Pages

Tuesday, 1 May 2012

Al Risala | May 2012 (الرسالہ,مئی)


خصوصی شمارہ ۔ بھائی کی یاد میں

برادرم عبد المحیط خاں ہم تین بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ میرے بڑے بھائی عبدالعزیز خاں )وفات: (1988 بزنس کی لائن میں گئے اور لائٹ اینڈ کمپنی پرائیویٹ لمیٹیڈ (الٰہ آباد) قائم کی۔ میری تعلیم مدرسے میں ہوئی۔ میں نے اسلامی دعوت کو اپنی سرگرمی کا مرکز بنایا۔ عبدالمحیط خاں (وفات:2010 ) نے اعظم گڑھ میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد انھوں نے بنارس ہندو یونی ورسٹی میں داخلہ لیا۔ وہاں سے انھوں نے اعلیٰ نمبر کے ساتھ انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد وہ گورنمنٹ سروس میں چلے گئے۔ وہ بنارس (یوپی) میں جوائنٹ ڈائریکٹر ٹکنکل ایجوکیشن تھے۔1995 میں وہ اِس عہدے سے ریٹائر ہوئے۔
برادرم عبد المحیط خاں کا ریکارڈ اپنی طالب علمی کے زمانے میں محنتی طالب علم، اور سروس کے زمانے میں ایک دیانت دار افسر کا ریکارڈ تھا۔ بنارس ہندو یونی ورسٹی میں ان کی اعلیٰ خصوصیات کی بنا پر اُن کے پروفیسر اُن کو بہت پسند کرتے تھے۔
چند واقعات
برادرم عبد المحیط خاں کی طالب علمی کے زمانے کا ایک واقعہ ہے۔ وہ یونی ورسٹی کے ہاسٹل میں رہتے تھے۔ قاعدے کے مطابق، ایک روم میں دو طالب علم رہا کرتے تھے، لیکن عبد المحیط خاں کی اصول پسندی کو دیکھ کر ان کے وارڈن (Warden) نے کہا کہ تمھارے روم میں کوئی دوسرا طالب علم رہے گا تو وہ تمھارے لیے پرابلم بن سکتا ہے، اِس لیے انھوں نے عبد المحیط خاں کو بطور خاص ایک غیرمشترک روم دے دیا، جس میں وہ اکیلے رہتے ـتھے۔
عبد المحیط خاں ریاضی (mathematics) کے بہت اچھے استاد تھے۔ اِس بنا پر اُن کے تمام اسٹوڈنٹ ان کا بہت احترام کرتے تھے۔ سروس کے ابتدائی زمانے میں وہ چندولی (یوپی) کے پالی ٹیکنیک میں ریاضی کے استاد تھے۔ اُس وقت پالی ٹیکنیک کے پرنسپل ایک ہندو تھے۔ ایک بارایسا ہوا کہ پالی ٹیکنیک کے طلبا کو پرنسپل سے شکایت ہوگئی۔ انھوں نے اپنے مطالبات کو لے کر پرنسپل کا گھیراؤ کیا۔ پرنسپل نے طلبا سے بہت کہا کہ وہ اپنے روم میں واپس جائیں، لیکن طلبا وہاں سے ہٹتے نہیں تھے۔ آخرکار کسی نے پرنسپل صاحب کو مشورہ دیا کہ اے ایم خان کو بلائیے، وہی اِس مسئلے کو حل کریں گے۔
چناں چہ پرنسپل نے ایک آدمی بھیج کر عبد المحیط خاں کو بلایا۔ عبد المحیط خاں وہاں آئے۔ انھوں نے دیکھا کہ طلبا کا ہجوم پرنسپل کو گھیرے ہوئے ہے۔ اپنی عادت کے مطابق، انھوں نے طلبا کو زور سے ڈانٹا اور کہا — یہ کیا بدتمیزی ہے، تم لوگ یہاں سے ہٹو اور فوراً اپنے روم میں واپس جاؤ۔ اِس کے بعد طلبا نے گھیراؤ ختم کردیا اور خاموشی کے ساتھ اپنے روم میں واپس چلے گئے۔
یہ دو واقعات بتاتے ہیں کہ عبد المحیط خاں کا ریکارڈ طالب علمی کے زمانے میں اور سروس کے زمانے میں کیا تھا۔ وہ جہاں بھی رہے، ہمیشہ ایک اصول پسند انسان کی حیثیت سے رہے۔ ایک بار جب وہ فیض آباد کے پالی ٹیکنیک میں پرنسپل تھے، یوپی کے ایک سیاسی لیڈرنے اپنے خط کے ساتھ ایک نوجوان کو بھیجا اور اس کے داخلے کی سفارش کی، مگر وہ طالب علم ٹسٹ میں کوالیفائی (qualify) نہ کرسکا۔ چناں چہ عبد المحیط خاں نے اس کا داخلہ نہیں لیا۔ طالب علم نے واپس جاکر لیڈرصاحب سے شکایت کی۔ اس پر لیڈر صاحب غصہ ہوگئے اور عبد المحیط خاں کو ٹیلی فون پر دھمکی دی، مگر عبد المحیط خاں اپنے فیصلے پر قائم رہے اور انھوں نے طالب علم کا داخلہ نہیں لیا۔
اصول پسندی
برادرم عبد المحیط خاں مجھ کو بہت زیادہ مانتے تھے۔ وہ مجھ سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے۔ میرے اوپر ان کو بہت زیادہ بھروسہ تھا۔ وہ خود اگرچہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص تھے، لیکن جب میں کوئی بات کہتا تو اس کو وہ بلا بحث مان لیتے تھے۔ میرے بارے میں وہ اکثر کہتے تھے کہ— میں دنیا میں سب سے زیادہ وحید بھائی کو مانتا ہوں۔
لیکن اِسی کے ساتھ وہ بہت زیادہ اصول پسند آدمی تھے۔ اصول کے معاملے میں وہ کسی کے ساتھ رعایت نہیں کرتے تھے، حتی کہ اپنے بچوں کے ساتھ بھی نہیں۔ مثلاً ان کی دو لڑکیاں تھیں، لیکن اپنے سخت اصولوں کی بنا پر انھوںنے اِن لڑکیوں کو اسکول میں داخل نہیں کیا۔ ان کی لڑکیوں نے ابتدا میں گھر پر کچھ تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد پرائیویٹ امتحان دے کر انھوں نے اپنی تعلیم پوری کی۔
ان کی اصول پسندی کی ایک مثال یہ ہے کہ ایک بار میں دہلی سے ان کی پالی ٹیکنیک (گونڈہ) گیا۔ یہاں وہ پرنسپل تھے۔ کالج کی لائبریری میں بہت سی کتابیں تھیں۔ اُن میں سے ایک انسائکلوپیڈیا برٹانکا کا مکملسیٹ تھا۔ چند روزہ قیام کے دوران میں برٹانکا کو برابر پڑھتا رہا۔ جب میں آنے لگا تو میں نے برادرم عبد المحیط خاں سے کہا کہ یہ انسائکلو پیڈیا میرے بہت کام کی ہے۔ یہاں کوئی اس کا قدرداں نہیں۔ میں اس کو اپنے ساتھ دہلی لے جاتا ہوں اور مطالعے کے بعد میں اُس کو واپس کردوں گا۔ مگر اپنی اصول پسندی کی بنا پر انھوں نے مجھے اِس کی اجازت نہ دی۔ انھوںنے کہا کہ کالج کے قاعدے کے مطابق، آپ یہاں رہ کر انسائکلوپیڈیا سے استفادہ کرسکتے ہیں، لیکن انسائکلوپیڈیا کو اپنے گھر لے جانا، لائبریری کے قواعد کے خلاف ہوگا۔
برادرم عبد المحیط خاں سختی کے ساتھ اپنے اصولوں کے پابند تھے۔ وہ کسی کی بے جا رعایت نہیں کرتے تھے۔ اصول کے معاملے میں وہ کبھی کسی سے سمجھوتہ نہیں کرتے تھے۔اِس بنا پر ڈپارٹمنٹ کے کئی لوگوں کو اُن سے شکایت ہوتی تھی، مگر انھوں نے کبھی کسی کی شکایت کی پروا نہیں کی۔ وہ کسی کو خوش کرنے کے لیے اپنے اصول سے ہٹنے پر تیار نہیں ہوتے تھے۔
میں نے اپنے ذاتی مزاج کی بنا پر کئی بار اُن سے ملاقات کے دوران اور خط کے ذریعے کہا کہ تم خود اپنی ذاتی زندگی میں اصول پر قائم رہو، لیکن دوسروں کے بارے میں اعراض (avoidance) کا طریقہ اختیار کرو، مگر انھوں نے اپنی شدید اصول پسندی کی بنا پر میرا یہ مشورہ نہیں مانا۔
عبد المحیط خاں کو کئی معاملے میں اپنی اِس اصول پسندی کی بھاری قیمت دینی پڑی۔ اُن میں سے ایک یہ ہے کہ اُن کا تعلق یوپی گورنمنٹ کے محکمہ ٹکنکل ایجوکیشن سے تھا۔ وہ اپنی سینئرٹی (seniority) کے اعتبار سے ڈائریکٹر کے عہدے کے مستحق ہوچکے تھے، لیکن آخر تک اُن کو ڈائریکٹر کا عہدہ نہیں دیاگیا۔ ان کو جوائنٹ ڈائرکٹر کے عہدے سے ریٹائر ہونا پڑا۔ عبد المحیط خاں نے اِس نقصان کو برداشت کیا، مگر وہ اپنے اصول سے کبھی نہیں ہٹے۔
خاندانی حالات
عبد المحیط خاں انجینئر میرے چھوٹے بھائی تھے۔ وہ یکم اگست1932 کو اعظم گڑھ (یوپی) میں پیدا ہوئے، اور31 جنوری 2010 کو فیض آباد (یوپی) میں ان کا انتقال ہوگیا۔ اِس نسبت سے یہاں کچھ باتیں درج کی جارہی ہیں۔
میرے مورثِ اعلیٰ ضیاء الدین خاں تھے۔ تقریباً 500 سال پہلے وہ افغانستان (سوات) کے علاقے سے ہندستان آئے۔ ابتدامیں وہ جون پور (یوپی) کے ایک گاؤں میں ٹھہرے۔ بعد کو اُن کا خاندان اعظم گڑھ کے گاؤں بڈھیریا میں منتقل ہو گیا۔ دھیرے دھیرے ہمارے خاندان نے یہاں ایک بڑے زمیں دار کی حیثیت حاصل کرلی۔ زراعت کے علاوہ، یہاں ان لوگوں نے نیل کا ایک گودام قائم کیا۔ اِس کے علا وہ، ہمارے خاندان کے کچھ افراد شہراعظم گڑھ میں مقیم ہوگئے۔
میرے والد کا نام فرید الدین خاں تھا۔ ان کا انتقال غالباً 1931 میں ہوا۔ میری والدہ زیب النساء کا انتقال دہلی میں 8 اکتوبر 1985 کو ہوا۔ ہم لوگ 6 بھائی بہن تھے۔ ایک بہن کا انتقال بچپن میں ہوگیا۔ دوسری بہنیں یہ تھیں— طاہرہ خانم (وفات: 1976) اور طیبہ خانم (وفات: 1956 )۔ بھائیوں میں عبد العزیز خاں کا انتقال 1988 میں ہوا۔ عبد المحیط خاں چھوٹے بھائی تھے۔ ان کا انتقال 2010 میں ہوا۔ بھائیوں اور بہنوں میں اب میں آخری شخص رہ گیا ہوں۔
ہمارا خاندان کافی وسیع خاندان ہے، لیکن پورے خاندان میں، میں واحد شخص تھا جس کی تعلیم عربی مدرسے میں ہوئی۔ میرے چچا صوفی عبدالمجید خاں مرحوم کو خیال ہوا کہ خاندان میں کم ازکم ایک شخص کا عالم ہونا ضروری ہے۔ چناں چہ انھوں نے خود اپنی ذمے داری پر مجھ کو عربی مدرسہ (مدرسۃ الاصلاح، سرائے میر) میں داخل کیا۔ میری عالمیت کی تعلیم میں تمام تر میرے چچا صوفی عبدالمجید خاں کا حصہ ہے۔ (میری تعلیم کے بارے میں تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو ’’دین وشریعت‘‘ باب ’’اسلامی تعلیم‘‘ صفحہ 73-151)۔
بعدکے زمانے میں ہمارے گھر پر دو نوجوانوں کے لیے انگریزی تعلیم کا انتظام کیا گیا۔ ایک، میرے بھائی عبد المحیط خاں اور دوسرے اقبال احمد خاں سہیل (وفات:1955 )کے بیٹے یمین الاسلام خاں ۔ اِس تعلیمی انتظام کی حیثیت گویا ایک گھریلو ٹیوشن کی تھی۔ اِس کے لئے بالترتیب دو صاحبان نے استاد کی خدمت انجام دی— ایک ماسٹر صدیق صاحب اور دوسرے ماسٹر یاسین صاحب۔ عبد المحیط خاں اور یمین الاسلام خاں دونوں نے بعد کو انجینئرنگ کا کورس کیا۔ عبد المحیط خاں نے بنارس ہندو یونی ورسٹی میں، اور یمین الاسلام خاں نے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں۔
دعوتی زندگی
برادرم عبد المحیط خاں میرے دعوتی مشن میں پوری طرح میرے ساتھ تھے۔ وہ اپنی پوری زندگی ماہ نامہ الرسالہ کی ایجنسی چلاتے رہے۔ وہ ہر مہینے الرسالہ کے کچھ پرچے منگاتے تھے۔ ایک شمارہ وہ اپنے پاس رکھتے تھے اور بقیہ شمارے مفت تقسیم کردیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ، وہ ہمارے یہاں کی چھپی ہوئی اسلامی کتابیں برابر منگاتے رہتے تھے اور اُنھیں لوگوں کو مطالعے کے لئے دیتے تھے۔
انھوں نے اپنی سروس کے زمانے میں دو مکان بنائے تھے۔ ایک، فیض آباد میں اور دوسرا، علی گڑھ میں۔ بعد کو انھوںنے اپنا علی گڑھ کا مکان فروخت کردیا۔ اِس کی رقم سے 6 لاکھ روپئے وہ میرے وراثتی حصے کے طورپر مجھ کو بھیجنا چاہتے تھے۔ میں نے منع کردیا۔ انھوں نے اپنے اہلِ خانہ کو وصیت کردی کہ یہ رقم دوبارہ مجھے بھیجی جائے۔ ان کی وفات کے بعد ان کی بیٹی فہمیدہ خانم نے میری لڑکی ڈاکٹرفریدہ خانم سے ٹیلی فون پر یہ بات بتائی۔ ڈاکٹر فریدہ نے اُن سے کہا کہ میرے والد ذاتی طورپر اس رقم کو قبول نہیں کریں گے، اِس لیے آپ چاہیں تویہ رقم القرآن مشن (Al-Quran Mission) میں دے دیجئے، تاکہ اس کے ذریعے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک قرآن کا ترجمہ پہنچایا جاسکے۔ چناں چہ یہ پوری رقم القرآن مشن (نئی دہلی) میں دے دی گئی۔
برادرم عبد المحیط خاں ایک صالح کردار کے آدمی تھے۔ اِسی کے ساتھ ان کے اندر دعوت کے کام کا گہرا جذبہ تھا۔ یہی جذبہ انھوں نے اپنے گھر والوں میں پیدا کیا۔ اِس کی ایک مثال یہ ہے کہ ان کی بیٹی فہمیدہ خانم اُن کی وفات کے بعدمسلسل طورپر دعوت کا کام کررہی ہیں۔ وہ ہمارے یہاں سے چھپا ہوا دعوتی لٹریچر برابر منگاتی ہیں، وہ خود بھی اِس کو پڑھتی ہیں اور دوسروں کو مطالعے کے لیے دیتی ہیں۔
عبد المحیط خاں کو ہمارے دعوتی مشن سے بہت دلچسپی تھی۔ وہ اس سے مکمل اتفاق کرتـے تھے۔ وہ اس کی توسیع واشاعت کے لیے برابر کوشش کرتے رہتے تھے۔ اِس معاملے میں بھی انھوں نے کسی کی مخالفت کی پروا نہیں کی۔ وہ کھلے طورپر اور آخر وقت تک ہمارے دعوتی مشن کے حامی بنے رہے۔
میں نے اکتوبر 1976 میں دہلی سے ماہ نامہ الرسالہ جاری کیا۔ عبد المحیط خاں شروع ہی سے الرسالہ کا باقاعدہ مطالعہ کرنے لگے۔ مزید یہ کہ انھوں نے الرسالہ کی ایجنسی لے لی۔ وہ الرسالہ کو خود بھی پڑھتے اور دوسروں کو اِسے پڑھنے کے لیے دیتے۔ اِسی طرح اُن کے پاس میری تمام کتابیں موجود تھیں۔ وہ اِن کتابوں کو مسلسل پڑھتے رہتے تھے اور لوگوں سے اِن کے مضامین کا چرچا کرتے تھے۔ میرے مشن کے بارے میں ان کو کبھی کوئی اختلاف نہیں ہوا، حتی کہ وہ یہ کہتے تھے کہ یہی واحد صحیح مشن ہے اور لوگوں کو اِس مشن کا ساتھ دینا چاہئے۔میری لکھی ہوئی تفسیر قرآن اردو، عربی، ہندی اور انگریزی میں چھپی ہے۔ اس کا نام ’’تذکیر القرآن‘‘ ہے۔ اپنی زندگی کے آخری سالوں میں وہ روزانہ تذکیر القرآن پڑھتے رہتے تھے۔ اِس کے نوٹس (notes) وہ برابر لکھتے رہتے تھے۔
میری عادت ہے کہ میں ہر ایک سے اس کے تجربات پوچھتا ہوں۔ عبد المحیط خاں سے جب میری ملاقات ہوتی تو میں ہمیشہ ان کے تجربات پوچھتا تھا۔ اُن کا ایک تجربہ میںنے اُنھیں کے لفظوں میں چھاپا تھا۔ یہ تجربہ میری کتاب ’’سبق آموز واقعات‘‘ میں شائع ہوا ہے، اُس کو یہاں نقل کیا جاتا ہے۔
غلطی میری
1954ء میں جب کہ میں بنارس ہندو یونی ورسٹی میں انجینئرنگ کا طالب علم تھا، ایک واقعہ پیش آیا جو کہ اب تک مجھے یاد ہے۔ میرے استاد ڈاکٹر پران ناتھ نے لاپلاس ٹرانسفارم (Laplace Transform) کو پڑھانا شروع کیا تو انھوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں ایک دلچسپ کہانی ہے جو ہمارے موجودہ پرنسپل سے متعلق ہے۔ یہ پروفیسر ایم۔سین ۔گپتا تھے جو اُس وقت بنارس ہندو یونی ورسٹی کے انجینئرنگ کالج کے پرنسپل تھے اور اب ریٹائر ہوچکے ہیں۔پروفیسر گپتا مزید تعلیم کے لیے گلاسگو یونی ورسٹی گئے تھے اور وہاں سے انھوںنے ٹاپ کیا تھا۔ گلاسگو کا پروفیسر ایک روز بلیک بورڈ پر ایک الیکٹریکل پرابلم کو حل کررہا تھا۔ اس درمیان میں ڈفرینشیل ایکویشن (differential equation) کا سوال آگیا۔ گلاسگو کے پروفیسر نے اس کو عام طریقے سے حل کیا، جس میں کافی وقت لگا اور سارا بلیک بورڈ بھر گیا۔
پروفیسر گپتا نے اس موقع پر کھڑے ہو کر کہا: میرا خیال ہے کہ یہاں لاپلاس ٹرانسفارم کو اپلائی کیاجاسکتا ہے۔ اس سے یہ سوال بہت مختصر طریقے سے حل ہوجائے گا۔ پروفیسر نے اس تجویز پر عمل کیا تو صرف دو لائنوں میں سوال حل ہوگیا۔ اگرچہ دونوں طریقوں کا آخری جواب ایک ہی تھا، مگر پروفیسر نے کہا: جب مختصر طریقہ ہمارے پاس موجود ہے تو لمبے طریقے کو اختیار کرنا ہی سرے سے غلط ہے، اس نے بلیک بورڈ پر اپنے لکھے ہوئے حل کو مٹا دیا اور پروفیسر گپتا کے طریقے کو لکھتے ہوئے کہا:
This is the only method
اِسی قسم کا ایک اور واقعہ 1964ء کا ہے۔ حکومت ہند کی وزارت تعلیم نے امریکی حکومت کے ایجوکیشن ڈویژن کے تعاون سے چندی گڑھ میں’’سمر اسکول فار ٹیچرس‘‘ کا ایک پروگرام شروع کیا۔ اِس میں ہندستانی شخصیتوں کے علاوہ، تین امریکی پروفیسر آئے ہوئے تھے، اس وقت میں چندولی میں سینئر لکچرر تھا اور اسی حیثیت سے میں نے چندی گڑھ کے اس پروگرام میں شرکت کی تھی۔ یہ پہلا کورس تھا جو 15جون سے 24 جولائی 1964ء تک ہوا۔
امریکی پروفیسر میچل نے ایک روز کلاس میں سوال کیا—تخلیقی لوگ کون ہوتے ہیں Who are creatives) (۔ مختلف لوگوں نے مختلف نام لیے۔ ایک شخص نے کہا پوئیٹ(شاعر) پروفیسر نے کہا، کیا (What) ۔ پروفیسر میچل کی سمجھ میں نہیں آیا۔ وہ با ر بار ’وہاٹ‘ کہتے رہے اور ہمارے ساتھی بار بار ’پوئیٹ‘ دہراتے رہے۔بالآخر انھوں نے اس کی اسپلنگ بتائی: پی او ای ٹی(poet)۔ اب پروفیسر میچل سمجھ گئے کہ ہمارے ساتھی کی مراد شاعر سے ہے۔ مگرہندستانی اور امریکی تلفظ کے فرق کی وجہ سے وہ سمجھ نہیں پاتے تھے۔ کیوں کہ ہندستانی تلفظ اس لفظ کا پوئیٹ ہے جب کہ امریکی تلفظ میں اس کو پائیٹ کہتے ہیں۔ اِس کے بعد پروفیسر نے کہا:
You are right, I am wrong, because I am in your country.
’’آپ صحیح ہیں۔ میں ہی غلطی پر ہوں، کیوں کہ میں اس وقت آپ کے ملک میں ہوں‘‘۔
برادرم عبد المحیط خاں نے بنارس ہندو یونی ورسٹی کے شعبۂ الیکٹریکل انجینئرنگ (Electrical Engineering) میں داخلہ لے کر بی ای (B.E.) کیا تھا۔ اس کے بعد اسی یونی ورسٹی سے انھوںنے الیکٹریکل انجینئرنگ کی ڈگری لی۔ اس طرح انھوں نے سائنس کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی تھی۔ میں نے کبھی کسی کالج اور یونی ورسٹی میں داخلہ نہیں لیا، البتہ مجھے سائنس سے دلچسپی تھی۔ میں نے سائنس کے موضوع کو پرائیویٹ طور پر کتابوں کے مطالعہ (self study) کے ذریعے پڑھا۔ اس طرح مجھے نظری سائنس (theoretical science) سے کسی حدتک واقفیت ہوگئی تھی۔ لیکن پریکٹکل اعتبار سے میں نے اس موضوع پر کوئی تربیت حاصل نہیں کی تھی۔
اس پہلو سے مجھے برادرم عبد المحیط خاں سے کافی مدد ملی۔ میں ان کے یہاں اُس وقت جاتا تھا، جب کہ وہ پالیٹکنیک (Technical College) کے پرنسپل تھے۔ میں ان سے سائنس کے موضوع پر بات کرتا تھا۔ پھر وہ مجھے اپنے کالج کی لیب (laboratory) میں لے جا کر اُس کا عملی مشاہدہ کراتے تھے۔
مثال کے طور پر میں نے فریڈے (Michael Faraday) وغیرہ کو پڑھا تھا۔ اس مطالعہ سے میںنے جانا تھا کہ نظریاتی طورپر بجلی کیا ہے۔ نظریاتی طورپر بجلی الیکٹران کے بہاؤ کا نام ہے :
Electricity means flow of electrons.
برادرم عبد المحیط خاں سے اس موضوع پر گفتگو ہوئی۔ وہ مجھ کو اپنی کالج کی لیب (laboratory) میں لے گئے۔ وہاں انھوں نے مجھ کو ڈائینمو (dynamo) دکھایا۔ انھوںنے مجھے عملی طور پر بتایا کہ یہ فطرت کا قانون ہے کہ اگر ڈائینمو کے اندر میگنیٹک فیلڈ (magnetic field) اور موشن (motion) کو یکجا کیا جائے تو اس سے قانونِ فطرت کے مطابق، وہاں بجلی پیداہوجائے گی۔ اور اگر ڈائینمو میں میگنیٹک فیلڈ کے ساتھ الیکٹرسٹی کو یکجا کیا جائے تو وہاں موشن (motion) پیدا ہوجائے گا۔ پہلے قانون کے ذریعہ پاور ہاؤس بنتا ہے اور دوسرے قانون کے ذریعہ مشین متحرک ہوتی ہے۔
انسانی ہمدردی
برادرم عبد المحیط خاں صرف ایک انجینئر نہ تھے، بلکہ اسی کے ساتھ ان کے اندر انسانی ہمدردی کا جذبہ بھی بہت زیادہ تھا۔ وہ لوگوں کی بھلائی کے لیے بہت سوچتے تھے۔ اسی کے ساتھ وہ بقدر استطاعت اس پر عمل بھی کرتے تھے۔
ایک بار انھوں نے بہت درد کے ساتھ کہا— زندگی صرف ایک بار ملتی ہے۔ اس جملہ سے ان کا مطلب یہ تھا کہ انسان کو موجودہ دنیا میں زندگی کا موقع صرف ایک بار ملا ہے۔ ایک محدود مدت کے بعد وہ اس دنیا سے چلا جائے گا۔ عقل مند انسان وہ ہے جو اس محدود مدت کو اعلیٰ مقصد کے لیے استعمال کرے۔ اگر اس نے اعلیٰ مقصد کے سوا کسی اور کام میں اپنی عمر گزاردی تو اس کو دوبارہ یہ موقع ملنے والا نہیں۔
ان کا یہ قول کہ ’’زندگی صرف ایک بار ملتی ہے‘‘ کسی محدود معنی میں نہ تھا۔ وہ دنیا و آخرت دونوں کے بارے میں تھا۔ ان کو افسوس ہوتا تھا کہ دنیا میں اکثر لوگ صحیح پلاننگ نہ کرنے کی وجہ سے کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کرپاتے۔ ہر آدمی کا کیس کم تر استعمال کا کیس (A case of under-utilization) بن کر رہ جاتا ہے۔یہی معاملہ زیادہ بڑے پیمانہ پر آخرت کی نسبت سے ہے۔ ہمارے والد فرید الدین خاں یہ کہا کرتے تھے کہ ’’خدا کو منہ دکھانا ہے‘‘۔ برادرم عبد المحیط خاں کو یہ فکر رہتی تھی کہ لوگ آخرت کے لحاظ سے تیاری نہیں کرتے، پھر اُس وقت ان کا کیا حال ہوگا جب وہ موت کے بعد خدا کے سامنے پیش کئے جائیں گے۔ برادرم عبد المحیط خاں کی لڑکی فہمیدہ خانم نے بتایا کہ بعد کے زمانے میں ہم لوگوں سے وہ اکثر آخرت کی بات کرتے تھے۔ ان کا اپنا یہ حال تھا کہ وہ خدا کے خوف سے کانپتے رہتے تھے۔
تعمیری ذہن
میرے مشن کا ایک حصہ وہ ہے جو مسلمانوں کی ملی تعمیر سے متعلق ہے۔ اِس معاملے میں لکھنے اور بولنے والوں کا طریقہ عام طورپر یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کی مظلومی کو بیان کرتے ہیں۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ مسلمان، امتیاز (discrimination) کا شکار ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف سازشیںکی جارہی ہیں۔ مسلمانوں کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں۔ میں اِس نظریے کو صد فی صد غلط سمجھتا ہوں۔ اِس نظریے کے خلاف لکھنے کا کام میں نے لکھنؤ کے زمانہ قیام (1963-1966) میں شروع کیا تھا۔ اُس زمانے میں، میں لکھنؤ کے ہفت روزہ ’’ندائے ملت‘‘ میں اِس قسم کے تعمیری مضامین شائع کرتا تھا۔اس کے بعد 1967میں مجھے ’’الجمعیۃ ویکلی‘‘ (دہلی) کا ایڈیٹر بنایا گیا۔ اب الجمعیۃ ویکلی میں میرے اِس قسم کے تعمیری مضامین چھپنے لگے۔ اِس کے بعد 1976 میں میں نے ماہ نامہ ’’الرسالہ‘‘ نئی دہلی سے جاری کیا۔ اُس وقت سے اب تک الرسالہ میںمیرے اس قسم کے تعمیری مضامین چھپ رہے ہیں۔
میں اپنے اسلوب کے مطابق، اِس موضوع کو واقعات کی زبان میں لکھتا رہا ہوں۔ اِس سلسلے میں قدیم وجدید تاریخ کے سبق آموز واقعات، میں نے بڑی تعداد میں شائع کئے ہیں۔ اِ س واقعاتی اسلوب نے کثیر تعداد میں لوگوں کو زندگی کا نیا حوصلہ دیا ہے۔
عبد المحیط خاں کی زندگی اِس معاملے میں ایک عملی مثال کی حیثیت رکھتی ہے۔ اُن کو عام طورپر اے ایم خان کہاجاتا تھا۔ اپنے حلقے میں وہ اِسی نام سے مشہور تھے۔ اپنے مزاج کے مطابق، انھوں نے کبھی کسی سے رعایت نہیں چاہی اور نہ اُنھیں کبھی کسی سے کوئی فیور(favour) ملا۔ انھوںنے اپنی محنت اور اپنی دیانت داری سے اپنے لیے ممتاز جگہ بنائی۔ میںنے الجمعیۃ ویکلی اور ماہ نامہ الرسالہ میں اُن کے بارے میں چند صفحات شائع کیے تھے، وہ یہاں کسی تبدیلی کے بغیر نقل کئے جاتے ہیں۔
استحقاق پیدا کیجئے
مسٹر عبد المحیط خاں ہائر سکنڈری کے امتحان میں اچھے نمبر سے پاس ہوئے تھے۔ مگر کسی وجہ سے وہ بروقت آگے داخلہ نہ لے سکے، یہاں تک کہ اکتوبر کا مہینہ آگیا۔ اب بظاہر کہیں داخلہ ملنے کی صورت نہ تھی۔ تاہم تعلیم کاشوق ان کو ہندو سائنس کالج کے پرنسپل کے دفتر میں لے گیا۔
’’جناب، میں بی ایس سی میں داخلہ لینا چاہتا ہوں‘‘۔ انھوں نے ہندو پرنسپل سے کہا۔
’’یہ اکتوبر کا مہینہ ہے، داخلے بند ہوچکے ہیں، اب کیسے تمھارا داخلہ ہوگا۔‘‘
’’بڑی مہربانی ہوگی اگر آپ داخلہ لے لیں، ورنہ میرا پورا سال بے کار ہوجائے گا‘‘۔
’’ہمارے یہاں تمام سیٹیں بھر چکی ہیں، اب مزید داخلے کی کوئی گنجائش نہیں‘‘۔
پرنسپل اتنی بے رخی برت رہا تھا کہ بظاہر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ ہرگز داخلہ نہیں لے گا اور اب اگلا جملہ طالب علم کو شاید یہ سننا پڑے گا کہ ’’کمرے سے نکل جاؤ‘‘۔ مگر طالب علم کے اصرار پر پرنسپل نے بددلی سے پوچھا ’’تمھارے مارکس (marks) کتنے ہیں‘‘۔ پرنسپل کا خیال تھا کہ اس کے نمبر یقینا بہت کم ہوںگے، اِسی لیے اس کو کہیں داخلہ نہیں ملا۔ چناں چہ طالب علم جب اپنے خراب نتیجہ (result)کو بتائے گا تو اس کی درخواست کو رد کرنے کے لیے معقول وجہ ہاتھ آجائے گی، مگر طالب علم کا جواب اس کی امید کے خلاف تھا۔ طالب علم نے کہا جناب 85 فی صد(Sir, eighty five per cent.)۔
اس جملہ نے پرنسپل پر جادو کا کام کیا۔ فوراً اس کا موڈ بدل گیا۔ اس نے کہا ’’بیٹھو، بیٹھو‘‘۔ اس کے بعد پرنسپل نے طالب علم کے کاغذات دیکھے اور جب کاغذات نے تصدیق کردی کہ واقعی وہ پچاسی فی صد نمبروں سے پاس ہوا ہے تو اسی وقت پرنسپل نے پچھلی تاریخ میں د رخواست لکھوائی۔ اس نے عبدالمحیط خاں کو نہ صرف تاخیر کے باوجود اپنے کالج میں داخل کرلیا، بلکہ کوشش کرکے ان کو وظیفہ (scholarship)بھی دلوایا۔
یہی طالب علم اگر اس حالت میں پرنسپل کے پاس جاتا کہ وہ تھرڈ کلاس پاس ہوتا اور پرنسپل اس کا داخلہ نہ لیتا تو طالب علم کا تاثر کیا ہوتا۔ وہ اس طرح لوٹتا کہ اس کے دل میں نفرت اور شکایت بھری ہوتی۔وہ لوگوں سے کہتا کہ یہ سب تعصب کی وجہ سے ہوا ہے، ورنہ میرا داخلہ ضرور ہونا چاہیے تھا۔ داخلہ نہ ملنے کی وجہ اس کا خراب نتیجہ ہوتا، مگر اس کا ذمہ دار وہ ہندو کالج کو قرار دیتا— ماحول کا رد عمل اکثر خود ہماری حالت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ مگر ہم اس کو ماحول کی طرف منسوب کردیتے ہیں، تاکہ اپنے آپ کو اس سے بری الذمہ ثابت کرسکیں۔
اگر آدمی نے خود اپنی طرف سے کوتاہی نہ کی ہو، اگر زندگی میں وہ اُن تیاریوں کے ساتھ داخل ہوا ہو جو زمانے نے مقرر کی ہیںتو دنیا اس کو جگہ دینے پر مجبور ہوگی۔وہ ہر ماحول میں اپنا مقام پیدا کرلے گا، وہ ہر بازار سے اپنی پوری قیمت وصول کرے گا۔ مزید یہ کہ ایسی حالت میںاس کے اندر اعلیٰ اخلاقیات کی پرورش ہوگی۔ وہ اپنے تجربات سے جرأت، اعتماد، عالی حوصلگی، شرافت، دوسروں کا اعتراف، حقیقت پسندی اور ہر ایک سے صحیح انسانی تعلق کا سبق سیکھے گا۔ وہ شکایت کی نفسیات سے بلند ہو کر سوچے گا۔ ماحول اس کو تسلیم کرے گا، اس لیے وہ خود بھی ماحول کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوگا۔
