Pages

Friday, 1 July 2011

Al Risala | July 2011(الرسالہ،جولائی )

2

-فہمِ دین میں تقویٰ کی اہمیت

3

- اصلاحی عمل کا نقطۂ آغاز

4

- تائیدِ دین: تین دور

5

- مصادرِ شریعت

6

- قرآن کی سائنسی تفسیر

7

- متبادل نظام

8

- نفاق کی علامت

10

- عروج وزوال کا قانون

12

- تاریخ کے فیصلے کو بدلنا

14

- تمثیلی اسلوب

15

- تنقید کی دوقسمیں

16

- دعوت اور حکمت

17

- ایک غیر سائنسی بیان

18

- اسلامی رومانیت

19

- اتحادِ ملت

19

- ناممکن کی سیاست

20

- عظمتِ خویش کانفرنس

21

- نظر ِثانی کی ضرورت

22

- خدا کی طرف

28

- حسنِ جواب

29

- ذہنی تناؤ کا مسئلہ

30

- اپنے آپ کو بچائیے

31

- اکّالُ الرجال

32

- ایک خط

33

- سوال وجواب

40

- خبر نامہ اسلامی مرکز


فہمِ دین میں تقویٰ کی اہمیت

قرآن کی سورہ الانفال میں ارشاد ہوا ہے: یٰاأیہا الذین آمنوا إن تتّقوا اللہ یجعل لکم فرقاناً (8: 29) یعنی اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم اللہ سے ڈرو تو اللہ تمھارے لیے ایک فرقان بہم پہنچا دے گا۔
اِس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ دین کا صحیح فہم کسی آدمی کو اُس وقت ملتا ہے، جب کہ اس کو اللہ کی معرفت اتنی گہرائی کے ساتھ حاصل ہو کہ وہ اللہ سے ڈرنے لگے، وہ اللہ کے معاملے میں بہت زیادہ محتاط (mindful) بن جائے۔ جب آپ کسی معاملے کی علمی تشریح کریں تو اُس میں ڈر شامل نہیں ہوتا۔ آپ کی نفسیات یہ نہیں ہوتی کہ اگر میں نے غلط تشریح کردی تو میں سخت طورپر خدا کی پکڑ میں آجاؤں گا۔ لیکن جب آپ کے اندر متقیانہ ذہن پیدا ہوجائے تو آپ کا احساس یہ ہوتا ہے کہ میں اِس کا تحمل نہیں کرسکتا کہ میں کسی دینی امر کا مفہوم اِس طرح بیان کروں جو ادنیٰ درجے میں بھی حق سے ہٹا ہوا ہو:
I can not afford slightest deviation from the right meaning.
مذکورہ آیت میں فرقان کا لفظ آیا ہے۔ فرقان کے لفظ میں فرق کا مفہوم مبالغے کے ساتھ شامل ہے۔ اِس کا مطلب ہے دو چیزوں کے درمیان فرق (differentiate) کرنے کی گہری صلاحیت (الفصل بین الشیئین)۔ اِس صلاحیت کا ایک درجہ یہ ہے کہ آدمی علمی بنیاد پر فرق کرنا جانتا ہو۔ لیکن یہ صرف ایک ابتدائی بنیاد ہے۔ فرق کرنے کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ آدمی کے اندر داخلی بصیرت کے درجے میں فرق کرنے کی صلاحیت پیدا ہوجائے۔ اِسی کا نام فرقان ہے۔ ایسے آدمی کے لیے دین کی صحیح تشریح کرنے کا معاملہ ذاتی نجات کا معاملہ بن جاتا ہے۔ اس کے لیے ناممکن ہوجاتا ہے کہ وہ دین کی ایسی تشریح کرے جو آخر کار اللہ کے سامنے رد(reject) ہوجانے والی ہو۔ جو آدمی دین کی تشریح میں محتاط ہو، وہ لازمی طورپر دینی عمل میں بھی آخری حد تک محتاط ہوجائے گا۔
واپس اوپر جائیں

اصلاحی عمل کا نقطۂ آغاز

قدیم زمانے میں جب یہود پر سیاسی زوال آیا تو اُن کے اندر یہ مزاج پیداہوا کہ وہ لڑکر دوبارہ اپنا سیاسی اقتدار قائم کریں۔ اُس وقت، بائبل کے بیان کے مطابق، یہود کے پیغمبر یرمیاہ نے اُن سے کہا— بادشاہ اور اس کی والدہ سے کہو کہ عاجزی کرو اور نیچے بیٹھو، کیوں کہ تمھاری بزرگی کا تاج تمھارے سر پر سے اتار لیا گیا ہے:
Say to the king and to the queen mother, “Humble yourselves; sit down, for your rule shall collapse, the crown of your glory.” (Jeremiah 13: 18)
یہاں یہود کی مثال کی صورت میں یہ بتایا گیا ہے کہ قوموں پر عروج کے بعد زوال آتا ہے، سیاسی بالادستی کے بعد انھیں سیاسی زیردستی کا تجربہ پیش آتا ہے۔ یہ معاملہ قانونِ فطرت کے تحت پیش آتا ہے۔ اُس وقت قوم کو چاہیے کہ وہ اِس تبدیلی کو تسلیم کرے۔ کیوں کہ اُس وقت اِس تبدیلی کو تسلیم نہ کرنا اپنے آپ کو مزید تباہی کی طرف لے جانے کے ہم معنیٰ ہوتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ سیاسی اقتدار (political power)کسی گروہ کی قومی اجارہ داری (monopoly)نہیں۔ سیاسی اقتدار کا حصول اس کی ضروری اہلیت کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ قوم کے اندر جب تک صلاحیت پائی جائے، سیاسی اقتدار بھی اُس کو حاصل رہے گا۔ صلاحیت کے فقدان کے بعد سیاسی اقتدار بھی اس سے چھن جائے گا۔ جب ایسا ہو تو قوم کو چاہیے کہ وہ دوبارہ اپنے اندر ضروری صلاحیت پیدا کرے، نہ کہ وہ فریق ثانی کے خلاف بے فائدہ جنگ چھیڑ دے۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ ما بقوم میں تغیر ہمیشہ مابأنفس میں تغیر کا نتیجہ ہوتا ہے (13:11) مابقوم سے مراد اجتماعی حالت ہے، اور ما بأنفسسے مراد انفرادی حالت۔ جب بھی کسی قوم کی اجتماعی سطح پر زوال آئے تو اس کو اپنے افراد کی سطح پر اس کا سبب ڈھونڈنا چاہیے۔ کیوں کہ قوم کے افراد کی حالت کو بدلنے کے بعد ہی قوم کی اجتماعی حالت بدل سکتی ہے، اس کے بغیر ہر گز نہیں— عمل کا آغاز افراد کی سطح سے ہوتا ہے، نہ کہ اجتماع کی سطح سے۔اجتماع کی سطح پر جو آغاز ہوتا ہے، وہ صرف لیڈری ہے، نہ کہ کوئی حقیقی عمل۔
واپس اوپر جائیں

تائیدِ دین: تین دور

ایک مفسر قرآن سے پوچھا گیا کہ قرآن کا خلاصہ کیا ہے۔ انھوں نے جواب دیا کہ — سرگزشتِ انذار۔ یہ بات جزئی طور پر درست ہے، لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ قرآن سرگزشتِ دعوت ہے۔ انسانی تاریخ میں پیغمبروں کے ذریعے دعوتِ دین کا جو کام ہوا، قرآن اس کی براہِ راست یا بالواسطہ سرگزشت کا مجموعہ ہے۔ دعوت کا کام اصلاً خدائی پیغام کی پیغام رسانی کا کام ہے۔ مگر اس کام کی انجام دہی کے لیے خصوصی تائید ضروری ہے۔ اِس تائید کے تین بڑے دور ہیں:
1 - تائید دین بذریعہ معجزہ۔ 2 - تائید ِ دین بذریعہ سکینہ۔
3 - تائید ِ دین بذریعہ مذہبی آزادی۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے خدا کے جو پیغمبر آئے، اُن کی تائید اللہ تعالیٰ نے معجزات کے ذریعے کی۔ ہر پیغمبر کو اپنے زمانے کے حالات کے اعتبار سے معجزہ دیاگیا۔ قرآن کے مطابق، پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو اِس قسم کا حسّی معجزہ نہیں دیاگیا (17: 59) ، البتہ آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو خصوصی تائید کے طور پر وہ چیز دی گئی جس کو قرآن میںسکینہ (9: 26) کہاگیا ہے۔
سکینہ سے مراد سکونِ قلب (tranquility) ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کو دعوت کے راستے میں غیر معمولی قسم کے شدائد کا سامنا کرنا پڑا۔ بھوک، بائیکاٹ، جلاوطنی، قتال، وغیرہ۔ یہ شدائد اتنے زیادہ سخت تھے کہ عام انسان اُن کا تحمل نہیں کرسکتا۔ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر اور اصحابِ پیغمبر کو خصوصی طورپر سکونِ قلب عطا کیا، جس کو خدائی سکون (divine calm) کہاجاسکتا ہے۔ اِسی خصوصی تائید کی بنا پر پیغمبر اور اصحابِ پیغمبر اپنے مشن کی تکمیل کرسکے۔
تیسری تائید وہ ہے جو موجودہ زمانے کے اہلِ ایمان کو حاصل ہوئی ہے۔ یہ مذہبی آزادی (religious freedom) کا ناقابلِ تنسیخ حق ہے جو موجودہ زمانے میں عالمی طورپر حاصل ہوا ہے۔ اب دعوت کا کام کسی بھی قسم کی رکاوٹ کے بغیر آزادانہ طورپر انجام دیاجاسکتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

مصادرِ شریعت

فقہاء کا یہ ماننا ہے کہ اسلامی شریعت کے مصادر (sources) چار ہیں — قرآن، سنت، اجماع، قیاس، مگر یہ درست نہیں۔ یہ نظریہ تمام تر ذاتی قیاس کی بنیاد پر بنایاگیا ہے۔ قرآن اور سنت کی بنیاد پر اگر مصادرِ شریعت کو متعین کیا جائے تو وہ صرف تین ہوں گے۔ پہلا دو مصدر تو واضح طورپر قرآن اور سنت ہے۔ جہاں تک تیسرے مصدر کا تعلق ہے، اس کے لیے قرآن میں استنباط (4: 83) اور حدیث میں اجتہاد (صحیح البخاری) کا لفظ آیا ہے۔ نص کی بنیاد پر دیکھا جائے تو اصلاً اسلامی شریعت کے یہی تین مصادرہیں۔ اِن کے سوا کسی چوتھے مصدر کا اضافہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک بدعت ہے، اس کی کوئی منصوص بنیاد نہیں۔
عام طورپر فقہاء نے اجماع (consensus) کو شریعت کا ایک مستقل مصدر قرار دیا ہے، مگر یہ یقینی طورپر ایک بے بنیاد نظریہ ہے۔ شریعت کا مستقل مصدر صرف کوئی نصِ قطعی ہوسکتا ہے۔ نص قطعی کی غیر موجودگی میں کسی چیز کو شریعت کا مستقل مصدر قرار دینا، یقینی طورپر ایک بے بنیاد بات ہے۔ اجماع کی بلاشبہہ ایک اہمیت ہے، لیکن وہ اہمیت صرف یہ ہے کہ کسی خاص موقع پر اجماع کسی پیش آمدہ مسئلے کا ایک عملی حل ہوتاہے۔ یہ حل یقینی طورپر ایک وقتی حل ہوتا ہے، نہ کہ شریعت کا ابدی مصدر۔
یہ کوئی سادہ بات نہیں، یہ ایک بے حداہم بات ہے۔ ضرورت ہے کہ اہلِ علم اِس موضوع پر سنجیدگی کے ساتھ غور کریں اور پورے معاملے پر نظر ثانی کرتے ہوئے دوبارہ اس مسئلے کی ایسی تشریح کریں جو ایک طرف قرآن وسنت کے نصوص کے مطابق ہو۔ اور دوسری طرف اُس میں دورِ جدیدکے بدلے ہوئے حالات میں مسلمانوں کے لیے قابلِ عمل رہنمائی موجودہو۔ آج کی ایک ضرورت یہ ہے کہ اسلام کے تعلق (relevance) کو جدید دور کی نسبت سے ثابت کیا جائے، اور یہ کام مذکورہ معاملے کی تشریح کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے بہت سے فکری مسائل کا حل اِس معاملے کی تشریحِ نو سے منسلک ہے۔
واپس اوپر جائیں

قرآن کی سائنسی تفسیر

بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ قرآن میں تمام سائنسی مضامین موجود ہیں اور اِن حوالوں کو لے کر قرآن کی سائنسی تفسیرکی جاسکتی ہے۔ اِس معاملے میں کچھ لوگ اِس حد تک گئے ہیں جس کو صرف غیرعلمی نقطۂ نظر کہاجاسکتا ہے۔ مثلاًاُن کا یہ کہنا کہ ألم نشرح لک صدرک(94: 1) میں علم تشریح الابدان (anatomy) کا حوالہ ہے۔اور فکشفنا عنک غطائک فبصرک الیوم حدید (50:22)میں علم امراضِ چشم کا بیان ہے، وغیرہ۔
قرآن میں سائنسی مضامین کا یہ نظریہ بلاشبہہ ایک بے بنیاد نظریہ ہے۔ قرآن ان معنوں میں ہر گز کوئی سائنسی کتاب نہیں۔ لیکن ایک اور اعتبار سے یہ بات بالکل درست ہے، وہ یہ کہ جدید سائنسی تحقیقات فہمِ قرآن میں مدد گار کی حیثیت رکھتی ہیں۔
مثلاً قرآن کی سورہ المومنون میں بتایا گیا ہے کہ : وجعلنا من الماء کلَّ شیٔ حیّ (21: 30)۔ یہ بات پچھلے دور کا قاریٔ قرآن بھی ابتدائی طور پر جانتا تھا، مگر موجودہ زمانے کا قاریٔ قرآن جب اِس آیت کو سائنس کی نئی دریافتوں کے ساتھ ملا کرپڑھتا ہے تو وہ اس کی مزید تفصیل جان لیتا ہے۔اِس بنا پر قرآن کی صداقت کے بارے میں اس کا یقین بڑھ جاتا ہے۔
اِسی طرح قرآن کی سورہ یاسین میں یہ آیت ہے: وکلٌّ فی فلک یسبحون (36: 40)۔ اِس آیت میں اجرامِ سماوی کی گردش کے بارے میں جوبات کہی گئی ہے، اُسے قدیم زمانے کا قاریٔ قرآن بھی سمجھ سکتا تھا، لیکن آج کا ایک قاریٔ قرآن جب جدید سائنسی دریافتوں کو لے کر اِس آیت کو پڑھتا ہے تو وہ مزید اضافے کے ساتھ اِس آیت کو سمجھنے لگتاہے۔ اِس طرح قرآن کی صداقت کے بارے میں اس کا یقین بڑھ جاتا ہے۔
قرآن کی سائنسی تفسیر کا ایک تصور غلو پر مبنی ہے، قرآن کی سائنسی تفسیر کا دوسرا تصور حقیقت پر مبنی ہے۔ پہلا تصور یقینی طورپر غلط ہے، اور دوسرا تصور یقینی طورپر درست۔
واپس اوپر جائیں

متبادل نظام

قرآن کی سورہ الحج میں ارشاد ہوا ہے: الذین إن مکّنّاہم فی الأرض أقاموا الصلوٰۃ، واٰتوا الزکاۃَ، وأمروا بالمعروف، ونہوا عن المنکر، وللہ عاقبۃ الأمور(22: 41) یعنی اہلِ ایمان کو اگر ہم زمین میں غلبہ دیں تو وہ نماز قائم کریں گے، اور زکات ادا کریں گے، وہ معروف کا حکم دیں گے، اور منکر سے روکیں گے، اور سب کاموں کا انجام اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔
قرآن کی اِس آیت میں اہلِ اسلام کی اُس حالت کا بیان ہے جس کو سیاسی اقتدار کہاجاتا ہے۔ لیکن اِس آیت کے مطابق، یہ لوگ سیاسی اقتدار پاکر جو کام انجام دیں گے، وہ عین وہی کام ہے جس کو وہ سیاسی اقتدار سے پہلے بھی انجام دے رہے تھے، یعنی نماز کی اقامت، زکات کو ادا کرنا اور لوگوں کو برائی سے روکنا اور انھیں بھلائی کی تلقین کرنا۔ یہ سب وہی کام ہیں جو ہر مومن اقتدار کے بغیر بھی انجام دیتا ہے اور انھیں کاموں کو اُسے اقتدار پانے کے بعد بھی کرنے کے لیے بتایا گیا ہے۔
اِس سے معلوم ہوا کہ اسلام کے مطابق، سیاسی اقتدار کا وہ مقصد نہیں ہے جس کو کہ کچھ لوگ نہایت جوش کے ساتھ بیان کرتے ہیں، یعنی غریبی ہٹانا، اقتصادی استحصال کو ختم کرنا، سماج کے اندر مادی خوش حالی لانا، آئڈیل نظام قائم کرنا، وغیرہ۔ موجودہ زمانے کے کچھ سیاست پسند مسلمان یہ کہتے ہیں کہ اسلام دنیا کو ایک متبادل نظام (alternative system) دیتا ہے۔ یہ عین وہی چیز ہے جس کو قرآن میں مضاہاۃ (9: 30) کہاگیا ہے۔
موجودہ زمانے میں کچھ سیکولر مفکرین نے کہا کہ اشتراکیت(Communism) سرمایہ دارانہ نظام کا بدل (alternative) ہے۔ اِسی طرح کچھ سیکولر مفکرین نے کہا کہ جمہوریت، بادشاہی نظام کا بدل ہے۔ اِسی کی نقل میں کچھ مسلم مفکرین نے یہ کہنا شروع کردیا کہ اسلام سیکولر نظام کا ایک بدل ہے، وہ دنیا کو متبادل سیاسی اور معاشی نظام پیش کرتا ہے۔ مگر اِس تصور کا ماخذ قرآن نہیںہے، بلکہ اس کا ماخذصرف اہلِ زمانہ کی تقلید ہے، اِس سے زیادہ اس کی کوئی اور حقیقت نہیں۔
واپس اوپر جائیں

نفاق کی علامت

عبد اللہ بن عمرو سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أربع مَن کن فیہ کان منافقا خالصاً۔ ومن کانت فیہ خصلۃ منہن کانت فیہ خصلۃ من النفاق حتی یدَعَہا: إذا ئتُمِنَ خانَ، وإذا حدّث کذب، وإذا عاہد غدر، وإذا خاصم فجرَ (صحیح البخاری، کتاب الإیمان، باب علامۃ المنافق) یعنی چار خصلتیں ہیں جس کے اندر وہ خصلتیں ہوں، وہ خالص منافق ہے۔ اور جس شخص کے اندر اُن میں سے کوئی ایک خصلت پائی جائے، اُس کے اندر نفاق کی ایک خصلت ہوگی، یہاں تک کہ وہ اس خصلت کو چھوڑ دے— جب اس کو امین بنایا جائے تو وہ خیانت کرے، جب وہ بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وہ عہد کرے تو وہ اُس عہد سے پھر جائے، اور جب نزاع پیدا ہو تو وہ جھگڑنے لگے۔
اِس حدیث میں منافق کے کردار کو بتایا گیا ہے۔ منافق انسان وہ ہے جو عدم تقویٰ کی بنا پر حق اور ناحق کے معاملے میں غیر حساس (insensitive) ہوجائے۔ ایسا انسان ایک بے اصول انسان بن جاتا ہے۔ اس کے اندر مسئولیت (accountability) کا احساس باقی نہیں رہتا۔ اس کی روش ذاتی مفاد کے تابع ہوتی ہے، نہ کہ اصولِ حق کے تابع۔ اخلاقی معیار کی اہمیت اس کے اندر سے ختم ہوجاتی ہے، وغیرہ۔
اِس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اگر اس کو کوئی امانت سونپی جائے تو وہ نہایت آسانی سے اس کے معاملے میں خیانت کا مرتکب ہوجاتا ہے۔ جب وہ بات کرتاہے تو اپنے آپ کو سچ بولنے کا پابند نہیں سمجھتا، وہ نہایت آسانی کے ساتھ ایسی بات کہہ دیتا ہے جو حقیقت واقعہ کے خلاف ہو۔ ایسا آدمی عہد کا پابند نہیں ہوتا، وہ نہایت آسانی کے ساتھ عہد کرنے کے باوجود اُس عہد کو توڑ دیتا ہے۔
اِسی طرح ایسے انسان کا یہ حال ہوتا ہے کہ اگر کسی شخص سے اس کا اختلاف یا نزاع ہوجائے تو وہ اس کے معاملے میں انصاف پر قائم نہیں رہتا۔ وہ علمی گفتگو کے بجائے الزام تراشی کی زبان بولنا شروع کردیتا ہے۔ سنجیدہ تبادلۂ خیال کے بجائے، وہ جھگڑے کا انداز اختیار کرلیتا ہے۔ گفتگو کو دلائل تک محدود رکھنے کے بجائے، وہ زیر تنقید شخص کی نیت پر حملہ کردیتاہے۔ علمی تجزیہ (analysis) کے بجائے، وہ منفی ریمارک (negative remark) دینا شروع کردیتا ہے۔ حقائق کے حوالے سے بات کرنے کے بجائے، وہ قیاسات کے حوالے سے بات کرنا شروع کر دیتاہے۔ معاملے کو اصول تک محدود رکھنے کے بجائے، وہ مفروضات کے حوالے سیگفتگو کرنا شروع کردیتاہے۔ اصولی بنیاد پر بحث کرنے کے بجائے، وہ ذاتی نوعیت کی چیزوں سے بحث شروع کردیتا ہے، یہاں تک کہ وہ فریقِ ثانی کی طرف ایسی بات منسوب کرنے لگتاہے جو کہ اُس نے کبھی نہ کہی ہو۔ وہ اپنے موقف کی حمایت میں ایسی باتیں بولنے لگتاہے جو صرف سنی سنائی ہوتی ہیں، اُن کی کوئی اصل نہیں ہوتی، وغیرہ۔
منافق کی جن خصلتوں کا ذکر مذکورہ حدیثِ رسول میں کیاگیاہے، وہ بے حد سنگین خصلتیں ہیں۔ اِن کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ جو لوگ اِن خصلتوں کے حامل ہوں، اُن کے اندر کمزور شخصیت (weak personality) پرورش پاتی ہے۔ ایسا آدمی اُس عظیم نعمت اسے محروم ہوجاتا ہے جس کو اسٹرانگ شخصیت (strong personality) کہاجاتاہے۔
اِس خصلت کا مزید نقصان یہ ہوتاہے کہ ایسے آدمی کو فرشتوں کی صحبت نہیں ملتی۔ اس کو ربانی الہامات (divine inspirations) نہیں پہنچتے۔ وہ اعلیٰ معرفت کی غذا نہیں پاتا۔ خدا سے اس کار بط قائم نہیں ہوتا۔ ایسے آدمی کا ذہنی ارتقا (intellectual development) رک جاتا ہے۔ وہ تزکیہ کی نعمت سے محروم ہوجاتا ہے۔ ایمان کی روشنی اس کے داخل تک نہیں پہنچتی۔
کمزور شخصیت والا آدمی ہمیشہ شیطان کے زیر اثر رہتا ہے۔ اِس کے مقابلے میں، اسٹرانگ شخصیت والے آدمی کے ساتھ وہ ملکوتی تجربہ گزرتا ہے جس کو قرآن میں اِس طرح بیان کیا گیا ہے: إن الذین قالوا ربنا اللہ ثم استقاموا تتنزل علیہم الملائکۃ أن لا تخافوا ولا تحزنوا وأبشروا بالجنۃ التی کنتم توعدون (41: 30)
واپس اوپر جائیں

عروج وزوال کا قانون

قرآن کی سورہ الحدیدمیں امت کے عروج وزوال کا قانون بتایا گیا ہے۔ اِس سلسلے میں دو متعلق آیتوں کا ترجمہ یہاں نقل کیا جاتا ہے: ’’کیا ایمان والوں کے لیے وہ وقت نہیں آیا کہ اُن کے دل اللہ کی نصیحت کے آگے اور اُس حق کے آگے جھک جائیں جو نازل ہوچکا ہے۔ اور وہ اُن لوگوں کی طرح نہ ہوجائیں جن کو پہلے کتاب دی گئی تھی، پھر اُن پر لمبی مدت گزر گئی تو اُن کے دل سخت ہوگئے۔ اور ان میں سے اکثر لوگ نافرمان ہیں۔ جان لو کہ اللہ زمین کو زندگی دیتا ہے اُس کے مردہ ہونے کے بعد۔ ہم نے تمھارے لیے نشانیاں بیان کردی ہیں، تاکہ تم سمجھو‘‘۔ (57: 16-17)
اِن آیات میں فطرت کا ایک قانون بتایا گیا ہے، مگر عجیب بات ہے کہ قرآن کے مفسرین میں سے غالباً کوئی بھی اس مفہوم کو واضح نہ کرسکا۔ مثال کے طورپر سید قطب (وفات:1966 ) نے اِس آیت کی تفسیر میں لکھاہے: ولا بدّ من الیقظۃ الدائمۃ کی لا یصیبہ التبلّد والقساوۃ (فی ظلال القرآن، جلد 6، صفحہ 3489) یعنی لازم ہے کہ قلب دائمی طورپر بیدار رہے، تاکہ اس کے اندر سستی اور بے حسی نہ پیدا ہو۔ یہ تفسیر بلا شبہہ خلافِ فطرت ہے۔ اِس تفسیر کا مطلب یہ ہے کہ امت پر دورِ زوال نہ آنے پائے، حالاں کہ دورِ زوال کا آنا ایک فطری تقاضا ہے، کوئی بھی امت اس سے مستثنیٰ نہیں، نہ یہود اور نہ مسلمان۔اِن آیتوں میں دراصل فطرت کے اُس قانون کو بتایا گیا ہے جس کو ڈی جنریشن (degeneration) کہاجاتا ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ امتِ مسلمہ کی بعد کی نسلوں میں قساوت کی وہی کمزوری پوری طرح آجائے گی جو اِس سے پہلے یہود کے اندر آچکی ہے۔ اِس کے بعد تمثیل کی زبان میں یہ بتایا گیا ہے کہ جب ایسا ہو تو علمائِ امت کو کیا کرنا چاہیے۔ ان کو وہی کرنا چاہیے جو کسان اپنی بنجر زمین پر کرتا ہے۔ وہ پہلے زمین کو تیار کرتا ہے، اس کے بعد وہ اس میں بیج ڈالتا ہے۔ اِسی طرح علماء اور مصلحین کو یہ کرنا چاہیے کہ وہ پہلے امت کے اندر شعوری بیداری لائیں اور اس کے بعد عملی پروگرام کا نفاذ کریں۔ زوال کے بعد یہی صحیح نقطہ آغاز (starting point) ہے۔
شعوری بیداری کے بغیر عملی پروگرام کا نفاذ کبھی نتیجہ خیز (result-oriented)نہیں ہوسکتا۔ شعوری بیداری کیا ہے۔ شعوری بیداری کا مطلب ہے — امت کے افراد کے لیے اسلام کو اُن کی ری ڈسکوری (re-discovery) بنانا، ان کے اندر فکری انقلاب لانا، ان کے سامنے اسلام کی تعلیمات کو اِس طرح پیش کرنا جو اُن کے مائنڈ کو ایڈریس کرنے والا ہو، جو اُن کی بے حسی (قساوت) کو دوبارہ حساسیت میں تبدیل کردے۔
مثال کے طورپر مسلمانوں کی موجودہ نسلوں میں عام طورپر زوال کی وہی حالت طاری ہوچکی ہے جس کا ذکر قرآن کی مذکورہ آیت میں کیاگیا ہے۔ اِس کا سبب کیا ہے۔ اِس کا سبب بنیادی طورپر یہ ہے کہ موجودہ زمانہ عقل (reason) کا زمانہ ہے۔ موجودہ زمانے کا انسان کسی بات کو صرف اُس وقت سمجھ پاتاہے جب کہ وہ اس کو ریزن آؤٹ (reason out) کرسکے۔ اِس کے بغیر وہ اُس بات کا عصری ریلیونس (contemporary relevance) دریافت نہیں کر پاتا، اِس لیے وہ زندہ شعور کے ساتھ اُس کو اخذ (grasp)بھی نہیں کرپاتا۔
اب صورت حال یہ ہے کہ قدیم زمانے میں جو کتابیں لکھی گئیں، وہ سب روایتی اسلوب میں تھیں، جب کہ موجودہ ذہن سائنٹفک ذہن ہے۔ اِس بنا پر قدیم روایتی لٹریچر جدید ذہن کو اپیل نہیں کرتا۔ ایسا لٹریچر جدید ذہن کو ایک غیر متعلق لٹریچر نظر آتا ہے۔
موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے فکری زوال کا اصل سبب یہی ہے۔ موجودہ زمانے میں مسلم دنیا میں سیکڑوں بڑی بڑی تحریکیں اٹھیں، لیکن وہ زوال یافتہ امت کو دوبارہ زندہ امت نہ بنا سکیں۔ اِس کا سبب یہ تھا کہ اِن تحریکوں نے مسلمانوں کو روایتی اسلوب میں خطاب کیا، وہ عصری اسلوب میں اُن کو خطاب نہ کرسکیں۔ انھوں نے ذہنی انقلاب کے بغیر امت کے سامنے عملی پروگرام پیش کردیا۔ اِس قسم کا طریقِ کار یقینی طور پر بے نتیجہ ہونے والا تھا، کیوں کہ یہ گھوڑے کے آگے گاڑی رکھنا (putting the cart before the horse) کا معاملہ تھا۔ فطری قانون کے مطابق، اِس طریقِ کار کے لیے یہی مقدر تھا کہ وہ عملاً بے نتیجہ ہو کر رہ جائے۔
واپس اوپر جائیں

تاریخ کے فیصلے کو بدلنا

کعبہ کو تقریباً چار ہزار سال پہلے حضرت ابراہیم نے مکہ میں بنایا تھا۔ اُس وقت کعبہ مستطیل (rectangle) صورت میں تھا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے قریش مکہ نے کعبہ کی نئی تعمیر کی۔ اُس وقت انھوں نے کعبہ کی لمبائی کو کم کرکے اس کو مربّع (square) صورت میں تعمیر کیا۔ کعبہ اِس مربع صورت میں آج تک موجود ہے۔
روایات میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اہلیہ عائشہ سے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ کعبہ کی عمارت کو دوبارہ میں ابراہیمی بنیاد پر بناؤں، مگر آپ اِس سے باز رہے، کیوں کہ عملی اسباب کے تحت اب ایسا ہونا ممکن نہ تھا (صحیح البخاری، کتاب الحج، باب فضل مکۃ وبنیانہا)
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس واقعے سے ایک اہم اصول معلوم ہوتاہے، وہ یہ کہ تاریخ کے پہیے کو دوبارہ الٹی طرف نہیں چلایا جاسکتا:
The wheel of history cannot be put in the reverse gear.
یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ اِس پیغمبرانہ واقعے سے فطرت کا ایک قانون معلوم ہوتا ہے، وہ یہ کہ تاریخ کا سفر ہمیشہ ماضی سے حال اور حال سے مستقبل کی طرف ہوتا ہے۔
تاریخ میں یو ٹرن (U turn) لینا ممکن نہیں ہوتا۔ یہ انسان کی طاقت سے باہر ہے کہ وہ تاریخ کے سفر کو مستقبل سے حال کی طرف اور حال سے ماضی کی طرف جاری کردے۔ تاریخ کے معاملے میں موجود صورت حال (statusquo) کو مان کر منصوبہ بنایا جاتا ہے، نہ کہ اس کا انکار کرکے۔
کعبہ کی تاریخ اِس معاملے کی ایک مثال ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فطرت کے اِس قانون کو تسلیم کرتے ہوئے سابق ابراہیمی بنیاد پر کعبہ کو دوبارہ تعمیر کرنے کی کوشش نہیں کی۔ بعد کو عبد اللہ بن زبیر (وفات: 692 ء) کا زمانہ آیا تو انھوں نے کعبہ کی عمارت کو توڑ کر اس کو دوبارہ ابراہیمی بنیاد پر بنایا، لیکن عبد اللہ بن زبیر کی وفات کے فوراً بعد حجاج بن یوسف الثقفی (وفات:714 ء) نے اس کو توڑ دیا اور دوبارہ کعبہ کو اس کی سابق بنیاد پر تعمیر کردیا۔ موجودہ زمانے کے مسلمان اِس اصول سے مکمل طور پر بے خبر ہیں۔ اِس لیے وہ بار بار اِس اصول کی خلاف ورزی کرتے ہیںاور اس کے نتیجے میں وہ صرف اپنی تباہی میں مزید اضافہ کرلیتے ہیں۔
بیسویں صدی کے ربع اول میں خلافت تحریک، بیسویں صدی کے نصف ثانی میں فلسطینی تحریک، بیسویں صدی کے نصف آخر میں کشمیری تحریک اور اِس قسم کی دوسری تحریکیں اِسی کا ثبوت ہیں۔ اِن تحریکوں کے لیڈروں نے تاریخ کے فیصلے کو بدلنے کی کوشش کی، مگر تاریخ کا فیصلہ نہیں بدلا، البتہ نادانی کی اِس سیاست نے مسلمانوں کی تباہی میں مزید اضافہ کردیا۔
وہ لمحہ جب کہ تاریخ کا فیصلہ ہورہا ہو، اُس وقت آپ اپنی دانش مندانہ پالیسی کے ذریعے فیصلے پر اثر انداز ہوسکتے ہیں، لیکن جب فیصلہ ہوگیا تو اُس کے بعد فیصلے کو بدلنے کی کوشش کرنا عملاً خود کشی کے سوا اور کچھ نہیں۔
واپس اوپر جائیں

