Pages

Friday, 1 June 2012

Al Risala | June 2012 (الرسالہ,جون)

2

-انابت الی اللہ

3

- اللہ کی محبت

4

- کوثر— خیر ِ کثیر

5

- نماز میں خشوع

6

- منصوبۂ خداوندی کی مخالفت

7

- وسیلہ کی حقیقت

10

- صلاۃ وسلام

12

- ایک واقعہ

13

- عجیب اور سبق آموز

14

- دعوتِ قرآن

18

- مسئلہ داخلی ہے، نہ کہ خارجی

21

- امتِ مسلمہ کا احیا

22

- اصلاح کا صحیح طریقہ

23

- مسئلے کا حل

25

- اسلامی تحریک کا ہدف

26

- انسانی ذمّے داری

34

- جذباتی سیاست کا نقصان

35

- مسئلہ یا چیلنج

36

- ایک سبق آموز واقعہ

37

- سوال و جواب

40

- خبر نامہ اسلامی مرکز


انابت الی اللہ

قرآن کی سورہ غافر کی ایک آیت کا ترجمہ یہ ہے: ’’اللہ ہی ہے جو تم کو اپنی نشانیاں دکھاتا ہے اور آسمان سے وہ تمھارے لیے رزق نازل کرتاہے۔ اور نصیحت صرف وہی شخص حاصل کرتاہے جو انابت کرنے والا ہو‘‘ ۔(40: 13)
قرآن کی اِس آیت میں تین باتیں کہی گئی ہیں— پہلی بات ہے، نشانیوں (آیات) کا ظاہر ہونا۔ دوسری چیز ہے، اِن نشانیوں سے رزقِ خداوندی کا ملنا۔ تیسری بات یہ ہے کہ یہ رزق صرف اُن افراد کو ملتاہے جن کے اندر انابت کی صفت پائی جائے۔ آیات سے مراد وہ نشانیاں (signs) ہیں جو تخلیق میں ظاہر ہوئی ہیں۔ رزق سے مراد وہ ربانی اسباق (divine lessons) ہیں جو اِن نشانیوں میں چھپے ہوئے ہیں۔ انابت کا لفظ یہ بتا رہاہے کہ یہ ربانی سبق کن خوش قسمت افراد کو حاصل ہوتا ہے۔
انابت کا لفظی مطلب ہے، بار بار واپس آنا (to return from time to time) ۔ اصل یہ ہے کہ دنیا میں زندگی گزارتے ہوئے آدمی کے ساتھ بار بار وہ واقعہ پیش آتا ہے جس کو ڈسٹریکشن کہاجاتا ہے، یعنی توجہ کا ہٹ جانا۔ یہی چیز رزق ربانی کے حصول میں اصل رکاوٹ ہے۔ اللہ کی تخلیقات میںاور زندگی کے تجربات میں رزقِ ربانی کے آئٹم ہر وقت موجود رہتے ہیں۔ انسان اگر سوچے تو وہ ہر وقت اِن چیزوں میں نصیحت کا رزق پاتا رہے گا، لیکن حالات کے تحت بار بار آدمی کی توجہ مطلوب نشانے سے ہٹتی رہتی ہے۔ انسان کا اصل کام یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو اِس ڈسٹریکشن سے بچائے۔ یہی وہ انسان ہے جس کو قرآن میں منیب (42: 13) کہاگیا ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان کی خواہشیں اُس کو نشانیوں میں غور وفکر سے ہٹا دیتی ہیں۔ کبھی کوئی مسئلہ اس کی توجہ کو موڑ دیتا ہے۔ کبھی شکایت کی نفسیات اس کے لیے ڈسٹریکشن کا سبب بن جاتی ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ محاسبہ کے ذریعے اپنے آپ کو تمام قسم کے ڈسٹریکشن سے بچائے، تاکہ وہ خدائی نشانیوں (divine signs)سے مسلسل اپنے لیے ایمانی رزق حاصل کرتا رہے۔
واپس اوپر جائیں

اللہ کی محبت

قرآن کی سورہ البقرہ میں ارشاد ہوا ہے: والذین آمنوا أشد حبّا للہ (2: 165) ۔ اِس آیت کے مطابق، اللہ کا مومن بننے کی پہچان یہ ہے کہ آدمی کے اندر اللہ کے لیے حبّ شدیدپیدا ہوجائے۔ مذکورہ قرآنی آیت میں یہ نہیں فرمایا گیا ہے کہ اہلِ ایمان اللہ سے حب شدید کرتے ہیں، بلکہ یہ فرمایا کہ اہلِ ایمان کے اندر اللہ سے حب شدید ہوتی ہے۔
اصل یہ ہے کہ محبت، جواب (response) کے طور پر کسی انسان کے اندر پیدا ہوتی ہے۔ جب ایک انسان اللہ کو اپنے سب سے بڑے محسن اور منعم کی حیثیت سے دریافت کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں ایسا ہوتا ہے کہ اس کے سینے میں اللہ کے لیے محبت کا سمندر موج زن ہوجاتا ہے۔
اِسی کا نام حبّ شدید ہے۔ محبت اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک دریافت (discovery) کا نتیجہ ہے، وہ محض ایک حکم کی رسمی تعمیل نہیں۔
انسان جب اپنے آپ کو احسنِ تقویم (95: 4) کی حیثیت سے دریافت کرتاہے، جب وہ دریافت کرتا ہے کہ اللہ نے اس کے ساتھ تکریم (17: 70) کا معاملہ کیا ہے، جب وہ دریافت کرتا ہے کہ اللہ نے اس کے لیے زمین اور آسمان کو مسخر کردیا ہے، جب وہ ان بے شمار نعمتوں کو دریافت کرتا ہے جن کو لائف سپورٹ سسٹم کہاجاتا ہے، جب وہ اللہ کے اِس احسان کو دریافت کرتا ہے کہ اُس نے پیغمبر کے ذریعے اس کی ہدایت کا انتظام فرمایا، جب کہ وہ ہدایت سے پوری طرح بے خبر تھا، جب وہ کائناتی پیمانے پر اللہ کی تخلیق اور اس کی ربوبیت کو دریافت کرتا ہے تو اس کے دل میں شکر کا بے پناہ جذبہ امنڈ پڑتا ہے۔ یہی شکرِ الٰہی محبتِ الٰہی، کا منبع ہے۔ اِسی سے انسان کے اندر وہ گہرا جذبہ پیدا ہوتا ہے جس کو قرآن میں حب شدید کہا گیا ہے۔
اصل بات یہ نہیں ہے کہ محبت کرو، اصل بات یہ ہے کہ اللہ کو اتنے بڑے منعم کی حیثیت سے دریافت کرو کہ تمھارے اندر اللہ کے لیے حب شدید پیدا ہوجائے۔
واپس اوپر جائیں

کوثر— خیر ِ کثیر

قرآن کی سورہ الکوثر (108) کا ترجمہ یہ ہے: ’’ہم نے تم کو کوثر دے دیا۔ پس تم اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔ بے شک تمھارا دشمن ہی بے نام ونشان ہے‘‘۔
کوثر مبالغے کا صیغہ ہے۔ اس کا مطلب ہے — خیر کثیر۔ خیر کثیرسے کیا مرادہے، اس کی وضاحت قرآن کی دوسری آیت سے ہوتی ہے۔ قرآن کی سورہ البقرہ میں یہ آیت آئی ہے: یؤتی الحکمۃ من یشاء، ومن یؤت الحکمۃ فقد أوتی خیراکثیرا۔ وما یذکر إلاّ أولوا الألباب (2: 269) یعنی اللہ جس کو چاہتاہے، اُس کو حکمت عطا کرتاہے، اور جس کو حکمت دی گئی، اُس کو خیر کثیر دے دیاگیا۔ اور نصیحت وہی لوگ حاصل کرتے ہیں جو عقل والے ہیں۔
قرآن کی اِس آیت میں حکمت سے مراد وہی چیز ہے جس کو قرآن کے دوسرے مقام پر معرفت یا عرفانِ حق (5: 83) کہاگیا ہے۔ معرفت کا تعلق عقلی دریافت سے ہے اور یہ معرفت بلاشبہہ کسی مومن کے لیے سب سے بڑی چیز ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت اہلِ مکہ یا اہلِ عرب کے درمیان اگرچہ مذہب کے نام پر مختلف قسم کے مذہبی رسوم (religious rites) موجود تھے، مگر وہ لوگ خدا کی سچی معرفت سے کامل طورپر محروم تھے۔ ایسے ماحول میں اللہ تعالیٰ نے پیغمبراسلام کو سچی معرفت عطا فرمائی۔ اِس کا ذکر قرآن کی دوسری آیت میں اِن الفاظ میں کیا گیا ہے: ووجدک ضالاّ فہدی (93: 7) ۔
سورہ الکوثر میں صلوٰۃ اور نحر کے الفاظ علامتی طورپر آئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مخالفین کے پروپیگنڈے کو نظر انداز کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ اللہ سے تعلق قائم کرو، تاکہ شکر کا جذبہ پوری طرح برقرار رہے۔ ’نحر‘ کا مطلب یہ ہے کہ جو دعوتی مشن تم کو دیاگیا ہے، قربانی کی سطح پر تم اس مشن کو جاری رکھو۔ مخالفین کی مخالفت تم کو کچھ بھی نقصان نہ پہنچا سکے گی، وہ خود ناکام و نامراد ہو کر رہ جائیں گے۔
واپس اوپر جائیں

نماز میں خشوع

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ — فلاح اُن اہلِ ایمان کے لیے ہے جو خشوع کے ساتھ اپنی نماز ادا کرتے ہیں (23: 1) ۔ خشوع کا لفظی مطلب فروتنی ہے، یعنی وہ حالت جو مُحاسب ومُجازی خدا کی یاد سے پیدا ہوتی ہے۔ اِس سلسلے میں قرآن کی دوسری آیت یہ ہے: الذین یظنّون أنہم ملٰقوا ربہم (2: 46) ۔ اِس سے معلوم ہوا کہ لقائِ رب کے شدید تصور سے انسان کے دل میں جو کیفیت پیدا ہوتی ہے، اُسی کا نام خشوع ہے۔نماز میں خشوع یہ ہے کہ آدمی شعوری طور پر اتنازیادہ بیدار ہو کہ جب وہ نماز کے کلمات اپنی زبان سے ادا کرے تو اِن کلمات کا مفہوم اُس کے ذہن کو متحرک کرتا رہے۔ اس کے اعضا نماز کے ظاہری افعال کو ادا کررہے ہوں اور ا س کا ذہن خدا کے سامنے حاضری کو سوچ کر اندیشہ ناک بنا ہوا ہو، حتی کہ یہ کیفیت اتنی زیادہ شدید ہو کہ اس کے بدن پر خوف سے کپکپی طاری ہوجائے۔ اِس کیفیت کو حاصل کرنے کے لیے شدید محنت درکار ہوتی ہے، اِس لیے نماز کے ساتھ صبر کو شامل کیاگیا ہے (2: 45) ۔
ایک فارسی شاعر نے کہا — رات کو جب میں نماز کی نیت کرکے کھڑا ہوا تو دل میں بار بار یہ خیال آرہا تھا کہ میرا بچہ صبح کو کیا کھائے گا:
شب چو عقدِ نماز بر بندم چہ خورد بامداد فرزندم
یہ شعر تمثیل کی زبان میں بتا رہا ہے کہ خشوع کی نماز ادا کرنے کے لیے کیا چیز درکار ہے، وہ یہ کہ آدمی کا ذہن کسی اور سوچ میں مبتلا نہ ہو، اپنی سوچ کے اعتبار سے، وہ پوری طرح لقائِ رب پر فوکس کئے ہوئے ہو۔ تجربہ بتاتا ہے کہ ذہنی فوکس کو ہٹانے والی سب سے طاقت ور چیز منفی سوچ ہے۔ اجتماعی زندگی میں بار بار منفی تجربات پیش آتے ہیں۔آدمی کو چاہئے کہ وہ صبر کی روش اختیار کرتے ہوئے کامل طور پر اپنے آپ کو منفی احساس سے بچائے۔ خشوع کی نماز پڑھنا صرف اُس کے لیے ممکن ہے جو نماز سے پہلے اپنے اندر مثبت سوچ پیدا کرچکا ہو۔ اور ایسا صرف اُس وقت ہوسکتا ہے، جب کہ آدمی اپنے اندر یہ صابرانہ نفسیات پیدا کر لے کہ وہ منفی تجربات کے باوجود اپنے آپ کو مثبت روش پر قائم رکھے۔
واپس اوپر جائیں

منصوبۂ خداوندی کی مخالفت

قدیم مکہ میں جب کہ وہاں کے سردار، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی شدید مخالفت کررہے تھے، اُس وقت قرآن کی سورہ الانعام میں یہ آیت اتری: قد نعلم إنہ لیحزنک الذی یقولون، فإنہم لا یکذبونک ولکنّ الظالمین بٰایات اللہ یجحدون (6: 33) یعنی ہم کو معلوم ہے کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں، اُس سے تم کو رنج ہوتا ہے۔ یہ لوگ تم کو نہیں جھٹلا تے، بلکہ یہ ظالم دراصل اللہ کی نشانیوں کا انکار کررہے ہیں۔
اِس کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا دعوتی مشن سادہ طور پر صرف ایک فرد کا معاملہ نہیں ہے، وہ براہِ راست طور پر اللہ کے منصوبے کا معاملہ ہے۔ اللہ کو یہ مطلوب تھا کہ وہ اپنے بندوں کے لیے ہدایت کا انتظام کرے، اِس لیے اُس نے پیغمبر کے ذریعے اُس دعوتی مشن کو برپا کیا ہے۔ ایسی حالت میں، پیغمبر کے دعوتی مشن کو ناکام بنانے کی کوشش کرنا، اللہ کے منصوبے کو ناکام بنانے کی کوشش کرنا ہے، اور یہ خدا کی اِس دنیا میں کسی کے لیے ہرگز ممکن نہیں۔
یہ کوئی زمانی معاملہ نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب بھی کوئی دعوت خالص حق کی بنیاد پر اٹھے تو اپنی نوعیت کے اعتبار سے، اُس کا معاملہ بھی یہی ہوگا۔ بظاہر یہ دعوت کسی فرد کے ذریعہ اٹھے گی، مگر اپنی حقیقت کے اعتبارسے، وہ بلاشبہہ اللہ کا ایک منصوبہ ہوگا۔ دوبارہ ایسا ہوگا کہ جو لوگ اِس دعوتی مشن کی مخالفت کریں، وہ بلاشبہہ ناکام رہیں گے، ان کی مخالفانہ تدبیریں یقینی طور پر بے نتیجہ ہو کر رہ جائیں گی۔
بعد کے دور میں اٹھنے والی دعوتِ حق کی پہچان وہی ہوگی جو دورِ اول میں اِس قسم کی دعوتِ حق کی پہچان تھی، وہ یہ کہ اس کی مخالفت کرنے والے اپنی مخالفت کے حق میں کوئی دلیل نہ پاسکیں گے۔ اُن کی ساری مخالفت بے بنیاد الزام تراشی پر قائم ہوگی، نہ کہ کسی حقیقی دلیل پر۔ دونوں کے درمیان بلا دلیل تکذیب کی یہی مشابہت اِس بات کا ثبوت ہوگی کہ یہ مخالفت، اللہ کے منصوبے کی مخالفت ہے۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے، وہ ایک مجرمانہ فعل ہے، نہ کہ کوئی اسلامی فعل۔
واپس اوپر جائیں

وسیلہ کی حقیقت

وسیلہ کے بارے میں ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ صحیح مسلم کے الفاظ یہ ہیں: إذا سمعتم المؤذن فقولوا مثل ما یقول، ثم صلّوا علیّ، فإنہ من صلّی علیَّ صلاۃ، صلّی اللہ علیہ بہا عشراً، ثم سَلوا للہ لی الوسیلۃ، فإنّہا منزلۃ فی الجنۃ۔ لاتنبغی إلا لعبد من عباد اللہ، وأرجوا أن أکون ہو، فمن سأل لی الوسیلۃ، حلّت لہ الشفاعۃ (صحیح مسلم، رقم الحدیث: 387, 582 )یعنی جب تم موذن کو سنو تو تم بھی وہی کہو جو موذن نے کہا ہے، پھر میرے لیے دعا کرو۔ جو میرے لیے ایک دعا کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اُس پر اپنی دس رحمتیں بھیجتا ہے۔ پھر تم میرے لیے اللہ سے وسیلہ مانگو، کیوں کہ وسیلہ جنت کا ایک درجہ ہے۔ یہ درجہ اللہ کے بندوں میں سے کسی بندے کو ملتاہے، اور میں امید کرتاہوں کہ میں وہ بندہ ہوں گا۔ جس نے میرے لیے وسیلہ کی دعا کی، اُس کے لیے میری شفاعت واجب ہوگئی۔
1 - وسیلہ کا لفظی مطلب قربت (nearness) ہے۔ یہ لفظ قرآن میں اِسی معنی میں آیا ہے۔ ایک جگہ فرشتوں کی نسبت سے، اور دوسری جگہ انسان کی نسبت سے۔ فرشتوں کی نسبت سے، قرآن میں آیا ہے کہ وہ اللہ کے وسیلہ، یعنی قربت کے طالب رہتے ہیں (17: 57) ۔ اِسی طرح، قرآن میں انسان کی نسبت سے آیا ہے کہ تم اللہ کے وسیلہ، یعنی قربت کے طالب بنو (5: 35) ۔
2 - مذکورہ روایت میں وسیلہ کا لفظ اِسی معنی میں استعمال ہواہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ دعا کرو کہ آپ کو اللہ کاوسیلہ، یعنی اللہ کی قربت حاصل ہو، جو کہ اللہ کی طرف سے کسی انسان کے لیے ایک عظیم رحمت ہے اور جنت میں اس کے درجے کو بڑھانے والی ہے۔
ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں: اللہم آت محمداً الوسیلۃ والفضیلۃ (صحیح البخاری، رقم الحدیث:614 ) یعنی اے اللہ، محمد کو وسیلہ اور فضیلت دے۔ غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ اِس جملے میں ’فضیلۃ‘ کا لفظ کسی نئے مفہوم کے لیے نہیں ہے۔ وہ وسیلہ کے لفظ ہی کی مزید وضاحت ہے: والفضیلۃ تفسیراً للوسیلۃ (فتح الباری، 2/113)۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ خدایا، تو محمد کو قربت کا درجہ دے جو کہ فضیلت کا ایک درجہ ہے۔
3 - عام طورپر یہ سمجھا جاتاہے کہ وسیلہ سے مراد سفارش (recommendation) ہے، یعنی قیامت میں لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش سے جنت اور مغفرت حاصل ہوگی۔ وسیلہ کا یہ مفہوم ایک خود ساختہ مفہوم ہے، وہ لفظی طورپر کسی بھی روایت میں موجود نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مغفرت تمام تر اللہ کا ایک عطیہ ہے۔ قرآن اور حدیث دونوں میں اِس بارے میں واضح ہدایات موجود ہیں۔
4 - روایت میں ’حلّت لہ الشفاعۃ‘ کے الفاظ آئے ہیں، یعنی اس کے لیے شفاعت واجب ہوگئی۔ یہاں شفاعت سے مراد سفارش نہیں ہے۔ اِس کا مطلب صرف یہ ہے کہ ایسا آدمی اپنے عمل کی بنا پر اِس قابل ہوگیا کہ رسول اللہ اس کو پہچانیں اور قیامت میں اس کو اپنی امت کا ایک فرد شمار کریں۔
5 - شفاعت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایک شخص جو اپنے عمل کے اعتبار سے جنتی نہ ہو، وہ پیغمبرکی سفارش سے جنتی بن جائے گا۔ اصل یہ ہے کہ قیامت کے دن کسی انسان کے اخروی مستقبل کا فیصلہ تمام تر اللہ کی مرضی سے ہوگا، لیکن اُس کے اعلان کا طریقہ یہ ہوگا کہ انبیاء اور دُعاۃ کو بلندمقام (اعراف) پر کھڑا کیاجائے گا۔ انھوں نے جن لوگوں کے اوپر دعوت وشہادت کا کام کیا ہوگا، وہ اُن کو قیامت کے دن صاف طورپر پہچان لیں گے اور ہر ایک کے لیے اللہ کے فیصلے کا اعلان کریں گے۔
6 - وسیلہ (قربت) کوئی پراسرار چیز نہیں ہے۔ اصل یہ ہے کہ تعلق باللہ کے دو درجے ہیں— ایک درجۂ اطاعت، اور دوسرا درجۂ قربت۔ مومن کو چاہئے کہ وہ درجۂ قربت میں اللہ سے تعلق قائم کرے، اور اِسی اعلیٰ درجۂ قربت کے لیے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں دعا کرے۔ اِس دعا کا کوئی تعلق سفارش کے خود ساختہ نظریے سے نہیں ہے۔
7 - رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دعاو صلاۃ کا معاملہ کوئی پراسرار معاملہ نہیں۔ وہ صرف اظہارِ تعلق کی ایک صورت ہے۔ ایک انسان جو سچائی کا طالب ہو، لمبی جستجو کے بعد جب اس کو پیغمبراسلام کے ذریعے ہدایت ملے تو فطری طورپر ایسا ہوگا کہ اس کو پیغمبر اسلام سے قلبی تعلق ہوجائے گا اور وہ اِس تعلق کا اعتراف الفاظ کی صورت میں کرے گا۔ اِسی اعتراف کا دوسرا نام درودو صلاۃ ہے۔
8 - حدیثوں کی نوعیت زیادہ تر یہ ہے کہ کوئی واقعہ گزرا تو اُس کی نسبت سے آپ نے لوگوں کو ایک اسلامی تعلیم بتادی۔ اِس اعتبار سے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ کسی موقع پر جب مسجد سے اذان کی آواز آئی تو اُس وقت آپ کے پاس جو لوگ موجود تھے، اُن سے آپ نے مذکورہ بات فرمائی۔ آپ کے اِس قول کا مطلب یہ تھا کہ موذن کے کلمات کو سننے والا بھی اُسی طرح دہرائے۔ اُس کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ سننے والا مسجد میں حاضر ہو اور نماز کے ذریعے وہ قربتِ الٰہی (96: 19) کا تجربہ کرے۔ اِس طرح اس کے دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اعلیٰ اعتراف کا جذبہ پیدا ہو، جن کے ذریعے عبادت کا یہ نظام اور دوسری تعلیماتِ الٰہیہ حاصل ہوئیں۔ اِسی جذبۂ اعتراف کا یہ ایک اظہار ہے کہ مومن یہ کہے کہ خدایا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قربت کا درجہ عطا فرما اور آپ کو جنت کے اعلیٰ مقامات پر فائز فرما۔
9 - حدیث میں یہ الفاظ آئے ہیں کہ ’’جو میرے لیے ایک بار دعا کرتا ہے، اللہ اُس پر دس رحمتیں بھیجتا ہے‘‘۔حدیث کے یہ الفاظ ’’درود‘‘ کی کسی علاحدہ خصوصیت کو نہیںبتارہے ہیں۔ وہ ایک عام سنتِ الٰہی کو بتارہے ہیں، جیسا کہ ایک اور روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی سنت یہ ہے کہ وہ کسی عمل کا کم ازکم دس گنا اجر دیتا ہے اور عمل کی کیفیاتی قدر کے مطابق، اس کا انعام سات سو گنا تک یا اس سے بھی زیادہ دیا جاتا ہے۔ حدیث کے مذکورہ الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم ایسا کروگے تو تم کو اس کا اجر ملے گا۔ جس کی کم سے کم مقدار دس گنا ہوگی۔ صلاۃ وسلام دراصل پیغمبر کے حق میں ایک مومن کی طرف سے اعتراف کا کلمہ ہے۔ جس کا اعتراف جتنا شدید ہوگا، اتنا ہی اس کا اجر بڑھتا جائے گا۔وسیلہ کا یہ مفہوم قرآن وحدیث کے متن سے بالکل واضح ہے۔ مگر اُس کو سمجھنے کے لیے ایک لازمی شرط ہے، وہ یہ کہ آدمی اپنے روایتی شاکلہ (traditional mindset) کو توڑے۔ وہ خالص علمی انداز میں کھلے ذہن کے ساتھ قرآن وحدیث کا موضوعی (objective) مطالعہ کرے۔ وسیلہ کی مذکورہ تشریح کو سمجھنے کے لیے اِس شرط کو پورا کرنا ضروری ہے۔
واپس اوپر جائیں

صلاۃ وسلام

قرآن کی سورہ الاحزاب میں ارشاد ہوا ہے: إن اللّٰہ وملائکتہ یصلّون علی النبی، یاأیہا الذین اٰمنوا صلّوا علیہ وسلّموا تسلیماً (33: 56) یعنی اللہ اور اس کے فرشتے، نبی پر صلاۃ بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو، تم بھی نبی پر صلاۃ وسلام بھیجو۔
’صلاۃ‘ کا لفظ جب اللہ کی نسبت سے بولا جائے تو اس سے مراد رحمت ہوتی ہے۔ اور جب ’صلوۃ‘ کا لفظ بندے کی نسبت سے بولا جائے تو اس سے مراد دعا ہوتی ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے اپنے رسول پر جس مشن کی ذمے داری ڈالی ہے، اُس میں وہ تنہا نہیں ہے، بلکہ اللہ کی رحمتیں اس کے ساتھ ہیں۔ اللہ کے فرشتے بھی اِس مشن میں رسول کی مسلسل تائید کررہے ہیں۔ یہی کام اہلِ ایمان کو بھی کرنا چاہیے۔ اہلِ ایمان کے دل میں رسول کے لیے بہترین جذبات ہونے چاہئیں۔
آیت میں ’صلّوا‘ کے بعد ’وسلّموا تسلیماً‘ کے الفاظ ’صلّوا‘ کی مزید تاکید کو بتا رہے ہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ اہلِ ایمان کو چاہئے کہ وہ پیغمبر کے رول کو بھر پور طورپر دریافت کریں۔ جب وہ اِس رول کو شعوری طورپر دریافت کریں گے تو اس کا فطری نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ رسول کے لیے سرتاپا اطاعت بن جائیں گے۔ اُن کے دل میں رسول کے لیے صلاۃ وسلام اور اعتراف کے چشمے جاری ہوجائیں گے، جس کا اظہار بار بار الفاظ کی صورت میں ہوگا۔ یہی مطلب ہے صلاۃ وسلام کے اِن الفاظ کا: اللہم صل علی محمد وعلی اٰلِ محمد، کما صلیت علٰی إبراہیم، وعلیٰ اٰل إبراہیم، إنک حمید مجید۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے درود کوئی پُراسرار چیز نہیں۔ یہ دراصل ایک مومن کی طرف سے آپ کے لئے قلبی اعتراف (heartfelt acknowledgement) ہے۔ رسول اللہﷺکے ذریعہ انسان کو دو انتہائی اہم چیزیں ملی ہیں— ایک، مستند خدائی ہدایت نامہ(authentic divine guidance)۔ اور دوسرا، خدائی ہدایت کا مستند رول ماڈل(authentic role model)۔ یہ دونوں چیزیں رسول کے سوا کہیں اور سے نہیں مل سکتی تھیں۔ایک مومن کو جب اِس حقیقت کا شعور حاصل ہوتا ہے تو اس کے اندر رسول اللہ کے لیے گہرے اعتراف کا جذبہ پیدا ہوتاہے اور پھر اس کی زبان سے بے اختیارانہ طورپر وہ الفاظ نکل جاتے ہیں جن کو صلاۃ وسلام کہا جاتا ہے۔
درود کلمۂ فضیلت نہیں ہے، درود کلمۂ اعتراف ہے۔ ایک شخص پیدا ہو کر اِس دنیا میں آتاہے۔ وہ جاننا چاہتا ہے کہ میں کیا ہوں اور یہ کائنات کیا ہے۔موت سے پہلے کیا ہے اور موت کے بعد کیا۔ کامیابی کیا ہے اور ناکامی کیا۔ وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر اِن سوالات کا جواب معلوم کرنا چاہتا ہے، مگر کہیں بھی اس کو اِن سوالات کا مستند جواب نہیں ملتا۔
آخر کار، وہ اِس دریافت تک پہنچتا ہے کہ پیغمبر آخر الزماں کے ذریعے جو دین انسان کو دیاگیا ہے، وہی اس سوال کا حقیقی جواب ہے۔ یہ دریافت اس کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اعتراف کے جذبے سے سرشار کردیتی ہے۔ یہ جذبۂ اعتراف جب لفظوں میں ڈھلتا ہے تو اِسی کا نام صلاۃ وسلام ہے۔
درود یا صلاۃ وسلام یہ نہیں ہے کہ کچھ مخصوص الفاظ کو اپنی زبان سے دہرا دیا جائے یا اُن کی تکرار کی جاتی رہے۔ یہ رسول کے لیے صلاۃ وسلام کا کم تر اندازہ (underestimation) ہے۔ رسول کے لیے صلاۃ وسلام کا آغاز دریافت سے ہوتا ہے۔
ایک مومن پیغمبر کے اِس رول کو دریافت کرتاہے۔ اِس دریافت کے نتیجے میں اس کے اندر اعلیٰ کیفیات پیدا ہوتی ہیں۔ یہ کیفیات لفظوں میں ڈھل جاتی ہیں، اِس کے بعد فطری طور پر ایسا ہوتا ہے کہ مومن، پیغمبر کو اپنا رہنما بنا لیتاہے۔ وہ پیغمبر کے اسوہ (model) کو اختیار کرلیتا ہے۔ وہ پیغمبر کے مشن میں اپنے آپ کو ہمہ تن لگا دیتاہے۔ وہ پیغمبر کے مشن کو اپنا مشن بنا لیتاہے— یہ تمام چیزیں درود وسلام کا لازمی حصہ ہیں، کچھ چیزیں براہِ راست طور پر اس کا حصہ ہیں اور کچھ چیزیں بالواسطہ طورپر اس کا حصہ۔
واپس اوپر جائیں

ایک واقعہ

سلطان غیاث الدین تغلق (وفات:1325 ء) کے دربار میں ایک خاص مسئلے پر شیخ الوقت خواجہ نظام الدین اولیاء (وفات: 1325 ء) اور شیخ الاسلام قاضی جلال الدین کے مابین مناظرہ ہوا۔ اُس وقت اپنے موقف کے حق میں خواجہ نظام الدین نے ایک حدیث رسول کو پیش کرنا چاہا، تو قاضی جلال الدین نے کہا کہ — تم ابو حنیفہ کے مقلد ہو، تمھیں حدیث رسول سے کیا مطلب۔ اگر ابو حنیفہ کا کوئی قول پیش کرسکتے ہو تو پیش کرو: ’’تو مقلدِ ابو حنیفہ ہستی، تُرا با حدیثِ رسول چہ کار۔ قول ابو حنیفہ بیار‘‘۔
اِس کو سن کر خواجہ نظام الدین اولیاء نے یہ کہتے ہوئے مناظرہ ختم کردیا اور دربار سے اٹھ گئے کہ — سبحان اللہ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے ہوتے ہوئے مجھ سے ابو حنیفہ کے قول کا مطالبہ کیاجارہا ہے: ’’سبحان اللہ، کہ باوجود قول مصطفوی، از من قولِ ابو حنیفہ می خواہند‘‘۔ (سیر العارفین بحوالہ سہ ماہی مجلہ حکمتِ قرآن، لاہور، جنوری- مارچ 2011 ، صفحہ 9)۔
یہ واقعہ ایک واقعہ نہیں، یہ ایک مثال کی صورت میں دورِ زوال کی امتِ مسلمہ کی تصویر ہے۔ زوال کے دور میں، دوسری امتوں کی طرح امتِ مسلمہ میں بھی یہ واقعہ پیش آیا کہ امت کے شیوخ اور اکابر، دین کا ماخذ بن گئے۔ جس طرح یہود کے دورِ زوال میں یہ ہوا کہ اُن کے احبار اور رہبان (علما اور مشائخ) اُن کے لیے دین کا ماخذ بن گئے۔ تاہم امتِ مسلمہ کے پاس اِس معاملے میں ایک واضح معیار (criterion) موجود ہے، جس کے ذریعے صحیح اور غلط میں فرق کیا جاسکے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق، امت میں تین دور قُرون مشہود لہا بالخیر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ تین دور یہ ہیں — دورِ رسالت، دور صحابہ، دورِ تابعین۔ اِس معیار کی روشنی میں دیکھئے تو وہ تمام افراد جن کو بعد کے زمانے میں ’’اکابر‘‘ کا درجہ دے دیاگیا، وہ سب قرونِ مشہود لہا بالخیر کے بعد کے افراد ہیں۔ ہم کو حق ہے کہ ان بعد کے لوگوں کی باتوں کو قرآن اور سنت کی روشنی میں جانچیں۔ اگروہ قرآن اور سنت کے مطابق ہوں تو اُن کو لیں، ورنہ ان کو رد کردیں۔
واپس اوپر جائیں

عجیب اور سبق آموز

والٹر ڈی لا میئر (Walter De La Mare) ایک برٹش مصنف ہے۔ وہ 1873 میں پیدا ہوا، اور 1956 میں اس کی وفات ہوئی۔ ڈی لا میئر کی ایک نظم ہے۔ اس کا عنوان مس ٹی (Miss T) ہے۔ اِس نظم کی ایک لائن یہ ہے — یہ بہت زیادہ عجیب بات ہے کہ مس ٹی جو کچھ کھاتی ہے، وہ مس ٹی بن جاتاہے:
It's a very odd thing— as odd can be —
That whatever Miss T eats, turns into Miss T.
’’مس ٹی‘‘ ایک فرضی نام ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ مس ٹی کے باہر دسترخوان پر مختلف قسم کے کھانے ہیں— پھل، سبزی، چاول، دال، وغیرہ۔ یہ چیزیں جب تک باہر ہیں، وہ مختلف غذائی آئٹم ہیں۔ لیکن جب مس ٹی اِن چیزوں کو کھاتی ہے تو وہ اُس کے اندر داخل ہو کر اُس کے وجود کا حصہ بن جاتی ہیں۔
یہ تبدیلی (conversion) کا ایک واقعہ ہے، جب کہ ایک مادی چیز تبدیل ہو کر ایک شخص کے جسم کا جز بن جاتی ہے۔ تبدیلی کے اِس واقعے کا ایک اور پہلو ہے۔ یہ پہلو شعور سے تعلق رکھتا ہے۔ ایک با شعور آدمی جب یہ سوچتاہے کہ یہ مادی چیزیں کیسے بنیں، کیوں ایسا ہے کہ دو بہ ظاہر الگ الگ چیزوں میں کامل مطابقت پائی جاتی ہے۔ کس طرح یہ ممکن ہوا کہ یہ تمام چیزیں انسان کے لئے لائف سپورٹ سسٹم (life-support system) کا ذریعہ بن گئیں۔
جب ایک شخص اِس طرح سوچتا ہے تو ہ تخلیق کی معنویت (meaningfulness)کو دریافت کرتاہے۔ وہ تخلیق میں خالق کو دیکھ لیتاہے— یہی وہ تجربہ ہے جو انسان کے لیے ذہنی اور روحانی ارتقا کا ذریعہ ہے۔ مادی چیزیں انسان کے باہر صرف مادی چیزیں ہیں، لیکن انسان کے ذہن میں آکر وہ شعوری ارتقا میں ڈھل جاتی ہیں۔
واپس اوپر جائیں