اِس کے برعکس، اگر اس نے اپنے آپ کو اہل (competent) ثابت کرنے میں کوتاہی کی ہو۔ اگر وہ وقت کے معیار پر پورا نہ اترتا ہو۔ اگر وہ کم تر لیاقت کے ساتھ زندگی کے میدان میں داخل ہوا ہو تو لازماً وہ دنیا کے اندر اپنی جگہ بنانے میں ناکام رہے گا۔ اس کے نتیجے میں اس کے اندر جو اخلاقیات پیدا ہوں گی، وہ بلاشبہہ پست اخلاقیات ہوں گی۔ وہ شکایت، جھنجھلاہٹ، غصہ، حتی کہ مجرمانہ ذہنیت کا شکار ہو کر رہ جائے گا۔ جب آدمی ناکام ہوتا ہے تو اس کے اندرغلط قسم کی نفسیات ابھرتی ہیں۔اگر چہ آدمی کی ناکامی کی وجہ ہمیشہ اپنی کمزوری ہوتی ہے، مگر ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو قصور وار ٹھہرائے۔ وہ ہمیشہ اپنی ناکامیوں کے لیے دوسروں کو مجرم ٹھہراتا ہے۔وہ صورتِ حال کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کرنے سے قاصر رہتا ہے۔
کم تر تیاری آدمی کو بیک وقت دو قسم کے نقصانات کا تحفہ دیتی ہے— اپنے لیے بے جا طورپر ناکامی کا احساس، اور دوسروں کے بارے میں بے جا طور پر شکایت۔
پتھر ہر ایک کے لئے سخت ہے، البتہ وہ اس آدمی کے لیے نرم ہوجاتا ہے جو اس کو توڑنے کا اوزار رکھتاہو۔ یہی صورت ہر معاملے میں پیش آتی ہے۔ اگر آپ لیاقت اور اہلیت کے ساتھ زندگی کے میدان میں داخل ہوئے ہوں تو آپ اپنی واقعی حیثیت سے بھی زیادہ حق اپنے لیے وصول کرسکتے ہیں۔’’وقت‘‘ گزرنے کے بعد بھی ایک اجنبی کالج میں آپ کا داخلہ ہوسکتاہے۔ لیکن اگر لیاقت اور اہلیت کے بغیر آپ نے زندگی کے میدان میں قدم رکھا ہے تو آپ کو اپنا واقعی حق بھی نہیں مل سکتا۔
گیس نیچے نہیں سماتی تو اوپر اٹھ کر وہ اپنے لئے جگہ حاصل کرتی ہے۔ پانی کو اونچائی آگے بڑھنے نہیں دیتی تو وہ نشیب کی طرف سے اپنا راستہ بنا لیتا ہے۔ درخت سطح کے اوپر قائم نہیں ہوسکتا تو وہ زمین پھاڑکر اس سے اپنے لیے زندگی کا حق وصول کرلیتا ہے۔ یہ طریقہ جو غیر انسانی دنیا میں خدا نے اپنے براہِ راست انتظام کے تحت قائم کررکھا ہے، وہی طریقہ انسان کو بھی اپنے حالات کے اعتبار سے اختیار کرنا ہے۔
ہر آدمی جو دنیا میں اپنے آپ کو کامیاب دیکھنا چاہتا ہو، اس کو سب سے پہلے اپنے اندر کامیابی کااستحقاق پیدا کرنا چاہیے۔ اس کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو جانے اور پھر اپنے حالات کو سمجھے۔ وہ اپنی قوتوں کو صحیح ڈھنگ سے منظم کرے۔ جب وہ ماحول کے اندر داخل ہو تو اس طرح داخل ہو کہ اس کے مقابلے میں اپنی اہلیت ثابت کرنے کے لیے وہ اپنے آپ کو پور ی طرح تیار کرچکا ہو۔ اس نے حالات سے اپنی اہمیت منوانے کے لیے ضروری سامان کرلیا ہو۔ اگر یہ سب ہو جائے تو اس کے بعد آپ کے عمل کا جو دوسرا لازمی نتیجہ سامنے آئے گا، وہ وہی ہوگا جس کا نام ہماری زبان میں کامیابی ہے۔ (الجمعیۃ ویکلی، دہلی 24نومبر 1967)۔
ایک واقعہ
مسٹر عبد المحیط خاں نے 28 جون 1995 کی ملاقات میںاپنی سروس کے زمانے کے کئی سبق آموز تجربات بتائے۔ ان میں سے ایک تجربہ یہاں درج کیا جاتا ہے۔
مسٹر اے ایم خان نے 1955 میں بنارس ہندو یونی ورسٹی سے الکٹریکل انجینئرنگ میں بی ای (B.E.) کی ڈگری لی۔ 1963 میں چندولی (ضلع بنارس، یوپی) کے پرائیویٹ پالی ٹیکنیک میں ایک جگہ خالی ہوئی۔ یہ سینئر لکچرر کی جگہ تھی۔ اسی کے ساتھ کامیاب امیدوار کو الیکٹریکل انجینئرنگ ڈپارٹمنٹ کے ہیڈ (head) کا عہدہ بھی سنبھالنا تھا۔
اس کا انٹرویو بنارس کے کمشنر جے بی ٹنڈن کی سرکاری رہائش گاہ پر تھا۔ کمشنر صاحب چندولی پالی ٹیکنیک میں بحیثیت عہدہ اس کی مینیجنگ کمیٹی کے صدر بھی ہوتے تھے۔ چناںچہ وہ بھی انٹرویو میں شریک تھے۔ انٹرویوبورڈ کے ایک پروفیسر رام سَرن تھے۔ دوسرے رکن پروفیسر گیرولا تھے۔ پروفیسر گیرولا بنارس ہندو یونیورسٹی میں مسٹر خان کے استاد رہ چکے تھے۔
پروفیسر رام سرن نے مسٹر خان سے سوال کرتے ہوئے پوچھا کہ— کیا آپ جانتے ہیں کہ انسٹرومنٹ ٹرانسفارمر کیا ہوتا ہے:
Mr. Khan, do you know what is instrument transformer?
مسٹر خان نے ابھی سوال کا جواب نہیں دیا تھا کہ پروفیسر گیرولا نے کمشنر ٹنڈن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اِس جاب کے لیے سب سے بہتر امیدوار ہیں۔ ان کے لیے انٹرویو دینے کا کوئی سوال نہیں:
He is the best candidate for the job. There is no question for interview.
اس کے بعد پروفیسر گیرولا نے کہا کہ — مسٹر خان، آپ جاسکتے ہیں:
Mr. Khan, you can go.
پروفیسر سرن جنھوں نے سوال کیا تھا، وہ خاموش رہے۔ مسٹر خان اپنے کاغذات لے کر کمرہ سے باہر آگئے۔ ایک ہفتہ کے بعد ان کو حسب قاعدہ اپائنٹمنٹ لیٹر مل گیا۔ وہ چندولی پالی ٹیکنیک میں سینئر لکچرر مع ہیڈ آف دی ڈپارٹمنٹ الکٹریکل انجینئرنگ مقرر ہوگئے۔ اس کے بعد ان کی ترقی ہوتی رہی، یہاں تک کہ وہ جوائنٹ ڈائرکٹر (ٹکنکل ایجوکیشنل) کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔
آج کل اکثر نوجوان یہ کہتے ہوئے ملیں گے کہ روزگار نہیں، مگر زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ قابلِ روزگار افراد نہیں۔مسٹر اے ایم خان کے ساتھ مذکورہ واقعہ اِسی لیے پیش آیا کہ انھوں نے محنت کے ساتھ تعلیم حاصل کی۔ وہ ہمیشہ اچھے نمبروں سے پاس ہوئے، تعلیم کے دوران ان کا کردار نہایت عمدہ رہا۔ پروفیسرگیرولا اور دوسرے متعلق لوگوں کے درمیان ان کی تصویر نہایت عمدہ بنی۔ اِسی کی وہ قیمت تھی جو مذکورہ شان دار واقعہ کی صورت میں انھیں ملی۔
حقیقت یہ ہے کہ ہر ادارہ اور ہر دفتر اچھے کارکن کو چاہتا ہے، کیوں کہ اس کے بغیر اس کا کام درست طورپر نہیں چل سکتا۔ کوئی بھی آدمی اپنا دشمن نہیں، اِس لیے کوئی بھی آدمی اچھے کارکن کو نظر انداز کرنے والا نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اچھا اور قابلِ اعتماد کارکن دوسروں کی ضرورت ہے۔ آپ دوسروں کی ضرورت بن جائیے۔ اور پھر آپ کے لیے روزگار حاصل کرنا کچھ بھی مشکل نہ ہوگا۔
اِس دنیا کا نظام دو طرفہ لین دین پر چل رہا ہے۔ یہاں شکایت اور احتجاج اور مطالبہ کی کوئی قیمت نہیں۔ اِس دنیا کا سادہ اصول یہ ہے کہ — جتنا دینا اتنا پانا۔ اگر آپ روزگار حاصل کرنا چاہتے ہیں، تو اپنے آپ کودوسروں کے لیے مفید بنا ئیے۔ اپنے اندر وہ مہارت پیدا کیجئے جس کی دوسروں کو ضرورت ہے، اور پھر آپ کو کسی سے کوئی شکایت نہ ہوگی۔ اِس کے بعد آپ دیکھیں گے کہ آپ کو روزگار تلاش کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس کے بعد روزگار خود آپ کو تلاش کرے گا، حتی کہ یہ حال ہوجائے گا کہ آپ آگے ہوں گے اور روزگار آپ کے پیچھے۔
جب بھی آپ دنیا میں کوئی جگہ چاہیں اور دنیا والے آپ کو وہ جگہ دینے پر تیا ر نہ ہوں تو دوسروں کی شکایت نہ کیجئے بلکہ یہ یقین کرلیجئے کہ آپ کے اندر کوئی کمی ہے جس کی بنا پر آپ دوسروں کے لیے قابلِ قبول نہ ہوسکے، اور پھر اس کمی کو دور کرنے میں لگ جائیے۔ اِس کے بعد آپ کو دوسروں سے کوئی شکایت نہ ہوگی۔
برادرم عبد المحیط خاں کے بارے میں اُن کی زندگی میں، میں نے کئی تحریریں شائع کی تھیں۔ اِن تحریروں میں ان کی زندگی کے وہ پہلو شامل ہوتے تھے جن میں عام لوگوں کے لیے سبق (lesson) ہے۔ انھیں تحریروں میں سے ایک تحریر وہ ہے جو انٹرویو کے انداز میں دہلی کے اخبار ’’الجمعیۃ ویکلی‘‘ کے شمارہ 15 ستمبر 1967میں چھپی تھی۔ یہ انٹرویو پورا کا پورا ایک سبق آموز انٹرویو تھا۔ یہ انٹرویو اخبار میں حسب ذیل عنوان کے تحت چھپا تھا:
ایسی مثالیں بھی ہیں
اِس مطبوعہ انٹرویو کو کسی تبدیلی کے بغیر یہاں نقل کیا جاتاہے:
’’میرا رکشا اب شہر کے باہر ایک صاف ستھری سڑک پر چل رہا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک انتہائی وسیع میدان میں نئی تعمیر شدہ عمارتوں کا ایک سلسلہ نظرآیا، جس کے سامنے ایک بورڈ پر لکھا ہوا تھا— ’’گورنمنٹ ٹکنکل انسٹی ٹیوٹ‘‘ اِس کا مطلب یہ تھا کہ میںاپنی منزلِ مقصودپر پہنچ گیا ہوں۔ ’’پرنسپل صاحب کا بنگلہ کون سا ہے‘‘۔ میں نے قریب کھڑے ہوئے کچھ طلبا سے سوال کیا۔ ’’وہ سامنے جو عمارت ہے، وہی پرنسپل صاحب کا بنگلہ ہے‘‘۔ بیک وقت کئی لڑکے بول پڑے۔اب میرا رکشا ایک خوب صورت مکا ن کے سامنے کھڑا تھا جس کا حلیہ بتاتا تھا کہ وہ جلد ہی بن کر تیار ہوا ہے۔ سامنے پلاسٹک کی کالی پلیٹ پر سفید حرفوں میں لکھا ہوا تھا:
A. M. Khan, Principal
اب مجھے پورا طمینان ہوگیا کہ یہی اس شخص کی رہائش گاہ ہے جس سے ملنے کے لیے میں اس وقت یہاں آیا ہوں۔ میں فوراً رکشے سے اتر گیا۔
میں نے کال بیل (call bell) کا بٹن دبایا اور جواب کے انتظار میں مکان کے باہر ٹہلنے لگا۔ سرکاری طورپر تعمیر شدہ رہائش گاہ ’’کلاس ون آفیسر‘‘ کے شایانِ شان تھی۔ مگر میں نے دیکھا کہ اس کے رکھ رکھاؤ کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ مکان کے چاروں طرف وسیع زمین سوکھی پڑی تھی۔ گملوں کی قطار اور السیشین (Alsatian) کا ہیبت ناک چہرہ بھی اس کی رونق بڑھانے کے لیے موجود نہیں تھا۔ موٹر گیرج تو بناہوا تھا، مگر وہ خالی تھا۔ چپراسیوں کی فوج بھی کہیں دکھائی نہیں دیتی تھی۔
تھوڑی دیر کے بعد ایک لڑکے نے دروازہ کھولا۔ اب میں ملاقات کے کمرہ میں تھا۔ یہ کمرہ بھی بس سادگی کی تصویر تھا۔ نہ صوفہ سٹ، نہ بیش قیمت قالین، نہ آرائش کے سازوسامان۔ میرا پہلا تاثر یہ ہوا کہ مسٹر خان ’’آمدنی‘‘ کرنے کے بہترین مقام پر ہوتے ہوئے بھی صرف سرکاری تنخواہ پر قناعت کرتے ہیں۔ میں جانتا تھا کہ انجینئرنگ کے ادارہ کا ایک پرنسپل اپنی تنخواہ کے علاوہ، بہت بڑی کمائی کرسکتا ہے۔ اگر مسٹر خان اس سنہرے موقع سے فائدہ اٹھاتے تو گھر کے اندر اور باہر کا یہ نقشہ نہ ہوتا۔
میں مسٹر خان سے پہلی بار اس وقت متاثر ہوا جب وہ ہمارے یہاں پالی ٹیکنیک میں لکچرر کی حیثیت سے کام کررہے تھے۔ ان کا خاص مضمون میتھمیٹکس اور الکٹریکل انجینیئرنگ تھا۔اپنے مضمون سے انھیں اس طرح دل چسپی تھی جیسے کسی نوجوان کو فلم اور ناول سے دلچسپی ہوتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ وہ اپنے مضمون پر بے حد تیار تھے۔ اور اس طرح پڑھاتے تھے کہ ان کے ایک شاگرد کے الفاظ میں ’’بالکل گھول کر پلا دیتے تھے‘‘۔پالی ٹیکنیک میں جن درجات کو انھوں نے پڑھایا تھا، ان کا نتیجہ سو فی صد کامیاب رہا۔ میں انھیں خیالات میں غرق تھا کہ اتنے میں پیچھے کا پردا اٹھا او رمسٹر خان کمرہ میں داخل ہوئے۔ ایک انتہائی شریف انسان، ہنس مکھ چہرہ اور پُروقار شخصیت کے ساتھ میرے سامنے کھڑا تھا۔
’’مسٹر خان‘‘ ابتدائی گفتگو کے بعد میں نے کہا ’’میں اِس وقت آپ کے پاس اس لیے آیاہوں کہ آپ اپنی زندگی کے کچھ تجربات مجھے بتائیں۔ خاص طورپر وہ تجربات جو آپ کے پیشہ (profession)سے متعلق ہیں‘‘۔
’’میں کیا اور میرے تجربات کیا‘‘ مسٹر خان نے سادگی کے ساتھ جواب دیا۔
’’تجربات تو ہر شخص کے ہوتے ہیں اور آپ کے تجربات بھی یقینا ہوں گے‘‘۔
’’ہاں، اس لحاظ سے میں بھی کچھ تجربات کا نام لے سکتا ہوں‘‘۔
ٹھیک ہے، آپ جس حیثیت سے بھی بتائیں، مجھے تو آپ کے تجربات معلوم کرنے ہیں۔ خاص طور پر وہ تجربات جو آپ کی ملازمت کی زندگی سے متعلق ہیں۔‘‘
’’اس سے آپ کی کیا مراد ہے، یعنی آپ کس قسم کے تجربات مجھ سے سننا چاہتے ہیں‘‘۔
’’آپ مسلمان ہوتے ہوئے ایک اچھی سرکاری ملازمت میں ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے۔ کیا ہندستان میں مسلمانوں کے لیے اس کا موقع ہے کہ وہ اعلیٰ سرکاری ملازمتوں میں پہنچ سکیں اور پہنچنے کے بعد عزت کے ساتھ رہیں‘‘۔میں نے سوال کو متعین کرتے ہوئے کہا۔یہ سنتے ہی مسٹر خان کا موڈ بدل گیا۔ ایسا محسوس ہوا جیسے کسی نے ان کی نازک رگ کو چھیڑ دیا ہے۔ ’’یقینا‘‘ انھوں نے کہا۔ ’’میرے نزدیک یہ دونوں باتیں ممکن ہیں۔ اگر کوئی چیز ناممکن ہے تو وہ خود ہمارے اندر موجود ہے‘‘۔
’’براہِ کرم، تفصیل سے بتائیے کہ آپ کا کیا مطلب ہے‘‘۔میں نے کہا۔
’’آپ کو معلوم ہے کہ میری انجینئرنگ کی تعلیم ہندو یونی ورسٹی میں ہوئی ہے۔‘‘ انھوںنے کہنا شروع کیا۔ ’’اس وقت سے لے کر اب تک میرا سابقہ ہمیشہ ہندؤوں سے رہا۔ حالاں کہ میں نے کبھی مصالحت یا خوشامد پسندی کے نظریہ کے تحت کوئی بات نہیں کی، اور نہ میں نے کبھی اپنی اسلامیت کو چھپایا۔ مگر خدا کا شکر ہے کہ مجھے کبھی کسی سے شکایت نہیں ہوئی۔ میں نے 1955 ء میں بی ایس سی (انجینئرنگ) پاس کیا۔ اگرچہ میرا سکنڈ کلاس آیا تھا، مگر جب میںنے اپنے ہندو اساتذہ سے تصدیق (testimonial) کے لیے کہا تو انھوں نے نہایت فراخ دلی کے ساتھ اپنی تحریریں مجھے عطا کیں۔ مثلاً الیکٹریکل کمیونی کیشن کے پروفیسر نے اپنی تصدیق میں میرا تعارف کراتے ہوئے لکھا:
I am confident that Mr. A. M. Khan will prove his merit in any branch of his profession.
(مجھے پورا اعتماد ہے کہ مسٹر خان اپنے پیشہ کے کسی بھی کام میں اپنی اہلیت ثابت کریں گے)
سول انجینئرنگ کے ہندو ریڈر نے یہ بتاتے ہوئے کہ میں اپنے موجودہ مطالعہ کی بنیاد پر جونیر ڈگری یا ڈپلوما کلاسز کو آسانی سے لے سکتا ہوں، میرے بارے میں لکھا:
...and after some experience, any classes without limitation.
(اور کچھ تجربات کے بعد مسٹر خان بلا قید کوئی بھی کلاس لے سکتے ہیں)
’’یہ الفاظ تو نہ صرف یہ کہ بے تعصبی کا ثبوت ہیں، بلکہ وہ اپنی حد سے بھی کچھ آگے بڑھے ہوئے ہیں‘‘۔ میں نے اپنا تاثر ظاہر کرتے ہوئے کہا۔ ’’واقعی اگر آدمی لیاقت کا ثبوت دے تو کوئی وجہ نہیں کہ دنیا اسے تسلیم نہ کرے‘‘۔ ’’جی ہاں‘‘ مسٹر خان نے کہا۔ ’’مجھے لیاقت کادعویٰ تو نہیں ہے، مگر یہ ضرور ہے کہ میں اپنا کام محنت اور دیانت داری سے کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اب تک میں ملازمت کے تحت تین کالجوں میں رہا ہوں۔ اور تینوں جگہ کا میرا تجربہ یہی ہے کہ اگر آدمی اپنا کام ٹھیک طریقہ سے کرے تو اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ پیش نہیں آسکتی‘‘۔ کیا براہِ کرم، آپ اپنے کچھ ایسے تجربات بتائیں گے جن سے آپ کے اِس خیال کی واقعاتی تائید ہوتی ہو‘‘ میں نے کہا۔ ’’ضرور‘‘ مسٹر خان نے کہنا شروع کیا۔
’’سب سے پہلے جس ٹکنکل انسٹی ٹیوٹ میں میرا تقرر ہوا تھا، اس کا قصہ سنئے۔ وہاں ابتداء ً میں ہیڈ ماسٹر کی حیثیت سے کام کررہا تھا۔ ایک ہندو ٹیچر کو معلوم نہیں مجھ سے کیا ضد ہوگئی کہ وہ میرے خلاف ادھر اُدھر کی باتیں کرنے لگے۔ ایک روز تنخواہ تقسیم کرنے کا دن تھا۔ وہ میرے آفس آئے اور کچھ بدتمیزی کے انداز میں باتیں کیں۔ مجھے غصہ آگیا اور میں نے ان کو آفس سے نکلوا دیا۔ اب وہ مجھ سے اوربھی خفا ہوگئے، اور میرے خلاف ایک کیس تیار کیا جس میں مجھ پر طرح طرح کے فرضی الزامات قائم کئے اور اس کو لے کر ڈائرکٹریٹ میں پہنچے۔ پہلے انھوں نے آفس سپرنٹنڈنٹ سے ملاقات کی، مگر جب انھوں نے کچھ توجہ نہ دی تو وہ ڈائرکٹر سے ان کے دفتر میں ملے۔ جب انھوں نے ڈائرکٹر سے کہا کہ وہ میرے خلاف شکایت لے کر آئے ہیں تو ڈائرکٹر بہت خفا ہوئے۔ انھوں نے کہا ’’ہم مسٹر خان کے خلاف کوئی شکایت سننا نہیں چاہتے‘‘۔ اور یہ کہہ کر ان کو آفس سے باہر نکلوا دیا۔
’’اور آپ جانتے ہیںیہ ڈائرکٹر کون تھا‘‘۔ مسٹر خان نے مسکراتے ہوئے کہا۔ اور پھر خود ہی جواب دیا ’’وہ کوئی مسلمان نہیں، بلکہ ہندو تھا‘‘۔
’’میں سمجھتا ہوںکہ ایسا اس لیے ہوا کہ ڈائرکٹر کو معلوم ہوگا کہ آپ کسی قسم کی کوئی گڑبڑ نہیں کرتے اور اپنا کام محنت سے انجام دیتے ہیں‘‘میں نے اضافہ کرتے ہوئے کہا۔
’’پھر اسی سے ملتا جلتا قصہ ایک چپراسی کے ساتھ پیش آیا‘‘۔ ہمارے کالج میں بوائلر (boiler) کو نصب کرنے کے سلسلے میں کچھ تعمیرات کی ضرورت تھی۔ میں نے سوچا کہ چپراسیوں کی فوج بے کار پڑی رہتی ہے، ان کو مستریوں کے ساتھ کام پر لگا دوں۔ اِس طرح کام بھی ہوجائے گا اور کالج کا فائدہ بھی ہوگا۔چپراسیوں میں ایک شخص انسٹرکٹر (instructor)کے گریڈ کا تھا۔ اس سے میں نے کہا تو وہ بولا ’’میرا یہ کام نہیں ہے‘‘ مجھے اس کے جواب پر غصہ آیا اور میں نے اس کو معطل (suspend) کردیا، حالاں کہ قانونی طور پر مجھے معطلی کا اختیار نہیں تھا‘‘۔
’’اب اِس ہندو چپراسی نے میرے خلاف زبردست شکایت نامہ تیار کیا اور اس کو ڈائرکٹر کے نام روانہ کیا۔ وہاں سے میرے نام چٹھی آئی کہ ڈائرکٹریٹ میں ایسی ایسی شکایت پہنچی ہے اور یہ کہ میں اس کی وجہ بیان کروں۔ میں نے صحیح صحیح بات لکھ دی۔ اور لکھا کہ میں نے جو کچھ کیا، کالج کے مفاد میں کیا۔ اس کے بعد ڈائرکٹر کا فیصلہ آیا جس میں چپراسی کو اس سے بھی زیادہ سخت سزا دی گئی جو میں نے تجویز کی تھی۔ معطلی میں نصف تنخواہ ملتی ہے۔ ڈائرکٹر نے لکھا کہ اس کو تین مہینے کی بلا تنخواہ جبری رخصت دی جاتی ہے۔ نیز اس کو بد عملی (misconduct) کا مجرم قرار دیا اور لکھا کہ اس کا اندراج اس کی سروس بک میں کیا جائے‘‘۔
’’مگر حکم کے خلافِ ضابطہ ہونے کا ڈائرکٹر نے کوئی نوٹس نہیں لیا‘‘ میںنے کہا۔ ’’ہاں، اس نے فیصلہ کے آخر میں لکھا کہ ہیڈ ماسٹر کایہ فیصلہ اس کے اختیارات سے باہر تھا، اس لیے آئندہ احتیاط کی جائے‘‘۔
’’کیا آپ کا سابقہ کبھی کسی نیتا سے بھی پیش آیا ہے‘‘ میں نے ایک نیا سوا ل کیا۔
’’ہاں، ایسا بھی ہوا‘‘ مسٹر خان نے کہنا شروع کیا ’’ایک بار ایک خراد مشین (Lathe)کی خریداری کے سلسلے میں ایک دکان دار سات سو روپیہ غلط طورپر وصول کرنا چاہتا تھا۔ میں نے اس کو موقع نہیں دیا۔ اس کے علاوہ کالج کے اسٹاف میں بھی کئی لوگ اسی طرح کی وجوہ کی بنا پر اندر اندر مجھ سے برہم تھے۔ ان لوگوں نے مل کر ایک ایم ایل اے کے ذریعے سے اسمبلی میں میرے خلاف شکایت پہنچا دی۔ وہاں سے ڈائرکٹریٹ میں سوال نامہ آیا جو میرے پاس بھیجا گیا۔ اس میں مجھ پر مختلف قسم کے الزمات تھے، مثلاً—آپ مسلم گُٹ کے بڑے پجاری ہیں۔آپ گھس کھاتے ہیں۔ آپ اپنے کالج میں چوروں کو جگہ دئے ہوئے ہیں، وغیرہ۔
اسی طرح نمبر وار چھ سوالات تھے۔ میںنے ان سوالات کا الگ الگ کوئی جواب نہیں دیا۔ میں نے لکھا کہ یہ سب بالکل بے حقیقت باتیں ہیں اور اس طرح کی باتوں کے بارے میں میں کوئی صفائی دینا نہیں چاہتا۔ البتہ ڈپارٹمنٹ خود جو اقدام چاہے کرے۔ آخر میں میں نے لکھا:
If the department feels the least doubt about me, I may be relieved from my duties.
(اگر ڈپارٹمنٹ کو میرے اوپر ذرا بھی شبہہ ہو تو مجھے میری ملازمت سے الگ کر دیا جائے)
’’اس کے جواب میں پھر میرے پاس کوئی کاغذ نہیں آیا۔ البتہ مجھے معلوم ہوا کہ ایم ایل اے صاحب نے ایک اور لمبی چوڑی فردِ جرم میرے خلاف تیار کرکے روانہ کی جس کو ڈائرکٹر نے اپنے دفتر میں روک لیا اور دوبارہ اس کو میرے پاس نہیں بھیجا۔‘‘
’’آج کل لڑکوں کی طرف سے کالج کے لوگوں کو بڑی شکایت رہتی ہے، اس سلسلہ میں آپ کے تجربات کیا ہیں‘‘ میں نے پوچھا۔’’یہاں بھی وہی بات ہے‘‘ مسٹر خان بولے ’’اگر آپ اپنا کام اچھی طرح سے کریں تو آپ کو کبھی شکایت نہیں ہوگی‘‘۔
’’اس سلسلہ میں آپ اپنا کوئی متعین تجربہ بتائیے‘‘ میں نے کہا۔
’’بہت سے تجربات ہیں‘‘۔ مسٹر خان بولے ’’میں جب دوارکا پالی ٹیکنیک میں سینئر لکچرر کی حیثیت سے کام کررہا تھا، ایک بار ایسا ہوا کہ ہمارے کالج کا ایک لڑکا اپنا کپڑا لینے کے لیے شہر کی واشنگ کمپنی میں گیا۔ وہاں کسی بات پر دکان دار سے جھگڑا ہوا اور دکان دارنے لڑکے کو مار دیا۔ کالج میں جب اس کی خبر پہنچی تو تمام لڑکے بگڑ گئے اور لاٹھی اور بلم لے کر بہت بڑی تعداد میں بازار کی طرف مارچ کرنا شروع کردیا۔ پرنسپل صاحب نے مجھ کو بلوایا، کیوں کہ پرنسپل صاحب کو معلوم تھا کہ لڑکے میرا کچھ لحاظ کرتے ہیں۔ میںوہاں پہنچا تو لڑکے نعرہ لگاتے ہوئے بازار کی طرف بڑھ رہے تھے۔میں فوراً لاٹھیوں اور بلموں سے مسلح اِس مجمع میں گھس گیا، اور کہا کہ تم لوگ آگے نہیں جاسکتے۔ کچھ دیر کی کوشش کے بعد بالآخر لڑکوں نے کہا اچھا، اگر آپ کہہ رہے ہیں تو ہم رک جاتے ہیں، ورنہ آج اِس دکان دار کی خیریت نہیں تھی‘‘۔
’’یہ پرنسپل کس قوم کا آدمی تھا‘‘ میں نے پوچھا ’’ہندو تھا‘‘ مسٹر خان نے کہا ’’اور دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ہندوپرنسپل کی بات لڑکوں نے نہیں مانی اور وہ مسلمان لکچرر کی بات مان گئے‘‘۔ ’’جی ہاں۔ یہ بہت عجیب واقعہ ہے‘‘۔ میںنے کہا۔ ’’اور آپ تو اسی پالی ٹیکنیک کو چھوڑ کر یہاں آئے ہیں۔ پھر آتے وقت لڑکوں کا رد عمل کیا رہا‘‘۔
’’یہ اور بھی زیادہ عجیب واقعہ ہے۔ اور سچ پوچھئے تو مجھے امید نہیں تھی کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے‘‘۔
’’براہِ کرم، اس کی کچھ تفصیل بتائیے‘‘۔
’’وہ بھی سن لیجئے۔ سب سے پہلے تو یہ ہوا کہ روانگی سے دو دن پہلے لڑکوں کی ایک جماعت میرے پاس آئی اور اس نے اصرار کیا کہ کل آپ دن بھر ہم کو پڑھائیے اور کورس پورا کردیجئے‘‘۔
’’شاید ان کو احساس تھا کہ آپ کے بعد کوئی ایسا پڑھانے والا ان کو نہیں ملے گا‘‘۔میں نے کہا۔
’’ہاں، بہر حال ان کو میرے بارے میں اس قسم کی خوش گمانی تھی‘‘۔ مسٹر خان نے کچھ رکتے ہوئے کہا ’’چناں چہ حال میں وہاں کے ایک لکچرر مجھ سے ملے تو انھوںنے بتایا کہ میرے آنے کے بعد جس ہندو لکچرر کو میرا کلاس دیاگیا تھا، کچھ دن کے بعد لڑکوں کا کہنا تھا کہ خاں صاحب جتنا پڑھا گئے تھے، وہی ہم جانتے ہیں، اس کے بعد کا کچھ ہماری سمجھ میں نہیں آیا‘‘۔
پھر روانگی کے دن لڑکوں نے مجھ کو جو الوداعی پارٹی دی، لوگ کہتے ہیں کہ وہ کالج کی پوری تاریخ میں نرالی پارٹی تھی۔
’’اس کی بھی تفصیل بتائیے‘‘ میں نے کہا ’’پارٹی کے بعد‘‘ مسٹر خان نے ہچکچاہٹ کے انداز میں کہنا شروع کیا ’’ایک ایک لڑکے نے مجھ کو ہار پہنائے۔ یہ ہار مقدار میں اتنے زیادہ ہوگئے کہ بلامبالغہ ایک بیل گاڑی ان سے بھری جاسکتی تھی۔ پھر یہ طلبہ چوںکہ تقریباً سب کے سب ہندو تھے، اِس لیے اپنے اصول کے مطابق، ہر ایک نے ’’چرن اسپرش‘‘ بھی کیا، یعنی ہر لڑکا ہار پہنانے کے بعد دونوں ہاتھ جوڑ کر میرے پاؤں چھوتا تھا‘‘۔
’’اس موقع پر آپ کو سپاس نامہ بھی تو دیا گیا ہوگا‘‘۔ میں نے کہا۔
’’جی ہاں‘‘ مسٹر خان نے کہا۔ اس کے بعد انھوںنے بڑے سائز پر فریم کیا ہوا ایک ’’ابھی نندن پتر‘‘ (سپاس نامہ) اندر سے منگوایا۔ میںنے دیکھا تو اس میں مسٹر خان کو نہایت عزت اور محبت کے ساتھ خطاب کیا گیا تھا اور ان کو ’’آدرش گرو‘‘، ’’گیان نِدھی‘‘، ’’سوم تیاگی مورتی‘‘ ، ’’گیان ساگر‘‘ وغیر ہ الفاظ سے یاد کیا گیا تھا۔ اِسی کے ساتھ لڑکوں نے کئی اور قیمتی سامان اظہارِ خلوص کے طورپر مسٹر خان کو دیے۔
’’اس کے بعد سیکڑوں کی تعداد میں تمام لڑکے میرے ساتھ اِس طرح اسٹیشن آئے کہ وہ راستہ بھر نعرہ لگا رہے تھے‘‘۔ ’’کیا نعرہ تھا‘‘ میں نے پوچھا۔ ’’وہی جو عام طور پر ہوتا ہے‘‘۔
’’آخر بتائیے کہ وہ نعرے کیا تھے‘‘۔ میں نے اصرار کرتے ہوئے کہا۔
’’یہی کہ — خان صاحب زندہ باد، گروجی زندہ باد، خان صاحب امر رہیں،وغیرہ‘‘۔ پھرجب لڑکوں نے آخری طورپر مجھے رخصت کیا تو تمام لڑکے زار وقطار رو رہے ـتھے‘‘۔
’’یہ واقعی نہایت عجیب واقعہ ہے‘‘میں نے کہا۔اور جب یہ خیال کیا جائے کہ یہ واقعہ ابھی 1966 کے آخر میں پیش آیا ہے تو اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ ایک مسلمان اگر واقعی اپنا کام ٹھیک طریقہ سے انجام دے تو سارے تعصب کے باوجود وہ ہندؤوں کے اندر انتہائی عزت کا مقام حاصل کرسکتا ہے اور اگر ساری قوم ایسی ہوجائے تو تعصب کی دیوار سرے سے ڈھ جائے‘‘۔
’’جی ہاں‘‘ مسٹر خان نے کہا ’’میں تو تعصب وغیرہ کی بات کو بالکل نہیں مانتا۔اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بطور واقعہ مجھے تعصب کے وجود سے انکار ہے۔ بلا شبہہ تعصب ہے۔ مگر ہر کام میں کچھ نہ کچھ مشکلیں ہوتی ہیں اور تعصب کی حیثیت بھی میرے نزدیک بس زندگی کے ایک ’’چیلنج‘‘ کی ہے۔ جس طرح دوسرے چیلنجوں کو محنت اور دانش مندی سے عبور کیاجاتا ہے، اِسی طرح اِس چیلنج کو بھی یقینی طورپر عبور کیا جاسکتا ہے۔ زندگی میں دیکھنے کی چیز یہ نہیں ہوتی کہ کوئی مشکل ہے یا نہیں، بلکہ دیکھنے کی چیز صرف یہ ہوتی ہے کہ مشکل کا کوئی حل موجود ہے یا نہیں۔ اگر حل موجود ہے تو پھر کوئی مشکل مشکل نہیں‘‘۔
میں مسٹر خان کی اِن باتوں کو حیرت کے ساتھ سن رہا تھا۔ کیوں کہ میرا خیال تھا کہ وہ صرف انجینئر ہیں، مگر معلوم ہوا کہ وہ انجینئر ہی نہیں، بلکہ مفکر بھی ہیں۔ ان کے پاس ہندستان کے مسلمانوں کے لیے ایک عظیم پیغام ہے۔ ایک ایسا پیغام جو بہت سے مفکروں اور لیڈروں کے پیغامات سے زیادہ قیمت رکھتا ہے۔
’’اب تعصب کی بات پر ایک قصہ اور سُن لیجئے‘‘ مسٹر خان کچھ دیر خاموش رہ کر بولے۔