تمثیلی اسلوب

مولانا جلال الدین رومی (وفات: 1273ء) نے اپنی مشہور ’’مثنوی‘‘ جس زمانے میں لکھی، وہ تمثیلی اسلوب کا زمانہ تھا۔ قدیم زمانے میں عام طورپر یہی اسلوب رائج تھا، یعنی اپنی بات کو فرضی مثالوں اور فرضی کہانیوں کی زبان میں بیان کرنا۔ اِسی زمانی اثر کے تحت، مولانا رومی نے اپنی مثنوی تمثیلی اسلوب کے تحت لکھی۔ تمثیلی ادب کا یہ اسلوب نیوٹن (وفات: 1727ء) کے ظہور کے بعد ختم ہوگیا۔ موجودہ زمانے میں تمثیل کا اسلوب ایک غیر علمی اسلوب سمجھا جاتا ہے، علمی اعتبار سے وہ کوئی معتبر اسلوب نہیں۔
مسلمانوں کے ساتھ یہ حادثہ ہوا کہ وہ عہد کی اِس تبدیلی سے بے بہرہ رہے اور اِس بنا پر قدیم زمانے میں مثنوی مولانا روم جس طرح اُن کے یہاں عمومی طورپر رائج تھی، اُسی طرح بعد کے زمانے میں بھی وہ ان کے درمیان رائج رہی۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں میں جدید علمی اسلوب فروغ نہ پاسکا۔ چناں چہ آج بھی اُن کی تقریروتحریر میں مثنوی مولانا روم کے اشعار اِس طرح نقل کئے جاتے ہیں جیسے کہ وہ ایک مستند علمی بیان کی حیثیت رکھتے ہوں۔
یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ اسلوبِ کلام کا براہِ راست تعلق متکلم کے طرزِ فکر سے ہے۔ متکلم اگر فرضی کہانیوں اور غیر واقعی مثالوں کے ذریعے اپنی بات کہنے کا عادی ہو تو اس کی سوچ بھی اِسی قسم کی غیرواقعی سوچ بن جائے گی۔ وہ مفروضات اور یقینیات میں فرق نہ کرسکے گا۔ وہ خیالی تمثیلات کی بنیاد پر ایک بات کہے گا اور یہ سمجھے گا کہ اُس نے جو بات کہی ہے، وہ حقائق کی بنیاد پر قائم ہے۔ اس کے اندر مبنی بر حقیقت تفکیر (realistic approach) کا ارتقا نہ ہوسکے گا۔ وہ شاعرانہ تخئیل اور مبنی بر حقیقت تفکیرکے فرق کو سمجھنے سے قاصر رہے گا۔
اِس طرزِ فکر کا مزید نقصان یہ ہوگا کہ ایسا آدمی زندگی کے معاملات میں حقیقت پسندانہ رائے قائم نہ کرسکے گا۔ اس کی منصوبہ بندی جذبات پر مبنی ہوگی، نہ کہ عقل و خرد کی بنیاد پر۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ایسے لوگوں کا کیس فکر اور عمل دونوں اعتبار سے صرف تباہی کا کیس بن کر رہ جائے گا۔
واپس اوپر جائیں

تنقید کی دوقسمیں

تنقید (criticism) کا ایک طریقہ یہ ہے کہ زیر تنقید شخص نے جو بات کہی ہے، اس کو اچھی طرح سمجھا جائے اور پھر اس کے اصل نقطۂ نظر کو لے کر اس پر تنقید کی جائے۔ یہ تنقید کا صحیح اور علمی طریقہ ہے۔تنقید کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ زیر تنقید شخص نے جو بات کہی ہے، اُس سے خود ساختہ طور پر ایک مفہوم نکالا جائے اور اِسی خود ساختہ مفہوم کو زیر تنقید شخص کی طرف منسوب کرکے اُس پر تنقید کی جائے۔ یہ دوسرا طریقہ تنقید کا غلط اور غیر علمی طریقہ ہے۔
موجودہ زمانے میں، تنقید کا یہ دوسرا طریقہ بہت زیادہ عام ہوگیا ہے۔ موجودہ زمانے میں لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ تنقید کو حقوقِ انسانی کا ایک حصہ سمجھتے ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ تنقید کرنا، اُن کا ذاتی حق ہے۔ یہ ایک مغالطہ آمیز بات ہے۔ تنقید بلا شبہہ ہر انسان کا حق ہے، لیکن یہ کسی بھی شخص کا حق نہیں کہ وہ زیر تنقید شخص کے کلام سے ایک خود ساختہ مفہوم نکالے اور اِس خود ساختہ مفہوم کو زیر تنقیدشخص کی طرف منسوب کرکے وہ اس پر پُرشور تنقید شروع کردے۔
تنقید دراصل علمی تجزیہ (scientific analysis) کا دوسرا نام ہے۔ تنقید حقیقتاً وہی ہے جو علمی تجزیہ کے اسلوب میں کی جائے۔ جو تنقید علمی تجزیہ سے خالی ہو، وہ بلا شبہہ عیب جوئی اور الزام تراشی کے ہم معنیٰ ہے۔ اِس قسم کی تنقید علمی اعتبار سے بے بنیاد ہے، اور شرعی اعتبار سے بلاشبہہ ایسی تنقید ایک سنگین گناہ کی حیثیت رکھتی ہے۔
علمی تجزیہ طرفین کے لیے مفید ہے، ناقد کے لیے بھی اور زیر تنقید شخص کے لیے بھی۔ علمی تنقید کے ذریعے ناقد کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ زیرِ بحث موضوع کا ازسرِ نو مطالعہ کرے۔ اِسی طرح زیر تنقید شخص کو اُس سے یہ موقع ملتاہے کہ وہ اپنی رائے کا از سرِ نو جائزہ لے۔ اِس کے برعکس، غیر علمی تنقید اِس طرح کے کسی مثبت فائدے سے مکمل طورپر خالی ہوتی ہے —علمی تنقید ذہنی ارتقا کا ذریعہ ہے، جب کہ غیرعلمی تنقید صرف آدمی کے ذہنی انحطاط کا ذریعہ۔
واپس اوپر جائیں

دعوت اور حکمت

حیدرآباد کے ایک تعلیم یافتہ مسلمان ہیں۔ وہ الرسالہ کے دعوتی مشن سے جڑے ہوئے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ وہ وہاں الرسالہ مطبوعات کے ذریعے دعوتی کام کررہے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ایک دین دار مسلمان سے اِس سلسلے میں ان کی بات ہوتی تھی۔ مذکورہ مسلمان، الرسالہ مطبوعات کے سخت خلاف تھے۔ انھوںنے اِس مسئلے پر ٹھنڈے ذہن کے ساتھ سوچا۔ اِس کے بعد ایک بات ان کی سمجھ میں آئی۔ وہ مذکورہ دین دار مسلمان سے ملے اور ان سے کہا کہ یہاں کچھ تعلیم یافتہ نوجوان ہیں۔ وہ اسلام کا مطالعہ کرنا چاہتے ہیں۔ اُن کے لیے آپ کوئی ایسی کتاب بتائے جو جدید اسلوب میں لکھی گئی ہو اور وہ ان کے ذہن کو مطمئن کرے۔ انھوں نے جواب دیا کہ مجھے ایسی کسی کتاب کا علم نہیں۔ پھر انھوںنے اُن کو الرسالہ مطبوعات میں سے ’’اسلام اور عصر حاضر‘‘ مطالعے کے لیے دی۔ اِس کتاب کو پڑھ کر مذکورہ دین دار مسلمان بہت خوش ہوئے۔ انھوں نے کہا کہ اِس ادارے کی اور کتابیں ہمیں پڑھنے کے لیے دیجئے۔
اِسی طرح کا ایک اور واقعہ یہ ہے کہ الرسالہ مشن کے مذکورہ ممبر ایک مسلم لائبریری میں گئے۔ وہاں انھوں نے لائبریری کے ذمے دار سے کہا کہ آپ دوسرے اداروں کی کتابیں اپنے یہاں رکھتے ہیں، آپ کو چاہیے کہ آپ الرسالہ مطبوعات کو بھی اپنے یہاں رکھیں۔ ناظمِ کتب خانہ نے اِس مشورے کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ پھر انھوں نے پوچھا کہ جدید ذہن کو مطمئن کرنے والی کون سی کتابیں آپ کے کتب خانے میں ہیں۔ ناظم کتب خانہ نے کہا کہ ایسی کوئی کتاب ہمارے کتب خانے میں نہیں ہے۔ اِس کے بعد انھوں نے الرسالہ مطبوعات میں سے بعض کتابیں ان کو پڑھنے کے لیے دیں۔ اس کو پڑھ کر ناظمِ کتب خانہ کی رائے بدل گئی۔ انھوں نے کہا کہ جدید ذہن کے لیے یہ کتابیں بہت مفید ہیں، اور پھر اپنے کتب خانے میں الرسالہ کی تمام مطبوعات کو رکھنے کا فیصلہ کرلیا — اِسی کا نام حکیمانہ اسلوب ہے۔ کامیاب دعوتی عمل کے لیے حکیمانہ اسلوب بے حد ضروری ہے۔
واپس اوپر جائیں

ایک غیر سائنسی بیان

موجودہ زمانہ کے مشہور برٹش سائنس داں اسٹفن ہاکنگ (Stephen Hawking) کا ایک بیان اخبارات میں آیا ہے۔ ایک انٹرویو کے دوران انھوں نے کہا کہ — جنت یا زندگی بعد موت کا کوئی وجود نہیں، یہ سب پریوں کی کہانی ہے:
There is no heaven or afterlife, that is a fairy story. (The Times of India, N. Delhi, May 17, 2011, p. 19)
یہ سائنس داں کی زبان سے ایک غیر سائنسی بیان ہے۔ ایک شخص جو جنت کو نہ مانتا ہو، وہ سائنسی زبان میں صرف یہ کہہ سکتا ہے کہ معلوم طبیعی قوانین کے مطابق، یہاں جنت کا کوئی وجود نہیں:
According to the known physical laws, Paradise has no existence.
مگر بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ اِس معاملے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ سائنس کے جدید ترین مطالعے کے مطابق، کائنات کے مادّے کا صرف 5 فی صد حصہ ہمارے مشاہدے میں آتا ہے۔ کائنات کا بقیہ 95 فی صد مادّہ سرے سے قابلِ مشاہدہ (observable) ہی نہیں۔ ایسی حالت میں خالص سائنسی بیان یہ ہوگا کہ — قیاساً اِس دنیا میں جنت کا کوئی وجود نہیں:
Probably, Paradise has no physical existence.
سائنس (science) مطالعے کا ایک خصوصی طریقہ ہے۔ سائنس کی رسائی صرف اُن حقائق تک ہوتی ہے جو اس کی دور بین (telescope) یا خورد بین (microscope) کے مشاہدے میں آتے ہوں۔ جب خود سائنسی مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ ممکن طورپر کائنات کے قابلِ مشاہدہ مادّے کا زیادہ بڑا حصہ موجودہ سائنسی آلات کے مطابق، قابلِ مشاہدہ نہیں۔ ایسی حالت میں، سائنس کے حوالے سے یہ کہنا بلا شبہہ ایک غیر سائنسی بیان ہے کہ — کائنات میں جنت کا کوئی وجود نہیں۔قدیم زمانے میں علمی بیان کی کوئی محدّد تعریف موجود نہ تھی، مگر موجودہ زمانے میں علمی بیان صرف اُس کو کہاجاتا ہے جو محدَّد زبان (specific language) میں ہو۔ اِس علمی تعریف کا لحاظ یقینا سائنس داں کو بھی کرنا ہے اور غیر سائنس داں کو بھی۔
واپس اوپر جائیں

اسلامی رومانیت

موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے کیس کو اگر ایک لفظ میں بتانا ہو تو وہ غالباً اسلامی رومانیت (Islamic romanticism) ہوگا۔ موجودہ زمانے کے تقریباً تمام مسلمان اِسی اسلامی رومانیت میں جی رہے ہیں— ماضی میں گزری ہوئی مسلم شخصیتوں کی کہانیاں، کشف وکرامات کے قصے، جہاد کے واقعات، مفروضہ معیاری نظام، وغیرہ۔ اِنھیں چیزوں نے موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا ذہن بنایا ہے۔ ان کی ہر مجلس میں اِس طرح کی باتوں کا چرچا ہوتاہے۔ ہر مسلمان یہ سوچتا ہے کہ قدیم پُرفخر سیاسی دور کس طرح دوبارہ واپس لایا جائے۔
اِس اسلامی رومانیت کی سب سے زیادہ تباہ کن مثال سیاسی رومانیت ہے۔ موجودہ زمانے کے مسلم رہنماؤں نے بہت سی سیاسی لڑائیاں چھیڑیں۔ یہ سیاسی لڑائیاں مختلف ملکوں میں وہاں کے اقتدار کے خلاف لڑی گئیں۔ اِن لڑائیوں کے دوران مسلمانوں میں عجیب وغریب قسم کی پراسرار کہانیاں پھیلائی جاتی رہیں۔ہر لڑائی میں پر اسرار طورپر فتح کی داستانیں پھیلائی جاتی رہیں، مگر آخر میں معلوم ہوا کہ ہر لڑائی یک طرفہ طورپر صرف مسلمانوں کی تباہی پر ختم ہونے والی تھی۔
یہ اسلامی رومانیت آج بھی مختلف صورتوں میں جاری ہے، مسلم اکثریت والے ملکوں میں بھی اور اُن ملکوں میں بھی جہاں مسلمان اکثریت میں نہیں ہیں۔ اِسی رومانیت کو قرآن میںامانی (2: 78) کہاگیا ہے، یعنی خوش فہمیاں (wishful thinking) ۔
موجودہ زمانے کے تقریباً تمام مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ وہ کسی نہ کسی قسم کی خوش فہمی میں مبتلا ہیں۔ خوش فہمی کے اِس مزاج کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ اُن کے اندر حقیقت پسندانہ سوچ ختم ہوگئی ہے، وہ مفروضات میں جیتے ہیں،وہ تصوراتی دنیا میں اپنی خیالی دنیا تعمیر کرتے رہتے ہیں، وہ توہماتی عقائد کو اپنا سہارا بنائے ہوئے ہیں۔ یہ غیر حقیقت پسندانہ مزاج دنیا کے اعتبار سے بھی ہلاکت خیز ہے اور آخرت کے اعتبار سے بھی ہلاکت خیز۔
واپس اوپر جائیں

اتحادِ ملت

اتحاد یا تضامن (unity) ہماری ایک اہم ضرورت ہے۔ پرنٹنگ پریس کے جدید دور میں غالباً سب سے زیادہ جس موضوع پر لکھا گیا ہے، وہ اتحاد ہے، براہِ راست طورپر یا بالواسطہ طورپر۔ مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلمانوں میں اتحاد موجود نہیں۔ اِس کا سبب کیا ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ ہمارے رہنماؤں نے مذہب کے حوالے سے اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کی، مگر ساری کوششوں کے باوجود ملت کے اندر اتحاد پیدا نہ ہوسکا۔ حقیقت یہ ہے کہ اتحاد ایک عملی ضرورت ہے، اور پریکٹکل وزڈم (practical wisdom) کے شعور ہی سے اتحاد پیدا کیا جاسکتا ہے۔
مذہب کے معاملے میں یکسانیت کبھی ممکن نہیں۔ مذہب کے پہلو سے ہمیشہ لوگوں میں اختلاف رہا ہے اور ہمیشہ اختلاف رہے گا۔ اِس لیے جب بھی مذہب کے حوالے سے اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی تو اُس کا نتیجہ صرف یہ ہوگا کہ اختلاف میں مزید اضافہ ہوجائے، جیسا کہ بالفعل پیش آیا ہے۔ اتحاد کی بنیاد صرف ایک ہے اور وہ یہ ہے کہ لوگوں کے اندر اِس عملی ضرورت کا گہرا شعور پیدا ہوجائے کہ اتحاد کے بغیر قرآن کے الفاظ میں، ان کی ہوا اکھڑ جائے گی (8: 46) ۔ مشہور مقولے کے مطابق، اتحاد کسی گروہ کو مستحکم کرتا ہے، اور اختلاف اس کے زوال کا باعث ہوتا ہے:
United we stand, divided we fall.
اتحاد کا واحد عملی فارمولا یہ ہے کہ لوگوں کے اندر یہ شعور پیدا کیا جائے کہ اختلاف ایک فطری ظاہرہ ہے، وہ کبھی ختم ہونے والا نہیں۔ اِس لیے اختلاف کے باوجود مل کر رہنا سیکھو۔ اتحاد کے معاملے میں یہ چیز نقطۂ اتحاد نہیں بن سکتی کہ سب کی سوچ ایک ہوجائے۔ البتہ ایک اور چیز سب کے لیے نقطۂ اتحاد بن سکتی ہے، اور وہ مشترک مفاد (mutual interest) ہے۔ اتحاد ایک عملی ضرورت ہے اور اس کو عملی ضرورت کے حوالے ہی سے قائم کیا جاسکتا ہے۔ اِسی اصول کا نام ڈی لنکنگ پالیسی (delinking policy) ہے۔ اور اِس معاملے میں ڈی لنکنگ پالیسی ہی واحد قابلِ عمل فارمولے کی حیثیت رکھتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

ناممکن کی سیاست

موجودہ زمانے کے مسلم رہنما ہر جگہ سیاست کے ہنگامے جاری کئے ہوئے ہیں۔جہاںبھی کچھ مسلمان ہیں، وہاں اِس کی مثال دیکھی جاسکتی ہے۔ مگر یہ تمام سیاسی ہنگامے مکمل طورپر بے نتیجہ ثابت ہورہے ہیں۔ اِس کا مشترک سبب یہ ہے کہ یہ تمام مسلم رہنما ناممکن کی سیاست چلا رہے ہیں، یعنی ایک ایسی چیز کے نام پر سیاست جو سرے سے قابلِ حصول ہی نہیں۔ ایسی سیاست کا نتیجہ یہی ہوسکتاہے کہ وہ عملاً بے نتیجہ ہو کر رہ جائے۔
موجودہ زمانے میں اِس قسم کی سیاست ہر مسلم علاقے میں دیکھی جاسکتی ہے — فلسطین میں یہ نعرہ کہ فلسطین پر یہودی قبضے کو ختم کرو اور وہاں دوبارہ عرب حکومت قائم کرو۔ اِسی طرح کشمیر میں یہ سیاست کہ وہاں سے انڈیا کا غلبہ ختم کیا جائے اور کشمیر کو پاکستان کا حصہ قرار دیا جائے۔ اِسی طرح سنکیانگ (چین) اور فلپائن جیسے مقامات پر یہ مطالبہ کہ یہاں دوبارہ مسلم رول قائم کرو، جیسا کہ وہ پہلے وہاں قائم تھا، وغیرہ۔اِس قسم کی ہر سیاست ناممکن کی سیاست ہے۔ اِس کا کوئی مثبت نتیجہ ہر گزملنے والا نہیں۔ اِس قسم کی ناممکن سیاست کا واحد انجام یہ ہے کہ جو کچھ ملا ہوا ہے، وہ بھی چھن جائے اور مزید کچھ حاصل نہ ہو۔ ناممکن کی سیاست عقل کے خلاف بھی ہے اور اسلام کے خلاف بھی۔ سیاست کے معاملے میں عقل اور اسلام دونوں کا تقاضا صرف ایک ہے، وہ یہ کہ اس کو نتیجہ خیز ہونا چاہیے۔ جہاں مثبت نتیجہ ملنے کی امید نہ ہو، وہاں ملے ہوئے پر قناعت کرنا ہے، نہ کہ نہ ملے ہوئے کے لیے لڑائی چھیڑنا۔ ناممکن کی سیاست ہمیشہ صرف لیڈروں کے لیے مفید ہوتی ہے، عوام کے لیے اس کا کوئی فائدہ نہیں۔
ناممکن کی سیاست لیڈر کے لیے استحصال (exploitation) کی سیاست ہے اور عوام کے لیے صرف نادانی کی سیاست۔ ناممکن کی سیاست کے لیے کم سے کم جو لفظ استعمال کیا جاسکتا ہے، وہ خود کشی کی سیاست ہے۔ خود کشی سے کم کوئی لفظ اِس تباہ کن سیاست کو بیان کرنے کے لیے کافی نہیں۔ مزید یہ کہ ناممکن کی سیاست صرف ایک فرد کی خود کشی نہیں ہے، بلکہ وہ پوری قوم کی خود کشی ہے۔
واپس اوپر جائیں

عظمتِ خویش کانفرنس

آج کل ’’عظمت‘‘ کے نام پر ہر جگہ شان دار کانفرنس ہورہی ہیں— عظمت اسلام کانفرنس، عظمتِ قرآن کانفرنس، عظمتِ رسول کانفرنس، عظمتِ صحابہ کانفرنس، وغیرہ۔ عظمت کے نام پر آج کل اِس قسم کی کانفرنسوں کی بہت زیادہ دھوم ہے۔ اِن مختلف کانفرنسوں کا اگر ایک مشترک نام دینا ہو تو وہ صرف ایک ہوگا، اور وہ ہے عظمتِ خویش کانفرنس۔ اِس قسم کی تمام کانفرنسیں دراصل دین کے نام پر اپنے دنیوی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ہوتی ہیں۔ یہ عین وہی برائی ہے جس سے یہود کو اِن الفاظ میں منع کیاگیا تھا: ولا تشتروا باٰیاتی ثمناً قلیلاً (2:41) ۔
دورِ زوال میں یہود کا یہ حال ہوگیا تھا کہ وہ دین کے نام پر دنیا حاصل کرنے لگے۔ حدیث کی پیشین گوئی کے مطابق، آج یہی حال موجودہ مسلمانوں کا ہوچکا ہے۔ موجودہ مسلمانوں کے یہاں دین کے نام پر بڑے بڑے نمائشی کام ہورہے ہیں، مگر حقیقت کے اعتبار سے، اُن کا نشانہ صرف یہ ہوتا ہے کہ دین کے نام پر دنیوی مقصد کو حاصل کیا جائے۔ مثلاً دولت، شہرت، عزت، عہدہ، اقتدار، وغیرہ۔
حدیث میں آیا ہے کہ قدیم اہلِ کتاب 72 فرقوں میں بٹ گئے اور امتِ مسلمہ 73 فرقوں میں بٹ جائے گی (سنن أبی داؤد، رقم الحدیث: 4597 )۔ اِس روایت میں، 72 فرقہ اور 73 فرقہ کا لفظ علامتی ہے۔ اِس کا مطلب دراصل یہ ہے کہ قدیم اہلِ کتاب میں 72 درجے کا بگاڑ آیا تھا اور امتِ مسلمہ میں 73 درجے کا بگاڑ آئے گا۔ دونوں کے درمیان اِس فرق کا سبب زمانی ہے۔ قدیم اہلِ کتاب کا زمانہ دورِ ترقی کے پہلے کا زمانہ ہے۔ اِس بنا پر اُن کے زمانے میں بگاڑ کے اسباب بہت محدود تھے۔ امتِ مسلمہ کا زمانہ ممتد (extend) ہو کر دورِ ترقی تک پہنچ جائے گا۔ اِس بنا پر اُس کے لیے بگاڑ کے اسباب بھی بہت زیادہ بڑھ جائیںگے۔ مثلاً قدیم اہلِ کتاب اسٹیج کی دھوم سے نا آشنا تھے۔ اب امتِ مسلمہ کے افراد کے لیے ممکن ہوگیا ہے کہ وہ دین کے نام پر اسٹیج کی دھوم مچائیںاور اُس کے بڑے بڑے دنیوی فائدے حاصل کریں۔
واپس اوپر جائیں

نظر ِثانی کی ضرورت

مسلم دنیا کے ایک مشہور عرب عالم کو ہندستان بلایا گیا۔ یہاں تین دن کے اندر اُن کے مختلف پروگرام ہوئے، دہلی میں بھی اور دہلی سے باہر بھی۔ اِن پروگراموں میں دہلی کے مسلمانوں کے علاوہ، اطراف کے مسلمان بھی بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔
مذکورہ عرب عالم کا خصوصی پروگرام 27 مارچ 2011 کو دہلی کی شاہی جامع مسجد میں ہوا۔ یہاں انھوں نے ایک لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کے مجمع میں عربی زبان میں ایک تقریر کی۔ اُن کی اِس تقریر کی رپورٹ دہلی کے اردو اخبار راشٹریہ سہارا (28 مارچ 2011 ) میں چھپی ہے۔ اِس تقریر کا عنوان یہ ہے: ’’قرآن اور تعلیماتِ رسول میں مسلمانوں کے مسائل کا حل‘‘
یہ عنوان مذکورہ تقریر کا خلاصہ ہے۔مگر اِس تقریر میں مسلمانوں کے لیے کسی متعین راہِ عمل کی نشان دہی موجود نہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ ساری دنیا کے مسلمان پچھلے دو سو سال سے قرآن اور تعلیماتِ رسول کے نام پر بے شمار سرگرمیاں جاری کئے ہوئے ہیں۔ ہر مسجد، ہر مدرسہ، ہر مسلم ادارہ، ہر مسلم اسٹیج پر اِسی کا چرچا ہے۔ ایسی حالت میں، اصل سوال یہ نہیں ہے کہ قرآن اور تعلیماتِ رسول میں مسلمانوں کے مسائل کا حل موجود ہے، بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ قرآن اور تعلیماتِ رسول کے نام پر زبردست سرگرمیوں کے باوجود کیا وجہ ہے کہ مسلمانوں کے مسائل حل نہیں ہوئے۔
دو سوسال پہلے جس طرح مسلم رہنما ساری دنیا میں سازش اور ظلم کی بات کرتے تھے، آج بھی تمام مسلم رہنما ظلم اور سازش کی شکایت کررہے ہیں۔ ایسی حالت میں اصل کام ماضی کی مسلم سرگرمیوں کا تنقیدی جائزہ ہے، اور جب اِن سرگرمیوں کا تنقیدی جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتاہے کہ اِن مسلم رہنماؤں نے قرآن اور سنت کے نام پر پُرجوش تقریریں کیں، لیکن وہ صحیح راہِ عمل کی نشان دہی نہ کرسکے۔ یہصحیح راہِ عمل ہے — مسائل (problems) کا چرچا کرنے کے بجائے مواقع (opportunities) کو دریافت کرنا اور دانش مندی کے ساتھ اِن مواقع کو اپنے حق میں استعمال کرنا۔
واپس اوپر جائیں

