Pages

Tuesday, 1 April 2014

Al Risala | April 2014 (الرسالہ،اپریل)

2

- مقبولیت کا معیار

3

- یہود کی ایک روش

4

- کلامِ جاہلیت اور فہمِ قرآن

6

- مسلسل تلاش

7

- میں نہیں جانتا

8

- ماضی اور حال

9

- مسلم سیرت نگار

13

- ہارون رشید کا ایک واقعہ

14

- اظہارِ دین

26

- انتظار نہیں

28

- جنتی تہذیب

35

- سوال و جواب

42

- خبرنامہ اسلامی مرکز


مقبولیت کا معیار

قرآن کی سورہ المائدہ میں یہود کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے: وَقَالَتِ الْیَھُوْدُ وَالنَّصٰرٰى نَحْنُ اَبْنٰۗؤُا اللّٰہِ وَاَحِبَّاۗؤُہٗ ۭقُلْ فَلِمَ یُعَذِّبُکُمْ بِذُنُوْبِکُمْ ۭ بَلْ اَنْتُمْ بَشَرٌ مِّمَّنْ خَلَقَ (5:18) یعنی یہود ونصاری کہتے ہیں کہ ہم خدا کے بیٹے اور اس کے محبوب ہیں- تم کہو کہ پھر خدا تمھارے گناہوں پر تم کو سزا کیوں دیتاہے- نہیں، بلکہ تم بھی اس کی پیدا کی ہوئی مخلوق میں سے ایک بشر ہو-
قرآن کی اِس آیت میں عذاب کا لفظ آسمانی عذاب کے معنی میں نہیں ہے، بلکہ وہ یہود کے ساتھ غیر یہودی قوموں کی طرف سے پیش آنے والے ’’مظالم‘‘ کے بارے میں ہے- اِس نوعیت کی دو مثالیں سورہ بنی اسرائیل میں مذکور ہیں- (ملاحظہ ہو: 17:4-7)-
سورہ المائدہ کی مذکورہ آیت میں یہود کے حوالے سے ایک خدائی قانون کو بتایا گیا ہے- اِس قانون کا تعلق جس طرح امتِ یہود سے تھا، اُسی طرح اس کا تعلق بعد کی امت سے بھی ہوگا- اِس قانون کے معاملے میں کسی امت کا کوئی استثنا نہیں-
اِس قانونِ الہی کو موجودہ زمانے کے مسلمانوں پر منطبق کیجئے- موجودہ زمانے کے مسلمان تقریباً دو سو سال سے اُس سیاست کو اختیار کیے ہوئے ہیں جس کو احتجاجی سیاست کہا جاسکتا ہے- اُن کو شکایت ہے کہ دوسری قومیں ان کے خلاف ظلم کررہی ہیں-
اِن’’ظالموں‘‘ کے خلاف مسلمان مسلسل جہاد کررہے ہیں- مگر نتیجہ (result) کے اعتبار سے دیکھئے تو موجودہ مسلمانوں کا یہ منفی جہاد مکمل طورپر ناکام ہے- اُن کی بد دعائیں قبول نہیں ہوئیں، ان کے ہتھیار موثر ثابت نہیں ہوئے، اُن کی جانی اور مالی قربانیاں حبطِ اعمال کا شکار ہوگئیں- قرآن کی مذکورہ آیت میں جو معیار بتایا گیاہے، اس کی روشنی میں دیکھئے تو یہ کوئی سادہ بات نہیں- وہ اِس بات کی علامت ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کو اللہ کی نصرت حاصل نہیں ہوئی، اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اللہ کی نصرت کے بغیر اِس دنیا میں کسی شخص یا گروہ کوکامیابی ملنے والی نہیں-
واپس اوپر جائیں

یہود کی ایک روش

یہود کی ایک روش کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیاگیاہے: تَجْعَلُوْنَہٗ قَرَاطِیْسَ تُبْدُوْنَہَا وَتُخْفُوْنَ کَثِیْرًا(6:91) یعنی یہود کو جو آسمانی کتاب دی گئی تھی، اس کو انھوں نے ورق ورق کردیا- کچھ کو ظاہر کیا اور زیادہ کو ظاہر نہیں کیا-
اِس آیت میں ’قرطاس‘ سے مراد کاغذ یعنی ایک مادی چیز ہے اور جس چیز کو انھوں نے ظاہر کیا اور چھپایا، وہ ایک معنوی چیز تھی- اِس آیت میں بظاہر ایک مادی تقطیع کا ذکر ہے، لیکن اس سے مراد مادی تقطیع نہیں، بلکہ معنوی تقطیع ہے-
یہ وہ واقعہ ہے جو یہود کے دورِ زوال میں پیش آیا، وہ تقطیع (separation)یہ تھی کہ انھوں نے دینِ خداوندی کی اسپرٹ کو اس کے فارم سے جدا کردیا- ان کے علما اور مشائخ (احبار ورہبان) دینِ خداوندی کے فارم کا خوب چرچا کرتے تھے، لیکن دین ِ خداوندی کی اسپرٹ کا کوئی چرچا ان کے یہاں نہیں تھا- اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دین ِ خداوندی جو اصلاً مبنی بر اسپرٹ دین تھا، وہ عملاً مبنی بر فارم (form-based) دین بن گیا-
یہ جو کچھ ہوا، وہ اصلاً ’’یہودیت‘‘ کا ظاہرہ نہیں تھا، بلکہ وہ دورِ زوال کا ظاہرہ تھا- ہر امت کے ساتھ اس کے دورِ زوال میں یہی واقعہ پیش آتا ہے، حتی کہ خود امتِ مسلمہ کے ساتھ بھی-
قرآن کی اِس آیت کا شانِ نزول جاننا ہو تو آپ بائبل کا مطالعہ کیجئے- بائبل کے مطالعے سے یہ بات تفصیل کے ساتھ معلوم ہوتی ہے کہ یہود نے تعلیماتِ الہیہ میں اِس قسم کی تقطیع کردی تھی- وہ دین ِخداوندی کے معنوی پہلو کو چھوڑے ہوئے تھے اور دین کے ظاہری پہلو کو اِس طرح بیان کرتے تھے جیسے کہ وہی اصل دین ہے-
یہی وہ حقیقت ہے جس کو حضرت مسیح نے تمثیل کی زبان میں اِن الفاظ میں بیان کیا تھا: اے اندھے راہ بتانے والو، تم مچھر کو چھانتے ہو اور اونٹ کو نگل جاتے ہو(Matthew 22: 1 ) -
واپس اوپر جائیں

کلامِ جاہلیت اور فہمِ قرآن

عرب میں اسلام سے پہلے جو دور تھا، اُس کو جاہلیت کا دور کہا جاتا ہے- اِس دور میں عرب قبائل میں شعر وشاعری کا رواج تھا- عام طورپر لوگ شعر کی زبان میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے- یہ اشعار ابتداء ً مخطوطات کی شکل میں تھے- چھپائی کازمانہ آیا، تو اِن اشعار کے مجموعے کتابی شکل میں چھپ کر عام ہوگئے- مثال کے طورپر دیوان الحماسہ، جمہرةُ اشعار العرب، سبعہ معلّقہ کے شعرا کے دواوین، وغیرہ- اسلام کے ظہور کے بعد عرب میں شعر وشاعری کا زور ختم ہوگیا-
کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ قرآن فہمی کا اصل ذریعہ یہی کلام ِ عرب ہے- قرآن اِسی عربی زبان میں اترا تھا، اِس لیے قرآن کو سمجھنے کے لیے سب سے بڑا ذریعہ یہ ہے کہ دورِ جاہلیت کے شعرا کے کلام کو گہرائی کے ساتھ پڑھا جائے اور اِس سے عربی اسالیب کو سمجھا جائے، اِس کے بغیر قرآن کو سمجھنا ممکن نہیں- یہ لوگ اِس حد تک جاتے ہیں کہ پوری تاریخ میں کسی نے قرآن کو نہیں سمجھا، کیوں کہ انھوں نے عرب جاہلیت کے کلام کو بنیاد بنا کر قرآن کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی- یہ بلاشبہ ایک بے اصل بات ہے-
اِس نظریے کو درست ماننے کے لیے یہ فرض کرنا پڑے گا کہ نزولِ قرآن کے وقت وہ عربی زبان ختم ہوگئی تھی جس میں قرآن اتارا گیا تھا- اِس بنا پر دورِ اوّل کے جن لوگوں نے قرآن کی تفسیر کی، وہ اصل عربی زبان سے ناواقف ہوچکے تھے- یہ بات بداہةً غلط ہے- جیسا کہ معلوم ہے، دورِ اول میں جوتفسیریں لکھی گئیں، وہ احادیثِ رسول اور صحابہ وتابعین کے اقوال پر مبنی ہوتی تھیں- یہ سب لوگ وہ تھے جن کی مادری زبان وہی عربی تھی جس میں قرآن اتارا گیا- جس زبان کو آج کا کوئی عالم ، قدیم اشعارِ عرب کو پڑھ کر جانتا ہے، اس کو براہِ راست طورپر دورِ اول کے لوگ خود اُس ماحول سے جان لیتے تھے جس میں وہ پیدا ہوئے تھے- یہی عربی زبان ان کی مادری زبان تھی-
قرآن فہمی کے لیے کلامِ عرب کا مطالعہ جزئی طورپر درست ہے، مگر اس کو اساسی اہمیت کا درجہ دینا درست نہیں- اِس معاملے میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ قرآن فہمی کے اصول کو خود قرآن سے اخذ کیا جائے، نہ کہ ذاتی مفروضات کے ذریعے- قرآن جس طرح اسلام کی تعلیمات کو جاننے کا ذریعہ ہے، اُسی طرح وہ اِس بات کو جاننے کا ذریعہ بھی ہے کہ قرآن کے لیے بنیادی طورپر کن چیزوں کی اہمیت ہے-
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ وہ عربی مبین (26:195) کی زبان میں اترا، دوسری طرف قرآن میں اس کے بارے میں یہ آیت آئی ہے: بَلْ ہُوَ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ فِیْ صُدُوْرِ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ (29:49)- قرآن کے اِن بیانات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن فہمی کے لیے دو چیزوں کی ضرورت ہے —-لسانِ عرب اور لسانِ فطرت- قرآن کے طالب علم کو ایک طرف یہ کرنا ہے کہ وہ اُس عربی مبین سے واقف ہو جو رسول اور اصحابِ رسول کے زمانے میں عربوں کے درمیان بولی اور سمجھی جاتی تھی، خاص طورپر قبیلہ قریش کی زبان- قرآن کسی لسانِ ماضی میں نہیں اترا، بلکہ وہ لسانِ حال میں اترا، اور یہ لسانِ حال عملاً وہی تھی جو خاص طور پر قریش کے درمیان رائج تھی- یہ عربی مبین قرآن وحدیث میں ممارست کی بنا پر اہلِ حجاز کے درمیان اب بھی عملاً موجود ہے-
اِس سلسلے میں دوسری چیز انسان کی وہ فطرت ہے جس پر اللہ نے اُس کو پیدا کیا ہے (30:30)- قرآن اپنے الفاظ کے اعتبار سے عربی زبان میں ہے، لیکن اپنے خطاب کے اعتبار سے، وہ انسان کی فطرت کو ایڈریس کرتاہے- اِس لیے قرآن فہمی کے لیے دوسری اہم ضرورت یہ ہے کہ قرآن کے طالبِ علم کے اندر فطرت شناسی کا مادہ موجود ہو- اس کے اندر یہ صلاحیت پائی جاتی ہو کہ وہ انسان کی فطرت، بہ الفاظ دیگر نفسیاتِ انسانی کو گہرائی کے ساتھ جانتا ہو- قرآن فہمی کے لیے یہ دونوں چیزیں یکساں طور پر ضروری ہیں-
قرآن کو اس کے گہرے معانی کے ساتھ سمجھنے کے لیے نہ تنہا عربی زبان کافی ہوسکتی ہے اور نہ تنہا فطرتِ انسانی سے واقفیت- عربی زبان سے واقفیت آدمی کے اندر متن شناسی کی صلاحیت پیدا کرتی ہے اور فطرتِ انسانی سے واقفیت آدمی کے اندر یہ صلاحیت پیدا کرتی ہے کہ وہ قرآن کے معانی تک رسائی حاصل کرسکے- فطرتِ انسانی سے واقفیت کے بغیر لسانی مہارت صرف ایک فنی مہارت ہے اور محض فنی مہارت قرآن فہمی کے لیے ہرگز کافی نہیں-
واپس اوپر جائیں

مسلسل تلاش

ایک مفکر (thinker) کا ایک با معنی قول اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہےکہ— انسان کی زندگی ’کاما‘ سے بھری ہوئی ہے، زندگی میں کبھی ’فل اسٹاپ‘ نہیں آتا:
Life is full of ‘commas’, there is no ‘fullstop’ in life.
یہ قول زیادہ بہتر طور پر ذہنی ارتقا کے معاملے میں صادق آتا ہے- انسان کا ذہن اپنے اندر لامحدود صلاحیت رکھتا ہے- یہ صلاحیتیں مسلسل طور پر انفولڈ (unfold) ہوتی رہتی ہیں- یہ ایک لامتناہی عمل (unending process) ہے- آدمی کا ذہن اگر کہیں اٹکا ہوا نہ ہو تو یہ عمل اس کے اندر اپنے آپ جاری رہے گا- انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی پوری عمر کے لیے متعلم اور متلاشی (seeker) بنا رہے، وہ کھلے ذہن کے ساتھ چیزوں کو دیکھے، وہ بلا تفریق ہر چیز کا مطالعہ کرے، وہ کسی تعصب کے بغیر لوگوں کے ساتھ انٹریکشن کرے، وہ اپنے آپ کو ہمیشہ طالب سمجھے، اس کی تلاش ایک ایسی تلاش ہو جو ہمیشہ جاری رہے، اُس کے لیے کبھی فل اسٹاپ نہ آئے-ابدی طلب کا یہ مزاج مومن کے اندر کامل معنوں میں پایا جاتا ہے- مومن کے لیے صرف اللہ کے کلام کی حیثیت فائنل ورڈ (final word) کی ہوتی ہے، اللہ کے سوا کسی اور کو یہ درجہ حاصل نہیں- اِس کا مطلب یہ ہے کہ مومن کا ذہن اُس طرزِ فکر سے بالکل خالی ہوتا ہے جس کو دورِ جاہلیت کے ایک شاعر عنترہ العبسی (وفات: 600ء) نے اِن الفاظ میں بیان کیا ہے کہ — شعرا نے پیوند لگانے کے بقدر بھی کوئی جگہ باقی نہیں چھوڑی:
ہل غَادَرَ الشعراءُ من مُتَرَدَّمِ
یعنی جو کچھ کہنے کی بات تھی، وہ سب کہی جا چکی ہے، اب اُس پر نقد یا اضافے کی کوئی گنجائش باقی نہیں- یہ ذہن آدمی کے اندر سے تخلیقیت (creativity) کو ختم کردیتا ہے- اِس کے فطری نتیجے کے طورپر ایسی سوچ رکھنے والے  لوگ ذہنی جمود کا شکار ہوجاتے ہیں- مومن اِس قسم کی متعصبانہ سوچ سے مکمل طورپر خالی ہوتا ہے، اِس لیے اُس کے ذہن میں فکری ارتقا کا عمل کبھی نہیں رکتا، وہ زندگی کے آخری لمحے تک جاری رہتا ہے-
واپس اوپر جائیں

میں نہیں جانتا

عبد اللہ بن وہب مصری (وفات: 197ھ) مالکی فقیہ اور محدث ہیں- وہ بیس سال تک امام مالک کی صحبت میں رہے (صحب الإمام مالک عشرین سنة)- انھوں نے ایک بار کہاکہ: لو شئت أن أملأ ألواحی من قول مالک بن أنس ’’لاأدری‘‘ فعلتُ- (مجلة الوعی الإسلامی، کویت، فروری 2014، صفحہ: 97) یعنی مالک بن انس ’’میں نہیں جانتا‘‘اتنا کہتے تھے کہ اگر میں چاہوں تو میں اپنی تختیوں کو اُن کے اس قول سے بھر دوں کہ ’’میں نہیں جانتا‘‘-
یہ کہنا کہ ’’میں نہیں جانتا‘‘ (لاأدری) کوئی سادہ بات نہیں، یہ ایک گہری حکمت (deep wisdom) کی بات ہے- ’’میں نہیں جانتا‘‘ کہنا ایک عظیم نفسیاتی حقیقت کی علامت ہے- اِس کا مطلب یہ ہے کہ انسان ایک سوچنے والا انسان ہے، وہ مسلسل طورپر غور وفکر میں مشغول ہے- جو آدمی نہ بولے، وہ سوچ رہا ہے- جو آدمی جواب نہ دے، وہ سوال پر غور کررہا ہے-
کسی آدمی کے لیے فطرت کا سب سے بڑا تحفہ اس کا ذہن ہے- کسی آدمی کے لیے سب سے بڑا عمل یہ ہے کہ اس کے ذہن میں مسلسل طور پر تفکیری عمل (thinking process) جاری رہے- تفکیری عمل سے آدمی کے اندر تخلیقی فکر (creative thinking) آتی ہے، اُس کے اندر مسلسل طورپر ذہنی ارتقا (intellectual development)کا عمل جاری رہتا ہے-
یہی ذہنی ارتقا وہ چیز ہے جو انسان کی تمام اعلی ترقیوں کی ضامن ہے- ذہنی ارتقا انسان کو انسان بناتا ہے- جس شخص کے اندر ذہنی ارتقا کا عمل جاری نہ ہو، وہ بظاہر انسان ہوگا، لیکن بہ اعتبار حقیقت وہ حیوان کی مانند بن کر رہ جائے گا-
کم بولنے کا مطلب ہے زیادہ سوچنا- میں نہیں جانتا کا مطلب ہے زیادہ غور کرنا- اِسی طرح چپ رہنا زیادہ سنجیدگی (sincerity)کی علامت ہے — یہی وہ صفات ہیں جو ایک عام انسان کو اعلی انسان بناتی ہیں-
واپس اوپر جائیں

ماضی اور حال

احیاءِ ملت کے سلسلے میں عام طورپر یہ بات کہی جاتی ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کو دوبارہ زندہ ملت بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اُن کو ان کا ماضی یاد دلایا جائے- کہاجاتا ہے کہ — اقوام وملل کی تاریخ اِس بات پر گواہ ہے کہ جو قوم اپنے ماضی سے کٹ جائے، وہ کبھی کامیابی حاصل نہیں کر پاتی- اِس نقطہ نظر کےمطابق، موجودہ مسلمانوں کا احیاءِ نو اِس لیے نہیں ہوا کہ اس کے رہنماؤں نے اُن کارشتہ ماضی سے نہیں جوڑا-
یہ ایک خلافِ واقعہ بات ہے- حقیقت اِس کے برعکس یہ ہے کہ پچھلے دو سوسال میں پوری مسلم دنیا میں جو رہنما اٹھے، اُن سب نے بلا استثنا یہی ایک کام کیا کہ انھوں نے مسلمانوں کو ان کے ماضی کی تاریخ مبالغہ آمیز اندازمیں یاد دلائی، تاکہ حال میں انھیں اِس گزری ہوئی تاریخ کے اعادے پر ابھارا جائے- مگر عملاً یہ تدبیر سر تاسر ناکام رہی- اِس سلسلے میں مسلم رہنماؤں کی تمام کوششیں بے نتیجہ ہو کر رہ گئیں-
ایسی حالت میں اصل سوال ماضی کی تدبیر پر نظر ثانی کرنے کا ہے، نہ کہ مذکورہ قسم کی پر جوش تحریر وتقریر کرنے کا- مگر عجیب بات ہے کہ اکیسویں صدی کے تمام مسلم رہنما تقریباً وہی بات کہہ رہے ہیں جس کی ایک مثال مذکورہ نقطہ نظر میں پائی جاتی ہے-
ایسا کیوں ہے- اِس کا سبب صرف ایک ہے اور وہ ہے — فقدانِ نتیجہ کو فقدانِ عمل کے ہم معنی سمجھ لینا، کیوں کہ پچھلی دو سو سالہ کوششوں کا کوئی مطلوب نتیجہ نہیں نکلا، اِس لیے ہمارے رہنما مزید بے شعوری کا ثبوت دیتے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ اس کے لیے مطلوب عمل نہیں کیاگیا-
اِس معاملے میں رہنماؤں کی اصل غلطی یہ ہے کہ اُن کی تشخیص درست نہ تھی، کسی قوم کی تعمیر کا راز یہ ہے کہ اس کو حال سے باخبر کیا جائے- ماضی کی کہانیاں سنانے کا کوئی فائدہ نہیں- ماضی کی کہانیوں سے صرف فرضی فخر (false pride) کا مزاج بنتا ہے، جب کہ حال کے بارے میں باشعور ہونے سے عمل کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، یعنی وقت کے چیلنج کو سمجھنا اور اس کے مطابق، منصوبہ بند جدوجہد کرنا-
واپس اوپر جائیں

مسلم سیرت نگار

مولانا سید سلیمان ندوی (وفات: 1953) مشہور عالم اور مصنف تھے- ان کے صاحب زادے ڈاکٹر سید سلمان ندوی نے دارالعلوم ندوة العلما (لکھنؤ) میں اپنے والد کے بارے میں ایک تقریر کی- انھوں نے بتایا کہ مولانا سید سلیمان ندوی نے اپنے مرشد مولانا اشرف علی تھانوی کے نام ایک خط میں اپنے بارے میں لکھا تھاکہ: ’’یورپ کے مذہبی وعلمی حملوں کے مقابلے میں، اسلام کی خدمت کا ولولہ ہے، اور اب تک پچیس برس کا زمانہ اِنھیں مشاغل میں گزرا‘‘- (ماہ نامہ الفرقان، لکھنؤ، فروری 2010، صفحہ 37)
اِن الفاظ میں جس ذہن کا بیان ہے، وہی ذہن موجودہ زمانے کے تمام مسلم علما کے اندر پایا جاتا ہے، عرب علما کے اندر بھی اور غیر علما کے اندر بھی-وہ یہ کہ موجودہ زمانے کے مسلم علما نے مغرب کو صرف اِس حیثیت سے جانا کہ وہ اسلام کے خلاف حملوں کا مرتکب ہے- حالاں کہ یہ تمام تر خود مسلم علما کی اپنی منفی سوچ کا نتیجہ تھا، وہ مغرب کی اسلام دشمنی کا نتیجہ نہ تھا-
مغربی قوتوں کی نسبت سے دوسرے دو اہم پہلو تھے جن سے مسلم علما بالکل بے خبر رہے- ایک یہ کہ مغربی لوگ بالفرض اگر اسلام یا مسلمانوں کے بارے میں مخالفانہ جذبات رکھتے ہوں، تب بھی ان کی حیثیت مدعو کی ہے- ہمارا فرض ہے کہ ہم مغربی قوموں کے مخالفانہ رویّے کو نظر انداز کرتے ہوئے ان کو مثبت انداز میں اسلام کی دعوت پہنچائیں، اور انسانی خیر خواہی کے جذبے سے ان کی اصلاح کے طالب ہوں-
اِس معاملے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ہمارے علما نے مغربی اقوام کو صرف نوآبادیاتی اقوام کے ہم معنی سمجھ لیا، حالاںکہ اِن اقوام کی ایک اور حیثیت تھی جو اِس سے بہت زیادہ اہمیت رکھتی تھی، وہ یہ کہ اِن مغربی اقوام نے تاریخ میں پہلی بار اُس علم کو پیدا کیا جس کو جدید سائنس کہاجاتا ہے- جدید طبیعی سائنس اپنی اصل حقیقت کے اعتبار سے عین وہی چیز تھی جس کو قرآن میں آفاق وانفس (41:53) کی آیات کا ظہور بتایا گیا ہے- یہ آیتیں (signs) اسلامی دعوت کے حق میں عظیم تائید کے ہم معنی تھیں، مگر علما نے اِن آیتوں (نشانیوں) کو نہ تو سمجھا اور نہ ان کو اسلامی دعوت کے حق میں استعمال کیا-
پرنٹنگ پریس کے زمانے میں مسلم سیرت نگاروں نے کثرت سے سیرت پر کتابیں لکھیں ہیں- یہ کتابیں مختلف زبانوں میں شائع ہوئی ہیں- لیکن ان کا جائزہ لیجئے تو غالباً سیرت کے موضوع پر کوئی ایک قابلِ ذکر کتاب ایسی نہیں ہے جس میں پیغمبر کی داعیانہ حیثیت کو بنیادی حیثیت سے نمایاں کیاگیا ہو- جس میں رسول اللہ کے اسوۂ دعوت کو اصل حیثیت دے کر بیان کیاگیا ہو- یہ ایک ایسی کمی ہے جو موجودہ زمانے کے تمام مسلم سیرت نگاروں کے یہاں پائی جاتی ہے- اس کا سبب بظاہر یہ ہے کہ ان سیرت نگاروں نے سیرت رسول کا مطالعہ اس نقطۂ نظر سے نہیں کیا کہ وہ آپ کے اصل داعیانہ منصب کو اجاگر کریں-
اِسی معاملے کو میں نے اپنے ایک تجربے سے سمجھا ہے- میں1964-66 کے دوران لکھنؤمیں تھا- میرا معمول تھا کہ میں روزانہ شام کو آچاریہ نریندر دیو لائبریری جاتا جو وہاں گومتی ندی کے کنارے واقع تھی- اس لائبریری کی اوپری منزل پر ایک ہال تھا- اس میں بہت سی میزیں تھیں- ان میزوں کے اوپر انگلش اور ہندی کے تمام اخبارات رکھے جاتے تھے- میں دیکھتا تھا کہ نوجوان لڑکے بڑی تعداد میں وہاں آتے اور دیر تک اخباروں کو الٹ پلٹ کردیکھتے- میں نے ایک روز اُن میں سے بعض لڑکوں سے گفتگو کی اور ملک کے سیاسی حالات پر اُن کا نقطہ نظر جاننا چاہا، مگر معلوم ہواکہ وہ سیاسی یا نیشنل موضوعات سے بے خبر تھے- ان موضوعات پر وہ اپنی کوئی رائے نہ دے سکے-مزید تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ یہ نوجوان حقیقةً اخبار پڑھنے کے لیے نہیں بلکہ اخبار میں جاب کے اشتہارات پڑھنے کے لئے آتے ہیں- چناںچہ وہ اخبارات میں امپلائمنٹ کالم (employment column) کو دیکھتے ہیں اور پھر واپس چلے جاتے ہیں-
تقریباً یہی حال مسلم سیرت نگاروں کا ہے- وہ جس ذہن(mindset) کو لے کر سیرت کی کتابیں پڑھتے ہیں، وہ اصلاً دعوت کا ذہن نہیں ہوتا- اس لئے انھیں اپنے ذہن کے مطابق زیادہ تر دوسری چیزیں ملتی ہیں اور اس کو وہ نمایاں طورپر بیان کرتے ہیں- مثلاً مصر کے حسین ہیکل کے ذہن پرمستشرقین کی باتوں کا غلبہ تھا چنانچہ سیرت کے موضوع پر ان کی عربی کتاب ’حیات محمد‘ کا تقریباً نصف حصہ مستشرقین کے جوابات پر مشتمل ہے-
تقریباً یہی معاملہ دوسرے مسلم سیرت نگاروں کا ہے- جنھوں نے فخر کی نفسیات کے تحت سیرت کا مطالعہ کیا، انھوں نے سیرت کو فخر کے انداز میں بیان کیا- جو مولفین سیاسی ذہن کے مالک تھے، انھوں نے سیرت کو سیاست وحکومت کے نمونہ (pattern) پر ڈھال دیا- جو لوگ فقہی مسائل کو اہمیت دیتے تھے، انھوں نے رسول اللہ کی سیرت کو ایک قسم کی فقہی سیرت بنا دیا- جو لوگ کرامات اور معجزات کا مزاج رکھتے تھے، انھوں نے سیرت رسول کو اس طرح مرتب کیا کہ سیرت کی کتاب کرامات اور معجزات کا مجموعہ بن گئی- جہاں تک دعوت کا سوال ہے ،وہ جزئی طورپر نسبتاً غیر اہم انداز میں ضرور موجود ہے، لیکن اس طرح نہیں کہ قاری جب سیرت کی کتاب کو پڑھ کر ختم کرے تو اس کے اندر یہ سوچ پیدا ہوجائے کہ میرے لیےپیغمبر اسلام کی پیروی کا سب سے بڑا خارجی میدان یہ ہے کہ میں آپ کے پیغام کو تمام انسانوں تک پہنچاؤں- دوسری قوموں کو مدعو سمجھوں اور ان کے خلاف شکایتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ان کے ساتھ پوری خیر خواہی کرتے ہوئے پیغام رسانی کا کام انجام دوں-
ڈاکٹر سید سلمان ندوی کی معلوماتی تقریر میں جو باتیں کہی گئی ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ مولانا شبلی نعمانی (وفات: 1914) نے اپنے مرض الموت کے آخری دنوں میں اپنے شاگرد مولانا سیدسلیمان ندوی کو بلایا اور اُن سے کہا کہ ’’سیرت میری تمام عمر کی کمائی ہے- سب کام چھوڑ کر سیرت تیار کرو-‘‘ (صفحہ 28)- مولانا شبلی نعمانی کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے جو عقیدت تھی، اس کا اظہار ان کی کتاب ’’سیرت النبی‘‘ میں سرنامہ کے اِن الفاظ سے ہوتا ہے: ایک گدائے بے نوا شہنشاہِ کونین کے دربار میں اخلاص وعقیدت کی نذر لے کر آیا ہے: زچشمم آستیں بردار وگوہر را تماشا کن!
مولانا سید سلیمان ند وی نے اپنی کتاب ’’حیاتِ شبلی‘‘ میں استاذ کے احسانات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: ’’انھوں نے اپنی زندگی میں اور اپنی زندگی کے بعد بھی بہ شکلِ وصیت اس کو (مجھ کو) محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سرکارِ اقدس میں، جہاں وہ سب سے آخر میں پہنچے تھے، سب سے اول پہنچایا‘‘(صفحہ 28)
مولانا شبلی نعمانی اور مولانا سید سلیمان ندوی دونوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ محبت تھی- دونوں نے سیرتِ رسول کے موضوع پر اپنی زندگیاں وقف کردیں، لیکن عجیب بات ہے کہ دونوں میں سے کسی نے بھی اِس حقیقت کو نہیں سمجھا کہ رسول اللہ کی اصل حیثیت یہ تھی کہ وہ اللہ کا پیغام پہنچانے والے تھے- وہ تمام انسانیت کے لیے بشیر و نذیر تھے- رسول اللہ کے ساتھ محبت کا سب سے بڑا تقاضا یہ ہے کہ رسول اللہ کی سنتِ دعوت کو زندہ کیا جائے، لیکن مولانا شبلی نعمانی اور مولانا سید سلیمان ندوی دونوں جذبۂـ محبت کے باوجود جذبۂ دعوت سے خالی رہے-
یہی دوسرے مسلم علما اور مسلم رہنماؤں کا حال ہے- وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق کی حد تک تعلق کا اظہار کرتے ہیں، لیکن ہر ایک کا یہ حال ہوا کہ وہ اِس بات سے بے خبر رہا کہ رسول اللہ سے تعلق کا اصل تقاضا کیا ہے، وہ بلا شبہہ یہی ہے کہ رسول اللہ کی سنت ِ دعوت کو زندہ کیا جائے اور ہر دور کے انسانوںکو اس کا مخاطب بنایا جائے-رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کا لازمی تقاضہ یہ ہے کہ رسول اللہ کے دعوتی مشن کو ہر دور میں زندہ رکھا جائے- یہی دعوتی فریضہ ہے جس کو نہ مسلم سیرت نگاروں نے سمجھا اور نہ اُس کے لیے کوئی کام کیا-
واپس اوپر جائیں

