Pages

Wednesday, 1 April 2015

Al Risala | April 2015 (الرسالہ،اپریل)

4

-قرآنی انقلاب

7

- نورِ الہی کا اتمام

8

- امن کا دور

11

- جہاد بالقرآن، جہاد بالسیف

13

- اجتماعی نظام، اصلاح افراد

15

- فہم قرآن

18

- تفسیر قرآن کا ایک اصول

20

- قرآن کا ایک پہلو

22

- ذمہ داری بقدر استطاعت

23

- انسان کا مقصد

24

- تبدیلی کے دودور

26

- قرآن کا تصورِ تاریخ

28

- قرآنی طریق ِ کار

29

- انسانیت کی منزل جنت

30

- خلافت ارضی

31

- انسان کا امتحان

32

- اسلام کی تعلیمات

33

- ایک قرآنی اسلوب

34

- قوّام کا اصول

35

- عدل کا مسئلہ

36

- کلمۂ سَوا کا اصول

37

- کائناتی شخصیت

38

- نظریہ، تاریخ

39

- اسلام کے دو پہلو

41

- عالمی نشانۂ دعوت

42

- صبر کی اہمیت

43

- جنتی کام

45

- قرآن اور مثلِ قرآن

47

- دنیا ، آخرت

48

- آیت امانت


قرآنی انقلاب

قرآن سادہ معنوں میں ایک مذہبی کتاب نہیں- قرآن کے نزول کا مقصد یہ تھا کہ تاریخ میں ایک بڑا انقلاب لایا جائے- اسی بات کو قرآن میں لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ( 9:33) کے الفاظ میں بیان کیاگیا ہے- یہ انقلاب اچانک نہیں آسکتا تھا- اس کی صورت صرف یہ تھی کہ تاریخ میں ایک طاقت ور عمل (strong process) جاری کیا جائے- اس عمل کو اس طرح جاری رکھنا تھا کہ انسانی آزادی بھی باقی رہے، اور یہ عمل بھی تاریخ میں سفر کرتے ہوئے اپنے نقطۂ انتہا (culmination) تک پہنچ جائے- اللہ کے منصوبے کے تحت یہ عمل ساتویںصدی عیسوی کے نصف اول میں شروع ہوا، اور بیسویں صدی میں وہ اپنی تکمیل تک پہنچ گیا- موجودہ زمانے میں جس ظاہرہ کو عام طور پر مغربی تہذیب کہاجاتا ہے، وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے اسی عمل کی تکمیل کا دوسرا نام ہے- اِس لحاظ سے اس تہذیب کو زیادہ درست طورپر خدائی تہذیب (Divine Civilization) کہنا چاہئے۔
نظام فطرت
خالق کے تخلیقی نقشہ کے مطابق انسان کو موجودہ زمین (planet earth) پر ابتلا (test) کے لیے پیدا کیا گیا ہے- اس مقصد کے لیے انسان کو کامل آزادی دی گئی ہے- فرشتوں کی نگرانی میں یہ دیکھا جارہاہے کہ کون شخص اپنی آزادی کا صحیح استعمال کررہاہے، اور کون شخص اپنی آزادی کا غلط استعمال کررہا ہے- اِسی ریکارڈ کے مطابق ہر فرد کے ابدی مستقبل کا فیصلہ کیا جائے گا-مگر انسانوں کی اکثریت نے اپنی آزادی کا غلط استعمال کیا- اس غلط استعمال کی سب سے زیادہ نامطلوب صورت یہ تھی کہ کچھ انسانوں نے پوری دنیا میںاجارہ داری (monopoly) کا نظام قائم کردیا— سیاسی اجارہ داری، اقتصادی اجارہ داری، مذہبی اجارہ داری، خاندانی اجارہ داری، وغیرہ- اجارہ داری کے اس نظام کی بنا پر انسانی آزادی کا وہ ماحول باقی نہ رہا جو مطلوب امتحان کے لئے ضروری تھا- اللہ تعالی نے یہ چاہا کہ اجارہ داری کے اس نظام کو ختم کرکے دنیا میں فطری آزادی کا ماحول واپس لایا جائے- قرآن کے ذریعہ یہی انقلاب مطلوب تھا، جس کو ایک لفظ میں ختمِ اجارہ داری (de-monopolization) کہاجاسکتا ہے-
سیاسی اجارہ داری کا خاتمہ
یہ غیر فطری نظام اصلاً سیاسی اجارہ داری کے زور پر قائم تھا- اس لیے یہ مطلوب تھا کہ تاریخ میں ایک ایسا عمل جاری کیا جائے، جس کے نتیجہ میں سیاسی اجارہ داری کا خاتمہ ہوجائے، اور نتیجتاً دوسری تمام اجارہ داریاں بھی ختم ہوجائیں- تاریخ بتاتی ہے کہ اسلام کے ذریعہ یہ عمل شروع ہوا- اس عمل کے دوران سب سے پہلے عرب میں قبائلی اجارہ داری (tribal monopoly) کا دور ختم کیا گیا- اس کے بعد اصحابِ رسول کے ذریعے ساسانی سلطنت اور رومی سلطنت کا خاتمہ کیاگیا-یہ دنیا سے سیاسی اجارہ داری ختم کرنے کا آغاز تھا- اس کے بعد جب مسلمان زمین کے مختلف حصوں میں پھیلے تو انھوں نے مختلف مقامات پر قائم شدہ چھوٹی چھوٹی سلطنتوں کو ختم کرکے ہمیشہ کے لیے سیاسی اجارہ داری کے دور کا خاتمہ کردیا-
تاہم مسلمان اس تاریخی عمل میں صرف بقدر نصف اپنا حصہ ادا کرسکے- سابقہ شاکلہ (previous mindset) کے تحت، مسلمانوں نے یہ کیا کہ خلافت کے نام سے دوبارہ خاندانی نظامِ حکومت (dynasty) کو قائم کردیا- اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان مطلوب عمل میں صرف جزئی کردار ادا کرسکے-
کروسیڈس کا دور
بارھویں اور تیرھویں صدی میں مسلم حکومتوں اور مسیحی حکومتوں کے درمیان جنگ پیش آئی- اس جنگ میں بظاہر مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی، لیکن اپنے نتیجہ کے اعتبار سے کروسیڈس کا یہ واقعہ، مذکورہ تاریخی عمل میں ایک شفٹ (shift)کا ذریعہ بن گیا- اس کے بعد یورپ میں ایک نیا عمل شروع ہوا، جس کو بعض مورخین نے روحانی کروسیڈس (spiritual crusades) کا نام دیا ہے، یعنی غیر سیاسی کروسیڈس- کروسیڈس سے پہلے مذکورہ عمل مسلم اقوام کے ذریعہ جاری ہوا- مسلمان اس عمل کو سیاسی سطح پر انجام دے رہے تھے- مگر یہ عمل اپنے مطلوب خاتمہ تک نہیں پہنچا- اس کے بعد اللہ تعالی کو یہ منظور ہوا کہ اس عمل کی ذمہ داری مغربی اقوام کو سونپی جائے- چنانچہ ایسا ہی ہوا، اور مغربی اقوام نے مذکورہ عمل کو اس کی آخری حد تک پہنچایا- اس کے بعد یہ ہوا کہ تدریجی طورپر وہ دور ختم ہوگیا جس کو اوپر ہم نے اجارہ داری کا دور کہا ہے-
شفٹ کا یہ واقعہ خدائی منصوبے کے تحت ہوا- چنانچہ حدیث میں اس کا ذکر ان الفاظ میں کیاگیا ہے: إن اللہ لیؤید ہذا الدین بالرجل الفاجر (البخاری: 3062) یعنی اللہ ضرور اس دین کی مدد فاجر (secular) انسان کے ذریعہ کرے گا- ایک اور روایت کے الفاظ یہ ہیں: لیؤیدن اللہ ہذا الدین بقوم لاخلاق لھم (صحیح ابن حبان: 4517) یعنی اللہ ضرور اس دین کی مدد ایسی قوم کے ذریعہ کرے گا، جن کا (دین میں) کوئی حصہ نہ ہوگا- ایک اور روایت کے الفاظ یہ ہیں: إن اللہ لیؤید ہذا الدین برجال ما ہم من أھلہ (مجمع الزوائد: 9567) یعنی اللہ ضرور اس دین کی مدد ایسے لوگوں کے ذریعے کرے گا جو اہل (دین) میں سے نہ ہوں گے- اس حدیث میں بظاہر غیرمسلم اقوام سے مراد مغربی اقوام ہیں-
کروسیڈس کی لڑائیوں میں مغربی قوموں کو ذلت آمیز شکست (humiliating defeat) ہوئی- یہ شکست خدائی منصوبے کے مطابق تھی- اس شکست نے ایک نیا جبر (compulsion) پیدا کیا- مغربی قومیں اس زمانے میں مسلم قوموں کی حریف بن گئی تھیں، لیکن کروسیڈس کی لمبی لڑائی میں شکست کے بعد یہ ثابت ہوگیا کہ مغربی قومیں فوجی میدان میں لڑ کر مسلمانوں پر غلبہ حاصل نہیں کرسکتیں- اس صورت حال نے مغربی قوموں کو مجبور کیا کہ وہ غیر فوجی میدان میں اپنا عمل جاری کریں- یہی وہ عمل ہے جس کو نشأة ثانیہ (Renaissance)کہاجاتا ہے- مغربی یورپ میں یہ عمل چودھویں صدی عیسوی سے لے کر سولھویں صدی عیسوی تک جاری رہا- یہی وہ دور ہے جس زمانے میں یورپ میں پرنٹنگ پریس ایجاد کیاگیا-اس کے بعد یورپ میں مزید ترقیاں ہوئیں، یہاں تک کہ وہ ترقی یافتہ زمانہ آیا جس کو مغربی تہذیب (western civilization) کہاجاتا ہے- یہ تہذیب پوری انسانی تاریخ کا ایک اعتبار سے نقطۂ عروج ہے- مغربی تہذیب کے زمانے میں وہ تمام واقعات پیش آئے جو قرآنی اسکیم کے تحت مطلوب تھے- اس لیے زیادہ درست طورپر اس کو خدائی تہذیب (Divine Civilization) کہنا چاہئے- مغربی تہذیب نے یہ کیا کہ اجارہ داری کے دور کو ختم کردیا، اس طرح انسانی آزادی کا وہ مطلوب ماحول پیدا ہوگیا جو خدا کے نقشۂ تخلیق کے مطابق درکار تھا-
واپس اوپر جائیں

نورِ الہی کا اتمام

قرآن میں مستقبل کے ایک واقعہ کا ذکر ہے، اس کو اتمام نور ( 61:8) کہاگیا ہے- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کے نزول یا اسلام کے ظہور سے جو کچھ مطلوب تھا، وہ فوراً حاصل ہونے والا نہ تھا-اس کے لیے ضروری تھاکہ تاریخ میں ایک لمبا عمل (long process) جاری ہو، اور پھر اس کی تکمیل پر تمام مطلوب چیزیں کلی طورپر حاصل ہوجائیں-
یہ مطلوب نشانہ کب پورا ہوا- غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اور اصحاب رسول کے زمانے میں جو انقلاب آیا، وہ اس معاملے کا آغاز تھا- اس انقلاب نے تاریخ میں ایک عمل (process)جاری کیا- ہزار سال سے زیادہ مدت تک یہ طاقت ور عمل مختلف صورتوں میں تاریخ میں جاری رہا- یہاں تک کہ آخری طورپر بیسویں صدی عیسوی میں یہ تمام چیزیں کامل طورپر حاصل ہوئیں-اس عمل میں مختلف اقوام عالم نے حصہ لیا- کسی نے شعوری طورپر اور کسی نے غیر شعوری طورپر، کسی نے دینی جذبہ کے تحت اور کسی نے سیکولر جذبہ کے تحت، کوئی براہِ راست طورپر اس تاریخی عمل کا حصہ بنا اور کوئی بالواسطہ طورپر اس تاریخی عمل کا حصہ بنا-
قرآن کی مذکورہ آیت میں نور الہی سے مراد کوئی پراسرار چیز نہیں ہے- اس سے مراد ہدایت انسان کی وہ تحریک ہے، جو اللہ کی خصوصی نصرت سے شروع ہوئی ، اور انسانی آزادی، اور اسباب وعلل کو باقی رکھتے ہوئے مسلسل طورپر جاری رہی- اس عمل کی تکمیل اس طرح نہیں ہوسکتی تھی، جس طرح روشن سورج نکلتا ہے- سورج کا سفر خلا (space) میں جاری ہوتاہے، جب کہ دعوتِ توحید کا مشن انسانوں کے درمیان جاری ہوتا ہے- اس فرق کی رعایت کے ساتھ ہدایت الہی کا مشن تاریخ میں جاری ہوا اور مختلف ادوار سے گزرتے ہوئے اپنی تکمیل تک پہنچا- بیسویں صدی اس عمل کی تکمیل کی صدی تھی- اب دعوت کے تمام مطلوب مواقع کھل چکے ہیں- اہلِ ایمان کو چاہئےکہ وہ ان مواقع کو پہچانیں، اور بھر پور طور پر ان کو استعمال کریں-
واپس اوپر جائیں

امن کا دور

ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے- صحیح البخاری کے الفاظ یہ ہیں: عن خباب بن الأرت شکونا إلى رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم، وھو متوسد بردة لہ فی ظل الکعبة، فقلنا: ألا تستنصر لنا، ألا تدعولنا؟ فقال: قد کان من قبلکم، یؤخذ الرجل فیُحفَر لہ فی الأرض، فیُجعَل فیہا، فیُجَاء بالمنشار فیُوضَع على رأسہ فیُجعَل على نصفین، ویُمشَط بأمشاط الحدید ما دون لحمہ وعظمہ، فما یصدہ ذلک عن دینہ- واللہ لیُتَمنَّ ہذا الأمر، حتى یسیرَ الراکبُ من صنعاء إلى حضر موت، لا یخاف إلا اللہ والذئب على غنمہ، ولکنکم تستعجلون (صحیح البخاری: 6943)
یعنی حضرت خباب کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی-اور اس وقت آپ کعبہ کے سائے میں اپنی ایک چادر کا تکیہ لگائے ہوئے لیٹے تھے- ہم نے کہا کہ کیا آپ ہمارے لیے مدد نہیں مانگتے، کیا آپ ہمارے لیے دعانہیں کرتے- آپ نے فرمایا: تم سے پہلے جو لوگ تھے ان کا حال یہ تھاکہ ایک شخص کو پکڑا جاتا، پھر اس کے لیے زمین میں گڑھا کھودا جاتا، پھر اس کو اس میں گاڑ دیا جاتا، پھر آرا لایا جاتا، پھر اس کو آدمی کے سر پر رکھا جاتا، پھر آرا چلا کر اس آدمی کے جسم کے دو ٹکڑے کردئے جاتے- لوہے کی کنگھی سے، اس میں کنگھی کی جاتی یہاں تک کہ وہ اس کے گوشت اور ہڈی تک پہنچ جاتا، مگر یہ چیز آدمی کو اس کے دین سے نہ روکتی- قسم اللہ کی، اللہ اِس امر کو ضرور پورا کرکے رہے گا، یہاں تک کہ یہ حال ہوگا کہ ایک مسافر صنعاء سے حضرموت تک جائے گا، اور اس کو اللہ کے سوا کسی اور کا ڈر نہ ہوگا- اور اس کو اپنی بکریوں پر صرف بھیڑیے کا ڈر ہوگا، مگر تم لوگ جلدی کررہے ہو-
اس حدیث میں دراصل پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کے ایک اہم پہلو کو بتایا گیا ہے- پیغمبر اسلام کے مشن کا ایک پہلو یہ تھا کہ اس دنیا میں ایسا انقلاب لایا جائے، جس کے نتیجے میں دنیا میں مذہبی امن قائم ہوجائے- ہزاروں سال سے جاری شدہ مذہبی تشدد (religious persecution) کا مکمل خاتمہ ہوجائے- تاہم آپ کے مشن کا یہ نتیجہ ایک تدریجی عمل کے ذریعہ مستقبل میں ظاہر ہونے والا تھا، نہ کہ فوری طور پر خود زمانۂ رسول میں-
جیسا کہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہ عمل شروع ہوا- پہلے قبائلی سطح پر مذہبی تشدد کا خاتمہ ہوا- اس کے بعد ایک تدریجی عمل کے ذریعہ حکومتی سطح پر اس کا عملاً خاتمہ ہوگیا- یہاں تک کہ بیسویں صدی عیسوی کے وسط میں اقوام متحدہ (UNO) قائم ہوئی- اس کے تحت دنیا کی تمام قوموں کے نمائندوں نے بین اقوامی طورپر یہ عہد کیا کہ ان کے ملکوں میں مذہب کی بنیاد پر کسی کے خلاف تشدد نہیں کیاجائے گا-
تشدد (violence) ایک ایسا معاملہ ہے جو ہمیشہ دو فریقوں کے درمیان ہوتا ہے، تشدد کرنے والا اور تشدد کا شکار ہونے والا- قدیم زمانے میں مذہب ، حکومت کا ایک شعبہ سمجھا جاتا تھا- یہ سمجھا جاتا تھاکہ جائز مذہب وہی ہے جو سرکاری مذہب (official religion) ہو- کوئی شخص سرکاری مذہب کے سوا کوئی اور مذہب اختیار کرے تو یہ ایک ایسا جرم تھا، جو حکومت سے بغاوت کے ہم معنی تھا- یہی وجہ ہے کہ قدیم زمانے میں اس شخص کو تشدد کا شکار ہونا پڑتا تھا،جو حکومت کے اختیار کردہ مذہب کے سوا کسی اور مذہب کو اپنا مذہب بنائے-
قدیم زمانے میں ساری دنیا میں خاندانی حکومتوں کا نظام قائم تھا- یہ لوگ اپنی حکومت کے استحکام کے لیے، کسی اختلاف کو برداشت نہیں کرتے تھے- یہ صورت حال اللہ کے تخلیقی نقشہ (creation plan) کے خلاف تھی-
اللہ کی منشا یہ ہے کہ مذہب کے معاملے میں ہر انسان کو آزادی حاصل ہو، تاکہ یہ دیکھا جاسکے کہ کس نے صحیح طریقہ اختیار کیا اور کس نے غلط طریقہ اختیار کیا- اس لیے رسول اور رسول کے ماننے والوں کو یہ حکم دیاگیا کہ تم لوگ مذہبی تشدد پر مبنی اس نظام کو ختم کردو ( 8:39)، تاکہ انسانوں کے درمیان وہ حالت فطری قائم ہوجائے جو خالق کو مطلوب ہے-
مذکورہ حدیث میں اسی منصوبۂ خداوندی کا ذکر کیا گیا ہے- اس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ اللہ کے فیصلہ کے مطابق، حتمی طورپر یہ ہونے والا ہے کہ دنیا میں مذہبی آزادی (religious freedom) آئے، اور مذہبی تشدد کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوجائے-
مذہبی آزادی کا یہ دور بیسویں صدی میں پوری طرح آگیا- اب مذہب کے معاملے میں کسی کے اوپر کوئی جبر نہیں- اب تشدد کا معاملہ صرف اس شخص یا گروہ کے ساتھ پیش آئے گا، جو اپنی طرف سے غیر ضروری تشدد کرکے فریق ثانی کو جوابی تشدد کا موقع دے- تشدد کرنے والے کو بہر حال جوابی تشدد کا شکار ہونا پڑے گا، خواہ اس نے اپنا تشدد مذہب کے نام پر کیا ہو یا مذہب کے سوا کسی اور نام پر-
واپس اوپر جائیں

جہاد بالقرآن، جہاد بالسیف

اسلام میں جہاد کے عمل کو خصوصی درجہ حاصل ہے- جہاد کا مطلب لڑائی نہیں ہے، جہاد کا لفظی مطلب بھرپور کوشش (utmost struggle)ہے- کوئی شخص ایک مقصد کے حصول میں اپنی ساری کوشش صرف کردے تو اسی کا نام جہاد ہے- قرآن کے مطابق، جہاد کی دو بڑی صورتیں ہیں، جہاد بالقرآن اور جہاد بالسیف-جہاد بالقرآن کا ذکر قرآن میں اس طرح آیا ہے: وَجَاہِدْہُمْ بِہِ جِہَاداً کَبِیْراً (25:52) یعنی اور قرآن کے ذریعہ ان سے جہاد کرو، بڑا جہاد - قرآن کے ذریعہ جہاد کا مطلب واضح طور پر یہ ہے کہ قرآن کے پیغام کو لوگوں کے درمیان نظریاتی طورپر پھیلایا جائے، یعنی پرامن طورپر دعوتی کام (peaceful dawah work) انجام دینا- اسلام کا اصل مشن دعوت الی اللہ ہے- یہ ایک پر امن پیغام رسانی کا عمل ہے، جو ہمیشہ اور ہر حال میں جاری رہنے والا ہے-
جہاد بالسیف کو قرآن میں قتال (war) کہاگیا ہے ،اور اس کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں آیا ہے:وَقَٰتِلُوہُمْ حَتَّىٰ لَا تَکُونَ فِتْنَةٌ وَیَکُونَ ٱلدِّینُ کُلُّہُ لِلَّہِ ۚ فَإِنِ ٱنتَہَوْا۟ فَإِنَّ ٱللَّہَ بِمَا یَعْمَلُونَ بَصِیرٌ. (8:39) یعنی اور ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے- اور دین سب اللہ کے لیے ہوجائے- پھر اگر وہ باز آجائیں تو اللہ ان کے عمل کو دیکھنے والا ہے- اِس آیت کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ قتال کا یہ عمل کوئی مستقل عمل نہیں - وہ ایک محدود عمل ہے، جو صرف ختم فتنہ تک جاری رہے گا- فتنہ ختم ہوجائے تو یہ قتال بھی ختم ہوجائے گا-
ایک حدیث کی وضاحت
ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: الجہاد ماض إلى یوم القیامة، مذ بعث اللہ محمدا صلى اللّہ علیہ وسلم إلى آخر عصابة من المسلمین، لا ینقض ذلک جور جائر، ولا عدل عادل (المعجم الأوسط للطبرانی، رقم الحدیث: 4775) یعنی جہاد جاری رہے گا قیامت تک، اس وقت سے جب کہ اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا، مسلمانوں کی آخری جماعت تک- اس کو نہ ظالم کا ظلم روکے گا اور نہ عادل کا عدل-
حدیث کے الفاظ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں جہاد سے مراد جہاد بالقرآن ہے نہ کہ جہاد بالسیف- حدیث کے الفاظ بتاتے ہیں کہ یہ جہاد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ ہی شروع ہوجائے گا- یہ کون سا جہاد تھا جو کہ پیغمبراسلام کی بعثت کے بعد شروع ہوا- جیسا کہ معلوم ہے، بعثت کے بعد پیغمبر اسلام تیرہ سال تک مکہ میں رہے- اس دوران آپ نے کوئی جہاد بالسیف نہیں کیا- آپ نے جوکچھ کیا، وہ صرف یہ تھا کہ آپ اہلِ مکہ کے درمیان پرامن طورپر قرآن کا پیغام پھیلاتے رہے-دوسری بات یہ کہ حدیث میں بتایا گیاہے کہ عادل حاکم کا زمانہ ہو تب بھی جہاد کا یہ عمل جاری رہے گا- ظاہر ہے کہ اس سے مراد جہاد بالسیف نہیں ہوسکتا، کیوں کہ عادل حاکم کے خلاف جہاد ایک فساد کا عمل ہوگا نہ کہ جہاد کا- اس سے مراد لازمی طور پر جہاد بالقرآن ہے، یعنی پرامن دعوتی عمل- پرامن دعوتی عمل ایک ایسا کام ہے، جس کا تعلق ظالم حکمراں یا عادل حکمراں سے نہیں ہے- دعوتی عمل کا مقصد ہے ہر پیدا ہونے والے عورت اور مرد تک اللہ کا پیغام پہنچانا- یہ مکمل طورپر ایک پرامن عمل ہے جو ہر دور میں بلا انقطاع جاری رہے گا-
جہاد کا لفظی مطلب کوشش کرنا (to strive) ہے- اصلاً جہاد کا لفظ پرامن کوشش کے لئے بولا جاتا ہے- مثلاً حدیث میں آیا ہے: المجاہد من جاہد نفسہ فی طاعة اللہ (مسند احمد، رقم الحدیث: 23958)-یعنی جہاد کرنے والا وہ ہے جو اپنے نفس سے اللہ کی اطاعت میں جہاد کرے-اس روایت کے مطابق جہاد ایک ایسا عمل ہے جو خود اپنے نفس کے خلاف ہوتا ہے- ظاہر ہے کہ اپنے نفس کے خلاف جو جہاد کیا جائے گا وہ صرف پرامن جہاد ہوگا، یعنی اپنے نفس کا محاسبہ کرنا، اپنی خواہشوں کو کنٹرول کرنا-حقیقت یہ ہے کہ قرآن میں جہاد کا لفظ دعوت الی اللہ کے لئے آیا ہے، یعنی دعوتی مشن کے لئے پرامن جدوجہد- دعوتی مشن ایک مستقل مشن ہے- وہ مختلف انداز میں اور مختلف طریقوں سے ہر دور میں جاری رہتا ہے- مثلاً دنیا کی ہر زبان میں قرآن کے ترجموں کی اشاعت، ہر زمانے کے تقاضوں کے مطابق اسلامی لٹریچر تیار کرکے اس کو پھیلانا، دعوت کی عالمی اشاعت کے لئے پروگرام بنانا، موجودہ زمانے میں الیکٹرانک طریقوں کو اسلام کا پیغام پھیلانے کے لئے استعمال کرنا، وغیرہ-
واپس اوپر جائیں

اجتماعی نظام، اصلاح افراد

اسلام میں اجتماعی نظام کا اصول الگ ہے، اور افراد کی اصلاح کا اصول الگ- یہی طریقہ خالق کے قائم کردہ فطری نظام کے مطابق ہے- اگر ان دونوں پہلوؤں کو ایک کردیا جائے تو دونوں میں سے کسی کی اصلاح کا حق ادا نہیں ہوگا- جب کہ دونوں پہلوؤں کا نظم الگ کرنے کی صورت میں دونوں کا حق ادا کرنا ممکن ہوجاتا ہے-
اصل یہ ہے کہ فرد کی اصلاح کا معاملہ آخرت سے جڑا ہوا ہے- آخرت میں ہر فرد سے اس کے ذاتی عمل کی بنیاد پر الگ الگ معاملہ کیا جائے گا- اس لیے اسلامی نقشے میں فرد کے معاملے کو اس کے ذاتی فیصلے پر منحصر قرار دیا گیا ہے- قرآن میں بتایا گیا ہے کہ : وَقُلِ ٱلْحَقُّ مِن رَّبِّکُمْ ۖ فَمَن شَآءَ فَلْیُؤْمِن وَمَن شَآءَ فَلْیَکْفُرْ(18:29)- اس کا مطلب یہ ہے کہ فرد (individual) کے معاملے میں اسلام کا طریقہ یہ ہے کہ پرامن انداز میں حق کی وضاحت کی جاتی رہے- دلائل کے ذریعہ حق کو لوگوں کے لیے قابل قبول اور قابل فہم (understandable) بنایا جاتا رہے- یہ فرد کا اپنا معاملہ ہے کہ وہ اس کو قبول کرتا ہے یا وہ اس کا انکار کردیتا ہے-
جہاں تک مجتمع (society) کی بات ہے، اس کا اصول قرآن کی ایک آیت میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَأَمْرُھُمْ شُوْرَیٰ بَیْنَہُمْ (42:38) یعنی اور ان کا نظام شوریٰ پر ہے- قرآن کی اس آیت کا ترجمہ اگر انگریزی زبان میں کیا جائے تو وہ یہ ہوگا:
And whose affairs are decided by mutual consultation.
اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کے مطابق سماج کا نظام شوریٰ پر مبنی ہونا چاہئے، اسی طریقہ پر جس کو موجودہ زمانے میں جمہوریت (democracy) کہاجاتا ہے- یعنی اجتماعی معاملات میں سماج کے افراد سے مشورہ کیا جائے، اور پھر یا تو اتفاق رائے کی بنیاد پر یا کثرت رائے کی بنیاد پر اجتماعی معاملات کا فیصلہ کیا جائے- یہی جمہوریت کی روح ہے، اور یہی شوریٰ کا مقصود بھی-
اصل یہ ہے کہ خالق کے تخلیقی نقشہ کے مطابق، اس دنیا میں ہر انسان کو آزادی حاصل ہے- یہ آزادی اتنی زیادہ حتمی ہے کہ اس کو منسوخ (abolish)کرنا کسی کے لئے بھی ممکن نہیں- اس لئے سماجی نظم کے معاملے میں صرف عملیت (pragmatism) کا طریقہ چل سکتاہے، معیار (idealism) کا طریقہ سماج کے معاملے میں قابل عمل نہیں- اگر سماج کے معاملے میں آئیڈیلزم کو چلایا جائے تو نتیجہ کے اعتبار سے اس کا انجام بدنظمی (anarchy) ہوگا، نہ کہ آئیڈیلزم-
اس معاملے کا قابل عمل حل یہ ہے کہ سماج کے معاملے میں جمہوریت کا طریقہ اختیار کیا جائے، یعنی مقرر مدت پر آزادانہ اور منصفانہ الیکشن (free and fair election) ہو، اور پھر منتخب افراد کے ذریعہ محدود مدت کے لیے ایک سماجی نظم قائم کیا جائے- یہ نظم سماج یا عوام کی رضامندی کی بنیاد پر مقرر مدت (term) تک چلایا جائے گا، نہ کہ کسی معیاری اصول کی بنیاد پر- مقرر مدت پوری ہونے پر دوبارہ الیکشن ہو، اور منتخب افراد دوبارہ محدود مدت کے لیے نظم کو سنبھالے- اجتماعی نظم کے معاملے میں یہی صورت قابل عمل ہے، اور یہی صورت خالق کے تخلیقی نقشے کے مطابق ہے-
افراد کے معاملے میں جو کچھ مطلوب ہے، اس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّىٰہَا. فَأَلْہَمَہَا فُجُورَہَا وَتَقْوَىٰہَا. قَدْ أَفْلَحَ مَن زَکَّىٰہَا. وَقَدْ خَابَ مَن دَسّٰہَا.(91:7-10) اور نفس انسانی اور جیسا کہ اس کو ٹھیک کیا، پس اس کو سمجھ دی اس کی بدی اور نیکی کی- کامیاب ہوا جس نے اس کو پاک کیا اور نامراد ہوا جس نے اس کو آلودہ کیا-
اِس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ تخلیقی نقشہ کے مطابق، فرد کی اصلاح، ہر شخص کا اپناذاتی معاملہ ہے -ہر شخص کو خود یہ کرنا ہے کہ وہ اپنی فطرت کو زندہ کرے، اور خالق کے مطلوب نقشے کے مطابق، اپنی شخصیت کی تعمیر کرے- اسی شخصیت کو قرآن میں مزکیّٰ شخصیت (purified personality) کہا گیا ہے- یہ مزکیّٰ شخص ایک خود تعمیر کردہ انسان (self-made man) ہوتا ہے- یہی وہ انسان ہے، جس پر دنیا کی زندگی میں اللہ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں، اور یہی وہ انسان ہے جس کو آخرت میں جنت کے ابدی باغوں میں داخل کیا جائے گا-
واپس اوپر جائیں