خدا کی طرف

Road to God
کہا جاتا ہے کہ حجری دور (stone age) میں ایک بار ایسا ہوا کہ دو آدمی کسی بات پر غصہ ہوگئے۔ وہ ایک دوسری کے طرف پتھر پھینکنے لگے۔ اتفاق سے ایک شخص کا پتھر دوسرے شخص کے پتھر سے ٹکرا گیا۔ اُس وقت دو پتھر کے ٹکرانے سے اسپارکنگ (sparking) ہوئی۔ پتھر سے ایک چنگاری نکلی۔ اِس چنگاری کو دیکھ کر دونوں آدمی اپنا غصہ بھول گئے۔ دونوں آدمی اپنے اپنے پتھر کو لے کر اس کو دیکھنے لگے، تاکہ وہ چنگاری کا راز دریافت کریں۔
کہا جاتا ہے کہ یہی وہ واقعہ ہے جہاں سے سچائی کی تلاش کا آغاز ہوا۔ لوگ اِس سوال پر غور کرنے لگے کہ کیا یہاں انسان اور مادہ (matter) کے سوا کوئی اور طاقت موجود ہے۔ یہ سوال دھیرے دھیرے خدا کے تصور تک پہنچا۔ یہ سیکولر مفکرین کا نظریہ ہے۔ مگر اسلام کا تصور یہ ہے کہ پہلے انسان (آدم) ہی سے خالق کے وجود کا تصور انسان کے علم میں آچکا تھا۔ پتھر کے ٹکرانے کا واقعہ اگر درست ہو تو یہ فطرت کے قانون کو تلاش کرنے کا آغاز تھا، نہ کہ خدا کو تلاش کرنے کا آغاز۔ ہر پیغمبر نے یہی بتایا کہ اِس عالمِ موجودات کا ایک خدا ہے اور انسان کو چاہیے کہ وہ اُسی خدا کو اپنا معبود بنائے اور اُسی کی عبادت کرے۔
قرآن اِس پیغمبرانہ الہام کا ایک محفوظ ومستندمجموعہ ہے۔ قرآن کی سورہ الذاریات میں انسان کے مقصد تخلیق کو اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: وما خلقت الجن والانس إلا لیعبدون (51: 56) یعنی میں نے جن کواور انسان کو صرف اِس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی عبد اللہ بن عباس کا قول ہے کہ اِس آیت میں لیعبدون سے مراد لیعرفون ہے، یعنی اِس آیت میں، اللہ کی عبادت سے مراد اللہ کی معرفت حاصل کرنا ہے۔
خدا کی معرفت کیا ہے۔ خدا اِس کائنات کا خالق ہے۔ اُس کی معرفت یہ ہے کہ تخلیق میں خالق کو دریافت (discover) کیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ تخلیق اپنے آپ میں خالق کا مکمل تعارف ہے۔ ہمیشہ انسان تخلیق میں خالق کو دیکھتا رہاہے۔ موجودہ زمانے میں نیچر کے بارے میں سائنس کی دریافتوں نے تعارف کے اِس دائرے کو ہزاروں گنا زیادہ حد تک بڑھا دیا ہے۔
یہاں اس سلسلے میں ایک بنیادی پہلو کا ذکر کیا جاتا ہے۔اِس بنیادی پہلو کو سامنے رکھنا بہت ضروری ہے، ورنہ اندیشہ ہے کہ خدا کے بارے میں انسان کا مطالعہ اس کو یقین کے بجائے کنفیوژن تک پہنچا دے، وہ خدا کی طرف سفر کرتے ہوئے کسی غیر خدا کی منزل تک پہنچ جائے۔
موجودہ زمانے میں سائنس کے حوالے سے خدا کے وجود (existence of God) کو ثابت کرنے کے لیے بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ مثلاً:
Nature and Science Speaks about God
The Evidence of God in an Expanding Universe
اللہ یتجلی فی عصر العلم (انگریزی سے ترجمہ)
مگر سائنس کے بارے میں یہ بات متفق علیہ ہے کہ سائنس کامل علم کا نام نہیں۔ سائنس اپنی دریافتوں کے باوجود جہاں تک پہنچی ہے یا پہنچ سکتی ہے، وہ صرف یہ ہے کہ وہ کسی بھی موضوع پر صرف جزئی علم دے سکے۔ اِس حقیقت کو جے این سلیون (JN Sullivan) نے اِن الفاظ میں بیان کیا ہے:
Science gives us but a partial knowledge of reality.
حقیقت یہ ہے کہ خدا کی دریافت کا سفر بنیادی طورپر دو مرحلوں میں طے ہوتا ہے۔ پہلا مرحلہ وہ ہے جو عقلی غوروفکر اور سائنسی معلومات کے ذریعے طے ہوتا ہے۔ یہ ذریعہ بلا شبہہ نہایت اعلیٰ ذریعہ ہے۔ لیکن وہ اپنے آخری درجے میں بھی ایک مسافرِ حق کو جہاں پہنچاتا ہے، وہ صرف احتمال (probability) ہے، یعنی— امکانی طورپر یہاں ایک خدا کا وجود ہے:
Probably there is a God.
یہاں احتمال (probability) سے مراد سادہ طور پر صرف احتمال نہیں ہے، بلکہ اُس سے مراد اعلیٰ عقلی احتمال ہے۔ اعلیٰ عقلی احتمال کو دوسرے لفظوں میں شِبہہِ یقین (semi-conviction) کہاجاسکتا ہے۔ احتمال کا یہ مقام وہ مقام ہے جہاں آدمی شک (doubt) کے لمبے راستے کو طے کرکے آخر کار پہنچتا ہے۔ یہ احتمال دراصل درمیان کا ایک مقام ہے۔ اس کے پیچھے کی طرف شک ہوتا ہے اور آگے کی طرف یقین۔ مگر یہ احتمال اتنا زیادہ قوی ہوتا ہے کہ اب شک کی طرف دوبارہ واپسی اس کے لیے ممکن نہیں ہوتی۔ وہ مجبور ہوتا ہے کہ وہ آگے یقین (conviction) کی طرف بڑھے۔
ایسا ایک آدمی جب پیچھے کی طرف راستہ بند پاکر آگے کی طرف جانا چاہتا ہے تو آگے کی طرف ایک قدم بڑھاتے ہی اس کو ایک نیا تجربہ ہوتا ہے۔ اچانک اس کو محسوس ہوتا ہے کہ میرے اندر وجدان (intuition) کی سطح پر معرفت کا ایک نیا دروازہ کھل گیا ہے۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ جس علم کا ادراک اب تک مجھے خارجی معلومات (external data) کے ذریعے ہو رہا تھا، اُس علمی معرفت تک اب میری براہِ راست رسائی ہوگئی ہے۔ جس علم کو اِس سے پہلے میں اپنی خارجی بصارت (objective observation) کے ذریعے جاننے کی کوشش کررہا تھا، وہ علم اب میرے لیے داخلی بصیرت (inner perception) کا حصہ بن گیا۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ عقلی غور وفکر کی حد خلا (vacuum) پر ختم نہیں ہوتی، بلکہ اس کے بعد فوراً دریافت کا ایک نیا دروازہ کھل جاتا ہے۔ یہ وجدان کا دروازہ ہے۔
آدمی کے اندر بیک وقت دو صفتیں ہیں — عقل (reason)، اور وجدان (intuition) ۔ عقل کسی مجہول چیز کا نام نہیں۔ اِسی طرح وجدان بھی کسی مجہول چیز کا نام نہیں۔ باعتبار واقعہ دونوں ہی مسلّمہ حقائق پر مبنی ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ عقل خارجی حقائق کی بنیاد پر کام کرتی ہے، جب کہ وجدان براہِ راست طور پر داخلی حقیقت سے جڑا ہوا ہے۔ عقل جس چیز کو خارجی شواہد کے ذریعے معلوم کرتی ہے، وجدان اُسی چیز کو داخلی فطرت کے ذریعے جان لیتا ہے۔ عقل کا سفر زمان ومکان (time & space) تک محدود ہے، لیکن وجدان کا سفر زمان ومکان سے باہر (beyond time & space) تک وسیع ہے۔
احتمال سے یقین تک پہنچنے کا یہ معاملہ کسی خوش فہمی (wishful thinking) پر مبنی نہیں، وہ تمام تر علم کے اوپر مبنی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب ایک شخص پوری سنجیدگی کے ساتھ احتمال کے درجے تک پہنچتا ہے تو وہ اُس کے لیے ایک ایسا فطری واقعہ ہوتا ہے جو اُس انسان کے ساتھ لازماً پیش آتا ہے جو حقیقی معنوں میں احتمال کے مقام تک پہنچ گیا ہو۔
یہاں یہ سوال ہے کہ وجدان کے ذریعے حاصل ہونے والے علم کو کیوں کر مستند علم سمجھا جائے۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ جس آدمی کے اوپر وجدان کا یہ دروازہ کھل جائے، وہ اپنی داخلی بصیرت کے تحت ایسی باتوں کو جاننے لگتا ہے جس کا علم اُس کو پہلے حاصل نہ تھا۔ بعد کو خارجی حقائق بالواسطہ طور پر یہ ثابت کرتے ہیں کہ اُس کو اپنے وجدان کے ذریعے جو علم حاصل ہوا تھا، وہ ایک حقیقی علم تھا، وہ کوئی فرضی واہمہ نہ تھا۔ راقم الحروف کو ذاتی طورپر بار بار اِس کا تجربہ ہوا ہے۔
موجودہ زمانے میں سائنسی طریقہ (sientific method) کو مستند طریقہ سمجھا جاتا ہے۔ کسی چیز کودریافت (discover) کرنے کے لیے سائنس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ — پہلے مفروضہ، اس کے بعد مشاہدہ، اور پھر تصدیق:
Hypothesis, Observation, Verification
اِس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے ایک سوچنے والے دماغ میں ایک تصوراتی مفروضہ آتا ہے۔ اس کے بعد وہ متعلق شواہد کی تحقیق کرتا ہے۔ اگر یہ شواہد اس کے مفروضہ کی تصدیق کریں تو اس کے بعد اس کا مفروضہ ایک مسلّمہ حقیقت بن جاتا ہے۔ یہی معاملہ وجدان کے ذریعہ دریافت ہونے والی حقیقت کا ہے۔ یہاں بھی یہی ہوتاہے کہ پہلے ایک سچے متلاشی (true seeker) کے دماغ میں ایک تصور آتا ہے۔ اِس کے بعد وہ متعلقہ حوالوں (relevant reference) کی روشنی میں اس کی مزید تحقیق کرتاہے، یہاں تک کہ ثابت ہوجاتاہے کہ اس کا مفروضہ درست تھا۔
راقم الحروف کو اپنی تلاش کے دوران بار بار ایسے تجربات پیش آئے ہیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ صوفیا کے حلقے میں ایک قول کا حدیثِ قدسی کی حیثیت سے بہت چرچا ہے۔ وہ قول یہ ہے: کنتُ کنزاً مخفیا، فأحببتُ أن اُعرف، فخلقتُ خلقاً، فبی عرفونی (کشف الخفاء، 2/1011 ) یعنی میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا، پھر میں نے چاہا کہ میں جانا جاؤں، پھر میں نے ایک مخلوق (انسان) کو پیدا کیا، پھر انسان نے مجھ کو پہچانا۔
میرا بے آمیز وجدان کہتا تھا کہ یہ قول بالکل درست ہے۔ یہ معرفت کے معاملے کی بالکل صحیح تعبیر ہے۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اِس روایت کی کوئی قابلِ اعتماد سند موجود نہیں۔ اِس لیے علما عام طور پر اِس کو مستند نہیں مانتے۔ تاہم میں اس کی تحقیق کرتا رہا۔ چناں چہ میں اِس دریافت تک پہنچا کہ خود قرآن میں اِس تصور کی اصل موجود ہے۔ قرآن کی سورہ الذاریات میں یہ آیت آئی ہے: وما خلقتُ الجن والإنس إلا لیعبدون (51: 56) ۔ مشہور صحابی رسول عبد اللہ بن عباس نے اِس آیت میں ’’عبادت‘‘ سے مراد معرفت لیا ہے۔ انھوںنے اِس آیت کی تفسیر اِن الفاظ میں کی ہے: وماخلقت الجن والإنس إلا لیعرفون۔
اِس مثال میں، میرے وجدان نے مجھ کو ایک علم تک پہنچایا، وہ یہ کہ اس کی اصل خود قرآن میں موجود ہے۔ اِس کے بعد میںنے مزید غور کیا تو میں اِس دریافت تک پہنچا کہ مذکورہ قول دراصل ایک تفسیری قول ہے جس کو قائل نے آیتِ قرآنی کی رعایت سے، حدیثِ قدسی کی زبان میں بیان کردیا۔ اِس قول کے الفاظ اگر بدل دئے جائیں اور اس کو ایک تفسیری قول کی شکل دے دی جائے تو وہ اِس طرح ہوگا: کان اللہ کنزاً مخفیا، فأحبّ أن یُعرف، فخلق الخلق۔
حقیقت یہ ہے کہ ایک سچے متلاشی کا وجدان، عقلی بنیاد سے بھی زیادہ مضبوط بنیاد ہے۔ عقلی بنیاد آدمی کو صرف فنی سطح کے ظاہری علم تک پہنچاتی ہے، لیکن ایک سچے متلاشی کا وجدان مزید اضافے کے ساتھ حقیقت شناسی (realization of truth) کی سطح پر قائم ہوتا ہے۔ یہی وہ سطح ہے جب کہ ایک ترقی یافتہ ذہن ادراکِ حقیقت کی ایک ایسی سطح پر کھڑا ہوجاتا ہے جہاں سے وہ حقیقت کو براہِ راست دیکھ سکے، وہ اِس درجے تک پہنچ جائے کہ وہ حقیقت کو کسی دلیل کے بغیر پہچاننے لگے۔
اِس معاملے کا ایک ثبوت یہ ہے کہ وجدان کی سطح پر جو یقین حاصل ہوتا ہے، وہ ہمیشہ بڑھتا رہتاہے۔ اور یہ ایک واقعہ ہے کہ کوئی غیر حقیقی چیز کبھی اضافہ پذیر نہیں ہوتی۔ واہمہ اور حقیقی وجدان میں یہ فرق ہے کہ واہمہ ہمیشہ بے ثبات ہوتا ہے۔ وہ صرف وقتی طورپر آدمی کو متاثر کرتا ہے اور پھر دھیرے دھیرے وہ ختم ہوجاتا ہے۔ اِس کے برعکس، اگر کسی شخص کی رسائی حقیقی وجدان تک ہوجائے تو اُس پر کبھی زوال نہیںآتا۔ حقیقی وجدان ہمیشہ ترقی کرتارہتا ہے، اس کے یقین کا سفر کبھی ختم نہیںہوتا، وہ ہمیشہ آگے بڑھتا رہتا ہے۔
واہمہ ایک مجہول چیز ہے، اس کی کوئی شعوری بنیاد نہیں۔ اِس کے برعکس، وجدان پوری طرح شعور پر مبنی ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وجدان خود شعور کا ایک اعلیٰ درجہ ہے۔ وہ شعور کی تکمیل ہے۔ آدمی اگر سنجیدگی کے ساتھ سوچے تو اس کا داخلی احساس خود بتا دے گا کہ کون سی بات صرف واہمہ ہے اور کون سی بات وجدانی علم سے تعلق رکھتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ عقل اور وجدان دونوں تلاش کی منزلیں ہیں۔ آدمی کی عقل اُس کو وجدان تک پہنچاتی ہے اور وجدان اس کو حقیقت کے اعلیٰ مرتبے تک پہنچا دیتا ہے۔ جو آدمی اِس اعلیٰ مرتبے تک پہنچتا ہے، اس کے لیے عقل اور وجدان کا فرق ختم ہوجاتا ہے۔ اس کی عقل مکمل طور پر وجدان ہوتی ہے، اور اس کا وجدان مکمل طورپر عقل۔ یہی وہ مقام ہے جس کو معرفتِ حق کا اعلیٰ درجہ کہاجاتا ہے۔
تاہم عقلی دریافت اور وجدانی دریافت میں یہ فرق ہے کہ عقلی دریافت ایک موضوعی دریافت (objective discovery) ہے۔ اِس کے مقابلے میں، وجدانی دریافت کی حیثیت ایک داخلی دریافت (subjective discovery) کی ہے۔ اِس بنا پر دونوں دریافتوں کے درمیان بظاہر یہ فرق باقی رہتا ہے کہ عقلی دریافت ایک قابلِ مظاہرہ (demonstrable) دریافت ہے۔ اِس کے مقابلے میں، وجدانی دریافت خارجی طورپر قابلِ مظاہرہ نہیں۔مگر یہ فرق کوئی حتمی فرق نہیں۔ جہاں تک صاحبِ وجدان کا معاملہ ہے، اس کے اپنے لیے دونوں قسم کی دریافتیں یکساں طورپر قابلِ یقین ہوتی ہیں، صرف اِس فرق کے ساتھ کہ ایک چیز کو وہ پیشانی کی آنکھ سے دیکھتا ہے اور دوسری چیز کا مشاہدہ وہ دماغ کی آنکھ سے کرتا ہے۔
تاہم یہ فرق آخری فرق نہیں۔ ایک شخص جس کو حقیقی معنوں میں وجدانی دریافت ہو، وہ اِس کے نتیجے میں عام انسان سے واضح طورپر مختلف (different) بن جاتا ہے۔ اس کی سوچ، اس کا بولنا، اس کا سلوک، اس کے اخلاق، اس کے آداب واطوار، ہر چیز دوسرے انسانوں سے اتنا زیادہ مختلف ہوجاتے ہیںکہ وہ حقیقی معنوں میں ایک مختلف انسان (man with a difference) بن جاتاہے۔ اس کی شخصیت کا یہ فرق اہلِ نظر کے لیے وہی درجہ رکھتا ہے جس کو عقل اور منطق کی زبان میں دلیل کہاجاتاہے۔
واپس اوپر جائیں

حسنِ جواب

حضرت نظام الدین اولیاء (وفات:1325 ء) کے ملفوظات میں آیا ہے کہ انھوں نے ایک مجلس میں کہا کہ خیر وشر دونوں کا خالق اللہ ہے۔ جس کو جو کچھ پہنچتا ہے، اسی کی مشیت سے پہنچتا ہے۔ اِس کے بعد انھوں نے مشہور ایرانی صوفی ابو سعید ابو الخیر (وفات: 1049 ء) کا یہ واقعہ بیان کیا کہ ایک دن وہ کہیں جارہے تھے کہ راستہ میں ایک نادان آدمی نے پیچھے سے ان کے سر پر ہاتھ سے مار دیا۔ انھوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو اس نادان آدمی نے کہا، مجھے کیا دیکھتے ہو، کیا تم یہ نہیں کہا کرتے تھے کہ کسی کو جو کچھ پہنچتا ہے، خدا کی طرف سے پہنچتا ہے۔ اس کے جواب میں شیخ ابوسعید نے یہ جملہ کہا:
’’فرمود کہ ہم چنیں است ولے آں می بینم کہ کدام بد بخت را نامزد این کار کردہ اند‘‘۔ یعنی یہ بات ایسی ہی ہے، لیکن میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ خدا نے کس بد نصیب کو اِس کام کے لیے نامزد کیا ہے۔ (فوائد الفوائد، صفحہ 247)
یہ واقعہ حسن جواب کی ایک مثال ہے۔ اِسی بات کو قرآن کی ایک آیت میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: واصبر علی ما یقولون واہجرہم ہجراً جمیلاً (73: 10)یعنی جو کچھ یہ لوگ کہتے ہیں، اُس پر صبر کرو اور خوب صورتی کے ساتھ ان سے الگ ہوجاؤ:
Bear patiently with what they say, and ignore them politely.
اگر مخاطب سنجیدہ ہے اور وہ بات کو سمجھنا چاہتا ہے تو اس کو دلیل کی زبان میں سمجھائیے، اور اگر آپ محسوس کریں کہ مخاطب سمجھنے کے موڈ میں نہیں ہے تو اس کو حسنِ جواب سے ٹال دیجئے۔ یہی ’ہجر ِ جمیل‘ ہے۔ یہ دعوتی عمل کا اہم اصول ہے۔
داعی کو چاہیے کہ وہ مذکورہ دونوں قسم کے انسانوں میں فرق کرے، ورنہ وہ غیر ضروری طورپر لوگوں سے الجھ جائے گا اور اپنے وقت اور اپنی توانائی کو ضائع کرے گا۔ بعض اوقات حسنِ جواب اُس سے زیادہ اہم ہوتا ہے جتنا کہ باقاعدہ قسم کا علمی جواب۔
واپس اوپر جائیں

ذہنی تناؤ کا مسئلہ

ایک خبر کے مطابق، ذہنی تناؤ (mental tension) کا علاج شاک تھیریپی کے ذریعے معلوم کیا گیا ہے۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ— ہلکی برقی رو خارج کرنے والا ایک آلہ سونے کے دوران استعمال کیا جائے تو اس سے ذہنی تناؤ اور مایوسی کی کیفیت سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔ سیل فون (cell phone)کے سائز کا یہ آلہ سوتے وقت ماتھے سے لگا دیا جاتا ہے۔ اس میں پیدا ہونے والی برقی رو اتنی ہلکی ہوتی ہے کہ اِس سے نیند خراب نہیںہوتی ہے۔ رات بھر خارج ہونے والی برقی رو انسان کے اعصابی نظام کو متاثر کرتی ہے، جس سے منفی کیفیات اور ذہنی تناؤ سے چھٹکارا پانے میں مدد ملتی ہے۔ (پندرہ روزہ ’’مستقبل‘‘ نئی دہلی، دسمبر 2010 ، صفحہ 6 )
مگر یہ صحیح نہیں۔ ذہنی تناؤ ایک فکری مسئلہ ہے اور فکری مسئلہ کو صرف فکری تدبیر کے ذریعے حل کیا جاسکتا ہے، کوئی ٹکنکل تدبیر اِس معاملے میں کار آمد نہیں ہوسکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ ذہنی تناؤ کوئی واقعی مسئلہ نہیں، وہ صرف غیر حقیقت پسندانہ سوچ کا نتیجہ ہے۔ اپنی سوچ کو درست کر لیجئے، اِس کے بعد آپ کو ذہنی تناؤ کی شکایت نہ ہوگی۔
سوچ کی درستگی کیا ہے۔ وہ ہے اپنی سوچ کو عالمِ خارجی کے مطابق بنانا۔ جس صورت ِ حال کو آپ بدل نہیں سکتے، اس کو خوش دلی کے ساتھ قبول کرلینا، اِس حقیقت کو مان لینا کہ آپ دنیا کو بدل نہیں سکتے، اِس لیے آپ کو چاہیے کہ خود اپنے آپ کو بدل لیں۔
حقیقت پسندی یہ ہے کہ آپ اپنی ذات کے معاملے میں معیار پسند (idealist) بنیں، اور خارجی دنیا کے معاملے میں آپ پریکٹکل (practical) بن جائیں۔ یہی دانش مندی (wisdom) کا تقاضا ہے۔ ذہنی تناؤ دراصل یہ ہے کہ آدمی اپنے ذاتی معیار اور خارجی واقعہ کے درمیان مفاہمت (adjustment) دریافت نہ کرسکے— ذہنی تناؤ کا حل صرف فکری تھریپی (intellecutal therapy) کے ذریعے ممکن ہے، نہ کہ ٹکنکل تھریپی (technical therapy) کے ذریعے۔
واپس اوپر جائیں

اپنے آپ کو بچائیے

مدر ٹریسا، مقدونیہ (یورپ) میں 1910 میں پیدا ہوئیں اور 1997کلکتہ میں ان کا انتقال ہوا۔ ان کی سماجی خدمات پر ان کو غیر معمولی شہرت حاصل ہوئی۔ ان کو 1979 میں نوبل پرائز دیاگیا۔ لیکن مدر ٹریسا کے بارے میں ان کے سوانح نگار نے لکھا ہے کہ — وہ ذہنی کرب کی حالت میں مریں:
She died in agony.
یہی تقریباً تمام مصلحین (reformers) کا حال ہوا ہے۔ انھوںنے اپنے اصلاحی کام کا آغاز امیدوں کے ساتھ کیا، لیکن جب ان کا آخر وقت آیا تو ہر ایک صرف ناامیدی کی موت مرا۔
اِس کا سبب کیا ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ ہر مصلح خارجی لوگوں کی اصلاح کو اپنا نشانہ بناتا ہے، اور جب خارجی لوگوں کی اصلاح نہیں ہوتی تو وہ مایوسی کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی مطلوب اصلاح کے لیے خود اپنی ذات کو نشانہ بنائے۔ ایسی حالت میں یقینی طورپر ہر شخص کامیاب ہوگا، کوئی بھی شخص مایوسی میں مبتلا نہ ہوگا۔
خارجی اصلاح کو نشانہ بنانا، اپنے آپ میں درست ہے، لیکن آئڈیل معنوں میں خارج کی اصلاح کبھی نہیں ہوتی۔ اِس لیے آدمی کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے خود اپنی ذات کو نشانہ بنائے۔ دوسرے لوگ کسی انسان کے قبضے میں نہیں ہوتے، لیکن آدمی کی اپنی ذات یقینی طور پر اس کے قبضے میں ہے۔ ہر آدمی کو اپنی ذات پر کامل اختیار حاصل ہے۔ ایسی حالت میں اصلاح کے لیے اپنی ذات کو نشانہ بنانا، قابلِ حصول کو نشانہ بناناہے، اور قابلِ حصول نشانے کو اپنا نشانہ بنانے والا کبھی ناکام نہیں ہوتا۔
اگر آپ دوسروں کو نہ بچا سکیں تو اپنے آپ کو بچائیے، اپنے آپ کو منفی نفسیات سے مکمل طورپر محفوظ رکھیے، اپنے اندر مثبت شخصیت کی تشکیل کیجئے۔ اگر آپ اپنی ذات کے اوپر کامیاب ہوگئے تو آپ دوسروں کے اوپر بھی ضرور کامیابی حاصل کرلیں گے۔
واپس اوپر جائیں

اکّالُ الرجال

خواجہ الطاف حسین حالی (وفات:1914 ) نے اپنی ایک نظم میں ہندستان کو خطاب کرتے ہوئے لکھا ہے: تونے اے غارت گرِ اقوام واکّال الامم
اکّال کا لفظ آکِل کا مبالغہ ہے۔ اکّال کے معنی ہیں — بہت زیادہ کھانے والا (glutton) ۔ میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ زمانے کا مسلم معاشرہ ایک ایسا معاشرہ بن چکا ہے جس کو اکّال الرجال کہنا چاہیے، یعنی شخصیتوں کو کھاجانے والا، اعلیٰ قابلیت کے افراد کو تباہ کردینے والا۔
پچھلے دو سوسال کا زمانہ ایک بالکل نیا زمانہ تھا۔ اِس زمانے میں مسلم شخصیتوں کے لیے کرنے کا کام یہ تھا کہ وہ جدید دور کو سمجھیں اور جدید تقاضے کے مطابق، لوگوں کے سامنے اسلام کا تعارف پیش کریں۔ مگر پورے دو سو سال میں کوئی بھی مسلمان نظر نہیں آتا جس نے دورِ جدید کی نسبت سے حقیقی معنوں میں کوئی قابلِ ذکر کام کیا ہو۔ یہ بلاشبہہ مسلم تاریخ کا سب سے بڑا المیہ ہے۔
موجودہ زمانے میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے اندر نہایت اعلیٰ صلاحیت والے افراد پیدا کئے، عربوں میں بھی اور غیر عربوں میں بھی۔ مگر یہ افراد دورِ جدید کا مطلوب کام نہ کرسکے۔ اِس کا سبب یہ تھا کہ موجودہ زمانے کا مسلم معاشرہ پوری طرح زوال کا شکار ہوچکا تھا۔ اِس زوال یافتہ معاشرے میں جو افراد پیدا ہوئے، وہ اِس فارسی شعر کا مصداق بن گئے کہ — جو چیز نمک کی کان میں جاتی ہے، وہ خود بھی نمک بن جاتی ہے: ہر چیز کہ درکانِ نمک رفت، نمک شد
ڈاکٹر اقبال نے شاعری کو چھوڑ کر علم کے میدان میں کام کرنا چاہا تھا، مگر اُن کے احباب نے ان کو شاعری میں مشغول کردیا۔ یہی دورِ جدید میں تمام باصلاحیت افراد کا حال ہوا ہے۔ کوئی معاشرہ کے اثر سے ادب اور شاعری میں مشغول ہوگیا، کوئی نام نہاد ملی مسائل میں الجھ گیا، کوئی مسلمانوں کی سیاسی رومانیت کا شکار ہوگیا، کوئی مسلمانوں کی فخرپسندانہ نفسیات کو غذا دینے لگا۔ غرض ہر ایک زوال یافتہ مسلم معاشرے کا ایک فرد بن گیا، بجائے اس کے کہ وہ مسلمانوں کو اِس زوال سے نکالنے کی کوئی حقیقی کوشش کرے۔
واپس اوپر جائیں

ایک خط

برادرمحترم محمد حسن جو ہر صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ
آپ کے خط کے ساتھ آپ کی کتاب ’’خطابِ نو‘‘ (صفحات 264 ) موصول ہوئی۔اِس کتاب کو دیکھنے کے بعد میرا جو پہلا تاثر تھا، وہ یہ تھا کہ — یہ کتاب ایک ایسے مصنف کا تعارف پیش کرتی ہے جو قلبی درد اور ذہنی سنجیدگی کی صفات اپنے اندر رکھتا ہے۔ کتاب کا یہ پہلو بلا شبہہ کتاب کے اصل موضوع سے بھی زیادہ اہم ہے۔
آپ نے کتاب کے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ: ’’اگر’اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد‘ کا مطلب یہ بھی ہے کہ مسلمان بیدار ہوتا ہے کسی بڑی ٹریجڈی کے بعد، تو کیا ایسا اب بھی ہو نہیں چکا‘‘۔ آپ کا یہ جملہ دراصل فطرت کے ایک قانون کو بیان کرتا ہے۔ موجودہ دنیا کو پیداکرنے والے نے اُس کا نظام جس اصول پر قائم کیا ہے، اُس کو مورخ آرنلڈ ٹائن بی (وفات: 1975 ) نے بجا طورپر چیلنج- رسپانس میکانزم (challenge-response mechanism) کے الفاظ میں بیان کیا ہے۔
آرنلڈ ٹائن بی کے مطابق، اگر قوم باشعور ہو تو وہ پیش آمدہ چیلنج کا مثبت جواب (positive response) دیتی ہے۔ اِس طرح اس کی تخلیقیت (creativity) میں اضافہ ہوتا ہے۔ چیلنج اُس کے لیے ترقی کا زینہ (stepping stone) بن جاتا ہے۔ اِس کے برعکس، جس قوم کے رہنماؤں نے اس کو بے شعور بنا رکھا ہو، وہ پیش آمدہ چیلنج کا صرف منفی جواب (negative response) دے گی۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ خدا کی اس دنیا میں صرف ایک احتجاجی گروپ(protestant group) بن کر رہ جائے۔ ایسی قوم خدا کے لیے بھی غیر مطلوب ہے، اور انسانوں کے لیے بھی غیر مطلوب۔
نئی دہلی، 25 مارچ 2011 دعا گو
وحید الدین
واپس اوپر جائیں

سوال وجواب

سوال
ماہ نامہ الرسالہ (جون 2007 ) میں مسیح کی آمد ثانی سے مراد، مسیح کے رول کی آمد ثانی بتایا گیا ہے۔ براہِ کرم، اِس معاملے کو واضح فرمائیں۔(حافظ ابو الحکم محمد دانیال، بی ایس سی، پٹنہ)۔
جواب
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ قرآن کے بیانات دو قسم کے ہیں— ایک، محکمات۔ دوسرے، متشابہات (3:7) ۔ محکم آیات سے مراد وہ آیتیں ہیں جن میں مدعا کو غیر مشتبہ زبان (exact language) میں بیان کیاگیا ہو۔ مثلاً رمضان کے مہینے میں روزہ رکھنا (2: 283) ۔ متشابہ آیات سے مراد وہ آیتیں ہیں جن میں مدعا کو مشتبہ زبان یا غیر متعین الفاظ (inexact language) میں بیان کیا گیا ہو۔ مثلاً قرآن میں بتایا گیا ہے کہ — نماز قائم کرو (أقیموا الصلاۃ)۔ مگر اس میں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ نماز کو 24 گھنٹوں کے درمیان کن مخصوص اوقات میں ادا کرو۔
متشابہ اسلوب سے وہی اسلوبِ بیان مراد ہے جس کو فنِ تعلیم میں ڈسکوری متھڈ (discovery method) کہا جاتا ہے، یعنی مسئلہ کو غیر واضح صورت میں طالبِ علم کے سامنے رکھ دینا اور طالب علم کو یہ موقع دینا ہے کہ وہ اپنی قوتِ فکر کو استعمال کرکے غیر واضح مسئلے کو واضح صورت میں دریافت کرے۔
مسیح کی آمد ثانی کو بیان کرنے کے لیے قرآن اور حدیث میں یہی متشابہ اسلوب اختیار کیاگیا ہے، قرآن میں اشارات کی زبان میں، اور حدیث میں نسبتاً صراحت کی زبان میں۔ مثال کے طورپر قرآن کی سورہ الانعام میں 18 نبیوں، بشمول حضرت مسیح، کا ذکر کرنے کے بعد ارشاد ہوا ہے: أولئک الذین ہدی اللہ فبہداہم اقتدہ (6: 90) یعنی یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت دی، پس تم بھی ان کے طریقے پر چلو۔
قرآن کی سورہ الصف میں یہ اشارہ نام کی صراحت کے ساتھ بیان کیاگیا ہے۔ چناں چہ فرمایا کہ : ’’اے ایمان والو، تم اللہ کے مدد گار بنو جیسا کہ عیسیٰ بن مریم نے حواریوں سے کہا، کون اللہ کے واسطے میرا مددگار ہوتا ہے۔ حواریوں نے کہا ہم ہیں اللہ کے مددگار۔ پس بنی اسر ائیل میں سے کچھ لوگ ایمان لائے اور کچھ لوگوں نے انکار کیا۔ پھر ہم نے ایمان لانے والوں کی، اُن کے دشمنوں کے مقابلے میں، مدد کی۔ پس وہ غالب ہو گئے‘‘۔ (61: 14)
قرآن کی اِس آیت میں اہلِ اسلام کو خطاب کیاگیا ہے۔ اُن سے کہاگیا ہے کہ تم اللہ کی نصرت کرنے والے بنو جس طرح تم سے پہلے عیسیٰ کے حواری، اللہ کی نصرت کرنے والے بنے تھے۔ آیت میں مزید یہ بتایا گیا ہے کہ نصرتِ الٰہی کا یہی پیٹرن تمھارے لیے فتح وکامیابی کا ذریعہ ہوگا۔ اِس سے مراد تاریخِ انسانی کا بعد کا زمانہ ہے، یعنی بعد کے زمانے میں مسیحی ماڈل فتح وکامیابی کا ذریعہ بن جائے گا۔
مسیحی ماڈل عین وہی ماڈل ہے جس کا نمونہ ہم کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مکی دور میں ملتا ہے۔ مکی دور میں رسول اور اصحاب رسول نے اپنے خلاف کئے جانے والے تشدد کے جواب میں یک طرفہ صبر کا ثبوت دیا ۔ اِس اعتبار سے مسیحی ماڈل اور پیغمبر اسلام کا مکی ماڈل دونوں ہم معنی الفاظ ہیں، مگر چوں کہ یہ اندیشہ تھا کہ بعد کے زمانے کے مسلمان مکی ماڈل کی اہمیت سے غافل ہوجائیں گے، اِس لیے اِس دعوتی ماڈل کو قرآن میں مسیحی ماڈل کے حوالے سے بیان کیاگیا۔ کیوں کہ حضرت مسیح کی زندگی میں صرف مکی ماڈل ہے، اُن کے یہاں مدنی ماڈل سرے سے موجود نہیں۔
مسیحی ماڈل یا مکی ماڈل سے مراد کوئی پراسرار چیز نہیں ہے۔ اُس سے مراد عین وہی چیز ہے جس کو دوسرے الفاظ میں دعوت کا پرامن طریقہ (peaceful method of dawah) کہا جاسکتا ہے۔ مسیح کے حوالے سے اِس ماڈل کو بیان کرنا صرف تقریبِ فہم کے لیے ہے، نہ کہ حصر کے لیے۔
اصل یہ ہے کہ قدیم زمانہ مذہبی جبر کا زمانہ تھا۔ اُس زمانے میں مدعو کی طرف سے شدید رد عمل کا اظہار ہوتا تھا، حتی کہ بشرطِ استطاعت، تشدد اور قتال کی نوبت آجاتی تھی۔ ’’مدنی دور‘‘ دراصل اِسی دورِ تشدد کی ایک علامت ہے۔ مدنی دور میں رسول اور اصحابِ رسول نے قتال کے جواب میں قتال کے ذریعہ اپنا دفاع کیا۔ مگر یہ قتال بلاشبہہ ایک زمانی ظاہر ہ تھا، نہ کہ مستقل معنوں میں پیغمبرانہ طریقِ کار کا ظاہرہ۔
اسلامی تاریخ کے بعد کے زمانے میں یہ ہونے والا تھا کہ عالمی حالات میںتبدیلی کے نتیجے میں قتال کا طریقہ ایک متروک طریقہ بن جائے۔ حالات میں ایسا انقلاب آئے کہ پُرامن طریقِ کار پوری طرح نہ صرف ممکن ہوجائے، بلکہ وہ واحد موثر طریقے کی حیثیت اختیار کرلے۔ صرف پُرامن دعوت کے ذریعے وہ سب کچھ قابلِ حصول بن جائے جو قدیم زمانے میں صرف جنگ وقتال کے ذریعے قابلِ حصول سمجھا جاتا تھا۔
پُرامن طریقِ دعوت کی مثال خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں مکی دور میں پوری طرح موجود ہے۔ مگر حالات کے تقاضے کے تحت ایساہوا کہ بعد کے زمانے میں پیغمبر اسلام کو دفاعی طورپر جنگ میں حصہ لینا پڑا۔ اِس طرح پیغمبر اسلام کی زندگی میں دونوں طرح کی مثالیں شامل ہوگئیں ۔ اب ضرورت تھی کہ بعد کے زمانے کی نسبت سے، پرامن طریقِ کار کو ممیَّز طورپر (distinctively) بیان کیاجائے۔ دراصل یہی مقصد ہے جس کے لیے مسیح کی آمد ثانی (second coming of Christ) کی پیشین گوئی کی گئی ہے۔ مسیح کی آمد ثانی سے مراد دراصل مسیحی ماڈل کی آمد ثانی ہے۔ یہ بات دراصل دورِ آخر کے تبدیل شدہ حالات کی نسبت سے کہی گئی ہے۔ اِس میں دراصل داعی کو یہ بتایا گیا ہے کہ وہ تاریخ کے بعد کے زمانے میں مسلح طریقِ کار سے کامل پرہیز کرے، دعوت کے لیے وہ صرف پرامن طریقِ کار کو استعمال کرے جو کہ دعوتی مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے واحد موثر طریقہ بن جائے گا۔
حدیث میں مستقبل کے جس واقعے کو مسیح کی آمد ثانی کے الفاظ میں بیان کیاگیا ہے، اُس واقعے کو بالفاظِ دیگر، مکی ماڈل کی آمد ثانی کہاجاسکتا ہے۔ حقیقت کے اعتبار سے، پہلے بیان اور دوسرے بیان میں کوئی فرق نہیں۔
اصل یہ ہے کہ قرآن میں جن انبیا کا ذکر ہے، اُن میں سے ہر ایک مختلف حالات میں آیا۔ ہر ایک نے اپنے زمانی حالات کے اعتبار سے، ایک طریقہ اختیار کیا۔ اِسی حقیقت کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیاگیاہے: لکلّ جعلنا منکم شرعۃً ومنہاجا(5: 48)۔ ان میں سے ہر نبی کا نمونہ ایک معیاری نمونہ ہے۔ حالات جس نمونے کا تقاضا کررہے ہوں، اُس نمونے کو اختیار کرلیا جائے گا۔ ایسا کرنا بالکل درست قرار پائے گا، خواہ وہ نمونہ کسی بھی پیغمبر سے تعلق رکھتا ہو۔
حضرت مسیح نے اپنے حالات کے لحاظ سے خالص پُرامن دعوتی عمل کا طریقہ اختیار کیا۔ اِس اعتبار سے حضرت مسیح پرامن دعوتی عمل کے لیے ایک امتیازی ماڈل بن گئے۔ تاریخی طورپر ان کے ماڈل میں پرامن طریقے کے سوا کوئی اور طریقہ شامل نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بعد کے دور کے حالات میں پرامن دعوتی عمل کے لیے مسیحی ماڈل کو بطور حوالہ (reference) استعمال کیا گیا۔
سوال
اسلام میں ترکِ دنیا کا تصور کیا ہے، تزکیہ سے اس کاکیا ربط ہے، نیزدنیا سے تعلق کی نوعیت کیا ہے، براہِ کرم، اِس کو واضح فرمائیں (شارق حسین، دہلی)
جواب
دنیا سے تعلق کی تین صورتیں ہیں— دنیا میں ملوث ہونا، دنیا کو ترک کرنا، دنیا کو اعلیٰ مقصد کے لئے استعمال کرنا۔پہلی صورت، دنیا میں پوری طرح ملوث ہونا ہے۔ اس کو دنیا پرستی بھی کہا جاتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا کی چیزوں ہی کو اپنا مقصود بنا لیں، جو اپنی تمام صلاحیتیں دنیا کو پانے کے لیے وقف کردیں، جو دنیا کی کامیابی کو کامیابی سمجھیں اور دنیا کی ناکامی کو ناکامی۔ قرآن کے مطابق، یہ پورے معنوں میں بھٹکے ہوئے لوگ ہیں (17: 103-104)۔
اس معاملے میں دوسری قسم وہ ہے جس کو ترکِ دنیا کہا جاتا ہے، یعنی دنیا کے لوگوں سے اور دنیا کی چیزوں سے کنارہ کشی کرکے الگ تھلگ زندگی گزارنا۔ یہ لوگ بطور خود اس کو بہتر سمجھتے ہیں، مگر یہ صرف غلو (extremism) ہے اور غلو اسلام میں نہیں ہے (لاغلوَّ فی الإسلام)۔
تیسری صورت ہے —دنیا کو اعلیٰ ربانی مقصد کے لیے استعمال کرنا۔ دنیا سے تعلق کی یہی صورت درست ہے اور یہی اسلام کی تعلیمات کے مطابق ہے۔
ترکِ دنیا، ترکِ دعوت ہے۔ دنیا کیا ہے ، دنیا خدا کی تخلیق ہے۔ اور جو چیز خدا کی تخلیق ہو، وہ اصلاً برائی نہیں ہوسکتی۔ حدیث میںآیا ہے: إن الدنیا خُلقت لکم، وأنکم خُلقتم للآخرۃ (تخریج الإحیاء للعراقی، 3/252 )۔ اس حدیث سے دنیا کی صحیح نوعیت معلوم ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تزکیہ کا راستہ دنیا سے ہو کر گزرتا ہے۔ دنیا کی چیزوں کا صحیح استعمال ہی تزکیہ کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
سوال
سوال یہ ہے کہ جب ہم سب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امّت سے ہیں، ہم سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھتے ہیں،تو پھر اس کی کیا وجہ ہے کہ ہم نے الگ الگ فرقے اور مسلک بنا لئے ہیں۔ (ایس امین باشا، کرناٹک)
جواب
مسلمانوں میں مسلک کی بنیاد پر جو مختلف گروہ ہیں، حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی ، سلفی، یہ تمام گروہ بعد کے زمانے میں بنے ہیں۔ صحابہ اور تابعین کے زمانے میں یہ گروہ موجود نہ تھے۔ جو گروہ بندی دورِ اول میں نہ ہو اور بعد کے زمانے میں وجود میں آئی ہو، وہ اپنے آپ میں قابل رد ہے۔ یہ مختلف گروہ فقہی مسلک کی بنیاد پر بنے ہیں، لیکن کوئی بھی گروہ کسی بنیادی اختلاف کے تحت نہیں بنا ہے، بلکہ وہ صرف جزئیات میں اختلاف کے تحت بنا ہے۔ یہ جزئی اختلافات بے اصل نہیں ہیں، وہ خود صحابہ کے درمیان موجود تھے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ صحابہ کے زمانے میں اِن جزئیات کی بنا پر الگ الگ گروہ نہیں بنے، مگر بعد کے زمانے میں انھیں جزئیات کو لے کر الگ الگ گروہ بن گئے۔
اِس فرق کا سبب جزئیات میں غلو (extremism) ہے۔صحابہ اور تابعین کے زمانے میں یہ تصور تھاکہ جزئیات میں توسع ہے، یعنی اُن میں سے جس پر چاہو، عمل کرسکتے ہو، تم ہدایت پر رہو گے (بأیہم اقتدیتم اہتدیتم)۔ لیکن عباسی دور کے فقہاء نے جزئیات کے معاملے میں غلو کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے کہا کہ ان میں سے ہر ایک درست نہیںہوسکتا، ایک درست ہوگا تو دوسرا غلط ہوگا۔ انھوں نے غیر ضروری بحثوں کے ذریعے تعدّد میں توحّد پیدا کرنے کی کوشش کی، یعنی کئی کو ایک بنانا۔ جزئیات میں اِسی غلو یا تشدد کی بنا پر مختلف فقہی گروہ بن گئے۔
قرآن اور حدیث میں واضح طورپر بتایا گیا ہے کہ غلو اسلام میں نہیں ہے۔ اِس مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ مسلمان، صحابہ اور تابعین کے دور کی طرف لوٹیں۔ وہ اِس اصول کو مان لیں کہ یہ مختلف فقہی مسالک مبتدعانہ طورپر وجود میں آئے ہیں۔ وہ قابلِ ترک ہیں، نہ کہ قابل پیروی۔
سوال
نصاب زکوٰۃ کے تعلق سے قرآن وحدیث کی روشنی میں علمائِ کرام وائمہ دین کے فتویٰ سے مندرجہ ذیل سوال کی عامۃ المسلمین کی ہدایت ورہنمائی کے لئے تصریح فرما کر مشکور فرمائیں:
1 - نصاب زکوٰۃ کا تعین 7.5 تولہ سونا یا 52.5 تولہ چاندی یا ان کی مالیت کے بقدر کیش سے کیا جاتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ گذشتہ زمانہ میں 7.5 تولہ سونا کی قیمت 52.5 تولہ چاندی کے مساوی رہی ہو، لیکن فی زمانہ اِن دھاتوں کی قیمت میں تقریباً 1.40 کا تناسب ہے، یعنی 7.5 تولہ سونا کی قیمت 7.5 x 21,000 = 1,57,000 روپئے اور 52.5 x 600 = 31,500 روپئے۔
اب تک علماء کرام 52.5 چاندی یا اس کی قیمت کو ہی نصاب زکوٰۃ مقرر کرتے رہے ہیں۔ موجودہ حالات میں:
الف: 7.5 تولہ سونا کی قیمت کو نصاب کیوں نہ مانا جائے۔
ب: 7.5 تولہ سونا اور 52.5 تولہ چاندی کی قیمت کے اوسط (تقریباً 90 ہزار روپئے) کو معیار تسلیم کیوں نہ معیار تسلیم کیاجائے۔
2 - شافعی مسلک میں استعمالی زیورات زکوٰۃ سے مستثنیٰ ہیں، جب کہ حنفی مسلک میں استعمالی زیورات پر بھی زکوٰۃ واجب ہے۔ موجودہ دور میں عام مسلمان کو نہ تو مسالک کا علم ہے اور نہ ہی وہ اس کی ضرورت محسوس کرتاہے۔ اس لئے شافعی مسلک کو اختیار کرنے میں کیا قباحت ہے۔
3 - لڑکی کو بوقت نکاح اس کے والدین اور شوہر کی طرف سے زیورات جہیز یا تحفہ میں دئے جاتے ہیںاور وہ صاحب نصاب ہوجاتی ہے۔لیکن زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے کسی آمدنی کے ذریعہ کا مالک نہیں بنایا جاتا۔ شوہر بیوی کے سرمایہ کی زکوٰۃ کیوں دے۔ اور اگر شوہر کی آمدنی زکوٰۃ ادا کرنے کی متحمل ہو تو ایسی حالت میںکیا کیا جائے۔
الف: متوسط کلاس میں زیورپشت درپشت چلتا ہے۔ اگر زیور فروخت کرکے زکوٰۃ دی جاتی ہے تو وہ روپیہ ایک سال میں ہی خرچ ہوجائے گا اور فیملی مفلس ہوجائے گی، نیز اپنے بچوں کی شادی کے وقت مقروض ۔ اِن حالات میں شرعی احکامات کیا ہیں۔
4 - متوسط طبقہ میں مشترکہ خاندانی نظام قائم ہے۔ شادی شدہ جوڑے کے پاس نصاب کے مطابق زیور ہے، لیکن آمدنی بہت قلیل ہے۔ ضروریات زندگی کا بار بھی والدین کے ذمہ ہے۔ اس صورت میں کیا کفالت کرنے والے ان کی زکوٰۃ بھی ادا کریں یا یہ جوڑا زکوٰۃ سے مستثنیٰ قرار دیا جاسکتا ہے۔
5 - علی کے پاس نصاب کے مطابق کیش تھا۔ اس نے قسط اسکیم کے تحت مکان؍زمین ؍کار خرید لی اور وہ کئی سال کے لئے زکوٰۃ سے بری ہوگیا۔ دوسری طرف حسین کے پاس بھی روپیہ ہے، لیکن وہ یک مشت قیمت دے کر مکان؍زمین؍کار خریدنا چاہتا ہے۔ اس کے لئے وہ ہر سال کچھ رقم پس انداز کرتا ہے۔ کیا اس پر زکوٰۃ واجب ہوگی یا وہ علی کی طرح زکوٰۃ سے بری۔(شجاع الدین، علی گڑھ)
جواب
عرض ہے کہ مذکورہ قسم کے مسائل میں محتاط طریقہ یہ ہے کہ آپ کو مروّجہ مسالک میں سے جس مسلک پر اطمینان ہو، آپ اُس پر عمل کریں۔ بالفرض آپ کو کسی مسلک پر اطمینان نہ ہو تو صحیح طریقہ یہ ہے کہ آپ ذاتی طورپر اپنی دریافت کے مطابق عمل کریں۔ اِس معاملے کو بحث کا موضوع بنانا صرف اختلاف میں اضافہ کرے گا، اور اسلام میں ہر وہ اقدام غلط ہے جو اختلاف میں اضافے کا سبب بنے (الخلاف شر) ۔ وہ اصلاح، اصلاح نہیںجس کا نتیجہ مزید اختلاف کی صورت میں نکلنے والا ہو۔
واپس اوپر جائیں

