Pages

Sunday, 1 September 2013

Al Risala | September 2013 (الرسالہ،ستمبر)

2

-امت کا دورِ زوال

3

- تسخیرِکائنات

6

- اتباعِ سُبُل

9

- اسلام اور عقل

10

- اہلِ سنت والجماعت

12

- دین اور شریعت

15

- ایک پیغمبرانہ پیشین گوئی

18

- تہذیب کے دو دھارے

37

- انسانی دماغ

38

- سمندروں کی سطح

40

- حیاتیاتی ارتقا کا نظریہ

42

- کم تر اندازہ

43

- قابلِ کار انسان

44

- سوال وجواب


امت کا دورِ زوال

قرآن کی سورہ آل عمران میں اہلِ کتاب کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ آیت آئی ہے: وَاِنَّ مِنْھُمْ لَفَرِیْقًا یَّلْوٗنَ اَلْسِنَتَھُمْ بِالْکِتٰبِ لِتَحْسَبُوْہُ مِنَ الْکِتٰبِ وَمَا ھُوَ مِنَ الْکِتٰبِ ۚ وَیَقُوْلُوْنَ ھُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ وَمَا ھُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ ۚ وَیَـقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ وَھُمْ یَعْلَمُوْنَ (3:78) یعنی اہلِ کتاب میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنی زبانوں کو کتاب کے ساتھ موڑتے ہیں، تاکہ تم اس کو کتاب میں سے سمجھو، حالاں کہ وہ کتاب میں سے نہیں- اور وہ کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی جانب سے ہے، حالاں کہ وہ اللہ کی جانب سے نہیں، اور وہ جان بوجھ کر اللہ پر جھوٹ بولتے ہیں-
قرآن کی اِس آیت میں یہود ونصاری کے حوالے سے ایک تاریخی قانون کو بتایا گیا ہے- اِس قانون کا تعلق زوال یافتہ امت سے ہے- کسی امت کی بعدکی نسلیں جب زوال کا شکار ہوتی ہیں تو اُن میں وہی ظاہرہ پیدا ہوتا ہے جس کا ذکر قرآن کی مذکورہ آیت میں کیا گیا ہے-
دورِ زوال میں ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی امت خدا کی کتاب کو چھوڑ دے- خدا کی کتاب اِس امت کی قومی شناخت بن جاتی ہے، اور کوئی امت اپنی قومی شناخت کو چھوڑنے کا تحمل نہیں کرسکتی- اِس لیے زوال یافتہ امت کے لوگ ایسا کرتے ہیں کہ وہ اپنی زوال یافتہ حالت کے جواز کے لیے کتاب الہی کی خود ساختہ تعبیر وتشریح کرنے لگتے ہیں اورپھر وہ کتاب الہی کی اِس خود ساختہ تعبیر کو اللہ کی طرف منسوب کردیتے ہیں-
’’وہ کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی جانب سے ہے، حالاں کہ وہ اللہ کی جانب سے نہیں‘‘- اِس جملے میں ’’قول‘‘ سے مراد سادہ طورپر قول نہیں ہے، بلکہ یہی تعبیری انحراف ہیں، یعنی اپنی غلط روش کے جواز (justification) کے لیے کتاب الہی کا حوالہ دینا اور کتاب الہی کے الفاظ کی ایسی تشریح کرنا جو دورِ زوال میں اُن کی بگڑی ہوئی روش کے حسب حال ہو-
واپس اوپر جائیں

تسخیرِکائنات

انسان کے لیے اللہ کی ایک نعمت وہ ہے جس کو تسخیر کہا گیا ہے- اِس سلسلے میں قرآن کی دو آیتیں یہ ہیں: اَللّٰہُ الَّذِیْ سَخَّرَ لَکُمُ الْبَحْرَ لِتَجْرِیَ الْفُلْکُ فِیْہِ بِاَمْرِہٖ وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہٖ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ ۝ وَسَخَّرَ لَکُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مِّنْہُ ط اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ (45:12-13) یعنی اللہ ہی ہے جس نے تمھارے لیے سمندر کو مسخر کردیا، تاکہ اس کے حکم سے اس میں کشتیاں چلیں اور تاکہ تم اس کا فضل تلاش کرو اور تاکہ تم شکر کرو- اور اللہ نے آسمانوں اور زمین کی تمام چیزوں کو تمھارے لیے مسخر کردیا، سب کو اپنی طرف سے- بے شک اِس میں نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو غور کرتے ہیں-
تسخیر کا مطلب ہے کسی چیز کو بزور قابلِ استعمال یا قابلِ انتفاع بنانا- اللہ جو پوری کائنات کا خالق ہے، اس نے کائنات کے ہر جز کو قوانینِ فطرت (laws of nature) کا پابند بنا رکھا ہے- اِس بنا پر یہ ممکن ہوگیا ہے کہ انسان مخلوقات کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرے- خدائی قوانین کے ذریعے کائنات اگر اِس طرح مسخر نہ ہوتی تو انسان کے لیے اس کو استعمال کرنا ناممکن ہوجاتا-
اِس کی ایک مثال سمندر کی ہے- سمندروں کی شکل میں پانی کے جو قدرتی ذخائر ہیں، وہ کرۂ ارض کے تقریباً تہائی حصہ (71 %) پر پھیلے ہوئے ہیں- زمین ایک گول کرہ ہے جو مسلسل طور پر گردش کررہا ہے- ایک زبردست قانون پانی کے ذخائر کو زمین پر قائم کئے ہوئے ہے-
ایک طرف زمین کی غیر معمولی کشش زمین کے ذخائر کو اپنی طرف کھینچے ہوئے ہے، اور دوسری طرف سمندر کے اوپر ہوا کا تقریباً پانچ میل موٹا غلاف ہے جو سمندر کے اوپر دباؤ بنائے ہوئے ہے- اِن دوطرفہ اسباب کی بنا پر ایسا ہےکہ سمندروں کی گہرائی میں پانی مسلسل طور پر موجود ہے، ورنہ پورا ذخیرۂ آب اڑ کر فضا میں تحلیل ہوجاتا-
یہی معاملہ سمندر میں چلنے والی کشتیوں کا ہے- یہاں بھی خدا کا مقرر کیا ہوا ایک قانونِ فطرت کام کررہا ہے- یہ ایک آبی قانون ہے جس کو آج کل کی زبان میں ہائڈرواسٹیٹکس (hydrostatics) کہاجاتا ہے جس کا ایک شعبہ بائنسی (buoyancy) ہے-
بائنسی (buoyancy) سے مراد پانی کا یہ انوکھا قانون ہے کہ جب کوئی چیز پانی میں ڈالی جاتی ہے تو وہ پانی کے اندر جتنی جگہ گھیرتی ہے، اُسی کے بقدر وہاں اَپ ورڈ پریشر پیدا ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں کشتی پانی کی سطح پر تیرنے لگتی ہے:
Buoyancy: The upward pressure by any fluid on a body partly or wholly immersed therein: it is equal to the weight of the fluid displaced.
تسخیر کا دوسرا واقعہ وہ ہے جس کا تعلق بالائی خلا سے ہے- زمین کے اوپر جو وسیع خلا ہے، وہ بہت بڑے بڑے نہایت گرم ستاروں سے بھرا ہوا ہے، اِس لیے اس کو ستاروں کی دنیا (starry universe) کہاجاتا ہے- یہ تمام ستارے ہماری زمین سے ایک مقرر دوری پر واقع ہیں- یہ مقرر دوری اگر قائم نہ رہے تو ہماری پوری زمین جل کر راکھ ہوجائے-
زمین کی سطح سے رات کے وقت جب کھلے آسمان کو دیکھا جائے تو اوپر کی فضا میں بہت سے چھوٹے چھوٹے ستارے نظر آتے ہیں- یہ ستارے بہت بڑے بڑے ستارے ہیں، لیکن دوری کی وجہ سے وہ چھوٹے نظر آتے ہیں- آنکھ سے دیکھنے میں تقریباً دس ہزار ستارے دکھائی دیتے ہیں- یہ ستارے وہ ہیں جو ہماری قریبی کہکشاں (Milky Way) سے تعلق رکھتے ہیں-
اِس کے علاوہ، وسیع خلا میں بے شمار بڑے بڑے ستارے ہیں جو مسلسل حرکت کررہے ہیں- ایک سو بلین سے زیادہ کہکشائیں (galaxies) ہیں اور ہر کہکشاں میں تقریباً ایک سو بلین ستارے پائے جاتے ہیں-
اِس وسیع عالمِ نجوم کو انسان اپنی فطری آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا تھا- اللہ تعالی نے ہماری دنیا میں ایسے مادی اسباب رکھ دئے جن کو انسان دریافت کرے اور ان کو ترقی دے کر طاقت ور دوربین (telescope) بنائے- چناں چہ موجودہ زمانے میں خلائی دور بین کو استعمال کرکے انسان بے شمار ستاروں اور کہکشاؤں کو دیکھتا ہے-
سمندروں (اور حیوانات) کے معاملے میں تسخیر کا مطلب یہ تھا کہ انسان قانونِ فطرت کو جانے اور اس کی مدد سے اِن چیزوں کو اپنی ضرورت کے لیے استعمال کرے- عالمِ نجوم کے معاملے میں تسخیر کا مطلب اُن کو اپنی ضرورت کے لیے استعمال کرنا نہیں ہے، بلکہ اِس کا مطلب یہ ہے کہ وسیع عالمِ نجوم کو انسان آلات کی مدد سے دیکھے، وہ ان پر غور وفکر کرے- وہ غور وفکر کے ذریعے عالمِ نجوم کو اعلی معرفت کے حصول کا ذریعہ بنائے-
سمندروں اور حیوانات کی تسخیر انسان کی خدمت کے لیے ہے- اور عالمِ نجوم کی تسخیر اِس لیے ہے کہ ان کے ذریعے سے آدمی خالق کی عظمت کو دریافت کرے-وہ اُن میں غوروفکر کرکے اپنے لیے معرفتِ اعلی کا رزق حاصل کرے-
واپس اوپر جائیں

اتباعِ سُبُل

قرآن کے مطابق، صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی صراطِ مستقیم پر قائم ہو، اور دوسرا طریقہ وہ ہے جس کو اتباعِ سبل کہاگیا ہے- اِس سلسلے میں قرآن کے الفاظ یہ ہیں: وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِـیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ ۚ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ (6:154) یعنی یہی میری سیدھی شاہ راہ ہے، پس اِسی پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ تم کو اللہ کے راستے سے جدا کردیں گے-
قرآن کی اِس آیت میں صراطِ مستقیم سے مراد قرآن کی تعلیمات کا وہ صاف اور واضح مفہوم ہے جس کو کسی تاویل کے بغیر ایک انسان سمجھ سکتا ہے- اتباعِ سبل سے مراد یہ ہے کہ دور از کار تاویلات کے ذریعے موشگافیاں کی جائیں اور آیات کے نئے معانی نکال کر اُن کو وہ اہمیت دے دی جائے جو کہ اصل دین ِ خداوندی میں نہیں ہے- یہ طریقہ دراصل غلو کی ایک قسم ہے-یہ غلو لوگوں کو ہدایت کے راستے سے ہٹا دیتاہے- چند مثالوں سے اِس مسئلے کی وضاحت ہوگی-
پہلی صدی ہجری میں خوارج کا ظہور ہوا- انھوں نے غلو کرکے دین میں نئے نئے  مسئلے بنائے-مثلاً قرآن کی سادہ تعلیمات کے مطابق، توبہ سے ہر گناہ معاف ہوجاتاہے، لیکن خوارج نےاِس میں خود ساختہ بحثیں نکالیں اور یہ عقیدہ بنا لیا کہ گناہِ کبیرہ کی توبہ نہیں ہے- اِس مسئلے پر انھوں نے اتنی زیادہ متشددانہ بحثیں کیں کہ مسلمانوں میں خارجی فرقہ کے نام سے ایک غالی فرقہ وجود میں آگیا- خارجیوں کا یہ طریقہ بلاشبہہ اتباع سبل کی ایک مثال ہے-
اِسی طرح تیسری صدی ہجری میں معتزلہ نےدین میں موشگافیاں کرکے نئے نئے اعتقادی مسئلے نکالے- مثلاً قرآن کے بارے میں سادہ اور فطری عقیدہ یہ ہے کہ قرآن خدا کا کلام ہے، لیکن معتزلہ نے خود ساختہ موشگافی (hairsplitting)کرکے یہ نیا سوال کھڑا کیا کہ قرآن مخلوق ہے یا غیرمخلوق- اِس سوال نے اُس زمانے میں اتنی شدت اختیار کی کہ اِس پر دو متحارب گروہ بن گئے- یہ اتباعِ سبل کی ایک مہلک مثال تھی- اِسی طرح عباسی دور میں فقہ نے جو صورت اختیار کی اور جس کے نتیجے میں آخر کار، امت کے اندر جامد فرقے بن گئے، یہ معاملہ بھی اِسی اتباع سبل کی ایک مثال ہے-
مسائلِ دین میں فقہی اختلاف اِس لیے پیداہوا کہ صحابہ کی روایتوں میں فرق پایا گیا- اِس فرق کی توجیہ فقہا نے اِس طرح کی کہ فنی بحثیں کرکے ایک کو راجح اور دوسرے کو مرجوح قرار دیا- لیکن چوں کہ دونوں مسلکوں کے حق میں صحابہ کی روایتیں موجود تھیں، اس لیے امام شافعی کو یہ کہنا پڑا کہ: رأیی صواب یحتمل الخطأ، ورأی غیرنا خطأ یحتمل الصواب- یہ طریقہ بھی اپنی نوعیت کے اعتبار سے، اتباعِ سبل کی ایک مثال ہے- اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امتِ واحدہ امتِ متفرقہ میں تبدیل ہوگئی- ابتدائی صورت میں یہ اختلاف، تنوع (diversity) کے ہم معنی تھا، لیکن فقہا کے خود اپنے بنائےہوئے اصول (الحق لا یتعدد) کے نتیجے میں ایسا ہوا کہ ہر گروہ کے اندر تشدد پسندی آگئی، ہرگروہ صرف اپنے آپ کو حق پر سمجھنے لگا-
اِسی طرح بعد کے زمانے کے صوفیا نے غیر اسلامی تصورات سے متاثر ہو کر وحدتِ وجود (monism) کا عقیدہ اسلام میں داخل کیا- یہ بلاشبہہ خدا کی بتائی ہوئی صراطِ مستقیم سے انحراف تھا- قرآن کے بتائے ہوئے تصور کے مطابق، صحیح عقیدہ وہ ہے جو توحید (monotheism)کے تصور پر قائم ہے، یعنی خدا ایک علاحدہ ہستی ہے اور مخلوقات ہر اعتبار سے اُس سے الگ ہیں- وحدتِ وجود کے تصور کا کوئی تعلق اسلام سے نہیں ہے، وہ تمام تر فلسفیانہ قسم کے مذہبی تصور پر قائم ہے جو اسلام سے باہر خارجی دنیا میں پیدا ہوئے- اپنی حقیقت کے اعتبار سے، وہ وہی چیز ہے جس کو قرآن میں مضاہاة (9:30) کہاگیا ہے-
بعد کو شیخ احمد سرہندی( وفات: 1624) نے بظاہر اِس کے رد میں ایک دوسرا تصور پیش کیا جس کو وحدتِ شہود کہاجاتا ہے- وحدتِ وجود کی تشریح کے لیے صوفیا نے جو لفظ استعمال کیا، وہ ’’ہمہ اوست‘‘ کی اصطلاح ہے، یعنی سب کچھ وہی ہے- اِس کے مقابلے میں شیخ احمد سرہندی نے وحدتِ شہود کا جو تصور پیش کیا، اس کے لیے انھوں نے ’’ہمہ از اوست‘‘ کی اصطلاح استعمال کی، یعنی سب کچھ اُسی سے ہے- مگر وحدتِ شہود کی اصطلاح ایک مبہم اصطلاح ہے، اس سے اصل حقیقت منقح ہو کر واضح نہیں ہوتی- صحیح یہ ہے کہ وحدتِ وجود اور وحدتِ شہود دونوں اصطلاحوں کو ترک کردیا جائے اور قرآن کے اسلوب میں یہ کہا جائے کہ اِس معاملے میں صحیح اصطلاح توحید کی اصطلاح ہے، یعنی خالق مکمل طورپر الگ ہے اور مخلوق مکمل طورپر الگ- دونوں کے درمیان تخلیق کی نسبت ہے، نہ کہ اشتراک کی نسبت- اس معاملے میں نئی اصطلاح وضع کرنا خدا کی بتائی ہوئی صراطِ مستقیم سے ہٹنے کے ہم معنی ہے-
اِسی طرح اِس معاملے کی ایک مثال وہ لوگ ہیں جو خلافت کے انعقاد کو امت کا فرضِ اول قرار دیتے ہیں- اِس کے نتیجے میں امت کے اندر تشدد کا ایک جنگل اگ آیا ہے- اِن حضرات کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صحابہ نے رسول اللہ کی تدفین پر خلافت کے انعقاد کو مقدم قرار دیا- مگر یہ استدلال سر تا سر بے بنیاد ہے- مذکورہ معاملے میں صحابہ کا تعامل صرف یہ بتاتا ہے کہ جب امارت یا خلافت کا ادارہ عملاً قائم ہو، اُس وقت ایک امیر کی وفات کے بعد دوسرے امیر کے  انتخاب میں تاخیر نہیں کرنا چاہئے، تاکہ قائم شدہ نظم کسی رخنہ کے بغیر برقرار رہے-
جہاں تک امت کے فرضِ منصبی کا سوال ہے تو وہ صرف ایک ہے اور وہ بلاشبہ پرامن دعوت الی اللہ ہے- جہاں تک خلافت یا امارت کا معاملہ ہے، تو وہ حسب ضرورت ایک عملی تقاضا ہے، وہ مطلق معنوں میں امت کا ابدی مشن نہیں-
واپس اوپر جائیں

اسلام اور عقل

اسلام اور عقل ایک قدیم موضوع ہے- اِس موضوع پر بہت سی چھوٹی اور بڑی کتابیں لکھی گئی ہیں- مسلمانوں کے علمی ذخیرے میں اِس سلسلے میں جو کتابیں موجود ہیں، اُن میں حسب ذیل چار کتابیں خصوصی اہمیت رکھتی ہیں:
1- قواعد الأحکام فی إصلاح الأنام (دو جلدیں)عز الدین بن عبد السلام (وفات: 1262ء)
2- إعلام الموقعین (چار جلدیں) ابن القیم الجوزیہ (وفات: 1350ء)
3- الموافقات فی أصول الشریعة (چار جلدیں) ابو اسحاق الشاطبی (وفات: 1388ء)
4- حجة اللہ البالغة (دو جلدیں) شاہ ولی اللہ الدہلوی (وفات: 1763ء)
یہ چاروں کتابیں اپنے موضوع پر بلا شبہہ نہایت اہمیت کی حامل ہیں- تاہم ان میں ایک مشترک کمی یہ ہے کہ وہ سب جدید دورِ عقل (modern age of reason)سے پہلے لکھی گئی ہیں- قدیم زمانے میں عقلی غور وفکر مبنی بر قیاس ہوتا تھا، موجودہ زمانے میں عقلی غور وفکر مبنی برسائنس ہوتا ہے- اِس طرح اب تعقل کا فریم ورک بدل گیا ہے- اب اسلامی عقلیات وہی ہے جو سائنسی فریم ورک کی بنیاد پر تیار کی جائے-
عقل (reason) کیا ہے- علمی تعریف کے مطابق، عقل اُس ذہنی صلاحیت کا نام ہے جس کے مقدمات سے نتائج اخذ کیے جائیں- پچھلے زمانے میں یہ مقدمات قیاسی ہوا کرتے تھے- اب ہم سائنسی مقدمات (scientific premises) کے دور میں ہیں- آج کی اسلامی عقلیات وہ ہوگی جس میں سائنسی مقدمات کے ذریعے نتائج اخذ کیے گئے ہوں-اِس کی ایک مثال یہ ہے کہ قرآن کی سورہ البقرہ میں قانونِ شہادت کو بتاتے ہوئے دو عورتوں کو ایک مرد کے برابر قرار دیاگیا ہے (2:282)-
قدیم زمانے میں اِس فرق کا سبب یہ سمجھا جاتا تھا کہ مرد کا تعلق صنفِ قوی سے ہے اور عورت کا تعلق صنفِ ضعیف سے- مگر موجودہ زمانے میں جدید تحقیقات نے ہم کویہ موقع دے دیا ہے کہ ہم اِس فرق کی توجیہہ خالص سائنسی بنیاد پر بیان کر سکیں-(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: ماہ نامہ الرسالہ، اپریل 2006، صفحہ: 7-9 )
واپس اوپر جائیں

اہلِ سنت والجماعت

’’اہلِ سنت والجماعت‘‘ ایک معروف اصطلاح ہے، لیکن اِسی کے ساتھ یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ یہ اصطلاح قرآن یا حدیث میں کہیں موجود نہیں ہے- یہ بھی نہیں معلوم کہ یہ اصطلاح کب بنی اور کس نے بنائی- کسی مستند کتاب میں اس کی واضح تعریف (definition) نہیں ملتی- یہ اصطلاح جتنا زیادہ مشہور ہے، اتنا ہی زیادہ وہ غیر واضح بھی ہے-
’’اہلِ سنت والجماعت‘‘ کی محفوظ تشریح یہ ہوسکتی ہے کہ یہ اصطلاح دو مختلف روایتوں سے ماخوذ ہے- پہلی روایت وہ ہے جس میں علیکم بسنتی (سنن أبی داود، رقم الحدیث: 3993 ) کے الفاظ ہیں اور دوسری روایت وہ ہے جس میں علیکم بالجماعة (مسند أحمد، رقم الحدیث: 22541 ) کے الفاظ آئے ہیں- اِن روایات کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو مخاطب کرتے ہوئے دو الگ الگ نصیحت کی- آپ نے فرمایا کہ تم میری سنت کو لازم پکڑو او ریہ کہ تم ہمیشہ جماعت کو لازم پکڑو-
’’اہلِ سنت والجماعت‘‘ کی اصطلاح میں اگرچہ دونوں تقاضوں کو واؤ عطف کے ذریعے ایک کردیاگیاہے، لیکن غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں الفاظ دو مختلف تقاضوں کو بتاتے ہیں- علیکم بسنتی سے مراد انفرادی اتباعِ سنت ہے اور علیکم بالجماعة سے مراد یہ ہے کہ اجتماعی معاملات میں جماعت (اکثریت) کا ساتھ دیا جائے-اہلِ سنت والجماعت کے اِن دو طرفہ تقاضوں میں دوسرا فرق یہ ہے کہ علیکم بسنّتی سے مراد نظری اتباع ہے اور علیکم بالجماعة سے مراد عملی اتباع- نظری اتباع کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اصولی اور اعتقادی اعتبار سے، جس بات کو درست سمجھے، اپنی ذات کی نسبت سے اپنی انفرادی زندگی میں وہ اُس پر پوری طرح قائم ہوجائے- یہ دین کا وہ پہلو ہےجس پر ایک فرد کی نجات کا انحصا رہے- اِس اعتبار سے، علیکم بسنتی کا لفظ ہر مومن کے انفرادی دینی فریضے کو بتا رہاہے، جب کہ علیکم بالجماعة کی اہمیت عملی (practical)سبب سے ہے، نہ کہ اعتقادی سبب سے-
اسلام کا خطاب اصلاً فرد سے ہے- حدیث میں آیا ہے کہ : إنما الأعمال بالنیات (صحیح البخاری ، رقم الحدیث: 1) یعنی عمل کا دارومدار نیت پر ہے- نیت (intention) ایک انفرادی چیز ہے-نیت کا تحقق ایک فرد کے اندر ہوتا ہے- ہر فر د کا یہ دینی فریضہ ہے کہ وہ اللہ کے دین کو پوری دیانت (honesty) کے ساتھ اپنی ذاتی زندگی میں اختیار کرے- اِس معاملے میں کسی فرد کے لیے مصالحت (compromise) کا طریقہ اختیار کرنا جائز نہیں- ذاتی دین داری کے معاملے میں، کسی فرد سے، معیار سے کم تر کوئی چیز قبول نہیں کی جائے گی-
لیکن اجتماعی زندگی کا معاملہ اِس سے مختلف ہے- اجتماعی زندگی میں معیاری عمل ممکن نہیں- انفرادی زندگی میں اگر غیر مصالحانہ رویہ (uncompromising attitude) مطلوب ہے تو اجتماعی زندگی میں اِس کے برعکس مصالحانہ رویہ (compromising attitude) ایک مطلوب چیز بن جاتا ہے-اجتماعی زندگی میں مصالحانہ رویے کی حکمت یہ ہے کہ اگر اجتماعی معاملے میں غیر مصالحانہ رویہ اختیار کیا جائے تو اِس سے عملاً خیر کے بجائے شر پیداہوگا، جیساکہ عبد اللہ بن مسعود نے فرمایا: الخلاف شر(البیہقی، رقم الحدیث:5004) یعنی عملی معاملے میں اختلافی روش اختیار کرنا بہ اعتبار نتیجہ شر کا موجب ہوتا ہے-
اہلِ سنت والجماعت کوئی اعتقادی کلمہ نہیں، وہ زیادہ سے زیادہ ایک حکمت کی بات ہے- یہ اصطلاح بتاتی ہے کہ ایک شخص کو محفوظ طورپر دینی زندگی کس طرح گزارنا چاہئے- وہ محفوظ طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنی ذات کے معاملے میں آخری حد تک معیار پر قائم رہے، وہ سنتِ رسول کو اپنا ماڈل بنائے- لیکن جہاں تک اجتماعی زندگی کی بات ہے، اس میں وہ عملی (practical) بن جائے- وہ عملی تقاضے کو ملحوظ رکھتے ہوئے اکثریت کے ساتھ شامل رہے- اِسی بات کو دوسرے الفاظ میں اِس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ آدمی کو اپنے ذاتی معاملے میں آئڈیلسٹ (idealist) ہونا چاہئے اور اجتماعی معاملے میں پریگمیٹک (pragmatic) - اہلِ سنت والجماعت کی اصطلاح کوئی اعتقادی اصطلاح نہیں، وہ قرآن وسنت کی کسی متعین تعلیم پر مبنی نہیں، وہ صرف عمومی تجربے پر مبنی ہے- اِس کا تعلق نہ عقیدے سے ہے اور نہ نجات سے- وہ صرف ایک کنوینینٹ اصطلاح (convenient term) ہے جو بعد کے زمانے میں رائج ہوئی- (20جولائی 2013)
واپس اوپر جائیں

دین اور شریعت

دین اور شریعت بظاہر یکساں طورپر اسلام کا حصہ ہیں، مگر دونوں کو یکساں طورپر برابر کا حصہ سمجھنا درست نہیں- قرآن میں واضح طورپر دونوںکےدرمیان فرق کیاگیاہے- یہ فرق ایک حقیقت پر مبنی ہے- اِس فرق کو نہ سمجھنے کی وجہ سےاسلام کے بارے میں غیر ضروری قسم کی غلط فہمیاں ہوتی ہیں-
قرآن میں بتایا گیاہے کہ ’’الدّین‘‘ تمام نبیوں کے درمیان ہمیشہ ایک رہا ہے- الدین کے معاملے میں تمام انبیا کی تعلیمات کے درمیان کوئی فرق نہیں (42:13)- دوسری طرف، قرآن میں بتایا گیاہےکہ شریعت کا معاملہ اِس سے مختلف ہے- قرآن کے مطابق ، مختلف امتوں کو مختلف شریعتیں دی گئیں: لکل جعلنا منکم شرعةً ومنہاجاً (5:48) -
یہاں یہ سوال ہے کہ دین اور شریعت میں فرق کیوں-دین اور شریعت دونوں جب خدا کی طرف سے ہیں تو بظاہر اُن کے درمیان فرق نہ ہونا چاہیے- اِ س کا جواب یہ ہے کہ دین (بنیادی تعلیمات) کا تعلق حقیقتِ واقعہ سےہے، اور شریعت (قانون) کا تعلق زمانی حالات سے- حقیقتِ واقعہ میں کبھی تبدیلی نہیں ہوتی، اِس لیے جس چیز کا تعلق حقیقتِ واقعہ سے ہو، وہ ہمیشہ اور ہر حال میں یکساں رہے گی- لیکن زمانی حالات کا تعلق انسانی سماج سے ہے- انسانی سماج میں تغیر ہوتا رہتاہے، اِس لیے یہ ضروری ہے کہ شریعت میں زمانے کی رعایت ہو- اگر ایسا نہ کیا جائے تو شریعت اور حالات میں ٹکراؤ پیدا ہوجائے گا اور اصل مقصد حاصل نہ ہوسکے گا-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اِس معاملے کی ایک مثال یہ ہے کہ آپ کے زمانے میں یمن کے ایک شخص مسیلمہ (وفات: 633ء) نے نبوت یا شریکِ نبوت ہونے کا دعوی کیا- اس نے اپنے دو سفیروں کو مدینہ بھیجا- انھوں نے مسیلمہ کی طرف سے آپ کو یہ پیغام دیا کہ آپ مسیلمہ کی نبوت کو تسلیم کرلیں- پیغمبر اسلام نے اِن سفیروں سے پوچھا کہ اِس معاملے میں خود تمھارا کیا خیال ہے- انھوں نے کہا کہ اِس معاملے میں ہم مسیلمہ کے ساتھ ہیں- اس کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ: لولا أن الرسل لا تقتل لضربتُ أعناقکمما ( مسند احمد 3/487) یعنی اگر ایسا نہ ہوتا کہ سفیر قتل نہ کیے جاتے تو میں تم دونوں کو قتل کردیتا-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس واقعے سے ایک اصول اخذ ہوتاہے، وہ یہ کہ حقوقِ انسانی (human rights) کے معاملے میں اسلام کا اصول بھی وہی ہوگاجو بقیہ دنیا کا متفقہ اصول ہوگا- مسلّمہ حقوقِ انسانی کے معاملے میں اسلام بین اقوامی اصولوں (international norms) کا پابند ہوگا- موجودہ زمانے کی نسبت سے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ موجودہ زمانے میں اقوامِ متحدہ میں مختلف قوموں نے جو حقوقِ انسانی کا منشور (universal declaration of human rights) متفقہ طورپر منظور کیا ہے، وہی عملاً اسلام کا بھی اصول ہے-
قدیم زمانے میں انسانی حقوق کے معاملے میں مختلف قسم کے فرق ہوتے تھے- مثلاً اپنے مذہب والوں کے لیے دوسرا قانون اور دوسرے مذہب والوں کے لیے دوسرا قانون، وغیرہ- اِس قسم کے تمام فرق موجودہ زمانے میں اصولاً ختم کردئے گئے ہیں- اب عالمی سطح پر یہ مان لیا گیاہے کہ حقوقِ انسانی کے معاملے میں تمام انسان، خواہ وہ کسی بھی گروہ سے تعلق رکھتے ہوں، وہ سب ایک ہی قانون کے ماتحت ہوں گے- ایسی حالت میں موجودہ زمانے میں اسلام کا قانون بھی وہی ہوگا جو بقیہ دنیا کا قانون ہے-
حقوقِ انسانی (human rights) کا تعلق دین سے نہیں ہے، بلکہ شریعت سے ہے- جس طرح پچھلے زمانے میں انسانی حالات کے اعتبار سے، مختلف شریعتیں دی گئی ہیں، اِسی طرح موجودہ زمانے میں اگر انسانی حالات بدل گئے ہیں تو شریعت میں بھی اس کے مطابق تبدیلی عین جائز ہوگی- اِس معاملے میں قدیم وجدید کے درمیان صرف یہ فرق ہوگا کہ قدیم زمانے میں شریعت میں یہ تبدیلی پیغمبر کے ذریعے ہوتی تھی اور اب موجودہ زمانے میں شریعت کی یہ تبدیلی علما کے اجتہاد کے ذریعے انجام پائے گی-قدیم فقہ کے تحت حقوقِ انسانی کے معاملے میں ایک قانونی نظام بنایا گیا تھا- اِس قانونی نظام کو عام طورپر شریعتِ اسلامی کا اٹل حصہ سمجھا جاتاہے، مگر ایسا سمجھنا درست نہیں- حقیقت یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں اِس قسم کے فقہی قوانین اُسی طرح قابلِ تغیر ہیں جس طرح قرآن کے بیان کے مطابق، شریعتیں قابلِ تغیر ہوا کرتی ہیں- خود فقہا نے اِس اصول کو اِن الفاظ میں بیان کیا ہے: تتغیر الأحکام بتغیر الزمان والمکان-مثلاً اِسی اصول کی بنا پر موجودہ زمانے میں جزیہ کا حکم ساقط ہوجائے گا اور ہر مذہبی گروہ کے اوپر بلا امتیاز ایک ہی قسم کا ٹیکس نافذ کیا جائے گا- اِسی طرح قدیم فقہی تقسیم کے مطابق، دارالاسلام اور دار الحرب کا فرق ختم کردیا جائے گا اور تمام ممالک یکساں قسم کے ملکی قوانین کے تابع قرار پائیں گے، وغیرہ-
اسلام میں دین اور شریعت کا فرق کوئی سادہ فرق نہیں، یہ فرق ایک اہم حکمت پر مبنی ہے- وہ حکمت یہ ہے کہ اگر دونوں کو ایک دوسرے سے الگ نہ کیا جائے تو اسلام کا وہ اصل نشانہ ہی پورا نہ ہوسکے گا جو کہ اسلام کا اصل مقصود ہے- دین اور شریعت کے درمیان فرق کی حکمت یہی ہے کہ اسلام کا اصل مقصد فوت نہ ہونے پائے- اسلام کا اصل مقصد کسی قسم کے قانون کا نفاذ نہیں ہے، بلکہ انسانی شخصیت کی تعمیر اسلام کا اصل نشانہ ہے- اسلام کا اصل نشانہ اسلامائزیشن آف سسٹم (Islamization of system) نہیں، اسلام کا اصل نشانہ اسلامائزیشن آف مین (Islamization of man) ہے- اسلام کا پورا نظام اِسی حکمت کے تحت ترتیب دیاگیاہے-
اصل یہ ہے کہ انسانی سماج کے حالات بدلتے رہتے ہیں- ہر دور کے انسان کچھ رواج اور قانون میں اِس طرح کنڈیشنڈ (conditioned) ہوجاتے ہیں کہ وہ اس کے خلاف سوچ نہیں سکتے- اِن رواجوں اور اِن قوانین کے خلاف لڑنا عملاً پورے سماج سے لڑنے کے ہم معنی بن جاتاہے- اِس طرح سماج کے اندر امن کا وہ معتدل ماحول ختم ہوجاتا ہے جس میں کسی انسان کو اپنی شخصیت کی مطلوب تعمیر کا موقع مل سکے- یہی حکمت ہے جس کی بنا پر اسلام میں یہ طریقہ مقرر کیا گیاکہ زمانے کے قانونی ڈھانچے کو بزور بدلنے کی کوشش نہ کی جائے، بلکہ اِس معاملے میں، موجود حالات سے عدم تعرض کے طریقے کو اختیار کیا جائے، تاکہ اسلام کا اصل نشانہ، دعوت اور تربیت اور تزکیہ، کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رہے- اِس معاملے میں، اسلام کے اصول کو ایک لفظ میں اِس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ — دین کے معاملے میں، آئڈیل ازم، اور سماجی قانون کے معاملے میں اسٹیٹس کوازم-
واپس اوپر جائیں

