Pages

Monday, 2 August 2010

Al Risala | August 2010 (الرسالہ،اگست)

2

-اضاعت ِ صلوٰۃ

3

- قرآن کی ایک آیت

4

- صادق انسان

5

- قرآن میں تدبر

6

- تزکیہ کی حقیقت

7

- تخلیقی حمد

8

- اسلامی نظریۂ جنگ

10

- مہدی یا مسیح کی پہچان

12

- انتظار کی مدت ختم

13

- طالب اور مطلوب

14

- دعوتی شعور کا فقدان

18

- عارفانہ دعاء

19

- موت، موت کی یاد

20

- کشتی ٔ نوح کی دریافت

22

- فتویٰ اور فتویٰ ایکٹوزم

25

- مسلم ملٹنسی کا مسئلہ

27

- خود کُش بم باری

28

- مسلم پرسنل لا کا مسئلہ

33

- اپنی غلطیوں کو دریافت کیجئے

34

- ذہانت کا منفی پہلو

35

- مشترک خاندانی نظام

36

- وقت کی اہمیت

37

- سوال وجواب

40

- خبرنامہ اسلامی مرکز

43

- القرآن مشن


اضاعت ِ صلوٰۃ

قرآن کی سورہ مریم میں پچھلی امتوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے: فخلف من بعدہم خلفٌ أضاعوا الصلوۃ واتبعوا الشہوات، فسوف یلقون غیّا (مریم:59 ) یعنی پھراُن کے بعد ایسے لوگ اُن کے جانشین ہوئے جنھوں نے نماز کو ضائع کردیا اور خوہشات کے پیچھے پڑ گئے، پس عن قریب وہ اپنی خرابی کو دیکھیں گے۔قرآن کی اِس آیت میں بتایا گیا ہے کہ کسی امت کی بعد کی نسلوں میں کس قسم کی خرابی پیدا ہوتی ہے۔ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ بعد کی نسلوں میں وہ ظاہرہ پیدا ہوتا ہے جس کو قرآن میں ’’اضاعتِ صلوٰۃ‘‘ کہاگیا ہے۔اضاعتِ صلوۃ صرف ایک ظاہرے کا نام نہیں ہے۔ کسی امت کے دورِ زوال میں جب اس کے افراد کے اندر اضاعتِ صلوۃ کا واقعہ پیش آتا ہے، تو اُس کی نسبت سے ان کی زندگی کے دوسرے مظاہر بھی لازمی طورپر متاثر ہوتے ہیں۔ اضاعتِ صلوۃ عملاً اضاعتِ دین کے ہم معنیٰ بن جاتا ہے۔
قرآن کی اِس آیت میں، اضاعتِ صلوۃ سے مراد ترکِ صلاۃ نہیں، اور نہ اس سے یہ مراد ہے کہ زوال کے زمانے میں نماز کے ظاہری آداب کا اہتمام باقی نہیں رہتا۔ اِس سے مراد یہ ہے کہ نماز کے آداب تو بظاہر پوری طرح باقی رہتے ہیں، لیکن اس کی روح لوگوں کے اندر ختم ہوچکی ہوتی ہے۔ لوگوں کی نماز اُس آدمی جیسی نماز بن جاتی ہے جس کی نماز کو دیکھ کر رسو ل اللہ ﷺنے فرمایا تھا: ارجع فصلّ فإنّک لم تصلّ(الترمذی، رقم: 2636 ) یعنی جاؤ پھر سے نماز پڑھو، کیوں کہ تم نے نماز نہیں پڑھی۔امت کے دور زوال میںایسا نہیں ہوتا کہ لوگ نماز کے ظاہری آداب کو بھی چھوڑ دیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ظاہری آداب کے اعتبار سے نماز کبھی کسی امت میں متروک نہیں ہوتی۔ اصل چیز جو متروک ہوجاتی ہے، وہ نماز کی روح (spirit) ہے۔ اِسی روح کو قرآن میں ’’خشوع‘‘ کہا گیا ہے۔ اضاعتِ صلوۃ کی پہچان یہ ہے کہ لوگ وقتی طورپر نماز کے ظاہری آداب کا تو اہتمام کرتے ہوں، لیکن عملی طورپر ان کی دلچسپیاں تمام تر مادی چیزوں سے جڑی ہوئی ہوں۔ اِسی ظاہرہ کو ’’اتباعِ شہوات‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

قرآن کی ایک آیت

قرآن کی سورہ نمبر 89میں ارشاد ہوا ہے: ’’پس انسان کا حال یہ ہے کہ جب اس کا رب اُس کو آزماتا ہے اور اس کو عزت اور نعمت دیتا ہے، تو وہ کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھ کو عزت دی۔ اور جب خدا اس کو آزماتا ہے اور اس کا زرق اُس پر تنگ کردیتا ہے، تو وہ کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھ کو ذلیل کردیا‘‘ (الفجر:15-16 )
اِس آیت میں انسان کی ایک کمزوری کا ذکر کیا گیا ہے۔ جو شخص اپنی اِس کمزوری کو جانے اور اُس پر کنٹرول رکھے، وہ کامیاب ہوگا، اور جو شخص اپنی اِس کمزوری سے بے خبر ہو اور اُس پر کنٹرول نہ کرسکے، وہ خدا کی اِس دنیا میں ناکام ہو کر رہ جائے گا۔
دنیامیں کسی کے حالات ہمیشہ یکساں نہیں رہتے۔ اُس کو کبھی زیادہ ملتا ہے اور کبھی کم۔ دونوں ہی معاملہ خدا وند ذوالجلال کے فیصلے کے تحت ہوتا ہے۔
مگر انسان کی یہ کمزوری ہے کہ جب اُس کو زیادہ ملے تو وہ اس کو اپنی لیاقت کا نتیجہ سمجھ لیتا ہے اور اُس نفسیات کا شکار ہوجاتا ہے جس کو برتر اندازہ (over-estimation) کہا جاتا ہے۔ اِس کے برعکس، جب آدمی کو کم ملے تو وہ یہ سمجھ لیتا ہے کہ مجھ کو نظر انداز کیاگیا ہے اور پھر وہ اُس نفسیات کا شکار ہوجاتا ہے جس کو کم تر اندازہ (under-estimation) کہاجاتا ہے۔
یہ دونوں ہی قسم کی نفسیات کسی شخص کے لیے قاتل کی حیثیت رکھتی ہیں۔جو آدمی اپنا زیادہ اندازہ کرلے، وہ غیر واقعی طورپر برتری کی نفسیات میں مبتلا ہوجائے گا۔ اِس کے برعکس، جو شخص اپنا کم تر اندازہ کرے، وہ غیر واقعی طورپر کم تری کی نفسیات کا شکار ہوجائے گا۔
صحیح انسان وہ ہے جو اِن دونوں قسم کی نفسیات سے اپنے آپ کو بچائے۔ یہی وہ انسان ہے جس کو قرآن میں النفس المطمئنۃ (الفجر:27 )کہاگیا ہے، یعنی ہر صورت میں یکساں حال پر قائم رہنا۔
واپس اوپر جائیں

صادق انسان

قرآن کی سورہ نمبر 9 میں یہ آیت آئی ہے: یا أیہا الذین آمنوا اتقوا اللہ وکونوا مع الصادقین (التوبۃ:119 ) یعنی اے ایمان والو، اللہ سے ڈرو اور صادقین کے ساتھ رہو۔
اِس آیت میں صادق کا لفظ آیا ہے۔ اِس سے مراد کون لوگ ہیں۔ مفسر القرطبی نے نقل کیا ہے کہ اِس سے مراد وہ لوگ ہیں جن کا ظاہر وباطن یکساں ہو (ہم الذین استوت ظواہرہم وبواطنہم)۔ ظاہر وباطن میں یکسانیت کا مطلب کیا ہے۔
ظاہر وباطن میں یکسانیت کا مطلب یہ ہے کہ آدمی جو سوچے، وہی کرے اور جو کرے، وہی سوچے۔ مثلاً اگر وہ وعدہ کرے تو اس کو مکمل طورپر پورا کرے، اور اگر پورا نہیں کرنا ہے تو وہ وعدہ بھی نہ کرے۔اُس کی شخصیت کو سمجھنا پوری طرح ممکن ہو۔ ایسے انسان کے اندر وہ کردار ہوتا ہے جس کو قابلِ پیشین گوئی کردار (predictable character) کہاجاتا ہے۔
صادق کا لفظ منافق کے لفظ کی ضد ہے۔ صادق انسان کے اندر وہ شخصیت ہوتی ہے جس کو انٹگریٹیڈ شخصیت (integrated personality) کہا جاتا ہے، یعنی وہ انسان جو نفسیاتی پیچیدگی (complex) سے پاک ہو، جس کی شخصیت کے مختلف پہلو کامل توافق کے ساتھ عمل کرتے ہوں۔ انسان فطری طور پر تضادات کا مجموعہ (mixture of opposites) ہوتا ہے۔ جو انسان اپنی شخصیت کے اِن مختلف اور متنوع پہلوؤں کو ایک ہم آہنگ کُل (integrated whole) میں ڈھال سکے، وہی انسان صادق انسان ہے۔
صادق انسان خلقِ عظیم (القلم: (4 کا مالک ہوتا ہے۔ صادق انسان کا ذہنی سانچہ وہ اعلیٰ سانچہ (mould) ہوتا ہے جس کو قرآن میں شاکلۂ خداوندی (الاسراء:84 ) کہاگیا ہے۔ صادق انسان دنیا میں فرشتوں کی صحبت میں رہتا ہے، اور موت کے بعد آخرت میں اس کو انبیاء اور شہداء اور صالحین (النساء:69 ) کی صحبت میں رہنے کی سعادت حاصل ہوگی۔
واپس اوپر جائیں

قرآن میں تدبر

قرآن میں حکم دیاگیا ہے کہ قرآن کی آیتوں پر تدبر کرو (ص:29 )۔ اس کی ایک سادہ مثال یہ ہے۔ قرآن کی سورہ نمبر 2 میں یہ بتایا گیا ہے کہ اہلِ جنت کو جب وہاں کا رزق دیا جائے گا، تو وہ کہیں گے کہ ایسا ہی رزق ہم کو دنیا میں بھی ملا تھا (البقرۃ:25 )۔
اِس آیت میں جنت کی نعمتوں کے لیے رزق کا لفظ استعمال ہوا ہے اور دنیا کی نعمتوں کے لیے بھی رزق کا لفظ ۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا آخرت کی جنت کا رزق بھی عین وہی ہوگا جو موجودہ دنیا میں انسان کو ملتاہے۔ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہے—
کیوںکہ جنت کی ہر چیز کامل (perfect) ہوگی اور موجودہ دنیا کی ہر چیز غیر کامل (imperfect) ہوتی ہے۔
اِس سوال پر غور کرتے ہوئے ہم اِس حقیقت تک پہنچتے ہیں کہ ہر لفظ کا ایک ابتدائی مفہوم ہوتا ہے اور دوسرا اس کا انتہائی مفہوم۔ مذکورہ آیت میں دنیا کی نسبت سے، رزق کا لفظ اپنے ابتدائی مہفوم میں آیا ہے، اور جنت کی نسبت سے، رزق کا لفظ اپنے انتہائی مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ اِس سے معلوم ہوا کہ دنیا میں ہر چیز اپنے ابتدائی درجۂ لذت کے اعتبار سے ملتی ہے، جب کہ جنت میں ہر چیز اپنے انتہائی درجۂ لذت کے اعتبار سے ملے گی۔
اِس سادہ مثال سے معلوم ہوتاہے کہ قرآن میں تدبر کا مطلب کیا ہے۔ تدبر کا مطلب اصلاً یہ ہے کہ آپ کسی قرآنی آیت کو لے کر اُس پر سوال قائم کرسکیں۔ جب سوال سامنے آئے گا تو ذہن غوروفکر کے ذریعے اُس کا جواب معلوم کرنے کی کوشش کرے گا۔
اِس طرح آیت کے اندر چھپے ہوئے معانی کھلیں گے، آیت کے گہرے معانی تک آپ کی رسائی ہونے لگے گی۔ اِس طرح آپ کا یقین بڑھے گا، آپ کی معرفت میں اضافہ ہوگا، آپ کے اندر ذہنی ارتقاء کا عمل شروع ہوجائے گا۔
واپس اوپر جائیں

تزکیہ کی حقیقت

پیغمبر کے فرائض میں سے ایک فریضہ وہ ہے جس کے لیے قرآن میں تزکیہ (البقرۃ:129 ) کا لفظ آیا ہے۔ ہر مومن کی یہ لازمی ضرورت ہے کہ وہ اپنا تزکیہ کرے۔ تزکیہ کے بغیر وہ اعلیٰ شخصیت نہیں بنتی جس کو قرآن میں ربانی شخصیت (آل عمران:79 ) کہا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تزکیہ ہی کسی انسان کے لیے جنت میں داخلے کا ذریعہ بنے گا (طٰہٰ: 76 )۔
تزکیہ کا لفظی مطلب نمو یا افزائش (to flourish) ہے۔ اِس نمو کی ایک مادّی مثال درخت ہے۔ درخت ایک بیج کی نمو پذیری کا نتیجہ ہوتا ہے۔ ایک بیج موافق ماحول پاکر بڑھنا شروع ہوتا ہے، یہاں تک کہ وہ ایک ہرا بھرا درخت بن جاتا ہے۔ یہی معاملہ انسانی تزکیہ کا بھی ہے۔ اِس اعتبار سے،تزکیہ کو روحانی ارتقا یا ذہنی ارتقا (intellectual development) بھی کہا جاسکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہت سی امکانیات (potentials) کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ اِن امکانیات کو واقعہ(actual) بنانے کا نام تزکیہ ہے۔
آدمی جب ایمان لاتا ہے تو وہ دراصل تزکیہ کے سفر کا آغاز کرتا ہے، یہاں تک کہ دھیرے دھیرے وہ ایک مُزکیّٰ انسان، یا ذہنی اور روحانی اعتبار سے ایک ارتقا یافتہ شخصیت (developed personality) بن جاتا ہے۔ یہی وہ انسان ہے جس کو آخرت کی ابدی جنت میں داخلہ ملے گا۔
تزکیہ کسی پُراسرار چیزکا نام نہیں۔ تزکیہ کا ذریعہ مراقبہ (meditation) نہیں ہے،بلکہ تزکیہ کا ذریعہ غوروفکر (contemplation) ہے۔ اپنی ذات اور کائنات کے بارے میں غور وفکر کرنا اور اُن سے معرفت کا ذہنی یا فکری رزق حاصل کرنا، یہی وہ عمل (process) ہے جس سے آدمی کے اندر مزکّٰی شخصیت بنتی ہے۔ تزکیہ ایک معلوم حقیقت ہے، نہ کہ کوئی مجہول حقیقت۔ یہ تزکیہ انسان کی اپنی کوشش سے حاصل ہوتا ہے، کسی مفروضہ بزرگ کے پُراسرار فیض سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔
واپس اوپر جائیں

تخلیقی حمد

حضرت داؤد ایک پیغمبر تھے۔ انھوںنے اللہ تعالیٰ کی حمد ایک خاص انداز میں کی۔ یہ حمد اتنی زیادہ عظیم تھی کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یا داؤد، اتعبتَ الملائکۃ (الشکرلابن أبی الدنیا، رقم الحدیث 36 ) یعنی اے داؤد، تم نے تو فرشتوں کو تھکا دیا۔
یہ سادہ طورپر صرف حمدِ داؤدی کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ وہ حمدِ تفکیری کا معاملہ ہے۔ جب بھی کوئی شخص اللہ کی عظمتوں پر سوچتا ہے، وہ آلاء اللہ میں فکر وتدبر کرتا ہے تو اُ س کے اندر تخلیقی معرفت پیدا ہوتی ہے۔ وہ نئے نئے انداز سے اللہ تعالیٰ کی عظمتوں کو محسوس کرنے لگتا ہے۔ اُس وقت اس کی زبان سے حمدِ خداوندی کے اظہار کے لیے تخلیقی الفاظ (creative words)نکلنے لگتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اعلیٰ درجے کی معرفت ہمیشہ، اعلیٰ درجے کے تدبر سے کسی بندۂ خدا کو ملتی ہے۔
مثال کے طورپر سورج ایک خدائی کارخانہ ہے جو زمین پر روشنی سپلائی کرتا ہے۔ اِسی طرح درخت بھی خدائی کارخانے ہیں جو انسان کو آکسیجن سپلائی کرتے ہیں۔ سورج دن کے وقت اپنی روشنی زمین پر بھیجتا ہے اور شام کے وقت وہ اس کوموقوف کردیتا ہے۔
اگر درخت بھی یہی کریں کہ وہ دن کے نصف حصے میں آکسیجن سپلائی کریں اور دن کے نصف حصے میں وہ آکسیجن سپلائی کرنا بند کردیں تو موجودہ زمین پر انسان کے لیے زندہ رہنا ناممکن ہوجائے گا۔
اِس طرح کی بے شمار خدائی حکمتیں ہیں۔ یہ حکمتیں واقعاتِ فطرت کے اندر چھپی ہوئی ہیں۔ انسان جب سوچتا ہے تو یہ چھپی ہوئی نشانیاں اُس پر ظاہر ہوجاتی ہیں۔
اُس وقت وہ اِس قابل ہوجاتا ہے کہ اس کی زبان پر حمد کے وہ عظیم الفاظ جاری ہوجائیں جس کی ایک مثال پیغمبر داؤد کے واقعے کی صورت میں بتائی گئی ہے— یہ اعلیٰ حمد ہی وہ چیز ہے جو انسان کو جنت کے اعلیٰ درجات تک پہچانے والی ہے۔
واپس اوپر جائیں

اسلامی نظریۂ جنگ

’’نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقۂ دعوت وتبلیغ اور عصری تحریکات‘‘ کے عنوان کے تحت ایک مشہور عالم کا ایک مقالہ شائع ہوا ہے۔ اِس ضمن میں انھوںنے اسلامی نظریۂ جنگ پر کلام کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: ’’اسلامی جہاد کی کارگزاریوں میں اِس کے علاوہ اور کسی بات کی گنجائش نہیں کہ پہلے پہل دشمنوں کو دین کی دعوت دی جائے۔ اگر وہ اسے قبول کرلیتے ہیں، تو اُن کے جان ومال حرام ہیں۔ اور جب اس کا انکار کریں، تو ان سے اسلام اور مسلمانوں کی (سیاسی) ذمے داری میں داخل ہوجانے کا مطالبہ کیا جائے گا۔ لیکن جب وہ لوگ اس کا بھی انکار کردیں، تو پھر جہاد کا حکم ہے، اور اُن سے جنگ کی جائے گی، یہاں تک کہ وہ اسلام لے آئیں، یا اس کے سامنے سرِ تسلیم خم کردیں۔ یہی اسلامی طریقہ ہے‘‘۔ (پندرہ روزہ تعمیر حیات، لکھنؤ، 25 اپریل 2010 ، صفحہ7 )
یہی اکثر علماء کا خیال ہے۔ لیکن یہ سرتاسر ایک بے بنیاد نظریہ ہے۔ اسلام میں انکارِ دعوت پر جنگ نہیں ہے، اسلام میں صرف جارحیت (aggression) پر مدافعانہ جنگ ہے۔ اِس مدافعانہ جنگ کی بھی بہت سی لازمی شرطیں ہیں۔ ان میں سے ایک شرط یہ ہے کہ اِس دفاعی جنگ کا حق بھی صرف ایک قائم شدہ حکومت کو ہے(الرحیل للإمام)۔ غیر حکومتی افراد یا غیر حکومتی تنظیموں (NGOs) کو ہرگز یہ اجازت نہیں کہ وہ کسی کو منکر یا دشمن قرار دے کر اُس کے خلاف مسلح جنگ شروع کردیں۔
اگر کسی مقام پر وہ صورتِ حال ہو جس کو عام طورپر ظلم یا بے انصافی سے تعبیر کیا جاتا ہے، تو وہ ہرگز کسی مسلم فرد یا مسلم تنظیم کے لیے جنگ چھیڑنے کا عذ ر نہیں۔ ایسی صورت حال میں کسی مسلم فرد یا مسلم تنظیم کے لیے ایک ہی انتخاب (choice) ہے، یہ کہ وہ کامل طورپر پُر امن رہتے ہوئے دعوت اور اصلاح کا کام کرے۔ بالفرض اگر فریقِ مخالف کی طرف سے زیادتی کا سلوک کیاجائے تو اس کے بعد بھی مسلمانوں کے لیے صرف ایک ہی انتخاب ہے، اور وہ صبر ہے، یعنی وہ اپنے نزاعی عمل کو یک طرفہ طورپر موقوف کردیں اور فریقِ ثانی کی اصلاح کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کریں
ایک روایت حدیث کی کتابوںمیں ان الفاظ میں آئی ہے: أمرتُ أن أقاتل الناس حتی یقولوا لاالٰہ إلا اللہ (صحیح مسلم، کتاب الإیمان، باب الأمر بقتال الناس) یعنی مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑوں ، یہاں تک کہ وہ یہ کہہ دیں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔
اس حدیث سے کچھ لوگ یہ مطلب نکالتے ہیں کہ اسلام کا نشانہ لوگوں سے اُن کے عقیدے کو بدلوانا ہے، اسلامی دعوت کا آغاز پُر امن تبلیغ سے ہوگا، لیکن اگر وہ پر امن تبلیغ سے اسلام قبول نہ کریں تو اُن سے باقاعدہ جنگ کی جائے گی، تاکہ وہ مجبور ہو کر اسلام کے حلقے میں داخل ہوجائیں۔
اِس حدیث کا یہ مطلب یقینی طورپر درست نہیں ہے۔ پہلی بات یہ کہ اِس حدیث میں ’’الناس‘ کا لفظ عام معنوں میں نہیں ہے، بلکہ وہ خاص معنی میں ہے۔
اِس حدیث میں الناس سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاصر بنو اسماعیل (قریش مکہ) ہیں۔ اِس حدیث کو عمومی معنوں میں لینا ہر گز درست نہیں۔ الناس کے لفظ کا ایسا خصوصی استعمال قرآن میں بھی دیگر مقامات پر موجود ہے۔ مثلاً سورہ النصر (110)میں الناس سے مراد مخصوص طور پر یہی قریشِ مکہ ہیں، نہ کہ عمومی طورپر ساری دنیا کے لوگ۔
اِس سلسلے میں دوسری بات یہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنے معاصر الناس سے اِس قسم کی جنگ نہیں کی۔ اِس واقعے کو سامنے رکھئے تو معلوم ہوگا کہ مذکورہ حدیث میں قتال کا لفظ اپنے لغوی معنی میں نہیں ہے، بلکہ وہ شدتِ کلام کا ایک اسلوب ہے۔ دوسرے لفظوں میں، یہ ہیمرنگ کی زبان (language of hammering) ہے، وہ تشریعی حکم کی زبان نہیں۔
اسلامی تعلیم کے مطابق، دعوت وتبلیغ کا کام مکمل طورپر ایک پر امن کام ہے، اپنے آغاز میں بھی اور اپنے انجام میں بھی۔ دعوت کا نشانہ ایک انسان کے ذہن ودماغ کو بدلنا ہے، تاکہ وہ ایک صالح انسان بن سکے۔
اِس قسم کا مقصد صرف پر امن نصیحت کے ذریعے حاصل ہوسکتا ہے، نہ کہ جنگ اور قتال کے ذریعے۔ جنگ اور تشدد کا طریقہ معکوس نتیجہ پیدا کرے گا، نہ کہ مطلوب نتیجہ۔
واپس اوپر جائیں

مہدی یا مسیح کی پہچان

مہدی یا مسیح کی پہچان کے بارے میں پہلی بات یہ ہے کہ اِس سلسلے میں حدیث کی کتابوں میں جو روایات آئی ہیں، اُن میں سے کسی بھی روایت میں یہ نہیں ہے کہ مہدی اور مسیح اعلان کے ساتھ اپنے کام کا آغاز کریں گے، یعنی وہ ایسا نہیں کریں گے کہ لوگوں سے کہیں کہ اے لوگو، میں مہدی ہوں، یا میں مسیح ہوں۔ تم لوگ مجھ کو مانو اور میری پیروی کرو۔ اِس کا واضح مطلب یہ ہے کہ مہدی یا مسیح کو پہچاننے کا ذریعہ ان کا اپنا دعویٰ یا ان کا اپنا اعلان نہ ہوگا، جیسا کہ پیغمبروں کے معاملے میں ہوتا ہے۔
ایسی حالت میں یہ سوال ہے کہ مہدی یا مسیح کے ظہور کے وقت اُن کو پہچاننے کی صورت کیا ہوگی۔ اِس کا ذریعہ یقینی طورپر صرف ایک ہوگا، اور وہ مہدی یا مسیح کا رول ہے۔ دراصل مہدی یا مسیح کے عملی رول کو دیکھ کر لوگ اُن کو پہچانیں گے اور ان کا ساتھ دیں گے۔
مہدی یا مسیح کے اِس رول کو متعین کرنے کے لیے احادیث کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بنیادی طورپر اس کے دو پہلو ہیں۔ اس کا ایک پہلو وہ ہے جس کو صحیح البخاری کی ایک روایت میں ’’یضع الحرب‘‘کے الفاظ میں بتایاگیا ہے: (کتاب أحادیث الأنبیاء، باب نزول عیسی) یعنی مسیح جنگ کو ساقط کردیں گے۔ اس کا دوسرا پہلو وہ ہے جس کو صحیح مسلم کی ایک روایت میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: ہٰذا أعظم الناس شہادۃً عند رب العالمین (کتاب الفتن، باب ذکر الدجال) یعنی یہ شہادت خدا کے نزدیک عظیم ترین شہادت ہوگی۔
مہدی یا مسیح کے رول کا ایک پہلو وضعِ حرب ہوگا۔ یہ وضع حرب خود مسلمانوں کی نسبت سے ہوگا، نہ کہ سارے عالم کی نسبت سے، یعنی مسلمانوں کے درمیان جنگ کو ساقط کرنا۔ اِس پہلو کا مزید مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بعد کے زمانے میں مسلمانوں کے درمیان جو لٹریچر تیار ہوگا، وہ بعض زمانی اسباب سے، حرب اور جہاد پر مبنی ہوگا۔ اِس طرح یہ صورت حال پیدا ہوجائے گی کہ مسلمان شعوری طورپر پُرامن دعوت کے تصور سے بے خبر ہوجائیں گے۔ اپنے مائنڈ سیٹ کی بنا پر وہ صرف مسلّح جہاد کو اسلامی عمل کا درجہ دے دیںگے۔
ایسی حالت میں، مہدی یا مسیح کا پہلا کام یہ ہوگا کہ وہ اسلام کی ایک غیر عسکری آئیڈیالوجی دریافت کریں۔ یہ آئیڈیالوجی اتنے طاقت ور دلائل پر مبنی ہو کہ وہ معاصر مسلمانوں کی عسکری سوچ کو دلیل کی سطح پر پوری طرح منہدم کردے۔ مذکورہ حدیث میں اصلاً وضع حرب کا مطلب نظریاتی وضعِ حرب ہے، یعنی فکری سطح پر حرب کے تصور کو غیر متعلق (irrelevant) ثابت کردینا۔
مہدی یا مسیح کے رول کا دوسرا پہلو وہ ہے جس کو حدیث میں عظیم ترین شہادت کے الفاظ میں بیان کیاگیا ہے۔ یہاں شہادت سے مراد جسمانی قربانی نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد گواہی (witness) ہے۔ کیوں کہ جسمانی قربانی میں عظیم اور غیر عظیم کا فرق نہیں ہوتا۔ جسمانی قربانی میں داخلی نیت کے اعتبار سے فرق ہوسکتا ہے، لیکن جسمانی اعتبار سے خود ایک شخص کی قربانی اور دوسرے شخص کی قربانی کے درمیان کوئی فرق نہیں۔
عظیم گواہی کا مطلب کیا ہے۔ اس کا مطلب ہے — دلائل کے اعتبار سے طاقت ور ترین گواہی، یعنی دعوت کے پیغام کو ایسے اعلیٰ دلائل کے ساتھ پیش کرنا جس سے مخاطب اپنے آپ کو علمی طورپر بے دلیل محسوس کرنے لگے ، وہ محسوس کرنے لگے کہ وہ دلیل کی زمین پر نہیں کھڑا ہوا ہے، بلکہ وہ خود ساختہ مفروضات کی زمین پر کھڑا ہوا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مہدی یا مسیح کا معاملہ کوئی پراسرار معاملہ نہیں ہوگا۔ وہ ’’لیلہا کنہارہا‘‘ کے معیار پر پورا اترنے والا واقعہ ہوگا اوریہ بات بالکل فطری ہے۔ جب مہدی یا مسیح اعلان کے ساتھ اپنے کام کا آغاز نہیں کریں گے تو بلاشبہہ ان کے رول کو اتنا زیادہ واضح ہونا چاہیے کہ ایک سنجیدہ اور متلاشی انسان اس کو دیکھ کر یہ دریافت کرلے کہ بلا شبہہ یہی وہ شخص ہے جس کے لیے حدیث میں مہدی یا مسیح کے الفاظ آئے ہیں۔ اگر اِس قسم کا وضوح نہ ہو تو کسی عورت یا مرد کے بارے میں کس طرح یہ فیصلہ ہوگا کہ اُس نے مہدی یا مسیح کو پہچاننے کا ثبوت دیا، یا وہ اُن کو پہچاننے کے اِس امتحان میں ناکام ہوگیا۔
واپس اوپر جائیں

انتظار کی مدت ختم

بظاہرِ حالات قیامت اب بہت قریب آگئی ہے، اتنا ہی قریب جتنا کہ آج کی شام کے بعد کل کی صبح کا آنا۔ دوسری مادی علامتوں کے علاوہ، ایک معلوم علامت یہ ہے کہ اکیسویں صدی عیسوی میں مسلم اور غیر مسلم دونوں اپنے بگاڑ کی آخری حد پر پہنچ چکے ہیں۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اکیسویں صدی میں پہنچ کر انسان نے یہ جواز (justification) کھودیا ہے کہ موجودہ زمین پر اس کو مزید بسنے کا موقع دیا جائے۔ یہ معاملہ مسلم اور غیر مسلم دونوں کا ہے۔
مسلمانوں کے بگاڑ کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ ان کے درمیان نہی عن المنکر کا عمل بالکل ختم ہوگیا ہے۔ موجودہ زمانے کے مسلمان واضح طورپر محرمات میں مبتلا ہیں، لیکن ان کے خلاف علماء نہی عن المنکر کی مہم نہیں چلاتے۔
مثلاً موجودہ زمانے میں بہت سے مسلم گروپ مسلم حکومتوں کے خلاف خروج کئے ہوئے ہیں جو کہ یقینی طورپر حرام ہے۔ بہت سے مسلم گروپ، غیر حکومتی سطح پر مسلح تنظیمیں بنائے ہوئے ہیں، حالاں کہ اسلام میں اِس قسم کی تنظیم جائز نہیں۔ بہت سے مسلم گروپ، خود کش بم باری (suicide bombing) کے عمل میں مشغول ہیں، حالاں کہ خود کش بم باری اسلام میں سرتا سر حرام ہے، وغیرہ۔ یہ سب محرمات موجودہ زمانے میں کھلے طور پر کئے جارہے ہیں، لیکن ان کے خلاف مذمت کی کوئی مہم نہیں چلائی جاتی۔ یہ صورتِ حال بلاشبہہ اللہ کی رحمت سے محروم کردینے والی ہے۔
دوسری طرف، غیر مسلم قومیں بگاڑ کی آخری حد پر پہنچ چکی ہیں۔ ان کا سب سے زیادہ نمایاں بگاڑ عریانیت (nudity) ہے۔ اِس کی مختلف صورتیں بالکل عام ہوچکی ہیں۔ مثلاً کھلے طورپر غیر شادی شدہ جوڑے کا میاں بیوی کی طرح ایک ساتھ رہنا(live-in relationship)، کھلے طورپر ہم جنس پرستی (homosexuality)، کھلے طورپر ورجنٹی (virginity) کا نیلام کیا جانا، وغیرہ۔ اِس طرح کی کھلی ہوئی برائیوں کے بعد بظاہر انسان کے لیے موجودہ زمین پر رہائش کا کوئی جواز نہیں رہتا۔
واپس اوپر جائیں