ہارون رشید کا ایک واقعہ

ہارون رشید عباسی دور کا پانچواں خلیفہ ہے- وہ 766 میں پیدا ہوا اور 809 میں اس کی وفات ہوئی- اس کا ایک واقعہ حسب ذیل الفاظ میں نقل کیاگیا ہے:
’’وذُکر أن یہودیاً کانت لہ حاجة عندہارون الرشید، فاختلف إلى بابہ سنةً ، فلم یقض حاجتہ، فوقف یوماً على الباب- فلما خرج ہارون سعى حتى وقف بین یدیہ وقال: اتق اللہ یا أمیر المؤمنین، فنزل ہارون عن دابتہ وخرّ ساجداً- فلما رفع راسہ أمر بحاجتہ فقضیت- فلما رجع قیل لہ: یا أمیر المؤمنین، نزلت عن دابتک لقول یہودیّ- قال: لا، ولکن تذکرتُ قولَ اللہ تعالى: وإذا قیل لہ اتق اللہ أخذتہ العزة بالإثم، فحسبہ جہنم، ولبئس المہاد‘‘- (تفسیر القرطبی، 19/3 )
ترجمہ: کہا جاتا ہے کہ ایک یہودی تھا جس کو ہارون رشید سے ایک کام تھا- وہ شخص اِس کام کے لیے خلیفہ کے دروازے پر ایک سال تک جاتا رہا، مگر خلیفہ نے اس کی ضرورت پوری نہ کی، پھر ایک دن وہ یہودی، خلیفہ کے دروازے پر کھڑا ہوگیا- جب ہارون رشید باہر نکلا تو وہ شخص تیزی سے آکر خلیفہ کے سامنے کھڑا ہوگیا، اور کہاکہ اے امیر المومنین، اللہ سے ڈرئیے-
یہ سن کر ہارون رشید اپنی سواری سے اترا اور سجدے میں گر پڑا- پھر ہارون رشید نے سجدے سے سراٹھایا اور اس نے حکم دیا اور یہودی کی ضرورت پوری کردی گئی- پھر جب ہارون رشید لوٹا تو اس سے کہا گیا کہ اے امیر المومنین، کیا آپ ایک یہودی کے قول پر اپنی سواری سے اتر گئے- ہارون رشید نے کہا کہ نہیں، بلکہ مجھے اللہ تعالی کا یہ قول یاد آیا: وَاِذَا قِیْلَ لَہُ اتَّقِ اللّٰہَ اَخَذَتْہُ الْعِزَّةُ بِالْاِثْمِ فَحَسْبُہٗ جَہَنَّمُ ۭ وَلَبِئْسَ الْمِہَادُ (2:206)یعنی جب اُس سے کہا جاتا ہے کہ اللہ سے ڈر تو وقار اُس کو گناہ پر جما دیتا ہے- پس ایسے شخص کے لیے جہنم کافی ہے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے-
واپس اوپر جائیں

اظہارِ دین

اللہ کا ایک خصوصی منصوبہ قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰى وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ ۭ وَکَفٰى بِاللّٰہِ شَہِیْدًا (48:28) یعنی اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا، تاکہ وہ اُس کو تمام ادیان پر غالب کردے اور اللہ کافی گواہ ہے- یہ آیت قرآن کی تین سورتوں میں آئی ہے- ایک سورہ میں مزید یہ الفاظ آئے ہیں: وَیَاْبَى اللّٰہُ اِلَّآ اَنْ یُّتِمَّ نُوْرَہٗ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ 9:32))-
قرآن کی اِس آیت میں ’ہدی‘ سے مراد آئڈیالوجی (divine ideology)ہے اور ’دین‘ سے مراد اِس آئڈیالوجی پر مبنی طریقِ زندگی(way of life)ہے- اللہ نے ہر دور میں پیغمبروں کے ذریعے ہدایت اور دین بھیجا، لیکن اس کے بعد انسان اُس میں تبدیلی کرتا رہا، یہاں تک کہ دینِ خداوندی کا اصل ورزن (original version) باقی نہیں رہا، بلکہ دینِ خداوندی کے نام پر ایک خود ساختہ انسانی ورزن وجود میں آگیا- اس کے بعد اللہ نے یہ فیصلہ کیا کہ ابدی طورپر دینِ خداوندی کا صحیح ورزن وجود میں آئےاور اس کو تاریخ میں پوری طرح محفوظ کردیاجائے-
تمام ادیان پر اظہار ِ دین کا مطلب کسی قسم کا سیاسی غلبہ نہیں ہے، بلکہ اِس کا مطلب یہ ہے کہ دینِ خداوندی کی تصویر بے آمیز صورت میں انسان کے سامنے آجائے- اِسی طرح اتمامِ نور کا مطلب بھی کسی سیاسی نظام کا نفاذ نہیں، بلکہ اِس کا مطلب یہ ہے کہ انسان خدائی دین کی تصویر کو بگاڑنا چاہتا ہے، مگر اللہ کا یہ حتمی فیصلہ ہے کہ وہ خدائی دین کو اس کی اصل صورت میں محفوظ کردے- اللہ نے انسان کو مکمل آزادی عطا کی ہے- اللہ نے اپنی سنت کے مطابق، انسان کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے حفاظتِ دین کے اِس منصوبے کو انجام دیا-
فکری بنیاد کی اہمیت
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ساتویں صدی عیسوی کے ربع اول میں ہوا- آپ کو یہ موقع ملا کہ آپ صحابہ کی صورت میں ایک طاقت ور ٹیم بنائیں- اِس طرح آپ نے اور آپ کے اصحاب نے غیر معمولی محنت کے ذریعے وہ کام انجام دیا جس کو قرآن کی مذکورہ آیت میں اظہارِ دین کہاگیا ہے، یعنی خدا کے دین کو اس کی اصل صورت میں مبرہن کردینا- مگر یہ کوئی سادہ معاملہ نہ تھا- لوگوں کے درمیان اِس کی قبولیت کے لیے ضروری تھا کہ اس کے لیے موافق فکری بنیاد (intellectual base) موجود ہو- ہزاروں سال کے مذہبی بگاڑ کے نتیجے میں لوگوں کے درمیان یہ موافق فکری بنیاد موجود نہ تھی، اِس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ پیغمبر اسلام نے اپنے زمانے میں کامیابی کے ساتھ دینِ خداوندی کو اس کی اصل صورت میں قائم کیا،مگر ایک محدود مدت کے بعد خود امتِ مسلمہ کے درمیان مذہب کا قدیم تصور واپس آگیا- یہ محدود مدت امت کی ابتدائی تین نسلوں تک باقی رہی-
یہی وہ واقعہ ہے جس کو ایک حدیث رسول میں اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے:إن الناس دخلوا فی دین اللہ أفواجاً وسیخرجون منہ أفواجاً (مسند أحمد، رقم الحدیث : 14696) یعنی لوگ فوج در فوج خدا کے دین میں داخل ہوئے اور عن قریب وہ فوج در فوج خدا کے دین سے نکل جائیں گے- اِس حدیث رسول میں جو پیشین گوئی کی گئی ہے، وہ محدود طورپر صرف مکہ یا عرب کے بارے میں نہیں ہے، بلکہ وہ پوری تاریخ کے بارے میں ہے-
اصل یہ ہے کہ اسلام نے دینِ خداوندی کی جو تصویر پیش کی تھی، وہ ایک انقلابی تصویر تھی- اُس زمانے میں مذہب کے بارے میں جو عمومی شاکلہ پایا جاتا تھا، وہ اس کے مطابق نہ تھا- اس لیے ابتدائی تین نسلوں کے بعد قدیم مذہبی شاکلہ عملاً دوبارہ لوگوں کے درمیان واپس آگیا- دوبارہ ایسا ہو ا کہ خدا کا دین اپنی اصل صورت کے بجائے ایک بدلی ہوئی صورت پر قائم ہوگیا- اسلام کا نام اور اسلام کی اصطلاحیں ضرور باقی رہیں، لیکن اسلام کی حقیقت تقریباً غیرموجود ہوگئی- یہی مطلب ہے اُس حدیث رسول کا جس میں بتایا گیا ہے کہ بعد کے زمانے میں اسلام کا صرف نام باقی رہے گا اور قرآن کا صرف رسم الخط: ’’لا یبقى من الإسلام إلا اسمہ، ولا یبقى من القرآن إلا رسمہ‘‘- (رواہ البیہقی فی شعب الإیمان، رقم الحدیث: 1763)-
چند مثالیں
اسلام سے پہلے خدا کا عقیدہ ایک رسمی قسم کا مبنی بر قلب (heart-based)عقیدہ تھا، اسلام نے خدا کے عقیدہ کو ایک زندہ شعور کے طورپر مبنی بر ذہن (mind-based) عقیدے کی حیثیت سے زندہ کیا، لیکن وقت کا عمومی شاکلہ اِس کے موافق نہ تھا، اِس لیے بہت جلد ایسا ہوا کہ مسلمانوں کے درمیان خدا کا عقیدہ زندہ عقلی شعور کے طورپر باقی نہ رہا- وہ دوبارہ مبنی بر قلب قسم کا رسمی عقیدہ بن کر رہ گیا-
اسلام سے پہلے ہر مذہب میں عبادت کا تصور موجود تھا، لیکن ان کی عبادت محض ایک مبنی بر فارم عمل بنی ہوئی تھی- اسلام نے دوبارہ عبادت کو مبنی بر اسپرٹ (spirit-based)عبادت کی حیثیت سے زندہ کیا، لیکن چند نسلوں کے بعد دوبارہ قدیم مزاج واپس آگیا اور خدا کی عبادت محض کچھ رسمی اعمال کا مجموعہ بن کر رہ گئی- یہی معاملہ پیغمبر کے عقیدہ (رسالت) کا بھی تھا- پچھلی امتوں نے بعدکے زمانے میں اپنے پیغمبروں کو اتنا زیادہ بڑھایا کہ خدا اور پیغمبر میں صرف نام کا فرق باقی رہا- یہی وہ برائی ہے جس کو پیغمبر اسلام نے پیشگی طورپر اِن الفاظ میں بیان فرمایا تھا: لا تطرونی کما أطرت النصارى عیسى بن مریم (صحیح البخاری، رقم الحدیث:3445 (
بعد کے زمانے میں مسلمانوں کے درمیان فضیلت کے نام پر ایسے عقیدے رائج ہوئے جس کے بعد عملاً پیغمبر اسلام کی تصویر بھی وہی بن گئی جو پچھلی امتوں کے یہاں رائج تھی، یعنی خدا اور پیغمبر کے درمیان صرف نام کا فرق باقی رہا-
اِسی طرح پچھلے مذاہب میں مقدس جنگ (holy war) کا تصور تھا- اسلام نے اِس تصور کو ختم کیا- اسلام میں قتال اور جہاد کو ایک دوسرے سے الگ کردیاگیا- قتال صرف دفاعی جنگ کے لیے مخصوص ہوگیا اور جہاد کو پرامن دعوتی جدوجہد (25:52) کے ہم معنی قرار دیاگیا- لیکن بعد کے زمانے میں مسلمانوں کے درمیان قتال کو جہاد کا عنوان دے دیاگیا- اِس طرح مقدس جنگ کا تصور مسلمانوں کے درمیان دوبارہ لوٹ آیا-
اِسی طرح اسلام میں اجتماعی نظام کو شوری (42:38) کے تابع کیاگیا تھا، یعنی کسی خارجی معیار کے بجائےلوگوں کی عمومی رائے کی بنیاد پر اجتماعی نظام کا فیصلہ کرنا- لیکن بعد کے زمانے میں قدیم خاندانی حکمرانی (dynasty) کا طریقہ واپس آگیا- شخصی حکمرانی کا یہ ذہن بعد کے زمانے کے مسلمانوں پر اتنا زیادہ غالب ہوا کہ اگر کسی مسلم ملک میں بظاہر جمہوریت کو اختیار کیاگیا تو وہ بھی عملاً آمریت (dictatorship) بن کر رہ گئی-
اِسی طرح اسلام میںقدیم تصور کے برعکس، مذہبی آزادی کو اختیار کیا گیا، لیکن چند نسلوں کے بعد عملاً اس کا بھی خاتمہ ہوگیا- اِس کے مظاہر آج بھی مسلمانوں کے اندر مختلف صورتوں میں دیکھے جاسکتے ہیں- مثلاً فرقہ وارانہ تشدد، تکفیر کے فتوے، مرتد اور شاتمِ رسول کے لیے سزائے قتل، وغیرہ- اِس قسم کے تمام مظاہر بلا شبہہ قدیم زمانے کے مذہبی جبر کی نئی صورتیں ہیں-
متوازی عمل
امتِ مسلمہ کے بعد کے دور میں یہ تمام خرابیاں اِس لیے پیدا ہوئیں کہ اسلام کی انقلابی اصلاحات کے حق میں فکری بنیاد موجود نہ تھی- اسلام نے مذہب کو دوبارہ اس کی اصل خدائی صورت میں زندہ کیا، لیکن زمانی عامل (age factor) اِن اصلاحات کے موافق نہ تھا- قانونِ فطرت کے مطابق، فکری بنیاد اچانک وجود میں نہیں آتی، بلکہ وہ لمبے تدریجی عمل کے بعد وجود میں آتی ہے- یہ نہایت مشکل منصوبہ ہے، کیوں کہ انسانی آزادی کو باقی رکھتے ہوئے اس کو وجود میں لانا پڑتا ہے- اِس لیے اللہ نے اِس منصوبے کو ظہور میں لانے کے لیے تاریخ میں ایک متوازی عمل (parallel process) جاری کیا- فکری بنیاد کو ظہور میں لانے کا یہ متوازی عمل تقریباً ہزار سال تک جاری رہا، یہاں تک کہ وہ بیسویں صدی عیسوی میں اپنی تکمیل تک پہنچا- اِس عمل کا آغاز پیغمبر اور اُن کے اَتباع (followers)نے کیا اورآخرکار اس کی تکمیل ہزار سال بعد اہلِ مغرب کے ذریعے انجام پائی-
استبدالِ قوم
قرآن میں فطرت کے جو قوانین بتائے گئے ہیں، اُن میں سے ایک قانون وہ ہے جس کو استبدال (replacement) کہاگیا ہے- اِس سلسلے میں قرآن کی آیت کے الفاظ یہ ہیں: وَاِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ ۙ ثُمَّ لَا یَکُوْنُوْٓا اَمْثَالَکُمْ (47:38) یعنی اگر تم پھر جاؤ تو اللہ تمھاری جگہ دوسری قوم کولے آئے گا، پھر وہ تم جیسے نہ ہوں گے:
If you turn back, He will bring in your place another people, who will not be like you.
استبدالِ قوم کا یہ قانون فطرت کا ایک عمومی قانون ہے- اس کا تعلق مذہبی قوم سے بھی ہے اور غیر مذہبی قوم سے بھی- اسلام کی انقلابی اصلاحات کے لیے جس فکری بنیاد کی ضرورت تھی، اس کو مسلمان پورے طورپر وجود میں نہ لاسکے- مسلمان بعد کے زمانے میں قدیم مذہبی تصورات کے زیر اثر آچکے تھے- اِس بنا پر وہ اس مقصد کے لیے اہل نہ تھے- چناں چہ اللہ کا یہ فیصلہ ہوا کہ اِس متوازی رول کاذریعہ وہ ایک ایسی قوم کو بنائے جو اِس عمل کو اس کی تکمیل تک پہنچا سکے-
اہلِ مغرب کا تائیدی رول
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشین گوئی کے طورپر یہ بات بتادی تھی کہ اللہ تعالی ایک سیکولر قوم سے دین کی تائید کا کام لے گا (إن اللہ لیؤیدہذا الدین بالرجل الفاجر)- اہل مغرب کی تاریخ کا غیر جانب دارانہ مطالعہ بتاتا ہے کہ اہلِ مغرب نے جو تہذیب برپا کی اور جس کو مغربی تہذیب کہاجاتا ہے، وہ سیکولر مغرب کے ذریعے اِسی تائید دین کی مثال ہے-
یہ ایک حقیقت ہے کہ مغربی تہذیب کے ذریعے جو نئے علوم اور نئے حالات پیدا ہوئے، وہ اپنے عملی نتیجے کے اعتبار سے، اسلام کے حق میں فکری بنیاد فراہم کرنے والے تھے، تاکہ رسول اور اصحابِ رسول کا جاری کردہ عمل اپنے تکمیلی مرحلے تک پہنچ سکے- اس تکمیلی عمل کے چند پہلو یہاں بیان کیے جاتے ہیں:
1- جدید تہذیب کے تحت جو میڈیکل سائنس وجود میں آئی، اس نے تاریخ میں پہلی بار اُس نظریے کو ختم کردیا جس کو سوچنے والا دل (thinking heart) کہاجاتا تھا- اب یہ پوری طرح ثابت ہوگیا ہے کہ دل انسانی جسم میں صرف گردشِ خون (circulation of blood) کا ذریعہ ہے- اِس معاملے میں جدید میڈیکل سائنس یہاں تک پہنچی ہے کہ اُس نے مصنوعی دل (artificial heart) تیار کیا- ایسے مریض جن کے دل عملاً نان فنکشنل (non-functional)ہونے والے تھے، اُن کے جسم میں ڈاکٹروں نے مصنوعی دل نصب کردیا- یہ مصنوعی دل عملاً فطری دل کا بدل بن گیا- ایسے مریضوں کا دل عملاً معطل تھا، اُن کے جسم میں دل کی جگہ ایک مادی ڈیوائس (material device) نصب کیا گیا، اس کے باوجود اُن کا دماغ پہلے کی طرح کام کررہا تھا- اُن کا حافظہ، اُن کے سوچنے کی صلاحیت، کسی کمی کے بغیر، پہلے کی طرح برقرار تھی- اِس طرح تجرباتی طورپر ثابت ہوگیا کہ تفکیر کے عمل (thinking process) کا تعلق انسان کے دل سے نہیں ہے، بلکہ اس کے دماغ سے ہے-
یہ ایک بہت بڑا واقعہ ہے جس سے قدیم زمانے کا انسان مکمل طورپر بے خبر تھا-اسلام میں معرفت کو قدیم تصور کے برعکس، دل کے بجائےدماغ پر مبنی قرار دیاگیا- قرآن میں دماغ (mind)کے لیے مختلف الفاظ آئے ہیں- مثلاً قلب، فواد، عقل، لُب،حِجر، نُہى- واضح ہو کہ قلب کا لفظ عربی زبان میں عقل کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے (لسان العرب: 687/1)- غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن میں اِس سلسلے میں جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں، وہ سب تفکیری عضو (thinking organ) کے معنی میں ہیں، قرآن میں گردشِ خون کے ذریعے کے طورپر کسی عضو کا ذکر نہیں-پچھلے ہزار سال کے دوران مسلمانوں میں فکری ارتقا نہ ہوسکا- اِس کا سبب یہ ہے کہ مسلمان فکری عمل کا سرچشمہ غلط طور پر دل کو قرار دیےہوئے تھے- جدیددریافت نے یہ راستہ کھول دیا ہے کہ مسلمانوں میں فکری ارتقا کا عمل حقیقی سطح پر جاری ہوسکے-
قدیم زمانے میں تمام مذاہب میں معرفت حق (realization of truth) کا منبع (source) دل کو سمجھاجاتا تھا- اِس لیے قدیم زمانے میں مراقبہ (meditation) کے طریقے رائج ہوئے، مگر اِن طریقوں کے ذریعے قدیم زمانے کے لوگوں کو کبھی حقیقی معنوں میں معرفتِ حق کا تجربہ نہیں ہوا، کیوں کہ دل صرف گردشِ خون کا ذریعہ تھا- معرفت صرف تفکیر اور تدبر کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے، جس کا مرکز انسان کا دماغ ہے- دل سے اِس کا کوئی تعلق نہیں-
رسول اور اصحابِ رسول کے مختصر زمانے کے بعد خود امتِ مسلمہ میں یہی دل پر مبنی تصورِ معرفت دوبارہ لوٹ آیا-یہی وجہ ہے کہ پچھلے ہزار سال کے دوران امتِ مسلمہ حقیقی معرفت سے تقریباً محروم رہی- موجودہ زمانے میں جدید میڈیکل سائنس کے ذریعے جو نیا دور آیا، اُس نے پہلی بار یہ کیا کہ دل پر مبنی معرفت کے افسانہ (myth) کو ختم کردیا- اب تاریخ میں پہلی بار یہ ممکن ہوگیا کہ مبنی بر ذہن (mind-based)معرفت کو ڈیولپ کیا جائے اور معرفت الہی کے اعلی درجات تک پہنچنے کی کوشش کی جائے-اِس اعتبار سے، جدید میڈیکل سائنس قدیم نظریے کی تصحیح کی حیثیت رکھتی ہے-
2- قدیم زمانے میں ساری دنیا میں مطلق العنان بادشاہت (despotism) کا طریقہ رائج تھا- اِس سیاسی کلچر کے تحت ساری دنیا میں مذہبی جبر کا کلچر عام تھا- جدید مغربی تہذیب کے تحت پہلی بار ایسا ہوا کہ دنیا میں جمہوریت کا زمانہ آیا- جمہوریت ایک اعتبار سے، سیاسی طاقت کی عدم مرکزیت (decentralization) کا کلچر ہے- اِس کلچر کے تحت مذہب کے معاملے کو سیاسی اقتدار سے الگ کردیا گیا- اِس طرح تاریخ میں پہلی بار مذہبی آزادی کو ایک مسلّمہ بین اقوامی اصول (international norm) کے طورپر مان لیاگیا اور اقوامِ متحدہ (UNO) کے تحت تمام قوموں نے اس کی متفقہ تصدیق کردی- اسلام ایک دعوتی مشن ہے اور اسلام کے دعوتی مشن کی عالمی تکمیل کے لیے ضروری تھا کہ دنیا میں مذہبی آزادی کو ایک مسلّمہ بین اقوامی اصول کے طور پر مان لیا گیا ہو- یہ واقعہ پہلی بار مغربی تہذیب کے دور میں کامل طورپر انجام پایا ہے-
3- قدیم زمانے میں مذہب کی بنیاد صرف عقیدہ (belief) ہوا کرتا تھا- انسان ایک عقلی وجود (rational being) ہے- ضرورت تھی کہ انسان کو ایسا مذہب دیا جائے جو اس کے عقلی ذہن کو ایڈریس کرنے والا ہو- لیکن اِس مقصد کے لیے عقلی ڈیٹا (rational data) درکار تھا جو کہ قدیم زمانے میں دستیاب نہ تھا- مغربی تہذیب کے تحت پیدا ہونے والی سائنس نے فطرت (nature) میں تحقیق کے ذریعے یہ عقلی ڈیٹا فراہم کیا- اِس طرح تاریخ میں پہلی بار یہ ممکن ہوا کہ دینِ خداوندی کے عقائد کو عقلی بنیاد (rational ground) پر قابلِ فہم (understandable) بنایا جاسکے-اِس حقیقت کا اعلان قرآن مجید میں پیشگی طورپر اِن الفاظ میں کیا گیا تھا: سَنُرِیْہِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ(41:53)-
قرآن کی اِس آیت میں ’آفاق اور انفس‘ سے مراد تمام وہ مادی اور غیر مادی تخلیقات ہیں جو وسیع کائنات میں پائی جاتی ہیں- اِس پورے مجموعے کو فطرت (nature) کہاجاتا ہے- فطرت کی اِس دنیا میں بے شمار ربانی نشانیاں (signs of God)موجود تھیں- ضرورت تھی کہ اِن نشانیوں کو دریافت کیا جائے، تاکہ امرِ حق خود انسانی مسلّمات کی بنیاد پر مدلل ہوسکے- خدائی نشانیوں کی انفولڈنگ کا یہ کام ہزاروں سال سے نہیں ہوا تھا- موجودہ زمانے میں مغربی تہذیب نے پہلی بار سائنسی تحقیقات کے ذریعے اِن نشانیوں کو کھولا اور اُن کو انسان کے لیے ایک معلوم واقعہ بنایا- یہ موافق دلائل فطرت (nature) میں آیاتِ الہی کے طورپر موجود تھے، وہ مخفی حالت میں تھے- مغربی سائنس نے قوانینِ فطرت کے نام سے جن حقائق کو دریافت کیا ہے، وہ دراصل یہی دلائل ہیں- اِس کے بعد یہ ممکن ہوگیا کہ اسلام کے علمِ کلام (theology) کو قیاسات کے بجائے برہانیات کی بنیاد پر قائم کی جائے-
4- قرآن ساتویں صدی عیسوی کے ربع اول میں اترا- اُس وقت قرآن میں یہ کہاگیا تھا کہ: تَبٰرَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ لِیَکُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْراً (25:1)- اِس آیت کے مطابق، یہ مطلوب تھا کہ قرآن کی تعلیمات کو زمین پر بسنے والے تمام انسانوں تک پہنچایا جائے- مگر قدیم زمانے میں عملاً ایسا ہونا ممکن نہ تھا- اِس عالمی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ضروری تھا کہ پوری دنیا کا جغرافیہ معلوم ہو- پرنٹنگ پریس اور کمیونکیشن کا دور دنیا میں آجائے، ساری دنیا میں بہ آسانی سفر کرنا ممکن ہوجائے، لوگوں کے درمیان کھلا پن (openness) کی فضا موجود ہو، ترقی یافتہ زبانیں دنیا میں پائی جاتی ہوں، وغیرہ-
عالمی دعوت کو ممکن بنانے کے لیے یہ تمام چیزیں لازمی طورپر ضروری ہیں- قدیم زمانے میں یہ اسباب موجود نہ تھے، اِس لیے قدیم زمانے میں اسلام کی عالمی اشاعت کا یہ نشانہ عملاً پورا نہیں ہوسکتا تھا- انیسویں صدی کے بعد کے زمانے میں پہلی بار یہ اسباب حاصل ہوئے ہیں اور اِن اسباب کا حصول براہِ راست مغربی تہذیب کے ذریعے ممکن ہوا ہے-
5- قرآن اصلاً ایک کتابِ دعوت ہے، لیکن دعوت کی نکات کو مدلل کرنے کے لیے قرآن میں بہت سے حوالے دئے گئے ہیں جن کا تعلق تاریخ یا عالمِ فطرت سے ہے- مگر ساتویں صدی کے ربع اول میں اِن حوالوں کی ضروری تفصیلات معلوم نہ تھیں- اِس بنا پر قرآن کے یہ حوالے عملاً صرف عقیدہ کا مسئلہ (matter of belief) بنے ہوئے تھے- اِس قسم کی مثالیں قرآن میں بڑی تعداد میں موجود ہیں- مثلاً قرآن میں کائنات کے آغاز کے لیے ایک حوالہ یہ ہے: اَوَلَمْ یَرَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰہُمَا (21:30)- اِسی طرح قرآن میں بتایا گیا ہے کہ انسان جب بطنِ ماد ر میں ہوتا ہے تو وہ تین پردوں (فی ظلمات ثلاث) کے درمیان ہوتا ہے (39:6)- اِسی طرح قرآن میں فرعون کے جسم کے بارے میں یہ آیت آئی ہے: فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ اٰیَةً(10:92)- قرآن میں کثرت سے اِس طرح کے حوالے پائے جاتے ہیں- ضرورت تھی کہ اُن کےمتعلق تاریخی اور سائنسی معلومات دریافت کی جائیں، تاکہ قرآن کے یہ بیانات انسان کے لیے پوری طرح قابلِ فہم ہوجائیں- یہ کام بھی پہلی بار مغربی علوم کے ذریعے انجام پایا ہے-
6- قدیم زمانے میں مذہبی جبر عام تھا- اِس بنا پر دعوتِ حق کا کام معتدل انداز میں نہیں ہوسکتا تھا- یہ صورتِ حال ایک سیاسی سبب کی بنا پر تھی- قدیم زمانے کے حکمراں اپنا حقِ حکمرانی (mandate) مذہب کی بنیاد پر حاصل کرتے تھے، اِس لیے وہ اِس کو برداشت نہیں کرتے تھے کہ اُن کے علاقے میں سلطنت کے مذہب کے سوا کوئی اور مذہب پایا جائے- مذکورہ آیت میں اظہارِ دین کا ایک پہلو یہ تھا کہ حقِ حکمرانی کے معاملے کو مذہب سے جدا کردیا جائے- دورِ اول میں جو اسلامی انقلاب آیا، اُس نے تاریخ میں ایک نیا عمل (process) جاری کیا- یورپ کی جمہوریت اِسی عمل کی تکمیل ہے- مغربی جمہوریت نے یہ کیا کہ حقِ حکمرانی کے معاملے کو مذہب سے الگ کرکے اس کو عوامی رائے سے وابستہ کردیا- اِس کے نتیجے کے طور پر دنیا میں پہلی بار مذہبی امن کا دور آگیا- اِس دور کی باقاعدہ تکمیل اقوامِ متحدہ کی صورت میں ہوئی- جس کے تحت مذہب کے معاملے میں تشدد کو بطور اصول ممنوع قرار دے دیا گیا- یہ واقعہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے گویا دورِ جدید میں حکمتِ حدیبیہ کی عالمی توسیع ہے جو اسلامی دعوت کے حق میں ایک عظیم نعمت کی حیثیت رکھتی ہے-
7- مغربی دنیا کے سیکولر اہلِ علم نے اسلام کا مطالعہ اپنے اصول کے مطابق، خالص موضوعی انداز میں کیا- اِس بنا پر وہ اسلام کے کئی ایسے پہلو کو دریافت کرسکے جو مسلم اہلِ علم سے اعتقادی مطالعے کی بنا پر مخفی تھے- مثلاً پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے مشن کے سلسلے میں غیر معمولی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا- اِس مقابلے میں پیغمبر اسلام کو غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی- اِس کامیابی کو مسلم اہلِ علم عام طورپر ’’فضیلت رسول‘‘ کے خانے میں ڈالے ہوئے ہیں- اِس کامیابی کو فضیلتِ رسول کے خانے میں ڈالنے کا نقصان یہ ہے کہ عام مسلمانوں کو اس سے کوئی سبق نہیں ملا- اِس طریقِ مطالعہ سے عام مسلمانوں کو صرف فخر کی غذا ملی- وہ اپنے پیغمبر کو ’’فخر ِ موجودات‘‘ کہنے لگے-
لیکن مغرب کے سیکولر اہلِ علم نے اِن واقعات کا تجزیہ غیر جانب دارانہ ذہن کے ساتھ کیا تو انھوں نے ایک ایسی حقیقت دریافت کی جس میں تمام مسلمانوں، بلکہ تمام انسانوں کے لیے کامیابی کا اعلی اصول موجود تھا- مثلاً ایک برٹش رائٹر (E.E. Kellet)نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے تذکرے کے تحت لکھا ہے کہ — انھوں نے مشکلات کا مقابلہ اِس عزم کے ساتھ کیا کہ وہ ناکامی سے کامیابی کو نچوڑیں:
He faced adversity with the determination to wring success out of failure.
یہ صرف ایک تاریخی تجزیہ نہیں، اِس سے زندگی کا ایک اہم اصول دریافت ہوتا ہے، وہ یہ کہ انسان کو اُن کے خالق نے ایک انوکھی صلاحیت کے ساتھ پیدا ;کیاہے، اور وہ ہے اپنے مائنس کو اپنے پلس میں تبدیل کرلینا-
انسانی شخصیت کا یہ امکان (potential)فطرت کا ایک عظیم عطیہ ہے- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل کے ذریعے اِس انسانی فطرت کا ایک کامیاب مظاہرہ کیا، مگر مسلمان اپنے عقیدت مندانہ مطالعے کی بنا پر اِس پہلو کو بطور سنتِ رسول اپنی زندگیوں میں شامل نہ کرسکے- مغربی سیرت نگاروں نے سیرت نبوی کے اِس پہلو کو دریافت کرکے مسلمانوں کو یہ موقع دیا کہ وہ اس کو اختیار کریں اور اس کے ذریعے اپنے منصوبوں کو حقائق کی بنیاد پر قائم کرکے اس کو کامیاب بنائیں-
شہادتِ اعظم
مغربی تہذیب کا دینِ خداوندی کے حق میں سب سے بڑا تائیدی رول یہ ہے کہ اس نے اہلِ اسلام کے لیے وہ ضروری اسباب فراہم کیے جن کو استعمال کرکے وہ دورِ آخر کے اُس اہم ترین رول کو کامیابی کے ساتھ ادا کرسکیں، جس کو حدیث میں شہادتِ اعظم کہا گیا ہے- شہادتِ اعظم سے مراد دعوتِ اعظم ہے- اِس دعوتِ اعظم کے دو پہلو ہیں — نظری اعتبار سے، اس کا اعلی حجت (superior reason) پر قائم ہونا، اور وسعت کے اعتبار سے، اس کے دائرے کا عالمی (global)ہونا-
صحیح مسلم میں ایک لمبی روایت آئی ہے- اِس روایت میں دورِ آخر کے ایک اہم رول کا ذکر بطور پیشین گوئی کیاگیا ہے- اِس کی بابت حدیث میں یہ الفاظ آئے ہیں: قال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم: ہذا أعظم الناس شہادة عند رب العالمین (صحیح مسلم، رقم الحدیث: 5230) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ اللہ رب العالمین کے نزدیک سب سے بڑی شہادت ہوگی-
اِس حدیث پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس میں ’شہادت‘ سے مراد جسمانی قتل نہیں ہے، بلکہ اُس سے مراد نظریاتی معنوں میں ایک عظیم دعوتی رول ہے جو دورِ آخر میں انجام پائے گا- غالباً اِس سے مراد انسانی تاریخ کے آخری زمانے کا ایک فائنل دعوتی رول ہے- اِس دعوتی رول کی صراحت اگر چہ حدیث میں موجود نہیں ہے، لیکن قرآن وحدیث میں ایسے اشارات موجود ہیں جن پر غور کرکے اِس رول کو متعین کیا جاسکتا ہے-
1- شہادتِ اعظم کے نظری پہلو کو سمجھنے کے لیے قرآن کی اِس آیت سے رہنمائی ملتی ہے: سَنُرِیْہِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَق (41:53)- قرآن کی اِس آیت میں ’آیات‘ سے مراد تخلیق میں چھپی ہوئی نشانیاں ہیں- ان نشانیوں کو موجودہ زمانے میں مغربی سائنس دانوں نے غیر معمولی تحقیق کے ذریعے دریافت کیا- اِس طرح دینِ خداوندی کی تاریخ میں ایک نیا دور آگیا- قبل از سائنس دور (pre-scientific era)میں جو ایمان پیغمبروں کے بتائے ہوئے عقیدہ (belief) کی حیثیت رکھتا تھا، وہ بعد از سائنس دور(post-scientific era) میں خود انسان کے اپنے دریافت کردہ علوم کے تحت ایک ثابت شدہ حقیقت بن گیا-
اِس کی ایک مثال یہ ہے کہ قدیم زمانے میں کائنات ایک پر اسرار ظاہرہ بنی ہوئی تھی-قدیم زمانے میں نہ عالمِ اکبر (macro world) کو دیکھنے کے لیے دور بین موجود تھی اور نہ عالمِ اصغر (micro world) کو دیکھنے کے لیے خورد بین دستیاب تھی- موجودہ زمانے میں اعلی سائنسی نوعیت کے مشاہدے اور تجربے کے ذریعے یہ معلوم ہوا کہ کائنات میں نہایت اعلی درجے کی ذہین ڈیزائن موجود ہے- یہ دریافت اِس مذہبی تصورکو یقینی بنادیتی ہے کہ یہ کائنات ایک باشعور خالق کی ایک باشعور تخلیق ہے- ( ملاحظہ ہو:(The Intelligent Universe by Fred Hoyle
2- شہادت کا دوسرا پہلو وہ ہے جس کا تعلق عالمی دعوت (global dawah) سے ہے- اسلام اول دن سے سارے انسانوں کے لیے ایک دین ِ رحمت کی حیثیت رکھتا تھا، لیکن اسلام کے پیغام کو سارے انسانوں تک پہنچانا قدیم زمانے میں ذ رائع کے اعتبارسے عملاً ممکن نہ تھا- موجودہ زمانے میں مغربی سائنس نے پہلی بار اُن تمام ذرائع کو انسان کی دسترس میں دے دیا جن کو استعمال کرکے اسلام کی عالمی دعوت کو ایک واقعہ بنایا جاسکتا ہے-
اِس کی ایک مثال موجودہ زمانے میں اُس ذریعے کی ایجاد ہے جس کو الیکٹرانک کمیونکیشن کہاجاتا ہے- یہ دریافت اب نہایت ترقی یافتہ سائنس بن چکی ہے- اِس دریافت کا ایک جز موبائل فون ہے- اِس دریافت کے تحت موجودہ زمانے میں وہ آلہ تیار ہوگیا ہے جس کو اسمارٹ فون (smartphone) کہاجاتاہے- یہ اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ ہر آدمی اس کو اپنی جیب میں رکھ سکتا ہے- اسمارٹ فون میں بظاہر لامحدود گنجائش (capacity) ہوتی ہے-
موجودہ زمانے میں تمام بڑے بڑے ادارے اپنے کتابوں کو اپ لوڈ کرکے انٹرنیٹ اور اسمارٹ فون پر ڈال رہے ہیں- اِس دریافت نے ایک نئے دعوتی امکان کو واقعہ بنا دیا ہے- اب یہ ممکن ہوگیا ہے کہ قرآن کے ترجمے مختلف زبانوں میں تیار کیے جائے- یہ ترجمے ایسی زبان میں ہوں جو قاری کے لیے بہ آسانی قابلِ فہم ہوں- پھر قرآن کے اِن ترجموں کو انٹرنیٹ پر ڈال دیا جائے اِس کے بعد زمین پر بسنے والے ہر انسان کے لیے یہ ممکن ہوجائے گا کہ وہ اپنی جیب سے اسمارٹ فون نکالے اور اس کے ایک سوئچ کو ٹچ کرے اور پورے قرآن کا ترجمہ اس کی اپنی قابلِ فہم زبان میں اس کے سامنے آجائے-دعوت کا یہ عالمی ذریعہ آج مغربی سائنس کی بناپر عملاً ایک واقعہ بن چکا ہے-
غالباً دورِ آخر کایہی وہ دعوتی امکان ہے جس کا ذکر بطور پیشین گوئی ایک حدیثِ رسول (لا یبقى على ظہر الأرض بیت مدر ولا وبر إلا أدخلہ اللہ کلمة الإسلام بعز عزیز وذل ذلیل)میں کیا گیا ہے-اِس حدیث میں ’کلمۂ اسلام‘ سے مراد قرآن ہے- یہ ایک قابلِ غور بات ہے کہ حدیث میں ’إدخال الکلمة فی کل القلوب‘ کا لفظ نہیں آیا ہے، بلکہ حدیث میں ’إدخال الکلمة فی کل البیوت‘ کا لفظ آیا ہے- اِس کا مطلب واضح طورپر یہ ہے کہ ایسا نہیں ہوگا کہ کرۂ ارض پر بسنے والے تمام لوگ اسلام میں داخل ہوجائیں، بلکہ جو واقعہ ہوگا، وہ یہ کہ ہرچھوٹے بڑے گھر میں جہاں کوئی انسان رہتا ہے، وہاں قرآن داخل ہوجائے گا، خواہ انسان چاہے یا نہ چاہے- مذکورہ حدیث کے آخر میں عزت اور 'ذلت کے الفاظ اپنے لفظی معنی میں نہیں ہیں، بلکہ وہ اِسی معنی میں ہیں کہ آدمی چاہے یا نہ چاہے، ہر حال میں ایسا ہوگا کہ خدا کا کلام اس کے گھر میں داخل ہوجائے گا —انٹرنیٹ اور اسمارٹ فون کی ایجاد کے بعد یہی واقعہ اپنی کامل صورت میں عملاً ظہور میں آگیا ہے- (2014)
واپس اوپر جائیں