دعوتِ قرآن

قرآن کی سورہ مریم میں قرآن کے بارے میں یہ آیت آئی ہے: لتبشر بہ المتقین (19:97)یعنی قرآن اِس لیے اتارا گیا ہے کہ وہ اہلِ تقویٰ کے لیے بشارت ثابت ہو۔ ’بشارت‘ کا مطلب اچھی خبر (good news) ہے۔ قرآن، خدا کی ایک مستند کتاب ہے۔ قرآن تمام انسانوں کو ایک اچھی خبر دینے والا ہے۔ وہ اچھی خبر یہ ہے کہ انسان اگر دنیا کی محدود زندگی میں حسنِ عمل کا طریقہ اختیار کرے تو وہ موت کے بعد کی زندگی میں ابدی جنت میں جگہ پائے گا۔
یہ اچھی خبر اُن افراد کے لیے ہے جو دنیا کی زندگی میں تقویٰ کی روش اختیار کریں۔ جنت عمومی طورپر ہر انسان کو نہیں ملے گی، وہ صرف اُس انسان کو ملے گی جو دنیا کی زندگی میں تقویٰ کا ثبوت دے(3: 133)۔جنت کی معیاری دنیا میں جگہ پانے کی شرط صرف ایک ہے، اور وہ تقویٰ ہے۔
قرآن کی مذکورہ آیت کے مطابق، جنت کی بشارت متقی انسانوں کے لیے ہے۔ متقی کا لفظی مطلب ہے — ڈرنے والا یا بچنے والا۔ ڈرنا یا بچنا کیا ہے، یہ دراصل حساسیت (sensitivity) کا ایک ظاہرہ ہے۔ جب آدمی کسی چیز کے بارے میں بہت زیادہ باشعور ہوجائے تو فطری طور پر وہ اس کے بارے میں بہت زیادہ حساس (sensitive) ہوجاتاہے۔ انسان کی زندگی میں سب سے بڑا رول اِسی حساسیت کا ہے۔ آدمی جس چیز کے بارے میں حساس نہ ہو، وہ اس کو نظر انداز کرے گا، اور جس چیز کے بارے میں وہ حساس ہو، وہ چیز اس کا کنسرن (concern) بن جائے گی۔ عین اپنے مزاج کے مطابق، اُس کو وہ سب سے زیادہ قابلِ توجہ چیز سمجھنے لگے گا۔
قرآن کا پیغام یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو ڈسٹریکشن سے بچائے۔ وہ اپنے شعورکو اتنا زیادہ بیدار کرے کہ اپنی زندگی میں خدا کی اطاعت ہی اُس کا سب سے بڑا کنسرن (sole concern) بن جائے، کوئی دوسری چیز اس کی حساسیت کا مرکز نہ بنے۔
ایسے آدمی کا حال کیا ہوگا، اُس کو قرآن میں مختلف مقامات پر بتایا گیا ہے۔ اِس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے: ولا تقفُ ما لیس لک بہ علم، إن السمع والبصر والفؤاد کلُّ أولئک کان عنہ مسؤلاً(17:36 ) یعنی تم اُس چیز کے پیرو نہ بنو جس کا تمھیں علم نہیں۔ بے شک کان اور آنکھ اور دل سب کی، آدمی سے پوچھ ہوگی۔
قرآن کی اِس آیت میں د راصل اُس چیز کا حکم دیاگیا ہے جس کو ایک لفظ میں صحیح طرزِ فکر کہاگیا ہے۔ انسانی زندگی کی درستگی کا سارا مدار اِس پر ہے کہ اس کے اندر صحیح طرز فکر پیدا ہو جائے۔ وہ اپنے قول اور عمل کے معاملے میں اپنے آپ کوپوری طرح قانونِ خداوندی کے مطابق بنالے۔
قرآن کے مطابق، یہی وہ منصوبۂ تخلیق (creation plan) ہے جس کے لیے انسان کو پیدا کرکے اس کو محدود مدت کے لیے سیارۂ ارض (planet earth) پر بسایا گیا ہے۔ سیارۂ ارض انسان کے لیے کوئی عیش گاہ نہیں ہے، وہ مذکورہ مقصد کے لیے مقامِ انتخاب (selection ground) ہے۔ یہاں وہ افراد چُنے جارہے ہیں جو اپنی اعلیٰ صفات کی بنا پر جنت جیسی معیاری دنیا میں بسائے جانے کے قابل ہوں۔ یہی بات قرآن کی سورہ الملک میں اِن الفاظ میں کہی گئی ہے: الذی خلق الموت والحیاۃ لیبلوکم أیُّکم أحسن عملاً (67:2) یعنی اللہ نے موت اور زندگی کو پیدا کیا، تاکہ وہ تم کو جانچے کہ تم میں سے کون اچھا کام کرتاہے:
He created death and life so that He might test you, and find out which of you is best in conduct.
اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں پیدا کی ہیں، وہ وسیع تر تقسیم (division) میں دوہیں— مادی دنیا اور انسان۔ مادی دنیا سے مراد وہ پوری وسیع کائنات ہے جس کو نیچر (nature)کہاجاتاہے۔ مادی دنیا مکمل طورپر خدا کے مقرر کئے ہوئے قانون (divine laws) کے تحت کام کررہی ہے۔ وہ خدا کے قانون سے ادنی انحراف نہیں کرتی۔ مگر انسان کا معاملہ اِس سے مختلف ہے۔ انسان پوری کائنات میں ایک استثنا کی حیثیت رکھتا ہے، وہ یہ کہ انسان کو انتخاب کی آزادی (freedom of choice) عطا کی گئی ہے۔ انسان کو کامل اختیار حاصل ہے کہ وہ خود اپنی سوچ کے مطابق، اپنے قول وعمل کا فیصلہ کرے۔ یہ بات قرآن کی مختلف آیتوں میں بتائی گئی ہے۔ اِس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت کا ترجمہ یہ ہے: ’’کیا یہ لوگ اللہ کے دین کے سوا کوئی اور دین چاہتے ہیں، حالاں کہ اُسی کے حکم میں ہے جو کوئی آسمان اور زمین میں ہے، خوشی سے یا ناخوشی سے، اور سب اُسی کی طرف لوٹائے جائیں گے‘‘ (3: 83)۔ اِس سلسلے میں قرآن کی ایک اور آیت کا ترجمہ یہ ہے:’’اور جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین کو چاہے گا، تو وہ دین اُس سے ہر گز قبول نہ کیاجائے گا اور وہ آخرت میں ناکام انسانوں میں سے ہوگا‘‘ (3: 85)
قرآن کی اِس آیت میں لفظ ’اسلام‘ (submission) استعمال کیا گیا ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ خالق کی جو اطاعت بقیہ کائنات سے جبری (compulsory) طورپر مطلوب ہے، انسان سے یہ مطلوب ہے کہ اِسی اطاعت کو وہ کامل آزادی کے ساتھ اپنی زندگی میں اختیار کرے۔
انسان کو سننے کی طاقت، دیکھنے کی طاقت اور سوچنے کی طاقت اِس لیے دی گئی ہے، تاکہ انسان اُن کا استعمال کرکے اپنے لیے اُس صحیح روش کو جان سکے جس کو قرآن میں صراطِ مستقیم کہاگیاہے۔ صراطِ مستقیم سے ہٹنا، اِس بات کا ثبوت ہے کہ آدمی نے اپنی ملی ہوئی صلاحیتوں کو درست طور پر استعمال نہیں کیا۔ ایساآدمی اللہ تعالیٰ کے یہاں قابلِ مواخذہ (accountable) قرار پائے گا، کو ئی بھی عذر اُس سے قبول نہیں کیا جائے گا 30: 57) ۔
اِسی طرح حیاتِ انسانی کا ایک اصول یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو کبر (arrogance) کی نفسیات سے بچائے۔ اِس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت کے الفاظ یہ ہیں: ولا تمش فی الأرض مرحاً، إن اللہ لا یحب کلَّ مختال فخور(31: 18) یعنی تم زمین میں اکڑ کر نہ چلو۔ بے شک اللہ کسی اکڑنے والے اور فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔
قرآن کی اِس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ انسان کے لیے سب سے بُری اخلاقی صفت کیا ہے، وہ کبر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کبر تمام برائیوں کا سرچشمہ ہے۔ اس کے برعکس، تواضع (modesty) تمام بھلائیوں کا سرچشمہ۔ قرآن کا مطلوب انسان وہ ہے جو متواضع ہو اور کبر کی نفسیات سے مکمل طورپر خالی ہو۔
قرآن کی سورہ الفجر میں بتایا گیا ہے کہ انسان کے ساتھ جو خوش گوار یا نا خوش گوار تجربات پیش آتے ہیں، وہ صرف ابتلا (test) کے لیے ہوتے ہیں، مگر انسان ایسے واقعات کو منفی معنی میں لے لیتا ہے۔ اگر اس کے ساتھ خوش گوار واقعہ پیش آئے تو وہ ’أکرمن‘ کی نفسیات میںمبتلا ہوجاتا ہے، یعنی احساسِ برتری (superiority complex) کی نفسیات میں۔ اِس کے برعکس، اگر اُس کے ساتھ کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش آئے تو وہ ’أہانن‘ کی نفسیات میں مبتلا ہوجاتا ہے، یعنی احساسِ کم تری (inferiority complex) کی نفسیات میں (89: 15-16)۔
قرآن کے مطابق، یہ دونوں چیزیں انسان کو ہلاک کرنے والی ہیں۔ صحیح یہ ہے کہ انسان کے ساتھ کوئی خوش گوار واقعہ پیش آئے، تب بھی وہ اعتدال کی حالت پر قائم رہے۔ اور اگر اس کے ساتھ کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش آئے، تب بھی وہ اعتدال کی حالت پر قائم رہے۔ جو انسان اِس طرح معتدل شخصیت کا ثبوت دے، اس کو قرآن میں النفس المطمئنۃ (89: 27) کہاگیا ہے، یعنی کامپلکس فری انسان (complex-free soul) ۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ کسی انسان کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ اُس کو موت کے بعد کی ابدی زندگی میں جنت میں داخلہ مل جائے۔ اِس سلسلے میں قرآن میں ارشاد ہوا ہے: إن ہذا لہو الفوز العظیم۔ لمثل ہذا، فلیعمل العاملون (37: 60-61) یعنی یقینا یہی بڑی کامیابی ہے۔ ایسی ہی کامیابی کے لیے عمل کرنے والوں کو عمل کرنا چاہیے۔اِس سے معلوم ہواکہ قرآن کے مطابق، انسان کا گول (goal) کیا ہونا چاہئے، وہ گول صرف ایک ہے، اور وہ جنت ہے۔ جنت سادہ طور پر صرف ایک عیش گاہ نہیں ہے۔ جنت کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ رب العالمین کا پڑوس ہے، اور بلاشبہہ کسی انسان کے لیے اِس سے بڑی کوئی کامیابی نہیں ہوسکتی کہ اس کو ابدی زندگی میں اپنے رب کا پڑوس (neighbourhood) حاصل ہوجائے۔ جنت کی یہ خصوصیت قرآن کی اِس دعا سے معلوم ہوتی ہے: ربّ ابنِ لی عندک بیتاً فی الجنۃ (66: 11) یعنی اے میرے رب، میرے لیے تو اپنے پاس جنت میں ایک گھر بنا دے۔
واپس اوپر جائیں

مسئلہ داخلی ہے، نہ کہ خارجی

بعد کے زمانے کے مسلمانوں کے بارے میں ایک حدیث اِن الفاظ میں آئی ہے: یوشک الأمم أن تداعی علیکم کما تداعی الأکَلَۃُ إلی قصعتہا۔ فقال قائلٌ: و من قلۃٍ نحن یومئذ۔ قال بل أنتم یومئذ کثیر، ولکنکم غثاء کغثاء السیل، ولینزعنّ اللہ من صدور عدوکم المہابۃ منکم، ولیقذفنّ فی قلوبکم الوَہْن۔ قیل وما الوہن یا رسول اللہ۔ قال: حب الدنیا وکراہیۃ الموت (أبو داؤد، رقم الحدیث: 4297) حضرت ثوبان کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ زمانہ آنے والا ہے جب کہ قومیں تمھارے اوپر ٹوٹ پڑیں، جس طرح کھانے والے کھانے کے پیالے پر ٹوٹتے ہیں۔ ایک شخص نے کہا، کیا اِس لیے کہ اُس وقت ہم لوگ کم تعداد میں ہوں گے۔ آپ نے فرمایا کہ نہیں۔ اُس وقت تم لوگ بہت زیادہ ہو گے، مگر تم لوگ سیلاب کے جھاگ کی مانند ہوگے، اللہ تمھارے دشمنوں کے دل سے تمھاری ہیبت نکال دے گا، اور تمھارے دلوں میں ’وہن‘ پیدا کردے گا۔ کہا گیا کہ اے اللہ کے رسول، ’وہن‘ کیا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ دنیا کی محبت، اور موت کو ناپسند کرنا۔
اِس حدیثِ رسول سے معلوم ہوتا ہے کہ بعد کے زمانے کے مسلمانوں میں یہ مسئلہ اگرچہ خارجی اعتبار سے پیداہوگا، لیکن اُس کا اصل سبب تمام تر داخلی ہوگا۔ امت کے اِس داخلی مسئلے کو حدیث میں ’’وہن‘‘ کہاگیا ہے۔ وہن کا لفظی مطلب ہے— ضعف (weakness) ۔
یہ ضعف (کمزوری) کیاہوگا، اِس کو بھی حدیث میں بتادیاگیا ہے۔ وہ یہ کہ اُس زمانے میں مسلمانوں کا کنسرن (concern) یہ نہیں رہے گا کہ وہ دین کے تقاضے پورے کریں۔ اُن کا کنسرن صرف یہ ہوگا کہ وہ دنیا میں مادی اعتبار سے اپنی جگہ بنائیں۔ موت کے بعد پیش آنے والی صورتِ حال اُن کی سرگرمیوں کا مرکز ومحور نہ ہوگی، بلکہ ان کی سرگرمیوں کا مرکز و محور صرف یہ ہوگا کہ وہ موت سے پہلے کی زندگی میں کس طرح مادی کامیابی اور مادی ترقی حاصل کریں۔ ’’دنیا پرستی اور آخرت فراموشی‘‘ کے اسی مزاج کو حدیث میں وہن کہاگیا ہے۔ اِس مزاج کے بعد امتِ مسلمہ سے خدا کی نصرت اٹھ جائے گی، اور خدا کی نصرت اٹھنے ہی کا وہ نتیجہ ہوگا جس کی ایک تصویر مذکورہ روایت میں نظر آتی ہے۔ ایسی حالت میں اِس مسئلے کا حل دوسروں کے خلاف شکایت اور احتجاج نہ ہوگا، بلکہ اُس کا حل صرف یہ ہوگا کہ اپنی داخلی حالت کی اصلاح کرکے د وبارہ اپنے آپ کو نصرتِ الٰہی کا مستحق بنایا جائے۔
لوگوں کے دلوںمیں تمھاری ہیبت باقی نہ رہے گی — ہیبت یا مہابت کا ترجمہ عام طور پر خوف کیا جاتاہے، مگر خوف ایک منفی لفظ ہے، جب کہ ہیبت تمام تر ایک مثبت لفظ ہے۔ اِس حدیث میں ہیبت سے مراد سیاسی ہیبت نہیں ہے، بلکہ اِس سے مراد وہ ہیبت ہے جو اعلیٰ قسم کے مثبت اوصاف سے پیدا ہوتی ہے۔ ہیبت سے مراد وہ خوف نہیں ہے جو کسی درندہ جانور کو دیکھ کر آدمی کے اندر پیدا ہوتا ہے۔ ہیبت یا مہابت سے مراد وہ رعب و دبدبہ (profound reverence) ہے جو کسی فرد یا گروہ کے اندر اُس وقت پیدا ہوتا ہے، جب کہ وہ اخلاقی اور نظریاتی اعتبار سے دوسروں کے مقابلے میں برتر حیثیت حاصل کرلے۔قدیم زمانے میں مسلمانوں کو دوسروں کے مقابلے میں یہ ہیبت حاصل تھی، جب کہ موجودہ زمانے میں مسلمانوں نے دوسروں کے مقابلے میں اپنی یہ ہیبت مکمل طور پر کھو دی ہے۔ اِس فرق کا سبب یہ نہیں ہے کہ قدیم زمانے میں مسلمانوں کے پاس ’’لشکرِ جر ّار‘‘ کی طاقت موجود تھی، بلکہ اِس کا سبب یہ ہے کہ قدیم زمانے کے مسلمان اپنی نظریاتی برتری، اصول پسندی، نفع بخشی اور اپنی اخلاقی عظمت کے اعتبار سے، دوسروں کے مقابلے میں اعلیٰ سطح پر پہنچے ہوئے تھے۔
اِس حدیث میں بعد کے زمانے کے مسلمانوں کی جس حالت کا ذکر ہے، وہ کوئی پُراسرار بات نہیں، وہ ایک تاریخی حقیقت کا بیان ہے۔ فطرت کے قانون کے مطابق، ہر قوم کی بعد کی نسلوں میں زوال (degeneration) آتا ہے۔ اِس معاملے میں مسلمانوں کا کوئی استثنا (exception) نہیں۔ فطرت کے قانون کے مطابق، ایسا ہوتا ہے کہ دورِ زوال میں پیدا ہونے والی نسلیں مثبت اوصاف سے محروم ہوجاتی ہیں۔ پہلے اگر وہ دوسری قوموں کو دینے والے (giver) تھے، تو اب وہ دوسری قوموں سے لینے والے (taker) بن جاتے ہیں۔ پہلے اگر اُن کے افراد میں اعلیٰ حوصلگی تھی، تو اب اُن کے افراد پست حوصلگی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ پہلے اگر اُن کے اندر تخلیقی فکر تھی، تو اب اُن کے افراد صرف تقلیدی فکر کے حامل بن جاتے ہیں۔ پہلے اگر ان کے دلوں میں دوسروں کے لیے خیر خواہی کا جذبہ ہوتا تھا، تو اب ان کے دل دوسروں کے خلاف نفرت اور شکایت کا جنگل بن جاتے ہیں۔ پہلے اگر ان کے اندر صبر وتحمل کے اوصاف تھے، تو اب ان کا حال یہ ہوجاتاہے کہ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر مشتعل ہو کر لڑنے لگتے ہیں۔
حدیث میں ’کراہیۃ الموت‘ کا لفظ آیا ہے۔ اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بعد کے زمانے کے مسلمان موت سے ڈرنے لگیں گے۔اِس کا ثبوت موجودہ زمانے کے مسلمانوں کی حالت ہے۔ موجودہ زمانے کے مسلمانوں پر اب وہ وقت مسلّمہ طورپر آچکا ہے جس کی پیشین گوئی حدیث میں کی گئی تھی۔ لیکن اِسی کے ساتھ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ وہ موت سے بالکل بے خوف ہوگئے ہیں۔ دنیا کے مختلف حصوں میں بڑے پیمانے پر اُن کی مسلح تنظیمیں قائم ہیں۔ اِن مسلّح تنظیموں میں مسلمان بڑی تعداد میں شریک ہیں۔ وہ جگہ جگہ جہاد کے نام پر مسلح کلچر چلائے ہوئے ہیں۔ بالا کوٹ کے شہیدوں اور علمائِ ہند کی قربانیوں سے لے کر موجودہ فلسطین اور افغانستان تک ہر جگہ مسلمان بڑے پیمانے پر مسلح کلچر چلائے ہوئے ہیں، حتی کہ وہ بے خوف ہو کر خود کش بم باری کرتے ہیں۔ وہ جگہ جگہ پُرتشدد مظاہرے کرتے ہیں، خواہ اس کے جواب میں اُن کو فریق ثانی کی طرف سے بندوق کی گولیوں کا سامنا کرنا پڑے۔
ایسی حالت میں ’’کراہیتِ موت‘‘ کی تشریح یہ نہیں ہوسکتی کہ مسلمان بعد کے دور میں لڑنا مرنا چھوڑ دیں گے۔ اس کا اصل مطلب یہ ہے کہ بعد کے دور کے مسلمانوں میں دینی زوال کے نتیجے میں مبنی بر موت سوچ ختم ہوجائے گی، آخرت رخی زندگی کا حقیقی تصور اُن کے اندر باقی نہیں رہے گا۔ موت سے وابستہ حقائق، جنت اور جہنم اور فکرِ آخرت جیسی چیزیں ان کی شخصیت کا حصہ نہیں رہیں گی۔اِس حدیثِ رسول سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ ’’ہیبت‘‘ کا تعلق تعداد سے نہیں ہے، بلکہ کردار سے ہے۔ تعداد خواہ کتنی ہی زیادہ ہو، وہ مسلمانوں کے لیے عزت ووقار کا ذریعہ نہیں بن سکتی۔ اُس کے لیے ضروری ہے کہ مسلم افراد میں حقیقتِ موت کا شعور پیدا کیا جائے، جس کا دوسرا نام آخرت رخی سوچ ہے۔ آخرت رخی سوچ ہی سے افراد میں وہ اعلیٰ کردار بنتا ہے جو اُن کو لوگوں کے درمیان عزت ووقار کادرجہ عطا کرتاہے۔
واپس اوپر جائیں

امتِ مسلمہ کا احیا

کچھ بچے ایک جگہ بیٹھ کر کھیل رہے تھے۔ ایک شخص نے پوچھا کہ تم لوگ کیا کررہے ہو۔ بچوں نے کہا کہ جھوٹ موٹ کھچڑی پکارہے ہیں۔ پوچھنے والے نے کہا کہ جب جھوٹ موٹ ہی پکانا ہے تو کھچڑی کیوں پکاؤ، پلاؤ پکاؤ۔
یہ لطیفہ موجودہ زمانے کے مسلم رہنماؤں پر پوری طرح صادق آتا ہے۔ موجودہ زمانے کا ہر رہنما احیائِ ملت کی باتیں کرتاہے، مگر اُن کا احیائِ ملت کا تصور رومانی خواب کے سوا کچھ اورنہیں۔ یہ سب کے سب رہنما ایسی چیزوں کو اپنا نشانہ بنائے ہوئے ہیں جو کبھی وقوع میں آنے والی نہیں۔ یہ رہنما عام طور پر درج ذیل قسم کے خوش نما الفاظ بولتے ہیں:
مسلم تہذیب کا احیا (Revival of Muslim Civilization)
مسلم ایمپائر کا احیا (Revival of Muslim Empire)
مسلم خلافت کا احیا (Revival of Muslim Khilafah)
مسلم عظمت کا احیا (Revival of Muslim Glory)
مسلم تاریخ کا احیا (Revival of Muslim History)
یہ نشانے سب کے سب قومی نشانے ہیں اور قومی نشانے کبھی اِس دنیا میں پورے نہیں ہوتے، کیوں کہ قومی نشانوں کو کبھی خدا کی مدد حاصل نہیں ہوتی۔ مسلم امت کا نشانہ صرف ایک ہے، اور وہ دعوت الی اللہ ہے۔ قرآن اور حدیث میں اِس کو ’’شہادت علی الناس‘‘ کہاگیا ہے، یعنی اللہ کے پیغام کو اس کے بندوں تک پہنچانا۔ یہی دعوت الی اللہ امتِ مسلمہ کا واحد مشن ہے۔ یہ مشن اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک غیر سیاسی مشن ہے، اور اپنے طریقِ کار کے اعتبار سے، پوری طرح ایک پُر امن مشن (peaceful mission)۔ اِس دعوتی مشن کے لیے اللہ کی طرف سے یقینی نصرت کا وعدہ ہے۔ یہ مشن تمام انسانوں کے لیے ہے، نہ کہ کسی خاص قوم کے لیے۔
واپس اوپر جائیں

اصلاح کا صحیح طریقہ

موجودہ زمانے میں مسلمانوں کی اصلاح کے لیے بہت بڑی بڑی تحریکیں اٹھائی گئیں، لیکن ظاہری دھوم کے باوجود مثبت نتیجے کے اعتبار سے اُن کا کوئی حقیقی حاصل نہیں۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ اِن تحریکوں کا نقطۂ آغاز (starting point) درست نہ تھا۔ اصلاح کا نقطۂ آغاز یہ ہے کہ سب سے پہلے افراد کا ذہن بنایا جائے۔ خارجی نوعیت کی سرگرمیوں سے آغاز کوئی آغاز نہیں۔
مسلمانوں کی اصلاح کی پہلی شرط یہ ہے کہ ان کے ذہنی شاکلہ (mindset) کو بدلا جائے۔ مائنڈ سیٹ کیا ہے، اس کا مطلب ہے :
A fixed set of attitudes
تاریخی اعتبار سے دیکھئے تو قدیم عرب میں لوگوں کا جو مائنڈ سیٹ تھا، اس کو قبائلی مائنڈ سیٹ (tribal mindset) کہا جاسکتاہے۔
اِس کے بعد دورِ اقتدار آیا۔ اُس زمانے میں، مسلمانوں کے اندر ایک نیا مائنڈ سیٹ بنا۔ اِس کو سیاسی مائنڈ سیٹ (political mindset) کہاجاسکتاہے۔ یہ مائنڈ سیٹ تقریباً اٹھارھویں صدی کے آخر تک چلتا رہا۔ انیسویں صدی اور بیسویں صدی میں، مسلمانوں کا سیاسی اور تہذیبی دبدبہ ختم ہوگیا۔اِس کے بعد مسلمانوں کے اندر ردِّ عمل کی نفسیات پیدا ہوئی۔ اب ان کے اندر جو مائنڈ سیٹ بنا، اس کو انتقامی مائنڈ سیٹ (revengeful mindset) کہاجاسکتاہے۔
یہی انتقامی مائنڈ سیٹ آج تقریباً تمام دنیا کے مسلمانوں میں پایا جاتا ہے۔ شکایت، نفرت، تشدد، خود کش بم باری سب اِسی مائنڈ سیٹ کے عملی مظاہر ہیں۔ اب اکیسویں صدی میں مسلمانوں کی اصلاح کے لیے جو کام کرنا ہے، وہ صرف یہ ہے کہ اُن کے اندر دوبارہ وہی مائنڈ سیٹ پیدا کیا جا ئے جو رسول اور اصحابِ رسول کے زمانے میں پایاجاتاتھا، یعنی دعوتی مائنڈ سیٹ۔ یہی مسلمانوں کی اصلاح کا صحیح آغاز ہے۔ اِسی طرح کام کرنے سے مسلمانوں کے اندر حقیقی نتائج پیدا ہوسکتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

مسئلے کا حل

موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا عام خیال یہ ہے کہ وہ ’’اغیار‘‘ کی سازش اور تشدد کا شکار ہیں۔ مگر قرآن یہ کہتے ہوئے اِس نظریے کو رد کررہا ہے کہ — اللہ ہرگز منکروں کو مومنوں پر کوئی راہ نہیں دے گا:
And never will God allow non-believers to harm the believers. (4:141)
پھر مسلمانوں کے ساتھ پیش آنے والی موجودہ صورتِ حال کا سبب کیا ہے۔ قرآن ایک اور آیت میں اُس کا جواب اِس طرح دیتاہے—اور جو مصیبت تم کو پہنچتی ہے، وہ تمھارے اپنے ہاتھوں کے کئے ہوئے کاموں ہی کے سبب سے ہے:
Whatever misfortune befalls you is of your own-doing (42: 30)
اب سوال یہ ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے ساتھ ’’اغیار‘‘ کی طرف سے جو مسائل پیش آرہے ہیں، اُس کا اصل سبب کیا ہے۔ اِس کا جواب قرآن کی ایک اور آیت سے معلوم ہوتا ہے۔ اِس آیت کا ترجمہ یہ ہے — اے پیغمبر، جو کچھ تمھارے اوپر تمھارے رب کی طرف سے اترا ہے، تم اس کو لوگوں تک پہنچا دو۔ اور اگرتم نے ایسا نہ کیا تو تم نے اللہ کے پیغام کو نہیں پہنچایا۔ اور اللہ تم کو لوگوں سے بچائے گا:
O Prophet, deliver whatever has been sent down to you by your Lord. If you do not do so, you will not have conveyed His message. God will protect you from the people. (5: 67)
قرآن کی اِس آیت سے معلوم ہوتاہے کہ اہلِ ایمان کی عصمت (protection) کا معاملہ دعوت الی اللہ (Dawah work) سے جڑا ہوا ہے، یعنی اہلِ ایمان اگر دعوہ ورک کریں تو اُن کو خدا کی طرف سے پروٹکشن ملا رہے گا۔ اگر وہ دعوہ ورک چھوڑ دیں، تو خدا کا پروٹکشن اُن سے اٹھ جائے گا۔ اہلِ ایمان کے مسائل کا حل نہ پروٹسٹ ہے اور نہ ٹکراؤ۔ اہلِ ایمان کے مسئلے کا واحد حل دعوہ ورک ہے۔ کوئی بھی دوسری تدبیر اِس معاملے میں اہلِ ایمان کے لیے ہرگز کار گر نہیں ہوسکتی:
Dawah work guarantees divine protection of Muslim Ummah.
حدیثِ رسول کے مطابق، موجودہ زمانے کے مسلمانوں کو عالمی ادخالِ کلمہ کی ذمے داری ادا کرنا تھا، یعنی گلوبل دعوہ ورک۔ اِس گلوبل دعوہ ورک کے لیے ایک گلوبل انفراسٹرکچر درکار تھا۔ مسلمان خود اس گلوبل انفراسٹرکچر کو وجود میں نہ لاسکے۔ اِس کے بعد خدا نے سیکولر قوموں سے یہ کام لیا کہ وہ ایک گلوبل انفراسٹرکچر ڈیولپ کریں۔ سیکولر قوموں کے اِس رول کی پیشین گوئی خود حدیثِ رسول میں کردی گئی تھی۔ چناں چہ حدیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ مستقبل میں سیکولر لوگوں کے ذریعے اپنے دین کی تائید کا انتظام کرے گا (إن اللہ لیؤیدہذا الدین بالرجل الفاجر)۔
مسلمانوں کی ناکامی کے بعد سیکولر قوموں کے ذریعے اِس گلوبل انفراسٹرکچر کا وجود میں آنا، اِسی حدیثِ رسول کے مطابق تھا۔ مسلمانوں پر فرض تھا کہ وہ اِس راز کو سمجھیں اور ماڈرن انفراسٹرکچر کو گلوبل دعوہ ورک کے لیے استعمال کریں۔ لیکن بعض اسباب سے مسلمان اِس راز کو نہ سمجھ سکے اور خود ساختہ اِشوز کو لے کر لوگوں سے رقابت (rivalry) قائم کرلی، حتی کہ وہ اُن کے خلاف تشدد کرنے لگے۔
مسلمانوں کی یہ روش خدا کی اسکیم کے خلاف تھی۔ اب مسلمانوں کے لیے واحد راستہ یہ ہے کہ وہ اپنی پالیسی پر نظر ثانی کریں، وہ از سرِ نو اپنے عمل کی منصوبہ بندی کریں۔
وہ دوسری قوموں کو اپنا مدعو سمجھیں، نہ کہ اپنا حریف (rival) ۔ وہ جدید تہذیب کے ذریعے حاصل ہونے والے گلوبل انفراسٹرکچر کو لے کر عالمی سطح پر پر امن دعوہ ورک کو انجام دیں۔ مسلمانوں کے لیے یہی واحد راستہ ہے۔ اِس کے سوا کوئی اور طریقہ نہیں جو مسلمانوں کو موجودہ مسائل سے نجات دلانے والا ہو۔مسلمانوں کے لیے فرض کے درجے میں ضروری ہے کہ وہ دعوت الی اللہ کے سوا ہر دوسری چیز کو اپنے لیے سکنڈری بنائیں۔ وہ دعوت کو اپنی زندگی کا واحدمشن قرار دیں۔اِس کے بعدہی ان کو دوبارہ خدا کی حفاظت ملے گی۔ اِسی میں اُن کے لیے دنیا کی حفاظت ہے اور اِسی میں ان کے لیے آخرت کی نجات مقدر ہے۔
واپس اوپر جائیں

اسلامی تحریک کا ہدف

تبلیغی جماعت کے سابق امیر مولانا انعام الحسن کاندھلوی (وفات: 1996 ء) نے کہا تھا کہ: ہماری تبلیغی تحریک ایک مسجد وار تحریک ہے۔ مولانا انعام الحسن کاندھلوی کا یہ قول تبلیغی جماعت کی صحیح تصویر کو بتاتا ہے۔ تبلیغی جماعت کی تحریک اصلاً مسلمانوں کی دینی اصلاح کی تحریک ہے، جومسجدوں کو بنیاد بنا کر چلائی جارہی ہے۔ مسجدوار تحریک کا مطلب ہے — مسجد اورینٹڈ موومنٹ (Masjid-oriented movement)۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے اندر جو تحریکیں اٹھیں، وہ مختلف پہلوؤں سے اِسی قسم کی تحریکیں تھیں — مسجدوار تحریک، مدرسہ وار تحریک، ملت وار تحریک، تحفظ وار تحریک، مناظرہ وار تحریک، فخروار تحریک، سیاست وار تحریک، وغیرہ۔ اِس قسم کی تحریکوں کا ایک لمبا سلسلہ ہے جو انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے درمیان پھیلا ہوا ہے، اور اکیسویں صدی میں بھی اس قسم کی تحریکوں کا تسلسل جاری ہے۔
تحریکوں کی اِس طویل فہرست میں صرف ایک تحریک ہے جو غیر موجود ہے، اور وہ ہے دعوت وار تحریک۔ دعوت وار تحریک کے لیے قرآن میں دعوت الی اللہ کا لفظ آیا ہے، یعنی خدا کے بندوں کو خداکی طرف بلانا، تمام انسانوں کو خدا کے تخلیقی منصوبہ (creation plan) سے آگاہ کرنا۔ قرآن میں اِس دعوت وار تحریک کے لیے مختلف الفاظ آئے ہیں۔ مثلاً اِنذار، تبشیر، وغیرہ۔
دعوت الی اللہ، امتِ مسلمہ کا سب سے بڑا مشن ہے۔ یہی تمام پیغمبروں کا مشن تھا۔ یہی پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن تھا۔ یہی اب امتِ محمدی کا مشن ہے۔ اِسی دعوتی مشن کی انجام دہی پر امتِ محمدی کا امتِ محمدی ہونا متحقق ہوتاہے۔ امت اگر اِس دعوتی مشن کو انجام نہ دے تو اللہ کی نظر میں ٍٔ اس کا امتِ محمدی ہونا مشتبہ ہوجائے گا۔ مزید یہ کہ یہ دعوتی مشن فرض علی الکفایۃ نہیں ہے، بلکہ وہ فرضِ عین ہے۔ امت کا ہر فرد جس طرح عبادت کو اپنے لیے فرض سمجھتاہے، اسی طرح امت کے ہر فرد کا یہ فریضہ ہے کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق، اِس دعوتی مشن میں اپنے آپ کو شریک کرے۔
واپس اوپر جائیں