طالب اور مطلوب

انسان ایک انتہائی با معنی وجود ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے وجود کی اس اعلیٰ معنویت کو دریافت کرسکے تو یہ دریافت اس کے لیے ایک عظیم دعا کا پائنٹ آف ریفرنس (point of reference) بن جائے گی۔ وہ کہہ سکے گا کہ خدایا، تو نے مجھے ایک با معنی وجود کے طورپر پیدا کیا اور پھر اس وجود کوایک ایسی دنیا میں ڈال دیا جس کو ظالموں نے بے معنی بنا دیا تھا۔ خدایا، تو اپنی رحمت سے اِس بامعنیٰ وجود کو ایک زیادہ بہتر اور با معنی دنیا بھی عطا فرما۔ یہ دعا بلاشبہہ اسم اعظم کی دعا ہے۔ لیکن یہ دعا صرف اُس دل سے نکلے گی جس کو دریافت والی معرفت حاصل ہوئی ہو۔ فانی بدایونی (وفات: 1940 ) کو وراثت میں ایک بڑا گھر ملا تھا۔ لیکن اِس بڑے گھر نے ان کو سکون نہیں دیا۔چناں چہ انھوںنے اپنی ایک نظم میں اِس معاملے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:
اپنے دیوانے پہ اتمامِ کرم کر، یا رب درودیوار دئے، اب انھیں ویرانی دے
فانی بدایونی صرف اپنے گھر کو جانتے تھے۔ اگر وہ اُس تخلیقی معجزہ کو دریافت کرتے جس کا نام فانی بدایونی تھا، تو وہ برعکس طورپر یہ کہتے :
اپنے دیوانے پہ اتمامِ کرم کر، یارب جب دیا ذوقِ طلب، پھر اسے مطلوب بھی دے
فانی بدایونی کو ’’امامِ یاسیات‘‘ کہاجاتا ہے۔ زیادہ بہتر تھا کہ فانی امامِ دریافت ہوتے، پھر وہ اپنی حقیقت کو جانتے۔ وہ جانتے کہ یہ معاملہ طالب کا اپنے مطلوب سے محرومی کا معاملہ ہے۔پھر وہ طالب بن کر اپنے مطلوب کے لیے خدا سے درخواست کرتے۔ وہ کہتے کہ خدایا، اِس تڑپتی ہوئی مچھلی کو دوبارہ پانی کی تلاش ہے۔ مگر اس کو یہ پانی خود اپنے بل پر نہیں مل سکتا۔ خدایا، تو اِس تڑپتی ہوئی مچھلی کو اپنی خصوصی رحمت سے اس کے مطلوب پانی تک پہنچا دے۔بیش تر انسانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ صرف رد عمل کے تحت سوچنا جانتے ہیں، رد عمل سے اوپر اٹھ کر سوچنا ان کو نہیں آتا۔ مگر تمام انسانی کامیابی کا راز یہ ہے کہ آدمی اپنے حالات سے اوپر اٹھ کر سوچ سکے۔ اسی طرزِ فکر کا نام صابرانہ سوچ ہے۔
واپس اوپر جائیں

دعوتی شعور کا فقدان

امتِ مسلمہ کا اصل فریضہ شہادت، یعنی دعوت الی اللہ ہے، مگر موجودہ زمانے کے تمام مسلح علماء اور مسلم رہنما اس باب میں انحراف کا شکار ہوگئے۔ یہ انحراف اب اِس درجہ کو پہنچا ہے کہ امتِ محمدی نے اپنی اصل حیثیت ہی کھو دی ہے۔ اب پوری امت عام قوموں کی طرح ایک قوم بن گئی ہے، نہ کہ حقیقی معنوں میں ایک دعوتی جماعت۔ ذیل میں اِس معاملے کا ایک مختصر جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔
شیخ محمد عبدہ کی مثال
سید جمال الدین افغانی (وفات:1897 ء) کا زمانہ یورپی نو آبادیات (colonialism) کا زمانہ تھا، اُن کے زمانے میں برطانیہ اور فرانس کی فوجیں مسلم ملکوں میں داخل ہوگئیں اور وہاں اپنا تہذیبی اور سیاسی غلبہ قائم کرلیا۔
سید جمال الدین افغانی غیر معمولی صلاحیت کے آدمی تھے، وہ عربی کے علاوہ کئی عالمی زبانیں جانتے تھے۔ ان کو 59 سال کی عمر ملی، انھوں نے اپنی پوری زندگی برطانوی استعمارکے خلاف سیاسی لڑائی میں گزار دی۔
مصر اور عالمِ عرب میں ان کوکئی اعلیٰ صلاحیت کے ساتھی ملے، ان میں سے ایک ممتاز نام شیخ محمدعبدہ (وفات: 1905 )کا ہے۔ وہ ایک بڑے عرب عالم تھے۔ انھوں نے فرنچ زبان بھی سیکھی تھی۔ یورپی استعمار (colonialism)کے زمانے میں وہ بھی استعمار کے خلاف سیاسی لڑائی میں شامل ہوگئے۔ وہ سید جمال الدین افغانی کے ممتاز شاگردوں میں سے تھے۔
انیسویں صدی کے آخر میں سید جمال الدین افغانی اور مفتی محمد عبدہ سفر کرکے پیرس (Paris) گئے، وہاں سے انھوں نے ایک عربی جریدہ العروۃ الوثقی (The Firmest Bond) جاری کیا۔ یہ جریدہ صرف 18 شماروں کے بعد بند ہوگیا۔
پیرس کے زمانۂ قیام (1884 ء) میں سید جمال الدین افغانی اور شیخ محمد عبدہ کے درمیان اختلاف پیدا ہوگیا۔شیخ محمد عبدہ کا خیال تھا کہ ہم لمبی مدت سے استعمار کے خلاف سیاسی لڑائی میں مصروف ہیں، لیکن اس کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلا، اب ہم کو یہ سیاسی کام چھوڑ کر کوئی نتیجہ خیز تعمیری کام کرنا چاہئے۔ سیدجمال الدین افغانی اِس نقطۂ نظر سے اتفاق نہ کرسکے، اس کے بعدشیخ محمد بن عبدہ نے سید جمال الدین افغانی کا ساتھ چھوڑ دیا۔
وہ 1899 ء میں مصر واپس آگئے۔انھوں نے مصر میں قاہرہ کے قریب ایک بڑی جگہ حاصل کی اور جمعیّۃ إحیاء العلوم العربیۃ لنشر المخطوطات کے نام سے وہاں 1900 ء میں ایک ادارہ قائم کیا، مگر وہ زیادہ مدت تک اِس ادارہ کی خدمت نہ کرسکے۔ 56 سال کی عمر میں 1905 میں قاہرہ میں ان کا انتقال ہوگیا۔
سید جمال الدین افغانی اور شیخ محمد عبدہ دونوں نہایت اعلیٰ صلاحیت رکھتے تھے، لیکن ان کی صلاحیتیں صحیح سمت میں استعمال ہونے سے رہ گئیں۔ اِس واقعہ کا جو پہلو زیادہ عبرت ناک ہے، وہ یہ ہے کہ وہ اپنی خداداد صلاحیتوں کو دعوت الی اللہ کے کام میں استعمال نہ کرسکے۔ مغربی قومیں ان کے لئے مدعو گروہ کا درجہ رکھتی تھیں۔ان کا فرض تھا کہ وہ ان قوموں کو اللہ کے دین کی طرف بلائیں، لیکن انھوں نے ان قوموں کو صرف جنگ و جہاد کا موضوع سمجھا، نہ کہ دعوت الی اللہ کا موضوع۔ انھوں نے ان قوموں کو مدعو کے بجائے دشمن کا درجہ دے دیا۔
شیخ محمد عبدہ کے لئے پیرس سے واپسی ایک نیا موڑ بن سکتی تھی، لیکن مغربی قوموں سے سیاسی لڑائی چھیڑنے کے بعد دوسرا کام جو انھیں نظر آیا، وہ صرف اپنی قوم کی اصلاح تھی، نہ کہ مدعو گروہ کو اللہ کا پیغام پہنچانا— یہی وہ غلطی ہے جس میں موجودہ زمانے کے تمام مسلم علماء اور مسلم رہنما مبتلا ہوئے۔
مولانا محمود حسن دیوبندی کی مثال
مولانا محمود حسن (وفات:1920 ء) جن کو شیخ الہند کہاجاتا ہے، وہ دیوبند کے اکابر علماء میں سے تھے۔ ان کے زمانے میں انڈیا میں برطانیہ کا سیاسی اقتدار قائم ہوا۔ دوسرے علماء کی طرح مولانا محمود حسن دیوبندی برطانیہ کے خلاف سرگرم سیاسی لڑائی میں مشغول ہوگئے، یہاں تک کہ برطانوی حکومت نے ان کو گرفتار کرکے مالٹا کے قلعہ میں نظر بند کردیا۔
وہاں وہ 3 سال سے زیادہ مدت تک رہے۔ اس دوران وہ ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہوگئے، چناںچہ ان کو رہا کرکے انڈیا واپس بھیج دیا گیا۔ یہ واقعہ جون 1920 کا ہے۔مولانا محمود حسن دیوبندی مالٹا سے واپس آکر دیوبند میں مقیم ہوگئے۔ ان کے شاگرد ِ خاص مفتی محمد شفیع عثمانی (وفات: 1976 )کا بیان ہے کہ :
’’مالٹا کی قید سے واپس آنے کے بعد حضرت ایک رات بعد عشاء دار العلوم میں تشریف فرما تھے، علماء کا بڑا مجمع سامنے تھا، اس وقت فرمایا کہ ہم نے تو مالٹا کی زندگی میں دو سبق سیکھے ہیں۔ یہ الفاظ سن کر سارا مجمع ہمہ تن گوش ہوگیا کہ اس استاذ العلماء درویش نے لمبی مدت تک علماء کو درس دینے کے بعد آخرمیں جو سبق سیکھے ہیں وہ کیا ہیں۔ حضرت شیخ الہند نے فرمایا کہ — میںنے جہاں تک جیل کی تنہائیوں میں اِس پر غور کیا کہ پوری دنیا میں مسلمان دینی اور دنیوی ہر حیثیت سے کیوں تباہ ہورہے ہیں تو اس کے دو سبب معلوم ہوئے، ایک ان کا قرآن کو چھوڑ دینا، دوسرے آپس کے اختلافات اور خانہ جنگی۔ اِس لئے میں وہیں سے یہ عزم لے کر آیا ہوں کہ اپنی باقی زندگی اس کام میں صرف کروں کہ قرآن کریم کو لفظاً اور معناًعام کیا جائے، بچوں کے لئے لفظی تعلیم کے مکاتب ہر بستی میں قائم کئے جائیں، بڑوں کو عوامی درسِ قرآن کی صورت میںاس کے معانی سے روشناس کرایا جائے، اور قرآنی تعلیمات پر عمل کے لئے آمادہ کیا جائے، اور مسلمانوں کے باہمی جنگ وجدال کو کسی قیمت پر برداشت نہ کیا جائے‘‘۔(جماعتِ شیخ الہند اور تنظیم اسلامی، از: ڈاکٹر اسرار احمد، صفحہ 346 )
مولانا محمود حسن دیوبندی جب مالٹا کی اسیری سے واپس آئے تو وہ ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہوچکے تھے۔ 1920 میں دیوبند میں ان کا انتقال ہوگیا۔ اس وقت ان کی عمر 69 سال تھی۔
مولانا محمود حسن دیوبندی کا معاملہ بھی وہی تھا جو دوسرے علماء کا تھا۔ اپنے قومی اور سیاسی فکر کی بنا پر وہ بھی ثنائی طرزِ فکر (dichotomic thinking) میں مبتلا تھے۔ وہ صرف دو انتخاب (options) کو جانتے تھے — یا انگریزوں سے سیاسی لڑائی، یا مسلم ملت کی خدمت۔
قرآن اور حدیث کے عالم ہونے کے باوجود ان کو تیسرے انتخاب کا علم نہ تھا، وہ یہ کہ انگریزوں کو ایک مدعو قوم سمجھنا، اور ان کے سامنے حکمت اور خیر خواہی کے ساتھ پر امن طورپر دین حق کا پیغام پہنچانا۔ مذکورہ دو مثالوں میں سے ایک عرب سے تعلق رکھتی ہے اور دوسری عجم سے۔ یہ مثالیں بطور نمونہ ہیں۔ اسی پر موجودہ زمانے کی پوری مسلم ملت کو قیاس کیا جاسکتا ہے۔
موجودہ زمانے کے تمام مسلم علماء اور مسلم رہنما ایک ہی مشترک غلطی میں مبتلا ہوئے، اور وہ ہے دعوت الی اللہ کے فریضہ سے غافل ہوجانا۔ یہ کوئی سادہ بات نہیں، حقیقت یہ ہے کہ امتِ محمدی، پیغمبر کی وفات کے بعد پیغمبر کے قائم مقام کی حیثیت رکھتی ہے۔
امت محمدی کو وہی دعوتی ذمہ داری انجام دینا ہے جس کو پیغمبر نے اپنے زمانے میں انجام دیا تھا۔ قرآن سے معلوم ہوتاہے کہ پیغمبر اگر اپنی دعوتی ذمہ داری کو ادا نہ کرے تو اللہ کی نظر میں اس کی پیغمبرانہ حیثیت ہی غیر متحقق ہوجاتی تھی (المائدۃ: 67 )۔ اسی طرح امتِ محمدی اپنی ذمہ داری کو ادا نہ کرے تو اس کا امت ِ محمدی ہونا غیر متحقق ہوجائے گا۔
واپس اوپر جائیں

عارفانہ دعاء

دعا کی اعلیٰ قسم وہ ہے جب کہ ایک بندۂ مومن کو ایک عارفانہ دریافت ہو اور اِس دریافت کے بعد اس کی زبان سے دعا کے تخلیقی (creative) کلمات نکلیں۔ یہ دعا کی سب سے زیادہ اعلیٰ قسم ہے۔ اِس قسم کی دعا اُن لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو تدبر اور غور فکر میں زندگی گزارتے ہیں، جو مسلسل طورپر معرفت کے روحانی تجربات میں جیتے ہیں۔
مثال کے طورپر ایک بندۂ مومن نے گہرائی کے ساتھ سوچا اور پھر اس پر منکشف ہوا کہ ظاہری اختیار کے باوجود وہ کامل طورپر عاجز ہے۔ پھر اُس نے دریافت کیا کہ اس کے کمالِ عجز کے باوجود اللہ نے اس کو موجودہ دنیا میں زندگی کا تمام سامان عطا کردیا۔
اِس طرح گویا اللہ نے اس کے عجز کی تلافی فرمائی۔ اللہ اس کے اور اس کے عجز کے درمیان حائل ہوگیا۔ اِس طرح اللہ کی خصوصی رحمت کی بنا پر وہ دنیا کی زندگی میںاپنے عجز (helplessness) کے برے انجام سے بچا رہا۔
ایک بندۂ مومن کو جب یہ دریافت ہوتی ہے تو اُسی کے ساتھ وہ ایک اور چیز کی دریافت کرتا ہے، وہ یہ کہ آخرت میں دوبارہ اپنی بے عملی کی بنا پر وہ اِسی قسم کے شدید تر مسئلے سے دوچار ہوگا۔ اُس کو محسوس ہوگاکہ میری بے عملی یقینا وہاں مجھے محروموں کی فہرست میں ڈال دے گی۔
یہ سوچ کر وہ تڑپ اٹھے اور اس کی زبان پر یہ کلمات جاری ہوگئے کہ خدایا، دنیا کی زندگی میں تو میرے اور میرے عجز کے درمیان حائل ہوگیا اور اِس طرح مجھ کو میرے عجز کے برے انجام سے بچا لیا۔ اِسی طرح تو آخرت میں میرے اور میری بے عملی کے درمیان حائل ہوجا اور آخرت میں دوبارہ تو مجھ کو میری بے عملی کے برے انجام سے بچا لے— یہ دعا ایک تخلیقی دعا ہے اور وہ گہری دریافت کے بعد ایک بندۂ مومن کی زبان سے نکلتی ہے۔ یہی وہ عارفانہ دعا ہے جس کے اور قبولیت کے درمیان کوئی فاصلہ حائل نہیں ہوتا۔
واپس اوپر جائیں

موت، موت کی یاد

موت بلاشبہہ ہر انسان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ موت گویا ایک انفرادی زلزلہ ہے۔ عام زلزلہ زمین کی سطح پر واقع ہوتا ہے اور موت ایک فرد کی سطح پر پیش آتی ہے۔ جس طرح انسان زلزلے کو روکنے پر قادر نہیں، اُسی طرح کوئی شخص موت کو روکنے پر بھی قادر نہیں۔ زلزلہ بھی یک طرفہ فیصلے کے تحت بلا اطلاع آتا ہے، اِسی طرح موت بھی یک طرفہ فیصلے کے تحت کسی شخص پر وارد ہوتی ہے۔ زلزلے کو لوٹانا ممکن نہیں۔ اِسی طرح موت کو لوٹانا بھی ممکن نہیں۔ زلزلے کے مقابلے میں انسان مکمل طورپر بے بس ہوتا ہے۔ اِسی طرح موت کے مقابلے میں بھی انسان مکمل طورپر بے بس ہے۔ انسان کو کوئی ذاتی اختیار نہ زلزلے کے اوپر ہے اور نہ موت کے اوپر۔
موت قاطعِ حیات ہے، اور موت کا ذکر قاطعِ خودی۔ خودی (ego) کسی انسان کی سب سے بڑی صفت ہے۔ مگر یہی خودی انسان کی تمام خرابیوں کا سبب بن جاتی ہے۔ خودی کی بنا پر کسی انسان کے اندر وہ شخصیت بنتی ہے جس کو خود پسند(self-centered) شخصیت کہاجاتا ہے۔ یہی وہ خود پسند شخصیت ہے جو آدمی کے اندر ذاتی بڑائی کا جذبہ پیدا کرتی ہے، اِسی خود پسندی کا نتیجہ وہ تمام منفی اوصاف ہوتے ہیں جن کو غرور، حسد، ظلم، تشدد پسندی اور انتقام، وغیرہ جیسے الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے۔
موت اِن تمام منفی جذبات کے لیے قاتل کی حیثیت رکھتی ہے۔ جس آدمی کو حقیقی معنوں میں موت کا زندہ شعور حاصل ہو، جو اِس حقیقت کو دریافت کرلے کہ مجھے لازماً مرنا ہے اور موت کے بعد مجھے رب العالمین کے سامنے حاضر ہونا ہے، وہ ایک کٹ ٹو سائز (cut to size) انسان بن جاتا ہے۔ ایسا انسان آخری حد تک ایک متواضع (modest) انسان ہوجائے گا۔ ذاتی بڑائی کا احساس اُس سے چھن جائے گا۔ وہ کامل طورپر عجز کے احساس میں جینے لگے گا۔ بے اعترافی کا طریقہ چھوڑ کر وہ اعتراف کا طریقہ اختیار کرلے گا۔ وہ حق کے آگے جھک جائے گا، بجائے اِس کے کہ وہ حق کو خود اپنے سامنے جھکانے کی کوشش کرے۔
واپس اوپر جائیں

کشتی ٔ نوح کی دریافت

حضرت نوح ابتدائی دور کے پیغمبر ہیں۔ ان کی بعثت عراق کے علاقہ میسو پوٹامیہ (Mesopotamia) میں ہوئی۔ لمبی مدت تک دعوت و تبلیغ کے باوجود بہت کم لوگ اُن پر ایمان لائے، یہاں تک کہ ایک عظیم طوفان کے ذریعے پوری قوم کو بتاہ کردیاگیا۔ اُس وقت اللہ کے حکم سے حضرت نوح نے ایک بڑی کشتی بنائی۔ حضرت نوح نے اِس کشتی میں اُس وقت کے تمام اہلِ ایمان کو بٹھایا۔ طوفان میں بہتی ہوئی یہ کشتی آخر کار مشرقی ترکی کے پہاڑ ارارات (Ararat) پر ٹھہر گئی۔ اس کے بعد اس میں بیٹھے ہوئے تمام لوگ کشتی سے نکل کر مختلف علاقوں میں آباد ہوگئے۔
یہ واقعہ پانچ ہزار سال پہلے کا ہے۔ قرآن میں بتایا گیا تھا کہ یہ کشتی محفوظ رہے گی اور بعد کے زمانے میں دریافت ہو کر لوگوں کے لیے نشانی (sign) بن جائے گی۔ قرآن کی سورہ نمبر 54 میں حضرت نوح کے تذکرہ کے بعد یہ آیت آئی ہے: ولقد ترکناہا آیۃً فہل من مدکر (القمر: 15 ) یعنی ہم نے اس ( کشتی ) کو نشانی کے لیے چھوڑ دیا، پھر کوئی ہے سوچنے والا۔ یہی بات قرآن کی سورہ نمبر 29 میں اِن الفاظ میں آئی ہے: وجعلناہا آیۃً للعالمین (العنکبوت:15 ) یعنی پھر ہم نے اس (کشتی) کو دنیا والوں کے لیے ایک نشانی بنا دیا۔
انیسویں صدی کے آخر میں جب ہوائی پرواز کا زمانہ آیا تو کچھ لوگوں نے ارارات پہاڑ کے اوپر پرواز کرتے ہوئے گلیشیر کے اندر چھپی ہوئی ایک کشتی کے آثار دیکھے۔ لیکن بار بار کوشش کے باوجود اِس معاملے میں کچھ زیادہ معلومات حاصل نہ ہوسکیں۔
اکیسویں صدی میں جب گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں گلیشئر پگھلنے لگے تو ہوائی پرواز کے دوران معلوم ہوا کہ کوہِ ارارات پر ایک پوری کشتی موجود ہے۔ اِس کے بعد وہاں چین اور ترکی کے مسیحیوں کا ایک گروپ پہنچا۔ ان کے پاس جدید آلات تھے۔ چناں چہ انھوں نے کاربن ڈیٹنگ (carbon dating) کے ذریعے مذکورہ کشتی کی عمر معلوم کی۔ اب معلوم ہوا کہ یہ کشتی عین اُسی زمانے کی ہے، جب کہ یہاں طوفانِ نوح آیا۔ اِس دریافت کی رپورٹ میڈیا میں آچکی ہے۔ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (28 اپریل2010 )میں اِس کی تفصیل حسب ذیل الفاظ میں شائع ہوئی ہے:
HONG KONG: A group of Chinese and Turkish evangelical explorers said they believe they may have found Noah's Ark — four thousand metres up a mountain in Turkey. The team say they recovered wooden specimens from a structure on Mount Ararat in eastern Turkey that carbon dating proved was 4,800 years old, around the same time the ark is said to have been afloat. “It’s not 100% that it is Noah’s Ark but we think it is 99.9% that this is it,” Yeung Wing-cheung, a Hong Kong documentary filmmaker and member of the 15-strong team from Noah’s Ark Ministries International said. The structure had several compartments, some with wooden beams, which were believed to house animals, he said. The group of archaeologists ruled out an established human settlement on the grounds that one had never been found above 3,500 metres in the vicinity.
قربِ قیامت کی نشانیوں میں غالباً یہ سب سے زیادہ واضح نشانی ہے۔ انسان ہزاروں سال سے لکڑی کے ذریعے کشتی بنا رہا ہے۔ قدیم زمانے کی کشتیوں میں سے اب کوئی بھی کشتی دنیا میں محفوظ نہیں، کیوں کہ لکڑی کچھ دنوں کے بعد فطری طورپر بوسیدہ ہو کر ختم ہوجاتی ہے۔ کشتیوں کی تاریخ میں حضرت نوح کی کشتی ایک استثنا (exception) ہے۔ اِس استثنا کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو تھا۔ صرف اللہ کو معلوم تھا کہ یہ کشتی طوفان میں بہتی ہوئی پہاڑ کے اوپر پہنچ جائے گی، پھر فطری عمل کے تحت وہ بر ف کے ذخائر (گلیشئر) کے نیچے دب جائے گی اور اِس طرح وہ محفوظ رہے گی۔ یہ بھی صرف اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ بیسویں صدی کے آخر میں گلوبل وارمنگ کا معاملہ پیش آئے گا اور پہاڑ کے اوپر برف پگھلنا شروع ہوجائے گی، یہاں تک کہ کشتی نوح صاف دکھائی دینے لگے گی۔ اکیسویں صدی میں کشتی نوح کا سامنے آجانا اِس بات کی علامت ہے کہ جس طرح پانچ ہزار سال پہلے ایک بڑے طوفان کے ذریعے اُس وقت کی آبادی ختم ہوگئی تھی، اسی طرح اب ایک اور زیادہ بڑا طوفان آنے والا ہے جس میں تمام انسان ختم ہوجائیں گے اور صرف وہ لوگ بچیں گے جن کو اللہ اپنی جنت میںآباد کرنے کے لیے منتخب کرے۔
واپس اوپر جائیں

فتویٰ اور فتویٰ ایکٹوزم

فتویٰ کے لفظی معنٰی ہیں— رائے (opinion) ۔ ایک شخص اپنے کسی ذاتی مسئلے کے بارے میں ایک عالم سے اس کی رائے پوچھے اور وہ عالم اپنے علم کے مطابق، اِس مسئلے کے بارے میں شرعی رائے دے، تو اِسی کا نام فتویٰ ہے۔ اسلام کے دورِ اوّل میں اِسی قسم کے فتوے کا رواج تھا۔ موجودہ زمانے میں فتویٰ کی جو توسیع (extention)ہوئی ہے، وہ ایک قسم کی بدعت ہے۔
فتویٰ، اسلام میں قضاء کی طرح، کوئی انسٹی ٹیوشن (institution) نہیں، وہ کسی مسئلے میں صرف ایک عالم کی رائے کااظہار ہے۔ کوئی انسان اگر کسی دوسرے شخص یا کسی دوسری جماعت کے بارے میں فتویٰ پوچھے، تو یہ فتویٰ کا غلط استعمال ہوگا۔ اِس قسم کے استفتاء کا نتیجہ صرف یہ ہوتا ہے کہ برائی میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ اصلاحی فتویٰ، اسلام میں کوئی چیز نہیں۔ اسلام میں اصلاح کا طریقہ نصیحت اور تبلیغ ہے، نہ کہ فتویٰ جاری کرنا۔
آج کل یہ حال ہے کہ مسلم معاشرے میں کسی خرابی کے حوالے سے فتوے جاری کیے جاتے ہیں۔ یہ فتویٰ نہیںہے، بلکہ فتویٰ ایکٹوزم (Fatwa Activism) ہے۔ اب چوں کہ میڈیا کا زمانہ ہے، اِس قسم کے فتوے میڈیا میں جگہ پاکر اسلام کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔ فتویٰ ایکٹوزم کا نقصان تو ضرور ہے، لیکن اُس کا کوئی مثبت فائدہ نہیں۔
صحیح اسلامی طریقہ یہ ہے کہ اِس طرح کے معاملے میں فتویٰ پوچھنے والے اور مفتی دونوں مصلح کا کردار ادا کریں۔ وہ غلطی میں مبتلا لوگوں کے لیے دعا کریں، وہ ہمدردی کے ساتھ ان کو نصیحت کریں، وہ اُن سے مل کر معلوم کریں کہ ان کی سوچ کیا ہے، ان کا ذہن کہاں اٹکا ہوا ہے اورپھر ان سے اِس طرح کلام کریں جس سے ان کا ذہن ایڈریس ہو، ان کے اندر نئی سوچ جاگے، وہ اپنی زندگی کو بدلیں اور اپنی اصلاح کریں۔ معاشرے کی اصلاح کے لیے اسلام میں تبلیغ ونصیحت کا طریقہ ہے، نہ کہ فتویٰ جاری کرنے کا طریقہ۔
قرآن کی سورہ آل عمران کی ایک آیت میں بتایا گیا ہے کہ وہ ایسے کام کا کریڈٹ لینا چاہتے ہیں جس کام کو انھوں نے کیا ہی نہیں (آلِ عمران: 188) ۔ قرآن کی یہ آیت موجودہ زمانے کے فتویٰ پوچھنے والے اور فتویٰ دینے والے دونوں طرح کے لوگوں پر صادق آتی ہے۔ یہ لوگ کسی دوسرے کی برائی کو بتا کر اُس کے خلاف فتویٰ جاری کرتے ہیں۔
یہ عین وہی روش ہے جس کا ذکر قرآن کی مذکورہ آیت میں کیا گیا ہے، یعنی وہ فتوے جاری کرکے اصلاح کا کریڈٹ لینا چاہتے ہیں، حالاں کہ اصلاح کا کریڈٹ صرف اُس انسان کے لیے مقدر ہے جو ہمدردی اور خیر خواہی کے ساتھ نصیحت کا فریضہ انجام دے۔
فتویٰ ایکٹوزم کی سب سے زیادہ ناپسندیدہ صورت وہ ہے جس کو تکفیر کہا جاتا ہے، امام نووی (وفات:1277 ء) نے لکھا ہے کہ: واعلم أن مذہب أہل الحق أنہ لایکفّر أحد من أہل القبلۃ (صحیح مسلم بشرح النووی، جلد 1، صفحہ 150)
یعنی علمائِ حق کا یہ مسلک ہے کہ اہلِ قبلہ میں سے کسی شخص کی تکفیر نہیں کی جائے گی۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ تکفیر کا طریقہ سرے سے اختیار نہیں کیا جائے گا، کیوں کہ کوئی بھی شخص ایسا نہیں ہوسکتا جو کعبہ کے سوا کسی اور چیز کو اپنا قبلۂ عبادت بنالے۔
اسلام کی تاریخ میں تین دور کو ’’قرون مشہود لہا بالخیر‘‘ کہاگیا ہے، یعنی — دورِ رسالت، دورِ صحابہ، دورِ تابعین۔ یہ تین دور اسلام میں ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور اسلام کی تاریخ بتاتی ہے کہ اِن تینوں دور میں فتویٰ ایکٹوزم یا تکفیر کا طریقہ کبھی اختیار نہیں کیا گیا ۔ یہ طریقہ بلاشبہہ اسلام کے ماڈل سے انحراف کے ہم معنی ہے۔
اسلام کے دورِ اول میں سارا زور نصیحت وتبلیغ پر دیا جاتا تھا، کیوں کہ مطلوب نتیجہ صرف نصیحت و تبلیغ کے ذریعے حاصل ہوتا ہے، نہ کہ فتویٰ جاری کرنے سے۔ کسی شخص یا اجتماعی بگاڑ کو لے کر اس کے خلاف فتویٰ دینا، اُس وقت شروع ہوا جب کہ مسلمانوں میں دعوت وتبلیغ کا ذہن ختم ہوگیا۔ لوگ برائی کے خلاف فتویٰ جاری کرنے کو کافی سمجھنے لگے۔ یہ طریقہ بلا شبہہ قابلِ ترک ہے۔ تجربہ بتاتا ہے کہ یہ طریقہ صرف منفی نتیجہ پیدا کررہا ہے، اور جو طریقہ منفی نتیجہ پیدا کرے، وہ بلاشبہہ اِس قابل ہے کہ اس کو مکمل طورپر ترک کردیا جائے۔
نصیحت اور تذکیر (admonition)کے اِس طریقے کو آج کل کی زبان میںایجوکیشنل ایکٹوزم (educational activism)کہا جاسکتا ہے، یعنی تعلیم اور تربیت کے ذریعے لوگوں کی اصلاح کرنا، لوگوں کے ذہن کو بدلنے کی کوشش کرنا۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اصلاحِ معاشرہ کے بارے میں اسلام کا اصول ایجوکیشنل ایکٹوزم پر مبنی ہے نہ کہ فتویٰ ایکٹوزم پر۔
اِس معاملے میںایک رہنما مثال وہ ہے جس کا ذکر صحیح البخاری میںآیا ہے۔ حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ اسلام کے ابتدائی زمانے میں قرآن کی جو آیتیں اُتریں، ان میں جنت اور جہنم کا ذکر تھا، تاکہ لوگوں کے دلوں میں اسلام کے بارے میںنرم گوشہ پیداہو اور لوگوں کے اندر ذہنی آمادگی آجائے۔ اِس طرح جب قبولیت (acceptance)کی استعداد پیدا ہوگئی تو اس کے بعد قرآن میں اترا کہ زنا چھوڑ دو، اور شراب چھوڑ دو۔ ایسا حکم اگر پہلے اُترتا تو لوگ اس کی تعمیل نہ کرتے، بلکہ وہ یہ کہتے کہ —ہم تو زنا نہ چھوڑیں گے، ہم تو شراب نہ چھوڑیں گے (لاندع الزنا أبداً، ولا ندع الخمرأبداً)۔
اِس سے معلوم ہوا کہ عمومی اصلاح کا کام فتویٰ یا حکم جاری کرنے سے نہیں ہوتا، بلکہ اِس کام کے لیے سب سے پہلے لوگوں کے اندر قبولیت کی استعدادپیدا کی جاتی ہے، اِس کے بعد ان کو حکم دیا جاتا ہے۔ استعداد پیدا کیے بغیر حکم دینا، کسی بھی درجے میں مسئلے کا کوئی حل نہیں۔
واپس اوپر جائیں

