Pages

Wednesday, 1 August 2012

Al Risala | August 2012 (الرسالہ,اگست)

2

-روزے کا مقصد

3

- ایمان اور عمل

4

- ربوبیت کا نظام

9

- تمکین فی الارض

12

- قرآن کا تصورِ تاریخ — ایک جائزہ

32

- امتِ مسلمہ کو درپیش چیلنج

35

- ایک خطاب

38

- ایک خط

39

- شبِ قدر

42

- سوال وجواب

47

- خبرنامہ اسلامی مرکز — 217


روزے کا مقصد

روزے کا مقصد احساسِ شکر کو پیدا کرنا ہے۔ غذا آدمی کے لیے ایک عظیم نعمت ہے۔ غذا شکر کا بہت بڑا آ ئٹم ہے۔ روزے میںآدمی کو غذا سے وقتی طورپر روک کر شکر کی نفسیات کو جگایا جاتاہے، تاکہ اِس تجربے کی بنا پر آدمی دوسری نعمتوں کے بارے میں بھی شکر کرنے والا بنے۔ ایک مہینے کا روزہ آدمی کے اوپر اِس لیے فرض کیا گیا ہے، تاکہ وہ سال کے بقیہ دنوں میں بھی خدا کا شاکر بنا رہے۔
انسان کے اندر یہ کمزوری ہے کہ اس کی نفسیات میں کسی کیفیت کا تسلسل باقی نہیں رہتا۔ انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ ہمیشہ شکرِ خداوندی کی کیفیات میں زندگی گزارے۔ اِس لیے ہر سال کے ایک مہینے میں روزے کے ذریعے شکر کی کیفیت کو ری ایکٹویٹ (re-activate) کیا جاتا ہے، تاکہ آدمی کبھی شکر کی کیفیت سے خالی نہ ہونے پائے، وہ اِس دنیا میں رہتے ہوئے ہر تجربے کے بعد شکر کا رسپانس (response) دیتا رہے۔
دین کا خلاصہ اللہ سے تعلق ہے۔ اللہ سے تعلق قائم ہونے کے بعد انسان کے اندر اپنے مُنعم حقیقی کے لیے اعتراف (acknowledgement) کا جذبہ ابھرتا ہے۔ اِسی اعتراف کا شرعی نام شکر ہے۔ جہاں شکر نہ ہو، یقینی طور پر وہاں دین بھی نہ ہوگا۔
روزہ اصلاً ایک انفرادی عبادت ہے، لیکن اس کو ایک مخصوص مہینے میں مقرر کیاگیا ہے۔ اس کا مقصد انفرادی عمل میں اجتماعی پہلو کو شامل کرنا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ روزے کے مہینے میں ایک اجتماعی فضا پیدا ہو۔ ہرجگہ کے لوگ یکساں طورپر ایک ہی عبادت میں مشغول ہوں اور ہر جگہ کے لوگ ایک ہی عبادت کا چرچا کریں، ہرجگہ کے لوگ اپنے تجربات میں دوسروں کو شریک کریں۔ روزہ اگر حقیقی اسپرٹ کے ساتھ انجام دیا جائے تو اس کا انعام اتنا زیادہ بڑھ جاتا ہے کہ حدیث کے الفاظ میں، اس میں دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک اضافہ ہوجاتاہے۔ یہ اضافہ اس اعتبار سے ہوتا ہے کہ کس صائم کا روزہ کیفیت کے اعتبار سے کتنا زیادہ بڑھا ہوا ہے۔ عبادت کا اصول یہ ہے کہ — جتنی زیادہ کیفیت، اتنا زیادہ اجر۔
واپس اوپر جائیں

ایمان اور عمل

ایمان کے بارے میں علما کا یہ اتفاق ہے کہ ایمان دو چیزوں کا نام ہے — زبان سے اقرار کرنا، اور دل سے تصدیق کرنا (الإیمان: اقرار باللسان، وتصدیق بالقلب)۔ اِس مسئلے پر غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ قولی اقرار اور قلبی تصدیق، دونوں ایک دوسرے سے الگ نہیں ہیں۔قلبی تصدیق کے خارجی اظہار ہی کا دوسرا نام قولی اقرار ہے۔ اِس اعتبار سے، ترتیب میں قلبی تصدیق پہلے ہے اور قولی اقرار اس کے بعد۔یہ قلبی تصدیق کوئی سادہ بات نہیں۔ اِس قلبی تصدیق کے ساتھ معرفت جڑی ہوئی ہے۔ جب آدمی معرفت کے درجے میں اللہ کو دریافت کرتاہے تو ا س کے بعد ایسا ہوتا ہے کہ اس کا قلب اس کی تصدیق کرنے والا بن جاتاہے۔ اور جب قلب تصدیق کرتا ہے تو اس کے بعد لازماً یہ ہوتاہے کہ اس کی زبان پر کلمہ کے الفاظ جاری ہوجاتے ہیں۔
پھر یہ معرفت کوئی سادہ بات نہیں۔ اِس معرفت کا تعلق اللہ رب العالمین سے ہے۔ جو آدمی معرفت کے درجے میں اللہ کو دریافت کرے، اُس نے گویا کہ اپنے خالق کو دریافت کیا۔ اُس نے اُس برتر ہستی کو دریافت کیا جو اس کا مالک ہے، جو دینے والااور چھیننے والا ہے، جس کے سامنے آدمی اپنے تمام اعمال کے لیے جواب دہ (accountable) ہے، جو خالق ہونے کے علاوہ، آدمی کا محاسب اور مُجازی بھی ہے، جس کی گرفت سے انسان کسی حال میں بچ نہیں سکتا، جو دنیا اور آخرت کا واحد مالک ہے۔اِس حقیقت کو سامنے رکھئے تو یہ بات ایک غیر متعلق بات قرار پاتی ہے کہ عمل، ایمان کے اندر داخل ہے یا نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عمل، ایمان کا ایک لازمی حصہ ہے جس کو ایمان سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ جس آدمی کو معرفت والا ایمان حاصل ہو، اس کے لیے ایمان ایک انقلاب کے ہم معنی ہوگا، ایمان اس کی پوری زندگی کو بدل دے گا۔ اُس کی نیت، اس کی سوچ، اس کی گفتگو، اس کا سلوک، ردوقبول کے بارے میں اُس کا معیار، سب کچھ یکسر بدل جائے گا۔ ایسے آدمی کے لیے ایمان اور عمل دو چیز نہیں، ایسے آدمی کے لیے ایمان گویا کہ ایک بیج ہے اور عمل اُس بیج سے نکلاہوا درخت ۔
واپس اوپر جائیں

ربوبیت کا نظام

قرآن میں اللہ کو رب العالمین بتایا گیاہے۔ رب یا ربوبیت کا مطلب ہے: إنشاء الشیٔ حالا فحالا إلی حدّ التمام (المفردات للراغب) یعنی کسی چیز کی پرورش کرکے اس کو درجہ بدرجہ کمال تک پہنچانا۔ قرآن میں رب کا لفظ اللہ تعالیٰ کے نظامِ ربوبیت کو بتاتاہے، اُس کا کوئی تعلق انسان کے قائم کردہ نظام سے نہیں ہے۔
قرآن کی سورہ المومنون کی چند آیتیں یہ ہیں: ولقد خلقنا الإنسان من سُلالۃ من طین۔ ثم جعلناہ نطفۃً فی قرار مکین۔ ثم خلقنا النطفۃ علقۃ فخلقنا العلقۃ مضغۃً فخلقنا المضغۃ عظاماً فکسونا العظام لحماً، ثم أنشأناہ خلقاً آخر، فتبارک اللہ أحسن الخالقین(23: 12-14) ۔ یعنی ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصے سے پیدا کیا۔ پھر ہم نے پانی کی ایک بوند کی شکل میں اس کو ایک محفوظ ٹھکانے میں رکھا۔ پھر ہم نے پانی کی بوند کو ایک جنین کی شکل دی۔ پھر جنین کو ہم نے گوشت کا ایک لوتھڑا بنایا۔ پھر ہم نے لوتھڑے کے اندر ہڈیاں پیدا کیں۔ پھر ہڈیوں پر ہم نے گوشت چڑھا دیا۔ پھر ہم نے اس کو ایک نئی صورت میں بنا کرکھڑا کیا۔ پس بڑا ہی بابرکت ہے اللہ، بہترین پیدا کرنے والا۔
قرآن کی اِن آیتوں میں ربوبیت کی وہ مثال بتائی گئی ہے جو اللہ تعالیٰ نے براہِ راست طورپرخود تخلیق کے عمل میں شامل کردی ہے۔ اِس ربوبیت کے ظہور میںانسان کا کوئی حصہ نہیں۔ اِس طرح کی تخلیقی ربوبیت کا معاملہ پوری کائنات میں جاری ہے۔ اِس ربوبیت کا تعلق انسان کے وجود سے بھی ہے اور دوسری اشیا کے وجود سے بھی۔
ربوبیت الٰہی کی دوسری قسم وہ ہے جو فطرت کے قانون کے تحت اپنے آپ ظہور میں نہیں آتی، بلکہ اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ مختلف صورتوں میں انسان کو توفیق دیتاہے اور اللہ کی توفیق سے انسان اس میں اپنا حصہ ادا کرتاہے۔ اِس معاملے کو دوسرے الفاظ میں اِس طرح بیان کرسکتے ہیں کہ فطرت میں اللہ تعالیٰ نے بہت سی چیزیں بطور امکان رکھی ہیں۔ آدمی اللہ کی توفیق سے، اِن امکانات (potentials) کو واقعہ (actual) بناتاہے۔
تہذیب (civilization) کاارتقا اِسی دوسری ربوبیت سے تعلق رکھتا ہے۔ تہذیب کے تمام اجزا امکان کی صورت میں فطرت میں موجود تھے۔ اللہ کی توفیق سے انسان نے اِن امکانات کو واقعہ بنایا۔ اِس طرح ایک تدریجی عمل (gradual process) کے ذریعے موجودہ تہذیب وجود میں آئی۔
مثلاً انسان کی ایک ضرورت اپنے وجود کی توسیع ہے۔ اِسی توسیع کا ایک ذریعہ وہ ہے جس کو سفر کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ابتدا میں یہ کیا کہ اس نے انسان کو دو پاؤں دئے جس کے ذریعے وہ ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچ سکے۔ پھر جنگل میں اونٹ اور گھوڑے اور خچر جیسے حیوانات پیدا کئے جن کو پکڑ کر انسان سدھائے اور پھر اُن کو اپنی سواری (vehicle) کے طورپر استعمال کرے۔ اِس طرح، اللہ کی توفیق سے انسان نے کشتی بنائی اور اِس طرح وہ پانی کو اپنی گزر گاہ کے طورپر استعمال کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ پھر انسان نے اللہ کی توفیق سے پہیہ (wheel) بنایا۔ اِس سے انسان کے لیے بری سفر کا نیا دور شروع ہوگیا۔ اِس کے بعد اللہ کی توفیق سے انسان نے فطرت کی کچھ اور طاقتیں دریافت کیں جس سے تیز رفتار مشینی سواریاں وجود میں آئیں۔ مثلاً ریل اور کار اور ہوائی جہاز، وغیرہ۔
سفر کے تیز رفتار ذرائع اور دوسری ترقیاتی چیزیں، جن کا تعلق تہذیب سے ہے، وہ سب اللہ تعالیٰ کی توفیق سے انسان کو حاصل ہوئیں۔ اِس اعتبار سے، تہذیب کا پورا معاملہ الٰہی ربوبیت کا ایک حصہ ہے۔ تہذیب کا ارتقابظاہرانسان کے ذریعے ہوا، مگراپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ تمام تر اللہ کی توفیق سے انجام پایا۔ اللہ کی خصوصی توفیق کے بغیر انسان، فطرت کی اُن دریافتوں تک نہیں پہنچ سکتا تھا جن کے نتیجے میں تہذیب کا واقعہ ظہور میں آیا۔
انسان اور نظامِ ربوبیت
انسان ایک مکمل وجود ہے، مگر اِسی کے ساتھ وہ مکمل طورپر ایک غیر مکتفی وجود ہے۔ انسان کو اپنے وجود کی تکمیل کے لیے ہر لمحہ ایک مددگار نظام درکار ہے۔ اِس نظام کے بغیر وہ اپنے وجود کو باقی نہیں رکھ سکتا۔ اِسی مددگار نظام کا نام نظامِ ربوبیت ہے، یعنی رب العالمین کا قائم کردہ نظام۔
انسان کے اندر نظامِ ہضم ہے، مگر غذائی اشیا کی سپلائی باہر سے ہوتی ہے۔ انسان کے اندر نظامِ تنفس ہے، مگر آکسیجن اس کو خدا کے کارخانے سے ملتا ہے۔ انسان کے پاس نظامِ بصارت ہے، مگر وہ روشنی خداکی طرف سے آتی ہے جس کے بغیر وہ دیکھ نہیں سکتا۔ انسان کے پاس نظامِ سماعت ہے، مگر اُس ہوا کو چلانے والا خدا ہے جس کے بغیر انسان سن نہیں سکتا، وغیرہ۔انسانی وجود کے اندر اِس قسم کے بہت سے نظام ہیں، مگر ہر نظام اپنی کارکردگی کے لیے خارجی مدد کا محتاج ہے۔ یہ مختلف قسم کے خارجی نظام جس پر انسان کی زندگی کا انحصار ہے، اس کو لائف سپورٹ سسٹم (life support system) کہا جاتاہے۔ یہ لائف سپورٹ سسٹم نہ ہو تو انسان کا پورا وجود بے معنی ہوجائے گا۔
مچھلی پانی کے باہر مسلسل تڑپتی رہتی ہے۔ ایسا اس لیے ہوتاہے کہ اس کو زندہ رہنے کے لیے آکسیجن کی ضرورت ہے اور مچھلی صرف پانی سے آکسیجن لے سکتی ہے۔ مچھلی کی یہ مثال ہر آدمی کے لیے بہت زیادہ سبق آموز ہے۔ ہر وقت انسان کو سوچنا چاہئے کہ خدا اگر لائف سپورٹ سسٹم یا بالفاظ دیگر اپنے نظامِ ربوبیت کو واپس لے لے تو میراکیا حال ہوگا۔ یہ سوچ اگر آدمی کے اندر حقیقی طورپر پیدا ہوجائے تو یہی ایک بات اس کے اندر تمام اعلیٰ قدروں (values) کو پیدا کرنے کا ذریعہ بن جائے گی۔ مثلاً تواضع (modesty) ، شکر، عفو ودرگزر، خیر خواہی، انصاف، وغیرہ۔
شکر کے دو درجے
اِس دنیا میں انسان کو اپنے وجود سے لے کر لائف سپورٹ سسٹم (life support system) تک جو چیزیں ملی ہیں، وہ سب کا سب اللہ کا عطیہ ہیں۔ انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے پورے دل وجان کے ساتھ اِن انعامات کے منعم (giver) کا اعتراف کرے۔ خدا کے اِسی اعتراف کا مذہبی نام ’شکر‘ ہے۔اِس شکر یا اعتراف کے دو درجے ہیں — ایک ہے، نارمل اعتراف (normal acknowledgement)، اور دوسرا ہے، تخلیقی اعتراف (creative acknowledgement) ۔ نارمل شکر کی مثال یہ ہے کہ آپ کو پیاس لگی۔ آپ نے گلاس میں پانی لے کر اس کو پیا۔ اِس سے آپ کو سیرابی حاصل ہوئی اور پھر آپ نے کہا کہ خدایا، تیرا شکر ہے کہ تو نے مجھ کو پانی دیا جس سے میں اپنی پیاس بجھاؤں۔
تخلیقی شکر کی مثال یہ ہے کہ آپ نے جب پانی پیا تو آپ کو پانی کی وہ پوری تاریخ یاد آگئی جو جدید سائنس نے دریافت کی ہے، یعنی تقریباً 15 بلین سال پہلے وسیع خلا میں بے شمار ستارے (stars) وجود میں آئے۔ پھر ایک عرصے کے بعد لٹل بینگ (little bang) ہوا، جس سے موجودہ نظامِ شمسی وجود میں آیا۔ اِس کے بعد زمین کی سطح پر بہت بڑی مقدار میں ہائڈروجن گیس اور آکسیجن گیس کے بادل چھاگئے، پھر دو گیسوں کے ملنے سے وہ استثنائی چیز وجود میں آئی جس کو ’’پانی‘‘ کہاجاتا ہے۔ پھر یہ پانی سمندروں میں کھاری پانی کی حیثیت سے جمع ہوگیا، پھر بارش کے نظام کے تحت، اِس کھاری پانی کا ازالۂ نمک (desalination) ہوا۔ اِس طرح ہمیں وہ میٹھا پانی حاصل ہوا جس سے ہم اپنی پیاس بجھائیں اور دوسرے کام کریں۔ مثلاً زراعت، وغیرہ۔
پانی کے معاملے میں پہلی صورت نارمل شکر کی ہے اور دوسری صورت تخلیقی شکر کی۔ دوسرے الفاظ میں، پہلا شکر اگر صرف شکر ہے تو دوسرا شکر برتر شکر— شکر اور برتر شکر کا یہی معاملہ دوسری تمام چیزوں کے بارے میں پیش آتا ہے۔
اِسی طرح اِس معاملے کی ایک مثال خون (blood) ہے۔ انسان جو غذا اپنے جسم میں داخل کرتا ہے، وہ ایک پیچیدہ نظام کے تحت خون میں تبدیل ہوتی ہے، پھر یہ خون ایک اور پیچیدہ نظام کے تحت سارے جسم میں رگوں کے ذریعے مسلسل دوڑتا ہے۔ یہ بلاشبہہ ربوبیت کے نظام کی ایک اعلی مثال ہے۔ خون کا بننا، خون کا مسلسل گردش کرنا اور خون کی صفائی کا انتظام، وغیرہ۔ یہ سب چیزیں انسان کو خدا کی نعمتیں یاد دلاتی ہیںاور وہ اللہ کے لیے سراپا شکر میں ڈھل جاتا ہے۔
قدیم زمانے میں خون کا تصور صرف یہ تھا کہ وہ ایک سرخ سیال ہے جو جسم کی طاقت بن کر جسم کے اندر گردش کرتا رہتا ہے۔ پھر یہ دریافت ہوئی کہ خون دو قسم کے ذرات سے مل کر بنتا ہے— سرخ ذرات (red blood corpuscles)، اور سفید ذرات (white blood corpuscles) ۔ اب یہ دریافت ہوئی ہے کہ خون میں اِس کے سوا، ایک اور خورد بینی ذرہ ہوتاہے۔ اس کو پلیٹ لیٹس (platelets) کانام دیاگیاہے۔ یہ تیسرا ذرہ انسان کی زندگی اور صحت کے لیے بے حد اہم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خون ہراعتبار سے، اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے۔ اِس نعمت کا احساس آدمی کے اندر شکر وحمد کے چشمے جاری کردیتا ہے۔
اِس قسم کے بے شمار انتظامات ہیں جن کے اوپر انسان کی زندگی قائم ہے۔ یہ نظام براہِ راست خدا کی قدرت کے تحت قائم ہے اور اِسی کو قرآن میں ربوبیت کہاگیاہے۔ یہ نظامِ ربوبیت تمام تر اللہ کی جانب سے قائم ہے۔ انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ ربوبیت کے اِس نظام سے واقفیت حاصل کرے اور پورے معنوںمیں اللہ کا شاکر بندہ بن کر اِس دنیا میں رہے۔
قرآن میں بتایا گیاہے کہ رب صرف اللہ ہے اور اُسی کی ربوبیت اِس دنیا میں قائم ہے۔اِسی طرح فرمایا کہ حکم صرف اللہ کا ہے اور تمام چیزیں اُسی کے زیر حکم ہیں۔ یہ دونوں الفاظ (رب اور حکم) اللہ کی ذات کی نسبت سے قرآن میںآئے ہیں، اس کا کچھ بھی تعلق سیاسیات یا معاشیات سے نہیں ہے۔مگر موجودہ زمانے میں کچھ لوگوں نے یہ کیا کہ انھوں نے مذکورہ الفاظ قرآن سے لئے اور اس کے اندر اپنے خود ساختہ مفہوم کو شامل کردیا۔ یہ گویا کہ ’رب‘ اور’ حکم‘ کے لفظ کو سیاسی بنانا (politicisation) تھا۔ قرآنی الفاظ میں اِس قسم کا خود ساختہ مفہوم شامل کرکے انھوںنے یہ اعلان کیا کہ مسلمان کا یہ مشن ہے کہ وہ دنیا میں نظامِ ربوبیت یا نظامِ حاکمیت قائم کرے۔ یہ بلا شبہہ ایک غیرعلمی بات ہے۔ اس کی غلطی اتنی زیادہ واضح ہے کہ وہ بداہۃً ہی قابلِ رد ہے۔
واپس اوپر جائیں

تمکین فی الارض

قرآن کی سورہ النور کی ایک آیت میں ایک اہم تاریخی اصول بتایا گیا ہے۔ اِس آیت کا ترجمہ یہ ہے: ’’اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے اُن لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور عمل صالح کریں کہ اللہ اُن کو زمین میں استخلاف عطا کرے گا، جیسا کہ اُس نے اُن سے پہلے لوگوں کو استخلاف عطا کیا تھا۔ اور ان کے لیے اُن کے اُس دین کو تمکین عطا کرے گا جس دین کو اللہ نے اُن کے لیے پسند کیا ہے۔ اور اُن کی خوف کی حالت کے بعد اُس کو امن سے بدل دے گا۔ وہ صرف میری عبادت کریں گے اور کسی چیز کو وہ میرا شریک نہ بنائیں گے۔ اور جو اس کے بعد انکار کرے تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں‘‘۔(55: 24)
قرآن کی اِس آیت میں ’’تمکین‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ تمکین کا مطلب قدرت دینا (strengthening) ہے۔ اِس قدرت یا تمکین سے کیا مراد ہے،اُس کا ذکر خود قرآن کی مذکورہ آیت میں موجود ہے۔ آیت کے مطابق، وہ قدرت یا تمکین یہ ہے کہ دین کے معاملے میں خوف کی حالت ختم ہوجائے اور امن کی حالت قائم ہوجائے۔ اہلِ ایمان کو یہ موقع مل جائے کہ وہ شرک سے محفوظ ہو کر اللہ کی مطلوب عبادت کرسکیں۔ ’استخلاف فی الارض‘ سے مراد اِسی قسم کی تمکین ہے۔ اِس آیت میں استخلاف یا تمکین سے مراد کسی قسم کا قومی غلبہ یا سیاسی اقتدار نہیں ہے، بلکہ اُس سے مرادوہ موقع ہے جب کہ ایک مومن کو آزادانہ طور پر عابدانہ زندگی گزارنا ممکن ہوجائے۔
اللہ تعالیٰ کے تخلیقی منصوبے کے مطابق، اِس دنیا میں انسان کو کامل آزادی حاصل ہے۔ اِس آزادی کی بناپر یہ ممکن نہیں ہے کہ اجتماع کی سطح پر کوئی کامل نظام قائم ہوجائے۔اِس لیے نظام یا سیاسی اقتدار کے معاملے میں اللہ تعالیٰ نے یہ اصول رکھا ہے کہ حالات کے تحت کبھی ایک گروہ کو سیاسی اقتدار ملے اور کبھی دوسرے گروہ کو۔ اِس حقیقت کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: تلک الأیام نداولہا بین الناس (3: 140)
اللہ کی یہ سنت مجموعی نظام یا سیاسی اقتدار کے بارے میں ہے، مگر جہاں تک افراد کا تعلق ہے، اُن کے بارے میں یہ مطلوب ہے کہ ان کو ہر حال میں یہ موقع حاصل رہے کہ وہ خدائے واحد کی آزادانہ عبادت کریں اور پُرامن دعوت الی اللہ کو کسی رکاوٹ کے بغیر ہر حال میں جاری رکھ سکیں۔ اِس لیے اللہ نے اِس سلسلے میں یہ اصول اختیار کیا ہے کہ وہ سیاسی اقتدار کے معاملے میں قوموں کو ایک حد تک آزادی دئے ہوئے ہے، لیکن اللہ نے کسی کو یہ حق نہیں دیا کہ وہ عبادت اور دعوت الی اللہ کے کام میں غیر ضروری رکاوٹ پیدا کرے۔ جب بھی کو ئی گروہ اِس قسم کی غیر ضروری رکاوٹ ڈالتاہے تو اللہ تعالیٰ تاریخ میں مداخلت کرکے اِس غیر ضروری رکاوٹ کو ختم کردیتاہے، تاکہ آزادانہ عبادت اور پُرامن دعوت کا کام کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رہے۔
ساتویں صدی عیسوی میں فتنہ (جارحانہ شرک) کو ختم کرنے کے لیے اصحابِ رسول کو قتال کا حکم دینا اِسی مصلحت کے تحت تھا (39: 8)۔ بیسویں صدی عیسوی میں یہی کام ایک اور صورت میں انجام پایا ہے۔ سوویت یونین (کمیونسٹ جبر) دوبارہ دعوت اور عبادت کے معاملے میں اِسی قسم کی ایک رکاوٹ بن گیا تھا، اللہ نے اس کو امریکا کے ذریعے 1991 میں توڑ دیا۔
استخلاف یا تمکین کا مطلب حکومت الٰہیہ کا قیام نہیں ہے۔ استخلاف کا تعلق دراصل خدا کی سنتِ امتحان سے ہے۔ اِس سنتِ امتحان کا ایک پہلو وہ ہے جو فرد سے متعلق ہے، دوسرا وہ ہے جو قوم سے متعلق ہے۔ جس طرح افراد کو اُن کے انفرادی دائرے میں کوئی چیز دے کر اُنھیں جانچا جاتاہے، اُسی طرح قوموں کو باری باری اقتدار دیا جاتا ہے، تاکہ اُنھیں جانچا جائے(165: 6)
استخلاف بمعنی زمینی اقتدار کا تعلق اگر لازماً ایمان اور عملِ صالح سے ہو، تو تمام نبیوں کو زمینی اقتدار حاصل ہونا چاہئے تھا، جب کہ معلوم ہے کہ پچھلے نبیوں میں سے صرف دو نبیوں کو زمینی اقتدار ملا، یعنی حضرت داؤد اور حضرت سلیمان۔
اِسی طرح تمکین سے مراد تمکینِ سیاسی نہیں ہے، بلکہ تمکینِ دینی ہے، یعنی فرد کی نسبت سے دینی ذمے داری ادا کرنے کے لیے جو مواقع درکار ہیں، اُن مواقع کی پوری آزادی۔ فرد کی دینی ذمے داری بنیادی طورپر دو چیزیں ہیں—آزادانہ عبادت، پُرامن دعوت۔ سیاسی اقتدار کے محدود دائرہ میں اگر کوئی غیر مسلم حکمراں ہو، لیکن پُرامن دعوت اور آزادانہ عبادت کے معاملے میں اہلِ ایمان کو پورے مواقع حاصل ہوں تو کہا جائے گا کہ ایسے مقام پر اہلِ ایمان کو تمکین حاصل ہے— موجودہ زمانے میں تمام جمہوری ملکوں میں اہلِ ایمان کو پوری طرح یہ مواقع حاصل ہیں۔ اِس لیے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ موجودہ زمانے کے جمہوری ملکوں میں وہ چیز عملاً حاصل ہے جس کو قرآن میں ’تمکین فی الارض‘ کہا گیا ہے۔
قرآن میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف کو مصرمیں تمکین (12: 21) عطا کی۔ یہ تمکین واضح طورپر غیر سیاسی تھی۔ خود قرآن سے یہ ثابت ہے کہ مصر میں حضرت یوسف کا معاصر غیر مسلم حکمراں بدستور تختِ اقتدار پر تھا اور ملک میں اُسی کا شاہی قانون (76: 12)رائج تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاسی اقتدار کا تعلق صرف انتظامِ ملکی سے ہے، اُس کا براہِ راست طورپر نجاتِ آخرت سے کوئی تعلق نہیں۔
واپس اوپر جائیں