’’جس پالی ٹیکنیک کو چھوڑ کر میں یہاں آیا ہوں، اس کے پرنسپل ہندو تھے اور نہایت متعصب ہندو۔ وہاں کام کے دوران مجھے دو جگہیں ملیں۔ ایک، آئی ٹی آئی (I.T.I) میں ٹکنکل افسر کی جگہ اور دوسرے یہاں پرنسپل کی جگہ، مگروہ کسی طرح مجھے relieve کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے۔ بڑی لمبی کش مکش اور حکومت کے سخت احکام کے بعد انھوں نے مجھے چھوڑا ہے‘‘۔
’’شاید متعصب ہونے کی وجہ سے وہ آپ کو پریشان کرنا چاہتے ہوں گے‘‘ میں درمیان میں بولا۔’’ہاں، عام خیال تو یہی تھا‘‘ مسٹر خان نے کہا۔ ’’مگرمجھے ان کی ایک تحریر ملی جو انھوںنے کمشنر کے نام لکھ کر بھیجی تھی۔ اِس سے اندازہ ہوا کہ معاملہ صرف تعصب کا نہیں تھا‘‘۔
’’وہ کیا تحریر تھی‘‘ میں نے پوچھا۔
’’یہ دو صفحہ کا ایک خط تھا جس میں انھوں نے بتایا تھا کہ کیوں مجھ کو یہاں سے relieve کرنا کالج کے لیے نقصان دہ ہے۔ اس تحریر کا آخری جملہ یہ تھا:
The departure of Mr. A. M. Khan from this institute would cause the education of students to suffer an irreparable loss.
(مسٹر اے ایم خان کا اس ادارے سے جانا لڑکوں کی تعلیم کے لیے ایسے نقصان کا باعث ہوگا جس کی تلافی نہیں کی جاسکتی)
اب ملاقات کا وقت ختم ہوچکا تھا اور مسٹر خان کی نگاہیں اپنی گھڑی کی سوئی پر جم چکی تھیں۔
’’مسٹر اے ایم خان‘‘ میںنے کہا ’’مجھے آپ سے مل کر بے حد خوشی ہوئی۔ مجھے آپ کی زندگی میں مسلمانوں کے لیے ایک عظیم پیغام نظر آتا ہے۔ میں اِس پیغام کو سارے مسلمانوں تک پہنچاؤں گا۔ مجھے یقین ہے کہ مسلمان اگر آپ کے نمونہ کو پکڑ لیں تو ان کے بہت سے مسائل خود بخود ختم ہوجائیں گے‘‘۔ (الجمعیۃ ویکلی، صفحہ 5-6 )
تعلیم کا شوق
برادرم عبد المحیط خاں کو تعلیم کا بہت شوق تھا۔ وہ تعلیم کو بہت زیادہ اہمیت دیتے تھے۔ خود انھوں نے نہایت محنت کے ساتھ تعلیم حاصل کی۔ پہلے انھوں نے ایک گھریلو استاد ماسٹر صدیق صاحب سے گاؤں (بڈھیریا) پر تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد انھوںنے اعظم گڑھ سے ہائی اسکول پاس کیا۔ اِس کے بعد ان کی بقیہ تعلیم ہندو یونی ورسٹی (بنارس) میں ہوئی۔ تعلیم کے زمانے میں شروع سے آخر تک ظہیر الاسلام مرحوم اُن کے ساتھی تھے۔ تعلیم سے فراغت کے بعد ظہیر الاسلام صاحب نے علی گڑھ مسلم یونی ور سٹی میں سروس حاصل کرلی تھی۔ علی گڑھ میں 1988 میں ان کا انتقال ہوا۔
برادرم عبد المحیط خاں تعلیم کے سلسلے میں طلبا کی مدد کرتے رہتے تھے۔ سروس کے زمانے میں وہ طلبا کو الگ سے پڑھایا کرتے تھے۔ رٹائرمنٹ کے بعد انھوںنے طلبا کو میتھمیٹکس پڑھانے کے لیے اپنے گھر پر ایک مستقل سلسلہ شروع کیا تھا۔ اِس سے بہت سے طلبا نے فائدہ اٹھایا۔ اِن طلبا میں زیادہ تعداد ہندو نوجوانوں کی ہوتی تھی۔ تعلیم کے بارے میں وہ نوجوانوں کے ساتھ کس طرح تعاون کرتے تھے، اس کی ایک مثال یہ ہے کہ میرے بھتیجے شکیل احمد خاں انجینئر نے ہائی اسکول کے بعد اپنی تعلیم چھوڑ دی تھی اور اعظم گڑھ میں محمد یونس صاحب کی شرکت میں تیل کی دکان کرلی تھی۔ عبد المحیط خاں کو یہ بات پسند نہیں آئی۔ وہ دکان سے ہٹا کر شکیل احمد خاں کو اپنے ساتھ لے گئے اور بنارس ہندو یونی ورسٹی کے انجینئرنگ کالج میں داخلہ دلوا کر ان کی تعلیم مکمل کرائی۔ شکیل احمد خاں انجینئر تعلیم کے بعد انڈسٹری کے میدان میں آگئے۔ پہلے انھوں نے اپنے والد کے ساتھ الٰہ آباد میں لائٹ اینڈ کمپنی لمیٹڈ قائم کی۔ بعد کو وہ عرب امارات چلے گئے۔ وہاں زیادہ بڑے پیمانے پر وہ شارجہ میں کام کرتے رہے۔ 7 اپریل 2010 کو 70 سال کی عمر میں حیدرآباد (انڈیا) میں ان کا انتقال ہوا۔
جدیدتعلیم (modern education) کا چرچا ہمارے خاندان میں بہت پہلے شروع ہوا تھا۔ میرے چچا زاد بھائی اقبال احمد خاں سہیل (وفات:1955 ) نے بنارس سے ہائی اسکول کیا۔ اس کے بعد وہ مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ گئے۔ وہاں انھوں نے بی اے، ایم اے، ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔ اقبال احمد خاںسہیل علی گڑھ میں ایک نہایت ممتاز طالب علم کی حیثیت رکھتے تھے۔
پروفیسر رشید احمد صدیقی (وفات :1977 ) مولانا اقبال سہیل کے ساتھیوں میں سے تھے۔ مولانا سہیل کی علی گڑھ کی تعلیمی زندگی کے زمانے کا ایک واقعہ وہ اِس طرح بیان کرتے ہیں:
’’1918 یا 1919 کا واقعہ ہے، یونین میں ’’اُمّ الالسِنَۃ عربی‘‘ پر پروفیسر خواجہ کمال الدین مرحوم کی اردو میں تقریر تھی۔ مرحوم نے بڑی قابلیت اور اعتماد کے ساتھ تقریر شروع کی۔ مولانا سہیل کی آنکھوں میں تکلیف تھی۔ سردیوں کا زمانہ تھا۔ مولانا کو احباب اسپتال لائے تھے۔ یونین میں مجمع دیکھا تو کہا: مولانا، تکلیف نہ ہو تو ذرا تقریر سنتے چلیں۔ مولانا نے کہا اچھی بات ہے، لیکن آنکھوں میں تکلیف زیادہ ہے، جلد اٹھ آئیں گے۔ سب لوگ یونین میں آئے۔ مولانا سہیل سر سے پاؤں تک بڑے وزنی لبادہ میں ملفوف تھے۔ سرپر اونی کنٹوپ تھا۔ آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی اور اس پر ایک ہرے رنگ کا چھجا (شیڈ) لگا ہوا تھا۔ خواجہ کمال الدین صاحب نے کم و بیش دو گھنٹے تک تقریر کی۔ حاضرین محوِ حیرت تھے۔ تقریر ختم ہوئی تو پریسڈنٹ نے اعلان کیا کہ مولانا سہیل، فاضل مقرر کا طلبائے کالج کی طرف سے شکریہ ادا کریں گے۔ مولانا کے خلاف ’’سازش‘‘ کامیاب ہوئی۔ دوستوں اور ساتھیوں نے مولانا کو ہاتھوں ہاتھ ڈائس پر پہنچا دیا۔ مولانا کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔ میز کے پاس کھڑے کئے گئے۔ تھوڑی سی ناک، اس سے ذرا بڑی تھوڑی اور ہاتھ کی صرف انگلیاں دکھائی دے رہی تھیں۔ مولانانے بے تکلف تقریر شروع کردی۔ اِس اعتماد سے گویا تمام عمر اِسی مبحث پر تیاری کی تھی۔ جو لوگ یونین کے مجمع سے واقف ہیں، وہ جانتے ہوں گے کہ اچھے مقرر کے بعد کسی اور کی تقریر سننے کے لیے کوئی نہیں ٹھہرتا اور صدر کا شکریہ بھی اِسی بد نظمی کا ایک سلسلہ ہوتا ہے۔ مولانا سہیل نے بھی ’’اُم الالسنہ عربی ‘‘ پر تقریر شروع کی۔ پون گھنٹے تک تقریر کی۔ نئے نئے پہلوؤں سے موضوع پرروشنی ڈالی۔ نئی نئی مثالیں پیش کیں۔ تقریر کو اِس درجہ دل نشیں اور کہیں کہیں اتنا شگفتہ بنا دیا کہ خواجہ کمال الدین نے بے اختیار ہو کر مولانا کو گلے لگا لیا اور فرمایا: ’’تمھارے ایسا جامعِ کمالات آدمی ساتھ کام کرنے والا مل جائے تو میں اسلام کا جھنڈا یورپ کی سب سے بلند چوٹی پر نصب کردوں‘‘۔ (مضامینِ رشید، صفحہ 43)
اقبال احمد خاں سہیل کے ذریعے خاندان کے اور بہت سے لوگوں نے جدید تعلیم حاصل کی۔ میرے بڑے بھائی عبد العزیز خاں کا داخلہ انھوںنے اعظم گڑھ کے ایک اسکول میں کرایا، لیکن عبدالعزیز خاں صاحب اپنی تعلیم آگے تک جاری نہ رکھ سکے۔ وہ جلد ہی انڈسٹری کی لائن میں چلے گئے۔
عبد العزیز خاں صاحب نے عبد المحیط خاں کو یونی ورسٹی کی تعلیم دلائی۔ اِس کے بعد عبد المحیط خاں نے میرے بھتیجے شکیل احمد خاں کو بنارس ہندو یونی ورسٹی سے انجینئرنگ کی تعلیم دلائی۔
بعد کو مجھے یہ خیال ہوا کہ ہمارے خاندان میں افراد کے اعتبارسے تو جدید تعلیم آئی، لیکن اجتماعی اعتبار سے کوئی خاص کام نہ ہوسکا۔ چناں چہ میں نے شکیل احمد خاں سے کہا کہ ہمارے وطن بڈھیریا (اعظم گڑھ) میں ایک انگریزی اسکول کھولا جائے۔ اِس طرح بڈھیریا میں ایک ہائی اسکول قائم ہوا جو کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے۔ اِس اسکول کا آئڈیا میں نے ہی دیا تھا۔ چناں چہ اسکول کے تعارف نامے میں یہ الفاظ درج ہیں:
It was during one of the discussions between Shakil Ahmad Khan and his uncle, Maulana Wahiduddin Khan, that the idea of establishing an educational institution was conceived.
یہ معاملہ ڈسکشن (discussion) کا نہ تھا، بلکہ وہ سجیشن (suggestion) کا معاملہ تھا۔ اصل یہ ہے کہ 2000ء کے آغاز میں میرے بھتیجے شکیل احمد خاں انجینئر جو شارجہ میں کاروبار کرتے تھے، دہلی میں مجھ سے ملے۔ انھوں نے بتایا کہ میرے پاس کچھ رقم ہے، اُس کو میں کسی ملّی کام میں لگانا چاہتا ہوں۔ مسٹر شکیل احمد خاںنے بتایا کہ انھوں نے کچھ مشہور مسلم اداروں کے ذمہ داروں کے سامنے یہ پیش کش کی کہ وہ یہ رقم ان کو دے دیں گے، لیکن شرط یہ ہے کہ ایک مقرر مدت تک ادارہ کا کنٹرول میرے ہاتھ میں ہوگا، مگر کسی نے یہ شرط نہ مانی۔
میں نے شکیل احمد خاں سے کہا کہ اِس طرح آپ اپنا پیسہ صرف ڈمپ (dump) کریںگے۔ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ میں نے کہا کہ آپ یہ کیجئے کہ اس رقم سے بڈھریا میں ایک اچھا انگلش میڈیم اسکول کھولیے۔ شکیل صاحب نے اس تجویز سے اتفاق کیا اور اِس طرح ہمارے خاندان کی مشترک زمین پر یہ اسکول ستمبر 2000ء میں قائم ہوا۔
موت کا زندہ تصور
31 جنوری 2010 کو میرے چھوٹے بھائی انجینئر عبد المحیط خاں (پیدائش: 1932 )کا انتقال ہوگیا۔ انتقال کے وقت وہ فیض آباد میں تھے۔ ان کی عمر77 سال تھی۔میںنے اپنی لمبی عمر میں ہزاروں افراد کو مرتے ہوئے دیکھا ہے یا ان کی موت کی خبر سنی ہے۔ لیکن میرے بھائی کی موت میرے لیے ایک بالکل نیا تجربہ تھا۔ اس نے میرے اندر ایک نیا تصور پیدا کیا۔ اس کو اگر میںکوئی نام دوں تو میں کہوں گا کہ موت کا زندہ تصور (living concept of death) ۔
میںنے غور کیا کہ موت کے بارے میں یہ نیا شعور میرے اندر کیوں پیدا ہوا۔ اصل یہ ہے کہ ہم لوگ 6بھائی بہن تھے۔ چھوٹے بھائی کے انتقال کے بعد مجھے اچانک محسوس ہوا کہ میرے سوا تمام بھائی بہن مرچکے ہیں۔ اِس اعتبار سے، اب میں اکیلا رہ گیا ہوں۔ اِس احساس سے مجھے سخت جھٹکا لگا۔ میں نے سوچا کہ میرے بھائی اور بہن کل تک اِسی دنیا میںتھے جہاں کہ میں ہوں، لیکن اب وہ ایک ایک کرکے مرچکے ہیں، یہاں تک کہ 6بہن بھائیوں میں اب میں اکیلا رہ گیا ہوں۔ وہ لوگ اِس دنیا سے نکل کر ایک اور دنیا میں پہنچ چکے ہیں۔ اب نہ وہ مجھ سے مل سکتے ہیں اور نہ میں اُن سے مل سکتا۔ موت نے مجھ کو اپنے تمام بھائی بہنوں سے ابدی طورپر جدا کردیا۔
موت کیا ہے۔ موت ایک جبری انخلا (compulsory expulsion) کا معاملہ ہے۔ موجودہ زندگی میں ہر آدمی اپنے لیے ایک دنیا بناتا ہے— گھر، جائداد، بزنس، اولاد، تعلقات، شہرت، عوامی حلقہ، عہدہ، سماجی پوزیشن، وغیرہ۔ اِن تمام چیزوں کی بنیاد پر ہر آدمی کی اپنی ایک چھوٹی یا بڑی دنیا ہوتی ہے، جس کے اندر وہ اپنے صبح و شام گزارتا ہے۔ وہ اس کو اپنی دنیا سمجھتا ہے۔ لیکن اچانک موت کا وقت آجاتا ہے اور فرشتے اس کو جبری طورپر موجودہ دنیا سے نکال کر اُس دنیا میں پہنچا دیتے ہیں، جہاں اس کے پاس اپنے ذاتی وجود کے سوا کچھ اور نہیں ہوتا— موت کے واقعے کو صرف وہ شخص جانتا ہے جو اِس حقیقت کا زندہ شعور رکھتا ہو۔
عبد المحیط خاں کی یادداشتیں
عبد المحیط خاں مرحوم رٹائرمنٹ کے بعد زیادہ تر علی گڑھ اور فیض آباد میں رہتے تھے۔ اِس زمانے میں اُن پر زیادہ تر موت کی یاد اور آخرت کی سوچ کا غلبہ ہوتا تھا۔ وہ اپنا زیادہ وقت ’’تذکیر القرآن‘‘ اور دوسری اسلامی کتابیں پڑھنے میں گزارتے تھے۔ مطالعے کے دوران وہ الرسالہ اور میری کتابوں کے منتخب حصے ایک نوٹ بک میں لکھتے رہتے تھے۔ اِس طرح ان کی بہت سی تحریریں متفرق اجزا کی صورت میں جمع ہوگئی ہیں۔ ان کی وفات کے بعد ان کی تحریروں کا یہ مجموعہ ان کی صاحب زادی فہمیدہ خانم نے مجھ کو دیا۔یہاں اِن اقتباسات کے کچھ منتخب حصے نقل کئے جاتے ہیں:
ک معرفت، خدا کی شعوری دریافت کا نام ہے، وہ کسی پُراسرار چیز کانام نہیں۔
ک معرفت اپنی حقیقت کے اعتبار سے، ایک خدائی عطیہ (divine gift) ہے۔ دنیا میں جس انسان کو معرفت کا عطیہ ملا، وہی وہ انسان ہے جو آخرت میں جنت کے عطیہ کا مستحق قرار پائے گا۔ معرفت گویا کہ کسی انسان کے لیے خدا کا دنیوی انعام ہے، اور جنت کسی انسان کے لیے خداکا اُخروی انعام۔
ک معرفت صرف اُس سینے میں جگہ پاتی ہے جو مکمل طورپر منفی احساس سے خالی ہو۔ جس دل کے اندر نفرت اور غصہ اور انتقام موجود ہو، اُس دل میں کبھی معرفت جگہ نہیں پائے گی۔
ک دعا ایک طاقت ہے۔ نازک وقتوں میں دعا مومن کا سب سے بڑا سہارا ہے۔ دعا اس اعتماد کا سرچشمہ ہے کہ اس دنیا میں کوئی کھونا آخری نہیں، بلکہ ہر کھونے میںاز سرِ نو پانے کا راز چھپا ہوا ہے۔
ک شکر سب سے بڑی عبادت ہے۔ شکر جنت کی قیمت ہے۔ شکر کے بغیر ایمان نہیں۔ شکر کے بغیر سچی خدا پرستی نہیں۔ شکر کے بغیر آدمی اُن اعلیٰ کیفیات کا تجربہ نہیں کرسکتا جس کو قرآن میں ربّانیت (3: 79)کہاگیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دین داری کی اصل روح شکر ہے۔ شکر کے بغیر دین داری ایسی ہی ہے جیسے پھل کااوپری چھلکا۔
ک آخرت میں نجات صرف اُن لوگوں کو ملے گی جو خدا کے یہاں اِس حال میں پہنچیں کہ اُن کے پاس دو میں سے کوئی ایک چیز اپنی اعلیٰ صورت میں موجود ہو۔وہ دو چیزیں یہ ہیں— سچا عمل، یا سچی دعا۔ سچا عمل وہ ہے جو خالص رضائِ الٰہی کے لیے کیا جائے۔ اور سچی دعا وہ ہے جو کامل عجز کی سطح پر کی گئی ہو۔
ک جنت کیا ہے، جنت دراصل خداکے پڑوس میں رہنے کا نام ہے (66:11) ۔ موت سے پہلے کی دنیا میں مومن اپنے احساس کے اعتبار سے، خدا کے پڑوس میں جیتا ہے۔ موت کے بعد کی دنیا میں مومن واقعہ کے طورپر خدا کے پڑوس میں زندگی گزارے گا۔
ک جنت ایک حقیقی انعام ہے اور حقیقی انعام کسی کو ایک حقیقی عمل ہی کے ذریعے مل سکتا ہے، اِس سے کم تر درجے کی کوئی چیز جنت کی قیمت نہیں بن سکتی۔
ک جو لوگ اپنی موجودہ زندگی میں جنت کے طالب نہ بن سکیں، جن کا دل جنت کے سوا کسی اور چیز میں لگاہواہو، وہ اللہ کے مطلوب انسان نہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنھوں نے اللہ کی نعمتوں کی قدر نہیں کی۔ ان کا کیس ناقدری کا کیس ہے، نہ کہ قدردانی کا کیس۔
ک آخرت کی جنت اُس کے لیے ہے جو اِس دنیا کی لذتوں سے اپنے آپ کو بے رغبت بنالے، اور آخرت کی جہنم اُس کے لیے ہے جو اِس دنیا کی لذتوں میں گم رہے، یہاں تک کہ وہ اِسی حال میں مرجائے۔
ک جہنم کے دروازے پر لوگوں کی بھیڑ لگی ہوئی ہے، اور جنت کی طرف جانے والا راستہ بالکل سونا پڑا ہوا ہے۔ کیسا عجیب ہے یہ غیر خدائی منظر جو آج خدا کی دنیا میں ہر طرف نظر آتا ہے۔
ک موت زندگی کا خاتمہ نہیں۔ موت ایک نئے دور حیات کا آغاز ہے۔ عقل مند انسان وہ ہے جو آج کے ملے ہوئے مواقع کو کل کے لیے استعمال کرے۔
ک موت کے مقابلے میں ہر ایک کے لیے شکست مقدر ہے۔ کسی کا عہدہ، کسی کی مقبولیت، کسی کی دولت، کسی کا اقتدار، غرض کسی کی کوئی چیز اِس کو ہر گز موت سے بچانے والی نہیں۔
ک کیسا عجیب ہے آج کا وہ موقع جس کو انسان کھورہا ہے، اور کیسی بھیانک ہوگی کل کی وہ محرومی جس سے انسان دوچار ہوگا، اور جس سے اپنے آپ کو بچانا کسی کے لیے ممکن نہ ہوگا۔
ک موت کا مطلب مرنے والے کے لیے یہ ہے کہ وہ عمل کی دنیا سے نکل کر جزا کی دنیا میں چلا گیا۔ وہ اپنے خالق کے سامنے حساب وکتاب کے لیے کھڑا کردیاگیا۔ جہاںتک زندہ رہنے والوں کا معاملہ ہے، موت اُن کے لیے ایک سنگین یاد دہانی (reminder) کی حیثیت رکھتی ہے۔
ک لوگ اپنی سال گرہ(birthday) مناتے ہیں، حالاں کہ ہر سال گرہ صرف اِس بات کا اعلان ہے کہ آدمی کی عمر کا ایک سال اور کم ہوگیا۔ ایسی حالت میں، ہر عورت اور مرد کو چاہیے کہ وہ ہر سال کی تکمیل پر آنے والی موت کو یاد کرے۔ کیوں کہ اگلی سال گرہ کا آنا یقینی نہیں، لیکن موت کا آنا یقینی ہے۔
ک موت ایک ایسا گیٹ ہے جس کے اندر آدمی داخل ہونے کے لئے مجبور ہے۔ اور داخل ہونے کے بعد اس کو خالقِ کائنات کا آخری فیصلہ (final judgement)سننا ہے۔ اِس فیصلے کے خلاف اپیل کے لئے کوئی اور عدالت موجود نہیں۔
ک موت کا فرشتہ کبھی اپائنٹمنٹ (appointment) لے کر نہیں آتا، وہ بتائے بغیر اچانک آدمی کے پاس آجاتا ہے۔ عقل مندانسان وہ ہے جو ہر دن کواپنا آخری دن سمجھے۔
ک جو آدمی دوسروں کی موت کے واقعے میں خود اپنی موت کو دیکھے، وہی زندہ انسان ہے۔زندہ انسان اِس کا انتظار نہیں کرتا کہ خود اُس پر ایک مہلک تجربہ گزرے، اس کے بعد وہ اُس سے سبق لے۔ زندہ انسان وہ ہے جو دوسروں پر گزرنے والے تجربات سے نصیحت حاصل کرے۔
ک مرنے والے مرگئے— یہ سب کو معلوم ہے۔ مگر ایک اور خبر ایسی ہے جو کسی کو معلوم نہیں، وہ یہ کہ مجھے بھی ایک دن مرنا ہے۔ ایک دن میرا بھی وہی انجام ہونے والا ہے جو انجام دوسروں کا ہوچکا ہے۔
ک ہر آدمی اپنی ساری توانائی خرچ کرکے زیادہ سے زیادہ پیسہ کماتا ہے، صرف اِس لیے تاکہ وہ جہنم کا زیادہ مہنگا ٹکٹ خرید سکے— یہ جملہ اکثر نہایت درد کے ساتھ میری زبان سے نکل جاتا ہے۔
ک آدمی اپنے بچوں کے مادّی مستقبل کی تعمیر میں اپنے آپ کو ہلکان کئے رہتاہے، یہاں تک کہ موت کا فرشتہ آجاتاہے اور خود اُس کو ایک ایسے مستقبل کی طرف ہانک دیا جاتا ہے جس کے لیے اس نے کوئی تیاری نہیں کی تھی۔
ک امتحان ہال کے اندر ایک طالب علم جس نفسیات کے ساتھ رہتا ہے، اُسی نفسیات کے ساتھ ہم کو اپنی پوری زندگی میں رہنا ہے۔ ہر ایک کو یہ کوشش کرنا ہے کہ وہ خدا کی طرف سے دیے ہوئے پرچے کو درست طور پر حل کرے، تاکہ امتحان کی مدت پوری ہونے کے بعد جب اُس کا رزلٹ سامنے آئے تو وہ اُس کے لیے کامیابی کی خوش خبری ہو، نہ کہ ناکامی کا اعلان۔
ک آخرت کی جنت صرف اُس انسان کے لیے مقدر ہے جو اللہ کی خاطر دنیا کی جنت سے محروم ہوگیا ہو۔
ک آج لوگوں کے پاس الفاظ ہیں جن کو وہ بے تکان دہرارہے ہیں۔ مگر ایک وقت آنے والا ہے جب کہ ان کے الفاظ چھن چکے ہوں گے۔ وہاں کوئی سننے والا نہ ہوگا جو ان کی باتوں کو سنے۔
ک زندگی ایک بے اعتبار چیز ہے، جب کہ موت بالکل یقینی ہے۔ ہم ہر لمحہ موت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ہم زندگی کے مقابلہ میں موت سے زیادہ قریب ہیں۔جو چیز ابھی اگلے لمحہ آسکتی ہو، وہ گویا ہر وقت آرہی ہے۔ اس کے متعلق یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ وہ آچکی ہے، بجائے اس کے کہ یہ کہا جائے کہ وہ آنے والی ہے۔ اسی لیے حدیث میںارشادہوا ہے کہ ’’اپنے آپ کو قبر والوں میں شمار کرو‘‘۔
ک آدمی زندگی چاہتا ہے۔ مگر بہت جلد اس کو معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں صرف موت اس کا استقبال کرنے کے لیے کھڑی ہوئی ہے۔
ک انسان اپنی عظمت کا محل تعمیر کرتا ہے، مگر موت کا طوفان اس کو تنکوں کی طرح اڑا کر یہ سبق دیتاہے کہ انسان کو اس دنیا میں کوئی قدرت حاصل نہیں۔
ک فیصلہ کا یہ دن ہر آدمی کی طرف دوڑا چلا آرہا ہے۔ اس دن ہر آدمی اپنی اصل صورت میں ظاہر ہو جائے گا۔ خواہ اس نے اپنے اوپر کتنے ہی زیادہ پردے ڈال رکھے ہوں، خواہ اس نے اپنے آپ کو کتنے ہی خوب صورت الفاظ میں چھپا رکھا ہو۔
ک ہر آدمی کی اصل حقیقت خدا کے علم میں ہے، مگر دنیا میں خدا لوگوں کی حقیقت کو چھپائے ہوئے ہے۔ آخرت میں وہ ہر ایک کی حقیقت کو کھول دے گا۔ وہ وقت آنے والا ہے جب کہ خدا کی ترازو کھڑی ہو اور ہر آدمی کو تول کر دیکھا جائے کہ کون کیا تھا اور کون کیا نہیں تھا۔ اس وقت کا آنا مقدر ہے۔ کوئی شخص اپنے آپ کو اس سے بچا نہیں سکتا۔ کامیاب صرف وہ ہے جو آج ہی اپنے آپ کو خدا کی ترازو میں کھڑا کرے، کیوں کہ جو شخص کل خدا کی ترازو میں کھڑا کیا جائے، اس کے لیے بربادی کے سوا اور کچھ مقدر نہیں۔
ک موت سے پہلے آدمی کو بہت سے کام نظر آتے ہیں۔ مگر موت کے بعد آدمی کے سامنے صرف ایک ہی کام ہوگا— یہ کہ خدا کے غضب سے وہ کس طرح بچے۔
ک ہر آدمی چل رہا ہے ۔ہر آدمی کا چلنا موت پر ختم ہوتا ہے۔ موت کسی کے لیے جنت کا دروازہ ہے اور کسی کے لیے جہنم کا دروازہ۔ وہ انسان بڑا خوش قسمت ہے جس کی موت اس حال میں آئے کہ وہ اپنے آپ کو جنت کے دروازے پر کھڑا ہوا پائے۔
ک آہ، وہ انسان جس کو اُسی چیز کا شوق نہیں جس کا اسے سب سے زیادہ شوق کرنا چاہیے۔ آہ، وہ انسان جو اسی چیز سے سب سے زیادہ بے خوف ہے جس سے اسے سب زیادہ خوف کرنے کی ضرورت ہے۔
ک زندگی عمل کا وقفہ ہے اور موت خدا کی عدالت میں پیشی کا وقت۔
ک ایک دعا — خدایا، جب اہلِ دنیا سے میرا ساتھ چھوٹے تو مجھے خداوند ِذوالجلال کی قربت حاصل ہوجائے۔ مجھے انسانوں کی مجلس سے اٹھنا پڑے تو مجھے فرشتوں کی مجلس میں شامل ہونا نصیب ہوجائے۔ جب موت مجھے اپنے لوگوں سے منقطع کردے تو میں اکیلا نہ ہوجاؤں، بلکہ مجھے اعلیٰ تر مجلس میں خدا اور اس کے فرشتوں کی صحبت میں رہنے کی سعادت حاصل ہوجائے۔
فہمیدہ خانم کا خط
برادرم عبد المحیط خاں کے پس ماندگان میں تین خواتین شامل ہیں— اُن کی اہلیہ عابدہ خاتون (پیدائش: 1942)، ان کی دو لڑکیاں،فہمیدہ خانم (پیدائش:1964 )، اور سعیدہ خانم (پیدائش:1965 )۔ فہمیدہ خانم فیض آباد (یوپی) میں رہتی ہیں اور دوسری صاحب زادی بمبئی میں مقیم ہیں۔ عبد المحیط خاں کے متعلقفہمیدہ خانم کا ایک خط مجھے ملا ہے۔ اُس کو یہاں نقل کیا جاتاہے:
’’تعلیم ختم ہونے کے بعد پاپا (عبد المحیط خاں)نے کئی جگہ تھوڑے دن سروس کی۔ جیسے Hydel. Dep. Jamia, وغیرہ۔ پھر ان کو ٹیکم گڑھ (مدھیہ پردیش) میں سروس ملی۔ وہاں سے پروموشن (promotion) کے بعد وہ چندولی پالی ٹیکنیک میں سینئر لیکچرر کی پوسٹ پر آئے۔ پھر جلد ہی پالی ٹیکنیک کے پرنسپل ہوگئے تھے۔سروس کرنے کے تقریباً 2 سال بعد ہی ان کی شادی 1959میں عابدہ خاتون سے ہوئی۔عابدہ خاتون، شاہ گنج (جون پور، یوپی) کے مشہور ڈاکٹر بدر الدین بی یو ایم ایس (وفات: 1985) کی صاحب زادی ہیں۔ پاپا، امی سے بے انتہا محبت کرتے تھے جس کو خاندان کا ہر فرد جانتا ہے۔امی نے بھی ہر موقع پر ان کا پورا ساتھ دیا۔ ان کی مرضی کے بغیر کبھی کوئی کام نہیں کیا۔ ہمیشہ ان کی پسند، نا پسند کا خیال رکھا۔ آخری دنوں میں انھوںنے امی سے کہا تھا: ’’تمھاری حکیمانہ باتوں سے مجھے بہت سکون ملتاہے‘‘۔
وہ گھر سے جب بھی آفس کے لیے نکلتے تھے، یا کسی اور کام سے، پہلے وہ 2 رکعت نماز ادا کرتے، اور دعائیں پڑھ کر ہم لوگوں کو پھونک دیتے، پھر گھر سے نکلتے تھے۔ ایک بات جو امی سے وہ اکثر مسکرا کرکہتے تھے ’’آپ میری ناک ہیں، اور دونوں بیٹیاں میری آنکھ ہیں‘‘۔ اِس طرح وہ ہم سب سے بہت محبت کرتے تھے۔
انھوں نے جس طرح محنت سے پڑھائی کی، اسی طرح انھوںنے محنت اور ایمان داری سے سروس بھی کی۔ 37 سال کی سروس میں ان کی ایمان داری پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکا۔ وہ ہمیشہ حق پر قائم رہتے تھے، چاہے وہ کسی کا بھی معاملہ ہو۔ عہد کرنے کے بعد عہد کی خلاف ورزی کو وہ بہت ناپسند کرتے تھے۔ ان کے بارے میں ہر جگہ مشہور تھا کہ وہ بہت ایمان دار ہیں اور غلط چیز کو بالکل پسند نہیں کرتے۔ اس لیے جہاں بھی ان کا ٹرانسفر ہوتا، لوگ ڈر جاتے تھے۔ اِسی طرح وہ سری نگر (گڑھوال، مدھیہ پردیش) دو دفعہ گئے تھے۔ پہلی بار وہاں پالی ٹیکنیک کھلنے جارہا تھا۔ دوسری دفعہ وہاں کے حالات بہت خراب ہوگئے تھے۔ پاپا وہاں 3 سال رہے، پھر وہ فیض آباد پالی ٹیکنیک آگئے۔ یہاں کے حالات بہت خراب ہوگئے تھے۔ وہ زیادہ تر وہیں بھیجے جاتے تھے، جہاں حالت بگڑی رہتی۔ فیض آباد میں ان کے آنے کی خبر سنتے ہی لوگ اتنا ڈر گئے کہ پہلے سال کوئی لڑکا امتحان دینے ہی نہیں آیا کہ نقل نہیں ہوگی اور اِس طرح ان لوگوں کا ایک سال خراب ہوگیا۔
دوسرے سال پھر یہ ہوا کہ خان صاحب ہیں اور نقل کی سختی ہے تو کچھ لوگوں نے لڑکوں کو غنڈہ گردی سکھائی، اُس وقت اندرا گاندھی کی گورنمنٹ تھی اور ایمرجنسی کا زمانہ تھا۔ پالی ٹیکنیک کی نمائش لکھنؤ میں لگی ہوئی تھی۔ پاپا لکھنؤ گئے ہوئے تھے۔ یہاں لڑکوں نے احتجاج میں روڈ ویز کی بس پالی ٹیکنیک کے سامنے جلا دی۔ اِس طرح کافی بچے جیل چلے گئے اور وہ سال بھی تقریباً خرا ب ہوا۔پاپا نے ڈی ایم سے کہہ کر لڑکوں کو جیل سے نکلوایا۔ اُس وقت فیض آباد کے ڈی ایم سچدا نند پانڈے (Sachidanand Pandey) تھے، وہ پاپا کو بہت زیادہ مانتے تھے۔ ابھی تک پاپا ان کی بات بتا کر انھیں یاد کرتے تھے۔ اس زمانے میں اے سی آر (ACR) ڈی ایم لکھا کرتا تھا۔ پاپا سے وہ اتنا خوش رہتے تھے کہ انھوںنے پاپا کے لیے جو اے سی آر لکھا، اتنا اچھا اے سی آر کسی نے نہیں لکھا۔
جب 1997 میں جنتا پارٹی کی حکومت آئی تو اُس وقت کے اسٹیٹ منسٹر نے کچھ لڑکوں کا داخلہ کرانے کے لیے اُن کے پاس بھیجا۔ اِن لڑکوں کے مارکس داخلے کے لیے کافی نہ تھے۔اِس کو پاپا نے سختی سے رد کردیا اورلڑکوں کا داخلہ نہیں لیا۔اس وجہ سے منسٹر صاحب اتنے ناراض ہوئے کہ انھوںنے پاپا کے ٹرانسفر کا آرڈر لکھوا دیا۔ آرڈر کو ٹائپ کراکے وہ کیبنٹ منسٹر کے ساتھ فیض آباد آئے، جب پاپا نے کیبنٹ منسٹر سے اپنے خلاف شکایت سنی تو انھوں نے بھری محفل میں کیبنٹ منسٹر کو، اسٹیٹ منسٹر صاحب کی ساری باتیں بتائیں کہ انھوںنے یہ کیا اور یہ کیا اور بغیر اجازت کے بچوں کے ہاسٹل میں جاکر اُن کو میرے خلاف بھڑکایا۔ پاپا پندرہ سے بیس منٹ تک منسٹر صاحب کے خلاف بولے۔ جب کیبنٹ منسٹر کو ساری باتیں معلوم ہوئیں تو وہ ناراض ہوئے اور انھوںنے لکھ دیا کہ خان صاحب فیض آباد سے نہیں جائیں گے، وہ یہیں رہیں گے۔ اس طرح وہ پھر 5 سال فیض آباد میں رہے۔ جب وہ فیض آباد سے گئے ہیں، اُس وقت وہ یوپی کا سب سے اچھا پالی ٹیکنیک مانا جاتا تھا۔
