی معیار کی بنیاد پر حضرت حسین کا ٹکراؤ یزید کے ساتھ پیش آیا، وغیرہ۔
اصل یہ ہے کہ قانونِ فطرت کے مطابق، اِس دنیامیں کوئی بھی سیاسی نظام آئڈیل نہیںہوسکتا۔ سیاسی نظام کے معاملے میں ہمارے لیے صرف ایک ہی ممکن انتخاب ہے، وہ یہ کہ سیاسی نظام کو آئڈیل سے نہ ناپیں، بلکہ آئڈیل سے کم (less than ideal) پر راضی ہوجائیں۔ ایسا نہ کیا جائے تو ایک حکمراں کو ہٹانے کے بعد جو دوسرا حکمراں آئے گا، وہ بھی لوگوں کو آئیڈیل سے کم دکھائی دے گا، اِس طرح نئے حکمراں سے دوبارہ لڑائی شروع ہو جائے گی اور پھر وہ کبھی ختم نہ ہوگی۔ مذکورہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ تم لوگ اِس معاملے میں پریکٹکل وزڈم (practical wisdom) کا طریقہ اختیار کرو، اور موجودہ حکمراں پر راضی رہتے ہوئے غیر سیاسی دائرے میں تعمیر اور ترقی کا کام جاری رکھو۔
واپس اوپر جائیں

امن، انصاف

انسان کو امن (peace) کی ضروت ہے اور انصاف (justice) کی ضرورت۔ بہتر سماج کے قیام کے لیے دونوں یکساں طورپر ضروری ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ دونوں کو کس طرح حاصل کیا جائے۔ عام تصور یہ ہے کہ لوگوں کو پہلے انصاف دیا جائے، اس کے بعد وہ اپنے آپ امن کے مطابق رہنے لگیں گے۔ مگر یہ سوچ فطرت کے نظام کے خلاف ہے۔ اِس دنیا میں کسی کو کوئی چیز صرف فطرت کے قانون کی پیروی کرکے مل سکتی ہے۔ فطرت کے نظام کی خلاف ورزی کرنے والوں کو اِس دنیا میں کچھ ملنے والا نہیں۔فطرت کے نظام کے مطابق، امن کا فائدہ صرف یہ ہے کہ وہ مواقع (opportunities) کو کھولتا ہے۔ اور انصاف کے حصول کا ذریعہ یہ ہے کہ اِن مواقع کو دانش مندی کے ساتھ استعمال کیا جائے۔ امن کا تعلق خارجی مواقع سے ہے، اور انصاف کا تعلق خود اپنی جدوجہد سے۔ تاریخ میں جب بھی کسی کو امن اور انصاف ملا ہے، اِسی فطری اصول کی پیروی کے ذریعے ملا ہے۔ اِس اصول کی خلاف ورزی کرنے والوں کو اِس دنیا میں کبھی نہ امن ملا ہے اور نہ انصاف۔
جب بھی کوئی گروہ انصاف سے محروم ہو تو اس کا سبب ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ اس نے انصاف کو پانے کے لیے اپنا حصہ ادا نہیں کیا۔ اگر آپ کا یہ احساس ہو کہ آپ انصاف سے محروم ہیں تو براہِ راست انصاف کے لیے لڑائی نہ چھیڑیئے، بلکہ یک طرفہ طورپر صبر کی پالیسی اختیار کرکے امن قائم کیجئے۔ امن کے قائم کرتے ہی یہ ہوگا کہ مواقع اور امکانات کے تمام راستے آپ کے لیے کھل جائیں گے۔ آپ کے لئے یہ ممکن ہوجائے گا کہ آپ اِن مواقع اوراِن امکانات کو استعمال کرتے ہوئے حصولِ انصاف کی نتیجہ خیز جدوجہد شروع کردیں۔ یہی اِس دنیا میں حکمتِ حیات ہے۔ جو شخص یا گروہ اِس دنیا میں کچھ پانا چاہتا ہے، اُس کو سب سے پہلے یہ کرنا ہوگا کہ وہ یک طرفہ طورپر ٹکراؤ کا طریقہ ختم کردے، اور پھر ذاتی تعمیر کے ذریعے انصاف کے حصول کی جدوجہد کرے— موجودہ دنیا میں امن پہلا قدم ہے اور انصاف دوسرا قدم۔ جو لوگ پہلا قدم نہ اٹھائیں، اُن کے لیے دوسرا قدم اِس دنیا میں مقدر نہیں۔
واپس اوپر جائیں

بچوں کا بگاڑ

ایک صاحب نے کہا کہ آج کل والدین عام طورپر یہ شکایت کرتے ہیں کہ اُن کے بچے بگڑ گئے ہیں۔ اِس کا ذمے دار وہ سب سے زیادہ ٹی وی کو بتاتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ٹی وی نے ان کے بچوں کو بگاڑ دیا ہے۔ انھوںنے پوچھا کہ اِس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے۔
میںنے کہا کہ یہ سارا معاملہ اگر ٹی وی کا معاملہ ہے تو والدین کیوں اپنے گھر میں ٹی وی رکھتے ہیں۔ بچے خود خرید کر ٹی وی نہیں لاتے۔ یہ والدین ہیں جو بچوں کو خوش کرنے کے لیے ٹی وی لاکر اپنے گھر میں رکھتے ہیں۔ اِس لیے اِس معاملے میں اصل ذمے دار خود والدین ہیں، نہ کہ بچے۔
حقیقت یہ ہے کہ بچوں کے بگاڑ کا اصل سبب لاڈ پیار (pampering) ہے۔ والدین کا نظریہ اپنے بچوں کے بارے میں یہ ہوتا ہے کہ ان کی ہر خواہش کو پورا کیا جائے۔ بچے جب تک چھوٹے ہیں، ان کی خواہش کھانے اور کپڑے جیسی چیزوں تک محدود رہتی ہے۔ اِس لیے چھوٹی عمر میں والدین اپنے نظریے کی غلطی سمجھ نہیں پاتے ، لیکن جب بچے بڑے ہوتے ہیں تو اُن کی دلچسپیاں بڑھ جاتی ہیں۔ اب وہ دوستی اور آؤٹنگ اور کلب اور لو افیئر (love affair)جیسی چیزوں کی طرف دوڑنے لگتے ہیں۔ جب ایسا ہوتا ہے تو والدین روک ٹوک کرتے ہیں، مگر بچے ان کی روک ٹوک کو قبول نہیں کرتے۔ یہ بلاشبہہ خود والدین کی غفلت کا نتیجہ ہے۔
چھوٹی عمر میں والدین نے اپنے بچوں کے اندر یہ ذہن بنایا کہ میری ہر خواہش پوری ہونی چاہیے۔ بالغ ہونے کے بعد اِس مزاج نے مزید ترقی کی۔ اب وہ اپنی خواہش کو پورا کرنے کے لیے اُن چیزوں کی طرف جانے لگے جو والدین کو پسند نہیں۔
مگر سوال یہ ہے کہ ’’میری خواہش سب کچھ ہے‘‘کا مزاج بچوں کے اندر کس نے پیدا کیا، یہ خود والدین نے اپنے لاڈ پیار سے پیدا کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس معاملے میں والدین اپنے بچوں کے ساتھ محبت کے نام پر دشمنی کا کردار ادا کررہے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

مواقع سے بے خبری

ایک نائجیریا نژاد مسلم نوجوان عمر فاروق عبد المطلب (عمر 23 سال) نے ایک امریکی جہاز کے اندر بم دھماکہ کرنے کی کوشش کی۔ وہ کامیاب نہ ہوسکااور اس کو گرفتار کرلیاگیا۔
ٹائمس آف انڈیا (31 دسمبر2009 ) میں شائع شدہ پی ٹی آئی کی رپورٹ کے مطابق، مذکورہ مسلم نوجوان نے کہا کہ— میں سمجھ سکتا ہوں کہ کس طرح عظیم جہاد پیش آئے گا۔ کس طرح مسلمان، ان شاء اللہ، جیتیں گے اور ساری دنیا پر حکومت کریں گے، اور عظیم ترین ایمپائر کو دوبارہ قائم کریں گے:
I imagine how the great jihad will take place, how the Muslims will win, insha’ Allah (God willing) and rule the whole world, and establish the greatest empire once again! (The Times of India, New Delhi. p. 13)
یہ صرف نائجیریا کے ایک مسلم نوجوان کی بات نہیں ہے، بلکہ شعوری یا غیر شعوری طورپر، ساری دنیا کے مسلمانوں کی سوچ یہی ہے۔ ہر مسلمان کھوئی ہوئی عظمتِ رفتہ کی یاد میں جیتا ہے اور اُس کو دوبارہ واپس لانا چاہتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ کچھ مسلمان اِس کے لیے عملی جہاد کررہے ہیں اور کچھ مسلمان فکری جہاد۔ مگر یہ زمانۂ حاضر سے بے خبری کا نتیجہ ہے۔
آج اسلام اور مسلمانوں کو جو عظیم مواقع حاصل ہیں، وہ پچھلی تمام مسلم سلطنتوں کے زمانے میں کبھی موجود نہ تھے۔ مسلمانوں کی غلطی یہ ہے کہ وہ اِس معاملے کو بمعنیٰ سلطان (in terms of Sultan) سوچتے ہیں۔ اگر وہ اِس معاملے کو بمعنی مواقع (in terms of opportunities) سوچیں تو اچانک وہ دریافت کریں گے کہ جس ایمپائر کو دوبارہ قائم کرنے کا وہ خواب دیکھ رہے ہیں، وہ زمانی تبدیلیوں کے نتیجے میں بالفعل قائم ہوچکا ہے۔ اِس معاملے میں، مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ خود اپنی سوچ کو بدلیں، نہ یہ کہ وہ مفروضہ سیاسی حریفوںسے بے فائدہ ٹکراؤ جاری رکھیں۔اِس قسم کے ٹکراؤ کا کوئی مثبت نتیجہ نہ پہلے نکلا ہے، اور نہ آئندہ اس کا کوئی مثبت نتیجہ نکلنے والا ہے۔
واپس اوپر جائیں

زمین کی زرخیز سطح

سیارۂ ارض کی سطح پر جو زرخیز مٹی (soil) پائی جاتی ہے، اس قسم کی زرخیز مٹی کسی بھی دوسرے سیارے پر موجود نہیں۔ یہ زرخیز مٹی مختلف اسباب سے کم ہورہی ہے اور اس کے اندر پیداوار کی صلاحیت گھٹتی جارہی ہے۔ اِس موضوع پر سائنٹفک رسرچ سے معلوم ہوا ہے کہ موجودہ حالت اگر باقی رہے، تو اگلے 60 برس کے اندر زمین کی زرخیزی ختم ہوجائے گی۔ اِس رپورٹ کا خلاصہ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا(6 فروری 2010 ) میں چھپا ہے۔ اِس رپورٹ کا ایک حصہ یہ ہے:
Fertile soil is being lost faster than it can be replenished and will eventually lead to the “topsoil bank” becoming empty, researchers told an Australian conference. They said farming soil could run out within 60 years, leading to a catastrophic food crisis and drastically higher prices for consumers, reports the Telegraph. Chronic soil mismanagement and over farming causing erosion, climate change and increasing populations were to blame for the dramatic global decline in suitable farming soil, the scientists said. An estimated 75 million tons of soil is lost annually with more than 80% of the world’s farming land “moderately or severely eroded.” John Crawford, professor of Sustainable Agriculture at the University of Sydney, who presented the study, said: “It could be as little as 60 years and that is a scary figure because it is not obvious that we have time to reverse decline and still meet future demands for food.” The Telegraph quoted Crawford as saying. (The Times of India, New Delhi. February 6, 2010)
اِس طرح کی رپورٹیں سائنٹفک کمیونٹی کی طرف سے باربار آرہی ہیں— میٹھے پانی کے ذخیرے سمندروں میں جاکر دوبارہ کھاری پانی بن رہے ہیں، فضا کی آلودگی (pollution) میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، خلاصہ یہ کہ وہ تمام اسباب جو انسان کی بقا کے لیے ضروری تھے، وہ شدید طورپر درہم برہم ہورہے ہیں۔ یہ واقعات اِس بات کی کھلی علامت ہیں کہ قیامت بہت قریب آگئی ہے۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اکیسویں صدی عیسوی انسان کے لیے آخری صدی ہے، اس کے بعد انسان کی نسل بائیسویں صدی میں داخل ہونے والی نہیں۔
واپس اوپر جائیں

صحیح مشورہ

مولانا سعید احمد اکبرآبادی (وفات: 1982 ) اپنے زمانے کے مشہور عالم تھے۔ وہ اردو، عربی، فارسی اور انگریزی زبانوں میں بخوبی دست گاہ رکھتے تھے۔ اُن کا ایک واقعہ ماہ نامہ معارف (جنوری، 2010 ،صفحہ 71) سے لے کر یہاں نقل کیا جارہا ہے: ایک مرتبہ اپنے ابتدائی دور میں جب کہ میرے ارزاں قسم کے مضامین ومقالات پنجاب کے بعض ادبی رسالوں میں شائع ہوتے تھے، ایک نظم کی نسبت خیال ہوا کہ معارف جیسے معیاری رسالے کے لائق ہے، مولانا سید سلیمان ندوی مرحوم کی خدمت میں ارسال کردی۔ مولانا نے یہ نظم واپس کرتے ہوئے بڑی محبت وشفقت کے ساتھ تحریر فرمایا:آپ اِس نظم نویسی کے چکّر میں کہاں پڑ گئے۔ یہ آپ کے مرتبے سے گری ہوئی چیز ہے۔ کچھ محنت کیجئے اور مقالہ نویسی پر توجہ دیجئے۔ قوم کو آپ سے اِسی کی توقع ہوسکتی ہے اور یہی ہونی چاہئے۔ مولانا اکبرآبادی پر اِس خط کا یہ ردعمل (اثر) ہوا کہ بقول اُن کے مولانا کے گرامی نامے کے جواب میں یہ شعر لکھ دیا:
کون ہوں، کیا ہوں، کہاں ہوں، سب حقیقت کھل گئی تو نے وہ ٹھوکر لگائی، چشم ِ عبرت کھل گئی
مولانا سید سلیمان ندوی کا یہ مشورہ بلاشبہہ ایک صحیح مشورہ تھا۔ اصل یہ ہے کہ تحریری کام کی دو قسمیں ہیں— ایک، وہ جس کو فکشن (fiction) کہاجاتا ہے۔ اور دوسرا، وہ جس کو نان فکشن (non-fiction) کہا جاتا ہے۔ شاعری وغیرہ، فکشن کے دائرے کی چیزیں ہیں۔ اِس قسم کی تحریریں حقیقۃً صرف ذہنی تفریح کا سامان ہوتی ہیں، تعمیری اعتبار سے اُن کی کوئی اہمیت نہیں۔
نان فکشن میں تمام علمی موضوعات آتے ہیں۔ مثلاً تاریخ اور سائنس، وغیرہ۔ کسی تعلیم یافتہ آدمی کے لیے اصل کرنے کا کام یہی ہے کہ وہ نان فکشن کے دائرے کو اپنا میدانِ مطالعہ بنائے۔ وہ اپنی صلاحیتوں کے اعتبار سے کسی علمی موضوع کو منتخب کرکے اس کا گہرا مطالعہ کرے اور اس پر مقالات یا کتابیں لکھے— انسان کو چاہئے کہ وہ اپنی زندگی کے لیے اعلیٰ مقصد کا انتخاب کرے، وہ اعلیٰ مقصد سے کم تر کسی چیز میںاپنی صلاحیتوں کو ضائع نہ کرے۔
واپس اوپر جائیں

قناعت، عدم قناعت

خدا نے جس منصوبے کے تحت، انسان کو پیدا کیا ہے، اس کے مطابق، انسان کی زندگی دو دوروں (periods)میں بٹی ہوئی ہے۔ اِن میں سے ایک کو دنیا کہا جاتا ہے، اور دوسرے کو آخرت۔ اِس طرح، ہر انسان کو دو تقاضوں کے درمیان جینا پڑتا ہے۔ ایک تقاضاتعمیر دنیا کا ہوتا ہے اور دوسرا تقاضا تعمیر آخرت کا تقاضا۔
یہاں یہ سوال ہے کہ اِن دونوں تقاضوں کے درمیان کس طرح موافقت پیدا کی جائے، زندگی کا وہ نقشہ کیا ہے جس میں دونوں تقاضوں کی رعایت موجود ہو۔ اِس کا قابلِ عمل فارمولا صرف ایک ہے، اور وہ ہے— دنیا کے معاملے میں قناعت، اور آخرت کے معاملے میں عدم قناعت۔
انسان کے لیے اپنی موجودہ ساخت کے اعتبارسے یہ ممکن نہیں کہ وہ دونوں تقاضوں کو یکساں درجہ دے۔ وہ دنیا کی چیزوں میں بھی بھر پور توجہ دے، اور آخرت کے معاملے میں بھی بھر پور توجہ دے۔ اِس قسم کی برابری کسی انسان کے لیے ممکن نہیں۔
ایسی حالت میں عملی طور پر صرف یہ ہوسکتا ہے کہ انسان اِس معاملے میں ترجیح (priority) کا طریقہ اختیار کرے، یعنی وہ دونوں میں سے ایک کو اوّلین (primary) اہمیت دے، اور دوسرے کو وہ ثانوی (secondary) درجے میں رکھے۔
اِس فارمولے کا مطلب یہ ہے کہ انسان دنیا کے معاملے میں قناعت (contentment) کا طریقہ اختیار کرے، اور آخرت کے معاملے میںعدم قناعت (discontentment) کا طریقہ، یعنی دنیا کی چیزوں کے معاملے میں اُس کا مزاج یہ ہو کہ جو کچھ آخرت کا نقصان کیے بغیر مل جائے، اُس کو وہ کافی سمجھے۔ جہاں تک آخرت کا معاملہ ہے، اپنی زیادہ سے زیادہ توجہ اور اپنی زیادہ سے زیادہ توانائی وہ اس کے حصول میں لگا دے— دنیا کے معاملے میںوہ کم پر راضی ہوجائے، اور آخرت کے معاملے میں وہ زیادہ سے زیادہ کے لیے کوشش کرتا رہے۔
واپس اوپر جائیں

اپنے آپ کو جانئے

ہر عورت اور ہر مرد کے لیے اِس دنیا میں پہلا کام یہ ہے کہ وہ خود اپنے آپ کو دریافت کرے۔ وہ جانے کہ میںکون ہوں، میں اِس دنیا میں کس لیے آیا ہوں، میری زندگی کی منزل کیا ہے، میری کامیابی کیا ہے اور میری ناکامی کیا— یہی وہ دریافت ہے جہاں سے زندگی کے حقیقی سفر کا آغاز ہوتا ہے۔
خلیفہ چہارم حضرت علی بن ابی طالب کا ایک قول ہے: قیمۃ المرء ما یُحسِنہ، یعنی کسی انسان کی قیمت اُس کے اُس عمل میں ہے جس کو وہ ممتاز طورپر انجام دے:
The value of a person lies in excellence.
اصل یہ ہے کہ ہر انسان کا ایک ’’مایحسنہ‘‘ ہوتا ہے۔ ہر انسان فطری طورپر کوئی ایسی صلاحیت لے کر پیدا ہوتا ہے جس میں وہ خصوصی ملکہ رکھتاہو۔ آدمی کا کام یہ ہے کہ وہ فطرت کے دئے ہوئے اپنے اِس خصوصی عطیہ (ما یحسنہ) کو دریافت کرے اور پھر اس کے مطابق، وہ اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرے۔ اِس دنیا میں کسی کے لیے اعلیٰ کامیابی حاصل کرنے کا یہی واحد طریقہ ہے۔
تجربہ بتاتا ہے کہ اکثر لوگ زیادہ بڑی کامیابی حاصل نہیں کرپاتے۔ اِس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ وہ اپنے ’’مایحسنہ‘‘ کو دریافت نہیں کر پاتے۔ وہ اپنے آپ کو ایسے کام میںلگا دیتے ہیں جس کے لیے وہ پیدا نہیں کئے گئے تھے اور پھر ساری زندگی وہ مایوسی (despair)کا شکار رہتے ہیں اور آخر کار اِسی حال میں مرجاتے ہیں۔
خالق (Creator)نے ہر انسان کو کسی بڑے کام کے لیے پیدا کیا ہے۔ مگر عام طورپر یہ حال ہے کہ لوگ اِسی بڑے کام کو نہیں کرپاتے۔ وہ چھوٹی کامیابی میں پھنس کر رہ جاتے ہیں اور بڑی کامیابی تک پہنچنے سے وہ قاصر رہتے ہیں۔
اِس المیہ (tragedy)سے بچنا صرف اُس انسان کے لیے ممکن ہے جو اپنا بے رحمانہ محاسبہ (merciless introspection) کرنے کے لیے تیار ہو۔
واپس اوپر جائیں

نفسیاتی خود کشی سے بچئے

ایک صاحب کا ٹیلی فون آیا۔انھوںنے کہا کہ میں مستقل طورپر منفی احساس میں مبتلا رہتا ہوں۔ اِس کا علاج کیا ہے۔ میں نے اِس کا متعین سبب پوچھا۔ انھوںنے کہا کہ مثال کے طورپر میرے گھر میں ٹی وی چلتا ہے۔ میں ایک عالم آدمی ہوں اور ٹی وی کو برا سمجھتا ہوں۔ میں اُن کو منع کرتاہوں، لیکن گھر والے میری بات نہیںسنتے۔ ایسی حالت میں میں کیا کروں۔
میں نے کہا کہ اِس طرح کی صورتِ حال میں اسلام کا فارمولا یہ ہے— اگر تم دوسروں کو نہ بچا سکو، تو تم اپنے آپ کو بچاؤ۔ اِسی کا نام صبر ہے۔ صبر کوئی بزدلی کی بات نہیں، صبر زندگی کی ایک عظیم حکمت ہے۔ اجتماعی زندگی میں آدمی کو ہمیشہ اپنے مزاج کے خلاف ماحول میں رہنا پڑتا ہے۔ ایسے ماحول میں اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اگر تم پُر امن طورپر دوسروں کی اصلاح کرسکو تو تم دوسروں کی اصلاح کرو۔ اور اگرایسا کرنا تمھارے لیے ممکن نہ ہو تو تم خوداپنے آپ کو اُس برائی سے بچاؤ۔ اِسی کا نام صبر ہے۔
منفی احساس میں مبتلا ہونا کوئی سادہ بات نہیں، یہ نفسیاتی خود کشی کے ہم معنیٰ ہے۔ ایسے موقع پر دوسروں کے خلاف تشدد کرنا جتنا برا ہے، اتنا ہی برا یہ بھی ہے کہ آدمی منفی احساس میں مبتلا رہے۔ پہلا طریقہ اگر دوسروں کے خلاف ظلم ہے، تو دوسرا طریقہ خود اپنے خلاف ظلم۔ اور دونوں ہی طریقے بلا شبہہ یکساں طورپر غیر مطلوب طریقے ہیں۔
موجودہ دنیا میں اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کو آزادی دی ہے۔ قیامت تک کسی کی آزادی ختم ہونے والی نہیں، اِس لیے قیامت تک برائی کا کلی خاتمہ بھی ممکن نہیں۔ ایسی حالت میں انسان کے لیے صرف ایک ہی ممکن صورت ہے، وہ یہ کہ وہ امن اور خیر خواہی کے ساتھ دوسروں کی اصلاح کی کوشش کرے۔ اور جب وہ دیکھے کہ لوگ اصلاح قبول کرنے والے نہیں ہیں، اُس وقت وہ وہی کرے جس کو حدیث میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: علیک بنفسک، ودَعْ عنک العوام ( أبوداؤد، کتاب الملاحم، باب الأمر والنہی) یعنی اپنے آپ کو بچاؤ اور لوگوں کے معاملے کو اللہ کے حوالے کردو ۔
واپس اوپر جائیں