قرآن کا تصورِ تاریخ — ایک جائزہ

انسائکلوپیڈیا برٹینکا میں حسب ذیل عنوان کے تحت ایک مقالہ چھپا ہے: (Historiography and Historical Methodology) اِس مقالے میں ایک ذیلی عنوان (Muslim Historiography) قائم کیا گیاہے۔اِس کے تحت مقالہ نگار نے لکھا ہے کہ — محمد نے اسلام کو ایک ایسے مذہب کی حیثیت سے پیش کیا جس میں تاریخ کا طاقت ور تصور موجود تھا۔ اسلام کی مقدس کتاب قرآن انتباہات سے بھرا ہوا ہے جو کہ تاریخ کے اسباق سے ماخوذ ہے:
Muhammad made Islam a religion with a strong sense of history. The Quran, Islam’s holy book, is full of warnings derived from the lessons of history. (EB. 8/959, 1974)
یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ اِس سے قرآن کا تصورِ تاریخ معلوم ہوتاہے۔ قدیم زمانے میں شاہی خاندان (dynasty) کو یونٹ بنا کر تاریخ لکھی جاتی تھی۔ عبد الرحمن ابن خلدون (وفات: 1406 ) کے بعد ایک نیا دور آیا، جب کہ نیشن (nation) کو یونٹ بنا کر تاریخ لکھی جانے لگی۔ اس کے بعد آرنلڈ ٹائن بی (وفات:1975 ) نے بارہ جلدوں میں ایک کتاب (A Study of History) لکھی۔ اِس میں تہذیب (civilization) کو یونٹ بنا کر پوری انسانی تاریخ کا جائزہ لیا گیا ہے۔
قرآن کا تصورِ تاریخ اِن سب سے مختلف ہے۔ یہ کہاجاسکتاہے کہ قرآن کا تصورِ تاریخ خدائی منصوبہ (divine plan) پر مبنی ہے، یعنی خدا کے تخلیقی پلان کی روشنی میں انسانی تاریخ کا جائزہ لینا۔ زیر نظر مقالے میں اِس قرآنی تصور کے مطابق، تاریخ کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اِس جائزے کے لیے بنیادی طورپر9 ذیلی عنوانات مقرر کیے گییہیں— خلافتِ آدم، اعلان واِسرار، ذبح عظیم، احسن القصص، مقامِ محمود، آیتِ اسرا، اظہارِ دین، لوحِ محفوظ، ادخالِ کلم
جنتی افراد، جنتی معاشرہ
قرآن کی سورہ الذاریات کی ایک آیت یہ ہے: وما خلقتُ الجن والإنس إلا لیعبدون (51: 56) یعنی میں نے جن اور انس کو صرف اِس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔ صحابی مفسر عبد اللہ بن عباس نے اِس آیت میں ’لیعبدون‘ کی تشریح ’لیعرفون‘سے کی ہے، یعنی جنات اورانسان کی پیدائش کا مقصد یہ ہے کہ وہ اللہ کی معرفت (realization) حاصل کریں۔
معرفت کا تعلق فرد سے ہے۔ کیوں کہ یہ ایک فرد ہی کا ذہن ہے جو اِس موضوع پر غور وفکر کرتاہے اور پھر اس کا ذہن اُس فکری واقعے کا تجربہ کرتاہے جس کو معرفت کہاجاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ خالق کے منصوبے کے مطابق، تخلیق کا نشانہ یہ ہے کہ ایسے افراد پیدا ہوں جو عارف باللہ کا درجہ رکھتے ہوں۔ اِس کے مطابق، تخلیق کا نشانہ افراد ہیں، نہ کہ کوئی مجموعہ یا نظام۔
تخلیق کا نشانہ وہی چیز ہوسکتی ہے جو فی الواقع قابلِ حصول ہو۔ اِس پہلو سے انسانی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہر دور میں بلا شبہہ ایسے افراد پیدا ہوئے جو عارف باللہ (realized person)کی حیثیت رکھتے تھے۔اِس کے برعکس، اگر مقصد تخلیق کو اجتماعی معنوں میں لیا جائے، مثلاً صالح معاشرہ بنانا، عادلانہ نظام کی تشکیل، عالمی سطح پر حکومتِ الٰہیہ کا قیام، زندگی کے تمام شعبوں میں شرعی قوانین کا نفاذ، وغیرہ۔ اِس طرح کے اجتماعی انقلاب کو برپا کرنا اگر تخلیق کا نشانہ ہو، تو وہ پوری تاریخ بشری میں کبھی معیاری معنوں میں وقوع میں نہیں آیا، نہ انبیا کے زمانے میں اور نہ انبیا کے زمانے کے بعد۔
آدم کی تخلیق سے لے کر اب تک انسانی تاریخ پر بہت لمبا عرصہ گزر چکا ہے۔ اِس پوری مدت میں، انبیا یا پیروانِ انبیا کے ذریعے مسلسل طور پر یہ کام ہوتا رہا کہ تخلیق کا منصوبہ پورا ہو۔ یہ لوگ اللہ کے نمائندے تھے اور اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنے نمائندوں کی ضرور مددکرتاہے، نہ صرف آخرت میں بلکہ موجودہ دنیا میں بھی (40: 51) ۔ اِس طرح کی قرآنی آیات کی روشنی میں ہم کو یہ ماننا ہوگا کہ انبیا اور اُن کے پیروؤں کا مشن یقینی طورپر کامیاب ہوا۔
یہ ایک مسلّمہ واقعہ ہے کہ اِن حضرات کی کوششیں پورے انسانی مجموعہ یا نظام کی سطح پر کبھی معیاری معنوں میں کامیاب نہیں ہوئیں، البتہ افراد کی سطح پر وہ ہمیشہ کامیاب ہوئیں۔ ہر زمانے میں اور ہر کوشش کے ذریعے ایسے افراد وجود میں آئے جو پورے معنوں میں عارف باللہ تھے، جنھوںنے اپنی ذات کے اعتبار سے اللہ کو اپنا کنسرن بنایا، جو اللہ سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے تھے اور جو اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والے بھی۔
اِس تاریخی تجربے کا تقاضا ہے کہ خالق کے منصوبۂ تخلیق کی کامیابی کا معیار پورے مجموعۂ انسانیت (mankind) کو قرار نہ دیا جائے، بلکہ اس کی کامیابی کا معیار افراد کو قرار دیا جائے۔ اِس اعتبار سے دیکھا جائے تو خالق کا منصوبہ تخلیق آخری حد تک کامیاب نظر آئے گا۔ آدم سے قبل جنات پیدا کئے گئے تھے (15: 27)۔ جنات کی بڑی اکثریت اگر چہ سرکش بن گئی، لیکن قرآن کے مطابق، اُن میں شخصی اعتبار سے اعلیٰ درجے کے صالح افراد بھی پیدا ہوئے (72: 11) ۔ اِس طرح انبیا کے زمانے میں اگر چہ یہ ہوا کہ انبیا کے مخاطبین کی بڑی اکثریت منکر بنی رہی، لیکن انھیں کے درمیان یہ واقعہ بھی ہوا کہ شخصی اعتبار سے اعلیٰ درجے کے صالح افراد پیدا ہوتے رہے۔ اِسی طرح ختم نبوت کے بعد دُعاۃ (داعیوں) کی کوششوں کے ذریعے بھی یہ واقعہ پیش آیاکہ اگرچہ نظام یا مجموعہ انسانیت کی سطح پر کبھی کامل معنوں میں صالح انقلاب نہیں آیا، لیکن شخصی سطح پر ہر دور میں بلا شبہہ ایسے افراد پیدا ہوتے رہے جو عارف باللہ کا درجہ رکھتے تھے۔
اسلام کے مطابق، انسانی زندگی کے دو دور ہیں، قیامت سے پہلے اور قیامت کے بعد۔ قیامت سے پہلے کا دور برائے امتحان ہے اور قیامت کے بعد کا دور برائے انجام۔ یہ دونوں دور خالقِ کائنات کے مقرر کئے ہوئے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ دونوں دور یکساں طورپر پوری طرح کامیاب دور ہوں۔ یہ خالق کے منصوبۂ تخلیق کا کمتر اندازہ (underestimation) ہوگا کہ کامیابی کے اعتبار سے دونوں دوروں میں فرق کیا جائے۔ اس اصول کو ملحوظ رکھتے ہوئے دونوں دوروں کی بہترین توجیہہ یہ ہے کہ پہلے دور کو انتخابِ افرادکا دور (period of individual selection) قرار دیاجائے اور دوسرے دور کو اقامتِ سماج (establishment of society) کا دور کہا جائے، یعنی پہلے دورمیں اس اعلیٰ سماج کے لئے مستحق افراد (deserving individuals) کا انتخاب اور دوسرے دور میں پوری تاریخ کے ان مشترک افراد کو یکجا کرکے ان کی بنیاد پر ایک اعلیٰ معاشرہ (high society) بنانا۔ انسانی حیات کا یہی وہ دوسرا دور ہے جس کو قرآن میں جنت کہا گیاہے۔
خلافتِ آدم
قرآن کے مطابق، انسانیت کا آغاز آدم اور حوا کی تخلیق سے ہوا۔آدم پہلے انسان بھی تھے اور پہلے پیغمبر بھی۔ قرآن کے بیان کے مطابق، انسان کی پیدائش سے پہلے سیارۂ ارض پر ایک ناری مخلوق جنات کو بسایا گیا تھا (15: 27) ۔ یہ غالباً اُس وقت کی بات ہے جب کہ زمین ابھی گرم حالت میں تھی۔ اِس کے بعد جب زمین ٹھنڈی ہوئی اور یہاں کے سمندروں میں پانی بھر گیا تو اس کے بعد اللہ نے انسان کو پیدا کیا اور اس کے لیے خلافتِ ارضی کا فیصلہ کیا۔ اِس لحاظ سے انسان، خلیفۃ الجن ہے۔ روایات کے مطابق، جنات نے زمین پر فساد برپا کیا، اِس لیے زمین کا چارج جنات سے چھین لیاگیا اور اس کو انسان کے حوالے کیا گیا۔ اِسی معاملے کو قرآن میں ’’خلافت‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیاگیا ہے۔
موجودہ زمین پر انسان کو ایک آزاد مخلوق کی حیثیت سے بسایا گیا ہے، لیکن یہ آزادی ایک مشروط آزادی ہے۔ اِس کے مطابق، موجودہ زمین انسان کے لیے ایک امتحان گاہ ہے، وہ انسان کے لیے عیش گاہ نہیں۔ اِس معاملے کی ایک عملی مثال ابلیس اور ملائکہ کی صورت میں قائم کردی گئی ہے۔ جو لوگ ملائکہ کی مانند خدا کے حکم کے آگے سرینڈر کردیں، وہ قیامت کی عدالت میں کامیاب قرار پائیں گے، اور جو لوگ ابلیس کی مانند خدا کے حکم کے آگے سرینڈر نہ کریں، وہ قیامت کی عدالت میں ناکام قرار دئے جائیں گے۔ انسان کا یہ امتحان خود انسان کی سطح پر ہے، جیسا کہ ابلیس اور ملائکہ کے معاملے میں پیش آیا۔اِس معاملے سے انسان کو ہر زمانے اور ہر نسل میں باخبر کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیجے۔ یہ پیغمبر لوگوں کی اپنی زبان میں صراطِ مستقیم کی وضاحت کرتے رہے۔ یہ پیغمبر جو کچھ کہتے تھے، وہ اللہ کی وحی سے کہتے تھے۔ تمام پیغمبروں کا ایک ہی مشترک اصول تھا— نصح وخیر خواہی، یعنی اپنے مدعو کی یک طرفہ طورپر خیر خواہی، مدعو کی طرف سے پیش آنے والی کسی بھی زیادتی پر رد عمل کا طریقہ اختیار کئے بغیر مثبت انداز میں اپنا پیغام دیتے رہنا۔
خدا اور فرشتوں کا مکالمہ
آدم کی تخلیق کے وقت خدا اور فرشتوں کے درمیان ایک مکالمہ ہوا۔ اِس سلسلے میں قرآن کی آیتوں کا ترجمہ یہ ہے: ’’اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ فرشتوں نے کہا: کیا تو زمین میں ایسے لوگوں کو بسائے گا جو اُس میں فساد برپا کریں اور خون بہائیں، اور ہم تیری حمد کرتے ہیں اور تیری پاکی بیان کرتے ہیں۔ اللہ نے کہا: میں جانتا ہوں، جو تم نہیں جانتے۔ اور اللہ نے سکھائے آدمی کو سارے نام، پھر اُن کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور کہا کہ اگر تم سچے ہو تو مجھے اُن لوگوں کے نام بتاؤ۔ فرشتوں نے کہا کہ تو پاک ہے۔ ہم تو وہی جانتے ہیں جو تو نے ہم کو بتایا۔ بے شک، تو ہی علم والا اور حکمت والا ہے‘‘ ۔(2: 30-32)
یہاں یہ سوال ہے کہ وہ کیا بات تھی جس پر فرشتوں کو اشکال پیدا ہوا، اور بعد کو کیا چیز اُن کے علم میںآئی جس کے بعد اُن کا اشکال دور ہوگیا۔ اصل یہ ہے کہ ابتدا میں فرشتوں نے آدمی کی نسل کو اس کے پورے مجموعۂ انسانیت کے اعتبار سے لیا۔ اُن کو نظر آیا کہ جس طرح اختیار پاکر جنات کا گروہ سرکش بن گیا، اس طرح اختیار پانے کے بعد انسانی نسل بھی مجموعی طور پر سرکش بن جائے گی۔
مگر اللہ تعالیٰ نے ایک مظاہرے کے ذریعے انسانی نسل کے منتخب افراد کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور آدم نے اِن منتخب افراد کا تعارف کرایا۔ اُس وقت فرشتوں کو اندازہ ہوا کہ اگر چہ مجموعہ کے اعتبار سے انسانی نسل میں فساد آجائے گا، لیکن عمومی فساد کے باوجود ہر زمانے میں ایسے افراد پیدا ہوں گے جو فساد سے خالی ہوں اور اصلاح کے راستے پر چلنے والے ہوں۔ نسلِ انسانی کے اِنھیں منتخب افراد کو قرآن میںانبیا اور صدیقین اور شہدا اور صالحین (4: 69) کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔
اِس مظاہرے کے بعد فرشتوں کو اللہ کے تخلیقی منصوبے کا علم ہوا۔ فرشتوں نے جانا کہ اللہ کے تخلیقی منصوبے کا تعلق پورے مجموعۂ انسانیت کے اعتبار سے نہیں ہے، بلکہ وہ اِس مجموعے کے استثنائی افراد سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کو جنت کی معیاری دنیا میں آباد کرنے کے لیے ایسے افراد درکار تھے جو مکمل آزادی کے باوجود اپنے آپ کو سرکشی سے بچائیں اور خدا کی زمین پر خدا کے مطیع بن کر رہیں۔ ایسے افراد صرف کھلی آزادی کے ماحول میں بن سکتے تھے، اِس لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کرکے اس کو کامل آزادی کے ماحول میں بسایا اور پھر فرشتوں کو مقرر کیا کہ وہ اُن استثنائی افراد کا ریکارڈ تیار کریں جو دباؤ کے بغیر خدا کی معرفت حاصل کریں اور پھر اپنے آزادانہ فیصلے کے تحت اپنے آپ کو اللہ کی مرضی کا پابند بنائیں۔ یہی استثنائی افراد اللہ کے مطلوب افراد ہیں۔ انھیں مطلوب افراد کا انتخاب کرکے اُن کو جنت کی معیاری دنیا میں بسایا جائے گا۔
اعلان واِسرار
حضرت آدم کے بعد ان کی نسل جس علاقے میں پھیلی، وہ غالباً وہی علاقہ تھا جس کو میسوپوٹامیا (Mesopotamia) کہاجاتا ہے، یعنی دجلہ اور فرات کے درمیان کا زرخیز علاقہ۔ حضرت آدم کے بعد کئی نسلوں تک وہ درست حالت پر قائم رہے۔ پھر ان کے درمیان بگاڑ آیا۔ ان میں شرک پھیل گیا، یعنی خالق کے بجائے مخلوق کی پرستش کرنا۔ اِس کے بعد ان کی اصلاح کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح کو پیغمبر بنا کر بھیجا۔حضرت نوح نے وحی کے ذریعے ان کو خدا اور آخرت کا پیغام دیا۔ ان کی کوشش سے ان کی قوم کی ایک محدود تعداد اُن پر ایمان لائی،لیکن قوم کی بڑی اکثریت سرکشی پر قائم رہی۔ حضرت نوح نے اپنی دعا میں کہا تھا کہ — خدایا، میں نے اعلان کے ساتھ بھی کام کیا اور اسرار کے ساتھ بھی (71: 9) ۔
اِس آیت میں اعلان سے مراد قوم سے اجتماعی خطاب ہے،اور اِسرار سے مراد انفرادی سطح پر اُن کو نصیحت کرنا ہے۔ حضرت نوح نے لمبی مدت تک دونوں طریقے سے اپنا دعوتی مشن جاری رکھا، مگر قوم کی سرکشی ختم نہ ہوسکی، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ایک بڑا طوفان بھیجا جس میں چند لوگ زندہ بچے جو حضرت نوح کی کشتی پر سوار تھے، بقیہ پوری قوم طوفان میں غرق ہو کر ہلاک ہوگئی۔
کہا جاتا ہے کہ اِس طوفان کے بعد حضرت نوح کے تین بیٹے زندہ بچے جن کا نام —حام، سام، یافث تھا۔ اِنھیں تین بیٹوں سے بعد کی انسانی نسل چلی اور پھر وہ دھیرے دھیرے پوری سطح ارض پر پھیل گئی۔ جب انسانی نسل زمین کے مختلف حصوں میں آباد ہوئی تو ہر جگہ اللہ تعالیٰ نے انھیں میں سے کسی فرد کو پیغمبر بنایا جس نے اپنی قوم کو خدائی صداقت کا پیغام دیا۔ مگر جو انجام ہوا، وہ قر آن کے بیان کے مطابق یہ تھا کہ لوگوں نے اپنے پیغمبروں کا مذاق اڑایا اور ان کو ماننے سے انکار کردیا(36: 30) ۔
اِس عام گمراہی کا سبب لوگوں کی ظاہر پرستی تھی۔ لوگ مخلوقات کو دیکھتے تھے، مگر خالق ان کو نظرنہ آتا تھا۔ اِس بنا پر ایسا ہوا کہ مخلوقات میں سے جو چیز بظاہر بڑی دکھائی دی، اُسی کو انھوںنے اپنا معبود سمجھ لیا اور اس کو پوجنے لگے۔ مثلاً سورج اور چاند، وغیرہ۔اِس عام گمراہی کی بنا پر ایسا ہوا کہ پیغمبروں کی یا پیغمبروں کے مشن کی کوئی تاریخ ریکارڈ نہ ہوسکی۔ انسان نے جب لکھنا پڑھنا سیکھا تو اس نے اپنی تاریخ بھی لکھی، مگر اِن تاریخوں میں بادشاہوں اور جنرلوں کے واقعات لکھے گئے، مگر پیغمبروں کو یا ان کے مشن کو ناقابلِ ذکر سمجھ کر چھوڑ دیاگیا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت نوح سے لے کر حضرت مسیح تک کسی بھی پیغمبر کا حوالہ مدوّن تاریخ (recorded history) میں موجود نہیں۔
تاہم موجودہ زمانے میں زمین کی کھدائی سے پیغمبروں کے دور کے کچھ آثار برآمد ہوئے ہیں جن کی بنیاد پر کچھ پیغمبروں کے حالات مورخین نے تحریر کئے ہیں۔ مثلاً حضرت ابراہیم انیسویں صدی عیسوی تک تاریخی شخصیت نہیں سمجھے جاتے تھے۔ بیسویں صدی کے نصف اول (1922-1943) میں کھدا ئی (excavation) کے ذریعے عراق کا قدیم شہر اُر (Ur) دریافت ہوا جو کہ حضرت ابراہیم کا مقامِ عمل تھا۔ اِس کے بعد پیغمبر ابراہیم کو ایک تاریخی شخصیت کی حیثیت سے مان لیا گیا۔
ذبحِ عظیم
ہزاروں سال تک پیغمبروں کو نظر انداز کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔ ضرورت تھی کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے خدائی مشن کی ایک تاریخ بنے۔ وہ انفرادی واقعات سے بڑھ کر ایک تہذیب (civilization) کی صورت اختیار کرلے۔ اِس مقصد کے لیے ضرورت تھی کہ بڑی تعداد میں ساتھی ملیں، جن سے ایک مضبوط ٹیم تیار ہو۔ یہ ٹیم جدوجہد کرکے صورتِ حال کو بدلے۔ وہ تاریخ میں ایک نیا دور لائے، جب کہ خدائی مشن ایک تہذیب کی صورت اختیار کرلے۔ اِس قسم کی مطلوب ٹیم بنانے کے لیے وہ واقعہ ہوا جس کو قرآن میں ذبحِ عظیم (37: 107) کہا گیا ہے۔
ہزاروں سال تک ایساہوا کہ پیغمبر آتے رہے، مگر بڑی تعداد میں قبولِ ایمان نہ کرنے کی وجہ سے کسی پیغمبر کے ساتھ کوئی ٹیم نہیں بنی۔ اِس کا سبب وہی چیز تھی جس کو ماحول کی کنڈیشننگ کہاجاتا ہے۔ اِس کنڈیشننگ کا ذکر حدیث میں اِن الفاظ میں کیاگیاہے: کل مولود یولد علی الفطرۃ، فأبواہ یہودانہ، أویمجسانہ، أوینصرانہ (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 1385) یعنی ہر پیدا ہونے والا فطرت پر پیدا ہوتاہے، پھر اس کے والدین اس کو یہودی یا مجوسی یا نصرانی بنا دیتے ہیں۔
اِس صورتِ حال کی بنا پر آبائی مذہب ایک سماجی رواج بن گیا تھا۔ اِس تسلسل کو توڑنے کے بعد ہی یہ ممکن تھا کہ ایک ایسی نئی نسل بنائی جائے جو اپنی فطری حالت پر قائم ہو اور پھر پیغمبر کی دعوت کو قبول کرکے وہ خدا پرست انسانوں کی ٹیم کا حصہ بن سکے۔
اِس مخصوص منصوبے کے تحت، حضرت ابراہیم نے یہ کیا کہ وہ اُس دور کے متمدن ملک عراق کو چھوڑ کر عرب کے صحرا میں آئے اور یہاں خالص صحرائی ماحول میںاپنی بیوی ہاجرہ اور اپنے بیٹے اسماعیل کو آباد کیا۔ صحرائی ماحول میں آباد کرنے کا مقصد یہ تھا کہ متمدن دنیا سے منقطع ہو کر ایک نسل بنے جو متمدن ماحول کی کنڈیشننگ (conditioning) سے پاک ہو۔
یہی وہ خصوصی منصوبہ تھا جس کے تحت حضرت ابراہیم کو یہ خواب دکھایا گیا کہ آپ اپنے بیٹے اسماعیل کو ذبح کررہے ہیں (37: 102) ۔ حضرت ابراہیم نے اِس معاملے کو اپنے بیٹے کے جسمانی ذبح کے ہم معنی سمجھا اور بیٹے کولٹا کر اس کو ذبح کرنے کے لیے تیار ہوگئے۔ عین اُس وقت اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو اسماعیل کے جسمانی ذبیحہ سے روک دیا۔ اُس وقت فرشتے نے کہا کہ آپ بیٹے کے بجائے ایک دنبہ ذبح کردیں اور بیٹے کو لے جاکر صحرا میں اُس مقام پر بسا دیں، جہاں آج مکہ آباد ہے۔
اِس واقعے کا ذکر قرآن میں اِن الفاظ میں کیاگیا ہے: وفدیناہ بذبح عظیم (37: 107) یعنی ہم نے چھڑا لیا اسماعیل کو ایک بڑے ذبیحہ کے بدلے۔ یہاں بڑے ذبیحہ سے مراد صحرا کے غیرمتمدن اور بے آب وگیاہ ماحول میںآباد ہونا تھا، جو کہ جسمانی ذبیحہ سے بلا شبہہ بہت زیادہ سخت تھا۔
اِس آیت میں ذبحِ عظیم (عظیم قربانی) کا لفظ اسماعیل کے لیے آیا ہے، نہ کہ دنبہ کے لیے۔ دنبہ کو حضرت ابراہیم نے بطور فدیہ ذبح کیا اور اسماعیل کو ایک عظیم تر قربانی کے لیے منتخب کرلیاگیا۔ یہ عظیم تر قربانی کیا تھی، وہ یہ تھی کہ اس کے بعد اسماعیل کو اپنی ماں ہاجرہ کے ساتھ مکہ کے صحرا میںآباد کردیاگیا، تاکہ اُن کے ذریعے سے ایک نئی نسل تیار ہو۔ اُس وقت یہ علاقہ صرف ایک بے آب وگیاہ صحرا کی حیثیت رکھتا تھا۔ وہاں اسباب حیات میں سے کوئی چیز موجود نہ تھی، اِس لیے اِس معاملے کو قرآن میں ذبحِ عظیم کا درجہ دیا گیا۔
احسن القصص
قرآن کی سورہ یوسف میں پیغمبر یوسف علیہ السلام کا واقعہ بیان کیا گیاہے۔ اِس واقعے کو قرآن کا احسن القصص (12: 3) بتایاگیاہے۔ احسن القصص کا لفظی مطلب ہے — بہترین قصہ (best story) مگر قرآن میں یہ بات قصہ برائے قصہ کے طورپر نہیں آئی ہے، بلکہ وہ ایک اہم سبق (lesson)کے طور پر آئی ہے۔ ہر پیغمبر کی اصل حیثیت یہ ہے کہ وہ حق کا داعی ہوتا ہے۔ اِسی کے ساتھ وہ دعوت کا عملی نمونہ ہوتاہے۔ مختلف پیغمبر مختلف حالات میں آئے۔ اِس لحاظ سے یہ ہوا کہ مختلف پیغمبروں کے ذریعے مختلف قسم کی عملی مثالیں قائم ہوئیں۔ اُنھیں میں سے ایک مثال یا ماڈل وہ ہے جو حضرت یوسف کے ذریعے قائم ہوا۔
حضرت یوسف کنعان (فلسطین) کے علاقے میں ایک گاؤں میں پیداہوئے۔ اِس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کو مصر جیسے متمدن ملک کے دارالسلطنت میں پہنچا دیا، جہاں ایک بادشاہ کی حکومت قائم تھی۔ ایسا غالباً اِس لیے ہوا کہ حضرت یوسف کے ذریعے دعوت کی جو مثال قائم کرنا مطلوب تھا، وہ مصر جیسے ملک ہی میں ممکن تھی۔حضرت یوسف کے اِس واقعے کی تفصیل قرآن میں دیکھی جاسکتی ہے۔ اس کا اہم پہلو یہ ہے کہ اُس وقت کے مصری بادشاہ نے حضرت یوسف کی صلاحیتوں سے متاثر ہو کر انھیں ایک اعلیٰ عہدے کی پیش کش کی۔ اِس پیش کش کو حضرت یوسف نے قبول کرلیا۔ جیسا کہ معلوم ہے، یہ بادشاہ اپنے مذہبی عقیدے کے اعتبار سے مشرک تھا۔ مزید یہ کہ سیاسی تخت بھی بدستور اُس کے قبضے میں تھا۔ اِس کے باوجود حضرت یوسف نے بادشاہ کے تحت ملنے والے اِس عہدے کو قبول کرلیا۔
قرآن کے مطابق، اِس کا سبب یہ تھا کہ خزائن ارض پوری طرح حضرت یوسف کو حاصل ہورہے تھے۔ قدیم زمانے کے لحاظ سے، خزائن ارض کا مطلب تھا— سر زمین مصر کا زراعتی انتظام۔ اِس سے معلوم ہوا کہ یہ بھی ایک مطلوب پیغمبرانہ ماڈل ہے کہ داعی اگر ایسے ملک میں ہو، جہاں سیاسی اقتدار (political power) کسی اور کے ہاتھ میں ہو، لیکن یہ امکان ہو کہ اگر داعیٔ حق دوسرے کے سیاسی اقتدار کو تسلیم کرلے تو اس کو کام کے مواقع بلا روک ٹوک حاصل ہوجائیںگے، تو اُس وقت حکمت کا تقاضا یہ ہوگا کہ ایسی پیش کش کو کھلے دل سے قبول کرلیاجائے۔
حضرت یوسف کے ساتھ یہ معاملہ اُس دور میں پیش آیا، جب کہ دنیا میں ہر جگہ زراعت کا دور (agricultural age) پایا جاتا تھا۔ کام کے مواقع تمام تر زراعت کے ساتھ وابستہ تھے۔ اُس وقت خزائنِ ارض کا مطلب تھا — خزائنِ زراعت۔ اب زمانہ بدل چکا ہے۔ اب ہم جمہوریت کے دور میں ہیں۔ اب سیاست کا ڈی سنٹرلائزیشن (de-centralization) ہوچکا ہے۔ اب انتظام (administration) کے سوا تمام شعبے ہر ایک کے لیے آزادانہ طورپر کھلے ہوئے ہیں۔ ایسی حالت میں حضرت یوسف کا ماڈل موجودہ حالات میں مکمل طورپر قابلِ انطباق (applicable) ہے۔ آج اگر داعیٔ حق، سیاسی حکمرانوں سے ٹکراؤ نہ کرے تو کسی باضابطہ اعلان یا معاہدہ کے بغیر ہی تمام خزائن ارض، بہ الفاظ دیگر، تمام مواقع کار آزادانہ طورپر داعی کے زیر تصرف آجائیں گے۔ حضرت یوسف کے اِس ماڈل کو دوسرے الفاظ میں اِس طرح بیان کیا جاسکتاہے کہ حق کے داعی کو چاہئے کہ وہ سیاسی اقتدار کے معاملے میں غیر نزاعی طریقِ کار (non-confrontational approach) اختیار کرے۔ اِس حکمت کا یہ نتیجہ ہوگا کہ خزائنِ ارض پوری طرح اس کے استعمال میں آجائیں گے اور وہ پُرامن رہنے کی شرط پر دعوت کا کام اعلیٰ ترین معیار پر انجام دے سکے گا۔
حضرت یوسف کے واقعے کو قرآن میں احسن القصص کہاگیا ہے۔ یہ محض ایک قصے کی بات نہیں ہے، بلکہ وہ ایک بہترین ماڈل ہے جس کو ایک پیغمبر کے ذریعے قائم کیا گیا ہے۔ حضرت یوسف کا قصہ قرآن کے علاوہ، بائبل میں بھی تفصیل کے ساتھ آیا ہے۔ بائبل میں بتایا گیاہے کہ بادشاہِ مصر نے جب حضرت یوسف کو مصر کے خزائن پر مقرر کیا تو اس نے کہا:
Only in regard to the throne, I will be greater than you. (Genesis 37: 50)
حضرت یوسف کی مثال کی روشنی میں اگر یہ متعین کیا جائے کہ اس کے مطابق، کام کا بہترین ماڈل کیا ہے، تو وہ ماڈل یہ ہوگا کہ بادشاہِ وقت سے سیاسی ٹکراؤ نہ کرو۔ اِس کا فائدہ یہ ہوگا کہ آپ کے لیے یہ ممکن ہو جائے گا کہ آپ غیر سیاسی دائرے میں موجود تمام مواقع کو آزادانہ طورپر حق کے مشن کے لیے استعمال کرسکیں گے۔ اِس ماڈل کا خلاصہ دو لفظوں میں یہ ہے — سیاسی اقتدار کے معاملے میں موجودہ صورت حال کو تسلیم کرنا، اور سیاسی اقتدار کے باہر کے دائرے میں اپنے عمل کی تنظیم کرنا:
Political statusquoism, non-political activism.
مقامِ محمود
قرآن کی سورہ الاسرا میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں فرمایا گیا ہے: عسی أن یبعثک ربک مقاماً محموداً (17: 79) یعنی امید ہے کہ تمھارا رب تم کو مقامِ محمود پر کھڑا کرے۔ قرآن کی اِس آیت میں جس مقامِ محمود کا ذکر کیاگیا ہے، اس کا ایک پہلو وہ ہے جس کا تعلق آخرت سے ہے۔ اِس کا دوسرا پہلو وہ ہے جس کو آخرت سے پہلے موجودہ دنیا میں پیش آنا ہے۔ مقامِ محمود کے اِس دوسرے پہلو کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو استثنائی طورپر خود انسانی تاریخ کے مطابق، ایک مسلَّم نبوت (acknowledged prophethood) کا درجہ حاصل ہوجائے گا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جو پیغمبر دنیا میں آئے، ہمارے عقیدے کے اعتبار سے، وہ بلاشبہہ خدا کے پیغمبر تھے۔ مگر قدیم زمانے میں موافق اسباب نہ ہونے کی وجہ سے پچھلے پیغمبر قدیم تاریخی ریکارڈ میں درج نہ ہوسکے۔ پیغمبر اسلام کے زمانے میں پہلی بار وہ اسباب پیدا ہوئے جب کہ آپ کو آزاد تاریخی ریکارڈ میں ایک معلوم اورمسلّم شخصیت کے اعتبار سے درج کیاگیا۔ اِس تاریخی حقیقت کو ایک مستشرق نے اِن الفاظ میں بیان کیا ہے — محمد تاریخ کی کامل روشنی میں پیدا ہوئے:
Muhammad was born within the full light of history.
محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب 570 میں مکہ میں پیدا ہوئے۔ آپ بنو اسماعیل کے ایک فرد تھے۔ پچھلے تقریباً ڈھائی ہزار سال کے دوران عرب کے ماحول میں بنو اسماعیل کے نام سے ایک پوری نسل تیار ہوچکی تھی۔جس کے افراد کی اعلیٰ صلاحیتوں کی بنیاد پر ایک مستشرق نے اس کو ہیروؤں کی نسل (a nation of heroes) کہا تھا۔ یہی وہ گروہ ہے جس میں دعوت وتربیت کا کام کرکے وہ جماعت تیار ہوئی جس کو اصحاب رسول کہا جاتا ہے۔ رسول اور اصحاب رسول نے غیر معمولی جدوجہد کے ذریعے یہ کیا کہ انھوںنے ایک نیا دور پیدا کردیا۔ اُن سے پہلے توحید کا عقیدہ صرف ایک نظریے کی حیثیت رکھتا تھا۔ اصحاب رسول کی غیر معمولی کوششوں سے وہ انقلاب کے مرحلے میں داخل ہو گیا۔ شرک کا دور ختم ہوگیا اور توحید کا دور پوری طاقت کے ساتھ شروع ہوگیا۔
اِسی انقلاب کا نتیجہ تھا کہ تاریخ میں ایک نیا پراسس (process) شروع ہوگیا۔ اِس پراسس کا آغاز ساتویں صدی کے نصف اول میں عرب سے ہوا، اس کا اختتام (culmination) ایک ہزار سال کے بعد یورپ میں ہوا۔اس انقلاب کے بہت سے پہلو تھے۔ مثلاً اِس انقلاب نے اسلام کے عقیدے کو سائنسی حقیقت (scientific reality) کے درجے تک پہنچا دیا۔ اس نے مذہبی آزادی کا دروازہ کھولا۔ اس کے بعد دعوت وتبلیغ کے راستے کی تمام رکاوٹیں ختم ہوگئیں۔ اس کے نتیجے میں جدید کمیونکیشن وجود میں آیا، جس کے بعد یہ ممکن ہوگیا کہ اسلام کے پیغام کو عالمی سطح پر پہنچایا جاسکے۔ آفاق وانفس میں سائنس کی دریافتوں سے یہ ممکن ہوگیاکہ اعلیٰ ترین علمی معیار پر حق کی تبیین کی جاسکے (4: 53)۔
آیتِ اسرا
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مکی دور، یعنی ہجرت (622 ء) سے ایک سال پہلے ایک واقعہ پیش آیا، جس کو قرآن میں اسراکہاگیا ہے۔ اِس سلسلے میں قرآن کے الفاظ یہ ہیں:سبحان الذی أسریٰ بعبدہ لیلاًً من المسجد الحرام إلی المسجد الأقصی الذی بارکنا حولَہ لنریہ من آیاتنا (17: 1)۔ اِس آیت میں اسرا کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اسراکا لفظی مطلب ہے— رات کا سفر(night journey) ۔ اللہ تعالیٰ کے خصوصی انتظام کے تحت، پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا کہ رات کے ایک لمحے میںآپ نے مکہ سے یروشلم کا سفر کیا، اور پھر آپ اسی رات کو یروشلم (فلسطین) سے مکہ واپس آئے۔ اِس سفر کی مجموعی مسافت تقریباً 25 سو کلو میٹر تھی۔
اِس سفر کا مقصد قرآن میں اِن الفاظ میں بتایاگیا ہے: لنریہ من اٰیاتنا یعنی اللہ تعالیٰ کی نشانیاں پیغمبر کو دکھانا۔ یہ نشانیاں (آیات اللہ) کیا تھیں، وہ یروشلم کی عمارتیں یا وہاں کے درخت اور چشمے نہ تھے۔ وہ نشانی دراصل فطرت میں چھپا ہوا وہ امکا ن تھا جس کو تیزرفتار سفر اور تیز رفتار پیغام رسانی کہا جاتا ہے، یعنی آنے والا دورِ مواصلات (age of communication) ۔ اِس تجربے کے ذریعے پیغمبر اسلام کو بتایا گیا کہ انسان کو وہ ذرائع حاصل ہوجائیں گے جن کی مدد سے عالمی سطح پر خداکے آخری دین کی اشاعت ممکن ہوجائے، یعنی وہی واقعہ جس کو حدیث میں ’ادخال الکلمۃ فی کل البیوت‘ (ہر گھر میں کلمۂ اسلام کا داخلہ) کہا گیاہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو اسرا کے واقعے کی صورت میں جو تجربہ کرایا گیا، وہ مستقبل کے بارے میں ایک بشارت تھی۔ اِس بشارت کا ذکر احادیث میں مختلف الفاظ میں آیاہے۔ مثلاً ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام نے فرمایا: و لیتمنّ اللہُ ہٰذا الأمر حتی یسیر الراکب من صنعاء إلی حضرموت، ما یخاف إلاّ اللہ (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 3852 ) یعنی اللہ ضرور اِس امر (دین ) کو تکمیل تک پہنچائے گا، یہاںتک کہ ایک سوار صنعا سے حضرت موت تک جائے گااور اس کو اللہ کے سوا کسی اور کا خوف نہ ہوگا۔اِس سلسلے میں ایک اور روایت ان الفاظ میں آئی ہے: لیبلغن ہٰذا الأمرُ ما بلغ اللیلُ والنہار(مسند احمد، رقم الحدیث: 17082)یعنی خدا کی قسم، یہ امر (دین) ضرور وہاں تک پہنچے گا، جہاں تک رات اور دن پہنچتے ہیں۔اِسی طرح ایک اور روایت کے الفاظ یہ ہیں: لا یبقی علیٰ ظہر الأرض بیت مدر ولا وبر إلا أدخلہ اللہ کلمۃَ الإسلام (مسند احمد، رقم الحدیث: 24215) یعنی زمین کی پشت پر کوئی چھوٹا یا بڑا گھر نہیںبچے گا، جہاں اللہ تعالیٰ اسلام کے کلمہ کو داخل نہ کردے۔
قرآن کی سورہ الاسرا میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو تیز رفتار کمیونکیشن کا تجربہ کرایاگیا تھا۔ مذکورہ احادیث میں پیشین گوئی کے انداز میں بتایا گیا ہے کہ یہ امکان ضرور مستقبل میں واقعہ بنے گا اور خدا کا دین جو عرب میں شروع ہوا، وہ گلوبل کمیونکیشن کے ذریعے سارے عالم میں پہنچ جائے گا، یہاں تک کہ کوئی بھی انسان اُس سے بے خبر نہ رہے۔
اظہارِ دین
قرآن میں بتایاگیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد ’اظہارِ دین‘ تھا۔ اظہارِ دین کی آیت قرآن میں تین بار آئی ہے (9: 33; 48: 28; 61: 9) ۔ اِس سلسلے میں قرآن کی سورہ التوبہ کے الفاظ یہ ہیں: ہوالذی أرسل رسولَہ بالہُدیٰ ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلّہ (9:33) یعنی اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو بھیجا ہے ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ، تاکہ وہ اس کو سارے دین پر غالب کردے۔اِس آیت کی تفسیر کے تحت مفسر القرطبی نے لکھا ہے کہ— اظہارِ دین کا مطلب ہے حجت اور دلائل کے ذریعے دین کو غالب کرنا (أی بالحجۃ والبراہین، 8/121 ) ۔
اظہارِ دین کے جس واقعے کا قرآن میں ذکر ہے، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خو د زمانۂ رسول میں وہ پوری طرح واقع ہوجائے گا۔ اِس آیت میں ایک تاریخی تبدیلی کا ذکر ہے، اور تاریخ میںکوئی بڑی تبدیلی اچانک یا محدود مدت میں نہیں آتی، ایسی تبدیلی ہمیشہ لمبی مدت کے پراسس (process) کے بعد آتی ہے۔ قرآن کی اِس آیت میں جس واقعے کا ذکر ہے، وہ یہ ہے کہ رسول اور اصحابِ رسول کی جدوجہد سے ساتویں صدی کے نصف اول میں ایک انقلابی عمل شروع ہوا۔ یہ عمل مختلف حالتوں سے گزرتا ہوا تقریباً ایک ہزار سال تک جاری رہا اور پھر اس کے نقطۂ انتہا (culmination) کے طورپر وہ واقعہ اپنی کامل صورت میں پیش آیا جس کو قرآن میں ’لیظہرہ علی الدین کلّہ‘کے الفاظ میں بیان کیا گیا تھا۔
حجت یا برہان کیا ہے۔ یہ ایک دو طرفہ عمل ہے، یعنی ایک طرف حجت کو پیش کرنے والا ہوتا ہے اور دوسری طرف حجت کو سننے والا۔ اِس لیے حجت کو مخاطب کے ذہنی تقاضے کے مطابق ہونا چاہئے۔ علمی استدلال دراصل اِس بات کا نام ہے کہ مخاطب کے علمی مسلّمہ پر اپنی بات کو ثابت کیا جائے۔ ساتویں صدی کے نصف اول میں جب کہ قرآن اترا، اُس وقت دنیا روایتی دور سے گزر رہی تھی۔ اُس وقت صرف روایتی استدلال ہی ممکن تھا۔ مگر قرآن ایک ابدی کتاب کی حیثیت سے اتارا گیا ہے، ا س لیے قرآن کے مذکورہ الفاظ میں یہ بات شامل ہے کہ نہ صرف روایتی دور میں، بلکہ بعد کو ظہور میں آنے والے سائنسی معیار کے مطابق بھی قرآن مسلّمہ طورپر اپنی ایک ثابت شدہ کلام کی حیثیت کو برقرار رکھے گا۔
اِس مصلحت کا تقاضا تھا کہ انسانی علم کا ارتقا ایسے نہج پر ہو جو قرآن کی صداقت کو بعد کے دورمیں بھی یکساں طورپر برقرار رکھے۔ یہی وہ مطلوب ہے جو بعد کے سائنسی دور میں حاصل ہوا۔ سائنس کی دریافتوں نے صرف یہ کیا کہ قرآن کے نظریات کو دوبارہ سائنس کے معیار پر ایک مسلّمہ معیار کی حیثیت دے دی۔ مستقبل میں پیش آنے والا یہی موافقِ قرآن واقعہ ہے جس کی پیشگی خبر ان الفاظ میں دی گئی تھی: سنریہم آیاتنا فی الآفاق وفی أنفسہم حتی یتبین لہم أنہ الحق (41: 53) ۔
قرآن کی اِس آیت میں آفاق وانفس کی جن نشانیوں کا ذکر ہے، اُس سے مراد وہی چیز ہے جس کو جدید سائنس کی دریافتیں (scientific discoveries) کہا جاتا ہے۔ یہ دریافت دراصل فطرت میں قائم شدہ خدائی قانون کی دریافتیں ہیں۔ چوں کہ قرآن کو نازل کرنے والا جو خدا ہے، اُسی نے فطرت کے اِن قوانین کو بھی قائم کیا ہے، اِس لیے دونوں کے درمیان کامل مطابقت پائی جاتی ہے۔ اِس مطابقت نے حاملینِ قرآن کو موجودہ زمانے میں ایک یہ موقع دیا ہے کہ وہ قرآن کی صداقتوں کو سائنس کے مسلّمات کی روشنی میں ثابت شدہ بنا سکیں۔
قرآن میںاظہارِ دین کے جس واقعے کا ذکر ہے، اُس سے مراد یہ نہیں ہے کہ خود زمانۂ نزول میں یہ واقعہ عملاً پیش آجائے گا، بلکہ اِس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اور اصحاب رسول کے ذریعے جو انقلاب آئے گا، وہ انسانی تاریخ میں ایک نئے پراسس کو شروع کرے گا۔ یہ پراسس عرب میں شروع ہوا اور بتدریج ارتقا کرتا رہا، یہاں تک کہ بیسویں صدی عیسوی میں اس کی تکمیل ہوئی۔ اِس تکمیل کے ذریعے نہ صرف واقعاتِ فطرت ظہور میں آئے جنھوںنے اسلامی عقائد کے اثبات کے لیے سائنسی بنیاد فراہم کی، بلکہ اِس کے ذریعے دوسرے وہ اجتماعی واقعات ظہور میں آئے جو اسلامی دعوت کے عین موافق تھے۔ مثلاً آزادی، جمہوریت اور مذہب کے اعتبار سے کھلاپن (openness) ، وغیرہ۔
قرآن کی اِس آیت میں اظہار سے مراد سیاسی غلبہ نہیںہے، بلکہ اِس سے مراد فکری غلبہ اور ایسے حالات کا پیدا ہونا ہے جس کے بعد قرآن کے مشن کی راہ میں کوئی رکاوٹ باقی نہ رہے، ہر قسم کے مواقع اس کے لیے قابلِ استعمال ہوجائیں — اکیسویں صدی عیسوی میں، قرآن کی یہ پیشین گوئی عملاً پوری طرح وقوع میں آچکی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اکیسویں صدی عیسوی اظہارِ دین کی صدی ہے۔ اسلامی انقلاب کے ذریعے جو تاریخی عمل (historical process) ساتویں صدی عیسوی میں شروع ہوا تھا، وہ اکیسویں صدی میں اپنے آخری نقطۂ انتہا (culmination) تک پہنچ گیا ہے۔ اب اہلِ اسلام کا واحد فریضہ یہ ہے کہ وہ تمام دوسری چیزوں کو ثانوی (secondary) بنائیں۔ وہ دعوت الی اللہ، بہ الفاظ دیگر دورِ جدید کی نسبت سے قرآنی تعلیمات کی اشاعتِ عام کریں، یہاں تک کہ ہر عورت اور ہر مرد اس سے باخبر ہوجائے۔
لوحِ محفوظ
قرآن کی سورہ البروج میں یہ آیت آئی ہے: بل ہو قرآن مجید فی لوح محفوظ (85: 21-22) یعنی وہ ایک باعظمت قرآن ہے، لوح محفوظ میں۔اِس آیت میں لوحِ محفوظ (well-guarded tablet) کا مطلب کیا ہے۔ اِس سلسلے میں کوئی مستند حدیث موجود نہیں۔ تاہم عام طورپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ملائِ اعلیٰ میں ایک محفوظ لوح ہے اور اِس لوح پر قرآن کا متن لکھا ہوا ہے۔ یہ بات اصولاً درست ہے، لیکن لوح سے مراد معروف لوح نہیں ہے، بلکہ اِس سے مراد ربانی لوح ہے۔
اصل یہ ہے کہ پورا عالمِ موجودات مکمل طورپر اللہ کے امر کے تحت ہے۔ شمس وقمر اور د وسرے ستاروں اور سیاروں کے بارے میں قرآن میں بتایا گیاہے کہ اُن کا ایک مقرر کورس (determined course) ہے، اور وہ ادنیٰ انحراف کے بغیر اِس مقرر کورس پر چلتے ہیں(36: 38) ۔ اِسی معاملے کو علمی طورپر اِس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ عالمِ مادی، فطرت کے قانون (law of nature) کی پابند ہے، اور عالمِ حیوانات اپنی جبلت (instinct) کی پابند۔
انسان کا معاملہ بظاہر مختلف ہے، کیوں کہ انسان کو اپنے قول وعمل کی آزادی دی گئی ہے۔ مگر اِس آزادی کے باوجود انسانی تاریخ پر اللہ نے اپنا کنٹرول قائم کررکھا ہے۔ تاریخ پر اِسی کنٹرول کی ایک صورت وہ ہے جس کو قرآن کے حوالے سے اِس طرح بتایاگیا ہے کہ قرآن ایک لوح محفوظ میں ہے۔ لوحِ محفوظ کا معاملہ کوئی پراسرار معاملہ نہیںہے، مطالعہ کے ذریعے اس کو سمجھا جاسکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن سے پہلے اپنے نبیوں کے ذریعے بہت سی کتابیں بھیجیں جو انسان کے لیے معتبر ہدایت نامہ کی حیثیت رکھتی تھیں۔ مگر پچھلی کتابیں محفوظ نہ رہ سکیں۔ ساتویں صدی عیسوی میں جب اللہ کا فیصلہ یہ ہوا کہ اب آخری پیغمبر بھیج دیاجائے تو اِس فیصلے کا ایک تقاضا یہ بھی تھا کہ آخری پیغمبر کے ذریعے آئی ہوئی کتاب (قرآن) کی مستقل حفاظت کا انتظام کردیا جائے— لوح محفوظ کے الفاظ میں قرآن کے اِسی مخصوص حفاظتی انتظام کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
اِس کی تدبیر یہ کی گئی کہ اولاً قرآن کا معیاری متن (standard version) علمِ الٰہی یا بہ الفاظِ دیگر، ملائِ اعلیٰ میں محفوظ کردیاگیا اور پھر تاریخ کے لیے مقدر کردیا گیا کہ وہ اِس معاملے میں اِسی رخ پر سفر کرے۔ چناں چہ عملاً یہی ہوا۔ اولاً یہ ہوا کہ ساتویں صدی کے نصف اول میں قرآن کو حافظے سے کتابت کی صورت میں محفوظ کیاگیا۔ ہزاروں لوگوں نے نسل درنسل یہ کیا کہ قرآن کو نہ صرف یاد کرکے اپنے حافظے میں ریکارڈ کرلیا، بلکہ اِسی کے ساتھ وہ قرآن کے کتابت شدہ نسخے برابر تیار کرتے رہے۔ اِس طرح وہ ایک نسل سے دوسری نسل تک مکتوب قرآن کو پہنچاتے رہے۔ یہی وہ معاملہ ہے جس کی طرف قرآن میں اِن الفاظ میں اشارہ کیاگیا ہے: علّم بالقلم۔تعلیم بالقلم کا یہ عمل اِس طرح مسلسل تقریباً ہزار سال تک جاری رہا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ انسانوں کو یہ توفیق دی کہ وہ طباعت کے آلات ایجاد کریں۔ اِس فن کے ارتقا میں بہت سے انسانوں نے کام کیا۔ آخر کار جرمن گولڈ سمتھ جوہانس گوٹن برگ (وفات: 1468 ) اِس میں کامیاب ہوگیا کہ وہ ایک قابلِ عمل طباعتی آلہ دریافت کرے۔ اِس دریافت کے بعد تاریخ میں ایک پرنٹنگ انقلاب (printing revolution) آیا جو تیزی سے ترقی کرتے ہوئے موجودہ اعلیٰ طباعتی مشین (printing press) تک پہنچا۔
لوح محفوظ کے الفاظ میں اِسی تاریخ کی طرف اشارہ کیاگیا ہے۔ قرآن کا نزول 610 عیسوی میں شروع ہوا۔ اس کی تکیل تقریباً 23 سال میں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ کی خصوصی توفیق سے استثنائی طورپر یہ واقعہ پیش آیا کہ خداکے نزدیک، قرآن کا جو معیاری متن (standard version) تھا، وہ ادنی تغیر کے بغیر پہلے انسانی حافظے میں ریکارڈ ہوا، پھر ادنیٰ تغیر کے بغیر کتابت کے ذریعے اس کی جلدیں بنائی گئیں، پھر تاریخ میں ایک پراسس جاری ہوا جس کے نتیجے میں پرنٹنگ پریس کا دور آگیا۔ پرنٹنگ پریس کے زمانے میں یہ ممکن ہوگیا کہ قرآن کا ایک نسخہ نہایت درست طورپر تیار کیا جائے اور پھر اس کی بلین اور بلین کاپیاں تیار کرلی جائیں۔ آج ہر گھر میں اور ہر مسجد میں اور ہر مدرسہ اور ہر لائبریری میں قرآن کے نہایت صحیح مطبوعہ نسخے موجود ہیں۔ اِس طرح خدا کی تقدیر اِس بات کی ضامن بن گئی کہ قرآن کسی بھی قسم کے تغیر اور تبدل کے بغیر ہر انسان کے لیے قابلِ دستیاب ہوجائے۔
ادخالِ کلمہ
سیکولر مبصرین عام طور پر یہ کہتے ہیں کہ اسلام کا سفر اس کے پیغمبر کے جلد ہی بعد ٹوٹ گیا، بعد کی تاریخ میں اسلام کا تسلسل باقی نہ رہا۔ مگر یہ رائے صرف سرسری مطالعے کا نتیجہ ہے۔ اسلام خدا کا دین ہے۔ اسلام کی تاریخ خدائی منصوبے کے تحت مسلسل سفر کررہی ہے۔ غلط فہمی صرف اِس لیے ہوتی ہے کہ لوگ یہ نہیں جانتے کہ تاریخ کا ہر سفر ناموافق حالات میں ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کا سفر انسانی آزادی کو باقی رکھتے ہوئے جاری ہے، نہ کہ انسانی آزادی کو منسوخ کرکے۔ انسانی تاریخ میں اسلام کے سفر کے تین مرحلے ہیں:
Land expansion — consolidation — overseas expansion
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب میں اپنے مشن کا آغاز 610 عیسوی میں کیا۔ اِس کے بعد دینِ توحید کی ایک نئی تاریخ بنی۔ اِس تاریخ کا خلاصہ یہ تھا کہ — انسانی آزادی کو منسوخ کئے بغیر دینِ توحید کی تاریخ بنانا اور اس کو اس کی آخری تکمیل تک پہنچانا۔ اس تاریخ پر اب تقریباً ڈیڑھ ہزار سال گزر چکے ہیں۔ یہ تاریخ مسلسل طورپر اپنی منزل کی طرف سفر کررہی ہے۔ اِس مدت کے دوران بظاہر جو اتار چڑھاؤ کے واقعات نظر آتے ہیں، وہ انسانی آزادی کو باقی رکھتے ہوئے تاریخ کو مینیج (manage) کرنے کی مثالیں ہیں۔
قرآن کی سورہ الانعام میں بتایا گیا ہے کہ — یہ قرآن اِس لیے اتارا گیا ہے کہ تم اے پیغمبر، آگاہ کردو اہلِ مکہ کو اور مکہ کے اطراف کے لوگوں کو (6: 92) ۔ قرآن کی اِس آیت میں، مکہ اور اطرافِ مکہ سے مراد بَرّی حصۂ ارض ہے، جہاں تک اُس زمانے کے درمیان حق کا پہنچنا بہ آسانی ممکن تھا ۔
زمین کے نقشہ (map) پر نظر ڈالیں تو عرب کے ایک طرف بحرِ متوسط (Mediterranean Sea) ہوگا، جس کے دوسری طرف یورپ کا براعظم واقع ہے۔ اِسی طرح اگر آپ عرب سے افریقہ کی طرف چلیں تو اس کی آخری سرحد پر اٹلانٹک سمندر (Atlantic Ocean) ہوگا، جس کے دوسری طرف امریکا کا براعظم واقع ہے۔ اسی طرح اگر آپ عرب سے بحرِ ہند (Indian Ocean) کی طرف چلیں تو اس کے دوسری طرف آسٹریلیا کا براعظم دکھائی دے گا۔
عقبہ بن نافع (وفات: 683 ء) ایک تابعی تھے۔ وہ عرب سے ایک دستہ لے کر نکلے اور افریقہ میں اسلام کی اشاعت کرتے ہوئے اس کے مغربی ساحل تک پہنچ گئے۔ یہاں تاحدِ نظر اٹلانٹک سمندر (Atlantic Ocean) پھیلا ہوا تھا۔ وہ اُس وقت گھوڑے پر سوار تھے ۔انھوں نے اپنا گھوڑا سمندر کے کنارے کھڑا کیا اور کہا: اللہم إنی لو أعلم وراء ہٰذا البحر بلداً لخُضتُہ إلیہ، حتی لا یُعبد أحد دونک (خدایا، اگر میں جانتا کہ اِس سمندر کے اُس پار بھی کوئی ملک ہے تو میں سمندر میں گھس کر وہاں جاتا، یہاں تک کہ تیرے سوا کسی کی عبادت نہ کی جائے)۔
عقبہ بن نافع کا یہ واقعہ علامتی طورپر یہ بتاتا ہے کہ دورِ اول میں اسلام کی دعوتی توسیع زمین کے برّی حصے میں برابر ہوتی رہی، لیکن وہ سمندر پار کے ملکوں تک نہ پہنچ سکی، کیوں کہ سمندری سفر کے لیے اُس زمانے میں قابلِ اعتماد اسباب موجود نہ تھے۔ اِس کے بعد تاریخ میں ایک نیا عمل شروع ہوا۔ اِس کا ایک پہلو استحکام (consolidation) تھا۔ استحکام کے بغیر دعوتی توسیع عملاً غیر موثر ہوجاتی، حتی کہ قرآن کی حفاظت بھی ممکن نہ ہوتی۔ اِس مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایسے عالمی حالات پیدا کئے کہ ایشیا اور افریقہ میں مسلمانوں کا سیاسی ایمپائر قائم ہوگیا۔ یہ مسلم ایمپائر اِس بات کا ضامن تھا کہ خدا کا آخری دین پوری طرح محفوظ ہوجائے اور اس کی اشاعت مسلسل جاری رہے۔
مذکورہ استحکام کے دورمیں اس کے زیر اثر ایک اور تاریخی پراسس (historical process) شروع ہوا۔ اِس کا مقصد تھا فطرت (nature) میں چھپے ہوئے امکانات کو وقوع میں لانا۔ یہ عمل تدریج کے ساتھ تاریخ میں جاری رہا۔ اِس عمل کا آغاز ابتداء ً مسلمانوں نے کیا۔ اس کے بعد یورپ میں اس کی تکمیل ہوئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آخر کار وہ چیزوجود میں آگئی جس کو کمیونکیشن کا دور (age of communication) کہاجاتا ہے۔ اِس مواصلاتی انقلاب کے بعد یہ ممکن ہوگیا کہ اسلام کی توسیع زمین کے برّی حصے تک محدود نہ رہے، بلکہ وہ سمندر پار کے ملکوں تک بہ آسانی پہنچ جائے۔
اسلامی دعوت کی عالمی توسیع اول دن سے اسلام کا نشانہ تھی (25: 1) ۔ مگر اسلام کی یہ عالمی توسیع، اسباب کی اِس دنیا میں ضروری وسائل کے بغیر ممکن نہ تھی۔ جدید مواصلاتی انقلاب نے اِس کو پوری طرح ممکن بنا دیا۔ مستقبل میں پیش آنے والا یہی واقعہ تھا جس کی خبر پیشگی طورپر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اِن الفاظ میں دے دی تھی: لا یبقی علی ظہر الأرض بیت مدر ولا وبر إلا أدخلہ اللّٰہ کلمۃ الإسلام (مسند احمد، رقم الحدیث: 24215) یعنی زمین کی پشت پر کوئی گھر یا خیمہ ایسا نہیں بچے گا جس میں اسلام کا کلمہ داخل نہ ہوجائے۔
اسلام ایک دعوتی مشن ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ تمام انسان جو اِس زمین پر پیدا ہوئے، اُن کو موت سے پہلے یہ بتادیا جائے کہ خدا کا تخلیقی منصوبہ (creation plan of God) ان کے بارے میں کیا ہے۔ انسان کی پوری تاریخ میں اس کو مسلسل طورپر جاری رہنا ہے۔ آغاز کے پہلے مرحلے میں اس کی توسیع زمین کے بری حصہ (ایشیا اور افریقہ) میں ہوتی رہی۔ اس کے بعد استحکام کے ساتھ ایسے مادی اسباب پیدا ہوئے جس کے تحت مواصلاتی ذرائع میں ایسا انقلاب آیا جس کے تحت یہ ممکن ہوگیا کہ اسلامی دعوت کی عالمی اشاعت کا کام کیا جاسکے۔ موجودہ زمانے میں پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا اور دوسرے ذرائع کی بنا پر اسلامی دعوت کے اِس عالمی نشانے کو پورا کرنا آخری حد تک ممکن ہوگیا ہے۔ اسی کے ساتھ موجودہ زمانے میں مذہبی آزادی (religious freedom) بھی مکمل طورپر حاصل ہوچکی ہے۔ اب امتِ محمدی سے وابستہ افراد کی یہ لازمی ذمے داری ہے کہ وہ اسلام کے دعوتی مشن کو اس کی آخری تکمیل تک پہنچائیں، یہاں تک کہ کرۂ ارض پر بسنے والا کوئی مرد یا عورت خدا کے اِس پیغام سے بے خبر نہ رہے۔
واپس اوپر جائیں

