Pages

Saturday, 1 September 2012

Al Risala | September 2012 (الرسالہ,ستمبر)


خصوصی شمارہ ۔ ترکی کا سفر

راقم الحروف کا ایک سفر ترکی کے لیے ہوا۔ یکم مئی 2012 کی صبح کو دہلی سے روانگی ہوئی اور 7مئی 2012 کی صبح کو دہلی واپسی ہوئی۔ یہ نئے تجربات سے بھرا ہوا ایک سفر تھا۔ اِس سفر کی مختصر روداد یہاں درج کی جاتی ہے۔ اِس سفر میں میرے ساتھ حسب ذیل افراد تھے — مسٹر رجت ملہوترا، مولانا محمد ذکوان ند وی، ڈاکٹر فریدہ خانم۔
ترکی میں ایک غیر سیاسی تحریک ہے۔ اس کو سوشیوایجوکیشنل (Socio-educational) تحریک کہا جاسکتا ہے۔ یہ تحریک دنیا کے تقریباً 90 ملک میںکام کررہی ہے۔ اِس تحریک کے بانی اور قائد استاد محمد فتح اللہ گولن (M. Fethullah Gülen) ہیں۔ موجودہ سفر اسی تحریک کی دعوت پر ترکی کے سرحدی شہر غازی عین تیپ (Gazentep) میں منعقد ایک انٹرنیشنل کانفرنس کے لیے ہوا۔ کانفرنس کی بنیادی تھیم یہ تھی —— السراج النبویّ ینیر درب البشریة الحائرة:
Solutions for Social Challenges — The Prophet's Way
کانفرنس میں شرکت کے لیے رسمی طور\پر ہم کو جو دعوت نامہ ملا، وہ عربی مجلہ ’حراء‘ کی طرف سے تھا۔ یہ ایک علمی، فکری اور ثقافتی مجلہ ہے۔ وہ ایک دو ماہی (bi-monthly) مجلہ ہے جو استانبول (ترکی) سے نکلتا ہے۔ گولن تحریک کے تحت اِس طرح کے کئی میگزین مختلف عالمی زبانوں میں شائع کئے جاتے ہیں۔
یکم مئی 2012 کو صبح سویرے دہلی سے روانگی ہوئی۔ روانگی سے پہلے دہلی کے ایک مسلمان سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے جب سنا کہ میں ترکی جارہا ہوں تو انھوں نے کہا کہ —— ترکی میں صرف اپنے لوگ رہتے ہیں یا وہاں غیر قوم کے لوگ بھی ہیں۔یہ ایک غیر سیاسی اور دین دار مسلمان تھے۔ انھوں نے جو بات کہی، اُس سے اندازہ ہوتا ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کی سوچ کیا ہے۔ وہ دنیا کو دو قسم کے لوگوں میں بانٹے ہوئے ہیں — اپنے لوگ اور غیر لوگ۔ اِس مزاج نے موجودہ زمانے کے مسلمانوں سے عام انسانوں کے لیے خیر خواہی چھین لی ہے۔ اِسی نفسیات کا یہ نتیجہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر دعوتی ذہن کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ اگر کوئی شخص بظاہر دعوت کا نام لیتاہے تو وہ بھی اس کے لیے عام طورپر نام نہاد مسلم ایمپاورمینٹ (Muslim empowerment) کا ایک حصہ ہوتا ہے۔
گھر سے ائرپورٹ تک کا سفر بہت جلد طے ہوگیا۔ اِس کا سبب یہ تھا کہ ہم لوگ گھر سے صبح کو 3 بجے نکلے تھے۔ اِس بنا پر اُس وقت روڈ پر کہیں بھی ریڈ لائٹ نہیں تھی۔ ہم لوگوں کو دہلی سے اندراگاندھی انٹرنیشنل ائرپورٹ کے ٹرمنل نمبر 3 سے روانہ ہونا تھا۔ اِس ٹرمنل کی تعمیر حال میں ہوئی ہے۔ وہ تقریباً یورپین معیار کا ہے۔ یہ پرائیوٹائزیشن (privatization) کا کرشمہ ہے جس کا آغاز سابق وزیر اعظم نرسمہا راؤ (وفات: 2004 ) کے زمانے میں ہوا۔
نئے ائر پورٹ کی ایک قابلِ ذکر بات یہ ہےکہ یہاں ایک نہایت خوب صورت پریئر روم (Prayer Room) بنایا گیاہے۔ اس کا نام اگرچہ پریئر ر وم ہے، مگر حقیقت میں وہ مسجد ہے۔ اس کے دو الگ الگ حصے ہیں۔ ایک حصہ مردوں کی عبادت کے لیےاور دوسرا حصہ خواتین کی عبادت کے لیے۔ ہمارے ساتھیوں نے وہاں فجر کی نماز ادا کی اور مسجد میں قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی پمفلٹس برائے مطالعہ رکھ دیے۔
ائر پورٹ کے ایک حصے میں ایک بڑے سائز کا بورڈ لگا ہوا تھا۔ اس پر انگریزی میں جلی حرفوں میں یہ الفاظ لکھے ہوئے تھے — ایسا اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا:
It has never been done before!
بورڈ لگانے والوں نے کسی اورمفہوم میں یہ بورڈ لگایا تھا، مگر یہ بات زیادہ بڑے پیمانے پر جدید دعوتی مواقع پر صادق آتی ہے۔ مثلاً مذہبی آزادی، عالمی اسفار، ماڈرن کمیونکیشن اور ملٹی میڈیا، وغیرہ۔مذہبی مردم شماری کے ایک امریکی ادارہ (US Religion Census) کی ایک رپورٹ میں بتایا گیاہے کہ — امریکا میں سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا مذہب اسلام ہے:
The Fastest Growing Religion in America is Islam.
حالیہ برسوں میں اِس قسم کی خبریں بار بار آتی رہیں۔ یہ کوئی اتفاقی واقعہ نہیں ، اِس کا سبب یہی جدید دعوتی مواقع ہیں۔ جدید دعوتی مواقع نے ہمارے لیے اسلام کی پُرامن اشاعت کے نئے مواقع کھول دئے ہیں۔
دہلی ائر پورٹ پر پہنچ کر دومزید ہم سفر مل گئے — مسٹر علی اکیز(Ali Akkiz) ا ور پروفیسر زبیراحمدفاروقی۔ دونوں کی ہم راہی ہمارے لیے بہت مفید ثابت ہوئی۔ پروفیسر زبیر احمد فاروقی اِس کانفرنس میں مندوب (delegate) کی حیثیت سے جارہے تھے، اور مسٹر علی اکیز ترکی ہمارےمعاون کی حیثیت سے۔ مگر مسٹر علی ہمارے لیے معاون پلس ثابت ہوئے۔ ان کی وجہ سے یہ سفر ہم لوگوں کے لیے بہت آسان ہوگیا۔
پروفیسر زبیر احمد فاروقی (67 سال) جون پور (یوپی) کے رہنے والے ہیں۔ ان کی ابتدائی تعلیم دار العلوم دیوبند میں ہوئی۔ اس کے بعد انھوں نے عربی تقریر وتحریر میں مہارت حاصل کی۔ وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ (نئی دہلی) کے عربی ڈپارٹمنٹ میں ہیڈ رہ چکے ہیں۔ اُن سے میں نے پوچھا کہ عربی زبان میں مہارت کا راز کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ جنون۔ آدمی جب جنون کی حدتک کسی چیز کا طالب بن جائے تو وہ ضرور اس کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ ایک اور سوال میں نے ان سے یہ کیا کہ فیملی لائف کو کامیاب بنانے کا راز کیا ہے۔انھوں نے کہا کہ ایڈجسٹمنٹ (adjustment) ۔
مسٹر علی اکیز (35 سال)کی مادری زبان ترکی ہے۔ اس کے علاوہ وہ انگریزی زبان سے بھی اچھی طرح واقف ہیں۔ ہمارے ساتھی مختلف موضوعات پر برابر اُن سے تبادلہ خیال کرتے رہے۔
ہمارے ساتھ سفر میں ذاتی بیگ کے علاوہ، 5 بڑے بڑے کارٹن (carton) تھے۔ اِس میں دعوتی لٹریچرپیک کیا گیا تھا۔ چیک اِن (check-in) کے کاؤنٹر پر ائر پورٹ کے آدمی نے پوچھا کہ اِس کے اندر کیا ہے۔ہمارے ساتھی نے کہا کہ —— اسپریچول بکس (spiritual books)۔ اس نے مزید کوئی سوال نہیں کیا، بلکہ فوراً اوکے (ok) کہہ کر اس کو چیک اِن کردیا۔
اِس واقعے میں ہمارے لیے ایک سبق تھا۔ پچھلے زمانے میں اِس قسم کا معاملہ صرف رائل پیکٹ (royal packet) کے ساتھ کیا جاتاتھا۔ یہ دور جدید کا خاصہ ہےکہ اب وہی معاملہ مزید اضافے کے ساتھ اسپریچول پیکٹ کے ساتھ کیا جاتاہے — ہمارے ساتھیوں نے یہاں ائر پورٹ کے عملہ کو ہندی اور انگریزی میں چھپا ہوا دعوتی پمفلٹ دیا۔ اس کو لوگوں نے ’تھینک یو‘ کہہ کر بخوشی قبول کیا۔
دہلی سے استانبول (Istanbul) کا سفر ٹرکش ائرلائنز (Turkish Airlines) کی فلائٹ نمبر 0717کے ذریعے طے ہوا۔ یہ تقریباً 7 گھنٹے کا سفر تھا۔ دہلی اور استانبول کے درمیان ڈھائی گھنٹے کا فرق ہے، یعنی جب دہلی میں 12 بج رہےہوں گے تو اُس وقت استانبول میں ساڑھے نو بج رہے ہوں گے۔ ٹرکش ائرلائنز کی ہر چیز جدید معیار کے مطابق نظر آئی۔ جہاز جب مجھ کو لے کر فضا میں تیز رفتاری کے ساتھ اڑ رہا تھا، اُس وقت مجھ کو قرآن کی یہ آیت یاد آئی: ولقد کرّمنا بنی آدم، وحملناہم فی البر والبحر(70:17)۔
اِس آیت میں فضائی سفر اپنے آپ میں شامل ہے۔ میں نے سوچا کہ ابتدائی دور ہی میں اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے گھوڑا پیدا کردیا۔ گھوڑا گویا کہ قدرتی طورپر ایک کسٹم میڈ (custom made) سواری کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس کے بعد انسانی ذہن سفر کے نئے نئے طریقوں کو دریافت کرتا رہا، یہاں تک کہ ہوائی جہاز کے ذریعہ سفر کا زمانہ آگیا۔ تمام مخلوقات میں یہ صرف انسان ہے جس کے ساتھ اللہ نے اِس خصوصی ’’تکریم‘‘ کا معاملہ کیا ہے۔
راستے میں ٹرکش ائر لائنز کی فلائٹ میگزین (Sky Life) کا شمارہ مئی 2012 مطالعے کے لیے موجود تھا۔ اس کے ایک صفحے پر ترکی اور انگریزی زبان میں یہ اشتہار درج تھا:
Your ideas are important to us... to help us serve you better, please fill in the form at the back of the magazine. Your opinions and suggestions will be given careful consideration.
یہ جدید دور کے تجارتی اخلاق کی ایک مثال ہے۔ اِس کو کسٹمر فرینڈلی کلچر (customer-friendly culture) کہاجاتا ہے۔ اِسی طرح دعوت الیٰ اللہ کے لیے بھی مدعو فرینڈلی کلچر (Mad‘u-friendly culture) درکار ہے۔ دعوت کا کام صرف اعلان کا کام نہیں ہے، بلکہ وہ خیر خواہانہ اعلان کا کام ہے۔ مدعو کی کامل رعایت کے بغیر دعوت الی اللہ کا کام درست طورپر انجام نہیں پاسکتا۔
راستے میں دورانِ پرواز جب کھانا دیاگیا تو اس سے پہلے خوب صورت چھپا ہوا مینو (Menu) دیا گیا۔ اس پر لکھا ہوا تھا— بادلوں کے اوپر ہمارے رستوراں میں آپ کا سواگت ہے:
Welcome to our restaurant above the clouds!
اِس کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوا کہ یہ جنتی مہمان نوازی کی ایک جھلک ہے۔ یہ اعلیٰ مہمان نوازی (high hospitality) دنیا میں غیر معیاری صورت میں حاصل ہوتی ہے۔ آخرت میں وہ اللہ کے منتخب بندوں کو معیاری صورت میں حاصل ہوگی۔
کھانـے میں جو چیزیں دی گئی تھیں، اُن میں سے ایک ترکی میوہ ہیزیل نٹ(Hazelnut) تھا۔ اس کے پیکٹ پر لکھا ہوا تھا : Miracle Nut یعنی معجزاتی میوہ۔ اس کو دیکھ کر ہمارے ساتھی مولانا محمد ذکوان ندوی نے کہا کہ عارف انسان کے لیے اِس دنیا کی ہر چیز معجزہ (miracle) ہے، حتیٰ کہ ایک پارٹکل بھی معجزاتی پارٹکل (miracle particle) ہے۔ یہ شعور اگر آدمی کے اندر بیدار ہو تو ا س کو ہر چیز، خواہ بظاہر وہ چھوٹی ہو یا بڑی، ایک معجزاتی رحمت نظر آئے گی۔
دہلی سے استانبول کا سفر 7 گھنٹے کا نان اسٹاپ سفر تھا۔ عام حالت میں اِس قسم کا طویل سفر بہت اکتادینے والا ہوتا ہے، مگر اللہ کے فضل سے جہاز کے اندر مجھے نیند آگئی اور جب نیند کھلی تو جہاز میںاعلان ہورہا تھا کہ ہم بہت جلد استانبول کے ائر پورٹ پر اترنے والے ہیں۔ نیند کو قرآن میں سُبات (78:9)کہاگیا ہے، یعنی راحت (repose) کا ذریعہ۔ حقیقت یہ ہے کہ نیند انسان کے لیے ایک عجیب نعمت ہے۔ میڈیکل سائنس اب تک یہ دریافت نہ کرسکی کہ نیند کیوں آتی ہے۔
گفتگو کے دوران ہمارے ایک ساتھی نے کہا کہ مولانا شبلی نعمانی (وفات: 1914) نے 120 سال پہلے مئی 1892 میں انڈیا سے ترکی کا سفر کیا تھا۔ وہ بمبئی سے اسٹیم شپ کے ذریعے روانہ ہوئے اور 22 دن سفر کرنے کے بعد استانبول پہنچے۔ اِس کے مقابلے میں ہمارا سفر صرف 7 گھنٹے میں مکمل ہوگیا۔ یہ واقعہ علامتی طور پر بتاتا ہے کہ پچھلے 120 سال کے اندر اللہ تعالی نے ہمارے لیے کتنے بڑے بڑے مواقع کھول دئے ہیں۔ میں نے کہا کہ یہ مواقع اِس لیے کھلے تھے کہ مسلمان اُس پر اللہ کا شکر ادا کریں اور جدید ذرائع کو استعمال کرتےہوئے دعوت الی اللہ کا کام عالمی سطح پر انجام دیں، مگر عجیب بات ہے کہ مسلمان اکیسویں صدی میں بھی اِس حقیقت سے بے خبر ہیں۔ وہ نہ حقیقی معنوں میں اللہ کا شکر ادا کرسکے اور نہ انھوں نے جدید ذرائع کو استعمال کرتےہوئے دعوت الی اللہ کا کام انجام دیا۔
ٹرکش ائر لائنز جس سے ہم لوگ سفر کر رہے تھے، اُس کی سروس بالکل یورپی معیار کی تھی۔ پوری پرواز نہایت پرسکون رہی۔ آخر میں لینڈنگ بھی پوری طرح اسموتھ لینڈنگ (smooth landing) تھی۔ راستے میں ہمارے ساتھیوں نے لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا۔ جہاز کا پائلٹ اپنی کیبن میں تھا۔ جہاز کے ایک اسٹاف کے ذریعہ اس کو قرآن کا انگریزی ترجمہ بھیجا گیا۔ استانبول کے ائرپورٹ پر پائلٹ نے کیبن سے باہر نکل کر ہمارے ساتھیوں کا شکریہ ادا کیا۔
استانبول کے انٹرنیشنل ائر پورٹ کا نام اتاترک ائر پورٹ ہے۔ وہ ترکی کے یورپین سائڈ (Thrace) میں واقع ہے۔ ائر پورٹ پر لمبا راستہ طے کرنے کے لیے میں وھیل چیئر استعمال کرتا ہوں۔ ائر پورٹ پر میں نے دیکھا کہ یہاں اس کا ایک پورا ڈپارٹمنٹ قائم ہے۔ صرف ایک مسافر کو جہاز سے اتار کر باہر پہنچانے کے لیے جدید طرز کی مخصوص گاڑیاں ہیں جن کو ہینڈل کرنےکے لیے کئی آدمیوں کا عملہ (staff)ہے۔اِن لوگوں نے جس طرح ہوائی جہاز سے اتار کر مجھ کو ائر پورٹ کے باہر کھڑی ہوئی گاڑی تک پہنچایا، وہ پورا معاملہ ورک کلچر(work culture) کا اعلی نمونہ تھا۔ یہ سب ترکی کے اُس وسٹرنائزیشن(westernization) کا نتیجہ ہے جس کو مذہبی مسلمان عام طورپر مغرب زدگی کا نام دیتے ہیں۔
کانفرنس کے منتظمین نے ہم لوگوں کے لیے ایک مخصوص گاڑی رزرو (reserve) کررکھی تھی۔ یہ گاڑی شروع سے آخر تک ہمارے استعمال میں رہی۔ میں نے دیکھا کہ ہمارا ترکی ڈرائیور عام ہندستانی ڈارئیور سے بالکل مختلف تھا۔ وہ کوئی غیر ضروری بات نہیں کرتا تھا۔ اِس گاڑی کے ذریعے ہم لوگ مسٹر علی کے ہم راہ ائر پورٹ سے ہوٹل کے لیے روانہ ہوئے۔ سڑکیں بہت کشادہ اور ہموار تھیں۔ سڑکوں پر ہندستان جیسا رش (rush)نظر نہیں آیا۔ سڑک کے دونوں طرف جدید طرز کی کثیر منزلہ خوب صورت عمارتیں نظر آئیں۔ جگہ جگہ سرسبز علاقے دکھائی دے رہے تھے۔ سڑک کے دونوں طرف کثرت سے مسجدوں کے بلند مینار دکھائی دے رہے تھے۔
میرا اندازہ ہے کہ ترکی میں جو اعلی انفراسٹرکچر ہے، وہ غالباً دوسرے کسی مسلم ملک میں موجود نہیں۔ ترکی کی شہری پلاننگ بظاہر مغربی طرز کی ہے، لیکن ترکی کے شہروں اور مغربی ملکوں کے شہروں میں ایک نمایاں فرق نظر آتا ہے، وہ یہ کہ مغربی ملک کے ایک شہر میں بلڈنگیں ہوں گی، لیکن مسجد کے مینار وہاں دکھائی نہیں دیںگے ۔ لیکن ترکی میں جدید طرز کی بلڈنگوں کے ساتھ ترکی طرز کے مینار دونوں کے درمیان فرق کو نمایاں کررہے ہیں۔ استانبول کا شہر ایک پہاڑی علاقے میں واقع ہے، اِس لیے اس کے مختلف حصوں میں بہت زیادہ نشیب وفراز پایا جاتا ہے۔
ترکی، شرقِ اوسط کا ایک ملک ہے۔ وہ جزئی طورپر ایشیا میں واقع ہے اور جزئی طور پر یورپ میں۔ دو براعظم کے درمیان اُس کا واقع ہونا اس کی تاریخ بنانے میں ایک مرکزی عامل ہے، اس کے کلچر میں اور اس کی سیاست میں۔ عام طورپر یہ کہا جاتا ہے کہ ترکی، مشرق اور مغرب کے درمیان ایک پل کی حیثیت رکھتاہے:
Turkey is a country of the Middle East lying partly in Asia and partly in Europe. Its location in two continents has been a central factor in its history, culture and politics. Turkey has often been called a bridge between East and West (EB. 18/782)
ترکی کے ایشیائی حصے کو اناطولیہ (Anatolia)اور اس کے یورپی حصے کو تھریس (Thrace) کہاجاتاہے۔اِس طرح ترکی گویا مشرقی تہذیب اور مغربی تہذیب کے درمیان ایک سنگم (junction) کا کام کررہا ہے۔ترکی کا یہ مخصوص جغرافیہ علامتی طور پر بتاتا ہے کہ ترکی کا مشن کیا ہے۔ وہ مشن ہے— مشرق سے ملی ہوئی خدائی ہدایت کو اہلِ مغرب تک پہنچانا۔
استانبول کے جس ہوٹل (Sözbir Royal Residency) میں ہمارا قیام تھا، وہ آبنائے باسفورس کے کنارے ہے۔ یہ ہوٹل ایشین سائڈ (Anatolia)میں واقع ہے۔ ہماری گاڑی باسفورس کے اوپر بنے ہوئے اُس جدیدطرز کے پل سے گزری جس کو 1973میں برٹش انجینئروں نے تعمیر کیا تھا۔ یہ ایک لمبا اور کشادہ پل ہے۔باسفورس کا یہ پل ترکی کے یورپی حصے کو ترکی کے ایشین حصے سے جوڑتا ہے۔ ائر پورٹ سے ہوٹل تک کا یہ راستہ 45 منٹ میں طے ہوا۔
ہوٹل میں میں جس کمرہ (suite) میں تھا، اس میں ہر قسم کا آرام وراحت کا سامنا تھا، لیکن مجھے کسی چیز سے کوئی دل چسپی نہیں تھی، حتی کہ میں نے اس کے جدید طرز کے باتھ روم میں کبھی غسل بھی نہیں کیا۔ یہاں میری ساری دل چسپی صرف ایک چیز سے تھی اور وہ تھی کمرے کی پشت پر لگے ہوئے شیشے کے پاس بیٹھ کر باسفورس کا منظر دیکھنا۔
باسفورس (Bosphorus) ایک ابنائے (strait) ہے۔ باسفورس بحرِ اسود(Black Sea) اور بحرِ مرمرا(Sea of Marmara)کو ایک دوسرے سے ملاتا ہے۔آبنائے باسفورس 1452 عیسوی میں ترکوں کے قبضے میں آیا۔ آبنائے باسفورس میرے لیے فطرت کے حسن کا اتھاہ منظر تھا۔ سمندر کا پانی، اُس میں چلتی ہوئی اسٹیم بوٹ، اس کےاوپر اڑتے ہوئے پرندے، ہواؤں سے ہلتے ہوئے سرسبز درخت، آسمان کا منظر، سورج کی روشنی، یہ تمام چیزیں مل کر ایمان افروز منظر کا نمونہ بنی ہوئی تھیں۔ میں جب بھی کمرے میں ہوتا، اس کو دیکھ کر خالق کو اور اس کی تخلیق کو یاد کرتا رہتا۔
دوپہر کا کھانا ہم لوگوں نے اِسی ہوٹل میں کھایا۔ کھانا سادہ تھا اور مغربی ذوق کے مطابق، مرچ مسالے سے خالی۔یہاں وجیٹیرین فوڈ اور نان ویجٹیرین فوڈ دونوں موجود تھے، مگر میں نے اپنی عادت کے مطابق، صرف ویجیٹیرین فوڈ لیا۔
ترکی میں غالباً سگریٹ اسموکنگ کا کافی رواج ہے، لیکن عجیب بات ہے کہ وہ لوگ اندر کمرے میں یا لوگوں کے درمیان اسموکنگ(smoking) نہیں کرتے، وہ جاکر کھلے ایریا میں اسموکنگ کرتے ہیں۔یہ طریقہ ترکی میں کئی جگہ نظرآیا۔ ہوٹل میں بھی یہی منظر دکھائی دیا۔ آج کل سگریٹ کے ہر پیکٹ پر یہ قانونی وارننگ (statutory warning) لکھی رہتی ہے کہ— سگریٹ پینا صحت کے لیے مضر ہے:
Cigarette smoking is injurious to health.
اِس سلسلے میں قابلِ غور بات یہ ہے کہ جب سگریٹ بنانے والی کمپنیاں جانتی ہیں کہ سگریٹ پینا صحت کے لیے مضر ہے، تو وہ سگریٹ سازی کا کام کیوں کرتی ہیں۔اِس کا سبب موجودہ زمانے میں آزادی کا لامحدود تصور ہے۔ اِس بنا پر حکومت نہ سگریٹ ساز کمپنیوں پر پابندی لگاتی ہے اور نہ سگریٹ نوشوں کو وہ جبراً روک سکتی ہے۔ لامحدود آزادی کے اِس تصور پر ایک امریکی اسکالر نے کہا تھا— ہم آزادی کا تحمل نہیں کرسکتے:
We cannot afford freedom
انڈیا میں میرے جاننے والوں میں ایک صاحب کو تمباکو اور سگریٹ نوشی کی عادت تھی۔ لوگوں کی نصیحت سے وہ سگریٹ چھوڑ نہیں پاتے تھے۔ مجھ کو معلوم ہوا تو میں نے کہا کہ سگریٹ پینا کوئی سادہ بات نہیں۔ سگریٹ پینے والا آدمی فرشتوں کی صحبت سے محروم ہوجاتا ہے، اور جو شخص فرشتوں کی صحبت سے محروم ہوجائے، وہ اسپریچول ڈیولپمینٹ سے محروم ہوجائے گا۔ کیا آپ اِس کا تحمل کرسکتے ہیں کہ آپ اسپریچول ڈیولپمینٹ سے محرومی میں جئیں اور اِسی حالت میں مر کر دنیا سے آخرت کی طرف چلے جائیں۔ میری بات کا اُن پر بہت اثر ہوا۔ انھوں نے اُسی دن سے سگریٹ پینا چھوڑ دیا۔
عصر کی نماز کے بعد ہم لوگ مسٹر علی کے ساتھ استانبول کے ایک خاص مقام کو دیکھنے کے لیے گئے۔ اس کا نام یہ ہے — چمل جہ (Camlica)۔ یہ استانبول کی سب سے اونچی پہاڑی ہے۔ وہ سطح سمندرسے 267 میٹر بلندہے۔یہاں سے شہر کا بیش تر حصہ دکھائی دیتاہے۔ یکم مئی 2012 کو لیبر ڈے (Labour Day) تھا، اِس بنا پر یہاں لوگوں کی کافی بھیڑ نظر آئی۔ میں نے مسٹر علی سے پوچھا کہ آپ کا ملک مشرق اور مغرب دونوں حصوں میں واقع ہے۔ آپ اپنے کو مشرقی سمجھتے ہیں یا مغربی۔ انھو ں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ — مائنڈ سے یورپین اور ہارٹ سے ایشین۔
عام طور پر لوگوں کا مزاج یہ ہے کہ جب وہ کسی سے ملتے ہیں تو ہمیشہ اپنی بات سناتے ہیں، لیکن میرا مزاج اِس سے مختلف ہے۔ میں یہ کرتا ہوں کہ دوسروں سے باربار سوال کرکے ان کی بات سنتا ہوں، یہی میں نے یہاں بھی کیا۔ مسٹر علی سے میں بار بار سوال کرتا رہا اور ان کی باتیں سنتا رہا۔ میں نے پایا کہ مسٹر علی کا حافظہ بہت اچھا ہے۔ اُن کو بہت سے واقعات یاد ہیں۔ تاریخ سے ان کو خصوصی دل چسپی ہے۔ وہ ترکی کے علاوہ، انگریزی اور رشین زبان جانتے ہیں۔ آج کل وہ عربی اور اردو زبان سیکھ رہے ہیں۔
اِس سلسلے میں گفتگو کے دوران انھوں نے بتایا کہ ترکی میں ایک مقولہ ہے — ایک زبان، ایک انسان۔ دوزبان، دو انسان۔تین زبان تین انسان:
Bir lisan bir insan, iki lisan iki insan, Üç insan üç insan
مابعد اتاترک دور (post-Atatürk period) پر گفتگو کرتے ہوئے مسٹر علی اکیز نے کہا کہ ترکی میں اِس دور میں دو خاص ترک مفکر پیدا ہوئے۔ دونوں کی سوچ غیر سیاسی اور تعمیری سوچ ہے — بدیع الزماں سعید نورسی (وفات: 1960) نے ترکوں کو نئے دور میں زندگی کی تعمیر کے لیے ایک فکر دیا۔ اور استاذ فتح اللہ گولن (پیدایش: 1941 ) نے اِس فکر کو ایک باقاعدہ عمل کی صورت دی۔ میں نے کہا کہ جہاں تک میرا خیال ہے، گولن تحریک کو سوشیو ایجوکیشنل تحریک (socio-educational movement) کہا جاسکتا ہے۔مسٹر علی نے اِس سے اتفاق کیا۔
ترکی میںآج غروب شام کو 8 بجے تھا۔ مغرب کے بعد ہم نے یہاں رات کا کھانا (dinner) کھایا۔ یہاں ایک خوب صورت ریستوراں تھا۔ اِس طرح کے ریستوراں میں اکثر کافی شور رہتا ہے، مگر یہاں ہمیں شور کا تجربہ نہیں ہوا۔
گفتگو کے دوران مسٹر علی سے میں نے کہا کہ نومبر 2008میں میں اپنے بعض ساتھیوں کے ہم راہ قبرص (Cyprus) گیا تھا۔ وہاں میں نے دیکھا کہ قبرص کے مشرقی حصے پر، جو کہ قبرص کا تقریباً ایک تہائی حصہ ہے، اس پر ترکوں کا قبضہ ہے۔ یہ قبضہ 1974 سے قائم ہے۔ اِس کی وجہ سے قبرص کے مسیحی لوگوں میں ترکی کے خلاف منفی جذبات پائے جاتے ہیں۔ میں نے کہا قبرص پر اِس قبضے کو میںترکی کے لیے ایک سیاسی بوجھ (political liability) سمجھتا ہوں، وہ جدید ترکی کے لیے کوئی قیمتی اثاثہ (asset)نہیں۔ترکی کو چاہیے کہ وہ قبرص میں اپنے قبضے کو چھوڑ دے اور اس کے بعد وہاں پُرامن انداز میں دعوہ ورک کرے۔ مسٹر علی نے اِس رائے کی اہمیت کو تسلیم کیا۔
گفتگو کے دوران میں نے کہا کہ دعوت کو عام طور پر لوگ تبدیلئ مذہب (conversion) کے ہم معنی سمجھتے ہیں، مگر یہ درست نہیں۔ دعوت دراصل نظریے کا ایکسچینج (exchange of thought) ہے۔ ہر ایک کو یہ حق ہے کہ وہ سچائی کے بارے میں اپنی دریافت (discovery)کو پُرامن طور پر لوگوں کے سامنے پیش کرے۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے میں نے کہا کہ داعی کو جاننا چاہیے کہ وہ ایک ایسی دنیا میں دعوت کا کام کررہا ہے جہاں ہر ایک کو خود خدا کی طرف سے مکمل آزادی (total freedom) حاصل ہے۔ کوئی داعی ایسا نہیں کرسکتا کہ وہ مدعو کی آزادی کو اُس سے چھین لے۔ ایسی حالت میں دعوہ ورک ففٹی ففٹی کی حیثیت رکھتا ہے، یعنی پچاس فی صد داعی کی طرف سے دعوت اور پچاس فی صد مدعو کی طرف سے قبولیت (acceptance)۔ میں نے مزید کہا کہ پوری تاریخ عملی طورپر ناکامی کی تاریخ نظر آتی ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ لوگوں نے قابلِ حصول اور ناقابلِ حصول کے درمیان فرق نہیں کیا۔ انھوں نے ناقابلِ حصول کو اپنا نشانہ بنا لیا، حالاں کہ انھیں صرف قابلِ حصول کو اپنا نشانہ بنانا چاہیے۔ میں نے کہا کہ اِس دنیا میں آئڈیل (ideal) کا حصول ممکن نہیں۔ جو آدمی آئڈیل کا طالب ہو، اس کو چاہیے کہ وہ آخرت کے لیے عمل کرے۔
چمل جہ (Camlica)سے روانہ ہو کر ہم لوگ رات کو 10بجے ہوٹل پہنچے۔ یہاں ایک مجلس میں میں نے اپنے ساتھیوں سے گفتگو کرتےہوئے اپنا ایک تاثر اِس طرح بیان کیا۔ میں نے کہا کہ موجودہ زمانے میں کمائی کے مواقع بہت بڑھ گئے ہیں۔ اِس کے نتیجے میں ساری دنیا میں ایک ظاہرہ دکھائی دیتاہے، وہ ہے ذہنی ارتقا کا رک جانا۔ موجودہ زمانے میں فکری اعتبار سے، اعلی درجے کے لوگ پیدا نہیں ہورہے ہیں۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ اِس زمانے میں تقریباً ہر آدمی پروفیشنل (professional) بناہوا ہے۔ اِس طرح کے لوگوں کو ایک شخص نے حیوانِ کاسب (earning animal) کا نام دیا تھا۔ اِس کلچر کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ لوگوں کا ذہنی ارتقا رک گیا ہے۔ اِس مسئلے کو ایک لفظ میں ذہنی بونا پن (intellectual dwarfism) کہاجاسکتا ہے۔
اگلے دن 2 مئی 2012 کی صبح کو 9 بجے ہوٹل سے گولن تحریک کے تحت قائم اکیڈمی (Akademi) کے لیے روانگی ہوئی۔ ہوٹل سے اکیڈمی بذریعے کار 15 منٹ کے فاصلے پر تھی۔ یہاں صبح کا ناشتہ کیاگیا۔ اِس دوران ہر ایک نے مختصر انداز میں اپنا تعارف پیش کیا۔ میں نے اپنے بارے میں کہا کہ میں ایک صوفی داعی ہوں، یعنی مزاج کے اعتبار سے صوفی اور اپنے مشن کے اعتبار سے داعی۔ یہاں اکیڈمی کے ارکان کے علاوہ، افریقہ کے مختلف ملکوں کے نمائندہ افراد اور الجزائر کے لوگ بھی موجود تھے۔یہ لوگ کانفرنس میں شرکت کے لیے ترکی آئے تھے۔
ناشتے کے بعد یہاں میری ایک تقریر ہوئی۔ اِس کا موضوع تھا —’’اسلام میں حکمت (wisdom) کی اہمیت‘‘ ۔ میں نے انگریزی زبان میں تقریر کی۔ اُس کا عربی ترجمہ اُسی وقت پروفیسر زبیر احمد فاروقی نے کیا۔ پروفیسر زبیراحمد فاروقی عربی سے انگریزی اور انگریزی سے عربی ترجمے کے اکسپرٹ سمجھے جاتے ہیں۔
اِس تقریر میں میں نے ایک بات یہ کہی کہ قرآن میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ قانونِ فطرت کے مطابق، عسر کے ساتھ ہمیشہ یسر موجود ہوتا ہے (فإن مع العسر یسراً، إن مع العسر یسراً)۔ اِس لیے تم عسر (problem) کو نظر انداز کرو اور یسر (opportunity)کو دریافت کرکے اس کو استعمال کرو۔ میںنے کہا کہ موجودہ زمانے کے مسلمان عام طورپر عسر کے اعلان کو سب سے بڑا کام سمجھتے ہیں۔ اِس کی ایک مثال دیتے ہوئے میں نے کہا کہ ایک عرب عالم عبد الرحمن الحبنکہ نے ایک کتاب شائع کی ہے۔ اس کا ٹائٹل یہ ہے: الأفاعی الثلاثة (تین بڑے سانپ)۔
میں نے تقابلی طورپر کہا کہ حضرت موسی کو جادوگروں کے سانپ کو دیکھ کر خوف لاحق ہوا۔ اُس وقت اللہ تعالی نے کہا کہ تم اپنا عصا ڈال دو، وہ اس سانپ کونگل جائے گا(7:117)۔ میں کہا کہ خاتم النبیین کی امت کے پاس بھی ایک عصا ہے اور وہ قرآن ہے۔ قرآن ہر زمانے کے ’’افاعی‘‘ کو نگل جانے کے لیے کافی ہے، مگر عجیب بات ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمان اِس حقیقت سے بے خبر ہیں۔
یہ 45 منٹ کی تقریر تھی۔ مجلہ حراء کے مدیر مسٹر نوزادصواش اِس پروگرام کو کوآرڈی نیٹ کررہے تھے۔ انھوں نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا: نقتبس الحکمة من داعیة الحکمة۔
تقریر کے بعد سوال وجواب کا پروگرام ہوا۔ یہ پروگرام آدھ گھنٹے تک جای رہا۔ لوگوں نے مختلف سوالات کئے۔ڈاکٹر محمد موسی باباعمی (جنرل ڈائریکٹر معہد المناہج، الجزائر) نے ایک سوال کیا۔ انھوں نے کہا کہ آپ نے اپنی تقریر میں قرآن کو ’کتاب الثورة‘ کہا ہے۔ اِس کا کیا مطلب ہے۔ میں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ قرآن بلاشبہہ ایک انقلابی کتاب ہے، لیکن وہ فکری معنوں میں انقلابی کتاب ہے، نہ کہ سیاسی معنوں میں۔ قرآن آدمی کو ایک آئڈیالوجی دیتا ہے اور یہ آئڈیالوجی مبنی بر فطرت ہونے کی وجہ سے انسان کے مائنڈ کو ایڈریس کرتی ہے۔ اِس طرح قرآن، آدمی کے اندر ایک فکری بھونچال پیدا کرکے اس کی شخصیت کی تعمیر کرتا ہے۔
اِس پروگرام کے بعد اکیڈمی کے اوپری منزل کے ایک غُرفہ (upper chamber) میں ایک مخصوص نشست ہوئی۔ یہ ایک کانفرنس روم تھا۔ اس کی دیوار میں چاروں طرف بڑے بڑے شیشے لگے ہوئے تھے جہاں سے استانبول شہر کا خوب صورت منظر دکھائی دے رہا تھا۔ اِس پروگرام میں مجلہ ’’حراء‘‘ کے ایڈیٹر مسٹر نوزاد صواش نے عربی زبان میں گولن تحریک کا مختصر تعارف پیش کیا، اور تحریک کی سرگرمیوں کے بارے میں بتایا۔انھوں نے کہا کہ گولن تحریک کا مقصد ہے— غیر سیاسی دائرے میں رہتے ہوئے سماجی خدمت اور تعلیم کا فروغ۔
مسٹر نوزاد صواش استاد محمد فتح اللہ گولن کے براہِ راست شاگردوں میں سے ہیں۔ انھوں نے استاد فتح اللہ گولن کے بارے میں کئی باتیں بتائیں۔ مثلاً انھوں نے کہا کہ استاذ کا حافظہ بہت اچھا ہے۔ ان کے اندر فوٹو گریفک میموری (photographic memory) پائی جاتی ہے۔ اِسی طرح وہ ایک اعتدال پسند آدمی ہیں۔ انھوں نے مزید بتایا کہ استاذ فتح اللہ ایک حوصلہ مند (ambitious) طبیعت کے آدمی ہیں۔ کسی ایک حد پر رکنے کے بجا ئے ہمیشہ ان کی نگاہ آگے کی طرف رہتی ہے۔ مثلاً انھوں نے بتایا کہ ہم لوگوں نے مختلف زبانوں میں کئی ٹی وی چینل شروع کیے۔ ہم نے استاذ فتح اللہ گولن کو جب اِس کی خبر دی تو انھوں نے کہا کہ ابھی ہم میڈیا کے میدان میں بہت پیچھے ہیں۔ ہم کو اسی پر اکتفا نہیں کرنا ہے، بلکہ ہم کو ابھی اِس میدان میں بہت آگے بڑھنا ہے۔ اِس سلسلے میں مسٹر نوزادصواش نے کہا کہ: لا یفرح الأستاذ من الإنجاز، بل یتطلع دائما إلى الإنجازات۔ اِس میٹنگ میں یہ بھی بتایا گیا کہ کانفرنس کا پروگرام کیاہوگا۔
یہاں کئی عرب فضلا سے ملاقات ہوئی۔ مثلاً کویت کے عربی مجلہ : الوعی الإسلامی (1965) کے مدیر فیصل یوسف احمد العلی، اور دکتور محمد وائل الحنبلی الدمشقی۔ ملاقات کے دوران فیصل یوسف العلی نے بتایا کہ وہ میری کتاب الاسلام یتحدی پڑھ چکے ہیں۔الحنبلی اِس وقت ترکی کے جامعہ سلجوق میں حدیث کے موضوع پر توسیعی لیکچر دے رہے ہیں۔
اِس موقع پر میں نے آدھ گھنٹے کی ایک تقریر کی۔ میری تقریر انگریزی زبان میں تھی۔ پروفیسر زبیر احمد فاروقی نے میری تقریر کا ترجمہ عربی زبان میں کیا۔ میں نے اپنی تقریر میں جو باتیں کہیں، اُن میں سے دو باتیں یہ تھیں— ایک یہ کہ اسلام کے مقابلے میں عصری تحدیات میرا اصل موضوع ہے۔ میری کتابیں زیادہ تر اِسی موضوع پر ہیں، براہِ راست یا بالواسطہ۔ دوسری بات میں نے ایک حدیثِ رسول کو لے کر کہی جو کہ اِن الفاظ میںآئی ہے: إن اللہ یرفع بہذا القرآن أقواماً ویضع بہ آخرین (سنن الدارمی، رقم الحدیث: 3365 )
میں نے کہا کہ اِس حدیث میں ’’رفع‘‘ سے مراد سیاسی رفع نہیں ہے، بلکہ نظریاتی رفع ہے۔ قرآن کی یہ اہمیت موجودہ سائنسی زمانے میں اور زیادہ بڑھ گئی ہے۔ موجودہ زمانے میں ہر قسم کی ترقیات کے باوجود شعوری یا غیر شعوری طور پر آج کا انسان حقیقت کی تلاش میں ہے۔ قرآن واحد کتاب ہے جس کا موضوع یہی ہے کہ انسان کو زندگی کی حقیقت بتائی جائےاور اس کو خدا کے تخلیقی پلان سے آگاہ کیا جائے۔ موجودہ زمانے میں اسلامی مشن کا سب سے بڑا آئٹم یہی ہے کہ قرآن کو لوگوں کی قابلِ فہم زبان میں اُن تک پہنچایا جائے۔
یہ اکیڈمی جدید طرزِ تعمیر کے مطابق بنائی گئی ہے۔ یہاں ایک مسجد، کانفرنس ہال، لائبریری اور مختلف آفس اور رہائشی کمرے بنے ہوئے ہیں۔ عربی مجلّہ ’’حراء‘‘ اور ترکی مجلہ ’’ینی امید‘‘ (امید ِ نو) کا دفتر بھی اِسی اکیڈمی میں ہے۔ یہاں کام کرنے والے افراد زیادہ تر ترک ہیں۔ یہ لوگ ترکی کے علاوہ، عربی زبان بھی اچھی طرح جانتے ہیں۔ یہاں کے متعدد اراکین جامع ازہر (قاہرہ) کے تعلیم یافتہ ہیں۔
اکیڈمی کی لائبریری میں میری کتاب الاسلام یتحدی کا ترکی ایڈیشن موجود تھا۔ عربی سے ترکی زبان میں اس کا ترجمہ مسٹر عاکف نوری نے کیا ہے، جو استانبول سے پہلی بار 1977میں شائع ہوا۔اِس کے بعد سے اب تک الاسلام یتحدى کے کئی ترکی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔
اکیڈمی میں ظہر کی نماز ادا کرنے کے بعد ہم لوگ سما ہاسپٹل (Sema Hospital) کے لیے روانہ ہوئے۔ منتظمین نے سماہاسپٹل کے معائنے کا یہ پروگرام صرف ہم لوگوں کے لیے بنایا تھا۔ یہ ہاسپٹل گولن گروپ کے تحت چلائے جانے والے اسپتالوں میں سے ایک ہے۔اکیڈمی سے ہاسپٹل تک بذریعہ کار آدھ گھنٹے کا راستہ تھا۔ یہ ہاسپٹل بحرِ مرمرا (Sea of Marmara) کے ساحل پر واقع ہے۔ وہ جدید طرز تعمیر کے مطابق بنایا گیا ہے۔ اس میں تمام میڈیکل شعبے موجود ہیں۔ اُس کا عملہ (staff) سب کا سب ترک ماہرین پر مشتمل ہے۔ پورا ہاسپٹل نہایت صاف اور نہایت منظم دکھائی دیا۔ اِس ہاسپٹل کا جائے وقوع فطرت کے ماحول میں ہے۔ اس کے ایک طرف بحرِ مرمرا ہے اور دوسری طرف خوب صورت گارڈن۔ وہ ہاسپٹل سے زیادہ ایک صحت گاہ معلوم ہوتا ہے۔ اس کو دیکھ کر میں نے کہا کہ:
It is more than a hospital.