خبر نامہ اسلامی مرکز— 211

1 - امام حرم مکی ڈاکٹر عبد الرحمن السدیس کی آمد (مارچ 2011) کے موقع پر دہلی (رام لیلا میدان،جامع مسجد) میں مختلف مقامات بڑے اجتماعات ہوئے۔ سی پی ایس کے ممبران نے اِس موقع پر لوگوں کو دعوتی لٹریچر دیا۔ خاص طور پر سی پی ایس کے دو ممبران مسٹر رامش صدیقی (نئی دہلی) اور ڈاکٹر محمد اسلم خان (سہارن پور) نے امام حرم سے ملاقات کی۔ ملاقات کے دوران امام حرم نے بتایا کہ اس وقت صدر اسلامی مرکز کی دو کتابیں اُن کے زیر مطالعہ ہیں: الإسلام یتحدی اور التذکیر القویم فی تفسیر القرآن الحکیم۔
2 - سہارن پور (یوپی )کے جے وی جین (J.V. Jain) کالج کے ہال میں 12-13 مارچ 2011 کو ایک انٹرنیشنل سیمنار ہوا۔ یہ سیمنار اے ایس ای اے این (Association of South East Asian) کی طرف سے کیاگیا تھا۔اِس سیمنار میں انڈیا کے صنعتی اور اقتصادی ماہرین کے علاوہ، انڈونیشیا، ملیشیا، برونائی، فلپائن، میانمار، کمبوڈیا، لائوس، تھائی لینڈ، تائی وان اور کوریا کے نمائندے شریک ہوئے۔ اِس موقع پر سی پی ایس سے وابستہ سہارن پور کے افراد نے حاضرین کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیا۔ تمام نمائندوں نے اِس کو بے حد خوشی کے ساتھ قبول کیا۔
3 - سی پی ایس کے تحت چلائے جانے والے القرآن مشن (Al-Quran Mission)سے وابستہ مسٹر علی (کلکتہ) نے مارچ 2011 کے آخری ہفتے میں افریقہ اور برازیل (ساؤتھ امریکا) کا سفر کیا۔ اِس موقع پر انھوں نے وہاں کے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا۔
4 - نئی دہلی کے انڈیا ہیبی ٹیٹ سنٹر میں 25 مارچ 2011 کو حسبِ ذیل موضوع پرایک پینل ڈسکشن ہوا:
The Story is the Distance Between You and the Truth
یہاں ایک اسٹوری بک کے مجموعہ (Teaching Stories) کا افتتاح کیاگیا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اپنی ٹیم کے ساتھ اس میں شرکت کی اور موضوع پر انگریزی زبان میں آدھ گھنٹہ تقریر کی۔ اِس موقع پر حاضرین کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیاگیا۔
5 - مارچ 2011 کے آخری ہفتے میں کولمبو انٹرنیشنل اسکول (سری لنکا) میں ایک پروگرام ہوا۔ اِس میں سی پی ایس (ممبئی) سے وابستہ مسٹر ہارون شیخ نے لوگوں تک قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دیگر دعوتی لٹریچر پہنچایا۔ یہاں دوسرے ممالک کے نمائندے بھی موجود تھے۔ اِن لوگوں نے خوشی کے ساتھ قرآن کو حاصل کیا۔
6 - سہارن پور (یوپی) کے حلقہ سی پی ایس نے 24 اپریل 2011 کو پیس ہال میں ایک دعوتی اجتماع کیا۔ اِس اجتماع میںکچھ خاص لوگوں نے بھی شرکت کی۔ مثلاً پنڈت مان کرشن (دھام پور)، مسٹر جیونت راؤ پاٹل (مہاراشٹرا)، سوامی جے پرکاش (ہری دوار)، وغیرہ۔ یہاں دعوتی موضوع پر خطاب ہوا۔ خطاب کے بعد خصوصی مہمانوں نے اپنے تاثرات بیان کئے۔ اِس موقع پر حاضرین کو قرآن کا ہندی اور انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیاگیا۔
7 - الحکمہ فاؤنڈیشن (نئی دہلی) کے تحت 27 مارچ 2011 کو غالب اکیڈمی (بستی حضرت نظام الدین) کے آڈی ٹوریم میں سیرت النبی کے موضوع پر ایک کانفرنس ہوئی۔ فاؤنڈیشن کی دعوت پر سی پی ایس کے ممبران نے اس میں شرکت کی۔ اِس موقع پر حاضرین کو قرآن کا اردو اور انگریزی ترجمہ اور دعوتی پمفلٹ دیاگیا۔
8 - سہارن پور(یوپی) کے نیشنل میڈیکل کالج کے سالانہ جلسہ تقسیم اسناد کے موقع پر3 اپریل 2011 کو مقامی لوگوں کے علاوہ، یوپی گورنمنٹ کے منسٹر اور ایجوکیشنل ڈپارٹمنٹ کے دیگر نمائندوں کو قرآن کاانگریزی ترجمہ دیاگیا۔ اِسی طرح 10 اپریل 2011 کو مذکورہ کالج میں ڈاکٹر ہینی مین ڈے کے موقع پر بھی آئے ہوئے مہمانوں کو کالج کے پرنسپل ڈاکٹر اسلم خان کی طرف سے قرآن کا ترجمہ دیاگیا۔
9 - سی پی ایس (نئی دہلی) کی طرف سے 5 اپریل 2011 کو نئی دہلی کے لودھی گارڈن میں اسپریچول آؤٹنگ کا ایک پروگرام ہوا۔ اِس میں سی پی ایس دہلی اور دیگر مقامات کے افراد شریک ہوئے۔ صدر اسلامی مرکز نے یہاں فطرت کے ماحول میں ایک تربیتی خطاب کیا۔ گارڈن میں مغرب کی نمازِ باجماعت کے ساتھ یہ پروگرام ختم ہوا۔
10 - سہارن پور (یوپی) کے ’’پیس ہال‘‘ میں 14 اپریل 2011 کو ذیابیطس (Diabetes) کے موضوع پر ایک ورک شاپ رکھی گئی۔ اس میں دیگر ڈاکٹروں کے علاوہ، سہارن پور کے مشہور ڈاکٹر سنجے ملگانی نے شرکت کی۔ اِس موقع پر تمام شرکا اور ڈاکٹروں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔
11 - لندن (Earl’s Court) میں 11-13 اپریل 2011 کو لندن بک فئر (London Book Fair) ہوا۔ نئی دہلی سے اِس بک فئر میں گڈورڈ بکس نے حصہ لیا۔ یہاں گڈورڈ اور تحریک ترسیل قرآن (نیویارک، امریکا) کی طرف سے بڑے پیمانے پر غیرمسلموں کو صدر اسلامی مرکز کا انگریزی ترجمہ قرآن دیاگیا۔ اِس موقع پر برطانیہ کے حسب ذیل تین اداروں میں پرافٹ آف پیس، تذکیر القرآن (انگریزی) اور قرآن کا انگریزی ترجمہ رکھوایاگیا:
آکسفورڈ سنٹر آف اسلامک اسٹڈیز (Oxford Centre of Islamic Studies) ۔
مارک فیلڈ سنٹر، لیسٹر (Markfield Centre, Leicester) ۔
ایس او ایس، لندن یونی ورسٹی (School of Oriental and African Studies)
12 - دوردرشن (DD-1) کے اسٹوڈیو (نئی دہلی) میں 19 اپریل 20011 کو ایک تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیاگیا۔ یہ خصوصی انٹرویو ایک گھنٹہ تک جاری رہا۔ اس کا موضوع امن اور اسلام (Islam and Peace) تھا۔ اس پروگرام کی اینکر مز گورا دھون لال تھیں۔ اِس انٹرویو میں دیگر سوالات کے علاوہ، سنٹر فار پیس اینڈ اسپریچویلٹی (CPS) کے بارے میں بھی سوالات کئے گئے۔ اِس سلسلے میں بتایا گیاکہ:
Peace and spirituality are two phases of a single coin— peace is external culture of spirituality, and spirituality is internal culture of peace.
13 - جیو ٹی وی (اسلام آباد، پاکستان) کی طرف سے دبئی (عرب امارات) میں مختلف موضوعات پر صدر اسلامی مرکز کے پروگرام کی ریکارڈنگ کا ایک پروگرام 24-30 اپریل 2011 کے درمیان کیاگیا۔ اِس پروگرام میں پاکستان کے مولانا جاوید احمد غامدی بطور مہمانِ خصوصی شریک تھے۔ اِس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے ٹیم کے 6 افراد کے ساتھ دبئی کا سفر کیا۔ سفر کے دوران دبئی اوقاف کے آڈی ٹوریم میں 29 اپریل 2011 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک خطاب ہوا۔ یہ ایک دعوتی خطاب تھا۔ اِس میں دبئی کے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں نے شرکت کی۔ سفر کے دوران سی پی ایس کی ٹیم کے افراد نے مقامی اور غیر ملکی لوگوں سے انٹریکشن کیا اور ان کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیا۔
14 - نئی دہلی کے ٹی وی چینل ’’زی سلام‘‘ کے تحت، صدر اسلامی مرکز کے پروگرام ’’اسلامی زندگی‘‘ کی ریکارڈنگ جاری ہے۔ یہ پروگرام روزانہ زی سلام کے چینل پر نشر ہوتے ہیں۔ پروگرام کی تفصیل موضوع کے ساتھ درج ذیل ہے:
سنتِ رسول، ختم نبوت، آزادیٔ فکر اور اسلام (12 اپریل 2011 )
عورت دورِ جدید میں، توکل علی اللہ، اسلام اور مساوات (20 اپریل 2011 )
دعوت الی اللہ، طلاق اسلام میں، اسلامی جہاد کیا ہے (3 مئی 2011 )
15 - سی این این (CNN) کے نمائندہ مسٹر ہرمیت (Harmeet Singh) نے 2 مئی 2011 کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو ریکارڈ کیا۔ یہ انٹرویو اسامہ بن لادن کی موت (2مئی 2011 ) کے موضوع پر تھا۔ سوالات کے دوران بتایا گیا کہ اسامہ کی موت صرف ایک ختم شدہ طاقت کا اعلان ہے۔
16 - دور درشن (انگریزی) چینل کی ٹیم نے 4 مئی 2011 کو صدر اسلامی مرکز کی ویڈیو ریکارڈنگ کی ۔ یہ انٹرویو ایک گھنٹے تک جاری رہا۔ سوالات کا تعلق اسلام کے مختلف پہلوؤں سے تھا۔ مثلاً شتم رسول کا مسئلہ، ارتداد کی سزا، وغیرہ۔ یہ انٹرویو انگریزی زبان میں ہوا۔
17 - پرگیا ٹی وی (نئی دہلی) نے 4 مئی 2011 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ ان کا ایک چینل ہے جس کو سکسس اسٹوری (Success Story) کہا جاتا ہے۔ اِس کے تحت وہ مختلف افراد سے ان کی کامیابی کے تجربات نقل کرتے ہیں۔ اِس ریکارڈنگ کا موضوع یہی تھا۔ گڈورڈ اور سی پی ایس کے بارے میں انھوں نے اِس پہلو سے بہت سے سوالات کئے جن کا انھیں جواب دیا گیا۔ ٹیم کے لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔
18 - سی پی ایس (نئی دہلی) کی ٹیم نے 10 مئی 2010 کو دہلی کے لودھی گارڈن میں اسپریچول آؤٹنگ کا ایک پروگرام کیا۔ یہ ٹیم کے افراد کے لیے ایک تربیتی پروگرام تھا۔ یہاں صدر اسلامی مرکز نے ٹیم کی دعوتی ذمے داری کے موضوع پر ایک تقریر کی۔ تقریر کے بعد مغرب کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کی گئی۔
19 - نئی دہلی کے ایم سی سی ایس (Media Content & Communications Services) ٹی وی چینل کے نمائندہ مسٹر روی کانت نے 14 مئی 2011 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا۔ اِس انٹرویو کا موضوع تھا— اسلام اور کلچر۔ سوالات کے دوران موضوع کی وضاحت کی گئی۔
20. Mr. Sajid Anwar, Roorki, Uttra Khand: Recently I was on a business trip to Europe. This journey was utilized for Dawah purpose. I visited 3 countries – Belgium, Iceland and Germany during 28th March to 2nd April, 2011. During the travel, I gave the Quran, The prophet of Peace and other dawah literature to many people, mainly technical experts, there. The people accepted with thanks. Comments of some of the recipients are as below:
ک I can not attend the meeting in the evening as today in the morning I have got a copy of the Quran which I have to read. (Prof Valdimer, Iceland)
ک I was planning to buy Quran for long. Thanks for presenting. I will definitely read this and other books and send you my comments. (Mr. Thor, Director, Iceland)
ک After reading the chapter “Negative Thinking Alien to Islam” of The Prophet of Peace, she commented – Truly nice, excellent!. So clearly explained without any ambiguity. (Ms. Shifa Modak, England)
21 - برمنگھم کے ادارہ آئی پی سی آئی (IPCI: Islamic Vision, Birmingham) نے دو بڑے دعوتی پروگرام شروع کئے ہیں— ایک، غیر مسلموں کے درمیان قرآن کے انگریزی ترجمے کا بڑے پیمانے پر ڈسٹری بیوشن۔ اور دوسرے، اسلامی نمائش (IslamicExperience Exhibition) ۔ یہ نمائش برمنگھم میں مستقل طورپر جاری رہے گی۔ اس کے ذریعے مقامی لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا جارہا ہے اور ان کو اسلام سے متعارف کرانے کا باقاعدہ سلسلہ قائم ہے۔ اِس نمائش میں برطانیہ کے تمام طبقوں کے لوگ کثرت سے شرکت کررہے ہیں۔
22 - ترکی کے ایک پریس کے ذریعے صدر اسلامی مرکز کا انگریزی ترجمہ قرآن وہاں سے شائع ہورہا ہے، تاکہ اُسے ترکی میں آنے والے سیاحوں کو دیا جاسکے۔ یہ ترجمہ ترکی کے مختلف سیاحتی مقامات پر بھی رکھوایا جارہا ہے۔
24 ۔ صدر اسلامی مرکز کا لٹریچر جدید طبقہ تک پہنچایا جارہا ہے۔ اس سلسلے میں یہاں دو تاثرات ملاحظہ ہوں:
1- I wanted to thank Maulana Wahiduddin Khan for his tireless effort to address us first as human beings then as religious creatures. (Joseph Salomonsen, lecturer Comparative Religion, Norway)
2- I found a book written by Maulana Wahiduddin Khan in my house. It was in the library, and someone else must have been reading it. Anyway, now I am reading it. It's called - The Reality of Life. I've already read bits of it, and really like it. Maulana speaks with so much practical wisdom. (Gaurja Prashar, Jesus and Mary College, Delhi University)
23 - الرسالہ مشن سے وابستہ دو کشمیری ساتھیوں کے تاثرات یہاں مختصراً نقل کئے جاتے ہیں:
ک غالباً 1985 کی بات ہے۔ مجھے الرسالہ کا پہلا شمارہ اپنے ایک ساتھی نور الاسلام خاں کے ذریعے انجینئرنگ کالج کے ہوسٹل میں ملا۔ میں نے جب الرسالہ کی ورق گردانی شروع کی تو ’’درخت‘‘ کے موضوع پر لکھے گئے ایک مضمون نے مجھ کو بے حد متاثر کیا۔ اِس میں ایک اہم سبق یہ تھا کہ ہمیں درخت کی طرح کاربن ڈائی آکسائڈ لے کر دوسروں کو آکسیجن مہیا کرنا چاہئے۔ بعد میں میری زندگی تقریباً اسی اصول پر چلتی رہی اور اِس طرح نہ صرف میری خاندانی زندگی، بلکہ سوشل لائف بھی مستحکم رہی۔ کشمیر میں کشیدہ صورت حال کے دوران الرسالہ نے ہمیں کم از کم ذہنی طورپر زندہ رکھا۔ صاحب الرسالہ نے 1975 میں اپنی کتاب ’’الاسلام‘‘ میں لکھا تھا کہ: ’’میرے اطمینان کے لئے یہ کافی ہے کہ میں نے سچائی کو کم ازکم فکری طور پر دریافت کرلیا۔ اب شاید میں یہ کہتے ہوئے مرسکتا ہوں کہ : ’’میرے بعد آنے والے کو پچھلی سیڑھیاں نہیں بنانی پڑیں گی‘‘ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ صاحب الرسالہ ابھی ہمارے درمیان موجود ہیں اور اب اِس دعوتی مہم کی کامیابی کا انحصار تمام تر ہماری انفرادی کوششوں پر ہے، کیوں کہ صاحب الرسالہ نے اپنا حق ادا کردیا۔ ایسے لٹریچر کی فراہمی جو کسی بھی انسان کو اپنے نیچر کی آواز محسوس ہوتی ہے، ایسے لٹریچر کی فراہمی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام آج کی چیز ہے۔ سائنٹفک اسلوب میں دعوتی لٹریچر کی فراہمی یقینا ایک ایسا کارنامہ ہے جس کے لئے پوری انسانیت صاحب الرسالہ کی احسان مند ہے۔(انجینئر الطاف حسین شاہ،کشمیر)
ک میں بچپن سے تلاشِ حق میں سرگرداں تھا۔ میرے کالج کے تین سال اِس طرح گزرے کہ بے چینی اور بے قراری کے عالم میں رونا میرا معمول بن چکا تھا۔ ایک دن بک اسٹال پر میری نظر ماہ نامہ الرسالہ پر پڑی۔ الرسالہ کو ہاتھ میں لیا اور اس کے مضامین دیکھے تو اچانک مجھ پر یہ احساس غالب ہوا کہ خدا نے میرے لئے ہدایت اور روشنی کا دروازہ کھول دیا ہے۔ اس کے فوراً بعد میں نے الرسالہ کی ایجنسی لی۔ کیوں کہ میں اِس نتیجہ پر پہنچا کہ الرسالہ سے وابستہ ہونے کا مطلب الرسالہ کی دعوتی مہم میں شریک ہونا ہے۔ الرسالہ سے پہلے، شاعری اور افسانہ کی طرف میرا رجحان تھا۔ اب میں شاعری بھی بھول گیا اور افسانہ بھی۔ الرسالہ سے پہلے میں بحث و تکرار کا عادی تھا۔ الرسالہ نے مجھے الفاظ سے نکال کر معنی کی دنیا میں پہنچا دیا۔ الرسالہ فکر کیا ہے۔ الرسالہ فکر دراصل پیغمبرانہ مشن کی صحیح ترین تعبیر اورتشریح ہے جو عقل وفطرت کے ناقابلِ تردید دلائل اور شواہد پر مشتمل ہے۔ اِس تعبیر اور تشریح کی بنیاد قرآن وحدیث اور سیرتِ رسول ہے۔ فکرِ الرسالہ، قرآن کے مرکزی تصور، توحید، رسالت، آخرت اور دعوت کی تفسیر ہے۔الرسالہ فکر کے اجزائے ترکیبی ہیں— سچائی کی تلاش، بے آمیز حق کی دریافت، معرفتِ خداوندی، عجز، تزکیۂ نفس اور دعوت الی اللہ۔ ان مرحلوں سے گزرے بغیر کوئی بھی شخص حقیقی معنوں میں خدا والا نہیں بن سکتا۔سچائی کیا ہے۔ ایک سوال کانام نہیں ہے، بلکہ ہزاروں سوالوں کے مجموعے کا نام ہے۔ الرسالہ فکر اِن تمام سوالوں کا جواب ہے۔ الرسالہ فکر آدمی کے ذہن سے تمام پردوں کو ہٹا دیتا ہے، یہاں تک کہ آدمی ظاہری دنیا میں، باطنی دنیا کو دیکھنے لگتا ہے۔فکر الرسالہ ربانی حکمت اور ایمانی بصیرت کا خزانہ ہے جس میں دنیا کی حقیقی کامیابی اور آخرت کی حقیقی کامیابی کے راز پوشیدہ ہیں۔ الرسالہ فکرآدمی کے جینے کی سطح کو بدل دیتا ہے۔ وہ آدمی کو حقیقی اور لازوال خدا سے ملاتا ہے۔ اس گہرے تعلق باللہ کی علامت کے طورپرآدمی کو عینِ خاشع، یعنی گریہ والی آنکھ حاصل ہوتی ہے۔ اِس کے بارے میں صاحبِ الرسالہ کا ایک قول یہ ہے: ’’اللہ کا ڈر آدمی کی آنکھوں کو اشک آلود کردیتا ہے۔ مگر اللہ کے لئے بھیگی ہوئی آنکھ ہی وہ آنکھ ہے جس کے لئے یہ مقدر ہے کہ اُس کو ٹھنڈک حاصل ہو، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی‘‘۔
مجھے الرسالہ کے آتشیں الفاظ میں صاحبِ الرسالہ کے دل کی دھڑکنیں صاف سنائی دے رہی ہیں۔ اتنے اعلیٰ الفاظ میں کلام کرنا ایک سچے داعیِ حق اور عارف باللہ کے سوا کسی اور کے لئے ممکن نہیں۔ کیا آپ الرسالہ کے مضامین میں اُن آتشیں کیفیات کو محسوس کررہے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ صاحبِ الرسالہ بے پناہ دردوغم میں پگھل رہا ہے۔ کیا آپ الرسالہ کے اوراق میں جا بجا اُن لاتعداد بھونچالوں کی شدت محسوس کررہے ہیں جو صاحبِ الرسالہ کے سینے میں امنڈ رہے ہیں۔ خدا نے ہمارے لئے مشکل ترین کام کو آسان ترین بنایا ہے۔ خدا نے دورِ جدید میں مولانا وحید الدین خاں صاحب سے تجدید واحیائِ دین کا کام لیا ہے۔ ان کے ذریعے قرآن وحدیث اور اُس سے متعلق انتہائی طاقتور لٹریچر وجود میں آگیاہے، جو دنیا کے ذہین اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں پر حجت قائم کرنے کے لئے کافی ہے۔داعیانِ حق کی جماعت میں شامل ہونے کے لئے ہمیں صرف یہ کرنا ہے کہ ہم اس لٹریچر کو حق سے غافل یا حق سے بے خبر بندگانِ خدا تک پہنچا دیں، تاکہ ہم خدا کی بارگاہ میں بری الذمہ ہوں اور لوگوں کے لئے عذر کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے۔ ہمارے لئے اِس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ہم اِس خدائی کام کو اپنا ذاتی مسئلہ بنائیں، بلکہ اِس سے بڑھ کر ہم اس کو اپنی زندگی اور موت کا مسئلہ بنا لیں۔ اگر ہمارا یہ واقعی فیصلہ ہے تو ہمیں اپنے آپ سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ آج تک ہم اِس دعوتی مہم میں اپنی آمدنی کا کتنا حصہ خرچ کرچکے ہیں۔ اگر ہمارا جواب نفی میںہو، تو آج سے ہمیں شعوری طورپر یہ طے کرنا چاہیے کہ ہم اپنی آمدنی اور وسائل کا کتنا حصہ اس خدائی کام کے لئے وقف کرنے کو تیار ہیں۔ خدا کی بارگاہ میں ’’کرنے‘‘ کی قیمت ہے، نہ کہ صرف ’’کہنے‘‘ کی۔ (نذیر الاسلام، کشمیر)
واپس اوپر جائیں

Sunday, 1 May 2011

Al Risala | May 2011(الرسالہ،مئی)