امتِ مسلمہ کو درپیش چیلنج

میرے مطالعے کے مطابق، عرب وعجم کے تمام مسلمان اِس بات پر متفق ہیں کہ موجودہ زمانے میں امتِ مسلمہ کو مختلف قسم کے چیلنج کا سامنا ہے۔ یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ تقریباً دو سو سال کی غیر معمولی کوشش کے باوجود یہ چیلنج بدستور باقی ہے۔ ایسی حالت میں یہ بات بے حد قابلِ غور ہے کہ اس چیلنج کاتجزیہ کیا جائے اور اِس کے حوالے سے مسلمانوں کا لائحہ عمل متعین کیا جائے۔
چیلنج کیا ہے۔ چیلنج کا لفظ مسئلہ (problem) کے لفظ سے مختلف ہے۔مسئلہ ایک منفی لفظ ہے، جب کہ چیلنج ایک مثبت لفظ ہے۔ چیلنج نسبتاً ایک نیا لفظ ہے۔ اس کا مطلب ہے — ایک نیا یا مشکل مسئلہ جو کہ آدمی کے لیے اس کی استعداد کا امتحان ہوتا ہے:
A new or difficult task that tests somebody's ability and skill.
چیلنج کا رسپانس دینے کی دوصورتیں ہیں — نگیٹیو رسپانس (negative response) اور پازیٹیو رسپانس (positive response)۔ نگیٹیو رسپانس یہ ہے کہ آدمی کو جب کسی چیلنج کا سامنا ہو تو وہ منفی رد عمل کا شکار ہوجائے۔ ایسے آدمی یا گروہ کا حال یہ ہوگا کہ چیلنج پیش آنے کے بعد وہ نفرت اور شکایت اور احتجاج کی نفسیات میں مبتلا ہوجائے گا۔ یہی نفسیات اس کو تشدد تک لے جائے گی اور آخر کار خود کش بم باری تک۔
موجودہ زمانے میں مسلمانوں کا یہی حال ہوا ہے۔ تقریباً دوسو سال پہلے اُن کو مغربی اقوام یا مغربی تہذیب کی طرف سے چیلنج پیش آیا۔ عرب سے عجم تک تمام مسلمان کم وبیش اس کا شکار ہوئے۔ مگر تمام مسلمانوں کا حال یہ ہوا کہ انھوں نے اِس چیلنج کا منفی رسپانس دیا۔ اِس کا فطری نتیجہ یہ ہوا کہ اُن کو یک طرفہ تباہی کے سوا اور کچھ نہیں ملا۔اِس جدید چیلنج کے مقابلے میں، صحیح طریقہ یہ تھا کہ مسلمان اس کا مثبت رسپانس دیتے۔ اِس معاملے میں مثبت رسپانس یہ تھا کہ وہ گہرائی کے ساتھ جدید چیلنج کا مطالعہ کرتے۔ وہ اِس قانونِ فطرت کی روشنی میں اس کا مطالعہ کرتے کہ — جب بھی کوئی چیلنج سامنے آتا ہے تو وہ مسائل (problems) کے علاوہ، نئے امکانات (opportunities) بھی اپنے ساتھ لے آتا ہے۔ آدمی کو چاہئے کہ وہ اِس امکان کو سمجھے اور اس کو استعمال کرے۔
مغربی چیلنج کیا تھا، وہ دراصل یہ تھا کہ مغربی قوموں نے فطرت (nature) کا گہرا مطالعہ کیا۔ انھوں نے نئی طاقتیں دریافت کیں۔ مثلاً پرنٹنگ پریس، مشین، کمیونکیشن، وغیرہ۔ اِس طرح ایک نئی تہذیب (civilization) وجود میں آئی۔ اِس واقعے نے مغربی قوموں کو نئی طاقت دے دی۔ انھوںنے قدیم دنیا پر فکری اور عملی غلبہ حاصل کرلیا۔ مسلمانوں نے محسوس کیا کہ مغربی قومیں غالب اور مسلمان مغلوب بن کررہ گئے ہیں۔
اِس نئی پیش آمدہ صورتِ حال کے مقابلے میں مسلمانوں نے صرف منفی رد عمل کا طریقہ اختیار کیا۔ صحیح یہ تھاکہ وہ جدید دریافتوں کے پیدا کردہ امکانات کو عالمی امکانات سمجھتے۔ جس طرح اِن امکانات کو اہلِ مغرب نے اپنے حق میں استعمال کیا ہے، اُسی طرح مسلمان بھی اِن جدید امکانات کو اپنے حق میں استعمال کرتے۔ یہ مسلمانوں کی طرف سے، جدید چیلنج کا مثبت رسپانس ہوتا۔ مسلمان اگر ایسا کرتے تو یقینی طور پر وہ اپنی کھوئی ہوئی حیثیت کو دوبارہ حاصل کرلیتے۔
یہ اِس معاملے کا عقلی پہلو ہے۔ اگر اِس معاملے کو خالص دینی اعتبار سے دیکھیں، تب بھی معلوم ہوگا کہ جدید چیلنج کی نسبت سے مسلمانوں کا یہ رویہ یقینی طورپر درست نہ تھا۔ موجودہ زمانے کے تقریباً تمام مسلمان متفقہ طورپر ایک ہی بات کہتے ہیں۔ وہ یہ کہ وہ موجودہ صورتِ حال کو مغربی قوموں کی سازش کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ یہ بلاشبہہ ایک بے بنیاد بات ہے۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ مسلمان اگر صبر اور تقویٰ کی روش اختیار کریں، تو دوسروں کی سازش انھیں کچھ بھی نقصان نہ پہنچا سکے گی(3: 120) ۔ قرآن کی اِس آیت سے معلوم ہوا کہ اِس دنیا میں کسی گروہ کے خلاف سازش (conspiracy) اصل مسئلہ نہیں ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ خود اُس گروہ کے اندر صبر اور تقویٰ کی اسپرٹ باقی نہ رہے۔
یہی بات حدیث میں بھی آئی ہے۔ ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے اپنی امت کے لیے ایک لمبی دعا کی۔ اِس دعا کے بعد اللہ تعالیٰ نے یقین دہانی کرتے ہوئے اپنے پیغمبر سے فرمایا: یا محمد، إنی أعطیت لأمتک أن لا أسلّط علیہم عدوًّا من سویٰ أنفسہم (صحیح مسلم، رقم الحدیث:2889 ) یعنی اے محمد، میں نے تمھاری امت کے لیے یہ مقدر کردیا ہے کہ میںاُن کے اوپر اُن کے اپنے سوا کسی خارجی دشمن کو مسلط نہیں کروں گا۔
یہ امتِ محمدی کے لیے کسی پراسرار فضیلت کی بات نہیں، بلکہ یہ ایک تاریخی واقعے کی بات ہے۔ خاتم النبیین کی امت ہونے کی حیثیت سے، امتِ محمدی کے ساتھ یہ واقعہ پیش آنا تھا کہ وہ بعد کے دور میں پہنچے، یعنی ایک ایسے دور میں جب کہ حالات مکمل طورپر بدل جائیں گے۔ یہ دور وہی ہے جس کو ہم آزادی اور جمہوریت اور اقوامِ متحدہ (UNO) کا دور کہتے ہیں۔ اِس نئے دو رمیں خود حالات کی تبدیلی کے نتیجے میں یہ ممکن ہوگیاکہ کوئی خارجی دشمن کسی کے لیے مسئلہ نہ بنے۔ اِس نئے دور میں اگر کوئی گروہ سنگین مسائل سے دوچار ہے تو وہ خود اپنی غلطی کی قیمت ادا کررہا ہے۔ اب خود حالات کی تبدیلی کے نتیجے میں کسی گروہ کے لیے خارجی حملہ (external invasion) کا مسئلہ نہیں ہے، وہ صرف داخلی ناکامی (internal failure) کا مسئلہ ہے۔
واپس اوپر جائیں

ایک خطاب

(13 جون 2012 کو بیروہ (کشمیر) میں حلقہ الرسالہ کے تحت ایک دعوہ میٹ ہوئی۔ اُس کے لیے صدر اسلامی مرکز نے دہلی میں اپنا ایک پیغام ریکارڈ کروایا جو اس دعوہ میٹ میں سنایا گیا۔ زیر نظر مضمون اِسی خطاب پر مشتمل ہے)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہر چیز کا ایک سپر فارمولا (super-formula) ہوتا ہے۔ اسلام کا سپر فارمولا یا سنٹرل تھیم (central theme) کیا ہے، وہ ہے شکر، یعنی پہلی آیت جو قرآن مجید کی ہے: ’’الحمد للہ رب العالمین‘‘ وہی اسلام کی سنٹرل تھیم ہے۔
جب ایک مسلمان پیدا ہوتاہے تو اس کے کان میں سب سے پہلی آواز جو ڈالی جاتی ہے، وہ کیا ہے، وہ ہے ’’اللہ اکبر‘‘، یعنی اللہ سب سے بڑا ہے۔ اس کے بعد جب وہ قرآن کو پڑھتا ہے تو سب سے پہلی آیت یہ پڑھتا ہے کہ حمد صرف اللہ کے لئے ہے۔ اس کلمہ کو وہ روزانہ اپنی پانچ وقت کی نمازوں میں بار بار دہراتا ہے ۔ پھر قرآن میں ہے کہ آخرت میں بھی یہی ہوگا : ’’وقیل الحمد للہ رب العالمین‘ ‘۔
دنیا سے لے کر آخرت تک جو سب سے بڑی چیز مقرر کی گئی ہے، وہ ہے حمد میں جینا۔ حمد کیا ہے، وہ شکر ہے۔ اللہ کی عظمت کو جب آپ پہچانـتے ہیں، جب آپ اللہ کی بڑائی کو دریافت کرتے ہیں تو اس کے نتیجے میں جو چیز پیدا ہوتی ہے، وہ ہے اعتراف (acknowledgement) ، اسی اعتراف کا دوسرا نام شکر ہے۔خود کو چانچنے کے لیے کہ میں اسلام پر ہوں یا نہیں، اللہ کے صحیح راستہ پر ہوں یا نہیں، اس کو پہچاننے کا جو معیار ہے، وہ حمد ہے۔ اگر آپ کو یہ سمجھنا ہے کہ میں اللہ کے راستہ پر ہوں کہ نہیں، تو اپنے آپ کو اس اعتبار سے جانچئے کہ آپ کے اندر شکر کی نفسیات ہے یا نہیں۔
دیکھئے، شکر کرنے والے ہی کے لیے جنت ہے۔ قرآن میں ہے: ’’إلاّ من أتی اللہ بقلبٍ سلیمٍ‘‘ جو آدمی قلبِ سلیم کے ساتھ آیا آخرت میں، اس کو جنت میں داخلہ ملے گا۔ قلب سلیم کیا ہے، وہ دل جس کے اندر نفرت نہ ہو، کینہ نہ ہو، غصہ نہ ہو، کسی کے خلاف برائی نہ ہو، جو ایسا دل لے کر آخرت میں پہنچا، اسی کے لیے جنت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار ایک صحابی کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا کہ: اگر تم سے ہوسکے تو تم اپنی صبح اور شام اس طرح کروکہ تمھارے دل میں کسی کے خلاف غِش نہ ہو، کینہ (malice) نہ ہو، نفرت نہ ہو، یہ سب چیزیں نہ ہوں۔ اس کو ہم اگر دوسرا لفظ دیں تو کہیںگے کہ— مثبت سوچ (positive thinking) کے ساتھ دنیا میں رہو، مثبت سوچ کے ساتھ جیو، مثبت سوچ کے ساتھ مرو۔ ایسے ہی لوگوں کے لیے جنت ہے۔
دیکھئے ہوتا کیا ہے، ہم سب جانتے ہیں اس بات کو، لیکن ہم کسی چیز کو الگ کردیتے ہیں۔ مثلاً پولٹکل (political) شکایت ہوتی ہے تو ہم سوچتے ہیں کہ یہ تو الگ چیز ہے۔ پولٹکل شکایت الگ چیز نہیں ہے، پولٹکل شکایت بھی اسی میں شامل ہے۔ دوسری شکایتوں کو لے کر اگر آپ نگیٹیو (negative) ہوگئے، دوسری شکایتوں کو لے کر اگر آپ کی پازیٹیو تھنکنگ (positive thinking) ختم ہوگئی، تو آپ نے جنت کا رسک (risk) لیا۔ اسی طرح دیکھئے، پولٹکل شکایتوں کو لے کر اگر آپ نیگیٹیو (negative) ہوگئے، آپ کے اندر نفرت آئی، تشدد آیا، تو بس جنت رسک میں آگئی۔ یاد رکھئے، یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس میں آپ کو کو ئی بھی اکسکیوز(excuse) لینا نہیں ہے۔ نہ پولیٹکل اکسکیوز (political excuse) نہ ہی سوشل اکسکیوز(social excuse) نہ ہی اور کوئی اکسکیوز (excuse) ۔
جب بھی کوئی تجربہ آپ کے اندر ناشکری پیدا کرے، آپ کے اندر نفرت پیدا کرے، آپ کو نفرت اور تشدد کی طرف لے جائے، تو سمجھ لیجئے کہ وہ شیطان کی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانیت کے آغاز ہی میں ایک مثال قائم کردی۔ ایک طرف تھے فرشتے، دوسری طرف تھا ابلیس۔ ابلیس شکایت کے راستہ پر چلا: ’’ربِّ بما أغویتَنی‘‘۔ ابلیس نے نعوذ باللہ، اللہ تعالی سے شکایت کی۔ فرشتوں نے کہا کہ جو آپ کاحکم ہے، یعنی جو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے، ہم اس کو دل سے مانتے ہیں۔ تو یہ اللہ تعالیٰ نے نمونہ قائم کردیا کہ جو نفرت اور شکایت اور تشدد کے راستہ پرچلے گا، اس کا انجام شیطان کے ساتھ ہوگا، اور جو محبت، خیر خواہی اور امن اور positivity کے راستے پر چلے گا، اس کے لئے جنت ہے، اس کے لیے اللہ کی رضا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہم میں سے ہر شخص کو اسی اعتبار سے اپنا محاسبہ (introspection) کرنا چاہئے کہ ہم نے اپنی family life میں ، اپنی social life میں اور اپنی قومی زندگی میں کون سا راستہ اختیا رکیا ہے— نفرت والا راستہ یا محبت والا راستہ، امن والا راستہ یا تشدد والا راستہ۔ اسی سے فیصلہ ہوگا کہ ہم اللہ کے راستے پر ہیں، یا شیطان کے راستے پر ہیں۔
یہ سب سے بڑی چیز ہے جس کا ہمیں ہر صبح وشام محاسبہ کرنا چاہئے۔ کیوں کہ ہر آدمی کو مرنا ہے۔ مرنے کے بعد اللہ کے سامنے پیش ہونا ہے۔ یاد رکھئے، اللہ کے سامنے کوئی اکسکیوز(excuse) نہیں چلے گا، کوئی عذر نہیں چلے گا۔ جو پرسنالٹی (personality) آپ نے بنائی ہے، اُسی کے ساتھ آپ خدا کے سامنے جائیں گے۔ دنیا میں جو تجربات ہوتے ہیں، اس کے درمیان کیا ہوتاہے— کسی کی پرسنالٹی، پازیٹیو پرسنالٹی (positive personality) بنتی ہے اور کسی کی نیگیٹیو پرسنالٹی (negative personality) بنتی ہے۔ کوئی آدمی ہوتا ہے نفرت میں جینے والا، کوئی ہوتا ہے محبت اور خیر خواہی میں جینے والا، کوئی ہوتا ہے امن میں جینے والا، کوئی ہوتا ہے تشدد میں جینے والا۔ اسی چیز سے آدمی کی پرسنالٹی بنتی۔ یہی پرسنالٹی آدمی کو یا تو جہنم میں لے جائے گی یا جنت میں لے جائے گی۔
جیسے میں اس وقت دلّی میں ہوں۔ میں بول رہا ہوں اور آپ لوگ کشمیر میں میری آواز کو سن رہے ہیں۔ دلّی اور کشمیر کے بیچ میں 850 کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ اتنی دوری کے باوجود میں آپ کو ایڈریس کررہا ہوں، آپ میری بات کو سن رہے ہیں۔ کتنی بڑی نعمت ہے یہ۔ پچھلے زمانہ میں کسی بادشاہ کو بھی یہ نعمت حاصل نہیں تھی، اسی کا نام شکر ہے، ہم کو رات دن شکر ہی کرتے رہنا چاہئے۔
میرا مشورہ ہے، شکر میں جینے والا بنئے، شکر کے آئٹم کو تلاش کیجئے، اور ناشکری کے آئٹم کو بھلائیے۔ چاہے پولٹکل لائف ہو یا کوئی اور لائف ہو، ہرجگہ دونوں قسم کے آئٹم ہوتے ہیں ، شکر کے بھی اور اور ناشکری کے بھی۔ تو شکر کے آئٹم کو تلاش کرکے، اس کو اپنے مائنڈ میں بٹھائیے، ناشکری کے آئٹم کو بھلائیے، بھلائیے، بھلائیے، تاکہ آپ کے اندر مثبت شخصیت (positive personality) بنے، یعنی وہ پرسنالٹی جو آپ کو جنت کا مستحق بنائے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ کو اور آپ کو اس حقیقت کو سمجھنے کی توفیق دے، اور ہم آپ اللہ کے سامنے اس طرح حاضر ہوں کہ اللہ ہمیں قبول کرے، وہ ہمیں رد نہ کردے۔ أقول قولی ہذا، وأستغفر اللہ لی ولکم اجمعین۔
واپس اوپر جائیں