انتظار نہیں

ایک صاحب نے کہا کہ میں الرسالہ کا قاری ہوں- مجھے الرسالہ کے دعوتی نقطہ نظر سے مکمل اتفاق ہے- میری عمر 63 سال ہے- میرے پانچ بچے ہیں- دعا کیجئے کہ میں اپنے بچوں کی ذمے داریوں سے فارغ ہوجاؤں- اِس کے بعدمیرا ارادہ ہےکہ میں اصحابِ صفہ کی طرح اپنی زندگی کا ہر لمحہ بالکل دین کی خدمت میں گزاروں گا-
یہاںاصحابِ صفہ کا حوالہ درست نہیں- اصحابِ صفہ نے ایسا نہیں کیا تھا کہ پہلے وہ اپنی اولاد کی ذمے داریوں سے فارغ ہوئے- اُس کے بعد وہ دین کی خدمت میں لگ گئے- اِس کے برعکس، اصحابِ صفہ کا معاملہ یہ تھا کہ جب انھیں سچائی کی دریافت ہوئی تو فوراً ہی انھوں نے اپنی زندگی سچائی کے لیے وقف کردی- انھوںنے اپنی دنیوی ذمے داریوں کو اللہ پرڈال دیا اور اپنے آپ کو دین کی ذمے داری اداکرنے کے لیے وقف کردیا-
دریافت حق میں کوئی انتظار نہیں ہوتا- جس آدمی کو حق کی دریافت ہوجائے، وہ اِس کا تحمل نہیں کرسکتا کہ وہ کسی عذر (excuse) کو لے کر انتظار کی پالیسی اختیار کرے- حق کی دریافت کے بعد وہ فی الفور اپنے آپ کو حق کے راستے پر ڈال دے گا-
اِس معاملے میں جو شخص کسی عذر کا حوالہ دے یا وہ انتظار کی پالیس اختیار کیے ہوئے ہو، اس کے بارے میں کہاجائے گا کہ اُس نے ابھی حق کو پایا ہی نہیں- اُس نے کسی اور چیز کو پایا ہے اور غلطی سے وہ یہ سمجھ رہا ہے کہ اُس نے حق کو پالیا ہے-
حق بلا شبہہ تمام چیزوں میں سب سے بڑی چیز ہے- حق کو پانے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی نے اُس چیز کو دریافت کرلیا جو اُس کے لیے سب سے بڑی چیز کی حیثیت رکھتی ہے- ایسا انسان عذر کو بھول جائے گا- انتظار کی پالیسی اختیار کرنا اُس کو ایسا لگے گا جیسے اُس نے جان بوجھ کر اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال لیا ہو-
واپس اوپر جائیں

بحران کے وقت

16 مئی 2011 کا واقعہ ہے۔ کیتھے پیسفک ائرویز(Cathay Pacific Airways) کا ایک جہاز (Airbus, 330) سنگاپور سے جکارتا (انڈونیشیا) جارہا تھا۔ اِس جہاز میں 136 مسافر سوار تھے۔ راستے میں جہاز کے ایک انجن میں آگ لگ گئی۔ پائلٹ نے جہاز کو دوبارہ واپس لاکر سنگاپور میں اتار دیا۔
نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (17 مئی 2011 ) میں اِس خبر کو دیتے ہوئے بتایا گیا تھا کہ ایک مسافر نے گھبرا کر جہاز کی کھڑکی کے باہر دیکھا۔ وہ چلایا کہ — میں آگ دیکھ رہا ہوں، میں آگ دیکھ رہا ہوں۔ ہمارے پیچھے بیٹھے ہوئے مسافر یہ دعا کررہے تھے— خدایا، ہمارے جہاز کو بچا- خدایا، ہم کو اپنی حفاظت عطا فرما:
‘I see fire! I see fire!’ “Behind us, passengers were praying: ‘God, save our flight! Give us your protection!” (The Times of India, New Delhi, May 17, 2011)
تجربہ بتاتا ہے کہ آدمی جب کسی بحرانی صورتِ حال سے دوچار ہوتاہے، جب وہ محسوس کرتاہے کہ وہ پیش آمدہ صورتِ حال کا مقابلہ کرنے کے لیے بالکل عاجز (helpless)ہے۔ اُس وقت وہ بے تابانہ طورپر خدا کو پکارنے لگتا ہے۔ اِس کی ایک مثال مذکورہ واقعے میں ملتی ہے۔
اِس طرح کے بحران (crisis) کے واقعات آدمی کی زندگی میں بار بار پیش آتے ہیں۔ اِس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ خدا کا تصور انسان کی فطرت میں پیوست (interroven)ہے۔ ہر انسان کو امکانی طورپر (potentially) خدا کی معرفت حاصل ہے۔
دعوت الی اللہ کا مقصد اِسی امکان کو واقعہ بنانا ہے۔ دعوت انسانی شخصیت کے الگ کوئی چیز نہیں، وہ اس کی اپنی شخصیت ہی کا ایک حصہ ہے۔ اِسی لیے آدمی جب اپنی اِس فطرت کو دریافت کرلیتاہے تو وہ توحید کی دعوت کو اِس طرح قبول کرلیتا جیسے کہ وہ اس کی اپنی چیز تھی۔
واپس اوپر جائیں