اِسی طرح پاپا زیادہ تر اس جگہ بھیجے جاتے جہاں ڈسپلن (discipline) نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی، وہ بہت پریشان ہوتے اور کبھی کبھی ہمت بھی ہار جاتے۔ مگر پھر بڑے ابا (مولانا وحید الدین خاں) کو خط لکھ کر پوچھتے تھے، ان کے خط کو وہ ابھی تک سنبھال کر رکھتے تھے۔ (بڑے ابا ہی کی کتابوں کو پڑھ کر پاپا آخر وقت میں اتنے دین دار ہوگئے تھے کہ ان کو دیکھ کر احساس ہوتا تھا کہ اسی کو سچا مومن اور اللہ کا حقیقی بندہ کہتے ہیں)۔اس طرح پھر وہ سنبھل کر اپنی ہمت کو بڑھاتے تھے اور ہمیشہ کامیاب ہوئے۔ یہاں اس سلسلے میں پاپا کے نام بڑے ابا کے دو خطوط نقل کئے جاتے ہیں:
برادرم سلام مسنون
اس سے پہلے ایک خط لکھ چکا ہوں۔ امید کہ ملا ہوگا۔ تمھارے خط میں جس پریشانی کا ذکر تھا، اس کی وجہ سے دل برابر تمھاری طرف لگا رہا اور تمھارے لئے دعائیں کرتا رہا۔ اللہ تعالیٰ مدد فرمائے اور تمھارے مسائل کو حل کردے۔
تمھاری اصل مشکل تمھاری معیار پسندی (idealism) ہے۔ تمھاری خواہش یہ رہتی ہے کہ لوگ صحیح طریقہ سے رہیں اور ٹھیک کام کریں۔ یہ خواہش اچھی ہے۔ مگر اس میں اپنے آپ کو اتنا زیادہ involve کردینا ٹھیک نہیں ہے کہ خوداپنی صحت و عافیت بھی خطرہ میں پڑ جائے۔ ایک حدیث میں ہے کہ لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرو۔ مگر جب دیکھو کہ تمھاری کوشش کے باوجود لوگ اصلاح نہیں قبول کررہے ہیں تو تم خود اپنی فکر کرو: فإذا رأیت شحاً مطاعاً، وہوی متبعاً، وإعجاب کلّ ذی رأی برأیہ، فعلیک نفسک، ودع عنک أمرَ العوام۔یعنی جب تم دیکھو کہ لوگ حرص کی پیروی کررہے ہیں اور خواہشات کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور ہر شخص اپنی ہی رائے کو ٹھیک سمجھتا ہے تو اپنے آپ کو بچاؤ اور لوگوں کو چھوڑ دو۔
میرا خیال ہے کہ اس حدیث میں تمھارے لیے بڑی نصیحت ہے۔ تم بس اسی کو پکڑ لو۔ جتنا وقت تم لوگوں کے لئے کڑھنے میں لگاتے ہو، اس کو نماز، مطالعہ قرآن اور اسلامی کتابوں کے پڑھنے میں لگاؤ، یہ تمھاری دنیا و آخرت کے لیے زیادہ مفید ہوگا۔
آج کا انسان اتنا زیادہ بگڑ چکا ہے کہ وہ کچھ سننے کے لئے تیار نہیں۔ لوگوں کے سوچنے کی سطح اُس سے بالکل مختلف ہے جو ہماری ہے۔ اس لئے ہماری کوئی بات ان کے دماغ میں بیٹھتی ہی نہیں۔ زندگی بہت مختصر ہے۔ اس کے بعد ہر آدمی کو آخرت کا سفر کرنا ہے، پھر لوگوں کے پیچھے بے فائدہ کڑھنے میں اپنا وقت کیوں ضائع کیا جائے۔ کیوں نہ اس وقت کو اپنی آخرت کی تعمیر کے لئے استعمال کیا جائے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ترقی یا اضافۂ تنخواہ وغیرہ کے بارے میں بہت زیادہ سوچنا چھوڑ دو۔ حدیث میں ہے کہ آدمی کو اتنا ہی ملتاہے جتنا اس کے لیے لکھ دیا گیا ہے۔ اس لئے غم میں پڑ کر آدمی صرف اپنے کو ہلکان کرتا ہے۔ وہ مقدر کو بدل نہیں سکتا۔
مزید یہ کہ جن لوگوں کی بڑی بڑی تنخواہیں ہیں، ان میں سے کسی کو میں نے خوش نہیں دیکھا۔ لیبیا میں بہت سے ایسے لوگوں سے قریبی تعلق رہا جن کی تنخواہیں 8 سے 10 ہزار روپئے مہینہ تھیں۔ مگر سب اندر سے سخت قسم کے ذہنی تناؤ (frustration) میں مبتلا تھے۔ وہ مجھ کو رشک کی نظر سے دیکھتے تھے۔ جب کہ میری سرے سے کوئی آمدنی ہی نہیں۔ سارا معاملہ اللہ توکل ہے۔
حال میں لیبیا کا ایک باشندہ ہندستان آیا تھا اور یہاں ناز ہوٹل میں ٹھہرا تھا۔ وہ مجھ سے ملا اور نہ صرف لیبیا بلکہ تمام عرب ملکوں کو لعن طعن کرتاتھا۔ کہتا تھا کہ ہندستان میں جھونپڑی میں رہنا اچھا ہے بہ نسبت اس کے کہ میں عرب ملک میں کوٹھی میں رہوں۔طرابلس میں مجھے کئی لوگ ملے جو اتنے پریشان تھے کہ جہنم کا ڈر نہ ہو تو خود کشی کرلیں۔ اصل یہ ہے کہ جو مقام آدمی کو ملا نہیں رہتا، اس کو دور سے وہ اچھا دکھائی دیتاہے اور جب وہ مل جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ تو نیا عذ۱ب ہے۔ تم کو میری مخلصانہ نصیحت ہے کہ تم حالات کو اپنی رفتار پر چھوڑ دو جس طرح دوسرے پرنسپل چھوڑے رہتے ہیں۔ بس ضروری حد تک اپنے فرائض انجام دو۔ تم اس قسم کی پریشانیوں کو چھوڑ کر قرآن وغیرہ پڑھنا شروع کردو۔ نماز باقاعدہ پڑھو اور اسلامی چیزوں کا مطالعہ کرو۔
اس وقت خط لکھنے کی کوئی ضرورت نہ تھی، مگر تمھاری پریشانی بار بار یاد آتی رہی، اس لئے لکھنے بیٹھ گیا کہ شاید کچھ فائدہ ہو۔ زندگی کا اصل راز دوسروں سے تصادم نہیں ہے، بلکہ حالات کے ساتھ adjustment ہے۔ تمھارا ذہن ہر وقت اس پر کام کرتاہے کہ تم جس طرح ٹھیک سمجھتے ہو، اسی طرح لوگ رہیں۔ اس سوچ کو ختم کردو۔ تم کو بحیثیت مسلمان اس طرح سوچنا ہے کہ دنیا میں مجھے تھوڑے دن کے لیے بھیجا گیا ہے۔ یہاں اپنے اور اپنے اہل وعیال کی ذمہ داریوں کو ادا کرنا ہے اور آخرت کی تیاری کرنا ہے۔ ان دو چیزوں کے سوا کسی بھی تیسری چیز کو تمھیں اہمیت نہ دینا چاہئے۔ کالج کے معاملہ میں ویسا ہی بن جانا چاہیے جس طرح دوسرے پرنسپل رہتے ہیں۔ خوب سمجھ لو کہ اصل مسئلہ اپنے آپ کو بچانا ہے، نہ کہ دوسروں کو۔قرآن میں ہے: یا أیہا الذین آمنوا قُوا أنفسکم وأہلیکم ناراً ۔ یعنی اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤ۔
تم جن چیزوں کے لئے کڑھتے ہو، اس کا کوئی فائدہ نہ دنیا میں ہے نہ آخرت میں۔ تم کو اپنے دماغ کی قوتوں کو اپنی دنیا و آخرت کی بہتری کے لیے لگانا چاہیے۔ دوسروں کو ان کے حال پر چھوڑ دو۔ اگر یہ بالفرض ضروری رہا ہو تو تم نے اپنی طرف سے اتمام حجت کردیاہے۔ اب اس سلسلے میں تمھاری ذمہ داری نہیں ہے۔
میرا مشورہ ہے کہ بروقت تو تم فوراً دو چیزیں شروع کردو۔ ایک، باقاعدہ پنج وقتہ نماز۔ دوسرے قرآن کا ترجمہ۔ ان میں کافی وقت دو۔ دفتر کا کام صرف بقدر ضرورت کرو۔ انشاء اللہ اس سے آئندہ کی راہ کھلے گی اور تمھاری مشکلیں آسان ہوجائیں گی۔
اماں کی خدمت میں سلام۔ عابدہ سلمہا اور بچوں کو دعائیں
دہلی، 17 مئی 1977 وحیدالدین
برادرم عبد المحیط سلام مسنون
تمھارا خط مورخہ 24 مئی 1977 ملا۔ مجھے تمھارے بارے میں بڑی فکر تھی۔ دوبارہ خط لکھنے والا تھا کہ تمھارا کارڈ آگیا۔ یہ معلوم کرکے اطمینان ہو اکہ تم کو خدا کے فضل سے آج کل سکون ہے۔اللہ تعالیٰ تمھاری مدد فرمائے۔اس سے پہلے بھی لکھ چکا ہوں اور دوبارہ لکھتاہوں کہ جیسے دوسرے پرنسپل رہتے ہیں ویسے ہی تم بھی رہو۔ تم کو اپنی جان ہلکان کرنے کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔ کیوں کہ آخرت میں اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ ایک مومن کے لئے اتنا کافی ہے کہ وہ اپنے کام سے کام رکھے اور ارادۃً اپنی ذات سے کسی کو تکلیف نہ پہنائے۔
تم جانتے ہو کہ حاتم طائی فیاض وسخی تھا اور نوشیرواں بڑا عادل تھا۔ مگر حاتم طائی کی سخاوت اور نوشیرواں کے انصاف کا خدا کے یہاں کوئی وزن نہیں۔ کیوں کہ وہ خدا ئی نظام کے تحت نہیں تھا۔ خدا کو تو وہی چیز مطلوب ہے جو اس کے اپنے لئے کی گئی ہو۔ اپنی ضرورتوں کے لیے ہم کو ہر کام کرنے کی اجازت ہے۔ خدا کے نقطۂ نظر سے تمھاری ملازمت کسی خدائی کاز کو پورا کرنے کے لیے نہیں ہے۔ تمھاری ملازمت صرف اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ہے۔ جتنی فکر تم نظام کو ٹھیک کرنے کی کرتے ہو، اتنی ہی خدا کے لئے کرنے لگو تو تمھاری آخرت کے لئے ضرور فائدہ ہو، جب کہ اس کے پیچھے اپنے کو ہلکان کرنے کا کوئی فائدہ نہ دنیا میں ہے اور نہ آخرت میں۔
ایک خاص بات یہ ہے کہ بعض اوقات ’’نیکی‘‘ بھی محض عزت (prestige) کا سوال بن جاتی ہے۔ خیر خیرات کرنا، مذہبی اور اخلاقی باتیں کرنا، رشوت نہ لینا، خلافِ قانون کام نہ کرنا، بظاہر اچھی باتیں ہیں، مگر کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کی مخصوص اسباب سے جو ایک پوزیشن ہوجاتی، اس کا تقاضا ہوتا ہے کہ وہ ایسا کرے۔ وہ خدا کو خوش کرنے کے لئے نہیں، بلکہ اپنی عزت اور نیک نامی کو برقرار رکھنے کے لیے اچھا کام کرتا ہے۔اس قسم کا عمل چوں کہ نیکی کی صورت میں ہوتا ہے، اس لئے آدمی اس کو سمجھ نہیں پاتا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایمان کی اصل تعریف (definition) یہ ہے کہ آدمی اپنے لاشعور(sub-conscious mind) کو دیکھنے لگے۔ اس وقت وہ صحیح معنوں میں خدا کے لئے کام کرسکتا ہے۔
حدیث میں ہے: إنما الأعمال بالنیات (عمل کا دارومدار نیت پر ہے) خدا کے یہاں جو چیز دیکھی جائے گی وہ صرف یہ کہ خالص خدا کے لئے آدمی نے کیا کام کیا۔ جو کام سوچ سمجھ کر پورے ارادہ کے ساتھ خداکے لئے نہیں تو وہ بے فائدہ ہے۔ اس کا کوئی اجر نہیں۔ مجھے امید ہے کہ تم میری باتوں پر ضرور غور کروگے۔ عقل مند وہ ہے جو اُن باتوں کو اہمیت دے جو آخرت میں اہم بننے والی ہیں۔ کسی اور بات کو اہم سمجھ کر آدمی کتنا ہی خوش ہولے۔ موت کے بعد بہر حال اس کو افسوس کرنا پڑے گا۔
اس کی مثال اندرا گاندھی کی زندگی ہے۔ اندرا گاندھی کو ہندستان میں ڈکٹیٹر جیسا اقتدار ملا۔ اس نے سمجھ لیا کہ اہم بات وہ ہے جو اس کے ذہن میں اہم ہو۔ غیر اہم وہ ہے جو اس کو غیر اہم نظر آئے، حتی کہ اندرا گاندھی کو یہ کہنے کی جرأت ہو گئی کہ ’’ایمرجنسی سے پہلے کا دور اب کبھی واپس نہیں آئے گا، مگر جب فیصلہ کا دن آیا تو معلوم ہوا کہ اہم کیا ہے اور غیر اہم کیا، اس کے فیصلہ کا حق اندرا گاندھی کو حاصل نہ تھا۔ اس کا بنایا ہوا نظام اس طرح اچانک اڑ گیا جیسے آندھی میں تنکا۔
اسی طرح آدمی دنیا میں اپنے ذوق، اپنے حالات، اپنی دلچسپیوں کے تحت اپنی زندگی کا ایک ڈھانچہ بنالیتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ حق وہی ہے جو اس کو حق نظر آئے۔ یہ ذہن اس پر اتنا چھاجاتا ہے کہ یہی اس کا لاشعور بن جاتا ہے۔وہ اپنی بنائی ہوئی اسی خیالی دنیا میں زندگی گزارتا رہتاہے، یہاںتک کہ جب موت آتی ہے تو اچانک اس کو معلوم ہوتاہے کہ حقیقت تو کچھ اور تھی۔ اس کی زندگی کی پوری عمارت اس طرح دھڑام سے گر جاتی ہے جیسے اس کی کوئی بنیاد ہی نہ تھی۔ اندرا گاندھی کی مثال میں اللہ تعالیٰ نے اس کا ایک نمونہ دکھایا ہے۔ اندرا گاندھی کے واقعہ میں جو اس حقیقت کو دیکھ لے، اسی نے اندرا گاندھی کے واقعے کو جانا۔ ورنہ وہ خواہ کتنا ہی اخبار پڑھتا ہو، وہ ابھی تک اس واقعہ سے بے خبر ہے۔ جیسے ایک بے روزگار نوجوان اخبار میں "wants" کے کالموں میں گم ہو اور سارا خبار الٹ کر بھی اس کو معلوم نہ ہو کہ اخبار میں اصل خبر کیا تھی۔ میری عادت اتنے خطوط لکھنے کی نہیں ۔ مگر صرف تمھاری خاطر ایسا کررہا ہوں۔
دہلی، 2 جون 1977 وحیدالدین
مجھے یاد ہے کہ کتنے اسٹاف کے لوگ ان کے خلاف ہڑتال (strike) کرتے، نعرہ لگاتے، پتلا بھی جلایا گیا، مگر پھر وہی اسٹاف کے لوگ ان کو اتنا پسند کرنے لگتے کہ وہ ان کے ٹرانسفر ہونے پر روتے تھے۔ ہر وہ جگہ جہاں ڈسپلن (discipline) نہیں ہوتا تھا، وہاں ان کے جانے پر ڈسپلن کا ماحول بن جاتا۔ اس طرح ان کا ریکارڈ اتنا اچھا ہوتا کہ ان کے اوپر کوئی انگلی نہ اٹھا سکا۔ پاپا کا ڈائرکٹر ہمیشہ ان سے ناراض رہتا، کیوں کہ وہ اس کی ساری غلط باتوں کو ناپسند کرتے اور اس کو کرنے سے منع کردیتے۔ اس لیے ان کا پروموشن نہیں کرنا چاہتا تھا۔ لیکن پاپا بہت سینئر تھے۔ اِس طرح ان کا اچھا ریکارڈ ہونے کی وجہ سے ڈائرکٹر ان کا پروموشن روک نہیں سکتا تھا۔ مگر پاپا نے کبھی کوشش نہ کی کہ ان کا پروموشن ہوجائے۔پاپا کی عادت نہ تھی کہ وہ ڈائرکٹر کی خوشامد کریں۔ انھوں نے کبھی کسی کے فوٹو پر ہار مالا نہیں پہنائی۔ انھوں نے ہمیشہ ایمان داری اور سچائی سے زندگی گزاری۔
کبھی بھی کو ئی غلط بات جو ان کا ڈائرکٹر ان سے کرنے کو کہتا، وہ اس کو نہ کرتے اور اپنے ڈائرکٹر کو باقاعدہ لکھ کر بھیج دیتے کہ کیا غلط ہے اور کیا صحیح۔ اِس پر ایک بار ان کے ڈائرکٹرنے کہا کہ ’’مسٹر خان، آپ ایسا لکھ کر بھیج دیتے ہیں کہ میں کسی کو دکھا بھی نہیں سکتا‘‘۔بہر حال وہ 1984 میںجوائنٹ ڈائرکٹر ہوئے۔ بنارس ان کا آفس تھا۔ وہ Circuit House میں P.A. Suits میں رہتے تھے۔ 1995 میں پاپا ریٹائر ہوئے۔ اور ریٹائرمینٹ کے بعد وہ فیض آباد میں رہنے لگے تھے۔ اس کے بعد انھوں نے حج ادا کیا۔ حج کے بعد انھوں نے ایک کتاب لکھی تھی ’’حج کیسے کریں‘‘۔ وہ اپنے خاص لوگوں کو حج کے بارے میں بتاتے تھے۔
دھیرے دھیرے وہ صرف لکھنے پڑھنے میں مشغول رہنے لگے۔ میتھ(Maths)ان کا پسندیدہ موضوع تھا۔ بچوں کو وہ شوق سے میتھ پڑھاتے، باقی ٹائم میں وہ بڑے ابا کی کتابیں پڑھتے جس میں ماہ نامہ الرسالہ، تذکیر القرآن، مطالعہ قرآن، الربّانیہ اورقال اللہ و قال الرسول ان کی پسندیدہ کتابیں تھیں۔ وہ کافی کتابیں لوگوں کو دیتے۔ بڑے ابا کے خلاف کوئی بولتا تو انھیں بہت تکلیف ہوتی۔ اکثر کہتے تھے ’’آج کل کا مسلمان جوشیلا ہے، اس کو جوشیلی باتیں ہی پسند آتی ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ لوگوں کو بھائی صاحب (مولانا وحیدالدین خاں) کی باتیں کیوں نہیں سمجھ میں آتیں، یہ ان کی مخالفت کیوں کرتے ہیں‘‘ ۔
اللہ کا شکر ہر دم ان کی زبان پر رہتا۔ وہ اکثر کہتے ’’ہم لوگ یتیم تھے، ہمارا کوئی پرسانِ حال نہ تھا، مگر اللہ تعالیٰ نے ہم تینوں بھائیوں کو ہر چیز سے نوازا۔ ہم لوگ کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ اللہ ہم لوگوں کو اتنا دے گا۔خدا کا بہت بڑا احسان ہم لوگوں پر ہے‘‘۔
ہم لوگوں سے اپنے بچپن کے چھوٹے چھوٹے قصّے بتاتے، مثلاً دادی کا تکلیف سے پرورش کرنا وغیرہ، اور رودیتے۔ اپنی سروس کے دوران انھوں نے بڑی عزت پائی، مگر خدا کے شکر کے علاوہ کبھی کوئی ایسی بات نہ کہی جس سے کوئی بڑائی یا گھمنڈ ظاہر ہو۔ ہر چھوٹے بڑے موقع پر وہ خدا کے شکر میں ڈوب جاتے تھے۔غریبوں کی وہ ہر طرح مدد کرتے۔فیض آباد میں جہاں وہ رہے، اسی طرح علی گڑھ میں بھی کسی غریب کو پریشان دیکھتے تو اپنی طرف سے وہ اس کی پوری مدد کرتے۔
انھوںنے تذکیر القرآن کو 8 بار پڑھا اور اپنے اندر ایسا بسا لیا کہ ان کا ہر کام، ہر عمل اللہ کے لئے ہوتا تھا۔ ان کا کام لکھنا اور پڑھنا تھااور اس پر عمل کرنا۔ ان کا ہر عمل ویسا ہی ہوتا جیسا کہ اللہ نے بتایا ہے۔ اُن کے صبر کا معاملہ اتنا زبردست تھا کہ وہ اس کے ذریعے اللہ سے بہت قریب ہوتے چلے گئے۔ انھوں نے اپنی ڈائری میں ایک جگہ لکھا تھا: ’’ایمان روح کی پاکیزگی ہے اور جس کی روح پاک ہوگئی ہو، وہ اپنے معاملات میں ناپاکی کا طریقہ کیسے اختیار کرسکتاہے‘ ‘۔
میرے والد، اللہ کے ایک ایسے بندے تھے جنھوں نے ساری زندگی سچائی کا ساتھ دیا۔ ان سے کسی شخص کو جھوٹ کا تجربہ نہیں ہوا۔ ان کی زندگی میں بہت سے شدید ترین حالات پیدا ہوئے، اس کے باوجود وہ اپنے قول سے پھرے نہیں۔ جھوٹ سے ان کو سخت نفرت تھی۔ گھڑی ہوئی بات، زیرزبر کے فرق، اور بغیر آنکھ کان کے دیکھے سنے، وہ کسی بات پر یقین نہیں کرتے تھے۔ اور اسی طرح کی عادت میری چھوٹی بہن سعیدہ کی بھی ہے۔
اس طرح ہم لوگوں نے ان سے حق اور انصاف کی باتیں بھی سیکھیں۔ جس طرح انھوں نے بڈھریا کی جائداد اپنے ذمہ دار بننے کے بعد تقسیم کی، وہ بھی ایک مثال ہے ۔ پاپا نے سب کا حصہ سب کے پاس پہنچایا۔ بقول ہماری پھوپھی زاد بہن جن کا نام سلمیٰ ہے، ’’ہم لوگ نہیں جانتے تھے کہ اماں کا حصہ بھی ہے ۔ ماموں نے دینا شروع کیا تو معلوم ہوا‘‘۔ یہ بات انھوںنے مجھ سے کہی تھی۔ اسی طرح سے انھوں نے میراث کے متعلق دیو بند سے فتویٰ منگوایا۔معلوم ہوا کہ جس کی صرف لڑکیاں ہوں، کوئی بیٹا نہ ہو تو جائداد میں بھائی کا حصہ ہوتا ہے، اگر وہ زندہ ہے۔ اور یہ کام وہ انتقال سے چار سال پہلے ہی کر چکے تھے۔ اس طرح انتقال کے بعدپاپا کے مکان کو فروخت کرکے بڑے ابا (مولانا وحیدالدین خاں) کا حصہ دیاگیا تھا جو بڑے ابا نے نہ لے کر ’القرآن مشن‘(Al-Quran Mission) میں لگا دیا۔ اس طرح ان کی ایمان داری کا پاک صاف پیسہ پاک جگہ لگ کر پوری دنیا میں پھیل رہا ہے۔
یہاں پر بھی ہم لوگوں نے یہی سیکھا کہ حق و انصاف اور ایمان داری میں کتنی برکت ہوتی ہے۔ اپنے اور دوسروں سے چھین لینے میں نہیں، بلکہ دوسروں کو دینے میں برکت اور محبت ہے۔
اسی طرح ہم لوگوں کے بچپن کے کچھ واقعے ہیں جن کو پاپا سنا کر ہنستے تھے، ان میں سے کچھ ہم لوگوں کو یاد ہیں، وہ یہاںنقل کئے جاتے ہیں :
ہم لوگ بہت چھوٹے تھے ۔ امی کبھی کھانے کو ایک ہی پلیٹ میں 2 چمچ لگا کر دے دیتی تھیں۔ پاپا کہتے آدھا آدھا کرو۔ ہم لوگ جب حصہ لگاتے تو وہ بتاتے کہ کدھر زیادہ ہے اور کدھر کم ہے۔ اس طرح آخر میں ہم لوگوں کی عادت یہ ہوگئی کہ سعیدہ اپنا حصہ میری طرف کرتی، میں اس کی طرف کہ اس کی طرف زیادہ رہے اور میری طرف کم رہے۔ اکثر بچوں میں لڑائی ہوتی ہے کہ ہمارا کم ہے دوسرے کازیادہ ہے، مگر ہم لوگ دوسرے کو زیادہ دینے اور اپنے لئے کم لینے پرمطمئن ہوتے تھے۔
ایک بار کوئی انگوٹھی تھی۔ وہ ہم لوگوں کو بہت اچھی لگی۔انگوٹھی ایک تھی۔اس کو دونوں لوگ نہیں پہن سکتے تھے۔ اس لئے یہ طے پایا کہ باری باری پہنیں، ایک دن میں اور ایک دن تم۔ اس طرح ایک دن پہن کر دوسرے دن صبح بستر سے اٹھنے سے پہلے ہم انگوٹھی دوسرے کو دے کر اٹھتے تھے کہ صبح کے ساتھ ہی اپنی باری ختم ہوگئی۔ بچپن سے انصاف کرنا سیکھ رہے تھے، کبھی کسی چیز پر لڑائی نہیں ہوئی، دوسرے کو دینے میں زیادہ خوشی ہوتی۔
سعیدہ مجھ سے بے انتہا محبت کرتی تھی، شاید ہم سے بھی زیادہ ۔وہ کوئی کام اکیلے نہیں کرتی ، نہ اکیلے کہیں جاتی تھی۔ ایک بار پتا نہیں کیسے وہ اکیلے کہیں چلی گئی۔ کیسے گئی، یاد نہیں۔ مگر روتی ہی جارہی تھی۔ جس کے یہاں گئی تھی، وہ پریشان کہ بچی کیوں روئے جاری ہے۔ انھوںنے اس کو ایک کیلا لاکر دیا، جیساکہ اکثر بچوں کو دیا جاتا ہے کہ شاید کھانے میں بہل جائے۔ اس نے کیلا لے کر زور زور سے رونا شروع کردیا۔ سب پریشان کہ کیاہوگیا۔ بہت پوچھا تو بولی ’’آپا کے لیے‘‘۔پھر دوسرا کیلا دیا تو وہ لے کر گھر آئی، پھر ساتھ بیٹھ کر کھایا۔ اس طرح کے بہت سارے ہم لوگوں کے قصے ہیں۔ خاندان میں ہم اِس طرح کی باتوں کی وجہ سے کافی مشہور ہوگئے تھے۔
پاپا بھی اپنے بچپن کے قصے بہت بتاتے تھے۔ پاپا اپنے دونوں بھائیوں سے بے حد محبت کرتے تھے۔ اکثر بات کرکے ان کی آنکھوں میں آنسو آجاتے تھے۔ وہ کہتے ’’میں نے اپنے ابا کو تو دیکھا ہی نہیں، بھائی لوگوں کوہی باپ کی طرح سمجھا‘‘۔ شکر بے حد کرتے۔ بچپن کے قصہ بتاتے ، کس طرح ہم یتیم ہوگئے اور سب کچھ چھن گیا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے تینوں بھائیوں کو کس طرح نوازا۔ کبھی سوچا نہ تھا کہ ہم لوگوں کو پھر سے اتنا ملے گا۔
پاپا کی زندگی میں ہمیں کبھی یہ احساس نہ ہوا کہ وہ کیا چیز تھے۔ شاید بچپن سے ایسا دیکھنے کی عادت تھی۔ ہم نے کبھی سوچا نہ تھا کہ اتنی جلدی اچانک ایک صبح وہ ہم سب کو چھوڑ کر چلے جائیں گے۔ ہم لوگوں کی زندگی کا یہ ایک ایسا حادثہ تھا جس نے زندگی کو بالکل بدل دیا۔ زندگی نے ایسا رُخ لیا کہ کچھ بھی کرنے سے پہلے یہی سوچتے ہیں کہ پاپا کیسے کرتے تھے، ویسا ہی کرنا ہے۔ جو ان کو نہیں پسند تھا، وہ نہیں کرنا ہے۔
پاپا کی طرح تو شاید ہم کبھی نہ بن پائیں گے۔ مگر اللہ تعالیٰ سے یہی دعا کرتے ہیں کہ اس کا کتنا بڑا احسان ہے کہ اس نے اتنے اچھے والدین ہم کو دئے۔ اسی خاندان کا ایک فرد (مولانا وحید الدین خاں) ساری دنیا میں دین پھیلا رہا ہے۔ پوری دنیا میں ان کی کتابیں پڑھی جارہی ہیں۔انھیں کی کتابیں پڑھ کر ہمارے پاپا نے اپنے کو ایسا بنا لیا تھا کہ کوئی ایک نظر دیکھ لینے سے ہی بتا سکتا تھا کہ یہ سچا مومن ہے ، اللہ کا نیک بندہ ہے، ہر دم خدا کے خوف میں ڈوبا رہنے والا، دیکھنے میں لگتا کہ کسی بڑی پریشانی میں مبتلا ہیں۔ نماز میں اللہ کے سامنے کس قدر گڑگڑانا۔ عام طورپر ان کی نماز کافی دیر میں ختم ہوتی تھی۔یہ سب تذکیر القرآن کو ہر دم پڑھنے کی وجہ سے تھا۔ ہر خالی وقت میں وہ تذکیر القرآن کو پڑھتے رہتے تھے، جیسے پورا تذکیر القرآن ان کو حفظ ہوگیا تھا ۔
پاپا کے انتقال کے بعدسے ہم دونوں بہنوں کو توفیق ہو رہی ہے کہ Al-Quran Mission سے ہندی اور انگریزی کے قرآن منگاکرہم اس کو لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس کو قبول فرمائے۔اور اللہ تعالیٰ ہمارے بڑے ابا (مولانا وحید الدین خاں) کو اس کا اجر دے جن کی وجہ سے ہم لوگوں کو توفیق ہوئی کہ ہم لوگ کچھ کرسکیں اور اپنے آپ کو بدل سکیں۔
ہم اپنی نمازوں میں ہمیشہ اپنے پاپا کے لیے بے انتہا اجر اور مغفرت کی دعا کرتے ہیںاور خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ایسے انسان کی اولاد بنایا اور انسان کو خدا سے ڈر کر کس طرح زندگی گزارنی چاہیے، اس کی تمیز سکھائی۔پاپا کو زندگی میں ماحول سے ایسا دھکا لگا تھا کہ اس ماحول کا جھوٹ اور ناانصافی کا بوجھ انھیں اللہ کی ڈور میں کستا چلا گیا اور وہ اس میں ڈھل کر بالکل مؤمنانہ زندگی گزارنے لگے تھے۔ آخر وقت میں وہ ایک معصوم بچے کی طرح ہو گئے تھے کہ ان کو خدا اور رسول کے علاوہ کوئی اور بات سمجھ نہیں آتی تھی۔ وہ بات بھی بہت کم کرتے تھے۔ڈر اور سوچ میں ڈوبے رہتے، کوئی بات کی جاتی تو سمجھ ہی نہیں پاتے تھے۔اس طرح وہ آخرت کی یاد میں گم ہو کر رہ گئے تھے۔
پینشن (pension)لینے کے لئے وہ ہر سال فیض آباد آتے اور ہمارے پاس رہتے تھے۔اس طرح نومبر 2009 میں بقرعید سے2دن پہلے وہ فیض آباد آئے۔ وہ کمزور ہوگئے تھے، مگر اللہ کے کرم سے ان کو کوئی مرض نہیں تھا۔ جس طرح وہ بیماری سے اور بستر پرپڑ جانے سے ڈرتے تھے، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ان کے اوپر ہر طرح سے کرم کیا۔ ہر دم اللہ کے خوف سے کانپتے تھے۔ ایسا پریشان رہتے جیسے کسی بڑی مشکل میں آدمی پریشان رہتا ہے۔
اس طرح کی باتیں جو وہ تقریباً روز کہتے تھے—کس طرح اللہ کے یہاں پیشی ہوگی۔کب موت آجائے ،کس وقت بلاوا آجائے۔ہم دو بھائی بچے ہیں، پتہ نہیں کس کی باری پہلے ہے۔ بچپن کی باتیں کرتے، سب کو یاد کرتے اور کہتے کہ لگتاہے میرا وقت قریب آگیا ہے، وغیرہ۔
اپنی زندگی میں جس طرح کی تکلیف ان کو پہنچی تھی، اس کے مطابق باتیں وہ تذکیر القرآن سے ہم لوگوں کو پڑھ کر سناتے تھے، مثلاً: ’’عام آدمی روٹی پر جیتا ہے، مومن وہ انسان ہے جو دلیلِ حق پر جیتاہے‘‘۔ ’’دلیل کے ذریعہ کسی کو رد کرنا درست ہے، جب کہ عیب لگا کر کسی کو بدنام کرنا سراسر نادرست‘‘ ۔’’لوگ خود غرض بن کر نہ رہیں، بلکہ وہ لوگوں کے خیر خواہ بن کر رہیں‘‘۔
اس طرح وہ ہر دم اللہ کا کلام سنتے ، سناتے ، لوگوں کو اس کے بارے میں بتاتے اور اس کو لکھتے ہوئے وقت گزار رہے تھے اور شاید اللہ کے بہت قریب ہوگئے تھے۔انتقال سے دو روز پہلے انھوں نے امی سے کہا کہ ’’آج خواب میں چچا کو دیکھا، وہ مجھے بلانے آئے تھے‘‘۔
امی کا پنشن کے کاغذ میں نام نہیں تھا، اس کو درج کروایا، یہ کہہ کر کہ ’’بہت ضروری ہے، اس کو درج کرانا ہے‘‘۔ اُس رات جس دن ان کا انتقال ہوا ہے، انھوں نے امی سے کہا ’’دل چاہتا ہے ہم چاروں لوگ (پاپا، امی ، دونوں بہن) اکٹھا ہوجائیں‘‘۔ سعیدہ سے ایک سال سے ملاقات نہیں ہوئی تھی، اس کو یاد کیا، پھر فون پر اس سے بات کرکے امی سے یہ بات کرتے ہوئے سوئے کہ تم لیٹتے وقت کیا دعائیں پڑھتی ہو،اور خود بتایا کہ میں یہ دعائیں پڑھتا ہوں۔ معمول کے مطابق، وہ صبح 4 بجے تہجد کی نماز پڑھنے کے لیے اُٹھے، باتھ روم میں ہی ہارٹ اٹیک ہوا اور جب تک ان کو بستر پر لایا گیا وہ بے ہوش ہوچکے تھے۔ بے ہوش ہونے سے پہلے انھوں نے امی کاہاتھ پکڑ کر کچھ کہناچاہا، شاید وہ امی کی طرف سے فکرمند تھے، پھر کلمہ پڑھا، زبان لڑکھڑا رہی تھی اور ڈاکٹر کے آنے سے قبل ہی ان کی روح نکل چکی تھی۔ (إنّا للہ وإنّا إلیہ راجعون)
زندگی میں ان کا چہرہ پریشان حال رہتا تھا، انتقال ہوتے ہی جیسے ان کو سکون مل گیا ہو۔ ایسا چہرہ زندگی میں کسی کا نہ دیکھا تھا۔ ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے ابھی ہنس دیں گے، اتنا چمکتا ہوا چہرہ۔ وہاں موجود ہر فرد نے کہا کہ جیسے ابھی ہنس دیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔
واپس اوپر جائیں