مسلم ملٹنسی کا مسئلہ

پہلی عالمی جنگ (world war I)کے بعد روس میں کمیونسٹ رول (communist rule)قائم ہوا۔ اِس رول کا نشانہ اوّل دن سے یہ تھا کہ سرمایہ دارانہ نظام کو ختم کیا جائے۔ اِس کے نتیجے میں امریکا میں عام طورپر یہ ذہن بن گیا کہ — کمیونزم، امریکا کا دشمن نمبر ایک ہے:
Communism is the enemy no. 1 of America.
امریکا نے اِس چیلنج کامقابلہ اتنی کامیابی کے ساتھ کیا کہ 1991 میں کمیونسٹ ایمپائر کا خاتمہ ہوگیا۔ دوسری طرف، مسلمانوں کی ملٹنٹ (militant) تنظیمیں، القاعدہ وغیرہ، نے امریکا کو اسلام کا دشمن نمبر ایک بتایا اور امریکا کے خلاف مسلح جدوجہد شروع کردی، جس کی ایک نمایاں مثال 11 ستمبر 2001 کا واقعہ ہے جو نیویارک میں پیش آیا۔ امریکا نے مسلم ملٹنسی (militancy) کے خلاف زبردست فوجی کارروائی کی، حتی کہ اِس کارروائی میں اُس نے 5ٹریلین ڈالر خرچ کردئے، لیکن مسلم ملٹنسی کے محاذ پر امریکا کو مطلوب کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔
اِس فرق کا سبب کیا ہے، اِس فرق کا سبب یہ ہے کہ امریکا نے کمیونسٹ چیلنج کا مقابلہ فکری سطح پر کیا۔ اُس نے مختلف زبانوں میں کمیونزم کے خلاف ہزاروں کتابیں چھپواکر ساری دنیا میں پھیلا دیں۔ مثال کے طورپر ملوون جیلاس (Milovan Djilas) کی کتاب نیو کلاس (The New Class) ۔ یہ کتاب نظریاتی اعتبار سے اتنی طاقت ور تھی کہ اس کے بارے میں مشہور امریکی میگزین ریڈرس ڈائجسٹ میں تبصرہ چھپا تو اس کا عنوان یہ تھا:
The Book that is Shaking the Communist World.
کمیونسٹ چیلنج کے خلاف امریکا کی یہ فکری لڑائی پوری طرح کامیاب رہی، لیکن امریکا نے اپنے اِس تجربے کو مسلم ملٹنسی کے معاملے میں استعمال نہیں کیا۔ یہاں اس نے برعکس طور پر فوجی طاقت کے ذریعے مسلم ملٹنسی کو مٹانے کی کوشش کی، لیکن وہ اِس میں کامیاب نہ ہوسکا۔
حقیقت یہ ہے کہ مسلم ملٹنسی گن ورسز گن (gun vs gun) کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ وہ گن ورسز آئڈیالوجی (gun vs ideology) کا مسئلہ ہے۔ مسلم ملٹنسی ایک معلوم آئڈیالوجی پر کھڑی ہے، اِس لیے مسلم ملٹنسی کو ختم کرنے کے لیے اِس آئڈیالوجی کو ختم کرنا ضروری ہے۔ یہ آئڈیالوجی کیا ہے۔ یہ دراصل اسلام کی سیاسی تعبیر (political interpretation) ہے۔ اسلام کی سیاسی تعبیر مکمل طورپر ایک سیاسی بدعت ہے۔ موجودہ زمانے کے کچھ مسلم رہنماؤں نے اپنی تفسیر ِقرآن اور اپنے لٹریچر میں اسلام کی سیاسی تعبیر پیش کی۔ یہ سیاسی تعبیر موجودہ زمانے کے مسلم مائنڈ کے لیے بہت موافق تھی، اِس لیے انھوں نے اس کو اختیار کرلیا اور جہاد کے نام پر وہ اپنے متشددانہ عمل کو اِس نئی سیاسی تعبیر کے ذریعے درست ثابت کرنے لگے۔
مسلم ملٹنسی کا جواب پُرامن نظریاتی سطح پر دینا پوری طرح ممکن ہے، مسلمان اپنی موجودہ ملٹنسی کو اسلام کے نام پر چلا رہے ہیں۔ اِس طرح وہ خود ایک ایسا معیار (criterion) دے دیتے ہیں جس کو استعمال کرکے اُس کو رد کیا جاسکے۔حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کی موجودہ ملٹسنی، اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں، مکمل طورپر ایک غیر مبرَّر ملٹسنی (unjustified militancy) ہے۔ اسلام میں ملٹنسی یا جنگ کوئی ایجابی عمل نہیں، اسلام میں صرف دفاع کے وقت اضطراری طور پر جنگی طریقے کو استعمال کرنے کی اجازت ہے۔ دوسری بات یہ کہ اسلام میں جنگ استثنائی طورپر صرف ایک باقاعدہ حکومت کے لیے جائز ہے، غیر حکومتی تنظیموں (NGOs) کے لیے صرف دو میں سے ایک آپشن ہے— یا تو وہ خاموش رہیں یا خالص پرامن ذرائع سے اپنی بات لوگوں تک پہنچائیں۔ اِس اصول کی بنا پر گوریلا وار یا پراکسی واریا اور کوئی غیر حکومتی وار اسلام میں جائز نہیں۔
اسلام ایک مشن ہے۔ اسلام کا منشا یہ ہے کہ اس کی مذہبی اور روحانی اور اخلاقی تعلیمات کو لوگوں تک پہنچایا جائے۔ یہ ایک خالص پُرامن مشن ہے، اس میں کسی بھی مرحلے پر ہتھیار کا استعمال جائز نہیں۔ یہ بھی اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے کہ کوئی گروہ عدل (justice) کے حصول کے نام پر کسی کے خلاف جنگ چھیڑ دے۔ اسلام میں عدل کا حصول صرف پرامن کوشش کے ذریعے ہوتا ہے، نہ کہ جنگ اور تشدد کے ذریعے— اسلام پورے معنوں میں امن کا مذہب ہے، وہ کسی بھی اعتبار سے جنگ کا مذہب نہیں۔
واپس اوپر جائیں

خود کُش بم باری

خود کش بم باری (suicide bombing) فلسطین میں عربوں نے اسرائیل کے خلاف شروع کی۔ اُس وقت کچھ علماء نے اس کو جائز قرار دیا اور کچھ علماء اس پر خاموش رہے۔ بروقت کسی نے اس کے حرام ہونے کا اعلان نہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ برائی پھیلتی رہی، اور اب دنیا کے مختلف حصوں میں مسلمان خودکش بم باری کے واقعات کررہے ہیں۔ حالاں کہ خودکشی اسلام میں سر تاسر حرام ہے، کوئی بھی عذر اس کو جائز قرار دینے کے لیے کافی نہیں۔ خود کش بم باری کو جائز قرار دینے کے لیے جو دلیلیں دی جاتی ہیں، اُن میں سے ایک مشہور دلیل ’’الانغماس فی العدوّ‘‘ کی ہے، یعنی دشمن کی صفوں میں گھس پڑنا:
To plunge into enemies.
’’انغماس فی العدو‘‘ کے حق میں ایک واقعہ بیان کیا جاتاہے۔ حضرت ابو بکر صدیق کے زمانہ خلافت میں ایک جنگ پیش آئی۔ یہ جنگ مدعیٔ نبوت مسیلمہ کذاب کے خلاف تھی۔ اِس جنگ میںایک صحابی براء بن مالک خزرجی شریک تھے۔ وہ ایک غیر معمولی بہادر آدمی تھے۔ ایک موقع پر وہ تنہا دشمن کی فوج کے اندر داخل ہوگئے اور اپنا کام پورا کرکے محفوظ واپس آگئے( تفصیل کے ملاحظہ ہو راقم الحروف کی کتاب ’’مسائلِ اجتہاد‘‘، صفحہ 105 )۔
اِس واقعے سے خود کش بم باری کا جواز ہر گز ثابت نہیں ہوتا۔ انغماس فی العدو کا مطلب ہے خطرہ مول لے کر دشمن کی صفوں میں گھس جانا۔ اور خود کش بم باری کا مطلب ہے، اپنے آپ کو ہلاک کرکے مفروضہ دشمن یا اس کی قوم کے افراد کو جانی اور مالی نقصان پہنچانے کی کوشش کرنا۔
اِس قسم کا کمزور استدلال صرف وہ لوگ کرتے ہیں جو ایک چیز اور دوسری چیز کے فرق کو نہ جانتے ہوں، جب کہ حقیقی استدلال کے لیے ضروری ہے کہ آدمی اِس اصول کو پوری طرح جانے۔ اِس اصول سے بے خبری کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آدمی بطور خود ایک دلیل پیش کردے گا، حالاں کہ حقیقت کے اعتبار سے وہ صرف الفاظ کا مجموعہ ہوگا، نہ کوئی واقعی دلیل۔
واپس اوپر جائیں

مسلم پرسنل لا کا مسئلہ

مسلم پرسنل لا (Muslim Personal Law)کا لفظ بظاہر ایک عمومی لفظ ہے، لیکن عملاً اُس سے مراد زیادہ تر نکاح و طلاق کے قوانین ہیں۔ اسلامی شریعت کی رُو سے نکاح وطلاق کے قوانین مقدس قوانین کی حیثیت رکھتے ہیں، وہ ناقابلِ تغیر شرعی قوانین پر مبنی ہیں۔ اِس معاملے میں شریعت کے جو قوانین ہیں، وہ ابدی ہیں اور ہر معاشرے اور ہر زمانے میں یکساں طورپر قابلِ انطباق ہیں۔
نکاح و طلاق کے بارے میں شرعی قوانین کی یہی خصوصی نوعیت اِس بات میں مانع ہے کہ اُن کو سیکولر حکومت کے عدالتی نظام کی ماتحتی میں دے دیا جائے۔ سیکولر عدالتی نظام کی بنیاد وضعی قوانین (man-made laws) پر ہوتی ہے، اور وضعی قوانین ہمیشہ تبدیلی کا موضوع (subject to change) ہوتے ہیں۔ اُن کو کسی بھی وقت ممبرانِ اسمبلی کی کثرتِ رائے سے بدلا جاسکتا ہے۔ اِس بنا پر مسلمانوں کے نکاح و طلاق کے مسئلے کو وضعی قوانین کے تابع کرنا اصولاً درست نہیں۔
موجودہ سیکولر دور سے پہلے اِس مسئلے نے کوئی نزاکت اختیار نہیں کی تھی۔ جن ملکوں میں مسلم حکومتیں قائم تھیں، وہاں ہمیشہ قاضی کا عہدہ ہوا کرتا تھا۔ یہ قاضی مسلمانوں کے نکاح و طلاق کے مسائل کا فیصلہ شرعی قوانین کی روشنی میں دیتے تھے۔ یہ نظام اب بھی کسی حد تک مسلم ملکوں میں جاری ہے۔
آٹھویں صدی عیسوی میں مسلمان ہندستان میں آئے۔ اُس وقت یہاں ہندو راجاؤں کی حکومت تھی۔ مسلمانوں نے ہندوراجاؤں سے درخواست کی کہ ایسا نظام بنایا جائے جس کے تحت مسلمان اپنے عائلی مسائل کا فیصلہ شرعی قانون کی روشنی میں حاصل کرسکیں۔ راجاؤں نے اِس درخواست کو قبول کرتے ہوئے مسلم قاضی کا تقرر کیا، جس کو اُس زمانے میں ’’ہنرمن‘‘ کہاجاتا تھا۔ یہ لفظ غالباً ’’ہنر مند‘‘ کی بدلی ہوئی شکل ہے۔
ہندستان میں جب مسلم سلطنتیں قائم ہوئیں تو انھوں نے یہاں مسلم قاضی مقرر کئے۔ یہ قاضی، مسلمانوں کے عائلی مسائل کا فیصلہ شریعت کی روشنی میں دیتے تھے۔ یہ سلسلہ مغل عہد کے خاتمہ اور برٹش عہد کے آغاز تک جاری رہا۔
ہندستان میں برٹش دورِ حکومت باقاعدہ طورپر انیسویں صدی عیسوی کے وسط میں شروع ہوا۔ اِس کے بعد دھیرے دھیرے قاضی کا عہدہ ختم ہوگیا۔ تاہم مسلم رہنماؤں کے مطالبے پر برٹش حکومت نے ایک قانون ’’محمڈن لا‘‘ کے نام سے پاس کیا۔ یہ محمڈن لا زیادہ تر حنفی فقہ کی روشنی میں تیار کیا گیا تھا۔ اِس کے بعد یہ ہوا کہ مسلمانوں کے عائلی مسائل کا فیصلہ محمڈن لا کے تحت کیا جانے لگا۔ اِس کے لیے علاحدہ قاضی نہیں ہوتے تھے، بلکہ عام ملکی عدالتیں ہی یہ کام انجام دیتی تھیں۔
1947 میں جب ہندستان آزاد ہوا تو یہ نظام بھی عملاً معطل ہوگیا۔ اُس وقت مولانا ابوالکلام آزاد (وفات: 1958 ) حکومتِ ہند میں وزیر تعلیم تھے۔ مولانا آزاد کی کوششوں سے، دہلی میں ایک ’’اسپیشل جج‘‘ کا تقرر کیاگیا۔یہ اسپیشل جج با اختیار جج تھا اور وہ مسلمانوں کے نکاح وطلاق کے معاملات کا فیصلہ شریعت کی روشنی میں کرتا تھا۔ آزادی کے بعد پہلے اسپیشل جج کے طورپر سیدعزیز شفیع کا تقرر ہوا۔ ان کی زندگی تک یہ عہدہ جاری رہا۔ لیکن 1979 میں ان کی موت کے بعد اس کا بھی خاتمہ ہوگیا۔
1947 کے بعد اِس سلسلے میں مسلمانوں کے مختلف غیر سرکاری ادارے قائم ہوئے۔ اِن اداروں کو دارالافتاء اور دار القضاء کہا جاتا ہے۔ اِنھیں میں سے ایک آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ بھی ہے۔ اِس کا قیام 1973 میں عمل میں آیا۔ لیکن یہ انتظامات اصل ضرورت کی نسبت سے ناکافی تھے، چناں چہ وہ مطلوب شرعی ضرورت کو پورا نہ کرسکے۔کیوں کہ اُن میں سے کسی ادارے کا فیصلہ قانونی اعتبار سے، بائنڈنگ فیصلے کی حیثیت نہیں رکھتا تھا۔
یہ مسئلہ بلاشبہہ ایک نازک شرعی مسئلہ ہے۔ اُس کا حقیقی حل تلاش کرنا علماء کی ذمّے داری ہے۔ احتجاج اور مطالبات کی نوعیت کی تحریکیں کسی بھی درجے میں اِس مسئلے کا حل نہیں۔ راقم الحروف کے نزدیک، سیکولر ہندستان کے پس منظر میں، اِس مسئلے کے حل کی دو ممکن صورتیں ہیں:
1 - اِس مسئلے کا پہلا حل یہ ہے کہ ملک میں جامع نوعیت کا ایک دار القضاء قائم کیا جائے۔ اِس دار القضاء کا جزئی تجربہ ریاست بہار میں کیاگیا ہے۔ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ دار القضاء کا تصور مکمل طورپر ایک رضاکارانہ تصور ہے۔ دارالقضاء کی کامیابی کا انحصار اِس پر ہے کہ مسلمان اُس کے فیصلے کو لازماً قبول کرلیں، خواہ وہ اُن کے موافق ہو، یا اُن کے خلاف۔
اِس نوعیت کا دارالقضاء صرف اُس وقت عملی صورت اختیار کرسکتا ہے، جب کہ ہندستان کے مسلمانوں میں اتنی بیداری لائی جاچکی ہو کہ وہ خود اپنے اختیار سے، دار القضاء کے فیصلے کو برضا ورغبت قبول کرلیں۔ مگرتادمِ تحریر (17 مارچ2010) مسلمانوں میں یہ مزاج پیدا نہیں ہوا، اِس لیے عملاً دار القضاء کا تصور صرف محدود طورپر قابلِ عمل ہوسکتا ہے، وہ عمومی طورپر مسلمانوں کے مسئلے کا حل نہیں۔
2 - دوسری صورت یہ ہے کہ برٹش دور کی طرح، دوبارہ مسلمانوں کے نکاح وطلاق کے مسئلے کوشرعی بنیاد پر حل کرنے کے لیے ہندستانی پارلیامنٹ سے ایک باقاعدہ ایکٹ پاس کرایا جائے، اور تمام ریاستی اسمبلیاں اِس ایکٹ کی تصدیق کردیں۔ موجودہ مسئلے کا یہی موثر قانونی حل ہے۔
جہاں تک میرا اندازہ ہے، ہندستان میں یہ قانون اُسی طرح بن سکتا تھا، جس طرح وہ برٹش دور میں بنا تھا، مگر ہندستان کے علماء نے اِس معاملے میں غیر حقیقت پسندانہ موقف اختیار کیا۔ انھوں نے تحفظِ شریعت کے نام پر ہندستان کے سیکولر نظام کے خلاف پُر شور احتجاجی تحریکیں شروع کردیں۔
یہ طریقہ صرف حالات کو بگاڑنے کا سبب بنا۔ اگر ہندستانی علماء باقاعدہ طورپر یہ کوشش کرتے کہ ہندستان کی پارلیامنٹ اِس معاملے میں محمڈن لا کے پیٹرن پر زیادہ بہتر ایک قانون وضع کردے، تو یقینی طورپر یہاں اِس قسم کا قانون بن سکتا تھا۔
لیکن اِس قسم کی تعمیری کوشش نہ اُس دور میں ہوئی جب کہ ہندستان میں مولانا ابوالکلام آزاد اور جواہر لال نہرو (وفات:(1964 جیسے اعتدال پسند لیڈر موجود تھے، نہ بعد کے زمانے میں اِس رخ پر کوئی سنجیدہ کوشش انجام دی گئی۔
اِس معاملے کی ایک مثال شاہ بانو کیس ہے۔ شاہ بانو کو اس کے شوہر محمد احمد نے طلاق دیا۔ اِس کے بعد شاہ بانو اِس کیس کو ملکی عدالت میں لے گئی۔ کئی سال کی عدالتی کارروائی کے بعد 1985 میں سپریم کورٹ آف انڈیا کے چیف جسٹس مسٹر وی چندرا چوڑ نے اپنا فیصلہ سنادیا۔
اِس فیصلے کے تحت شاہ بانو کو یہ حق دیا گیا تھا کہ شاہ بانو کا سابق شوہر گزارے کے طورپر اس کو 180 روپئے ماہانہ ادا کرے۔ یہ فیصلہ کرمنل پروسیجر کوڈ (criminal procedure code) کی دفعہ 125 کے تحت دیا گیا تھا۔
علماء نے اِس فیصلے کو ’’شریعت میں مداخلت‘‘ قرار دیا۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے تحت اِس کے خلاف ملکی پیمانے پر جلوس واجتجاج کی پرشور تحریک چلائی گئی، یہاںتک کہ علماء کے مطالبے کے تحت 1986 میں انڈیا کی پارلیامنٹ نے ایک ایکٹ پاس کیا۔ اس کانام مسلم مطلقہ ایکٹ تھا۔
اِس ایکٹ کے پاس ہونے کے بعد علماء نے ’’یوم فتح‘‘ منایا، لیکن بہت جلد ان کو معلوم ہوا کہ یہ قانون ان کی توقعات کو پورا نہیں کرت۔ علماء کا مطالبہ یہ تھا کہ مسلم مطلقہ خاتون کو دفعہ 125 کے مذکورہ ملکی قانون سے مستثنی قرار دیا جائے۔ اِس قسم کا استثناء سرے سے ممکن ہی نہ تھا، کیوں کہ وہ واضح طورپر دستورِ ہند کے خلاف تھا۔ اِس کے بعد علماء کو چاہیے تھا وہ اپنی نادانی کا اعلان کرتے ہوئے خاموشی کے ساتھ اپنے حجروں میں واپس چلے جائیں۔ لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ وہ بدستور مسلمانوں کے سیاسی اسٹیج پر اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
یہ کام بلاشبہہ ایک نازک کام ہے اور اُس کو صرف ہوش مندانہ کوشش کے ذریعے انجام دیا جاسکتا ہے، لیکن مسلم علماء اور مسلم رہنماؤں نے انتہائی ناعاقبت اندیشانہ طورپر ایسی سیاسی پالیسی اختیار کر رکھی ہے جو صرف معاملات کو بگاڑنے والی ہے، وہ کسی بھی درجے میں اصلاح کا ذریعہ بننے والی نہیں۔
اِس ناعاقبت اندیشانہ پالیسی میں سرفہرست مسلمانوں کی انتخابی پالیسی ہے۔ 1947کے بعد مولانا ابو الکلام آزاد کے مشورے کی روشنی میں، مسلمانوں نے کانگریس کو انتخابی سپورٹ دینے کی پالیسی اختیار کی۔ یہ پالیسی اصولاً درست تھی، لیکن مسلمانوں نے یہ غلطی کی کہ وہ کانگریس سے غیرحقیقت پسندانہ طور پر بہت زیادہ توقع رکھنے لگے۔ یہ توقع عملاً پوری نہیں ہوسکتی تھی اور نہ وہ پوری ہوئی۔
اِس کے بعد چھٹی دہائی میں مسلمانوں نے دوسری نادانی یہ کی کہ انھوں نے اپوزیشن کے ساتھ مل کر نان کانگریس ازم (non-congressism) کی پالیسی اختیار کی۔ یہ منفی ووٹ (negative voting) کی پالیسی تھی، جو فطری طورپر مسائل میں صرف اضافے کا سبب بنی۔ 1992 میں بابری مسجد کے انہدام کے بعد مسلمانوں نے تقریباً متفقہ طورپر الیکشن کے معاملے میں اینٹی بی جے پی کی انتخابی پالیسی اختیار کی۔ یہ منفی پالیسی بھی فطری طورپر مسلمانوں کو کوئی مثبت فائدہ نہ دے سکی۔
ہندستان ایک سیکولر جمہوری ملک ہے۔ مسلمان یہاں ایک اقلیتی گروہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایسی حالت میں، مسلمانوں کے لیے یہاں واحد مفید طریقہ یہ ہے کہ وہ اُس پالیسی کو اختیار کریں جس کو ٹائٹ روب واک (tight-rope walk) کہاجاتا ہے، یعنی کسی کو اپنا دشمن نہ بنانا اور ہر ایک سے بقدرامکان سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرنا۔ 1947کے بعد مسلمان اگر اِس تعمیری پالیسی کو اختیار کرتے تو یقینی طورپر یہاں اب تک وہ قانون بن چکا ہوتا جو مسلمانوںکے عائلی مسئلے کا واحد حل ہے۔
واپس اوپر جائیں

اپنی غلطیوں کو دریافت کیجئے

ایک صاحب کا ٹیلی فون آیا۔ انھوںنے بتایا کہ میں ایک مشہور مذہبی شخصیت کے ساتھ وابستہ تھا۔ اب میںنے ان سے اپنا تعلق توڑ لیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ میں ان کی تقریروں سے متاثر ہوا تھا اور یہ سمجھتا تھا کہ وہ دعوت دین کا اعلیٰ جذبہ رکھتے ہیں۔ لیکن چند سال قریب رہنے کے بعد میں نے دریافت کیا کہ اُن کا واحد مقصد مختلف اسٹیج پر نمایاں ہونا ہے۔ چناںچہ ان کی زندگی بس سفر اور تقریر، سفر اور تقریر میں گزرتی ہے۔ حقیقی معنوں میں دعوت دین اُن کا کنسرن (concern)ہی نہیں۔
میں نے کہا کہ آپ کی دریافت (discovery)ابھی بھی نامکمل ہے۔ آپ نے مذکورہ شخصیت کو دریافت کیا، لیکن آپ نے خود اپنے آپ کو دریافت (discover)نہیں کیا۔ اصل غلطی یہ ہے کہ آپ التمییز بین الشیئین (principle of differentiation) کے اصول سے بے خبر تھے۔ آپ کی غلطی یہ ہے کہ ایک شخص جس کا کیس محض خطابت کا کیس تھا، اس کے کیس کو آپ نے داعیٔ دین کا کیس سمجھ لیا۔ اب آپ کو چاہیے کہ آپ خود اپنی غلطی کو دریافت کریں، نہ کہ دوسرے کو غلط بتا کر مزید اپنا وقت ضائع کرتے رہیں۔
اکثر لوگوں کا یہ حال ہے کہ وہ کسی نہ کسی کو غلط بتا کر اس کے خلاف شاکی بنے رہتے ہیں۔ یہ طریقہ بے حد تباہ کن ہے۔ صحیح یہ ہے کہ آدمی ہر منفی واقعہ کو مثبت تجربے میں ڈھالے، وہ دوسرے کی غلطی میں خود اپنی غلطی کو دریافت کرے۔ وہ ہر تجربے کو سبق (lesson) میں کنورٹ کرے۔ ایسا کرنے کا یہ فائدہ ہوگا کہ ہر واقعہ اس کے لیے اپنے ذہنی ارتقا کا ذریعہ بن جائے گا۔
لوگ شکایتوں میں اِس لیے جیتے ہیں کہ وہ مثبت شخصیت کی اہمیت کو نہیں جانتے۔ منفی خیالات آدمی کے اندر منفی شخصیت بناتے ہیں، اور مثبت خیالات آدمی کے اندر مثبت شخصیت کی تعمیر کرتے ہیں۔ آدمی کو چاہئے کہ وہ اِس معاملے میں بے حد حساس رہے۔ وہ کسی بھی حال میں اپنے اندر منفی شخصیت کی پرورش نہ ہونے دے۔ اِس معاملے میں وہ کسی بھی عذر (excuse) کو عذر نہ بنائے۔
واپس اوپر جائیں

ذہانت کا منفی پہلو

ذہانت (intelligence) انسان کی ایک استثنائی صفت ہے۔ انسان جو کچھ ہے، وہ ذہانت ہی کی بنیاد پر ہے۔ ذہانت کے بغیر انسان صرف ایک حیوان ہے، اِس کے سوا اور کچھ نہیں۔ لیکن اِس دنیا کی ہر چیز کی طرح ذہانت کا بھی ایک پلس پوائنٹ ہے اور اس کا ایک مائنس پوائنٹ ہے۔ ذہانت کا پلس پوائنٹ ذہانت کو ایک نعمت بناتا ہے اور ذہانت کا مائنس پوائنٹ آدمی کے لیے ہلاکت کا سبب بن جاتا ہے۔ اِسی لیے خالق (Creator)بہت کم لوگوں کو اعلیٰ ذہانت عطا کرتاہے۔
تجربہ بتاتا ہے کہ اعلیٰ ذہانت آدمی کے اندر بہت جلد ایک خطرناک کم زوری پیدا کردیتی ہے، یہ ضرورت سے زیادہ اعتماد (over-confidence) ہے۔ اعتماد (confidence)بلاشبہہ انسان کے لیے ایک اچھی چیز ہے۔ اعتماد سے آدمی کے اندر یقین اور استقلال پیدا ہوتاہے۔ اعتماد اِس دنیا میں آدمی کو ثابت قدم بناتا ہے، لیکن تجربہ بتاتا ہے کہ اعتماد اگر اچھی چیز ہے تو ضرورت سے زیادہ اعتماد اتنا ہی زیادہ تباہ کن ہے:
Confidence is good, but over-confidence is equally bad.
اعلیٰ ذہانت والا آدمی بہت جلد اِس غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ وہ سب کچھ جانتاہے۔ یہ سوچ اس کو تواضع (modesty) کی صفت سے محروم کردیتی ہے۔ اس کے اندر اپنے بارے میں برتری کا احساس پیدا ہوجاتا ہے۔ اِس احساس کے تحت وہ ایسی باتیں بولتا ہے جس کے لیے وہ اہل (competent) نہیںہوتا۔ وہ ایسے اقدامات کرتا ہے جس کا وہ متحمل نہیں ہوسکتا۔ وہ ایسے نظریات وضع کرتاہے جو حقیقت ِ واقعہ کے خلاف ہوتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ زیادہ ذہین لوگ اکثر کامیاب نہیں ہوتے۔ اعلیٰ ذہانت اُن کو غیر حقیقت پسند بنا دیتی ہے۔ ایسے لوگ خوش فہمیوں (wishful thinking) میں جیتے ہیں اور آخر کار وہ مایوسی کا شکار ہو کر رہ جاتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

مشترک خاندانی نظام

مشترک خاندانی نظام (joint family system) شرعی طورپر جائز ہے، لیکن عملی تجربہ بتاتا ہے کہ عام طورپر وہ کامیاب نہیں ہوتا۔ شادی کے بعد شوہر اور بیوی کے درمیان نزاعات کا سبب زیادہ تر مشترک خاندانی نظام ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں قابلِ عمل طریقہ یہ ہے کہ مشترک خاندانی نظام سے کامل احتراز کیا جائے ۔
مشترک خاندانی نظام کیا ہے۔ مشترک خاندانی نظام دراصل یہ ہے کہ خونی رشتے دار اور غیرخونی رشتے دار ایک ساتھ ایک گھر میں رہیں۔ یہ طریقہ کوئی ناجائز طریقہ نہیں، لیکن یقینی طورپر وہ ایک غیر فطری طریقہ ہے۔ مشترک خاندانی نظام میں جو مسئلے پیدا ہوتے ہیں، وہ تمام تر اِسی غیر فطری زندگی کا نتیجہ ہوتے ہیں۔
کوئی بھی وعظ ونصیحت اِس مسئلے کا حل نہیں۔ اِس مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ اِس غیر فطری نظام کو اختیار ہی نہ کیا جائے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ اُس وقت تک شادی نہ کی جائے جب تک شادی شدہ جوڑے کے رہنے کے لیے الگ گھر کا انتظام نہ ہوجائے۔ شادی کے بعد لڑکی کی رخصتی اپنے علاحدہ گھر میں ہو، نہ کہ مشترک گھر میں۔ اِس کے سوا اِس مسئلے کا کوئی اور حل نہیں۔
شادی کے بعد علاحدہ گھر کا انتظام کوئی ناممکن چیز نہیں۔ والدین اگر صرف اتنا کریں کہ وہ جہیز اور ولیمہ اور بارات جیسی چیزوں میں جو اخراجات کرتے ہیں، اس کو وہ مکمل طورپر بند کردیں اور ساری رقم صرف گھر کی مد میں لگا دیں تو وہ علاحدہ گھر کا انتظام بآسانی کرسکتے ہیں۔ یہ علاحدہ گھر خواہ چھوٹا ہو، وہ مشترک بڑے گھر سے ہر حال میں زیادہ بہتر ہے۔
اگر والدین کے اندر یہ سوچ پوری طرح موجود ہو تو یقینی طورپر وہ کامیابی کے ساتھ اس کا انتظام کرسکتے ہیں۔ بالفرض اگر کوئی شخص علاحدہ گھر کا انتظام نہیں کرسکتا تو اُس کے لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ وہ شکایتوں میں جینا چھوڑ دے اور صبر وبرداشت کے ساتھ مشترک خاندان میں رہے۔
واپس اوپر جائیں