ایک پیغمبرانہ پیشین گوئی

حدیث کی کتابوں میں کئی ایسی روایتیں آئی ہیں جن کا تعلق مستقبل کی پیشین گوئی سے ہے، اسی قسم کی ایک پیشین گوئی وہ ہے جو اِن الفاظ میں آئی ہے: یوشک الأمم أن تداعی علیکم کما تداعی الأکَلَۃُ إلی قصعتہا۔ فقال قائلٌ: و من قلۃٍ نحن یومئذ۔ قال بل أنتم یومئذ کثیر، ولکنکم غثاء کغثاء السیل، ولینزعنّ اللہ من صدور عدوکم المہابۃ منکم، ولیقذفنّ فی قلوبکم الوَھْن۔ قیل وما الوھن یا رسول اللہ۔ قال: حب الدنیا وکراھیۃ الموت (أبو داؤد، رقم الحدیث: 4297) حضرت ثوبان کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ زمانہ آنے والا ہے جب کہ قومیں تمھارے اوپر ٹوٹ پڑیں، جس طرح کھانے والے کھانے کے پیالے پر ٹوٹتے ہیں۔ ایک شخص نے کہا، کیا اِس لیے کہ اُس وقت ہم لوگ کم تعداد میں ہوں گے۔ آپ نے فرمایا کہ نہیں، اُس وقت تم لوگ بہت زیادہ ہو گے، مگر تم لوگ سیلاب کے جھاگ کی مانند ہوگے، اللہ تمھارے حریف کے دل سے تمھاری ہیبت نکال دے گا، اور تمھارے دلوں میں ’وہن‘ پیدا کردے گا۔ کہا گیا کہ اے اللہ کے رسول، ’وہن‘ کیا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ دنیا کی محبت، اور موت کو ناپسند کرنا۔
اِس حدیث میں ’عدو‘ کا لفظ دشمن یا مقاتل کے معنی میں نہیں ہے، بلکہ وہ حریف (rival) کے معنی میں ہے- ’قصعة‘ بڑے پیالہ (large bowl) کو کہا جاتا ہے- قدیم زمانے میں یہ رواج تھا کہ ایک بڑے برتن میں کھانا رکھ دیا جاتا تھا اور کھانے والے اس کے چاروں طرف بیٹھ کر کھاتے تھے- حدیث میں اِس تمثیل کے ذریعے ایک ایسے دو رکی پیشین گوئی کی گئی ہے جو بعد کے زمانے میں مسلم دنیا میں آنے والا تھا- حدیث کے الفاظ پر غور کرنے سے سمجھ میں آتا ہے کہ اِس میں معروف قسم کے کسی جنگی حملے کا ذکر نہیں ہے، بلکہ غالباً اُس میں اُس پر امن واقعے کا ذکر ہے جو اٹھارھویں صدی اور انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے دوران دنیا میں پیش آیا- اپنی نوعیت کے اعتبار سے، یہ کوئی جنگی معاملہ نہ تھا، بلکہ آج کل کی اصطلاح میں وہ اقتصادی استحصال (economic exploitation) کا معاملہ تھا-
اصل یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں جب جدید صنعت (modern industry) کا دور آیا تو ایک نیا مسئلہ پیدا ہوا جس کو کثیر پیداوار (mass production) کہا جاتا- اب صنعتی ملکوں کے سامنے یہ سوال تھا کہ اِس فاضل صنعتی پیداوار کو کہاں کھپایا جائے- قدیم زمانے میں چیزیں صرف دست کاری کے نظام کے تحت بنتی تھیں- دست کار محدودتعداد میں استعمال کی چیزیں بناتاتھا جو کہ مقامی بازار میں فروخت ہوجاتی تھیں- لیکن موجودہ زمانے میں جدید ٹکنالوجی کی بناپر چیزیں بہت زیادہ مقدار میں بننے لگیں جو کہ مقامی ضرورت سے بہت زیادہ ہوتی تھیں-
اِس صورتِ حال نے مغربی قوموں کے اندر ایک نئی ضرورت کا احساس پیدا کیا، یعنی اپنی فاضل پیداوار کی کھپت کے لیے بیرونی ملکوں میں مارکیٹ کی تلاش- اٹلی کے کرسٹوفر کولمبس (وفات: 1506) اور پرتگال کے واس کوڈی گاما (وفات: 1524) کے بحری اسفار اِسی تجارتی روٹ کی دریافت کرنے کے لیے تھے- برٹش کمپنی، فرنچ کمپنی اور ڈچ کمپنی جیسے تجارتی ادارے  اِسی مقصد کے لیے بنائے گئے- انیسویں صدی (1859-1869) میں سوئز نہر (Suez Canal) اِسی تجارتی توسیع کے لیے بنائی گئی، وغیرہ-
صنعتی قوموں (industrial nations) کی طرف سے اقتصادی استحصال کے دوبڑے دور ہیں- پہلا دور وہ ہے جو نو آبادیات (colonialism) کے تحت ظہور میں آیا- دوسرا دور وہ ہے جو بیسویں صدی میں ظہور میں آیا جب کہ مسلم ملکوں کی زمین کے اندر تیل کے ذخائر دریافت ہوئے- کہاجاتاہے کہ تیل کے ذخائر کا 75 فی صد سے زیادہ حصہ مسلم ملکوں میں پایا جاتاہے- صنعتی قوموں کو اپنی انڈسٹری چلانے کے لیے تیل کی مسلسل سپلائی کی ضرورت تھی- اِس مقصد کے لیے انھوں نے مسلم ملکوں پر اپنی بالادستی قائم کی، تاکہ اُن کا صنعتی مفاد کسی روک ٹوک کے بغیر مسلسل باقی رہے- 1948 میں اسرائیل کا قیام بھی اسی خاص مقصد سے تھا- اس کا محرک ہرگز ’’اسلام دشمنی‘‘ نہ تھا، بلکہ صرف اپنے قومی اور تجارتی مفاد کو محفوظ رکھنا تھا-
تاریخ میں ہمیشہ نئے حالات پیش آتے ہیں- یہ نئے حالات گویا ایک نئے قسم کا چیلنج ہیں- اُس وقت ضروری ہوتاہے کہ اِن حالات کے مقابلے میں اپنے موقف کوازسرِ نو متعین کیا جائے- مگر عجیب بات ہےکہ پوری مسلم دنیا ، عرب سے عجم تک، اِن حالات کو سمجھ نہ سکی- اِس معاملے میں تقریباً تمام مسلمان رد عمل کی نفسیات کا شکار ہوگئے- نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے حصے میں نفرت اورمنفی سوچ اور ٹکراؤ کے سوا اور کچھ نہیں آیا- جس کا آخری نتیجہ مایوسی ہے- موجودہ زمانے میں مسلمانوں کی طرف سے خودکش بم باری کے جو واقعات ہورہے ہیں، وہ مایوسی کی اِسی نفسیات کا نتیجہ ہیں-
قدیم روایتی ذہن کی بنا پر مسلم رہنما نئے حالات کو سمجھ نہ سکے- اِس بنا پر وہ نئے حالات کے مقابلے میں اپنا مثبت موقف متعین نہ کرسکے- حقیقت یہ ہے کہ نئے حالات نے مسلمانوں کے لیے ساری دنیا میں نئے مواقع کھول دیے تھے- یہ نئے مواقع خاص طور پر دو تھے— ایک، یہ کہ اِن قوموں سے سائنس اور جدید ٹکنالوجی کو سیکھا جائے اور ان کے ذریعے اپنے ملکوں کو ترقی کے نئے دور میں پہنچایا جائے- موجودہ زمانے میں جاپان اس کی ایک مثال ہے- مگر مسلمان ایسا نہ کرسکے- دوسرا امکان یہ تھا کہ اِن قوموں کو مدعو سمجھا جائے اور ان پر دعوت الی اللہ کا کام کیا جائے- مزید یہ کہ ان کی پیدا کردہ ٹکنالوجی اور ان کے لائے ہوئے کمیونکیشن کو عالمی دعوت کے لیے استعمال کیاجائے- مگر مسلمانوں کی عمومی بے شعوری کی بنا پر یہ کام بھی نہ ہوسکا- مسلمانوں کے حصے میں صرف یہ آیا کہ وہ اِن قوموں کو ’’دشمن‘‘ سمجھیں اور ان کے خلاف ایک شکایتی گروہ بن کر رہ جائیں-
بعد کے زمانے میں مسلمانوں کے ساتھ یہ واقعات کیوں پیش آئیں گے- اِس کا سبب یہ ہوگا کہ اُس زمانے میں مسلمان اپنے دورِ زوال میں پہنچ چکے ہوں گے- حدیث میں اس کے لیے جو لفظ استعمال کیا گیاہے، وہ ’وَہن‘ ہے- وہن کا لفظی مطلب ہے — ضعف (weakness)- یہی داخلی ضعف ، نہ کہ کوئی خارجی سازش، اِس صورت حال کا اصل سبب ہوگا- امت کے دورِ وہن کو دوسرے الفاظ میں امت کا دورِ زوال کہاجاسکتا ہے-
واپس اوپر جائیں