سوال وجواب

سوال
ماہ اکتوبر(2009) کا شمارہ نظر نواز ہوا۔ویسے تو آپ کی ہر تحریر مبنی بر حقیقت اور گہرے درد میں ڈوبی ہوتی ہے، لیکن مذکورہ شمارہ میں جو کچھ آپ نے مسئلہ فلسطین پر سپرد قرطاس کیا ہے، میں اس سے کُلی طورپر اتفاق کرتا ہوں۔ یہ حقیقت دراصل بہت لوگوں کے گوشہائے قلب و دماغ میں ہے، مگر اندیشۂ مخالفت، خوفِ بدنامی، اتہام والزام کا ڈر اظہار سے مانع ہے۔ مجھے دل کی گہرائیوں سے سلام کرنے کو جی چاہتا ہے آپ کے عزیمت بھرے اور شجاعتِ اظہار سے پُر قلم کو۔ ہوسکتا ہے بہت سے تنگ دماغوں اور مزاج ِ شریعت سے ناآشنا لوگوں کے لئے یہ بات ناقابلِ قبول بلکہ ایمان و اسلام کے منافی ہو، لیکن حقیقت یہی ہے کہ جو بات آپ نے رقم فرمائی ہے، وہ نصوص ثابتہ اور تاریخ سے واضح طور پر سمجھ میں آرہی ہے۔ قُدس اور فلسطین کا مسئلہ جو ساری امتِ اسلامیہ کے لیے سوہانِ روح بن چکا ہے، اس کی افزائش میں انا کا بہت دخل ہے۔ حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے اگر سوچا جائے تو یہ بات صاف طورپر سمجھ میں آجاتی ہے۔ میری تو تمنا اور خواہش ہے کہ اس مسئلہ کو صرف الرسالہ تک ہی محدود نہ کردیا جائے بلکہ عالمی مسلم اور یہودی رہنماؤں کے سامنے اس بات کو پُرامن حل کے طورپر پیش کیا جائے۔ انٹرنیشنل لیول پر اس بات کو رکھا جائے، اور مسئلہ کے اس غیرمتشددانہ حل کو پیش کیا جائے تاکہ اہل عقل اس قندیل کی روشنی میں مستقبل کی راہوں کا تعین کرسکیں۔ امید کہ آپ اس بات کی طرف توجہ دیں گے۔ محترم، اس پورے مضمون میں ایک سوال میرے دل میں کھٹکتا رہاکہ آپ نے صفحہ نمبر 21 پر یہ بات رقم فرمائی ہے کہ — نزولِ قرآن کے وقت یہاں کوئی عمارت نہیں تھی، بلکہ صرف ہیکل کی خالی جگہ (site) تھی۔ خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق کے زمانہ میں 638 ء میں مسلمان یروشلم میں داخل ہوئے۔ حضرت عمر نے ہیکل کی جگہ پر کوئی عمارت تعمیر نہیں کی۔ بعد کو اموی دور میں خلیفہ عبد الملک بن مروان وفات 706 ء نے ہیکل کی جگہ 688ء میں موجودہ مسجد اقصیٰ تعمیر کی۔ مگر قرآن میں جہاں واقعہ اسراء کا تذکرہ ہے— من المسجد الحرام إلی المسجد الاقصیٰ (بنی إسرائیل:1) ۔ وہاں مسجد اقصی کا صاف طورپر نام لیا گیا ہے۔ اورصحیح ترین روایات سے یہ بات ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد ِ اقصیٰ میں تمام انبیاء کی امامت فرمائی ہے اور بعض تاریخی روایات سے یہ بات بالکل صاف طورپر سمجھ میں آتی ہے کہ نزول قرآن کے وقت وہاں مسجد اقصیٰ موجود تھی۔ حافظ ابن کثیر نے اپنی تاریخ میں فتح بیت المقدس کے تحت حضرت عمر کے بارے میں ذکر کیا ہے ’’ودخل المسجد من الباب الذی دخل منہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (البدایۃ والنہایۃ 8/55) حافظ ابن عساکر دمشقی نے اپنی مشہور کتاب المستقصیٰ فی فضائل المسجد الاقصیٰ میں عہدفاروقی میں فتح بیت المقدس اور تعمیر وتوسیع مسجد اقصیٰ کا بڑی تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ نیز ابن کثیر نے المسجد الاقصیٰ کے تحت حضرت عمر کے بارے میں ذکر کیا ہے: ثم نقل التراب عن الصخرۃ فی طرف ردائہ(البدایۃ والنہایۃ 8/58 )۔ حافظ ضیاء الدین مقدسی نے امام احمد کے واسطہ سے ایک لمبی تاریخی روایت ذکرکی ہے جس میں نزول قرآن کے وقت مسجد اقصیٰ کے وجود اور عہدفاروقی میں اس کی تعمیر وتوسیع صاف طورپر معلوم ہوتی ہے۔ براہِ کرم، اس شبہہ کا ازالہ اور اس کنفیوژن کو دور فرمائیں تو بڑی مہربانی ہوگی۔ (محمد ثناء اللہ قاسمی، محبوب نگر،آندھرا پردیش)
جواب
1 - مسجد اقصیٰ کے بارے میں مسلم تاریخوں میں جو بات کہی گئی ہے، وہ میرے علم میں ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی لکھی ہوئی تاریخی کتابوں کے علاوہ، جو دیگر تاریخی ریکارڈ ہے، وہ اِس سے مختلف ہے۔ ایسی حالت میں ہمارے لیے ایک ہی راستہ ہے، وہ یہ کہ دونوں میں سے ایک کے بیان کو اصل مانیں اور دوسرے بیان کی تاویل کریں۔ میںنے اِس معاملے میں، مسلم مورخین کے بیان کو تاویل کے خانے میں ڈالا ہے اور دوسرے تاریخی ریکارڈ کو اصل قرار دیا ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ ابن خلدون (وفات:1406 ء) سے پہلے، مسلم تاریخ نگاروں کے یہاں عام طورپر علمی ذوق کا رواج نہ تھا۔ وہ خالص تاریخی واقعات کے ساتھ مروّجہ قصہ کہانیوں کو بھی اس میں شامل کردیتے تھے۔ اِس لیے اُس زمانے میں لکھی ہوئی تاریخوں پر کلّی اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔
2 - مسجد اقصی کے بارے میں جو بات میں نے لکھی ہے، وہ بظاہر عمومی تصور کے خلاف ہے، لیکن حقیقتاً ایسا نہیں ہے۔ اِس رائے کی اصل دوسرے مسلم محققین کے یہاں بھی موجود ہے۔ مثال کے طورپر عبد اللہ بن احمد النسفی (وفات: 1310 ء) نے اپنی تفسیر ’’مدارک التنزیل‘‘ میں سورہ الاسراء کی آیت نمبر 1 کے تحت مسجد اقصی کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے: ہو بیت المقدس، لأنہ لم یکن حینئذ وراء ہ مسجد (جلد 2، صفحہ 306 ) یعنی مسجد اقصی سے مراد بیت المقدس ہے، کیوں کہ اُس وقت وہاں کوئی مسجد موجود نہ تھی۔ واضح ہو کہ قرآن کی آیت میں مسجد حرام سے مراد مسجد ہے، لیکن مسجد اقصی سے مراد معروف مسجد نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد عبادت گاہ ہے، یعنی یہودی عبات گاہ جس کو ہیکلِ سلیمان(Solomon’s Temple) کہاجاتا ہے۔
محمد بن احمدالانصاری القرطبی (وفات: 1273 ء)نے اپنی تفسیر ’’الجامع لأحکام القرآن‘‘ میں سورہ آل عمران کی آیت نمبر 96 کے تحت مسجدِ اقصیٰ کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے: وأمّا المسجد الأقصیٰ، فبناہ سلیمان علیہ السلام، کما خرجہ النسائی بإسناد صحیح من حدیث عبد اللہ بن عمرو (جلد 4، صفحہ 173 ) یعنی جہاں تک مسجد اقصیٰ کا تعلق ہے، تو اس کو سلیمان علیہ السلام نے بنایا تھا، جیسا کہ النسائی نے صحیح اسناد کے ساتھ نقل کیا ہے۔
قاضی محمد ثناء اللہ العثمانی (وفات: 1810 ء) نے اپنی تفسیر ’’التفسیر المظہری‘‘ میں سورہ الاسراء کی اِس آیت کے تحت مسجد اقصی کی تشریح میں یہ الفاظ لکھے ہیں: المسجد الأقصی، یعنی البیت المقدس سُمّی أقصی لبُعدہ من المسجد الحرام، ولم یکن حینئذ ورائہ مسجد (جلد 5 ، صفحہ 399 ) یعنی مسجد اقصی سے مراد بیت المقدس ہے۔ بیت المقدس کو مسجد اقصی کانام اِس لیے دیاگیا کہ وہ مکہ کی مسجد حرام سے دور یروشلم (فلسطین) میں واقع تھی۔
مولانا عبد الماجد دریابادی (وفات: 1977 ء) نے اپنی انگریزی تفسیر ’’تفسیر القرآن‘‘ میں سورہ الاسراء کی اِس آیت کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ —یہاں لفظ مسجد سے مراد جگہ (site) ہے، نہ کہ مسجد کی کوئی عمارت:
Masjid: properly denotes the site, not the building of a mosque (Vol. 3, p. 2)
اِس معاملے کی مزید تفصیل الرسالہ کے شمارہ، دسمبر 2009 میں صفحہ 39-41 کے تحت دیکھی جاسکتی ہے۔
3 - آپ نے لکھا ہے کہ اِس مسئلے کو صرف الرسالہ تک محدود نہ کردیا جائے، بلکہ عالمی سطح کے مسلم اور یہودی رہنماؤں کے سامنے اِس بات کو ایک پر امن حل کے طورپر پیش کیا جائے، تاکہ اہلِ عقل اس کی روشنی میں مستقبل کی راہوں کا تعین کرسکیں۔
آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ یہ کام بالفعل ہورہا ہے۔ 27-29 اکتوبر 2008 کو اسرائیل کی راجدھانی تل ابیب (Tel Aviv) میں ایک انٹرنیشنل کانفرنس خاص اِسی موضوع پر ہوئی۔ اِس میں دنیا کے 50 ملکوں کے رہنما شریک ہوئے۔ اِن میں ریاست اسرائیل کے صدر مسٹر شمعون پیریز کے علاوہ اعلیٰ سطح کے یہودی، مسیحی اور مسلم رہنما موجود تھے۔ فلسطین کے عرب نمائندے بھی بڑی تعداد میں اِس کانفرنس میں شریک تھے۔ اِس کانفرنس کی دعوت پر راقم الحروف نے اپنے 6 ساتھیوں کے ہم راہ اِس میں شرکت کی، اور وہاں تقریر اور ڈسکشن کے ذریعے اپنا نقطۂ نظر لوگوں کے سامنے رکھا۔ اِس موقع پر شرکائِ کانفرنس کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور اسلامی لٹریچر دیاگیا۔ اس کے علاوہ، خاص اِسی موقع کے لیے انگریزی زبان میں 15 صفحات کا ایک پمفلٹ تیار کیا گیا تھا۔ اِس کا ٹائٹل یہ تھا:
How to Establish Peace in the Holy Land— Ten Point Program
یہ پمفلٹ بڑے پیمانے پر کانفرنس کے شرکاء اور مقامی لوگوں کو دیا گیا۔اِس پمفلٹ کو سی پی ایس کی ویب سائٹ (www.cpsglobal.org) پر دیکھا جاسکتا ہے۔
سوال
الحمد للہ میں ’’الرسالہ‘‘ کا مطالعہ گذشتہ دو سالوں سے کررہا ہوں۔ الرسالہ کے ہر مضمون سے نفع حاصل ہوتا ہے۔ اب میرے ساتھ یہ معاملہ ہوگیا ہے کہ نہ صرف میں خود الرسالہ پڑھتا ہوں، بلکہ اپنے دوستوں کو بھی پڑھنے کے لیے دیتاہوں، کیوں کہ الرسالہ میں اسلامی تعلیمات کو اس انداز میں بیان کیا جاتا ہے کہ وہ پڑھنے اور سننے والے کے مائنڈ کو ایڈریس کر ے۔ میرے ذہن میں کچھ سوالات تھے جومسلسل الرسالہ کا مطالعہ کرنے سے دور ہوگئے، لیکن دورانِ مطالعہ کئی بار ایسا محسوس ہوا کہ چند موضوع پر آپ کے افکار متضاد ہوتے ہیں مگر کبھی اس کے ذکر کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔ مگر گذشتہ دو ماہ (جنوری اور فروری 2009) کے الرسالہ میں ایک ہی موضوع پر دو مختلف آراء نے مجھے مجبور کیا کہ اِس طرف آپ کی توجہ مبذول کروں۔جنوری اور فروری 2009 کے الرسالہ کو راقم نے پورا پڑھا ۔ جنوری کے شمارہ میں ’’ظاہری تبدیلی، حقیقی تبدیلی‘‘ کے زیرِ عنوان آپ نے امریکی میگزین ٹائم (17 نومبر 2009 ) پر شائع براک اوباما کی تقریر کا پہلا جملہ’’تبدیلی امریکا تک پہنچ گئی‘‘ Change has come to America پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’یہ ایک بے بنیاد بات ہے۔ اصل یہ ہے کہ امریکا میں جو چیز بدلی ہے، وہ صرف وہاں کی صدارت ہے۔ نہ کہ وہاں کے حالات۔ زیادہ درست بات یہ ہے کہ اس طرح کہاجائے کہ Change has come to American Presidency (صفحہ 13)
اِسی موضوع پر فروری 2009کے ’’الرسالہ‘‘ میں آپ رقم طراز ہیںکہ ’’واقعہ بتاتا ہے کہ وہائٹ ہاؤس میں وہائٹ پریزیڈینٹ کی جگہ ایک بلیک پریزیڈنٹ آگیا ہے۔ یہ ایک بڑا واقعہ ہے۔ براک اوباما نے جیت کے بعد اپنی پہلی تقریر میں کہا تھا کہ امریکا میں تبدیلی آگئی۔ میں کہوں گا کہ دنیا میں تبدیلی آگئی‘‘(قبرص کا سفر، صفحہ34 ) ۔مجھے یہ بات سمجھ میںنہیں آئی۔ ایک جگہ آپ کہتے ہیں کہ امریکا میں جو چیز بدلی ہے، وہ صرف وہاں کی صدارت ہے، نہ کہ وہاں کے حالات۔ اور دوسری جگہ آپ صرف امریکا کی تبدیلی کو قبول نہیں کرتے بلکہ اس کے ساتھ دنیا کی تبدیلی خیال کر رہے ہیں۔
جنوری 2009 کے ہی شمارہ میںآپ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ’’لوگ ظاہری تبدیلی کو حقیقی تبدیلی سمجھ لیتے ہیں۔ پانچ سال تک براک اوباما اس طرح پُر شور الفاظ بولتے رہیں گے، یہاں تک کہ جب پانچ سال پر ان کا دورِ صدارت ختم ہوگا تو معلوم ہوگا کہ حقیقی معنوں میں کوئی بھی ایسا کام نہیں ہوا، جس کو تبدیلی (change) کہاجاسکے، امریکا کے اصل مسائل بدستور موجود ہیں، بلکہ اُن میں مزید اضافہ ہوگیا‘‘ (صفحہ 13 ) ۔مذکور ہ دو شماروںمیں آپ کے اقتباسات خود ایک دوسرے کو رد کررہے ہیں۔ آپ سے التماس ہے کہ اس تضاد بیانی سے متعلق وضاحت فرما کر میری الجھن کودور کریں۔ (شاہد جمیل، بیل گچھیا اردو ہائی اسکول، کولکاتا)
جواب
آپ کا خط مورخہ 30 مارچ 2009 ملا۔ آپ الرسالہ کو مسلسل اپنے مطالعے میںرکھیں اور ہر شمارے کو کئی بار پڑھیں۔ ان شاء اللہ آپ کے تمام شبہات دور ہوجائیں گے۔
مذکورہ دونوں مضامین میںکوئی تضاد نہیںہے۔ اصل یہ ہے کہ دونوں بیان دو پہلوؤں کے اعتبار سے ہیں۔ یہ ایک واقعہ ہے کہ سماجی اور اقتصادی اعتبار سے امریکا میںکوئی تبدیلی نہیںآئی۔ لیکن صدارتی انتخاب بتاتا ہے کہ امریکا میںایک نیا رجحان ضرور پیدا ہوا ہے، ورنہ وہاںایک بلیک شخص کو صدر کے لیے منتخب نہ کیا جاتا۔ ہر معاملے کے کئی پہلو ہوتے ہیں۔ کبھی ایک پہلو کے اعتبار سے بات کہی جاتی ہے اور کبھی دوسرے پہلو کے اعتبار سے۔ اِس قسم کی مثالیں قرآن اور حدیث میں بھی موجود ہیں۔ مثلاً قرآن میں اہلِ ضلالت کے لیے ایک جگہ اعمیٰ (الإسراء:72 ) کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، اور اُنھیں کے لیے دوسری جگہ بصرِ حدید (ق: 22 ) کا لفظ آیا ہے۔ یہ دونوں باتیں دو پہلوؤں کے اعتبار سے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز— 201