جنتی تہذیب

قرآن کی سورہ یاسین میں اہلِ جنت کے ذکر کے تحت یہ الفاظ آئے ہیں: اِنَّ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ الْیَوْمَ فِیْ شُغُلٍ فٰکِــہُوْنَ (36:55) یعنی بے شک، اہلِ جنت آج ایک عظیم مشغلے میں ہوں گے، خوش —— ہر آئینہ اہلِ بہشت امروز درکارے باشند، شاداں:
Surely the dwellers of Paradise shall on that day be in an occupation quite happy.
آخرت میں سچے اہلِ ایمان کو جنت میں داخلہ ملے گا- وہاں وہ ابدی طورپر خوشیوں کی زندگی گزاریں گے- جنت ہر اعتبار سے، پرفکٹ (perfect) ہوگی-وہاں ہر اعتبار سے، اہلِ جنت کے لیے فل فل مینٹ (fulfilment) کا سامان ہوگا- وہاں اہلِ جنت نہ کبھی حزن کا شکار ہوں گے اور نہ وہ کبھی اکتاہٹ (boredom) میں مبتلا ہوں گے-
تاہم جنت صرف آرام وعیش کی جگہ نہ ہوگی، بلکہ اِسی کے ساتھ وہ اہلِ جنت کے لیے ایک اعلی ترین سرگرمی کا مقام ہوگا- مذکورہ آیت میں اِس حقیقت کو بتانے کے لیے ’شغل‘ کا لفظ آیا ہے- شغل کے لفظی معنی مشغلہ (activity) کے ہیں- شغل کا لفظ اِس آیت میں نکرہ استعمال ہوا ہے- نحوی قاعدے کے مطابق، تنکیر برائے تفخیم ہوتی ہے- اِس لیے یہاں شغل سے مراد ہے ایک عظیم مشغلہ-
اِس عظیم مشغلہ سے کس قسم کا مشغلہ مراد ہے- غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ اِس سے مراد وہی مشغلہ ہے جو دنیا کی زندگی میں انسان کے لیے عظیم مشغلہ تھا- یہی مشغلہ بہت زیادہ اضافہ کے ساتھ آخرت میں بھی ابدی طورپر جاری رہے گا- اِس مشغلہ کو دنیا میں قوانینِ فطرت کی دریافت (discovery of natural laws) کہاجاتاہے، اِسی کو قرآن میں کلمات اللہ (31:27) کہاگیا ہے- دنیا میں کلمات اللہ کی دریافت ابتدائی طورپر ہوئی تھی- آخرت میں دوبارہ ’کلمات اللہ‘ کی دریافت ابدی طورپر اور غیر مختتم طورپر جاری رہے گی-
قرآن میں بتایا گیاہے کہ اللہ کے کلمات ناقابلِ قیاس حد تک زیادہ ہیں، اتنے زیادہ کہ اگر اُن کو لکھا جائے تو وہ ضبطِ تحریر میں نہ آسکیں- اِس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے: وَلَوْ اَنَّ مَا فِی الْاَرْضِ مِنْ شَجَـرَةٍ اَقْلَامٌ وَّالْبَحْرُ یَمُدُّہٗ مِنْۢ بَعْدِہٖ سَبْعَةُ اَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ کَلِمٰتُ اللّٰہِ ۭ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ (31:27) یعنی اگر زمین میں جو درخت ہیں، وہ قلم بن جائیں اور سمندر، سات مزیدسمندروں کے ساتھ روشنائی بن جائیں، تب بھی اللہ کے کلمات ختم نہ ہوں گے- بے شک اللہ زبردست ہے، حکمت والا ہے-
’کلمات اللہ‘ کا لفظی مطلب ہے اللہ کی باتیں (words of God)- اللہ کا کلمہ سادہ طورپر صرف کلمہ نہیں ہوتا، وہ ایک محکم فیصلہ یا اٹل قانون ہوتا ہے- کلمات اللہ سے مراد وہی چیز ہے جس کو قرآن میں مختلف مقامات پر ’امرِ رب‘ یا ’امر اللہ‘ کہاگیا ہے- دوسرے الفاظ میں، اس کو قوانینِ الہیہ (divine laws) کہاجاسکتا ہے- موجودہ زمانے میں اہلِ سائنس اِس واقعے کو قوانینِ فطرت (laws of nature) کہتے ہیں-
یہی قوانینِ الہیہ یا قوانینِ فطرت ہیں جن کی بنیاد پر کائنات کی تخلیق ہوئی اور یہی قوانین ہیں جن کے تحت نہایت محکم انداز میں کائنات کا پورا نظام مسلسل طورپر چل رہاہے- یہی قوانین انسان کے لیے اس کی تمام فکری اور عملی ترقیوں کا ماخذ ہیں- اِنھیں قوانین میں تدبر کرکے انسان معرفت حاصل کرتا ہے- اِنھیں قوانین میں تدبر کرکے انسان تخلیق کی معنویت کو دریافت کرتاہے- انھیں قوانین میں تدبر کرکے انسان اللہ کی عظمت (glory) سے آشنا ہوتا ہے- انھیں قوانین میں تدبر کرکے انسان کےاندر وہ صفات پیدا ہوتی ہیں جن کو اللہ کے لیے حبّ شدید اور خوفِ شدید کہاجاتا ہے- انھیں قوانین پر تدبرکرکے آدمی اپنے اندر وہ ربانی شخصیت پیدا کرتا ہے جو اللہ کو مطلوب ہے- یہ قوانین الہیہ اتنی زیادہ تعداد میں ہیں کہ انسان ابد تک اُن میں تدبر کرتا رہے اور وہ کبھی ختم نہ ہوں-
یہی قوانین یا قوانینِ فطرت ہی تمام علوم کا خزانہ ہیں- موجودہ زمانے میں جس ظاہرے کو تہذیب (civilization)کہا جاتا ہے، وہ اِنھیں قوانین الہیہ یا قوانین فطرت کی جزئی دریافت کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے- سائنس کے علوم تمام تر اِنھیں قوانین میں غور وفکر کے ذریعے حاصل ہوئے ہیں- یہی قوانین، حکمت (wisdom) کا خزانہ ہیں- حقیقت ہے کہ اِن قوانین کے ساتھ انسان انسان ہے- اگر اِن قوانین کو انسان سے جدا کردیا جائے تو انسان صرف ایک حیوان بن کر رہ جائے گا- جو چیز انسان کو انسان بناتی ہے، وہ اس کی صرف یہ خصوصیت ہے کہ وہ فطرت کے قوانین کو دریافت کرکے اُن کو اپنے لیے استعمال کرتاہے-
امریکی مصنف الون ٹافلر (Alvin Toffler) کی ایک کتاب ’فیوچر شاک‘ (Future Shock) ہے، جوپہلی بار 1970میں امریکا سے شائع ہوئی- اس نے اِس کتاب میں کہا تھا کہ ہمارا انڈسٹریل ایج (industrial age) مزید ترقی کرکے اب سپر انڈسٹریل ایج (super industrial age) میں داخل ہونے والا ہے- مغربی مصنف نے اپنی یہ پیشین گوئی بیسویں صدی میں کی تھی، لیکن صدی کے آخر میں اس کا یہ خواب منتشر ہوگیا-ماحولیاتی مسائل (ecological problems) نے بتایا کہ زمین پر انسانی تہذیب کی آخر حد آچکی ہے- اِس زمین پر انسانی تہذیب کا سفر مزید آگے جاری رہنے والا نہیں-
تہذیب کیا ہے- تہذیب تمام تر قوانین فطرت پر مبنی ایک ظاہرہ ہے- قوانینِ فطرت سے الگ تہذیب کا کوئی وجود نہیں- جب یہ واقعہ ہے کہ قوانینِ الہیہ یا قوانین فطرت کی کوئی حد نہیں تو لازمی طورپر یہ بھی ہونا چاہئے کہ تہذیب کی ترقی کی کوئی حد نہ ہو، تہذیب کی ترقی کا سفر ابدی طورپر جاری رہے-یہی وہ مقام ہے جہاں قرآن ہم کو رہنمائی دیتا ہے- قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ تہذیبِ انسانی کا سفر موجودہ دنیا کے دورِ حیات میں ختم نہ ہوگا، بلکہ وہ مزید ترقی کے ساتھ زیادہ اعلی صورت میں آخرت کے ابدی دورِ حیات میں جاری رہے گا-
قرآن میں یہ بات، نعوذ باللہ، بطور بوسٹنگ (boasting) نہیں ہے، بلکہ وہ بطور پیشین گوئی ہے، یعنی اِس قرآنی بیان میں دراصل یہ اعلان کیاگیا ہے کہ وہ وقت آنے والا ہے جب کہ تہذیب کا نامکمل سفر اپنی تکمیل کو پہنچے- موجودہ دنیا میں ’کلمات اللہ‘ کا جو اظہار جزئی صورت میں ہواہے، آخرت کی دنیا میں اس کا اظہار کامل صورت میں ہوگا-
قرآن یہ خوش خبری دیتاہے کہ انسانی تہذیب کا سفر ادھورا نہیں رہے گا، بلکہ وہ مزید ترقی کے ساتھ آئندہ بھی جاری رہے گا- ارتقا کا جو موقع انسان کو حیاتِ دنیا میں نہیں ملا تھا، وہ آخرت کی زندگی میں مزید اضافے کے ساتھ اس کو حاصل ہوجائے گا-
تہذیب کے دو دور
تہذیب کے دو دور جن کا ذکر اوپر کیاگیا، اُن کا حوالہ قرآن میں صراحتاً موجود ہے- تہذیب کا پہلا دور جو قوانینِ فطرت کی جزئی دریافت کے ذریعے موجودہ دنیا میں ظہور میں آئے گا، اس کا ذکر قرآن کی سورہ حم السجدہ میں اِن الفاظ میں آیا ہے: سَنُرِیْہِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ (41:53) یعنی عن قریب ہم اُن کو اپنی نشانیاں (signs) دکھائیں گے، آفاق میں بھی اور انفس میں بھی، یہاں تک کہ اُن پر پوری طرح آشکارا ہوجائے گا کہ یہ (قرآن) حق ہے-
قرآن کی اِس آیت میں قوانینِ الہیہ پر مبنی تہذیب کے اُس دور کا ذکر ہے جو موجودہ دنیا میں پیش آنے والا تھا- قرآن کی یہ پیشین گوئی انیسویں صدی اور بیسویں صدی میں سائنس کے ظہور کی صورت میں واقعہ بن چکی ہے- سائنس کی دریافتوں نے یہ کیا ہے کہ آفاق وانفس میں جو خدائی نشانیاں (signs of God) موجود تھیں، اُن کو جزئی طورپر دریافت کیا اور اِس طرح انسان کے لیے تبیینِ حق کے نئے مواقع کھول دئے - اِن دریافتوں کے ذریعے انسان کو ایک نیا فریم ورک (framework) ملا- اِس کے ذریعے یہ ممکن ہوگیا کہ انسان خالص علمی اور عقلی سطح پر اللہ کی معرفت حاصل کرے-
قوانینِ الہیہ پر مبنی تہذیب کا دوسرا عظیم تر ظہور آخرت کے دورِ حیات میں پیش آئے گا- تہذیب کے اِس دوسرے دور کو ربانی تہذیب کہاجاسکتا ہے- یہ دور اپنے تمام کمالات کے ساتھ ابدی طورپر جاری رہے گا- اِس دوسرے دورِ تہذیب کا ذکر قرآن کی سورہ الکہف میں اِن الفاظ میں آیا ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ کَانَتْ لَہُمْ جَنّٰتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًا ؁ خَالِدِیْنَ فِیْہَا لَا یَبْغُوْنَ عَنْہَا حِوَلًا ؁ قُلْ لَّوْ کَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّکَلِمٰتِ رَبِّیْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ کَلِمٰتُ رَبِّیْ وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِہٖ مَدَدًا (18:107-109) یعنی بے شک جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے عملِ صالح کیا، اُن کے لیے فردوس کے باغوں کی ضیافت ہے- اِس میں وہ ہمیشہ رہیں گے، وہ وہاں سے نکلنا نہ چاہیں گے- کہوکہ اگر سمندر میرے رب کی نشانیوں کو لکھنے کے لیے روشنائی ہوجائے تو سمندر ختم ہوجائے گا، اِس سے پہلے کہ میرے رب کے کلمات ختم ہوں ، اگر چہ ہم اس کے ساتھ اسی کی مانند اور سمندر ملا دیں-
قرآن کی اِن آیات پر غور کیجئے- سب سے پہلے فرمایا کہ ’’جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے عمل صالح کیا‘‘، یعنی جن لوگوں نے دریافت کی سطح پر اللہ کی معرفت حاصل کی اور پھر اس معرفت کے مطابق، اپنی عملی زندگی کو ربانی زندگی بنا دیا- اس کے بعد فرمایا کہ ’’اُن کے لیے فردوس کے باغوں کی ضیافت ہے‘‘، یعنی آخرت میں اُن کو اللہ کے آفاقی گیسٹ ہاؤس (universal guesthouse) میں ابدی طورپر رہنے کا موقع دیا جائے گا- اِس کے بعد فرمایا کہ ’’اس میں وہ ہمیشہ رہیں گے، وہ وہاں سے نکلنا نہ چاہیں گے‘‘-
انسان کا مزاج یہ ہے کہ اگر اس کو یکساں قسم کی مادی نعمتیں دی جائیں تو یہ نعمتیں خواہ کتنی ہی زیادہ ہوں، کچھ دنوں کے بعد وہ ان کی یکسانیت کی بناپر بورڈم (boredom) کا شکار ہوجائے گا، وہ اُن سے محظوظ نہ ہوسکے گا- اِس کے بعد فرمایا کہ ’’وہ جنت سے نکلنا نہ چاہیں گے‘‘- اِس طرح کی کیفت پیدا ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اہلِ جنت کو مادی نعمتوں کے سوا ایک اور چیز حاصل ہو اور وہ ہے — بار بار نئی چیزوں کا ملنا، بار بار نئی دریافتوں کا تجربہ پیش آنا ، مسلسل طورپر فکر ی ارتقاکا جاری رہنا جن کی بنا پر اہلِ جنت کی تخلیقیت (creativity)کبھی ختم نہ ہوگی- اہلِ جنت کی شخصیت میں یہ ارتقا معرفت ِ خداوندی میں ارتقا کے ذریعے پیش آئے گا-
جنت میں تخلیقی سرگرمیوں (creative activities) کے جو اتھاہ مواقع ہوں گے،اُن کو آیت کے اگلے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے، اور وہ ہے اہلِ جنت کے ذریعے ’کلمات اللہ‘ کی ابدی انفولڈنگ (eternal unfolding)- قرآن کے مطابق، ’کلمات اللہ‘ کی تعداد لا محدود ہے- سائنس کے ذریعے اِن ’کلمات اللہ‘ کا جزئی ظہور (partial unfolding) ہوا، جس کے نتیجے میں دنیا کی تہذیب وجود میں آئی- آخرت میں اہلِ جنت کے ذریعے ’کلمات اللہ‘ کا کامل ظہور ہوگا- اِس کے نتیجے میں وہ دورِ کمال وجود میں آئے گا جس کو جنتی تہذیب کہا جاتا ہے-
دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہر انسان جو یہاں پیدا ہوتا ہے، وہ اپنے آپ کو تیاری میں لگا دیتا ہے- ہر آدمی اپنے اندر کسی نہ کسی شعبے کی اعلی تعلیم حاصل کرنے کی کوشش کرتاہے- ہر آدمی آخری حد تک یہ کوشش کرتاہے کہ اس کے اندر کوئی خاص ہنر مندی (skill)، کوئی خاص لیاقت(qualification) ، کوئی خاص مہارت (expertise) پائی جائے، تاکہ وہ موجودہ دنیا میں قائم شدہ تہذیب کے نقشے میں کوئی اعلی مقام حاصل کرسکے- ہر عورت اور مرد زندگی کی اِس حقیقت کو جانتے ہیں اور اس کے لیے پوری طرح سرگرم رہتے ہیں-
یہی معاملہ آخرت میں بننے والی بلند تر تہذیب کا ہے- وہاں بھی سرگرمیاں ہوں گی، وہاں بھی مناصب ہوں گے ، وہاں بھی ہر قسم کے اعلی شعبے ہوں گے- جنتی دنیا کے ان اعلی مواقع کو حاصل کرنے کے لیے بھی تیار ذہن اور تربیت یافتہ افراد درکار ہیں-موجودہ دنیا ایک اعتبار سے، اِسی اعلی تیاری کی تربیت گاہ ہے-
موجودہ دنیا کے حالات میں لوگوں کو یہ موقع دیا گیا ہے کہ وہ اپنے اندر وہ ربانی صلاحیت پیدا کریں جو اُن کو اِس قابل بنائے کہ وہ آخرت میں بننے والی برتر تہذیب کے مناصب کے لیے منتخب کیے جاسکیں اور پھر ابدی طورپر نہ صرف آرام وعیش کی زندگی گزاریں، بلکہ ایک ایسے تہذیبی سفر کا حصہ بن جائیں جس کی ترقیاں کبھی ختم نہ ہوں- یہ لا محدودخوشی (endless pleasure) کی زندگی ہوگی، جو اللہ کی خصوصی رحمت سے اہلِ جنت کو حاصل ہوگی-
موجودہ دنیا میں کسی آدمی کو جو عزت کا مقام ملتا ہے، وہ اِس بنیاد پر ملتا ہے کہ اس نے تہذیب کے تقاضوں کے مطابق، اپنے آپ کو کتنا تیار کیا ہے- یہی معاملہ آخرت کی جنتی تہذیب میں بھی ہوگا- موجودہ دنیا کی تہذیب میں ہر آدمی کو ڈاکٹر، انجینئر، اسکالر اور ٹکنکل اکسپرٹ، وغیرہ کی نسبت سے مقام ملتاہے- آخرت میں عارف ، متقی اور خاشع، وغیرہ کی نسبت سے اس کو مقام حاصل ہوگا- دنیا میں آدمی کو دنیوی تقاضے کے مطابق تیاری کی نسبت سے اپنا مقامِ استعمال ملتا ہے- آخرت میں ہر آدمی کو ربانی تقاضے کے مطابق تیاری کی نسبت سے اپنا مقامِ استعمال ملے گا-
خلاصۂ کلام
تہذیب (civilization) کیا ہے-تہذیب، اپنی حقیقت کے اعتبار سے، کلماتِ الہیہ کے ظہور کا نام ہے- قیامت سے پہلے کے دورِ حیات میں یہ ظہور جزئی طور پر ہوگا اور قیامت کے بعد کے دورِ حیات میں کامل طور پر- موجودہ دنیا میں انسان کو آزادی حاصل تھی، اِس لیے موجودہ دنیا میں کلماتِ الہیہ کے جزئی ظہور سے جو تہذیب بنی، اس میں انسانی فساد کی بنا پر منفی اجزا شامل ہوگئے- لیکن آخرت میں کلماتِ الہیہ کے کامل ظہور سے جو تہذیب وجود میں آئے گی، وہ انسانی فساد سے پوری طرح پاک ہوگی- اِس لیے آخرت میں ظہور میں آنے والی تہذیب تمام تر مثبت اجزا پر مبنی ہوگی- اِسی لیے اس کو جنتی تہذیب کہاگیا ہے-
قرآن میں جنت کے حوالے سے ارشاد ہوا ہے کہ : لِمِثْلِ ہَذَا فَلْیَعْمَلِ الْعَامِلُوْنَ (37:61) یعنی انسان کو چاہیے کہ وہ موجودہ دنیا کو ایک موقع (opportunity) کے طورپر لے- وہ اپنے آپ کو اِس اعتبار سے تیار کرے کہ وہ آخرت میں بننے والی جنتی تہذیب میں اپنے لیے باعزت جگہ پاسکے- اِسی لیے کہا گیا ہے کہ موجودہ دنیا دار العمل ہے اور آخرت کی دنیا دار الجزا- (2013)
سوال و جواب
سوال
میں الرسالہ کا ایک قاری ہوں- براہِ کرم حسب ذیل تین سوالات کی وضاحت کرکے شکریے کا موقع عنایت فرمائیں:
1- قرآن کا اسلوب شذراتی ہے، یا قرآن ایک منظّم کلام ہے؟
2- مشن کلچر اور اکیڈمک کلچر کے درمیان کیا فرق ہے؟
3- توحید اور تزکیہ کا مفہوم کیا ہے؟
(ایک قاری الرسالہ، اسلام آباد، پاکستان)
جواب
1- قرآن کو سنتے یا پڑھتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس میں ترتیب کا انداز نہیں، بلکہ عام طورپر فریگمنٹری (fragmentary)انداز ہے- قرآن کے اسلوب کے بارے میں بہت سے اہلِ علم کے سامنے یہ سوال رہا ہے- مولانا حمید الدین فراہی (وفات: 1930 ) نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ پورا قرآن ایک منظم کلام ہے-
ذاتی طورپر میرا خیال یہ ہے کہ قرآن ایک مجموعۂ شذرات کی صورت میں ہے- قرآن کے مقصد کے اعتبار سے یہی اسلوب زیادہ مفید ہے- قرآن کا مقصد ذہنِ انسان کی تعمیر ہے- یہ فائدہ صرف ترکیزی فکر (focused thinking) سے حاصل ہوسکتا ہے- شذراتی اسلوب سے ترکیزی فکر کا فائدہ بخوبی طور پر حاصل ہوتا ہے- لمبی مسلسل عبارت میں فوکس پھیل جاتا ہے، جب کہ چھوٹے چھوٹے شذرات کی صورت میں ذہن کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ ایک پوائنٹ پر فوکس کرکے غور وفکر کرے- میرے ذاتی تجربے کے مطابق، ذہن سازی یا فکری تشکیل کا فائدہ شذراتی انداز سے حاصل ہوتا ہے- چناں چہ جب میں نے 1976 میں ماہ نامہ الرسالہ نکالا تو اس کو بھی اِسی شذراتی اسلوب میں نکالا، یعنی ہرصفحے میں ایک سوچنے والی بات-
مولانا حمید الدین فراہی کا ماننا تھا کہ نظمِ قرآن فہمِ قرآن کی کلید ہے- وہ اِس موضوع پر نظام القرآن کے نام سے ایک تفسیر لکھ رہے تھے، مگر وہ اس کو مکمل نہ کرسکے- لیکن ان کے شاگر دِ رشید مولانا امین احسن اصلاحی (وفات: 1997)نے اِسی اسلوب پر ایک مکمل تفسیر ’’تدبر قرآن‘‘ لکھی جو 9 جلدوں پر مشتمل ہے-
نظم کو فہمِ قرآن کا ایک پہلو کہاجاسکتا ہے، لیکن اُس کو فہمِ قرآن کی کلید کہنا درست نہیں، جب آپ قرآن کا مطالعہ اِس طرح کریں کہ آپ کا ذہن نظم بین الآیات اور نظم بین السُّوَر پر لگاہوا ہو تو فطری طور پر آپ کے ذہن کا فوکس پھیل جائے گا- اِس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آپ قرآن کی فوکسڈ اسٹڈی (focused study) نہ کرسکیں گے، اِس طریقِ مطالعہ میں آپ کو قرآن کے کچھ فنی پہلو تو ملیں گے، لیکن تقوی کا پہلو حذف ہوجائے گا جو کہ مطالعہ قرآن کا اصل مقصود ہے-
2- مشن کلچر اور اکیڈمک کلچر دونوں ایک دوسرے سے مختلف ہیں- اکیڈمک کلچر تنوع (diversity) پر قائم ہوتا ہے- اِس کے برعکس، مشن کلچر توحُّد پر قائم ہوتا ہے- علمی اور تحقیقی ادارے میں افکار کا تنوع ایک قابلِ قبول بات ہوتی ہے، لیکن مشن کا مزاج افکار کے تنوع کو برداشت نہیں کرتا- اِس کی مثال یہ ہے کہ تبلیغی جماعت نے مولانا ابو الحسن علی ندوی اور مولانا محمد منظور نعمانی کو برداشت نہیں کیا، حالاں کہ دونوں اصولی طورپر تبلیغ سے اتفاق رکھتے تھے- اِسی طرح جماعتِ اسلامی ہند نے ڈاکٹر عبد الحق انصاری اور ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کو قبول (accept) نہیں کیا، حالاں کہ دونوں اصولی طورپر جماعت اسلامی سے اتفاق کرتے تھے- یہ کلچر مذہبی مشن کا بھی ہے اور سیکولر مشن کا بھی- مثلاً گاندھی کو برتر از کانگریس (greater than Congress)کہاجاتا تھا- جواہر لال نہرو نے اپنی آٹو بایوگرافی میں لکھا ہے کہ کانگریس کمیٹی میں بعض اوقات ایسا ہوتا تھا کہ گاندھی جی کے نقطہ نظرسے ہم لوگوں کو اتفاق نہیں ہوتا تھا- اُس وقت گاندھی جی ایک جملہ بولتے تھے- اس کے بعدسب لوگ اُن سے متفق ہوجاتے تھے- وہ جملہ یہ ہوتا تھا:
Thus my inner sight speaks.
اِس بنا پر میری یہ رائے ہے کہ مشن میں وہی آدمی شرکت کرے جو مشن کلچر کے اِس مبنی بر توحّد تصور کو مانتا ہو- اگر کسی شخص کے اندر یہ مزاج نہ ہو تو اُس کو ہرگز مشن میں شریک نہیں ہونا چاہیے-
3- اسلامی تعلیمات میں دو چیزیں سب سے زیادہ اہم ہیں — توحید اور تزکیہ- توحید اللہ کی نسبت سے ہے اور تزکیہ بندے کی نسبت سے- اِن دونوں کے دو درجے ہیں- ایک ابتدائی درجہ اور دوسرا اعلی درجہ- میرے اپنے مطالعے کے مطابق، خواصِ صحابہ اِن دونوں کے معاملے میں اعلی درجے تک پہنچے تھے- لیکن امت کی بعد کی تاریخ میں، میرے علم کے مطابق، شاید کوئی بھی شخص اِن دونوں معاملات میں اعلی درجے تک نہ پہنچ سکا- یہ رائے میں نے بعد کے لوگوں کی اُن تحریروں سے قائم کی ہے جو کتابوں میں موجود ہیں-توحید کا اعلی معیار یہ ہے کہ بندے کے اندر اللہ سے حبِ شدید اور خوفِ شدید پیدا ہوجائے- میرے علم کے مطابق، امت کے بعد کے افراد میں خوفِ شدید کی مثالیں تو ملتی ہیں، لیکن حب شدید کی مثالیں نہیں ملتیں-
تزکیہ کی بنیاد معرفت ہے- جتنا زیادہ معرفت اتنا زیادہ تزکیہ- میرے علم کے مطابق، بعد کے زمانےکے لوگوں نے اعلی درجے کی معرفت ِ ربّانی کا تجربہ نہیں کیا- تزکیہ پر جو کتابیں یا مضامین لکھے گئے ہیں، اُن میں فنی بحثیں تو بہت ہیں، لیکن اُن میں عارفانہ تجزیہ نہیں- تزکیہ کا موضوع انسانی نفسیات سے جڑا ہوا ہے- اِس لیے تزکیہ کا اعلی ادراک وہی شخص کرسکتا ہے جو انسانی نفسیات کو گہرائی کے ساتھ جانتا ہو-
سوال
مجھے 1998سے آپ کی کتب اور الرسالہ سے استفادے کا موقع مل رہا ہے۔ الحمد للہ آپ کی تحریروں سے بے بہا ایمانی و روحانی، علمی و فکری و اخلاقی منفعت حاصل کرتا رہا ہوں۔ آپ کا لٹریچر میرے بہترین فکری و عملی رہنمائوں میں سے ہے۔ بالخصوص اس میں روحانیت و ربانیت کی جو غیرمعمولی غذا ہے، اُس سے میرے اندر بندگی اور مالکِ کائنات کے استحضار کا گہرا ذوق بیدار ہوا ہے جو میری زندگی میں سب سے زیادہ قیمتی اثاثہ ہے۔ اس کے علاوہ دینِ انسانیت کی وسعت و سمائیت کا جو ادراک آپ کی تشریحات سے ملتا اور زندگی کے روز مرہ واقعات سے دنیا و آخرت کی گہری حقیقتوں کی یاددہانی کا جو داعیہ بیدار ہوتا ہے اور اِس کے علاوہ عمل و کردار و اخلاق سے متعلقہ دیگر فوائد جو میسر آتے ہیں، اُس پر میں بس بارگاہِ ربُ العزت میں یہ دعا کرسکتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو پوری امت و ملت و انسانیت کی طرف سے جزائے خیر عطا فرمائے- آمین۔
دسمبر 2013 کا الرسالہ دیکھا۔ اُس میں صفحہ 7 پر یہ تذکرہ ہے کہ ابو بکر صدیق نے صحابہ کے مشورے سے قرآن کو ایک جلد کی صورت میں تیار کرانے کے لیے کاتبِ وحی حضرت زید بن ثابت کو مقرر کیا۔ انہوں نے ڈاکٹر موریس بکائی کے الفاظ میں ڈبل چیکنگ سسٹم کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے پورا قرآن مرتب کیا۔ کتابتِ قرآن کی تکمیل کے بعد اِن اوراق کی ایک جلد بنائی گئی۔ یہ جلد چوکور صورت میں تھی، اِس لیے اس کا نام رَبعہ رکھا گیا، یعنی چوکور سائز کی کتاب۔ اِس رَبعہ کو ایک مستند نسخے کے طور پر حضرت حفصہ کے گھر رکھوادیا گیا۔ اِس رَبعہ کی تیاری کے لیے قرآن کے جو متفرق اجزا اکھٹا کیے گئے تھے، اُن کا ایک ڈھیر مسجد ِ نبوی میں موجود تھا۔ صحابہ کے مشورے سے اس پورے ڈھیر کو اُس کے مالکان کو واپس نہیں کیا گیا، بلکہ اُن سب کو جلاکر ختم کردیا گیا۔
اِس کے بعد صفحہ 8 پر حضرت عثمان کے زمانے میں اختلافِ قرأت کا حوالہ آیا ہے۔ اِس میں بتایا گیا ہے کہ بہت سے صحابہ نے بطورِ خود لکھ کر قرآن کے اپنے اپنے مجموعے تیار کررکھے تھے جن میں بہت سے فرق موجود تھے۔ ان نسخوں کی وجہ سے حضرت عثمان ؓ کے زمانے میں قرأت قرآن کے بارے میں لوگوں میں اختلاف پیدا ہوا۔ کوئی شخص ایک انداز سے قرآن پڑھتا، اور کوئی شخص دوسرے انداز سے۔ اس لیے حضرت عثمان نے ابو بکر صدیق کے زمانے کا تیار کردہ مستند نسخہ حضرت حفصہ کے گھر سے منگوایا۔ اُس کی بہت سی نقلیں تیار کرائیں۔ مسلم ممالک کے مرکزی شہروں میں قرآن کی یہ مستند نقلیں اور معیاری نسخے بھجوائے اور پھر صحابہ کے جمع کردہ نسخوں میں قرأت ِ قرآن میں فرق کا جو مسئلہ موجود تھا، اُس کا حل یہ نکالا کہ اِن تمام غیر سرکاری نسخوں کو اکھٹا کروایا اور پھر صحابہ کی موجودگی میں اُن کو جلاکر ختم کردیا۔
میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ آپ کی رائے میں اختلافِ قرأت کا مسئلہ ہے کیا؟ ہمارے ہاں اس حوالے سے جو روایات پائی جاتی ہیں اور پھر ہمارے مدارس میں سبعہ یا عشرہ قرأت جو پڑھائی جاتی ہیں، کیا اُن کو تسلیم کرلینے میں کوئی حرج نہیں ہے؟ اور کیا اِس طرح معنوی پہلو سے قرآن کے مطالب میں جو فرق واقع ہوتا ہو، خواہ وہ بظاہر بالکل معمولی سا ہی ہو، اِس سے قرآن کی حتمیت و حاکمیت اور لاریبَ فیہ کی حیثیت میں کوئی رخنہ پیدا نہیں ہوتا؟ (اسفند یار عظمت، پاکستان)
جواب
حدیث کی مختلف کتابوں میںایک روایت آئی ہے۔ اِس کو قرأتِ سبعہ کی روایت کہاجاتا ہے۔ اِس کا خلاصہ یہ ہے کہ صحابہ مختلف عرب قبائل سے تعلق رکھتے تھے۔اِن قبائل کی زبان مشترک طورپر عربی تھی، لیکن ہر ایک کا لہجہ الگ الگ تھا، جیسا کہ ہر زبان میںہوتا ہے۔ جب قرآن لوگوں کے درمیان پھیلا تو ہر ایک اپنے اپنے قبیلے کی زبان میں اُس کو پڑھنے لگا۔
اِس پر لوگوں کے درمیان اختلافات ہوئے۔ لوگ، رسول اللہ ﷺسے ایک لہجے میں قرآن کو سنتے تھے اور صحابہ اس کو دہراتے تو وہ مختلف لہجات میں اس کو دہراتے۔ یہ اختلاف بعض اوقات شدت اختیار کرلیتے تھے، یہاں تک کہ عمر فاروق نے ایک بار ایک صحابی کو اپنے سے مختلف لہجے میں قرآن کو پڑھتے ہوئے سنا تو انھوں نے کہا: کذبتَ۔
جب یہ اختلاف بڑھا تو لوگ اِس مسئلے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے۔آپ نے ہر ایک کے قرآن کو پڑھوا کر سنا اور پھر ہر ایک کے لہجے کی تصویب فرمائی (فأیّ ذلک قرأتم أصبتم، فلا تماروا فیہ) آپ نے کہا کہ تم جس طرح پڑھتے ہو، اُسی طرح پڑھو، کیوں کہ قرآن سات لہجوں میں اتارا گیا ہے (إنما أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف) تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: فتح الباری لابن حجر العسقلانی، جلد 8 ، صفحہ 639۔
اِس سلسلے کی مختلف روایات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سات قرأت کا مطلب، سات مطلوب قرأت نہیں ہے، بلکہ سات رعایتی قرأت ہے۔ قرآن کی مطلوب قرأت صرف وہی ہے جو قبیلۂ قریش کے لہجے کے مطابق ہے۔ کیوں کہ عرب میں قریش کا لہجہ ہی اسٹینڈرڈ لہجہ سمجھا جاتا تھا۔ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ زبان کا لہجہ ابتدائی عمر میں بن جاتا ہے۔ کوئی آدمی بعد کی عمر میں اپنے لہجے کو بدلنے پر قادر نہیں ہوتا۔ اِس لیے یہ فیصلہ ہوا کہ جہاں تک قرآن کی کتابت کا معاملہ ہے، اُس کو قریش کے اسٹینڈرڈ لہجے کے مطابق لکھا جائے گا، البتہ رعایتی طورپر لوگوں کو اجازت ہوگی کہ لوگ اپنے اپنے قبیلے کے لہجے کے مطابق، قرآن کو پڑھیں۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو مذکورہ حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: فاقرؤا ما تیسرمنہ۔
سوال
عرض ہے کہ میرا ایک پوتا ’سیف احمد سیف‘ امریکا میں ہے- اس کی عمر چھ سال ہے- وہ جدید تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم بھی حاصل کررہا ہے- حال ہی میں اس نے اپنے والدین سے ایک سوال کیا- تناظر یہ تھا کہ والدین بچے کے سامنے اللہ تعالی کی قدرت وقوت کے بارے میں گفتگو کررہے تھے- بچےنے دفعتاً یہ سوال پوچھا:
But where does Allah get all these powers from?
انھوں نے یہ سوال مجھے بھیجا ہے- میں الرسالہ پڑھتا ہوں- آپ ’’سوال وجواب‘‘ کے کالم میں لوگوں کے سوالات کے جوابات لکھتے ہیں- میں اسی کالم کے حوالے سے یہ سوال آپ کی خدمت میں ارسال کررہا ہوں اس امید کے ساتھ کہ ایسا جواب مل جائے گا جس سے وہ بچہ مطمئن ہوسکے- جو جواب آپ تحریر فرمائیں گے، میں اسے امریکابھیج دوں گا- اور دوسرے قارئین بھی اس سے استفادہ کرسکیں گے- (عزیز احمد، اسوسییٹ پروفیسر ریٹائرڈ، ایس ایس وی کالج، ہاپوڑ، یوپی)
جواب
یہ سوال ایک غیر منطقی (illogical)سوال ہے- منطقی طورپر اِس معاملے میں اصل مسئلہ ایک موجود واقعے کی توجیہہ (explanation)کا ہے، نہ کہ خود موجود واقعے کا سبب تلاش کرنے کا- اِس معاملے میں بعد موجود واقعہ (post-existing event)پر غور کرنے سے کنفیوزن ختم ہوتا ہے، جب کہ قبل موجود واقعہ (pre-existing event) صرف کنفیوزن کو بڑھاتا ہے- اِس معاملے میں یہی نقطہ نظر علمی نقطہ نظر (scientific outlook)ہے- ہماری اصل ضرورت کنفوزن کو ختم کرنا ہے، اِس معاملے میں موجود کی توجیہہ تلاش کرنے سے کنفیوزن ختم ہوتا ہے اور موجود کا سبب تلاش کرنے سے کنفیوزن میں اضافہ ہوجاتاہے-
یہ ایک تسلیم شدہ اصول ہے کہ سائنٹفک طرز فکر ہی صحیح طرزِ فکر ہے- کوانٹم تھیوری (quantum theory) کے مطابق، سائنس کا جدید ترین موقف یہ ہے کہ انسان کسی معاملے میں صرف احتمال (probability) تک پہنچ سکتا ہے-
مذکورہ سوال اِس اصولِ عام سے الگ نہیں- اگراِس سائنسی اصول کو مان لیا جائے تو بلاشبہہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ خدا کی صفات پر ایمان کے معاملے میں یہ سائنسی اصول پوری طرح منطبق ہوتا ہے، کیوں کہ یہاں زیر بحث معاملے کی توجیہہ کے لیے کوئی دوسرا احتمال یا قرینہ موجود نہیں- سائنسی اصول کے مطابق، جب کوئی دوسرا احتمال یا قرینہ موجود نہ ہو توپہلا احتمال یا قرینہ اپنے آپ ثابت شدہ بن جاتا ہے-
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز — 226

1- عثمانیہ یونی ورسٹی (حیدرآباد) میں حسب ذیل موضوع کے تحت 29 - 28 نومبر 2013 کو ایک سیمنار ہوا:
Building Peace Through Earning And Understanding
A Buddhist initiative of dialogue with Hinduism and with Islam
Organised jointly by World Buddhist Culture Trust and OUCIP
اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے دہلی سے سی پی ایس کے 9ممبران کے ساتھ اس میں شرکت کی- اِس موقع پر عثمانیہ یونی ورسٹی میں قارئین الرسالہ کی طرف سے ایک چار روزہ (27-30 نومبر 2013)حیدرآباد دعوہ میٹ (Dawah Meet) کی گئی- اِس دعوہ میٹ میں الرسالہ سے وابستہ ساؤتھ انڈیا کے تقریباً 65 ایکٹیو ممبران شریک ہوئے- بعض دوسرے مقامات کے کچھ لوگوں نے بھی اِس میں شرکت کی- اِن لوگوں نے اپنے قیام وطعام کا انتظام عثمانیہ یونی ورسٹی ہی کے گیسٹ ہاؤس میں کیا تھا- اِس موقع پر دعوت اور تربیت کے موضوع پر صدر اسلامی مرکز کے کئی پروگرام ہوئے- اِس کے علاوہ حاضرین نے اپنے تاثرات بیان کیے اور دعوہ ورک کی پلاننگ کی- اِس دعوہ میٹ کو عمری برادران نے حیدرآباد کی مقامی ٹیم کے تعاون سے آرگنائز کیا تھا-
2- ممبئی (باندرا کُرلا کامپلکس) میں 29 نومبر 2013 سے 3 دسمبر 2014کے درمیان ایک نیشنل بک فیر منعقد ہوا- اِس میں گڈورڈ بکس (نئی دہلی) نے بھی اپنا اسٹال لگایا- یہاں اسٹال کا انتظام مسٹر احمد خان نے سنبھالا-
3- مسٹر سراج الدین قریشی کی طرف سے 30 نومبر 2013 کو وجے واڑہ (آندھرا پردیش) میں واقع اُن کے دو ہوٹلوں میں قرآن کے انگریزی ترجمےکے نسخے رکھے گئے — ہوٹل سورن پیلیس کے 50 روم میں، اور ہوٹل گیٹ وے میں 108 نسخے رکھےگئے-
4- مہاراشٹریہ اسٹیٹ اردو اکادمی کی طرف سے دسمبر 2013 میں انڈیا کی 100 مختلف اردو اکیڈمی اور ادبی اداروں کے نام پر ایک سال کے لیے ماہ نامہ الرسالہ جاری کیاگیا -
5- حیدرآباد کے این ٹی آراسٹیڈیم میں  7-15 دسمبر 2013 کو ایک نیشنل بک فیر ہوا- اِس میں گڈورڈبکس نے بھی اپنا اسٹال لگایا- یہاںاسٹال کا انتظام مسٹر محمد احمد خان نے سنبھالا - اِس کے علاوہ، الرسالہ سے وابستہ مقامی ٹیم کے ممبران نے دعوتی لٹریچر کی تقسیم میں اپنا خصوصی تعاون دیا-
6- سویڈن کی اُمیایونی ورسٹی کے ایک ریسرچ اسکالر مسٹر ماتیاس (Mattias Dahlkvist) نے 7 دسمبر 2013 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا- یہ انٹرویو اسلام اور امن کے موضوع پر تھا-
7- پٹنہ (بہار) کے شری کرشنا میموریل ہال میں 15 دسمبر 2013 کو فیوچر پاور (Future Power) کے موضوع پر ایک انٹرنیشنل سیمنار ہوا- اِس سلسلے میں پروگرام کے دوسرے دن (16 دسمبر 2013) کو یہاں ایک خصوصی ڈسکشن ہوا- اِس پروگرام میں سی پی ایس کے نمائندہ مسٹر ابو الحکم محمد دانیال کو بھی مدعو کیاگیا تھا- یہ ایک ٹاک شو تھا- اِس شو میں ملک وبیرونِ ملک سے چار لوگ شریک تھے- انٹرویو کے دوران مسٹر دانیال نے اسلام میں امن کی اہمیت کے متعلق تفصیلی وضاحت کی- اِس موقع پر پروگرام کے خصوصی مہمانوں کو پرافٹ آف پیس اور قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا-
8- منسٹری آف ایجوکیشن افغانستان کی طرف سے کابل میں 17 دسمبر 2013 کو ایک انٹرنیشنل کانفرنس ہوئی- یہ کانفرنس ایجوکیشن (Importance of Education) کے موضوع پر تھی- اِس کی دعوت پر ڈاکٹر فریدہ خانم نے اِس کانفرنس میں شرکت کی اور موضوع پر ایک پیپر پیش کیا- افغانستان میں بھی دوسرے مقامات کی طرح قارئین الرسالہ کا ایک حلقہ موجود ہے- یہاں ان لوگوں سے بھی ملاقات ہوئی- یہ لوگ الرسالہ مطبوعات خاص طورپر ’’تذکیر القرآن‘‘ کا پشتوزبان میںترجمہ کررہے ہیں- اِس موقع پر کانفرنس کے شرکا کو دعوتی لٹریچر دیاگیا-
9- انڈیا اور انڈیا سے باہر کے مختلف مقامات پر ہمارے ساتھی بڑے پیمانے پر قرآن اور دعوتی لٹریچر کی اشاعت کا کام کررہے ہیں- اِس سلسلے میں سہارن پور (یوپی) میں بھی کافی دعوتی کام ہورہا ہے- یہاں بھی ہمارے ساتھی ڈاکٹر محمد اسلم خاں کی سرپرستی میں مختلف مقامات — اجتماعات اور تقریبات کے موقعوں پر قرآن اور دعوتی لٹریچر کی اشاعت کررہے ہیں- مثلاً 25 دسمبر 2013کو کرسمس کے موقع پر وہاں کے چرچ میں جاکر قرآن کا ترجمہ دیاگیا- اِسی طرح 28 دسمبر 2013 کو سہارن پور کے ڈسٹرکٹ پولوشن آفیسر مسٹر راجیو سری واستو کو قرآن کا ترجمہ دیاگیا- مسٹر راجیو نے سورہ الرحمن کا ترجمہ پڑھنے کے بعد کہا کہ — اِس کو پڑھنے کے بعد کوئی بھی انسان اپنے پروردگار کا ناشکرگزار نہیں بن سکتا-
10- نئی دہلی کے انڈیا انٹرنیشنل سنٹر کے آڈی ٹوریم میں 5 جنوری 2014 کو سیرت النبی کے موضوع پر ایک کانفرنس ہوئی- یہ پروگرام ادارہ عاشقانِ رسول (نئی دہلی) کی طرف سے کیاگیا تھا- اِس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اپنی ٹیم کے ممبران کے ساتھ اس میں شرکت کی اور موضوع پر آدھ گھنٹے کی ایک تقریر کی- اِس موقعے پر سی پی ایس کی طرف سے حاضرین کو قرآن کے تراجم اور دعوتی پمفلٹس دئے گئے-
11- مالے گاؤں (مہاراشٹر) میں 3-12 جنوری 2014 کے دوران ایک انٹرنیشنل بک فیر ہوا- اِس میں گڈورڈبکس نے بھی اپنا اسٹال لگایا- یہ بک فیر دعوتی اعتبار سے بہت کامیاب رہا- اسٹال کا انتظام مسٹر احمد خان نے سنبھالا- الرسالہ سے وابستہ مقامی ٹیم کے ممبران نے اِس موقع پر اپنا بھر پور تعاون دیا-
12- ہمارے کچھ ساتھیوں، مسٹرشاہد علی اور مسز عصمت، وغیرہ نے 15 جنوری 2014 کو اجمیر کی درگاہ میں جاکر وہاں کے ذمہ داروں اور زائرین کو قرآن کا ترجمہ دیا- اِس کو انھوں نے بخوشی قبول کیا-
13- جے پور لٹریچر فیسٹول (17-21جنوری 2014)کے موقع پر ہمارے ساتھیوں نے انڈیا کے مختلف مقامات سے آکر فیسٹول میں لوگوں کو دعوتی لٹریچر دیا- یہاں تقریباً پانچ ہزار لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا- فیسٹول میں جے پور کے مقامی ممبرانِ الرسالہ نے اپنا بھرپور تعاون دیا- اِس لٹریچر فیسٹول میںبعض ہندو نوجوانوں نے بھی قرآن ڈسٹری بیوشن میںبھر پور حصہ لیا:
I was part of the team which did dawah work at the Jaipur Literature Festival. I was really happy to see the curiosity of people exhibited in learning about Islam, regardless of their ethnic background. What kept me energetic in the joy of gifting the Quran was the gratitude people showed to the CPS volunteers. People used to smile and thank as if they were in need of the Quran since a very long time. (Sohaib Khan, Lucknow)
13- نئی دہلی کے انڈیا انٹرنیشنل سنٹر (انیکسی) میں 24 جنوری 2014 کی شام کوایک خصوصی پروگرام ہوا- یہ پروگرام عرب عالم اور محقق عبد الحق الترکمانی کی دہلی آمد کی مناسبت سے رکھا گیا تھا- عبد الحق الترکمانی صدر اسلامی مرکز کی عربی مطبوعات، مثلاً التذکیر القویم فی تفسیر القرآن الحکیم اور خطأ فی التفسیر، وغیرہ کو ایڈٹ کرکے دوبارہ شائع کررہے ہیں- انھوں نے دہلی کا سفر صرف صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کے لیے کیا تھا- اِس سلسلے میں مختلف اوقات میں وہ تین دن تک صدر اسلامی مرکز سے ان کی زندگی اور مشن کے متعلق انٹرویو لیتے رہے- 24 جنوری 2014 کی شام کے پروگرام میں عبد الحق الترکمانی نے اِس سفر سے متعلق مختصر وضاحت کی- اِس موقع پر سی پی ایس کے ممبران نے اپنے تاثرات بتائے اور مولانا محمد ذکوان ندوی نے عربی زبان میں ایک تقریر کی- آخر میں صدر اسلامی مرکز نے انگریزی زبان میں اپنے مشن کا مختصر تعارف پیش کیا- عبد الحق الترکمانی عربی کے علاوہ، انگریزی اور سویڈش زبان سے بھی واقف ہیں- اِس پروگرام میں ساؤتھ انڈیا سے بھی ہمارے دو ساتھی — مولانافیاض الدین عمری (کرناٹک) اور مولانا اقبال احمد عمری (تمل ناڈو) شریک تھے-
14- مختلف قسم کے دعوتی تجربات وتاثرات کا ایک حصہ ذیل میں نقل کیا جاتا ہے:
— On November 22, 2013, I was in a training program with few senior people from Indonesia. In a conversation during break time, a gentleman by the name of Anis mentioned that they had been looking for an English translation of the Quran. It is strange but true that these people had not read the Quran for the last many years. I had a few copies of the Quran and immediately handed it out to them along with a copy of the book, The Prophet of Peace. (Sailesh Malhotra, Singapore)
— I went yesterday to pick up the box of the Quran translations provided by you. I am so grateful for this great opportunity. I will forever be grateful to you. You can count me on your list of new Quran distributors. (Gnama Griffin, USA)
— I too am a member of the CPS. I too am spreading the message of Islam through the magazine, Spirit of Islam. I feel very glad to let you all know that our magazine has reached Patiala, Ludhiana and Leh. (Zakeena, Amritsar)
— On Jan 10, 2013, a German Christian delegation visited the Parliament House mosque. An interactive programme was organized and conducted by CPS member Sadia Khan. Maria Khan gave an introduction to Islam, which was followed by questions and answers. The German Quran translation and the booklet What is Islam were distributed to all. (Maria Khan, Delhi)
— I received a package of books, including the Quran, from you today. As a member of the science faculty at Bryn Athyn College, an institution devoted to faith-learning integration in a New Church perspective, I will share these books with my colleagues. (Allen J. Bedford, Dean of Academics and Faculty, USA)
— I have again given away my copy of the Quran . I like it so much better than any other translation. I do not like to give people the other translations. So, I keep ending up with no Quran for myself. If I could buy some, I would be so happy to keep them with me when people are interested to know about Islam. (Laura Stanbery, Quinlan, Texas)
— I have established two libraries of Maulana's books in restaurants frequented by Indian and Pakistani people. People are actively reading books there, and also taking them home. I will be starting two more libraries in a nearby city of Springfield. (Laeeq Ahmad, Khan, USA)
— I have read a few different English versions of the Quran, but this one is the best I have read to date. The English structure is easy to understand. I really loved this translation. There is also an explanation and commentary section in the back of the book which makes up about one half of the book. It is easily referenced during the reading of the verses. Definitely a keeper. Nice work ! (Review on the Quran ranslation on Amazon.com by Mark M from Grand Rapids, USA)
— Republic Day was celebrated on 26th January by Bazm-e-Adab at Dr.Shaikh Bunkar Colony Kamptee (M.S.) On the occasion Tringa was unfurled by Mr.Vijay Vasudeo Wasnik. Mr.Radhesham Hatwar, Vice President, Siv Sena, Nagpur Dist. presided over the function. On this occasion Mohammad Irfan Rasheedi distributed Pavitra Quran among the non-muslims. They took it with great interest.
I am a retired government servant from Pakistan. I luckily got a copy of the Quran as a gift from Mr Shamshad Khan, IPIC, Birmingham. Two days back I completed the first study of this Quran, translated by Maulana Wahiduddin Khan. It is a wonderful and a very appropriate translation. The commentary is even more praiseworthy. I have studied many English translations, but I enjoyed reading this one the most. This commentary is different and unique in style. (Col. Muhammad Shahbaz, Pakistan )
واپس اوپر جائیں