تہذیب کے دو دھارے

تہذیب (civilization) کے لفظ سے عام طورپر صرف ایک چیز مراد لی جاتی ہے اور وہ مادی تہذیب ہے- مگر حقیقت یہ ہے کہ تہذیب کے دو دھارے ہیں جو مسلسل طورپر تاریخ میں جاری رہے ہیں-پہلے دھارے کو مادی تہذیب (material civilization) کہاجاتا ہے-دوسرے دھارے کو روحانی تہذیب (spiritual civilization) کہہ سکتے ہیں- روحانی تہذیب سے مراد کوئی مبہم چیز نہیں- اِس سے مراد عین وہی چیز ہے جو پیغمبروں کی ہدایت کے ذریعے تاریخ میں قائم ہوئی- روحانی تہذیب کا لفظ ہم نے صرف اِس لیےاستعمال کیا ہے کہ وہ لوگوں کے لیے قریب الفہم ہے-
مادی تہذیب کا دھارا ایک دکھائی دینے والا دھارا (visible stream) ہے، اِس لیے ہر آدمی اس سے واقف ہے- اِس کے برعکس، روحانی تہذیب کا دھارا ایک نہ دکھائی دینے والا دھارا (invisible stream) ہے، اِس لیے اُس کو صرف گہرے غوروفکر کے ذریعے معلوم کیا جاسکتا ہے- دونوں کے درمیان یہ فرق ایسا ہی ہے جیسے ایک انسان کے وجود میں دو چیزوں کا فرق- انسانی وجود کا ایک پہلو اس کا مادی جسم ہے جو پوری طرح دکھائی دیتا ہے- اس کے وجود کا دوسرا حصہ روح (soul) ہے جو کہ پوری طرح موجود ہوتی ہے، لیکن بظاہر وہ دکھائی نہیں دیتی-
مادی تہذیب، مادی امکانیات کو انفولڈ کرکے وجود میں آتی ہے- سمجھا جاتاہے کہ مادی تہذیب اب سے تقریباً 6 ہزار سال پہلے میسوپوٹامیا (Mesopotamia) کے علاقے میں ابتدائی طورپر شروع ہوئی، پھر وہ ترقی کرتے کرتے موجودہ تکمیلی دور تک پہنچی-
یہی معاملہ روحانی تہذیب یا اسپریچول تہذیب کا ہے- روحانی تہذیب بھی کچھ امکانیات کو انفولڈ کرکے وجود میں آتی ہے، لیکن دونوں کے درمیان ایک فرق ہے- مادی تہذیب کا واقعہ اجتماع یا سوسائٹی کی سطح پر وجود میں آتا-اِس کے برعکس، روحانی تہذیب کا واقعہ ایک انفرادی واقعہ ہے اور وہ فرد کی سطح پر وجود میں آتا ہے- فردکے اندر ذہنی بے داری، فرد کے اندر مقصد ِ اعلی کا شعور، فرد کے اندر خدا کے لیے حب شدید اور خوفِ شدید، فرد کے اندر جنت کا اشتیاق، وغیرہ-
روحانی تہذیب فرد کے اندر مذکورہ قسم کے غیر مرئی (invisible) فکری انقلاب سے شروع ہوتی ہے، پھر وہ ترقی کرکے ربانی شخصیت تک پہنچتی ہے- اِس طرح کے افراد ہر دور اور ہر زمانے میں برابر پیدا ہوتے ہیں- اِن افراد کی سطح پر روحانی تہذیب کا غیر مرئی دھارا نسل درنسل چلتا رہتاہے- مادی تہذیب اگر اجتماعی اداروں (social organisations) کی سطح پر چلتی ہے تو روحانی تہذیب افراد کی داخلی کیفیات اور افکار کی سطح پر جاری رہتی ہے-
قرآن کا حوالہ
قرآن تاریخ تہذیب کی کتاب نہیں، لیکن قرآن میں دونوں قسم کی تہذیبوں کے بارے میں اشاراتی حوالے موجود ہیں- قرآن کی آیتوں میں تدبر کرکے ان کو سمجھا جاسکتا ہے- جہاں تک مادی تہذیب کی بات ہے، اس کا اشاراتی حوالہ قرآن کی سورہ الروم میں اِن الفاظ میں آیا ہے: اَوَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَةُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ ۭ کَانُوْٓا اَشَدَّ مِنْہُمْ قُوَّةً وَّاَثَارُوا الْاَرْضَ وَعَمَرُوْہَآ اَکْثَرَ مِمَّا عَمَرُوْہَا وَجَاۗءَتْہُمْ رُسُلُہُمْ بِالْبَیِّنٰتِ ۭ فَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیَظْلِمَہُمْ وَلٰکِنْ کَانُوْٓا اَنْفُسَہُمْ یَظْلِمُوْنَ(30:9) یعنی کیا وہ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ وہ دیکھتے کہ کیا انجام ہوا اُن لوگوں کا جو اُن سے پہلے تھے- وہ ان سے زیادہ طاقت رکھتے تھے- اور انھوں نے زمین کو جوتا اور اس کو اُس سے زیادہ آباد کیا جتنا انھوں نے آباد کیا ہے- اور ان کے پاس ان کے رسول واضح نشانیاں لے کر آئے- پس اللہ اُن پر ظلم کرنے والا نہ تھا، مگر وہ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کررہے تھے-
قرآن کی اِس آیت میں ایک خصوصی واقعے کے حوالے سے ایک عمومی قانون کو بتایا گیا ہے- اِس قانون کا اشاراتی ذکر آیت کے اِن الفاظ میں ہے: وعمروہا أکثر مما عمروہا- عمومی انطباق کے اعتبار سے، اِس آیت کا مطلب یہ ہے کہ انسان ہر دور میں اپنی بڑھی ہوئی سرگرمیوںکے ذریعے اپنی زندگی کی مادی تعمیر کرتا رہا ہے- اِن سرگرمیوں کے ذریعے ارتقائی طورپر جو محسوس واقعہ ظہور میں آیا، اُسی کا نام مادی تہذیب ہے-ا ِس کے مقابلے میں سرگرمیوں کا دوسرا کلچر جو فرد کی سطح پر جاری رہا، وہی وہ واقعہ ہے جس کو ہم نے روحانی تہذیب کا نام دیا ہے- جس طرح مادی تہذیب کا تسلسل تاریخ میں برابر جاری رہا اور جس کا اشارہ قرآن کی مذکورہ آیت میں موجود ہے، اِسی طرح روحانی تہذیب کا غیر مرئی تسلسل بھی تاریخ میں برابر جاری رہا ہے- روحانی تہذیب کے تسلسل کا اشاراتی حوالہ قرآن کی سورہ المومنون کے اِن الفاظ میں ملتا ہے: ثُمَّ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تَتْرَا (23:44) یعنی پھر ہم نے لگاتار اپنے رسول بھیجے:
We sent Our messengers in succession.
خدا کے پیغمبرہر دور میں مسلسل آتے رہے اور ان کی تعلیم وتلقین کے ذریعے تاریخ میں روحانی تہذیب کا غیر مرئی تسلسل قائم رہا- مادی تہذیب کا تسلسل اگر اجتماعی سطح پر دکھائی دینے والے مظاہر کی صورت میں قائم رہا تو روحانی تہذیب کا تسلسل افراد کے اندر غیر مرئی احوال کی صورت میں جاری رہا-
برطانی مورخ آرنلڈ ٹائن بی (وفات: 1975 ) نے 21 بڑی تہذیبوں کا مطالعہ کیا جن کی مدت تقریباً 5 ہزار سال تک پھیلی ہوئی ہے- اِس مطالعے کے نتائج کو اس نے ایک ضخیم کتاب کی صورت میں مرتب کیا ہے جو 12 جلدوں میں شائع ہوچکی ہے- اس کا نام یہ ہے:
Arnold Toynbee, The Study of History
مادی تہذیب کے بارے میں اِس طرح کی کتابیں اور اِس طرح کے مقالات بڑی تعداد میں شائع ہوئے ہیں، مادی تہذیب کے تاریخی آثار (monuments) زمین کے مختلف حصوں میں موجود ہیں جو سیاحوں کی دلچسپی کا اہم مرکز ہیں- مادی تہذیب کو پروجیکٹ کرنے کے لیے بڑے بڑے میوزیم بنائے گئے ہیں- بڑے بڑے ادارے، بڑی بڑی تنظیمیں اور بڑے بڑے شہر گویا اُن کے تعارفی مراکز ہیں- اِن مراکز کو دیکھ کر لوگ کہہ پڑتے ہیں— ونڈرفل، ونڈرفل (wonderful, wonderful)-
اِسی طرح روحانی تہذیب کے واقعات بھی متوازی طورپر موجود ہیں جو اپنی حقیقت کے اعتبار سے، مادی تہذیب سے بہت زیادہ بڑے ہیں- یہ واقعات پوری تار یخ میں مسلسل طورپر پیش آتے رہے ہیں، لیکن اِن واقعات کے محسوس مظاہر کہیں موجود نہیں، اِس لیے لوگ اُن سے واقف نہیں- روحانی تہذیب کے واقعات ہمیشہ افراد کی سطح پر ان کی داخلی دنیا میں غیر مرئی طورپر پیش آتے ہیں- یہ افراد اگرچہ انسانی تاریخ کے اعلی ترین افراد ہوتے ہیں، لیکن وہ اپنی طبیعی عمر پوری کرکے اِس دنیا سے چلے جاتے ہیں- ان کی پیداکردہ روحانی تہذیب کو نہ ان کی زندگی میں لوگ دیکھ پاتے اور نہ ان کی وفات کے بعد-
اسپریچول تہذیب کے اجزا
مصر کے بادشاہوں نے 2700-2300 قبل مسیح کے درمیان مصر میں بڑی بڑی سنگی عمارتیں بنائیں جو اہرام (pyramids) کے نام سے مشہور ہیں- ہندستان کے بادشاہ شاہ جہاں نے 1630-48عیسوی کے درمیان آگرہ (یوپی) میں تاج محل بنوایا- اِس طرح کی ہزاروں عمارتیں ہیں جو مادی تہذیب کے تاریخی مظاہر کے طور پر دنیا کے مختلف ملکوں میں دکھائی دیتی ہے-اب سوال یہ ہے کہ اسپریچول تہذیب کے تحت جو واقعات ظہور میں آئے، اُن کا ریکارڈ کہاں ہے- کیا وہ اِسی لیے تھے کہ وقتی ظہور کے بعد وہ معدوم ہوجائیں اور ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائیں-یہ تاریخ انسانی کا سب سے بڑا سوال ہے-
مثال کے طورپر آدم کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل کے درمیان ایک معاملے پر نزاع ہوئی- قابیل سخت غصہ ہوگیا- اس نے کہا کہ میں تم کو مارڈالوں گا- اِس کے جواب میں ہابیل نے کہا: لَىِٕنْۢ بَسَطْتَّ اِلَیَّ یَدَکَ لِتَقْتُلَنِیْ مَآ اَنَا بِبَاسِطٍ یَّدِیَ اِلَیْکَ لِاَقْتُلَکَ ۚ اِنِّىْٓ اَخَافُ اللّٰہَ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ(5:28) یعنی اگر تم مجھے قتل کرنے کےلیے اپنا ہاتھ اٹھاؤگے تو میں تم کو قتل کرنے کے لیے تم پر اپنا ہاتھ نہیں اٹھاؤں گا- میں ڈرتا ہوں اللہ سے جو سارے جہان کا رب ہے-
چناں چہ ہابیل قتل ہوگیا، مگر اس نے اپنے بڑے بھائی قابیل پر ہاتھ نہیں اٹھایا-اُس وقت ہابیل کے سینے میں خوفِ خدا کا جو طوفان آیا ہوگا،وہ بلاشبہہ اہرامِ مصر اور تاج محل جیسی عمارتوں سے بے شمار گنا زیادہ بڑا واقعہ تھا- فرشتوں نے یقیناً اس کو ریکارڈ کیا، لیکن انسان کی آنکھوں نے کبھی اِس واقعے کو نہیں دیکھا- کیا یہ عظیم ربانی واقعہ صرف اس لیے تھا کہ وہ ایک شخص کے دل میں پیدا ہو اور ہمیشہ کے لیے معدوم ہوجائے-
اِسی طرح چار ہزار سال پہلے جب پیغمبر ابراہیم نے ایک خدائی منصوبے کے تحت اپنی بیوی ہاجرہ اور اپنے بیٹے اسماعیل کو عرب کے صحرا میں بسادیا- اُس وقت ہاجرہ نے پیغمبر ابرہیم سے پوچھا کہ کیا خدا نے آپ کو ایسا کرنے کا حکم دیا ہے- انھوں نے جواب دیا کہ ہاں- اس کے بعد ہاجرہ کی زبان سے نکلا: إذن لا یضیّعنا (پھر اللہ ہم کو ضائع نہیں کرے گا)- صحرا کے اِس بے آب وگیاہ ماحول میں جب ہاجرہ نے یہ الفاظ کہے ہوں گے، اُس وقت ان کے دل میں اعتماد علی اللہ کا ایک عظیم کیفیاتی طوفان برپا ہوا ہوگا- یہ طوفان بلاشبہ مصر کے اہرام اور آگرہ کے تاج محل سے بے شمار گنا زیادہ بڑا واقعہ تھا- یہ واقعہ بلا شبہہ فرشتوں کے ریکارڈ میں آیا، لیکن انسان کے لیے وہ ایک ناقابلِ ذکر واقعہ بنا رہا- کیا یہ عظیم ربانی واقعہ اِسی لیےپیش آیا کہ وہ ایک فرد کے دل میں برپا ہو، اِس کے بعد وہ ہمیشہ کے لیے معدوم ہوجائے-
اِسی طرح ایک واقعہ وہ ہے جو تقریباً تین ہزار سال پہلے حضرت موسی کے زمانے میں پیش آیا- قرآن میں اِس واقعے کی تفصیل دیکھی جاسکتی ہے- اُس وقت کے بادشاہ فرعون نے مصر کے ماہر جادوگروں کو بلایا، تاکہ وہ حضرت موسی کے معجزے کا مقابلہ کریں- طے شدہ منصوبے کے مطابق، ایک میدان میں اہلِ مصر بڑی تعداد میں اکھٹا ہوئے- وہاں جادوگروں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں میدان میں پھینکیں- لوگوں کو نظر آیا کہ وہ رسیاں اور لاٹھیاں سانپ بن کر میدان میں چل رہی ہیں- اُس وقت حضرت موسی نے اپنا عصا میدان میں ڈالا- حضرت موسی کا عصا اژدہا بن کر جادوگروں کے سحر کو نگل گیا-
جادوگروں نے جب اِس واقعے کو دیکھا تو اُن پر ظاہر ہوگیا کہ اُن کا کیس جادو کا کیس تھا، لیکن موسی کا کیس اِس سے مختلف کیس ہے- وہ رب العالمین کے پیغمبر کا کیس ہے- اِس صداقت کے ظاہر ہوتے ہی جادوگروں نے اپنی غلطی کو مان لیا- وہ پکار اٹھے: آمَنَّا بِرَبِّ ہَارُوْنَ وَمُوْسَی (20:70)- فرعون جادوگروں پر سخت غضبناک ہوا- اس نے ان کے قتل کا حکم دے دیا، لیکن جادوگراپنے فیصلے پر قائم رہے- اِس کے بعد جو واقعہ پیش آیا، اس کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: قَالُوْا لَنْ نُّؤْثِرَکَ عَلٰی مَا جَاۗءَنَا مِنَ الْبَیِّنٰتِ وَالَّذِیْ فَطَرَنَا فَاقْضِ مَآ اَنْتَ قَاضٍ ۭ اِنَّمَا تَقْضِیْ ہٰذِہِ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا(20:72) یعنی جادوگروں نے کہا کہ ہم تجھ کو ہر گز اُن دلائل پر ترجیح نہیں دیں گے جو ہمارے پاس آئے ہیں اور اُس ذات پر جس نے ہم کو پیدا کیا ہے- پس تم کو جو کچھ کرنا ہے، اُسے کرڈالو- تم جو کچھ کرسکتے ہو، اِسی دنیا کی زندگی کا کرسکتے ہو-
مصر کے جادوگروں نے یہ جملہ موت کی قیمت پر کہا تھا- اُس وقت اُن کے دل میں سچائی کا جو طوفان برپا ہوا ہوگا، وہ بلاشبہہ اہرامِ مصر اور تاج محل جیسی سنگی عمارتوں سے بے شمار گنا زیادہ عظیم ہے- کیا سچائی کا یہ طوفان صرف اِس لیے تھا کہ وہ کچھ انسانوں کے سینے میں وقتی طورپر برپا ہو اور پھر ہمیشہ کے لیے اس کا وجود مٹ جائے-
اِسی طرح کا ایک واقعہ وہ ہے جو صحیح البخاری کی ایک روایت میں بتایا گیا ہے- قدیم زمانے میں بنی اسرائیل کے تین صالح افراد ایک سفر پر روانہ ہوئے- درمیان میں بارش آگئی- چناںچہ انھوں نے پہاڑ کے ایک غار میں پناہ لی- اُس وقت وہاں لینڈ سلائڈ (landslide) کا ایک واقعہ ہوا- اس کی وجہ سے غار کا منہ بند ہوگیا- یہ پتھر اتنا بڑا تھا کہ تینوں آدمی مل کر بھی اس کو ہٹا نہیں سکتے تھے- اُس وقت انھوں نے طے کیا کہ ہر ایک اپنے کسی خاص عمل کے واسطے سے دعا کرے- چناں چہ انھوں نے دعا کی اور پتھر ہٹ گیا، پھر وہ لوگ غار سے باہر نکل آئے-
اِن تینوں میں سے ایک شخص وہ تھا جس نے دعا کرتے ہوئے کہا کہ اے اللہ، میں مزدوروں سے کام لیا کرتا تھا- ایک دن ایسا ہوا کہ ایک مزدور کسی بات پر غصہ ہوگیا- وہ اپنی مزدوری لیے بغیر چلا گیا- اِس کے بعد میں نے اس کی مزدوری کی رقم سے ایک گائے خریدی- اِس گائے میں اتنی برکت ہوئی کہ دھیرے دھیرے گائے اور بکری اور اونٹ کا ایک بہت بڑا گلّہ اکھٹا ہوگیا- ایک عرصے کے بعدوہ مزوردوبارہ آیا اور اپنی مزدوری کا تقاضا کیا- اُس وقت میرے گھر کے سامنے کا میدان جانوروں کے گلے سے بھرا ہوا تھا- میں نے کہا کہ یہ سب تمھارا ہے، اِس کو لے جاؤ- مزدور نے کہا کہ مجھ سے استہزا نہ کرو- میں نے کہاکہ یہ استہزا کی بات نہیں، یہ سب تمھاری مزدوری کی رقم کا نتیجہ ہے- اس کے بعد وہ مزدور اُن تمام جانوروں کو ہنکا کرلے گیا اور ایک بھی نہ چھوڑا- میں نے مزدور کو نہیں روکا اور اُس پر راضی رہا- (صحیح البخاری، أحادیث الأنبیاء، حدیث الغار، رقم: 3465)
اُس آدمی نے جب یہ فیصلہ کیا تو اُس وقت اس کے سینے میں دیانت داری (honesty) کا ایک عظیم طوفان برپا ہوا ہوگا- یہ واقعہ بلا شبہہ اہرامِ مصر اور تاج محل جیسی سنگی عمارتوں سے بے حساب گنا زیادہ بڑا تھا- کیا یہ واقعہ محض اِس لیے ہوا کہ وہ صرف ایک شخص کے سینے میں برپا ہو اور پھر ہمیشہ کے لیے معدوم ہوجائے- اِس طرح کے واقعات جو افراد کی زندگی میں داخلی طورپر پیش آئے، ایسے کسی واقعے کو اُس فرد نے تو یقیناً جانا جس کو اس کا تجربہ پیش آیا تھا، لیکن اس کی اپنی ہستی کے باہر اُس کا کوئی وجود دکھائی نہیں دیا، وہ صرف غیر مرئی قسم کا ایک ذاتی احساس بن کر رہ گیا- ہر عورت اور مرد شعوری یا غیر شعوری طورپر چاہتے ہیں کہ اُن کے داخلی احساسات خارجی واقعہ بن کر نمایاں ہوں- جو کچھ انھوں نے وقتی طورپر محسوس کیا تھا ، وہ اُسی طرح تاریخ کا مستقل حصہ بن جائے جس طر ح دوسری بہت سی چیزیں تاریخ کا مستقل حصہ بنی ہوئی ہیں-
یہ ایک سوال ہے اور قرآن کے مطالعے سے اِس کا واضح جواب معلوم ہوتا ہے- اِس سے معلوم ہوتا ہےکہ یہ دراصل مادی تہذیب ہے جو قیامت کے دن معدوم ہو جائے گی اور جہاں تک روحانی تہذیب کا سوال ہے، وہ اپنی پوری صورت میں ظاہر ہو کر ابدی طورپر اپنا جلوہ دکھاتی رہے گی-
دو مختلف انجام
قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ مادی تہذیب کی ترقیاں صرف وقتی ترقیاں ہیں- قیامت کا بھونچال مادی تہذیب اور اس کے تمام آثار کو یکسر مٹا دے گا- قیامت کے بعد بننے والی دنیا میں اس کا کوئی وجود باقی نہیں رہے گا- اس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے: اَلْمَالُ وَالْبَنُوْنَ زِیْنَةُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ۚ وَالْبٰقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَیْرٌ عِنْدَ رَبِّکَ ثَوَابًا وَخَیْرٌ اَمَلًا (18:46) یعنی مال اور اولاد دنیوی زندگی کی رونق ہیں - اور باقی رہنے والے اعمالِ صالحہ تمھارے رب کے نزدیک اجر اور امید کے اعتبار سے بہتر ہیں-
قرآن کی اِس آیت میں ’زینة الحیاة الدنیا‘ سے مراد وہی چیز ہے جس کو مادی تہذیب کہا جاتا ہے- یہ مادی تہذیب خواہ بظاہر کتنا ہی زیادہ پُررونق ہو، بہر حال وہ وقتی طورپر صرف امتحان کی مدت تک کے لیے ہے- قیامت کا بھونچال اس کو پوری طرح مٹا دے گا- اِس کے بعد زمین کا وہ حال ہوگا جس کو قرآن میں قاعاً صفصفاً (20:106) کے الفاظ میں بیان کیا گیاہے، یعنی چٹیل میدان-
’باقیات الصالحات‘ کا لفظی ترجمہ ہے: باقی رہنے والے اعمالِ صالحہ- صالح عمل حقیقةً وہ ہے جو صالح نیت سے کیا گیا ہو- ’باقیات الصالحات‘ دوسرے لفظوں میں کسی عمل کے کیفیاتی حصہ (qualitative content) کا نام ہے- عمل کا یہ کیفیاتی حصہ کہاں واقع ہوتا ہے، وہ ایک مرد یا عورت کے داخلی وجود میں واقع ہوتاہے- یہی وہ چیز ہے جس کو ہم نے قابلِ فہم بنانے کے لیے روحانی تہذیب کے الفاظ میں بیان کیا ہے- قیامت کا بھونچال یہ کرے گا کہ انسانی عمل کے کمیاتی حصہ (quantitative content) کو ڈھا دے گا- اِس کے بعد انسانی عمل کا صرف کیفیاتی حصہ (qualitative content) باقی رہے گا-
قرآن میں اہلِ جنت کے بارے میں ارشاد ہوا ہے: لِلَّذِیْنَ اَحْسَـنُوا الْحُسْنٰى وَزِیَادَة (10:26)- اِس آیت میں ’’زیادہ‘‘ کا لفظ غالباً اِس معنی میں ہے کہ آخرت میں اہلِ جنت کے ساتھ جو معاملہ ہو گا، وہ صرف یہ نہیں ہوگا کہ ان کے نیک عمل کو قبولیت کا درجہ ملے گا، بلکہ مزید یہ ہوگاکہ عمل کے دوران اُن کے اندر جو اعلی ربانی کیفیات پیدا ہوئی تھیں، وہ خارجی طورپر متشکل ہوجائیں گی- یہی خارجی اظہار وہ چیز ہے جس کو ہم نے اسپریچول تہذیب کا نام دیا ہے-
مادی تہذیب مادی واقعات کے متشکل ہونے سے وجود میں آتی ہے- اِس کے برعکس، اسپریچول تہذیب وہ تہذیب ہے جہاں اعلی ربانی کیفیات متشکل ہوں- موجودہ دنیا جن قوانین کے تحت بنی ہے، وہاں کمیاتی عمل (quantitative deeds) تو بخوبی طورپر متشکل ہوسکتے ہیں، لیکن کیفیاتی عمل (qualitative deeds) یہاں متشکل نہیں ہوسکتے- آخرت کی دنیا کے قوانین بالکل مختلف ہوں گے- اِس طرح وہاں یہ ممکن ہوجائے گا کہ ایک کیفیاتی واقعہ بھی اُسی طرح عملی صورت میں متشکل ہوجائے جس طرح موجودہ دنیا میںکمیاتی واقعہ عملی صورت میں متشکل ہوتا ہے-
اِس سلسلے میں قرآن کی دو آیتوں کا مزید مطالعہ کیجئے- اِن آیتوں کے الفاظ اور ان کا ترجمہ یہ ہے: مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَزِیْنَتَہَا نُوَفِّ اِلَیْہِمْ اَعْمَالَہُمْ فِیْہَا وَہُمْ فِیْہَا لَا یُبْخَسُوْنَ ؀ اُولٰۗىِٕکَ الَّذِیْنَ لَیْسَ لَہُمْ فِی الْاٰخِرَةِ اِلَّا النَّارُ ڮ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِیْہَا وَبٰطِلٌ مَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ (11:15-16) یعنی جو لوگ دنیا کی زندگی اور اس کی زینت چاہتے ہیں، ہم ان کے اعمال کا بدلہ دنیا ہی میں دے دیتے ہیں- اور اس میں ان کے ساتھ کوئی کمی نہیں کی جاتی- یہی لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں آگ کے سوا کچھ نہیں ہے- انھوں نے دنیا میں جو کچھ بنایا تھا، وہ نابود ہوگیا اور باطل ہوگیا جو کچھ انھوں نے کمایا تھا-
قرآن کی اِس آیت میں زینتِ دنیا سے مراد تاریخِ انسانی کا وہی ظاہرہ ہے جس کو ہم نے مادی تہذیب کے معروف نام سے بیان کیا ہے- اِس مادی تہذیب کی عمر صرف قیامت تک کے لیے ہے- اِس کے بعد وہ مٹا دی جائے گی- اس کا انجام وہی ہوگا جس کو قرآن کی مذکورہ آیت میں ’حبط ما صنعوا‘ کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے، یعنی انھوں نے دنیا میں جو کچھ بنایا تھا، وہ نابود ہوگیا (vain are all their deeds) -
وہ چیز جس کو مادی تہذیب کہاجاتاہے، وہ گویا کہ اِسی موجودہ دنیا میں اپنے لیے ایک دنیا بنانا ہے- یہ بلاشبہہ خداکے تخلیقی منصوبے کے خلاف ہے- خدا کے تخلیقی منصوبے کے مطابق، موجودہ دنیا عمل کے لیے بنائی گئی ہے، نہ کہ تعمیر ِ جنت کے لیے-
ایسا کرنے والے لوگ خدا کے منصوبےکے خلاف چل رہے ہیں- اُن کی ساری سرگرمیاں خداکے نزدیک غیر مقبول ہیں، اِس لیے اُن کا وجود صرف اُس وقت تک ہے جب تک اُن کی امتحان کی مدت ختم نہیں ہوتی- امتحان کی مدت ختم ہوتے ہی اُن کی بنائی ہوئی یہ مادی دنیا اُسی طرح ختم کردی جائے گی جس طرح غیر منظور شدہ تعمیر (unauthorised construction) کو سرکاری طورپر ڈھا دیا جاتا ہے-
اسپریچول تہذیب کا دور
قیامت دو دنیاؤں کے درمیان حد فاصل ہے- قیامت کا مطلب یہ ہے کہ مادی تہذیب کا دور ختم ہوا اور روحانی تہذیب کا دور شروع ہوگیا- اِسی دوسرے دور کو قرآن میں آخرت کا دور کہاگیا ہے- اِس دوسرے دور میں یہ ہوگا کہ پوری تاریخ میں بکھرے ہوئے روحانی اجزا (spiritual contents) کو جنت میں یکجا کردیا جائے، یعنی اسپریچول اجزا کے حامل انسانوں کو بقیہ انسانوں سے الگ کرکے جنت کی معیاری دنیا میں بسا دینا- اِسی حقیقت کو قرآن کی ایک آیت میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُہَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ (21:105)-
اِس واقعے کا ذکر بائبل میں بھی موجود ہے- اس کے الفاظ یہ ہیں— پَر شریروں کی نسل کاٹ ڈالی جائے گی- صادق زمینوں کے وارث ہوں گے اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے:
But the descendants of the wicked shall be cut off. The righteous shall inherit the land and dwell in it forever. (Psalm 37:28-29)
اسپریچول تہذیب یا ربانی تہذیب قیامت سے پہلے کی دنیا میں صالح افراد کی سطح پر ظہور میں آئے گی- قیامت کے بعد یہ تمام صالح افراد پوری تاریخِ بشری سے منتخب کرکے جنت میں بسادئے  جائیں گے- اِس دوسرے دور حیات میں ان کی داخلی اسپریچولٹی یا داخلی رباینت خارجی واقعہ بن کر چمک اٹھے گی- جو چیز دنیا کی زندگی میں داخلی کیفیت (inner spirit) ہونے کی وجہ سے لوگوں کو دکھائی نہیں دیتی تھی، وہ آخرت کے بدلے ہوئے ماحول میں خارجی طورپر دکھائی دینے والا واقعہ بن جائے گا- اِسی حقیقت کو قرآن میں نور کے لفظ میں بیان کیاگیاہے- اِس کا مطلب یہ ہے کہ صالح افراد کی ربانیت جو موجودہ دنیا میں ایک چھپی ہوئی حقیقت بنی ہوئی تھی، وہ آخرت کی دنیا میں ایک دکھائی دینے والی حقیقت بن جائے گی- اِس سلسلے میں قرآن کی دو آیتوں کا مطالعہ کیجیے-
پہلی آیت قرآن کی سورہ الحدید میں ہے- اس کے الفاظ یہ ہیں: یَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ یَسْعٰى نُوْرُہُمْ بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَبِاَیْمَانِہِمْ بُشْرٰىکُمُ الْیَوْمَ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا ۭذٰلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ (57:12) یعنی جس دن تم مومن مردوں اور مومن عورتوں کو دیکھو گے کہ ان کی روشنی اُن کے آگے اور ان کے دائیں چل رہی ہوگی — آج کے دن تم کو خوش خبری ہے اُن باغوں کی جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، تم اُن میں ہمیشہ رہوگے، یہ بڑی کامیابی ہے-
اِسی طرح سورہ الحدید کی ایک اور آیت میںارشاد ہوا ہے: ؀وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرُسُلِہٖٓ اُولٰۗىِٕکَ ہُمُ الصِّدِّیْقُوْنَ ڰ وَالشُّہَدَاۗءُ عِنْدَ رَبِّہِمْ ۭ لَہُمْ اَجْرُہُمْ وَنُوْرُہُمْ ۭ وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَکَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَآ اُولٰۗىِٕکَ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ (57:19) یعنی جو لوگ ایمان لائے اللہ پر اور اس کے رسولوں پر، وہی لوگ اپنے رب کے نزدیک صدیق اور شہید ہیں- ان کے لیے ان کا اجر اور ان کا نور ہے- اور جن لوگوں نے انکار کیا اور ہماری نشانیوں کو جھٹلایا، وہی دوزخ والے ہیں-
اِسی قسم کی ایک آیت قرآن کی سورہ التحریم میں آئی ہے- اس کے الفاظ یہ ہیں: یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْٓا اِلَى اللّٰہِ تَوْبَةً نَّصُوْحًا ۭ عَسٰى رَبُّکُمْ اَنْ یُّکَفِّرَ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَیُدْخِلَکُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ ۙ یَوْمَ لَا یُخْزِی اللّٰہُ النَّبِیَّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ ۚ نُوْرُہُمْ یَسْعٰى بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَبِاَیْمَانِہِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَاغْفِرْ لَنَا ۚ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ (66:8) یعنی اے ایمان والو، اللہ کے آگے سچی توبہ کرو- امید ہے کہ تمھارا رب تمھارے گناہ معاف کردے اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کرے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی- جس دن اللہ، نبی کو اور اس کے ساتھ ایمان والوںکو رسوا نہیں کرے گا- اُن کی روشنی ان کےآگے اور ان کے دائیں طرف دوڑ رہی ہوگی، وہ کہہ رہے ہوں گے کہ اے ہمارے رب، تو ہمارے لیے ہمارے نور کو کامل کردے اور ہماری مغفرت فرما- بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے-
قرآن کی اِن آیتوں میں نور (روشنی) کے دوڑنے کا ذکر لفظی طورپر دوڑنے کے معنی میں نہیں ہے، بلکہ وہ پھیلنے کے معنی میں ہے- اِس کا مطلب یہ ہے کہ آخرت میں اُن کا نور دور دور تک پھیلا ہوا ہوگا- مزید یہ کہ نور کا لفظ سادہ طورپر روشنی کے معنی میں نہیں ہے، بلکہ وہ اِس معنی میں ہے کہ ان کے عمل کا روحانی حصہ (spiritual content) جو دنیا میں اعلی داخلی تجربے کی حیثیت رکھتا تھا، وہ آخرت میں متشکل (materialised) ہو کر خارجی طور پر دکھائی دینے لگے- بہ الفاظ دیگر، جو چیز دنیا کی زندگی میں صرف غیرمرئی نور کی حیثیت رکھتی تھی،وہ آخرت میں قابلِ مشاہدہ اسپریچول تہذیب کی صورت اختیار کرلے گی- مادی تہذیب جس طرح دنیا میں قابلِ مشاہدہ ہے، اسی طرح اسپریچول تہذیب آخرت میں قابلِ مشاہدہ ہوجائے گی-
مذکورہ آیت میں ’أجرہم ونورہم‘ کا لفظ نہایت اہم حقیقت کو بتارہا ہے- اِس آیت میں اجر سے مراد جنت کی مادی نعمتیں ہیں اورنور سے مراد وہ تہذیب ہے جو جنت میں ایک روشن واقعہ بن جائے- اہلِ جنت ایک طرف'لکم فیہا ما تشتہى أنفسکم'کے بمصداق، جنت کی اعلی نعمتوں سے محظوظ ہوں گے اور دوسری طرف یہ ہوگا کہ ان کے اندر داخلی سطح پر پیدا ہونے والی ربانی کیفیات جو دنیا میں غیر مرئی حقیقت بنی ہوئی تھیں، آخرت میں وہ قابلِ مشاہدہ نور کی صورت میں نمایاں ہوجائیں گے- آخرت میں ظاہر ہونے والے اِس واقعے کو نورانی تہذیب یا اسپریچول تہذیب کے الفاظ میں بیان کیا جاسکتاہے-
اِسی طرح مذکورہ آیت میں اہلِ جنت کی زبان سے یہ لفظ ادا ہوا ہے: ’أتمم لنا نورنا‘- اِس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں تونے ہمیں جس اعلی ربانی تجربے کی توفیق دی، وہ دنیا میں غیر مرئی بنا رہا- اب آخرت میں تو ہمارے ساتھ یہ مزید احسان فرماکہ اِن داخلی ربانی تجربات کو خارجی واقعے کی صورت میں ظاہر کردے- جس طرح مادہ پرست انسان کی داخلی دریافت خارجی طورپر دنیا میں مادی تہذیب کی صورت میں متشکل ہوئی تھی، اُسی طرح اب تو آخرت میں ہماری داخلی ربانی دریافتوں کو خارجی طورپر نورانی تہذیب یا اسپریچول تہذیب کی صورت میں متشکل کردے- یہی مطلب ہے مذکورہ آیت میں اتمامِ نور کا-
آئڈیا کا متشکَّل ہونا
خواہ مادی تہذیب کا معاملہ ہو یا اسپریچول تہذیب کا معاملہ، دونوں کی نوعیت اس اعتبار سے یکساں ہے- دونوں کا وقوع ابتداء ً ایک غیر مرئی آئڈیا (invisible idea) کی صورت میں ہوتا ہے، بعد کو وہ خارجی صورت میں متشکل ہوجاتا ہے- یہی معاملہ مادی تہذیب کا بھی ہے اور یہی معاملہ اسپریچول تہذیب کا بھی-
اِس کی ایک مثال یہ ہے کہ مائکل فریڈے (Michael Faraday, d. 1867) ایک برٹش سائنس داں تھا- کچھ تجربات کے دوران اُس کے دماغ میں ایک آئڈیا آیا، جو اب اصطلاحی طورپر الیکٹرومیگنٹزم (electromagnetism)کے طورپر معروف ہے- یہ آئڈیا فطرت کے اُس قانون کے بارے میں تھا جس کو الیکٹری سٹی (electricity) کہا جاتا ہے- اِس آئڈیا کے تحت یہ فارمولا بنایا گیا کہ بجلی کا مطلب ہے— الیکٹران کا بہاؤ:
Electricity means flow of electrons.
وہ چیز جس کو مادی تہذیب کہا جاتاہے، وہ براہِ ارست یا بالواسطہ طورپر فطرت کے دو قوانین کا نام ہے — روشنی (light) اور حرکت(motion) - فطرت کے اِن دو غیر مرئی قوانین نے جب عملی صورت اختیار کی تو اس کے نتیجے میں وہ مرئی ظاہرہ وجود میں آیا جس کو مادّی تہذیب کہاجاتا ہے-
یہی معاملہ اسپریچول تہذیب کا بھی ہے- اسپریچول تہذیب ابتداء ً ایک مخفی واقعے کی صورت میں ایک بندہ مومن کے سینے میں غیر مرئی طورپر وجود میں آتی ہے- اسپریچول تجربہ کیا ہے، اس کو قرآن کی اِن آیتوں کے مطالعے سے سمجھا جاسکتاہے: والذین آمنوا أشد حباً للہ (2:165)، ولم یخش إلا اللہ (9:18)، مما عرفوا من الحق (5:38)،وقلوبہم وجلة (23:60)، فی أہلنا مشفقین ( 52:26)، لاتحزن إن اللہ معنا (9:40)، وغیرہ-
مذکورہ حوالے ایک مومن کے سینے میں پیدا ہونے والے اسپریچول تموجات کو بتاتے ہیں- یہ اسپریچول تموجات(spiritual waves) اپنی حقیقت کے اعتبار سے بلا شبہہ ہمالیائی تموجات تھے، لیکن دنیا کی زندگی میں وہ غیر مرئی واقعہ بن کر رہ گئے- یہ خدا کی شانِ رحمت کے خلاف ہے کہ ایک سائنس داں کی مادی معرفت تو مادی تہذیب کی صورت میں متشکل ہو ، لیکن ایک مومن کی ربانی معرفت محسوس اسپریچول تہذیب کی صورت میں متشکل نہ ہو-
قرآن کے مذکورہ بیانات اِسی سوال کا جواب ہیں- اِن آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح سائنس دانوں کی مادی معرفت خارجی طورپر متشکل ہو کر دنیا میں مادی تہذیب کی صورت میں ظاہر ہوئی، اِسی طرح آخرت میں مزید اضافے کے ساتھ یہ ہوگا کہ مومن بندوں کی ربانی معرفت، جو دنیا میں غیر مرئی تھی، وہ آخرت میں خارجی طورپر متشکل ہوگی- اِسی واقعے کو قرآن میں نورانی ظہور سے تعبیر کیا گیا ہے اور اِسی واقعے کا دوسرا نام آخرت کی ابدی دنیا میں بننے والی اسپریچول تہذیب ہے-
دو قسم کے چہرے
قرآن میں مختلف مقامات پر بتایا گیا ہے کہ قیامت میں انسانوں کو چھانٹ کر الگ کیا جائے گا، اہلِ جنت الگ اور اہلِ جہنم الگ- اِس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے: یَوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْہٌ وَّتَسْوَدُّ وُجُوْہٌ ۚ فَاَمَّا الَّذِیْنَ اسْوَدَّتْ وُجُوْھُھُمْ ۣاَکَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا کُنْتُمْ تَکْفُرُوْنَ(3:103) یعنی جس دن کچھ چہرے روشن ہوں گے اور کچھ چہرے سیاہ ہوں گے، تو جن کے چہرے سیاہ ہوں گے، اُن سے کہا جائے گا کہ کیا تم اپنے ایمان کے بعد منکر ہوگئے، تو اب چکھو عذاب اپنے کفر کے سبب سے-
’’روشن چہرہ‘‘ سے مراد کیا ہے- اِس سے مراد وہی روشن شخصیت ہے جس کی وضاحت اِس سے پہلے ہوچکی ہے- ’’سیاہ چہرہ‘‘ سے مراد یہ نہیں ہے کہ ان کے چہروں پر سیاہ رنگ لگا دیا جائے گا- اِس کا مطلب یہ ہےکہ ان کی داخلی برائی ظلمت بن کر اُن کے چہرے پر نمایاں ہوجائے گی- جس غیر ربانی شخصیت کو وہ اپنی جھوٹی تدبیروں سے اپنے اندر چھپائے ہوئے تھے، وہ ظاہر ہو کر لوگوں کو محسوس طور پردکھائی دینے لگے گی- یہ کوئی پراسرار بات نہیں ہے، یہ وہی بات ہے جو دنیا کی زندگی میں بھی جزئی طورپر مشاہدات میں آتی ہے، چناں چہ کہا جاتا ہے کہ:
Face is the reflection of one's inner personality.
دنیا کی زندگی میں برے لوگوں کا حال یہ تھا کہ وہ اندر سے بالکل غیر سنجیدہ تھے، مگر اوپر سے وہ اپنے آپ کو سنجیدہ ظاہر کرتے تھے- وہ جھوٹ اور بددیانتی پر کھڑے ہوئے تھے، لیکن خوب صورت الفاظ کے ذریعے وہ اپنی حقیقت پر پردہ ڈالے ہوئے تھے- دل اور دماغ کے اعتبار سے، وہ صرف ایک دنیا پرست انسان تھے، لیکن اپنے ظاہر فریب رویّے سے وہ آخرت پسندی کے اسٹیج پر پُررونق جگہ حاصل کیے ہوئے تھے-قیامت کے بعد جو آخرت کی دنیا آئے گی، وہاں تمام حقیقتیں اپنی اصل صورت میں ظاہر ہوجائیں گی- وہاں ہر عورت اور مرد اپنی اصل داخلی صورت میں نمایاں ہوجائے گا- یہی مطلب ہے قیامت میں چہروں کے سیاہ ہونے کا-
برے لوگ وہاں اِس طرح اٹھیں گے کہ ان کے چہروں پر سخت قسم کی حسرت اور ندامت چھائی ہوئی ہوگی- وہ بے بسی کی تصویربنے ہوئے ہوں گے- ان کااحساسِ محرومی ان کے پورے وجود کو بے قیمت بنائے ہوئے ہوگا- اپنے حال اور مستقبل کے بارے میں ان کی کامل مایوسی کی بنا پر ان کا احساس یہ ہوگا کہ وہ حیوان سے بھی زیادہ بے قیمت ہیں- ان کی بے بسی کا یہ حال ہوگا کہ وہ اپنے آپ کو لوگوں سے چھپانا چاہیں گے، لیکن وہاں انھیں کوئی جگہ نہیں ملے گی جہاں وہ اپنے آپ کو چھپا لیں-
جنت کا معاشرہ
جنت کے معاشرے میں وہ خوش قسمت افراد جگہ پائیں گے جنھوں نے موجودہ دنیا میں اپنے آپ کو جنتی شخصیت کی حیثیت سے تیار کیا ہوگا- جنتی شخصیت کا لفظ کوئی پراسرار لفظ نہیں ہے- اِس سے مراد وہ افراد ہیں جو انتہائی معنوں میں بلند فکری (high thinking) کے مالک ہوں- یہی وہ اعلی کردار ہے جس کو قرآن میں خُلقِ عظیم (68:4) یا مزکی شخصیت (20:76) کے الفاظ میں بیان کیا گیاہے-
یہ اعلی شخصیت والا انسان کون ہے، یہ وہ انسان ہے جس نے اپنے آپ کو ہر قسم کے دنیوی محرکات (worldly motivations) سے اوپر اٹھایا، جس نےاپنے آپ کو کامل طورپر متعصبانہ فکر (biased thniking) سے پاک کیا، جس نے اپنے آپ کو نفس اور شیطان کی ترغیبات سے بچایا، جس نے اپنے اندر اُس انسان کی تعمیر کی جس کو کامپلکس فری سول (complex free soul) کہاجاتا ہے، جس نے دنیا کی زندگی میں یہ ثابت کیا کہ وہ انٹیگریٹیڈ پرسنالٹی (integrated personality) کا حامل انسان ہے— یہی وہ صفات ہیں جن سے متصف افراد کو ایک لفظ میں، ربانی انسان کہاجاسکتاہے- انھیں صفات کے حامل افراد کو جنت میں آبادکاری کے لیے منتخب کیا جائے گا-
جنتی شخصیت کی تعمیر
مذکورہ اعلی ربانی صفات پیدا کرنے کے لیے سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے، وہ صبر ہے- صبر کے ذریعے آدمی اِس قابل بنتاہے کہ وہ مختلف قسم کے غیر موافق احوال کے درمیان رہتے ہوئے بھی اپنے اندر جنتی شخصیت کی تعمیر کرے- وہ منفی اسباب کے اندر اپنی مثبت سوچ کو مستقل طورپر برقرار رکھے- وہ مسائل کو عذر (excuse)نہ بناتے ہوئے اپنا ربانی سفرجاری رکھے- اِسی بنا پر قرآن میں کہا گیاہے کہ صبر کرنے والے جنت کے اعلی مقامات میں جگہ پائیں گے- (25:75)
صبر کی اِسی اہمیت کی بنا پر صبر کو اعلی ترین انعام کا ذریعہ بتایا گیا ہے- حقیقت یہ ہے کہ صبر ہر عملِ خیر کی لازمی بنیاد ہے- اِسی لیے قرآن میں صبر کرنے والوں کے بارے میں یہ الفاظ آئے ہیں: اِنَّمَا یُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَہُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ (39:10) یعنی بے شک صبر کرنے والوں کو اُن کا اجر بے حساب دیا جائے گا-
جسمانی سرگرمیاں، ذہنی سرگرمیاں
انسانی تاریخ کی تصویر اگر یہ ہو کہ اس میں انسان کے جسم (body) کی سرگرمیاں (activities) تو خوب بیان ہوئی ہوں، مثلاً پہلوانی (wrestling) اور باکسنگ (boxing) جیسی سرگرمیاں تفصیل کے ساتھ ریکارڈ کی گئی ہوں، لیکن انسان کے وجود کا دوسرا اہم تر حصہ جس کو ذہن (mind) کہاجاتا ہے، اس کا سرے سے کوئی ذکر نہ ہو، پوری تاریخ میں انسان کی ذہنی سرگرمیاں (intellectual activities) غیر مذکور (unrecorded) ہو کر رہ جائیں تو ایسی انسانی تاریخ کو نہ صرف نامکمل، بلکہ آخری حد تک بے معنی (meaningless) کہاجائے گا-
یہ فرضی بات نہیں، بلکہ یہ انوکھا واقعہ عملاً مزید اضافے کے ساتھ پوری دنیا میں پیش آیا ہے- وہ اِس طرح کہ انسان کی مادی سرگرمیاں مادی تہذیب کی صورت میں متشکل (materialized) ہو کر اپنی پوری صورت میں لوگوں کے سامنے موجود ہیں- مادی تہذیب کو ہر آدمی جانتا ہےاور ہر آدمی اس کو دیکھ رہا ہے- مادی تہذیب ہر آدمی کے لیے ایک معلوم واقعہ ہے- لیکن انسانی سرگرمیوں کی ایک ا ور قسم ہے- اس کو اسپریچول سرگرمیاں (spiritual activities) کہاجاسکتا ہے- یہ وہ سرگرمیاں ہیں جو انفرادی سطح پر سچے انسانوں کی زندگی میں پیدا ہوئیں- وہ پوری طرح غیر مرئی (unobservable) تھیں- افراد کی داخلی زندگی میں مکمل طورپر موجود ہونے کے باوجود وہ ظاہری طورپر کبھی متشکل نہیں ہوئیں- مثلاً تاریخ کے ہر دور میں ایسے افراد پیدا ہوتے رہے جنھوں نے خداکو اپنا سول کنسرن (sole concern) بنایا، جن کی سوچ تمام تر سچائی اور دیانت داری پر مبنی تھی، جنھوں نے دنیا کے بجائے آخرت کو اپنی توجہات کا مرکز بنایا، جن کی آخری آرزو یہ تھی کہ اُن کو جنت میں داخلہ ملے، جنھوں نے خدا کی مقرر کی ہوئی حدوں کو سمجھا اور ان سے تجاوز نہیں کیا، جن کا ربانی شعور اتنا بڑھا ہوا تھاکہ وہ ہر وقت داخلی طورپر توبہ واستغفار میں مشغول رہتے تھے-
یہ تمام اعمال انتہائی اعلی اعمال ہیں، لیکن وہ ہمیشہ کیفیات کی سطح پر پیدا ہوتے ہیں- اُن کو کمیاتی اصطلاح (quantitative term) میں بیان نہیں کیا جاسکتا- یہ ربانی اعمال یا اسپریچول سرگرمیاں افراد کی داخلی دنیا میں پیدا ہوئیں اور پھر افراد کی موت کے ساتھ بظاہر ختم ہوگئیں- اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ اعلی اسپریچول تہذیب کی حیثیت رکھتی تھیں، مگر اپنی تمام تر اہمیت کے باوجود وہ کبھی ظاہری طورپر متشکل نہیں ہوئیں جس طرح مادی تہذیب اپنی ظاہری صورت میں متشکل ہوئی-
آخرت کی دنیا جو قیامت کے بعد آئے گی، وہ اِسی کی تلافی اور تکمیل کے لیے ہے- قیامت ایک طرف مادی تہذیب کو پوری طرح نابود کردے گی، اگلے مرحلہ حیات میں اس کا کوئی وجود باقی نہیں رہے گا، دوسری طرف یہ ہوگا کہ آخرت کے موافق ماحول میں ماضی کے اسپریچول واقعات پوری طرح متشکل ہو کر ایک اسپریچول تہذیب کی صورت اختیار کرلیں گے-
یہ اسپریچول تہذیب ایک ابدی تہذیب ہوگی- قیامت سے پہلے کے دورِ تاریخ میں دونوں قسم کے افراد باہم ملے ہوئے تھے، لیکن قیامت کے بعد کے دورِ تاریخ میں دونوں کو چھانٹ کر ایک دوسرے سےالگ کردیا جائے گا- (27:83)
خدا کے تخلیقی نقشہ (creation plan) کے مطابق، قیامت سے پہلے کا دورِ حیات انفرادی اعتبار سے تعمیرِ شخصیت کا دور تھا، وہ اجتماعی اعتبار سے تعمیر ِ تہذیب کا دور نہ تھا- آخرت کی دنیا میں یہ ہوگا کہ جن افراد نے اپنی شخصیت کی تعمیر نہ کی، وہ رد کردئے جائیں گے اور جن افراد نے اپنی شخصیت کی تعمیر کی، وہ خدا کے مطلوب بندے ٹھہریں گے- ایک گروہ کا کیس کامیابی کا کیس ہوگا اور دوسرے گروہ کا کیس ناکامی کا کیس-(42:7)
قرآن میں دونوں قسم کے افراد کو مختلف لفظوں میں بیان کیا گیاہے، اُن میں سے ایک یہ ہے کہ کامیاب افراد روشن چہروں (bright faces) والے ہوں گے اور ناکام افراد سیاہ چہروں (dark faces) والے- کامیاب افراد ابدی طورپر خوشیوں کی زندگی پائیں گے اور ناکام افراد ابدی طورپر حسرت کی آگ میں جلتے رہیں گے-
خاتمۂ کلام
اللہ کو مطلوب تھا کہ اسپریچول تہذیب کا تسلسل دنیا کے آغاز سے لے کر اس کے خاتمے تک جاری رہے- اللہ نے دیکھا کہ انسان کو دی گئی آزادی کی بنا پر یہ تسلسل مجموعے کی سطح پر جاری نہیں ہوسکتا، اس لئے اللہ نے اس کو افراد کی سطح پر جاری کردیا- چناںچہ انسانی مجموعے کی سطح پر اگرچہ اسپریچول تہذیب کا تسلسل جاری نہیں ہے، لیکن افراد کی سطح پر یہ تسلسل مکمل طورپر جاری ہے- اِس سلسلے کا پہلا فرد غالباً ابتدائی دور کا ہابیل ابن آدم تھا، جس کا ذکر قرآن میں موجود ہے (5:27)اور اِس سلسلے کا آخری فرد غالباً دورِ آخر کا وہ رجلِ مومن ہوگا جس کا ذکر صحیح مسلم کی ایک روایت میں آیا ہے- (ملاحظہ ہو: صحیح مسلم، رقم الحدیث: 2938)
انسان کی آزادی کی بنا پر اس دنیا میں اسپریچول تہذیب کا اجتماعی تسلسل عملاً ناممکن ہے، لیکن اسپریچول تہذیب کا انفرادی تسلسل پوری طرح ممکن ہے اور بلاشبہہ وہ ہر دور میں اور ہر زمانے میں جاری رہاہے-اسپریچول تہذیب کے عملی ظہورکے معاملے کو ایک مثال سے سمجھا جاسکتا ہے- آپ ایک وسیع کمرے میں بیٹھے ہوئے ہیں- وہاں آپ کے سامنے کی میز پر ایک ٹی وی سیٹ رکھا ہوا ہے- بظاہر کمرے میں صرف کچھ مادی چیزیں ہیں- مثلاً دیوار، کرسی، میز، وغیرہ- اِن چیزوں کو آپ دیکھ رہے ہیں، لیکن اِسی کے ساتھ وہاں ایک اور چیز ہے جو بظاہر دکھائی نہیں دیتی، مگر وہ مکمل طورپر موجود ہے- یہ دوسری چیز غیر مرئی لہروں (invisible waves) کی صورت میں ہے-اِس غیر مرئی دنیا میں زندہ انسان ہیں، آوازیں ہیں اور مختلف قسم کی عملی سرگرمیاں ہیں، لیکن بظاہر وہ مکمل طورپر غیر مرئی ہیں- اس کے بعد آپ اپنے ٹی وی سیٹ کو آن کرتے ہیں تو اچانک اسکرین پر ایک پوری دنیا نظر آنے لگتی ہے، جو اُسی طرح کامل اور بامعنی ہے جس طرح ٹی وی سیٹ کے باہر کی دنیا-
اِس مثال سے سمجھا جاسکتاہے کہ اسپریچول تہذیب کیا ہے- وہ کس طرح آج بظاہر غیر موجود ہے اور آخرت کی دنیا میں وہ مکمل طورپر موجود ہوجائے گی- آخرت میں پیش آنے والا یہی وہ واقعہ ہے جس کے ایک پہلو کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَقَالُوْا لِجُلُوْدِہِمْ لِمَ شَہِدْتُّمْ عَلَیْنَا ۭ قَالُوْٓا اَنْطَقَنَا اللّٰہُ الَّذِیْٓ اَنْــطَقَ کُلَّ شَیْءٍ وَّہُوَ خَلَقَکُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ (41:21) -
آخرت میں اسپریچول تہذیب کے عملی ظہور کا واقعہ قدیم زمانے میں صرف ایک عقیدے کی حیثیت رکھتا تھا، مگر موجودہ زمانے میں ٹیلی ویژن کی ایجاد گویا کہ اِس معاملے کا ایک پیشگی مظاہرہ ہے- ٹیلی ویژن کی ایجاد نے اسپریچول تہذیب کے عملی ظہور کو مشاہداتی سطح پر قابلِ فہم (understandable) بنا دیاہے- ( 20 جون 2013)
واپس اوپر جائیں