1 - 30-31 مئی 2009 کوتولہ مولہ (گاندریل) کشمیر میں ’’کھیربھوانی‘‘ کا سالانہ میلہ منعقد ہوا۔ حلقہ الرسالہ کشمیر کی طرف سے وہاں غیر مسلموں کے درمیان تقریباً 300 انگریزی اور ہندی ترجمہ قرآن کی کاپیاں اور دیگر دعوتی لٹریچر مفت تقسیم کیاگیا ۔ مقامی ہندوؤں (کشمیری پنڈتوں) کے علاوہ، ڈی سی اور ایس پی گاندریل نے اِس دعوتی کام کو کافی سراہا۔ پروفیسر شاد حسین، ڈاکٹر طلعت قیوم، ڈاکٹر عابد پانڈے، حاجی غلام قادر، وغیرہ نے اِس دعوتی کام میں اہم رول ادا کیا۔
2 - نئی دہلی کے مرکزی چرچ (Cathedral) کے وسیع لان میں 22 نومبر 2009 کی شام کو ایک پروگرام ہوا۔ یہ پروگرام گولڈن جبلی (Archdiocese of Delhi’s Golden Jubilee) کے موقع پر کیاگیا۔ اِس پروگرام میں دہلی کے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد اور سرکاری نمائندوں کے علاوہ، انڈیا کے مختلف صوبوں کے تقریباً 10 ہزار لوگوں نے شرکت کی۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اپنی ٹیم کے افراد کے ساتھ اِس پروگرام میں شرکت کی اور انگریزی زبان میں اسلام اور مسیحیت کے موضوع پر ایک تقریر کی۔ اِس موقع پر سی پی ایس کی طرف سے حاضرین کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیاگیا۔
3 - حکومت شارجہ (عرب امارات) کی جانب سے 28 واں انٹرنیشنل بک فیئر 11 21- نومبر2009 ء منعقد کیاگیا۔ یہ بک فیئر شارجہ ایکسپو سینٹر(Expo Center) میں ہوا۔ اس بک فیئرمیں دنیا بھر سے ایک ہزار ناشرینِ کتب نے شرکت کی۔ انڈیا سے گڈورڈ بکس (نئی دہلی) نے حصہ لیا۔ کثیر تعداد میں لوگ گڈورڈ کے اسٹال پر آئے اور کتابیں حاصل کیں۔ صدر اسلامی مرکز کے انگریزی ترجمہ قرآن کو بہت پسند کیاگیا۔ اس کا ہدیہ مقامی کرنسی کے اعتبار سے بہت کم رکھا گیا تھا، یعنی صرف 2 درہم۔ لوگوں نے بڑی تعداد میں اِس ترجمہ قرآن کو حاصل کیا۔ اس بک فیئر کا افتتاح شارجہ کے موجودہ حکمراں دکتور سلطان القاسمی نے کیا تھا۔
9 - دوحہ (قطر) میں 22-31 جنوری2010 کو ایک انٹرنیشنل بک فیئر منعقد ہوا۔ یہ بک فیئر دوحہ ایگزی بیشن سنٹر میں لگایا گیا۔ یہاں گڈ ورڈبکس (نئی دہلی) نے اپنا اسٹال لگایا۔ یہ اسٹال انڈیا کا واحد بک اسٹال تھا۔ لوگوں نے بڑے پیمانے پر گڈورڈ کے اسٹال سے دیگرکتابوں کے علاوہ، قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی پمفلٹس حاصل کیے۔ اِس موقع پر مولانا عبد الباسط عمری نے اپنا بھر پور تعاون دیا۔اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
10 - نئی دہلی کے پرگتی میدان میں 30 جنوری تا 7 فروری 2010 کو ایک انٹرنیشنل بُک فیئر لگایا گیا۔ یہاں گڈورڈ بکس (نئی دہلی) کے دو اسٹال تھے۔ یہ بک فیئربھی ہر لحاظ سے بہت کامیاب رہا۔مذکورہ تینوں بک فیئر میں اسٹال کا انتظام شاہ عمران حسن نے سنبھالا۔
4 -نئی دہلی کے ٹی وی چینل (Time Now) کی ٹیم نے 24 نومبر 2009 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق بابری مسجد کے انہدام (1992) کے بارے میںلبراہن کمیشن کی رپورٹ سے تھا۔ جوابات کے تحت بتایاگیا کہ اب یہ اِشو ایک تاریخی اشو بن چکا ہے۔ جذباتی تقریریں کرکے اُس پر لوگوں کو بھڑکانا کوئی صحت مند پالیسی نہیں۔اِس وقت ملک کے سامنے اور ملک کے مسلمانوں کے سامنے زیادہ بڑے بڑے اشو ہیں۔ ان میں سب سے بڑا اشو معیاری تعلیم کا ہے جس کا ہمارے یہاں فقدان ہے۔ ایسی حالت میں ضرورت ہے کہ زیادہ حقیقت پسندانہ پالیسی اختیار کی جائے۔ آخر میں ٹی وی چینل کے افراد کو دعوتی لٹریچر دیاگیا۔
5 - ہندی روزنامہ ’’امر اجالا‘‘ (نوئڈیا) کے نمائندہ ڈاکٹر گووند سنگھ نے 26 نومبر 2009 کو اپنے اخبار کے لیے صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ انٹرویو کا موضوع یہ تھا: ہندستانی مسلمان 1947 کے بعد۔ ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ مسلمانوں کے تمام مسائل کا واحد سبب ہے — جدید تعلیم میں ان کا پچھڑ جانا۔ بابری مسجد کے سوال پر اُن کو بتایا گیا کہ اِس مسئلے کا عملی حل صرف ایک ہے، وہ یہ کہ مسلمان ایک مسجد پرچپ ہوجائیں، اور ہندو ایک مسجد کے بعد دوسری مسجدوں پر چپ ہوجائیں۔ لبراہن کمیشن کی رپورٹ کے بارے میں بتایا گیا کہ اُس سے صورتِ حال میں کوئی بدلاؤ آنے والا نہیں۔ اِس قسم کے مسائل کسی کمیشن کی رپورٹ سے حل نہیںہوتے۔
6 - امریکا کی جارج ٹاؤن یونی ورسٹی (Georgetown University) میں ایک رسرچ ہوئی ہے، جو کتابی صورت میں شائع ہوگئی ہے۔ یہ ریسرچ 202 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کا نام یہ ہے: The 500 Most Influential Muslims ۔ اس کتاب میں صدر اسلامی مرکز مولانا وحید الدین خاں کو دنیا کا ’’اسپریچول ایمبیسڈر‘‘قراردیا گیا ہے:
Maulana Wahiduddin Khan has been called ‘Islam’s Spiritual ambassador to the world’. Khan aims to teach about Islam as a spiritual way of life, an approach that is popular among Indian, both Muslim and non-Muslim. He established the Islamic centre in Delhi in 1970, and has written over 200 books since. (p. 94)
اس کی رپورٹ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمز آف انڈیا (12 دسمبر 2009 ) میں بھی شائع ہوئی ہے۔
7 - زی سلام (Zee TV) کے اسٹوڈیو میں 26دسمبر 2009 کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو ہوا۔ سوالات کا موضوع سی پی ایس انٹرنیشنل (نئی دہلی) کے تعارف اور موجودہ مسلمانوں کے مسائل تھا۔ جوابات کے دوران اس موضوع پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی۔
8 - نئی دہلی کے ٹریول پیشن (Travel Passion) کی طرف سے 7 جنوری 2010 کو امریکا کے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کا ایک گروپ اسلامی مرکز میںآیا۔ اِس گروپ کے قائد مسٹر ورون گاندھی (گاندھی جی کے پوتے) تھے۔ یہ لوگ اسلام کے بارے میں جاننا چاہتے تھے۔ اِس موقع پر صدر اسلامی نے ’’تعارفِ اسلام‘‘ کے موضوع پر انگریزی زبان میں ایک تقریر کی۔ تقریر کے بعد سوال وجواب کا پروگرام ہوا۔ تقریر کے بعد مسٹر ورون گاندھی نے مائک پر کہا کہ آج میں نے اسلام کے بارے میں اتنا زیادہ سیکھا ہے جو میںنے اپنی 67 سال کی عمر میں کبھی نہ سیکھ سکا تھا۔ اِس موقع پر قرآن کے انگریزی ترجمہ کے علاوہ، صدر اسلامی مرکز کی نئی کتاب (The Prophet of Peace) گروپ کے لوگوں کو دی گئی۔ بعد کو ان کے ایک ذمے دار کا خط ملا جو یہاں نقل کیا جاتا ہے:
Dear Center for Peace and Spirituality Team, I would like to thank you for extending the invitation for Arun and Tushar Gandhi as well as the American delegation to come enjoy an evening lecture at the Center for Peace and Spirituality in New Delhi by Maulana Wahiddudin Khan. I would also like to express my gratitude for the gifts of Maulana Wahiduddin Khan’s copy of The Quran in which I am in the middle of reading and “The Prophet of Peace.” After listening to his lecture I was very interested to hear the distinction he was making in the interpretation relative to the Quran’s position on terrorism, jihad, and misconceptions about Islam’s early history. This is fascinating and a message that we are interested in. (Lynnea Bylund, S. California, USA)
11 - 23 جنوری 2010 کے اخبارات میں سپریم کورٹ آف انڈیا کا یہ فیصلہ آیا کہ مسلم خواتین کو دوسرے تمام ووٹروں کی طرح اپنا فوٹو شناختی کارڈ پر لگوانا ضروری ہے۔ اسٹار ٹی وی (نئی دہلی) کی ٹیم نے اِس موضوع پر صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو ریکارڈ کیا۔ بتایا گیا کہ جو لوگ اس کو شریعت میں مداخلت کہتے ہیں، وہ غلط کہتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ کا تعلق حکم شرعی سے نہیں ہے، بلکہ ضرورتِ شرعی سے ہے، اور تمام علماء ضرورتِ شرعی کے لیے خواتین کے فوٹو کو جائز قرار دیتے ہیں۔ مثلاً پاسپورٹ پر خواتین کا فوٹو لگانا، یا حج کے شناختی کارڈ پر فوٹو لگانا، وغیرہ۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کا تعلق پردے کے استعمال کے بارے میں نہیں ہے، بلکہ ووٹر کے شناختی کارڈ (identity card) سے ہے، اور اِس میں قباحت کا کوئی سوال نہیں۔ یہ انٹرویو 23 جنوری 2010 کو ریکارڈ کیاگیا۔
12 - پوپ کی سرپرستی میںایک مسیحی تنظیم قائم ہے جس کا صدر دفتر روم (اٹلی) میں ہے۔ اِس تنظیم کا نام یہ ہے— Cammunity of Saint Egidio ۔ اس کمیونٹی کے تین بڑے عہدے داران 23 جنوری 2010 کو مرکز میں آئے اور صدر اسلامی مرکزسے تفصیلی ملاقات کی۔ گفتگو کا موضوع یہ تھا کہ جدید عالمی مسائل میں مسلمانوں کا رول کیا ہونا چاہیے، نیز یہ کہ مسلم مسیحی اتحاد مؤثر طورپر کس طرح قائم کیا جاسکتا ہے۔
13 - دور درشن (نئی دہلی) کے اسٹوڈیو میں 28 جنوری 2010 کو ایک پینل ڈسکشن ہوا۔ اِس کا موضوع برقع کے بارے میں سپریم کورٹ آف انڈیا کا فیصلہ تھا۔ اینکر کے علاوہ، اِس ڈسکشن میں مز سعدیہ خان اور مسٹر بہاء الدین خان شامل تھے۔ اِس موقع پر صدر اسلامی مرکز کو اِس ڈسکشن میں شرکت کی دعوت دی گئی۔ انھوںنے جو کچھ کہا، اس کا خلاصہ یہ تھا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ کوئی شرعی مسئلہ نہیںہے۔ کیوں کہ سپریم کورٹ نے نفسِ برقع یا حجاب پر کچھ نہیں کہا ہے۔ اس نے صرف یہ کہا ہے کہ ووٹر کی شناخت کے عام قانون کے تحت، مسلم خواتین کو بھی اپنا فوٹو شناختی کارڈ پر لگانا چاہیے۔ یہ ویسا ہی معاملہ ہے جیسا کہ پاسپورٹ پر فوٹو لگانا، جس کو تمام علماء جائز قرار دیتے ہیں۔
14 - 30-31 جنوری 2010 کو دھرم بھارتی مشن کی سالانہ کانفرنس ممبئی میں منعقد ہوئی۔ اِس موقع پر شرکاء میں 100 کاپیاں قرآن کی اور 500 سے زائد دیگر دعوتی لٹریچر تقسیم کیا گیا۔ اِس کانفرنس میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہندو موجود تھے۔ لوگوں نے لٹریچر کو بہت پسند کیا۔ حمید اللہ حمید اور منظور احمد تانترے کشمیر سے اس کانفرنس میں مدعو تھے، اِس موقع پر انھوںنے لوگوں کو مطالعے کے لیے قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دیگر دعوتی لٹریچر دیا۔
راج گھاٹ (نئی دہلی) میں مراری باپو (گجرات) کا ایک پروگرام 3 فروری 2010 کو ہوا۔ اِس پروگرام میں تقریباً پانچ ہزار ہندو موجود تھے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اپنی ٹیم کے ساتھ اس میں شرکت کی اور امن اور اسلام کے موضوع پر آدھ گھنٹہ تقریر کی۔ اِس موقع پر سی پی ایس کی طرف سے وہاں اسلامی لٹریچر پر مشتمل ایک اسٹال لگایاگیا۔ یہاں سے حاضرین کو دعوتی لٹریچر اور قرآن کا انگریزی ترجمہ مطالعے کے لیے بطور ہدیہ پیش کیا گیا۔ لوگوں نے اس کو نہایت شوق سے لیا۔ یہاں کئی ہندوؤں نے کہا کہ آج ہم پہلی بار قرآن کو دیکھ رہے ہیں۔
دہلی یونی ورسٹی میں 6 فروری 2010کو ایک سمپوزیم ہوا۔ یہ سمپوزیم ایم وی کالج کی طرف سے یونی ورسٹی کے اے این باسو آڈیٹوریم میں کیاگیا۔ اس کا موضوع یہ تھا:
Human Unity: Inter Faith Dialogue
اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اپنی ٹیم کے ساتھ اس میں شرکت کی اور انگریزی زبان میں موضوع پر ایک تقریر کی۔ تقریر کے بعد سوال وجواب کا پروگرام ہوا۔ اِس موقع پر سی پی ایس کی طرف سے حاضرین کو دعوتی لٹریچر اور قرآن کا ہندی اور انگریزی ترجمہ دیاگیا۔
جنوری 2010 کا الرسالہ اپنی تمام تر تجلیوں کے ساتھ فردوس نظر ہوا۔ آپ کا رسالہ دنیائے صحافت کا ایک منفرد رسالہ ہے جو ا پنی مثال آپ ہے۔ مختار اشرف لائبریری کے قارئین ’’الرسالہ‘‘ کو بہت شوق سے پڑھتے ہیںحال یہ ہے کہ پڑھنے والا پڑھتا جاتا ہے، اسے تھکاوٹ کا احساس تک نہیں ہوتا۔ تقریباً 300 قارئین کی جانب سے آپ کو مبارک باد (عابر قالین آباد، مختار اشرف لائبریری، کچھوچھہ، امبیڈکر نگر، یوپی)
گڈورڈ بکس اور سی پی ایس کی طرف سے دوسرے ممالک کے علاوہ، یورپ اور امریکا کے ممالک میں مختلف مقامات پر قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر بڑے پیمانے پر بھیجا جارہا ہے۔ حال ہی میں کینڈا کے ایک مسیحی اسکول (Hamilton School) میں قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر بھیجا گیا۔ اِس سلسلے میں اسکول کے ایک ذمے دار کا خط موصول ہوا جو یہاں نقل کیا جاتا ہے:
I just wanted to let you know that the Qurans, DVDs and booklets have all successfully arrived at my school. After opening the package and begining to stamp the materials with school information, the materials generated a fair bit of discissions and interest amongst my students (I teach a significant number of Muslim students) which bodes well for their use in our World Religions course. Thanks again for all of your assistance. It is greatly appreciated. (Don Bennie, Canada)
انگریزی زبان کے معروف صحافی اور مصنف خشونت سنگھ نے صدر اسلامی مرکز کے انگریزی ترجمہ قرآن کو سب سے بہتر ترجمہ قرار دیا ہے۔ اس سلسلے میں ان کے اصل الفاظ یہاں نقل کیے جاتے ہیں:
Maulana Wahiduddin Khan sent me two of his latest publications: A New translation of The Quran (Goodword) and The Prophet of Peace: Teachings of the Prophet Mohammed (Penguin). I have great respect for Wahiduddin Khan as a scholar of Islam who interprets his faith for the modern generation and at the same time points out follies of Mullah-minded Muslims for ever pronouncing fatwas on non-issues and calling for jihad against anyone they do not approve of. Among the many honours conferred on him was one by Virender Trehen’s Foundation for Amity and National Solidarity. I have a few translations of the Quran in English including Pickthall’s and Amir Ali’s — the first recognised as lyrically the most readable, and the second, as the most accurate. I spent a few hours reading Wahiduddin’s renderings of my favourite passages, particularly the last short suras which are in lyrical prose. All I can say is I found them more readable than any translations I had read earlier. I recommend it to Muslims and non-Muslims alike. (Hindustan Times, January 10, 2010, p. 18)
واپس اوپر جائیں

Tuesday, 2 March 2010

Al Risala | March 2010 (الرسالہ،مارچ)