فہم قرآن

فہم قرآن کی کلید (key) کیاہے، اس کے بارے میں اہلِ علم نے کئی باتیں لکھی ہیں- مثلاً کچھ لوگ کہتے ہیں کہ قرآن فہمی کے لئے پندرہ علوم کا جاننا ضروری ہے، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ قرآن فہمی کے لئے سب سے زیادہ اہمیت شان نزول کی روایات کی ہے- کچھ لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ سب سے اچھا طریقہ تفسیر، تفسیر القرآن بالقرآن ہے- کچھ لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ قرآن فہمی کے لئے سب سے زیادہ اہمیت نظم (order)کی ہے، نظم بین الآیات، نظم بین السور- ان کے نزدیک نظم قرآن کو جاننا ہی قرآن فہمی کی اصل کلید (master key)ہے-
مگر ان میں سے ہر بات صرف جزئی طورپر درست ہے، نہ کہ کلی طورپر- اصل یہ ہے کہ قرآن فہمی کی دو سطحیں (levels) ہیں- ایک ہے قرآن، اوردوسری چیزہے تطبیقی قرآن (applied Quran)- قرآن فہمی کی پہلی سطح یہ ہے کہ بوقت نزول، قرآن کے معاصرین کے لئے اس کا مفہوم کیا تھا- قرآن فہمی کی دوسری سطح یہ ہے کہ موجودہ زمانے کے بدلے ہوئے حالات میں قرآن کی تطبیقی معنویت (applied meaning) کیا ہے-
قرآن فہمی کی مذکورہ تمام شرطیں صرف سطحِ اول کے اعتبار سے قرآن کے فہم (understanding) میں مددگار ہوسکتی ہیں- مگر جہاں تک قرآن فہمی کی دوسری سطح کا معاملہ ہے، یعنی عصر حاضر کی نسبت سے قرآن کی تطبیقی معنویت، اس اعتبار سے تمام شرطیں بالکل ناکافی ہیں- سطحِ اول کے اعتبار سے قرآن کو جاننے کا فائدہ صرف یہ ہےکہ آدمی کے لئے قرآن تاریخی اعتبار سے ایک قابل فہم کتاب بن جائے- مگر جہاں تک عصر حاضر کی بات ہے، اس اعتبار سے آج کے انسان کو قرآن میں کوئی رہنمائی نہیں ملے گی- وہ عقیدہ کی حد تک قرآن کو مانے گا، لیکن زمانے کی نسبت سے قرآن کو اپنے لئے ایک زندہ رہنما (living guide) بنانا اس کے لئے ممکن نہ ہوگا- حالاںکہ قرآن کی اصل اہمیت یہ ہے کہ وہ ابدی طور پرہر انسان کے لئے ایک رہنما کتاب ہے-
اس معاملے کی ایک مثال قرآن کی سورہ یوسف ہے- اس قصہ کو اللہ تعالی نے احسن القصص (best story)کہاہے- اس سے اندازہ ہوتاہے کہ اس سورہ میں کوئی غیر معمولی بات بتائی گئی ہے-
عربی زبان اور دوسری زبانوں میں قرآن کی جو تفسیریں لکھی گئیں، ان میں سورہ یوسف کے بارے میں کافی بحث موجود ہے- لیکن یوسف کا قصہ احسن القصص کیوں ہے، اس پر کسی تفسیر میں کوئی واضح رہنمائی نہیں ملتی- عقل کا تقاضا ہےکہ جب یوسف کا قصہ احسن القصص ہے تو اس کا احسن ہونا صرف گزرے ہوئے ماضی کے اعتبار سے نہیں ہوسکتا، ضروری ہے کہ زمانہ حاضر کے اعتبار سے اس میں کوئی احسن رہنمائی موجود ہو-
اس پہلو سے غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سورہ میں احسن القصص کا لفظ حقیقتاً احسن منہج (best method) کے معنی میں ہے، یعنی طریقہ کار کا بہترین نمونہ- حضرت یوسف کا قصہ قرآن اور بائبل دونوں میں آیا ہے- دونوں کے مطالعے سے جو تصویر بنتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت یوسف کے زمانے میں مصر میں بادشاہت کا نظام تھا- اس زمانے میں زراعت کسی حکومت کا سب سے بڑا شعبہ ہوتا تھا- اس وقت کا مصری بادشاہ اس پر راضی ہوگیا کہ پولیٹکل اتھاریٹی کے اعتبار سے وہ تخت پر رہے، اور حکومت کا نظام حضرت یوسف کے سپرد کردے- قرآن میں یہ بات اس طرح کہی گئی ہے کہ مصر میں دین ملک (law of the land) بدستور بادشاہ کا ہو، اور خزائن ارض (ملک مصر کا زرعی نظام) حضرت یوسف کے ہاتھ میں رہے- اس معاملے کو بائبل میں ان الفاظ میں بیان کیا گیاہے:
فقط تخت کا مالک ہونے کے سبب سے میں بزرگ تر ہوں گا-
Only in regard to the throne will I be greater than you. (Genesis: 41/40)
حضرت یوسف کا زمانہ ساڑھے تین ہزار سال پہلے کا زمانہ ہے- اس زمانے کا مصری بادشاہ اس پر راضی ہوگیا کہ قانونی اعتبار سے پولیٹکل اتھاریٹی (political authority) کا درجہ اس کو حاصل ہو، اور نان پولیٹکل (non-political) دائرے میں زمین کا انتظام حضرت یوسف کے ہاتھ میںرہے- یہ گویا پولیٹکل سیٹلمنٹ (political settlement) کا ایک معاملہ تھا،جس میں تخت پر تو بادشاہ بیٹھا ہوا تھا، لیکن جہاں تک ملکی انتظام کا معاملہ ہے، وہ عملاً حضرت یوسف کے ہاتھ میں دے دیا گیا (12:56) -
حضرت یوسف کو مصر میں یہ مواقع ایک بادشاہ کے ذاتی مزاج کی بنا پر شخصی طورپر حاصل ہوئے تھے- اب تطبیقی تفسیر کے اعتبار سے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ موجودہ زمانے میں یہ مواقع خود زمانی تبدیلی کی بنا پر تمام اہل ایمان کو عمومی طورپر حاصل ہوگئے ہیں- جدید جمہوری تصور کے مطابق کوئی حاکم (ruler) صرف چند سال کے لئے ہوتا ہے- موجودہ زمانے میں حکومت کی حیثیت اصولاً انتظام (administration) کے ادارے کی ہوتی ہے- انتظامی دائرے کے باہر کے تمام شعبے بشمول مذہبی تبلیغ، آزاد شعبے کی حیثیت رکھتے ہیں- ہر فرد کو حق ہے کہ وہ تمام غیر حکومتی شعبوں میں جس طرح چاہے عمل کرے، صرف ایک شرط کے ساتھ کہ وہ اپنے مقصد کے حصول کے لئے پرامن طریقہ (peaceful method) اختیار کرے، وہ کسی کے خلاف ٹکراؤ کا معاملہ نہ کرے، نہ عام شہری کے خلاف اور نہ حکومت کے خلاف-
گویا کہ زمانی تبدیلی کے نتیجے میں اب احسن القصص کی حیثیت ایک عالمی اصول کی ہوگئی ہے- یہ اس سورہ کی تطبیقی تفسیر ہے- اس تفسیر کی روشنی میں سورہ یوسف آج کے انسان کے لئے ایک رہنما سورہ بن جاتی ہے- یہی طریقہ پورے قرآن کے لئے مطلوب ہے- اس طرح قرآن آج کے انسان کے لئے ایک رہنما کتاب بن جاتا ہے جب کہ مذکورہ تفسیری اصولوں کی روشنی میں قرآن کا مطالعہ کیا جائے تو قرآن ماضی کی ایک گزری ہوئی کہانی کی مانند نظر آئے گا-
واپس اوپر جائیں

تفسیر قرآن کا ایک اصول

قرآن میں اہلِ ایمان کے دو گروہوں کا ذکر ہے- ایک وہ جن کے لیے مُستَضْعفین (4:97) کا لفظ آیا ہے، یعنی کمزور (the weak)- ایسے لوگوں کے بارے میں قرآن میں کہاگیا ہے کہ وہ ہجرت کرکے دوسرے پرامن مقامات پر چلے جائیں- اہلِ ایمان کا دوسرا گروہ وہ ہے، جو صاحب قوت ہو- ایسے لوگوں کو یہ حکم دیاگیا ہے کہ تم ائمہ کفر ( 9:12) سے جنگ کرو، اور ان کے اوپر غلبہ حاصل کرو-
امام ابن تیمیہ (وفات: 728ھ) نے ان آیتوں کے حوالے سے لکھا ہے کہ جو مسلمان کمزور حالت میں ہوں، وہ صبر اور صفح کے اصول پر عمل کریں- اور دوسرا مسلم گروہ ، جو صاحب قوت ہو اس کو چاہئے کہ وہ قتال کرکے مخالفین کو زیر کرے (الصارم المسلول: 2/412-414)- یہی تقریباً تمام مسلم علماء کا مسلک ہے- عام طورپر مسلمان اسی طرز فکر کو اسلامی طرز فکر سمجھتے ہیں- مگر یہ طرز فکر اسلامی بصیرت کے مطابق نہیں- یہ طرز فکر آج ایک غیر متعلق طرز فکر بن چکا ہے-
ضعیف اور قوی کے الفاظ مطلق (absolute) الفاظ نہیں- ان کا تعین ہمیشہ حالات کی نسبت سے ہوتا ہے- قدیم زمانے میں جو حالات تھے، ان کے تحت ضعیف اور قوی کی یہ تقسیم بنی تھی- نئے حالات میں یہ تقسیم ختم ہوچکی ہے- اب نہ کوئی ضعیف ہے اور نہ کوئی قوی- اب ہر آدمی خواہ وہ مسلم ہو یا غیر مسلم، یکساں طورپر آزاد انسان کی حیثیت رکھتا ہے- موجودہ زمانہ حقوق انسان (human rights)کا زمانہ ہے، اب نئے حالات نے قدیم طرز کی تفریق ختم کردی ہے-
قدیم زمانہ بادشاہت (kingship) کا زمانہ تھا- قدیم سیاسی نظام کے تحت انسانوں کی تقسیم حاکم (ruler)اور محکوم (ruled)کی صورت میں کی جاتی تھی- اب نئے حالات میں جمہوری تصور کے تحت ہر انسان کو اپنے عمل کی مکمل آزادی حاصل ہے، بشرطیکہ وہ پرامن رہے، اور کسی دوسرے فرد یا گروہ پر تشدد نہ کرے- قدیم زمانہ اگر محکومی کا زمانہ تھا، تو موجودہ زمانہ آزادی کا زمانہ ہے- قدیم زمانے میں حاکم کے حکم کی خلاف ورزی جرم تھی، موجودہ زمانے میں امن کے اصول کی خلاف ورزی اور تشدد کی حیثیت جرم کی ہے-
قرآن میں قتال کا جو حکم دیاگیا تھا، وہ کوئی ابدی حکم نہیں تھا- اس کا مقصد کسی وقتی نظام کا خاتمہ نہ تھا، بلکہ اس کا مقصد اس عمومی دور کا خاتمہ تھا، جس کے تحت لوگوں کو عمل کی آزادی حاصل نہ تھی- جب لوگوں کو عمل کی آزادی حاصل ہوجائے تو قتال کا حکم بھی ایک غیر متعلق (irrelevant) حکم بن جائے گا-
یہی وہ بات ہے، جو قرآن کی اِس آیت میں کہی گئی ہے: وَقَٰتِلُوہُمْ حَتَّىٰ لَا تَکُونَ فِتْنَةٌ وَیَکُونَ ٱلدِّینُ کُلُّہُ لِلَّہِ ۚ فَإِنِ ٱنتَہَوْا۟ فَإِنَّ ٱللَّہَ بِمَا یَعْمَلُونَ بَصِیرٌ.(8:39) یعنی اور ان سے لڑو، یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین سب اللہ کے لئے ہوجائے- پھر اگر وہ باز آجائیں تو اللہ ان کے عمل کو دیکھنے والا ہے-
قرآن کی اس آیت میں فتنہ سے مراد قدیم زمانے کا وہ دور حکمرانی ہے، جس کو مطلق العنان حکومت (despotism) کہاجاتا ہے- یہ نظام خدا کی اسکیم کے خلاف تھا- یہ نظام چونکہ فوجی طاقت کے زور پر قائم تھا، اس لئے اس کو فوجی طاقت ہی سے ختم کیا جاسکتا تھا- چنانچہ حکم دیا گیا کہ اس نظام کو بذریعہ قتال ختم کردو- آیت میں ویکون الدین کلہ للہ کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں حالت فطری قائم ہوجائے، مصنوعی رکاوٹ کا خاتمہ ہوجائے، اور انسان کھلے ماحول میں آزادی کے ساتھ اپنا عمل کرسکے- لمبے تاریخی عمل کے بعد، یہ مطلوب نظام اب ساری دنیا میں عملاً قائم ہوچکا ہے-
اگر آدمی تشدد (violence) کا ارتکاب نہ کرے تو وہ کہیں بھی ضعیف نہیں، اس کے لئے کہیں رکاوٹ نہیں- یہ دور جدید کا تقاضا ہے- نیا دور آزادی کا دور ہے، اور تشدد آزادی کا نقیض (opposite) ہے- ایک شخص یا گروہ کا تشدد، دوسرے شخص یا گروہ کی آزادی کو منسوخ (abolish) کرنے کے ہم معنی ہے- جس طرح توحید کے کلچر میں شرک امر ممنوع بن جاتا ہے، اسی طرح آزادی کے کلچر میں تشدد کی حیثیت ایک امر ممنوع کی ہے- تشدد کے سوا کوئی اور چیز نہیں جو موجودہ دورِ آزادی میں انسان کو اس کی آزادی سے محروم کرنے والی ہو-
واپس اوپر جائیں

قرآن کا ایک پہلو

قرآن کی آیتوں میں کچھ آیتیںوہ ہیں جن کا تعلق حال سے ہے، اور کچھ آیتیں وہ ہیں جن کا تعلق مستقبل سے ہے- مثلاً قرآن میں یہ حکم ہے کہ: فَآمِنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہِ (7:158) یعنی پس ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر- یہ آیت جس وقت اتری، اسی وقت وہ اپنے پورے مفہوم کے اعتبار سے مطلوب تھی- اسی طرح مثلاً قرآن میں یہ آیت آئی ہے کہ: وَاَقِمِ الصَّلاَةَ لِذِکْرِیْ (20:14) یعنی اور میری یاد کے لیے نماز قائم کرو- قرآن کی یہ آیت جس وقت اتری اسی وقت وہ اپنے پورے مفہوم کے اعتبار سے مطلوب تھی- اسی طرح قرآن کی ایک آیت یہ ہے: وَإذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا (6:152) یعنی اور جب بولو تو انصاف کی بات بولو- یہ آیت بھی جس وقت اتری، اسی وقت وہ اپنے پورے مفہوم کے اعتبار سے مطلوب تھی-
قرآن میں اس طرح کی کثیر آیتیں ہیں، جو باعتبار حال (present)مطلوب تھیں- یعنی جس وقت یہ آیتیں اتریں، اسی وقت اہلِ ایمان کے لیے ضروری ہوگیا کہ ان آیتوں میں جو احکام دئے گئے ہیں ان کی وہ بلا تاخیر تعمیل کریں- جو آدمی ان آیتوں کو سننے کے بعد، اُن کی تعمیل نہ کرے، اس کے لئے اندیشہ تھا کہ وہ اللہ کے نزدیک خارج از اسلام قرار پائے-
ان کے علاوہ قرآن میں کچھ اور آیتیں ہیں جن کا تعلق مستقبل (future)سے تھا- یعنی بوقت نزول ان کی حیثیت پیشین گوئی کی تھی، اور ان آیتوں کا تحقق نزول کے بعد آنے والے دور میں ہونے والا تھا- اس طرح کی آیتیں دو قسم کی ہیں- ایک وہ جن میںصراحتاً مستقبل کا صیغہ استعمال کیاگیا ہے، اور دوسری آیتیں وہ ہیں، جن میں بظاہر مستقبل کا صیغہ نہیں ہے، لیکن غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ ان کا ظہور صرف مستقبل میں ہونے والا تھا-
مستقبل کی آیتیں
پہلی قسم کی آیتوں میں سے ایک آیت یہ ہے: سَنُرِیْہِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ( 41:53)یعنی عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے، آفاق میں بھی اور خود ان کے اندر بھی- یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ قرآن حق ہے- قرآن کی اس آیت میں واضح طور پر مستقبل کا صیغہ استعمال کیا گیاہے- یعنی اس میں ایک ایسے واقعے کا ذکر ہے، جو قرآن کے نزول کے بعد آنے والے زمانے میں ظاہر ہونے والا تھا-
اسی طرح قرآن میں حضرت موسی کے زمانے کے فرعون مصر کے تذکرے کے تحت یہ آیت آئی ہے: فَٱلْیَوْمَ نُنَجِّیکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُونَ لِمَنْ خَلْفَکَ ءَایَةً ۚ وَإِنَّ کَثِیرًا مِّنَ ٱلنَّاسِ عَنْ ءَایَٰتِنَا لَغَٰفِلُونَ.(10:92)یعنی پس آج ہم تیرے بدن کو بچائیں گے تاکہ تو اپنے بعد والوں کے لیے نشانی بنے، اور بے شک بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے غافل رہتے ہیں- قرآن کی اس آیت میں جس واقعے کا ذکر ہے، وہ اگر چہ نزول قرآن سے پہلے مصر میں پیش آچکا تھا، لیکن عملاً وہ لوگوں کے لئے ایک غیر معلوم واقعہ تھا- کیونکہ معاصر تاریخ میں اس کا کوئی ریکارڈ موجود نہ تھا- اس لحاظ سے آیت کے اس مصداق کی حیثیت ایک پیشین گوئی کی تھی، جو بعد کو ظاہر ہونے والی تھی-
واپس اوپر جائیں

ذمہ داری بقدر استطاعت

خدا کے دین میں ذمہ داری بقدر استطاعت کا اصول ہے- استطاعت سے زیادہ کا مکلف بنانا اللہ کا طریقہ نہیں- یہ اصول فرد (individual) کے لئے بھی ہے، اور اجتماع (society)کے لئے بھی- حوالے کے لئے ملاحظہ ہو، قرآن کی آیت 2:286 اور 64:16-
فرد اور اجتماع کا معاملہ ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہے- جہاں تک فرد کا تعلق ہے، اس کے ذاتی معاملات پر اس کو پورا اختیار ہوتا ہے- ایک فرد کے لئے یہ ممکن ہوتا ہے کہ وہ اپنی ذات کے لئے جس چیز کو درست سمجھے، اس کو مکمل طور پر اختیار کرے- ایک فرد اپنی ذات کے معاملے میں معیار پسندی (idealism) کو اپنا طریقہ بنا سکتا ہے-
اجتماع کا معاملہ اس کے برعکس ہے- اجتماعی یا سماجی معاملہ ہمیشہ کئی لوگوں کے درمیان ہوتا ہے- سماج کے معاملے میں وہی طریقہ چل سکتا ہے، جس پر سب کا اتفاق ہو- اس کے برعکس کوئی طریقہ اگر خارجی طور پر کسی کی طرف سے سماج کے اوپر نافذ کیا جائے تو لازماً لوگوں کے درمیان ٹکراؤ پیدا ہوجائے گا- ایسے موقع پر سماج کے اندر پہلے اختلاف آئے گا، پھر ٹکراؤ آئے گا، پھر نفرتیں بڑھیں گی، اور پھر آخر میں تشدد (violence) کی نوبت آجائے گی- گویا مطلوب چیز تو حاصل نہ ہوگی، البتہ اس کا برعکس نتیجہ فساد کی صورت میں سامنے آجائے گا- اس مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ دونوں کے تقاضے کو ایک دوسرے سے الگ کردیا جائے- فرد کے لئے معیار کا اصول ہو، اور اجتماع کے لئے قابل عمل کا اصول- اس فارمولے کو ایک لفظ میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے:
Idealism at the individual level, pragmatism at the social level.
مثلاً عدل (justice)کی بات کہنا ہر آدمی کے اپنے اختیار کی چیز ہے- اس کے برعکس عدل کا نظام قائم کرنا پورے سماج کا معاملہ ہے- پہلی چیز فرد کے ذاتی اختیار پر منحصر ہے، اور دوسری چیز سماج کے مجموعی اختیار پر-
واپس اوپر جائیں

انسان کا مقصد

انسان کی تخلیق کا مقصد کیا ہے، وہ قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتاہے:وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ( 51:56) اور میں نے جن اور انسان کو صرف اس لیے پیدا کیاہے کہ وہ میری عبادت کریں- عبد اللہ ابن عباس کے شاگرد مجاہد تابعی (وفات: 104ھ) نے إلا لیعبدون کی شرح ان الفاظ میں کی ہے: إلا لیعرفونی (تفسیر القرطبی) یعنی تاکہ وہ میری معرفت حاصل کریں-
یہاں معرفت سے مراد دریافت (discovery) ہے- انسان کو اللہ نے غیر معمولی ذہن (mind) کے ساتھ پیدا کیا ہے- انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ اپنے ذہن کو استعمال کرے،وہ تمام متعلق پہلوؤں پر غور کرے، اس طرح اپنے ذاتی غوروفکر (contemplation) کے ذریعہ وہ سچائی کی دریافت تک پہنچے، وہ دنیا میںخود دریافت کردہ حقیقت (self-discovered truth) پر کھڑاہو- یعنی ایک ایسی دنیا جہاں ہر چیز مجبورانہ اطاعت پر قائم ہے، وہاں انسان اپنے ارتقا یافتہ ذہن کے تحت اختیارانہ اطاعت کا ثبوت دے-
خود دریافت کردہ سچائی کا معاملہ کوئی سادہ معاملہ نہیں- یہ کسی آدمی کو اس طرح حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو ڈسٹریکشن (distraction) سے بچائے، وہ اپنے اندر focused thinking پیدا کرے، وہ پورے معنوں میں متلاشی انسان(seeker person) بن جائے- اس طرح جب ایک شخص اپنے آپ کو اپنے پورے وجود کے ساتھ، مطالعہ اور تدبر میں لگا دیتاہے تو اس کے بعد اللہ کی خصوصی مدد اس کو حاصل ہوتی ہے، وہ اللہ کا ایک مخلَص (chosen) بندہ بن جاتا ہے- اس پر اللہ کے انسپریشن (inspiration) کا نزول ہونے لگتا ہے- ان تمام تجربات اور مطالعات کے درمیان اس کے اندر ایک عارفانہ شخصیت کی تعمیر ہوتی ہے- وہ ایک ایسا انسان بن جاتا ہے، جس نے اللہ کی مدد سے خود سچائی کو دریافت کیا، اللہ کی مدد سے وہ اپنے آزادانہ اختیار کے تحت اللہ کا تابع بنا- یہی وہ افراد ہیں جو تخلیق کا اصل مقصود ہیں-
واپس اوپر جائیں

تبدیلی کے دودور

قرآن کی سورہ التوبہ میں ایک منصوبۂ الٰہی کا ذکر ان الفاظ میں کیاگیا ہے: إِنَّ ٱللَّہَ ٱشْتَرَىٰ مِنَ ٱلْمُؤْمِنِینَ أَنفُسَہُمْ وَأَمْوَٰلَہُم بِأَنَّ لَہُمُ ٱلْجَنَّةَ ۚ یُقَٰتِلُونَ فِى سَبِیلِ ٱللَّہِ فَیَقْتُلُونَ وَیُقْتَلُونَ وَعْدًا عَلَیْہِ حَقًّا فِى ٱلتَّوْرَىٰةِ وَٱلْإِنجِیلِ وَٱلْقُرْءَانِ ۚ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِعَہْدِہِ مِنَ ٱللَّہِ ۚ فَٱسْتَبْشِرُوا۟ بِبَیْعِکُمُ ٱلَّذِى بَایَعْتُم بِہِ ۚ وَذَٰلِکَ ہُوَ ٱلْفَوْزُ ٱلْعَظِیمُ. (9:111) یعنی بلاشبہ اﷲ نے مومنوں سے ان کی جان اور ان کے مال کو خرید لیا ہے جنت کے بدلے۔ وہ اﷲ کی راہ میں لڑتے ہیں ۔ پھروہ قتل کرتے اور قتل کئے جاتے ہیں ۔ یہ اﷲ کے ذمہ ایک سچا وعدہ ہے، تورات میں اور انجیل میں اور قرآن میں ۔ اور اﷲ سے بڑھ کر اپنے عہد کو پورا کرنے والا کون ہے۔ پس تم خوش ہوجاؤ اس معاملہ پر جو تم نے اﷲ سے کیا ہے۔ اور یہی ہے سب سے بڑی کامیابی-
قرآن کی اس آیت میں جس معاملے کا ذکر ہے، اس کو الفوز العظیم (supreme achievement) کہاگیا ہے- مزید یہ کہ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کا ذکر اس سے پہلے تورات اور انجیل میں بھی آچکا ہے- فَیَقتلون ویُقتلون کے الفاظ بتاتے ہیں کہ یہاں جس معاملے کا ذکر ہے، وہ ایک بہت بڑا منصوبۂ الٰہی (divine plan) ہے- یہ ایک ایسی مہم تھی جس کے لئے ضروری تھا کہ اہل ایمان اس کے لئے آخری ممکن قربانی دے دیں- اس کے بعد ہی ایسا ہوسکتا تھا کہ یہ خدائی منصوبہ تکمیل تک پہنچے اور اس منصوبہ میں اپنا حصہ اداکرنے والوں کو جنت کے اعلیٰ درجا ت میں جگہ ملے-
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس منصوبہ الہٰی کے دو مرحلے (phases)تھے- ایک مرحلہ وہ تھا، جس کی تکمیل اصحاب رسول کے زمانے میں، ساتویں صدی عیسوی میں ہوئی، اور دوسرا مرحلہ وہ ہے، جس کے لیے یہ مقدر تھاکہ وہ بعد کے زمانے میں انجام پائے- آیت کا اسلوب بتاتا ہے کہ اس سے مراد ایک بہت بڑا منصوبہ ہونا چاہئے-
قرآن کی دوسری آیتوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت میں تاریخ کے ایک عظیم انقلاب کا بیان ہے، یعنی مخالفِ اسلام دور کو ختم کرنا اور موافقِ اسلام دور کو لانا- پیغمبر اسلام سے پہلے تاریخ کا جو دور گزرا ہے، اس میں بہت سے پیغمبر آئے، لیکن ہر پیغمبر کو غیر معمولی مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا- اس لیے ان پیغمبروں کا مشن صرف دعوت کے مرحلے تک رہا، وہ انقلاب کے مرحلے تک نہیں پہنچا- اس کا سبب یہ تھا کہ قدیم دور ایک مخالف اسلام دور تھا- یہ دور سیاسی طاقت کے زور پر قائم تھا، ضروری تھا کہ اس دور کو ختم کیا جائے- مگر اس دور کو ختم کرنا جان ومال کی عظیم قربانی کے بغیر نہیں ہوسکتا تھا، اصحاب رسول نے یہی کارنامہ انجام دیا-
جب اصحابِ رسول کی قربانیوں سے مخالفِ اسلام دور ختم ہوا تو اس کے بعدفطری طور پر یہ ہوا کہ انسانی تاریخ میں ایک نیا عمل (process)جاری ہوگیا- یہ ایک نہایت گہرا عمل تھا-اس عمل کی انجام دہی میں اہل ایمان کے علاوہ غیر اہل ایمان (سیکولر اقوام) بھی شریک ہوئے- اس عمل کی تکمیل مغرب میں ہوئی- پہلے مرحلے میں مخالفِ اسلام دور کا خاتمہ کیا گیا تھا- دوسرے دور میں تمام موافقِ اسلام مواقع کھل گئے-
پہلے دور کو قرآن میں ختم فتنہ(8:39)کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے- دوسرے مرحلے میں پیش آنے والے واقعے کو مواقع کا انفجار(opportunity explosion) کہاجاسکتا ہے- پہلے مرحلے کا کام اصحاب رسول نے مکمل طورپر انجام دیا، اور اس بنا پر وہ جنت کے مستحق قرار پائے- دوسرے دور میں کرنے کا کام یہ ہے کہ پیش آمدہ مواقع کو دریافت کرکے ان کو دعوت حق کے لیے بھرپور طورپر استعمال کیا جائے-
اصحابِ رسول نے اس معاملہ میں منصوبۂ الہی کے پہلے مرحلہ کو ظہور میں لانے کے لیے اپنا حق ادا کیا، اور فوزِ عظیم کے مستحق قرار پائے- اب جو لوگ پیدا شدہ مواقع کو بھر پور استعمال کرکے دوسرے مرحلے کا کام انجام دیں گے، یعنی پیغام حق کی عالمی تبلیغ ، وہ دوبارہ فوز عظیم کے مستحق قرار پائیں گے، جس طرح دور اول کے لوگ فوز عظیم کے مستحق قرا ر پائے ـتھے-
واپس اوپر جائیں