انسانی دماغ

فطرت کا ایک قانون ہےجس کو ریزیلینس کا قانون (law of resilience)کہا جاتا ہے، یعنی نقصان کی تلافی کرنے کا قانون- مثال کے طورپر اسپنج کو اگر دبائیں اور اس کو چھوڑ دیں تو اپنے آپ وہ دوبارہ اپنی سابق حالت پر واپس آجائے گا- بید(cane) کو اگر موڑیں اور پھر چھوڑ دیں تو اپنے آپ وہ دوبارہ پہلے کی طرح سیدھا ہوجائے گا- ربر کو اگر کھینچا جائے اور پھر چھوڑ دیا جائے تو وہ اپنے آپ پہلے کی طرح ہوجائے گا، وغیرہ-
یہی معاملہ انسان کا ہے- انسان کو بھی فطری طورپر یہ صلاحیت دی گئی ہے کہ اس کو کوئی نقصان پہنچے تو وہ خود اپنی داخلی صلاحیت کے زور پر دوبارہ اپنی اصل حالت پر واپس آجائے- انسان کا دماغ اِس معاملے کی ایک غیر معمولی مثال ہے- دماغی سائنس کے ایک امریکی ماہر ڈاکٹر بروس (Bruce)نے لکھا ہےکہ — انسان کا دماغ تلافی ِ مافات کی بہت زیادہ صلاحیت رکھتا ہے- اس کو ایک موقع دواور وہ خود ہر کوشش کرکے اس کو درست کرلے گا:
The brain is very resilient. Give it a chance and it will make every effort to repair itself. (Dr. Bruce McEwen, Head of Laboratory of Neuroendocrinology, The Rockefeller University, USA)
انسان کی زندگی میں بار بار حادثات پیش آتے ہیں- یہ فطرت کا نظام ہے، لیکن اِسی فطرت نے انسان کے اندر تلافی مافات کی بھی غیر معمولی صلاحیت رکھی ہے- انسان کے دماغ کواگر متعصبانہ سوچ سے بچایا جائے اور اس کو غیر متاثر انداز میں سوچنے کا موقع دیا جائے تو انسان کا دماغ یہ قدرت رکھتا ہے کہ وہ ہر حادثے کے بعد نئی منصوبہ بندی کرکے دوبارہ اس کی تلافی کرلے-انسان کی یہ صلاحیت بتاتی ہے کہ انسان کے لیے کوئی عذر (excuse) عذر نہیں- انسان کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ ہر نقصان کی تلافی کرسکے، وہ ہر مسئلے کا یقینی حل دریافت کرلے- وہ ہر پسپائی کے بعد نئی منصوبہ بندی کرکے آگے بڑھ جائے-
واپس اوپر جائیں

سمندروں کی سطح

تحقیقات بتاتی ہیں کہ سمندروں میں پانی کی سطح مسلسل اونچی ہورہی ہے- اِس کا سبب یہ ہے کہ فضائی حرارت بڑھنے کی بنا پر دنیا میں برف کے ذخیرے پگھل رہے ہیں- دنیا میں جگہ جگہ پانی کے منجمد ذخیرے موجود تھے، مگر اب پانی کے اِن ذخیروں میں بہت زیادہ کمی آگئی ہے- یہ برفانی ذخیرے شیریں پانی کے ذخیرے تھے، مگر جب پگھلنے کے بعد وہ سمندر کے پانی میں ملتے ہیں تو وہ بھی کھاری پانی بن جاتے ہیں-
دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ برفانی ذخیروں کے پگھلنے کی وجہ سے سمندروں کے پانی کی سطح اونچی ہورہی ہے- یہ بے حد خطرناک بات ہے- حالیہ تحقیقات کے بعد ماہرین نے اندازہ کیا ہے کہ اگر تمام دنیا کے گلیشیر پگھل جائیں تو اس کے بعد سمندر میں پانی کی سطح دو فٹ اونچی ہوجائے گی- اور اگر گرین لینڈ کا برفانی تودہ پگھل جائے تو سمندر میں پانی کی سطح 20 فٹ اونچی ہوجائے گی- اور اگر انٹارکٹکا کا برفانی ذخیرہ پگھل جائے تو سمندر میں پانی کی سطح 200 فٹ بلندہوجائے گی-
Melting glaciers also behind sea-level rise
WASHINGTON: World's shrinking glaciers contributed to almost a third of the sea-level rise between 2003 and 2009, a new study has found. While 99% of Earth's land ice is locked up in the Greenland and Antarctic ice sheets, the remaining ice in the world's glaciers contributed just as much to sea rise as the two ice sheets combined from 2003 to 2009, researchers say. The research found that all glacial regions lost mass from 2003 to 2009, with the biggest ice losses occurring in Arctic Canada, Alaska, coastal Greenland, the southern Andes and the Himalayas. The glaciers outside of the Greenland and Antarctic sheets lost an average of 260 billion metric tons of ice annually during the study period, causing the oceans to rise 0.03 inches, or about 0.7 millimeters per year. Current estimates predict if all the glaciers in the world were to melt, they would raise sea level by about two feet. In contrast, an entire Greenland ice sheet melt would raise sea levels by 20 feet, while if Antarctica lost its ice cover, it would rise 200 feet.
یہ صرف ایک سائنسی خبر نہیں، یہ دراصل قربِ قیامت کی خبر ہے- یہ سائنسی تحقیق کی زبان سے اُس انتباہ کی تصدیق ہے جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشین گوئی کے انداز میں فرمایا تھا- (تفصیل کے لیےملاحظہ ہو: ماہ نامہ الرسالہ، اپریل 2007، صفحہ 4)
جدید سائنسی رپورٹ میں جو بات سائنس کی زبان سے کہی گئی ہے، عین وہی بات مذکورہ حدیثِ رسول میں تمثل کی زبان میں بطور پیشین گوئی بتائی گئی ہے- یہ پیشگی خبر اب واقعہ بن رہی ہے اور وہ وقت بہت قریب ہے جب کہ یہ واقعہ اپنی تکمیل تک پہنچ جائے-
اِس تکمیلی مرحلے کا اعتراف اہلِ سائنس بھی کررہے ہیں- البتہ دونوں میں یہ فرق ہے کہ اہلِ سائنس اس کو ایک طبیعی واقعہ کے طورپر ذکر کرتے ہیں، جب کہ پیغمبر نے اُس کو انذار کی زبان میں بیان کیا ہے-
پیغمبر نے انسان کو متنبہ کیا ہے کہ جب ایسا ہو تو یقین کرلو کہ قیامت کا وقت قریب آگیا- اب انسان کے لیے پہلا دورِحیات ختم ہوچکا- اب خالق کے منصوبے کے مطابق، اُس کے لیے دوسرا دورِ حیات شروع ہونے والا ہے- اب ایسا ہونے میں کوئی دیر نہیں-
مذکورہ قسم کی سائنسی رپورٹوں کے ساتھ میڈیا میں طرح طرح کی خبریں آرہی ہیں- کوئی کہہ رہا ہے کہ اب ہمیں خلائی بستیاں (space colonies) بنانا چاہیے- کوئی اعلان کررہا ہے کہ سیارہ مریخ (Mars) پر پانی کی موجودگی کا امکان ہے، اِس لیے اب انسان کو اپنی اگلی جائے قیام کے طورپر زمین کے بجائے مریخ کا انتخاب کرنا چاہئے، وغیرہ-
مگر اِس قسم کی تمام باتیں مضحکہ خیز حد تک بے معنی ہیں- حقیقت یہ ہے کہ انسان جیسی مخلوق کے لیے معلوم کائنات میں آباد کاری کے قابل کوئی جگہ نہیں-
اب انسان کو صرف ایک کام کرنا ہے، وہ یہ کہ وہ خالقِ کائنات کی طرف رجوع کرے، وہ اللہ سے اس کی رحمت کا طلب گار بنے-
واپس اوپر جائیں

حیاتیاتی ارتقا کا نظریہ

مقابل کے صفحے پر دو رپورٹیں درج کی گئی ہیں- یہ نظریہ ارتقا کی کچھ حالیہ رسرچ پر مبنی ہیں- مگر یہ رسرچ کے نام پر صرف مغالطہ (fallacy)کے واقعات ہیں- مگر اس قسم کی مغالطہ آمیز تحقیقات سے کچھ ثابت نہیں ہوتا- حیاتیاتی ارتقا کے سلسلے میں پہلا سوال یہ تھاکہ زندگی (life) کا آغاز کس طرح ہوا- ڈارون نے اپنی کتاب اصل الانواع (The Origin of Species)میں مفروضہ طورپر یہ مان لیا کہ زندگی کا آغاز خدا (God) نے کیا-مگر دوبارہ یہ سوال تھا کہ حیاتیاتی ارتقا کے نظریے کے مطابق، عضویاتی ارتقا (organic evolution) کیسے ہوا اور ایک نوع دوسری نوع میں کیسے تبدیل ہوئی- مثلاً یہ فرض کیا گیا تھاکہ بکری نے ارتقا کرتے کرتے زرافہ کی صورت اختیار کرلی، مگر بکری اور زرافہ کے بیچ میں بہت سی درمیانی کڑیاں تھیں جو کہ واقعے کی دنیا میں موجود نہ تھیں- یہاں یہ مان لیاگیا کہ یہ سب گم شدہ کڑیاں (missing links) ہیں، مگر آج تک گم شدہ کڑی کا نظریہ غیر ثابت شدہ بنا ہوا ہے-
نظریہ ارتقا کے مطابق، انسان کوئی اسپیشل مخلوق نہیں، وہ حیوانات کی اگلی ترقی یافتہ قسم ہے- مگر یہاں یہ سوال تھا کہ انسان تمام حیوانات بشمول چمپینزی سے بہت زیادہ مختلف ہے- یہ اختلاف یا فرق کہاں سے آیا- اب ارتقا پسند حضرات یہ دعوی کررہے ہیں کہ انھوں نے انسان کے اندر ایک نیا جین (gene) دریافت کرلیا ہے- اِس مختلف جین کی بنا پر ایسا ہے کہ انسان کے اندر ایسا دماغ ہے جو کسی حیوان کے اندر نہیں- انسان کے اندر نطق (speech)کی صلاحیت ہے، اور انسان کے اندر یہ صلاحیت ہے کہ وہ اوزار (tools)بنائے اور ان کو استعمال کرے-
مگر انسان کے اندر پائی جانے والی امتیازی صلاحیت (distinctive qualities) کی توجیہہ صرف یہ کہہ کر نہیں ہوسکتی کہ انسان کے اندر حیوان سے مختلف ایک امتیازی جین پایا جاتا ہے، کیوں کہ دوبارہ یہ سوال ہےکہ یہ امتیازی جین کہاں سے آیا- محض ارتقائی پراسس یا اتفاق (accident)کا لفظ اِس انتہائی پیچیدہ واقعے کی توجیہہ نہیں کرسکتا-
Gene That Gives us Edge Over Apes Decoded
London: Researchers have discovered a new gene which they say helps explain how humans evolved from chimpanzees. The gene, called miR-941, is carried only by humans and it appeared after humans evolved from apes and played a crucial role in human brain development and could shed light on how we learned to use tools and language. Researchers from the University of Edinburgh compared it to 11 other species of mammals, including chimpanzees, gorillas, mice and rats. This finding, published in Nature Communications, brings us closer to answering one of science's leading questions: What makes the human body different from other mammals? ? A previous study that also analysed the differences between apes and humans found that the evolutionary genetic advantages that help humans live longer than apes also make them more vulnerable to diseases of ageing, including heart disease , cancer, and dementia. Scientists led by Dr. Martin Taylor at the Institute of Genetics and Molecular Medicine showed that miR-941 had an important part in the development of the human brain and can even help explain how we acquire language and learn to use tools. This new gene is the first known gene to be found in humans and not in apes. According to the team, it appears to have a certain purpose in the human body. (The Times of India, New Delhi, Nov. 16, 2012 p. 19)
Did genetic accident lead to human intelligence?
London: Scientists have discovered the origin of intelligence after identifying a 'genetic accident' 500 million years ago when the genes that enabled humans to think and reason evolved. Researchers led by the University of Edinburgh have discovered how humans and other mammals evolved to have intelligence. They found that intelligence in humans developed as the result of an increase in the number of brain genes in our evolutionary ancestors. Scientists also believe that the same genes that improved our mental capacity are also responsible for a number of brain disorders. The researchers suggest that a simple invertebrate animal living in the sea 500 million years ago experienced a 'genetic accident' , which resulted in extra copies of these genes being made. This animal's descendants benefited from these extra genes, leading to behaviourally sophisticated vertebrates - including humans. " One of the greatest scientific problems is to explain how intelligence arose during evolution," professor Seth Grant, of the University of Edinburgh, who led the research, said. (The Times of India, New Delhi, Dec. 4, 2012, p. 19)
واپس اوپر جائیں

کم تر اندازہ

مولانا ابو الکلام آزاد نے اپنی کتاب ’’آزادیٔ ہند‘‘ (India Wins Freedom) میں 1947 کا ایک واقعہ لکھا ہے- آزادی کے بعد انڈیا میں جو پہلی حکومت بنی، اُس میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن (Lord Mountbatten) گورنر جنرل تھے اور سردار ولّبھ بھائی پٹیل ہوم منسٹر تھے- سردار پٹیل کے حکم پر پولس نے دہلی کے مسلمانوں کے گھروں سے ’’ہتھیار‘‘ برآمد کئے- اِن ہتھیاروں کو کیبنٹ روم کے چیمبر کی ایک میز پر رکھا گیا- سردار پٹیل نے حکومت کے ذمے داروں کو دعوت دی کہ وہ چیمبر میں آکر اِن ہتھیاروں کو دیکھیں جو کہ سردار پٹیل کے دعوے کے مطابق، مسلمانوں نے اِس لیے جمع کئے تھے کہ وہ دلّی سے ہندوؤں اور سکھوں کا خاتمہ کرسکیں- مولانا آزاد (وفات: 1958) لکھتے ہیں کہ جب ہم لوگ چیمبر کے اندر داخل ہوئے تو وہاں میز پر کچھ معمولی چیزیں رکھی ہوئی تھیں- مثلاً باورچی خانے کی چھری، لوہے کے ٹکڑے، وغیرہ- لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ایک چھری اپنے ہاتھ میں اٹھائی اور مسکراتے ہوئے کہا کہ — اُن لوگوں کا فوجی نظریہ بڑا عجیب ہوگا جن لوگوں نے یہ سامان اکھٹا کرکے سمجھا کہ دہلی کے شہر پر اِس کے ذریعے قبضہ کیا جاسکتا ہے:
Those who had collected these materials seemed to have a wonderful idea to military tactics if they thought that the city of Delhi could be captured with them. (p. 233)
زندگی میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ نئے نئے مسائل پیدا ہوتے ہیں- نئے مسائل کے حل کے لیے سب سے پہلے یہ ضرورت ہوتی ہے کہ اس کی نوعیت کو سمجھا جائے- مسئلے کی نوعیت کو سمجھے بغیر اُس کے حل کے لیے چھلانگ لگانا ہمیشہ اپنے نتیجہ (result) کے اعتبار سے ناکام ثابت ہوتا ہے، اُس کی وجہ ایک لفظ میں صرف یہ ہوتی ہے— ناقص منصوبہ بندی کے ذریعے ایک حقیقی مسئلے کو حل کرنا- دانش مندی کا تقاضا ہے کہ آدمی پہلے بے لاگ جائزہ لے کرمسئلے کی اصل نوعیت کو سمجھے اور پھر نتیجہ خیز منصوبہ بندی کے ذریعے مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کرے-
واپس اوپر جائیں

قابلِ کار انسان

دنیا میں بے شمار لوگ ہیں- زمین کا ہر گوشہ انسانوں سے بھرا ہوا ہے- مگر دنیا میں سب سے زیادہ کمی جس چیز کی ہے، وہ صرف ایک ہے اور وہ ہے قابل کار انسان (competent person) -
مغل حکمراں اورنگ زیب عالم گیر (وفات: 1727) کا واقعہ ہے- ایک بار انھوںنے نماز پڑھی - نماز کے بعد انھوں نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو ان کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہوگئے- وہ ہاتھ اٹھائے ہوئے خاموش دعا کرتے رہے- اُس وقت اورنگ زیب کے پیچھے ان کے وزیر سعد اللہ خان کھڑے ہوئے تھے- اورنگ زیب جب دعا سے فارغ ہوئے تو سعد اللہ خاں نے کہا: عالی جاہ، آپ کی سلطنت کا پرچم کشمیر سے لے کر راس کماری تک لہرا رہا ہے، کیا اِس کے بعد بھی کوئی ارمان ہے جو آپ کے دل میں باقی رہ گیا ہے- اورنگ زیب اِس کو سن کر کچھ دیر خاموش رہے- اس کے بعد گہرے تاثر کے ساتھ کہا: سعد اللہ، مردے خواہم (سعد اللہ، میں ایک آدمی چاہتا ہوں)-
اورنگ زیب کا یہ قول بتاتا ہے کہ وہ اصل حقیقت سے صرف ففٹی پرسنٹ واقف تھے- اِس معاملے میں اصل بات یہ نہیں تھی کہ اورنگ کے پاس کوئی ’’مرد‘‘ نہیں تھا- اصل بات یہ تھی کہ اورنگ زیب نے مرد بنانے کی کوئی کوشش نہیں کی تھی- اورنگ زیب نے اپنی ساری عمر مملکت کی توسیع میں صرف کردی- واقعات بتاتے ہیں کہ قابلِ کار انسان کی اہمیت کو نہ تو انھوں نے سمجھا اور نہ اس کو تیار کرنے کے لیے انھوں نے کوئی حقیقی کام کیا-
یہی حال تقریباً تمام اداروں اور تنظیموں کا ہے- ہر ادارے اور تنظیم کو یہ شکایت ہے کہ اس کے پاس افرادِ کار نہیں، مگر کسی کو یہ خبر نہیں کہ اصل غلطی کہاں ہے- اصل غلطی یہ ہے کہ تمام لوگ توسیع (expansion) کو کام سمجھتے ہیں، جب کہ اصل کام یہ ہے کہ استحکام (consolidation)کے لیے محنت کی جائے- اور افرادِ کار ہمیشہ استحکام پسندی کے ماحول میں بنتے ہیں، نہ کہ توسیع پسندی کے ماحول میں-
واپس اوپر جائیں

سوال وجواب

سوال
1- مجھے ایک مطالعہ کے ذریعے معلوم ہوا ہے کہ سائنسی علم ایک نامکمل علم ہے جب کہ وحی (قرآن) کا علم ایک مکمل علم - سوال یہ ہے کہ ایک نامکمل اور ناقص علم کی مدد سے مکمل علم کی تشریح اور وضاحت کرنا کس حد تک درست ہے- سائنس کے ذریعے ہم ہر چیز کی حقیقت کو نہیں جان سکتے اور یہ بھی جانتے ہیں کہ سائنسی نظریات بدلتے بھی رہتے ہیں- اس معاملے کی وضاحت کردیں-
2- آپ کی تحریروں میں اکثر ایک لفظ ذہنی ارتقا (intellectual development) پڑھنے کو ملتاہے- اس کی وضاحت کردیں کہ اس سے کیا مراد ہے-
3- فلسفیانہ فکر (philosophical thinking) اور سائنسی فکر (scientific thinking) میں کیا فرق ہے- نیز تشکیک (scepticism) کے زیادہ قریب کون سی فکر ہے-
4- آپ نے اپنی کتاب ’’رہنمائے حیات‘‘ کے ایک مضمون ’’صحیح طرز فکر‘‘ کے تحت لکھا ہے کہ آج کے انسان کا ذہنی لیول وہی ہے جو ماضی کے انسان کا تھا-
سوال یہ ہے کہ کیا ایسا نہیں ہے کہ چوں کہ ماضی کی نسبت موجودہ زمانے میں انسان نے زیادہ ترقی کی ہے، لہذا موجودہ زمانے کے انسان کا ذہنی لیول بڑھا ہے- دوسرے الفاظ میں یہ کہ انسانی شعور نے زیادہ ارتقا حاصل کیا ہے-
5- آپ نے اپنے ایک مضمون ’’طلاق اسلام میں ‘‘ لکھا ہے کہ طلاق کے سلسلے میں ایک حل ’’حلالہ‘‘ بھی ہے- یعنی آپ اسے جائز سمجھتے ہیں- حالاں کہ میرے علم کے مطابق، احادیث میں حلالہ کی ممانعت آئی ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حلالہ کروانے والے کو کرائے کا سانڈ کہا ہے- اور علما کی اکثریت بھی اسے ناجائز کہتی ہے-
6- کیا مرشد کے ہاتھ پر بیعت ضروری ہے- کیا مرشد کے بغیر اسلام کو نہیں سمجھا جاسکتا- یہ کیسے پتا چلے کہ کوئی شخص مرشد کے قابل بھی ہے یا نہیں، کیوں کہ ہم اندرونی طورپر اور عقیدے کے لحاظ سے تو کسی کے بارے میں مکمل طورپر نہیں جان سکتے-
7- کیا مسلمان سربراہ کا اصل کام اسلامی حکومت کو قائم کرنا نہیں ہے- نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی تو مکہ اِسی مقصد کے تحت فتح کیا تھا، تاکہ وہاں اسلامی نظام قائم کیا جاسکے- اور کیا پیغمبر اسلام کا قائم کردہ نظام ایک آئڈیل نظام (ideal system) تھا-
8- قرآن مجیدمیں شہید کو زندہ کہا گیاہے- اور یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ انہیں مردہ مت کہو- شہید کس معنی میں زندہ ہیں- کیا وہ جسمانی طور پر زندہ ہیں یا کسی اور لحاظ سے-
9- جادو کی حقیقت کیا ہے- سائنسی طورپر اسے کیسے ثابت کریں گے-
شخصیت پرستی اسلام میں جائز ہے یا ناجائز- کسی نبی یا کسی صحابی کے حوالے سے شخصیت پرستی جائز ہے یا ناجائز-
11- آپ کی آڈیو تقاریر میں نے سنی ہیںاور ایک بات نوٹ کی ہے کہ آپ جب نبی کا نام لیتے ہیں تو ساتھ مختصر درود (صلی اللہ علیہ وسلم) نہیں پڑھتے- آپ صرف ’پرافٹ‘ یا ’رسول اللہ‘ کہہ کر نام لیتے ہیں- کیا نبی کے نام کے ساتھ درود نہیں پڑھنا چاہئے-
12- ایک شخص نےکہا کہ اسلامی سزائیں صرف اُس وقت لاگو ہوں گی، جب ایک سوسائٹی کے اندر اسلامی نظام صحیح معنوںمیں نافذ ہو- یہاں تک کہ اگر غریب لوگوں کی فلاح کا بندوبست نہیں کیا گیا اور عشر اور زکوة کا نظام درست نہیں اور ایسے حالات میں کوئی شخص چوری کرتا ہے تو آپ اس کے ہاتھ نہیں کاٹ سکتے- اُس نے مزید کہا کہ ایسا حضرت عمر کے دور میں بھی ہوا تھا اور انھوں نے چور کو سزا نہیں دی تھی- برائے مہربانی اس کی وضاحت کریں-
جواب
1- وحی اور سائنس میں جو فرق ہے، وہ یہ نہیں ہے کہ ایک مکمل ہے اور اور دوسرا نامکمل- دونوں کے درمیان بنیادی فرق یہ ہے کہ سائنس شہود (seen world) کا علم ہے اور وحی ہم کو غیب (unseen world) سے باخبر کرتی ہے-قرآن وحدیث کے مطالعے میںاگر کسی سائنسی تحقیق کا حوالہ دیا جاتا ہے تو وہ اس کی تصدیق کے لیے نہیں ہوتا، بلکہ وہ اس کی توجیہہ کے لیے ہوتاہے-
2- قرآن کے بارےمیں حدیث میںآیا ہے کہ: لکل آیة منہا ظہر وبطن (ہر آیت کا ایک ظاہر ہے اور ایک اس کا باطن ہے)- جو چیز باطن میںہے، اُس کو جاننے کا ذریعہ غور وفکر ہے- جب آپ غوروفکر کے ذریعے کلام کے باطن تک پہنچتے ہیں تو اِسی کا نام ذہنی ارتقا ہے-
3- فلسفیانہ فکر قیاسی فکر پر مبنی ہوتا ہے اور سائنسی فکر مشاہدات پر مبنی ہوتا ہے- تشکیک کی مروّجہ اصطلاح فلسفہ کے ساتھ مخصوص ہے، سائنس میں یہ اصطلاح استعمال نہیں ہوتی-
4- تخلیق کے اعتبار سے، انسانی ذہن آج بھی اُسی صلاحیت کا حامل ہوتا ہے جیسا کہ وہ قدیم زمانے میں تھا- بہ اعتبارِ تخلیق دونوں میں کوئی فرق نہیں- حیاتیاتی ارتقا کے نظریے کو جو لوگ مانتے ہیں، اُن کی رائے اِس کے خلاف ہے- لیکن حیاتیاتی ارتقا کا نظریہ صرف ایک مفروضہ ہے، وہ کوئی ثابت شدہ حقیقت نہیں-
5- حلالہ کروانا بلاشبہہ ایک ناجائز فعل ہے، لیکن ’’حلالہ‘‘ کی ایک اور قسم ہے جو کہ خود قرآن سے ثابت ہے، اِس کو سمجھنے کے لیے آپ سورہ البقرہ کی آیت نمبر 230 کا مطالعہ فرمائیں-
6- بیعت کا طریقہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار کیا تھا- اس کے بعد صحابہ اور تابعین نے اس کی تقلید نہیں کی- جہاں تک مرشد کا سوال ہے، مرشد کوئی نام زدگی کا معاملہ نہیں، یہ کسی آدمی کی ذاتی دریافت کا معاملہ ہے- اگر آپ کو کسی پر اعتماد ہو تو اس کو اپنا مرشد بنالیجئے- مرشد کا مطلب صرف دینی رہنما ہے، اِس سے زیادہ اور کچھ نہیں-
7- اسلامی حکومت یا اسلامی نظام کا معروف نظریہ قرآن وحدیث سے ثابت نہیں- یہ ایک سیاسی بدعت ہے- اِس موضوع پر راقم الحروف نے بہت زیادہ لکھا ہے- مزید واقفیت کے لیے آپ اُس کا مطالعہ کرسکتے ہیں-مثلاً دین وشریعت اور تعبیر کی غلطی، وغیرہ
8- موت کے بعد ہر مومن کا وہی انجام ہوتا ہے جو قرآن میں شہید کا بتایا گیا ہے- اِس اعتبار سے، مومن اور شہید میں کوئی فرق نہیں- قرآن میں شہید کو سنگل آؤٹ (single out) کرکے یہ بات صرف اِس لیے کہی گئی کہ اُس زمانے میں کچھ لوگ شہادت کی موت کو ’’موتِ ضیاع‘‘ کا نام دینے لگے تھے-
9- جادو کی کوئی طلسماتی حقیقت نہیں- ہر جادو صرف ایک ٹرک (trick)ہوتا ہے- جادو کے معاملے میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے-
10- شخصیت پرستی (personality cult) بلاشبہ ایک ناجائز فعل ہے- شخصیت پرستی اور بت پرستی کے درمیان صرف شکل کا فرق ہے- دونوں سے درمیان حقیقت کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں -
11- پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے ساتھ ہر بار زبان سے ’’صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ کہنا ضروری نہیں- یہی علما کا مسلک ہے-
12- یہ رائے اصولی طورپر درست ہے- اس کا درست ہونا خود قرآن وحدیث سے ثابت ہے-
واپس اوپر جائیں

Thursday, 1 August 2013

Al Risala | August 2013 (الرسالہ،اگست)

2

-لعلہم یرشدون

3

- خالص اللہ کے لیےعمل

4

- سورہ العصر

6

- حبطِ اعمال

8

- انسان کی محرومی

10

- فہمِ قرآن — ایک مطالعہ

31

- اندھا اور بہرا رد عمل

32

- مجھ کو قرآن نہیں ملا

33

- دعوت، اجتماعیت

34

- فکری مستویٰ کے مطابق خطاب

39

- دریافت کی عظمت

40

- کامیاب زندگی کا راز

41

- مواقع ختم نہیں ہوتے

42

- غلطی کا اعتراف

43

- سوال وجواب


لعلہم یرشدون

قرآن کی سورہ البقرہ میں ماہ صیام (رمضان) کے احکام بیان کیے گئے ہیں-اِس سلسلے میں ایک آیت ىہ ہے: وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّىْ فَاِنِّىْ قَرِیْبٌ ۭ اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙفَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْابِیْ لَعَلَّہُمْ یَرْشُدُوْنَ(2:186) یعنی جب میرے بندے تم سے میری بابت پوچھیں، تو میں نزدیک ہوں، پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب کہ وہ مجھے پکارتا ہے، تو چاہیے کہ وہ میرا حکم مانیں اور مجھ پر یقین رکھیں،تاکہ وہ ہدایت پائیں-
’رشد‘ ’یرشد‘ کا مطلب ہے ہدایت پانا- القاموس المحیط میں اس کی تشریح ’اہتدى‘ کے لفظ سے کی گئی ہے، اور لسان العرب میں اِ س کا مفہوم بتانے کے لیے ’أصاب وجہَ الأمر‘ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں- انگریزی زبان میں کہا جائے گا: to find the truth دوسرے الفاظ میں، اِس کا مطلب ہے— سچائی کی دریافت-
اصل یہ ہے کہ انسان کی شخصیت کے دو پہلو ہیں— جسم اور روح- جسم سے مراد آدمی کا مادی وجود ہے اور روح سے مراد اس کا ذہنی وجود ہے- روزے کے مہینے میں ایک شخص دن کے اوقات میں اپنے آپ کو کھانے اور پانی سے روکتا ہے- یہ عمل انسانی شخصیت کے مادی حصے کو دبانے (suppression) کے ہم معنی ہوتا ہے- دوسری طرف، یہ عمل انسانی شخصیت کے روحانی پہلو کو اٹھانے (uplift)کے ہم معنی ہے- اِس طرح آدمی اپنے آپ کو اِس کا اہل بناتا ہے کہ اس کی ذہنی اور روحانی صلاحیتیں بیدار ہوں، وہ برتر حقیقتوں کو دریافت کرنے کے قابل بن سکے- اِس طرح روزہ آدمی کو اِس قابل بناتا ہے کہ وہ مقصدِ اعلی سے کم تر کسی سطح پر جینے کے لیے تیار نہ ہو-
یہی وہ چیز ہے جس کو قرآن کی مذکورہ آیت میں ’’رُشد‘‘ کہا گیا ہے-صحیح ہدایت (right guidance) ہر انسان کی پہلی ضرورت ہے- ہر عورت اور مرد کو چاہئے کہ وہ صحیح ہدایت پانے کو اپنا سب سے بڑا کنسرن (supreme concern)بنائے-
واپس اوپر جائیں