وقت کی اہمیت

امریکا میں وقت کی پابندی کی بہت زیادہ اہمیت ہے ، ان کا تصور یہ ہے کہ مقرر وقت سے پہلے پہنچنے کی کوشش کرو، تاکہ تمھارا وقت پر پہنچنا یقینی ہوجائے۔ امریکی لوگوں کا تصور یہ ہے کہ کسی میٹنگ میں جانا ہے تو تم طے شدہ وقت سے 15 منٹ پہلے پہنچنے کی کوشش کرو— اگر تم مقرر وقت سے 5 منٹ پہلے پہنچے تو گویا کہ تم دس منٹ لیٹ ہوگئے:
If you are five minutes early, you are ten minutes late.
زندگی میں وقت کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ ہم جو کچھ کرتے ہیں، وقت کے اندر ہی کرتے ہیں۔ وقت ختم تو کام بھی ختم۔ چناں چہ کہاجاتا ہے کہ— وقت، دولت ہے:
Time is money
عربی زبان میں مقولہ ہے کہ: الوقت ہو الحیاۃ، فلا تقتلوہ (وقت ہی کا نام زندگی ہے، تم اس کو ہلاک نہ کرو) ۔ یہ بلاشبہہ نہایت درست ہے۔
زندگی وقت سے بندھی ہوئی ہے۔ انسان کا کوئی بھی کام وقت ہی کے استعمال کی ایک صورت ہوتی ہے۔ کوئی بھی شخص وقت کو جتنا زیادہ استعمال کرسکے، اتنا ہی زیادہ وہ زندگی میں کامیابی حاصل کرے گا۔
وقت کی یہ اہمیت بتاتی ہے کہ وقت کے بارے میں انسان کوبے حد حساس ہونا چاہئے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو آدمی جتنا زیادہ ٹائم کانشس (time-conscious) ہو، اتنا ہی زیادہ وہ باشعور انسان کہاجائے گا۔ ٹائم کانشس ہونا، بااصول انسان کی علامت ہے۔
جو آدمی ٹائم کانشس نہ ہو، وہ بلا شبہہ ایک بے اصول انسان ہوگا۔ انسانیت کے اعلیٰ اقدار کی نسبت سے اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ موجودہ زمانے میں گھڑی کی ایجاد نے وقت کی پابندی کو بہت زیادہ آسان بنا دیا ہے۔ اِسی لیے گھڑی کو ٹائم کیپر (time keeper) کہاجاتاہے۔
واپس اوپر جائیں

سوال وجواب

سوال
دو سوالات کے جواب مطلوب ہیں۔ ایک یہ کہ ماہ نامہ الرسالہ، جون 2007 میں آپ نے اپنے ایک مضمون میں ’’مسیحی ماڈل کی واپسی‘‘ کا ذکر کیا تھا۔ اِس سے آپ کی مراد کیا ہے۔ دوسرے یہ کہ آپ نے اپنی تحریروں میں کئی مقامات پر اعلیٰ بصیرت اور پریکٹل وزڈم (practical wisdom) کی باتیں لکھی ہیں۔ برائے کرم مثال کے ذریعے اس کو واضح فرمائیں (عبد الباسط عمری، دوحہ، قطر)
جواب
1 - قیامت سے پہلے مسیح کی آمد ثانی کے بارے میں جو روایتیں آئی ہیں، اُس سے مراد غالباً مسیحی ماڈل کی آمد ثانی ہے، نہ کہ جسمانی معنوں میں پیغمبر مسیح کی آمد ثانی۔ یہ مسیحی ماڈل قرآن میں بھی مذکور ہے اور انجیل میں بھی اس کا ذکر آیا ہے۔ یہ مسیحی ماڈل، قرآن اور انجیل دونوں کی تصریحات کے مطابق، یہ ہے کہ یک طرفہ صبر کے ذریعہ غیر سیاسی انداز میں پرامن طورپر دعوت الی اللہ کا کام کرنا۔ یہی مسیحی ماڈل ہے اور اِس کو تاریخ میں دوبارہ واپس آنا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مسیحی ماڈل وہی ہے جس کو مکی ماڈل کہاجاتا ہے۔ مسیحی ماڈل کی واپسی دراصل خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مکی ماڈل کی واپسی ہے۔ مگر بعد کے زمانے میں پیغمبر اسلام کے حوالے سے یہ ماڈل مسلمانوں کے لیے قابلِ دریافت نہیں رہے گا۔غالباً اسی لیے آپ نے اس کی واپسی کو مسیح کی واپسی سے تعبیر کیا۔ مسیحی ماڈل دراصل خود پیغمبراسلام کی جامع زندگی کاایک پہلو ہے، نہ کہ اس سے الگ یا اُس سے مغائر کوئی پہلو۔
حدیث اور سیرت کی کتابوں میں اور خود قرآن میںیہ مکی ماڈل واضح طورپر موجود ہے۔ لیکن بعد کو یہ ہوا کہ مسلم علماء نے بطور خود یہ سمجھ لیا کہ ہجرت کے بعد اب مکی ماڈل منسوخ ہوچکا ہے اور اب صرف مدنی ماڈل کی پیروی مسلمانوں سے مطلوب ہے۔ بعد کے زمانے میں مسلم علماء نے جو کتابیں لکھیں، وہ عام طور پر اِسی مفروضہ کے تحت لکھی گئیں، یہاں تک کہ شعوری یا غیر شعوری طورپر یہ سمجھ لیا گیا کہ مدنی ماڈل ہی اب مطلوب معیاری ماڈل ہے۔ بعد کے زمانے میں مسلمانوں کو جس ماڈل کی پیروی کرنا ہے، وہ صرف مدنی ماڈل ہے، بالفاظِ دیگر حاکمانہ ماڈل۔ لمبی تاریخی روایت کے نتیجے میں اب یہ صورت حال پیدا ہوچکی ہے کہ مسلم ذہن پیغمبر اسلام کے حوالے سے اس ماڈل کو سمجھ نہیں پاتے، اِس لیے اِس کو مسیحی ماڈل کے حوالے سے مسلمانوں کے سامنے لایا گیا۔ کیوں کہ بعد کے زمانے میں مکی ماڈل مسلمانوں کے ذہن سے اوجھل ہوگیا اور صرف مدنی ماڈل ان کے زندہ حافظے میں باقی رہا، جب کہ مسیحی ماڈل پر دوسرا مرحلہ پیش نہیںآیا۔ مسیح کے یہاں اول بھی مکی ماڈل تھااور آخر بھی مکی ماڈل۔
2 - پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری زمانہ میں حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا تھا: لافضل لعربی علی عجمی ولا لأحمر علیٰ أسود (کسی عربی کو کسی عجمی کے اوپر کوئی فضیلت نہیں، کسی سفید فام کو کسی سیاہ فام پر کوئی فضیلت نہیں) اِن الفاظ میں بظاہر مطلق مساوات کا اعلان تھا، لیکن آپ کی وفا ت کے بعد جب خلافت کا مسئلہ پیدا ہوا تو اس کو الائمۃ من قریش (مسند احمد، رقم الحدیث: 12657)کی بنیاد پر حل کیاگیا۔ یہ فعل واضح طورپر آئیڈیل مساوات کے خلاف تھا۔
قرآن میں ارشاد ہوا ہے: أمرہم شوریٰ بینہم (اہلِ ایمان کے معاملات اجتماعی مشورے سے طے ہوتے ہیں) الفاظ کے اعتبار سے بظاہر یہ ایک مطلق اصول ہے، لیکن خلیفۂ اوّل حضرت ابو بکر نے خلیفۂ ثانی حضرت عمر کے تقرر میں اِس تعلیم کے خلاف عمل کیا۔ انھوں نے اپنے بعد خلیفہ ثانی کے لئے نام زدگی (nomination) کا طریقہ اختیار کیا۔ آپ نے رائے عامہ کے بغیر بطورخود حضرت عمر کی خلافت کا اعلان کردیا۔ یہ واقعہ واضح طورپر مذکورہ قرآنی اصول کے خلاف تھا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مدینہ میں خلافت کے سوال پر مہاجرین اور انصار کے درمیان اختلاف ہوا۔ انصار کا یہ کہنا تھاکہ: منا أمیر ومنکم أمیر (ایک امیر مہاجر ین میںسے اور ایک امیر انصار میںسے)۔بحث کے بعد آخر کار یہ طے ہوا کہ مہاجرین میں سے امیر ہوں اور انصارمیں سے وزیر (نحن الأمراء وأنتم الوزراء)۔ لیکن اس پر عمل نہ ہوسکا اور حضرت عمر فاروق نے اپنے آخری زمانے میں کہا کہ ہم نے انصار سے وعدہ کیا تھا کہ ہم خلافت کے کام میں ان کو وزیر بنائیں گے، لیکن ہم ایسا نہ کرسکے (واللہ ما وفینا لہم کما عاہدناہم علیہ۔ مسند البزّار، رقم الحدیث: 291)۔
اسلام کے دور اول کی تاریخ میں اس طرح کے بہت سے واقعات ہیں۔ یہ واقعات بظاہر یہ بتاتے ہیں کہ اسلام میں اصول اور عمل کے درمیان تضاد ہے، مگر یہ بات درست نہیں۔ یہ فرق خودایک اور مستقل اصول کے تحت پیش آیا— اصول کا تعین ہمیشہ معیار (norm) کی روشنی میں ہوتا ہے، لیکن جب عملی بندوبست (practical settlement) کا معاملہ ہو تو اُس وقت ایک اور اصول اختیار کیا جاتا ہے۔ اُس وقت یہ دیکھا جاتا ہے کہ عملی اعتبار سے کیا چیز ممکن ہے اور کیا چیز ممکن نہیں۔
اصول کا تعین ایک مجرد(abstract) معاملہ ہے، اِس لئے اصول کے تعین کے وقت خالص نظری پہلو کا اعتبار کیا جاسکتا ہے۔ لیکن عملی بندوبست کا تعلق سماج کی واقعی صورت ِ حال سے ہوتا ہے۔ اِس لئے عملی بندوبست کے وقت ضروری ہوتاہے کہ یہ دیکھا جائے کہ موجودہ صورت حال کے مطابق کیا چیز ممکن ہے اور کیا چیز ممکن نہیں۔
مذکورہ مثالوں کے درمیان بظاہر جو فرق نظر آتاہے، وہ اِسی اعلیٰ بصیرت کی بنا پر ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو پریکٹکل وزڈم (practical wisdom) کہاجاتا ہے۔ جو لوگ اصولی معیار اور پریکٹکل وزڈم کے فرق کو نہ جانیں، وہ ذہنی اعتبار سے کنفیوژن (confusion) کا شکار ہوجائیںگے اوروہ عملی اعتبار سے ایسا اقدام کریں گے جو حالات میں مزید خرابی پیدا کرے اور نتیجے کے اعتبار سے کاؤنٹر پروڈکٹیو (counter productive) بن کر رہ جائے — عملی رویّے کا فیصلہ ہمیشہ واقعی صورتِ حال کی بنا پر کیا جاتا ہے، نہ کہ مجرد اصولی معیار کی بنیاد پر۔
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز — 204

1 - میں الرسالہ کا ایک قدیم قاری ہوں اور 12 اپریل 2010 آپ کے گھر پر مولانا محمد مصطفی عمری کے ہمراہ آپ سے نصیحت آموز ملاقات کی سعادت حاصل ہوئی تھی۔ آپ کے ساتھ میں نے مغرب کی نماز بھی ادا کی تھی۔ قیمتی وقت دینے کے لئے آپ کا شکریہ۔مولانا محمد ذکوان ندوی سے تعارف کے دوران میںنے بتایا تھا کہ ممبئی کے اہم مقام چرچ گیٹ اسٹیشن پر واقع بُک اسٹال پر میں پچھلے دو سالوں سے آپ کا ترجمہ قرآن اور دیگر دعوتی لٹریچر فروخت (sale) کے لئے رکھوا کر آپ کے مِشن میں کام کررہا ہوں۔ اس اسٹیشن پر روزانہ لاکھوں لوگ آتے اور جاتے ہیں۔ قرآن کے تقریباً 300 ترجمے یہاں سے بِک چکے ہیں جس میں 90% خریدار غیر مسلم حضرات ہیں۔ یہ کام میں جاوید بھائی (ICRA) کے تعاون سے کررہا ہوں۔(محمد اسلم چوغلے، ممبئی)
2 - شانتی گری رسرچ فاؤنڈیشن (مالویہ نگر، نئی دہلی) کے تحت نہرو آڈیٹوریم (تین مورتی ہاؤس) میں 21 اپریل 2010کو ایک سیمنار ہوا۔ اس کا موضوع یہ تھا:
National Workshop on Sustainable Development: Building Alternatives.
اِس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے سی پی ایس کی ٹیم کے 6 افراد کے ساتھ اس میں شرکت کی۔ اور موضوع پر انگریزی زبان میں آدھ گھنٹہ تقریر کی۔ اِس موقع پر سی پی ایس کی طرف سے حاضرین کو مطالعے کے لیے دعوتی لٹریچر اور قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔ لوگوں نے اس کو بہت شوق سے لیا۔
3 - ٹائمس آف انڈیا (نئی دہلی) کی نمائندہ مز سکینہ خان (Deputy Editor Editorial) نے 4 مئی 2010 کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو ریکارڈ کیا۔ گفتگو کا موضوع یہ تھا کہ اسلام میں ماں کا درجہ کیا ہے۔ اِس سلسلے میں انھیں قرآن اور حدیث کے ضروری ریفرنس میں اسلامی تعلیمات بتائی گئیں۔ اِس کے علاوہ ان کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور صدر اسلامی مرکز کی کتاب Woman in Islamic Shari’ah مطالعے کے لیے دی گئی۔
4 - مئی کا الرسالہ نظر نواز ہوا۔ کافی تحقیق اور وسیع مطالعہ کا نتیجہ لگتا ہے۔ خروجِ دجّال اور یاجوج وماجوج، ظہور مہدی اور نزولِ مسیح جیسے پیچیدہ اور اختلافی مسائل پر آپ نے نہایت ہی عالمانہ اور محققانہ مدلّل ومسبوط نظریہ پیش کیا ہے، جو نہ مافوق الفطرت لگتا ہے اور نہ ہی دیومالائی یا طلسماتی قصہ، بلکہ یہی نظریہ فطرت سے مطابقت بھی رکھتا اور ممکن الوقوع بھی ہے۔ لیکن مجھے نہیں لگتا کہ مسلم علماء اس کو پسند فرمائیں گے یا قبول کریں گے۔ کیوں کہ اس سلسلہ میں وہ اپنے روایتی بند خول سے باہر نہیں نکلنا چاہتے۔ عین ممکن ہے کہ آپ کے اس جرأت مندانہ پیشکش اور اقدام کی وجہ سے آپ کو مطعون کیاجائے۔ (سید ناصر ندیم ، کشمیر)
5 - طالب علمی کے زمانے ہی سے اگر میں کسی مشن سے واقف ہوا تو وہ الرسالہ مشن ہے۔ شہر بھوپال میں الرسالہ کی تقسیم سے میرا آغاز ہوا۔ یہ کام مجھے میرے استاذ ڈاکٹرحمید اللہ ندوی نے سونپا تھا۔ اس وقت میں زیادہ نہیں سمجھتا تھا، مگر جو کام مجھے دیا جائے اسے کرنا ہی میرا طریقہ تھا جو کہ آج تک جاری ہے۔ اب یہی کام میں مدھیہ پردیش کے شہر دیواس میں کررہا ہوں۔ میرا اندازہ ہے کہ 1977 ء یا 1978 ء میں بھوپال سے میں نے یہ کام شروع کیا۔ اور دھیرے دھیرے یہ سمجھنے لگا کہ الرسالہ صرف ایک پرچہ نہیں، بلکہ وہ ایک ایسا مشن ہے جس میں امت کے لیے دین و دنیا کا راز پوشیدہ ہے۔مولانا وحیدالدین خاں صاحب موثر انداز میں مسلمانوں کو زندگی کے راز بھی بتا رہے تھے اور ان کے اندر دینی روح بھی زندہ کررہے تھے۔984 1ء میں میں نے اپنے وطن دیواس میں کام شروع کیا۔ اپنے استاذ مولانا ڈاکٹر حمید اللہ ندوی کے ساتھ عملاً میں یہ دیکھ چکا تھا کہ غیر مسلم افراد سے بھی اپنائیت کا رشتہ قائم کیا جاسکتا ہے- میں اسی راستے پر چلا اور آج اپنے شہر میں آرایس ایس کے مکھیا کے کالج کا ایک بااختیار فرد ہوں اور شہر میں آرایس ایس کے آل انڈیا سرسنچالک ایک بار آئے تو ان سے میری ملاقات کرائی گئی۔ اور ان اصحاب کے زیادہ تر پروگراموں میں مجھے بولنے کے لئے کہاجاتا ہے۔ نیز شہر میں جب حالات کچھ گڑ بڑ ہوئے ہیں، انھیں درست کرنے میں مجھے آگے رکھا جاتا ہے۔ دیواس کے قریب اندور اور اجین میں بھی ہمارے آدمی کام کرتے ہیں۔ اور بھوپال کی سرگرمیوں میں بھی میں ہر طرح سے شریک ہوں۔حضرت مولانا کے سفر بھوپال کے ہر پروگرام میںایک کارکن کے طورپر میری شرکت ہوئی ہے۔ چند سال قبل اس مشن کی مخالفت کرنے والے حیدرآباد کے ایک شخص نے مجھے حضرت مولانا کے خلاف ورغلانے کے لئے ایک خط لکھا، اور حضرت مولانا کے خلاف لکھی ہوئی اپنی کتابیں بھیجیں۔ مگر اللہ کی مہربانی سے میں نے انھیں جواب لکھا اور پھر خطوط کے تبادلہ کا لمبا سلسلہ چلا اور اخیر میں وہ خاموش ہوگئے اور میرے واضح دلائل کا نہ تو جواب دے سکے اور نہ انھیں توبہ کی توفیق نصیب ہوئی۔ ایسے واقعات میرے اِس یقین کو بڑھاتے ہیں کہ مشن کے مخالفین ہٹ دھرمی کے خول کو کسی طرح نہیں توڑ پارہے ہیں۔اس مشن کو جس حد تک میں سمجھا ہوں، اس میں اہم بات یہ ہے کہ امت اپنے ز وال پذیر حالات میں ایسی رہنمائی سے محروم تھی جو اسے تعمیر وترقی کی مثبت فکرطاقتور انداز میں دے سکے اور احساس شکست کے تحت خود کُش اقدامات کو عقل واسلام کے خلاف ثابت کرسکے۔ موجودہ زمانے میں یہ کام صرف اور صرف اعلیٰ ترین سطح پر عصری اسلوب میں مولانا کی تحریروں نے انجام دیا۔ مجھے ہندی علاقہ اور ہندی ماحول میںکام کرنا ہوتا ہے جہاں اردو کی زیادہ کتب نہیں پڑھوائی جاسکتی ہیں۔ ہم مخصوص تحریروں کو ہندی میں پھیلاتے ہیں اور میٹنگوں میں اس کو پڑھ کر سناتے ہیں۔ اردو تحریریں بھی سناتے ہیں۔ اب تک کا تجربہ یہ ہے کہ سنجیدہ ذہن والوں کو لگتا ہے کہ آخری حد تک صبر و برداشت کی تعلیم ہی اسلام کی اصل تعلیم ہے اور حالات کو پر امن بنانے کے لیے آخری حد تک ہمیں اپنا رول ادا کرنے کے بعدہی وہ مواقع میسر آتے ہیں جو ہمارے لیے اسلام کی دعوت اور اپنی ترقی کے راستے کھولتے ہیں۔ میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ ہماری ساری زندگی ہر قسم کی بے احتیاطیوں سے بچتے ہوئے اس مشن کی تکمیل میں لگی رہے۔(عبد الحمید، دیواس، مدھیہ پردیش)
6 - پنگوئن بکس (Penguin Books)ایک معروف انٹرنیشنل پبلشنگ ادارہ ہے۔ اس نے صدر اسلامی مرکزکی ایک انگریزی کتاب چھاپی ہے، اس کتاب کا نام یہ ہے:
The Prophet of Peace
یہ کتاب دو سال پہلے تیار ہوئی تھی۔ عرب نیوز (جدہ) کے ایڈیٹر مسٹر سراج وہاب کو اِس کتاب کا مسودہ دکھایاگیا۔ انھوں نے کہا کہ یہ کتاب اِس نام کے ساتھ انگریزی دنیا میں چلنے والی نہیں ہے۔ آپ اس کو پھر سے مرتب کیجئے اور اس کا نام یہ رکھئے :
Why Binladen was Wrong?
مگر یہ ٹائٹل ہمارے ذوق کے مطابق نہ تھا۔ اس کے بعد ایسا ہوا کہ پاکستان کے ہندستانی سفارت خانے کے ایک ہندو افسر کی ملاقات لاہور کے مولانا جاوید احمد غامدی سے ہوئی۔ غامدی صاحب نے اُن سے صدراسلامی مرکز کاتعارف کرایا۔ اس کے بعد مذکورہ ہندو افسر اور ان کی اہلیہ رنجنا سین گپتا دہلی میں ان سے ملاقات کے لیے آئے۔ یہ خاتون دہلی کے پنگوئن آفس کی انچارج ہیں۔ اُن سے مذکورہ کتاب کا ذکر ہوا تو وہ اس کا مسودہ پڑھنے کے لیے اپنے ساتھ لے گئیں۔ پڑھنے کے بعد انھوں نے کہا کہ پنگوئن اِس کتاب کو چھاپنے کے لئے تیار ہے۔ اِس طرح یہ کتاب دسمبر 2009میں پنگوئن کی طر ف سے شائع ہوئی۔
صدر اسلامی مرکز کی کتاب (The Prophet of Peace) کو لوگ غیر معمولی طورپر پسند کررہے ہیں۔ ٹائمس آف انڈیا (نئی دہلی) سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر جنرلسٹ مسٹر گوتم سدھارتھ نے اِس کتاب کو کسی بک سیلر سے خرید کر حاصل کیا اور اس کو پڑھا۔ اِس کو پڑھنے کے بعد انھوںنے مسٹر رجت ملہوترا سے کہا:
This book gives a new understanding of Islam, it is like a paradigm shift. It is a well-documented book.
موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے مسلح جہاد نے اسلام کی تصویر یہ بنادی تھی کہ اسلام تشدد کا مذہب ہے، اور پیغمبر اسلام تشدد کے پیغمبر ہیں۔ یہ کتاب اِس غلط فہمی کو ختم کرتی ہے اور خالص علمی انداز میں یہ ثابت کرتی ہے کہ اسلام امن کا مذہب ہے اور پیغمبر اسلام امن کے پیغمبر ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ موجودہ زمانے میں یہ اسلامی دعوت کی نسبت سے ہونے والا سب سے بڑا واقعہ ہے۔ موجودہ زمانے میں عالمی میڈیا نے ساری دنیا میں اسلام کی متشددانہ تصویر بنادی تھی۔ یہ کتاب اِس تصویر کو مکمل طورپر بدل رہی ہے۔ اِس کتاب کا انٹرنیشنل پبلشر کی طرف سے شائع ہونا بھی ایک معجزے سے کم نہیں۔
7 - بیروت (لبنان) سے چھپی ہوئی عربی مصادر ومراجع کی کتابیں ہمارے مکتبہ میں دستیاب ہیں۔ خواہش مند حضرات ان کو گڈورڈ بکس (Goodword Books) سے حاصل کرسکتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

Al-Quran Mission

Quran and Dawah Material Distribution
CPS International and Goodword Books have placed Order Free Quran forms on their websites, www.goodwordbooks.com and www.cpsglobal.org. They are sending Quran copies of the Quran translated by Maulana Wahiduddin Khan in English and dawah material in response to the daily requests coming from people from all over the world. Some of the prominent places are USA, Mexico, Canada, UK, Germany, Sweden, Lithuania, Nigeria, Ghana, Australia, South Africa, Saudi Arabia, Morocco, UAE, Turkey, Singapore, Malaysia, Malta, Philippines, Poland, Russian, Kazakhstan, Ukraine, Uzbekistan, Pakistan and India.
Dayees from all over the world are also spreading the translations of the Quran by Maulana Wahiduddin Khan in English and Hindi and dawah material during interactions or through emails either individually or in groups.
Some of the responses they have received are:
ک Thank you greatly for providing such an opportunity to get the Quran! I have been dreaming to have this book for so long, but it is almost unreal to find it in here. I will be impatiently waiting for the Quran! (Olesya Ponomaryova, Belarus)
ک I would love to have a copy of Holy Quran in English so that i can understand the roots of Islam and its essence. I am Hindu by religion but i have equal respect for all religions and beliefs. Please send me a copy if available and if not, please send me the address of the bookseller, where the book is available. (Mohan Kumar Yadav, N. Delhi)
ک I am happy to acknowledge the receipt of your kind letter No. CPS/238/10-1 dated 18th May 2010, along with the lovely edition of the Holy Quran, so beautifully translated by Maulana Wahiduddin Khan Sahib. (Madan Mohan Mathur, New Delhi)
ک I thank you for sending me the Holy Quran! Praise be to God. I am reading it daily. I would like to know Allah and know the true religion of Prophet Mohammed. (Musa Kioi from Nairobi, Kenya)
ک I gratefully acknowledge the receipt of Quran translated by Maulana Wahiduddin Khan. I am a great admirer of Maulana Wahiduddin Khan and the great work that he and his organization “CPS International” has been doing to spread the message of Quran in the right perspective. It will be my proud privilege to give you my feed back after I have gone through this work of Maulana Wahiduddin Khan. (Wg. Cdr. Ajai Bhalla (Retd.)
Quran Review in Speaking Tree Supplement of Times of India
The ‘Free Quran’ requests are continuing to flow in responses to the Speaking Tree Supplement of Time of India dated Sunday May 16th 2010 that carried a review of translation of Quran by Maulana Wahiduddin Khan, in spite of so many weeks.
The review had stated that the translation is, “Simple and direct and reaches out to a large audience, Muslims as well as non Muslim”, and aptly entitled it, “Not Lost in Translation”. They had also referred to Maulana’s, statement, “The Maulana writes that the Quran is the word of God and it is the duty of believers to communicate the message of the Quran to all human beings so that they may the know reality of life.”
Some of the recent comments from mainly non-Muslims are as follows:
ک Thank you for sending me Quran, which I never expected. I read the article in “Times of India” about the translation of Quran by Maulana Wahiduddin in a simple language. When I approached through internet, I learnt that it was not available. So, I am pleasantly surprised when I received it by courier service. How nice it would be if other organizations too distribute their sacred books in simple language freely to the interested. I am a cosmopolitan from Hindu back ground and I will definitely read and try to understand “Quran”. (V.B. Swamy, Bangalore)
ک I love reading articles authored by Maulana Wahiduddin Khan on Muslin religion. They are secular and not orthodox type. I read a review by Sakina, “Not Lost in Translation” on his translation of the Quran in the Speaking Tree supplement of May 16, 2010. (Dr Krishan Kumar Agarwal, Vaishali, Ghaziabad)
ک I like to study your whole literature. I hope your literature will help me to better understand the philosophy of Islam. Thank you for your honourable service. (Deepak Bisht, Ghaziabad)
ک This is in reference to information in TOI regarding the availability of free handy translation of Quran, my father wishes to go through the holy pages, if you can please forward the same free copy, he will be highly pleased. (Prarina)
ک Read the book review by Sakina Yousuf Khan in the Speaking Tree supplement with Times of India 16th May 2010. I will be grateful for a copy of the holy book. I am a secular person willing to imbibe all that is offered by any and all religions. (Anindya Chaudhury, Gurgaon)
ک It is nice that there is launch of English translation that we all are more comfortable in reading than Urdu. (Agrima Jindal, New Delhi)
ک Respected Sir, In the Times of India, Speaking Tree, Book reviews, dated 16 May 2010, I read about the Quran review by Sakina Yusuf Shan. I request you to send me 100 copies of the Quran which will cost Rs. 2000 only. I want to donate it to an education trust. (Arun Venkatesh, Bangalore)
ک The Society for Peace and Environmental Concerns, Jammu organized an inter-faith Conference on “Religion and Peace” on 6th 0f June 2010 at Jammu in the Seminar hall of Computer Science and I.T. Deptt. University of Jammu. The conference was chaired jointly by Prof. M.R. Puri, former Vice Chancellor University of Jammu as well as Prof. Varun Sahni, the present Vice- Chancellor, university of Jammu. In his address Prof. M.R. Puri, former Vice- Chancellor, university of Jammu made a startling revelation that “I have known it today only through this booklet that Assalam-O-Alaikum means peace be upon you and then he said that today I am concluding my speech with Assalam-O-Alaikum”. A booklet prepared specially for the occasion titled Islam and Peace was distributed among the participants which generated good response. The booklet was based on the Islamic ideology of peace given by Maulana Wahiddudin Khan in his book “Islam and Peace”. Dawah literature and Quran were exhibited during the conference and pocket size Quran translated by Maulana Wahiduddin Khan was distributed among the participants, free of cost. (Ahmad Shanas, President, SPEC)
US Teleconference
To spread the Al-Quran Mission worldwide, Maulana Sahab has started addressing Dayees in the USA through teleconferencing that is being organized by Khwaja Kaleemuddin Sahab. On 6th June, 2010 the talk was on ‘How to do effective dawah work in Western society’. In his talk Maulana Sahab has said, ‘Muslims in the west are playing eastern games in western court’. By this he meant that the Muslims in the West are not trying to read the western mind and undertake dawah work, but are just acting on their eastern mindset. Due to this they have not realized that people in the West are dissatisfied spiritually, ‘They are looking for another version of Truth’. He advised Muslims in the West to utilize this opportunity and present Islam to them in the scientific idiom and they will surely welcome it.
As a result of this advice, Khwaja Kaleemuddin has written:
Following your advice on “How to do an effective Dawah work in Western Society” during our teleconference monthly meeting of CPS-USA, I decided to go to a Church to meet with the Pastor to have an exchange of Ideas. I called up one of my Christian friends who goes to a Greek Orthodox Church and told him that I would like to go to his Church with him today and meet with the Pastor at the end of the Church services. So I went to the Church along with him and met with the Pastor today and at the end of the services. At the end of our talk I presented him with “The Quran Translation” and “The Prophet of Peace”.
Amazingly, he was not only happy to receive these books; he even offered me two things. One, he asked me to bring more books to keep them in the Church library so that his members have an access to read those books and second, he would invite me to give a lecture on Islam to his Church audience in fall season.
Allahu Akbar, this experience of mine confirms what you said during your short talk yesterday that we must shed our hesitation and meet with the various “Intelligentsia” of the society. You are right that they are truly very receptive. In view of this experience, I urge all CPS members here in USA to experiment what I did today and continue doing for the rest of the life.
واپس اوپر جائیں

Friday, 2 July 2010

Al Risala | July 2010 (الرسالہ،جولائی)