یہاں ہم لوگوں کو دوپہر کا کھانا (lunch) کھانا تھا۔سامنے واقع ایک ڈائننگ ہال میں ہم لوگوں نے دوپہر کا کھانا کھایا۔ کھانے کے بعد ہاسپٹل کے چیئر مین مسٹر مصطفی Mustafa Özcan)) نے گولن تحریک کے بارے میں مختصر طورپر بتایا۔ انھوں نے کہا کہ گولن تحریک کا ماٹو تین چیزیں ہیں : اللہ کا خوف، اللہ کی عظمت، اللہ کی محبت(مخافة اللہ،  مہابة اللہ، محبة اللہ)۔
مسٹر مصطفی ترکی زبان میں بول رہے تھے۔ اس کا انگریزی ترجمہ اُن کے سکریٹری مسٹریوجل دُراک (Yugel Durak) نے کیا۔ اِس واقعے کا تذکرہ کرتے ہوئے میرے ایک ساتھی نے کہا کہ اگریہ سوچا جائے کہ اِس قسم کاترجمہ انسان کے سواکوئی دوسری مخلوق نہیں کرسکتی تو یہ واقعہ بلاشبہہ خدا کی عظمت اور خدا کے شکر کا ایک پُراہتزاز تجربہ (thrilling experience) بن جائے گا۔
پروگرام کے آخر میں ہاسپٹل کے چیئرمین مسٹر مصطفی نے خود اپنے ہاتھ سے ہماری ٹیم کے ہر فرد کو گفٹ آئٹم دئے۔ اِس میں استاذ محمد فتح اللہ گولن کی عربی اورانگریزی کتابوں کا ایک سیٹ اور رسٹ واچ (wrist watch) شامل تھی۔ اِس موقع پر انھوں نے بڑے سائز کا ایک میمنٹو (memento) پیش کیا۔ اِس میں سِلور حروف (silver letters) میں آیت الکرسی اور قرآن کی کچھ آیتیں لکھی ہوئی تھیں۔ انھوں نے کہا کہ اِس میمنٹوکو ہم خود اپنے ساتھی مسٹر علی اکیز کے ذریعے آپ کے آفس میں پہنچوادیں گے، آپ کو خود اُس کو یہاں سے دہلی لے جانا نہیں پڑے گا۔
سما ہاسپٹل سے روانہ ہو کر ہم لوگ شام کوہوٹل واپس آگئے۔ یہاں کچھ دیر قیام کرنے کے بعد دوبارہ شام کو 8 بجے ایک پروگرام کے لیے ہوٹل سے روانہ ہوئے۔ استانبول میں گولن تحریک کے تحت مؤسسة الفرات التربویة التعلیمیة (Firat Education Centre) کے نام سے ایک بڑا تعلیمی سنٹر قائم ہے۔ یہ جدید طرز کی ایک کئی منزلہ عمارت ہے۔ اِس عمارت کی پانچویں منزل پر کانفرنس میں شریک ہونے والے مختلف ملکوں کے نمائندہ افراد کی ملاقات کا ایک پروگرام تھا۔ استانبول میں استاذ محمد فتح اللہ گولن کا قیام اِسی منزل پر ہوتا ہے۔
یہاں پہنچ کر ہم لوگوں نے مغرب کی نماز ادا کی۔ مغرب کی نماز ہمارے ساتھی مولانا محمد ذکوان ندوی نے پڑھائی۔ نماز کے بعد یہاں کئی لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ مثلاً شیخ ابراہیم صالح الحسین (نائجیریا، افریقہ)، شیخ عبد الناصر ابو الفیصل (رئیس الجامعة، جامعة العلوم الاسلامیہ العالمیة، اردن) سب لوگوں نے کہا کہ ہم نے آپ کی کتاب الاسلام یتحدی پڑھی ہے۔
نماز کے بعد اِسی تعلیمی سنٹر میں ترکی کے ایک ٹی وی چینل (Samanyolu TV) نے میرا ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا جو ترکی میں نشر کیاگیا۔ انھوں نے خاص طورپر تین چیزوں کے بارے میں پوچھا— استاذ فتح اللہ گولن، ترکی اور دعوت الی اللہ۔ استاذفتح اللہ کے بارے میں میں نے کہا کہ میرے مطالعے کے مطابق،استاذ گولن بلا شبہہ ایک تخلیقی مفکر ہیں۔ اِسی طرح میں نے بتایا کہ ترکی مشرق اور مغرب کے درمیان ایک پل کی حیثیت رکھتا ہے۔ ترکی کے لیے یہ مقدر ہے کہ وہ مشرق کے ربانی وزڈم کو مغرب کے لوگوں تک پہنچائے۔ یہ انٹرویو انگریزی زبان میں تھا۔ ہمارے ساتھیوں نے چینل کے لوگوں کو ہمارے یہاں کا چھپا ہوا دعوتی لٹریچر دیا۔
انٹرویو کے بعد اِسی مرکز میں شام کے کھانے (dinner) کا انتظام تھا۔ کھانے سے فراغت کے بعد ہم لوگوں کو ایک ہال میں لے جایاگیا۔ یہاںدیوار پرلگے ہوئے ایک بڑے اسکرین پر استاذ فتح اللہ گولن کا ایک ویڈیو دکھایا گیا۔ یہ ان کی ایک پرانی تقریر کا ویڈیو تھا۔یہ تقریر ترکی زبان میں تھی، جس کا عربی ترجمہ اسکرین پر ساتھ ساتھ آرہا تھا۔
یہ تقریر قرآن کے موضوع پر تھی۔ تقریر کا اسلوب واعظانہ تھا، مگر وہ مسحور کن تھا۔ اس میں باڈی لینگویج (body language) کا بہت زیادہ استعمال پایا جاتا تھا۔ تقریر کے دوران مقرر خود بھی رورہے تھے اور حاضرین کی طرف سے بھی بلند آ واز سے رونے کی آواز آرہی تھی۔ تقریر کے دوران انھوں نے قرآن کا ایک نسخہ اپنے ہاتھ میں اٹھایا اور اُس کودکھاتے ہوئے حاضرین سے کہا کہ تم نے خدا کی کتاب کو یتیم بنا دیا۔ تقریر کے دوران انھوں نے ایک حدیثِ رسول سنائی جس کے الفاظ یہ تھے: یأتی على الناس زمان، القرآن فی وادٍ، وہم فی وادٍ غیرہ (کنز العمال، رقم الحدیث: 29118) یعنی لوگوں کے اوپر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ قرآن کسی اور وادی میں ہوگا اور لوگ قرآن کے سوا کسی اور وادی میں ہوں گے۔
پروگرام کے خاتمے پر ہم لوگوں کو وہ کمرہ دکھایا گیا جس میں استاذ فتح اللہ گولن قیام کرتے ہیں، جب کہ وہ استانبول آتے ہیں۔ آج کل وہ امریکا میں مقیم ہیں۔ یہ کمرہ بالکل سادہ تھا۔ وہاں کی نمایاں چیز صرف کتابیں تھیں جو ترتیب کے ساتھ دیوار کی الماری میں رکھی ہوئی تھیں۔ یہ کتابیں عربی اور ترکی زبان میں تھیں۔یہاں ہال کےاندر دیوار پر ایک خوب صورت طغری لگا ہوا تھا۔ اِس میں ایک لمبی روایت خطِ ثلث میں جلی قلم سے لکھی ہوئی تھی۔اِس روایت کا ایک حصہ یہ تھا: لا تشغلوا أنفسکم بالدعاء على الملوک (مجمع الزوائد 5/242) یعنی تم حکمرانوں کے خلاف بد دعا کا طریقہ اختیار نہ کرو۔
عشا کی نماز کے بعد ہم لوگ اِس تعلیمی سنٹر سے روانہ ہو کر ہوٹل آگئے۔ اِس وقت یہاں سرد ہوائیں چل رہی تھیں۔ ٹمپریچر گھٹ کر 12 ڈگری ہوگیا تھا، جب کہ آج دوپہر میں یہاں کا ٹمپریچر 20 ڈگری تھا۔
3 مئی 2012 کی صبح کو ہوٹل پر ناشتہ کیا گیا۔اِس کے بعد ساڑھے نو بجے ہم لوگ استانبول کے اُس مقام کو دیکھنے کے لئے روانہ ہوگئے جہاں جامع ایوب ہے۔ یہاں ایک بڑا کامپلکس تعمیر کیاگیا ہے۔ اِس کے اندر حضرت ابو ایوب انصاری کا مقبرہ ہے۔ یہ مقام ترکی کے مغربی حصہ(Thrace) میں واقع ہے۔ کامپلکس کے باہر ایک وسیع احاطہ ہے جس کا فرش سفید سنگ مرمر سے بنایا گیا ہے۔ اِس کے باہر مارکیٹ اور کئی اوپن رستوراںکھلے ہوئے ہیں۔
یہ کامپلکس تین چیزوں پر مشتمل ہے— جامع ایوب، مزارِ ایوب، قبرستانِ ایوب۔ کامپلکس کے اندر ایک بڑے کمرے میں حضرت ایوب کی قبر ہے۔ یہاں اُس وقت کچھ تعمیری کام ہورہا تھا، اِس لیے باہر لگی ہوئی ایک جالی سے ہم لوگوں نے قبر کو دیکھا۔ یہ ایک اونچی قبر تھی جو ہرے رنگ کے کپڑے سے ڈھکی ہوئی تھی۔ جالی کے ایک طرف ترکی زبان میں یہ الفاظ لکھے ہوئے تھے: Duâ Kapisi ۔ ہمارے ساتھی مسٹر علی نے بتایا کہ اِس کا مطلب ہے: دعا کا در وازہ۔ میں نے دیکھا کہ ترکی لوگ اور دوسرے زائرین یہاں آتے تھے اور خاموشی سے ہاتھ اٹھا کر دعا کرکے چلے جاتے تھے۔
مقبرے کے سامنے ایک چھوٹا سا احاطہ ہے۔ اس میں ایک قدیم درخت لگا ہوا ہے۔ یہ درخت 5 سوسال پرانا ہے۔ اس کو سلطان محمد فاتح نے اپنے ہاتھ سے لگایا تھا۔ اِس احاطے کے سامنے قدیم طرز کی ایک بڑی مسجد ہے۔ اِس کو سلطان محمد فاتح نے 1458عیسوی میں بنوایا تھا۔ میں نے اور میرے ساتھیوں نے اِس مسجد میں دورکعت نماز اداکی۔ میں نے نماز کے بعد دعا کے لیے ہاتھ اٹھایا۔ اُس وقت خیال آیا کہ اب سے 14 سوسال پہلے عرب کی ایک جماعت کس طرح یہاں آئی اور کس طرح انھوں نے یہاں دین ِ اسلام کی اشاعت کی۔ یہ سوچتے ہوئے میرا دل بھر آیا۔ اُس وقت آنسوؤں کے ساتھ میری زبان سے یہ دعا نکلی— خدایا، تو مجھ کو اور میرے مشن میں ساتھ دینے والے تمام مردوں اور عورتوں کو صحابہ کے اُس دعوتی قافلے میں شامل فرما۔ وما ذلک على اللہ بعزیز۔
مسجد کے اندر کچھ عورتیں اور مرد بھی ذکر ودعا میں مشغول نظر آئے۔ مسجد کے عقبی حصے میں ایک قبرستان ہے۔ یہاں بہت سے ترک علما اور کچھ مشہور عثمانی خاندان کے حکمرانوں کی قبریں ہیں۔
ترکی میں عثمانی خلافت (Ottoman Empire) 1299 ء میں قائم ہوئی، اور 1924 ء میں عملاً وہ ختم ہوگئی۔ ترکی میں سلطان محمد فاتح (وفات: 1481 (کے وقت سے یہ طریقہ رائج تھا کہ جب کوئی سلطان تخت نشیں ہوتا تو اُس وقت جامع ایوب (مقبرہ حضرت ایوب انصاری) پر اس کی تاج پوشی کی رسم ادا کی جاتی۔ یہاں شیخ الاسلام (مفتیٔ اعظم قسطنطنیہ) خاندانِ عثمانی کے بانی سلطان عثمان خان (وفات: 1326 ) کی تاریخی تلوار اس کی کمر میں حمائل کرتے۔ یہ شاہی رسم سلطان کی تاج پوشی کا لازمی حصہ تھی۔
حضرت ابو ایوب کا پورا نام خالد بن کلیب بن ثعلبہ ہے۔ ان کا تعلق مدینہ کے بنی نجار قبیلے سے تھا۔ وہ مدینہ میں رہتے تھے۔ انھوں نے بدر و احد اور خندق اور دوسرے تمام غزوات میں شرکت کی۔ وہ ایک بہادر انسان تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم 622 میں جب مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ پہنچے تو ابتداء ً آپ نے ابوایوب انصاری کے گھر میں قیام کیا۔ حضرت معاویہ کے زمانے میں حضرت ابو ایوب انصاری یزید بن معاویہ کے ساتھ صحابہ کے ایک قافلے میں قسطنطنیہ کے لیے دعوتی مہم پر روانہ ہوئے۔ اُس وقت اُن کی عمر تقریباً 80 سال تھی۔ صحابہ کے اِس قافلے میں دوسرے صحابہ کے علاوہ، حضرت عبد اللہ بن عمر اور حضرت حسن اور حسین بھی شامل تھے۔ حضرت ابو ایوب انصاری راستے میں بیمار ہوگئے۔ انھوں نے اپنے ساتھیوں کو وصیت کی کہ اگر راستے میں میری موت آجائے تب بھی مجھ کو اپنے ساتھ منزل (ارضِ روم، قسطنطنیہ) لے جانا اور وہیں مجھ کو دفن کرنا۔ چناں چہ انتقال کے بعد ان کی تدفین قسطنطنیہ (استانبول) میں کی گئی۔ یہ 52 ہجری (672 عیسوی) کا واقعہ ہے۔
جامع ایوب کو دیکھنے کے بعد ہم لوگ استانبول کی ایک تاریخی مسجد کو دیکھنے کے لیے روانہ ہوئے۔ اس کا نام رستم پاشا (Rustem Pasha Mosque) ہے۔
The Rüstem Pasha Mosque is an Ottoman mosque located in Strawmat Weavers Market in the Tahtakale neighborhood, of the Eminönü district of Istanbul, Turkey. The Rüstem Pasha Mosque was designed by Ottoman imperial architect Mimar Sinan . Rüstem Pasha died in July 1561 and the mosque was built after his death from around 1561 until 1563.
یہاں مسجد کے امام صاحب سے ملاقات ہوئی۔ وہ یہاں کے دیگر ائمہ مساجد کی طرح کوٹ پتلون پہنے ہوئے تھے۔ تاہم مزاج کے اعتبار سے وہ نہایت سادہ تھے۔ ہم لوگوں کی تواضع کے لیے انھوں نے چائے کے ساتھ بھنی ہوئی مونگ پھلی پیش کی۔مجھے ان کی یہ سادہ تواضع بہت پسند آئی۔ سادہ تواضع ہی اسلام کی اسپرٹ کے مطابق ہے، مگر موجودہ زمانے میں سادہ تواضع کا طریقہ مسلمانوں میں تقریباً معدوم ہوچکا ہے۔
سی پی ایس کے ایک ممبر ڈاکٹر ثانی اثنین خاں اِس سے پہلے استانبول آئے تھے۔ انھوں نے امام صاحب کو ہمارے یہاں سے چھپے ہوئے انگریزی ترجمۂ قرآن کی کاپیاں دی تھیں۔ ہم وہاں پہنچے تو یہ ترجمۂ قرآن وہاں مسجد کے گیٹ پر ایک اونچی جگہ پر رکھا ہوا نظر آیا۔ اِس مسجد میں سیاح بڑی تعداد میں آتے ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ یہ سیاح بھیڑ لگا کر قرآن کاانگریزی ترجمہ یہاں سے لے رہے تھے۔ استانبول کے ایک بڑے پریس (Imak Offset)نے یہ پیش کش کی ہے کہ ڈسٹری بیوشن کے لیے جتنے بھی انگریزی ترجمۂ قرآن کی ضرورت ہوگی، وہ اُس کو نو پرافٹ، نولاس (no profit, no loss) کی بنیاد پر چھاپ کر دیں گے۔
مسجد کے امام اسماعیل(Ismail Karakelle) ترجمہ قرآن کو پھیلانے کا کام نہایت ذوق وشوق سے کررہے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ پہلے وہ سیاحوں کو قرآن اپنے ہاتھ سے دیتے تھے تو سیاح کم دلچسپی لیتے تھے، پھر انھوں نے یہ کیا کہ قرآن کے سائز کا ایک خوب صورت بیگ بنایا او ر اس میں قرآن کا نسخہ رکھ دیا۔ یہ بیگ سیاحوں کے ذوق کا ہے، اِس لئے وہ اس کو بخوشی لے لیتے ہیں۔ جس مقام پر قرآن کے نسخے رکھے گئے ہیں، وہاں پر بڑے حروف میں یہ الفاظ لکھ دئے گئے ہیں:
Free Spiritual Gift
امام صاحب نے کہا کہ ہم اس بات کی کوشش کررہے ہیں کہ حکومتی سطح پر ایک وقف بنادیا جائے، تاکہ اس کے تحت ترکی کے ہر تاریخی مقام پر سیاحوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا جاسکے۔ رستم پاشا مسجد میں جب میں آیا تو میں نے دیکھا کہ یہاں مختلف ملکوں کے سیاح بڑی تعداد میں آرہے ہیںاور جب وہ مسجد کو دیکھ کر واپس ہوتے ہیں تو ہر ایک کے ہاتھ میں قرآن کا ایک نسخہ ہوتا ہے۔ یہ دیکھ کر میں نے کہا کہ یہ مسجد پہلے صرف ایک عبادت خانہ تھی، مگر اب وہ ’مسجد پلس‘ ہوگئی ہے۔ وہ مسجد کے ساتھ قرآن ڈسٹری بیوشن کا ایک عالمی سنٹر بن گئی ہے۔ امام صاحب نے بتایا کہ مسجد کے علاوہ بھی وہ یہاں قرآن کا ترجمہ پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثلاً حال میں استانبول کے ایک مقام پر سیرتِ رسول کے موضوع پر ایک پروگرام ہوا۔ اِس پروگرام میں غیر ملکی لوگ بھی شامل تھے۔ اِس موقع پر انھوں نے ایک ہزار لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ برائے مطالعہ دیا۔
امام صاحب سے گفتگو کرتے ہوئے میں نے ایک بات یہ کہی کہ ایک رپورٹ کے مطابق، 2011 میں 31 ملین سے زیادہ غیر ملکی سیاح ترکی میں آئے۔ یہ لوگ معروف معنوں میں صرف سیاح نہیں، بلکہ وہ ہمارے لیے مدعو کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ اپنے ملک سے نکل کر یہاں آتے ہیں اور ہمارے دروازےپر آکر دستک دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے حاملینِ قرآن، ہم یہاں ہیں، لاؤ تم ہم کو خدا کا وہ کلام دو جو تم کو پیغمبر اسلام کے ذریعے ملا ہے۔ امام صاحب نے میری بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ یہ آنے والے سیاح نہ صرف یہ کہ ہمارے ملک میں آکر ہم کو دستک دے رہے ہیں،بلکہ وہ ہماری مسجدوں میں داخل ہو کر ہم سے پوچھتے ہیں کہ اسلام کیا ہے اور قرآن کیا ہے۔
میں نے کہا کہ اِس طرح کا دعوتی ماحول ہر مسلم ملک میں موجود ہے، مگر مذہب کے نام پر ہونے والی باہمی لڑائیوں نے وہاں کے مسلمانوں کو دعوتی مزاج سے محروم کر رکھا ہے، جب کہ ترکی میں کمال آپریشن کے بعد آنے والے کھلے پن (openness) کی وجہ سے یہاں دعوت کے موافق ماحول موجود ہے۔
ترکی میں کثرت سے لوگ اسلام قبول کررہے ہیں۔چناں چہ خبروں میں بتایا گیا ہے کہ:
’’ترکی میں سیاحت یا ملازمت کی غرض سے آنے والے غیر مسلم ہر دن اپنے اطراف میں آباد مساجد سے پانچ دفعہ اذان کی آواز سن کر اس سے متاثر ہوتے ہیں اور دینِ اسلام کے بارے میں مزید معلومات کے حصول کی جستجو کرتے نظر آتے ہیں۔ چناں چہ اب صورتِ حال یہ ہے کہ غیر ملکی افراد کی قابلِ ذکر تعداد مقامی دار الافتا کے دفتر میں اسلام قبول کرنے کا اعلان کرنے کی غرض سے آنے لگی ہے، جن میں اکثریت خواتین پر مشتمل ہے۔ چناں چہ ترکی حکومت کے شعبہ برائے اسلامی امور کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق، پچھلے ایک سال میں 634 غیر ملکی افراد اسلام قبول کرچکے ہیں، جن میں 467 خواتین ہیں۔ اِن افراد کی عمر 30 تا 35 سال بتائی گئی ہے۔ ان کا تعلق جرمنی، ہالینڈ، فرانس، چین، برازیل، امریکا، رومانیہ اور اسٹونیا سے بتایا جاتا ہے۔یہاں کے مفتی علی مراشلیگل نے بتایا کہ اسلام کی جانب ان کے رجحان کا آغاز عموماً اذان کی آواز کا سننا ہوتا ہے، دوسرے مرحلے میں مسجد کے امام سے رابطہ، قرآن مجید کا مطالعہ اور پھر اسلام کے قبول کرنے کا اعلان ہوتا ہے‘‘۔ (پندرہ روزہ تعمیر حیات، لکھنؤ، 25مئی 2012، صفحہ 19)
یہ واقعہ فطرت کی اہمیت کو بتاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان کے اندر فطری طورپر یہ جذبہ شامل ہے کہ وہ سچائی کی تلاش کرے۔ یہ فطری طلب گویا پیشگی طورپر ہر انسان کے لیے سچائی کو اس کا مطلوب بنائے ہوئے ہے۔ جیسے ہی کسی انسان کو سچائی اپنی بے آمیز صورت میں ملتی ہے، وہ اس کو اپنے دل کی آواز سمجھ کر فوراً قبول کرلیتاہے — اسلام دینِ فطرت ہے اور بلاشبہہ یہی اسلام کی سب سے بڑی طاقت ہے۔
رستم پاشا مسجد سےنکل کر ہم لوگ استانبول کے مشہور سائنسی میوزیم کو دیکھنے کے لئے گئے۔ اس میوزیم کا نام یہ ہے:
The Istanbul Museum of the History of Science and Technology in Islam.
یہ میوزیم ایک بڑے رقبے میں واقعہ ہے۔ اِس کا نام گل خانہ پارک (Rose Garden) ہے۔ یہ ایک وسیع اور پر فضا مقام ہے۔ یہاں پارک میں چنار کے درخت کثرت سے موجود ہیں۔ یہ میوزیم ایک ترکی سلطان کے قدیم محل میں بنایا گیا ہے۔ اِس کے اندر مسلمانوں کی سائنٹفک اور ٹکنکل ترقی کے نمونے موجود ہیں، جوکہ ساتویں صدی عیسوی سے لے کر سترھویں صدی عیسوی کے دور تک محیط ہیں۔
اِس میوزیم کو مشہور ترکی اسکالرڈاکٹر فواد سیزگین (Fuat Sezgin) نے 2008 میں قائم کیا ہے۔ ڈاکٹر فواد سیزگین 1924 میں پیدا ہوئے۔ 1961 میں وہ استانبول سے جرمنی منتقل ہوگئے۔ اُس وقت سے اب تک وہ فرینکفرٹ یونی ورسٹی (Johann Wolfgang Goethe University) میں ہسٹری آف نیچرل سائنس کے پروفیسر ہیں۔ انھوں نے ترکی کے علاوہ، جرمنی میں ہسٹری آف عرب اسلامک سائنس کے موضوع پر 1982میں ایک انسٹی ٹیوٹ قائم کیا ہے۔ ڈاکٹر فواد سیزگین کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان کی مشہور کتاب ’’تاریخ التراث العربی‘‘ ہے۔
اِس تاریخی میوزیم کے تعارفی پملفٹ کے آخر میں یہ الفاظ لکھے ہوئے تھے:
Thanks to this Museum, Istanbul has been enriched by yet another bridge between East and West, one which explores the deep historical relationship of the scientific traditions in eastern and western cultures.
ترکی کا ایک پہلو یہ ہے کہ وہ مشرق اور مغرب کے درمیان ایک کلچرل برج (cultural bridge) ہے۔ اِس کے علاوہ، اُس کا زیادہ اہم پہلو یہ ہے کہ وہ مشرق کے وزڈم (wisdom) کو مغرب تک پہنچانے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ سی پی ایس انٹرنیشنل (نئی دہلی) کے تحت قائم کردہ القرآن مشن (Al۔Quran Mission) اِسی تعلق کو زندہ کرنے کی ایک کوشش ہے۔
استانبول کے اِس تاریخی میوزیم کو دیکھ کر میں نے کہا کہ ڈاکٹر فواد سیزگین اور ان کے ساتھیو ںنے بلا شبہہ ایک بہت بڑا کام انجام دیا ہے۔ انھوں نے علم کے معاملے میں مسلمانوں کے تاریخی کنٹری بیوشن کو بتایا ہے۔ یہ میوزیم عملی طورپر بتاتا ہے کہ مسلمانوں نے قدیم اورجدید سائنس کے درمیان کس طرح پُل کا کام انجام دیا۔
سائنس میوزیم دیکھنے کے بعد ہم لوگ ایک ریستوراں (Can Kurtaran) کے لئے روانہ ہوئے۔ یہ نئے انداز کا ایک اوپن ریستوراں ہے جو بحرِ مرمرا کے کنارے واقع ہے۔ اِسی ریستوراں کے قریب وہ تاریخی مسجد واقع ہے جس کو آیا صوفیہ اور مسجد سلطان احمد کہاجاتاہے۔ اِس ریستوراں میں ہم لوگوں نے دوپہر کا کھانا کھایا۔
کھانے سے پہلے اپنے میزبان (مسٹر علی اکیز) کے سامنے میں نے یہ تجویز پیش کی کہ ہم لوگ اِس وقت 6 آدمی ہیں۔ آپ صرف 4 کھانا منگوائیے۔ وہ ہم سب کے لیے کافی ہوجائےگا۔ حدیث میں آیا ہے: طعام الواحد یکفی الاثنین (صحیح مسلم، رقم الحدیث: 2059) مگر یہ بات عام رواج کے خلاف تھی، اِس لیے میری تجویز کے خلاف زیادہ کھانا آگیا۔
اِس معاملے میں ایک طریقہ یہ ہے کہ کھانا بقدر ضرورت منگایا جائے، تاکہ وہ ضائع نہ ہو۔ دوسرا طریقہ وہ ہے جو امریکا میں رائج ہے۔ وہاں لوگ بچے ہوئے کھانے کو رکھ کر اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اور اگلے وقت ا س کو استعمال کرتے ہیں، اس کے لیے میزبان اور ہوٹل دونوں نہایت خوشی سے ایک خوب صورت بیگ مہیا کردیتے ہیں۔
یہاں ترکی کے ایک پبلشر اور مصنف مسٹر محمد امین اپنے والد کے ساتھ مجھ سے ملنے کے لیے آگئے تھے۔ وہ کھانے میں شریک رہے اور آخر میں کھانے کا بل بھی انھوں نے ادا کیا۔ بعد کو انھوں نے مجھ کو اور میرے ساتھیوں کو استانبول میں واقع اپنے گھر پر آنے کی دعوت دی۔
انھوں نے مزید بتایا کہ میری ایک کتاب کا ترجمہ انھوں نے ترکی زبان میں چھاپا ہے۔ انھوں نے کتاب کا مضمون بتایا، لیکن کتاب کا نام ان کو یاد نہیں تھا۔ اُس وقت کھانے کی میز پر بیٹھے بیٹھے میرے ایک ساتھی مسٹر رجت ملہوترانے ڈاکٹر ثانی اثنین خاں کو دہلی ٹیلی فون کیا۔ انھوں نے بتایا کہ اِس کتاب کا اصل نام ’نحو البعث الإسلامی‘ ہے۔
اِس تجربے کے بعد میں نے کہا کہ استانبول اور دہلی کے درمیان تقریباً 5 ہزار کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ یہ جدید ٹکنالوجی کا کرشمہ ہے کہ اتنی دوری کے باوجود ایک لمحے میں دونوں کے درمیان گفتگو ہوگئی۔ میں نے کہا کہ اِس طرح کی بے شمار نعمتیں ہیں جو اللہ تعالی نے اِس دور میں ظاہر کی ہیں۔ مگر اِن نعمتوں پر خدا کا شکر کرنے والا کوئی انسان دکھائی نہیں دیتا، نہ مسلمانوں میں اور نہ دوسرے لوگوں میں۔ مسلمان اپنے قومی ذہن کی بنا پر حقیقی شکر سے محروم ہیں اور دوسرے لوگ اپنے تفریحی ذہن کی بناپر۔میں نے کہا اللہ کے عطیات پر آدمی اگر شکر کا رسپانس نہ دے سکے، تو وہ اِس آیت کا مصداق بن کر رہ جائے گا: یتمتعون ویأکلون کما تأکل الأنعام (12 :47)
3 مئی 2012 کو استانبول کے دوسرے تاریخی مقامات کو دیکھنے کا پروگرام تھا، مگر بعض وجوہ سے آج اس پروگرام کو ملتوی کردیاگیا۔ چناں چہ ہم لوگ ریستوراں سے روانہ ہو کر 5بجے شام کو ہوٹل آگئے۔راستےمیں گاڑی کے اندر میں نے اپنے ساتھیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 1924 میں جب ترکی میں عثمانی خلافت کا خاتمہ ہوا تو ساری دنیا کے مسلمانوں نے اس کو ’’اسلام دشمنوں کی سازش‘‘ کے معنی میں لیا، حالاں کہ وہ قانونِ فطرت کا ایک معاملہ تھا۔ وہ اِس بات کا اشارہ تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ مسلمان سیاسی رول کے بجائے دعوتی رول ادا کرنے کی تیاری کریں۔ مگر مسلمان، فطرت کے اِس اشارے کو سمجھ نہ سکے اور سارا وقت شکایت اور احتجاج میںضائع ہوگیا۔ جس طرح سورج کا نکلنا اِس بات کا اشارہ ہوتا ہے کہ لوگ نئے دن میں نیا کام کریں۔ اِسی طرح خلافت کے سیاسی ادارے کا خاتمہ اِس بات کا اشارہ تھا کہ مسلمان نئے مواقع کو سمجھیں اور دورِ جدید میں ان کو دعوت الی اللہ کے لیے استعمال کریں۔
ترکی میں ہم لوگوں کے لیے ہر قسم کی سہولتوں کا انتظام تھا، لیکن حقیقی سکون پھر بھی حاصل نہیں تھا۔ اِس پر بات کرتے ہوئے میرے ساتھی مولانا محمد ذکوان ندوی نے کہا کہ یہ تجربہ بتاتا ہے کہ — انسان غیرِ جنت کا تحمل بھی نہیں کرسکتا، پھر وہ جہنم کا تحمل کیسے کرسکے گا۔ یہ صورتِ حال بلاشبہہ ایک عظیم دعا کے لیے پوائنٹ آف ریفرنس (point of reference) کی حیثیت رکھتی ہے، اور وہ ہے— جنت کی دعا۔ مومن وہ ہے جس کو دنیا کا ہر خوش گوار تجربہ جنت کی یاد دلائے اور ہر ناخوش گوار تجربہ اس کے اندر جہنم سے پناہ مانگنے کا شدید جذبہ پیدا کردے۔
3 مئی 2012کو ہم لوگ واپس ہو کر اپنے ہوٹل پہنچے۔ یہاں ہم نے عصر کی نماز ادا کی۔ اس کے بعد ہم لوگ اپنے کمرے کے اُس حصے میں بیٹھ گئے جہاں سے باسفورس کا منظر نہایت صاف دکھائی دیتا تھا۔ اُس وقت میں نے گفتگو کے دوران اپنے ساتھیوں سے کچھ باتیں کہیں جس کو انھوں نے اُسی وقت ریکارڈ کرلیا۔ یہ باتیں زیادہ تر تذکیری اور دعوتی نوعیت کی تھیں۔
ایک بات میں نے یہ کہی کہ مجھے آج کی مسلم دنیا میں دو مقامات ایسے دکھائی دے رہے ہیں جہاں سے اسلام کے حق میں دو بڑے واقعات ہونے والے ہیں — ایک، کشمیر اور دوسرا، ترکی۔ کشمیرسے اسلام کے مذہب امن ہونے کا اعلان، اور ترکی سے اسلام کی عالمی اشاعت۔ آج اسلام کی سب سے بڑی ضرورت یہی ہے۔ موجودہ زمانے میں اسلام کی عمومی امیج (image)یہ بن گئی ہے کہ اسلام تشدد کا مذہب ہے۔ یہ میڈیا کا پروپیگنڈہ نہیں ہے، بلکہ خود مسلمانوں کی غلط روش کے نتیجے میں ایساہوا ہے۔ انھیں میں سے ایک کشمیر کے مسلمان ہیں۔کشمیر کے مسلمان نادان لیڈروں کے فریب میں آگئے اور انھوں نے اسلام کے نام پر کشمیر میں تشدد کلچر چلادیا۔ اب اگر کشمیر کے مسلمان کھلے طور پر اعلان کردیں کہ ہم کو گمراہ کیا گیا تھا۔ اسلام پورے معنوں میں امن کا مذہب ہے اور ہم نے اپنی سابق روش کو چھوڑ کر پرامن اسلام پر چلنے کا فیصلہ کیا ہے، تو اُن کا یہ اعلان بلاشبہہ اسلام کی امیج کو درست کردے گااور اس کے بعد کشمیر میں اسلامی دعوت کے نئے راستے کھل جائیں گے۔ اس موضوع پر حال میں میری ایک کتاب شائع ہوئی ہے۔ اردو میں اِس کا نام ’’صبحِ کشمیر‘‘ ہے اور انگریزی میں اس کا نام یہ ہے:
Dawn over Kashmir
دوسرا مقام ترکی ہے۔ ترکی میں میرے اندازے کے مطابق، وہ حالات پوری طرح تیار ہیں، جب کہ ترکی اسلامی دعوت کا عالمی مرکز بنے۔ اِس موضوع پر ان شاء اللہ، میری ایک مستقل کتاب چھپنے والی ہے۔ اس کا نام یہ ہوگا: Turkey Rediscovered
جب میں حضرت ابو ایوب انصاری کی قبر کے سامنے کھڑا تھا، اُس وقت مجھے یہ بتایا گیا کہ ترکی میں اور بھی بہت سے صحابہ کی قبریں ہیں۔ اُس وقت میرے دل کی عجیب کیفیت ہوئی۔ مجھے قرآن کی یہ آیت یاد آئی: لمثل ہذا، فلیعمل العاملون (61 :37)۔
میں نے کہا کہ خدایا، یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے اپنے عمل کے نتیجے میں جنت کا استحقاق حاصل کیا۔ میرے پاس تو کوئی عمل نہیں، پھر میرا کیا انجام ہوگا۔ اُ س وقت مجھے قرآن کی ایک اور آیت یاد آئی۔ اُس کے الفاظ یہ ہیں: وفی أموالہم حق للسائل والمحروم (19 : 51)۔ میں نے کہا کہ خدایا، تو نے بندوں کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ حق داروں کے علاوہ، سائل کو بھی اُن کا حصہ دیں۔ تیرا قانون یہ ہے کہ اس دنیا میں عمل کرنے والے کو بھی ملے اور سائل کو بھی ملے۔ میں تیری رحمت سے امید کرتا ہوں کہ تو میرے ساتھ یہی سلوک کرےگا۔ میں اپنے عمل کی بنیاد پر جس چیز کا مستحق نہیں ہوں، اس کو تو میرے سوال کی بنیاد پر مجھے دے دے گا۔
پھر میں نے کہا کہ قرآن کی مذکورہ آیت (لمثل ہذا، فلیعمل العاملون) میں غالباً یہ بات بھی شامل ہے کہ: لمثل ہذا، فلیسئل السائلون— جنت کا استحقاق صرف دو چیزوں سے ہوتا ہے، حقیقی عمل، یا حقیقی دعا۔ اِس کے سوا کوئی تیسری چیز آدمی کو جنت کا مستحق بنانے والی نہیں۔
میرا تجربہ ہے کہ پوری امت ایک غلطی میں مبتلا ہے۔ اور وہ جنت کا کم تر اندازہ کرنا۔ لوگ ایسی چیزو ں کو جنت کی قیمت سمجھے ہوئے ہیں جن کا جنت کے حصول سے کوئی تعلق نہیں۔ مثلاً صلوة التسبیح پڑھنے پر جنت، مسلم گھر میں پیدا ہونے پر جنت، کسی بزرگ کا دامن تھام لینے پر جنت، کسی درگاہ کے ’’دروازۂ جنت‘‘ سے گزر جانے پر جنت، کسی مقدس قبرستان میں دفن ہونے پر جنت۔ کلمہ گوئی پر جنت، مفروضہ دشمن کے خلاف لڑنے پر جنت، مسلمانوں کے قومی کلچر کو اختیار کرلینے پر جنت، وغیرہ۔ اِس ذہن کی ایک علامتی مثال ایک شاعر کا یہ شعر ہے:
نوکِ خامہ سے کھول لیں گے سہیل بابِ فردوس گر کھلا نہ ہوا
یہ محض ایک تخیلاتی شعر ہے، حصولِ جنت کے معاملے سے اِس کا کوئی تعلق نہیں — جنت کا دروازہ کسی انسان کے لیے اس کے ’’نوکِ خامہ‘‘ سے نہیں کھلے گا، بلکہ وہ صرف اللہ کی رحمت سے کھلے گا۔
3مئی 2012کی شام کا کھانا ہم لوگوں نے ہوٹل میں کھایا۔ کھانے کی میز پر ایک صاحب نے سوال کیا کہ عرب اسپرنگ (Arab Spring) کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے۔میں نے کہا کہ یہ اصطلاح خود عربوں نے نہیں بنائی ہے، بلکہ امریکیوں نے بنائی ہے۔ عرب لوگ اِس کو ’’نہضة إسلامیة‘‘ کہتے ہیں، یعنی اسلامی بیداری (Islamic resurgence) ۔مگر میں دونوں ہی کو خوش فہمی سمجھتا ہوں۔آج کل جو کچھ عرب ملکوں میں ہورہا ہے، وہ نہ عرب اسپرنگ ہے اورنہ اسلامک رسرجینس۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ صرف رد عمل کی ایک سیاست ہے۔ اور منفی رد عمل سے کبھی کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلتا۔ عرب ملکوں کا موجودہ ہنگامہ صرف ایک اینٹی اسٹیبلشمینٹ (anti-establishment) ہنگامہ ہے، وہ ہر گز کوئی پرواسلام (pro-Islam) تحریک نہیں۔
ایک مجلس میں گفتگو کرتے ہوئے میں نے کہا کہ موجودہ زمانے میں عرب ملکوں میں اسلام کے نام پر مختلف سرگرمیاں جاری ہیں، اِن سرگرمیوں کو ایک لفظ میں ’صحوة إسلامیة‘ کہا جاتا ہے، یعنی اسلامی بیداری۔ مگر میرے اندازےکے مطابق، یہ صحوة إسلامیة نہیں ہے، بلکہ وہ صحوة قومیة ہے۔ اِن سرگرمیوں کا حقیقی اسلام سے کوئی تعلقنہیں۔
میں نے کہا کہ موجودہ زمانے میں عام طورپر ایسا ہوگیا ہے کہ اسلام اور مسلمان کو ہم معنی الفاظ کے طورپر استعمال کیا جاتا ہے، حالاں کہ ایسا نہیں ہے۔ مسلمانوں کے لیے فرض کے درجے میں ضروری ہے کہ وہ اپنی قومی سرگرمیوں کو صرف قومی نام دیں، وہ ان کو اسلام کا نام نہ دیں۔ قومی سرگرمیوں کو اسلام کا نام دینے سے خدا کا دین بدنام ہوتا ہے اور خدا کے دین کو بدنام کرنا بلا شبہ ایک ناقابلِ معافی جرم ہے۔عجیب بات ہے کہ مسلمانوں کا یہ قومی مزاج بہت قدیم زمانے سے چلا آرہاہے۔ حافظ شیرازی چودھویں صدی عیسوی کے ایک ایرانی شاعر تھے۔ یہی شکایت انھوں نے اپنے زمانے کے لوگوں کے بارے میں اِن الفاظ میں کی تھی:
حافظا، مے خور ورندی کن وخوش باش ولے دامِ تزویر مکن چوں دگراں قرآن را
4 مئی 2012 کی صبح کو ہم لوگوں نے ہوٹل میں ناشتہ کیا۔ ناشتے کے بعد ہم لوگ ساڑھے نو بجے فاتح کالج کے لیے روانہ ہوئے۔ یہ بذریعہ کار 45 منٹ کا راستہ تھا۔
یہ کالج گولن تحریک کے تحت چلایا جارہا ہے۔ یہ کالج استانبول کے ایک کھلے ہوئے ایریا میں واقع ہے۔ اس کا کیمپس کافی بڑا ہے۔ یہ کالج جدید طرز کی 6 منزلہ عمارت پر مشتمل ہے۔ کالج کے تعارف نامے میں اس کی بابت یہ الفاظ درج تھے:
Fatih College — our school, which is the new campus of Fatih College, started in the 2010-2011 academic year and it has pre-school, primary school, Anatolian High Schools and Science High Schools within. Our school offers a wide range of educational facilities in areas such as social and sport development to the students in modern conditions with the latest technology.
کالج کی بلڈنگ کی آخری منزل پر ایک وسیع کانفرنس ہال بنایا گیاہے۔ یہاں کالج کی طرف سے ایک پروگرام ہوا۔یہاں کالج کے افراد کے علاوہ، کانفرنس میں آنے والے کچھ شرکا بھی موجود تھے۔ اِس مجلس کے آغاز میں کالج کے ڈائریکٹر مسٹر اوغورتمبول (Ugur Tombul)نے کالج کا مختصر تعارف پیش کیا۔ اِس ذیل میں انھوں نے مہمانوں کا استقبال کرتے ہوئے کہا کہ یہ کالج آپ کا کالج ہے۔ یہ شہر آپ کا شہر ہے۔ انھوں نے کہا کہ کالج کا مقصد ایسی نسل تیار کرنا ہے جو اسلامی معتقدات پر قائم ہو اور اِسی کے ساتھ وہ انسانیت کی خدمت کرنے والی ہو۔
کالج میں ابتداء ً مہمانوں کی تواضع کے لیے زمزم اور کھجور پیش کی گئی۔ اس کے بعد کچھ تازہ پھل دئے گئے۔ اس کو دیکھ کر ہمارے ایک ساتھی نے کہا کہ عام طور پر لوگوں کا یہ حال ہےکہ وہ آبِ زمزم کا ایک ایک قطرہ پی لیتے ہیں، جب کہ عام پانی کے معاملے میں وہ ایسا نہیں کرتے، حالاں کہ دونوں پانی یکساں طور پر اللہ کی عظیم نعمتیں ہیں۔
استاذ فتح اللہ گولن نے سب سے زیادہ زور تعلیم (education)پر دیا ہے۔ یہ بلاشبہہ صحیح اسٹارٹنگ پوائنٹ (right starting point)ہے۔ اِس کے حوالے سے میں نے ایک مجلس میں کہا کہ یہ بلاشبہہ اِس بات کا ثبوت ہے کہ استاذ فتح اللہ گولن کے اندر صحیح طرز فکر پایا جاتا ہے۔
یہاں سب سے پہلے مجھ کو بولنے کا موقع ملا۔ میں نے تعلیم کے موضوع پر انگریزی زبان میں 15منٹ کی ایک مختصر تقریر کی۔ اِس کا بر وقت عربی ترجمہ پروفیسر زبیر احمد فاروقی نے کیا۔ اِس کے بعد مجلس کے دوسرے شرکا نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