انسانی ذمّے داری

(Human Responsibility)
رسپانسبلٹی (responsibility) سے مراد وہی چیز ہے جس کو ڈیوٹی (duty) کہاجاتاہے۔ کہا جاتاہے کہ — انسان ایک سماجی حیوان ہے:
Man is a social animal
اِس کا مطلب یہ ہے کہ سوسائٹی کا ممبر ہونے کی حیثیت سے ہر فرد کے اوپر اپنی سوسائٹی کی نسبت سے کچھ ذمے داریاں ہیں (Individual’s duty towards his society) ۔
اِسی کے ساتھ انسان، نیچر کا ایک حصہ ہے۔ اِس اعتبار سے، ہر انسان کی یہ بھی ذمے داری ہے کہ وہ نیچر کے معاملے میں اپنی ڈیوٹی کو ادا کرے۔ اِس طرح، انسانی ذمے داری کے دو پہلو ہیں— ایک، سوسائٹی کی نسبت سے۔ اور دوسرا، نیچر کی نسبت سے۔ انسانی ذمے داری کا یہ تصور مذہبی تعلیمات کا اہم حصہ ہے۔
تمام مذاہب میں انسان کی اِن دونوں ذمے داریوں کے لیے ہدایات دی گئی ہیں۔ اِس طرح، اسلام میں بھی اِن دونوں پہلوؤں کے بارے میں واضح ہدایات موجود ہیں۔
رسپانسبلٹی اپنی حقیقت کے اعتبار سے، اعتراف (acknowledgement) کا دوسرا نام ہے۔ آپ کو دوسروں سے جو کچھ ملتا ہے، آپ عملی طورپر اس کا اعتراف کرنا چاہیں تو اِسی سے وہ کردار وجودمیں آتاہے جس کو انسانی ذمے داری کہا جاتا ہے۔
سوسائٹی کی نسبت سے فرد کی ذمے داری
پہلے سوسائٹی کو لیجئے۔ پچھلے زمانے میں سوسائٹی سے مراد آپ کا قریبی سماج ہوتا تھا۔ اب ہم الکٹرانک دور میںجی رہے ہیں، اِس لیے اب سوسائٹی کا لفظ وسیع ترسماج کے ہم معنی بن گیا ہے۔ اب سوسائٹی سے مراد قریبی سوسائٹی بھی ہے، اور الکٹرانک سوسائٹی بھی۔
سماجی زندگی کا اخلاقی معیار یہ ہے کہ ہر فرد اپنی سوسائٹی میں اُس کا دینے والا ممبر (giver member) بن کررہے۔ وہ سوسائٹی میں اِس طرح رہے کہ اُس سے دوسروں کو کچھ نفع مل رہاہو۔ وہ سوسائٹی کے حق میں اپنی ڈیوٹی کو ادا کرے۔ مثلاً وہ دوسروں کے لیے کوئی پرابلم پیدا نہ کرے۔ وہ دوسروں سے کئے ہوئے عہد کو لازماً پورا کرے۔ وہ دوسروں کے جان ومال میں اُنھیں کوئی نقصان نہ پہنچائے۔ وہ سماج میں ایک قابل پیشین گوئی کردار والا انسان (predictable character) بن کر رہے، یعنی سماج اُس سے جائز طور پر جو امید رکھے، اُس امید میںوہ پورا اترے۔
ایک واقعہ اِس معاملے کو اچھی طرح واضح (illustrate) کرتاہے۔شکاگو (Chicago) امریکا کا ایک شہر ہے۔ شکاگو کے لفظی معنی جنگلی پیاز (wild onion) کے ہیں۔ پہلے یہ شہر اپنی گندگی اور جرائم اور ناقص مکانات کے لیے مشہور تھا۔ اِس لیے اس کا یہ نام پڑ گیا۔ آج شکاگو ایک اعلیٰ درجے کا خوب صورت شہر ہے۔
شکاگو کی جدید تاریخ رچرڈڈیلی (Richard J. Daley) کی طرف منسوب ہے۔ وہ 1902 میں پیدا ہوا، اور 1976 میں اس کی وفات ہوئی۔ 1955 میں وہ شکاگو کا میئر منتخب ہوا، اور آخر عمر تک وہ شکاگو کا میئر رہا۔ میئر بننے کے بعد اس نے از سرِ نو شہر کی تعمیر کا منصوبہ بنایا۔ اس نے قدیم شکاگو کو ہر اعتبار سے نیا شکاگو بنا دیا۔
رچرڈ ڈیلی کی کامیابی کا خاص راز یہ تھا کہ اس نے شکاگو کی جدید تعمیر کو وہاں کے باشندوں میں سے ہر ایک کا ذاتی مسئلہ بنا دیا۔ اُس نے ہر ایک کے اندر یہ ذہن پیدا کیا کہ یہ کام مجھے کرنا ہے، اور میں ہی اس کو انجام دوں گا۔ اس نے شکاگو میں بسنے والے ہر شخص کو یہ ماٹو دیا— میںاِس کو کروں گا:
I will do it.
ایک فرد کے لیے سماج میں جینے کے دو اصول ہیں— ایک، یہ کہ وہ سماجی ذمے داریوں کو اپنے اوپر لے۔ دوسرا، یہ کہ وہ سماجی ذمے داریوں کو دوسروں کے اوپر ڈالے۔دوسرے لفظوں میں یہ کہ ایک ہے، آئی ول ڈو اسپرٹ (I will do spirit) کے ساتھ سماج میں رہنا۔ اور دوسرا ہے، دے وِل ڈو اِٹ اسپرٹ (They will do it spirit) کے ساتھ سماج میں رہنا۔ اِن دونوں طریقوں میں بہت زیادہ فرق ہے۔ جس سماج کے افراد آئی ول ڈو اٹ اسپرٹ (I will do it spirit) کے ساتھ رہیں، وہ سماج ترقی کرے گا۔ اس کے ہر شعبے درست طورپر کام کریں گے۔ اِس کے برعکس، جس سماج کے افراد دے وِل ڈو اِٹ اسپرٹ (They will do it spirit) کے ساتھ رہیں، وہ سماج غیر ترقی یافتہ سماج ہوگا۔ ایسے سماج کے ہر شعبے بگاڑ کا شکار ہوجائیں گے۔ آئی ول ڈو اٹ (I will do it) ذمے دار شخصیت کی علامت ہے اور دے وِل ڈو اِٹ (They will do it) غیر ذمے دار شخصیت کی علامت۔
سماجی رسپانسبلٹی کا تصور ہر فرد کو ڈیوٹی کانشس (duty-conscious) بناتا ہے۔ ایسے سماج میں ہر فرد اس کا گور ممبر (giver member) بن کر رہنے کی کوشش کرتا ہے، نہ کہ صرف ٹیکر ممبر (taker member)۔ اِس کے برعکس، جس سماج میں لوگوں کے اندر رسپانسبلٹی کا احساس نہ ہو، وہاں کا ہر فرد رائٹ کانشس (right-conscious) بن جائے گا۔ ایسے سماج کا ہر فرد، سماج سے اپنے لیے لینا چاہے گا، لیکن خود سماج کو دینے کی اسپرٹ اس کے اندر موجود نہ ہوگی۔
رسپانسبلٹی پر مبنی سماجی اخلاقیات کی معقولیت کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ سماج اپنے وسیع تر مفہوم میں، ہر فرد کو بہت زیادہ دے رہاہے۔ کوئی فرد سماج کو جو کچھ دیتاہے، وہ اُس سے بہت کم ہے جو اُس کو سماج سے مل رہا ہے۔ کوئی فرد اگر پورے معنوں میں سماج کا گور ممبر بن جائے، تب بھی سماج کے لیے اُس کا عطیہ ایک فی صد سے بھی کم ہوگا، جب کہ سماج نے اس کو جو کچھ دیاہے، وہ 99 فی صد سے زیادہ ہے۔ اس لیے کسی فرد کے لیے سماجی اخلاقیات میں کوتاہی کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ اس اصول کی اہمیت اسلام میں اتنی زیادہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ — جو شخص انسان کا معترف نہ ہو، وہ خدا کا معترف بھی نہیں ہوسکتا (من لم یشکر الناس، لم یشکر اللہ)۔
سوسائٹی صرف اُس قریبی مجموعۂ انسانیت کا نام نہیں ہے جہاں ایک فرد پیداہوتا ہے، بلکہ سوسائٹی ایک طویل سلسلۂ تاریخ کانام ہے۔ سوسا ئٹی کا دائرہ، پہلے انسان (آدم) سے لے کر، آج کے انسان تک پھیلا ہوا ہے۔ اِس پورے مجموعۂ انسانیت نے اپنی لمبی تاریخ کے دوران جو کچھ کیا ہے، اس کو تہذیب کا ارتقا کہا جاتاہے۔ تہذیب کے اِس ارتقا میںہر فرد اپنا حصہ پارہا ہے۔ آج ایک فرد جس مہذب دنیا (civilized world) میں رہ رہا ہے، وہ دنیا ہمیشہ سے موجود نہ تھی۔ وہ پوری انسانیت کی لمبی جدوجہد کا نتیجہ ہے۔
ایک وقت تھا کہ انسان اپنے پیروں پر چلتا تھا، پھر لمبے تجرے کے بعد انسان نے پہیہ بنایا۔ اِس طرح، انسان کے لیے پاؤں پر چلنے کے بجائے گاڑی سے چلنے کا دور شروع ہوا۔ پھر انسان نے لمبے تجربے کے بعد کشتی بنائی۔ اِس طرح دریاؤں اور سمندروں کو بحفاظت پار کرنے کا دور شروع ہوا۔ پھر لمبے تجربے کے بعد انسان نے اسٹیم پاور دریافت کیا۔ اِس کے بعد ریلوے ٹرین اور اسٹیم شپ کا دور شروع ہوا۔ پھر انسان نے لمبے تجربے کے بعد کار بنائی اور انسان تیز رفتاری کے ساتھ سفر کرنے کے دور میں پہنچا۔ پھر انسان نے لمبے تجربے کے بعد ہوائی جہاز بنایا۔ اِس طرح یہ ممکن ہوگیا کہ انسان فضا میں تیز رفتاری کے ساتھ اڑ کر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچے اور جنگل اور پہاڑ اور سمندر اور بستیاں کوئی بھی چیز اُس کے سفر میں رکاوٹ ثابت نہ ہوں۔
یہ انسانیت کی جدوجہد کے صرف ایک پہلو کی چھوٹی سی مثال ہے۔ اِس طرح پورا مجموعہ انسانیت ہزاروں سال تک مسلسل جدوجہد کرتا رہا، یہاں تک کہ لاکھوں کی تعداد میں زندگی کے بے شمار سامان وجود میں آئے، جن کے مجموعے کو تہذیب (civilization) کہاجاتا ہے۔ موجودہ تہذیب کو وجود میں لانے میں پورے مجموعۂ انسانیت کا حصہ ہے۔ ایک سُوئی (needle)سے لے کر ایک ترقی یافتہ شہر تک، ہر چیز میں براہِ راست طورپر پوری انسانیت کی مجموعی جدوجہد اور قربانی شامل ہے۔
یہی وہ تاریخی حقیقت ہے جو انسانی رسپانسبلٹی کی اخلاقی بنیاد ہے۔ جب ایک فرد اِس حقیقت کو دریافت کرتاہے کہ آج وہ جس ترقی یافتہ دنیا میں رہ رہا ہے ، اُس کو وجود میں لانے کے لیے پوری انسانیت اس میں شریک ہے، اِس معاملے میں وہ پوری انسانیت کا مقروض ہے۔ جب ایک شخص اِس تاریخی حقیقت کا اعتراف کرکے اس کے مطابق، زندگی گزارے تو اِسی کا نام سوسائٹی کے حق میں اپنی ذمے داری کو ادا کرنا ہے۔ گویا کہ انسانی رسپانسبلٹی ایک اعتبار سے، پوری نوعِ انسانی (mankind) کے کنٹری بیوشن (contribution)کا اعتراف ہے، اور دوسرے اعتبار سے، وہ اپنے انفرادی دائرے میں اس کی محدود قیمت ادا کرنا ہے۔
انسانی ذمے داری کی اِسی نوعیت کی بنا پر قرآن میں اس کو انسان کی طرف سے انسان کو اس کے حقوق ادا کرنے سے تعبیر کیا گیا ہے۔اِس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے: إن اللہ یأمرکم أن تؤدّوا الأمانات إلی أہلہا:
God commands you to hand back your trusts to their rightful owners. (4: 58)
اسلام کے اِس تصور (concept) کے مطابق، ایک فرد جب انسانی سماج کے حق میں اپنی ذمے داریوں کو ادا کرتا ہے تو وہ دوسروں کو کچھ دیتا نہیں ہے، وہ صرف یہ کرتا ہے کہ دوسروں سے ملے ہوئے میں سے کچھ حصے کو وہ اُن کی طرف لوٹاتا ہے۔ یہ تصور ہر فرد کے اندر اپنی ذمے داری کو ادا کرنے کے لیے طاقت ور محرک (strong incentive) پیدا کرتاہے، اتنا زیادہ طاقت ور محرک کہ اس سے زیادہ طاقت ور محرک اور کوئی نہیں۔
نیچر کی نسبت سے فردکی ذمے داری
انسانی ذمے داری کا دوسرا پہلو وہ ہے جو نیچر سے تعلق رکھتا ہے۔ نیچر سے مراد پورا عالمِ مادیت (entire physical world) ہے۔ یہ عالم جس کے اندر انسان اپنے آپ کو پاتا ہے، وہ انسان کے لیے اتنا زیادہ موزوں ہے جیسے کہ وہ اُسی کے لیے بنایا گیا ہو۔ اِسی لیے ایک سائنس داںنے اس کو کسٹم میڈ ورلڈ (custom-made world) کہا ہے۔ اِس دنیا کے اندر انسان کی ضرورت کی تمام چیزیں نہایت متناسب انداز میں موجود ہیں۔ اِسی حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: واٰتاکم من کل ما سألتموہ:
God has given you all that you asked of Him. (14:34)
انھیں تمام چیزوں کے مجموعے کو لائف سپورٹ سسٹم (life support system) کہاجاتا ہے۔ لائف سپورٹ سسٹم کے بغیر موجودہ دنیا میں انسان کی زندگی ممکن ہی نہ ہوتی۔
ہماری یہ موافق دنیا اتفاقاً اِس طرح نہیں بن گئی ہے۔ اُس کو بنانے والے نے اُس کو بلا شبہہ شعوری منصوبے کے تحت اِس طرح بنایا ہے کہ وہ ہر پہلو سے عین ہماری ضرورتوں کے موافق ہے۔ اِس طرح کی ایک موافق دنیا ہم خود وجود میں نہیں لاسکتے تھے۔ یہ دنیا ہم کو خالق کی طرف سے انتہائی استثنائی طورپر بطور خصوصی عطیہ دی گئی ہے۔قرآن میں موجودہ دنیا کے اِس پہلو کا ذکر کرتے ہوئے یہ ہدایت دی گئی ہے کہ تم فطری حالت پر باقی رکھتے ہوئے اس کا استعمال کرو، تم اُس میں ہر گز کوئی بگاڑ پیدا نہ کرو۔ اِس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے— ولا تفسدوا فی الأرض بعد إصلاحہا:
Do not corrupt the land after it has been set in order (7: 85)
قرآن کی اِس آیت کے مطابق، ہماری دنیا ایک اصلاح یافتہ دنیا ہے۔ وہ پیشگی طورپر انسان کی ضرورتوں کے مطابق، بنائی گئی ہے۔ انسان کو یہ حق ہے کہ وہ اِس دنیا کو اپنی ضرورتوں کے لیے استعمال کرے، لیکن کسی انسان کو یا کسی انسانی مجموعے کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ دنیا کے فطری نظام کو بگاڑے۔ وہ دنیا کے فطری نظام میں کوئی ایسی تبدیلی پیدا کرے جس کے بعد وہ اگلی نسلوں کے لیے قابلِ استعمال نہ رہے۔ یہ انسان کی وہ ذمے داری ہے جو نیچر کے اعتبار سے، انسان کے اوپر عائد ہوتی ہے۔ اِس سلسلے میں قرآن میں یہ ہدایت دی گئی ہے— کلوا واشربوا ولا تسرفوا :
Eat and drink, but do not be wasteful (7: 31)
مثلاً انسان کو یہ حق ہے کہ وہ زمین میں واقع پانی کے ذخیرے کو استعمال کرے، لیکن اُس کو یہ حق نہیں کہ وہ پانی میں کسی قسم کی آلودگی (pollution) پیدا کرکے اس کو انسان کے لیے ناقابلِ استعمال بنا دے۔ انسان کو یہ حق ہے کہ وہ زمین کی سطح پر اُگے ہوئے درختوں کو استعمال کرے، لیکن اس کو یہ حق نہیں کہ وہ زمین کے درختوں کو کاٹ کر زمین کی ہریالی (greenery)کو ختم کردے۔ انسان کو یہ حق ہے کہ وہ زمین کی زرخیزی کو زراعت کے لیے استعمال کرے، لیکن اس کو یہ حق نہیں کہ وہ زمین کے غلط استعمال سے اس کو ناقابلِ پیداوار بنادے۔ انسان کو یہ حق ہے کہ وہ زمین کی فضا کو استعمال کرے، لیکن انسان کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنے کسی غیر فطری عمل کے ذریعے وہ خرابی (evil) پیدا کرے جس کو فضائی کثافت کہاجاتاہے۔ انسان کو یہ حق ہے کہ وہ یہاں اپنی انڈسٹری لگائے، مگر اس کو یہ حق نہیں کہ وہ یہاں ایسی انڈسٹری لگائے جو اوزون کے زندگی بخش غلاف (layer) کو ڈیمیج کردے، وغیرہ۔
نیچر انسان کے لیے ایک بے حد قیمتی تحفہ ہے جو انسان کو بالکل فری دیاگیا ہے، لیکن انسان اِس نیچر کا مالک نہیں، وہ اُس کا امین ہے۔ انسان پر لازم ہے کہ وہ نیچر کے بارے میں خالق کے منصوبے کو جانے اور وہ اس کو خالق کے منصوبے کے مطابق، استعمال کرے۔
خالق کا وہ منصوبہ کیا ہے، وہ یہ ہے کہ خالق نے نیچر کی تمام چیزوں کو انسانی خواہش کے مطابق (according to human greed) نہیں بنایا، بلکہ خالق نے نیچر کی تمام چیزوں کوانسانی ضرورت کے مطابق (according to human need) بنایا ہے۔ اِسی حقیقت کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے— إناّ کلّ شیٔ خلقناہ بقدر :
We have created everything in due measure (54: 49)
یہ تخلیقی منصوبہ انسان کے لیے لازم کرتاہے کہ وہ ایک طرف، اپنی حقیقی ضرورتوں کا تعین کرے اور دوسری طرف، وہ نیچر کی چیزوں کو اُن کی تخلیقی نوعیت کے اعتبار سے جانے، پھر وہ اِن دو طرفہ تقاضوں کے مطابق، اپنی زندگی کی پلاننگ کرے۔ اِس کے برعکس، انسان کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنی خواہش کی بنیاد پر نیچر کا اندھا دھند استعمال کرے، کیوں کہ ایسا کرنے سے نیچر کا متناسب نظام درہم برہم ہو جائے گا۔
مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان کی خواہشیں (desires) لامحدود ہیں۔ اِس کے برعکس، نیچر کی تمام چیزیں محدود ہیں۔ ایسی حالت میں انسان اگر خواہشوں (desires) کی بنیاد پر اپنا پلان بنائے، تو اس کا پلان خالق کے پلان کے مطابق نہ ہوگا۔انسان اِس قسم کے ٹکراؤ کا تحمل نہیں کرسکتا۔
حقیقت یہ ہے کہ زندگی کی مشین دو کاگ (cog) پر چل رہی ہے— ایک، ہیومن کاگ (human cog) اور دوسرا، ڈوائن کاگ (divine cog) ۔ ڈوائن کاگ کی اپنی ایک مقرر رفتار (pace) ہے۔ انسان پر لازم ہے کہ وہ اپنے کاگ کو بھی اُسی رفتار پر چلائے جو ڈوائن کاگ کی رفتار ہے۔ یہ واضح ہے کہ ڈوائن کاگ طاقت ور (strong) ہے اور ہیومن کاگ کمزور(weak) ۔ اگر انسان اپنے کاگ کی رفتار کو اپنی خواہش کے مطابق، چلانے لگے تو اس کا انجام یہ ہوگا کہ ڈوائن کاگ تو اپنی جگہ باقی رہے گا، لیکن ہیومن کاگ یقینی طورپر ٹوٹ جائے گا۔ اِس کے نتیجے میں انسان کی زندگی ایسی تباہی سے دوچار ہوگی جس کی تلافی کسی بھی حال میں ممکن نہیں۔
خلاصۂ کلام
ہیومن رسپانسبلٹی کا مطلب ہے — ہیومن ڈیوٹی۔ حضرت مسیح نے کہا تھا:
Render therefore to Caesar the things that are Caesar’s, and to God the things that are God’s. (Luke 20: 25)
یہی بات پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اِن الفاظ میں کہی ہے— أدّوا إلیہم حقہم، وسلوا اللہ حقکم (صحیح البخاری: رقم الحدیث: 7052 ):
Give to them what is due to them. And ask your dues from God.
یہ دونوں اقوال، فرد اور سوسائٹی کے درمیان صحیح تعلق کو بتاتے ہیں۔ فرد اور سوسائٹی کے درمیان صحت مند تعلق اُس وقت قائم ہوتاہے جب کہ فرد کے اندر رسپانسبلٹی کی اسپرٹ پوری طرح زندہ ہو۔ جب ایسا ہو تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ فرد کا فوکس اپنی ذمے داریوں پر ہوگا۔ فرد یہ چاہے گا کہ سوسائٹی کا جو حق اُس کے اوپر آتا ہے، اس کو وہ پوری طرح ادا کرے۔جہاں تک فرد کے اپنے حقوق کی بات ہے، وہ کسی مطالبے سے نہیں ملتے، بلکہ وہ خود اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے سے ملتے ہیں۔ یہی اسپرٹ آف رسپانسبلٹی اِس بات کی ضامن ہے کہ فرد اور سماج کے درمیان ٹکراؤ کی صورتِ حال نہ پیدا ہو۔ صحت مند سرگرمیوں کے درمیان دونوں کا ارتقا فطری انداز میں جاری رہے۔ (20 دسمبر 2011)
واپس اوپر جائیں

جذباتی سیاست کا نقصان

1947 کے بعد کشمیر کی ریاست انڈیا اور پاکستان کے درمیان ایک نزاعی اشو بن گئی۔اب بے شمار نقصانات کے بعد پاکستان نے اِس معاملے میں دانش مندانہ پالیسی اختیار کی ہے۔پاکستانی حکومت نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا ہے کہ انڈیا کو موسٹ فیورڈ نیشن (Most-Favoured Nation) کا درجہ دے دیا جائے۔ اِس کی رپورٹ میڈیا میں آچکی ہے(ملاحظہ ہو، ہندستان ٹائمس، 1 مارچ 2012، صفحہ 15)۔ اِس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انڈیا نے پاکستان کو 1996 میں موسٹ فیورڈ نیشن کا درجہ دے دیا تھا۔ اِس کے جوا ب میں پاکستان کو بھی یہی کرنا چاہیے تھا، مگر پاکستانی لیڈروں نے ایسا کرنے میں بہت دیر کی۔ وہ ڈرتے تھے کہ کشمیر کے بارے میں حساس پاکستانی عوام اِس کے خلاف سخت رد عمل کا اظہار کریں گے۔
اِس واقعے میں لیڈر شپ کے لیے بہت بڑا سبق ہے۔ لیڈر شپ کو کبھی ایسا نہیں کرنا چاہئے کہ وہ کسی اِشو پر جذباتی انداز اختیار کرے، وہ اس کے بارے میں ہائی پروفائل میں بولنے لگے۔ اِس قسم کا طریقہ لیڈر شپ کے لیے ایک غیر دانش مندانہ طریقہ ہے، کیوں کہ عوام کو اگر ایک بار جذباتی تقریریں کرکے بھڑکا دیا جائے تو وہ حقیقت پسندانہ مزاج کھودیتے ہیں۔ اِس کے بعد خواہ حالات کتنے ہی بگڑ جائیں، وہ یوٹرن (U Turn) لینے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اُن کا ذہن یہ بن جاتا ہے کہ — خون کا آخری قطرہ تک بہا دیں گے، لیکن ہم اِس مسئلے پر مفاہمت نہیں کریں گے۔
اِس قسم کا مزاج کسی قوم کی ترقی کے لیے قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اجتماعی زندگی میں جذباتی انداز کبھی کامیاب نہیں ہوتا۔ اجتماعی زندگی نام ہے — اپنی سوچ اور فریقِ ثانی کی سوچ کے درمیان ایڈجسٹمنٹ تلاش کرنے کا۔ اجتماعی زندگی کے معاملات یک طرفہ بنیاد پر طے نہیں ہوتے، بلکہ وہ دو طرفہ بنیاد پر طے ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اجتماعی معاملات میں جذباتی سیاست کا طریقہ ایک سنگین رکاوٹ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اجتماعی زندگی کے معاملات یا تو فریقِ ثانی کی رعایت کے ذریعے حل ہوتے ہیں، یا وہ کبھی حل نہیں ہوتے۔
واپس اوپر جائیں

مسئلہ یا چیلنج

زندگی میں ہمیشہ ناموافق حالات پیش آتے ہیں۔ اِس طرح کے ناموافق حالات کا تجربہ ہر ایک کو ہوتا ہے، خواہ وہ عام آدمی ہو یا کوئی بڑی حیثیت والا آدمی۔ اِس میں کسی بھی شخص کا کوئی استثنا (exception) نہیں۔
ناموافق حالات اُسی طرح زندگی کا حصہ ہیں جس طرح بھوک اور پیاس زندگی کا حصہ ہیں۔ ناموافق صورت حال کو اگر مسئلہ (problem) کہاجائے تو اِس سے منفی ذہن بنے گا۔ آدمی مایوسی کی نفسیات کا شکار ہوجائے گا۔ وہ پیش آمدہ مسئلے کو ایک غیر مطلوب صورت حال سمجھے گا۔ وہ اس کے مقابلے میں، مثبت منصوبہ بندی نہ کرسکے گا۔
صحیح بات یہ ہے کہ مسئلے کو ایک چیلنج سمجھا جائے۔ مسئلہ کا لفظ اگر ایک منفی لفظ ہے تو چیلنج کا لفظ ایک مثبت لفظ۔ چیلنج کیا ہے، چیلنج ایک مشکل صورتِ حال ہے جو کسی آدمی کی استعداد کا امتحان ہوتی ہے:
Challenge: a difficult task that tests somebody’s ability.
جب آپ کسی صورت حال کو چیلنج کی نظر سے دیکھیں تو آپ کے اندر مقابلے کا ذہن پیدا ہوگا۔ آپ کی ساری توجہ اِس پر لگ جائے گی کہ آپ پیش آمدہ صورتِ حال کو بے لاگ انداز سے دیکھیں اور اس کے مطابق، دانش مندانہ منصوبہ بندی کریں۔
یہ سوچ آپ کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو بیدار کرے گی۔ اِس سے آپ کے اندر شکایت کے بجائے مقابلے کا ذہن پیدا ہوگا۔ ایسا نہیں ہوگا کہ آپ کسی کو پیش آمدہ صورتِ حال کا ذمّے دار قر ار دے کر اس سے نفرت کرنے لگیں۔ آپ کسی دوسرے کی تخریب میں اپنا وقت ضائع نہیں کریں گے، بلکہ آپ مکمل طورپر اپنی تعمیر میں لگ جائیںگے۔ آپ ایسا نہیں کریں گے کہ کسی کو اپنا دشمن قرار دے کر اس کے خلاف تقریر وتحریر کے ہنگامے کھڑے کریں۔ آپ ایسے کسی معاملے کو فطرت کے نظام کے تحت پیش آنے والا واقعہ سمجھیں گے، نہ کہ کسی دشمن کی سازش کے تحت پیش آنے والا واقعہ۔
واپس اوپر جائیں

ایک سبق آموز واقعہ

حکیم اجمل خاں (وفات: 1927 ) نے دہلی میں ’’ہندستانی دواخانہ‘‘ قائم کیا تھا۔ اِس دوا خانے میں ایک صاحب معمولی ملازم تھے۔ ان کی تنخواہ پندرہ روپئے ماہانہ تھی۔ اُن کا نام حافظ عبد المجید تھا۔ انھوں نے بعد کو ہندستانی دواخانہ چھوڑ دیا اور دواؤں کی ایک چھوٹی سی دکان کھولی۔ اس دکان کا نام ’’ہمدرد دواخانہ‘‘ تھا۔ان کا انتقال 1922 میں ہوا جب کہ ان کی عمر صرف 40 سال تھی۔
حافظ عبد المجید صاحب کے دو بیٹے تھے۔ یہ وہی دو بیٹے ہیں جو بعد کو حکیم عبد الحمید (وفات:1999 ) اور حکیم محمد سعید (1998) کے نام سے مشہور ہوئے۔ دونوں نے بعد کو غیر معمولی ترقی کی۔ دونوں نے ہمدرد ایمپائر اور ہمددر یونی ورسٹی قائم کی۔ حکیم عبد الحمید نے دہلی میں اور حکیم محمد سعید نے کراچی (پاکستان )میں۔
یہ واقعہ بتاتا ہے کہ ترقی کے لیے اصل چیز جو درکار ہے، وہ محنت ہے۔ عام طورپر لوگ ایسے آدمی کو خوش قسمت سمجھتے ہیں جو خوش حال گھرانے میں پیدا ہوا ہو، لیکن ایسے خوش قسمت لوگ کبھی کوئی بڑا کارنامہ انجام نہیں دیتے۔ بڑا کارنامہ ہمیشہ اُن لوگوں نے انجام دیا ہے جو معمولی حالات میں پیدا ہوئے، جن کو پیدا ہوتے ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔آسان حالات آدمی کی قوتِ عمل کو گھٹاتے ہیں اور مشکل حالات آدمی کی قوتِ عمل کو بڑھاتے ہیں— زیادہ خوش قسمت انسان وہ ہے جو مشکل حالات میں پیدا ہو، نہ کہ آسان حالات میں۔
مشکل حالات کا مثبت پہلو یہ ہے کہ اُس سے آدمی کے اندر عمل کا محرک (incentive) پیدا ہوتا ہے۔ اُس کے اندر یہ زبردست خواہش جاگتی ہے کہ میں اپنے حالات کو بدلوں، میں اپنے ’نہیں‘ کو ’ہے‘ بناؤں، میں ایسا عمل کروں جس کے ذریعے یہ ہو کہ میرا مستقبل میرے حال سے بہتر ہوسکے۔
زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت محرکِ عمل کی ہے، اور محرک عمل ہمیشہ مشکل حالات میں پیدا ہوتاہے، نہ کہ آسان حالات میں۔
واپس اوپر جائیں

سوال و جواب

میں نے آپ کی کتاب ’’اسلام دورِ جدید کا خالق‘‘ کا مطالعہ کیا ۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ آج جو سائنسی اور ٹکنیکل ترقی ہورہی ہے، اس کا آغاز اسلام نے کیاہے۔ اسلام سے پہلے فطرت کو مقدس سمجھنے کی وجہ سے اس کو تحقیق وریسرچ کا موضوع نہیں بنایا گیا۔ اسلام نے ساتویں صدی میں آکر اس تقدس کو ختم کیا اور فطرت کی تحقیق و تسخیر کا دروازہ کھولا۔ اس طرح انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ فطرت کی آزادانہ تحقیق کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ لیکن ایک دن میں ماحولیات پر ایک کتاب پڑھ رہا تھا۔ اس میں ماحولیات کے بگڑنے کی اہم وجہ فطرت کو ریسرچ وتحقیق کا موضوع بنانا بتایا گیا ہے:
At present we are not adhering to the old tradition properly. Hence man has become one of the factors for the present day environmental problems. The ancient people respected nature and also understood the value of nature. They worshipped the earth, fire, air, water and sky. (Environmental Education, HS 1st year, TN Textbook corporation, 2009, p. 3)
آپ نے جو بتایا، وہ بالکل حقیقت ہے، اور اس کتاب میں ماحولیاتی مسائل کی جو وجہ بتائی جارہی ہے وہ بھی بظاہر درست معلوم ہوتی ہے۔ براہِ کرم، میرے کنفیوژن کو دور کریں۔ (فرہاد احمد سلفی، بنگلور)
جواب
یہ صحیح ہے کہ موجودہ زمانے میں ماحولیاتی مسائل (ecological problem) پیدا ہوئے ہیں، مگر اِن مسائل کا سبب فطرت کا مطالعہ نہیںہے، بلکہ وہ چیز ہے جس کو موجودہ زمانے میں کنزیومرزم (consumerism) کہاجاتا ہے۔ اور دونوں کے درمیان بنیادی فرق ہے۔
کنزیومر گڈس (consumer goods)سے مراد اصلاً اشیائِ صرف ہیں، لیکن موجودہ زمانے میں نئی ٹکنالوجی کے تحت جو صنعتیں قائم ہوئیں، اُن کی ترقی کے لیے یہ نظریہ وضع کیا گیاکہ لوگ زیادہ سے زیادہ اشیائِ صرف استعمال کریں، تاکہ صنعت کو زیادہ سے زیادہ ترقی حاصل ہو:
Consumerism: advocacy of a high rate of consumption and spending as a basis for a sound economy.
اشیائِ صَرف (consumer goods) میں اضافے کے لیے بہت بڑے پیمانے پر ایک نیا نظام وضع ہوا۔ یہ بینکوں سے اندھا دھند قرض کا نظام تھا۔ لوگوں کو یہ موقع دیاگیا کہ وہ نقد خریداری کا انتظار نہ کریں، بلکہ بینکوں سے سودی قرض لے کر وہ حسب خواہش جو چیز چاہیں، حاصل کریں — اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ قدیم زمانے کا مبنی بر ضرورت سماج (need-based society) ختم ہوگیا اور اس کی جگہ مبنی بر حرص سماج (greed-based society) وجود میں آیا۔
مگر یہ سادہ معاملہ نہ تھا۔ اِس کے نتیجے میں وہ بھیانک مسئلہ پیدا ہوا جس کو ضرورت سے زیادہ کاربن اخراج (carbon emission) کہاجاتا ہے۔ جدید صنعتی دور سے پہلے بھی کاربن کا اخراج ہوتا تھا، لیکن وہ فضا کے اندر جذب ہوجاتا تھا اور انسان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں بنتا تھا۔ لیکن جدید صنعتی نظام اور بڑھے ہوئے کنزیومرزم کی بنا پر وہ مصنوعی مسئلہ پیدا ہوا ہے جس کو گرین ہاؤس گیس (greenhouse gas) کہاجاتا ہے، یعنی فضا میں مضر گیس کا نقصان دہ حد تک بڑھ جانا:
The problem of the gradual rise in temperature of the earth’s atmosphere, caused by an increase of gases, such as carbon dioxide in the air surrounding the earth, which trap the heat of the sun.
فطرت کو تحقیق کا موضوع بنانا ایک خالص علمی اور نظری کام تھا۔ یہ کام خواہ کتنا ہی زیادہ کیا جائے، اس سے کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوگا، مگر جدید صنعت کے ظہور کے بعد معیارِ زندگی میں مصنوعی اضافہ اور اشیائِ صرف کے اندھا دھند استعمال کے نتیجے میں وہ مسائل پیدا ہوئے جن کو ماحولیاتی مسائل کہاجاتا ہے۔ اِس مسئلے کا حل یہ ہے کہ فطرت کی تحقیق کو لامحدود طورپر جاری رکھتے ہوئے صنعتی سرگرمیوں پر کنٹرول قائم کیا جائے۔
سوال
الرسالہ مشن کو سمجھنے کے لیے اردو زبان کی اہمیت کیا ہے، اس کو واضح فرمائیں۔ (عظیم الدین، لکھنؤ)
جواب
ہمارے دعوتی مشن سے جو لوگ جڑے ہوئے ہیں، اُن لوگوں کی ایک بڑی تعدادہے جو انگریزی کتابوں یا ٹی وی اور نیٹ پر میری تقریروں کے ذریعے ہمارے دعوتی مشن سے متعارف ہوئی ہے۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ الرسالہ مشن کو پوری طرح جاننے کے لیے ماہ نامہ الرسالہ کا مسلسل مطالعہ بہت ضروری ہے۔ جو لوگ اردو جانتے ہیں، ان کے لیے ماہ نامہ الرسالہ ایک طاقت ور ذہنی غذا کی حیثیت رکھتا ہے، وہ ان کے لیے مسلسل طورپر ذہنی ارتقا کا ذریعہ ہے۔
افراد کے پاس یہ عذر ہے کہ ہم اردو نہیں جانتے یا اردو کم جانتے ہیں، مگر یہ کوئی عذر نہیں۔ اصل ضرورت شوق کی ہے۔ اگر شوق ہو تو اردو زبان سیکھنا کچھ بھی مشکل نہیں۔ مثلاً مہاراشٹریہ (ناندیڑ) کے کشن جَیونت راؤ پاٹل کے ایک دوست عثمان چاؤش (وفات: 2006 ) تھے۔ انھوں نے مسٹر کشن پاٹل کو الرسالہ کے کچھ مضامین پڑھ کر سنائے۔ اِن مضامین کو سن کر کشن راؤ پاٹل کے اندر اتنا زیادہ شوق پیدا ہوا کہ انھوںنے مسلسل محنت کرکے اردو زبان سیکھ ڈالی۔ اب وہ الرسالہ کے مسلسل قاری ہیں۔
تاریخ میں اِس نوعیت کی بہت سی مثالیں ہیں۔ مثلاً مولانا عنایت رسول چریّا کوٹی (وفات: 1902) نے بائبل کو عبرانی زبان میں پڑھنے کے لیے عبرانی زبان سیکھی۔ شری آروبندو گھوش (وفات: 1950 ) نے رابندر ناـتھ ٹیگور (وفات: 1941 ) کی کتاب ’’گیتانجلی‘‘کو بنگلہ زبان میں پڑھنے کے لیے بنگلہ زبان سیکھی۔ آج کل لوگ جاب کے لیے کثرت سے انگریزی فرانسیسی اور جرمن زبان سیکھ رہے ہیں، وغیرہ۔
واپس اوپر جائیں