Saturday, 1 March 2014

Al Risala | March 2014 (الرسالہ،مارچ)

2

-علم کی شہادت

3

- حق کا اعتراف نہ کرنا

4

- جنت کا تمدنی تعارف

5

- پیغمبر کا کردار

6

- نقطۂ آغاز

7

- سکون کا راز

8

- قرآن خوانی یا قرآن ڈسٹری بیوشن

9

- علم کی اہمیت

10

- ایک پیغمبر انہ اسوہ

12

- فکری تعدّد، فکری حریت

13

- آئڈیالوجی یا نظام

27

- دورِ شرک، دورِ الحاد

33

- استثنائی شخصیت

40

- ایک سبق آموز واقعہ

41

- برتر حساسیت

42

- ایک اور موقع

43

- سوال وجواب


علم کی شہادت

قرآن کی سورہ الانشقاق کی چند آیتیں یہ ہیں: فَلَآ اُقْسِمُ بِالشَّفَقِ ؀ وَالَّیْلِ وَمَا وَسَقَ ؀ وَالْقَمَرِ اِذَا اتَّسَقَ ؀ لَتَرْکَبُنَّ طَبَقًا عَنْ طَبَقٍ ؀ فَمَا لَہُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ (84:16:20) یعنی پس نہیں، میں قسم کھاتا ہوں شفق کی- اور رات کی اور اُن چیزوں کی جن کو وہ سمیٹ لیتی ہے- اور چاند کی جب وہ پورا ہوجائے، کہ تم کو ضر ور ایک حالت کے بعد دوسری حالت پر پہنچنا ہے، تو انھیں کیا ہوگیا ہے کہ وہ ایمان نہیں لاتے:
...you will progress from stage to stage, so what is the matter with them that they believe not. (84:19-20)
قرآن کی یہ آیتیں ساتویں صدی عیسوی کے ربع اول میں اتریں- اُس وقت اِن آیتوں میں ایک ایسا بیان دیاگیا جو ساتویں صدی عیسوی سے لے کر اکیسویں صدی کے بعد تک پھیلا ہوا تھا- بعد کے حالات نے قرآن کی اِس پیشین گوئی کو عین درست ثابت کیا- یہ واقعہ، دوسرے واقعات کی طرح، اِس بات کا ثبوت ہے کہ قرآن خداوند عالم الغیب کی کتاب ہے، کیوں کہ عالم الغیب کے سوا کوئی اور مستقبل کے بارے میں اِس قسم کا بیان دینے پر قادر نہیں-علمِ انسانی کی تاریخ بتاتی ہے کہ کائنات کے بارے میں انسان کا مطالعہ جاری رہا، یہاں تک کہ برٹش سائنس داں نیوٹن کے زمانے میں یہ فرض کرلیا گیا کہ کائنات کا بلڈنگ بلاک، مادّہ (matter) ہے- مگر انسانی علم کا سفر مزید آگے بڑھا-بعد کی تحقیقات نے اِس مفروضے کی تردید کردی- جرمن سائنس داں آئن سٹائن کے زمانے میں یہ مفروضہ قائم کیا گیا کہ کائنات کا بلڈنگ بلاک، انرجی (energy) ہے- مگر انسانی علم کا یہ سفر مزید آگے بڑھا- بعد کی تحقیقات نے بتایا کہ یہ مفروضہ درست نہ تھا- فریڈہائل (Fred Hoyle) کے زمانے میں یہ دریافت ہوا کہ کائنات کا بلڈنگ بلاک انٹیلیجنس (intelligence) ہے- انسانی علم کا یہ سفر جاری رہا، یہاں تک کہ اکیسویں صدی میں علمی اعتبار سے یہ دریافت ہوگیا کہ کائنات میں ایک انٹیلجنٹ ڈزائن (intelligent design) موجود ہے-
واپس اوپر جائیں

حق کا اعتراف نہ کرنا

قرآن کی سورہ الجاثیہ کی ایک آیت یہ ہے: وَاٰتَیْنٰہُمْ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْاَمْرِ ۚ فَمَا اخْتَلَفُوْٓا اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَہُمُ الْعِلْمُ ۙ بَغْیًۢا بَیْنَہُمْ ۭ اِنَّ رَبَّکَ یَقْضِیْ بَیْنَہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فِیْمَا کَانُوْا فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ (45:17) یعنی ہم نے ان کو امرِ دین کے بارے میں کھلی دلیلیں دیں، پھر انھوں نے اختلاف نہیں کیا، مگر اس کے بعد کہ اُن کے پاس علم آچکا تھا، آپس کی ضد کی وجہ سے- بے شک تیرا رب قیامت کے دن اُن کے درمیان فیصلہ کردے گا، اُن چیزوں کے بارے میں جن میں وہ باہم اختلاف کرتے تھے-
قرآن کی اِس آیت میں پچھلے پیغمبروں کا ذکر ہے- اس میں بتایا گیا ہے کہ اِن پیغمبروں کے مخاطبین نے ہمیشہ منفی رسپانس دیا - یہ مخاطبین کون تھے- یہ سب پچھلے پیغمبروں کی امت تھے- ہر آنے والا نبی کسی نہ کسی سابق پیغمبر کی امت میں آیا- مثلاً حضرت نوح امت آدم میں آئے- حضرت ابراہیم امتِ نوح میں آئے- حضرت موسی امتِ اسرائیل میں آئے- حضرت مسیح امتِ موسی میں آئے- حضرت محمد امتِ ابراہیم میں آئے، وغیرہ- ہر بعد کو آنے والے نبی نے پچھلے نبی کی اصل ہدایت کو زندہ کرنا چاہا، مگر ہمیشہ ایسا ہوا کہ لوگوں کی اکثریت پیغمبر کی دعوت کا مثبت رسپانس دینے سے عاجز رہی-
علم آنے کے باوجود لوگوں نے اختلاف کیا — اِس آیت میں علم سے مراد وہ ہدایت ہے جو بعد کے پیغمبر کے ذریعے انھیں پہنچی تھی- اُن کے انکار کا سبب بغی تھا- بغی کا لفظی مطلب ہے: انحراف (transgression)- ہر نبی کی امت کی بعد کی نسلوں میں ابتدائی دین سے انحراف پیدا ہوتا ہے- اس کے بعد مزید ایسا ہوتا ہے کہ علما اور رہنما اپنی اپنی ریاست (leadership) قائم کرنے کے لیے مزید انحرافات کرتے ہیں- اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ امت بہت سے فرقوں میں بٹ جاتی ہے- یہ تمام لوگ نئے پیغمبر کی بات کو ماننے سے انکار کردیتے ہیں- اِس انکار کا سبب یہ ہوتا ہے کہ ہر ایک یہ محسوس کرتاہے کہ اگر وہ نبی کی بات مانے تو اس کو اپنے خود ساختہ مذہب کے غلط ہونے کا اعتراف کرنا پڑے گا-
واپس اوپر جائیں

جنت کا تمدنی تعارف

قرآن کی سورہ محمد میں بتایا گیا ہے کہ وہ کون لوگ ہیں جو آخرت کی دنیا میں جنت میں داخلے کے مستحق قرار پائیںگے۔ اِس سلسلے میں قرآن میں یہ آیت آئی ہے: وَیُدْخِلُہُمُ الْجَــنَّةَ عَرَّفَہَا لَہُمْ(47: 6)یعنی اللہ اُن کو جنت میں داخل کرے گا جس کی اُس نے اُنھیں پہچان کرادی ہے۔
اِس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت کی پہچان سے جنت میں داخلے کا استحقاق پیدا ہوتا ہے۔ موجودہ دنیا میں جو لوگ جنت کو پہچان کے درجے میں پالیں، وہی وہ لوگ ہیں جو آخر ت میں واقعہ کے طورپر جنت میں داخلے کے مستحق قرار پائیں گے۔
جس آدمی کی معرفت اتنی گہری ہو کہ وہ جنت کا حریص بن جائے، وہ جنت کے اشتیاق میں جینے لگے، ایسا آدمی اِسی دنیا میں جنت کا تعارف حاصل کرلیتا ہے۔ وہ دیکھنے سے پہلے جنت کو دیکھنے لگتا ہے۔ وہ داخلے سے پہلے جنت کا ادراک کر لیتا ہے۔
جنت کا یہ تعارف کسی آدمی کو ابتداء ً قرآن کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔ قرآن سے کسی آدمی کے اندر جنّتی غور وفکر کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ اِس کے بعد جنت کے عملی تعارف کے لیے دو خاص ذریعے ہیں— فطری تعارف، اور تمدنی تعارف۔ فطری تعارف سے مراد وہ تعارف ہے جو مناظرِ فطرت کے ذریعے کسی انسان کو حاصل ہوتا ہے۔ فطرت کے مناظر گویا کہ جنت کا بعید تعارف ہیں۔
جنت کا تمدنی تعارف پہلی بار موجودہ زمانے میں ممکن ہوا ہے۔ جدید تہذیب نے جو ترقی یافتہ دنیا بنائی ہے، وہ گویا کہ جنت کا تمدنی تعارف ہے۔ جدید تہذیب (modern civilization)کی پیداکردہ مادی سہولتیں گویا کہ جنت کی پُر راحت دنیا کا ابتدائی تجربہ کرارہی ہیں۔ مناظرِ فطرت کے ذریعے گویا کہ خود خالق کی طرف سے جنت کے تعارف کا اہتمام کیاگیا ہے— انسان کے اندر اگر معرفت کا شعور بیدار ہوچکا ہو تو وہ مناظرِ فطرت میں جنت کے باغوں کو دیکھے گا، اور جدید تمدنی ترقیوں کے ماحول میں جنت کا ابتدائی مشاہدہ کرے گا۔
واپس اوپر جائیں

پیغمبر کا کردار

قرآن کی سورہ ص میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے: قُلْ مَآ اَسْـَٔــلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُتَکَلِّفِیْنَ (38:86) یعنی کہو کہ میں اِس پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا، اور نہ میں تکلف کرنے والوں میں سے ہوں:
Say, “I do not ask you for any recompense for this, nor am I a man of pretentions”.
اصل یہ ہے کہ دنیا میں کام کرنے کے دوطریقے ہیں— ایک ہے مشن کے طورپر کرنا اور دوسرا ہے پروفیشن کے طورپر کرنا- پروفیشن کے طورپر کام کرنے والے کا نشانہ کسبِ مال یا کسب منفعت ہوتا ہے- مثلاً میڈیکل پروفیشن، لیگل پروفیشن، ٹیچنگ پروفیشن، وغیرہ- پروفیشن کے طورپر جو شخص کام کرے، وہ اُس وقت اپنے پروفیشن کو چھوڑ دیتا ہے یا بدل دیتا ہے جب کہ اس کو اپنے پروفیشن سے نفع نہ ملے،لیکن مشن کا معاملہ اِس سے مختلف ہے- مشن آدمی کا مقصدِ حیات ہوتا ہے- ایسا آدمی نفع اور نقصان سے بلند ہو کر اپنے مشن کو جاری رکھتا ہے، یہاں تک کہ اِسی حال میں اس کو موت آجائے-
پیغمبرپورے معنوں میںایک صاحبِ مشن انسان ہوتا ہے- اس کا مشن ہی اس کی زندگی کا مقصد ہوتا ہے- پیغمبر کی رہنما اس کی اپنی معرفت ہوتی ہے، نہ کہ دوسروں کا رویہ، وہ دوسرے کے رد عمل سے اوپر اٹھ کر اپنا کام انجام دیتاہے- پیغمبر کا یہی نمونہ داعی سے بھی مطلوب ہے- حق کا داعی صرف وہ شخص ہے جو پیغمبر کے اِس نمونے پر پورا اترے ،جس کا دعوتی اسلوب خالص حق کی معرفت کی بنیاد پر بنا ہو، جو کسی بھی اعتبار سے اجر کا طالب نہ ہو- مال یا شہرت یا مقبولیت یا کوئی بھی مادی انٹرسٹ (material interest) اس کا مقصود نہ ہو- اِسی لیے دعوت کے کام کو دعوت الی اللہ کا کام کہاگیا ہے- داعی کو اِس کی پروا نہیں ہوتی کہ لوگ اس کی بات کو پسند کریں گے یا ناپسند- وہ چیزوں کو صرف اللہ کی نسبت سے دیکھتا ہے، نہ کہ انسان کی نسبت سے-
واپس اوپر جائیں

نقطۂ آغاز

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی عام پالیسی اجتماعی معاملات میںکیا تھی۔ اس کے بارے میں حضرت عائشہ کی ایک روایت اِن الفاظ میں آئی ہے: ماخُیِّر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بین أمرین، إلا اختار أیسرھما (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 6318) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی دو طریقوں میں سے ایک طریقے کا انتخاب کرنا ہوتا توآپ ہمیشہ آسان طریقے کا انتخاب کرتے:
Whenever the Prophet had to choose between the two, he always opted for the easier course, rather than the harder one.
’’آسان طریقہ‘‘ کیا ہے، آسان طریقہ دراصل پُرامن طریقہ (peaceful method) کا دوسرا نام ہے۔ زندگی میں اکثر پُرامن طریقِ کار اور متشددانہ طریقِ کار (violent method)کے درمیان انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ یہ واضح ہے کہ متشددانہ طریقِ کار کے مقابلے میں پرامن طریقِ کار ہمیشہ آسان ہوتاہے۔ متشددانہ طریقِ کار میں ہمیشہ کسی سے ٹکراؤ کرنا پڑتاہے، جب کہ پرامن طریقِ کار میں کسی سے ٹکراؤ کی ضرورت نہیں۔
موجودہ دنیا آزادی اور مسابقت (competition)کے اصول پر قائم ہے۔ اِس دنیا میں ہمیشہ اختلافات پیدا ہوتے ہیں۔ یہاں ہمیشہ ایسے اسباب پیش آتے ہیں جو دو گروہوں کے درمیان نزاع کی صورت پیدا کردیں۔ ایسے موقع پر ٹکراؤ کا طریقہ اختیار کرنا، غیر پیغمبرانہ طریقہ ہے، اور ٹکراؤ کا طریقہ چھوڑ کر اپنے عمل کی پرامن منصوبہ بندی کرنا، پیغمبر کا طریقہ۔
خدا نے پیغمبر کے طریقے میں کامیابی رکھی ہے اور غیر پیغمبرانہ طریقے میں ناکامی۔ ایسی حالت میں، جو لوگ پیغمبر کے طریقے کو نظر انداز کریں اور وہ غیرپیغمبرانہ طریقے پر اپنی تحریک چلائیں، وہ اپنے لیے بیک وقت دو خطرے مول لے رہے ہیں— ایک یہ کہ اللہ کے نزدیک اُن کا ایمان بالرسول مشتبہ ہوجائے، اور دوسرے یہ کہ خدا کی اِس دنیا میں ان کی تحریک کبھی کامیابی کی منزل تک نہ پہنچے۔
واپس اوپر جائیں

سکون کا راز

ایک صاحب سے ملاقات ہوئی-انھوں نے بتایا کہ وہ ایک مشہور درگاہ میں گئے- وہاں وہ قبر کے پاس آنکھ بند کرکے بیٹھے اور ایک گھنٹے تک مراقبہ (meditation) کرتے رہے- اُن کے بیان کے مطابق، وہاں اُن کو سکون حاصل ہوا- یہ کوئی ایک مثال نہیں، ایسے لوگ بڑی تعداد میں موجود ہیں جو قبروں کی زیارت کے لیے جاتے ہیں اور ان کے بیان کے مطابق، وہاں ان کو سکون حاصل ہوتا ہے-
اِس’’ سکون‘‘ کا سرچشمہ خارج میں نہیں ہے، بلکہ داخل میں ہے- یہ سکون کوئی حقیقی سکون نہیں ہوتا، وہ ایک فرضی سکون (false peace) ہوتا ہے جو خود اپنی نفسیات کی بنا پر ان کو حاصل ہوتا ہے- اگر اُن سے مزید سوال کیا جائے تو وہ یقینی طورپر اِس کی کوئی عقلی توجیہ پیش نہیں کرسکیں گے- ایسے لوگ ہمیشہ ایک موہوم عقیدے میں جیتے ہیں، نہ کہ عقلی طورپر دریافت کردہ حقیقت میں-
اِس قسم کا واقعہ عام طور پر ہندستان جیسے ملک کا ایک ظاہرہ ہے- جو آدمی یہاں کے ماحول میں پیدا ہوتا ہے، وہ بچپن سے ماضی کے بزرگوں کی کہانیاں سنتا ہے جو زیادہ تر فرضی اور افسانوی ہوتی ہیں- آدمی جب بڑا ہوتا ہے تو یہ کہانیاں اس کے لاشعور کا حصہ بن چکی ہوتی ہیں- عقلی تجزیہ نہ کرنے کی وجہ سے وہ اُن کہانیوں کو حقیقت سمجھ لیتا ہے- ایسے آدمی کو جب زندگی کے عملی تجربات ہوتے ہیں تو وہ محسوس کرتا ہے کہ وہ جزئی یا کلی طورپر ذہنی سکون (peace of mind) سے محروم ہوگیا- اُس وقت اس کو تلاش ہوتی ہے کہ کوئی چیز ہو جو اس کو ذہنی سکون دے سکے-
اِس نفسیاتی حالت میں اُس کو ماضی کے اُس بزرگ کی یاد آتی ہے جن کی مفروضہ تصویر کی بنا پر وہ سمجھتا رہا ہے کہ وہ عام انسانوں کے مقابلے میں ایک برتر انسان تھے- اِسی نفسیاتی حالت کے ساتھ وہ کسی بزرگ کی درگاہ میں جاتا ہے اور وہاں کے ایک گوشے میں آنکھ بند کرکے بیٹھتا ہے- اُس وقت، اپنی مخصوص نفسیات کی بنا پر، اس کو بظاہر ایک قسم کا سکون محسوس ہوتا ہے، مگر اِس قسم کا سکون ہمیشہ وقتی ہوتا ہے- مستقل سکون وہ ہے جو شعوری عمل کے نتیجے میں انسان کو حاصل ہو، نہ کہ محض موہوم عقیدے کی بنا پر-
واپس اوپر جائیں

قرآن خوانی یا قرآن ڈسٹری بیوشن

ڈاکٹر محمد نسیم صدیقی (نئی دہلی) سی پی ایس ٹیم کے ایک سینئر ممبر تھے- اُن کو دعوتی کام سے بہت دلچسپی تھی- 4 دسمبر 2013 کو 80 سال کی عمر میں اُن کا انتقال ہوگیا- انتقال سے پہلے جب کہ وہ بیماری کی حالت میں تھے، تو اکثر وہ کہتے تھے کہ — اللہ نے مجھے صحت دی تو میں اپنی بقیہ زندگی قرآن کو پھیلانے میں لگاؤں گا- انھوں نے قرآن کو وسیع پیمانے پر پھیلانے کا ایک نقشہ بھی تیار کرلیا تھا-
ڈاکٹر محمد نسیم صدیقی کی اِس نیت کا اُن کے اہلِ خاندان پر بہت اثر ہوا- انھوں نے طے کیا کہ وہ ڈاکٹر صدیقی کی اِس آخری خواہش کو بطور مشن اختیار کریںگے- عام رواج کے مطابق، انھوں نے یہ نہیں کیا کہ مرحوم کے انتقال کے بعد اپنے یہاں ’’قرآن خوانی‘‘ کا اہتمام کریں- اِس کے بجائے انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ قرآن کے تراجم (Translations of the Quran) کو عالمی سطح پر پھیلائیں گے، یعنی قرآن خوانی کے بجائے قرآن ڈسٹری بیوشن-
مسلمانوں میں عام رواج ہے کہ جب فیملی کے کسی ممبر کا انتقال ہوتا ہے تو وہ ایصالِ ثواب کے نام سے قرآن خوانی کا اہتمام کرتے ہیں- یہ بلاشبہ ایک ایسا عمل ہے جس کی کوئی اصل قرآن اور سنت میں موجود نہیں- اِس کے بجائے لوگوں کو یہ کرنا چاہیے کہ وہ اِس مقصد سے، قرآن خوانی کے بجائے قرآن ڈسٹری بیوشن کا کام کریں- قرآن ڈسٹری بیوشن یا قرآن کے تراجم کی عمومی اشاعت ایک ایسا کام ہے جو دونوں کے لیے باعثِ رحمت ہے، وفات یافتہ شخص کے لیے بھی اور خاندان کے افراد کے لیے بھی- اِس عمل میں دونوں کے لیے یکساں درجے کا اجر ہے- ضرورت ہے کہ ہر مسلم خاندان اِس طریقے پر عمل کرے- موجودہ زمانے میں قرآن کے ترجمے ہر زبان میں موجود ہیں- اپنے حالات کے لحاظ سے ہر خاندان کسی ترجمے کا انتخاب کرسکتا ہے- قرآن ڈسٹری بیوشن کا فائدہ صرف ’’ایصالِ ثواب‘‘ کے لیے نہیں ہے، بلکہ دوسرے بہت سے فائدے بھی اُس سے یقینی طورپر حاصل ہوتے ہیں- مثلاً اسلام کے بارے میں غلط فہمیوں کا خاتمہ، مذہبی ہم آہنگی، دینی تعلیمات کا فروغ، قرآنی کردار کی تعمیر، وغیرہ-
واپس اوپر جائیں

علم کی اہمیت

علم کی اہمیت کے بارے میں ایک حدیثِ رسول اِن الفاظ میں آئی ہے: من جاءہ الموت وہو یطلب العلم لیحیی بہ الإسلام فبینہ وبین النبیین درجة واحدة فی الجنة (سنن الدارمی، رقم الحدیث:354 ) یعنی جس شخص پر اِس حال میں موت آئے کہ وہ علم اِس لیے سیکھ رہا ہو، تاکہ وہ اُس کے ذریعے اسلام کا احیا کرے، تو جنت میں اُس کے اور پیغمبروں کے درمیان صرف ایک درجے کا فرق ہوگا-
اِس حدیث کا مطلب بوقتِ مرگ علم سیکھنا نہیں ہے، بلکہ تادمِ مرگ علم کی طلب میں مشغول رہنا ہے- علم کے معاملے میں اصل تفریق علم دین اور علم دنیا کی نہیں، بلکہ یہ فرق نیت کے اعتبار سے ہے- دنیا کا علم بھی عین علمِ دین بن سکتا ہے-
حقیقت یہ ہے کہ ایک شخص نے اگر دین کو اپنا مقصدِ حیات بنا لیا ہو، اُس نے پیغمبرانہ مشن کو اپنی زندگی کا نشانہ بنا رکھا ہو تو اس کا ہر علم پیغمبرانہ مشن کے لیے استعمال ہونے لگے گا- ہر علم اُس کے یقین میں اضافہ کرے گا اور ہر علم اس کے لیے اس کے مشن کی تقویت کا ذریعہ بن جائے گا-
علم کی طلب کوئی وقتی چیز نہیں - ایک سچا مومن اپنی پوری عمر کے لیے علم کا طالب بن جاتا ہے- اگر آدمی کے اندر صحیح معنوں میں علم کا ذوق ہو تو وہ اپنے ہر تجربے میں علم کا رزق پاتا رہے گا- وہ کسی کتاب کا مطالعہ کرے گا تو اس کا ذوق کتاب کے ہر مضمون کو اس کے لیے حصولِ علم کا ذریعہ بنا دے گا- وہ کسی سے گفتگو کرے گا تو وہ اپنے جذبۂ تعلُّم (spirit of learning) کی بنا پر اُس سے نئی نئی باتیں اخذ کرلے گا- وہ کسی چیز کا مشاہدہ کرے گا تو ہر مشاہدے میں وہ اپنے لیے عبرت کا سامان پالے گا، حتی کہ اگر اس کے اندر علمی ذوق بھر پور طور پر زندہ ہو تو وہ اپنے مثبت ذہن کی بنا پر بے علموں سے بھی علم حاصل کرے گا اور بے ادبوں سے بھی وہ ادب کا کوئی پہلو سیکھ لے گا- حصولِ علم کے معاملے میں اصل اہمیت ذوق کی ہے، نہ کہ محض واقفیت کی-
واپس اوپر جائیں

ایک پیغمبر انہ اسوہ

رسول اور اصحاب رسول کی تاریخ اپنے مختلف پہلوؤں کے ساتھ انسان کے لیے ایک ابدی گائڈ کی حیثیت رکھتی ہے- انھیں اصولوں میں سے ایک اصول وہ ہے جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پیش آنے والے ایک واقعے سے ملتا ہے-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات مدینہ میں 632 عیسوی میں ہوئی- اس کے بعد وہاں وہی مسئلہ پیدا ہوا جو عام طورپر کسی بڑے لیڈر کی وفات کے بعد پیدا ہوتا ہے، یعنی یہ سوال کہ — لیڈر کے بعد کون- جیساکہ معلوم ہے، پیغمبر اسلام کی وفات کی خبر سننے کے بعد مسلمانوں میں عام طورپر سراسیمگی پیدا ہوگئی- اِس بحران (crisis) کے موقع پر خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق وہاں آئے- انھوں نے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: من کان یعبد محمدا فإن محمدا قد مات ، ومن کان یعبد اللہ فإن اللہ حی لا یموت (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 3668) یعنی جو شخص محمد کو پوجتا تھا تو محمدپر موت آچکی، اور جو شخص اللہ کو پوجتا ہے، تو اللہ زندہ ہے اور اس پر موت آنے والی نہیں-
خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق کا جملہ ایک اہم ترین حقیقت کو بتا رہا ہے، وہ یہ کہ تاریخ کو مسلسل کنٹرول کرنے والا اللہ ہے، نہ کہ کوئی انسان- ایک قائد جب تاریخ کی قیادت کررہا تھا، اُس وقت بھی اس کی پشت پر اللہ تھا اور قائد کے رخصت ہوجانے کے بعد یہ اللہ ہی ہے جو تاریخ کے نظم کو سنبھالنے والا ہے (ہو الأول والآخر)-
خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق کے مذکورہ الفاظ نے اہلِ ایمان کو ایک نیا حوصلہ دے دیا- وہ نئے عزم کے ساتھ پیغمبرانہ مشن کی تکمیل میں سرگرم ہوگئے-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اُسی سال اہلِ یمن کی بغاوت کا واقعہ پیش آیا- یہ ایک انتہائی نازک معاملہ تھا- مختلف اسباب سے لوگ اِس بغاوت کے خلاف اقدام کے معاملے میں سخت متردد تھے- اُس وقت دوبارہ حضرت ابو بکر صدیق نے لوگوں کے سامنے ایک تقریر کی- اُس وقت انھوں نے یہ مشہور تاریخی جملہ کہا: أینقص الدین وأنا حی ( ہدایة الرواة لابن حجر العسقلانی، رقم الحدیث: 3031) یعنی کیا دین میں کمی کی جائے گی، حالاں کہ میں زندہ ہوں-
یہ قول بظاہر ایک انفرادی قول تھا، مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے، وہ ایک اجتماعی قول تھا- وہ گویا پوری جماعتِ صحابہ کے دل کی آواز تھی- حضرت ابوبکر صدیق نے گویا اپنے اِس تاریخی قول کے ذریعے لوگوں کو یاد دلایا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کی صورت میں جو ٹیم چھوڑی ہے، اُن میں سے ہر شخص اِس اسپرٹ کا حامل ہے کہ — میں اِس کام کو کروں گا:
I will do it.
خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق کے اِس کلمہ نے ہر ایک کو آخری حد تک بیدار کردیا- ہر ایک ہیرووانہ اسپرٹ (heroic spirit) کے ساتھ ہمہ تن سرگرم ہوگیا- ہر ایک کے اندر یہ انقلابی سوچ ابھر آئی کہ یہ میری ذمے داری ہے اور مجھے زندگی کی آخری سانس تک اِس ذمے داری کو انجام دینا ہے-
اِس سلسلے میں دوسری چیز وہ ہے جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک نصیحت سے معلوم ہوتی ہے- آپ نے اپنے آخری لمحات میں اپنے اصحاب کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا: ترکتُ فیکم أمرین، لن تضلوا ماتمسکتم بہما: کتاب اللہ وسنة نبیّہ (موطأ الإمام مالک، رقم الحدیث: 1619) یعنی میں نے تمھارے درمیان دو چیزوں کو چھوڑا ہے- جب تک تم ان کو پکڑے رہوگے، تم ہرگز گمراہ نہ ہوگے- یہ دونوں چیزیں ہیں: اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت-
قرآن اور سنت کیا ہے، وہ گویا اسلام کا مستند لٹریچر ہے- اس کے مطابق، یہ کہنا صحیح ہوگا کہ پیغمبر اسلام نے اپنے بعد دو چیزیں چھوڑیں — اسٹرانگ ٹیم اور اسٹرانگ لٹریچر- یہ دو چیزیں اِس بات کی ضامن تھیں کہ آپ کے بعد آپ کا مشن پوری طاقت کے ساتھ چلتا رہے، یہاں تک کہ وہ اپنی تکمیل تک پہنچ جائے- اس معاملے میں یہ بھی ایک پیغمبرانہ اسوہ ہے- وہ بتاتا ہے کہ ایک لیڈر اگر ایسا کرے کہ وہ اپنے بعد ایک ڈیڈی کیٹیڈ ٹیم (dedicated team) اور ایک طاقت ور لٹریچر (strong literature)چھوڑے تو یہ اس کے مشن کی زندگی کی قطعی ضمانت ہے-
واپس اوپر جائیں