4 مئی 2012 کو جمعہ کا دن تھا۔ کالج کے پروگرام کے بعد ہم لوگ گولن تحریک کے تحت نکلنے والے اخبار زمن (Zaman) کے آفس میں گئے۔ ا س کا آفس جدید طرز کے ایک بڑے کامپلکس میں واقعہ ہے۔ یہ اخبار ترکی کا مشہور اخبار ہے۔ اس کا سرکولیشن ایک ملین ہے۔ زمن کے دفتر کی کئی منزلہ عمارت کی ایک منزل پر مسجد بنائی گئی ہے۔ یہ جدید طرز کی ایک کشادہ اور خوب صورت مسجد تھی۔ مسجد کے ایک حصے میں عورتوں کے لیے نماز کا انتظام تھا۔ یہاں نمازیوں کی تعداد کافی تھی، پوری مسجد بھری ہوئی تھی۔ یہ سب کے سب لوگ اخبار (زمن) کے اسٹاف کے لوگ تھے۔امام سے لے کر مقتدی تک سب کے سب کوٹ پتلون پہنے ہوئے تھے۔ترکی کے سفر سے پہلے ہم نے کتابوں میں پڑھا تھا کہ کمال اتاترک نے ترکوں کے لیے ہیٹ (hat) پہننے کو قانونی طورپر لازم قرار دے دیاتھا، مگر ہم کو اپنے سفر میں کوئی ترک ہیٹ پہنے ہوئے نظر نہیں آیا، نہ مسجد کے اندر، نہ مسجد کے باہر۔ ان کے سروں پر نہ ہیٹ ہوتا تھا اور نہ قدیم ترکی ٹوپی۔
اخبار زمن کے اِس کیمپس میں پرنٹنگ پریس بھی موجود ہے۔ یہاں سے اخبار کے علاوہ، استاد فتح اللہ گولن کی کتابیں انتہائی اعلی معیار پر چھپی ہیں۔ اس پبلشر کا نام یہ ہے: دار النیل للنشر۔
جمعہ کی نماز کے بعد زمن اخبار کے وسیع ہال میں دوپہر کا کھانا (lunch) کھایا گیا۔ کھانے کے دوران کانفرنس میں آنے والے مختلف شرکا سے ملاقات ہوئی۔ مثلاً مفتی مصر شیخ علی جمعہ، وغیرہ۔ مولانا محمد ذکوان ندوی نے ان کو میری کتاب ’الإسلام یتحدى‘ اور ’الدعوة إلى اللہ‘ کا ایک نسخہ پیش کیا۔ ’الاسلام یتحدى‘ کو دیکھ کر انھوں نے کہا کہ میں اِس کتاب کو 35سال پہلے پڑھ چکا ہوں۔ واضح ہو کہ ’الاسلام یتحدى‘ کا عربی ایڈیشن پہلی بار 1969 میں @کویت سے چھپا تھا۔ یہاں کئی عرب علما سے ملاقات ہوئی۔ اِن میں سے بعض لوگ یہ سمجھتے تھے کہ ’الاسلام یتحدى‘ کےبعد میری دوسری کوئی کتاب شائع نہیں ہوئی ہے۔ میرے ساتھی نے ان کو بتایا کہ ایسا نہیں ہے۔ ’الاسلام یتحدى‘ کے بعد میری دوسری کئی کتابیں مختلف زبانوں میں چھپ چکی ہیں۔ خاص طور پر میری تفسیر ’تذکیر القرآن‘ کا عربی ایڈیشن 3جلدوں میں مصر کے ادارہ دار الوفا (منصورہ) سے 2008میں چھپ گیا ہے۔
تذکیر القرآن کا یہ عربی ایڈیشن تین جلدوں پر مشتمل ہے۔ اِس ادارے نے راقم الحروف کی ایک اور کتاب ’’خاتونِ اسلام‘‘ کا عربی ترجمہ (المرأۃ بین شریعۃ الإسلام وحضارۃ الغرب) شائع کیا ہے۔ ادارے کا مکمل پتہ یہ ہے:
دار الوفاء للطباعۃ والنشر والتوزیع، جمہوریۃ مصر العربیۃ، المنصورۃ
ش- الإمام محمد عبدہ المواجہۃ لکلیۃ الآداب، ص ب: 230
Tel: +2050 22 56 230, Fax: +20502260 974
e.mail: darelwafa@hotmail.com
www.darelwafaa.com
دار الوفا (مصر) کا اپنا ویب سائٹ ہے۔ اِس ویب سائٹ پر تذکیر القرآن کے عربی ایڈیشن کا تعارف اِن الفاظ میں دیکھا جاسکتا ہے:
Ÿ إن الغرض الرئیسی من ہذا التفسیر بصفۃ خاصۃ، ہو (التذکیر بالقرآن) ومن حیث أن القرآن نفسہ إنما جاء من أجل تحقیق ہذہ الغایۃ، أی التذکیر و الموعظۃ، فإن الجانب الذی أولاہ المؤلف القسط الاوفر من إتمامہ، فی طرح مضامین ہذا التفسیر ہو أن یجد فی القاری منہلا فیاضا أومرتعا خصبا یضمن لہ اشباع حاجتہ إلی التذکیر والاعتبار والاتعاظ۔
Ÿ وحاول المؤلف اتباع اسلوب الفقرات فی طرح مضامین ہذا التفسیر أی أنہ عمد إلی فقرۃ من فقرات القرآن، ثم تناول ما یندرج تحتہا من فکرۃ أو توجیہ معنوی بالتفسیر والإیضاح کموضوع متسلسل، وذلک حرصا منہ علی ألاتنقطع من القاریٔ سلسلۃ المعانی والمفاہیم المطروحۃ خلال قراء تہ فی فقرۃ تفسیریۃ معینۃ، ولکی یتمکن من التزود المستمر المتواصل (بالغذاء التذکیری) للقرآن الکریم۔
Ÿ ولقد توخی المؤلف الشیخ وحید الدین خان فی إعداد (تذکیر القرآن) من الحکمۃ، ما جعل کل فقرۃ من فقراتہ، مستقلۃ بذاتہا، وذلک لاحتوائہا علی فکرۃ قرآنیۃ واضحۃ محدّدۃ، فسواء قرأ القاری صفحۃ واحدۃ من التفسیر، أم قرأ مجموعۃ کبیرۃ من الصفحات، فإنہ لا یکد ینتہی من قراء تہ إلا ویکون قد ظفر بنصیب من (الموعظۃ القرآنیۃ) علی أیۃ حال۔
= وقد توخی الایجاز إلی الحد الممکن، غیر عارض للتفاصیل المتصلۃ بالجانب اللغوی، أو الجانب الفقہی أو الجانب الکلامی، أو ما إلی ذلک من الجوانب والوجوہ الأخری للمدلول القرآنی، وإنما الشیٔ الذی جعلہ نصب عینیہ،ہو أن یتسم تفسیر القرآن بطابع من البساطۃ التی یتمیز بہا القرآن نفسہ، فإن القرآن، من جہۃ یعکس جلال اللہ وعظمتہ، ومن جہۃ أخری، ہو مراٰۃ تنعکس علیہ عبودیۃ الإنسان بجمیع نواحیہا، وہذہ ہی النقاط الجوہریۃ التی یتمحور حولہا ہذا التفسیر، ویحاول تجلیتہا بأسلوب موجز وبسیط، بعیدا عن التعقیدات الفنیۃ۔
تذکیر القرآن کا یہ عربی ترجمہ مولانا ابوصالح انیس لقمان ندوی نے کیا ہے۔ وہ مالے گاؤں (مہاراشٹر)میں 1965 میں پیدا ہوئے۔ اب وہ ابو ظبی (عرب امارات) میں رہتے ہیں۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کو عربی زبان سے عشق ہے۔ عربی کے علاوہ، وہ انگریزی زبان میں بھی لکھنے پڑھنے اور بولنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔
اِس عربی تفسیر کے کئی سیٹ گولن تحریک کے اداروں کی لائبریری کے لیے دئے گئے۔ نیز میری تین کتابوں کا ایک سیٹ استاذ فتح اللہ گولن کو میرے دستخط سے بھجوایا گیا— التذکیر القویم، الإسلام یتحدى، الدعوة إلى اللہ۔
ترکی کی جس کانفرنس کے لیے ہم لوگ آئے تھے، اس کا انعقاد ترکی کے ایک دوسرے سرحدی شہر غازی عین تیپ (Gazentep) میں کیاگیا تھا۔ استانبول میں ہمارا قیام پیشگی طورپر اِس لیے تھا کہ ہم اِس تاریخی شہر کو دیکھیں اور یہاں کے تعلیمی اور سماجی اداروں کا براہِ راست طورپر مشاہدہ کرسکیں۔ عام طورپر کانفرنس کے شرکا کو براہِ راست غازی عین تیپپہنچنا تھا۔ چناں چہ اخبار زمن کے آفس سے ہم لوگ سیدھے کمال اتاترک کے ڈومسٹک ائر پورٹ گئے۔ یہاں سے ائر پورٹ صرف 15 منٹ کے فاصلے پر تھا۔ائرپورٹ پر کافی بھیڑ نظر آئی۔ یہاں سیکورٹی کا انتظام سخت تھا۔ مختلف مراحل پر بار بار چیکنگ ہوتی رہی۔ تاہم یہ سب جدید طرز کے آلات کے ذریعے بہت منظم انداز میں ہورہا تھا۔ ایک ترک ساتھی نے اِس کو دیکھ کر کہا کہ ترکی میں امریکا سے زیادہ، لوگ امن کے بارے میں حساس واقع ہوئے ہیں۔
یہاں ہمارے ساتھیوں نے ائر پورٹ کے عملہ کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا۔ ہمارے ساتھ ترکی زبان میں چھپا ہوا ایک خوب صورت پمفلٹ تھا، وہ بھی یہاں لوگوں کو دیاگیا۔اس کا عنوان یہ تھا— اکیسویں صدی میں ترکی کا رول 21. Yüzyılda Tükiye’nin Rolü) (ائر پورٹ پر افریقہ سے آئے ہوئے کچھ علما سے ملاقات ہوئی۔ یہ انڈیا کے رہنے والے تھے، مگر وہ افریقہ (زامبیا) میں مقیم ہیں۔ ہمارے ساتھی نے ان کودعوتی پمفلٹ اور ’کتاب معرفت‘ دی۔ اس کو انھوں نے خوشی کے ساتھ لیا۔ ان میں سے کئی لوگوں نے بتایا کہ وہ ماہ نامہ الرسالہ کے مستقل قاری ہیں۔
ائر پورٹ کے مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے ہم لوگ جہاز میں داخل ہوئے۔ یہ ٹرکش ائرلائنز (TK-2224)کا نسبتاً ایک چھوٹا جہاز تھا۔ استانبول سے غازی عین تیپکا فاصلہ تقریباً ساڑھے آٹھ سو کلومیٹر (848.27) ہے۔ سوا گھنٹے کی پرواز کے بعد ہم لوگ غازی عین تیپکے ائرپورٹ پر اتر گئے۔ یہ ایک چھوٹا اور خوب صورت ائر پورٹ تھا۔ فضا میں بادل تھے اور ائر پورٹ کے چاروں طرف دور دور تک پہاڑیاں دکھائی دے رہی تھیں۔
ائر پورٹ سے بذیعہ کار ہم لوگ شہر کے لیے روانہ ہوئے۔ یہ راستہ تقریباً 45 منٹ میں طے ہوا۔ غازی عین تیپمیں ہمارا قیام یہاں کے مشہور ہوٹل توجان (Tugcan)میں تھا۔ لیکن پہلے ہم لوگ اوغورپلازا ہوٹل(Uğur Plaza) میں گئے۔ یہاں مغرب کی نماز کے بعد ڈنر (dinner) کا انتظام تھا۔ ڈنر کے بعد ہم لوگ توجان ہوٹل چلے گئے جہاں ہمارا قیام تھا۔ یہ ہوٹل بذریعہ کار یہاں سے 10 منٹ کے فاصلے پر تھا۔
یہ جدید طرز کا ایک ملٹی اسٹوری ہوٹل تھا۔ یہاں ہوٹل کے پانچویں فلور پر ہم کو ایک سویٹ (suite) میں ٹھہرایا گیا۔ ہمارے ساتھیوں کے قیام کے لیے اِس ہوٹل کے فرسٹ فلور پر ڈبل بیڈ کا ایک دوسرا روم دیاگیا تھا۔ ہوٹل میں ہر قسم کی راحت کا سامان موجود تھا، لیکن مجھے اِس قسم کے سامانوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ میں اپنے سادہ انداز میں ہوٹل میں رہا اور پھر واپس آگیا۔
5 مئی 2012 کو صبح کا ناشتہ اِسی ہوٹل میں تھا۔ کانفرنس کے تمام شرکا نے ایک بڑے ہال میں میزوں کے گرد بیٹھ کر ناشتہ کیا۔یہ پورا ہال کھانے کے مختلف آئٹم سے بھرا ہوا تھا، مگر میں نے اپنی عادت کے مطابق، ناشتے کے لیے صرف دو چیزیں لیں۔ شہد اور براؤن بریڈ۔
ناشتے کے بعد ہم لوگ شہر کے اُس مقام پر گئے جہاں کانفرنس کی کارروائی کا انتظام تھا۔ یہ جدید طرز کا ایک انتہائی وسیع ہال تھا۔ یہاں رسپشن کے پاس کئی بک اسٹال تھے۔ ہمارے ساتھی کئی کارٹن میں ہمارے یہاں کی چھپی ہوئی کتابیں لے گئے تھے۔ مثلاً قرآن کا انگریزی ترجمہ اور عربی اور انگریزی کی دوسری کتابیں۔ اِن میں ترکی زبان میں چھپا ہوا ایک پمفلٹ تھا جو اِسی موقع کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ یہ تمام مطبوعات رسپشن کاؤنٹر کے سامنے لگی ہوئی میزوں پر رکھ دی گئیں۔ کانفرنس کے شرکا اور مقامی لوگوں نے یہاں سے مفت کتابیں حاصل کیں۔ یہ کتابیں ہاٹ کیک کی طرح تھوڑی ہی دیر میں ختم ہوگئیں۔
5 مئی 2012 کی صبح کو 11 بجے کانفرنس کا آغاز یہاں کے ایک اجتماعی سنٹر (Sehit Kamil Culture and Congress Centre)میںہوا۔ سب سے پہلے ایک نوجوان ترک قاری نے قرآن کی تلاوت سے کانفرنس کا آغاز کیا۔ یہ تلاوت مصری لہجے میںتھی۔ انھوں نے تلاوت کے لیے سورہ احزاب کی آیات 21-27 اور 36-48 کا انتخاب کیا تھا۔
قرأت کے بعد کانفرس کے ناظم مسٹر کمال گولن (Kemal Gülen) نے کانفرنس کا اور اس کے پروگرام کا تعارف کرایا۔ ان کی تقریر ترکی زبان میں تھی۔ اِس کانفرنس کا اہتمام مجلہ ’حراء‘ کی طرف سے کیاگیا تھا۔ چناں چہ تعارفی تقریر کے بعد مجلہ ’حراء‘ کے ایڈیٹر مسٹر نوزاد صواش کی تقریر ہوئی۔ انھوں نے کانفرنس کے مقاصد کی مزید وضاحت کی۔
اِس کانفرنس میں مجھے افتتاحی تقریر (inaugural address) کا موقع دیاگیا۔ میں نے انگریزی میں 15 منٹ کی ایک تقریر کی۔ تقریر کا موضوع دعوت الی اللہ تھا۔ اُس وقت میں شدید کیفیت میں تھا۔ مجھے خود نہیں معلوم کہ میں نے کیا کہا، لیکن سننے والوں کا بیان ہے کہ تقریر کے دوران میں خود بھی روتا رہا اور سامعین بھی روتے رہے۔
تقریر کے بعد کئی لوگوں کے تبصرے سامنے آئے۔ کانفرنس کے کوآرڈینیٹر (co-ordinator)مسٹر کمال گولن نے اپنی تقریر کے دوران میرے بارے میں کہا کہ— اسٹیج پر ان کی موجودگی اپنے آپ میں ایک خاموش خطاب تھا۔ اُن کو دیکھ کر مجھے حضرت ابو ایوب انصاری یاد آگئے، کیوں کہ وہ جب ترکی آئے تھے تو وہ بھی اِسی طرح بوڑھے تھے، اُس وقت اُن کی عمر 80 سال ہوچکی تھی۔ اِسی طرح حراء میگزین کے ایڈیٹر مسٹر نوزاد صواش نے گفتگو کے دوران مجھ سے کہا کہ کانفرنس کو آپ ہی نے شروع کیا اور وہ آپ ہی پر ختم ہوگئی۔ انھوں نے کہا کہ کانفرنس میں آپ کا خطاب سننے کے بعد ہم نے سوچا کہ کانفرنس کو ختم کرکے اب ہم لوگ اپنے گھروں کو واپس چلے جائیں، کیوں کہ جو کچھ کہنا تھا وہ آپ نے کہہ دیا۔ اِسی طرح ایک ترک اسکالر نے کہا کہ:
You were the hero of this conference.
کانفرنس کے خاتمے پر ابھی میں اسٹیج ہی پر تھا کہ لوگ ہجوم کرکے میرے پاس آگئے۔ کوئی آٹوگراف لے رہا تھا، کوئی میرے ساتھ تصویر کھنچوارہا تھا، کوئی میری کتاب پر میرے دستخط لینا چاہتا تھا۔ یہ صورت حال دیر تک باقی رہی۔ ترکی کے ایجوکیشن منسٹر ڈاکٹر محمد گورمازبھی وہاں موجود تھے۔ وہ عربی بول رہے تھے۔
خطاب کے بعد وہ میرے پاس آئے اور انھوں نے کہا کہ آپ نے اپنی تقریر میں حضرت ابو ایوب انصاری کا جو حوالہ دیا، اس نے مجھ کو گہرے طور پر متاثر کیا ہے۔ انھو ں نے کہا کہ وہ میری عربی کتابیں پڑھ چکے ہیں— ترکی کے لوگوں نے جس اعلی اعتراف کا مظاہرہ کیا، وہ بلاشبہہ ان کے زندہ ہونے کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔
میرے ساتھی نے یاد دلایا کہ میں نے اپنی تقریر کے دوران کہا تھا کہ جب میں استانبول میں حضرت ابو ایوب انصاری کی قبر کے پاس کھڑا تھا تو وہاں مجھے ایک خاموش آواز سنائی دی۔ یہ آواز خاموش تھی، لیکن وہ بہت زیادہ واضح تھی۔ وہ آواز یہ تھی کہ اے امتِ محمد، تم کہاں ہو۔ ہم نے  ماقبل کمیونکیشن دور میں خدا کا پیغام یہاں تک پہنچایا تھا۔ اب تم اٹھو اور آگے بڑھ کر اِس پیغام کو مابعد کمیونکیشن دور کی مدد سے پوری دنیا میں پہنچا دو۔ ہم نے قدیم دنیا کے انسانوں تک خدا کا پیغام پہنچایا تھا، تم جدید دنیا کے انسانوں تک خدا کا پیغامِ رحمت پہنچا دو۔
کانفرنس ہال سے ہم لوگ نکلے تو یہاں استانبول کے ٹی وی چینل الترکیہ (TRT) کی ٹیم موجود تھی۔ اس ٹیم کے نمائندہ مسٹر جمیل جوموش تھے۔ انھوں نے میرا ایک ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ اُن کے سوالات میں سے ایک سوال یہ تھا کہ موجودہ زمانے کے مسلمان جن مسائل سے دوچار ہیں، ان کا حل کیا ہے۔ میں نے کہا کہ مسائل (problem)زندگی کا حصہ ہیں۔ اصل ضرورت یہ ہے کہ مسائل کو نظر انداز کیا جائے اور مواقع (opportunities) کو استعمال کیا جائے:
Ignore the problems, avail the opportunities.
مسٹر جمیل جوموش نے دورانِ گفتگو سوال کیا کہ کیا استاذ فتح اللہ گولن سے آپ کی ملاقات ہوئی ہے۔ میں نے کہا نہیں، البتہ میں نے ان کی بعض کتابیں دیکھی ہیں۔ میں ان کی قدر کرتاہوں۔وہ ایک مخلص اور تعمیر پسند لیڈر ہیں۔
کانفرنس مجموعی طورپر دو دن تک جاری رہی، لیکن میں اور میرے ساتھی اس کے صرف پہلے سیشن (افتتاحی اجلاس) میں شریک رہے۔ کانفرنس ہال سے نکلنے کے بعد ہم لوگوں کو اوغور پلازا ہوٹل لے جایاگیا جہاں دوپہر کے کھانے کا انتظام تھا۔
یہاں ہوٹل میں مختلف ملکوں کے کئی لوگوں سے ملاقات ہوئی۔ اُن میں سے ایک مسٹر احمد (Ahmet Alibasic) تھے۔ وہ بوسنیا سے اِس کانفرنس میں شرکت کے لیے آئے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ مجھ سے اچھی طرح واقف ہیں۔ وہ بہت پہلے سے میری کتابیں پڑھ رہے ہیں۔ انھوں نے انگریزی زبان میں چھپی ہوئی ایک کتاب دی۔ یہ کتاب 615 صفحات پر مشتمل ہے۔ اِس کتاب کو 5 مصنفین نے مشترک طورپر ایڈٹ کیا ہے۔ اِس کتاب کا نام یہ تھا:
Yearbook of Muslims in Europe, (Vol. 3, Brill, Leiden-2011)
پروفیسر احمد کتاب کے 5 ایڈیٹروں میں سے ایک ہیں۔ اُن کے بارے میں کتاب میں یہ الفاظ درج ہیں:
Ahmet Alibasic is a lecturer at the Faculty of Islamic Studies, University of Sarajevo, and Director of the Center for Advanced Studies in Sarajevo. He was educated in Kaula Lumpur (Islamic Studies, political sciences, and Islamic civilization). He also served as the first director of the Interreligious Institute in Sarajevo (2007-2008).
مسٹر احمد سے دعوت کے موضوع پر گفتگو ہوئی۔ میں نے کہا کہ بوسنیا میں اور یورپ کے دوسرے حصوں میں قرآن کا ترجمہ زیادہ سے زیادہ پھیلایا جائے۔ مسٹر احمد کو ہمارے یہاں کا چھپا ہوا انگریزی ترجمہ قرآن دیا گیا۔ اِس کو انھوں نے بہت پسند کیا۔ انھوں نے کہا کہ میں یہاں سے جانے کے بعد منظم طورپر اِس کے لیے کام کروں گا کہ یورپ میں اور خاص طورپر بوسنیا میں زیادہ سے زیادہ لوگوں تک اِس ترجمہ قرآن کو پہنچایا جائے۔
کھانے سے فارغ ہو کر ہم لوگ اپنے ہوٹل واپس آگئے۔ یہاں کچھ دیر قیام کرنے کے بعد ہم لوگوں کو دوبارہ اوغور پلازا ہوٹل لے جایاگیا ہے۔ یہاں مغرب کے بعد شام کا کھانا (dinner) تھا۔ اِس کے ساتھ یہاں کانفرنس کی ایک نشست بھی ہوئی۔ کھانے کے بعد کانفرنس کے مختلف شرکا نے مختصراً یہاں خطاب کیا۔ ان میں سے ایک تیونس کے ملیح المرعشی تھے۔ انھوں نے پر جوش انداز میں تقریر کرتے ہوئے کہا: نحن نرید أن نعید مجد الأمّة الإسلامیة فی العصر الحاضر (ہم چاہتے ہیں کہ موجودہ زمانے میں امتِ اسلامیہ کی عظمت کو ہم دوبارہ واپس لائیں)۔
یہی موجودہ زمانے میں تقریباً تمام مسلم رہنماؤں او ر دانش وروں کا ذہن ہے۔ وہ ملتِ مسلمہ کی ’’عظمتِ رفتہ‘‘ کو دوبارہ واپس لانے کی باتیں کرتے ہیں۔ اِس طرح کی باتیں سن کر میں سوچتا ہوں کہ وہ کون سی عظمت ہے جس کو یہ لوگ واپس لانا چاہتے ہیں۔ جہاں تک مادّی آسودگی اور دینی سرگرمیوں کی بات ہے، وہ بلا شبہہ مسلمانوں کو پچھلے ادوار کے مقابلے میں ہزار گنا زیادہ حاصل ہے۔ حتی کہ سیاست کے اعتبار سے بھی ایشیا اور افریقہ میں مسلمانوں کی 58 حکومتیں ہیں۔ دعوت کے مواقع بھی پچھلے ادوار کے مقابلے میں ہزاروں گنا زیادہ حاصل ہیں، پھر وہ کون سی عظمت ہے جس کے کھونےپر موجودہ زمانے کے مسلمان فریاد وماتم میں مبتلا ہیں۔ وہ صرف ایک ہے اور وہ نام نہاد پولٹکل ایمپائر ہے۔ پچھلے پولٹکل ایمپائر کے زمانے میں مسلمانوں کو جو کچھ حاصل تھا، اُس سے بھی بہت زیادہ آج مسلمانوں کو حاصل ہے۔ پھر یہ فریاد وماتم کس لیے۔ یہ صرف ابلیس کی تزئین ہے۔ ابلیس چاہتا ہے کہ وہ مسلمانوں کو شکر کے جذبات سے محروم کرکے اُنھیں ناشکری کے جذبات میں مبتلا کردے، تاکہ اُس کا وہ چیلنج پورا ہو جو اُس نے اِن الفاظ میں کیا تھا: ولا تجد أکثرہم شاکرین (7:17)۔
اِس سلسلے میں ایک صاحب سے بات کرتے ہوئے میں نے کہا کہ تاریخ کے بارے میں اسلامی نقطہ نظر اُس سے بالکل مختلف ہے جس میں آج کل کے تقریباً تمام مسلم مقررین اور محررین مبتلا ہیں۔اسلامی نقطہ نظر کے اعتبار سے، صحیح یہ ہے کہ تاریخ کو مواقع (opportunities) کے اعتبار سے دیکھا جائے، نہ کہ مسائل (problems) کے اعتبار سے۔ مسائل کو نظر انداز کرنا اور مواقع کو استعمال کرنا، یہی سنتِ رسول ہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ اِس اہم ترین سنتِ رسول کا شعور موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں مفقود ہوگیا ہے۔
ترکی کے وزیر تعلیم پروفیسر ڈاکٹر محمد گورماز (Dr. Mehmet Görmez) بھی اِس پروگرام میں شریک تھے۔ میں نے دیکھا کہ وہ ہم لوگوں کے ساتھ ایک عام آدمی کی طرح رہتے ہیں۔ لفٹ (lift)میں بھی وہ عام آدمی کی طرح آتے جاتے ہیں۔ اُن کے ساتھ کوئی سکیورٹی موجود نہیں۔ یہ سادگی ترکی کے سوا کسی بھی مسلم ملک میں موجود نہیں۔
یہ فرق کیوں ہے۔ اِس فرق کا سبب وہی بدنام آپریشن ہے جس کو کمال ازم (Kemalism) کہاجاتا ہے۔ کمال اتاترک (وفات: 1938 ( کی امیج (image)علما کے درمیان یہ ہے کہ وہ ایک اسلام دشمن انسان تھا، مگر ایسا نہیں ہے۔ اصل یہ ہے کہ کمال اتاترک نے فرسودہ مشرقی کلچر کے تحت پیدا شدہ جمود (stagnation)کو ختم کرکے اس کی جگہ وہ کلچر رائج کیا جو خود اس کی اپنی زبان میں ’’سائنٹفک کلچر‘‘ تھا۔ اِسی سائنٹفک کلچر کا یہ نتیجہ ہےکہ ترکی واحد ملک ہے جہاں مغرب کی ترقی یافتہ قوموں کی وہ خصوصیات پائی جاتی ہیں جس کے معترف خود ہمارے علما ہیں۔ مثلاً ڈسپلن، وقت کی پابندی، ورک کلچر، وغیرہ۔
ترکی کے اِس سفر کے دوران ایک عجیب تجربہ یہ ہوا کہ یہاں کمال اتاترک کی نہ کوئی تعریف کرنے والا ملا اور نہ تنقید کرنے والا۔ میں نے ایک تعلیم یافتہ ترک سے اتاترک کے بارے میںسوال کیا، مگر انھوں نے اِس موضوع پر کچھ زیادہ گفتگو نہیں کی۔ اگر یہی موجودہ ترکوں کا مزاج ہے تو وہ نہایت درست مزاج ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ ماضی کو بھلانا اور ساری توجہ حال پر مرتکز کردینا۔ یہ بلاشبہہ وہی مزاج ہے جس کو تعمیر پسندانہ مزاج کہا جاتا ہے۔
6 مئی 2012 کی صبح کو غازی عین تیپ سے استانبول کے لیے روانگی تھی۔ چناں چہ ناشتے کے بعد ہم لوگ ائر پورٹ کے لیے روانہ ہوگئے۔ ہوٹل سے ائر پورٹ تک کا سفر 45منٹ میں طے ہوا۔ راستے میں مختلف مقامات پر ہرے بھرے درختوں کی قطاریں دکھائی دیں۔یہ انجیر اور زیتون اور پِستہ (Pistachio)کے درخت تھے۔
علامہ بدر الدین العینی نویں صدی ہجری کے مشہور محدثین میں سے ہیں۔ ان کی پیدائش 762ہجری میں اسی شہر غازی عین تیپ میں ہوئی۔ بعد کو وہ قاہرہ (مصر) میں مقیم ہوگئے اور یہیں 855 ہجری میں ان کا انتقال ہوا۔ غازی عین تیپ کی نسبت سے ان کو ’’العینی‘‘ کہاجاتا ہے۔ علامہ العینی کی بہت سی کتابیں ہیں۔ ان میں سب سے مشہور کتاب بخاری کی شرح عمدة القاری فی شرح البخاری ہے جو 11 جلدوں میں چھپ کر شائع ہوگئی ہے۔
غازی عین تیپ سے صبح کو ساڑھے آٹھ بجے ٹرکش ائرلائنز کی فلائٹ نمبر 2221 کے ذریعے استانبول کے لیے روانگی ہوئی۔ ڈیڑھ گھنٹے کی پرواز کے بعد ہم لوگ استانبول کے ائر پورٹ پر پہنچ گئے۔ ائر پورٹ سے روانہ ہو کر ہم لوگ سب سے پہلے اناطولو ایجنسی (Anadolu Ajansi) گئے۔ یہ ایک سرکاری نیوز ایجنسی ہے۔ اس کو 92 سال پہلے کمال اتاترک نے 1920 میں قائم کیا تھا۔ اس کی بلڈنگ بہت بڑی اور نہایت منظم تھی۔ اس کا ہر حصہ نہایت صاف ستھرا تھا۔ انڈیا میں ورلڈ اسٹینڈرڈ (world standard) کی بات بہت کی جاتی ہے، لیکن عملاً یہاں کوئی بھی چیز ورلڈ اسٹینڈرڈ کے مطابق نہیں، لیکن ترکی میں ہر چیز ورلڈ اسٹینڈرڈ کے مطابق نظر آئی۔
اناطولو ایجنسی میں ایک پوری ٹیم نے میرا ویڈیوانٹرویو ریکارڈ کیا۔ یہ انٹرویو انگریزی زبان میں تھا۔ وہ ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہا۔انٹرویور مسٹر توران ترکی (Turan Kislakci)تھے۔ وہ اِس ایجنسی کے عربی نیوز شعبہ کے چیف ایڈیٹر ہیں۔ انھوں نے جو سوالات کئے، اُن سے اندازہ ہوتاتھا کہ وہ میری زندگی اور میرے مشن سے اچھی طرح واقف ہیں۔ انٹرویو کا موضوع اصلاً ’’اسلام اور ماڈرن تہذیب‘‘ تھا، لیکن سوالات کے اعتبار سے یہ ایک جامع انٹرویوتھا۔ سوالات کے دوران جو موضوعات زیر بحث آئے، اُن میں سے کچھ یہ تھے — اسلام اور عصرِ حاضر، سیکولرزم ، ڈیموکریسی، عرب اسپرنگ، اسلامی حکومت، شیعہ سنی اختلافات، تقسیمِ ہند، اسلام میں عورت کا مقام، دورِ جدید میں دعوت الی اللہ کے امکانات، وغیرہ۔
ایک سوال اتاترک کے کمال ازم (Kemalism) کے بارے میں تھا۔ میں نے کہا کہ اتاترک کا کیس اسلام دشمنی کا کیس نہیں تھا۔ اتاترک کا آپریشن دراصل جمود اور فرسودہ مسلم کلچر کے خلاف تھا جو آخری زمانے میں خلافت عثمانی کے زوال کے نتیجے میں پیدا ہوگیا تھا۔ میں نے کہا:
The case of Ataturk was not one of modernization of Islam, instead it was one of Islamization of Modernism.
ترکی کے جدید ڈیولپ مینٹ میں مصطفی کمال اتاترک (وفات: 1938 ) کا ابتدائی رول ہے۔ کمال اتاترک فطری طورپر ایک جرأت مند اور باعزم آدمی تھے۔ یہ کمال اتاترک ہی تھے جو ترکی میں ریڈیکل ریفارم (radical reform) لے آئے۔ مثلا رومن رسم الخط کو ترکی زبان کا رسم الخط بنانا، مغربی طرزِ تعلیم کو ترکی میں رائج کرنا، وغیرہ۔ اِن انقلابی تبدیلیوں کے پیچھے کمال اتاترک کا نظریہ کیا تھا، وہ اصولی طورپر اُن کے اِس مشہور قول میں ملتا ہے — سائنس انسانی زندگی کی سب سے زیادہ قابلِ اعتماد رہنما ہے:
Science is the most reliable guide in life (EB/2/257)
کمال اتاترک جو تبدیلیاں لائے، اُن کو مخالفِ اسلام (anti-Islam) کہنا درست نہ ہوگا۔ زیادہ صحیح طورپر اتاترک کا مشن مخالفِ جمود (anti-stagnation) مشن تھا۔
ترکی میں کمال اتاترک کی ریڈیکل کارروائیوں کے نتیجے میں بہت سی مثبت چیزیں پیدا ہوئیں۔ مثلاً طویل جمود کا ٹوٹنا، لوگوں میں اوپن نیس (openness)کا آنا، جدید تعلیم کا فروغ، مغربی کلچر سے ڈائنا مزم (dynamism) کا آنا،مثبت سیکولر قدروں (positive secular values) کو فروغ، جدید وسائل کو رواج دینا، ترکی زبان کے لیے رومن رسم الخط اختیار کرنے کی بنا پر کمپیوٹر کی تیز رفتار ترقی کا ممکن ہوجانا، عالمی انٹریکشن (global interaction) کا عمومی پھیلاؤ، حقیقت پسندانہ طرزِ فکر (realistic thinking) کا رواج، علاحدگی پسندی (separatism) کا خاتمہ، ہر شعبے میں جدید کاری (modernization) ، وغیرہ۔
مصطفی کمال اتاترک کوئی مذہبی انسان نہیں تھے، وہ صرف ایک سیکولر انسان تھے۔ مگر ترکی میں جو انقلابی تبدیلیاں ان کے ذریعے وجود میں آئیں، وہ باعتبار نتیجہ ایسی تھیں جن سے اسلامی دعوت کے نئے مواقع کھل گئے۔ یہ ایک حقیقت ہے جس کا انکار کرنا کسی کے لیے ممکن نہیں۔ مسٹر توران نے میرے جوابات سے اتفاق کیا۔
اناطولو ایجنسی کے پروگرام سے فارغ ہونے کے بعد ہم لوگ توپ کاپی پیلیس میوزیم دیکھنے کے لیے روانہ ہوئے۔ توپ کاپی پیلیس (Topkapi Palace)عثمانی خلفا کا محل تھا۔ اب اُس کو میوزیم بنا دیاگیا ہے۔ یہ میوزیم ایک بہت بڑے قلعہ کی صورت میں ہے۔ اس کے بہت سے حصے ہیں۔ اس کو چند گھنٹوں میں دیکھا نہیں جاسکتا۔ہم نے اس کے کچھ حصوں کو دیکھا۔ یہاں مسلم دورِ تاریخ کے نوادرات بہت کثرت سے موجود ہیں۔ یہ میوزیم اپنے بیش قیمت تاریخی نوادرات کی وجہ سے دنیا کے مشہور ترین میوزیم میں شمار ہوتا ہے۔
اِس میوزیم میں جو چیزیں رکھی گئی ہیں، ان میں سے چند چیزیں یہ تھیں —— رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب چیزیں۔ مثلاً آپ کا جبہ، آپ کی دو تلواریں، شاہِ مقوقس کے نام آپ کا مکتوب، وغیرہ۔ تاریخی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ چیزیں عباسی خلفا کے پاس موجود تھیں۔ چناں چہ 1517 میں مملوک سلطنت کو شکست دینے کے بعد جب عثمانی سلطان سلیم اول (وفات: 1520 ء) کو ’’خادم الحرمین الشریفین‘‘ کا لقب دیاگیا، اُس وقت مصر میں مقیم آخری عباسی خلیفہ المتوکل علی اللہ الثالث (وفات: 1543 ء) کی طرف سے سلطان سلیم کو ’’خلافت‘‘ کا منصب بھی عطا کردیاگیا۔ اِسی کے ساتھ المتوکل نے سلطان سلیم کو مذکورہ تاریخی چیزیں بھی سندِ خلافت کے طورپر دے دیں۔ اِس کے بعد سے عثمانی سلاطین کو ’’خلیفہ‘‘ کہاجانے لگا۔ اُس وقت سے یہ تاریخی چیزیں استانبول کے توپ کاپی پیلیس میں موجود ہیں۔ اِس کے علاوہ، اِس میوزیم میں عثمانی سلاطین کی بہت سی یادگاریں، لائبریری اور مختلف بادشاہوں کے شاہی تخت بھی پائے جاتے ہیں۔ مثلاً ایرانی بادشاہ اسماعیل صفوی کا تخت، وغیرہ۔
اس کے بعد ہم لوگ استانبول میں اپنے آخری پروگرام کے لیے روانہ ہوگئے۔ یہ مسٹر محمدامین ترکی (Mehmet Emin Baspehlivan) کی دعوت پر اُن کے گھر جانا تھا۔ مسٹر محمد امین پبلشر بھی ہیں اور اِسی کے ساتھ مصنف بھی۔ انھوں نے ہماری بعض کتابیں ترکی زبان میں شائع کی ہیں۔ ان کے ادارے کا نام یہ ہے: Excellence Publishing Ltd. STI
مسٹر محمد امین استانبول کی ایک پاش کالونی میں رہتے ہیں۔ یہ ایک نہایت صاف ستھری کالونی تھی، دہلی کی کسی پاش (posh) کالونی سے بہتر۔ یہاں ہم لوگوں نے دوپہر کا کھانا کھایا۔ اس کے بعد فیملی کی سطح پر گھر کے ایک ہال میں مختصر پروگرام ہوا۔ اِس پروگرام میں میں نے دعوت الی اللہ کی اہمیت کے بارے میں کچھ باتیں کہیں۔ آدھ گھنٹے کے خطاب کے بعد سوال وجواب کا پروگرام ہوا۔یہاں میں انگریزی میں گفتگو کررہا تھا۔ مسٹر علی اکیز ترکی زبان میں اس کا ترجمہ کررہے تھے۔
گھر کی ایک خاتون نے سوال کیا کہ آپ قرآن کے ترجمے کو لوگوں کے درمیان ڈسٹری بیوٹ (distribute)کرنے پر بہت زور دیتے ہیں۔ کیا صرف قرآن ڈسٹری بیوٹ کرنے سے دعوت کا حق ادا ہوجائے گا۔
اِس کے جواب میں میں نے کہا کہ ہاں، قرآن مکمل دعوت ہے۔ مزید وضاحت کرتے ہوئے میں نے کہا کہ دعوت کا مقصد کنورژن (conversion) نہیں ہے۔ دعوت کا مقصد انذار وتبشیر (19:97) ہے، یعنی خدائی ہدایت نامے کو لوگوں تک پہنچا دینا، اور قرآن پہنچانے کے بعد یہ کام بلاشبہہ اصولی طورپر انجام پا جاتا ہے۔ داعی کا کام خدا کے پیغام کو پُرامن انداز میں مدعو تک پہنچا دینا ہے۔ اِس کے بعد یہ مدعو کی ذمے داری ہے کہ وہ اس کے بارے میں کیا رسپانس دیتا ہے۔
مسٹر امین کا گھر بظاہر ایک ماڈرن گھر تھا، لیکن اُن کے مزاج میں سادگی اور دین داری تھی۔ ان کی بیوی اور ان کی والدہ دونوں حافظِ قرآن تھیں۔ انھوں نے قرآن کا ایک حصہ پڑھنے کی درخواست کی۔ چناں چہ ہمارے ساتھی مولانا محمد ذکوان ندوی نے قرآن کی سورہ الم نشرح (94)کی تلاوت کی۔ اس کے بعد میں نے اِس سورہ کی تشریح کی۔ میں نے ایک بات یہ کہی کہ اِس دنیا کا نظام اِس طرح بنایا گیاہے کہ یہاں عسر کے ساتھ یسر بھی لازماً موجود رہتا ہے۔
گھر کی ایک خاتون نے یہ سوال کیا کہ ڈفرنس کو مینج (manage) کرنے کا طریقہ کیا ہے۔ میں نے کہا کہ اس کا طریقہ صرف ایک ہے، وہ یہ کہ ڈفرنس کو فطرت کا ایک حصہ سمجھا جائے۔ ڈفرنس کو لے کر شدید طورپر حساس ہونے کے بجائے، اس کے بارے میں وہی طریقہ اختیار کیا جائے جس کو اِس مشہور مقولے میں بیان کیا گیا ہے: Take it easy ۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈفرنس کوئی مسئلہ نہیں، یہ لوگوں کی اپنی حساسیت ہے جس نے ڈفرنس کو غیر ضروری طورپر ایک مسئلہ بنا دیا ہے۔
مسٹر امین کے گھر سے اتاترک انٹرنیشنل ائرپورٹ کے لیے روانگی ہوئی۔ ائر پورٹ یہاں سے قریب تھا۔ ائر پورٹ پر چیکنگ معمول کے مطابق تھی۔ مسٹر علی اکیز بار بار منع کرنے کے باوجود ائرپورٹ کے اندر آخری گیٹ تک ہمارے ساتھ رہے اور ہر مرحلے میں ہماری مدد کرتے رہے۔ آج کا پورا دن ہمارے لیے ایک ہیکٹک دن (hectic day) تھا، لیکن مسٹر علی آخر تک نہایت خوش دلی کے ساتھ غازی عین تیپ سے استانبول ائر پورٹ تک کے تمام مراحل میں ہمارا ساتھ دیتے رہے۔
جدید ترکی میں یہ مزاج ہم نے ہر جگہ دیکھا۔ اِن لوگوں کے اندر وہ چیز عام طورپرپائی جاتی ہے جس کو ورک کلچر (work culture) کہاجاتا ہے۔ اِسی کے ساتھ اِن لوگوں میں شرافت اور فراخ دلی اور سادگی جیسے اخلاقی اوصاف عام طورپر دیکھنے میں آئے۔
واپسی کے سفر میں جہاز کے اندر کچھ چیزیں مطالعے کے لئے موجود تھیں۔ اُن میں سے ایک مشہور ترک اخبار زمن (Zaman) تھا۔ اس کا انگریزی ایڈیشن ٹوڈیز زمن (Today's Zaman) کے نام سے نکلتا ہے۔ اس کے شمارہ 6مئی 2012 میں ایک مضمون اِس عنوان کے تحت تھا:
Book Reading: Not Appropriate As A Punishment
مضمون نگار کا نام یہ تھا— Erol Yilmaz ۔ مضمون میں بتایا گیا تھا کہ ترکی کی عدالت نے پچھلے دس سال سے ایک نیا تجربہ شروع کیاہے، وہ ہے چھوٹے جرائم (minor crimes) پر مطالعہ کتب کی سزادینا۔ مضمون میں بتایا گیا تھا کہ اِس قسم کے بعض جرائم مثلاً عورتوں پر تشدد، وغیرہ پر یہ سزا دینا کہ وہ ایک مدت تک صرف کتابوں کا مطالعہ کریں، یعنی قید خانے کے بجائے، وہ دارالمطالعہ میں زندگی گزاریں:
So the punishment took place not in any sort of prison but rather in what is referred to in developed countries as "people's university", or the public library. (p. 4)
جہاز کے اندر رات کو حسب معمول نیند آگئی۔ فلائٹ نہایت ہموار (smooth) تھی۔ 7گھنٹے کا راستہ سوتے ہوئے گزر گیا۔ 7 مئی 2012 کی صبح کو ساڑھے چار بجے ہم لوگ دہلی کے اندرا گاندھی انٹرنیشنل ائرپورٹ پر پہنچ گئے۔
جب میں ائر پورٹ کے باہر اُس مقام پر پہنچا، جہاں مجھ کو نظام الدین جانے کے لئے کار پر بیٹھنا تھا، ہمارے ساتھ ائر پورٹ کا ایک ہندو کارکن تھا جو ہماری وھیل چیئر کو چلارہا تھا۔ ہمارے ایک ساتھی نے اس کو کچھ رقم دینا چاہا، مگر اس نے لینے سے انکار کردیا۔ اس نے کہا کہ مجھ کو تو آپ کا آشیرواد چاہئے۔ میں ایک ایگزام (امتحان) میں بیٹھنے والا ہوں۔ مجھے آشیرواد دیجئے کہ میں اپنے ایگزام میں پاس ہوجاؤں۔ میں نے نوجوان کے سر پر ہاتھ رکھ کر اس کے لیے دعا کی۔ ہمارے ساتھی نے اُس کو ہندی زبان میں چھپا ہوا ایک پمفلٹ دیا۔
دہلی کی سڑکوں سے گزرتے ہوئے سب سے پہلا جو تجربہ ہوا، وہ ہوائی کثافت (air pollution) کاتجربہ تھا۔ ترکی میں موسم نہایت خوش گوار تھا اور ہوائی کثافت بہت کم تھی، لیکن دہلی میں ہوائی کثافت اتنی زیادہ تھی کہ سانس لینا دشوار ہورہا تھا۔ اِس فر ق کو اگر بلین ٹائم بڑھا دیا جائے تو یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ آخرت کی جہنم کیا ہوگی اور آخرت کی جنت کیا۔
(یہ سفر نامہ مولانا محمد ذکوان ندوی کے تعاون سے تیار کیاگیا)
واپس اوپر جائیں