قرآن کا تصورِ تاریخ

قرآن کی ایک آیت کا ترجمہ یہ ہے: اور لوگوں نے اللہ کی قدر نہ کی جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق ہے- اور زمین ساری اس کی مٹھی میں ہوگی قیامت کے دن اور تمام آسمان لپٹے ہوں گے اس کے دائیں ہاتھ میں- وہ پاک اور برتر ہے اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں ( 39:67)- اس آیت کی تفسیرمیں ایک روایت ہے جو حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے- صحیح البخاری کے الفاظ یہ ہیں: یقبض اللہ الأرض ویطوی السماوات بیمینہ ثم یقول: أنا الملک، أین ملوک الأرض (صحیح البخاری: 4812)، یعنی اللہ زمین کو اپنی مٹھی میں لے لے گا، اور آسمانوں کو اپنے دائیں ہاتھ میں لپیٹ لے گا پھر کہے گا: میں ہوں بادشاہ، کہاں ہیں زمین میں بادشاہی کرنے والے-
قرآن کی اس آیت میں اللہ کی قدر نہ کرنے کا مطلب اللہ کے نقشۂ تخلیق کا کمتر اندازہ (underestimation) کرنا ہے، اور شرک کا مطلب ہے اللہ کے نقشۂ تخلیق کے سوا کسی خود ساختہ نقشے کو اپنی زندگی کے لئے اپنانا- حدیث رسول مزید یہ بتاتی ہے کہ اس دار الامتحان میں یہ صورت عملاً قیامت تک جاری رہے گی، یہاںتک کہ قیامت میں اللہ ظاہر ہوجائے گا، اور اعلان کرے گا کہ اصل مطلوب تو یہ تھا کہ زندگی کو خالق کے نقشۂ تخلیق پر چلایا جائے، مگر خود ساختہ حکمرانوں (self-styled rulers)نے زمین پر اپنی مرضی کو جاری کردیا- یہ آیت اور حدیث کسی سیاسی معنی میں نہیں ہے، اس کا مطلب صرف یہ ہےکہ اللہ نے زمین کو دار الامتحان (testing ground) کے طور پر بنایا ہے- اللہ کی مرضی یہ تھی کہ زمین پر آزادی کا ماحول قائم رہے تاکہ ہر انسان کی جانچ ممکن ہوسکے- اور یہ واضح ہوسکے کہ کس شخص نے اپنی آزادی کا صحیح استعمال کیا، اور کس شخص نے اپنی آزادی کا غلط استعمال کیا-
ہزاروں سال تک بادشاہوں نے انسان کو مذہبی آزادی (religious freedom)سے محروم کررکھا تھا- اس کے بعد حالات میں تبدیلی ہوئی، یہاں تک کہ ساتویں صدی عیسوی میں رسول اور اصحاب رسول کو یہ موقع ملا کہ وہ بادشاہی نظام کا خاتمہ کردیں، اور انسان کے لئے مذہبی آزادی کا دروازہ کھول دیں- اب انسانی تاریخ اسی دور آزادی سے گزر رہی ہے-
قرآن وحدیث کے اس بیان پر غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ یہ اللہ رب العالمین ہے جو انسانی تاریخ کو مینیج (manage)کررہا ہے- یہ خدائی مینجمنٹ اس مصلحت کے تحت ہورہا ہے کہ دنیا کا اصل کیریکٹر، اس کا دار الامتحان (testing ground) ہونا قیامت تک باقی رہے، اور آزادانہ عمل کے تحت ہر فرد کا ریکارڈ تیار ہوسکے-
اللہ رب العالمین کے نقشۂ تخلیق (creation plan) کے مطابق انسان تاریخ کا منیجر (master of history) نہیں ہے- انسان صرف اپنی ذات کا منیجر ہے- انسان کو یہ نہیں کرنا ہے کہ وہ تاریخ کا کنٹرولر(controller of history)بننے کی کوشش کرے- انسان کی ذمہ داری صرف یہ ہے کہ وہ اپنی ذات پر کنٹرول کرے، وہ اپنے آپ کو توحید اور عدل (justice) پر قائم کرے- یہی الدین ہے اور اسی کی ذاتی پیروی کا نام اقامت دین ہے-
قدیم زمانے میں بادشاہوں نے تاریخ کا منیجر بننے کی کوشش کی- یہ اللہ کے نقشہ تخلیق کے خلاف تھا، اس لئے اللہ نے ہمیشہ کے لئے بادشاہی نظام کا خاتمہ کردیا- موجودہ زمانہ آزادی اور جمہوریت کا زمانہ ہے، یہ زمانہ خود اللہ کے نقشۂ تخلیق کے تحت وجود میں آیا ہے- اس نظام کے تحت ہر عورت اور ہرمرد کو یہ موقع ہے کہ وہ آزادانہ طورپر جو چاہے کرے، اور اپنے قول وعمل کے مطابق وہ اللہ کے یہاں اپنا درجہ متعین کرے-موجودہ زمانے کے مسلمانوں نے اللہ کے اس نقشہ تخلیق کو نہیں سمجھا- انھوں نے اللہ کے دین کی خود ساختہ تعبیر (self-styled interpretation) کے تحت اپنا یہ منصب فرض کرلیا کہ وہ ساری دنیا میں اپنی حکومت قائم کریں- یہ گویا دوبارہ تاریخ کا منیجر (manager of history) بننے کی کوشش ہے- یہ بلاشبہہ اللہ کی اسکیم کے خلاف ہے- اللہ کسی کو یہ موقع دینے والا نہیں کہ وہ تاریخ کا منیجر بن جائے- مسلمانوں کی ذمہ داری خود اپنے آپ کو اللہ کے تابع بنانا ہے، نہ کہ انسانی تاریخ کا منیجربننا- یہی وجہ ہے کہ موجودہ زمانے کا خود ساختہ جہاد مکمل طورپر ناکام ہورہا ہے- مسلمانوں کا خود ساختہ جہاد ان کو تاریخ کا منیجر تو نہ بنا سکا، البتہ وہ خود ایک تباہ شدہ قوم بن کر رہ گئے-
واپس اوپر جائیں

قرآنی طریق ِ کار

قرآن نے جس طرح انسانی زندگی کی ایک آئڈیالوجی دی ہے، اسی طرح قرآن میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس آئڈیا لوجی کے مطابق زندگی گزارنے کا درست طریقہ کیا ہے- اگر آدمی قرآن کا نام لے، لیکن وہ طریق کار کے معاملے میں قرآن کے بتائے ہوئے طریقے کی پیروی نہ کرے تو محض قرآن کا نام لینے کی بنا پر اس کا کیس قرآن کا کیس نہیں بن جائے گا-طریق کار کے معاملے میں قرآن میں اصولی ہدایات موجود ہیں، اس کے علاوہ قرآن میں پیغمبروں کاجو تذکرہ ہے وہ گویا قرآنی طریق کار کا عملی ماڈل ہے- آدمی کو چاہئے کہ وہ اس معاملے میں کھلے ذہن کے ساتھ قرآن کا مطالعہ کرے- وہ ایک طرف قرآن سے طریق کار کا اصول دریافت کرے، اور دوسری طرف پیغمبروں کے حالات سے اس کا عملی نمونہ بھی دریافت کرے- خدا کی اس دنیا میں کسی انسان کے لیے کامیابی کا یہی واحد طریقہ ہے-
اس سلسلے میں قرآن کی ایک رہنما آیت یہ ہے: وَلَا تُطِعِ ٱلْکَـٰفِرِینَ وَٱلْمُنَـٰفِقِینَ وَدَعْ أَذَاہُمْ وَتَوَکَّلْ عَلَى اللَّـہِ ۚ وَکَفَىٰ بِاللَّـہِ وَکِیلًا (33:48) اور تم منکروں اور منافقوں کی بات نہ مانو اور ان کے ستانے کو نظر انداز کرو اور اللہ پر بھروسہ رکھو- اور اللہ بھروسہ کے لیے کافی ہے- قرآن کی اس آیت سے یہ اصول ملتا ہےکہ اہل ایمان کو چاہئے کہ وہ فریق ثانی کی ایذاؤں پر ہر گز دھیان نہ دیں، اور کامل یکسوئی کے ساتھ اپنا مثبت مشن جاری رکھیں- اگر وہ ایسا کریں گے تو ان کو لازماً اللہ کی مدد حاصل ہوگی- وہ اپنی کوتاہیوں کے باوجود اپنے مشن کو پورا کرنے میں کامیاب رہیں گے-
اس معاملے کی ایک مثال پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کا وہ واقعہ ہے جس کو صلح حدیبیہ کہاجاتا ہے- صلح حدیبیہ کا واقعہ 6 ھ میں پیش آیا- اس واقعے کا مختصر ذکر قرآن کی سورہ نمبر 48 میں کیا گیاہے اور اس کی تفصیل سیرت کی کتابوں میں ملتی ہے- اس واقعے سے زندگی کا ایک اہم اصول معلوم ہوتا ہے، وہ یہ کہ اجتماعی زندگی میں امن (peace) صرف یک طرفہ شرطوں کو ماننے سے قائم ہوتا ہے، دوطرفہ شرطوں (bilateral conditions)کی بنیاد پر کبھی امن قائم نہیں ہوسکتا- یہی فطرت کا اصول ہے-
واپس اوپر جائیں

انسانیت کی منزل جنت

قرآن کی سورہ فاطر میں بتایا گیاہے کہ اہلِ جنت جب جنت میں داخل ہوجائیں گے، اور وہاں کی نعمتوں کو دیکھیں گے تو ان کی زبان سے نکلے گا: وَقَالُوا۟ ٱلْحَمْدُ لِلَّہِ ٱلَّذِىٓ أَذْہَبَ عَنَّا ٱلْحَزَنَ إِنَّ رَبَّنَا لَغَفُورٌ شَکُورٌ(35:34) یعنی اور وہ کہیں گے، شکر ہے اﷲ کاجس نے ہم سے غم کو دور کردیا، بے شک ہمارا رب معاف کرنے والا، قدر کرنے والا ہے-
And they will say, All praise belongs to God who has removed grief from us. Surely, our Lord is Most Forgiving, Most Appreciating.
جنت کی یہ انوکھی صفت ہوگی کہ وہاں ہر قسم کے غم کا خاتمہ ہو جائے گا- موجودہ دنیا اگر دارالحَزن تھی تو جنت ایک ایسی دنیا ہوگی جو خالی از حزن (sorrow-free world) ہوگی- جنت میں نہ کوئی نفسیاتی غم ہوگا، اور نہ کوئی مادی غم-
قرآن کے مطابق موجودہ دنیا میں انسان کو ضرورت کی تمام چیزیں حاصل ہیں (14:34)- لیکن ایک چیز ایسی ہے جو موجودہ دنیا میں اس کے لازمی جز کی حیثیت سے شامل ہے، اور وہ غم (حزن) ہے-
موجودہ دنیا میں آدمی خواہ کچھ بھی حاصل کرلے لیکن کسی نہ کسی اعتبار سے اس میں غم کا پہلو شامل رہتا ہے— جسمانی تکلیف، نفسیاتی پریشانی، کھونے کا اندیشہ، حادثہ، بیماری، تکان(boredom) ، تشنۂ تکمیل خواہش (unfulfilled desire)، بڑھاپا، موت، مستقبل کا اندیشہ، ملی ہوئی چیزوں کا امپرفکٹ (imperfect) ہونا، عدم یقین (uncertainty)، آدمی کی محدودیت(limitations)، نتیجہ پر کنٹرول نہ ہونا، دوسروں کا خوف، تردد (tension) ، وغیرہ-
جنت میں حزن کا نہ ہونا، ان تمام باتوں کو بتا رہا ہے، اور جو مقام ابدی طورپر حزن سے اس طرح خالی ہو، وہ بلا شبہہ انسان کی منزل ہے، اس سے کم کوئی چیز انسان کی منزل نہیںہوسکتی-
واپس اوپر جائیں

خلافت ارضی

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ نے انسان کو زمین پر خلیفہ بنایا ہے: إِنِّى جَاعِلٌ فِى ٱلْأَرْضِ خَلِیفَةً (2:30) - اس سے مراد نہ خدا کا خلیفہ ہونا ہے، اور نہ اسلامی خلیفہ ہونا- اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو زمین پر با اختیار مخلوق کی حیثیت سے آباد کیا ہے- یہ اختیارانہ حیثیت نہ فرشتوں کو حاصل ہے، اور نہ سورج اور چاند کو-
قرآن کی دوسری متعلق آیتوں کو لے کر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ انسان کو استثنائی ذہن دیاگیا اور پھر اس کو آزادی عطا کی گئی- اس کا مقصد یہ تھاکہ انسان اپنے ذہن کو استعمال کرے، اور پھر وہ خود دریافت کردہ معرفت پر کھڑا ہو- مخلوقات سے اصل چیز جو مطلوب ہے، وہ حمد ہے- پوری کائنات اللہ رب العالمین کی مجبورانہ حمد کررہی ہے- مگر انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے، آزادانہ طورپر خدائی سچائی کو دریافت کرے، اور کسی جبر کے بغیر اس پر کھڑا ہو- یہی خود دریافت کردہ معرفت (self-discovered realization) وہ چیز ہے جو انسان کو ابدی جنت میں داخلے کا مستحق بناتی ہے-
اس حقیقت کو ایک حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: عن عبد اللہ ابن عمرو قال: قال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم: ما من شئ اکرم على اللہ یوم القیامة من ابن آدم- قیل یا رسول اللہ، ولا الملائکة؟ قال: ولا الملائکة؛ إن الملائکة مجبورون بمنزلة الشمس والقمر (المعجم الکبیر للطبرانی، رقم الحدیث: 14509) یعنی حضرت عبد اللہ ابن عمرو بتاتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے افضل درجہ انسان کا ہوگا، کہاگیا کہ اے اللہ کے رسول، کیا فرشتوں سے بھی؟ آپ نے جواب دیا کہ ہاں، فرشتوں سے بھی، کیونکہ فرشتے سورج اور چاند کی مانند مجبور ہیں— حقیقت یہ ہے کہ خلیفہ کا لفظ کسی عہدہ کو نہیں بتاتا، بلکہ وہ صرف نوعیتِ حمد کو بتاتا ہے-
واپس اوپر جائیں

انسان کا امتحان

قرآن میں ایک طرف یہ بتایا گیا ہے کہ انسان کے اندر وہ اعلی معرفت پیدا ہونی چاہئے، جب کہ وہ کہہ سکے: اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ ( 1:1) -دوسری طرف قرآن میں یہ بتایا گیا ہے کہ: لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ کَبَدٍ( 90:4)، یعنی انسان کو اس کے خالق نے مشقت(hardship)میں پیدا کیا ہے- ان دونوں آیتوں پر غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ انسان کاامتحان یہ ہے کہ وہ مشقت کے حالات میں حمد کی اسپرٹ کے ساتھ جئے- وہ منفی حالات میں مثبت سوچ (positive thinking) کے ساتھ زندگی گزارے-یہ بظاہر متضاد صورت حال (contradictory situation) ہے- پھر اس متضاد صورت حال کی حکمت کیا ہے-
اصل یہ ہے کہ انسان کو اس کے خالق نے لامحدود صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا ہے- انسان کے دماغ میں لامحدود امکانات چھپے ہوئےہیں- انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ اپنے پوٹینشل (potential) کو ایکچول (actual)میں تبدیل کرے، وہ اپنے لاشعور میں چھپے ہوئے امکانات کو بیدار کرے، اس کو اپنے شعو رکا حصہ بنائے- یہ کام معتدل حالات میں نہیں ہوسکتا، وہ صرف چیلنج کے حالات میں ہوسکتا ہے- دنیا کی مشقتیں انسان کے لئے اسی چیلنج کا سبب بنتی ہیں-
چیلنج انسان کے دماغ کو زلزلے سے دوچار کرتا ہے، چیلنج انسان کے ذہن میں وہ ہلچل پیدا کرتا ہے جس کو نفسیات کی زبان میں ذہنی طوفان (brainstorming) کہاجاتا ہے- یہی وہ زلزلہ خیز حالات ہیں جو انسان کے اندر چھپے ہوئے امکانات کو بروئے کار لاتے ہیں- دنیا کے پرمشقت حالات انسان کو اس قابل بناتے ہیں کہ وہ ذہنی ارتقا کے مراحل سے گزرے، وہ اعلی معرفت کے ساتھ الحمد للہ رب العالمینکہہ سکے- دنیا میں پرمشقت حالات کاہونا، انسان کے لئے ایک عظیم رحمت ہے- اس کے بغیر انسان کے اندر ذہنی بیداری اور روحانی ارتقا (spiritual development)ممکن نہ ہوتا-
واپس اوپر جائیں

اسلام کی تعلیمات

اسلام کی کچھ تعلیمات وہ ہیں جو علی الاطلاق (absolute sense) طورپر مطلوب ہیں- اور دوسری تعلیمات وہ ہیں جن کا حکم حالات کی نسبت سے متعین ہوتاہے- مثلاً عبادت وہ عمل ہے، جو ہر فرد سے مطلق طورپر مطلوب ہے- اس کے برعکس سیاست کا تعلق حالات سے ہے، جیسے حالات ویسا سیاسی حکم-
عبادت کا اصول حدیث کے الفاظ میں یہ ہے : صلوا کما رأیتمونی أصلی (البخاری، رقم الحدیث: 6008) یعنی نماز اس طرح پڑھو جس طرح تم مجھ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو- اس کے مقابلہ میں سیاست کا تعلق حالات سے ہے- اس معاملہ میں اسلام کی تعلیم یہ ہے: وَأمْرُھُمْ شُوْرَى بَیْنَہُمْ ( 42:38) یعنی اور ان کا نظام شوری پر ہے- اس سے معلوم ہوا کہ سیاست کے معاملہ میں کوئی مطلق ماڈل نہیں، وہ تمام تر اجتماعی حالات پر موقوف ہے-
عبادت ایک انفرادی معاملہ ہے- وہ ایک ذاتی پیروی کی چیز ہے- اس لئے یہ ممکن ہوتا ہے کہ آدمی عبادت کے معاملے میں ذاتی طورپر جس طریقے کو معیاری طریقہ سمجھے، اس کو اپنی ذاتی زندگی میں اختیار کرلے، لیکن سیاست کا معاملہ ایک اجتماعی معاملہ ہے- سیاست کے معاملے میں وہی طریقہ عملاً چل سکتا ہے، جس پر تمام لوگ راضی ہوں- ایک شخص یا ایک گروہ اگر ایسا کرے کہ وہ سیاست کے معاملہ میں اپنے پسندیدہ ماڈل کو نافذ (implement) کرنے لگے تو اس سے لازماً ٹکراؤ ہوگا، اور باعتبار نتیجہ اصلاح کے بجائے فساد پھیل جائے گا-
اس مسئلے کا قابل عمل حل یہ ہے کہ سیاست کے معاملے کوشوری (اجتماعی مشورہ) کا معاملہ قرار دیاجائے- شورائی نظام کو موجودہ زمانے میں جمہوری نظام کی حیثیت سے قبول عام حاصل ہوگیا ہے- اس لئے اہل ایمان کو چاہئے کہ وہ بھی اس مقبول عام جمہوری طریقے کو مانیں اور اس کے مطابق سیاسی نظام کی تشکیل کریں-
واپس اوپر جائیں

ایک قرآنی اسلوب

قرآن کا ایک اسلوب یہ ہے کہ ایک خصوصی حوالہ (particular reference)کے ذریعہ عمومی اصول (general principle)کو بیان کرنا- اس کی ایک مثال قرآن کی سورہ آل عمران کی ایک آیت میں اس طرح ملتی ہے: ٱلَّذِینَ قَالَ لَہُمُ ٱلنَّاسُ إِنَّ ٱلنَّاسَ قَدْ جَمَعُوا۟ لَکُمْ فَٱخْشَوْہُمْ فَزَادَہُمْ إِیْمَانًا وَقَالُوا۟ حَسْبُنَا ٱللَّہُ وَنِعْمَ ٱلْوَکِیلُ(3:173) یعنیجن سے لوگوں نے کہا کہ دشمن نے تمہارے خلاف بڑی طاقت جمع کر لی ہے اس سے ڈرو ،لیکن اس چیز نے ان کے ایمان میں اور اضافہ کردیا اور وہ بولے کہ اﷲ ہمارے لئے کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے۔
اس آیت پر غور کرنے سے ایک اہم حقیقت معلوم ہوتی ہے- وہ یہ کہ جب انسان کے اندر زندہ ایمان (living faith) موجود ہو تو ہر انسانی خطرہ اس کے یقین میں اضافے کا سبب بن جاتا ہے- خطرہ کی حالت اس کے لئے ایک مثبت کمپلشن (compulsion) کی صورت پیدا کرتی ہے- جب وہ محسوس کرتاہے کہ انسان کی رسی اس سے چھوٹ رہی ہے تو اس کا ایمان مزید بیدار ہوجاتا ہے، اور وہ اللہ کی رسی کو اور شدت کے ساتھ پکڑ لیتاہے- اس طرح ہر محرومی اس کے لئے ایک نئی یافت کا سبب بن جاتی ہے-
خشیت انسانی کے موقع پر یقین خداوندی میں اضافہ ہونا، ایک داخلی عمل (internal process) کے ذریعہ ہوتاہے- خشیت انسانی کا پیش آنا، اس کے اندر ایک ذہنی دھماکہ پیدا کرتاہے- اب اگر اس کے اندر زندہ ایمان موجود نہ ہو تو وہ مایوسی کا شکار ہوجائے گا، وہ پست ہمت بن کر رہ جائے گا-
اس کے برعکس، اگر اس کے اندر زندہ ایمان موجود ہو تو ہر انسانی خشیت کا واقعہ اس کو ایمانی غذا عطا کرے گا- اللہ کی طرف رجوع ہونے کی بنا پر اس کے یقین میں اضافہ ہوجائے گا- وہ مزید استقامت کے ساتھ اللہ کے دین پر قائم ہوجائے گا- ہر بحران اس کی شخصیت میں ارتقا کا ذریعہ بن جائے گا-
واپس اوپر جائیں

قوّام کا اصول

قرآن کی سورہ النساء میں یہ آیت آئی ہے: اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَى النِّسَاءِ (4:34) یعنی مرد عورتوں کے اوپر قوام ہیں- قرآن کی اس آیت میں جو بات کہی گئی ہے، وہ حکم کے اسلوب میں نہیں ہے بلکہ وہ خبر کے اسلوب میں ہے- یعنی اس آیت میں یہ حکم نہیں دیاگیا ہے کہ مردوں کو عورتوں کے اوپر قوام بناؤ، بلکہ یہ کہاگیا ہے کہ بطور واقعہ مرد عورت کے اوپر قوام ہیں-
قرآن کی اس آیت میں خطاب کا رخ عورت کی طرف نہیں ہے بلکہ مرد کی طرف ہے- یعنی مرد کو اپنے اندر وہ صفت پیدا کرنا چاہئے کہ عورت خود اپنے فیصلے سے مرد کو گھر میںقوام کا درجہ دے دے- اسلوب کے اعتبار سے اس معاملے میں اصل ذمے داری مرد کی ہے، نہ کہ عورت کی-
اصل یہ ہے کہ فطری طور پر عورت کے اندر ایک احساس موجود ہوتاہے، جس کو عدم تحفظ کا احساس (sense of insecurity)کہا جاسکتاہے- یہ ایک فطری احساس ہے جو کہ انسان اور حیوان دونوں کے اندر یکساں طورپر پایا جاتا ہے- یہ کسی خارجی حکم کا معاملہ نہیں ہے بلکہ وہ خود پیدائشی فطرت کا معاملہ ہے-مرد اگر ایسا کرے کہ وہ اپنی رفیقۂ حیات کے ساتھ محبت کا تعلق رکھے، وہ اس کے مزاج کی رعایت کرے، وہ اس کے نسوانی تقاضے کو پورا کرے، وہ اپنے قول وعمل سے اس بات کا ثبوت دے کہ عورت نے ایک شوہر کی صورت میں اس انسان کو پالیا ہے جو اس کے عدم تحفظ کے احساس کا قابل اعتماد جواب ہے تو کسی جبر یا کسی مطالبہ کے بغیر ایسا ہوگا کہ عورت عملاً اپنے شوہر کو اپنی زندگی میں قوام کا درجہ دے دے گی-یہ معاملہ قوامیّت یا غیر قوامیت کا نہیں ہے، بلکہ وہ یہ ہے کہ گھر کے نظام کو معتدل طورپر کس طرح چلایا جائے تاکہ وہ فائدے حاصل ہوں، جو خاندانی نظام کے تحت خالق کو مطلوب ہیں- خاندان سماج کی اکائی (unit) ہے، خاندان کے درست ہونے سے پورا سماج درست ہوتا ہے- خاندان کو درست حالت پر قائم رکھنے کے لئے قوّام کا اصول اسی طرح اہم ہے جس طرح کسی کمپنی کو درست طورپر چلانے کے لئے باس (boss)کا اصول-
واپس اوپر جائیں

عدل کا مسئلہ

قرآن میں عدل کا مادہ 28 بار استعمال ہوا ہے-اس کے علاوہ عدل کے ہم معنی الفاظ بھی قرآن کی آیتوں میں بار بار استعمال ہوئے ہیں- اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام میں عدل (justice) کی اہمیت بہت زیادہ ہے- مگر اسلوب کے اعتبار سے قرآن کی آیتوں میں ایک فرق پایا جاتا ہے- زیادہ مقامات پر قرآن میں عدل کا لفظ لازم کے صیغے (intransitive form) میں استعمال ہوا ہے- مثلاً وَإذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا (6:152) یعنی جب بولو تو انصاف کی بات بولو- عام حالات میں عدل کا تقاضا یہی ہے- عام حالات میں ہر انسان سے یہی مطلوب ہے کہ وہ انصاف کی بات کہے، وہ لوگوں کے ساتھ انصاف کا معاملہ کرے- مومن پر یہ ذمے داری نہیں ہے کہ وہ عملاً ایک منصفانہ حکومت قائم کرے- اس کی اصل ذمے داری یہ ہے کہ وہ ہر معاملے میں منصفانہ روش اختیار کرے-
دوسرا استعمال وہ ہے جہاں قرآن میں عدل کا حکم متعدی کے صیغہ (transitive form) میں آیا ہے، یعنی عدل کا نظام قائم کرنا- اس کی ایک مثال وہ ہے جو حضرت داؤد کے ذیل میں آئی ہے: یَا دَاؤُدُ إِنَّا جَعَلْنَٰکَ خَلِیفَةً فِى ٱلْأَرْضِ فَٱحْکُم بَیْنَ ٱلنَّاسِ بِٱلْحَقِّ(38:26) یعنی اے داؤد،ہم نے تم کو زمین میں خلیفہ (حاکم ) بنایا ہے تو لوگوں کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو- قرآن کی اس آیت میں حق کا لفظ عدل وقسط کے معنی میں آیا ہے- اس سے معلوم ہوا کہ حاکم (ruler) کا فرض ہےکہ وہ عدل کو عملاً نافذ کرے- وہ دوسروں کو عدل وقسط کا پابند بنائے-
اسلام کے مطابق انسان کی ذمے داری بقدر استطاعت (2:286) ہے- عام انسان جس کو اقتدار حاصل نہیں ہے، اس کی ذمے داری یہ ہے کہ اپنے دائرہ عمل میں ہمیشہ وہ انصاف کی روش اختیار کرے- لیکن جس شخص کو اللہ اقتدار کامالک بنائے، اس کو ذاتی انصاف پسندی کے علاوہ یہ بھی کرنا ہے کہ وہ اپنی طاقت کے بقدر انصاف کا نظام قائم کرے- بقدر امکان وہ لوگوں کو عدل کا پابند بنائے-
واپس اوپر جائیں

کلمۂ سَوا کا اصول

قرآن کی سورہ آل عمرانمیں اجتماعی زندگی کے اصول کو ان الفاظ میں بتایا گیاہے: قُلْ یَٰٓأَہْلَ ٱلْکِتَٰبِ تَعَالَوْا۟ إِلَىٰ کَلِمَةٍ سَوَآءٍ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا ٱللَّہَ(3:64) یعنی کہو اے اہلِ کتاب، آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساںہے کہ ہم اﷲ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں۔
کلمہ سوا کا مطلب کامن ٹرم (common term)یا کامن گراؤنڈ (common ground) ہے- یہ بات جو قرآن میں کہی گئی ہے، وہ اجتماعی زندگی کا ایک عمومی اصول ہے- اجتماعی زندگی میں جب کوئی کام کرنا ہو تو اس کے آغاز کا درست طریقہ یہ ہے کہ طرفین کے درمیان کامن گراؤنڈ کو تلاش کیا جائے، اور اُس کے حوالے سے اپنا کام شروع کیا جائے- یہ طریقہ قابل عمل بھی ہے، اور باعتبار نتیجہ زیادہ مؤثر بھی-
کامن گراؤنڈ کی کوئی محدود فہرست نہیں- جن لوگوں کے درمیان یا جس زمانے میں کام کرنا مطلوب ہو، اس کے مطابق دیکھا جائے گا کہ وہ کیا چیز ہے جو اس وقت کے حالات میں طرفین کے درمیان کامن گراؤنڈ کی حیثیت رکھتی ہے- کامن گراؤنڈ کا تعین کسی نظریاتی ماڈل کی بنیاد پر نہیں ہوگا بلکہ عملی حالات کی بنیاد پر اس کا تعین کیا جائے گا، ورنہ وہ مؤثر نہ ہوسکے گا-
مثلاً، قدیم زمانے میں ایک مذہبی نظریہ طرفین کے درمیان کامن گراؤنڈ بن سکتا تھا- موجودہ زمانہ سیکولرزم کا زمانہ ہے- اب مؤثر عمل کے لئے ضروری ہوگاکہ طرفین کے درمیان کوئی سیکولر نوعیت کا کامن گراؤنڈ تلاش کیا جائے- ایسا نہ کرنے کی صورت میں یہ اندیشہ ہےکہ کیا جانے والا عمل مؤثر نہ ہو، وہ فریق ثانی کی نسبت سے بے نتیجہ ہو کر رہ جائے- کامن گراؤنڈ کی ضرورت صرف آغاز کار کے لئے ہے- آغاز کے بعد بقیہ چیزیں تدریجی طورپر خود بخود اس کا حصہ بنتی چلی جائیں گی- کامن گراؤنڈ کا تعلق پرکٹیکل وزڈم (practical wisdom) سے ہے، نہ کہ مطلق معنوں میں آئیڈیالوجی سے-
واپس اوپر جائیں

کائناتی شخصیت

قرآن میں فرعون مصر کا ذکر ہے، جس کو اللہ نے اس کی سرکشی کی بنا پر تباہ کردیا تھا- اس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے: فَمَا بَکَتْ عَلَیْہِمُ ٱلسَّمَآءُ وَٱلْأَرْضُ وَمَا کَانُوا۟ مُنظَرِینَ (44:29) یعنی پس نہ ان پر آسمان رویا اور نہ زمین، اور نہ ان کو مہلت دی گئی۔قرآن کی اس آیت میں ایسے لوگوں کا ذکر ہے جن کے مرنے پر آسمان وزمین نہیں روتے- دوسری طرف اللہ کے کچھ بندے ایسے بھی ہیں جن کی موت پر آسمان وزمین روتے ہیں- اِس دوسرے پہلو کا ذکر حدیث میں ان الفاظ میں آیا ہے: مامن انسان إلا لہ بابان فی السماء یصعد عملہ فیہ، وینزل رزقہ، فإذا مات العبد المؤمن بکیا علیہ (حلیة الأولیاء: 3/53) یعنی ہر انسان کے لئے آسمان میں دو دروازے ہوتے ہیں، ایک دروازے کے ذریعہ اس کا عمل اوپر جاتا ہے، اور دوسرے دروازے کے ذریعہ اس کا رزق نازل ہوتا ہے، جب بندۂ مومن پر موت آتی ہے تو دونوں اس کے لئے روتے ہیں-
اس حدیثِ رسول میں تمثیل کے اسلوب میں ایک عظیم حقیقت کو بتایا گیاہے- وہ یہ کہ ایک سچا مومن ایک کائناتی شخصیت کا حامل ہوتا ہے- وہ تدبر اور تفکر کے ذریعے مسلسل طور پر اللہ کی طرف سے معرفت کا رزق حاصل کرتا رہتا ہے، وہ خدا کی تخلیق میں غور وفکر کرکے مسلسل طورپر ربانی رزق حاصل کرتا رہتا ہے- اس اعتبار سے وہ گویا پوری کائنات کے لئے ایک مطلوب شخص بن جاتا ہے، کیونکہ کائنات اسی لئے پیدا کی گئی ہے کہ کوئی اللہ کا بندہ اس پر غور کرکے اس سے حق کی معرفت حاصل کرے-
حقیقت یہ ہے کہ مومن کی ایک فزیکل شخصیت (physical personality) ہوتی ہے، اور دوسری اس کی فکری شخصیت (intellectual personality) - مومن کی فزیکل شخصیت اس کے جسم تک محدود ہوتی ہے، لیکن اس کی فکری شخصیت پوری کائنات تک پھیلی ہوئی ہے- فکر کی سطح پر بننے والی شخصیت ہی وہ کائناتی شخصیت ہے، جس کے کھونے پر زمین وآسمان پر وہ کیفیت گزرتی ہے، جس کو یہاں رونے سے تعبیر کیاگیا ہے-
واپس اوپر جائیں