فکری تعدّد، فکری حریت

اسلام میں فکری آزادی کامل درجے میں پائی جاتی ہے- اِس کا سبب یہ ہے کہ فکری آزادی کے بغیر خدا کا تخلیقی منصوبہ (creation plan) پورا نہیں ہوسکتا- انسان کو موجودہ دنیا میں ابتلا (test) کے لیے رکھا گیا ہے اور یہ مقصد صرف اُسی وقت پورا ہوسکتا ہے جب کہ انسان کو اپنے قول وعمل کی پوری آزادی حاصل ہو-
اسلام فکری آزادی (intellectual freedom) کو پوری طرح تسلیم کرتا ہے، لیکن فکری تعدد (intellectual diversity) کا تصور اسلام میں نہیں- اسلام کے مطابق، ہر آدمی کو یہ حق ہے کہ وہ جس رائے کو چاہے، اختیار کرے، لیکن اِس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر رائے بہ اعتبار حقیقت بھی درست ہے- اِس معاملے میں اسلامی تصور یہ ہے کہ بہ اعتبارِ حقیقت تو صرف ایک ہی رائے درست ہے، لیکن بہ اعتبارِ آزادی ہر انسان کو یہ حق ہے کہ وہ اپنے لیے اِس دنیا میں جس رائے کو چاہے، اختیار کرے-
ابتلا کے سوا اِس اصول کی ایک اور اہمیت یہ ہے کہ فکری آزادی کے ماحول میں یہ ممکن ہوتا ہے کہ لوگوں کے درمیان آزادانہ ڈسکشن ہو اور آزادانہ ڈسکشن سے یہ فائدہ حاصل ہوتا ہے کہ سماج کے اندر ذہنی ارتقا کا عمل (process) جاری رہے-
فکری آزادی کا تصور انسان کی ذہنی ترقی کے لیے بے حد اہم ہے- حقیقت یہ ہے کہ فکری آزادی کے بغیر ذہنی ترقی ممکن نہیں- کسی سماج میں فکری آزادی کو ممنوع (taboo) قرار دینا صرف اِس قیمت پر ہوتا ہے کہ وہ سماج فکری جمود(intellectual stagnation) کا شکار ہوجائے- لیکن فکری تعدد کے نظریے کو اگر اصولاً درست مان لیا جائے تو اس کے نتیجے میں جو چیز پیدا ہوگی، وہ فکری انتشار (intellectual anarchy) ہے، اور فکری انتشار ایک غیر صحت مند (unhealthy) حالت ہے، فکری انتشار کسی آدمی کو کنفیوژن(confusion)کے سوا کہیں اور نہیں پہنچاتا-
واپس اوپر جائیں

آئڈیالوجی یا نظام

اسلام کا نشانہ انسان کو اسلامی بنانا (Islamization of man) ہے، اسلام کا نشانہ اجتماعی نظام کو اسلامی بنانا (Islamization of system) نہیں- فرد اور اجتماع کے درمیان یہ فرق عقیدہ کی بنیاد پر نہیں ہے، بلکہ وہ پریکٹکل وزڈم (practical wisdom) کی بنیاد پر ہے- اللہ کے تخلیقی منصوبہ (creation plan) کے مطابق، یہی چیز ممکن ہے، اِس کے سوا کوئی اور چیز عملاً ممکن ہی نہیں-
قرآن کا مطالعہ بتاتا ہے کہ قرآن میں فرد کا دین پوری طرح موجود ہے، فکری اعتبار سے بھی اور عملی اعتبار سے بھی- لیکن قرآن میں اجتماعی یا سیاسی زندگی کے لیے کوئی مکمل نظام موجود نہیں- مکمل نظام کے لیے ضر وری ہے کہ اس کے لیے ایک ویل اسٹرکچرڈ ماڈل (well-structured model) موجود ہو، مگر ایسا ماڈل نہ قرآن میں بیان ہوا ہے اور نہ حدیث میں-
فرد کے احکام اور اجتماع کے احکام کے بارے میں یہ فرق کسی اتفاق کی بنا پر نہیں ہے، بلکہ یہی اصولی طورپر اسلام میں مطلوب ہے- اگر یہ اصولی طورپر مطلوب نہ ہوتا تو یقینی طورپر قرآن میں اس کا واضح بیان موجود ہوتا- اِس بنا پر یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اکمالِ دین (5:3) وہی ہے جو بالفعل قرآن میں موجود ہے، یعنی قرآن میں فرد کی نسبت سے جس دین کا بیان ہے، وہی دین کامل دین ہے اور اجتماع کی نسبت سے قرآن میں جس دین کا بیان ہے، وہی دین اجتماع کی نسبت سے کامل دین ہے-
قرآن کی سورہ الشوری میں کہاگیا ہے کہ جو دین تمام نبیوں کے درمیان مشترک تھا، وہی ’الدین‘ ہے اور اُسی الدین کی تم پیروی کرو (42:13)- یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ تمام نبیوں کے درمیان مشترک دین وہی تھا جو فرد کی نسبت سے مطلوب ہے- اجتماع کی نسبت سے اگر کوئی مکمل نظام مطلوب تھا تو وہ مشترک طورپر تمام نبیوں کو دیا ہی نہیں گیا- اِس فرق سے واضح طورپر معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے لیے انفرادی دین اور اجتماعی دین دونوں کا معاملہ ایک دوسرے سے الگ ہے، دونوں کا مطالعہ ایک واحد معیار کے تحت نہیں کیا جاسکتا- قرآن کی مذکورہ آیت میں ’أقیموا الدین‘ کا خطاب فرد سے ہے، یعنی ایک فردِ مسلم کی نسبت سے جو دین مطلوب ہے، اس کو چاہیے کہ اپنی انفرادی زندگی میں وہ اس پر قائم ہوجائے-
اصولِ عملیت
اِس سلسلے میں ایک حدیث رسول کا مطالعہ کیجئے- زیر بحث موضوع کی نسبت سے ایک اہم روایت ہے جو حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے- اس کے الفاظ یہ ہیں: إن اللّہ فرض فرائض فلا تضیّعوہا، وحرّم حرمات فلا تنتہکوہا، وحدّ حدوداً فلا تعتدوہا، وسکت عن أشیاء من غیر نسیان فلا تبحثوا عنہا (مشکاة المصابیح، رقم الحدیث: 197) یعنی اللہ نے کچھ فرائض مقرر کیے ہیں، تم اُن کو ضائع نہ کرو- اللہ نے کچھ چیزوں کو حرام قرار دیا ہے، تم اُن کا ارتکاب مت کرو- اللہ نے کچھ حدود مقرر کیے ہیں، تم اُن سے تجاوز نہ کرو- اللہ نے کچھ چیزوں کے بارے میں سکوت اختیار فرمایا ہے، تم اُن امور کے معاملے میں بحث مت کرو-
اِس حدیث رسول میں چار باتوں کا ذکر ہے- اِن میں سے ابتدائی تین چیزوں کا تعلق فرد سے ہے- فرائض کا اہتمام فردکرتا ہے- حدود سے تجاوز نہ کرنے کا تعلق فرد سے ہے، حرام چیز سے بچنے کا تعلق فرد سے ہے- گویا کہ اِن تین فقروں میں ایک شخص کے انفرادی دین کو بتایا گیا- حدیث کے آخری فقرے میں جو بات کہی گئی ہے، اس کا ایک پہلو اجتماعی زندگی سے بھی تعلق رکھتا ہے- اجتماع کے معاملے میں دینی روش کا تعلق خود اجتماع یا سماج کے حالات پر منحصر ہے- اجتماع کے معاملے میں ایک مومن کی روش کسی پیشگی معیار (ideal) کی بنیاد پر متعین نہیں ہوگی، بلکہ اِس بنیاد پر متعین ہوگی کہ خود اجتماع کے حالات کیا ہیں ، یعنی اجتماع کے قبولیت کی سطح (level of acceptance) کیا ہے- دوسرے لفظوں میں یہ کہ ایک مومن کو اپنی انفرادی زندگی میں معیار پسند (idealist)بننا ہے اور اجتماعی زندگی میں وہ روش اختیار کرنا ہے جس کو اصولِ عملیت (pragmatism) کہا جاتا ہے-
حدیث کے آخری فقرے میں ’سکوت‘ کا مطلب مطلق سکوت نہیں ہے- اِس کا مطلب یہ ہے کہ اجتماعی معاملات ، یعنی سماجی اور سیاسی معاملات کو اہلِ ایمان کے لیے کھلا (open) رکھا گیا ہے- اُن کو یہ موقع دیاگیا ہے کہ وہ حالات کی رعایت کرتےہوئے اپنے لیے کوئی مناسب روش اختیار کریں-
اسلام میں فرد کے دین اور اجتماع کےدین کے درمیان تفریق کا یہ اصول اُس مشہور اصول کی بنیاد پر نہیں ہے جو مغرب میں چرچ اور سائنس کے درمیان ٹکراؤ کے بعد پیدا ہوا اور جس کو مذہب اور سیاست کے درمیان علاحدگی کا نام دیا جاتا ہے- اِس معاملے میں مغرب کا اصول مطلق تفریق یا نظریاتی تفریق کے اصول پر قائم ہے- اِس کے برعکس، اسلام میں فرد اور اجتماع کے درمیان جو تفریق ہے، وہ ممکن اور ناممکن کے درمیان پائے جانے والے فطری فرق کے اصول پر مبنی ہے، یعنی تقریباً وہی اصول جس کو عام طور پر اِس مقولے میں بیان کیا جاتا ہے کہ — سیاست ممکن کا آرٹ ہے:
Politics is the art of the possible.
اجتماعی اور انفرادی اصول کے درمیان فرق کی حکمت
خالق نے انسان کو کامل آزادی دی ہے- انسانی آزادی خالق کےمنصوبے کا ایک لازمی حصہ ہے جس کو منسوخ کرنا ممکن نہیں ہے- یہی وہ حقیقت ہے جس کی بنا پر فرد اور اجتماع کا معاملہ ایک دوسرے سے الگ ہوجاتا ہے- چناں چہ جہاں تک فرد کا معاملہ ہے، ہر فرد کی زندگی اس کے اپنے اختیار میں ہوتی ہے، لیکن فرد سے باہر جو انسانی مجموعہ ہے، اس کا معاملہ کسی کے اختیار میں نہیں- گویا حرکیاتِ فرد کا اصول الگ ہے اور حرکیاتِ اجتماع کا اصول الگ-
ایک فرد اپنی ذاتی زندگی میں کوئی دینی مسلک اختیار کرے تو اس سے کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوگا، لیکن جب آپ اجتماعی زندگی، یعنی سماجی نظام یا سیاسی نظام میں کوئی تبدیلی لانا چاہیں تو فوراً ٹکراؤ کا ماحول پیدا ہوجائے گا، کیوں کہ ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ سماجی اور سیاسی نظام پر کوئی شخص یا گروہ پہلے سے اپنا اقتدار قائم کیے ہوئے ہوتا ہے- جب آپ سماجی اور سیاسی نظام میں تبدیلی کا علم بلند کرتے ہیں تو فوراً ہی آپ کا ٹکراؤ اُن لوگوں سے شروع ہوجاتا ہے جو یہ محسوس کرتے ہیں کہ آپ اُن کو اُن کے اقتدار کے منصب سے ہٹانا چاہتے ہیں- کوئی بھی شخص یا گروہ اِس قسم کی معزولی کو برداشت نہیں کرسکتا، اِس لیے وہ فوراً اپنے دفاع کے لیے اٹھ کھڑاہوتا ہے اور پھر طرفین کے درمیان ایک ایسی لڑائی شروع ہوجاتی ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتی-
تاریخ بتاتی ہے کہ اِس طرح کے معاملے میں کسی ایک فریق کی جیت کبھی لڑائی کا خاتمہ نہیں کرتی، کیوں کہ جو فریق ہارتاہے، وہ فوراً ہی انتقام (revenge) کی نفسیات میں مبتلا ہوجاتا ہے- وہ اپنی شکست کا بدلہ لینے کے لیے دوبارہ ایک نئی جنگ چھیڑ دیتا ہے، یہاں تک کہ اگر وہ کسی جوابی کارروائی کی پوزیشن میں نہ ہو، تب بھی وہ خود کش بم باری شروع کردیتا ہے، تاکہ اگر وہ فریقِ ثانی کو ہرا نہیں سکتا تو کم از کم اس کو نقصان پہنچائے یا اُس کو کم از کم غیر مستحکم (destabilise) کردے-
اِس سے معلوم ہوا کہ اگر ’’کامل دین‘‘ کے نام پر اِس اصول کو اختیار کرلیا جائے کہ فرد نے جس دین کو اپنے لیے اختیار کیا ہے، اُسی دین کو اُسے اجتماع پر بھی نافذ (implement) کرنا ہے، تو اِس کے نتیجے میں دونوں فریق کے درمیان ایک ایسی لڑائی شروع ہوگی جو کبھی ختم نہ ہوگی- یہ کوئی قیاسی بات نہیں، بلکہ یہی پوری تاریخ کا عملی تجربہ ہے-
پریکٹکل فارمولا
ایسی حالت میں خالق کے منصوبے کو برقرار رکھتے ہوئے اسلام میں ایک ایسا اصول بتایا گیاجو ہمیشہ کے لیے امن کا ضامن بن جائے، جو ہر حال میں امن کے قیام کو یقینی بنانے والا ہو- کیوں کہ کسی بھی قسم کی تعمیر کے لیے امن لازمی طور پر ضروری ہے امن نہیں تو تعمیری سرگرمیاں بھی نہیں-
مذکورہ صورتِ حال کی بناپر اجتماع کے لیے کوئی معیاری فارمولا ممکن نہیں، اِس لیے اسلام میں ایڈجسٹ مینٹ کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے ایک ایسا فارمولا اختیار کیا گیا ہے جس کو اِس معاملے میں پریکٹکل فارمولا (practical formula) کہاجاسکتا ہے- اِس فارمولے کو قرآن میں  أَمْرُہُمْ شُوْرَی بَیْنَہُمْ (42:38) کے الفاظ میں بیان کیاگیا ہے ، یعنی اجتماعی معاملے میں وہی طریقہ اختیار کیا جائے گا جس پر اجتماعی مشورے کے بعد لوگ راضی ہوجائیں-
شوری یا جمہوریت کا اصول
اجتماعی معاملے میں کسی مطلق معیار کے بجائے لوگوں کی رائے سے فیصلہ کیا جانا کوئی سادہ بات نہیں، یہ ایک اہم اجتماعی اصول ہے-جب انسانی مجموعہ یا مجتمع (human society) کا معاملہ ہو تو اس کے اندر نظمِ اجتماعی قائم کرنے کی دو صورتیں ہیں— ایک یہ کہ ایک شخص کو حاکمِ مطلق کی حیثیت حاصل ہو اور وہ سب کے اوپر اپنی مرضی نافذ کرے- دوسری صورت یہ ہے کہ مجموعے کے ہر فرد کو اپنی رائے دینے کا موقع دیاجائے اور پھر یا تو اتفاقِ عام یا کثرتِ رائے کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے- پہلے طریقے کو آمریت (dictatorship) کہا جاتا ہے اور دوسرے طریقے کو جمہوریت (democracy)- اسلام میں شوری کا اصول عملاً وہی ہے جس کو موجودہ زمانے میں جمہوریت کہاجاتا ہے-
شوری یا جمہوریت کا یہ اصول شرعی عقیدے کا مسئلہ نہیں ہے- اپنی نوعیت کے اعتبار سے، یہ فطرت کے ایک اصول پر مبنی ہے- خالق نے مصلحتِ امتحان کے تحت ہر عورت اور مرد کو کامل آزادی عطا کی ہے، یہ آزادی قیامت سے پہلے منسوخ ہونے والی نہیں-ایسی حالت میں نظمِ اجتماعی (socio-political system) کو کس بنیاد پر قائم کیا جائے- اگر نظمِ اجتماعی کے لیے ایک معیاری اصول مقرر کردیا جائے اور یہ مطلوب ہو کہ پورے انسانی مجموعے کو اسی معیاری اصول کے تابع بنانا ہے- ایسی حالت میں لازماً یہ ہوگا کہ ابدی طور پر لوگوں کے درمیان ٹکراؤ کی حالت جاری رہے گی- کچھ لوگ اِس معیاری اصول کو مانیں گے اور کچھ لوگ اپنے چوائس (choice)کا آزادانہ استعمال کرتے ہوئے اس کے خلاف ہوجائیں گے- اِس طرح سماج مستقل طورپر دو متحارب گروہ میں تقسیم ہوجائے گا، اُن کے درمیان ایسی لڑائی جاری ہوجائے گی جو کبھی ختم نہ ہو-
ایسی حالت میں ہمارے لیے دو میں سے ایک کا انتخاب (choice)ہے — ایک، معیاری اجتماعی اصول پر اصرار کرنا، جس کا نتیجہ یہ ہو کہ معیاری اجتماعی اصول تو عملاً کبھی قائم نہ ہو اور نتیجةً انسانی معاشرہ ہمیشہ کے لیے امن (peace) سے محروم ہوجائے- اس معاملے میں دوسرا انتخاب یہ ہے کہ نظمِ اجتماعی کے لیے کوئی مطلوب اصول نہ ہو، بلکہ پریکٹکل وزڈم (practical wisdom) کے اصول پر یہ کیا جائے کہ اجتماعی نظم کے معاملے میں رائے عامہ کو عملاً تسلیم کرلیا جائے- اِس طرح سماج میں فوری طورپر امن قائم ہوجائے گا اور ہر فرد کو یہ موقع مل جائے گا کہ وہ اپنے انفرادی دائرے میں تعمیر وترقی کا جو منصوبہ چاہے، اس کو بروئے کار لاسکے-
فطرت کے اِس اصول کو ایک حدیث میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیاہے: کما تکونون، کذلک یُؤَمَّر علیکم (البیہقی، شعب الإیمان: 22/6) یعنی جیسے تم لوگ ہوگے، ویسے ہی تمھارے حکمراں ہوں گے- اِس کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی انتظام (political administration) مطلق معنوں میں کسی اصول کے تابع نہیں ہوگا، بلکہ معاشرے کی رائے عامہ کے مطابق، اس کا تعین کیا جائے گا- اِس بات کو دوسرے الفاظ میں اِس طرح کہا جاسکتا ہے کہ اسلام میں حکومت کے معاملے کو کسی مطلق معیار (political idealism) کے تابع نہیں کیا گیا، بلکہ وہ عملی طریقہ اختیار کیا گیاہے جس کو سیاسی بندوبست (political adjustment) کا طریقہ کہا جاسکتا ہے-
فطرت کا نظام
قرآن کی سورہ الفرقان اِس آیت سے شروع ہوتی ہے: تَبٰرَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ لِیَکُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرًا (25:1) یعنی بڑا بابرکت ہے اللہ جس نے فرقان (قرآن) اتارا، تاکہ وہ سارے عالم کے لیے آگاہ کرنے والا بنے-
اِس آیت کے مطابق، قرآن ایک کتابِ فرقان ہے، یعنی فرق کرنے والی کتاب- فرقان فرق کا مبالغہ ہے- اِس کا مطلب ہے: الفصل بین الشیئین(دو چیزوں کے درمیان فرق کرنا)- یہ بلاشبہ انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہے- موجودہ دنیا میں امتحان کی مصلحت کی بنا پر تمام چیزیں غیرممیّزحالت میں پائی جاتی ہیں- انسان کی یہ لازمی ضرورت ہے کہ وہ اِن چیزوں کو درست طور پر سارٹ آؤٹ (sort out)کرسکے-ایسا نہ کرنے کی صورت میں انسان فکری اعتبار سے، کنفیوژن (confusion) کا شکار ہوجائے گا اور عملی اعتبار سے وہ اپنے کاموں کی نتیجہ خیز پلاننگ نہ کرسکے گا- اِس اصول کو دوسرے الفاظ میں فطرت کا نظام کہاجاسکتا ہے-اِس دنیا میں کوئی بھی کامیابی صرف اُس وقت ممکن ہے جب کہ فطرت کے اِس نظام کو ملحوظ رکھتے ہوئے زندگی کا نقشہ بنایا جائے-
انسان بظاہر وسیع کائنات کا ایک حصہ ہے، لیکن انسان کی ایک ممیز صفت ہے جو بقیہ کائنات میں موجود نہیں، وہ یہ کہ انسان کی زندگی بیک وقت دو مختلف تقاضوں کا مجموعہ ہوتی ہے— فرد(individual) اور اجتماع (society)- مطالعہ بتاتا ہے کہ فرداور اجتماع کے تقاضے مشترک ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے بہت زیادہ مختلف ہیں، بلکہ بعض اوقات ایک دوسرے سے متضاد ہیں، حتی کہ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ انسان کی زندگی گویا ایک قسم کا مجموعۂ اضداد (mixture of opposites) کی حیثیت رکھتی ہے-
بقیہ کائنات کا معاملہ اِس سے مختلف ہے، بقیہ کائنات میں یہ تقسیم موجود نہیں- بقیہ کائنات کا معاملہ یہ ہے کہ جو ایک درخت کا کیس ہے، وہی پورے باغ کا کیس ہے|\، جو ایک قطرۂ آب کا کیس ہے، وہی پورے سمندر کا کیس ہے، جو ایک ستارے کا کیس ہے، وہی پوری کہکشاں کا کیس بھی ہے- بقیہ کائنات میں واحدہ (unit) اور مجموعہ دونوں کا کیس یکساں ہے، دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں— انسان کا معاملہ اس سے مختلف ہے- انسانی زندگی کی منصوبہ بندی میں اِس فرق یا اختلاف کو ملحوظ رکھنے کا نام کامیابی ہے اور اِس فرق یا اختلاف کو ملحوظ نہ رکھنے کا نام ناکامی-
تاریخ کی تصویر
تاریخ میں جو سوچنے والے لوگ (thinkers) گزرے ہیں، اُن میں سے تقریباً ہر ایک کا یہ حال ہوا ہے کہ انھوں نے اپنی سوچ کے مطابق، ایک عظیم فکری نشانہ (great vision) کے ساتھ اپنی زندگی کا آغاز کیا- لیکن ساری کوشش کے بعد آخر میں وہ اپنے نشانہ (goal) کو حاصل کرنے کے بارے میں ناامید ہوگئے- اور جب وہ دنیا سے گئے تو وہ مایوسی (despair) کا کیس بن چکے تھے- ارسطو (Aristotle) سے لے کر برٹرنڈرسل تک کتنے لوگ ہیں جنھوں نے آئڈیل گورنمنٹ کے قیام کو اپنا نشانہ بنایا، لیکن ساری کوشش کے باوجود وہ عملاً آئڈیل گورنمنٹ نہ بنا سکے- لیوٹالسٹاے (Leo Tolstoy) سے لے کر مہاتما گاندھی تک کتنے لوگ ہیں، جنھوں نے پرامن دنیا (peaceful world) بنانے کا خواب دیکھا، لیکن اُن کا خواب کبھی عملی واقعہ نہ بن سکا، یہاں تک کہ ناکامی کے احساس کے ساتھ وہ اِس دنیا سے چلے گئے-
سید قطب سے لے کر ڈاکٹر محمد مرسی (مصر) تک کتنے لوگ ہیں جنھوں نے اپنا یہ مشن بنایا کہ ان کو دنیا میں انصاف (justice) پر مبنی نظام قائم کرنا ہے، مگر اُن کا آخری احساس یہ تھا کہ ساری کوشش کے باوجود دنیا میں وہ اپنا مطلوب نظام قائم کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے- اُن سب کا حال وہی ہوا جو رابندر ناتھ ٹیگور نے تمثیل کی زبان میں اِس طرح بیان کیاتھا — ساری عمر بینا (ستار) کے تاروں کو سلجھانے میں بیت گئی، مگر جو اَنتم گیت میں گانا چاہتا تھا، وہ میں نہ گاسکا-
منصوبۂ تخلیق
یہ پوری تاریخ کا ایک عظیم فکری المیہ (intellectual tragedy) ہے-اس کا سبب صرف ایک ہے — زندگی کے بارے میں خدا کے تخلیقی منصوبہ سے بے خبر ہونا اور خود ساختہ ذہن (self-styled mindset)کے تحت منصوبہ بنا کر اس کو ایک ایسی دنیا میں بروئے کار لانے کی کوشش کرنا جو اُس کے مطابق، بنائی نہیں گئی تھی- یہی وہ حقیقت ہے جو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کی گئی ہے: قُلْ کُلٌّ یَّعْمَلُ عَلٰی شَاکِلَتِہٖ ۭ فَرَبُّکُمْ اَعْلَمُ بِمَنْ ہُوَ اَہْدٰى سَبِیْلًا (17:84) یعنی ہر ایک اپنے طریقے پر عمل کررہا ہے- اب تمھارا رب بہتر جانتا ہے کہ کون زیادہ ٹھیک راستے پر ہے-
قرآن کی اِس آیت کا مطلب یہ ہے کہ خالق کا منصوبۂ اشیا (scheme of things) ہی صحیح تخلیقی منصوبہ ہے- اُس کا اتباع کرکے دنیا میں کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے- لیکن لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ سنجیدگی کے ساتھ خالق کے منصوبے کو جاننے کی کوشش نہیں کرتے- وہ صرف اپنے فکری شاکلہ (mindset) کو جانتے ہیںاور اُسی کے مطابق، عمل شروع کردیتے ہیں- دوسرے لفظوں میں یہ کہ وہ اپنے کاگ (cog)کو خالق کے کاگ سے نہیں ملاتے- اِس بنا پر اُن کا منصوبہ غیرحقیقت پسندانہ بن جاتا ہے- اِس معاملے میں لوگوں کی عمومی ناکامی کا اصل سبب یہی ہے-
اِس سلسلے میں ایک بنیادی پہلو یہ ہے کہ خالق نے انسان کو مصلحتِ امتحان کی بنا پر مکمل آزادی (total freedom) عطا کیا ہے- ہر انسان کو کلی طور پر یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ جو چاہے کرے اور جو چاہے نہ کرے- اِس تخلیقی نقشے کی بنا پر عملاً یہ بات ناممکن ہوگئی ہے کہ اِس دنیا میں عوام (masses) کی سطح پر کوئی آئڈیل نظام بنایا جاسکے-کیوں کہ کچھ لوگ اگر اُس سے اتفاق کریں گے تو کچھ لوگ اپنے اختیار کا آزادانہ استعمال کرتے ہوئے اس کے خلاف ہو جائیں گے اور پھر وہ مجوّزہ اجتماعی اسکیم کو درہم برہم کردیں گے- تاریخ میں باربار ایسے واقعات پیش آئے ہیں، جب کہ ایک شخص یا چند اشخاص نے بڑی بڑی اسکیموں کا خاتمہ کردیا-
خالق کے اِس نقشے کی بنا پر حقیقت پسندانہ رویہ یہ ہے کہ آدمی اِس سے مطابقت کرتے ہوئے اپنا نقشہ بنائے-ہر انسان کو پیشگی طورپر یہ جاننا چاہیے کہ اس کا منصوبہ صرف اُس وقت کامیاب ہوسکتا ہے، جب کہ وہ خالق کے نقشے کے ساتھ مکمل مطابقت رکھتا ہو- خالق کے نقشے سے ادنی انحراف بھی یقینی طورپر اس کے منصوبے کو ناکام بنادے گا، خواہ بطور خود وہ اس کو کتنا ہی زیادہ اچھا سمجھتا ہو-
انفرادی معیار پسندی، اجتماعی عملیت
اِس حقیقت کو ملحوظ رکھتے ہوئے غور کیا جائے تو موجودہ دنیا میں قابلِ عمل منصوبے کا اصول صرف ایک ہے، اور وہ ہے فرد (individual) اور اجتماع (society) کو ایک دوسرے سے الگ کرکے منصوبہ بنانا- فرد کے تقاضے اور اجتماع کے تقاضے کے درمیان فرق کی رعایت کرتے ہوئے اپنے عمل کا نقشہ بنانا یہی فطری طریقہ ہے- اِس فطری طریقے کا اصول مختصر طور پر یہ ہے:
1- فرد کے لیے نظری معیار (individual idealism)
2- اجتماع کے لیے عملی امکان (social pragmatism)
فرد کا معاملہ یہ ہے کہ اس میں عامل اور معمول دونوں ایک ہوتے ہیں- فرد کے کیس میں ایک آدمی خود معیار مقرر کرتا ہے اور خود اس کے اپنے اختیار میں یہ ہوتا ہے کہ وہ اِس معیار کو اپنی زندگی میں اختیار کرے- اِس لیے فرد کے کیس میں کسی معیار کو عمل کی صورت دینا پوری طرح ممکن ہوتا ہے- اِسی لیے اللہ کے یہاں لوگوں کا درجہ فرد کی نسبت سے متعین ہوگا، نہ کہ مجموعہ کی نسبت سے-
ہر فرد کو چاہیے کہ وہ جس اصول کو درست سمجھتا ہے، اس کو وہ اپنی ذاتی زندگی میں پوری طرح اختیار کرے- وہ اِس معاملے میں کسی سے سمجھوتہ (compromise) نہ کرے- یہی وہ اصول ہے جس کو ہم نے انفرادی معیار پسندی (individual idealism) کے الفاظ میں بیان کیا ہے-
اِس کے بعد جہاں تک اجتماع یا انسانی مجموعہ کا تعلق ہے،اس کے معاملے میں قانونِ فطرت کے مطابق، جو چیز قابلِ عمل ہے، وہ صرف یہ ہے کہ ممکن الحصول اور ناممکن الحصول کے درمیان فرق کرتے ہوئے اپنا منصوبہ بنانا، یعنی ذاتی ماڈل کو چھوڑ کر عملی ماڈل اختیار کرنا، اجتماع کے درجۂ قبولیت (level of acceptance) کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے عمل کا نقشہ بنانا- یہی وہ عملی حقیقت (practical wisdom) ہے جس کو ہم نے اجتماعی عملیت (social pragmatism) کے الفاظ میں بیان کیا ہے-
تاریخ میں جو مفکرین عملاً ناکام ہوگئے، اُن کی ناکامی کا مشترک سبب یہی ہے کہ انھوں نے ذاتی سوچ کے تحت اپنے ذہن میں اجتماع کا ایک خوب صورت ماڈل بنایا اور پھر اس کو وقوع میں لانے کے لیے پُر شور تحریکیں شروع کردیں- اِس کا فطری نتیجہ یہ ہوا کہ اُن کا تصوراتی ماڈل حقائق کی چٹان سے ٹکرا کر بکھر گیا — معیار (ideal) مجموعے کی سطح پر ناقابلِ حصول ہے، لیکن فرد (individual) کی سطح پر بلاشبہہ وہ قابلِ حصول ہے-
مذہب اور سیاست
فرداور اجتماع کے درمیان اِسی فرق کی بنا پر اسلام میں مذہب اور سیاست کو ایک دوسرے سے الگ کردیاگیا - مذہب کا نشانہ ذاتی ارتقا (personal development) ہے، یعنی ربانی بنیادوں پر فرد کی تعمیر- اِس اعتبار سے، مذہب اُس دائرے کی چیز ہے جس کے لیے ہم نے انفرادی معیار پسندی (individual idealism) کا لفظ استعمال کیا ہے-
اِس کے برعکس، سیاسی اقتدار کا معاملہ پورے انسانی مجموعے سے تعلق رکھتا ہے اور قانونِ فطرت کے مطابق، پورے انسانی مجموعے کو ایک معیار پر ڈھالا نہیں جاسکتا- ایسی حالت میں قابلِ عمل صورت صرف یہ ہے کہ سیاسی اقتدار کے معاملے کو اُس دائرے کی چیز قرار دیا جائے جس کے لیے  ہم نے اجتماعی عملیت (social pragmatism) کی اصطلاح استعمال کی ہے-
مذہب اور سیاست کے درمیان تفریق اِسی عملی اصول (practical wisdom)کی بنا پر ہے- اس کا مطلب یہ ہے کہ فرد کو معیاری اصول پر قائم ہونے کی تاکید کی جائے، لیکن ذاتی اقتدار کے معاملے میں اُس اصول کو اختیار کرلیا جائے جس کو ایک حدیث میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: کما تکونون کذلک یؤمّر علیکم ( البیہقی، رقم الحدیث: 7391) یعنی تم جیسے ہوگے، ویسے تمھارے حکمراں ہوں گے- دوسرے لفظوں میں، یہ کہ سیاسی اقتدار کے معاملے میں سماجی قبولیت (social acceptability) کودیکھا جائے گا، نہ کہ کسی مطلق معیار (absolute ideal) کو-
یہ فطرت کا اصول ہے- اِس اصول کی بنیاد پر زندگی کی تشکیل کی جائے تو سماج میں ہمیشہ امن قائم رہے گا، کیوں کہ امن کی حالت ہر قسم کی ترقی کے لیے لازمی طورپر ضروری ہے- اِس کے برعکس، اگر فطرت کے اِس اصول کو نظر انداز کردیا جائے اور فرداور مجموعہ کو ایک ہی نظام کا پابند بنانے کی کوشش کی جائے تو ابدی طورپر امن کا خاتمہ ہوجائے گا- اِس کے بعد سماج میں نفرت اور ٹکراؤ اور تشدد جیسی برائیاں جنم لیں گی جو کبھی ختم نہ ہوں گی-
اسلام کا اصل نشانہ
ہر نظام میں ایسا ہے کہ کچھ چیزیں اِس نظام کا اصل حصہ (real part) ہوتی ہیں اور کچھ چیزیں وہ ہیں جو اِس نظام کا اضافی حصہ (relative part) ہوتی ہے- اسلام میں خارجی اعتبار سے ، اصل نشانے کی حیثیت صرف ایک چیز کو حاصل ہے، اور وہ دعوت یا شہادت ہے- اس کے سوا جو خارجی چیزیں ہیں، اُن کی حیثیت اسلام کے اضافی حصہ (relative part) کی ہے- اسلام کو عقلی طورپر سمجھنے کے لیے اِس حقیقت کو جاننا بہت ضروری ہے- اِس حقیقت کو جانے بغیر اسلام کی جو توجیہہ کی جائے گی، وہ کبھی درست نہیں ہوسکتی-
شہادتِ عظمیٰ
اسلام کا نشانہ اقامتِ نظام نہیں ہے، بلکہ دعوت الی اللہ ہے، یعنی تمام انسانوں کو اللہ کا پیغام پہنچانا- تمام انبیا کا مشن یہی دعوت الی اللہ تھا-پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اِسی دعوتی مشن کے لیے کام کیا- یہ دعوتی مشن پوری تاریخ میں جاری رہا-عالمی ابلاغ کے اعتبار سے، اِس کا کامل اظہار دورِ آخر میں ہوگا- اِس کامل اظہار کو ایک حدیثِ رسول میں شہادتِ عظمی کہا گیاہے، یعنی تمام انسانیت کے سامنے اللہ کے دین کی عالمی گواہی (ہذا أعظم الناس شہادة عند رب العالمین)-
احادیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس شہادت عظمی یا عالمی گواہی کے لیے ضروری ہے کہ اس کے مطابق، وسائل دستیاب ہوچکے ہوں- اِس معاملے کے دو پہلے ہیں — ایک یہ کہ اِس طرح کی عالمی شہادت کے لیے عالمی مواصلات (global communication) لازمی طورپر ضروری ہے- بیسویں صدی میں عالمی مواصلات کے معاملے میں غیر معمولی ترقی ہوئی ہے، یہاں تک کہ موجودہ زمانے کو مواصلات کا زمانہ (age of communication) کہاجاتا ہے- اِس واقعے میں اِس بات کا اشارہ ہے کہ موجودہ زمانے میں پوری طرح وہ وقت آگیاہے کہ شہادتِ عظمی یا عالمی دعوت کا کام موثر طورپر انجام دیا جاسکے-موجودہ زمانے میں ایک طرف، مکمل معنوں میں مذہبی آزادی آگئی ہے اور دوسری طرف مواصلات کی ترقی نے اِس بات کو آخری حد تک ممکن بنا دیا ہے کہ کسی رکاوٹ کے بغیر عالمی دعوت کا کام کیا جاسکے- یہ وہی کام ہے جس کو حدیث میں ’ادخال الکلمة فی کل البیوت‘ کہا گیاہے-
اِس سلسلے میں دوسری بات وہ ہے جس کا ذکر مذکورہ حدیث میں آیا ہے- شہادت عظمی کی روایت میں ’حجیج‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے، یعنی مطلوب دعوت کے کام کو حجت یا دلیل کی سطح پر انجام دینا- یہ بھی موجودہ زمانے کی ایک خصوصیت ہے- چناں چہ موجودہ زمانے کو دورِ تعقل (age of reason) کہا جاتا ہے- موجودہ زمانے میں علم کی ترقی کی بنا پر ایساہوا ہے کہ پہلی بار یہ ممکن ہوا ہے کہ عقلی ڈیٹا (rational data) کی بنیاد پر کسی بات کومدلل کیا جاسکے-
زمانے کی یہ تبدیلی بھی حدیث کی پیشین گوئی کے عین مطابق ہے- موجودہ زمانے میں پہلی بار یہ ممکن ہوا ہے کہ اسلام کی صداقت کو عقلِ انسانی کی بنیاد پر مدلل کرکے اس کو انسان کے سامنے پیش کیا جاسکے- گویا شہادتِ عظمی کے دو تقاضے موجودہ زمانے میں پہلی بار انسان کی دسترس میں آئے ہیں — عالمی مواصلات اور عقلِ انسانی کی مسلّمہ سطح پر حقائق کا اثبات-
حدیث ِ رسول کے مطابق، دورِ آخر میں شہادت عظمی کا جو واقعہ ظہور میں آنے والا ہے، وہ حدیث کے مطابق، ایک ایسا واقعہ ہوگا جو اِس سے پہلے کبھی پیش نہیں آیا- اُس کے لیے ضروری ہے کہ انسانی علم عقلی ارتقا کے اعلی درجے تک پہنچ چکا ہو- اِسی کے ساتھ وہ تمام وسائل موجود ہوچکے ہوں جو اِس طرح کی عالمی شہادت کی ادائیگی کے لیے ضروری ہیں- موجودہ زمانے میں یہ تمام وسائل پوری طرح وجود میں آچکے ہیں- اِس لیے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ موجودہ زمانہ ہی وہ زمانہ ہے جب کہ شہادتِ عظمی کا وہ واقعہ ظہور میں آئے جس کی پیشین گوئی حدیثِ رسول میں کی گئی ہے-
خلاصہ کلام
اسلام میں انفرادی دین اور اجتماعی دین کے بارے میں یہاں جو کچھ کہاگیا، وہ اِس معاملے میں کوئی نئی اسکیم نہیں ہے- اس کی حیثیت صرف یہ ہے کہ اسلام کی تاریخ میں بالفعل جوکچھ پیش آیا، یہاں اس کی ایک قابلِ قبول توجیہہ (acceptable explanation) بیان کی گئی ہے- اِس توجیہہ کی روشنی میں اسلام کی تاریخ ایک بامعنی تاریخ بن جاتی ہے- اِس کے بعد تاریخ کے بارے میں یہ نظر آنے لگتا ہے کہ جو کچھ ہوا، وہ قانونِ فطرت کے مطابق ہوا اور اجتماعیات کے معاملے میں اسلام کا اصول وہی ہے جو خدا کے تخلیقی نقشہ کے مطابق، فطرت کا اصول ہے-
یہ ایک معلوم واقعہ ہے کہ اسلام کی بعد کی تاریخ میں کئی ایسے واقعات پیش آئے جو خالص معیار (ideal) سے مطابقت نہ رکھتے تھے- مثلاً خلیفہ یا امیر المومنین کے تقرر کے لیے مختلف طریقے اختیار کرنا- بعد کے زمانے میں حکومتی ادارے کا خاندانی حکومت (dynasty) کی صورت اختیار کرلینا، اہلِ اسلام کا مختلف گروہوں میں بٹ جانا اور ان کے درمیان پر تشدد ٹکراؤ پیش آنا، بیت المال کے نظام میں بظاہر خلل واقع ہونا، وغیرہ-
اسلام کی بعد کی تاریخ میں جو واقعات پیش آئے، وہ بظاہر معیار کے مطابق نہ تھے- اِس طرح کے واقعات کے معاملے میں عام طورپر اہلِ علم نے دو قسم کا موقف اختیار کیا ہے — ایک موقف اُن لوگوں کا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ بعد کی تاریخ میں اسلام کا ابتدائی معیار باقی نہ رہا، وہ بگاڑ کا شکار ہوگیا- دوسرا موقف اُن لوگوں کا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ یہ وہ معاملات ہیں جن کے بارے میں ہمیں خاموشی کا طریقہ اختیار کرنا چاہئے، ہمیں اُن کا تجزیہ نہیں کرنا چاہئے-
مگر یہ دونوں موقف ناقابلِ قبول ہیں، کیوں کہ اسلام انسان کے لیے ہے اور انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے ہر واقعے کی عقلی توجیہہ (rational interpretation)چاہتا ہے- اِس لیے اسلام کی تاریخ کی ایسی توجیہہ کرنا ضروری ہے جو عقلی طورپر قابلِ فہم ہو- ایسا نہ کرنے کی صورت میں لوگ اسلام کی صداقت کے بارے میں مشتبہ ہوجائیں گے، وہ کامل یقین کے ساتھ اسلام کو اختیار نہ کرسکیں گے — مذکورہ وضاحت کا یہ فائدہ ہے کہ اِس سے اسلامی تاریخ کی ایک قابلِ فہم توجیہہ حاصل ہوجاتی ہے،  بغیر اِس کے کہ اسلام کی کامل صداقت پر کوئی حرف آیا ہو-
واپس اوپر جائیں