Wednesday, 1 August 2012

Al Risala | August 2012 (الرسالہ,اگست)

2

-روزے کا مقصد

3

- ایمان اور عمل

4

- ربوبیت کا نظام

9

- تمکین فی الارض

12

- قرآن کا تصورِ تاریخ — ایک جائزہ

32

- امتِ مسلمہ کو درپیش چیلنج

35

- ایک خطاب

38

- ایک خط

39

- شبِ قدر

42

- سوال وجواب

47

- خبرنامہ اسلامی مرکز — 217


روزے کا مقصد

روزے کا مقصد احساسِ شکر کو پیدا کرنا ہے۔ غذا آدمی کے لیے ایک عظیم نعمت ہے۔ غذا شکر کا بہت بڑا آ ئٹم ہے۔ روزے میںآدمی کو غذا سے وقتی طورپر روک کر شکر کی نفسیات کو جگایا جاتاہے، تاکہ اِس تجربے کی بنا پر آدمی دوسری نعمتوں کے بارے میں بھی شکر کرنے والا بنے۔ ایک مہینے کا روزہ آدمی کے اوپر اِس لیے فرض کیا گیا ہے، تاکہ وہ سال کے بقیہ دنوں میں بھی خدا کا شاکر بنا رہے۔
انسان کے اندر یہ کمزوری ہے کہ اس کی نفسیات میں کسی کیفیت کا تسلسل باقی نہیں رہتا۔ انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ ہمیشہ شکرِ خداوندی کی کیفیات میں زندگی گزارے۔ اِس لیے ہر سال کے ایک مہینے میں روزے کے ذریعے شکر کی کیفیت کو ری ایکٹویٹ (re-activate) کیا جاتا ہے، تاکہ آدمی کبھی شکر کی کیفیت سے خالی نہ ہونے پائے، وہ اِس دنیا میں رہتے ہوئے ہر تجربے کے بعد شکر کا رسپانس (response) دیتا رہے۔
دین کا خلاصہ اللہ سے تعلق ہے۔ اللہ سے تعلق قائم ہونے کے بعد انسان کے اندر اپنے مُنعم حقیقی کے لیے اعتراف (acknowledgement) کا جذبہ ابھرتا ہے۔ اِسی اعتراف کا شرعی نام شکر ہے۔ جہاں شکر نہ ہو، یقینی طور پر وہاں دین بھی نہ ہوگا۔
روزہ اصلاً ایک انفرادی عبادت ہے، لیکن اس کو ایک مخصوص مہینے میں مقرر کیاگیا ہے۔ اس کا مقصد انفرادی عمل میں اجتماعی پہلو کو شامل کرنا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ روزے کے مہینے میں ایک اجتماعی فضا پیدا ہو۔ ہرجگہ کے لوگ یکساں طورپر ایک ہی عبادت میں مشغول ہوں اور ہر جگہ کے لوگ ایک ہی عبادت کا چرچا کریں، ہرجگہ کے لوگ اپنے تجربات میں دوسروں کو شریک کریں۔ روزہ اگر حقیقی اسپرٹ کے ساتھ انجام دیا جائے تو اس کا انعام اتنا زیادہ بڑھ جاتا ہے کہ حدیث کے الفاظ میں، اس میں دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک اضافہ ہوجاتاہے۔ یہ اضافہ اس اعتبار سے ہوتا ہے کہ کس صائم کا روزہ کیفیت کے اعتبار سے کتنا زیادہ بڑھا ہوا ہے۔ عبادت کا اصول یہ ہے کہ — جتنی زیادہ کیفیت، اتنا زیادہ اجر۔
واپس اوپر جائیں