Sunday, 1 April 2012

Al Risala | April 2012 (الرسالہ,اپریل)

2

-عبادت اور استعانت

3

- محبت ایک دو طرفہ معاملہ

4

- قلب، عقل

6

- وحدتِ وجود

7

- عظمتِ خداوندی کی دریافت

8

- امت ِ وسَط: فضیلت یاذمّے داری

9

- مثبت جواب

10

- تاریخ کا سبق

12

- شاتمِ رسول کی سزا

13

- پیغمبر کے نام پر غیر پیغمبرانہ روش

14

- مذاہب کے درمیان ہم آہنگی

15

- امتِ مسلمہ کے مسائل اور اُن کاحل

18

- مسلمانوں کے لیے انتباہ

19

- امت ِ مسلمہ کا المیہ

22

- امن کی وادی

23

- یہ وعدہ خلافی کا معاملہ نہیں

24

- ٹکراؤ سے اعتراف ِ حقیقت تک

26

- دوسری غلطی نہیں

27

- امن اور ترقی

28

- غیر اصولی موقف نہیں

29

- لیڈروں کا دہرا کردار

30

- بحران کے وقت

31

- جسمانی معذوری کے باوجود

32

- ایک عام کمزوری

33

- کامیاب زندگی کا اصول

34

- ’انا‘ کی دیوار

35

- سوال وجواب

39

- خبرنامہ اسلامی مرکز


عبادت اور استعانت

سورہ الفاتحہ، قرآن کی پہلی سورہ ہے۔اِس میں انسان کی زبان سے اللہ رب العالمین کے لئے یہ الفاظ آئے ہیں: إیّاک نعبد، وإیّاک نستعین (1: 5) خدایا، ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں، اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔
دین کی بنیاد دو چیزوں پر ہے — عبادت، اور استعانت۔ انسان جب اللہ کی عظمت کو دریافت کرتاہے تو اس کا نتیجہ جس شکل میں ظاہر ہوتا ہے، اس کا نام عبادت الٰہی ہے۔ اِسی طرح انسان جب اپنے عجز کو دریافت کرتاہے تو اس کے نتیجے کے طورپر جو چیز ظاہر ہوتی ہے، اس کا نام استعانت باللہ ہے۔
اصل یہ ہے کہ دین کا آغاز معرفت (realization) سے ہوتا ہے۔ انسان جب آفاق اور انفس پر غور کرتاہے تو اُس کو ایک عظیم خالق کی دریافت ہوتی ہے۔ خالق کی عظمت کا احساس اُس کے پورے وجود پرچھا جاتا ہے۔ وہ بے اختیار چاہنے لگتاہے کہ وہ اپنے خالق کے آگے اپنے پورے وجود کے ساتھ خود کو سرینڈر (surrender) کر دے، وہ اپنے پورے وجود کو اللہ کے آگے ڈال دے۔ یہ احساس، معرفت کا ایک فطری نتیجہ ہے اور اِسی فطری نتیجے کا نام عبادت ہے۔ عبادت اپنے ظاہر کے اعتبار سے، ایک فارم ہے، لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے، وہ مومن کے اندر پیداہونے والے داخلی طوفان کا ایک خارجی ظہور ہے۔ عبادت ایک عارف انسان کی طرف سے اپنے رب کا قولی اور عملی اعتراف ہے۔
یہی معاملہ استعانت کا بھی ہے۔ ایک انسان جب اللہ کی عظمتِ کامل کو دریافت کرتا ہے تو اِسی کے ساتھ وہ اپنے عجزِ کامل کو بھی دریافت کرلیتاہے۔ اس کو یہ یقین ہوجاتا ہے کہ اللہ دینے والا ہے، اور وہ صرف پانے والا۔ اللہ مُنعم ہے اور وہ محتاجِ انعام۔ یہ احساسِ عجز بار بار ذکر او ردعا کی صورت میں ظاہر ہوتارہتاہے۔ اِسی کا نام استعانت باللہ ہے— معرفت سے انسان کے اندر اعتراف (acknowledgement) کی اسپرٹ پیدا ہوتی ہے۔ اِس اعتراف کے اظہار کی ایک صورت وہ ہے جو اللہ کی نسبت سے ظاہر ہوتی ہے، اِس کا نام عبادت ہے۔ اِس اعتراف کی دوسری صورت وہ ہے جو خود انسان کی نسبت سے ظاہر ہوتی ہے، اِسی کو استعانت باللہ کہا جاتاہے۔
واپس اوپر جائیں

محبت ایک دو طرفہ معاملہ

ایک طویل روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ اِس روایت کا ایک حصہ یہ ہے: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: واللہ لا یُلقی اللہُ حبیبَہ فی النار (السلسلۃ الصحیحۃ للألبانی، 5/531 ) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خدا کی قسم، اللہ اُس شخص کو آگ میں نہیں ڈالے گاجس سے وہ محبت کرتاہے۔
یہ حدیث کسی پُراسرار معنی میں نہیں ہے۔ اِس حدیث میں جس محبت کا ذکر ہے، وہ دو طرفہ ہے، نہ کہ یک طرفہ۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ جو انسان غور وفکر کے ذریعے اپنے خالق کو پہچانے ، جو اللہ کو اپنے منعم کی حیثیت سے د ریافت کرے، ایسے انسان کا حال یہ ہوگا کہ اللہ اس کا محبوب بن جائے گا، اُس کے تمام قلبی جذبات اللہ سے وابستہ ہوجائیں گے۔
جب کسی انسان کا یہ حال ہو کہ اس کے شعوری ادراک کے نتیجے میں اللہ اس کا محبوب بن جائے تو اس کے بعد ایسا انسان خود بھی اللہ کا محبوب بن جاتا ہے۔ اور جب اِس اعتبار سے کوئی شخص اللہ کا محبوب بن جائے تو یہ محبوبیت اُس آدمی کے لیے اِس بات کی ضمانت ہوگی کہ اللہ اُس کو قیامت کے دن ہر گز آگ میں نہیں ڈالے گا۔
کسی انسان کا محبوبِ خدا بن جانا کوئی پُر اسرار چیز نہیں، یہ فطری اسباب کے تحت پیش آنے والا ایک واقعہ ہے۔ جب کوئی شخص اپنے آپ کو اللہ سے اتنا زیادہ وابستہ کرے کہ اللہ سے اُس کو محبت کے درجے میں تعلق پیداہوجائے، تو ایسا انسان، اللہ کی نظر میں اِس کا مستحق بن جاتا ہے کہ اللہ اس کے ساتھ رحم کا معاملہ کرے اور اس کو آخرت کے عذاب سے بچا لے۔
اللہ کا کسی انسان سے محبت کرنا بربنائِ رحمت ہوتاہے، اور انسان کا اللہ سے محبت کرنا بربنائِ انعام ہوتا ہے۔ اللہ کی محبت کسی بندے کے لیے ایک عطیۂ الٰہی ہے، اور بندے کی محبت اللہ کے لیے شکرواعتراف کا ایک معاملہ ہے۔ یہی شکر و اعتراف بلاشبہہ جنت کی قیمت ہے۔
واپس اوپر جائیں

قلب، عقل

قدیم روایتی زمانے میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ تزکیہ اور معرفت کا ذریعہ قلب (heart) ہے، مگر جدید سائنسی تحقیقات نے یہ ثابت کیا ہے کہ انسان کا قلب صرف گردشِ خون (circulation of blood) کا ذریعہ ہے۔ اِس کے مطابق، معرفت اور تزکیہ ایک مبنی بر دماغ (mind-based) علم ہے، وہ مبنی بر قلب (heart-based) علم نہیں۔
یہاں یہ سوال پیداہوتاہے کہ قرآن میں کچھ ایسے حوالے ہیں جن میں معرفت اور تزکیہ کو قلب سے منسوب کیاگیا ہے، پھر اس کا مطلب کیا ہے۔ اِس کا جواب یہ ہے کہ قرآن میں صرف قلب کا حوالہ نہیں ہے، بلکہ عقل کا حوالہ بھی قرآن میں بار بار آیا ہے۔ مثلاً : لعلکم تعقلون (43: 3) ، اور ولیتذکر أولوا الألباب (38: 29) ، اور إن فی ذلک لآیات لأولی النُہی (20: 54) اور ہل فی ذلک قسم لذی حجر (89:5) ، وغیرہ۔
قرآن کی اِن آیتوں میں جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں، وہ سب عقل (mind) کے معنی میں ہیں۔ ایسی حالت میں یہ سوال ہے کہ دونوں قسم کے قرآنی بیانات میں تطبیق کس طرح پیدا کی جائے۔ اِس طرح کے معاملات میں بلاغت کا اصول یہ ہے کہ ایک کو دوسرے کے تابع قرار دیا جائے۔ اِس اصول کو منطبق (apply) کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ کس بیان کے حق میں اضافی قرینہ (additional evidence) موجود ہے،اور پھر جس بیان کے حق میں اضافی قرینہ موجود ہو، اس کو اصل مان کر دوسرے کو اس کے تابع قرار دیا جائے۔
قلب اور دماغ کی اِس بحث میں، دماغ کے حق میں ایک اضافی قرینہ موجود ہے، اور وہ ہے سائنس کی جدید دریافت۔ اِس لیے اِس معاملے میں یہ کیا جائے گا کہ جن آیتوں میں عقل کا حوالہ ہے، ان کو اس کے اصل معنی میں لیا جائے گا، اور جن آیتوں میں قلب کا حوالہ ہے، اُن کو اس کے ادبی معنی (literary meaning) پر محمول کیا جائے گا۔ اِس طرح قرآن میں استعمال کئے گئے دونوں لفظ (قلب اور عقل) ہم معنی قرار پائیں گے۔
کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ قلب میں سوچنے کی صلاحیت ہے۔ وہ انسانی جسم کا ایک تفکیری عضو (thinking organ) ہے، مگر یہ صرف ایک مغالطہ ہے۔ اِس دعوے کی بنیاد یہ ہے کہ عضویاتی مطالعے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قلب اور عقل کے درمیان ایک رابطہ موجود ہے۔
مگر یہ دعویٰ صرف ایک مغالطے پر مبنی ہے۔ اِس قسم کا ربط دماغ اور دوسرے تمام اعضا کے درمیان ہمیشہ موجود رہتاہے۔ مگر یہ ربط فکری ربط نہیں ہوتا، وہ صرف ڈائریکشن (direction) کے معنی میں ہوتاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جسم کے تمام اعضا (organs) دماغ کی ہدایت (direction) ہی پر اپنا اپنا عمل انجام دیتے ہیں۔ کوئی بھی عضو دماغ سے آزاد ہو کر اپنا فنکشن انجام نہیں دیتا۔
اِس استدلال کی غلطی یہ ہے کہ اُس میں ربط کے معاملے کو بیان کرنے کے لیے ایک غلط لفظ استعمال کیا گیا ہے، یعنی کمیونکیشن (communication) کا لفظ۔ اِس معاملے کو بیان کرنے کے لیے صحیح لفظ ڈائریکشن ہے، نہ کہ کمیونکیشن۔ دونوں کے درمیان فرق یہ ہے کہ ڈائریکشن کاعمل یک طرفہ (unilateral) ہوتا ہے اور کمیونکیشن کا عمل دو طرفہ(bilateral) ۔ ڈائریکشن کا لفظ بتاتا ہے کہ دماغ یک طرفہ طورپر اعضا کو اپنی ہدایت جاری کرتا ہے، جب کہ کمیونکیشن کے لفظ کا مطلب یہ ہے کہ دماغ اور جسم کے اعضا کے درمیان یہ عمل دو طرفہ طورپر ہوتا ہے۔
مذکورہ استدلال میں یہ کیا گیا ہے کہ پہلے ربط کے لیے کمیونکیشن کا لفظ استعمال کیا گیا اور پھر اُس سے یہ مطلب نکال لیا گیا کہ قلب ایک تفکیری عضو (thinking organ) ہے، حالاں کہ اِس مفروضہ کے لیے کوئی علمی بنیاد (scientific base) موجود نہیں۔
اس غلطی کا عظیم نقصان یہ ہوا کہ حکمت (wisdom) اہلِ سائنس کی اجارہ داری بن گئی۔ مبنی بر قلب معرفت کے نظریے کے حاملین عام طور پر حکمت سے محروم ہوکر رہ گئے، کیوں کہ وہ حکمت کو قلب میں تلاش کررہے تھے، جب کہ قلب میں حکمت سرے سے موجود ہی نہ تھی۔ اہلِ مذہب کے یہاں فرضی کہانیوں کا جو دفتر دکھائی دیتا ہے، اس کا سبب حکمت کی اِسی کمی کی تلافی ہے۔
واپس اوپر جائیں

وحدتِ وجود

شیخ محی الدین ابن العربی اندلس میں 560 ھ میں پیداہوئے اور 638ھ میں دمشق میں وفات پائی۔ وہ صوفی کی حیثیت سے مشہور ہیں۔ ان کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ: کان ظاہریًا فی العبادات، باطنیًا فی الاعتقاد(وہ عبادات میں ظاہری تھے اور عقیدہ میں باطنی تھے)۔ ان کے بارے میں امام ذہبی نے لکھا ہے کہ: قدوۃ القائلین بوحدۃ الوجود (وہ وحدۃ الوجود کے ماننے والوں کے پیشوا ہیں)۔ ابن العربی نے قرآن کی آیت: واعبد ربک حتی یاتیک الیقین(15: 99)کی تفسیر ان الفاظ میں کی ہے: حتی یأتیک حق الیقین، منتہی عبادتک بانقضاء وجودک فیکون ہذا العابد والمعبودجمیعاً لا غیر۔یعنی یہاں تک کہ تجھے حق الیقین حاصل ہو، اور تیرے وجود کے ختم ہونے سے تیری عبادت بھی ختم ہوجائے، پھر عابد ومعبود سب ایک ہوں گے، غیر نہیں۔
یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتاہے کہ وحدۃ الوجود کا نظریہ کن بے بنیاد دلائل پر قائم کیا گیا ہے، قرآن کی آیت کی مذکورہ تفسیر جو ابن العربی نے کی ہے، وہ بلاشبہہ ایک بے اصل تفسیر ہے، علمی اعتبار سے اُس کی کوئی حیثیت نہیں، یہ تفسیر بالرائے کی ایک بدترین قسم ہے۔ اس طرح کی تفسیر کو اگر درست سمجھا جائے تو اس سے ہر بات ثابت کی جاسکتی ہے، حتی کہ قرآن سے غیر قرآنی نظریہ بھی۔
وحدتِ وجود اصلاً ایک فلسفیانہ نظریہ ہے۔ فلسفیوں نے خدا اور موجودات کو ایک ثابت کرنے کے لئے وحدتِ وجود کا نظریہ پیش کیا۔ اس کو فلسفیانہ اصطلاح میں مانزم (Monism) کہا جاتاہے۔ بعد کو یہ نظریہ آرین مذاہب میں داخل ہوگیا۔ اس کے بعد اکثر مسلم صوفیا نے اس کو اختیار کرتے ہوئے اسلام میں داخل کردیا۔ شیخ احمد سرہندی بظاہر وحدتِ وجود کے خلاف تھے، مگر انھوں نے وحدتِ شہود کے نام سے جو نظریہ پیش کیا ہے، وہ بھی وحدتِ وجود ہی کی ایک بدلی ہوئی شکل ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ وحدتِ وجود (monism)کا نظریہ قرآن اور حدیث میں سرتاسر اجنبی ہے۔ وحدتِ وجود کا نظریہ ایک غیر اسلامی نظریہ ہے، وہ کوئی اسلامی نظریہ نہیں۔
واپس اوپر جائیں

عظمتِ خداوندی کی دریافت

مشہور امریکی باکسر محمد علی کلے (پیدائش: 1942 ) کو جب ورلڈ ہیوی ویٹ چیمپین (World Heavy Weight Champion) کاخطاب ملا تو انھوںنے کہا کہ — میں دنیا کا بادشاہ ہوں:
I am the king of the world.
یہی کم وبیش ہر عورت اور ہر مرد کا حال ہے۔ ہر آدمی صرف اپنی ذاتی بڑائی (self glory) کو جانتا ہے۔ کسی نے خدا کی بڑائی کو دریافت نہیں کیا۔
انسان کا وجود ایک تخلیقی معجزہ ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے وجود کو ڈوائن گلوری (divine glory) کے طور پر دریافت کرے۔ مگر انسان کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے وجود میں صرف ذاتی عظمت (self glory) کو دیکھتا ہے، وہ اپنے وجود میں خدا کی عظمت کو دریافت نہیں کرپاتا۔ یہ بلاشبہہ تاریخ ِ انسانی کا سب سے بڑا المیہ ہے۔
مشہور فرانسیسی فلسفی رینے ڈیکارٹ (وفات: 1650 ) نے اپنے مشہور قول میں کہا تھا کہ — میں سوچتا ہوں، اِس لیے میں ہوں(I think, therefore, I exist) ۔ یہ کسی انسان کے لیے خود اپنی دریافت کا معاملہ ہے۔ لیکن زیادہ بڑی بات یہ ہے کہ آدمی اپنے وجود میں خدا کے وجود کو دریافت کرے۔ وہ یہ کہہ سکے کہ — میں موجود ہوں، اِس لیے خدا بھی یقینا موجود ہے:
I am, therefore, God exists
یہی معرفت کا آغاز ہے۔ انسان سب سے پہلے اپنی موجودگی کی صورت میں، خدا کی موجودگی کو دریافت کرتا ہے۔ اِس دریافت کے بعد اس کے لیے دریافتوں کا لامتناہی دروازہ کھل جاتا ہے۔ ہرنئی دریافت اس کی معرفت میں اضافہ کرتی رہتی ہے۔ اِس طرح، انسان کے عارفانہ شعور میں مسلسل ترقی ہوتی رہتی ہے۔ معرفت کا لا محدود خزانہ اُس پر انفولڈ (unfold) ہوتا رہتا ہے، یہاں تک کہ انسان یقین اور معرفت ِ خداوندی کے اعلیٰ درجے تک پہنچ جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

امت ِ وسَط: فضیلت یاذمّے داری

قرآن کی سورہ البقرہ میں امتِ محمدی کو ’امتِ وسط‘ (2: 143) کہاگیا ہے، یعنی بیچ کی امت، (middle community)۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ امتِ محمدی، رسول اورعام انسانوں کے درمیان ہے۔ اُس کو رسول سے جو خدائی ہدایت ملی ہے، اس کو نسل درنسل تمام انسانوں تک پہنچانا ہے۔ اِس سے مراد وہی مستقل ذمے داری ہے جس کو دعوت الی اللہ کہاجاتاہے۔ اکثر الفاظ کا ایک لغوی مفہوم ہوتاہے اور دوسرا اُس کا استعمالی مفہوم۔ ’وسط‘ کا لغوی مفہوم یا اصل مفہوم دو کناروں کے درمیان (بین طَرَفیِ الشیٔ) ہوتاہے۔ اُس کا ایک استعمالی مفہوم بہتر چیز (الخیر) کے معنی میںہے۔ قرآن کی اِس آیت میں ’وسط‘ کا لفظ استعمالی معنی میں نہیں ہے، بلکہ وہ اِس کے اصل معنی میں ہے، یعنی درمیانی امت کے معنی میں۔ اِس آیت میں امتِ وسط کا لفظ امت کے مشن یا اس کی داعیانہ ذمے داری کو بتا رہا ہے، وہ ہر گز کسی قسم کی پراسرار فضیلت کے معنی میں نہیں۔
قرآن کی اِس آیت میں امت محمدی کے داخلی اوصاف کو بیان نہیں کیاگیا ہے، بلکہ اِس میں امت کی خارجی ذمے داری کو بیان کیا گیا ہے۔ وہ خارجی ذمے داری یہ ہے کہ وہ اللہ کے نقشۂ تخلیق (creation plan of God) سے لوگوں کو باخبر کرے۔ وہ ہر زمانے اور ہر نسل میں اِس دعوتی کام کو جاری رکھے۔ یہ دعوتی مشن ہی وہ مشن ہے جس کی ادائیگی پر امتِ محمدی کا ’امت محمدی‘ ہونا متحقق ہوتا ہے۔
دعوت الی اللہ کی یہ ذمے داری امتِ محمد کے ہر فرد پر اُسی طرح فرض ہے جس طرح اس کے اوپر نماز اور روزہ فرض ہے۔ تاہم اس کی عملی صورت کا تعین ہر فردکی ذاتی استطاعت کے اعتبار سے ہوگا۔ جو فرد جس درجہ یا جس نوعیت کی استطاعت رکھتاہو، اُسی کے اعتبار سے اُس کو دعوت الی اللہ کا یہ فرض انجام دینا ہوگا۔ جو شخص عمل کی استطاعت رکھتا ہو، وہ عمل سے اُس میں شرکت کرے۔ جو شخص مال کے اعتبار سے استطاعت رکھتا ہو، وہ مال کے اعتبار سے اس میں شرکت کرے، وغیرہ۔ بالفرض اگر کوئی شخص اِن میں سے کسی چیز کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو وہ انسانوں کا سچا خیر خواہ بنے اور مدعو کی ہدایت کے لیے دل سے دعائیں کرے۔
واپس اوپر جائیں

مثبت جواب

ہجرتِ رسول کے تیسرے سال مدینہ میں قریش اور اہلِ اسلام کے درمیان ایک جنگ ہوئی جو غزوہ احد کے نام سے مشہور ہے۔ اِس میں بعض اسباب سے اہلِ ایمان کو شکست ہوئی۔ تقریباً 70 مسلمان مارے گئے۔ بہت سے زخمی ہوئے۔ زخمی ہونے والوں میں خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم شامل تھے۔ جنگ کے خاتمے پر قریش کے سردار نے فخر کے ساتھ اپنی فتح کا کریڈٹ اپنے بت عزی کو دیتے ہوئے کہا: لنا العزیٰ، ولا عُزّی لکم (ہمارے پاس عزی ہے، اور تمھارے پاس کوئی عزی نہیں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے پر صحابہ نے اِن الفاظ میں اِس کا جواب دیا: اللہ مولانا، ولا مولیٰ لکم (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 4043 ) اللہ ہمارا مولا ہے، اور تمھارا کوئی مولا نہیں۔
یہ صرف ایک واقعہ نہیں، بلکہ و ہ زندگی کا ایک عمومی اصول ہے۔ دوسرے لفظوں میں، اِس کا مطلب یہ ہے کہ اگر فریقِ ثانی کوئی اشتعال انگیز بات کہے تو تم اس کے جواب میں خود مشتعل نہ ہو، بلکہ مثبت انداز میں اس کا جواب دو۔ فریقِ ثانی کی طرف سے خواہ کچھ بھی کیا جائے، تمھارا طریقہ مثبت رد عمل کا طریقہ ہونا چاہئے، نہ کہ منفی رد عمل کا طریقہ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے صحابہ نے فریقِ ثانی کو جو جواب دیا، اُس میں بہ یک وقت دو فائدے تھے — ایک، یہ کہ صحابہ نے اپنے آپ کو منفی رد عمل کی نفسیات سے بچالیا، اور منفی رد عمل سے بچانا ہی تزکیہ نفس کااصل ذریعہ ہے۔ منفی رد عمل آدمی کے نفس کو آلودہ کرتا ہے اور مثبت رد عمل آدمی کے نفس کو پاک کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔
اِس طرح مثبت جواب دینے کا دوسرا فائدہ یہ تھا کہ قول محض قول نہ رہا، وہ ایک دعوت کا قول بن گیا۔ اِس کے ذریعے صحابہ نے فریقِ ثانی کو یہ پیغام دیا کہ شرک کا عقیدہ ایک بے بنیاد عقیدہ ہے۔ صحیح اور درست عقیدہ یہ ہے کہ آدمی اللہ واحد کو مانے اور اُسی سے ہر قسم کے خیر کی امید رکھے۔ ساری طاقت کا مالک اللہ ہے۔کسی کو جو کچھ ملتاہے، وہ صرف اللہ سے ملتا ہے، نہ کہ کسی اور سے۔
واپس اوپر جائیں

تاریخ کا سبق

نور الدین زنگی (وفات:1174 ء) مصر کے سلطان تھے۔ صلاح الدین ایوبی (وفات:1193 ء) اُن کے ایک فوجی افسر تھے۔ سلطان نور الدین زنگی کے انتقال کے بعد اگر چہ اُن کے بیٹے موجود تھے، لیکن صلاح الدین ایوبی نے حکومت پر قبضہ کرکے سلطان کا منصب حاصل کرلیا۔ تیسری صلیبی جنگ (Crusade) میں،جس کا زمانہ 1189-1192 عیسوی ہے، صلاح الدین ایوبی نے فاتحانہ رول ادا کیا تھا۔اِس زمانے کا ایک واقعہ یہ ہے کہ ایک مسیحی جنرل ریجی نالڈ (Reginald of Chatton) نے 1182 عیسوی میں ایک مسلم قافلے پر حملہ کرکے اس کو زیر کرلیا۔ بتایا جاتا ہے کہ اُس وقت ریجی نالڈ نے مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا: أین محمدکم لینقذکم (النوادر السلطانیۃ والمحاسن الیوسفیۃ لقاضی ابن شدّاد، صفحہ 64) یعنی تمھارے محمد کہاں ہیں کہ وہ تم کو بچائیں۔ بعد کو حطّین کی جنگ (1187ء) میں ریجی نالڈ کو صلاح الدین ایوبی کے مقابلے میں شکست ہوئی۔ ریجی نالڈ گرفتار ہوکر صلاح الدین کے کیمپ میں لایاگیا۔ اُس وقت صلاح الدین ایوبی نے ریجی نالڈ کو اُس کا قول یاد دلایا اور یہ کہہ کر اُس کو اپنی تلوار سے قتل کردیا: ہا أنا أنتصر لمحمد علیہ الصلاۃ والسلام (النوادر السلطانیۃ، صفحہ 64 ) یعنی یہ لو، میں محمد علیہ الصلاۃ والسلام کا انتقام لیتاہوں۔
مسلم مورخین اِ س واقعے کو سلطان صلاح الدین ایوبی کی دینی حمیت اور اس کی قوتِ ایمانی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ صحیح اسلامی شعور کے فقدان کا نتیجہ ہے۔ یہ موقع تھا، جب کہ صلاح الدین اور دوسرے مسلمان ریجی نالڈ کے سامنے اِس بات کی گواہی دیتے کہ ہمارے دین کے معاملے میں تم غلط فہمی کا شکار ہو۔ تم سمجھتے ہو کہ ہم، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا مشکل کشا سمجھتے ہیں، حالاں کہ ہم، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف اپنا ہادی اور پیغمبر سمجھتے ہیں۔ ہمارے عقیدے کے مطابق، مشکل کشائی کا اختیار صرف اللہ رب العالمین کو ہے، نہ کہ محمد یا کسی اور شخصیت کو۔ پیغمبرانہ اسوہ کے مطابق، یہ وقت ریجی نالڈ کے سامنے حق کی گواہی دینے کا تھا، نہ کہ تلوار مارکر اس کو قتل کرنے کا۔
سلطان صلاح الدین ایوبی نے جو کچھ کیا، وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے، قومی حمیت یا شخصی حمیت کا معاملہ تھا، مگر قومی حمیت یا شخصی حمیت کا طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ نہیں۔ رسول اللہ کا طریقہ حمیتِ خداوندی کا طریقہ ہے، نہ کہ قومی حمیت یا شخصی حمیت کا طریقہ ۔
اِس حمیتِ خداوندی کی ایک مثال یہ ہے کہ ہجرت (622ء) کے سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر صدیق دشمنوں کی نظر سے بچنے کے لیے غارِ ثور میں پناہ لئے ہوئے تھے۔ مگر دشمن آپ کو تلاش کرتے ہوئے غارِ ثور کے دہانے تک پہنچ گئے۔ حضرت ابوبکر نے دیکھا کہ وہ لوگ تلواریں لئے ہوئے غارِ ثور کے باہر کھڑے ہیں۔ اُس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو جواب دیا تھا، وہ قرآن میں اِن الفاظ میں نقل ہوا ہے: لا تحزن، إن اللہ معنا (9: 40) یعنی تم غم نہ کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس قول سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس طرح کے معاملے میں مومن کا احساس کیا ہونا چاہیے۔ اِس طرح کے معاملے میں مومن کو چاہئے کہ وہ اپنے عجز کے مقابلے میں اللہ کی قدرت کو دریافت کرے۔ وہ یہ یقین کرے کہ سارا اختیار اللہ تعالیٰ کو ہے۔ اللہ دینے والا ہے، اور اللہ چھیننے والا۔ عزت بھی اللہ کے ہاتھ میں ہے اور ذلت بھی اللہ کے ہاتھ میں۔ سارا اختیار اللہ کو حاصل ہے۔ اختیار کے معاملے میں کوئی اس کا شریک نہیں۔
مومن پر فرض ہے کہ وہ پورے شعور کے ساتھ اِس حقیقت کو جانے۔ ذاتی اعتبار سے اُس کا یقین اِسی عقیدے پر قائم ہو۔ اِسی کے ساتھ مومن پر یہ فرض ہے کہ جب بھی اِس قسم کا کوئی وقت آئے تو وہ لوگوں کے سامنے اِس حقیقت کی گواہی دے۔ وہ لوگوں کو بتائے کہ اللہ کے اختیار میں کوئی اس کا حصہ دار نہیں۔ اللہ کے اختیار میں کسی کو حصے دار ماننا شرک ہے، اور شرک ایک ایسا جرم ہے جو اللہ کے یہاں کسی حال میں قابلِ معافی نہیں(4: 48) ۔ جس طرح اللہ کی قدرت میں کسی کو شریک ماننا ایک جرم ہے، اُسی طرح یہ بھی ایک جرم ہے کہ کسی مومن کے سامنے اِس طرح کی صورت پیش آئے اور وہ لوگوں کے سامنے اِس حقیقت کی گواہی نہ دے۔
واپس اوپر جائیں