خبر نامہ اسلامی مرکز — 216

1 - جنوری2012 میں برطانیہ سے 610 صفحات کی ایک کتاب چھپی ہے۔ اس کا نام یہ ہے: Why Peace ۔ اس کو ایک امریکی مصنف ڈاکٹر مارک گٹ مین (Marc Guttman) نے ایڈٹ کیا ہے۔ مصنف نے اس کتاب میں صدر اسلامی مرکز کا ایک مقالہ حسب ذیل عنوان سے شامل کیا ہے:
Peace versus Interventionism (p. 454)
2 - جنوری 2012 کے پہلے ہفتے میں بیڑمہاراشٹریہ میں مراٹھا سیوا سنگ کا سہ روزہ اجلاس ہوا۔ یہاں حلقہ الرسالہ مہاراشٹریہ سے وابستہ ساتھیوں نے مسٹر محمد الطاف انعام دار (الطاف بک ڈپو، بیڑ) کے تعاون سے ایک بک اسٹال لگایا۔ یہاں سے بڑے پیمانے پر برادرانِ وطن نے قرآن کے ہندی، انگریزی اور مراٹھی تراجم حاصل کیے۔ وزٹرس کو مختلف زبانوں میں دعوتی پمفلٹس بطور ہدیہ دئے گئے۔
3 - امریکا اور ترکی کے اسکالرز کا ایک وفد 2 فروری 2012 کو اسلامی مرکز میں آیا۔ اِس موقع پر صدر اسلامی مرکز نے اسلام اور امن عالم کے موضوع پر انگریزی زبان میں ایک تقریر کی۔ تقریر کے بعد سوال وجواب کا پروگرام ہوا۔وفد کے اراکین کو پرافٹ آف پیس اور قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔
4 - سی پی ایس کے آڈی ٹوریم (نظام الدین ویسٹ، نئی دہلی) میں 4 فروری 2012 کو ’دعوہ ایمپائر‘ کے موضوع پر صدر اسلامی مرکز نے سی پی ایس ٹیم کو خصوصی طورپر خطاب کیا۔ یہ خطاب سی پی ایس کے ویب سائٹ (www.cpsglobal.org) پر دیکھا جاسکتاہے۔
5 - لبرٹی انسٹی ٹیوٹ (نئی دہلی) کی طرف سے 14 فروری 2012 کو انڈیا انٹرنیشنل سنٹر (نئی دہلی) میں ایک پینل ڈسکشن تھا۔ اس میں انڈیا اور انڈیا سے باہر کے معروف صحافی اور مصنف شریک تھے۔ اس کا موضوع یہ تھا:
Freedom to Express
اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس ڈسکشن میں شرکت کی اور انگریزی زبان میں موضوع پر ایک گھنٹہ تقریر کی۔ تقریر کے بعد سوال وجواب کا پروگرام ہوا۔ حاضرین کو پرافٹ آف پیس اور قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔
6 - نئی دہلی کے ادارہ انٹر فیتھ کولیشن فار پیس (ICP) اور اسلامک اسٹڈیز اسوسی ایشن (ISA) کی طرف سے 11 فروری 2012 کو انڈیا اسلامک کلچرل سنٹر کے کانفرنس ہال میں ایک پروگرام ہوا۔ اِس پروگرام کا موضوع یہ تھا:
Perspectives on Peacemaking: Muslims and Christians in Constructive conversation.
اِس میں دو اسپیکر تھے — صدر اسلامی مرکز اور امریکن پروفیسر لیفبر (Fr. Leo D. Lefebure) ۔ یہاں صدر اسلامی مرکز نے موضوع پر ایک گھنٹہ تقریر کی۔ تقریر کے بعد سوال وجواب کا پروگرام ہوا۔ یہ پروگرام انگریزی زبان میں تھا۔ آخر میں حاضرین کو پرافٹ آف پیس اور قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔
7 - بلجیم کی ایمبسی(نئی دہلی) کے دو ڈپلومیٹ نے 21 فروری 2012 کو صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کی:
Antoine Evrard
Minister Councellor, Embassy of the Kingdom of Belgium
Jochen Anthierens
First Secretary, Embassy of the Kingdom of Belgium
انھوں نے ہندستانی مسلمانوں کے بارے میں تفصیل سے گفتگو کی۔ اُن کا عام تصور یہ تھا کہ ہندستان کے مسلمان یہاں مظلومیت کی زندگی گزاررہے ہیں۔ اُن کے ساتھ یہاں امتیاز (discrimination) برتا جارہا ہے۔ فرقہ وارانہ فساد میںمسلمان مارے جاتے ہیں۔ اُن کو سرکای سروس نہیں دی جاتی، وغیرہ۔ جواب میں بتایا گیا کہ یہ صرف ایک غلط فہمی ہے۔ اِس کا سبب سلیکٹیو رپورٹنگ (selective reporting) ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندستان کے مسلمان ہر اعتبار سے یہاں 57 مسلم ملکوں سے بھی زیادہ بہتر حالت میں ہیں۔ یہ گفتگو انگریزی زبان میں تھی۔
8 - نئی دہلی کے انڈیا اسلامک کلچرل سنٹر کے آڈیٹوریم میں 22 فروری 2012 کو ادارہ منہاج القرآن (گجرات) کی طرف سے ایک پروگرام ہوا۔ اِس میں ڈاکٹر طاہر القادری (مقیم کینڈا) نے شرکت کی۔ اِس موقع پر سی پی ایس کے ممبران نے یہاں حاضرین کو دعوتی لٹریچر دیا۔ اِسی طرح ڈاکٹر طاہر القادری کو صدر اسلامی مرکز کی اردو اور انگریزی کتابوں کا ایک منتخب سیٹ دیاگیا۔
9 - اورنگ آباد (بہار) میں 20 فروری 2012 کو نیشنل ہاکر فیڈریشن (NHF) کی طرف سے ایک پروگرام ہوا۔ اِس میں مقامی لوگوں کے علاوہ، انڈیا کے مختلف مقامات سے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ شریک ہوئے۔ الرسالہ مشن سے وابستہ مسٹر ابوالحکم محمد دانیال اپنے ساتھیوں کے ساتھ اِس پروگرام میں شریک ہوئے۔یہاں لوگوں کو اردو، ہندی، انگریزی میں دعوتی لٹریچر کے علاوہ قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔ اِسی طرح 26-27 فروری 2012 کو مذکورہ ساتھیوں نے پٹنہ ہولی فیملی ہاسپٹل میں جاکر وہاں لوگوں کے ساتھ انٹریکشن کیا اور ان کو مطالعے کے لیے دعوتی لٹریچر دیا۔
10 - جیک ہیون (Jeik Hyun MA) 22 فروری 2012 کو صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کے لیے آئے۔ وہ ہوائی (Hawai) کے ایسٹ ویسٹ سنٹر کے ایشین پیسفک پروگرام (APLP) کے تحت، مختلف مذاہب میں امن کے تصور کے موضوع پر رسرچ کررہے ہیں۔ اس سلسلے میں انھوں نے اسلام کے نقطہ نظر کو سمجھنے کے لیے صدر اسلامی مرکز کا ایک تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ یہ انٹرویو انگریزی زبان میں تھا۔
11 - نئی دہلی کے پرگتی میدان میں 25 فروری تا 4 مارچ 2012 کے درمیان ورلڈ بک فئر تھا۔ اِس میں گڈ ورڈ بکس نے اپنے دو اسٹال لگائے۔ اِس موقع پر وزٹرس کو قرآن کا ترجمہ اور دعوتی پمفلٹس بطور ہدیہ دئے گئے۔
12 - پٹنہ (بہار) میں 15-26 مارچ 2012 کے درمیان ایک بک فئر (Book Fair) ہوا۔یہاں پٹنہ کے سنٹر فار پیس کی طرف سے ایک دعوتی اسٹال لگایا گیا۔ یہاں بہار اور جھارکھنڈ ٹیم کے افراد — مسٹر محمد دانیال، ڈاکٹر ظہیر، ڈاکٹر ضاء الدین اور مسٹر انور امام غزالی اور ان کی ٹیم کے ساتھیوں نے اپنا بھر پور تعاون دیا۔ یہاں انٹریکشن کے دوران لوگوں کو القرآن مشن (Al-Quran Mission)سے متعارف کیاگیا اور ان کو بطور ہدیہ دعوتی پمفلٹس دئے گئے۔ اسی طرح 18 مارچ 2012 کو دانا پور (پٹنہ، بہار) میں ایک تقریب نکاح میں سنٹر فار پیس (بہاروجھارکھنڈ) کی طرف سے ایک اسٹال لگایا گیا۔ یہاں لوگوں کو قرآن کے تراجم اور دعوتی پمفلٹس بطور ہدیہ دئے گئے۔
13 - ٹورنٹو (کینڈا) کے سینٹ مائیکل ہاسپٹل (St. Michael’s Hospital) میں 27 فروری 2012 کو سی پی ایس (نئی دہلی) کی طرف سے انگریزی ترجمہ قرآن کے نسخے بھیجے گئے۔ یہ دعوتی میٹریل ہاسپٹل میں زیر علاج افراد اور اسٹاف کے لوگوں کو بطور ہدیہ دیاگیا۔ انھوں نے اس کو بخوشی قبول کیا۔
14 - یکم مارچ 2012 کو صدر اسلامی مرکز نے سی پی ایس کی بنگلور ٹیم کے لیے ایک خصوصی ٹیلی فونک خطاب کیا۔ بعد کو سوال وجواب کا پروگرام ہوا۔ خطاب کا موضوع تھا: داعی کی ذمے داریاں۔
15 - انڈیا اور انڈیا کے باہر سی پی ایس کے تحت بڑے پیمانے پر دعوتی کام ہو رہا ہے۔ ماہ نامہ الرسالہ میں اِس دعوتی کام کی صرف جزئی رپورٹ شائع ہوتی ہے۔مختلف مقامات پر ہمارے ساتھی پروگراموں میں شرکت کرتے ہیں اور وہاں انٹریکشن کے دوران وہ لوگوں کو دعوتی لٹریچر اور قرآن کا ترجمہ برائے مطالعہ دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں سہارن پور (یوپی) کے حلقہ الرسالہ کے تحت جاری دعوتی سرگرمیوں کی ایک منتخب رپورٹ یہاں درج کی جاتی ہے:
ک درونا چاریہ کوچنگ انسٹی ٹیوٹ میں 12 فروری 2012 کو سائنس کامپٹیشن کا ایک پروگرام ہوا۔ اس کی دعوت پر ڈاکٹر محمد اسلم خان نے بطور چیف گیسٹ اس میں شرکت کی اور یہاں طلبا اور اساتذہ کو خطاب کیا۔ اِس موقع پر حاضرین کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔
ک سہارن پور کی ٹیم نے 14 فروری 2012 کو کرنال گرلس کالج اور امبالا کالج کا دورہ کیا۔ اِس موقع پر انھوں نے وہاں کے طلبا اوراساتذہ نیز وہاں کے مشہور مقامی اشخاص سے دعوتی ملاقات کی۔ مثلاً مان سنگھ ایڈوکیٹ، وغیرہ۔ اِس موقع پر کرنال گرلس کالج کی پرنسپل ڈاکٹر موہنی کو صدر اسلامی مرکز کی کتابیں دی گئیں۔
ک مولانا سلمان حسینی ندوی نے 2 مارچ 2012 کو سہارن پور کا دورہ کیا۔ یہاں ڈاکٹر محمد اسلم خان نے مولانا سلمان حسینی کی دعوت پر مدرسہ مظاہر العلوم کے باہر سٹی گیٹ ہاؤس میں ان سے ملاقات کی۔ اور ان کو صدر اسلامی مرکز کی کتابیں بطور ہدیہ پیش کیں۔یہاں مظاہرالعلوم کے طلبا اور اساتذہ کو بھی دعوتی لٹریچر دیاگیا۔
ک سوامی امر پال سنگھ کی دعوت پر سہارن پور ٹیم کے ساتھیوں نے 9 مارچ 2012 کو گنگوہ اور ناگوڑ کے مختلف پروگرام میں شرکت کی۔ یہاں انٹرفیتھ کے موضوع پر ایک خصوصی پروگرام ہوا۔ جس میں ہمارے ساتھیوں کے علاوہ مقامی ہندوؤں نے بھی شرکت کی اور سی پی ایس کی انٹرفیتھ ایکٹوٹی کو اپنا تعاون دینے کا وعدہ کیا۔
ک سہارن پور کے قدیم چرچ سینٹ تھامس(St. Thomas) میں 29 مارچ 2012 کو ایک آل انڈیا پروگرام ہوا۔ یہاں جیون جیوتی بال وکاس سنٹر کا افتتاح تھا۔ اس کی دعوت پر ہمارے ساتھیوں نے اس میں شرکت کی۔ یہ ایک بڑا پروگرام تھا۔ اِس پروگرام میں انڈیا کے مختلف مقامات کے چرچ کے نمائندے شریک تھے۔ سہارن پور چرچ کے فادر ڈینئل نے اپنی تقریر میں کہا کہ سی پی ایس کا لٹریچر امن کی اشاعت کے لیے بنیادی فکر ی مواد کی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ لوگ اس سے فائدہ اٹھائیں۔ یہاں حاضرین کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔
ک سہارن پور کے پیس ہال میں 25 مارچ 2012 کو ایک دعوہ میٹ تھی۔ اِس میں جناب طارق عبد اللہ رام پوری، گنگوہ گروکل کے سوامی امر پال سنگھ آریہ اور ڈاکٹر انور جمال دیوبندی کے علاوہ، ندوۃ العلما، لکھنؤ اور دار العلوم دیوبند اور مظاہر العلوم کے مختلف علما نے شرکت کی۔ اِس موقع پر حاضرین کو دعوتی لٹریچر دیاگیا۔
16 - میرٹھ (یوپی) کے پی پی ہال (آبو لین، کینٹ) میں 11 مارچ 2012 کو قرآن کے موضوع پر ایک کانفرنس ہوئی۔ اِس موقع پر میرٹھ کے حلقہ الرسالہ کے ساتھیوں مولانا محمد عرفان قاسمی، ڈاکٹر ساجد صدیقی، وغیرہ نے بڑے پیمانے پر قرآن کا اردو، ہندی اور انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر حاضرین کو بطور ہدیہ پیش کیا۔
17 - نئی دہلی کی میڈیا کمپنی (Agnus Dei) کی نمائندہ مز گریما تیواری نے 19 مارچ 2012 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا۔ یہ انٹرویو انگریزی زبان میں تھا۔ اس کا موضوع یہ تھا:
Islam and Spirituality
18 - پنگوئن بکس، انڈیا کی 25 ویں سال گرہ کے موقع پر نئی دہلی کے انڈیا ہیبی ٹیٹ سنٹر میں 25 مارچ 2012 کو ایک آل انڈیا پروگرام ہوا۔ یہاں سی پی ایس (نئی دہلی) کی طرف سے حاضرین کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔
19 - بنگلہ دیش کے مشہور مصنف اور صحافی مسٹر شہر یار کبیر (Shahriar Kabir) نے 28 مارچ 2012 کو مسلم ملٹنسی کے موضوع پر ایک ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ یہ پروگرام انگریزی زبان میں تھا۔ مسٹر شہریار کو دعوتی لٹریچر دیاگیا۔
20 - اپریل 2012 کے دوسرے ہفتے میں مولانا محمد ذکوان ندوی نے لکھنؤ کا سفر کیا۔ وہ اپنے ساتھ دعوتی لٹریچر خرید کر لے گئے تھے۔ انھوں نے لوگوں کو دعوتی لٹریچر دیا، خاص طورپر علما کو ’’کتاب معرفت‘‘ بطور ہدیہ پیش کی۔
21 - صدر اسلامی مرکز کے مضامین اردو اخبارات میں شائع ہورہے ہیں۔ اِس سلسلے میں 10 اپریل 2012 کو روزنامہ راشٹریہ سہارا میں ایک مفصل مضمون ’’حاکمانہ ماڈل، دعوتی ماڈل‘‘ شائع ہوا۔ اِسی طرح صدر اسلامی مرکز اور سی پی ایس (نئی دہلی) کے ممبران کے مضامین انگریزی اخبارات ٹائمس آف انڈیا، وغیرہ میں برابر شائع ہو رہے ہیں۔ یہ مضامین سی پی ایس کے ویب سائٹ (www.cpsglobal.org) پر دیکھے جاسکتے ہیں۔
22 - استنبول(ترکی) کے ادارہ سلام ورلڈ (Salam World) کی ٹیم نے 11 اپریل 2012 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا۔ یہ انٹرویو اسلام اور امنِ عالم کے موضوع پر تھا۔ یہ انٹرویو انگریزی زبان میںتھا۔
23 - ڈی او ایس سوسائٹی (Delhi Optholmological Society) کی طرف سے نئی دہلی کے ہوٹل سمراٹ اشوک (چنکیا پوری) میں 6-8 اپریل 2012 کو ایک آل انڈیا کانفرنس ہوئی۔ اِس موقع پر سی پی ایس (نئی دہلی) کی طرف سے کانفرنس میں ایک ہزار سے زیادہ ڈاکٹروں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔
24 - ترکی ٹی وی کے نمائندہ مسٹر عثمان انالن کی ٹیم نے 18 اپریل 2012 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک ویڈیوانٹرویو ریکارڈ کیا۔ اس انٹرویو کا موضوع یہ تھا — اسلام اور عصر حاضر۔ یہ انٹرویو انگریزی زبان میں تھا۔ سوالات کے دوران موضوع کی وضاحت کی گئی۔ یہ انٹرویو ترکی میں نشر کیا جائے گا۔
25 - لندن (Earl Court) میں 16-18 اپریل 2012 کو لندن بک فئر ہوا۔ اِس موقع پر تحریک ترسیل قرآن (نیویارک) اور گڈورڈ بکس (نئی دہلی) کے تعاون سے وزٹرس کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا گیا۔
26 - قرآن کے انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر کے متعلق قارئین کے چند تاثرات ملاحظہ ہوں:
ک Dawah work and the Al-Risala Mission have successfully been started here in Kolkata. Copies of the Quran and other dawah literature were distributed at the International Book Fair in Kolkata. The distribution of literature was also done in Ghazipur, (U.P) and Vaishali (Bihar). People, particularly the non-Muslims showed great interest. Our members here are also doing this work on a one-to-one basis. We hope, it will yield results, Insha Allah. A friend, Md. Aslam Ansari, who is an employee at the Indian Railways, gave a copy of the Quran and some Hindi literature to one of his senior colleagues, Mr. Baldeo Singh Randhar, Chief Office Superintendent (Mechanical Diesel). He is very popular in the office for his jovial and humorous attitude. But after going through the literature he has become extremely serious, to the surprise of his colleagues. They even asked our friend as to what he had given him that had brought about such tremendous change in a person like him. (Mohammed Abdullah, Kolkata Team)
ک I am over 90. I hail from Kashmir and am settled in Gurgaon. The thought of taking the liberty of writing to you came to my mind immediately after I came across your booklet Peace in Kashmir, which I read on your website. I could not help rating it as the first realistic version of the Kashmir dispute. It is indeed thought-provoking. (Muhammad Amin Chishti, Gurgaon, Haryana)
ک I would like to express my sincere gratitude to Maulana Wahiduddin Khan, for delivering the keynote address and participating in the discussion held at the Liberty Institute on the topic, Freedom to Express. His clear thinking, I am sure, cleared a lot of misconceptions which some people may have had about Islam. Almost everyone I spoke to at the end acknowledged that they were most impressed by Maulana’s sincerity and knowledge. (Barun Mitra, Liberty Institute, New Delhi)
ک I am a Chaplain in a prison in the United States. The Center for Peace and Spirituality in Bensalem, Philadelphia, has sent us a box of paperback translations of the Quran by Maulana Wahiduddin Khan, and a box of study booklets by Maulana W. Khan. Thank you very much for these generous and helpful donations. The inmates in this facility will benefit greatly by your contribution. (Richard Tinker, Chaplain, Oklahoma, USA)
ک Brother, there is a great need for copies of the Quran in Ghana. Many of these requests come from non-Muslims or new Muslims. We have sent this list to individuals and organizations that have helped Voice of Islam provide such a service to those in need in Ghana. We wish to thank you for your efforts and support in our humble efforts and encourage you to continue your support in the future. (Mohammad Thompson, Voice of Islam Trust, Auckland, New Zealand)
27 - نظام الدین ویسٹ مارکیٹ (نئی دہلی) کے کمیونٹی سنٹر میں 24 اپریل 2012 کو مسٹر وجے ستپال (52 سال) کے انتقال پر ایک تعزیتی پروگرام (اٹھالا) ہوا ۔ اِس موقع پر حاضرین کو دعوتی لٹریچر دیا گیا۔
28 - یوجی سی (UGC) اور سروجنی نائڈو سنٹر فار ومنس اسٹڈیز (SNCWS) کے تعاون سے 24 اپریل 2012 کو جامعہ ملیہ اسلامیہ (نئی دہلی) میں ایک پروگرام ہوا۔ اس کا موضوع یہ تھا:
Capacity Building Workshop of Women Managers in Higher Education.
اس میں خصوصاً اعلیٰ تعلیم یافتہ ہندو اور کرسچن خواتین نے شرکت کی۔ اِس پروگرام کا آغاز سی پی ایس (نئی دہلی) کی ممبرمز عائشہ نے قرآن کی تلاوت سے کیا۔ اس کے بعد مز سعدیہ خان نے ان آیات کا انگریزی ترجمہ پڑھا۔ قرآن کے ترجمہ اور تلاوت کو سن کر نان مسلم شرکا نے اپنے گہرے تاثرات کا اظہار کیا۔مثلاً سروجنی نائڈو سنٹر کی ڈائریکٹر ڈاکٹر مز بلبل دھر نے کہا کہ قرآن کو سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ اِسی طرح پروفیسر منی ایس تھامس (PIO) نے کہا:
The recitation of the Quran was mind boggling. It stirred our souls.
اِس موقع پر حاضرین کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔ہمارے ساتھی اِس تجربے سے فائدہ اٹھائیں اور حسب موقع وہ قرآن کے منتخب حصے کی تلاوت اور ترجمہ سنانے کے بعد لوگوں کو قرآن کا ترجمہ دیں۔
29 - کشمیر کے مختلف مقامات پر ہمارے ساتھی بڑے پیمانے پر وہاں کے نان مسلم ٹورسٹس (tourists) اور مقامی لوگوں کے درمیان دعوت کا کام کررہے ہیں۔ اِس سلسلے میں یہ لوگ وہاں کی انڈین آرمی اور دیگر اعلیٰ سرکاری افسران تک دعوتی پیغام پہنچا رہے ہیں۔ یہ لوگ کشمیر کے مختلف سیاحتی مقامات مثلاً پارک، وغیرہ میں جاکر انٹر یکشن کے دوران لوگوں کو قرآن کا ترجمہ اور دعوتی لٹریچر برائے مطالعہ دیتے ہیں۔مثلاًکشمیر یونی ورسٹی میں اردو پمفلٹ ’’شاہ ہمدان مشن‘‘ کی ایک ہزار کاپیاں طلبا اور اساتذہ کو دی گئیں۔ اِسی طرح جنرل حسنین کو ’’صبح کشمیر‘‘ کا خصوصی شمارہ دیاگیا۔ اس کو انھوں نے خوشی کے ساتھ لیا اور اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا۔
30 - مسٹر ہارون شیخ(ممبئی) کے تعاون سے گھانا(مغربی افریقہ) میں ایک دعوتی ٹیم تیار ہوگئی ہے۔ یہ لوگ افریقہ میں بڑے پیمانے پر قرآن کا انگریزی ترجمہ پہنچارہے ہیں۔دعوتی مقصد کے لیے رابطہ قائم کریں:
Mr. Siraj, Tel. +23326566740
Mr. Teslim Braimah, Tel. +233243720702
31 - مسٹر خرم قریشی کے تعاون سے انڈیا اور انڈیا سے باہر کے ملکوں میں الرسالہ کے لوگ منظم ہوگئے ہیں۔ یہ لوگ اپنے اپنے مقام پر ہفتہ وار یا ماہانہ میٹنگ کرتے ہیں اور اپنے علاقے میں دعوت کے کام کو منظم کرتے ہیں۔
32 - برمنگھم (برطانیہ) میں مسٹر شمشاد محمد خان کے تعاون سے اُن کے ادارہ آئی پی سی آئی (IPCI) کے تحت اسلامک ایگزبیشن کا ایک مستقل پروگرام جاری ہے۔ یہ ایگزبیشن موبائل اور پرماننٹ دونوں طریقے پر ہورہی ہے۔ اس کے تحت برطانیہ میں بڑے پیمانے پر وہاں کے مختلف طبقوں میں اسلام کے تعارف کا پروگرام کیا جاتاہے۔ ادارے کی طرف سے زائرین کو صدر اسلامی مرکز کا انگریزی ترجمہ قرآن بطور ہدیہ پیش کیا جاتا ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو:
www.islamic-exhibition.org
33 - امریکا کے لیے صدر اسلامی مرکز کے ٹیلی فونی خطاب کا سلسلہ جاری ہے۔ موضوعات مع تاریخ درج ہیں:
Feb 19 Islam Ki Surbulandi (Ascendency of Islam)
March 16 Philosophy, Religion and Science
April 1 Importance of Sincerity
April 15 The Concept of Tawassum in Islam
34 - ایک خط: 11 مارچ 2012 کو آپ کا ویکلی لکچر بذریعہ انٹرنٹ سن کر فارغ ہوا تو میں بیٹھاہوا سوچ میں گم تھا اور اللہ سے سچی ہدایت کی دعائیں کررہا تھا۔ اچانک دعا جیسی کیفیت ہونے لگی،چناں چہ میں نے بہت سی دعائیں کیں۔ اُس وقت ایک عجیب دعا میرے ذہن میں آئی۔میں نے اپنی پوری زندگی میں اس قسم کی دعا کبھی نہیں کی تھی، اور نہ ایسا کبھی سوچا تھا۔ میں اللہ سے اس کی معرفت کے لئے دعا کررہا تھا کہ میں نے دعا کرتے ہوئے کہا کہ اے خدا، میں ایک کمزور انسان ہوں، میری کچھ بھی حیثیت نہیں ہے۔ میں ایک عاجز انسان ہوں جو کسی بھی چیز کے قابل نہیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ میری ماں میری اس حیثیت کے باوجود ایسا نہیں کرے گی کہ وہ مجھے اکیلا چھوڑدے، وہ مجھے پریشان حال دیکھے پھر بھی وہ انجان بنی رہے۔ میری ماں مجھ کو اپنے سینے سے لگا لے گی۔ یہ ایک ماں کا حال ہے۔ پھر میں نے خدا سے کہا کہ بے شک، میں تیری معرفت کے لائق انسان نہیں، میرے پاس وہ اہلیت نہیں جو تیری معرفت کے لائق ہو۔ لیکن ایک ماں کا یہ حال ہوتا ہے تو، جوستر ماں سے زیادہ محبت کرتا ہے،کیا تو مجھے اپنی معرفت سے نہیں نوازے گا۔ کیا تو مجھے صرف اس لئے اپنی معرفت سے محروم رکھے گا کہ میں اس لائق نہیں۔ میرا دل یہ کہہ رہا تھا کہ ایسا نہیںہوسکتا۔ ایسا نہیں ہوسکتا۔ ایسا نہیں ہوسکتا۔ یہ سوچ سوچ کر میں رورہا تھا اور اللہ کی معرفت کے لئے دعا کررہا تھا۔ یہ سلسلہ تقریبا دس منٹ تک جاری رہا۔ اس وقت میں نے اللہ سے اور بھی دعائیں مانگی۔ ایک دعا یہ تھی کہ اے اللہ، الرسالہ مشن خالص تیری دریافت پر کھڑا ہواہے۔ کیا تو اس کی حفاظت نہیں کرے گا۔ پھر میں نے کہا کہ اے اللہ، سب کچھ تیرے ہاتھ میں ہے۔ اگر تو انھیں سمجھ دے تو لوگ سمجھ جائیں گے۔ اے اللہ، تو ان سب لوگوں کو ہدایت عطا فرما دے جو آج تیرے مشن کے مخالف بنے ہوئے ہیں۔ (مولاناعبد الباسط عمری، قطر)
واپس اوپر جائیں

Tuesday, 1 May 2012

Al Risala | May 2012 (الرسالہ,مئی)