نظریہ، تاریخ

کسی مشن کاایک حصہ وہ ہے، جس کو نظریہ (ideology)کہا جاتا ہے، اور دوسری چیز وہ ہے جس کو عملی تدبیر (strategy) کہا جاتاہے-بنیادی نظریہ کی حیثیت ابدی اصول کی ہوتی ہے- اس کے برعکس، عملی تدبیر ہمیشہ حالات کے اعتبار سے اختیار کی جاتی ہے- یہ دونوں چیزیں ہر مشن میں ہوتی ہیں، خواہ وہ کوئی مذہبی مشن ہو یا کوئی سیکولر مشن-
مثلاً، مہاتما گاندھی کا مشن ایک سیکولر مشن تھا، ان کی آئیڈیا لوجی تمام تر اہنسا (nonviolence) پر مبنی تھی- اس کے مطابق انھوں نے اپنی پوری تحریک چلائی- اسی کے ساتھ وقت کے عملی تقاضے کے تحت انھوں نے ایک طریقہ اختیار کیا، جس کو سول نافرمانی (civil disobedience) کہا جاتا ہے- ان کی امن کی آئیڈیالوجی، ان کے مشن کا مستقل حصہ تھی- لیکن سول نافرمانی کی حیثیت ایک وقتی تدبیر کی تھی، جو حالات کی نسبت سے مطلوب تھی- حالات جب بدلے تو سول نافرمانی کا طریقہ ایک غیر متعلق (irrelevant) طریقہ بن گیا-
یہی معاملہ اسلام کا بھی ہے- اسلام کی آئیڈیالوجی توحید کی آئیڈیالوجی ہے، یہ مکمل طورپر ایک پرامن آئیڈیالوجی ہے- نظریۂ توحید کی حیثیت اسلام میں ابدی نظریہ کی ہے- اس میں کبھی کوئی تبدیلی آنے والی نہیں-اسی کے ساتھ اسلام کے دو ر اول کی تاریخ بتاتی ہے کہ اشاعت توحید کے پرامن مشن کے ساتھ عرب میں غزوات بھی پیش آئے، یعنی فریق ثانی کے ساتھ جنگ- مگر یہ غزوات (قتال) اسلام کی تاریخ میں عملی تدبیر کی حیثیت رکھتے ہیں، وہ آئیڈیالوجی کا مستقل حصہ نہیں- قرآن کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ دونوں قسم کی تعلیمات کو الگ کرکے دیکھا جائے- توحید کی آیتوں کو اسلام کی ابدی آئیڈیالوجی کا حصہ سمجھاجائے، اور قتال کی آیتوں کو حالات کی نسبت سے پیش آنے والی وقتی تدبیر کا حصہ- موجودہ زمانے میں عالمی حالات مکمل طور پر بدل گئے ہیں، پہلے اگر دورِ قتال تھا تو اب دورِ امن ہے- ایسی حالت میں قتال کو اب عملاً اسلام کی وقتی تاریخ کا حصہ سمجھا جائے گا، نہ کہ اسلام کے ابدی مشن کا حصہ-
واپس اوپر جائیں

اسلام کے دو پہلو

اسلام کے علمی مطالعے کے لئے ضروری ہےکہ اس کی آئیڈیالوجی کو اور اس کی تاریخ کو الگ کرکے دیکھا جائے- کیوں کہ اسلام کی آئیڈیالوجی ابدی ہے، لیکن اس کی تاریخ میں فطری طورپر ایسے اجزا شامل ہیں جو وقتی حالات کی نسبت سے اسلام کی تاریخ کاجز بنے تھے- حالات بدلنے کے بعد ان اجزاء کی حیثیت صرف گزرے ہوئے ماضی کی وقتی تاریخ کی ہے، آئیڈیالوجی کی طرح اس کی حیثیت ابدی نہیں-
اسلام کی آئیڈیالوجی، توحید الٰہ (oneness of God) کی ابدی حقیقت پر مبنی ہے- لیکن ساتویں صدی کے نصف اول میں جب اسلام کا ظہور ہوا، اس وقت دنیا میں شرک کا غلبہ تھا- مزید یہ کہ اس زمانے میں ساری دنیا میں بادشاہت (kingship) کا نظام قائم تھا- اس زمانے کے بادشاہوں نے شرک کو سرکاری مذہب (official religion) کی حیثیت دے دی تھی- اس بنا پر اس زمانے کا نظام عملاً مشرکانہ بادشاہت کا نظام بن گیا تھا- یہ نظام مذہبِ توحید کے لئے ایک جارحانہ مسئلہ (violent problem) کی حیثیت اختیار کئے ہوئے تھا-
اسلام اپنی حقیقت کے اعتبار سے تمام تر ایک پر امن مشن ہے، لیکن مذکورہ حالات کی بنا پر فطری طورپر ایسا ہوا کہ فریق ثانی کی طرف سے متشددانہ مخالفت شروع ہوگئی- پہلے قبائلی سردار (Tribal Chief) کی طرف سے، اور اس کے بعد اس وقت کے قائم شدہ ایمپائر (ساسانی ایمپائر اور بازنطینی ایمپائر کی طرف سے)-اس جنگ میں مشرکانہ اقتدار کی حیثیت جارح کی تھی، اور اسلام کی حیثیت مدافع کی تھی- یہ جنگ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں شروع ہوئی اور خلیفہ ثانی عمرفاروق (وفات: 23ھ /644ء) کے زمانے میں اصولاً ختم ہوگئی- مسلح مزاحمت (armed struggle) کی یہ مدت تقریباً 25 سال ہے- اللہ کی خصوصی نصرت کے تحت اس مختصر مدت میں مشرکانہ اقتدار کا زور ٹوٹ گیا- اب یہ ممکن ہوگیا کہ اسلام کا اصل مشن، پر امن دعوتِ توحید مزاحمت کے خطرے کے بغیر جاری کیا جائے اور قیامت تک اس کو جاری رکھا جائے-
وقت کے مشرکانہ اقتدار سے اسلام کی مسلح مزاحمت (armed struggle) کا تعلق وقتی حالات سے تھا، وہ اسلام کی آئیڈیالوجی کا ابدی حصہ نہ تھا- مگر بعد کے زمانے میں حضرت عثمان کی شہادت (35 ھ656/ء) کے وقت امت میں ایسا بحران (crisis)پیدا ہوا کہ لوگ آئیڈیالوجی اور تاریخ کے اس فرق کو بھول گئے، اور بحرانی حالات کے تحت لوگوں کے درمیان دوبارہ جنگ شروع ہوگئی، جب کہ اللہ کے منصوبے کے مطابق اب جنگ کا زمانہ ختم ہوچکا تھا، اور وہ وقت آگیا تھا کہ معتدل حالات میں توحید کی پرامن دعوت کو شروع کیا جائے، اور اس کو قیامت تک جاری رکھا جائے-
بعد کے زمانے میں وہ لڑائی پیش آئی، جس کو تاریخ میں فتنۂ ابن الزبیر کہا جاتاہے- اس وقت صحابیٔ رسول حضرت عبد اللہ ابن عمر (وفات: 73ھ) مدینہ میں موجود تھے، مگر وہ لڑائی میں شریک نہیں تھے، کچھ لوگ حضرت عبد اللہ ابن عمر سے ملے- انھوں نے قتالِ فتنہ کی آیت ( 8:39) کا حوالہ دے کر کہا کہ قرآن میں حکم دیاگیا ہے کہ فتنہ کو ختم کرنے کے لئے جنگ کرو، پھر آپ کیوں ہماری جنگ میںشریک نہیں ہیں- حضرت عبد اللہ ابن عمر نے جواب دیا: قاتلنا حتى لم تکن فتنة، وکان الدین للہ، وأنتم تریدون أن تقاتلوا حتى تکون فتنة، ویکون الدین لغیر اللہ (صحیح البخاری: 4513) یعنی ہم نے جنگ کی یہاںتک کہ فتنہ ختم ہوگیا، اور دین اللہ کے لئے ہوگیا، اور تم چاہتے ہو کہ تم لڑو یہاں تک کہ فتنہ دوبارہ آجائے، اور دین غیر خداکے لئے ہوجائے-
حضرت عبد اللہ ابن عمر کے اس قول پر غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ اللہ کے حکم کے تحت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جو جنگ شروع ہوئی، وہ ایک وقتی مقصد کے لئے تھی- یہ مقصد حضرت عمرفاروق کے زمانۂ خلافت میں حاصل ہوگیا- اب اہلِ ایمان کو یہ اجازت نہیں کہ وہ کسی نئے عنوان کے حوالے سے دوبارہ جنگ شروع کردیں- اب انھیں صرف یہ کرنا ہے کہ وہ اپنی پوری طاقت اسلام کے پرامن دعوتی مشن میں لگادیں- اگر کوئی شخص یا گروہ دوبارہ جنگ چھیڑنے کی کوشش کرے تو مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ پر امن تدبیر کے ذریعہ جنگ کو روک دیں، تاکہ پرامن دعوت کا کام بلاوقفہ جاری رہے-
واپس اوپر جائیں

عالمی نشانۂ دعوت

قرآن کی سورہ الفرقان میں یہ آیت آئی ہے: تَبَارَکَ ٱلَّذِى نَزَّلَ ٱلْفُرْقَانَ عَلَىٰ عَبْدِہِۦ لِیَکُونَ لِلْعَٰلَمِینَ نَذِیرًا(25:1) یعنی بڑی بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان اتارا تاکہ وہ جہان والوں کے لئے آگاہ کرنے والا ہو۔
اس آیت کے مطابق یہ مطلوب تھا کہ قرآن کا پیغام دنیا بھر کے تمام انسانوں تک پہنچے- مگر ساتویں صدی عیسوی کے نصف اول میں ، جب کہ قرآن اترا، ایسا ہونا ممکن نہ تھا- کیوں کہ عالمی پیغام رسانی کے لیے جو وسائل درکار تھے، وہ وسائل بوقت نزول قرآن موجود نہ تھے- حقیقت یہ ہے کہ قرآن میں نشانۂ دعوت کا ذکر تھا، جہاں تک تکمیل دعوت کی بات ہے، وہ مستقبل میں پورا ہونے والا تھا- قرآن کی مذکورہ آیت کا یہ پہلو ایک حدیث رسول سے معلوم ہوتا ہے-
پیغمبر اسلام کی ایک پیشین گوئی حدیث کی کتابوں میں ان الفاظ میں آئی ہے: لا یبقى على ظہر الأرض بیت مدر ولا وبر إلا أدخلہ اللہ کلمة الإسلام (مسند احمد: 23814) زمین کی پشت پر کوئی چھوٹا یا بڑا گھر نہ ہوگا، مگر اللہ اس میں اسلام کا کلمہ داخل کردے گا-
کرۂ ارض کے ہر چھوٹے بڑے گھر میں کلمہ اسلام کا داخل ہونا کوئی سیاسی نشانہ نہ تھا، یہ ایک پرامن دعوتی نشانہ تھا- ساتویں صدی عیسوی کے نصف اول میں جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات فرمائی تو اس وقت وہ وسائل عملاً موجود نہ تھے جو اس عالمی نشانے کی تکمیل کے لئے ضروری تھے- یہ عالمی وسائل صرف موجودہ زمانے میں دستیاب ہوئے ہیں جب کہ پرنٹنگ پریس اور ماڈرن کمیونی کیشن کا زمانہ آیا-
مذکورہ قرآنی آیت اپنے انطباق کے اعتبار سے پوری امت مسلمہ کو آواز دے رہی ہے- موجودہ امت کے لئے اس کا تقاضا ہے کہ وقت کے وسائل کو استعمال کرتے ہوئے قرآن کے پیغام کو سارے اہلِ عالم تک پہنچا دے-
واپس اوپر جائیں

صبر کی اہمیت

قرآن میں صبر کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے- ایک آیت کے الفاظ یہ ہیں: إِنَّمَا یُوَفَّى ٱلصَّٰبِرُونَ أَجْرَہُم بِغَیْرِ حِسَابٍ (39:10) یعنی بے شک صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا۔صبر کی اتنی زیادہ اہمیت اس لئے ہے کہ صبر (patience) آدمی کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ مثبت اعمال کرسکے، جو غیر معمولی اجر کا باعث بنتے ہیں-
اصل یہ ہے کہ اسلام میں ساری اہمیت تعمیر شخصیت کی ہے، جس کو قرآن میں تزکیہ (20:76) کہاگیا ہے- موجودہ دنیا امتحان (test)کی دنیا ہے- یہاں مسلسل طورپر دوسروں کی طرف سے ایسے حالات پیش آتے رہتے ہیں، جو آدمی کو گوارا نہیں ہوتے، جو آدمی کے اندر نفرت، غصہ، اشتعال اور منفی سوچ جیسی کیفیات پیدا کردیتے ہیں- اس قسم کی منفی کیفیات آدمی کو مسلسل طورپر ڈسٹریکٹ (distract) کرتی رہتی ہیں- وہ آدمی کی توجہ کو صحیح رخ سے ہٹا کر غلط رخ کی طرف کردیتی ہیں-
یہ ایک تباہ کن صورت حال ہے- مگر یہ ناموافق صورتِ حال فطرت کے نظام کا ایک لازمی حصہ ہے- کوئی آدمی اس ناخوش گوار صورت حال کا خاتمہ کرنے پر قادر نہیں- ایسی حالت میں اس کے مضر انجام سے اپنے کو بچانے کی صورت صرف یہ ہے کہ آدمی ہر ایسے ناخوش گوار موقعے پر صبر کا طریقہ اختیار کرے-
صبر کی یہ اہمیت تدبیر کے اعتبار سے ہے- صبر کی یہ اہمیت اس لئے ہے کہ وہ آدمی کو رد عمل سے بچاتا ہے، اور رد عمل (reaction) ہر قسم کی برائیوں کی جڑ ہے- ہر برائی ابتداء ً کسی ناخوشگوار واقعہ کے خلاف رد عمل سے پیدا ہوتی ہے، اور پھر بڑھ کر وہ بگاڑ (breakdown) کی آخری حد تک پہنچ جاتی ہے- صبر آدمی کو رد عمل سے بچاتا ہے، اور جو شخص اپنے آپ کو رد عمل سے بچالے، وہ گویا تمام برائیوں سے محفوظ ہوگیا-
واپس اوپر جائیں

جنتی کام

قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت کا مستحق امیدوار (deserving candidate) بننے کی تین خاص شرطیں ہیں- دنیا میں جو شخص ان شرطوں کو پورا کرے گا، اس کو آخرت کی ابدی جنت میں داخلہ ملے گا- وہ تین شرطیں یہ ہیں:
1- جنت میں داخلہ کی پہلی شرط یہ ہے کہ آدمی خالق (Creator) کی گہری معرفت حاصل کرے- وہ تخلیق (creation)میں غور وفکر کرکے مسلسل طورپر اپنی معرفت کو بڑھاتا رہے، یہاں تک کہ اس کے اندر ایک ایسی ربانی شخصیت پیدا ہوجائے جو ہر لمحہ الحمد للہ (praise belongs to God) کی اسپرٹ میں جینے لگے- جو لوگ دنیا میں اپنے اندر اس قسم کی شخصیت بنائیں، انھیں کو آخرت میں یہ موقع ملے گا کہ وہ دوبارہ جنت کے معیاری ماحول میں الحمد للہ (39:75) کہنے کی توفیق پائیں-
2- جنت میں داخلے کا مستحق بننے کی دوسری شرط وہ ہے جو انسانوں کی نسبت سے مطلوب ہے- اس شرط کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: إِلَّا مَنْ أَتَی اللہَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ (26:89) یعنی مگر وہ جو اللہ کے پاس قلب سلیم لے کر آئے- قلب سلیم کا مطلب پاک دل (sound heart) ہے- قلب سلیم کا مطلب دوسرے الفاظ میں وہی ہے جس کو ربانی شخصیت کہاجاتا ہے-
حقیقت یہ ہے کہ آدمی جب پیدا ہوتاہے تو وہ تخلیقی اعتبار سے قلب سلیم کے ساتھ ہی پیدا ہوتا ہے- ہر عورت اور ہر مرد فطرت پرپیدا ہوتے ہیں، اور فطرت پر پیداہونے کا نام ہی قلب سلیم کے تحتپیداہونا ہے- مگر موجودہ دنیا امتحان کی دنیا ہے- یہاں کے تمام حالات امتحان کی مصلحت کے ساتھ بنے ہیں- اس لئے یہاں ہمیشہ ہر قسم کے منفی ومثبت دونوں قسم کے اسباب موجود رہتے ہیں- اس بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ دنیا میں پیدا ہوتے ہی آدمی کی کنڈیشننگ (conditioning) شروع ہوجاتی ہے- پیدا ہونے کے وقت آدمی مسٹر نیچر ہوتاہے، لیکن اس کے بعد دھیرے دھیرے وہ مسٹرکنڈیشنڈ (Mr. Conditioned) بن جاتا ہے-
اس بنا پر قلب سلیم والا آدمی وہ ہے جو بڑا ہونے کے بعد دوبارہ اپنے آپ کو اس ابتدائی فطرت پر قائم کرے، جس پر پیداکرنے والے نے اس کو پیدا کیا تھا- یعنی وہ اپنے کنڈیشنڈ مائنڈ کی ڈی کنڈیشننگ (deconditioning)کرے- وہ اپنی سوچ، اپنے مزاج اور اپنی عادات کے اعتبار سے اپنے اندر اس مثبت شخصیت (positive personality) کی تعمیر کرے، جو جنت کے معاشرے کا ممبر بننے کے لئے ضروری ہے-
جنت کے بارے میں قرآن میں آیا ہے کہ جنت میں ہر طرف امن کا ماحول ہوگا- یہی وجہ ہے کہ قرآن میں جنت کو دار السلام (Home of Peace)کہاگیا ہے- جنت میں ہر طرف صدق گفتاری (54:55) کا ماحول ہوگا- جنت میں نہ کوئی لغو (nuisance) گفتگو کرنے والا ہوگا، اور نہ گناہ کی بات کرنے والا (56:25)- موجودہ دنیا ان صفات کی تربیت کا مقام ہے، جو افراد موجودہ دنیا میں اپنے اندر یہ صفات پیدا کریں، وہی وہ لوگ ہیں جو جنت کے معیاری معاشرے کے ممبر بنائے جائیں گے-
3- جنت کے استحقاق کی تیسری شرط یہ ہے کہ آدمی کو اسی دنیا میں جنت کا تعارف ( 47:6) حاصل ہوجائے- یہ حال اس انسان کا ہوتاہے، جو موجودہ دنیا میں اپنے ذہن کو اتنا ترقی یافتہ بنائے کہ اس کو شعوری طورپر جنت کی دریافت ہوجائے، وہ فطرت کے مناظر (natural scenes)کے اندر جنت کی جھلک (glimpse) دیکھنے لگے، وہ درختوں کی ہریالی میں جنت کے حسن کو دریافت کرلے، وہ چڑیوں کے چہچہے میں جنت کا نغمہ سننے لگے، وہ دریا میں شفاف پانی کو بہتے ہوئے دیکھے تو وہ جنت کی نہروں کو یادکرنے لگے-
جنت میں داخلے کا فیصلہ ہر عورت اور ہر مرد کے ذاتی کردار کی بنیاد پر ہوگا- جس فرد نے دنیا کی زندگی میں اپنے اندر مذکورہ قسم کے اوصاف کو پیداکیا ہوگا، وہی آخرت میں اس کا مستحق قرار پائے گا کہ اس کو جنت میں داخلہ ملے- جنت کسی آدمی کو اس کی ذاتی خصوصیت (merit) کی بنیاد پر ملے گی، کسی اور مفروضہ کی بنیاد پر کسی شخص کو ہرگز جنت ملنے والی نہیں-
واپس اوپر جائیں

قرآن اور مثلِ قرآن

ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: ألاإنی أوتیت الکتاب ومثلہ معہ (أبوداؤد: 4604) یعنی سن لو کہ مجھے کتاب (قرآن) دیاگیا ہے اور اسی کے ساتھ اس کا مثل- ایک اور روایت ان الفاظ میں آئی ہے : إنی اوتیت الکتاب ومایعدلہ (صحیح ابن حبان: 12)یعنی مجھے کتاب دی گئی اور وہ جو اس کے برابر ہے-
اس حدیث میں مثلِ قرآن سے مراد قرآن کی تبیین ہے- یہ تبیین، احادیث رسول کی صورت میں مدون ہوکر کتابوں میں موجود ہے- مثلِ قرآن سے مراد وحی غیر متلو ہے، جن کو عام طورپر حدیث کہاجاتاہے- گویا قرآن، قرآن ہے، اور حدیث مثلِ قرآن-
مثلِ قرآن کے الفاظ پر مزید غور کیجئے تو کہا جاسکتا ہے کہ مثلِ قرآن سے مراد تطبیقی قرآن (applied Quran) ہے- قرآن کی صورت میں پیغمبر اسلام کو دین کی اصولی تعلیمات دے دی گئی، لیکن ہمیشہ اجتہاد کی ضرورت رہتی ہے- یعنی روز مرہ کے حالات میں قرآن کی تعلیمات کی موافق حالات تطبیق تلاش کرنا- یہ تطبیق پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے ساتھ خاص نہیں ہے- وہ قیامت تک اہلِ علم کے درمیان جاری رہے گی- تاہم اہل علم کی تطبیق کی حیثیت زمانی ہوگی، نہ کہ ابدی - اگر قرآن کے ساتھ مثلِ قرآن (تطبیق) موجود نہ ہو توقرآن ہر دور کے لوگوں کے لئے رہنما کتاب نہیں بن سکتا-
مثال کے طورپر قرآن میں ایک اجتماعی اصول ان الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: وَاَمْرُھُمْ شُوْرَی بَیْنَھُمْ ( 42:38) یعنی اور ان کا نظام شورى پر ہے- قرآن کی اس آیت کی تبیین پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں کی ہے: کما تکونون کذلک یؤمّر علیکم (مشکاة المصابیح: 3717) یعنی اجتماعی زندگی کا امیر خود مجتمع کے مشورے سے طے ہوگا- موجودہ زمانے میںاس تطبیق کی مزید توسیع کی جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ اجتماعی نظم کا فیصلہ جمہوریت (democracy) کے اصول پر بذریعہ انتخاب (election) کیاجائے گا-
اسی طرح ایک اور مثال یہ ہے کہ قرآن میں تیاری کا حکم دیتے ہوئے یہ آیت آئی ہے: وَاَعِدُّوْا لَہُمْ مَااسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ (8:60) یعنی اور ان کے لئے جس قدر تم سے ہوسکے تیار رکھو قوت- اس آیت میں قوت سے کیا مراد ہے- اس سلسلہ میں ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: ألا إن القوة الرمی، ألا إن القوة الرمی، ألا إن القوة الرمی(صحیح مسلم: 1917) یعنی سن لو کہ قوت سے مراد تیر اندازی ہے، سن لو کہ قوت سے مراد تیر اندازی ہے، سن لو کہ قوت سے مراد تیر اندازی ہے-
مذکورہ حدیث تطبیق کی ایک مثال ہے- اس میں اعداد قوت کی قرآنی تعلیم کو ساتویں صدی عیسوی کے حالات کے اعتبار سے بیان کیاگیا ہے- موجودہ زمانے میں حالات بدل چکے ہیں، اب نئے حالات کے لحاظ سے اعداد قوت کا مطلب ہوگا، اعداد علم- یعنی علم اور سائنس کے اعتبار سے اپنے آپ کو قوی بنانا- آج کی قوت تیر اندازی نہیں ہے، بلکہ وہ علوم ہیں جن کو سائنسی علوم کہاجاتاہے-
قرآن کی یہ تطبیق بھی ایک سنت رسول ہے، جو علمائے اسلام کے لئے ہر دور میں قابل اتباع ہے- ہر زمانے میں قوت کا معیار اور موثر کام کرنے کے طریقے بدلتے رہتے ہیں- قدیم قبائلی کلچر (tribal culture) میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ جنگ کے ذریعہ دبدبہ قائم ہوتا ہے- مگر موجودہ زمانے میں نئے وسائل کے تحت یہ ممکن ہوگیا ہے کہ پر امن طریقہ (peaceful method) کے ذریعہ دبدبہ قائم کیا جائے-یہی معاملہ ادبی اسلوب (idiom)کا ہے- اس اعتبار سے بھی موجودہ زمانے میں نئے نئے اسلوب رائج ہوئےہیں- تطبیق کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ قرآن کی تعلیمات کو آج کے اسلوب میں بیان کیا جائے- مثلاً قرآن میں نقل وحرکت کے ذریعہ دعوت کو سیاحت کہاگیاہے- آج کے اسلوب میں اس کو دعوہ اِن ایکشن (dawah in action) کہاجاسکتا ہے- قرآن اپنے مشن کے اعتبار سے ہمیشہ ایک رہے گا، لیکن اپنی تطبیق (application) کے اعتبار سے اس میں اضافے ہوتے رہیں گے- جیساکہ حدیث میں آیا ہے: لا تنقضی عجائبہ (الترمذی: 2906) یعنی قرآن کے عجائب کبھی ختم نہ ہوں گے-
واپس اوپر جائیں

دنیا ، آخرت

انسان پیدائش سے پہلے غیر موجود تھا، پھر اللہ نے اس کو پیداکرکے وجود ( 19:9) بخشا- انسان جب پیدا ہو کر سیارۂ ارض (planet earth) پر آتا ہے تو معجزاتی طورپر وہ پاتا ہے کہ یہاں اس کے لئے ضرورت کی ہر چیز موجود ہے- اسی واقعے کو قرآن میںان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَأَتَاکُمْ مِنْ کُلِّ مَا سَأَلْتُمُوْہُ ( 14:34) یعنی اور اس نے تم کو ہر چیز میں سے دیا جو تم نے مانگا-
تخلیق کے بعد یہ انسان کے اوپر خدا کی دوسری رحمت ہے- یہ انوکھی بات ہے کہ انسان کو پیدا ہوتے ہی فی الفور ایک ایسی دنیا مل جاتی ہے، جہاں اس کے لئے تمام سامان حیات پیشگی طورپر موجود ہیں- گویا کہ خالق ہر پیداہونے والے انسان سے یہ کہہ رہاہے کہ اے میرے بندے، جاؤ اور میری دنیا میں آزادانہ طورپر رہو- وہاں تمھارے لئے تمھاری ضرورت (need) کی تمام چیزیں وافر مقدار میں بلا قیمت موجود ہیں- یہی معاملہ مزید اضافے کے ساتھ آخرت کا ہے- آخرت کے دورِ حیات میں انسان کے لئے جو معیاری جنت بنائی گئی ہےاس کے بارے میں قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں: وَلَکُمْ فِیہَا مَا تَشْتَہِىٓ أَنفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیہَا مَا تَدَّعُونَ(41:31) یعنی اور تمھارے لیے وہاں ہر چیز ہے جس کو تمھارا دل چاہے اور تمھارے لیے اس میں ہر وہ چیز ہے جو تم طلب کرو گے-
یہ انسان کے لئےناقابلِ قیاس حد تک ایک عجیب رحمت کا معاملہ ہے-یعنی ایک ابدی نوعیت کی معیاری دنیا- گویا خالق انسان سے یہ کہہ رہا ہے کہ اے میرے بندے، آخرت کے ابدی دور حیات میں تمھارے رب نے تمھارے لئے ایک ایسی آئڈیل دنیا تیار کررکھی ہے، جہاں تمھاری طلب (demand) اور تمھاری اشتہا (desire) کے مطابق تم کو ہر چیز ملے گی- جہاں تمھارے لئے کامل فُل فِل مینٹ (total fulfillment)کا انتظام ہے- ایک ایسی دنیا جو پوری طرح حَزَن (sorrow) سے خالی ہوگی- موجودہ دنیا کا سامان حیات ہر پیداہونے والے انسان کے لئے ہے، لیکن آخرت کی جنت صرف اس انسان کے لئے ہوگی، جو اپنے آپ کو اس کا مستحق ثابت کرے-
واپس اوپر جائیں

آیت امانت

قرآن کی سورہ الاحزاب کی دو آیتوں میں تخلیق آدم کی نوعیت کو بیان کیاگیا ہے- ان کا ترجمہ یہ ہے: ہم نے امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو انھوں نے اس کو اٹھانے سے انکار کیا اور وہ اس سے ڈر گئے، اور انسان نے اس کو اٹھا لیا۔بے شک وہ ظالم اور جاہل تھا۔تاکہ اﷲ منافق مردوں اور منافق عورتوں کو اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو سزادے۔ اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کی توبہ قبول فرمائے۔ اور اﷲ بخشنے والا ،مہربان ہے(33:72-73) ۔
قرآن کی اس آیت میں آدم (انسان)کی منفرد نوعیت کو بتایا گیا ہے- کائنات کی بقیہ تمام چیزوں کا معاملہ یہ ہے کہ ان کو کوئی اختیار حاصل نہیں- اللہ کو یہ مطلوب ہوا کہ وہ ایک صاحبِ اختیار مخلوق پیدا کرے- اس منصوبے کے تحت اللہ نے انسان کو پیدا کیا- مذکورہ آیت میں امانت سے مراد اختیار (freedom of choice) ہے- اس منصوبے کے تحت انسان کو جو صلاحیتیں دی گئیں، ان کا فطری نتیجہ یہ تھا کہ انسان ایڈونچرسٹ (adventurist) بن گیا- یہی وہ حقیقت ہے، جس کو ظلوم وجہول کے الفاظ سے تعبیر کیا گیاہے-
انسان کو امانت کی نعمت دینا، انسان کے لئے عظیم رحمت کا معاملہ تھا-اس امانت (اختیار) کو پاکر یہ اندیشہ تھا کہ انسان بگاڑ کا شکار ہوجائے، مگر یہی وہ احوال ہیں جن کے اندر وہ مطلوب انسان بنتا ہے، جس کو قرآن میں مومن کہاگیا ہے- لیکن انسان فرشتہ نہیں، انسان لازمی طورپر غلطی کرتا ہے، تاہم انسان کی عظمت یہ ہے کہ وہ ہر غلطی کے بعد ندامت (repentance) میں مبتلا ہوتا ہے- وہ توبہ کرتا ہے، یعنی وہ یوٹرن لیتاہے- توبہ کے معاملے میں اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ انسان سے توبہ کو قبول فرمائےگا- مزید یہ کہ غلطی کرنا اور پھر توبہ کرنا کوئی سادہ بات نہیں- یہ ایک ذہنی عمل (intellectual process) ہے۔ اس کے دوران انسان کی شخصیت اعلی ترقی کے مدارج طے کرتی ہے، اور آخر کار جنت میں داخلے کا مستحق بن جاتی ہے-
واپس اوپر جائیں

Sunday, 1 March 2015

Al Risala | March 2015 (الرسالہ،مارچ)