2

-نماز کے فائدے

3

- اسباب کا پردہ

4

- فیہ ذکرکم

5

- قرآن سارے انسانوں تک

6

- اولاد کی حیثیت

7

- جغرافی اتفاق یا خدائی فیصلہ

8

- بامقصد انسان

9

- خصوصی رحمت کا معاملہ

10

- جنت کی طلب

12

- قرآن کتابِ دعوت

13

- وضو اور قرآن

16

- محرومی کے بعد بھی

17

- وطن سے محبت

18

- تخریبی سیاست

20

- ذہنی ارتقا کا ذریعہ

21

- تفسیری روایات

22

- کنڈیشننگ کوتوڑنا

23

- معرفت کا اسٹیج

24

- قرآن اور بائبل کا فرق

25

- بسترِ مرگ سے

26

- سب کچھ سے بے کچھ کی طرف

27

- غلو کی ایک مثال

28

- شاہِ ہمدان کامشن

31

- اصول پسندی یا شخصیت پرستی

32

- زندگی کا ایک اصول

33

- عذر کے باوجود

34

- ایک سبق آموز واقعہ

35

- اپنے پوٹینشیل کو ایکچول بنائیے

36

- سوال وجواب

40

- خبر نامہ اسلامی مرکز


نماز کے فائدے

ایک صاحب نے کہا کہ قرآن کے مطابق، حقیقی نمازوہ ہے جو خشوع (spirit) کے ساتھ ادا کی جائے (21:1) ۔ میرے جیسے آدمی کو اکثر خشوع والی نماز حاصل نہیں ہوتی، پھر نماز پڑھنے سے کیا فائدہ۔ میں نے کہا کہ جس طرح خشوع والی نماز کا فائدہ ہے، اُسی طرح بے خشوع والی نماز کا بھی فائدہ ہے۔ دونوںہی یکساں طورپر مطلوب ہیں۔
آدمی اگر خشوع والی نماز پڑھے تو اس کو ایک اطمینان حاصل ہوگا۔ وہ خشوع والی نماز (worship with spirit) کا درجہ حاصل کرے گا۔ اِس کے مقابلے میں، اگر کوئی شخص خشوع کے بغیر نماز ادا کرتا ہے، تب بھی اس کا ایک عظیم فائدہ ہے، وہ یہ کہ وہ یہ محسوس کرے گا کہ اس کی نماز بے خشوع کی نماز (worship without spirit) تھی۔ ایسی نماز بھی فائدے سے خالی نہیں۔
حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ احساس کہ میں دین کے تقاضوں کو پورا کرنے میں ناکام رہا، یہ اپنے آپ میں ایک مطلوب احساس ہے۔ آدمی کا احساس اگر یہ ہوکہ میں نے دین کے تقاضے پورے کردئے، تو اندیشہ ہے کہ اس کے اندرعُجب (pride) کا جذبہ پیدا ہو جائے، جو اس کی دین داری کو باطل کردے ۔ اِس کے برعکس، یہ احساس کہ میںنے بظاہر دین کے تقاضے تو پورے کئے، لیکن میرے اندر مطلوب اسپرٹ موجود نہ تھی۔ یہ احساس آدمی کے اندر عجز ا ور تواضع (modesty) کی کیفیت پیدا کرے گا، اور یہ ثابت ہے کہ عجز اور تواضع اپنے آپ میں ایک اعلیٰ ایمانی حالت ہے۔ عُجب کا احساس مواخذے کا سبب بن سکتا ہے، لیکن عجز وتواضع ہر حال میں آدمی کو اجر کا مستحق بناتا ہے۔
مزید یہ کہ پانچ وقت کی نماز آدمی کے لیے ایک ریمائنڈر (reminder) کی حیثیت رکھتی ہے۔ نماز ادا کرنے کے بعد آدمی اپنے اِس احساس کو تازہ کرتا ہے کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اور مجھے اللہ کا فرماں بردار بن کر دنیا میں رہنا ہے۔ نماز اِسی قسم کی پنچ وقتہ عملی یاد دہانی ہے۔ نماز قادرِ مطلق خدا کے مقابلے میں، اپنے عجز ِتام کا علامتی اعتراف (symbolic acknowledgement) ہے۔
واپس اوپر جائیں

اسباب کا پردہ

خدا کے وجود پر زندہ یقین سب سے زیادہ مطلوب چیز ہے، لیکن تجربہ بتاتا ہے کہ لوگ خدا کے وجود پر زندہ یقین نہیں کرپاتے، یہاں تک کہ کچھ لوگ اِس انتہا پسندی تک پہنچ جاتے ہیں کہ وہ خدا کے منکر بن جاتے ہیں۔ یہ ظاہرہ پوری انسانی تاریخ میں موجود رہا ہے۔ ایسا کیوں ہے۔
ایسا اِس لیے ہے کہ اِس دنیا میں خدا کے تخلیقی نقشہ کے مطابق، تمام واقعات اسباب وعلل (cause and effect) کی صورت میں پیش آتے ہیں۔ ہر واقعہ جو ہمارے علم میں آتا ہے، بظاہراُس کا ایک سبب دکھا ئی دیتا ہے۔ اِس بنا پر لوگ واقعہ کو اُس کے سبب کی طرف منسوب کردیتے ہیں، ظاہری مشاہدہ کی بنا پر وہ واقعات کو خدا کی طرف منسوب نہیں کر پاتے۔
یہ صورتِ حال ہمیشہ سے تاریخ میں موجود رہی ہے، مگر موجودہ زمانے میں سائنسی دریافتوں کے بعد اُس نے ایک باقاعدہ نظریہ کی صورت اختیار کرلی ہے جس کو قانونِ تعلیل (law of causation) کہاجاتاہے۔ سائنسی تحقیقات نے جب دور بینی اور خورد بینی مشاہدات کے ذریعے کائنات میں ہونے والے واقعات کے پیچھے فطری اسباب کو دریافت کیا تو یہ سمجھا جانے لگا کہ سب کچھ اسباب کے تحت ہورہا ہے۔ سائنسی دریافتوں کے حوالے سے یہ کہاجانے لگا کہ — اگر واقعات فطری اسباب کے تحت ہوتے ہیں تو وہ فوق الفطری اسباب کے تحت نہیں ہوسکتے:
If events are due to natural causes, they are not due to supernatural causes.
یہی موجودہ دنیا میں انسان کا امتحان ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے شعور کو اتنا زیادہ ارتقا یافتہ بنائے کہ وہ ظاہری اسباب کے پیچھے خالق کی کارفرمائی کو دیکھ سکے۔وہ یہ دریافت کرسکے کہ اس معاملے میں اسباب محض ایک پردہ ہیں، نہ کہ اصل حقیقت۔
اِسی دریافت کا نام ایمان ہے، اور اِس دنیا میں جو لوگ اِس دریافت کا ثبوت دیں، وہی اللہ کے یہاں اِس قابل ٹھہریں گے کہ اُن کو انعام کے طورپر ابدی جنت میں داخل کیا جائے۔
واپس اوپر جائیں

فیہ ذکرکم

قرآن کی سورہ الانبیاء میں ارشاد ہوا ہے: لقد أنزلنا إلیکم کتابا فیہ ذکرکم (21: 10) یعنی ہم نے تمھاری طرف ایک کتاب اتاری ہے جس میں تمھارا ذکر ہے، پھر کیا تم غور نہیں کرتے۔ قرآن کی اِس آیت میں ’’ذکر‘‘ سے مراداصلاً تذکیر یا یاد دہانی ہے، لیکن اس کا ایک توسیعی مفہوم بھی ہے۔ اِسی مفہوم میں مجاہدتابعی نے کہا: فیہ ذکرکم، أی فیہ حدیثکم (القرطبی 11/273 ) یعنی قرآن میں تمھاری بات ہے۔
راقم الحروف کو مجاہد تابعی کی اِس بات سے اتفاق ہے۔ میں نے خود ایسا کیا کہ قرآن کو بار بار پڑھ کر یہ جاننے کی کوشش کی کہ قرآن میں میرا ذکر کہاں ہے، یعنی قرآن کی وہ آیت کون سی ہے جس کو میں سمجھ سکتا ہوں اس میں میرا معاملہ مذکور ہے۔
آخر کار میں نے قرآن کی ایک آیت میںاپنا حوالہ پالیا۔ وہ قرآن کی سورہ حم السجدہ کی آیت نمبر 53 تھی۔ اس آیت کا ترجمہ یہ ہے: ہم عنقریب اُن کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے، آفاق میں اور انفس میں، یہاں تک کہ ان پر واضح ہوجائے کہ یہ (قرآن) حق ہے:
We shall show them Our signs in the universe and within themselves, until it becomes clear to them that this is the Truth. (41: 53)
جدید سائنس دراصل آیات ِ فطرت کا علم ہے۔ چناں چہ میں نے اِس پہلو سے دین کی خدمت کا فیصلہ کرلیا۔ میری تقریباً تمام کتابیں جدید علوم کی نسبت سے اسلام کی تشریح ہیں۔ ابتداء ً میں نے اِس پہلو سے چند پمفلٹ لکھے۔ مثلاً ’’نئے عہد کے دروازے پر‘‘ (1955)، ’’حقیقت کی تلاش‘‘ (1958)۔ اس کے بعد ایک باقاعدہ کتاب’’مذہب اور جدید چیلنج‘‘ (1966) کے نام سے تیار کی ۔ میری تمام کتابیں براہِ راست یا بالواسطہ طورپر اسی موضوع سے تعلق رکھتی ہیں۔میری تمام کتابوں کا ایک ہی مشترک عنوان ہے — عصری اسلوب میں اسلامی لٹریچر۔
واپس اوپر جائیں

قرآن سارے انسانوں تک

دعوت الی اللہ ہر مسلمان پر اُسی طرح فرض ہے جس طرح اس کے اوپر نماز فرض ہے۔ نماز کی ادائیگی کے بغیر ایک شخص مومن نہیں بنتا۔ اِسی طرح دعوت کی ادائیگی کے بغیر اس کا امتِ محمدی کا فرد ہونا متحقّق (established) نہیں ہوتا۔ ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ دعوت کو بھی اُسی طرح اپنی زندگی کا ایک لازمی حصہ بنائے جس طرح وہ نماز کو اپنی زندگی کا ایک لازمی حصہ سمجھتا ہے۔
قرآن کی سورہ العلق میں ارشاد ہوا ہے: علّم بالقلم (96: 4) ۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ دعوت کی تحریک مبنی بر لٹریچر(literature-based) تحریک ہے۔ اصحاب رسول کا اسلوبِ دعوت یہ تھا کہ قرآن ان کے حافظہ میں رہتا تھا اور وہ قرآن کے حصے پڑھ کر مدعو کو سناتے تھے۔ اِسی لیے اُن کو مُقری (پڑھ کر سنانے والا) کہا جاتا تھا۔ موجودہ پرنٹنگ پریس کے زمانے میں اِس کی صورت یہ ہے کہ ہر آدمی قرآن کا ترجمہ اپنے پاس رکھے اور بوقتِ ملاقات وہ اُسے دوسروں کو دیتا رہے۔
اس کی ایک صورت یہ ہے ہر مسلمان اپنی دکان پر یا اپنے آفس میں قرآن کا ترجمہ رکھے اور وہ آنے والوں کو اُسے دیتا رہے۔ اصحابِ رسول اگرقرآن کے مقری بنے ہوئے تھے تو وہ قرآن کا ڈسٹری بیوٹر (distributor) بن جائے۔
پیغمبر کی ذمے داری یہ تھی کہ وہ قرآن کو اپنے زمانے کے لوگوں تک پہنچائے۔ اب پیغمبر کی امت کے لوگوں کی ذمے داری یہ ہے کہ وہ اپنے زمانے کے لوگوں تک خدا کا پیغام پہنچائیں، وہ مسلسل طور پر بعد کی نسلوں میں پیغام رسانی کے اِس کام کو جاری رکھیں(6: 19) ۔
موجودہ زمانے میں مسلمان ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ سفر اور آمد ورفت کے دوران ان کی ملاقات دوسروں سے ہوتی ہے۔ اگر ہر مسلمان اپنے ساتھ قرآن کے ترجمے کی مطبوعہ کاپی رکھے تو ساری دنیا کے انسانوں تک قرآن پہنچ جائے گا۔ اِس طرح امتِ محمدی، آخرت میں خدا کے سامنے یہ کہہ سکے گی کہ —ہم نے ساری دنیا کے لوگوں تک تیری کتاب کو پہنچا دیا۔
واپس اوپر جائیں

اولاد کی حیثیت

ایک صاحب کا ٹیلی فون آیا۔ انھوں نے کہا کہ قرآن میں اولاد کو فتنہ کہاگیا ہے (64: 15) اِس کا مطلب کیا ہے۔ انھوںنے کہا کہ مسلمان عام طورپر اولاد کو خدا کا انعام سمجھتے ہیں، کوئی بھی اپنی اولاد کو فتنہ نہیں بتاتا، پھر قرآن کی اُن آیتوں کا کیا مطلب ہے جن میں اولاد کو فتنہ کہاگیا ہے۔
میں نے کہا کہ اولاد اپنے آپ میں فتنہ نہیں ہے۔ زہر اپنے آپ میں زہر ہوتا ہے، مگر اولاد کا معاملہ یہ نہیں ہے کہ وہ اصلاً فتنہ کے طورپر پیدا ہوتی ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ فتنہ بنانے کا معاملہ ہے، نہ کہ بذاتِ خود فتنہ ہونے کا معاملہ۔ والدین کا اپنا غلط مزاج اولاد کو فتنہ بنا دیتا ہے۔ والدین کے اندر اگر صالح مزاج ہو تو اُن کی اولاد اُن کے لیے فتنہ نہیں بنے گی۔
فتنہ کے لفظی معنی آزمائش (test) کے ہیں۔ یہ دنیا دار الامتحان ہے۔ یہاں انسان کو جو چیزیں بھی دی گئی ہیں، وہ سب کی سب امتحان کے پرچے ہیں۔ مال اور اولاد اور دوسری تمام چیزیں بھی امتحان کے پرچے ہیں۔ انسان کو چاہیے کہ وہ ان تمام چیزوں کو اِسی اصل حیثیت سے دیکھے، وہ ہمیشہ یہ کوشش کرے کہ وہ اِس پرچۂ امتحان میں پورا اترے۔
اِس معاملے کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے خالق کو اپنا سب سے بڑا کنسرن بنائے۔ دوسری دنیوی چیزوں میں سے کوئی بھی چیز، خواہ وہ مال ہو یا اولاد ہو یا اقتدار، وہ اس کا اصل کنسرن (sole concern)نہ بننے پائے۔
جو لوگ اِس امتحان میں پورے نہ اتریں، وہ اللہ کے سوا دوسری چیزوں کو اپنا کنسرن بنالیں، وہ آخرت میں ایک محروم انسان کی حیثیت سے اٹھیں گے، جب کہ اُن کے تمام سہارے ان سے ٹوٹ چکے ہوں گے۔ اس وقت وہ حسرت کے ساتھ کہیں گے: ما أغنی عنّی مالیہ، ہلک عنی سُلطانیہ (69: 28-29)۔ حقیقت یہ ہے کہ اولاد ذمے داری (responsibility)کا ایک معاملہ ہے، نہ کہ فخر (pride)اور مباہات کا کوئی معاملہ۔
واپس اوپر جائیں

جغرافی اتفاق یا خدائی فیصلہ

حضرت موسی کے زمانے میں بنی اسرائیل مصر میں آباد تھے۔ وہ 1447 قبل مسیح میں حضرت موسیٰ کی قیادت میں مصر سے نکلے اور صحرائے سینا (Sinai) میں پہنچ کر وہاں آباد ہوئے۔ اُس وقت ان کی مجموعی تعداد تقریباً 20 لاکھ تھی۔ اُس وقت وہاں صحرا اور پہاڑ کے سوا کچھ اور نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی معاشیات کے لیے ایک خصوصی انتظام کیا جس کو من وسلویٰ (2: 57) کہاجاتاہے۔ بنی اسرائیل سے یہ مطلوب تھا کہ وہ معاش کے اِس خصوصی انتظام پر خدا کا شکر ادا کریںاور اپنے آپ کو پوری طرح دین کی خدمت میں لگا دیں۔یہی خدائی انتظام موجودہ زمانے میں بنو اسماعیل (امتِ محمدی) کے ساتھ ایک نئی صورت میں کیاگیا ہے۔ عرب دنیا (Arab world) جس کو شرقِ اوسط (Middle East) کہاجاتا ہے، اس کی زمین کے نیچے دنیا کے تیل کا تقریباً 80 فی صد حصہ پایا جاتا ہے۔ یہ ایک استثنائی معاملہ ہے۔ ماہرین اِس کو جغرافی اتفاق (geographical accident) کہتے ہیں، مگر حقیقت کے اعتبار سے وہ جغرافی اتفاق نہیں ہے، بلکہ یہ واقعہ خدا وند عالم کے فیصلے کے تحت پیش آیا ہے۔
یہ خدائی انتظام اِس لیے کیا گیا ہے تاکہ صنعتی دور میں امتِ محمدی معاشیات سے فارغ ہو کر اپنے دینی رول کو ادا کرسکے۔ اِس دینی رول کے دو پہلو ہیں — ایک ہے دین کی حفاظت، اور دوسرا ہے دعوت الی اللہ کے عمل کا جاری رکھنا۔ امتِ محمدی کو اصلاً تیل کی دولت دین کی حفاظت، اور دعوت الی اللہ کے اِسی کام کے لیے دی گئی ہے۔
اِس معاملے میں امتِ محمدی سے جو مطلوب ہے، وہ یہ ہے کہ وہ اپنی ذات کے لیے اُس میں سے صرف ضرورت کے بقدر لیں اور بقیہ تمام مال وہ دین کی حفاظت ودعوت کے کام میں استعمال کریں۔ من وسلویٰ کے خدائی انتظام کے ذریعے امتِ موسیٰ سے جو مطلوب تھا، وہی تیل کے انتظام کے ذریعے اب امتِ محمدی سے مطلوب ہے۔ دونوں کے درمیان ظاہری صورت کے اعتبار سے فرق ہے، لیکن ذمے داری کے اعتبار سے دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں۔
واپس اوپر جائیں

بامقصد انسان

ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رُبَّ أشعث أغبرَ مدفوع بالأبواب، لو أقسم علی اللہ لأبرّہ (صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب) یعنی کچھ (اللہ کے بندے) ایسے ہیں جن کے بال بکھرے ہوئے ہیں اور جن کے کپڑے گرد آلود ہیں، جن کے اوپر لوگوں کے دروازے بند ہیں۔ اگر وہ اللہ پر قسم کھالیں تو اللہ ضرور ان کی قسم پوری کرے گا۔
اِس سے مراد کوئی مجذوب انسان نہیں ہے، بلکہ اِس سے مراد بامقصد انسان ہے۔ جو آدمی ربانی مقصد کے لیے اپنے آپ کو وقف کردے، وہ اِس مقصد میں اتنا زیادہ گم ہوجائے کہ اس کو جسمانی آرائش کی کوئی فکر نہ رہے، ربانی مقصد کے سوا جس کا کوئی اور مقصدِ حیات نہ رہے، اُس انسان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا وہ خصوصی معاملہ ہوتا ہے جس کا ذکر مذکورہ حدیث میں کیاگیا ہے۔
تاہم یہ حدیث مطلق معنوں میں نہیں ہے۔ اِس سے مراد مادّی چیزیں یا دنیوی مرغوبات نہیں ہیں۔ اِس قسم کی چیزیں مذکورہ انسان کا ہدف نہیںہوتیں۔ اِس لیے وہ ان کا طالب بھی نہیں بنتا۔
حقیقت یہ ہے کہ اِس سے مراد وہ چیزیں ہیں جو بامقصد زندگی کا تقاضا ہوتی ہیں۔ ایک بامقصد انسان جب اپنے آپ کو ربانی مقصد میں لگا دیتا ہے تو ایسے مواقع آتے ہیں جب کہ اس کو محسوس ہوتا ہے کہ اس کے اپنے وسائل (resources) ناکافی ہیں اور خدا کی خصوصی مدد کے بغیر وہ اپنے مقصدی سفر کو جاری نہیں رکھ سکتا، اُس وقت وہ بے قرار دل کے ساتھ اپنے رب کو پکارتا ہے اور اپنے رب کی طرف سے اس کا مثبت جواب پاتا ہے۔
یہی وہ استثنائی معاملہ ہے جس کا ذکر مذکورہ حدیث میں کیا گیا ہے۔ مذکورہ حدیث کسی انسان کے پراسرار (mysterious)معاملے کو نہیں بتاتی، یہ اُس انسان کے فطری معاملے کو بتاتی ہے جو ربانی مقصد میں اپنے آپ کو آخری حد تک شامل کردے، خدا کے سوا جس کے لیے کوئی اور چیز اُس کے مدعائے حیات کی حیثیت سے باقی نہ رہے۔
واپس اوپر جائیں

خصوصی رحمت کا معاملہ

ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ صحیح البخاری نے اس کو چار ابواب، کتاب الادب، کتاب المظالم، کتاب التوحید، کتاب التفسیر، کے تحت درج کیا ہے۔ اِس روایت کا ترجمہ یہ ہے: صفوان بن محرز کہتے ہیں کہ ایک آدمی (سعید بن جبیر التابعی) نے عبد اللہ بن عمر سے پوچھا کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نجویٰ (خدا اور بندہ کے درمیان سرگوشی) کے بارے میں کیا سنا ہے۔ انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے ایک شخص (حشر کے دن) اپنے رب کے پاس آئے گا، یہاں تک کہ وہ خدا سے بالکل قریب ہوجائے گا۔ اللہ اُس سے کہے گا کہ تم نے ایسا کیا اور ایسا کیا۔ وہ کہے گا کہ ہاں۔ پھر اللہ اس شخص سے کہے گا کہ تم نے ایسا اور ایسا کیا۔ وہ کہے گا کہ ہاں۔ پھر بندہ اپنے (گناہ) کا اقرار کرے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں نے دنیا میں تمھاری پردہ پوشی کی، اب آج میں تم کو معاف کرتا ہوں۔ (إنّی سترتُ علیک فی الدنیا، فأنا أغفرہا لک الیوم) صحیح البخاری، کتاب الأدب، باب ستر المؤمن نفسہ۔
مسلم نے اِس روایت کو کتاب التوبہ کے تحت نقل کیا ہے۔ اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اُس انسان کا کیس ہے جس سے گناہ کا واقعہ ہو جائے، پھر وہ شدید طورپر توبہ اور استغفار کرے، یہ صرف قیامت کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ وہ اِس دنیا میں پیش آنے والے ایک واقعے کا اخروی پہلو ہے، یعنی دنیا میں بندہ نے نہایت شدید طورپر توبہ واستغفار کا ثبوت دیا تھا، اِس بنا پر قیامت کے دن اللہ کی خصوصی رحمت اس کی طرف متوجہ ہو گی اور اس کو بخشش کا پروانہ دے دیا جائے گا۔اِس روایت میں دراصل ایسے انسان کا ذکر ہے جس سے بشری تقاضے کے تحت کوئی غلطی سرزد ہوجائے، مگر اِس کے بعد وہ غفلت یا سرکشی کا طریقہ اختیار نہ کرے، بلکہ وہ شدید قسم کے توبہ وانابت کا ثبوت دے۔ یہ توبہ وانابت صرف ایک بار بوقتِ گناہ نہ ہو، بلکہ وہ ساری عمر اللہ سے معافی کا طلب گار بنا رہے، وہ صبح وشام اللہ کی پکڑ سے ڈرتا رہے۔ یہی وہ انسان ہے جس کو قیامت میں مذکورہ قسم کی خصوصی رحمت ومغفرت حاصل ہوگی۔
واپس اوپر جائیں

جنت کی طلب

حدیث میںآیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ما رأیت مثل الجنۃ نام طالبہا (الترمذی، کتاب الجنۃ)۔ اِس حدیث رسول کا مطلب یہ ہے کہ جنت کا مستحق وہ شخص ہے جو حقیقی معنوں میںجنت کا طالب بن جائے۔ مگر انسان اتنا زیادہ غافل ہے کہ وہ جنت جیسی قیمتی چیز کا طالب نہیںبنتا اور غفلت کی نیند سوتا رہتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ جب ایک شخص جنت کی اہمیت کو دریافت کرلے اور اپنے پورے وجود کے ساتھ وہ اس کا طالب بن جائے تو یہ کوئی سادہ بات نہیں ہوتی۔ اس کے بعد یہ ہوتا ہے کہ آدمی دنیا کی ہر چیز میں جنت کی جھلک دیکھنے لگتاہے۔ ہر تجربہ اُس کے لیے ایک پوائنٹ آف ریفرنس (point of reference) بن جاتا ہے، جس کے حوالے سے وہ جنت کو یاد کرے اور اللہ سے جنت کی دعا کرتا رہے۔ جنت کی دریافت سے آدمی جنت کا طالب بنتا ہے، اور جب ایک شخص حقیقی معنوںمیں جنت کا طالب بن جائے تو وہ بار بار جنت کی دعا کرتا رہے گا، یہاں تک کہ وہ جنت میں پہنچ جائے۔
مثال کے طورپر ایسا ایک طالبِ جنت، قرآن کو پڑھتے ہوئے سورہ النساء کی اِس اٰیت تک پہنچتا ہے: وإن أردتم استبدال زوجٍ مکانَ زوج واٰتیتم إحداہنّ قنطاراً فلا تأخذوا منہ شیئا (4: 20) یعنی اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی بدلنا چاہو اور تم اُس پہلی بیوی کو بہت سا مال دے چکے ہو، تو تم اُس مال میں سے کچھ بھی اُس سے واپس نہ لو۔
ایک طالب جنت جب اِس آیت کو پڑھتا ہے تو اس کے اندر سوچ کا ایک طوفان جاگ اٹھتا ہے۔ اِس آیت میںاللہ تعالیٰ نے اعلیٰ اخلاق کا ایک اصول بتایا ہے، وہ یہ کہ ایک شخص ایک خاتون سے نکاح کرتا ہے۔ اِس تعلق کے دوران وہ اس کو کافی مال دے دیتا ہے۔ اِس کے بعد اُس کے دماغ میں کسی وجہ سے ایک سکنڈ تھاٹ (second thought) آتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ وہ اِس پہلی بیوی کو طلاق دے دے اور دوسری خاتون سے نکاح کرلے۔ مذکورہ آیت میں بتایا گیا ہے کہ اِس موقع پر تم ایسا نہ کرو کہ سابقہ بیوی سے اپنا دیا ہوا مال واپس لے لو۔ جو مال تم اس کو دے چکے ہو، اُس کو واپس لینا، اعلیٰ اخلاقی اصول کے خلاف ہے۔
قران کی یہ آیت بظاہر طلاق کے بارے میں ہے، لیکن اس کے اندر ایک اہم پوائنٹ آف ریفرنس (point of reference) موجود ہے۔ اِس کو لے کر ایک طالب اپنی جنت کے لیے اللہ سے دعا کرے۔ وہ یہ کہے کہ — خدایا، تونے اپنی کتاب میں یہ اصول بتایا ہے کہ دی ہوئی چیز کو واپس لینا درست نہیں۔ اِسی طرح تو نے مجھے دنیا کی زندگی میں بے شمار چیزیں عطا کیں۔ یہ چیزیں اتنی زیادہ ہیں کہ وہ کسی شوہر کی طرف سے اپنی بیوی کو دئے ہوئے قنطار (treasure) سے ہزاروں بلین گنا سے بھی زیادہ بڑھی ہوئی ہیں۔ پھر کیا تو میرے ساتھ ایسا کرے گا کہ تو مجھے اپنی رحمت کا قنطار دے اور موت کے بعد کے دورِ حیات میں تو مجھ سے تمام دی ہوئی چیزیں واپس لے لے اور مجھ کو محروم کرکے چھوڑ دے۔ جس اعلیٰ اخلاقی اصول کی تعلیم تو نے انسان کو دی ہے، میں امیدکرتا ہوں کہ تو مزید اضافے کے ساتھ یہی اعلیٰ اخلاقی معاملہ میرے بارے میں کرے گا۔
قرآن کی اس آیت میں طلاق کا ایک حکم بیان کیاگیا ہے۔ قرآن میں طلاق کا مادہ 15 بار آیا ہے، لیکن اِس آیت میں استثنائی طورپر طلاق کے بجائے، استبدال (replacement) کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ یہ لفظی فرق بے حد با معنی ہے۔ یہ ایک طالبِ جنت کو یہ موقع دیتا ہے کہ وہ یہ سوچ سکے کہ استبدالِ زوج کی طرح میرا معاملہ بھی استبدالِ مقام کا معاملہ ہے، یعنی موت کے بعد موجودہ دنیا کو چھوڑ کر آخرت کی دنیا میں جانا۔
اِس مشابہت میں طالب جنت کے لیے ایک بشارت (good tiding) موجود ہے۔ وہ یہ سوچ سکتاہے کہ استبدالِ زوج کا معاملہ میرے استبدالِ مقام کے معاملے پر بھی یکساں طورپر چسپاں (apply) ہوتا ہے۔ یہاں ایک طالبِ جنت یہ امید کرسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اِس طرح کا لفظی فرق اِس لیے رکھا، تاکہ ایک طالب جنت اِس میں اپنی تصویر دیکھے اور گہری امیدوں کے ساتھ وہ اللہ سے جنت کا طالب بن جائے۔
واپس اوپر جائیں

قرآن کتابِ دعوت

قرآن ایک کتاب دعوت ہے۔ ساتویں صدی عیسوی کے رُبع اول میں جب قرآن اترا تو اُس وقت قرآن ہی دعوت کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔ رسول اور اصحابِ رسول کے طریقِ تبلیغ کے متعلق روایات میں آتا ہے : عرض علیہم الاسلام، وتلا علیہم القرآن (انھوں نے اُن کے سامنے اسلام پیش کیا اور قرآن کا کچھ حصہ ان کو پڑھ کر سنایا)۔
مگر عجیب بات ہے کہ بعد کے زمانے میں قرآن مسلمانوںکے درمیان کتابِ دعوت کی حیثیت سے باقی نہ رہا۔ مسلمان، قرآن کا عربی متن (text) برکت کے طورپر پڑھتے رہے۔ قرآن کے جو ترجمے کئے گئے، وہ بھی یا تو ثواب کے لیے کئے گئے، یا اِس ذہن کے تحت کہ مسلمان اس کو پڑھیں گے۔ غیر مسلموں کے درمیان دعوتی اشاعت کے لیے غالباً قرآن کا ترجمہ نہیں کیا گیا۔انگریزی زبان موجودہ زمانے میں انٹرنیشنل زبان سمجھی جاتی ہے۔ انگریزی زبان میں قرآن کے تقریباً 50 ترجمے موجود ہیں۔ مگر یہ انگریزی ترجمے مدعو فرینڈلی زبان (Mad‘u-friendly language) میں نہیں کئے گئے۔ چنانچہ غیر مسلم جب اِن ترجموں کو پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ کنفیوژن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ان کو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کہ عام انسان کے لیے قرآن سمجھ میں آنے والی کتاب نہیں۔
اِنھیں اسباب کی بنا پر لمبی کوشش کے بعد سی پی ایس (نئی دہلی) نے 2008 میں انگریزی زبان کا ایک نیا ترجمہ شائع کیا ہے۔ یہ ترجمہ ان شاء اللہ مدعو فرینڈلی زبان میں ہے۔ چناںچہ جن غیرمسلم حضرات تک یہ ترجمہ پہنچتا ہے، وہ اس کو شوق سے لیتے ہیں اور دلچسپی کے ساتھ اس کو پڑھتے ہیں۔
حدیث میں بتایا گیا ہے کہ قیامت کے قریب اِدخالِ کلمۂ اسلام کا عمل ہوگا، یعنی ہر گھر میں کلمۂ اسلام پہنچ جائے گا۔ اِس حدیث میںکلمۂ اسلام سے مرادخدا کی کتاب قرآن ہے۔ ادخال الکلمۃ فی کل البیوتسے مراد ادخال القرآن فی کلِ البیوتہے، یعنی ہر گھر میں قرآن کا پہنچ جانا۔ اب ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ ادخالِ کلمہ کے اِس عمل میں اپنا حصہ ادا کرے۔ یہ دعوتِ اسلام کا ایک ایسا طریقہ ہے جو بلاشبہہ ہر مسلمان کے لیے ممکن ہے، خواہ وہ تعلیم یافتہ ہو یا غیر تعلیم یافتہ۔
واپس اوپر جائیں