2

-ابتغاء رضوان اللہ

3

- نماز کے بغیر نجات نہیں

4

- فرقان کیا ہے

5

- قرآن میں تدبر کی اہمیت

6

- ذکر اور دعاء

7

- سب سے بڑی خوشی

8

- ایک قانونِ فطرت

9

- فتح ، فتحِ مبین

10

- متواضع آغاز، پُر فخر آغاز

11

- ہجرت برائے دعوت

12

- نچلے طبقے میں دعوتی کام

13

- وہ آنے والا

17

- امت کا زوال

23

- امن، امن، امن

27

- مسلمانوں کی علاحدہ سیاسی پارٹی

31

- اللہ کا فیصلہ یا اجتہادی خطا

32

- غیر اسلامی روش

33

- ذہین وجود

34

- بااصول زندگی

35

- زندگی کی تعمیر

36

- غیر ضروری کلام سے بچئے

37

- تھرڈ آپشن سے بے خبر

38

- سوال وجواب

41

- خبرنامہ اسلامی مرکز

43

- القرآن مشن


ابتغاء رضوان اللہ

اسلام کے مطابق، مقبول عمل وہ ہے جو خالص رضوان اللہ (الحدید: 27) اور مرضات اللہ (البقرۃ:265 ) کے لیے انجام دیا جائے۔ جس عمل میں رضوان الٰہی یا مرضات الٰہی کی اسپرٹ شامل نہ ہو، وہ آخرت کے اعتبار سے مقبول عمل نہیں، خواہ بظاہر لوگوں کو وہ ایک شان دار کام دکھائی دیتا ہو۔
اللہ کی رضا (goodwill) کے لیے کام کرنا کوئی سادہ بات نہیں۔ اِس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جب آپ کوئی کام کریں تو آپ اپنے منہ سے یہ الفاظ بول دیں کہ — میں اللہ کی رضا کے لیے یہ کام کررہا ہوں۔ یہ رضاء الٰہی کی تصغیر ہے۔ رضائِ الٰہی یا رضوانِ الٰہی ایک گہری اسپرٹ کا نام ہے۔ یہ اسپرٹ لمبے عمل کے نتیجے میں کسی کے اندر پیدا ہوتی ہے اور جو شخص اِس زندہ اسپرٹ کے تحت کام کرے، اُس کا عمل رضائِ الٰہی کے مطابق کیا جانے والاعمل ہے۔ جو کام اِس اسپرٹ سے خالی ہو، وہ گویا کہ پلاسٹک کا پھول ہے۔ پلاسٹک کا پھول دیکھنے میں بظاہر پھول نظر آتا ہے، لیکن اس کو کبھی حقیقی پھول کا درجہ نہیں ملتا۔
اصل یہ ہے کہ جب ایک بندۂ خداکے اندر تلاش کا جذبہ (seeking spirit) پیدا ہوتا ہے تو وہ انتہائی سنجیدگی کے ساتھ سچائی کو جاننے کی کوشش کرتا ہے، وہ خدا کی کتاب کو پڑھتا ہے، حدیثِ رسول کا مطالعہ کرتا ہے، تخلیقاتِ خدا وندی میں غور وفکر کرتا ہے، وہ ہر قسم کے تعصبات سے خالی ہو کر یہ جاننے کی کوشش کرتا ہے کہ سچائی کیا ہے۔ آخر کار اس کے اوپر سچائی پوری طرح کھل جاتی ہے۔ یہی دریافت وہ مقام ہے جہاں سے رضائے الٰہی کا سفر شروع ہوتا ہے۔
اِس دریافت کے بعد یہ ہوتا ہے کہ آدمی کی سوچ بدل جاتی ہے۔ وہ اپنے رات دن کے لمحات میں اِسی کے بارے میں سوچتا ہے۔ آخر کار، اس کی زندگی کا ایک فوکس (focus) بن جاتا ہے۔ یہ فوکس اللہ کی رضا ہوتی ہے۔ وہ دل وجان سے یہ چاہنے لگتا ہے کہ اس کا رب اس سے راضی ہو۔ وہ اپنے رب کی رحمتوں کا مستحق بنے۔ قیامت کے دن و ہ عرشِ الٰہی کے سائے میں جگہ پائے۔ جو کام اِس اسپرٹ کے ساتھ انجام دیا جائے، وہی رضائِ الٰہی کے مطابق، کیا جانے والا کام ہے۔
واپس اوپر جائیں

نماز کے بغیر نجات نہیں

قرآن کی سورہ نمر 74 میں بتایا گیا ہے کہ آخرت میں جب لوگوں کے مستقبل کا فیصلہ ہوجائے گا اور کچھ لوگ جنت میں اور کچھ لوگ دوزخ میں پہنچا دئے جائیں گے، اُس وقت جنت والے، جہنم والوں سے پوچھیں گے کہ وہ کیا چیز تھی جس نے تم کوجہنم میں پہنچا دیا(ما سلککم فی سقر)۔ جہنم والے اِس کا جو جواب دیں گے ، اُس کا ایک جزء ہوگا: لم نک من المصلین (المدثر:43 ) یعنی ہم نماز ادا کرنے والوں میں سے نہ تھے۔
قرآن کے اِن الفاظ پر غور کیجئے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک جامع کلمہ ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہم کو اللہ رب العالمین کی وہ معرفت حاصل نہیں ہوئی جو ہمارے دل ودماغ کو بدل دے، جو ہمیں اللہ کے آگے جھکنے پر مجبور کردے، جو خود ایمانی تقاضے کے تحت ہم کو ایسا بنا دے کہ ہم اُس نظامِ عبادت میں شامل ہوجائیں جس میں اللہ کے بندے مل کر اللہ کے لیے نماز ادا کررہے تھے اور نماز کو اپنی روزانہ کی زندگی کا ایک لازمی جز بنائے ہوئے تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ نماز معرفتِ خداوندی کا عملی اظہار ہے۔ جب ایک بندے کو اپنے خالق کی دریافت ہوتی ہے تو وہ بے تابانہ طورپر اُس کے آگے جھک جاتا ہے، وہ اس کے آگے سجدے میں گر جاتا ہے، جو کہ اِس بات کی علامت ہے کہ بندے نے اپنے پورے وجود کو اللہ کے حوالے کردیا ہے۔
نماز کی اعلیٰ صورت یہ ہے کہ وہ خشوع کی نماز ہو۔ اگر کسی کو بالفرض خشوع کی نماز حاصل نہ ہو تو اس کے حصول کی کوشش اور دعا کرتے ہوئے اُس کو یہ کرنا ہے کہ وہ پھر بھی مقرر اوقات پر رُٹین (routine) کی نماز پڑھتا رہے، تاکہ فرشتوں کے ذریعے موجودہ دنیا میں جو تصویر کشی ہورہی ہے، اس میں اگر اس کی صلاۃِ خشوع درج نہ ہو تو کم از کم اس کی رٹین کی نمازفرشتوں کے ریکارڈ میں آجائے۔ رٹین کی نماز اِس بات کا اعتراف ہے کہ— خدایا، میں خشوع کی نماز نہ پڑھ سکا۔تو اپنی رحمت سے میری رٹین کی نماز کو قبولیت کا درجہ دے دے۔
واپس اوپر جائیں

فرقان کیا ہے

قرآن کی سورہ نمبر 8 میں ارشاد ہوا ہے: یا أیہا الذین اٰمنوا، إن تتقوا اللہ یجعل لکم فرقاناً (الأنفال:29 ) یعنی اے ایمان والو، اگر تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرو، تو وہ تم کو ایک فرقان عطا کردے گا:
Believers, If you fear God, He will grant you a criterion (to judge between right and wrong)
اِس آیت میں فرقان کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ فرقان کا لفظ فرق کا مبالغہ ہے۔ اِس کا مطلب ہے بہت زیادہ فرق کرنا۔ فرق دوچیزوں کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھنے کا نام ہے۔ مشہور عربی لغت لسان العرب میں، فرق کے معنیٰ دو چیزوں کے درمیان فصل کرنا بتایا گیا ہے: الفرق: الفصل بین الشیئین (10/301) ۔
تقویٰ سے آدمی کے اندر فرقان پیدا ہوتا ہے۔ تقویٰ کسی قسم کی متقیانہ وضع کا نام نہیں ہے، تقویٰ دراصل اللہ کے ساتھ شدتِ خوف کا نام ہے۔ جس آدمی کے اندر شدتِ خوف پیدا ہو جائے، وہ ایک کٹ ٹو سائز انسان (man cut to size) بن جائے گا۔ ایسے آدمی کے اندر ہر قسم کے متعصبانہ فکر (biased thinking) کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ وہ اِس قابل ہوجاتا ہے کہ کامل طورپر خالی الذہن ہو کر چیزوں کو ویسا ہی دیکھ سکے جیسا کہ واقعۃً وہ ہیں۔ جس آدمی کے اندر اس قسم کا خالص فکر پیدا ہوجائے، اس کو لازمی طورپر فرقان حاصل ہوجائے گا، وہ چیزوں کو بے آمیز شکل میں دیکھے گا، وہ جذبات سے ہٹ کر رائے قا ئم کرے گا۔ تقویٰ آدمی کی کنڈیشننگ کو توڑ دیتا ہے۔ آدمی اِس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ چیزوں کو ربانی شاکلہ سے دیکھ سکے، وہ کامل طورپر حقیقت پسندانہ انداز میں رائے قائم کرسکے، وہ رد عمل کی نفسیات سے مکمل طورپر پاک ہوجائے۔ یہی وہ انسان ہے جس کے اندر فرقان کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے۔ بلا شبہہ یہ سب سے بڑی نعمت ہے کہ کسی آدمی کوفرقان کی صلاحیت مل جائے— تقویٰ سے کسی آدمی کو فرقان ملتاہے، اور فرقان سے آدمی کو وہ نادر صفت حاصل ہوتی ہے جس کو اعلیٰ بصیرت کہاگیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

قرآن میں تدبر کی اہمیت

اکثر واعظین، قرآن کی تلاوت کے ثواب کو جوش وخروش کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ مثلاً وہ یہ حدیث پیش کرتے ہیں کہ: مَن قرأ حرفاً من کتاب اللہ فلہ بہ حسنۃ والحسنۃ بعشر أمثالہا (الترمذی، کتاب فضائل القرآن، باب ماجاء فیمن قرأ حرفاً من القرآن) یعنی جس نے خدا کی کتاب کا ایک حرف پڑھا تو اس کے لیے اس پر ایک نیکی ہے، اور ہر نیکی دس گناثواب کے برابر ہے۔
اِس حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قرآن کے ایک حرف کو صرف زبان سے ادا کردینے کی بناپر کسی آدمی کو ایسا ثواب ملے گا۔ بلاغت کے معلوم اصول کے مطابق، اِس میں ایک کیفیاتی (qualitative) واقعے کو کمیاتی (quantitative) اصطلاح میں بیان کیا گیا ہے۔ جیسے یہ کہنا کہ فلاں شخص اخلاص کا پہاڑ ہے۔ یہ حقیقت اس وقت واضح ہوجاتی ہے، جب کہ اِس حدیث کو دوسری روایت کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے۔قرآن کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ : القرآن یفسر بعضہ بعضا (قرآن کا ایک حصہ اس کے دوسرے حصے کی تفسیر کرتا ہے)۔ یہی اصول حدیث کے بارے میں بھی درست ہے، یعنی الحدیث یفسر بعضہ بعضا (ایک حدیث دوسری حدیث کی شرح کرتی ہے)۔ حدیث کی روایت کو سمجھنے کے لیے اِس اصول کو سامنے رکھنا بہت ضروری ہے۔
حدیث میںایک طرف مذکورہ روایت آئی ہے، اور دوسری طرف حدیث میں یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا خیرَ فی قرأۃ لا تدبرَ فیہا (الدارمی، مقدمۃ) یعنی قرآن کی ایسی قرأت میں کوئی خیر نہیں جس میں تدبر نہ ہو۔قرآن کو جب بھی پڑھا جائے گا، اس کے الفاظ کی مدد سے اس کو پڑھا جائے گا۔ لیکن الفاظ بذاتِ خود مطلوب نہیں ہوتے۔ ہر لفظ کا ایک مفہوم ہوتا ہے اور لفظ کو اِس لیے ادا کیا جاتا ہے، تاکہ قاری اس کے مفہوم تک پہنچ سکے۔ الفاظ، معانی تک پہنچنے کا دروازہ ہیں۔ اِس بنا پر الفاظ کی بے حد اہمیت ہے، لیکن الفاظ کی اہمیت وسیلہ کے اعتبار سے ہے، نہ کہ مقصود کے اعتبار سے۔ مثلاً ایک قاری جب حمد کا لفظ بولتاہے تو اس کا مقصد صرف ح م د نہیں ہوتا، بلکہ اس سے مراد وہ مفہوم ہوتا ہے جو حمد کے لفظ میں چھپا ہوا ہے۔
واپس اوپر جائیں

ذکر اور دعاء

حضرت عائشہ کی ایک روایت ہے جو حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں: کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یذکر اللہ علی کل أحیانہ (صحیح البخاری، کتاب الأذان؛ صحیح مسلم، أبو داؤد، ابن ماجہ: کتاب الطہارۃ؛ الترمذی، کتاب الدعوات) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر موقع پر اللہ کا ذکرکرتے تھے۔
اِس روایت کو اکثر مجدثین نے ابوابِ طہارت کے تحت نقل کیا ہے۔ مگر اِس روایت کا مسائلِ عبادت سے کوئی تعلق نہیں۔ اِسی طرح کچھ لوگوں نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ باربار آدمی کی زبان سے بسم اللہ، الحمد للہ، ان شاء اللہ، ماشاء اللہ اور اِسی طرح کے دوسرے مقرر کلمات نکلتے رہیں، مگر یہ شرح بھی اِس حدیث کی حقیقی معنویت کو بیان نہیں کرتی۔
اصل یہ ہے کہ ذکر اور دعا صاحبِ معرفت انسان کے تخلیقی کلمات ہیں۔ انسان کی زندگی میں بار بار مختلف قسم کے مواقع یا اَحیان (occasions) پیش آتے ہیں۔ اگر آدمی کے اندر سوچنے کی اور توسّم کرنے کی صلاحیت ہو تو وہ پالے گا کہ اِن مواقع پر خدا کی یاد کا کوئی نہ کوئی پہلو موجود ہے۔آدمی اِن مواقع کو پوائنٹ آف ریفرنس (point of reference) بنا کر اُن کو اعلیٰ درجے کی کیفیتِ ذکر اور کیفیتِ دعا میں تبدیل کرسکتا ہے۔ حضرت عائشہ نے پیغمبر اسلام کی زندگی میں یہی بات پائی تھی۔ انھوں نے دیکھا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر موقع کو پوائنٹ آف ریفرنس بنا کر اللہ کا ذکر کرتے ہیں یا اللہ سے دعا فرماتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ذکر اور دعا کچھ یاد کئے ہوئے الفاظ کو دہرانے کا نام نہیں، ذکر اور دعا یہ ہے کہ مختلف مواقع اور مختلف حالات آدمی کے لیے اللہ کو یاد دلانے والے (reminder) بن جائیں، ہر واقعے اور ہر تجربے کو وہ اللہ سے رلیٹ (relate) کرکے دیکھ سکے، ہر تجربے میں اس کو خدا کی خدائی کا کوئی پہلو نظر آجائے۔ اِس طرح کے شعوری احساس کے تحت جو الفاظ آدمی کی زبان پر جاری ہوجائیں، اُنھیں کا نام ذکر اور دعا ہے۔
واپس اوپر جائیں

سب سے بڑی خوشی

ایک روایت صحیحین میں الفاظ میں آئی ہے: عن أبی سعید قال: قال رسول اللہ ﷺ إن اللہ تعالیٰ یقول لأہل الجنۃ: یا أہل الجنّۃ، فیقولون: لبّیک ربّنا وسعدیک، والخیر کلّہ فی یدیک۔ فیقول: ہل رضیتم۔ فیقولون: وما لنا لا نرضی یار بّ، وقد أعطیتنا ما لم تعط أحداً من خلقک۔ فیقول: ألا أعطیکم أفضل من ذلک۔ فیقولون: یا ربّ، وأیّ شییٔ أفضل من ذلک۔ فیقول: أحلُّ علیکم رضوانی فلا أسخط علیکم بعدہ أبداً (بحوالہ مشکاۃ المصابیح، رقم الحدیث: 625 )
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اہلِ جنت سے کہے گا کہ اے اہلِ جنت، وہ کہیں گے اے ہمارے رب لبیک وسعدیک والخیر کلہ فی یدیک۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا، کیا تم راضی ہو۔ وہ کہیں گے کہ اے ہمارے رب، ہم کیوں نہ راضی ہوں، حالاں کہ تو نے ہم کو وہ چیز عطا فرمائی جو مخلوقات میں سے کسی دوسرے کو نہیں دی۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا، کیا میں تم کو اس سے بھی زیادہ افضل چیز نہ دوں۔ وہ کہیں گے کہ اے ہمارے رب، وہ کیا چیز ہے جو اس سے افضل ہے۔ اللہ فرمائے گا، میں تمھارے لیے اپنی رضا کو واجب کرتاہوں، اِس کے بعد اب میں کبھی تم سے ناراض نہ ہوں گا۔
جنت بلا شبہہ تمام نعمتوں کا مجموعہ ہے۔ جنت وہ جگہ ہے جہاں انسان کی تمام خواہشیں اور تمنائیں کامل درجے میں پوری ہوںگی۔ جو لوگ جنت میں داخل ہوں گے، وہ یہ محسوس کریں گے کہ اُنھیں تمام مسرتیں اپنی حقیقی صورت میں حاصل ہوگئیں ہیں۔ لیکن امکانی طورپر ایک اندیشہ اُن کے لیے پھر بھی موجود رہے گا، وہ یہ کہ جنت ان کو اللہ کے عطیہ کے طور پر ملی ہے، وہ خود اُس کے خالق نہیں ہیں۔ اللہ اگر چاہے تو جنت کو اُن سے چھین بھی سکتا ہے۔ مذکورہ حدیث اِسی اندیشے کا جواب ہے۔جب خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی ابدی رضا کا اعلان کردیا جائے گا تو اِس کا مطلب یہ ہوگا کہ جنت اب ہمیشہ کے لیے ان کی قیام گاہ بن چکی ہے، وہ ان سے کبھی چھینی جانے والی نہیں۔ یہ بلاشبہہ سب سے بڑی خوشی ہوگی جو اہلِ جنت کو حاصل ہوگی۔
واپس اوپر جائیں

ایک قانونِ فطرت

ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ اِس روایت میں امتِ محمدی کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ بعد کے زمانے میں وہ زوال کا شکار ہوگی۔ اِس روایت کے الفاظ یہ ہیں: لتتبعنّ سنن من کان قبلکم، شبراً شبراً وذراعاً ذراعاً، حتی لو دخلوا جُحر ضبّ تبعتموہم(صحیح البخاری، کتاب الاعتصام ) یعنی تم ضرور پچھلی امتوں (یہود ونصاری) کی پیروی کروگے، قدم بہ قدم، یہاں تک کہ اگر وہ کسی گوہ کے بل میں داخل ہوئے ہیں تو تم بھی ضرور اس میں داخل ہوجاؤ گے۔
یہ حدیث سادہ طور پر صرف ایک پراسرار پیشین گوئی نہیں ہے، بلکہ اُس میں ایک قانونِ فطرت کا اظہار کیاگیا ہے۔یہ قانونِ فطرت وہی ہے جس کو ڈی جنریشن (degeneration) کہاجاتا ہے۔ جس طرح افراد کا جسمانی ڈی جنریشن (physical degeneration) ہوتا ہے، اُسی طرح قوموں کا روحانی ڈی جنریشن (spiritual degeneration) لازمی طورپر ہوتا ہے۔ اِس میں کسی امت کا کوئی استثناء نہیں۔
مشاہدہ بتاتا ہے کہ یہود ونصاری کے اندر بعد کے زمانے میں جو ڈی جنریشن (زوال) آیا تھا، وہ سب موجودہ زمانے میں امتِ مسلمہ کے اندر پوری طرح آچکا ہے۔ اس کی چند مثالیں یہ ہیں۔ مثلاً امت مسلمہ کے لیے قرآن میں خیر امت (آل عمران:110 ) کا لفظ آیا ہے۔ اس کو موجودہ زمانے کے مسلمانوں نے ٹائٹل آف آنر (title of honor) کا درجہ دے دیا، حالاں کہ وہ اُن کے لیے صرف ٹائٹل آف ڈیوٹی (title of duty) تھا۔ اِسی طرح ایمان اپنی حقیقت کے اعتبار سے معرفت (المائدۃ:83 ) کے ہم معنیٰ تھا، مگر موجودہ زمانے میں اس کو کلمہ گوئی کے ہم معنی سمجھ لیا گیا ہے۔ اِسی طرح نماز اپنی حقیقت کے اعتبار سے خاشعانہ عبادت (المؤمنون: 2 ) کے ہم معنی تھی، لیکن موجودہ زمانے میں اس کو صرف اعضاء وجوارح کے ذریعے ادا کی جانے والی ایک رسمی عبادت کے ہم معنیٰ بنا دیا گیا ہے۔ قر آن کو اللہ تعالیٰ نے کتاب تدبر (ص: 29 ) کے طورپر نازل کیا تھا، لیکن موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں اس کی حیثیت صرف کتاب تلاوت بن کر رہ گئی ہے، وغیرہ۔
واپس اوپر جائیں

فتح ، فتحِ مبین

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں 8 ہجری میں مکہ فتح ہوا۔ اِس فتح کے لیے قرآن میں صرف فتح (النصر:1 ) کا لفظ آیا ہے۔ دوسری طرف 6 ہجری میں مخالفین کے ساتھ حدیبیہ کے مقام پر ایک امن معاہدہ ہوا۔ اِس کے لیے قرآن میں فتحِ مبین (الفتح:1 ) کا لفظ آیا ہے۔ اِن دونوں کے درمیان تقابل (comparison)سے ایک اہم حقیقت معلوم ہوتی ہے۔
سورہ النصر میں جس فتح کا ذکر ہے، وہ جدید اصطلاح کے مطابق، ایک سیاسی فتح تھی۔ اِس کے برعکس، سورہ الفتح میں جس واقعے کو فتحِ مبین کہاگیا ہے، وہ کوئی سیاسی فتح نہ تھی۔ اِس موقع پر جو واقعہ پیش آیا ، وہ صرف یہ تھا کہ فریقین کے درمیان حالتِ جنگ کو ختم کرکے حالت امن کو قائم کرنے کا فیصلہ کیاگیا۔ گویا کہ یہ ایک جنگ بندی (cease fire) کا معاہدہ تھا، جو سیاسی حقوق کی دست برداری کے ذریعے حاصل کیا گیا۔
اِس سے واضح طور پر معلوم ہوتاہے کہ قرآن کے مطابق، امن کا قیام زیادہ بڑی چیز ہے۔ سیاسی فتح اگر صرف فتح ہے تو امن کا قیام فتحِ عظیم۔ دونوں کے درمیان یہ فرق کیوں ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ سیاسی فتح کسی کو صرف انتظامی بالادستی عطا کرتی ہے۔ اِس کے برعکس، امن کے قیام کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مواقعِ کار کھل جاتے ہیں، اور مواقع کار کا کھلنا، ہر قسم کے امکانات کا کھل جانا ہے۔
فتح مکہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عتّاب بن اَسید (وفات:610 ھ) کو مکہ میں بطور عامل مقرر کیا۔ اِس کے مقابلے میں، حدیبیہ کے موقع پر جو معاہدۂ امن ہوا، اس کے بعد جو مواقع کار کھلے، ان مواقع کو رسول اور اصحابِ رسول نے دعوت وتبلیغ کے لیے استعمال کیا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ صرف چند سال کے اندر سارا عرب اسلامائز ہوگیا۔ اِس واقعے سے ایک عظیم حقیقت معلوم ہوتی ہے، وہ یہ کہ سیاسی غلبہ صرف ایک محدود غلبہ ہے۔ اس کے مقابلے میں، مواقع کار کا کھلنا، ایک لامحدود غلبہ کے ہم معنیٰ ہے۔
واپس اوپر جائیں

متواضع آغاز، پُر فخر آغاز

حدیث میں امتِ محمدی کے بارے میں بطور پیشین گوئی آیا ہے کہ : لتتبعن سنن من کان قبلکم، شبراً بشبر، وذراعاً بذراعٍ، حتی ولو دخلوا جحر ضبّ لدخلتموہ (مسنداحمد، جلد 3، صفحہ 84 ) یعنی تم لوگ ضرور پچھلی امتوں کے نقشِ قدم پر چلو گے، یہاں تک کہ اگر وہ لوگ کسی گوہ کے بل میں داخل ہوئے ہیں تو تم وہاں بھی داخل ہوجاؤ گے۔
اِس اتباع میں عام طوپر چھوٹی چھوٹی باتوں کو لیا جاتا ہے۔ مثلاً تعویذ، گنڈا وغیرہ۔ لیکن اس معاملے میں زیادہ بڑا اتباع وہ ہے جو قومی پالیسی کے سلسلے میں پیش آئے۔
بائبل میں بتایا گیا ہے کہ یہود پر جب زوال آیا اور ان کا اقتدار باقی نہیں رہا تو اُس وقت انھوںنے جو سیاست اختیار کی، اس پر تنقید کرتے ہوئے ان کے پیغمبر یرمیاہ نے اُن سے کہا کہ — عاجزی کرو اور نیچے بیٹھو، کیوں کہ تمھاری بزرگی کا تاج تمھارے سر پر سے اتار لیا گیا ہے:
Humble yourselves. The crown of your glory has been taken away from you (Jeremiah 13:18)
اِس کا مطلب یہ ہے کہ جب سیاسی اقتدار باقی نہ رہے تو قوم کو اپنی تعمیر ِ نو کا آغاز، متواضع آغاز (humble beginning) سے کرنا چاہئے، نہ کہ پُر فخر آغاز (prideful beginning)سے۔
موجودہ زمانے میں مسلمانوں نے عین اِسی ممنوعہ روش کو دہرایا ہے۔ موجودہ زمانے میں جب مغل ایمپائر اور عثمانی خلافت کا خاتمہ ہوا تو ساری دنیا کے مسلم رہنماؤں نے اپنے عمل کا آغاز جہاد اور حکومت اور خلافت کی تحریکوں سے کیا، حالاں کہ صحیح طریقہ یہ تھا کہ مسلمان پیچھے جائیں اور ابتدائی مرحلے سے اپنے عمل کا آغاز کریں۔
نقطۂ آغاز کے تعین میں اِسی غلطی کا یہ انجام ہوا ہے کہ بے شمار قربانیوں کے باوجود ان کی کوششیں یکسر رائیگاں ہو کر رہ گئیں ہیں۔
واپس اوپر جائیں

ہجرت برائے دعوت

موجودہ زمانہ میں جب صنعتی ترقی ہوئی تو مسلم ملکوں کے بہت سے لوگ اپنے وطن سے ہجرت کرکے ترقی یافتہ ملکوں میں گئے۔ ایسے مہاجرمسلمانوں کی مجموعی تعداد تقریباً 15 ملین ہے۔ جدید اصطلاح میں ان کو ڈائس پورا کے مسلمان (Muslims in diaspora) کہا جاسکتا ہے۔
اِس قسم کا ڈائس پورا مسلم دنیا میں بڑے پیمانہ پر دوبار ہوا ہے۔ پہلی بار ساتویں صدی عیسوی میں اور دوسری بار بیسویں صدی عیسوی میں۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر اپنے اصحاب سے کہا تھا کہ اللہ نے مجھے تمام انسانوں کے لئے بھیجا۔ اس لئے تم میرے پیغام کو تمام لوگوں تک پہنچا دو۔ اس کے بعد اصحاب رسول کی بڑی تعداد عرب سے نکل کر مختلف ملکوں میں پھیل گئی۔
حدیث میں آیا ہے کہ جس آدمی کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہو تو وہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت قرار پائے گی۔ اور جس آدمی کی ہجرت دنیا حاصل کرنے کے لئے ہو تو اس کی ہجرت اسی طرف ہوگی جس طرف اس نے ہجرت کی: إنما الأعمال بالنیۃ، وإنما لکل امریٔ ما نوی۔ فمن کانت ہجرتہ إلی اللّٰہ ورسولہ فہجرتہ إلی اللہ ورسولہ۔ ومن کانت ہجرتہ إلی دنیا یصیبہا... فہجرتہ إلی ما ہاجر إلیہ (صحیح مسلم، کتاب الإمارۃ، باب إنما الأعمال بالنیّۃ) اس حدیث کی روشنی میں صحابہ کی ہجرت دعوت الی اللہ کے لئے تھی۔ اس لئے ان کو دعوت الی اللہ کا ثواب ملے گا۔ مگر موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کی ہجرت حصولِ دنیا کے لئے ہے، اس لیے ان کو صرف دنیا ملے گی، آخرت میں ان کے لئے کچھ نہیں۔
دوسرے لفظوں میں اصحابِ رسول دینے والے (giver) بن کر باہر گئے تھے۔موجودہ زمانہ کے مسلمان، لینے والے (taker) بن کر باہر کے ملکوں میں گئے ہیں۔ اب اگر یہ ہجرت کرنے والے مسلمان صحابہ والا انعام اللہ کے یہاں پانا چاہتے ہیں تو ان کو اپنی ہجرت کو اسلامائز کرنا ہوگا، یعنی وہ ان ملکوں میں داعی بن کر رہیں، نہ کہ صرف حیوانِ کا سب (earning animal) بن کر۔
واپس اوپر جائیں

نچلے طبقے میں دعوتی کام

کچھ لوگ دعوت کاکام کررہے ہیں۔ لیکن وہ اپنا دعوتی کام نچلے طبقے کے لوگوں میں انجام دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہی دعوت کا صحیح اسلوب ہے۔ اپنے نقطۂ نظر کی تائید میں وہ قرآن کی ایک آیت پیش کرتے ہیں۔ وہ آیت یہ ہے: فقال الملأ الذین کفروا من قومہ مانراک إلاّ بشراً مثلنا، وما نراک اتبعک إلا الذین ہم أراذلنا بادی الرأی (ہود: 27 ) اِس آیت میں ’أراذلنا‘ کا لفظ پیغمبر کی زبان سے نہیں ہے، یعنی پیغمبر نے یہ نہیں کہا کہ اراذل (نچلے طبقے کے لوگ) میرے مخاطبین ہیں۔ یہ لفظ دراصل پیغمبر کے مخالفین نے بطور استہزا استعمال کیا ہے۔ خود اس آیت سے یہ ثابت ہے کہ پیغمبر نے اصلاً خواص کو یعنی قوم کے سربرآوردہ افراد کو خطاب کیا تھا۔ اِسی کے ساتھ فطری طورپر عوام بھی اس کے مخاطب بن گئے۔
اِس سلسلے میں دوسرا حوالہ حدیث سے دیا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مکتوب ملنے کے بعد ہرقل اور ابوسفیان کے درمیان جو مکالمہ ہوا تھا، اس کا ایک حصہ یہ تھا: قال: فأشراف الناس یتبعونہ أم ضعفائہم۔ قلتُ: بل ضعفائہم(صحیح البخاری، کتاب بدء الوحی) اِس روایت میں ’ضعفاء‘ کا لفظ متبعین کو بتانے کے لیے آیا ہے، نہ کہ مخاطبین کو بتانے کے لیے۔ اِس لیے یہ دلیل بھی مذکورہ دعوے کا ثبوت نہیں بن سکتی۔ اِس دعوے کا علمی تجزیہ اس کو سرتاسر غلط ثابت کرتاہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پیغمبر کا خطاب اصلاً قوم کے خواص سے ہوتا ہے۔ ہر پیغمبر کے براہِ راست مخاطب قوم کے خواص تھے، لیکن خواص کے طبقے کے اکثر لوگ اپنے دنیوی مفادات کی بنا پر پیغمبر کی دعوت کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ قرآن کے بیان کے مطابق، پیغمبر کی دعوت کی صداقت کو اُن کا دل مان لیتا ہے، لیکن ظلم اور علو کی بنا پر وہ اس کے منکر بن جاتے ہیں (النمل:14 )۔پیغمبر اسلام ﷺنے ہرقل (شاہِ روم) کو دعوتی مکتوب بھیجا، تو اس میں یہ درج تھا کہ اگر تم نے میری دعوت قبول نہ کی، تو تمھاری رعایا کا گناہ تمھارے اوپر ہوگا (فإن تولیتَ فإنّ علیک إثم الأریسییّن)۔ اِس میں یہی دعوتی اصول مضمر تھا۔
واپس اوپر جائیں