خالص اللہ کے لیےعمل

حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے کے بارے میں فرمایا: کل عمل بن آدم یضاعف الحسنة بعشر أمثالہا إلى سبع مأة ضعف- قال اللہ تعالى: إلا الصوم، فإنہ لی وأنا أجزی بہ، یدع شہوتہ وطعامہ من أجلی (صحیح مسلم، رقم الحدیث: 1151 ) یعنی انسان کے ہر عمل کا اجر دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھایا جاتا ہے- اللہ تعالی نے فرمایا :مگر روزہ کہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا- روزے دار میرے لیے اپنی شہوت کو اور اپنے کھانے کو چھوڑتا ہے-
اِس حدیثِ رسول میں جس عظیم ثواب کا ذکر ہے، اس کا تعلق صرف روزے سے نہیں ہے ،بلکہ توسیعی طورپر اُس کا تعلق ہر اُس عمل سے ہے جو للّٰہ یا لأجل اللّٰہ کیا گیا ہو، یعنی وہ عمل جو خالص اللہ کے لیے کیا جائے- یہ وہ عمل ہے جو اللہ سے بے پناہ تعلق کے تحت ظہور میں آتا ہے-
ایک انسان جس کو اللہ کی اعلی معرفت حاصل ہوئی ہو، جس کے اندر اللہ سے حبّ شدید (2:165) پیدا ہوگیا ہو، جو اللہ سے خوفِ شدید کی نفسیات میں جیتا ہو، جس کے تعلق باللہ نے اُس کا یہ حال کردیا ہو کہ اللہ اس کا سول کنسرن (sole concern)بن گیا ہو، اللہ کی یاد جس کا سب سے بڑا سرمایہ بنا ہوا ہو، ایسا انسان اگر بظاہرایک چھوٹا سا کام بھی خالصتاً اللہ کے لیے کرے تو داخلی اسپرٹ کے اعتبار سے، وہ اتنا بڑا ہوتا ہے کہ سارے زمین وآسمان بھی اس کا تحمل نہ کرسکیں-
ایسا ایک عمل اپنی داخلی اسپرٹ کے اعتبار سے، کسی انسان کا عظیم ترین عمل ہوتا ہے- اس کی کیفیاتی قدر وقیمت (qualitative value) اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ کسی بھی پیمانے سے اس کو ناپا یا تولا نہیں جاسکتا- وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے، انسان کی پوری شخصیت کا اظہار ہوتا ہے- یہ ربانی عمل کی وہ قسم ہے جب کہ بندہ اپنے آپ کو آخری حد تک اللہ کے آگے ڈال دیتا ہے- اُس وقت اللہ بھی اپنے لامحدود انعام کو اپنے بندے کے لیے مقدر کردیتاہے-
واپس اوپر جائیں

سورہ العصر

سورہ العصر قرآن کی ایک چھوٹی سورہ ہے- اس کی صرف تین آیتیں ہیں- اس کا متن اور ترجمہ یہ ہے: وَالْعَصْرِ۝ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ ۝ اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ ڏ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ(103:1-3) یعنی زمانہ گواہ ہے کہ بے شک انسان گھاٹے میں ہے- سوا اُن لوگوں کے جو ایمان لائے اور عملِ صالح کیا، اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی-
قرآن کی یہ سورہ پورے قرآن کا خلاصہ ہے- امام شافعی نے کہا کہ: لو لم ینزل اللہ سوى ہذہ السورة، لکفت الناس- (صفوة التفاسیر للصابونی: 3/60 ) یعنی اگر اللہ صرف اِس سورہ کو اتارتا تو یہی ایک سورہ لوگوں کی رہنمائی کے لیے کافی ہوجاتی-
یہ بات بلاشبہہ درست ہے- لیکن سورہ العصر کا یہ فائدہ صرف اس کے ترجمے سے معلوم نہیں کیا جاسکتا- یہ فائدہ صرف اُس وقت معلوم ہوتا ہے جب کہ اُس پر تدبر کیا جائے- قرآن کے تمام گہرے معانی صرف اُس انسان پر کھلتے ہیں جو تدبر کے شرائط کے ساتھ اس پر تدبر کرے-
’عصر‘ کا لفظی مطلب زمانہ ہے-لیکن یہ لفظ یہاں تاریخ کے معنی میں ہے، یعنی انسانی تاریخ اپنے نتیجے کے اعتبار سے اِس بات کی گواہی دیتی ہے کہ انسان گھاٹے میں ہے- ’خُسر‘ یہاں محرومی کے معنی میں ہے- اِس محرومی سے مستثنی صرف وہ لوگ ہیں جو ایمان اور عمل صالح کا ثبوت دیں، اور وہ تواصی بالحق اور تواصی بالصبر کی صفت اپنے اندر رکھتے ہوں-
اِس آیت میں جس چیزکو ایمان اور عمل صالح اور حق وصبر کے الفاظ میں بیان کیاگیاہے، اُس کا مفہوم دوسرے لفظوں میں یہ ہے کہ وہ لوگ جو اللہ کے تخلیقی منصوبہ (creation plan ) کو جانیں، وہ اِس حقیقت کو اِس طرح دریافت کریں کہ وہ اُن کے شعور کا حصہ بن جائے- اللہ کے اِسی منصوبۂ تخلیق کے مطابق، وہ اپنی شخصیت کی تعمیر کریں، وہ خود اپنی زندگی میں اس کو اختیار کریں اور اِسی کے ساتھ وہ دوسروں کو بھی اِس کی تلقین کریں-
مزید غور کیجئے تو معلوم ہوتاہے کہ سورہ العصر کا پیغام یہ ہےکہ اللہ نے انسان کو امکانی طورپر ایک کامیاب انسان کی حیثیت سے پیدا کیا- لیکن تاریخ کا مشاہدہ بتاتا ہے کہ انسان نے اپنے حق میں اِس امکان سے فائدہ نہیں اٹھایا- اس کے برعکس، اس نے یہ کیا کہ وہ گھاٹے اور محرومی کا کیس بن گیا-
یہ واقعہ اللہ کی تقدیر کی بنا پر نہیں ہوا، بلکہ اِس لیے ہوا کہ انسان نے اللہ کے تخلیقی منصوبے کو نہیں سمجھا- اُس نے بطور خود اپنی زندگی کا نقشہ بنایا- اِس خود ساختہ رویے کا نتیجہ یہ ہوا کہ انسان محرومی کا شکار ہو کر رہ گیا-
انسان سے یہ مطلوب تھاکہ وہ اپنی زندگی کا مقصد اللہ کے تخلیقی منصوبے کی روشنی میں متعین کرے- اللہ جو اس کا خالق اورمالک ہے، اُسی کو وہ اپنا سب سے بڑا کنسرن (sole concern) بنائے- وہ محبت اور خوف کے جذبات کو اللہ کے لیے خالص کردے- وہ صرف اللہ کا عبادت گزار بنے- اخلاقی معاملے میں وہ اللہ کے مقرر کیے ہوئے اصول کی پابندی کرے- وہ اپنی انفرادی زندگی اور اجتماعی زندگی کو اللہ کے بتائے ہوئے نقشے کے مطابق تشکیل دے- وہ دنیا کو دار الامتحان سمجھے- وہ آخرت کی کامیابی کو اپنا نشانہ بنائے- وہ آخری حد تک جنت کا حریص ہو، وہ جہنم سے آخری حد تک ڈرنےوالا بن جائے-
تاریخ بتاتی ہے کہ بیش تر لوگ اللہ کا مطلوب انسان بننے میں ناکام رہے- اُن کو یہ کرنا تھاکہ وہ دنیا سے رخصت ہوں تو وہ اللہ کے مطلوب انسان بن چکے ہوں، تاکہ موت کے بعد جب وہ اللہ کے سامنے کھڑے ہو تو اللہ انھیں رد نہ کرے، بلکہ وہ انھیں قبول کرلے- مگر بیش تر انسانوں کا کیس اِس معاملے میں، خسران کا کیس بن گیا-
قرآن کی یہ سورہ جوساتویں صدی عیسوی کے آغاز میں اتری، وہ گویا ایک انتباہ (warning) ہے- وہ انسان کو متنبہ کررہی ہے کہ وہ اِس غلطی سے بچے- وہ اُن خوش قسمت انسانوں میں سے بنے جن کے لیے آخرت میں جنت کے دروازے کھولے جائیں گے-
واپس اوپر جائیں

حبطِ اعمال

قرآن کی سورہ الحجرات میں آدابِ کلام کے ذیل میں کچھ ہدایات دی گئی ہیں- اِس سلسلے میں اس کی تین آیتوں کا ترجمہ یہ ہے: ’’اے ایمان والو، تم اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو، اور اللہ سے ڈرو- بے شک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے- اے ایمان والو، تم اپنی آوازیں پیغمبر کی آواز سے اوپر مت کرو اور اُس کو اِس طرح آواز دے کر نہ پکارو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو- کہیں ایسا نہ ہو کہ تمھارے اعمال حبط ہوجائیں اور تم کو اس کا شعور بھی نہ ہو- جو لوگ اللہ کے رسول کے آگے اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں، وہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقوی کے لیے جانچ لیا ہے- ان کے لیے مغفرت اور اجرِ عظیم ہے‘‘- (49:1-3)
قرآن کی اِن آیتوں میں پیغمبر کی مجلس کے حوالے سے ایک اہم اصول بیان کیا گیا ہے- اِس اصول کا تعلق پیغمبر کے زمانے میں پیغمبر کی مجلس سے بھی تھا اور بعد کے زمانے میں دوسری مجالس سے بھی ہے- پیغمبر کے زمانے میں کسی مجلس میں جو بات ہوتی تھی، وہ کیا تھی، وہ بلاشبہہ دین اور دعوت کی بات ہوتی تھی- گویا کہ قرآن کی مذکورہ ہدایت دینی مجلس کی نسبت سے ہے، نہ کہ محض ذاتِ رسول کی نسبت سے- ایسے موقع پر یہ ہوتاہے کہ کچھ لوگ تو سنجیدہ انداز میں اور متقیانہ انداز میں بولتےہیں- یہی مطلوب انداز ہے- اِس کے برعکس، کچھ لوگ ایسا کرتے ہیں کہ وہ غیر سنجیدہ انداز میں محض اپنے ذاتی ذہن کے تحت زور زور سے بولنے لگتے ہیں- یہ انداز ایک غیر مطلوب انداز ہے اور اِسی غیر متقیانہ روش سے قرآن کی اِس آیت میں منع کیاگیا ہے-
دینی موضوع پر کلام کے وقت صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی شدت کے ساتھ قرآن وسنت کی پابندی کرتے ہوئے بولے- وہ ایسا نہ کرے کہ محض اپنے ذاتی خیال کو لے کر زور زور سے بولنے لگے- قرآن کی اِس آیت میں متقیانہ کلام کی ہدایت ہے اور غیر متقیانہ کلام کی ممانعت- متقیانہ کلام کو دوسرے الفاظ میں، سنجیدہ کلام (serious talk) اور غیر متقیانہ کلام کو غیر سنجیدہ کلام (non-serious talk) کہاجاسکتاہے- متقیانہ کلام وہ ہے جو اُس احساسِ ذمے داری کے ساتھ نکلے جو حضرت ابو بکر صدیق نے اپنے ایک قول میں اِس طرح بیان کیا تھا: أی سماء تظلّنی وأی أرض تقلنی إذا قلتُ فی کتاب اللہ ما لا أعلم (القرطبی: 19/221 ) یعنی کون سا آسمان مجھے سایہ دے گا اور کون سی زمین مجھ کو پناہ دے گی، اگر میں اللہ کی کتاب کے بارے میں ایسی بات بولوں جس کا مجھے علم نہیں (جس کی تائید میں میرے پاس کتاب اللہ کا کوئی حوالہ نہیں)-
موجودہ زمانہ پرنٹنگ پریس کا زمانہ ہے- موجودہ زمانے میں اظہارِ خیال کا ذریعہ صرف بالمشافہ گفتگو نہیں ہے، بلکہ چھپی ہوئی تحریروں کی شکل میں اظہار خیال عام ہوگیا ہے- ایسی حالت میں، وسیع تر انطباق (extended application) کے اعتبار سے، تحریری اظہارِ خیال بھی اس میں شامل ہوگا- اِس معاملے میں متقیانہ تحریر وہ ہے جو اللہ کے سامنے جواب دہی (accountability) کے احساس کے تحت تیار کی گئی ہو- اِس کے برعکس، جو لوگ ایسا کریں کہ جو کچھ اُن کے ذہن میں ہے، اس کو لکھ کر چھاپنا شروع کردیں اوراس کی تحقیق نہ کریں کہ وہ کتاب وسنت کے مطابق ہے یا نہیں، ایسے لوگوں کے لیے شدید طورپر یہ خطرہ ہےکہ ان کی کوششیں حبطِ اعمال کا شکار ہوجائیں-
قرآن کی مذکورہ آیت میں بتایا گیا ہےکہ غیر متقیانہ کلام یا غیر ذمے دارانہ کلام کرنے والوں کے لیے حبطِ اعمال کا اندیشہ ہے- اِس حبطِ اعمال کی سنگینی یہ ہے کہ وہ غیر شعوری طورپر پیش آتاہے، یعنی آدمی بطور خود یہ سمجھتاہے کہ وہ حق وصداقت کی بات بول رہاہے، لیکن نتیجہ (result) کے اعتبار سے، اس کی تقریر وتحریر سرتاسر عبث قرار پائے گی اور آدمی کو اِس کا شعوربھی نہ ہوگا-مزید غور کرنے سے معلو م ہوتا ہے کہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے، یہ معاملہ کنڈیشننگ (conditioning) کا معاملہ ہے- غلط افکار کے درمیان عرصے تک جینے کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ آدمی کے ذہن کی تشکیل ایک خاص انداز سے ہوجاتی ہے- وہ سمجھتا ہے کہ میں جو کچھ سوچتا ہوں، وہ حق ہے، حالاں کہ وہ حق نہیں ہوتا، بلکہ صرف اس کے غلط مائنڈ سیٹ (mindset) کا نتیجہ ہوتاہے- ایسی حالت میں آدمی کا پہلا فرض یہ ہے کہ وہ اپنے ذہن کی ڈی کنڈیشننگ کرکےاپنے آپ کو صحیح الفکر انسان (right-thinker)بنائے-
واپس اوپر جائیں

انسان کی محرومی

قرآن کی سورہ الاعراف میںانسان کی حالت پر ایک تبصرہ اِن الفاظ میں کیا گیا ہے: وَاتْلُ عَلَیْہِمْ نَبَاَ الَّذِیْٓ اٰتَیْنٰہُ اٰیٰتِنَا فَانْسَلَخَ مِنْہَا فَاَتْبَعَہُ الشَّیْطٰنُ فَکَانَ مِنَ الْغٰوِیْنَ ؁ وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنٰہُ بِہَا وَلٰکِنَّہٗٓ اَخْلَدَ اِلَى الْاَرْضِ وَاتَّبَعَ ہَوٰىہُ ۚ فَمَثَلُہٗ کَمَثَلِ الْکَلْبِ ۚ اِنْ تَحْمِلْ عَلَیْہِ یَلْہَثْ اَوْ تَتْرُکْہُ یَلْہَثْ ۭ ذٰلِکَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا ۚ فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ (7:175-176) یعنی اُن کو اُس شخص کا حال سناؤ جس کو ہم نے اپنی نشانیاں دی تھیں تو وہ اُن سے نکل بھاگا- پس شیطان اس کے پیچھے لگ گیا اور وہ گمراہوں میں سے ہوگیا- اور اگر ہم چاہتے تو اس کو اُن نشانیوں کے ذریعے سے بلندی عطا کرتے، مگر وہ تو زمین کا ہورہا اور اپنی خواہشوں کی پیروی کرنے لگا- پس اس کی مثال کتّے کی سی ہے کہ اگر تو اُس پر بوجھ لادے تب بھی وہ ہانپے اور اگر چھوڑ دے تب بھی ہانپے- یہ مثال اُن لوگوں کی ہے جنھوںنے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا- پس تم یہ احوال اُن کو سناؤ، تاکہ وہ غور کریں-
شانِ نزول کی روایت کے مطابق، قرآن کی اِس آیت میں ایک شخص کا قصہ بیان ہوا ہے- یہ حضرت موسی کے زمانے کا ایک بڑا اسرائیلی عالم تھا جس کا نام بلعم بن باعوراء بتایا گیا ہے- مگر قرآن کے اسلوب کے مطابق، یہاں انفرادی حوالہ (particular reference) میں ایک عمومی بات کہی گئی ہے- اِس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے علم میں ایسی نشانیاں (signs) آتی ہیں جو اس کو بتاتی ہیںکہ وہ اپنی زندگی کو اعلی مقصد کے لیے استعمال کرے- لیکن شیطانی وسوسے کے زیر اثر وہ اپنی خواہشات سے مغلوب ہوجاتاہے اور اُن چیزوں کو اپنا نشانہ بنا لیتاہے جس کے لیے وہ پیدا نہیں کیاگیا تھا-
قرآن کی اِس آیت میں وہی بات کہی گئی ہے جو انسان کے حوالے سے دوسرے مقام پر اِن الفاظ میں آئی ہے: کَلَّا بَلْ تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَةَ ۙ وَتَذَرُوْنَ الْاٰخِرَةَ (75:20-21)- اصل یہ ہے کہ انسان کی ذات میں تخلیقی طورپر ایسی نشانیاں ہیں جو بتاتی ہیں کہ اُس کو ایک اعلی مقصد کے لیے پیدا کیاگیا ہے- وہ اعلی مقصد یہ ہے کہ آدمی اپنے اندر ربانی شخصیت کی تعمیر کرے اور آخرت میں ابدی جنت کی صورت میں اس کا انعام پائے-
مگر ’’آج‘‘ کے مواقع کو نظر انداز کرکے ’’کل‘‘ کے لیے اپنے آپ کو وقف کردینا انسان کو مشکل معلوم ہوتا ہے، اِس لیے وہ ایسا کرتاہے کہ وہ آنے والے کل (tomorrow) کو نظر انداز کردیتا ہے اور اُس فوری فائدہ کے حصول کو اپنا نشانہ بنا لیتاہے جس کو آج کل ’رائٹ ہیئر، رائٹ ناؤ‘ (right here, right now) کہا جاتا ہے، اِس طرح انسان اپنے آپ کو اُس اعلی کامیابی سے محروم کرلیتا ہے جو اُس کے خالق نے اس کے لیے مقدر کیا ہے-
ایسے انسان کی مثال اُس کتے سے دی گئ ہے جس کا حال یہ ہوتا ہے کہ اگر اس پر بوجھ لادا جائے تب بھی وہ ہانپے اور اگر چھوڑ دیا جائے تب بھی ہانپے- یہ تمثیل بہت بامعنی ہے- اِس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی تخلیق کے اعتبار سے چوں کہ جنت کے لیے پیدا کیا گیاہے، اِس لیے جنت کے سوا کوئی اور نشانہ اختیار کرنے کی صورت میں اس کی فطرت ہمیشہ غیر مطمئن رہتی ہے- پہلے مرحلے میں اُس کو یہ نشانہ بہت مشکل نظر آتا تھا کہ وہ نہ دکھائی دینے والی آخرت کی خاطر دکھائی دینے والی دنیا کو قربان کردے- لیکن جب وہ دکھائی دینے والی دنیا کے حصول کے لیے اپنی پوری طاقت لگا دیتا ہے اور بظاہر اپنا نشانہ پورا کرلیتا ہے، تب بھی وہ غیر مطمئن رہتا ہے، کیوں کہ جس دنیوی چیز کو اُس نے پایا ہے، وہ اس کی اُس داخلی طلب کے مطابق نہیں جو فطری طورپر اس کے اندر موجود ہے-
’’یہ مثال اُن لوگوں کی ہے جنھوں نے ہماری نشانیوں کی تکذیب کی‘‘- یہاں تکذیب سے مراد نظر انداز کرنا یا سبق نہ لینا ہے- انسان کا معاملہ یہ ہے کہ اُس کو ایک خدا طلب مخلوق (God-seeking being) کے طور پر پیدا کیاگیا ہے- جب وہ خدا کے سوا کسی اور چیز کو اپنا مقصود بناتاہے تو بہت جلد اس کو عدم مطابقت کا احساس ہونے لگتاہے- اس کی فطرت یاددلاتی ہے کہ یہ وہ چیز نہیں جو تمھارا اصل مقصود تھی، مگر آدمی شیطان کے زیر اثر فطرت کے اِن اشاروں کو نظر انداز کردیتا ہے، وہ بدستور ایساکرتاہے کہ وہ غیر مقصود کو اپنا مقصود بنائے رہتا ہے- وہ اِسی حال میں جیتا ہے، یہاں تک کہ مر کر اِس دنیا سے چلا جاتاہے-
واپس اوپر جائیں