وضو اور قرآن

عام طورپر سمجھا جاتا ہے کہ قرآن کوچھونے کے لیے باوضو ہونا ضروری ہے۔ مگر یہ مسئلہ قرآن کی کسی آیت یا حدیث کی روایت سے ثابت نہیں۔ اِس مسئلے کے حق میں کوئی بھی نصِّ شرعی موجود نہیں۔ اِس سلسلے میںجو حوالے دئے جاتے ہیں، وہ سب کے سب استنباط پر مبنی ہیں، نہ کہ کسی نصِ قطعی پر۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کو چھونے کے لیے وضو کی شرط لگانا، قرآن کے احترام میں غلو کی بنا پر ہے، اور دین میں غلو کا کوئی درجہ نہیں، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے: لاغلوَّ فی الإسلام۔
اِس نقطۂ نظر کی تائید میںقرآن کی سورہ الواقعہ کی ایک آیت کا حوالہ پیش کیا جاتا ہے، وہ یہ ہے : إنّہ لقرآن کریم ، فی کتاب مکنون، لا یمسّہ إلاّ المطہرّون۔ تنزیل من ربّ العالمین (56: 77-80) یعنی یہ ایک باعزت قرآن ہے، ایک محفوظ کتاب میں۔ اس کو وہی چھوتے ہیں جو پاک بنائے گئے ہیں۔ اتارا ہوا ہے پروردگار ِ عالم کی طرف سے۔
قرآن کی اس آیت کا کوئی تعلق وضو کے مسئلے سے نہیں۔ اِس آیت میں صرف یہ بتایا گیا ہے کہ قرآن کی تنزیل کا عمل فرشتوں کے ذریعے ہوتا ہے، اور فرشتے ایک ایسی مخلوق ہیں جن کو خدا نے پیدائشی طورپر طاہر بنایا ہے۔ اِس آیت میں جو لفظ استعمال کیا گیا ہے، وہ مُطَہَّر ہے، نہ کہ متوضَّأ،یعنی پاکیزہ نہ کہ باوضو۔ مطہَّرکا لفظ قرآن میںدوسرے مقام پر ازواجِ جنت کے لیے آیا ہے (2: 25) ۔ وہاں بھی یہ مراد نہیں ہے کہ یہ ازواج ہمیشہ باوضو ہوںگی، بلکہ اِس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے اُن کو پیدائشی طورپر پاکیزہ اور طاہر بنایا ہوگا: ومطہرّۃٌ للإشعار بأن اللہ طہرّہن (التفسیر المظہری 1/40 )
قرآن کے الفاظ کے مطابق، قرآن کو وہ مخلوق چھوتی ہے جو خود اپنی تخلیق کے اعتبار سے پاکیزہ ہے، جس کو خالق نے پیدائشی طورپر پاک بنایا ہے، یہ مخلوق بلا شبہہ فرشتے ہیں۔ وہ قرآن کو اللہ سے لیتے ہیں اور پیغمبر تک پہنچاتے ہیں۔ قرآن کے الفاظ سے یہ نہیں نکلتا کہ قرآن کو اللہ سے لینے سے پہلے فرشتے وضو کرلیتے ہیں۔فرشتے اپنی اصل تخلیق کے اعتبار ہی سے مکمل طورپر پاکیزہ ہیں۔
اس سلسلے میں دوسرا استدلال اُس واقعے سے کیا جاتا ہے جو روایات میں حضرت عمر بن الخطاب کے اسلام کے بارے میں آیا ہے۔یہ ایک لمبی روایت ہے۔ اس کا ایک جز یہ ہے کہ عمر بن الخطاب کو معلوم ہوا کہ ان کی بہن فاطمہ اور ان کے شوہر سعید بن زید نے اسلام قبول کرلیا ہے۔ اُس وقت تک عمر بن الخطاب اسلام میں داخل نہیں ہوئے تھے۔ عمر بن الخطاب اپنی بہن کے گھر گئے اور دونوں کو اتنا مارا کہ وہ خون آلود ہوگئے۔ خون کو دیکھ کر عمر بن الخطاب کے اندر ندامت پیدا ہوئی۔ انھوں نے اپنی بہن سے کہا کہ مجھے وہ قرآن دکھاؤ جو محمد پر اترا ہے۔ اس کے بعد روایت کے الفاظ یہ ہیں: فقالت فاطمۃ: یا أخی، إنک نجس علی شرکک، وإنہ لا یمسہ إلا المطہرون۔ فقام عمر فاغتسل، فأعطتہ الصحیفۃ (السیرۃ النبویۃ لابن کثیر 2/35) یعنی فاطمہ نے کہا کہ اے میرے بھائی، تم اپنے شرک کی بنا پر نجس ہو، اور قرآن کو صرف پاکیزہ لوگ ہی چھوتے ہیں۔ چناں چہ عمر بن الخطاب اٹھے اور انھوں نے غسل کیا، پھر فاطمہ نے اُن کو صحیفہ (قرآن) دیا۔
اِس روایت سے یہ مسئلہ ثابت نہیں ہوتا کہ قرآن کو چھونے سے پہلے وضو کرنا ضروری ہے۔ اِس روایت سے اگر کوئی چیز نکلتی ہے تو وہ یہ کہ قرآن کو چھونے سے پہلے غسل کرنا ضروری ہے۔ ایسی حالت میں بیان کرنے والوں کو یہ مسئلہ بیان کرنا چاہیے کہ قرآن کو چھونے سے پہلے غسل کرو، غسل کے بغیر قرآن کو چھونا جائز نہیں۔ مزید یہ کہ اِس روایت کے مطابق، فاطمہ نے عمر بن الخطاب کے ہاتھ میں قرآن کا صحیفہ اُس وقت دیا جب کہ ابھی وہ شرک پر قائم ہونے کی بنا پر نجس تھے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ شرک کا خاتمہ غسل سے نہیں ہوتا، بلکہ وہ توبہ اور کلمۂ شہادت کے ذریعے ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں اِس واقعہ سے وضو کا مسئلہ نکالنا سر تا سر ایک غیر متعلق (irrelevant) بات کی حیثیت رکھتا ہے۔
حضرت عمر بن الخطاب کا ایک اور واقعہ روایات میں اِس طرح آیا ہے۔ عمر بن الخطاب ایک بار ایک جماعت کے ساتھ تھے جو کہ ایک صحیفہ کے ذریعہ قرآن کو پڑھ رہے تھے۔ اِس درمیان عمر قضائِ حاجت کے لیے گئے، پھر وہ واپس آئے اور انھوں نے دوبارہ قرآن کو پڑھنا شروع کیا۔ ایک شخص نے اُن سے کہا کہ آپ قرآن پڑھ رہے ہیں، حالاں کہ آپ با وضو نہیں ہیں۔ عمر بن الخطاب نے کہا: مَنْ أفتاک ہٰذا، أمُسیلمۃُ الکذاب، یعنی کس نے تم کہ یہ مسئلہ بتایا ہے، کیا مسیلمہ کذاب نے۔ اِسی طرح سے علی بن ابی طالب کے بارے میں روایت میں آیا ہے کہ وہ صحیفہ کو لے کر قرآن پڑھتے تھے، حالاں کہ وہ باوضو نہیں ہوتے تھے (موطأ امام مالک، شرح العلامۃ عبد الحی اللکنوی، کتاب الطہارۃ، باب الرجل یمس القرآن وہو جنب أو علی غیر وضو، (2/83 ۔
حضرت عمر فاروق کا مذکورہ واقعہ یہ بتاتا ہے کہ اصحابِ رسول کے زمانے میں اِس معاملے میں کیا مزاج پایا جاتا تھا۔ اُس زمانے میں لوگوں کا سارا دھیان تمام تر قرآن کے معانی پر مرتکز ہوتا تھا، نہ کہ اس کے ظاہری مسائل پر۔ یہ مسئلہ کہ وضو کے بغیر قرآن چھونا جائز نہیں، یہ دراصل دورِ صحابہ کے بعد اُس زمانے میں پیدا ہوا جب کہ لوگ ظواہر کو اہمیت دینے لگے اور معنویت کا پہلو پس پشت چلا گیا۔ بعد کے زمانے میں یہ معاملہ صرف قرآن کے ساتھ پیش نہیں آیا، بلکہ دین کے تمام معاملات میں ایسا ہی ہوا۔ لوگ معنوی پہلوؤں پر زور دینے کے بجائے ظاہری مسائل پر زیادہ زور دینے لگے۔ یہ وہی چیز ہے جس کو انتقالِ تاکید (shift of emphasis) کہاجاتا ہے۔ وضو کے بغیر قرآن نہ چھونے کا مسئلہ اِسی بعد کے دور کا ایک ظاہرہ ہے، وہ قرآن اور حدیث کے نصوص سے ماخوذ مسئلہ نہیں۔
واپس اوپر جائیں

محرومی کے بعد بھی

632 ء میں مدینہ میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی۔ یہ ایک بے حد نازک لمحہ تھا۔ وہ صحابہ کے لیے ایک سخت صدمہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ اُس وقت صحابی رسول ابو بکر صدیق نے ایک نمونہ قائم کیا۔ وہ رسول اللہ کے حجرہ میں آئے۔ انھوںنے آپ کے چہرے سے چادر اٹھا کر آپ کو دیکھا اور پھر کہا: من کان یعبدُ محمداً فإن محمداً قد مات۔ ومن کان یعبد اللہ فان اللہ حی لا یموت( صحیح البخاری، رقم الحدیث: 3667 ) یعنی جو شخص محمد کی عبادت کرتا تھا تو محمد پر موت آچکی۔ اور جو شخص اللہ کی عبادت کرتا تھا تو اللہ زندہ ہے، اس پر کبھی موت آنے والی نہیں۔
یہ ایک صحابی ٔ رسول کی مثال ہے جو اس قسم کے ہر واقعہ کے لیے ایک نمونہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ مثلاً ایک شخص کو اپنے بیٹے سے بہت قلبی تعلق ہے۔ نوجوانی کی عمر میں بیٹے کی وفات ہوجاتی ہے۔ اس کا دل اس حادثہ سے بے قابو ہوجاتا ہے۔ ایسے شخص کو چاہئے کہ وہ صحابی رسول کی مثال کو اپنے لیے ایک نمونہ بنائے اور اپنے آپ سے کہے: اگر تم اپنے بیٹے کی پرستش کرتے تھے تو تم کو معلوم ہو کہ تمھارا بیٹا مرگیا۔ اور اگر تم اللہ کی پرستش کرنے والے ہو تو تم کو جاننا چاہیے کہ اللہ زندہ ہے، اُس پر کبھی موت آنے و الی نہیں۔
انسانوں کی دو قسمیں ہیں — خدا میں جینے والے اور غیرِ خدا میں جینے والے۔ جو شخص خدا کے سوا کسی اور چیز کو اپنا کنسرن (concern) بنائے ہوئے ہو، جو خدا کے سوا کسی اور چیز سے قلبی تعلق رکھتا ہو، وہ اُس چیز کے کھونے پر سخت پریشان ہوجائے گا۔ اُس کو ایسا محسوس ہوگا جیسے کہ اس کی دنیا ختم ہوگئی۔ اُس سے وہ چیز چھن گئی جس کے سہارے پر وہ جی رہا تھا۔ ایسے لوگ خدا کے منکر ہیں، خواہ وہ اقرارِ خدا کے الفاظ اپنی زبان سے بولتے ہوں۔ ایسے لوگوں کو آخرت میں خدا کا قرب حاصل ہونے والا نہیں۔
اِس کے برعکس، وہ انسان ہے جو خدا وند ِ ذو الجلال میں جیتا ہو، جس نے خدا کو اپنا سب کچھ بنا رکھا ہو، جس کی سوچ اور جس کے جذبات صرف ایک خدا سے وابستہ ہوگئے ہوں۔ ایسا انسان جب کسی چیز کو کھوتا ہے تو وہ خدا کو اور زیادہ یاد کرنے لگتا ہے۔ ہر محرومی اُس کے لیے خدا کے ساتھ مزید تعلق کا سبب بن جاتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

وطن سے محبت

ایک مشہور قول ہے: حبّ الوطن من الإیمان (الدرر المنتثرۃ فی الأحادیث المشتہرۃ، للسیوطی، 1/9) یعنی وطن کی محبت ایمان کا حصہ ہے۔ محدثین عام طورپر اِس قول کو حدیث رسول نہیں مانتے، وہ اِس کو ضعیف یا موضوع قرار دیتے ہیں۔ تاہم کچھ علماء نے اس قول کو معنوی اعتبار سے درست قرار دیا ہے۔ مثلاً آٹھویں صدی ہجری کے مشہور عالم محمد بن عبد الرحمن شمس الدین السخاوی (وفات:1497 ء) نے اِس قول کے بارے میں لکھا ہے کہ: لم أقف علیہ، ومعناہ صحیح (المقاصد الحسنۃ، صفحہ 183 ) یعنی میں اِس حدیث سے واقف نہیں، لیکن اس کا مفہوم درست ہے۔ محدثین کے اصول کے مطابق، امام السخاوی کے اِس قول کا مطلب یہ ہے کہ یہ قول حدیثِ رسول کے طورپر ان کو نہیں ملا، لیکن دینِ اسلام میں اس کی اصل پائی جاتی ہے۔
راقم الحروف کا خیال یہ ہے کہ یہ قول اگر حدیثِ رسول نہ ہو تب بھی وہ حدیث ِ فطرت ہے۔ وہ انسانی فطرت کا ایک لازمی تقاضا ہے، اور فطرت کا تقاضا ہونا ہی اس بات کے لیے کافی ہے کہ حب وطن (patriotism) کو اسلام کا ایک حصہ سمجھا جائے۔ اسلام جب دین فطرت (religion of nature) ہے تو فطرتِ بشری کی ہر چیز اسلام کا ایک حصہ قرار پائے گی۔
ہر انسان کو اپنی ماں سے محبت ہوتی ہے۔ ہر مسلمان اپنی ماں سے محبت کو اپنے ایمان کا ایک حصہ سمجھتا ہے۔ اگرچہ کوئی حدیثِ رسول اِن الفاظ میں موجود نہیں کہ: حب الأم من الإیمان (ماں سے محبت ایمان کا حصہ ہے)۔ اِسی طرح وطن سے محبت بھی بلاشبہہ ہر مسلمان کے لیے ایک ایمانی تقاضے کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ آدمی جس ملک میں پیدا ہوا، جہاں اُس کی پرورش ہوئی، جہاں کی ہوا میں اس نے سانس لیا، جہاں کے لوگوں سے اس کے تعلقات قائم ہوئے، جہاں اُس نے اپنی زندگی کی تعمیر کی، ایسے ملک سے محبت کرنا انسانی شرافت کا تقاضا ہے، اور اِسی طرح وہ انسان کے ایمان واسلام کا بھی تقاضا ۔
واپس اوپر جائیں

تخریبی سیاست

مغربی دنیا کے ایک مشہور مسلم مقرر نے وہاں کے مسلمانوں کی ایک کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ — ظالم حکمراں کے خلاف بغاوت، خدا کے لیے وفاداری ہے:
Rebellion to a tyrant, obedience to God.
یہ جملہ اسلام کی سیاسی تعبیر (political interpretation) کے تحت بننے والے ذہن کی نمائندگی کرتا ہے۔ مسلمانوں کی جدید نسل عام طور پر، اس سیاسی تعبیر سے متاثر ہے۔ آج کی دنیا میں جگہ جگہ اسلامی انقلاب کے نام پر جو ہنگامے جاری ہیں، وہ اِسی سیاسی فکر کا نتیجہ ہیں۔
اِس قسم کی نام نہاد انقلابی سیاست ہر گز اسلامی سیاست نہیں ہے۔ اگر شدید لفظ استعمال کیا جائے تو یہ کہنا صحیح ہوگا کہ یہ اسلام کے نام پر ایک شیطانی سیاست ہے۔ اِس سیاست کا بانی ٔ اول خود شیطان ہے۔ آج جو لوگ اِس قسم کی سیاست کا جھنڈا اٹھائے ہوئے ہیں، وہ بلا شبہہ شیطان کی پیروی کررہے ہیں، نہ کہ اسلام کی پیروی۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ تخلیقِ انسانی سے پہلے جب اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کیا تو اُس وقت وہاں آدم کے سوا دو مخلوق اور موجود تھی — فرشتے اور جنات۔ اللہ نے حکم دیا کہ تم لوگ آدم کے آگے جھک جاؤ۔ فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کے اِس حکم کی تعمیل کی، لیکن ابلیس (جنات کا سردار) نے اللہ کے اِس حکم کو ماننے سے انکار کیا، وہ اللہ کا باغی بن گیا۔
یہ انسانی تاریخ میں ، اتھارٹی (authority)کے خلاف بغاوت کا پہلا واقعہ تھا۔ یہ سیاسی بغاوت یا پالٹکس آف اپوزیشن (politics of opposition) بلا شبہہ شیطان کی سنت ہے۔ اتھارٹی سے ٹکرائے بغیر اپنا کام کرنا، یہ ملائکہ کا طریقہ ہے۔ اور اتھارٹی سے ٹکراؤ کرکے پالٹکس آف اپوزیشن کا ہنگامہ کھڑا کرنا، شیطان کا طریقہ۔
عجیب بات ہے کہ شیطان کی یہ منفی سیاست پوری تاریخ میں مسلسل طورپر جاری رہی ہے، اہلِ ایمان کے درمیان بھی اورغیر اہلِ ایمان کے درمیان بھی۔ اِس منفی سیاست کا یہ براہِ راست نتیجہ ہے کہ انسانی تاریخ، تعمیر کی تاریخ بننے کے بجائے، تخریب کی تاریخ بن گئی۔
ایسا کیوں ہے کہ ساری تاریخ اِس قسم کی شیطانی سیاست کی تاریخ بن گئی۔ اُس کا سبب یہ ہے کہ خالق نے انسان کو ایک استثنائی صلاحیت دی ہے، یعنی ایگو(ego)۔ یہ دراصل ایگو ہے جو انسان کو پوری کائنات میں ایک خصوصی درجہ عطا کرتا ہے۔ لیکن انا کے دو پہلو ہیں — پلس پوائنٹ، اور مائنس پوائنٹ۔ اجتماعی زندگی، خواہ وہ خاندانی زندگی ہو، یا خاندان سے باہر کی زندگی، اُس میں ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان کے ساتھ ایسے تجربات پیش آتے ہیں کہ اس کا ایگو (انا) جاگ اٹھتا ہے۔ اِس طرح کے موقع پر اگر ایسا ہو کہ انسان اپنے آپ کو کنٹرول کرے، وہ ایگو مینجمنٹ (ego management) کا ثبوت دے، تو گویا کہ اُس نے اپنے ایگو کا صحیح استعمال کیا۔ اور اگر ایسا ہو کہ جب اس کا ایگو بھڑکے تو اس کی پوری شخصیت اُس سے متاثر ہو جائے۔ ایسی حالت میں وہ سرکشی کے راستے پر چل پڑے گا۔ یہ اس کے لیے ایگو مینجمنٹ میں ناکام ہونے کا واقعہ ہوگا۔
ایگو کا یہ واقعہ انسان کے درمیان ہر جگہ پیش آرہا ہے۔ یہی واقعہ جب سیاسی میدان میں پیش آئے تو اِسی کا نام پالٹکس آف اپوزیشن ہے، اسی کا نام پولٹکل اتھارٹی کو چیلنج کرنا ہے۔ چوں کہ بیش تر لوگ ایگو مینجمنٹ کے امتحان میں ناکام ہوجاتے ہیں، اِس لیے پوری تاریخ میں وہ منظر دکھائی دیتا ہے جس کو سیاسی تخریب کاری (political destruction) کے الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے۔
اِس مسئلے کا حل قرآن اور حدیث میں صبر کی سیاست بتایا گیا ہے۔ صبر کی سیاست کوئی پسپائی کی سیاست نہیں ہے، صبر کی سیاست دراصل پولٹکل اسٹیٹس کو ازم (political statusquoism) کا دوسرا نام ہے، یعنی سیاسی اقتدار کے معاملے میں صورتِ موجودہ کو عملاً قبول کرنا، سیاسی اقتدار سے ٹکرائے بغیر، غیر سیاسی میدان میں موجود مواقع کو استعمال کرنا۔ یہی وہ فارمولا ہے جس کو حدیث میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: إن اللہ یعطی علی الرّفق، ما لا یعطی علی العنف (صحیح مسلم،رقم الحدیث: 2593 ) یعنی اللہ عدم ٹکراؤ کے طریقِ کار پر وہ چیز دیتا ہے جو وہ ٹکراؤ کے طریقِ کار پر کسی کو نہیں دیتا۔
واپس اوپر جائیں

ذہنی ارتقا کا ذریعہ

ابو الدرداء عُویمر بن مالک الانصاری ایک معروف صحابی ہیں۔ وہ مدینہ میں پیدا ہوئے اور 32 ہجری مطابق 652عیسوی میں شام میں ان کی وفات ہوئی۔ اُن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عُویمر حکیم أمّتی (ابو الدرداء میری امت کے ایک دانش مند شخص ہیں)۔ اِسی طرح ابن الجزری نے ان کے بارے میں کہا: کان من العلماء الحکماء (الأعلام للزرکلی 5/98 ) یعنی ابو الدرداء علم اور حکمت والے لوگوں میں سے تھے۔
ابو الدرداء انصاری کا ایک قول ان الفاظ میں نقل ہوا ہے: لا تفقہ کلَّ الفقہ حتی تمقت الناسَ فی جنب اللہ، ثم ترجع إلیٰ نفسک فتکون أشد لہا مقتاً (مصنّف ابن أبی شیبۃ، رقم الحدیث: 35726 ) یعنی تم پورے معنوں میں دانش مند نہیں ہوسکتے، یہاں تک کہ تمھارا یہ حال نہ ہوجائے کہ تم اللہ کے معاملے میں لوگوں کے خلاف سخت ناپسندیدگی کا اظہار کرو۔ پھر تم اپنی طرف واپس آؤ تو خود اپنی اوپر اُس سے بھی زیادہ ناپسندیدگی کا اظہار کرو۔
مومن کا طریقہ یہ ہے کہ وہ کسی آدمی کے اندر کوئی برائی دیکھتا ہے تو وہ اس کو برداشت نہیں کر پاتا، وہ اس کو اس برائی پر ٹوکتا ہے اور نہایت سخت اندا ز میں وہ اس پر تنقید کرتاہے۔ یہ دوسروں کا محاسبہ کرنے کا معاملہ ہے۔ اِسی کے ساتھ مومن کے اندر خود احتسابی (self-introspection) کا شدید جذبہ ہوتا ہے۔ بعد کو وہ سوچتا ہے کہ اگر چہ میری بات درست تھی، لیکن مجھے یہ حق نہ تھا کہ میں اپنی بات کہنے کے لیے اتنا سخت انداز اختیار کروں۔
یہ خود احتسابی اُس کے لیے ذہنی ارتقا کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ اِس کی وجہ سے اس کے ذہن کے نئے گوشے کھل جاتے ہیں۔ اس کی عقل ودانش میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس کے ذہن کے ایسے دروازے کھل جاتے ہیں جو اب تک کھلے نہ تھے۔ اِس شدید خود احتسابی کے بغیر کسی شخص کا ذہنی اور روحانی ارتقا ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں

تفسیری روایات

قرآن کی آیتوں کی تفسیر میں بہت سی روایات، حدیث کی کتابوں میں آئی ہیں۔ اِن روایات کو شانِ نزول یا اسباب نزول کی روایت کہاجاتا ہے، اِن روایات کے بارے میں عام طور پر دو نقطہ نظر پائے جاتے ہیں — ایک ، یہ کہ یہ روایات قرآن فہمی کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔ دوسرے، یہ کہ یہ روایات قرآن فہمی کے معاملے میں صرف ثانوی ماخذ (secondary source) کی حیثیت رکھتی ہیں، ان روایات کو اولین ماخذ(primary source)کا درجہ حاصل نہیں۔
مگر زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ شانِ نزول یا اسبابِ نزول کی روایات ہمارے لیے مستند بیک گراؤنڈ (authentic background) فراہم کرتی ہیں۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کون سے معاصر حالات تھے جب کہ قرآن کا کوئی حصہ رہنمائی کے طورپر اتارا گیا۔ قرآن کا اسلوب تبیین کا اسلوب ہے۔ تفسیری روایات وہ تاریخی مواد فراہم کرتی ہیں جن کے ذریعے قرآن کی تبیین کو تعین (specification) کی زبان میں بیان کیا جاسکے۔ حقیقت یہ ہے کہ تفسیری روایت کے بغیر قرآن کو پوری طرح سمجھا نہیں جاسکتا۔ مثال کے طور پر إنا فتحنا لک فتحاً مبینا (48: 1) میں صلح حدیبیہ کے واقعہ کا حوالہ دیاگیا ہے، لیکن اِس واقعہ کی تفصیلات پوری سورہ میں کہیں موجود نہیں۔ یہ تفصیلات ہم کو صرف تفسیری روایات میں ملتی ہیں۔ اِس اعتبار سے، تفسیری روایات کی بے حد اہمیت ہے۔
قرآن ایک دعوتی کتاب ہے۔ اِس اعتبار سے، قرآن کا موجودہ اسلوب ایک دعوتی اسلوب ہے۔ اِس دعوتی اسلوب نے قرآن کے اسلوب کو ایک طوفانی اسلوب کا درجہ دے دیا ہے۔ اِسی بنا پر ایسا ہے کہ قرآن جب پڑھا جاتا ہے تو سننے والے پر اس کا غیر معمولی اثر پڑتا ہے۔ یہ اسلوب غالباً کسی بھی دوسری کتاب میں موجود نہیں۔ صرف حضرت مسیح کے مواعظ (exhortations) میں جزئی طورپر یہ اسلوب پایا جاتا ہے۔ اِس اعتبار سے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ تفسیری روایات گویا کہ قرآن میں فنی تفصیلات کی عدم موجودگی کی تلافی کی حیثیت رکھتی ہیں۔
واپس اوپر جائیں

کنڈیشننگ کوتوڑنا

ہر عورت اور مرد اپنے ماحول کا اثر قبول کرتا ہے۔ اِس اعتبار سے ہر عورت اور مرد لازمی طورپر متاثر ذہن (conditioned mind) کا کیس بن جاتا ہے، اِس غیر فطری تاثر کو ختم کرنا، یعنی کنڈیشنڈ مائنڈ کی ڈی کنڈیشننگ (de-conditioning) کرنا لازمی طورپر ضروری ہے۔ ڈی کنڈیشننگ کے اِس عمل کو ذہن کی تشکیلِ نو (re-engineering of mind) کہاجاسکتا ہے۔
تزکیہ کے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ہر جگہ بہت سی سرگرمیاںجاری ہیں، لیکن بے شمار سرگرمیوں کے باوجود تزکیہ کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اِس کا سبب کیا ہے، اس کا سبب یہ ہے کہ یہ تمام سرگرمیاں لوگوں کی ڈی کنڈیشننگ کے بغیر انجام دی جارہی ہیں، گویا کہ تمام لوگ ایک ایسے سفر میں مشغول ہیں جس کا آغاز ہی نہیں کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈی کنڈیشننگ کے بعد ہی کوئی شخص تیار ذہن (prepared mind) بنتا ہے، اور جب تک کوئی شخص تیار ذہن نہ ہو، وہ چیزوں کو متاثر ذہن کے ساتھ لیتا ہے، وہ چیزوں کو بے آمیز ذہن کے ساتھ لینے کے قابل نہیں ہوتا۔
اصل یہ ہے کہ ہر انسان جب پیدا ہوتا ہے تو وہ صحیح فطرت پر پیدا ہوتا ہے، لیکن ماحول کی کنڈیشننگ کے نتیجے میں اس کی فطرت پر پردے پڑنے لگتے ہیں، ٹھیک اُسی طرح جس طرح پیاز کے اوپر تہہ بہ تہہ چھلکا۔ ڈی کنڈیشننگ تمثیل کے طورپر یہ ہے کہ پیاز کے اوپر کے چھلکے ایک ایک کرکے ہٹا دئے جائیں، یہاں تک کہ اندر کا مغز سامنے آجائے۔ اِس اعتبار سے پیاز گویا ڈی کنڈیشننگ کے عمل کی ایک مادّی تمثیل (material example) ہے۔
تزکیہ کے مقصد کے تحت کی جانے والی سرگرمیاں اُس وقت تک بے فائدہ ہیں جب تک اُس کے ساتھ لوگوں کے ذہن کی ڈی کنڈیشننگ نہ کی جائے۔ سب سے بڑی چیز جس کی ڈی کنڈیشننگ کرنا ہے، وہ ہے منفی سوچ (negative thinking) کو ختم کرنا۔ تزکیہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے اِسی ڈی کنڈیشننگ کا اسلامی نام ہے۔
واپس اوپر جائیں

معرفت کا اسٹیج

ولیم شیکسپئر (William Shakespeare) ایک انگریز ادیب تھا۔ وہ 1564 میں پیدا ہوا اور 1616 میں اس کی وفات ہوئی۔ وہ شاعر اور ڈرامہ نویس کی حیثیت سے معروف ہے۔ شیکسپئر کا ایک قول ہے — پوری دنیا ایک اسٹیج ہے اور تمام مرد اور عورت اس کے ایکٹر اور ایکٹریس ہیں:
All the world’s a stage, and all the men and are merely players.
اِس قول کا مطلب یہ ہے کہ ایک اسٹوری رائٹر (story writer) جب دنیا کو دیکھتا ہے تو پوری دنیا اس کے دماغ میں ایک بہت بڑی کہانی (story) کے روپ میں ڈھل جاتی ہے۔ ہر طرف اس کو اپنی کہانی کے کردار دکھائی دیتے ہیں۔
یہی معاملہ ایک سچے مومن کا بھی ہے۔ ایک مومن جو ہر وقت خالق کے بارے میں سوچتا ہے، وہ جب عالمِ تخلیق کو دیکھتا ہے تو پورا عالم اس کے لیے معرفت کا عالم بن جاتا ہے۔ اس کو اپنے ہر مشاہدے میں ایمان کی زندہ غذا ملنے لگتی ہے۔ ہر تجربہ (experience)اس کے لیے اس کے یقین میں اضافے کا باعث بن جاتا ہے۔
شیکسپئر کا قول کامیاب اسٹوری رائٹر کو بتاتا ہے۔ یہی معاملہ ایک سچے مومن کا بھی ہے۔ سچا مومن وہ ہے جو غور وفکر کے ذریعے خالق کو دریافت کرے۔ اس کی یہ دریافت اتنی گہری ہو کہ وہ اس کے دل ودماغ پر چھا جائے۔ ایسے آدمی کا حال یہ ہوگا کہ اس کو ہر طرف خالق کی جھلک دکھائی دینے لگے گی۔ وہ ہر مشاہدے میں آلاء اللہ (wonders of God)کو دیکھے گا۔ وہ ہر تجربے میں خالق کی کارفرمائی دریافت کرے گا۔ اس کے لیے پوری کائنات ربانی غذاؤں کا وسیع دستر خوان بن جائے گی۔ یہی معرفت ہے اور ایسے ہی انسانوں کو عارف باللہ کہاجاتا ہے۔ معرفت کوئی پر اسرار (mysterious) چیز نہیں۔ معرفت دراصل خدائی بنیادوں پر پیش آنے والے فکری انقلاب کا دوسرا نام ہے۔
واپس اوپر جائیں

قرآن اور بائبل کا فرق

بائبل کا ایک قدیم نسخہ دریافت ہوا ہے جو سترھویں صدی عیسوی میں تیار کیاگیا تھا۔ اِس نسخے میں ایک عجیب غلطی پائی جاتی ہے۔ بائبل کے ایک باب میں یہ حکم ہے کہ تم زنا نہ کرنا۔ مگر اِس نسخے میں غلطی سے یہ درج ہوگیا کہ — تم زنا کرنا:
Thou shalt commit adultery
یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قدیم آسمانی صحیفوںمیں کس طرح غلطیاں ہوئیں جس کے نتیجے میں یہ قدیم آسمانی صحیفے غیر مستند ہوگئے۔
یہ قرآن کی ایک معجزاتی صفت ہے کہ رسول اور اصحاب رسول نے اور اس کے بعد پوری امت نے اس کی حفاظت کا اتنا زیادہ اہتمام کیا کہ قرآن کے متن (text) میں کسی بھی قسم کی چھوٹی یا بڑی غلطی شامل نہ ہوسکی۔ قرآن آج بھی اُسی طرح ایک محفوظ کتاب (preserved book) ہے، جس طرح وہ ساتویں صدی عیسوی کے رُبع اول میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر نازل ہوا تھا:
‘Wicked Bible’, which shocked readers with the phrase ‘Thou shalt commit adultery’, is to go on public display for the first time. The notorious seventeenth century book will be displayed along with a collection of rare religious texts at Cambridge University. The exhibition will feature a 1631 edition of the Bible in which the word “not” was accidently omitted from the commandments. The books were mostly destroyed and only handful of copies survive. (The Times of India, New Delhi, Tuesday, January 18, 2011 page 19)
یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قرآن اور دوسری قدیم آسمانی کتابوں میں کیا فرق ہے۔ پچھلی آسمانی کتابوں کے ساتھ کوئی ٹیم نہ بن سکی جو اُن کی حفاظت کا اہتمام کرسکے۔ قرآن کے ساتھ استثنائی طور پر ایک طاقت ور ٹیم بنی اور پھر نسل درنسل ایک طاقت ور امت اس کی حفاظت کا اہتمام کرتی رہی۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلی آسمانی کتابیں اپنی اصل صورت میں محفوظ نہ رہ سکیں، جب کہ قرآن اپنی اصل حالت میں مکمل طور پر محفوظ ہے۔
واپس اوپر جائیں

بسترِ مرگ سے

’’امام ابو یوسف (وفات:798 ء) بسترِ مرگ پر ہیں۔ شدید بیمار ہیں اور اِس حالت میں ایک شاگرد عیادت کے لیے جاتا ہے اور جاکر حال پوچھتا ہے، توحال تو مختصراً بتادیا، پھر فوراً اُس شاگرد سے پوچھتے ہیں کہ بتاؤ حج میں رمیِ جمرات سوار ہو کر افضل ہے کہ پیدل افضل ہے۔ شاگرد کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ حضرت، پیدل کرنا افضل ہوگا، کیوں کہ پیدل کرنے میں مشقت زیادہ ہے۔ فرمایا کہ نہیں، کہا اچھا پھر سوار ہو کر کرنا افضل ہوگا۔ فرمایا کہ نہیں، بلکہ پہلے دن کی جمرہ عقبہ کی رمی سوار ہو کر کرنا افضل ہے۔ کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ رمی سوار ہو کر کی تھی، اور باقی دنوں میں پیدل چل کر(رمی) کرنا افضل ہے، کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ رمی) پیدل چل کر کی تھی۔ یہ مسئلہ اُس کو بتا دیا۔ فرماتے ہیں کہ یہ مسئلہ سن کر جب میں باہر نکلا، چند قدم چلا تھا تو گھر سے لوگوں کے رونے کی آواز آ ئی۔ پتہ چلا کہ روح پرواز کرگئی۔‘‘
ایک مشہور عالم نے علماء کے ایک جلسے میں تقریر کی۔ انھوں نے نہایت جوش کے ساتھ مذکورہ واقعہ بیان کیا، جو اُن کے نزدیک طلب علم کا ثبوت تھا۔ لیکن اگر خالص قرآن اورحدیث اور اسوۂ صحابہ کی روشنی میں دیکھا جائے تو اُس وقت کہنے والے کو طلب آخرت کی بات کہنا چاہیے تھا۔ جب کوئی شخص بستر مرگ پر ہو تو اُس وقت یہ موقع نہیں رہتا کہ آدمی جزئی مسائل میں اپنا دماغ لگائے۔ اُس وقت اس کو صرف موت یاد آنی چاہیے اور ملنے والوں کو آخرت کی یاد دلانی چاہیے۔
بستر مرگ پر ایک مومن کی کیا کیفیت ہونی چاہیے، اس کا اندازہ صحابی ٔ رسول حضرت ابو ہریرہ کے واقعے سے ہوتا ہے۔ مسلم بن بشیر کہتے ہیں کہ ابو ہریرہ اپنے مرضِ موت میں روئے۔ اُن سے پوچھاگیا کہ کیا چیز آپ کو رلا رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ میں تمھاری اِس دنیا کے لیے نہیں روتا، بلکہ میں تو اِس لیے روتا ہوں کہ میرا سفر لمبا ہے اور زادِ راہ کم ہے۔ میںنے ایک ایسے ٹیلے پر صبح کی ہے جو جنت یا جہنم کی طرف اتر رہا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ مجھے اِن دونوں میں سے کس طرف چلایا جائے گا (أصبحتُ فی صعود مہبطۃ علی جنۃ ونار، فلا أدری إلی أیہما یسلک بی) ۔
واپس اوپر جائیں