دورِ شرک، دورِ الحاد

مذہبی نقطہ نظر سے تاریخ کے دو دور ہیں — دورِ شرک، دورِ الحاد- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے پہلے ہزاروں سال تک دنیا میں شرک (polythiesm) کا غلبہ تھا- موجودہ زمانہ عمومی تقسیم کے اعتبار سے، الحاد (atheism) کا زمانہ ہے- تاہم الحاد انکارِ مذہب کا نظریہ ہے، جب کہ سیکولرزم مذہب کے بارے میں عملاً ناطرف داری کا نظریہ-
دورِ شرک اوردورِ الحاد کے درمیان ایک چیز مشترک ہے اور وہی چیز ہے جس کو قرآن کی درج ذیل آیت میں ’خَرص‘ کہاگیا ہے : وَقَالُوْا لَوْ شَاۗءَ الرَّحْمٰنُ مَا عَبَدْنٰہُمْ ۭ مَا لَہُمْ بِذٰلِکَ مِنْ عِلْمٍ ۤ اِنْ ہُمْ اِلَّا یَخْرُصُوْنَ (43:20) یعنی وہ کہتے ہیں کہ اگر رحمان چاہتا تو ہم اُن کی عبادت نہ کرتے- اُن کو اِس کا کوئی علم نہیں، وہ محض اٹکل سے بات کررہے ہیں-
’خرص‘ کا لفظی مطلب ہے اٹکل سے بات کرنا- اِس سے مراد دراصل چیزوں کی قیاسی تعبیر (speculative interpretation) ہے- قدیم زمانے میں مشرکین نے یہی غلطی کی تھی- انھوں نے یہ کیا کہ فطرت کا جو ظاہرہ اُن کو بڑا (great) نظر آیا، اس کو انھوں نے الٰہ (god) کادرجہ دے دیا- یہی چیز ہے جس کی طرف قرآن میں اِن الفاظ میں اشارہ کیاگیا ہے: ہٰذَا رَبِّیْ ہٰذَآ اَکْبَرُ(6:78)-
موجودہ زمانے میں سائنس کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اُس نے اِس قدیم متھ (myth) کو توڑ دیا- سائنس نے اپنے تجربات کے ذریعے ثابت کیا کہ جن چیزوں کو انسان نے خدا سمجھ لیا تھا، اُن کے اندر کوئی خدائیت (divinity)نہیں ہے- تمام چیزیں صرف فطرت (nature) کے اجزا ہیں- بہ الفاظ دیگر، کائنات کی تمام چیزیں صرف مخلوق ہیں، وہ کسی بھی درجے میں خالق نہیں- مشرکانہ کلچر کے نظریاتی خاتمے کا آخری دن 20 جولائی 1969 تھا، جب کہ امریکی ایسٹروناٹ نیل آرم اسٹرانگ (Neil Armstrong)چار روزہ خلائی سفر طے کرکے چاند تک پہنچا اور چاند کی سطح پر اس نے اپنا قدم رکھ دیا-
الحادکا دور
شرک کا مطلب ہے— کسی غیر خدا کو خدا کا شریک (partner) قرار دے کر اس کی تعظیم یا عبادت کرنا- موجودہ زمانے میں جب شرک کا دور ختم ہوا تو اس کے بعد یہ ہونا چاہیے تھا کہ دنیا میں توحید کا دور آجائے، لیکن اُس وقت اہلِ مغرب دنیا کے فکری قائد بنے ہوئے تھے اور جیسا کہ معلوم ہے، قرونِ وسطی (middle ages) کے زمانے میں مغرب کے اہلِ علم اور چرچ کے درمیان شدید ٹکراؤ ہوا- اِس ٹکراؤ کی تفصیل جان ولیم ڈریپر (J. W. Draper)کی درج ذیل کتاب میں دیکھی جاسکتی ہے:
Conflict Between Science and Religion (1874)
قرون وسطی کے بعد یورپ میں انیسویں صدی میں جدید الحادی فکر کادور آیا- یہ دور کسی علمی تحقیق کا نتیجہ نہ تھا، بلکہ وہ تمام تر رد عمل (reaction) کے نتیجے میں پیش آیا- اِس زمانے میں علمی تحقیق کا معیار یہ قرار پایا کہ وہ تمام تر سیکولرانداز میں ہو، یعنی خدا کو حذف کرکے واقعات کی توجیہہ کرنا- اِس طرزِ فکر کے نتیجے میں وہ غیر مذہبی فلسفہ پیدا ہوا جس کو الحاد (atheism) کہاجاتا ہے-
انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے، ایک توجیہہ طلب حیوان (explanation-seeking animal) ہے- قدیم مشرکانہ دور میں یہ توجیہہ قیاسی بنیاد پر کی جاتی تھی- موجودہ ملحدانہ دور میں یہ توجیہہ علمی تحقیق کے نام پر کی جانے لگی- اِس نئے دور میں مغربی دنیا میں بہت سے مفکر پیدا ہوئے جو خدا کو حذف کرکے حیات اور کائنات کی توجیہہ کرتے تھے-
اِس طریقِ تحقیق کے نتیجے میں ایک نیا دور پیدا ہوا- مزید یہ کہ اِسی دور میں پرنٹنگ پریس بھی وجود میں آیا- پہلے کتابیں محدود طورپر ہاتھ سے لکھی جاتی تھیں، اب وہ چھپ کر عمومی طورپر پھیلنے لگیں- اِس طرح یہ ہوا کہ جدید الحاد مطبوعہ کتابوں میں منتقل ہو کر تمام دنیا کے فکر پر چھا گیا-جدید ملحدانہ دور میں جو مفکرین پیدا ہوئے اور ان کے ذریعے جو غیر مذہبی طرز فکر وجود میں آیا، اس کے پیچھے بہت سے ذہن کارفرما تھے- تاہم علامتی طورپر چار افراد کو اِس معاملے میں بنیادی اہمیت حاصل ہے- اِن چار افراد نے انسانی تاریخ کو ایک نیا رخ یا الحادی رخ دیا- اُن کے نام یہ ہیں— آئزاک نیوٹن، چارلس ڈارون، سگمنڈ فرائڈ،کارل مارکس:
1. Isaac Newton: from divine interpretation to mechanical interpretation
2. Charles Darwin: from Special Creation to Natural Selection.
3. Sigmund Freud: from harnessing desires to following desires.
4. Karl Marx: from duty-conscious society to right-conscious society.
1- بر ٹش سائنس داں آئزاک نیوٹن (وفات: 1727) اصلاً صرف ایک سائنس داں تھا- اس کا موضوع تھا مادی دنیا میں حرکت (motion) کی توجیہہ کرنا- اس نے دریافت کیا کہ مادی دنیا میں حرکت کا نظام میکانکل قوانین (mechanical laws) کے تحت ہوتا ہے- مثلاً شمسی نظام میں سیاروں کی گردش کا قانون-نیوٹن کی دریافت کا کوئی تعلق مذہبی عقائد سے نہ تھا، لیکن ملحد مفکرین نے اِس دریافت کو الحاد کے حق میں استعمال کیا- انھوں نے کہا کہ اگر واقعات فطری اسباب کے تحت پیش آتے ہیں تو وہ فوق الفطری سبب کے تحت نہیں ہوسکتے:
If events are due to natural causes, they are not due to supernatural causes.
یہ استدلال بلا شبہہ ایک غیر منطقی استدلال تھا، کیوں کہ نیوٹن کی تشریح جس چیز کو بتارہی تھی، وہ صرف ظاہری سبب تھا- اِس کے بعد بھی یہ سوال تھاکہ اسباب کے پیچھے مسبِّب (cause of the causes) کون ہے- اِس معاملے میں ملحدین کا استدلال تمام تر ایک مغالطے پر مبنی تھا، وہ کوئی سائنسی استدلال نہ تھا- لیکن ملحد مفکرین کی یہ توجیہہ وقت کے ذوق کے مطابق تھی، اِس لیے وہ عمومی طورپر پھیل گئی-
2- چارلس ڈارون (وفات: 1882) کا ارتقائی نظریہ بنیادی طورپر انتخابِ طبیعی (natural selection) کے اصول پر مبنی ہے- ڈارون نے اور اس کے ساتھیوں نے اپنی کتابوں کے ذریعے یہ تاثر دیا کہ ارتقا (evolution) کا یہ نظریہ ایک سائنسی نظریہ ہے- مگر علمی تعریف (definition) کے مطابق، ارتقا کا نظریہ ہرگز سائنسی نظریہ (scientific theory) نہ تھا، وہ صرف ایک قیاسی نظریہ (speculative theory)کی حیثیت رکھتا تھا- مگر وقت کے عمومی ذوق کی بنا پر حیاتیاتی ارتقا کے اِس نظریے کو عام مقبولیت حاصل ہوگئی- یہ سمجھ لیا گیا کہ حیاتیاتی مظاہر کی توجیہ کے لیے اب خالق کو ماننے کی کوئی ضرورت نہیں، خالق کے وجود کو مانے بغیر تمام حیاتیاتی مظاہر کی توجیہ ممکن نہیں-
مگر یہ صرف ایک مغالطہ تھا- سائنس کی مزید دریافتوں نے یہ ثابت کردیا کہ ارتقا کا یہ نظریہ علمی اعتبار سے بالکل بے بنیاد ہے- سائنس کی جدید دریافت بتاتی ہے کہ فطرت میں کامل درجے کی ذہین ڈزائن (intelligent design)پائی جاتی ہے- اِس دریافت نے علمی طورپر نظریہ ارتقا کا خاتمہ کردیا ہے- کیوںکہ ذہین ڈزائن ایک ذہین ڈزائنر (intelligent designer) کی موجودگی کو ثابت کرتی ہے، وہ بے شعور قسم کے انتخابِ طبیعی کا نتیجہ نہیں ہوسکتی-
3- سگمنڈ فرائڈ (وفات: 1939) کا نظریہ یہ تھا کہ انسان کی ذہنی ترقی اِس طرح ممکن ہے کہ اس کو آزاد چھوڑ دیا جائے کہ وہ اپنی خواہشوں کو بے روک ٹوک پورا کرسکے- فرائڈ کے اِس نظریے کا نتیجہ یہ ہوا کہ مذہبی تصور کے مطابق، حرام وحلال کی پابندیاں ختم ہوگئیں- انسان آزاد ہوگیا کہ وہ خود اپنی خواہش کے تحت جو چاہے کرے اور جو چاہے نہ کرے-
لیکن بعد کی تحقیقات سے یہ ثابت ہوا کہ فرائڈ کا یہ نظریہ ایک غیر فطری نظریہ ہے- چناں چہ وہ انسان کی ذہنی ترقی میں مانع ہے، نہ کہ مدد گار-نفسیات کا جدید مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان کی ذہنی ترقی چیلنج کے ذریعے ہوتی ہے، نہ کہ بے قید آزادی کے ذریعے- مذہب کی عائد کردہ اخلاقی پابندیاں ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہیں- اِس چیلنج کے ذریعے انسان کے اندر تخلیقی فکر (creative thinking) پیدا ہوتی ہے- اِس طرح انسان اپنی توانائی کے ضیاع سے بچتے ہوئے ذہنی ترقی کے راستے پر سفر کرتا رہتا ہے-
4- کارل مارکس (وفات: 1883) نے زندگی کا جو فلسفہ دیا، وہ اپنی عملی تدبیر کے اعتبار سے یہ تھا کہ اقتصادی ذرائع کو انفرادی کنٹرول سے نکال کر سماجی کنٹرول میں دے دیا جائے- مارکس کے نزدیک انسانی حقوق کے تحفظ کا یہی واحد راستہ تھا- مگر عملی تجربے کے لحاظ سے اِس فلسفے کا مطلب یہ تھا کہ تمام اقتصادی ذرائع کو اسٹیٹ کے کنٹرول میں دے دیا جائے- اِس نظریے کا مقصد بظاہر ایک غیرطبقاتی سماج (classless society) پیدا کرنا تھا، مگر عملاً اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دو شدید قسم کے متحارب طبقے پیدا ہوگئے-
اِس نظریے سے دو بڑی برائیاں پیدا ہوئیں— ایک، یہ کہ مسابقت (competition) کا ختم ہوجانا، جو کہ تمام ترقیوں کے لیے فطری محرک کی حیثیت رکھتا ہے- دوسری برائی جو اشتراکی نظریے کےتحت پیدا ہوئی، وہ یہ کہ لوگ عمومی طورپر رائٹ کانشس (right-conscious) بن گئے، جب کہ کسی سوسائٹی کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ اس کے افراد ڈیوٹی کانشس (duty-conscious)ہوں- یہاں پہنچ کر طبقاتی کشمکش نے ایک ایسی صورت اختیار کرلی جو کبھی ختم ہونے والی نہیں- کیوں کہ زندگی میں ڈیوٹی کا تعین ہوسکتا ہے، لیکن رائٹ کا کوئی تعین نہیں-
خلاصہ کلام
قدیم دورِ شرک کا بگاڑ یہ تھا کہ وہ خدا اور بندے کے درمیان تعلق کو صحیح بنیاد پر قائم کرنے میں مانع بن گیا- انسان کو یہ کرنا تھا کہ وہ اپنی سوچ کو اور محبت اور خوف کے جذبات کو مکمل طورپر خدا سے وابستہ کرے- اِسی کا نام توحید ہے اور اِسی توحید سے انسان کے اندر تمام اعلی صفات پیدا ہوتی ہیں- لیکن مشرکانہ کلچر نے خدا کے شرکا (partners) قرار دے کر انسان کو اس کے مرکزِ اصلی سے ہٹا دیا- نتیجہ یہ ہوا کہ انسان اپنے مطلوب ارتقا سے محروم ہو کر رہ گیا-
انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے، ایک مرکز ِ وابستگی چاہتا ہے- انسان کی اِس فطری طلب کا مرجع صرف ایک ہے، اور وہ اس کا خالق ہے- بندے کا خالق سے تعلق قائم ہونا ایسا ہی ہے جیسے بجلی کے بلب کا پاور ہاؤس سے تعلق قائم ہونا- شرک کی برائی یہ تھی کہ اس نے انسان کی اِس طلب کے لیے اس کو ایک غیر واقعی بدل (false substitute) دے دیا- اِس بنا پر ایسا ہوا کہ انسان کو اس کی فطری طلب کا مرکز نہیں ملا اور نتیجةً انسان اپنی شخصیت کے اُس ارتقا سے محروم ہوگیاجو اس کے لیے پیدائشی طور پر مقدر تھا-
جدید الحاد کے دور میں دوبارہ انسان ایک اور اعتبار سے اِسی محرومی کا شکار ہوگیا- قرآن میں بتایا گیا ہے کہ انسان کو علمِ قلیل دیاگیا ہے- انسان کے لیے آزادی بہت اچھی چیز ہے، لیکن انسان اپنی فطری ساخت کے اعتبار سے کامل آزادی کا تحمل نہیں کرسکتا- انسان کے لیے حقیقت پسندی یہ ہے کہ وہ اپنی اِس محدودیت (limitation) کو جانے اور مقیّد آزادی (guided freedom) پر راضی ہوجائے- جدید الحاد نے آزادی کو خیر مطلق (summon bonum)قرار دے کر انسان کو اس کی فطرت کے راستے سے ہٹا دیا- یہی وجہ ہے کہ بظاہر ہر قسم کی ترقیوں کے باوجود انسان اُس اہم ترین چیز سے محروم ہوگیا جس کو ذہنی سکون (peace of mind) کہاجاتا ہے- (2013)
واپس اوپر جائیں