شاتمِ رسول کی سزا

امام ابن تیمیہ (وفات: 1328 ء) اسلامی تاریخ کے انتہائی مشہور عالم ہیں۔ اُن کو ’’شیخ الاسلام‘‘ کہا جاتا ہے۔ شتمِ رسول کے موضوع پر ان کی ایک ضخیم کتاب ہے۔ اس کا نام یہ ہے: الصّارم المسلول علی شاتم الرسول۔ کتاب کا خلاصہ یہ ہے کہ جو آدمی شتمِ رسول کا مرتکب ہو، اُس کو حد کے طورپر قتل کردیا جائے۔ شتمِ رسول کی اِس سزا کو جائز ثابت کرنے کے لیے انھوں نے لمبی بحثیں کی ہیں، لیکن حقیقی طورپر اُن کے اِس موقف کے لیے نہ قرآن میں کوئی دلیل ہے اور نہ حدیث میں۔
کتاب کے مطابق، بہ ظاہر صرف ایک ’’روایت‘‘ ہے جس سے صراحت کے ساتھ شاتمِ رسول کے لیے قتل کا حکم معلوم ہوتا ہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ خود ابنِ تیمیہ اِس روایت کو منکَر اور ضعیف بتاتے ہیں۔ وہ اعتراف کرتے ہیں کہ اِس روایت کے راوی غیر ثقہ ہیں۔ اِس اعتراف کے بعد وہ لکھتے ہیں کہ: فإن کان محفوظاً فہو دلیلٌ علی وجوب قتل مَن سبّ نبیاً من الأنبیاء (صفحہ 93 ) یعنی اگر یہ روایت درست ہو، تو وہ اِس کی ایک دلیل ہے کہ جو شخص نبیوں میں سے کسی نبی کا سبّ وشتم کرے، اُس کو قتل کردیا جائے۔
امام ابنِ تیمیہ حدیث کے بہت بڑے عالم مانے جاتے ہیں۔ اُن کے بارے میں امام الذہبی کا یہ قول ہے کہ — ہر وہ حدیث جس کو ابن تیمیہ نہ جانتے ہوں، وہ حدیث نہیں (کلّ حدیث لایعرفہ ابن تیمیۃ، فہو لیس بحدیث)۔ ایسی حالت میں یہ سوال ہے کہ جب خود حافظِ حدیث ابن تیمیہ اِس روایت کو غیرثقہ مانتے ہوں تو پھر ایسی غیر ثابت شدہ روایت سے قتلِ شاتم کا استدلال کیسے درست ہوسکتا ہے۔ اِس قسم کا استدلال بلا شبہہ غیر دینی بھی ہے اور غیر علمی بھی۔ حقیقت یہ ہے کہ شاتم کو قتل کرنے کے بارے میں نہ قرآن میں کوئی حکم ہے اور نہ حدیث میں۔ اِس معاملے میں مسلمانوں نے اپنے قومی جذبات کو شرعی حکم کا درجہ دے دیا ہے۔ یہ بلاشبہہ سرکشی کا فعل ہے۔ یہ خود ایک اہانتِ رسول ہے کہ رسول کے نام پر کسی انسان کو ناحق قتل کیا جائے۔ شتم اپنی حقیقت کے اعتبار سے، ایک اختلافِ رائے ہے، اور اختلاف رائے کے مقابلے میں جو چیز مطلوب ہے، وہ علمی استدلال ہے، نہ کہ بندوق اور تلوار۔
واپس اوپر جائیں

پیغمبر کے نام پر غیر پیغمبرانہ روش

20-24 جنوری 2012 کے دوران راجستھان میں جے پور لٹریچر فیسٹول (Jaipur Literature Festival) ہوا۔یہ ایک انٹرنیشنل فیسٹول تھا۔ اِس میں مختلف ملکوں کے آرٹسٹ اور اہلِ علم بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔ اِس فیسٹول میں سلمان رشدی (مقیم لندن) کو بھی بلایا گیا تھا، مگرانڈیا کی مسلم تنظیموں نے اِس کے خلاف شدید احتجاج کیا اور یہ مانگ کی کہ رشدی انڈیا میں نہ آنے پائیں، کیوں کہ انھوں نے اپنی کتاب (The Satanic Verses) میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی ہے۔ حکومتِ ہند نے سیاسی مصالح کے تحت، مسلمانوں کے اِس مطالبے کو مان لیااور سلمان رشدی کے دورۂ ہند کو منسوخ کردیا گیا۔ہندستان کے مسلمانوں نے یہ مطالبہ بہ ظاہر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر کیا تھا، مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے، وہ پیغمبر اسلام کے اُسوہ (model) کی نفی تھا۔ یہ بہ ظاہر فتح، اپنے نتیجے کے اعتبار سے، صرف بدترین شکست کے ہم معنی تھی۔ اِس طرح کے معاملے میں پیغمبر اسلام کا اسوہ یہ ہے کہ اس کو غیر جذباتی انداز میں دیکھا جائے، مسئلہ (problem) کو نظر انداز کرتے ہوئے موقع (opportunity) کو استعمال (avail) کیا جائے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ابتدائی زمانے میں کعبہ میں 360 بت رکھے ہوئے تھے۔ یہ بلاشبہہ ایک مسئلہ تھا، لیکن اِسی کے ساتھ اِس معاملے کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ اِنھیں بتوں کی وجہ سے بڑی تعداد میں وہاں مشرک زائرین آتے تھے۔ پیغمبر اسلام نے کعبہ میں بتوں کی موجودگی کو نظر انداز کیا اور مشرک زائرین کے سامنے قرآن کا پیغام پیش کیا۔ جے پور لٹریچر فیسٹول کے موقع پر مسلمانوں کو یہی کام کرنا تھا۔ اِس فیسٹول میں ہندستانی اور غیر ہندستانی لوگ بڑی تعداد میں شریک ہورہے تھے۔ مسلمانوں کو یہ کرنا چاہئے تھا کہ وہ فیسٹول کے ناخوش گوار پہلو کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کو ایک موقع دعوت (Dawah opportunity) کے طورپر استعمال کریں۔ وہ وہاں اپنا اسٹال لگائیں اور لوگوں کو قرآن کا ترجمہ اور دوسری اسلامی کتابیں پڑھنے کے لیے دیں۔ یہی اِس معاملے میں پیغمبر اسلام کا نمونہ ہے۔
واپس اوپر جائیں

مذاہب کے درمیان ہم آہنگی

موجودہ زمانہ سوشل موبلائزیشن (social mobilization) کا زمانہ ہے۔ اِس بنا پر ہر جگہ ایک نیا ظاہرہ پیدا ہوا ہے، وہ یہ کہ ہر جگہ مختلف مذاہب کے لوگ ایک ساتھ رہنے لگے ہیں۔ اِس بنا پر کانفرنسوں اور سیمیناروں میں ایک نیا بحث کا موضوع بن گیا ہے، وہ یہ کہ مختلف مذاہب کے سماج (multi-religious society) کے درمیان کس طرح ہم آہنگی پیدا کی جائے۔ اِس سوال کو لے کر جگہ جگہ ایسے سیمینار کئے جارہے ہیں جن کا موضوع بین مذاہب ہم آہنگی (interfaith harmony) ہوتا ہے۔
اِس طرح کے سیمناروں اور کانفرنسوں کی کثرت کے باوجود اصل مسئلہ بدستور باقی ہے۔ اِس طرح کے اجتماعات کسی بھی درجے میں سماجی اتحاد کے مطلوب مقصد کو پورا نہ کرسکے۔اِس ناکامی کا سبب یہ ہے کہ اِس معاملے میں خود مطالعے کا زاویہ درست نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس مسئلے کا تعلق بین مذاہب اتحاد (interfaith harmony) سے نہیں ہے، بلکہ وہ اہلِ مذاہب کے درمیان اتحاد (harmony among the people of faith) سے ہے۔
اپنی نوعیت کے اعتبار سے، یہ ایک سماجی مسئلہ ہے، نہ کہ اعتقادی مسئلہ۔ اِس مسئلے کے حل کے لیے ہم کو سماجی اتحاد کا فارمولا دریافت کرنا ہے۔ مذہبی اتحاد کی بات ایک علاحدہ بات ہے، اُس کا اِس مسئلے سے کوئی تعلق نہیں۔
اہلِ مذاہب کے درمیان اتحاد کے لیے ہمیں کوئی نیا فارمولا وضع کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ وہی آزمودہ فارمولا ہے جو تمام قوموں کے درمیان عملاً تسلیم کرلیا گیا ہے، اور وہ ہے، پر امن بقائے باہم (peaceful co-existence) کا فارمولا۔ اِس معاملے میں لوگوں کے اندر جو ذہن بنانا ہے، وہ ہے ایک دوسرے کا باہمی احترام کرتے ہوئے وسیع تر سماجی مفاد کے لیے متحد ہو کر کام کرنا— وحدتِ ادیان (unity of faiths) اور سماجی اتحاد(social unity) دونوں ایک دوسرے سے الگ موضوعات ہیں۔ اِس مسئلے کا حل صرف اُس وقت ممکن ہے جب کہ دونوں کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھا جائے۔
واپس اوپر جائیں

امتِ مسلمہ کے مسائل اور اُن کاحل

جولائی 2011 میں ایک عرب ملک میں ایک عالمی کانفرنس منعقد ہوئی۔ اِس کانفرنس میں 76 ملکوں کے 222 نمائندے شریک ہوئے۔ کانفرنس کے شرکا میں مسلم علما کے علاوہ، عرب ملکوں کے اعلیٰ ذمے داران بھی شریک ہوئے۔ اِس کانفرنس کا عنوان یہ تھا — عالمِ اسلام: دشواریاں اور حل:
العالم الإسلامی: المشکلات والحلول (The Muslim World: Issues and Solutions)
کانفرنس کے شرکا نے اپنے مقالات میں جو باتیں کہیں، رپورٹ کے مطابق، اس کا خلاصہ یہ تھا:
ایک صاحب نے اپنے مقالے میں امتِ مسلمہ میں فرقہ وارانہ اختلافات کا ذکر کیا اور کہا کہ یہ مسئلہ بہت زیادہ سنگین ہے، کیوں کہ اَعدائِ اسلام کی طرف سے اِس کا استحصال کیا جارہا ہے۔ اِسی طرح مسلم حکومتوں سے درخواست کی گئی کہ سیاسی اختلافات کے لیے مذہب کو آلۂ کار نہ بنایا جائے۔ اِسی طرح ایک صاحب نے کہا کہ مسلمانوں میں امت ہونے کا تصور ختم ہوگیا ہے اور مسلمانوں نے علاقائیت کو اختیار کرلیا ہے، حالاں کہ مسلمانوں کے لیے باہمی رشتے کی بنیاد دین ہے، نہ کہ کوئی خطۂ زمین۔ ایک صاحب نے کہا کہ ہمارے فقہی ذخیرے میں عبادات پر تو بے شمار کتابیں ہیں، لیکن اسلام کے نظامِ سیاست پر محض چند کتابیں پائی جاتی ہیں۔ ضرورت ہے کہ اسلام کا باضابطہ مجموعۂ قوانین مرتب کیا جائے۔ اِسی طرح ایک صاحب نے کہا کہ مسلم ممالک کا فریضہ ہے کہ وہ جدید صنعت و ٹکنالوجی کے میدان میں آگے بڑھیں، ورنہ وہ دوسری قوموں کے محتاج ہو کر رہ جائیں گے، وغیرہ۔
یہ تمام باتیں اصل مسئلے کی نسبت سے، غیر متعلق (irrelevant) ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں، مسلم امت کا مسئلہ صرف ایک ہے، اوروہ یہ ہے کہ اس نے اپنے اصل منصبی فریضے کو چھوڑ دیا ہے، یہ دعوت الی اللہ کا فریضہ ہے۔ اِس بناپر موجودہ زمانے کے مسلمان نصرتِ الٰہی سے محروم ہوگئے ہیں۔ تمام مسائل دراصل اِسی دعوتی غفلت کا نتیجہ ہیں۔ امتِ مسلمہ کے موجودہ مسائل کے حل کا نقطۂ آغاز یہ ہے کہ مسلمان دعوت الی اللہ کی اہمیت کو سمجھیں اور وہ اس کے لیے منصوبہ بند انداز میں عمل کریں۔ دعوت کا فریضہ ادا کرنے ہی سے امت کے مسائل حل ہوں گے، اِس کے سوا، کوئی اور تدبیر امت کے مسائل کو حل کرنے والی نہیں۔ دوسری تمام تدبیروں سے اُن کے مسائل میں صرف اضافہ ہوگا، اِس کے سوا اور کچھ نہیں۔
دعوت کیا ہے۔ دعوت سادہ طورپر اعلان (announcement) کا نام نہیں۔ دعوت ایک انقلابی مشن ہے جو داعی کی پوری زندگی میں بھونچال کی طرح داخل ہوتا ہے اور اس کی زندگی کے ہر پہلو کو ایک نیا رخ دے دیتاہے۔ کہاجاتا ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمان بہت سے مسائل سے دوچار ہیں۔ اِس معاملے میں اصل سوال خود مسائل کی موجودگی کا نہیں ہے، بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ یہ مسائل کیوں پیدا ہوئے۔ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ ماضی میں مسلمانوں کی یہ حالت نہ تھی۔ یہ صرف موجودہ زمانے کی بات ہے کہ مسلمان اپنے آپ کو اِن مسائل میں مبتلا پارہے ہیں۔ اِس فرق کے مطالعے ہی میں اِس سوال کا جواب ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے مسائل کا حل کیا ہے۔
اِس معاملے میں قرآن کی ایک آیت ایک رہنما آیت کی حیثیت رکھتی ہے۔ قرآن کی سورہ الانفال میں قوموں کے عروج وزوال کا قانون اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: ذلک بأن اللہ لم یک مغیّراً نعمۃً أنعمہا علیٰ قوم حتی یغیروا ما بأنفسہم(8: 53) ۔ ایک اور قرآنی آیت: وأمّا ما ینفع الناس فیمکث فی الأرض (13: 17) کو شامل کرکے اِس معاملے کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ دنیا میں عزت اور استحکام کا راز یہ ہے کہ قوم دوسروں کے لیے دینے والی (giver) بنی ہوئی ہو۔ اِس کے برعکس، جب کوئی قوم لینے والی (taker) بن جائے تو اس کو عزت واستحکام حاصل نہیں رہتا۔
دورِ اول کے مسلمان، دعوت کے تصور پر کھڑے ہوئے تھے، یعنی وہ دنیا کو زندگی کی بہتر آئڈیالوجی دے رہے تھے۔ اِس لیے ان کو قوموں کے درمیان عزت ووقار کا درجہ حاصل تھا۔ موجودہ زمانے کے مسلمانوں نے نفع بخشی کی یہ حیثیت کھو دی ہے۔ اب اُن کے پاس صرف شکایت اور احتجاج کی زبان ہے۔ مسلمان صرف یہ اعلان کررہے ہیں کہ دنیا ہم کو ہمارے حقوق نہیں دے رہی ہے۔ اورفطرت کا یہ قانون ہے کہ جو قوم نفع بخشی کی صلاحیت کھو دے، اس کو کبھی عزت ووقار کا درجہ نہ ملے۔
دورِ قدیم کے مسلمانوں کی نفع بخشی کا اعتراف مورخین نے عام طورپر کیا ہے۔ مثلاً پنڈت جواہر لال نہرو نے لکھا ہے کہ عرب جب انڈیا میں آئے تو انھوں نے انڈیا کو ایک شان دار کلچر (brilliant culture) دیا۔ سوامی وویکا نند نے اعتراف کیا ہے کہ انڈیا کو مسلمانوں سے مساوات کا تحفہ ملا۔ بریفالٹ (Briffault)نے اعتراف کیا ہے کہ قرونِ وسطی میں مسلمانوں نے جو علمی ترقیاں کیں، اُس سے مغرب کی جدید سائنس وجود میں آئی۔
قدیم زمانے کے مسلمانوں میں نفع بخشی کی یہ صلاحیت کیسے پیدا ہوئی۔ اِس کا اصل راز یہ تھا کہ وہ دینِ توحید کے مبلغ بن گئے۔ توحید کا تصور ایک انقلابی تصور تھا۔ اِس تصور نے اُن کو ایک ایسی آئڈیالوجی دی جس کی ضرورت تمام دنیا کو تھی۔ توحید کی آئڈیالوجی نے مسلمانوں میں بیداری کی ایک نئی لہر پیدا کردی۔ وہ زندگی کے ہر میدان میں عزم وحوصلے کے ساتھ داخل ہوگئے۔ اُن کو یقین تھا کہ ان کے پاس دنیا کو دینے کے لیے وہ چیز ہے جو دنیا کے پاس نہیں ہے۔ اِس یقین نے اُن کے اندر ایک تسخیری شخصیت پیدا کردی۔ اِس یقین کے فکری نتیجے کے طور پر ان کی تمام فکری اور عملی صلاحیتیں جاگ اٹھیں۔
دورِ اول کے مسلمانوں اور موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے درمیان اصل فرق یہی ہے۔ جب تک یہ فرق دور نہ کیا جائے، اُس وقت تک موجودہ صورتِ حال بدلنے والی نہیں۔ یہی وہ فطری حقیقت ہے جس کو امام مالک نے اِن الفاظ میں بیان کیا تھا: لا یصلح آخر ہذہ الأمۃ إلا ما أصلح أولہ (مسند الموطأ: رقم: 783) یعنی اِس امت کے آخری دور کے معاملات بھی اُسی طرح درست ہوں گے جس طرح دورِ اول کے مسلمانوں کے معاملات درست ہوئے تھے۔ خلاصہ یہ کہ اگر کسی فرد یا گروہ کا احساس یہ ہو کہ اس کے پاس دوسروں کو دینے کے لیے کوئی چیز ہے تو یہ احساس اس کے لیے ایک انقلابی واقعہ بن جائے گا۔ یہ احساس اس کی تمام صلاحیتوں کو جگا دیتا ہے۔ اس کے اندر بے پناہ عزم پیدا ہوجاتاہے۔ وہ زندگی کے ہر میدان میں حوصلے کے ساتھ داخل ہوجاتا ہے۔ وہ اِس کا انتظار نہیں کرتا کہ دوسرے لوگ اس کے مسائل کو حل کریں۔ وہ خود اپنی ذاتی جدوجہدسے اپنے تمام مسائل کو حل کر ڈالتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

مسلمانوں کے لیے انتباہ

قرآن کی سورہ الانعام میں اللہ کے عذاب کی ایک صورت یہ بتائی گئی ہے کہ اللہ لوگوں کو دو گروہوں میں بانٹ دے اور یہ دونوں گروہ باہم ایک دوسرے کے خلاف خونیں لڑائی اور خونیں جنگ شروع کردیں۔ چناں چہ فرمایا کہ: أویلبسکم شیعا ویُذیق بعضکم بأس بعض(6: 65) یہ بلاشبہہ عذاب کی نہایت بری صورت ہے، کیوں کہ یہ عذاب بھی ہے اور اِسی کے ساتھ ذلت بھی۔
قرآن کی اِس آیت میں جس عذاب کا ذکر ہے، اُس کا تعلق صرف غیر مسلموںسے نہیں، بلکہ اُس کا تعلق خود مسلمانوں سے بھی ہے۔ یہ بات مختلف احادیث سے ثابت ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو انتباہ دیتے ہوئے فرمایاتھا: لا ترجعوا بعدی کفّاراً، یضرب بعضُکم رِقابَ بعض (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 1739) یعنی میرے بعد تم لوگ دوبارہ کافر نہ ہوجانا کہ تم ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔اِسی طرح آپ نے فرمایا کہ: مَن حمل علینا السلاح، فلیس منا (صحیح البخاری، رقم الحدیث:6874 ) یعنی جو شخص ہمارے اوپر ہتھیار اٹھائے، وہ ہم میں سے نہیں۔ نیز فرمایا کہ: سباب المسلم فسوقٌ وقتالہ کُفرٌ (صحیح البخاری، رقم الحدیث:6044) یعنی مسلمان پر سب وشتم کرنا فسق ہے اور اُس سے جنگ کرنا کفر ہے۔ قرآن میں یہاں تک آیا ہے کہ جو شخص کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے، ا س کی سزا جہنم ہے، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، اور اُس پر اللہ کا غضب اور اللہ کی لعنت ہے۔ اور اللہ نے اُس کے لیے بڑا عذاب تیار کررکھا ہے (4: 93) ۔
موجودہ زمانے میں مسلم ملکوں میں جو باہمی لڑائیاں ہو رہی ہیں، وہ بلاشبہہ اِن آیتوں اور حدیثوں کا مصداق ہیں۔ اِن لڑائیوں میں مسلمان دو طبقے میں بٹ گئے ہیں— ایک، حکمراں طبقہ اور دوسرا، غیر حکمراں طبقہ۔ دونوں ایک دوسرے کے خلاف خونیں لڑائی لڑ رہے ہیں۔ یہ باہمی لڑائیاں بلاشبہہ فعلِ حرام کا درجہ رکھتی ہیں۔ یہ واقعہ اِن مسلمانوں کے لیے دنیا میں ذلت کا سبب ہے اور آخرت میں عذاب کا سبب۔
واپس اوپر جائیں

امت ِ مسلمہ کا المیہ

حضرت ثوبان سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إنما أخاف علی أمتی الأئمۃَ المُضِلِّین، وإذا وُضع السیف فی أمتی، لم یُرفع عنہم إلی یوم القیامۃ (سنن أبی داؤد، رقم الحدیث :5427 ) یعنی میںاپنی امت کے بارے میں سب سے زیادہ گم راہ کن لیڈروں سے ڈرتا ہوں، اور جب میری امت کے اندر تلوار داخل ہوگی تو اس کے بعد وہ قیامت تک اُس سے اٹھائی نہ جائے گی۔
تاریخ بتاتی ہے کہ امتِ محمدی کے اندر یہ تلوار حضرت عثمان کی خلافت کے زمانے میں داخل ہوئی۔ یہ معاملہ گمراہ کن لیڈروں کے ذریعہ پیش آیا اور عملاً وہ آج تک مختلف صورتوں میں جاری ہے۔ اصل یہ ہے کہ اسلام کا اصل ماڈل دعوتی ماڈل ہے۔ رسول اور اصحاب رسول کے زمانے میں یہی ماڈل امت کے درمیان جاری رہا۔ حضرت عثمان کی شہادت کے بعد اس میں تبدیلی آئی۔ اب امت کے اندر غیردعوتی ماڈل رائج ہوگیا۔
دعوتی ماڈل پر امن مشن کا ماڈل ہے۔ اِس ماڈل میں مثبت سوچ ہوتی ہے، تعمیری سرگرمیاں ہوتی ہیں، تمام سرگرمیاں دعوت کے مرکزی تصور کے تحت تشکیل پاتی ہیں، ٹکراؤ کے بجائے مصالحت کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ دشمن کو دوست بنانے کی کوشش کی جاتی ہے، اختلاف کوگفت وشنید (negotiation) کے ذریعے حل کیا جاتا ہے، وغیرہ۔
غیر دعوتی ماڈل کا معاملہ اِس سے مختلف ہے۔ اس میں نفرت اور تشدد اور ٹکراؤ جیسی چیزیں فروغ پاتی ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ حضرت عثمان کی شہادت کے بعد امت میں غیر دعوتی ماڈل رائج ہوگیا۔ اس کے بعد امت کے اندر کوئی ایسی طاقت ور شخصیت نہیں ابھری جو غیر دعوتی ماڈل کو ختم کرے اور امت کے اندر دوبارہ دعوتی ماڈل کو رائج کرے۔ یہی امتِ مسلمہ کا اصل المیہ ہے۔ ضرورت ہے کہ اِس المیہ کو دورکرکے امت کو دوبارہ دعوتی ماڈل پر لایاجائے۔ اِس کے بغیر امت کا کوئی مسئلہ حل ہونے والا نہیں۔
امتِ مسلمہ کے اندر تلوار کا داخل ہونا کیا ہے۔ یہ دراصل تاریخی اسباب کے تحت پیش آنے والا ایک واقعہ ہے۔ اسلام کے ابتدائی تیرہ سالہ دور کو مکی دور کہاجاتا ہے۔ اِس دور میں اسلام کا جو ماڈل بنا، وہ پوزیشن آف ماڈسٹی (position of modesty) پرمبنی ایک ماڈل تھا۔
مدنی دور کے بعد، اسلامی تاریخ کا جو دور آیا، وہ تقریباً ہزار سال تک جاری رہا۔ اِسی بعد کے دور میں، اسلام کا کتب خانہ وجود میں آیا۔ وہ چیز جس کو مسلم فکر کہا جاتا ہے، وہ تمام تر اِس بعد کے دور میں بنا جو کہ پوزیشن آف اسٹرینتھ (position of strength) کا دور تھا۔
مکی دور میں جو حالات تھے، اس کے مطابق، اُس زمانے کا مسلم فکر تمام تر صبر پر مبنی تھا۔ اُس زمانے کے مسلمان، اپنے حالات کے مطابق، امن کی اصطلاحوں میں سوچتے تھے، نہ کہ جنگ کی اصطلاحوں میں۔ اُس زمانے میں، مسلمانوں کے اندر دعوت کا چرچا تھا، نہ کہ جہاد کا چرچا۔ اُس زمانے کے مسلمان ترغیب (persuasion) میں یقین رکھتے تھے، نہ کہ نفاذ (implementation) میں۔ اُس زمانے کے مسلمان دوسروں کو مدعو کی نظر سے دیکھتے تھے، نہ کہ حریف (rival) کی نظر سے۔
اِس قسم کی صفات کے نتیجے میںاُس زمانے کے مسلمانوں کے اندر جو ذہن بنا، وہ تمام تر داعیانہ ذہن تھا۔ سیکولر اصطلاح میں، اِس ذہن کو ایک غیر سیاسی ذہن (non-political mind) کہاجاسکتا ہے۔ اِس کے برعکس، پوزیشن آف اسٹرنتھ کے دور میں جو ذہن بنا، وہ ہر اعتبار سے، مذکورہ ذہن سے مختلف تھا۔ بعد کے دور میں جو اسلامی لٹریچر تیار ہوا، اس میں صبر کو منسوخ سمجھ لیاگیا۔ تالیفِ قلب ایک غیر ضروری روش قرار پائی۔ اب غیر مسلموں کے لیے ’’کفار‘‘ کی اصطلاح استعمال ہونے لگی۔ مسلمان یہ سمجھنے لگے کہ مسلم علاقہ دارالاسلام ہے اور غیر مسلم علاقہ دار الکفر یا دار الحرب۔ اب یہ ذہن بن گیا کہ ہم کو پُرامن دعوت دینے کی ضرورت نہیں، حاکمانہ طاقت کے زور پر ہم، لوگوں سے اپنی بات منوا سکتے ہیں۔ اب یہ سمجھا جانے لگا کہ مسلمان خیرامت ہیں اور دوسرے لوگ کافرانہ امت۔اِسی دور میں ایک عرب شاعر نے مسلم دبدبے کو اِن الفاظ میں بیان کیا تھا کہ — جہاں دوسرے لوگ ایک فوج بھیجتے ہیں، وہاں ہم صرف ایک خط بھیج دیتے ہیں:
إذا ما أرسل الأمراء جیشاً إلی الأعداء، أرسلنا الکتابا
ہزار سالہ اقتدار کے دور میں یہی چیزیں مسلمانوں کے ذہن کی تشکیل کرتی رہیں۔ یہ فکر نسل در نسل چلتا رہا، یہاں تک کہ پوزیشن آف اسٹرنتھ کے تصور کے تحت پوری امتِ مسلمہ کی کنڈیشننگ ہوگئی۔ تمام دنیا کے مسلمان اِسی انداز پر سوچنے لگے۔ کسی اور انداز پر سوچنا ان کے لیے ناممکن ہوگیا۔
اٹھارھویں صدی کے خاتمے کے ساتھ مسلم امت کے لیے پوزیشن آف اسٹرنتھ کا دور ختم ہو گیا۔ اب ساری دنیا میں مسلم ایمپائر کے بجائے، مغربی ایمپائر قائم ہوگیا۔ مسلم تہذیب کی جگہ مغربی تہذیب کو ساری مسلم دنیا میں غلبہ حاصل ہوگیا۔ مسلمانوں کی شوکت ختم ہوگئی اور غیر مسلموں کی شوکت ہر جگہ قائم ہوگئی۔ یہ وقت مسلم رہنماؤں کے لیے سخت امتحان کا وقت تھا۔ مسلم رہنماؤں کو چاہیے تھا کہ وہ تاریخ کے فیصلے کو سمجھیں اور مسلمانوں کو مشورہ دیں کہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ تم مکی ماڈل کی طرف لوٹو، یعنی پوزیشن آف ماڈسٹی کے ماڈل کی طرف۔ لیکن مسلم رہنماؤں نے اِس کے برعکس، یہ کیا کہ انھوں نے ’’تحفظِ ملت‘‘ کے نام پر مسلمانوں کو ابھارا کہ وہ پوزیشن آف اسٹرنتھ کی حالت کو دوبارہ قائم کرنے کے لیے مفروضہ ظالموں کے خلاف جنگ چھیڑ دیں۔ مسلمانوں کے اندر یہ غیر دانش مندانہ جنگ تقریباً دو سو سال سے جاری ہے— اب آخری وقت آگیا ہے کہ مسلمان اپنی اِس تباہ کُن روش کو بدلیں۔ وہ حقائق کی بنیاد پر اپنے عمل کی نئی منصوبہ بندی کریں۔ اِس کے سوا، کوئی بھی دوسرا راستہ اُن کو کامیابی تک پہنچانے والا نہیں۔
واپس اوپر جائیں

امن کی وادی

کشمیر میں ہر طرف فطرت کے مناظر ہیں— سرسبز درخت، پانی کے چشمے، بہتے ہوئے دریا، چڑیوں کی چہچہاہٹ، پھلوں اور پھولوں کی بہاریں، اِس طرح پورا کشمیر فطرت کا گارڈن نظر آتاہے۔ کشمیر کا یہ سرسبز ماحول اپنی خاموش آواز میں پکار رہا ہے کہ یہاں نفرت اور عداوت کے لیے کو ئی جگہ نہیں، یہاں تشدد کا کلچر چلانا خدا کے تخلیقی منصوبہ کے خلاف ہے، اور جو چیز خدا کے تخلیقی منصوبہ کے خلاف ہو، وہ کبھی خدا کی اِس دنیا میں کامیاب ہونے والی نہیں۔
کشمیر میں 2012 کے موسم سرما میں بڑی مقدار میں اسنو فال (snow fall) ہوا۔ اسنو فال ایک خوب صورت فطری ظاہرہ (natural phenomenon) ہے۔ کسی نے درست طورپر کہا ہے کہ اسنو فال ایک قسم کی روحانی بارش (spiritual rain)ہے۔
13 فروری 2012 کو ایک کشمیری مسلمان کی طرف سے موبائل پر ہمارے ایک ساتھی کو یہ میسج (SMS) ملا— کشمیر اِس وقت اسنو فال کی وجہ سے سفید ہورہا ہے۔ سفیدی، امن کی علامت ہے۔ یہ فطرت کا سبق ہے، اور فطرت کے اِس پیغام کی خلاف ورزی صرف تباہی تک پہنچانے والی ہے:
Today Kashmir is white due to snow fall. White is the symbol of peace. This is the lesson from nature, and violation of the law of nature always leads to destruction.
کشمیری مسلمان کا یہ پیغام گویا کشمیر کی روح کی ایک پکار ہے۔ کشمیر کی روح، فطرت کی زبان میں یہ پکار رہی ہے کہ کشمیر اپنی تخلیق کے اعتبار سے، امن کی ایک وادی ہے۔ کشمیر کو اس کے خالق نے اِس لیے چنا ہے کہ وہ دنیا کو امن کا پیغام دے۔ وہ فطرت کا ایک ایسا گہوارا بنے جہاں سے خدا کے بندوں کو امن اور انسانیت کا پیغام ملے — یہی کشمیر کا اصل رول ہے، اہل کشمیر کے لیے ترقی اور کامیابی کا راز یہ ہے کہ وہ خدا کے عطا کئے ہوئے اپنے اِس رول کو پہچانیں اور اُس کو بھر پور طورپر انجام دیں۔
واپس اوپر جائیں