سب کچھ سے بے کچھ کی طرف

آدمی جس دنیا میں رہتا ہے، وہاں بظاہر اس کو سب کچھ ملا ہوا ہے— موافق زمین، سورج کی روشنی، ہوا، آکسیجن، پانی، خوراک، خاندان، جماعت، اِدارے، حکومتی نظام، غرض زندگی کی مددگار وہ تمام چیزیں جس کو لائف سپورٹ سسٹم (life support system) کہا جاتا ہے۔ یہ تمام چیزیں آدمی کو پیدا ہوتے ہی مل جاتی ہیں، اورپھر تمام عمر اس کو حاصل رہتی ہیں۔ اس بنا پر آدمی ان چیزوں کو فار گرانٹیڈ (for granted) طور پر لے لیتا ہے، وہ سوچ نہیں پاتا کہ یہ چیزیں کبھی اس سے چھن جائیں گی۔ لیکن ہر آدمی کے لیے مقدر ہے کہ ایک خاص عمر کے بعد ا س پر موت آئے، اور تمام چیزیں اچانک اس سے چھن جائیں، آدمی اب بھی وہی ہو جو کہ موت سے پہلے تھا، لیکن زندگی کے تمام اسباب مکمل طور پر اس کا ساتھ چھوڑ چکے ہوں، سب کچھ رکھنے والا آدمی، ایک لمحہ میں، بے کچھ ہو کر رہ جائے۔ یہ ایک ہونے والا واقعہ ہے، جو لازماً ہر ایک کے سامنے یقینی طور پر آئے گا، عورت کے ساتھ بھی اور مرد کے ساتھ بھی۔ یہی وہ چیز ہے جس پر سوچنے والے سب سے زیادہ سوچیں، یہی وہ چیز ہے جس کو تمام عورت اور مرد اپنا سب سے بڑا کنسرن (concern) بنائیں، یہی وہ چیز ہے جس کے تصور کو لے کر آدمی شام کو سوئے اور صبح کو جاگے۔آدمی کے لئے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیسے ایسا ہو کہ وہ موت کے بعد کی زندگی میں دوبارہ وہ سب کچھ پالے جو موت سے پہلے کی زندگی میں اس کو ملا ہوا تھا۔ یہی ہر انسان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اسی مسئلہ کو حل کرنے میں انسان کی کامیابی ہے، اور اسی مسئلہ کو حل کرنے میں ناکام رہنے کا نام، ناکامیابی ہے۔ انسان کا سفر بظاہر سب کچھ سے بے کچھ کی طرف ہورہا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ دوبارہ کس طرح یہ ممکن ہو کہ آدمی کا سفر بے کچھ سے سب کچھ کی طرف ہوجائے۔ اس کا واحد راز یہ ہے کہ آدمی خالق کے تخلیقی منصوبہ کو جانے، اور اس کے مطابق اپنی زندگی کا نقشہ بنائے۔ یہ تخلیق کا منصوبہ کیا ہے، وہ یہ ہے کہ آدمی موت سے پہلے کی زندگی میں خدا کے راستے پر چلے، وہ اپنے آپ کو خدا کا مطلوب بندہ بنائے— خود رخی زندگی آدمی کو ابدی تباہی کی طرف لے جاتی ہے اور خدا رخی زندگی اس کو ابدی سعادت تک پہنچانے والی ہے۔
واپس اوپر جائیں

غلو کی ایک مثال

مولانا شبلی نعمانی (وفات: 1914 ) نے اپنے آخری زمانے میں سیرتِ رسول کے موضوع پر ایک کتاب لکھنا شروع کیا۔ اِس کتاب کی تکمیل ان کے شاگرد مولانا سید سلیمان ندوی (وفات: 1953 ) نے کی۔ مولانا شبلی نعمانی نے اپنی کتاب سیرت النبی کی پہلی جلد کے آغاز میں ایک سرنامہ لکھا ہے۔ اِس سرنامہ کے الفاظ یہ ہیں:
’’ایک گدائے بے نوا شہنشاہِ کونین کے دربار میں اخلاص وعقیدت کی نذر لے کر آیا ہے‘‘۔
یہ سرنامہ اُس غلو کی ایک مثال ہے جو بعد کے زمانے کے مسلمانوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت ترین ممانعت (صحیح مسلم، رقم الحدیث: 2143 )کے باوجود ،اُن کے بارے میں کیا ہے۔ وہ پیغمبراسلام کے لیے ایسے الفاظ بولنے لگے جو صرف خدا کے لیے مخصوص ہیں— شہنشاہِ کونین، سرورِکائنات، وغیرہ۔ اِس طرز فکر کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں نے اپنے پیغمبر کو وہ درجہ دے دیا جو حقیقۃً رب العالمین کا درجہ ہے۔ مذکورہ سرنامہ کے الفاظ اگر بدلے جائیں اور اس کو خدا کی نسبت سے استعمال کیاجائے تو کہنے والا یہ کہے گا کہ— ایک گدائے بے نوا شہنشاہِ کونین کے دربار میں مغفرت کی بھیک مانگنے آیا ہے۔
اِس معاملے کا دوسرا عظیم تر نقصان یہ ہے کہ جب آپ خالقِ کائنات کو بڑا درجہ دیں تو آپ کی فطرت اس کی تصدیق کرتی ہے اور فطرت کی تصدیق کی بنا پر حقیقی معنوں میں ایسا ہوتا ہے کہ خداوندذوالجلال آپ کی زندگی میں اپنی حقیقی عظمت کے ساتھ شامل ہوجاتاہے۔ لیکن جب اِس قسم کے پُر عظمت الفاظ غیرِ خدا کے لیے بولے جانے لگیں تو وہ صرف الفاظ بن کر رہ جاتے ہیں، فطرت کی تصدیق حاصل نہ ہونے کی وجہ سے وہ آپ کی زندگی میں حقیقی احساس کے طورپر شامل نہیں ہوتے۔ خدا کی عظمت کے لیے بولے جانے والے الفاظ فوراً ہی اپنا حقیقی مصداق پالیتے ہیں، جب کہ غیر خدا کی عظمت کے لیے بولے جانے والے الفاظ اپنا حقیقی مصداق نہ پانے کی وجہ سے صرف الفاظ بن کر رہ جاتے ہیں، اِس سے زیادہ اُن الفاظ کی اور کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔
واپس اوپر جائیں

شاہ ہمدان کامشن

Revival of Shah Hamadan’s Mission
میر سید شہاب الدین علی ہمدانی (وفات: 1384 ء) کو ریاست جموں وکشمیر میں ’’معمارِ کشمیر‘‘ کا درجہ حاصل ہے۔ کشمیری مسلمان عام طورپر اُن کو ’’امیرِ کبیر‘‘ کہتے ہیں۔ امیر کبیر 1379ء میں ایران سے کشمیر آئے۔ انھوںنے کشمیر میں اسلام کی تاریخ بنائی۔موجودہ کشمیر زیادہ تر، اُنھیں کی دعوتی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ کشمیر کے لوگ اُنھیں کے مشن پرقائم تھے۔ 1947میں بر صغیر ہند میں جو انقلاب آیا، اُس کے ردّ عمل کے طورپر کشمیر میں سیاسی تحریک اٹھی۔ لیکن تجربہ بتاتا ہے کہ یہ سیاسی تحریک اپنے نتیجے کے اعتبار سے، کشمیریوں کے لیے صرف نقصان کا باعث ثابت ہوئی۔ تاہم اِس نقصان کا ایک مثبت پہلو ہے، وہ یہ کہ سیاسی ہنگاموں کا منفی انجام کشمیریوں کے لیے ایک شاک ٹریٹمنٹ (shock treatment) ثابت ہوا ہے۔ کشمیری مسلمانوںمیں یہ ذہن پیدا ہوا ہے کہ وہ اپنے ماضی کی طرف لوٹیں۔ وہ دوبارہ شاہ ہمدان کی طرح پُرامن دعوت کو اپنا نشانہ بنائیں۔ اِس نئے ذہن کو شاہ ہمدان کے مشن کا اِحیاء (Revival of Shah Hamadan’s Mission) کہا جاسکتا ہے۔
میر سید علی ہمدانی ایران میں پیدا ہوئے، وہ تیمور لنگ (وفات: 1405ء) کے ہم عصر تھے۔ شاہ تیمور ان سے کسی بات پر ناراض ہوگیا اور ان کو ایران سے نکل جانے کا حکم دے دیا۔ اب امیر کبیر کے لیے ایک راستہ یہ تھا کہ وہ تیمور لنگ کے خلاف اپوزیشن کی تحریک چلائیں، مگر امیر کبیر نے اِس قسم کے سیاسی تصادم سے مکمل طورپر پرہیز کیا۔ وہ اپنے چالیس ساتھیوں کو لے کر اپنے وطن ہمدان سے نکلے۔ اِس طرح، افغانستان ہوتے ہوئے یہ قافلہ 1379 ء میں کشمیر پہنچا۔
امیر کبیر کا پروگرام نہ شاہ تیمور کے خلاف رد عمل کے طورپر بنا اور نہ کشمیری مسلمانوں کے وقتی حالات سے متاثر ہو کر۔ اُس وقت کشمیر میں ایک مسلم راجہ سلطان قطب الدین کی حکومت تھی۔ اس کے اندر بہت سی اعتقادی اور عملی خرابیاں موجود تھیں۔ امیر کبیرنے سلطان کو ناصحانہ انداز کے خطوط بھیج کر اس کو اصلاحِ حال کی طرف متوجہ کیا، تاہم آپ نے اس کو اقتدار سے ہٹانے اور اس کی جگہ صالح حکمراں کو لانے کی کوئی مہم نہیں چلائی۔ امیر کبیر نے ان تمام عوامل سے اوپر اٹھ کر سوچا اور خود اپنے مثبت فکر کے تحت اپنا پروگرام بنایا۔ یہ تمام تر ایک خاموش عملی پروگرام تھا۔ امیر کبیراور ان کے ساتھی ریاست کے مختلف حصوں میں پھیل گئے اور پُر امن طور پر وہ یہاں کے باشندوں میں اسلام کا پیغام پہنچانے لگے۔ انھوں نے کشمیریوں کی زبان سیکھی، یہاں کے حالات سے اپنے آپ کو ہم آہنگ کیا، اجنبی دیس میں اپنے لیے جگہ بنانے کی مصیبتیں اٹھائیں۔ اِس طرح صبر وبرداشت کی زندگی گزارتے ہوئے انھوںنے اپنے پُرامن دعوتی مشن کو جاری رکھا۔
کشمیر کے ایک تعلیم یافتہ مسلمان سے میری ملاقات ہوئی۔ میں نے کہا کہ آپ لوگوں کے لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ کشمیر میں آپ لوگ شاہ ہمدان کے پُر امن دعوتی مشن کو زندہ کریں۔ شاہ ہمدان کو کشمیر میں غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی۔ اِس کا سبب یہ تھا کہ انھوں نے دعوت کو اپنا واحد مشن بنایا ۔ اُن کے زمانے میں مختلف قسم کے مسائل کشمیر میں موجود تھے، لیکن انھوں نے اِن مسائل کو نظر انداز کیا اور دعوت الی اللہ کو اپنا واحدنشانہ بنایا۔ اِس کے نتیجے میں اُنھیں کشمیر میں غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی۔
مذکورہ کشمیری مسلمان نے کہا کہ شاہ ہمدان کے زمانے میں، کشمیر میں بڑی تعداد میں غیر مسلم پائے جاتے تھے۔آج تو یہاں سب کے سب مسلمان ہیں، پھر ہم کن لوگوں کے اوپر دعوتی کام کریں۔ میں نے کہا کہ کشمیر میں انٹرنیشنل دعوہ ورک کے مواقع پائے جاتے ہیں۔ انڈیا کی آرمی جو بڑی تعداد میں کشمیر میں موجود ہے، اس کا ہر فرد آپ کے لیے مدعو کی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ کشمیر ایک سیاحتی مقام ہے، اِس لیے ساری دنیا کے سیّاح (tourists) کشمیر میں مسلسل آتے ہیں۔ اس کے علاوہ، کشمیر میں اب بھی ہندوؤں کی ایک تعداد موجود ہے، جن کو کشمیر میں پنڈت کہاجاتا ہے۔ اِسی طرح یہاں کے قدیم مندروں میں ہر سال بڑی تعداد میں یاتری آتے ہیں۔یہ سارے لوگ آپ کے لیے مدعو کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپ لوگوں کے اندر اگر دعوتی شعور پیداہوجائے تو آپ دیکھیں گے کہ کشمیر میں ہر طرف بڑی تعداد میں مدعو پائے جاتے ہیں۔اِسی کے ساتھ کشمیر میں دعوت کا ایک اور میدان کھلا ہواہے۔ یہ وہ مسلمان ہیں جو جدید افکار کی بنا پر اسلام کے بارے میں ذہنی بے اطمینانی کا شکار ہوگئے۔یہ لوگ بھی آپ کے لیے قیمتی مدعو کی حیثیت رکھتے ہیں۔ غیر مسلموں کے لیے آپ کو یہ کرنا ہے کہ اسلام کو آپ اُن کی دریافت (discovery) بنائیں، اور مسلمانوں کے لیے آپ کو یہ کرنا ہے کہ اسلام کو آپ اُن کی دریافتِ نو (re-discovery) بنائیں۔
حقیقت یہ ہے کہ کشمیر کے مسلمانوں کو ڈبل خوش قسمتی کے مواقع حاصل ہیں۔ کشمیر کو جنت نظیر کہاجاتاہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کشمیریوں کو دنیا کی جنت دے دی۔ دوسری طرف، اللہ تعالیٰ نے کشمیر میں دنیا بھر کے مدعو بھیج دئے، تاکہ کشمیر کے مسلمان دعوتی کام کرکے آخرت کی جنت بھی حاصل کریں۔ موجودہ زمانہ پرنٹنگ پریس کا زمانہ ہے۔ موجودہ زمانے میں دعوتی کام انتہائی حد تک آسان ہوچکا ہے۔ اسلام پرچھوٹی اور بڑی کتابیں چھپی ہوئی موجود ہیں۔ آپ اِن کتابوں کو اپنے ساتھ رکھئے اور ہر موقع پر اُنھیں لوگوں کو پڑھنے کے لیے دیجئے۔ اِسی طرح دوسرے تمام مواقع کو اسلام کی پُرامن اشاعت کے لیے استعمال کیجئے، خاص طورپر قرآن کا ترجمہ لوگوں کو دیجئے اور اللہ کے یہاں دعوت کا انعام حاصل کیجئے— شاہ ہمدان نے دعوت کے ذریعے کشمیر میں کامیابی حاصل کی تھی، آپ دوبارہ کشمیر میں دعوت کے ذریعے کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

اصول پسندی یا شخصیت پرستی

تنقید ایک صحت مند علامت ہے۔ تنقید کا مطلب عیب زنی اور الزام تراشی نہیں، بلکہ تنقید کا مطلب ہے — دلائل کی زبان میں اپنا اختلاف بتانا یا کسی نقطۂ نظر کا منطقی تجزیہ کرنا، کسی نقطہ نظر کے حسن وقبح کو علمی انداز میں بیا ن کرنا۔
اِس قسم کی تنقید بلا شبہہ ایک صحت مند علامت ہے۔ تنقید اور تجزیہ کا ماحول مسلسل ذہنی ارتقا کا ضامن ہے۔ جہاں تنقید نہ ہو، وہاں ذہنی جمود پیدا ہوجائے گا:
No criticism leads to intellectual stagnation.
تنقید انسانوں کی پہچان کی ایک کسوٹی ہے۔ اگر آپ کسی بڑی شخصیت پر تنقید کریں اور اس کو سن کر لوگ غصہ ہوجائیں تو وہ شخصیت پرست لوگ ہیں۔ اور اگر آپ کی تنقید کو سن کر لوگ دلیل کی زبان میں اس کا تجزیہ (analysis) کریں تو وہ اصول پسند لوگ ہیں۔
صحت مند تنقید (healthy criticism) کا یہ فائدہ ہے کہ زیر بحث معاملے کے مختلف گوشے واضح ہوتے ہیں۔ لوگوں کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ زیادہ وسیع ذہن کے ساتھ کسی معاملے پر غور کرسکیں۔
جب دو آدمی کھلے ذہن کے ساتھ آپس میں آزادانہ بتادلۂ خیال کرتے ہیں تونئی نئی باتیں سامنے آتی ہیں۔ معاملے کے نئے نئے گوشے کھلتے ہیں۔ اِس طرح طرفین کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ زیادہ منقح اندازمیں بات کو سمجھ سکیں۔
غیر تنقیدی ماحول گویا کہ مقلدانہ ماحول ہے۔ ایسے ماحول میں فطری طورپر ایسا ہوگا کہ لوگوں کے اندر ذہنی جمود پیدا ہوجائے گا، ان کی سوچ محدود ہو کر رہ جائے گی، اُن کے ذہنی افق میں وسعت پیدا نہ ہوسکے گی، وہ نئی حقیقتوں سے بے خبر ہو کر رہیں گے، وہ ترقی کے زیادہ اعلیٰ درجات طے کرنے سے محروم رہ جائیں گے۔ تنقید ذہنی ارتقا (intellectual development) کا ذریعہ ہے، اور تنقید کو شجرِ ممنوعہ قرار دینا ذہنی جمود(intellectual stagnation) کا ذریعہ۔
واپس اوپر جائیں

زندگی کا ایک اصول

مولانا مرغوب الرحمن قاسمی (وفات: 2010 ) دار العلوم دیوبند کے مہتمم تھے۔ اپنی زندگی کے آخری تیس سال تک وہ اِس عہدے پر فائز رہے۔ اپنے کام کی نسبت سے، اُن کے تعلقات بہت سے لوگوں کے ساتھ قائم تھے۔ اِن تعلقات کے لیے مولانا مرحوم کا ایک اصول تھا۔ اِس اصول کو مولانا نور عالم خلیل امینی نے اپنے ایک مضمون میں اِن الفاظ میں بیان کیا ہے:
’’اِس مسئلے میں مولانا کے ذہن میں خانے بنے ہوئے تھے اور وہ اُن میں سے ہر ایک کو اُس خانے میں رکھتے جو انھوں نے اُس کے لیے متعین کیا ہوتا تھا، اور اسی ’’درجہ بندی‘‘ کے اعتبار سے، وہ اُن کے ساتھ حسنِ سلوک اور شفقت کا معاملہ کرتے تھے‘‘۔ (ماہ نامہ الفرقان، لکھنؤ، مارچ 2011، صفحہ 36 )
یہ اصول ہر شخص کے لیے ایک قابلِ تقلید اصول ہے۔ یہ اصول آدمی کو غیر ضروری ٹنشن سے بچاتا ہے۔ ایسا آدمی غیر ضروری قسم کی شکایتوں سے محفوظ رہتاہے۔ یہ ایک عملی اصول (practical formula) ہے اور تعلقات کے معاملے میں عملی اصول ہی ہمیشہ بہتر اصول ہوتا ہے۔
لوگوں کو ایک دوسرے سے شکایتیں کیوں ہوتی ہیں، اِس کا سبب یہ ہوتا ہے کہ اکثر لوگ دوسروں سے، زیادہ امید قائم کرلیتے ہیں اور جب وہ شخص ان کی زیادہ امید (over-expectation) پر پورا نہیں اترتا تو وہ اس کی شکایت کرنے لگتے ہیں۔
اِس مسئلے کا سادہ حل یہ ہے کہ آپ لوگوں کو سمجھنے کی کوشش کیجئے۔ آپ کسی شخص سے وہی امید رکھئے جو باعتبارِ حقیقت اُس سے رکھنا چاہیے۔ جب بھی ایسا ہو کہ ایک شخص آپ کی امید پر پورا نہ اترے تو آپ صرف یہ کیجئے کہ اس کا ’’خانہ‘‘ بدل دیجئے۔ پہلے اگر آپ نے اُس کو کٹیگری اے میں رکھا تھا، تو اب آپ اس کو کٹیگری بی یا کٹیگری سی میں ڈال دیجئے۔ اس کے بعد اُس آدمی کو لے کر آپ کے اندر نہ کوئی ٹنشن ہوگا اور نہ کوئی شکایت۔
واپس اوپر جائیں

عذر کے باوجود

ڈاکٹر طٰہ حسین (وفات:1973 ) مشہور عربی ادیب ہیں۔ وہ 1889 میں مصر میں پیداہوئے۔ انھوںنے الازہر میں تعلیم پائی۔ اس کے بعد انھوں نے فرانس کی یونی ورسٹی ساربونے سے ابن خلدون کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ عربی ادب اور تاریخ پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں موجود ہیں۔ 84 سال کی عمر میں قاہرہ میں ان کا انتقال ہوا۔
ڈاکٹر طہ حسین جب تین سال کے تھے تو وہ چیچک (chicken pox)کی بیماری میں مبتلا ہوئے اور اِسی بیماری میں وہ نابینا (blind) ہوگئے۔ مگر ان کا نابینا ہونا ان کے حصولِ علم میں رکاوٹ نہیںبنا۔ غیر معمولی محنت کے ذریعے ڈاکٹر طہٰ حسین نے عربی زبان میں اتنی ترقی کی کہ وہ عمید الأدب العربی کہے جانے لگے۔
اِس طرح کے واقعات بتاتے ہیں کہ انسان کے اندر فطری طورپر اتنا زیادہ امکانات (potentials) ہوتے ہیں کہ کوئی بھی عذر اس کو اعلیٰ ترقی تک پہنچنے سے روک نہیں سکتا۔
کسی آدمی کا اندھا ہونا بظاہر بہت بڑی معذوری ہے، لیکن تاریخ میں ایسی بہت سی مثالیں پائی جاتی ہیں جب کہ کسی شخص نے اندھا ہونے کے باوجود بڑی بڑی ترقیاں حاصل کیں۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان کے لیے کوئی عذر، عذر نہیں۔ کوئی جسمانی نقص، کوئی مالی نقصان، کوئی نامساعد صورتِ حال، کوئی اتفاقی یا غیر اتفاقی حادثہ، انسان کا راستہ روکنے والا نہیں بن سکتا۔ ہر عورت اور مرد لامحدود صلاحیت لے کر پیدا ہوتے ہیں۔ اِسی طرح آدمی کی اپنی ذات کے باہر جو مواقع (opportunitie) ہیں، وہ بھی لامحدود ہیں۔
انسا ن کو چاہیے کہ وہ کسی بھی صورت ِحال میں مایوس نہ ہو، وہ ہر حال میں اپنا حوصلہ برقرار رکھے، وہ ہر ناکامی کو وقتی ناکامی سمجھے۔ جس شخص کے اندر اِس قسم کا عزم (determination) ہو ، کوئی بھی چیز اس کو ترقی سے روکنے والی نہیں بن سکتی۔
واپس اوپر جائیں

ایک سبق آموز واقعہ

مولانا نور عالم خلیل امینی (استاد ادبِ عربی، دار العلوم، دیوبند) نے دیوبند کا ایک واقعہ اِن الفاظ میں بیان کیا ہے:’’24 جولائی 2002 کو دار العلوم دیوبند کے ایک طالب علم کے ساتھ کسی وجہ سے چند شہریوں نے زدوکوب کا معاملہ کیا۔ دار العلوم کے طلبا کی ایک تعداد نوجوانی کے جوش سے مغلوب ہو گئی اور اُن سے دارالعلوم کے چوراہے کی چند دکانوں کو ذرا بہت نقصان پہنچ گیا۔ متعلقہ شہریوں کو بہت تکلیف ہوئی اور انھوں نے حضرت مرحوم (مولانا مرغوب الرحمن قاسمی، مہتمم دار العلوم، دیوبند) سے بڑھا چڑھا کے اِس معاملے کی شکایت کی۔ حضرت نے فرمایا کہ آپ تحریری طور پر دیجئے کہ آپ لوگوں کا واقعۃً کتنا اور کیا کیا نقصان ہوا ہے۔ انھوں نے مبالغے کے ساتھ نقصانات کا اندازہ تحریراً پیش کیا تو حضرت نے فرمایا — دیکھئے، دار العلوم کو قوم جو چندہ دیتی ہے، وہ دارالعلوم کے ضروری مفادات پر خرچ کرنے کے لیے دیتی ہے۔ یہ حقیر اُس کا امین ہے۔ اس میں کوئی خیانت اس کے لیے جائز نہیں، اِس لیے میں دار العلوم کی رقم سے آپ کے نقصانات کی تلافی نہیں کرسکتا۔ آپ لوگ مہینے دو مہینے کا موقع دیجئے کہ میں اپنی زمین کا کوئی حصہ مناسب قیمت پر فروخت کرکے آپ کے نقصانات کا معاوضہ ادا کرسکوں۔ حضرت کی بات سن کر شہریوں کا وفد آب دیدہ ہوگیا اور اُس نے حضرت سے معافی کی درخواست کی کہ حضرت، ہم لوگوںسے شدید غلطی ہوئی کہ ہم نے آپ کو پریشان کیا اور آپ کے لیے ذہنی اذیت کا باعث بنے۔ ہمیں کوئی معاوضہ نہیں چاہیے۔ دار العلوم جیسے آپ کا ہے، ویسے ہی وہ ہمارا بھی ہے‘‘۔ (ماہ نامہ الفرقان، لکھنؤ، مارچ 2011، صفحہ 44 )۔
حقیقت یہ ہے کہ کوئی آدمی پیدائشی طورپر برا نہیں ہوتا۔ جب بھی کوئی شخص مذکورہ قسم کا کام کرتا ہے تو ایسا ہمیشہ وقتی جذبے کے تحت ہوتا ہے۔ آپ اگر جوابی رد عمل کا طریقہ اختیار نہ کریں، بلکہ نرمی اور خیر خواہی کے ساتھ گفتگو کریں تو عین ممکن ہے کہ فریقِ ثانی کو اپنے کام پر شرمندگی ہوجائے اور وہ خود ہی اپنا رویہ بدل لے— منفی رد عمل معاملے کو بگاڑ دیتا ہے، اور مثبت ردّ عمل معاملے کو درست کردیتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

اپنے پوٹینشیل کو ایکچول بنائیے

ایک ذہین اور تعلیم یافتہ نوجوان سے ملاقات ہوئی۔ اُن کو دوسروں سے شکایت تھی کہ وہ اُن کا اعتراف نہیں کرتے۔ میں نے کہا کہ اِس معاملے میں غلطی آپ کی ہے، دوسروں کی غلطی نہیں۔ آپ اپنے کو اپنے پوٹیشیل (potential) کے اعتبار سے دیکھتے ہیں اور دوسرے لوگ آپ کو آپ کے ایکچول (actual) کے اعتبار سے دیکھتے ہیں۔ آپ صرف یہ کیجئے کہ آپ اپنے پوٹینشیل کو ایکچول بنائیے، یعنی اپنے امکان کو واقعہ کی صورت دے دیجئے۔ اِس کے بعد آپ کو کسی سے شکایت نہ ہوگی۔
یہی اکثر با صلاحیت لوگوں کا معاملہ ہوتا ہے۔ وہ غیر ضروری طورپر دوسرے لوگوں کی شکایت کرنے لگتے ہیں۔ وہ فرض کرلیتے ہیں کہ دوسروں کے اندر اعتراف کا مادہ نہیں، مگر اِس طرح کے تمام معاملات میںاصل غلطی شکایت کرنے والے کی ہوتی ہے، نہ کہ دوسروں کی۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اِس دنیا میں اپنے امکان کو واقعہ بنانے سے ایک دن پہلے بھی لوگ کسی کا اعتراف نہیں کرتے۔ اِس دنیا میں کوئی شخص اپنی امکانی صلاحیت کے اعتبار سے تسلیم نہیں کیا جاتا، دنیا اس کو صرف اُس وقت تسلیم کرتی ہے جب کہ اس نے اپنی امکانی صلاحیت کو مسلسل جدو جہد کے ذریعے ایک کھلا واقعہ بنا دیا ہو۔ لوگ عام طورپر ظاہر بیںہوتے ہیں۔وہ امکان کو دیکھ کر رائے قائم نہیں کرتے، بلکہ وہ صرف واقعہ کو دیکھ کر رائے قائم کرتے ہیں۔ ایسی حالت میں انسان کو چاہیے کہ وہ لوگوں کی شکایت نہ کرے، بلکہ وہ قانونِ فطرت (law of nature) کو تسلیم کرتے ہوئے یہ کرے کہ اپنی ساری طاقت اپنے امکان کو واقعہ بنانے میں لگا دے۔ جس دن ایسا ہوگا، اُس دن لوگ کسی اعلان یا مطالبہ کے بغیر آپ کا اعتراف کرلیں گے۔
آدمی کو یہ جاننا چاہیے کہ وہ دوسروں کو بدل نہیں سکتا۔ اُس کے لیے صرف یہ ممکن ہے کہ وہ خود اپنے آپ کو بدل کر، دوسروں کو بدل جانے پر مجبور کردے۔ یہی فطرت کا قانون ہے، اور فطرت کے قانون میں کسی کے لیے کوئی استثنا (exception) نہیں۔
واپس اوپر جائیں