4

-صدیق اسپرٹ

5

- اسلامی تربیت

8

- شیطان سے دوری

9

- تکفیر یا تبلیغ

10

- فقہی مسائل میں اختلاف

14

- تدبر کا میدان

15

- یقین کا سرچشمہ

16

- استثنا ایک ثبوت

17

- قرآن کتاب مہجور

18

- کوئی مشکل، مشکل نہیں

19

- وضو اور قرآن

20

- فلسفیانہ تلاش کی ناکامی

21

- مثبت سوچ، منفی سوچ

23

- قرآن کا ایک پہلو

24

- فطرت کا نظام

26

- عملِ مزید، جنتِ مزید

28

- تجدید ِ دین

29

- تکرار کا مسئلہ

30

- قبولِ قیادت کا فقدان

31

- خدا کی زبان

32

- انتقامی جنگ

33

- اسلام کا اقدام، دعوت

34

- دورِ جاہلیت یا دورِ اسلام

35

- ایک خطرناک صفت

36

- تخلیقیت کے دو درجے

37

- قرآن، سنت، اجتہاد

38

- اصلاح امت

39

- رحمت کا دروازہ

40

- زیادہ بڑی فتح

41

- آداب مجلس

42

- انسان کا مسئلہ

43

- دوآپشن کے درمیان

44

- مفید، بے مسئلہ

45

- کلینڈر کی تاریخ

46

- خبر نامہ اسلامی مرکز


صدیق اسپرٹ

پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات 632 ء میں ہوئی۔ اس کے بعد ابوبکر صدیق پہلے خلیفہ منتخب کئے گئے۔ آپ کی خلافت کی مدت تقریبا ڈھائی سال تھی۔آپ کی خلافت کے زمانے میں اسلام کے لئے ایک سنگین مسئلہ پیدا ہوا۔ اس وقت خلیفۂ اول نے اپنے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا، أینقص الدین وأنا حی (مشکاۃ المصابیح : 6034) یعنی کیا دین میں کمی کی جائے گی، حالاں کہ میں زندہ ہوں۔ یہ صدیق اسپرٹ ہے۔جب دین کے لئے کوئی سنگین مسئلہ پیدا ہو تو سچا مومن تڑپ اٹھتا ہے۔ اللہ کے بھروسہ پر وہ اکیلا ہی دین کے لئے کھڑا ہوجاتا ہے۔ایسا ہی واقعہ اکیسویں صدی میں اسلام کے لئے پیدا ہوا ہے، اور دوبارہ ضرورت پیش آگئی ہے کہ کچھ اہل ایمان صدیق اسپرٹ کے ساتھ دین کے لئے کھڑے ہو جائیں۔
موجودہ زمانے کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ دین کی تصویر کو بگاڑ دیا گیا ہے۔اللہ کا دین مکمل طور پر دین امن (religion of peace) ہے، لیکن خود مسلمانوں کے غلط عمل کے ذریعے اس کو دین تشدد (religion of violence) بنادیا گیا ہے۔ یہ صورتِ حال ایسی ہے جس پر ہر صاحبِ ایمان تڑپ اٹھے، ہر صاحبِ ایمان خدا کے دین کو دوبارہ امن کا دین بنانے کے لئے کامل طور پر سرگرم ہوجائے۔ اس مقصد کے لئے قرآن کا ترجمہ ہر زبان میں لوگوں تک پہنچانا ہے۔عالمی زبانوں میںاسلام کا پر امن پیغام ہر طرف فلڈ (flood) کر دینا ہے۔یہاں تک کہ ہر عورت اور ہر مردیہ جان لے کہ خدا کا دین امن کا دین ہے، تشدد سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔
قرآن کے شروع میں بتایا گیا ہے کہ اللہ، رب العالمین ہے، وہ رحمۃ للعالمین ہے۔ اللہ کا اور اللہ کے دین کا کوئی تعلق نفرت و تشدد سے نہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ سچے اہل ایمان پکار اٹھیں ، اور یہ کہیں کہ کیا اللہ کے دین کی تصویر پر تشدد دین کی بنادی جائے گی، حالاں کہ میں زندہ ہوں۔ یہی صدیق اسپرٹ ہے، اور یہی آج کا سب سے بڑا مطلوب کام۔
واپس اوپر جائیں

اسلامی تربیت

الرسالہ مشن کے تحت انڈیا کے ایک شہر میں ایک اجتماع کیا گیا۔ یہ اجتماع تربیتی مقصد کے لئے کیا گیا تھا۔اجتماع کے بعد الرسالہ کے ایک قاری نے کہا کہ ہم اجتماع میں تربیت کے لئے شریک ہوئے تھے، مگر یہاں تربیت کی کوئی بات نہیں ہوئی۔مجھ کو اس اجتماع سے کوئی تربیتی فائدہ نہیں ملا۔
یہ تبصرہ ایک غلط فہمی پر مبنی ہے۔ اصل یہ ہے کہ پچھلے زمانے میں تربیت اور تربیتی کیمپ کا لفظ بہت زیادہ استعمال ہوا۔ اس سے لوگوں کے ذہن میں تربیت کا ایک روایتی ماڈل (traditional model) بن گیا۔لوگ اسی کو تربیتی کام سمجھنے لگے ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ تربیت کا یہ روایتی ماڈل موجودہ زمانے میں ایک غیر متعلق ماڈل (irrelevant model)بن گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑی تعداد میں تربیت کے نام پر سرگرمیاں جاری ہیں، لیکن یہ تربیتی سرگرمیاں عملاً بے نتیجہ ثابت ہو رہی ہیں۔
تربیت کا روایتی تصور مبنی بر فارم تصور ہے۔ اس کے برعکس، الرسالہ مشن میں تربیت کا جو طریقہ اختیار کیا گیا ہے، وہ مبنی بر اسپرٹ تصور ہے۔مبنی بر اسپرٹ تربیت ہی کو ہم قرآن کا طریقِ تربیت سمجھتے ہیں۔ یہ طریقہ نظری اعتبار سے بھی درست ہے، اور عملی تجربہ کے اعتبار سے بھی یہی طریقہ مفید ثابت ہوا ہے۔
مذکورہ تربیتی اجتماع میں جو باتیں کہی گئی تھیں، ان میں سے دو باتیں یہاں نقل کی جاتی ہیں۔ اس سے اندازہ ہوگا کہ الرسالہ مشن میں تربیت کا جو نہج (method) اختیار کیا گیا، وہ کیا ہے۔ یہ دونوں باتیں بظاہر تربیت کے نام سے نہیں کہی گئی تھیں، لیکن عملا اس کا تعلق تربیت ہی سے تھا۔حقیقت یہ ہے کہ تربیت دراصل سوچ کا نام ہے۔
1 - مذکورہ اجتماع میں ایک بات یہ کہی گئی تھی کہ حق کا داعی وہ ہے جو اپنے اندر تخلیقی سوچ (creative thinking) پیدا کرے۔وہ اپنی ذاتی سوچ کے ذریعے اپنی معرفت کو بڑھائے، وہ اپنی ذاتی سوچ کے ذریعے سوال کا جواب معلوم کرے، وہ اپنی ذاتی سوچ کے ذریعے دعوت کا پروگرام بنائے۔ دعوت کا کام کوئی روٹین کا کام نہیں ہے، دعوت کا کام ایک تخلیقی کام ہے۔دعوت کا کام مؤثر طور پر وہی لوگ انجام دے سکتے ہیں جن کے اندر تخلیقی سوچ (creative thinking) کی صلاحیت موجود ہو۔
2 - اجتماع کے موقع پر دوسری بات وہ تھی جو قرآن کی ایک آیت کو لے کرکہی گئی۔ اس آیت کے الفاظ یہ ہیں: وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّى لَا تَکُونَ فِتْنَةٌ وَیَکُونَ الدِّینُ کُلُّہُ لِلَّہِ (8:39)یعنی ان سے لڑو، یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے، اور دین سب کا سب اللہ کے لئے ہوجائے۔
بتایا گیا کہ اس آیت کے دو حصے ہیں۔ ایک، وقاتلوھم حتی لاتکون فتنۃ، اور دوسرا، ویکون الدین کلہ للہ ۔ نحوی اعتبار سے پہلا حصہ امر کے صیغے میں ہے، اور دوسرا حصہ خبر کے صیغے میں ۔ یعنی فتنہ کو ختم کرنے کے لئے تو اہل ایمان کو لڑنے کا حکم دیا گیا۔ لیکن اس معاملے کا دوسرا پہلو، دین کا اللہ کے لئے ہوجانا، اپنے آپ وقوع میں آئے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ جب فتنہ کا دور ختم ہوجائے تو اس کے بعد وہ وقت آجاتا ہے جب کہ پیدا شدہ مواقع (opportunities) کو استعمال کیا جائے۔
پھر بتایا گیا کہ قرآن کی اس آیت میں دراصل ایک دور کے خاتمہ اور دوسرے دور کے آغاز کی بات کہی گئی ہے۔ آیت میں فتنہ کا لفظ مذہبی تشدد (religious persecution) کے معنی میں ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ قدیم تاریخ میں مذہبی تشدد کا جو کلچر قائم ہوا، وہ خدا کے تخلیقی منصوبہ (creation plan) کے خلاف تھا۔ خدا کو یہ مطلوب ہے کہ مذہب کے معاملے میں انسان کوآزادانہ اختیار (free choice) حاصل ہو۔ مگر قدیم زمانے میں مذہبی تشدد کے کلچر نے یہ کیا کہ انسان کے لئے ایک ہی چوائس کا امکان باقی رہا، یعنی غالب کلچر کا چوائس۔یہ حالت خالق کے نقشے کے مطابق نہ تھی اس لئےاہل ایمان کو حکم دیا گیا کہ مذہبی تشدد کے دور کو ختم کر دو تاکہ تخلیق کے مطابق فطری حالت قائم ہو جائے۔
قرآن کی اس آیت کے مطابق رسول اور اصحابِ رسول کے بعد تاریخ میں جو دور آیا ہے، وہ مواقع کا دور (age of opportunities) ہے۔ اب اہل ایمان کو یہ کرنا ہے کہ وہ منفی سوچ کو یکسر ختم کردیں۔ اب اہل ایمان کے لئے یہ جواز باقی نہیں رہاکہ کسی کواپنا دشمن سمجھ لیں، اورپھر اس کے خلاف نفرت اور تشدد کا معاملہ کریں۔ اب اہل ایمان کو صرف یہ کرنا ہے کہ وہ زمانے کی اسپرٹ کو سمجھیں، وہ مثبت منصوبہ بندی کے ذریعے پر امن طور پر اللہ کا پیغام سارے اہل عالم تک پہنچادیں۔ تربیت اصلاسوچ کی تربیت کا نام ہے، نہ کہ مسائل بتانے کا نام۔
تربیت کا جو طریقہ عام طور پر رائج ہے، اس میں یہ ہوتا ہے کہ مربی (trainer) لوگوں سے اس طرح کی باتیں کہتا ہے کہ آپ اچھے طریقے کو اپنی عادت میں شامل کیجئے، آپ تہجد کی عادت ڈالئے، آپ الحمد للہ، سبحان اللہ، ماشاء اللہ کہنے کی عادت ڈالئے، آپ ہر کام کو دائیں ہاتھ سے شروع کرنے کی عادت ڈالئے، وغیرہ۔ اس طرح کی باتیں تربیت کی تصغیر (underestimation) ہیں۔ تربیت دراصل ذہن سازی کا نام ہے، نہ کہ عادت سازی کا نام۔
فطرت کے اصول کے مطابق آدمی جو کام بھی کرتا ہے، وہ اس کی سوچ کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اس لئے حقیقی تربیت یہ ہے کہ آدمی کے طرزِ فکر (art of thinking) کو درست کیا جائے، آدمی کے اندر یہ صلاحیت پیدا کی جائے کہ وہ صحیح انداز میں سوچے، وہ صحیح انداز میں چیزوں کا تجزیہ کرے، وہ اپنے آپ کو متعصبانہ طرزِ فکر سے بچائے، اور موضوعی اندازِ فکر (objective thinking) کے مطابق چیزوں کے بارے میں اپنی رائے قائم کرے۔مثلا، یہ ایک عام بات ہے کہ لوگ سنی ہوئی باتوں کو مان لیتے ہیں، اور اس کو دہرانے لگتے ہیں، یہ طریقہ غلط ہے۔ صحیح تربیت وہ ہے جو اس معاملے میں لوگوں کو باشعور بنائے۔ اسی طرح عام طور پر لوگ ایسا کرتے ہیں کہ وہ تنقید اور تنقیص کا فرق نہیں سمجھتے۔ وہ نہایت آسانی سے کسی کے بارے میں منفی رائے زنی کرنے لگتے ہیں۔اس معاملے میں تربیت کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کے اندر یہ صلاحیت پیدا کی جائے کہ وہ ثابت شدہ حقائق کی بنیاد پر تنقید کریں۔ جس معاملے میں ان کے پاس ثابت شدہ مواد موجود نہ ہو، اس معاملے میں وہ خاموشی کا طریقہ اختیار کریں۔
تربیت اس کا نام نہیں ہے کہ لوگوں کوصحیح اور غلط (dos and don’ts) کی زبان میں کچھ مسائل بتا دیئے جائیں۔ تربیت کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ بات کو اس طرح مدلل انداز میں بیان کیا جائے جو مخاطب کے ذہن کو ایڈریس کرنے والا ہو۔ جس کو سن کر مخاطب سوچنے پر مجبور ہوجائے۔تربیت خود فکری (self thinking) کا نام ہے۔تربیت کا مقصد یہ ہے کہ آدمی اپنا مربی خود بن جائے، وہ اپنا محاسبہ آپ کرنے لگے۔
واپس اوپر جائیں

شیطان سے دوری

ایک حدیث ِ رسول عمر بن خطاب کے حوالے سے ان الفاظ میں آئی ہے: یا عمر، فواللہ، إن لقیک الشیطان بفَجّ قط، إلا أخذ فَجًّا غیر فجِّک (مسند أحمد، رقم الحدیث: 1624) یعنی اے عمر، خدا کی قسم، شیطان اگر کبھی تمھارے راستے میں آتاہے، تو وہ ہمیشہ تمھارے راستے کے سوا ایک اور راستہ اختیار کرلیتاہے-اس حدیث میں جو بات کہی گئی ہے وہ ایک شخص کی فضیلت کے طورپر نہیں ہے، بلکہ وہ ایک اصول کے بیان کے طورپر ہے - ایک شخص کا نام اُس میں بطور علامت ہے، نہ کہ بطور فضیلت-
اصل یہ ہے کہ شیطان سے حفاظت کا تعلق اس بات سے ہے کہ آدمی کے اندر ذہنی بیداری (intellectual awakening) کتنی زیادہ آئی ہے- اِس حدیث میں حضرت عمر کا نام ایک علامتی مثال کے طورپر ہے- حضرت عمر کا معاملہ یہ تھاکہ ان کے اندر کامل درجہ میں تواضع (modesty) پائی جاتی تھی- وہ علم کے بہت زیادہ حریص تھے- وہ اپنی غلطی کے اعتراف میں ایک لمحہ کی دیر نہیں کرتے تھے- ان صفات نے حضرت عمر کو ایک بے حد حساس انسان بنادیا تھا- ان کی یہ حساسیت اپنی ذات کے بارے میں نہ تھی، بلکہ حق کے بارے میں تھی- کسی امر حق کو پہچاننے میں وہ ایک لمحے کی تاخیر کا تحمل نہیں کرسکتے تھے-
ان صفات کا نتیجہ یہ تھا کہ حضرت عمر قرآن کی اِس آیت کا کامل مصداق بن گئے تھے: اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّہُمْ طٰۗىِٕفٌ مِّنَ الشَّیْطٰنِ تَذَکَّرُوْا فَاِذَا ہُمْ مُبْصِرُوْنَ ( 7:201) یعنی جو لوگ اللہ سے ڈرتے ہیں، جب شیطان کے اثر سے کوئی برا خیال انھیں چھوجاتا ہےتو وہ فوراً چونک پڑتے ہیں- اور پھر اسی وقت ان کو سمجھ آجاتی ہے-حدیث میں شیطان کے راستہ بدلنے کی بات دراصل ایک تمثیلی اسلوب ہے- اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا انسان اپنی ذہنی بیداری کی بنا پر اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ شیطان کے وسوسہ کا تجزیہ کرے اور اس طرح وہ اس سے متاثر نہ ہو- ایسے آدمی کی ذہنی بیداری اُس کو ایسے مواقع سے محفوظ رکھنے کی ضامن بن جاتی ہے-
واپس اوپر جائیں

تکفیر یا تبلیغ

خلافت راشدہ کے آخری زمانے میں اُس فرقے کا ظہور ہوا جس کو خوارج کہا جاتا ہے۔ خوارج دراصل غلو (extremism) کا شکار تھے۔ وہ ہرگناہ پر لوگوں کو کافر قرار دینے لگے (الذین یکفّرون بکل ذنب)۔ اس کے رد عمل میں علماء کے درمیان اس پر بہت زیادہ بحثیں ہوئیں، آخر کار اس دور کے علما نے اس پر اتفاق کر لیا کہ جو شخص قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھے اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی۔ امام ابو جعفر الطحاوی (وفات: 321ھ) نے اپنے زمانے کے علما کا موقف بیان کر تے ہوئے لکھا ہے کہ : ولا نکفّرأحداً من أہل القبلة بذنب ، ما لم یستحلّہ (شرح عقیدۃ الطحاویۃ : 1/296)۔ یعنی ہم کسی اہل قبلہ کی تکفیر کسی گناہ کے ارتکاب پر نہیں کرتے، جب تک وہ اس کو حلال نہ قرار دے۔علما کے اس متفقہ موقف پراب ہزار سال گزرچکے ہیں، مگر ابھی تک تکفیر کا ہنگامہ بند نہیں ہوا۔ تکفیر کا غیر اسلامی طریقہ اس کے بعد بھی امت کے درمیا ن جاری ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اس معاملےمیں علما نے جو موقف اختیار کیا، وہ موقف بجائے خود صحیح نہ تھا۔ انھوں نے تکفیر عام کو ناجائز بتایا، مگر اسی کے ساتھ انھوںنے تکفیر مشروط کوجائز قرار دے دیا۔ یہ موقف بجائے خود غلط تھا اس لئے وہ امت میں تکفیر کا دروازہ بند نہ کر سکا۔صحیح بات یہ تھی کہ علما متفقہ طور پر یہ اعلان کرتے کہ تکفیر کا طریقہ اصلاً ہی ایک غیر اسلامی طریقہ ہے۔ کسی عالم یا مفتی کو شرعی طور پر یہ حق نہیں کہ وہ کسی کو کافر قرار دے۔کافر قرار دینے کا طریقہ اصحابِ رسول کے درمیان موجود نہ تھا۔ وہ بعد کے زمانے میں امت کے اندر رائج ہوا۔علما کو یہ کرنا چاہئے تھا کہ وہ متفقہ طور پر یہ اعلان کریں کہ تکفیر کا طریقہ بدعت کا طریقہ ہے۔ اہل ایمان کی ذمے داری یہ ہے کہ وہ لوگوں کے خیر خواہ بنیں، وہ تکفیر کے بجائے تبلیغ کا طریقہ اختیار کریں۔امتِ مسلمہ کی ذمے داری صرف یہ ہے کہ وہ تمام انسانوںکو اپنا مدعوسمجھے، وہ لوگوں کے رویہ پر حکم لگانے کے بجائےان کو اللہ کا پیغام پہنچائے۔ امتِ مسلمہ کے عمل کی منصوبہ بندی مبنی بر تبلیغ ہونا چاہئے، نہ کہ مبنی بر تکفیر۔ تکفیر اللہ کا کام ہے، تکفیر ہرگز انسان کا کام نہیں۔اگر تبلیغ مؤثر ثابت نہ ہو تو اس کے بعد مومن کا کام یہ ہے کہ وہ دعا کرتے ہوئےایسے لوگوں کے معاملے کو اللہ کے حوالےکردے۔
واپس اوپر جائیں

فقہی مسائل میں اختلاف

فقہی مسائل میں اختلاف کا معاملہ زیادہ ترعبادت کے طریقوں میںاختلاف سے تعلق رکھتا ہے۔اس معاملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ : صلوا کما رأیتمونی أصلی (صحیح البخاری: 631) یعنی تم نماز اس طرح پڑھو جیسا کہ تم مجھ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔ اسی طرح آپ نے فرمایا: خذوا عنی مناسککم (سنن الکبریٰ للبیہقی: 9524) یعنی مناسک میں میری پیروی کرو۔
اس طرح کی احادیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک ہی غیر اختلافی ماڈل تھا۔ لیکن رسول اللہ کے بعد صحابہ عملی اعتبار سے قابل تقلید نمونہ بن گئے۔ رسول اللہ کی وفات کے بعد صحابہ مختلف بیرونی علاقوں میں پھیل گئے۔ لوگوں نے دیکھا کہ صحابہ کے عبادتی طریقوں میں کامل یکسانیت نہیںپائی جاتی۔ مثلا نماز میں قرأت سے پہلے بسم اللہ پڑھنا یا نہ پڑھنا، امام کے پیچھے مقتدی کا قرأتِ فاتحہ کرنا یا نہ کرنا، نماز میں آمین بالسر اور آمین بالجہر کا اختلاف،وغیرہ ۔
صحابہ کے درمیان اس قسم کا اختلاف (صحیح تر لفظ میں فرق)پہلے بھی موجود تھا، مگر پہلے اس فرق کو بحث کا موضوع نہیں بنایا جاتا تھا۔بعد کے زمانے میں جب کہ مسلم معاشرے میں نو مسلموں کی تعداد زیادہ ہوگئی تو اس فرق پر سوال کیا جانے لگا۔اب اس اختلاف کو موضوع بنا کر یہ سوال کیا جانے لگا کہ ان میں سے صحیح تر ماڈل کون سا ہے۔یہ نومسلم جن مذاہب سے نکل کرآئے تھے، وہاں انھوں نے دیکھا تھا کہ اس قسم کے فرق کوبنیادی اہمیت دی جاتی ہے۔ اس قسم کے فرق کی بنیاد پر دوسرے مذاہب میں الگ الگ فرقے بنے ہوئے ہیں۔اپنے اس قدیم ذہن کو انھوں نے اسلام پر بھی منطبق (apply) کردیا۔اس ذہن کے تحت وہ اس وقت کے مسلم علما سے سوالات کرنے لگے۔یہی وہ ظاہرہ ہے جس نے اسلام میں مذہبی فرقہ بندی کے دور کا آغاز کردیا۔
اس معاملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث پیشگی ہدایت کے طور پر موجود تھی۔ اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں: أصحابی کالنجوم فبأیہم اقتدیتم اہتدیتم (مشکاۃ المصابیح : 6018)، یعنی میرے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں، ان میں سے جس کی بھی تم پیروی کروگے تم ہدایت پر ہوگے۔اس حدیث کے مطابق صحابہ کے درمیان عبادت کے طریقوں میں اختلاف تنوع (diversity) کی بنا پر تھا، یعنی ہر طریقہ جو کسی صحابی سے ثابت ہووہ یکساں طور پر درست ہے۔عقلی طور پر تنوع کا یہ طریقہ قابلِ فہم تھا، کیوں کہ صحابہ کا اختلاف یا فرق صرف جزئیات (non-basics) میں تھا، وہ کلیات (basics) میں نہ تھا ۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ فطری قانون کے مطابق جزئیات میں ہمیشہ فرق پایاجاتاہے، جزئیات میں یکسانیت (uniformity) کا حصول ممکن نہیں۔
مگر ہم دیکھتے ہیں کہ بعد کے زمانے میں امت کے اندر یہ اختلاف مسلکی شدت کا سبب بن گیا۔ جب کہ یہ اختلاف خود صحابہ میں موجود تھا، مگر صحابہ کے درمیان ان اختلافات کی بنیاد پر کوئی مسلکی تشدد نہیں پیدا ہوا۔ اس کا سبب واضح طور پر یہ تھا کہ صحابہ مختلف طریقوں پر عبادت کرتے تھے، لیکن ان میں سے کسی نے کبھی یہ نہیں کہا کہ فلاں طریقہ افضل ہے، اور فلاں طریقہ غیر افضل۔ وہ مختلف طریقوں پر اس طرح عمل کرتے تھے جیسے کہ ہر طریقہ یکساں طور پر درست ہو۔ مگر بعد کو ایسا ہوا کہ انہی اختلافات کو لے کرامت مختلف فرقوں، بلکہ متحارب گروہوں میں بٹ گئی ۔ جب کہ اس قسم کا تحزب شریعت میں سخت نامحمود (30:32) ہے۔اس معاملے میں اصل غلطی دورِ اول کے علمائے فقہ کی ہے، جن کو ائمۂ مجتہدین کہا جاتا ہے۔انھوں نے اس اختلاف کے موضوع پر بڑی تعداد میں کتابیں لکھیں۔ انھوں نےیہ کیا کہ ان اختلافات کو بطور خود وہ درجہ دے دیا، جو کہ شریعت میںان کا درجہ نہ تھا، اور نہ کسی صحابی نے ان اختلافات کے بارے میں ایسا کہا تھا۔
دورِ اول کے ان فقہاء نے یہ کیا کہ انھوں نے ترجیح (preference) کے نام سے بطور خود ایک اصول وضع کیا۔ انھوں نے لمبی بحثیں کر کے ایک طریقے کو راجح اور دوسرے طریقے کو مرجوح ثابت کرنے کی کوشش کی۔انھوں نے اختلافات کو بیان کیا، اور پھر ایک مسلک کو لے کر کہا کہ ھذا أحوط (یہ زیادہ محتاط طریقہ ہے) ، ھذا أفضل (یہ زیادہ افضل طریقہ ہے)۔ انھوں نے بطور خود ایک مسلک کو اولیٰ اور دوسرے مسلک کو غیر اولیٰ قرار دیا۔یہ بلاشبہ علمائے فقہ کی ایک اجتہادی غلطی تھی۔یہی وہ اجتہادی غلطی ہے جس نے امت میں فقہی تشدد کا آغاز کر دیا، جو پھر کبھی ختم نہ ہو سکا۔
یہ انسان کی نفسیات ہےکہ اس کے لئے جب انتخاب افضل اور غیر افضل کے درمیان ہو تو وہ ہمیشہ افضل کا انتخاب کرے گا۔ وہ اپنے انتخاب کو درست ثابت کرنے کے لئے ہر طرح کے دلائل دے گا۔بعد کے زمانے میں انسان کی یہی نفسیات بروئے کار آئی، اور فقہی مسلک میں اختلاف کے نتیجے میں نفرت اور تشدد حتیٰ کہ جنگ تک کو جائز کر لیا گیا۔
اس معاملے میں دورِ اول کے علما کو بری الذمہ قرار دینے کے لئے یہ کہا جاتا ہے کہ ایک مسلک کوقابلِ ترجیح قرار دینے کے باوجودوہ مسلک کے بارے میںمتشدد نہ تھے۔ مثلا حنفی اور شافعی فقہاءنماز میں بسم اللہ پڑھنے کے قائل تھے، جب کہ مالکی فقہاء اس کے قائل نہ تھے، مگر دونوںگروہوں نے ایک دوسرے کے پیچھے نماز ادا کی۔اسی طرح امام شافعی فجر کی نماز میں دعائے قنوت پڑھنے کے قائل تھے، جب کہ امام ابو حنیفہ اس کےقائل نہ تھے،مگر جب امام شافعی امام ابوحنیفہ کے مقبرہ کے پاس گئے اور وہاں فجر کی نماز ادا کی تو انھوں نے دعائے قنوت نہیں پڑھی، وغیرہ۔مگر اس طرح کا عمل صرف انفرادی اخلاق کو ثابت کرتا ہے، اور شرعی اختلاف کے حل کے لئے شرعی اصول درکار ہے، نہ کہ انفرادی اخلاق۔
دینی امور میں جب کسی ایک طریقہ کو دوسرے طریقے کے مقابلے میں افضل بتایا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ افضل طریقہ میں زیادہ ثواب ہے، اور غیر افضل طریقہ میں کم ثواب ہے۔ ایک فقہی عالم اگر افضلیت اور غیر فضلیت کی زبان میں اس طرح کا مسئلہ بتائے، اور اس کے بعد مخالف مسئلہ بتانے والے عالم کے پیچھے ایک بار نماز پڑھ لے تو اس قسم کے عمل سے فقہی تشدد ختم نہیں ہو سکتا۔ اس کا یہ عمل لوگوں کی نظر میںذاتی نوعیت کا ایک اخلاقی برتاؤ یا حسنِ معاشرت قرار پائے گا، نہ کہ کوئی شرعی مسئلہ۔اوریہ ایک حقیقت ہے کہ جب حسن معاشرت اور دینی افضلیت کے درمیان انتخاب (choice) ہو تو آدمی ہمیشہ اس طریقے کو لے گا جس کو افضل بتایا گیا ہے، اور غیر افضل پر عمل کرنے والے کو کم تر سمجھ لے گا۔ اس طرح کےشرعی معاملے میں حسنِ معاشرت کبھی فیصلے کی بنیاد نہیںبن سکتا۔یہ مزاج یقینابڑھتے بڑھتے آخرکار فقہی تشدد اور گروہی تحزب کی صورت اختیار کر لے گا۔
اس سے یہ معلوم ہوا کہ امت کے اندر بعد کے زمانے میں جو فقہی تشدد اور مسلکی تحزب پیدا ہوا، اس کا سبب خود دین کی تعلیمات میں نہ تھا۔ اس کا سبب تمام تر علمائے متقدمین کی اس اجتہادی غلطی میں تھا کہ انھوں نے غیر ضروری طور پر ایک ایسے معاملے میں توحد کااصول اختیار کیا جوکہ در اصل توسع کا معاملہ تھا۔ ایک دینی اختلاف جو دراصل توسع (diversity) کی بنا پر تھا، اس کے معاملے میں انھوں نے توحد (uniformity) کے اصول کو منطبق کرنا چاہا۔ ان کی یہ کوشش یقینی طور پر غیر فطری تھی، اس بنا پر توحد کے نام پر کی جانے والی کوشش تشدد کا ذریعہ بن گئی، اور آخر کار امت واحدہ ،امتِ متفرقہ میں تبدیل ہو کر رہ گئی۔ اس واقعے کی ذمے داری ساری کی ساری فقہائے متقدمین پر ہے۔ اس صورتِ حال کی اصلاح صرف اس وقت ہو سکتی ہے ، جب کہ فقہائے متقدمین کے بارے میں یہ مانا جائے کہ انھوں نے بطورِ خود اختلافی مسائل کےحل کے لئے جو طریقہ اختیار کیا وہ ان کی ایک اجتہادی غلطی تھی، اور اب وہ وقت آگیا ہے جب کہ اس غلطی کی تصحیح کر دی جائے۔
واپس اوپر جائیں