قطر کا سفرنامہ

قطر ایک خلیجی ملک ہے۔ قطر کی منسٹری آف فارین افئرس (Ministry of Foreign Affairs) کے تحت ایک ادارہ قائم ہے۔ اُس کا نام یہ ہے: مرکز الدوحۃ الدُولی لحوار الأدیان:
Doha International Center for Interfaith Dialogue
اِس ادارے کے تحت، دوحہ (قطر) میں ساتویں سالانہ انٹرنیشنل کانفرنس 20-21 اکتوبر 2009 کو ہوئی۔ اس کانفرنس کا متعین موضوع یہ تھا:
التضامن الإنسانی(Human Solidarity)
اِس کانفرنس میں شرکت کے لیے دوحہ انٹرنیشنل سنٹر کے صدر الدکتور ابراہیم صالح النعیمی کے دستخط سے ایک دعوت نامہ مورخہ 14 جولائی 2009 ملا۔ اِس کے مطابق، د وحہ کا سفر ہوا۔ میرے ساتھ مددگار کے طورپر میرے دو اور ساتھی اِس سفرمیں شریک تھے۔
باہر کے سفروں میں پہلا مرحلہ ویزا (visa) کا ہوتا ہے۔ عام طورپر ویزا آسانی سے مل جاتا ہے، لیکن اِس بار میرے ایک ساتھی کے ویزا کے حصول میںکافی مشکل پیش آئی، یہاں تک کہ آخری دن آگیا۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ قطر کا سفر نہ ہوسکے گا۔ چناں چہ قطر میں مقیم ہمارے ایک ساتھی مولاناعبدالباسط عمری کو اطلاع دے دی گئی کہ اب میرا سفر نہ ہوسکے گا۔ وہ میرے سفر کے بہت زیادہ مشتاق تھے، اِس لیے وہ مایوس نہیں ہوئے، چناں چہ انھوں نے مسجد میں جاکر نماز پڑھی اور دعاء کی اور تھوڑی دیر کے اندر ای میل کے ذریعے ہمارے ساتھی کا ویزا دہلی میں موصول ہوگیا۔
یہ نماز کے ذریعے استعانت کا ایک انوکھا واقعہ تھا۔ اِس قسم کی نماز کو عام طور پر صلاۃ الحاجۃ کہاجاتا ہے۔ صلاۃ الحاجہ کا ایک انوکھا واقعہ ابھی حال میں میں نے پڑھا۔ یہ ہمالیہ ڈرگ کمپنی (بنگلور) کے فاؤنڈر حکیم محمد منال الدین (وفات: 1986 ) کا واقعہ ہے۔ اِس واقعے کو مختصراً ان کے صاحب زادہ محمد معراج الدین منال کے الفاظ میں یہاں نقل کیا جاتا ہے:
’’ایک مرتبہ والد محترم پر سخت وقت آیا۔ آپ کے کام اور کمپنی کی تاریخ میں یہ نہایت پریشان کن مرحلہ تھا۔ یہ مشکل اتنی شدید نوعیت کی تھی کہ ہمالیہ کمپنی اپنی بقا کے لیے اندیشوں میں آگئی تھی۔ در اصل گورنمنٹ کی طرف سے کمپنی کے خلاف ایک نوٹس آیا تھا، اس میں جو اعتراضات تھے، اس کے مطابق، کمپنی کے لیے بند ہوجانے کے علاوہ کوئی چارۂ کار نہ تھا۔ اِس موقع پر بمبئی میں ممتاز ماہرین قانون کو جمع کیاگیا تھا، مگر ان کے ساتھ طویل مشاورت بھی کسی حل کی طرف لے جانے میں ناکام ثابت ہوئی۔ مگر ٹھیک اُس وقت جب کہ امید کے تمام دروازے بند ہوگئے تھے، ابا جان نے ایک ایسا دروازہ پالیا جہاں صرف امید ہی امید تھی۔ آپ نے ہر بات کا انکار کیا اور نماز میں مشغول ہوگئے۔ آپ نماز سے فارغ ہو کر اُس آفس کو گئے جہاں سے نوٹس آیا تھا۔ آفس کے پاس زینے پر چڑھتے ہوئے ایک دوست سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے تعجب ظاہر کیا کہ منال صاحب آپ یہاں کیسے۔ ابا نے جواب میں وہ نوٹس دکھایا۔ اس دوست نے کہا یہ آفیسر میرا دوست ہے اور میرے بازو میں بیٹھتا ہے۔ میں آپ کے ساتھ چلتا ہوں، پھر انھوں نے آفیسر کو بتایا کہ یہ ایسے لوگوں میں سے نہیں ہیں۔ یہ اچھے آدمی ہیں، خواہ مخواہ کیوں ان کو پریشان کرتے ہو۔ اِس گفتگو اور متعلقہ تحقیق کے بعد اُس وقت آفیسر نے مذکورہ نوٹس کینسل کیا اور دوسرا نوٹس جاری کیا جو کمپنی کے مفاد میں تھا۔ اِس طرح کمپنی پرابلم سے نکل گئی اور الحمد للہ آج بھی کمپنی ترقی کررہی ہے‘‘۔ (ایک قابلِ تقلید اور مثالی شخصیت، صفحہ 21)
یہ طریقہ پیغمبر اسلام ﷺکی سنت کے عین مطابق ہے۔ روایات میں آپ کے بارے میں آیا ہے کہ: إذا حزبہ أمر صلّی (أبو داؤد، کتاب الصلاۃ) یعنی جب آپ کے ساتھ کوئی سخت معاملہ پیش آتا تو آپ نماز کے لیے کھڑے ہوجاتے۔ اِس قسم کی نماز کو عام طور پر صلاۃ الحاجۃ کہاجاتا ہے۔ اِس کی روح یہ ہے کہ آدمی مشکل وقت میںاللہ کو یاد کرے اوراُس سے اپنے لیے مدد مانگے۔
پروگرام کے مطابق، 19 اکتوبر 2009 کی صبح کو روانگی ہوئی۔ سفر کے آغاز میں میںنے یہ دعاء کی کہ خدایا، میں تیرے راستے میں یہ سفر کررہا ہوں، تو اِس سفر میں سی 29 سے سی 29 تک (from C-29 to C-29) میرا ساتھی بن جا۔ یہ دعاء اللہ تعالی نے قبول فرمائی۔ میںنے بہت سے اسفار کئے ہیں، مگر اس سفر میں غالباً پہلی بار ایسا ہوا کہ گھر سے ائر پورٹ تک مسلسل گاڑی چلتی رہی اور تقریباً 25 کلو میٹر کے اِس راستے میں کہیں رکنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔
روانگی سے پہلے دہلی میں حبیب بھائی (حیدرآباد) کا ٹیلی فون آیا۔ انھوں نے کہا کہ ایک چیز مجھے سخت پریشان کرتی ہے۔ جب میں کہیں گفتگو کرتا ہوں یا تقریر کرتا ہوں تو لوگ اکثر غیر متعلق (irrelevant) قسم کے سوالات کرنے لگتے ہیں۔ اِس قسم کا سوال سن کر مجھے اکثر غصہ آجاتا ہے۔ میںنے کہا کہ ایسے موقع پر غصے کی کوئی ضرورت نہیں۔ جب بھی آپ بولتے ہیں تو اُس وقت وہاں ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ مخاطب اوّل (first audience) کے طورپر فرشتے موجود رہتے ہیں، اور مخاطب ثانی (second audience) کے طورپر انسان وہاں موجود ہوتے ہیں۔ آپ کسی انسان کے ناپسندیدہ رد عمل پر دھیان مت دیجئے۔ آپ صرف یہ سوچئے کہ اِن حاضرین کی وجہ سے آپ کو یہ موقع ملا کہ آپ ایک ایسا ذکرِ اجتماعی کریں جو فرشتوں کے ریکارڈ میں درج ہوجائے۔
قرآن میں مومن کی ایک صفت سیاحت بتائی گئی ہے (التوبۃ: 112 )۔ قرآن کے مطابق، مومن ایک سیّاح انسان ہوتا ہے۔ سیاحت یا سیاحی کے لفظی معنی سفر کے ہیں۔ مومن ایک بامقصد انسان ہوتا ہے، اِس لیے مومن کا سفر یقینی طور پر وہی ہے جو بامقصد سفر ہو۔ مومن کے مقصد کو قرآن میں دعوت الی اللہ کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ اِس لحاظ سے، مومن کا سفر وہ ہے جو دعوتی سفرہو، جس کے سفر میں دعوت ایک لازمی جز کی حیثیت سے شامل ہو۔
واشنگٹن (امریکا) کے ایک ادارہ (Pew Forum on Religion and Public Life) کے ایک حالیہ سروے میں بتایا گیاہے کہ اِس وقت دنیا کی آبادی میں مسلمانوں کی تعداد ڈیڑھ بلین سے زیادہ (1.57 billion) ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ— موجودہ انسانی آبادی میں ہر چار میں سے ایک شخص مسلمان ہے:
World over, 1in 4 persons is a Muslim.
اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہر مسلمان اگر یہ فیصلہ کرے کہ وہ کم ازکم چار غیر مسلموں تک خدا کی کتاب (قرآن) پہنچائے گا تو نہایت محدود مدت میں قرآن دنیا کے تمام مردوں اور عورتوں تک پہنچ جائے گا۔ جدید کمیونکیشن کے دور سے پہلے یہ ایک بے حد مشکل کام تھا، لیکن اب جدید کمیونکیشن کے ذرائع نے عالمی سفر کو ممکن بنا دیا ہے۔ عالمی سفر دراصل عالمی انٹر یکشن کا دوسرا نام ہے۔ موجودہ زمانے میں یہ ممکن ہوگیا ہے کہ عالمی سفر کو عالمی دعوت کا ذریعہ بنا دیا جائے۔ مسلمانوں کے اندر اگر دعوت کا جذبہ موجود ہو تو یہ ہوگا کہ ہر مسلمان ون مین، ون مشن (one man, one mission) کا کیس بن جائے گا۔ وہ ایک طرف سفر کرے گا، اور دوسری طرف وہ عالمی سطح پر قرآن کو پھیلانے کا کام کرے گا۔ ’’ادخالِ کلمہ‘‘ کی جو پیشین گوئی حدیث میں آئی ہے، وہ آج پوری طرح قابل عمل بن چکی ہے۔
World over, 1 in 4 persons is a Muslim
Washington: The global Muslim population stands at 1.57 billion, meaning that nearly 1 in 4 people in the world practice Islam, according to a report on Wednesday billed as the most comprehensive of its kind. The Pew Forum on Religion and Public Life report provides a precise number for a population whose size has long been subject to guesswork, with estimates ranging anywhere from 1 billion to 1.8 billion. The project, three years in the making, also presents a portrait of the Muslim world that might surprise some. For instance, Russia has more Muslims than Jordan and Libya combined. “This whole idea that Muslims are Arabs and Arabs are Muslims is really just obliterated by this report,” said Amaney Jamal, a professor of politics at Princeton University. The report also sought to pinpoint the world's Sunni-Shia breakdown, but difficulties arose because so few countries track sectarian affiliation. As a result, the Shia numbers are not as precise; the report estimates that Shias represent between 10% and 13% of the Muslim population.The report provides further evidence that while the heart of Islam might beat in the Middle East, its greatest numbers lie in Asia: More than 60% of the world’s Muslims live in Asia. About 20% live in the Middle East and North Africa, 15% live in Sub-Saharan Africa, 2.4% are in Europe and 0.3% in the Americas. Three-quarters of Muslims living as minorities are concentrated in five countries: India (161 million), Ethiopia (28 million), China (22 million), Russia (16 million) and Tanzania (13 million).
India's immense size is underscored by the fact that it boasts the third-largest Muslim population of any nation - yet Muslims account for just 13% of the population. AP (The Times of India, New Delhi, October 9, p. 21)
ہم لوگ تین آدمی تھے۔ کانفرنس میں لوگوں کو دینے کے لیے ہم قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دوسرے اسلامی لٹریچر اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ ائر پورٹ پر پہنچ کر ہمارے ساتھیوں نے اس کو چیک ان (check-in) کردیا۔قطر کے اِس سفر میں غیر معمولی قسم کی سہولیات کا تجربہ ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ قطر کے اِس چار روزہ سفر میں ہم کو غیر متوقع طور پر اتنی زیادہ سہولتیں (facilities) حاصل رہیں کہ ان کو اگر شاہانہ سفر کہا جائے تو یہ مبالغہ نہ ہوگا۔
دہلی کے اندرا گاندھی انٹرنیشنل ائر پورٹ پر ہم لوگ داخل ہوئے تو فوراً ہی ائرلائن کی ایک خاتون نے آگے بڑھ کر ہمارا استقبال کیا اور ہم کو ضروری رہنمائی دی۔ یہ منظر دیکھ کر دل سے دعا ء نکلی کہ خدایا، جب میں آخرت کے گیٹ پر پہنچوں تو وہاں بھی رحمت کا ایک فرشتہ اِس عاجزانسان کے استقبال کے لیے موجود ہو۔
ہم لوگ ائر پورٹ کے اندر داخل ہوئے تو حسب معمول یہاں بہت سے مسافر ہر طرف دکھائی دے رہے تھے، ہندستانی بھی اور غیر ہندستانی بھی۔میںنے اُن کو دیکھا تو میںنے محسوس کیا جیسے کہ ہرایک خاموش زبان میں یہ کہہ رہا ہے کہ— میرا واحد کنسرن اپنی دنیا کی زندگی کو بہتر بنانا ہے، میری زندگی کا فارمولا صرف یہ ہے:
Right here, Right now!
ائرپورٹ کی رسمی کارروائی کے بعد ہم لوگ وہاں کے لاؤنج (lounge)میں چلے گئے۔ اِس میں مسافروں کے لیے ہر قسم کا اعلیٰ انتظام موجود تھا۔ لاؤنج میں میری ملاقات ایک عرب سے ہوئی۔ وہ مسقط (عمان) سے تعلق رکھتے تھے۔ گفتگو کے دوران انھوںنے بتایا کے وہ یہاں ’’تبلیغ‘‘ میں آئے تھے۔ وہ عربی زبان کے علاوہ کچھ انگریزی بھی جانتے تھے۔ اُن سے میںنے گفتگو کی کوشش کی، مگر معلوم ہوا کہ وہ سادہ قسم کے آدمی ہیں اور زیادہ علمی بات کے عادی نہیں، ہمارے ساتھیوں نے ان کو سی پی ایس کا دعوتی لٹریچر دیا۔مجھے اِس قسم کے کئی تجربات پیش آئے ہیں۔ اِن تجربات کی بنا پر میرا احساس یہ ہے کہ عرب کے جو لوگ یہاں تبلیغ میںآتے ہیں، وہ دراصل عرب کے ’’میواتی‘‘ ہوتے ہیں، نہ کہ وہاں کے اہلِ علم۔
حبیب بھائی (حیدر آباد) سے دوسری بار ٹیلی فون پر بات ہوئی۔ گفتگو کے دوران میںنے کہا کہ دین میں سب سے زیادہ اہمیت شکر کی ہے۔ ہماری زندگی میں بار بار ایسے واقعات پیش آتے ہیں جو شکر کے جذبے کوگھٹانے والے ہوتے ہیں۔ ایسے موقع پر مومن کو بہت زیادہ با شعور ہونا چاہئے۔ مومن کے لیے شکر کا ایروژن (erosion) ناقابلِ برداشت ہونا چاہئے۔
اصل یہ ہے کہ اگر کسی معاملے میں 99 فی صد شکر کی بات ہو اور صرف ایک فی صد منفی بات تو شیطان یہ کرتا ہے کہ وہ ایک فی صد منفی بات کو اتنا زیادہ بڑھاتا ہے کہ 99 فی صد مثبت بات آدمی کی نظر سے اوجھل ہوجاتی ۔ وہ شکر کے سمندر میں رہتے ہوئے بھی ناشکری کے احساس میں جینے لگتا ہے۔ ایسے موقع پرآدمی کو چاہیے کہ وہ فوراً یہ کہے کہ: اللہم إنی أعوذ بک من ہمزات الشیاطین۔ اِس کے بعد ان شاء اللہ، شیطان بھاگ جائے گا۔ یہ صرف عقیدہ کی بات نہیں، بلکہ یہی میرا تجربہ ہے۔
میں نے کہا کہ ناشکری کی کوئی بات دماغ میں آئے تو آدمی کو چاہئے کہ وہ اس کو سرتاسر بے اصل سمجھے۔ کسی بھی عذر کی بنا پر وہ اس کو اپنے دماغ میں جگہ نہ دے۔ وہ اس کو بداہۃً قابلِ رد (prima facie its stands rejected)سمجھتے ہوئے فی الفور اپنے دماغ سے نکال دے۔
دہلی ائر پورٹ پر میں نے قدم قدم پر خدا کی نصرت اور رحمت کے ایسے مناظر دیکھے کہ میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور میری زبان پر یہ الفاظ جاری ہوگئے— خدایا، اگر میں دنیا کی تمام زبانیں جانتا اور تمام زبانوں کی ڈکشنریوں کے تمام الفاظ مجھ کو یاد ہوتے اورمیں تیری حمد اور تیرا شکر ادا کرتا تو میں اس کا حق ادا نہیں کرسکتا تھا۔ خدایا، اگر دنیا کے تمام درخت میرے لیے قلم بنا دئے جاتے اور تمام سمندر میرے لیے سیاہی ہوتے اور میں تیرے احسانات کو لکھنے بیٹھتا تو یقینا ایسا ہوتا کہ تمام قلم ختم ہوجائے اور تمام سمندر خشک ہوجاتے، تب بھی تیری حمد کا بیان ختم نہ ہوتا۔
یہ الفاظ جب میری زبان پر آئے تو اُس وقت میںنے سوچا کہ قرآن (لقمان:27 ) میں جو یہ بات کہی گئی ہے ، بظاہر وہ خدا کی طرف سے ہے، لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ انسانی جذبات کا اظہار ہے۔ وہ علمِ الٰہی کا بیان نہیں، بلکہ وہ بندۂ مومن کا احساس ہے۔ انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ کائنات میں تدبر کرکے آلائِ خداوندی کو اِس طرح دریافت کرے کہ واقعۃً اس کو یہ محسوس ہونے لگے کہ تمام درختوں کے قلم اور تمام سمندروں کی سیاہی بھی اس کے جذباتِ حمد کو بیان کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔
سفر کے دوران میں نے بہت سے لوگوں کو دیکھا، بہت سے لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں ۔ ان میں ہر مذہب کے لوگ شامل تھے۔ اِس تجربے سے میرے اندر ایک عجیب احساس پیدا ہوا، وہ یہ کہ تمام لوگ خدا کی پکڑ سے بالکل بے خوف ہو چکے ہیں۔ ہر مذہبی گروہ نے ایسے فلسفے گھڑ لیے ہیں جس میں سب کچھ ہے، لیکن خدا کی پکڑ (accountability) کا ذکر اس کے اندر موجود نہیں— پنر جنم کے فلسفے نے ہندوؤں کو بے خوف کر دیا، کفّارے کے عقیدے نے عیسائیوں کو بے خوف کردیا، شفاعت کے عقیدے نے مسلمانوں کو بے خوف کردیا، منتخب گروہ (chosen people) کے عقیدے نے یہود کو بے خوف کردیا، شیطان کا سب سے بڑا حربہ اِسی قسم کے مغالطہ آمیز عقائد اور فلسفے ہیں۔
اپنے ایک ساتھی سے بات کرتے ہوئے میںنے کہا کہ غسل (bath) کو مسلمان عام طور پر صرف طہارت کا ایک حصہ سمجھتے ہیں، حالاں کہ غسل، نظافت(cleanness) کا ایک حصہ ہے۔
ایک بار میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہندوؤں کی ایک مجلس میںشریک تھا۔ گفتگو کے دوران ایک ہندو نے کہا کہ مسلمان تو صرف جمعہ جمعہ نہاتے ہیں۔ مسلمانوں کے یہاں صفائی کا کوئی تصور نہیں۔ میںنے کہا کہ یہ بات آج کل کے مسلمانوں کے بارے میں درست ہوسکتی ہے، مگر یہ بات دورِ اوّل کے مسلمانوں کے بارے میں درست نہیں۔ میںنے کہا، خلیفۂ سوم حضرت عثمان بن عفّان کے ایک خادم اُن کے بارے میں کہتے ہیں کہ: کان یغتسل کلّ یوم مرّۃ أو مرّتین (وہ ہر دن ایک بار یا دو بار غسل کرتے تھے)۔ اِس کو سن کر سارے ہندو بہت خوش ہوگئے۔ حاضرین میں سے ایک سوامی چیدانند (رشی کیش) نے کہا کہ ہم کو معلوم نہیں تھا کہ اسلام میں اتنی اچھی اچھی باتیں ہیں۔ آپ ہم کو اسلام اِن ڈیلی لائف (Islam in Daily Life) کے موضوع پر تین سو صفحات کی ایک کتاب تیار کرکے دیجئے۔ ہم اس کو دس زبانوں میں چھاپیں گے اور اس کو ساری دنیا میں پھیلائیں گے۔
19 اکتوبر 2009 کی صبح کو ہم لوگ قطر ائر لائنز کی فلائٹ (QR 233) میں داخل ہوئے۔ دہلی سے قطر کی دوری تقریباً 3 ہزار کلو میٹر ہے۔ یہ سفر تین گھنٹے میں طے ہوا۔ قطر ائرلائنز ایک ٹاپ کی ہوائی کمپنی سمجھی جاتی ہے۔ اس کے اندر جب میں بیٹھا ہو ا تھا تو ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے کہ ایک فلائنگ پیلیس (flying palace)ہے اور میں اس کے اندر ایک تخت نما کرسی پر بیٹھا ہوا پرواز کر رہا ہوں۔ یہ منظر دیکھ کر میری زبان پر یہ دعاجاری ہوگئی— خدایا، دنیا میںتو نے مجھ کو سب کچھ دیا، آخرت میں بھی تو مجھ کو سب کچھ دے دے۔ کوئی شریف انسان دینے کے بعد نہیں چھینتا۔ تو تمام شریفوں سے زیادہ اعلیٰ اور عظیم ہے۔ تجھ سے میں یہی امید رکھتا ہوں کہ تو آخرت میں اِس عاجز بندے کے ساتھ اُس سے زیادہ بہتر معاملہ فرمائے گا جو دنیا میں تو نے اس کے ساتھ کیا ہے۔
جہاز کے اندر مختلف قسم کے میگزین اور اخبار مطالعے کے لیے موجود تھے۔ ان میں مختلف قسم کی تصویریں چھپی ہوئی تھیں۔ اِن تصویروں کو دیکھ کر میری زبان پر یہ الفاظ آئے— خدایا، تو نے کچھ لوگوں کو انسانِ قوی بنایا اور کچھ لوگوں کو انسان ضعیف۔ جو انسانِ قوی تھا، وہ ’’ربّی أکرمن‘‘ کی نفسیات میں مبتلا ہوگیا۔ جو انسانِ ضعیف تھا، وہ ’’ربّی أہانن‘‘ کی نفسیات میں جینے لگا۔ قوت اور ضعف دونوں امتحان کی حالتیں تھیں، لیکن قوی اور ضعیف دونوں قسم کے انسان اپنے امتحان میں فیل ہوگئے۔ دونوں کا یہ حال ہوا کہ وہ خدا کے تخلیقی پلان کو سمجھے بغیر زندگی گزارتے رہے، اور آخر کار وہ مر کر اِس دنیا سے چلے گئے۔
جہاز کے اندر نیویارک ٹائمس کے گلوبل ایڈیشن کا شمارہ 17-18 اکتوبر 2009 دیکھا۔ اِس شمارے میں ایک امریکی جنرلسٹ ڈیسٹر فلکنس (Dexter Filkins) کا لکھا ہوا انٹرویو چھپا تھا۔ یہ انٹرویو انھوںنے افغانستان میں مقیم امریکا کے فوجی افسر جنرل میک کرسٹل (Mc Chriystal) سے لیا تھا۔ اِس میں بتایا گیا تھا کہ اِس وقت افغانستان میں امریکا کے 65,000 فوجی موجود ہیں۔ مگر جنرل میک کرسٹل نے مزید 40,000 فوجیوں کا مطالبہ کیا ہے۔ انٹرویو میں امریکا کے مذکورہ فوجی افسر نے اپنی کسی کامیابی کا ذکر نہیں کیا تھا۔ البتہ آخر میں انھوں نے عراق کی حالیہ جنگ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ — عراق کا ایک سبق یہ ہے کہ ہمیں کسی بھی حال میں اپنا اعتماد نہیں کھونا چاہیے:
One of the big takeaways from Iraq was that, you have to not lose confidence in what you are doing. (p. 4)
دوسرے لفظوں میں یہ کہ ہمیں مایوسی میں بھی امید پر قائم رہنا چاہیے— عجیب بات ہے کہ اِس سے پہلے سوویت روس نے افغانستان میں فوجی اقدام کرکے اپنے سپر پاور ہونے کی حیثیت کو کھو دیا تھا۔ اب امریکا اِسی علاقے میں فوجی اقدام کرکے دوبارہ اُسی انجام سے دوچار ہورہا ہے۔ شاید تاریخ کا سب سے زیادہ انوکھا سبق یہ ہے کہ کسی نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھا۔
فلائٹ کے اندر دوحہ (قطر) سے نکلنے والا ایک اور اخبار (The Peninsula)کا شمارہ 19 اکتوبر 2009 موجود تھا۔ اس کی ایک خبر کا عنوان یہ تھا:
Vodafone Qatar Celebrates Diwali