خصوصی شمارہ ۔ بھائی کی یاد میں

برادرم عبد المحیط خاں ہم تین بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ میرے بڑے بھائی عبدالعزیز خاں )وفات: (1988 بزنس کی لائن میں گئے اور لائٹ اینڈ کمپنی پرائیویٹ لمیٹیڈ (الٰہ آباد) قائم کی۔ میری تعلیم مدرسے میں ہوئی۔ میں نے اسلامی دعوت کو اپنی سرگرمی کا مرکز بنایا۔ عبدالمحیط خاں (وفات:2010 ) نے اعظم گڑھ میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد انھوں نے بنارس ہندو یونی ورسٹی میں داخلہ لیا۔ وہاں سے انھوں نے اعلیٰ نمبر کے ساتھ انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد وہ گورنمنٹ سروس میں چلے گئے۔ وہ بنارس (یوپی) میں جوائنٹ ڈائریکٹر ٹکنکل ایجوکیشن تھے۔1995 میں وہ اِس عہدے سے ریٹائر ہوئے۔
برادرم عبد المحیط خاں کا ریکارڈ اپنی طالب علمی کے زمانے میں محنتی طالب علم، اور سروس کے زمانے میں ایک دیانت دار افسر کا ریکارڈ تھا۔ بنارس ہندو یونی ورسٹی میں ان کی اعلیٰ خصوصیات کی بنا پر اُن کے پروفیسر اُن کو بہت پسند کرتے تھے۔
چند واقعات
برادرم عبد المحیط خاں کی طالب علمی کے زمانے کا ایک واقعہ ہے۔ وہ یونی ورسٹی کے ہاسٹل میں رہتے تھے۔ قاعدے کے مطابق، ایک روم میں دو طالب علم رہا کرتے تھے، لیکن عبد المحیط خاں کی اصول پسندی کو دیکھ کر ان کے وارڈن (Warden) نے کہا کہ تمھارے روم میں کوئی دوسرا طالب علم رہے گا تو وہ تمھارے لیے پرابلم بن سکتا ہے، اِس لیے انھوں نے عبد المحیط خاں کو بطور خاص ایک غیرمشترک روم دے دیا، جس میں وہ اکیلے رہتے ـتھے۔
عبد المحیط خاں ریاضی (mathematics) کے بہت اچھے استاد تھے۔ اِس بنا پر اُن کے تمام اسٹوڈنٹ ان کا بہت احترام کرتے تھے۔ سروس کے ابتدائی زمانے میں وہ چندولی (یوپی) کے پالی ٹیکنیک میں ریاضی کے استاد تھے۔ اُس وقت پالی ٹیکنیک کے پرنسپل ایک ہندو تھے۔ ایک بارایسا ہوا کہ پالی ٹیکنیک کے طلبا کو پرنسپل سے شکایت ہوگئی۔ انھوں نے اپنے مطالبات کو لے کر پرنسپل کا گھیراؤ کیا۔ پرنسپل نے طلبا سے بہت کہا کہ وہ اپنے روم میں واپس جائیں، لیکن طلبا وہاں سے ہٹتے نہیں تھے۔ آخرکار کسی نے پرنسپل صاحب کو مشورہ دیا کہ اے ایم خان کو بلائیے، وہی اِس مسئلے کو حل کریں گے۔
چناں چہ پرنسپل نے ایک آدمی بھیج کر عبد المحیط خاں کو بلایا۔ عبد المحیط خاں وہاں آئے۔ انھوں نے دیکھا کہ طلبا کا ہجوم پرنسپل کو گھیرے ہوئے ہے۔ اپنی عادت کے مطابق، انھوں نے طلبا کو زور سے ڈانٹا اور کہا — یہ کیا بدتمیزی ہے، تم لوگ یہاں سے ہٹو اور فوراً اپنے روم میں واپس جاؤ۔ اِس کے بعد طلبا نے گھیراؤ ختم کردیا اور خاموشی کے ساتھ اپنے روم میں واپس چلے گئے۔
یہ دو واقعات بتاتے ہیں کہ عبد المحیط خاں کا ریکارڈ طالب علمی کے زمانے میں اور سروس کے زمانے میں کیا تھا۔ وہ جہاں بھی رہے، ہمیشہ ایک اصول پسند انسان کی حیثیت سے رہے۔ ایک بار جب وہ فیض آباد کے پالی ٹیکنیک میں پرنسپل تھے، یوپی کے ایک سیاسی لیڈرنے اپنے خط کے ساتھ ایک نوجوان کو بھیجا اور اس کے داخلے کی سفارش کی، مگر وہ طالب علم ٹسٹ میں کوالیفائی (qualify) نہ کرسکا۔ چناں چہ عبد المحیط خاں نے اس کا داخلہ نہیں لیا۔ طالب علم نے واپس جاکر لیڈرصاحب سے شکایت کی۔ اس پر لیڈر صاحب غصہ ہوگئے اور عبد المحیط خاں کو ٹیلی فون پر دھمکی دی، مگر عبد المحیط خاں اپنے فیصلے پر قائم رہے اور انھوں نے طالب علم کا داخلہ نہیں لیا۔
اصول پسندی
برادرم عبد المحیط خاں مجھ کو بہت زیادہ مانتے تھے۔ وہ مجھ سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے۔ میرے اوپر ان کو بہت زیادہ بھروسہ تھا۔ وہ خود اگرچہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص تھے، لیکن جب میں کوئی بات کہتا تو اس کو وہ بلا بحث مان لیتے تھے۔ میرے بارے میں وہ اکثر کہتے تھے کہ— میں دنیا میں سب سے زیادہ وحید بھائی کو مانتا ہوں۔
لیکن اِسی کے ساتھ وہ بہت زیادہ اصول پسند آدمی تھے۔ اصول کے معاملے میں وہ کسی کے ساتھ رعایت نہیں کرتے تھے، حتی کہ اپنے بچوں کے ساتھ بھی نہیں۔ مثلاً ان کی دو لڑکیاں تھیں، لیکن اپنے سخت اصولوں کی بنا پر انھوںنے اِن لڑکیوں کو اسکول میں داخل نہیں کیا۔ ان کی لڑکیوں نے ابتدا میں گھر پر کچھ تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد پرائیویٹ امتحان دے کر انھوں نے اپنی تعلیم پوری کی۔
ان کی اصول پسندی کی ایک مثال یہ ہے کہ ایک بار میں دہلی سے ان کی پالی ٹیکنیک (گونڈہ) گیا۔ یہاں وہ پرنسپل تھے۔ کالج کی لائبریری میں بہت سی کتابیں تھیں۔ اُن میں سے ایک انسائکلوپیڈیا برٹانکا کا مکملسیٹ تھا۔ چند روزہ قیام کے دوران میں برٹانکا کو برابر پڑھتا رہا۔ جب میں آنے لگا تو میں نے برادرم عبد المحیط خاں سے کہا کہ یہ انسائکلو پیڈیا میرے بہت کام کی ہے۔ یہاں کوئی اس کا قدرداں نہیں۔ میں اس کو اپنے ساتھ دہلی لے جاتا ہوں اور مطالعے کے بعد میں اُس کو واپس کردوں گا۔ مگر اپنی اصول پسندی کی بنا پر انھوں نے مجھے اِس کی اجازت نہ دی۔ انھوںنے کہا کہ کالج کے قاعدے کے مطابق، آپ یہاں رہ کر انسائکلوپیڈیا سے استفادہ کرسکتے ہیں، لیکن انسائکلوپیڈیا کو اپنے گھر لے جانا، لائبریری کے قواعد کے خلاف ہوگا۔
برادرم عبد المحیط خاں سختی کے ساتھ اپنے اصولوں کے پابند تھے۔ وہ کسی کی بے جا رعایت نہیں کرتے تھے۔ اصول کے معاملے میں وہ کبھی کسی سے سمجھوتہ نہیں کرتے تھے۔اِس بنا پر ڈپارٹمنٹ کے کئی لوگوں کو اُن سے شکایت ہوتی تھی، مگر انھوں نے کبھی کسی کی شکایت کی پروا نہیں کی۔ وہ کسی کو خوش کرنے کے لیے اپنے اصول سے ہٹنے پر تیار نہیں ہوتے تھے۔
میں نے اپنے ذاتی مزاج کی بنا پر کئی بار اُن سے ملاقات کے دوران اور خط کے ذریعے کہا کہ تم خود اپنی ذاتی زندگی میں اصول پر قائم رہو، لیکن دوسروں کے بارے میں اعراض (avoidance) کا طریقہ اختیار کرو، مگر انھوں نے اپنی شدید اصول پسندی کی بنا پر میرا یہ مشورہ نہیں مانا۔
عبد المحیط خاں کو کئی معاملے میں اپنی اِس اصول پسندی کی بھاری قیمت دینی پڑی۔ اُن میں سے ایک یہ ہے کہ اُن کا تعلق یوپی گورنمنٹ کے محکمہ ٹکنکل ایجوکیشن سے تھا۔ وہ اپنی سینئرٹی (seniority) کے اعتبار سے ڈائریکٹر کے عہدے کے مستحق ہوچکے تھے، لیکن آخر تک اُن کو ڈائریکٹر کا عہدہ نہیں دیاگیا۔ ان کو جوائنٹ ڈائرکٹر کے عہدے سے ریٹائر ہونا پڑا۔ عبد المحیط خاں نے اِس نقصان کو برداشت کیا، مگر وہ اپنے اصول سے کبھی نہیں ہٹے۔
خاندانی حالات
عبد المحیط خاں انجینئر میرے چھوٹے بھائی تھے۔ وہ یکم اگست1932 کو اعظم گڑھ (یوپی) میں پیدا ہوئے، اور31 جنوری 2010 کو فیض آباد (یوپی) میں ان کا انتقال ہوگیا۔ اِس نسبت سے یہاں کچھ باتیں درج کی جارہی ہیں۔
میرے مورثِ اعلیٰ ضیاء الدین خاں تھے۔ تقریباً 500 سال پہلے وہ افغانستان (سوات) کے علاقے سے ہندستان آئے۔ ابتدامیں وہ جون پور (یوپی) کے ایک گاؤں میں ٹھہرے۔ بعد کو اُن کا خاندان اعظم گڑھ کے گاؤں بڈھیریا میں منتقل ہو گیا۔ دھیرے دھیرے ہمارے خاندان نے یہاں ایک بڑے زمیں دار کی حیثیت حاصل کرلی۔ زراعت کے علاوہ، یہاں ان لوگوں نے نیل کا ایک گودام قائم کیا۔ اِس کے علا وہ، ہمارے خاندان کے کچھ افراد شہراعظم گڑھ میں مقیم ہوگئے۔
میرے والد کا نام فرید الدین خاں تھا۔ ان کا انتقال غالباً 1931 میں ہوا۔ میری والدہ زیب النساء کا انتقال دہلی میں 8 اکتوبر 1985 کو ہوا۔ ہم لوگ 6 بھائی بہن تھے۔ ایک بہن کا انتقال بچپن میں ہوگیا۔ دوسری بہنیں یہ تھیں— طاہرہ خانم (وفات: 1976) اور طیبہ خانم (وفات: 1956 )۔ بھائیوں میں عبد العزیز خاں کا انتقال 1988 میں ہوا۔ عبد المحیط خاں چھوٹے بھائی تھے۔ ان کا انتقال 2010 میں ہوا۔ بھائیوں اور بہنوں میں اب میں آخری شخص رہ گیا ہوں۔
ہمارا خاندان کافی وسیع خاندان ہے، لیکن پورے خاندان میں، میں واحد شخص تھا جس کی تعلیم عربی مدرسے میں ہوئی۔ میرے چچا صوفی عبدالمجید خاں مرحوم کو خیال ہوا کہ خاندان میں کم ازکم ایک شخص کا عالم ہونا ضروری ہے۔ چناں چہ انھوں نے خود اپنی ذمے داری پر مجھ کو عربی مدرسہ (مدرسۃ الاصلاح، سرائے میر) میں داخل کیا۔ میری عالمیت کی تعلیم میں تمام تر میرے چچا صوفی عبدالمجید خاں کا حصہ ہے۔ (میری تعلیم کے بارے میں تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو ’’دین وشریعت‘‘ باب ’’اسلامی تعلیم‘‘ صفحہ 73-151)۔
بعدکے زمانے میں ہمارے گھر پر دو نوجوانوں کے لیے انگریزی تعلیم کا انتظام کیا گیا۔ ایک، میرے بھائی عبد المحیط خاں اور دوسرے اقبال احمد خاں سہیل (وفات:1955 )کے بیٹے یمین الاسلام خاں ۔ اِس تعلیمی انتظام کی حیثیت گویا ایک گھریلو ٹیوشن کی تھی۔ اِس کے لئے بالترتیب دو صاحبان نے استاد کی خدمت انجام دی— ایک ماسٹر صدیق صاحب اور دوسرے ماسٹر یاسین صاحب۔ عبد المحیط خاں اور یمین الاسلام خاں دونوں نے بعد کو انجینئرنگ کا کورس کیا۔ عبد المحیط خاں نے بنارس ہندو یونی ورسٹی میں، اور یمین الاسلام خاں نے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں۔
دعوتی زندگی
برادرم عبد المحیط خاں میرے دعوتی مشن میں پوری طرح میرے ساتھ تھے۔ وہ اپنی پوری زندگی ماہ نامہ الرسالہ کی ایجنسی چلاتے رہے۔ وہ ہر مہینے الرسالہ کے کچھ پرچے منگاتے تھے۔ ایک شمارہ وہ اپنے پاس رکھتے تھے اور بقیہ شمارے مفت تقسیم کردیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ، وہ ہمارے یہاں کی چھپی ہوئی اسلامی کتابیں برابر منگاتے رہتے تھے اور اُنھیں لوگوں کو مطالعے کے لئے دیتے تھے۔
انھوں نے اپنی سروس کے زمانے میں دو مکان بنائے تھے۔ ایک، فیض آباد میں اور دوسرا، علی گڑھ میں۔ بعد کو انھوںنے اپنا علی گڑھ کا مکان فروخت کردیا۔ اِس کی رقم سے 6 لاکھ روپئے وہ میرے وراثتی حصے کے طورپر مجھ کو بھیجنا چاہتے تھے۔ میں نے منع کردیا۔ انھوں نے اپنے اہلِ خانہ کو وصیت کردی کہ یہ رقم دوبارہ مجھے بھیجی جائے۔ ان کی وفات کے بعد ان کی بیٹی فہمیدہ خانم نے میری لڑکی ڈاکٹرفریدہ خانم سے ٹیلی فون پر یہ بات بتائی۔ ڈاکٹر فریدہ نے اُن سے کہا کہ میرے والد ذاتی طورپر اس رقم کو قبول نہیں کریں گے، اِس لیے آپ چاہیں تویہ رقم القرآن مشن (Al-Quran Mission) میں دے دیجئے، تاکہ اس کے ذریعے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک قرآن کا ترجمہ پہنچایا جاسکے۔ چناں چہ یہ پوری رقم القرآن مشن (نئی دہلی) میں دے دی گئی۔
برادرم عبد المحیط خاں ایک صالح کردار کے آدمی تھے۔ اِسی کے ساتھ ان کے اندر دعوت کے کام کا گہرا جذبہ تھا۔ یہی جذبہ انھوں نے اپنے گھر والوں میں پیدا کیا۔ اِس کی ایک مثال یہ ہے کہ ان کی بیٹی فہمیدہ خانم اُن کی وفات کے بعدمسلسل طورپر دعوت کا کام کررہی ہیں۔ وہ ہمارے یہاں سے چھپا ہوا دعوتی لٹریچر برابر منگاتی ہیں، وہ خود بھی اِس کو پڑھتی ہیں اور دوسروں کو مطالعے کے لیے دیتی ہیں۔
عبد المحیط خاں کو ہمارے دعوتی مشن سے بہت دلچسپی تھی۔ وہ اس سے مکمل اتفاق کرتـے تھے۔ وہ اس کی توسیع واشاعت کے لیے برابر کوشش کرتے رہتے تھے۔ اِس معاملے میں بھی انھوں نے کسی کی مخالفت کی پروا نہیں کی۔ وہ کھلے طورپر اور آخر وقت تک ہمارے دعوتی مشن کے حامی بنے رہے۔
میں نے اکتوبر 1976 میں دہلی سے ماہ نامہ الرسالہ جاری کیا۔ عبد المحیط خاں شروع ہی سے الرسالہ کا باقاعدہ مطالعہ کرنے لگے۔ مزید یہ کہ انھوں نے الرسالہ کی ایجنسی لے لی۔ وہ الرسالہ کو خود بھی پڑھتے اور دوسروں کو اِسے پڑھنے کے لیے دیتے۔ اِسی طرح اُن کے پاس میری تمام کتابیں موجود تھیں۔ وہ اِن کتابوں کو مسلسل پڑھتے رہتے تھے اور لوگوں سے اِن کے مضامین کا چرچا کرتے تھے۔ میرے مشن کے بارے میں ان کو کبھی کوئی اختلاف نہیں ہوا، حتی کہ وہ یہ کہتے تھے کہ یہی واحد صحیح مشن ہے اور لوگوں کو اِس مشن کا ساتھ دینا چاہئے۔میری لکھی ہوئی تفسیر قرآن اردو، عربی، ہندی اور انگریزی میں چھپی ہے۔ اس کا نام ’’تذکیر القرآن‘‘ ہے۔ اپنی زندگی کے آخری سالوں میں وہ روزانہ تذکیر القرآن پڑھتے رہتے تھے۔ اِس کے نوٹس (notes) وہ برابر لکھتے رہتے تھے۔
میری عادت ہے کہ میں ہر ایک سے اس کے تجربات پوچھتا ہوں۔ عبد المحیط خاں سے جب میری ملاقات ہوتی تو میں ہمیشہ ان کے تجربات پوچھتا تھا۔ اُن کا ایک تجربہ میںنے اُنھیں کے لفظوں میں چھاپا تھا۔ یہ تجربہ میری کتاب ’’سبق آموز واقعات‘‘ میں شائع ہوا ہے، اُس کو یہاں نقل کیا جاتا ہے۔
غلطی میری
1954ء میں جب کہ میں بنارس ہندو یونی ورسٹی میں انجینئرنگ کا طالب علم تھا، ایک واقعہ پیش آیا جو کہ اب تک مجھے یاد ہے۔ میرے استاد ڈاکٹر پران ناتھ نے لاپلاس ٹرانسفارم (Laplace Transform) کو پڑھانا شروع کیا تو انھوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں ایک دلچسپ کہانی ہے جو ہمارے موجودہ پرنسپل سے متعلق ہے۔ یہ پروفیسر ایم۔سین ۔گپتا تھے جو اُس وقت بنارس ہندو یونی ورسٹی کے انجینئرنگ کالج کے پرنسپل تھے اور اب ریٹائر ہوچکے ہیں۔پروفیسر گپتا مزید تعلیم کے لیے گلاسگو یونی ورسٹی گئے تھے اور وہاں سے انھوںنے ٹاپ کیا تھا۔ گلاسگو کا پروفیسر ایک روز بلیک بورڈ پر ایک الیکٹریکل پرابلم کو حل کررہا تھا۔ اس درمیان میں ڈفرینشیل ایکویشن (differential equation) کا سوال آگیا۔ گلاسگو کے پروفیسر نے اس کو عام طریقے سے حل کیا، جس میں کافی وقت لگا اور سارا بلیک بورڈ بھر گیا۔
پروفیسر گپتا نے اس موقع پر کھڑے ہو کر کہا: میرا خیال ہے کہ یہاں لاپلاس ٹرانسفارم کو اپلائی کیاجاسکتا ہے۔ اس سے یہ سوال بہت مختصر طریقے سے حل ہوجائے گا۔ پروفیسر نے اس تجویز پر عمل کیا تو صرف دو لائنوں میں سوال حل ہوگیا۔ اگرچہ دونوں طریقوں کا آخری جواب ایک ہی تھا، مگر پروفیسر نے کہا: جب مختصر طریقہ ہمارے پاس موجود ہے تو لمبے طریقے کو اختیار کرنا ہی سرے سے غلط ہے، اس نے بلیک بورڈ پر اپنے لکھے ہوئے حل کو مٹا دیا اور پروفیسر گپتا کے طریقے کو لکھتے ہوئے کہا:
This is the only method
اِسی قسم کا ایک اور واقعہ 1964ء کا ہے۔ حکومت ہند کی وزارت تعلیم نے امریکی حکومت کے ایجوکیشن ڈویژن کے تعاون سے چندی گڑھ میں’’سمر اسکول فار ٹیچرس‘‘ کا ایک پروگرام شروع کیا۔ اِس میں ہندستانی شخصیتوں کے علاوہ، تین امریکی پروفیسر آئے ہوئے تھے، اس وقت میں چندولی میں سینئر لکچرر تھا اور اسی حیثیت سے میں نے چندی گڑھ کے اس پروگرام میں شرکت کی تھی۔ یہ پہلا کورس تھا جو 15جون سے 24 جولائی 1964ء تک ہوا۔
امریکی پروفیسر میچل نے ایک روز کلاس میں سوال کیا—تخلیقی لوگ کون ہوتے ہیں Who are creatives) (۔ مختلف لوگوں نے مختلف نام لیے۔ ایک شخص نے کہا پوئیٹ(شاعر) پروفیسر نے کہا، کیا (What) ۔ پروفیسر میچل کی سمجھ میں نہیں آیا۔ وہ با ر بار ’وہاٹ‘ کہتے رہے اور ہمارے ساتھی بار بار ’پوئیٹ‘ دہراتے رہے۔بالآخر انھوں نے اس کی اسپلنگ بتائی: پی او ای ٹی(poet)۔ اب پروفیسر میچل سمجھ گئے کہ ہمارے ساتھی کی مراد شاعر سے ہے۔ مگرہندستانی اور امریکی تلفظ کے فرق کی وجہ سے وہ سمجھ نہیں پاتے تھے۔ کیوں کہ ہندستانی تلفظ اس لفظ کا پوئیٹ ہے جب کہ امریکی تلفظ میں اس کو پائیٹ کہتے ہیں۔ اِس کے بعد پروفیسر نے کہا:
You are right, I am wrong, because I am in your country.
’’آپ صحیح ہیں۔ میں ہی غلطی پر ہوں، کیوں کہ میں اس وقت آپ کے ملک میں ہوں‘‘۔
برادرم عبد المحیط خاں نے بنارس ہندو یونی ورسٹی کے شعبۂ الیکٹریکل انجینئرنگ (Electrical Engineering) میں داخلہ لے کر بی ای (B.E.) کیا تھا۔ اس کے بعد اسی یونی ورسٹی سے انھوںنے الیکٹریکل انجینئرنگ کی ڈگری لی۔ اس طرح انھوں نے سائنس کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی تھی۔ میں نے کبھی کسی کالج اور یونی ورسٹی میں داخلہ نہیں لیا، البتہ مجھے سائنس سے دلچسپی تھی۔ میں نے سائنس کے موضوع کو پرائیویٹ طور پر کتابوں کے مطالعہ (self study) کے ذریعے پڑھا۔ اس طرح مجھے نظری سائنس (theoretical science) سے کسی حدتک واقفیت ہوگئی تھی۔ لیکن پریکٹکل اعتبار سے میں نے اس موضوع پر کوئی تربیت حاصل نہیں کی تھی۔
اس پہلو سے مجھے برادرم عبد المحیط خاں سے کافی مدد ملی۔ میں ان کے یہاں اُس وقت جاتا تھا، جب کہ وہ پالیٹکنیک (Technical College) کے پرنسپل تھے۔ میں ان سے سائنس کے موضوع پر بات کرتا تھا۔ پھر وہ مجھے اپنے کالج کی لیب (laboratory) میں لے جا کر اُس کا عملی مشاہدہ کراتے تھے۔
مثال کے طور پر میں نے فریڈے (Michael Faraday) وغیرہ کو پڑھا تھا۔ اس مطالعہ سے میںنے جانا تھا کہ نظریاتی طورپر بجلی کیا ہے۔ نظریاتی طورپر بجلی الیکٹران کے بہاؤ کا نام ہے :
Electricity means flow of electrons.
برادرم عبد المحیط خاں سے اس موضوع پر گفتگو ہوئی۔ وہ مجھ کو اپنی کالج کی لیب (laboratory) میں لے گئے۔ وہاں انھوں نے مجھ کو ڈائینمو (dynamo) دکھایا۔ انھوںنے مجھے عملی طور پر بتایا کہ یہ فطرت کا قانون ہے کہ اگر ڈائینمو کے اندر میگنیٹک فیلڈ (magnetic field) اور موشن (motion) کو یکجا کیا جائے تو اس سے قانونِ فطرت کے مطابق، وہاں بجلی پیداہوجائے گی۔ اور اگر ڈائینمو میں میگنیٹک فیلڈ کے ساتھ الیکٹرسٹی کو یکجا کیا جائے تو وہاں موشن (motion) پیدا ہوجائے گا۔ پہلے قانون کے ذریعہ پاور ہاؤس بنتا ہے اور دوسرے قانون کے ذریعہ مشین متحرک ہوتی ہے۔
انسانی ہمدردی
برادرم عبد المحیط خاں صرف ایک انجینئر نہ تھے، بلکہ اسی کے ساتھ ان کے اندر انسانی ہمدردی کا جذبہ بھی بہت زیادہ تھا۔ وہ لوگوں کی بھلائی کے لیے بہت سوچتے تھے۔ اسی کے ساتھ وہ بقدر استطاعت اس پر عمل بھی کرتے تھے۔
ایک بار انھوں نے بہت درد کے ساتھ کہا— زندگی صرف ایک بار ملتی ہے۔ اس جملہ سے ان کا مطلب یہ تھا کہ انسان کو موجودہ دنیا میں زندگی کا موقع صرف ایک بار ملا ہے۔ ایک محدود مدت کے بعد وہ اس دنیا سے چلا جائے گا۔ عقل مند انسان وہ ہے جو اس محدود مدت کو اعلیٰ مقصد کے لیے استعمال کرے۔ اگر اس نے اعلیٰ مقصد کے سوا کسی اور کام میں اپنی عمر گزاردی تو اس کو دوبارہ یہ موقع ملنے والا نہیں۔
ان کا یہ قول کہ ’’زندگی صرف ایک بار ملتی ہے‘‘ کسی محدود معنی میں نہ تھا۔ وہ دنیا و آخرت دونوں کے بارے میں تھا۔ ان کو افسوس ہوتا تھا کہ دنیا میں اکثر لوگ صحیح پلاننگ نہ کرنے کی وجہ سے کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کرپاتے۔ ہر آدمی کا کیس کم تر استعمال کا کیس (A case of under-utilization) بن کر رہ جاتا ہے۔یہی معاملہ زیادہ بڑے پیمانہ پر آخرت کی نسبت سے ہے۔ ہمارے والد فرید الدین خاں یہ کہا کرتے تھے کہ ’’خدا کو منہ دکھانا ہے‘‘۔ برادرم عبد المحیط خاں کو یہ فکر رہتی تھی کہ لوگ آخرت کے لحاظ سے تیاری نہیں کرتے، پھر اُس وقت ان کا کیا حال ہوگا جب وہ موت کے بعد خدا کے سامنے پیش کئے جائیں گے۔ برادرم عبد المحیط خاں کی لڑکی فہمیدہ خانم نے بتایا کہ بعد کے زمانے میں ہم لوگوں سے وہ اکثر آخرت کی بات کرتے تھے۔ ان کا اپنا یہ حال تھا کہ وہ خدا کے خوف سے کانپتے رہتے تھے۔
تعمیری ذہن
میرے مشن کا ایک حصہ وہ ہے جو مسلمانوں کی ملی تعمیر سے متعلق ہے۔ اِس معاملے میں لکھنے اور بولنے والوں کا طریقہ عام طورپر یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کی مظلومی کو بیان کرتے ہیں۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ مسلمان، امتیاز (discrimination) کا شکار ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف سازشیںکی جارہی ہیں۔ مسلمانوں کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں۔ میں اِس نظریے کو صد فی صد غلط سمجھتا ہوں۔ اِس نظریے کے خلاف لکھنے کا کام میں نے لکھنؤ کے زمانہ قیام (1963-1966) میں شروع کیا تھا۔ اُس زمانے میں، میں لکھنؤ کے ہفت روزہ ’’ندائے ملت‘‘ میں اِس قسم کے تعمیری مضامین شائع کرتا تھا۔اس کے بعد 1967میں مجھے ’’الجمعیۃ ویکلی‘‘ (دہلی) کا ایڈیٹر بنایا گیا۔ اب الجمعیۃ ویکلی میں میرے اِس قسم کے تعمیری مضامین چھپنے لگے۔ اِس کے بعد 1976 میں میں نے ماہ نامہ ’’الرسالہ‘‘ نئی دہلی سے جاری کیا۔ اُس وقت سے اب تک الرسالہ میںمیرے اس قسم کے تعمیری مضامین چھپ رہے ہیں۔
میں اپنے اسلوب کے مطابق، اِس موضوع کو واقعات کی زبان میں لکھتا رہا ہوں۔ اِس سلسلے میں قدیم وجدید تاریخ کے سبق آموز واقعات، میں نے بڑی تعداد میں شائع کئے ہیں۔ اِ س واقعاتی اسلوب نے کثیر تعداد میں لوگوں کو زندگی کا نیا حوصلہ دیا ہے۔
عبد المحیط خاں کی زندگی اِس معاملے میں ایک عملی مثال کی حیثیت رکھتی ہے۔ اُن کو عام طورپر اے ایم خان کہاجاتا تھا۔ اپنے حلقے میں وہ اِسی نام سے مشہور تھے۔ اپنے مزاج کے مطابق، انھوں نے کبھی کسی سے رعایت نہیں چاہی اور نہ اُنھیں کبھی کسی سے کوئی فیور(favour) ملا۔ انھوںنے اپنی محنت اور اپنی دیانت داری سے اپنے لیے ممتاز جگہ بنائی۔ میںنے الجمعیۃ ویکلی اور ماہ نامہ الرسالہ میں اُن کے بارے میں چند صفحات شائع کیے تھے، وہ یہاں کسی تبدیلی کے بغیر نقل کئے جاتے ہیں۔
استحقاق پیدا کیجئے
مسٹر عبد المحیط خاں ہائر سکنڈری کے امتحان میں اچھے نمبر سے پاس ہوئے تھے۔ مگر کسی وجہ سے وہ بروقت آگے داخلہ نہ لے سکے، یہاں تک کہ اکتوبر کا مہینہ آگیا۔ اب بظاہر کہیں داخلہ ملنے کی صورت نہ تھی۔ تاہم تعلیم کاشوق ان کو ہندو سائنس کالج کے پرنسپل کے دفتر میں لے گیا۔
’’جناب، میں بی ایس سی میں داخلہ لینا چاہتا ہوں‘‘۔ انھوں نے ہندو پرنسپل سے کہا۔
’’یہ اکتوبر کا مہینہ ہے، داخلے بند ہوچکے ہیں، اب کیسے تمھارا داخلہ ہوگا۔‘‘
’’بڑی مہربانی ہوگی اگر آپ داخلہ لے لیں، ورنہ میرا پورا سال بے کار ہوجائے گا‘‘۔
’’ہمارے یہاں تمام سیٹیں بھر چکی ہیں، اب مزید داخلے کی کوئی گنجائش نہیں‘‘۔
پرنسپل اتنی بے رخی برت رہا تھا کہ بظاہر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ ہرگز داخلہ نہیں لے گا اور اب اگلا جملہ طالب علم کو شاید یہ سننا پڑے گا کہ ’’کمرے سے نکل جاؤ‘‘۔ مگر طالب علم کے اصرار پر پرنسپل نے بددلی سے پوچھا ’’تمھارے مارکس (marks) کتنے ہیں‘‘۔ پرنسپل کا خیال تھا کہ اس کے نمبر یقینا بہت کم ہوںگے، اِسی لیے اس کو کہیں داخلہ نہیں ملا۔ چناں چہ طالب علم جب اپنے خراب نتیجہ (result)کو بتائے گا تو اس کی درخواست کو رد کرنے کے لیے معقول وجہ ہاتھ آجائے گی، مگر طالب علم کا جواب اس کی امید کے خلاف تھا۔ طالب علم نے کہا جناب 85 فی صد(Sir, eighty five per cent.)۔
اس جملہ نے پرنسپل پر جادو کا کام کیا۔ فوراً اس کا موڈ بدل گیا۔ اس نے کہا ’’بیٹھو، بیٹھو‘‘۔ اس کے بعد پرنسپل نے طالب علم کے کاغذات دیکھے اور جب کاغذات نے تصدیق کردی کہ واقعی وہ پچاسی فی صد نمبروں سے پاس ہوا ہے تو اسی وقت پرنسپل نے پچھلی تاریخ میں د رخواست لکھوائی۔ اس نے عبدالمحیط خاں کو نہ صرف تاخیر کے باوجود اپنے کالج میں داخل کرلیا، بلکہ کوشش کرکے ان کو وظیفہ (scholarship)بھی دلوایا۔
یہی طالب علم اگر اس حالت میں پرنسپل کے پاس جاتا کہ وہ تھرڈ کلاس پاس ہوتا اور پرنسپل اس کا داخلہ نہ لیتا تو طالب علم کا تاثر کیا ہوتا۔ وہ اس طرح لوٹتا کہ اس کے دل میں نفرت اور شکایت بھری ہوتی۔وہ لوگوں سے کہتا کہ یہ سب تعصب کی وجہ سے ہوا ہے، ورنہ میرا داخلہ ضرور ہونا چاہیے تھا۔ داخلہ نہ ملنے کی وجہ اس کا خراب نتیجہ ہوتا، مگر اس کا ذمہ دار وہ ہندو کالج کو قرار دیتا— ماحول کا رد عمل اکثر خود ہماری حالت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ مگر ہم اس کو ماحول کی طرف منسوب کردیتے ہیں، تاکہ اپنے آپ کو اس سے بری الذمہ ثابت کرسکیں۔
اگر آدمی نے خود اپنی طرف سے کوتاہی نہ کی ہو، اگر زندگی میں وہ اُن تیاریوں کے ساتھ داخل ہوا ہو جو زمانے نے مقرر کی ہیںتو دنیا اس کو جگہ دینے پر مجبور ہوگی۔وہ ہر ماحول میں اپنا مقام پیدا کرلے گا، وہ ہر بازار سے اپنی پوری قیمت وصول کرے گا۔ مزید یہ کہ ایسی حالت میںاس کے اندر اعلیٰ اخلاقیات کی پرورش ہوگی۔ وہ اپنے تجربات سے جرأت، اعتماد، عالی حوصلگی، شرافت، دوسروں کا اعتراف، حقیقت پسندی اور ہر ایک سے صحیح انسانی تعلق کا سبق سیکھے گا۔ وہ شکایت کی نفسیات سے بلند ہو کر سوچے گا۔ ماحول اس کو تسلیم کرے گا، اس لیے وہ خود بھی ماحول کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوگا۔