ایک خط

عزیزم عبد الرحمن چاؤش السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
16 مئی 2012 کو ٹیلی فون پر یہ خبر ملی کہ عزیزہ ام السلام (پیدائش:1950 ) کا انتقال ہوگیا: إنا للہ وإنا إلیہ راجعون۔ مرحومہ میری اولاد میں بلکہ میری پوری فیملی میں سب سے زیادہ نیک خاتون تھیں۔ خاندان کے کسی شخص کو کبھی اُن سے کوئی ناخوش گوار تجربہ پیش نہیں آیا۔وہ پورے معنوں میں صبر وشکر کا پیکر تھیں۔ اپنی صفات کے اعتبار سے وہ بلاشبہہ ایک جنتی خاتون تھیں۔مرحومہ اتنا زیادہ صالح مزاج کی خاتون تھیں کہ وہ نہ کبھی کسی سے فرمائش کرتی تھیں، نہ کسی سے ان کو شکایت ہوتی تھی۔ وہ گھر میں کبھی کوئی پرابلم پیدا نہیں کرتی تھیں۔ وہ کبھی دنیوی باتوں کا چرچا نہیںکرتی تھیں۔ بس اپنی ذمے داری ادا کرنا اور نماز، روزہ کرنا، یہی ان کا مشغلہ تھا۔ صبر، قناعت، سادگی، شکر، یہ سب باتیں ان کی زندگی کا حصہ بن گئی تھیں۔
ام السلام بظاہر میرے دعوتی مشن میں براہِ راست شریک نہ تھیں، مگر وہ برابر اس کے لئے دعا کرتی تھیں۔ میرے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہ خصوصی معاملہ ہوا کہ میرے تمام بچے، بلکہ بچوں کے بچے بھی میرے دعوتی مشن میں کسی نہ کسی پہلو سے شریک ہیں۔ میں سمجھتاہوں کہ اس میں سب سے زیادہ دخل ام السلام کی دعاؤں کا ہے۔ مرحومہ اس بات کی ایک انوکھی مثال تھیں کہ دعوتی مشن میں شریک نہ ہوتے ہوئے بھی ایک شخص بالواسطہ طورپر دعوتی مشن کے لیے بہت بڑا کام کرسکتا ہے۔ مرحومہ دل سے میرے دعوتی مشن میں شریک تھیں۔ وہ اپنے شوہر محمد عثمان چاؤش (وفات: 2005 ) کے لیے کبھی کوئی مسئلہ نہ بنیں۔ ان کے اِسی مزاج کا نتیجہ تھا کہ محمدعثمان چاؤش صاحب کو یہ موقع ملا کہ وہ پورے مہاراشٹر میں ہمارے دعوتی لٹریچر کو پھیلا دیں۔ اِس طرح دعوتی مشن میں اُن کی خاموش شرکت کا یہ نتیجہ ہوا کہ ان کی اولادیں سب کی سب، دعوتی مشن میں شامل ہوگئیں۔ وہ مقرر یا محرر نہ تھیں، مگر انھوں نے اپنے صالح مزاج کی بنا پر مقرر اور محرر سے بھی زیادہ بڑا کام کیا۔
میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحومہ کو جنت الفردوس میں جگہ دے۔ میری دعا ہے کہ آپ لوگوں کو اللہ تعالیٰ مرحومہ کا نعم البدل عطا فرمائے۔ آپ کے گھر میں ان کے جانے سے جو کمی واقع ہوئی ہے، خدا اس کی بھرپور تلافی فرمائے۔
نئی دہلی، یکم جون 2012 دعا گو وحید الدین
واپس اوپر جائیں

شبِ قدر

رمضان کا مہینہ ہجری کیلنڈر کا نواں مہینہ ہے۔ اِس مہینے میں اہلِ ایمان کے لیے روزہ رکھنے کا حکم ہے(2: 183)۔ رمضان کے مہینے کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے کسی رات میں شبِ قدر واقع ہوتی ہے۔ شبِ قدر کو قرآن میں ’لیلۃ القدر‘ کہاگیا ہے۔ یہ ’لیلۃ القدر‘ دوسری ہزار راتوں سے زیادہ بہتر ہے۔ شبِ قدر کا ذِکر قرآن کی سورہ القدر(97) میں آیا ہے۔ اِس سورہ کا ترجمہ یہ ہے: ’’بے شک ہم نے قرآن کو اتارا ہے شبِ قدر میں۔ اور تم کوکیا جانو کہ شبِ قدر کیا ہے۔ شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ فرشتے اور روح اس میں اپنے رب کی اجازت سے اترتے ہیں، ہر حکم لے کر۔ وہ رات سرتا سر سلامتی ہے، صبح نکلنے تک‘‘۔
یہ 610 ء کی ایک رات تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے قریب غارِ حرا میں موجود تھے۔ اُس وقت جبریل، قرآن کی پہلی وحی لے کر آپ کے پاس آئے۔ یہ پہلی وحی سورہ العلق(96) کی ابتدائی پانچ آیتیں تھیں۔ قرآن کا نزول خدا کی عظیم رحمت کا نزول تھا، اِس لیے اُس رات کو ایک یادگار رات قرار دیا گیا۔
شبِ قدر کے موقع پر خدا اپنے سالانہ فیصلے فرماتا ہے۔ اِس لیے یہ رات ذکر اور دعا اور عبادت اور تلاوت کی رات قرار دی گئی ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہر عورت اور مرد کو اِس موقع پر زیادہ سے زیادہ خدا کی طرف متوجہ ہونا چاہیے اور زیادہ سے زیادہ دعا کرناچاہیے، تاکہ خدا کے سالانہ فیصلوں میں اُس کو خدا کی رحمت میں زیادہ سے زیادہ حصہ ملے۔ وہ خدا کے نزدیک زیادہ سے زیادہ انعام کا مستحق قرار پائے۔
حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں رمضان کی آخری راتوں میں اعتکاف میں تھا، اُس وقت مجھ پر شبِ قدر کا علم اُتارا گیا۔ میںمسجد سے باہر نکلا، تاکہ میں تم کو شبِ قدر کے وقت کے بارے میں بتا دوں، لیکن اُس وقت مدینہ کے دو مسلمان آپس میں لڑ گیے، اِس کے بعد شبِ قدر کا علم اٹھا لیا گیا(فتلاحیٰ رجُلان من المسلمین، فرُفعت) صحیح البخاری، رقم الحدیث: 1919۔
اِس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ شبِ قدر کی خصوصی رحمتوںمیں حصّے دار بننے کے لیے کیا چیز ضروری ہے، وہ چیز یہ ہے کہ آدمی کے اندر لڑائی جھگڑے کا مزاج نہ ہو۔ اُس کا دل نفرت جیسے منفی جذبات سے خالی ہو۔ اُس کا ذہن پوری طرح مثبت انداز میں سوچنے والا ہو۔ جو عورت یا مرد اپنے اندر اِس قسم کی مثبت شخصیت رکھتے ہوں، انھیں کو شبِ قدر کی رحمتوں میں حصہ ملے گا۔
حدیث میں آیا ہے کہ حضرت عائشہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اگر میں شبِ قدر کو پاؤں تو میں کیا دعا کروں۔ آپ نے فرمایا کہ تم اِس طرح کہو: اللہم إنک عفوٌّ تحبّ العفو، فاعفُ عنی (سنن التّرمذی، رقم الحدیث: 3513 ) یعنی اے اللہ، تو سرتا پا معافی ہے اور تو معافی کو پسند کرتا ہے، پس تو مجھے معاف فرما۔
یہ حدیث بتاتی ہے کہ شبِ قدر میںآدمی کے اندر سب سے زیادہ طلب کس چیز کی ہونا چاہیے، وہ یہ کہ آدمی موت کے بعد آنے والی ابدی زندگی کی کامیابی کا حریص ہو۔ وہ اللہ سے یہ درخواست کرے کہ — خدایا، تومیری غلطیوں اورکوتاہیوں کو معاف فرما، آخرت کی ابدی زندگی میںتو مجھے دوزخ سے بچا، اور جنت کے باغوں میں تو مجھے جگہ عطا فرما۔
قرآن کے مطابق، شبِ قدر میںکثرت سے خدا کے فرشتے اترتے ہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ خدا شبِ قدرکی صورت میں ہر عورت اور مرد کو یہ موقع دیتاہے کہ وہ فرشتوں کا ہم نشیں بنے۔ وہ فرشتوں سے ایسی روحانی غذا لے جس کے نتیجے میں اُس کا دل سلامتی کے جذبات سے بھر جائے۔ وہ منفی جذبات اور دنیا پرستی سے اوپر اٹھ جائے اور حقیقی معنوں میں وہ خدا کا طالب بن جائے۔ ایسا ہی دل و دماغ رکھنے والے لوگ شبِ قدر کے موقع پر خدا کی خصوصی رحمتوں میں حصے دار بنیں گے۔
شبِ قدر ایک اعتبار سے شبِ امن ہے۔ جس عورت یا مرد کو شبِ قدر کی رحمتیں مل جائیں، اُس کا دل امن و سلامتی کے جذبات سے بھر جائے گا۔اس کی سوچ پُر امن سوچ ہوگی۔ اس کی گفتگو پُر امن گفتگو ہوگی۔ اس کا کردار پُر امن کردار ہوگا۔ اس کا طریقہ پُرامن طریقہ ہوگا۔ اس کی پوری شخصیت امن پسند شخصیت بن جائے گی۔ اس کے ذریعے سے دوسروں کو جو چیز ملے گی، وہ امن ہوگا اور صرف امن۔
قرآن: کتابِ قدر
قرآن کی سورہ القدر کی پہلی آیت یہ ہے: إنّا أنزلناہ فی لیلۃ القدر (97:1) یعنی ہم نے قرآن کو اتارا ہے قدر کی رات میں۔ اِس آیت میں قدر کا مطلب تقدیر (Destiny) ہے۔ اِس آیت میں قدر کی نسبت رات کی طرف کی گئی ہے، مگر حقیقت میں اس کی نسبت قرآن کی طرف ہے، یعنی وہ رات جس میں کتابِ قدر (Book of Destiny) اتاری گئی ۔
قرآن میں انسان کی تقدیر بتائی گئی ہے، یعنی وہ قوانینِ فطرت جو انسان کی تقدیر کا فیصلہ کرنے والے ہیں، فرد کی تقدیر بھی اور قوم کی تقدیر بھی۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ قرآن کے اِن ابدی قوانینِ تقدیر کو معلوم کرے اور اس کے مطابق، اپنی زندگی کی تشکیل کرے۔
مثلاً قرآن کی ایک آیت یہ ہے: إن تصبروا وتتقوا لا یضرکم کیدہم شیئاً (3: 120) یعنی اگر تم صبر کرو اور تقویٰ کی روش اختیا رکرو تو دوسروں کی سازش تم کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گی۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کے مقرر کئے ہوئے قانونِ حیات کے مطابق، انسان کی طاقت کا سرچشمہ صبر اور تقویٰ ہے۔ کسی فرد یا قوم کا اصل مسئلہ سازشِ غیر کی موجودگی نہیں، بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس کے اپنے اندر صبر اور تقویٰ کی صفت موجود نہیں۔
اِس قانونِ فطرت کے مطابق، اگر کوئی قوم یہ پائے کہ دوسرے لوگ اس کے خلاف سازش کررہے ہیں تو اس کو چاہیے کہ وہ اس کا سبب خود اپنے اندر تلاش کرے، نہ کہ اپنے آپ سے باہر۔ اِس طرح کی صورتِ حال میں کسی مفروضہ حریف کے خلاف شکایت اور احتجاج کی تحریک چلانا اپنی حقیقت کے اعتبار سے، ایک غیر متعلق (irrelevant) کام ہے۔
اصل یہ ہے کہ ایسے موقع پر خود اپنا جائزہ لیا جائے، صبر وتقویٰ کے اعتبار سے اپنی کمیوں کو تلاش کیا جائے۔ جو لوگ اِس اعتبار سے قرآن کو اپنی زندگی کا رہنما بنائیں، وہی شبِ قدر کی برکتوں کو پائیں گے۔
واپس اوپر جائیں

سوال وجواب

سوال
آپ نے لکھا ہے کہ جنت کسی کی سفارش سے نہیں ملتی، اگر ایسا ہے تو اِس حدیث کا کیا مطلب ہے کہ میری شفاعت میری اُمت کے گناہِ کبیرہ کرنے والوں کے لئے ہے: شفاعتی لأہل الکبائر من أمتی (مسند أحمد، رقم الحدیث: 13566 )۔ ابھی الرسالہ، جون 2012 کا شمارہ مجھے ملا۔ اُس میں ’’وسیلہ کی حقیقت‘‘ کے عنوان سے آپ کا ایک مضمون چھپا ہے۔ اِس مضمون سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش سے جنت اور مغفرت حاصل نہیں ہوگی اور اس کو وسیلہ کا نام دینا خود ساختہ مفہوم ہے۔جو شخص اپنے عمل کے اعتبار سے جنتی نہ ہو، وہ پیغمبر کی سفارش سے جنتی نہیں بن جائے گا۔ اگر کوئی شخص شفاعت کا یہ مطلب سمجھتاہے تو یہ مطلب صحیح نہیں ہے۔خلاصہ یہ کہ نہ کسی کو پیغمبر کی سفارش سے جنت اور مغفرت حاصل ہوگی اور نہ کوئی جہنمی شخص پیغمبر کی سفارش سے جنتی بن جائے گا۔یہ تمام تر اللہ کا عطیہ ہے، قرآن اورحدیث دونوں میں اِس بارے میں واضح ہدایات ہیں۔
میں جاننا چاہوں گا کہ قرآن کی کس آیت میں اور حدیث کی کس روایت میں یہ واضح ہدایات موجود ہیں۔ آپ نے شفاعت کا جو مطلب بیان کیا ہے، اُس کی روشنی میں’’شفاعتی لأہل الکبائر من أمتی‘‘ کا مفہوم واضح فرمائیں۔(اے، جے، قادری، امبیڈکر نگر، یوپی)
جواب
احادیث کے بارے میں علما کا مسلک یہ ہے کہ جب دو حدیثوں میں تعارض ہو تو ایک حدیث کو لیاجائے گا اور دوسری حدیث کی تاویل کی جائے گی، مسند احمد کی مذکورہ روایت کا معاملہ یہی ہے۔ ایک طرف یہ حدیثہے اور دوسری طرف ایسی کئی روایتیں ہیں جو اِس حدیث کے سراسر خلاف ہیں۔ مثال کے طورپر یہاں اِس سلسلے میں چند حدیثیں نقل کی جاتی ہیں:
1 - ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: واللہ ما أدری، وأنا رسول اللہ، ما یُفعل بی، ولابکم(صحیح البخاری، رقم الحدیث: 7018 ) یعنی خدا کی قسم، میں نہیں جانتا، اگرچہ میں خدا کا رسول ہوں کہ کیا کیا جائے گا میرے ساتھ اور کیا کیا جائے گا تمھارے ساتھ۔
2 - عن أبی ہریرۃ قال لمّا نزلت: وأنذر عشیرتک الأقربین۔ جَمََعَ رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قریشا فخصّ وعَمّ، فقال یا معشر قریش،انقذوا انفسکم من النار، فإنی لا أملک لکم من اللہ ضرًّا ولانفعًا۔ یا معشر بنی عبد مناف، أنقذوا أنفسکم من النار، فإنی لا أملک لکم من اللہ ضرًّا ولا نفعًا۔ یا معشر قُصی، انقذوا أنفسکم من النار، فإنی لا أملک لکم من اللہ ضرًا ولا نفعًا۔ یا معشر بنی عبد المطلب، أنقذوا أنفسکم من النار، فإنی لا أملک لکم من اللہ ضرًا ولا نفعًا۔ یا فاطمۃ بنت محمّد، أنقذی نفسکِ من النار فإنی لا أملک لکِ من اللہ ضرًا ولا نفعًا۔ (سنن الترمذی، رقم الحدیث:3185)
یعنی جب قرآن کی یہ آیت اتری: وأنذر عشیرتک الأقربین(26: 214) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے لوگوں کو جمع کیا۔ آپ نے خصوصی طورپر اور عمومی طور پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اے قریش کے لوگو، اپنے آپ کو آگ سے بچاؤ، کیوں کہ میں تمھارے لیے اللہ کے مقابلے میں نہ کسی ضرر پر قدرت رکھتا اور نہ کسی نفع پر۔ اے بنو عبد مناف کے لوگو، اپنے آپ کو آگ سے بچاؤ، کیوں کہ میں تمھارے لیے اللہ کے مقابلے میں نہ کسی ضرر پر قدرت رکھتا اور نہ کسی نفع پر۔اے بنی قُصَی کے لوگو، اپنے آپ کو آگ سے بچاؤ، کیوں کہ میں تمھارے لیے اللہ کے مقابلے میں نہ کسی ضرر پر قدرت رکھتا اورنہ کسی نفع پر۔ اے نبو عبد المطلب کے لوگو، اپنے آپ کو آگ سے بچاؤ، کیوں کہ میں تمھارے لیے اللہ کے مقابلے میں نہ کسی ضرر پر قدرت رکھتا اور نہ کسی نفع پر۔ اے فاطمہ بنتِ محمد، تم اپنے آپ کو آگ سے بچاؤ، کیوں کہ میں تمھارے لیے اللہ کے مقابلے میں نہ کسی ضرر پر قدرت رکھتا اور نہ کسی نفع پر۔
3 - عن عائشۃ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: سدّدوا وقاربوا وأبشروا، فإنہ لایُدخل أحدًا الجنۃَ عملُہ۔ قالوا: ولا أنت یا رسول اللہ۔ قال: ولا أنا، إلا أن یتغمّدنی اللہ بمغفرۃ ورحمۃ (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 6467) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنا رویہ درست رکھو اور میانہ روی پر قائم رہو اور پُر امید رہو، کیوں کہ کسی بھی شخص کو اُس کا عمل جنت میں داخل نہیں کرے گا۔ لوگوں نے کہا کہ کیا آپ کو بھی نہیں اے خدا کے رسول، آپ نے فرمایا کہ ہاں مجھ کو بھی نہیں، الا یہ کہ اللہ مجھ کو اپنی مغفرت اور رحمت سے ڈھانپ لے۔
یہی بات قرآن میں اِن الفاظ میں آئی ہے: لیس للإنسان إلاّ ما سعی (53:39) ۔ اِسی طرح قرآن میں بتایا گیا ہے کہ آخرت میں کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے لیے کچھ نہ کرسکے گا۔ اُس دن سارا معاملہ صرف اللہ کے اختیار میں ہوگا: یوم لا تملک نفسٌ لنفس شیئاً، والأمر یومئذ للہ (82: 19) ۔اِن آیتوں اور اِن حدیثوں سے واضح طورپر معلوم ہوتا ہے کہ کسی شخص کا جنت میں داخلہ صرف اپنے ذاتی عمل کی بنیاد پر ہوگا، نہ کہ کسی دوسرے شخص کی سفارش کی بنیاد پر۔ ایسی حالت میں مسلّمہ اصول کی بنیاد پر مذکورہ روایت (شفاعتی لأہل الکبائر من أمتی) یا اِس قسم کی کسی اور حدیثِ شفاعت کی تاویل کی جائے گی۔ وہ تاویل یہ ہے کہ حدیث میں شفاعت سے مراد سفارش (recommendation) نہیںہے، بلکہ شہادت (witness) ہے۔ اِس تاویل کا درست ہونا خود قرآن سے ثابت ہے۔ قرآن کی سورہ الزخرف میں یہ آیت اِس موضوع پر حجتِ قاطع کی حیثیت رکھتی ہے۔ آیت کے الفاظ یہ ہیں: ولایملک الذین یدعون من دونہ الشفاعۃَ، إلاّ من شہد بالحق وہم یعلمون(43: 86) یعنی اللہ کے سوا جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں، وہ شفاعت کا اختیار نہیں رکھتے، مگر وہ جو حق کی گواہی دیں اور وہ جانتے ہوں گے۔
اِس آیت کی تشریح یہ ہے کہ ’’قیامت میں پیغمبر اور داعیانِ حق جو شفاعت کریں گے، وہ حقیقۃً شفاعت نہیں ہے، بلکہ شہادت ہے، یعنی ایسی بات کی گواہی دینا جس کو آدمی ذاتی طور پر جانتا ہو۔ آخرت میں جب لوگوں کا مقدمہ پیش ہوگا تو سارے علم کے باوجود اللہ تعالیٰ مزید تائید کے طورپر اُن لوگوں کو کھڑا کرے گا جو قوموں کے ہم عصر تھے، انھو ںنے اُن کے سامنے حق کا پیغام پیش کیا، پھر کسی نے مانا اور کسی نے نہیں مانا، کسی نے حق کا ساتھ دیا اور کوئی حق کا مخالف بن کر کھڑا ہوگیا۔
یہی تجربہ جو اُن صالحین پر براہِ راست گزرا، اس کووہ خدا کے سامنے پیش کریں گے۔ یہ ایسا ہی ہوگا جیسے کہ کوئی گواہ عدالت میں اپنے مشاہدے کی بنیاد پر ایک سچا بیان دے۔ اِس کے سوا کسی کو قیامت میں یہ اختیار حاصل نہ ہوگا کہ وہ کسی مجرم کا شافع بن کر کھڑا ہواور وہ اس کے بارے میں اُس خدائی فیصلے کو بدل دے جو از روئے واقعہ اس کے بارے میں ہونے والا تھا۔ خدا اِس سے بہت بلند ہے کہ اُس کے حضور کوئی شخص ایسا کرنے کی کوشش کرے‘‘۔ (تذکیر القرآن، صفحہ :1351 )
سوال
غلوکیا ہے اور غلو کا نقصان کیا ہے۔ براہِ کرم، اس کو واضح فرمائیں ، نیز یہ بتائیں کہ کسی تحریک سے وابستہ افراد اپنی تحریک کو غلو اور فرقہ بندی کی نفسیات سے کس طرح بچا سکتے ہیں۔ (عبد الباسط عمری، دوحہ، قطر)
جواب
اسلام میں غلو سے منع کیا گیا ہے۔ یہ ممانعت قرآن میںبھی ہے اور حدیث میں بھی۔ قرآن اور حدیث میںاگرچہ غلو کے لیے حرام کا لفظ استعمال نہیں ہوا ہے، لیکن اپنے نتیجے کے اعتبار سے غلو کی برائی یقینی طورپر حرام سے کم نہیں۔
غلو کا مطلب حد سے تجاوز کرنا ہے۔ آج کل کی زبان میں اس کو انتہا پسندی (extremism) کہاجاسکتاہے۔ غلو کی دو قسمیں ہیں — اعتقادی غلو، اور عملی غلو۔ دونوں قسم کے غلو کی نوعیت ایک دوسرے سے الگ ہے۔ عملی غلو سے انفرادی مزاج میں بگاڑ آتاہے، لیکن اعتقادی غلو کی برائی اِس سے زیادہ ہے۔ اعتقادی غلو اگربڑھ جائے تو اُس سے نئے نئے فرقے وجود میں آتے ہیں۔
عملی غلو کی ایک مثال یہ ہے کہ کوئی شخص یہ کہے کہ ہوائی جہاز سے سفر کرنا سنت کے خلاف ہے اور پھر وہ حج کے لیے پیدل یا اونٹ کے ذریعے سفر کرکے مکہ پہنچے۔ یہ طریقہ ایک شخص کے مزاج میں انتہاپسندی پیدا کرسکتا ہے، لیکن اُس سے کوئی الگ فرقہ نہیں بنے گا۔
اعتقادی غلو زیادہ شدید قسم کا غلو ہے۔ ایک شخص اعتقادی غلو کی بات کرے اور پھر بہت سے لوگ اس کے ماننے والے بن جائیں تو اس سے ایک نیا فرقہ وجود میں آجائے گا۔ مثلاً کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ نبوت کُلّی معنوں میں ختم نہیں ہوئی، زمانے کے بدلنے سے دوبارہ کوئی نبی آسکتا ہے، اور اِس نئے پیغمبر پر ایمان لانا اس کے معاصرین کی نجات کے لیے ضروری ہے۔ اِس طرح کی بات اگر زیادہ لوگ مان لیں تو اس سے دین میں ایک نیا فرقہ وجود میں آجائے گا۔
غلو ایک قسم کی بدعت ہے۔ غلو ہر حال میں ایک برائی ہے، لیکن اگر کوئی شخص ایک ایسی سنت کو زندہ کرنے کے لیے کھڑا ہو جو معاصرین کو بظاہر نئی چیز معلوم ہو، لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ صرف ایک متروک سنت کا احیا ہو تو ایسی تحریک غلو نہیں۔ مثلاً دعوت الی اللہ کی تحریک ۔ایسی تحریک سے دین میں کبھی کوئی برائی پیدا نہیں ہوگی۔
آپ کے سوال کا دوسرا جُز یہ ہے کہ —کسی تحریک سے وابستہ افراد اپنی تحریک کو غلو اور فرقہ بندی کی نفسیات سے کس طرح بچا سکتے ہیں۔ میرے نزدیک، اِس کا جواب یہ ہے کہ مذکورہ قسم کے غلو اور فرقہ بندی سے بچنا غالباً ممکن نہیں۔ غلو اور فرقہ بندی کی یہ قسم اصلاً دورِ زوال کا ظاہرہ ہے۔ اِسی بنا پر یہود کے اندر بعد کے دور میں فرقے پیداہوئے اور اِسی بنا پر مسیحیوں میں بعد کے دور میں فرقے پیدا ہوئے اور اِسی بنا پر خود امتِ محمدی میں بعدکے دور میں فرقے پیدا ہوئے۔ چوں کہ دورِ زوال لازماً ہر تحریک پر آتا ہے، اِس لیے دورِ زوال میں اِس قسم کے غلو اور فرقہ بندی جیسی چیزیں بھی ضرور پیدا ہوتی ہیں۔ اِس قسم کے غلو اور فرقہ بندی کی پیدائش کو روکنا تو ممکن نہیں ہے، البتہ دوسری چیز ممکن ہے، وہ یہ کہ تحریک کے افراد اِس سلسلے میں بہت زیادہ حساس اور باشعور ہوں۔
چناں چہ جب دورِ زوال میں اس قسم کا غلو پیدا ہو تو اُن کے درمیان ایسے مصلح اٹھیں جو دوبارہ لوگوں کو غلو سے ہٹا کر صراطِ مستقیم پر لانے کی کوشش کریں، وہ اُن کو فرقہ بندی اور شخصیت پرستی کے بجائے دوبارہ حقیقی خدا پرستی کے راستے پر قائم کریں، وہ قرآن اور حدیث کے دلائل کے ذریعے اُن پر یہ واضح کریں کہ اسلام میں جو چیز مطلوب ہے، وہ غلو اور فرقہ بندی نہیں، بلکہ اعتدال اور آفاقیت ہے۔ اِس آفاقی ذہن کے بغیر نہ کوئی مذہبی تحریک کبھی کامیاب ہوسکتی ہے، اور نہ سیکولر تحریک۔
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز — 217

1 - سہارن پور(یوپی) میں ڈاکٹر محمد اسلم خان اپنے ساتھیوں کے تعاون سے دعوتی کام کررہے ہیں۔ ٹیم کی طرف سے 15 اپریل 2012 کو وہاں کے کمشنر مسٹر گنیش شنکر ترپاٹھی کو پرافٹ آف پیس اور تذکیر القرآن (انگلش) کا نسخہ بطور ہدیہ دیاگیا۔ ایک ہفتے کے بعد مسٹر شنکر نے ہمارے ساتھیوں کو بتایا کہ وہ اسلام کو تشدد کا مذہب سمجھتے تھے۔ اِن کتابوں کے مطالعے کے بعد ان کا ذہن بدل گیا، اسلام سے متعلق ان کی غلط فہمی دور ہوگئی۔ انھوں نے کہا کہ اِن کتابوں کے مطالعے کے بعد معلوم ہوا کہ اسلام امن اور سچائی کا مذہب ہے۔
2 - مئی 2012 کے پہلے ہفتہ (1-6 مئی) میں صدر اسلامی مرکز نے ترکی کا سفر کیا۔ صدر اسلامی مرکز کے ساتھ اِس سفر میں سی پی ایس ٹیم کے تین افراد شریک تھے — ڈاکٹر فریدہ خانم، مسٹر رجت ملہوترا، مولانا محمد ذکوان ندوی۔ یہ سفر استاذ محمد فتح اللہ گولن کی تحریک کے تحت سیرتِ رسول کے موضوع پر منعقد ایک انٹرنیشنل کانفرنس میں شرکت کے لیے ہوا تھا۔ یہ کانفرنس ترکی کے سرحدی شہر غازی عین تاب (Gaziantep) میں 5-6 مئی 2012 کو ہوئی۔ اِس میں 60 ملکوں کے نمائندوں نے شرکت کی۔ کانفرنس کے علاوہ، سفر کے دوران استانبول کے مختلف اداروں میں صدر اسلامی مرکز کے پروگرا م ہوئے۔ سفر کی تفصیلی روداد، ان شاء اللہ، الرسالہ میں سفرنامے کے تحت شائع کردی جائے گی۔
3 - سہارن پور کے نیشنل میڈیکل کالج (NMC) میں 9 مئی 2012 کو ایک آل انڈیا ورک شاپ منعقد ہوئی۔ اِس میں بڑی تعداد میں سہارن پور کے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں نے شرکت کی۔ مثلاً ڈاکٹر راجیو، ڈاکٹر انشُل جین، وغیرہ۔ اِن لوگوں کو ہمارے ساتھیوں کی طرف سے قرآن کا انگریزی ترجمہ برائے مطالعہ دیاگیا۔
4 - سہارن پور حلقہ الرسالہ کے ایک قاری مسٹر بشیر کی بیٹی کے نکاح کے موقع پر 21 مئی 2012 کو تمام حاضرین کو سہارن پور ٹیم کی طرف سے اردو، ہندی اور انگریزی زبان میں مختلف کتابیں اور پمفلٹس دئے گئے۔
5 - نارتھ کیرولینا (امریکا) کے اسلامک افئرس سیکشن کے تحت چلنے والے ادارہ مسلم چپلن (Muslim Chaplain) کے ذریعے وہاں کے مسیحی لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ برائے مطالعہ دیا جارہا ہے۔ چپلن کی درخواست پر 25 مئی 2012 کو ادارے کے پتے پر قرآن کی مزید کاپیاں اور دعوتی پمفلٹس روانہ کردئے گئے ہیں۔
6 - ترکی کے ویکلی میگزین ’اکسیان‘ (AKSIYON) کے نمائندہ مسٹر عثمان انالن نے 25 مئی 2012 کی شام کو صدر اسلامی مرکز کا ایک تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ اِس کا موضوع تھا — اسلام اور جدید ترکی۔ یہ انٹرویو انگریزی زبان میں تھا جو میگزین کے شمارہ 4 جون 2012 میں شائع ہوا۔
7 - انڈیا انٹرنیشنل سنٹر (نئی دہلی) میں 2 جون 2012 کو ایک سمپوزیم ہوا۔ اس کا موضوع یہ تھا:
The Presidential Election-2012
اِس پروگرام میں صدر اسلامی مرکز کو افتتاحی خطاب(inaugural address) کرنے کی دعوت دی گئی تھی۔ اس کے مطابق، صدر اسلامی مرکز نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ اِس پروگرام میں شرکت کی اور انگریزی زبان میں 20 منٹ کا خطاب کیا۔ اِس موقع پر حاضرین کو پرافٹ آف پیس اور قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔
8 - نیشنل میڈیکل کالج (سہارن پور) میں 10 جون 2012 کو ایک پروگرام ہوا۔ اِس موقع پر اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔ مثلاً ڈاکٹر اے کے ڈمری (ڈائرکٹر اگنو)، ڈاکٹر جی بی لال، ڈاکٹر اُدے سنگھ، وغیرہ۔
9 - سی پی ایس انٹرنیشنل (نئی دہلی) کے کچھ ساتھیوں نے کشمیر کا سفر کیا۔ اِس مناسبت سے بیروہ میں 13 جون 2012 کو ایک دعوہ میٹ ہوئی۔ اِس میں کشمیر میں دعوتی کام کرنے والے نمائندہ افراد شریک ہوئے۔ اِس اجتماع میں یہ طے کیاگیا کہ کس طرح کشمیر میں پُرامن اندازمیں زیادہ منظم طورپر دعوت کا کام کیا جائے۔ اِس موقع پر صدر اسلامی مرکز کی نئی کتاب — صبحِ کشمیر (Dawn over Kashmir) کے اردو اور انگریزی ایڈیشن کا اجرا کیاگیا۔
10 - سہارن پور میں الوسیلہ ویلفیر سوسائٹی کی طرف سے 17 جون 2012 کو ایک آل انڈیا اسلامک کانفرنس ہوئی۔ اِس میں انڈیا کے مختلف مقامات کے علما اور دانش وروں نے شرکت کی۔ ہمارے ساتھیوں نے یہاںبڑے پیمانے پر لوگوں کو اسلامی لٹریچر برائے مطالعہ دیا۔ لوگوں نے اِس کو بخوشی قبول کیا۔
11 - امریکا کے لیے صدر اسلامی مرکز کے ٹیلی فونی خطاب کا سلسلہ جاری ہے۔ موضوعات مع تاریخ درج ہیں:
April 29, 2012: The Importance of Religious Freedom
May 13, 2012: Lessons from Makkan and Madinan Periods of the Prophet
May 27, 2012: Hudaybiya Principle
12 - صدر اسلامی مرکز کے مضامین اردو اخبارات میں شائع ہورہے ہیں۔24 مئی 2012 کو روزنامہ راشٹریہ سہارا میں ایک مضمون ’’تاریخ بشری کے پانچ دور‘‘ شائع ہوا۔نیز یہ مضامین انگریزی اخبارات ٹائمس آف انڈیا، وغیرہ میں شائع ہو رہے ہیں۔ یہ مضامین سی پی ایس کے ویب سائٹ (www.cpsglobal.org)موجود ہیں۔
واپس اوپر جائیں