ایمان اور عمل

ایمان کے بارے میں علما کا یہ اتفاق ہے کہ ایمان دو چیزوں کا نام ہے — زبان سے اقرار کرنا، اور دل سے تصدیق کرنا (الإیمان: اقرار باللسان، وتصدیق بالقلب)۔ اِس مسئلے پر غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ قولی اقرار اور قلبی تصدیق، دونوں ایک دوسرے سے الگ نہیں ہیں۔قلبی تصدیق کے خارجی اظہار ہی کا دوسرا نام قولی اقرار ہے۔ اِس اعتبار سے، ترتیب میں قلبی تصدیق پہلے ہے اور قولی اقرار اس کے بعد۔یہ قلبی تصدیق کوئی سادہ بات نہیں۔ اِس قلبی تصدیق کے ساتھ معرفت جڑی ہوئی ہے۔ جب آدمی معرفت کے درجے میں اللہ کو دریافت کرتاہے تو ا س کے بعد ایسا ہوتا ہے کہ اس کا قلب اس کی تصدیق کرنے والا بن جاتاہے۔ اور جب قلب تصدیق کرتا ہے تو اس کے بعد لازماً یہ ہوتاہے کہ اس کی زبان پر کلمہ کے الفاظ جاری ہوجاتے ہیں۔
پھر یہ معرفت کوئی سادہ بات نہیں۔ اِس معرفت کا تعلق اللہ رب العالمین سے ہے۔ جو آدمی معرفت کے درجے میں اللہ کو دریافت کرے، اُس نے گویا کہ اپنے خالق کو دریافت کیا۔ اُس نے اُس برتر ہستی کو دریافت کیا جو اس کا مالک ہے، جو دینے والااور چھیننے والا ہے، جس کے سامنے آدمی اپنے تمام اعمال کے لیے جواب دہ (accountable) ہے، جو خالق ہونے کے علاوہ، آدمی کا محاسب اور مُجازی بھی ہے، جس کی گرفت سے انسان کسی حال میں بچ نہیں سکتا، جو دنیا اور آخرت کا واحد مالک ہے۔اِس حقیقت کو سامنے رکھئے تو یہ بات ایک غیر متعلق بات قرار پاتی ہے کہ عمل، ایمان کے اندر داخل ہے یا نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عمل، ایمان کا ایک لازمی حصہ ہے جس کو ایمان سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ جس آدمی کو معرفت والا ایمان حاصل ہو، اس کے لیے ایمان ایک انقلاب کے ہم معنی ہوگا، ایمان اس کی پوری زندگی کو بدل دے گا۔ اُس کی نیت، اس کی سوچ، اس کی گفتگو، اس کا سلوک، ردوقبول کے بارے میں اُس کا معیار، سب کچھ یکسر بدل جائے گا۔ ایسے آدمی کے لیے ایمان اور عمل دو چیز نہیں، ایسے آدمی کے لیے ایمان گویا کہ ایک بیج ہے اور عمل اُس بیج سے نکلاہوا درخت ۔
واپس اوپر جائیں

ربوبیت کا نظام

قرآن میں اللہ کو رب العالمین بتایا گیاہے۔ رب یا ربوبیت کا مطلب ہے: إنشاء الشیٔ حالا فحالا إلی حدّ التمام (المفردات للراغب) یعنی کسی چیز کی پرورش کرکے اس کو درجہ بدرجہ کمال تک پہنچانا۔ قرآن میں رب کا لفظ اللہ تعالیٰ کے نظامِ ربوبیت کو بتاتاہے، اُس کا کوئی تعلق انسان کے قائم کردہ نظام سے نہیں ہے۔
قرآن کی سورہ المومنون کی چند آیتیں یہ ہیں: ولقد خلقنا الإنسان من سُلالۃ من طین۔ ثم جعلناہ نطفۃً فی قرار مکین۔ ثم خلقنا النطفۃ علقۃ فخلقنا العلقۃ مضغۃً فخلقنا المضغۃ عظاماً فکسونا العظام لحماً، ثم أنشأناہ خلقاً آخر، فتبارک اللہ أحسن الخالقین(23: 12-14) ۔ یعنی ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصے سے پیدا کیا۔ پھر ہم نے پانی کی ایک بوند کی شکل میں اس کو ایک محفوظ ٹھکانے میں رکھا۔ پھر ہم نے پانی کی بوند کو ایک جنین کی شکل دی۔ پھر جنین کو ہم نے گوشت کا ایک لوتھڑا بنایا۔ پھر ہم نے لوتھڑے کے اندر ہڈیاں پیدا کیں۔ پھر ہڈیوں پر ہم نے گوشت چڑھا دیا۔ پھر ہم نے اس کو ایک نئی صورت میں بنا کرکھڑا کیا۔ پس بڑا ہی بابرکت ہے اللہ، بہترین پیدا کرنے والا۔
قرآن کی اِن آیتوں میں ربوبیت کی وہ مثال بتائی گئی ہے جو اللہ تعالیٰ نے براہِ راست طورپرخود تخلیق کے عمل میں شامل کردی ہے۔ اِس ربوبیت کے ظہور میںانسان کا کوئی حصہ نہیں۔ اِس طرح کی تخلیقی ربوبیت کا معاملہ پوری کائنات میں جاری ہے۔ اِس ربوبیت کا تعلق انسان کے وجود سے بھی ہے اور دوسری اشیا کے وجود سے بھی۔
ربوبیت الٰہی کی دوسری قسم وہ ہے جو فطرت کے قانون کے تحت اپنے آپ ظہور میں نہیں آتی، بلکہ اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ مختلف صورتوں میں انسان کو توفیق دیتاہے اور اللہ کی توفیق سے انسان اس میں اپنا حصہ ادا کرتاہے۔ اِس معاملے کو دوسرے الفاظ میں اِس طرح بیان کرسکتے ہیں کہ فطرت میں اللہ تعالیٰ نے بہت سی چیزیں بطور امکان رکھی ہیں۔ آدمی اللہ کی توفیق سے، اِن امکانات (potentials) کو واقعہ (actual) بناتاہے۔
تہذیب (civilization) کاارتقا اِسی دوسری ربوبیت سے تعلق رکھتا ہے۔ تہذیب کے تمام اجزا امکان کی صورت میں فطرت میں موجود تھے۔ اللہ کی توفیق سے انسان نے اِن امکانات کو واقعہ بنایا۔ اِس طرح ایک تدریجی عمل (gradual process) کے ذریعے موجودہ تہذیب وجود میں آئی۔
مثلاً انسان کی ایک ضرورت اپنے وجود کی توسیع ہے۔ اِسی توسیع کا ایک ذریعہ وہ ہے جس کو سفر کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ابتدا میں یہ کیا کہ اس نے انسان کو دو پاؤں دئے جس کے ذریعے وہ ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچ سکے۔ پھر جنگل میں اونٹ اور گھوڑے اور خچر جیسے حیوانات پیدا کئے جن کو پکڑ کر انسان سدھائے اور پھر اُن کو اپنی سواری (vehicle) کے طورپر استعمال کرے۔ اِس طرح، اللہ کی توفیق سے انسان نے کشتی بنائی اور اِس طرح وہ پانی کو اپنی گزر گاہ کے طورپر استعمال کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ پھر انسان نے اللہ کی توفیق سے پہیہ (wheel) بنایا۔ اِس سے انسان کے لیے بری سفر کا نیا دور شروع ہوگیا۔ اِس کے بعد اللہ کی توفیق سے انسان نے فطرت کی کچھ اور طاقتیں دریافت کیں جس سے تیز رفتار مشینی سواریاں وجود میں آئیں۔ مثلاً ریل اور کار اور ہوائی جہاز، وغیرہ۔
سفر کے تیز رفتار ذرائع اور دوسری ترقیاتی چیزیں، جن کا تعلق تہذیب سے ہے، وہ سب اللہ تعالیٰ کی توفیق سے انسان کو حاصل ہوئیں۔ اِس اعتبار سے، تہذیب کا پورا معاملہ الٰہی ربوبیت کا ایک حصہ ہے۔ تہذیب کا ارتقابظاہرانسان کے ذریعے ہوا، مگراپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ تمام تر اللہ کی توفیق سے انجام پایا۔ اللہ کی خصوصی توفیق کے بغیر انسان، فطرت کی اُن دریافتوں تک نہیں پہنچ سکتا تھا جن کے نتیجے میں تہذیب کا واقعہ ظہور میں آیا۔
انسان اور نظامِ ربوبیت
انسان ایک مکمل وجود ہے، مگر اِسی کے ساتھ وہ مکمل طورپر ایک غیر مکتفی وجود ہے۔ انسان کو اپنے وجود کی تکمیل کے لیے ہر لمحہ ایک مددگار نظام درکار ہے۔ اِس نظام کے بغیر وہ اپنے وجود کو باقی نہیں رکھ سکتا۔ اِسی مددگار نظام کا نام نظامِ ربوبیت ہے، یعنی رب العالمین کا قائم کردہ نظام۔
انسان کے اندر نظامِ ہضم ہے، مگر غذائی اشیا کی سپلائی باہر سے ہوتی ہے۔ انسان کے اندر نظامِ تنفس ہے، مگر آکسیجن اس کو خدا کے کارخانے سے ملتا ہے۔ انسان کے پاس نظامِ بصارت ہے، مگر وہ روشنی خداکی طرف سے آتی ہے جس کے بغیر وہ دیکھ نہیں سکتا۔ انسان کے پاس نظامِ سماعت ہے، مگر اُس ہوا کو چلانے والا خدا ہے جس کے بغیر انسان سن نہیں سکتا، وغیرہ۔انسانی وجود کے اندر اِس قسم کے بہت سے نظام ہیں، مگر ہر نظام اپنی کارکردگی کے لیے خارجی مدد کا محتاج ہے۔ یہ مختلف قسم کے خارجی نظام جس پر انسان کی زندگی کا انحصار ہے، اس کو لائف سپورٹ سسٹم (life support system) کہا جاتاہے۔ یہ لائف سپورٹ سسٹم نہ ہو تو انسان کا پورا وجود بے معنی ہوجائے گا۔
مچھلی پانی کے باہر مسلسل تڑپتی رہتی ہے۔ ایسا اس لیے ہوتاہے کہ اس کو زندہ رہنے کے لیے آکسیجن کی ضرورت ہے اور مچھلی صرف پانی سے آکسیجن لے سکتی ہے۔ مچھلی کی یہ مثال ہر آدمی کے لیے بہت زیادہ سبق آموز ہے۔ ہر وقت انسان کو سوچنا چاہئے کہ خدا اگر لائف سپورٹ سسٹم یا بالفاظ دیگر اپنے نظامِ ربوبیت کو واپس لے لے تو میراکیا حال ہوگا۔ یہ سوچ اگر آدمی کے اندر حقیقی طورپر پیدا ہوجائے تو یہی ایک بات اس کے اندر تمام اعلیٰ قدروں (values) کو پیدا کرنے کا ذریعہ بن جائے گی۔ مثلاً تواضع (modesty) ، شکر، عفو ودرگزر، خیر خواہی، انصاف، وغیرہ۔
شکر کے دو درجے
اِس دنیا میں انسان کو اپنے وجود سے لے کر لائف سپورٹ سسٹم (life support system) تک جو چیزیں ملی ہیں، وہ سب کا سب اللہ کا عطیہ ہیں۔ انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے پورے دل وجان کے ساتھ اِن انعامات کے منعم (giver) کا اعتراف کرے۔ خدا کے اِسی اعتراف کا مذہبی نام ’شکر‘ ہے۔اِس شکر یا اعتراف کے دو درجے ہیں — ایک ہے، نارمل اعتراف (normal acknowledgement)، اور دوسرا ہے، تخلیقی اعتراف (creative acknowledgement) ۔ نارمل شکر کی مثال یہ ہے کہ آپ کو پیاس لگی۔ آپ نے گلاس میں پانی لے کر اس کو پیا۔ اِس سے آپ کو سیرابی حاصل ہوئی اور پھر آپ نے کہا کہ خدایا، تیرا شکر ہے کہ تو نے مجھ کو پانی دیا جس سے میں اپنی پیاس بجھاؤں۔
تخلیقی شکر کی مثال یہ ہے کہ آپ نے جب پانی پیا تو آپ کو پانی کی وہ پوری تاریخ یاد آگئی جو جدید سائنس نے دریافت کی ہے، یعنی تقریباً 15 بلین سال پہلے وسیع خلا میں بے شمار ستارے (stars) وجود میں آئے۔ پھر ایک عرصے کے بعد لٹل بینگ (little bang) ہوا، جس سے موجودہ نظامِ شمسی وجود میں آیا۔ اِس کے بعد زمین کی سطح پر بہت بڑی مقدار میں ہائڈروجن گیس اور آکسیجن گیس کے بادل چھاگئے، پھر دو گیسوں کے ملنے سے وہ استثنائی چیز وجود میں آئی جس کو ’’پانی‘‘ کہاجاتا ہے۔ پھر یہ پانی سمندروں میں کھاری پانی کی حیثیت سے جمع ہوگیا، پھر بارش کے نظام کے تحت، اِس کھاری پانی کا ازالۂ نمک (desalination) ہوا۔ اِس طرح ہمیں وہ میٹھا پانی حاصل ہوا جس سے ہم اپنی پیاس بجھائیں اور دوسرے کام کریں۔ مثلاً زراعت، وغیرہ۔
پانی کے معاملے میں پہلی صورت نارمل شکر کی ہے اور دوسری صورت تخلیقی شکر کی۔ دوسرے الفاظ میں، پہلا شکر اگر صرف شکر ہے تو دوسرا شکر برتر شکر— شکر اور برتر شکر کا یہی معاملہ دوسری تمام چیزوں کے بارے میں پیش آتا ہے۔
اِسی طرح اِس معاملے کی ایک مثال خون (blood) ہے۔ انسان جو غذا اپنے جسم میں داخل کرتا ہے، وہ ایک پیچیدہ نظام کے تحت خون میں تبدیل ہوتی ہے، پھر یہ خون ایک اور پیچیدہ نظام کے تحت سارے جسم میں رگوں کے ذریعے مسلسل دوڑتا ہے۔ یہ بلاشبہہ ربوبیت کے نظام کی ایک اعلی مثال ہے۔ خون کا بننا، خون کا مسلسل گردش کرنا اور خون کی صفائی کا انتظام، وغیرہ۔ یہ سب چیزیں انسان کو خدا کی نعمتیں یاد دلاتی ہیںاور وہ اللہ کے لیے سراپا شکر میں ڈھل جاتا ہے۔
قدیم زمانے میں خون کا تصور صرف یہ تھا کہ وہ ایک سرخ سیال ہے جو جسم کی طاقت بن کر جسم کے اندر گردش کرتا رہتا ہے۔ پھر یہ دریافت ہوئی کہ خون دو قسم کے ذرات سے مل کر بنتا ہے— سرخ ذرات (red blood corpuscles)، اور سفید ذرات (white blood corpuscles) ۔ اب یہ دریافت ہوئی ہے کہ خون میں اِس کے سوا، ایک اور خورد بینی ذرہ ہوتاہے۔ اس کو پلیٹ لیٹس (platelets) کانام دیاگیاہے۔ یہ تیسرا ذرہ انسان کی زندگی اور صحت کے لیے بے حد اہم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خون ہراعتبار سے، اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے۔ اِس نعمت کا احساس آدمی کے اندر شکر وحمد کے چشمے جاری کردیتا ہے۔
اِس قسم کے بے شمار انتظامات ہیں جن کے اوپر انسان کی زندگی قائم ہے۔ یہ نظام براہِ راست خدا کی قدرت کے تحت قائم ہے اور اِسی کو قرآن میں ربوبیت کہاگیاہے۔ یہ نظامِ ربوبیت تمام تر اللہ کی جانب سے قائم ہے۔ انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ ربوبیت کے اِس نظام سے واقفیت حاصل کرے اور پورے معنوںمیں اللہ کا شاکر بندہ بن کر اِس دنیا میں رہے۔
قرآن میں بتایا گیاہے کہ رب صرف اللہ ہے اور اُسی کی ربوبیت اِس دنیا میں قائم ہے۔اِسی طرح فرمایا کہ حکم صرف اللہ کا ہے اور تمام چیزیں اُسی کے زیر حکم ہیں۔ یہ دونوں الفاظ (رب اور حکم) اللہ کی ذات کی نسبت سے قرآن میںآئے ہیں، اس کا کچھ بھی تعلق سیاسیات یا معاشیات سے نہیں ہے۔مگر موجودہ زمانے میں کچھ لوگوں نے یہ کیا کہ انھوں نے مذکورہ الفاظ قرآن سے لئے اور اس کے اندر اپنے خود ساختہ مفہوم کو شامل کردیا۔ یہ گویا کہ ’رب‘ اور’ حکم‘ کے لفظ کو سیاسی بنانا (politicisation) تھا۔ قرآنی الفاظ میں اِس قسم کا خود ساختہ مفہوم شامل کرکے انھوںنے یہ اعلان کیا کہ مسلمان کا یہ مشن ہے کہ وہ دنیا میں نظامِ ربوبیت یا نظامِ حاکمیت قائم کرے۔ یہ بلا شبہہ ایک غیرعلمی بات ہے۔ اس کی غلطی اتنی زیادہ واضح ہے کہ وہ بداہۃً ہی قابلِ رد ہے۔
واپس اوپر جائیں

تمکین فی الارض

قرآن کی سورہ النور کی ایک آیت میں ایک اہم تاریخی اصول بتایا گیا ہے۔ اِس آیت کا ترجمہ یہ ہے: ’’اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے اُن لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور عمل صالح کریں کہ اللہ اُن کو زمین میں استخلاف عطا کرے گا، جیسا کہ اُس نے اُن سے پہلے لوگوں کو استخلاف عطا کیا تھا۔ اور ان کے لیے اُن کے اُس دین کو تمکین عطا کرے گا جس دین کو اللہ نے اُن کے لیے پسند کیا ہے۔ اور اُن کی خوف کی حالت کے بعد اُس کو امن سے بدل دے گا۔ وہ صرف میری عبادت کریں گے اور کسی چیز کو وہ میرا شریک نہ بنائیں گے۔ اور جو اس کے بعد انکار کرے تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں‘‘۔(55: 24)
قرآن کی اِس آیت میں ’’تمکین‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ تمکین کا مطلب قدرت دینا (strengthening) ہے۔ اِس قدرت یا تمکین سے کیا مراد ہے،اُس کا ذکر خود قرآن کی مذکورہ آیت میں موجود ہے۔ آیت کے مطابق، وہ قدرت یا تمکین یہ ہے کہ دین کے معاملے میں خوف کی حالت ختم ہوجائے اور امن کی حالت قائم ہوجائے۔ اہلِ ایمان کو یہ موقع مل جائے کہ وہ شرک سے محفوظ ہو کر اللہ کی مطلوب عبادت کرسکیں۔ ’استخلاف فی الارض‘ سے مراد اِسی قسم کی تمکین ہے۔ اِس آیت میں استخلاف یا تمکین سے مراد کسی قسم کا قومی غلبہ یا سیاسی اقتدار نہیں ہے، بلکہ اُس سے مرادوہ موقع ہے جب کہ ایک مومن کو آزادانہ طور پر عابدانہ زندگی گزارنا ممکن ہوجائے۔
اللہ تعالیٰ کے تخلیقی منصوبے کے مطابق، اِس دنیا میں انسان کو کامل آزادی حاصل ہے۔ اِس آزادی کی بناپر یہ ممکن نہیں ہے کہ اجتماع کی سطح پر کوئی کامل نظام قائم ہوجائے۔اِس لیے نظام یا سیاسی اقتدار کے معاملے میں اللہ تعالیٰ نے یہ اصول رکھا ہے کہ حالات کے تحت کبھی ایک گروہ کو سیاسی اقتدار ملے اور کبھی دوسرے گروہ کو۔ اِس حقیقت کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: تلک الأیام نداولہا بین الناس (3: 140)
اللہ کی یہ سنت مجموعی نظام یا سیاسی اقتدار کے بارے میں ہے، مگر جہاں تک افراد کا تعلق ہے، اُن کے بارے میں یہ مطلوب ہے کہ ان کو ہر حال میں یہ موقع حاصل رہے کہ وہ خدائے واحد کی آزادانہ عبادت کریں اور پُرامن دعوت الی اللہ کو کسی رکاوٹ کے بغیر ہر حال میں جاری رکھ سکیں۔ اِس لیے اللہ نے اِس سلسلے میں یہ اصول اختیار کیا ہے کہ وہ سیاسی اقتدار کے معاملے میں قوموں کو ایک حد تک آزادی دئے ہوئے ہے، لیکن اللہ نے کسی کو یہ حق نہیں دیا کہ وہ عبادت اور دعوت الی اللہ کے کام میں غیر ضروری رکاوٹ پیدا کرے۔ جب بھی کو ئی گروہ اِس قسم کی غیر ضروری رکاوٹ ڈالتاہے تو اللہ تعالیٰ تاریخ میں مداخلت کرکے اِس غیر ضروری رکاوٹ کو ختم کردیتاہے، تاکہ آزادانہ عبادت اور پُرامن دعوت کا کام کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رہے۔
ساتویں صدی عیسوی میں فتنہ (جارحانہ شرک) کو ختم کرنے کے لیے اصحابِ رسول کو قتال کا حکم دینا اِسی مصلحت کے تحت تھا (39: 8)۔ بیسویں صدی عیسوی میں یہی کام ایک اور صورت میں انجام پایا ہے۔ سوویت یونین (کمیونسٹ جبر) دوبارہ دعوت اور عبادت کے معاملے میں اِسی قسم کی ایک رکاوٹ بن گیا تھا، اللہ نے اس کو امریکا کے ذریعے 1991 میں توڑ دیا۔
استخلاف یا تمکین کا مطلب حکومت الٰہیہ کا قیام نہیں ہے۔ استخلاف کا تعلق دراصل خدا کی سنتِ امتحان سے ہے۔ اِس سنتِ امتحان کا ایک پہلو وہ ہے جو فرد سے متعلق ہے، دوسرا وہ ہے جو قوم سے متعلق ہے۔ جس طرح افراد کو اُن کے انفرادی دائرے میں کوئی چیز دے کر اُنھیں جانچا جاتاہے، اُسی طرح قوموں کو باری باری اقتدار دیا جاتا ہے، تاکہ اُنھیں جانچا جائے(165: 6)
استخلاف بمعنی زمینی اقتدار کا تعلق اگر لازماً ایمان اور عملِ صالح سے ہو، تو تمام نبیوں کو زمینی اقتدار حاصل ہونا چاہئے تھا، جب کہ معلوم ہے کہ پچھلے نبیوں میں سے صرف دو نبیوں کو زمینی اقتدار ملا، یعنی حضرت داؤد اور حضرت سلیمان۔
اِسی طرح تمکین سے مراد تمکینِ سیاسی نہیں ہے، بلکہ تمکینِ دینی ہے، یعنی فرد کی نسبت سے دینی ذمے داری ادا کرنے کے لیے جو مواقع درکار ہیں، اُن مواقع کی پوری آزادی۔ فرد کی دینی ذمے داری بنیادی طورپر دو چیزیں ہیں—آزادانہ عبادت، پُرامن دعوت۔ سیاسی اقتدار کے محدود دائرہ میں اگر کوئی غیر مسلم حکمراں ہو، لیکن پُرامن دعوت اور آزادانہ عبادت کے معاملے میں اہلِ ایمان کو پورے مواقع حاصل ہوں تو کہا جائے گا کہ ایسے مقام پر اہلِ ایمان کو تمکین حاصل ہے— موجودہ زمانے میں تمام جمہوری ملکوں میں اہلِ ایمان کو پوری طرح یہ مواقع حاصل ہیں۔ اِس لیے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ موجودہ زمانے کے جمہوری ملکوں میں وہ چیز عملاً حاصل ہے جس کو قرآن میں ’تمکین فی الارض‘ کہا گیا ہے۔
قرآن میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف کو مصرمیں تمکین (12: 21) عطا کی۔ یہ تمکین واضح طورپر غیر سیاسی تھی۔ خود قرآن سے یہ ثابت ہے کہ مصر میں حضرت یوسف کا معاصر غیر مسلم حکمراں بدستور تختِ اقتدار پر تھا اور ملک میں اُسی کا شاہی قانون (76: 12)رائج تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاسی اقتدار کا تعلق صرف انتظامِ ملکی سے ہے، اُس کا براہِ راست طورپر نجاتِ آخرت سے کوئی تعلق نہیں۔
واپس اوپر جائیں