خبر میں بتایا گیا تھا کہ کمپنی نے دوحہ کے ایک رزورٹ (Sealine Beach Resort) میں دیوالی کا تیوہار منایا۔ اِس رزورٹ کو انڈیا کے انداز میں سجایا گیا اور اس کا نام لٹل انڈیا (Little India) رکھ دیا گیا۔کمپنی نے دوہزار دیوالی گفٹ باکس، برلا پبلک اسکول کے بچوں کو دیا، اور چھ ہزار دیوالی گفٹ باکس وہاں کے سُوق ایریا میں کام کرنے والوں کے درمیان تقسیم کیا۔ اِس موقع پر کمپنی نے اعلان کیا کہ:
Vodafone aims to ‘make a world of difference for all people in Qatar’
قطر ایک مسلم ملک ہے، لیکن وہاں پچاس فی صد سے زیادہ غیر ملکی آباد ہیں۔ یہ لوگ قطر میں اپنے تیوہار مناتے رہتے ہیں۔ یہ جدید گلوبلائزیشن کا ایک ظاہرہ ہے۔ مسلم مبصرین عام طورپر اِس ظاہرے کو منفی معنوں میں لیتے ہیں، لیکن اِس ظاہرے کا ایک عظیم مثبت پہلو ہے، اور وہ دعوت کا پہلو ہے۔ موجودہ زمانے میں گلوبلائزیشن کی وجہ سے ایساہوا ہے کہ مدعو خود داعی کے پاس پہنچ گیاہے۔ اِس لحاظ سے، گلوبلائزیشن بلاشبہہ ایک عظیم نعمت ہے۔
اپنے ایک ساتھی سے بات کرتے ہوئے میںنے کہا کہ زندگی کی کچھ غلطیاں ایسی ہوتی ہیں جن کو ساری عمر بھگتنا پڑتا ہے، کچھ ناخوش گوار چیزوں کو آخری حد تک برداشت کرنا ہوتا ہے۔ کیوں کہ قانونِ فطرت کے مطابق، اُن کاخاتمہ ممکن نہیںہوتا۔ مثلاً ترکی کی عثمانی خلافت 1929 ختم ہوئی تو اس کو برداشت ہی کرنا تھا، تقسیم کے بعد 1947میں پاکستان نے کشمیر کو کھودیا تو اس کو برداشت ہی کرنا تھا، 1948 میں فلسطین کی تقسیم ہوئی تو اس کو برداشت ہی کرنا تھا، 1992 میں بابری مسجد ڈھادی گئی تو اس کو برداشت ہی کرنا تھا، وغیرہ۔ مگر ہمارے رہنما اِن واقعات کو برداشت کے خانے میں نہ ڈال سکے۔ اِس کے نتیجہ میں مزید تباہی کے سوا اور کچھ نہیںملا۔
تقریباً تین گھنٹے کی پرواز کے بعد ہمارا جہاز دوحہ (قطر) کے ائر پورٹ پر اترا۔ مجھے چوں کہ وھیل چیئر استعمال کرکے باہر جانا تھا، اِس لیے مجھ سے کہاگیا کہ آپ سیٹ پر بیٹھے رہیں۔ اِس کے بعد ہوائی جہاز کا ایک مخصوص دروازہ کھولا گیا۔اس دروازے کے پاس وہ گاڑی لائی گئی جس کو ہائی لفٹ (highlift) کہا جاتا ہے۔ ہائی لفٹ اوپر اٹھ کر ہوائی جہاز کے دروازے کے برابر آگئی۔ میں ہوائی جہاز سے نکل کر اس کے اندر داخل ہوگیا اور وھیل چیئر پر بیٹھ گیا۔ اس کے بعد ہائی لفٹ نیچے آئی اور وہاں سے روانہ ہو کر ائر پورٹ کے لاؤنج میں پہنچی۔ یہ منسٹری لاؤنج (ministry lounge) تھا۔ وہ اپنے آپ میں ایک چھوٹے محل کے مانند تھا۔ یہاں ہم لوگوں کو آرام دہ نشستوں پر بٹھا دیا گیا۔ ائر پورٹ کی بقیہ کارروائی اسٹاف کے لوگوں نے انجام دی۔ ائر پورٹ پر ہم لوگوں کو رسیو کرنے کے لیے کانفرنس کے لوگوں کے علاوہ، مولانا عبد الباسط عمری اپنے ساتھیوں کے ہم راہ موجود تھے۔ائر پورٹ سے بذریعہ کار روانہ ہو کر ہم لوگ ہوٹل شیریٹن (Sheraton) پہنچے۔ یہ غیر معمولی طورپر ایک بہت بڑا ہوٹل ہے۔ وہ یہاں کا ٹاپ کا ہوٹل سمجھا جاتا ہے۔
ہوٹل پہنچنے کے بعد پہلے مجھ کو رسپشن (reception) کے ایک حصے میں بٹھا دیاگیا۔ یہ ہوٹل شاہی محل کے انداز میں بنایا گیا ہے۔ وہاں بیٹھتے ہی خصوصی تواضع شروع ہوگئی۔ اس منظر کو دیکھ کر میری زبان پر یہ الفاظ جاری ہوگئے — خدایا، تجھ سے میں نے اپنے عجز کی تلافی کی دعاء کی تھی۔ تو نے اکرام کے درجے میں میرے ساتھ معاملہ فرمایا۔
رسپشن کی ضروری کارروائی کے بعد ہم لوگ ہوٹل کی پانچویں منزل پر واقع تین کمروں میں پہنچا دئے گئے۔ دو عام کمرے اور ایک سوئٹ (Suite 512) ۔ میں نے سوئٹ میں داخل ہوتے ہی فوراً اے سی بند کروادیا۔ یہ ہوٹل بحر عرب کے کنارے بنایا گیا ہے اور سوئٹ بحرِ عرب کے بالکل کنارے واقع تھا۔ سوئٹ کی بالکنی میں بیٹھ کر دور تک سمندر کے مناظر دکھائی دیتے تھے۔
ہوٹل میں ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انھوںنے ٹنشن کی شکایت کی۔ میں نے کہا کہ ٹنشن ایک غیر فطری چیز ہے۔ ٹنشن فری لائف کا واحد فارمولا یہ ہے کہ آدمی ٹنشن کے ساتھ جینے کا آرٹ جان لے، وہ ناقابلِ اصلاح مسائل کے ساتھ موافقت کا راز سیکھ لے، وہ ٹنشن کو زندگی کے ایک مثبت حصے کے طوپر دریافت کرلے۔ ایسا کرنے کے بعداُس کا ٹنشن ٹنشن نہ رہے گا، بلکہ وہ نارمل لائف کا ایک فطری حصہ بن جائے گا۔
ہوٹل میں کچھ اہلِ علم جضرات سے بات کرتے ہوئے میں نے کہا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خیر القرون قرنی، ثم الذین یلونہم، ثم الذین یلونہم (صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب فضائل أصحاب النبی) اِس حدیث کے مطابق، اسلام کی تاریخ میں تین اَدوار مستند ادوار کی حیثیت رکھتے ہیں— دورِ رسالت، دورِ صحابہ، دورِ تابعین۔ اِن تین ادوار (periods) کو ’’قرون مشہود لہا بالخیر‘‘ کہا جاتا ہے، یعنی وہ دور جن کے برسرِ خیر ہونے کی گواہی دی گئی ہے۔
اِس معیار کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو وہ تمام شخصیتیں جن کو بعد کے مسلمانوں نے اکابر کا درجہ دے دیا، وہ سب کے سب غیر اکابر تھے۔ کیوں کہ وہ قرونِ مشہود لہا بالخیر کے بعد آنے والے زمانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اِس معیار کے مطابق، صرف رسول، اصحابِ رسول اور تابعین، امت میں اکابر کا درجہ رکھتے ہیں۔ بعد کے تمام لوگ، امام ابو حنیفہ کے قول کے مطابق، ہم رجالٌ و نحن رجال کا مصداق ہیں۔ اِس اعتبار سے دیکھئے تو ’’اکابر‘‘ کا تصور امت میںایک تباہ کن بدعت نظر آئے گا۔ کیوں کہ اِس تصور کے مطابق، یہ ہوتا ہے کہ غیر معیاری انسان معیارکا درجہ حاصل کرلیتے ہیں، قابلِ تنقید انسان، تنقید سے بالاتر قرار پاجاتے ہیں۔
کوئی شخص اگر یہ کہے کہ ختم نبوت کے بعد بھی کوئی نبی آسکتا ہے تو تمام علماء اس کی تکفیر و تضلیل میں سرگرم ہوجاتے ہیں، مگر جن لوگوں نے حدیث میں مذکورہ تین مستند ادوار کے بعد ایک نئے مستند دور (دور اکابر) کا اضافہ کیا، اُن کے خلاف بولنے والا کوئی نہیں۔
20اکتوبر 2009 کی شام کو عشاء کے بعد قطر میں مقیم علماء تقریبا ایک درجن کی تعداد میں میرے کمرے میں اکھٹا ہوئے۔ یہ سب عمری علماء تھے، یعنی جامعہ دار السلام ، عمر آباد (تمل ناڈو) کے فارغین۔ قطر میں تقریباً ڈیڑھ سو کی تعداد میں عمری علماء موجود ہیں۔یہاں ان لوگوں کی ایک باقاعدہ تنظیم قائم ہے۔ ہر عمری عالم ہر ماہ اپنی آمدنی کا ایک حصہ اپنی تنظیم کو دیتا ہے۔ یہ رقم دینی اور دعوتی ضرورت کے لیے خرچ کی جاتی ہے۔ یہاں اِن عمری حضرات کا ماہانہ اجتماع ہوتا ہے۔ اِس طرح وہ لوگ آپس میں جڑے رہتے ہیں۔ ہر ایک پابندی کے ساتھ اور رضاکارانہ طورپر اپنی ذمے داری کو ادا کرتا ہے۔ ان کے درمیان مکمل اتحاد ہے۔ مختلف مدارس کے فارغین بڑی تعداد میں مختلف ملکوں میں رہتے ہیں، لیکن میرے علم کے مطابق، کہیں بھی ان کے درمیان اِس قسم کااتحاد موجود نہیں۔
ان حضرات سے دیر تک مختلف موضوعات پر باتیں ہوئیں۔ ایک سوال کے جواب میں میںنے کہا کہ میرا اصل موضوع تحدیاتِ عصریہ ہے، یعنی جدید فکر ی چیلنج کے مقابلے میں اسلام کے نقطۂ نظر کی جدید علمی سطح پر وضاحت۔ اِسی بنا پر مصر کے ایک عالم نے میری کتاب ’’الإسلام یتحدّی‘‘کا سب ٹائٹل (sub title) اِن الفاظ میں مقرر کیا تھا: مدخل علمی إلی الإیمان۔
گفتگو کے دوران ایک عمری عالم نے کہا کہ آپ صبر اور ایڈجسٹمنٹ کی بات بہت زیادہ کرتے ہیں، آخر کب تک ایسا کیا جائے۔ میںنے کہا کہ صبر اور ایڈجسٹ مینٹ (adjustment) کی اہمیت تو آپ خود اپنے تجربے سے سمجھ سکتے ہیں۔ آپ یہاں ایک خلیجی ملک میں ہیں۔ یہاں یقینی طورپر آپ کے لیے ایسے مسائل ہوں گے جن کو آپ پسند نہ کرتے ہوں، لیکن آپ ان کے ساتھ ایڈجسٹ کرکے یہاں رہ رہے ہیں۔ اِس لیے کہ آپ جانتے ہیں کہ ایڈجسٹ کرنے میں آپ کو فائدہ ہے۔ اپنے اِسی تجربے کی بنا پر آپ میرے نقطۂ نظر کی اہمیت سمجھ سکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایڈجسٹ مینٹ ایک عمومی فطری اصول ہے۔ یہ اصول جس طرح آپ کے لیے مفید ہے، اُسی طرح وہ دوسرے تمام لوگوں کے لیے مفید ہے۔
میںنے کہا کہ عرب ملکوں میںباہر کے جو مسلمان رہتے ہیں، وہ عملاً یہاں سکنڈ کلاس کے شہری (second class citizen) بن کررہتے ہیں، جب کہ یہی مسلمان ہندستان میں یہ شکایت کرتے ہیں کہ ہم کو سکنڈ کلاس شہری بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ حالاں کہ میرے تجربے کے مطابق، یہ بات عرب ملکوںکے بارے میں تو ضرور صحیح ہے، مگر وہ ہندستان کے بارے میں یقینی طورپر درست نہیں۔ مثال کے طورپر میں ہندستان میں مہاتما گاندھی اور یہاں کے دوسرے ہندو لیڈروں پر تنقید کرتا ہوں۔ میری یہ تنقید یہاں کے ہندی اور انگریزی اخباروں میں چھپتی ہے، لیکن اِس بنا پر یہاں میرے لیے کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا، جب کہ اگر کوئی شخص عرب ملکوں میں وہاں کے سربراہِ سلطنت پر تنقید کرے تو وہاں اس کا رہنا ہی سرے سے ناممکن ہوجائے گا۔اِس سلسلے میں ایک واقعہ یہاں قابلِ ذکر ہے۔ یہ واقعہ میں نے اپنی ڈائری میں 25 جولائی 2009 کو اِن الفاظ میں نقل کیا تھا:
’’میرے ایک ساتھی مولانا ابو صالح انیس لقمان ندوی ابو ظبی (امارات) میں رہتے ہیں۔ انھوںنے بتایا کہ ابو ظبی میںکئی ہزار پاکستانی مسلمان غیر قانونی طورپر مقیم تھے۔ حکومت نے اُن کو ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا۔ انیس لقمان صاحب نے اِس سلسلے میں حکومت سے استرحام (plea for mercy) کی بنیاد پر حکم کو واپس لینے کی کوشش کی۔ آخر کار، حکومت نے اپنے حکم کو واپس لے لیا۔ ابو ظبی میں پاکستان کے سفیر اِس واقعے پر بہت خوش ہوئے۔ انھوں نے انیس لقمان صاحب سے کہا کہ آپ کو ہم اعزازی طورپر پاکستان کی شہریت (citizenship) دینا چاہتے ہیں۔ انیس لقمان صاحب نے کہا کہ میںاس کو دو شرطوں پر قبول کر سکتا ہوں— ہم انڈیا کے فادر آف دی نیشن مہاتما گاندھی پر تنقید کرتے ہیں اور وہاں ہماری کوئی پکڑ نہیں ہوتی۔کیا آپ اِس کی اجازت دیںگے کہ میں پاکستان میں وہاں کے فادر آف دی نیشن مسٹر محمد علی جناح پر تنقید کروں اور میری کوئی پکڑ نہ ہو۔ پاکستانی سفیر نے کہا کہ نہیں۔ انیس لقمان صاحب نے دوسری بات یہ کہی کہ انڈیا میںایک مسلمان ’’مسلم انڈیا‘‘ کے نام سے میگزین نکالتا ہے۔ کیا آپ پاکستان میں ہندو کو اجازت دیں گے وہ پاکستان میں ’’ہندو پاکستان‘‘ کے نام سے میگزین نکالے۔ پاکستانی سفیر نے کہا کہ نہیں۔ انیس لقمان صاحب نے کہا کہ پھر مجھے ایسے ملک کی شہریت بھی قبول نہیں‘‘۔
ایک عمری عالم نے سوال کیا کہ آپ کا ایک دینی اور دعوتی مشن ہے، پھر آپ سیاسی موضوعات پر کیوں بولتے ہیں۔ میں نے کہا کہ میرا اصل موضوع تحدیاتِ عصریہ ہے، یعنی جدید ذہن کے مطابق، علمی سطح پر اسلام کی تبیین۔ میری تمام تحریریں براہِ راست یا بالواسطہ طورپر اِسی موضوع سے تعلق رکھتی ہیں۔ میںنے کہا کہ اِسی قسم کا اعتراض اِس سے پہلے سرسید پر کیا گیا تھا۔ اُس وقت اِس کا جواب دیتے ہوئے مولانا شبلی نعمانی نے لکھا تھا کہ جو لوگ سرسید کی بعض باتوں پر اعتراض کرتے ہیں، انھوں نے سرسید کے شاہ نامہ میں سے صرف ’’مُنیژہ مَنم‘‘ کو یاد کررکھا ہے۔
آج عرب ملکوں کے شہر مادی ترقی کے اعتبار سے یورپ کا نمونہ معلوم ہوتے ہیں، لیکن اب سے صرف چالیس سال پہلے ایسا نہ تھا۔ اُس وقت عرب کے لوگ معاشی اعتبار سے نہایت پس ماندہ سمجھے جاتے تھے۔ اُس وقت برصغیر ہند کے دولت مند لوگ عربوں کو مالی مدد بھیجا کرتے تھے۔ حیدر آباد دکن میں مدینہ کے نام پر ایک وقف قائم کیاگیا تھا جس کے وقف نامے میںلکھا ہوا تھا کہ اس کی آمدنی مدینہ کے غرباء کے لیے بھیجی جائے گی۔
مولانا شبلی نعمانی (وفات: 1914 ) نے 1892ء میں مصر کا سفر کیا تھا۔ انھوں نے لکھا ہے کہ اسکندریہ میں سڑک کے کنارے عرب لوگ معمولی سامان بیچتے تھے اور اپنے سامان کو بیچنے کے لیے کہتے ـتھے: برأس سیدنا الحسین۔
اِس سلسلے میں مجھے خود اپنا ایک واقعہ یاد آتا ہے۔ میری نوجوانی کے زمانے میں عرب کے فقراء ’’مسافر‘‘ کے نام پر ہندستان آیا کرتے تھے، تاکہ وہ یہاں سے اپنے لیے کچھ تعاون حاصل کرسکیں۔ اِسی قسم کے ایک عرب مسافر ایک بار اعظم گڑھ یوپی میں میرے گاؤں آئے تھے۔ یہ غالباً 1940 کا واقعہ ہے۔ میںنے اُن کو اپنے گھر ٹھہرایا ۔ شام کا کھانا کھانے کے بعد وہ میرے گھر کے مردانہ حصے میں سوگئے۔ اگلے دن صبح کو جب میں اُن سے ملا تو اُنھوں نے کہا کہ: ماکان النوم معنا باللیل (رات کو میں سو نہ سکا)۔ اُن کا مطلب یہ تھا کہ مچھروں کی وجہ سے مجھ کو نیند نہیں آئی۔ صبح کے ناشتے کے بعد وہ پھر کہیں دوسری جگہ چلے گئے۔
اِسی طرح کے ایک عرب مسافر کا واقعہ میرے چچا زاد بھائی مولانا اقبال احمد خاں سہیل (وفات: 1955 ) نے بتایا تھا۔ جس زمانے میں وہ علی گڑھ میں زیر تعلیم تھے، وہاں ایک عرب مسافر آیا۔ اُن لوگوں نے عرب مسافر کو کچھ کھانے کی چیز پیش کی۔ اِس کے بعد مذکورہ عرب مسافر نے کچھ کہا جو اِنھیں اِس طرح سنائی دیا: جِبْ شیطان۔ سہیل صاحب کو اور ان کے ساتھیوں کو اِس کا مطلب سمجھ میں نہ آیا۔ بار بار پوچھنے پر معلوم ہوا کہ عرب مسافر یہ کہہ رہا تھا: جئی بشیٔ ثان،یعنی کوئی دوسری چیز کھانے کے لیے لے آؤ۔
قطر کے بارے میں مجھے بتایاگیا کہ قطر کے حاکم (امیر دولتِ قطر) چالیس سال پہلے خچر پر سواری کرتے تھے۔ یہاں کچھ بھی نہیں تھا۔ مگر یہاں زمین کے نیچے گیس کے ذخیرے دریافت ہوگئے۔ اِس گیس کے ذریعے تقریباً ایک درجن مختلف چیزیں بنتی ہیں۔ قطر گیس کے معاملے میں دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ گیس کی دریافت کے بعد صرف چند سالوں کے اندر قطر مغرب جیسا ترقی یافتہ ملک بن گیا۔ دوحہ یہاں کا دار السلطنت ہے۔ دوحہ شہر کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ یورپ کے کسی انتہائی ترقی یافتہ علاقے میں پہنچ گئے ہیں۔
ایک عالم سے ملاقات ہوئی۔ گفتگو کے دوران انھوں نے کہا کہ اسلام کے موضوع پر جو قدیم عربی کتابیں ہیں، صرف اُنھیں کو پڑھنا چاہیے۔ موجودہ زمانے میں اسلام کے بارے میں جو کتابیں لکھی گئی ہیں، ان کو پڑھنا غیر ضروری ہے۔ انھوں نے اپنے بارے میں کہا کہ میں صرف قدیم عربی کتابیں پڑھتا ہوں۔ آج کل اسلام کے بارے میں جو کتابیں لکھی گئی ہیں، میں اُن کو پڑھتا ہی نہیں۔ انھوںنے یہ بھی بتایا کہ وہ غیر مسلموں میں دعوت کا کام کرتے ہیں۔
میں نے کہا کہ اسلام اگر صرف تاریخ کا موضوع ہو تو آپ کی یہ روش درست قرار پائے گی۔ لیکن اسلام صرف تاریخ کا موضوع نہیں ہے۔ اسلام کی یہ منشا ہے کہ ہر دور کے لوگ اسلام کو ایک ابدی سچائی کے طورپر دریافت کریں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ زمانہ ایک بدلا ہوا زمانہ ہے۔ قدیم دور اگر روایتی دور تھا تو موجودہ دور سائنٹفک دورہے۔موجودہ دور کے ذہن کو اگر آپ اسلام کی صداقت پر مطمئن کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو جدید اسلوب (modern idiom) میں بولنا پڑے گا۔ ایسی حالت میں آپ پر لازم ہے کہ آپ جدید افکار (modern thought) سے واقفیت حاصل کریں، تاکہ آپ جدید انسان کو اس کی قابلِ فہم زبان میں ایڈریس کرسکیں۔
میںنے کہا کہ ایک کام ہے مسلمانوں کو نماز، روزہ کے مسائل بتانا۔ دوسرا کام ہے جدید ذہن کو اسلام کی صداقت پر مطمئن کرنا۔ مسلمانوں کو نماز، روزہ کے مسائل بتانے کے لیے قدیم کتابوں کا مطالعہ کافی ہوسکتا ہے، لیکن اسلام کی دعوت کو موثر اسلوب میں پیش کرنے کے لیے جدید افکار سے واقفیت لازمی طور پر ضروری ہے۔
ایک صاحب جو قطر کی ایک مسجد میںامام ہیں اور اپنی فیملی کے ساتھ یہاں رہتے ہیں، انھوں نے کھانے کے لیے اپنے گھر آنے کی دعوت دی۔ میںنے کہا کہ میں صرف اِس شرط پر آؤں گا کہ آپ بالکل سادہ کھانے کھلائیں۔ پھر میںنے کہا کہ سادہ کھانے کی تعریف یہ ہے کہ آپ روزانہ جو کھانا کھاتے ہیں، وہی کھانا ہم کو کھلائیں۔ اس میں کسی اور آئٹم کا اضافہ نہ کریں۔
انھوں نے کہا کہ مگر حدیث میں آیا ہے کہ:مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللَّہِ وَالیَوْمِ الآخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہُ(صحیح البخاری، رقم الحدیث 6018) مَن کان یؤمن باللہ والیوم الآخر فلیکرمیفہ۔ اِس حدیث کے مطابق، مہمان کا اکرام کرنا بھی مومن کی ایک صفت ہے۔ میںنے کہا کہ اکرامِ ضیف دل سے ہوتا ہے، نہ کہ پُر تکلف کھانا کھلانے سے، جس کا آج کل عام رواج ہے۔ اکرامِ ضیف کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے مہمان سے محبت کے ساتھ ملیں، اس کی سچی محبت کریں، اس کے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ کریں۔ ضیف کا اکرام دل سے ہوتا ہے، نہ کہ انواع واقسام کا کھانا کھلانے سے۔
آج کل مسلمانوں میں ایک بات بہت زیادہ کہی جاتی ہے، وہ یہ ہے کہ — اسلاف کی پیروی کرو۔ یہ بات بظاہر درست معلوم ہوتی ہے، لیکن عملی اعتبار سے دیکھئے تو اِس میں پوری امت کے لیے کوئی واضح رہنمائی پائی نہیں جاتی۔ پیروی کا لفظ ایک واحد نقطۂ اتحاد(point of unity) چاہتا ہے، لیکن ’’اسلاف کی پیروی ‘‘ کے لفظ میں کوئی واحد نقطۂ اتحاد موجود نہیں۔
حدیث کی ایک پیشین گوئی موجودہ زمانے میں واقعہ بن چکی ہے، وہ یہ کہ امت مختلف گروہوں میں بٹ گئی ہے۔ مثلاً سلفی گروہ، حنفی گروہ، بریلوی گروہ، شیعہ گروہ، اسی طرح ندوی گروہ، دیوبندی گروہ، وغیرہ۔ اِن میں سے ہر گروہ کے اپنے اپنے اکابر ہیں۔ ہر ایک کے اکابر اس کے لیے اپنے اسلاف کا درجہ رکھتے ہیں۔ مثلاً اہلِ حدیث کے اکابر امام ابن تیمیہ اور امام ابن قیم ہیں، احناف کے اکابر امام ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف ہیں۔ اِسی طرح دیوبندیوں کے اکابر مولانا محمد قاسم نانوتوی اور مولانا حسین احمد مدنی ہیں، اور ندویوں کے اکابر مولانا سید سلیمان ندوی اور مولانا سید ابو الحسن علی ندی ہیں، وغیرہ۔
ایسی حالت میں اگر یہ کہا جائے کہ ’’اسلاف کی پیروی کرو‘‘ تو اِس اصول کو جاننے کے باوجود اس کامفہوم ایک نہیں ہوگا، بلکہ کئی ہوجائے گا، ہر ایک اپنے اکابر سلف کو الگ الگ اپنا مقتدا سمجھے گا۔ اِس طرح امت بدستورمختلف گروہوں میں بٹی رہے گی، جیسا کہ وہ اِس وقت بٹی ہوئی ہے۔
اِس کے بجائے اگر لوگوں کو یہ بتایا جائے کہ رسو ل اور اصحابِ رسول کی پیروی کرو تو لوگوں کو واحد نقطۂ پیروی مل جائے گا، کیوں کہ اِس معاملے میں امت کے مختلف گروہوں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔ ایک ہی رسول ہر ایک کے لیے رسول ہے اور ایک ہی جماعتِ صحابہ ہر ایک کے لیے جماعتِ صحابہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ ایسا کہنے کی صورت میںہر ایک کو مشترک طور پر ایک ہی نقطۂ پیروی مل جائے گا، اور وہ ہے رسول اور اصحابِ رسول کی پیروی۔ یہی طریقہ قرآن اور سنت کے مطابق ہے، اور اِس طریقے کے ذریعے امت کے اندر صحیح ذہن اور اتحاد پیدا ہوسکتا ہے۔
ایک صاحب نے حجر اسود کے بارے میں سوال کیا۔ اُن کا سوال ان کے الفاظ میں یہ تھا:
In the last lecture (18 Oct. 2009) you said that Black Stone (Hajar al Aswad) is just a stone and Prophet Ibrahim took from one of the mountains, that it is just a starting point for Tawaf. Why did Prophet Muhammad kiss it and all Muslims want to kiss it, if this is just a stone taken from a mountain?