فہمِ قرآن— ایک مطالعہ

قرآن، خدا کی محفوظ کتاب ہے- قرآن ساتویں صدی عیسوی کے ربع اول میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا گیا- قرآن میںاس کے نزول کا مقصد اِن الفاظ میں بتایا گیاہے: تَبٰرَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ لِیَکُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرَا(25:1) یعنی بہت بابرکت ہے وہ ذات جس نےاپنے بندے پر قرآن اتارا، تاکہ وہ جہان والوںکے لیے آگاہ کرنے والا ہو-
قرآن ساتویں صدی عیسوی کے قدیم عرب میں اترا- اُس وقت وہ صرف امکانی طورپر نذیر ِ عالم تھا- کیوں کہ بطو ر واقعہ نذیر عالم بننے کے لیے عالمی کمیونکیشن (global communication) کے ذرائع درکار ہیں، جو اُس وقت موجود ہی نہ تھے- حقیقت یہ ہے کہ قرآن میں یہ بات مستقبل کے اعتبار سے کہی گئی تھی، نہ کہ حال کے اعتبار سے-جیسا کہ معلوم ہے، قرآن کے نزول کے بعد انسانی تاریخ میں ایک انقلابی پراسس (revolutionary process) شروع ہوا- یہ عمل مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے تقریباً ایک ہزار سال کے بعد اپنے نقطہ انتہا (culmination) تک پہنچا- یہ عالمی کمیونکیشن کا دور تھا- اب وقت آگیا تھاکہ قرآن کو نذیر ِ عالم کی حیثیت سے ساری دنیا میں پہنچا دیا جائے- حقیقت یہ ہے کہ جدید مواصلاتی دور، قرآن کو عالمی بنانے کا دور تھا:
The age of communication was the age of universalization of the Quran.
مگر ابھی یہ امکان واقعہ نہ بن سکا- اِس سلسلے میں یہاںیہاں ایک جائزہ پیش کیا جاتاہے-
ایک تاریخی جائزہ
قرآن جس زمانے میں اترا، اُس زمانے میں پرنٹنگ پریس موجود نہ تھا- لوگ قر آن کو یاد کرلیتے اور حافظہ کی مدد سے وہ اس کو پڑھتے یا دوسروں کو پڑھ کر سناتے-رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات( 632عیسوی( تک یہ حال تھا کہ ہرجگہ صرف قرآن کا چرچا ہوتا تھا- آپ کی وفات کے بعد حدیث کا چرچا بڑھ گیا- عباسی دور میں فقہ کا چرچا شروع ہوا- اس کے بعد اِسی دور میں مسلم تاریخیں لکھی گئیں اور تاریخ کا چرچا ہونے لگا- اِس پورے زمانے میں باتیں یا تو حافظہ میں ہوتی تھیں یا ہاتھ سے لکھے ہوئے اوراق میں- چناں چہ فطرتی طورپر قرآن کا دائرہ اشاعت عملاً محدود رہا-
پندرھویں صدی عیسوی میں پرنٹنگ پریس وجود میں آیا- اِسی کے ساتھ کاغذ بھی وسیع پیمانے پر بننے لگا- سولھویں صدی عیسوی میں یہ حال ہوا کہ یورپ میں کتابوں کی چھپائی عام ہوگئی- کتابوں کے مطبوعہ نسخے عمومی طورپر دستیاب ہونے لگے-مگر مسلم دنیا ابھی تک پرنٹنگ پریس سے ناآشناتھی- اورنگ زیب عالم گیر سترھویں صدی کا مسلم بادشاہ ہے- مگر اپنے زمانے میں وہ صرف یہ جانتا تھا کہ لمبی مدت کے دوران قرآن کو اپنے ہاتھ سے لکھ کر اس کا ایک نسخہ تیار کیا جائے- وہ پرنٹنگ ٹکنالوجی کی بابت کچھ نہیں جانتا تھا-
مسلم دنیا میں پرنٹنگ پریس اٹھارھویں صدی کے آخر میں پہنچا- نپولین 1798میں مصر میں داخل ہوا- وہ اپنے ساتھ فرانس سے پرنٹنگ پریس لایا تھا- انیسویں صدی کے آغازمیں کرسچن مشنری کے لوگ انڈیا میں پرنٹنگ پریس لے آئے- اِس طرح دھیرے ھیرے پرنٹنگ پریس پوری مسلم دنیا میں پھیل گیا- بیسویں صدی میں یہ حال ہوا کہ قرآن کے چھپے ہوئے نسخے ہر جگہ پائے جانے لگے- گھر، مسجد، مدرسہ، لائبریری، کوئی جگہ قرآن کے مطبوعہ نسخوں سے خالی نہ رہی-
مگر اب بھی جو حال ہوا، وہ صرف یہ کہ قرآن مسلمانوں کے لیے کتابِ تلاوت بنا رہا، وہ عمومی طور پر ساری انسانیت کے لیے عملاً نذیر ِ عالم نہ بن سکا-ایسا کیوں ہوا، کیوں ایسا ہوا کہ عالمی اِبلاغ کے مواقع پیداہونے کے باوجود قرآن کی عالمی اشاعت نہ ہوسکی-اس کا سبب یہ ہے کہ یہ کام مسلمانوں کو انجام دینا تھا، جو کہ قرآن کے حامل ہیں، مگر اس زمانے کے مسلمان دعوت کے شعور سے مکمل طورپر خالی تھے- بیسویں صدی کے مسلمان ساری دنیا میں منفی سوچ کا شکار ہوگئے، وہ مدعو قوموں کو اپنا حریف سمجھنے لگے- اِس قسم کی منفی سوچ کے ساتھ دعوت وتبلیغ جیسا مثبت کام نہیں کیا جاسکتا-
اصل یہ ہے کہ جس زمانے میں جدید کمیونکیشن کا دور آیا، اُسی زمانے میں ایک اور چیز مسلم دنیا میں داخل ہوگئی، یعنی وہ چیز جس کو مغربی نو آبادیات (western colonialism) کہاجاتا ہے- جدید کمیونکیشن اور نوآبادیات دونوں ایک ساتھ مسلم دنیا میں داخل ہوئے:
The age of communication coincided with the age of colonialism.
مغرب کی نوآبادیاتی قومیں جدید طاقتوں سے مسلح تھیں- چناںچہ فطری طور پر یہ ہوا کہ وہ عمومی طورپر اُس زمانے کے مسلم ممالک پر غالب آگئیں- انھوںنے مسلم اداروں اور مسلم حکومتوں کو زیر کرلیا- اِس کے رد عمل کے طور پر یہ ہوا کہ تمام دنیا کے مسلمان مغربی قوموں کے خلاف نفرت میں مبتلا ہوگئے- اُس زمانے کے تقریباً تمام مسلم رہنماؤں کا ذہن یہ بن گیا کہ سب سے پہلا کام یہ ہے کہ مغربی طاقتوں سے لڑکر اُن کو مسلم دنیا سے نکالو- اِس سیاسی جہاد میں تقریباً تمام لوگ شریک ہوگئے، صرف اِس فرق کے ساتھ کہ کچھ لوگ اُس میں فکری اعتبار سے شریک تھے اور کچھ لوگ مسلح ٹکراؤ میں مشغول تھے-
یہ پورا دورمسلمانوں کے لیے منفی رد عمل کا دور تھا- نفرت اور تشدد کے ماحول میں وہ یہ بھول گئے کہ مغربی قومیں اُن کے لیے دشمن نہیں، بلکہ مدعو ہیں- تاریخ میں پہلی بار یہ امکان پیداہوا ہے کہ قرآن اور ترجمہ قرآن کے مطبوعہ نسخوں کو نہ صرف مغربی قوموں، بلکہ تمام دنیا کی قوموں تک پہنچا دیا جائے، تاکہ قرآن اپنے مقصد نزول کے اعتبار سے نذیر ِ عالم بن جائے، یعنی وہ پیشین گوئی پوری ہوجس کو حدیث میں عالمی ادخالِ کلمہ کہاگیاہے- مسلمانوں کے اندر دوسری قوموں کے لیےمنفی رد عمل کایہ مزاج انیسویں صدی کے نصف ثانی میں شروع ہوا اور اکیسویں صدی کے نصف اول تک منفی رد عمل کی یہ نفسیات بدستور جاری ہے-
موجودہ زمانے کے مسلمانوں نے دوسری قوموں کو اپنا دشمن قرار دے کر جو لڑائی جاری کی، وہ ہر قسم کی بے پناہ قربانیوں کے باوجود مکمل طورپر بے نتیجہ رہی- کوششوں کا یہ منفی انجام کافی تھا کہ مسلمان اِس معاملے میں اپنے موقف پر نظر ثانی کریں- مگر عجیب بات ہے کہ کھلےہوئے ناکام تجربے کے باوجود آج بھی مسلمانوں کے اندر اِس معاملے میں نظر ثانی کا عمل جاری نہ ہوسکا-
قرآن سے ہدایت لینے میں ناکامی
موجودہ زمانے میں جب قرآن کے مطبوعہ نسخے عام ہوئے تو بہت بڑے پیمانے پر مسلمانوں میں قرآن کو پڑھنے کا رواج پیداہوگیا- مسجدوں او راداروں میں درسِ قرآن کا سلسلہ شروع ہوگیا- کتابوں اور جرائد کے ذریعے قرآنی تعلیمات کی اشاعت کی جانے لگی- قرآن کی تفہیم کے لیے جماعتیں بنیں اور ادارے قائم ہوئے- اِس کا نتیجہ یہ ہونا چاہئے تھا کہ مسلمانوں میں عمومی طورپر قرآنی ذہن بنے اور قرآنی طرز فکر پیدا ہو، مگر عجیب بات ہے کہ دروسِ قرآن کی کثرت اور قرآنی کتابوں کی عمومی اشاعت کے باوجود یہ مقصد حاصل نہیں ہوا-
اِس کا اصل سبب یہ ہے کہ قرآن کو صرف پڑھنا کافی نہیں ہے، بلکہ ضروری ہے کہ اُس کو صحیح ذہن کے تحت پڑھا جائے- اِسی لیے قرآن میں کہا گیا ہے: یُضِلُّ بِہٖ کَثِیْرًا ۙ وَّیَہْدِىْ بِہٖ کَثِیْرًا (2:26) یعنی جو لوگ صحیح ذہن کے ساتھ قرآن کو پڑھیں گے، اُن کو قرآن سے ہدایت ملے گی، اور جو لوگ بگڑےہوئے ذہن کے ساتھ قرآن کو پڑھیں، وہ قرآن کو پڑھنے کے باوجود قرآن سے ہدایت پانے سے محروم رہیں گے-
قرآن فہمی کا اصول
علماءِ تفسیر نے عام طورپر قرآن فہمی کے لیے15 علوم میں مہارت کو ضروری قرار دیا ہے— علمِ لغت، علمِ نحو، علمِ صرف، علمِ اشتقاق، علمِ معانی، علمِ بیان، علمِ بدیع، علمِ قرأت، علمِ عقائد، علمِ اصولِ فقہ، علمِ اسبابِ نزول، علمِ ناسخ ومنسوخ، علمِ فقہ، علمِ حدیث، علم وہبی- مگر تجربہ بتاتا ہے کہ صرف یہ علوم قرآن فہمی کے لیےکافی نہیں- بیسویں صدی عیسوی میں کثیر تعداد میں ایسے علما اٹھے جن کا مقصد قرآنی علم کو عام کرنا تھا- یہ علما مذکورہ تمام علوم کے ماہر تھے، مگر عین اِسی دور کے مسلمان ایک بہت بڑے قرآنی علم سے بے خبر رہ گئے- یہ واقعہ ثابت کرتاہے کہ قرآن فہمی کے لیے صرف مذکورہ علوم سے واقف ہونا کافی نہیں-
مطلوب قرآنی علم وہ ہے جس کو کتاب اللہ میں ’’فرقان‘‘ (8:29)کہاگیاہے- فرقان فرق کا مبالغہ ہے-اِس کا مطلب ہے: دو چیزوں کے درمیان فرق کرنے والا- قرآن کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ قاریِ قرآن کے اندر فرقان کی صفت پیدا کرتاہے- وہ قاری کو اِس قابل بناتا ہے کہ وہ کسی چیز کے دو پہلوؤں کے درمیان فرق کرسکے- مثلاً وہ ایسا کرسکے کہ وہ کسی چیز کے پلس پوائنٹ کو اس کے مائنس پوائنٹ سے الگ کرکے دیکھ سکے-
موجودہ زمانے میں نوآبادیاتی طاقتیں مغربی تہذیب کو لے کر مسلم دنیا میں داخل ہوئیں- اِس مغربی تہذیب کے دو پہلو تھے- ایک یہ کہ وہ مغربی قوموں کو مسلم دنیا میں غالب کررہی تھیں- اور اس کا دوسرا پہلو یہ تھا کہیہ لوگ پہلی بار دنیا میں جدید مواقع لائے تھے، جن میں کمیونکیشن سر فہرست ہے- اب علماءِ قرآن کو چاہیے تھا کہ وہ اِن دونوں پہلوؤں کو الگ کرکے دیکھیں- وہ خُذ ما صفاودَع ما کدر کے اصول پر مغربی تہذیب کے غیر مطلوب پہلو کو نظر انداز کردیتے اور دعوتی مواقع کو بھر پور طورپر استعمال کرتے، مگر وہ ایسا نہ کرسکے-
یہ واقعہ بتاتا ہے کہ دورِ جدید کے علما اور رہنما اِس معاملے میں فرقان کی صفت سے محروم تھے، یعنی مغربی تہذیب کے مذکورہ دو پہلوؤں کے درمیان فرق کرنا - اُن کے مطالعہ قرآن نے اُن کے اندر یہ صلاحیت پیدا نہیں کی تھی کہ وہ مغربی تہذیب کے اندر چھپے ہوئے مثبت دعوتی پہلو کو اس کے دوسرے پہلو سے الگ کرکے دیکھیں اور دعوتی مواقع کے پہلو کو استعمال کرکے دورِ جدید میں اسلام کی عالمی دعوتی اشاعت کا کام انجام دے سکیں-
ربانی شاکلہ
حقیقت یہ ہے کہ قرآن فہمی کے لیے مذکورہ 15 علوم کے علاوہ ایک اور ضروری چیزدرکار ہے، اور یہی چیز دور جدید کے علما اور رہنماؤں کو حاصل نہ تھی، اوروہ ہے ربانی شاکلہ- اِس علم کا ذکر قرآن کی اِس آیت میں ملتا ہے:قُلْ کُلٌّ یَّعْمَلُ عَلٰی شَاکِلَتِہٖ ۭ فَرَبُّکُمْ اَعْلَمُ بِمَنْ ہُوَ اَہْدٰى سَبِیْلًا (17:84)یعنی کہو کہ ہر ایک اپنے شاکلہ پر عمل کررہا ہے- اب صرف تمھارا رب بہتر جانتا ہے کہ کون زیادہ ٹھیک راستے پر قا ئم ہے-
اِس آیت میں شاکلہ کا مطلب ذہنی سانچہ (mindset) ہے- قریبی حالات کے اعتبار سے، ہر آدمی کا ایک ذہنی سانچہ بن جاتا ہے- وہ اِسی ذہنی سانچہ کی نظر سے چیزوں کو دیکھنے لگتاہے- مگر یہاں ایک برتر ذہنی سانچہ ہے- یہ ذہنی سانچہ آدمی کو اِس قابل بناتا ہے کہ وہ حالات سے اوپر اٹھ سکے- وہ چیزوں کو اللہ کی روشنی سے دیکھنے لگے، جیساکہ حدیث میں آیا ہے: اتقوا فراسةَ المومن فإنہ ینظر بنور اللہ (الترمذی، رقم الحدیث: 3392)- یعنی مومن کی فراست سے بچو، کیوں کہ مومن، اللہ کے نور سے دیکھتاہے- اللہ کے نور سے دیکھنے کا مطلب ہے— چیزوں کو ربانی نقطۂ نظر سے دیکھنا-
قرآن کو صحیح طورپرسمجھنے کے لیے سب سے زیادہ اہمیت اِسی ربانی شاکلہ کی ہے- کہاجاتا ہے کہ کسی کتاب کو درست طورپر سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ قاری، مصنف کے ذہن سے کتاب کو پڑھ سکے- کسی بھی کتاب کو جب آدمی پڑھتا ہے تو وہ اس کو خود اپنے شاکلہ کے مطابق، پڑھتا ہے-
ہوورڈفاسٹ(Howard Fast) ایک کمیونسٹ تھا- خروسچف کے مشہور انکشاف (1956) کے بعد اس نے کمیونسٹ پارٹی کو چھوڑ دیا- وہ اصلاً ایک مارلسٹ(moralist) تھا- اس نے کمیونسٹ لیڈروں کی تحریریں پڑھیں تو اس کو محسوس ہوا کہ کمیونزم سماجی اخلاقیات کی ایک تحریک ہے، جب کہ حقیقت ایسی نہ تھی- بعد کو اس نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ میں خود اپنے ذہنی سانچےمیں کمیونسٹ بنا:
I accepted communism according to my own mindset.
یہی معاملہ ہر انسان کا ہے- اگر آدمی کا ذہن بنا ہوا نہ ہو تو وہ قرآن کو خود اپنے ذہنی سانچے میں پڑھے گا- وہ قرآن کو پڑھ کر بھی قرآن کو نہیں پائے گا- یہی وہ بات ہے جو ایک صحابی نےاِن الفاظ میں کہی ہے : تعلمنا الإیمان ثم تعلمنا القرآن (یعنی ہم نے ایمان کو سیکھا، پھر ہم نے قرآن کو سیکھا)- صحابی کے اِس قو ل میں ایمان سیکھنے سے مراد یہ ہےکہ ہم نے پہلے اپنے ذہنی شاکلہ کی تشکیل ربانی اصول پر کی، پھر ہم اِس قابل ہوئے کہ ہم قرآن کو پڑھ کر اس کو درست طور پرسمجھ سکیں- ربانی شاکلہ کودوسرے الفاظ میں، مثبت شاکلہ (positive mindset)کہا جاسکتا ہے-
غیر قرآنی ذہن
ربانی شاکلہ کیا ہے- ربانی شاکلہ دراصل غیر متعصبانہ طرزِفکر (unbiased thinking) کا دوسرا نام ہے- ایک آدمی جب ہر قسم کے تعصبات سے باہر آکر کھلے ذہن کے تحت سوچے تو اس کی سوچ فطری سوچ بن جاتی ہے- وہ، حدیث کے الفاظ میں، اللہ کے نور سے دیکھنے لگتا ہے- اِسی کا نام ربانی شاکلہ یا ربانی مائنڈ سیٹ (mindset) ہے- ربانی مائنڈ سیٹ کیا ہے، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دعا سے معلوم ہوتاہے- یہ دعا اِن الفاظ میں آئی ہے: اللہم أرنا الحق حقاً وارزقنا اتباعہ، وأرنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابہ، وأرنا الأشیاء کما ہی -
اِس دعا کا خلاصہ ایک لفظ میں یہ ہے کہ — خدایا، تومجھے توفیق دے کہ میں چیزوں کو ایز اِٹ اِز (as it is) دیکھنے لگوں، یعنی کسی آمیزش کے بغیر خالص فطری انداز میں- اِس سے مراد چیزوں کو اُس نظر سے دیکھنا ہے جس نظر سے خدا اُن کو دیکھتا ہے- اِسی طرزِ فکر کا نام ربانی طرزِ فکر ہے، اور یہ ربانی طرزِ فکر کسی آدمی کے اندر کامل ذہنی تطہیر کے ذریعے پیدا ہوتا ہے-
انسانی شاکلہ اور ربانی شاکلہ کے فرق کی ایک مثال صلح حدیبیہ ہے، جس کی بابت قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں: علم ما لم تعلموا (48:27) یعنی اللہ نے وہ جانا جو انسان نے نہیں جانا- حدیبیہ کا معاہدہ یک طرفہ شرطوں پر طے کیا گیا تھا- اِس بنا پر انسانی ذہن نے اس کو ذلت آمیز معاہدہ سمجھا- لیکن اللہ اس کو مستقبل میںدعوتی مواقع کھلنے کے اعتبا رسے دیکھ رہا تھا، یعنی انسان اِس معاہدہ کو حال کی نسبت سے دیکھ رہا تھا، جب کہ خدااس کو مستقبل کی نظر سے دیکھ رہا تھا، اِس بناپر ایسا ہوا کہ جس چیز کو انسان شکست کا درجہ دے رہا تھا، اُس کو خدا نے فتحِ مبین کا درجہ دے دیا-
ذہنی پردہ
قرآن کی سورہ الاسراء میں ایک آیت اِن الفاظ میںآئی ہے: وَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ جَعَلْنَا بَیْنَکَ وَبَیْنَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ حِجَابًا مَّسْتُوْرًا(17:45) یعنی جب تم قرآن پڑھتے ہو تو ہم تمھارے اور اُن لوگوں کے درمیان ایک چھپا ہوا پردہ حائل کردیتے ہیں، جو آخرت کو نہیں مانتے:
When you recite the Quran, we place an invisible barrier between you and those who do not believe in the Hereafter.
قرآن کی اِس آیت میں حجابِ مستور سے مراد غیر ربانی مائنڈ سیٹ ہے- قرآن کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے اپنے غیر ربانی مائنڈ سیٹ کو توڑنا پڑتا ہے- دوسرے لفظوں میں، یہ کہ اپنے آپ کو کامل طورپر آبجکٹیو مائنڈ(objective mind) بنانا پڑتاہے- اِس سے معلوم ہوا کہ قرآن کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلی شرط سلبی ہے، نہ کہ ایجابی-
ایجابی ذہن کا مطلب ہے، قرآن کو قرآن کے ذہن سے پڑھنا- سلبی ذہن کا مطلب ہے، اپنے غیر قرآنی ذہن کی تطہیر کرنا- قرآن کے صحیح مطالعے کے لیے جو ترتیب ہے، وہ یہ ہے کہ آدمی پہلے اپنے غیر قرآنی ذہن کے خول سے باہر آئے، اِس کے بعد ہی یہ ممکن ہوگا کہ وہ ایجابی ذہن کے تحت قرآن کو پڑھے اور اس کو سمجھ سکے- گویا کہ کلمہ توحید (لا إلہ إلا اللہ) کی طرح یہاں بھی یہ اصول ہے کہ پہلے نفی کا مرحلہ ہے اور اس کے بعد اثبات کا مرحلہ، یعنی پہلے اپنے ذہن کے حجاب کو ہٹانا پڑتاہے، اس کے بعد ہی کسی کے لیے یہ ممکن ہوتاہے کہ وہ قرآن کو پڑھے اور اس کے صحیح مفہوم تک پہنچ سکے-
جس زمانے میں کمیونزم کا زور تھا، ایک تعلیم یافتہ مسلمان نے قرآن کو پڑھا- وہ اشتراکی فکر سے متاثر تھے- وہ قرآن کو پڑھتے ہوئے اِس آیت تک پہنچے: إن الأرض للہ ( 7:128) - اِس آیت کو پڑھ کر انھوں نے اپنے مائنڈ سیٹ کے مطابق، یہ سمجھ لیا کہ قرآن بھی اشتراکیت کی تعلیم دیتاہے- انھوںنے کہاکہ اِس آیت میں کہاگیا ہے کہ زمین اللہ کی ہے- اِس کا مطلب یہ ہے کہ زمین اسٹیٹ کی ہے- اسٹیٹ کو یہ حق ہے کہ وہ لوگوں کی زمین پر قبضہ کرکے اشتراکی اصول پر زراعت کا نظام بنائے- اِسی طرح ایک اور تعلیم یافتہ مسلمان جو جمہوری فکر سے متاثر تھے، انھوں نے جب قرآن میں یہ آیت پڑھی: وَأَمْرُہُمْ شُوْرَی بَیْنَہُمْ ((42:38تو انھوں نے خوش ہو کر کہا کہ دیکھو، قرآن میں بھی جمہوریت (ڈیماکریسی) کی تعلیم موجود ہے-
ایک اور تعلیم یافتہ مسلمان نے قرآن کی یہ آیت پڑھی: فَاَوْقِدْ لِیْ یٰہَامٰنُ عَلَی الطِّیْنِ فَاجْعَلْ لِّیْ صَرْحًا (28:38)- اِن الفاظ کو پڑھ کر مذکورہ مسلمان نے کہا کہ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن سیریمک انڈسٹری (ceramic industries) کی تعلیم دے رہا ہے- اِس کا تقاضا ہے کہ مسلمان سیریمک انڈسٹریز اور دوسری صنعتیں قائم کریں- وہ صنعت اور تجارت کے میدان میں آگے بڑھیں-
اِس قسم کی بہت سی مثالیں ہیں جو بتاتی ہیں کہ اگر قاری کا ذہن تیار ذہن نہ ہو تو وہ خود اپنے مائنڈ سیٹ کے مطابق، قرآن کو پڑھے گا- وہ قرآن کی آیتوں میں ایسی بات پالے گا جو خود قرآن میں موجود نہیں، بلکہ وہ خود اس کے اپنے ذہن میں پائی جاتی ہے-
چند وضاحتی مثالیں
1- مصر کے مشہور انقلابی رہنما سید قطب کا نظریہ تھا کہ پیغمبروں کی دعوت کا نشانہ یہ تھا کہ وہ دنیا میں حکومتِ الہیہ قائم کریں- اِس ذہنی تاثر(obsession) کے تحت، انھوں نے قرآن کو پڑھا تو عجیب وغریب طورپر ان کو نظر آیا کہ قرآن اُن کے سیاسی ذہن کی تصدیق کررہا ہے- مثلاً قرآن کی سورہ الاعراف میں بتایا گیاہے کہ حضرت موسی نے جب اُس وقت کے مصری حکمراں فرعون کے سامنے اپنی دعوت پیش کی تو فرعون نے اپنی جوابی تقریر میں اپنے درباریوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: یُرِیْدُ اَنْ یُّخْرِجَکُمْ مِّنْ اَرْضِکُمْ( 7:110) یعنی موسی چاہتے ہیں کہ وہ تم کو تمھارے ملک مصر سے نکال دیں-
سید قطب نے جب اِن الفاظ کو پڑھا تو اپنے مائنڈ سیٹ کے مطابق، انھوں نے یہ سمجھا کہ حضرت موسی کی دعوت ملک میں سیاسی اقتدار قائم کرنے کی دعوت تھی- چناں چہ وہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں: إنہا الخروج من الأرض، إنہا ذَہاب السلطان، إنہا إبطال شرعیة الحکم، أومحاولة قلب نظام الحکم، بالتعبیر العصری الحدیث (3/1348) یعنی یہ سرزمینِ مصر سے نکلنے کا معاملہ ہے، یہ اقتدار کا خاتمہ ہے، یہ ہماری حکمرانی کو ناجائز ٹھہرانا ہے، یا یہ، دورِ جدید کی تعبیر کے مطابق، نظامِ حکومت کو بدلنے کی کوشش ہے-
مذکورہ مصنفکے یہ الفاظ خود ان کے اپنے ذہن کی ترجمانی ہیں، وہ حضرت موسی کی ترجمانی نہیں- واضح بات ہے کہ حضرت موسی کا پیغام کلامِ موسی سے نکلے گا، نہ کہ کلامِ فرعون سے- مگر اپنے متاثر ذہن کی بنا پر مصنف اِس فرق کو نہ سمجھ سکے- انھوںنے قرآن کی آیت کی ایسی تشریح کردی جس کا تعلق خود قرآن سے نہ تھا، بلکہ خود اُن کے اپنے مائنڈ سیٹ سے تھا-
2- امام ابن تیمیہ کی ایک مشہور کتاب ہے- اس کا ٹائٹل یہ ہے: الصارم المسلول على شاتم الرسول- اِس کتاب میں انھوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اسلام میں شاتمِ رسول کی سزا قتل ہے- اُن کا دعوی ہے کہ یہ حکم قرآن کی متعدد آیتوں میں بیان کیا گیاہے- مثلاً اِس سلسلے میں انھوں نے قرآن کی یہ آیت پیش کی ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ لَعَنَہُمُ اللّٰہُ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَةِ (33:57) یعنی جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو اذیت دیتے ہیں، اللہ نے اُن پر دنیا اور آخرت میںلعنت کی-
ابن تیمیہ آیت کی شرح میں لکھتے ہیں: وہذہ الآیة تو جب قتلَ مَن آذى اللہ ورسولہ(صفحہ 26) یعنی یہ آیت واجب قرار دیتی ہے کہ اُس شخص کو قتل کردیا جائے جو اللہ کو اور اس کے رسول کو ایذا پہنچائے-مذکورہ آیت کی اِس شرح کا تعلق خود قرآن کی آیت سے نہیں ہے- اِس آیت میں شتمِ رسول پر قتل کا مسئلہ سرے سے بیان ہی نہیں ہوا ہے، مگر مصنف کے خود اپنے مائنڈ سیٹ کی بنا پر ایساہوا کہ انھوں نے ’’اذیت‘‘ کو شتم کے معنی میں لے لیا، اور ’’لعنت‘‘ کو قتل کے معنی میں- یہ دونوں باتیں خود مصنف کے دماغ میں تھیں، وہ ہرگز قرآن کی مذکورہ آیت میں موجود نہ تھیں-
ربانی مائنڈ سیٹ کا معاملہ کوئی سادہ معاملہ نہیں، وہ نہایت سنگین معاملہ ہے- اگر ربانی مائنڈ سیٹ نہ ہو تو آدمی قرآن کی رہنمائی سے محروم ہوجائے گا- وہ کسی مسئلے کو دیکھ کر اپنے مائنڈ سیٹ کی بنا پر اس کے بارے میں منفی رائے دے گا، حالاں کہ اُس مسئلے کے بارے میں قرآن میں مثبت نقطۂ نظر موجودہوگا - مگر وہ اپنی منفی سوچ کی بنا پر قرآن کی اِس رہنمائی کو اخذ کرنے سے محروم رہے گا-
مثلاً ایک عربی مجلہ میں مسلم اقلیتوں کے بارے میں ایک مضمون چھپا ہے- مضمون نگار نے اپنے اِس مضمون میں مسلم اقلیتوں (Muslim minorities) کے بارے میں یہ الفاظ لکھے ہیں: الأقلیات المسلمة تواجہ خطر الذوبان (مسلم اقلیتوں کے لیے غیر مسلم اکثریت میں جذب ہونے کے خطرے کا سامنا)-مسلم اقلیتوں کے بارے میں یہ تصور تمام تر خود ساختہ مائنڈسیٹ کی بنا پر پیدا ہوا- اگر اِس مسئلے کو ربانی شاکلہ کی نسبت سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ قرآن کسی اقلیت کے بارے میں برعکس طورپر پُرامید تصور دیتاہے- قرآن کی وہ آیت یہ ہے: کَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِیْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً کَثِیْرَةًۢ بِاِذْنِ اللّٰہِ (2:249) یعنی کتنے ہی اقلیتی گروہ ہیں جو اکثریتی گروہ پر غالب آجاتے ہیں، اللہ کے اِذن سے-
قرآن کی اِس آیت پر غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ جب دو گروہ کسی علاقے میں مشترک طورپر رہتے ہوں، ایک گروہ اقلیت میں ہو اور دوسرا گروہ اکثریت میں- ایسے ماحول میں یہ ہوتا ہے کہ اکثریتی گروہ، اقلیتی گروہ کے لیے ایک مسلسل چیلنج بن جاتا ہے- یہ چیلنج اقلیتی گروہ کے اندر فطری طورپر زیادہ سوچ اور زیادہ عمل کا مزاج بناتاہے- اِس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اقلیتی گروہ جو پہلے صرف ایک اقلیتی گروہ تھا، اب وہ ایک تخلیقی اقلیت (creative minority) بن جاتا ہے- اور یہ ایک فطری حقیقت ہے کہ جس فرد یا جس گروہ میں تخلیقی صلاحیت پیدا ہوجائے، وہ زیادہ بڑے کارنامے انجام دینے کے قابل ہوجاتاہے-
اجتہادی تفسیر
اجتہادی تفسیر اور تفسیر بالرائے دونوں ایک تفسیر نہیں ہیں- تفسیر بالرائے ایک غیر مطلوب تفسیر ہے- اس کے مقابلے میں، اجتہادی تفسیر عین مطلوب تفسیر ہے- تفسیر بالرائے قرآن سے انحراف ہے، جب کہ اجتہادی تفسیر کامل معنوں میں قرآن کا اتباع ہے-
اجتہادی تفسیر کیا ہے- اجتہادی تفسیر کا مطلب قرآن کی کسی آیت کی معنویت کو ازسرِ نو دریافت کرنا ہے- اجتہادی تفسیر دراصل یہ ہے کہ بدلے ہوئے حالات میں قرآن کا انطباقِ نو (re-application) معلوم کیا جائے- اجتہادی تفسیر، قرآن کے تسلسل کا اظہار ہے- صرف اجتہادی تفسیر کے ذریعے یہ ممکن ہے کہ قرآن ہر دور کے ذہن کو ایڈریس کرتا رہے-
قرآن میں بتایا گیاہے کہ انبیا اپنے وقت کے ملاء کو خطاب کرتے تھے-ملاء کا لفظ قرآن میں تقریباً 30 بار آیا ہے- ملاء کا مطلب ہے— سردارِ قوم (head of nation)- پیغمبر کا اسلوبِ دعوت یہ ہے کہ قبیلہ یا قوم کے سردار کو خصوصی طورپر خطاب کیا جائے- اِس حکمت کا سبب یہ ہے کہ ملاء کی حیثیت ذہن ساز (opinion-maker) کی ہوتی ہے-اِس لیے ملاء تک پیغام پہنچانا، بالواسطہ انداز میں، پورے گروہ تک پیغام پہنچانا ہوتا ہے-
ملاءِ قوم کے اِس تصور کو اجتہادی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تواِس سے ایک عظیم حقیقت کا انکشاف ہوتاہے- موجودہ زمانے میں مغربی تہذیب کے علم برداروں کو یہی درجہ مل گیا تھا، وہ توسیعی معنوں میں گویا ملاءِ عالم بن گئے تھے- پھر انھوں نے جدید ذرائع اور جدید کمیونکیشن کو استعمال کرکے قائد ِ عالم (world leader) کادرجہ حاصل کرلیا تھا-
دعوہ ورک کے لیے یہ واقعہ ایک عظیم امکان (great opportunity) کی حیثیت رکھتاتھا- تہذیب کے علم برداروں تک قرآنی پیغام پہنچانا، بالواسطہ طورپر سارے عالم تک قرآنی پیغام پہنچانے کے ہم معنی بن گیا- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے کے رومی بادشاہ ہرقل کو ایک دعوتی خط بھیجا تھا- اس میں یہ الفاظ درج تھے: فإن تولیتَ فإن علیک إثم الأریسیین (اگر تم میری بات کو نہ مانو تو تمھارے اوپر تمھاری پوری قوم کی ذمے داری عائد ہوجائے گی)- اس کا مطلب یہ ہے کہ رومی بادشاہ تک پیغام پہنچانا، اس کی پوری قوم تک پیغام _پہنچانے کے ہم معنی تھا-
اِسی طرح موجودہ زمانے میں مغربی تہذیب کے علم برداروں تک قرآن کا پیغام پہنچانا، بالواسطہ طور پر پورے عالم تک قرآن کا پیغام پہنچانے کے ہم معنی تھا- مگر عین اُس وقت یہ ہوا کہ بعض سیاسی وجوہ کی بنا پر مسلم رہنما، مغربی تہذیب سے نفرت میں مبتلا ہوگئے- عرب سے عجم تک، تقریباً تمام مسلمانوں کا یہ حال ہوا کہ وہ مغربی قوموں سے نفرت کرنے لگے- انھوںنے مغرب کو مدعو کے بجائے عدو (دشمن) کا درجہ دے دیا- اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دورِ جدید کا ایک عظیم دعوتی امکان استعمال ہونے سے رہ گیا-موجودہ زمانے میں یہ حادثہ اِس لیے پیش آیا کہ مسلم علما قرآن کی تفسیر مجتہدانہ انداز میں نہ کرسکے- وہ قرآن کے دعوتی اسلوب کا جدید انطباق کرنے سے عاجزرہے- مجتہدانہ بصیرت، قرآن کے ابدی مفہوم کو سمجھنے کے لیے ایک لازمی شرط کی حیثیت رکھتی ہے-
خدا کا تخلیقی منصوبہ
قرآن، خدا کی کتاب ہے- قرآن کو سمجھنے کے لیے ایک لازمی شرط یہ ہے کہ آدمی خداکے تخلیقی منصوبہ (creation plan of God) کو جانتا ہو- خدا کی کتاب اور خدا کا تخلیقی منصوبہ دونوں کے درمیان کوئی ٹکراؤ نہیں ہوسکتا- ضروری ہےکہ قرآن کا قاری قرآن کے اس پہلو کو شعوری طورپر جانے، ورنہ وہ قرآن کی ایسی تفسیر کرے گا جو خدا کے تخلیقی منصوبے سے مطابقت کرنے والی نہ ہوگی، اور اِس بنا پر وہ بداہةً ہی قابلِ رد ہوگی:
Prima facie it stands rejected
اِس کی ایک مثال وہ تفسیر ہے جس کے مطابق، رسول پر شتم کرنا ایک ایسا فعل ہے جس پر شاتم مستوجب ِقتل ہوجاتاہے- یہ نظریہ سرتاسر ایک غیر قرآنی نظریہ ہے- وہ خدا کے منصوبہ تخلیق سے مطابقت نہیں رکھتا- قرآن کے مطابق، اِس دنیا میں انسان کو کامل آزادی دی گئی ہے- اُس کو اختیار ہے، وہ چاہے تو اِس آزادی کا صحیح استعمال کرے اور چاہے تو وہ اِس آزادی کا غلط استعمال کرے(76:3)- آزادی کے غلط استعمال پر ضرور انسان کی پکڑ ہوگی، لیکن یہ پکڑ صرف آخرت میں ہوگی، دنیا میں ہرگز نہیں- ایسی حالت میں شاتم کے لیے قتل کی سزا مقرر کرنا، خدا کے منصوبۂ تخلیق میں ایک متناقض (inconsistent) حکم ہوگا، جب کہ قرآن خود اپنے بارےمیں یہ اعلان کرتاہے کہ اس میں کوئی تناقض نہیں (4:82)- قرآن کی صحیح تفسیر کے لیے یہ ایک لازمی شرط ہے- جو لوگ اِس معاملے میں باشعور نہ ہوں، وہ یقینی طورپر قرآن کی صحیح تفسیر کرنے میں ناکام رہیں گے-
قرآن اور حدیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں سماجی جرائم (social crimes) پر سزا ہے- مثلاًچوری اور قذف، وغیرہ- مگر جہاںتک فکری جرائم (intellectual crimes) کا تعلق ہے، اُن پر اسلام میں کوئی جسمانی سزا (physical punishment) نہیں- فکری جرائم پر صرف دعوت وتبلیغ ہے، نہ کہ سزا- اِس معاملے میں قرآن کے یہ الفاظ انتہائی حد تک واضح ہیں: فَذَکِّرْ ڜ اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَکِّرٌ ؀ لَسْتَ عَلَیْہِمْ بِمُصَیْطِرٍ ؀ اِلَّا مَنْ تَوَلّٰى وَکَفَرَ ؀ فَیُعَذِّبُہُ اللّٰہُ الْعَذَابَ الْاَکْبَرَ ؀ اِنَّ اِلَیْنَآ اِیَابَہُمْ ؀ ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا حِسَابَہُمْ (88:21-26)-
غیر قرآنی ذہن کی تطہیر
اصل یہ ہے کہ ہر آدمی کسی ماحول میں پیدا ہوتا ہے- اپنے تجربے اور مطالعے کے مطابق، اس کا اپنا ایک ذہنی سانچہ (mindset)بن جاتا ہے- وہ اپنے اِسی بنے ہوئے ذہن (conditioned mind) کے تحت چیزوں کودیکھتا ہے اور رائے قائم کرتا ہے- اِسی مائنڈ سیٹ کو قرآن میں شاکلہ (17:84) کہاگیا ہے- قرآن کو سمجھنے کی لازمی شرط یہ ہے کہ آدمی اپنے اِس ذاتی شاکلہ کو توڑے اور ربانی شاکلہ کی روشنی میں وہ قرآن کا مطالعہ کرے-
مثال کے طورپر ہر آدمی کو اپنی زندگی میں کچھ منفی تجربات پیش آتے ہیں- اس کو لوگوں کی طرف سے ناخوش گوار تجربہ ہوتا ہے- اِن تجربات کی بناپر تقریباً ہر آدمی کا یہ حال ہوتاہے کہ وہ خارجی دنیا کے بارے میں منفی سوچ کا شکار ہوجاتا ہے- یہی وجہ ہے کہ ایسی تحریکیں لوگوں کے درمیان بہت جلد مقبول ہوجاتی ہیں جو کسی خارجی ظالم کے خلاف اٹھائی گئی ہوں-اِس ذہن کو لے کر جو آدمی قرآن کو پڑھے گا، وہ پوری طرح قرآن کو سمجھ نہیں سکتا- مثلاً وہ قرآن میں صبر کی تعلیم پڑھے گا- وہ پڑھے گا کہ اللہ کے یہاں صبر کرنے والے کو سب سے زیادہ ثواب (reward) ملے گا- وہ اپنے مخصوص ذہن کی بنا پر یہ سمجھے گا کہ قرآن ظالم کے مقابلے میں جھکنے کی تعلیم دیتاہے- چناں چہ اس کو قرآن کی تعلیمات زیادہ اپیل نہیں کریںگی-
اِس مسئلے کا حل یہ ہے کہ آدمی پہلے یہ دریافت کرے کہ اِس دنیا کے بارے میں خدا کا تخلیقی منصوبہ (creation plan) کیا ہے- وہ منصوبہ یہ ہےکہ اِس دنیا کو خدا نے دار الامتحان (testing ground) کے طورپر بنایا ہے- اِس بنا پر یہاں ہر انسان کو عمل کی پوری آزادی دی گئی ہے- ہر آدمی آزاد ہے، خواہ وہ اپنی آزادی کا صحیح استعمال کرے یا غلط استعمال کرے- اِس کا مطلب یہ ہے کہ وہ چیز جس کو فلاسفہ پرابلم آف اِول (problem of evil) کہتے ہیں، وہ دراصل پرابلم آف فریڈم (problem of freedom) ہے- چوں کہ اِس دنیا میں انسان کی آزادی کو منسوخ کرنا ممکن نہیں، اِس لیے دنیا سے برائی کا کلی خاتمہ بھی ممکن نہیں-
ایسی حالت میں اگر ایک شخص چیزوں کا آئڈیل معیار (ideal yardstick)اپنے ذہن میں رکھ کر قرآن کا مطالعہ کرے تو وہ قرآن کی تعلیمات کو سمجھ نہ سکے گا- قرآن کے مطابق، اِس دنیا میں جو چیز ممکن ہے، وہ فرد کی کامل اصلاح ہے، سماج کی کامل اصلاح اِس دنیا میں ممکن نہیں- آدمی کوچاہئے کہ وہ اپنی ذات کے اعتبار سے، آئڈیل معنوں میں انصاف پسند بنے، لیکن سماج کے معاملے میں وہ ورکنگ انصاف (working justice) پر راضی ہوجائے-
فلسفیانہ ذہن کے تحت قرآن کا مطالعہ
اِس طرح اِس معاملے کی ایک اور مثال یہ ہے کہ فلسفیانہ ذہن کولے کر اگر کوئی شخص قرآن کا مطالعہ کرے تو وہ قرآن کو سمجھنے میں ناکام رہے گا- فلسفیانہ ذہن یہ ہے کہ چیزوں کا کلّی علم حاصل کیاجائے- فلسفیانہ ذہن محدود علم پر راضی نہیں ہوتا- اِس کے برعکس، قرآن کا یہ کہنا ہے کہ: وَمَآ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا (17:85)-اِس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے مضامین دو قسم کے ہیں — ایک وہ جو ہماری معلوم دنیا سے تعلق رکھتے ہیں- اور دوسرے مضامین وہ ہیں جو امورِ غیب سے متعلق ہیں- پہلے قسم کی باتوں کو محکم زبان میں بیان کیاگیا ہے، یعنی الفاظ میں جو بات ہے، وہی حقیقت میں بھی مطلوب ہے- محکم آیتوں پر غور کرکے اُن کی کلّی معنویت تک پہنچنا ممکن ہے-
دوسری قسم کی آیتیں وہ ہیں جن کو قرآن میں متشابہات (3:7) کہا گیا ہے- یہ آیتیں وہی ہیں جو امورِ غیب سے تعلق رکھتی ہیں- اِن آیتوں میں مشابہت کا اسلوب اختیار کیاگیا ہے، یعنی کسی بات کو تمثیلی زبان (allegorical language) میں بیان کرنا- اِن د وسری قسم کی آیتوں میں بیان کردہ باتوں کو صرف اِجمالی طورپر سمجھا جاسکتا ہے- آدمی کو چاہئے کہ اِس معاملے میں وہ اجمالی علم پر قناعت کرے، وہ اُس کی آخری کُنہ تک پہنچنے کی کوشش نہ کرے، ورنہ وہ کنفیو ژن کاشکار ہوجائے گا-
قرآن کی مذکورہ آیت میں یہ الفاظ آئے ہیں: وَالرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِہٖ ۙ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا(3:7)- اِ س آیت کا مطلب یہ ہے کہ سچا علم رکھنے والے لوگ متشابہ آیتوں کی کُنہ تک پہنچے کی سعی لاحاصل نہیں کرـتے، بلکہ وہ اس کے اجمالی مفہوم کو مانتے ہوئے اس کی صداقت پر یقین کرلیتے ہیں-قرآن کے مطالعے میں اِس اصول کو ملحوظ رکھنا بے حد ضروری ہے- اِس کے بغیر قرآن کو درست طورپر سمجھنا ہرگزممکن نہیں-
قرآن کی تفسیر اپنی رائےسے
ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من قال فی القرآن برأیہ، فأصاب، فقد أخطأ (الترمذی، رقم الحدیث: 3183) یعنی جس نے قرآن کے بارے میں اپنی رائے سے کہا، اور اس نے صحیح کہا، تب بھی اس نے غلطی کی-
اِس حدیث کی بنیاد پر کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ تفسیر بالرائے کا طریقہ مطلقاً غلط ہے، مگر اِس حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے - اِس حدیث میں تفسیر بالرائے کا مقابل، تفسیر بالروایت نہیں، بلکہ اس کا مقابل تفسیر بالتدبر ہے- اِس حدیث میں دراصل ذمے دارانہ تفسیر اور غیرے ذمے دارانہ تفسیر میں فرق کو بتایا گیا ہے- حدیث کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے معاملے میں کسی شخص کو ایسا نہیں کرنا چاہئے کہ کسی آیت کے بارے میں جو کچھ اُس کے ذہن میں آئے، بلا تحقیق وہ اُس کو بیان کرنے لگے- قرآن کی تفسیر کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ جس آیت کی وضاحت کرنا ہے، پہلے اس کی تحقیق کی جائے- تدبر کے تمام تقاضوں کو پورا کرنے کے بعد اُس پر لکھا یا بولا جائے گا-
تفسیر بالرائے یہ ہے کہ آدمی کے ذہن میں پہلے سے ایک تصور (idea)موجود ہے- اِس کے بعد وہ قرآن کو پڑھتا ہے- اُس کو قرآن میں اپنی بات کے مشابہ ایک لفظ مل جاتا ہے اور پھر وہ کہتا ہے کہ دیکھو، میری بات خود قرآن میں موجود ہے- مثال کے طورپر ایک شخص کے اندر سیاسی طرزِ فکر ہے- وہ سیاسی اقتدار کو سب سے بڑی چیز سمجھتاہے- اِس ذہن کو لے کر وہ قرآن پڑھتاہے، پھر وہ اِس آیت تک پہنچتاہے: إنِ الحکمُ إلا للہ ( 12:40)- وہ فوراً کہہ اٹھتاہے کہ سیاسی اقتدار کا تصور خود قرآن میں موجود ہے، قرآن کی اِس آیت میں بتایا گیاہے کہ حکم صرف اللہ کا ہے- اِس آیت کی سیاسی تفسیر کرکے وہ اس کو حکومتِ الہیہ کے معنی میں لے لیتاہے اور پھر یہ دعوی کرتاہے کہ ہمارا فرض ہے کہ ہم لوگوں سے لڑکر دنیا میں خدا کی سیاسی حکومت قائم کریں- یہ بلاشبہہ تفسیر بالرائے ہے، کیوں کہ قرآن کی اِس آیت میں حکم سے مراد فوق الطبیعی (supernatural) حکم ہے، نہ کہ سیاسی حکم-
قرآن کی مذکورہ آیت کی تفسیر کا ایک طریقہ یہ ہے کہ آپ کے ذہن میں پیشگی طورپر جو تصور ہو، اُس کو لے کر آپ قرآن کو پڑھیں، اور پھر ایک مشابہ لفظ (حکم) پاکر یہ کہنے لگیں کہ دیکھو، قرآن بھی اِسی تصورِ سیاست کی تعلیم دے رہا ہے- یہ طریقہ بلا شبہہ تفسیر بالرائے کا طریقہ ہے-
تفسیر کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ قرآن کی اِس آیت پر کھلے ذہن کے ساتھ تدبر کریں- آپ آیت کے سیاق(context) کی روشنی میں اس کا مطالعہ کریں- جب آپ ایسا کریں گےتو آپ پر یہ واضح ہوجائے گا کہ اِس آیت میں اصنام پرستی کے عقیدے کی تردید کی گئی ہے- دوسرے لفظوں میں یہ کہ اِس آیت میں حکم (اقتدار) سے مراد وہ اقتدار ہے جو زمین اور آسمان میں براہِ راست طورپر خدا نے قائم کررکھا ہے، یہاں اُس سیاسی اقتدار کا کوئی ذکر نہیں جس کو انسان دوسرے انسانوں کے مقابلے میں سماج کی سطح پر قائم کرتاہے، یعنی خدا کا قائم کردہ فوق الطبیعی اقتدار، نہ کہ انسان کا قائم کردہ سیاسی اقتدار-
قرآن کی تفسیر خواہ کسی بھی انداز میں کی جائے، ہمیشہ ایسا ہوگا کہ آدمی اپنی رائے کو استعمال کرے گا- رائے سے مراد عقلی غور وفکر ہے اور عقلی غور وفکر کے بغیر کوئی بھی تفسیر ممکن نہیں، حتی کہ تقلیدی تفسیر بھی نہیں- قرآن کی سورہ ص میں ارشادہوا ہے: کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْٓا اٰیٰتِہٖ وَلِیَتَذَکَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ (38:29) یعنی یہ ایک مبارک کتاب ہے جو ہم نے تمھاری طرف اتاری ہے، تاکہ لوگ اس کی آیتوں پر تدبر کریں اور تاکہ عقل والے اس سے نصیحت حاصل کریں-
تدبر کا مطلب غور وفکر (contemplation) ہے- قرآن میں تدبر یہ ہے کہ آپ کسی تعصب کے بغیر کھلے ذہن کے ساتھ قرآن کو پڑھیں، اس کے تمام پہلوؤں پر کسی تحفظِ ذہنی (reservation) کے بغیر غور کریں- آپ کا مقصد سچائی کی تلاش ہو، نہ کہ اپنی بات کو قرآن سے نکالنا- اِسی کے ساتھ آپ کو یہ اندیشہ لگاہوا ہو کہ اگر آپ نے قرآن کی کسی آیت کی غلط تفسیر کی تو وہ خداکے یہاں مقبول نہ ہوگی اور آپ اس کے لیے پکڑے جائیں گے- اِس طرح کی سنجیدہ فکر کے ساتھ جو تفسیر کی جائے، اسی کا نام تدبر ہے- اور تدبر کے ساتھ قرآن کی تفسیر کرنےکا طریقہ ہی تفسیر کا صحیح طریقہ ہے- دوسرے لفظوں میں، غیر ذمے دارانہ تفسیر کا نام تفسیر بالرائے ہے، اور ذمے دارانہ تفسیر کا نام تفسیر بالتدبر-
فہم قرآن
قرآن میں 114 سورتیں ہیں- اس کی سورہ نمبر 103 کا نام العصر ہے- سورہ العصر کے بارے میں امام شافعی (وفات: 820ء) کا مشہور قول ہےکہ: لو تدبر الناسُ ہذہ السورة، لوسعتہم (اگر لوگ سورہ العصر میں تدبر کریں تو یہی ایک سورہ ان کی ہدایت کے لیے کافی ہوجائے)- یہ بات بذاتِ خود بالکل درست ہے- تدبر قرآن، نہ صرف سورہ العصر کو سمجھنے کے لیے، بلکہ پورے قرآن کے فہم کی کلید ہے- لیکن قرآن میں تدبر کی دو سورتیں ہیں — ایک ہے، فنی تدبر، اور دوسرا ہے، عارفانہ تدبر- قرآن کے مطالعے کے لیے فنی تدبر صرف ابتدائی فہم قرآن کے لیے کار آمد ہے- جہاں تک گہرے فہم قرآن کا تعلق ہے، اس کاحصول صرف عارفانہ تدبر کے ذریعے ممکن ہوتاہے-
فنی تدبر کا مطلب یہ ہے کہ آدمی لغت اور نحو اور صرف اور شانِ نزول، وغیرہ جیسی باتوں سے واقفیت رکھتاہو- ایسا آدمی اِس پوزیشن میں ہوتا ہے کہ وہ قرآن کے سادہ مفہوم کو بظاہر صحت کے ساتھ سمجھ لے، مگر جیسا کہ حدیث میں آیا ہے: لکل آیة منہا ظَہْر وبَطْن)الطبرانی 10/105 (- اِس قسم کا فہم قرآن کسی آدمی کو صرف ظہرِ قرآن سے واقف کراتا ہے، لیکن جہاں تک بطنِ قرآن کا معاملہ ہے، اُس سے آگاہ ہونے کے لیے صرف فنی واقفیت کافی نہیں- بطنِ قرآن تک رسائی حاصل کرنے کے لیے دین کی گہری معرفت ضروری ہے- یہ معرفت صرف اُس شخص کو ملتی ہے جو انتہائی سنجیدگی کے ساتھ قرآن اور سنت کا مطالعہ کرے، جو لمبی مدت تک دعا اور ذکر الہی میں زندگی گزارے، وہ صبح وشام کے لمحات میں قرآن کا طالب بنا ہوا ہو، جس کا مسلسل غور وفکر اس کو معرفت (realization)کی اُس سطح تک پہنچا دے، جب کہ وہ فنی حد بندیوں سے اوپر اٹھ کر حقیقت کا ادراک کرنے کے قابل ہوجاتاہے- اُس وقت وہ اُس درجہ معرفت کو حاصل کرلیتاہے جس کو حدیث میں  "مُحَدَّث"(صحیح البخاری، رقم الحدیث: 3689) کہاگیا ہے-
قرآن کی عارفانہ تفسیر
جیسا کہ عرض کیاگیا ، علماءِ تفسیر نے قرآن کی تفسیر کے لیے 15 علوم کو ضروری قرار دیا ہے- اِن علوم میں سے ایک علم وہ ہے جس کو علمِ وہبی کا نام دیاگیا ہے-علمِ وہبی سےمراد معرفت ہے- بقیہ علوم کی حیثیت فنّی ہے اور معرفت وہ خصوصی صلاحیت ہے جس کو دوسرے الفاظ میں حکمت اور بصیرت (divine wisdom) کہاجاسکتا ہے- اِس حکمت اور بصیرت کی ایک مثال قرآن کی یہ آیت ہے: ہَلْ تَرَبَّصُوْنَ بِنَآ اِلَّآ اِحْدَى الْحُسْنَیَیْن(9:52) یعنی تم ہمارے لیےدو میں سے ایک بہتر چیز (one of the two good things) کا انتظار کررہے ہو-
قرآن کی اِس آیت میں ’’دو بہتر میں سے ایک بہتر‘‘ کا مطلب مفسرین نے عام طور پر فتح اور شہادت لیاہے، یعنی تمھارے مقابلے میں ہم کو یا تو فتح حاصل ہوگی جو بلاشبہہ ایک بہتر چیز ہے، اور اگر تم نے ہم کو قتل کردیا تو ہم شہادت کا درجہ پائیں گے، اور وہ بلا شبہہ ہمارے لیے ایک بہتر چیز ہے-
خالص علم وفن کے اعتبار سے دیکھئے تو یہ تفسیر بالکل درست تفسیر معلوم ہوتی ہے، لیکن معرفت کے اعتبار سے دیکھئے تو یہ تفسیر ایک ناقص تفسیر ہے- فنی تفسیر کے اعتبار سے، اِس آیت کا تعلق جنگی صورتِ حال سے ہے- لیکن معرفت شناس ذہن یہ کہے گا کہ قرآن کا تعلق صرف جنگ سے متعلق احکام سے نہیں ہے، بلکہ قرآن کا تعلق انسان کی پوری زندگی سے ہے، اِس لیے ضروری ہے کہ ’إحدى الحسنین‘ کی سعادت ایک مومن کے لیے زندگی کے دوسرے پہلوؤں کے اعتبار سے بھی قابلِ حصول ہو-اِس کی ایک مثال یہ ہے کہ ایک شخص سے وقتی طورپر آپ کی ملاقات ہوتی ہے- آپ کے لیے موقع تھا کہ آپ اس کے ساتھ حسنِ معاملت کریں اور ثواب کے مستحق قرار پائیں، لیکن کسی وجہ سے آپ اس کے ساتھ حسنِ معاملت نہ کرسکے- اِس صورت ِ حال میں آپ کے لیے  ’إحدى الحسنیین‘ کی سعادت حاصل کرنے کا موقع باقی ہے- وہ اس طرح کہ آپ یہ دعا کریں کہ — خدایا، میں فلاں انسان کے ساتھ حسنِ سلوک نہ کرسکا، تو میری اِس غلطی کو معاف فرمااور اُس انسان کے لیے  میری طرف سے دعاءِ خیر لکھ دےاور اس کے حق میں میرے کوتاہی کی تلافی فرما-
ایک شخص اگر فنی علوم کو حاصل کرلے تو وہ اِس قابل ہوجاتاہے کہ وہ قرآن کی کسی آیت کے ظاہری پہلوؤں کو بخوبی طورپر جان لے- اُس آیت کا لفظی ترجمہ کیاہے، اس کا شانِ نزول کیا ہے، سیاق وسباق کی رعایت سے اس کا کیا مفہوم بنتا ہے اور کیا مفہوم نہیں بنتا، وغیرہ-
ایک شخص جس کو فنی واقفیت حاصل ہو، وہ آیت کےظاہری مفہوم کو سمجھ سکتاہے، لیکن اُس آیت میں الفاظ کے ماورا جو حقیقتیں چھپی ہوئی ہیں، وہ اُن سے بے خبر رہے گا- مثلاً وہ اِس بات کو جان لے گا کہ الحمد للہ رب العالمین کا لفظی ترجمہ کیا ہے- لیکن قرآن کی اِس آیت میں ایک اور گہرا پہلو چھپا ہوا ہے، لیکن اِس گہرے پہلو تک پہنچنے کے لیے صرف فنی واقفیت کافی نہیں-
یہ گہرا پہلو وہ ہے جس کا علم صرف صاحبِ معرفت انسان کو ہوتاہے،صاحب معرفت انسان وہ ہے جس نے اللہ کی عظمتوں کو دریافت کررکھا ہو، جس کے غور وفکر نے اس کو اللہ کی کائناتی ربوبیت کی پہچان کرادی ہو، جو زمین وآسمان میں اس کی رحمتوں کا تجربہ کررہاہو- ایسا شخص جب الحمد للہ کہے گا تو اس کا شعورِمعرفت اِن الفاظ کے اندرمعانی کا سمندر بھردے گا- الحمد للہ رب العالمین کی تفسیر کرتے ہوئے اس کو محسوس ہوگا کہ انسائکلوپیڈیا کی وسیع جلدیں بھی اس کی تفسیر کے لیے ناکافی ہیں-
قرآن کی فنی تفسیر قرآن کی صرف ٹکنکل تفسیر ہے، اور قرآن کی عارفانہ تفسیر، قرآن کی تخلیقی تفسیر (creative commentary) ہے- فنی صلاحیت کے لیے کتابی مطالعہ کافی ہوسکتاہے، لیکن معرفت ایک خدائی عطیہ ہے- معرفت کسی انسان کو صرف خدا کی توفیق سے ملتی ہے، اور خدا کی توفیق اُس انسان کو حاصل ہوتی ہے جس نے خدا کو اپنا واحد کنسرن (sole concern) بنا لیا ہو-
قرآن فہمی کی شرط
قرآن کی سورہ الواقعہ میں، قرآن کے بارے میں یہ آیت آئی ہے: لا یمسّہ إلا المطہرون (56:79) یعنی قرآن کو صرف وہی لوگ چھوتے ہیں جو پاکیزہ ہیں:
None can touch the Quran except the purified.
اِس آیت کی تفسیر میں پاکیزہ سے کون لوگ مراد ہیں- کچھ لوگ اِس سے مراد فرشتوں کو لیتے ہیں- کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اِس سے مراد پاک اور با وضولوگ ہیں- مگر حقیقت یہ ہے کہ اِس قسم کے مسائل اِس آیت کی نسبت سے غیر متعلق (irrelevant) مسائل کی حیثیت رکھتے ہیں- اِس آیت میں جو بات کہی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ قرآن کے معانی تک پہنچ صرف اُن لوگوں کے لیے ممکن ہوتی ہے جو پاکیزہ ذہن کے حامل ہوں-
راغب الاصفہانی (وفات: 1108ء) نے اپنی کتاب المفردات میں اِس آیت کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے: إنہ لا یبلغ حقائق معرفتہ إلا من طہّر نفسہ (صرف وہ شخص معارف قرآن کے حقائق تک پہنچے گا جو اپنے نفس کی تطہیر کرے)- حقیقت یہ ہے کہ اِس آیت میں پاکیزگی سے مراد اصلاً اخلاقی یا جسمانی پاکیزگی نہیں ہے، بلکہ اُس سے مراد ذہنی یا نفسیاتی پاکیزگی ہے-
قرآن ایک ایسی ہستی کا کلام ہے جو کامل طورپر مثبت ذہن کا حامل ہے، وہ مکمل طورپر منفی سوچ سے پاک ہے- ایسی حالت میں، قرآن کو سمجھنے کے لیے یہ لازمی شرط ہے کہ قرآن کے قاری کا شاکلہ، قرآن کے مصنف کے شاکلہ کے ہم سطح ہوجائے- اِس کے بغیر کسی قاری کی پہنچ قرآن کے مضامین تک نہیں ہوسکتی- جو قاری اِس ذہنی ارتقا کا حامل ہو کہ اس کا ذہن مکمل طورپر مثبت ذہن (positive mind) بن چکا ہو، وہ منفی سوچ (negative thinking) سے پوری طرح خالی ہو- ایسے ہی انسان کی پہنچ قرآن کے گہرے معانی تک ہوگی-ایسے ہی انسان پر اللہ کی توفیق سے قرآن کے گہرے معانی کے دروازے کھلیں گے-(2012)
واپس اوپر جائیں