قرآن کا تصورِ تاریخ — ایک جائزہ

انسائکلوپیڈیا برٹینکا میں حسب ذیل عنوان کے تحت ایک مقالہ چھپا ہے: (Historiography and Historical Methodology) اِس مقالے میں ایک ذیلی عنوان (Muslim Historiography) قائم کیا گیاہے۔اِس کے تحت مقالہ نگار نے لکھا ہے کہ — محمد نے اسلام کو ایک ایسے مذہب کی حیثیت سے پیش کیا جس میں تاریخ کا طاقت ور تصور موجود تھا۔ اسلام کی مقدس کتاب قرآن انتباہات سے بھرا ہوا ہے جو کہ تاریخ کے اسباق سے ماخوذ ہے:
Muhammad made Islam a religion with a strong sense of history. The Quran, Islam’s holy book, is full of warnings derived from the lessons of history. (EB. 8/959, 1974)
یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ اِس سے قرآن کا تصورِ تاریخ معلوم ہوتاہے۔ قدیم زمانے میں شاہی خاندان (dynasty) کو یونٹ بنا کر تاریخ لکھی جاتی تھی۔ عبد الرحمن ابن خلدون (وفات: 1406 ) کے بعد ایک نیا دور آیا، جب کہ نیشن (nation) کو یونٹ بنا کر تاریخ لکھی جانے لگی۔ اس کے بعد آرنلڈ ٹائن بی (وفات:1975 ) نے بارہ جلدوں میں ایک کتاب (A Study of History) لکھی۔ اِس میں تہذیب (civilization) کو یونٹ بنا کر پوری انسانی تاریخ کا جائزہ لیا گیا ہے۔
قرآن کا تصورِ تاریخ اِن سب سے مختلف ہے۔ یہ کہاجاسکتاہے کہ قرآن کا تصورِ تاریخ خدائی منصوبہ (divine plan) پر مبنی ہے، یعنی خدا کے تخلیقی پلان کی روشنی میں انسانی تاریخ کا جائزہ لینا۔ زیر نظر مقالے میں اِس قرآنی تصور کے مطابق، تاریخ کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اِس جائزے کے لیے بنیادی طورپر9 ذیلی عنوانات مقرر کیے گییہیں— خلافتِ آدم، اعلان واِسرار، ذبح عظیم، احسن القصص، مقامِ محمود، آیتِ اسرا، اظہارِ دین، لوحِ محفوظ، ادخالِ کلم
جنتی افراد، جنتی معاشرہ
قرآن کی سورہ الذاریات کی ایک آیت یہ ہے: وما خلقتُ الجن والإنس إلا لیعبدون (51: 56) یعنی میں نے جن اور انس کو صرف اِس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔ صحابی مفسر عبد اللہ بن عباس نے اِس آیت میں ’لیعبدون‘ کی تشریح ’لیعرفون‘سے کی ہے، یعنی جنات اورانسان کی پیدائش کا مقصد یہ ہے کہ وہ اللہ کی معرفت (realization) حاصل کریں۔
معرفت کا تعلق فرد سے ہے۔ کیوں کہ یہ ایک فرد ہی کا ذہن ہے جو اِس موضوع پر غور وفکر کرتاہے اور پھر اس کا ذہن اُس فکری واقعے کا تجربہ کرتاہے جس کو معرفت کہاجاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ خالق کے منصوبے کے مطابق، تخلیق کا نشانہ یہ ہے کہ ایسے افراد پیدا ہوں جو عارف باللہ کا درجہ رکھتے ہوں۔ اِس کے مطابق، تخلیق کا نشانہ افراد ہیں، نہ کہ کوئی مجموعہ یا نظام۔
تخلیق کا نشانہ وہی چیز ہوسکتی ہے جو فی الواقع قابلِ حصول ہو۔ اِس پہلو سے انسانی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہر دور میں بلا شبہہ ایسے افراد پیدا ہوئے جو عارف باللہ (realized person)کی حیثیت رکھتے تھے۔اِس کے برعکس، اگر مقصد تخلیق کو اجتماعی معنوں میں لیا جائے، مثلاً صالح معاشرہ بنانا، عادلانہ نظام کی تشکیل، عالمی سطح پر حکومتِ الٰہیہ کا قیام، زندگی کے تمام شعبوں میں شرعی قوانین کا نفاذ، وغیرہ۔ اِس طرح کے اجتماعی انقلاب کو برپا کرنا اگر تخلیق کا نشانہ ہو، تو وہ پوری تاریخ بشری میں کبھی معیاری معنوں میں وقوع میں نہیں آیا، نہ انبیا کے زمانے میں اور نہ انبیا کے زمانے کے بعد۔
آدم کی تخلیق سے لے کر اب تک انسانی تاریخ پر بہت لمبا عرصہ گزر چکا ہے۔ اِس پوری مدت میں، انبیا یا پیروانِ انبیا کے ذریعے مسلسل طور پر یہ کام ہوتا رہا کہ تخلیق کا منصوبہ پورا ہو۔ یہ لوگ اللہ کے نمائندے تھے اور اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنے نمائندوں کی ضرور مددکرتاہے، نہ صرف آخرت میں بلکہ موجودہ دنیا میں بھی (40: 51) ۔ اِس طرح کی قرآنی آیات کی روشنی میں ہم کو یہ ماننا ہوگا کہ انبیا اور اُن کے پیروؤں کا مشن یقینی طورپر کامیاب ہوا۔
یہ ایک مسلّمہ واقعہ ہے کہ اِن حضرات کی کوششیں پورے انسانی مجموعہ یا نظام کی سطح پر کبھی معیاری معنوں میں کامیاب نہیں ہوئیں، البتہ افراد کی سطح پر وہ ہمیشہ کامیاب ہوئیں۔ ہر زمانے میں اور ہر کوشش کے ذریعے ایسے افراد وجود میں آئے جو پورے معنوں میں عارف باللہ تھے، جنھوںنے اپنی ذات کے اعتبار سے اللہ کو اپنا کنسرن بنایا، جو اللہ سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے تھے اور جو اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والے بھی۔
اِس تاریخی تجربے کا تقاضا ہے کہ خالق کے منصوبۂ تخلیق کی کامیابی کا معیار پورے مجموعۂ انسانیت (mankind) کو قرار نہ دیا جائے، بلکہ اس کی کامیابی کا معیار افراد کو قرار دیا جائے۔ اِس اعتبار سے دیکھا جائے تو خالق کا منصوبہ تخلیق آخری حد تک کامیاب نظر آئے گا۔ آدم سے قبل جنات پیدا کئے گئے تھے (15: 27)۔ جنات کی بڑی اکثریت اگر چہ سرکش بن گئی، لیکن قرآن کے مطابق، اُن میں شخصی اعتبار سے اعلیٰ درجے کے صالح افراد بھی پیدا ہوئے (72: 11) ۔ اِس طرح انبیا کے زمانے میں اگر چہ یہ ہوا کہ انبیا کے مخاطبین کی بڑی اکثریت منکر بنی رہی، لیکن انھیں کے درمیان یہ واقعہ بھی ہوا کہ شخصی اعتبار سے اعلیٰ درجے کے صالح افراد پیدا ہوتے رہے۔ اِسی طرح ختم نبوت کے بعد دُعاۃ (داعیوں) کی کوششوں کے ذریعے بھی یہ واقعہ پیش آیاکہ اگرچہ نظام یا مجموعہ انسانیت کی سطح پر کبھی کامل معنوں میں صالح انقلاب نہیں آیا، لیکن شخصی سطح پر ہر دور میں بلا شبہہ ایسے افراد پیدا ہوتے رہے جو عارف باللہ کا درجہ رکھتے تھے۔
اسلام کے مطابق، انسانی زندگی کے دو دور ہیں، قیامت سے پہلے اور قیامت کے بعد۔ قیامت سے پہلے کا دور برائے امتحان ہے اور قیامت کے بعد کا دور برائے انجام۔ یہ دونوں دور خالقِ کائنات کے مقرر کئے ہوئے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ دونوں دور یکساں طورپر پوری طرح کامیاب دور ہوں۔ یہ خالق کے منصوبۂ تخلیق کا کمتر اندازہ (underestimation) ہوگا کہ کامیابی کے اعتبار سے دونوں دوروں میں فرق کیا جائے۔ اس اصول کو ملحوظ رکھتے ہوئے دونوں دوروں کی بہترین توجیہہ یہ ہے کہ پہلے دور کو انتخابِ افرادکا دور (period of individual selection) قرار دیاجائے اور دوسرے دور کو اقامتِ سماج (establishment of society) کا دور کہا جائے، یعنی پہلے دورمیں اس اعلیٰ سماج کے لئے مستحق افراد (deserving individuals) کا انتخاب اور دوسرے دور میں پوری تاریخ کے ان مشترک افراد کو یکجا کرکے ان کی بنیاد پر ایک اعلیٰ معاشرہ (high society) بنانا۔ انسانی حیات کا یہی وہ دوسرا دور ہے جس کو قرآن میں جنت کہا گیاہے۔
خلافتِ آدم
قرآن کے مطابق، انسانیت کا آغاز آدم اور حوا کی تخلیق سے ہوا۔آدم پہلے انسان بھی تھے اور پہلے پیغمبر بھی۔ قرآن کے بیان کے مطابق، انسان کی پیدائش سے پہلے سیارۂ ارض پر ایک ناری مخلوق جنات کو بسایا گیا تھا (15: 27) ۔ یہ غالباً اُس وقت کی بات ہے جب کہ زمین ابھی گرم حالت میں تھی۔ اِس کے بعد جب زمین ٹھنڈی ہوئی اور یہاں کے سمندروں میں پانی بھر گیا تو اس کے بعد اللہ نے انسان کو پیدا کیا اور اس کے لیے خلافتِ ارضی کا فیصلہ کیا۔ اِس لحاظ سے انسان، خلیفۃ الجن ہے۔ روایات کے مطابق، جنات نے زمین پر فساد برپا کیا، اِس لیے زمین کا چارج جنات سے چھین لیاگیا اور اس کو انسان کے حوالے کیا گیا۔ اِسی معاملے کو قرآن میں ’’خلافت‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیاگیا ہے۔
موجودہ زمین پر انسان کو ایک آزاد مخلوق کی حیثیت سے بسایا گیا ہے، لیکن یہ آزادی ایک مشروط آزادی ہے۔ اِس کے مطابق، موجودہ زمین انسان کے لیے ایک امتحان گاہ ہے، وہ انسان کے لیے عیش گاہ نہیں۔ اِس معاملے کی ایک عملی مثال ابلیس اور ملائکہ کی صورت میں قائم کردی گئی ہے۔ جو لوگ ملائکہ کی مانند خدا کے حکم کے آگے سرینڈر کردیں، وہ قیامت کی عدالت میں کامیاب قرار پائیں گے، اور جو لوگ ابلیس کی مانند خدا کے حکم کے آگے سرینڈر نہ کریں، وہ قیامت کی عدالت میں ناکام قرار دئے جائیں گے۔ انسان کا یہ امتحان خود انسان کی سطح پر ہے، جیسا کہ ابلیس اور ملائکہ کے معاملے میں پیش آیا۔اِس معاملے سے انسان کو ہر زمانے اور ہر نسل میں باخبر کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیجے۔ یہ پیغمبر لوگوں کی اپنی زبان میں صراطِ مستقیم کی وضاحت کرتے رہے۔ یہ پیغمبر جو کچھ کہتے تھے، وہ اللہ کی وحی سے کہتے تھے۔ تمام پیغمبروں کا ایک ہی مشترک اصول تھا— نصح وخیر خواہی، یعنی اپنے مدعو کی یک طرفہ طورپر خیر خواہی، مدعو کی طرف سے پیش آنے والی کسی بھی زیادتی پر رد عمل کا طریقہ اختیار کئے بغیر مثبت انداز میں اپنا پیغام دیتے رہنا۔
خدا اور فرشتوں کا مکالمہ
آدم کی تخلیق کے وقت خدا اور فرشتوں کے درمیان ایک مکالمہ ہوا۔ اِس سلسلے میں قرآن کی آیتوں کا ترجمہ یہ ہے: ’’اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ فرشتوں نے کہا: کیا تو زمین میں ایسے لوگوں کو بسائے گا جو اُس میں فساد برپا کریں اور خون بہائیں، اور ہم تیری حمد کرتے ہیں اور تیری پاکی بیان کرتے ہیں۔ اللہ نے کہا: میں جانتا ہوں، جو تم نہیں جانتے۔ اور اللہ نے سکھائے آدمی کو سارے نام، پھر اُن کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور کہا کہ اگر تم سچے ہو تو مجھے اُن لوگوں کے نام بتاؤ۔ فرشتوں نے کہا کہ تو پاک ہے۔ ہم تو وہی جانتے ہیں جو تو نے ہم کو بتایا۔ بے شک، تو ہی علم والا اور حکمت والا ہے‘‘ ۔(2: 30-32)
یہاں یہ سوال ہے کہ وہ کیا بات تھی جس پر فرشتوں کو اشکال پیدا ہوا، اور بعد کو کیا چیز اُن کے علم میںآئی جس کے بعد اُن کا اشکال دور ہوگیا۔ اصل یہ ہے کہ ابتدا میں فرشتوں نے آدمی کی نسل کو اس کے پورے مجموعۂ انسانیت کے اعتبار سے لیا۔ اُن کو نظر آیا کہ جس طرح اختیار پاکر جنات کا گروہ سرکش بن گیا، اس طرح اختیار پانے کے بعد انسانی نسل بھی مجموعی طور پر سرکش بن جائے گی۔
مگر اللہ تعالیٰ نے ایک مظاہرے کے ذریعے انسانی نسل کے منتخب افراد کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور آدم نے اِن منتخب افراد کا تعارف کرایا۔ اُس وقت فرشتوں کو اندازہ ہوا کہ اگر چہ مجموعہ کے اعتبار سے انسانی نسل میں فساد آجائے گا، لیکن عمومی فساد کے باوجود ہر زمانے میں ایسے افراد پیدا ہوں گے جو فساد سے خالی ہوں اور اصلاح کے راستے پر چلنے والے ہوں۔ نسلِ انسانی کے اِنھیں منتخب افراد کو قرآن میںانبیا اور صدیقین اور شہدا اور صالحین (4: 69) کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔
اِس مظاہرے کے بعد فرشتوں کو اللہ کے تخلیقی منصوبے کا علم ہوا۔ فرشتوں نے جانا کہ اللہ کے تخلیقی منصوبے کا تعلق پورے مجموعۂ انسانیت کے اعتبار سے نہیں ہے، بلکہ وہ اِس مجموعے کے استثنائی افراد سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کو جنت کی معیاری دنیا میں آباد کرنے کے لیے ایسے افراد درکار تھے جو مکمل آزادی کے باوجود اپنے آپ کو سرکشی سے بچائیں اور خدا کی زمین پر خدا کے مطیع بن کر رہیں۔ ایسے افراد صرف کھلی آزادی کے ماحول میں بن سکتے تھے، اِس لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کرکے اس کو کامل آزادی کے ماحول میں بسایا اور پھر فرشتوں کو مقرر کیا کہ وہ اُن استثنائی افراد کا ریکارڈ تیار کریں جو دباؤ کے بغیر خدا کی معرفت حاصل کریں اور پھر اپنے آزادانہ فیصلے کے تحت اپنے آپ کو اللہ کی مرضی کا پابند بنائیں۔ یہی استثنائی افراد اللہ کے مطلوب افراد ہیں۔ انھیں مطلوب افراد کا انتخاب کرکے اُن کو جنت کی معیاری دنیا میں بسایا جائے گا۔
اعلان واِسرار
حضرت آدم کے بعد ان کی نسل جس علاقے میں پھیلی، وہ غالباً وہی علاقہ تھا جس کو میسوپوٹامیا (Mesopotamia) کہاجاتا ہے، یعنی دجلہ اور فرات کے درمیان کا زرخیز علاقہ۔ حضرت آدم کے بعد کئی نسلوں تک وہ درست حالت پر قائم رہے۔ پھر ان کے درمیان بگاڑ آیا۔ ان میں شرک پھیل گیا، یعنی خالق کے بجائے مخلوق کی پرستش کرنا۔ اِس کے بعد ان کی اصلاح کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح کو پیغمبر بنا کر بھیجا۔حضرت نوح نے وحی کے ذریعے ان کو خدا اور آخرت کا پیغام دیا۔ ان کی کوشش سے ان کی قوم کی ایک محدود تعداد اُن پر ایمان لائی،لیکن قوم کی بڑی اکثریت سرکشی پر قائم رہی۔ حضرت نوح نے اپنی دعا میں کہا تھا کہ — خدایا، میں نے اعلان کے ساتھ بھی کام کیا اور اسرار کے ساتھ بھی (71: 9) ۔
اِس آیت میں اعلان سے مراد قوم سے اجتماعی خطاب ہے،اور اِسرار سے مراد انفرادی سطح پر اُن کو نصیحت کرنا ہے۔ حضرت نوح نے لمبی مدت تک دونوں طریقے سے اپنا دعوتی مشن جاری رکھا، مگر قوم کی سرکشی ختم نہ ہوسکی، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ایک بڑا طوفان بھیجا جس میں چند لوگ زندہ بچے جو حضرت نوح کی کشتی پر سوار تھے، بقیہ پوری قوم طوفان میں غرق ہو کر ہلاک ہوگئی۔
کہا جاتا ہے کہ اِس طوفان کے بعد حضرت نوح کے تین بیٹے زندہ بچے جن کا نام —حام، سام، یافث تھا۔ اِنھیں تین بیٹوں سے بعد کی انسانی نسل چلی اور پھر وہ دھیرے دھیرے پوری سطح ارض پر پھیل گئی۔ جب انسانی نسل زمین کے مختلف حصوں میں آباد ہوئی تو ہر جگہ اللہ تعالیٰ نے انھیں میں سے کسی فرد کو پیغمبر بنایا جس نے اپنی قوم کو خدائی صداقت کا پیغام دیا۔ مگر جو انجام ہوا، وہ قر آن کے بیان کے مطابق یہ تھا کہ لوگوں نے اپنے پیغمبروں کا مذاق اڑایا اور ان کو ماننے سے انکار کردیا(36: 30) ۔
اِس عام گمراہی کا سبب لوگوں کی ظاہر پرستی تھی۔ لوگ مخلوقات کو دیکھتے تھے، مگر خالق ان کو نظرنہ آتا تھا۔ اِس بنا پر ایسا ہوا کہ مخلوقات میں سے جو چیز بظاہر بڑی دکھائی دی، اُسی کو انھوںنے اپنا معبود سمجھ لیا اور اس کو پوجنے لگے۔ مثلاً سورج اور چاند، وغیرہ۔اِس عام گمراہی کی بنا پر ایسا ہوا کہ پیغمبروں کی یا پیغمبروں کے مشن کی کوئی تاریخ ریکارڈ نہ ہوسکی۔ انسان نے جب لکھنا پڑھنا سیکھا تو اس نے اپنی تاریخ بھی لکھی، مگر اِن تاریخوں میں بادشاہوں اور جنرلوں کے واقعات لکھے گئے، مگر پیغمبروں کو یا ان کے مشن کو ناقابلِ ذکر سمجھ کر چھوڑ دیاگیا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت نوح سے لے کر حضرت مسیح تک کسی بھی پیغمبر کا حوالہ مدوّن تاریخ (recorded history) میں موجود نہیں۔
تاہم موجودہ زمانے میں زمین کی کھدائی سے پیغمبروں کے دور کے کچھ آثار برآمد ہوئے ہیں جن کی بنیاد پر کچھ پیغمبروں کے حالات مورخین نے تحریر کئے ہیں۔ مثلاً حضرت ابراہیم انیسویں صدی عیسوی تک تاریخی شخصیت نہیں سمجھے جاتے تھے۔ بیسویں صدی کے نصف اول (1922-1943) میں کھدا ئی (excavation) کے ذریعے عراق کا قدیم شہر اُر (Ur) دریافت ہوا جو کہ حضرت ابراہیم کا مقامِ عمل تھا۔ اِس کے بعد پیغمبر ابراہیم کو ایک تاریخی شخصیت کی حیثیت سے مان لیا گیا۔
ذبحِ عظیم
ہزاروں سال تک پیغمبروں کو نظر انداز کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔ ضرورت تھی کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے خدائی مشن کی ایک تاریخ بنے۔ وہ انفرادی واقعات سے بڑھ کر ایک تہذیب (civilization) کی صورت اختیار کرلے۔ اِس مقصد کے لیے ضرورت تھی کہ بڑی تعداد میں ساتھی ملیں، جن سے ایک مضبوط ٹیم تیار ہو۔ یہ ٹیم جدوجہد کرکے صورتِ حال کو بدلے۔ وہ تاریخ میں ایک نیا دور لائے، جب کہ خدائی مشن ایک تہذیب کی صورت اختیار کرلے۔ اِس قسم کی مطلوب ٹیم بنانے کے لیے وہ واقعہ ہوا جس کو قرآن میں ذبحِ عظیم (37: 107) کہا گیا ہے۔
ہزاروں سال تک ایساہوا کہ پیغمبر آتے رہے، مگر بڑی تعداد میں قبولِ ایمان نہ کرنے کی وجہ سے کسی پیغمبر کے ساتھ کوئی ٹیم نہیں بنی۔ اِس کا سبب وہی چیز تھی جس کو ماحول کی کنڈیشننگ کہاجاتا ہے۔ اِس کنڈیشننگ کا ذکر حدیث میں اِن الفاظ میں کیاگیاہے: کل مولود یولد علی الفطرۃ، فأبواہ یہودانہ، أویمجسانہ، أوینصرانہ (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 1385) یعنی ہر پیدا ہونے والا فطرت پر پیدا ہوتاہے، پھر اس کے والدین اس کو یہودی یا مجوسی یا نصرانی بنا دیتے ہیں۔
اِس صورتِ حال کی بنا پر آبائی مذہب ایک سماجی رواج بن گیا تھا۔ اِس تسلسل کو توڑنے کے بعد ہی یہ ممکن تھا کہ ایک ایسی نئی نسل بنائی جائے جو اپنی فطری حالت پر قائم ہو اور پھر پیغمبر کی دعوت کو قبول کرکے وہ خدا پرست انسانوں کی ٹیم کا حصہ بن سکے۔
اِس مخصوص منصوبے کے تحت، حضرت ابراہیم نے یہ کیا کہ وہ اُس دور کے متمدن ملک عراق کو چھوڑ کر عرب کے صحرا میں آئے اور یہاں خالص صحرائی ماحول میںاپنی بیوی ہاجرہ اور اپنے بیٹے اسماعیل کو آباد کیا۔ صحرائی ماحول میں آباد کرنے کا مقصد یہ تھا کہ متمدن دنیا سے منقطع ہو کر ایک نسل بنے جو متمدن ماحول کی کنڈیشننگ (conditioning) سے پاک ہو۔
یہی وہ خصوصی منصوبہ تھا جس کے تحت حضرت ابراہیم کو یہ خواب دکھایا گیا کہ آپ اپنے بیٹے اسماعیل کو ذبح کررہے ہیں (37: 102) ۔ حضرت ابراہیم نے اِس معاملے کو اپنے بیٹے کے جسمانی ذبح کے ہم معنی سمجھا اور بیٹے کولٹا کر اس کو ذبح کرنے کے لیے تیار ہوگئے۔ عین اُس وقت اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو اسماعیل کے جسمانی ذبیحہ سے روک دیا۔ اُس وقت فرشتے نے کہا کہ آپ بیٹے کے بجائے ایک دنبہ ذبح کردیں اور بیٹے کو لے جاکر صحرا میں اُس مقام پر بسا دیں، جہاں آج مکہ آباد ہے۔
اِس واقعے کا ذکر قرآن میں اِن الفاظ میں کیاگیا ہے: وفدیناہ بذبح عظیم (37: 107) یعنی ہم نے چھڑا لیا اسماعیل کو ایک بڑے ذبیحہ کے بدلے۔ یہاں بڑے ذبیحہ سے مراد صحرا کے غیرمتمدن اور بے آب وگیاہ ماحول میںآباد ہونا تھا، جو کہ جسمانی ذبیحہ سے بلا شبہہ بہت زیادہ سخت تھا۔
اِس آیت میں ذبحِ عظیم (عظیم قربانی) کا لفظ اسماعیل کے لیے آیا ہے، نہ کہ دنبہ کے لیے۔ دنبہ کو حضرت ابراہیم نے بطور فدیہ ذبح کیا اور اسماعیل کو ایک عظیم تر قربانی کے لیے منتخب کرلیاگیا۔ یہ عظیم تر قربانی کیا تھی، وہ یہ تھی کہ اس کے بعد اسماعیل کو اپنی ماں ہاجرہ کے ساتھ مکہ کے صحرا میںآباد کردیاگیا، تاکہ اُن کے ذریعے سے ایک نئی نسل تیار ہو۔ اُس وقت یہ علاقہ صرف ایک بے آب وگیاہ صحرا کی حیثیت رکھتا تھا۔ وہاں اسباب حیات میں سے کوئی چیز موجود نہ تھی، اِس لیے اِس معاملے کو قرآن میں ذبحِ عظیم کا درجہ دیا گیا۔
احسن القصص
قرآن کی سورہ یوسف میں پیغمبر یوسف علیہ السلام کا واقعہ بیان کیا گیاہے۔ اِس واقعے کو قرآن کا احسن القصص (12: 3) بتایاگیاہے۔ احسن القصص کا لفظی مطلب ہے — بہترین قصہ (best story) مگر قرآن میں یہ بات قصہ برائے قصہ کے طورپر نہیں آئی ہے، بلکہ وہ ایک اہم سبق (lesson)کے طور پر آئی ہے۔ ہر پیغمبر کی اصل حیثیت یہ ہے کہ وہ حق کا داعی ہوتا ہے۔ اِسی کے ساتھ وہ دعوت کا عملی نمونہ ہوتاہے۔ مختلف پیغمبر مختلف حالات میں آئے۔ اِس لحاظ سے یہ ہوا کہ مختلف پیغمبروں کے ذریعے مختلف قسم کی عملی مثالیں قائم ہوئیں۔ اُنھیں میں سے ایک مثال یا ماڈل وہ ہے جو حضرت یوسف کے ذریعے قائم ہوا۔
حضرت یوسف کنعان (فلسطین) کے علاقے میں ایک گاؤں میں پیداہوئے۔ اِس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کو مصر جیسے متمدن ملک کے دارالسلطنت میں پہنچا دیا، جہاں ایک بادشاہ کی حکومت قائم تھی۔ ایسا غالباً اِس لیے ہوا کہ حضرت یوسف کے ذریعے دعوت کی جو مثال قائم کرنا مطلوب تھا، وہ مصر جیسے ملک ہی میں ممکن تھی۔حضرت یوسف کے اِس واقعے کی تفصیل قرآن میں دیکھی جاسکتی ہے۔ اس کا اہم پہلو یہ ہے کہ اُس وقت کے مصری بادشاہ نے حضرت یوسف کی صلاحیتوں سے متاثر ہو کر انھیں ایک اعلیٰ عہدے کی پیش کش کی۔ اِس پیش کش کو حضرت یوسف نے قبول کرلیا۔ جیسا کہ معلوم ہے، یہ بادشاہ اپنے مذہبی عقیدے کے اعتبار سے مشرک تھا۔ مزید یہ کہ سیاسی تخت بھی بدستور اُس کے قبضے میں تھا۔ اِس کے باوجود حضرت یوسف نے بادشاہ کے تحت ملنے والے اِس عہدے کو قبول کرلیا۔
قرآن کے مطابق، اِس کا سبب یہ تھا کہ خزائن ارض پوری طرح حضرت یوسف کو حاصل ہورہے تھے۔ قدیم زمانے کے لحاظ سے، خزائن ارض کا مطلب تھا— سر زمین مصر کا زراعتی انتظام۔ اِس سے معلوم ہوا کہ یہ بھی ایک مطلوب پیغمبرانہ ماڈل ہے کہ داعی اگر ایسے ملک میں ہو، جہاں سیاسی اقتدار (political power) کسی اور کے ہاتھ میں ہو، لیکن یہ امکان ہو کہ اگر داعیٔ حق دوسرے کے سیاسی اقتدار کو تسلیم کرلے تو اس کو کام کے مواقع بلا روک ٹوک حاصل ہوجائیںگے، تو اُس وقت حکمت کا تقاضا یہ ہوگا کہ ایسی پیش کش کو کھلے دل سے قبول کرلیاجائے۔
حضرت یوسف کے ساتھ یہ معاملہ اُس دور میں پیش آیا، جب کہ دنیا میں ہر جگہ زراعت کا دور (agricultural age) پایا جاتا تھا۔ کام کے مواقع تمام تر زراعت کے ساتھ وابستہ تھے۔ اُس وقت خزائنِ ارض کا مطلب تھا — خزائنِ زراعت۔ اب زمانہ بدل چکا ہے۔ اب ہم جمہوریت کے دور میں ہیں۔ اب سیاست کا ڈی سنٹرلائزیشن (de-centralization) ہوچکا ہے۔ اب انتظام (administration) کے سوا تمام شعبے ہر ایک کے لیے آزادانہ طورپر کھلے ہوئے ہیں۔ ایسی حالت میں حضرت یوسف کا ماڈل موجودہ حالات میں مکمل طورپر قابلِ انطباق (applicable) ہے۔ آج اگر داعیٔ حق، سیاسی حکمرانوں سے ٹکراؤ نہ کرے تو کسی باضابطہ اعلان یا معاہدہ کے بغیر ہی تمام خزائن ارض، بہ الفاظ دیگر، تمام مواقع کار آزادانہ طورپر داعی کے زیر تصرف آجائیں گے۔ حضرت یوسف کے اِس ماڈل کو دوسرے الفاظ میں اِس طرح بیان کیا جاسکتاہے کہ حق کے داعی کو چاہئے کہ وہ سیاسی اقتدار کے معاملے میں غیر نزاعی طریقِ کار (non-confrontational approach) اختیار کرے۔ اِس حکمت کا یہ نتیجہ ہوگا کہ خزائنِ ارض پوری طرح اس کے استعمال میں آجائیں گے اور وہ پُرامن رہنے کی شرط پر دعوت کا کام اعلیٰ ترین معیار پر انجام دے سکے گا۔
حضرت یوسف کے واقعے کو قرآن میں احسن القصص کہاگیا ہے۔ یہ محض ایک قصے کی بات نہیں ہے، بلکہ وہ ایک بہترین ماڈل ہے جس کو ایک پیغمبر کے ذریعے قائم کیا گیا ہے۔ حضرت یوسف کا قصہ قرآن کے علاوہ، بائبل میں بھی تفصیل کے ساتھ آیا ہے۔ بائبل میں بتایا گیاہے کہ بادشاہِ مصر نے جب حضرت یوسف کو مصر کے خزائن پر مقرر کیا تو اس نے کہا:
Only in regard to the throne, I will be greater than you. (Genesis 37: 50)
حضرت یوسف کی مثال کی روشنی میں اگر یہ متعین کیا جائے کہ اس کے مطابق، کام کا بہترین ماڈل کیا ہے، تو وہ ماڈل یہ ہوگا کہ بادشاہِ وقت سے سیاسی ٹکراؤ نہ کرو۔ اِس کا فائدہ یہ ہوگا کہ آپ کے لیے یہ ممکن ہو جائے گا کہ آپ غیر سیاسی دائرے میں موجود تمام مواقع کو آزادانہ طورپر حق کے مشن کے لیے استعمال کرسکیں گے۔ اِس ماڈل کا خلاصہ دو لفظوں میں یہ ہے — سیاسی اقتدار کے معاملے میں موجودہ صورت حال کو تسلیم کرنا، اور سیاسی اقتدار کے باہر کے دائرے میں اپنے عمل کی تنظیم کرنا:
Political statusquoism, non-political activism.
مقامِ محمود
قرآن کی سورہ الاسرا میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں فرمایا گیا ہے: عسی أن یبعثک ربک مقاماً محموداً (17: 79) یعنی امید ہے کہ تمھارا رب تم کو مقامِ محمود پر کھڑا کرے۔ قرآن کی اِس آیت میں جس مقامِ محمود کا ذکر کیاگیا ہے، اس کا ایک پہلو وہ ہے جس کا تعلق آخرت سے ہے۔ اِس کا دوسرا پہلو وہ ہے جس کو آخرت سے پہلے موجودہ دنیا میں پیش آنا ہے۔ مقامِ محمود کے اِس دوسرے پہلو کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو استثنائی طورپر خود انسانی تاریخ کے مطابق، ایک مسلَّم نبوت (acknowledged prophethood) کا درجہ حاصل ہوجائے گا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جو پیغمبر دنیا میں آئے، ہمارے عقیدے کے اعتبار سے، وہ بلاشبہہ خدا کے پیغمبر تھے۔ مگر قدیم زمانے میں موافق اسباب نہ ہونے کی وجہ سے پچھلے پیغمبر قدیم تاریخی ریکارڈ میں درج نہ ہوسکے۔ پیغمبر اسلام کے زمانے میں پہلی بار وہ اسباب پیدا ہوئے جب کہ آپ کو آزاد تاریخی ریکارڈ میں ایک معلوم اورمسلّم شخصیت کے اعتبار سے درج کیاگیا۔ اِس تاریخی حقیقت کو ایک مستشرق نے اِن الفاظ میں بیان کیا ہے — محمد تاریخ کی کامل روشنی میں پیدا ہوئے:
Muhammad was born within the full light of history.
محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب 570 میں مکہ میں پیدا ہوئے۔ آپ بنو اسماعیل کے ایک فرد تھے۔ پچھلے تقریباً ڈھائی ہزار سال کے دوران عرب کے ماحول میں بنو اسماعیل کے نام سے ایک پوری نسل تیار ہوچکی تھی۔جس کے افراد کی اعلیٰ صلاحیتوں کی بنیاد پر ایک مستشرق نے اس کو ہیروؤں کی نسل (a nation of heroes) کہا تھا۔ یہی وہ گروہ ہے جس میں دعوت وتربیت کا کام کرکے وہ جماعت تیار ہوئی جس کو اصحاب رسول کہا جاتا ہے۔ رسول اور اصحاب رسول نے غیر معمولی جدوجہد کے ذریعے یہ کیا کہ انھوںنے ایک نیا دور پیدا کردیا۔ اُن سے پہلے توحید کا عقیدہ صرف ایک نظریے کی حیثیت رکھتا تھا۔ اصحاب رسول کی غیر معمولی کوششوں سے وہ انقلاب کے مرحلے میں داخل ہو گیا۔ شرک کا دور ختم ہوگیا اور توحید کا دور پوری طاقت کے ساتھ شروع ہوگیا۔
اِسی انقلاب کا نتیجہ تھا کہ تاریخ میں ایک نیا پراسس (process) شروع ہوگیا۔ اِس پراسس کا آغاز ساتویں صدی کے نصف اول میں عرب سے ہوا، اس کا اختتام (culmination) ایک ہزار سال کے بعد یورپ میں ہوا۔اس انقلاب کے بہت سے پہلو تھے۔ مثلاً اِس انقلاب نے اسلام کے عقیدے کو سائنسی حقیقت (scientific reality) کے درجے تک پہنچا دیا۔ اس نے مذہبی آزادی کا دروازہ کھولا۔ اس کے بعد دعوت وتبلیغ کے راستے کی تمام رکاوٹیں ختم ہوگئیں۔ اس کے نتیجے میں جدید کمیونکیشن وجود میں آیا، جس کے بعد یہ ممکن ہوگیا کہ اسلام کے پیغام کو عالمی سطح پر پہنچایا جاسکے۔ آفاق وانفس میں سائنس کی دریافتوں سے یہ ممکن ہوگیاکہ اعلیٰ ترین علمی معیار پر حق کی تبیین کی جاسکے (4: 53)۔
آیتِ اسرا
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مکی دور، یعنی ہجرت (622 ء) سے ایک سال پہلے ایک واقعہ پیش آیا، جس کو قرآن میں اسراکہاگیا ہے۔ اِس سلسلے میں قرآن کے الفاظ یہ ہیں:سبحان الذی أسریٰ بعبدہ لیلاًً من المسجد الحرام إلی المسجد الأقصی الذی بارکنا حولَہ لنریہ من آیاتنا (17: 1)۔ اِس آیت میں اسرا کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اسراکا لفظی مطلب ہے— رات کا سفر(night journey) ۔ اللہ تعالیٰ کے خصوصی انتظام کے تحت، پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا کہ رات کے ایک لمحے میںآپ نے مکہ سے یروشلم کا سفر کیا، اور پھر آپ اسی رات کو یروشلم (فلسطین) سے مکہ واپس آئے۔ اِس سفر کی مجموعی مسافت تقریباً 25 سو کلو میٹر تھی۔
اِس سفر کا مقصد قرآن میں اِن الفاظ میں بتایاگیا ہے: لنریہ من اٰیاتنا یعنی اللہ تعالیٰ کی نشانیاں پیغمبر کو دکھانا۔ یہ نشانیاں (آیات اللہ) کیا تھیں، وہ یروشلم کی عمارتیں یا وہاں کے درخت اور چشمے نہ تھے۔ وہ نشانی دراصل فطرت میں چھپا ہوا وہ امکا ن تھا جس کو تیزرفتار سفر اور تیز رفتار پیغام رسانی کہا جاتا ہے، یعنی آنے والا دورِ مواصلات (age of communication) ۔ اِس تجربے کے ذریعے پیغمبر اسلام کو بتایا گیا کہ انسان کو وہ ذرائع حاصل ہوجائیں گے جن کی مدد سے عالمی سطح پر خداکے آخری دین کی اشاعت ممکن ہوجائے، یعنی وہی واقعہ جس کو حدیث میں ’ادخال الکلمۃ فی کل البیوت‘ (ہر گھر میں کلمۂ اسلام کا داخلہ) کہا گیاہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو اسرا کے واقعے کی صورت میں جو تجربہ کرایا گیا، وہ مستقبل کے بارے میں ایک بشارت تھی۔ اِس بشارت کا ذکر احادیث میں مختلف الفاظ میں آیاہے۔ مثلاً ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام نے فرمایا: و لیتمنّ اللہُ ہٰذا الأمر حتی یسیر الراکب من صنعاء إلی حضرموت، ما یخاف إلاّ اللہ (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 3852 ) یعنی اللہ ضرور اِس امر (دین ) کو تکمیل تک پہنچائے گا، یہاںتک کہ ایک سوار صنعا سے حضرت موت تک جائے گااور اس کو اللہ کے سوا کسی اور کا خوف نہ ہوگا۔اِس سلسلے میں ایک اور روایت ان الفاظ میں آئی ہے: لیبلغن ہٰذا الأمرُ ما بلغ اللیلُ والنہار(مسند احمد، رقم الحدیث: 17082)یعنی خدا کی قسم، یہ امر (دین) ضرور وہاں تک پہنچے گا، جہاں تک رات اور دن پہنچتے ہیں۔اِسی طرح ایک اور روایت کے الفاظ یہ ہیں: لا یبقی علیٰ ظہر الأرض بیت مدر ولا وبر إلا أدخلہ اللہ کلمۃَ الإسلام (مسند احمد، رقم الحدیث: 24215) یعنی زمین کی پشت پر کوئی چھوٹا یا بڑا گھر نہیںبچے گا، جہاں اللہ تعالیٰ اسلام کے کلمہ کو داخل نہ کردے۔
قرآن کی سورہ الاسرا میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو تیز رفتار کمیونکیشن کا تجربہ کرایاگیا تھا۔ مذکورہ احادیث میں پیشین گوئی کے انداز میں بتایا گیا ہے کہ یہ امکان ضرور مستقبل میں واقعہ بنے گا اور خدا کا دین جو عرب میں شروع ہوا، وہ گلوبل کمیونکیشن کے ذریعے سارے عالم میں پہنچ جائے گا، یہاں تک کہ کوئی بھی انسان اُس سے بے خبر نہ رہے۔
اظہارِ دین
قرآن میں بتایاگیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد ’اظہارِ دین‘ تھا۔ اظہارِ دین کی آیت قرآن میں تین بار آئی ہے (9: 33; 48: 28; 61: 9) ۔ اِس سلسلے میں قرآن کی سورہ التوبہ کے الفاظ یہ ہیں: ہوالذی أرسل رسولَہ بالہُدیٰ ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلّہ (9:33) یعنی اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو بھیجا ہے ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ، تاکہ وہ اس کو سارے دین پر غالب کردے۔اِس آیت کی تفسیر کے تحت مفسر القرطبی نے لکھا ہے کہ— اظہارِ دین کا مطلب ہے حجت اور دلائل کے ذریعے دین کو غالب کرنا (أی بالحجۃ والبراہین، 8/121 ) ۔
اظہارِ دین کے جس واقعے کا قرآن میں ذکر ہے، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خو د زمانۂ رسول میں وہ پوری طرح واقع ہوجائے گا۔ اِس آیت میں ایک تاریخی تبدیلی کا ذکر ہے، اور تاریخ میںکوئی بڑی تبدیلی اچانک یا محدود مدت میں نہیں آتی، ایسی تبدیلی ہمیشہ لمبی مدت کے پراسس (process) کے بعد آتی ہے۔ قرآن کی اِس آیت میں جس واقعے کا ذکر ہے، وہ یہ ہے کہ رسول اور اصحابِ رسول کی جدوجہد سے ساتویں صدی کے نصف اول میں ایک انقلابی عمل شروع ہوا۔ یہ عمل مختلف حالتوں سے گزرتا ہوا تقریباً ایک ہزار سال تک جاری رہا اور پھر اس کے نقطۂ انتہا (culmination) کے طورپر وہ واقعہ اپنی کامل صورت میں پیش آیا جس کو قرآن میں ’لیظہرہ علی الدین کلّہ‘کے الفاظ میں بیان کیا گیا تھا۔
حجت یا برہان کیا ہے۔ یہ ایک دو طرفہ عمل ہے، یعنی ایک طرف حجت کو پیش کرنے والا ہوتا ہے اور دوسری طرف حجت کو سننے والا۔ اِس لیے حجت کو مخاطب کے ذہنی تقاضے کے مطابق ہونا چاہئے۔ علمی استدلال دراصل اِس بات کا نام ہے کہ مخاطب کے علمی مسلّمہ پر اپنی بات کو ثابت کیا جائے۔ ساتویں صدی کے نصف اول میں جب کہ قرآن اترا، اُس وقت دنیا روایتی دور سے گزر رہی تھی۔ اُس وقت صرف روایتی استدلال ہی ممکن تھا۔ مگر قرآن ایک ابدی کتاب کی حیثیت سے اتارا گیا ہے، ا س لیے قرآن کے مذکورہ الفاظ میں یہ بات شامل ہے کہ نہ صرف روایتی دور میں، بلکہ بعد کو ظہور میں آنے والے سائنسی معیار کے مطابق بھی قرآن مسلّمہ طورپر اپنی ایک ثابت شدہ کلام کی حیثیت کو برقرار رکھے گا۔
اِس مصلحت کا تقاضا تھا کہ انسانی علم کا ارتقا ایسے نہج پر ہو جو قرآن کی صداقت کو بعد کے دورمیں بھی یکساں طورپر برقرار رکھے۔ یہی وہ مطلوب ہے جو بعد کے سائنسی دور میں حاصل ہوا۔ سائنس کی دریافتوں نے صرف یہ کیا کہ قرآن کے نظریات کو دوبارہ سائنس کے معیار پر ایک مسلّمہ معیار کی حیثیت دے دی۔ مستقبل میں پیش آنے والا یہی موافقِ قرآن واقعہ ہے جس کی پیشگی خبر ان الفاظ میں دی گئی تھی: سنریہم آیاتنا فی الآفاق وفی أنفسہم حتی یتبین لہم أنہ الحق (41: 53) ۔
قرآن کی اِس آیت میں آفاق وانفس کی جن نشانیوں کا ذکر ہے، اُس سے مراد وہی چیز ہے جس کو جدید سائنس کی دریافتیں (scientific discoveries) کہا جاتا ہے۔ یہ دریافت دراصل فطرت میں قائم شدہ خدائی قانون کی دریافتیں ہیں۔ چوں کہ قرآن کو نازل کرنے والا جو خدا ہے، اُسی نے فطرت کے اِن قوانین کو بھی قائم کیا ہے، اِس لیے دونوں کے درمیان کامل مطابقت پائی جاتی ہے۔ اِس مطابقت نے حاملینِ قرآن کو موجودہ زمانے میں ایک یہ موقع دیا ہے کہ وہ قرآن کی صداقتوں کو سائنس کے مسلّمات کی روشنی میں ثابت شدہ بنا سکیں۔
قرآن میںاظہارِ دین کے جس واقعے کا ذکر ہے، اُس سے مراد یہ نہیں ہے کہ خود زمانۂ نزول میں یہ واقعہ عملاً پیش آجائے گا، بلکہ اِس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اور اصحاب رسول کے ذریعے جو انقلاب آئے گا، وہ انسانی تاریخ میں ایک نئے پراسس کو شروع کرے گا۔ یہ پراسس عرب میں شروع ہوا اور بتدریج ارتقا کرتا رہا، یہاں تک کہ بیسویں صدی عیسوی میں اس کی تکمیل ہوئی۔ اِس تکمیل کے ذریعے نہ صرف واقعاتِ فطرت ظہور میں آئے جنھوںنے اسلامی عقائد کے اثبات کے لیے سائنسی بنیاد فراہم کی، بلکہ اِس کے ذریعے دوسرے وہ اجتماعی واقعات ظہور میں آئے جو اسلامی دعوت کے عین موافق تھے۔ مثلاً آزادی، جمہوریت اور مذہب کے اعتبار سے کھلاپن (openness) ، وغیرہ۔
قرآن کی اِس آیت میں اظہار سے مراد سیاسی غلبہ نہیںہے، بلکہ اِس سے مراد فکری غلبہ اور ایسے حالات کا پیدا ہونا ہے جس کے بعد قرآن کے مشن کی راہ میں کوئی رکاوٹ باقی نہ رہے، ہر قسم کے مواقع اس کے لیے قابلِ استعمال ہوجائیں — اکیسویں صدی عیسوی میں، قرآن کی یہ پیشین گوئی عملاً پوری طرح وقوع میں آچکی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اکیسویں صدی عیسوی اظہارِ دین کی صدی ہے۔ اسلامی انقلاب کے ذریعے جو تاریخی عمل (historical process) ساتویں صدی عیسوی میں شروع ہوا تھا، وہ اکیسویں صدی میں اپنے آخری نقطۂ انتہا (culmination) تک پہنچ گیا ہے۔ اب اہلِ اسلام کا واحد فریضہ یہ ہے کہ وہ تمام دوسری چیزوں کو ثانوی (secondary) بنائیں۔ وہ دعوت الی اللہ، بہ الفاظ دیگر دورِ جدید کی نسبت سے قرآنی تعلیمات کی اشاعتِ عام کریں، یہاں تک کہ ہر عورت اور ہر مرد اس سے باخبر ہوجائے۔
لوحِ محفوظ
قرآن کی سورہ البروج میں یہ آیت آئی ہے: بل ہو قرآن مجید فی لوح محفوظ (85: 21-22) یعنی وہ ایک باعظمت قرآن ہے، لوح محفوظ میں۔اِس آیت میں لوحِ محفوظ (well-guarded tablet) کا مطلب کیا ہے۔ اِس سلسلے میں کوئی مستند حدیث موجود نہیں۔ تاہم عام طورپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ملائِ اعلیٰ میں ایک محفوظ لوح ہے اور اِس لوح پر قرآن کا متن لکھا ہوا ہے۔ یہ بات اصولاً درست ہے، لیکن لوح سے مراد معروف لوح نہیں ہے، بلکہ اِس سے مراد ربانی لوح ہے۔
اصل یہ ہے کہ پورا عالمِ موجودات مکمل طورپر اللہ کے امر کے تحت ہے۔ شمس وقمر اور د وسرے ستاروں اور سیاروں کے بارے میں قرآن میں بتایا گیاہے کہ اُن کا ایک مقرر کورس (determined course) ہے، اور وہ ادنیٰ انحراف کے بغیر اِس مقرر کورس پر چلتے ہیں(36: 38) ۔ اِسی معاملے کو علمی طورپر اِس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ عالمِ مادی، فطرت کے قانون (law of nature) کی پابند ہے، اور عالمِ حیوانات اپنی جبلت (instinct) کی پابند۔
انسان کا معاملہ بظاہر مختلف ہے، کیوں کہ انسان کو اپنے قول وعمل کی آزادی دی گئی ہے۔ مگر اِس آزادی کے باوجود انسانی تاریخ پر اللہ نے اپنا کنٹرول قائم کررکھا ہے۔ تاریخ پر اِسی کنٹرول کی ایک صورت وہ ہے جس کو قرآن کے حوالے سے اِس طرح بتایاگیا ہے کہ قرآن ایک لوح محفوظ میں ہے۔ لوحِ محفوظ کا معاملہ کوئی پراسرار معاملہ نہیںہے، مطالعہ کے ذریعے اس کو سمجھا جاسکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن سے پہلے اپنے نبیوں کے ذریعے بہت سی کتابیں بھیجیں جو انسان کے لیے معتبر ہدایت نامہ کی حیثیت رکھتی تھیں۔ مگر پچھلی کتابیں محفوظ نہ رہ سکیں۔ ساتویں صدی عیسوی میں جب اللہ کا فیصلہ یہ ہوا کہ اب آخری پیغمبر بھیج دیاجائے تو اِس فیصلے کا ایک تقاضا یہ بھی تھا کہ آخری پیغمبر کے ذریعے آئی ہوئی کتاب (قرآن) کی مستقل حفاظت کا انتظام کردیا جائے— لوح محفوظ کے الفاظ میں قرآن کے اِسی مخصوص حفاظتی انتظام کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
اِس کی تدبیر یہ کی گئی کہ اولاً قرآن کا معیاری متن (standard version) علمِ الٰہی یا بہ الفاظِ دیگر، ملائِ اعلیٰ میں محفوظ کردیاگیا اور پھر تاریخ کے لیے مقدر کردیا گیا کہ وہ اِس معاملے میں اِسی رخ پر سفر کرے۔ چناں چہ عملاً یہی ہوا۔ اولاً یہ ہوا کہ ساتویں صدی کے نصف اول میں قرآن کو حافظے سے کتابت کی صورت میں محفوظ کیاگیا۔ ہزاروں لوگوں نے نسل درنسل یہ کیا کہ قرآن کو نہ صرف یاد کرکے اپنے حافظے میں ریکارڈ کرلیا، بلکہ اِسی کے ساتھ وہ قرآن کے کتابت شدہ نسخے برابر تیار کرتے رہے۔ اِس طرح وہ ایک نسل سے دوسری نسل تک مکتوب قرآن کو پہنچاتے رہے۔ یہی وہ معاملہ ہے جس کی طرف قرآن میں اِن الفاظ میں اشارہ کیاگیا ہے: علّم بالقلم۔تعلیم بالقلم کا یہ عمل اِس طرح مسلسل تقریباً ہزار سال تک جاری رہا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ انسانوں کو یہ توفیق دی کہ وہ طباعت کے آلات ایجاد کریں۔ اِس فن کے ارتقا میں بہت سے انسانوں نے کام کیا۔ آخر کار جرمن گولڈ سمتھ جوہانس گوٹن برگ (وفات: 1468 ) اِس میں کامیاب ہوگیا کہ وہ ایک قابلِ عمل طباعتی آلہ دریافت کرے۔ اِس دریافت کے بعد تاریخ میں ایک پرنٹنگ انقلاب (printing revolution) آیا جو تیزی سے ترقی کرتے ہوئے موجودہ اعلیٰ طباعتی مشین (printing press) تک پہنچا۔
لوح محفوظ کے الفاظ میں اِسی تاریخ کی طرف اشارہ کیاگیا ہے۔ قرآن کا نزول 610 عیسوی میں شروع ہوا۔ اس کی تکیل تقریباً 23 سال میں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ کی خصوصی توفیق سے استثنائی طورپر یہ واقعہ پیش آیا کہ خداکے نزدیک، قرآن کا جو معیاری متن (standard version) تھا، وہ ادنی تغیر کے بغیر پہلے انسانی حافظے میں ریکارڈ ہوا، پھر ادنیٰ تغیر کے بغیر کتابت کے ذریعے اس کی جلدیں بنائی گئیں، پھر تاریخ میں ایک پراسس جاری ہوا جس کے نتیجے میں پرنٹنگ پریس کا دور آگیا۔ پرنٹنگ پریس کے زمانے میں یہ ممکن ہوگیا کہ قرآن کا ایک نسخہ نہایت درست طورپر تیار کیا جائے اور پھر اس کی بلین اور بلین کاپیاں تیار کرلی جائیں۔ آج ہر گھر میں اور ہر مسجد میں اور ہر مدرسہ اور ہر لائبریری میں قرآن کے نہایت صحیح مطبوعہ نسخے موجود ہیں۔ اِس طرح خدا کی تقدیر اِس بات کی ضامن بن گئی کہ قرآن کسی بھی قسم کے تغیر اور تبدل کے بغیر ہر انسان کے لیے قابلِ دستیاب ہوجائے۔
ادخالِ کلمہ
سیکولر مبصرین عام طور پر یہ کہتے ہیں کہ اسلام کا سفر اس کے پیغمبر کے جلد ہی بعد ٹوٹ گیا، بعد کی تاریخ میں اسلام کا تسلسل باقی نہ رہا۔ مگر یہ رائے صرف سرسری مطالعے کا نتیجہ ہے۔ اسلام خدا کا دین ہے۔ اسلام کی تاریخ خدائی منصوبے کے تحت مسلسل سفر کررہی ہے۔ غلط فہمی صرف اِس لیے ہوتی ہے کہ لوگ یہ نہیں جانتے کہ تاریخ کا ہر سفر ناموافق حالات میں ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کا سفر انسانی آزادی کو باقی رکھتے ہوئے جاری ہے، نہ کہ انسانی آزادی کو منسوخ کرکے۔ انسانی تاریخ میں اسلام کے سفر کے تین مرحلے ہیں:
Land expansion — consolidation — overseas expansion
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب میں اپنے مشن کا آغاز 610 عیسوی میں کیا۔ اِس کے بعد دینِ توحید کی ایک نئی تاریخ بنی۔ اِس تاریخ کا خلاصہ یہ تھا کہ — انسانی آزادی کو منسوخ کئے بغیر دینِ توحید کی تاریخ بنانا اور اس کو اس کی آخری تکمیل تک پہنچانا۔ اس تاریخ پر اب تقریباً ڈیڑھ ہزار سال گزر چکے ہیں۔ یہ تاریخ مسلسل طورپر اپنی منزل کی طرف سفر کررہی ہے۔ اِس مدت کے دوران بظاہر جو اتار چڑھاؤ کے واقعات نظر آتے ہیں، وہ انسانی آزادی کو باقی رکھتے ہوئے تاریخ کو مینیج (manage) کرنے کی مثالیں ہیں۔
قرآن کی سورہ الانعام میں بتایا گیا ہے کہ — یہ قرآن اِس لیے اتارا گیا ہے کہ تم اے پیغمبر، آگاہ کردو اہلِ مکہ کو اور مکہ کے اطراف کے لوگوں کو (6: 92) ۔ قرآن کی اِس آیت میں، مکہ اور اطرافِ مکہ سے مراد بَرّی حصۂ ارض ہے، جہاں تک اُس زمانے کے درمیان حق کا پہنچنا بہ آسانی ممکن تھا ۔
زمین کے نقشہ (map) پر نظر ڈالیں تو عرب کے ایک طرف بحرِ متوسط (Mediterranean Sea) ہوگا، جس کے دوسری طرف یورپ کا براعظم واقع ہے۔ اِسی طرح اگر آپ عرب سے افریقہ کی طرف چلیں تو اس کی آخری سرحد پر اٹلانٹک سمندر (Atlantic Ocean) ہوگا، جس کے دوسری طرف امریکا کا براعظم واقع ہے۔ اسی طرح اگر آپ عرب سے بحرِ ہند (Indian Ocean) کی طرف چلیں تو اس کے دوسری طرف آسٹریلیا کا براعظم دکھائی دے گا۔
عقبہ بن نافع (وفات: 683 ء) ایک تابعی تھے۔ وہ عرب سے ایک دستہ لے کر نکلے اور افریقہ میں اسلام کی اشاعت کرتے ہوئے اس کے مغربی ساحل تک پہنچ گئے۔ یہاں تاحدِ نظر اٹلانٹک سمندر (Atlantic Ocean) پھیلا ہوا تھا۔ وہ اُس وقت گھوڑے پر سوار تھے ۔انھوں نے اپنا گھوڑا سمندر کے کنارے کھڑا کیا اور کہا: اللہم إنی لو أعلم وراء ہٰذا البحر بلداً لخُضتُہ إلیہ، حتی لا یُعبد أحد دونک (خدایا، اگر میں جانتا کہ اِس سمندر کے اُس پار بھی کوئی ملک ہے تو میں سمندر میں گھس کر وہاں جاتا، یہاں تک کہ تیرے سوا کسی کی عبادت نہ کی جائے)۔
عقبہ بن نافع کا یہ واقعہ علامتی طورپر یہ بتاتا ہے کہ دورِ اول میں اسلام کی دعوتی توسیع زمین کے برّی حصے میں برابر ہوتی رہی، لیکن وہ سمندر پار کے ملکوں تک نہ پہنچ سکی، کیوں کہ سمندری سفر کے لیے اُس زمانے میں قابلِ اعتماد اسباب موجود نہ تھے۔ اِس کے بعد تاریخ میں ایک نیا عمل شروع ہوا۔ اِس کا ایک پہلو استحکام (consolidation) تھا۔ استحکام کے بغیر دعوتی توسیع عملاً غیر موثر ہوجاتی، حتی کہ قرآن کی حفاظت بھی ممکن نہ ہوتی۔ اِس مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایسے عالمی حالات پیدا کئے کہ ایشیا اور افریقہ میں مسلمانوں کا سیاسی ایمپائر قائم ہوگیا۔ یہ مسلم ایمپائر اِس بات کا ضامن تھا کہ خدا کا آخری دین پوری طرح محفوظ ہوجائے اور اس کی اشاعت مسلسل جاری رہے۔
مذکورہ استحکام کے دورمیں اس کے زیر اثر ایک اور تاریخی پراسس (historical process) شروع ہوا۔ اِس کا مقصد تھا فطرت (nature) میں چھپے ہوئے امکانات کو وقوع میں لانا۔ یہ عمل تدریج کے ساتھ تاریخ میں جاری رہا۔ اِس عمل کا آغاز ابتداء ً مسلمانوں نے کیا۔ اس کے بعد یورپ میں اس کی تکمیل ہوئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آخر کار وہ چیزوجود میں آگئی جس کو کمیونکیشن کا دور (age of communication) کہاجاتا ہے۔ اِس مواصلاتی انقلاب کے بعد یہ ممکن ہوگیا کہ اسلام کی توسیع زمین کے برّی حصے تک محدود نہ رہے، بلکہ وہ سمندر پار کے ملکوں تک بہ آسانی پہنچ جائے۔
اسلامی دعوت کی عالمی توسیع اول دن سے اسلام کا نشانہ تھی (25: 1) ۔ مگر اسلام کی یہ عالمی توسیع، اسباب کی اِس دنیا میں ضروری وسائل کے بغیر ممکن نہ تھی۔ جدید مواصلاتی انقلاب نے اِس کو پوری طرح ممکن بنا دیا۔ مستقبل میں پیش آنے والا یہی واقعہ تھا جس کی خبر پیشگی طورپر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اِن الفاظ میں دے دی تھی: لا یبقی علی ظہر الأرض بیت مدر ولا وبر إلا أدخلہ اللّٰہ کلمۃ الإسلام (مسند احمد، رقم الحدیث: 24215) یعنی زمین کی پشت پر کوئی گھر یا خیمہ ایسا نہیں بچے گا جس میں اسلام کا کلمہ داخل نہ ہوجائے۔
اسلام ایک دعوتی مشن ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ تمام انسان جو اِس زمین پر پیدا ہوئے، اُن کو موت سے پہلے یہ بتادیا جائے کہ خدا کا تخلیقی منصوبہ (creation plan of God) ان کے بارے میں کیا ہے۔ انسان کی پوری تاریخ میں اس کو مسلسل طورپر جاری رہنا ہے۔ آغاز کے پہلے مرحلے میں اس کی توسیع زمین کے بری حصہ (ایشیا اور افریقہ) میں ہوتی رہی۔ اس کے بعد استحکام کے ساتھ ایسے مادی اسباب پیدا ہوئے جس کے تحت مواصلاتی ذرائع میں ایسا انقلاب آیا جس کے تحت یہ ممکن ہوگیا کہ اسلامی دعوت کی عالمی اشاعت کا کام کیا جاسکے۔ موجودہ زمانے میں پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا اور دوسرے ذرائع کی بنا پر اسلامی دعوت کے اِس عالمی نشانے کو پورا کرنا آخری حد تک ممکن ہوگیا ہے۔ اسی کے ساتھ موجودہ زمانے میں مذہبی آزادی (religious freedom) بھی مکمل طورپر حاصل ہوچکی ہے۔ اب امتِ محمدی سے وابستہ افراد کی یہ لازمی ذمے داری ہے کہ وہ اسلام کے دعوتی مشن کو اس کی آخری تکمیل تک پہنچائیں، یہاں تک کہ کرۂ ارض پر بسنے والا کوئی مرد یا عورت خدا کے اِس پیغام سے بے خبر نہ رہے۔
واپس اوپر جائیں