Sunday, 1 July 2012

Al Risala | July 2012 (الرسالہ,جولائی)


خصوصی شمارہ ۔ انسانی تاریخ کی تعبیر

(Interpretation of Human History)
تاریخ کیا ہے، تاریخ گزرے ہوئے ماضی کی سرگزشت کا دوسرا نام ہے۔ تاریخ کے موضوع پر جو کتابیں لکھی جاتی ہیں، وہ عام طور پر گزرے ہوئے واقعات کا ریکارڈ ہوتی ہیں۔ لیکن تاریخ کا ایک ضمنی موضوع وہ ہے جس کو فلسفہ تاریخ (philosophy of history) یا تعبیر تاریخ (interpretation of history) کہا جاتا ہے۔ اِس موضوع کا مقصد یہ ہے کہ تاریخ انسانی کے واقعات کی ایک ایسی توجیہہ تلاش کی جائے جس میں مختلف واقعات کے درمیان ایک قابلِ فہم ربط دریافت کیاجاسکے۔ تاریخ کے پہلے موضوع (تاریخ نگاری) پر بڑی تعداد میں کتابیں موجود ہیں، لیکن جہاں تک تعبیر تاریخ کے موضوع کا تعلق ہے، اس موضوع پر کوئی ایسی کتاب موجود نہیں جس کو تاریخ کی قابلِ فہم توجیہہ قرار دیا جاسکے۔
اِس کا سبب ڈاکٹر الکسس کیرل نے اپنی کتاب ’’انسان نامعلوم‘‘ (Man the Unknown) میں درست طورپر یہ بتایا ہے کہ تعبیر تاریخ کا موضوع براہِ راست طور پر انسان کی آزادی سے تعلق رکھتاہے۔ انسان قابلِ پیشین گوئی نہیں، اِس لیے اس کے عمل کی کوئی جامع توجیہہ بھی ممکن نہیں۔ ہر انسان آزاد ہے کہ وہ جو چاہے کرے اور جو چاہے نہ کرے، اِس لیے انسانی تاریخ کی مجموعی تعبیر سخت مشکل کام ہے۔
اصل یہ ہے کہ انسان کی تاریخ دو متضاد تقاضوں کے درمیان سفر کرتی ہے۔ اِن دونوں تقاضوں کو آزادی اور جبر (freedom and determinism) کہاجاسکتا ہے۔ میرے علم کے مطابق، کوئی مورخ اِن دو متضاد تقاضوں کے درمیان ربط قائم کرنے کا کوئی اصول دریافت نہ کرسکا، اِس لیے وہ انسانی تاریخ کی کوئی کامیاب تعبیر بھی پیش نہ کرسکا۔
راقم الحروف نے اِس موضوع پر کافی غور وفکر کیا اور تعبیر تاریخ کا اصول دریافت کرنے کی کوشش کی۔ آخر کار مجھے قرآن کی ایک آیت میں یہ اصول دریافت ہوا۔ وہ آیت یہ ہے: وعلی اللہ قصد السبیل ومنہا جائر، ولو شاء لہداکم أجمعین (16: 9) یعنی اللہ کے اوپر ہے (انسانیت کو) صراطِ مستقیم پر قائم رکھنا، اور کچھ راستے منحرف راستے ہیں۔ اور اگر اللہ چاہتا تو وہ سارے انسانوں کو ہدایت دے دیتا۔
اِس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ اپنے منصوبۂ تخلیق (creation plan) کے مطابق، انسان کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے تاریخ کو مینج (manage) کررہا ہے۔ خدا، انسان کو آزادی بھی دئے ہوئے ہے اور اِسی کے ساتھ وہ اِس کی نگرانی بھی کررہا ہے کہ انسانی قافلہ بھٹک کر صراطِ مستقیم سے بہت دور نہ چلا جائے۔ تاریخ کے بارے میں اِس خدائی اصول کو ایک لفظ میںاِس طرح بیان کیا جاسکتاہے کہ— انسان کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے تاریخ کی تنظیم کرنا:
It is to manage history while maintaining human freedom.
تاریخ اور تعبیر تاریخ
تاریخ سادہ طورپر واقعہ نگاری (narration of events) کا نام ہے۔ تعبیر تاریخ (interpretation of history)کا تعلق فلسفۂ تاریخ سے ہے، یعنی اُن قوانین کو دریافت کرنا جو تاریخ کے عمل میں کام کررہے ہیں۔ اِس سلسلے میں مختلف نظریات پیش کئے گئے ہیں، مگر یہ تمام نظریات محض انسانی قیاس پر مبنی ہیں۔ تاریخ کی صحیح تعبیر وہ ہے جو انسان کے بارے میں خالق کے نقشۂ تخلیق (creation plan)کے مطابق ہو۔
قدیم زمانے میں بادشاہ کو تاریخ کا مرکزی کردار سمجھا جاتا تھا۔ اِس لیے تاریخ عملاً بادشاہوں کی تاریخ بن گئی۔ یورپ کی نشاۃِ ثانیہ کے بعد دنیا میں جمہوریت کا دور آیا۔ اب تاریخ کا مرکزی کردار فرد کے بجائے سوسائٹی کو سمجھا جانے لگا۔ اب سماجی افکار کی روشنی میں تاریخ لکھی جانے لگی۔ اِس میں ایک نمایاں نام جرمن مفکر کارل مارکس (وفات: 1883 ) کا ہے۔ مارکس نے تاریخ کا ایک نیا تصور پیش کیا جس کو تاریخی مادیت کہا جاتا ہے۔ یہ تصورِ تاریخ بنیادی طورپر یہ تھا کہ انسان کا شعور تاریخ کی صورت گری نہیںکرتا، بلکہ مادی حالات تاریخ کی صورت گری کرتے ہیں:
The mode of production in material life determines the general character of the social, political, and spiritual process of human life.
تاریخ کا ایک تصور وہ ہے جو نیشن (nation) پر مبنی ہے۔ کسی نیشن کی مختلف سرگرمیوں کے ریکارڈ کو اس کی تاریخ سمجھا جاتا ہے۔ مثلاً انڈین نیشن کی تاریخ، جرمن نیشن کی تاریخ، وغیرہ۔
ایک اور تاریخی نظریہ وہ ہے جس کو برٹش مورخ آرنلڈ ٹائن بی (وفات:1975 ) نے پیش کیا۔ اُس نے اِس موضوع پر ایک مکمل کتاب 12 جلدوں میں لکھی جس کا نام یہ ہے:
A Study of History
ٹائن بی نے تاریخ کا یہ تصور پیش کیا کہ تاریخ، تہذیب کے ارتقائی مراحل کے ساتھ سفر کرتی ہے۔ تہذیبوں کے معمار ہی تاریخ کے معمار ہوتے ہیں۔ مثلاً ایک زمانے میں رومی تہذیب نے تاریخ سازی کا رول ادا کیا۔ اِس کے بعد مسلم تہذیب، تاریخ ساز تہذیب کی حیثیت سے ابھری۔ اس کے بعد برٹش تہذیب کو تاریخ سازی کا یہ مقام ملا، وغیرہ۔
دوسرا تصورِ تاریخ وہ ہے جس کو مذہبی تاریخ کہا جاتاہے۔ مذہبی تصور تاریخ کو علمی اعتبار سے، کوئی مستند درجہ نہیں ملا، حتی کہ موجودہ زمانے میں اس کو بالکل ناقابلِ حوالہ سمجھ لیا گیا۔انسائکلو پیڈیا برٹینکا کے مقالہ نگار (Patrick Lancaster Gardinar)نے اپنے مقالہ فلسفۂ تاریخ (Philosophy of History) کے تحت لکھاہے کہ — مذہبی اور مابعد الطبیعی قیاسات کی روشنی میں، انسانی تقدیر کے معاملات کی تعبیر کا دور، جدید مورخین کے نزدیک، اب ختم ہوچکا ہے:
The age of religious and metaphysical conjectures concerning the destiny of human affairs had, in their opinion, come to a close (EB. 8/962, 1974)
یہ بات بلا شبہہ بے بنیاد ہے۔ یہ بات اُسی طرح غیر علمی ہے جس طرح یہ کہا جاتا ہے کہ خدا کا دور ختم ہوگیا (God is dead) ، یا یہ کہ پیغمبر کی وحی صرف ایک شاعرانہ تجربہ (poetic experience) تھی، یا یہ کہ مذہب کی کوئی بنیاد نہیں، وہ صرف ایک سماجی ظاہرہ (social phenomenon) ہے، وغیرہ۔
خدا کا منصوبۂ تخلیق
اللہ نے ایک معیاری دنیا بنائی۔ یہ دنیا ہر اعتبار سے ایک پرفکٹ دنیا تھی۔ اللہ نے یہ مقدر کیا کہ اِس معیاری دنیا میں ایسے افراد بسائے جائیںجو ہر اعتبار سے معیاری انسان ہوں۔ اِس مقصد کے لیے اللہ نے انسان کو پیدا کرکے اس کو سیارہ ارض پر آباد کیا۔ اس نے انسان کو مکمل آزادی عطا کی۔ موجودہ دنیا اِس منصوبے کے لیے ایک سلیکشن گراؤنڈ کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہاں یہ دیکھا جارہا ہے کہ کون شخص اپنی آزادی کا صحیح استعمال کرتا ہے اور کون شخص اپنی آزادی کا غلط استعمال کرتا ہے۔ تاریخ کے خاتمے پر یہ ہوگا کہ آزادی کا غلط استعمال کرنے والے افراد رد کردئے جائیں گے اور جن افراد نے اپنی آزادی کا صحیح استعمال کیا، اُن کو منتخب کرکے اُنھیں جنت میںآباد کردیا جائے گا۔ جنت کے تصور کو ملحد مفکرین انسانی تمناؤں کی خوب صورت نظریہ سازی (beautiful idealization of human wishes) کا نام دیتے ہیں۔ مگر زیادہ صحیح یہ ہے کہ جنت کے تصور کو انسانی تاریخ کی خوب صورت تعبیر (beautiful interpretation of human history) کہا جائے۔
یہ ایک پیچیدہ منصوبہ ہے۔ اِس کا ایک جُز یہ ہے کہ انسان کی آزادی پوری طرح برقرار رہے۔ اِس کا دوسرا جز یہ ہے کہ اللہ اس منصوبے کی تکمیل تک اپنے علم کے مطابق، اس کی تنظیم کرتا رہے۔ اِس طرح یہ دو طرفہ تقاضے کو منیج کرنے کا ایک معاملہ ہے۔ تاریخ کی کوئی قابلِ فہم تعبیر صرف اُس وقت ممکن ہے جب کہ تاریخ کو اِس دوطرفہ تقاضے کی روشنی میں دیکھا جائے ۔ تعبیر تاریخ کا یہی درست اصول ہے۔ اِس اصول کو نظر انداز کرنے کے بعد تاریخ کی تعبیر کسی بھی شخص کے لیے ممکن نہیں۔
انسانی تاریخ کی تعبیر کا کام انسان کرتاہے، مگر انسان کا خالق خود انسان نہیں، انسان کا خالق اللہ ہے۔ اِس لیے تاریخ کی تعبیر کا رہنما اصول (guiding principle) صرف یہ ہوسکتاہے کہ مورخ سب سے پہلے خالق کے منصوبۂ تخلیق (creation plan of the Creator) کو معلوم کرے۔ یہی اِس معاملے میں ماسٹر پرنسپل (master principle)ہے۔ اِس ماسٹر پرنسپل کو ذہن میں رکھے بغیر کوئی شخص تاریخ کی درست تعبیر نہیں کرسکتا — زیر نظر مقالے میں اِسی اصول کی روشنی میں تاریخ کی ایک قابلِ فہم تعبیر تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
مطلوب افراد کا انتخاب
خدا کے اِس تخلیقی منصوبہ کا ذکر قرآن کی سورہ البقرہ میں آیا ہے۔ اِن آیات کا ترجمہ یہ ہے: ’’اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ فرشتوں نے کہا: کیا تو زمین میںایسے لوگوں کو بسائے گا جو اُس میں فساد برپا کریں اور خون بہائیں، اور ہم تیری حمد کرتے ہیں اور تیری پاکی بیان کرتے ہیں۔ اللہ نے کہا: میں وہ جانتاہوں جو تم نہیں جانتے۔ اور اللہ نے سکھادئے آدم کو سارے نام، پھر ان کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور کہا کہ اگر تم سچے ہو تو مجھے اِن لوگوں کے نام بتاؤ۔ فرشتوں نے کہا کہ تو پاک ہے۔ ہم تو وہی جانتے ہیں جو تو نے ہم کو بتایا۔ بے شک تو ہی علم والا اور حکمت والا ہے‘‘۔ (2: 30-32)
فرشتوں کو یہ معلوم تھا کہ تمام موجودات مکمل طورپر خدا کے تابع فرمان ہیں، مگر انسان کو آزادی دے کر زمین پر بسایا جارہا ہے۔ ایسی حالت میں یہ ہوگا کہ لوگ آزادی کا غلط استعمال کریں گے اور وہ زمین میں فساد اور خوں ریزی برپا کریں گے۔ اُس وقت اللہ تعالیٰ نے ایک مظاہرہ کے ذریعے فرشتوں کو بتایا کہ اگر چہ انسانوں کی بڑی تعداد آزادی کا غلط استعمال کرکے مفسد بن جائے گی، لیکن انھیں میں سے ایسے افراد بھی نکلیںگے جو صالح افراد ہوں گے۔ آدم نے فرشتوں کے سامنے انھیں صالح افراد کا تعارف کرایا اور پھر فرشتے مطمئن ہوگئے۔
اصل یہ ہے کہ فرشتے پورے انسانی مجموعے کو دیکھ کر اپنی رائے بنا رہے تھے۔ اللہ نے ایک مظاہرہ کے ذریعے واضح کیا کہ خدائی تخلیق کا نشانہ مجموعہ نہیں ہے، بلکہ افراد ہیں۔ مجموعے کی سطح پر اگرچہ بگاڑ آئے گا، لیکن افراد کی سطح پر ہمیشہ اچھے افراد وجود میں آتے رہیں گے۔ خدا کے تخلیقی منصوبے کے مطابق، موجودہ دنیا ایک سلیکشن گراؤنڈ (selection ground) ہے، یعنی پورے مجموعے میں سے مطلوب افراد کا انتخاب کرنا۔ تخلیق کا نشانہ یہ نہیں ہے کہ انسان اِسی سیارۂ ارض پر معیاری نظام بنائے، بلکہ تخلیق کا نشانہ یہ ہے کہ ہر دور اور ہر نسل میں سے اُن افراد کو منتخب کیا جائے جو کامل آزادی کے باوجود اپنے آپ کو بطور خود ضابطۂ خداوندی کا پابند بنا لیں۔
تاریخ کے چند اوراق
خالق کے تخلیقی منصوبے کے مطابق، انسانی تاریخ کے سفر کو چند بڑے ادوار میں تقسیم کیاجاسکتا ہے۔ یہ ادوار یا یہ تاریخی مراحل حسب ذیل ہیں:
1 - پہلا دور نبیوں کے ذریعے اعلان کا دور ہے۔ یہ دور حضرت آدم سے لے کر حضرت محمد تک پھیلا ہوا ہے۔ اِس دور میں بہت سے پیغمبر آئے، لیکن اُن کا مشن اعلان کے مرحلے تک محدود رہا، وہ انقلاب کے مرحلے تک نہیں پہنچا۔
2 - دوسرا مرحلہ وہ ہے جو حضرت اسماعیل بن ابراہیم سے شروع ہوتاہے۔ اِس مرحلے میں ایک ایسی امت تیار ہوئی جو خدا کی کتاب کی حامل امت بن سکے۔
3 - حاملِ کتاب امت کے وجود میں آنے کے بعد جو اہم واقعہ ہوا، وہ یہ کہ قرآن خدا کی ہدایت کے مستند متن (authentic text) کی حیثیت سے محفوظ ہوگیا۔
4 - اصحاب رسول کے ذریعے تاریخ میں جو نیا دور آیا، اُس کا ایک اہم جُز آزادیٔ رائے (freedom of thought) تھا۔ ساتویں صدی عیسوی میں اِس کا آغاز ایک پراسس (process) کی شکل میں ہوا۔ ہزاروں سال بعد مغربی تہذیب کی صورت میں وہ اپنے کمال کو پہنچا۔
5 - اس تاریخی عمل میں مغربی تہذیب کا ایک سپورٹنگ رول ہے۔ مغربی تہذیب کی حیثیت اِس تاریخی سفر میں ایک سیکولر مؤید (secular supporter) کی ہے۔
6 - دورِ جدید میں سائنس کی حیثیت اِ س تاریخی سفر میں ایک مؤید عنصر (supportive element) کی ہے۔ جدید سائنس نے نیچر کی انفولڈنگ کرکے اُن خدائی نشانیوں کو کھولا جن کو قرآن میںآیات (signs) کہاگیا ہے (41: 53)۔
7 - جدید دور کو ایج آف کمیونکیشن کہاجاتا ہے۔ یہ ایج دراصل موافقِ دعوت ایج ہے۔ گلوبل کمیونکیشن نے پہلی بار گلوبل دعوہ کو ممکن بنادیا ہے۔
8 - پچھلی ہزار سالہ تاریخ میں پہلی بار دعوت الی اللہ کا ایک نیا امکان پیداہوا ہے۔ اس امکان کو جو لوگ استعمال کریں گے، اُن کو حدیث میں اخوانِ رسول کہاگیا ہے(صحیح مسلم)۔اخوانِ رسول کا لفظ فضیلت کو نہیں، بلکہ رول کو بتاتا ہے۔ اصحابِ رسول وہ لوگ تھے جنھوں نے ساتویں صدی میں اُس وقت کے امکانات کو استعمال کیا۔ اخوانِ رسول وہ لوگ ہوں گے جو اکیسویں صدی کے امکانات کو دعوت الی اللہ کے لیے استعمال کریں۔
مقصد ِ تخلیق
فلاسفہ اورمفکرین کے یہاں زیر بحث سوالات میں سے ایک اہم سوال یہ ہے کہ تخلیق کی غایتِ اصلی (raison d’être) کیا ہے۔ سیکولر مفکرین نے اس کا جواب مختلف انداز سے دینے کی کوشش کی ہے۔ مثلاً یہ کہ تخلیق کا مقصد یہ ہے کہ اس کے ذریعے خالق خود اپنی تکمیل چاہتا ہے۔ قرآن میںاِس سوال کا جواب ایک آیت میں اِس طرح دیاگیا ہے: وما خلقتُ الجن والإنس إلا لیعبدون (51:56) یعنی میں نے جن اور انس کو صرف اِس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔
صحابی مفسر عبد اللہ بن عباس نے اِس آیت کی تشریح اِس طرح کی ہے کہ اِس آیت میں ’لیعبدون‘ سے مراد ’لیعرفون‘ ہے، یعنی خدا کی عبادت کرنے سے مراد ہے خدا کی معرفت حاصل کرنا۔
خالق کی معرفت کوئی سادہ بات نہیں۔ انسان اپنے خالق کو براہِ راست نہیں دیکھ سکتا، لیکن تخلیق کا مطالعہ اور صاحبِ تخلیق کی کتاب (قرآن) کا مطالعہ کرکے آدمی یقینی طورپر خالق کی عظمتوں کو دریافت کرسکتا ہے۔ تخلیق کی اعلیٰ معنویت خالق کا اعلیٰ تعارف ہے۔ تخلیق کے مطالعے سے آدمی خالق کا جو علم حاصل کرتاہے، اُسی کا نام معرفت ہے۔
کسی آدمی کو جب خالق کی یہ معرفت حاصل ہوتی ہے تو یہ اُس کے لیے سپر تھرل (super thrill) کا ایک تجربہ ہوتا ہے۔ یہ تجربہ آدمی کی شخصیت میں ایک عظیم انقلاب پیدا کردیتا ہے۔ اِس کے بعد فطری طورپر ایسا ہوتاہے کہ آدمی کی سوچ خدا رخی سوچ بن جاتی ہے، آدمی کا کلام خدا رخی کلام بن جاتا ہے، آدمی کا سلوک خدا رخی سلوک بن جاتا ہے۔ قرآن کے الفاظ میں، آدمی کی پوری زندگی خدا کے رنگ میں رنگ جاتی ہے (2: 138) ۔
یہی معرفت مزید وسعت پاکر دعوت الی اللہ بن جاتی ہے۔ دعوت الی اللہ کیا ہے۔ وہ آدمی کی معرفتِ خدا کی توسیع یا اس کا خارجی ظہور ہے۔ جو آدمی گہرائی کے ساتھ خدا کی معرفت حاصل کرے، اس کے اندر شدید طورپر یہ جذبہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ اِس معرفت میں دوسروں کو حصے دار بنائے۔ اِسی واقعے کا دوسرا نام دعوت الی اللہ ہے۔
خدا کی معرفت ایک فرد کے اندر متحقق ہوتی ہے، نہ کہ کسی مجموعے کے اندر۔ جب ایک بڑی تعداد خدا کے عارفوں پر مشتمل ہو جائے تو اُس وقت پورے مجموعے یا اس کی بڑی تعداد معرفت کی حامل بن جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دعوت الی اللہ کا کام اصلاً فرد پر مبنی کام ہے، نہ کہ مجموعے پر مبنی کام۔ دعوت الی اللہ کا نشانہ اصلاً کسی سسٹم یا کسی اجتماعی نظام کے وجود میں لانا نہیں ہے، بلکہ فرد فرد کو معرفتِ خداوندی کا حامل بنانا ہے۔ اِس کے بعد جو واقعات پیش آتے ہیں، وہ اصل نشانے کے بالواسطہ نتائج ہیں، نہ کہ اصل نشانہ۔
تاریخ کی با معنی تعبیر
ایک بڑی انڈسٹری قائم کی جائے تو بظاہر اُس میں بہت سے اجزا اور بہت سی سرگرمیاں دکھائی دیں گی، لیکن انڈسٹری کا مقصودِ اصلی صرف ایک ہوگا، اور وہ ہے— کوئی خاص پروڈکٹ (product) نکالنا، یہی پروڈکٹ انڈسٹری کا حقیقی جُز ہوگااور بقیہ تمام چیزیں انڈسٹری کے اضافی اجزا قرار پائیں گے۔ یہی وہ واحد اصول ہے جس پر انڈسٹری کی صحتِ کارکردگی کو جانچا جائے گا۔
یہی معاملہ انسانی تاریخ کا ہے۔ انسانی تاریخ کے بظاہر بہت سے اجزا ہیں۔ اس میں بظاہر بہت سی سرگرمیاں کام کرتی ہوئی نظر آتی ہیں، لیکن تاریخ کی توجیہہ کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے یہ معلوم کیا جائے کہ تاریخ کے معاملے میں خالق کا منصوبہ کیا ہے اور خالق کے منصوبے کے مطابق، اِس عظیم کارخانۂ تاریخ سے کون سا پروڈکٹ نکالنا مقصود ہے۔ اِس کے سوا، کوئی دوسرا نقطۂ نظر تاریخ کی درست توجیہہ میں کار آمد نہیں ہوسکتا۔
قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتاہے کہ تاریخ کی مختلف سرگرمیوں کے دوران خالق کو جو پروڈکٹ وجود میں لانا مقصود ہے، وہ صرف ایک ہے۔ اِس پروڈکٹ کو قرآن میں ربانی انسان (3: 79) کہاگیا ہے، یعنی ایک فرد کے اندر ربانی شخصیت کی تعمیر۔ یہی ربانی افراد خدا کے منصوبۂ تخلیق کی اصل غایت (raison d’être) ہیں۔ جب تک یہ ربانی افراد بنتے رہیں گے، اُس وقت تک تاریخ کے ہنگامے جاری رہیں گے، اور جب اِس قسم کے افراد پیدا ہونا بند ہوجا ئیں تو اِس کے بعد وہ وقت آجائے گا، جب کہ تاریخ کے موجودہ دور کو ختم کرکے اس کے دوسرے دور کا آغاز کردیا جائے۔
خالق کے منصوبے کے مطابق، انسانی تاریخ کو عادلانہ اجتماعی نظام (just social system) کی اصطلاح میں جانچنا درست نہیں۔ خالق کا منصوبہ یہ نہیں ہے کہ موجودہ دنیا میں عادلانہ نظام قائم ہو، بلکہ خالق کا منصوبہ یہ ہے کہ موجودہ دنیا کی تجربہ گاہ میں عادل افراد پیداہوں اور پھر اِن عادل افراد کو منتخب کرکے اُنھیں یہ موقع دیا جائے کہ وہ جنت کی معیاری دنیا میں ابدی طورپر رہ سکیں۔ تاریخ کی بامعنی تعبیر (meaningful interpretation of history) صرف اُس وقت ممکن ہے جب کہ مذکورہ اصول کی روشنی میں تاریخ کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ کوئی دوسرااصول، تاریخ کی معنویت (meaning)کو واضح کرنے کے لیے کار آمد نہیں۔
افراد، نہ کہ مجموعہ
حقیقت یہ ہے کہ تاریخ کی صحیح تعبیر صرف وہ ہے جو خالق کے تخلیقی پلان کی روشنی میں کی جائے۔ تعبیر تاریخ کے اِس موضوع پر، قرآن کو ایک مستند ماخذ کا درجہ حاصل ہے۔ قرآن کا مطالعہ بتاتا ہے کہ خدا کے منصوبۂ تخلیق کے مطابق، تاریخ کی تعبیر کیا ہونا چاہئے۔ پچھلے ادوار میں ہزاروں مورخین پیدا ہوئے، مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ اِن تمام مورخین کی تیار کردہ کتابیں صرف تاریخی واقعات کا دفتر (chronicles) ہیں، وہ انسانی تاریخ کی معنویت کو واضح نہیں کرتیں۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ کتبِ تاریخ کی روشنی میں تاریخ صرف بے معنی واقعات کا ایک جنگل نظر آتی ہے۔ اِسی حقیقت کو انگریزمورخ ایڈورڈ گبن (وفات: 1794 ) نے اِن الفاظ میں بیان کیا ہے— انسانیت کی تاریخ، جرائم، حماقت اور بد قسمتی کے رجسٹر سے کچھ ہی زیادہ ہے:
History, which is, indeed, little more than the register of crimes, follies and misfortunes of mankind.
تعبیر تاریخ کے اعتبار سے، سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ تمام مورخین تاریخ کو مجموعہ کے اعتبار سے دیکھتے ہیں اور وہ مجموعہ کے اعتبار سے، اس کے حسن وقبح کا فیصلہ کرتے ہیں۔ مگر خدائی تخلیق کے مطابق،تعبیر تاریخ کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ مجموعۂ انسانیت کو دیکھ کر تاریخ کی تعبیر نہ کی جائے، بلکہ افرادِ انسانی کو دیکھ کر اس کی تعبیر کی جائے۔ مجموعہ کے اعتبار سے دیکھنے کی صورت میں یہ ہوتا ہے کہ تاریخ کا کوئی عہد عہد زریں (golden age) نظر نہیں آتا۔ لیکن اگر افراد کے اعتبار سے، تاریخ کو دیکھاجائے تو ہر عہد، زریں افراد (golden individuals) کا عہد نظر آئے گا۔
معیاری افراد کا انتخاب
اصل یہ ہے کہ خالق نے موجودہ دنیا کو اِس لیے نہیں بنایا کہ یہاں مجموعہ کی سطح پر معیاری نظام (ideal system) بنایا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دنیا امتحان کے لیے بنائی گئی ہے۔ یہاں ہر انسان کو کامل آزادی دی گئی ہے، وہ چاہے مصلح بن کر رہے یا مفسد بن کررہے۔ اِس لیے یہاں مجموعہ کی سطح پر کبھی معیاری نظام نہیں بن سکتا۔ معیاری نظام کا مقام صرف جنت ہے اور وہ جنت ہی میں بنے گا۔
موجودہ دنیا دراصل معیاری افراد کا انتخابی میدان (selection ground) ہے۔ یہاں ہر نسل سے معیاری افراد کا انتخاب کیا جارہا ہے۔ مثلاً آدم کی پہلی نسل میں قابیل، قابلِ رد تھا اور ہابیل، قابلِ قبول۔ یہی معاملہ پوری تاریخ میں جاری ہے۔ ہر دور میں اور ہر نسل میں خدا معیاری افراد کو منتخب کررہا ہے اور غیر معیاری افراد کو رد کررہا ہے۔ ردوقبول کے اِسی معاملے کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیاہے: ثلّۃ من الأولین وثلّۃ من الآخرین (56: 39-40) یعنی اگلوں میں سے ایک بڑا گروہ اور پچھلوں میں سے بھی ایک بڑا گروہ۔
قابلِ قبول اور قابلِ رد انسانوں کی یہ مطلوب فہرست جب مکمل ہوجائے گی تو اس کے بعد خالق کائنات موجودہ دنیا کو ختم کرکے ایک اور دنیا بنائے گا، جہاں وہ معیاری دنیا ہوگی جس کو جنت کہاجاتاہے۔ قابلِ قبول افراد اِس جنت میں بسا دئے جائیں گے، جہاں وہ ابد تک خوف وحزن سے پاک زندگی گزاریں گے۔ اور ناقابلِ قبول افراد کو رد کرکے کائناتی کوڑے خانے میں ڈال دیاجائے گا، جہاں وہ ابد تک حسرت کی زندگی گزاریں گے۔
معیارِ تاریخ
یہی تاریخ کو دیکھنے کا صحیح معیار ہے۔ اِس معیار سے تاریخ کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ فساد کے جنگل میں ہمیشہ اعلیٰ درجے کے صالح افراد پیدا ہوتے رہے ہیں۔ اِسی جنگل میں آدم کے بیٹے ہابیل بھی تھے جنھوں نے اپنے قاتل سے کہا: لئن بسطتَ إلَیّ یدک لتقتلنی ما أنا بباسط یدی إلیک لأقتلک۔ إنی أخاف اللہ ربّ العالمین (5: 28) یعنی اگر تم مجھ کو قتل کرنے کے لیے ہاتھ اٹھاؤگے تو میں تم کو قتل کرنے کے لیے تم پر ہاتھ نہیں اٹھاؤں گا۔ میں ڈرتا ہوں اللہ سے جو سارے جہان کا رب ہے۔ ہابیل کا یہ قول امن کا قول تھا۔ ہابیل نے اپنی اِس روش سے امن پسندی کی وہ اعلیٰ ترین مثال قائم کی جس کے آگے امن پسندی کا کوئی اور درجہ نہیں۔
اِسی طرح، تاریخ کے اِس جنگل میں ہاجرہ اُمّ اسماعیل جیسی خاتون پیدا ہوئیں۔ انھوں نے ڈھائی ہزار سال پہلے، خدا کے منصوبے کے مطابق، ایک نئی نسل برپا کرنے کے لیے یہ قربانی دی کہ وہ اپنے چھوٹے بچے (اسماعیل) کو لے کر عرب کے صحرا میں آباد ہوگئیں۔ اُس وقت اُن کی زبان سے یہ تاریخی کلمہ نکلا کہ جب خدا کا یہی منصوبہ ہے تو خدا ہم کو ہر گز ضائع نہیں کرے گا (إذن لا یضیّعنا اللہ)۔ ہاجرہ کی اِسی قربانی کے نتیجے میں بنو اسماعیل کی وہ نسل پیدا ہوئی جو اعلیٰ انسانی اوصاف کی حامل تھی۔ ایک مغربی اسکالر پروفیسر ڈی ایس مارگولیتھ (وفات: 1940 ) نے اِس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے بنو اسماعیل کی اِس نسل کو ہیروؤں کی ایک قوم (a nation of heroes) قرار دیا تھا۔
اِسی طرح، تاریخ کے اِس جنگل میں ابوبکر اور عمر جیسے افراد پیداہوئے جن کو اقتدار ملا، لیکن انھوں نے اپنے آپ کو بگاڑ سے کامل طورپر بچایا۔ مہاتما گاندھی نے ابوبکر ا ور عمر کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا تھا کہ — اگرچہ وہ بہت بڑی سلطنت کے حاکم تھے، مگر انھوںنے فقیروں جیسی زندگی گزاری:
Though, they were masters of vast empire, yet they lived the life of paupers. (Harijan, July 27, 1937)
انسان کو پیدا کرنے والا خداہے۔ خدانے انسان کی فطرت میں جنت کا تصور ودیعت کردیاہے۔ اِسی لیے ہر عورت اور مرد جو پیدا ہوتے ہیں، وہ تمناؤں اور خواہشوں (desires) کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ ہر انسان کے اندر فطری طورپر ایک تصوراتی دنیا بسی ہوئی ہے۔ اس اعتبار سے، انسان ایک طالبِ جنت مخلوق (paradise-seeking animal) ہے۔
اِسی فطرت کی بنا پر ایسا ہے کہ ہر پیدا ہونے والا انسان اپنے لیے ایک معیاری دنیا کی تعمیر میں لگ جاتاہے۔ ہر آدمی کا یہ حال ہے کہ وہ اپنی طاقت اور اپنے تمام وسائل کو ایک ایسی دنیا کے حصول میں لگا دیتاہے، جو اس کے لیے خوشی اور سکون کی دنیا ہو، جہاں اس کو پورے معنوں میں فل فل مینٹ (fulfilment) مل سکے۔مگر اسی کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر آدمی جو اِس دنیا میں آیا، وہ اپنی مطلوب دنیا کی تعمیر میں ناکام رہا، اور مایوسی کی نفسیات میں مر کر اِس دنیا سے چلا گیا۔ اِس عموم میں کسی بھی شخص کا کوئی استثنا نہیں۔ راقم الحروف نے ایک بار انٹرنیٹ کے ذریعے ایسے تقریباً 400 ممتاز افراد کے بارے میں یہ معلوم کیا کہ ان کے آخری ایام کیا تھے۔ تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ بلا استثنا اُن میں سے ہر شخص سخت مایوسی (despair) کی حالت میں مرا۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان کے ذہن میں جو معیاری دنیا بسی ہوئی ہے، وہ جنت ہے۔ مگر جنت کو پانے کا مقام آخرت ہے، نہ کہ موجودہ دنیا۔ خدا کے تخلیقی پلان کے مطابق، انسان کو یہ کرنا چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو جنت میں بسائے جانے کے قابل بنائے۔ مگر ساری تاریخ میں انسان نے یہ کیا کہ ہر ایک موجودہ دنیا ہی میں اپنی جنت کی تعمیر کرنے لگا۔ ایسا کرنا خداکے تخلیقی منصوبے کے خلاف تھا۔ اِس لیے ہر انسان صرف ناکامی کی ایک مثال بن کر رہ گیا۔مفکرین اور مصلحین نے عام طورپر اپنا نشانہ یہ بنا یا کہ وہ اِس دنیا میں انصاف اور انسانی اقدار (human values) کے اعتبار سے ایک معیاری دنیا بنائیں۔ مگر اُن کا نشانہ خدا کے تخلیقی منصوبے کے خلاف تھا، اِس لیے وہ کبھی واقعہ نہ بن سکا۔ خدا کا تخلیقی نشانہ یہ نہیں ہے کہ موجودہ دنیا میں معیاری نظام (ideal system) وجو د میں لایا جائے، بلکہ خدا کا تخلیقی نشانہ یہ ہے کہ معیاری افراد وجود میںآئیں۔ اِس قسم کے معیاری افراد تاریخ میں بکھرے ہوئے ہیں۔ آخرت میں یہ ہوگا کہ اِن افراد کو منتخب کرکے اُنھیں جنت کی معیاری دنیا میں بسادیا جائے گا۔