یہ وعدہ خلافی کا معاملہ نہیں

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مدینہ میں خلافت کے سوال پر مہاجرین اور انصار کے درمیان اختلاف پیدا ہوا۔ انصار کا یہ کہنا تھا کہ: منا أمیر، ومنکم أمیر(ایک امیر مہاجرین میں سے اور ایک امیر انصار میں سے)۔ آخر کار حضرت عمر کے اس قول پر فیصلہ ہوا : نحن الأمراء، وأنتم الوزراء (مہاجرین میں سے امیر ہوں اور انصار میں سے وزیر)۔ لیکن بعد کو اِس وعدے پر عمل نہ ہوسکا۔ حضرت عمر فاروق نے اپنے آخری زمانے میں کہا کہ — ہم نے انصار سے وعدہ کیا تھا کہ ہم خلافت کے کام میں انصار کو وزیر بنائیں گے، لیکن ہم ایسا نہ کرسکے: واللہ ما وفینا لہم، کما عاہدناہم علیہ (مسند البزّار، رقم الحدیث: 281)یہ وعدہ خلافی کی بات نہ تھی، بلکہ وہ اجتماعی حکمت کی بات تھی۔ اسلام میں یہ مطلوب ہے کہ جب کوئی وعدہ کیا جائے تو اُس کو پورا کیا جائے، مگر یہ حکم انفرادی معاملات کے لیے ہے۔ انفرادی معاملات میں ایک فرد کو یہ اختیار ہوتاہے کہ وہ کسی رکاوٹ کے بغیر اپنے وعدے کو پورا کرسکے، اِس لیے فرد کے اوپر یہ لازم ہے کہ جب وہ کسی سے وعدہ کرلے تو وہ اُس کو ہر حال میں پورا کرے، وہ کسی بھی عذر کی بنا پر اپنے وعدے کے خلاف عمل نہ کرے۔
مگر اجتماعی زندگی کا معاملہ اِس سے مختلف ہے۔ جو وعدہ سیاسی اور اجتماعی زندگی سے تعلق رکھتاہو، وہ عام معنوں میں ایک وعدہ نہیں ہوتا۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے، چوں کہ اجتماعی حالات ہمیشہ یکساں نہیں رہتے، مختلف قسم کے تقاضے اُس کے اوپر فیصلہ کن طور پر اثر انداز ہوتے رہتے ہیں، اِس لیے اِس قسم کے وعدے کبھی حتمی نہیں ہوتے، وہ حالات کے اعتبار سے بدلتے رہتے ہیں۔ اجتماعی وعدوں کے معاملے میں طرفین کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ حالات کے تقاضے کو سمجھیں۔ وہ ابتدائی الفاظ پر اصرار کرنے کے بجائے بعد کے پیدا شدہ حالات سے مطابقت پر راضی ہوجائیں— اجتماعی زندگی کے معاملات کبھی آئڈیل وزڈم (ideal wisdom) پرطے نہیں ہوتے، وہ ہمیشہ پریکٹکل وزڈم (practical wisdom) پر طے ہوتے ہیں۔ یہی اسلام کا تقاضا ہے، اور یہی عقل کا تقاضا بھی۔
واپس اوپر جائیں

ٹکراؤ سے اعتراف ِ حقیقت تک

میڈیا میں دو خبریں ایک ساتھ آئی ہیں— ایک، یہ کہ پاکستانی لیڈر شپ نے کشمیر کے اِشو کو وقتی طور پر ختم کردیا ہے۔ یہ خبر نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (27 فروری 2012 ) میں اِس عنوان کے تحت چھپی ہے— پاکستان، کشمیر کے اشو کو وقتی طورپر ردّی اشیا کے خانے میں ڈال سکتا ہے:
Pakistan may junk Kashmir issue temporarily
دوسری خبر کا خلاصہ یہ ہے کہ پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کا خفیہ رہائشی کمپاؤنڈ واقع تھا۔ 3 مئی 2011 کو امریکا نے ایک ٹارگیٹڈ اٹیک (targetted attack) کے ذریعے وہاں اسامہ بن لادن کو ہلاک کردیا۔ اب خبر ہے کہ خود پاکستانی حکومت نے اسامہ بن لادن کے اِس رہائشی کمپاؤنڈ کو 25 فروری 2012 کو رات کے اندھیرے میں ڈھا دیا۔ اُس کا ملبہ وہاں سے دور پھینک دیاہے۔ اِس واقعے کی تصویر ٹائمس آف انڈیا (27 فروری 2012 ) کے صفحہ 18پر شائع ہوئی ہے۔
اِن دونوں خبروں کا خلاصہ صرف ایک ہے، وہ یہ کہ کشمیر میں جہاد کے نام سے جو متشددانہ جدوجہد شروع کی گئی تھی، وہ اب اپنے فطری انجام کو پہنچ کر ختم ہوگئی ہے، مذکورہ خبر میں ’’وقتی طورپر‘‘ (for the time being) کا لفظ محض ڈپلومیٹک ہے۔ اپنے اصل مفہوم کے اعتبار سے، اُس کا مطلب صرف یہ ہے کہ پاکستان نے اب ہمیشہ کے لیے اِس بے نتیجہ اشو کو ترک کردیا ہے، یہاں تک کہ اب اس نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ پاکستان میں متشددانہ جدوجہد کی علامتوں تک کو مٹا دیا جائے۔ اِس کی ایک مثال پاکستان میں اسامہ بن لادن کی رہائش گاہ کی مسماری ہے۔
کشمیر کی نام نہاد جنگ، کشمیریوں کی اپنی آواز نہ تھی، وہ مکمل طورپر پاکستان کی برآمد کردہ جنگ (exported war) تھی۔ پاکستان نے اب حالات کی مجبوری کے تحت اُس کا خاتمہ کردیا ہے۔ ایسی حالت میں اب کشمیر کی نام نہاد جنگ کو جاری رکھنے کا نہ کوئی جواز ہے اور نہ کوئی امکان۔ اب اہلِ کشمیر کے لیے متعدد انتخابات (options) نہیں رہے۔ اب اُن کے لیے ایک ہی ممکن انتخاب ہے، یہ کہ وہ ہتھیار اور ہتھیار کی سیاست دونوں کا مکمل خاتمہ کردیں، اور پُرامن جدوجہد کے ذریعے اپنے مستقبل کی تعمیر کریں۔
اجتماعی زندگی میں اقدام کی دو صورتیں ہوتی ہیں— ایک، یہ صورت کہ وہ اپنے مطلوب انجام تک پہنچے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وہ اپنے انجام کے اعتبار سے، کاؤنٹر پروڈکٹیو (counter-productive) ثابت ہو، یعنی الٹا نتیجہ برآمد کرنے والا۔ پاکستان کی طرف سے چھیڑی ہوئی کشمیری جنگ کا یہی دوسرا انجام ہوا ہے۔ اِس جنگ میں پاکستان نے بہت زیادہ کھویا، لیکن وہ اپنے مطلوب کو نہ پاسکا۔
پاکستان کے لیے یہ ایک حقیقت پسندانہ فیصلہ ہے کہ وہ اس تباہ کُن جنگ سے اپنے آپ کو الگ کررہا ہے، مگر اہلِ پاکستان کے لیے زیادہ بڑا مسئلہ تصحیحِ فکر کا ہے، یعنی منفی سوچ کو چھوڑ کر مثبت سوچ کو اختیار کرنا۔ اِس کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان کھلے طورپر یہ اعلان کرے کہ کشمیر کی جنگ چھیڑنا ہماری ایک مہلک غلطی تھی۔ غلطی کے کھلے اعلان کے بغیر پاکستان کو اس کا کوئی حقیقی فائدہ ملنے والا نہیں۔ غلطی کے اعلان کا فائدہ یہ ہوگا کہ پاکستان میں ایک نئی مثبت سوچ (positive thinking) کا آغاز ہوجائے گا۔ پاکستان کے لوگ اِس معاملے میں اپنی منفی نفسیات کی بنا پر غیر حقیقت پسندانہ سوچ کا شکار ہوگئے۔ اِس طرح کا اعلان اُن کو ایک نئی رہنمائی دے گا۔ وہ مثبت سوچ میں جینے لگیں گے۔ اُن کی قومی پالیسی جواب تک غیر حقیقت پسندانہ طرز فکر پر کھڑی ہوئی تھی، وہ حقیقت پسندانہ طرز فکر پر قائم ہوجائے گی۔ یہ واقعہ پاکستان اور اس کے حلیفوں کے لیے بلا شبہہ ایک انقلابی واقعہ ہوگا۔
واپس اوپر جائیں

دوسری غلطی نہیں

6 فروری 2012 کو پاکستان کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اسلام آباد میں ایک بیان دیا۔ یہ بیان پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا دونوں میں عمومی طورپر رپورٹ کیا گیا۔ اِس بیان میں انھوںنے کہا تھا کہ ’’کشمیر کے لیے پاکستان اب مزید جنگ کا تحمل نہیں کرسکتا۔ انھوں نے کہا کہ اِس سے پہلے کشمیر کے لیے ہم نے انڈیا سے چار مرتبہ (1948, 1965, 1971, 1999) جنگ کی ہے، لیکن اِس جنگ سے کچھ حاصل نہیں ہوا۔ کشمیر کا مسئلہ صرف بات چیت کے ذریعے حل کیا جاسکتا ہے۔‘‘
وزیر اعظم پاکستان کا یہ بیان ایک غلطی کے بعد دوسری غلطی کے ہم معنی ہے۔ جنگ کرنا پاکستان کی پہلی غلطی تھی۔ دوسری غلطی یہ ہے کہ باہمی تعلقات کو آخری حد تک بگاڑ کر بات چیت کی پیش کش کی جائے۔ جنگ کسی سادہ واقعے کا نام نہیں۔ جنگ انتہائی قسم کا وہ منفی اقدام ہے جس کا نتیجہ ہمیشہ یہ ہوتاہے کہ فریقِ ثانی کے اندر نفرت اور دوری کے جذبات بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ مزید یہ کہ جو علاقہ پہلے صرف ایک جغرافی علاقے کی حیثیت رکھتا تھا، وہ اب اُس کے لیے وقار کا سوال (prestige issue) بن جاتا ہے، اور جب جنگ کا انجام یک طرفہ شکست کی صورت میں نکلے تو اس کے بعد فاتح فریق کے اندر اپنے موقف کی صداقت پر یقین بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔
ماضی کی ناکام لڑائیوں کے یہ نتائج اب پوری طرح واقعہ بن چکے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان جنگ سے پہلے جو معتدل فضا پائی جاتی تھی، وہ اب پوری طرح برباد ہوچکی ہے۔ ایسی حالت میں یہ امکان ختم ہوچکا ہے کہ میز کی بات چیت (negotiation) کا کوئی مفید نتیجہ برآمدہو۔ بات چیت کے لیے معتدل فضا لازمی طورپر ضروری ہے، جب کہ دونوں ملکوں کے درمیان یہ معتدل فضا اب موجود ہی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اب خود اپنی نادانیوں کے نتیجے میں پاکستان کے لیے بات چیت کا انتخاب (choice) سرے سے باقی نہیں رہا۔ اب پاکستان کو صرف یہ کرنا ہے کہ وہ کشمیر کو فراموشی کے خانے میں ڈال دے۔ وہ کشمیر کے بغیر پاکستان کی تعمیر کی منصوبہ بندی کرے، وہ ملے ہوئے کی بنیاد پر پاکستان کی ترقی کی عمارت کھڑی کرے۔ پاکستان کے لیے یہی واحد دانش مندی کا طریقہ ہے۔
واپس اوپر جائیں

امن اور ترقی

فروری 2012 میں اسلام آباد (پاکستان) کے ایک معروف عالم انڈیا آئے۔ انھوں نے انڈیا کے مختلف شہروں کا سفر کیا۔ اِن سفروں کے دوران اُن کو یہ موقع ملا کہ وہ انڈیا کے مسلمانوں کے حالات قریب سے دیکھ سکیں۔ دہلی میں 7 فروری 2012 کو اُن سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے تعجب کے انداز میں کہا کہ— انڈیا میں بہت زیادہ امن پایا جاتا ہے، اور انڈیا کے مسلمان کافی ترقی کررہے ہیں۔ مذکورہ عالم کے لیے یہ بات خلافِ توقع تھی، کیوں کہ پاکستانی میڈیا کے ذریعے انھوں نے یہ سمجھا تھا کہ انڈیا کے مسلمان ہر اعتبار سے تباہی کا شکار ہیں، انڈیا کے مسلمانوں کو نہ آزادی حاصل ہے اور نہ وہ یہاں ترقی کرسکتے ہیں، وغیرہ۔
حقیقت یہ ہے کہ ترقی کا تعلق اِس سے نہیں ہے کہ مسلمانوں کا علاحدہ بلاک بنایا جائے۔ یا نظامِ مصطفی کے نام پر ہنگامہ خیز تحریکیں چلائی جائیں۔ اِس قسم کی تحریکیں ترقی کے لیے بالکل غیر متعلق ہیں۔ ترقی کے لیے صرف دو چیزوں کی ضرورت ہے — امن اور آزادی۔ یہ دونوں چیزیں انڈیا میں پوری طرح موجودہیں۔ یہی وہ چیزیں ہیں جس نے انڈیا کے مسلمانوں کو یہ موقع دیا کہ وہ یہاں ترقی کرسکیں۔
ترقی ہمیشہ معتدل حالات میں ہوتی ہے۔ اِسی معتدل حالت کو امن کہا جاتا ہے۔ امن کے حصول کا راز ایک لفظ میں، اسٹیٹس کو ازم (statusquoism) ہے۔ جو لوگ ترقی چاہتے ہوں، اُن کو یہ کرنا چاہئے کہ وہ نام نہاد انقلابی تحریکوں کا طریقہ اختیار نہ کریں۔ وہ موجود صورتِ حال (statusquo) کو علی حالہ مان لیں۔ وہ موجود امکانات کو پر امن طورپر استعمال کریں اور بقیہ تمام چیزوں کو مستقبل کے خانے میں ڈال دیں۔اِسی تعمیری طریقے کا نام دانش مندانہ منصوبہ بندی ہے۔ اِس دنیا میں کوئی نتیجہ خیز کام صرف دانش مندانہ منصوبہ کے ذریعے انجام پاتاہے، نہ کہ جذباتی ہنگامہ آرائی کے ذریعے۔ جذباتی ہنگامہ آرائی صرف نقصان میں اضافہ کرتی ہے، وہ کسی مفید نتیجے تک پہنچنے والی نہیں — یہ واقعہ اہلِ کشمیر کے لیے ایک رہنما سبق کی حیثیت رکھتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

غیر اصولی موقف نہیں

نزاعی امور میں کبھی غیر اصولی موقف اختیار نہیں کرنا چاہئے۔ ایسا موقف ہمیشہ کاؤنٹر پروڈکٹیو (counter productive) ثابت ہوتا ہے، یعنی الٹا نتیجہ پیدا کرنے والا۔
اِس معاملے کی ایک تازہ مثال پاکستان ہے۔ پاکستان نے انڈیا کے خلاف ’’لڑائی‘‘ میں ایک غیر اصولی موقف اختیار کیا۔ انھوں نے غیر حکومتی تنظیموں کو ہتھیار دیا اور ان کی فوجی تربیت کی، تاکہ وہ انڈیا کے خلاف پراکسی وار (proxy war) لڑسکیں۔ یہ کام پاکستان میں بہت بڑے پیمانے پر کیا گیا۔پاکستان کے تمام لوگ اِس واقعے کو جانتے تھے، مگر میرے علم کے مطابق، پاکستان کے کسی بھی شخص یا جماعت نے بالاعلان اس کی مذمت نہیں کی۔ کسی نے بھی اِس معاملے میں نہی عن المنکر کا فریضہ انجام نہیں دیا۔ اب 60 برس سے زیادہ مدت گزرنے کے بعد یہ پالیسی خود پاکستان کے لیے تباہ کن ثابت ہورہی ہے۔اِس تباہی کی خبریں روزانہ میڈیا میں آرہی ہیں۔
یہ طریقہ سراسر اصول کے خلاف تھا۔ مسلمہ اصول کے مطابق، ہتھیار کااستعمال صرف ایک قائم شدہ حکومت کے لے جائز ہے۔ غیر حکومتی تنظیموں (NGOs) کے لیے کسی بھی عذر کی بنا پر ہتھیار اٹھانا ہر گز جائز نہیں۔ غیر حکومتی تنظیموں کے لیے صرف دو میں سے ایک کا اختیار حاصل ہے، یا تووہ کامل طورپر امن کے دائرے میں اپنی کوشش انجام دیں، یا پھر وہ خاموشی کا طریقہ اختیار کرلیں۔ اِس کے بجائے، ہتھیار اٹھانا یا تشدد کرنا اُن کے لیے تھرڈ آپشن (third option) کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور اِس معاملے میں تھرڈ آپشن لینا اپنے آپ میں ایک جرم ہے، وہ ہرگز کوئی اصلاحی اقدام نہیں۔
آدمی کو چاہیے کہ اجتماعی زندگی میں جب بھی وہ کوئی اقدام کرے تو وہ عقلی طورپر جائز اقدام (rationally justified action) ہو۔اجتماعی زندگی میں اقدام کا معاملہ بے حد نازک ہوتا ہے۔ اِس معاملے میں آدمی کو چاہئے کہ وہ جائز اقدام کرے اور اگر جائز اقدام ممکن نہ ہو تو وہ عملاً معاملے سے الگ رہ کراس کی اصلاح کے لئے اللہ سے دعا کرے۔
واپس اوپر جائیں

لیڈروں کا دہرا کردار

اسامہ بن لادن کا عمومی تشخص یہ ہے کہ وہ مغرب کے سخت دشمن تھے اور جہاد کے نام پر مغرب کے خلاف متشددانہ کارروائیوں کے سب سے بڑے حامی تھے۔ 3 مئی 2011 کو پاکستان (ایبٹ آباد) میں وہ ہلاک ہوگئے۔ یہ ان کا کردار بحیثیت ایک لیڈر تھا۔ باپ کی حیثیت سے اُن کا کردار اِس سے بالکل مختلف تھا۔
اسامہ بن لادن کے برادرِ نسبتی (brother-in-law) زکریا (Zakaria al-Sadah) کا ایک انٹرویو ٹائمس آف انڈیا (نئی دہلی) میں سنڈے ٹائمس (لندن) کے حوالے سے چھپا ہے۔ اِس انٹرویو میں انھوںنے بتایا کہ — اسامہ بن لادن نے اپنے بیٹوں اور اپنے پوتوں سے کہا تھا کہ تم لوگ یورپ اور امریکا جاؤ، وہاں اچھی تعلیم حاصل کرو، اور اچھی زندگی گزارو۔ تم کو تعلیم حاصل کرنا ہے، امن کے ساتھ رہنا ہے۔ تم وہ نہ کرو جو میں کررہا ہوں یا جو میں نے کیا:
He told his own children and grand children, ‘Go to Europe and America and get a good education, and live a good life. You have to study, live in peace and don’t do what I am doing or what I have done’. (The Times of India, New Delhi, February 14, 2012, p. 20)
یہ صرف ایک شخص کی بات نہیں، یہی اِس معاملے میں موجودہ زمانے کے تمام مسلم لیڈروں کا حال ہے۔ وہ دوسروں کو مغرب سے نفرت کرنا سکھاتے ہیں، وہ قوم کے بچوں کو جہاد کے نام پر تشدد کے راستے پر ڈالتے ہیں، مگر خود اپنے بچوں کے لیے ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ جدید تعلیم حاصل کریں اور مغربی ملکوں میں آباد ہو کر وہاں پر امن زندگی گزاریں۔ ایسے لیڈروں کو نصیحت کرنا بے کار ہے، کیوں کہ وہ خود اپنی روش کبھی نہیں بدلیں گے، البتہ جو لوگ نادانی میں اُن لیڈر وں کا ساتھ دیتے ہیں، اُن کو چاہئے کہ وہ ہوش مندی کا طریقہ اختیار کریں۔ وہ ایسے لیڈروں کی جذباتی باتوں کو ہر گز نہ سنیں۔ وہ خود اپنی عقل سے کام لیں اور اپنے لیے اوراپنی اولاد کے لئے پُرامن تعمیر کا طریقہ اختیار کریں۔
واپس اوپر جائیں

بحران کے وقت

16 مئی 2011 کا واقعہ ہے۔ کیتھے پیسفک ائرویز(Cathay Pacific Airways) کا ایک جہاز (Airbus, 330) سنگاپور سے جکارتا (انڈونیشیا) جارہا تھا۔ اِس جہاز میں 136 مسافر سوار تھے۔ راستے میں جہاز کے ایک انجن میں آگ لگ گئی۔ پائلٹ نے جہاز کو دوبارہ واپس لاکر سنگاپور میں اتار دیا۔
نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (17 مئی 2011 ) میں اِس خبر کو دیتے ہوئے بتایا گیا تھا کہ ایک مسافر نے گھبرا کر جہاز کی کھڑکی کے باہر دیکھا۔ وہ چلایا کہ — میں آگ دیکھ رہا ہوں، میں آگ دیکھ رہا ہوں۔ ہمارے پیچھے بیٹھے ہوئے مسافر یہ دعا کررہے تھے— خدایا، ہمارے جہاز کو بچا، خدایا، ہم کو اپنی حفاظت عطا فرما:
‘I see fire! I see fire!’ “Behind us, passengers were praying: ‘God, save our flight! Give us Your protection!’” (The Times of India, New Delhi, May 17, 2011)
تجربہ بتاتا ہے کہ آدمی جب کسی بحرانی صورتِ حال سے دوچار ہوتاہے، جب وہ محسوس کرتاہے کہ وہ پیش آمدہ صورتِ حال کا مقابلہ کرنے کے لیے بالکل عاجز (helpless) ہے۔ اُس وقت وہ بے تابانہ طورپر خدا کو پکارنے لگتا ہے۔ اِس کی ایک مثال مذکورہ واقعے میں ملتی ہے۔
اِس طرح کے بحران (crisis) کے واقعات آدمی کی زندگی میں بار بار پیش آتے ہیں۔ اِس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ خدا کا تصور انسان کی فطرت میں پیوست (interwoven) ہے۔ ہر انسان کو امکانی طورپر (potentially) خدا کی معرفت حاصل ہے۔
دعوت الی اللہ کا مقصد اِسی امکان کو واقعہ بنانا ہے۔ دعوت انسانی شخصیت سے الگ کوئی چیز نہیں، وہ اس کی اپنی شخصیت ہی کا ایک حصہ ہے۔ اِسی لیے آدمی جب اپنی اِس فطرت کو دریافت کرلیتاہے تو وہ توحید کی دعوت کو اِس طرح قبول کرلیتا ہے جیسے کہ وہ اس کی اپنی چیز تھی۔
واپس اوپر جائیں

جسمانی معذوری کے باوجود

کیمبرج یونی ورسٹی (برطانیہ) میں نظریاتی سائنس کے پروفیسر اسٹفن ہاکنگ 8 جنوری 2012 کو 70 سال کے ہوگئے۔ ان کی عمر کے 70 سال پورا ہونے پر کیمبرج یونی ورسٹی کے وائس چانسلر (Leszek Borysiewic) نے ایک بیان دیا۔ انھوںنے کہا کہ — اگر چہ اپنی عمر کے بڑے حصے میں اسٹفن ہاکنگ (Stephen Hawking) وہیل چئر پر رہے، اور وہ صرف کمپیوٹر کے ذریعے ہی بول سکتے تھے، مگر رموزِ کائنات کے بارے میں اسٹفن ہاکنگ کی تلاش نے اُن کو درست طورپر دنیا کا سب سے زیادہ مشہور سائنس داں بنا دیا۔ اسٹفن ہاکنگ نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ میری اِس شہرت کا تعلق میری جسمانی معذوری سے ہے۔ لوگوں کو یہ چیز مسحور کرتی ہے کہ میں اپنی جسمانی محدودیت کے باوجود کس طرح کائنات کے انتہائی وسیع موضوع کو اپنی بحث کا موضوع بناتاہوں:
Despite spending most of his life in a wheelchair and being able to speak only through a computer, the theoretical physicist’s quest for the secrets of the universe has made him arguably the most famous scientist in the world. “I am sure my disability has a bearing on why I am well known,” he once said. “People are fascinated by the contrast between my very limited physical powers, and the vast nature of the universe I deal with.” (The Times of India, New Delhi, Jan 9, 2012, p. 13)
یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتاہے کہ اِس دنیا میں کسی آدمی کی جسمانی معذوری (disability) اس کے لیے ایک ایڈوانٹج (advantage) بن سکتی ہے۔ فطرت کے اصول کے مطابق،جسمانی معذوری کا شکار ہونے والا آدمی کلّی معنوں میں معذور نہیں ہوتا۔ جسمانی معذوری کے باوجود اس کی ذہنی صلاحیت (intellectual ability) بدستور برقرار رہتی ہے۔ جسمانی معذوری کا شکار ہونے والا آدمی اگر مایوسی میں مبتلا نہ ہو، وہ اپنی صلاحیت کو ترقی دینے کی کوشش میں لگ جائے، وہ اپنے بالقوہ کو بالفعل بنانے کی کوشش کرے تو عین ممکن ہے کہ جسمانی معذوری کے باوجود وہ اُن لوگوں سے بھی زیادہ کامیاب زندگی حاصل کرلے جو بہ ظاہر کسی جسمانی معذوری کا شکار نہیں۔
واپس اوپر جائیں

ایک عام کمزوری

ایک مسلمان اپنی اہلیہ کے ساتھ ملاقات کے لیے آئے۔ ایک گھنٹے کی ملاقات کے دوران میں نے محسوس کیا کہ اپنی اہلیہ کے ساتھ اُن کو کوئی قلبی تعلق نہیں۔ البتہ اِس دوران اُن کے موبائل پر بار بار ان کے بچوں کے ٹیلی فون آتے رہے۔ اپنے بچوں سے ٹیلی فون پر وہ اِس طرح گفتگو کرتے تھے جس سے اندازہ ہوتا تھا کہ ان کو اپنے بچوں سے نہایت گہرا قلبی تعلق ہے۔
میں نے اُن سے کہا کہ آپ کا کیس اُسی طرح ایک نادان باپ کا کیس ہے جیسا کہ دوسروں کا کیس ہوتا ہے۔ آپ جیسے لوگوں کا معاملہ یہ ہے کہ آپ کو جو چیز عملاً ملی ہوئی ہے، اُس کو آپ بھر پور طور پر استعمال نہیں کرتے اور جو چیز آپ کو ملنے والی نہیں، اُس کو آپ اپنا سب سے بڑا کنسرن (concern) بنائے ہوئے ہیں۔ میںنے کہا کہ آپ کے پاس دو چیزیں ایسی ہیں جو عملاً آپ کو حاصل ہوچکی ہیں— ایک، آپ کا اپنا وجود۔ اور دوسرے، آپ کی بیوی۔ آپ نے اپنے معاملے میں یہ کیا کہ آپ اعلیٰ تعلیم حاصل نہ کرسکے، اور بیوی کے معاملے میں آپ کا طریقہ یہ ہے کہ آپ اُن کو نظر انداز کئے ہوئے ہیں جس کے نتیجے میں وہ مایوسی کا شکار ہیں، وہ اپنی زندگی کا کوئی تخلیقی کردار (creative role) دریافت نہ کرسکیں۔دوسری طرف، آپ کا یہ حال ہے کہ آپ کی تمام دلچسپیاں اپنے بچوں کے ساتھ وابستہ ہوگئی ہیں، حالاں کہ یہ بچے آپ کو ملنے والے نہیں۔ آپ کا بیٹا اور آپ کی بیٹی دونوں آپ کو چھوڑ کر خود اپنی الگ زندگی بنائیں گے، وہ ہر گز آپ کے کام آنے والے نہیں۔ آپ ملی ہوئی چیز کو ضائع کررہے ہیں اور نہ ملنے والی چیز کے لیے آپ بے فائدہ طورپر اپنی تمام توجہ لگائے ہوئے ہیں۔
یہ معاملہ موجودہ زمانے میں تقریباً تمام لوگوں کا ہے۔ موجودہ زمانے میں ہر آدمی ’’کھونے‘‘ کا کیس بن رہا ہے۔ کوئی آدمی حقیقی معنوں میں ’’پانے‘‘ کا کیس نہیں۔ آدمی اپنی اِس غفلت کو اپنی عمر کے آخر میں اُس وقت دریافت کرتاہے، جب کہ اِس تباہ کن غفلت کی تلافی کا وقت اُس کے پاس نہیں ہوتا۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ حاصل شدہ کو اپنا مرکز ِ عمل بنائے، نہ کہ غیر حاصل شدہ کو۔
واپس اوپر جائیں

کامیاب زندگی کا اصول

کامیاب زندگی کا ایک اصول یہ ہے کہ آدمی اپنے عمل کے لیے کسی ایسے میدانِ کار کا انتخاب نہ کرے جس کے لیے وہ صرف جزئی طورپر اہل (competent) ہو۔ آدمی کو چاہئے کہ وہ سب سے پہلے اپنے بارے میں یہ دریافت کرے کہ وہ کس کام کی زیادہ بہتر صلاحیت رکھتاہے اور پھر وہ اُسی کام کو اپنے عمل کا میدان بنائے۔ کسی کام میں حقیقی کامیابی کے لیے کلّی اہلیت درکار ہوتی ہے۔ جزئی اہلیت کے ذریعے کوئی شخص کوئی بڑا کام نہیں کرسکتا۔
یہ زندگی کا ایک اہم اصول ہے، مگر عجیب بات ہے کہ بہت کم ایسے افراد ہیں جو اِس اصول کے مطابق، اپنی زندگی کی تعمیرکریں۔ بیش تر لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ محض شوق کے تحت ایک ایسے میدان میں داخل ہوجاتے ہیں جس کے لیے وہ پوری طرح اہل نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ بیش تر لوگوں کا یہ حال ہے کہ وہ اپنے عمل کا آغاز حوصلہ مندی کے ساتھ کرتے ہیں، مگر آخر کار وہ مایوسی کا شکار ہوتے ہیں اور پھر وہ اِسی حال میں مرجاتے ہیں۔ ہرآدمی کا یہ معاملہ ہے کہ اس کے اندر فطری طورپر بعض صلاحیت زیادہ ہوتی ہے۔ آدمی کوچاہئے کہ وہ اپنی زندگی کے اِس پہلو کو دریافت کرے۔ وہ صرف اُس کام میں اپنے آپ کو لگائے جس کے لیے وہ اپنی صلاحیت اور اپنے حالات کے اعتبار سے زیادہ اہلیت (competence) رکھتا ہو۔
کسی بھی عورت یا مرد کو یہ غلطی نہیں کرنی چاہیے کہ وہ ایسے میدان میں کود پڑے جس میں وہ بہتر کارکردگی کا ثبوت نہ دے سکتا ہو۔ مثال کے طورپر اگر ایک شخص کے اندر تعلیمی کام کی صلاحیت ہے تو اس کو سیاست کے میدان میں نہیں کودنا چاہیے۔ اگر ایک شخص کے اندر علمی کام کی صلاحیت ہے تو اس کو بزنس نہیں کرنا چاہیے۔ اگر ایک شخص کے اندر روایتی کام کی صلاحیت ہے تو اس کو چاہیے کہ وہ غیر ر وایتی کام کو اپنا میدانِ کار نہ بنائے، وغیرہ۔ اِسی کا نام منصوبہ بندی (planning) ہے، اور منصوبہ بندی کے بغیر اِس دنیا میںکوئی اعلیٰ کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی۔
واپس اوپر جائیں

’انا‘ کی دیوار

یوپی (انڈیا) کے ایک شہر کا واقعہ ہے۔یہاں ایک مسلم عالم نے ایک مدرسہ بنایا۔ اِس کے بعد وہاں حکومت کی طرف سے ایک سڑک کی تعمیر کی گئی۔ یہ سڑک مدرسے کی عمارت کے پاس سے گزر رہی تھی۔ یہاں مدرسے کی ایک دیوار تھی جو سڑک کی تعمیر میں رکاوٹ بن رہی تھی۔ مدرسے کے لوگ اِس دیوار کو ہٹانے کے لیے تیار نہیں تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ پختہ دیوار ہے، ہم اِس کو کیسے ہٹا سکتے ہیں۔آخر کار یہ معاملہ بڑھ کر نزاع تک پہنچ گیا۔
ایک دوسرے مدرسے کے ذمے دار جو الرسالہ مشن سے وابستہ ہیں، اُن کو معلوم ہوا تو وہ اُس متنازعہ مقام پر گئے۔ انھوں نے مدرسے کے ذمے داروں سے کہا کہ یہ نہ پختہ دیوار ہے اور نہ غیر پختہ دیوار۔ یہ صرف انا کی دیوار ہے۔ اِس کے بعد مدرسے والے اِس دیوار کو ہٹانے پر راضی ہوگئے اور سڑک اپنے نقشے کے مطابق، تعمیر کردی گئی۔ اِس واقعے کے بعد اہلِ مدرسہ اور حکومت کے ذمہ داروں کے درمیان اچھے تعلقات قائم ہوگئے۔ اِس کا مزید فائدہ یہ ہوا کہ وہاں اسلامی دعوت کی راہ ہموار ہوگئی۔
اکثر حالات میں یہ ہوتا ہے کہ جس چیز کو لوگ رکاوٹ کہتے ہیں، وہ حقیقی رکاوٹ نہیں ہوتی، بلکہ وہ صرف ضد اور انا کی رکاوٹ ہوتی ہے جو بڑھتے بڑھتے ایک سنگین مسئلہ بن جاتی ہے۔ اِس طرح کے مسائل کے موقع پر اگر دانش مندی سے کام لیا جائے تو مسئلہ اِس طرح ختم ہوجائے گا جیسے کہ وہ تھا ہی نہیں۔ ہمیشہ یہی ہوتا ہے کہ مسئلہ صرف ایک ذہنی مسئلہ ہوتاہے، وہ کوئی حقیقی مسئلہ نہیں ہوتا۔
ہر مسئلہ ابتداء ً ایک چھوٹا مسئلہ ہوتا ہے۔ یہ صرف لوگوں کا غیر دانش مندانہ رویہ ہے جو ایک چھوٹے مسئلے کو بڑا مسئلہ بنادیتا ہے۔ اِس طرح یہ ہوتاہے کہ اصل مسئلہ بدستور باقی رہتا ہے اور نئے زیادہ پیچیدہ مسئلے پیدا ہوجاتے ہیں۔ دانش مندی یہ ہے کہ مسئلے کو پہلے ہی مرحلے میں ختم کردیا جائے۔ مسئلے کا بڑھنا کسی بھی حال میں مفید نہیں، خواہ وہ فرد کا معاملہ ہو یا جماعت کا معاملہ۔
واپس اوپر جائیں