سوال وجواب

سوال
میں سی پی ایس کے دعوتی مشن سے وابستہ ہوں۔ میں غیر مسلموں کو قرآن کا ترجمہ (ہندی، انگریزی) مطالعے کے لیے دیتا ہوں۔ اِس پر بعض لوگوںنے اعتراض کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ علماء کے نزدیک، غیر مسلم کے لیے قرآن کا چھونا ہی جائز نہیں۔ میں اِس سلسلے میں علماء کا مسلک جاننا چاہتا ہوں ( خرم قریشی، نئی دہلی)۔
جواب
ابراہیم نخعی اپنے استاد علقمہ بن قیس (وفات: 62 ہجری) کے متعلق کہتے ہیں کہ ان کو جب مصحف (قرآن) کی ضرورت ہوتی تھی تو وہ ایک نصرانی سے کہتے تھے، اور وہ ان کے لیے مصحف لکھ دیتا تھا (إنہ کان إذا أراد أن یتخذ مصحفاً أمر نصرانیاً فنسخہ (المحلی لابن حزم، جلد ۱، صفحہ 84 )
اسی طرح بیان میں کہا گیا ہے کہ حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ کے لیے حیرہ کے ایک نصرانی نے ایک مصحف 70 درہم میں لکھا تھا (أن عبد الرحمن بن أبی لیلی کتب لہ نصرانی من اہل الحیرۃ مصحفاً بسبعین درہماً، مصنف عبد الرزاق، باب بیع المصحف، جلد 8، صفحہ 144)۔ پانچویں صدی ہجری کے مشہور عالم ابن حزم الاندلسی (وفات: 656 ہجری) کسی قید اور شرط کے بغیر علی الاطلاق مسِّ قرآن کے عمومی جواز کے قائل ہیں۔
جولوگ مسِّ قرآن کے عمومی جواز کے قائل ہیں، ان کے استدلال کی ایک بنیاد یہ ہے کہ صلح حدیبیہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہنشاہ ہرقل کے نام جو مکتوب روانہ کیا تھا، اس میںقرآن کی آیت بھی درج تھی۔ رسول اللہ کایہ مکتوب صحیح بخاری، کتاب بدء الوحی میں مکمل طورپر نقل ہوا ہے۔ ہندستان کے مشہور عالم مفتی کفایت اللہ صاحب نے غیر مسلم کو ترجمہ قرآن دینا جائز بتایا ہے۔ وہ اپنی کتاب ’’کفایت المفتی‘‘ میں لکھتے ہیں کہ قرآن کریم کا ترجمہ مسلمانوں کے حق میں قرآن کا حکم رکھتا ہے، اور اُسے غیر مسلموں کو تبلیغ کے لیے دینا جائز ہے ۔
سوال
ایک اردو پرچے میں ایک مضمون اِس عنوان کے تحت نگاہ سے گزرا — دعوائے مہدویت اور مولانا وحیدالدین خاں۔ اِسی طرح ایک صاحب نے آپ کے بارے میں کہا کہ وہ نبوت کا دعویٰ کرنے والے ہیں۔ براہِ کرم، اِن دونوں باتوں کی وضاحت فرمائیں (سید اقبال احمد عمری، تمل ناڈو)
جواب
(1) مذکورہ مضمون میرے بارے میں ایک غلط فہمی پر مبنی ہے۔ میںنے ہر گز اپنے بارے میں مہدی ہونے کا دعویٰ نہیں کیا ہے۔ میںنے جو کچھ کیا ہے، وہ صرف یہ ہے کہ مہدی کے ظہور کے بارے میںجو حدیثیں آئی ہیں، اپنے فہم کے مطابق، ان کی توجیہہ کی ہے۔ یہ لوگ غالباً اپنے غیر علمی ذہن کی بنا پر توجیہہ (explanation) اور دعویٰ (claim) کا فرق نہیں سمجھتے، حالاں کہ یہ دونوں باتیں ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ ظہورِ مہدی کے معاملے کی علمی توجیہہ کرنے کا حق بلا شبہہ اہلِ علم کو حاصل ہے، لیکن کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اِس سلسلے میں کوئی دعویٰ کرسکے۔
حقیقت یہ ہے کہ کوئی غیر سنجیدہ انسان ہی یہ کہہ سکتا ہے کہ — میں مہدی ہوں، سنجیدہ انسان کبھی ایسے الفاظ بول نہیں سکتا۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ مہدی کا رول ایک خدائی رول ہے۔ کوئی شخص خدا کی خصوصی توفیق کے ذریعے ہی مہدی کا رول ادا کرے گا۔ ایسی حالت میں مہدی کا دعویٰ کرنا، خدا کے ڈومین (domain) میں داخل ہونا ہے۔
ایک پیغمبر کو حق ہے کہ وہ یہ کہے کہ — أنا النبی لا کذب (میں نبی ہوں، اِس میں کوئی جھوٹ نہیں) کیوں کہ اس کو خدا کی طرف سے فرشتے کے ذریعے براہِ راست یہ بتایا جاتا ہے کہ تم پیغمبر ہو، لیکن مہدی کا معاملہ ایسا نہیں ہے۔ کوئی شخص خدا کی خصوصی توفیق سے، اگر مہدی کا رول ادا کرے، تب بھی اس کے پاس خدا کا فرشتہ یہ بتانے کے لیے نہیں آئے گا کہ تم مہدی ہو۔ ایسی حالت میں کسی انسان کو سرے سے یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے بارے میں مہدی ہونے کا دعوی کرے۔ ایسا دعوی کرنے والا اپنے خود ساختہ دعوے کی بنا پر خدا کے یہاں اپنے معاملے کو مشتبہ کرلے گا۔ یہ ایسا ہی ہے، جیسے کوئی شخص اپنے بارے میں یہ دعویٰ کرے کہ میں جنتی ہوں۔ ایسا دعویٰ کرنے والا صرف اپنی جنت کو خدا کی نظر میں مشتبہ قرار دے رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی شخص کا جنتی یا مہدی ہونا براہِ راست خدا کے فیصلے کا معاملہ ہے، وہ ہرگز انسان کے فیصلے کا معاملہ نہیں۔ مہدی کے معاملے میں کسی شخص کو صرف توجیہہ وتشریح کا حق حاصل ہے، اِس معاملے میں اُس کو ہر گز دعوے کا حق حاصل نہیں۔ مہدی کا دعویٰ کرنا صرف اپنے آپ کو غیر مہدی ثابت کرنا ہے، وہ ہرگز کسی کے مہدی ہونے کا ثبوت نہیں۔
(2) جو لوگ میرے بارے میں ایسی باتیں کرتے ہیں، وہ بلاشبہہ غیر سنجیدہ لوگ ہیں۔ اگر وہ سنجیدہ ہوتے تو میری تحریروں میں وہ مجھ کو پہچان چکے ہوتے۔ اِس قسم کی باتیں بتاتی ہیں کہ انھوںنے میری تحریروں سے مجھ کو نہیں پہچانا۔
میرا اپنا ذاتی احساس اس کے بالکل برعکس ہے۔ میں اپنے عجز اور بے مائیگی کو سوچتے ہوئے تنہائی میں، اکثر بے اختیار رونے لگتا ہوں۔ میں سوچتا ہوں کہ میرے بارے میں اگر آخرت میں یہ کہہ دیا جائے کہ تم نے جو کام کیا، وہ زیادہ سے زیادہ یہ تھا کہ تم نے کچھ نئی دینی باتیں دریافت کیں، جو کہ متن (text) میں لفظی طورپر موجود نہ تھیں۔ اِسی طرح اگر قیامت میں خدا یہ کہہ دے کہ تمھاری اِن باتوں کی میرے نزدیک کوئی اہمیت نہیں، کیوں کہ میری عظمت وکبریائی اس کے بغیر ہی قائم ہے۔ اِسی طرح فرشتے اگر کہہ دیں کہ ہم تو ابد سے خدا کی تسبیح و تحمید میں لگے ہوئے ہیں، جب کہ تم پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔ اِسی طرح پیغمبر اگر یہ کہہ دیں کہ ہم نے پوری تاریخ میں خدائی سچائی کا اعلان کیا، جب کہ تمھاری کتابیں وجود میں نہیں آئی تھیں۔ اِسی طرح اصحاب رسول اگر یہ کہہ دیں کہ ہم کو اللہ کی توفیق سے، اصحاب رسول کا درجہ ملا، جب کہ ہم نے کبھی تمھارا لٹریچر پڑھا نہیں تھا۔ اِسی طرح اگر ملائکۂ جنت یہ کہہ دیں کہ ہماری فہرست میں جن اہل جنت کا ذکر ہے، اُن میں تمھارے جیسے کسی شخص کا نام درج نہیں، قیامت میںاگر ایسا ہو تو میرا کیا حال ہوگا۔
سوال
مولانا صاحب، میں نے اپ کی آن لائن کافی تقریریں سنی ہیں۔ لیکن میرا سوال یہ ہے کہ ہم کیا کریں، ہم اپنی اصلاح کا سفر کہاں سے شروع کریں۔ پاکستان کے حالات میں آپ ہماری اصلاح کے لیے کیا رہنمائی تجویز فرمائیں گے۔ (بشریٰ عامر، پاکستان)
جواب
پاکستان کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایک منفی ملک کے طور پر وجود میںآیا۔ جس چیز کو پاکستان کے لوگ ’’نظریۂ پاکستان‘‘ کہتے ہیں، وہ کیا ہے۔ وہ دراصل اینٹی ہندو سوچ (anti-Hindu thinking) کا ایک خوب صورت نام ہے،اور اینٹی ہندو سوچ کا مطلب ہے—اینٹی مدعو سوچ، جو بلاشبہہ اسلام میں حرام ہے۔ پاکستان اولاً اینٹی ہندو فکر کے تحت بنا۔ اس کے بعد دھیرے دھیرے یہ فکر اینٹی آل فکر (anti-all thinking) بن گیا۔ پاکستان کے تمام مسائل دراصل اِسی منفی سوچ (negative thinking) کا نتیجہ ہیں۔
میرے اندازے کے مطابق، اب یہ معاملہ اتنا بڑھ چکا ہے کہ پاکستان میں منفی سوچ کا خاتمہ تقریباً ناممکن ہے۔ مجھے امید نہیں کہ اب پاکستان منفی سوچ سے مثبت سوچ کی طرف لوٹ سکتا ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اب پاکستان میں مثبت بنیادوں پر اجتماعی اصلاح ممکن نہیں۔ اب صرف ایک ہی چیز ممکن ہے، وہ یہ کہ افراد اپنے آپ کو اِس منفی طوفان سے بچائیں۔ سب سے پہلے آپ خود یہ کیجئے کہ آپ اپنے اندر مکمل معنوں میں مثبت ذہن کی تعمیر کریں، ایک ایسا ذہن جو منفی سوچ سے پوری طرح خالی ہو۔ اِس کے بعد دوسرا کام یہ ہے کہ آپ افراد کی سطح پر دوسروں میں بھی مثبت سوچ والے انسان بنانے کی کوشش کریں، اور جب آپ کو ایسے کچھ ساتھی مل جائیں تو ہفتے وار اجتماع کی شکل میں اُن کو منظم کرنے کی کوشش کریں۔
میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ حقیقت پسند (realist) بنیں، رومانی تصورات میں جینے کی ہرگز کوشش نہ کریں۔ اِس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ آپ فکرِ اقبال اور فکر مودودی کے خول سے مکمل طورپر باہر آجائیں، ورنہ آپ کے لیے کبھی بھی اپنی اصلاح ممکن نہ ہوگی۔
واپس اوپر جائیں

خبر نامہ اسلامی مرکز — 210

1 - نئی دہلی کے کانسٹی ٹیوشن کلب (Constitution Club) میں 9 جنوری 2011 کی شام کو ایک پروگرام ہوا۔ اِس پروگرام کو ایک جرمن ادارے نے منظم کیا تھا۔ اس کا موضوع یہ تھا:
Inter-religious Dialogue & Discussions for Harmonious Living
پروگرام میں دوسرے مقامی شرکاء کے علاوہ، 25 جرمن طلبا اور اسکالرس نے شرکت کی۔ صدر اسلامی مرکز نے یہاں اسلام کے تعارف پر ایک مختصر تقریر کی اور موضوع پر آدھ گھنٹے انگریزی زبان میں خطاب کیا۔ خطاب کے بعد سوال وجواب کا پروگرام ہوا۔ اِس موقع پر حاضرین کو ’’پرافٹ آف پیس‘‘ اور قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔
2 - ایوانِ غالب (نئی دہلی) کے آڈی ٹوریم میں 9 جنوری 2011 کو قرآن کانفرنس منعقد کی گئی۔ اِس کی دعوت پر سی پی ایس (نئی دہلی) کے ساتھیوں نے اِس کانفرنس میں شرکت کی اور حاضرین کو دعوتی لٹریچر برائے مطالعہ دیا۔
3 - جنیوا (سوئزر لینڈ) کی ایک رسرچ اسکالر مز صوفیہ (Sophie Schargo) 10 جنوری 2011 کو صدر اسلامی مرکز کے دفتر میںآئیں۔ وہ جنیوا یونی ورسٹی میں اِس موضوع پر ریسرچ کررہی ہیں:
Contradiction Between Secularism and Minorities’ Rights — Case of Muslim Women’s Rights
اُن سے ان کے زیر تحقیق موضوع کے علاوہ، اسلام کے مختلف موضوعات پر بات ہوئی۔ واپس جاتے ہوئے انھوں نے صدر اسلامی مرکز کے بارے میں اپنے تاثر کا اظہار کرتے ہوئے مسٹر رجت ملہوترا سے کہا:
If western peoples know your Maulana’s thoughts they will be astonished.
مز صوفیہ پرافٹ آف پیس اور قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔
4 - نئی دہلی کے مسٹر اجمل 13جنوری 2011 کو ٹوکیو (جاپان) کے لیے روانہ ہوئے۔ وہ اپنے ساتھ قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر لے گئے تھے۔ انھوں نے جاپان میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں تک اِس لٹریچر کو پہنچایا۔
5 - بڈ گام (کشمیر ) کے ساتھی وہاں موجودانڈین آرمی کو مسلسل قرآن کا انگریزی ترجمہ پہنچارہے ہیں۔ اِس سلسلے میں 14جنوری 2011 کو وہاں کے ایس ایس پی مسٹر اتم چند کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیا گیا۔
6 - لوک سبھاٹی وی (نئی دہلی) نے 20 جنوری 2011 کو اس موضوع پر صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا:
Common Harmony
انٹرویو کے بعد ٹی وی کی ٹیم کے لوگوں کو دعوتی لٹریچر اور قرآن کا ترجمہ دیاگیا۔
7 - سی پی ایس انٹرنیشنل (نئی دہلی) کے وسیع ہال میں 4-5 فروری 2011 کو ایک اجتماع ہوا۔ یہ کشمیر دعوہ میٹ (Dawah Meet II: Kashmir Chapter) کا اجتماع تھا۔ اِس میں الرسالہ مشن سے وابستہ کشمیر کے 60 لوگوں نے شرکت کی۔ یہ کشمیر کے مختلف مقامات کے نمائندہ افراد کاایک اجتماع تھا۔ اِس میں علماء اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ موجود تھے۔ حاضرین کے تاثر کے مطابق، دعوتی اور تربیتی اعتبار سے یہ اجتماع بہت کامیاب رہا۔ اِس موقع پر مختلف لوگوں نے اپنے تاثرات بیان کئے۔ اُن میں سے کچھ تاثرات یہاں مختصراً نقل کئے جاتے ہیں:
ک دعوہ میٹ جس کا اہتمام الرسالہ فورم (کشمیر )کے تعاون سے کیا گیاتھا، ایک تاریخی اجتماع تھا۔ اس دعوتی اجتماع کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ کشمیریوں کو الرسالہ مشن کے داعیٔ اوّل اور اس دور کے مجدد مولانا وحید الدین خاں صاحب سے براہِ راست استفادہ کا قیمتی موقع نصیب ہوا۔ اس اجتماع میں مولانا نے براہِ راست کشمیر یوں کو مخاطب کیا اور اُن کی اصل حیثیت اور ذمہ داریوں سے آگاہ کیا۔ مولانا کے بقول، کشمیر میں سخت حالات کے بطن سے ایک دعوہ اکسپلوژن ہونے والا ہے۔ کشمیریوں کے لیے ایک نادر موقع ہے کہ وہ آگے بڑھ کر اس موقع کو استعمال کریں اور اس عظیم امکان کو واقعہ بنائیں۔ اس اجتماع میں مولانانے نہایت اعلیٰ پایہ کے خطابات فرمائے جن سے سامعین کے لیے کشمیر میں کام کے راستے واضح ہوگئے۔ سی پی ایس دہلی کے ممبران نے ہر پہلو سے نظم وضبط اور اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ میں خدا سے دست بہ دعا ہوں کہ وہ ہم کواخوانِ رسول کی جماعت میں شامل فرمائے۔(نذیر الاسلام، پلوامہ، کشمیر)
ک اس طرح کی میٹنگ میں شمولیت میرے لیے ایک نیا اور انوکھا تجربہ تھا۔ ’’اگر قرآن مجھے بھی ملا نہ ہوتا تو آج میں آپ کے بیچ نہ ہوتا‘‘۔ مسٹر رجت ملہوترا نے جب یہ الفاظ کہے تو میری انکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ میں کافی دیر تک اپنے آپ کو سنبھال نہ سکا۔ قرآن کو اپنے غیر مسلم بھائیوں تک پہنچانے کو ہم قرآن کی توہین سمجھتے ہیں۔ اِسی منفی نفسیات نے ہم کو دعوتی مشن سے اندھیرے میں رکھا ہے۔ اِس میٹ سے ہم کوکشمیر کو حقیقی اسلامی کشمیر بنانے کا آغاز مل چکا ہے، جب پتھر کے بدلے کشمیری نوجوانوں کے ہاتھ میں اپنے مدعوکے لیے قرآن ہوگا۔ (مجتبی حسین، سری نگر، کشمیر)
ک یہ دعوہ میٹ کشمیرکی اصل تحریک کو صحیح راستے پر لانے کے لیے سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ شاہ ہمدان نے بے پناہ قربانی دے کر کشمیریوں کو جو تحریک دی تھی، واقعی اس سے انحراف ہوا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ آج اپنے محسن کے عظیم مشن کی تجدید کے لیے کشمیریوں کی ایک ٹیم ابھر رہی ہے۔ مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ تاریخ پھر ایک بار دہرائی جارہی ہے۔جس مشن کو شاہ ہمدان نے کشمیر میں پھیلایا، اِس میٹ کے ذریعے اب اس کے امکانات ہم پر اس قدر روشن ہوگئے ہیں کہ کشمیریوں کو اسے پوری دنیا میں پھیلانے کا موقع کھل گیاہے۔ (حمید اللہ حمید، بیروہ، کشمیر)
ک الرسالہ مشن نے جو خاص نعمت مجھے عطا کی، وہ مثبت سوچ ہے۔ پہلے میں قوم پرستی کے جذبات میں جی رہا تھا اور میں اپنے مدعو کو اپنا دشمن سمجھ رہا تھا ،لیکن الرسالہ نے مجھے یہ فکرعطا کی کہ تمھارا مدعو تمھیں جنت میں لے جائے گا۔ پہلے میرا مسئلہ، میری قوم کا مسئلہ تھا ،اب یہ آخرت کا مسئلہ بن گیا ہے۔ الرسالہ نے مجھے نئی فکر دی، یعنی غیر مسلم بھائیوں تک اللہ کا کلام پہنچانا۔ الرسالہ مشن سے مجھے خود کی دریافت (discovery) ہوئی اور اب میں مدعو کی خیرخواہی میں جی رہا ہوں، اور اسی پر اپنا خاتمہ چاہتا ہوں۔مولانا وحید الدین خاں صاحب عصر حاضر کے امام ہیں اور ان کی فکر فطرت کی آواز ہے اوراِسی میں پوری انسانیت کی نجات ہے۔ (شفیع احمد ڈار، ہنڈوارا، کشمیر)
ک To be quite honest, I've never had such an experience in my entire life. I still remember each and every word of Maulana sahab. This conference helped me to bring a transformation in my life and freed my mind and soul from the captivity of negativity. The most striking point was "The Revival of Shah Hamadan Mission”. It created a storm within my mind and motivated me to dedicate my life for the mission. (Mohammad Ismail Bhat, Anantnag, Kashmir)
ک I appreciate you & your organizers for conducting such impressive seminars highlighting the real issues of life. (Dr. Rafi, Srinagar, J&K)
ک Muslim Students Association of the University of Carleton and the University of Ottawa in Ottawa , Canada were going to hold "Islam Awarenes Week" separately during the months of February and March, 2011. On this occasion, at their request I loaded 3000 copies of Quran in a van and drove them to Ottawa. This journey of mine became my unique experience for two reasons: One, I felt myself very special carrying God’s word as someone feels carrying a message from the ruler of his country. Second, I was spiritually immersed while driving because I was listening to motivating proceedings of Kashmir Meet being held at New Delhi. I was immensely thanking Allah for giving me such opportunity to carry his message physically and at the same time participating in Dawah meet spiritually. (Khaja Kaleemuddin, USA)
8 - سہارن پور (یوپی) میں ہمارے ساتھی دعوتی کام کررہے ہیں۔ اس کی رپورٹ حسب ذیل ہے:
مولانا کلیم صدیقی (پھلت)’جامعہ سید سلیمان ندوی اینگلو عربک اسکول ‘کا افتتاح کرنے کے لیے 5 فروری 2011 کو سہارن پور تشریف لائے۔ اس پروگرام کی صدارت مولانا رائے پوری نے کی۔ اس میں لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی مٹیریل دیا گیا۔ دیگر علماء کے علاوہ مولانا کلیم صدیقی صاحب کو بھی صدر اسلامی مرکز کی کتابیں دی گئیں۔
9 - حکومت ہند کی جانب سے 6 فروری 2011 کو سہارن پور میں پدم شری بھارت بھوشن کی قیادت میں ایک آل انڈیا ’یوگا سیمنار‘ منعقد ہوا۔ اس میں ہندستان کے بہت سے وزرا، آئی ایس افسر، میڈیکل سائنس داں اور یوگا گرو شامل ہوئے۔ اس میں سبھی مہمانوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور صدر اسلامی مرکز کی کتابیں دی گئیں۔
10 - فادر ڈینئل مسیح (پریسٹ، سینٹ تھامس چرچ ،سہارن پور) نے 7 فروی 2011 کوبتایا کہ وہ قرآن کے جو نسخے سی پی ایس سے لے جاتے ہیں، وہ اس کوچرچ میں ان لوگوں کودیتے ہیں جو سچ مچ خدا سے ملنے کے لئے سنجیدہ ہیں۔ انھوں نے کہا کہ پہلے وہ سمجھتے تھے کہ عیسائی بنانا اچھی بات ہے لیکن مولانا کی کتابیں پڑھ کر ان کا نظریہ بدل گیاہے۔ اب وہ کہتے ہیں کہ اگر خدا کو دریافت کرنا ہے تو قرآن پڑھیے۔
11 - ایک عزیز کی والدہ کی تدفین میں ڈاکٹر محمد اسلم اور ان کے ساتھیوں کا 9 فروری 2011 کو رڑکی جانا ہوا۔ وہاں تدفین کے وقت قبرستان میں حاضرین کو دعوتی لٹریچر دیا گیا۔لوگوں نے اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا اور کہا کہ ہم ای ٹی وی (اردو) پر مولانا کو سنتے ہیں۔ ان کی باتیں بہت زیادہ دانش مندی کی ہوتی ہیں اور یہ تنہا عالم ہیں جن کوتمام دنیا کے سبھی مذہب کے لوگ اسلام کے صحیح فکر کو جاننے کے لیے مدعو کرتے ہیں۔
12 - حکومت ہند کے شعبۂ تعلیم کی طرف سے 17 فروری 2011 کو ایک ایجوکیشنل کانفرنس شیوادل اسکول، ہری دوار (اتراکھنڈ) میں ہوئی۔اِس میں ایجوکیشنل ڈائرکٹر اور اتراکھنڈ اور مغربی یوپی کے تعلیم سے متعلق افرادکو مدعو کیا گیا تھا۔ اس پروگرام کے چئر مین سوامی شرد پوری تھے۔ یہاں لوگوں کوہندی اور انگلش پمفلٹ برائے مطالعہ دئے گئے۔ سوامی جی نے کہا کہ میں سارک ایکزی بیشن میں پاکستان گیا تھا۔ وہاں میں نے قرآن دیکھا، لیکن مجھے ہندو سوامی سمجھ کر قرآن دینے سے منع کردیا گیاتھا، لیکن آج میں قرآن پاکر بہت خوش ہوں ۔
13 - ڈاکٹر محمد اسلم خاں کی صاحب زادی ارم کے نکاح (20 فروری 2011 ) کے موقع پر شریک تمام مسلم اور غیرمسلم لوگوں کو قرآن کاترجمہ دیا گیا۔ لوگوںنے بہت شوق سے لیا۔ یہاں مہمان کی حیثیت سے آئے ہوئے فادر ڈینئل مسیح نے، جو سہارن پور کے سبھی گرجا گھروں کے صدر ہیں، کہا کہ کاش سبھی لوگ اسی طرح لوگوں کو قرآن پہنچائیں اور خدا کی کتاب ہر گھر میں داخل ہوجائے۔ انھوں نے آخر میں کہا کہ مجھے مولانا کی کتاب پرافٹ آف پیس اور قرآن پڑھنے سے روحانیت کا احساس ہوتا ہے، مجھے قرآن سے محبت ہے: I love Quran ۔
14 - سی پی ایس سہارن پور کی ٹیم نے 27 فروری 2011 کو پیس ہال میں ایک دعوتی میٹنگ کی جس میں بڑی تعداد میں غیر مسلم آئے۔ اس میں ایک غیر مسلم مسٹر سینی نے کہا— میں بہت دنوں سے یہ دعوتی میٹنگ اٹینڈ کررہاہوں۔ میں یہ بات دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ پُنر جنم کی تھیوری تخیلاتی ہے۔ میٹنگ کے آخر میں سبھی لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔ قرآن لینے والوں میں باغپت، بلند شہر، بجنور اور سہارن پور کے غیر مسلم شامل تھے۔
15 - راشٹریہ سہارا (اردو) کی فرمائش پر دہلی اور بنگلور ایڈیشن کو سیرتِ رسول کے موضوع پر 18 فروری 2011 اور 25 فروری 2011 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک مضمون بھیجا گیا۔ اِس کا عنوان یہ تھا — پیغمبر اسلام: شخصیت کے چند پہلو۔ اس مضمون کو دونوں اخباروں نے نمایاں طور پر شائع کیا۔
16 - جواہر نوودے ودیالیہ (پورنیہ، بہار) کے ایک ٹیچر مسٹر آفتاب انجم 10 فروری 2010 کو دفتر میں آئے۔ وہ الرسالہ کے مستقل قاری ہیں۔ اُن کے ساتھ 8 غیر مسلم طلبا تھے۔ صدراسلامی مرکز نے اِن طلبا سے آدھ گھنٹہ تربیتی موضوع پر بات کی۔ اِن لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیاگیا۔
17 - پاکستان (اسلام آباد) کے دنیا ٹی وی چینل نے 12 فروری 2011 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ اِس کے اینکر ڈاکٹر منیر احمد تھے۔ انٹرویو کا موضوعتھا — رحمۃ للعالمین اور ہمارا دعوتی کردار۔ یہ ایک گھنٹے کا پروگرام تھا۔ یہ پروگرام بعد کو ٹی وی پرنشر کیاگیا۔ چینل کے مطابق، پاکستان میں اِس پروگرام کو بے حد پسند کیا گیااور ناظرین نے کہا کہ ہمارے مسائل کے لیے اگر کوئی قابلِ عمل رہنمائی ممکن ہے تو وہ صرف الرسالہ کے فکر میں ہے۔ پاکستان میں بڑے پیمانے پر الرسالہ اور الرسالہ لٹریچر پھیل رہا ہے۔ پاکستان کے مختلف مقامات پر وہاں کے لوگ ہزاروں کی تعداد میں ہر ماہ الرسالہ اور مطبوعاتِ الرسالہ چھاپ کر لوگوں کے درمیان اس کو پھیلا رہے ہیں۔
18 - برطانیہ کی کنزرویٹیو پارٹی کی پہلی مسلم منسٹر (Cabinet Minister)مز سعیدہ وارثی کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور پرافٹ آف پیس بذریعہ ڈاک روانہ کی گئی۔ کتابیں ملنے پر ان کے دفتر (لندن) سے 15 فروری 2011 کو ایک خط ملا۔ اس خط کا ایک حصہ یہاں نقل کیا جاتا ہے:
I am writing on behalf of Saeeda Baroness Warsi to thank you for the enclosed books. Baroness Warsi looks forward to reading both “The Prophet of Peace” and Maulana Wahiduddin Khan’s translation of the Holy Quran (Gulsum Aytac, Office of the Party, Co-chairman)
19 - آل انڈیا ریڈیو (اردو) پر 16 فروری 2011 کو ڈاکٹر فریدہ خانم کی ایک تقریر نشر کی گئی۔یہ آدھ گھنٹے کی تقریر تھی۔ اِس تقریر کا موضوع تھا ’’اسلام میں خواتین کا مقام‘‘۔
20 - غالب اکیڈمی (نظام الدین، نئی دہلی) میں 21 فروری 2011 کو تنظیم ابنائِ قدیم دار العلوم دیوبند کی طرف سے ایک آل انڈیا کنونشن ہوا۔ اِس موقع پر سی پی ایس (نئی دہلی) کی طرف سے حاضرین کو دعوتی لٹریچر دیاگیا۔
21 - فلسطین کے کنونشن سنٹر(یروشلم) میں 20-25فروری 2011 کو ایک انٹرنیشنل بک فئر (Jerusalem International Book Fair)ہوا۔ اِس بک فئر میں گڈر ورڈ بکس (نئی دہلی) نے بھی اپنا اسٹال لگایا۔یہاں بڑی تعداد میں وزٹرس آئے۔ اِس موقع پر فلسطین کے یہودی اور مسیحی لوگوں کو بڑے پیمانے پر قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیا گیا۔ مسجد اقصیٰ کے قریب ایک بڑے ہوٹل میں قرآن کا اسٹینڈ رکھاگیاہے۔یہاں سے بڑی تعداد میں غیر مسلم زائرین قرآن کا ترجمہ حاصل کررہے ہیں۔یہاں چند وزٹرس کے تبصرے (comments) نقل کئے جاتے ہیں:
“I would love to have it, I don’t have one”.
“A prize no one can refuse.”
“It will be an excitement, wish you a success.”
“I would very much like to read it. In fact I have a friend who would be interested in it too, can I take another copy.”
“I got it, you gave me last year, thank you”
“We should read the Quran sometimes to know what the real Islam is, thank you”
“Thank you, excellent, I will take it home and I promise to read it”
“Thank you, it’s worth coming”
“It’s my best bargain of the afternoon.”
“It is important to know each other”
اِس سفر کے دوران گڈورڈ بکس کے نمائندے نے دو دن ترکی میں قیام کیا۔ وہاں انھوں نے زائرین کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا اور ایک جامع مسجد میں جہاں کثرت سے زائرین آتے ہیں، وہاں کے ذمے دار سے مل کر مسجد میں مستقل طورپر قرآن کا انگریزی ترجمہ رکھوانے کا انتظام کیا۔ یہاں سے غیر مسلم زائرین قرآن کا ترجمہ حاصل کرسکیں گے۔
22 - مسٹر عادل محمد (حیدرآباد) 24 فروری 2011 کو اپنی ٹیم کے ساتھ اسلامی مرکز میں آئے۔ انھوں نے اپنے خصوصی پروگرام ’’ہم بدلیں گے، دیش بدلے گا‘‘ کے موضوع پر صدر اسلامی مرکز کا ایک تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ بعد کو یہ پروگرام ای ٹی وی (اردو) پر وقفے وقفے سے تین ہفتے تک دکھایا گیا۔
23 - دوحہ (قطر) میں ایک عرب مسٹر سعید کو 25 فروری 2011 کو قرآن کا انگریزی ترجمہ، ریلٹی آف لائف اور پرافٹ آف پیس پر مشتمل ایک کارٹن بھیجا گیا ہے۔ مسٹر سعید قطر میں دعوتی لٹریچر پھیلا رہے ہیں۔
24 - سی پی ایس کی ٹیم کے ذریعے رڑکی میں دعوتی کام جاری ہے۔ اس کی رپورٹ یہاں درج کی جاتی ہے:
The Quran, The Prophet of Peace and other Dawah literature were given as New Year (2011) gifts to influential and intellectual personalities of the locality. They include:
ک Two local MLAs of Uttrakhand, Mr. Suresh Jain [BJP] and Chaudhary Yashweer Singh;
ک Professors from IIT and Retd. Army officers
ک COOs of companies — Mr. R. Shelly (AIS Glass Solutions) and Mr. P S Shirodkar (Glass Tech)
ک Rev. Dr. Dayal M Lall of Roorkee Churches;
ک Principal of St. Ann’s school
The Quran is being spread through various book shops in Roorkee as well as in Dehradun. Some of the prominent shops are Cambridge Book Depot and Jain News Agency in Roorkee and The English Book Depot and Natraj Publishers in Dehradun. (Sajid Anwar)
25 - یورپ کے مختلف ملکوں میں سی پی ایس قرآن کا انگریزی ترجمہ پہنچایا جارہا ہے:
In Europe Brother Husnu Evren and Brother Alper have taken up the responsibility to dispatch the Quran to requesters from the continent. So far many requests have been dispatched. (Sajid Anwar, Mumbai)
A new trend has been observed in the Roorkee region: people are themselves asking for Dawah literature and the Quran, (Sajid Anwar, Roorkee, Uttarakhand)
26 - قرآن کا انگر یزی ترجمہ غیر مسلموں کے درمیان پھیلایا جارہا ہے۔ دو تاثرات ملاحظہ ہوں:
I am very happy to receive the Quran. I carefully read the book and will continue to send it’s massage to others. (Sachin Kumar, Delhi)
I am a Tunisian writer preparing at the moment a English-French-Arabic dictionary of Islam for a publishing house in Lebanon. I have used your English translation of the Quran to prepare the dictionary. In my opinion, the translation by Maulana Wahiduddin Khan is the best of all the translations. (Tarek Abdaoui, Tunisia)
27 - ٹائمس آف انڈیا (نئی دہلی) میں صدر اسلامی مرکز کے مضامین پر چند تاثرات ملاحظہ ہوں:
I salute our esteemed Maulana Wahiduddin Khan for such an outstanding article on Blasphemy He is one of the greatest intellectual leaders of our time. (Tarannum Riyaz, Punjab).
I read the article and am really in awe of this great scholar, we are blessed to have amidst us in these trying times. (Usha Chandra, Secretary, Development Communication, India)
I have read your message “Of Strangers And Friends” in the Speaking Tree Column of The Times of India.( Jan 28, 2011) With every message I read I feel a great deal of bonding with you and the ideals for which you are devoting your life. (Naresh Garg, Delhi)
28 - انگریزی اخبار اور میگزین میں صدر اسلامی مرکز کے مطبوعہ مضامین کی تفصیل حسب ذیل ہے:
Blasphamy and the Islamic Way, Jan 10, 2011 (The Times of India)
Islam Believes in Freedom, Jan, 17, 2011 (India Today)
Of Strangers And Friends, Jan 28, 2011 (The Times of India)
Be Patient, Jan, 29, 2011 (The Times of India)
29 - رومانیہ (یورپ) کے ایک گروپ نے وہاں کی مقامی زبان میں صدر اسلامی مرکز کے دعوتی لٹریچر کا ترجمہ کرے اس کو پھیلانے کا ارادہ کیاہے۔ اِس سلسلے میں ان کو دعوتی لٹریچر اور قرآن کا انگریزی ترجمہ روانہ کردیا گیا ہے۔
30 - سی پی ایس (نئی دہلی) کے ممبران کے مطبوعہ مضامین کی تفصیل حسب ذیل ہے:
Prophet Said be Realistic- Maria Khan, The Times of India, Sep. 9, 2010
Journey of Self-Discovery- Sadia Khan, The Times of India, Feb. 9, 2011
Open Heart, Open Mind- Stuthi Malhotra, The Speaking Tree, Feb. 6, 2011
Keep Your Cool- Raazia Siddiqui, The Speaking Tree, Feb. 27, 2011
31 - نئی دہلی کے ٹی وی چینل زی سلام کے تحت، صدر اسلامی مرکز کے پروگرام ’’اسلامی زندگی‘‘ کی ریکارڈنگ ہورہی ہے۔ یہ پروگرام روزانہ ٹی وی پر نشر ہوتے ہیں۔ اِس پروگرام میں پہلے موضوع کا مختصر تعارف ہوتا ہے، اس کے بعد حاضرین کی طرف سے سوالات ہوتے ہیں۔ یہ پروگرام دنیا کے مختلف ملکوں میں دیکھا جاتا ہے۔ چینل کے فیڈ بیک کے مطابق، زی سلام کے اردو پروگراموں میں یہ پروگرام نمبر ایک پر ہے، وہ سب سے زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔جنوری-فروری 2011 کے پروگراموں کی تفصیل ان کے موضوعات کے ساتھ یہاں درج کی جاتی ہے:
ک مذہب اور انسانی زندگی، حجاب کا اسلامی تصور، عورت معمارِ انسانیت (یکم جنوری 2011 )
ک سادگی کی اہمیت، حب وطن اور اسلام، روز مرہ کی زندگی اور اسلام (7 جنوری 2011 )
ک اسلام اور ماڈرن کلچر، مثبت شخصیت کی تعمیر، آخرت ایک ابدی زندگی (18 جنوری 2011 )
ک خدا اور انسان، سچائی کی تلاش، کائنات میں انسان کا مقام (25 جنوری 2011 )
ک اسوۂ رسول، رسولِ رحمت، عصر حاضر میں سیرت رسول کی معنویت (8 فروری 2011 )
ک اسلام دورِ جدید میں، تصوف اور اسلام، مسلمان اور جدید چیلنج (17 فروری 2011 )
ک تزکیہ نفس، مذہب اور سائنس، اسلام میں جنت کا تصور (22 فروری 2011 )
32 - سی پی ایس کے ایک ساتھی مسٹر رجت ملہوترا نے انڈیا کے 200 مختلف مدارس اور علماء کے نام اپنی طرف سے ایک سال (2011) کے لیے الرسالہ جاری کرایا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
واپس اوپر جائیں