تعبیر تاریخ کی مثالیں
تاریخ کی تعبیر (interpretation of history) ایک مستقل سبجکٹ ہے، مگر اِس موضوع پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں، وہ سب کی سب کنفیوژن کا کیس ہیں۔ میرے علم کے مطابق، کوئی بھی شخص اِس موضوع پر اب تک ایسی کتاب نہ لکھ سکا جس میں انسانی تاریخ کی قابلِ فہم تعبیر پیش کی گئی ہو۔
اِس موضوع پر سب سے زیادہ نمایاں نام غالباً کارل مارکس (وفات: 1883 ) کا ہے۔ اس نے بطور خود تاریخ کی ایک متعین تعبیر دینے کی کوشش کی۔ مارکس کی اِس تعبیر تاریخ کو مادی تعبیر تاریخ (material interpretation of history)یا تاریخی مادیت (historical materialism) کہا جاتا ہے۔ کارل مارکس نے یہ کیا کہ اس نے نیوٹن کے دریافت کردہ قانون فطرت (law of nature) کو انسانی تاریخ پر منطبق کردیا، مگر مارکس کی یہ تعبیر تاریخ پہلی ہی نسل میں اہل علم کے درمیان قابلِ رد قرار پاگئی۔ انسان ایک صاحب اختیار مخلوق ہے۔ اِس کے برعکس، مادہ کوئی ذاتی اختیار نہیں رکھتا۔ ایسی حالت میں ایک کے قانون کو دوسرے کے اوپر چسپاں کرنا قیاس مع الفارق ہے، جو کہ عملاً ممکن نہیں۔
پہلی عالمی جنگ (1914-1918) کا واقعہ اس مارکسی نظریے کی عملی آزمائش تھا۔ یہ نظریہ اِس پہلی ہی آزمائش میں مکمل طور پر رد ہوگیا۔ اِس کی تفصیل یہ ہے کہ مشہور کمیونسٹ لیڈر ولادمیر لینن (وفات: 1924 ) نے 1919 میں کمیونسٹ انٹرنیشنل (comintern) قائم کی۔ اُس کا نظریہ تھا کہ ساری دنیا کے مزدور ایک طرف ہیں اور تمام دنیا کے سرمایہ دار ایک طرف۔ اس کے بعد 1939 میں دوسری عالمی جنگ شروع ہوئی۔ یہ جنگ جن ملکوں کے درمیان ہوئی، اُن ملکوں کے سربراہ مارکسی تصور کے مطابق، سرمایہ دار طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ مارکسی تصور کے مطابق، یہ فرض کرلیا گیا کہ اِن ملکوں کے مزدور اپنے ملکوں کی سرمایہ دار حکومتوں کا ساتھ نہیں دیں گے، بلکہ وہ عالمی مزدور طبقہ (class)کا ساتھ دیں گے، مگر عملاً ایسا نہیں ہوا۔ ہر ملک کے مزدوروں نے خود اپنے ملک کی حکومتوں کا ساتھ دیا۔ اِس طرح تاریخی مادیت یا جدلیاتی مادیت کا نظریہ اپنے پہلے ہی تجربے میں ختم ہوگیا۔
اِسی طرح کچھ اور اہل علم نے انسانی تاریخ کو ایک تعبیر دینے کی کوشش کی۔ مگر عملاً وہ بھی کنفیوژن کا شکار ہو کر رہ گئے۔ اِس کی ایک مثال کیمبرج کے پروفیسر ایچ بٹر فیلڈ(H. Butterfield) کی ہے۔ انھوں نے اِس موضوع پر ایک کتاب لکھی ہے جو 146 صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب 1931میں لندن سے چھپی ہے۔ اِس کتاب کا نام یہ ہے:
The Whig Interpretation of History
اِس کتاب میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ کسی یونی ورسل مارل کوڈ (universal moral code) کی روشنی میں پوری تاریخ کو ایک اخلاقی تعبیر دی جائے، مگر خود مصنف نے یہ اعتراف کیا ہے کہ تاریخ کی عملی تصویر کے مطابق، اِس قسم کی تعبیر ممکن نہیں۔
اِسی طرح ایک مثال مشہور برطانی رائٹر جارج برناڈ شا (وفات: 1950 ) کی ہے۔ اِس سلسلے میں اس کی ایک کتاب ’’مین اینڈ سپر مین‘‘ (Man and Superman) ہے۔ اِس کتاب میں اُس نے مفروضہ ارتقائی اصول کی روشنی میں تاریخ کی ایک تعبیر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اُس کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان لازمی ارتقائی قانون کے مطابق، بشر (man) سے فوق البشر (superman) کی طرف سفر کررہا ہے۔ مگر اس کا یہ نظریہ صرف ایک خیالی کہانی ہے۔ خالص علمی اعتبار سے اس کا کوئی وزن نہیں۔
منفی تصورِ تاریخ
انسانی تاریخ کے بارے میں عام طور پر اہلِ علم کا نقطۂ نظر منفی ہوتا ہے۔ مثلاً مشہور انگریز مورخ ایڈورڈ گبن (Edward Gibbon) نے لکھا ہے کہ — انسانیت کی تاریخ جرائم، حماقت اور بدقسمتی کے رجسٹر سے کچھ ہی زیادہ ہے:
History, which is, indeed, little more than the register of crimes, follies and misfortunes of mankind.
مختلف زبانوں میں جو بڑے بڑے ناول لکھے گئے ہیں،وہ سب کے سب المیہ (tragedy) ہیں،نہ کہ طربیہ (comedy) ۔ انسانی تاریخ کے بارے میں اِس قسم کا منفی تصور کیوں ہے۔ اِس کا سبب دراصل تاریخ کا غیر فطری طریق مطالعہ ہے۔ تاریخ کا فطری طریقِ مطالعہ یہ ہے کہ سب سے پہلے تاریخ کے بارے میں خالق کے نقشہ (model) کو دریافت کیا جائے، اور اس کے بعد اِس خدائی نقشے کی روشنی میں تاریخ کا جائزہ لیا جائے۔
جو لوگ تاریخ کے بارے میں منفی نقطۂ نظر رکھتے ہیں، اُن سب کی مشترک غلطی یہ ہے کہ وہ اپنے مفروضہ نقشے کی روشنی میں تاریخ کو سمجھنا چاہتے ہیں، اور جب تاریخ ان کے مفروضہ نقشے کے مطابق، بامعنی نظر نہیں آتی تو وہ تاریخ کے بارے میں منفی سوچ کا شکار ہوجاتے ہیں۔
تاریخ کے بارے میں اِسی منفی نقطۂ نظر کے تحت ایک مغربی مفکر نے کہا کہ —اِس دنیا میں ہر چیز حسین ہے، صرف ایک چیز حسین نہیں، اور وہ انسان ہے:
In this world everything is beautiful except man.
یہ تبصرہ غلط معیار کا نتیجہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کے سوا بقیہ دنیا جتنی حسین ہے، اُس سے بھی زیادہ انسانی دنیا حسین ہے۔ انسان مقصدِ کائنات ہے، پھر وہ غیر حسین کیسے ہوسکتا ہے۔ انسانی تاریخ
یہ تبصرہ دراصل ایک غلط معیار کا نتیجہ ہے۔ مذکورہ مبصر نے مادی دنیا کو دیکھا۔ اس کو نظر آیا کہ مادی دنیا میں پورے مجموعے کی سطح پر حسن پایا جاتا ہے۔ اس نے چاہاکہ یہی مجموعی حسن اس کو انسانی دنیا میں بھی نظر آئے۔ جب اُس نے پایا کہ انسانی دنیا میں اِس قسم کا مجموعی حسن نہیں ہے، تو اُس نے مذکورہ قسم کا ریمارک (remark) دے دیا۔
خالق کے منصوبے کے مطابق، انسانی دنیا اور بقیہ مادی دنیا کے درمیان ایک فرق پایا جاتاہے۔ وہ فرق یہ ہے کہ انسان کے سوا بقیہ کائنات میں مجموعی نظم (collective discipline) درکار ہے، کیوں کہ بقیہ دنیا امتحان (test) کے لیے نہیں پیدا کی گئی ہے، بلکہ وہ انسان کے لیے ایک معاون ذریعے کے طور پر پیدا کی گئی ہے، مجموعی نظم کے بغیر یہ مقصد حاصل نہیں ہوسکتا۔
اِس کے برعکس، انسان کا معاملہ فرد فرد کا معاملہ ہے۔ یہاں مجموعی حسن مطلوب نہیں، بلکہ یہاں انفرادی حسن مطلوب ہے۔ انسانی دنیا میں ہر فرد کو الگ الگ جانچا جارہا ہے۔ ہر فرد کو الگ الگ یہ موقع دیاجارہاہے کہ وہ اپنی آزادی کا صحیح استعمال کرکے اپنے آپ کو جنت کے معاشرے کا ایک کامیاب ممبر بناسکے۔ اِسی منصوبۂ تخلیق کی بنا پر دونوں کی جانچ کا الگ الگ معیار ہوگا۔ انسان کو فرد کی سطح پر جانچنا چاہئے اور بقیہ کائنات کو مجموعے کی سطح پر۔ حقیقت یہ ہے کہ تخلیق کی دونوں مثالیں شاہ کار ہیں، انسان بھی اور بقیہ کائنات بھی، مگر دونوں کو جانچنے کا معیار ایک دوسرے سے الگ ہے۔
تاریخ کے مطالعے کے بارے میں جو لوگ منفی نقطہ نظر رکھتے ہیں، ان کی مشترک غلطی یہ ہے کہ وہ پورے انسانی معاشرے یا پورے انسانی مجموعے کو دیکھ کر اپنی رائے بناتے ہیں۔ چوں کہ مجموعے کی سطح پر اُنھیں مطلوب معیاری سماج نظر نہیں آتا، اِس لیے وہ کہہ دیتے ہیں کہ انسانی دنیا میں برائی (evil) کے سوا کچھ اور نہیں، حالاں کہ اُنھیں یہ کہنا چاہیے کہ انسانی دنیا میں اگرچہ مجموعہ کی سطح پر برائی ہے، لیکن افراد کی سطح پر خیر موجود ہے۔مذکورہ منفی سوچ کے تحت ’پرابلم آف اِول‘(problem of evil) جیسا نظریہ وجود میں آیاہے، جو کہ موجودہ زمانے میں عام طورپر اہلِ علم کے ذہن پر چھایا ہوا ہے۔
انسانی دنیا کو مجموعی سطح پر معیاری بنانے کے لیے ضروری ہے کہ انسانی آزادی کو منسوخ کردیا جائے، کیوں کہ انسانی سماج میں تمام برائیوں کا سبب صرف ایک ہے، اور وہ انسان کی طرف سے آزادی کا غلط استعمال (misuse of freedom) ہے۔ مگر انسان کی آزادی کو منسوخ کرنا خود خالق کے منصوبے کو منسوخ کرنے کے ہم معنی ہے۔ اِس لیے خالق نے اپنے منصوبے کی اِس طرح تشکیل کی کہ اس نے انسان کے معاملے کو مبنی بر مجموعہ (collective-based) نہیں بنایا، بلکہ اس کو مبنی برفرد(individual-based) بنایا۔ اپنے تخلیقی نقشے کے مطابق، خدا کا کنسرن (concern) یہ نہیں ہے کہ پورے مجموعۂ انسانی میں لازماً معیاری نظام قائم ہو۔ ایسا صرف اُس وقت ہوسکتا تھا جب کہ انسان کی آزادی کو کلی طورپر منسوخ کردیا جاتا، اور خالق کے تخلیقی منصوبے کے مطابق، ایسا ہونا ممکن نہیں۔
اِس منصوبۂ تخلیق کے مطابق، پورے اجتماع یا پورے مجموعے کی سطح پر معیار (ideal) کا حصول ممکن نہیں، لیکن یہ عین ممکن ہے کہ انسانوں کی بھیڑ میں ایسے معیاری افراد وجود میں آتے رہیں جو اپنی ذات کی سطح پر سچائی کو دریافت کریں اور اپنے آپ کو اس کے مطابق ڈھال لیں، یہی استثنائی افراد خالق کو مطلوب ہیں— یہی مطلب ہے انسان کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے مطلوب کے مطابق، تاریخ کو مینج (manage) کرنے کا۔
خالقِ کائنات کی یہ اسکیم قرآن کے مطالعے سے واضح طورپر معلوم ہوتی ہے۔ اِس سلسلے میں قرآن کی سورہ النساء کی دو آیتوں کا ترجمہ یہ ہے: ’’اور جو شخص اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گا، وہ اُن لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ نے انعام کیا ہے، یعنی نبی اور صدیق اور شہید اور صالح۔ کیسی اچھی ہے ان کی رفاقت۔ یہ فضل ہے اللہ کی طرف سے، اور اللہ کا علم کافی ہے‘‘ ۔(4: 69-70)
قرآن کے اِس بیان سے معلوم ہوتاہے کہ وہ کون سے منتخب افراد ہوں گے جن کے مجموعے سے جنت کا معاشرہ وجود میں آئے گا۔ اِن افراد کو بتانے کے لیے یہاں چار الفاظ استعمال کئے گئے ہیں— نبی، صدیق، شاہد، صالح۔ نبی سے مراد صاحب وحی انسان (revealed person) ہے۔ صدیق سے مراد وہ انسان ہے جو حق کے ساتھ اپنے آپ کو اتنا زیادہ وابستہ کرے کہ اس کو پیغمبر کے ساتھ مزاجی مناسبت حاصل ہوجائے۔شہید یا شاہد سے مراد وہ انسان ہے جس کی زندگی میں حق اتنا زیادہ متشکّل ہوجائے کہ وہ اپنے پورے وجود کے ساتھ لوگوں کے درمیان حق کا گواہ بن جائے۔ صالح سے مراد وہ انسان ہے جس کی زندگی میں فکروعمل کی مطابقت کامل درجے میں پائی جائے۔
بنیادی طورپر یہی چار قسم کے افراد ہیں جن کے مجموعے سے وہ معیاری معاشرہ تشکیل پائے گا جس کو جنت کہاجاتاہے۔ اِن افراد کا تعلق کسی ایک زمانے یا کسی ایک معاشرے سے نہیں ہوگا، بلکہ وہ مختلف غیر معیاری معاشروں کے منتخب کئے ہوئے افراد ہوں گے۔ خالق کی اِس اسکیم کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اِس دنیا میں صرف انفرادی کامیابی (individual achievement) ممکن ہے۔ جہاں تک اجتماعی کامیابی (social achievement) کا تعلق ہے، وہ امتحان کی اس دنیا میں سرے سے ممکن ہی نہیں۔
موجودہ دنیامیں درست روش پر قائم ہونے کے لئے مثبت ذہن ضروری ہے۔ مگر مثبت ذہن کے ساتھ جینا کوئی سادہ بات نہیں۔ مثبت ذہن کے ساتھ جینے کے لئے آدمی کو ایک لازمی امتحان سے گزرنا پڑتا ہے۔ وہ ہے دو متضاد رجحانات کو مینج (manage) کرتے ہوئے زندگی گزارنا۔
اصل یہ ہے کہ آدمی پیدائشی طورپر ایک معیار پسند مخلوق ہے، مگر عملاً اس کو ایک غیر معیاری دنیا میں رہنا پڑتاہے۔ اس حقیقت سے شعوری طورپر با خبر ہونا بہت ضروری ہے۔ ورنہ یہ ہوگا کہ اس کا معیار پسند ذہن دنیا کے غیر معیاری تجربات کی بناپر رد عمل کا شکار ہوتا رہے گا اور نتیجۃً وہ مثبت ذہن سے محروم ہوجائے گا، اور مثبت ذہن سے محروم ہونا ہر چیز سے محروم ہونے کے ہم معنی ہے۔
آدمی کو شعوری طورپر یہ جاننا چاہیے کہ اس کا معیار پسند ذہن اس لئے ہے کہ وہ جنت کی معیاری دنیا کا طالب بنے، نہ یہ کہ وہ اسی موجودہ دنیا میں جنتی زندگی یا جنتی معاشرہ کو حاصل کرنے لگے۔ موجودہ دنیا جنتی انسان بنانے کے لئے ہے، نہ کہ جنتی معاشرہ بنانے کے لئے۔ جو آدمی شعوری طورپر اس راز کو جان لے کہ موجودہ دنیامیں اس کو اپنے اندر جنتی شخصیت کی تعمیر کرنا ہے وہ کامیاب ہوا۔ اور جو آدمی موجودہ دنیا ہی کو جنتی دنیا بنانے کی کوشش میں لگ جائے، وہ ناکام ونامراد رہا۔ کیوں کہ موجودہ دنیا میں جنتی شخصیت بننا تو ممکن ہے، مگر جنتی نظام بننا ممکن نہیں۔
تاریخ کی خدائی تنظیم
قرآن میں تاریخ کا جو تصور پیش کیاگیا ہے، اس کے مطابق، انسانی تاریخ آدم سے شروع ہوتی ہے، جو کہ پہلے انسان (first man) تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آدم کو اور ان کی بیوی حوا کو پیدا کرکے اُنھیں جنت میں آباد کیا۔ خدا کی طرف سے اُن کو صرف ایک ہدایت دی گئی تھی، وہ یہ کہ : اے آدم، تم اور تمھاری بیوی دونوں جنت میں رہو اور اس سے کھاؤ آسودگی کے ساتھ، جہاں سے چاہو۔ اور اس درخت کے قریب مت جانا، ورنہ تم ظالموں میں سے ہوجاؤ گے‘‘۔ (2: 35)
آدم کے ساتھ ان کی بیوی کو پیدا کرنے میں اِس بات کا اشارہ تھا کہ انسان کی پیدائش سے اللہ تعالیٰ کو جو چیز مطلوب ہے، وہ صرف ایک انسانی فرد نہیں، بلکہ ایک انسانی نسل ہے۔ انسان کے لیے جنت کا مستحق ہونے کی شرط صرف ایک تھی، یہ کہ وہ خود انضباطی کردار (self-disciplined character) کا پابند رہے، وہ آزادی کا غلط استعمال نہ کرے۔ مگر آدم اور حوا اِس شرط پر پورے نہیں اترے۔ اِس لیے انھیں جنت سے نکال کر سیارۂ ارض پر آباد کردیا گیا۔
اِس کا مطلب یہ تھا کہ پہلے انسان کو یہ موقع دیاگیا تھا کہ انسان عمومی بنیاد (general basis) پر جنت میں رہے، یعنی ہر پیدا ہونے والے عورت اور مرد کو جنت کی زندگی حاصل ہو۔ لیکن جب انسان اِس اعتماد پر پورا نہیں اترا تو اس کے بعد اللہ نے یہ فیصلہ کیا کہ انسان کی آزادی تو برقرار رہے گی، لیکن اب عمومی بنیاد پر نہیں، بلکہ انتخابی بنیاد پر صرف مستحق افراد کو جنت میں داخلہ دیا جائے گا۔ یہ انسان کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے تاریخ کو خدا کی طرف سے مینج (manage) کرنے کا پہلا واقعہ تھا۔
موجودہ زمین اِس تخلیقی مقصد کے لیے سلیکشن گراؤنڈ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اب یہ ہوگا کہ قیامت کے بعد فرشتوں کے ریکارڈ کے مطابق، صرف منتخب عورتوں اور مردوں ، قرآن کے الفاظ میں احسن العمل (67:2) افراد کو، یہ خوش نصیبی حاصل ہوگی کہ وہ جنت کی معیاری دنیا میں آباد ہوسکیں۔
زمین پر لائف سپورٹ سسٹم کا انتظام تو خدا کی طرف سے کیا گیا تھا، مگر انسان کو اپنے قول وعمل کی مکمل آزادی حاصل تھی، لیکن دوبارہ انسان نے اپنی آزادی کا غلط استعمال کیا۔ دھیرے دھیرے یہ ہوا کہ عمومی طورپر انسانی نسل شرک یا فطرت پرستی (nature worship) میں مبتلا ہوگئی۔ گویا کہ پہلے انسان نے ’’درخت‘‘ کا صرف پھل کھایا تھا، اب انسان نے ’’درخت‘‘ کو معبود قرار دے کر اس کی پرستش شروع کردی۔
تاہم منصوبۂ تخلیق (creation plan) کے مطابق، یہ ممکن نہیں تھا کہ انسان کی آزادی کو منسوخ کردیا جائے، اِس لیے اللہ نے انسان کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے اس کو مینج (manage) کرنے کا طریقہ اختیار کیا۔ اللہ نے یہ کیا کہ انسانوں میں سے کسی فرد کو منتخب کرکے اُس کو اپنا پیغمبر بنایا۔ اُس کو وحی (revelation) کے ذریعے اپنی رہنمائی بھیجی۔ اِن پیغمبروں نے انسانوں کو بتایا کہ عبادت کے قابل صرف ایک اللہ ہے۔ تم ایک اللہ کی عبادت کرو اور خود ساختہ معبودوں کی عبادت چھوڑ دو۔
مگر انسانوں کی بڑی تعداد ایسا نہ کرسکی۔ اللہ کی عبادت کا معاملہ ناقابلِ مشاہدہ (unobservable) ہستی کو معبود بنانے کا معاملہ تھا۔ انسان نے اپنی ظاہر پرستی کی بناپر نیچر کو اپنا معبود بنا لیا، جو کہ اس کے لیے ایک قابلِ مشاہدہ (observable) معبود کی حیثیت رکھتا تھا۔ اِسی نیچر ورشپ کا دوسرا نام شرک ہے۔
پیغمبروں کی آمد کے باوجود انسان کے لیے آزادیٔ اختیار (freedom of choice) کا موقع بدستور باقی تھا۔ اِس لیے انسان پیغمبروں کا انکار کرتا رہا۔ یہ معاملہ نسل درنسل جاری رہا، یہاں تک کہ شرک انسان کے لیے غالب کلچر بن گیا، تاریخ میں شرک کا تسلسل قائم ہوگیا۔
مشرکانہ کلچر کے عمومی غلبہ کا مزید نتیجہ یہ ہوا کہ وقت کی حکومتوں نے شرک کو اسٹیٹ کے مذہب کے طور پر اختیار کرلیا۔ اِس طرح شرک کو ہر جگہ سیاسی طاقت کی سرپرستی حاصل ہوگئی۔ پہلے اگر شرک سادہ معنوں میں ایک اعتقادی برائی تھی تو اب وہ ایک طاقت ور برائی بن گئی۔ مشرکانہ اقتدار کا کلچر بڑھتا رہا، یہاں تک کہ وہ برائی پیدا ہوئی جس کو فرانسیسی مورخ ہنری پرین نے مطلق شہنشاہیت (absolute imperialism) کا نام دیا ہے۔
شرک کی اِسی سیاسی سرپرستی کے نتیجے میں وہ جارحانہ مذہبیت پیدا ہوئی جس کو تاریخ میں، مذہبی جبر (religious persecution) کہا جاتاہے۔ سیاسی حاکموں نے ایسا ماحول قائم کیا جس کے نتیجے میں لوگوں کے لیے صرف ایک ہی آپشن باقی رہا، اور وہ مشرکانہ مذہب تھا۔ توحید کامذہب اختیار کرنے والوں کے لیے یہ انجام مقدر ہوگیا کہ وہ یا تو ریاست کے مذہب کو اختیار کرلیں، یا وہ قتل کردئے جائیں۔ دورِ قدیم کی یہی وہ صورتِ حال ہے جس کی طرف قرآن کی سورہ البروج کی آیات (85: 4-8) میں اشارہ کیاگیا ہے۔
اِس صورت حال سے یہ واضح ہوگیا کہ اب مذہبِ حق کا صرف اعلان کافی نہیں ہے۔ اب پہلی ضرورت یہ ہے کہ مذہب کو سیاسی اقتدار سے جدا کردیا جائے، تاکہ انسان کے لیے آزادی کے ساتھ اپنے عقیدے کا فیصلہ کرنا ممکن ہوجائے۔
تخلیقِ آدم
اللہ تعالیٰ نے پہلے لمبے تدریجی عمل (gradual process) کے ذریعے مادی کائنات بنائی۔ آخر میں اُس نے سیارہ ارض پر انسان کو ایک آزاد مخلوق کی حیثیت سے آباد کیا۔اللہ تعالیٰ نے جب انسانِ اوّل (آدم) کو پیدا کرنے کا ارادہ کیا تو اُس وقت اللہ اور فرشتوں کے درمیان ایک مکالمہ ہوا۔ یہ واقعہ قرآن کی سورہ البقرہ میں آیا ہے۔ یہاں متعلق آیات کا ترجمہ نقل کیا جاتا ہے:
’’اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ فرشتوں نے کہا: کیا تو زمین میں ایسے لوگوں کو بسائے گا جو اُس میں فساد کریں اور خون بہائیں۔ اور ہم تیری حمد کرتے ہیں اور تیری پاکی بیان کرتے ہیں۔ اللہ نے کہا کہ میں وہ جانتاہوں جو تم نہیں جانتے۔ اوراللہ نے سکھائے آدم کو سارے نام، پھر اُن کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور کہا کہ اگر تم سچے ہو تو مجھے اُن لوگوں کے نام بتاؤ۔ فرشتوں نے کہا کہ تو پاک ہے۔ ہم تو وہی جانتے ہیں جو تو نے ہم کو بتایا۔ بے شک تو ہی علم والا اور حکمت والا ہے۔ اللہ نے کہا: اے آدم، ان کو بتاؤ اُن لوگوں کے نام، تو جب آدم نے بتائے اُن کو اُن لوگوں کے نام تو اللہ نے کہا: کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ آسمانوں اور زمین کے بھید کو میں ہی جانتا ہوں، اور مجھ کو معلوم ہے جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ تم چھپاتے ہو‘‘ (2: 30-33) ۔
یہاں یہ سوال ہے کہ فرشتوں نے آدم کے بارے میں جس شک کا اظہار کیا تھا، وہ کیا تھا، اور اللہ تعالیٰ کے وضاحتی جواب کے بعد فرشتے جس چیز پر مطمئن ہوئے، وہ چیز کیا تھی۔ یہ بات قرآن میں بطور اشارہ موجودہے۔ اِس اشارے کی تفصیل جاننے کے بعد ہی معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی تخلیق کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا منصوبہ کیا تھا اور وہ کس طرح اپنی تکمیل تک پہنچا۔
یہ اشارہ قرآن کی ایک اور سورہ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے۔ قرآن کی سورہ التین میں ارشاد ہوا ہے: لقد خلقنا الإنسان فی أحسن تقویم، ثم رددناہ أسفل سافلین، إلاّ الذین اٰمنوا وعملوا الصالحات فلہم أجرٌ غیر ممنون (95: 4-6) یعنی ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا، پھر اُس کو سب سے نیچے پھینک دیا۔ لیکن جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کئے تو اُن کے لیے کبھی نہ ختم ہونے والا اجر ہے۔
اِس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے ساتھ ایک عظیم احسان کا معاملہ کیا جس کو قرآن میں تکریم (17: 70) کہاگیا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کو اعلیٰ صلاحیت کے ساتھ پیدا کیا، اُس کو کامل آزادی دی، اس کو یہ موقع دیا کہ وہ خود اپنے آزادانہ انتخاب (choice) سے اپنی زندگی کے لیے درست روش کو اختیار کرے۔اور پھر اللہ تعالیٰ یہ کہہ کر اس کے لیے جنت کا فیصلہ کرے کہ یہ تیرے اپنے عمل کی جزا ہے جو تونے دنیا میں کیا۔ مگر انسانوں کی اکثریت نے اِس منصوبۂ الٰہی کو نہیں سمجھا۔ انھوں نے اپنی آزادی کا غلط استعمال کیا اور اِس طرح انھوں نے جنت کا استحقاق کھو دیا۔ البتہ اِس عموم میں کچھ مستثنیٰ افراد پیدا ہوئے جنھوں نے اِس منصوبۂ الٰہی کو سمجھا اور اپنی آزادی کا صحیح استعمال کرکے انھوں نے اپنے آپ کو جنت کا مستحق بنالیا۔
اِس قرآنی بیان کی روشنی میں غور کیجئے تو سورہ البقرہ کے مذکورہ بیان کا مطلب یہ ہے کہ فرشتوں نے پوری انسانی نسل (total human race) کو لے کر سوچا تو وہ اِس رائے پر پہنچے کہ کامل آزادی انسان کے اندر بگاڑ پیدا کرے گی۔ وہ ظلم اور فساد جیسے کاموں میں ملوث ہوجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک مظاہرہ کی صورت میں اس کا جواب دیتے ہوئے بتایا کہ انسانوں کی مجموعی تعداد کے اعتبار سے بلا شبہہ اُن کے اندر بگاڑ آئے گا، لیکن اِس مجموعے میں ایسے مستثنیٰ افراد بھی پیدا ہوتے رہیں گے جو اپنی آزادی کا صحیح استعمال کریں گے، اور اِس طرح وہ ابدی رحمتِ خداوندی کے مستحق قرار پائیں گے۔
قرآن کی مذکورہ آیت میں بتایا گیا ہے کہ اللہ نے ایک مظاہرہ کے ذریعے انسانی تاریخ کے اِن مستثنیٰ افراد کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا۔ یہ دیکھ کر فرشتے مطمئن ہوگئے۔ یہ دیکھ کر فرشتوں نے جانا کہ اُن کا اشکال انسانوں کے پورے مجموعے کی نسبت سے تھا، جب کہ اللہ کا یہ منصوبہ نہیں۔ اللہ کا منصوبہ مبنی بر افراد (individual-based) ہے، وہ مبنی بر مجموعہ (totality-based) نہیں۔
اللہ تعالیٰ کو یہ معلوم تھا کہ کامل آزادی دینے کی بنا پر انسانی دنیا ظلم وفساد کا جنگل بن جائے گی، مگر اِس عموم میں استثنا بھی ہوگا۔ انسانوں کے پھیلے ہوئے جنگل میں ایسے استثنائی افراد بھی پیدا ہوں گے جو ظلم وفساد کے جنگل میں ربانی پھول کے مانند ہوں گے۔ اللہ کی نظر اِنھیں ربانی پھولوں پر تھی۔ اللہ کو یہ کرنا تھا کہ وہ فرشتوں کے ذریعے پوری انسانی تاریخ کا ریکارڈ تیار کرے، پھر اِن ربانی افراد کو منتخب کرکے اُنھیں انسانوں کی عمومی بھیڑ سے الگ کیا جائے اور پھر ان کو جنت کے ابدی باغوں میں بسایا جائے۔
جنت سادہ معنوں میں کوئی عیش کدہ نہیں۔ جنت وہ اعلیٰ مقام ہے جہاں تاریخ انسانی کے منتخب افراد کا معاشرہ بنایا جائے۔ وہاں اُن کو ہر قسم کا بہترین انفراسٹرکچر (infrastructure) حاصل ہو۔ تاریخ انسانیت کے یہ منتخب افراد یہاں فرشتوں کے تعاون سے ایک برتر تہذیب (super civilization) وجود میں لائیں۔ موجودہ دنیا میں جو تہذیب بنی، وہ قوانین فطرت (laws of nature) کی جزئی دریافت سے بنائی گئی۔ آخرت میں جو مافوق تہذیب بنے گی، وہ کلمات اللہ کی کلّی انفولڈنگ کے ذریعے تشکیل پائے گی۔
اِس معاملے کی مزید وضاحت قرآن کی دوسری آیتوں سے ہوتی ہے۔ اِس سلسلے کی ایک آیت یہ ہے: ولو أن ما فی الأرض من شجرۃ أقلام والبحر یمدّہ من بعدہ سبعۃ ابحر، مانفدت کلمات اللہ، إن اللہ عزیز حکیم (31: 27) یعنی اگر زمین میں جو درخت ہیں، وہ قلم بن جائیں اور سمندر سات مزید سمندروں کے ساتھ روشنائی بن جائیں، تب بھی اللہ کے کلمات ختم نہ ہوں گے۔ بے شک اللہ زبردست ہے، حکمت والا ہے۔