اندھا اور بہرا رد عمل

قرآن میں اللہ کے بندوں کی صفات بتاتےہوئے ان کی ایک صفت اِن الفاظ میں بیان کی گئی ہے: وَالَّذِیْنَ اِذَا ذُکِّرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّہِمْ لَمْ یَخِـرُّوْا عَلَیْہَا صُمًّا وَّعُمْیَانًا (25:73) یعنی وہ ایسے ہیں کہ جب اُن کے رب کی آیتوں کے ذریعے اُن کو نصیحت کی جاتی ہے تو وہ اُن پر اندھے اور بہرے ہو کر نہیں گرتے-
’’اللہ کی آیتوں کے ذریعے تذکیر‘‘ کا مطلب کیا ہے- اِس کا مطلب یہ ہےکہ ایک انسان، جو قرآن کے الفاظ میں، اپنی خواہش کو اپنا رہنما بنائے ہوئے ہو، اس کی غلطی کی نشان دہی کرنا اور یہ بتانا کہ تم کو خدا کی دنیا میں خدا کی پسند کے طریقے پر چلنا ہے، نہ کہ اپنی پسند کے طریقے پر- اِس قسم کی نصیحت آدمی کو اپنے خلاف تنقید نظر آتی ہے- وہ اِس قسم کی نصیحت کو سننے کے بعد فوراً رد عمل کی نفسیات میں مبتلا ہوجاتاہے- وہ ایسی نصیحت کے جواب میں غیر سنجیدہ انداز اختیار کرلیتا ہے- وہ اپنی غلطی کا اعتراف کرنے کے بجائے خود ناصح کو غلط ثابت کرنا شروع کردیتاہے-
وہ اُن پر اندھے اور بہرے ہو کر نہیں گرتے — اِس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا رد عمل اندھے بہرے انسان کے رد عمل کی مانند نہیں ہوتا- اندھے اور بہرے انسان کی مانند رد عمل یہ ہے کہ آدمی نصیحت کو سن کر اُس کے جواب میں ایسا رسپانس دے جیسے کہ اس نے اصل بات کو نہ سنا اور نہ ا س کو سمجھا، وہ ناصح کی اصل بات سے بے خبر رہ کر غیر متعلق باتیں بولنے لگا، وہ دلیل کے جواب میں الزام تراشی کرنے لگا، وہ ایک علمی بات کا جواب غیر علمی انداز میں دینے لگا، وہ نصیحت کے اصل نکتے پر دھیان دئے بغیر ایسی باتیں کہنے لگا جس کا ناصح کی نصیحت سے کوئی تعلق نہیں-
اللہ سے تعلق آدمی کے اندر سنجیدگی پیدا کرتا ہے- اِس کے برعکس، جو انسان اللہ سے دور ہو، وہ ایک غیر سنجیدہ انسان بن جاتا ہے- وہ ایک ایسا انسان بن جاتا ہے جیسے کہ وہ آنکھ رکھتے ہوئے بھی کچھ نہیں دیکھتا، وہ کان رکھتے ہوئے بھی کچھ نہیں سنتا-
واپس اوپر جائیں

مجھ کو قرآن نہیں ملا

سری نگر (کشمیر) میں ہمارے کئی ساتھی ہیں- وہ سیاحوں کو مطالعے کے لیے قرآن کا انگریزی ترجمہ دیتے ہیں- 7 اپریل 2013 کو وہ وہا ں کے تولپ گارڈن (Tulip Garden) گئے- وہاں انھوں نے دیکھا کہ سیاحوں کا ایک گروپ گیٹ سے اندر داخل ہورہا ہے- انھوںنے اِن لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا- یہ ترجمہ محدود تعداد میں تھا، اِس لیے وہ گروپ کے بعض افراد کو نہیں ملا- اِس کے بعد انھوںنے دیکھا کہ گارڈن کے گیٹ پر ایک نوجوان کھڑا ہوا رورہا ہے- وہ رورہا تھا اور یہ کہہ رہا تھا— مجھ کو قرآن نہیں ملا-
یہ واقعہ مجھ کو معلوم ہوا تو میں نے سوچا کہ یہ کوئی سادہ واقعہ نہیں- یہ واقعہ حاملینِ قرآن کے لیے ایک عظیم انتباہ (warning) کی حیثیت رکھتا ہے- یہ واقعہ حاملینِ قرآن کو ان کی ذمے داری یاد دلارہا ہے- وہ وقت آنے والا ہے جب کہ حشر کے میدان میں تمام پیدا ہونے والے انسان اکھٹا ہوں گے- اُس وقت اگر ایسا ہو کہ جن لوگوں تک قرآن نہیں پہنچا، وہ کھڑے ہو کر اللہ سے فریاد کریں کہ جن لوگوں پر یہ ذمے داری ڈالی گئی تھی کہ وہ خدا کی کتاب (قرآن) کو تمام انسانوں تک پہنچائیں، انھوں نے اپنی یہ ذمے داری پوری نہیں کی- انھوںنے لوگوں کی قابلِ فہم زبان میں خدا کی کتاب کو اُن تک نہیں پہنچایا- ایسی حالت میں سب سے پہلے اِن حاملین قرآن کی پکڑ ہونی چاہئے، نہ کہ ہماری-
اگر حشر کے میدان میں یہ واقعہ پیش آئے کہ جن لوگوں تک قرآن نہیں پہنچا، وہ وہاں کھڑے ہو کر اللہ سے فریاد کریں تو حاملینِ قرآن کے پاس اِس کا کیا جواب ہوگا- قرآن میں بتایا گیا ہے کہ قیامت میں دونوں گروہوں سے یہ سوال کیا جائے گا کہ پہنچانے والوں نے پہنچایا، یا نہیں، اور یہ کہ جن کو پہنچایا جانا تھا، اُن کو ملا، یا نہیں (7:6)- قرآن کا مذکورہ بیان داعی اور مدعو دونوں کے لیے بے حد اہم ہے- دونوں کو یہ سوچنا ہے کہ حشر کے میدان میں وہ اِس معاملے میں اللہ کے سامنے بری الذمہ قرار پائیں گے یا نہیں-
واپس اوپر جائیں

دعوت، اجتماعیت

داعی یا مصلح کا ایک کام یہ ہے کہ وہ لوگوں کو سچائی کی بات بتائے- وہ لوگوں کو امر ِحق سے باخبر کرے- اِس کام کا تقاضا یہ ہے کہ داعی اور مصلح سچائی کا گہرا علم رکھتا ہو- وہ ایسی زبان میں کلام کرے جو لوگوں کے دماغ کو اپیل کرنے والی ہو- اس کا دعوتی کلام اپنی زبان اور اپنے اسلوب، دونوں کے اعتبار سے، مخاطب کے لیے پوری طرح قابلِ فہم ہو- اس کے کلام میں وضوح (clairty) ہو- اس کا کلام کنفیوژن سے مکمل طورپر پاک ہو- دعوت اور اصلاح کی کوشش کے نتیجے میں جب کچھ لوگ اس سے متاثر ہوں اور وہ کم یا زیادہ تعداد میں اس کے گرد اکھٹا ہوجائیں تو اس کے بعد داعی کی ایک اور ذمے داری شروع ہوجاتی ہے، یہ کہ وہ اِن متاثر افراد کو قریب کرے اور ان کی اجتماعیت کو برقرار رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرے- دعوت اور اصلاح کی اِس دوسری ضرورت کو قرآن کی ایک آیت میں بتایا گیا ہے- اِس آیت کا ترجمہ یہ ہے: ’’(اے رسول) یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم اُن کے لیے نرم ہو- اگر تم تند خو اور سخت دل ہوتے تو یہ لوگ تمھارے پاس سے بھاگ جاتـے‘‘ -(3:195)
متاثر افراد کے درمیان اجتماعیت کو برقرار رکھنے کے لیے بنیادی صفت یہ ہے کہ داعی لوگوں کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرے، وہ اُن کے ساتھ سخت معاملہ نہ کرے- اِس کو ایک لفظ میں، لوگوں کے مزاج کی رعایت کہا جاسکتا ہے- جب بھی کچھ لوگ اکھٹا ہوں تو اُن کی طرف سے بار بار ایسی باتیں پیش آتی ہیں جو ناگواری کا پہلو لیے ہوتی ہیں- جہاں اجتماعیت ہو، وہاں لازمی طورپر مسائل بھی ہوتے ہیں، کیوں کہ ہر آدمی کا مزاج الگ الگ ہوتاہے- ایسی حالت میں، اجتماعیت کو برقرار رکھنے کی تدبیر صرف یہ ہے کہ لوگوں کے ساتھ نرمی کا سلوک کیا جائے- ان کی ناگوارباتوںکو نظر انداز کیا جائے- ایسے پروگرام رکھے جائیں جو لوگوں کے درمیان آپس کے تعلقات بڑھانے والے ہوں- مثلاً سادہ طورپر اجتماعی کھانا، وغیرہ-
دعوت اور اصلاح کے کام میں یہ دوسرا پہلو عملی اعتبار سے بہت زیادہ اہم ہے- نظریاتی صداقت کے ساتھ اجتماعی حکمت اگر موجود نہ ہو تو کوئی بڑا کام نہیں کیا جاسکتا-
واپس اوپر جائیں