اِس کے برعکس، اگر اس نے اپنے آپ کو اہل (competent) ثابت کرنے میں کوتاہی کی ہو۔ اگر وہ وقت کے معیار پر پورا نہ اترتا ہو۔ اگر وہ کم تر لیاقت کے ساتھ زندگی کے میدان میں داخل ہوا ہو تو لازماً وہ دنیا کے اندر اپنی جگہ بنانے میں ناکام رہے گا۔ اس کے نتیجے میں اس کے اندر جو اخلاقیات پیدا ہوں گی، وہ بلاشبہہ پست اخلاقیات ہوں گی۔ وہ شکایت، جھنجھلاہٹ، غصہ، حتی کہ مجرمانہ ذہنیت کا شکار ہو کر رہ جائے گا۔ جب آدمی ناکام ہوتا ہے تو اس کے اندرغلط قسم کی نفسیات ابھرتی ہیں۔اگر چہ آدمی کی ناکامی کی وجہ ہمیشہ اپنی کمزوری ہوتی ہے، مگر ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو قصور وار ٹھہرائے۔ وہ ہمیشہ اپنی ناکامیوں کے لیے دوسروں کو مجرم ٹھہراتا ہے۔وہ صورتِ حال کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کرنے سے قاصر رہتا ہے۔
کم تر تیاری آدمی کو بیک وقت دو قسم کے نقصانات کا تحفہ دیتی ہے— اپنے لیے بے جا طورپر ناکامی کا احساس، اور دوسروں کے بارے میں بے جا طور پر شکایت۔
پتھر ہر ایک کے لئے سخت ہے، البتہ وہ اس آدمی کے لیے نرم ہوجاتا ہے جو اس کو توڑنے کا اوزار رکھتاہو۔ یہی صورت ہر معاملے میں پیش آتی ہے۔ اگر آپ لیاقت اور اہلیت کے ساتھ زندگی کے میدان میں داخل ہوئے ہوں تو آپ اپنی واقعی حیثیت سے بھی زیادہ حق اپنے لیے وصول کرسکتے ہیں۔’’وقت‘‘ گزرنے کے بعد بھی ایک اجنبی کالج میں آپ کا داخلہ ہوسکتاہے۔ لیکن اگر لیاقت اور اہلیت کے بغیر آپ نے زندگی کے میدان میں قدم رکھا ہے تو آپ کو اپنا واقعی حق بھی نہیں مل سکتا۔
گیس نیچے نہیں سماتی تو اوپر اٹھ کر وہ اپنے لئے جگہ حاصل کرتی ہے۔ پانی کو اونچائی آگے بڑھنے نہیں دیتی تو وہ نشیب کی طرف سے اپنا راستہ بنا لیتا ہے۔ درخت سطح کے اوپر قائم نہیں ہوسکتا تو وہ زمین پھاڑکر اس سے اپنے لیے زندگی کا حق وصول کرلیتا ہے۔ یہ طریقہ جو غیر انسانی دنیا میں خدا نے اپنے براہِ راست انتظام کے تحت قائم کررکھا ہے، وہی طریقہ انسان کو بھی اپنے حالات کے اعتبار سے اختیار کرنا ہے۔
ہر آدمی جو دنیا میں اپنے آپ کو کامیاب دیکھنا چاہتا ہو، اس کو سب سے پہلے اپنے اندر کامیابی کااستحقاق پیدا کرنا چاہیے۔ اس کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو جانے اور پھر اپنے حالات کو سمجھے۔ وہ اپنی قوتوں کو صحیح ڈھنگ سے منظم کرے۔ جب وہ ماحول کے اندر داخل ہو تو اس طرح داخل ہو کہ اس کے مقابلے میں اپنی اہلیت ثابت کرنے کے لیے وہ اپنے آپ کو پور ی طرح تیار کرچکا ہو۔ اس نے حالات سے اپنی اہمیت منوانے کے لیے ضروری سامان کرلیا ہو۔ اگر یہ سب ہو جائے تو اس کے بعد آپ کے عمل کا جو دوسرا لازمی نتیجہ سامنے آئے گا، وہ وہی ہوگا جس کا نام ہماری زبان میں کامیابی ہے۔ (الجمعیۃ ویکلی، دہلی 24نومبر 1967)۔
ایک واقعہ
مسٹر عبد المحیط خاں نے 28 جون 1995 کی ملاقات میںاپنی سروس کے زمانے کے کئی سبق آموز تجربات بتائے۔ ان میں سے ایک تجربہ یہاں درج کیا جاتا ہے۔
مسٹر اے ایم خان نے 1955 میں بنارس ہندو یونی ورسٹی سے الکٹریکل انجینئرنگ میں بی ای (B.E.) کی ڈگری لی۔ 1963 میں چندولی (ضلع بنارس، یوپی) کے پرائیویٹ پالی ٹیکنیک میں ایک جگہ خالی ہوئی۔ یہ سینئر لکچرر کی جگہ تھی۔ اسی کے ساتھ کامیاب امیدوار کو الیکٹریکل انجینئرنگ ڈپارٹمنٹ کے ہیڈ (head) کا عہدہ بھی سنبھالنا تھا۔
اس کا انٹرویو بنارس کے کمشنر جے بی ٹنڈن کی سرکاری رہائش گاہ پر تھا۔ کمشنر صاحب چندولی پالی ٹیکنیک میں بحیثیت عہدہ اس کی مینیجنگ کمیٹی کے صدر بھی ہوتے تھے۔ چناںچہ وہ بھی انٹرویو میں شریک تھے۔ انٹرویوبورڈ کے ایک پروفیسر رام سَرن تھے۔ دوسرے رکن پروفیسر گیرولا تھے۔ پروفیسر گیرولا بنارس ہندو یونیورسٹی میں مسٹر خان کے استاد رہ چکے تھے۔
پروفیسر رام سرن نے مسٹر خان سے سوال کرتے ہوئے پوچھا کہ— کیا آپ جانتے ہیں کہ انسٹرومنٹ ٹرانسفارمر کیا ہوتا ہے:
Mr. Khan, do you know what is instrument transformer?
مسٹر خان نے ابھی سوال کا جواب نہیں دیا تھا کہ پروفیسر گیرولا نے کمشنر ٹنڈن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اِس جاب کے لیے سب سے بہتر امیدوار ہیں۔ ان کے لیے انٹرویو دینے کا کوئی سوال نہیں:
He is the best candidate for the job. There is no question for interview.
اس کے بعد پروفیسر گیرولا نے کہا کہ — مسٹر خان، آپ جاسکتے ہیں:
Mr. Khan, you can go.
پروفیسر سرن جنھوں نے سوال کیا تھا، وہ خاموش رہے۔ مسٹر خان اپنے کاغذات لے کر کمرہ سے باہر آگئے۔ ایک ہفتہ کے بعد ان کو حسب قاعدہ اپائنٹمنٹ لیٹر مل گیا۔ وہ چندولی پالی ٹیکنیک میں سینئر لکچرر مع ہیڈ آف دی ڈپارٹمنٹ الکٹریکل انجینئرنگ مقرر ہوگئے۔ اس کے بعد ان کی ترقی ہوتی رہی، یہاں تک کہ وہ جوائنٹ ڈائرکٹر (ٹکنکل ایجوکیشنل) کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔
آج کل اکثر نوجوان یہ کہتے ہوئے ملیں گے کہ روزگار نہیں، مگر زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ قابلِ روزگار افراد نہیں۔مسٹر اے ایم خان کے ساتھ مذکورہ واقعہ اِسی لیے پیش آیا کہ انھوں نے محنت کے ساتھ تعلیم حاصل کی۔ وہ ہمیشہ اچھے نمبروں سے پاس ہوئے، تعلیم کے دوران ان کا کردار نہایت عمدہ رہا۔ پروفیسرگیرولا اور دوسرے متعلق لوگوں کے درمیان ان کی تصویر نہایت عمدہ بنی۔ اِسی کی وہ قیمت تھی جو مذکورہ شان دار واقعہ کی صورت میں انھیں ملی۔
حقیقت یہ ہے کہ ہر ادارہ اور ہر دفتر اچھے کارکن کو چاہتا ہے، کیوں کہ اس کے بغیر اس کا کام درست طورپر نہیں چل سکتا۔ کوئی بھی آدمی اپنا دشمن نہیں، اِس لیے کوئی بھی آدمی اچھے کارکن کو نظر انداز کرنے والا نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اچھا اور قابلِ اعتماد کارکن دوسروں کی ضرورت ہے۔ آپ دوسروں کی ضرورت بن جائیے۔ اور پھر آپ کے لیے روزگار حاصل کرنا کچھ بھی مشکل نہ ہوگا۔
اِس دنیا کا نظام دو طرفہ لین دین پر چل رہا ہے۔ یہاں شکایت اور احتجاج اور مطالبہ کی کوئی قیمت نہیں۔ اِس دنیا کا سادہ اصول یہ ہے کہ — جتنا دینا اتنا پانا۔ اگر آپ روزگار حاصل کرنا چاہتے ہیں، تو اپنے آپ کودوسروں کے لیے مفید بنا ئیے۔ اپنے اندر وہ مہارت پیدا کیجئے جس کی دوسروں کو ضرورت ہے، اور پھر آپ کو کسی سے کوئی شکایت نہ ہوگی۔ اِس کے بعد آپ دیکھیں گے کہ آپ کو روزگار تلاش کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس کے بعد روزگار خود آپ کو تلاش کرے گا، حتی کہ یہ حال ہوجائے گا کہ آپ آگے ہوں گے اور روزگار آپ کے پیچھے۔
جب بھی آپ دنیا میں کوئی جگہ چاہیں اور دنیا والے آپ کو وہ جگہ دینے پر تیا ر نہ ہوں تو دوسروں کی شکایت نہ کیجئے بلکہ یہ یقین کرلیجئے کہ آپ کے اندر کوئی کمی ہے جس کی بنا پر آپ دوسروں کے لیے قابلِ قبول نہ ہوسکے، اور پھر اس کمی کو دور کرنے میں لگ جائیے۔ اِس کے بعد آپ کو دوسروں سے کوئی شکایت نہ ہوگی۔
برادرم عبد المحیط خاں کے بارے میں اُن کی زندگی میں، میں نے کئی تحریریں شائع کی تھیں۔ اِن تحریروں میں ان کی زندگی کے وہ پہلو شامل ہوتے تھے جن میں عام لوگوں کے لیے سبق (lesson) ہے۔ انھیں تحریروں میں سے ایک تحریر وہ ہے جو انٹرویو کے انداز میں دہلی کے اخبار ’’الجمعیۃ ویکلی‘‘ کے شمارہ 15 ستمبر 1967میں چھپی تھی۔ یہ انٹرویو پورا کا پورا ایک سبق آموز انٹرویو تھا۔ یہ انٹرویو اخبار میں حسب ذیل عنوان کے تحت چھپا تھا:
ایسی مثالیں بھی ہیں
اِس مطبوعہ انٹرویو کو کسی تبدیلی کے بغیر یہاں نقل کیا جاتاہے:
’’میرا رکشا اب شہر کے باہر ایک صاف ستھری سڑک پر چل رہا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک انتہائی وسیع میدان میں نئی تعمیر شدہ عمارتوں کا ایک سلسلہ نظرآیا، جس کے سامنے ایک بورڈ پر لکھا ہوا تھا— ’’گورنمنٹ ٹکنکل انسٹی ٹیوٹ‘‘ اِس کا مطلب یہ تھا کہ میںاپنی منزلِ مقصودپر پہنچ گیا ہوں۔ ’’پرنسپل صاحب کا بنگلہ کون سا ہے‘‘۔ میں نے قریب کھڑے ہوئے کچھ طلبا سے سوال کیا۔ ’’وہ سامنے جو عمارت ہے، وہی پرنسپل صاحب کا بنگلہ ہے‘‘۔ بیک وقت کئی لڑکے بول پڑے۔اب میرا رکشا ایک خوب صورت مکا ن کے سامنے کھڑا تھا جس کا حلیہ بتاتا تھا کہ وہ جلد ہی بن کر تیار ہوا ہے۔ سامنے پلاسٹک کی کالی پلیٹ پر سفید حرفوں میں لکھا ہوا تھا:
A. M. Khan, Principal
اب مجھے پورا طمینان ہوگیا کہ یہی اس شخص کی رہائش گاہ ہے جس سے ملنے کے لیے میں اس وقت یہاں آیا ہوں۔ میں فوراً رکشے سے اتر گیا۔
میں نے کال بیل (call bell) کا بٹن دبایا اور جواب کے انتظار میں مکان کے باہر ٹہلنے لگا۔ سرکاری طورپر تعمیر شدہ رہائش گاہ ’’کلاس ون آفیسر‘‘ کے شایانِ شان تھی۔ مگر میں نے دیکھا کہ اس کے رکھ رکھاؤ کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ مکان کے چاروں طرف وسیع زمین سوکھی پڑی تھی۔ گملوں کی قطار اور السیشین (Alsatian) کا ہیبت ناک چہرہ بھی اس کی رونق بڑھانے کے لیے موجود نہیں تھا۔ موٹر گیرج تو بناہوا تھا، مگر وہ خالی تھا۔ چپراسیوں کی فوج بھی کہیں دکھائی نہیں دیتی تھی۔
تھوڑی دیر کے بعد ایک لڑکے نے دروازہ کھولا۔ اب میں ملاقات کے کمرہ میں تھا۔ یہ کمرہ بھی بس سادگی کی تصویر تھا۔ نہ صوفہ سٹ، نہ بیش قیمت قالین، نہ آرائش کے سازوسامان۔ میرا پہلا تاثر یہ ہوا کہ مسٹر خان ’’آمدنی‘‘ کرنے کے بہترین مقام پر ہوتے ہوئے بھی صرف سرکاری تنخواہ پر قناعت کرتے ہیں۔ میں جانتا تھا کہ انجینئرنگ کے ادارہ کا ایک پرنسپل اپنی تنخواہ کے علاوہ، بہت بڑی کمائی کرسکتا ہے۔ اگر مسٹر خان اس سنہرے موقع سے فائدہ اٹھاتے تو گھر کے اندر اور باہر کا یہ نقشہ نہ ہوتا۔
میں مسٹر خان سے پہلی بار اس وقت متاثر ہوا جب وہ ہمارے یہاں پالی ٹیکنیک میں لکچرر کی حیثیت سے کام کررہے تھے۔ ان کا خاص مضمون میتھمیٹکس اور الکٹریکل انجینیئرنگ تھا۔اپنے مضمون سے انھیں اس طرح دل چسپی تھی جیسے کسی نوجوان کو فلم اور ناول سے دلچسپی ہوتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ وہ اپنے مضمون پر بے حد تیار تھے۔ اور اس طرح پڑھاتے تھے کہ ان کے ایک شاگرد کے الفاظ میں ’’بالکل گھول کر پلا دیتے تھے‘‘۔پالی ٹیکنیک میں جن درجات کو انھوں نے پڑھایا تھا، ان کا نتیجہ سو فی صد کامیاب رہا۔ میں انھیں خیالات میں غرق تھا کہ اتنے میں پیچھے کا پردا اٹھا او رمسٹر خان کمرہ میں داخل ہوئے۔ ایک انتہائی شریف انسان، ہنس مکھ چہرہ اور پُروقار شخصیت کے ساتھ میرے سامنے کھڑا تھا۔
’’مسٹر خان‘‘ ابتدائی گفتگو کے بعد میں نے کہا ’’میں اِس وقت آپ کے پاس اس لیے آیاہوں کہ آپ اپنی زندگی کے کچھ تجربات مجھے بتائیں۔ خاص طورپر وہ تجربات جو آپ کے پیشہ (profession)سے متعلق ہیں‘‘۔
’’میں کیا اور میرے تجربات کیا‘‘ مسٹر خان نے سادگی کے ساتھ جواب دیا۔
’’تجربات تو ہر شخص کے ہوتے ہیں اور آپ کے تجربات بھی یقینا ہوں گے‘‘۔
’’ہاں، اس لحاظ سے میں بھی کچھ تجربات کا نام لے سکتا ہوں‘‘۔
ٹھیک ہے، آپ جس حیثیت سے بھی بتائیں، مجھے تو آپ کے تجربات معلوم کرنے ہیں۔ خاص طور پر وہ تجربات جو آپ کی ملازمت کی زندگی سے متعلق ہیں۔‘‘
’’اس سے آپ کی کیا مراد ہے، یعنی آپ کس قسم کے تجربات مجھ سے سننا چاہتے ہیں‘‘۔
’’آپ مسلمان ہوتے ہوئے ایک اچھی سرکاری ملازمت میں ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے۔ کیا ہندستان میں مسلمانوں کے لیے اس کا موقع ہے کہ وہ اعلیٰ سرکاری ملازمتوں میں پہنچ سکیں اور پہنچنے کے بعد عزت کے ساتھ رہیں‘‘۔میں نے سوال کو متعین کرتے ہوئے کہا۔یہ سنتے ہی مسٹر خان کا موڈ بدل گیا۔ ایسا محسوس ہوا جیسے کسی نے ان کی نازک رگ کو چھیڑ دیا ہے۔ ’’یقینا‘‘ انھوں نے کہا۔ ’’میرے نزدیک یہ دونوں باتیں ممکن ہیں۔ اگر کوئی چیز ناممکن ہے تو وہ خود ہمارے اندر موجود ہے‘‘۔
’’براہِ کرم، تفصیل سے بتائیے کہ آپ کا کیا مطلب ہے‘‘۔میں نے کہا۔
’’آپ کو معلوم ہے کہ میری انجینئرنگ کی تعلیم ہندو یونی ورسٹی میں ہوئی ہے۔‘‘ انھوںنے کہنا شروع کیا۔ ’’اس وقت سے لے کر اب تک میرا سابقہ ہمیشہ ہندؤوں سے رہا۔ حالاں کہ میں نے کبھی مصالحت یا خوشامد پسندی کے نظریہ کے تحت کوئی بات نہیں کی، اور نہ میں نے کبھی اپنی اسلامیت کو چھپایا۔ مگر خدا کا شکر ہے کہ مجھے کبھی کسی سے شکایت نہیں ہوئی۔ میں نے 1955 ء میں بی ایس سی (انجینئرنگ) پاس کیا۔ اگرچہ میرا سکنڈ کلاس آیا تھا، مگر جب میںنے اپنے ہندو اساتذہ سے تصدیق (testimonial) کے لیے کہا تو انھوں نے نہایت فراخ دلی کے ساتھ اپنی تحریریں مجھے عطا کیں۔ مثلاً الیکٹریکل کمیونی کیشن کے پروفیسر نے اپنی تصدیق میں میرا تعارف کراتے ہوئے لکھا:
I am confident that Mr. A. M. Khan will prove his merit in any branch of his profession.
(مجھے پورا اعتماد ہے کہ مسٹر خان اپنے پیشہ کے کسی بھی کام میں اپنی اہلیت ثابت کریں گے)
سول انجینئرنگ کے ہندو ریڈر نے یہ بتاتے ہوئے کہ میں اپنے موجودہ مطالعہ کی بنیاد پر جونیر ڈگری یا ڈپلوما کلاسز کو آسانی سے لے سکتا ہوں، میرے بارے میں لکھا:
...and after some experience, any classes without limitation.
(اور کچھ تجربات کے بعد مسٹر خان بلا قید کوئی بھی کلاس لے سکتے ہیں)
’’یہ الفاظ تو نہ صرف یہ کہ بے تعصبی کا ثبوت ہیں، بلکہ وہ اپنی حد سے بھی کچھ آگے بڑھے ہوئے ہیں‘‘۔ میں نے اپنا تاثر ظاہر کرتے ہوئے کہا۔ ’’واقعی اگر آدمی لیاقت کا ثبوت دے تو کوئی وجہ نہیں کہ دنیا اسے تسلیم نہ کرے‘‘۔ ’’جی ہاں‘‘ مسٹر خان نے کہا۔ ’’مجھے لیاقت کادعویٰ تو نہیں ہے، مگر یہ ضرور ہے کہ میں اپنا کام محنت اور دیانت داری سے کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اب تک میں ملازمت کے تحت تین کالجوں میں رہا ہوں۔ اور تینوں جگہ کا میرا تجربہ یہی ہے کہ اگر آدمی اپنا کام ٹھیک طریقہ سے کرے تو اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ پیش نہیں آسکتی‘‘۔ کیا براہِ کرم، آپ اپنے کچھ ایسے تجربات بتائیں گے جن سے آپ کے اِس خیال کی واقعاتی تائید ہوتی ہو‘‘ میں نے کہا۔ ’’ضرور‘‘ مسٹر خان نے کہنا شروع کیا۔
’’سب سے پہلے جس ٹکنکل انسٹی ٹیوٹ میں میرا تقرر ہوا تھا، اس کا قصہ سنئے۔ وہاں ابتداء ً میں ہیڈ ماسٹر کی حیثیت سے کام کررہا تھا۔ ایک ہندو ٹیچر کو معلوم نہیں مجھ سے کیا ضد ہوگئی کہ وہ میرے خلاف ادھر اُدھر کی باتیں کرنے لگے۔ ایک روز تنخواہ تقسیم کرنے کا دن تھا۔ وہ میرے آفس آئے اور کچھ بدتمیزی کے انداز میں باتیں کیں۔ مجھے غصہ آگیا اور میں نے ان کو آفس سے نکلوا دیا۔ اب وہ مجھ سے اوربھی خفا ہوگئے، اور میرے خلاف ایک کیس تیار کیا جس میں مجھ پر طرح طرح کے فرضی الزامات قائم کئے اور اس کو لے کر ڈائرکٹریٹ میں پہنچے۔ پہلے انھوں نے آفس سپرنٹنڈنٹ سے ملاقات کی، مگر جب انھوں نے کچھ توجہ نہ دی تو وہ ڈائرکٹر سے ان کے دفتر میں ملے۔ جب انھوں نے ڈائرکٹر سے کہا کہ وہ میرے خلاف شکایت لے کر آئے ہیں تو ڈائرکٹر بہت خفا ہوئے۔ انھوں نے کہا ’’ہم مسٹر خان کے خلاف کوئی شکایت سننا نہیں چاہتے‘‘۔ اور یہ کہہ کر ان کو آفس سے باہر نکلوا دیا۔
’’اور آپ جانتے ہیںیہ ڈائرکٹر کون تھا‘‘۔ مسٹر خان نے مسکراتے ہوئے کہا۔ اور پھر خود ہی جواب دیا ’’وہ کوئی مسلمان نہیں، بلکہ ہندو تھا‘‘۔
’’میں سمجھتا ہوںکہ ایسا اس لیے ہوا کہ ڈائرکٹر کو معلوم ہوگا کہ آپ کسی قسم کی کوئی گڑبڑ نہیں کرتے اور اپنا کام محنت سے انجام دیتے ہیں‘‘میں نے اضافہ کرتے ہوئے کہا۔
’’پھر اسی سے ملتا جلتا قصہ ایک چپراسی کے ساتھ پیش آیا‘‘۔ ہمارے کالج میں بوائلر (boiler) کو نصب کرنے کے سلسلے میں کچھ تعمیرات کی ضرورت تھی۔ میں نے سوچا کہ چپراسیوں کی فوج بے کار پڑی رہتی ہے، ان کو مستریوں کے ساتھ کام پر لگا دوں۔ اِس طرح کام بھی ہوجائے گا اور کالج کا فائدہ بھی ہوگا۔چپراسیوں میں ایک شخص انسٹرکٹر (instructor)کے گریڈ کا تھا۔ اس سے میں نے کہا تو وہ بولا ’’میرا یہ کام نہیں ہے‘‘ مجھے اس کے جواب پر غصہ آیا اور میں نے اس کو معطل (suspend) کردیا، حالاں کہ قانونی طور پر مجھے معطلی کا اختیار نہیں تھا‘‘۔
’’اب اِس ہندو چپراسی نے میرے خلاف زبردست شکایت نامہ تیار کیا اور اس کو ڈائرکٹر کے نام روانہ کیا۔ وہاں سے میرے نام چٹھی آئی کہ ڈائرکٹریٹ میں ایسی ایسی شکایت پہنچی ہے اور یہ کہ میں اس کی وجہ بیان کروں۔ میں نے صحیح صحیح بات لکھ دی۔ اور لکھا کہ میں نے جو کچھ کیا، کالج کے مفاد میں کیا۔ اس کے بعد ڈائرکٹر کا فیصلہ آیا جس میں چپراسی کو اس سے بھی زیادہ سخت سزا دی گئی جو میں نے تجویز کی تھی۔ معطلی میں نصف تنخواہ ملتی ہے۔ ڈائرکٹر نے لکھا کہ اس کو تین مہینے کی بلا تنخواہ جبری رخصت دی جاتی ہے۔ نیز اس کو بد عملی (misconduct) کا مجرم قرار دیا اور لکھا کہ اس کا اندراج اس کی سروس بک میں کیا جائے‘‘۔
’’مگر حکم کے خلافِ ضابطہ ہونے کا ڈائرکٹر نے کوئی نوٹس نہیں لیا‘‘ میںنے کہا۔ ’’ہاں، اس نے فیصلہ کے آخر میں لکھا کہ ہیڈ ماسٹر کایہ فیصلہ اس کے اختیارات سے باہر تھا، اس لیے آئندہ احتیاط کی جائے‘‘۔
’’کیا آپ کا سابقہ کبھی کسی نیتا سے بھی پیش آیا ہے‘‘ میں نے ایک نیا سوا ل کیا۔
’’ہاں، ایسا بھی ہوا‘‘ مسٹر خان نے کہنا شروع کیا ’’ایک بار ایک خراد مشین (Lathe)کی خریداری کے سلسلے میں ایک دکان دار سات سو روپیہ غلط طورپر وصول کرنا چاہتا تھا۔ میں نے اس کو موقع نہیں دیا۔ اس کے علاوہ کالج کے اسٹاف میں بھی کئی لوگ اسی طرح کی وجوہ کی بنا پر اندر اندر مجھ سے برہم تھے۔ ان لوگوں نے مل کر ایک ایم ایل اے کے ذریعے سے اسمبلی میں میرے خلاف شکایت پہنچا دی۔ وہاں سے ڈائرکٹریٹ میں سوال نامہ آیا جو میرے پاس بھیجا گیا۔ اس میں مجھ پر مختلف قسم کے الزمات تھے، مثلاً—آپ مسلم گُٹ کے بڑے پجاری ہیں۔آپ گھس کھاتے ہیں۔ آپ اپنے کالج میں چوروں کو جگہ دئے ہوئے ہیں، وغیرہ۔
اسی طرح نمبر وار چھ سوالات تھے۔ میںنے ان سوالات کا الگ الگ کوئی جواب نہیں دیا۔ میں نے لکھا کہ یہ سب بالکل بے حقیقت باتیں ہیں اور اس طرح کی باتوں کے بارے میں میں کوئی صفائی دینا نہیں چاہتا۔ البتہ ڈپارٹمنٹ خود جو اقدام چاہے کرے۔ آخر میں میں نے لکھا:
If the department feels the least doubt about me, I may be relieved from my duties.
(اگر ڈپارٹمنٹ کو میرے اوپر ذرا بھی شبہہ ہو تو مجھے میری ملازمت سے الگ کر دیا جائے)
’’اس کے جواب میں پھر میرے پاس کوئی کاغذ نہیں آیا۔ البتہ مجھے معلوم ہوا کہ ایم ایل اے صاحب نے ایک اور لمبی چوڑی فردِ جرم میرے خلاف تیار کرکے روانہ کی جس کو ڈائرکٹر نے اپنے دفتر میں روک لیا اور دوبارہ اس کو میرے پاس نہیں بھیجا۔‘‘
’’آج کل لڑکوں کی طرف سے کالج کے لوگوں کو بڑی شکایت رہتی ہے، اس سلسلہ میں آپ کے تجربات کیا ہیں‘‘ میں نے پوچھا۔’’یہاں بھی وہی بات ہے‘‘ مسٹر خان بولے ’’اگر آپ اپنا کام اچھی طرح سے کریں تو آپ کو کبھی شکایت نہیں ہوگی‘‘۔
’’اس سلسلہ میں آپ اپنا کوئی متعین تجربہ بتائیے‘‘ میں نے کہا۔
’’بہت سے تجربات ہیں‘‘۔ مسٹر خان بولے ’’میں جب دوارکا پالی ٹیکنیک میں سینئر لکچرر کی حیثیت سے کام کررہا تھا، ایک بار ایسا ہوا کہ ہمارے کالج کا ایک لڑکا اپنا کپڑا لینے کے لیے شہر کی واشنگ کمپنی میں گیا۔ وہاں کسی بات پر دکان دار سے جھگڑا ہوا اور دکان دارنے لڑکے کو مار دیا۔ کالج میں جب اس کی خبر پہنچی تو تمام لڑکے بگڑ گئے اور لاٹھی اور بلم لے کر بہت بڑی تعداد میں بازار کی طرف مارچ کرنا شروع کردیا۔ پرنسپل صاحب نے مجھ کو بلوایا، کیوں کہ پرنسپل صاحب کو معلوم تھا کہ لڑکے میرا کچھ لحاظ کرتے ہیں۔ میںوہاں پہنچا تو لڑکے نعرہ لگاتے ہوئے بازار کی طرف بڑھ رہے تھے۔میں فوراً لاٹھیوں اور بلموں سے مسلح اِس مجمع میں گھس گیا، اور کہا کہ تم لوگ آگے نہیں جاسکتے۔ کچھ دیر کی کوشش کے بعد بالآخر لڑکوں نے کہا اچھا، اگر آپ کہہ رہے ہیں تو ہم رک جاتے ہیں، ورنہ آج اِس دکان دار کی خیریت نہیں تھی‘‘۔
’’یہ پرنسپل کس قوم کا آدمی تھا‘‘ میں نے پوچھا ’’ہندو تھا‘‘ مسٹر خان نے کہا ’’اور دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ہندوپرنسپل کی بات لڑکوں نے نہیں مانی اور وہ مسلمان لکچرر کی بات مان گئے‘‘۔ ’’جی ہاں۔ یہ بہت عجیب واقعہ ہے‘‘۔ میںنے کہا۔ ’’اور آپ تو اسی پالی ٹیکنیک کو چھوڑ کر یہاں آئے ہیں۔ پھر آتے وقت لڑکوں کا رد عمل کیا رہا‘‘۔
’’یہ اور بھی زیادہ عجیب واقعہ ہے۔ اور سچ پوچھئے تو مجھے امید نہیں تھی کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے‘‘۔
’’براہِ کرم، اس کی کچھ تفصیل بتائیے‘‘۔
’’وہ بھی سن لیجئے۔ سب سے پہلے تو یہ ہوا کہ روانگی سے دو دن پہلے لڑکوں کی ایک جماعت میرے پاس آئی اور اس نے اصرار کیا کہ کل آپ دن بھر ہم کو پڑھائیے اور کورس پورا کردیجئے‘‘۔
’’شاید ان کو احساس تھا کہ آپ کے بعد کوئی ایسا پڑھانے والا ان کو نہیں ملے گا‘‘۔میں نے کہا۔
’’ہاں، بہر حال ان کو میرے بارے میں اس قسم کی خوش گمانی تھی‘‘۔ مسٹر خان نے کچھ رکتے ہوئے کہا ’’چناں چہ حال میں وہاں کے ایک لکچرر مجھ سے ملے تو انھوںنے بتایا کہ میرے آنے کے بعد جس ہندو لکچرر کو میرا کلاس دیاگیا تھا، کچھ دن کے بعد لڑکوں کا کہنا تھا کہ خاں صاحب جتنا پڑھا گئے تھے، وہی ہم جانتے ہیں، اس کے بعد کا کچھ ہماری سمجھ میں نہیں آیا‘‘۔
پھر روانگی کے دن لڑکوں نے مجھ کو جو الوداعی پارٹی دی، لوگ کہتے ہیں کہ وہ کالج کی پوری تاریخ میں نرالی پارٹی تھی۔
’’اس کی بھی تفصیل بتائیے‘‘ میں نے کہا ’’پارٹی کے بعد‘‘ مسٹر خان نے ہچکچاہٹ کے انداز میں کہنا شروع کیا ’’ایک ایک لڑکے نے مجھ کو ہار پہنائے۔ یہ ہار مقدار میں اتنے زیادہ ہوگئے کہ بلامبالغہ ایک بیل گاڑی ان سے بھری جاسکتی تھی۔ پھر یہ طلبہ چوںکہ تقریباً سب کے سب ہندو تھے، اِس لیے اپنے اصول کے مطابق، ہر ایک نے ’’چرن اسپرش‘‘ بھی کیا، یعنی ہر لڑکا ہار پہنانے کے بعد دونوں ہاتھ جوڑ کر میرے پاؤں چھوتا تھا‘‘۔
’’اس موقع پر آپ کو سپاس نامہ بھی تو دیا گیا ہوگا‘‘۔ میں نے کہا۔
’’جی ہاں‘‘ مسٹر خان نے کہا۔ اس کے بعد انھوںنے بڑے سائز پر فریم کیا ہوا ایک ’’ابھی نندن پتر‘‘ (سپاس نامہ) اندر سے منگوایا۔ میںنے دیکھا تو اس میں مسٹر خان کو نہایت عزت اور محبت کے ساتھ خطاب کیا گیا تھا اور ان کو ’’آدرش گرو‘‘، ’’گیان نِدھی‘‘، ’’سوم تیاگی مورتی‘‘ ، ’’گیان ساگر‘‘ وغیر ہ الفاظ سے یاد کیا گیا تھا۔ اِسی کے ساتھ لڑکوں نے کئی اور قیمتی سامان اظہارِ خلوص کے طورپر مسٹر خان کو دیے۔
’’اس کے بعد سیکڑوں کی تعداد میں تمام لڑکے میرے ساتھ اِس طرح اسٹیشن آئے کہ وہ راستہ بھر نعرہ لگا رہے تھے‘‘۔ ’’کیا نعرہ تھا‘‘ میں نے پوچھا۔ ’’وہی جو عام طور پر ہوتا ہے‘‘۔
’’آخر بتائیے کہ وہ نعرے کیا تھے‘‘۔ میں نے اصرار کرتے ہوئے کہا۔
’’یہی کہ — خان صاحب زندہ باد، گروجی زندہ باد، خان صاحب امر رہیں،وغیرہ‘‘۔ پھرجب لڑکوں نے آخری طورپر مجھے رخصت کیا تو تمام لڑکے زار وقطار رو رہے ـتھے‘‘۔
’’یہ واقعی نہایت عجیب واقعہ ہے‘‘میں نے کہا۔اور جب یہ خیال کیا جائے کہ یہ واقعہ ابھی 1966 کے آخر میں پیش آیا ہے تو اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ ایک مسلمان اگر واقعی اپنا کام ٹھیک طریقہ سے انجام دے تو سارے تعصب کے باوجود وہ ہندؤوں کے اندر انتہائی عزت کا مقام حاصل کرسکتا ہے اور اگر ساری قوم ایسی ہوجائے تو تعصب کی دیوار سرے سے ڈھ جائے‘‘۔
’’جی ہاں‘‘ مسٹر خان نے کہا ’’میں تو تعصب وغیرہ کی بات کو بالکل نہیں مانتا۔اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بطور واقعہ مجھے تعصب کے وجود سے انکار ہے۔ بلا شبہہ تعصب ہے۔ مگر ہر کام میں کچھ نہ کچھ مشکلیں ہوتی ہیں اور تعصب کی حیثیت بھی میرے نزدیک بس زندگی کے ایک ’’چیلنج‘‘ کی ہے۔ جس طرح دوسرے چیلنجوں کو محنت اور دانش مندی سے عبور کیاجاتا ہے، اِسی طرح اِس چیلنج کو بھی یقینی طورپر عبور کیا جاسکتا ہے۔ زندگی میں دیکھنے کی چیز یہ نہیں ہوتی کہ کوئی مشکل ہے یا نہیں، بلکہ دیکھنے کی چیز صرف یہ ہوتی ہے کہ مشکل کا کوئی حل موجود ہے یا نہیں۔ اگر حل موجود ہے تو پھر کوئی مشکل مشکل نہیں‘‘۔
میں مسٹر خان کی اِن باتوں کو حیرت کے ساتھ سن رہا تھا۔ کیوں کہ میرا خیال تھا کہ وہ صرف انجینئر ہیں، مگر معلوم ہوا کہ وہ انجینئر ہی نہیں، بلکہ مفکر بھی ہیں۔ ان کے پاس ہندستان کے مسلمانوں کے لیے ایک عظیم پیغام ہے۔ ایک ایسا پیغام جو بہت سے مفکروں اور لیڈروں کے پیغامات سے زیادہ قیمت رکھتا ہے۔
’’اب تعصب کی بات پر ایک قصہ اور سُن لیجئے‘‘ مسٹر خان کچھ دیر خاموش رہ کر بولے۔