میںنے اِس سوال کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ حجرِ اسود کوئی پُراسرار پتھر نہیں۔ ایسی کوئی حدیث موجود نہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظاًیہ کہا ہو کہ تم لوگ حجر اسود کو بوسہ دو۔ حجر اسود کی حیثیت صرف طواف کے لیے ایک نقطۂ آغاز (starting point) کی ہے۔ ایک حاجی اگر حجر اسود کی طرف ہاتھ سے اشارہ کرکے اپنا طواف شر وع کرے تو یہ بھی عین درست ہوگا، اِس سے اُس کے حج میں کوئی کمی واقع نہ ہوگی۔ خلیفۂ ثانی حضرت عمر فاروق کے بارے میں روایات میں آیا ہے کہ: أنہ جاء إلی الحجر الأسود فقبّلہ فقال: إنّی أعلم أنّک حجرٌ، لا تضر ولا تنفع، ولولا أنّی رأیتُ النّبیَّ صلی اللہ علیہ وسلم یُقبّلُک، ما قبّلتک (صحیح البخاری، کتاب الحج، باب ما ذُکر فی الحجر الأسود) یعنی عمر فاروق طوافِ کعبہ کے وقت حجر اسود کے پاس آئے۔ انھوں نے اس کو بوسہ دیا، پھر انھوںنے کہاکہ میں جانتا ہوں کہ تو صرف ایک پتھر ہے، تو نہ نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھ کو ہر گز بوسہ نہ دیتا۔
حضرت عمر فاروق کے اِس قول سے ثابت ہوتا ہے کہ حجر اسود کوئی پراسرار پتھر نہیں۔اس کے ساتھ یہ عقیدہ وابستہ نہیں کہ وہ کوئی نقصان یا فائدہ پہنچانے کی طاقت رکھتا ہے، جیسا کہ بتوں کے متعلق سمجھا جاتا ہے۔ وہ صرف آغازِ طواف کا ایک نشان ہے، اِس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔
اب یہ سوال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود کا بوسہ کیوں دیا۔ اس کا سبب یہ تھاکہ حجر اسود پیغمبر ابراہیم کی ایک یادگار (momento) ہے، وہ ایک عظیم پیغمبرانہ تاریخ کی یاد دلاتا ہے۔ حجر اسود کو بوسہ دینا دراصل پیغمبر ابراہیم کے لیے اپنے جذباتِ محبت کا اظہار ہے، نہ کہ کسی بت کے لیے جذباتِ پرستش کا اظہار۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ کسی بچھڑے ہوئے محبوب کی کوئی چیز ملے توآدمی اس کو لے کر مختلف طریقے سے اپنے جذبات کا اظہار کرتا ہے، وہ کبھی اس کو چومتا ہے، کبھی اس کو اپنے سر پر رکھتا ہے، کبھی اس کو اپنے سینے سے لگاتا ہے، حجر اسود کو بوسہ دینا اِسی طرح حضرت ابراہیم کے لیے اپنے جذباتِ محبت کا اظہار ہے، اِس سے زیادہ اورکچھ نہیں۔
قطر کے زمانۂ قیام میں مجھے ہر قسم کی سہولیات (facilities) اعلیٰ معیار پر حاصل تھیں، مگر ایک لمحہ کے لیے وہاں مجھے سکون حاصل نہ تھا۔ اس کا ایک سبب یہ تھا کہ میرے جیسے انسان کو سکون صرف مادّی سامان سے حاصل نہیں ہوسکتا، میرے جیسے انسان کو سکون فکری خوراک سے ہوتا ہے اور وہ یہاں مجھے حاصل نہ تھی۔عربوں کا معاملہ یہ ہے کہ اُن سے صرف رسمی انداز کی بات ہوسکتی تھی۔ عربوں کے ساتھ اعلیٰ نوعیت کا فکری تبادلۂ خیال ممکن نہیں تھا، اور دوسرے ملکوں کے جو لوگ قطر میں آباد ہیں، اُن کا واحد کنسرن پیسہ کمانا ہے۔ عرب دنیا کا سب سے بڑا خلا یہ ہے کہ یہاں فکری آزادی نہیں پائی جاتی۔ فکری آزادی ہی سے علمی ترقی ہوتی ہے۔ جہاں لوگوں کو فکری آزادی حاصل نہ ہو، وہاںکبھی علمی ارتقاء کا ماحول نہیں بن سکتا۔
قطر میںجو ہندستانی ہیں، ان میں زیادہ تر کیرلا کے لوگ ہیں۔ ان میں مسلم بھی ہیں اور غیر مسلم بھی۔ یہ اتفاقی بات نہیں ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ کیرلا کے لوگ، بلکہ ساؤتھ انڈیاکے لوگ، ہر جگہ آسانی سے قابلِ قبول بن جاتے ہیں۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ ان کے اندر پروفیشنل ازم (professionalism) ہوتا ہے۔ پروفیشنل ازم کا مطلب سادہ لفظوں میں یہ ہے کہ —اپنے کام سے کام رکھنا۔ شمالی ہند کے لوگوں کا مزاج سیاسی ہوتا ہے۔ وہ بہت جلد اپنی سیاست شروع کردیتے ہیں۔ اِس کے برعکس، جنوبی ہند کے لوگوں کا مزاج ’’اپنے کام سے کام‘‘ والا ہوتا ہے۔ ان کی اِس صفت نے اُن کو ہر جگہ مقبول بنادیا ہے۔
ایک صاحب سے بات کرتے ہوئے میںنے کہا کہ آپ لوگ اسرائیل کے بارے میں صرف یہ جانتے ہیں کہ وہ فلسطینیوں پر تشدد کرتا ہے۔ اسرائیل کے بارے میں اس کے سوا کوئی اور بات آپ نہیں جانتے۔ میں نے کہا کہ آپ لوگوں کو اس معاملے میں عدل سے کام لینا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل یک طرفہ طورپر تشدد نہیں کرتا۔ فلسطینی اُن کو پتھر مارتے ہیں تو اسرائیل اِس کے جوا ب میں اُن کو بم مارتا ہے۔ یہ دو طرفہ معاملہ ہے، نہ کہ یک طرفہ معاملہ۔ مگر عربوں کو یا مسلمانوں کو اسرائیل میں پیش آنے والے اِس واقعے کی کوئی خبر نہیں۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ مسلم میڈیا میںاِس کا کوئی چرچا نہیں ہوتا۔
ایک صاحب سے گفتگو کرتے ہوئے میںنے کہا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اسلاف کا لٹریچر ہمارے لیے کافی ہے، ہم کو مزید لٹریچر کی ضرورت نہیں۔ میں نے کہا کہ یہ صرف ایک غیر عملی بات ہے۔ خود ایسا کہنے والے بھی اس پر عمل نہیں کرسکتے۔
میںنے کہا کہ اسلاف کی کتابوں کے دو حصے ہیں— ایک، وہ جو نمازروزہ جیسی عبادات سے متعلق ہیں۔ دوسرے، وہ جو ملی پالیسی سے تعلق رکھتے ہیں۔ نماز روزہ جیسی عبادات کے معاملے میں آپ اسلاف کی پیر وی کرسکتے ہیں، کیوںکہ یہ مسائل اپنی نوعیت کے اعتبار سے ابدی ہیں۔ لیکن جہاں تک اُن باتوں کا تعلق ہے جن کو ملی پالیسی کہا جاتا ہے، ان کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ ان میں حالاتِ زمانہ کی رعایت بہت ضروری ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ملی پالیسی والا شعبہ اُس مشہور فقہی اصول کے تحت آتا ہے جس کو اِن الفاظ کے تحت بیان کیا جاتا ہے: تتغیّر الأحکام بتغیّر الزمان والمکان۔ اگر آپ ایسا نہ کریں تو آپ کے ملی معاملات بگڑ کر رہ جائیں گے۔
خود ہمارے اسلاف نے یہ فقہی اصول مقرر کیا ہے کہ: تتغیر الأحکام بتغیر الزمان والمکان۔ اب سوال یہ ہے کہ اسلاف کا مقرر کیے ہوئے اِس اصول کا انطباق کیا ہے، عملی طورپر اس کو کن حالات میں منطبق کیا جائے گا۔ جب بھی زمان ومکان بدلیں گے اور مذکورہ اصول کے مطابق، احکام میں تغیر کیا جائے گا تو یہ تغیر یقینی طورپر اسلاف کا اعادہ نہیں ہوگا، بلکہ وہ اسلاف کی کہی ہوئی باتوں کے علاوہ کوئی بات ہوگی۔
20 اکتوبر 2009 کو میری تقریر تھی ۔ تقریر کا موضوع ’’امن اور اسلام‘‘ تھا۔ میری تقریر انگریزی زبان میں تھی۔ میںنے اپنی تقریر میںجو باتیں کہیں، اُن میں سے ایک بات یہ تھی کہ اِس معاملے میں مسلمانوں کا ذہن واضح نہیں ہے۔ وہ اکثر یہ کہتے ہیں کہ ہم امن چاہتے ہیں۔ لیکن ہم انصاف کے ساتھ امن (السلام مع العدل) چاہتے ہیں۔ یہ سوچ غیر فطری ہے۔ اِس سوچ کے تحت کسی کو نہ کبھی امن ملے گا اور نہ انصاف۔ انصاف امن کا حصہ نہیںہے، بلکہ وہ خود اپنی جدوجہد سے کسی کوملتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ آپ پہلے یک طرفہ بنیاد(unilateral basis) پر امن قائم کیجئے۔ امن قائم ہوتے ہی ہر قسم کے مواقع (opportunities) کھل جائیں گے۔ اِن موقع کا بھر پور استعمال کرکے آپ انصاف کو حاصل کرسکتے ہیں۔
ایک عالم سے گفتگو کرتے ہوئے میں نے کہا کہ عربی زبان میں قرآن کی جو تفسیریں لکھی گئی ہیں، وہ عام طورپر شانِ نزول یا اسبابِ نزول کی روایتوں کو لے کر لکھی گئی ہیں۔ اِس طرزِ تفسیر نے قرآن کو بہت محدود کردیا ہے۔ اسبابِ نزول کی حیثیت ایک وقتی حوالہ (immediate reference) کی ہوتی ہے۔ صرف اسی کو بنائِ تفسیر قرار دینا، قرآن کو محدود کرنے کے ہم معنیٰ ہے۔
مثال دیتے ہوئے میںنے کہا کہ قرآن (الکہف: 71) میں بتایاگیا ہے کہ خضر نے ایک کشتی کے تختہ کو نکال کر اس کو عیب دار بنادیا۔ شانِ نزول کے مطابق، مفسرین نے اِس واقعے کو صرف ایک مخصوص کشتی کے ساتھ متعلق سمجھا ہے، مگر یہ تفسیر قرآن کو محدود کرنے کے ہم معنیٰ ہے۔ اِس کا مطلب دراصل یہ ہے کہ موجودہ دنیا میں بار بار ایسا ہوتاہے کہ کسی آدمی کی زندگی میں ایک ایسا واقعہ پیش آتا ہے جو بظاہر ناگوار واقعہ ہوتا ہے، لیکن اِس واقعے کے پیچھے اللہ تعالیٰ کا گہرا منصوبہ ہوتا ہے۔ فوری طورپر ایسے واقعے کی توجیہہ سمجھ میں نہیں آتی، لیکن آدمی اگر انتظار کرے تو کچھ دن کے بعد وہ خود سمجھ لے گا کہ ایسا ہونا اس کے حق میں بہتر تھا۔ ایسا واقعہ اس کے لیے زحمت میں رحمت (blessing in disguise) کے ہم معنی تھا۔
20 اکتوبر 2009 کی صبح کو میں ہوٹل کی بالکنی پر بیٹھا ہوا تھا۔ سامنے کی سڑک پر چمک دار کاریں دوڑ رہی تھیں۔ اوپر کی فضا میں کبھی کبھی ہوائی جہاز کے اڑنے کی آواز آتی تھی۔ ہوٹل کے ایک طرف شان دار عمارتیں پھیلی ہوئی تھیں۔ اِس منظر کو دیکھ کر میںنے اپنے ایک ساتھی سے کہا کہ میرا یہ حال ہے کہ جب میں خوب صورت کاروں کو سڑکوں پر دوڑتے ہوئے دیکھتاہوں ، جب میں ہوائی جہاز کو فضا میں اڑتے ہوئے دیکھتا ہوں، جب میں پُر رونق شہروں کو دیکھتا ہوں، تو میں سوچنے لگتا ہوں کہ خدا کی قدرت کتنی عجیب ہے اُس نے مادّی دنیا کے اندر ایسے امکانات رکھے جن کو دریافت کرکے ایک شان دار تہذیب وجود میں لائی جاسکے۔
پھر خدا کی یہ قدرت کتنی عجیب ہے کہ اُس نے انسان کو دماغ عطا کیا جس کو استعمال کرکے انسان یہ تمام کارنامے انجام دے سکے۔ میںنے کہا کہ ہوائی جہاز خدا کی قدرت کا اڑتا ہوا نشان ہے۔ ٹیلی فون خدا کی قدرت کا بولتا ہوا نشان۔ حقیقت یہ ہے کہ پوری تہذیب خدا کی قدرت کا ایک زندہ نشان ہے۔ مگر معرفت سے محرومی کی بنا پر لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ تہذیب کی ترقیوں کو انسان کا کرشمہ سمجھتے ہیں، نہ کہ خدا وند ِ ذوالجلال کا کرشمہ۔
قرآن کی سورہ نمبر 47 میں جنت کے بارے میں کہاگیا ہے: یُدخلہم الجنۃ عرّفہا لہم (محمد: 6 )۔ جنت اگلی دنیا میں انسان کے سامنے آئے گی، لیکن اِس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت کا ابتدائی تعارف موجودہ دنیا ہی میںکردیا جائے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ جدید ٹکنالوجی نے یہی کام انجام دیا ہے۔ جدید ٹکنالوجی نے جو تہذیب پیدا کی ہے، وہ ایک اعتبار سے، آنے والی جنت کا ابتدائی تعارف ہے۔
مولانا ابو صالح انیس لقمان ندوی کا حافظہ بہت اچھا ہے۔ اُن کو واقعات بہت زیادہ یاد رہتے ہیں۔ انھوں نے ایک مصری لطیفہ بتایا۔ انھوںنے بتایا کہ مصری لوگ لطیفہ بنانے کے ماہر ہوتے ہیں۔ انھوںنے بتایا کہ مصر کے سابق شاہ فار وق (وفات: 1965 )نے ایک فورڈ کار منگائی۔ وہ خود ا س کو چلانے لگے۔ اُن کا مصاحب بھی ان کے ساتھ گاڑی میں موجود تھا۔ شاہ فاروق کو ڈرائیونگ کا زیادہ تجربہ نہ تھا۔ گاڑی چلاتے ہوئے انھوں نے گاڑی کو ایک درخت سے ٹکرادیا۔ اُن کا مصاحب اِس کے بعد فوراً گاڑی سے اترا اور اس نے مودبانہ انداز میں شاہ فاروق سے کہا: الخطأ لیس فی قیادتک، وإنما الخطأ فی مَن غرس ہٰذا الشجرۃ فی ہٰذا المکان۔ (جناب، غلطی آپ کی ڈرائیونگ میں نہیں ہے، بلکہ غلطی اُس شخص کی ہے جس نے اِس مقام پر یہ درخت لگایا)۔
اِس لطیفے کا ایک پہلو یہ ہے کہ عرب دنیا میںآزادیٔ فکر نہ ہونے کا یہ عظیم فقدان ہوا ہے کہ عربوںمیں فکری ارتقا(intellectual development) کا عمل جاری نہ ہوسکا۔ لطیفہ بنانا تو وہ جانتے ہیں، لیکن وہ تخلیقی معنوں میں کوئی علمی بات نہیں کہہ سکتے۔ سعودی عرب کے بارے میں ایک شیخ نے کہا تھا: السعودیۃ مقبرۃ لعلماء المسلمین (سعودیہ مسلم علماء کا قبرستان ہے)۔ مذکورہ شیخ نے یہ بات دینی زوال کے معنوں میں کہی تھی، لیکن یہ بات فکری زوال کے بارے میں زیادہ صحیح ہے۔
قطر میں شیریٹن ہوٹل (Sheraton) میں مجھ کو ٹھیرنے کے لیے کافی بڑی جگہ دی گئی تھی۔ میرے دو ساتھیوں کے لیے دو الگ الگ روم تھے۔ میرے قیام کے لیے ماڈرن انداز کا ایک بڑا سوئٹ (Suite) تھا۔ کھانے کا نہایت اعلیٰ انتظام تھا۔ یہ ہوٹل بحرِ عرب کے کناے بنایا گیا ہے۔ اِس طرح میرا سوئٹ ساحل کے بالکل کنارے تھا۔ یہاں کے خارجی مناظر بھی کافی شان دار تھے، مگر مجھے مسلسل طورپر ایک نامعلوم قسم کی بے سکونی لاحق تھی۔ مجھے ایک لمحہ بھی یہاں خوشی محسوس نہیں ہوتی تھی۔
میں نے سوچا کہ اِس کا سبب کیا ہے۔ میری سمجھ میں آیا کہ اِس کا سبب غالباً یہ ہے کہ یہ دنیا ایک محدود اور غیر کامل دنیا ہے، جب کہ انسان ایک لامحدود ذہن لے کر پیدا ہوتا ہے۔ اِس لیے اس دنیا کی کوئی بھی چیز انسان کو کامل معنوں میں مسرت نہیں دے سکتی۔ اِس دنیا میں ہر صورت حال کے ساتھ حزن (sorrow) لازمی طورپر لگا ہوا ہے۔ جنت کی سب سے بڑی نعمت یہ ہوگی کہ وہاں حزن کا خاتمہ ہوجائے گا۔ چناں چہ قرآن میں آیا ہے کہ اہلِ جنت جب جنت میں پہنچیں گے تو وہ کہیں گے: الحمد للہ الذی أذہب عنّا الحزَن (فاطر: 34 ) ۔
اِس آیت سے بلاغت کا ایک نکتہ معلوم ہوتا ہے۔ قرآن کی اِس آیت میں ’’حزَن‘‘ کا لفظ آیا ہے۔ قرآن کی ایک اور آیت میں اِس کے بجائے حُزْن (یوسف: 86 ) کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ یہ کوئی پراسرار بات نہیں۔ لغوی اعتبار سے حُزن اور حزن دونوں بالکل ہم معنیٰ الفاظ ہیں۔ مذکورہ دونوں آیتوں میں اُن کا استعمال اصولِ بلاغت کی بنا پر ہے، کیوں کہ صوتی آہنگ کے اعتبارسے، ایک جگہ حُزن کا لفظ زیادہ مناسب ہے اور دوسری جگہ حزَن کا لفظ۔ یہ فرق صرف صوتی آہنگ کی بنا پر ہے، نہ کہ کسی پراسرار سبب کی بنا پر۔
ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے اپنی ماں کی بہت تعریف کی۔ میں نے کہا کہ یہ آپ کی ماں کی بات نہیں، ہر آدمی اپنی ماں کے ساتھ اُسی طرح حبِّ شدید کا تعلق رکھتا ہے، جس طرح آپ کو اپنی ماں کے ساتھ حب شدید کا تعلق ہے، لیکن میں اِس کو صرف بے خبری کا ایک کیس سمجھتا ہوں۔
میںنے کہا کہ لوگوں کو اپنی ماں کے ساتھ حب شدید کا تعلق کیوں ہوتاہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ وہ دیکھتے ہیں کہ ان کی ماںکے پیٹ سے ان کا جنم ہوا، پھر وہ دیکھتے ہیں کہ پیداہونے کے بعد ان کی ماں نے ان کو پالا پوسا۔ مگر یہ ایک بے بصیرتی کی بات ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حب شدید کا تعلق آدمی کو صرف خدا سے ہونا چاہیے۔خدا کے آپ کے اوپر جو احسانات ہیں، وہ بلین ٹریلین سے بھی زیادہ ہیں۔ آپ کو پیدا کرنے والی آپ کی ماں نہیں ہے، یہ دراصل خدا ہے جس نے آپ کی تخلیق کی۔ خدا نے آپ کو صوّرکم فأحسن صُورکم (المؤمن: 64 ) کا درجہ دیا۔ پیدا ہونے کے بعد بھی یہ دراصل خدا ہے جو اِس کی پرورش یا تربیب (upbringing)کرتا ہے۔ یہ خدا ہے جس نے آپ کو لائف سپورٹ سسٹم دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ کی زندگی میں 99 فی صد سے زیادہ حصہ خدا کا ہے اور ایک فی صد سے بھی کم حصہ آپ کی ماں کا۔ ایسی حالت میں آپ کے اندر حب شدید کا تعلق خدا سے ہوناچاہئے، نہ کہ اپنی ماں سے۔ مگر عجیب بات ہے کہ اِس معاملے میں تمام دنیا کے لوگ اندھے پن کی حد تک بے خبری میں مبتلا ہیں۔
یہاں مجھ پر عجز کا ایک تجربہ گزرا۔ اس کے بعد میری زبان سے یہ دعاء نکلی— خدایا، تو نے انسان کو عجز کے ساتھ پیدا کیا۔ ساری قدرت تیری طرف اور سارا عجز انسان کی طرف۔ ایسی حالت میں تو انسان کے معاملے میں غیر جانب دار(indifferent) نہیں ہوسکتا۔ یہ تیری شانِ خداوندی کے خلاف ہے کہ تیرے اور انسان کے درمیان عجز اور غیر جانب داری (indifference) کا تعلق ہو۔ ایسا تعلق ’’قسمۃ ضیزیٰ‘‘ کا مصداق بن جائے گا۔ ضروری ہے کہ خدا اور بندے کے درمیان محروم اور معطی کا تعلق ہو۔ یہی تعلق خدائے رحمان اور رحیم کی شان کے مطابق ہے۔
ایک حدیث میں ایک لمبی دعا آئی ہے، اُس کا ایک حصہ یہ ہے: اللہم إنّی أسئلک بحقِّ السائلین علیک (مسند احمد، جلد 3 ، صفحہ 21)۔ اِس پیغمبرانہ دعا ء سے معلوم ہوتا ہے کہ سائل اگر حقیقی سائل ہے تو اس کا بھی کچھ حق ہوتا ہے، جس طرح بندوں کے اوپر اللہ کے حقوق ہیں، اُسی طرح بندوں کا بھی اللہ کے اوپر کچھ حق ہے۔ تاہم یہ ایک بے حد نازک بات ہے۔ اِس حقیقت کو صرف وہ لوگ سمجھ سکتے ہیں جو معرفت کے اعلیٰ درجے پر پہنچ چکے ہوں۔
کئی لوگوں سے قیامت کے بارے میں گفتگو ہوئی۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ سیکولر لوگ جو سائنس کا علم رکھتے ہیں، وہی اِس بارے میں سوچتے ہیں۔ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے، وہ قیامت کے معاملے میں بالکل بے خوف ہیں۔ مسلمانوں کی نفسیات یہ ہوتی ہے کہ ان کے خیال کے مطابق، مہدی اور مسیح تو ابھی آئے نہیں، پھر اِس سے پہلے قیامت کیسے آجائے گی۔ اور اگر قیامت آتی ہے تب بھی مسلمانوں کے لیے وہ کوئی مسئلہ نہیں، کیوں کہ مسلمان امتِ مرحومہ سے نسبت رکھتے ہیں۔
عجیب بات ہے کہ ہالی وڈ(Hollywood) نے ایک فلم بنائی ہے۔ اس کا نام یہ ہے:
2012 End of the world
اِس انگریزی فلم میں قیامت کے مناظر دکھائے گئے ہیں۔ اس فلم میں بتایا گیا ہے کہ قیامت 21 دسمبر 2012 کو آئے گی۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ مشہور سائنس داں آئن سٹائن (وفات: 1955) نے بھی کہا تھا کہ 2012 تک قطبین (South Pole, North Pole)کی برف پگھلنے کی وجہ سے زمین پر پول شفٹ (pole shift)کا واقعہ پیش آئے گا۔ اِس فلم میںایک سائنس داں بول کر کہتا ہے کہ — قیامت قریب آرہی ہے، کیوں کہ انسان خدا کے قانون پر نہیں چلا:
Doomsday is coming because man does not follow the path of God.
قرآن میں بتایاگیا ہے کہ قیامت اچانک (بغتۃً) آئے گی (الأعراف:187 ) ۔ اِس لیے 21 دسمبر2012کی محدّد پیشین گوئی درست نہیں ہوسکتی، البتہ یہ بات درست معلوم ہوتی ہے کہ قیامت بہت زیادہ قریب آچکی ہے۔ ممکن ہے کہ وہ اکیسویں صدی عیسوی کے ربع اوّل ہی میں آجائے۔
ایک مجلس میں مسلمانوں کی موجودہ عالمی حالت پر گفتگو ہوئی۔ میںنے کہا کہ موجودہ زمانے کے مسلمان، عرب اور غیر عرب دونوں، ایک ذہنی واہمہ (obsession) میں مبتلا ہیں اور وہ ہے، عظمتِ رفتہ کی واپسی۔ میں نے کہا کہ یہ ایک جاہلی مزاج ہے۔ وسیع تر پہلو سے دیکھا جائے تو انسان کا کیس جنتِ رفتہ کی واپسی کا کیس ہے، نہ کہ دنیوی معنوں میں عظمتِ رفتہ کی واپسی کا کیس۔
ایک عرب خاتون لیما نبیل نے اسپین کا سفر کیا۔ وہاں مسلم عہد کی قدیم عمارتوں میں اُن کو عرب کی عظمتِ رفتہ نظر آئی۔ اس کو دیکھ کر وہ روپڑیں۔ انھوں نے کہا : إلی متی سیستمر ہٰذا اللیل العربی (عرب کی یہ تاریک رات آخر کب تک باقی رہے گی)۔
یہی موجودہ زمانے کے تمام مسلمانوں کا حال ہے۔ ہر ایک قدیم سیاسی عظمت کے تصور میں گم ہے۔ اسپین کی عرب سلطنت1492 میں ختم ہوئی، انڈیا کی مغل سلطنت 1857 میں ختم ہوئی، ترکی کی عثمانی خلافت 1929 میں ہوئی۔ یہ مسلم ایمپائر کے دور کی باتیں ہیں ۔ ساری دنیا کے مسلمان اِن واقعات کو پڑھتے ہیں اور اس کی واپسی کا خواب دیکھتے رہتے ہیں۔
یہ بلا شبہہ ایک جاہلیت ہے۔ نہ صرف مسلمان، بلکہ تمام انسانوں کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ انسان کی تخلیق کے بعد اس کو جنت میں رکھا گیا، پھر اس کو وہاں سے نکال دیا گیا۔ اب مسلمان سمیت تمام انسانوں کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان کو جنت میں دوبارہ واپسی ملے، مگر شیطان نے ہر ایک کو بھٹکا کر ان کو اصل مسئلے سے غافل بنا رکھا ہے۔
ایک صاحب نے کہا کہ آپ اپنے کام کو دعوت الی اللہ کا کام بتاتے ہیں، لیکن مجھے بتایاگیا ہے کہ آپ کلمہ نہیں پڑھاتے۔ آخر یہ کیسی دعوت ہے جس میں کلمۂ شہادت کی ادائیگی نہیں۔ انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک داعی تھے۔ آپ کا طریقہ یہ تھا کہ آپ لوگوں کو کلمہ پڑھا کر اسلام میں داخل کرتے تھے، پھر یہ آپ کی کون سی دعوت ہے جس میں کلمہ پڑھانا نہیں۔