تدبر کا میدان

ایک مضمون قرآن کی دو آیتوں میں بیان کیا گیاہے- ایک آیت یہ ہے: وَلَوْ اَنَّ مَا فِی الْاَرْضِ مِنْ شَجَـرَةٍ اَقْلَامٌ وَّالْبَحْرُ یَمُدُّہٗ مِنْ بَعْدِہٖ سَبْعَةُ اَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ کَلِمٰتُ اللّٰہِ ۭ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ (31:27) یعنی اور اگر زمین میں جو درخت ہیں وہ قلم بن جائیں اور سمندر، سات مزید سمندروں کے ساتھ، روشنائی بن جائیں، تب بھی اللہ کی باتیں ختم نہ ہوں-بے شک اللہ زبردست ہے، حکمت والا ہے-
قرآن کی اِس آیت میں کلمات اللہ سے مراد اللہ کے تخلیقی کرشمے (creative marvels) ہیں- یہ تخلیقی کرشمے بے شمار ہیں- ان کی دریافت صرف عقلی غور وفکر کے ذریعہ ہوتی ہے- اس لحاظ سے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ قرآن کی اس آیت میں تدبر وتفکر کا میدان بتایا گیا ہے-کلمات اللہ میں تدبر کا میدان اتنا زیادہ وسیع ہےکہ وہ کبھی ختم ہونے والا نہیں-
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ نے یہ کتاب اس لئے اتاری تاکہ لوگ اس کی آیتوںپر غور کریں(38:29)- یہاں تدبر سے مراد فنی تدبر نہیں ہے، بلکہ عقلی تدبر ہے- عقلی تدبر ایک بے حد وسیع عمل ہے- اس کا دائرہ قرآن سے لے کر ساری کائنات تک پھیلا ہوا ہے-
اصل یہ ہے کہ قرآن میں حقائق کی تفصیل نہیں بتائی گئی- قرآن میں صرف اشارات بتائے گئے ہیں- تدبر سے مراد قرآن کے اشارات کی روشنی میں تمام موجودات پر تدبر ہے- یہی تدبر معرفت کا خزانہ ہے- اس تدبر سے قرآن کے خدا کا کلام ہونے پر یقین بڑھتا ہے، معرفت میں اضافہ ہوتا ہے، تخلیق کی حکمتیں معلوم ہوتی ہیں، چھپی ہوئی حقیقتوں کی دریافت ہوتی ہے- تدبر کا یہی عمل ہے جس کے ذریعہ وہ مطلوب انسان بنتا ہے، جس کو قرآن میں ربانی انسان (3:79) کہاگیاہے- تدبر کا معیار قرآن کے مطابق تذکر(admonition) ہے، یعنی اپنے لئے نصیحت حاصل کرنا- اپنے ذہنی وروحانی ارتقا کا سامان کرنا-
واپس اوپر جائیں

یقین کا سرچشمہ

اسلام میں صبر (patience) کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے- یہاں تک کہ صبر پر بے حساب انعام کا وعدہ کیاگیا ہے:اِنَّمَا یُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَہُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ(39:10) یعنی بے شک صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا- اسی طرح قرآن میں دوسری جگہ بتایا گیاہے کہ جنت ان کو ملے گی جنھوںنے دنیا کی زندگی میں صبر کیا (76:12) -
صبر کا ایک فائدہ وہ ہے جو انسان کو آخرت میں ملے گا- لیکن صبر کا فائدہ اسی موجودہ دنیا میں شروع ہوجاتاہے- صبر کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ آدمی مایوسی کی نفسیات سے بچ جاتا ہے- مایوسی کی نفسیات میں جینے والے انسان کا حال یہ ہوتاہے کہ وہ بے یقینی (uncertainty)کی نفسیات میں جینے لگتاہے- ایسا آدمی کبھی حوصلہ مندانہ انداز میں اپنی زندگی کا منصوبہ نہیں بنا سکتا- اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسا آدمی اپنی زندگی میں کوئی بڑا کام نہیں کرپاتا-
صبر کا معاملہ اس کے برعکس ہے- صبر آدمی کو اِس نفسیات سے بچا لیتاہے کہ وہ کھوئے ہوئے کو نہ بھلائے- ایسا آدمی کامل معنوں میں یقینیت (certainty) میں جینے لگتا ہے- وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ عزم وحوصلہ کے ساتھ اپنی زندگی کا منصوبہ بنائے- اور اس کے نتیجہ میں بڑی کامیابی حاصل کرے-
یقین (conviction) انسان کی سب سے بڑی صفت ہے- کوئی بڑا کام وہی شخص کرسکتاہے جو یقین میں جیتاہو- قرآن میں صبرکو اتنی زیادہ اہمیت اسی لئے دی گئی ہے کہ صبر آدمی کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ بے یقینی کے اسباب کو نظر انداز کرکے صرف ان چیزوں پر فوکس کرے جو آدمی کے اندر یقین پیداکرنے والی ہیں- موجودہ دنیا میں ہر لمحہ ایسے تجربات پیش آتے ہیں جو آدمی کے ذہن کو بھٹکا کربے یقینی کی طرف لے جاتے ہیں- صبر آدمی کو اس بھٹکاؤ سے بچاتا ہے- وہ آدمی کو ہر حال میں یقین پر قائم رکھتا ہے-
واپس اوپر جائیں

استثنا ایک ثبوت

معجزہ کیا ہے- معجزہ دراصل استثنا (exception) کا دوسرا نام ہے- قرآن ایک استثنائی کتاب (exceptional book) ہے- قرآن کی یہی منفرد حیثیت اس بات کا ثبوت ہےکہ قرآن خدا کی بھیجی ہوئی کتاب ہے- یہی وہ حقیقت ہے جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بتایا گیاہے: قُلْ لَّىِٕنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلٰٓی اَنْ یَّاْتُوْا بِمِثْلِ ہٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا یَاْتُوْنَ بِمِثْلِہٖ وَلَوْ کَانَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ ظَہِیْرًا(17:88)یعنی کہو کہ اگر تمام انسان اور جنات جمع ہو جائیں کہ ایسا قرآن بنا لائیں تب بھی وہ اس کے جیسا نہ لاسکیں گے، اگرچہ وہ ایک دوسرے کے مد دگار بن جائیں ۔
کسی کتاب کا استثنائی کتاب ہونا، اس بات کا ثبوت ہےکہ وہ خدا کی طرف سےہے- کیونکہ یہ صرف خدا کی صفت ہے کہ وہ کسی کتاب کو استثنائی کتاب بنادے- انسان ایک محدود ہستی ہے اور محدود ہستی کسی استثنائی کتاب کو وجود میں نہیں لاسکتی- استثنائی کتاب کو وجود میں لانے کے لئے ایک لامحدود ہستی درکار تھی- اور اس لامحدود صفت کا حامل صرف خدا ہے، کوئی دوسرا نہیں-
البتہ یہ ممکن ہے کہ خدا اپنی مصلحت کی بنا پر کسی انسان کی مدد کرے، اور اس کو توفیق دے کہ وہ ایسی کتاب تیار کرے جو دوسری انسانی کتابوں کے مقابلہ میں ایک استثنائی کتاب (exceptional book) کی حیثیت رکھتی ہو- جس کے مثل کتاب تیار کرنے پر کوئی انسان قادر نہ ہو- اگر ایسا ہوتو اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ بھی ایک خدائی معاملہ ہوگا، نہ کہ معروف معنی میں ایک انسانی معاملہ-
اس دنیا میں اللہ تعالی نے استثنا (exception) کو ایک پہچان بنا دیا ہے- یہ فطرت کا ایک طریقہ ہے- آدمی کو چاہئےکہ جہاں وہ کوئی استثنا دیکھے، وہاں وہ اس پر گہرائی کے ساتھ غور کرے- جو شخص ایسا کرے، وہ یقینا وہاں ایک بڑی چیز کو دریافت کرلے گا-
واپس اوپر جائیں

قرآن کتاب مہجور

قرآن کی سورہ الفرقان میں یہ آیت آئی ہے: وَقَالَ الرَّسُوْلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ مَہْجُوْرًا (25:30) یعنی اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب، میری قوم نے اس قرآن کو ایک کتاب مہجور بنادیا-
اِس آیت کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر اسلام اپنی امت کے بارے میں قیامت میں یہ کہیں گے کہ بعد کے زمانے میں میری قوم نے قرآن کو ایک چھوڑی ہوئی کتاب(discarded book) بنا دیا- یہ امت کے اُس دور کی بات ہے، جو کہ رسول اور اصحاب رسول کے بعد امت کے زوال کے زمانے میں پیش آئے گا- یہ وہی واقعہ ہوگا، جو پچھلی امتوں پر اسی طرح پیش آچکا ہے-
دورِ زوال میں قرآن چھوڑی ہوئی کتاب کیسے بن جاتا ہے- یہ قرأت اور تلاوت اور ظاہری احترام کے معنی میں نہیں ہوتا، بلکہ وہ اس معنی میں ہوتا ہے کہ دورِ زوال میں امت کے افراد کے اندر تخلیقیت (creativity) باقی نہیں رہتی- اِس بنا پر وہ بدلے ہوئے حالات میں قرآن کی نئی تطبیق(reapplication)دریافت نہیں کرپاتے-وہ روایتی اسلام کو جانتے ہیں، لیکن وہ تطبیقی اسلام (applied Islam) سے بے خبر ہوتے ہیں- اس بنا پر اسلام ان کے زندہ عقیدہ کا جز نہیں ہوتا-
قرآن بلا شبہہ ایک ابدی کتاب ہے، لیکن زمانہ بدلتا رہتا ہے- اس بنا پر ضرورت ہوتی ہے کہ بدلے ہوئے حالات میں اسلام کی ایسی تشریح کی جائے جو وقت کے ذہن کو ایڈریس کرسکے-حالات کے اعتبار سے ایسی تطبیق دریافت کی جائے،جس میں لوگوں کو نظر آئے کہ اسلام آج بھی ان کے لیے ایک قابل عمل رہنما دین کی حیثیت رکھتاہے- اس کو دوسرے الفاظ میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسلام ;کو ان کے لیے دریافت نو (rediscovery) کی چیز بنا دیا جائے- جب ایسا نہ ہو تو عملاً یہی ہوگا کہ قرآن ان کے لیے ایک مہجور کتاب بن جائےگا-
واپس اوپر جائیں

کوئی مشکل، مشکل نہیں

ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: من أصبح منکم آمنًا فی سربہ ، معافىً فی جسدہ ، عندہ قوت یومہ ، فکأنما حِیْزَت لہ الدنیا(الترمذی، رقم الحدیث: 2346) یعنی تم میں سے جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ امن کی حالت میں ہو، اور اس کو جسمانی صحت حاصل ہو، اس کے پاس اُس دن کا رزق ہو، تو گویا کہ اس کو ساری دنیا حاصل ہوگئی-
اس حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ مادی اعتبار سے قناعت (contentment) کا طریقہ اختیار کرو، تاکہ تم دین کے معاملے میں زیادہ سے زیادہ اپنا حصہ ادا کرسکو- یہ ایک حقیقت ہے کہ جو شخص دنیا کے معاملے میں بقدر ضرورت پر اکتفا کرے گا، وہی آخرت کے تقاضوں کو پورا کرنے میں کامیاب ہوگا-
میرے پاس ایک صاحب کا ٹیلی فون آیا، انھوں نے کہا کہ میں بہت مشکل میں ہوں، میرے لئے اللہ سے دعا کیجئے- میں نے کہا کہ آپ کو کوئی مشکل نہیں- اللہ نے آپ کو مشکلات سے بچا رکھا ہے- حقیقت یہ ہے کہ مشکل ہمیشہ آدمی کی اپنی سوچ کا نتیجہ ہوتی ہے- اگر آپ اپنی سوچ کو درست کرلیں تو آپ کے لئے کوئی مشکل مشکل نہ رہے گی-میں نے کہا کہ آپ نے دور سے مجھ کو ٹیلی فون کیا ہے، یہ کوئی سادہ بات نہیں- یہ اللہ کی ایک عظیم نعمت کا واقعہ ہے- آپ کو حافظہ (memory) کی نعمت حاصل تھی- اس لئے یہ ممکن ہوا کہ آپ میرے ٹیلی فون نمبر کو یاد کریں، پھر آپ کے پاس ٹیلی فون موجود تھا، جو اتنی بڑی نعمت ہےکہ پچھلی تاریخ میں کسی بادشاہ کو بھی یہ نعمت حاصل نہ تھی، پھر آپ نے اپنی انگلیوں کے ذریعہ میرا نمبر ڈائل کیا- اگر آپ سوچیں تو یہ ایک معجزاتی واقعہ تھا، پھر آپ ہزار میل دور سے بول رہے ہیں اور میں اس کو سن کر عین اسی وقت قابل فہم زبان میں اس کا جواب دے رہا ہوں- یہ سارا معاملہ ایک عظیم نعمت کا معاملہ ہے- اس طرح کی بے شمار چیزیں ہیں جو آج بھی آپ کو پوری طرح حاصل ہیں- اگر آپ اللہ کے ان عطیات کو یادکریں تو آپ اپنے آپ کو اتنا ہلکا محسوس کریں گے، جیسے کہ آپ مشکلوں میں نہیں جی رہے ہیں، بلکہ آسانیوں میں جی رہے ہیں-
واپس اوپر جائیں

وضو اور قرآن

عام طورپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ قرآن کو چھونے کے لیے باوضو ہونا ضروری ہے- بے وضو آدمی قرآن کو نہیں چھوسکتا- یہ بلا شبہہ ایک بے بنیاد مسئلہ ہے- یہ مسئلہ قرآن میں مذکور نہیں، وہ تمام تر بعد کے زمانے میں مدون ہونے والی فقہ کی پیدا وار ہے-اصل یہ ہے کہ بعد کے زمانے میں بڑی تعداد میں لوگوں نے اسلام قبول کیا- یہ سب اپنے پچھلے مذہب کے ذہن (mindset) کو لے کر اسلام میں داخل ہوئے- ان میںسے بہت سے لوگوں نے عربی زبان سیکھی، اور وہ عالم اور امام بن گئے-یہی وہ نو مسلم علماء ہیں، جنھوں نے فقہ کی تدوین کی، انھوں نے اپنے قدیم مذہبی مزاج کے مطابق بہت سے مسائل غیر شعوری طورپر اسلام میں داخل کردئے، جو کہ دورِ صحابہ میں پائے نہیں جاتے تھے- مزید یہ کہ انھوں نے ان خود ساختہ فقہی مسائل کی تائید کے لیے قرآن کی آیتوں کی غلط تاویل کی- مثلاً شاتم رسول کو قتل کرنا، قرآن سے ثابت نہیں، لیکن فقہا نے غلط تاویلات کے ذریعہ اس کو اسلام میں شامل کردیا اور یہ لکھ دیا کہ یُقتل حدّا (ایسا شخص بطور حد قتل کیا جائے گا)-
انھیں فقہی مسائل میں سے ایک مسئلہ یہ ہے کہ وضو کے بغیر قرآن کو چھونا جائز نہیں- مگر یہ انھیں نو مسلم فقہا کا وضع کردہ مسئلہ ہے-اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں- اگر یہ مسئلہ اسلام کا مسئلہ ہوتا تو یقینی طورپر قرآن میں مذکور ہوتا، مگر قرآن میں ایسی کوئی آیت نہیں - یہ حضرات اِس معاملہ میں قرآن کی ایک آیت سے استدلال کرتے ہیں- وہ آیت یہ ہے:لَا یَمَسُّہٗٓ اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ ( 56:79)- اس آیت میں ایک خبر کا ذکر ہے، نہ کہ کسی حکم کا- اور اس خبر کا تعلق بھی فرشتوںسے ہے، انسان سے نہیں- اسی غلط مسئلے نے ماضی میں قرآن کی دعوتی اشاعت کا دروازہ بند کردیا- مزید یہ کہ اِس آیت میں الاَّ المُطَہَّرُون کا لفظ ہے، نہ کہ الاالمُتَوَضِّئُون، یعنی طاہر لوگ اس کو چھوتے ہیں، نہ کہ باوضو لوگ- حقیقت یہ ہے کہ صحیح تفسیر کے مطابق اس سے مراد فرشتے ہیں، جو کہ باعتبار تخلیق ہمہ وقت طاہر ہوتے ہیں، نہ کہ وضو کرکے طاہر بننے والا انسان-
واپس اوپر جائیں

فلسفیانہ تلاش کی ناکامی

تمام فلسفیوں کا کیس ایک تھا، وہ ہے حقیقت کی تلاش- تمام فلسفیوں نےیہ چاہا کہ وہ سچائی کو علم کے راستے سے جانیں، لیکن تجربہ بتاتا ہے کہ ہر فلسفی اپنی اس تلاش میں ناکام رہا- برطانوی فلسفی برٹرینڈ رسل کا معاملہ بھی یہی تھا- تمام عمر مطالعہ کرنے کے باوجود وہ سچائی کو دریافت کرنے میں ناکام رہا- دوسرے فلسفیوں کا کیس بھی یہی ہے- مگر دوسرے فلسفیوں نے اس حقیقت کا بہت کم اعتراف کیا، جب کہ برٹرینڈ رسل نے کھلے لفظوں میں اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے - رسل کا یہ اعتراف اس کی خود نوشت سوانح عمری میں دیکھا جاسکتا ہے-
اس نے لکھا ہے : ’’جب میں اپنے زندگی کا جائزہ لیتا ہوں تو مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میری زندگی ضائع ہوگئی- میں ایسی باتوں کو جاننے کی کوشش کرتا رہا، جن کو جاننا ممکن ہی نہ تھا- میری سرگرمیاں بطور عادت جاری رہیں- میں بھلاوے میں پڑا رہا- جب میں اکیلا ہوتا ہوں تو میں اس کو چھپا نہیں پاتا کہ میری زندگی کا کوئی مقصد نہیں، اور مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ نیا مقصدِ حیات کیا ہے، جس میں میں اپنی بقیہ عمر کو وقف کروں- میں اپنے آپ کو کامل تنہائی میں محسوس کرتا ہوں، جذباتی اعتبار سے بھی اور مابعد الطبیعیاتی اعتبار سے بھی، جس سے میں کوئی مخرج نہیں پاتا‘‘:
“When I survey my life, it seems to me to be a useless one, devoted to impossible ideals. My activities continue from force of habit, and in the company of others, I forget the despair which underlies my daily pursuits and pleasure. But when I am alone and idle, I cannot conceal for myself that my life has no purpose, and that I know of no new purpose to which to devote my remaining years. I find myself involved in a vast mist of solitude both emotional and metaphysical, from which I can find no issue.”
(p. 395. The Autobiography of Bertrand Russell, 1950)
واپس اوپر جائیں

مثبت سوچ، منفی سوچ

قرآن کی سورہ الاحزاب میں بتایا گیا ہے کہ انسان کو ایک ایسی چیز دی گئی ہے، جو سارے زمین وآسمان کو نہیں دی گئی، اور وہ امانت ہے، یہی امانت وہ چیز ہے جو انسان کو اشرف المخلوقات بناتی ہے- امانت سے مراد دراصل وہی چیز ہے جس کو فری تھنکنگ (free-thinking) کہاجاتا ہے، یعنی آزادانہ طورپر سوچنا اور آزادانہ طورپر اپنے عمل کی پلاننگ کرنا- اس امانت کی صحیح ادائیگی انسان کو جنت کا مستحق بناتی ہے، اور اس امانت کی ادائیگی میں ناکام ہونا انسان کو جہنم کا مستحق بنا دیتا ہے (33:72-73)-
اس موقع پر قرآن میں دو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ، ظلوم اور جہول، یعنی غیر عادل اور نادان- انسان اپنی آزادی کو غلط استعمال کرنے کی بنا پر بہت جلد عدل (justice) سے ہٹ جاتا ہے، اور اسی طرح وہ آزادی کے غلط استعمال کی بنا پر دانش مندی (wisdom) کے راستے سے ہٹ جاتاہے- یہی انحراف (deviation) اس کو جہنم کا مستحق بنا دیتا ہے-
غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ انسان کی اصلاح کے لئے یہی بات کافی ہے کہ وہ اپنی فطرت (nature) سے نہ ہٹے- اگر آدمی اپنے آپ پر کنٹرول کرے اور فطرت کے راستے سے نہ ہٹے تو فطرت خود ہی اس کی راہ نما بن جائے گی- فطرت سے ہٹنا آدمی کو تباہی کی طرف لے جاتا ہے، اور فطرت پر قائم رہنا آدمی کو کامیاب بناتا ہے-
مزید غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آدمی کی آزمائش اس بات میں ہے کہ وہ ہمیشہ صحیح انتخاب (right choice) کو لے، وہ اپنے آپ کو غلط انتخاب سے بچائے- صحیح انتخاب اور غلط انتخاب کا یہ معاملہ فکر سے بھی تعلق رکھتا ہے، اور عمل سے بھی-
فکرکے اعتبار سے صحیح انتخاب وہ ہے جس کا نمونہ آغازِحیات کے وقت فرشتوں نے اختیار کیا، اور غلط انتخاب وہ ہے جس کو ابلیس نے اپنا شیوہ بنایا- فرشتوں سے جب کہاگیا کہ انسان کے آگے جھک جاؤ تو وہ جھک گئے- اس کے برعکس، ابلیس اس پر راضی نہ ہوا- اس نے یہ اعتراض کیا کہ انسان کو خلیفة الارض کیوں بنایا گیا- یہ اعتراض سلیکٹو تھنکنگ (selective thinking) کی ایک مثال تھی- ابلیس جنوں کا سردار تھا- جن کو خدا نے اس سے زیادہ چیز دی تھی، یعنی خلافت کائنات- لیکن ابلیس نے اس پہلو کو نظر انداز کیا اور صرف یہ سوچا کہ انسان کو زمین کی خلافت کیوں دی گئی-
یہی برائی پوری تاریخ میں رائج ہے- انسانوں کی ننانوے فیصد سے زیادہ تعدادمنفی سوچ میں پڑی ہوئی ہے، یعنی انتخابی سوچ (selective thinking)- ملے ہوئے کو نظر انداز کرنا، اور نہ ملے ہوئے کو مسئلہ بنا کر اس کو اپنی سوچ کا محور بنانا-
اس معاملے میں مسلمانوں کا استثنا نہیں- موجودہ زمانے کے مسلمان ساری دنیا میں ہر قسم کے بہترین مواقع کو پائے ہوئے ہیں، جس طرح دوسرےلوگ ان کو پائے ہوئے ہیں- لیکن فطرت کے قانون کے تحت ایسا ہے کہ کوئی چیز ایسی بھی ہے جو مسلمانوں کو نہیں ملی- مسلمان یہ کررہے ہیں کہ اسی نہ ملے ہوئے کو اپنی سوچ کا مرکز ومحور بنائے ہوئے ہیں اور ملے ہوئے کو نظر انداز کررکھا ہے- اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ مسلمان ساری دنیا میں منفی سوچ کی دلدل میں پڑے ہوئے ہیں، اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ شکر سے محروم ہیں جو کسی انسان کی سب سے بڑی عبادت ہے-
مسلمانوں کی اس منفی سوچ کا سبب کیا ہے، وہ ہے 99 فی صد کو نظر انداز کرنا، اور ایک فی صد کو لے کر اپنی رائے بنانا- یہ نہایت برا طریقہ ہے- یہ اللہ کی سنت کے خلاف ہے- جو لوگ اس میں مبتلا ہوں، ان کو اس کی سب سے بڑی قیمت یہ دینی پڑے گی کہ ان کے اندر مثبت شخصیت نہ بنے — مثبت شخصیت سے محرومی کا مطلب ہے اللہ کی رحمت سے محرومی-
واپس اوپر جائیں

قرآن کا ایک پہلو

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ ساتویں صدی عیسوی کے نصف اول کا زمانہ تھا- تاریخ بتاتی ہے کہ رسول اور اصحابِ رسول کے ساتھ دو قسم کے واقعات پیش آئے- ایک یہ کہ مخالفین کی جارحیت (aggression) کی بنا پر قتال، اور دوسری چیز ہے مخالفین کی طرف سے مظالم کا ارتکاب- قرآن کا مطالعہ بتاتا ہے کہ قرآن میں قتال کے واقعات کا ذکر تو موجود ہے لیکن جہاں تک مخالفین کے مظالم کا تعلق ہے وہ تقریباً غیر مذکور واقعات (unreported events) بنے ہوئے ہیں- مظالم کے واقعات ہم کو تاریخ کی کتابوں سے معلوم ہوتے ہیں، قرآن سے نہیں-
اس فرق کا سبب یہ ہے کہ قرآن میں قتال کی آیتیں امت کے تاریخی کردار (historical role) کو بتانے کے لئے ہیں- وہ امت کے مستقل مشن (permanent mission) کو بتانے کے لئے نہیں ہیں- امت کا مستقل مشن پرامن دعوت الی اللہ ہے- قدیم عرب میں قتال کا واقعہ وقتی ضرورت کے تحت اس لئے پیش آیا کہ جبر کے دور (despotic rule) کو ختم کرکے دنیا میں آزادی کا دور لایا جائے تاکہ انسان کو جو کرنا ہے، اس کو وہ آزادانہ طور پر کرسکے- قرآن میں اس واقعے کو ختم فتنہ (2:193، 8:39) کے الفاظ میں بیان کیاگیا ہے-
قدیم عرب میں رسول اور اصحاب رسو ل کے ساتھ ظلم کے بڑے بڑے واقعات پیش آئے، مگر قرآن میں صراحتاً ان کا ذکر موجود نہیں- البتہ صبر یا اس کے ہم معنی الفاظ کی آیتیں قرآن میں کثرت سے موجود ہیں- اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ دوسروں کے مظالم پر شکایت اور احتجاج کیا جائے ، اس کے بجائے قرآن یہ چاہتا ہے کہ اہلِ اسلام اس قسم کی باتوں پر صبر وتحمل کا طریقہ اختیار کریں- صبر وتحمل کا طریقہ کوئی انفعالی (passive) طریقہ نہیں- صبر وتحمل ایک اعلی درجہ کی ایجابی صفت ہے- صبر وتحمل کا مطلب یہ ہے کہ اپنے آپ کو آخری حد تک منفی سوچ (negative thinking) سے بچانا، اپنی پوری توانائی (energy) کو تعمیری مقصد کے لئے صرف کرنا-
واپس اوپر جائیں

فطرت کا نظام

قرآن کی سورہ التوبہ میںایک واقعہ کے ریفرنس میں فطرت کا ایک قانون (9:36) بتایاگیا ہے- خالق کو یہ مطلوب ہےکہ یہ قانون تاریخ میں مسلسل طورپر قائم رہے، تاکہ تخلیق کا مقصد پورا ہونے میں کوئی رکاوٹ نہ پیدا ہو- چوں کہ انسان کو آزادی دی گئی ہے، اس لئے انسان اپنی آزادی کا غلط استعمال کرکے کبھی اس نظام میں خلل پیدا کردیتا ہے- اس وقت انسانی آزادی کو برقرار رکھتے  ہوئے اللہ مداخلت کرکے اس رکاوٹ کو درست کرتا ہے، تاکہ فطرت کا نظام اپنے مطلوب تخلیقی نقشے پر چلتا رہے-
اس معاملے کی ایک جزئی مثال قدیم عرب میںنَسی (intercalation) کا واقعہ ہے- تخلیقی نظام کے مطابق قمری کیلنڈر (Lunar calendar)اور شمسی کیلنڈر (Solar calendar) کے درمیان ایک سال میں تقریباً گیارہ دن کا فرق ہوتا ہے- قدیم زمانے میں عربوں نے نَسی کا طریقہ اختیار کیا- وہ خود ساختہ طورپر ہر سال ایسا کرتے تھے کہ قمری کیلنڈر کے دنوں میں اضافہ کرکے اس کو شمسی کیلنڈر کے مطابق کرلیتے تھے-
یہ طریقہ تخلیقی نظام میں مداخلت کی حیثیت رکھتا تھا- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب میں جو اصلاحات کیں، ان میں سے ایک یہ تھی کہ آپ نے فتح مکہ (8 ھ) کے بعد ایک حکم کے تحت اس طریقے کو ختم کردیا، اور قمری کیلنڈر کو اس کے فطری نقشے پر قائم کردیا- حوالہ کے لئے ملاحظہ ہو ، خطبۂ حجة الوداع، صحیح البخاری: 3197، صحیح مسلم: 1679-
اس طرح کے اصلاحی معاملہ کی زیادہ بڑی مثال وہ ہے جس کا ذکر قرآن کی سورہ الانفال میں ان الفاظ میں آیا ہے:وَقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَةٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ (8:39) یعنی اور ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین سب اللہ کے لئے ہوجائے-
قرآن کی اِس آیت میں فتنہ سے مراد مذہبی تشدد (religious persecution) ہے- قدیم زمانے میں ساری دنیا میں مذہبی انتہا پسندی (religious extremism) کا طریقہ رائج تھا- مزید یہ کہ اس مذہبی انتہا پسندی کو پولیٹی سائز (politicize)کرکے، اس کے حق میں وقت کے حکمرانوں کی حمایت بھی حاصل کرلی گئی تھی، اس کے نتیجے میں مذہبی انتہا پسندی نے عملاً مذہبی تشدد (religious persecution) کی صورت اختیار کرلی تھی- یہ صورت حال خدا کے قائم کردہ تخلیقی نقشے کے خلاف تھی- اللہ کو یہ مطلوب تھا کہ مذہب کے معاملے میں تشدد کا طریقہ ختم ہو، اس کے بجائے پورے معنوں میں مذہبی آزادی (religious freedom) کا طریقہ رائج ہوجائے- تاکہ ہر شخص آزادانہ طورپر اپنے عقیدہ کے مطابق عمل کرسکے-
مذہبی جبر کے خاتمہ کا یہ عمل رسول اور اصحاب رسول کے زمانے میں شروع ہوا- تدریجی عمل (gradual process) کے تحت وہ تاریخ میں سفر کرتا رہا- مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے یہ عمل یورپ (Europe) میں پہنچا- اہل یوروپ نے اس میں مزید اضافے کئے- یہاں تک کہ مذہبی آزادی کا مطلوب نظام اپنی آخری صورت میں قائم ہوگیا- دنیا میں مذہبی آزادی کا دور لانے کے معاملے میں اہلِ یوروپ کارول تکمیلی رول کی حیثیت رکھتا ہے-
موجودہ زمانے کے مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ تاریخ کے اس واقعے کو سمجھیں، وہ اہلِ مغرب کے خلاف اپنے منفی ذہن (negative thinking)کو مکمل طورپر ختم کردیں، اس معاملے میں وہ اہلِ مغرب کے کنٹری بیوشن کا اعتراف کریں، وہ اہلِ مغرب سے رقابت کا تعلق ختم کردیں، اور اس کے بجائے دوستی کا طریقہ اختیار کریں، وہ اس معاملے میں اہلِ مغرب کو اپنا محسن سمجھیں- مسلمانوں کے درمیان جب اس قسم کا مثبت ذہن پیدا ہوگا تو اس کے بعد یہ ہوگا کہ مسلمانوں کے اندر سے منفی ذہن کا مکمل خاتمہ ہوجائے گا، اور دعوت الی اللہ کا فریضہ بخوبی طورپر انجام پانے لگے گا-
مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنی قومی شکایتوں کو مکمل طورپر ختم کردیں- اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوگا کہ مسلمان خدا کے قائم کردہ فطری نظام کو سمجھیں، اور پیدا شدہ مواقع کو استعمال کریں-
واپس اوپر جائیں