قرآن کی یہ آیت بظاہر خبر کے اسلوب میں ہے، مگر حقیقت میں وہ انشا ہے، یعنی اِس میں کلمات اللہ کے بارے میں صرف ایک موجود امکان کو نہیں بتایا گیا ہے، بلکہ اُس میں مخصوص قرآنی اسلوب کے تحت یہ بتایاگیا ہے کہ ایک وقت آنے والا ہے جب کہ اِن لامحدود کلمات اللہ کی انفولڈنگ کی جائے۔ یہ کام جنت کے ابدی ماحول میں انجام پا ئے گا۔ وہاں پوری تاریخ بشری کے منتخب افراد اکھٹا ہوں گے اور وہ اعلیٰ ترین مواقع کے درمیان کلمات اللہ کی انفولڈنگ کا کام انجام دیں گے۔ یہ ایک لامحدود کام ہوگا جو ابد تک جاری رہے گا۔ اِس عمل کو قرآن میں شغلِ فاکہ (35: 55) یعنی پُرمسرت سرگرمی (joyful activity) کا نام دیا گیا ہے۔
فردِ انسانی، مجموعۂ انسانی
تاریخ میں جتنے مفکر اور مصلح گزرے ہیں، وہ سب کے سب آئڈیلسٹ (idealist) تھے۔ اُن میں سے ہر ایک پوری انسانیت کی سطح پر معیاری نظام (ideal system)قائم کرنا چاہتا تھا۔قدیم یونان کے فلسفی افلاطون اور ارسطو کا خواب یہ تھا کہ دنیا میں آئڈیل سوسائٹی بنے۔ برٹش فلسفی برٹرینڈرسل چاہتا تھا کہ ایک پرامن دنیا وجود میں آئے۔ انڈیا کے لیڈر مہاتما گاندھی کا نشانہ یہ تھا کہ آزادی کے بعد انڈیا میں مبنی برخدمت سماج (سیواسماج) تشکیل پائے، وغیرہ۔ یہ سب انسانی زندگی کے معیاری تصورات تھے۔ مگر واقعات بتاتے ہیں کہ عملاً تمام کے تمام مفکرین اور مصلحین معیاری دنیا (ideal world)کو وجود میں لانے میں ناکام رہے۔
اِس کا سبب یہ تھا کہ ہر مفکر اور ہر مصلح نے اپنے دماغ سے سوچا۔ کسی نے یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کہ اِس معاملے میں خالق کی اسکیم (scheme of things) کیا ہے۔ مفکرین اور مصلحین کا منصوبہ خالق کے منصوبے سے مطابقت نہ رکھتا تھا، اِس لیے وہ مکمل طور پر ناکام رہا۔
خالق نے ہر انسان کو آزادیٔ اختیار (freedom of choice) دی ہے۔ یہ آزادیٔ اختیار قیامت سے پہلے، ہر گز منسوخ ہونے والی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اِس دنیا میں مجموعۂ انسانی کی سطح پر کسی معیاری نظام کا بننا ممکن نہیں۔ یہاں معیاری فرد تو وجود میں آسکتا ہے، لیکن مجموعے کی سطح پر کوئی معیاری نظام کبھی وجود میں نہیں آسکتا۔ معیاری افراد کا وجود میں آنا تو ممکن ہے، مگر معیاری سماجی نظام کا وجود میں آنا ممکن نہیں۔
واقعات بتاتے ہیں کہ اِس دنیا میں مجموعۂ انسانیت کی سطح پر کوئی معیاری نظام تو کبھی وجود میں نہ آسکا، لیکن عین اسی وقت ہر زمانے میں فرد (individual) کی سطح پر معیاری انسان وجود میں آتے رہے۔ خالق کے نقشے کے مطابق، یہ ممکن نہیں کہ موجودہ دنیا میں پورے سماج کی سطح پر کوئی معیاری نظام تشکیل پائے۔ لیکن عین اِسی وقت پوری تاریخ میں ایک واقعہ مسلسل پیش آرہا ہے، وہ یہ کہ ہر دور میں معیاری افراد بن رہے ہیں۔ خالق کی اسکیم کے مطابق، جو ہونے والا ہے، وہ یہ کہ مختلف زمانوں میں پیدا ہونے والے اِن معیاری افراد کو چن کر الگ کرلیا جائے اور پھر مختلف زمانوں میں پیدا ہونے والے اِن معیاری افراد کے اجتماع سے ایک آئڈیل سوسائٹی بنائی جائے۔ اِسی معیاری سماج کا نام مذہبی اصطلاح میں جنت (paradise) ہے۔
حضرت نوح کا رول
آدم پہلے انسان تھے اور پہلے نبی بھی۔اُن کو اور ان کی بیوی حوا کو غالباً عراق کے اُس مقام پر بسایا گیا جس کو قدیم زبان میں میسوپوٹامیا (Mesopotamia) کہا جاتاتھا۔ آدم اور حوا کی نسل سے جو لوگ پیدا ہوئے، وہ کئی نسل تک شریعتِ آدم پر قائم رہے، پھر دھیرے دھیرے اُن کے اندر بگاڑ پیدا ہوا اور تقریباً تمام نسل شرک میں مبتلا ہوگئی۔ انھوںنے اپنے بڑوں (وَدّ، سُواع، یغوث، یعوق، نسر) کو اپنا معبود بنالیا۔ پھر اِسی علاقہ (میسوپوٹامیا) میں حضرت نوح پیدا ہوئے۔ انھوںنے لمبی مدت تک نسلِ آدم کو توحید کا پیغام دیا۔ مگر ان کی قوم کے بہت کم لوگ اُن پر ایمان لائے (11: 40) ۔ بعض روایات کے مطابق، ایمان لانے والے مردوں اور عورتوں کی تعداد 80 تھی۔ اُن کی قوم کے بقیہ تمام افراد اصرار کے ساتھ شرک پر قائم رہے۔
حضرت نوح نے اِسرار واعلان (71: 9) کی تمام صورتیں اختیار کیں۔ لیکن آخر کار اُن پر یہ واضح ہوا کہ معاشرے کی کنڈیشننگ (conditioning) اتنی زیادہ بڑھ چکی ہے کہ اب قوم کے اندر جو بچہ پیدا ہوگا، وہ آخر کار قوم ہی کے مذہب کو اختیار کرے گا۔ جب بگاڑ اِس حد تک پہنچ چکا تو اللہ نے یہ فیصلہ کیا کہ مومنینِ نوح کو بچا کر بقیہ قوم کو ہلاک کردیا جائے۔
اُس وقت حضرت نوح نے اللہ کے حکم سے ایک بڑی کشتی بنائی۔ اِس کشتی میں ایمان لانے والے 80 مردوں اور عورتوں کو سوار کیاگیا۔ اِس کے بعد اُس علاقے میں ایک سیلاب آیا۔ یہ سیلاب اتنا بڑا تھا کہ اُس علاقے کی پہاڑیاں بھی پانی کے اندر ڈوب گئیں۔ حضرت نوح کی کشتی تیرتی ہوئی جودی پہاڑ پر رُکی (11: 44) ۔ یہ واقعہ تقریباً 5 ہزار سال پہلے پیش آیا۔ اِس پہاڑ کا موجودہ نام ارارات (Mount Ararat) ہے۔ جدید دریافت کے مطابق، وہ مشرقی ترکی میں واقع ہے۔
کسی قوم کو عذاب دینے کا واقعہ تاریخ میں کئی بار پیش آیا ہے، لیکن ایک عظیم سیلاب کے ذریعے عذاب دینے کا واقعہ صرف ایک بار پیش آیا۔ یہ واقعہ بھی خدا کی طرف سے تاریخ کی تنظیم سے تعلق رکھتا ہے۔ اِس بنا پر یہ ممکن ہوا کہ کشتی میں سوار اہلِ ایمان دور کے علاقے میں پہنچ جائیں۔ چناں چہ یہی بچے ہوئے اہلِ ایمان تھے جن کی وجہ سے دنیا کے مختلف حصوں میں انسان کی آبادیاں قائم ہوئیں۔ حضرت نوح کے زمانے تک انسان کی نسل صرف میسو پوٹامیا (عراق) کے محدود علاقے میں پائی جاتی تھی، لیکن طوفانِ نوح کے بعد انسان کی نسل زمین کے مختلف حصوں میں پھیل گئی۔
تاریخ کے دو دھارے
قرآن کے بیان کے مطابق، انسانی تاریخ کے آغاز ہی سے انسانی زندگی کے دو دھارے بن گئے— ایک، اتباعِ ابلیس کا دھارا، اور دوسرا، اتباعِ ملائکہ کا دھارا۔ زندگی میں ہمیشہ مثبت اور منفی دونوں قسم کے پہلو موجود ہوتے ہیں۔ اتباعِ ابلیس یہ ہے کہ آدمی مثبت پہلو کو نظر انداز کرکے منفی پہلو کو اختیار کرے۔ اس کے برعکس، اتباعِ ملائکہ یہ ہے کہ آدمی منفی پہلو کو نظر اندازکرکے مثبت پہلو پر فوکس کرے۔ پوری انسانی تاریخ اِسی دو قسم کے اتباع کی کہانی ہے۔ ایک روش کو اتباع ابلیس کا کلچر کہہ سکتے ہیں اور دوسری روش کو اتباعِ ملائکہ کا کلچر۔
خالق نے انسان کو مکمل آزادی دے دی ہے، خواہ اِس آزادی کی بنا پر بگاڑ کی وہ صورت پیدا ہوجائے جس کو قرآن میں اِن الفاظ میںبیان کیا گیا ہے: ظہر الفساد فی البر والبحر بما کسبت أیدی الناس (30: 30) ، مگر خالق نے انسان کی آزادی منسوخ نہیں کی، البتہ خالق نے اِس کا اہتمام کیا کہ اصل مقصد تخلیق میں کوئی رکاوٹ نہ آئے۔ خالق نے انسان کو آزادی بھی دے دی ہے اور اِسی کے ساتھ وہ تاریخ کو اِس طرح مینج (manage) کررہا ہے کہ مجموعے کی سطح پر بگاڑ کے باوجود مطلوب افراد کی پیدائش کا سلسلہ برابر جاری رہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جو تاریخ کی معنویت کو واضح کرتا ہے۔
تاریخ میں ایسے انسانوں کی مثالیں کم ہیں جنھوںنے اپنی آزادی کا صحیح استعمال کیا۔ زیادہ مثالیں وہ ہیں، جب کہ انسان نے اپنی آزادی کا غلط استعمال کیا۔ بظاہر یہ تاریخ کی ایک منفی تصویر ہے، مگر اِس منفی تصویر کا بھی ایک مثبت پہلو ہے، وہ یہ کہ اِسی ماحول کے دوران وہ حالات پیدا ہوتے ہیں جب کہ انسانوں کا امتحان لے کر مطلوب افراد کا انتخاب کیا جاسکے۔ مزید یہ کہ یہ نظام مطلق معنوں میں شر نہیں ہے، بلکہ اس میں خیر کا بھی ایک پہلو پایا جاتاہے، وہ یہ کہ آزادی کی بنا پر جب ایسا ہوتاہے کہ ہر آدمی اپنی اپنی سرگرمیاں جاری کرتاہے تو اِس سے لوگوں کو طرح طرح کی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لوگوں کو طرح طرح کے نقصانات پیش آتے ہیں۔ یہ سب گویا ایک طرح کا شاک ٹریٹمنٹ (shock treatment) ہوتا ہے۔ اِس طرح کے ناخوش گوار تجربات کی بنا پر افراد کے اندر وہ ذہنی سرگرمیاں جاری ہوتی ہیں جس کو نفسیات کی اصطلاح میں برین اسٹارمنگ (brain storming) کہاجاتاہے— نفسیاتی مطالعے کے مطابق، یہی برین اسٹارمنگ ہر قسم کی ذہنی ترقیوں کا ذریعہ ہے۔
معتدل حالات میں آدمی بڑے بڑے کام نہیں کرتا۔ بڑے بڑے کام صرف اُس وقت کئے جاتے ہیں، جب کہ غیر معتدل حالات پیدا ہوں۔ غیر معتدل حالات کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی کے اندر شدید قوتِ عمل جاگتی ہے۔ اس کے اندر شدید محرک (strong incentive) پیدا ہوتا ہے۔ یہی شدید محرک تمام بڑے بڑے واقعات کو رونما کرنے کا سبب ہے۔
مثلاً صلیبی جنگوں کے ذریعے وہ حالات پیدا ہوئے جن کے ذریعے اہلِ یورپ میں نیچر کی طاقتوں کی دریافت کا شدید جذبہ پیدا ہوا۔ پہلی عالمی جنگ کے زمانے میں اِسی طرح کاشدید جذبہ پیدا ہوا، جس کے نتیجے میں ہوا بازی (aviation) کو ترقی ہوئی۔ اِسی طرح دوسری عالمی جنگ کے زمانے میں وہ شدیدمحرک پیدا ہوا جس کی بنا پر کمیونکیشن کو ترقی ہوئی، وغیرہ۔
نئی منصوبہ بندی
منصوبۂ تخلیق کے مطابق، یہ ممکن نہیں تھا کہ انسان کی آزادی کو منسوخ کیاجائے۔ اِس لیے اب اللہ تعالیٰ نے تاریخ میں بالواسطہ طورپر ایک دخل دیا۔اللہ نے یہ فیصلہ کیا کہ ایک ایسا گروہ پیدا کیا جائے جو مذہب اور سیاسی اقتدار کو ایک دوسرے سے الگ کردے، تاکہ انسانی تاریخ اپنے صحیح رخ پر سفر کرسکے، بغیر اس کے کہ انسانی آزادی کو منسوخ کیاگیاہو۔ اِس نئے منصوبے کا مقصد یہ تھا کہ انسانوں کا مجموعہ خواہ آزادی کا صحیح استعمال نہ کرنے کی بناپر غلط رخ پرچلتا رہے، لیکن پھر بھی افراد کو یہ موقع حاصل رہے کہ وہ اپنے ضمیر کے مطابق، صحیح مذہب کو اختیار کرسکیں۔
اِس نئے منصوبے کا آغاز چار ہزار سال پہلے حضرت ابراہیم کے ذریعے ہوا۔ حضرت ابراہیم کا مقامِ عمل قدیم عراق تھا۔ یہاں اُس وقت مشرکانہ کلچر کا غلبہ تھا۔ حضرت ابراہیم نے لمبی مدت تک اُنھیں توحید کی دعوت دی، مگر وہ لوگ اپنی کنڈیشننگ کی بنا پر توحید کی فکر کو قبول نہ کرسکے، یہاں تک کہ انھوں نے حضرت ابراہیم کو قتل کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ اِس صورتِ حال کا تقاضا ہوا کہ حضرت ابراہیم اپنے مقامِ عمل کو بدل دیں۔ چناں چہ وہ اپنی اہلیہ ہاجرہ اوراپنے فرزند اسماعیل کو لے کر مکہ کے قریب آگئے جواُس وقت صرف ایک ویران صحرا کی حیثیت رکھتا تھا۔
اِس صحرائی ماحول میں توالد وتناسل کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا جس کے نتیجے میں وہ گروہ وجود میں آیا جس کو بنو اسماعیل کہاجاتا ہے۔ صحرائی ڈی کنڈیشننگ کے ماحول میں ایک نئی قوم بنانے کا یہ عمل تقریباً ڈھائی ہزار سال تک جاری رہا۔ پھر بنو اسماعیل کے اِسی گروہ میں پیغمبر اسلام محمد بن عبد اللہ بن عبدالمطلب پیدا ہوئے۔ پیغمبر اسلام کی 23 سالہ جدوجہد کے نتیجے میں یہ ہوا کہ بنو اسماعیل کے صالح افراد بڑی تعداد میں آپ کے گرد جمع ہوگئے، یہاں تک کہ وہ گروہ بنا جس کو اصحاب رسول کہاجاتاہے۔
اصحابِ رسول کا زمانۂ عمل ساتویں صدی عیسوی ہے۔ اُن کے ذریعے منصوبہ خداوندی کے مختلف کام انجام پائے۔ مثلاً کتاب الٰہی (قرآن) کا محفوظ ہوجانا۔ دینِ خداوندی کا ایک عملی ماڈل قائم ہوجانا۔ دین خداوندی جو پچھلے انبیا کے زمانے میں زیادہ تر فکری مرحلے تک محدود تھا، وہ اب انقلابی مرحلے میں پہنچ گیا۔ اِن تبدیلیوں کی بنا پر یہ ممکن ہوگیا کہ پیغمبروں کی آمد کا سلسلہ ختم کردیا جائے۔ تاریخ میں انفرادی پیغمبر کا دور ختم ہوجائے اور اجتماعی امت کا دور شروع ہوجائے ، وغیرہ۔
اللہ کی خصوصی نصرت سے، اصحاب رسول کے ذریعے جو انقلابی کام انجام پایا، اُس کا ایک خاص پہلو وہ تھا جس کا ذکر قرآن کی اِس آیت میں کیاگیا ہے: وقاتلوہم حتی لا تکون فتنۃ، ویکون الدین کلّہ للہ (8:39) ۔ اِس آیت میں ’فتنہ‘ سے مراد وہ جارحانہ نظام ہے جو قدیم طرز کی شہنشاہیت (imperialism) کی سرپرستی میں قائم تھا۔ اِس شہنشاہی نظام نے ایک ایسا نظام قائم کررکھا تھا جو خدا کے تخلیقی منصوبے کی تنسیخ کے ہم معنی تھا، یعنی آزادیٔ فکر کا خاتمہ۔ اِس لیے خدا کو یہ مطلوب تھا کہ اِس جبری شہنشاہی نظام کو توڑ دیا جائے، تاکہ انسانی قافلے کے سفر میں کوئی مصنوعی رکاوٹ حائل نہ رہے۔
ساتویں صدی عیسوی میں اِس جبری شہنشاہیت کے دو بڑے نمائندے تھے — ایک ساسانی ایمپائر (Sassanid Empire) اور دوسرے، رومن ایمپائر یا بازنتینی ایمپائر(Byzantine Empire)۔ یہ دونوں ایمپائر اتنا زیادہ طاقت ور تھے کہ اصحابِ رسول کے ذریعے ان کو مغلوب کرنا عملاً ناممکن تھا۔ عین اُس زمانے میں ایک معاون واقعہ پیش آیا، یعنی دونوں سیاسی چٹانوں کے درمیان باہمی ٹکراؤ۔ چناں چہ دونوں ایمپائر ایک دوسرے سے لڑ گئے۔ پہلے ساسانی ایمپائر نے رومن ایمپائر کو تباہ کیا، اس کے بعد رومن ایمپائر نے ساسانی ایمپائر کا زور توڑ دیا۔ اِس کے بعد یہ ممکن ہوگیا کہ خدائی منصوبے کے مطابق، اصحابِ رسول اُن کو مغلوب کرسکیں۔ یہ تاریخی واقعہ پیشگی طورپر منصوبۂ الٰہی میں مقدر کردیا گیا تھا۔ یہی وہ واقعہ ہے جس کی طرف بائبل میں پیشین گوئی کے طورپر ان الفاظ میں اشارہ کیاگیا تھا — اُس نے نگاہ کی اور قومیں پراگندہ ہوگئیں۔ ازلی پہاڑ پارہ پارہ ہوگئے۔ قدیم ٹیلے جھک گئے:
He looked and startled the nations. And the everlasting mountains were scattered. (Habakkuk, 3: 6)
یہ ساتویں صدی عیسوی کا واقعہ ہے۔ اِس کے بعد یہ ہوا کہ اہلِ اسلام کو وہ سیاسی غلبہ حاصل ہوگیا جو اس سے پہلے صرف اُن سیاسی نظاموں کو حاصل تھا جو مشرکانہ کلچر کی سرپرستی کرتے تھے۔ مسلمانوں کے سیاسی غلبہ کے تحت تاریخ میں ایک نیا عمل (process) شروع ہوا۔ اِس عمل کا نشانہ تھا — فطرت (nature) کو موضوعِ تحقیق (object of investigation) بنانا، جو اَب تک انسان کے لیے صرف موضوعِ پرستش (object of worship) بنی ہوئی تھی۔ انسان کو مکمل آزادی عطا کرکے اس کے لیے ذہنی ارتقا کا راستہ کھولنا، فطرت میں چھپے ہوئے اُن وسائل کو وقوع میں لانا جو عالمی دعوت کو ممکن بنانے والے ہوں، وغیرہ۔
انسانی آزادی کی بنا پر اِس دنیا میں تمام واقعات اسباب کے ماحول میں پیش آتے ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان علمی تحقیق کا کام خاص طورپر عباسی دور میں شروع ہوا۔ یہ وہ وقت تھا جب کہ ایشیا اور افریقہ کے بڑے رقبے میں مسلمانوں کی عظیم سلطنت قائم ہوچکی تھی۔ اِس بنا پر علمی تحقیق کی طرف مسلمان صرف جزئی طورپر متوجہ ہوسکے۔ مسلمانوں کی توانائی کا بڑا حصہ سیاسی سرگرمیوں میںلگا ہوا تھا۔ ان کی توانائی کا صرف محدود حصہ علمی تحقیق کے میدان میں صرف ہورہا تھا۔ یہ تناسب ناکافی تھا۔ علمی تحقیق کا یہ کام بہت بڑا کام تھا۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ مسلمان اپنی طاقت کو پوری یکسوئی کے ساتھ علمی تحقیق کے میدان میں وقف کردیں۔ مگر سیاسی اقتدار اِس قسم کی علمی یکسوئی میں رکاوٹ بنا ہواتھا۔
اِس کے برعکس، صلیبی جنگوں کے بعد علمی تحقیق کا کام جب یورپ کی مسیحی قوموں میں شر وع ہوا تو سیاسی اقتدار اُن کے لیے رکاوٹ نہ بن سکا، کیوں کہ عملاً وہ اُن کے پاس موجود ہی نہ تھا۔ چناں چہ مسیحی قوموں کے اعلیٰ ذہن بڑی تعداد میں علمی تحقیق کے میدان میں مصروف ہوگئے۔ انھوںنے پوری یکسوئی کے ساتھ علمی تحقیق کا کام شروع کردیا۔
یہ بھی انسانی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے تاریخ کو مینج (manage) کرنے کا معاملہ تھا۔ جب خالق نے دیکھا کہ مسلم دنیا کے حالات علمی تحقیق کو زیادہ بڑے پیمانے پر انجام دینے میں رکاوٹ بن رہے ہیں، تو اُس نے علمی تحقیق کے کام کو مسلم دنیا سے نکال کر مسیحی دنیا کی طرف منتقل کردیا، جہاں اِس قسم کی رکاوٹ والے اسباب موجود نہیںتھے۔
مشرق سے مغرب کی طرف
اسلام کا آغاز 610 عیسوی میں ہوا۔ حالات کی موافقت کی بنا پر اس کی توسیع اتنی تیز رفتاری کے ساتھ ہوئی کہ 50 سال کے اندر اہلِ اسلام کا ایک ایمپائر قائم ہوگیا۔ اب یہ مطلوب تھا کہ امتِ محمدی تسخیرِ فطرت اور سماجی انقلا ب کے وہ مطلوب کام انجام دے جس کے لیے اُس کو سیاسی غلبہ عطا کیاگیا تھا۔ مگر مسلمان بہت جلد آپس کے سیاسی ٹکراؤ میں مشغول ہوگئے اور مطلوب کام کی طرف وہ زیادہ پیش قدمی نہ کرسکے۔
اب خدائی منصوبے کے مطابق، تاریخ میں وہ واقعہ پیش آیا۔ جس کو قرآن کی سورہ محمد میں استبدالِ قوم (47: 38) کے الفاظ میں بیان کیاگیا ہے۔ استبدال (replacement) کا مطلب یہ تھا کہ مذکورہ منصوبے کی تکمیل کے لیے مسلمانوں کے بجائے ایک اور قوم کو کھڑا کرنا۔ صلیبی جنگوں (Crusades) کے ذریعے استبدال کا یہی معاملہ پیش آیا۔
خلیفہ ثانی عمر فاروق کے زمانے میں یہ واقعہ پیش آیا کہ مسلمانوں نے فلسطین کو مسیحیوں سے چھین لیااور اُس پر اپنا اقتدار قائم کرلیا۔ فلسطین مسیحی قوموں کے لیے ایک مقدس سرزمین (holy land) کی حیثیت رکھتا تھا۔ چناں چہ مسیحی قومیں اِس قبضے کو کبھی قبول نہ کرسکیں۔ یہ نزاع باقی رہی، یہاںتک کہ یورپ کی مسیحی سلطنتوں نے یہ منصوبہ بنایا کہ فوجی کارروائی کے ذریعے وہ شام اور فلسطین کے علاقے کو دوبارہ اپنے قبضے میں لے لیں۔
صلیبی جنگوں کا یہ سلسلہ 1095 ء میں شروع ہوا۔ تقریباً 200 سال کے اندر دونوں قوموں کے درمیان وقفے وقفے سے 9 بار خوں ریز لڑائیاں ہوئیں، مگر یورپ کی مسیحی سلطنتوں کی متحدہ کوشش کے باوجود اُن کو زبردست ناکامی ہوئی۔ اِس کے بعد وہ اِس نتیجے پر پہنچے کہ مسلّح جنگ کے ذریعے مسلمانوں کو شکست دینا اُن کے لیے ممکن نہیں۔ چناں چہ مسیحی قوموں میں ایک نیا ذہن شروع ہوا۔ اس نئی جدوجہد کا نام اسپریچول کروسیڈ (spiritual crusades) تھا۔ اسپریچول کروسیڈ سے مراد دراصل انٹلکچول کروسیڈ(intellectual crusades) تھا۔ چناں چہ مسیحی قوموں نے اب اپنی کوششوں کو علمی ترقی کی طرف موڑ دیا۔ یونانی فلسفیوں اور مسلم فلسفیوں کی کتابوں کے ترجمے وسیع پیمانے پر لاتینی زبان میں کئے جانے لگے۔ یہی وہ زمانہ ہے جب کہ یورپ میں تعلیم اور علمی رسرچ کی سرگرمیاں بڑے پیمانے پر جاری ہوئیں۔ چناں چہ اِس کی دو مثالیں یہ ہیں کہ ’’اسپریچول کروسیڈ‘‘کے سینٹر کے طورپر 1096 میں برطانیہ میں آکسفورڈ یونی ورسٹی قائم ہوئی اور 1209 میں کیمبرج یونی ورسٹی قائم کی گئی، وغیرہ۔
اس کے بعد چودھویں صدی اور سولھویں صدی عیسوی کے درمیان یورپ میں وہ انقلاب آیا جس کو نشاۃِ ثانیہ (Renaissance) کہاجاتاہے۔ اب اسپریچول کروسیڈس نے مزید ترقی کرکے نیچرل کروسیڈس (natural crusades) کی حیثیت اختیارکرلی۔
مغرب میں اسپریچول کروسیڈ اور نیچرل کروسیڈ ابتداء ً منفی ذہن کے تحت پیدا ہوئی۔ مغربی قوموں کو جس چیز نے ابتداء ً متحرک کیا تھا، وہ یہ تھاکہ مسلمانوں کے خلاف ہتھیار کے میدان میں ہاری ہوئی جنگ کو دوبارہ علم کے میدان میں کامیاب بنایا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اہلِ مغرب کی اس منفی نفسیات کو محرک (incentive) کے طورپر استعمال کیا۔ اللہ نے اہلِ مغرب کو اِس کا ذریعہ بنایا کہ وہ نیچر میں چھپے ہوئے اسرار کو دریافت کریں اور ایک ایسی دنیا وجود میں لائیں جو اسلامی مشن کے لیے تائید کا ذریعہ ثابت ہو۔
اہلِ مغرب کے ذریعے یہ تائیدی واقعہ جو اپنی پوری صورت میں بیسویں صدی میں ظہور میں آیا، اس کی پیشگی خبر قرآن کی ایک آیت میں دی گئی تھی: سنریہم اٰیاتنا فی الاٰفاق وفی أنفسہم حتی یتبین لہم أنہ الحق (41: 53) یعنی مستقبل میں ہم اُن کو اپنی آیات دکھائیں گے، آفاق میں بھی اور انفس میں بھی۔ یہاںتک کہ اُن کے اوپر یہ آشکارا ہوجائے گا کہ یہ قرآن حق ہے۔
اہلِ مغرب کے اِس رول کا تذکرہ حدیث میں بھی بطور پیشین گوئی موجود ہے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں: إن اللہ لیؤیّد ہذا الدین بالرجل الفاجر (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 3062 ) یعنی اللہ اِس دین کی تائید فاجر انسان کے ذریعے بھی کرے گا۔
اِس حدیث میں ’فاجر‘ کا لفظ سیکولر کے معنیٰ میں استعمال ہوا ہے۔ واقعات سے ظاہر ہوتاہے کہ اِن سیکولر مؤیدین سے مراد مغربی دنیاکے وہ لوگ ہیں جن کی کوششوں سے جدید تہذیب (modern civilization) وجود میں آئی اور اس کے ذریعے آفاق وانفس کی آیات دریافت ہوئیں۔ اہلِ مغرب کے اندر انتقام کی جو نفسیات پیداہوئی، وہ فطری طور پر نہایت شدید تھی۔ اِس شدید محرک کو اللہ نے رموزِ فطرت کی دریافت کے لیے استعمال کیا۔
رموزِ فطرت کی دریافت کا یہ کام ایک بے حد مشکل کام تھا۔ اُس میںاپنے آپ کو ڈیڈی کیٹ (dedicate) کرنے کے لیے نہایت شدید محرک (strong incentive) درکار تھا۔ صلیبی جنگوں میں اہلِ مغرب کی توہین آمیز شکست (humiliating defeat) نے اُن کے اندر یہی شدید محرک پیدا کیا۔ اِس کی ایک مثال یہ ہے کہ بیسویں صدی کے آغاز میں برطانیہ کی ایک سائنٹفک ٹیم نے یہ منصوبہ بنایا کہ وہ انٹارکٹکا (Antarctica) کی دریافت کریں۔ یہ ایک نہایت جان جوکھم کا کام تھا۔ ٹیم کے سربراہ سر ارنسٹ شیکلٹن (Sir Ernest Shackleton) نے 1900ء میں لندن کے اخبار ٹائمس (The Times) میں ایک اشتہار چھپوایا۔ اس کے الفاظ یہ تھے:
“Men wanted for hazardous journey. Small wages, bitter cold, long months of complete darkness, constant dangers, safe return doubtful. Honour and recognition in case of success.”
یعنی ایک پر خطر سفر کے لیے آدمی درکار ہیں۔ بہت کم معاوضہ، شدید ٹھنڈک، لگاتارتاریکی کے لمبے مہینے، مسلسل خطرہ، محفوظ واپسی مشتبہ، کامیابی کی صورت میں عزت اور اعتراف۔
یہ اشتہار جب ٹائمس میں چھپا تو اس میں شرکت کے لیے اتنے زیادہ افراد کی درخواستیں آئیں کہ سلیکشن (selection) کی بنیاد پر اُن میں سے صرف منتخب افراد کو لیا گیا — یہی وہ مجنونانہ اسپرٹ تھی جس نے اہلِ مغرب کو یہ موقع دیا کہ وہ جدید دور کو وجود میں لاسکیں۔
فطرت کا ایک قانون
اہلِ مغرب، اصلاً خدائی دین کے مؤید کے طور پر ابھرے تھے، لیکن رد عمل کی نفسیات کی بنا پر موجودہ زمانے کے مسلمانوںنے اِس خدائی منصوبے کو نہیں سمجھا۔ انھوںنے غیر ضروری طورپر اہلِ مغرب کو اپنا دشمن سمجھ لیا اور اُن سے لڑنے کے لیے کھڑے ہوگئے۔ انیسویں صدی اور بیسویں صدی کی دوسو سالہ تاریخ اِس غیر ضروری لڑائی میں ضائع ہوگئی۔
تاریخ کے اِس ارتقائی سفر کو جاری رکھنے کے لیے ہمیشہ ایک قائد درکار ہوتاہے۔ اہلِ مغرب اِسی قسم کے ایک قائد تھے۔ اِس سے پہلے اہلِ اسلام کو قیادت کا یہ موقع ملا تھا۔ موجودہ زمانے میں منصوبۂ الٰہی کے تحت یہ موقع اہلِ مغرب کے حصے میںآیا۔
ساتویں صدی عیسوی میں اصحاب رسول جب ایران میں داخل ہوئے تو اہلِ ایران اُن سے خائف ہوگئے۔ انھوںنے اصحابِ رسول کے طاقت ور داخلے کو دیکھ کر کہا: دیواں آمدند، دیواں آمدند (دیو آگئے، دیو آگئے)۔ اہلِ ایران نے اصحابِ رسول کے داخلے کو منفی معنوں میں لیا، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ وہ لوگ ایک نئی تہذیب کے نقیب (harbinger) تھے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کا اظہار ایک صحابی رسول ربعی بن عامرنے ایران کے سپہ سالار رستم سے گفتگو کرتے ہوئے اِن الفاظ میں بیان کیا تھا: اللہ ابتعثنا لنخرج من شاء من عبادۃ العباد إلی عبادۃ اللہ ( البدایۃ والنہایۃ، 7/46 ) یعنی اللہ نے ہم کو بھیجا ہے، تاکہ وہ جس کو چاہے، ہم اُس کو بندوں کی بندگی سے نکال کر خدا کی عبادت کی طرف لے آئیں۔
ساتویں صدی میں اٹھنے والے اصحاب رسول کی اصل حیثیت یہی تھی کہ وہ اُس زمانے میں ایک نئے دور کے نقیب تھے۔ یہ فطرت کا اصول ہے کہ جو گروہ نئے دور کا نقیب بن کر ابھرتا ہے، اس کو دوسروں کے اوپر قیادت (leadership) کا درجہ حاصل ہوجاتا ہے۔ یہ قیادت کسی سازش یا دشمنی کے سبب وجود میں نہیں آتی، بلکہ وہ فطرت کے لازمی تقاضے کے طور پر وجود میں آتی ہے۔
یہی معاملہ موجودہ زمانے میںاہلِ مغرب کے ساتھ پیش آیا۔ اہلِ مغرب اصلاً ایک نئی تہذیب کے نقیب (harbinger) تھے۔ لیکن فطری تقاضے کے طورپر مزید یہ ہوا کہ اُن کو اپنی ہم عصر قوموں کے اوپر قیادت حاصل ہوگئی۔ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کو چاہئے تھا کہ وہ اہلِ مغرب کی اس قیادت کو ایک فطری واقعہ سمجھ کر قبول کرلیں، جیسا کہ اِس سے پہلے دنیا کی قوموں نے مسلم قیادت کو قبول کرلیا تھا۔ مگر موجودہ زمانے کے مسلمان اِس راز کو سمجھنے سے قاصر رہے۔ انھوںنے مغربی تہذیب کو دشمنی اور سازش کا کیس قرار دے دیا۔ وہ اُن سے نفرت کرنے لگے، یہاںتک کہ ہر جگہ وہ اُن سے لڑنے لگے۔ یہ لڑائی جو جہاد کے نام پر کی گئی تھی، وہ قانونِ فطرت کے خلاف تھی، اِس لیے وہ غیر معمولی قربانیوں کے باوجود مکمل طورپرناکام ثابت ہوئی۔ اِس ناکامی کی ذمے داری مکمل طور پر خود مسلمانوں کے اوپر ہے۔ مسلمانوں نے اہلِ مغرب کے خلاف جو جنگ چھیڑی، وہ اُن کے خیال کے مطابق، اہلِ مغرب کے خلاف جنگ تھی، مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ منصوبۂ الٰہی کے خلاف جنگ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ جنگ مکمل طورپر ناکام ہوئی، اُس کا انجام اِس کے سوا کچھ اور نہیں نکلا کہ مسلمانوں کی تباہی میں مزید اضافہ ہوگیا۔
خلافتِ آدم