میں نے کہا کہ آپ کو یہ غلط فہمی سلیکٹیو رپورٹنگ (selective reporting) کی بنا پر ہے، یعنی کچھ اجزا کو بتانا اور کچھ اجزا کو نہ بتانا۔ میں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مشن میں کلمہ پڑھانے سے دعوت کا آغاز نہیں کرتے تھے، بلکہ شعوری بیداری سے آغاز کرتے تھے جس کو معرفت کہاجاتا ہے۔ رسول اللہ کی دعوت تمام تر قرآن پر مبنی تھی۔ آپ افراد کے سامنے بھی اور مجمع میں بھی یہی کرتے تھے کہ آپ لوگوں کو قرآن پڑھ کر سناتے تھے (عرض علیہم الإسلام، وقرأ علیہم القرآن)۔ آپ کا اصل دعوتی کام یہی تھا۔ اِس کے بعد جن لوگوں کا ذہن بدل جاتا اور وہ دائرہ اسلام میں داخل ہونے کی خواہش ظاہر کرتے توآپ کلمہ شہادت کی ادائیگی کے بعد ان کو دائرہ اسلام میں داخل کرلیتے۔یہی وجہ ہے کہ سارے قرآن میں دعوت کی باتیں تو ہیں، لیکن قرآن میں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ لوگوں سے کلمہ شہادت پڑھوا کر ان کو دائرہ اسلام میں داخل کرو۔
قطر کے زمانۂ قیام میں جو دعوتی کام ہوئے، اُن میں سے ایک یہ تھا کہ پروفیسر ابراہیم صالح النعیمی کو ہمارے ساتھیوں نے تذکیر القرآن کے عربی ایڈیشن (التذکیر القویم فی تفسیر القرآن الحکیم) کا ایک سیٹ بطور ہدیہ پیش کیا۔ اس کو انھوںنے شکریہ کے ساتھ قبول کیا۔ پروفیسر صالح النعیمی مرکز الدوحۃ الدولی لحوار الأدیان کے ڈائریکٹر ہیں۔
تذکیر القرآن کا یہ عربی ایڈیشن تین جلدوں پر مشتمل ہے۔ وہ 2008 میں دار الوفاء (المنصورہ، مصر) سے چھپا ہے۔ اِس ادارے نے راقم الحروف کی ایک اور کتاب ’’خاتونِ اسلام‘‘ کا عربی ترجمہ (المرأۃ بین شریعۃ الإسلام وحضارۃ الغربالال) شائع کیا ہے۔ ادارے کا مکمل پتہ یہ ہے:
دار الوفاء للطباعۃ والنشر والتوزیع، جمہوریۃ مصر العربیۃ، المنصورۃ
ش الإمام محمد عبدہ المواجہۃ لکلیۃ الآداب، ص ب: 230
Tel: +2050 22 56 230, Fax: +20502260 974
e.mail: darelwafa@hotmail.com
www.darelwafaa.com
دار الوفاء (مصر) کا اپنا ویب سائٹ ہے۔ اِس ویب سائٹ پر تذکیر القرآن کے عربی ایڈیشن کا تعارف اِن الفاظ میں دیکھا جاسکتا ہے:
ں إن الغرض الرئیسی من ہذا التفسیر بصفۃ خاصۃ، ہو (التذکیر بالقرآن) ومن حیث أن القرآن نفسہ إنما جاء من أجل تحقیق ہذہ الغایۃ، أی التذکیر و الموعظۃ، فإن الجانب الذی أولاہ المؤلف القسط الاوفر من إتمامہ، فی طرح مضامین ہذا التفسیر ہو أن یجد فی القاری منہلا فیاضا أومرتعا خصبا یضمن لہ اشباع حاجتہ إلی التذکیر والاعتبار والاتعاظ۔
ں وحاول المؤلف اتباع اسلوب الفقرات فی طرح مضامین ہذا التفسیر أی أنہ عمد إلی فقرۃ من فقرات القرآن، ثم تناول ما یندرج تحتہا من فکرۃ أو توجیہ معنوی بالتفسیر والإیضاح کموضوع متسلسل، وذلک حرصا منہ علی ألاتنقطع من القاریٔ سلسلۃ المعانی والمفاہیم المطروحۃ خلال قراء تہ فی فقرۃ تفسیریۃ معینۃ، ولکی یتمکن من التزود المستمر المتواصل (بالغذاء التذکیری) للقرآن الکریم۔
ں ولقد توخی المؤلف الشیخ وحید الدین خان فی إعداد (تذکیر القرآن) من الحکمۃ، ما جعل کل فقرۃ من فقراتہ، مستقلۃ بذاتہا، وذلک لاحتوائہا علی فکرۃ قرآنیۃ واضحۃ محدّدۃ، فسواء قرأ القاری صفحۃ واحدۃ من التفسیر، أم قرأ مجموعۃ کبیرۃ من الصفحات، فإنہ لا یکد ینتہی من قراء تہ إلا ویکون قد ظفر بنصیب من (الموعظۃ القرآنیۃ) علی أیۃ حال۔
ں وقد توخی الایجاز إلی الحد الممکن، غیر عارض للتفاصیل المتصلۃ بالجانب اللغوی، أو الجانب الفقہی أو الجانب الکلامی، أو ما إلی ذلک من الجوانب والوجوہ الأخری للمدلول القرآنی، وإنما الشیٔ الذی جعلہ نصب عینیہ، ہو أن یتسم تفسیر القرآن بطابع من البساطۃ التی یتمیز بہا القرآن نفسہ، فإن القرآن، من جہۃ یعکس جلال اللہ وعظمتہ، ومن جہۃ أخری، ہو مراٰۃ تنعکس علیہ عبودیۃ الإنسان بجمیع نواحیہا، وہذہ ہی النقاط الجوہریۃ التی یتمحور حولہا ہذا التفسیر، ویحاول تجلیتہا بأسلوب موجز وبسیط، بعیدا عن التعقیدات الفنیۃ۔
تذکیر القرآن کا یہ عربی ترجمہ مولانا ابوصالح انیس لقمان ندوی نے کیا ہے۔ وہ مالے گاؤں (مہاراشٹر)میں 1965 میں پیدا ہوئے۔ اب وہ ابو ظبی (عرب امارات) میں رہتے ہیں۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کو عربی زبان سے عشق ہے۔ عربی کے علاوہ، وہ انگریزی زبان میں بھی لکھنے پڑھنے اور بولنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔
موجودہ زمانے میں عام طور پر عربوں کا مزاج یہ ہے کہ وہ لکھنے میں تو فصیح عربی لکھتے ہیں، لیکن بولنے میں اکثر وہ غیر فصیح زبان بولتے ہیں۔ مولانا انیس لقمان ندوی کو عربوں کا یہ مزاج پسند نہیں۔ انھوں نے بتایا کہ 22 جون 1998 کو ابو ظبی میں ڈاکٹر عز الدین ابراہیم سے ان کی ملاقات ہوئی۔ اِس دوران اُن سے مختلف موضوعات پر گفتگو ہوئی۔ ابتدا ہی میں میں نے اُن سے درخواست کی کہ وہ مجھ سے صرف فصیح عربی میں بات کریں، کیوں کہ میں فصیح عربی کے معاملے میں اُس سے زیادہ غیور ہوں جتنا غیور کوئی مرد اپنی بیوی کے معاملے میں ہوتاہے۔ اگر آپ مجھے فصحیٰ میں گالی دیں تو یہ بات مجھے اس سے زیادہ پسند ہے کہ آپ عامی زبان میں میری تعریف کریں (کلّمنی من فضلک بالعربیۃ الفُصحیٰ، فإنّی واللہ أغار علی اللغۃ العربیۃ الفصحیٰ أکثر مما یغار الرجل علی زوجتہ۔ ولو شتمتنی بالفصحیٰ، فإنّہ أحبّ إلیّ من أن تمدحنی بالعامیۃ)۔ اِس بات کو سن کر ڈاکٹر عز الدین ابراہیم بہت محظوظ ہوئے۔ انھوں نے کہا کہ یہ بات آپ نے اتنے خوب صورت پیرائے میں کہی ہے کہ وہ اِس قابل ہے کہ ضرب المثل بن جائے (إنّ کلامک ہٰذا مصوغ صیاغۃ رائعۃ لدرجۃ أنہ لیکاد أن یکون مضرب المثل)۔
ریاض، کویت، بیروت اور قاہرہ سے راقم الحروف کی مختلف عربی کتابوں کے ترجمے شائع ہوچکے ہیں جن کی مجموعی تعداد تقریباً 40 ہوتی ہے۔ تذکیر القرآن کا عربی ترجمہ المنصورہ (مصر) سے چھپا ہے۔ اِس عربی ترجمہ کی تحریک ابتداء ً ایک عرب عالم محمد سلیمان القائد نے کی تھی۔ اس کے بعد مولانا انیس لقمان ندوی نے اس کا عربی ترجمہ کیا اور پھر دو عرب شخصیتوں، استاد صالح شوکات اور دکتور عبد الحلیم عویس، کی کوششوں سے وہ چھپ کر شائع ہوا۔
شیخ سلیمان القائد کا خیال تھا کہ عالمِ عرب میں راقم الحروف کی کتاب ’’الإسلام یتحدّی‘‘ کی اشاعت سے اسلام اور سائنس کے متعلق میرے افکار پھیلے، لیکن ابھی تک وہاں میرے دعوتی افکار عام نہ ہوسکے۔ تذکیر القرآن کے عربی ایڈیشن کی اشاعت ان شاء اللہ دعوتی افکار کی اشاعت میں معاون ہوگی۔ الرسالہ کے دعوتی مشن سے شیخ سلیمان القائد کی گہری وابستگی کا اندازہ ان کے حسب ذیل اقتباس سے کیا جاسکتا ہے۔ یہ اقتباس اسلامی مرکز (نئی دہلی) میں 31 اگست 1984 میں کی گئی ان کی ایک تقریر سے ماخوذ ہے:
’’ولعلک تسئل بعد ہذا، لماذا أحببتَ وحید الدین۔ الحقیقۃ أن اکتشاف الشیخ وحید الدین أعظم اکتشاف فی حیاتی۔ فالفضل یرجع إلی اللہ أوّلاً، ثمّ إلی وحید الدین خان فی اکتشاف حقیقۃ الدعوۃ إلی اللہ۔ فہو أضاء لی الطریق الذی جعل بہ حیاتی ذات معنیٰ۔ وأ کثر من ہٰذا، فإنّنی أحسب نفسی بکلّ تواضع أنّنی مجرّد تلمیذ صغیر جداً فی مدرسۃ ہٰذا لعالم الربانی۔ والمسلمون حالیاً لایعرفونہ، وہٰذا أعظم مأساۃ۔ فالمسلمون یعیشون فی وَہم الشخصیات ذات البریق التاریخی والبہرجۃ الدُنیویۃ فہم ینظرون إلی کثرۃ الأتباع، والشہرۃ، وفخامۃ المؤسسات۔ ولکن ہنیئا لکل امریٔ مَن عرفہ وأدرک قیمۃ رسالتہ۔وإنہا لرحمۃ ربّانیۃ نادرۃ جدا أن یخرج فینا الآن مثلہ فی وقتٍ نحن فی أشدّ الحاجۃ إلی مَن یُبصرنا طریق النجاۃ، فہو المجدد بحق لدین اللہ الذی انتظرناہ منذ مئات السنین۔ واللّٰہ وحدہ یشدہ علی صدق ماأقول، وإنّی أعلن شہادتی ہذا متحدیا بہا العصر الحاضر ومستقبل التاریخ الإسلامی والإنسانی بأسرہ‘‘۔ (محمد سلیمان القائد، المرکز الثقافی الإسلامی بکیجالی، إفریقیا)
ایک صاحب سے گفتگو کرتے ہوئے میں نے کہا کہ بیماری اور صحت انسانی زندگی کا لازمی حصہ ہیں، مگر یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس معاملے کا ایک بڑا مثبت پہلو ہے۔ ایک شدید بیماری کے بعد جب آدمی کو صحت حاصل ہوتی ہے تو یہ جزئی معنوں میں اُس حقیقت کا تجربہ ہوتا ہے جس کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وقد خلقتُک من قبل ولم تک شیئا (مریم: 9)۔
یہ ہر انسان کا معاملہ ہے کہ پیدائش سے پہلے وہ غیر موجود تھا۔ پیدائش کے بعد وہ وجود میں آگیا۔ یہ ایک حیرت ناک واقعہ ہے۔ مگر آدمی اپنے بارہ میں اِس طرح سوچ نہیں پاتا۔ وہ اپنے وجود کو فارگرانٹیڈ (for granted) طورپر لئے رہتا ہے۔ اِسی بنا پر انسان کو شدید بیماری میں مبتلا کیا جاتاہے اور پھر اس کو صحت دی جاتی ہے۔یہ انسان کے ساتھ رحمت کا ایک معاملہ ہے۔ اِس تجربے کی صورت میں خدا یہ چاہتاہے کہ انسان اپنے بارے میںخدا کی اِس عنایت کو دریافت کرے کہ اُس نے ایک غیرموجود انسان کو موجود انسان بنا دیا۔ اِس رحمتِ خداوندی کو شدت کے ساتھ محسوس کرنے کے بعد ہی یہ ممکن ہے کہ آدمی شکر ِخداوندی کا گہرا احساس کرے، وہ شکر کے جذبے سے سرشار ہوجائے۔
ایک صاحب سے میں نے پوچھا کہ کیا آپ نے کبھی اپنی تخلیق کو لے کر سوچا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کیسا عجیب معاملہ ہے کہ میں ایک غیر موجود شخص تھا، پھر میں وجود میں آگیا۔ میں اچانک ایک ایسا زندہ انسان بن کر زمین پر چلنے پھرنے لگا جو سوچتاہے، جو دیکھتا ہے، اور دوسرے بہت سے کام کرتا ہے۔ انھوںنے کہا کہ اِس طرح میں بہت کم سوچتا ہوں۔
میں نے کہا کہ اِس طرح کے معاملے میں کم سوچنے کا مطلب ہوتا ہے نہ سوچنا۔ ایک انسان کی حیثیت سے وجود میں آنا اتنا بڑا واقعہ ہے کہ اُس پر کم درجے میں سوچا نہیں جاسکتا۔ جب بھی کوئی شخص اِس پر سوچے گا تو وہ بڑے درجے میں سوچے گا۔ مثلاً ایک فقیر کو کوئی شخص اچانک ایک بلین ڈالر دے دے اور آپ اُس سے اس کا احساس پوچھیں تو وہ یہ نہیں کہے گا کہ ہاں، تھوڑاتھوڑا محسوس ہورہا ہے، بلکہ وہ سرشاری کے انداز میں اپنی لغت کے تمام الفاظ استعمال کرڈالے گا۔
میںنے کہا کہ ایک مرتبہ میںنے امریکی میگزین ریڈر ڈائجسٹ میںایک مضمون پڑھا تھا۔ اُس میں بتایاگیا تھا کہ سعودیہ میں جب تیل نکلا تو ایک عرب بدو کو اچانک بہت زیادہ دولت حاصل ہوگئی۔ اس کے ایک دوست نے اس کے پیسے سے سوئزر لینڈ میں اس کے لیے شان دار مکان خریدا، پھر وہ اِس عرب کو ہوائی جہاز کے ذریعے سوئزر لینڈ لے گیا اور اُس عرب کو اِس نئے مکان میں داخل کرکے کہا کہ یہ تمھارا مکان ہے۔ اُس وقت اُس عرب کا عجیب حال ہوا۔ مضمون میں بتایاگیا تھا کہ وہ عرب بار بار اپنے آپ کو چھوکر دیکھتا تھا اور پھر اس مکان کو چھوکر دیکھتا تھا اور کہتا تھا کہ کیا واقعی یہ میں ہوں اور یہ مکان میرا مکان ہے۔
زیادہ بڑی معرفت یہ ہے کہ آپ کو خود اپنے بارے میں اِسی قسم کا انوکھا احساس ہونے لگے۔ آپ اپنے آپ کو دیکھیں اور اپنے آس پاس کی دنیا کو دیکھیں اور حیرت کے ساتھ سوچیں کہ کیا یہ واقعی میں ہوں اور کیا یہ دنیا میری دنیا ہے جس میں مجھے رہنے کا موقع دیاگیا ہے— لوگوں کے اندر اعلیٰ معرفت نہیں، اِس لیے لوگوں کے اندر اعلیٰ شکر ِ خداوندی کا جذبہ بھی نہیں۔
قطر کے حوالے سے ایک خبر نگاہ سے گزری۔ اِس خبر میں بتایاگیا تھا کہ تاجکستان کے صدر امام علی رحمانوف کے بیان کے مطابق، تاجکستان کے دار الخلافہ (دوشنبہ) میں دنیا کی سب سے بڑی مسجد تعمیر کی جائے گی۔ بیان کے مطابق، اِس مسجد کو اٹھارہ ایکڑ زمین پر تعمیر کیا جائے گا۔ اِس مسجد میں بیک وقت ڈیڑھ لاکھ نمازیوں کی گنجائش ہوگی۔ آئندہ سال اِس مسجد کی تعمیر کا آغاز کیاجائے گا۔ اِس مسجد کی تکمیل پر پانچ سال درکار ہوں گے۔ اِس مسجد کی تعمیر کے تمام اخراجات دبئی اور قطر کی حکومت نے اداکرنے کا وعدہ کیا ہے۔
آج کل ہر جگہ شان دار مسجدیں تعمیر کی جارہی ہیں۔ فخر کے ساتھ ان کا تذکرہ کیا جارہا ہے، حالاں کہ حدیث کی پیشین گوئی کے مطابق، یہ کوئی فخر کی چیز نہیں۔ ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ما اُمرتُ بتشیید المساجد (أبو داؤد، کتاب الصلاۃ، با ب فی بناء المساجد) یعنی مجھ کو بلند وبالا مسجدیں بنانے کا حکم نہیں دیاگیاہے۔ ایک اور روایت کے مطابق، حضرت انس کہتے ہیں کہ میںنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میری امت پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ لوگ مسجدوں پر فخر کریں گے، مگر وہ اس کو (ذکر اور نمازسے) بہت کم آباد کریں گے (یأتی علیٰ أمتی زمان یتباہون بالمساجد، ثم لا یعمّرونہا إلاّ قلیلاً) فتح الباری، جلد 1، صفحہ 642۔
بلند وبالا عمارت اگر آدمی کو جنت کی یاد دلائے، وہ یہ سوچے کہ جب دنیا میں اِس قسم کی خوب صورت عمارت بن سکتی ہے تو جنت کی عمارتیں کتنی زیادہ خوب صورت ہوں گی۔ اگر ایسا ہو تو یہ ایک قابلِ قدر بات ہوگی۔ لیکن اگر بلند و بالا عمارت آدمی کے مادی ذہن میں اضافہ کرے تو وہ بلا شبہہ آدمی کے لیے ایک وبال بن جائے گی۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے: کلّ بناء وبالٌ علی صاحبہ إلاّ مالا، إلاّ مالا (أبو داؤد، کتاب الأدب، باب ما جاء فی البناء)۔
کرنل شیخ عیسیٰ (77 سال) انڈیا میں پیدا ہوئے، پھر وہ پاکستان چلے گئے۔ آج کل وہ قطر میں رہتے ہیں۔ ان سے ملاقات ہوئی۔ وہ دینی مزاج کے آدمی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ میں بہت دن سے مختلف انگریزی ترجموں کی مدد سے قرآن کو پڑھتا تھا، لیکن مجھے کسی ترجمے پر اطمینان نہیں ہوتا تھا۔ اِن ترجموں میں دو چیزیں مجھے پسند نہ تھیں— ایک، ان کی زبان اور دوسرے، ان میں وضوح (clarity) کا نہ ہونا۔ انھوں نے کہا کہ آپ کے ادارے سے قرآن کا جو انگریزی ترجمہ چھپا ہے، وہ اِس معاملے میں ایک استثناء (exception) کی حیثیت رکھتا ہے۔ اِس ترجمے کی زبان بھی وقت کے مطابق ہے، اور اس کے اندر وضوح (clarity) بھی پوری طرح پایا جاتا ہے۔
کرنل شیخ عیسی سے پاکستان کے بارے میں گفتگو ہوئی۔ انھوںنے کہا کہ پاکستان میں قیادت کا فقدان ہے، اور لیاقت علی خاں کے بعد کوئی صحیح لیڈر وہاں پیدا نہیں ہوا۔ میں نے کہا کہ اصل مسئلہ قیادت کے فقدان کا نہیں ہے، بلکہ اصل مسئلہ قبولیت (acceptance) کے فقدان کا ہے۔ پاکستان میں جنرل ایوب خاں بہترین لیڈر تھے، مگر پاکستانی عوام نے ان کو قبول نہیں کیا۔
20 اکتوبر 2009 کی صبح کو ہوٹل کے ایک بڑے ہال میں کانفرنس کے افتتاح کی کارروائی ہوئی۔ یہ ایک بہت بڑا اور شاہانہ انداز کا ہال تھا۔ ہر طرف کیمرے والے دوڑتے ہوئے نظر آتے تھے۔ عربی لباس کے لوگ ہر طرف چلتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔ ہر طرف السلام علیکم ورحمۃ اللہ، کیف الحال، متی القدوم، أہلاً و سہلاً اور بارک اللّٰہ فیکمجیسے الفاظ سنائی دے رہے تھے۔ اِس پروگرام کی کوآرڈنیٹر ایک سینئر عرب خاتون تھیں۔ اُن کا پورا بدن برقعہ سے ڈھکا ہوا تھا۔ ان کا نام یہ ہے: الأستاذۃ الدکتورۃ عائشۃ یوسف المنّاعی، عمیدۃ کلیۃ الشریعۃ بجامعۃ قطر۔
افتتاحی تقریر قطر کے ایک منسٹر احمد بن عبد اللہ المحمود نے کی۔ انھوں نے اپنی عربی تقریر میں جن باتوں پر زور دیا، وہ مختلف ادیان کے درمیان قدرِ مشترک کی تلاش تھی۔ انھوں نے کہا کہ قرآن اور حدیث وحدانیتِ خلق پر متفق ہیں۔حدیث میں ارشاد ہوا ہے: إنّ ربکم واحد، وإنّ أباکم واحد۔
دوسرے مقررین نے عام طورپر رسمی انداز کی باتیں کیں۔ ایک مقرر نے کہا کہ ادیانِ سماوی کی یہ خصوصی ذمے داری ہے کہ وہ موجودہ زمانے کے انسانی مسائل میں ان کو رہنمائی دیں۔ انھوں نے کہاکہ ادیانِ سماوی سے وابستہ لوگ موجودہ عالمی آبادی کا 60 فی صد حصہ ہیں۔ ان کو چاہئے کہ وہ سب مل کر موجودہ مسائل پر سوچیں اور اس کا حل نکالنے کی کوشش کریں۔
یہاں ہر مقرر نے لکھی ہوئی تقریر پڑھی۔ صرف ایک صاحب نے انگریزی زبان میں تقریر کی۔ اس کے علاوہ تمام تقریریں عربی زبان میں ہوئیں۔ اِس پروگرام میں مسئلہ فلسطین کا بھی ذکر آیا، مگر مقررین کی طرف سے اس کا کوئی متعین حل سامنے نہ آسکا۔
افتتاحی پروگرام کے موقع پرعرب دنیا کے اکثر بڑے بڑے لوگ موجود تھے۔ اِس کے علاوہ شاہی خاندانوں کے کچھ افراد بھی یہاں آئے ہوئے تھے۔ عرب حکومتوں سے متعلق بڑے بڑے افسران اور وزراء بھی اِس کانفرنس میں شریک تھے۔ میرے ساتھیوں نے اِن تمام لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیا۔ لوگوں نے اِس کو خوشی کے ساتھ قبول کیا۔
قطر کی اس کانفرنس میں تقریبا 15 پینل بنائے گئے تھے۔ ان کے عنوانات حسب ذیل ہیں:
ں Human Solidarity:
Human Action in Response to Wars and Disasters
ں Achieving Unity and Solidarity through Spiritual Values
ں Religious Responses to Natural Disasters and Famines
ں Religious Views on Human Solidarity in Response to Wars
ں Human Solidarity and Inter-dependence in Response to Wars
ں Solidarity and Economic Inter-dependence:
Religious Financial Systems and the Economic Crisis
ں Solidarity and Economic Inter-dependence:
Religious Analysis of the Economic Crisis and its Consequences
ں Solidarity in Defense of Religious Rights and Freedom
ں Solidarity in Support of Holy Sites
ں Solidarity and Economic Inter-Dependence:
Religious Responses to the Financial Crisis
ں Responses in Defense of Religious Rights and Freedom
ں Religious Responses for Supporting Holy Sites
ں Round Table Discussion
ں Closing Remarks & Recommendations
اِس کانفرنس میں ڈنمارک کے ایک نو مسلم سے ملاقات ہوئی۔ ان کا نام یہ تھا:
Abdul-Wahid Anderson, Muslim council of Denmark
انھوں نے بتایا کہ ڈنمارک میں کارٹون کا جو واقعہ پیش آیا تھا، اس سے لوگوں کے اندر تجسس پیدا ہوا اور لوگوں نے اسلام کامطالعہ کرنا شروع کردیا۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کارٹون کے واقعے کے بعد ڈنمارک میں 75 افراد نے اسلام قبول کرلیا۔
میں نے بتایا کہ کارٹون کے واقعہ کے بعد سعودی ٹی وی (عکاظ) کی ایک ٹیم ڈنمارک گئی تھی۔ یہ لوگ سیرتِ رسول کے موضوع پر راقم الحروف کی کتاب ’’پیغمبر انقلاب‘‘ کا انگریزی ترجمہ (Muhammad A Prophet for All Humanity)اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ اس کو انھوں نے بڑے پیمانے پر ڈنمارک کے مقامی لوگوں کو مطالعے کے لیے دیا۔
ہمارے یہاں سے چھپے ہوئے انگریزی ترجمہ قرآن کے بارے میں عام طورپر لوگوں نے مثبت رائے دی۔ فرانس کے ایک صاحب کو 20 اکتوبر 2009 کو ہمارے ساتھی مسٹر رجت ملہوترانے قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا۔ اس کو پڑھ کر اگلے دن انھوں نے میرے ساتھی مسٹر رامش صدیقی سے اس کے بارے میں اپناتاثر بتاتے ہوئے کہا کہ میں نے اِس سے پہلے قرآن کے دو انگریزی ترجمے پڑھے تھے، لیکن کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ مگر آپ کا یہ ترجمہ قرآن پوری طرح سمجھ میں آرہا ہے۔ ان کا نام یہ ہے:
Alain Micmel, Director General Mommes De Parole Faundation.
اگلے دن انھوں نے ترجمۂ قرآن کا ایک اور نسخہ طلب کیا جو انھیں دے دیا گیا۔
کانفرنس میں ترکی کے ایک پروفیسر الدکتور عبد الحمید براشقسے ملاقات ہوئی۔ قطر یونی ورسٹی میں وہ تفسیر کے پروفیسر ہیں۔ اس سے پہلے وہ پاکستان میں رہ چکے ہیں۔ اِس لیے وہ اچھی اردو جانتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ہمارے یہاں دہلی میں ہر اتوار کو جو لیکچر ہوتا ہے اور جس کو لائیو ٹیلی کاسٹ کیا جاتا ہے، اس کو وہ پابندی کے ساتھ انٹرنیٹ پر سنتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ہماری یونی ورسٹی کی لائبریری میں آپ کی اردو کتابیں موجود ہیں۔