عملِ مزید، جنتِ مزید

قرآن کی سورہ نمبر 50 میں جنت کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے: لَہُمْ مَا یَشَاءُونَ فِیہَا وَلَدَیْنَا مَزِیدٌ ( 50:35) یعنی وہاں ان کے لئے وہ سب ہوگا جو وہ چاہیں، اور ہمارے پاس مزید ہے۔ قرآن کی ایک اور آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت کسی انسان کو اس کے عمل کے بقدر ملے گی(53:39)۔ مزید غور کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عمل کی دو قسمیں ہیں، عمل عام اور عمل خاص۔ قانونِ الٰہی کے مطابق عمل عام پر جنت عام ہے، اور عمل خاص پر جنت خاص۔
عمل عام یہ ہے کہ آدمی ان معلوم احکام پر عمل کرے جو بظاہر قرآن و سنت میں لفظوں کی صورت میںبتا دیئے گئے ہیں۔ مثلا ایک حدیث کے مطابق، پانچ بنیادی احکام پر عمل کرنا(البخاری: 8)۔ جو آدمی اخلاصِ نیت کے ساتھ ان متعین احکام پر عمل کرے، اس کے لئے جنت ہے۔ یہ وہ جنت ہے، جس کے لئے ہم نے جنت عام کا لفظ استعمال کیا ہے۔
جنت خاص ان لوگوں کے لئے ہے، جو موجودہ دنیا میں عمل خاص کا ثبوت دیں۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ عمل خاص سے مراد وہ عمل ہے، جو اعلیٰ معرفت کا نتیجہ ہو،جو اعلیٰ معرفت کے تحت کسی انسان سے صادر ہو۔جنت دراصل معرفت کی قیمت ہے۔ عام معرفت پر عام جنت، اور خاص معرفت پر خاص جنت۔
اعلیٰ درجے کے عارفین وہ ہیں جو تدبر کے ذریعے اپنے اندر تخلیقی سوچ (creative thinking) پیدا کریں، جو تفکر کے ذریعے کائنات میںچھپی ہوئی آیاتِ الٰہیہ کو دریافت کریں، جو توسم کے ذریعے زندگی کے ہر تجربے کو اللہ کی معرفت میں ڈھال لیں، جو دعوت الی اللہ کو اس طرح دریافت کریں جو ان کو یک طرفہ طور پر ہر انسان کا خیر خواہ بنادے،جوتقویٰ کے اس درجے پر پہنچ جائیں جب کہ منفی واقعات کو بھی وہ مثبت واقعات میں تبدیل کر لیں۔یہی معرفتِ مزید ہے، اور معرفتِ مزید ہی کسی کو جنت مزید کا مستحق بنائے گی۔
عملِ مزید کیا ہے، اس کی وضاحت ایک حدیث سے ہوتی ہے۔حدیث کی کتابوں میں ایک روایت ان الفاظ میں آئی ہے: عن أنس بن مالک، قال: کان عبد اللہ بن رواحة إذا لقی الرجل من أصحابہ، یقول: تعال نؤمن بربنا ساعة، فقال ذات یوم لرجل، فغضب الرجل، فجاء إلى النبی صلى اللہ علیہ وسلم، فقال: یا رسول اللہ، ألا ترى إلى ابن رواحة یرغب عن إیمانک إلى إیمان ساعة؟ فقال النبی صلى اللہ علیہ وسلم: یرحم اللہ ابن رواحة، إنہ یحب المجالس التی تتباہى بہا الملائکۃ (مسند احمد: 13796)۔یعنی انس بن مالک کہتے ہیں کہ عبداللہ ابن رواحہ کا طریقہ یہ تھا کہ کسی آدمی سے ان کی ملاقات ہوتی تو وہ کہتے؛ آؤ، ہم اپنے رب پر ایک ساعت کے لئے ایمان لائیں، انھوں نے ایک دن یہی بات ایک آدمی سے کہی۔ وہ آدمی یہ سن کر غضب ناک ہوگیا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اس نے کہا اے اللہ کے رسول، کیا آپ نے ابن رواحہ کو نہیں دیکھاوہ آپ پر ایمان کے بعد ایک ساعت کے ایمان کی ترغیب دیتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہاکہ ابن رواحہ پر اللہ رحم کرے ، وہ ایسی مجلسوں کو محبوب رکھتے ہیں جس پر فرشتے رشک کرتے ہیں۔
یہ واقعہ تقابلی انداز میں بتاتا ہے کہ عمل عام کیا ہے اور عمل مزید کیا ہے۔عمل عام یہ ہے کہ آدمی روٹین (routine) کے درجے میں معلوم احکام پر عمل کرے۔ مثلا روزانہ پانچ وقت کی نماز پڑھنا، اور سال میں ایک مہینہ کا روزہ رکھنا۔ اخلاص کے ساتھ اپنی زندگی میں ان معلوم احکام کی پابندی کرتے رہنا۔ایسا شخص بھی بشرطِ نیت آخرت کی جنت میں جگہ پائے گا، مگر یہ جنت اس کے لئے جنتِ عام ہوگی۔
اس کے مقابلے میں دوسرا انسان وہ ہے جو اللہ کی کتاب اور اللہ کی آیات(signs of God in nature) میں غور کرے، وہ تدبر اور تفکر کے ذریعے معرفت خداوندی کے نئے نئے پہلو دریافت کرے، وہ اپنے سادہ ایمان کو تخلیقی ایمان (creative faith) بنائے، وہ اپنے آپ کو خود دریافت کردہ سچائی (self-discovered truth) پر کھڑا کرے۔ ایسا شخص گویا اپنی کوشش سے عمل مزید کر رہا ہے۔اللہ تعالی ایسے انسان کے عمل مزید کی قدر دانی اس طرح فرمائے گا کہ اس کو جنت مزید (additional Paradise) یا خصوصی جنت میں داخلہ عطا کرےگا۔
واپس اوپر جائیں

تجدید ِ دین

ایک حدیث رسول مختلف کتابوں میں آئی ہے- ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں:إنَّ اللہَ یبعثُ لہذہ الأمةِ على رأسِ کلِّ مائةِ سنةٍ من یُجدِّدُ لہا دینَہا (سنن أبی داؤد، رقم الحدیث: 4291 ) یعنی بے شک اللہ تعالی ہر صدی کے سرے پر اس امت کے لئے ایک شخص کو اٹھائے گا جو اس کے لئے اس کے دین کی تجدید کرے گا-
جدّد کا لفظی مطلب نیا کرنا (to renew) ہے- حدیث کے الفاظ کے مطابق نیا کرنے کا یہ عمل دین کی نسبت سے نہیں ہوتا بلکہ امت کی نسبت سے ہوتا ہے، اس کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ پرانے دین کی جگہ نیا دین لایا جائے- تجدید کا مقصد صرف یہ ہے کہ امت جو کہ عقیدہ کے اعتبار سے بظاہر دین کو مان رہی ہے، مگر حقیقی عمل کے اعتبار سے اس کے اندر کمی واقع ہوگئی ہے- اس وقت اس کے لئے نئی توانائی (revitalization)کی کوشش کی جائے- یہ ایک ایسی ضرورت ہے جو ہر امت میں اس کی بعد کی نسلوں کے لئے پیش آتی ہے-
دین کی بنیاد متن (text) پر ہے- متن ہمیشہ ایک ہی رہتاہے- اس لئے متن میں کسی نئے عمل کی ضرورت نہیں- مگر امت کی بعد کی نسلیں ایک بدلے ہوئے زمانے میں پیدا ہوتی ہیں- اب ضرورت ہوتی ہے کہ اصل دین کی تبیین (interpretation) اس طرح کی جائے جو بعد کے لوگوں کے ذہن کو ایڈریس کرسکے- دوسرے الفاظ میں تجدید دین کا مطلب دین کی نئی تطبیق (reapplication) ہے- اس کا مقصد یہ ہے کہ دین کو بعد کے لوگوں کے لئے از سر نو قابل فہم (understandable) بنایا جائے- مثلاً بعد کے لوگ معرفت اور دعوت کے الفاظ بولیں گے- لیکن معرفت اور دعوت ان کی شعوری دریافت نہ ہوگی- اس لئے ان کی لغت میں معرفت اور دعوت کے الفاظ تو ہوں گے لیکن ان کی حقیقی زندگی اس سے خالی ہوگی- تجدید یہ ہے کہ اِن الفاظ کو ان کے لئے دوبارہ شعوری دریافت بنایا جائے- تجدید کا تعلق تطبیق ِ نو سے ہے، نہ کہ دین ِ نو سے-
واپس اوپر جائیں

تکرار کا مسئلہ

قرآن میں ابلیس اور آدم کا قصہ سات بار بیان ہوا ہے- یہ تکرار (repetition) نہیں ہے- یہ اسلوبِ کلام کا معاملہ ہے، نہ کہ تکرارِ قصہ کا معاملہ-
غور کیجئے تو قرآن کے مذکورہ ساتوں مقام پر بظاہر آدم اور ابلیس کے قصے کی تکرار ہے، لیکن ہر جگہ سبق (lesson) الگ الگ نکالا گیا ہے- اس بنا پر اس کو تکرار نہیں کہا جائے گا، بلکہ یہ کہا جائے گا کہ قرآن نے ایک قصے کے حوالے سے سات مختلف اسباق کی طرف اشارہ کیا ہے-
اس معاملے کی حقیقت یہ ہےکہ حوالہ (reference) کی تعدادمحدود ہوتی ہے، لیکن پہلو میں تنوع (diversity) کی بنا پر اس میں اسباق کی تعداد ہمیشہ بہت زیادہ ہوجاتی ہے- جہاں تک قابل حوالہ قصے کی بات ہے،وہ ایک معلومات کا مسئلہ ہے- مطالعے کے ذریعہ ہر آدمی یہ معلومات حاصل کرسکتا ہے- لیکن کسی ایک قصے سے متعدد سبق نکالنے کے لئے ضروری ہے کہ آدمی کے اندر تخلیقی فکر (creative thinking) پائی جائے-
قرآن میں بار بار یہ کہاگیا ہے کہ تدبر کرو، تفکر کرو، توسم کرو، وغیرہ- کسی واقعے کے معلوماتی پہلو کو جاننے کے لئے تدبر اور تفکر کی ضرورت نہیں ہوتی- تدبر اور تفکر کا مقصد یہ ہے کہ واقعے کے متعدد پہلوؤں کا علم حاصل کیا جائے، واقعے کے اندر چھپے ہوئے مختلف اسباق (lessons)کو دریافت کیا جائے-
اسی دریافت (discovery) کے ذریعے ایک انسان تخلیقی انسان بنتا ہے،اسی دریافت کے ذریعے وہ ترقی پذیر شخصیت تیار ہوتی ہے، جس کا آغاز زمین سے ہوتا ہے، لیکن اپنے پھیلاؤ کے اعتبار سے وہ آسمان تک پہنچ جاتی ہے- یہی وہ حقیقت ہے جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: کَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ اَصْلُہَا ثَابِتٌ وَّفَرْعُہَا فِی السَّمَاۗءِ (14:24)یعنی وہ ایک پاکیزہ درخت کی مانند ہے، جس کی جڑ زمین میں جمی ہوئی ہے اور جس کی شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں ۔
واپس اوپر جائیں

قبولِ قیادت کا فقدان

اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں میں قیادت کا فقدان ہے- مگر یہ بات درست نہیں- موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں جس چیز کی کمی ہے، وہ فقدانِ قیادت نہیں ہے، بلکہ فقدانِ قبولیتِ قیادت ہے- یعنی مسلمانوں کے اندر خود فطری قانون کے مطابق، قیادت موجود ہے، مگر قیادت کو ماننے کا مزاج ان کے اندر موجود نہیں-اس معاملے پر غور کیجئے تو اُس کی جڑ یہ معلوم ہوتی ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمان بعض اسباب سے، نہایت جذباتی ہوگئے ہیں- ایسے لوگوں کے درمیان صرف اُس قیادت کو مقبولیت حاصل ہوتی ہے جو ہائی پروفائل (high profile) میں بولے، لو پروفائل (low profile) میں بولنے والے شخص کو اُن کے درمیان مقبولیت حاصل نہیں ہوتی- اور تاریخ کا یہ تجربہ ہے کہ ہائی پروفائل میں بولنے والا شخص صرف اپنی قوم کی تباہی میں اضافہ کرتاہے-
امت کا یہ مزاج زوال کی بنا پر پیداہوا ہے- اس مزاج کی اصلاح صرف گہری منصوبہ بندی کے ذریعہ ممکن ہے- اس گہری منصوبہ بندی کا پہلا جز یہ ہے کہ امت کی اصلاح کا آغاز ہرگز اقدام سے نہ کیا جائے، بلکہ ذہنی تیاری سے کیا جائے- موجودہ زمانے میں اصلاح امت کے نام سے بہت سی تحریکیں اٹھیں، مگر وہ سب کی سب ناکام ہوگئیں- اس کا سبب یہ ہے کہ ان تحریکوں نے اپنے کام کا آغاز اقدام سے کیا- اس قسم کا آغاز گھوڑے کے آگے گاڑی باندھنا (putting the cart before the horse)کا مصداق ہے- صحیح طریقہ یہ ہے کہ پہلے امت کے افراد میں تعمیری شعور پیدا کیا جائے- یہ کام صرف خاموش جدوجہد کے ذریعہ ممکن ہے- شور وغل اور جلسہ جلوس کا طریقہ کبھی تعمیرشعور کے لئے مفید نہیں ہوسکتا-امت کی اصلاح کا کام جتنا زیادہ ضروری ہے، اتنا ہی ضروری یہ بات بھی ہے کہ اس اصلاح کے لئے صحیح طریقہ اختیار کیاجائے۔ اصلاح کا غیر فطری طریقہ صرف وقت اور طاقت کے ضیاع کے ہم معنی ہے- ایسا کرنے سے اصلاح امت کے کام میں صرف تاخیر ہوگی، اس کے ذریعہ مطلوب اصلاح ہونے والی نہیں- یہ فطرت کا قانون ہے اور فطرت کے قانون میں کبھی تبدیلی نہیں ہوتی-
واپس اوپر جائیں

خدا کی زبان

شیخ سعدی شیرازی (وفات: 1291ء)ایک فارسی شاعر تھے- انھوں نے اپنی کتاب گلستان میں اپنا ایک واقعہ لکھا ہے- ایک بار وہ ایک سفر میں تھے- اس دوران ان کی ملاقات ایک شخص سے ہوئی- انھوں نے اس سے بات کرنا چاہا تو بات نہ ہوسکی- کیونکہ وہ ترکی کارہنے والا تھا- وہ ترکی کے سوا کوئی اور زبان نہیں جانتا تھا- اس واقعہ کو نقل کرتے ہوئے انھوں نے اپنی کتاب میں یہ شعر لکھا ہے:
زبانِ یار من ترکی ومن ترکی نمی دانم
The language of my friend is Turkish and I don’t know Turkish.
موجودہ زمانہ میں کچھ اسی قسم کا معاملہ انسان اور قرآن کے درمیان ہوا ہے- انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے متلاشیٔ حق (seeker of Truth) ہے- وہ اپنے خالق کو دریافت کرنا چاہتا ہے مگر اس کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے خالق کی محفوظ کتاب عربی زبان میں ہے مگر میں عربی زبان نہیں جانتا:
The language of the divine book is Arabic and I don’t know Arabic.
اس صورتِ حال کا تقاضا ہے کہ دنیا کی ہر زبان میں قرآن کا ایسا ترجمہ کیا جائے جو بآسانی قابل فہم (easily understandable) ہو اور پھر اس کو تمام قوموں تک پہنچایا جائے-اس کام کی اہمیت کی بنا پر اس کو ترجیحی بنیاد (priority basis)پر کیا جاناچاہئے- موجودہ زمانے میں امتِ مسلمہ کی یہ سب سے پہلی ذمہ داری ہے- کوئی بھی دوسرا کام اس کا بدل (alternative) نہیں بن سکتا-
ظالم کے خلاف جہاد، حکومت اسلامی کے ہنگامے، ملی کام (community work)، اسلامی قانون کا نفاذ جیسے کام جن میں موجودہ زمانہ کے مسلمان مشغول ہیں وہ سب کے سب اصل فریضہ کی نسبت سے غیر متعلق (irrelevant) ہیں-
واپس اوپر جائیں

انتقامی جنگ

فلسطین میں لمبی مدت سے عرب - اسرائیل جنگ ہورہی ہے- اِس دوران جو واقعات میڈیا میں آئے ہیں، ان میں سے ایک واقعہ انگلش میڈیا میں ان الفاظ میں رپورٹ کیاگیاہے کہ ایک فلسطینی نوجوان عبد الرحمن نے روتے ہوئے کہا کہ مجھے تو اپنے باپ کا انتقام لینا ہے:
Twelve year old Abdul Rahman Al-Batish hasn’t stopped crying since he lost his father in the bombing of an apartment (in Gaza). “They are killers, and one day I will avenge my father”. ITV’s Middle East Correspondent reports him as saying.
انتقامی وار ہمیشہ چین وار(chain war) ہوتی ہے- اس قسم کی جنگ کبھی دوطرفہ بنیاد پر ختم نہیں ہوسکتی- اُس کو ختم کرنے کا طریقہ صرف یہ ہے کہ اُس کو یک طرفہ بنیاد (unilateral basis) پر ختم کردیا جائے-
یہ اصول قرآن کی ایک آیت میں اِس طرح بیان کیا گیاہے: وَکُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَکُمْ مِّنْھَا (3:103) یعنی اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے کھڑے تھے تو اللہ نے تم کو اُس آگ سے بچا لیا-
قرآن کی اِس آیت میں قدیم عرب کے اُس قبائلی کلچر کا ذکر ہے جو انتقامی جنگ پر کھڑا ہوا تھا اور اُس کے نتیجہ میں ان کے درمیان چین وار(chain war) کی صورت حال قائم تھی- قرآن نے اِس سے نجات کا یہ فارمولابتایا کہ تم اللہ کے لئے یک طرفہ بنیاد پر اپنا تشدد ختم کردو- اِس کے بعد اپنے آپ فریقِ ثانی کا تشدد ختم ہوجائے گا، اور امن کی صورت حال قائم ہوجائے گی- ختمِ جنگ اور قیامِ امن کے لیے پہلے بھی یہی واحد قابلِ عمل فارمولا تھا، اور اب بھی اس مقصد کے لیے یہی واحد قابل عمل فارمولاہے-
واپس اوپر جائیں

اسلام کا اقدام، دعوت

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مدنی دور میںشوال سنہ 5ھ میں احزاب کا واقعہ پیش آیا- اس موقع پر قریش کے سردار بارہ ہزا رکا لشکر لے کر آئے تھے کہ مدینہ پر حملہ کریں- مگر وہاں ایسے حالات پیش آئے کہ جنگ نہ ہوسکی اور قریش کا لشکر جنگ کے بغیر واپس چلا گیا- اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے ایک تاریخی بات کہی ،وہ یہ کہ: الآن نغزوہم ولا یغزوننا، ونحن نسیر الیھم (صحیح البخاری: 4110) یعنی اب ہم ان سے غزوہ کریں گے، وہ ہم سے غزوہ نہیں کریں گے، اور ہم ان کی طرف جائیں گے-
اس حدیث میں غزوہ سے مراد جنگ نہیں ہے، بلکہ اقدام ہے جیساکہ نَسیرُ کے لفظ سے واضح ہوتا ہے- اِس کا مطلب یہ ہےکہ اب حالات میں ایسی تبدیلی آچکی ہے کہ اقدام فریق ثانی کی طرف سے نہیں ہوگا، بلکہ اب اقدام ہماری طرف سے ہوگا- جیساکہ تاریخی طورپر معلوم ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احزاب کے بعد کوئی جنگ کا منصوبہ نہیں بنایا، بلکہ صرف پرامن دعوت کا منصوبہ بنایا- اِس لیے یہاں اقدام سے مراد دعوتی اقدام ہے، نہ کہ جنگی اقدام-
یہی اسلام کا ابدی اصول ہے- اسلام کا اقدامی عمل صرف دعوت ہے- اسلام کے تمام مقاصد صرف دعوت کے ذریعہ حاصل ہوتے ہیں- اسلام میں اگر جنگ پیش آتی ہے تو وہ صرف ناگزیر دفاع کے موقع پر استثنائی طور پر پیش آتی ہے- اسلام میں اس کی ہرگز اجازت نہیں ہے کہ اہلِ ایمان اپنی طرف سے کوئی جارحانہ جنگ شروع کردیں-
اسلام کا اصل نشانہ دعوت إلی اللہ ہے، اور دعوت إلی اللہ کا کام صرف پرامن طریقہ کار اور معتدل ماحول کے اندر انجام دیاجاسکتاہے- اسلام کا نشانہ افراد کے ذہن کو بدلنا ہے- اسلام کا یہ نشانہ نہیں ہے کہ لڑ کر حکومت پر قبضہ کیاجائے- اسلام کا نشانہ لوگوں کو جنت تک پہنچانا ہے، نہ کہ کچھ اور-
واپس اوپر جائیں

دورِ جاہلیت یا دورِ اسلام

محمد قطب (برادر سید قطب) مصر کے مشہور ادیب تھے- 4 اپریل 2014 کو ان کی وفات ہوئی، جب کہ ان کی عمر 95 سال تھی-ان کی ایک مشہور کتاب کا ٹائٹل یہ ہے: الجاہلیة فی القرن العشرین (جاہلیت بیسویں صدی میں)- مصنف نے اس کتاب میں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ مغربی تہذیب، بیسویں صدی کی جاہلیت ہے- یہ کتاب علمی اسلوب میں نہیں، بلکہ ادبی اسلوب میں ہے-
یہ کتاب علامتی طورپر بتاتی ہے کہ موجودہ زمانے میں تمام دنیا کے مسلم اہل علم کا نقطہ نظر مغربی تہذیب کے بارے میں کیا ہے- بلا استثنا تمام مسلمان، عرب بھی اور نان عرب بھی مغربی تہذیب کے بارے میں منفی رائے رکھتے ہیں- وہ اس کو نہ صرف مادی تہذیب بلکہ مسلم دشمن تہذیب سمجھتے ہیں- مغربی تہذیب کے بارے میں یہ منفی تصور سرتا سر غلط فہمی پر مبنی ہے- یہ اسی طرح بے بنیاد ہے، جس طرح بہت سے سیکولر اہل علم یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام ایک تشدد پسند مذہب ہے- حالانکہ اصل حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے-
اصل یہ ہے کہ مغربی تہذیب ایک موافق اسلام تہذیب ہے- یہ اسی تائید ِ دین کا عملی ظہور ہے جس کی پیشین گوئی خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی (ملاحظہ ہو، صحیح البخاری، رقم الحدیث: 3062)
موجودہ زمانے میں ضرورت تھی کہ مسلم اہلِ علم ایسی کتاب لکھیں، جس کا ٹائٹل ہو: الاسلام فی القرن العشرین - لیکن برعکس طورپر وہ ایسی کتابیں لکھ رہے ہیں جن کا ٹائٹل الجاہلیة فی القرن العشرین یا اس کے ہم معنی ہوتا ہے- دور جدید سے مسلم اہل علم کی یہی بے خبری موجودہ زمانے میں مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے- آج کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ مسلمانوں کو دورِ جدید کے بارے میں حدیث کے الفاظ میں بصیر زمانہ (صحیح ابن حبان، رقم الحدیث: 361) بنایا جائے-
واپس اوپر جائیں

ایک خطرناک صفت

انسان کو استثنائی طورپر یہ صفت دی گئی ہے کہ اس کو ہر چیز میں ایک لذت (taste) کا احساس ہوتا ہے- اس لذت کو ابتدائی درجے میں رکھا جائے تو فطرت کے عین مطابق ہوگا، اور اگر اس لذت کو لامحدود بنادیا جائے تو اس سے ہر قسم کی برائیاں وجود میں آئیں گی-
اِس معاملے کی حقیقت یہ ہے کہ کوئی چیز جب آدمی کی زندگی میں داخل ہوتی ہے تو ابتداء ًا وہ صرف لذت (taste) کے درجے میں ہوتی ہے- دھیرے دھیرے وہ عادت (habit)کی صورت اختیار کرتی ہے- پھر مزید ترقی کرکے وہ اڈکشن (addiction) بن جاتی ہے- اس کے بعد جو اگلا مرحلہ آتا ہے، وہ ہے پوائنٹ آف نو ریٹرن (point of no return) - جب یہ آخری مرحلہ آجائے تو آدمی کی اصلاح عملاً ناممکن ہوجاتی ہے-
اسی حقیقت کو قرآن میں توبۂ قریب ( 4:17) سے تعبیر کیاگیا ہے- انسان کو چاہئے کہ جب اس سے کوئی خطا سرزد ہوتو وہ بلا تاخیر توبہ قریب (speedy repentance) کا طریقہ اختیار کرے، وہ فوراً اپنا محاسبہ کرے، اپنے آپ کو بدلے، اپنی غلطی کا کھلا اعتراف کرتے ہوئے اپنی زندگی کی تعمیر نو کرے-
غلطی کرنے کے بعد آدمی کو چاہئے کہ وہ کل کا انتظار نہ کرے، بلکہ وہ آج ہی پہلی فرصت میں اس کی تلافی کرے- فطرت کے قانون کے مطابق یہی طریقہ صحیح طریقہ ہے-
آدمی کو کبھی بھی توبۂ بعید کا انتظار نہیں کرنا چاہئے، اس لئے کہ غلطی کے پیچھے ہمیشہ کوئی لذت شامل رہتی ہے، مادی لذت یا ذہنی لذت- اگر آدمی غلطی کے بعد فوراً اس کی اصلاح نہ کرے تو اس کے بعد اس کے اندر اِس لذت پسندی کی بناپر ایک نفسیاتی عمل شروع ہوجائے گا- لذت دھیرے دھیرے عادت بنےگی، اس کے بعد وہ اڈکشن (addiction)بن جائے گی، اور پھر وہ وقت آجائے گا، جب کہ آدمی کے لئے ابتدائی حالت کی طرف واپسی ناممکن ہوجائے-
واپس اوپر جائیں

تخلیقیت کے دو درجے

تخلیقیت (creativity) ذہنی ارتقا کا ایک درجہ ہے- تخلیقیت کسی انسان کی اعلیٰ ترین صفت ہے- تخلیقیت کا مطلب ہے گہرے غوروفکر کے ذریعہ کوئی نئی بات دریافت کرنا:
To discover a new idea after deep thinking
تخلیقیت کے دو درجے ہیں- ایک خاص، اور دوسرا عام- تخلیقیت کا پہلا درجہ ہے خود سے کوئی نئی بات دریافت کرنا-تخلیقیت کا دوسرا درجہ ہے کوئی چیز سن کر یا پڑھ کر اس میں نیا پہلو دریافت کرنا- ان دونوں درجوں کو درج ذیل الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے:
(1) Creativity of the first order
(2) Creativity of the second order
اس معاملہ کی ایک مثال یہ ہے کہ آپ نے قرآن میں یہ آیت پڑھی: وَاَیَّدْنٰہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ (2:87) اس آیت پر غور کرکے آپ نے یہ دریافت کیا کہ روح القدس کا معاملہ محدود معنوں میں فضیلت ِ انسان کا معاملہ نہیں ہے بلکہ وسیع تر معنوں میں وہ رحمت خداوندی کا معاملہ ہے- اور رحمت خداوندی ہمیشہ عام ہوتی ہے- جب کوئی شخص اپنے آپ کو اللہ کے لئے وقف کرے اور اس راہ میں کامل عجز کا ثبوت دے تو وہ اس خصوصی تائید الٰہی کا مستحق بن جاتا ہے، جس کو قرآن میں روح القدس کہا گیا ہے- یہ تخلیقیت کا اعلی درجہ ہے-تخلیقیت کا ثانوی درجہ یہ ہے کہ آپ نے ایسی ایک تحریر کو پڑھا اور اس پر کھلے ذہن کے ساتھ غور کیا اور پھر آپ نے اپنی طرف سے اضافہ کرتے ہوئے اس تحریر کوزیادہ گہرائی کے ساتھ سمجھا- مثلاً آپ نے عجز کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ عجز (helplessness) کا عمل (function) یہ ہے کہ وہ آدمی کی داخلی روح(inner soul) کو آخری حد تک بیدار کردیتاہے- اس وقت آدمی کی زبان سے ایسے خصوصی کلمات نکلتے ہیں جو خدا کی رحمت کو انووک (invoke)کرنے والے ہوں- یہ عبدیت کا اعلیٰ ترین درجہ ہے، اور یہی وہ چیز ہے جو کسی بندۂ خاص کو روح القدس کا مستحق بناتی ہے-
واپس اوپر جائیں

قرآن، سنت، اجتہاد

دینِ اسلام کی بنیاد تین چیزوں پر ہے— قرآن، سنت، اجتہاد- ان تینوں مآخذ کو دوسرے  الفاظ میں اِس طرح بیان کیا جاسکتا ہے— نظریہ، تطبیق، تطبیقِ نو:
Ideology, application, reapplication
قرآن میں دین کے فکری یا نظریاتی پہلو کو بیان کیاگیا ہے- سنت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس اسلامی فکر کو کس طرح اپنی عملی زندگی میں اختیار کیا- اجتہاد اُس سنجیدہ کوشش کا نام ہے جب کہ ایک صاحبِ ایمان اِس دین کو نئے حالات کی نسبت سے دوبارہ دریافت کرے، اور اُس کا حقیقی پیرو بن جائے-
اجتہاد، اسلام کی ایک مستقل ضرورت ہے- اسلام کی تعلیمات اپنی نوعیت کے اعتبار سے ابدی ہیں، لیکن انسان کے حالات ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں- حالات کے بدلنے سے حکم نہیں بدلتا بلکہ حکم کی تطبیق کے طریقے بدل جاتے ہیں- یہ زندگی کی ایک ایسی ضرورت ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتی، اِس بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی صحابہ نے اجتہاد کیا، اور بعد کے زمانے میں بھی یہ اجتہاد جاری رہے گا-
موجودہ زمانے میں ایک قابل اجتہاد بات یہ ہے کہ قدیم اور جدید کے فرق کو سمجھا جائے اور اس فرق کے اعتبار سے دینی حکم کی تطبیق تلاش کی جائے- مثلاً قرآن کی اشاعت ایک ابدی حکم ہے، اور قرآن ہی دعوت اسلام کا سب سے بڑا ذریعہ ہے- پرنٹنگ پریس سے پہلے قرآن کی اشاعت کا کام اِس طرح کیا جاتا تھا کہ صحابہ قرآن کے مقری (پڑھ کر سنانے والا) بنے ہوئے تھے- اب پرنٹنگ پریس کے زمانے میں اہلِ ایمان کو یہ کرنا ہے کہ وہ قرآن کے ڈسٹری بیوٹر بن جائیں، یعنی مطبوعہ نسخوں کو پھیلانے والے- اِس مثال سے اجتہاد کی دوسری صورتوں کو سمجھا جاسکتا ہے-اجتہاد یا تطبیق نو کا کوئی لگا بندھا اصول نہیں- اجتہاد کے لئے بیک وقت دو صلاحیتیں درکار ہیں، اصل دین اور حالاتِ زمانہ، دونوں سے گہری واقفیت-
واپس اوپر جائیں