استثنائی شخصیت

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش 570ء میں مکہ میں ہوئی- 610ء میں آپ کو نبوت ملی- 632ء میں مدینہ میں آپ کی وفات ہوئی- آپ پوری تاریخ میں ایک استثنائی شخصیت تھے- آپ کا استثنائی شخصیت ہونا اپنے آپ میں اِس بات کا ایک ثبوت ہے کہ آپ اللہ تعالی کے نمائندہ تھے- آپ کو اللہ تعالی کی خصوصی نصرت حاصل تھی- خداوندِ کائنات کی خصوصی نصرت کے بغیر کوئی شخص ایسا نہیں کرسکتا کہ وہ پوری تاریخ میں ایک استثنائی شخصیت بن جائے-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی اِس استثنائی شخصیت کے مختلف پہلو ہیں- اِس موضوع کی تفصیل کے لیے ایک مکمل کتاب درکار ہے- یہاں آپ کی استثنائی شخصیت کے چند پہلو مختصر طورپر درج کیے جاتے ہیں-
اظہارِ دین
قرآن کی سورہ الفتح میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ آیت آئی ہے: ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰى وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ ۭ وَکَفٰى بِاللّٰہِ شَہِیْدًا (48:28)یعنی یہ اللہ ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا، تاکہ وہ اُس کو تمام دین پر غالب کردے- اور اللہ گواہی کے لیے کافی ہے-
قرآن کے اِس بیان میں جو بات کہی گئی ہے، اُس کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے دینِ خداوندی کے اعلان کے لیے بہت سے لوگ اٹھے، لیکن اُن کا کام اعلان کے درجے تک محدود رہا، وہ انقلاب کے درجے تک نہیں پہنچا- پیغمبر اسلام کا مشن اللہ کی خصوصی نصرت سے نظریاتی انفجار (ideological explosion) تک پہنچ گیا- آپ کے ذریعے افکار کی دنیا میں ایک ایسا انقلاب آیا کہ آپ کو تاریخ ساز پیغمبر (epoch-making prophet) کی حیثیت حاصل ہوگئی-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی اِس انقلابی صفت کا اعتراف مختلف مورخین نے کھلے طورپر کیا ہے- فرانس کا مورخ ہنری پرین (Henri Pirenne) 1862 میں پیدا ہوا، اور 1935 میں اس کی وفات ہوئی- اس نے اسلام اور پیغمبر اسلام کے موضوع پر کئی کتابیں شائع کی ہیں- اُس نے لکھا ہے کہ — اسلام نے دنیا کا نقشہ بدل دیا- اس کے بعد روایتی دورِ تاریخ کا خاتمہ ہوگیا:
Islam changed the face of the globe. The traditional order of history was overthrown.
کارِ نبوت کا تسلسل
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے جو انقلاب آیا، اُس کے بعد یہ ممکن ہوگیا کہ پیغمبر کے بغیر کارِ نبوت کا تسلسل جاری رہے- پچھلے پیغمبروں کے زمانے میں ایسا ہوتا تھاکہ پیغمبر پر نازل ہونے والی وحی پیغمبر کے بعد محفوظ نہیں رہتی تھی، اِس لیے بار بار خدا کی طرف سے پیغمبر بھیجے جاتے رہے- لیکن پیغمبر اسلام کے ذریعے یہ ہوا کہ آپ کے اوپر نازل ہونے والی وحی (قرآن) پوری طرح محفوظ ہوگئی- آپ کی زندگی بھی تاریخی طورپر مدوّن ہوگئی- اِس لیے آپ کے بعد یہ ممکن ہوگیا کہ کوئی شخص جو گہرے طورپر پیغمبر کے مشن سے اپنے آپ کو وابستہ کرے، وہ اپنے زمانے میں پیغمبر کا نمائندہ بن جائے-
یہی بات حدیثِ رسول میں اِس طرح بتائی گئی ہے: العلماء ورثة الأنبیاء (ابوداؤد، رقم الحدیث: 3641) یعنی علما انبیا کے وارث ہیں- پیغمبر اسلام صلی للہ علیہ وسلم کے ذریعے دین ِ خداوندی کے تمام اجزا محفوظ ہوگئے، جو دین پہلے زندہ شخصیتوں کی سطح پر ہوتا تھا، وہ اب مستند کتابوں کی شکل میں محفوظ ہوگیا، اِس طرح امت کی بعد کی نسلوں میں اٹھنے والے افراد کے لیے یہ ممکن ہوگیا کہ وہ کارِ نبوت کا تسلسل دوبارہ زندہ حالت میں جاری کرسکیں:
Without being a prophet, one can play the prophetic role.
خالق کا تخلیقی پلان
یہ ہر انسان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ وہ جانے کہ پیدا کرنےوالے نے اُس کو کس لیے  پیدا کیا ہے- اُس کا مقصدِ تخلیق کیا ہے- اس کے لیے کامیابی کیا ہے اور ناکامی کیا- ہر عورت اور مرد اِس سوال سے لازمی طور پر دوچار ہوتے ہیں، خواہ شعوری طورپر یا غیر شعوری طورپر-
اِس سوال کا معتبر جواب صرف خالق دے سکتا ہے- یہ صرف خالق ہے جو یہ بتا سکتا ہے کہ انسان اور کائنات کو پیدا کرنے سے اُس کا منصوبۂ تخلیق(creation plan) کیا ہے- قرآن اور پیغمبرقرآن کے ذریعے خدا نے اِس سوال کا معتبر جواب فراہم کیا ہے-اب ہر انسان کے لیے یہ ممکن ہوگیا کہ وہ خدا کے تخلیقی پلان کو جانے:
It became possible for everyone to know the creation plan of God.
پہلے زمانے میں حنفاء ہوا کرتے تھے، یعنی متلاشیٔ حق-پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ ممکن ہوگیا کہ کوئی شخص اپنی تلاشِ حق کو دریافت ِحق بناسکے:
Truth-seekers no longer need to live in bewilderment.
نشانیوں کا ظہور
قرآن کی سورہ حم السجدہ میں بعد کی تاریخ کے لیے ایک پیشین گوئی اِن الفاظ میں آئی ہے: سَنُرِیْہِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقّ( 41:53) یعنی مستقبل میں ہم اُن کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے، کائنات میں بھی اور انسان کے اندر بھی، یہاں تک کہ اُن پر پوری طرح یہ واضح ہوجائے گا کہ یہ (قرآن) حق ہے-
قدیم زمانے میں جو انبیا آئے، انھوںنے خرقِ عادت معجزے دکھائے- یہ معجزے اُن کے معاصرین کے لیے اُن کے پیغمبر ہونے کی دلیل تھے- حسّی معجزہ معاصرین کے لیے دلیل ہوتا ہے، بعد کے لوگوں کے لیے وہ دلیل نہیں ہوتا- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے آخری پیغمبر تھے، یعنی قیامت تک کے لیے پیغمبر- اِس کا مطلب یہ تھا کہ آپ کی وفات کے بعد بھی آپ کے پیغام کی پیغام رسانی اہلِ عالم کے لیے جاری رہے گی-
یہ کام اِس طرح انجام پایا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے انقلاب کے ذریعے تاریخ میں ایک ایسا عمل جاری ہوا جس کے نتیجے میں فطرت کے قوانین دریافت ہوئے- یہ قوانین ِ فطرت معجزہ کا بدل بن گئے- اِن قوانین کے ذریعے یہ ممکن ہوگیا کہ بعد کے زمانے میں سائنسی دلائل کی طاقت سے وہ دعوتی کام انجام دیا جاسکے جو پہلے معجزہ کی طاقت سے انجام دیا جاتا تھا، گویا کہ پیغمبر اسلام سے پہلے دعوت بذریعہ معجزہ (dawah through miracle)کا زمانہ تھا- اور اب دعوت بذریعہ علمی دلائل (dawah through scientific argument) کا زمانہ ہے-
قرآن کی سورہ الاسراء میں پیغمبر اسلام کے بارے میں یہ اعلان کیا گیا ہے کہ: عَسٰٓی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا(17:79) یعنی قریب ہے کہ تمھارا رب تم کومقامِ محمود پر کھڑا کرے- اِس آیت میں مقامِ محمود کسی پُراسرار واقعے کا نام نہیں ہے- اُس سے مراد ایک معلوم واقعہ ہے جو تاریخ میں مسلّمہ طورپر پیش آیا- پیغمبر اسلام سے پہلے جو پیغمبر آئے، وہ مستند تاریخ میں ریکارڈ نہ ہوسکے- پیغمبروں کی فہرست میں پیغمبر اسلام پہلے پیغمبر ہیں جو مستند تاریخ میں درج کیے گئے- ایک مغربی مورخ نے اِس کا اقرار اِن الفاظ میں کیا ہے — محمد تاریخ کی کامل روشنی میں پیدا ہوئے:
Muhammad was born within the full light of history.
حقیقت یہ ہے کہ نبیٔ محمود سے مرادنبیٔ معتَرَف(acknowledged prophet) ہے- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ابتدائی زندگی میں آپ کو اتنا کم سمجھا گیا کہ مکہ کے مخالفین آپ کو مذمّم (condemned person) کہنے لگے- لیکن آخر کار تاریخ آپ کے موافق ہوگئی- عام طور پر مورخین اور مبصرین آپ کی عظمت کا اعتراف کرنے لگے-
اِن میں سے ایک مثال امریکا کے ڈاکٹر مائکل ہارٹ(Michael H. Hart) کی ہے- انھوں نے تمام دنیا کی مشہور شخصیتوں کا مطالعہ کرکے ایک ضخیم کتاب تیار کی- اُس کا عنوان ایک سو (The Hundred) ہے- اِس کتاب میں پوری انسانی تاریخ کی ایک سو بڑی شخصیتوں کا تذکرہ ہے- مصنف نے اِس کتاب میں پیغمبر اسلام کو اِس فہرست میں پہلے نمبر پر رکھا ہے- انھوںنے لکھا ہے کہ — محمد تاریخ کے پہلے شخص ہیں جو انتہائی حد تک کامیاب رہے، مذہبی سطح پر بھی اور دنیوی سطح پر بھی:
Mohammad was the only man in history who was supremely successful on both the religions and secular levels.
اخوانِ رسول
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک قول میں یہ پیشین گئی کی کہ بعد کے زمانے میں آپ کی امت میں ایسے افراد پیدا ہوں گے جو اخوانِ رسول قرار پائیں گے، یعنی معرفتِ دین کے اعتبار سے اُنھیں اصحابِ رسول جیسا درجہ حاصل ہوگا:
Ikhwan-e-Rasool are those — who share sahaba-like experiences due to their deep realization.
پچھلے پیغمبروں کے یہاں صرف اصحاب (companions) ہوا کرتے تھے- یہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی استثنائی صفت ہے کہ آپ کی امت میں ایسے افراد پیدا ہوں گے جو اخوان (brothers) کا درجہ پائیں گے- ایسا صرف اِس لیے ممکن ہوگا کہ پیغمبر اسلام کے بعد خدا کا دین نظریہ اور عمل دونوں اعتبار سے پوری طرح محفوظ ہوگیا-
خاتم النبیین
قرآن کی سورہ الاحزاب میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ الفاظ آئے ہیں: وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّـبِیّٖنَ (33:40) یعنی محمد، اللہ کے رسول اور نبیوں کے خاتم ہیں-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کے متعدد پہلو ہیں- اُس کا ایک پہلو یہ ہے کہ نبوت اب شخصی عمل کے طور پر باقی نہ رہی، البتہ کارِ نبوت اب دعوتی عمل کے طورپر مسلسل جاری ہے- یہ پیغمبر اسلام کی ایک استثنائی صفت ہے- دوسرے پیغمبروں کے معاملے میں یہ ہوا کہ پیغمبر کا نام لینے والوں کا ایک گروہ تو ضرور باقی رہا، لیکن پیغمبر کی حقیقی دعوت کسی تبدیلی کے بغیر اپنی اصل صورت میں جاری رہنے کا امکان ختم ہوگیا-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے بعد یہ ہوا کہ ایک نیا دورِ دعوت وجود میں آیا، وہ تھا — براہِ راست پیغمبر کی ذات کے ذریعے دعوت کے دورکا خاتمہ، اور پیغمبر کے ماننے والوں کے ذریعے دعوت کے دور کا آغاز:
End of dawah through the Prophet, beginning of dawah through the followers of the Prophet, continuation of the prophetic role through the followers of the Prophet.
فتحِ مبین
قرآن کی سورہ نمبر 48 معاہدہ حدیبیہ کے بعد نازل ہوئی- معاہدہ حدیبیہ امن کا معاہدہ تھا- معاہدہ حدیبیہ کیا تھا- معاہدہ حدیبیہ کا مقصد تھا — جنگ کے حالات کو ختم کرکے امن کے حالات پیدا کرنا- اِس معاہدے کے بعد پیغمبر اسلام اور آپ کے مخالفین کے درمیان مکمل طورپر جنگ بندی ہوگئی اور طرفین کے درمیان امن کی حالت قائم ہوگئی- اِس کے بعد معتدل حالات میں دعوتی کام کرنا ممکن ہوگیا-
امن کا یہ معاہدہ پوری تاریخ کا ایک انوکھا معاہدہ تھا- یہ فریقِ ثانی کی تمام شرطوں کو یک طرفہ طورپر مان کر انجام پایا تھا- بظاہر وہ پسپائی کا ایک معاہدہ تھا، لیکن معاہدے کی تکمیل کے بعد قرآن میں یہ آیت اتری: اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا ۝ لِّیَغْفِرَ لَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَ نْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ وَیُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکَ وَیَہْدِیَکَ صِرَاطًا مُّسْتَـقِیْمًا ۝ وَّیَنْصُرَکَ اللّٰہُ نَــصْرًا عَزِیْزًا (48:1-3)یعنی بے شک ہم نے تم کو کھلی ہوئی فتح دے دی، تاکہ اللہ تمہاری اگلی اور پچھلی خطائیں معاف کردے، اور تمھارے اوپر اپنی نعمت کی تکمیل کردے، اور تم کو سیدھا راستہ دکھائے، اور تم کو زبردست مدد عطا کرے-
تاریخ کے مطابق، معاہدۂ حدیبیہ کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی سیاسی فتح حاصل نہیں ہوئی- یہ معاہدہ بظاہر فریقِ ثانی کے مقابلے میں شکست کا واقعہ تھا، نہ کہ فتح کا واقعہ- اِس کے باوجود قرآن میں کیوں اُس کو فتحِ مبین کہاگیا - ایسا اِس لیے ہوا کہ معاہدہ حدیبیہ کے بعد دعوت کے تمام مواقع کھل گئے- یہ مواقع اتنے غیر معمولی تھے کہ معاہدے کے بعد صرف دو سال کے اندر پیغمبر اسلام کے ساتھیوں کی تعداد پانچ گنا زیادہ ہوگئی- اور جنگ کے بغیر صرف زیادہ تعداد فیصلے کے لیے کافی ہوگئی-
حدیبیہ دراصل ایک عظیم پالیسی کا نام ہے- یہ پالیسی تاریخ میں پہلی بار پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو بتائی، یعنی حالتِ موجودہ کو مان کر ٹکراؤ ختم کردو، تاکہ مواقع (opportunities) کو استعمال کرنا ممکن ہوسکے:
Hudaibiya means — policy of positive statusquoism. And positive statusquism is the key to super achievement.
صلح بہتر ہے
قرآن کی سورہ النساء میں یہ آیت آئی ہے: الصلح خیر (4:128) یعنی صلح بہتر ہے- گویاامن کا طریقہ سب سے زیادہ کار گر طریقہ ہے:
Peace is the most successful policy.
فلاسفہ اور مفکرین ہمیشہ امن کی بات کرتے رہے ہیں- امن کے مطالعے کے لیے ایک مستقل شعبہ علم وضع ہوا ہے جس کو پیسفزم (pacifism) کہا جاتاہے- مگر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم تاریخ کے پہلے شخص ہیں جنھوں نے ایک مکمل نظریۂ امن (ideology of peace) دنیا کو دیا- اِس اعتبار سے آپ کو پیغمبر امن (prophet of peace) کہا جاسکتاہے-(2008)
واپس اوپر جائیں

ایک سبق آموز واقعہ

ہمارے دعوتی مشن کے ایک ساتھی اپنے گھر سے نکلے۔ ان کے ہاتھ میں ایک بیگ تھا۔ اس بیگ میں اسلامی لٹریچر تھا جس کو وہ لوگوں تک پہنچانا چاہتے تھے۔ راستے میں ایک مقام پر ایک فوجی افسر نے اُن کو روکا۔ اس نے پوچھا کہ اس بیگ میں کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس میں کتابیں ہیں۔ فوجی افسر نے بیگ کھول کر اس کو چیک کیا- ہمارے ساتھی نے اس میں سے دو کتابیں مذکورہ فوجی افسر کو دیں— ریلٹی آف لائف(The Reality of Life) اور ’’ستیہ کی کھوج‘‘۔ ہمارے ساتھی نے فوجی افسر سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ انسان کی باڈی کوقتل (kill) کرتے ہیں، ہم انسان کے اندر چھپی ہوئی بری سوچ(evil thought) کو قتل کرتے ہیں۔ فوجی افسر نے بڑے دھیان سے ہمارے ساتھی کی باتیں سنیں۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اس نے یہ کہہ کر ہمارے ساتھی کو رخصت کیا— مجھے آپ کے اوپر فخر ہے:
I am proud of you!
یہ واقعہ بتاتا ہے کہ کوئی دشمن دشمن نہیں۔ ہر وہ انسان جس کو آپ بظاہر اپنا دشمن سمجھ لیـتے ہیں، اس کے اندر آپ کا ایک دوست انسان چھپا ہوا ہوتاہے۔ عقل مندی یہ ہے کہ ظاہری دشمن کو نظر انداز کرکے اُس کے اندر چھپے ہوئے داخلی دوست کو حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہر دشمن آپ کا امکانی دوست (potential friend) ہے۔ اِس امکان کو واقعہ بنانے کی کوشش کیجئے اورپھر آپ کے لیے دشمن اور دوست کا فرق مٹ جائے گا۔ ہر انسان آپ کا دوست انسان بن جائے گا۔ فطرت کا یہی راز ہے جس کو قرآن کی ایک آیت میںاِس طرح بیان کیا گیاہے: ’’اور بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں، تم جواب میں وہ کہو جو اس سے بہتر ہو، پھر تم دیکھو گے کہ تم میں اور جس میں دشمنی تھی، وہ ایسا ہوگیا جیسے کوئی دوست قرابت دار۔ اور یہ بات صرف اُسی کو ملتی ہے جو صبر کرنے والے ہیں۔ اور یہ بات صرف اُسی کو ملتی ہے جو بڑا نصیب والا ہے‘‘۔( 34-41:36)
واپس اوپر جائیں

برتر حساسیت

نفسیاتی مطالعہ بتاتا ہے کہ بعض افرادکی حساسیت (sensitivity) بہت زیادہ بڑھی ہوئی ہوتی ہے- علماء ِنفسیات (psychologists) کے مطابق، یہ ایک پیدائشی صفت ہے جو بعض افراد میں خصوصی طورپر موجود ہوتی ہے- جن افراد کے اندر بڑھی ہوئی حساسیت کی یہ صفت پائی جائے، وہ علم وفکر کی دنیا میں بڑے بڑے کام انجام دیتے ہیں- یہ نفسیات کا ایک مستقل موضوع ہے- اِس موضوع پر بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں- اُن میں سے ایک کتاب یہ ہے:
Elaine N. Aron, The Highly Sensitive Person, pp. 251, 1997
کتاب کاخلاصہ یہ ہے کہ — زیادہ حساس لوگ پیدائشی طورپر زیادہ ذہین ہوتے ہیں- ان کے اندر وجدان اور تخییل اور تخلیقیت کی صلاحیت زیادہ پائی جاتی ہے- زیادہ حساس انسان کے اندر یہ صفت ہوتی ہے کہ وہ ایک بات کو زیادہ گہرائی کے ساتھ اخذ کرسکے:
They are gifted with great intelligence, intuition, imagination and creativity. A highly sensitive person can grasp a point with greater intensity.
وہ چیز جس کو دین میں تقوی کہاجاتا ہے، اُس کی اصل حقیقت بھی یہی ہے- تقوی کا مادّہ ’و ق ی‘ ہے- عربی میں کہاجاتا ہے: فرس واقٍ (بچ بچ کر چلنے والا گھوڑا)- گھوڑے کی سُم میں اگر کوئی زخم ہوجائے تو وہ بہت زیادہ بچ بچ کر چلتا ہے- ایسے حساس گھوڑے کو فرس واقٍ کہاجاتا ہے- یہی متقی انسان کا معاملہ ہے- متقی انسان وہ ہے جو خدائی معاملات میں بہت زیادہ حساس ہوگیا ہو- یہ حساسیت متقی انسان کے اندر وہی اعلی صفتیں پیدا کرتی ہے جن کا اوپر ذکر کیاگیا ہے-
اِسی حساسیت کا ایک ظاہرہ وہ ہے جس کو قرآن میں فرقان (8:28) کہاگیاہے، یعنی ایک چیز اور دوسری چیز کے درمیان فرق کرنا- ایسا آدمی اِس قابل ہوتاہے کہ وہ صحیح اور غلط کے فرق کو فوراً پہچان لے، وہ باطل کو الگ کرکے حق کو دیکھ سکے-
واپس اوپر جائیں

ایک اور موقع

نومبر 2012 میں امریکا کا 57 واں صدارتی الیکشن ہوا- اِس الیکشن میں براک اوباما دوبارہ چار سال کے لیے امریکا کے صدر منتخب ہوئے- براک اوباما کو 6 نومبر 2012 کو جب پہلی بار اپنی جیت کی خبر ملی تو انھوں نے اپنے فیس بک کے اکاؤنٹ پر یہ الفاظ لکھے— چار اور سال:
Four more years!
اِس بات کا تعلق صرف صدر امریکا سے نہیں، وہ فطرت کا ایک قانون ہے- ہر آدمی کی زندگی میں یہ تجربہ پیش آتا ہے کہ اُس کو کام کا ایک ’’مزید وقت‘‘ حاصل ہوتا ہے- یہ مزید وقت آدمی کو یہ موقع دیتاہے کہ وہ پچھلے تجربات سے فائدہ اٹھا کر اپنے عمل کی نئی، زیادہ بہتر منصوبہ بندی کرے- جو کچھ وہ گزشتہ کل نہ پاسکا تھا، اس کو وہ آج پانے کی کوشش کرے-
یہ موقع چار سال یا چار مہینہ یا چار دن کے لیے بھی ہوسکتا ہے- آدمی کو چاہئے کہ وہ آنے والے نئے موقع کو پہچانے اور اس کو بھر پور طور پر استعمال کرے- تجربہ بتاتا ہے کہ آدمی کی زندگی میں دوسرا موقع (second chance) تو ضرور آتاہے، لیکن اکثر حالات میں دوسرا موقع اس کے لیے آخری موقع بن جاتا ہے- اس کے بعد تیسرااور چوتھا موقع اس کو نہیں ملتا-
اکثر حالات میں ایسا ہوتا ہے کہ دوسرا موقع آدمی کے لیے امکانی طورپر پہلے موقع سے بہتر ہوتاہے- آدمی کے لیے یہ ممکن ہوتاہے کہ وہ پہلے موقع کی غلطی اور خامی کو دوبارہ نہ دہرائے، وہ دوسرے موقع کو زیادہ بہتر طورپر استعمال کرے- اِسی حقیقت کو ایک فارسی شاعر نے اِن الفاظ میں بیان کیا ہے کہ — آرٹسٹ دوسری بار اپنے آرٹ کو زیادہ بہتر بناتا ہے:
نقاش نقشِ ثانی بہتر کَشد ز اوّل
اِس حقیقت کا تقاضا ہے کہ آدمی اِس معاملے میں بہت زیادہ سنجیدہ ہو، وہ اپنے ہر لمحے کی قدر کرے، کیوں کہ کھویا ہوا لمحہ دوبارہ واپس آنے والا نہیں-
واپس اوپر جائیں

سوال وجواب

سوال
دو سوالات کے جواب مطلوب ہیں- براہِ کرم، اس کی وضاحت فرمائیں:
1- ایک اعلی تعلیم یافتہ مسلمان سے ملاقات ہوئی- انھوں نے الرسالہ مشن کا اعتراف کیا اور یہ بتایا کہ الرسالہ مشن کا مثبت کنٹری بیوشن (positive contribution)کیا ہے- ان کے نزدیک، الرسالہ مشن کے اِس کنٹری بیوشن کے تین پہلو ہیں:
Ÿ تصوف کے مقابلے میں، تزکیہ وتعلق باللہ کا صحیح تصور پیش کرنا-
Ÿ اسلام کی سیاسی تعبیر (political interpretation)کی غلطی کی نشان دہی کرنا اور اس کے مقابلے میں اسلام کی دعوتی تعبیر پیش کرنا-
Ÿ مسلمانوں کو درپیش مسائل کے اعتبار سے، اُن کو تعمیری رہنمائی دینا-
2- دسمبر 2013 کی 27 تاریخ کو دہلی میں دو اعلی تعلیم یافتہ مسلمانوں سے ملاقات ہوئی- گفتگو کے دوران انھوں نے کہا کہ الرسالہ مشن کے تحت جو ٹیم بنی ہے، اُس کے افراد اپنے اندر بلا شبہہ مثبت سوچ رکھتے ہیں- ٹیم کے یہ ممبران بے لوث انداز میں ہر جگہ الرسالہ کے لٹریچر کی اشاعت کررہے ہیں- تاہم ٹیم کے یہ افراد عام طورپر مشن کے لیے مخلص ایکٹوسٹ (sincere activists) یا مخلص ورکر (sincere workers) کی حیثیت رکھتے ہیں- صدر اسلامی مرکز کو چاہیے کہ وہ اپنے مشن کے تحت کچھ ایسے افراد بھی تیار کریں جو قرآن وسنت اور اسلامی مصادر وماخذکا گہرا علم رکھتے ہوں، تاکہ وہ الرسالہ کی علمی روایت کو آگے بڑھا سکیں- (ایک قاری الرسالہ، نئی دہلی)
جواب
1- الرسالہ مشن کا کنٹری بیوشن بتانے کے لیے یہ تینوں باتیں بلا شبہہ درست ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ الرسالہ مشن کا جو اصل کنٹری بیوشن ہے، اس کے اعتبار سے، یہ تینوں چیزیں ثانوی حیثیت رکھتی ہیں- الرسالہ مشن کا اصل کنٹری بیوشن ہے— نئے دور میں اسلام کی از سرِ نو دریافت
(re-discovery of Islam in a changing world)- اِس دریافت کے دو خاص پہلو ہیں- ایک یہ ہے کہ دورِ جدید (modern age) دورِ تعقل (age of reason) تھا- نئے حالات کے اعتبار سے، اسلام بظاہر لوگوں کو دورِ جدید میں بے جوڑ (misfit) دکھائی دیتا تھا- الرسالہ مشن نے کامیابی کے ساتھ یہ کیا اسلام کو جدید ذہن (modern mind)کے لیے عقلی طورپر قابلِ فہم (rationally understandable) بنایا- اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ الرسالہ مشن نے دلائل کے ذریعے بتایا کہ دورِ جدید میں مسلمانوں کا اصل مشن دعوت الی اللہ ہے-
الرسالہ مشن اپنی حقیقت کے اعتبار سے، احیاءِ اسلام (revival of Islam) کا مشن ہے- احیاءِ اسلام ایک معروف اصطلاح ہے، لیکن لوگ اِس اصطلاح کے صرف روایتی مفہوم کو جانتے تھے- الرسالہ مشن نے اِس اصطلاح کو اس کے نیے مفہوم کے ساتھ زندہ کیا- اِس اعتبار سے، الرسالہ مشن ایک تخلیقی مشن (creative mission) ہے- وہ اجتہادی فکر پر مبنی ہے، نہ کہ تقلیدی فکر پر-
2- یہ بات درست نہیں- الرسالہ مشن میں جو لوگ شامل ہیں، وہ ورکر یا ایکٹوسٹ نہیں ہیں، بلکہ وہ سب کے سب تعلیم یافتہ لوگ ہیں ، الرسالہ مشن تعلیم یافتہ لوگوں کا مشن ہے- اِس مشن میں جو لوگ شریک ہیں، وہ لٹریچر پڑھ کر اور شعوری فیصلے کے تحت اس میں شریک ہوئے ہیں- زیادہ صحیح الفاظ میں، یہ ٹیم تعلیم یافتہ لوگوں کی ٹیم ہے-
جہاں تک مذکورہ قسم کے اکیڈمیشین (academician) کا تعلق ہے، تو اکیڈمیشین لوگ کبھی کسی مشن سے نہیں جڑتے- اِس کا سبب اکیڈمک کلچر اور مشن کلچر کا فرق ہے- وہ فرق یہ ہے کہ طبیعی سائنس (physical science) کے معاملے میں ہمیشہ ایک واحد رائے پر پہنچنا ممکن ہوتا ہے، لیکن سماجی علوم یا انسانی علوم (humanities) میں ایسا نہیں ہوتا کہ صرف ایک رائے کا انتخاب ممکن ہو- چوں کہ سماجی علوم یا انسانی علوم میں ہمیشہ استنباط (inference)کا امکان ہوتا ہے، اِس لیے رائیں مختلف ہوجاتی ہیں- ایسی حالت میں انسانی علوم کے معاملے میں کسی ایک رائے پر اصرار کرنے کا مطلب بظاہر یہ ہے کہ آدمی تعصب کا شکار ہوگیا ہے- اِسی تعصب کے الزام سے بچنے کے
لیے اکیڈمیشین یہ کرتے ہیں کہ وہ کبھی قطعیت کی زبان استعمال نہیں کرتے- وہ اپنے بیان میں ہمیشہ اِس طرح کے الفاظ شامل کرتے ہیں:
Perhaps, Probably, It appears, My be I am wrong, etc.
اپنی اِسی خاص نفسیات کی بنا پر کوئی اکیڈمیشین کبھی کسی مشن کا حصہ نہیں بنتا- مشن کلچر صرف وہ لوگ اختیار کرتے ہیں جو اپنے ترقی یافتہ شعور کی بنا پر کسی ایک نظریے کو بطور صداقت اختیار کرسکیں- اکیڈمیشین کا ذہن ایک ایسا ذہن ہوتا ہے جو صاحبِ مشن کے ذہن سے مکمل طور پر مختلف ہوتا ہے- اِسی اختلاف کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی اکیڈمیشین کسی مشن کا ساتھ نہیں دیتا-
اکیڈمک کلچر کے مزاج کے مطابق، اکیڈمیشین کا جو اصول ہے، اس کو ویلونیوٹریلٹی (value neutrality) کہا جاتا ہے- معیاری اکیڈمیشین وہ ہے جو ویلو ججمنٹ (value judgement) نہ دے، بلکہ وہ ہمیشہ ویلو نیو ٹرل (value neutral) بنا رہے، وہ کسی ایک رائے کو درست نہ سمجھے، بلکہ وہ رایوں کے بارے میں غیر جانب دار (impartial) بنا رہے-
کسی مشن کی کارکردگی کو جج کرنے کے لیے یہ کوئی صحیح معیار نہیں کہ یہ دیکھا جائے کہ اکیڈمیشین اس میں تیار ہورہے ہیں یا نہیں- جب تاریخ بتاتی ہے کہ کبھی کسی اکیڈمیشین نے کسی مشن کا ساتھ نہیں دیا تو کسی مشن پر تبصرہ کرنے کے لیے اِس معیار کو استعمال کرنا اپنے آپ میں درست نہیں- اِس قسم کی روش صاحبِ تبصرہ کی غیر سنجیدگی کا ثبوت ہے، نہ کہ اس کی انصاف پسندی کا ثبوت-
اِس معاملے کی ایک مثال وہ ہے جو کارل مارکس کی زندگی میں ملتی ہے- کارل مارکس ایک سوشلسٹ مفکر تھا- وہ سوسائٹی میں ایک تبدیلی لانا چاہتا تھا- اِس مقصد کے لیے اُس نے 1867 میں ایک کتاب جرمن زبان میں لکھی جس کا نام داس کیپٹال (Das Kapital)تھا- یہ کتاب بظاہر اکیڈمک انداز میں لکھی گئی تھی، مگر کارل مارکس کو اِس کتاب کی بنیاد پر کوئی ساتھ دینے والا نہیں ملا- اس کی دوسری کتاب وہ تھی جو کمیونسٹ مینی فیسٹو (Communist Manifesto) کے نام سے مشہور ہے- کارل مارکس کو اپنے مشن کے لیے جو ساتھی ملے، وہ زیادہ تر
کمیونسٹ مینی فیسٹو کے ذریعے ملے-
یہی معاملہ اسلام کا بھی ہے- قرآن معروف انداز کے مطابق، اکیڈمک اسلوب پر نہیں ہے، اس کا اسلوب داعیانہ اسلوب ہے- جیساکہ معلوم ہے، قرآن نے بے شمار لوگوں کو متاثر کیا- اِس کے مقابلے میں کئی لوگوں نے اسلام کے موضوع پر ایسی کتابیں لکھی ہیں جو خالص اکیڈمک اسلوب کے مطابق تیار کی گئی ہیں، لیکن اِن کتابوں کی بنیاد پر کبھی کوئی اسلامی مشن کھڑا نہ ہو سکا- اِس قسم کی کتابیں صرف لائبریری کی الماریوں میں پائی جاتی ہیں- انسانوں کی زندگی کو بدلنے میں اُن کا کوئی رول نہیں- انسان کی نسبت سے صرف داعیانہ اسلوب موثر ہے، نہ کہ اکیڈمک اسلوب-
سوال
میں الرسالہ مشن سے وابستہ ہوں اور اُس سے پورا اتفاق رکھتا ہوں- اِس موضوع پر اکثر لوگوں سے بحث ہوتی رہتی ہے- میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا اِس قسم کا بیان درست ہے کہ — الرسالہ مشن کے لوگ حق پر ہیں اور مثلاً جماعت اسلامی کے لوگ باطل پر- براہِ کرم، اِس کی وضاحت فرمائیں- (عبد اللطیف، پاکستان)
جواب
یہ کہنا کہ فلاں شخص یا گروہ حق پر ہے اور فلاں باطل پر، یہ ہمارے مشن کی زبان نہیں- یہ ویلو ججمنٹ (value judgement)کا طریقہ ہے، یعنی لوگوں پر شرعی حکم لگانا- کسی پر شرعی حکم لگانا ہمارا طریقہ نہیں- ہمارا طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے نقطہ نظر کو قرآن وحدیث کے حوالوں سے پیش کرتے ہیں- اگر کسی کو ہمارے نقطۂ نظر سے اختلاف ہے تو وہ قرآن وحدیث کے دلائل سے اس کو رد کرسکتا ہے- لوگوں کے اوپر شرعی حکم لگانے کا حکم نہ ہم کو ہے اور نہ دوسروں کو- بدقسمتی سے امت کے درمیان ویلو ججمنٹ کا طریقہ بہت عام ہے- اختلاف کے بعد فوراً ہی لوگ کافر، منافق، بدنیت جیسے الفاظ بولنے لگتے ہیں- اِس اسلوب کا نقصان تو یقینی ہے ، لیکن اس کا فائدہ کچھ بھی نہیں- اِس سے لوگوں کے اندر منفی ذہن پیدا ہوتا ہے- امت میں اختلاف اور انتشار کا ماحول بنتا ہے- لوگوں کو چاہیے کہ
ویلو ججمنٹ کا طریقہ وہ مکمل طورپر ترک کردیں-
انسان کے اندر سب سے زیادہ اعلی صفت وہ ہے جس کو صفتِ تفکیر (thinking quality) کہاجاتا ہے- ہر انسان مکمل معنوں میں آزادانہ فکر کا حامل ہوتا ہے- انسان کی اِسی تخلیقی صفت سے اختلافِ رائے کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے-انسانوں کے اندر اختلافِ رائے ہمیشہ رہا ہے اور ہمیشہ باقی رہے گا، وہ کبھی ختم نہیں ہوسکتا- ایسی حالت میں یہ سوال ہے کہ انسان کے لیے محفوظ موقف کیا ہے، یعنی وہ موقف جس کی بنا پر وہ اللہ کے سامنے گرفت سے بچ جائے- میرے مطالعے کے مطابق، اِس معاملے میں محفوظ موقف یہ ہے کہ ہر آدمی اپنی فہم کی نسبت سے آزاد ہو، لیکن حکم لگانے کا حق کسی کو حاصل نہ ہو- اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہر انسان کو یہ آزادی ہو کہ وہ دیانت داری (honesty) کے ساتھ جس چیز کو حق سمجھے، اُس پر قائم رہے- دوسرے شخص کے بارے میں اگر وہ محسوس کرے کہ اس کی رائے غلط ہے تو اِس اختلاف کی بنا پر وہ دوسرے شخص کے بارے میں حکم نہ لگائے- وہ اختلاف کو صرف ذہنی اختلاف کے درجے میں رکھے، وہ اس کو فیصلہ (judgement) کے درجے تک نہ لے جائے- یہ وہی بات ہے جس کو سیکولر علما اِن الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
Everyone has the right to dissent, but no one has the right to pass value judgement.
واپس اوپر جائیں