وہ آنے والا

تمام مذاہب میں یہ بتایا گیا ہے کہ دنیا کے خاتمے سے پہلے ایک آنے والا آئے گا اور وہ ایک خصوصی رول ادا کرے گا۔ یہی تعلیم اسلام میں بھی ہے۔ قرآن میں بھی اِس کے اشارات موجود ہیں، مثلاً خروجِ دابّہ وغیرہ، اورحدیث میں اِس کو صراحتاً بتایا گیا ہے۔ حدیث کی کتابوں میں جو روایات آئی ہیں، اُن میں اِس سلسلے میں تین لفظ استعمال کئے گئے ہیں— رجلِ مومن، مہدی، مسیح۔
بظاہر یہ تینوں الفاظ ایک ہی شخصیت کے لیے استعمال ہوئے ہیں۔یہ طریقہ قرآنی اسلوب کے عین مطابق ہے۔ قرآن میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کئی لفظ استعمال ہوئے ہیں۔ مثلاً عبد (17:1) ، محمد(33:40) ، احمد(61:6) ، وغیرہ۔ اِس سلسلے میں غوروفکر کے بعد چند باتیں سمجھ میں آتی ہیں۔ پہلی بات یہ کہ اِس آنے والے شخص کی پہچان یہ نہیں ہوگی کہ وہ اپنے بارے میں اعلان کرے گا، اور یہ اللہ کی خصوصی رحمت کی بنا پر ہوگا۔اِس آنے والے شخص کو اگر بذریعہ وحی بتایا دیا جائے کہ تمھیں وہ شخص ہو، تو اُس پر فرض ہوجاتا ہے کہ وہ اعلان کرکے لوگوں کو اپنے بارے میں بتائے۔ مگر اِس قسم کا مبنی بر وحی اعلان بے حد سنگین ہوتا ہے۔ اِس لیے کہ اِس قسم کے اعلان کے بعد اس کو سننے والے ایک بے حد نازک امتحان میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ ان کی نجات کا انحصار اِس پرہوجاتا ہے کہ وہ کھلے طورپر اس کا اقرار کریں۔ اگر وہ اقرار نہ کریں، تو شدید اندیشہ ہے کہ وہ غیر ناجی قرار پائیں گے۔ اِسی لیے آنے والا اعلان کے ساتھ اپنے کام کا آغاز نہیں کرے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ آنے والے کی پہچان صرف ایک ہوگی، اور وہ اس کا استثنائی رول (exceptional role) ہے۔ لوگوں سے یہ مطلوب ہوگا کہ وہ اعلان کا انتظار نہ کریں، بلکہ وہ رول کو دیکھ کر بطور خود آنے والے کو پہچانیں اور اس کا ساتھ دیں۔ جو لوگ اِس بصیرت کا ثبوت نہ دے سکیں، وہ تاریخ کے اِس آخری امتحان میں بلاشبہہ ناکام قرار پائیں گے۔
جیسا کہ عرض کیاگیا، حدیث کی روایتوں میں قیامت سے پہلے ظاہر ہونے والے شخص کے لیے تین الفاظ استعمال کئے گئے ہیں—رجلِ مومن، مہدی اور مسیح۔ لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ تینوں کا رول ایک ہی بتایا گیا ہے، اور وہ ہے دجال کو قتل کرنا۔ اِس میں یہ واضح اشارہ موجود ہے کہ تینوں سے مراد ایک ہی شخصیت ہے، ورنہ حدیث میں تینوں کے لیے الگ الگ رول بیان کئے جاتے ۔
دجال کے قتل سے کیا مراد ہے۔ اِس سلسلے کی روایتوں پر غور کرنے کے بعد یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اس قتل سے مراد استدلالی قتل ہے، نہ کہ جسمانی قتل۔ صحیح مسلم میں اِس سلسلے میں جو لفظ آیا ہے، وہ ’’حجیج‘‘ ہے۔ حجیج کا مطلب ہے —حجت اور دلیل کے ذریعے غالب آنے والا:
One who overcomes in the argument.
دجال کے لفظی معنیٰ ہیں—بہت زیادہ فریب دینے والا(great deceiver) ۔ حقیقت یہ ہے کہ دجال پرفریب نظریات کے ذریعے لوگوں کو مسحور کرے گا، وہ باطل کو خوش نما بنا کر پیش کرے گا۔ یہ دراصل اُسی چیز کی ایک مبالغہ آمیز صورت ہوگی جس کو شیطان کے حوالے سے قرآن میں تزئین (15:39) کہاگیا ہے۔ اِس قسم کا فتنہ کبھی ایک شخص کی گردن کاٹنے سے ختم نہیں ہوتا۔ وہ اُسی وقت ختم ہوسکتا ہے، جب کہ استدلال کے ذریعے اس کو نظریاتی سطح پر پوری طرح باطل ثابت کردیا جائے۔
دجال کا نظریاتی فتنہ تاریخ کا سب سے بڑا فتنہ ہوگا۔ اس لیے استدلال کی سطح پر اس کا خاتمہ کرنا بھی تاریخ کا ایک انتہائی عظیم واقعہ ہوگا۔ اِسی بات کو صحیح مسلم (کتاب الفتن) کی ایک روایت میں اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: ہٰذا أعظم الناس شہادۃً عند ربّ العالمین۔ اِس حدیث میں واضح طورپر شہادت سے مراد جسمانی قربانی نہیں ہے۔ جسمانی قربانی میں عظیم اور غیر عظیم کا کوئی فرق نہیں ہوتا۔ یہاں شہادت سے مراد گواہی (witness) ہے، یعنی دلائلِ ربانی کے ذریعے دلائلِ شیطانی کو آخری حد تک باطل ثابت کرنا۔
’’عظیم ترین شہادت‘‘ کے لفظ میں ایک اہم حقیقت کا اشارہ موجود ہے، وہ یہ کہ آنے والے کی پہچان یہ ہوگی کہ وہ اپنے رول کے اعتبار سے ایک استثنا (exception) ہوگا۔ وہ ایک ایسا رول انجام دے گاجو پورے زمانے کے اعتبار سے ایک استثنائی رول ہوگا، اور یہی استثنا اس کی پہچان ہوگی۔ رجلِ مومن کے لفظ میں یہ اشارہ ہے کہ اس کی معرفت استثنائی درجے کی معرفت ہوگی۔ مہدی کے لفظ میں یہ اشارہ ہے کہ وقت کے تمام سوالات میں وہ استثنائی طورپر درست رہنمائی دینے کی صلاحیت کا حامل ہوگا۔ مسیح کے لفظ میں یہ اشارہ ہے کہ وہ رأفت اور رحمت (57:27) بالفاظ دیگر امن (peace) کے اصول کا کامل معنوں میں اظہار کرے گا۔
آنے والے کے بارے میں حدیث کی کتابوں میں بہت سی روایات آئی ہیں۔ اِن میں سے اکثر روایتیں تمثیل کی زبان (symbolic language) میں ہیں۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں۔ قدیم زمانے میںاِسی اسلوب کا عام رواج تھا۔ چناں چہ خاتم النبیین (محمد بن عبد اللہ بن عبدالمطلب) کے بارے میں جو پیشین گوئیاں بائبل میں آئی ہیں، وہ بھی تمثیل کی زبان میں ہیں۔ یہی اسلوب دور آخر میں ظاہر ہونے والے کے لیے حدیث کی کتابوں میں اختیار کیا گیا ہے۔
اِس سلسلے میں فیصلہ کن بات یہ ہے کہ قیامت سے پہلے موجودہ دنیا میں جو واقعات پیش آنے والے ہیں، وہ پر اسرار انداز میں پیش نہیں آئیںگے، بلکہ وہ معلوم اسباب کی صورت میں پیش آئیں گے۔ امتحان کی اِس دنیا میں یہی اللہ تعالیٰ کی سنت ہے، یہ سنت کبھی کسی کے لیے ختم ہونے والی نہیں۔
معاصر اہلِ ایمان کی ذمے داری
حدیث میں، آنے والے کی نسبت سے، یہ الفاظ آئے ہیں: وجب علیٰ کلّ مؤمن نصرہ وإجابتہ (أبوداؤد، کتاب المہدی) یعنی ہر مومن پر یہ واجب ہوگا کہ وہ اس کی آواز پر لبیک کہے اور اس کا ساتھ دے۔ اِس حدیث رسول سے واضح طورپر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آنے والا جب آئے گا تو اُس وقت معاصر (contemporary)اہلِ ایمان کی ذمے داری کیا ہوگی۔ وہ ذمے داری یہ ہوگی کہ وہ اس کو پہچانیں اور اس کے مشن میں بھر پور طور پر اس کا ساتھ دیں۔
واضح ہو کہ آنے والے کے بارے میں بہت زیادہ روایات آئی ہیں، لیکن اِن روایتوں میں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ آنے والا اعلان کے ساتھ اپنے کام کا آغاز کرے گا، اور نہ یہ کہاگیا ہے کہ اس کے معاصرین اعلان کے ساتھ اس کا اعتراف کریں۔ اِس قسم کے اعلان کا ذکر روایتوں میں موجود نہیں۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنے والے کا رول اگر چہ اپنے زمانے کے اعتبار سے عملاً وہی رول ہوگا جو پیغمبر کا رول ہوتا ہے، لیکن یہ مشابہت بااعتبار رول ہوگی، نہ کہ باعتبار اعلان۔
جہاں تک معاصرین کا تعلق ہے، اُن کی ذمے داری یہ نہیں ہوگی کہ وہ شخصی تعیین کے ساتھ اپنے اعتراف کا اعلان کریں۔ شخصی تعیین کے ساتھ اعتراف صرف پیغمبر کے لیے مخصوص ہے، غیر پیغمبر کے لیے اِس قسم کا شخصی اعتراف درست نہیں۔ البتہ معاصرین کی یہ لازمی ذمے داری ہوگی کہ وہ آنے والے کو پہچانیں، وہ اس کے لیے دعائیں کریں، اور عملی اعتبار سے وہ پوری طرح اس کا ساتھ دیں۔
ایک روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إذا اقترب الزمان لم تکد رؤیا المؤمن تکذب (صحیح البخاری، کتاب التعبیر) یعنی جب قیامت قریب آجائے گی ، تو اُس وقت جو مومن ہوگا، وہ سچا خواب دیکھنے لگے گا۔
اِس حدیث رسول پرغور کرنے سے سمجھ میں آتا ہے کہ اِس کا تعلق اُس شخص سے ہے جو قیامت کے قریب ظاہر ہوگا۔ چوں کہ اِس شخص کے ساتھ ایسا نہیں ہوگا کہ جبریل آکر اس کو بتائیں کہ تمھیں آنے والے شخص ہو، اور نہ معاصرین پر یہ فرض ہوگا کہ وہ اعلان کے ساتھ اس کا اقرار کریں۔ آنے والے شخص کی واحد پہچان اس کااستثنائی رول ہوگا۔ اِسی کے ساتھ اللہ تعالیٰ اپنی خصوصی رحمت سے اُس کے لیے ایک اضافی مدد (additional support) کا انتظام کرے گا۔ یہ انتظام سچے خواب کی صورت میں ہوگا۔ آنے والے کے معاصرین کثرت سے ایسے خواب دیکھیں گے جو اُس کو یقین دلائیں گے کہ آنے والا شخص وہی ہے جس کو انھوں نے خواب میں دیکھا۔
واپس اوپر جائیں

امت کا زوال

ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میںآئی ہے، مسند احمد کے الفاظ یہ ہیں: عن ابی أمامۃ الباہلی، أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: لینتقضنّ عری الإسلام عروۃ عروۃ فکلما انتقضت عروۃ تشبّث الناس بالتی تلیہا (مسند احمد، رقم الحدیث: 21583 ) یعنی حضرت ابوامامہ الباہلی کہتے ہیں کہ ضرور ایسا ہوگا کہ اسلام کی کڑیاں ایک ایک کرکے ٹوٹ جائیں، جب کوئی کڑی (عُروۃ) ٹوٹے گی تو اس کے بعد جو چیز آئے گی، لوگ اس پر قائم ہوجائیں گے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیشین گوئی میں دراصل زوال کے عمومی قانون کی طرف اشارہ کیا گیاہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسری امتوں کی طرح مسلمانوں پر بھی زوال آجائے گا۔ اس کے بعد وہ اسلام کی خصوصیات کو ایک ایک کرکے چھوڑتے جائیں گے۔ ایک قوم کی حیثیت سے وہ پھر بھی موجود رہیں گے، لیکن اسلام کی اصل خصوصیات ان میں باقی نہ رہیں گی، اسلام کی اصل تعلیمات کے نام پر وہ بطور خود اسلام کا ایک نیا ایڈیشن تیار کرلیں گے اور اس خود ساختہ مذہب پر قائم ہو کر وہ یہ سمجھیں گے کہ ہم اسلام پر قائم ہیں۔ یہاں مختصر طورپر اس معاملہ کا ایک تاریخی جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔
1 - باہمی قتال
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مسلمانوں میں اسلام کا پہلا عروہ جو ٹوٹا، وہ یہ تھا کہ پیغمبر کی سخت ممانعت کے باوجود ان کے درمیان آپس کی جنگ شروع ہوگئی، اس کا آغاز تیسرے خلیفہ حضرت عثمان کے آخری زمانہ میں ہوا، اس وقت مسلم امت میں صحابہ کی تعداد کم اور غیر صحابہ کی تعداد زیادہ ہوچکی تھی، ان لوگوں نے ایک سیاسی شکایت کو لے کر حضرت عثمان کے خلاف قاتلانہ حملہ کیا، اس وقت حضرت عثمان نے یک طرفہ صبر کا طریقہ اختیار کیا۔ وہ پیغمبر اسلام کی وصیت کے مطابق، آدم کے دو بیٹوں میں سے بہتر بیٹے (کن کخیر ابنی آدم) بن گئے۔ اس طرح سے یہ ہوا کہ یہ معاملہ دوطرفہ قتال تک نہیں پہنچا، بلکہ وہ یک طرفہ کارروائی پر ختم ہوگیا۔
تاہم حضرت عثمان کی یہ تدبیر وقتی ثابت ہوئی، اس کے بعد علی ابن ابی طالب اور معاویہ ابن ابی سفیان کے زمانے میں باہمی قتال مزید شدت کے ساتھ ابھرا۔ وہ صرف اس وقت رُکا جب کہ دونوں فریق میں سے ایک کا خاتمہ ہوگیا۔
2 - حکمراں کے خلاف خروج
اسلام کا دوسرا عروہ جو بعد کی تاریخ میں ٹوٹا، وہ یہ تھا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی شدید تاکید کے باوجود، مصلحین نے اپنے زمانہ کے حکمرانوں کے خلاف خروج (بغاوت) کاآغاز کردیا، یہ خروج حسین ابن علی سے شروع ہوا، اور پھر وہ پوری تاریخ میں مختلف شکلوں میں جاری رہا، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت صراحت کے ساتھ اپنی امت کو یہ حکم دیا تھا کہ لوگ مسلم حکمرانوں کے خلاف ہر گز خروج (مسلح بغاوت) نہ کرنا، تم اپنی کوششیں غیر سیاسی دائرہ تک محدود رکھنا، اور کسی بھی شکایت کو لے کر حکمرانوں سے ٹکراؤ نہ کرنا، مگر امت کے رہنماؤں نے مسلسل طورپر اس کی خلاف ورزی کی۔ بدقسمتی سے یہ خلاف ورزی اب تک جاری ہے۔
3 - فقہی اختلافات
اسلام کے عروۃ کے ٹوٹنے کا تیسرا واقعہ غالباً وہ تھا جو کہ فقہی اختلافات کی صورت میں پیش آیا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ سلم نے واضح طورپر فرمایا تھا کہ: أصحابی کالنجوم بأیہم اقتدیتم اہتدیتم ( جامع بیان العلم وفضلہ 2/90 ) اس کا مطلب یہ تھا کہ دینی معاملات، خاص طور پر عبادات کے معاملہ میںاصحابِ رسول کے درمیان فروق (differences) پائے جائیں گے، یہ فروق فطری ہوں گے اور بر بنائے توسع ہوں گے، تو تم لوگوں کو آزاد چھوڑ دینا کہ وہ جس صحابی کے طریقہ کی پیروی کرنا چاہیں کریں، مگر دور عباسی کے فقہاء نے اس تعدد کو نادرست سمجھا، اور غیر ضروری طورپر اس کو ایک بنانے کی کوشش کی۔ یہ توحّد عملاً ناممکن تھا، چناں چہ توحّد کی کوشش کا یہ منفی نتیجہ نکلا کہ متعدد فقہی اسکول قائم ہوگئے۔ فقہی مسائل میں اسی منحرفانہ طریقہ کا یہ نتیجہ ہے کہ امت متفرق فرقوں میں بٹ گئی اور امت کی سطح پر اتحاد بظاہر ایک ناممکن چیز بن گیا۔
4 - دعوت کا باب حذف
پیغمبر اسلام کی اصل حیثیت یہ تھی کہ وہ داعی اور مبلغ تھے، آپ کی پوری زندگی دعوت و تبلیغ اور انذار و تبشیر کا نمونہ تھی، لیکن بعد کے زمانے میں جب اسلامی علوم کی تدوین ہوئی تو مسلمان مختلف اسباب سے دعوت کا سبق بھول چکے تھے۔ چناں چہ تدوینِ علوم کے زمانہ میں اسلام کا چوتھاعروہ یعنی دعوت مکمل طورپر حذف ہوگیا۔ اس زمانہ میں حدیث کی جو کتابیں مدوّن کی گئیں، وہ دعوت کے ابواب سے خالی تھیں ۔ اسی طرح اسلامی فقہ پر جو کتابیں لکھی گئیں، ان میں بھی دعوت وتبلیغ کا باب موجود نہ تھا۔ اسی طرح قرآن کی جو تفسیریں عربی زبان میں لکھی گئیں، وہ سب کی سب غیر دعوتی اسلوب پر لکھی گئیں۔ اسی طرح اسلام کی جو تاریخ لکھی گئی، وہ بھی سیاسی پیٹرن پر تھیں نہ کہ دعوتی پیٹرن پر۔ یہی تقر یباً اس پورے کلا سیکل لٹریچر کامعاملہ ہے جو بعد کے زمانہ میں عربی زبان میں مرتب کیا گیا۔
5 - تدبر کے بجائے مراقبہ
اسلام کا پانچواں عروہ جو بعد کے زمانہ میں ٹوٹا، وہ تفکر وتدبر تھا۔ یہ کام زیادہ تر مسلم صوفیاء کے ذریعہ انجام پایا۔ اصل اسلام میں تزکیہ اور روحانیت کی بنیاد تمام تر تفکر وتدبر پر قائم تھی، لیکن صوفیاء نے دوسروں کی تقلید (مضاہاۃ) میں یہ کیا کہ مراقبہ (meditation) پر اسلامی روحانیت کی بنیاد رکھ دی۔ یہ بلاشبہہ ایک خود ساختہ بنیاد تھی۔ اس کا عظیم نقصان یہ ہوا کہ اہلِ اسلام اُس معرفت سے محروم ہوگئے جو اصحابِ رسول کا امتیازی وصف تھا۔ معرفت بلاشبہہ مؤمن کا سب سے بڑا سرمایہ ہے۔ معرفت کا حصول تدبر سے ہوتاہے جس کا ذریعہ عقلی غور وفکر ہے، مگر صوفیاء نے عقلی غور وفکر کو حذف کرکے قلب پر توجہ کو معرفت کے حصول کا ذریعہ سمجھ لیا، جب کہ قلب میں سرے سے معرفت کا سامان موجود ہی نہ تھا۔ اس طرح بعد کے زمانہ میں پوری امت اعلیٰ معرفت سے محروم ہوکر رہ گئی۔
6 - غیر ریاستی جہاد
اسلام میں اس قسم کے نقصان کی چھٹی مثال وہ ہے جو انیسویں صدی میں تو آبادیاتی دور میں سامنے آئی۔ یہ مفروضہ دشمنوں کے خلاف مسلح جنگ کا معاملہ تھا۔ برطانیہ کے خلاف جنگ، فرانس کے خلاف جنگ، اسرائیل کے خلاف جنگ وغیرہ، یہ تمام جنگیں اسلام کے ایک عروۃ کو توڑنے کے ہم معنی تھیں، وہ یہ کہ جہاد (بمعنی قتال) صرف باقاعدہ قائم شدہ اسٹیٹ کا کام تھا، وہ عوام کی ذمہ داری نہیں(الرّحیل للإمام)۔ لیکن موجودہ زمانہ میں مسلم رہنماؤں نے عام طور پر اسلام کے اس عروۃ کو توڑنے میں حصہ لیا، کچھ لوگوں نے قولی اعتبار سے اور کچھ لوگوں نے عملی اعتبار سے۔ پچھلے تقریباً دو سو سال سے مسلمان دوسری قوموں کے ساتھ مسلح جہاد میں مشغول ہیں۔ مگر یہ جہادزیادہ تر آزاد مسلم تنظیمیں (NGOs) کررہی ہیں ، نہ کہ باقاعدہ طورپر قائم شدہ مسلم حکومتیں۔ اسلامی تعلیم کے مطابق، مسلم تنظیموں کو صرف پُر امن دائرہ میں کام کرنے کا حق ہے۔ کسی بھی عذر کی بنا پر ان کو ہر گز یہ اجازت نہیں کہ وہ ہتھیار اٹھائیں، مگر تحلیلِ حرام کا یہ کام موجودہ زمانہ میں بہت بڑے پیمانہ پر ہوا، اور تادمِ تحریر (20 اپریل 2010) وہ بدستور جاری ہے۔ اسلام کے اس عروہ کو توڑنے کا جو نقصان اہلِ اسلام کو پہنچا ہے، وہ بلاشبہہ تمام دوسرے نقصانوں سے زیادہ بڑے نقصان کی حیثیت رکھتا ہے۔
7 - انسان کو دشمن قرار دینا
اسلام کی تعلیم کے مطابق، تمام انسان صرف انسان ہیں، تمام دنیا دار الانسان کی حیثیت رکھتی ہے۔ مسلمانوں کو یہ کرنا ہے کہ وہ تمام انسانوں کو یکساں طورپر بھائی اور بہن سمجھیں، وہ تمام انسانوں کے لئے یکساں طورپر خیر خواہ بنیں، وہ تمام انسانوں کو اللہ کا پیغام، مثبت انداز ہیں پہنچائیں۔ لیکن بعد کے دور میں مسلمانوں نے اسلام کے اس عروہ کو توڑ دیا۔ عباسی دور کے فقہاء نے دنیا کو بطور خود دار الحرب اور دار الکفر اور دارالاسلام میں بانٹ دیا، حالاں کہ اس درجہ بندی کا کوئی ماخذ قرآن اور سنت میں موجود نہ تھا۔ یہ غلطی آج تک مزید اضافہ کے ساتھ جاری ہے، موجودہ زمانہ کے مسلمانوں نے تمام دنیا عملاً کو دارالانسان کے بجائے دارِ اعداء بنا رکھا ہے۔ وہ خود ساختہ عذر لے کر انسان سے نفرت کرنے لگے، حالاں کہ انسان سے نفرت کرنا اسلام میں سرے سے جائز نہیں۔
8 - مبنی بر نظام تشریح
اسلام کی اصل تعلیمات کے مطابق، اسلام کا نشانہ فرد (individual) ہے۔ فرد کی سوچ کو بدلنا، فرد کو ربّانی انسان بنانا، فرد کا تزکیہ کرنا۔ مگر بعد کے زمانہ میں اسلام کا یہ عروہ بھی توڑ دیا گیا۔ اب اجتماعی نظام کو بنیاد بنا کر اسلام کی تشریح وتعبیر کی جانے لگی، یہ بلاشبہہ اسلام میں ایک انحراف تھا۔ جب آپ فرد کے اندر فکری تبدیلی لانے کو اپنا نشانہ بنائیں تو اس سے کوئی برائی نہیں پیدا ہوتی، لیکن جب آپ اجتماعی نظام یا سسٹم (system) کے بدلنے کو اپنا نشانہ بنائیں تو فوراً یہ ہوتا ہے کہ لوگ دو گروہوں میں بٹ جاتے ہیں، اور اس کے فطری نتیجہ کے طور پر طبقاتی جنگ (class war) شروع ہوجاتی ہے۔ ایک طرف حاکم طبقہ ہوتا ہے اور دوسری طرف غیر حاکم طبقہ۔ غیر حاکم طبقہ اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتا ہے اور حاکم طبقہ اقتدار کو اپنے پاس محفوظ کرنا چاہتا ہے۔ اس طرح ایک ایسی تباہ کن جنگ چھڑ جاتی ہے جو صرف اس وقت ختم ہوتی ہے جب کہ دونوں میں سے ایک فریق دوسرے فریق کو فنا کردے۔
9 - رجال کو معیار بنانا
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ : ترکت فیکم أمرین، لن تضلوا ما تمسکتم بہما: کتاب اللہ وسنّۃ نبیہ (مؤطأ، النہی عن القول بالقدر ) یعنی میں تمھارے اندر دو بنیادی چیزیں چھوڑ رہا ہوں جب تک تم ان کو پکڑے رہوگے، تم گمراہ نہ ہوگے۔ یہ دو چیزیں ہیں— خدا کی کتاب، اور اس کے رسول کی سنت۔ یہ بلاشبہہ اسلام کا ایک اہم عروہ تھا، لیکن بعد کے زمانہ میں یہ عروہ عملاً بالکل توڑ دیا گیا۔ بعد کے زمانہ کے مسلمانوں کے دین کا ماخذ اصلاً قرآن اورسنت نہیں رہا، بلکہ ان کے اکابر ان کے دین کا ماخذ بن گئے۔ اس تبدیلی نے اصل اسلام کو عملاً ایک معطّل دین بنا دیا ہے۔ اب تقریباً تمام مسلمان دین کے نام پر خود اپنے اکابر کے مذہب پر قائم ہیں۔ اس کا ایک واضح ثبوت یہ ہے کہ کسی بھی معاملہ میں لوگوں کے سامنے قرآن اورسنت کا حوالہ دیجئے تو ان کو زیادہ اہم معلوم نہ ہوگا،لیکن اگر ان کے اپنے اکابر کے اقوال وآراء کا حوالہ دیجئے تو وہ فوراً اس کو قبول کرلیں گے۔ وہ اِس آیت قرآن کے مصداق بن جائیں گے: إذا ہم یستبشرون ( الزمر: 45 )۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کے لئے ان کے دین کا ماخذ قرآن اورسنت نہیں ہے، بلکہ عملاً ان کے اپنے اکابر ان کے لئے ان کے دین کا ماخذ ہیں۔ اس معاملہ میں مسلمانوں کا عین وہی حال ہوا ہے جس کو قرآن میں یہود کا شیوہ بتایا گیا ہے: اتخذوا أحبارہم ورہبانہم أربابا من دون اللہ (التوبۃ: 31 )
آخری بات
مذکورہ روایت میں ایک لفظ تشبّث استعمال ہوا ہے، تشبث کے لفظی معنی ہیں چمٹنا (to cling) روایت میں بتایا گیا ہے کہ جب اسلام کا ایک حکم ٹوٹے گا اور اس کی جگہ دوسری صورت آجائے گی تو لوگ اس دوسری صورت پر قائم ہوجائیں گے۔ جیسا کہ ایک اور روایت میں آیا ہے کہ جب میری امت میں تلوار داخل ہوگی تو وہ پھر اس سے اٹھائی نہ جاسکے گی (إذا وضع السیف فی أمتی، لم یُرفع عنہا إلی یوم القیامۃ) ایسا کیوں ہوگا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ کسی قوم میں کوئی روایت (tradition)لمبی مدت کے بعد قائم ہوتی ہے، اور جب ایک روایت ٹوٹ جائے تو دوبارہ ان تاریخی اسباب کو یکجا کرنا سخت مشکل ہوجاتا ہے، جن کے تحت وہ روایت قائم ہوئی تھی۔ اس لئے کوئی روایت ٹوٹنے کے بعد عملاً قائم نہیں ہوتی۔کسی نے بجا طور پر کہا ہے کہ —ایک چھوٹی سی روایت بنانے کے لیے بہت لمبی تاریخ درکار ہوتی ہے:
It requires a lot of history to make a little tradition.
اسلام کی تاریخ میں یہ اصول واقعہ بن چکا ہے- جو حکم ایک بار توڑ دیا گیا، و ہ دوبارہ پہلے کی طرح قائم نہ ہوسکا۔ مسلمانوں کے غیر دانش مند رہنماؤں نے جذباتی سیاست کے تحت بار بارروایتوں کو توڑ ڈالا، چناں چہ اب امتِ مسلمہ تمام صالح روایات سے کٹی ہوئی ایک قوم بن چکی ہے۔ اس کے مہلک نتائج کا علم ہر ایک کو ہے، لیکن وہ مزید نادانی یہ کررہے ہیں کہ وہ اس کو ’’اغیار کی سازش‘‘ کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں، حالاں کہ صحیح طریقہ یہ تھا کہ اپنی غلطی کو مان کر ان روایتوں کو دوبارہ قائم کرنے کی کوشش کی جائے۔
واپس اوپر جائیں