فکری مستویٰ کے مطابق خطاب

ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بُعثنا معاشر الأنبیاء نخاطب الناس، على قدر عقولہم (المقاصد الحسنة للسخاوی، رقم الحدیث: 120) یعنی تمام پیغمبروں کو یہ حکم دیاگیا ہے کہ وہ لوگوں کو اُن کے عقلی معیار کے مطابق، خطاب کریں-
اِس حدیث میں ’قدرِ عقل‘ سے مراد فکری مستوی (intellectual level) ہے، یعنی لوگوں سے ایسی زبان میں خطاب کرنا جو اُن کے لیے قابلِ فہم ہو اور ان کے ذہن کو ایڈریس کرے- جس دعوتی خطاب میں مدعو کی یہ رعایت شامل نہ ہو، وہ مطلوب دعوتی خطاب نہیں- اِس حدیثِ رسول کا ایک تقاضا یہ ہےکہ داعی اور مدعو کے درمیان اگر ذہنی بُعد (intellectual gap) پیدا ہو جائے تو داعی کو چاہئے کہ وہ اپنے آپ کو اِس طرح تیار کرے کہ مدعو کے ذہن کے اعتبار سے، اس کا کلام ایک موثر کلام بن جائے-
موجودہ زمانے کی نسبت سے ایک بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ مسلم علما اپنی تعلیم کے اعتبار سے، صرف روایتی ذہن کو خطاب کرنا جانتے ہیں- اِس بنا پر جدید تعلیم یافتہ طبقہ، علما کی پہنچ سے باہر ہوگیا ہے- علما کا روایتی طرزِ خطاب جدید ذہن کو اپیل نہیں کرتا- ایسی حالت میں علماکا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے آپ کو اِس طرح تیار کریں کہ وہ جدید ذہن کو خطاب کرنے کے قابل ہوسکیں-
جدید فکری مستوی کوئی پراسرار چیز نہیں، وہ دراصل عقلی مستوی (rational level) کا دوسرا نام ہے- آج کا انسان صرف اُس کلام سے متاثر ہوسکتا ہے جو جدید عقلی معیار پر پورا اترتا ہو، جو دورِ جدید کے مسلّمات سے مطابقت رکھنے والا ہو، جو دینی حقائق کو عقل کے معروف اصولوں پر ثابت شدہ بناتا ہو- قدیم اسلوب کو اگر روایتی اسلوب کہاجائے تو جدید اسلوب کو سائنسی اسلوب کہا جائے گا-
جو بات مذکورہ حدیثِ رسول میں کہی گئی ہے، اس کی اصل خود قرآن میں موجود ہے- قرآن کی سورہ ابراہیم میں یہ آیت آئی ہے: وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہٖ لِیُبَیِّنَ لَہُم(14:4) یعنی ہم نے جو پیغمبر بھی بھیجا، اس کی قوم کی زبان میں بھیجا، تاکہ وہ اُن سے اچھی طرح بیان کردے:
And We have not sent any Messenger except with the language of his people in order that he might make the message clear to them.
قرآن کی یہ آیت پیغمبر کے حوالے سے ہر دور کے تمام داعیوں کے لیے ہے- بعد کے زمانے میں اپنے ہم عصر مخاطبین کی نسبت سے داعیوں کی بھی وہی ذمے داری ہے جو قدیم زمانے میں اپنے ہم عصر مخاطبین کی نسبت سے پیغمبروں کی ذمے داری تھی- قرآن کی اِس آیت کے مطابق، دعوت الی اللہ کے سلسلے میں داعی کی ذمے داری صرف یہ نہیں ہے کہ وہ مدعو کی زبان میں بول کر اس کو دعوت کا پیغام دے دے- اِسی کے ساتھ لازمی طورپر وہ چیز بھی ضروری ہے جس کو قرآن کی مذکورہ آیت میں ’’تبیین‘‘ کہاگیاہے- تبیین کا مطلب ہے واضح کرنا، بات کو پوری طرح قابلِ فہم بنادینا-
اِس سے معلوم ہوا کہ داعی کے لیے صرف مدعو کی زبان کا جاننا کافی نہیں، اِسی کے ساتھ ضروری ہےکہ وہ مدعوکے مزاج کو سمجھے، وہ مدعو کی ذہنی ساخت کے مطابق، اُس سے خطاب کرے، تاکہ اس کا ذہن ایڈریس ہوسکے- اِس اعتبار سے دیکھئے تو موجودہ زمانے میں داعی کی ذمے داری بہت بڑھ گئی ہے- قدیم زمانہ اگر روایتی اسلوب کا زمانہ تھا تو موجودہ زمانہ سائنٹفک اسلوب کا زمانہ ہے- آج کا مدعو کسی بات کو صرف اُس وقت سمجھ پاتا ہے جب کہ اُس بات کو عقلی اسلوب میں مدعو کے سامنے پیش کیا جائے-اِس شرط کا تقاضا ہےکہ داعی نہ صرف آج کی زبان سیکھے، بلکہ وہ آج کے ذہن کو پوری طرح سمجھے اور جدید ذہن کو سمجھنے کا یہ کام صرف اُس وقت ممکن ہے جب کہ انتہائی بے تعصبانہ انداز میں جدیدافکار کا مطالعہ کیا جائے- یہ کام صرف اُس وقت ممکن ہے جب کہ داعی کے دل میں مدعو کے لیے کامل خیر خواہی موجود ہو- اگر کامل خیرخواہی موجود نہ ہو تو نہ زبان کا جاننا کافی ہوسکتا ہے اور نہ جدید علوم کا مطالعہ-
اِس معاملے کی ایک مثال یہ ہے کہ موجودہ زمانے کے تمام علما مستشرقین (orientalists) کے بارے میں منفی رائے رکھتے ہیں- وہ مستشرقین کو اسلام کا دشمن اور اسلام کے خلاف سازش کرنے والا قرار دیتے ہیں، حتی کی ایک عرب عالم نے مستشرقین کو دورِ جدید کے تین اژدہوں میں سے ایک اژدہا قرار دیاہے- (ملاحظہ ہو: أجنحة المکر الثلاثة، تالیف: عبد الرحمن حبنکہ المیدانی)
مستشرقین کے بارے میں یہ رائے یقینی طورپر درست نہیں- اصل یہ ہے کہ مسلم علما، مغربی مستشرقین کو غیر متعصبانہ ذہن کے ساتھ نہ پڑھ سکے، اِس لیے وہ اُن کے کیس کو بھی سمجھنے سے قاصر رہے- مستشرقین کے کیس کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اُس فرق کو سمجھا جائے جو مسلم علما اور مستشرقین کے درمیان پایا جاتاہے- مسلم علما دین اسلام کو وحی (revelation)کے ظاہرہ کے تحت دیکھتے ہیں- اِس کے برعکس، مستشرقین اپنے طریقِ مطالعہ کے تحت دینِ اسلام کو صرف ایک سماجی ظاہرہ (social phenomenon)یا تاریخی ظاہرہ (historical phenomenon) کے طورپر دیکھتے ہیں- طریقِ مطالعہ کے اِس فرق کی بنا پر فطری طورپر ایسا ہوتاہے کہ دونوں کی رائے میں کچھ فرق واقع ہوجاتا ہے- یہ فرق یقینی طورپر کسی سازشی ذہن یا بدنیتی کی بنا پر نہیں ہوتا، بلکہ وہ صرف طریقِ مطالعہ (method of study)میں فرق کی بنا پر ہوتاہے-
استشراق کی حقیقت
استشراق (orientalism) کیا ہے، استشراق اپنی اصل حقیقت کے اعتبار سے، صرف ایک چیز کا نام ہے، وہ یہ ہے کہ نشاةِ ثانیہ (Renaissance) کے بعد مختلف اسباب سے یورپ میں ایک ذہن ابھرا جس کو روحِ تجسس (spirit of inquiry) کہاجاتاہے- اِس روحِ تجسس نے مزید ترقی پاکر موضوعی طریقِ مطالعہ (objective method of study) کا عنوان اختیار کیا- نشاةِ ثانیہ کے بعد یورپ میں پیدا ہونے والے تمام علوم، خواہ وہ مذہبی ہوں یا سیکولر، وہ اصلاً اِسی طریق ِ مطالعہ کی پیداوار ہیں-اِس طریقِ مطالعہ کا استعمال بنیادی طورپر دو بڑے میدانوں میں ہوا— ایک، علمِ فطرت(natural sciences) اور دوسرا، علمِ انسانیات (humanities) - اِس طریقِ مطالعہ سے بہت زیادہ فائدے حاصل ہوئے- ہر شعبے میں نئی نئی حقیقتیں سامنے آئیں، تحقیق کے نئے نئے دروازے کھلے، سوالات کے نئے نئے جوابات ملے، زندگی کے لیے نئی نئی رہنمائیاں حاصل ہوئیں- تاہم علم کے دونوں شعبوں میں ایک بنیادی فرق تھا- علمِ فطرت کا میدان فطرت کے اٹل قوانین تھے- اس میں یہ ممکن تھا کہ علمِ ریاضی (mathematics) کے قطعی فارمولے کو استعمال کرتےہوئے قطعی نتیجے تک پہنچا جائے اور اگر بالفرض کوئی انسان اپنے اندازے میں غلطی کرجائے تو دوسرا انسان مزید تجزیہ کے ذریعے اس کی تصحیح کرسکے- اِسی لیے اِن علوم کو قطعی علوم (exact sciences)کہاجاتاہے-
لیکن علم انسانیات، بہ شمول مذہب، میں اِس کے استعمال کا معاملہ بالکل مختلف تھا- اِس شعبے میں حتمی نوعیت کا کوئی ریاضیاتی طریقہ قابلِ حصول نہ تھا، اِس لیے یہاں لازمی طورپر یہ ہونا تھا کہ انسانیات کے شعبے میں مطالعہ کرنے والوں کی رائے میں اختلاف پیدا ہو، وہ کسی معاملے میں غلط استنباط (wrong inference) کا شکار ہوجائیں- اِس بنا پر یہ ممکن ہی نہ تھا کہ انسانیات کے دائرے میں مطالعہ کرنے والا انسان کوئی ایسا اصول وضع کرسکے جس میں سرے سے کوئی غلطی نہ پائی جاتی ہو- انسانیات کے مطالعے میں جو غلطیاں پائی جاتی ہیں، وہ اختلافِ رائے کی بنا پر ہیں، نہ کہ سازش یا بدنیتی کی بنا پر- یہی استشراق کا معاملہ ہے- استشراق کا کیس ایک طریقِ مطالعہ کا کیس ہے، نہ کہ سازش یا بدنیتی کاکیس-
اِس معاملے میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ مستشرقین کے اِس ذہن کو مدعو کے ذہن کے طورپر لیا جائے، نہ کہ کسی دشمن کے سازشی ذہن کے طورپر- ہر مدعو کی اپنی سوچ ہوتی ہے- اِس طرح مستشرقین کا کیس بھی مدعو کا کیس ہے اور ان کی بھی اپنی ایک سوچ ہے- اگر ہم مستشرقین کے کیس کو مدعو کے کیس کے طورپر لیں تو ہمارے دل میں اُن کے بارے میں وہی خیرخواہی پیدا ہوجائے گی جو ہر مدعو کے لیے ایک داعی کے دل میں ہوتی ہے- اِس طرح یہ ممکن ہوجائے گا کہ ہم مستشرقین کے ذہن کو غیرجانب دارانہ انداز میں سمجھیں اور اُن سے داعیانہ ذہن کے تحت ڈسکشن کریں اور اُن کو اسلام کا فطری پیغام پہنچائیں-مستشرقین بھی انسان ہیں- اُن کے اندر بھی وہی فطرت موجود ہے جو دوسرے انسانوں کے اندر پائی جاتی ہے- اگر اُن کی فطرت ایڈریس ہوجائے تو اُن کے ساتھ وہی واقعہ پیش آسکتا ہے جس کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَةٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ ( 41:34)
تاریخ بتاتی ہے کہ مستشرقین کے معاملےمیں اِس طرح کے واقعات بار بار پیش آئے ہیں- بہت سے ایسے مستشرق ہیں جنھوں نے اسلام کا مطالعہ کیا- وہ اسلام کی صداقت سے متاثر ہوئے اور انھوں نے اسلام کے بارے میں بہت سی اعلی کتابیں لکھیں- مثلاً ٹامس کارلائل (وفات: 1881)، ٹی ڈبلو آرنلڈ (وفات: 1930 )، فلپ کے ہٹی (وفات: 1978)، وغیرہ- کچھ اور لوگ ہیں جنھوں نے اسلام کے تفصیلی مطالعے کے بعد باقاعدہ اسلام قبول کرلیا- مثلاً ہنگری کے عبدالکریم جُرمانوس (وفات: 1979)، وغیرہ-
مستشرق عام طورپر اُس کو کہا جاتا ہے جو کسی مغربی ملک میں پیدا ہوا ہو اور پھر وہ مشرقی مذاہب کا مطالعہ کرے- لیکن توسیعی طورپر اِس فہرست میں ایسے افراد بھی شامل کیے جاسکتے ہیں جو کسی دوسرے مذہب میں پیداہوئے ہوں اور پھر وہ مختلف مذاہب کا مطالعہ کریں اور مطالعہ کے بعد اسلام قبول کرلیں- اِس دوسری قسم میں بھی بہت سے افراد پائے جاتے ہیں- مثلاً ڈاکٹر نشی کانت چٹوپادھیائے، وغیرہ-ڈاکٹر نشی کانت چٹوپادھیائے کا مختصر تعارف در ج ذیل ہے:
Chattopadhyay, Nishikanta (1852-1910) research scholar and the first Bengali to obtain a PhD degree (1882) from a European university, was born in July 1852 in the village of Pashchimpara in Vikrampur, Dhaka. Nishikanta passed the FA from Presidency College. He then went to Germany to study German, Sanskrit, linguistics, history and philosophy at Leipgiz University. But he was expelled from there for being an atheist. He proceeded to Switzerland and completed his doctoral studies at the University of Zurich. He returned to India in 1883 and subsequently taught at different colleges in Hyderabad, Mysore and Muzaffarpur. Towards the end of his life, he embraced Islam.
(http://www.banglapedia.org)
واپس اوپر جائیں

دریافت کی عظمت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکی دور کا واقعہ ہے- آپ کے چچا ابو طالب نے ایک بار آپ کو بلایا اور کہا کہ قوم کے ساتھ مصالحت کا انداز اختیار کرو(فاکفف عن قومک ما یکرہون من قولک)-اِس کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یا عمّ، لو وُضعت الشمس فی یمینی والقمر فی یساری، ما ترکت ہذا الأمر (حیاة الصحابة: 1/58 ) یعنی اے میرے چچا، اگر یہ لوگ ایسا کریں کہ وہ میرے دائیں ہاتھ میں سورج رکھ دیں اور میرے بائیں ہاتھ میں چاند رکھ دیں، تب بھی میں اِس کام کو نہیں چھوڑ وں گا-
اِس واقعے سے ایک نہایت اہم اصول معلوم ہوتاہے، وہ یہ کہ — جتنی بڑی دریافت، اتنی بڑی عزیمت- اگر آدمی ایک ایسی حقیقت پر کھڑا ہوا ہو جو اس کے لیے سورج اور چاند سے بھی زیادہ بڑی ہے تو ہر دوسری چیز اس کی نظر میں چھوٹی ہوجائے گی- ایسا آدمی کسی بھی عذر کو لے کر اپنے موقف کے معاملے میں مصالحت کا انداز اختیار نہیں کرسکتا-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن توحید کا مشن تھا- آپ کو توحید کا نظریہ وحیِ خداوندی کے تحت بطور اعلی معرفت حاصل ہوا- اسی اعلی معرفت کے تحت آپ اپنے مشن کو لے کر کھڑے ہوئے- آپ کی جو دریافت تھی، وہ آپ کے لیے ساری کائنات سے زیادہ بڑی تھی- ایسا انسان اس کا تحمل نہیں کرسکتا کہ وہ کسی مصلحت کی بنا پر اس کو چھوڑ دے یا وہ اس میں کوئی کمی کرے-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا مذکورہ قول بھی ایک سنتِ رسول ہے- وہ ایک واقعے کی صورت میں ایک عظیم حقیقت کو بتاتا ہے، وہ یہ کہ ایک بڑی دریافت تمام دوسری چیزوں کو چھوٹا کردیتی ہے- ایسا آدمی کسی قسم کے رکون (11:113) کا تحمل نہیں کرسکتا- اگر آپ کسی شخص کے اندر یہ بات پائیں کہ وہ قوم کے اندر برائی دیکھتا ہے، لیکن وہ اپنے مادی تحفظات کی بنا پر اس کی کھلی مذمت نہیں کرتا تو سمجھ لیجئے کہ اس کو جو چیز ملی ہے، وہ اتنی بڑی نہیں کہ ہر قومی یا دنیوی مصلحت اس کے لیے چھوٹی ہوجائے-
واپس اوپر جائیں

کامیاب زندگی کا راز

مشہور سائنس داں البرٹ آئن اسٹائن (وفات: 1955 ) نےکہا تھا کہ —انسانی زندگی بائیسکل چلانے کی مانند ہے- اپنا توازن برقرار رکھو اور تم محفوظ طورپر اپنی منزل پر پہنچ جاؤگے:
Life is like driving a bicycle. Maintain your balance and you will safely reach your destination.
یہ قول بہت با معنى ہے- اصل یہ ہے کہ موجودہ دنیا میں انسان کو دوطرفہ تقاضوں کے درمیان عمل کرنا ہوتاہے- ایک طرف، اس کا اپنا ارادہ اور دوسری طرف، خارجی حالات-
موجودہ دنیا میں کسی کا میابی کے حصول کے لیے دونوں تقاضوں کے درمیان ہم آہنگی ضروری ہے- اگر ارادہ ہو، لیکن خارجی حالات کی موافقت موجود نہ ہو تو کامیابی ممکن نہیں-
اِسی طرح اگر خارجی حالات کی موافقت ہو، لیکن ارادہ موجود نہ ہو، تب بھی کامیابی ناممکن ہوجائے گی-آدمی کو چاہئے کہ جب بھی وہ اپنے کسی منصوبے کی تکمیل کرنا چاہے تو ہمیشہ وہ حالات پر پوری نظر رکھے- وہ ایسا نہ کرے کہ وہ اپنی خواہش کے پیچھے چلنے لگے- وہ ایسا نہ کرے کہ وہ کسی ایک پہلو کو نظر انداز کرکے دوسرے پہلو کی طرف بہت زیادہ جھک جائے-وہ ایسا بھی نہ کرے کہ وہ اپنا زیادہ اندازہ (overestimation) کرے اور حالات کا کم تر اندازہ (underestimation) کرنے لگے- اِس قسم کی کوئی بھی غلطی اس کے منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے کافی ہے-آدمی اپنے مزاج کے اعتبار سے ایک انتہا پسند مخلوق ہے- آدمی اکثر ایسا کرتا ہے کہ وہ ایک پہلو کی طرف اِس طرح جھک جاتا ہے کہ وہ دوسرے پہلو کی رعایت کرنے سے قاصر ہوجاتاہے- اِس قسم کے عدم توازن کے ساتھ کسی شخص کا اِس دنیا میں کامیاب ہونا ممکن نہیں-
توازن بلاشبہہ ایک اہم اصول ہے، لیکن توازن سے مراد عملی معاملات میںتوازن کا طریقہ اختیار کرنا ہے، نہ کہ فکری اور نظریاتی معاملات میں توازن کا طریقہ اختیار کرنا- نظری معاملات میں آدمی کا نشانہ آئڈیل ہونا چاہئے، لیکن عملی معاملات میں اس کو پریکٹکل بن جانا چاہیے-
واپس اوپر جائیں

مواقع ختم نہیں ہوتے

فرنچ فلاسفر والٹیر (Voltaire) 1694 میں پیدا ہوا- آخر عمر میں اس کو سمومیتِ بول (urania) کی بیماری ہوگئی- وہ شدید تکلیف کی حالت میں 1778 میں مرگیا- اُس کا ایک قول یہ ہے — زندگی ایک تباہ شدہ جہاز کی مانند ہے، مگر ہمیں لائف بوٹ کے استعمال کو بھولنا نہیں چاہئے:
Life is a shipwreck, but we must not forget to sing in the lifeboats.
حقیقت یہ ہے کہ زندگی میں کبھی مواقع ختم نہیں ہوتے- ایک موقع (first chance)جب ختم ہوتاہے تو اس کے فوراً بعد دوسرا موقع آجاتا ہے- ناکامی یہ ہے کہ آدمی ایک موقع کھونے کے بعد دوسرے موقع (second chance) کو دریافت نہ کرسکے-
زندگی غیر متوقع حالات سے بھری ہوئی ہے- زندگی میں بار بار ایسے تجربات پیش آتے ہیں جن کی بابت آدمی نے پہلے کبھی سوچا بھی نہیں تھا- اس بنا پر آدمی کا ہر منصوبہ ناقص ثابت ہوتاہے- اِس لیے ضروری ہے کہ آدمی بار بار اپنے منصوبے پر نظر ثانی کرے-
اِس صورتِ حال کی تلافی کے لیے خالق نے دنیا کو امکانات اور مواقع سے بھر دیا ہے- آدمی کو چاہیے کہ جب وہ کسی ناکامی سے دوچار ہو تو وہ اپنی ناکامی کو تجربے کے خانے میں ڈال دے اور نیا راستہ تلاش کرکے اپنے سفر کو جاری رکھے- ناکامی صرف ناکامی نہیں، ناکامی آپ کی شخصیت کے ارتقاکا ذریعہ ہے- ناکامی آپ کوزیادہ دانش مند بناتی ہے- ناکامی آپ کی سنجیدگی میں اضافہ کرتی ہے- ناکامی آپ کو زیادہ پختہ انسان بنانے والی ہے- ناکامی زیادہ بڑی کامیابی کا دروازہ کھولنے والی ہے-
انسان کی سب سے بڑی طاقت اس کی عقل ہے - عقل کو استعمال کرکے آدمی ہر مسئلے کا حل دریافت کرسکتا ہے، یہاں تک کہ ایسے مسئلے کا حل بھی جو بظاہر خاتمہ کے ہم معنی ہو، جس کے بعد کوئی امکان نظر نہ آتا ہو- ہمت کو ہمیشہ باقی رکھیے اور پھر عقل ہر صورتِ حال میں آپ کی رہنما بن جائے گی-
واپس اوپر جائیں

غلطی کا اعتراف

موجودہ زمانے کا ایک معروف کلچر وہ ہے جس کو سروے کلچر (survey culture) کہاجاتاہے- موجودہ زمانے میں لوگوں کی رائے جاننے کے لیے ہر چیز کا سروےکیا جاتاہے- نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (24 اپریل 2013) میں ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے- اس میں بتایا گیاہے کہ انگلینڈ میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق، ساری (sorry) کا لفظ بولنا لوگوں کے لیے ایک بے حد مشکل کام ہوتا ہے:
‘Sorry’ is the hardest word to say.
اسلام میں کچھ چیزیں واضح طورپر حرام قرار دی گئی ہیں- یہ گویا وہ چیزیں ہیں جو کہ محرَّم حرام (declared haram) کی حیثیت رکھتی ہیں- مگر ان کے سوا کچھ چیزیں اور ہیں جو اگرچہ شرعی زبان میں حرام نہیں قرار دی گئی ہیں، لیکن وہ سخت طور پر غیر مطلوب ہیں- اِنھیں غیر محرّم چیزوں میں سے ایک یہ ہے کہ آدمی کھلے طورپر اپنی غلطی کا اعتراف نہ کرے- اسلامی تعلیمات کے مطابق، غلطی کا اعتراف نہ کرنا آدمی کے اندر کمزور شخصیت پیدا کرتا ہے، اور کمزور شخصیت اور حرام شخصیت کے درمیان صرف قانون کے  اعتبار سے فرق ہے، حقیقت کے اعتبار سے، دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں-
اِسی طرح سطحیت، بے اصولی، بدذوقی اور غیر سنجیدگی جیسی چیزیں بھی سب کی سب غیر محرّم حرام کی حیثیت رکھتی ہیں- اِس طرح کی عادتوں کے ذریعے آدمی کے اندر غیر جنتی شخصیت بنتی ہے- موجودہ دنیا میں کسی عورت اور مرد کا اصل کام یہ ہے کہ وہ اپنے اندر مزکّیٰ شخصیت بنائے- اِسی مزکّیٰ شخصیت کو آخرت کی زندگی میں جنت میں جگہ ملے گی- یہ مزکی شخصیت صرف حرام چیزوں کے پرہیز سے نہیں بنتی، بلکہ وہ اُس وقت بنتی ہے جب کہ اِس معاملے میں انسان اتنا زیادہ حساس ہوجائے کہ وہ غیر محرم حرام سے بھی شدت کے ساتھ پرہیز کرنے لگے(لایبلغ العبد أن یکون من المتقین، حتى یدع مالا بأس بہ حَذَراً مما بہ بأس)-
واپس اوپر جائیں

سوال وجواب

سوال
میں ایک جدید تعلیم یافتہ مسلمان ہوں۔ میں پانچ وقت نماز پڑھتا ہوںاورروزہ بھی رکھتا ہوں، لیکن یہ تراویح جو ہر سال پڑھی جاتی ہے، اس کا کوئی فائدہ میری سمجھ میں نہیں آتا۔براہِ کرم، اِس کی وضاحت فرمائیں- (ایک قاری، الرسالہ، نئی دہلی)
جواب
تراویح کوئی رسم نہیں ہے۔تراویح دراصل، قرآن کا اجتماعی مطالعہ (collective study) ہے۔ تراویح کا مطلب یہ ہے کہ نماز کی حالت میں کھڑے ہو کر قرآن کو سنا جائے اور اس کا اجتماعی مطالعہ کیا جائے۔تراویح کی بہترین صورت یہ ہے کہ کسی دن قرآن کا جو حصہ پڑھا جانے والا ہو، تمام نمازی پیشگی طورپر قرآن کے اُس حصے کا ترجمہ پڑھیں اور اس کے مضمون کو اپنے ذہن میں بٹھائیں۔ اِس کے بعد وہ مسجد میں جاکر تراویح پڑھیں۔ اِس طرح جب وہ تراویح پڑھیں گے تو وہ قرآن کو متوجہ ہو کر سنیں گے بھی اور اُس پر غور بھی کریں گے۔ یہ اُن کے لیے قرآن کا ایک اجتماعی مطالعہ ہوگا جس سے انھیں غیرمعمولی فائدے حاصل ہوں گے۔حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جب زیادہ لوگ جمع ہو کر اللہ کا ذکر کریں اور اللہ کا چرچا کریں تو اُس وقت وہاں فرشتے بہت زیادہ تعداد میں آجاتے ہیں۔ فرشتوں کی آمد سے اُس مقام پر ایک روحانی ماحول پیدا ہوجاتا ہے۔ تراویح، اِسی قسم کا ایک اجتماعی ذکر اور اجتماعی مطالعہ قرآن ہے۔ اُس کو اگر صحیح طورپر انجام دیا جائے تو اُس سے غیر معمولی فوائد حاصل ہوںگے۔
سوال
قرآن میںاللہ کا ارشاد ہوا ہے: وَیَسْــــَٔـلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ ۭ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَمَآ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا (17:85) - آپ ’’تذکیر القرآن‘‘میں مذکورہ آیت کی تشریح کرتےہوئے لکھتےہیں کہ: ’’یہاںروح سے مراد وحی الہی ہے- عرب کے جن لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کیا، وہ وحی والہام کے منکر نہ تھے- اس سوال کا رخ ان کے نزدیک، رسول اللہ کی بے خبری کی طرف تھا، نہ کہ حقیقةً اپنی بے خبری کی طرف‘‘ (صفحہ: 792) -آپ نے روح سے مراد ’’وحی الہی‘‘ لیا ہے، لیکن صحیح ترین روایات اور مفسرین کی تشریحات کی رو سے یہ تشریح درست نہیں- مثال کے طورپر ابن کثیر اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ’’حضرت ابن عباس سے منقول ہے کہ یہودیوں نے پیغمبرسے روح کی بابت سوال کیا کہ اسے جسم کے ساتھ عذاب کیوں ہوتا ہے، وہ تو اللہ کی طرف سے ہے- چوں کہ اس بارے میں کوئی وحی آپ پر نہیں اتری تھی، اِس لیے آپ نے ان سے کچھ نہ فرمایا- اسی وقت آپ کے پاس جبریل علیہ السلام آئے اور مذکورہ آیت اتری (جلد سوم، صفحہ 220) مولانا عبد الماجد دریابادی نے اپنی تفسیر(تفسیر ماجدی) میں سورہ بنی اسرائیل کی اس آیت کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: ’’روح سے مراد روح انسانی ہے جو انسان کا سبب حیات ہے:فی ہذہ الآیةأقوال- أظہرہا أن المراد من الروح الذی ہو سبب الحیاة (کبیر، جلد سوم، صفحہ: 72)- امید ہے کہ اس اشکال پر غور فرمائیں گے اور اپنے جواب سے مطلع کریں گے- (شاہد جمیل، کلکتہ)
جواب
اِس آیت میں ’’روح‘‘ سے مراد کیا ہے، اِس میں اختلاف ہے (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، تفسیر القرطبی ) قرآن میں ایک سے زیادہ مقامات پر روح کا لفظ وحی کے معنی میں آیا ہے- اِسی کو ہم نے اختیار کیا ہے- مثال کے طور پر ملاحظہ ہو سورہ المومن (40) کی آیت نمبر 15-
سوال
عرض ہے کہ آپ کی فکر انگیز تحریروں کا مطالعہ 1986 سے مسلسل کررہا ہوں اور دعوتی کام میں بھی مصروفِ عمل ہوں- آپ سے اس خط کے ذریعے کچھ ذہنی اشکالات کا فوری ازالہ چاہتا ہوں- اُمید ہے کہ آپ جواب مرحمت فرماکر میرے ان اشکالات کو دور کریں گے-
1- آپ دعوتی نقطہ نظر سے اکثر reasoning پر بہت زور دیتے ہیں، لیکن قرآن میں بہت سارے واقعات beyond reasoning ہیں- مثلاً اصحابِ کہف کا واقعہ، حضرت سلیمان کے واقعات، حضرت عیسی کے واقعات، وغیرہ- میرا سوال یہ ہے کہ اگر ہم اسلام کے تمام حقائق کو reason-based تصور کریں یا بنانے کی کوشش کریں تو کیا پورے اسلامی ڈھانچے پر شک پیدا نہیں ہوگا- اِسی طرح آپ نے لکھا ہے کہ حُب شدیدکا تعلق صرف اللہ سے ہوتا ہے کسی اور سے نہیں- (الرسالہ، مئی 2013) اِس سے یہ نتیجہ اخذ ہورہا ہے کہ پیغمبر کے ساتھ بھی اگر حب شدید ہو تو یہ مشرکین کا طریقہ ہے اور بالفاظِ دیگر یہ خدا کا حصہ پیغمبر کو دینے جیسا ہے- عرض ہے کہ جب اللہ تعالی نے رسول کی اطاعت کو اپنی اطاعت ٹھہرایا (4:80) اور سورہ الفتح میں فرمایا کہ ’’جو لوگ تم سے بیعت کرتے ہیں، وہ درحقیقت اللہ سے بیعت کرتے ہیں‘‘ (48:10) -تو رسول کے ساتھ محبت درحقیقت اللہ ہی سے محبت کیوں نہیں ہے— مزید اللہ کے رسول کے ساتھ حُبّ شدید کی ممانعت ہوتی یا یہ مشرکوں کا طریقہ ہوتا تو حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود اِس کی بات کیوں کرتے- ’’میری امت میں مجھ سے شدید محبت رکھنے والے وہ لوگ ہیں جو میرے بعد پیدا ہوں گے-اُن میں سے ہر ایک کی خواہش ہوگی کہ کاش، وہ مجھے دیکھتا اور اپنے اہل وعیال اور اپنے مال کو فدا کرتا‘‘-
بخاری اور مسلم میں یہ حدیث درج ہے جس میں اللہ اور رسول کی محبت کو ایک ساتھ بریکیٹ کیا ہوا ہے:’’تین چیزیں ایسی ہیں کہ جس شخص میں وہ ہوں، اُسے ایمان کی حلاوت نصیب ہوگی— یہ کہ اللہ اور اس کے رسول اُسے تمام ما سوا سے زیادہ محبوب ہوں‘‘ (أن یکون اللہ ورسولہ أحب إلیہ مماسواہما) آپ نے الرسالہ، مئی 2011 میں وطن کے ساتھ محبت کو ایک قول سے استدلال کرکے اس کو ایمان واسلام کا تقاضا ثابت کیا ہے- اِس لحاظ سے رسول کی محبت یا دوسرے لفظوں میں رسول سے شدید قلبی تعلق کیسے مشرکانہ طریقہ بن جاتا ہے جب کہ صحابہ کے واقعات شاہد ہیں کہ ان کو پیغمبر کے ساتھ جو شدید قلبی تعلق تھا، وہ کبھی اللہ کی محبت اور اللہ کی عظمت میں آڑے نہیں آیا-
3- آپ نے الرسالہ میں ایک بار لکھا تھا کہ آپ کے عقائد وہی ہیں جو اہلِ سنت والجماعت کے ہیں، لیکن ’’نزول عیسی‘‘ اور ’’شفاعت‘‘ کے عقیدے کے متعلق آپ کی رائے مختلف ہے-کیا آپ کے ان دونوں عقیدوں پر یہ رائے حتمی ہے یا جس طرح دابة الأرض کے بارے میں آپ کی رائے تبدیل ہوگئی ہے، اِن دو عقیدوں کے بارے میں بھی آپ کی رائے تبدیل ہوسکتی ہے- آپ سے گزارش ہے کہ براہِ کرم، ان اشکالات کا جواب دے کرمیری رہنمائی فرمائیں- (الطاف حسین، کشمیر)
جواب
1- موجودہ زمانے کو ایج آف ریزن (age of reason) کہاجاتا ہے- موجودہ زمانے کے مائنڈ کو ایڈریس کرنے کے لیے ضروری ہے کہ جو بات کہی جائے، وہ عقل پر مبنی (reason-based) ہو- تاہم عقلی استدلال کی دوسطحیں ہیں— ایک ہے مشاہداتی استدلال اور دوسرا ہے- استنباطی استدلال- اگر استنباطی استدلال کو شامل کرلیا جائے تو کوئی بھی چیز عقلی استدلال سے باہر نہیں رہتی- آپ نے جن تین چیزوں کا حوالہ دیاہے، وہ بھی استنباطی استدلال کے دائرے میں پوری طرح شامل ہیں-استنباطی استدلال کا مطلب یہ ہےکہ ایسی چیز کے ذریعے استدلال کرنا جو اگر چہ براہِ راست دلیل نہ ہو، لیکن استنباط (inference) یا احتمال (probability)کے ذریعے وہ زیر بحث امر کو مدلل کررہی ہو- تفصیل کے لیے حسب ذیل کتابیں ملاحظہ فرمائیں:
The Mysterious Universe by Sir James Jeans- 1930
The Encyclopaedia of Ignorance by Ronald Duncan & Miranda Weston-Smith- 1977
2- حبّ شدید مطلق طورپر صرف ایک ذات سے مطلوب ہے اور وہ اللہ رب العالمین کی ذات ہے- دوسروں سے محبت ہونا بھی فطری ہے، لیکن وہ محبت بالذات نہیں ہوتی، بلکہ وہ صرف بالواسطہ محبت ہوتی ہے- (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: ماہ نامہ الرسالہ، جون 2008، صفحہ: 2-3)
3- اہلِ سنت والجماعت سے وابستگی کا مطلب یہ نہیںہے کہ کسی مسئلے پر اختلاف نہ ہو- اہلِ سنت والجماعت سے وابستہ ہونے کے باوجود رائے کا اختلاف فطری ہے- مثلاً چاروں فقہا یقینی طورپر اہلِ سنت والجماعت میں شامل ہیں، لیکن اُن کے درمیان بہت سے مسائل میں اختلافِ رائے پایاجاتا ہے-
واپس اوپر جائیں