امتِ مسلمہ کو درپیش چیلنج

میرے مطالعے کے مطابق، عرب وعجم کے تمام مسلمان اِس بات پر متفق ہیں کہ موجودہ زمانے میں امتِ مسلمہ کو مختلف قسم کے چیلنج کا سامنا ہے۔ یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ تقریباً دو سو سال کی غیر معمولی کوشش کے باوجود یہ چیلنج بدستور باقی ہے۔ ایسی حالت میں یہ بات بے حد قابلِ غور ہے کہ اس چیلنج کاتجزیہ کیا جائے اور اِس کے حوالے سے مسلمانوں کا لائحہ عمل متعین کیا جائے۔
چیلنج کیا ہے۔ چیلنج کا لفظ مسئلہ (problem) کے لفظ سے مختلف ہے۔مسئلہ ایک منفی لفظ ہے، جب کہ چیلنج ایک مثبت لفظ ہے۔ چیلنج نسبتاً ایک نیا لفظ ہے۔ اس کا مطلب ہے — ایک نیا یا مشکل مسئلہ جو کہ آدمی کے لیے اس کی استعداد کا امتحان ہوتا ہے:
A new or difficult task that tests somebody's ability and skill.
چیلنج کا رسپانس دینے کی دوصورتیں ہیں — نگیٹیو رسپانس (negative response) اور پازیٹیو رسپانس (positive response)۔ نگیٹیو رسپانس یہ ہے کہ آدمی کو جب کسی چیلنج کا سامنا ہو تو وہ منفی رد عمل کا شکار ہوجائے۔ ایسے آدمی یا گروہ کا حال یہ ہوگا کہ چیلنج پیش آنے کے بعد وہ نفرت اور شکایت اور احتجاج کی نفسیات میں مبتلا ہوجائے گا۔ یہی نفسیات اس کو تشدد تک لے جائے گی اور آخر کار خود کش بم باری تک۔
موجودہ زمانے میں مسلمانوں کا یہی حال ہوا ہے۔ تقریباً دوسو سال پہلے اُن کو مغربی اقوام یا مغربی تہذیب کی طرف سے چیلنج پیش آیا۔ عرب سے عجم تک تمام مسلمان کم وبیش اس کا شکار ہوئے۔ مگر تمام مسلمانوں کا حال یہ ہوا کہ انھوں نے اِس چیلنج کا منفی رسپانس دیا۔ اِس کا فطری نتیجہ یہ ہوا کہ اُن کو یک طرفہ تباہی کے سوا اور کچھ نہیں ملا۔اِس جدید چیلنج کے مقابلے میں، صحیح طریقہ یہ تھا کہ مسلمان اس کا مثبت رسپانس دیتے۔ اِس معاملے میں مثبت رسپانس یہ تھا کہ وہ گہرائی کے ساتھ جدید چیلنج کا مطالعہ کرتے۔ وہ اِس قانونِ فطرت کی روشنی میں اس کا مطالعہ کرتے کہ — جب بھی کوئی چیلنج سامنے آتا ہے تو وہ مسائل (problems) کے علاوہ، نئے امکانات (opportunities) بھی اپنے ساتھ لے آتا ہے۔ آدمی کو چاہئے کہ وہ اِس امکان کو سمجھے اور اس کو استعمال کرے۔
مغربی چیلنج کیا تھا، وہ دراصل یہ تھا کہ مغربی قوموں نے فطرت (nature) کا گہرا مطالعہ کیا۔ انھوں نے نئی طاقتیں دریافت کیں۔ مثلاً پرنٹنگ پریس، مشین، کمیونکیشن، وغیرہ۔ اِس طرح ایک نئی تہذیب (civilization) وجود میں آئی۔ اِس واقعے نے مغربی قوموں کو نئی طاقت دے دی۔ انھوںنے قدیم دنیا پر فکری اور عملی غلبہ حاصل کرلیا۔ مسلمانوں نے محسوس کیا کہ مغربی قومیں غالب اور مسلمان مغلوب بن کررہ گئے ہیں۔
اِس نئی پیش آمدہ صورتِ حال کے مقابلے میں مسلمانوں نے صرف منفی رد عمل کا طریقہ اختیار کیا۔ صحیح یہ تھاکہ وہ جدید دریافتوں کے پیدا کردہ امکانات کو عالمی امکانات سمجھتے۔ جس طرح اِن امکانات کو اہلِ مغرب نے اپنے حق میں استعمال کیا ہے، اُسی طرح مسلمان بھی اِن جدید امکانات کو اپنے حق میں استعمال کرتے۔ یہ مسلمانوں کی طرف سے، جدید چیلنج کا مثبت رسپانس ہوتا۔ مسلمان اگر ایسا کرتے تو یقینی طور پر وہ اپنی کھوئی ہوئی حیثیت کو دوبارہ حاصل کرلیتے۔
یہ اِس معاملے کا عقلی پہلو ہے۔ اگر اِس معاملے کو خالص دینی اعتبار سے دیکھیں، تب بھی معلوم ہوگا کہ جدید چیلنج کی نسبت سے مسلمانوں کا یہ رویہ یقینی طورپر درست نہ تھا۔ موجودہ زمانے کے تقریباً تمام مسلمان متفقہ طورپر ایک ہی بات کہتے ہیں۔ وہ یہ کہ وہ موجودہ صورتِ حال کو مغربی قوموں کی سازش کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ یہ بلاشبہہ ایک بے بنیاد بات ہے۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ مسلمان اگر صبر اور تقویٰ کی روش اختیار کریں، تو دوسروں کی سازش انھیں کچھ بھی نقصان نہ پہنچا سکے گی(3: 120) ۔ قرآن کی اِس آیت سے معلوم ہوا کہ اِس دنیا میں کسی گروہ کے خلاف سازش (conspiracy) اصل مسئلہ نہیں ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ خود اُس گروہ کے اندر صبر اور تقویٰ کی اسپرٹ باقی نہ رہے۔
یہی بات حدیث میں بھی آئی ہے۔ ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے اپنی امت کے لیے ایک لمبی دعا کی۔ اِس دعا کے بعد اللہ تعالیٰ نے یقین دہانی کرتے ہوئے اپنے پیغمبر سے فرمایا: یا محمد، إنی أعطیت لأمتک أن لا أسلّط علیہم عدوًّا من سویٰ أنفسہم (صحیح مسلم، رقم الحدیث:2889 ) یعنی اے محمد، میں نے تمھاری امت کے لیے یہ مقدر کردیا ہے کہ میںاُن کے اوپر اُن کے اپنے سوا کسی خارجی دشمن کو مسلط نہیں کروں گا۔
یہ امتِ محمدی کے لیے کسی پراسرار فضیلت کی بات نہیں، بلکہ یہ ایک تاریخی واقعے کی بات ہے۔ خاتم النبیین کی امت ہونے کی حیثیت سے، امتِ محمدی کے ساتھ یہ واقعہ پیش آنا تھا کہ وہ بعد کے دور میں پہنچے، یعنی ایک ایسے دور میں جب کہ حالات مکمل طورپر بدل جائیں گے۔ یہ دور وہی ہے جس کو ہم آزادی اور جمہوریت اور اقوامِ متحدہ (UNO) کا دور کہتے ہیں۔ اِس نئے دو رمیں خود حالات کی تبدیلی کے نتیجے میں یہ ممکن ہوگیاکہ کوئی خارجی دشمن کسی کے لیے مسئلہ نہ بنے۔ اِس نئے دور میں اگر کوئی گروہ سنگین مسائل سے دوچار ہے تو وہ خود اپنی غلطی کی قیمت ادا کررہا ہے۔ اب خود حالات کی تبدیلی کے نتیجے میں کسی گروہ کے لیے خارجی حملہ (external invasion) کا مسئلہ نہیں ہے، وہ صرف داخلی ناکامی (internal failure) کا مسئلہ ہے۔
واپس اوپر جائیں

ایک خطاب

(13 جون 2012 کو بیروہ (کشمیر) میں حلقہ الرسالہ کے تحت ایک دعوہ میٹ ہوئی۔ اُس کے لیے صدر اسلامی مرکز نے دہلی میں اپنا ایک پیغام ریکارڈ کروایا جو اس دعوہ میٹ میں سنایا گیا۔ زیر نظر مضمون اِسی خطاب پر مشتمل ہے)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہر چیز کا ایک سپر فارمولا (super-formula) ہوتا ہے۔ اسلام کا سپر فارمولا یا سنٹرل تھیم (central theme) کیا ہے، وہ ہے شکر، یعنی پہلی آیت جو قرآن مجید کی ہے: ’’الحمد للہ رب العالمین‘‘ وہی اسلام کی سنٹرل تھیم ہے۔
جب ایک مسلمان پیدا ہوتاہے تو اس کے کان میں سب سے پہلی آواز جو ڈالی جاتی ہے، وہ کیا ہے، وہ ہے ’’اللہ اکبر‘‘، یعنی اللہ سب سے بڑا ہے۔ اس کے بعد جب وہ قرآن کو پڑھتا ہے تو سب سے پہلی آیت یہ پڑھتا ہے کہ حمد صرف اللہ کے لئے ہے۔ اس کلمہ کو وہ روزانہ اپنی پانچ وقت کی نمازوں میں بار بار دہراتا ہے ۔ پھر قرآن میں ہے کہ آخرت میں بھی یہی ہوگا : ’’وقیل الحمد للہ رب العالمین‘ ‘۔
دنیا سے لے کر آخرت تک جو سب سے بڑی چیز مقرر کی گئی ہے، وہ ہے حمد میں جینا۔ حمد کیا ہے، وہ شکر ہے۔ اللہ کی عظمت کو جب آپ پہچانـتے ہیں، جب آپ اللہ کی بڑائی کو دریافت کرتے ہیں تو اس کے نتیجے میں جو چیز پیدا ہوتی ہے، وہ ہے اعتراف (acknowledgement) ، اسی اعتراف کا دوسرا نام شکر ہے۔خود کو چانچنے کے لیے کہ میں اسلام پر ہوں یا نہیں، اللہ کے صحیح راستہ پر ہوں یا نہیں، اس کو پہچاننے کا جو معیار ہے، وہ حمد ہے۔ اگر آپ کو یہ سمجھنا ہے کہ میں اللہ کے راستہ پر ہوں کہ نہیں، تو اپنے آپ کو اس اعتبار سے جانچئے کہ آپ کے اندر شکر کی نفسیات ہے یا نہیں۔
دیکھئے، شکر کرنے والے ہی کے لیے جنت ہے۔ قرآن میں ہے: ’’إلاّ من أتی اللہ بقلبٍ سلیمٍ‘‘ جو آدمی قلبِ سلیم کے ساتھ آیا آخرت میں، اس کو جنت میں داخلہ ملے گا۔ قلب سلیم کیا ہے، وہ دل جس کے اندر نفرت نہ ہو، کینہ نہ ہو، غصہ نہ ہو، کسی کے خلاف برائی نہ ہو، جو ایسا دل لے کر آخرت میں پہنچا، اسی کے لیے جنت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار ایک صحابی کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا کہ: اگر تم سے ہوسکے تو تم اپنی صبح اور شام اس طرح کروکہ تمھارے دل میں کسی کے خلاف غِش نہ ہو، کینہ (malice) نہ ہو، نفرت نہ ہو، یہ سب چیزیں نہ ہوں۔ اس کو ہم اگر دوسرا لفظ دیں تو کہیںگے کہ— مثبت سوچ (positive thinking) کے ساتھ دنیا میں رہو، مثبت سوچ کے ساتھ جیو، مثبت سوچ کے ساتھ مرو۔ ایسے ہی لوگوں کے لیے جنت ہے۔
دیکھئے ہوتا کیا ہے، ہم سب جانتے ہیں اس بات کو، لیکن ہم کسی چیز کو الگ کردیتے ہیں۔ مثلاً پولٹکل (political) شکایت ہوتی ہے تو ہم سوچتے ہیں کہ یہ تو الگ چیز ہے۔ پولٹکل شکایت الگ چیز نہیں ہے، پولٹکل شکایت بھی اسی میں شامل ہے۔ دوسری شکایتوں کو لے کر اگر آپ نگیٹیو (negative) ہوگئے، دوسری شکایتوں کو لے کر اگر آپ کی پازیٹیو تھنکنگ (positive thinking) ختم ہوگئی، تو آپ نے جنت کا رسک (risk) لیا۔ اسی طرح دیکھئے، پولٹکل شکایتوں کو لے کر اگر آپ نیگیٹیو (negative) ہوگئے، آپ کے اندر نفرت آئی، تشدد آیا، تو بس جنت رسک میں آگئی۔ یاد رکھئے، یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس میں آپ کو کو ئی بھی اکسکیوز(excuse) لینا نہیں ہے۔ نہ پولیٹکل اکسکیوز (political excuse) نہ ہی سوشل اکسکیوز(social excuse) نہ ہی اور کوئی اکسکیوز (excuse) ۔
جب بھی کوئی تجربہ آپ کے اندر ناشکری پیدا کرے، آپ کے اندر نفرت پیدا کرے، آپ کو نفرت اور تشدد کی طرف لے جائے، تو سمجھ لیجئے کہ وہ شیطان کی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانیت کے آغاز ہی میں ایک مثال قائم کردی۔ ایک طرف تھے فرشتے، دوسری طرف تھا ابلیس۔ ابلیس شکایت کے راستہ پر چلا: ’’ربِّ بما أغویتَنی‘‘۔ ابلیس نے نعوذ باللہ، اللہ تعالی سے شکایت کی۔ فرشتوں نے کہا کہ جو آپ کاحکم ہے، یعنی جو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے، ہم اس کو دل سے مانتے ہیں۔ تو یہ اللہ تعالیٰ نے نمونہ قائم کردیا کہ جو نفرت اور شکایت اور تشدد کے راستہ پرچلے گا، اس کا انجام شیطان کے ساتھ ہوگا، اور جو محبت، خیر خواہی اور امن اور positivity کے راستے پر چلے گا، اس کے لئے جنت ہے، اس کے لیے اللہ کی رضا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہم میں سے ہر شخص کو اسی اعتبار سے اپنا محاسبہ (introspection) کرنا چاہئے کہ ہم نے اپنی family life میں ، اپنی social life میں اور اپنی قومی زندگی میں کون سا راستہ اختیا رکیا ہے— نفرت والا راستہ یا محبت والا راستہ، امن والا راستہ یا تشدد والا راستہ۔ اسی سے فیصلہ ہوگا کہ ہم اللہ کے راستے پر ہیں، یا شیطان کے راستے پر ہیں۔
یہ سب سے بڑی چیز ہے جس کا ہمیں ہر صبح وشام محاسبہ کرنا چاہئے۔ کیوں کہ ہر آدمی کو مرنا ہے۔ مرنے کے بعد اللہ کے سامنے پیش ہونا ہے۔ یاد رکھئے، اللہ کے سامنے کوئی اکسکیوز(excuse) نہیں چلے گا، کوئی عذر نہیں چلے گا۔ جو پرسنالٹی (personality) آپ نے بنائی ہے، اُسی کے ساتھ آپ خدا کے سامنے جائیں گے۔ دنیا میں جو تجربات ہوتے ہیں، اس کے درمیان کیا ہوتاہے— کسی کی پرسنالٹی، پازیٹیو پرسنالٹی (positive personality) بنتی ہے اور کسی کی نیگیٹیو پرسنالٹی (negative personality) بنتی ہے۔ کوئی آدمی ہوتا ہے نفرت میں جینے والا، کوئی ہوتا ہے محبت اور خیر خواہی میں جینے والا، کوئی ہوتا ہے امن میں جینے والا، کوئی ہوتا ہے تشدد میں جینے والا۔ اسی چیز سے آدمی کی پرسنالٹی بنتی۔ یہی پرسنالٹی آدمی کو یا تو جہنم میں لے جائے گی یا جنت میں لے جائے گی۔
جیسے میں اس وقت دلّی میں ہوں۔ میں بول رہا ہوں اور آپ لوگ کشمیر میں میری آواز کو سن رہے ہیں۔ دلّی اور کشمیر کے بیچ میں 850 کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ اتنی دوری کے باوجود میں آپ کو ایڈریس کررہا ہوں، آپ میری بات کو سن رہے ہیں۔ کتنی بڑی نعمت ہے یہ۔ پچھلے زمانہ میں کسی بادشاہ کو بھی یہ نعمت حاصل نہیں تھی، اسی کا نام شکر ہے، ہم کو رات دن شکر ہی کرتے رہنا چاہئے۔
میرا مشورہ ہے، شکر میں جینے والا بنئے، شکر کے آئٹم کو تلاش کیجئے، اور ناشکری کے آئٹم کو بھلائیے۔ چاہے پولٹکل لائف ہو یا کوئی اور لائف ہو، ہرجگہ دونوں قسم کے آئٹم ہوتے ہیں ، شکر کے بھی اور اور ناشکری کے بھی۔ تو شکر کے آئٹم کو تلاش کرکے، اس کو اپنے مائنڈ میں بٹھائیے، ناشکری کے آئٹم کو بھلائیے، بھلائیے، بھلائیے، تاکہ آپ کے اندر مثبت شخصیت (positive personality) بنے، یعنی وہ پرسنالٹی جو آپ کو جنت کا مستحق بنائے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ کو اور آپ کو اس حقیقت کو سمجھنے کی توفیق دے، اور ہم آپ اللہ کے سامنے اس طرح حاضر ہوں کہ اللہ ہمیں قبول کرے، وہ ہمیں رد نہ کردے۔ أقول قولی ہذا، وأستغفر اللہ لی ولکم اجمعین۔
واپس اوپر جائیں