امن، امن، امن

بیسویں صدی کے آخر تک تمام دنیا کے مسلمانوں کا یہ حال تھا کہ عرب سے لے کر عجم تک ہرجگہ صرف ایک آواز گونجتی تھی، اور وہ جہاد کی آواز تھی۔ کچھ مسلمان عملاً مسلح جہاد میں مشغول تھے اور کچھ مسلمان جہادی بولی بولتے تھے۔ عرب دنیا میں عرب شاعر الزرکلی (وفات:1976 ) کا یہ شعر گونجتا تھا:
ہات صلاح الدین ثانیۃً فینا جدّدی حِطِّین أو شبہ حطّینا
برصغیر ہند کے رہنما بھی سب کے سب اِسی قسم کی بولی بولتے تھے۔ انھوں نے مسلم مسائل کے حل کے لیے ’’فلسفۂ اِضرار‘‘ دریافت کیا۔ وہ جوش کے ساتھ یہ شعر پڑھتے تھے:
حفاظت پھول کی ممکن نہیں ہے اگر کانٹوں میں ہو خوئے حریری
یہی سوچ اُن مسلمانوں کی تھی جو یورپ اور امریکا میں رہتے ہیں۔ وہ یہ کہہ کر نام نہاد مجاہدین کی تبریر (justify) کرتے تھے کہ ظالموں کو سبق سکھانے کے لیے ہمیں کچھ کرنا ہی پڑے گا:
We have to teach them a lesson
یہ صورتِ حال بیسویں صدی عیسوی کے آخر تک ہر جگہ باقی رہی۔ ہر جگہ کے لکھنے اور بولنے والے مسلمان کسی نہ کسی الفاظ میں اِس طرح کی بات لکھتے تھے یا بولتے تھے۔ بیسویں صدی کا مسلم میڈیا اِس قسم کی باتوں سے بھرا ہوا ہے۔ یہ ذہن صرف اُن لوگوں کا نہیں تھا جو صحافت یا اسٹیج کی سرگرمیوں میں نمایاں ہوتے ہیں، بلکہ یہی ذہن ان لوگوں کا بھی تھا جو بظاہر صحافت اور اسٹیج سے دور ہیں۔ اُن سے بھی گفتگو کیجئے تو معلوم ہوتا تھا کہ وہ بھی اُسی تلخی اور شکایت میں جی رہے ہیں جس میں دوسرے لوگ مبتلا ہیں۔ گویا کہ کچھ لوگ اگر ایکٹیو جہاد (active jihad) میں سرگرم تھے، تو دوسرے لوگ پیسیو جہاد (passive jihad) میں سرگرم۔
یہ صورت حال اتفاقی نہ تھی۔ پچھلے ہزار سال میں مسلمانوں کے درمیان جو لٹریچر تیار ہوا، اُس میں سب کچھ تھا، مگر اُس میں دو چیز مکمل طورپر حذف تھی اور وہ ہے دعوت اور امن کا تصور۔ اِس کے بعد جب مغربی طاقتوں نے مسلم ایمپائر کو توڑ دیا تو اس کے خلاف رد عمل کی بنا پر یہ ذہن اور زیادہ پختہ ہوگیا۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بیسویں صدی عیسوی پوری کی پوری، منفی سوچ اور منفی سرگرمیوں کی نذر ہوگئی۔ اِس پوری صدی میں نہ دعوت کا پیغام لوگوں کے سامنے آیا اور نہ امن کا پیغام، جب کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم اور ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔
راقم الحروف پر اللہ تعالیٰ نے استثنائی طورپر دعوت اور امن کی اہمیت کھولی۔ 1947میں انڈیا کی آزادی کے بعد میں نے اللہ کی توفیق سے یہ کام شروع کیا۔ دسمبر 1950 میں، میں اعظم گڑھ میں تھا۔ اُس وقت وہاں سبزی منڈی ہال میں ایک نمائش (exhibition) لگائی گئی۔ میں نے مرحوم یوسف آرٹسٹ اور دوسرے ساتھیوں کی مدد سے وہاں پہلی بار اسلامی کتابوں کا ایک بک اسٹال لگایا۔ اس بک اسٹال کے اوپر لال رنگ کے روشن حروف میں ایک سائن بورڈ لگایا گیا جو اتنا بڑا تھا کہ وہ گیٹ سے دکھائی دیتا تھا۔اِس سائن بورڈ پر قرآن کی آیت: واللہ یدعو إلی دار السلام (یونس :25 ) کا انگریزی ترجمہ اِن الفاظ میں لکھا ہوا تھا:
And God calls to the home of peace (10:25)
اِس آیت میں بیک وقت دو باتیں کہی گئی ہیں — دعوت اور امن۔
اِس کے بعد میں اپنے طورپر دعوتی کام کرتا رہا۔ 18-19 فر وری 1955کو لکھنؤ کے امین الدولہ پارک میں جماعتِ اسلامی ہند کے زیر اہتمام ایک اجتماع ہوا۔ اِس موقع پر میں نے اپنا ایک مقالہ پڑھا جو بعد کو تین زبانوں میں شائع ہوا— اردو، ہندی، انگریزی۔ اِس کا اردو ٹائٹل ’’نئے عہد کے دروازہ پر‘‘ تھا۔ اور ہندی میں ’’نو یُگ کے پرویش دوار پر‘‘ اور انگریزی میں اس کا ٹائٹل یہ تھا:
On the Threshold of a New Era
اللہ کی توفیق سے یہ کام بلا انقطاع جاری رہا۔ اِس مقصد کے لیے میں نے 1950 میں ادارہ اشاعتِ اسلام قائم کیا۔ اس کے بعد 1970میں اسلامک سنٹر کے نام سے نئی دہلی میں ایک دعوتی مرکز قائم کیا۔ 2001میں سنٹر فار پیس اینڈ اسپریچویلٹی (سی پی ایس انٹرنیشنل) کا قیام عمل میں آیا۔
بیسویں صدی کے آخر تک یہ حال تھا کہ لوگ اِس کام کو ون مین شو (one man show) کہتے تھے۔ تاہم اللہ کی توفیق سے یہ کام مسلسل جاری رہا۔ اردو، عربی، ہندی اور انگریزی میں سیکڑوں کتابیں تیار ہو کر ہر جگہ پھیلیں۔ پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کے ذریعے مسلسل یہ پیغام لوگوں کے سامنے آتا رہا۔ اِسی کے ساتھ بار بار مجھے بین اقوامی کانفرنسوں میں نیز ملک کے اندر ہونے والی کانفرنسوں میں شرکت کا موقع ملا۔ ہر جگہ میں نے اِس مشن کو لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کی۔
تاہم لوگ اپنی کنڈیشننگ کی بنا پر اِس پیغام کی اہمیت کو پوری طرح سمجھ نہیں پاتے تھے۔میری آواز ابتداء ً لوگوں کی نظر میں عرصے تک تقریباً اجنبی بنی رہی۔ مثال کے طورپر 1965 کا واقعہ ہے۔ لکھنؤ کا ایک اردو جریدہ، جو اُس وقت ہندستانی مسلمانوں کے درمیان مقبول ترین جریدہ تھا، اُس نے میرے مضامین کو یہ کہہ کر لوٹا دیا کہ ’’آپ کے مضامین ہمارے جریدے میں کھپ نہیں رہے ہیں‘‘۔ اس کا سبب یہ تھا کہ مذکورہ جریدہ احتجاجی اسلوب پر نکالا گیا تھا۔ اِس کے مقابلے میں، میرے مضامین تعمیری اسلوب پر لکھئے گئے تھے۔ اِس فرق کی بنا پر میرے مضامین مذکورہ جریدے کے لیے ناقابلِ قبول بن گئے۔
اِسی طرح الاخوان المسلمون کا ہفت روزہ جریدہ ’’الدعوۃ‘‘جو قاہرہ سے نکلتا تھا اور عرب دنیا میں بے حد مقبول تھا، اُس میں میرے خلاف ایک مضمون شائع ہوا جس میں میرے دعوتی مشن کو نئی قادیانیت (قادیانیّۃ جدیدۃ) بتایا گیا تھا۔مذکورہ جریدہ الاخوان المسلمون کے نقطۂ نظر کا ترجمان تھا جو مسلح جہاد کے ذریعے مقاصدِ ملت کاحصول چاہتے تھے، اِس لیے اِس جریدے کو میرا نقطۂ نظر سمجھ میں نہ آیا جو پُرامن دعوت کے اصول پر قائم ہے۔ تاہم اکیسویں صدی کے آتے ہی صورتِ حال یکسر بدل گئی۔ آج تمام دنیا کے مسلمان امن کی اور دعوت کی بات کررہے ہیں، جگہ جگہ امن اور دعوت کے نام پر بڑی بڑی کانفرنسیں منعقد کی جارہی ہیں۔ مثال کے طورپر میڈرڈ (اسپین) میں جولائی 2008 کو سعودی حکومت کے تحت ’’بین اقوامی امن کانفرنس‘‘ منعقد ہوئی، اور دسمبر 2008میں مکہ میں ’’بین اقوامی دعوت کانفرنس‘‘ کا انعقاد عمل میں آیا، وغیرہ۔
یہ ایک واقعہ ہے کہ آج ساری دنیا کے مسلمانوں میں دعوت اور امن کی باتیں ہورہی ہیں۔ سیکولر مسلمان اور مذہبی مسلمان دونوں اپنے اپنے انداز میں اِسی قسم کی بات کہہ رہے ہیں۔ اکیسویں صدی عیسوی میں یہ نئی صورتِ حال اللہ کی توفیق سے ہمارے مشن کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے۔ یہ ایک ایسی واضح حقیقت ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔
کسی بھی بڑے واقعے کے ظہور میں کچھ معاون اسباب کام کرتے ہیں۔ یہی ہمارے مشن کے ساتھ پیش آیا۔ حضرت عائشہ کی روایت کے مطابق، ہجرت کے پانچ سال پہلے اوس ا ور خزرج کے درمیان پیش آنے والی جنگِ بُعاث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کے لیے ایک مددگار واقعہ کی حیثیت رکھتی تھی (کان یوم بُعاث یوماً قدّمہ اللہ لرسولہ صلی اللہ علیہ وسلم)۔ جنگ بُعاث میں مدینہ کے بڑے بڑے سردار ہلاک ہوگئے۔ اِس کے بعد وہاں مقاومت (resistance) کرنے والے لیڈر باقی نہ رہے۔ (فتح الباری، جلد 7، صفحہ 137، کتاب المناقب، باب مناقب الأنصار)۔
11 نومبر 2001 میں نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کو توڑنے کا مشہور واقعہ پیش آیا۔ اِس واقعے کے بعد امریکا غضب ناک ہوگیا۔ اس نے عراق اور افغانستان کے خلاف براہِ راست طورپر اور پوری مسلم دنیا کے خلاف بالواسطہ طورپر ایک انتقامی جنگ چھیڑ دی۔ اِس جنگ میں نام نہاد جہاد کے اکابر رہنما یا تو مارے گئے یا وہ خاموش ہوگئے۔ امریکا کا یہ آپریشن اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک خدائی آپریشن تھا۔ اُس نے اُن تمام طاقتوں کو زیر کردیا جو امن اور دعوت کے مشن کے خلاف محاذ بنائے ہوئے تھے۔ چناں چہ آج ہر شخص دیکھ رہا ہے ساری مسلم دنیا میں تمام زبانیں اور تمام قلم امن اور دعوت کی بات کہہ رہے ہیں۔
آخری زمانے کے جس دور امن کی پیشین گوئی حدیث میں گئی ـتھی، وہ دورِ امن اب پوری طرح آچکا ہے۔ اب ہماری ذمے داری یہ ہے کہ جدید مواقع کو استعمال کرتے ہوئے دعوت الی اللہ کے فریضے کو انجام دیں، یہاں تک کہ حدیث کے الفاظ میں، اسلام کا کلمہ (کلمۃ الإسلام) دنیا کے تمام چھوٹے اور بڑے گھروں میں داخل ہوجائے۔
واپس اوپر جائیں

مسلمانوں کی علاحدہ سیاسی پارٹی

کیا مسلمانوں کی علاحدہ سیاسی پارٹی ہونا چاہیے، یہ سوال گھوڑے کے آگے گاڑی باندھنے کے ہم معنیٰ ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پولٹکل پارٹی سے پہلے، پولٹکل تیاری ضروری ہوتی ہے۔ پولٹکل تیاری سے پہلے، پولٹکل پارٹی بنانا ایسا ہی ہے جیسے کسی شخص نے پروفیشنل ٹریننگ نہ لی ہو، اِس کے باوجود وہ جاب مارکیٹ میں چھلانگ لگا دے۔
مسلمانوں کے نام نہاد رہنماؤں کا حال یہ ہے کہ الیکشن سے پہلے کی مدت میں وہ مسلمانوں کی کوئی سیاسی تربیت نہیں کرتے، البتہ جب الیکشن کا زمانہ آتا ہے تو وہ فوراً اسٹیج کی تقریروں کے ذریعہ یہ اعلان کرنے لگتے ہیں کہ مسلمانوں کی ایک علاحدہ سیاسی پارٹی ہونا چاہیے۔ موجودہ حالت میں مسلمانوں کا پہلا کام یہ ہے کہ وہ اپنی سیاسی ترجیح (political priority) کو جانیں۔ پولٹکل پارٹی بنانا یقینی طورپر موجودہ حالت میں مسلمانوں کی سیاسی ترجیح نہیں۔
اِس معاملے میں سب سے پہلی قابل غور بات یہ ہے کہ 1947 سے پہلے اور 1947 کے بعد مسلمانوں کی کئی سیاسی پارٹیاں بنائی گئیں، مگر جلسہ جلوس کی دھوم کے باوجود اُن کا کوئی مثبت نتیجہ مسلمانوں کے حصے میں نہیں آیا۔ مثال کے طورپر 1964 میںآل انڈیا مسلم مجلس مشاورت بنائی گئی۔ وہ کم از کم جزئی معنی میں ایک پولٹکل پارٹی تھی۔ اِس کے بعد1968میں آل انڈیا مسلم مجلس بنائی گئی جو کہ پورے معنوں میں ایک پولٹکل پارٹی تھی۔ اِن دونوں جماعتوں نے پالٹکس میں عملی حصہ لیا، مگرجہاں تک مثبت نتیجے کا تعلق ہے، اس کا کچھ بھی فائدہ مسلمانوں کے حصے میں نہیں آیا۔
اصل یہ ہے کہ پولٹکل پارٹی سے پہلے ہمیشہ اس کے موافق پولٹکل بنیاد (political base) درکار ہوتی ہے۔ بنیاد کے بغیر عمارت نہیں، اِسی طرح پولٹکل بنیاد کے بغیر پولٹکل پارٹی بھی نہیں۔ پولٹکل بنیاد کیا ہے، اس کو یہاں مختصر طور پر بیان کیاجاتا ہے۔
1 - پولٹکل بنیاد (political base) کے معاملے میں سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ ملت کے افراد کے اندر سیاسی شعور موجود ہو۔ کہاجاتا ہے کہ — سیاست ممکنات کا کھیل ہے:
Politics is the art of the possible.
اِس کے مطابق، ملت کے افراد سیاسی اعتبار سے اتنا زیادہ باشعور ہوں کہ وہ جانیں کہ سیاسی تدبیروں سے کیاچیز قابل حصول ہوتی ہے اور کیا چیز قابل حصول نہیں۔ موجودہ مسلمانوں کے بارے میں مسلسل تجربات کے مطابق، یقینی طورپر یہ کہا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کے عوام اور خواص دونوں سیاسی شعور سے بالکل بے بہرہ ہیں۔ مسلم خواص، سیاست کے اعتبار سے صرف یہ جانتے ہیں کہ وہ اسٹیج سے جذباتی تقریریں کریں۔ اور مسلم عوام صرف یہ جانتے ہیںکہ وہ اِس قسم کی تقریروں پر تالیاں بجائیں۔ حقیقت پسندانہ سیاست سے مسلم خواص بھی بے خبر ہیں اور مسلم عوام بھی۔ ایسی حالت میں مسلمانوں کی علاحدہ سیاسی پارٹی بنانے کا فائدہ صرف یہ ہوسکتا ہے کہ میڈیا میں کچھ وقتی چرچا ہو اور کچھ غیر قائد قسم کے مسلمانوں کو مسلم قائدین کا ٹائٹل مل جائے۔ موجودہ حالت میں اِس سے زیادہ کسی اور فائدے کی امید رکھنا، فرضی خوش فہمی کے سوا اور کچھ نہیں۔
2 - اِس سلسلے میں دوسری اہم چیز یہ ہے کہ مسلمانوں میں سیاسی اعتبار سے کامل اتحاد پایا جاتاہو۔موجودہ حالت میں یہ اتحاد بالکل مفقود ہے۔ اِس کی ایک سنگین مثال یہ ہے کہ موجودہ ہندستان کے کئی حلقۂ انتخاب میں مسلمان تقریباً اکثریت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لیکن ہر الیکشن میں یہ دیکھا جاتاہے کہ اِن حلقوں میں بہت کم کوئی مسلم نمائندہ کامیاب ہو کر آتا ہے۔ اِس کی سادہ وجہ یہ ہوتی ہے کہ اِن حلقوں میں کئی مسلمان امیدوار بن کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اِس بنا پر مسلمانوں کے ووٹ بٹ جاتے ہیں۔ ایسے کسی حلقے میں اگر صرف ایک مسلم امیدوار کھڑا ہوتو اس کی جیت یقینی ہے، لیکن جب کئی مسلم امیدوار کھڑے ہوجاتے ہیں توووٹ بٹ جانے کی وجہ سے سب کے سب ہار جاتے ہیں، اور کسی ایسی پارٹی کا امیدوار کامیاب ہوجاتا ہے جس کو مسلمانوں نے بطور خود اپنا دشمن قرار دے رکھا تھا۔ سروے کے ذریعے معلوم ہوا ہے کہ پارلیامنٹ کے تقریباً ایک سو حلقوں میں مسلمان الیکشن میں جیتنے کی پوزیشن میں ہیں، لیکن اپنی اِسی سیاسی بے شعوری کی بنا پر وہ اِس موقع (opportunity) سے فائدہ نہیں اٹھا پاتے اور پارلیامنٹ میں ان کی تعداد ہمیشہ واقعی تعداد سے بہت کم رہتی ہے۔
3 - صحافت کو سیاست کا چوتھا ستون (fourth estate) بتایا جاتا ہے۔ موجودہ حالت یہ ہے کہ مسلمانوں میں یہ چوتھا ستون عملاً موجود ہی نہیں۔ مسلمانوں کے جو اخبارات ہیں، ان کی اشاعت اتنی زیادہ محدود ہوتی ہے کہ وہ مسلّمہ صحافتی معیار کے مطابق، قابل ذکر ہی نہیں۔ جب کہ مشہور مقولہ ہے کہ— جس قوم کی صحافت نہیں، اُس قوم کی سیاست بھی نہیں۔
اِس صحافتی پس ماندگی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں کوئی اخبار محض اپنی قیمت ِ فروخت پر نہیں چل سکتا ، وہ صنعتی اشتہارات کے ذریعے چلتا ہے۔ مسلمانوں کی موجودہ حالت یہ ہے کہ اُن کے پاس اعلیٰ صنعت موجود نہیں۔ اِس لیے اُن کے پاس وہ بڑے تجارتی ادارے بھی موجود نہیں جو قیمتی اشتہارت کے ذریعے اخبارات کو فیڈ (feed) کرسکتے ہوں۔ مسلمانوں کی اِسی کمزوری کی بنا پر اُن کے اخبارات زرد صحافت (yellow journalism) کا نمونہ بن جاتے ہیں۔ اُن کا انحصار زیادہ تر قیمتِ فروخت پر ہوتا ہے، اِس لیے وہ سنسنی خیز خبریں چھاپتے ہیں، تاکہ وہ صنعتی اشتہارات کی اِس کمی کو پورا کرسکیں۔
4 - مسلمان جب بھی علاحدہ پولٹکل پارٹی کی بات کرتے ہیں تو وہ صرف اپنی کمیونٹی کے محدود مسائل کے ذہن کی بنا پر کرتے ہیں۔ مثلاً فرقہ وارانہ فساد، ملازمتوں میں امتیاز، وغیرہ۔جمہوریت کے دور میں اس قسم کے محدود موضوعات کو لے کر کوئی کامیاب سیاسی پارٹی نہیں بنائی جاسکتی ۔ کامیاب سیاسی پارٹی صرف وہ گروہ بنا سکتا ہے جس کے اندر قومی سوچ (national thinking) ہو، جو پورے ملک کے مسائل کو لے کر سوچ سکتا ہو۔ جمہوریت کے زمانے میں کمیونٹی کے مسائل بھی صرف وسیع تر قومی تناظر میں رکھ کر حل کئے جاسکتے ہیں، اِس کے بغیر نہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ زمانے میں مسلمان جس چیز کو سیاست سمجھتے ہیں، وہ صرف گھیٹو سیاست (ghetto politics) کا ایک خود ساختہ ایڈیشن ہے۔ اِس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ تقریباً ہر روز مسلمانوں کے جلسے جگہ جگہ ہوتے رہتے ہیں، لیکن یہ جلسے ہمیشہ کمیونٹی کے اِشو کو لے کر ہوتے ہیں، نہ کہ ملکی اشو کو لے کر۔ اِس قسم کا ذہن رکھنے والے لوگ سیاسی پارٹی بنانے کے لیے قطعاً نااہل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے ساٹھ برسوں میں مسلمانوں کے درمیان بار بار اِس طرح کی تحریکیں اٹھائی گئیں، لیکن عملاً وہ سب کی سب ناکام ہو کر رہ گئیں۔
5 - سیاسی پارٹی بنانا کوئی سادہ بات نہیں۔ عملی اعتبار سے یہ سیاست کے دنگل میں چھلانگ لگانے کے ہم معنیٰ ہے۔ سیاسی پارٹی بنانے کا مطلب یہ ہے کہ آپ ایک ایسے میدانِ مقابلہ میں داخل ہوگئے، جہاں ہر قدم پر ایک سیاسی حریف کھڑا ہوا ہے، ہر قدم پر ایک ایسا موقع پرست لیڈر موجود ہے جس کا یہ عقیدہ ہے کہ آپ کی ہار میں اُس کی جیت کا راز چھپا ہوا ہے۔ بدقسمتی سے مسلمانوں میں نہ پہلے ایسا کوئی دانش مند لیڈر موجود تھا اور نہ اب کوئی ایسا دانش مند لیڈر موجود ہے جو اِس راز کو سمجھ سکے۔ ہمارے تمام لیڈر صرف دوسروں کے خلاف شکایت کی زبان بولنا جانتے ہیں، حالاں کہ کامیاب سیاسی لیڈر وہ ہے جو شکایتوں کے جنگل میں اپنا راستہ نکالنے کا فن جانتا ہو۔
مسلمانوں کے درمیان اِس قسم کے لیڈر کا فقدان ہے، اور اگر ایسا کوئی لیڈر موجود ہو تو یقینی طورپر وہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔ کیوں کہ مختلف اسباب سے، موجودہ زمانے کے مسلمان اتنازیادہ جذباتی ہوچکے ہیں کہ وہ کسی حقیقت پسند لیڈر کی بات نہ سمجھیں گے اور نہ وہ اس کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہوں گے۔ ایسی حالت میں پہلا کام یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر جدید معیار پر سیاسی شعور پیدا کیا جائے۔ سیاسی شعور سے پہلے سیاسی اقدام کرنا، سیاسی خود کشی کے سوا اور کچھ نہیں۔
واپس اوپر جائیں

اللہ کا فیصلہ یا اجتہادی خطا

1947 سے پہلے کی سیاست میں انڈیا کے دوبڑے علماء نے دو الگ الگ موقف اختیار کیا۔ مولانا حسین احمد مدنی تحریک پاکستان کے خلاف تھے، اور مولانا اشرف علی تھانوی تحریک پاکستان کے حامی تھے۔ اِس کی توجیہہ کرتے ہوئے ایک ہندستانی عالم نے لکھا ہے کہ: ’’اللہ تعالیٰ نے ان دونوں میں سے ایک کو قیامِ پاکستان کا حامی بنا دیا تھا، تاکہ آگے چل کر اُس ملک کا قبلہ درست رکھنے اور وہاں حقیقی اور مکمل اسلام کے نفاذ کے لیے کام کرنے کا دروازہ علماء اور دینی قیادت کے لیے کھلا رہے۔ اور دوسرے کو تقسیم ملک کا مخالف بنا کر ایسے امکانات پیدا کردئے کہ ہندستان میں مسلمانوں کی جان ومال اور اُن کے دینی وجود اور ملی تشخص کے تحفظ کے میدان میں یہاں کے علماء اپنا فرض ادا کرسکیں۔ جو کچھ ہوا، اللہ ہی کے فیصلے اور قضا وقدر کے نتیجے میں ہوا‘‘ ۔( مئی 2010 )
اس معاملے کو اگر اللہ کے فیصلے کے اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ کہنا صحیح ہوگا کہ دونوں علماء اجتہادی خطا کے مرتکب ہوئے۔ مولانا حسین احمد مدنی نے انگریز کو دشمن قرار دیا اور اُن کے خلاف سیاسی جنگ چھیڑ دی۔ یہ بلاشبہہ درست نہ تھا، کیوں کہ انگریز ہمارے لیے مدعو کی حیثیت رکھتے تھے۔ مولانا حسین احمد مدنی اور اِس قسم کے دوسرے علماء بلا شبہہ ایک ایسی غلطی میں مبتلا ہوئے جس کا کم سے کم درجہ یہ ہے کہ اس کو اجتہادی خطا قرار دیا جائے۔یہی معاملہ مولانااشرف علی تھانوی کا بھی ہے۔ پاکستانی لیڈروں نے ہندو کو حریف قوم قرار دیا اور ان کے خلاف لڑائی چھیڑ دی۔ مولانا اشرف علی تھانوی کو چاہیے تھا کہ وہ اِس تحریک کی حمایت کرنے کے بجائے یہ اعلان کریں کہ ہندو ہمارے لیے مدعو کا درجہ رکھتے ہیں۔ اُن کو حریف قوم کا درجہ دینا اور ان کے خلاف سیاسی لڑائی چھیڑنا درست نہیں۔ دونوں عالموں نے جو کچھ کیا، وہ صرف اُن کا اپنا ذاتی فعل تھا، اللہ کی سنت یا اللہ کے فیصلے سے اُس کا کوئی تعلق نہیں۔ اِس معاملے کو اگر یہ حیثیت دی جائے کہ وہ اِن علماء کی اجتہادی خطا تھی تو اِس سے کوئی اصولِ اسلام مجروح نہیں ہوتا۔ لیکن اگر اس کو اللہ کا فیصلہ قرار دیا جائے تو بلاشبہہ اُس سے اصولِ اسلام مجروح ہوتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

غیر اسلامی روش

امریکا میں رہنے والے پاکستانیوں کے ایک لیڈر مسٹر اصغر چودھری کا ایک سبق آموز بیان اخبار میں آیا ہے۔ وہ بروکلین کے پاکستانی امریکن مرچنٹ ایسوسی ایشن (Brooklyn's Pakistani American Merchant Association) کے چیئر مین ہیں۔ انھوں نے کہا کہ 9/11 کے بعد پاکستان سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کے لیے امریکا میں جاب ملنا مشکل ہوگیا تھا۔ اِس میں اب اور اضافہ ہوگیا ہے۔ چناں چہ یہ پاکستانی مسلمان امریکا میں اپنے کو انڈین بتانے لگے ہیں، تاکہ وہ یہاں جاب حاصل کرسکیں۔ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (9مئی 2010 ) میں واشنگٹن کی ایک رپورٹ چھپی ہے۔ اِس میں مسٹر اصغر چودھری کا مذکورہ بیان اِن الفاظ میں نقل کیا گیا ہے:
Pakistanis are posing as Indians in the US to escape discrimination. A lot of Pakistanis can not get jobs after 9/11 and now it is even worse. They are now pretending that they are Indian so that they may get a job. (p. 22)
دوسری طرف ایک پاکستانی مسلمان نے مذکورہ بیان پر غصہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ —میں دہشت گرد کہلانا پسند کروں گا، مگر میں انڈین کہلانا پسند نہیں کروں گا:
I will rather be called a terrorist than an Indian.
اِن دونوں نقطۂ نظر میں سے پہلا نقطۂ نظر مصلحت پر مبنی ہے، اور دوسرا نقطۂ نظر نفرت پر مبنی۔ مگر اِن دونوں میں سے کوئی نقطۂ نظر بھی اسلام پر مبنی نہیں۔ اسلام میں نہ مصلحت پرستی ہے اور نہ نفرت۔ اسلام کا طریقہ اصول پر مبنی طریقہ ہے۔ اسلام کا طریقہ امن اور انصاف اور انسانی خیر خواہی پر مبنی ہے۔ یہ ابدی اصول ہیں، کسی بھی عذر کی بنا پر ان میں تبدیلی نہیں کی جاسکتی۔موجودہ زمانے کے مسلمانوں کی اصل کمزوری یہ ہے کہ وہ یا تو نفرت کے تحت سوچنا جانتے ہیں، یا مصلحت کے تحت۔ اسلامی طریقہ اصول کے تحت سوچنا ہے، مگر موجودہ زمانے کے مسلمانوں کو اِس تیسرے طریقے کی مطلق خبر نہیں۔
واپس اوپر جائیں

ذہین وجود

اسٹفن ہاکنگ (Stephen Hawking) موجودہ زمانے کا ایک ممتاز برٹش سائنس داں ہے۔ کائنات کے طویل مطالعے کے بعد اس نے کہا کہ میرا ریاضیاتی ذہن یہ بتاتا ہے کہ زمین کے ماورا بھی انسان کے مانند کوئی ذہین وجود ہونا چاہیے۔ اِس وجود کو اس نے اجنبی زندگی (Alien life) کا نام دیا ہے۔ اِس معاملے میں اسٹفن ہاکنگ کی سادہ منطق یہ ہے کہ ہماری کائنات میں تقریباً ایک سو بلین کہکشائیں ہیں۔ ہر کہکشاں میں کئی سو ملین ستارے ہیں۔ اتنی بڑی کائنات میں یہ بات ناقابلِ قیاس ہے کہ صرف زمین وہ واحد سیارہ ہو جہاں زندگی کا ارتقا ہوا ہے ۔ میرے ریاضیاتی ذہن کے مطابق، ستاروں کی یہ عظیم تعداد ہی اِس نظریے کو پوری طرح معقول ماننے کے لیے کافی ہے:
Hawking has suggested that extraterrestrials are almost certain to exist. Hawking’s logic on aliens is, for him, unusually simple. The universe has 100 billion galaxies, each containing hundreds of millions of stars. In such a big place, Earth is unlikely to be the only planet where life has evolved. “To my mathematical brain, the numbers alone make thinking about aliens perfectly rational”, (The Times of India, New Delhi, April 26, 2010, p. 17)
سیارۂ زمین پر ذہین وجود کا ہونا، اولاً جس چیز کو ثابت کرتا ہے، وہ استثنا (exception) ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اِس استثنا کی توجیہہ کیا ہے۔ اسٹفن ہاکنگ نے ارتقا (evolution) کے مفروضہ نظریے کو توجیہہ کی بنیاد قرار دیا ہے۔ مگر زیادہ معقول بات یہ ہے کہ اِس استثنا کی توجیہہ، مداخلت (intervention) کی بنیاد پر کی جائے۔ کیوں کہ مداخلت اپنے آپ میں ثابت ہے، اور جب مداخلت کو مان لیا جائے تو خالق کا وجود اپنے آپ ثابت ہوجاتا ہے۔موجودہ زمانے میں بہت سی نئی حقیقتیں دریافت ہوئی ہیں۔ یہ نئی حقیقتیں خالق کے وجود کو ثابت کررہی تھی، لیکن ارتقائی مفروضے کے تحت ان کو ارتقائی عمل کا نتیجہ قرار دے دیاگیا۔ مگر یہ محض ایک قیاس ہے، اور ایک قیاس سے دوسرے قیاس کو ثابت کرنا، بلا شبہہ ایک غیر منطقی استدلال کی حیثیت رکھتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

بااصول زندگی

زندگی گزارنے کے دو طریقے ہیں— ایک، با اصول زندگی اور دوسرے، بے اصول زندگی۔ بااصول زندگی یہ ہے کہ آدمی کی زندگی کچھ اصولوں کے تابع ہو، وہ جو کچھ کرے، اپنے مقرر اصول کے تحت کرے، وہ کسی حال میں اپنے اصول سے انحراف نہ کرے، اس کی زندگی معلوم اصولوں کی بنیاد پر گزر رہی ہو۔ ایسا انسان قابلِ پیشین گوئی کردار (predictable character) کا حامل بن جاتا ہے۔ جو لوگ قابلِ پیشین گوئی کردار کے حامل ہوں، وہی در اصل انسان کہے جانے کے مستحق ہیں۔
دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جن کی زندگی کا کوئی سوچا سمجھا اصول نہ ہو۔ وہ موقع کے لحاظ سے کبھی ایک طریقے کو اختیار کریں اور کبھی دوسرے طریقے کو۔ ان کا ایک ہی اصول ہو اور وہ ہے ذاتی فائدہ۔ ان کی زندگی اپنے دنیوی فوائد کی بنیاد پر چل رہی ہو، نہ کہ کسی بالاتر اصول کی بنیاد پر۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کو مذہبی زبان میں منافق کہاجاتا ہے، اور سیکولرزبان میں ان کو ابن الوقت (opportunist) کا نام دیا جاتا ہے۔
با اصول زندگی دوسرے لفظوں میں، باکردار زندگی ہے۔ اِس کے برعکس، بے اصول زندگی کا دوسرا نام بے کردار زندگی ہے۔ باکردار انسان وہ ہے جس کی زندگی معلوم اصولوں کے تحت گزر رہی ہو۔ اس کے مقابلے میں، بے کردار انسان وہ ہے جس کی زندگی معلوم یا متعین اصولوں کی پابند نہ ہو۔
باکردار انسان اصول (principles) اور اقدار (values) کے بارے میں نہایت حساس ہوتا ہے۔ وہ اِس کا تحمل نہیں کرسکتاکہ وہ اپنے مقرر اصول سے ادنی انحراف کرے۔ اِس کے مقابلے میں، بے کردار آدمی وہ ہے جس کا کوئی مقرر اصول نہ ہو۔ وہ اپنے مفاد او ر اپنی خواہشات کے تحت زندگی گزارے۔
بااصول زندگی ہی اِس دنیا میںانسانی زندگی ہے۔ بے اصول زندگی ایک قسم کی حیوانی زندگی ہے۔ دونوں قسم کے انسانوں میں اتنا زیادہ فرق ہے کہ اُن میں سے ایک ابدی جنت کا انعام پاتا ہے اور دوسرا ابدی جہنم میں ڈال دیا جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