قرآن کے مطابق، اللہ تعالیٰ نے جب آدم (انسانِ اول) کو پیدا کیا، اُس وقت آدم کے علاوہ دو اور مخلوقات تھیں— جن اور ملائکہ۔ اللہ تعالیٰ نے جن اور ملائکہ سے کہا کہ تم آدم کے آگے جھک جاؤ۔ اُس وقت فرشتے آدم کے سامنے جھک گئے، لیکن جنات کا سردار ابلیس نہیں جھکا۔ ابلیس نے کہا کہ میں آدم سے برترہوں، کیوں کہ تو نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا ہے اور آدم کو مٹی سے۔
ایسا کیوں ہوا۔ اصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب زمین بنائی تو پہلے اس کو جنات کے چارج میں دے دیا۔ مگر جنات نے سرکشی کی اور باہم لڑ کر فساد برپا کیا۔ اِس طرح جنات زمین کا انچارج بننے کے لیے نااہل ہوگئے۔ اِس کے بعد اللہ نے جنات کو معزول کردیا اور ان کی جگہ انسان کو پیدا کرکے زمین کو انسان کے چارج میں دے دیا۔ اِس تبدیلی کو جنات نے قبول نہیں کیا، اس لیے جنات کے سردار ابلیس نے آدم کے سامنے جھکنے سے انکار کردیا۔
قرآن سے معلوم ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان سے پہلے جنات کو پیدا کیا تھا (15:27 (۔ اِس لحاظ سے انسان زمین پر جنات کا جانشین، یعنی خلیفۃ الجن ہے۔ کچھ لوگ خلافت کی آیت (إنی جاعل فی الأرض خلیفۃ) سے یہ نظریہ اخذ کرتے ہیں کہ انسان زمین پر خدا کا خلیفہ (خلیفۃ اللہ) ہے۔ یہ نظریہ بلاشبہہ ایک بے بنیاد نظریہ ہے۔ قرآن اور حدیث میں اس کی کوئی اصل موجود نہیں۔
انسان کو زمین میں خلیفہ بنانے کا مطلب کیا ہے، اِس کو قرآن کی دوسری آیتوں کے مطالعے سے سمجھا جاتاہے۔ یہاں اِس قسم کی دو آیتوں کا ترجمہ نقل کیا جاتاہے:
1 - ’’کہو کہ اگر سمندر میرے رب کی نشانیوں کو لکھنے کے لیے روشنائی ہوجائے تو سمندر ختم ہوجائے گا، اِس سے پہلے کہ میرے رب کہ باتیں ختم ہوں، اگر چہ ہم اس کے ساتھ اِسی کے مانند اور سمندر ملادیں‘‘ (15: 109)
2 - ’’اور اگر زمین میں جو درخت ہیں، وہ قلم بن جائیں اور سمندر سات مزید سمندروں کے ساتھ روشنائی بن جائیں، تب بھی اللہ کی باتیں ختم نہ ہوں ۔ بے شک اللہ زبردست ہے، حکمت والا ہے‘‘۔31:27
قرآن کی اِن آیتوں میں جن لامحدود کلماتِ الٰہی کا بیان ہے، وہ صرف بطور خبر نہیں ہے، بلکہ وہ بطور انشاء ہے۔ اِن آیتوں میں اشارۃً یہ بات بتائی گئی ہے کہ اللہ کو یہ مطلوب ہے کہ کائنات میں چھپے ہوئے اِن کلمات کو دریافت کیا جائے اور ان کو ’’قلم‘‘ سے لکھا جائے، تاکہ انسان اللہ کی عظمتوں سے واقف ہو اور اعلیٰ درجۂ معرفت کے ساتھ الحمد للہ کہہ سکے۔
اللہ کے منصوبے کے مطابق، کلمات اللہ کی دریافت (discovery) اور ان کو قلم بند کرنے کا پراسس (process) موجودہ دنیا میں شروع ہوتا ہے اور آخرت میں دوبارہ جاری رہ کر وہ تکمیل کے منازل طے کرتا ہے۔ موجودہ دنیا میں اِس عمل کے ذریعے ظہور میں آنے والے واقعے کا نام انسانی تہذیب (human civilization) ہے۔ جدید انسانی تہذیب اپنی نوعیت کے اعتبار سے، دراصل، فطرت (nature) میں چھپے ہوئے کلماتِ الٰہی کو دریافت کرنے ہی کا دوسرا نام ہے۔ یہ عمل ابتدائی طورپر اِسی دنیا میں انجام پاچکا ہے اور اِسی کا نام جدید تہذیب ہے۔ یہی وہ واقعہ ہے جس کا ذکر قرآن کی اِس آیت میں پیشگی طورپر کیا گیا ہے: سنریہم اٰیاتنا فی الاٰفاق وفی أنفسہم حتی یتبین لہم أنہ الحق (41: 53)۔
کلمات اللہ کے اِس دنیوی اظہار کا کام زیادہ تر سیکولر اہلِ علم نے کیا ہے۔ یہی وہ واقعہ ہے جس کا ذکر ایک حدیث رسول میںاِن الفاظ میں کیاگیا ہے: إن اللہ لیؤید ہذا الدین بالرجل الفاجر (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 3062)۔ اِس حدیث میں، ’’رجل فاجر‘‘ سے مراد موجودہ زمانے کے سیکولر اہلِ علم ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنھوں نے غیر معمولی محنت کے ذریعے جدید تہذیب کو وجود دیا ہے جو کہ ’’کلمات اللہ‘‘ کی جزئی انفولڈنگ (unfolding) کے ہم معنی ہے۔
کلمات اللہ لامحدود ہیں اور موجودہ دنیا کے امکانات محدود۔ اِس لیے موجودہ دنیا میں کلمات اللہ کی انفولڈنگ صرف محدود طورپر ہی ہوسکتی ہے۔ کلمات اللہ کی کامل انفولڈنگ کے لیے ایک اور وسیع تر دنیا درکار ہے۔ اِسی وسیع تر دنیا کا نام آخرت ہے۔ آخرت میں یہ ہوگا کہ پوری انسانی تاریخ سے، لائق افراد منتخب کئے جائیں گے اور اِن منتخب افراد کو آخرت کی ابدی دنیا میں بسایا جائے گا۔ وہاں یہ منتخب افراد کلمات اللہ کی مزید انفولڈنگ کا کام انجام دیں گے۔ یہ انفولڈنگ ابد تک جاری رہے گی، وہ کبھی ختم نہ ہوگی۔ آخرت میں کلمات اللہ کی انفولڈنگ کے ذریعے ایک برتر تہذیب وجود میں آئے گی۔ اِس کو خدائی تہذیب (divine civilization) کہاجاسکتا ہے۔ کلمات اللہ کی اِس لامحدود انفولڈنگ کو قرآن میں: وأشرقت الأرض بنور ربہا (39: 69) کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔
قرآن کی پہلی سورہ کی پہلی آیت یہ ہے: الحمد للہ رب العالمین۔ یہ حمد خداوندی کا ابتدائی درجہ ہے جو موجودہ دنیا میں کلمات اللہ کی جزئی انفولڈنگ کے دوران ادا ہوگا۔ٹھیک یہی کلمہ (الحمد للہ رب العالمین) قرآن کی سورہ الزمر میںآیا ہے (39: 75) ۔ سورہ الفاتحہ میں حمدخداوندی کے اُس درجے کا بیان تھا جو کہ دنیا میں کلمات اللہ کی ابتدائی انفولڈنگ کے وقت ادا ہوا۔ اور سورہ الزمر میں اُس حمد خداوندی کا ذکر ہے جو کہ آخرت میں کلمات اللہ کی انتہائی انفولڈنگ کے وقت اہلِ جنت کی زبان سے ادا ہوگا۔
موجودہ دنیا وہ جگہ تھی جہاں انسان کو تمام چیزیں بقدر ضرورت دی گئی تھیں (14: 34) ۔ آخرت کی جنت وہ جگہ ہوگی جہاں اس کے باشندوں کو تمام اعلیٰ نعمتیں درجۂ اشتہاء (41:31) میں حاصل ہوں گی۔ آخرت کی جنت میں یہ تمام نعمتیں اس کے باشندوں کو خدائی میزبانی (divine hospitality) کے طور پر حاصل ہوں گی۔ آخرت میں اہلِ جنت کا سب سے زیادہ محبوب مشغلہ یہ ہوگا کہ وہ لامحدود کلمات اللہ کی بقیہ انفولڈنگ کریںاور ایک برتر تہذیب (super civilization) کو وجود میں لائیں۔ کلمات اللہ کی انفولڈنگ کا یہ کام ابد تک جاری رہے گا۔ اس لیے اہلِ جنت کا دورِ مسرت بھی ابد تک جاری رہے گا، وہ کبھی ختم نہ ہوگا۔
اسلام کی تاریخ
خدا نے انسان کو مکمل آزادی دی ہے۔ اِسی کے ساتھ خدا عام تاریخ کو نیز اسلامی تاریخ کو مینج (manage) کررہاہے، تاکہ تخلیق کا خدائی مقصد یقینی طور پر حاصل ہوتا رہے۔ خدائی سنت کے مطابق، اس مینج مینٹ کی تکمیل ہمیشہ کچھ افراد کے ذریعے ہوتی ہے۔ اِس خدائی مینج مینٹ کی چار بڑی صورتیں ہیں:
1 - ادارتی رول (institutional role)
2 - انقلابی رول (revolutionary role)
3 - علمی رول (academic role)
4 - انفرادی رول (individual role)
ادارتی رول کی ایک معلوم تاریخی مثال حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہے۔ انھوں نے تقریباً چار ہزار سال پہلے مکہ میں کعبہ (بیت اللہ) کی تعمیر کی۔ یہ کعبہ گویا کہ مذہبِ توحید کا ایک ادارتی مرکز (institutional centre) ہے۔ کعبہ سارے عالم کے موحدین کا مرکز ہے اور قیامت تک وہ موحدین کا مرکز بنا رہے گا۔
خدا کے دین کی لمبی تاریخ میں پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم (وفات: 632 ء) کا رول ایک انقلابی رول ہے۔ آپ نے تاریخ انسانی کو ایک نئے دور میں داخل کیا۔ اِس انقلابی عمل میںصحابہ اور تابعین کا رول مددگار رول (supporting role) کی حیثیت رکھتا ہے۔ اِس انقلاب کے اثرات تاریخ میں آج تک جاری ہیں اور قیامت تک جاری رہیں گے۔
علمی رول یا اکیڈمک رول کی حیثیت سے محدثین کا نام سب سے زیادہ نمایاں ہے۔ محدثین نے یہ کیا کہ انھوں نے دینِ خداوندی کے دوسرے مستند ماخذ حدیثِ رسول کو اِس طرح مدوّن کردیا کہ وہ بعد کی تمام نسلوں کے لیے خدا کے رسول کی رہنمائی کو جاننے کا قابلِ اعتبار ماخذ بنا۔ ابتدائی دور کے ان محدثین کا زمانہ نویں صدی عیسوی ہے۔
انفرادی رول کی حیثیت سے نمایاں نام اموی خلیفہ عمر بن عبد العزیز (وفات: 720 ء) کا ہے۔ وہ 717 عیسوی میں بنو امیہ کے خلیفہ منتخب ہوئے جن کا دارالسلطنت دمشق تھا۔ ان کی خلافت کی مدت صرف ڈھائی سال ہے۔ انھوں نے اِس مختصر مدت میں ایک بہت بڑا تجدیدی کام کیا، مگر اُن کا یہ رول ایک انفرادی رول تھا جو اُن کی زندگی تک باقی رہا اور ان کی وفات پر عملاً ختم ہوگیا۔
مذکورہ چار تاریخی ماڈل میں ابتدائی تین ماڈل صرف ایک بار کے لیے تھے۔ بعد کی نسلوں کے لیے یہ رہنمائی حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں، لیکن اب ان کا اعادہ ممکن نہیں۔ البتہ چوتھا رول (انفرادی رول) بدستور جاری ہے۔ بعد کی نسلوں میں بھی یہ ممکن ہے کہ اُن کے درمیان کوئی فرد اٹھے اور اپنے حالات کی نسبت سے کوئی مطلوب انفرادی رول ادا کرے۔ مگر اصلاً یہ ایک شخص کا رول ہوگا جو عملاً اس کی شخصی زندگی تک جاری رہے گا اور اس کے بعد ختم ہوجائے گا۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ کسی پہلو سے اس کا اثر حسب حالات بعد کے زمانے میں بھی باقی رہے۔
واضح ہو کہ اگر اس قسم کا کوئی فرد اپنے زمانے میں ایک تنظیم بنائے اور وہ تنظیم اس کی وفات کے بعد باقی رہے تو یہ تنظیم اس فرد کے رول کے استمرار (continuation) کے ہم معنی ہوگی، بلکہ وہ ایک ایسے ڈھانچہ کے استمرار کے ہم معنی ہوگا جو متوفیّٰ کے نام پر اس کے بعد بھی جاری رہے گا۔ ایسی کوئی تنظیم بعد کو اگر باقی رہتی ہے تو وہ کسی مادی بنیاد پر باقی رہتی ہے، نہ کہ مشن کی اصل اسپرٹ کی بنیاد پر۔
اخوانِ رسول کا رول
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک روایت حدیث کی کتابوں میں اِس طرح آئی ہے: وددتُ أنا قد رأینا إخواننا، قالوا: أولسنا إخوانک یا رسول اللہ، قال: أنتم أصحابی، وإخواننا الذین لم یأتوا بعد (صحیح مسلم، رقم الحدیث: 249) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری خواہش ہے کہ ہم اپنے اخوان (بھائیوں) کو دیکھیں۔ صحابہ نے کہا کہ اے خدا کے رسول، کیا ہم آپ کے اخوان نہیںہیں۔ آپ نے فرمایا کہ تم میرے اصحاب ہو، ہمارے اخوان وہ ہیں جو ابھی نہیں آئے۔
مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی تاریخ میں دو اہم رول مقدر تھے — ایک، اصحابِ رسول کا رول، اور دوسرے، اخوانِ رسول کا رول۔ اصحابِ رسول کا رول یہ تھا کہ وہ انسانی تاریخ میں ایک نئے عمل (process) کا آغاز کریں، ایک ایسا عمل جب کہ قدیم دور ختم ہو اور ایک نیا دور نئے مواقع اور نئے امکانات کے ساتھ ظہور میں آئے۔ اِس بات کو سمجھنے کے لیے اِس طرح کہا جاسکتا ہے کہ پہلے دور سے مراد روایتی دور ہے، اور دوسرے دور سے مراد سائنٹفک دور۔
اصحاب رسول اور اخوانِ رسول دونوں ہی کا نشانہ ایک ہوگا اور وہ ہے دعوت الی اللہ۔ اِس دعوت الی اللہ کے دو بڑے دور ہیں— ایک ہے عالمی کمیونکیشن سے پہلے کا دور۔ دوسرا ہے، عالمی کمیونکیشن کے بعد کا دور۔ اصولی طورپر یہ کہا جاسکتا ہے کہ عالمی کمیونکیشن کے ظہور سے پہلے جو مواقع تھے ، اصحابِ رسول نے اُن کا بھر پور استعمال کیا۔ بعد کو عالمی کمیونکیشن کے زمانے میں جو مواقعِ دعوت پیدا ہوں گے، اُن کو جو لوگ بھر پور طورپر استعمال کریں، وہی وہ لوگ ہیں جن کو حدیث میں اخوانِ رسول کہاگیا ہے۔اخوانِ رسول کسی پراسرار گروہ کا نام نہیں۔
جنت کی دنیا
انسانی تاریخ ایک عورت اور ایک مرد سے شروع ہوئی، پھر لوگ پیدا ہوتے رہے او ر مرتے رہے۔ اِس طرح یہ سلسلہ نسل درنسل ہزاروں سال سے قائم ہے۔ اکیسویں صدی کے رُبع اوّل میں پورے کرۂ ارض پر انسانوں کی تعداد سات بلین سے زیادہ ہوچکی ہے۔ اس سے پہلے جو لوگ مرگئے، وہ بھی معدوم نہیں ہوئے، بلکہ وہ آخرت کی دنیا میں بدستور زندہ موجود ہیں۔
جس طرح انسانی تاریخ کا ایک آغاز ہے، اُسی طرح اس کا ایک اختتام بھی ہے۔ انسانی تاریخ کے خاتمے کے بعد ایک اور دنیا بنے گی۔ یہ دنیا کامل معنوں میں ایک معیاری دنیا ہوگی۔ اِس معیاری دنیا میں پوری تاریخ کے منتخب افراد آباد کئے جائیںگے۔ قرآن میں اِس حقیقت کو اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: إن الأرض یرثہا عبادی الصالحون (21: 105) یعنی زمین کے وارث میرے صالح بندے ہوںگے۔
یہ حقیقت پچھلی آسمانی کتابوںمیں بھی بیان ہوئی ہے۔ موجودہ بائبل میں اِس سلسلے میں یہ الفاظ آئے ہیں— بدی کو چھوڑ دے اور نیکی کر اور ہمیشہ تک آباد رہ ، کیوں کہ خداوند انصاف کو پسند کرتا ہے اور وہ اپنے مقدسوں کو ترک نہیں کرتا، وہ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہیں،پر شریروں کی نسل کاٹ ڈالی جائے گی۔ صادق زمین کے وارث ہوں گے اوراس میں ہمیشہ آباد رہیں گے:
Depart from evil, and do good; And dwell forevermore. For the Lord loves justice, And does not forsake His saints; They are preserved forever, But the descendants of the wicked shall be cut off. The righteous shall inherit the land, and dwell in it forever. (Psalm 37: 27-29)
قرآن کی بہت سی آیتیں ہیں جن سے معلوم ہوتاہے کہ جنت میں کیسا معیاری ماحول ہوگا اور وہاں ہر قسم کے اعلیٰ سامان وافرمقدار میں موجود ہوں گے۔ اِس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے: وإذا رأیتَ ثَمَّ رأیتَ نعیماً ومُلکاً کبیراً (76:20) یعنی تم جہاں دیکھو گے، وہیں عظیم نعمت اور عظیم بادشاہی دیکھو گے:
Wherever you look, you will see bliss and a great kingdom.
جنت میں اہلِ جنت کے لیے جو اعلیٰ انتظامات ہوں گے، اُن کا خلاصہ قرآن کے اِن الفاظ میں بیان کردیاگیا ہے —نعیم، اور ملکِ کبیر۔ نعیم سے مراد ہر قسم کی نعمتیں (blessings) ہیں۔ انسان جو کچھ چاہے گا، وہ سب وہاں اُس کے لیے کامل صورت میں موجود ہوگا (41: 32) ۔ ملکِ کبیر سے مراد مکمل آزادی ہے، یعنی کسی بھی قسم کی پابندی کے بغیر زندگی گزارنے کا موقع حاصل ہونا۔ اِس مکمل آزادی کی نعمت اُن خوش قسمت افراد کو حاصل ہوگی جنھوں نے موجودہ دنیامیں یہ ثبوت دیا تھا کہ وہ آزادی کے باوجود اپنی آزادی کا صرف صحیح استعمال کرنے والے ہیں۔
جنت کی وسعتوں کو بتاتے ہوئے قرآن میں یہ بات آئی ہے: وسارعوا إلیٰ مغفرۃ من ربکم وجنۃ عرضہا السموات والأرض، أعدت للمتقین (3: 133) یعنی دوڑو اپنے رب کی مغفرت کی طرف اور اُس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان اور زمین کی طرح ہے۔ اِس سلسلے میں قرآن کی ایک اور آیت کے الفاظ یہ ہیں: وقالوا الحمد للہ الذی صدقنا وعدہ، وأورثنا الأرض نتبوّأ من الجنۃ حیث نشاء، فنعم أجر العاملین (39: 74) یعنی اہلِ جنت کہیں گے کہ شکر ہے اس اللہ کا جس نے ہمارے ساتھ اپنا وعدہ سچ کردکھایا اور ہم کو زمین کا وارث بنا دیا، ہم جنت میں جہاں چاہیں، مقام کریں۔ پس کیا خوب بدلہ ہے عمل کرنے والوں کا۔
جنت کی یہ وسعت موجودہ زمانے میں ایک قابلِ فہم واقعہ بن چکی ہے۔ جدید دوربینوں کے مشاہدے سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ کائنات کی وسعتوں میں ایسے قابلِ آباد کاری سیارے (habitable planets) بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ صرف ہماری کہکشاں (Milky Way) کے اندر کئی بلین کی تعداد میں اِس طرح کے سیارے موجود ہیں۔
اِس نئی دریافت کو لے کرغور کیا جائے تو جنت کے بارے میں عجیب قسم کا پراہتزاز تصور (thrilling concept) معلوم ہوتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ غالباً جنت بے شمار ہرے بھرے سیاروں کا ایک کائناتی مجمع الجزائر (universal archipelago) ہے۔ تمام جزیرے اپنی اپنی جگہ پر مکمل دنیائیں ہیں۔ اِسی کے ساتھ وہ انتہائی اعلیٰ قسم کے کمیونکیشن کے ذریعے باہم جڑے ہوئے ہیں۔ آخرت کے دور میں شاید ایسا ہوگا کہ ہر جنتی کو زندگی گزارنے کے لیے مستقل دنیائیں حاصل ہوں گی۔ اِسی کے ساتھ وہ دوسرے جنتی باشندوں سے معیاری کمیونکیشن کے ذریعے ہر لمحہ مربوط ہوگا۔ جنت میں ہر قسم کی نعمتیں بھی ہوں گی اور کامل آزادی بھی۔ اِسی کے ساتھ جنت گویا اعلیٰ انسانوں پر مبنی ایک کائناتی سماج ہوگا، جہاں ہر انسان کو کامل معنوں میں فل فل مینٹ (fulfilment) حاصل ہوگا۔
ابدی جنت کی یہ ناقابلِ بیان حد تک اعلیٰ نعمتیں اہلِ جنت کو تمام تر اور یک طرفہ طورپر اللہ کی رحمت کے ذریعے حاصل ہوں گی، لیکن اہلِ جنت کے اعزاز کے لیے اللہ کی طرف سے یہ اعلان کیا جائے گا کہ : وتلک الجنۃ التی أورثتموہا بما کنتم تعملون (43: 72) یعنی یہ وہ جنت ہے جس کے تم مالک بنا دئے گئے ہو، اُس عمل کی وجہ سے جو تم کرتے تھے۔
قرآن کا تصورِ تاریخ
قرآن کے بارے میں ایک لمبی حدیث کتابوں میں آئی ہے۔ اس کا ایک حصہ یہ ہے: کتاب اللہ، فیہ نبأ ما قبلکم، وخبر ما بعدکم (الترمذی، رقم الحدیث:2906) یعنی قرآن اللہ کی کتاب ہے۔ اس میں تم سے پہلے کے لوگوں کی باتیں ہیں اور اس میں تمھارے بعد کے لوگوں کی خبریں ہیں۔ ایک صحابی رسول عبد اللہ بن مسعود نے قرآن کے بارے میں فرمایا: فیہ علم الأوّلین والاٰخرین (البیہقی، شعب الإیمان، رقم الحدیث: 1808) یعنی قرآن میں پچھلے لوگوں کا بھی علم ہے اور بعد کے لوگوں کا بھی علم ہے۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قرآن جامع معنوں میں انسانی نسلوں کی کوئی تفصیلی تاریخ ہے۔ اِس کا مطلب صرف یہ ہے کہ قرآن میں تاریخِ بشری کے نمائندہ واقعات موجود ہیں، یعنی ایسے تاریخی حوالے جن پر غور کرکے پورے دورِ تاریخ کی ایک جامع تصویر بنائی جاسکتی ہے۔
تاریخ کا ایک مطلب یہ ہے کہ وہ گزرے ہوئے واقعات کا سلسلہ وار بیان (chronicle) ہو۔ یہ تاریخ کا معروف مؤرخانہ تصور ہے۔ تاریخ کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ تاریخی واقعات کو اِس اعتبار سے بیان کیا جائے کہ وہ خالق کے نقشۂ تخلیق کو بتانے والا ہو۔ تاریخ کے پہلے تصور میں تمام واقعات کا احاطہ مقصود ہوتاہے۔ تاریخ کے دوسرے تصور میں تاریخ کے صرف منتخب اور نمائندہ اجزا بیان کئے جاتے ہیں۔
یہی دوسرا طریقہ قرآن کے تصورِ تاریخ کے مطابق ہے۔ مگر یہ ملحوظ رکھنا چاہئے کہ تاریخ کے نمائندہ واقعات بھی قرآن میں مروّجہ تاریخی اسلوب میں نہیں ہوتے، وہ صرف حوالہ (reference) کے اسلوب میں ہوتے ہیں۔ اِس معاملے میں قرآن کا طریقہ یہ ہے کہ اس میں جن تاریخی حوالوں کا ذکر کیا جاتا ہے، وہ اشارے کی زبان میں ہوتے ہیں۔ یہ قاری کے اوپر چھوڑ دیاجاتاہے کہ وہ ایسا کرے کہ قرآن کے باہر جو تاریخی ریکارڈ موجود ہے، اُس سے ضروری اجزا لے کر وہ قرآن کے اشارات کی تفصیل کرے۔ وہ بظاہر غیر متعین زبان میں کہی ہوئی بات کو متعین اسلوب میں مدوّن کرے۔
اِس کی ایک مثال یہ ہے کہ حضرت آدم کے بعد ان کی نسل میسوپوٹامیا (Mesopotamia) کے علاقے میں آباد ہوئی۔ یہ نسل شریعتِ آدم پر قائم تھی۔ بعد کے زمانے میں جب اُن کے اندر بگاڑ آیا تو تقریباً پانچ ہزار سال پہلے پیغمبر نوح پیدا ہوئے۔ انھوںنے لمبی مدت تک لوگوں کو توحید کی دعوت دی۔ کچھ افراد نے آپ کی دعوت کومانا، لیکن بیش تر افراد نے اس کو ماننے سے انکار کردیا۔ اِس کے بعد اِس علاقے میں ایک بڑا طوفان آیا۔ اِس موقع پر ایمان لانے والے افراد ایک کشتی کے ذریعے بچا لئے گئے اور بقیہ تمام افراد ہلاک کردئے گئے۔
اِس کشتی کے بارہ میں قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں: فأنجیناہ وأصحاب السفینۃ وجعلناہا اٰیۃ للعالمین (29:15) یعنی پھر ہم نے نوح کو اور کشتی والوں کو بچا لیا۔ اور ہم نے اس کو دنیا والوں کے لیے ایک نشانی بنادیا۔ قرآن کی ایک اور آیت میں اس واقعے کا ذکر اِن الفاظ میں آیاہے: ولقد ترکناہا اٰیۃً (54:15) اِس آیت کا ترجمہ شاہ عبدالقادر دہلوی نے اِن الفاظ میں کیا ہے — اور اس کو ہم نے رہنے دیا نشان کے لیے (We have left it as a sign)
حضرت نوح کا واقعہ ایک پورے دورِ تاریخ سے تعلق رکھتا ہے جو حضرت آدم کے بعد تقریباً ایک ہزار سال تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کا ایک نمائندہ جُز کشتی ٔ نوح (Noah’s Ark) ہے۔ کشتی ٔ نوح کے بارہ میں قرآن نے بتایا کہ اُس کو اللہ نے عبرت کے طورپر باقی رکھا ہے۔ ساتویں صدی کے ربع اول میں بوقتِ نزولِ قرآن کسی کو اِس کشتی کا علم نہ تھا۔ موجودہ زمانے میں گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں پہاڑوں کے اوپر جمی ہوئی برف بڑے پیمانے پر پگھلنے لگی۔ اس کے بعد ہوائی سروے کے ذریعے یہ معلوم ہوا کہ ترکی کے مشرقی علاقے میں کوہِ ارارات (Mount Ararat) کے اوپر وہ کشتی برف کی موٹی تہ کے نیچے دبی ہوئی موجود تھی جو اکیسویں صدی میں سامنے آگئی۔
قرآن میں کشتی نوح کا ذکر مختصر طورپر موجود تھا۔ اب بعد کو دریافت کردہ معلومات کی روشنی میں یہ ممکن ہوگیا کہ تاریخ بشری کے اس باب کو زیادہ تفصیل کے ساتھ مرتب کیا جائے اور اس کو قرآن کی تاریخی تفہیم کے لیے استعمال کیا جائے۔
اِس قسم کا ایک اور تاریخی حوالہ وہ ہے جو پیغمبر موسیٰ کے دورِ تاریخ سے تعلق رکھتاہے۔ تقریباً تین ہزار سال پہلے مصر میں یہ واقعہ ہوا کہ پیغمبر موسیٰ کے معاصر بادشاہ فرعون کو خدا نے بحرِ قلزم (Red Sea) میں غرق کردیا۔ اس کے بارے میں قرآن میں یہ آیت آئی ہے کہ بوقتِ غرق اللہ نے فرمایا:
فالیوم ننجیک ببدنک لتکون لمن خلفک اٰیۃ(10:92)یعنی آج ہم تیرے بدن کو بچائیں گے، تاکہ تو اپنے بعد والوں کے لیے نشانی بنے۔
فرعون کا یہ واقعہ بھی ایک پورے دورِ تاریخ کی علامت ہے۔ مگر ساتویں صدی عیسوی میں جب کہ قرآن نازل ہوا، یہ بات کسی کو معلوم نہ تھی کہ فرعون کی لاش کہاںمحفوظ ہے۔ انیسویں صدی کے آخر میں یورپ کے کچھ مستشرقین (orientalists) نے دریافت کیا کہ مذکورہ فرعون کی لاش محفوظ حالت میں اہرامِ مصر میں موجود ہے۔ اب یہ لاش اہرامِ مصر سے نکال کر قاہرہ کے میوزیم میں رکھ دی گئی ہے۔ اِس واقعے کی تفصیل ڈاکٹر موریس بکائی کی کتاب (The Bible, The Quran and Science) میں دیکھی جاسکتی ہے۔
قرآن نے انسانی تاریخ کا جو تصور دیا ہے، اس کے مطابق، ایسے علامتی واقعات قرآن میں موجود ہیں جن کو مزید معلوم تاریخ کے اضافے سے از اول تا آخر مدون کیا جاسکتاہے۔ قرآن میں پچھلی تاریخ کے بارے میں علامتی واقعات ملتے ہیں اور بعد کی تاریخ کے بارے میں ایسی پیشین گوئیاں موجود ہیں جو قیامت تک کی پوری تاریخِ انسانی کا احاطہ کررہی ہیں۔ قرآن میں موجود اِن تاریخی حوالوں کی حیثیت صرف عنوانات کی ہے۔ اِن عنوانات کی روشنی میں اگر دیگر حاصل شدہ معلومات کو شامل کیا جائے، تو اس کے ذریعے قرآن کے تصورِ تاریخ کے مطابق، انسانی تاریخ کی پوری تصویر بنائی جاسکتی ہے۔
خلاصۂ کلام
مورخین کے یہاں مختلف قسم کے تاریخی تصورات پائے جاتے ہیں۔مثلاً خاندانی بادشاہت کے اعتبار سے تاریخ کی تدوین، قوموں کے عروج و زوال کے اعتبار سے تاریخ کی تدوین، مختلف تہذیبوں (civilizations) کے اعتبار سے تاریخ کی تدوین، وغیرہ۔ مگر خدائی تصورِ تاریخ (divine concept of history) اِس سے مختلف ہے۔ خدائی تصورِ تاریخ کیا ہے، اس کو قرآن کے مطالعے سے سمجھا جاسکتاہے۔
خدائی تصورِ تاریخ کے مطابق، اللہ نے انسان کو پیداکیا۔ اس کے بعد انسان کو یہ موقع دیا کہ وہ توالد وتناسل کے ذریعے اپنی تعداد بڑھائے۔ اس کی نسلیں کرۂ ارض (planet earth) کے مختلف حصوں میں آباد ہوں۔ اللہ نے انسان کو مکمل آزای عطا کی۔ اللہ نے انسان کو یہ موقع دیا کہ خواہ وہ اپنی آزادی کا صحیح استعمال کرے یا وہ اس کا غلط استعمال کرے، وہ زمین میںاصلاح کرے یا وہ زمین میں فساد برپا کرے، وہ اپنی زندگی کو عدل پر قائم کرے یا بے انصافی پر قائم کرے، حتی کہ انسان کو یہ بھی آزادی حاصل ہے کہ چاہے تو وہ اللہ کا اقرار کرے اور چاہے تو وہ اللہ کا انکار کرکے سرکش بن جائے۔ اللہ کے منصوبے کے مطابق، آزادی کی یہ صورتِ حال قیامت تک جاری رہے گی۔
اِس پورے تاریخی عمل کے دوران اللہ کا مطلوب صرف ایک ہے، اور وہ ہے صالح افراد کا انتخاب۔ یہ افراد وہ ہیں جو ہر قسم کے ہنگاموں کے باوجود اپنے آپ کو آزادی کے صحیح استعمال پر قائم رکھیں، جو اپنی ذہنی قوتوں کو استعمال کرتے ہوئے اور نبیوں کی ہدایت سے استفادہ کرتے ہوئے اللہ کودریافت کریں اور اپنی زندگی کو ہدایتِ الٰہی کے مطابق بنائیں۔ اِسی قسم کے صالح افراد اللہ کو مطلوب ہیں۔ اللہ اپنے خصوصی انتظام کے تحت پوری تاریخ میں مسلسل طورپر ایسے ہی صالح افراد کا انتخاب کررہا ہے۔
آدم سے لے کر قیامت تک کے پورے تاریخی عمل کے دوران اللہ کی سنت یہ ہے کہ انسان کی آزادی کو منسوخ نہ کیا جائے، البتہ انسان کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے تاریخ کو اِس طرح مینج (manage) کیا جائے کہ اللہ کا اصل مطلوب (صالح افراد کی پیداوار) کا عمل برابر جاری رہے۔
دوسرے مورخین تاریخ کو مجموعے کی صورت میں دیکھتے ہیں، جب کہ خدائی تصور کے مطابق، صحیح یہ ہے کہ تاریخ کو افراد کے اعتبار سے دیکھا جائے۔ انسانی مجموعے کو لے کر تاریخی رائے قائم کرنا مورخین کا طریقہ ہے، جب کہ خدائی تصور کے مطابق، صحیح طریقہ یہ ہے کہ انسانی افراد کو لے کر تاریخ کے بارے میں رائے قائم کی جائے۔ (20 اپریل 2012 )
واپس اوپر جائیں