سوال وجواب

سوال
ایک تعلیم یافتہ مسلمان سے دعوت کے موضوع پر گفتگو ہوئی۔ انھوں نے اِس سے عدم اتفاق ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ غیر مسلموں کو دعوت دینے کا کوئی فائدہ نہیں، کیوں کہ قرآن میں صاف طورپر آیا ہے کہ: إنّ الذین کفروا سواء علیہم أأنذرتہم أم لم تنذر ہم لا یؤمنون (2: 6) یعنی جن لوگوں نے کفر کیا، اُن کے لیے یکساں ہے، تم اُن کو ڈراؤ یا نہ ڈراؤ، وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ براہِ کرم، اِس سوال کی وضاحت فرمائیں (شارق حسین، نئی دہلی)
جواب
قرآن کی اِس آیت کا تعلق عمومی معنوں میں دعوت الی اللہ سے نہیں۔ اُس کا تعلق اصلاً صرف پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے معاصر (contemporary) ایک گروہ سے ہے جس کے اوپر پیغمبراسلام نے لمبی مدت تک دعوتی جدوجہد کی، اِس کے باوجود وہ لوگ انکار کی روش پر قائم رہے۔ اِس آیت کا تعلق منصوبۂ دعوت سے نہیں ہے، بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک تہدیدی اعلان ہے۔ اِس آیت سے برعکس طورپر یہ معلوم ہوتاہے کہ ہر گر وہ پر لازماً دعوت کا عمل کیا جائے گا۔ اس کو کسی بھی حال میں بند نہیں کیا جائے گا۔ یہ اللہ کا معاملہ ہے کہ وہ اِس گروہ کو ایمان کی توفیق دے یا نہ دے۔ دعوت، اہلِ ایمان کی ذمے داری ہے اور مدعو کو قبول حق کی توفیق دینا اللہ کا کام۔
قرآن کی اِس آیت کے نزول کے باوجود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ گروہ کے درمیان دعوت کاکام بند نہیں کیا، بلکہ آپ نے اس کو بدستور جاری رکھا۔ اِس سے معلوم ہوا کہ دعوت الی اللہ کا کام ہر حال میں جاری رکھا جائے گا، حتی کہ ایسے گروہ پر بھی جو علمِ الٰہی کے مطابق، اُس کو قبول کرنے والا نہ ہو۔ داعی کا کام صرف پیغام پہنچانا ہے۔ داعی کو یہ حق نہیں کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ مخاطَب اس کی بات کو قبول کرے گا یا وہ اس کو قبول نہیں کرے گا۔ دوسری جگہ قرآن میں یہ آیت آئی ہے: فذکر إنما أنت مذکّر، لستَ علیہم بمصیطر إلا من تولّی وکفر، فیعذبہ اللہ العذاب الأکبر (88: 21-24)۔ اِس آیت سے معلوم ہوا کہ داعی کی ذمے داری صرف یہ ہے کہ وہ آخر وقت تک اپنا پیغام لوگوں تک پہنچاتا رہے۔ جہاں تک نتیجہ (result) کا تعلق ہے، وہ اس کو مکمل طورپر اللہ کے حوالے کردے۔
سوال
اہلِ کتاب خصوصاً نصاریٰ سے متعلق یہ سوال ذہن میں ابھرتاہے کہ موجودہ دور کے عیسائی بغیر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے نجات اخروی کے مستحق ہیں یا نہیں۔ کیا ان کے لئے اللہ کی نازل کردہ کتاب انجیل مقدس کافی نہیں ہے۔ اخروی نجات کا معاملہ تو خدا اور بندہ کا پرسنل معاملہ ہے، اور اس کے لئے خدائے واحد کو ماننا، آخرت پر ایمان رکھنا اور عمل صالح کرنا کافی ہے، جیسا کہ قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے: إن الذین آمنوا والذین ہادوا والنصاری والصابئین من آمن باللہ والیوم الآخر وعمل صالحا فلہم أجرہم عند ربہم ولا خوف علیہم ولا ہم یحزنون (2: 62) ۔ قرآن مجیدمیں ایک جگہ اللہ نے اہلِ انجیل کو انجیل کے مطابق فیصلہ کرنے کا حکم دیا ہے: ولیحکم أہل الانجیل بما أنزل اللہ فیہ، ومن لم یحکم بما أنزل اللہ فاولئک ہم الفاسقون (5: 47) ۔وضاحت فرمائیں (محمد سمیع اللہ، ممبئی)
جواب
1 - اِس سوال کے سلسلے میں پہلی بات یہ ہے کہ یہ طرز فکر اپنے آپ میں درست نہیں۔ ’’نجاتِ اُخروی‘‘ کا مستحق کون ہے، اِس کا علم صرف خدا کو ہے۔ کوئی بھی شخص اگر اِس معاملے میں اپنی رائے دیتاہے تو وہ ایک ایسے دائرے میں داخل ہوتاہے جس میں داخل ہونے کا سرے سے اس کو کوئی حق حاصل نہیں۔ ہمارا کام صرف دعوت دیناہے، نہ کہ اِس سوال پر رائے زنی کرنا کہ نجاتِ اخروی کا مستحق کون ہے۔ اِس معاملے میں قرآن اور حدیث میں واضح ہدایات موجود ہیں۔ مثلاً اِس سلسلے میں قرآن میں ارشاد ہوا ہے: وما أدری ما یفعل بی ولا بکم (46: 9) یعنی میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا کیا جائے گا اور تمھارے ساتھ کیا کیاجائے گا۔ یہی بات ایک حدیث رسول میں اِن الفاظ میں آئی ہے: واللہ ما أدری، وأنا رسول اللہ، ما یُفعل بی ولا بکم ( صحیح البخاری، رقم الحدیث: 7018) یعنی خدا کی قسم، میں نہیں جانتا، خدا کی قسم، میں نہیں جانتا، اگر چہ میں اللہ کا رسول ہوں کہ کیا کیا جائے گا میرے ساتھ اور کیا کیا جائے گا تمھارے ساتھ۔
قرآن کی اِس آیت اور اِس حدیثِ رسول سے واضح طورپر معلوم ہوتا ہے کہ نجاتِ آخرت کا معاملہ سرتا سر اللہ کے فیصلے کا معاملہ ہے۔ ہمارے ایمان اور ہمارے عمل کی حیثیت صرف یہ ہے کہ وہ نجات کی عملی دعا ہے، وہ نجات کی قیمت نہیں۔ ہماری ذمے داری صرف یہ ہے کہ ہم ہر ایک کو یکساں طورپر اللہ کا پیغام پہنچائیں۔ جہاں تک آخرت کے انجام کی بات ہے، وہ تمام تر اللہ کا معاملہ ہے۔ وہ اللہ ہی ہے جو اپنے علم کی بنیاد پر ہر ایک کے لیے اُس کے اخروی انجام کا فیصلہ کرے گا۔
2 - قرآن کی دوسری آیت جس کا آپ نے حوالہ دیا، اُس کا ترجمہ یہ ہے: ’’بے شک جو لوگ مسلمان ہوئے اور جو لوگ یہودی ہوئے اور نصاری اور صابی، اُن میں سے جو شخص ایمان لایا اللہ پر اور آخرت کے دن پر اور اس نے عملِ صالح کیا، تو اُس کے لیے اُس کے رب کے پاس اجر ہے۔ اور اُن کے لیے نہ کوئی ڈر ہے اور نہ وہ غم گین ہوں گے‘‘ (2: 62) ۔
اِس آیت میں دراصل گروہی نجات کی تردید ہے۔ نجات کا تعلق کسی فرد کے ذاتی عمل سے ہے، نہ کہ مجرّد کسی گروہ سے وابستہ ہونے کی بنا پر۔ اِس معاملے میں مسلم گروہ کا بھی کوئی استثنا نہیں۔یہاں مسلمانوں کو دوسرے مذہبی گروہوں سے الگ نہیں کیا گیاہے، بلکہ مسلمانوں کا اور دوسرے پیغمبروں سے نسبت رکھنے والی امتوں کا ذکر ایک ساتھ کیاگیا ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ گروہ ہونے کے اعتبار سے اللہ کے نزدیک سب برابر کا درجہ رکھتے ہیں۔ گروہ کے اعتبار سے، ایک گروہ اور دوسرے گروہ میں کوئی فرق نہیں۔ سب کی نجات کا ایک ہی محکم اصول ہے، اور وہ ہے — ایمان اور عملِ صالح۔ کوئی گروہ اپنے آپ کو خواہ مسلمان کہتا ہو، یا وہ اپنے آپ کو یہودی، یا مسیحی، یا صابی کہے، اُن میں سے کوئی بھی محض ایک مخصوص گروہ ہونے کی بنا پر خدا کے یہاں کوئی خصوصی درجہ نہیں رکھتا۔ درجے کا اعتبار صرف اِس بات پر ہے کہ کس نے خدا کی منشا کے مطابق، اپنی عملی زندگی کو ڈھالا۔
یہاں اِس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ تاریخی اعتبار سے، نہ کہ مدارِ نجات کے اعتبار سے، وہ تمام مذاہب یکساں حیثیت رکھتے ہیں جو خدا کی طرف سے بھیجے گئے ہیں۔ مگر اب سے 14 سو سال پہلے خدا کا آخری رسول آیا۔ اُس نے اعلان کیا کہ پچھلی تمام شریعتیں اللہ نے منسوخ قرار دے دی ہیں۔ اِسی طرح یہ ایک حقیقت ہے کہ زمین کے اوپر خدا کا مستند دین ہونے کی حیثیت صرف اسلام کو حاصل ہے، جو شخص خدا کی مرضی کو معلوم کرنا چاہے، اُس کو لازمی طورپر اسلام کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ اصولاً دوسرے کسی طریقے کی پیروی میں وہ خدا کی رضا حاصل نہیں کرسکتا۔
حقیقت یہ ہے کہ آخرت کا مواخذہ تمام تر اِس بات پر منحصر ہے کہ اُس کو کس درجے میں خدا کا پیغام پہنچا تھا۔ اور اِ س کا علم صرف اللہ کو ہوسکتاہے، نہ کہ کسی انسان کو۔ جہاں تک ہماری ذمے داری کا تعلق ہے، وہ یقینی طورپر دعوت ہے، نہ کہ فتویٰ نافذ کرنا۔
3 - آپ نے قرآن کی جو آیت (5: 47) نقل کی ہے، اُس کے متعلق مختصراً میں کہوں گا کہ اُس کا تعلق نجاتِ آخرت سے نہیںہے، اُس کا تعلق مخصوص سماجی حالات میں ایک سزا کے نفاذ سے ہے۔ آج بھی اگر ایسے سماجی حالات پیدا ہوں تو وقتی طورپر اِس اصول کو اختیار کیا جاسکتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز— 215

1 - یکم اکتوبر2011 کو سہارن پور اور اطراف کے بڑے ہوٹلوں اور ریلوے اسٹیشن پر ہندی اور انگریزی ترجمہ قرآن پہنچانے کا مستقل انتظام کیاگیا۔ یہاں سے لوگوں کو ترجمہ قرآن بطور ہدیہ (gift) دیا جارہا ہے۔
2 - سہارن پور کے ڈی ایم مسٹر زبیر بن صغیر (IAS) کو 3 اکتوبر 2011 کو سی پی ایس (سہارن پور) کی ٹیم کے لوگوں نے پرافٹ آف پیس اور تذکیر القرآن کا انگریزی ترجمہ برائے مطالعہ دیا۔ اِسی طرح سہارن پور کے ڈسٹرکٹ جج مسٹر ایم طاہر تیاگی سے ملاقات کرکے اُن کو دعوتی لٹریچر دیا۔مسٹر تیاگی نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سی پی ایس کے لوگ ہم ججوں کے کام کو آسان کررہے ہیں۔اگر آپ اِسی طرح پرامن انداز میں ذہن سازی کا کام کرتے رہے تو ہمارے سماج میں کرائم (crime) بہت کم ہوجائے گا۔ سہارن پور کے ڈی آئی جی مسٹر جے نارائن سنگھ (IPS) نے صدر اسلامی مرکز کا ہندی ترجمہ قرآن پڑھ کر کہا کہ آپ لوگ فرشتوں والا کام کررہے ہیں کہ لوگوں تک خداکا پیغام پہنچا رہے ہیں۔ 4 اکتوبر 2011 کو مسٹر جے نارائن کے پورے اسٹاف کو قرآن کا ترجمہ دیاگیا۔
3 - نیشنل میڈیکل کالج (سہارن پور) میں 3 اکتوبر 2011 کو سرٹفکٹ ڈسٹری بیوشن کا ایک پروگرام ہوا۔ اِس میں اعلیٰ تعلیم یافتہ غیر مسلم حضرات شریک تھے۔ ان کو قرآن کا ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیاگیا۔
4 - سی پی ایس (نئی دہلی) کے ہال میں 29-31 اکتوبر 2011 کو جموں دعوہ میٹ ہوئی۔ اس میں جموں وکشمیر کے نمائندہ ممبران نے شرکت کی۔ یہ ایک تربیتی اجتماع تھا جو 3 دن تک جاری رہا۔ اِس اجتماع میں جموں وکشمیر کے علاوہ، دوسرے مقامات مثلاً بہار، تمل ناڈو، کرناٹک اور بنگلور، وغیرہ کے ممبران نے بھی شرکت کی۔
5 - دہلی یونی ورسٹی کی طرف سے، 4-6 نومبر 2011 کو وینکاٹیشور کالج (نئی دہلی) میں ایک بک فئر لگایا گیا۔ اِس موقع پر سی پی ایس کی دہلی فیلڈ ٹیم (DFT) نے یہاں اپنا اسٹال لگایا۔ یہاں بڑے پیمانے پر لوگوں نے خرید کر قرآن کا ترجمہ حاصل کیا۔ سی پی ایس کی طرف سے اِن لوگوں کو دعوتی پمفلٹس بطور ہدیہ دئے گئے۔
6 - سہارن پور میں 9-15 نومبر 2011 کے دوران ملٹری میں نوجوانوں کے داخلے کاپروگرام تھا۔ اِس میں یوپی کے مختلف مقامات کے کئی ہزار نوجوان شریک ہوئے۔ داخلے میں ناکام ہونے والے نوجوانوں نے شہر میں توڑ پھوڑ کی۔ اِس موقع پر سی پی ایس کے لوگوں نے ہندی میں ایک اشتہار چھاپا۔ اس کا عنوان تھا — چلیں سفلتا کی اور (چلیں کامیابی کی طرف)۔ اِس اشتہار میں ایک بات یہ لکھی گئی تھی کہ آپ سی پی ایس سہارن پور کے سنٹر سے قرآن کا ترجمہ مفت حاصل کرسکتے ہیں۔ لہذا بڑی تعداد میں اِن نوجوانوں نے پیس ہال میں آکر قرآن کا ترجمہ اور دعوتی لٹریچر حاصل کیا۔ اِ س کے بعد شہر میں امن کا ماحول قائم ہوگیا، جو بلاشبہہ اشاعتِ قرآن کا نتیجہ تھا۔
7 - جے پور (راجستھان) میں 11-13 نومبر 2011 کے درمیان ایک سہ روزہ کانفرنس (Environmental Saarc Summit) ہوئی۔ اِس میں ملک اور بیرون ملک کے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں نے شرکت کی۔ سی پی ایس کی دہلی اور جموں وکشمیر ٹیم نے اِ س موقع پر جے پور کا سفر کیا۔ یہاں انھوں نے شرکا سے انٹریکشن کیا اور ان کو دعوتی لٹریچر دیا۔
8 - جنگ پورہ (نئی دہلی) کے مسیحی ادارہ (Christian Institute for the Study of Religion) میں 17 نومبر 2011 کی صبح کو حسب ِ ذیل موضوع پر ایک پروگرام تھا:
Religion in Secular India: Rights and Responsibilities
اِس پروگرام کو فادر تھامس نے انٹرفیتھ کولیشن فار پیس (ICP) کے تحت آرگنائز کیاتھا۔ اِس میں انڈیا اور یورپ (ناروے) کے 40 نمائندے شریک تھے۔ یہ پیس ایکٹوسٹس(peace activists) تھے۔ اِس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اپنی ٹیم کے ساتھ اس میں شرکت کی۔ صدر اسلامی مرکز اِس پروگرام کے واحد اسپیکر تھے۔ اُن کو ڈیڑھ گھنٹے کا وقت دیاگیا تھا، ایک گھنٹہ خطاب کے لیے اور آدھ گھنٹہ سوال و جواب کے لیے۔ صدر اسلامی مرکز نے یہاں انگریزی زبان میں موضوع پر ایک تقریر کی۔ پروگرام کے آخر میں حاضرین کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیاگیا۔
9 - نئی دہلی کے اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونی ورسٹی (IGNOU) میں 19 نومبر 2011 کو اندرا گاندھی کے یوم پیدائش کے موقع پر ایک پروگرام ہوا۔ یہاں کے وائس چانسلر (VC) ایک کشمیری مسلمان (ڈاکٹر محمد اسلم) ہیں۔ وہ الرسالہ مشن سے بخوبی طورپر واقف ہیں۔ انھوںنے اپنی تقریر میں کہا کہ آج ہندستان میں ایک کشمیری مسلمان ایک ہندو یونی ورسٹی (IGNOU) کا وائس چانسلر ہے۔ یہاں ایک مسلمان، ملک کا صدر بن سکتا ہے۔ یہ صرف انڈیا میں ممکن ہے۔ اِس لیے ہمیں ملک کے ساتھ دل سے محبت کرنا چاہئے۔ اِس موقع پر یونی ورسٹی کے اساتذہ اور اسٹاف کو سی پی ایس (سہارن پور) کی طرف سے، قرآن کا ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیاگیا۔
10 - سہارن پور کے براؤن ووڈ پبلک اسکول (Brown Wood Public School) میں 22نومبر 2011 کو اسکول کے ایک پروگرام کے دوران قر آن کا انگریزی ترجمہ اور اسکول کی لائبریری کے لیے صدر اسلامی مرکز کی کتابوں کا ایک سیٹ سی پی ایس (سہارن پور) کی طرف سے بطور ہدیہ دیاگیا۔
11 - سہارن پور کے اسلامیہ بوائز کالج (Islamia Boy's College) میں 23 نومبر 2011 کو ایک پروگرام ہوا۔ یہاں مہمانِ خصوصی پروفیسر چندراونشی (گجرات) اور ان کی ٹیم کے لوگوں اور دیگر حاضرین کو قرآن کا ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیاگیا۔
12 - استنبول (ترکی) میں 11-15 نومبر 2011 کے درمیان ایک انٹرنیشنل بک فئر ہوا۔ اِس میں دہلی سے گڈورڈ بکس نے حصہ لیا۔ اِس موقع پر بڑی تعداد میں لوگوں نے اسلامی لٹریچر حاصل کیا۔
13 - سہارن پور کے سینٹ میری اسکول (St. Mary’s School) میں 24 نومبر 2011 کو سی پی ایس ٹیم کے لوگوں نے وہاں ایک پروگرام میں طلبا کے سامنے قرآن کا تعارف پیش کیا۔ اور طلبا او ر اسٹاف کو دعوتی لٹریچر دیا۔
14 - سہارن پور کے اسلامیہ ڈگری کالج اور انٹر کالج، دونوں مقام پر 25 نومبر 2011 کوسی پی ایس ٹیم کی طرف سے ’’اصولِ صحت‘‘ کے موضوع پر خطاب کیاگیا۔ اِس موقع پردونوں کالج کے طلبا اور اسٹاف کو قرآن کا ترجمہ دیاگیا۔
14 - سہارن پور کے سب سے بڑے ڈگری کالج (JV Jain Degree College) میں 26 نومبر 2011 کو ایک پروگرام ہوا۔ اس کی دعوت پر سی پی ایس سہارن پور کی ٹیم کے لوگوں نے اس میں شرکت کی اور امن کے موضوع پر خطاب کیا۔ خطاب کے بعد کالج کے طلبا اور اسٹاف کو دعوتی لٹریچر دیاگیا۔
15 - سی پی ایس (نئی دہلی) کے ہال میں 26-28 نومبر 2011 کو کشمیر دعوہ میٹ ہوئی۔ اِس میں الرسالہ مشن کے تحت کشمیر میں دعوتی کام کرنے والے نمائندہ افراد شریک ہوئے۔ اِس اجتماع میں کشمیر اور دہلی کے ممبر ان کے علاوہ، دوسرے مقامات (لکھنؤ، کان پور، بہار، کرناٹک، تمل ناڈو اور بنگلور، وغیرہ) کے ممبران نے بھی شرکت کی۔یہ ایک دعوتی اور تربیتی اجتماع تھا۔ اِس میں صدر اسلامی مرکز کے علاوہ، سی پی ایس کے افراد نے اپنے تاثرات بیان کئے۔ اِس موقع پر یہ طے کیاگیا کہ کس طرح کشمیر میں دعوتی کام کی پُرامن منصوبہ بندی کی جائے۔
16 - نیشنل میڈیکل اگنو کمیونٹی کالج (سہارن پور) میں 27 نومبر 2011 کو ایک کانوکیشن بلایا گیا۔ اِس میں پانچ اسٹیٹس (یوپی، ہریانہ، پنجاب، اتراکھنڈ، دہلی) کے پروفیشنل کورسز چلانے والے نمائندوں پر مشتمل ایک پروگرام تھا۔ اِن لوگوں کو سی پی ایس (سہارن پور) کی طرف سے قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔
17 - نئی دہلی کی یونی ورسٹی اگنو (IGNOU) میں 8 دسمبر 2011 کو یونی ورسٹی کے کیمپس میںایک پروگرام ہوا۔ اِس میں ملک بھر کے تمام نمائندوں کو بلایا گیا تھا۔ اس کی دعوت پر ڈاکٹر محمد اسلم خاں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس میں شرکت کی اور حاضرین کو قرآن کا ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیا۔
18 - اینگلو عربک اسکول (دہلی) میں 11 دسمبر 2011 کو ایک فیٹ(fete) لگایا گیا۔ اِس موقع پر سی پی ایس کی دہلی دعوہ فیلڈ ٹیم (DFT) کے افراد نے اس میں شرکت کی۔ یہاں آنے والے زیادہ تر مسلمان تھے۔ ان لوگوں کو قرآن کااردو ترجمہ، ماہ نامہ الرسالہ اور دعوتی لٹریچر دیا گیا۔
19 - بہائی ہاؤس (نئی دہلی) میں 16 دسمبر 2011 کو ایک پروگرام (Solidari Tea Event) ہوا۔ اِس کی دعوت پر سی پی ایس دہلی ٹیم کے لوگوں نے اس میں شرکت کی۔ انھوں نے یہاں کے پروگرام میں حصہ لیا اور یہاں انٹریکشن کے دوران لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیا۔
-20 سی پی ایس (سہارن پور) کی طرف سے 18 دسمبر 2011 کو بلڈ ڈونیشن (Blood Donation) کا ایک پروگرام کیاگیا۔ اِس موقع پر آنے والے لوگوں کو بطور ہدیہ قرآن کا ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیا گیا۔
21 - محلہ ٹوپیا سرائے (سہارن پور) میں 25 دسمبر 2011 کو ایک ’’قرآن گھر‘‘ قائم کیاگیا ہے۔ یہاں صدر اسلامی مرکز کے تراجم قرآن موجود ہیں۔ لوگ یہاں سے قرآن کے ترجمے حاصل کررہے ہیں۔
22 - نئی دہلی کے سپریم کورٹ کے سینئر مسلم ججوں (Judges) کے ایک وفد نے 28 دسمبر 2011 کو صدر اسلامی مرکز اور سی پی ایس کے ممبران سے C-29 نظام الدین ویسٹ (نئی دہلی) میں ملاقات کی۔ گفتگو کا موضوع تھا— مسلمانوں کے لیے راہِ عمل۔ اِس موضوع پر صدر اسلامی مرکز نے آدھ گھنٹے خطاب کیا۔ اس کے بعد سوال وجواب کا پروگرام ہوا۔ اِن حضرات کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی میٹریل دیاگیا۔
23 - ترکی کے ادارہ (Educational Culture & Solidarity Association) کے دو ذمے دار یکم جنوری 2012 کو صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کے لئے آئے:
M. Necim CAN (President), Mustafa Günes (President Assistant)
ان سے اسلام اور امنِ عالم کے موضوع پر گفتگو ہوئی۔ آخر میں ان کو صدر اسلامی مرکز کی کتابیں دی گئیں۔
24 - نئی دہلی کے ماٹر ڈے اسکول (Mater Dei School) میں 8 جنوری 2012 کی شام کو ایک پروگرام ہوا۔ اِس پروگرام میں انڈیا کے علاوہ، اٹلی اور جرمنی کے ایک گروپ نے شرکت کی۔ اِس کا موضوع یہ تھا:
Dialogue on Religion and Globalization
اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور اسلام کے ریفرنس میں مذکورہ موضوع پر 45 منٹ خطاب کیا۔ اِس پروگرام کو سی پی ایس انٹرنیشنل (نئی دہلی) کی ممبر مز سعدیہ خان نے ماڈریٹ کیا۔ دوسرے شرکاکے علاوہ یہاں سی پی ایس کی ممبر مز ماریہ خان نے امن اور اسلام کے موضوع پر خطاب کیا۔ یہ پروگرام انگریزی زبان میں تھا۔ آخر میں سوال وجواب ہوا۔ پروگرام کے بعد سی پی ایس کی طرف سے لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔
25 - ہمارے ساتھی 15 جنوری 2012 کو لوٹس ٹمپل (نئی دہلی) گئے۔ وہاں انٹریکشن کے دوران انھوںنے اسٹاف کے لوگوں اور زائرین کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا۔
26 - جے پور (راجستھان) میں 20-24 جنوری 2012 کے دوران ایک انٹرنیشنل لٹریچر فیسٹول تھا۔ اِس فیسٹول میں ملک اور بیرون ملک سے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں نے شرکت کی — مصنفین، صحافی، ادبا، فلم اسٹار، فلم ڈائرکٹر، فلاسفر، وغیرہ ۔ سی پی ایس، نئی دہلی، تمل ناڈو، کرناٹک اور بہار کی ٹیم کے افراد نے اِس فیسٹول میں شرکت کی۔ یہ لوگ اپنے ساتھ دعوتی میٹریل لے کر ذاتی خرچ پر جے پور پہنچے اور وہاں فیسٹول کے دوران بڑے پیمانے پر شرکا کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا۔ یہاں الرسالہ مشن سے وابستہ مقامی ساتھیوں نے اپنا بھر پور تعاون دیا۔ اِس موقع پر ہمارے کچھ ساتھی جے پور کے معروف دینی ادارہ جامعہ ہدایت بھی گئے۔ وہاں انھوںنے اساتذہ سے ملاقات کی اور جامعہ کی لائبریری کے لیے مطبوعاتِ الرسالہ کا ایک سیٹ بطور ہدیہ دیاگیا۔
27 - امریکی اخبار نیویارک ٹائمس کے لیے اس کی نمائندہ مز ملاوکا (Malavika Vyawahare) نے 27 جنوری 2012 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا۔ انٹرویو کا موضوع تھا — شتم رسول کا مسئلہ۔ یہ انٹرویو انگریزی زبان میں تھاجو سی پی ایس (CPS) کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔
28 - صدر اسلامی مرکز اور سی پی ایس (نئی دہلی) کے ممبران کے مضامین نئی دہلی کے انگریزی اخبار (The Times of India, The Sunday Times, Guardian) میں برابر شائع ہو رہے ہیں۔ یہ مضامین سی پی ایس کے ویب سائٹ (www.cpsglobal.org) پر دیکھے جاسکتے ہیں۔
29 - انڈیا اور انڈیا کے باہر ہمارے ساتھی بڑے پیمانے پر دعوتی کام کررہے ہیں۔ الرسالہ میں صرف اس کی جزئی رپورٹ ’خبر نامہ‘ کے تحت شائع ہوتی ہے۔ سہارن پور ٹیم کی بعض منتخب دعوتی خبریں یہاں درج کی جاتی ہیں:
30 -یکم جنوری 2012 کو وشو ہندو پریشد (VHP) کی طرف سے سہارن پور میں ایک پروگرام تھا۔ اِس موقع پر وی ایچ پی کے ممبر مسٹر سی ایم شرما نے حاضرین کو قرآن کا ہندی اور انگریزی ترجمہ دیا۔
31 - ہوٹل پریسڈنٹ میں 2 جنوری 2012 کو مسٹر شاہد صدیقی کی طرف سے شادی کا ایک پروگرام تھا۔ اِس موقع پر تمام لوگوں کو قرآن کا ہندی، اردو اور انگریزی ترجمہ دیا گیا۔
32 - پیس ہال (سہارن پور) میں 3 جنوری 2012 کو تبلیغی جماعت کے کچھ افراد ڈاکٹر اسلم اور ان کے ساتھیوں سے ملاقات کے لئے آئے۔ یہ عرب ملک کے لوگوں کی جماعت تھی۔ اس میں سعودی کے علاوہ، مصر، نائجیریا، فلسطین اور ساؤتھ افریقہ کے لوگ شامل تھے۔ مشن کے ساتھیوں نے اُن سے دعوتی موضوع پر تفصیلی گفتگو کی۔ اِن لوگوں کو صدر اسلامی مرکز کا انگریزی لٹریچر برائے مطالعہ دیاگیا۔
33 - قاری ایم مظاہری 4 جنوری 2012 کو بڑی تعداد میں دعوتی لٹریچر لے کر پنجاب کے لیے روانہ ہوئے۔ یہ لٹریچر پنجاب میں سکھ برادران کو برائے مطالعہ دیاگیا۔
34 - وید مندر (سہارن پور) میں 9 جنوری 2012 کو ایک میڈیکل کیمپ لگایا گیا۔ اِس کی دعوت پر ہمارے ساتھیوں نے اس میں شرکت کی اور حاضرین کو ترجمۂ قرآن اور دعوتی لٹریچر دیا۔ یہاں کے چیف پنڈت اوپی شرما نے اپنے خطاب میں کہا کہ سی پی ایس مشن انسان کو ایشور سے جوڑنے کا کام کررہا ہے۔ ہم کو چاہئے کہ ہم اس کا ساتھ دیں اور قرآن کا مطالعہ کرکے اسلام کے بارے میں اپنی غلط فہمی کو دور کریں۔ واضح ہو کہ پنڈت اوپی شرما اردو زبان سے بخوبی طورپر واقف ہیں۔ وہ ماہ نامہ الرسالہ کے پہلے شمارہ (اکتوبر 1976 ) سے اس کے مسلسل قاری ہیں۔
35 - انڈیا اینٹی جسٹس کونسل کے قومی صدر مسٹر پون شرما 15 جنوری 2012 کو اپنی ٹیم کے ساتھ پیس ہال میں آئے۔ انٹریکشن کے دوران اِن لوگوں کو بتایا گیا کہ سی پی ایس کوئی سیاسی تحریک نہیں ہے۔ اُس کا مقصد صرف ایک ہے اور وہ ہے — دعوت الی اللہ کا پُرامن پیغام۔ آخر میں اِن لوگوں کو قرآن کا ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیاگیا۔
36 - ہندی روزنامہ ’ہندی ڈیلی‘ اور ’امر اجالا‘ (سہارن پور) کے تعاون سے 21 جنوری 2012 کو آئی ایم اے بھون میں ایک پروگرام ہوا۔ یہ ڈرائنگ کامپٹیشن کا ایک پروگرام تھا۔ اِس میں انگلش میڈیم کے دو ہزار طلبا وطالبات نے حصہ لیا۔ اِس موقع پر تمام طلبا اور حاضرین کو قرآن کے ترجمے اور دعوتی بروشر دئے گئے۔
37 - پیس ہال میں 29 جنوری 2012 کو گنگوہ گروکل کے آچاریہ امر پال سنگھ آریہ نے ایک پروگرام میں خطاب کیا۔ انھوں نے کہا کہ اسلام ایک پُرامن مذہب ہے، وہ کسی ایک قوم کا مذہب نہیں، وہ سارے انسانوں کا مذہب ہے۔ ہم کو چاہیے کہ ہم کھلے دل سے اسلام کا مطالعہ کریں اور اسلام کی تعلیمات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ انھوںنے کہا کہ میں نے مولانا وحید الدین خاں کی کتابیں پڑھی ہیں۔ اِس سے خدا کی پہچان ہوتی ہے اور آدمی کے اندر ذہنی انقلاب پیدا ہوتا ہے۔
38 - کشمیر کے مختلف مقامات پر ہمارے ساتھی بڑے پیمانے پر وہاں کے غیر مسلم ٹورسٹس (tourists) اور مقامی لوگوں کے درمیان دعوت کا کام کررہے ہیں۔ اِس سلسلے میں یہ لوگ وہاں کی انڈین آرمی اور دیگر اعلیٰ سرکاری افسران تک دعوتی پیغام پہنچا رہے ہیں۔ یہ لوگ کشمیر کے مختلف سیاحتی مقامات مثلاً پارک، وغیرہ میں جاکر لوگوںسے انٹر یکشن کے دوران اُن کو قرآن کا ترجمہ اور دعوتی لٹریچر برائے مطالعہ دیتے ہیں۔
39 - امریکا کے لیے صدر اسلامی مرکز کے ٹیلی فونی خطاب کا سلسلہ جاری ہے۔ موضوعات مع تاریخ درج ہیں:
October 30, 2011 “The Man Islam Builds”
November 06, 2011 “Interfaith Dialogue”
November 13, 2011 “Success in the Light of Seerah”
December 04, 2011 “Islam in the Modern Age”
January 01, 2011 “Seerah As a Movement"
January 08, 2012 “Importance of Peace”
January 15, 2012 “Lessons of Optimism from Prophet's Life"
January 29, 2012 “Scholars of Islam”
February 05, 2012 “Seerah of the Prophet Muhammad”
February 19, 2012 “Islam Ki Sarbulandi (Ascendancy of Islam)”
40 - قرآن کے انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر کے متعلق قارئین کے چند تاثرات ملاحظہ ہوں:
Maulana Wahiduddin Khan is an excellent man of reason. He is great blessing of Almighty for people like me. I find him a truly dedicated scholar. His face depicts his truthful personality. I did never find an intellectual personality of his caliber in today’s world of Islam in my life. I am exceptionally thankful for taking up my question and guidance about "Marxism". I have started reading his book and finding it engaging as per my question was concerned. (Tasawwur Hussain, UK)
I want to share with you some news. I have a friend whose name is Afridi a regular reader of Al-Risala and other books of Maulana and is truly a Da'i. He installed a plant of oxygen and nitrogen gas in small industrial area near our home. For maintenance he hired an engineer from Rawalpindi, Pakistan. A few days ago, I visited the plant and found the engineer readingAl-Risala copy of December 2011. I did not disturb him and asked my friend. He said that he has been sitting for many hours and also reading only Al-Risala copies of previous months. Today, he called me and said that the engineer wanted to start Al-Risala agency of 10 copies for himself and for his other friends to distribute. Al-Risala gives us positive thinking and appeals everyone. It gives us the message which fully relates to our natures. So people get inspiration when they start reading. (M. Salman, Pakistan)
Thanks for spreading the message of “true” Islam; a task which has been made all the more important, timely and urgent because of the highly un-Islamic activities of some extremists and terrorists. My wife, who converted to Islam, is finding your introduction to Islam to be highly informative. I have finished reading your book The Prophet of Peace. It is written clearly, concisely, and constructively. It conveys the urgent message to Muslims to engage in introspection and examine the extent to which Muslims have contributed to the negativity about Islam that we find in practically all non-Muslim countries and to see how we can - individually and collectively - rectify the situation. (Saleem Ahmed, USA)
Dear Maulana, From last 5-7 years, I was so harsh about Islam. I was becoming a non-believer and going far from religion and God. Last week, I read your book The Prophet of Peace and it made me live in Islam once again. I want to thank you heartily to make me live in Islam again. (Husain Tosseef, Udaipur, Rajasthan)
واپس اوپر جائیں