اصلاح امت

قال مالک: کان وہب بن کَیسان یقعد إلینا- ثم لا یقوم أبدا حتى یقول لنا إنہ لا یُصلح آخر ہذہ الأمة إلا ما أصلح اوَّلَہَا، قلت لہ یرید ماذا؟ قال یرید التُّقَى (مسند المؤطا للجوہری: 783) یعنی مالک ابن انس (وفات: 179ھ) نے کہا کہ وہب ابن کیسان تابعی (وفات: 127ھ) جب بھی ہمارے پاس آتے تو ہم سے وہ ہمیشہ یہ کہتے اس امت کے آخری حصہ کو وہی چیز درست کرے گی جس نے ا س کے پہلے حصہ کو درست کیا- میں (راوی) نے پوچھا کہ اس سے ان کی مراد کیا ہوتی تھی-انھوں نے کہا کہ ان کی مراد ہوتی تھی :تقوی-
تقوی کا لفظ اسپرٹ (spirit) کو بتاتا ہے- اس روایت میں اگر چہ بظاہر اصلاح امت کا حوالہ ہے، لیکن اس سے مراد مصلح (پیغمبر) کے طریقہ کو بتانا ہے- اس کا مطلب یہ ہے کہ مصلح اول کے جس طریقہ سے امت اصلاح یافتہ ہوئی تھی، بعد کے مصلحین کو بھی یہی کرنا ہے کہ اسی طریقہ کے مطابق امت کو اصلاح یافتہ بنائیں- مصلح اول کا یہ طریقہ آپ کی تاریخ سے معلوم ہوتاہے-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اس امت کے مصلح اول تھے- آپ کو مکہ میں حکومت کا عہدہ پیش کیا گیا تو آپ نے کہا میرا مقصد تمھارے اوپر حکومت کرنا نہیں ہے- اس سے معلوم ہوا کہ دعوت واصلاح کا کام غیر سیاسی (non-political)انداز میں ہونا چاہئے- قدیم مکہ میں کعبہ کے اندر 360 بت رکھے ہوئے تھے- مگر آپ نے اپنی تحریک کا آغاز تطہیر کعبہ سے نہیں کیا، بلکہ تطہیر ذہن سے کیا- مکہ میں جب مخالفت زیادہ بڑھی تو آپ مکہ چھوڑ کر مدینہ چلے گئے- اس سے معلوم ہوا کہ حقوق کے نام پر لڑائی لڑنے کے بجائے اہل ایمان کو چاہئے کہ وہ نئے مواقع کار دریافت کریں- مدینہ پہنچنے کے بعد آپ نے وہاں کے لوگوں کے سامنے کبھی مکہ والوں کی شکایت نہیں کی، بلکہ مثبت طورپر دعوت کا کام کرتے رہے- اس سے معلوم ہوا کہ ظلم کے خلاف چیخ وپکار رسول اللہ کا طریقہ نہیں، وغیرہ- یہی طریقہ آج بھی دعوت واصلاح کا صحیح طریقہ ہے-
واپس اوپر جائیں

رحمت کا دروازہ

قالت قریشٌ للنبیِّ صلَّى اللہُ علیہِ وسلَّمَ : ادعُ لنا ربَّکَ أنْ یجعلَ لنا الصَّفا ذَہَبًا ونؤمنُ بکَ، قال : وتفعلون، قالوا : نعم، قال : فدعا فأتاہُ جبریلُ فقال : إنَّ ربَّک یَقرأُ علیک السلامَ ویقولُ : إن شئتَ أصبح لہم الصَّفا ذہبًا فمن کفر بعدَ ذلک منہم عذَّبْتہُ عذًابا لا أعذِّبہُ أحدًا من العالمین وإن شئتَ فتحتُ لہم بابَ التوبةِ والرحمةِ ،قال : بل بابُ التوبةِ والرحمةِ(مسند احمد: 2166)-قریش نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اپنے رب سے دعا کیجئے وہ ہمارے لئے صفا پہاڑ کو سونے کا پہاڑ بنا دے، پھر ہم آپ پر ایمان لائیں گے، آپ نے کہا: کیا تم ایساکرو گے، انھوں نے کہا کہ ہاں- پھر رسول اللہ نے دعا کی تو جبریل آپ کے پاس آئے اور کہاکہ آپ کے رب نے آپ کوسلام بھیجا ہے، اور یہ کہا ہے کہ اگر آپ چاہیں تو وہ صفا پہاڑ کو سونے کا پہاڑ بنا دے گا، مگر اس کے بعد ان میں سے جو انکار کرے گا- اس کو میں ایسا عذاب دوں گا جو دنیا والوں میں کسی کو نہ دیاہوگا اور اگر آپ چاہیں تو میںان کے لئے توبہ اور رحمت کا دروازہ کھول دوں گا- آپ نے فرمایا کہ ہاں توبہ اور رحمت کا دروازہ-
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر لوگوں پر فراوانی کے دروازے کھول دئے جائیں تو اس کے نتیجہ میں ان کے اندر غفلت اور سرکشی پیداہوگی، وہ ایمان سے دور ہو کر مزید سزا کے مستحق بن جائیں گے- ایمان کے لئے اصل اہمیت یہ ہے کہ آدمی کے اندر عجز کی نفسیات پیداہو- عجز کی نفسیات آدمی کو ایمان کی طرف لے جاتی ہے- اس کے برعکس، فراوانی (affluence)میں آدمی کے اندر غفلت اورسرکشی پیدا ہوتی ہے، جواس کو خدا سے مزید دور کردیتی ہے-حدیث کا مطلب یہ ہے اہلِ مکہ کے لئے یہی بہتر ہے کہ وہ مشکل حالات کا سامنا کریں، اس سے ان کے اندر اللہ کی طرف رجوع کی کیفیت پیدا ہوگی، ان کے اندر تلاش حق کی اسپرٹ بیدار ہوگی- وہ اپنے عجز کو دریافت کریں گے، اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ سچائی کو قبول کرلیں گے- یہ صرف قریش کی بات نہیں بلکہ وہ تمام انسانوں کی بات ہے- ہدایت کا یہی اصول قریش کے لئے بھی تھا اور دوسرے تمام انسانوں کے لئے بھی-
واپس اوپر جائیں

زیادہ بڑی فتح

قرآن میں فتح (victory) کا لفظ اس معنی میں دو سورتوں میں آیا ہے، سورہ النصر اور سورہ الفتح- سورہ النصر میں فتح کا لفظ سیاسی فتح کے معنی میں ہے، یعنی مکہ کی فتح-لیکن سورہ الفتح میں یہ لفظ سیاسی فتح کے معنی میں نہیں ہے- کیونکہ یہ سورہ معاہدۂ حدیبیہ کے وقت اتری تھی، اور معاہدہ حدیبیہ میں رسول اور اصحابِ رسول کو کوئی سیاسی فتح حاصل نہیں ہوئی تھی- حدیبیہ کا سفر رسول اور اصحابِ رسول نے اس لئے کیا تھا کہ مکہ جاکر عمرہ ادا کریں، لیکن اس وقت مکہ پر قریش کا غلبہ تھا- انھوں نے آپ کو اجازت نہ دی اور آپ کو اور آپ کے اصحاب کو عمرہ کی ادائیگی کے بغیر درمیان سے مدینہ کی طرف واپس ہونا پڑا تھا-
سورہ النصر میں صرف فتح کا لفظ آیا ہے، جب کہ سورہ الفتح میں فتح مبین (open victory) کا لفظ استعمال ہوا ہے- گویا سورہ الفتح میں جس فتح کا ذکر ہے، وہ اللہ کی نظر میں رسول اور اصحاب کے لئے زیادہ بڑی فتح تھی- یہ زیادہ بڑی فتح کیا تھی، یقیناً وہ کوئی ایسی چیز تھی، جو سیاسی فتح (political victory) کے علاوہ تھی-غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فتح مبین مواقع دعوت کے فتح کے معنی میں تھی- فتح مکہ اگر سیاسی فتح تھی تو معاہدۂ حدیبیہ کے ذریعہ جو فتح حاصل ہوئی اس کو پر امن فتح (peaceful victory) کہاجاسکتاہے- معاہدہ حدیبیہ کے ذریعہ دونوں فریق اس کے پابند ہوگئے کہ وہ ایک دوسرے کے خلاف کوئی لڑائی نہیں کریں گے- معاہدہ حدیبیہ دراصل امن کا معاہدہ تھا:
Makkah was victory in terms of territory, Hudaybiyah was victory in terms of opportunity.
رسول اور اصحاب رسول کو یہ موقع مل گیا کہ وہ کسی رکاوٹ کے بغیر کھلے طورپر دعوت الی اللہ کا کام کرسکیں- دوسری فتوحات میں اگر سیاسی فتوحات حاصل ہوتی ہیں تو معاہدہ حدیبیہ نے یہ امکان کھول دیا کہ دعوت کے ذریعہ انسانوں کو فتح کیا جاسکے- گویا اللہ کی نظر میں ملک کی فتح سے زیادہ بڑی چیز انسان پرفتح حاصل کرنا ہے-
واپس اوپر جائیں

آداب مجلس

ایک مجلس میں کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے- میں نے ایک صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے ان سے کوئی بات پوچھی- اس کے بعد مجلس کا ہر آدمی کچھ نہ کچھ بولنے لگا- میںنے اس پر سخت گرفت کی- میں نے کہا کہ یہ طریقہ آداب مجلس کے بالکل خلاف ہے- جب کوئی بات ایک متعین شخص سے پوچھی جائے تو اسی شخص کو اس کا جواب دینا چاہئے- بقیہ لوگوں کو خاموشی کے ساتھ صرف سننا چاہئے-
ایک صاحب نے کہا کہ ہم سے غلطی ہوئی- میں نے کہا کہ یہ سادہ طور پر صرف غلطی کی بات نہیں، یہ اس بات کی علامت ہےکہ آپ لوگ مجلسی آداب کے بارے میں باشعور نہیں ہیں- اصل یہ ہے کہ آپ لوگ سنجیدگی کے ساتھ یہ عہد کریں کہ اب آپ لوگ اس انداز پر اپنی تربیت کریں گے کہ آپ ہر موقع پر آداب کلام کو سمجھیں اور اس کے مطابق ایسا کریں کہ بولنے کے موقع پر بولیں اور چپ رہنے کے موقع پر خاموش رہیں-
قرآن کی سورہ الحجرات میں یہ آیت آئی ہے: یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجْـہَرُوْا لَہٗ بِالْقَوْلِ کَجَــہْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَــطَ اَعْمَالُکُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ (49:2) یعنی اے ایمان والو، تم اپنی آوازیں پیغمبر کی آواز سے بلند نہ کرو، اور نہ اس کو اس طرح آواز دے کر پکارو، جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو- کہیں ایسا نہ ہو کہ تمھارے اعمال برباد ہوجائیں اور تم کو خبر بھی نہ ہو-
بظاہر اس آیت میں رسول اور اصحاب رسول کا ذکر ہے- لیکن قرآن کی کوئی آیت وقتی نہیں ہے، بلکہ ہر آیت میں تمام اہلِ ایمان کو ابدی تعلیم دی گئی ہے- اس اعتبار سے غور کیجئے تو قرآن کی اِس آیت میں عمومی حکم کو بتایا گیا ہے، اور وہ مجلس کے آداب کا حکم ہے- اس میں بتایا گیاہے کہ جب بھی کسی مجلس میں کئی آدمی بیٹھے ہوئے ہوں تو وہاں ہر ایک کوڈ سپلن کے ساتھ بولنا چاہئے-
واپس اوپر جائیں

انسان کا مسئلہ

انسان کا معاملہ کیا ہے، انسان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ بہترین خواہشات کے ساتھ پیداہوتا ہے، لیکن اِس دنیا میں وہ اپنی خواہشوں کو پورا نہیں کرپاتا- انسان کا کیس ایک لفظ میں یہ ہے— معیاری خواہشیں اور غیر معیاری تسکین:
Perfect desires, imperfect fulfillment.
خواہشیں (desires) اکتسابی نہیں ہیں، بلکہ وہ فطری ہیں- آدمی اِن خواہشوں کو پیدائشی طورپر لے کر اِس دنیا میں آتاہے- ہر خواہش کے پیچھے ایک احساس ہوتا ہے- یہ احساس استثنائی طورپر صرف انسان کے اندر پایا جاتا ہے- محظوظ ہونے کا احساس (sense of enjoyment) ہر انسان کو پیدائشی طورپر ملتاہے-
انسان کی شخصیت میں یہ ایک تضاد کا معاملہ ہے- یعنی انسان کے اندر خواہشیں لامحدود ہیں، لیکن دنیا میں ان خواہشوں کی تکمیل کا انتظام نہایت محدود ہے- انسانی شخصیت کے اس تضاد کو سمجھنا انسان کو یہ موقع دیتاہے کہ وہ اپنی زندگی کی صحیح منصوبہ بندی کرے- وہ وہی چاہے جو فطرت کے قانون کے مطابق اسے اس دنیا میں ملنے والا ہے- وہ اس چیز کے پیچھے نہ بھاگے جو فطرت کے قانون کے مطابق اس کو اس دنیا میں ملنے والا ہی نہیں- انسان کے بارے میں اس حقیقت کو دریافت کرنا ہر شخص کے لئے نہایت ضروری ہے- جو آدمی اس حقیقت کو دریافت کئے بغیر زندگی کے میدان میں داخل ہوجائے، وہ صرف اپنے وقت اور اپنی توانائی کو ضائع کرے گا- وہ اپنی زندگی کے مقصد کو پورا کئے بغیر اس دنیا سے چلا جائے گا-
یہی انسان کی زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ ہے- یہ زندگی کی جدوجہد کا آغاز ہے- اس سوال کا صحیح جواب وہی شخص پاسکتاہے، جو متعصبانہ فکر (biased thinking) سے آزاد ہو کر اس پر غور کرے- وہ اپنی خواہش کو الگ رکھتے ہوئے، اس کو جاننے کی کوشش کرے- اس معاملے میں غلطی کرنا، پوری زندگی کو غلط کردینے کے ہم معنی ہے-
واپس اوپر جائیں

دوآپشن کے درمیان

مولانا ابو الکلام آزاد (وفات: 1958) نے اپنے بارے میں لکھا تھا کہ:
’’زمانے نے میری صلاحیتوں کی قدر نہ کی.....‘‘
مولانا آزاد کے اِس جملے کا مطلب یہ تھا کہ پیدائشی فطرت کے اعتبار سے، وہ اعلی صلاحیت کے مالک تھے، لیکن دوسرے لوگوں نے اُن کو نہیں پہچانا، اِس لیے ان کی صلاحیت پوری طرح استعمال نہ ہوسکی-مولانا ابو الکلام آزاد کا یہ احساس صرف ایک آدمی کا احساس نہیںہے-تاریخ میں بہت سے ایسے انسان ہیں جو اپنے احساس کے اعتبار سے غیر استعمال شدہ شخصیت کی حیثیت سے جیے اور اسی احساس کے ساتھ وہ اِس دنیا سے چلے گیے- ایسے افراد کو بظاہر دوسرے لوگوں سے شکایت تھی، مگر حقیقت یہ ہے کہ ایسے افراد اپنے اِس احساس کے لیے تمام تر خود ذمے دار تھے، نہ کہ کوئی دوسرا شخص-
خالق نے موجودہ دنیا کو جس قانون کے تحت بنایا ہے، اس کے مطابق، کسی انسان کے لیے یہاں صرف دو میں سے ایک کا انتخاب (option) ہے- ایک یہ کہ وہ کسی دوسرے کے بنائے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کے آگے سرینڈر کرے، یا وہ اپنے لیے ایک خود تعمیر کردہ دنیا (self-created world) کو تخلیق کرے اور اس کے اندر اپنی مرضی کے مطابق رہے- اِن دو کے سواکوئی اور انتخاب کسی شخص کے لیے ممکن نہیں-
موجودہ دنیا مسابقت (competition) کے اصول پر مبنی ہے- اس دنیا میں یہ ناممکن ہے کہ کوئی دوسرا شخص آپ کی قدر وقیمت کو پہچانے، اور وہ آپ کے ساتھ وہ سلوک کرے، جو بطور خود آپ اُس سے چاہتے ہیں- ایسا کبھی کسی انسان کے لئے نہیں ہوا- صلاحیتوں کو دینے والا اللہ رب العالمین ہے اور صلاحیتوں کا استعمال وہی شخص کرتا ہے جس کو صلاحیت دی گئی ہے- دوسرے آدمی سے زیادہ سے زیادہ جو امید کی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ آپ کے کیے ہوئے کام کا اعتراف کرے-اِس دنیا میں کوئی بھی شخص آپ کے حصے کا کام نہیں کرسکتا- موجودہ دنیا کے لئے یہ مقولہ بالکل درست ہے— کرو یا مرو: Do or die
واپس اوپر جائیں

مفید، بے مسئلہ

اجتماعی زندگی (social life) میں باعزت زندگی حاصل کرنے کی ایک لازمی شرط ہے- اس شرط کا تعلق 50 فیصد آپ سے ہے اور 50 فیصد دوسروں سے- وہ یہ کہ آپ دوسروں کے لئے یا تو مفید انسان (giver person)بنیں یا آپ دوسروںکے لئے بے مسئلہ انسان (no problem person) بن جائیں- پہلی صورت زیادہ سے زیادہ شرط کی ہے، اور دوسری صورت کم سے کم شرط کی- ان دو کے سوا کوئی تیسری صورت سماج میں با عزت بننے کی نہیں- جو لوگ تیسری قسم سے تعلق رکھتے ہوں ان کو کسی سماج میں اگر جگہ ملے گی تو صرف سماج کے کوڑا خانے میں- سماج کے مطلوب شخص کا درجہ ان کو کبھی ملنے والا نہیں-
اجتماعی زندگی ہمیشہ دو اور لو (give and take) کے اصول پر قائم ہوتی ہے- اس اصول کے مذکورہ دو پہلو ہیں- اگر آپ سماج کو مثبت معنوں میں کچھ دے رہے ہیں تو آپ سماج کے اندر مطلوب انسان کا درجہ پائیں گے، اور اگر آپ اپنی طرف سے سماج کو کچھ دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں تو آپ کو کم ازکم یہ کرنا چاہئے کہ آپ د وسروں کے لئے ایک بے مسئلہ انسان بن جائیں- اگر آپ سماج کے ایک دینے والے ممبر ہیں تو آپ سماج کی ترقی میں اضافہ کررہے ہیں، اور اگر آپ سماج کے بے مسئلہ انسان ہیں، تب بھی آپ کا ایک سماجی رول ہے، وہ یہ کہ آپ سماج کی ترقی میں کوئی خلل نہیں ڈال رہے ہیں- پہلا انسان اگر سماج کی ترقی میں براہِ راست معاون ہے تو دوسرا انسانی سماج کی ترقی میں بالواسطہ معاون کی حیثیت رکھتا ہے-
جن لوگوں کا حال یہ ہو کہ وہ مذکورہ دونوں شرطوں میں سے ایک شرط بھی پورا نہ کریں، وہ سماج کے لئے صرف ایک بوجھ کی حیثیت رکھتے ہیں- ایسے لوگ اگرچہ روایتی قانون کی نظر میں مجرم (criminal) نہیں ہیں لیکن وہ آداب حیات کے پہلو سے یقیناً ایک غیر قانونی مجرم کی حیثیت رکھتے ہیں- دنیا کی قانونی عدالت میں اگرچہ ان کے خلاف کسی سزا کا فیصلہ نہیں کیا جائے گا لیکن فطرت کی عدالت میں وہ بلاشبہہ ایک اخلاقی مجرم کی حیثیت رکھتے ہیں-
واپس اوپر جائیں

کیلنڈر کی تاریخ

ایک دانشور کا قول ہے — جس دن آپ بھر پور زندگی جئے، وہی آپ کا دن تھا، باقی صرف کلینڈر کی تاریخ تھی- اس کا مطلب یہ ہے کہ زندگی کے دو طریقے ہیں، ایک طریقہ دن گزارنا، اور دوسرا طریقہ ہے دن کو استعمال (avail) کرنا- جس نے دن گزارنے کے لئے زندگی گزاری، اس نے اپنی عمر کو ضائع کیا، اور جو شخص دن کو بھر پور طورپر استعمال کرے، اسی کی زندگی، زندگی ہے، وہی وہ شخص ہے جس نے زندگی کو سمجھا، اور اس کا فائدہ اٹھایا-
ہر بار جب ایک نیا دن آتا ہے تو وہ اپنے ساتھ کچھ مواقع (opportunities) کو لے کر آتا ہے- یہ مواقع بلند آواز سے نہیں بولتے، مواقع کی زبان ہمیشہ خاموشی کی زبان ہوتی ہے- یہ انسان کا اپنا کام ہے کہ وہ مواقع کو پہچانے، اور حالات کے مطابق منصوبہ بنا کر ان سے فائدہ اٹھائے-
مواقع پہچاننے کی کئی شرطیں ہیں- مثلاً یہ کہ کون سا موقع میرے لئےہے، اور کون سا موقع میرے لئے نہیں ہے، کسی موقع کو پرامن طورپر حاصل کرنے کا طریقہ کیا ہے، مواقع کو استعمال کرنے کے لئے حقیقت پسندی کی اہمیت کیا ہے، اپنا مقصد حاصل کرتے ہوئے مجھے کس طرح اپنی حد کے اندر رہنا ہے، مجھے دوسرے کی حد کے اندر داخل نہیں ہونا ہے، وغیرہ-
اپنی زندگی جینے کے لئے ضروری ہے کہ آپ یہ جانیں کہ دنیا میں صرف آپ نہیں ہیں،یہاں دوسرے لوگ بھی ہیں، جن کو اپنی زندگی گزارنا ہے- ایک شخص اگر اپنی زندگی میں کامیاب ہوناچاہتا ہے تو ضروری ہے کہ وہ دوسروں سے ٹکراؤ نہ کرے، وہ دوسروں سے ٹکراؤ نہ کرتے ہوئے اپنی زندگی کا سفر شروع کرے- جس طرح آپ کا کچھ انٹرسٹ ہے، اسی طرح دوسروں کا بھی کچھ انٹرسٹ ہے- کامیاب وہ ہے جو دوسروں کے انٹرسٹ سے ٹکراؤ نہ کرتے ہوئے اپنا مقصد حیات حاصل کرے-
واپس اوپر جائیں

خبر نامہ اسلامی مرکز— 232

1- 14نومبر2014کو سہارن پور کے پنجابی ہوٹل میں شری رام اوتار ٹرسٹ کی جانب سے بھگوت گیتاپر ایک بڑا سیمینار ہوا۔ اس سیمینار میں سی پی ایس، سہارن پورکی ایک ٹیم نے قرآن کا ترجمہ اور صدر اسلامی مرکز کی کتابوں کا ایک سیٹ تمام لوگوں کے درمیان تقسیم کیا۔
2- انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ماس کمیونی کیشن (IIMC)، نئی دہلی کے تین طلبہ کی ایک ٹیم نے 20 نومبر 2014کو صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو لیا۔ موضوع تھا، اسلام اور دہشت گردی۔ یہ لوگ ایک ڈاکیومنٹری بنارہے ہیں۔ان میں سے ایک مسٹر آنند نے کہا کہ وہ آنے سے پہلے بہت ہی زیادہ ٹینشن میں تھے، مگر صدر اسلامی مرکز سے گفتگو کے بعد بالکل پازیٹیو ہو گئے۔
3- مصری سفارت خانہ، دہلی کے کلچرل کاؤنسلر ڈاکٹر اے، ایم عبد الرحمٰن نے 22نومبر2014 کو صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کی۔یاد رہے کہ ڈاکٹر موصوف ان دنوںصدراسلامی مرکز کی انگریزی کتاب The Prophet of Peaceکا عربی میں ترجمہ کر رہے ہیں۔ اس سے پہلےوہ اسکندریہ یونیورسٹی میں صدراسلامی مرکز کے اوپر ہونے والی پی ایچ ڈی کی تحقیق میں تعاون کرچکے ہیں، اور جلد ہی آپ کے ایک اسٹوڈنٹ صدر اسلامی مرکز کی فکر پر مبنی امن اور اسلام کے موضوع پر پی ایچ ڈی کرنے والے ہیں۔
3-23 نومبر 2014 کو کیرالا سی پی ایس ممبر مسٹر شبیر علی نے ملاپورم میں ہونے والی ندوۃ المجاہدین کیرالا (KNM) کی ڈسٹرکٹ ہائر سکنڈری کانفرنس میں شرکت کی اور بک اسٹال لگایا۔ تمام لوگوں نے بہت اچھا رسپانس دیا۔
4- 14-23نومبر 2014کے درمیان بنارس میں لگنے والی بک فیر میں سی پی ایس، دہلی نے ایک اسٹال لگایا تھا۔ کافی تعداد میں لوگوں نے اسٹال کا وزٹ کیااور قرآن و دیگر اسلامی کتابیں حاصل کیں۔ یہ اسٹال مسٹر جنید الاسلام صاحب نے لگایا تھا۔
5- سی پی ایس بہار کے مسٹر ابو الحکم دانیال نے ٹیم کے چار ممبروں کے ساتھ وارانسی کا سفر کیا۔ یہ سفر بنارس لائنس کلب اور ویمنزکالج، بنارس کی دعوت پر ہوا۔ مسٹر دانیال نے دونوں مقام پرحاضرین کے درمیان اسلام اور پیس کے موضوع پر کئی لکچرز دئیے۔اس کے علاوہ سوال و جواب اور انٹرایکشن کا سیشن بھی ہوا۔ نیزان لوگوں کے درمیان ترجمہ قرآن، اور دیگر اسلامی کتابیں تقسیم کی گئیں۔ تمام لوگوں نے پیس فل اسلام کو بہت زیادہ پسند کیا۔ یہ سفر 24اور 25 نومبر2014 کو ہوا تھا۔
6- بڑی خوشی کی بات ہے کہ صدر اسلامی مرکز کی کتاب خاندانی زندگی (Family Life)کا تامل زبان میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ مسٹر یوسف راجا نے یہ ترجمہ کیا ہے، اور گڈورڈ بکس ، چنئی سے یہ کتاب حاصل کی جا سکتی ہے۔
7- سی پی ایس دہلی کی ایک ٹیم 26 نومبر 2014 کو ودیاجیوتی کالج آف تھیولوجی کے ایک انٹرفیتھ ڈائیلاگ میں شریک ہوئی۔ یہ پروگرام خاص طور پرکالج کے کرشچن طلبہ کے لئے تھا۔ سی پی ایس کی جانب سے مسٹر رجت ملہوترا، مس نغمہ صدیقی، مس سعدیہ خان اور مس صوفیہ خان نے شرکت کی۔پروگرام کے بعد تمام طلبہ کے درمیان قرآن کا انگریزی ترجمہ اور صدر اسلامی مرکز کی کتابوں کا ایک سیٹ تقسیم کیا گیا، جسے تمام لوگوں نے شکریہ کے ساتھ قبول کیا۔ یا د رہے اس سے پہلے بھی سی پی ایس ٹیم اس کالج کے پروگرام میں شرکت کر چکی ہے۔
8- 29نومبر2014کو ترکی ریفارمر فتح اللہ گولن کی ٹیم کے ایک گروپ نے صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کی۔ دورانِ ملاقات صدر اسلامی مرکز نے ان کے ساتھ ایک گھنٹہ تک انٹر ایکشن کیا۔ آخر میں تمام لوگوں کو انگریزی ترجمۂ قرآن اور صدر اسلامی مرکز کی کتابوں کا ایک سیٹ دیا گیا جسے انھوں نے شکریہ کے ساتھ قبول کیا۔
9- 30 نومبر 2014 کو میزورم کے کرشچن اسکالرس کی ایک ٹیم نے پیس ہال سہارن پور کا دورہ کیا۔ ان کا مقصد قرآن کے بارے میں جاننا تھا۔ تمام لوگوں کو قرآن کا ترجمہ اور صدر اسلامی مرکز کی کتابوں کا ایک سیٹ دیا گیا۔
10- 6دسمبر 2014کوٹی وی چینل نیوز ایکسپریس کے نمائندہ مسٹر راشد احمد خان نے صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ یہ انٹرویو بابری مسجد کے موضوع پر تھا۔
11- 7دسمبر 2014کوانگریزی میگزین گورننس ناؤ (Governance Now) کے ایک جرنلسٹ نے صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ موضوع تھا: ہندوستان کی ترقی اور کمیونل ایشوز۔ انٹرویو کے بعد ان کو قرآن مجید کا ترجمہ اور صدر اسلامی مرکز کی کتابوں کا ایک سیٹ دیا گیا۔
12- 11-13دسمبر 2014کو ممبئی میں سی پی ایس انٹرنیشنل کی تین روزہ دعوۃ میٹ ہوئی۔ جس میں تمام ہندوستان سے 84ممبران شریک ہوئے۔ دہلی سے صدر اسلامی مرکز نے دہلی کی ایک ٹیم کے ساتھ سفر کیا۔ اس درمیان تمام لوگوں نے صدر اسلامی مرکز سے تربیتی لکچر سنا اور انفرادی تربیت حاصل کی۔ اس کے علاوہ تمام لوگوں نے باہمی تبادلہ خیال بھی کیا۔ یہ میٹ گویا تمام شریک لوگوں کے لئے معرفت اور دعوت کے عہد کی تجدید تھا۔ ممبئی کے ہوٹل مینا انٹرنیشنل میں یہ پروگرام ہوا، اور اس کو سی پی ایس انٹرنیشنل (ممبئی) نے آرگنائز کیا تھا-
13- ہندوستان میڈیا کےسینئر رپورٹر مسٹر ستیہ سندھو نے 16 دسمبر 2014 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹر ویو لیا۔ انٹرویو کا موضوع تھا: سماجی ترقی۔
14- 19دسمبر 2014کوپنجابی یونیورسٹی، پٹیالہ کے پروفیسر ناصر نقوی صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کے لئے آئے۔ یاد رہے کہ پروفیسر موصوف کی نگرانی میں صدر اسلامی مرکز کے ہندی ترجمۂ قرآن کا ٹرانسلیشن گورمکھی زبان میں کیا جارہا ہے۔
15- ذیل میں کچھ دعوتی تجربات و تاثرات نقل کئے جاتے ہیں:
— میں آپ کے ذریعہ سے آپ لوگوں کی آرگنائزیشن کا شکریہ ادا کرنا چاہتاہوں کہ انھوں نے ہم لوگوں تک قرآن کا یہ ترجمہ پہنچایا۔ میں بہت دنوں سے قرآن کے ترجمے کی تلاش میں تھا، مگر اب تک مجھےیہ نہیں مل پایا تھا۔آج اس قرآن کو پاکر بہت خوشی ہوئی کہ اب قرآن کو پڑھنے کا موقع ملے گا۔ اجئے چترویدی (محمد انیس، جئے پور )
— I was much tensed for the past three days due to a parking issue at my residence. I did not know what to do. I had the option of either forgoing my current parking lot and taking a less desirable one or sticking to the status quo and creating constant friction and unpleasantness. A meeting was held with other owners of the building and the builder who had sold the flats to us. When I realized that nobody wanted the less desirable parking lot, I volunteered to take it. Everybody was happy, but the builder got so impressed by this gesture that he committed to handing over the original papers of the whole building to me. Thanks to Maulana’s teachings. When I was faced with the situation, I thought what would have Maulana advised me to do and then I took the above step. Also, I remembered that Maulana often refers to a Hadith in his lectures that God grants to peace what He does not grant to violence. He also often quotes the Hadith that a believer would never enter Paradise if his neighbour experiences trouble because of him. I took this decision after praying salah haja and keeping Maulana’s teachings in mind. Thank you Maulana. (Dr. Taha Mohsin, Delhi)
واپس اوپر جائیں