’’جس پالی ٹیکنیک کو چھوڑ کر میں یہاں آیا ہوں، اس کے پرنسپل ہندو تھے اور نہایت متعصب ہندو۔ وہاں کام کے دوران مجھے دو جگہیں ملیں۔ ایک، آئی ٹی آئی (I.T.I) میں ٹکنکل افسر کی جگہ اور دوسرے یہاں پرنسپل کی جگہ، مگروہ کسی طرح مجھے relieve کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے۔ بڑی لمبی کش مکش اور حکومت کے سخت احکام کے بعد انھوں نے مجھے چھوڑا ہے‘‘۔
’’شاید متعصب ہونے کی وجہ سے وہ آپ کو پریشان کرنا چاہتے ہوں گے‘‘ میں درمیان میں بولا۔’’ہاں، عام خیال تو یہی تھا‘‘ مسٹر خان نے کہا۔ ’’مگرمجھے ان کی ایک تحریر ملی جو انھوںنے کمشنر کے نام لکھ کر بھیجی تھی۔ اِس سے اندازہ ہوا کہ معاملہ صرف تعصب کا نہیں تھا‘‘۔
’’وہ کیا تحریر تھی‘‘ میں نے پوچھا۔
’’یہ دو صفحہ کا ایک خط تھا جس میں انھوں نے بتایا تھا کہ کیوں مجھ کو یہاں سے relieve کرنا کالج کے لیے نقصان دہ ہے۔ اس تحریر کا آخری جملہ یہ تھا:
The departure of Mr. A. M. Khan from this institute would cause the education of students to suffer an irreparable loss.
(مسٹر اے ایم خان کا اس ادارے سے جانا لڑکوں کی تعلیم کے لیے ایسے نقصان کا باعث ہوگا جس کی تلافی نہیں کی جاسکتی)
اب ملاقات کا وقت ختم ہوچکا تھا اور مسٹر خان کی نگاہیں اپنی گھڑی کی سوئی پر جم چکی تھیں۔
’’مسٹر اے ایم خان‘‘ میںنے کہا ’’مجھے آپ سے مل کر بے حد خوشی ہوئی۔ مجھے آپ کی زندگی میں مسلمانوں کے لیے ایک عظیم پیغام نظر آتا ہے۔ میں اِس پیغام کو سارے مسلمانوں تک پہنچاؤں گا۔ مجھے یقین ہے کہ مسلمان اگر آپ کے نمونہ کو پکڑ لیں تو ان کے بہت سے مسائل خود بخود ختم ہوجائیں گے‘‘۔ (الجمعیۃ ویکلی، صفحہ 5-6 )
تعلیم کا شوق
برادرم عبد المحیط خاں کو تعلیم کا بہت شوق تھا۔ وہ تعلیم کو بہت زیادہ اہمیت دیتے تھے۔ خود انھوں نے نہایت محنت کے ساتھ تعلیم حاصل کی۔ پہلے انھوں نے ایک گھریلو استاد ماسٹر صدیق صاحب سے گاؤں (بڈھیریا) پر تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد انھوںنے اعظم گڑھ سے ہائی اسکول پاس کیا۔ اِس کے بعد ان کی بقیہ تعلیم ہندو یونی ورسٹی (بنارس) میں ہوئی۔ تعلیم کے زمانے میں شروع سے آخر تک ظہیر الاسلام مرحوم اُن کے ساتھی تھے۔ تعلیم سے فراغت کے بعد ظہیر الاسلام صاحب نے علی گڑھ مسلم یونی ور سٹی میں سروس حاصل کرلی تھی۔ علی گڑھ میں 1988 میں ان کا انتقال ہوا۔
برادرم عبد المحیط خاں تعلیم کے سلسلے میں طلبا کی مدد کرتے رہتے تھے۔ سروس کے زمانے میں وہ طلبا کو الگ سے پڑھایا کرتے تھے۔ رٹائرمنٹ کے بعد انھوںنے طلبا کو میتھمیٹکس پڑھانے کے لیے اپنے گھر پر ایک مستقل سلسلہ شروع کیا تھا۔ اِس سے بہت سے طلبا نے فائدہ اٹھایا۔ اِن طلبا میں زیادہ تعداد ہندو نوجوانوں کی ہوتی تھی۔ تعلیم کے بارے میں وہ نوجوانوں کے ساتھ کس طرح تعاون کرتے تھے، اس کی ایک مثال یہ ہے کہ میرے بھتیجے شکیل احمد خاں انجینئر نے ہائی اسکول کے بعد اپنی تعلیم چھوڑ دی تھی اور اعظم گڑھ میں محمد یونس صاحب کی شرکت میں تیل کی دکان کرلی تھی۔ عبد المحیط خاں کو یہ بات پسند نہیں آئی۔ وہ دکان سے ہٹا کر شکیل احمد خاں کو اپنے ساتھ لے گئے اور بنارس ہندو یونی ورسٹی کے انجینئرنگ کالج میں داخلہ دلوا کر ان کی تعلیم مکمل کرائی۔ شکیل احمد خاں انجینئر تعلیم کے بعد انڈسٹری کے میدان میں آگئے۔ پہلے انھوں نے اپنے والد کے ساتھ الٰہ آباد میں لائٹ اینڈ کمپنی لمیٹڈ قائم کی۔ بعد کو وہ عرب امارات چلے گئے۔ وہاں زیادہ بڑے پیمانے پر وہ شارجہ میں کام کرتے رہے۔ 7 اپریل 2010 کو 70 سال کی عمر میں حیدرآباد (انڈیا) میں ان کا انتقال ہوا۔
جدیدتعلیم (modern education) کا چرچا ہمارے خاندان میں بہت پہلے شروع ہوا تھا۔ میرے چچا زاد بھائی اقبال احمد خاں سہیل (وفات:1955 ) نے بنارس سے ہائی اسکول کیا۔ اس کے بعد وہ مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ گئے۔ وہاں انھوں نے بی اے، ایم اے، ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔ اقبال احمد خاںسہیل علی گڑھ میں ایک نہایت ممتاز طالب علم کی حیثیت رکھتے تھے۔
پروفیسر رشید احمد صدیقی (وفات :1977 ) مولانا اقبال سہیل کے ساتھیوں میں سے تھے۔ مولانا سہیل کی علی گڑھ کی تعلیمی زندگی کے زمانے کا ایک واقعہ وہ اِس طرح بیان کرتے ہیں:
’’1918 یا 1919 کا واقعہ ہے، یونین میں ’’اُمّ الالسِنَۃ عربی‘‘ پر پروفیسر خواجہ کمال الدین مرحوم کی اردو میں تقریر تھی۔ مرحوم نے بڑی قابلیت اور اعتماد کے ساتھ تقریر شروع کی۔ مولانا سہیل کی آنکھوں میں تکلیف تھی۔ سردیوں کا زمانہ تھا۔ مولانا کو احباب اسپتال لائے تھے۔ یونین میں مجمع دیکھا تو کہا: مولانا، تکلیف نہ ہو تو ذرا تقریر سنتے چلیں۔ مولانا نے کہا اچھی بات ہے، لیکن آنکھوں میں تکلیف زیادہ ہے، جلد اٹھ آئیں گے۔ سب لوگ یونین میں آئے۔ مولانا سہیل سر سے پاؤں تک بڑے وزنی لبادہ میں ملفوف تھے۔ سرپر اونی کنٹوپ تھا۔ آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی اور اس پر ایک ہرے رنگ کا چھجا (شیڈ) لگا ہوا تھا۔ خواجہ کمال الدین صاحب نے کم و بیش دو گھنٹے تک تقریر کی۔ حاضرین محوِ حیرت تھے۔ تقریر ختم ہوئی تو پریسڈنٹ نے اعلان کیا کہ مولانا سہیل، فاضل مقرر کا طلبائے کالج کی طرف سے شکریہ ادا کریں گے۔ مولانا کے خلاف ’’سازش‘‘ کامیاب ہوئی۔ دوستوں اور ساتھیوں نے مولانا کو ہاتھوں ہاتھ ڈائس پر پہنچا دیا۔ مولانا کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔ میز کے پاس کھڑے کئے گئے۔ تھوڑی سی ناک، اس سے ذرا بڑی تھوڑی اور ہاتھ کی صرف انگلیاں دکھائی دے رہی تھیں۔ مولانانے بے تکلف تقریر شروع کردی۔ اِس اعتماد سے گویا تمام عمر اِسی مبحث پر تیاری کی تھی۔ جو لوگ یونین کے مجمع سے واقف ہیں، وہ جانتے ہوں گے کہ اچھے مقرر کے بعد کسی اور کی تقریر سننے کے لیے کوئی نہیں ٹھہرتا اور صدر کا شکریہ بھی اِسی بد نظمی کا ایک سلسلہ ہوتا ہے۔ مولانا سہیل نے بھی ’’اُم الالسنہ عربی ‘‘ پر تقریر شروع کی۔ پون گھنٹے تک تقریر کی۔ نئے نئے پہلوؤں سے موضوع پرروشنی ڈالی۔ نئی نئی مثالیں پیش کیں۔ تقریر کو اِس درجہ دل نشیں اور کہیں کہیں اتنا شگفتہ بنا دیا کہ خواجہ کمال الدین نے بے اختیار ہو کر مولانا کو گلے لگا لیا اور فرمایا: ’’تمھارے ایسا جامعِ کمالات آدمی ساتھ کام کرنے والا مل جائے تو میں اسلام کا جھنڈا یورپ کی سب سے بلند چوٹی پر نصب کردوں‘‘۔ (مضامینِ رشید، صفحہ 43)
اقبال احمد خاں سہیل کے ذریعے خاندان کے اور بہت سے لوگوں نے جدید تعلیم حاصل کی۔ میرے بڑے بھائی عبد العزیز خاں کا داخلہ انھوںنے اعظم گڑھ کے ایک اسکول میں کرایا، لیکن عبدالعزیز خاں صاحب اپنی تعلیم آگے تک جاری نہ رکھ سکے۔ وہ جلد ہی انڈسٹری کی لائن میں چلے گئے۔
عبد العزیز خاں صاحب نے عبد المحیط خاں کو یونی ورسٹی کی تعلیم دلائی۔ اِس کے بعد عبد المحیط خاں نے میرے بھتیجے شکیل احمد خاں کو بنارس ہندو یونی ورسٹی سے انجینئرنگ کی تعلیم دلائی۔
بعد کو مجھے یہ خیال ہوا کہ ہمارے خاندان میں افراد کے اعتبارسے تو جدید تعلیم آئی، لیکن اجتماعی اعتبار سے کوئی خاص کام نہ ہوسکا۔ چناں چہ میں نے شکیل احمد خاں سے کہا کہ ہمارے وطن بڈھیریا (اعظم گڑھ) میں ایک انگریزی اسکول کھولا جائے۔ اِس طرح بڈھیریا میں ایک ہائی اسکول قائم ہوا جو کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے۔ اِس اسکول کا آئڈیا میں نے ہی دیا تھا۔ چناں چہ اسکول کے تعارف نامے میں یہ الفاظ درج ہیں:
It was during one of the discussions between Shakil Ahmad Khan and his uncle, Maulana Wahiduddin Khan, that the idea of establishing an educational institution was conceived.
یہ معاملہ ڈسکشن (discussion) کا نہ تھا، بلکہ وہ سجیشن (suggestion) کا معاملہ تھا۔ اصل یہ ہے کہ 2000ء کے آغاز میں میرے بھتیجے شکیل احمد خاں انجینئر جو شارجہ میں کاروبار کرتے تھے، دہلی میں مجھ سے ملے۔ انھوں نے بتایا کہ میرے پاس کچھ رقم ہے، اُس کو میں کسی ملّی کام میں لگانا چاہتا ہوں۔ مسٹر شکیل احمد خاںنے بتایا کہ انھوں نے کچھ مشہور مسلم اداروں کے ذمہ داروں کے سامنے یہ پیش کش کی کہ وہ یہ رقم ان کو دے دیں گے، لیکن شرط یہ ہے کہ ایک مقرر مدت تک ادارہ کا کنٹرول میرے ہاتھ میں ہوگا، مگر کسی نے یہ شرط نہ مانی۔
میں نے شکیل احمد خاں سے کہا کہ اِس طرح آپ اپنا پیسہ صرف ڈمپ (dump) کریںگے۔ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ میں نے کہا کہ آپ یہ کیجئے کہ اس رقم سے بڈھریا میں ایک اچھا انگلش میڈیم اسکول کھولیے۔ شکیل صاحب نے اس تجویز سے اتفاق کیا اور اِس طرح ہمارے خاندان کی مشترک زمین پر یہ اسکول ستمبر 2000ء میں قائم ہوا۔
موت کا زندہ تصور
31 جنوری 2010 کو میرے چھوٹے بھائی انجینئر عبد المحیط خاں (پیدائش: 1932 )کا انتقال ہوگیا۔ انتقال کے وقت وہ فیض آباد میں تھے۔ ان کی عمر77 سال تھی۔میںنے اپنی لمبی عمر میں ہزاروں افراد کو مرتے ہوئے دیکھا ہے یا ان کی موت کی خبر سنی ہے۔ لیکن میرے بھائی کی موت میرے لیے ایک بالکل نیا تجربہ تھا۔ اس نے میرے اندر ایک نیا تصور پیدا کیا۔ اس کو اگر میںکوئی نام دوں تو میں کہوں گا کہ موت کا زندہ تصور (living concept of death) ۔
میںنے غور کیا کہ موت کے بارے میں یہ نیا شعور میرے اندر کیوں پیدا ہوا۔ اصل یہ ہے کہ ہم لوگ 6بھائی بہن تھے۔ چھوٹے بھائی کے انتقال کے بعد مجھے اچانک محسوس ہوا کہ میرے سوا تمام بھائی بہن مرچکے ہیں۔ اِس اعتبار سے، اب میں اکیلا رہ گیا ہوں۔ اِس احساس سے مجھے سخت جھٹکا لگا۔ میں نے سوچا کہ میرے بھائی اور بہن کل تک اِسی دنیا میںتھے جہاں کہ میں ہوں، لیکن اب وہ ایک ایک کرکے مرچکے ہیں، یہاں تک کہ 6بہن بھائیوں میں اب میں اکیلا رہ گیا ہوں۔ وہ لوگ اِس دنیا سے نکل کر ایک اور دنیا میں پہنچ چکے ہیں۔ اب نہ وہ مجھ سے مل سکتے ہیں اور نہ میں اُن سے مل سکتا۔ موت نے مجھ کو اپنے تمام بھائی بہنوں سے ابدی طورپر جدا کردیا۔
موت کیا ہے۔ موت ایک جبری انخلا (compulsory expulsion) کا معاملہ ہے۔ موجودہ زندگی میں ہر آدمی اپنے لیے ایک دنیا بناتا ہے— گھر، جائداد، بزنس، اولاد، تعلقات، شہرت، عوامی حلقہ، عہدہ، سماجی پوزیشن، وغیرہ۔ اِن تمام چیزوں کی بنیاد پر ہر آدمی کی اپنی ایک چھوٹی یا بڑی دنیا ہوتی ہے، جس کے اندر وہ اپنے صبح و شام گزارتا ہے۔ وہ اس کو اپنی دنیا سمجھتا ہے۔ لیکن اچانک موت کا وقت آجاتا ہے اور فرشتے اس کو جبری طورپر موجودہ دنیا سے نکال کر اُس دنیا میں پہنچا دیتے ہیں، جہاں اس کے پاس اپنے ذاتی وجود کے سوا کچھ اور نہیں ہوتا— موت کے واقعے کو صرف وہ شخص جانتا ہے جو اِس حقیقت کا زندہ شعور رکھتا ہو۔
عبد المحیط خاں کی یادداشتیں
عبد المحیط خاں مرحوم رٹائرمنٹ کے بعد زیادہ تر علی گڑھ اور فیض آباد میں رہتے تھے۔ اِس زمانے میں اُن پر زیادہ تر موت کی یاد اور آخرت کی سوچ کا غلبہ ہوتا تھا۔ وہ اپنا زیادہ وقت ’’تذکیر القرآن‘‘ اور دوسری اسلامی کتابیں پڑھنے میں گزارتے تھے۔ مطالعے کے دوران وہ الرسالہ اور میری کتابوں کے منتخب حصے ایک نوٹ بک میں لکھتے رہتے تھے۔ اِس طرح ان کی بہت سی تحریریں متفرق اجزا کی صورت میں جمع ہوگئی ہیں۔ ان کی وفات کے بعد ان کی تحریروں کا یہ مجموعہ ان کی صاحب زادی فہمیدہ خانم نے مجھ کو دیا۔یہاں اِن اقتباسات کے کچھ منتخب حصے نقل کئے جاتے ہیں:
ک معرفت، خدا کی شعوری دریافت کا نام ہے، وہ کسی پُراسرار چیز کانام نہیں۔
ک معرفت اپنی حقیقت کے اعتبار سے، ایک خدائی عطیہ (divine gift) ہے۔ دنیا میں جس انسان کو معرفت کا عطیہ ملا، وہی وہ انسان ہے جو آخرت میں جنت کے عطیہ کا مستحق قرار پائے گا۔ معرفت گویا کہ کسی انسان کے لیے خدا کا دنیوی انعام ہے، اور جنت کسی انسان کے لیے خداکا اُخروی انعام۔
ک معرفت صرف اُس سینے میں جگہ پاتی ہے جو مکمل طورپر منفی احساس سے خالی ہو۔ جس دل کے اندر نفرت اور غصہ اور انتقام موجود ہو، اُس دل میں کبھی معرفت جگہ نہیں پائے گی۔
ک دعا ایک طاقت ہے۔ نازک وقتوں میں دعا مومن کا سب سے بڑا سہارا ہے۔ دعا اس اعتماد کا سرچشمہ ہے کہ اس دنیا میں کوئی کھونا آخری نہیں، بلکہ ہر کھونے میںاز سرِ نو پانے کا راز چھپا ہوا ہے۔
ک شکر سب سے بڑی عبادت ہے۔ شکر جنت کی قیمت ہے۔ شکر کے بغیر ایمان نہیں۔ شکر کے بغیر سچی خدا پرستی نہیں۔ شکر کے بغیر آدمی اُن اعلیٰ کیفیات کا تجربہ نہیں کرسکتا جس کو قرآن میں ربّانیت (3: 79)کہاگیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دین داری کی اصل روح شکر ہے۔ شکر کے بغیر دین داری ایسی ہی ہے جیسے پھل کااوپری چھلکا۔
ک آخرت میں نجات صرف اُن لوگوں کو ملے گی جو خدا کے یہاں اِس حال میں پہنچیں کہ اُن کے پاس دو میں سے کوئی ایک چیز اپنی اعلیٰ صورت میں موجود ہو۔وہ دو چیزیں یہ ہیں— سچا عمل، یا سچی دعا۔ سچا عمل وہ ہے جو خالص رضائِ الٰہی کے لیے کیا جائے۔ اور سچی دعا وہ ہے جو کامل عجز کی سطح پر کی گئی ہو۔
ک جنت کیا ہے، جنت دراصل خداکے پڑوس میں رہنے کا نام ہے (66:11) ۔ موت سے پہلے کی دنیا میں مومن اپنے احساس کے اعتبار سے، خدا کے پڑوس میں جیتا ہے۔ موت کے بعد کی دنیا میں مومن واقعہ کے طورپر خدا کے پڑوس میں زندگی گزارے گا۔
ک جنت ایک حقیقی انعام ہے اور حقیقی انعام کسی کو ایک حقیقی عمل ہی کے ذریعے مل سکتا ہے، اِس سے کم تر درجے کی کوئی چیز جنت کی قیمت نہیں بن سکتی۔
ک جو لوگ اپنی موجودہ زندگی میں جنت کے طالب نہ بن سکیں، جن کا دل جنت کے سوا کسی اور چیز میں لگاہواہو، وہ اللہ کے مطلوب انسان نہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنھوں نے اللہ کی نعمتوں کی قدر نہیں کی۔ ان کا کیس ناقدری کا کیس ہے، نہ کہ قدردانی کا کیس۔
ک آخرت کی جنت اُس کے لیے ہے جو اِس دنیا کی لذتوں سے اپنے آپ کو بے رغبت بنالے، اور آخرت کی جہنم اُس کے لیے ہے جو اِس دنیا کی لذتوں میں گم رہے، یہاں تک کہ وہ اِسی حال میں مرجائے۔
ک جہنم کے دروازے پر لوگوں کی بھیڑ لگی ہوئی ہے، اور جنت کی طرف جانے والا راستہ بالکل سونا پڑا ہوا ہے۔ کیسا عجیب ہے یہ غیر خدائی منظر جو آج خدا کی دنیا میں ہر طرف نظر آتا ہے۔
ک موت زندگی کا خاتمہ نہیں۔ موت ایک نئے دور حیات کا آغاز ہے۔ عقل مند انسان وہ ہے جو آج کے ملے ہوئے مواقع کو کل کے لیے استعمال کرے۔
ک موت کے مقابلے میں ہر ایک کے لیے شکست مقدر ہے۔ کسی کا عہدہ، کسی کی مقبولیت، کسی کی دولت، کسی کا اقتدار، غرض کسی کی کوئی چیز اِس کو ہر گز موت سے بچانے والی نہیں۔
ک کیسا عجیب ہے آج کا وہ موقع جس کو انسان کھورہا ہے، اور کیسی بھیانک ہوگی کل کی وہ محرومی جس سے انسان دوچار ہوگا، اور جس سے اپنے آپ کو بچانا کسی کے لیے ممکن نہ ہوگا۔
ک موت کا مطلب مرنے والے کے لیے یہ ہے کہ وہ عمل کی دنیا سے نکل کر جزا کی دنیا میں چلا گیا۔ وہ اپنے خالق کے سامنے حساب وکتاب کے لیے کھڑا کردیاگیا۔ جہاںتک زندہ رہنے والوں کا معاملہ ہے، موت اُن کے لیے ایک سنگین یاد دہانی (reminder) کی حیثیت رکھتی ہے۔
ک لوگ اپنی سال گرہ(birthday) مناتے ہیں، حالاں کہ ہر سال گرہ صرف اِس بات کا اعلان ہے کہ آدمی کی عمر کا ایک سال اور کم ہوگیا۔ ایسی حالت میں، ہر عورت اور مرد کو چاہیے کہ وہ ہر سال کی تکمیل پر آنے والی موت کو یاد کرے۔ کیوں کہ اگلی سال گرہ کا آنا یقینی نہیں، لیکن موت کا آنا یقینی ہے۔
ک موت ایک ایسا گیٹ ہے جس کے اندر آدمی داخل ہونے کے لئے مجبور ہے۔ اور داخل ہونے کے بعد اس کو خالقِ کائنات کا آخری فیصلہ (final judgement)سننا ہے۔ اِس فیصلے کے خلاف اپیل کے لئے کوئی اور عدالت موجود نہیں۔
ک موت کا فرشتہ کبھی اپائنٹمنٹ (appointment) لے کر نہیں آتا، وہ بتائے بغیر اچانک آدمی کے پاس آجاتا ہے۔ عقل مندانسان وہ ہے جو ہر دن کواپنا آخری دن سمجھے۔
ک جو آدمی دوسروں کی موت کے واقعے میں خود اپنی موت کو دیکھے، وہی زندہ انسان ہے۔زندہ انسان اِس کا انتظار نہیں کرتا کہ خود اُس پر ایک مہلک تجربہ گزرے، اس کے بعد وہ اُس سے سبق لے۔ زندہ انسان وہ ہے جو دوسروں پر گزرنے والے تجربات سے نصیحت حاصل کرے۔
ک مرنے والے مرگئے— یہ سب کو معلوم ہے۔ مگر ایک اور خبر ایسی ہے جو کسی کو معلوم نہیں، وہ یہ کہ مجھے بھی ایک دن مرنا ہے۔ ایک دن میرا بھی وہی انجام ہونے والا ہے جو انجام دوسروں کا ہوچکا ہے۔
ک ہر آدمی اپنی ساری توانائی خرچ کرکے زیادہ سے زیادہ پیسہ کماتا ہے، صرف اِس لیے تاکہ وہ جہنم کا زیادہ مہنگا ٹکٹ خرید سکے— یہ جملہ اکثر نہایت درد کے ساتھ میری زبان سے نکل جاتا ہے۔
ک آدمی اپنے بچوں کے مادّی مستقبل کی تعمیر میں اپنے آپ کو ہلکان کئے رہتاہے، یہاں تک کہ موت کا فرشتہ آجاتاہے اور خود اُس کو ایک ایسے مستقبل کی طرف ہانک دیا جاتا ہے جس کے لیے اس نے کوئی تیاری نہیں کی تھی۔
ک امتحان ہال کے اندر ایک طالب علم جس نفسیات کے ساتھ رہتا ہے، اُسی نفسیات کے ساتھ ہم کو اپنی پوری زندگی میں رہنا ہے۔ ہر ایک کو یہ کوشش کرنا ہے کہ وہ خدا کی طرف سے دیے ہوئے پرچے کو درست طور پر حل کرے، تاکہ امتحان کی مدت پوری ہونے کے بعد جب اُس کا رزلٹ سامنے آئے تو وہ اُس کے لیے کامیابی کی خوش خبری ہو، نہ کہ ناکامی کا اعلان۔
ک آخرت کی جنت صرف اُس انسان کے لیے مقدر ہے جو اللہ کی خاطر دنیا کی جنت سے محروم ہوگیا ہو۔
ک آج لوگوں کے پاس الفاظ ہیں جن کو وہ بے تکان دہرارہے ہیں۔ مگر ایک وقت آنے والا ہے جب کہ ان کے الفاظ چھن چکے ہوں گے۔ وہاں کوئی سننے والا نہ ہوگا جو ان کی باتوں کو سنے۔
ک زندگی ایک بے اعتبار چیز ہے، جب کہ موت بالکل یقینی ہے۔ ہم ہر لمحہ موت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ہم زندگی کے مقابلہ میں موت سے زیادہ قریب ہیں۔جو چیز ابھی اگلے لمحہ آسکتی ہو، وہ گویا ہر وقت آرہی ہے۔ اس کے متعلق یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ وہ آچکی ہے، بجائے اس کے کہ یہ کہا جائے کہ وہ آنے والی ہے۔ اسی لیے حدیث میںارشادہوا ہے کہ ’’اپنے آپ کو قبر والوں میں شمار کرو‘‘۔
ک آدمی زندگی چاہتا ہے۔ مگر بہت جلد اس کو معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں صرف موت اس کا استقبال کرنے کے لیے کھڑی ہوئی ہے۔
ک انسان اپنی عظمت کا محل تعمیر کرتا ہے، مگر موت کا طوفان اس کو تنکوں کی طرح اڑا کر یہ سبق دیتاہے کہ انسان کو اس دنیا میں کوئی قدرت حاصل نہیں۔
ک فیصلہ کا یہ دن ہر آدمی کی طرف دوڑا چلا آرہا ہے۔ اس دن ہر آدمی اپنی اصل صورت میں ظاہر ہو جائے گا۔ خواہ اس نے اپنے اوپر کتنے ہی زیادہ پردے ڈال رکھے ہوں، خواہ اس نے اپنے آپ کو کتنے ہی خوب صورت الفاظ میں چھپا رکھا ہو۔
ک ہر آدمی کی اصل حقیقت خدا کے علم میں ہے، مگر دنیا میں خدا لوگوں کی حقیقت کو چھپائے ہوئے ہے۔ آخرت میں وہ ہر ایک کی حقیقت کو کھول دے گا۔ وہ وقت آنے والا ہے جب کہ خدا کی ترازو کھڑی ہو اور ہر آدمی کو تول کر دیکھا جائے کہ کون کیا تھا اور کون کیا نہیں تھا۔ اس وقت کا آنا مقدر ہے۔ کوئی شخص اپنے آپ کو اس سے بچا نہیں سکتا۔ کامیاب صرف وہ ہے جو آج ہی اپنے آپ کو خدا کی ترازو میں کھڑا کرے، کیوں کہ جو شخص کل خدا کی ترازو میں کھڑا کیا جائے، اس کے لیے بربادی کے سوا اور کچھ مقدر نہیں۔
ک موت سے پہلے آدمی کو بہت سے کام نظر آتے ہیں۔ مگر موت کے بعد آدمی کے سامنے صرف ایک ہی کام ہوگا— یہ کہ خدا کے غضب سے وہ کس طرح بچے۔
ک ہر آدمی چل رہا ہے ۔ہر آدمی کا چلنا موت پر ختم ہوتا ہے۔ موت کسی کے لیے جنت کا دروازہ ہے اور کسی کے لیے جہنم کا دروازہ۔ وہ انسان بڑا خوش قسمت ہے جس کی موت اس حال میں آئے کہ وہ اپنے آپ کو جنت کے دروازے پر کھڑا ہوا پائے۔
ک آہ، وہ انسان جس کو اُسی چیز کا شوق نہیں جس کا اسے سب سے زیادہ شوق کرنا چاہیے۔ آہ، وہ انسان جو اسی چیز سے سب سے زیادہ بے خوف ہے جس سے اسے سب زیادہ خوف کرنے کی ضرورت ہے۔
ک زندگی عمل کا وقفہ ہے اور موت خدا کی عدالت میں پیشی کا وقت۔
ک ایک دعا — خدایا، جب اہلِ دنیا سے میرا ساتھ چھوٹے تو مجھے خداوند ِذوالجلال کی قربت حاصل ہوجائے۔ مجھے انسانوں کی مجلس سے اٹھنا پڑے تو مجھے فرشتوں کی مجلس میں شامل ہونا نصیب ہوجائے۔ جب موت مجھے اپنے لوگوں سے منقطع کردے تو میں اکیلا نہ ہوجاؤں، بلکہ مجھے اعلیٰ تر مجلس میں خدا اور اس کے فرشتوں کی صحبت میں رہنے کی سعادت حاصل ہوجائے۔
فہمیدہ خانم کا خط
برادرم عبد المحیط خاں کے پس ماندگان میں تین خواتین شامل ہیں— اُن کی اہلیہ عابدہ خاتون (پیدائش: 1942)، ان کی دو لڑکیاں،فہمیدہ خانم (پیدائش:1964 )، اور سعیدہ خانم (پیدائش:1965 )۔ فہمیدہ خانم فیض آباد (یوپی) میں رہتی ہیں اور دوسری صاحب زادی بمبئی میں مقیم ہیں۔ عبد المحیط خاں کے متعلقفہمیدہ خانم کا ایک خط مجھے ملا ہے۔ اُس کو یہاں نقل کیا جاتاہے:
’’تعلیم ختم ہونے کے بعد پاپا (عبد المحیط خاں)نے کئی جگہ تھوڑے دن سروس کی۔ جیسے Hydel. Dep. Jamia, وغیرہ۔ پھر ان کو ٹیکم گڑھ (مدھیہ پردیش) میں سروس ملی۔ وہاں سے پروموشن (promotion) کے بعد وہ چندولی پالی ٹیکنیک میں سینئر لیکچرر کی پوسٹ پر آئے۔ پھر جلد ہی پالی ٹیکنیک کے پرنسپل ہوگئے تھے۔سروس کرنے کے تقریباً 2 سال بعد ہی ان کی شادی 1959میں عابدہ خاتون سے ہوئی۔عابدہ خاتون، شاہ گنج (جون پور، یوپی) کے مشہور ڈاکٹر بدر الدین بی یو ایم ایس (وفات: 1985) کی صاحب زادی ہیں۔ پاپا، امی سے بے انتہا محبت کرتے تھے جس کو خاندان کا ہر فرد جانتا ہے۔امی نے بھی ہر موقع پر ان کا پورا ساتھ دیا۔ ان کی مرضی کے بغیر کبھی کوئی کام نہیں کیا۔ ہمیشہ ان کی پسند، نا پسند کا خیال رکھا۔ آخری دنوں میں انھوںنے امی سے کہا تھا: ’’تمھاری حکیمانہ باتوں سے مجھے بہت سکون ملتاہے‘‘۔
وہ گھر سے جب بھی آفس کے لیے نکلتے تھے، یا کسی اور کام سے، پہلے وہ 2 رکعت نماز ادا کرتے، اور دعائیں پڑھ کر ہم لوگوں کو پھونک دیتے، پھر گھر سے نکلتے تھے۔ ایک بات جو امی سے وہ اکثر مسکرا کرکہتے تھے ’’آپ میری ناک ہیں، اور دونوں بیٹیاں میری آنکھ ہیں‘‘۔ اِس طرح وہ ہم سب سے بہت محبت کرتے تھے۔
انھوں نے جس طرح محنت سے پڑھائی کی، اسی طرح انھوںنے محنت اور ایمان داری سے سروس بھی کی۔ 37 سال کی سروس میں ان کی ایمان داری پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکا۔ وہ ہمیشہ حق پر قائم رہتے تھے، چاہے وہ کسی کا بھی معاملہ ہو۔ عہد کرنے کے بعد عہد کی خلاف ورزی کو وہ بہت ناپسند کرتے تھے۔ ان کے بارے میں ہر جگہ مشہور تھا کہ وہ بہت ایمان دار ہیں اور غلط چیز کو بالکل پسند نہیں کرتے۔ اس لیے جہاں بھی ان کا ٹرانسفر ہوتا، لوگ ڈر جاتے تھے۔ اِسی طرح وہ سری نگر (گڑھوال، مدھیہ پردیش) دو دفعہ گئے تھے۔ پہلی بار وہاں پالی ٹیکنیک کھلنے جارہا تھا۔ دوسری دفعہ وہاں کے حالات بہت خراب ہوگئے تھے۔ پاپا وہاں 3 سال رہے، پھر وہ فیض آباد پالی ٹیکنیک آگئے۔ یہاں کے حالات بہت خراب ہوگئے تھے۔ وہ زیادہ تر وہیں بھیجے جاتے تھے، جہاں حالت بگڑی رہتی۔ فیض آباد میں ان کے آنے کی خبر سنتے ہی لوگ اتنا ڈر گئے کہ پہلے سال کوئی لڑکا امتحان دینے ہی نہیں آیا کہ نقل نہیں ہوگی اور اِس طرح ان لوگوں کا ایک سال خراب ہوگیا۔
دوسرے سال پھر یہ ہوا کہ خان صاحب ہیں اور نقل کی سختی ہے تو کچھ لوگوں نے لڑکوں کو غنڈہ گردی سکھائی، اُس وقت اندرا گاندھی کی گورنمنٹ تھی اور ایمرجنسی کا زمانہ تھا۔ پالی ٹیکنیک کی نمائش لکھنؤ میں لگی ہوئی تھی۔ پاپا لکھنؤ گئے ہوئے تھے۔ یہاں لڑکوں نے احتجاج میں روڈ ویز کی بس پالی ٹیکنیک کے سامنے جلا دی۔ اِس طرح کافی بچے جیل چلے گئے اور وہ سال بھی تقریباً خرا ب ہوا۔پاپا نے ڈی ایم سے کہہ کر لڑکوں کو جیل سے نکلوایا۔ اُس وقت فیض آباد کے ڈی ایم سچدا نند پانڈے (Sachidanand Pandey) تھے، وہ پاپا کو بہت زیادہ مانتے تھے۔ ابھی تک پاپا ان کی بات بتا کر انھیں یاد کرتے تھے۔ اس زمانے میں اے سی آر (ACR) ڈی ایم لکھا کرتا تھا۔ پاپا سے وہ اتنا خوش رہتے تھے کہ انھوںنے پاپا کے لیے جو اے سی آر لکھا، اتنا اچھا اے سی آر کسی نے نہیں لکھا۔
جب 1997 میں جنتا پارٹی کی حکومت آئی تو اُس وقت کے اسٹیٹ منسٹر نے کچھ لڑکوں کا داخلہ کرانے کے لیے اُن کے پاس بھیجا۔ اِن لڑکوں کے مارکس داخلے کے لیے کافی نہ تھے۔اِس کو پاپا نے سختی سے رد کردیا اورلڑکوں کا داخلہ نہیں لیا۔اس وجہ سے منسٹر صاحب اتنے ناراض ہوئے کہ انھوںنے پاپا کے ٹرانسفر کا آرڈر لکھوا دیا۔ آرڈر کو ٹائپ کراکے وہ کیبنٹ منسٹر کے ساتھ فیض آباد آئے، جب پاپا نے کیبنٹ منسٹر سے اپنے خلاف شکایت سنی تو انھوں نے بھری محفل میں کیبنٹ منسٹر کو، اسٹیٹ منسٹر صاحب کی ساری باتیں بتائیں کہ انھوںنے یہ کیا اور یہ کیا اور بغیر اجازت کے بچوں کے ہاسٹل میں جاکر اُن کو میرے خلاف بھڑکایا۔ پاپا پندرہ سے بیس منٹ تک منسٹر صاحب کے خلاف بولے۔ جب کیبنٹ منسٹر کو ساری باتیں معلوم ہوئیں تو وہ ناراض ہوئے اور انھوںنے لکھ دیا کہ خان صاحب فیض آباد سے نہیں جائیں گے، وہ یہیں رہیں گے۔ اس طرح وہ پھر 5 سال فیض آباد میں رہے۔ جب وہ فیض آباد سے گئے ہیں، اُس وقت وہ یوپی کا سب سے اچھا پالی ٹیکنیک مانا جاتا تھا۔