ایک خط

عزیزم عبد الرحمن چاؤش السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
16 مئی 2012 کو ٹیلی فون پر یہ خبر ملی کہ عزیزہ ام السلام (پیدائش:1950 ) کا انتقال ہوگیا: إنا للہ وإنا إلیہ راجعون۔ مرحومہ میری اولاد میں بلکہ میری پوری فیملی میں سب سے زیادہ نیک خاتون تھیں۔ خاندان کے کسی شخص کو کبھی اُن سے کوئی ناخوش گوار تجربہ پیش نہیں آیا۔وہ پورے معنوں میں صبر وشکر کا پیکر تھیں۔ اپنی صفات کے اعتبار سے وہ بلاشبہہ ایک جنتی خاتون تھیں۔مرحومہ اتنا زیادہ صالح مزاج کی خاتون تھیں کہ وہ نہ کبھی کسی سے فرمائش کرتی تھیں، نہ کسی سے ان کو شکایت ہوتی تھی۔ وہ گھر میں کبھی کوئی پرابلم پیدا نہیں کرتی تھیں۔ وہ کبھی دنیوی باتوں کا چرچا نہیںکرتی تھیں۔ بس اپنی ذمے داری ادا کرنا اور نماز، روزہ کرنا، یہی ان کا مشغلہ تھا۔ صبر، قناعت، سادگی، شکر، یہ سب باتیں ان کی زندگی کا حصہ بن گئی تھیں۔
ام السلام بظاہر میرے دعوتی مشن میں براہِ راست شریک نہ تھیں، مگر وہ برابر اس کے لئے دعا کرتی تھیں۔ میرے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہ خصوصی معاملہ ہوا کہ میرے تمام بچے، بلکہ بچوں کے بچے بھی میرے دعوتی مشن میں کسی نہ کسی پہلو سے شریک ہیں۔ میں سمجھتاہوں کہ اس میں سب سے زیادہ دخل ام السلام کی دعاؤں کا ہے۔ مرحومہ اس بات کی ایک انوکھی مثال تھیں کہ دعوتی مشن میں شریک نہ ہوتے ہوئے بھی ایک شخص بالواسطہ طورپر دعوتی مشن کے لیے بہت بڑا کام کرسکتا ہے۔ مرحومہ دل سے میرے دعوتی مشن میں شریک تھیں۔ وہ اپنے شوہر محمد عثمان چاؤش (وفات: 2005 ) کے لیے کبھی کوئی مسئلہ نہ بنیں۔ ان کے اِسی مزاج کا نتیجہ تھا کہ محمدعثمان چاؤش صاحب کو یہ موقع ملا کہ وہ پورے مہاراشٹر میں ہمارے دعوتی لٹریچر کو پھیلا دیں۔ اِس طرح دعوتی مشن میں اُن کی خاموش شرکت کا یہ نتیجہ ہوا کہ ان کی اولادیں سب کی سب، دعوتی مشن میں شامل ہوگئیں۔ وہ مقرر یا محرر نہ تھیں، مگر انھوں نے اپنے صالح مزاج کی بنا پر مقرر اور محرر سے بھی زیادہ بڑا کام کیا۔
میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحومہ کو جنت الفردوس میں جگہ دے۔ میری دعا ہے کہ آپ لوگوں کو اللہ تعالیٰ مرحومہ کا نعم البدل عطا فرمائے۔ آپ کے گھر میں ان کے جانے سے جو کمی واقع ہوئی ہے، خدا اس کی بھرپور تلافی فرمائے۔
نئی دہلی، یکم جون 2012 دعا گو وحید الدین
واپس اوپر جائیں

شبِ قدر

رمضان کا مہینہ ہجری کیلنڈر کا نواں مہینہ ہے۔ اِس مہینے میں اہلِ ایمان کے لیے روزہ رکھنے کا حکم ہے(2: 183)۔ رمضان کے مہینے کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے کسی رات میں شبِ قدر واقع ہوتی ہے۔ شبِ قدر کو قرآن میں ’لیلۃ القدر‘ کہاگیا ہے۔ یہ ’لیلۃ القدر‘ دوسری ہزار راتوں سے زیادہ بہتر ہے۔ شبِ قدر کا ذِکر قرآن کی سورہ القدر(97) میں آیا ہے۔ اِس سورہ کا ترجمہ یہ ہے: ’’بے شک ہم نے قرآن کو اتارا ہے شبِ قدر میں۔ اور تم کوکیا جانو کہ شبِ قدر کیا ہے۔ شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ فرشتے اور روح اس میں اپنے رب کی اجازت سے اترتے ہیں، ہر حکم لے کر۔ وہ رات سرتا سر سلامتی ہے، صبح نکلنے تک‘‘۔
یہ 610 ء کی ایک رات تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے قریب غارِ حرا میں موجود تھے۔ اُس وقت جبریل، قرآن کی پہلی وحی لے کر آپ کے پاس آئے۔ یہ پہلی وحی سورہ العلق(96) کی ابتدائی پانچ آیتیں تھیں۔ قرآن کا نزول خدا کی عظیم رحمت کا نزول تھا، اِس لیے اُس رات کو ایک یادگار رات قرار دیا گیا۔
شبِ قدر کے موقع پر خدا اپنے سالانہ فیصلے فرماتا ہے۔ اِس لیے یہ رات ذکر اور دعا اور عبادت اور تلاوت کی رات قرار دی گئی ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہر عورت اور مرد کو اِس موقع پر زیادہ سے زیادہ خدا کی طرف متوجہ ہونا چاہیے اور زیادہ سے زیادہ دعا کرناچاہیے، تاکہ خدا کے سالانہ فیصلوں میں اُس کو خدا کی رحمت میں زیادہ سے زیادہ حصہ ملے۔ وہ خدا کے نزدیک زیادہ سے زیادہ انعام کا مستحق قرار پائے۔
حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں رمضان کی آخری راتوں میں اعتکاف میں تھا، اُس وقت مجھ پر شبِ قدر کا علم اُتارا گیا۔ میںمسجد سے باہر نکلا، تاکہ میں تم کو شبِ قدر کے وقت کے بارے میں بتا دوں، لیکن اُس وقت مدینہ کے دو مسلمان آپس میں لڑ گیے، اِس کے بعد شبِ قدر کا علم اٹھا لیا گیا(فتلاحیٰ رجُلان من المسلمین، فرُفعت) صحیح البخاری، رقم الحدیث: 1919۔
اِس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ شبِ قدر کی خصوصی رحمتوںمیں حصّے دار بننے کے لیے کیا چیز ضروری ہے، وہ چیز یہ ہے کہ آدمی کے اندر لڑائی جھگڑے کا مزاج نہ ہو۔ اُس کا دل نفرت جیسے منفی جذبات سے خالی ہو۔ اُس کا ذہن پوری طرح مثبت انداز میں سوچنے والا ہو۔ جو عورت یا مرد اپنے اندر اِس قسم کی مثبت شخصیت رکھتے ہوں، انھیں کو شبِ قدر کی رحمتوں میں حصہ ملے گا۔
حدیث میں آیا ہے کہ حضرت عائشہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اگر میں شبِ قدر کو پاؤں تو میں کیا دعا کروں۔ آپ نے فرمایا کہ تم اِس طرح کہو: اللہم إنک عفوٌّ تحبّ العفو، فاعفُ عنی (سنن التّرمذی، رقم الحدیث: 3513 ) یعنی اے اللہ، تو سرتا پا معافی ہے اور تو معافی کو پسند کرتا ہے، پس تو مجھے معاف فرما۔
یہ حدیث بتاتی ہے کہ شبِ قدر میںآدمی کے اندر سب سے زیادہ طلب کس چیز کی ہونا چاہیے، وہ یہ کہ آدمی موت کے بعد آنے والی ابدی زندگی کی کامیابی کا حریص ہو۔ وہ اللہ سے یہ درخواست کرے کہ — خدایا، تومیری غلطیوں اورکوتاہیوں کو معاف فرما، آخرت کی ابدی زندگی میںتو مجھے دوزخ سے بچا، اور جنت کے باغوں میں تو مجھے جگہ عطا فرما۔
قرآن کے مطابق، شبِ قدر میںکثرت سے خدا کے فرشتے اترتے ہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ خدا شبِ قدرکی صورت میں ہر عورت اور مرد کو یہ موقع دیتاہے کہ وہ فرشتوں کا ہم نشیں بنے۔ وہ فرشتوں سے ایسی روحانی غذا لے جس کے نتیجے میں اُس کا دل سلامتی کے جذبات سے بھر جائے۔ وہ منفی جذبات اور دنیا پرستی سے اوپر اٹھ جائے اور حقیقی معنوں میں وہ خدا کا طالب بن جائے۔ ایسا ہی دل و دماغ رکھنے والے لوگ شبِ قدر کے موقع پر خدا کی خصوصی رحمتوں میں حصے دار بنیں گے۔
شبِ قدر ایک اعتبار سے شبِ امن ہے۔ جس عورت یا مرد کو شبِ قدر کی رحمتیں مل جائیں، اُس کا دل امن و سلامتی کے جذبات سے بھر جائے گا۔اس کی سوچ پُر امن سوچ ہوگی۔ اس کی گفتگو پُر امن گفتگو ہوگی۔ اس کا کردار پُر امن کردار ہوگا۔ اس کا طریقہ پُرامن طریقہ ہوگا۔ اس کی پوری شخصیت امن پسند شخصیت بن جائے گی۔ اس کے ذریعے سے دوسروں کو جو چیز ملے گی، وہ امن ہوگا اور صرف امن۔
قرآن: کتابِ قدر
قرآن کی سورہ القدر کی پہلی آیت یہ ہے: إنّا أنزلناہ فی لیلۃ القدر (97:1) یعنی ہم نے قرآن کو اتارا ہے قدر کی رات میں۔ اِس آیت میں قدر کا مطلب تقدیر (Destiny) ہے۔ اِس آیت میں قدر کی نسبت رات کی طرف کی گئی ہے، مگر حقیقت میں اس کی نسبت قرآن کی طرف ہے، یعنی وہ رات جس میں کتابِ قدر (Book of Destiny) اتاری گئی ۔
قرآن میں انسان کی تقدیر بتائی گئی ہے، یعنی وہ قوانینِ فطرت جو انسان کی تقدیر کا فیصلہ کرنے والے ہیں، فرد کی تقدیر بھی اور قوم کی تقدیر بھی۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ قرآن کے اِن ابدی قوانینِ تقدیر کو معلوم کرے اور اس کے مطابق، اپنی زندگی کی تشکیل کرے۔
مثلاً قرآن کی ایک آیت یہ ہے: إن تصبروا وتتقوا لا یضرکم کیدہم شیئاً (3: 120) یعنی اگر تم صبر کرو اور تقویٰ کی روش اختیا رکرو تو دوسروں کی سازش تم کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گی۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کے مقرر کئے ہوئے قانونِ حیات کے مطابق، انسان کی طاقت کا سرچشمہ صبر اور تقویٰ ہے۔ کسی فرد یا قوم کا اصل مسئلہ سازشِ غیر کی موجودگی نہیں، بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس کے اپنے اندر صبر اور تقویٰ کی صفت موجود نہیں۔
اِس قانونِ فطرت کے مطابق، اگر کوئی قوم یہ پائے کہ دوسرے لوگ اس کے خلاف سازش کررہے ہیں تو اس کو چاہیے کہ وہ اس کا سبب خود اپنے اندر تلاش کرے، نہ کہ اپنے آپ سے باہر۔ اِس طرح کی صورتِ حال میں کسی مفروضہ حریف کے خلاف شکایت اور احتجاج کی تحریک چلانا اپنی حقیقت کے اعتبار سے، ایک غیر متعلق (irrelevant) کام ہے۔
اصل یہ ہے کہ ایسے موقع پر خود اپنا جائزہ لیا جائے، صبر وتقویٰ کے اعتبار سے اپنی کمیوں کو تلاش کیا جائے۔ جو لوگ اِس اعتبار سے قرآن کو اپنی زندگی کا رہنما بنائیں، وہی شبِ قدر کی برکتوں کو پائیں گے۔
واپس اوپر جائیں

سوال وجواب

سوال
آپ نے لکھا ہے کہ جنت کسی کی سفارش سے نہیں ملتی، اگر ایسا ہے تو اِس حدیث کا کیا مطلب ہے کہ میری شفاعت میری اُمت کے گناہِ کبیرہ کرنے والوں کے لئے ہے: شفاعتی لأہل الکبائر من أمتی (مسند أحمد، رقم الحدیث: 13566 )۔ ابھی الرسالہ، جون 2012 کا شمارہ مجھے ملا۔ اُس میں ’’وسیلہ کی حقیقت‘‘ کے عنوان سے آپ کا ایک مضمون چھپا ہے۔ اِس مضمون سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش سے جنت اور مغفرت حاصل نہیں ہوگی اور اس کو وسیلہ کا نام دینا خود ساختہ مفہوم ہے۔جو شخص اپنے عمل کے اعتبار سے جنتی نہ ہو، وہ پیغمبر کی سفارش سے جنتی نہیں بن جائے گا۔ اگر کوئی شخص شفاعت کا یہ مطلب سمجھتاہے تو یہ مطلب صحیح نہیں ہے۔خلاصہ یہ کہ نہ کسی کو پیغمبر کی سفارش سے جنت اور مغفرت حاصل ہوگی اور نہ کوئی جہنمی شخص پیغمبر کی سفارش سے جنتی بن جائے گا۔یہ تمام تر اللہ کا عطیہ ہے، قرآن اورحدیث دونوں میں اِس بارے میں واضح ہدایات ہیں۔
میں جاننا چاہوں گا کہ قرآن کی کس آیت میں اور حدیث کی کس روایت میں یہ واضح ہدایات موجود ہیں۔ آپ نے شفاعت کا جو مطلب بیان کیا ہے، اُس کی روشنی میں’’شفاعتی لأہل الکبائر من أمتی‘‘ کا مفہوم واضح فرمائیں۔(اے، جے، قادری، امبیڈکر نگر، یوپی)
جواب
احادیث کے بارے میں علما کا مسلک یہ ہے کہ جب دو حدیثوں میں تعارض ہو تو ایک حدیث کو لیاجائے گا اور دوسری حدیث کی تاویل کی جائے گی، مسند احمد کی مذکورہ روایت کا معاملہ یہی ہے۔ ایک طرف یہ حدیثہے اور دوسری طرف ایسی کئی روایتیں ہیں جو اِس حدیث کے سراسر خلاف ہیں۔ مثال کے طورپر یہاں اِس سلسلے میں چند حدیثیں نقل کی جاتی ہیں:
1 - ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: واللہ ما أدری، وأنا رسول اللہ، ما یُفعل بی، ولابکم(صحیح البخاری، رقم الحدیث: 7018 ) یعنی خدا کی قسم، میں نہیں جانتا، اگرچہ میں خدا کا رسول ہوں کہ کیا کیا جائے گا میرے ساتھ اور کیا کیا جائے گا تمھارے ساتھ۔
2 - عن أبی ہریرۃ قال لمّا نزلت: وأنذر عشیرتک الأقربین۔ جَمََعَ رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قریشا فخصّ وعَمّ، فقال یا معشر قریش،انقذوا انفسکم من النار، فإنی لا أملک لکم من اللہ ضرًّا ولانفعًا۔ یا معشر بنی عبد مناف، أنقذوا أنفسکم من النار، فإنی لا أملک لکم من اللہ ضرًّا ولا نفعًا۔ یا معشر قُصی، انقذوا أنفسکم من النار، فإنی لا أملک لکم من اللہ ضرًا ولا نفعًا۔ یا معشر بنی عبد المطلب، أنقذوا أنفسکم من النار، فإنی لا أملک لکم من اللہ ضرًا ولا نفعًا۔ یا فاطمۃ بنت محمّد، أنقذی نفسکِ من النار فإنی لا أملک لکِ من اللہ ضرًا ولا نفعًا۔ (سنن الترمذی، رقم الحدیث:3185)
یعنی جب قرآن کی یہ آیت اتری: وأنذر عشیرتک الأقربین(26: 214) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے لوگوں کو جمع کیا۔ آپ نے خصوصی طورپر اور عمومی طور پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اے قریش کے لوگو، اپنے آپ کو آگ سے بچاؤ، کیوں کہ میں تمھارے لیے اللہ کے مقابلے میں نہ کسی ضرر پر قدرت رکھتا اور نہ کسی نفع پر۔ اے بنو عبد مناف کے لوگو، اپنے آپ کو آگ سے بچاؤ، کیوں کہ میں تمھارے لیے اللہ کے مقابلے میں نہ کسی ضرر پر قدرت رکھتا اور نہ کسی نفع پر۔اے بنی قُصَی کے لوگو، اپنے آپ کو آگ سے بچاؤ، کیوں کہ میں تمھارے لیے اللہ کے مقابلے میں نہ کسی ضرر پر قدرت رکھتا اورنہ کسی نفع پر۔ اے نبو عبد المطلب کے لوگو، اپنے آپ کو آگ سے بچاؤ، کیوں کہ میں تمھارے لیے اللہ کے مقابلے میں نہ کسی ضرر پر قدرت رکھتا اور نہ کسی نفع پر۔ اے فاطمہ بنتِ محمد، تم اپنے آپ کو آگ سے بچاؤ، کیوں کہ میں تمھارے لیے اللہ کے مقابلے میں نہ کسی ضرر پر قدرت رکھتا اور نہ کسی نفع پر۔
3 - عن عائشۃ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: سدّدوا وقاربوا وأبشروا، فإنہ لایُدخل أحدًا الجنۃَ عملُہ۔ قالوا: ولا أنت یا رسول اللہ۔ قال: ولا أنا، إلا أن یتغمّدنی اللہ بمغفرۃ ورحمۃ (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 6467) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنا رویہ درست رکھو اور میانہ روی پر قائم رہو اور پُر امید رہو، کیوں کہ کسی بھی شخص کو اُس کا عمل جنت میں داخل نہیں کرے گا۔ لوگوں نے کہا کہ کیا آپ کو بھی نہیں اے خدا کے رسول، آپ نے فرمایا کہ ہاں مجھ کو بھی نہیں، الا یہ کہ اللہ مجھ کو اپنی مغفرت اور رحمت سے ڈھانپ لے۔
یہی بات قرآن میں اِن الفاظ میں آئی ہے: لیس للإنسان إلاّ ما سعی (53:39) ۔ اِسی طرح قرآن میں بتایا گیا ہے کہ آخرت میں کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے لیے کچھ نہ کرسکے گا۔ اُس دن سارا معاملہ صرف اللہ کے اختیار میں ہوگا: یوم لا تملک نفسٌ لنفس شیئاً، والأمر یومئذ للہ (82: 19) ۔اِن آیتوں اور اِن حدیثوں سے واضح طورپر معلوم ہوتا ہے کہ کسی شخص کا جنت میں داخلہ صرف اپنے ذاتی عمل کی بنیاد پر ہوگا، نہ کہ کسی دوسرے شخص کی سفارش کی بنیاد پر۔ ایسی حالت میں مسلّمہ اصول کی بنیاد پر مذکورہ روایت (شفاعتی لأہل الکبائر من أمتی) یا اِس قسم کی کسی اور حدیثِ شفاعت کی تاویل کی جائے گی۔ وہ تاویل یہ ہے کہ حدیث میں شفاعت سے مراد سفارش (recommendation) نہیںہے، بلکہ شہادت (witness) ہے۔ اِس تاویل کا درست ہونا خود قرآن سے ثابت ہے۔ قرآن کی سورہ الزخرف میں یہ آیت اِس موضوع پر حجتِ قاطع کی حیثیت رکھتی ہے۔ آیت کے الفاظ یہ ہیں: ولایملک الذین یدعون من دونہ الشفاعۃَ، إلاّ من شہد بالحق وہم یعلمون(43: 86) یعنی اللہ کے سوا جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں، وہ شفاعت کا اختیار نہیں رکھتے، مگر وہ جو حق کی گواہی دیں اور وہ جانتے ہوں گے۔
اِس آیت کی تشریح یہ ہے کہ ’’قیامت میں پیغمبر اور داعیانِ حق جو شفاعت کریں گے، وہ حقیقۃً شفاعت نہیں ہے، بلکہ شہادت ہے، یعنی ایسی بات کی گواہی دینا جس کو آدمی ذاتی طور پر جانتا ہو۔ آخرت میں جب لوگوں کا مقدمہ پیش ہوگا تو سارے علم کے باوجود اللہ تعالیٰ مزید تائید کے طورپر اُن لوگوں کو کھڑا کرے گا جو قوموں کے ہم عصر تھے، انھو ںنے اُن کے سامنے حق کا پیغام پیش کیا، پھر کسی نے مانا اور کسی نے نہیں مانا، کسی نے حق کا ساتھ دیا اور کوئی حق کا مخالف بن کر کھڑا ہوگیا۔
یہی تجربہ جو اُن صالحین پر براہِ راست گزرا، اس کووہ خدا کے سامنے پیش کریں گے۔ یہ ایسا ہی ہوگا جیسے کہ کوئی گواہ عدالت میں اپنے مشاہدے کی بنیاد پر ایک سچا بیان دے۔ اِس کے سوا کسی کو قیامت میں یہ اختیار حاصل نہ ہوگا کہ وہ کسی مجرم کا شافع بن کر کھڑا ہواور وہ اس کے بارے میں اُس خدائی فیصلے کو بدل دے جو از روئے واقعہ اس کے بارے میں ہونے والا تھا۔ خدا اِس سے بہت بلند ہے کہ اُس کے حضور کوئی شخص ایسا کرنے کی کوشش کرے‘‘۔ (تذکیر القرآن، صفحہ :1351 )
سوال
غلوکیا ہے اور غلو کا نقصان کیا ہے۔ براہِ کرم، اس کو واضح فرمائیں ، نیز یہ بتائیں کہ کسی تحریک سے وابستہ افراد اپنی تحریک کو غلو اور فرقہ بندی کی نفسیات سے کس طرح بچا سکتے ہیں۔ (عبد الباسط عمری، دوحہ، قطر)
جواب
اسلام میں غلو سے منع کیا گیا ہے۔ یہ ممانعت قرآن میںبھی ہے اور حدیث میں بھی۔ قرآن اور حدیث میںاگرچہ غلو کے لیے حرام کا لفظ استعمال نہیں ہوا ہے، لیکن اپنے نتیجے کے اعتبار سے غلو کی برائی یقینی طورپر حرام سے کم نہیں۔
غلو کا مطلب حد سے تجاوز کرنا ہے۔ آج کل کی زبان میں اس کو انتہا پسندی (extremism) کہاجاسکتاہے۔ غلو کی دو قسمیں ہیں — اعتقادی غلو، اور عملی غلو۔ دونوں قسم کے غلو کی نوعیت ایک دوسرے سے الگ ہے۔ عملی غلو سے انفرادی مزاج میں بگاڑ آتاہے، لیکن اعتقادی غلو کی برائی اِس سے زیادہ ہے۔ اعتقادی غلو اگربڑھ جائے تو اُس سے نئے نئے فرقے وجود میں آتے ہیں۔
عملی غلو کی ایک مثال یہ ہے کہ کوئی شخص یہ کہے کہ ہوائی جہاز سے سفر کرنا سنت کے خلاف ہے اور پھر وہ حج کے لیے پیدل یا اونٹ کے ذریعے سفر کرکے مکہ پہنچے۔ یہ طریقہ ایک شخص کے مزاج میں انتہاپسندی پیدا کرسکتا ہے، لیکن اُس سے کوئی الگ فرقہ نہیں بنے گا۔
اعتقادی غلو زیادہ شدید قسم کا غلو ہے۔ ایک شخص اعتقادی غلو کی بات کرے اور پھر بہت سے لوگ اس کے ماننے والے بن جائیں تو اس سے ایک نیا فرقہ وجود میں آجائے گا۔ مثلاً کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ نبوت کُلّی معنوں میں ختم نہیں ہوئی، زمانے کے بدلنے سے دوبارہ کوئی نبی آسکتا ہے، اور اِس نئے پیغمبر پر ایمان لانا اس کے معاصرین کی نجات کے لیے ضروری ہے۔ اِس طرح کی بات اگر زیادہ لوگ مان لیں تو اس سے دین میں ایک نیا فرقہ وجود میں آجائے گا۔
غلو ایک قسم کی بدعت ہے۔ غلو ہر حال میں ایک برائی ہے، لیکن اگر کوئی شخص ایک ایسی سنت کو زندہ کرنے کے لیے کھڑا ہو جو معاصرین کو بظاہر نئی چیز معلوم ہو، لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ صرف ایک متروک سنت کا احیا ہو تو ایسی تحریک غلو نہیں۔ مثلاً دعوت الی اللہ کی تحریک ۔ایسی تحریک سے دین میں کبھی کوئی برائی پیدا نہیں ہوگی۔
آپ کے سوال کا دوسرا جُز یہ ہے کہ —کسی تحریک سے وابستہ افراد اپنی تحریک کو غلو اور فرقہ بندی کی نفسیات سے کس طرح بچا سکتے ہیں۔ میرے نزدیک، اِس کا جواب یہ ہے کہ مذکورہ قسم کے غلو اور فرقہ بندی سے بچنا غالباً ممکن نہیں۔ غلو اور فرقہ بندی کی یہ قسم اصلاً دورِ زوال کا ظاہرہ ہے۔ اِسی بنا پر یہود کے اندر بعد کے دور میں فرقے پیداہوئے اور اِسی بنا پر مسیحیوں میں بعد کے دور میں فرقے پیدا ہوئے اور اِسی بنا پر خود امتِ محمدی میں بعدکے دور میں فرقے پیدا ہوئے۔ چوں کہ دورِ زوال لازماً ہر تحریک پر آتا ہے، اِس لیے دورِ زوال میں اِس قسم کے غلو اور فرقہ بندی جیسی چیزیں بھی ضرور پیدا ہوتی ہیں۔ اِس قسم کے غلو اور فرقہ بندی کی پیدائش کو روکنا تو ممکن نہیں ہے، البتہ دوسری چیز ممکن ہے، وہ یہ کہ تحریک کے افراد اِس سلسلے میں بہت زیادہ حساس اور باشعور ہوں۔
چناں چہ جب دورِ زوال میں اس قسم کا غلو پیدا ہو تو اُن کے درمیان ایسے مصلح اٹھیں جو دوبارہ لوگوں کو غلو سے ہٹا کر صراطِ مستقیم پر لانے کی کوشش کریں، وہ اُن کو فرقہ بندی اور شخصیت پرستی کے بجائے دوبارہ حقیقی خدا پرستی کے راستے پر قائم کریں، وہ قرآن اور حدیث کے دلائل کے ذریعے اُن پر یہ واضح کریں کہ اسلام میں جو چیز مطلوب ہے، وہ غلو اور فرقہ بندی نہیں، بلکہ اعتدال اور آفاقیت ہے۔ اِس آفاقی ذہن کے بغیر نہ کوئی مذہبی تحریک کبھی کامیاب ہوسکتی ہے، اور نہ سیکولر تحریک۔
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز — 217

1 - سہارن پور(یوپی) میں ڈاکٹر محمد اسلم خان اپنے ساتھیوں کے تعاون سے دعوتی کام کررہے ہیں۔ ٹیم کی طرف سے 15 اپریل 2012 کو وہاں کے کمشنر مسٹر گنیش شنکر ترپاٹھی کو پرافٹ آف پیس اور تذکیر القرآن (انگلش) کا نسخہ بطور ہدیہ دیاگیا۔ ایک ہفتے کے بعد مسٹر شنکر نے ہمارے ساتھیوں کو بتایا کہ وہ اسلام کو تشدد کا مذہب سمجھتے تھے۔ اِن کتابوں کے مطالعے کے بعد ان کا ذہن بدل گیا، اسلام سے متعلق ان کی غلط فہمی دور ہوگئی۔ انھوں نے کہا کہ اِن کتابوں کے مطالعے کے بعد معلوم ہوا کہ اسلام امن اور سچائی کا مذہب ہے۔
2 - مئی 2012 کے پہلے ہفتہ (1-6 مئی) میں صدر اسلامی مرکز نے ترکی کا سفر کیا۔ صدر اسلامی مرکز کے ساتھ اِس سفر میں سی پی ایس ٹیم کے تین افراد شریک تھے — ڈاکٹر فریدہ خانم، مسٹر رجت ملہوترا، مولانا محمد ذکوان ندوی۔ یہ سفر استاذ محمد فتح اللہ گولن کی تحریک کے تحت سیرتِ رسول کے موضوع پر منعقد ایک انٹرنیشنل کانفرنس میں شرکت کے لیے ہوا تھا۔ یہ کانفرنس ترکی کے سرحدی شہر غازی عین تاب (Gaziantep) میں 5-6 مئی 2012 کو ہوئی۔ اِس میں 60 ملکوں کے نمائندوں نے شرکت کی۔ کانفرنس کے علاوہ، سفر کے دوران استانبول کے مختلف اداروں میں صدر اسلامی مرکز کے پروگرا م ہوئے۔ سفر کی تفصیلی روداد، ان شاء اللہ، الرسالہ میں سفرنامے کے تحت شائع کردی جائے گی۔
3 - سہارن پور کے نیشنل میڈیکل کالج (NMC) میں 9 مئی 2012 کو ایک آل انڈیا ورک شاپ منعقد ہوئی۔ اِس میں بڑی تعداد میں سہارن پور کے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں نے شرکت کی۔ مثلاً ڈاکٹر راجیو، ڈاکٹر انشُل جین، وغیرہ۔ اِن لوگوں کو ہمارے ساتھیوں کی طرف سے قرآن کا انگریزی ترجمہ برائے مطالعہ دیاگیا۔
4 - سہارن پور حلقہ الرسالہ کے ایک قاری مسٹر بشیر کی بیٹی کے نکاح کے موقع پر 21 مئی 2012 کو تمام حاضرین کو سہارن پور ٹیم کی طرف سے اردو، ہندی اور انگریزی زبان میں مختلف کتابیں اور پمفلٹس دئے گئے۔
5 - نارتھ کیرولینا (امریکا) کے اسلامک افئرس سیکشن کے تحت چلنے والے ادارہ مسلم چپلن (Muslim Chaplain) کے ذریعے وہاں کے مسیحی لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ برائے مطالعہ دیا جارہا ہے۔ چپلن کی درخواست پر 25 مئی 2012 کو ادارے کے پتے پر قرآن کی مزید کاپیاں اور دعوتی پمفلٹس روانہ کردئے گئے ہیں۔
6 - ترکی کے ویکلی میگزین ’اکسیان‘ (AKSIYON) کے نمائندہ مسٹر عثمان انالن نے 25 مئی 2012 کی شام کو صدر اسلامی مرکز کا ایک تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ اِس کا موضوع تھا — اسلام اور جدید ترکی۔ یہ انٹرویو انگریزی زبان میں تھا جو میگزین کے شمارہ 4 جون 2012 میں شائع ہوا۔
7 - انڈیا انٹرنیشنل سنٹر (نئی دہلی) میں 2 جون 2012 کو ایک سمپوزیم ہوا۔ اس کا موضوع یہ تھا:
The Presidential Election-2012
اِس پروگرام میں صدر اسلامی مرکز کو افتتاحی خطاب(inaugural address) کرنے کی دعوت دی گئی تھی۔ اس کے مطابق، صدر اسلامی مرکز نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ اِس پروگرام میں شرکت کی اور انگریزی زبان میں 20 منٹ کا خطاب کیا۔ اِس موقع پر حاضرین کو پرافٹ آف پیس اور قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔
8 - نیشنل میڈیکل کالج (سہارن پور) میں 10 جون 2012 کو ایک پروگرام ہوا۔ اِس موقع پر اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔ مثلاً ڈاکٹر اے کے ڈمری (ڈائرکٹر اگنو)، ڈاکٹر جی بی لال، ڈاکٹر اُدے سنگھ، وغیرہ۔
9 - سی پی ایس انٹرنیشنل (نئی دہلی) کے کچھ ساتھیوں نے کشمیر کا سفر کیا۔ اِس مناسبت سے بیروہ میں 13 جون 2012 کو ایک دعوہ میٹ ہوئی۔ اِس میں کشمیر میں دعوتی کام کرنے والے نمائندہ افراد شریک ہوئے۔ اِس اجتماع میں یہ طے کیاگیا کہ کس طرح کشمیر میں پُرامن اندازمیں زیادہ منظم طورپر دعوت کا کام کیا جائے۔ اِس موقع پر صدر اسلامی مرکز کی نئی کتاب — صبحِ کشمیر (Dawn over Kashmir) کے اردو اور انگریزی ایڈیشن کا اجرا کیاگیا۔
10 - سہارن پور میں الوسیلہ ویلفیر سوسائٹی کی طرف سے 17 جون 2012 کو ایک آل انڈیا اسلامک کانفرنس ہوئی۔ اِس میں انڈیا کے مختلف مقامات کے علما اور دانش وروں نے شرکت کی۔ ہمارے ساتھیوں نے یہاںبڑے پیمانے پر لوگوں کو اسلامی لٹریچر برائے مطالعہ دیا۔ لوگوں نے اِس کو بخوشی قبول کیا۔
11 - امریکا کے لیے صدر اسلامی مرکز کے ٹیلی فونی خطاب کا سلسلہ جاری ہے۔ موضوعات مع تاریخ درج ہیں:
April 29, 2012: The Importance of Religious Freedom
May 13, 2012: Lessons from Makkan and Madinan Periods of the Prophet
May 27, 2012: Hudaybiya Principle
12 - صدر اسلامی مرکز کے مضامین اردو اخبارات میں شائع ہورہے ہیں۔24 مئی 2012 کو روزنامہ راشٹریہ سہارا میں ایک مضمون ’’تاریخ بشری کے پانچ دور‘‘ شائع ہوا۔نیز یہ مضامین انگریزی اخبارات ٹائمس آف انڈیا، وغیرہ میں شائع ہو رہے ہیں۔ یہ مضامین سی پی ایس کے ویب سائٹ (www.cpsglobal.org)موجود ہیں۔
واپس اوپر جائیں