ہمارے ایک ساتھی مسٹر رجت مہلوترا نے کہا جب میں دعوت الی اللہ کا کام کرتاہوں اور لوگوں سے مل کر انھیں دعوتی لٹریچر اور قرآن دیتا ہوں تو عجیب خوشی محسوس ہوتی ہے۔ میں نے کہا کہ یہ فطری بات ہے۔ دعوت کا کام خدا کا کام ہے۔ اِس کام کو قرآن میں خدا کی نصرت کا کام بتایا گیا ہے۔ اور خدا کی نصرت سے بڑا کون سا کام ہوسکتا ہے۔ یہ احساس کہ میں خدا کے کام میںہوں، بلا شبہہ اِس سے بڑی خوشی اور کسی چیز سے نہیں ہوسکتی۔
یہاں قطر میں ملاقات کے دوران ایک واقعہ معلوم ہوا۔ ایک صاحب نے بتایا کہ ایک ہندستانی عالم جو قطر میں رہتے ہیں، ان کی بیوی نے ان کے بارے میں اپنی ماں سے کہا کہ میںاُن کے نکاح میں ایک سال سے تھی، مگر انھوںنے کبھی خدا اور آخرت کی بات نہیںکی، اگر چہ وہ مدرسہ کے پڑھے ہوئے تھے۔ جب سے انھوں نے الرسالہ مشن کی کتابیں پڑھی ہیں، وہ مجھ سے صرف خدا اور آخرت کی بات کرتے ہیں، جب کہ اِس سے پہلے وہ دوسری دوسری باتیں کیا کرتے تھے۔
یہی عام طورپر لوگوں کا حال ہے۔ میرا تجربہ ہے کہ لوگوں نے اِس حقیقت کو نہیں جانا کہ عورت کا رول ان کی زندگی میں کیا ہے۔لوگ عام طورپر عورت کے صرف کم تر رول کو جانتے ہیں، وہ عورت کے برتر رول کو دریافت نہ کرسکے۔ مثلاً ایک صاحب نے اپنی بیوی کی تعریف کی۔ میں نے پوچھا کہ آپ اپنی بیوی میں کیا خاص بات پاتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ روزانہ مجھ کو اچھے اچھے کھانے پکا کر کھلاتی ہے۔میںنے کہا کہ آپ نے عورت کو صرف کچن پارٹنر کی حیثیت سے جانا، مگر آپ عورت کو اپنے انٹلکچول پارٹنر کی حیثیت دریافت نہ کرسکے۔
20 اکتوبر 2009 کو ہوٹل کے ’’سلویٰ ہال‘‘ میںایک سیشن کا موضوع یہ تھا:
القیم الروحیۃ وتحقیق الوحدۃ والتضامن:
Achieving Unity and Solidarity Through Spiritual Values
اِس سیشن میں جن لوگوں نے تقریر کی، ان میں ایک صاحب وہ تھے جو یوکے (U.K.)سے آئے ہوئے تھے۔ اُن کانام یہ تھا— ڈونالڈ (Rev.Donald Reeves) ۔ انھوں نے اپنی تقریر کا آغاز ساؤتھ افریقہ کے مشہور لیڈر نیلسن منڈیلا (Nelson Mandela) کے اِس قول سے کیا:
If you want peace, then talk to your enemies & not with your friends.
یعنی اگر تم امن چاہتے ہو تواپنے دشمن سے بات کرو، نہ کہ اپنے دوستوں سے۔
میں نے ایک صاحب سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ قول ایک غیر فطری قول ہے۔ اصل یہ ہے کہ ’’دوست اور دشمن ‘‘ کی اصطلاح میں سوچنا چھوڑ دیا جائے۔ انسان کو صرف انسان سمجھاجائے۔ میںنے کہا کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جس کو آپ اپنا دشمن سمجھ لیتے ہیں، وہی عملی اعتبار سے آپ کا سب سے بڑا دوست ہوتا ہے۔
اِس معاملے کی ایک مثال خود نیلسن منڈیلا کا ملک ساؤتھ افریقہ ہے۔ ساؤتھ افریقہ کو ایک ترقی یافتہ ملک سمجھا جاتاہے۔ ساؤتھ افریقہ کو کس نے ترقی یافتہ ملک بنایا۔ یہ نیلسن منڈیلا یا ان کے ساتھی نہیں تھے، بلکہ وہ باہر سے آئے ہوئے انگریز تھے جن کو نیلسن منڈیلا اور ان کے ساتھی دشمن بتا کر اُن کے خلاف ’’آزادی ‘‘ کی لڑائی لڑتے رہے۔
ہمارے ساتھیوں نے مسٹر ڈونالڈ کو انگریزی ترجمہ کی ایک کاپی دی۔ اس کو دیکھ کر انھوں نے کہا:
It looks very beautiful. It can fit into my pocket very easily.
20 اکتوبر 2009کو میری تقریر سننے کے بعدکانفرنس میں فرنچ زبان کی مترجم مز نفیسہ (Nefissa El Bakly) نے میرے ایک ساتھی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا:
Maulana Wahiduddin Khan has a unique perspective of Islam.
اِس کانفرنس میںعربی، انگریزی اور فرنچ زبان رائج تھی۔ میںنے انگریزی میںتقریر کی۔ میںنے اپنی تقریر میں کہا کہ موجودہ زمانے میں ہر عورت اور مرد پیس (peace) کی بات کرتا ہے، مگریہ لوگ پولٹکل فارمولے کے ذریعے پیس کو حاصل کرنا چاہتے ہیں، جب کہ پولٹکل فارمولا اِس معاملے میں قابل عمل نہیں۔ یہاں اسپریچول فارمولا درکار ہے۔ یہ اسپریچول فارمولا قرآن میں دیاگیاہے، وہ الصلح خیر(النساء: 128) کا فارمولا ہے۔ اسپریچول فارمولے کا مطلب ہے— معاملے کو یک طرفہ بنیا پر حل کرنا:
To solve the problem on unilateral basis
میںنے کہا کہ نزاع کے موقع پر اسپریچول فارمولا ہی قابل عمل فارمولا ہے، نہ کہ پولٹکل فارمولا۔
ایک عرب اسکالر سے ملاقات ہوئی۔ وہ یہودیوں کے بارے میں بہت سخت الفاظ بولنے لگے— وہ ظالم ہیں، وہ سازشی ہیں، وغیرہ۔ میں نے کہا کہ موجودہ زمانے کے مسلمان، عرب اور غیرعرب دونوں، یہود کے بارے میں اِسی قسم کے منفی خیالات رکھتے ہیں، مگر آپ جیسے لوگ یہود کے بارے میں صرف اتنا ہی جانتے ہیں کہ 1948 میں وہ فلسطین میں داخل ہوگئے اور یہاں کے ایک حصے پر اسرائیلی حکومت قائم کرلی، وغیرہ۔
مگر یہ ایک ناقص رائے ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہود نے بہت بڑے بڑے علمی کارنامے انجام دئے ہیں، قدیم مسلم اسپین میں بھی اور اِسی طرح موجودہ دور میں بھی۔ اِس وقت میں دورِ جدیدکی نسبت سے ان کے صرف ایک کارنامے کا حوالہ دوں گا۔ یہ ایک ایسا کارنامہ ہے جس کے برابر کارنامہ موجودہ زمانے میں کوئی مسلم عالم بھی انجام نہ دے سکا۔
یہ کام پہلی بار ایک یہودی سائنس داں نے کیا، یعنی آئن اسٹائن (Albert Eienstein) نے۔ آئن اسٹائن نے خالص سائنسی بنیاد پر یہ ثابت کیا کہ موجودہ دنیا میں انسان کسی بھی شعبے میں صرف اضافی علم (relative knowledge) تک پہنچ سکتا ہے، حقیقی علم (real knowledge) تک پہنچنا انسان کے لیے ممکن ہی نہیں۔ ایسی حالت میں انسان کے لیے صرف دو میں سے ایک کا آپشن ممکن ہے — ایک، یہ کہ وہ ہمیشہ تشکیک (scepticism) میں مبتلا رہے۔ دوسرا آپشن یہ ہے کہ وہ علمی امکان (probability) پر اپنے یقین کی بنیاد رکھے۔ چوں کہ اِس دنیا میں تشکیک کوئی قابلِ عمل نظریہ نہیں، اس لیے انسان مجبور ہے کہ وہ علمی امکان کو اپنے یقینی علم کی بنیاد بنائے۔ قرآن کے مطابق، یہی کسی انسان کا ٹسٹ پر پورا اترنا ہے۔ میری بات سن کر مذکورہ عرب اسکالر نے کہا کہ میں نے اِس اعتبار سے کبھی نہیں سوچا تھا، اب میں اِس پر غور کروں گا۔
قرآن میں مومن کی ایک صفت سیاحت (سفر) بتائی گئی ہے (التوبۃ: 112 )۔ مگر موجودہ زمانے میں عام طورپر سفر تفریحی سفر کے ہم معنی بن گیا ہے، جب کہ قرآنی سیاحت کا مطلب معرفت کی سیاحت ہے۔ مگر موجودہ زمانے کے مسلمان معرفت کے سفر سے تقریباً نا آشنا ہوچکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حج اور عمرہ کا سفر آج کل صرف آؤٹنگ (outing) کے ہم معنیٰ بن گیا ہے۔ مسلم جرائد میں اکثر مسلمانوں کے سفر نامے چھپتے رہتے ہیں، لیکن وہ جدید اصطلاح میں ٹورازم (tourism) کے ہم معنیٰ ہوتے ہیں۔مثال کے طورپر حال میں ایک معروف عالم کا سفر نامہ ایک ماہ نامہ میں نظر سے گزرا۔ یہ سفر ارضِ اُردن (عمّان) کے لیے تھا۔ اِس سفر نامے کا آغاز کچھ اِس طرح تھا:
’’یہ ایک چمکیلی شام تھی۔ میری بیٹی کے یہاں سب جمع تھے۔ میرے ایک عزیز ابھی ابھی اردن میں بحرِ میت کے کنارے ایک کانفرنس میں شرکت کے بعد واپس لوٹے تھے۔ ان کا بیگ یاد گاری تحائف بانٹنے کا منتظر تھا۔ بیگ کھلتا چلا گیا اور آخر میں پانی سے بھری ہوئی ایک بوتل نکلی۔ میرے عزیز نے کہا: اب کچھ تماشا ہوجائے — بچوں سمیت ہر شخص بحرِ میت کے اِس پانی کو چکھے گا اور اگر وہ اس کا ذائقہ سہار نہ سکا تو گلاس حاضر ہے، وہ اس میں تھوک دے۔ سب سے پہلے بچوں کی باری تھی۔ ایک کے بعد دوسرا اس پانی کا ایک ایک گھونٹ چکھتا گیا اور منہ بنا کر اسے اگلتا رہا۔ میرے بھائیوں میں سے ایک بھائی بھی مع اپنی اہلیہ کے حاضر تھے۔ وہ دونوں بھی اس تجربے سے محظوظ ہوئے۔ آخر میں گھر کے سب سے بزرگ فرد یعنی راقم کی باری تھی۔ میں نے تمغہ شجاعت کا اعزاز حاصل کرنے کے لیے پانی کے دو گھونٹ غٹا غٹ چڑھا لیے۔ بحر مردار کے پانی میں نمک کی مقدار اتنی زیادہ ہے کہ اس کا پینا آفتِ جان ہوسکتا ہے۔ جوں ہی یہ پانی معدہ سے ٹکرایا تو پیٹ میںایک بھونچال برپا ہوگیا۔ اب ایسا معلوم ہوا کہ شعلے بھڑک اٹھے ہیں۔ اپنی بہت سی نادانیوں میں ایک اور کا اضافہ ہوگیا‘‘۔
اول یہ کہ یہ زبان مومنِ سائح کی زبان نہیں ہے۔ مومنِ سائح کے کلام میںجو سنجیدگی ہونی چاہیے، وہ اِس عبارت میں مفقود ہے۔ دوسری بات یہ کہ مومن کی سیاحت عبرت اور نصیحت کے لیے ہوتی ہے، نہ کہ ’’تماشا‘‘ کے لیے۔ مذکورہ عبارت میں جس پانی کا ذکر ہے، وہ بحر مردار(Dead Sea) کا پانی تھا۔ بحرِ مردار اُس خدائی عذاب کے باقیات میں سے ہے جو قومِ لوط پر آیا تھا۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اِن آثار میںاہلِ ایمان کے لیے نشانیاں ہیں (الحجر:75-77 )۔ لیکن موجودہ زمانے کے مسلمان وہاں سے گزرتے ہیں اور وہاں انھیں تفریح اور تماشے کے سوا کچھ اور نظر نہیں آتا۔
موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے گھرکا جو ماحول ہوتا ہے، اس کی ایک تصویر مذکورہ اقتباس میں نظر آتی ہے۔ اِس اقتباس سے اندازہ ہوتاہے کہ مسلمانوں کے گھروں کا ماحول بے حسی کا ماحول بن گیا ہے۔ یہی وہ ماحول ہے جو موجودہ زمانے میں بچوں کو بگاڑ رہا ہے۔
مسلمان اپنے بچوں کے بگاڑ کے لیے خارجی چیزوں کی شکایت کرتے ہیں، حالاں کہ یہ دراصل اُن کا اپنا گھر ہے جو اُن کے بچوں کے بگاڑ کا اصل ذریعہ ہے۔ بچوں کی اصلاح کے سلسلے میں سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ بچوں کے اندر آخرت کا احساس پیدا ہوجائے، جب کہ مذکورہ قسم کے گھر میں بچوں کے اندر احساسِ دنیا پیدا ہوتاہے، نہ کہ احساسِ آخرت۔ جو لوگ آخرت میں خدا کی رحمت سے محروم قرار پائیں گے، ان کے گھروں کی تصویر قرآن میں اِس طرح بتائی گئی ہے کہ وہ اپنے گھروں میں خوش وخرم (الإنشقاق: 13) رہتے تھے— بچوں کی اصلاح کا تعلق خارجی ’’وعظ‘‘ سے نہیں ہے، بلکہ وہ تمام تر گھر کے داخلی ماحول پر منحصر ہے۔
میرے ساتھی اِس سفر میں رات دن صرف ایک کام کے لیے دوڑ رہے تھے، اور وہ ہے— قرآن کا انگریزی ترجمہ اور اسلامی لٹریچر لوگوں تک پہنچانا۔ اِسی کا نام مشنری اسپرٹ ہے۔ مشنری اسپرٹ دراصل اِس احساس سے پیدا ہوتی ہے کہ آپ کے پاس دوسروں کو دینے کے لیے کوئی چیز ہے۔ شاید اِس سے بڑی کوئی قوتِ محرکہ (incentive force) نہیں۔ یہ سادہ بات نہیں، اِس کا مطلب یہ ہے کہ یہی وہ لوگ ہیں جو حدیث کے مطابق، ’’ادخال کلمہ‘‘ کا کام انجام دے رہے ہیں۔
قطر کی اِس کانفرنس میں ہر ملک کے مسلم علماء آئے ہوئے تھے۔ اِس کے علاوہ، ہر مذہب کے نمائندے بھی یہاں موجود تھے۔ مگر کسی بھی ملک کے مسلمان نے یہ نہیں کیا کہ وہ قرآن کا ترجمہ یا اسلامی لٹریچر حاضرین کو مطالعے کے لیے دے۔یہ صرف سی پی ایس کے لوگ تھے جو دوڑ دوڑ کر لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور اسلامی لٹریچر دے رہے تھے۔ تمام لوگ اس کو بڑے شوق سے لے رہے تھے اور مزید نسخوں کا مطالبہ کرتے تھے،تاکہ وہ اسے دوسروں کو دے سکیں۔
ہمارے ساتھی ایک صاحب سے ملے۔ وہ مراکو سے آئے ہوئے تھے۔ وہ کئی ملکوں میں مراکو کے سفیر رہ چکے ہیں۔ اُن کو قرآن کے انگریزی ترجمہ کی ایک کاپی دی گئی۔ انھوں نے تین اور کاپی مانگی۔ انھوں نے کہا کہ اِس کو میں شاہی محل میں پہنچاؤں گا۔ اِسی طرح ہر ایک نے نہایت شوق کے ساتھ قرآن کا انگریزی ترجمہ لیا، جیسے وہ پہلے سے اس کے منتظر تھے۔
قدرتی گیس کی دریافت سے پہلے قطر ایک غریب ملک تھا۔ اب وہ یورپ اور امریکا کی مانند ایک ترقی یافتہ ملک بن چکا ہے۔ اِس کا تقاضا تھا کہ لوگوں کے دلوں میں شکر کا دریا موج زن ہوجائے، لیکن مجھے اپنے زمانۂ قیام میں کوئی ایسا شخض نہیں ملا جو حقیقی معنوں میں شکرِ خداوندی کی بات کرتا ہو۔
ایسا کیوں ہوتا ہے کہ انسان اسبابِ شکر کے درمیان ناشکرا بنا رہتا ہے۔ اس کا جواب ایک حدیث رسول میں ملتا ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ینزل بالعبد الأمر فیدعوا اللہ عزّوجل، فیصرفہ عنہ، فیأتیہ الشیطانُ فیضعّف شکرہ (الشکر لابن أبی الدنیا، رقم الحدیث: 25 ) یعنی جب اللہ کسی اسان کو اپنی نعمت عطا فرماتا ہے تو شیطان اس کے پاس آتا ہے اور وہ شکر کے احساس کو کم زور کردیتا ہے۔ یہ ’’تضعیف‘‘ یعنی شکر کے اروژن (erosion) کا عمل کس طرح ہوتا ہے۔ وہ اِس طرح ہوتا ہے کہ شیطان شعوری یا غیر شعوری طورپر انسان کے ذہن میں یہ ڈال دیتا ہے کہ یہ نعمت تم کو خدا کی طرف سے نہیں ملی، بلکہ وہ فلاں سبب سے تم کو ملی ہے۔ مثلاً کسی اتفاق سے، اپنی کسی قابلیت سے، خاندانی وراثت سے، وغیرہ۔ مثال کے طورپر جب عرب کی سرزمین کے نیچے تیل کے ذخائر برآمد ہوئے تو مغربی ’’ماہرین‘‘ نے کہا یہ جغرافی حادثہ (accident of geography) کا نتیجہ ہے، وغیرہ۔ یہی وہ باتیں ہیں جن کو حدیث میں شیطانی تضعیف کہاگیا ہے۔
20 اکتوبر 2009 کو دکتور عبد المجید عمر النجّار سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے بتایا کہ وہ راقم الحروف کی کتاب ’’الاسلام یتحدی‘‘ پڑھ چکے ہیں۔ انھوںنے اپنی کتاب ’’الإیمان باللہ وأثرہ فی الحیاۃ‘‘ (صفحات: 225 ) دار الغرب الاسلامی، بیروت 1997 ) میں ’’الإسلام یتحدی‘‘ کو مصادر میں سے شمار کیا ہے۔ دکتور عمر النجّار کی ایک شاگرد مز آمال حمیدی کے ذریعے مجھ کو یہ کتاب ملی۔ دکتور عمرالنجّار پیرس (فرانس) میں اسلامک اسٹڈیز اینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹرہیں۔
دکتور النجار کی یہ کتاب قدیم علمِ کلام اور جدید علمِ کلام کی روشنی میں لکھی گئی ہے۔ قدیم علمِ کلام یونانیات کے رد عمل میں پیدا ہوا تھا۔ اِسی طرح مصنف نے لکھا ہے کہ دورِ جدید میں بعث وتجدید کی ایک نئی تحریک شروع ہوئی۔ اس کا محرک غالباً اسلامی عقیدے کے خلاف وہ شدید چیلنج تھا جو مغربی استعمار کے دو رمیں ظاہر ہوا جس نے امت اسلامیہ کو اپنا نشانہ بنایا تھا (منذ حل یقارب القرن من الزّمن بدأت تدبّ فی علم العقیدۃ حرکۃ بعث و تجدید۔ ربّما کان الدارع إلیہا شدّۃ التحدّی للعقیدۃ الإسلامیۃ من قِبل الغرب۔ صفحہ 23 )۔
قدیم علمِ کلام بلا شبہہ یونانیات کے رد عمل میں پیدا ہوا تھا، لیکن جدید علمِ کلام کی نوعیت اس سے مختلف ہے۔ جدید علمِ کلام کی ضرورت اصلاً کسی ’’استعماری حملہ‘‘ کے نتیجے میں نہیں پیدا ہوئی، بلکہ وہ خود علم کے نئے ارتقاء کے نتیجے میں پیداہوئی۔ جدید سائنسی علم اپنی حقیقت کے اعتبار سے اسلامی عقیدے پر کوئی حملہ نہیں ہے، بلکہ وہ اسلامی عقیدے کے لیے علمی تائید کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ ایک مثبت ظاہرہ ہے، نہ کہ منفی ظاہرہ۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ جدید سائنس موجودہ زمانے میں اسلام کا علمِ کلام ہے۔ عباسی دور کا علمِ کلام ایک دفاعی علم کے طورپر پیدا ہوا تھا، لیکن دورِ جدید کے علمِ کلام کی حیثیت اِس سے مختلف ہے۔ دورِجدید میں علمِ کلام کا مطلب ہے— جدید علمی مسلّمات کی روشنی میں اسلامی عقیدے کا از سرِ نو اظہار۔
22 اکتوبر 2009 کی شام کو مولانا محمد شاہد خان ندوی اپنی اہلیہ کے ساتھ ہوٹل میں ملاقات کے لیے آئے۔ میںنے ان لوگوں سے کہا کہ آپ ہماری چھ کتابیں ضرور پڑھئے —خاتونِ اسلام، عورت معمارِ انسانیت، رازِ حیات، تعمیر ِ حیات، رہنمائے حیات، کتابِ زندگی۔ اس کے بعد میں نے دونوں سے کہا کہ عورت صرف گھر کی رفیقہ نہیںہے، بلکہ عورت اور مرد دونوں ایک دوسرے کے لیے بہترین انٹلکچول پارٹنر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپ دونوں شعوری طورپر اِس کے لیے اپنے آپ کو تیار کریں۔ دونوں بہت دیر تک ہوٹل میں ہمارے پاس رہے۔ ان سے دعوت الی اللہ کے موضوع پر بھی بات ہوئی۔
22 اکتوبر2009 کی شام کو قطر سے دہلی کے لیے واپسی ہوئی۔ ہوٹل سے روانہ ہو کر ہم لوگ قطر ائر پورٹ پہنچے۔ یہاں انتظار کے طورپر کچھ دیر ائر پورٹ کے لاؤنج میںہمارا قیام تھا۔ یہ لاؤنج محل کے انداز میں بنایا گیا ہے۔ دیگر سہولیات کے علاوہ، یہاں کھانے پینے کا بھی اعلیٰ انتظام تھا۔ لیکن اس کی ایک چیز میرے لیے پریشان کن تھی۔ یہ لاؤنج مکمل طورپر ائر کنڈیشنڈ تھا۔ ائر کنڈیشننگ میرے ذوق کے مطابق نہیں۔ لاؤنج کے باہر لان میں بیٹھنا ممکن تھا، لیکن انتظار کی مجبوری کی بنا پر ہمیں اِسی لاؤنج کے اندر ٹھیرنا پڑا۔
ائرپورٹ کے لاؤنج میں ایک خاص شخص سے ملاقات ہوئی۔ یہ حسن ادریسی الحمادی تھے۔ وہ ابو ظبی (امارات) میں منسٹر آف پریسیڈنشیل ایگزیکٹیو سکریٹری ہیں۔ میرے ساتھیوں نے ان کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا۔ وہ بہت خوش ہوئے۔ لاؤنج میں مزید کئی ٹاپ کے لوگوں سے ملاقات ہوئی۔ ہمارے ساتھیوں نے سب کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور اسلامی لٹریچر دیا۔
دورانِ پرواز قطر ائر لائنز کے میگزین بازار (Harper’s) کا شمارہ اکتوبر 2009 دیکھا۔ 300 صفحے کے اِس میگزین میں تقریباً تمام آئٹم فیشن سے تعلق رکھتے تھے۔ میگزین کے صفحہ 250 پر ایک لگزری رزورٹ (The Body Holiday) کا اشتہار اِن الفاظ میں چھپا تھا:
Give us your body for a week, And we will give you back your mind.
اِس عنوان کے تحت ساحل پر تفریحی پر وگرام کی تفصیل تھی۔ اس کے آخر میں یہ الفاظ درج تھے:
You are guaranteed a remarkable experience in the persuit of health and well being.
یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اِس زمانے میں دماغ (mind) کو بھی جسم (body) کے ماتحت بنا دیا گیا ہے۔ جدید کلچر میں یہ ذہن بنا دیا جاتا ہے کہ وہ جسم ہی کو سب کچھ سمجھے۔ چناں چہ اِس زمانے میں پرسنالٹی ڈیولپ مینٹ (personality development) کا مطلب ہوتا ہے: فزیکل ڈیولپ مینٹ یا باڈی ڈیولپ مینٹ (physical development or body development)، ذہنی یا روحانی ارتقا (spiritual development) کا تصور جدید کلچر میں موجود نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جدید انسان اِس ارشادِ خداوندی کا کامل مصداق بنا ہوا ہے: یتمتّعون ویأکلون کما تأکل الأنعام (محمد: 12 )
23 اکتوبر 2009 کی صبح کو تین بجے ہمارے جہاز نے دہلی ائرپورٹ پر لینڈنگ کی۔ یہ تین گھنٹے کی ایک اسموتھ فلائٹ (smooth flight) تھی ۔ ائر پورٹ کی ضروری کارروائیوں سے فارغ ہو کر ہم لوگ باہر آئے۔ ائرپورٹ کے باہر ہمارے ڈرائیور پیشگی طورپر موجود تھے۔ پہلے زمانے میں ائرپورٹ پر اترنے کے بعد ڈرائیور کو پانا ایک مشکل کام ہوتا تھا، لیکن اب موبائل کی ایجاد نے اِس مسئلے کو بالکل آسان بنا دیا ہے۔ ائرپورٹ کے باہر ہمارے ڈرائیور پیشگی طورپر موجود تھے۔ ائر پورٹ پر اترکر آپ اپنے ڈرائیور کو بتا دیجئے اور باہر نکلتے ہی آپ اس کو گیٹ پر موجود پائیں گے۔ یہ سہولت بھی اُن بے شمار انعاماتِ الٰہیہ میں سے ہے جس کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: واٰتاکم من کل ماسألتموہ (إبراہیم: 34 )۔
ائرپورٹ سے روانہ ہو کر بذریعہ کار ہم لوگ نظام الدین (ویسٹ) پہنچ گئے۔ دہلی سے قطر کا یہ سفر میرے لیے ایک خواب کی مانند تھا، ایک ایسا خواب جو دہلی سے شروع ہوا اور پھر دہلی پر ختم ہوگیا۔ سفر کے دوران جو کچھ پیش آیا، وہ گویا کہ کسی پر اسرار خارجی طاقت کے ذریعے پیش آیا۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اِس پورے سفر میں میری حیثیت صرف ایک معمول کی تھی، نہ کہ عامل کی۔
(یہ سفر نامہ مولانا محمد ذکوان ندوی کے تعاون سے تیار کیاگیا)۔
واپس اوپر جائیں