اِسی طرح پاپا زیادہ تر اس جگہ بھیجے جاتے جہاں ڈسپلن (discipline) نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی، وہ بہت پریشان ہوتے اور کبھی کبھی ہمت بھی ہار جاتے۔ مگر پھر بڑے ابا (مولانا وحید الدین خاں) کو خط لکھ کر پوچھتے تھے، ان کے خط کو وہ ابھی تک سنبھال کر رکھتے تھے۔ (بڑے ابا ہی کی کتابوں کو پڑھ کر پاپا آخر وقت میں اتنے دین دار ہوگئے تھے کہ ان کو دیکھ کر احساس ہوتا تھا کہ اسی کو سچا مومن اور اللہ کا حقیقی بندہ کہتے ہیں)۔اس طرح پھر وہ سنبھل کر اپنی ہمت کو بڑھاتے تھے اور ہمیشہ کامیاب ہوئے۔ یہاں اس سلسلے میں پاپا کے نام بڑے ابا کے دو خطوط نقل کئے جاتے ہیں:
برادرم سلام مسنون
اس سے پہلے ایک خط لکھ چکا ہوں۔ امید کہ ملا ہوگا۔ تمھارے خط میں جس پریشانی کا ذکر تھا، اس کی وجہ سے دل برابر تمھاری طرف لگا رہا اور تمھارے لئے دعائیں کرتا رہا۔ اللہ تعالیٰ مدد فرمائے اور تمھارے مسائل کو حل کردے۔
تمھاری اصل مشکل تمھاری معیار پسندی (idealism) ہے۔ تمھاری خواہش یہ رہتی ہے کہ لوگ صحیح طریقہ سے رہیں اور ٹھیک کام کریں۔ یہ خواہش اچھی ہے۔ مگر اس میں اپنے آپ کو اتنا زیادہ involve کردینا ٹھیک نہیں ہے کہ خوداپنی صحت و عافیت بھی خطرہ میں پڑ جائے۔ ایک حدیث میں ہے کہ لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرو۔ مگر جب دیکھو کہ تمھاری کوشش کے باوجود لوگ اصلاح نہیں قبول کررہے ہیں تو تم خود اپنی فکر کرو: فإذا رأیت شحاً مطاعاً، وہوی متبعاً، وإعجاب کلّ ذی رأی برأیہ، فعلیک نفسک، ودع عنک أمرَ العوام۔یعنی جب تم دیکھو کہ لوگ حرص کی پیروی کررہے ہیں اور خواہشات کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور ہر شخص اپنی ہی رائے کو ٹھیک سمجھتا ہے تو اپنے آپ کو بچاؤ اور لوگوں کو چھوڑ دو۔
میرا خیال ہے کہ اس حدیث میں تمھارے لیے بڑی نصیحت ہے۔ تم بس اسی کو پکڑ لو۔ جتنا وقت تم لوگوں کے لئے کڑھنے میں لگاتے ہو، اس کو نماز، مطالعہ قرآن اور اسلامی کتابوں کے پڑھنے میں لگاؤ، یہ تمھاری دنیا و آخرت کے لیے زیادہ مفید ہوگا۔
آج کا انسان اتنا زیادہ بگڑ چکا ہے کہ وہ کچھ سننے کے لئے تیار نہیں۔ لوگوں کے سوچنے کی سطح اُس سے بالکل مختلف ہے جو ہماری ہے۔ اس لئے ہماری کوئی بات ان کے دماغ میں بیٹھتی ہی نہیں۔ زندگی بہت مختصر ہے۔ اس کے بعد ہر آدمی کو آخرت کا سفر کرنا ہے، پھر لوگوں کے پیچھے بے فائدہ کڑھنے میں اپنا وقت کیوں ضائع کیا جائے۔ کیوں نہ اس وقت کو اپنی آخرت کی تعمیر کے لئے استعمال کیا جائے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ترقی یا اضافۂ تنخواہ وغیرہ کے بارے میں بہت زیادہ سوچنا چھوڑ دو۔ حدیث میں ہے کہ آدمی کو اتنا ہی ملتاہے جتنا اس کے لیے لکھ دیا گیا ہے۔ اس لئے غم میں پڑ کر آدمی صرف اپنے کو ہلکان کرتا ہے۔ وہ مقدر کو بدل نہیں سکتا۔
مزید یہ کہ جن لوگوں کی بڑی بڑی تنخواہیں ہیں، ان میں سے کسی کو میں نے خوش نہیں دیکھا۔ لیبیا میں بہت سے ایسے لوگوں سے قریبی تعلق رہا جن کی تنخواہیں 8 سے 10 ہزار روپئے مہینہ تھیں۔ مگر سب اندر سے سخت قسم کے ذہنی تناؤ (frustration) میں مبتلا تھے۔ وہ مجھ کو رشک کی نظر سے دیکھتے تھے۔ جب کہ میری سرے سے کوئی آمدنی ہی نہیں۔ سارا معاملہ اللہ توکل ہے۔
حال میں لیبیا کا ایک باشندہ ہندستان آیا تھا اور یہاں ناز ہوٹل میں ٹھہرا تھا۔ وہ مجھ سے ملا اور نہ صرف لیبیا بلکہ تمام عرب ملکوں کو لعن طعن کرتاتھا۔ کہتا تھا کہ ہندستان میں جھونپڑی میں رہنا اچھا ہے بہ نسبت اس کے کہ میں عرب ملک میں کوٹھی میں رہوں۔طرابلس میں مجھے کئی لوگ ملے جو اتنے پریشان تھے کہ جہنم کا ڈر نہ ہو تو خود کشی کرلیں۔ اصل یہ ہے کہ جو مقام آدمی کو ملا نہیں رہتا، اس کو دور سے وہ اچھا دکھائی دیتاہے اور جب وہ مل جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ تو نیا عذ۱ب ہے۔ تم کو میری مخلصانہ نصیحت ہے کہ تم حالات کو اپنی رفتار پر چھوڑ دو جس طرح دوسرے پرنسپل چھوڑے رہتے ہیں۔ بس ضروری حد تک اپنے فرائض انجام دو۔ تم اس قسم کی پریشانیوں کو چھوڑ کر قرآن وغیرہ پڑھنا شروع کردو۔ نماز باقاعدہ پڑھو اور اسلامی چیزوں کا مطالعہ کرو۔
اس وقت خط لکھنے کی کوئی ضرورت نہ تھی، مگر تمھاری پریشانی بار بار یاد آتی رہی، اس لئے لکھنے بیٹھ گیا کہ شاید کچھ فائدہ ہو۔ زندگی کا اصل راز دوسروں سے تصادم نہیں ہے، بلکہ حالات کے ساتھ adjustment ہے۔ تمھارا ذہن ہر وقت اس پر کام کرتاہے کہ تم جس طرح ٹھیک سمجھتے ہو، اسی طرح لوگ رہیں۔ اس سوچ کو ختم کردو۔ تم کو بحیثیت مسلمان اس طرح سوچنا ہے کہ دنیا میں مجھے تھوڑے دن کے لیے بھیجا گیا ہے۔ یہاں اپنے اور اپنے اہل وعیال کی ذمہ داریوں کو ادا کرنا ہے اور آخرت کی تیاری کرنا ہے۔ ان دو چیزوں کے سوا کسی بھی تیسری چیز کو تمھیں اہمیت نہ دینا چاہئے۔ کالج کے معاملہ میں ویسا ہی بن جانا چاہیے جس طرح دوسرے پرنسپل رہتے ہیں۔ خوب سمجھ لو کہ اصل مسئلہ اپنے آپ کو بچانا ہے، نہ کہ دوسروں کو۔قرآن میں ہے: یا أیہا الذین آمنوا قُوا أنفسکم وأہلیکم ناراً ۔ یعنی اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤ۔
تم جن چیزوں کے لئے کڑھتے ہو، اس کا کوئی فائدہ نہ دنیا میں ہے نہ آخرت میں۔ تم کو اپنے دماغ کی قوتوں کو اپنی دنیا و آخرت کی بہتری کے لیے لگانا چاہیے۔ دوسروں کو ان کے حال پر چھوڑ دو۔ اگر یہ بالفرض ضروری رہا ہو تو تم نے اپنی طرف سے اتمام حجت کردیاہے۔ اب اس سلسلے میں تمھاری ذمہ داری نہیں ہے۔
میرا مشورہ ہے کہ بروقت تو تم فوراً دو چیزیں شروع کردو۔ ایک، باقاعدہ پنج وقتہ نماز۔ دوسرے قرآن کا ترجمہ۔ ان میں کافی وقت دو۔ دفتر کا کام صرف بقدر ضرورت کرو۔ انشاء اللہ اس سے آئندہ کی راہ کھلے گی اور تمھاری مشکلیں آسان ہوجائیں گی۔
اماں کی خدمت میں سلام۔ عابدہ سلمہا اور بچوں کو دعائیں
دہلی، 17 مئی 1977 وحیدالدین
برادرم عبد المحیط سلام مسنون
تمھارا خط مورخہ 24 مئی 1977 ملا۔ مجھے تمھارے بارے میں بڑی فکر تھی۔ دوبارہ خط لکھنے والا تھا کہ تمھارا کارڈ آگیا۔ یہ معلوم کرکے اطمینان ہو اکہ تم کو خدا کے فضل سے آج کل سکون ہے۔اللہ تعالیٰ تمھاری مدد فرمائے۔اس سے پہلے بھی لکھ چکا ہوں اور دوبارہ لکھتاہوں کہ جیسے دوسرے پرنسپل رہتے ہیں ویسے ہی تم بھی رہو۔ تم کو اپنی جان ہلکان کرنے کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔ کیوں کہ آخرت میں اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ ایک مومن کے لئے اتنا کافی ہے کہ وہ اپنے کام سے کام رکھے اور ارادۃً اپنی ذات سے کسی کو تکلیف نہ پہنائے۔
تم جانتے ہو کہ حاتم طائی فیاض وسخی تھا اور نوشیرواں بڑا عادل تھا۔ مگر حاتم طائی کی سخاوت اور نوشیرواں کے انصاف کا خدا کے یہاں کوئی وزن نہیں۔ کیوں کہ وہ خدا ئی نظام کے تحت نہیں تھا۔ خدا کو تو وہی چیز مطلوب ہے جو اس کے اپنے لئے کی گئی ہو۔ اپنی ضرورتوں کے لیے ہم کو ہر کام کرنے کی اجازت ہے۔ خدا کے نقطۂ نظر سے تمھاری ملازمت کسی خدائی کاز کو پورا کرنے کے لیے نہیں ہے۔ تمھاری ملازمت صرف اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ہے۔ جتنی فکر تم نظام کو ٹھیک کرنے کی کرتے ہو، اتنی ہی خدا کے لئے کرنے لگو تو تمھاری آخرت کے لئے ضرور فائدہ ہو، جب کہ اس کے پیچھے اپنے کو ہلکان کرنے کا کوئی فائدہ نہ دنیا میں ہے اور نہ آخرت میں۔
ایک خاص بات یہ ہے کہ بعض اوقات ’’نیکی‘‘ بھی محض عزت (prestige) کا سوال بن جاتی ہے۔ خیر خیرات کرنا، مذہبی اور اخلاقی باتیں کرنا، رشوت نہ لینا، خلافِ قانون کام نہ کرنا، بظاہر اچھی باتیں ہیں، مگر کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کی مخصوص اسباب سے جو ایک پوزیشن ہوجاتی، اس کا تقاضا ہوتا ہے کہ وہ ایسا کرے۔ وہ خدا کو خوش کرنے کے لئے نہیں، بلکہ اپنی عزت اور نیک نامی کو برقرار رکھنے کے لیے اچھا کام کرتا ہے۔اس قسم کا عمل چوں کہ نیکی کی صورت میں ہوتا ہے، اس لئے آدمی اس کو سمجھ نہیں پاتا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایمان کی اصل تعریف (definition) یہ ہے کہ آدمی اپنے لاشعور(sub-conscious mind) کو دیکھنے لگے۔ اس وقت وہ صحیح معنوں میں خدا کے لئے کام کرسکتا ہے۔
حدیث میں ہے: إنما الأعمال بالنیات (عمل کا دارومدار نیت پر ہے) خدا کے یہاں جو چیز دیکھی جائے گی وہ صرف یہ کہ خالص خدا کے لئے آدمی نے کیا کام کیا۔ جو کام سوچ سمجھ کر پورے ارادہ کے ساتھ خداکے لئے نہیں تو وہ بے فائدہ ہے۔ اس کا کوئی اجر نہیں۔ مجھے امید ہے کہ تم میری باتوں پر ضرور غور کروگے۔ عقل مند وہ ہے جو اُن باتوں کو اہمیت دے جو آخرت میں اہم بننے والی ہیں۔ کسی اور بات کو اہم سمجھ کر آدمی کتنا ہی خوش ہولے۔ موت کے بعد بہر حال اس کو افسوس کرنا پڑے گا۔
اس کی مثال اندرا گاندھی کی زندگی ہے۔ اندرا گاندھی کو ہندستان میں ڈکٹیٹر جیسا اقتدار ملا۔ اس نے سمجھ لیا کہ اہم بات وہ ہے جو اس کے ذہن میں اہم ہو۔ غیر اہم وہ ہے جو اس کو غیر اہم نظر آئے، حتی کہ اندرا گاندھی کو یہ کہنے کی جرأت ہو گئی کہ ’’ایمرجنسی سے پہلے کا دور اب کبھی واپس نہیں آئے گا، مگر جب فیصلہ کا دن آیا تو معلوم ہوا کہ اہم کیا ہے اور غیر اہم کیا، اس کے فیصلہ کا حق اندرا گاندھی کو حاصل نہ تھا۔ اس کا بنایا ہوا نظام اس طرح اچانک اڑ گیا جیسے آندھی میں تنکا۔
اسی طرح آدمی دنیا میں اپنے ذوق، اپنے حالات، اپنی دلچسپیوں کے تحت اپنی زندگی کا ایک ڈھانچہ بنالیتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ حق وہی ہے جو اس کو حق نظر آئے۔ یہ ذہن اس پر اتنا چھاجاتا ہے کہ یہی اس کا لاشعور بن جاتا ہے۔وہ اپنی بنائی ہوئی اسی خیالی دنیا میں زندگی گزارتا رہتاہے، یہاںتک کہ جب موت آتی ہے تو اچانک اس کو معلوم ہوتاہے کہ حقیقت تو کچھ اور تھی۔ اس کی زندگی کی پوری عمارت اس طرح دھڑام سے گر جاتی ہے جیسے اس کی کوئی بنیاد ہی نہ تھی۔ اندرا گاندھی کی مثال میں اللہ تعالیٰ نے اس کا ایک نمونہ دکھایا ہے۔ اندرا گاندھی کے واقعہ میں جو اس حقیقت کو دیکھ لے، اسی نے اندرا گاندھی کے واقعے کو جانا۔ ورنہ وہ خواہ کتنا ہی اخبار پڑھتا ہو، وہ ابھی تک اس واقعہ سے بے خبر ہے۔ جیسے ایک بے روزگار نوجوان اخبار میں "wants" کے کالموں میں گم ہو اور سارا خبار الٹ کر بھی اس کو معلوم نہ ہو کہ اخبار میں اصل خبر کیا تھی۔ میری عادت اتنے خطوط لکھنے کی نہیں ۔ مگر صرف تمھاری خاطر ایسا کررہا ہوں۔
دہلی، 2 جون 1977 وحیدالدین
مجھے یاد ہے کہ کتنے اسٹاف کے لوگ ان کے خلاف ہڑتال (strike) کرتے، نعرہ لگاتے، پتلا بھی جلایا گیا، مگر پھر وہی اسٹاف کے لوگ ان کو اتنا پسند کرنے لگتے کہ وہ ان کے ٹرانسفر ہونے پر روتے تھے۔ ہر وہ جگہ جہاں ڈسپلن (discipline) نہیں ہوتا تھا، وہاں ان کے جانے پر ڈسپلن کا ماحول بن جاتا۔ اس طرح ان کا ریکارڈ اتنا اچھا ہوتا کہ ان کے اوپر کوئی انگلی نہ اٹھا سکا۔ پاپا کا ڈائرکٹر ہمیشہ ان سے ناراض رہتا، کیوں کہ وہ اس کی ساری غلط باتوں کو ناپسند کرتے اور اس کو کرنے سے منع کردیتے۔ اس لیے ان کا پروموشن نہیں کرنا چاہتا تھا۔ لیکن پاپا بہت سینئر تھے۔ اِس طرح ان کا اچھا ریکارڈ ہونے کی وجہ سے ڈائرکٹر ان کا پروموشن روک نہیں سکتا تھا۔ مگر پاپا نے کبھی کوشش نہ کی کہ ان کا پروموشن ہوجائے۔پاپا کی عادت نہ تھی کہ وہ ڈائرکٹر کی خوشامد کریں۔ انھوں نے کبھی کسی کے فوٹو پر ہار مالا نہیں پہنائی۔ انھوں نے ہمیشہ ایمان داری اور سچائی سے زندگی گزاری۔
کبھی بھی کو ئی غلط بات جو ان کا ڈائرکٹر ان سے کرنے کو کہتا، وہ اس کو نہ کرتے اور اپنے ڈائرکٹر کو باقاعدہ لکھ کر بھیج دیتے کہ کیا غلط ہے اور کیا صحیح۔ اِس پر ایک بار ان کے ڈائرکٹرنے کہا کہ ’’مسٹر خان، آپ ایسا لکھ کر بھیج دیتے ہیں کہ میں کسی کو دکھا بھی نہیں سکتا‘‘۔بہر حال وہ 1984 میںجوائنٹ ڈائرکٹر ہوئے۔ بنارس ان کا آفس تھا۔ وہ Circuit House میں P.A. Suits میں رہتے تھے۔ 1995 میں پاپا ریٹائر ہوئے۔ اور ریٹائرمینٹ کے بعد وہ فیض آباد میں رہنے لگے تھے۔ اس کے بعد انھوں نے حج ادا کیا۔ حج کے بعد انھوں نے ایک کتاب لکھی تھی ’’حج کیسے کریں‘‘۔ وہ اپنے خاص لوگوں کو حج کے بارے میں بتاتے تھے۔
دھیرے دھیرے وہ صرف لکھنے پڑھنے میں مشغول رہنے لگے۔ میتھ(Maths)ان کا پسندیدہ موضوع تھا۔ بچوں کو وہ شوق سے میتھ پڑھاتے، باقی ٹائم میں وہ بڑے ابا کی کتابیں پڑھتے جس میں ماہ نامہ الرسالہ، تذکیر القرآن، مطالعہ قرآن، الربّانیہ اورقال اللہ و قال الرسول ان کی پسندیدہ کتابیں تھیں۔ وہ کافی کتابیں لوگوں کو دیتے۔ بڑے ابا کے خلاف کوئی بولتا تو انھیں بہت تکلیف ہوتی۔ اکثر کہتے تھے ’’آج کل کا مسلمان جوشیلا ہے، اس کو جوشیلی باتیں ہی پسند آتی ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ لوگوں کو بھائی صاحب (مولانا وحیدالدین خاں) کی باتیں کیوں نہیں سمجھ میں آتیں، یہ ان کی مخالفت کیوں کرتے ہیں‘‘ ۔
اللہ کا شکر ہر دم ان کی زبان پر رہتا۔ وہ اکثر کہتے ’’ہم لوگ یتیم تھے، ہمارا کوئی پرسانِ حال نہ تھا، مگر اللہ تعالیٰ نے ہم تینوں بھائیوں کو ہر چیز سے نوازا۔ ہم لوگ کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ اللہ ہم لوگوں کو اتنا دے گا۔خدا کا بہت بڑا احسان ہم لوگوں پر ہے‘‘۔
ہم لوگوں سے اپنے بچپن کے چھوٹے چھوٹے قصّے بتاتے، مثلاً دادی کا تکلیف سے پرورش کرنا وغیرہ، اور رودیتے۔ اپنی سروس کے دوران انھوں نے بڑی عزت پائی، مگر خدا کے شکر کے علاوہ کبھی کوئی ایسی بات نہ کہی جس سے کوئی بڑائی یا گھمنڈ ظاہر ہو۔ ہر چھوٹے بڑے موقع پر وہ خدا کے شکر میں ڈوب جاتے تھے۔غریبوں کی وہ ہر طرح مدد کرتے۔فیض آباد میں جہاں وہ رہے، اسی طرح علی گڑھ میں بھی کسی غریب کو پریشان دیکھتے تو اپنی طرف سے وہ اس کی پوری مدد کرتے۔
انھوںنے تذکیر القرآن کو 8 بار پڑھا اور اپنے اندر ایسا بسا لیا کہ ان کا ہر کام، ہر عمل اللہ کے لئے ہوتا تھا۔ ان کا کام لکھنا اور پڑھنا تھااور اس پر عمل کرنا۔ ان کا ہر عمل ویسا ہی ہوتا جیسا کہ اللہ نے بتایا ہے۔ اُن کے صبر کا معاملہ اتنا زبردست تھا کہ وہ اس کے ذریعے اللہ سے بہت قریب ہوتے چلے گئے۔ انھوں نے اپنی ڈائری میں ایک جگہ لکھا تھا: ’’ایمان روح کی پاکیزگی ہے اور جس کی روح پاک ہوگئی ہو، وہ اپنے معاملات میں ناپاکی کا طریقہ کیسے اختیار کرسکتاہے‘ ‘۔
میرے والد، اللہ کے ایک ایسے بندے تھے جنھوں نے ساری زندگی سچائی کا ساتھ دیا۔ ان سے کسی شخص کو جھوٹ کا تجربہ نہیں ہوا۔ ان کی زندگی میں بہت سے شدید ترین حالات پیدا ہوئے، اس کے باوجود وہ اپنے قول سے پھرے نہیں۔ جھوٹ سے ان کو سخت نفرت تھی۔ گھڑی ہوئی بات، زیرزبر کے فرق، اور بغیر آنکھ کان کے دیکھے سنے، وہ کسی بات پر یقین نہیں کرتے تھے۔ اور اسی طرح کی عادت میری چھوٹی بہن سعیدہ کی بھی ہے۔
اس طرح ہم لوگوں نے ان سے حق اور انصاف کی باتیں بھی سیکھیں۔ جس طرح انھوں نے بڈھریا کی جائداد اپنے ذمہ دار بننے کے بعد تقسیم کی، وہ بھی ایک مثال ہے ۔ پاپا نے سب کا حصہ سب کے پاس پہنچایا۔ بقول ہماری پھوپھی زاد بہن جن کا نام سلمیٰ ہے، ’’ہم لوگ نہیں جانتے تھے کہ اماں کا حصہ بھی ہے ۔ ماموں نے دینا شروع کیا تو معلوم ہوا‘‘۔ یہ بات انھوںنے مجھ سے کہی تھی۔ اسی طرح سے انھوں نے میراث کے متعلق دیو بند سے فتویٰ منگوایا۔معلوم ہوا کہ جس کی صرف لڑکیاں ہوں، کوئی بیٹا نہ ہو تو جائداد میں بھائی کا حصہ ہوتا ہے، اگر وہ زندہ ہے۔ اور یہ کام وہ انتقال سے چار سال پہلے ہی کر چکے تھے۔ اس طرح انتقال کے بعدپاپا کے مکان کو فروخت کرکے بڑے ابا (مولانا وحیدالدین خاں) کا حصہ دیاگیا تھا جو بڑے ابا نے نہ لے کر ’القرآن مشن‘(Al-Quran Mission) میں لگا دیا۔ اس طرح ان کی ایمان داری کا پاک صاف پیسہ پاک جگہ لگ کر پوری دنیا میں پھیل رہا ہے۔
یہاں پر بھی ہم لوگوں نے یہی سیکھا کہ حق و انصاف اور ایمان داری میں کتنی برکت ہوتی ہے۔ اپنے اور دوسروں سے چھین لینے میں نہیں، بلکہ دوسروں کو دینے میں برکت اور محبت ہے۔
اسی طرح ہم لوگوں کے بچپن کے کچھ واقعے ہیں جن کو پاپا سنا کر ہنستے تھے، ان میں سے کچھ ہم لوگوں کو یاد ہیں، وہ یہاںنقل کئے جاتے ہیں :
ہم لوگ بہت چھوٹے تھے ۔ امی کبھی کھانے کو ایک ہی پلیٹ میں 2 چمچ لگا کر دے دیتی تھیں۔ پاپا کہتے آدھا آدھا کرو۔ ہم لوگ جب حصہ لگاتے تو وہ بتاتے کہ کدھر زیادہ ہے اور کدھر کم ہے۔ اس طرح آخر میں ہم لوگوں کی عادت یہ ہوگئی کہ سعیدہ اپنا حصہ میری طرف کرتی، میں اس کی طرف کہ اس کی طرف زیادہ رہے اور میری طرف کم رہے۔ اکثر بچوں میں لڑائی ہوتی ہے کہ ہمارا کم ہے دوسرے کازیادہ ہے، مگر ہم لوگ دوسرے کو زیادہ دینے اور اپنے لئے کم لینے پرمطمئن ہوتے تھے۔
ایک بار کوئی انگوٹھی تھی۔ وہ ہم لوگوں کو بہت اچھی لگی۔انگوٹھی ایک تھی۔اس کو دونوں لوگ نہیں پہن سکتے تھے۔ اس لئے یہ طے پایا کہ باری باری پہنیں، ایک دن میں اور ایک دن تم۔ اس طرح ایک دن پہن کر دوسرے دن صبح بستر سے اٹھنے سے پہلے ہم انگوٹھی دوسرے کو دے کر اٹھتے تھے کہ صبح کے ساتھ ہی اپنی باری ختم ہوگئی۔ بچپن سے انصاف کرنا سیکھ رہے تھے، کبھی کسی چیز پر لڑائی نہیں ہوئی، دوسرے کو دینے میں زیادہ خوشی ہوتی۔
سعیدہ مجھ سے بے انتہا محبت کرتی تھی، شاید ہم سے بھی زیادہ ۔وہ کوئی کام اکیلے نہیں کرتی ، نہ اکیلے کہیں جاتی تھی۔ ایک بار پتا نہیں کیسے وہ اکیلے کہیں چلی گئی۔ کیسے گئی، یاد نہیں۔ مگر روتی ہی جارہی تھی۔ جس کے یہاں گئی تھی، وہ پریشان کہ بچی کیوں روئے جاری ہے۔ انھوںنے اس کو ایک کیلا لاکر دیا، جیساکہ اکثر بچوں کو دیا جاتا ہے کہ شاید کھانے میں بہل جائے۔ اس نے کیلا لے کر زور زور سے رونا شروع کردیا۔ سب پریشان کہ کیاہوگیا۔ بہت پوچھا تو بولی ’’آپا کے لیے‘‘۔پھر دوسرا کیلا دیا تو وہ لے کر گھر آئی، پھر ساتھ بیٹھ کر کھایا۔ اس طرح کے بہت سارے ہم لوگوں کے قصے ہیں۔ خاندان میں ہم اِس طرح کی باتوں کی وجہ سے کافی مشہور ہوگئے تھے۔
پاپا بھی اپنے بچپن کے قصے بہت بتاتے تھے۔ پاپا اپنے دونوں بھائیوں سے بے حد محبت کرتے تھے۔ اکثر بات کرکے ان کی آنکھوں میں آنسو آجاتے تھے۔ وہ کہتے ’’میں نے اپنے ابا کو تو دیکھا ہی نہیں، بھائی لوگوں کوہی باپ کی طرح سمجھا‘‘۔ شکر بے حد کرتے۔ بچپن کے قصہ بتاتے ، کس طرح ہم یتیم ہوگئے اور سب کچھ چھن گیا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے تینوں بھائیوں کو کس طرح نوازا۔ کبھی سوچا نہ تھا کہ ہم لوگوں کو پھر سے اتنا ملے گا۔
پاپا کی زندگی میں ہمیں کبھی یہ احساس نہ ہوا کہ وہ کیا چیز تھے۔ شاید بچپن سے ایسا دیکھنے کی عادت تھی۔ ہم نے کبھی سوچا نہ تھا کہ اتنی جلدی اچانک ایک صبح وہ ہم سب کو چھوڑ کر چلے جائیں گے۔ ہم لوگوں کی زندگی کا یہ ایک ایسا حادثہ تھا جس نے زندگی کو بالکل بدل دیا۔ زندگی نے ایسا رُخ لیا کہ کچھ بھی کرنے سے پہلے یہی سوچتے ہیں کہ پاپا کیسے کرتے تھے، ویسا ہی کرنا ہے۔ جو ان کو نہیں پسند تھا، وہ نہیں کرنا ہے۔
پاپا کی طرح تو شاید ہم کبھی نہ بن پائیں گے۔ مگر اللہ تعالیٰ سے یہی دعا کرتے ہیں کہ اس کا کتنا بڑا احسان ہے کہ اس نے اتنے اچھے والدین ہم کو دئے۔ اسی خاندان کا ایک فرد (مولانا وحید الدین خاں) ساری دنیا میں دین پھیلا رہا ہے۔ پوری دنیا میں ان کی کتابیں پڑھی جارہی ہیں۔انھیں کی کتابیں پڑھ کر ہمارے پاپا نے اپنے کو ایسا بنا لیا تھا کہ کوئی ایک نظر دیکھ لینے سے ہی بتا سکتا تھا کہ یہ سچا مومن ہے ، اللہ کا نیک بندہ ہے، ہر دم خدا کے خوف میں ڈوبا رہنے والا، دیکھنے میں لگتا کہ کسی بڑی پریشانی میں مبتلا ہیں۔ نماز میں اللہ کے سامنے کس قدر گڑگڑانا۔ عام طورپر ان کی نماز کافی دیر میں ختم ہوتی تھی۔یہ سب تذکیر القرآن کو ہر دم پڑھنے کی وجہ سے تھا۔ ہر خالی وقت میں وہ تذکیر القرآن کو پڑھتے رہتے تھے، جیسے پورا تذکیر القرآن ان کو حفظ ہوگیا تھا ۔
پاپا کے انتقال کے بعدسے ہم دونوں بہنوں کو توفیق ہو رہی ہے کہ Al-Quran Mission سے ہندی اور انگریزی کے قرآن منگاکرہم اس کو لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس کو قبول فرمائے۔اور اللہ تعالیٰ ہمارے بڑے ابا (مولانا وحید الدین خاں) کو اس کا اجر دے جن کی وجہ سے ہم لوگوں کو توفیق ہوئی کہ ہم لوگ کچھ کرسکیں اور اپنے آپ کو بدل سکیں۔
ہم اپنی نمازوں میں ہمیشہ اپنے پاپا کے لیے بے انتہا اجر اور مغفرت کی دعا کرتے ہیںاور خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ایسے انسان کی اولاد بنایا اور انسان کو خدا سے ڈر کر کس طرح زندگی گزارنی چاہیے، اس کی تمیز سکھائی۔پاپا کو زندگی میں ماحول سے ایسا دھکا لگا تھا کہ اس ماحول کا جھوٹ اور ناانصافی کا بوجھ انھیں اللہ کی ڈور میں کستا چلا گیا اور وہ اس میں ڈھل کر بالکل مؤمنانہ زندگی گزارنے لگے تھے۔ آخر وقت میں وہ ایک معصوم بچے کی طرح ہو گئے تھے کہ ان کو خدا اور رسول کے علاوہ کوئی اور بات سمجھ نہیں آتی تھی۔ وہ بات بھی بہت کم کرتے تھے۔ڈر اور سوچ میں ڈوبے رہتے، کوئی بات کی جاتی تو سمجھ ہی نہیں پاتے تھے۔اس طرح وہ آخرت کی یاد میں گم ہو کر رہ گئے تھے۔
پینشن (pension)لینے کے لئے وہ ہر سال فیض آباد آتے اور ہمارے پاس رہتے تھے۔اس طرح نومبر 2009 میں بقرعید سے2دن پہلے وہ فیض آباد آئے۔ وہ کمزور ہوگئے تھے، مگر اللہ کے کرم سے ان کو کوئی مرض نہیں تھا۔ جس طرح وہ بیماری سے اور بستر پرپڑ جانے سے ڈرتے تھے، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ان کے اوپر ہر طرح سے کرم کیا۔ ہر دم اللہ کے خوف سے کانپتے تھے۔ ایسا پریشان رہتے جیسے کسی بڑی مشکل میں آدمی پریشان رہتا ہے۔
اس طرح کی باتیں جو وہ تقریباً روز کہتے تھے—کس طرح اللہ کے یہاں پیشی ہوگی۔کب موت آجائے ،کس وقت بلاوا آجائے۔ہم دو بھائی بچے ہیں، پتہ نہیں کس کی باری پہلے ہے۔ بچپن کی باتیں کرتے، سب کو یاد کرتے اور کہتے کہ لگتاہے میرا وقت قریب آگیا ہے، وغیرہ۔
اپنی زندگی میں جس طرح کی تکلیف ان کو پہنچی تھی، اس کے مطابق باتیں وہ تذکیر القرآن سے ہم لوگوں کو پڑھ کر سناتے تھے، مثلاً: ’’عام آدمی روٹی پر جیتا ہے، مومن وہ انسان ہے جو دلیلِ حق پر جیتاہے‘‘۔ ’’دلیل کے ذریعہ کسی کو رد کرنا درست ہے، جب کہ عیب لگا کر کسی کو بدنام کرنا سراسر نادرست‘‘ ۔’’لوگ خود غرض بن کر نہ رہیں، بلکہ وہ لوگوں کے خیر خواہ بن کر رہیں‘‘۔
اس طرح وہ ہر دم اللہ کا کلام سنتے ، سناتے ، لوگوں کو اس کے بارے میں بتاتے اور اس کو لکھتے ہوئے وقت گزار رہے تھے اور شاید اللہ کے بہت قریب ہوگئے تھے۔انتقال سے دو روز پہلے انھوں نے امی سے کہا کہ ’’آج خواب میں چچا کو دیکھا، وہ مجھے بلانے آئے تھے‘‘۔
امی کا پنشن کے کاغذ میں نام نہیں تھا، اس کو درج کروایا، یہ کہہ کر کہ ’’بہت ضروری ہے، اس کو درج کرانا ہے‘‘۔ اُس رات جس دن ان کا انتقال ہوا ہے، انھوں نے امی سے کہا ’’دل چاہتا ہے ہم چاروں لوگ (پاپا، امی ، دونوں بہن) اکٹھا ہوجائیں‘‘۔ سعیدہ سے ایک سال سے ملاقات نہیں ہوئی تھی، اس کو یاد کیا، پھر فون پر اس سے بات کرکے امی سے یہ بات کرتے ہوئے سوئے کہ تم لیٹتے وقت کیا دعائیں پڑھتی ہو،اور خود بتایا کہ میں یہ دعائیں پڑھتا ہوں۔ معمول کے مطابق، وہ صبح 4 بجے تہجد کی نماز پڑھنے کے لیے اُٹھے، باتھ روم میں ہی ہارٹ اٹیک ہوا اور جب تک ان کو بستر پر لایا گیا وہ بے ہوش ہوچکے تھے۔ بے ہوش ہونے سے پہلے انھوں نے امی کاہاتھ پکڑ کر کچھ کہناچاہا، شاید وہ امی کی طرف سے فکرمند تھے، پھر کلمہ پڑھا، زبان لڑکھڑا رہی تھی اور ڈاکٹر کے آنے سے قبل ہی ان کی روح نکل چکی تھی۔ (إنّا للہ وإنّا إلیہ راجعون)
زندگی میں ان کا چہرہ پریشان حال رہتا تھا، انتقال ہوتے ہی جیسے ان کو سکون مل گیا ہو۔ ایسا چہرہ زندگی میں کسی کا نہ دیکھا تھا۔ ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے ابھی ہنس دیں گے، اتنا چمکتا ہوا چہرہ۔ وہاں موجود ہر فرد نے کہا کہ جیسے ابھی ہنس دیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔
واپس اوپر جائیں