زندگی کی تعمیر

ایک نوجوان سے ملاقات ہوئی۔ بظاہر وہ مایوسی کا شکار تھے۔انھوں نے کہا کہ زندگی کا مقصد کیا ہے اور اپنی تعمیر کا منصوبہ ایک انسان کو کس طرح بنانا چاہیے۔
میںنے کہا کہ اِس معاملے میں پہلی بات یہ ہے کہ آپ خود اپنی ذات کا مطالعہ کرکے اپنے فطری امکانات (potentials) کو دریافت کریں، اور اس کے بعد حقیقت پسندانہ منصوبہ بندی کے ذریعے اس کو استعمال کریں۔
میں نے اپنے تجربے میں پایا ہے کہ بیش تر لوگ مایوسی کا شکار رہتے ہیں۔ وہ مایوسی کے احساس میں جیتے ہیں اور مایوسی میں مرجاتے ہیں۔ اِس المیہ کا بنیادی سبب کیا ہے۔ وہ سبب یہی ہے کہ بیش تر لوگ اپنی زندگی کے لیے صحیح نقطۂ آغاز نہیں پاتے، اور جب آپ صحیح نقطۂ آغاز کو نہ پائیں تو آپ کی تمام سرگرمیاں آپ کے مطلوب کے اعتبار سے بے نتیجہ ہو کر رہ جائیں گی۔
احساسِ ناکامی کیا ہے، یہ دراصل اپنے کم تر استعمال (under-utilization) کا نتیجہ ہے، جو شعوری یا غیر شعوری طورپر ہر انسان کو لاحق رہتا ہے۔ جب آپ اپنی امکانیات کو استعمال نہ کرسکیں تو آپ کو برابر یہ احساس ستاتا رہے گا کہ آپ جس چیز کو پانا چاہتے تھے، اس کو آپ نہ پاسکے۔ اِسی کا نام احساسِ مایوسی ہے۔ اِس احساس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ لوگ اپنے آپ کو جانے بغیر زندگی میں چھلانگ لگا دیتے ہیں۔ جو لوگ اِس غلطی کا شکار ہوں، اُن کودوبارہ درست نقطۂ آغاز صرف اُس وقت ملے گا جب کہ وہ یہ اعتراف کریں کہ میں غلطی پر تھا۔
زندگی کی تعمیر کا پہلا مرحلہ دریافت سے شروع ہوتا ہے۔ اور اگر آدمی دریافت میں ناکام ہوجائے تو اس کے بعد زندگی کا اگلا منصوبہ اپنی غلطی کے اعتراف سے شروع ہوگا۔ جوآدمی اپنی غلطی کا اعتراف نہ کرے، وہ کبھی اپنے عمل کی درست منصوبہ بندی نہ کرسکے گا، اس کا ماضی بھی ناکام رہے گا اور اس کا مستقبل بھی ناکام۔
واپس اوپر جائیں

غیر ضروری کلام سے بچئے

ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ وہ دیر تک میرے پاس رہے۔ جب وہ جانے لگے تو انھوںنے مجھ سے کہا کہ مجھ کو کوئی نصیحت کیجئے۔ میں نے اُن سے ان کی ڈائری مانگی۔ انھوںنے کہا کہ میرے پاس ڈائری نہیں ہے۔ پھر میں نے ایک کاغذ پر یہ نصیحت لکھ کر انھیں دے دی— اپنے آپ کو غیر ضرور ی کلام سے بچائیے:
Save yourself from unnecessary talk.
اکثر لوگوں کا یہ حال ہے کہ وہ غیر ضروری باتیں کرتے ہیں۔ غیر ضروری باتیں کرنے والوں کی ایک پہچان یہ ہے کہ جب وہ بولنا شروع کریں گے تووہ بولتے ہی رہیں گے، وہ خود سے چپ نہیں ہوں گے، جب تک آپ مداخلت کرکے اُنھیں چپ ہونے پرمجبور نہ کردیں۔
ایسا کیوںہوتا ہے۔ اصل یہ ہے کہ ہر آدمی کے دماغ میں بے شمار باتیں بھری ہوئی ہیں۔ جب آدمی بولتا ہے تو یہ تمام باتیں اس کے حافظے میں آنے لگتی ہیں۔
ایسی حالت میں منضبط کلام صرف وہ شخص کرسکتا ہے جو باتوں کو سارٹ آؤٹ (sort out) کرنا جانتا ہو۔ وہ کسی بات کے غیر متعلق (irrelevant)پہلوؤں کو الگ کردے اور صرف متعلق (relevant) پہلو کو گفتگو کے وقت اپنے سامنے رکھے۔ وہ خود سوچ کر یہ جان لے کہ سننے والا اصلاً کس بات کو سننا چاہتا ہے۔
بیش تر لوگوں کے اندر یہ صلاحیت نہیں ہوتی، اِس لیے وہ گفتگو اور تقریر دونوں میں لمبی لمبی باتیں کرتے ہیں اور سننے والا کچھ سمجھ نہیں پاتا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیںاور اُن کا نقطہ نظر کیا ہے۔
بولنے سے پہلے سوچئے، پیشگی طورپر یہ جاننے کی کوشش کیجئے کہ موقع کی نسبت سے آپ کو کیا بات کہنا ہے اور کیا بات نہیں کہنا ہے، بولئے کم اور سنئے زیادہ — یہی وہ صفت ہے جو آپ کو غیر ضروری کلام (unnecessary talk) سے محفوظ رکھے گی۔
واپس اوپر جائیں

تھرڈ آپشن سے بے خبر

طرزِ فکر کی ایک قسم وہ ہے جس کو ثُنائی طرزِ فکر (dichotomous thinking)کہا جاتا ہے، یعنی صرف دو کے درمیان سوچنا۔ مثلاً سیا ہ اور سفید (black & white) کے درمیان سوچنا۔ یہ طرزِ فکر انتہا پسندانہ مزاج کی بنا پر پیدا ہوتا ہے۔ آدمی پہلے ایک انتہا کو لے کر سوچتا ہے اور جب وہ اُس سے غیرمطمئن ہوتا ہے تو اس کے بعد وہ دوسری انتہا کی طرف چلا جاتا ہے۔ مگر یہ طرز فکر درست نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمیشہ دو کے درمیان ایک تیسرا آپشن (third option) بھی موجود ہوتا ہے اور اکثرحالات میں اِسی طرح کا آپشن درست ہوتا ہے۔
موجودہ زمانے میں مسلمانوں نے بار بار یہ غلطی کی ہے۔ مثلاً نو آبادیاتی زمانے میں کچھ مسلمان انگریزوں کے دشمن ہوگئے اور وہ انگریز کی ہر بات کو غلط سمجھنے لگے۔ اس کے برعکس، کچھ اور لوگ انگریز کے زبردست مقلد بن گئے اور انگریزی کلچر اختیار کرنے میں فخر محسوس کرنے لگے۔ یہ ثنائی طرز فکر تھا، حالاں کہ اُن کے لیے ایک تیسرا آپشن بھی موجود تھا۔ وہ یہ کہ وہ انگریز کو مدعو سمجھیں اور اُن کو پرامن انداز میں اسلام کا پیغام پہنچائیں۔
یہی معاملہ خواتین کا ہے۔ خواتین کے معاملے میں مسلمانوں کا مذہبی طبقہ صرف دو صورتوں کو جانتا ہے۔ یا تو اُنھیں روایتی خول میں بند رکھنا یا فیشن کی دنیا میں آزاد چھوڑدینا۔ مگر یہاں ایک تھرڈ آپشن بھی موجود ہے، وہ یہ کہ عورت اپنی نسوانیت کو باقی رکھتے ہوئے تعمیر ِ انسانیت کے مشن میں اپنا حصہ ادا کرے۔ اِس تعمیری رول کو ادا کرنے کے لیے چند چیز یںضروری ہیں—اچھی تعلیم، شعوری ارتقاء، حالاتِ زمانہ کے مطابق ان کی تربیت، اپنے حدود کو جانتے ہوئے اجتماعی کام میں حصہ لینا، وغیرہ۔ حقیقت یہ ہے کہ خالق نے جس طرح مرد کو کارِ خاص کے لیے پیدا کیا ہے، اُسی طرح اس نے عورت کو کارِ خاص کے لیے پیدا کیا ہے۔ ضرورت ہے کہ دونوں اپنے اپنے رول کو جانیں اور فطری حدود کے اندر رہتے ہوئے اُس کارِ خاص کو انجام دیں۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، راقم الحروف کی کتاب’’عورت معمارِ انسانیت‘‘)
واپس اوپر جائیں

سوال وجواب

سوال
ماہ نامہ الرسالہ (جون 2007 ) کے شمارے میں ’’مسیحی ماڈل کی آمدِ ثانی‘‘ کے عنوان سے آپ کا ایک مضمون نگاہ سے گزرا۔ اِس سلسلے میں دو سوال پیش خدمت ہیں۔ ایک یہ کہ اِس تعبیر کے استعمال کرنے کی کیا حکمت پیش آئی۔ دوسرے یہ کہ قرآن (الأحزاب: 21 ) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ’’اسوۂ حسنہ‘‘ کا لفظ آیا ہے۔ اِس کی تشریح میںآپ نے لکھا ہے کہ اِس کا مطلب لازمی طور پر ہر صورتِ حال کے لیے عملی ماڈل کی موجودگی نہیں ہے، بلکہ اِس سے مراد صرف اصولی رہنمائی ہے۔ براہِ کرم، اِس معاملے کی وضاحت فرمائیں (ڈاکٹر عبد الرحمن، نئی دہلی)
جواب
1 - آپ نے غالباً اصل مضمون کو زیادہ غور کے ساتھ نہیں پڑھا، ورنہ آپ کو اِس قسم کا اشکال پیش نہ آتا۔ اگر آپ مضمون کو غور سے پڑھیں تو آپ پر کھل جائے گا کہ مسیحی ماڈل کی آمدِ ثانی کا مطلب دوسرے لفظوں میں مکی ماڈل کی آمدِ ثانی ہے۔ مذکورہ مضمون میں جس چیز کو مسیحی ماڈل کہاگیا ہے، وہ خود پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں پوری طرح موجود ہے۔ مکی دور میں آپ نے خود اِسی اصول کے مطابق عمل فرمایا ہے۔ مضمون میں صرف یہ کہا گیا ہے کہ اِس تصور کو زیادہ ممیَّز (distinguished) کرنے کے لیے اس کو مسیحی ماڈل کا نام دے دیا گیا ہے، تاکہ وہ جدید ذہن کے لیے زیادہ قابلِ فہم ہوسکے۔
جیسا کہ معلوم ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغمبرانہ مشن کے دو دور ہیں — مکی دور، اور مدنی دور۔ مکی دور پُرامن دعوت کا دور ہے۔ اِس کے مقابلے میں مدنی دور کو جہاد اور قتال کا دور سمجھا جاتا ہے۔ اور یہ دونوں ادوار بلا شبہہ اسلام میں مستند ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔
موجودہ زمانے میں حالات میں ایسی تبدیلیاں ہوئیں کہ اب جنگ وقتال کے بغیر تمام دعوتی کام انجام دئے جاسکتے ہیں۔ ایسی حالت میں یہ کہنا صحیح ہوگا کہ توحید کا مشن دوبارہ مکی دور کی طرف واپس آگیا ہے، یعنی پُرامن دعوتی دور کی طرف۔ یہی وہ تاریخی حقیقت ہے جس کو مذکورہ مضمون میں مسیحی ماڈل کی واپسی کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
یہ تعبیر غیر متعلق نہیں ہے۔ ہمارے علماء اور مسلمان عام طور پر یہ مانتے ہیںکہ قیامت سے پہلے مسیح کی ’’آمد ثانی‘‘ ہونے والی ہے۔ جس واقعہ کو لوگ مسیح کی آمد ثانی (second coming) کے الفاظ میں بیان کرتے ہیں، اُسی کو اِس مضمون میں مسیحی ماڈل کی آمد ثانی کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے، یعنی مسیح کی آمد ثانی کا مقصد گویا کہ مکی دور کی تجدید ثانی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ صرف الفاظ کے فرق کا معاملہ ہے، ورنہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے، وہ کوئی نئی بات نہیں۔
2 - میں نے اپنے مضمون میں کوئی نئی بات نہیں کہی ہے۔ میں نے صرف قرآن کی مذکورہ آیت کی تشریح کی ہے۔ میں نے صرف اِس سوال کا جواب دیا ہے کہ قرآن کی اِس آیت میں کیوں اسوۂ حسنہ کا لفظ آیا ہے، قرآن میں اسوۂ کاملہ کا لفظ کیوں استعمال نہیں کیا گیا۔ جب خود قرآن میں کاملہ کا لفظ استعمال نہیں ہوا، تو ہم کو بہر حال اس کی کوئی توجیہہ ڈھونڈنی ہوگی۔ اور خالص علمی اعتبار سے اِس کی کوئی دوسری توجیہہ ممکن نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس طرح کے معاملے میں یکساں نظری اصول تو ہمیشہ موجود رہتا ہے، مگر یکساں عملی ماڈل کبھی موجود نہیں ہوتا۔اصل یہ ہے کہ اسوہ یا ماڈل ایک عملی نمونہ کا نام ہے، اور عملی نمونہ کبھی بھی غیر متغیر یا ابدی نہیں ہوتا۔ ماڈل ہمیشہ حالات کی نسبت سے طے ہوتا ہے، نہ کہ کسی آئڈیل نظریے کی نسبت سے۔
غور کیجئے تو خود رسول اور اصحاب رسول کے زمانے ہی میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔ مثال کے طورپر خلافت کے معاملے کو لیجئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد کسی کو نام لے کر خلیفہ نام زد نہیں کیا۔ مگر خلیفۂ اول حضرت ابوبکر نے اِس کے برعکس، نام لے کر خلیفۂ ثانی عمر بن خطاب کو نام زد کیا۔ اس کے بعد خلیفۂ ثانی نے اِس کی پیروی نہیں کی، بلکہ انھوں نے ایک اور طریقہ اختیار کیا، اور وہ خلیفہ کے انتخاب کے لیے 6 افراد کا ایک بورڈ مقرر کرنا تھا۔
فقہاء کا یہ متفقہ اصول ہے کہ: تتغیر الأحکام بتغیر الزمان والمکان (زمان ومکان کے بدلنے سے احکام بدل جاتے ہیں) دوسرے لفظوں میں یہ کہ عملی احکام کا تعین کسی واحد نظری معیار کی بنیاد پر نہیں ہوتا، بلکہ وقت کے حالات کی رعایت سے ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں کامل ماڈل کا لفظ ایک ایسا لفظ ہے جو غیر فطری بھی ہے اور غیر عملی بھی اور نتیجۃً غیر اسلامی بھی۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو راقم الحروف کی کتاب’’مطالعہ سیرت‘‘ کا مقالہ ’’اسوۂ حسنہ‘‘، صفحہ 141-150 )
سوال
مئی 2010 کے شمارے میں ’’دابّہ‘‘ کے متعلق آپ نے لکھا ہے کہ اِس سے مراد وہ انسان ہے جو آخری زمانے میں حق کا اعلان کرے گا، جب کہ اِس سے پہلے الرسالہ میں آپ نے دابہ کو جدید کمیونکیشن بتایا ہے۔ ایسی حالت میں سوال یہ ہے کہ کس رائے کو لیا جائے، پہلی رائے کو یا دوسری رائے کو۔ براہِ کرم، اِس کنفیوژن کو دور فرمائیں (ڈاکٹر محمد اسلم خان، سہارن پور)
جواب
دونوں باتوں میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ قرآن کی سورہ نمبر 27میں بتایا گیا ہے کہ دابہ کلام کرے گا (النمل: 82) جیسا کہ معلوم ہے، کمیونکیشن ایک غیر ذی روح چیز ہے۔ اس کے اندر اپنے آپ کلام کرنے کی صلاحیت نہیں۔ اِس کا مطلب دراصل یہ ہے کہ عالمی کمیونیکیشن کے زمانے میں ایک شخص پیدا ہوگا جو جدید کمیونکیشن کے ذرائع کو استعمال کرکے آیاتِ الٰہی کو لوگوں تک پہنچائے گا۔ ایسی حالت میں دابہ کے رول کو ادا کرنے کے لیے انسان اور کمیونکیشن دونوں یکساں طورپر ضروری ہیں۔ گویا کہ انسان اور کمیونکیشن دونوں ایک ہی رول کے دو پہلو ہیں، یعنی اعلانِ حق کے رول کو ادا کرنے والا ایک انسان ہوگا، اور اِس کام کے لیے وہ جس ذریعے کو استعمال کرے گا، وہ جدید کمیونکیشن کا ذریعہ ہوگا، واللہ أعلم بالصواب۔
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز — 203

1 - حیدرآباد (دکن) کی یونی ورسٹی (English & Foreign Languages University) میں 25-27 فروری 2010 کو ایک انٹرنیشنل کانفرنس ہوئی۔ اِس کانفرنس کا موضوع یہ تھا:
Indo-Yemen Cultural Mutuality.
اِس کانفرنس میں انڈیا کے علاوہ مغربی ممالک سے بڑی تعداد میں اعلیٰ تعلیم یافتہ غیر مسلم حضرات شریک ہوئے۔ اِس موقع پر پروفیسر شاد حسین (کشمیر) نے اپنے ساتھیوں کے تعاون سے حاضرین کو مطالعے کے لیے قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی پمفلٹ دئے۔
2 - ہندی روزنامہ ’’ہندستان‘‘ کی طرف سے 28-29 اپریل 2010 کوسہارن پور (یوپی) میں ایک ایجوکیشن فئر لگایا گیا۔ یہ ایجوکیشنفئر مہاراجہ پیلیس میں لگایا گیا تھا۔ اِس موقع پر نیشنل میڈیکل کالج (سہارن پور) کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد اسلم خاں نے سی پی ایس کی طرف سے ایک بک اسٹال لگایا۔ بڑی تعداد میں لوگ اسٹال پر آئے اور اسلام کے بارے میں معلومات حاصل کیں اور قرآن کا ہندی اور انگریزی ترجمہ لیا۔ نئی دہلی سے شاہ عمران حسن نے اِس بک فئر میں شریک ہوکر اپنا تعاون دیا۔
3 - یکم مئی 2010 کی شام کو G-10 (نظام الدین ویسٹ، نئی دہلی) میں سی پی ایس کے افراد پر مشتمل ایک پروگرام ہوا۔ یہاں مغرب کی نماز باجماعت ادا کی گئی۔ نماز کے بعد صدر اسلامی مرکز نے ایک تربیتی خطاب کیا۔ اِس خطاب میں جو باتیں کہی گئیں، ان میں سے ایک بات یہ تھی کہ سی پی ایس کے لوگوں کو چاہئے کہ وہ اپنی زندگی میں خاص طورپر پانچ چیزوں کو شامل کریں— سادگی، انٹریکشن، انٹلکچول ایکسچینج، تواضع، کسی ایک وقت لازمی طورپر گھر والوں کے ساتھ مل کر کھانا کھانا۔ عشاء کی باجماعت نماز کے بعد یہ پروگرام ختم ہوا۔
4 - ایران کی راجدھانی تہران کے معروف مقا م ’’مصلیٰ بزرگ امام خمینی‘‘ پر 23 واں تہران انٹرنیشنل بک فئر منعقد ہوا، جو 5-15 مئی 2010 تک جاری رہا۔ نئی دہلی سے گڈ ورڈ بکس نے بھی اِس بک فئر میں حصہ لیا۔ یہ انڈیا کا واحد بک اسٹال تھا۔ لوگ بڑی تعداد میں اسٹال پر آئے اور صدر اسلامی مرکز کا انگریزی ترجمۂ قرآن اور دیگر کتابیں حاصل کیں۔ اس موقع پر تہران یونی ورسٹی کے رسرچ اسکالر مسٹر سبھاش کمار (انڈیا) نے اپنا بھر پور تعاون دیا۔ یہاں بک اسٹال کا انتظام شاہ عمران حسن نے سنبھالا۔
5 - زی سلام ٹی وی چینل (نوئڈا) کی اسٹوڈیو میں 18 مئی 2010 کو ایک پینل ڈسکشن ہوا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور اپنا نقطۂ نظر پیش کیا۔ اِس ڈسکشن کا موضوع یہ تھا:
سیکولر تہذیب میں اسلامی اقدار کا فروغ
اِس موقع پر اسٹاف کے لوگوں کو سی پی ایس کی طرف سے قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔
6 - ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسیز (بمبئی) کی رسرچ اسکالر مز بھونیت کور نے 19 مئی 2010 کو صدراسلامی مرکز کا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا۔ اِس کا موضوع یہ تھا:
Mediated Muslim Identity
یہ انٹرویو انگریزی زبان میں تھا۔ سوالات کے دوران موضوع کی وضاحت کی گئی۔ انٹرویور کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیاگیا جس کو انھوں نے خوشی کے ساتھ قبول کیا۔
7 - امریکن ایمبسی (نئی دہلی) کے ایک وفد نے 16 مئی 2010 کو صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کی۔ اِس وفد کی قیادت ڈاکٹر محمد بشر العرفات کررہے تھے۔ وہ امریکا کے سویلائزیشن ایکسچینج اینڈ کو آپریشن فاؤنڈیشن (Civilizational Exchange & Co-operation Foundation) کے صدر ہیں۔ملاقات کا موضوع ’’عالمی امن کا قیام‘‘ تھا۔ صدر اسلامی مرکز نے اسلام میں امن کی اہمیت اور اس کے قیام کے طریقِ کار پر انگریزی زبان میں ایک تقریر کی ۔ اِس موقع پر ڈاکٹر العرفات نے اپنا نقطۂ نظر پیش کیا۔ تقریر کے بعد سوال وجواب کا پروگرام ہوا۔ سی پی ایس کی ٹیم کے لوگوں نے بھی اِس پروگرام میں حصہ لیا۔ پروگرام کے بعد امریکن وفد کو قرآن کا انگریزی ترجمہ، پرافٹ آف پیس اور دعوتی لٹریچر دیاگیا۔ ڈاکٹر العرفات کو اس کے علاوہ، صدر اسلامی مرکز کی عربی تفسیر (التذکیر القویم فی تفسیر القرآن الحکیم) کا ایک سیٹ دیاگیا۔
8 - امریکن ایمبسی (نئی دہلی) سے مسٹر جیسن (Jason A. Barrett) اپنی ٹیم کے ساتھ 21 مئی 2010 کو صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کے لیے آئے۔ مسٹر جیسن انفارمیشن سپورٹ ٹیم کے ڈپٹی ڈائریکٹر ہیں۔ گفتگو کا موضوع ’’عالمی امن کا قیام‘‘ تھا۔ سوالات کے دوران امن کے موضوع کی وضاحت کی گئی۔ اِس موضوع پر امریکن ٹیم کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور پرافٹ آف پیس مطالعے کے لیے دی گئی۔
9 - میواڑ یونی ورسٹی (غازی آباد) میں 22 مئی 2010 کو ایک پروگرام ہوا۔ یہ پروگرام صدر اسلامی مرکز کی تقریر کے لیے منعقد کیاگیا تھا۔ اس کا موضوع یہ تھا:
Islam its Teachings and its contribution to the Society.
اِس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اپنی ٹیم کے ساتھ اس میں شرکت کی اور موضوع پر ایک گھنٹہ تقریرکی۔ تقریر کے بعد سوال وجواب کا پروگرام ہوا۔ یہاں مسٹر رجت ملہوترا نے سی پی ایس کے متعلق اپنے تاثرات بیان کئے۔ اِس یونی ورسٹی میں ڈھائی ہزار طلبا اور طالبات زیر تعلیم ہیں۔ ان لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیاگیا۔
10 - صدر اسلامی مرکز کی انگریزی زبان میں حسب ذیل دو کتابیں شائع ہوئی ہیں:
Jihad, Peace & Islam (Rupa & Co.), The Prophet of Peace (Penguin Books)
اول الذکر کتاب کو پروفیسر یوگندر سکند (Yoginder Sikand) نے ترجمہ کرکے ایڈٹ کیا ہے۔ یہ کتاب صدر اسلامی مرکز کے مختلف مضامین کے ترجمہ پرمشتمل ہے۔
واپس اوپر جائیں

Al-Quran Mission

القرآن مشن کے تحت ملک اور بیرون ملک میں بڑے پیمانے پر ’ادخالِ قرآن‘ کا کام جاری ہے۔ ادخالِ قرآن کا یہ کام انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پرانجام دیا جارہا ہے۔ القرآن مشن کے تحت، دنیا کے مختلف نمائندہ افراد اور تنظیموں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر بذریعہ ڈاک روانہ کیا جاتا ہے۔ مثلاً یکم مئی 2010 کو مشہور برٹش سائنس داں پروفیسر اسٹفن ہاکنگ (Stephen Hawking) کو قرآن کا انگریزی ترجمہ بھیجا گیا۔
The Speaking Tree Supplement of Times of India dated Sunday May 16th 2010 carried a review of translation of The Quran by Maulana Wahiduddin Khan. Stating that this translation is, “Simple and direct and reaches out to a large audience, Muslims as well as non Muslims”, they have aptly entitled it as “Not Lost in Translation”. The review further states, “The Maulana writes that the Quran is the word of God and it is the duty of believers to communicate the message of the Quran to all human beings so that they may know the reality of life.” After the review the Al Quran Mission at Delhi has received hundreds of requests for “Free Quran” through the website. Some of the comments from mainly non-Muslims are as follows:
ک Thank you for sending me The Quran, which I never expected. How nice it would be if other organisations too distribute their sacred books in simple language freely to the interested. I am a cosmopolitan from Hindu back-ground and I will definitely read and try to understand “Quran”. (V.B.Swamy, Bangalore)
ک Though born in a hindu family. I am deeply influenced by Islamic thoughts and Islam. Serving Muslim society through various means directly and indirectly. (Mahesh Bajaj, Mumbai)
ک I love reading articles authored by Maulana on Muslin religion . They are secular and not orthodox type. (Krishan Kumar Agarwal, Ghaziabad)
ک I will be grateful for a copy of the holy book. I am a secular person willing to imbibe all that is offered by any and all religions. (Anindya Chowdhury, Gurgaon)
ک I want to congratulate you for translating The Quran so that every one can understand this holy book. My age is about 80 years and I will be really greatful to have such kind of book. (I. D. Garg, Ghaziabad)
ک Like to study your whole literature. I hope your literature will help me to better understand the philosophy of Islam. Thanking you for your honourable service. (Deepak Bisht, Ghaziabad)
ک We have small group of spiritual minded retired people, meet every thursday and discuss GITA and many other spiritual literature. We are secular in our attitude and have open mind . We would love to read QURAN. I request you to supply 5 copies of this great book on GOD by VPP. I will take the delivery, I assure you. (Dr. Krishan Agarwal, Ghaziabad)
ک This is in reference to information in TOI regarding the availability of free translation of “Quran”, my father wishes to go through the holy pages, if you can please send the same free copy, he will be highly pleased. (Prarina)
ک I am a Hindu by birth and for a while I was an atheist. I have been searching for God all my life, yet I have not found God. I wish to explore the Quran with the hope that I will find God. (Raymond Papiah, S. Africa)
ک I am learning about Islam at school and I would like a copy of the Quran so I can gain a more in-depth comprehension of the religion. (Kate Mitchell, Australia)
ک Thank you for sending me The Quran, which I never expected. When I approached through internet, I learnt that it was not available. So, I am pleasantly surprised when I received it by courier service. I am a cosmopolitan from Hindu back ground and I will definitely read and try to understand “Quran”. Thank you again for your kind gesture. With warm regards and best wishes.(V.B.Swamy, Bangalore)
Responses of the people who are distributing this Quran in their areas:
Bangalore: Have been receiving a few acknowledgements over phone. Feel wonderful doing this project. I keep checking my mail every few minutes to see if we have received more requests. May Allah take the CPS Mission to the entire world, feel truly blessed being a part of this. (Sarah Fatima)
Mumbai: It is the biggest grace of God that we are associated with this mission and are part of the dawah empire. May Allah keep all of us a part of the empire and mission till our last breath, Ameen! (Sajid Anwar, Mumbai)
More and more people are getting involved in Al Quran Mission and these are the types of response that they are receiving for the English translation of the Quran by Maulana Wahiduddin Khan.
Al-Quran Mission
محترم بھائیو اور بہنو! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
سی پی ایس انٹرنیشنل کے تحت 2 اپریل 2010 کو صدر اسلامی مرکز مولانا وحید الدین خاں صاحب نے القرآن مشن (Al Quran Mission) کا افتتاح کیا۔ یہ افتتاح نئی دہلی کے انڈیا انٹرنیشنل سنٹر میں دو روزہ دعوتی اجتماع (Dawah Meet) میں کیاگیا۔ القرآن مشن کا مقصد ’ادخالِ کلمہ‘ ہے، یعنی ہر گھر میں خدا کے کلام کو پہنچانا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ قیامت سے پہلے ہر چھوٹے اور بڑے گھر میں اسلام کا کلمہ (قرآن) داخل ہوجائے گا۔ القرآن مشن کا مقصد اِسی پیغمبرانہ پیشین گوئی کو واقعہ بنانا ہے۔
قرآن اِس زمین پر واحد محفوظ خدائی کلام ہے، جو پوری انسانیت کے لیے ابدی ہدایت نامے کی حیثیت رکھتا ہے۔ خدائی اسکیم کے مطابق، یہ امر مقدر ہوچکا ہے کہ قیامت سے پہلے تمام انسانوں تک، اُن کی اپنی قابلِ فہم زبان میں، خدا کا کلام پہنچ جائے، تاکہ کوئی بھی عورت یا مرد خدا کے تخلیقی پلان سے بے خبر نہ رہے۔
موجودہ زمانے میں جدید کمیونی کیشن نے اِس بات کو پوری طرح ممکن بنا دیا ہے کہ کُرۂ ارض پر بسنے والے تمام مردوں اور عورتوں کو خدا کا کلام پہنچایا جاسکے۔ القرآن مشن اِسی دعوتی نشانے کے تحت شروع کیا گیا ہے۔ اِس کا مقصد یہ ہے کہ جدید ذرائع ابلاغ کو استعمال کرتے ہوئے ’ادخالِ کلمہ‘ کی پیغمبرانہ پیشین گوئی کو واقعہ بنایا جائے، تاکہ زمین پر بسنے والے تمام لوگ قرآن کے خدائی پیغام سے باخبر ہوسکیں۔ جو لوگ اِس ربانی مشن میں شریک ہو کر ہمارا تعاون کرنا چاہتے ہیں، اُن سے گزارش ہے کہ وہ اِس سلسلے میں القرآن مشن سے رابطہ کرکے اپنا مکمل پتہ، ٹیلی فون نمبر اور ای میل روانہ کریں، نیز اِس بات کو واضح فرمائیں کہ آپ القرآن مشن میں شامل ہو کر کس طرح اس کے ساتھ تعاون کرنا چاہتے ہیں۔ اللہ ہمارا حامی وناصر ہو۔
ثانی اثنین خاں
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1, Nizamuddin West Market, New Delhi-110013
Email: info@cpsglobal.org.org
واپس اوپر جائیں